• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1995ء

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1995ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ یکم رمضان بمطابق2؍ فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔آج اس رمضان کا پہلا روزہ اور درس کا پہلا دن ہے۔ سب کو جو حاضر ہیں یادور سے ہمیں دیکھ رہے ہیں سب کو اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ رمضان مبارک ہو۔ ہمارا جو پروگرام ہے وہ ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوتا ہے اور جسوال صاحب کی طرف سے مجھے یہی مشورہ تھا کہ چند منٹ ٹھہر کے آیا کروں۔ اتنی دیر میں ان کے رابطے قائم ہوجاتے ہیں۔ تو اس لیے عمداً میں چند منٹ لیٹ آیا ہوں۔اور روزانہ تقریباً یہی دستورہوگا۔ کیوں آپ کا رابطہ ہوچکا ہے؟ ٹھیک ہے۔
آج سورۃ آل عمران کی آیت 180سے درس شروع ہوگا۔ کیوں نشان ڈالا ہوا ہے کوئی(۔۔۔ میں اسی میں پڑھتا ہوں) اس سے پہلی آیات بھی چند دیکھ لیں۔ میرا خیال ہے اچھاآج آیت 180سے درس شروع ہوگا اور اس سے پہلی ایک آیت تسلسل کیلئے تاکہ مضمون یاد رہے، میں اس سے تلاوت شروع کرتا ہوں۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ولا یحسبن الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و ان اللہ لیس بظلام للعبیدOآل عمران:179تا183)
چونکہ یہ درس زیادہ تفصیلی ہوتا ہے اس لیے آج تین آیات ہی کی تلاوت کی گئی ہیں۔ ممکن ہے اس سے بھی کم کا موقع ملے۔ مگر بہرحال۔ دراصل قرآن کریم کی سب سے تفسیر کا عمدہ طریق تو یہی ہے کہ وہ کثیر تعداد میں روایات جو شانِ نزول کی بحثیں کرتی ہیں ان کو کلیتہً نظر انداز کرکے قرآن کریم خود جو اپنے مضمون کو اٹھاتا ہے اور ربط کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے۔ اور سارا ماحول روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی روشنی میں آگے بڑھا جائے اور اس صورت میں کسی روایت کا احتیاج باقی نہیں رہتا۔ مگر بدقسمتی سے ایک ایسا زمانہ آیا مسلمان مفسرین پر جبکہ انہوں نے ہر روایت کے پیچھے ایک ہونے والے واقعہ کی تلاش شروع کردی۔ بعض واقعات تو ایسے تھے جن کا قرآن کریم نے خود بیان کردیا تھا۔ اس میں کسی بحث کی ضرورت ہی نہیںتھی۔ زیادہ سے زیادہ کچھ تفاصیل معلوم کرسکتے تھے۔ لیکن اس سے انہوں نے سمجھا کہ ضروری ہے کہ ہر آیت سے پہلے ضرور کوئی واقعہ گزرا ہو۔ اور جہاں اس واقعہ کی تائید میں کوئی قطعی احادیث کوئی مربوط سلسلہ نہ ملے جو راویوں کو مربوط سلسلہ بات کو آنحضور ﷺ تک پہنچاتا ہے۔ وہاں انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ’’یہ بھی کہا گیا ہے‘‘ یہ بھی کہا گیا ہے ، یہ بھی کہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اندر ہر رطب و یابس کو اکٹھا کرلیا۔ تمام وہ مواقع وہ محل جن پر مستشرقین اسلام پر شدید حملے کرتے ہیں۔ یہ انہیں تفاسیر سے لیے گئے ہیں او رمفسرین اپنی طرف سے تو حوالہ دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے دیکھو حوالہ پیش کردیا ۔ لیکن ان کا اپنا تقویٰ کا معیار دیانت کا یہ ہے کہ جب دوسری باتوں میں تحقیق کرتے ہیں ، بائبل کے امور میں تحقیق کرتے ہیں تو ہر قسم کی روایات پر گفتگو کرتے ہیں ، ہر قسم کی روایات کی آپس میں چھان بین کرتے ہیں۔ کھرے کھوٹے میں تمیز کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ لغو روایات ہیں۔ ان کو ہم قبول نہیں کرسکتے۔ ان کا کوئی اعتماد نہیں ہے۔ کوئی قطعی سند نہیں ہے۔ اور یہ نسبتاً بہترمضبوط روایات ہیں اور نفس مضمون سے ان کا تعلق ہے ۔ یہ طریق ان کو بھولا ہوا نہیں۔ اس طریق کا روز مرہ کا استعمال جانتے ہیں۔ لیکن قرآن کے معاملہ میںبلا الا ماشاء اللہ شاید کے طور پر کہیں آپ کو استثناء نظر آئے گا وہ یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ روایات میں سے اوّل تو وہ کتب منتخب کرتے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہر قسم کی روایات سنی سنائی دور کی کہانیاں اور اسرائیلی قصے سب شامل ہوں ان کا مطالعہ کرتے ہیں اور اکثرحوالے انہی کتب کے دیے جاتے ہیں۔ اور تاریخ میں سب سے زیادہ پسند ’’واقدی‘‘ ہے۔ کیونکہ واقدی سب سے زیادہ رطب و یابس کو اکٹھا کرنے والا ہے۔ لیکن خود واقدی کی روایات میں اس کی بہت سی کمزور روایات کی واضح تردید موجود ہوتے ہوئے وہ واقدی میں سے بھی پھر وہ گند کرتے ہیں جو سب سے زیادہ کمزور ناقص روایات ہیں اور ان کے علم کا ماحصل صرف اتنا ہی ہے۔ یہی ہے مبلغ علم جو ان کی تفاسیر میں آپ کو دکھائی دے گا۔ اس لیے تفصیلی ہر بات پر ان کا جواب دینا بہت بڑی تکلیف دہ ایک کوشش ہے۔کیونکہ لغو ذلیل زبان رسول اللہ ﷺ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اور قرآن کے خلاف اوربھبھکیاں مارتے ہیں۔ لیکن بنا کیا ہے وہی بدنصیبی سے ہماری بدنصیبی سے جومسلمان مفسرین نے اپنی طرف سے علمی دیانت کے ثبوت کے طور پر جو کچھ بھی ان کو ملا اکٹھا کردیا۔ اور علمی دیانت کے نام پر کیا ہوگا۔ لیکن فی الحقیقت یہ ایک محققانہ طریق نہیںتھا۔ تمام وہ روایات جن کی کوئی اصل نہیںچار چار سو سال بعد ان کو اکٹھا کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’کہا گیا‘‘۔ اور پھر روایات میں درایت سے کام نہیں لیتے۔ وہ روایات خود جھٹلارہی ہیں ان باتوں کو جو ان روایات میں بیان کی جارہی ہیں۔ اور جن قرآن کریم کی آیات پر ان کا اطلاق کیا جاتا ہے وہ آیات ان کو جھٹلاتی ہیں ۔ لیکن ایک شوق ایک سلسلہ اس طرزکا چل پڑا تھا کہ بڑا مفسر وہی ہے جوسب سے زیادہ روایتیں اکٹھی کردے۔ چنانچہ ایسے مواقع پر ہمیں مجبوراً اس جھنجھٹ میںداخل ہونا پڑتا ہے ورنہ کوئی شوق نہیں ہے کہ خواہ مخواہ ان باتوں پر وقت ضائع کیا جائے جبکہ قرآن کریم اپنی تفسیر خودفرماتا ہے اور پڑھنے والے کیلئے جو غور کرتا ہے خود روشنی مہیا کرتا ہے۔ کوئی قرآن کریم کا ایسا پہلو نہیں حصہ نہیں ہے جو خود منور نہ ہو۔ اور منور کرنے والا نہ ہو۔ اور یہ صفت قرآن کریم میں بار بار کلام الٰہی سے متعلق بیان ہوئی ہے اس کے ہوتے ہوئے اندھیروں میں اتر جانا اور تاریخ کی الجھی ہوئی بے سند روایتوں سے اپنی طرف سے روشنی لے کر قرآن کی روشنی پر ڈالنا وہ ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے ڈالے جائیں روشنی پر کہ اس سے دیکھو اب۔ جو تمہیں پہلے صاف نظر آرہا تھا اب نہیں آئے گا۔ ہم مطمئن تمہیں کرتے ہیںبالکل۔ یہ طریق ہے اور مضمونوں کو الجھانے کا ۔ یہ ہے عمومی دستور۔ لیکن میں نے عرض کیا ہے مجبوراً ہمیں ان باتوں میں جانا پڑے گا ، دیکھنا پڑے گا وہ کیا کیا قرآن کی تعلیمات کو الجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن اسی ضمن میں ہمیں بڑے بڑے اچھے ایسے مفسرین بھی ملتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے ہی ایسے مفسرین کی باتوں کا، ان کے توہمات کا پرزورجواب دے چکے ہیں۔ ان میں سب سے قابل قدر حضرت امام رازیؒ ہیں۔بسا اوقات ابھی بھی جب میں درس قرآن کیلئے آیات کا مطالعہ کررہا تھا تو جو باتیں عام مفسرین کی باتوں کے خلاف میرے ذہن میں ابھرتی رہیں بڑے زور کے ساتھ ۔جب میں نے نوٹس جو ربوہ سے منگوائے گئے تھے ان کا مطالعہ کیا تو عجیب بات ہوئی کہ الا ماشاء اللہ ہر و ہ بات جو میں سمجھ رہا تھا کہ میرا ذہن اس طرف پہلی دفعہ گیا ہے۔ حضرت امام رازیؒ میں ملتی ہیں۔ وہ بڑی قوت کے ساتھ اسی دلیل سے جوابی حملہ کررہے ہیں مفسرین پر کہ تم غلط کہتے ہو۔ اصل بات یہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ روایات بھی بیان کردیتے ہیں۔ بے شمار دوسرے خیالات اس لیے وہ ایک علوم کا خزانہ ہے۔ ایسا خزانہ جس میں آخر تک آپ کو صحیح روشنی بھی مل جائے گی۔ اس لیے امام رازیؒ کی تفسیر کبیر سے بہتر میرے علم میں گزشتہ مفسرین میں کبھی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔ اس زمانے کی بعض کمزوریاں انسان کی لاعلمی کے نتیجے میں پیدا ہوجاتی ہیں جن کو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دور فرمادیا لیکن الا ماشاء اللہ۔
میں یہ تمہیدی بیان دے رہا ہوں کہ اگر آپ نے حقیقت میں پرانی تفسیروں سے استفادہ کرنا ہو تو ارد گرد ٹھوکریں کھانے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ امام رازیؒ کا مطالعہ کیا جائے۔ یا زمخشری بھی بہت کئی پہلوئوں سے بڑے روشن دماغ انسان ہیں ۔ اور ’’کشاف‘‘ تفسیر کشاف بھی کئی پہلوئوں سے بہت روشن اور باقیوں کے مقابل پر روشن تر ہے ۔ کیونکہ انہوں نے قرآن اور عقل کو الگ نہیں کیا۔ (کشاف کے مصنف وہی ہیں نا؟ ہاں وہی)۔ حضرت زمخشری یعنی کشاف کے مصنف ان ہی کا میں نے ذکر کیا تھا۔ وہ بہت روشن دماغ اور اسی روشنی طبع کے نیتجے میں سب سے زیادہ مُتَّہم وہ ہوئے اور اس زمانے میںلوگوں نے ان کا۔۔۔ کو ملحدقرار دیا۔ دین سے ہٹ گیا، منحرف، معتزلہ کہا گیا۔ معتزلہ کا مطلب ہے جو عام امت سے ایک طرف ہوگیا ، الگ ہوگیا۔ کفر کے فتوے ان پر لگائے گئے ۔ لیکن قرآن کے دفاع میںاور اسلام کے دفاع میں ان سب مفسرین سے بہتر تفسیر ہے جو ان پر اعتزال کا الزام لگاتے ہیں لیکن یہ بحثیں بعد میں ضمناً کہیں نہ کہیں ذکر آتے چلے جائیں گے۔ اب میں آپ کو بتارہا ہوںیہ تمہید تھی کہ کن مشکلات کا ہمیں سامنا ہے اور آپ کو عمومی تعارف ہوجائے۔ تاکہ گزشتہ تفسیروں سے متعلق جو حوالے آئیں گے آپ پہلے سے سمجھ لیں کہ ان کے کیا طریق تھے۔ کیا وجوہات تھیں جو ان مشکلوں میں وہ مبتلاء ہوئے۔
ماکان اللہ لیذ ر المومنین علی ما انتم علیہ۔ یہ ممکن نہیں ہے ،یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ مومنوں کو اُس حال پر رہنے دے جس پر تم موجود ہو۔ حتی یمیز الخبیث من الطیب۔ یہاں تک کہ خبیث کو طیب سے الگ کرکے جدا کرکے دکھادے ۔ یہ یاد رکھیں جنگ احد کے تعلق میں نازل ہونے والی جو آیات ہیں اسی سلسلہ میں یہ ایک کڑی ہے۔ وماکان اللہ لیطلعکم اور اللہ کیلئے یہ بھی ممکن نہیں یا ممکن تو ہے مگر مناسب نہیں سمجھتا اللہ ، یہاں یہ ترجمہ کرنا پڑے گا نہ ہی اللہ کو یہ بات شایان شان ہے۔ لیطلعکم علی الغیب کہ تمہیں غیب پر غلبہ عطا کرے۔ یہاں یطلعکم کا مطلب اطلاع دینا ہے۔ اور اِطّلع کا مطلب ہے غالب آگیا، چڑھ گیا اوپر۔ اس لئے سورج کا طلوع ہونا بھی اس لفظ سے نکلا ہے۔ وہ جو گانا گایاتھامدینے میں بچیوں ، لڑکیوں نے آنحضرت ﷺ کی آمد پر طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وہاں طلع کا لفظ وہی تھا ۔ وہ طلوع ہوگیا ہے۔ ہم پر، روشن، ہم پر غالب آگیا ہے ہم پر۔اب یہ کوئی چھپی ڈھکی چھپی بات ،ڈھکی چھپی بات نہیں رہی اس معنے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی ترجمے کو ترجیح دی ہے اور اسی وجہ سے میں بھی اس کا ترجمہ یہ کررہا ہوں۔ لیطلعکم علی الغیب دوسری جگہ قرآن کریم کی آیات میں یظھر کا لفظ استعمال ہوا ۔ تو اس کا مطلب غالب ہونا ہی ہے یا غالب کرنا۔ تو ان معنوں میں یہاں وہی مطلب بنے گا۔ ماکان اللہ لیطلعکم علی الغیباللہ کیلئییہ اللہ کو زیب یہ نہیںدیتا یا اللہ کے شایان شان نہیں ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو غیب پر پورا غلبہ عطا کرتا چلا جائے۔ یعنی تم سب کو نبیوں جیسا ایک نبی بنادے۔ ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء بلکہ اللہ تعالیٰ رسولوں میں سے جس کا چاہتا ہے انتخاب فرماتا ہے۔ فامنوا باللہ و رسلہ۔ پس اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آئو۔ و ان تومنوا و تتقوا فلکم اجر عظیم پس اگر تم ایمان لے آئو اورتقویٰ اختیار کرو فلکم اجر عظیم۔ تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہ گفتگو بعدمیں ہوگی کہ ان دو باتوں کا کیا تعلق ہے۔
یمیز الخبیث کے ذکر چھیڑنے کے بعد اللہ تعالیٰ یطلعکم علی الغیبکی کیاکیوں بات کررہا ہے۔ لیکن اس کا پہلی آیت سے ایک تعلق ہے وہ بیان کرنا ضروری ہے اس کے بعد پھر لفظی ترجموں اور تفسیری جو گزشتہ کوششیں ہیں ان کا ذکر چھیڑیں گے۔ولا یحسبن الذین کفروا انما نملی لھم خیر لانفسھم یہ گمان ہر گز نہ کریںوہ لوگ جن کو ہم مہلت دے رہے ہیں کہ ہمارا ان کو مہلت دینا ان کیلئے بہتر ہے ، ان کے نفسوں کیلئے ، ان کے اپنے وجودوں کیلئے انما نملی لھم لیزدادو اثما ہم انہیں مہلت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ اپنے گناہوں میں اپنے استعدادوں کی انتہاء تک پہنچ جائیں۔ لیزدادو اثما کامطلب ہے یہ نہیں کہ یونہی ہر ایک کو چھٹی ہے جتنے چاہو گناہ کرتے رہو۔ ہر شخص کے گناہ کی ایک استطاعت ہے۔ تکلیف ہے اس کی ایک،اس سے آگے ۔۔۔۔ وسعت ہے ایک۔ اس وسعت سے آگے نہیں وہ بڑھ سکتا۔ او رپکڑ کا وقت وسعت کو چھونے کے ساتھ ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا میں ایک یہ بھی معنی ہے ۔ تو یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر ایک ایسا شخص ہو جو گناہوں میں مبتلا ہو اور ہر قدم اس کا گناہوں کی طرف آگے بڑھ رہا ہو اور کوئی سزا نہ مل رہی ہو تو یہ سب سے زیادہ خطرناک علامت ہے جو اس کی ذات میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ میں دیکھو کرتا ہوں جو چاہوں کروں خدا پکڑ نہیںرہا۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس کے گناہوں کی استعدادا بھی کافی ہے اور وہ اپنی استعداد کی حد تک پہنچاکے وہاں مارا جائے گا۔ پس یہی وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے یہاں اُٹھایا ہے کہ بیوقوف لوگ جنہوں نے کفر کیا یہ نہ سمجھیں کہ ان کو جو ہم مہلت دیتے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ یہ مہلت اس لیے ہے تاکہ وہ گناہوں میں اپنی حد استعداد کو پہنچ جائیں۔ ولھم عذاب مھین اور ان کیلئے جو عذاب مقدر ہے وہ رسواکن ہے۔ رسوا کن سے یہاں مراد یہ ہے گزشتہ شاید درس میں بھی میں نے ذکر کیا ہو مگر یاددہانی کے طور پر اگلے مضمون کے تسلسل کی خاطر میں پھر بیان کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو دنیا میں فخر کرتے پھرتے ہیں کہ دیکھو ہم نے یہ کرلیا ، وہ کرلیا۔ ان پر دنیا ہی میں رسوائی بھی آیا کرتی ہے اور مراد یہ نہیں کہ ہر فرد بشر پر اس طرح آتی ہے۔ جب یہ قومی طور پر ایسے مجرم اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو خدا کی پکڑ کا جو وقت آتا ہے وہ دنیا میں بھی ان کو ذلیل اور رسوا کرتا ہے تاکہ یہ نہ کوئی سمجھے کہ اگلی دنیا کا ہمیں کیا پتہ وہاں کیا ہوگا اس دنیا میں تو یہ چھٹی کرگئے، مزے کرگئے۔ تو ان کا انجام رسواکن ہوتا ہے ہمیشہ۔ جس طرح فرعون کا انجام ہوا۔ تو مراد یہ ہے مہلت جو دی جاتی ہے وہ گناہوں میں حد استطاعت تک جانے کی خاطر اور پکڑ جو آتی ہے تو وہ اس دنیا میں بھی ان کو ذلیل اور رسوا کرجاتی ماکان اللہ لیذ ر المومنین علی ماانتم علیہ یہ میں بیان کرچکا ہوں۔ کہ اس کے بعد یوں آئے گا کہ یہ لوگ ابھی شامل ہیں تم میں یہ مراد ہے جن کو مہلت دی جارہی ہے۔وہ ان میں ایمان کے دعویدار بھی ہیں ، ان میںکچھ دوسرے بھی ہیں ملے جلے لوگ ہیں اور جب تک خدا کی طرف سے وہ تفریق نہ ہو اس وقت تک یہ لوگ شامل رہتے ہیں سوسائٹی میں۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ تفریق ضرور کرتا ہے خواہ پکڑ آئے یا نہ آئے۔ پکڑ ضروری نہیں کہ تفریق کے وقت ہی ہو۔ یہ دو الگ الگ مضمون ہیں جن کو کھول کر یہاں بیان کیا جارہا ہے۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ ان کو مہلت ہے وہ جو مسلمان کہلارہے تھے دھوکے دے رہے تھے وہ جب تک ان کی انتہاء نہ ہوجائے وہ بیچ میں شامل رہیں گے۔
تو اس سے تو مومنوں کی ذات پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے مومنوں کی جو شخصیت ہے اس میں شکوک پیدا ہوسکتے ہیں کہ کس قسم کی سوسائٹی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ یہ وعدہ کررہا ہے کہ یہ تم فکر نہ کرو مومن کی جو شان ہے وہ خداتعالیٰ دوسروں سے الگ اور ممتاز کرکے دکھادیتا ہے۔ اور جانتا ہے کہ یہ مومن ہیں اور جاننے کے ساتھ دنیا کو بھی اس علم میں شامل کرلیتا ہے مگر اس کا ایک طریق ہے اس طریق کے ذریعے تمہیں ان سے الگ کیا جائے گا خبریں دے کر نہیں ۔ یہ جو خیال ہے کہ خبریںہوں کہ فلاں منافق، فلاں منافق، فلاں خبیث، فلاں خبیث۔ اس تفصیل سے اللہ تعالیٰ کا یہ دستور نہیں ہے کہ خبریں دیتا ہو۔ مگر فیصلہ یہی ہے کہ وہ مومن کو غیرمومن سے ممتاز ضرور کیا جائے گا تاکہ اس دنیا ہی میں وہ نتھر کر الگ ہوجائے۔ اب ہم لفظی طور پر اس آیت کی حل لغات کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
یمیز:- ماکان اللہ لیذ رالمومنین و غیرہ یمیزکا مطلب ہے ماز۔ یمیز۔ میزا و میّز و اماز الشی: فرزہ عن غیرہ علیحدہ کرنا، جدا کرنا کہتے ہیں نا! آپ کہ اس کو تو تمیز ہی نہیں ہے ، اچھے برے کی تمیز ہی نہیں ہے۔ یہ ذہنی طور پر فیصلے کی طاقت کو جو(بد کو) اچھے کو بد سے الگ کرسکتی ہے اس کو تمیز کہتے ہیں اور عربی میں تمیـیز کہتے ہیں۔ یہ طاقت کہ بد کو الگ کردیا جائے اچھے سے، اچھے کو برے سے الگ کردیا جائے۔ تو یہ وہی لفظ ہے اس میں ماز فلان کا مطلب ہے انتقل من مکان الی مکانتو یہ لازم معنی بھی پایا جاتا ہے۔ماز یمیز کا ایک مطلب ہے متعدی۔ دوسرے میں تمیز کرسکے۔ الگ الگ کرسکے۔ ایک اس کا معنی ہے لازم۔ لازم معنوں میں مطلب ہے خود الگ ہوجائے اور ایک طرف ہٹ جائے لیکن اس کو لازم بنانے کیلئے باب افتعال بھی قرآن کریم میں استعمال فرمایا گیا ہے امتازوا۔۔۔۔ وامتازو الیوم ایھا المجرمون کہ اے مجرم لوگو تم خود الگ ہوجائو۔ ہٹ کر ان نیک لوگوں سے جدا ہوکر ایک طرف ہٹ جائو۔ تو ماز یمیز میزاً میں الگ الگ کرنا۔ تمیز کرنا ، فرق کرنا یہ معنے ہر استعمال میں پائے جاتے ہیں۔اور اس کے بعض اور ابواب ہیں جن میں پھر کچھ اور معنے پیدا ہوجاتے ہیں لیکن دراصل اسی معنی کی شدت ہے۔ تمیّز و انماز و امتاز۔ انفصل عن غیرہ و انعزل یعنی وہ بھی وہی معنی ہے بالکل جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں قرآن کریم میں ایک جگہ آتا ہے۔ تمیّز کا لفظ یعنی وہ پھٹ جانے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے میں ابھی آپ کو ابھی آیت سنائوں گا تمیّز فلان من الغیظ۔ اس کا ترجمہ ہے تقطَّع۔ کوئی غیظ سے تمیز ہوگیا تو تمیز کا مطلب چونکہ الگ الگ ہونا بھی ہے۔ بنیادی طور پر یہ معنے ہیں۔ تو پھٹ پڑے ۔ کوئی شخص ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے ۔ یعنی ایسا غصہ آئے کہ وہ غصہ والے وجود کو پارہ پارہ کردے جس طرح بم پھٹ جاتاہے اور وہ الگ الگ ہونے کا معنی ان معنوں میں پھٹ پڑنے کے معنے اختیار کرلیتا ہے۔ المیْز و المیّز یہ بالکل برعکس معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ المیْز اگر کسی شخص کی صفت بیان کی جائے اور میّزکہا جائے کسی کو تو الشدیدالعضل یعنی اتنے مضبوط پٹھوں والا کہ کوئی چیز اس کو پارہ پارہ نہ کرسکے۔ اعصاب اس کے اتنے مضبوط ہوں کہ کوئی غصہ کوئی حد سے بڑھا ہوا جذبہ یا خوف اس کے وجود کو پارہ پارہ نہ کرسکے اس کو المیز المیّز کہتے ہیں ۔ سن التمییزسمجھ بوجھ کی عمر کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ الاَ متیاز سند امتیاز فلا ں شخص نمایاں طور پرالگ ہوگیاا ور غالب آگیا۔ وامتازواکا لفظ پہلے میں بیان کرچکا ہوں،قرآن کریم میں آتا ہے۔ حضرت امام رازی نے یہی نہ امام راغب نے یہی سارے معنے بیان کئے ہیں۔ا س لیے ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ تکاد تمیّز من الغیظ۔ قریب ہے کہ وہ غیظ کی وجہ سے پھٹ پڑے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ وامتازوا الیوم یہ پہلے میں بیان کرچکا ہوں آج کے دن تم الگ الگ ہوجائو۔
اب خبیث لفظ کی بحث ’’الخبیث‘‘ خبیث کے معنی ہیں نجس، پلید، گندی چیز اور دراصل یہ طیب کے بالکل برعکس ہے جو کچھ طیب میں پایا جاتا ہے اس کا بالکل برعکس تصور کرلیں تو وہ بعینہٖ خبیث بن جاتا ہے۔ تبھی قرآن کریم نے شجرہ طیبہ کے مقابل پر شجرہ خبیثہ کو بیان فرمایا ہے اور جو صفات ہیں وہ ایک دوسرے سے متضاد اور ایک دوسرے کے برعکس ہیں یہاں چونکہ ’’لیمیز الخبیث‘‘ پہلے خبیث کا لفظ آیا ہے اس لئے خبیث کی بحث پہلے اُٹھائی گئی ہے۔ اس میں جو اہل لغت بیان کرتے ہیں ’’الرّدی‘‘ نکمی چیز ’’منکرۃ‘‘ جو ناپسندیدہ ہو ، ہر حرام چیز۔ تاج العروس کہتی ہے۔ ہر خبیث اور بری چیز کیلئے صفت کیلئے استعمال ہوا ہے۔ مثلاً کلام خبیث برا کلام والحرام السحت یُسَمّٰی خبیثا اور بہت گندہ فعل، حرام فعل جو ہے اس کو بھی خبیث کہا جاتا ہے۔ ’’المال الحرام والدم وما اَشْبَھَھُما مما حرَّم اللہ‘‘ حرام مال اورناجائز خون اور ان سے ملتی جلتی چیزیں جو بھی اللہ نے حرام قرار دی ہیں۔ و یقال فی الشیء والکریہ ۔۔۔ فی الشیئ۔۔۔ فی الشیء کریہ الطعم والرائحۃ خبیث اور بعض دفعہ ایسی چیز کو بھی خبیث کہا جاتا ہے جو کریہ الطعم ہے۔ یعنی جس میںکھانااس کا کھانا بدمزہ ہو والرائحۃ اور خوشبو کے لحاظ سے بھی گندی ہو۔ بدبودار چیز ہو۔ مِثْل الثوم۔ اس کو پنجابی میں تھوم کہتے ہیں۔ ’’لہسن‘‘ کہتے ہیں یہ بھی ان چیزوں میں سے ہے ۔ حالانکہ لہسن بدبو دور کرنے والی چیزوں میں سے بھی ہے۔ یہ ایسا خبیث نہیں ہے کہ جس کو الگ ہی پھینک دیا جائے۔ بلکہ ایساایک عجیب چیز ایسا عجیب خبیث ہے کہ کھانے کی سخت بدبوئوں کو بھی ماردیتا ہے اس لیے اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو یہ طیب چیز بن جاتی ہے ۔ لیکن ویسے کھاکے اگر کوئی نکلے تو اس بدبو کو خبیث کہا جائیگا بہر حال۔ بعض لوگ لہسن اسی وجہ سے کھاتے ہیں کہ وہ بلڈ پریش کے متعلق مشہور ہے وہ گرادیتا ہے۔ اور ایسے بعض کھانے والوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ پاس سے گزریں تو لہسن کی بدبو آتی ہے۔ تبھی رسول اللہ ﷺ نے ایسی چیزوں کو کھا کر مسجد میںآنے سے منع فرمایا ہے۔ تو میں یہ بتارہا ہوں کہ خبیث جزوی طور پر بھی ایک چیز ہوسکتی ہے جس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا استعمال حرام ہے۔ یہ خبیث طبعی صفات سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا استعمال اگر طیب ہو تو اس خبیث کو بھی اپنے فوائد کے اعتبار سے طیب بنادیتا ہے۔ بلڈ پریشر میں اس کا استعمال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ۔ بعض گندے بدبودار گوشتوں کو جو فی ذاتہٖ طیب ہوتے ہیں لیکن بدبو کی وجہ سے خبیث کہلاتے ہیں اس کو صاف کرنا ، مرغابی کی بدبو اور تمام پانی والے جانوروں کی بدبو کا بہت موثر علاج لہسن ہے۔ اسی طرح بعض مچھلیوں میںبہت بدبو ہوتی ہے اس کا بھی لہسن علاج ہے۔ میں ویسے ذکر کررہا ہوں کہ خبیث سے یہ نہ سجھ لیں کہ جب خبیث کہا گیا لہسن اوراس کو اپنا پیاز کو تو یہ مطلب ہے کہ یہ حرام ہوگیا کھانا جائز نہیں۔ یہ تقویٰ کیخلاف بات ہے۔ یہ بات یوں نہیں بنتی۔ مولی کو بھی خبیث کہا گیا ہے اس کی بدبو کے لحاظ سے۔ کہتے ہیں کہ اسی لیے کہا گیا و قیل من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقر بَنَّ مَجْلسنا کہ جو یہ خبیث چیزکھائے ہماری مجلس میں نہ آئے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔ وہاں خبیث سے مراد ہرگز روحانی معنوں میں خباثت نہیں ہے بلکہ وہی جو مجلس میں بدبو پھیلائے وہ اچھی چیز نہیں ہے، الطیب اس کے برعکس ہے۔ طاب الشیٔ یطیب طابا و طِیباً و طِیبۃً و طِبیاناًلذَّ و زکیٰ مزہ بہت اچھا ہو اس کا اور بہت پاکیزہ ہو وحَسُنَ و حَلَا اور اچھا خوبصورت ہو۔ حسُن خوبصورت نہیں بلکہ ہر چیز میں اچھا اور میٹھا وجلَّ و جادَ پاکیزہ خوبصورت، شیریں، شاندار خوبیوں میں بڑھا ہوا ۔ جَادَکا مطلب ہے بہت ترقی یافتہ اور طابت الارض کے معنی ہیں أکلَاَت یعنی زمین گھاس سے ہر ی بھری ہوگئی۔ طابت النفس۔ انبسطت و انشرحت جی خوش ہوگیا۔ وطاب العیش لفلان کہ اس کی تکلیفیں دور ہوگئیں۔ اس کی تو موجیں ہوگئیں۔ اس کی زندگی میں تو عیش ہی عیش ہیں۔ طابت نفسی علیہ اس کا مطلب ہے میرے دل نے اس سے موافقت اختیار کرلی۔ طیّب کے معنے ہیں ذ والطیبۃ۔ پاکیزگی والا۔ غیب۔ الغیب یہ تو اچھا بھلا سب جانتے ہیں کہ غیب کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات تفصیلی طور پر توبحث میں نہیں آئی۔ مگر غیب دراصل ایک نسبتی چیز ہے۔ جو آج کا غیب ہے وہ کل کا حاضر بن سکتا ۔ ایک شخص کا جو غیب ہے وہ دوسرے کا حاضر ہوسکتا ہے اور جب ہم غیب کہتے ہیں تو انسانی علم کی نسبت سے کہتے ہیں ۔ مفرداتِ راغب میں بھی اور دوسری لغت کی کتابوں میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کی نسبت سے کوئی غیب نہیں ہے۔ لیکن انسانی نسبت سے غیب ہے۔ اور ہر چیز حاضر ہی ہے خدا کی نظر میں۔ اگر یہ ترجمہ، یہ معنی درست قرار دیا جائے تو اس آیت کا پھر کیا معنی ہوگا۔ عالم الغیب والشھادۃ۔ وہ غیب کا بھی عالم ہے اور شہادۃ کا بھی عالم ہے۔ یہ بات دراصل ان علماء کی بات کی تردید نہیں کرتی بلکہ بندوں کے اعتبار سے کچھ غیب ہیں ، کچھ حاضر ہیں۔ تو اللہ فرماتا ہے تمہارے نزدیک تو کچھ غیب ہیں میں ان غیبوں کا بھی علم رکھتا ہوں۔ تو دراصل یہ متضاد باتیں نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم اس نقطۂ نگاہ سے عالم الغیب قرار دیتا ہے۔ خداتعالیٰ کو کہ وہ چیزیں جو ہر دوسرے کی نظر میں غیب ہوسکتی ہیں کسی آنکھ سے ، کسی ذی شعور سے وہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں اور حاضر جو ہیں وہ بھی اُس کے علم میں ہیں۔ اس پر میں پہلے گفتگو کرچکا ہوں حاضر کا علم ہونا بظاہر یہ بتاتا ہے کہ کوئی خاص کمال نہیں ہے مگر اکثر ہم ایسے ہیں کہ ہمیں حاضر کا بھی علم نہیں ہوتا۔ دیکھتے دیکھتے کوئی ہاتھ کی صفائی کرجاتا ہے پتا نہیں لگتا۔ آنکھوں کے سامنے کرتب دکھانے والے کرتب دکھاجاتے ہیں اور وہ حاضر ہوتا ہے اور اس کے باوجود ہمارے لیے غائب رہتا ہے ۔ تو حاضر کا علم بہت ہی بڑا دعویٰ ہے معمولی دعویٰ نہیں۔ کیونکہ اکثر حاضر بھی غیب ہی ہے اور ہر انسان، ہر ذی شعور کی نسبت سے حاضرکسی حد تک غیب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ تو اس لیے عالم الغیب والشھادۃ میںجو شہادت کی بات ہے وہ دراصل حاضر کی گواہی ہے کہ وہ ہر حاضر ، ہر موجود چیز جو کھلم کھلا دکھائی دیتی ہے اس کو بھی اُس طرح دیکھتا جیسے تم لوگ نہیں دیکھتے۔ کیونکہ تم جب دیکھتے ہو تو ان میں بھی کچھ غیبوبیت کے پردے پڑے رہ جاتے ہیں۔ مفرداتِ راغب نے غیبت کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس لفظ کے اندرکہ غیبت وہ ہے جو انسان موجود نہ ہو اسکے خلاف نامناسب باتیں کوئی کرے اور بد باتیں کرے اور پھر الغیابۃ کا ذکر کیا ہے۔ غیابات الجب قرآن شریف میںآتا ہے وہ کنوئیں کی چھپی ہوئی جگہیں جہاں نظر نہیں پڑتی اور پھر غابۃً کا ذکر کیا ہے ۔ جنگل اور اس کی وجہ واضح ہے کہ جنگل میں چھپنے کی بہت جگہیں ہوتی ہیں اکثر ڈاکو بھی جنگل میںپناہ لیتے ہیں۔ جانور کئی قسم کے جنگلوں میں جاکر پناہیں ڈھونڈتے ہیں۔ تو اس لیے ہر چیز جو غائب ہو یا غائب کرنے کی طاقت رکھتی ہو غائب کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہو ان سب کیلئے لفظ غیب استعمال ہوتا ہے کسی نہ کسی شکل میں۔ اور اس کے علاوہ تمام لغات میں بہت اس کی تفصیل سے بحث اُٹھائی ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں کہاں کہاں غیب السموتآتا ہے۔ وعد الرحمن بعباد ہ بالغیب،ذالک من انباء الغیب اس کی ضروت کوئی نہیںیہاں۔ غیب کے وہ معنی جو میں بیان کرچکا ہوں انہی کے تابع یہ سارے معنے ہیں من یخافہ بالغیب، و یخشون ربھم بالغیب۔ یہ آیات بھی غیب کی مثالوں میںدی گئی ہیں ۔ اس میںیہ بات غور کے لائق ہے کہ یخافہ بالغیب سے کیا مراد ہے۔ بسا اوقات انسان خداتعالیٰ کو موجود نہیں دیکھتا اور اکثرگناہوں کی تحریک خدا کی انسان کی نظر سے غیبوبیت کے نتیجے میں ہوتی ہے و یخشون ربھم بالغیب ، من یخافہ بالغیب میں خدا کے اُن بندوں کا ذکر۔ ان پر بھی غیبوبیت کے وقت آتے ہیں مگر چونکہ وجود پر کامل یقین ہے اس لیے غیوبیت کی حالت میں بھی گناہوں سے بچتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ ہماری نظر کے سامنے ہو یا نہ ہو مگر خدا پردوں میں موجود ہے اوروہ ہمیں دیکھ رہا ہے ہم اس کو غیب سمجھ رہے ہیں لیکن وہ ہمیںدیکھ رہا ہے وہ۔ سورۂ یوسف والی آیت میں بیان کرچکا ہوں والقوہ فی غِیٰبٰۃ الجب۔ ومامن غائبۃٍ فی السماء والارض الا فی کتاب مبین۔ یہ دلچسپ زیادہ تفسیر کی محتاج آیت ہے۔ اس کو اس وقت یہاں چھوڑتے ہیں۔ ولا یغتب بعضکم بعضاً۔ یہ پہلے ذکر ہوچکا ہے ۔
یجتبی کا مطلب ہے چننا اور دراصل جبی اور جبایۃ (الماء فی الحوض) جبی الماء فی الحوض کا مطلب ہے اس نے حوض میں پانی جمع کیا۔ بڑے حوض کو جابیۃ بھی کہا جاتا ہے و جفان کالجواب قرآن کریم میں آتا ہے ۔ حضرت دائود کو اللہ تعالیٰ نے ایسے بڑے بڑے لگن عطا کیے تھے۔ گویا وہ چھوڑے چھوٹے تالابوں کی طرح تھے ۔ حوض ہوں جتنے بڑے اور نہ جبت الخراج جبایۃً کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنٰی ہے مال خراج جمع کرنا الاجتباء کہتے ہیں۔ واذا لم تأتیھم اٰیۃ قالوا لولااجتبتھاکہ جب کوئی آیت ان کی مرضی کے مطابق جب وہ سمجھتے ہیں کہ آنی چاہیے نہیںآتی تو وہ کہتے ہیں لولا ا جتبتھا اس نے اکٹھی کیوں نہ کرلی۔ اجتبیت وہ کوشش جس کے ذریعہ پانی اکٹھا کیا جاتا ہے اس کو بھی اجتبیٰکے معنوں میں، اجتبیکے لفظ کے تابع بیان کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ادھر اُدھر سے اکٹھی کیوں نہیں کرلیتا۔ یعنی نعوذ باللہ من ذٰلک اُس گڑھے کی طرح ہے جہاں سارے پانی بہہ کر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو یہ خبریں لوگوں سے اکٹھی کرتا پھرتاہے۔ تو یہ آیت کیوں نہ بنالی اُس نے خود اس طریقے پر۔ قرآن کریم میں مکے کے متعلق اولم نمکن لھم حرما اٰمنا یُجبی الیہ ثمرت کل شیئٍ۔ شیئٍ، یجبی الیہ میں اُن مختلف نعمتوں کا پھلوں کا اور دوسری نعمتوں کا بیت الحرام کی طرف یوںچلے آنا جیسے گھڑے کی طرف ایک پانی بہتا ہے تو از خود طبعاً تو اس میں کسی محنت ، کوشش ،کسی تحریک کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے مکے کو وہ کشش دے دی ہے جیسے نچلی چیز پانی کی کشش رکھتی ہے۔ پس یہ نعمتیں ہمیشہ خود بخود گویا خود رو طریق پر بیت الحرام کی طرف چلی آئیں گی اور چلی آتی ہیں۔
اب آئیے شان نزول کی بحث۔ بعض کفار نے یہ سوال کیا تھا کہ سب نبی کیوں نہیں۔ صرف محمدؐ کیوں نبی ہیں؟ ایک فضول بات ہے کسی سوال کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ گویا کہ اللہ اس کفار کے سوال کا جو انتظار کررہا تھااور جواب دیا ۔یہ اس مضمون میں اس بحث کی ضرورت کوئی نہیں ہے۔ دیکھیں قرآن کریم فرمارہا ہے۔ پہلی بات یہ فرمار ہا ہے کہ مومنوں اور دوسروں میں تمیز فرمائے گا اور دوسری بات یہ فرمارہا ہے کہ غیب تمہیں۔ضروری نہیں کہ ہر شخص کو اللہ غیب پر غلبہ عطا کرے۔ غیب پر غلبہ دراصل حقیقی تمیز ہے جو ہر ناقص چیز سے ہر اعلیٰ چیزجو روحانی طور پر اعلیٰ ہے اس کو ممتاز کردیتی ہے، اعلیٰ چیز کو ناقص سے ممتاز کردیتی ہے۔ وحی الٰہی اصل تمام امتیازات کی جان ہے ۔ تو یہ یاد رکھیں کہ یہاں یہ مضمون بیان ہورہا ہے ورنہ اچانک غیب کی خبروں کا کیا ذکر ہوا اور رسالت کا کیا ذکر ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو وحی سے ہی انبیاء ممتا زہوتے ہیں لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ جو بھی انبیاء کے پیچھے چلتے ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ بعینہٖ اُسی طرح وحی الٰہی کے اور غیب کے غلبے کے ذریعہ ممتاز کیا کرتا ہے۔ حصہ رسدی وہ یہ فیض پاتے ہیں اور چونکہ نبی ممتاز ہوتا ہے اس لیے اگر تم ممتا زہونا چاہتے ہو تو نبی کی اطاعت کرو اور نبی غیب کی خبروں سے ممتاز ہوتا ہے اور غیب کی خبریں مراد ہیں جو اپنے نفس سے نہیں بناتا بلکہ لازماً عالم الغیب کی طرف سے اُس پر نازل ہوتی ہیں تو اس میں نفس کی حکایات کی نفی ہوگئی اور کلیتہً نبی کی وحی کی پاکیزگی اور اس کے امتیاز کا بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے اس میں دراصل اور پہلے مضمون کے ساتھ اس کا یہ تعلق ہے۔ اتنا گہراعلمی تعلق ہو، ایسی برمحل بات ہو جس میں قرآن خود اپنے مضمون کو کھول رہا ہو تو یہ باتیں شروع ہوجائیں مفسرین کی طرف سے کہ بعض کافر یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ یوں کیوں نہیںہوتا، یوں کیوں نہیںہوتا۔ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ قرآن کے مضمون پر روشنی ڈالنے والی بات نہیں روشنی تو قرآن خود اپنے مضمونوں پر ڈال رہا ہے۔ اُن کے اوپر پردے ڈال دینے والی بات ہے اور انہی بحثوں کی وجہ سے دشمنان اسلام یا محروم رہ گئے سمجھنے سے یاان کوموقعے ملے کہ وہ پھر بڑے سخت جارحانہ حملے کریں۔ (کہتے ہیں ہم کیوں نہیںنبی) سارے کہتے تھے ہم کیوں نہیں نبی ، محمدؐ کیوں نبی ہے صرف، اور یہ بات اس طرح بیان کی جاتی ہے گویا تمام مسلمان یہی اعتراض اُٹھائے ۔ یہی بات لیے پھرتے تھے محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تو انکسار میں اس حد تک تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی جزوی مماثلت کے تصور سے بھی وہ ڈرتے تھے اور ہر پہلوسے آنحضرت ﷺ کو اپنے سے ممتاز سمجھتے تھے۔ ان کے دلوں میں تویہ خیالات پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور دوسرے لوگ جو ہیں وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب کیوں نبی نہیںیہ کیوں بنا؟یہ تو ساری ان اہل کتاب کی تاریخ کے خلاف بات ہے اس لیے اہل کتاب کے ذہن میں بھی یہ سوال اُٹھنا نہیں چاہیے تھا اور کوئی سند نہیں ہے کہ ایسا سوال اُٹھا ہو اور انہوں نے بات کی ہو۔ اس لیے یہ ان روایات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،فرضی روایات ہیں ۔ روح المعانی نے بھی اس بات کو لیا ہے۔ ابو الکلام صاحب آزاد لکھتے ہیں کہ اللہ مومنوں اور منافقوں کو الگ الگ تو ضرور کردیتا ہے، ضرور علیحدہ کرکے دکھاتا ہے مگر منافقوں کا ذکر نام بنام نہیںکرتا یہ اس کی سنت کے خلاف ہے کہ وہ تمام منافقوں کا ذکر کرے۔ اب اس کا اس آیت سے کیا تعلق ہے وہ سمجھتے ہیں کہ غیب کا جو لفظ ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ خد اتعالیٰ ہر مومن کو منافقوں کے نام نہیں بتاتا اور اب یہ ایسی چھوٹی سی بات قرآن کریم اور خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرنا یہ اس کی کسر شان ہے۔ اس لیے ان باتوں کو جب آپ پڑھیں کہیں تو بالکل اہمیت نہ دیا کریں۔ اور چونکہ عادتیں بن گئیںہیں بعض مفسرین کی کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چل کر یہ باتیں کرتے چلے جاتے ہیں اس لیے آئندہ سب کتابوں میں ان کے اثرات آپ دیکھتے ہیں عجیب و غریب روایات جو اس سلسلے میں روح المعانی کے سیّد محمود آلوسی صاحب نے اکٹھی اور بیان کی ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے سامنے میری اُمت پیش کی گئی جس طرح آدم کے سامنے پیش کی گئی اور مجھے علم دیاگیا کہ کون ایمان لایا اور کس نے انکار کیا یعنی قیامت تک کیلئے امت کے منکرین کے تفصیلی نام بتائے گئے اور ایمان لانے والوں کے تفصیلی نام بھی بتائے گئے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف بات منسوب کی گئی ہے جو ہر گز قرآن کریم کی بیان فرمودہ صفات محمد رسول اللہ ﷺ کے مطابق نہیں بلکہ واضح طور پر اس سے متصادم ہے، کہتے ہیں پس جب یہ خبر منافقین تک پہنچی تو انہوں نے استہزاء کیا اور کہا کہ محمدؐ جانتا ہے کہ اس پر کون ایمان لایا اور کس نے کفر کیا اور ہم اس کے ساتھ ہیں لیکن وہ ہمارے بارہ میں نہیں جانتا۔ جب انہوں نے یہ اعتراض اُٹھایا تو کہتے ہیں تب یہ آیت نازل ہوئی عجیب و غریب بات ہے ۔دوسری یہ ہے ’’ کہ قریش نے کہا اے محمدؐ تو سمجھتا ہے کہ جو تیرا مخالف ہے وہ آگ میں ہے اور خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہے اور جس نے تیرے دین کی پیروی کی ہے وہ اہل جنت میں سے ہے اور خدا اس سے راضی ہے۔ پس تو ہمیںآگاہ کر کہ کون تجھ پر ایمان لایا ہے اور کس نے کفر کیا ہے ۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی‘‘۔اب آپ نے تضاد دیکھا ہے اس میں ۔ اس میں اور اس آیت میں کتنا نمایا ں تضاد ہے۔ اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے گویا ان کے جواب میں کہ تمہیں نہیں بتایا جائے گا وہ تو یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اللہ ہمیں براہِ راست جواب دے وہ تونبی سے پوچھ رہے تھے کہ نبی کے متعلق خدا کہتا ہے کہ اس کو علم غیب دیا گیا ہے ۔ ہم اس نبی سے پوچھتے ہیں اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اس بات کا اقرار کررہا ہے ان کے نزدیک کہ ہاں اس نبی کو علم دے دیا گیا ہے اگر علم دے دیا گیا ہے تو بتاتا کیوں نہیں؟ اس آیت میں نبی کے بتانے کا کہیں انکار ہی نہیں ہے کہ نبی کو تو علم ہے لیکن وہ نبی لوگوں کو نہیں بتاتا۔ اس آیت میں تو یہ ذکر ہے کہ اللہ ہر شخص کو براہِ راست مطلع نہیں فرماتا۔ مگر جتنا غیب پسند فرمائے اس پر نبی کو غلبہ عطا کرتا ہے اور پھر نبی آگے لوگوں سے بیان کرتا ہے کیونکہ نبی کا مطلب ہی یہ ہے کہ جو خدا سے سنے اور لوگوں کو خبریں دے اگر وہ رسول ہے تو پیغام سنتا ہے اور آگے پہنچاتا ہے ، اپنے پاس تو رکھتا ہی کچھ نہیں۔ ومما رزقنھم ینفقونکی بہترین زندہ تفسیر نبی ہوتا ہے۔ ہر فیض جو خدا سے پاتا ہے وہ آگے بیان کرتا ہے۔ تو ایک طرف تو ان کا مطالبہ یہ بیان کیا جارہا ہے کہ نبی ہمیں بتائے اور دوسری طرف کہتے ہیں اللہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ میں تمہیں نہیں بتائوں گا۔ تو یہ اندرونی تضادآپ کو دکھائی نہیں دے رہا؟ یہ روایات اس لحاظ سے واضح طور پر غلط ہیں کہ قرآن کریم کے مضمون سے متصادم ہیں اور جن باتوں میں کفار رسول ﷺ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے ان کی مؤید بن جاتی ہیں یہ روایتیں۔
اب یہ بھی ایک بحث اُٹھی ہے کہ مخاطب کون ہیں اس میں۔ ابن عباس اور اکثر مفسرین کے نزدیک مخاطب کفار اور منافقین ہیں۔ ما کان للہ لیذ ر المومنین علی ما انتم علیہ اس میں مخاطب کون ہیں۔ حتی یمیز الخبیث من الطیب مفسرین اکثر کہتے ہیں کہ کفار مخاطب ہیں کہ تمہیں الگ نکال کے پھینکا جائے گا۔ لیکن علامہ زمخشری وہ یہ بیان فرماتے ہیں ، کہ انہوں نے صرف یہ فرق کیا ہے کہ کافر سے مراد منافق ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا مخاطب کون ہے اگر کوئی یہ سوال کرے تو میں یہ کہوں گا کہ اس آیت میں منافقین اور مخلصین میں سے ہر دو مخاطب ہیں اور یہی بالکل معقول بات ہے۔ بڑی واضح اور روشن بات ہے کہ یہاں جب مومنین کو غیر مومنین سے ممتاز کرنے کا ذکر ہے تو لازماً دونوں مخاطب ہیں اور منافقین والی بات بھی امام زمخشری کی درست ہے۔ کیونکہ جو مومنوں میں مل جل کر ان جیسے بننے کی کوشش کرتے ہیں اور بیچ میں سے جھوٹے ہیں ان کی تفریق کی بحث ہوگی نہ کہ ان کافروں کی جو ویسے ہی الگ ہیں۔ پہلے ہی الگ بیٹھے ہیں وہ کب اپنے آپ کو مومن قرار دیتے ہیں ۔ تو اس پہلو سے حضرت علامہ زمخشری کی بات یعنی ان کی تفسیردرست اور قابل قبول اور قرآن کریم کی آیت کے عین مطابق ہے اور اگلی بات بھی بہت عمدہ اور صحیح سمجھے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ نام لے کر بتائے گا ،وہ تو ۔۔۔اللہ تعالیٰ نام لے لے کر ایسی باتیں نہیں بیان کرتا۔ نبی کو جو غیب کی خبریںدیتا ہے وہ بھی اور مضمون ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ نبی کو بتا کر پھر ان کی تمیز کروائے گا کیونکہ نبی اگر کہہ بھی دے گا تو منافق مانیں گے کب؟ اور ہر ایک کہے گا کہ خواہ مخواہ ایک ہم پر الزام عائد کردیا گیا ہے۔ خدا کا بہانہ بنا کر، وہ کہتے ہیں کہ اصل مقصد یہ ہے کہ تم کو ایسی مشکلات میں ڈالے گا جس پر صرف مخلص لوگ ہی صبر کرسکیں گے۔ جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے آزمالیا ہو۔ یہ بہت ہی عمدہ مضمون اور عین اس سیاق و سباق کے مطابق ہے یعنی جنگ اُحد میں ابتلاء آئے تھے اور اس ابتلاء کے نتیجے میں بہت سے منافق بالکل کھل کر الگ ہوگئے اور اس ابتلاء کے نتیجے میں بعض گروہوں کے گروہ الگ ہوئے ۔ بعض لوگوں کے دل میں دبی ہوئی خبیثانہ باتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئی ۔ لیکن یہ ابھی پورا مضمون مکمل نہیں ہوا۔ یہ آیت یہ تنبیہ فرمارہی ہے کہ دیکھو تم میں ابھی بھی ایسے موجود ہیں جو دل سے پوری طرح پاک و صاف ہوکر تمہارے ساتھ نہیں ہیں۔ آئندہ بھی آزمائشیں آئیں گی اور ان آزمائشوں میں کھرے الگ کیے جائیں گے اللہ کی طرف سے اور کھوٹے الگ کیے جائیں گے ۔ کھرے اس بنا پر الگ ہوں گے کہ وہ خدا کے اس رسول پر کامل ایمان رکھتے ہیں جو عالم الغیب خدا کا رسول ہے۔ اس لیے یہ مطالبے نہیں کرتے کہ ہمیں بتائو ، ہمیں دکھائو یہ مطالبہ ہی دراصل بے ایمانی کا ثبوت ہے ۔ جس طرح بائبل میں آتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے مطالبہ کیا تھا کہ جب تک جھرۃً ہم اللہ کو نہ دیکھ لیں اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ تو وہی کفر کی فطرت جو پہلے بھی تھی آج بھی اسی طرح ہے ۔ تو مومن یہ مطالبہ کرتے ہی نہیں ان کے دل میں وہم و گمان بھی نہیں آتا۔ اس لئے وہ اگر آزمائے جاتے ہیں تو ایمان پر صداقت کی پہچان ان کا ثابت قدم ہونا ہوتا ہے۔ وہ اگر آزمائے جاتے ہیں تو اس غرض سے کہ ہر ابتلاء ان میں کا ثبات قدم ان کا لغزشوں میں مبتلاء نہ ہوجانا ان کو ان سے جو ٹھوکریں کھاتے ہیں اور لغزشوں میں پڑ جاتے ہیں ان سے وہ الگ کرکے دکھائیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ خبیث سے مراد کافر اور طیب سے مراد مومن ہیں اور ان میں تمیز کرنے والی چیز ہجرت اور جہاد ہے۔ یہاں ہجرت اور جہاد کو بیچ میں یہ خواہ مخواہ یونہی لے آئے ہیں۔ عمومی مضمون ہے جاری و ساری۔ ہمیشہ ابتلاء کے وقت۔ خواہ و ہ کیسا ہی ابتلاء ہو لوگ آزمائے جاتے ہیں ورنہ ہجرت کرنے والے جو تھے وہ تو موجود تھے اس کے علاوہ اور بھی آملے تھے تو صرف ہجرت یا جہاد مراد نہیں ہے۔ جہاد کے علاوہ بھی تو ابتلاء آتے رہے ہیں ۔ ایک تمیز کے معنے یہ بھی لئے گئے ہیں تمیز کے کہ جب مومنوں کے اندر بھی کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں اور پوری طرح بعض دفعہ وہ پاک نہیں ہوتے تو ابتلاء یہ فائدے بھی دیتا ہے کہ چھپی ہوئی اندرونی کمزوریوں کو دورکرکے جس طرح دھوبی کپڑوں سے داغ الگ کرتا ہے اس طرح وہ ابتلاء ان داغوں کو جو چوٹیں پڑتی ہیں ان پر بالکل الگ کردیتا ہے اور وہ پوری طرح پاک صاف ہوکر ستھرے نتھرے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ یُطھِّرکُم کا جو وعدہ قرآن کریم میں ہے۔ اہل بیت سے اس میں بھی بہت سے مضامین ہیں اور یہ وعدہ بھی ہے کہ تو رسول کی طرح توکامل تو بہر حال نہیں ہو مگر رسول کے تعلق کے نتیجہ میں اللہ کا ایک خاص فضل تم پر ہوگا۔ اور بطور خاص تمہاری تطہیر کی جائے گی۔ اور کئی ابتلائوں کے نتیجہ میں تم نتھر کر پاک صاف ہوکر ابھرو گے۔ اور تمہارا ثبات قدم تمہیں دوسروں سے ممتاز کردے گا ۔ تو یہ مضمون ہے جو بالکل درست اور چسپاں ہونے والا مضمون ہے ۔ اس آیت ، اس ماحول پر چسپاں ہونے والا مضمون ہے۔ حضرت امام رازیؒ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے تعلق میں تمام وہ منافقین خبیث تھے جو جہاد میں حصہ لینے سے روکتے تھے پھر یہ ذکر کرتے ہیں کہ دیکھو اتنا بڑا ابتلاء آیا اور مسلمان جو سچے تھے ،مومن تھے ثابت قدم رہے۔ یہاں تک کہ جب بدر صغریٰ کیلئے ان کو بلایا گیا تو بلا امتیاز تمام کے تمام سچے مومن او رمخلصین روانہ ہوگئے اور ثابت کردیا کہ جو وقتی لغزش تھی اس کو خدا نے اسی ابتلاء سے دھودیا ہے۔ اور ان کا پاک و صاف ہونا جنگ احد ہی نے خوددکھادیاتھا کہ لیمیز الخبیث کا ایک ثبوت اس مضمون کا کہ خدا ایسا کرتا رہتا ہے۔ جنگ احد ہی میںموجود ہے۔
یہ اب عجیب و غریب باتیں پھر تفسیر بحر المحیط میں بھی ابو حیان نے اکٹھی کرلی ہیں ۔ زجاج کہتے ہیںکہ ’’کہا گیا ہے کہ کفار نے کہا کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم سب نبی بن جائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی‘‘ بالکل بے تعلق بات ہے۔ جنگ احد کے مضمون کو مختلف پہلوئوں سے کھول کر نتھار کر پیش کیا جارہا ہے،خدا کی ایک جاری سنت بیان کی جارہی ہے۔ اس کا کسی منافق ، کسی کافر کے کسی سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت امام رازیؒ بھی یہی بیان فرمارہے ہیںکہتے ہیں کہ یہ فرق کا ظاہر ہونا جائز نہیں اس طرح جس طرح یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو غیب سے اطلاع دے کہ فلاں منافق ہے ، فلاں مومن ہے ، فلاں جہنمی ہے۔ کہتے ہیں یہ بحث ہو نہیں رہی یہاں۔ اللہ کی جاری سنت یہی ہے کہ وہ عوام الناس کو اپنے غیب سے اطلاع نہیں دیتا بلکہ اس امتیاز کو جاننے کا طریقہ ویسے ہی امتحانات اور آزمائشیں ہیں۔ جیسے پہلے لوگو ں پر آتے رہے ہیں ان ابتلائوں میں موافق اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ جہاں تک غیب پر اطلاع دینے کا طریق ہے تو وہ خاصہ ہے انبیاء کا ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشائ۔ یہاں حضرت امام رازی لفظ رُسُل کا جمع ہونا بھی نوٹ کررہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ یہ خیال کہ صرف رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات ہورہی تھی ۔وہ ہمیں منافقوں کا حال بتائے اس کا بطلان اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے تو ایک جاری سنت رُسُل کے متعلق بیان فرمائی ہے اور ازل سے یہ سنت جاری ہے۔ اسی طریق پر تو کہتے ہیں فامنوا باللہ و رسلہفرمایا ہے۔ ورسلہ اس لمحہ کیلئے بھی رسولہکا لفظ نہیں۔ فرمایاورسلہاس لمحہ کیلئے بھی اس لمحہ سے مراد ہے۔ اس وقت کیلئے بھی رسولہٖ کا لفظ نہیں فرمایابلکہ رُسُلہٖ فرمایا ہے۔اور یہ وہ طریق ہے جو انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی نبوت کے اقرار تک پہنچاتا ہے۔ یہ دشمنوں کا عاجز کرنے والا ہے اور یہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں ظاہر ہوچکا ہے۔ پس ہر نبی کی نبوت کا اقرار واجب ہے۔ اسی لیے فرمایا و رسلہٖ۔ اس سے مقصود تنبیہہ کرنا ہے کوئی خاص آگے بات نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ یُظھر کا ذکر فرمایا ہے ایک دوسرے مقام پر۔ فلا یظھر علی غیبہٖ احداً الا من ارتضیٰ من رسولٍ۔ کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یطلع کا بھی غالب آنے والا معنیٰ پیش نظر ہے یہاں اور عام اطلاع نہیں ہے۔ اور یہ بحث حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت برمحل اٹھائی ہے ۔ ا سکی وجہ یہ ہے کہ اگر اس کا معنیٰ عام اطلاع ہو تو کسی غیر نبی کو سچی خوابیں، رئویا، کشوف کے ذریعے یا الہام کے ذریعے کوئی غیب کی خبر نہ ملے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کا یہ جاری دستور ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے اب تک کہ امت میں کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کو غیب کی خبریں اللہ کی طرف سے بتائی گئیں۔ مگر ’’اظہار غیب‘‘ نہیں ہوا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور فرمایا ہے کہ غیب کی خبروں کے لحاظ سے مجھ پر نبی کا لفظ اطلاق نہیں پاتا محض غیب کی خبروں کے لحاظ سے۔ امت میں تو دستور چلا آرہا ہے ۔ وحی جاری ہے۔ پہلے بزرگوں میں نہ صرف دعوے موجود بلکہ ان کے ثبوت موجود ہیں کہ خدا ان سے کلام فرماتا رہا کشوف اور الہامات کے ذریعے مگر اگر کثرت ہو یہانتک کہ یوں لگے کہ غیب پر غلبہ سا ہوگیا ہے جب اس کثرت سے ہو تو پھر لفظ نبی کا اطلاق ممکن ہے ۔ اور اسی کی ایک قسم محدث ہے۔ یعنی محدث کیلئے بھی محدث کی تعریف میں بھی یہ بات داخل ہے کہ اسے کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ غیب کی خبریں عطا فرمائے۔ اس لیے آپ نے فرمایا ہے کہ اس سے پہلے جو محدثین گزرے ہیں وہ بھی دراصل انبیاء کی قسمیں ہی ہیں۔ لیکن ان کو نام اس لیے نہیں دیا گیا کہ امت محمدیہؐ میں اس نام کیلئے ایک ہی شخص مقدر تھا جس نے مسیح موعودؑ کے طور پر ظاہر ہونا تھا۔ پس آنحضرت ﷺ نے ’’کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ کا ذکر تو فرمایا نبیوں کا مرتبہ تو دے دیا ان کو لیکن نبی کا لقب نہیں دیا۔ کیونکہ اس لیے خداتعالیٰ کی تقدیر میں امت محمدیہ کی عالمگیر وسعت کے پیش نظر ایک خاص مقام کا انسان چاہیے تھا۔ جو عالمی جہادشروع کرے اور عالمی خبروں سے نوازا جائے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے میں جب یہ خبر ملتی ہے کہ ’’کوریا کی نازل حالت اور ایک مشرقی طاقت‘‘ اور ’’زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار‘‘۔ اب کہاں قادیان کہاں اس زمانے میں قادیان کی شہرت؟ اب دنیا میں مشہور ہوا ہے بہت زیادہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مولویوں کو اس نوکری پہ لگایا ہوا ہے ہر احمدی کو قادیانی کہتے ہیں ۔ جہاں کرتے ہیں اپنی طرف سے تعاقب قادیانی کہہ کہہ کے۔ اس نوکری پر مفت کی دہاڑیاں لگی ہوئی ہیں کہ وہ قادیان قادیان کہہ کے ساری دنیا میںمشہور کردیں۔ مگر اس زمانے میں جبکہ قادیان خود ایک غیر معروف سی جگہ تھی پنجاب میں، ہندوستان میں لوگ جانتے نہیں تھے کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ مسیح موعود علیہ السلام کو بتارہا ہے کہ ’’زار بھی ہوگا تو ہوگااس گھڑی باحالِ زار‘‘ ۔ اور زارِ رُوس کا عصا آپ کے ہاتھوں میں تھمایا جاتا ہے۔ اس میں نالیاں ہیں۔ پھرریت کے ذروں کی طرح دیکھتے ہیں احمدیوں کو روس میں پھیلا ہوا ۔ روس سے مراد Russiaنہیں بلکہ U.S.S.R.کی ریاستیں ہیں۔ اُس زمانے میں اور اب بھی اکثر عام طور پر روس سے مراد رشیا نہیں لیا جاتا بلکہ یونائیٹڈ سوویت ریپبلک کو روس کہا جاتا ہے۔ پس ان معنوں میں روس سے مراد سارا وسیع روس ہے اور کوریا کی بات پھر جاپان کے قصے۔ اے جزائر کے رہنے والو تم بھی امن میں نہیں ہو۔ پھر یورپ اور امریکہ کی باتیں ۔ یہ کس محدث کے الہاموں میں ملتی ہیں؟ کوئی نکال کے دکھائے۔ اشارۃً بھی۔۔۔ محدث ضرور ہیں انبیاء کی شان پانے والے ہیں۔ مگر بنی اسرائیل کے انبیاء کی شان پانے والے ہیںجو اسرائیل تک محدود ہیں۔ پس وہ محدث اگر نبی تھے تو اپنے اپنے دائرہ میں محدود تھے۔ اپنے اپنے مخاطبین کیلئے اللہ کے جلوے دکھاتے تھے یعنی خدا سے فیض پاتے تھے غیب کااور طرح طرح سے برکتیں حاصل کرکے آگے پھیلاتے تھے مگر محدود دائروں میں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کیلئے جو لفظ نبی رکھا گیا اس کی محمد رسول اللہ ﷺ سے نسبت ہے۔ بنی اسرائیل سے نسبت نہیں ہے۔ان محدثین کی بھی رسول اللہ ﷺ سے نسبت تھی۔ مگر جزوی تھی اس حد تک جزوی کہ بنی اسرائیل کے نبیوں کی یاد دلانے والے تھے۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی عالمی شوکت کی یاد نہیں دلاتے تھے۔ کیونکہ ان کو وحی بھی اتنی ہی ملی جو محدود دائرے کی تھی اور عالمی وسعت کی وحی نہیںتھی۔ پس اس پہلو سے اتنا نمایاں فرق ہے اور اتنے واضح دلائل ہیں، مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے حق میں کہ دشمن جو چھوٹی چھوٹی کمینی باتوں میں پڑ کے حملے کرتا ہے اس کو ان آفاقی دلائل کی طرف بلائیں۔ اس کو متوجہ کریں کہ بتائو تو سہی کہ پیچھے جو گزشتہ بزرگ گزرے ہیں بڑے بڑے صاحب کشف، صاحب الہام لوگ انہوں نے عالمی طور پر کیا باتیں بتائی ہیں۔ قرآن کو دیکھو تو عالمی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔آئندہ زمانوں کی خبروں سے بھی ، کل عالم کی خبروں سے بھرا پڑا ہے جو امریکہ میں واردات ہونی تھی اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ سمندروں کے ملائے جانے کا ذکر ملتا ہے۔ عجیب و غریب اس زمانے کے لحاظ سے ناممکن الوقوع باتیں قرآن کریم کل عالم اور کل زمانوں کی کرتا ہے۔ پس وہ وجود جس کو خدا نے محمد رسول اللہ ﷺکے فیض سے ایسا حصہ دینا تھا کہ اس کے الہامات ،اس کی وحی ، اس کے کشوف میں بھی عالمی نوعیت کی خبریں آنی تھیں وہ ایک ہی وجو د ہے اور جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں تو ایسا کھلا کھلا دعویٰ ہے لوگ علماء زورلگاکے نکالیں تو سہی اور کہاں ہے وہ وجود جس نے خدا سے غیب کے علوم پاکر عالمی خبریں دی ہوں۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کیلئے یہی آیت کافی ہے اللہ تعالیٰ وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء فامنوا باللہ و رسلہ وان تومنوا و تتقوا فلکم اجر عظیم۔ اگر تم ایمان میں سچے ہو گے اور نیک عمل کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو تمہارے لیے لامتناہی اجر ہے۔ اب میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر چھیڑاتھا تو بے محل نہیں بلکہ باقی مفسرین کی تو اکثروہی باتیں ہیں جو دہرائی جارہی تھیں۔ ان کو میں سردست اب چھوڑتا ہوں۔ بعد میں اگر ضرورت پڑی تو بعض دشمنان کا ذکر پھر کریں گے۔ اس وقت میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس مضمون کا رسالت سے شروع ہی سے گہرا تعلق ہے۔ وماکان اللہ لیذ ر المومنین علی ماانتم علیہ۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہوکر پھر ہمیشہ کیلئے ختم ہوجانا تھا۔ یہ ایک جاری مضمون ہے کہ جب بھی مومنوں کی سوسائٹی میںمنافقین داخل ہونے شروع ہوجائیں اور اشتباہ عام ہوجائے تو ایسی صورت میں اگر خدا نے اس مذہب کو زندہ رکھنا ہو تو نفاق کو ایمان ضرور الگ الگ کرتا ہے۔ اور اس کا طریق نبوت ہے۔ نبوت کے بغیر یہ تمیز ممکن نہیں۔ اس لیے رسول اکرم ﷺ کی صفات کے بیان کرتے وقت اللہ تعالیٰ اندھیروں سے روشنی میں بلانے والا بار بار فرماتا ہے کہ اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے یہ رسول۔ پس رسالت ہی تمیز کیلئے استعمال ہوئی ہے اور یہاں تمیز کے ذکر میں سب سے بڑی بات جو پیش فرمائی گئی وہ رسالت ہے اور فرمایا ہے کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ ہر شخص کو رسالت ملتی ہے اور یہ لوگ ممتاز ہوتے ہیں بلکہ کسی کو رسالت ملتی ہے اس کو غیب کی خبروں، خبریں عطا کی جاتی ہیں۔ ایسے غیب کی جو بہت دور دور کے حالات سے تعلق رکھتا ہے، بہت دور دور کے علاقوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ لیکن بعض لوگوں کو ان کی سمجھ بھی نہیںآرہی ہوتی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے او رکیسی باتیں کررہا ہے مگر ایمان ایسا کامل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی وجہ سے اس غیب کی خبروں والے نبی سے اپنا تعلق مضبوط رکھتے ہیں، ثبات قدم دکھاتے ہیں، کسی موقع پر لغزش نہیںدکھاتے۔ بڑے سے بڑا ابتلاء بھی آجاتا ہے تو وہ اس کو چھوڑ کر الگ نہیںہوجاتے۔ یہ جو واقعہ ہے یہ ایک دفعہ نہیں بلکہ پھر بھی ہونا تھا اور آخری زمانہ میں بھی ظہور پذیر ہونا تھا جب آنحضرت ﷺ نے خود یہ خبریں دی تھیں کہ امت میں بہت سی بدیاں پھیل جائیں گی ۔ بظاہر میری طرف لوگ منسوب ہوں گے مگر نام کا اسلام رہ جائے گا۔ یہ یہ حرکتیں ہوں گی ۔ تو وہ خدا جو اپنی یہ صفات بیان فرمارہا ہے یہ ایسا کرتا ہے وہ کہاں سوجائے گا؟ نعوذ باللہ من ذالک۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے اور رُسُلِہ کا لفظ جیسا کہ امام رازی نے نوٹ کیا ہے وہ بتارہا ہے کہ ایک عام جاری سنت کی طرف اشارہ کررہا ہے تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ جب بھی خدا کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرتا ہے مومنوںکو دوسروں سے الگ کرتا ہے تو ہر شخص کو بتا بتا کر نہیںکرتا کہ فلاں منافق ہے ، فلاں خبیث ہے، فلاں شریف ہے۔ یہ باتیں بچگانہ باتیں ہیں اللہ تعالیٰ نبوت کے ذریعے کھرے اورکھوٹے میں تمیز کرتا ہے۔ عالم الغیب خدا ایک بندے کو اٹھاتا ہے۔ جس کو غیب کی خبریں دیتا ہے اور غیب کی خبروں کا غلبہ بتاتا ہے کہ اکثر لوگوں کو ان خبروں کا علم ہی نہیں ہوسکتا۔ یُظھریا یُطلع کا مطلب ہے اس کثرت سے غیب عطا کیے گئے ہیں اگر ہر شخص اس میںشریک ہو جائے تو پھر نبی کا امتیاز کیا رہا۔ اکثر کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ باتیں کیا کررہا ہے کیونکہ اکثر باتیں دور دور کی باتیں ہیں۔ دور کے زمانے یا علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر وہ ہر بات پہ امنا و صدقنا کہتے ہیں او رایمان اتنا کامل ہے کہ بڑے سے بڑے زلزلے میں بھی وہ اپنی بنیادوں پر قائم رہتے ہیں اور سرنگوں نہیں ہوتے ۔ کوئی زلزلہ ان کی عمارتوں کو منہدم نہیںکرسکتا۔ یہ وہ مضمون ہے جس کا بڑی شان کے ساتھ اظہار رسول اکرمﷺ کے دور اوّل میں بھی ہوچکا ہے اور لازم تھا کہ دور آخر میں بھی ہو۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے جہاں دور آخر کی خبر دی ہے وہاں ان حالات سے جو ان آیات میں زیر بحث ہیں بہت ہی زیادہ خطرناک اور خوفناک نقشہ کھینچا ہے۔ ایسا خوفناک کہ یوں لگتا ہے کہ ایمان جگہ ہی چھوڑ گیا ہے۔ مسلمان تو کل عالم میںپھیلے ہوئے تھے ۔ تورسول اللہ ﷺ کو بھی یہ بتایا گیا کہ گویا ایمان زمین ہی چھوڑ بیٹھا ہے اور ثریا پہ پہنچا ہے۔ چنانچہ فرمایا لوکان الایمان عند الثریا لنا لہ رجل من ھؤلاء وہاں ایمان ہی غائب ہوگیا تو اس پر غیب کو واپس حاضر کرنے کیلئے بھی نبی کی ضرورت ہے ۔ تو فرمایا ہاں ان لوگوں میں سے عجمیوں میں سے ایک شخص پیدا ہوگا یا بعض وجود پیدا ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ غائب ایمان کو زمین کی طرف لانا شروع کردیں گے پھر۔ ثریا سے زمین پر قائم کریں گے اور اس کے نتیجے میں پھر مومنوں کی وہ جماعت پید اہوگی جو کھرے اور کھوٹے سے تمیز کی ایک زندہ مثال بن جائے گی اور ان میں بھی وہی مضمون جاری ہوگا جو بعض پہلے مفسرین نے بیان فرمایا ہے کہ ان کے اندر بھی جو گند ملے ہوئے ہیں جو کمزوریاں رہ گئی ہیں ہر ابتلاء کے بعد وہ نکھر کر ابھریں گے اور پہلے سے بہتر ہوکر ظاہر ہوں گے۔ یہ ایک ابتلاء کا خاصہ ہے جو تکلیف سے کے مضمون سے ابتلاء کو الگ کرتا ہے۔ ابتلاء کو عذاب سے الگ دیکھنا ہو تو یہ آیت ہمیں بتارہی ہے کہ ابتلاء کے وقت مومن جو ہے وہ اپنی شان میں ایسا بڑھتا ہے کہ وہ ایمان میں بڑھتا، غیب پر ایمان میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور جوکافر ہے وہ جو حاضر ایمان تھا اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے او رٹھوکریں کھا کر ایک طرف ہوجاتا ہے۔
پس یہی مضمون پہلے بھی جاری ہوا تھا آئندہ بھی چونکہ جاری ہونا تھا اس لیے اللہ فرماتا ہے وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشائجاری مضمون ہے اس کو بھی چاہتا ہے جب چاہے وہ چنے گا۔ تو فامنوا باللہ وَرسولہ نہیں فامنوا باللہ و رسُلہ۔ پس اگر اللہ کی خاطر اس رسول کو مانتے ہو تو اللہ کی خاطر ہر بھیجے ہوئے کو مانو وان تومنؤا و تتقوا اگر تم ایمان لائو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے فلکم اجر عظیم تو تمہارے لیے ایک بہت بڑا اجر مقدر ہے۔ پس اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے پر بھی اسی آیات مبارکہ کا اطلاق ہورہا ہے اور یہ باتیں اس کے اندر ایسی مخفی بھی نہیں کہ نظر نہ آئیں۔ جب آپ ترتیب سے ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو بالکل کھل کر یہ بات روشن ہوجاتی ہے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات پر ان کو چسپاں کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اسی قسم کی غیب کی خبریں جو قرآن میںدی گئی تھیں ان کی تائید میںویسی ہی خبریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کی گئی اور آپ کے غیب پر ایمان لانے والوں نے جب بعد کے زمانے میں ان کو پورا ہوتے دیکھا اس ایمان میںاور بھی بڑھتے چلے گئے اور یہ وہ پہلو ہے غیب پر ایمان کا جو دراصل تمیز کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بعض پیشگوئویں پر اشتباہ کے پردے بھی تھے اور جو ٹھوکرکھانے والے تھے وہ ٹھوکر کھا کے الگ ہوگئے۔ لیکن آئندہ زمانوں میںجب وہ بڑی شان کے ساتھ روشن ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے وہ پہلے جو پردے تھے ان کوبھی اٹھادیا اور روز روشن کی طرح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی سچائی کو ظاہر فرمادیا۔ اس مضمون کا مسیح کے نزول سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام اپنی کتاب ’’گناہ سے نجات کیسے ممکن ہیــ ‘‘اس میںاس مضمون پر روشنی ڈالتے ہیں۔مینارۃ بیضاء کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایک مینار بنایا ہے اس پیشگوئی کو کی رعایت سے جو مسیح کے مینارۃ بیضاء پر یا اس کے پاس اترنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک جاہل یہ خیال کرسکتا ہے کہ مینار تو پہلے ہونا چاہیے تھا اورپھر دعویٰ ہوتا۔ مینار پہلے موجوہ ہوتا اور اس مینار کے پاس آتے تو ہم سمجھتے کچھ اس میں بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ اس مضمون کو سمجھتے نہیں۔ دراصل ظاہری مینار مراد نہیں ہے یہ ایک علامت ہے اس مینار کی جس کا ذکر چل رہا ہے اور اس مینار پر اترنے والا جو مسیح ہے اس کا حال فوراً روشن نہیں ہونا تھا۔ ایک زمانہ اس پر ایسا آنا تھا اور مقدر ہے اس زمانے میںسے ہم گزررہے ہیں جب کہ مسیح پر شکوک کے پردے پڑنے تھے، اس کی خبروں پر تمسخر اڑائے جانے تھے، اس کو جھوٹے کے طور پر مشہور کیا جانا تھا اور ایسا شخص جس کے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہو اس دور میں اسے مینار پر اترنے والا نہیں کہا کرتے۔ مینارے سفید تو روشن دلائل کا نشان ہے پس عند مینارۃ البیضاء جو فرمایاگیا اس کا ایک معنی ہے مینارہ پر اس کے قدم ہوں گے ایک معنی ہے اس کے قریب۔ تو مسیح کے نزول کے وقت ایسا نظارہ ہوگا گویا وہ ابھی مینار پر فائز نہیں ہوا مینار کے قریب ہے لیکن ایک وقت ضرور آئے گا جب وہ دن بدن ا س کی سچائی روشن ہوتی چلی جائے گی اور چونکہ مینارہ سے مراد دراصل وہ پاکباز الٰہی وجود ہیں جومیناروں کی طرح بلندی رکھتے ہیں اور دور دور دنیا کو روشن کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں اس لیے مینارہ کی تمثیل اس عاجز ،مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں مجھ پر صادق آئے گی۔ مگراس وقت جبکہ یہ شکوک کے پردے اٹھائے جائیں گے اور میری پیشگوئیاں وضاحت کے ساتھ پوری ہوں گی اور وہ زمانہ آنے والا ہے جبکہ میں وہ مینارہ بیضاء بنوں گا جس کا دراصل روحانی طور پر ذکر ہے اور یہ مینارہ بیضاء جو میں بنارہا ہوں یہ ایک Symbolبن جائے گا ان باتوں کے ثبوت کے طور پر جو آج موجود نہیں ہیں ۔ آج یہ مینارہ بھی تمہارے لیے تضحیک کا موجب ہے لیکن وقت آنے والا ہے جب یہ مینارہ گواہی دے گا کہ جو باتیں میں کہا کرتا تھا وہ ساری سچی نکلیں۔ اس لیے مسیحیت کا جو شاندار جلوہ ہے آپ نے فرمایا ہے وہ پہلا ظہور نہیں ہے۔ مسیحیت کا پہلا ظہور اسی طرح ہوتا ہے جیسے پہلے مسیح کا پہلا ظہور تھا۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ظہور ایسا واضح اور روشن تر ہوتا چلا گیا کہ تمام دنیا پر وہ غالب ہوگیا۔ آپ نے فرمایامسیح ثانی کے ساتھ بھی یہی مقدر ہے۔ پس آج جو تم مجھے اشتباہ اور اندھیروں میں گرا ہوا دیکھ رہے ہو یہ لازم تھا۔ پہلے مسیح کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تھا مگر مسیح جب یہ کہتا کہ میرا آسمانی نزول ہوگا شان او رشوکت کا جو تمام دنیا کو دکھائی دوںگا وہ میرا نزول کا وقت آنے والا ہے۔ صبر سے کام لو دیکھو گے کہ ایسا ہوگا ۔
پس آج خدا کے فضل سے وہ زمانہ آرہا ہے اس زمانے میں ہم داخل ہورہے ہیں اور احمدیہ ٹیلویژن جس کا نمائندہ ہاتھ اٹھا کر مجھے بتارہے ہیں کہ ایک آدھ منٹ باقی رہ گیا ہے۔ ٹھیک ہے، ہیں؟ دو تین منٹ ہاں وہی۔ تو وہ ثبوت اس بات کا کہ وہ مینارہ بیضاء اب خد اکے فضل سے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایسا نشان بن رہاہے کہ وہ مسیح جو پہلے اس کے پہلو میں تھا اب اس کے اوپر بڑی شان کے ساتھ روشن تر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اور کل عالم میں دکھائی دے رہا ہے۔ پس یہ جو خدا کی طرف ہے کھرے اور کھوٹے کی تمیز کا ایک نیا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ اس کی پیشگوئی پہلے ہی قرآن مجید میں موجود تھی اور اسی لیے اظہار دین کے تعلق میں وہاں لیظھرہ علی غیبہ کا ذکر ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا لیظھرہ علی الدین کلہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو تمام ادیان پر اظہار کرے۔ تو یہ اظہارغیب سے وابستہ مضمون ہے اس کے سوا ممکن نہیں تھا۔ پس از سرنو جب وہ وقت آنا تھا جبکہ خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے جلوے کو تمام دنیا میں ہر دوسرے دین پر غالب کرکے دکھانا تھا اس کا اظہار غیب سے ہی تعلق ہے اور وہ اظہار غیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے شروع ہوچکا ہے اور یہ بات تو سب مفسرین بہرحال لکھتے ہیں کہ لیظھرہ علی الدین کلہ کا مضمون کی پیشگوئی مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے ، اسی میں پوری ہونی ہے او راللہ کا بڑا احسان ہے بڑے خوش نصیب ہیں ہم لوگ جو اس زمانے کی تاریخ بنانے والوں میں داخل ہیں جن سے خد ابنوارہا ہے ۔ ہم ہر چند کے ناچیز اور ناکارہیں مگر بڑی روشن تعمیر کی اینٹیں بن چکے ہیں ۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ اب وقت ختم ہوگیا ہے اب اجازت چاہتا ہوں۔ السلام علیکم۔ خدا حافظ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ10 رمضان بمطابق11؍ فروری 1995ء
الذین قالوا ان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقربانٍ تاکلہ النار۔۔۔۔۔۔۔ صادقینO (آل عمران: 184)
ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ لغت کی بحث بھی۔ اب تو اس آیت کی تشریح ہے وہ آخری حصے میں داخل ہورہی ہے۔میں نے بیان کیا تھا کہ معجزات کے متعلق ہم قرآن کریم میں موجود معجزوں کی تفصیل کسی ایک مجلس میں خواہ کیسی ہی لمبی ہو بیان کر ہی نہیںسکتے۔ عمریں گذر جائیں محققین کی تو اس مضمون کا احاطہ اس لئے نہیں کرسکتے کہ بہت سے ایسے معجزات ہیں جن کے متعلق ابھی تک ہمیں پوری طرح علم نہیں کہ کس زمانہ میں کب ان پر سے پردہ اٹھے گا اور گہرے اشارے موجود ہیں اور قرآن کریم کا دستور یہ ہے، یہ بھی قرآن کریم کا ایک بڑا اعجاز ہے، کہ کوئی مستقبل کی پیشگوئی ایسی نہیں کرتا جس کے ساتھ ایسی پیشگوئیاں وابستہ نہ ہوں جو پوری ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں تاکہ آئندہ کی پیشگوئیوں پر اعتبار آجائے۔ پس ساتھ ساتھ ایسے دلائل پیش کرتا چلاجاتا ہے جو حقیقی اور سب کو دکھائی دینے والے ہیں ۔ جہاں آخرت کا ذکر ہے جنت جہنم کی باتیں ہیں ان سے پہلے ایسی پیشگوئیاں ملتی ہیں جو اس دنیا میں پوری ہوجاتی ہیں، ہوچکی ہیں یا ہو رہی ہیں یا اب ہوں گی آئندہ ۔ اس لئے یہ کہنا کہ ہم قرآن کریم کے معجزات کا احاطہ کرسکتے ہیں ایک جاہلانہ بات ہے۔ قرآن کریم کے معجزات بعض دفعہ ایسے وقت میں دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے پہلے ان کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ بہت سے معجزات جو اس دنیا میں اس وقت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پہلے مفسرین کے ذہن اس طرف گئے ہی نہیں۔ ان آیات کو چھیڑا ہی نہیں گیا۔ اب وہ جہاں Atomic Bomb کا ذکر ہے حطمہ کا ذکر ہے، واضح اور قطعی طور پر اس میںایٹم بم کے سوا کوئی اورمعنے بنتے نہیں۔ لیکن چونکہ قرآن کریم میں خوبی بھی ، یہ بھی اعجاز ہے کہ کئی بطون ہیں اس کے۔ جو اصل معنی ہے وہ نیچے دبا بھی رہے تب بھی سرسری طور پر اس کے دوسرے معانی بیان کئے جاسکتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کلام مہمل ہے۔ پس اسی سورۃکی روحانی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے اور آگ کو ایک روحانی آگ کے طور پر، تمثیل کے طورپر پیش فرمایا ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ دبے ہوئے آئندہ ظاہر ہونے والے معانی اسی طرح موجود ہیں اور اب جبکہ ایٹم بم ایجاد ہوچکا ہے اب اس کو پڑھیں تو کوئی دوسرا لفظی معنی ہو ہی نہیں سکتا۔ لفظی معنی نہیں ہوسکتا دوسرے معانی جو ہیں عارفانہ معانی دوسرے وہ تو تمثیلات میں جاکر آپ جو چاہیں کرلیں اور اگر وہ روحانی دنیا کے نظام سے مطابقت رکھتے ہیں تو پھر وہ درست صحیح معنے قرار دیئے جائیں گے۔ اگرذوقی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں تو ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پس قرآن کریم کے معجزات میں سے جو سابقہ کی میں بحث کررہا تھا بائبل کے اوپر سے جو الزام تراشیوںکو دور فرمایا ہے یہ بہت بڑا اعجاز ہے اور بہت بڑا بائبل پر احسان ہے۔
حضرت ہارون )علیہ السلام( پر بائبل شرک کا الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے بچھڑا بنالیا اورعبادت کروائی ۔ اب یہ ایسی کتاب جو ایک نبی کے اوپر شرک کا الزام لگائے وہ باقی مشرکین کو کیسی کھلی چھٹی دے دیتی ہے۔ لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ ولقد قال لھم ھارون یا قوم انما فتنتم بہ ان ربکم الرحمن فاتبعونی۔ کہ تمہیں آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے ،تمہیں فتنے میں مبتلاء کردیا گیا ہے ، تمہار ارب رحمن ہی ہے۔ پس میری اطاعت کرو۔ میرے پیچھے چلو اور سامری کو چھوڑ و۔ اب قرآن کریم ایک نبی کو اس کے پاک تصور کے مطابق ایسا وجود دکھاتی ہے جو نبی کے پاک تصور سے مطابقت رکھتا ہے۔ نبی کا ایک تصور ہے جو پاک ہے اور پاک ہونا چاہیے۔ اگر وہ پاک نہ رہے تو نبوت کامضمون ہی بیکار اور بے معنی ہوجاتا ہے۔ تمام انبیاء کو اس پاک تصور کے مطابق دکھانے والی کتاب قرآن کریم ہی ہے اور بائبل کی غلطیاں نکالتی ہے۔ بائبل کہتی ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بغل سے ہاتھ نکالا تو برف کی مانند سفید اور مبروص تھا۔ اب یہ بھی کوئی معجزہ ہے؟ برص سے تو ایسا لوگ گھبراتے تھے اس زمانہ میںکہ وہ دُور دُور بھاگتے تھے۔ اس کابرص والا اگردکھائی بھی دے تو سمجھتے تھے آنکھیں منحوس ہوگئی ہیں اور اس معجزے کو بتایا بائبل نے کہ برف کی طرح سفید اور مبروص تھا۔ اب یہ معجزہ ہے یا ڈراوا ہے؟ قرآن فرماتا ہے تخر ج بیضاء من غیر سوئٍ اے موسیٰ تو اپنا ہاتھ نکال سفید شفاف دکھائی دے گا۔ اس میں کوئی بیماری کا شائبہ نہیںہوگا۔ ایسا دکھائی دے گا کہ لوگ اسے پیار کریں گے، دیکھیں گے، اس کی طرف متوجہ ہوں گے اور بیماری کا کوئی سایہ تک اس پر نہیںہوگا۔ اب دیکھیںان دونوں میں سے کون صحیح الہامی کلام معلوم ہوتا ہے او رکون سا انسان کی دستبرد سے بگڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پھر بنی اسرائیل نے رعمسیس سے سکات تک پیدل سفرکیا ۔ یہ خروج باب 12آیت 37-38میں لکھا ہے۔ اور بال بچوں کو چھوڑ کر وہ علاوہ ہیں، کل چھ لاکھ مرد تھے جنہوں نے وہ پار کیا ہے deltaاور پھر اس کے بعد باقی سفر بھی وہاں تک جاری رکھا اور ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی اوربھیڑ بکریاں اور گائے بیل اور بہت چوپائے ان کے ساتھ تھے۔ اب اندازہ کریں۔ چھ لاکھ مرد اور ان کے ساتھ عورتیں اور بچے شامل کرلیں تو وہ عام طور پر ، ہم نے حساب دیکھا ہے ، چھوٹے خاندان، اس زمانے میں تو بچے بہت پیدا ہوا کرتے تھے ۔ مگر پانچ کا فارمولا مناسب ہے۔ تو تیس لاکھ آدمیوں کا قافلہ جس میں بچے بھی شامل تھے ، عورتیں بھی شامل تھیں، وہ روانہ ہوا ہے صبح صبح اور اس کے چلنے کا وقت کیا تھا، کس طرح وہ لائن ڈوری بنی ہے ، کتنا فاصلہ اس کو،کتنا وقت چاہیے اس کو وہ دریا پار کرنے میں۔ اور فرعون وغیرہ کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اتنا بڑا قافلہ روانہ بھی ہوچکا ہے۔ اور حساب لگا کر دیکھ لیں، بالکل ناممکن بات ہے کہ تیس لاکھ افراد ساتھ بھیڑ بکریاں بھی ہیں، مرغیاں اورپرندے بھی ساتھ ہیں، یہ قافلہ اس فرعون کی زد سے بچ کے جاکیسے سکتا تھا ۔ اور اس عرصے میں دریا کیسے پار کرسکتا تھا کہ جب وہ جوار بھاٹے کے نتیجہ میں الگ بھی ہو اور مل بھی جائے۔ تو یہ سب محض ایک مبالغہ آمیزی ہے جس کو بعض مشرقی محققین بھی نظر انداز نہیں کرسکتے اور مانتے ہیں کہ حد سے زیادہ مبالغہ سے کام لیا گیا ہے ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سارے مصر کی میرا خیال ہے اتنی آبادی اس وقت نہیں ہوگی، تیس لاکھ جتنا یہ قافلہ بیان کیا ہے انہوںنے ۔
قرآن کریم فرماتا ہے : الم ترا الی الذین خرجوا من دیارھم و ھم الوف حذر الموت۔ کہ تونے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو اپنے گھروں سے خوف کی وجہ سے نکلے تھے اور چند ہزار تھے۔ الوف معنے ہزار۔ہزار کی جمع۔ چند ہزار تھے اس سے زیادہ نہیں تھے۔ اب چند ہزار کا نکلنا بھی کارِ دار د ہے لیکن عقل تسلیم کرسکتی ہے۔ لیکن لکھوکھہا جو تیس لاکھ تک پہنچ جائیں، یہ تو ناممکن ہے۔ اور وہ سفر اتنا خطرناک تھا یعنی اسوقت ان کا نکلنا وہ خود موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ قرآن کریم کابیان دیکھیں کیسا فصیح و بلیغ ہے ۔ کہتاہے وہ موت کے ڈر سے نکلے تھے۔ فقال لھم اللہ موتوا ۔ توا للہ نے کہا یہ موت قبول کرلو جو ہم تمہیں بتارہے ہیں ۔ اس موت سے نجات پاجائو گے۔ ثم احیاھم۔ پھر اس موت کی آزمائش میں ڈالا اور ان کو زندہ نکال لیا۔ یہ بہت بڑا اعجاز ہے قرآن کریم کا اور یہ الٰہی کلام اس کلام کے مقابل پر دیکھیں تو کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ اپنے نبیوںکو جو داغ داغ کیا ہے بائبل نے ان میں سے بعضوں کو نبی تسلیم نہیںبھی کرتے مگر ایسے ایسے برگزیدہ وجود ضرور مانتے ہیں کہ جن کے ناموں کے ساتھ آج اسرائیل کا تشخص قائم ہے یعنی حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام۔ ان کے اوپر بائبل میں کتابوں کے باب کے باب لکھے گئے ہیں جن میں ان کو ایسا ایسا داغدار کیا ہے کہ اس زمانے کا کوئی سب سے بدبخت بدکار انسان بھی اگراس تعریف کے نیچے آئے تو اس پہ بھی تعجب ہوگا کہ بڑا ہی گندا آدمی تھا۔ لیکن خدا کا رسول خدا سے ہم کلام انسان جو لوگوں کیلئے برکتوں کا موجب تھا، اگررسول نہ بھی کہو تو خدا سے ہم کلام ہونا ان کا تسلیم کرتے ہیں۔ خدا کا ان کو نشان دکھانا، وہ ایسے ایسے ظلموں میں گرفتار کہ بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہات کے باوجود وہ مشرک قوموں کی بیویوں کو اپنا خدا بنالیتے ہیں، ان کے معبودوں کو اپنا خدا بنالیتے ہیں اور اپنی بیویوں کے غلام بن کر دین بیچ بیٹھتے ہیں اور پھرہر قسم کی بدیوں میں مبتلاء ہوتے ہیں اور دوسروں کی بیویاں ہتھیانے کیلئے ان کے خاوندوں کو جو لشکر کے سردار تھے اس نیت سے جنگ میں بھجواتے ہیں کہ وہاں قتل ہوکے آئے اور مقرر کردیتے ہیں آدمی، دیکھ لینا اس بات کے کہ یہ زندہ نہ واپس آئے تاکہ اس کی بیوی میرے ہاتھ آجائے۔ یہ تصورات ہیں بائبل کے اور قرآن کریم کا ذکر دیکھیں کہ ان وجودوں کا جب قرآن کریم ذکر فرماتا ہے تو ان کو ہرقسم کی برائیوں سے ، داغوں سے پاک دکھاتا ہے۔ خداکے فرمانبردار بندے، دن رات تسبیح کرنے والے۔ یہ تو کہتے ہیں مشرک ہوگئے تھے ۔ قرآن کہتا ہے ایسی تسبیح کرتے تھے کہ پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے، پرندے بھی ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر یاد دلاتا ہے کہ ؎
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مد ح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے
تو بعض بندوں کو خد اایسی مدح کی توفیق دیتا ہے کہ حضرت دائود وغیرہ کے متعلق تو آتا ہے کہ زمین کے چرندپرند اور پہاڑ بھی اس مدح میں شامل ہوگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سے بھی بلند تر بات کررہے ہیں۔ یعنی چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام ہیں ان کی مدح کا مقام تو بہر حال عالم بالا تک مقبول ہونا تھا تو آپ یہ کہتے ہیں کہ ؎
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مد ح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے
ایسی مدح کے مضمون کو اس افق تک ہم نے پہنچادیا ہے کہ فرشتے بھی وہاں سے آوازیں لیتے اور اسی مدح میں وہ مگن ہوجاتے ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے عمداً چھوڑ دیا ہے اس کو میں بھی چھوڑ رہاہوں کیونکہ بہت طویل ہوجائے گا۔ قرآن کریم کا عمداً باتوںکو چھوڑنابتاتا ہے کہ وہ باتیں قابل قبول ہی نہیں یا قابل ذکر نہیں۔ اور ایک بھی بات بائبل کی قرآن کریم نے ایسی نہیں چھوڑی جو قابل قبول ہویا قابل ذکر ہو۔ یہ ایک اصول ہے دائمی، قطعی، غیر مبدّل۔ اس کو آپ چسپاںکرکے دیکھ لیں۔ کوئی ایسی بات قرآن کریم بائبل کی نہیںچھوڑتا جس سے مضمون نامکمل رہتا ہو اور کوئی بات اختیار نہیں کرتا جس کی درستی نہ کرلے۔ جس کی تصحیح نہ کرلے اور ایسی باتوں تک محدود ہی نہیں جو صرف بائبل میں بیان ہوں۔ ان میں اضافے کرتاہے اورایسے اضافے کرتاہے جو مضمون کو کامل کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ پس اس پہلو سے وہ سب لوگ جو قرآن کریم پر بائبل کی نقالی کا الزام لگاتے ہیں بالکل ہی لغو بات کررہے ہیں۔ ان کوکوئی تصور بھی نہیں کہ قرآن کریم اور بائبل کے موازنے میں اصل حقیقت کیا ابھرتی ہے۔ تو یہی تین باتیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں۔ تفصیل سے کیونکہ وقت نہیں ہے موازنے کا اس لئے میں اس کو چھوڑتا ہوں۔ اصولاً یادر کھیں ہر بات جو قرآن نے بائبل کی چھوڑی ہے وہ وہ ہے جو چھوڑنے کے لائق تھی۔ ہر بات جو قرآن کریم نے بائبل کی بیان کی ہے اس کو درست کرکے تصحیح کے ساتھ بیان کیا ہے، قابل قبول بنا کر بیان کیاہے۔ اور اس میں بعض ایسے اضافے کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بائبل کی نقالی نہیںبلکہ عالم الغیب خدا کا کلام ہے۔ کیونکہ بائبل کو تو ان باتوںکا پتہ بھی نہیںتھا۔ مثلاً فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ۔ اب بائبل جہاں فرعون کے لشکر کوپیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتی ہے ۔ پھر بائبل کو کچھ پتہ نہیں کہ وہاں کیا ہوا او رقرآن کریم فرعون کے غرق کے واقعہ کو بیان کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس نے دعاکی تھی اس وقت کہ اے خدا مجھے نجات بخش۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا الان؟ اب کوئی وقت ہے نجات کا؟ یعنی روحانی طور پر نجات کا وقت نہیں رہا۔ الیوم ننجیک ببدنک ۔ آج ہم تجھے تیرے بدن کے لحاظ سے نجات بخشیں گے اور کیوں نجات دیں گے اس لئے تاکہ لتکون لمن خلفک ایۃً تاکہ جو بعد میں آنے والے ہیں ان کیلئے تو ایک نشان بن جائے۔ اس نجات کا بھی تو مستحق نہیں ہے اصل میں۔ آنے والی قومیں تجھ سے فیض پائیں ان معنو ں میں کہ تجھے دیکھ کر عبرت حاصل کریں ۔ اس پہلو سے ہم تیرے بدن کو نجات بخشیں گے۔ اب اس میںدیکھیں کتنی عظیم باتیں ہیں ۔ ایک طرف ایک دعویٰ ہے اور اس دعوے کے متعلق بائبل کہہ سکتی تھی کہ یونہی فرضی بات کردی ہے۔ اور دشمنان اسلام قرآن کریم کے نزول کے وقت تو یقینا ایک سخت حملہ کرسکتے تھے کہ اپنی طرف سے باتیں بنارہے ہیں بائبل میں تو ذکر ہی کوئی نہیں کہیں۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ کوکس طرح پتہ چل گیا کہ فرعون سے کیا بات ہوئی تھی۔ اس کا ثبوت میںجیسا کہ بتارہا ہوں ہر پیشگوئی کا، ہر غیب کی بات کا قرآن کریم ایک قطعی ثبوت ساتھ ساتھ پیش کرتا چلا جاتا ہے۔ اس میں ثبوت یہ تھا کہ آئندہ زمانہ گواہ بن جائے گا۔ تم جتنا چاہو شک کرتے چلے جائو مگر جب اس فرعون کی لاش برآمد ہوگی تب تمہیں سمجھ آئے گی کہ قرآن کریم سچی بات کررہا تھا اور اس سارے مکالمے کا بائبل میں اشارۃً بھی ذکرنہیں۔ اور اس زمانہ میں عرب کو تو کوئی تصور بھی نہیںتھا کہ مصر کی تہذیب جو زیر زمین دفن ہوچکی ہے ، کسی زمانے میں کھدائیاں ہوں گی اور اس میں سے وہ چیزیںنکلیں گی اور بادشاہوں کی ممی mummyبنی ہوئی ، لاشیں نکلیں گی۔ اس ضمن میں ایک دفعہ پہلے میں نے خطبے میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ میرے نزدیک ننجیک ببدنک کے دو معنے ممکن ہیں۔
ایک ہے روحانی طورپر ہم تجھے نجات نہیں بخشیں گے لیکن تیرے بدن کومحفوظ کردیں گے۔ ایک معنی ہے جان کے لحاظ سے ہم بدن کو جان سمیت بچالیں گے۔ لیکن روح نہیں بچے گی اورروحانی طور پر تو ہلاک شدہ ہے، تیری زندگی تجھے کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ مگر جب بھی مرے گا تیری لاش محفوظ ہوگی اور آئندہ کیلئے وہ عبرت کا نشان بنے گی۔ جو واقعات تاریخ کے ہمارے سامنے اب تک ظاہر ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ابھی پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے معنے کا ذکر فرمایا ہے کہ جان کے لحاظ سے ہم تجھے نہیں بچائیں گے مگر بدن کے لحاظ سے بچالیں گے۔ اب بعض علماء نے مجھے لکھا، احتجاج کیا کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفانہ معنے کیے ہیں ۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ مسیح موعود علیہ السلام کی تائید وہی ہے جو قرآن کی تائید ہے اور وقت کے لحاظ سے ایک نبی اپنے وقت کی معلومات سے جس حد تک قرآن کی خدمت لے سکتا ہے لیتا ہے یا ایک خدا کا، نبی ضروری نہیں، محدث ہو اور خدا کا بندہ ایسا جو خدمت قرآن پر مامور ہو وہ اپنے وقت کی معلومات کو قرآن کی خدمت پر لگا تا ہے اور یہ معنی کہ تیری جان کو ہم نہیں بچائیں گے بلکہ تیرے بدن کو بچائیں گے قرآن کریم کی آیات کے عمومی بیان اور تاریخ کی ان باتوں کے عین مطابق معلوم ہوتا ہے جو (حضرت) مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںموجود تھیں۔ لیکن بعد میں جو تاریخ unfoldہوئی ہے ، جو واقعات ابھرے ہیں وہ دوسرے معنے کی طرف اشارہ کررہے ہیں اور اگراس کو نظر انداز کردیا جائے تو یہ خطرہ ہے پھر کہ قرآن کو ایک ایسے سچے کلام کے طو رپر نہ لیا جائے گا جس کی یہ پیشگوئی آئندہ زمانوںمیں ثابت ہوجائے اور پھر عبرت کا نشان بنے۔ بلکہ اس واقعہ کو قرآن کی تائید کی بجائے ا س کا مخالف تصور کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ (حضرت) مسیح موعود (علیہ السلام) کا مقصد تو کبھی بھی نہیں ہوا زندگی میں، (حضرت) مسیح موعود (علیہ السلام) تو خدمت قرآن کیلئے مامور تھے اور آپ نے فرمایا کہ جو قرآن کو عزت دے گا اس کو آسمان پر عزت دی جائے گی اور حق بات یہی ہے کہ تمام تر کوششیں قرآن کی خدمت میں خرچ کرو۔
پس (حضرت) مسیح موعود( علیہ السلام) کی روح مسیح موعود ؑ کے مزاج کے مطابق جو قرآن کی خدمت ہے اسے اگر کوئی اپنی کم علمی کی وجہ سے ، نعوذ باللہ من ذالک، مسیح موعود( علیہ السلام) کی مخالفت سمجھتا ہے تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ۔ میں تو قرآن کو عظمت دینے کا جو مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے اور وہی قرآن کی روح ہے، وہی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد تھا اس پہ قائم رہوں گا۔ خدا کی نظر مجھے judgeکرے گی۔ وہ تو درست ہے اور وہ سب کا دلوں کا حال بھی جانتی ہے۔ دنیا کی نظر کی مجھے اس معاملہ میں کوئی پرواہ نہیں ۔ لیکن اس عرصے میں مَیں نے بہت دعا کی اور ابھی بھی کرتاہوں کہ اے اللہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جو تاریخ کی نظر سے مخفی رہی ہو اور وہ معنے پورے کرنے،ماننے میںہمارے ممد ہو کہ جن معنوں سے یہ پتہ چلے کہ اس کی جان نہیں بچی تھی، روح تو بچی نہیں ۔ وہ تو بہرحال، جو میں معنے کرتا ہوں ،وہ تو مسلمہ ہے ہر پہلو سے، کہ روح اس کی ہلاک ہوچکی تھی اور آخری وقت کی توبہ سے اس کی روح بچ نہیں سکتی تھی۔ جان بچی تھی کہ نہیں، یہ معنی اگرثابت ہوجائے تاریخ سے کہ وہ غرق ہوگیا تھا اور پھر mummifyہوا تھا تو ہم تسلیم کریں گے اس کو مگر وہی بات تسلیم کریں گے جوقرآن کے حق میں گواہی دیتی ہے نہ کہ اس کے مخالف ۔ مشکل یہی ہے کہ وہ فرعون جس کو اب تک تاریخ وہ فرعون قرار دے رہی ہے جو فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابل پر اباء ت سے کام لے کر ٹکرایا تھا اور وہ مشہور جو قرآن کریم نے اس کے مجادلے، اس کی کی شرارتیں بیان فرمائی ہیں وہ سب کے علم میں ہیں۔ اس فرعون کا نام محققین کہتے ہیں Ramses II رعمسیس ثانی تھا۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور یہود کے خروج کے بعد، یہ خروج کی بحث چونکہ چل رہی ہے، کتنے تھے، اس ضمن میں مجھے یاد آیا تو میں بتارہا ہوں۔ اس کے بعد بہت مدت تک زند ہ رہا اورنوے سال کی عمر میں اس نے وفات پائی اور اس کی لاش آج تک عبرت کے نشان کے طور پر محفوظ ہے اور اس کی لاش میںکوئی ایسے آثار نہیں جس سے پتہ چلے کہ یہ نوے سال کی عمر میں غرق ہوکرمرا تھا۔ اگر یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ ساٹھ سال کی غلطی کرگئی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ اس وقت پیش آیا ہوگا ۔ لیکن وہ ایک صحیح سلامت انسان کی ، طبعی موت مرنے والے کی لاش ہے۔
اس لیے یہ ہے بڑی مشکل جس کے پیش نظر اگر قرآن کی آیت دوسرے معنے کا امکان پیش کرتی ہو توہمیں اس کو ضرور قبول کرنا چاہیے۔ لیکن اس تاریخ میں کوئی تبدیلی پیدا ہوجائے نئی تحقیق سے تو وہ امکان اپنی جگہ موجود ہے۔ میں چونکہ اس ضمن میں مسلسل تحقیق کررہاہوں اور بعض محققین کو بھی جو میرے مددگار ہیں کہتا رہتا ہوں ، ایک نئی بات میرے سامنے آئی ہے جو ایک نیا گوشہ کھول رہی ہے اور اس میں ابھی اور جستجو کی ضرورت ہے۔ Ramses-IIکے اوپر۔ وہی جو موسیٰ کا فرعون بیان کیا جاتا ہے، اس پر بہت تحقیق ہورہی ہے ابھی تک اور جو چوٹی کا ماہر اس مضمون پہ ہے اس کی ایک کتاب بہت خوبصورت اعلیٰ پائے کی، جلد بڑی سی جیسے نمائش کا لٹریچر ہوتاہے Brochuresبروشرز وغیرہ ہوتے ہیں، اس کی طرز پر اس کی طبع ہوئی ہے۔ اس میں اس نے تصویریں اور اصل حوالہ جات دے کر ایک عجیب بات لکھی ہے۔ وہ کہتا ہے ایک عجیب بات یہ دریافت ہوئی ہے تحقیق کے دوران کہ وہ فرعون جس نے موسیٰ کو پالا تھا یعنی حضرت موسیٰ کو ابتداء میں پناہ دی تھی، اس سے تو موسیٰ کی ٹکر نہیں ہوئی، ٹکر تو ہوئی ہے اسکے بیٹوں سے جب وہ تخت نشین ہوئے۔ کسی ایک بیٹے سے۔ وہ کہتے ہیں جو حیرت انگیز بات دریافت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ اسکا بڑا بیٹا جسے تخت نشین ہونا چاہیے تھا اس کا ذکر نہیں مل رہا اور وہ جو Ramses-IIہے وہ اس کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اور اس بارے میں مصر کی تاریخ بالکل خاموش ہے کہ بڑے بیٹے کا کیاہوا تھااور وہ کہاںغائب ہوگیا اور یہ چھوٹا کیوں تخت نشین ہوا۔ وہ کہتے ہیں اس بات کا ابھی تک تو ہمیں علم نہیں لیکن ایک بات قطعی ہے کہ مصری مؤرخین اس زمانے کے قطعی طور پر ہر اس بات کو چھپالیتے تھے جو شاہانِ مصر کی سبکی کا موجب بنے جو ان کیلئے خفت کا موجب ہو اور صرف وہی باتیںتاریخ میں ریکارڈ کیا کرتے تھے جو ان کی سربلندی کے تذکرے کرتی ہوں۔ اس کے بغیر کوئی چیز مصر کی تاریخ کا حصہ بن نہیں سکتی تھی۔ تو اس فرعون کے ساتھ کوئی بات ہوئی ہے لیکن اگر ہم یہ تصور کریں کہ یہ فرعون کچھ عرصہ کیلئے واقعتا تخت نشین ہوا تھا اورمصر کی تاریخ اس لئے خاموش ہوگئی ہے کہ یہ بڑے ذلیل طریقے پرمارا گیا ۔ تو دوسراپہلو پھر بھی ابھی ایک رہ جائے گاباقی کہ پھر اس کی لاش کہاں گئی۔ اور قرآن کریم تو اس فرعون کی بات کررہا ہے جس کی لاش محفوظ رکھی جانے کی قطعی پیشگوئی ہے۔ تو جب تک اس کی لاش نہ مل جائے اور اس سے مچھلی اور سمندری جانوروں کے کھائے ہوئے نشان نہ نظر آجائیں اس پر یہ پتہ نہ چلے کہ یہ لاش سمندر سے ہی مرنے کے بعد دستیاب ہوئی تھی اس وقت تک یہ تحقیق ابھی نامکمل ہے صرف ایک کھڑکی کھلی ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو کہ ایسا کوئی بیچ کا فرعون آیا ہی نہیں تھا اور اصل ٹکرانے والا وہ تھا جس کا ذکر Ramess-II کے نام پر کیا جاتا ہے تو پھر قرآن کریم کی اس آیت کی یہی تشریح ہمیں کرنی پڑے گی کہ غرقاب تو ہوا لیکن غرق ہونے کے بعد جیسا کہ مفسرین نے بھی لکھا ہے کسی کا زندہ بچنا ممکن ہے اور غرقاب کو نکال کر دوبارہ زندہ کیا جاسکتاہے یعنی انسانی کوششوں کے ذریعے۔ تو پھر یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ وہ فرعون جو Ramses-IIہے جب وہ موسیٰ کا پیچھا کررہا تھا تو جب لہروں نے اس کو غرق کردیا تو اس موقعے پر اس نے یہ دعا کی ہے غرق ہوتے ہوئے کہ اے خدا میں ایمان لاتا ہوں۔ اللہ نے جواب دیا اب؟ اسوقت؟ اب توکوئی وقت نہیں ہے۔ الیوم ہے پھر دیکھ لیں ننجیک ببدنک تو قعی طور پر ہے آج کے دن یا سو۔ اب جو بھی معنی اس میں سے نکلے گا ابھی اصل آپ دیکھیں گے یہ قطعی بات ہے ۔تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری روح کو اب نجات نہیں دوں گا۔ وہ دن گزر گئے۔ موت کے وقت کوئی توبہ قبول نہیں ہوا کرتی۔ ننجیک ببدنک ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے ، بے روح کے بدن۔ یعنی بے دین بدن کوجس میں کوئی روحانی زندگی نہیں۔ یہ معنی میں کرتاہوں۔جس کا امکان موجود ہے۔ اس وعدے کے ساتھ جب وہ غرق ہورہا تھاتبھی تو اس نے دعاکی ہے۔ توغرق توہوناہی تھا اس وقت۔ غرق ہوا ہے لیکن ارد گرداس کے محافظ اس کے بہت سے لشکر ی ساتھ تھے ۔ انہوں نے غوطہ ماراہوگا، اسکو نکالنے کی کوشش کی ہوگی اور ہوسکتا ہے ساحل پر لاکر اس میں دوبارہ زندگی کے آثار پیدا کردیئے ہوں۔ لیکن قرآن سچا نکلا اور وہ جھوٹا نکلا ۔ جب تک بعد میںرہا موسیٰ کامخالف رہا جب تک زندہ رہا منتقم مزاج کے فرعون کے طور پر زندہ رہا کیونکہ یہ عجیب بات ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے بار بار بنی اسرائیلیوں پر یروشلم کی طرف جاکر حملے کئے ہیں اور مؤرخ نہیں سمجھ سکتے کہ کیوںاس کو اتنا طیش آیا ہوا تھا وہ کیوں بار بار حملے کرتا تھا۔ تو جو Scenario میں پیش کررہا ہوں ،جو اندازہ کہ یہ ہوسکتا ہے ہواہو اس کے مطابق یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ وہ چونکہ خود بہت سخت زخم کھایا ہوا تھا، ایسی ذلت اس کو پہنچی تھی کہ فراعین مصر میں اس کی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے اس طیش میں آکر جیسا کہ قرآن نے فرمایا تھا ایمان تو لائے گاہی نہیں نہ تیرا ایمان قبول ہوسکتا ہے۔ ایک مردہ لاش کے طور پر زندہ رہے گا۔ اس طورپر قرآن کے اس بیان کی تصدیق کی ہے اس نے کہ ایمان لانے کی بجائے وہ اور زیادہ انتقام میں اور غیض و غضب میں بڑھ گیا اور بار بار حملے کرتا رہا اسرائیلیوںپر۔ الیوم۔۔۔۔ الیوم ہاں اصل الفاظ ہیں فالیوم ننجیک ببدنک ۔ پس آج اس وقت ہم تجھے تیرے بدن کے ذریعہ نجات دیں گے۔
تو یہ وہ ضمنی ذکر ہے آیت خروج کے تعلق میں کہ وہ جو واقعہ ہے وہ کیا ہوا تھا اورکیسے ہوا تھا اس میں جو بھی حقائق سامنے آئیں اگر قطعی طورپر یہ ثابت ہو کہ رعمسیس ہی وہ تھا تو قرآن کریم کی اس آیت کا وہ معنی لازم ہے جو میں کرتا ہوں۔ کہ غرق ہوا لیکن پھر بدن کے لحاظ سے نجات پاگیا اور زندہ رہا مگر بے ایمان کے طور پر ۔ گویا اس کی روح مرچکی تھی اورپھر کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اگر وہ بات درست ثابت ہو اور اس بات کو الٹادیں اور اور معانی نکالنے کی کوشش کریں تو پھر ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پس یہ بھی ایک معجزہ تھا قرآن کریم کا کہ ایک ڈوبتے ہوئے فرعون کے متعلق یہ بات بیان کی۔ اس وقت بیان کی جب کہ لاشوں کے محفوظ رکھنے کا کوئی نظام قائم نہیں تھا اور یہ اعلان کیا کہ آئندہ زمانے میں وہ عبرت کے نشان کے طور پر دستیاب ہوگا اور اس کی لاش کی نمائش ہوگی اور یہ وہ ساری باتیں ہیںجو اس زمانہ میں ہمارے سامنے پوری ہوچکی ہیں اور اگر وہ فرعون کا بچہ جو گم گیا ہے وہی نکلا تو پھر جب اس کی لاش نکلے گی تو پھر ہم پرانے معنے کی طرف واپس آکر پھراس کی نمائش دکھائیں گے آپ کو۔ قرآن کریم کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ دکھایا ہی نہیں، ہر دفعہ انکار کرتا رہا۔ قرآن کریم نے ایک عجیب دلچسپ انداز اختیار کیا ہے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ معجزہ وہ لوگ محسوس کرتے تھے جہاں جہاں پرانے انبیاء کے معجزے بیان فرمائے ہیں وہاں قرآن کریم نے ردّ عمل کو اس طرح دکھایا ہے کہ وہ کہتے تھے یہ تو جادو ہے،یہ تو جادو گر ہے۔ پس وہ بات جس کی سمجھ نہ آئے جو عقلوں کو مائوف کردے اس کوجادو کہا جاتا ہے۔ پس کفار مکہ کو کیا ہوگیا تھا کہ وہ دیکھتے تو کچھ نہیں تھے مگر جادوگر قرار دیتے تھے۔ پس قرآن کریم نے اس کثرت سے کفار مکہ کے اس طرز عمل کو بیان فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی بات ہوتی تھی وہ کہتے تھے یہ توجادوگر ہے اور یہی باتیں مشہور کرتے تھے۔ اب چند مثالیں میں آپ کو بتاتا ہوں۔ اب اگر کچھ ہو نہیں رہا تھا تو جادوگر کیوں کہتے تھے؟ اگر ہر دفعہ انکار کر بیٹھتے تھے رسول اللہ ﷺ کوئی مافوق البشر مافوق العادۃ چیز آپ دکھاتے ہی نہیں تھے تو وہ پاگل کے بچے تھے جو کہتے تھے جادو جادو جادو۔ جادو کس بات کا ہوا پھر۔ پھر تو کوئی جادو نہیں تھا۔ اب دیکھیں۔واذا رَاَوا ایۃ یستسخرون و قالوا ان ھذا الا سحر مبین۔ وہ کہتے ہیں قرآن کریم دعویٰ ہی نہیںکرتا کہ معجزہ دکھایا ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے جب بھی کوئی نشان دکھایا جاتا ہے وہ تمسخر سے کام لیتے ہیں جیسا کہ ہمیشہ انبیاء کے معجزات پر ایسا کیا گیا لیکن یہ مانتے تھے ان ھذا الا سحر مبین۔ یہ تو کھلا کھلاجادو ہے۔ یہ ناممکن بات ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں یا ہماری آنکھیں غلط دیکھ رہی ہیں یا اس نے کوئی اور چالاکی کی ہے مگر معجزہ نہیں جادو ہے۔تومعجزہ ہوتا تھا تو جادو کہتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سارے معجزوں کو بھی جادو ہی قرار دیا گیا ہے۔ پھر فرماتا ہے: ولما جاء ھم الحق قالوا ھذا سحر وانا بہٖ کافرون۔ تو جب ان کے پاس حق آگیا محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اسے جادو سمجھتے ہیں اورجادو کے ہم منکر ہیں ، جادو پر ایمان لانے والے نہیں۔ پس پہلے معجزے کو جادو قرار دیتے تھے پھر انکار کرتے تھے اور یہ بعینہٖ وہی طریق ہے جو سنت انبیاء میں اور ان کے مخالفین کی سنت میں ہمیں دکھائی دیتا ہے۔واذا تتلٰی علیھم ایتنا بینا تٍ قال الذین کفروا للحق لما جاء ھم ھذا سحر مبین۔ فرمایا جب ان پرکھلے کھلے نشان ان کے سامنے بیان کئے جاتے ہیں جو روشن نشان ہیں۔ آیت معجزہ ہی ہوتی ہے ۔ پھرایسا روشن معجزہ جس کا انکار ممکن نہ ہو۔ قال الذین کفروا للحق وہ لوگ جنہوں نے حق کا انکارکیا لما جاء ھم جبکہ ان کے پاس آچکا تھا۔ یعنی معجزہ ان کے اوپر ظاہر ہوچکا تھا۔ ھذا سحر مبین یہ تو کھلا کھلا جادو ہے۔
پس قرآن کریم کا بار بار یہ دعویٰ کرنا کہ مخالفین سحر کہتے تھے۔ کس چیز کو سحر کہتے تھے؟ یہ سوال ہے؟ ایک عام انسان روز مرہ کی بے طاقتی کی زندگی بسر کررہا ہو اس کے اوپر تو سحر کا الزام لگایا ہی نہیں جاسکتا ۔لیکن آغاز ہی سے ان لوگوں نے کفار مکہ نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق ساحر کا الزام لگایا ہے اور اسے مشہور کیا ہے اور لوگوں میں ساحر کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پس معجزہ دیکھتے تھے اور اس سے برعکس فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔ کہتے تھے دیکھو یہ تو ساحروں والی بات ہے عام آدمی کاکام نہیں ہے۔ اور عرب عوام الناس جادوگروں سے ڈرا کرتے تھے توان کو کہہ دیا کرتے تھے کہ اس شخص کے قریب بھی نہ جانا کیونکہ یہ جادوگرہے۔ اب یہ مسلم بات ہے کہ قرآن کریم نے اپنے وقت کی جو روایات بیان کی ہیں۔ وقت میں ہونے والے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ مستشرقین بعض ان میں سے معاندین تک بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ جو بات اپنے زمانے کی قرآن کریم بیان کررہا ہے وہ ضرور اسی طرح ہوگی ورنہ مخالفین تو پھر اور زیادہ بھڑک اٹھتے اور کہتے دیکھو جھوٹا اور ایسا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔ کسی دشمن کی طرف سے یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قرآن کریم حاضر زمانے کی یہ باتیں کرتا ہے جو جھوٹی ہیں اور پھر مومن جو ایمان لائے تھے وہ واپس چلے جاتے اور وہ سب مرتد ہوجاتے کہ ایک طرف تو سچ سچ کی بات ہورہی ہے دوسری طرف جھوٹ جھوٹ بکھیرا جارہا ہے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس قسم کے بعض معجزات جن کا ذکر عمومی میں نے پہلے کیا ہے کہ وہ دیکھتے تھے ، تسلیم کرتے تھے مگر معجزہ کی بجائے سحر کہہ کر اس سے منکر ہوجایا کرتے تھے۔ اس کے ہونے سے نہیں، اس کے نتیجے سے۔ کہتے تھے یہ ہے تو سہی کچھ لیکن خدا کی طرف سے نہیں ایک جادوگر کا کھیل ہے۔ ایک بڑا معجزہ شقِّ قمر کا معجزہ ہے۔ اقتربت الساعۃ وانشق القمر و ان یروا ایۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔ دیکھو قیامت یا انقلاب کی گھڑی قریب آگئی۔ وانشق القمر اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔ و ان یرو اایۃ ان کا حال یہ ہے جب بھی کوئی نشان دیکھتے ہیں یعرضوا اعراض کرلیتے ہیں، پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔ ویقولوا سحر مستمر اور کہتے ہیں جادو ہی جادو جو چلتا ہی چلاجارہا ہے۔ یعنی ایک جادو کی بات نہیں کرتے۔ وہ گواہ ہیں اس بات پر کہ روز مرہ محمد رسول اللہ ﷺ سے معجزے رونما ہورہے ہیں۔ مستمر اس جادو کو کہتے ہیں جو پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا مستقل چلا جارہا ہے۔ اور یہ بیوقوف لوگ کہتے ہیں وہ مطالبہ کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کہتے تھے کوئی معجزہ دکھا ہی نہیں سکتا میں۔ ایک بھی نہیں دکھائوں گا۔ یہ آیتیں نہیں پڑھیں ان لوگوںنے ۔ اس زمانے کے دشمنوں کی گواہی اس زمانے کے دشمنوں کی گواہی سے زیادہ قابل توقیر ہے کیونکہ وہ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اگر وہ چاہتے تو دشمنی میں غلط گواہی دیتے، خلاف گواہی دیتے۔ مگر اصل اس زمانے کے لوگ محمد رسول اللہ ﷺ کے اعجاز کی گواہی دینے پر مجبور ہیں خواہ اس کا نتیجہ صحیح نکالیں یا نہ نکالیں۔ اور مستمرکا لفظ تو حیرت انگیز ہے۔ یہ نہیں کہا کہ پہلی دفعہ ہوا ہے کوئی بات نہیں۔ کہتے ہیں یہ تو ایسا جادو ہے جو پہلے سے ہی چلا آرہا ہے۔ یہ بھی اس کا ایک حصہ ہے اور اس کے اوپر بعض مستشرقین نے اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی کچھ پیش نہیں جاسکتی کیونکہ جو واقعہ ہے وہ یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہورہی تھی تو آنحضرت ﷺ نے چاند تھا باہر تھے انگلی اٹھائی چاند کی طرف تو عین اس وقت جب آیت کا نزول ہوا اور انگلی اٹھ رہی تھی لوگوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا اور اس واقعہ پر مشرکین نے یا اس زمانے کے مخالفین نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ جھوٹ ہے۔ یہ ہے اصل بات اور اس گواہی کو قرآن نے محفوظ رکھا جو رسول اللہ ﷺ کے وصال تک اسی طرح پڑھی جاتی تھی۔ یہ جو آیت ہے یہ آغاز کی ہے۔ کس سن ہجری ۔ نہ نبوی۔۔۔ نکالیں۔جہاں تک مجھے یاد ہے یہ دورِ نبوت کی آیت ہے۔ ابھی میںآپ کو بتادیتا ہوں۔ ہجری کی۔ ہجری کی ہے؟ پانچ نبوی کی ہے یہ آیت۔ یعنی دعویٔ رسالت کے پانچ سال بعد یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس وقت تک اس کثرت سے معجزے دکھاچکے تھے آنحضور ﷺ کہ اس زمانے کے لوگ کہہ رہے تھے سحر مستمر اور اس کے بعداٹھارہ سال تک آنحضرت ﷺ ان لوگوں میں رہے اور ان میں کثرت سے کفار مومنین میں تبدیل ہوتے رہے اور ایک دفعہ بھی آخر وقت تک اس آیت پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ ہم میں سے تو کسی نے نہیں کہا تھا سحر مستمر۔ ہم تو یہ کہتے تھے کہ واقعہ ہی جھوٹ ہے۔
پس اتنا کھلا کھلا عظیم الشان معجزہ جو آسمان پر چاند پھٹنے کی صورت میںظاہر ہوا ہواور ایک دنیا سارا زمانہ گواہ بن چکا ہو اس پر یہ دعویٰ کہ وہ سحر مستمر کہتے تھے ایک اور پہلو سے بہت اہم ہے قابل توجہ کیونکہ کوئی دشمن اب یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت لوگ سوئے ہوئے ہوں گے اور کس نے دیکھا۔ کہتے ہیں جنگل میںمور ناچاپر کس نے دیکھا۔ تو کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے ۔۔۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ رات کی بات بیان کردی کیا پتہ کیا ہوا تھا۔ سحر مستمرنے قطعی گواہی دے دی کہ کثرت سے لوگوں نے دیکھا ہے اور اسے جادو قرار دیا ہے۔ اب اس دلیل کو توڑ کر دکھائیں جو مرضی کریں سر پٹکیں دیواروں سے یہ قطعی دلیل آپ کے ایسے معجزے کی جس پہ انسان کی دسترس نہیں ہوسکتی قرآن کریم میںموجود ہے۔ اس کی عبارت پر غور کریں تو حیرت انگیز نشانات اس میں مضمر ہیں اور پھر ہندوستان میں اسی زمانے میںہندوئوں کی جو تاریخ ہے وہ بناتی ہے کہ چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا گیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور بھی گواہیاں اکٹھی کی ہیں۔کیسے ہوا ہمیں اسکا علم نہیں۔ اس ضمن میں مختلف توجیہات پیش کی جاتی ہیں مگر اس کے ہونے پر شک نہیںہے۔اگریہ کوئی کہے کہ تم اس کی ایسی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں پیش کرسکتے جس کو آج کی سائنس کی دنیا قبول کرلے اس لئے یہ نہیں ہوا ہوگا یہ نہایت غیر سائنسی استدلال ہے۔ سائنس مشاہدے کو اوّلیت دیتی ہے اور نظریات کو اس کے تابع کرتی ہے اگر کوئی مشاہدہ قطعی ہو اور نظریہ اس کی تائید میں کوئی بن نہ سکے تو سائنسدان کہتے ہیں ہمیںاب تک اس کی تشریح معلوم نہیں۔ ہم اس کی تشریح کرنے سے عاجز ہیں۔ مگر واقعہ یہی ہے۔ پس یہ ان معجزات میں سے ہے جن کی توجیہہ پیش کرنا مسلمانوں پر فرض نہیں ہے کیونکہ واقعہ کی حقیقت اپنی ذات میں تشریح سے بے نیاز مسلم اور قائم ہے۔ ہاں مسلمانوں کا فرض ان معنوں میں ضرور ہے کہ قرآن کی تائید میں جہاں تک ہو کھوج لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی سائنسی تشریحات ایسی مل جائیں جو ان لوگوں کے دلوں کو بھی مطمئن کرسکیں۔ اس پہلو سے جہاں تک میں نے غور کیا ہے میرے نزدیک ایک امکان ایسا دکھائی دیتا ہے جس سے وہ جو معلوم سائنس کے حقائق ہیں ان کو غلط کہے بغیر اس قسم کا واقعہ زمین پر دیکھا گیا ہو۔ چاند پر کثرت سے meteorsبرستے ہیں۔ یعنی اس پر چیچک کے داغوں کی طرح نشان پڑے ہوئے ہیں۔ اور یہ سائنسدان تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں ایک dustسی ہے اوپر۔ جب بھی meteor گرتا ہے تو وہ dustاٹھتی ہے۔ اگر کوئی بہت بڑا meteorگرے تو عین ممکن ہے کہ ساری سطح کے بیچ میںجہاں وہ meteorگرا تھا وہاں سے گرد کا بادل ایسااٹھا ہوا ہو کہ زمین سے دیکھنے والا اس کو چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھتا ہو۔ اور وہ چونکہ بہت ہی تیز رفتاری سے ہونے والا واقعہ ہے ایک دم گرد اٹھی ہے اور وہ گرد ہے ہلکی پھلکی سی وہ زمین کی گرد کی طرح denseنہیںہے۔ تو وہ اٹھی ہو اور پھر پھیل گئی ہو۔ چاند یوں لگے جیسے دو ٹکڑے ہوا ہے اور پھر مبہم سی اس کی شکل دوبارہ ایک ہوتی ہوئی دکھائی دے۔ یہ جو تصور ہے یہ سائنسی لحاظ سے ناممکن نہیں ہے کیونکہ زمین پر بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں ۔ وہ meteor جس کو بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا dinosaurs کی اچانک ہلاکت کا موجب بنا تھا اس meteor کایہی نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ اتنا بڑا تھا کہ سمند رمیں جب وہ گرا ہے تو سمند ر سے بہت بڑا طوفان شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا ایسا اٹھا ہے جس نے غبارات کو آسمان پہ بلند کیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو تبدیلیان واقع ہوئیں وہ dinosaurs کی موت کا موجب بنیں۔ یہ واقعہ آناً فاناً لگتا ہے مگر ہوسکتا ہے ایک لاکھ سال تک پھیلا رہا ہو۔ مگر سائنس کے حساب میں اتنے لمبے زمانے زیر بحث ہیں کہ اس کو آناً فاناً ہی کہتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے dinosaurغائب ہوگئے۔
پس یہ جو dinosaurکی ہلاکت کی تشریح ہے اس میں اگر meteor سمندر میں گر کر اس طرح کی کیفیت پیدا کرسکتا ہے کہ شمال سے جنوب تک ایک لائن بن جائے غبارات کی جو اٹھے ۔ جب تک وہ پھیلے گی وہ وقت لگے گا لیکن جو چاند کی dustہے ہلکی پھلکی اس کے فوری منتشر ہوجانے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ یہ ایک توجیہہ ہے مگر توجیہہ ہے ۔ نہیں کسی کو قبول کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ گواہی اپنی جگہ پکی ہے پھر بھی۔ کوئی توجیہہ پیش کرسکے یا نہ کرسکے اس میں شک نہیںکہ اقتربت الساعۃ وانشق القمر و ان یروا ایۃ یعرضوا و یقولو سحر مستمر۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے جب انگلی اٹھائی ہے۔ مضمر ہے اس میں، ذکر نہیں ہے۔ انقلابی گھڑی آگئی ہے کیونکہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اورجب بھی یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ یہ تو مسلسل چلتا رہنے والا جادو ہے جو آغازِ نبوت سے چلا تھا تب پانچ سال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مستمر ہے۔بعدمیں آنے والا جادو کوئی نہیں ہے۔ اس آیت تک پہنچتے ہوئے ایک سلسلہ تھا معجزات کا جس نے کفار کو یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ یہ سحر کا ایک جاری سلسلہ ہے۔ اب پیشگوئیوں کے تعلق میں غلبت الروم کی جو پیشگوئی ہے وہ حیرت انگیز اعجاز ہے قرآن کریم کا۔ اس کاسن کون سا ہے؟ نکالیں۔ یہ ہجرت کے آغاز میں ہی ہوا ہوگا میرے خیال میں۔ سورۃ روم ۔۔۔۔ مل گئی؟ مکہ کی؟ سب اسی پہ یہی کہتے ہیں مکی ہے؟ کیوں؟ اور؟ یہ اس سے بھی پہلے کا ہے۔ یہ اور بھی زیادہ شاندار بات بنتی ہے۔ اس معجزے کی شوکت زیادہ بڑھ کر روشن ہوتی ہے۔ میرا یہ خیال تھا کہ ہجرت کے معاً بعد ہوگی اس لئے کہ اس آیت سے تعلق میں صحابہ یہ بحثیں کیا کرتے تھے کہ ہماری واپسی کب ہوگی۔ لیکن یہ واپسی کی خبر ہجرت سے بھی پہلے دے دی گئی تھی۔ یہ اکثر مفسرین کا یہ تحقیق شدہ تصور ہے۔ یعنی تحقیق کے بعد اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ یہ چھٹے سال نبوت میں نازل ہوئی ہے۔ اس کے بعد سات سال تک نبوت کے رہے ہیں اور اس کے ۔۔۔۔ تو وہی بات جو میرے ذہن میںخلفشار پیدا کرتی ہے وہ ابھی بھی ہے۔ اس کی مزید تحقیق کروائیں۔ کیونکہ اس کے بعد صرف دو سال باقی تھے روم کے غلبے کے ہجرت کے بعد، تو کیا ان دو سالوں میں یہ گفتگوہوئی تھی؟ یہ بحث مزید تحقیق کی محتاج ہے مطلب یہ ہے اب۔ میں اس کا ترجمہ پڑھتا ہوں۔( سورۃ روم آیت 3تا7) یہ آیات ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہیں ۔ کتنا پہلے یہ ابھی زیر بحث ہے۔ تحقیق کریں گے آپ کو بعد میں بتائیں گے۔ لیکن یہ خیال ہے کہ چھٹے یا ساتویں سال نبوت میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ پیشگوئی یہ تھیغلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون۔روم کو یعنی اہل روم جو اہل کتاب تھے ان کو مشرکین کے ہاتھوں شکست ہوئی ۔ جو فارس یعنی ایرانی حکومت سے تعلق رکھتے تھے وہ مشرکین تھے، آتش پرست تھے۔ تو یہ جو واقعہ ہوا ہے اس پر معلوم ہوتا ہے کہ جو آتش پرست اور مشرکین مکہ تھے انہوں نے بہت بغلیں بجائیں ہوں گی۔ کہ دیکھو یہ نشان ہمارے حق میں ظاہر ہوگیا ہے تم لوگ مارے جائو گے تمہارا دین اہل کتاب سے ملتا جلتا ہے اور شرک کو اتنا نمایاں غلبہ اہل کتاب پر ہوگیا ہے۔ اس لئے یہ ہماری تائید کی ایک بات ہے۔اس قسم کی باتیں ہونا کوئی غیر طبعی بات نہیں اچنبھی بات نہیں۔ ضرور ہوئی ہوں گی۔ مگر قطع نظر اس کے ہوئی ہیں کہ نہیں قرآن کریم اس واقعہ کو اہمیت دیتا ہے۔ فرماتا ہے ٹھیک ہے روم کو۔۔۔ روم مغلوب ہوگیا ہے فی ادنی الارض کچھ زمین میں کچھ علاقوںمیں مشرکین کا ان کے علاقوں پر قبضہ ہوگیا ہے۔ وھم من بعد غلبھم سیغلبون اور یہ پیشگوئی ہے کہ اس مغلوبیت کے بعد وہ ضرور غالب آئیں گے۔ کتنی عظیم الشان پیشگوئی کہ ایک دوسری سلطنت کا ٹکرائو۔۔۔ایک دوسری سلطنت سے جو عرب سے باہر کی ہوں دونوں اور اس میں ان کو شکست ہوتی ہے اور کتنی قطعی پیشگوئی ہے کہ وہ ضرور غالب آئیں گے۔ فی بضع سنین چند سالوں کے اندر اندر ۔ یہ بھی نہیں کہ لمبا لیکھا ہے کوئی۔ چند سالوں میں لازماً غالب آئیں گے اور بضع کہتے ہیں تین سے لے کر نو سال تک ۔ جس کا مطلب ہے کہ تین سال سے پہلے غلبہ نہیں ہوگا۔ اور نو سال سے پہلے پہلے لازماً رومی حکومت اپنا چھینا ہوا علاقہ واپس لے لے گی۔ یہ جو پیشگوئی ہے اس کا صرف ان سے تعلق نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے بھی تعلق ہے۔ صرف یہ نہیں کہ جواب ہے ان کو کہ ہاں ہم غالب آجائیں گے اہل کتاب بلکہ یہ ہے و یومئذٍ یفرح المومنون۔ جب یہ نشان دیکھیں گے تو مومن بہت خوش ہوں گے۔ کیونکہ دراصل ان کواس میں یہ خبر دکھائی دے گی کہ ہمارا چھینا ہوا علاقہ ، ہمارا وطن بھی ہمیں ضرور واپس ملے گا ورنہ خداتعالیٰ کو ان باہر کی دو قوموں سے کیا غرض تھی۔ محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں یہ ایک نشان ظاہر ہوگا اور جب یہ سچا ثابت ہوگا تو قطعی طور پر ہمیں تسلی ہوجائے گی کہ ہم سے جو چیز ہتھیائی گئی ہے اس سے بھی ہمیں بھی اس پر دوبارہ غلبہ نصیب ہوگا۔ یہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم اسی طرح آگے بڑھاتا ہے ۔ بنصر اللہ ینصر من یشاء یہ اللہ کی نصرت کے ساتھ ہوگا۔یعنی مومنوں کی جو خوشی ہے وہ سچی ثابت ہوگی۔ جس کو چاہتا ہے اس کو نصرت عطا فرماتا ہے۔ وھو العزیز الرحیم۔ وعد اللہ لا یخلف اللہ یہ وعدہ رومیوں سے تو نہیں تھا۔ یہ وعدہ مسلمانوں سے وعدہ ہے۔ کہتا ہے ایسا قطعی وعدہ ہے کہ اس کو خداتعالیٰ کبھی بھی نظر انداز نہیں فرمائے گا ضرور پورا کردے گا۔ ولکن اکثرالناس لا یعلمون اور اکثر لوگ ایسے ہیں جن کو پتہ ہی کچھ ۔۔۔۔ ان کو پتہ ہی نہیں یہ باتیں کیا ہورہی ہیں۔
پس اگر یہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی جیسا کہ اکثر علماء کا بیان ہے تو واقعتااس وقت کچھ سمجھ نہیں آسکتی تھی یہ کیا باتیں ہورہی ہیں۔ جب ہجرت ہوگئی تو پھر ہمیں معلوم ہے کہ صحابہ کے درمیان یہ بحثیںشروع ہوگئیں کہ اب ہم ضرور جلد واپس چلے جائیں گے۔ میں جو کہتاہوں دو سال کا عرصہ اس سے کم مجھے دکھائی دیتا ہے بحثوں کیلئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسی سے بحث مذکور ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اب ہم لازماً اب جلد فلاں وقت تک جانے والے ہیں۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے جہاں تک مجھے یاد ہے حدیث نکلوالیجئے جومجھ یاد ہے کہ آنحضورﷺنے منع فرمایا کہ تم اس سال یا اگلے سال کا دعویٰ نہ کرو کیونکہ قرآن کریم نے بضع سنین کا ذکر فرمایا ہے۔ اس لیے بضع سنین کے اندر یہ ہونا ہے جب تک نو سال باقی ہیں اس وقت تک یہ واقعہ ٹل سکتا ہے لیکن نو سے باہر نہیں جاسکتا۔ تو بضع سنین کا جو واقعہ ہے یہ پہلے ہونا تھا ہجرت سے واپسی اس کے بعد ہونی تھی۔ مگر اصل حدیث کے حوالے سے پھر اس کو اورکھول دیں گے انشاء اللہ۔ تو یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے، بہت پہلے بیان ہوئی ۔ ہجرت کی پیشگوئی بھی اس میں شامل باہر کے واقعات باہر کی سلطنتوں میں ہونے والے واقعات قطعیت کے ساتھ ان کا بیان کہ یہ ہوگا اور ہوکر رہے گا۔ اور پھر ہجرت سے واپسی ہوگی۔ یہ سارے ایسے عظیم الشان معجزے ہیں جن کی مثال نہیںکوئی دکھا سکتا دوسری الٰہی کتب میں کہ اس قطعیت کے ساتھ وعدے ہوں اور پھر پورے ہوں۔ یہ بائبل کی بات کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا وعدہ تھا؟ چالیس سال میں واپس پہنچ جائیں گے۔ پہنچے تھے؟ چالیس سال اور بڑھاد یئے گئے۔ کہاںوہ وعدے جو نسبتاً ادنیٰ مرتبے کے انبیائ۔ بہت عظیم الشان تھے مگر رسول اللہﷺ کے مقابل پر وہ چھوٹے مرتبے کے انبیاء تھے۔ ان کی قوم نے بھی ان سے بیوفائیاں کیں۔ ان کا قصور نہیں تھا ۔ مگر ان کے واپسی کے وعدے ٹل گئے۔ یہاں تک کہ بڑے ہی دردناک انداز میں بائبل میں ذکرملتا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ان کی قوم اسی سال تک صحرائوں میں دھکے کھاتے پھرتے رہے، بے یارو مددگار اور آخر جاکر پھر اسّی سال کے بعدجب پوری ایک نسل گزر چکی ہے جو نکلے تھے انہوں نے آنکھوں سے کچھ دیکھا بھی نہیں بیچاروں نے۔ اکثر ان میں رستوں میں دھکے کھاتے ہوئے مرگئے۔ بعد کی ایک نسل پیدا ہوئی ہے جس نے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھا مگر ایسی حالت میں کہ بہت جلد خود بھی وہ بدکردار ہوگئے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا یہ اعجاز عظیم الشان ہے کوئی نسبت ہی نہیں اس سے کہ لازماً نو سال کے اندر یہ واقعہ ہوکر رہے گا۔ لا زماً تم لوگ پھر اس کے بعد خوشیوں کی خبر پائو گے۔ تمہاری مدد کی جائے گی۔ تم واپس جائو گے اور رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں دیکھتے دیکھتے سب کی موجودگی میں۔ جونکلے تھے چند ہی تھے جوان میں سے شہید ہوئے یا وفات پاگئے۔ ساری نسل نے بالعموم اس معجزے کو پورا ہوتے دیکھا ہے۔ یہ صاحب کہتے ہیں کوئی معجزہ ہی نہیں دکھایاقرآن کریم نے۔ اب دکھائے کیسے کوئی ان کا۔ اصل میںیہ تائید کررہے ہیں قرآن کریم کی مزید۔انھا اذا جاء ت لا یومنون ساتھ یہ بھی قرآن نے فرمایا تھا کہ تمہیں سمجھائیں کیسے کہ تم لوگ ضرور انکار کرو گے۔ تو آج بھی انکار پر مصر ہوکر یہ قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ایک اور دلیل پیش کررہے ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کا معجزہ۔ سورۃ المائدہ میں یہ آیت ہے(آیت نمبر68) لیکن صرف اسی آیت پر بنا نہیں۔ قرآن کریم میں متفرق آیات میں یہ مضمون کہیں واضح طور پر کہیں اشارۃً ملتا ہے کہ اللہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے۔ اللہ ان کامحافظ ہے۔ ان کوکوئی گزند دشمن سے ایسی نہیں پہنچ سکے گی جو آپ کے قتل پر منتج ہو اور اللہ تعالیٰ ہر بڑی آزمائش اورفتنے سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ آغازِ نبوت سے سلسلہ جاری ہے۔ اکیلے جب پھرتے تھے ان سب میں ہر کس و ناکس کے اختیار میں تھا کہ آپ پر حملہ کردے۔ لیکن آنکھوں سے غیض برستا تھا۔ قرآن کریم بیان فرماتا ہے لیکن بے بس تھے اللہ کی کسی طاقت نے ان کوروک رکھا تھا۔ یہاں تک کہ تیرہ سال کے عرصے کے صبر کے بعد ان کے صبر کا پیمانہ اس طرح ٹوٹا۔ صبر ان معنوں میں نہیں کہ انہوں نے تکلیف نہیں پہنچائی۔ مگر رسول اللہ ﷺ کے قتل کا منصوبہ نہیں بناسکے۔ اس پر خدا نے ان کو بے بس اور بے اختیار کر رکھا تھا۔جب تیرہ سال کے بعد وہ منصوبہ بنایا تو ایسی کمزوری کی حالت تھی کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ تین تھے جن پر بنا تھی اس ہجرت کی۔ اور بنا تو رسول اللہ ﷺ کی ذات پر ہی تھی مگر یہ دو مددگار تھے۔ ان میں سے بھی ایک کو آگے بھجوادیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو۔ ہراول دستے کے طور پر تیاری کیلئے سامان ضروری سواری لے کر وہ باہر نکل جائیں، وہ نکلے ہیں تب بھی کسی کو شک نہیں پڑا کہ کہاں جارہے ہیں، کیوں نکل رہے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مزید وقت لینے کی خاطر اپنے بستر پر لٹادیا تاکہ دیکھنے والے جھانک رہے تھے اس وقت۔ چاروں طرف سے گھیرا تھا اور جھانکنے والے جھانک رہے تھے۔ اسی لئے وہ بستر کے اوپر حضرت علی کو لٹایا۔ معلوم ہوتا ہے صاف دکھائی دے رہا تھا ۔وہ کمرا اس قسم کا تھا یا کھلے صحن میں سونے کا وقت ہوگا وہ زمانہ۔ مگر بہرحال یہ قطعی بات ہے کہ دیکھا جاسکتا تھا اور اس یقین پر لٹایا ہے کہ علی کو گزند نہیں پہنچے گی۔ ورنہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور فطرت کے خلاف بات تھی کہ جان بوجھ کر یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ شخص ماراجائے گا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ لٹادیتے۔ یہ قطعی بات تھی کہ آپ کی حفاظت کا آپ کو یقین تھا اور اس لیے بھی کہ ابو طالب کے بیٹے تھے اور دشمنی رسول اللہ ﷺ سے تھی ابو طالب یا اس کی اولاد سے نہیں تھی اور بڑی طاقتور اولاد موجود تھی۔ علی کو بچانے کیلئے اگر کوئی دشمن بری آنکھ سے دیکھتا۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہاں رہنا کوئی جس طرح شیعہ پیش کرتے ہیں کوئی ویسا معاملہ نہیں ہے کہ بہت بڑا خطرناک واقعہ تھا جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بچ نہیں سکتے تھے پھر بھی لیٹ گئے۔ بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے پرواہ بھی نہیں کی اس بات کی کہ علی ان کی جگہ لیٹا تھا۔ کسی نے نہ پوچھا نہ کوئی تکلیف دی، نہ کوئی گالی دی نہ کوئی تنگ کیا۔
تو رسول اللہ ﷺ کی فراست کا فیصلہ بالکل درست تھا کہ اس شخص کو کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن سمجھیں گے یہ کہ میں لیٹا ہوا ہوں ۔ کیونکہ وہ لیٹنے کی جگہ رسول اکرم ﷺ کی خاص تھی۔اور اس کے بعد اکیلے بے بھیس بدلے ان لوگوں کے گھیرے میں سے آرام سے نکل جاتے ہیں اور وہ آنکھیں ساری اندھی ہوجاتی ہیں ان کوکچھ نہیں پتہ کہ کون نکل رہا ہے۔ البتہ ہر وقت یہ نظر تھی کہ اس بستر پر جو شخص لیٹا ہوا ہے یہ نہ اٹھنے پائے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ ا ب اس کو کہتے ہیں یہ معجزہ نہیں تو اور کیا چیز ہے یہ۔ اعجاز بھی ایسا عظیم الشان جو رسول اللہ ﷺ کے توکل کا اعجاز بھی ہے۔کامل یقین تھا کہ کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ غیر مجھے پکڑ سکے وہ خدا کاوعدہ ہے۔ اورپھر آرام سے اس گھیرے میں سے نکل کر اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ صبح جب ہوتی ہے بستر سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھتے ہیں تب دشمن کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کیا واقعہ ہوگیا ہے۔ پھر وہ مارا مارافرا تفری میںنکلتے ہیں پیروی کرنے کیلئے اور کھوجیوں کو ساتھ لے لیتے ہیں ۔ وہ غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ جاتے ہیں اور وہاں کھوجی جاکے کہتا ہے کہ میرا علم بتارہا ہے کہ لازماً یہ اس جگہ داخل ہواہوا ہے۔ جس کی آپ کو تلاش ہے وہ یہاں اندربیٹھا ہوا ہے اور رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سن رہے تھے ان کی آواز سن رہے تھے۔ لیکن بچایا بھی کس ذریعے سے اللہ کی شان دیکھیں کہ ایک مکڑی نے جالا تن دیا غار کے منہ پر ۔ راتوں رات جالا تنا ہے اور ایک کبوتری نے اس میں انڈا بھی دے دیا۔ اب وہ اوھن البیوت جو ہے حفاظت کیلئے اس کو مقرر فرمایاگیا۔ قرآن ایک طرف کہتا ہے کہ تمام حفاظت کی جگہیں جہاں انسان امن حاصل کرسکتا ہے ان میں سب سے کچا گھر مکڑی کا گھر ہے۔ مکڑی کے جالے میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی۔ اعجاز دیکھیں کہ مکڑی کے جالے سے محمد رسول اللہ ﷺ کی حفاظت فرمائی ہے۔ اور اوپر سے باتیں ہورہی ہیں ان کے پائوں دکھائی دے رہے ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت رسول اللہ ﷺ سرگوشیوں میں باتیں کررہے ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈر رہے ہیں کہ اب ایک پائوں آگے کیا تو وہ دیکھ لیں گے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺکاایمان اور یقین اور توکل دیکھیں۔ لا تحزن ان اللہ معنا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں غم نہ کر خدا ہمارے ساتھ ہے۔ کون سا خدا تھا جس نے اس وقت ان کو بچایا۔ اگر رب العالمین نہیں تھا جو سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ قدرتوں والا خدا ہے اور اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرتا ہے۔ اب اس واقعہ میں ان کو معجزہ نہ دکھائی دے تو کیا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔وہ لوگ تومایوس ہوکے واپس آگئے۔ کیونکہ وہاں تک ان کا خیال تھا اس سے آگے جا نہیں سکتا اور کھوجی نے کہا کہ اگریہاں نہیں ہے تو پھریازمین نگل گئی ہے یا آسمان اس کو کھاگیا ہے۔ قطعی بات ہے اس سے سوا جس کی تمہیں تلاش ہے وہ کہیں موجود نہیں، یہیں ہے۔ لیکن دشمن خون کے پیاسے گھیرے کو توڑ اہوا دیکھ کر خفت محسو س کرنے والے وہاں سے واپس چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایک ایسا ہے سراقہ نامی جو جانتا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ یہ بات غلط ہو۔ یہیں کہیں ہیں۔ اگر رات یہاں بسر کی ہے تو زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے تو وہ اپنے ایک تیز رفتار گھوڑے پر تعاقب کرتا ہے۔ نشان دیکھتا ہوا چلا جاتا ہے بعد میں اور رسول اللہ ﷺ نظر آنے لگ جاتے ہیں۔ اب اس موقعے پر بھی آنحضرت ﷺ کے دل میں کوئی خوف نہیں۔ ایک ذرہ بھی اس بات کا شائبہ تک نہیں کہ ہم اب پکڑے جائیں گے۔ اور اس وقت دیکھ رہے ہیں سامنے کہ تیز رفتار گھوڑا آرہا ہے اور ریت میں اس کے پائوں دھنس جاتے ہیں اوراس کی کچھ نہیں پیش جاتی۔ اس پر سراقہ کو رسول اللہ ﷺ نے دیکھااور وہ سمجھ گیا کہ کوئی بات ہے۔ یہ میری طاقت سے باہر ہے انسان۔ اور وہ معلوم ہوتا ہے ایمان لے آیا، اظہار کیا ایمان کا یا نہیں مجھے یاد نہیںرہا مگر وہ مؤدّب ہوگیا اور اپنے بدارادے سے باز آگیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ اے سراقہ میںکسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں سونے کے کنگن۔ اب یہ کسمپرسی کی حالت یہ پیشگوئی کہ میںکسریٰ کے کنگن تیرے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں جبکہ اپنی جان کا کچھ پتہ نہیں۔ اس طرح باریک دھاگوں سے لٹکی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو یہ معجزہ نظر نہیں آتا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی بھی ہجرت ہوئی ہم مانتے ہیں ۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ وہ ہجرت ایسے وجود کی تھی جس کو دوبارہ مارا ہی نہیں جاسکتاتھا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو وہ ہجرت ایسی تھی کہ حضرت مسیح نظر نہیں آتے تھے کسی کو۔ چھپ چھپ کر نکل رہے تھے کہیں سے۔ لیکن ایسا یقین وہاں دکھائی نہیں دیتا جیسا کہ رسول اللہ ﷺکی ہجرت میں دکھائی دیتا ہے۔ نہ ایسے خطرے کی حالت دکھائی دیتی ہے کیونکہ اکثر لوگ تو سمجھتے تھے مرچکا ہے۔ اس لئے وہ تو پہلے چھٹی کرچکے تھے ، پیچھا کس نے کرنا تھا، کون تھا جو تعاقب کررہا تھا۔ لیکن پھر بھی پوری احتیاطیں جاری تھیں۔ آپ کے مخلصین حواری کہتے ہیں چلیں شہر میں بھی چلتے ہیں، کہتے ہیں نہ نہ، شہر میں نہیں داخل ہونا۔ رات ہی کو نکلتے ہیں۔ اور ہجرت کا مضمون آپ کے اوپر پوری شان سے اطلاق پاتا ہے۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھیں تو بہت نمایاں فرق ہے۔ رسول اللہ ﷺ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے موت کو پیروی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن یوں جھٹک دیتے ہیں کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔دکھائی دیتے ہیںجاتے ہوئے، تعاقب ہورہا ہے، پتہ ہے کہ یہاں بیٹھا ہوا ہے پھر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اور جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے وہ تو یہ مانتے ہیں کہ وہ ایسا وجود بن چکا تھا جو دوبارہ مر ہی نہیں سکتا۔ پھر کیوں چھپتا پھرتا تھا۔ کیا خطرہ تھا؟ شہروں میں کیوں داخل نہیں ہوتا تھا؟ سب سے بڑا معجزہ وہ جس پر ایک بھی دشمن گواہ نہیںوہ معجزے پیش کرتے ہیں جس کو دشمنوں نے دیکھا اور انکارکردیا۔ ان معنوں میں کہ ایمان نہیں لاتے تھے۔ اور جو سب سے بڑا معجزہ تھا وہ کسی اور پر رونما ہی نہیں ہوا اور جن پر ہوا وہ بڑا سائیکالوجیکل Psychological Phenomenon تھا۔ حقیقت میں اس سے کوئی گواہی نہیں ملتی مسیح کی ذات پر، مسیح کی حیثیت پر۔
تو قرآن کریم کا تو ایک ایک معجزہ ان کے سارے معجزوں پر حاوی ہے اللہ کے فضل کے ساتھ۔ اور کوئی ایسا معجزہ نہیں ہے جس میں کوئی خارق عادت ایسی بات ہو جس کو ہم خدا کے بنائے ہوئے قوانین کے خلاف قرار دیں۔ دن دہاڑے کھلم کھلا آنکھوں کے سامنے معجزے رونما ہو رہے ہیں اور دشمن بالکل بے بس اور عاجز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پانچ مواقع ایسے تھے جن پر رسول اکرم ﷺ کے اوپربہت سخت خطرات کے وقت آئے اور خدا نے ایسے صاف بچایا کہ انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک تو وہ موقعہ تھا جب قریش نے آنحضور ﷺ کا گھر محاصرے میں لے لیا تھا اور یہ ارادہ لے کر آئے تھے کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے ۔ دوسراوہ موقعہ تھا کہ غارِ حرا پر ایک گروہ کثیر پہنچ گیا اور وہاں رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو قطعاً بھی کوئی پرواہ نہیں اور وہ گروہ کثیر اتنی بھی طاقت نہیں رکھتا ، اتنا سفر کرکے آیا ہے ، اتنی چڑھائی۔ بڑی اونچی جگہ ہے جس کے منہ تک پہنچنے کیلئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے کہ جھانک کر ہی دیکھ لے۔ وہیں کھڑے باتیں ہورہی ہیں۔ کھوجی اعلان پہ اعلان کررہا ہے کہ لازماً یہیں ہیں لیکن نہیں دیکھتے۔ تو وہ جوعقلوں کے اوپر خداتعالیٰ کا تسلط ہوا ہے وہ ایک بہت بڑا اعجاز ہے ورنہ وہ کافی تھے اور بڑے انہماک سے پیروی کرنے والے لو گ تھے۔ تیسرا وہ نازک موقعہ تھا کہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت ﷺ اکیلے رہ گئے اور کافروں نے آپ کامحاصرہ کرلیا اور تلواریں چلائیں لیکن اوربہت تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی۔ یہ آپ کا بچ رہنا بھی ایک اعجاز تھا اور بہت بڑا اعجاز۔ چوتھا وہ تھا جبکہ یہودیوں نے آنجنابؐ کو گوشت میں زہر دیا۔ اب وہ زہراتنا تیز تھا کہ جس نے ساتھ بیٹھ کے کھایا وہ ہلاک ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ نے جب وہ کھایا ہے تو اسی وقت تھوڑا سا چکھ کر آپ کو الہاماً اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ہاتھ روک لیں۔ اس وقت تک معلوم ہوتا ہے جو آپ کے ساتھی تھے وہ لقمے دو چارجو کھاچکے تھے۔اب اس میں مختلف روایات ہیں۔ بعض کہتے ہیں جیسا کہ مستشرقین نے تضحیک کے طور پر یہ بات کی ہے کہ گوشت بولا۔ بعض دفعہ کشفاً اور الہاماً یہ ہوتا رہتا ہے اور آج کل بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز بولتی ہے حالانکہ اسے نطق کی طاقت نہیں ہے۔ تو اس پر ان کا مذاق کرنا نہایت درجہ جہالت ہے۔ اس زمانے میںایسے معجزات ہم نے دیکھے ہیں اپنی آنکھوں کے سامنے کہ چیز بولتی دکھائی دی اور اس کی بات سچی نکلی۔ ہمارے بشارت بشیر صاحب سندھی مرحوم ان کے والد مغل نام تھا ان کا کیانام تھا، بہرحال ان کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے کے آئے اور بہت مخلص اورفدائی انسان، بہت دعا گو اور سچے رئویا اور کشوف دیکھنے والے۔ ان کی بیوی کو رحم کا کینسر ہوا۔ اس زمانے میںجلدی چونکہ پتہ نہیں لگا کرتا تھا آخرپر ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیا اور کہا ایک ہفتے سے زیادہ یہ زندہ نہیں رہ سکتیں کیونکہ یہ کینسر پھیل گیا ہے۔ اس وقت انہوں نے دعا کی رات کو تہجد کے وقت اور گریہ و زاری سے کی کہ ڈاکٹروں کا کہناکیا ہے۔ میں تو صرف تجھ پر ایمان لاتا ہوں تو چاہے تو اچھا کرسکتا ہے مجھے یقین ہے اور اسی حالت نماز میں کشفاً وہ بوٹی جو اس علاقے میں عام پائی جاتی تھی جسے ہم سچی بوٹی کہتے ہیں وہ بوٹی سامنے آکر رقص کرنے لگی اور کہہ رہی تھی مجھے ہی استعمال کرو شفاء ہوجائے گی۔ اب کوئی کہہ سکتا ہے یہ فرضی بات ہے، نفسیاتی تجربہ ہے۔ لیکن شفاء ہوکیسے گئی پھر؟ وہی بوٹی انہوں نے لی۔ ایک ہفتے کے اندر بجائے اس کے کہ وہ مرتیں وہ زندہ ہوگئیں ، تمام زندگی کے آثار واپس لوٹ آئے اور پھر لمبا عرصہ تک نہ صرف خود زندہ رہیں بلکہ ان کا یہ جو اعجاز تھا دعا کا وہ کثرت سے لوگوں کی زندگی کا موجب بنا۔ اور United Nations میں جو ریسرچ ہورہی تھی اس زمانے میں کینسر میںاس کو اس ریسرچ سیل کے سامنے میرے بڑے بھائی مرحو م حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے ہسپتال کے اپنے تجربے کی گواہی لکھ کر اس کے نمونے بھیجے اور کہاکہ میں بطور ڈاکٹر اس بات کا گواہ ہوں کہ بہت سے ایسے کیسز میںجہاں طبی نقطہ نگاہ سے مریض کے بچنے کا کوئی سوال نہیں وہاں یہی بوٹی ہرد فعہ ایسے مریضوں کو بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ تو آپ بھی تجربہ کریں۔ چنانچہ اس کے اوپر پھر lifeمیں بڑا زبردست articleچھپا اور انہوں نے تسلیم کیا کہ اس میںکوئی بات ہے ضرور۔
اب یہ کشف تھا۔ ایک بوٹی کھڑی ہوکرسامنے بول رہی تھی اور یہ رسول کریم ﷺ کے غلاموں کے غلام کا ایک قصہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو سب غلاموں میں سب سے آگے بڑھ گئے ان کے ایک ادنیٰ غلام کا قصہ ہے۔ اس کے سامنے بوٹی بولی ہے اور جو بات کہی سچی نکلی اور ان بیوقوفوں کو اس پر شک ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے سامنے گوشت کیسے بولا۔ قرآن کریم فرماتا ہے اللہ نطق عطا ء کرتا ہے۔ قیامت کے دن جب جلدیں بولیں گی تو وہ تعجب سے پوچھیں گے یہ کیا ہورہا ہے تو وہ جواب دیں گی خدا نے ہمیں بلادیا۔ ہم کیا کرسکتے ہیں۔تو اللہ کی آوازہوتی ہے جس کو چاہے بلائے اور یہ عجیب لوگ ہیں۔ جھاڑی تو بولتی ہے آگ کی کہ میں خدا ہوں۔ اس پہ تعجب نہیں کرتے بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں اوروہ توبوٹی بولے تو وہ ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ دو پیمانے ہیں۔ بائبل کے معجزے خواہ کسی قسم کے بھی عجیب معجزے ہوں جن کو عقل طبعاً قبول نہ کرتی ہو ان کو بڑے آرام سے پیش کررہے ہیں۔ گویا کہ ایک معمولی بات ہے اور رسول اللہ ﷺ کے حق میں جب وہ معجزے قطعی طور پر ثابت ہو ں تو اس پر یہ تمسخر اڑاتے ہیں مگر پھر اس معجزے کی تائید ان معنوں میں کردیتے ہیں کہ قرآن کریم فرماتا ہے جب بھی معجزے ہوتے ہیں یہ تمسخر کرتے ہوئے پیٹھ پھیر تے ہوئے چلے جاتے ہیں اور رٹ لگائی ہوئی ہے کہ معجزہ ہی کوئی نہیں ہوا۔ یہ آج بھی جاری ہے یہ تو بڑا لمبامضمون ہوجائے گا فی الحال میں اس کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اب قرآن کریم میں مذکور آئندہ زمانے کی پیشگوئیاں۔ بہت ہی حیرت انگیزاعجازہیں جو اعجاز کیا اعجاز کے سلسلے چل رہے ہیں، لامتناہی سلسلے جاری ہیں۔کچھ ہمارے سامنے پوری ہوچکیں کچھ آئندہ ہونے والی ہیں۔ فرعون کی بات جو میں نے بیان کیتھی وہ ماضی کا تذکرہ تھا۔ ایک ایسے زمانے کا جس تک آنحضور ﷺ کی رسائی نہیں تھی۔ قرآن کریم فرماتا ہے تو جانب الغربی تو نہیں تھا وہاں کھڑا ۔تو نے تو کچھ نہیں دیکھا لیکن جو ہوا خدا نے دیکھااور خدا نے بتایا۔ اور ایک آئندہ زمانے میں اسی پیشگوئی نے پورا ہونا تھا وہ پوری ہوگئی۔ گزشتہ کی خبر اور آئندہ کی خبر نے ایک دوسرے کی تصدیق کردی۔ اب ہے قرآن کریم کی پیشگوئیوں میں سے چند میں آپ کے سامنے پڑھتا ہوں۔ سورۃ تکویر آیات 2تا 14۔ اس کا جو پہلا حصہ ہے اذ الشمس کورت و اذا النجوم انکد رت آگے اس کی روحانی تشریحیں تو ہماری طرف سے کی جاتی ہیں مگر ظاہری طور پر جسمانی طور پر اس پیشگوئی کا پورا ہونا ابھی تک ہماری طرف سے نہیں دکھایا گیا۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ مستقبل میں پورے ہونے والے بعض ظاہری واقعات بھی ہوں گے جن کی طرف یہ آیات اشارہ کررہی ہیں۔ لیکن آگے پھر وہ سلسلہ شروع کردیتا ہے جو مستقبل سے تعلق تو رکھتا ہے مگر پہلے پورا ہوجائے گا اور اس کے بعد اذ الشمس کورت و اذا النجوم انکدرت پر بھی ایمان لانا ایک طبعی بات بن جائے گا۔ یہ آئندہ زمانے میں کیسے ہوگا ابھی اس کے متعلق کچھ گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ مگر معناً یہ کہا جاتا ہے کہ سورج جو ہے وہ روشنی اس کی دین کی روشنی، صداقت وہ نظروں سے اوجھل ہوجائے گی اور ستارے ماند پڑ جائیں گے۔ ان معنوں میں یا روحانی معنوں میں شمس سے مراد رسول اکرم ﷺ ہیں اور ستاروں سے مراد آپ کے صحابہ یا وہ غلام جنہوں نے آخرین میں ہونا تھا لیکن اوّلین سے مل جانا تھا۔ تو جب ان کی روشنیاں ماند پڑ جائیں گی یعنی دنیا کو نہ وہ سورج دکھائی دے گا نہ ان ستاروں کی روشنیاں ان کی راہنما بنیں گی جبکہ عملاً خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے ستارے تو ۔۔میرے صحابہ تو نجوم کی طرح ہیں جس کی بھی تم پیروی کرو تم ہدایت پاجائو گے۔ توایک تو یہ معنے ہیں جو روحانی معنے ہیں لیکن آگے مضمون بتارہا ہے کہ جسمانی معنوں میں باقی ساری پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں تو جب ہوئی ہیں تو ان دو کو کیو ں الگ کریں ہم؟ اس لئے میں یہ بات میں آپ کے سامنے رکھ رہاہوں کہ اس پر مزید غور کی ضرورت ہے اور آئندہ ضرور جس طرح باقی پیشگوئیاں ظاہری طور پر پوری ہوئی ہیں یہ پیشگوئی بھی ضرور پوری ہوگی۔
النجوم انکد رتکا ایک امکان یہ بھی ہے کہ جب ایٹمی لڑائی ہوگئی اور دھواں پھیل جائے گا تو اس کے نتیجے میں ہوسکتا ہے لمبے عرصے تک ستاروں کے اوفق مبہم ہوجائیں اور وہ دھندلے سے دکھائی دینے لگیں اور یہ واقعہ وقتی طور پر عارضی طور پر عراق میںہوچکا ہے۔عراق کی جنگ میں اگرچہ انہوں نے شرارت کے ساتھ مخفی طور پر Atomicہتھیار استعمال کئے تھے وسیع پیمانے پر نہیںکئے یعنی بہت بڑی طاقت کے نہیں کیئے مگر چھوٹے چھوٹے ہر جگہ کیے ہیں۔ مگر تیل کا جلنا اور ایسی چیزوں سے دھوا ں ضرور پیدا ہوا اور یہ محققین بتاتے ہیں جنہوں نے اس پر مضمون لکھے ہیں ایک لمبے عرصے تک عراق اور ارد گرد کے ممالک کا افق دھندلایا رہا ہے یہاں تک کہ ان کو خطرہ پیدا ہوا تھا کہ کہیں اس کے نتیجے میں زمین کی warming-up نہ شروع ہوجائے۔ جو carbondioxide کی زیادتی سے ہوتی ہے۔تومیں یہ بتا رہا ہوں کہ کچھ چھوٹی سی جھلکی ہم نے دیکھی ہے لیکن میںسمجھتا ہوں آئندہ زمانے میں بہت بڑے عالمی نشان کے طور پر یہ باتیںضرور ظاہر ہوں گی۔ واذ الجبال سیرت ۔ پہاڑ چلائے جائیں گے۔ لفظاً لفظاً یہ بات اس طرح نظر آتی ہے کہ ایسے پہاڑ جن تک کبھی بھی انسان کی رسائی نہیں تھی ان پرچلنا انسان کیلئے ممکن نہیںتھا ۔ اب کثرت سے سڑکیں رستے بنائے اور ایسے ذریعے ایجاد کیے جن کے ذریعے پہاڑوںپر چلنا ممکن ہوگیا اور چپے چپے تک ان لوگوں کو رسائی ہوگئی۔یہ سیرت ہے یہ محاورہ ہے عربی کا۔ الجبال سیرتجب کہاجاتا ہے تو اس کا ایک یہ مطلب بھی بنتا ہے کہ پہاڑوں پر لوگ چلیں گے۔ پہاڑوں کو چلنے کا ذریعہ ایسا بنایا جائے گا کہ روز مرہ وہاں چلنا پھرنا ہوگا اور دوسرا معنی ہے پہاڑ وں کو ایسے حرکت دی جائے گی کہ بہت بڑے بڑے پہاڑوں کو غائب کردیا جائے گا۔ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہ ڈال دیا جائے گا۔ یہ واقعہ تو ہوتا رہتا ہے۔ بڑے بڑے پہاڑوں کو بموں سے اڑایا ہے انہوں نے رستے بنانے کیلئے دوسرے مقاصد کیلئے مگر یہ واقعہ ربوہ میں بھی ہورہا ہے۔ وہاں جو پہاڑ یاںدیکھ کر آئے تھے ناں ہم گیارہ سال پہلے اب بعض وہاں ہیں ہی نہیں۔مجھے ایک آدمی نے warnکیا تھا کہ کہیں وہاںجاکر پہاڑیاں نہ ڈھونڈنے لگ جانا۔ بہت سی پہاڑیاں سرے سے غائب ہوگئی ہیں۔ میںنے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نشان دکھارہا ہے کہ تمہارا زمانہ آیا ہے اور تمہیں قریب سے ہی پتہ چل جائے کہ پہاڑ واقعتہً چلا دیئے جائیں گے ۔ وہ ٹرکوں پر ، ریڑھوں پر لاد لاد کے سارے ملک میں پھیلائے جارہے ہیں ربوہ کے پہاڑ اور ہر جگہ یہ گواہی از سر نو، پہلے بھی ہوتی رہی ہے مختلف معنوں میں ۔ از سرنو بڑی شان سے پوری ہوئی ہے۔
اذالعشار عطلت۔ اونٹنیاں بے کار کردی جائیں گے۔ دس مہینے کی گابھن اونٹنی کو چھوڑ دیا جائے گا۔ دو معنے ہیں۔ ایک تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ گابھن اونٹنی بہت تیز چلا کرتی تھی۔ میرے خیال میں یہ ابھی تک بات ثابت شدہ نہیں کہ گابھن اونٹنی بہت تیز دوڑاکرتی تھی یا لمبے سفرکرتی تھی۔ مراد یہ ہے کہ اونٹ کی نسل میں دلچسپی ختم ہوجائے گی۔ ایک زمانے میں گابھن اونٹنی کی بڑی قیمت ہوتی کرتی تھی ۔ آئندہ زمانے کیلئے اونٹ مہیا کرنے کا وہی ذریعہ تھی۔ تو کوئی دلچسپی نہیں رہے گی کتنے بچے دیتی ہے ،نہیں دیتی۔ سواری کے بے شمار تیز رفتاراعلیٰ ذرائع دستیاب ہوچکے ہوں گے تو گابھن اونٹنیوں میں دلچسپی ختم ہوجائے گی۔ و اذا الوحوش حشرت: چڑیا گھر بنائے جائیں گے۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے۔جگہ جگہ جنگلی جانور اکٹھے کئے جائیں گے۔ اب ساری دنیا بھری پڑی ہے چڑیا گھروں سے جہاں Zooجن کو کہتے ہیں اردو میں چڑیا گھر کہتے ہیں لیکن وحوش اکٹھے کیئے جاتے ہیں۔وہاں اب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کہاں رواج تھا بتائیں۔ Wherryکے دادوں پردادوں ، اگلوں نے کہیں دیکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں وحشی جانور اس طرح اکٹھے کئے جاتے تھے اور عرب میں تو کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ پہلے زمانوں میں روم کے وقت میں چند شیروں یا جانوروں کو عیسائیوں پر حملہ کرانے کیلئے یامجرموں سے لڑانے کیلئے ان کوہلاک کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا مگر یہ شاذ کے طور پر واقعہ تھا۔ قرآن کریم اس کی طرف اشارہ نہیں کررہا مستقبل کی بات کررہاہے۔ ایک ایسا واقعہ آنے والا ہے جب یہ دستوربن جائے گا۔ واذاالبحار سجرت: او رجبکہ سمندر پھاڑے جائیں گے۔ ان کے کئی معنے ہیں۔ سمندر کی تحقیقات اس میںنیچے اترنا اس کے اندرونی نقشوں کو دیکھنا، ان کے نئے نئے نقشے بنا کر ایک سمندری جغرافیہ کا علم پید اکرنااور پھر کثرت سے ان میں کشتی رانی ہونا۔ بڑے بڑے جہازوں کا چلنا جو اس طرح چلتے ہیں گویا پھاڑتے ہوئے چلتے ہیں اور بھی بہت سے معانی ہیں مگر۔۔۔ سمندروں کو پھاڑ کر ان کا ملادینا اور بھی بہت سے باتیں جو اس سے ااستنباط ہوسکتی ہیں لیکن اس تفصیل میں پڑے بغیر میں اب آگے چلتا ہوں۔
واذ النفوس زوجت: اب بتائیں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اس فقرے کا کیا مطلب سمجھ آسکتا تھا۔ نفوس تو ملتے ہی رہتے تھے۔ مستقبل میں کیا ہونا ہے؟ عرب عربوںسے بھی ملتے تھے ، غیروں سے بھی ملتے تھے۔ دائیں بائیں کی حکومتوں سے بھی ان کے روابط تھے۔ مسافر بھی تھے لیکن اذالنفوس زوّجت بتارہا ہے کہ غیر معمولی طور پر نفوس ایک دوسرے کے قریب کردیئے جائیں گے۔ جانیں ایک دوسرے سے ملادی جائیں گی۔ یہ ممکن ہی نہیں جب تک کہ اس زمانے کی سواریاں ایجاد نہ ہوجائیں جن کے ذریعے آپس میں نفوس کا ملنا ایک روز مرہ کی بات ہے اور دور دور کے نفوس ایک دوسرے سے اس طرح ملتے ہیں جیسے ساتھ کے لوگ نزدیک کے ہمسائے ہوں۔ پھر فرماتا ہے: قانون کا دور ہوگا اور کسی کو ظلم کی اجازت نہیں ہوگی یعنی قوانین۔ ویسے تو ظالم ہر جگہ ہوں گے۔ قرآن کریم میں آئندہ کے ظلموں کی باتیں بھی ہیں مگر قانون حفاظت کرے گا۔ ایسے قوانین بنائے جائیں گے جو انسان کو اس کے بنیادی حقوق دیں گے۔عرب میں بنیادی حقوق کا فقدان تھا۔ باپ اپنی بیٹیوں کو قتل کردیا کرتے تھے، زندہ درگور کردیا کرتے تھے ، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ مگر ایسے قوانین بنیںگے کہ پھرکوئی اپنے بچے کو بھی قتل نہیںکرسکے گا۔ اپنی بیٹی کو درگور نہیںکرسکے گا۔ یہ جو ہے روز مرہ؟یہ آج کل روز مرہ یورپ میں ہونے والے واقعات ہیں جو ہمارے علم میں ہیں کہ ماں نے بے احتیاطی بھی کی تو بچہ مرگیا تو اس کی بھی سزا ملی اور manslaughter کہہ دیا اگر قاتلہ قرار نہیںدیاتو۔ یعنی غلطی سے بے احتیاطی ایسی مجرمانہ بے احتیاطی ہے کوئی اپنے بچے کی موت کا موجب بن جائے تو اس کی سزا ملتی ہے۔ تویہ پیشگوئی کتنی دیر کے بعد پوری ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے تو قوانین نہیں تھے۔
واذ السماء کشطت:آسما ن کی کھال اتاری جائے گی۔ آسمان پر اتنا تدبر ہوگا۔ ایسے ایسے علوم آسمان کے متعلق دریافت ہوں گے جیسے کھال اُدھیڑ دی جائے اور یہ جیسا کہ اس زمانہ میں ہوا ہے اس کی کوئی مثال پہلے ملنا تو درکنار پہلے تصور بھی نہیں تھا کہ آسمان کا یہ ، اور آسمان پر تحقیق کے کوئی ذرائع موجود نہیں تھے۔ و اذالجحیم سعرت و اذ الجنۃ ازلفت: جہنم بھڑکادی جائے گی۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی بہت دکھوں میں مبتلا ء ہوگی۔ اتنی ترقیات کے باوجود جہاں جائو گے تمہیں جہنم ہی جہنم دکھائی دے گی۔ امن اٹھ چکا ہوگا چین نہیںرہے گا اور پھریہ حالات جو ہیں یہی ذرائع جو ترقی کے ذرائع ہیں یہ ایسی جنگوں پر منتج ہوں گے جو واقعتا اس دنیا میں جہنم کے نقشے پیش کریں گے۔ اور آخر پر یہ خوشخبری ہے و اذا الجنۃ ازلفت اس زمانے میں نیکیاں بہت ہی غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ کااحسان ہوگا۔ کیونکہ جو اس بد زمانے میںنیکی کرے گا اس کیلئے جنت اس کے قریب کردی جائے گی۔ اور دوسرے معنوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کی آخرین کی جماعت دنیا میں ظاہر ہوگی۔ وہ لوگ آجائیں گے جواس جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے کے ارادے باندھ کر اٹھیں گے اور دنیا کیلئے جنت قریب کرتے چلے جائیں گے۔ اب جماعت احمدیہ یہ خدمت سب دنیامیں کررہی ہے۔ اور بہت سے غیر بھی اب یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر اس جہنم کو کوئی جماعت جنت میںتبدیل کرسکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ میں جب کینیڈا گیا تھا تووہاں جو بہت بڑے بڑے سیاستدان اور بارسوخ آدمی اس مجلس میں آئے انہوں نے کھلم کھلا اعلان کیاکہ یہ جو پیغام انہوں نے دیا ہے اگر جہنم کو جنت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے تو اس پیغام کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اور ہمارے نزدیک جماعت احمدیہ ہی ہے جس کو اس معاملے میں کوشش کرنی ہوگی اور کہیں سے کوئی امید نہیں۔ اذا لجنۃ ازلفت کی ایسی شاندار گواہی آج آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔ امریکہ میں جو لوگ آئے انہوں نے لکھا انہوں نے مل کرکہا ۔ انہوں نے کہا کہ واقعی ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ اگر حقیقی امن دنیا کو کوئی جماعت دے سکتی ہے تو یہ جماعت ہے۔ اور جو آپ کا مسلک ہے وہی ہے جو دنیا کو بچا سکتا ہے۔ تو یہ پیشگوئی بھی آخر پر پوری ہونی تھی مگر ہورہی ہے ہوچکی ہے ۔اور شروع ہوئی ہے ابھی تو جب یہ پیشگوئی پوری شان سے روشن ہوگی تو وہ جو کدورت ستاروں کے منہ پر آچکی ہے ، ستاروں کے چہرے جس کدورت سے ڈھانپے گئے ہیں پھروہ ان کے چہروں سے صاف کردی جائے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوگی کہ پھر میرا وجود اس مسیح کے طور پر ابھرے گا جس کے قدم سفید مینار پر ہیں اور بلند و بالا روشن ہستی کے طور پر دنیا اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا مگر ابھی اور بھی پیشگوئیاں ہیں۔باقی انشاء اللہ کل ۔ السلام علیکم۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ11 رمضان بمطابق12؍ فروری 1995ء
الذین قالوا ان اللہ عھد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کنتم صادقینO(آل عمران: 184)
اس میں چونکہ معجزوں کا بیان ہے اور مستشرقین نے اور غیروں نے یہ اعتراض کیا ہوا ہے کہ معجزے کوئی بھی نہیں دکھائے۔ اس پریہی گفتگو چل رہی ہے اب۔ اس کے کچھ حصے ابھی باقی ہیں اس لئے جہاں میں نے بات چھوڑی تھی وہیں سے پھر شروع کرتاہوں۔ لیکن اس عرصے میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب، اللہ تعالیٰ ان کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ ان کیلئے دُعا بھی کریں، دوست یاد رکھیں ۔ ان کے بھائی محمد عبدالرشید صاحب نے کہا کہ آپ نے کل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھتے ہوئے پانچ ایسے واقعات کا ذکر کیا تھا جو مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بطور خاص اس پیشگوئی کے مصداق ہیں کہ ہم تجھے دشمنوں کے شر سے غیروں سے بچائیں گے۔ اور چار پڑھ دیئے اور پانچواں بھول گئے ۔ وہ کوئی اور بات چل پڑی تھی۔ میں نے دیکھا ہے ٹھیک کہتے ہیں وہ۔پانچواں رہتا ہے جو میرے ذمے قرض ہے وہ میں اب آپ کوسناتا ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھتے ہیں۔ پانچواں وہ نہایت خطرناک موقع تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت ﷺ کے قتل کیلئے مصمّم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کیلئے اپنے سپاہی روانہ کیے تھے۔ پس صاف ظاہر ے کہ آنحضرت ﷺ کا ان تمام پر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہوجانا ، ایک بڑ ی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے۔ یہ بھی یعصمک من الناس میںایک عظیم الشان اعجاز کا پہلو رکھتا ہے یہ واقعہ۔ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو جنوبی عرب سے جہاں خسرو پرویز کا گورنر مقرر تھا وہاں سے اُن کے دو نمائندے سپاہی آئے اور انہوں نے اس گورنر کا یہ پیغام دیا کہ مجھے میرے بادشاہ کا حکم ہے کہ وہ شخص جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کو گرفتار کرکے میرے پاس حاضر کرو اور اِس غرض سے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ اب اُس زمانے میں عربوں کی حالت ایسی حقیر تھی کہ بعض دفعہ وہ سزا دینے کیلئے حملہ کرتے تھے اور ایک روایت میں آتا ہے ایک تاریخی یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ساٹھ ہزار عربوں کے کندھوں میں انہوں نے وہ گول چھلے ڈال دیئے سوراخ کرکے ان کی غلامی کے نشان کے طور پر اور عربوں کی مجال نہیںتھی کہ اس عظیم سلطنت کے مقابل پر سر بلند کریں ۔ تو ایک گورنر کو اس نے حکم دیا۔ گورنر نے دو ہرکارے بھیجے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان عربوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نام سنتے ہی ساتھ چل پڑیں گے۔ مجال نہیں کسی کی کہ انکارکرسکیں۔ تو آنحضرت نے فرمایا کہ کچھ انتظار کرو اور اس کے بعد دو تین دن کے اندر عرصہ جو مجھے یاد ہے، اسی عرصے میں ہی اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی اور بتایا کہ خسر و پرویز قتل ہوچکا ہے تو اس پر آپ نے اُن کو کہا کہ جاکے اس کو جواب دو کہ میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کردیا ہے۔ اس لیے کوئی ضرورت نہیںمجھے جانے کی۔ اب یہ خبر تو دیر میں وہاں پہنچی کہ کیا واقعہ ہوا ہے ۔ اس زمانے میں کوئی Telecommunication کا انتظام تو تھا نہیں۔ وہ بہر حال واپس چلے گئے اور واپس گئے تو پھر کچھ عرصے کے بعد وہاں سے خسر و پرویز کے بیٹے نے جو خود اپنے باپ کا قاتل تھا اور اس کے ظلموں کی وجہ سے اس نے اس کو قتل کیا تھا، اس نے تخت نشین ہونے کے بعد جو فرمان جاری کیا۔ اس میںلکھا تھا کہ میر ا باپ بہت ظالم تھا اور اس کے تمام فرمان منسوخ ہیں اور میں نے اس کو قتل کردیا ہے۔ اور میں اب اس کے تخت کا وارث ہوں اور تخت پر بیٹھا ہوں۔ تو یہ خبریں بعد میں پہنچی ہیں۔ اب یہ واقعہ جو ہے اتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ ایک ہی آیت کے متعدد باربار اظہار ہوئے ہیں اور ہر اظہار میں حیرت انگیز اعجاز پایا جاتا ہے۔ تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی خصوصیت کے ساتھ اس کی تائید میں بیان فرمایا تھا۔ اور چونکہ میں بھول گیا تھا۔ میں محمد عبد الرشید صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے موقع دیا یہ یاد کرایا اور ساتھ ہی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کیلئے دعا کی تحریک کا بھی بہانہ بن گیا جو میرے ذہن میں تھا۔کئی دفعہ کہ ہونی چاہیے اس درس کے دوران لیکن ذہن سے بات اُتر جاتی تھی۔ تو بعض دفعہ بھلوانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہوتی ہیں۔ اس بہانے سے ایک اور فائدہ مند چیز جو نظر میں نہیں تھی وہ بھی بیان کرنے کا موقع مل گیا۔ سورۂ روم کے بارے میں جو بات ہوئی تھی۔ وہ زبانی یاد داشت سے میں نے کہا تھا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے شرط بِدی تھی یا مشرکین نے آپ سے شرط بِدی تھی کہ اتنے عرصے کے اندر اگر یہ واقعہ ہوجائے جیساکہ اس آیت میں ہے توپھر ہم دین دار ہوں گے ہم کچھ تمہیںجو بھی شرط مقرر ہو وہ اد اکریں گے جرمانے کے طور پر اور اگر نہ ہو تو تم دینا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بجائے اس کے کہ نو سال کا عرصہ مقرر کرتے کم رکھ دیا تھا۔ ایک بات تو قطعی طورپر ثابت ہوگئی ہے روایات سے جو حافظ مظفر احمد صاحب نے بھجوائیں ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور یہ جو بات ہے یہ اس وقت بھی میں نے ظاہر کردی تھی کہ مجھے یاد پوری طرح نہیں ہے غالباً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیںتھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اس کے علاوہ جو روایات انہوں نے بھجوائی ہیں وہ کچھ ترمذی کی ہیں کچھ درّمنثور کی ہیں۔ دوسراپہلا کہاں۔۔۔ اس میں انہوں نے نسبتاً زیادہ قوی روایات بھیجی تھیں ترمذی کی۔ اور آخر پر بیہقی کی بھی بعض۔ بیہقی کا بڑا شوق ہے بعض لوگوں کو۔ اور پھر اور متفرق احادیث کے حوالے بھی ملے ہیں۔ میں عمداً اس کو پڑھنے سے گریز کررہا ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہ معاملہ بہت تحقیق طلب اور چھان بین کا معاملہ ہے اور تاریخی شواہد اس بات کے مل سکتے ہیں کہ یہ واقعہ کب ہوا تھا اور یہ پیشگوئی کب پوری ہوئی تھی۔ اس لئے ایسی روایات میںپڑ کرجن میںاتنا تضاد ہو کہ کوئی آپس کے جو واقعات کا فرق ہے ان میں کئی سال کا وقفہ پڑتا ہو۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت جو چھٹے سال ہجری میںہوئی تھی یہ روم کو دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے ٹکڑے کو جیتنے کی توفیق ملی ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے کہ جنگ بدر کے سال میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ اب یہ دیکھیں پانچ سال کادونوں کے درمیان وقفہ پڑگیا ہے۔
‏ SB: مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جنگ بدرکا لکھا ہے۔
حضور : جی؟
‏ SB: مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لکھا ہے کہ جنگ بدر کے سال یہ واقعہ ہوا ۔
حضور: اچھا یہ مجھے پتہ نہیں۔ یہ حوالہ نکال کے دیں۔ اب یہ دیکھنے والی بات ہے کہ تاریخی شواہد سے یہ بات کیا بنتی ہے؟ جب تک ہم یہ طے نہ کرلیں اس وقت تک اس پہ گفتگو کرنا بیکار ہے اور اب ایسے ذرائع یہاں مہیا ہیں۔ ہمارا جو ریسرچ گروپ سن رہا ہے ان کی طرف سے مجھے آتے رہتے ہیں کئی دفعہ فون یا پیغامات۔ تو وہ لگ جائیں اس پہ فوری طور پر۔ رومن تاریخ سے پتہ کریں کہ کیا واقعہ ہوا تھا؟ بعض کہتے ہیں شام Syriaکا علاقہ تھا جس پہ مشرکین کو قبضہ ہوا تھا۔ تو معین معلوم ہونا چاہیے اور اس کے علاوہ مستشرقین نے اس پر جو کچھ لکھا ہے وہ بھی ایک دلچسپ مطالعہ ہوگا۔ تو جب یہ باتیں تحقیق کے بعد نکھر کر سامنے آجائیں گی تو پھر میں انشا ء اللہ آئندہ کسی درس میںاس کو بیان کردوں گا۔ ایک میں بریگیڈیئر عبدالوہاب صاحب کا ممنون ہو کہ انہوںنے Fax کے ذریعے مجھے یاد دلایا ہے کہ وہ جو چاند والا واقعہ ہے اس سے ملتے جلتے ایک واقعہ کا ذکر Carl Sagon نے اپنی کتاب Cosmos میں بھی بیان کیا ہے۔ تو مجھے اب یاد آگیا ۔ میرے پاس یہ کتاب ہے اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ہی نے مجھے کہا تھا کہ دلچسپ کتاب ہے۔ ان کا دوست ہے Carl Sagon۔ کافی تعلقات ہیں اور یہ عالمی شہرت کا مالک ہے۔ غالباً Nobel-Loriate بھی ہے۔ لیکن بہر حال بہت بڑی شہرت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا یہ کتاب پڑھو ضرور۔ چنانچہ وہ کتاب میں نے پڑھی تھی اسی میں یہ واقعہ پہلی دفعہ میں نے پڑھا تھا۔ لیکن درس کے دوران مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ کہاں میں نے دیکھا ہے اس لئے میں نے ذکر نہیں کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ گیارہویں صدی میں چاند کے اوپر ایسا ہی واقعہ رونما ہوتے یورپ میںانگلستان میں بعض لوگوں نے دیکھا اور اس پر جو تحقیق ہوئی تو ’کارل سیگون‘ کے نزدیک بھی بڑی مستند تحقیق ہے اور ایسا ہی واقعہ چاند کے اُوپر پیش آچکا ہے جس کو یہاں دنیا میںدیکھا گیا ہے۔ وہ ذہن میں مجھے اس وقت حاضر نہیں تھا۔ تو بریگیڈیئر عبدالوہاب صاحب نے ماشاء اللہ اچھی ان کی علمی نظر ہے انہوں نے مجھے وہ حوالہ بھیج دیا ہے۔ وہ میں آپ کو پڑھ کر سنادیتا ہوں۔
There is an historical account which may infact described an impact on the moon, seen from earth with the nacked eye. On the evening of June 25, 1178......
یہ بارہویں صدی بنتی ہے۔ گیارہ کا لفظ لکھا ہوا ہے لیکن صدی بارہویںکہلائے گی۔
1178, fire British monks reported something extraordinary, which was later recorded in the chronicles of Jervous of Canterbury, generally considered a reliable reporter on the political and cultural events of his time after he had interviewed the eye witnesses who asserted on the oath the truth of the story. Then he recorded them.
یعنی پوری گواہیاں لینے کے بعد حلفیہ بیان لینے کے بعد ایسے گواہوںسے۔ اب اس کا ترجمہ بھی ذرا سنادوں آپ کو۔ کہتے ہیں ایک تاریخی واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے بعض ایسے واقعات کو جو چاند پر رونما ہورہے ہوں ننگی آنکھ سے دیکھا جائے تو ننگی آنکھ سے دیکھنے والا کیا تاثر لے گا کہ چاند پر کیا ہوا۔ کہتے ہیں یہ واقعہ یہ ہے کہ انگلستان میں پانچ پادریوں نے اس بات کی گواہی دی کہ ہم نے چاند پر کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ واقعہ ابھی آگے آئے گا اور اس پر جو جِروَس ہے اس نے تحقیق کی اور وہ ایک قابل اعتماد محقق تھا جو تاریخی اور کلچرل واقعات کے اوپر موقع پر گواہیاں لے کر تو اپنی کتابوں میںیا مضامین میںاس کا ذکر کرتا تھا۔ اس نے گواہیاں لیں اور وہ کہتا ہے کہ میں نے حلفیہ بیان لئے ہیں، نہایت معتبر آدمیوں کے۔ اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان پانچ monks نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ درست ہے اور اسی طرح ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے:
There was a bright new moon, and as usual in that phase its horns were tilted toward the east.
کہتا ہے نیا چاند تھا۔ پہلی کا نہیں مگر آغاز کا نیا چاند اور بہت روشن تھا اور جیسا کہ اس phaseمیں یہ ہوا کرتا ہے اس کے دونوں دائیں بائیں horns کہلاتے ہیں، چونچیں اس کی وہ مشرق کی جانب منہ کئے ہوئے تھیں۔ Suddenly, the upward horn split in two.اچانک جو اوپر کی چونچ تھی وہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ پھٹ کر دو ٹکڑے بن گئے۔ گویا کہ ایک حصہ اس کا الگ ہوگیا۔From the mid-point of the division, a flaming toss sparng up spooing out fire, hot coals and sparks.۔ کہتا ہے جہاں سے وہ رخنہ پڑا ہے جو پھٹا ہے چاند وہاں سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ بیچ میں سے اس کے بہت زیادہ آگ کے شعلے نکلے ہیں اور اوپر کی طرف چلے ہیں اورزور سے وہ آگ پھوٹی ہے اور ساتھ لگتا تھا جس طرح کوئلے بھی جلے ہوئے اور اس قسم کی چیزیں چاند کے حوالے سے بلندی کی طرف جارہی ہیں۔
The astronomers Darul Malholand and Odilac Calmay have calculated that a Lunar impact would produce a dust-cloud rising off the surface of the moon, with an appearence corresponding rather closely to the report of the Canterbury monks.
وہ جو astronomersہیں اس فن کے ماہر وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر چاند پر اس وقت کوئی بہت بڑا meteor گرا ہو تو بعینہٖ ایسا نظارہ ہوسکتا ہے جو ان monks نے بیان کیا ہے۔ اب یہ جو بات ہے یہ اس میرے استنباط کے مطابق ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ میں نے یہ استنباط پہلے اس سے، یہ کتاب ملنے اور پڑھنے سے پہلے ہی یہیں انگلستان ہی میں مجلس سوال و جواب میں بیان کیا تھا کہ میرے نزدیک یہ واقعہ اس طرح ممکن ہے ۔ تو جب میں نے Carl Sagon میں یہ پڑھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ایک بہت ہی ، ایک بارسوخ او رمؤقر authority ہے۔ وہ یہ بیان کررہا ہے کہ ایسا واقعہ ہونا ممکن ہے اور حوالے دیتا ہے۔ تو دراصل اس زمانے میں جو یہ نشانات ظاہر ہورہے ہیں یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اور قرآن کی تائید میں یہ نشانات ہیں جو مقدر تھے کہ ظاہر ہوں اور اس طرح خداتعالیٰ نے ان کو قرآن کے حوالے سے ہمیں پیش کرنے کی توفیق بخشی ۔ یعنی تحقیقات تو کیں سائنسدانوں نے اور جماعت احمدیہ کو تو فیق ملی ہے کہ ان کو آپس میںجوڑ کر اور اس حوالے سے قرآنی معجزات کی تائید میں پیش کرسکیں۔ آگے ہے ایک لفظ ہے جو ڈکشنریوں میں تو مجھے ملا نہیں نہ pronounciation ڈکشنریوں میںملا ہے نہ کہیں اور metereologistتو میں نے پڑھا ہوا تھا لیکن metereologist کیلئے جو لفظ وہاب صاحب نے لکھا ہے وہ کہیں نظر نہیں آیا۔یا وہ کوئی غیر معمولی سائنسی term ہے جو Carl Sagon نے استعمال کی ہے یا ان سے لکھنے میںکوئی غلطی ہوگئی ہے۔وہ کہتے ہیں the meteroaletisist meteoritic تو ملتا ہے کہ جو چیز meteor سے تعلق رکھتی ہو لیکن Meteoraletisist کہیںنہیں ملا۔ مگر مراد غالباً اس سے metereologist ہے۔ جو meteors کی سائنس سے تعلق رکھتا ہو۔
Jak Hartoon has pointed out that a very recent, very fresh looking small crater with a prominant rays system lies exactly in the region of the moon, reffered to by the Canterbury monks.
وہ کہتے ہیں ایک craterہم نے وہاں دیکھا ہے ۔ جو monks Canterbury نے جگہ بیان کی ہے بعینہٖ اسی جگہ میں وہ crater موجود ہے۔اور یہ بھی آثار ہیں کہ وہ تازہ ہے یعنی چاند کی تاریخ کے لحاظ سے تازہ سے مراد یہی ہے کہ چند سو سال کے اندر اندر۔
It is called Glordano Bruno after the 16th century, Roman catholic Scholar who held a there are an infinity of worlds and that many are inhabited.
کہتے ہیں یہ جو سولہویں صدی میں روم میں ایک سکالر تھا وہ یہ believeکرتا تھا کہ بہت سے ایسی دنیائیں ہیں ہمارے علاوہ بھی اور ان دنیائوں میں لوگ بستے بھی ہیں۔
For this and other crimes, he was burnt at the stakes inthe year 1600.
ا س وقت یورپ اتنی گہری تاریکی میں تھا کہ اس بیچارے کو اس جرم میں کہ اس نے وہ سچ بولا جو آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس جرم میں اس کو زندہ آگ میںجلا دیا گیا۔ لیکن یہ ایسے لوگ بھی تھے جو زندہ جل گئے لیکن انہوں نے سچائی سے منہ نہیںموڑا۔ اپنی بات پر قائم رہے۔یہ دلچسپ حوالہ جو بھیجا ہے ہمارے عبدالوہاب صاحب بریگیڈیئرنے میں ان کا ممنون ہوں ۔ جزاکم اللہ۔
بائبل میںجو معجزات آئے ہیں اس پہ میںکافی گفتگو کرچکا ہوں ۔ کچھ حوالے میں نے اور بھی رکھے ہوئے تھے ایک طرف۔ تو اب میں جب آج صبح دفتر کی میز اُلٹ پلٹ کررہا تھا تو اس میں سے نکل آئے ہیں۔ بہر حال ضرورت نہیں میرا خیال ہے کافی ہوگئے ہیں رکھ لیں۔آئندہ کسی وقت کام آجائیں گے۔ معجزات کی بحث میں مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف بھی بہت سے ایسے اقتداری معجزات نہ صرف منسوب ہیں بلکہ قطعی طور پر شواہد قابل اعتماد کتب کے ملتے ہیں یعنی بخاری میں بھی وہ درج ہیں اور معتبر راویوں سے درج ہیں۔ اور پھر بعد کی کتابوں میں الخصائص الکبریٰ وغیرہ میں بھی۔ لیکن میں ان کے حوالے میں نہیں جائوں گا۔ کیونکہ ان پہ بہت سے شکوک کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ صحیح بخاری کی جو روایات ہیں صرف ان تک محدود رہتا ہوں ورنہ پھر ان میں یہ فرق کرنا مشکل ہوجائے گا کہ یہ واقعتہً قطعی طور پر یہ ثابت شدہ حدیث ہے یا بعد کے زمانے میں چار پانچ سو سال کے بعد لوگوں نے بنا لی ہے باتیں جو بنالیا کرتے ہیں۔ مگر وہ واقعات جو قطعی شہادت سے بخاری کی روایات سے ثابت ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور پھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایسے اقتداری معجزوں کا ثبوت دوں گا جو دونوں پہلے بھی اور بعد میں بھی دشمنان دین کے سامنے بطور اعجاز کے نہیں رکھے گئے۔ کیونکہ یہ اقتداری معجزے اہل ایمان کا ایمان بڑھانے کی خاطر استعمال ہوتے ہیں اور اس قسم کے معجزے دشمن کو دکھائے بھی جائیں تو وہ مانتا نہیں ہے۔ اس لیے یہ بحث جو ایک دفعہ قرآن نے بند کردی ہے کہ تماشے کی طرز کے معجزے جو جادوگر جیسی چیزیں دکھاتے ہیں وہ تمہارے سامنے کوئی پیش نہیں کی جائیں گی۔ حقیقی معجزے جو عظیم الشان ہیں جو آفاقی بھی ہیں ، تمہارے ارد گرد بھی ہورہے ہیں وہ ہم تمہیں بتائیں گے اور وہ بھی جب بتاتے ہیں تو تم انکار کردیتے ہو۔ تو اس ضمن میں رسول اکرم ﷺ کے متعلق جو اعجازی اقتداری ایک معجزہ کھانے میں برکت کا ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضور آنحضور ﷺ ایک سفرمیں تھے۔ 130آدمیوں کی جماعت ساتھ تھی۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کچھ کھانے کا سامان ہے۔ ایک شخص ایک صاع آٹا لایا اور وہ گوندھا گیا۔ پھر ایک کافر بکریاں چراتا ہوا آیا۔ آپ نے اس سے ایک بکری خرید فرمائی اور ذبح کرنے کے بعد کلیجی کے بھوننے کا حکم دیا اور ہر شخص کو تقسیم کی۔ گوشت تیار ہوا تو دو پیالوں میں بھرا گیا اور سب کے سب کھا کر آسودہ ہوگئے اور بچ بھی گیا ۔ اب یہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے کھانے میں برکت کے واقعات ہیں ان کے مقابل پر بہت زیادہ مستند روایات ہیں۔ قطعی طور پر چھان بین کرکے اس زمانے تک معتبر راستوں سے پہنچائی ہوئی روایات ہیں۔ حضرت امام بخاریؒ کا جو معیار تھاتحقیق کا، وہ تو بہت زیادہ بلند ہے ان معیاروں سے جو ہمیں بائبل کی اسناد میںملتے ہیں۔ تویہ بخاری جلد 2صفحہ 211 کتاب الاطمعۃ میں درج ہے۔ دوسرا واقعہ چاند کے پھٹنے کا جو میں بیان کرچکا ہوں پہلے ہی وہ بھی صحیح بخاری میں مذکور ہے۔ کتاب المناقب باب انشقاق القمر۔
پھر آپؐ کے صحابہ کے ہاتھوں بعض اعجاز کا اظہار بخاری کتاب المناقب میں درج ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو انصاری مرد اُسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عباد بن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندھیری رات میں آنحضرت ﷺ کے پاس سے نکلے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ان کے سامنے ایک روشنی ہے۔ جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو ان کے راستے جدا جدا ہوئے اس وقت تک ایک ہی روشنی ان کے سامنے چل رہی تھی۔جب الگ ہوئے تو اس روشنی کے بھی دو حصے ہوگئے اور حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جو آگے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اُسید بن حضیر اورایک انصاری حماد نے کہا مجھ کو ثابت نے خبر دی انہوں نے انس سے کہ اسید اور عباد بن بشر دونوں آنحضرت ﷺ کے پاس تھے اور جب جدا ہوئے ہیں وہاں سے نکلے ہیں تب یہ خدا نے ان کو اعجاز دکھایا ہے۔ اب یہ روشنیوں کا اچانک ظاہر ہونا اورآگے آگے چلنا ۔ یہ کیا حقیقت رکھتا ہے؟ ہم نہیں جانتے مگر یہ روایات قطعی ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کی تصدیق کرتی ہے کہ نورھم یسعیٰ بین ایدیھم کہ ان کا نور ان کے آگے آگے چلے گا۔ تو اس نور کا تشخص اختیار کرلینا ظاہری طور پر یہ کوئی بعید بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جو اقتداری شان ہے، اس کے تابع ہے اور کسی سنت کے خلاف نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں اس کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ انہی کے متعلق روایت ہے کہ جو نور انہوں نے اپنے آگے اپنے لئے دیکھا رستہ دکھارہا تھا وہ اصل میں ان کی لاٹھیاں روشن ہوگئی تھیں اور ان سے نکلا تھا۔ جو بھی ہے لاٹھیاں روشن ہوئی تھیں یا کوئی نور آگے آگے چلاتھا ۔ میرے خیال میں تو بخاری کی روایت پر ہی اکتفا کرنی چاہیے۔ ایک اور حیرت انگیز واقعہ بخاری میں ہے تمام مہاجرین و انصار خندق کھود رہے تھے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ آنحضور ﷺ سخت بھوکے ہیں۔ وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے ایک صاع جو نکالا اور گھر میں ایک بکری تھی۔ اب یہاں بھی ایک صاع جو اور بکری کا ذکر ہے مگر ایک اور حوالہ سے جو مدینے کے اندر ہوا ہے۔ وہ تو سفر تھانا۔ باہر کی بات تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ انہوں نے دیگچی چڑہائی اور دیگچی سے مرادکوئی بڑی دیگچی ہوگی کیونکہ پوری بکری کا گوشت اس میں پکایا گیا ہے اور ایک صاع آٹا جتنا بھی تھا اسے گوندھ کر توآنحضرت ﷺ کی خدمت میںپیغام بھیجا کہ آپؐ چند صحابہ کے ساتھ آجائیں۔ اب حضرت رسول اکرم ﷺکی شان کے خلاف تھا کہ جب بھوک عام ہو تو خود چند صحابہ کے ساتھ چلے جائیں۔ اگرچہ دعوت دینے والے نے چند کا ہی کہا تھا ۔ مگر آپ نے اعلان عام کروادیا۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی الٰہی نشان کی خبر آپؐ کو مل گئی تھی۔ ورنہ بوجھ بھی نہ ڈالتے۔ اور وہ جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ ہے اس میں بھی اعلان عام کروانے کا ذکرملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت مل چکی تھی۔ فرمایا آئو جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعوت کی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ جب تک میں نہ آلوں چولہے سے دیگچی نہ اُتارنا۔ اب یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بشارت ہوچکی تھی۔ پھر دعوت عام دی گئی ہے اور روٹی بھی نہ پکے جب تک میں نہ آئوں۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر میںآئے تو بی بی نے اُن کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ اس نے کہا یہ تم کیا کر بیٹھے ہو۔ پیغام بھی صحیح نہیں پہنچایا اور بات پھیل گئی ہے۔ اب میں کیاکروں گی۔ یہ عورتوںکی عادت ہوتی ہے ۔ بیچاری گھبراجاتی ہیں ایسے موقع پر۔ انہوں نے کہا میں کیا کروں؟ تم جو کہا تھا میںنے اس کی تعمیل کردی اور میری طرف سے نہیںہوئی کوتاہی۔ یہ تو رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا ہے۔ ہم بے بس ہیں۔جب آپؐ آئے تو بی بی نے آپ کے سامنے آٹا پیش کیا آپ نے اس میں اپنا لعاب دہن ملادیا اور برکت کی دعا دی۔ اسی طرح دیگچی میں بھی لعاب دہن ڈالا اور دعائے برکت کی۔ اس کے بعد آپ نے روٹی پکانے اور سالن نکالنے کا حکم دیا۔ کم و بیش ایک ہزار آدمی تھے۔سب کھا کر واپس گئے لیکن گوشت اور آٹے میںکوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہ بخاری ذکر غزوۃ الخندق ہے ۔ اگر کوئی قابل اعتماد روایت ہے جو قصے کہانیوں سے ممتاز ہوجاتی ہے اور حقائق کی دنیا میں داخل ہوتی ہے تویہ بخاری کی روایات ہیں۔ اسی طرح تھوڑے سے آٹے سے ستر آدمیوں کا سیر ہوجانا حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو صحیح بخاری علامات النبوۃ میں درج ہے۔
ایک دن ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضور ﷺ کی آواز سے محسوس کیا کہ آپؐ بھوک کی شدت سے ضعیف ہورہے ہیں۔ گھر آئے تو بی بی اُم سلیم نے جو کی چند روٹیاں دوپٹے میں لپیٹ کر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ آپؐ کی خدمت میں بھیجیں۔ وہ روٹیاں لے کر آئے تو آپؐ صحابہ کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے کھڑے ہوئے تو آپ نے پوچھا کہ کیا ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہارے ہاتھ کھانا بھیجا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ۔ آنحضرت ﷺ تمام صحابہ کے ساتھ۔ آنحضرت ﷺ تمام صحابہ کے ساتھ اُٹھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر تشریف لائے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو خبر کی تو انہوں نے بی بی سے کہا کہ آنحضرت ﷺایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کو کوئی سامان نہیں۔ آنحضرت ﷺ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے اور اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو لائو۔ انہوں نے وہی روٹیاں پیش کیں جو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ بھیجی تھیں۔ آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان کو چورا کیا گیا اور اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھی کا برتن انڈیل دیا جس نے سالن کا کام دیا۔ لیکن انہی روٹیوں میں یہ برکت ہوئی کہ آپ دس دس آدمیوں کو بلا بلا کر کھلاتے تھے اور وہ شکم سیر ہوہو کر جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ستراسّی آدمی آسودہ ہوگئے۔ اسی طرح صحیح مسلم میں تھوڑی سی زادِ راہ کا بہت برکت پاجانے کا واقعہ ذکرہے۔ اور صحیح بخاری میں پھر اصحاب صفّہ کے متعلق آتا ہے ان کے معاش کا کوئی سامان نہ تھا اس لئے آپ نے ایک بار حکم دیا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کے کھانے کا سامان ہو وہ اصحاب صفہ میں سے ایک کو اور جن کے پاس چار آدمیوں کی غذا ہو وہ دوکو اپنے ساتھ لے جائے اور کھانا کھلائے۔ چنانچہ اس اصول کے موافق حضور اکرمﷺکے حصے میں دس اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے میں تین آدمی آئے۔ یہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میںآئے۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے ہاں ہی کھانا کھایا۔ اور آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی۔ اس طرح رات گھر میں دیر سے آئے تو ان کی بیوی اُمّ رُمان نے کہا کہ مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے ۔ انہوں نے کہا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ وہ بولیں بغیر تمہارے ان لوگوں نے کھانے سے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت برہم ہوئے اور ان لوگوں کو کھانا کھلانا شرو ع کیا۔ وہ لوگ جو لقمہ اُٹھاتے تھے اس میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوجاتا تھا یہاں تک کہ جب وہ لوگ شکم سیر ہوکر کھاچکے تو بچا ہوا کھانا پہلے سے بھی زیادہ نکلا۔
اب یہ جو واقعہ ہے بہت دلچسپ ہے اس پہلو سے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار پر بھی اس سے بہت روشنی پڑتی ہے۔ ایک تو راوی نے یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھانا کھایا ہے حالانکہ یہ ایک اندازہ لگتا ہے وہ ٹھہرے ہی اس لیے ہیں کہ کھانا کم ہے تو مہمانوں کیلئے کہیں نفسیاتی لحاظ سے مشکل نہ پڑے۔ اور یہ بات اس سے ثابت ہوتی ہے کہ لکھا ہے راوی نے کہ واپس آکر جب کھانا کھلانے لگے تو غصے میں قسم کھالی کہ میں نہیں کھائوں گا۔ کہ کیوں تم نے دیر کردی۔ اب یہ بھی اگر کھانا کھاچکے تھے تو یہ کہتے کہ میں کھانا کھا آیاہوں۔ کھانا کھایا ہوا آدمی یہ تونہیں کہتا کہ میں غصے میں آگیاہوں۔ وہ بہانہ ہے ایک کہ اتنی دیر کردی۔ میں نہیں اب کھائوں گا کھانا۔ لیکن جب انہوں نے یہ معجزہ دیکھا تو اس کھانے کو متبرک سمجھتے ہوئے اپنی قسم توڑ دی پھر۔ اور اتنا کھانا تھا بھی بچا ہوا کہ مہمان سیر ہوگئے پھر بھی بچ گیا۔ تو یہ لطیف پہلو ہیں اس حدیث کے جو بتاتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہ انداز رسول اللہ ﷺ سے سیکھے تھے۔ گو فرق ہے آقا اور غلام کی ادائوں میں مگر ملتی جلتی ضرور ہیں۔ مشکیزے سے پانی اُبلنے کا واقعہ صحیح بخاری میں ہے۔ تھوڑے پانی کا زیادہ ہوجانا۔ صحیح بخاری میں پانی کی برکت کے کئی واقعات درج ہیں مسلم میں بھی۔ اور اندھے کے متعلق کہتے ہیں کہ شفاء دی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ۔ اندھوں کی شفاء کا واقعہ بھی ترمذی کتاب الدعوات میںدرج ہے آپ کی خدمت میں ایک اندھا حاضر ہوا اور اپنی تکلیفیں بیان کیں۔ آپ نے فرمایا اگر چاہو تو دعا کردوں اور اگر چاہو تو صبر کرو یہ تمہارے لیے اچھا ہے۔ عرض کی دعاکیجئے۔ فرمایا اچھی طرح وضو کرکے یہ دعا مانگو کہ خداوند اپنی رحمت اور پیغمبر کے وسیلے سے میری حاجت پوری کردے۔ ترمذی اور حاکم کی ایک روایت میں اسی قدرہے مگر احمد بن حنبل اور حاکم کی روایات میںاس کے بعد ہے کہ اس نے ایسا کیا تو فوراً اچھا ہوگیا۔ اب یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا یہ جہاں تک رُ ک گئے ہیں راوی وہیں تک ہے یا بعد کا نتیجہ بھی ہمیں شامل کرنا چاہیے۔ لیکن یہ امکان تو بہر حال ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں کا اچھا ہوناتو بخاری کی روایت سے بھی ثابت ہے قطعی طور پر۔ حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سلمیٰ بن اکوع اور حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہم تین چشم دید گواہوں سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر میں جب آپ نے علم عطا فرمانے کیلئے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب چشم ہے اور یہ آشوب جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں ہے ایسا سخت تھا کہ ایک صاحب سلمیٰ بن اکوع ان کا ہاتھ پکڑکر لائے تھے۔ وہ آنکھ کھولنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے اپنا لعاب دہن آپ کی آنکھوں پرملا۔ وہ اسی وقت اچھی ہوگئیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان آنکھوں میں کبھی کوئی درد یا تکلیف تھی ہی نہیں۔ بخاری میں ایک ایسے بچے کا ذکر ہے جو ماں نے شکایت کی کہ گونگا سا ہے بولتا نہیں۔ آپ نے پانی منگوایا، ہاتھ دھویا، کلی کی اور فرمایا کہ یہ پانی اس کو پلا دو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دو۔ تو دوسرے سال وہ عورت آئی تو بیان کیا کہ لڑکا بالکل اچھا ہوگیا ہے۔بخاری میں ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ٹھیک ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح ابن ماجہ میںبھی غرضیکہ بہت سے جنون کے دور ہونے کاجیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روایتوں میںذکر ملتا ہے۔ صحیح بخاری میں حافظہ میں برکت کا ذکر ملتا ہے۔ تمام صحابہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایات مروی ہیں ا س کی کوئی مثال نہیں۔ سب سے زیادہ روایات،ہر آدمی کو ابوہریرہ نام یاد ہوگیا ہے۔ کیونکہ روایات لگتاہے کہ ابوہریرہ سے ہی ہوتی ہیں ساری روایات۔ تو کسی نے تعجب سے ان سے پوچھا کہ یہ کیا واقعہ ہے تم تین چار برس تو رہے ہو وہاں اور روایات تم بڑی بیان کرتے ہو۔ تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ میں تو مسجد ہی کا ہورہا تھا اور دیر سے آنے کی کمی مسجد نبویؐ سے وابستہ ہوکر اس طرح کردی تھی کہ کھانے کیلئے بھی نہیں اُٹھتا تھا۔ کسی چیز کیلئے نہیں جاتا تھا۔ بھوک کے آپ کو دورے پڑجایا کرتے تھے۔ لیکن جو باتیں یاد رہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ نے دُعا کی تھی میرے لئے اور وہ واقعہ یہ ہے ایک دن خدمت میں حاضر تھا کہ زبان مبارک سے نکلا کہ جو دامن پھیلا کر اس وقت میری باتیں سینہ میں سمیٹ لے گا وہ پھر کبھی نہ بھولے گا۔ میں نے دامن پھیلایا۔ جب کلام مبارک ختم ہوا تو سینہ میںسمیٹ لیا۔ اُس وقت سے پھر کبھی آج تک کوئی بات نہیں بھولا۔
یہ جو یادداشت کا اس طرح برکت پاجانا، یہ بھی بہت بڑااعجاز ہے ۔ سراقہ کے گھوڑے کے پائوں کا دھنس جانا جو میں نے بیان کیا تھا یہ بھی صحیح بخاری میں درج ہے۔ اونٹ کا تیز رفتار ہوجانا جو بالکل تھک کر بیمار تھا، چلا نہیں جاتا تھا ۔ یہ سب آپ کی دعائوں کے اعجاز ہیں۔ مگر یہ سارے وہ نشانات ہیں جو بہت بڑے عظیم نشانات ہونے کے باوجود کفار مکہ کے سامنے صداقت رسالت کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کئے جاتے تھے۔ یہ بھی ایک عظمت ہے اسلام کی اور قرآن کی کہ یہ باتیںبہت بڑی بڑی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ یہ تو ہمارے اپنے قصے ہیں ، ایمان کی باتیں ہیں، ہم دیکھتے ہیں، جانتے ہیں، ہم گواہ ہیں۔ لیکن اس لئے تمہیں دعوت اسلام نہیںدیتے کہ یہ باتیں ہورہی ہیں بلکہ ایسے اقتداری معجزات ہیں جو آفاقی ہیں۔ وہ زمانہ بھی گواہ ہے۔ آئندہ آنے والے زمانے گواہ ہوں گے۔ وہ ایسے ہیں جن کو کوئی شعبدہ باز پیدا نہیں کرسکتا۔ اور ایسے معجزے جو میں بیان کررہا ہوں ہم جانتے ہیں کہ یہ سچے ہیں مگر بیان تو بہتوں کے متعلق ہوئے ہیں اورتاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پس جو واقعات بیان ہوتے ہیں ان کی صحت کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ قابل تسلیم رسول اکرم ﷺ کے معجزات ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ بخاری سے بہت سی احادیث جو مجھے بھجوائی گئی تھیں ، اِن میں سے چن کے الگ کی ہیں مگر وقت بہت لمبا ہوگیا ہے ، زیادہ ہوگیا ہے پہلے ہی۔ اس مختصر ذکر کو چھیڑتے ہیں بعدمیں حدیثیں چن کے جو مستند ہیں ان کو پھر مضمون کی صورت میں بھی شائع کیا جاسکتا ہے۔ اب ہم تو دور بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت سے اور اس زمانے میں رسول اللہ ﷺ کے معجزوں کا از سر نو زندہ ہونا وقت کا تقاضا تھا۔ آخرین کا زمانہ آگیا بیچ میں تیرہ صدیاں حائل تھیں۔کوئی کہہ سکتا تھا یہ تو قصے کہانیاں ہیں۔ پرانی باتیں ہیں۔ ہمیں کیا پتہ کہ ایسے واقعات ہوتے تھے مگر ہم نے اپنے اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں ایسے معجزات رونما ہوتے دیکھے جن پر صحابہ کی ایک جماعت گواہ ہے۔ یا ایسے متقی لوگ گواہ ہیں جن کے متعلق ہم خود ملے ہوئے ہیں ان سے۔ جانتے ہیں کہ تقویٰ شعار اور محض سچ بولنے والے تھے۔ فرضی بات بنانے والے تھے ہی نہیں۔ تو ایسے چند معجزات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ پرانے مسیح کے مقابل پر جس کی طرف بہت سی باتیں منسوب ہوئیں اور ان کے محققین نے خود بعد میں لکھ دیا کہ قابل اعتماد باتیں نہیں ہیں۔عام قصے کہانیاں اس زمانے میں ارد گرد چلتے تھے۔ یہ جو Peak's Commentry کے میں نے حوالے رکھے ہوئے ہیں ان میں بہت سے محققین کہتے ہیں کہ ہوتا یہ تھا دراصل کہ کچھ یہودی تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لائے ۔ انہوں نے جو پرانے انبیاء کے قصے سنے ہوئے تھے اس سے ملتے جلتے اپنے مسیح کیلئے گھڑ لیے اور کچھ تھے جو Pagans تھے جو Gentiles کہلاتے ہیں، یہود سے باہر۔ وہ جب آئے ہیں تو وہ رومن اور Greekکواپنی اپنی Mythology کے قصے لے آئے ساتھ اور انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کردیئے۔ تو وہاں تو اتنا بڑا confusion ہے۔ لیکن یہ تاریخ جو ہماری آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے بنی ہے، اس دور کی تاریخ ہے۔ اس کے میں چند حوالے دیتا ہوں۔ تو پھر انشاء اللہ یہ مضمون اپنے منتہٰی کو پہنچے گا یعنی سردست مزید اس پہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
سیرت المہدی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے ایک دفعہ حضرت والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں پھر رہے تھے اور سنگترے کے ایک درخت کے پاس سے گزرے تو حضرت والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ میں نے کہا تھا یا کسی اور نے کہا تھا کہ سنگترہ چاہیے اور سنگتروں کا موسم نہیں تھا۔ اور درخت بالکل خالی تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہاتھ بڑھایا اور آپ کے ہاتھ میںایک تروتازہ سنگترہ آیا جو آپ نے دیا اور جس نے بھی کہا تھا انہوں نے کھایا۔ حضرت اماں جان ساتھ تھیں مگر پوری طرح آپ پریہ بات آپ پر واضح نہیں تھی۔ یہ واقعہ تو ہوا تھا لیکن یہ نہیںیاد تھا کہ میں نے کہا تھا یا کسی اور نے کہا، کیسا واقعہ ہوا تھا۔ اور اگروہ سنگترہ کا موسم نہیں تھا تو پھر حضرت اماں جان نے نہیں کہا ہوگا ۔ کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ موسم نہیں ہے۔درخت خالی ہے کوئی بچے کا واقعہ لگتا ہے۔ حضرت مرز ابشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ سن کر میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ سے جب بیان کیا تو حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ روایت حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خود سنی ہے۔ آپؓ بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے میرے کہنے پر ہاتھ بڑہایا تھا اور سنگترہ اس طرح ہاتھ میں آیا تھا۔ تو یہ دونوں روایتیں مل کر بتاتی ہیں کہ بعض دفعہ ایک بالغ آدمی بھی جو یادداشت اچھی رکھتا ہے، اپنے خیال میںڈوبا ہوا ایک واقعہ کو دیکھتا ہے تو پوری طرح اسے یاد بھی نہیںرہتا مگرنفس مضمون پھر بھی درست ہے۔ حضرت اماں جان کی روایت کی تصدیق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی اور مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مستند راوی بیچ میں ہیں۔ اوریہ واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں چھپ چکا ہے اورکبھی آپ نے انکار نہیں کیا بلکہ ہمارے گھر میں تو یہ عام مشہور تھا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی تو آپ نے ہاتھ بڑھا کر درخت کی طرف کیا تو ایک سنگترہ ہاتھ میں آگیا۔ اب یہ بھی ایک خاص شان کامعجزہ ہے جو روز مرہ نہیں ہوا کرتا ۔ اور دراصل حضرت مسیح علیہ السلام، وہ مسیح علیہ السلام جو موسیٰ علیہ السلام کے مسیح تھے ، ان کا محمد رسول اللہ ﷺ کے مسیح علیہ السلام سے ایک دلچسپ موازنہ بھی ہو گیا ہے۔ انہوں نے ایک بے موسم کی انجیر ایک انجیر کے درخت سے مانگی تھی۔ اور اس نے انکار کردیا تھا۔ نہیںتھی اس کے پاس۔ اور حضرت مسیح علیہ السلام نے curse کیا اس کو اور ہمیشہ کیلئے کہتے ہیں کہ وہ درخت مرگیا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے مسیح علیہ السلام نے تو واقعتہً زندہ کرنا تھا اور آئندہ زمانوں کو ہمیشہ کیلئے اُمید اور زندگی کا پیغام دینا تھا۔ اس لئے جب آپ نے بے موسم درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا ہے تو وہ ہاتھ پھل سے بھرا ہواواپس آیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر ذہن میںاُترتا ہے کہ ؎ بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں
کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں
یہ احمدیت سے ہونے والے واقعات کی ایک خوشخبری تھی۔ اب ان معجزوں کو آپ اقتداری معجزے کہیں یا یہ سمجھیں کہ کشفی حالات تھے اور بڑے وسیع پیمانے پر بھی کشف ہوا کرتے ہیں۔ جو بھی آپ اس کی تشریح کریں۔ گواہ پختہ ہوں تو ان کا انکار ممکن نہیں اوراس زمانے میں ان صحابہ کی گواہی جن کو ہم جانتے ہیں سب۔ پورے قادیان کے تعلق والے لوگ آج بھی زندہ ہیں جو ہر ایک مؤکد بعذاب قسم کھاسکتا ہے کہ یہ جھوٹے لوگ نہیں تھے جنہوں نے باتیں بیان کی ہیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا تو صداقت کا ایک پیکر تھیں۔ کبھی بات سجانے کی خاطر بھی ادنیٰ سی بات کا بھی اضافہ نہیںکیا کرتی تھیں۔ میں نے ایک دفعہ ایک مضمون لکھا تھاحضرت اماں جان رضی اللہ عنہا پر تو اس میں سب سے زیادہ جو میں نے لکھا تھا پرانی بات ہے سب سے زیادہ جو مجھ پر آپ کی زندگی کا اثر پڑا ہے وہ آپ کی صداقت اور بے لوث صداقت جس میں کوئی ذاتی تعلق ، خواہش کا کوئی دخل نہیں تھا اور کھری کھوٹی صاف بات کرنے میں مَیں نے اپنی زندگی میں کوئی آدمی ایسا نہیںدیکھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، دوسرے بزرگ صحابہ بھی تھے لیکن بات کرنے میں کچھ وہ ایک ہلکا سا کوئی لطیفے کا اندا ز کچھ داخل کردینا یہ انسانی فطرت میں ہے جو جھوٹ نہیں ہوتا مگر بات کو سجالیا جاتاہے۔ حضرت اماںجان رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ نہیں کرتی تھیں بالکل صاف کھری کھری بات ستھری۔ تو حضرت اماں جان کی روایت جو ہے بہت قطعی ہے اور اوپر سے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت۔ وہ کوئی کہہ سکتا ہے بچے ہیں ۔ اس لیے میں سمجھارہا ہوں کہ یہ کیوں اختلاف ہوا۔ دو روایتوں کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لازماً اتنے چھوٹے تھے اس وقت کہ آپ کو یہ سلیقہ نہیں تھا کہ بے موسم کا پھل مانگ رہا ہوںورنہ وہ مانگتے ہی نہ۔ تو حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو وہ دور کا واقعہ بھی اسی لئے مشتبہ ہوا ہے کہ میں نے کہا تھا یا کسی بچے نے کہا تھا اور چونکہ احتیاط بہت تھی طبیعت میں اس لئے یہ احتیاطاً دونوں امکانات کو پیش کرتی چلی جارہی ہیں۔ لیکن یہ گواہی دیتی ہیں کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ سنگترہ ہاتھ میںآگیا تھا۔ تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو محمد رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے۔ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی ہی کا ایک معجزہ ہے کہ مسیح محمدیؐ کو جو اعجاز دیا گیا وہ مسیح موسوی سے بڑھ کر تھا اور اب یہ ان لوگوں کو کیا حق ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے معجزے ظاہر نہیں ہوئے ۔ وہ تو آج تک ہورہے ہیں! چودہ سو سال گزرنے کو ہیں، ابھی بھی ہورہے ہیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں کے ہاتھ۔
بادل کا سایہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں پڑھا کرتے تھے کہ جاتے تھے تو بادل کا سایہ ہوتا تھا۔ اب یہ چھوٹا ساواقعہ ہے اور یہ مسیح بننے سے پہلے، مسیحیت پر مامورہونے سے پہلے ہی آپ سے اللہ تعالیٰ کا جو سلوک تھا وہ اس طرز کا تھا ۔ ایک دفعہ بٹالہ سے یکہ لیا قادیان کیلئے۔ تو سواریاں اپنے اپنے پیسے دے کر سوار ہوا کرتی تھیں تو ایک ہندو نے جلدی سے پیسے دیئے اور اس طرف بیٹھ گیا جس طرف سایہ تھا اور ایک طرف سے سخت دھوپ تھی ، چلچلاتی ہوئی دھوپ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آرام سے جاکر اس طرف بیٹھ گئے جہاں دھوپ تھی ۔لیکن ایک بدلی ظاہر ہوئی جو مسلسل بٹالے سے لے کر قادیان تک سایہ فگن رہی۔ ایک لمحے کا بھی وقفہ نہیں پڑا اور اس سائے میں چلے۔ کہتے ہیں جب حضرت اماں جان نے پوچھا کہ یہ جو بات ہوئی، تو حضرت اماں جان نے روایت کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمایا تھا کہتی ہیں نے پوچھا کہ اس ہندوپر اس کاکیا اثر پڑا۔ کہتے ہیں اس نے بھی محسوس کیا تھا کہ کوئی غیر معمولی بات ہوگئی ہے۔ اس لئے اس نے اُتر کر معافیاں مانگیں اور کہا کہ میں معذرت خوا ہ ہوں، مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ اب دیکھ لیں اس میںہندو بھی گواہ بن جاتا ہے ۔اس زمانے کی باتیں اور پرانے زمانے کے معجزات پر گواہیاںمل رہی ہیں اس زمانے میں۔ اس طرح انبیاء کا انبیاء سے تعلق ہوتا ہے۔ ہر زمانے کے نبی اپنے آنے والوںکیلئے بھی شہادت دیتاہے۔ اپنے سے گزرے ہوئوں کی بھی شہادت دیتا ہے۔ سیالکوٹ میں چھت گرنے کا واقعہ آپ نے کئی روایتوں سے سنا ہوگا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ا س روایت کو درج کیا ہے۔ ایک دفعہ ایک پرانے مکان میںچھت پر آپ سوئے ہوئے تھے، ساتھ کچھ اور بھی لوگ تھے ۔ تو آپ نے اس کے شہتیر سے ایسی آوازسنی جیسے وہ ٹوٹنے کو ہو۔ تو آپ نے اُٹھایااپنے ساتھیوں کو اور وہ پھر سو گئے کہ نہیںنہیں کچھ نہیں وہم ہے یونہی۔ پھر اُٹھایا پھر سوگئے۔ پھر اُٹھایا اور تاکید کی کہ چلو یہ چھت گرنے کو ہے اور سب کو نکالنے کے بعد پھر آخر پہ نکلے ہیں۔ اب یہ بھی بتاتاہے کہ یہ خاص اعجاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاطر تھا اور آپ کو یقین تھا کہ جب خدانے مجھے متنبہ فرمایا ہے تو میرے ہوتے ہوئے چھت نہیںگرے گی۔ جب سب اُتررہے تھے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے تو سیڑھیوں پر تھے ابھی تو وہ چھت گری ہے اور اتنے زور سے گری کہ نچلی چھت کو بھی جس پر یہ تھے لے کر زمین پر دھڑام سے آپڑی اور اللہ تعالیٰ نے اس طرح بروقت آپ کو متنبہ فرماکر اس خطرے سے بچالیا۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب والا واقعہ تو کئی دفعہ میں بیان کرچکا ہوں اوپر نیچے پانی والا۔ اب کھانے میں برکت کے متعلق سنیے۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں۔ یہ بھی حضرت اماجان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اپنی روایت ہے جو مؤکد بعذاب قسم کھا کر انسان کہہ سکتاہے کہ یہ روایت ہر قسم کے مبالغے سے پاک ہے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے بہت تھوڑا سا پلائو پکایا جو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے ہی کافی ہوسکتا تھا مگر اس دن نواب محمد علی خانصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ہمارے ساتھ والے مکان میں رہتے تھے۔یہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب والا مکان جو ہوا کرتا تھا بعد میں چوبارہ۔ حضرت اما جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک صحن ختم ہوکر تو اس میں نواب محمد علی خان صاحب رہا کرتے تھے۔ بعد میںحضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پھر جب تک partition رہی ہے وہیں رہے ہیں اور وہاں بارہا ہم جایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بچوں سے میرا تعلق تھا، ڈاکٹر صاحب سے بہت تعلق تھا۔ اکثر بچے مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ڈاکٹر صاحب سے بہت تعلق رکھتے تھے۔ ہمارا علاج بھی کرتے تھے اور بڑے مہربان تھے۔ باتیں بڑی مزیدار کیا کرتے تھے۔ تو ہم ان کے پاس ان کی صحبت سے استفادہ کی خاطر دوڑ کے وہاں چلے جایا کرتے تھے اوپر۔ تو یہ بیان کرتے ہیں کہ وہاں ہوا کرتے تھے۔ وہ ، ان کی بیوی اور بچے وغیرہ سب ہمارے گھر آگئے۔ بیوی اور بچے۔ حضرت پھوپھی جان۔ اما جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہی انداز تھا کہنے کا۔ وہ ، ان کی بیوی اور بچے سارے ہمارے گھر آگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے فرمایا یا یہ پہلی بیوی کا ذکر ہوگا۔ اتنے بچے اس وقت حضرت اماں جان کے تو نہیں۔ حضرت پھوپھی جان کی شادی کب ہوئی ہے؟ وہ لیٹ ہوئی ہے غالباً۔ مجھے اچانک خیال آیاہے کہ پھوپھی جان نہیںہوسکتیں۔وہ پہلی بیگم ہوںگی اور ان کے بچے ہوں گے۔ عبدالرحمن، عبد الرحیم صاحب، نواب عبدالرحمن وغیرہ یہ ہوں گے غالباً۔ تو بہر حال وہ جو بھی تھے وہ گھر آگئے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں کیونکہ میں نے یہ چاول صرف آپ کیلئے تیار کروائے تھے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چاولوں کے پاس آکر ان پردم کیا اور مجھ سے فرمایا کہ اب تم خدا کا نام لے کر ان چاولوں کو تقسیم کردو۔ حضرت اما جان فرماتی تھیں کہ ان چاولوں میںایسی فوق العادت برکت پڑی کہ نواب صاحب کے سارے گھر والوں نے یہ چاول کھائے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کے گھروں میںبھی چاول بھجوائے گئے۔ ان کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی دیئے گئے۔ اور چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہوگئے تھے ۔ اس لیے بہت سے لوگوں نے ہم سے آ آکر چاول مانگے۔ اور ہم نے سب کو دیئے اور خدا کے فضل سے وہ سب کیلئے کافی ہوگئے۔
اب چاولوں ہی کا ایک اورواقعہ زردہ کے ذکرمیں ملتا ہے جو بیرونی مہمانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ میاں عبداللہ صاحب سنوری بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوںکی دعوت کی او ران کے واسطے گھر میں کھانا تیار کروایا۔ مگرعین جس وقت عین کھانے کا وقت آیا اتنے ہی اورمہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی۔اس لئے لازماً یہ اور واقعہ ہے کہ مسجد مبارک پھر مہمانوں سے بھر گئی۔ حضرت صاحب نے اندر پیغام بھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجوائو۔ اس پر بی بی صاحب نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے۔ صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکا یا گیا تھاجن کے واسطے آپ نے کہا تھا۔ مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر ہم گزارہ کرلیں لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا جاوے؟ میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں۔ اسی طرح کے انداز تھے حضرت اماں جان کی باتوں کے ابھی بھی ایسے چلتی ہیں۔ اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں۔ تم زردہ کابرتن میرے پاس لائو۔ چنانچہ حضرت صاحب نے اس پر برتن پر رومال ڈال کر ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپناہاتھ گزارکر اپنی انگلیاں زردے میںداخل کردیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا برکت دے گا۔ چنانچہ میاں عبداللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا او رپھر بھی کچھ بچ گیا۔ یہ کچھ بچ گیا جوہے یہ اکثر ان روایات میں بیان کیا جاتا ہے۔ جو چونکہ حضرت مسیح کے وقت بھی ، رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی ، اب بھی یہی محاورہ استعمال ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی مبالغہ کا نہیں بلکہ یقین دہانی کیلئے تھا کہ یہ اعجاز ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص برکت نازل ہوئی ہے۔ اب آشوب چشم والا واقعہ بھی ہم نے دیکھا ہے۔ لال پری ہوا کرتی تھیں خانمی صاحب کی بیگم۔ وہ پٹھانی ہجرت کرکے آئی ہوئی تھیں۔ بہت نیک، دعا گو خاتو ن تھیں اور حضرت میاںبشیر احمد صاحب کے گھر بہت خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان سے تعلق تھا۔ چچی جان بھی پٹھان تھیں چونکہ یہ بھی پٹھان تھیں اس دوستی کے تعلق کی وجہ سے وہ اکثر خدمت حضرت میاںبشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر ہی کیا کرتی تھیں اور ہمارے گھر بھی آجاتی تھیں۔ ان کی بڑی دلچسپ باتیں ہیں۔ ان کی اولاد ساری بڑی مخلص اور فدائی، کوئی جرمنی ، کوئی کینیڈا، دنیامیں پھیلی ہوئی ہے اب۔ پاکستان میں بھی، افغانستان میں بھی بچے رہے ہیں ان کے ، وہ واقعہ سن لیجئے۔ کہتی ہیں ایک دفعہ میری آنکھیں اتنی سخت خراب تھیںکہ انتہائی درد اور سرخی کی وجہ سے کھولنے کی طاقت ہی نہیںتھی۔ والدین نے بہت علاج کیا کروایا مگر افاقہ نہ ہوا ، تکلیف بڑھتی گئی۔ والدہ اسے پکڑ کر زبردستی دوائی آنکھوں میں ڈالا کرتی تھیں۔اس زمانے میںدوائیاں ایسی ہی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے پتہ ہے کاسٹک کی ایک دوائی ہوا کرتی تھی کاسٹک سوڈا کی، بڑی سخت لگتی تھی آنکھوں میں۔ تو بچے دوڑتے تھے ۔ پکڑ کے بعض دفعہ دو دوآدمی جکڑ کے ان کو آنکھیں کھول کے زبردستی اس میںدوائی ڈالا کرتے تھے ۔ تو اس بیچاری لال پری کو بچپن میں پکڑ لیا ماں باپ نے اوردوائی ڈالنے لگے۔ کہتی ہیں میں چھڑا کر ڈر کے دوڑی اور میں نے کہا میں تو مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جاتی ہوں، وہ میر اعلاج کریں گے۔ کہتی ہیں پہنچی اور رو رہی تھی ، آنکھوں میں شدید تکلیف تھی، سرخی کی شدت کی وجہ سے سخت بے چین تھی۔ آنکھیں کھول ہی نہیں سکتی تھی۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جس طرح بھی ہے حاضر ہوگئی تھوڑا سا انسان تھوڑا کھول کے دیکھ لیتا ہے رستہ اور پہنچ جاتا ہے ۔میری بھی آنکھیں بہت دُکھا کرتی تھیں بچپن میں۔مجھے یاد ہے یہ طریقہ۔تو کہتی ہیں اُبلی ہوئی آنکھیں، درد سے کراہ رہی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پر تھوڑا سا لعاب دہن لگایا جس طرح رسول اللہ ﷺ کی روایت آتی ہے اور ایک لمحہ کیلئے رُک کر جس میں شاید دعا کررہے ہوں، بڑی شفقت اورمحبت کے ساتھ اپنی یہ انگلی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیری۔ پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا بچی جائو اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی۔ وہ بیان کرتی ہیں امتہ اللہ ان کا نام تھا، لال پری کہتے تھے ان کو ۔اس کے بعد آج تک جب کہ میں ستر برس کی بوڑھی ہوچکی ہوں ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں۔ اور میں نے ان کوان کی زندگی تک دیکھا ہے، آخر دم تک۔ اور ایک دن بھی ان کی آنکھوں کو تکلیف نہیں دیکھی۔ بالکل صاف، روشن آنکھیں۔نہ کوئی دوسری بیماری، نہ دکھنے کی بیماری۔ تویہ باتیںبتاتی ہیں کہ جو پہلے معجزے تھے وہ بھی سچے تھے۔ لیکن وہ دشمنوں کیلئے نہیں ہوا کرتے ۔ وہ صاحب ایمان لوگوں کے ایمان کو تقویت دینے کیلئے کہ ان کے اندر ایک خدارسیدہ انسان موجود ہے اور خدا قادرِ مطلق ہے۔ یہ باتیں ثابت کرنے کی خاطر ایمان والوں کا ایمان بڑھانے ، ان کا دل بڑھانے کیلئے یہ معجزے ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر حافظ نبی بخش کے متعلق ڈاکٹروں نے کہا کہ موتیا اُتر چکا ہے کافی حد تک اور لازماً اترے گا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے۔ آپ نے الحمدللہ پڑھا اور دم دیا اس کو اور کہا میں دعا کرتا ہوں۔ کہتے ہیں جو اترا ہوا موتیا تھا وہ بھی غائب ہوگیا اور پھر کبھی موتیا نہیں ہوا آخر وقت تک۔ پھر دعا کے اعجاز سے نواب عبد الرحیم خان صاحب جن کے متعلق یقینی گواہی تھی کہ اب ان کے بچنے کا کوئی سوال نہیں۔ نزع کا عالم آچکا تھا۔ وہ جو انک انت المجاز والا واقعہ ہے۔ آپ نے جب دعا کی اوردعا سے کچھ نہ بنا اور صاف پتہ چل رہا تھاکہ بات دعا کی حد سے نکل گئی ہے اس وقت آپ نے یہ عرض کیا کہ میں شفاعت کرتا ہوں۔ اس پر بڑی سخت ایک جلال کے ساتھ یہ آیت نازل ہوئی ہے من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ وہ ہوتا کون ہے کہ خدا کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حال تھا کہ سر سے پائوں تک لرزہ طاری ہوگیا اس آیت سے۔ بڑی سخت بے چینی اور استغفار کی طرف توجہ مائل ہوئی تب اللہ کی طرف سے یہ الہام ہوا انک انت المجاز تجھے اجازت دی جاتی ہے۔ میں مجاز کرتا ہوں تجھے۔ پھر شفاعت کی اور کہلا بھیجا کہ وہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اور عین اس وقت اس بچے کی حالت پلٹی ہے اور موت کے منہ سے نکل کے پھر وہ زندہ رہا۔ ہم نے خوداپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان سے میں نے باتیں کی ہوئی ہیں۔ میرے ماموں مرحوم محمود اللہ شاہ صاحب سے ان کی بڑی دوستی تھی اور آخر وقت تک ٹھیک ٹھاک بالکل، بڑی لمبی عمر پائی ہے انہوںنے، صاحب اولادہوئے۔ پھر عبدالکریم والا معجزہ آپ جانتے ہیں کہ ہلکائے کتے نے کاٹا اور و ہ بیماری عود کر آئی۔ کسولی شملے کے پا س جگہ تھی جہاں یہ خاص ہسپتال تھا ۔ وہاں ان کوبھیجا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں کیں لیکن کچھ پیش نہ گئی۔ یہاں تک کہ وہاں سے ایک تار آئی کہ sorry, nothing can be done for Abdul Karim۔ یہ جو بیماری ہے جب عود آئے تو ناممکن ہے ٹھیک ہونا۔ ہم معذرت چاہتے ہیں۔ اس کیلئے کچھ نہیں ہوسکتا۔ تب مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ دعا کی طرف بڑے زور سے ہوئی اور عرض کیا کہ اے خدا تُو تو قادر و توانا ہے ، تو کرسکتاہے۔ پھر آپ کو تسلی دلائی گئی۔اور آپ نے فرمایا ۔ یہ فرمانے کا ذکر تو نہیں کہ کیا فرمایا لیکن یہ ذکر تو ساری روایات میں ملتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دعا کی قبولیت کا اظہار پہلے ہی کردیا تھا اور اس تار کو کچھ حقیقت نہیں دی تھی۔ کہا اللہ قادر ہے۔ اورپھر واقعہ یہی ہوا۔ اور ان لوگوں نے بھی حیرت سے اس بات کو ریکارڈ کیا ہے اس ہسپتال میںکہ ہمارے علم میں ایسا واقعہ کبھی پہلے نہیںہوا کہ ایک شخص جس کو ہلکائے کتے نے کاٹا ہو اور مرض عود کرآیاہو، پھر وہ بچ جائے اس سے۔
پس اللہ کے فضل کے ساتھ یہ معجزہ آج بھی اس لحاظ سے زندہ ہے کہ پھر وہ بڑے ہوئے، ان کی شادی ہوئی اور اس وقت حید ر آباددکن میں ان کی اولاد دیکھ رہی ہے یہ درس۔ دو سال پہلے یا سال پہلے بھی میں نے یہ ذکر کیا تھا تو وہاں سے جواب آیا تھا کہ ہاں ہم ہیں موجود یہاں۔ تو خدا کے فضل کے ساتھ یہ وہ اعجاز ہیںجو پھر زندہ بھی ہورہے ہیں اور سارے عالم پر پھیل رہے ہیں اور ساری دنیا گواہ بن رہی ہے کہ مسیح سچا تھا اور وہ واقعات جو فرضی کہانیاں سمجھی جاتی تھیں وہ فرضی نہیں ہیں۔ فی الحقیقت اس زمانے میں بھی رونما ہوسکتی ہیں۔ ہاں اب چونکہ سوالات کا وقت ہے قرآن کریم کے باقی معجزات کا ذکر پھر کل کریں گے۔انشاء اللہ۔ہاں جی سوال۔فرمائیے۔کہتے ہیں آدھا گھنٹہ سوالات کا تھا مگر سوالات زیادہ ہیں نہیں۔امید ہے ہم اس دس پندرہ بیس منٹ میں فارغ ہو جائیں گے۔کیا سوالات ہیں فرمائیے۔مائیکروفون کے سامنے آجائیں۔کچھ باہر سے بھی آئے ہوں گے۔وہ آپ پڑھ دیں گے؟ٹھیک ہے!
‏Sb: السلام علیکم حضور
حضور: و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
‏Sb: حضور نے جو معجزات کے ضمن میں خوراک و پانی کے بڑھ جانے کا ذکر فرمایا ہے میر ا سوال اس تعلق میں ہے۔
حضور: ہاںہاں!
‏Sb: عام طور پر سائنس کا یہ اصول ہے کہ مادہ نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ فنا ہوسکتا ہے تو اس سے کیا یہ سمجھنا چاہیے۔۔۔۔۔۔؟
حضور: یہ دونوں اصول سائنس کی رُو سے باطل ثابت ہوچکے ہیں ۔ آپ کس زمانے میں پڑھی تھی سائنس آپ نے؟ خود بھی آپ سائنسدان ہیں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ Indestructivity of Matter کا اصول غلط ثابت ہوچکا ہے۔ اور ارب ہا ارب ڈالر لگا کر اب زیر زمین اٹلی میںبھی اور امریکہ میں بھی اور جگہوں پہ بھی ایسی سرنگیں بنائی گئی ہیں جن میں اس بات کی تحقیق ہورہی ہے کہ Proton جو سب سے زیادہ Indestructable کہلاتا تھا، اس کی عمر کتنی ہے۔ اورڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے بھی اس پر اپنے حسابی نظریہ سے اس کی ایک عمر مقرر کی ہے جو غالباً 1033ہے اور یا 34ہوگی۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب تو ابھی تک اس بات کے قائل ہیں جب میری ان سے ملاقات آخری دفعہ اس موضوع پر گفتگو میںہوئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ بعید نہیں کہ ان کی تحقیق آخر میری بات کو ہی سچی ثابت کرے اور اس پر پھر ایک اور نوبل پرائز ان کو ملنا چاہیے۔ لیکن یہ کہنا کہ مادہ مٹ نہیں سکتا، ختم نہیںہوسکتا۔ یہ بات تو غلط ثابت ہوچکی ہے۔جہاں تک یہ کہ نیا مادہ پیدا نہیں ہوسکتا یہ بھی غلط ثابت ہوچکی ہے۔ کیونکہ اب جو sub-automic particles پر تحقیق ہورہی ہے، اس میں بعض Particle ایسے نکلے ہیں Bosonوغیرہ۔ جن کے متعلق سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ اپنا opposite number خود بخودہی پیدا کرلیتے ہیں۔یعنی ایک ہے پیدا ہوا اوردوسری طرف ایک اور مادہ عدم سے وجود میںآگیا ہے۔ وہ کس حد تک مادہ کہلانے کا مستحق ہے ۔یہ الگ بحث ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی massنہیں بیان کیا جاتا۔ لیکن mass اتنا چھوٹا ہو کہ mass کی حد سے نکل جائے مگر موجود matter کی تعریف میںتو وہ داخل ہے۔ موجودات میں داخل ہے اورانہی کے اجتماع سے بالآخر بڑے Particlesبنتے ہیں۔ تو یہ جو یہ خیال تھا کہ آغاز عدم سے ہو ہی نہیں سکتا یہ بھی غلط ہے۔
پس جو قادر و توانا خدا یہ نظام جاری کرکے اس کے کرشمے ہمیں دکھا رہا ہے ہرگز بعید نہیں کہ وہ بعض ایسے قوانین کو عمل میںلایا ہو جس کا ہمیں ابھی علم نہیں۔ لیکن دوسری صورت کشفی حالت ہے جس کو ہم نظر انداز نہیںکرسکتے۔ ایسے کشوف ہوتے ہیں جن کا اثر ظاہری طور پر حقیقت کی طرح دکھائی دینا ہے۔ اور میں نے نفسیات کے لحاظ سے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ حقیقت ایسی ہے جو واقعتہً energy دے جاتی ہے۔ چنانچہ رائزل نے جو تجربے کیے اس میں چیکو سلواکیہ میں ، اس میں اس نے باقاعدہ وزن کیا ان مریضوں کا جن کو اس نے hypnotic state میں رکھ کر ان پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ یہ جو گائے ہے جو دودھ دیتی ہے ، اس کو دودھ آتا ہے۔ وہ تمہاری طرف اس کی طاقت منتقل ہورہی ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ کئی راتوں کے تجربے کے بعدجب بھی وہ اُٹھتے تھے hypnotic stage سے اپنے آپ کو ترو تازہ اور well-fed بتاتے تھے کہ ہاںہم نے خوب کھایا اور خوب مزا آیا۔ اور کوئی طاقت میں کمی نہیںآئی لیکن کہتے ہیں وہ رائزل کہ میں نے احتیاطاً پہلا بھی وزن کرایا تھا۔ جب دوبارہ وزن کیا تو ان کے وزن میں ایک ذرہ بھی کمی نہیں پائی۔ اب یہ باتیں آج کل کے scientist یا semi-scientistکہہ لیں ، آپ کے باہر سے تعلق رکھتے ہیں دائرے سے۔ مگر قابل اعتماد لوگ ہیں۔ وہی صاحب اب جنوبی امریکہ میں کیلیفورنیا میں کسی جگہ Santiago یا کون سی جگہ ہے، وہاں پروفیسر ہیں۔ ہجرت کرکے ادھر آگئے تھے۔ اب زندہ ہیں کہ نہیں مگر چند سال پہلے میں نے جب ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی تو پتہ لگالیا تھا کہ باقاعدہ وہاںپروفیسر ہیں اور زندہ موجود تھے اس وقت تک۔ لیکن جب میں گیا تو اس وقت وہ کسی اور دورے پر کہیںگئے ہوئے تھے۔لیکچروں کے دوروں پہ جاتے ہیں نا۔ اس لئے میری ملاقات نہیں ہوسکی۔ تو کیلیفورنیا والوںکو چاہیے کہ پتہ کریں اگر اب بھی وہ زندہ ہیں اور پھر دوبارہ توفیق ہو مجھے جانے کی ۔ میںان سے خود مل کر اس واقعہ کے اوپر تحقیق کرنا چاہتا ہوں۔ تو اب جو شواہد سائنس میںہمارے سامنے آرہے ہیںان میں جو احساسات ہیں وہ اتنے قوی ہوجاتے ہیں کہ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت پیداہوگئی ہے۔ کچھ نہ کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جن پر ابھی تک سائنس کی تفصیلی نظر نہیں۔مگر اگر یہ نہ بھی ہو تو اسے آپ ایک عظیم کشف قرار دے سکتے ہیں۔ دل کی تسلی جیسے چاہیں کریں مگر واقعات اتنے قطعی ہیں کہ ان کا انکار ممکن نہیں۔ ٹھیک ہے اگلا سوال۔
ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب اس وقت بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے ۔ہمارے بڑے مخلص فدائی احمدی ہیں ۔ امیر ہیں آجکل Los Angelesکے۔ وہ پتہ کریں کسی سے کہ ان کے مشرقی حصے میںجو Spainsh-speakingعلاقے ہیں، ان میںہی کہیں ڈاکٹررائزل کا مجھے پتہ چلا تھا جو چیکو سلواکیہ سے ہجرت کرکے چلے گئے تھے۔ تو اگر ان سے رابطہ ہوجائے اِن کا ۔ خدا کرے کہ وہ زندہ ہوں تو میرا شوق ہے کہ میں وہ باتیں جو ان کی کتاب میں نہیں بلکہ دوسری کتب میں ان کے حوالہ سے میں نے پڑھی ہیں ۔ چونکہ بہت اہم ہیں اس لیے میں ان کی تصدیق خود ان سے کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اپنے طور پر کر بھی لیں ا س واقعہ کا ذکر کرکے مثلاً۔ لیکن جب میں جائوں گا ، اگر توفیق ملے تو انشاء اللہ ان سے مل بھی لوں گا۔آگے چلیں۔
‏Sb: حضور نے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے ذکر میں John نامی دو بزرگوں کی قبریں ملنے کا ذکر فرمایا تھا لیکن اس جزیرے اور اس ملک کاذکر رہ گیا تھا۔
حضور: ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ میں نے کہا تھا مجھے یاد نہیں آرہا۔ مگر مجھے یاد ہے۔ آجائے گا یاد۔ یہی بات ہے نا۔ جزیرے کا نام تو Petmos ہے اور یہ ہماری ماہاد بوس نے جو میرے کہنے پر تحقیق کررہی ہیں ۔ہماری احمدی خواتین اوربچیاں بھی ان میں ماہا د بوس کے سپرد حضرت یحیٰ علیہ السلام کی تلاش ہے! تو انہوں نے بڑی اچھی تحقیق کی ہے۔ اور پہلی دفعہ ان کی تحقیق سے ہی یہ بات میرے سامنے آئی تھی کہ ایک جزیرہ ہے Petmosنام پر۔ جو Barren ہے اور پہاڑ ی اور Rockyجزیرہ ہے وہاں سے ایک یحیٰ نامی بزرگ کے خط چلے ہیں وہاں سے! اس date-line سے۔ جو عیسائی لٹریچر میں محفوظ ہیں۔ لیکن جو قبریں ہیں یحیٰ نام کی وہ اس کے ساتھ Ephesus جگہ ہے جو پندرہ بیس میل یا کچھ فاصلے پر main-land سے تعلق رکھتی ہے۔ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے نہ جزیرے کا نام لیا نہ main-land کا نام لیا۔ یہ main-landٹرکی کا شمال مغربی حصہ ہے اور اس کے پاس پرلی طرف Greece قریب ہی ہے۔تو ان کے درمیان کا جو سمندر ہے اس میں ہی یہ جزیرہ واقع ہے۔ تو اس زمانے میں Turkeyپر بھی اس حصے میں خصوصیت سے کافی عیسائی وہاں جایا کرتے تھے، گزرا کرتے تھے وہاں سے، پیغام بھی دیا کرتے تھے۔ تو بہر حال جو سمندری جہاز سفر کرتے تھے وہ ساحل کے قریب قریب اکثر رہا کرتے تھے۔ تو بعید نہیں کہ وہاں سے جوفلسطین کے علاقے سے کوئی جہاز چلا ہو اور اس نے ان کو وہاں پہنچادیا ہو۔ اور کچھ عرصے اپنے آپ کو مخفی رکھنے کی خاطر کہ یہ کہیں Romanحکومت کو ان کا پتہ نہ چل جائے کہ یہ بچ گئے ہیں اور یہاں رہتے ہیں، اس جزیرے پہ بھی انہوں نے گزارا ہو۔ مگر بالآخر ان کی قبریں بہرحال وہیں ملتی ہیںEphesus میں۔
حضور: بس یہی تھاسوال؟
‏Sb: آگے سوال ہے دوسرا بھی۔
حضور: ہاں اور۔
‏Sb: یہ نارتھ (North)لنڈن سے سوال ہے ایک دوست کا۔ کہتے ہیں حضور درس القرآن کے سلسلے میں ایک قابل وضاحت امر حضور کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی اُن دعائوں کوجو اسے بہت پسند آئیں انہی کے الفاظ میں قرآن کریم میں محفوظ فرمادیا ہے۔ کیا سب نبی عربی زبان ہی بولا کرتے تھے؟
حضور: بات یہ ہے کہ جن انبیاء کا ذکر ہے یہ زیادہ تر اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جو Arab-speaking علاقہ ہے۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ عربی بولتے تھے یا عبرانی بولتے تھے۔ لیکن عام طور پر عبرانی ہی منسوب ہوتی ہے۔ جہاں تک دعائوںکے محفوظ کرنے کا تعلق ہے ، قرآن کریم نے یہ نہیںفرمایا کہ بعینہٖ اسی زبان میں اس کو محفوظ کیا گیا ہے۔ عبرانی دراصل عربی کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے او ریہ مسلسل پھر بگڑتے بگڑتے بعض جگہوںمیں عربی سے دور ہٹی مگر پھر بھی بہت مشابہتیں ہیں۔ اتنی زیادہ کہ ہم تحقیق کے دوران جب عبرانی عبارتیں پڑھتے ہیں تو ان سے ملتا جلتا عربی لفظ ہمیں معلوم ہوجاتاہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے مثلاً ماہا کومیں کہتا ہوں میرے خیال میں یہ عربی ہے ۔ وہ کہتیں ہیں نہیں میرے علم میں تو نہیں۔مگر جب تحقیق ہم کرتے ہیں ، ڈکشنری دیکھتے ہیں تو اس سے ملتا جلتا ، بالکل بہت ہی قریبی عربی لفظ مل جاتا ہے ۔ تو اصل زبان جو ہے وہ عربی تھی۔ اس لئے اس عبرانی زبان کو عربی کی طرف لوٹا کر بیان کردینا کوئی ایسی بات نہیں جو قابل اعتراض ہو۔ مگر اور زبانیں بھی اگر وہ بولتے تھے تو ضروری نہیں کہ قرآن کریم عربی میں وہ غیر زبانیں بیان کرے جس سے کسی کوکچھ پلے ہی نہ پڑے اور مقصد ہی فوت ہوجائے۔ اس لیے جو بھی بولتے تھے اس کا عربی ترجمہ سمجھ لیں آپ۔ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ۔
‏SB: ایک سوال اور ہے احیائے موتی کے ضمن میںحضور انور نے آیت کریمہ یایھاالذین ۔۔۔حضرت سلیمان کے زمانے میں وہ سبا کے ذکر میںآتا ہے۔ اس نے پڑھ کے سنایا انہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ تو وہ عرب علاقہ ہی تھا نا؟سبا کا علاقہ تو عرب علاقہ ہی ہے۔ وہ جنوبی عرب سے تعلق رکھتا ہے ۔ کیوں جی؟
ٍ ہاں ! وہاں تو ہوسکتا ہے بعینہٖ اسی طرح عربی زبان بولی جاتی ہو مگر تحقیق طلب ہے۔ جہاں جہاں بھی Quoteکیا قرآن کریم نے ، وہ ہوسکتا ہے عبرانی میںیا کسی اور زبان میں وہ بات ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ فرمادیا ہو۔
حضور: اب فرعون تو عربی نہیںبولتا تھا ۔ فرعون کی باتیں بھی۔ صرف دعائوں تک ہی کیوں محدود رکھتے ہیں؟ فرعون کی باتیں بھی قرآن کریم نے محفوظ کی ہیں۔ فرعون کے خاندا ن کے آدمی کی باتیں بھی محفوظ فرمائی ہیں۔ تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ بیان اللہ تعالیٰ کا ہے لیکن مضمون ان لوگوں کا تھا اور کم و بیش اس انداز میں انہوں نے بات کہی تھی۔ آگے چلیں!
‏Sb: احیائے موتیٰ کے ضمن میں حضور نے آیت کریمہ یایھاالذین امنو ا استجیبوا للہ و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم پیش فرماتے ہوئے یہ استدلال فرمایا کہ یہاں لازماً روحانی زندگی عطا کرنے کامعنی ہے۔
حضور: ٹھیک ہے۔
‏Sb: مردوں کو زندہ کرنا مراد نہیں۔ ایک دوست نے سوال یہ کیا ہے کہ عیسائی عام طورپہ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر چونکہ اذا دعا کم کا قرینہ موجود ہے اس لئے روحانی طورپر زندہ کرنے کامفہوم لینا تودرست ہے۔
حضور: یہ جو بات ہے نا، یہ کسی احمدی مولوی کے دماغ کی ایجاد ہے۔ عیسائی ایسی باتیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں ان باتوں کا۔ کوئی نہیںکہتے! کسی احمدی مولوی نے بنائی ہوئی ہے بات۔ وہ یہ کیوں نہیںکہتے کہ میرے ذہن میں آتا ہے کہ اگریہ کوئی کہے تو کیا جواب دیں گے ہم؟ بات یہ ہے کہ میں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کا ایک انداز بیان ہے ۔ ہر وہ بات جس کو قرآن کریم سابقہ حوالوں سے پیش کرتا ہے ان کی کُنہہ کو بیان کرنے کیلئے ویسا ہی لفظ ایک اورموقع پر اس طرح استعمال فرمادیتا ہے کہ انسان کی نظر پہنچ جاتی ہے کہ اصل کیا بات ہوئی ہوگی۔اسی لیے میں نے کہا تھا کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں کیڑیاں بولیں، پرندے اُڑے اور ساتھ پیغام لے کر گئے۔حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی پرندے بنائے اور اسی معجزے کے بہت تھوڑی دیربعد قرآن کریم فرماتا ہے : یہ تو تمہاری طرح کی اُمتیں تھیں۔نام ہم پرندوں کا لیں یا چلنے پھرنے والے حیوانات کا، یہ تمثیلات ہیں جو انسانوں سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ ایک میںنے یہ مضمون پیش کیا تھا۔ تو دراصل یہ قرآن کریم کا ایک بہت ہی اعلیٰ انداز بیان ہے کہ وہ گزشتہ باتوں کو قبول کرتا ہے تو ان کی حقیقت پر ،ان کی اصلیت پر روشنی بھی ڈالتا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے میں نے یہ مثال دی تھی ۔ اورجہاں تک احیائے موتیٰ کاتعلق ہے، یہ مضمون قرآن کریم میں اورجگہ بھی بیان ہوا ہے۔ ایک جگہ تو نہیں ہوا۔ قرینہ پھر یوں بنے گا اگر یہ قرینہ چاہتے ہیں کہ قرآن کریم جب قطعی طور پر کہتاہے کہ کوئی مردہ زندہ نہیں ہوسکتا اور یہ ایک سنت اللہ ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے ۔ تو اس سے بڑا قرینہ ان کو اور کیا چاہیے؟ اس لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے جب مردوں کو زندہ کیا اور قرآن کریم نے بیان کیا تو سوال یہ ہے کہ اس قرینے کے ہوتے ہوئے اس کاجسمانی ترجمہ تو ہم کر نہیں سکتے۔ اور اگر کریں تو تضاد ہوگا ۔ تو قرآن کریم میں اس کا ہمیں کیا حل ملتا ہے؟ اس طرز پر اگر استدلال آگے بڑھائیں تو حل یہ ملتا ہے کہ یہی لفظ احیاء کا رسول اللہ ﷺ کے متعلق استعمال ہوا اور مراد اس سے ظاہری طور پر زندہ کرنا نہیں بلکہ روحانی طور پر زندہ کرنا ہے۔
اس کی ایک اورمثال بھی ہے۔یہ قرآن کریم تو بہت مربوط کتاب ہے۔ ہر بات کا تعلق ایک اور بات سے قرآن کریم کے اندر ہی مل جاتا ہے۔ وہاں اب دیکھیں نزول کا لفظ بار بار استعمال ہوا ہے۔ نازل ہوا، نازل کیا ۔ اور قرآن کریم نے کئی استعمالات کے ذریعے قطعی طور پر ثابت کردیا کہ روحانی دنیامیں جب نزول کی باتیںہوتی ہیں تو فائدہ مند وجود کاخدا کی طرف سے اُترنامراد ہے۔ یعنی انعام کے طور پر بنی نوع انسان کو ملنا۔ اس لئے صرف ایک قرآن ایسی کتاب ہے جس نے بظاہر دلیل نہیں بنائی لیکن متفرق جگہوں پر ایسے ذکر کردیئے کہ ان پر نظر پڑے تو حیران ہوجاتا ہے آدمی کہ یہ تو ایک پوری مربوط دلائل کا ایک جہان ہے۔ لفظ نزول کو لوہے کے تعلق میں بیان فرمایا جو زمین سے نکلتا ہے۔لفظ نزول کوحیوانات کے جو دودھ دینے والے جانور ہیں ان کے تعلق میں بیان فرمایا کہ یہ بھی نازل ہوئے ہیں اور پھر نزول کا تعلق بارش سے بھی کردیا۔ ظاہری طور پر بھی پانی اُترتاہے لیکن فائدہ مند ہے اصل مراد اس سے۔ اور سب سے عظیم الشان بات یہ ہے کہ تمام انبیاء کو چھوڑ کر صرف آنحضرت ﷺ کے متعلق لفظ نزول فرمایا ہے۔ استعمال فرمایا ہے کہ یہ نبی ہم نے تم میں نازل کیا ہے۔ ذکرًا رسولاً۔ جو مجسم ذکر الٰہی ہے۔ تو یہ قرآنی طرز استدلال ہے جو بالکل مربوط ہے، ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ اس لیے فوری وہاں کا قرینہ ڈھونڈنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔سمجھ گئے ہیں؟ بس ختم ہوگئی بات؟اور یہ جو قتل انبیاء والی بات تھی یہ ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے۔Patmos کا ذکر آیا تو مجھے جب انہوںنے ذکر کیا Patmosکاتو میں اس ضمن میںایک اور حوالہ لے کر آیا ہوں جس کا تعلق اس سے ہے۔ مگر اس تعلق میں نہیںبھیجا گیا مجھے۔ ویسے بھیجا گیا تھا۔میں نے کہاتھا ساتھ رکھ لیں آپ۔ وہ عبدالسمیع صاحب احقر لکھا ہوا ہے ۔پتہ نہیں احقر ہیں یا اختر ہیں ۔ مگر جو بھی ہیں عبدالسمیع صاحب ہیں۔ انہوں نے ایک بہت اچھا حوالہ قتل انبیاء کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد فرمایا ہے۔ میں نے گزشتہ دفعہ جب یہ کہا تھا کہ امکان موجود ہے کہ حضرت یحیٰ قتل ہوئے ہی نہ ہوں۔محض کوشش کی گئی ہو اور خداتعالیٰ نے بچالیاہو اور وہ ہجرت کرکے پھر وہ Ephesus اور Patmos میںملیں بعد میں۔ تو اس پر میں نے صرف ایک ہلکا سا تردّد کا اظہار کیا تھا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی کسی قطعی حدیث سے ثابت ہوجائے کہ حضرت یحیٰ ضرور قتل ہوئے ہیں تو ہم اس تحقیق سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ اگر مسیح موعود علیہ السلام کی کسی عبارت سے پتہ چلے تو میرے علم میں آنی چاہیے۔ وہ جو عبارت تھی جس میں اپنے حضرت سیّد احمد صاحب شہید کا ذکر تھا۔ اس پہ میں نے استنباط کیا تھا کہ اس میں یہ ہرگز قطعی دعویٰ نہیں ہے کہ مسیح علیہ السلام کہتے ہیں کہ ضرور وہ قتل ہوگئے تھے۔ ایک جاری روایت تھی جس میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں۔ اس کا بیان کیا، اپنی طرف سے دعویٰ نہیں کیا۔ تو عبد السمیع صاحب کا میں ممنو ن ہوں کہ اس مضمون پر قطعی شہادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انہوں نے بھیجی ہے۔ ’’ صلیب چونکہ جرائم پیشہ کے واسطے ہے اس واسطے نبی کی شان سے بعید ہے کہ اسے بھی صلیب دی جاوے یعنی کاٹھ پر لٹکایا جائے اور مارا جائے یہ مراد ہے۔ اسی طرح آتشک وغیرہ جو خبیث امراض ہیں یہ خبیث لوگوں کو ہوتے ہیں۔ انبیاء ان سے محفوظ رہتے ہیں۔ نفس قتل انبیاء کیلئے معیوب نہیں ہے۔نفس قتل اگر محض قتل ہو۔ ان خبیث چیزوں کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو تو اگر یہ ہوجائے تو اس کو ہم ناممکن نہیں کہہ سکتے مگر کسی نبی کا قتل ہونا ثابت نہیں ہے‘‘۔
اب بتائیں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قطعیت کے ساتھ حضرت یحیٰ کے قتل ہو جانے کا ذکر قطعیت کے ساتھ کر رہے تھے تو یہ کیسے فرما سکتے ہیں؟مراد یہ ہے کہ حضرت یحیٰ کے متعلق بھی شبہ ہے۔ خیالات ہیں کہ وہ قتل ہوئے اور میں نے یہ کہا تھا کہ حضرت سیّد احمد صاحب شہید کے متعلق بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ مجھے لگتا ہے۔ کسی میں نے تحقیقی کتاب میں جو وہاں کے تاریخی حالات پرتھی بہت عرصہ پہلے پڑھی تھی، اس میں کسی مصنف نے یہ ذکر کیا تھا کہ یہ جو خیال پایا جاتا ہے کہ سیّد احمد صاحب واقعتہً شہید ہوگئے تھے اس کا قطعی ثبوت نہیں ہے۔ بلکہ وہ سکھ ان کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ اور پھر کیا ہوا تھا اس کو ہم یقینی طور پر نہیں جانتے۔ یہ بات اپنی ذات میں جس نتیجے پر بھی پہنچے، اس استدلال کو متاثر نہیں کرے گی اب۔ کیونکہ حضرت سیّد احمد صاحب کے حوالے سے ضمناً مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حضرت یحیٰ بھی معلوم یہ ہوتا ہے کہ قتل ہوئے اور یہ ایک مشابہت ہے۔ مگر ساتھ ہی فرمادیا کہ کسی نبی کا قتل ثابت نہیں ہوسکتا۔ پس اس پہلو سے یہ تحقیق انشاء اللہ ہم جاری رکھیں گے اور جو بھی ماحصل ہوگا میںجب یہ تحقیق مکمل ہوگی تو انشاء اللہ جماعت کے سامنے پیش کروں گا۔ ختم؟ کوئی اور سوال ہے۔ ہاں جی۔ ڈاکٹر مجیب صاحب بھی ہیں۔اور اس سے پہلے حاجی جنود اللہ صاحب کے صاحبزادے اور رشید صاحب اور یہ تو یہ تو ہمارے ماشا ء اللہ حق محفوظ ہیں ان کے چوہدری محمد عبد الرشید صاحب اور ڈاکٹر بشیر ڈار صاحب ۔ اس لیے میں نے پوچھا تھا کہ ان کے جو بھائی ہیں ظفر صاحب، ان کو نہیں پسند لفظ ڈار۔ وہ کہتے ہیں مجھے خالی ڈاکٹر ظفر کہا کرو اور یہ باقاعدہ زور سے ڈار لکھتے ہیں ساتھ۔ فرمائیے۔
ڈار صاحب: آپ نے آج کے درس میںفرمایا کہ وہ غلبہ روم کے سلسلے میں۔
حضور: غلبت الرّوم!
ڈار صاحب: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ شرط پیش کی تھی۔
حضور: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ثابت ہوئے ہیں۔
ڈار صاحب: اس کے ضمن میںآپ نے فرمایا کہ شرط وہاں لگائی گئی تھی۔ تو یہ عام طور پر سنا گیا کہ
حضور: ہاں یہ کہا گیا ہے کہ شرط جائز نہیں۔ شرط اصل میں شرط کے تابع نہیں بلکہ جوئے کے تابع ہے۔
ڈار صاحب: اچھا
حضور: قرآن کریم میںجہاں جوا منع ہے اسی کے تابع شرط بھی آتی ہے۔ مگر جو مفسرین یا راوی حوالہ دیتے ہیں وہ ساتھ یہ بھی بعض لکھتے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ ابھی شرط منع نہیں ہوئی تھی۔
ڈار صاحب: ٹھیک ہے حضور۔
حضور: یعنی جوئے کا حکم ابھی نہیں اترا تھا۔
ڈار صاحب: جزاک اللہ۔
حضور: جزاک اللہ ۔ آگے!
‏ Sb: حضور! لعاب دہن کا آپ ذکر کرتے ہیں۔اس میں حضرت رسول کریم ﷺ جس وقت use کرتے ہیں لعاب دہن۔ تو اس میں کیا حکمت ہے؟
حضور: اس میں ایک حکمت تو یہ ہوسکتی ہے کہ لعاب میں ہی کچھ شفاء کے مادے پائے جاتے ہوں اور لعاب کے متعلق جو میں نے تحقیق کی ہے اس میں بہت مضبوط antisepticمادے پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ خفیف ہیں۔لیکن منہ میںجب ہم لقمے کو بار بار چبا کر باریک کرتے ہیں اور لعاب سے ملاتے ہیں تو یہ تحقیق شدہ بات ہے کوئی فرضی کہانی نہیں کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لعاب دہن اس میں anti-septic کام کرتا ہے اور کئی قسم کی آلائشوں سے کھانے کو معدے میں پہنچنے سے پہلے پہلے پاک کردیتا ہے۔ تو ایک تو یہ بھی حکمت ہے اور دوسرے برکت کے انتقال کیلئے جسم کا کسی لعاب کا منتقل ہونا یہ بھی ایک سنت ہے۔ علم ہے ہمیں کہ بعض دفعہ ایساکیاجاتا ہے۔ تو تھوکنا اور چیز ہے ۔ وہ تو ایک مکروہ سا فعل ہے لیکن لعاب کو ، لعاب دہن سے اپنی انگلی کو تر کرلینا یہ کوئی ایسا فعل نہیں ہے جو مکرو ہ سمجھا جائے اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ محض برکت کے جسمانی تعلق کے اظہار کی خاطر ایسا کیا جاتا ہو۔
ہاں جی آئیے اب۔ مرد میدان تشریف لائیں گے۔ چوہدری محمد عبد الرشید صاحب۔
عبد الرشید صاحب: حضور ! آیت نمبر 182۔۔۔۔۔۔۔
حضور: آپ یہ بتائیں کہ دونوں ہاتھوں سے تو آپ نے قرآن تھاما ہوا ہے ۔ کان پہ کھجلی کیسے کریں گے؟ کیونکہ یہ ان کا پرانا دستور ہے۔ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ ایک کان پہ کھجلی شروع کردیتے ہیں۔ فرمائیں۔
عبد الرشید صاحب: حضور! آیت نمبر 82۔ ان اللہ فقیر و نحن اغنیائ۔ آپ نے اغنیا کی کوئی تفسیر نہیں بیان فرمائی۔
حضور:اچھا! میں کیا باتیں کرتا رہا ہوں وہاں۔ ہم امیر لوگ ہیں۔ یہ بیان کیا اتنی دفعہ کیا۔
عبد الرشید صاحب: اصل میں یہاں تکبر کا پہلو ہے۔ کیونکہ یہ یہودی لوگوں کا قصہ ہے۔ اس لئے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔
حضور: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے جو تفسیر کرنی تھی کردی۔ اب مجھے بھی موقع دیا جائے ۔ میں بھی کچھ تفسیر کروں۔ تو ہم حاضر ہیں۔ فرمائیے کیا تفسیر آپ کے ذہن میںآئی ہے؟
عبد الرشید صاحب: حضور یہ میں اس لیے پوچھ رہاہوں ۔۔
حضور: نہیں۔ ’’بتارہا ہوں‘‘ کہیں!
عبد الرشید صاحب: یہی میں پوچھنا چاہتا ہوں۔جی!
حضور: آپ انکسار میں پوچھ رہے ہیں ۔ واقعتہً بتانا چاہتے ہیں۔ تو بتائیے کیا نقطہ ہے آپ کے ذہن میں؟
عبد الرشید صاحب: نحن اغنیاء یہ تکبر کے پہلو سے یہودی لوگ کہہ رہے ہیں۔
حضور: ہاں یہ تو کئی دفعہ ذکر آچکا ہے وہاں کہ متکبرانہ رویّہ اختیار کرتے تھے ۔اور یہ باتیں کرتے تھے۔ اگر نہیں آیا تو اب اس کو نوٹ کرلیں کہ یہ تکبر کا پہلو تھا۔ جی
عبد الرشید صاحب: دوسرا ہے ان اللہ غنی و انتم الفقرائ۔
حضور: اللہ کا جواب ہے یہ۔ ٹھیک ہے۔
عبد الرشید صاحب: اس میں وہاں تو اللہ تعالیٰ نے غنی کا لفظ استعمال کیاہے۔ غنی کے معنی صمد کے بھی ہوسکتے ہیں۔ صمد۔ اللہ الصمد۔
حضور: غنی کا معنی صمد نہیں۔ صمد میں ایک پہلو ایسا پایا جاتا ہے جو غنی کے ساتھ مشترک ہے اور یہ پہلو اس میں پیش نظر ہوسکتا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک لازماً ہے۔ غنی کا ایک معنی ہے امیر۔ بہت دولتمند۔ اور ایک لفظ غناء میں عدم احتیاج جو امارت کا مضمون ہی ہے دراصل، ان معنوں میں پائی جاتی ہے کہ خدا کو کوئی پرواہ نہیں تم کیسی باتیں کرتے ہو۔ تو واللہ غنی میں یہ معنی بھی ہے۔ یہ آپ نے جو توجہ دلائی ہے یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تم جیسوں کی احتیاج ہی کوئی نہیں۔ نہ ان باتوں کی پرواہ ہے۔ تم باتیں کرتے رہو۔ مگر اس حقیقت کو تم تبدیل نہیں کرسکے کہ تم فقیر ہو اور اللہ غنی ہے۔ جزاکم اللہ ۔ آج تو آپ نے چھوٹے اور بڑے بر محل سوال کئے ہیں۔ ماشاء اللہ۔آئیے اب بشیر ڈار صاحب۔ فرمایئے۔
بشیر ڈار صاحب: میر ا سوال کل کے درس کے بارے میں ہے۔ فرعون کے بارے میں ۔ اور آپ نے فرمایا تھا کہ ایک تو اس کو روحانی موت ہوئی اور جسمانی بقا۔ تو ملفوظات میں اس کے الٹ معنی ہے۔
حضور: میں خود بیان کرچکا ہوں یہی بات ۔ بعینہٖ یہی بات میں عرض کرچکا ہوںخود کہ دو امکانات ہیں معنی کے۔ ایک یہ ہے کہ روح کو نجات نہیں ملے گی ۔ لیکن جسم کو جان سمیت نجات مل جائے گی۔ یعنی جسمانی بقا سے مرا د صرف جسم کا نہ نکلنا۔ وہ تو سب کا جسم ہی بچ گیا تھا ان معنوں میں۔ کہ وہ باقی رہا کچھ عرصہ۔ گلتا سڑتا رہا۔ ایک یہ معنی ہوسکتے ہیں۔ اور میں نے دوسرا معنی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمایا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جسم کے مقابل پر جان کورکھا ہے۔ یعنی جان کونجات نہیںملے گی۔ بلکہ جسم کو نجات ملے گی۔تو میں تو خود بیان کرچکا ہوں۔
ڈار صاحب: مگر حضور اس کے جہنمی اور غیر جہنمی ہونے کے متعلق ہے۔
حضور: کیا؟
ڈار صاحب: جہنمی اور غیر جہنمی ہونے کے متعلق ہے۔ ملفوظات میں یہ لکھا ہے نا!
حضور: ہاں فرمائیے۔
ڈار صاحب: دیکھو فرعون بظاہر کیسا سخت کافر تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو یہ ہدایت تھی کہ قولا لہ قولا لینا۔
حضور: ہیں؟
ڈار صاحب: قولا لہ قولاً
حضور: لیّن ہاں لیّن کرو۔
ڈار صاحب: ابن عربی لکھتے ہیں کہ فرعون کیلئے کیوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو نرمی سے نصیحت کرنے کی ہدایت کی۔ اس کا بھید یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آخر اسے ایمان نصیب ہوگا۔ چنانچہ ۔۔۔۔
حضور: کس نے لکھا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے لکھا ہے یا کسی اور کی طرف منسوب فرمایا ہے؟ دوبارہ پڑھیں کیا لکھا ہے؟
ڈار صاحب: حضرت ابن عربی لکھتے ہیں کہ فرعون کیلئے کیوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو نرمی کا سلوک کرنے کی ہدایت کی۔
حضور: ابن عربی لکھتے ہیں! حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کی روایت بیان فرمارہے ہیں۔
ڈار صاحب: مگر حضور! انہوں نے اس کو Criticize نہیں کیا۔
حضور: کیا؟
ڈار صاحب: اس کاردّ نہیں کیا۔
حضور: کئی دفعہ ایک مضمون کے پہلو سے ایک روایت کو بیان کردیتے ہیں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام۔ لیکن اس کے اوپر آخری فیصلہ نہیںفرماتے۔ یہ ایک جگہ کی بات نہیں کئی دفعہ ہوچکا ہے۔ بہت سی پرانی روایات بیان فرمائیں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہ یہ اسلامی لٹریچر میںیہ باتیں بھی موجود ہیں۔ لیکن اس وقت کوئی فیصلہ نہیںفرماتے، یہ بھی اُنہی میں سے ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قطعی عبارتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ آپ فرعون کو جہنمی سمجھتے تھے او رجہنم سے نجات اس کی طرف منسوب نہیں فرمائی۔ پس ضروری نہیں ہوتا کہ سارا مضمون ایک ہی جگہ اکٹھا بیان ہو۔ دوسری عبارتیں جو فرعون کے تعلق میں مسیح موعود علیہ السلام کی ہیں نکال کر دکھادیں گے ہم آپ کو۔ اس میں واضح طور پر فرعون کو جہنمی قرار دیا گیا ہے فاوردھم النار قرآن کریم فرمارہا ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ کہیں کہ فرعون جہنم سے بچ گیا ۔
ڈار صاحب: مگر ابن عربی کہتے ہیں کہ وہ جہنمی نہیں ہوگا۔
حضور: مفسرین نے کئی کئی باتیں لکھی ہیں۔ ابن عربی نے اگر ایک استنباط کیا ہے تو لازم تو نہیں کہ ہم اُن کی ہر بات مانیں۔ بہت سی باتیں ایسی کہی ہیں جن سے ہم اتفاق نہیںکرسکتے۔ وہی مسلک ہے کہ ؎ لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں۔ مانا کہ ایک بزرگ ہمیںہم سفر ملے۔ پرانے بزرگ ایسے بہت سے ہیں۔ بڑا ہم احترام کرتے ہیں ، ان کی معیت میں نیکی ہے۔ لیکن ہر بات اُن کی مانی جا ہی نہیںسکتی۔ کیسے آپ یہ مسلک لے سکتے ہیں جبکہ ابن عربی پانچ قرآنی آیات کو منسوخ سمجھتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ نہیں؟
ڈار صاحب: اس کا نہیں پتہ جی۔
حضور: میں بتارہا ہوں آپ کو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابن عربی کی بڑ ی عزت کرتے تھے، بارہا حوالے دیتے تھے مگر اس مضمون پر آپ نے قطعی طور پر اعلان کیا کی ایک شعشہ بھی قرآن کا منسوخ نہیں ہے اور ابن عربی وہ آخری عالم دین ہیں جنہوں نے رفتہ رفتہ آیات کی تعداد کم کرتے کرتے غور اور تدبر سے اکثر آیات کو تو حل کرلیا لیکن پانچ ان پر روشن نہ ہوسکیں اور یہی عقیدہ لیے رہے آخر وقت تک کہ قرآن کی پانچ آیتیں منسوخ اور پانچ ناسخ ہیں۔ یعنی دس آیات پر شبہ پڑ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مؤقف لیا کہ جو علماء پانچ سو بیان کرتے تھے وہ پانچ سو گے گھٹ گھٹ کے پانچ تک پہنچے لیکن پانچ کا کیا سوال۔ ایک نقطہ بھی قرآن کریم کا منسوخ نہیں ہے۔ تو ابن عربی کے حوالے سے یہ ثابت کرنا کہ جو کچھ انہوں نے سوچا یا اندازہ لگایا وہ ضرور درست ہوگا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے! فرعون کوجنتی کا تو تصور بھی نہیںہوسکتا۔جہنم کا تو سلسلہ ساری عمر اُس نے ایسی باتیں کی ہیں ، جہنم تو آتی ہے سامنے۔ یہ خیال کہ اگر وہ جہنمی نہیں تھاحضرت ابن عربی کے نزدیک تو وہ کہاں چلا گیا؟ وہ جنت میں گیا ہوگا پھر۔ تیسری جگہ تو دائمی طورپر کوئی مذکور ہی نہیں ہے۔ ہے آپ کے علم میں کوئی جگہ جہاں فرعون کو اکیلا رکھاہو؟
ڈار صاحب: نہیں۔
حضور: فرعون کا جنتی ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ تو جہنمیوں کا رہنما، لیڈر اور سخت بار بار تکبر کرنے والا ، حد سے زیادہ ظلم کرنے والا۔ اتنی باتیں قرآن کریم میں اُس کے خلاف لکھی ہیں اور یہ نتیجہ! ایک ٹوٹکا ہے ایک تفسیر کا! بس! اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔
ڈار صاحب: پھر آپ نے کل Raamses 2nd کا ذکر کیا تو ملک صاحب نے اپنے ترجمہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ وہ، وہ فرعون تھا جس نے آپ کی پرورش کی تھی۔
حضور: Raamses 2nd
ڈار صاحب: ہاں۔
حضور: ہاں۔ ملک صاحب کا ہوگا خیال ، میرا نہیں ہے۔میں نے جو تحقیق کی ہے میرے نزدیک Raamses-II وہ فرعون تھا جس کے زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے۔
ڈار صاحب: اس کا نام ’’منفتاح‘‘ لکھا ہے۔
حضور: کیا؟
ڈار صاحب: اس کا نام لکھا ہے منفتاح تھا۔
حضور: وہ تو پہلے کا تھا وہ تو غالباً ۔
ڈار صاحب: وہ کہتے ہیں اس نے persecute کیا تھا۔
حضور: منفتاح تو اس سے پہلے کا ہے وہ بعد میں کیسے آگیا؟
ڈار صاحب: انہوں نے لکھا ہے۔
حضور: نہیںنہیں۔ پتہ نہیں آپ نے کہاں پڑھ لیا کیا۔ منفتاح تو رعمسیس سے پہلے کا ہے۔ منفتاح کے زمانے میںغالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں پناہ ملی ہے۔
ڈار صاحب: وہ کہتے ہیں انہوںنے persecute کیا تھا ان کو۔
حضور: وہ بیشک کہتے رہیں۔ مجھ پر کس طرح ٹھونس سکتے ہیں آپ ان کی بات۔ میں جوبات کررہا ہوں تحقیق کروا چکا ہوں۔ میرے پاس شواہد موجود ہیں ۔ محققین آج تک۔ ملک صاحب کی وفات کے بعد آج تک جو تحقیق کررہے ہیں اس پر نظر ڈال کر بات کہہ رہاہوں۔ تو آپ اس طرح quote کررہے ہیں جس طرح ملک صاحب نے جو کچھ لکھا ہے سو فیصدی میں ان کی پیروی کرنے پر پابند ہوں۔ بالکل نہیں ہوں۔
ڈار صاحب: وہ سلسلے کا لٹریچر ہے۔
حضور: آپ کی مرضی بیشک ان کی بات مانیںیا میری مانیں۔
ڈار صاحب: نہیں حضور۔
حضور: میں تو اپنی تحقیق کو بھی کہہ رہا ہوں کہ ابھی تک قطعی نہیں ہوئی۔ یہ جاری سلسلہ ہے۔جب بھی حقائق ایسے ٹھوس میرے علم میں مزیدآئیں گے میں جماعت کے سامنے پیش کردوں گا۔ اس کے بعد آپ کی مرضی ہے مانیں یا نہ مانیں۔
ڈار صاحب: مزید پھر ان پہ revise کرنا چاہیے چونکہ۔
حضور: کیا؟
ڈار صاحب: وہ جو ترجمہ ہے اس کاپھر revisionہونا چاہیے۔
حضور: نہیں ۔کس طرح کرسکتے ہیں ؟ اچھا اب آپ ابن عربی کا revisionکریںگے۔ جلال الدین صاحب سیوطیؔ کا بھی revisionکریں گے؟Revisionکا کوئی موقع نہیں ، جائز ہی نہیں ہے۔ جہاںجہاں بھی ہمیں اختلاف نظر آتا ہے ، میں نے قطعی ہدایت دی ہے کہ اصل میں ایک شعشے میں بھی تبدیلی نہیں کرنی۔ زیادہ سے زیادہ یہ حق ہے کہ annotateکردیں اور نیچے نمبر دے کر پشت پر لے جائیں اور کہیں کہ ہمارے نزدیک ایک یہ ترجمہ بھی ممکن ہے۔ ہمارے نزدیک ایک یہ بھی تشریح ممکن ہے۔ اور اس تفسیر سے ہمیںاختلاف ہے اور یہ ٹھیک ہے۔ یہ تو ایک مسلمہ علمی دیانتداری کا اصول ہے اور سارا اسلامی لٹریچر اس سے بھرا ہوا ہے کہ اصل میں تبدیلی نہیں کی لیکن نوٹو ں سے اتنا بھر دیا یا اتنی تشریحات ساتھ لگادیں کہ اصل کتاب چھوٹی سی رہ گئی اور بے شمار متول اس کے اوپر قائم ہوگئے ۔ تو اس حد تک تو ہم جاسکتے ہیں ۔ حضرت ملک صاحب نے بڑی محنت کی ہے۔ بہت ہی بزر گ عالم اور انگریزی زبان پر بڑ ا عبور تھا۔ ان خدمتوں کا تو اقرارکرنا لازم ہے لیکن آخر انسان تھے ۔اور علوم توایک جگہ ٹھہر نہیں گئے، ترقی پذیر ہیں۔ اکثر جگہ انہوںنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نوٹس سے استفادہ کیا ہے۔ کہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض نوٹس سے میں اپنا ذکرکرتا ہوں بڑی عاجزی کے ساتھ کہ مجھے اختلاف ہے۔ میں وجہ بتاتا ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ دے کر اختلاف فرمایا کرتے تھے ۔ علمائے سلسلہ حضرت مولوی سرور شاہ صاحب وغیرہ بھی بعض باتوں میں تفصیلی نکات میں خلفاء سے اختلاف کرتے تھے خواہ ذکرکریں یا نہ کریں۔ مگر ان تفاصیل میں صاف ملتا ہے۔ تو یہ علمی آزادی کا مضمون ہے جس کو کھلم کھلا لاعلمی سے اگر دیکھا گیا تو کئی جہالت کے شوشے چل پڑیں گے۔ لاعلم لوگ بھی اس بہانے کہ یہ ہوتا تھا، وہ اپنی تفسیریں اُوٹ پٹانگ قرآن کی طرف منسوب کرکر کے شائع کریں، اس کی جماعت اجازت نہیں دے سکتی۔مگر یہ مسلک قطعی ہے کہ اگر ایک تفسیری مسلک ہو اور کسی احمدی کا دل اس پہ مطمئن نہ ہو تو اسے خلیفۂ وقت کے منشاء کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی تو اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پیدا ہوگا۔ لیکن وہ ایسا اختلاف دل میں رکھ سکتا ہے ، گناہ نہیں ہے۔ جب تک اس کا دل مطمئن نہیں ہوتا اس وقت تک خلیفۂ وقت کے ہر تفسیری مسلک سے اتفاق کرنا لازم نہیں ہے۔ لیکن جہاں اختلاف ہو وہاں جیسا کہ اکثر علماء بھی دوسرے کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ خلیفۂ وقت کو مطلع کریں کہ آپ کے اس نوٹ سے مجھے اس حد تک اختلاف ہے اور یہ میرے دلائل ہیں۔ کئی لوگ مجھے لکھتے ہیں اور وقت ملتا ہے تو میں ان کو جواب دیتا ہوں۔ پھر ان کا جواب بھی آجاتا ہے کہ ہم مطمئن ہوگئے ہیں اور اس معاملے میں وضاحت ہوگئی۔اب ہمارا کوئی اختلاف نہیں رہا۔ تو اختلاف تو رحمت ہے اگر تقویٰ سے کیا جائے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا اختلاف اُمّتی رحمۃ میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ یہاں وہ اختلاف نہیں ہے جو علماء شر نے کرنے تھے۔ ان کے متعلق فرمایا علماء ھم شرّ من تحت ادیم السماء ’’اُن‘‘ لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہیں۔ جہاں تقویٰ والے علماء کا ذکر فرمایا اور ان کے اختلاف کو رحمت قرار دیا وہاں فرمایا علماء امتی میری امت کے۔ جو واقعتہً زیب دیتا ہے ان کو کہ میری امت کہلائیں، ان کا اختلاف رحمت ہوتا ہے۔
پس ہر وہ اختلاف جو تقویٰ پر مبنی ہو، شرارت اور فساد کی نیت سے نہ کیا جائے وہ رحمت ہی رحمت ہے۔ اس سے علوم ترقی کرتے ہیں۔ اس سے روشنی ہمیشہ آگے بڑھتی ہے اور وہ اختلاف جو نفس کے بہانے رکھ کر، اپنے نفس کی انا کی خاطر یا اور کسی شرارت کی وجہ سے کیے جاتے ہیں ، وہ فتنے ہوتے ہیں اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں بارہا ایسے ہوا ہے کہ بہت سے علماء نے اختلاف کا کھل کر مسجد میں اظہار کیا۔ میری موجودگی میں ایسا ہوا۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے اختلاف کیا۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختلاف کیا اور مسکراکر، بڑے حوصلے سے جواب دیئے۔ اپنے دلائل بھی پیش کئے۔ لیکن کئی فتنہ پردازوں کاجب پتہ لگ گیا تھا کہ یہ فتنہ پرداز ہیں ، ان کا سختی سے تعاقب کیاہے۔ حکماً ان کوروک دیا کہ خبردار جو تم نے کوئی بات کی۔ تو خلیفۂ وقت اس بات کا مجاز ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ اسے سمجھادے کہ یہ فتنے کی بو ہے، وہاں پابندیاں لگائے۔ اور جہاں وہ دیکھتا ہے اور اکثر فیصلہ خدا کے فضل سے درست ہی ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ کے ساتھ اختلافات ہیں وہاں کبھی سرزنش نہیں ہوتی۔ اب آپ ہر مجلس میں آتے ہیں۔کوئی نہ کوئی اختلاف پیش کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے کوئی ناراضگی کااثر مجھ سے دیکھا ہے؟ تو یہی میں بتا رہا ہوں۔ اختلاف رکھیں لیکن اختلاف کو اگر جماعت کو پھاڑنے کا موجب بنایا گیا تو یہ برداشت نہیں ہوگا۔ اور اسی طرح محمد عبدالرشید صاحب اس بات کے گواہ ہیں۔ حیات صاحب ہیں۔ بڑے بڑے اختلاف لے کے آتے ہیں۔ میں آرام سے، حوصلے سے جو حق ہے، ان کے شکریے کے ساتھ ان کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ پس دیانتداری سے، تقویٰ سے خلیفۂ وقت کے کسی تفسیری مسلک سے اختلاف ہر گز ناجائز نہیں۔ مگر ان شروط کے اندر رہنا چاہیے۔ لیکن جہاں خلیفۂ وقت کوئی جماعتی فیصلہ کرتاہے۔ کوئی ایسی باتوں میںقرآن کریم سے استنباط حاصل کرتاہے، جو اس کی خلافت کی ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے، اس کا انکار ہرگز جائز نہیںہے۔ اگر وہ اختلاف ہے بھی تو اپنے دلوں میں گھونٹ لیں اس کو اور خدا کے حضور عرض کریں کہ اے اللہ ہمارا دل کھول دے یا خلیفۂ وقت کی رہنمائی فرما۔ ایسی صورت میں بسا اوقات تو رہنمائی ہوجاتی ہے ان لوگوں کی۔ بعض دفعہ آج، بعض دفعہ کل۔ ابھی اسی رمضان میں مجھے ایک خط ملا ہے۔ ایک نہیں بلکہ کئی مل چکے ہیں اس مضمون کے۔ ایک خط بڑا واضح الفاظ میںلکھتا ہے کہ مجھے آپ کے کئی مسالک سے اختلاف تھا مگر میں نے دل میں رکھا ۔ میں خدا سے دعا کرتا رہا اور اب جب آپ نے درس شروع کیا ہے تو سارے مسئلے کھل گئے ہیں اور وہ اختلاف میرے دل سے دھل گئے ۔ توجو لوگ اختلاف تقویٰ سے رکھتے ہیں ،دعا کرتے ہیں ان کے مسائل جو ہیں وہ خداتعالیٰ خود کھول دیتا ہے۔ اور خلیفۂ وقت سے اگر ایسی غلطی ہو جس کا اس کے منصب سے تعلق ہو اور جماعت پر برا اثر ڈال سکتی ہو تو اللہ اس کی اصلاح فرمادیتا ہے۔ یہ ہمارا تاریخی مشاہدہ ہے خلافت سے تعلق میں۔ اللہ خود اس کی اصلاح فرمادیتا ہے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ خلیفۂ وقت پر تم چونکہ نگران نہیں ہو اورجوابدہ نہیں ہو وہ تمہارے سامنے جوابدہ نہیں ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جوابدہ ہی نہیں ہے۔ وہ تم سے زیادہ بالا، مقتدر ہستی کے سامنے مسلسل جوابدہ ہے۔ اس لئے اگر مجھ سے کوئی ایسی غلطی ہوئی جس کا تم کہتے ہو کہ غلطی ہے اور میں مان نہیں رہا تو تم دیکھنا خدا مجھے واپس بلالے گا کیونکہ خدا ایسے وقت معزول تو کرتانہیں خلافت کو۔ لیکن اس کو واپس بلا سکتا ہے۔ تو یا وہ اصلاح فرمادے گا یا واپس بلالے گا۔ یہ ایک دور کا عقلی امکان ہے جو خلیفۃ المسیح الاوّل نے بیان فرمایا ہے ۔لیکن منافقوں کے دلوں کو مطمئن اور ان کے سوالات کو ساکت کرنے کیلئے ان کے منہ ساکت کرنے کیلئے یہ ایک بہت اچھا جوا ب تھا کہ ٹھیک ہے تم یہ اگر سوچو کہ تم وہم میںمبتلاء ہوپھر ہمارا کیا بنا۔ ہم اختلاف رکھتے ہیں۔ خلیفۂ وقت مانتا ہی نہیں بات اور مسلک ہمارے نزدیک بڑا اہم ہے تو کہتے ہیں پھر دعا کرو۔ اللہ سے عرض کرو کہ یہ تو نے کیسا خلیفہ ہم پرنافذ کردیا ہے۔ تو اللہ اگر تم سچے ہو تو مجھے واپس بلا لے گا۔ اس کے بعد کون سے شبہے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ کیوں جی۔ ٹھیک ہے؟
ڈار صاحب: ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
حضور: آخری بات یہ ہے کہ ڈیڑھ بج چکا ہے۔
ڈار صاحب: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور: ہیں؟
ڈار صاحب: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور: نہیں digestive کے علاوہ وہanti-biotic بھی ہے۔ میں نے خود یہ مضمون ایک مستند Scientific رسالے میں پڑھا ہے Slivaکے متعلق ۔ جس میں کہتا ہے کہ محض یہ شوگر بنانے میںکام نہیں آتا carbohydrates کو بلکہ اس میں بہت سے ایسے agents دریافت ہوئے ہیں جو anti-biotic یا anti-septic صفات رکھتے ہیں۔ اسی لیے جس چیز کے متعلق قرآن کریم نے شفاء کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی شہد۔ وہ شہد صرف پھولوں کا رس نہیں ہے بلکہ مکھی کے Sliva سے ملا ہوا ہے۔ اور جب تک وہ مکھی کے سِلَاوَامیں مل کروہ خشک ہوکر شہد کی صورت اختیار نہیں کرتا اسوقت تک وہ شفاء نہیں کہلاتا۔ تو Sliva میں شفاء کا ہونا ایک سائنسی حقیقت ہے کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ جزاکم اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ12 رمضان بمطابق13؍ فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کیوں باسط میاں کیا حال ہے؟ آپ کہاں غائب رہتے ہیں۔ وہ کب شائع ہوگی تمہاری کتاب؟ وہ زیورخ کے لیکچر جو ہیں۔
‏Yes, this is going to the final proof reading hopefully۔حضور: اچھا۔ When you give it over to Waheed then who will rechecked it after Waheed. Has done what he does it.............. right...........................
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
الذین قالو ان اللہ عھد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب منیرO(آل عمران: 184-185)
اس آیت کا درس شروع کرنے سے پہلے کل کے درس میں جو کچھ باتیں ہوتی رہی ہیں ان میں کچھ تصحیحات ہیں جو ربو ہ سے آئی ہیں، وہ بیان کرنی ضروری ہیں۔ میںنے کہہ دیا تھا میا ں عبدالرحیم صاحب جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بیٹے تھے جن کے متعلق وہ واقعہ ہے شفاعت والا ان کی اولاد بھی تھی وہ مجھے بعد میںیاد آگیا تھا کہ غلطی ہوگئی ہے۔ حضرت عبدالرحمن صاحب کی جو ان کے بڑے بھائی تھے، بہت بزرگ اور بہت ہی خاص حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت رکھنے والے تھے ان کی اولاد تھی ، ان کی نہیںتھی۔ تو اچھا ہوامیا ں خورشید نے مجھے فیکس میںیاد بھی دلا دیا ورنہ وہ ہوسکتا ہے میں آج بیان کرنا بھول جاتا ۔ تو ان کی فیکس آگئی ہے کہ میاں عبدالرحیم صاحب کی اولاد نہیںتھی۔ جو بڑے بھائی تھے عبدالرحمن خان صاحب ان کی اولاد تھی۔ اوردوسری بات ہے سیّد احمد شہیدؒ صاحب سے متعلق میں نے جو بیان کیا تھا کہ مجھے یاد ہے کہ میں نے کسی مطالعہ کے دوران یہ پڑھا تھا کہ ان کا قتل مشکوک ہے ۔ اور ایسی روایات ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سیّد احمد شہیدؒ صاحب جو شہید کہلاتے ہیں، وہ شہید کا مرتبہ تو ہوگا لیکن قتل نہیں ہوئے۔ اس ضمن میں حافظ مظفر احمد صاحب نے مجھے ایک حوالہ بھجوایا ہے۔ ایک مشہور کتاب ، مستند کتاب جو غلام رسول صاحب مہر کی لکھی ہوئی ہے سیّد احمد صاحب شہیدؒ پر، وہ حوالہ ایسا ہے جو دلچسپ ہے اور پڑھنے کے لائق اور اُسی بات کی تائید کرتا ہے جومیں نے بیان کی تھی۔ سیّد احمد شہیدؒ کے مستند سوانح مرتبہ غلام رسول مہر میں ان کی شہادت میں اختلاف بلکہ ان کی غیبوبت کے عقیدہ کا ذکر موجود ہے۔ جو ان کے بعض عقیدت مند اب بھی ان کو زندہ جانتے ہیں ۔ مصنف کے مطابق سیّد صاحب کے حملہ آور ہوکر ہجوم میں گھسنے اور زخمی ہونے پر تو روایات متفق ہیں کہ وہ حملہ کرکے ہجوم میں گھس گئے تھے مگر شہادت کے بارہ میںکوئی روایت نہیں ملی۔ بلکہ بعض ایسی روایات ہیں کہ آپ میدان جنگ سے غائب ہوگئے اور مشہور ہوگیا کہ گجر آپ کو اُٹھا کر لے گئے ہیں۔ اس علاقے میں گجر تھے ۔ تو وہ یا وہ زخمی حالت میں اُٹھا کر لے گئے ہیں یا اس حملے کے دوران جوہنگامہ بپا ہواہے اس میں کچھ ان کے ساتھی ان کو لے کر الگ ہوگئے۔ یہ روایت بیان کی جاتی ہے۔ سرحد کے بعض اکابر نے واقعہ بالا کوٹ کے بعد سیّد صاحب کو زندہ دیکھنے کی روایات بھی کی ہیں۔ جبکہ دوسری روایات کے مطابق سکھ سردار شیر سنگھ نے معرکۂ بالا کوٹ کے بعد گرفتار مسلمانوں سے سیّد صاحب کی لاش شناخت کرنے کو کہایعنی ان کو بھی پکا پتہ نہیںتھا کہ شہید ہوسکے ہیں کہ نہیں۔ انہوں نے لاش شناخت کرنے کو کہا تو انہوں نے ایک بے سر دھڑ کے بارہ میں کہا کہ یہ خلیفہ کی لاش ہے جس کا سر ہی نہیں تھا۔اب یہ بڑی مشکوک سی گواہی بنتی ہے لاش کے متعلق ۔ تب اس کے ساتھ ایک سر تلاش کرکے دفن کردیا گیا۔ اب سر کہیں اور سے اُٹھایا اور اس کے ساتھ دفن کردیا گیا اور یہ مدفون جو آج سیّد صاحب کی قبر قرار دیا جاتا ہے بالا کوٹ کے پشتے سے نیچے جنوبی اور شرقی سمت دریا کے کنارے پر ہے۔ یہ کتاب ہے سیّد احمد شہیدؒ۔ مرتبہ غلام رسول صاحب مہر صفحہ 444,414 تک جو تفاصیل ہیں ان کا خلاصہ یہ بیان کیا گیا ہے۔
ابن عربیؒ کے متعلق ایک غلطی ہوگئی تھی۔ وہ بھی ویسی تھی جو میں نے کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ ذہن میں کوئی اور شخص ہوتا ہے تو نام کسی اور کا ہورہا ہوتا ہے۔ ابن عربیؒ کی بحث تھی اور میرے ذہن میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی پانچ آیات والا واقعہ تھا۔ تووہ چونکہ بہت تیزی سے اس وقت کام، ذہن کام کررہا ہوتا ہے ،ایک طرف مصروف ہوتا ہے تو ٹھہر کر بعض باتوں کی طرف توجہ دینے کا وقت ہی نہیںہوتا۔ جو منہ میں لفظ اس وقت آرہا ہوتا ہے وہ جو جاری نام ہے بعض دفعہ وہی آجاتا ہے ۔ یہ توقطعی با ت ہے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہیں جنہوں نے پانچ آیات تک نسخ کا عقیدہ تسلیم کیا اور باقی کو حل کرلیا۔ مگر مجھے تعجب ہے کہ جو حاضر علماء تھے انہوں نے کیوں نہیں مجھے اس وقت ٹوکا کہ تم نام تو لے رہے ہو ابن عربیؒ کا اور بات بیان کررہے ہو شاہ ولی اللہؒ کی۔ کیوں جی امام صاحب جواب دیں۔
امام صاحب: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور: ہائیں؍ہاں۔
امام صاحب: میں نے ذکر کیا تھا یہاں۔۔۔۔
حضور: آپس میں۔
امام صاحب: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور: مگر اتنا احتیاط سے ذکر کیا تھا کہ میرے کانوں کان نہ بات پہنچے، مجھے کانوں کان خبر نہ ہو۔ ایسے موقع پر فوراً بتادینا چاہیے کیونکہ ظاہر بات ہے کہ یہ زبان کی ٹھوکر ہوتی ہے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوجاتا ہے جب انسان ایک تقریر میں، ایک مضمون میں بہت گہرے انہماک کے ساتھ مصروف ہو تو یہ جو ناموں کی احتیاطیں ہیں یہ ساتھ ساتھ رکھی نہیں جاسکتیں۔ کم سے کم مجھ میں یہ ہے کمزوری۔ پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کرچکا ہوں مگر الحمدللہ کہ حافظ صاحب نے توجہ دلادی۔ وہاںبیٹھے ربوہ سے آگئی توجہ ، یہاں نہیں کسی نے دلائی۔ حالانکہ ایسی بات تھی جو عرف عام میںہر احمدی کو معلوم ہونی چاہیے مگر ہر ایک کو نہ سہی، جو جامعہ کے تعلیم یافتہ ہیں ان کو توبالکل واضح طور پر پتہ لگ جانا چاہیے تھا کہ یہ بات ہورہی ہے بہرحال۔
(ابن عربی)ایک غلطی سے بعض دفعہ کچھ اور فائدے بھی ہوجاتے ہیںاور اللہ میاں کی یہ شان ہے کہ جو غلطی ظالمانہ نہ ہو، ضد سے نہ ہو اور اتفاقاً ہو اس کی کوکھ سے پھر خیر کے بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک اور علم میںمیرا اضافہ ہوا ابن عربیؒ کے متعلق۔ میرے علم میں تو ایک ہی ابن عربیؒ تھے حالانکہ یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ ابن عربیؒ دو ہیں جو ابن عربی کے نام سے مشہور ہیں۔ دونوں ہی اندلس کے ہیں اور دونوں ہی بہت بڑے اپنے وقت کے علماء تھے اور بہت ہی بڑا مرتبہ انہوںنے پایا ہے۔ لیکن ایک ابن عربیؒ اور دوسرے کے درمیان 170سال کا فاصلہ ہے جو اس کے متعلق میں آپ کو بتادوں تا کہ آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو۔ (وہ دوسری جگہ آیا ہے نا وہ مولوی دوست محمد صاحب نے بھیجا ہے وہ کہاں ہے جی؟)یہی یہ زمانہ دیکھیں کتنا مزیدار ہوگیا ہے۔ فوراً فیکسوں کے ذریعے جس طرح آمنے سامنے بیٹھے ہوں، اس طرح ایک دوسرے سے بات ہوجاتی ہے اور اطلاعیں مل جاتی ہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ الاتقان فی علوم القرآن میں ابن عربیؒ کے نام سے جس بزرگ کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ ولادت 560ہجری اور وفات 638ہجری ہے۔ یہ الگ شخصیت ہیں جو دنیائے اسلام میں قاضی ابوبکر ابن عربیؒ کے نام سے مشہور ہیں۔ اور جو حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کی وفات سے 170 سال قبل پیداہوئے تھے۔تو شیخ اکبر جو محی الدین ابن عربیؒ جو عام طور پر مسلمانوں میں مشہور ہیں شیخ اکبر کے طور پہ ان پہلے ابن عربی (ان کو بھی شیخ اکبر ہی لکھا ہوا ہے) اچھا ٹھیک ہے۔ وہی ہیں ان کے 170سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ دوبارہ پڑھوں یہ انہوں نے ذرا۔۔۔ وہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی جن کی تاریخ پیدائش 560 وفات 638 جن کا تذکرہ الاتقان فی علوم القرآن میں پایا جاتا ہے کہتے ہیںوہ جن کا الاتقان میں ذکرملتا ہے وہ الگ شخصیت ہیں۔ ابن عربی جن کا تفسیر اتقان میں ذکر ملتا ہے وہ الگ شخصیت ہیں اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی وہ الگ شخصیت ہیں جو دنیائے اسلام میں قاضی ابوبکر ابن عربی کے نام سے مشہور ہیں ۔ شیخ محی الدین(مبہم کیوں ہے یہ سارا قصہ؟) آگے واضح ہوجائے گا چلتے ہیں آگے چلتے ہیں پہلے شیخ ہیں محی الدین ابن عربی اور ایک دوسرے شیخ ہیں محی الدین ابن عربیؒ Right۔ اچھا ۔ ان دونوں کے درمیان 170سال کا فاصلہ ہے۔ ہوگیا اب واضح رکھ لیںاپنے ذہن میں۔ ان کو اصل میں وہاں سنتے ہی اتنی جلدی ہوتی ہے لکھنے کہ کہ جو عبارت نکل رہی ہے حالانکہ اس وقت وہ چلی ہوئی فیکس ہمارے کام آ ہی نہیںسکتی بیشک تھوڑا سا تسلی کرکے لکھیں۔ تو وہ فیکس جو ہے وہ بڑ ی آسانی سے اگلے دن ہی پیش ہونی ہے نا۔ یہ بہر حال ان کا جو جوش و خروش ہے جلد سے جلد پہنچنے کا یہ قابل داد ہے ماشاء اللہ۔حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ دمشق میں فوت ہوئے اور قاضی ابوبکر ابن عربیؒ کا انتقال اُندلس کے ایک مقام ادواء میں ہوا۔ دونوں بزرگ اندلسی تھے۔ قاضی ابوبکر ابن عربی صاحب تصنیف کثیرہ تھے۔ یہ پہلے ہیں قاضی۔یہ تو پکی بات ہے۔ پس جو پہلے ابن عربیؒ ہیں وہ بھی اندلس ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ اور دوسرے ابن عربیؒ بھی اندلس ہی میںپیدا ہوئے تھے جو کثیر تعداد میں کتب کے مصنف ہیں۔ اور زیادہ انہوں نے بہت سی سائنسی علوم وغیرہ پہ بھی کتابیں لکھیں ہیں ۔ وہ قاضی ابوبکر ابن عربیؒ ہیںاور ان کی مشہور کتاب ’’قانون التاویل فی تفصیل القرآن‘‘ اور ’’شرح جامع الترمذی‘‘ وغیرہ ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا پورا نام یہ ہے۔ محمد بن علی بن محمد بن احمد بن عبداللہ الطائی الحاتمی المرعصی المعروف بابن عربی محی الدین شیخ الاکبر، یہ بعدوالے ہیں۔ 170 بعد والے۔ اور پہلے قاضی ابوبکر ابن عربیؒ کے نام کی تفصیل یہ ہے۔ محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبداللہ المعاشری الاندلسی الاشبیلی المالکی المعروف ابن العربی۔ مندرجہ بالا تفصیلات معجم المؤلفین جلد 10،248 جلد 11صفحہ 40سے ماخوذ ہیں۔ جہاں تک حضرت محی الدین ابن عربیؒ کا تعلق ہے اب آگے تفسیر کی جو بحث ہے ، تنسیخ فی القرآن کا معاملہ ہے۔ اس کی طرف ہم واپس آتے ہیں۔ پانچ والی بات تو بہر حال حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ہے۔ وہ آخری ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے، جنہوں نے تمام دوسرے اختلافات کو خداتعالیٰ کے فضل سے حل سمجھ کر آخری فیصلہ یہ دیا کہ باقی سب باتیں فرضی ہیں۔ صرف پانچ ایسی جگہیں ہیں جہاںنسخ کا عقیدہ ماننا پڑتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پانچ والے عقیدے کوبھی (over...) پھینک دیا اور ا ن کے حل پیش فرمائے اور کہا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، قرآن کریم میںکوئی نسخ نہیں۔ ابن عربی یہ جو الشیخ اکبر جو ہیں یہ بھی نسخ کے قائل تھے۔ لیکن ان کے متعلق جو روایات ملی ہیں، ایک روایت کے مطابق بیس آیات تک یہ پہنچے تھے کہ بیس آیات سے بالا جو ہیں وہ تو حل شدہ ہیں۔ بیس میںضرور نسخ ہے۔ اور ایک روایت کے مطابق یہ اکیس کے نسخ کے قائل تھے۔اب یہ جو ہے اکیس اور 20کی بحث یہ کس ابن عربی کے متعلق ہے قاضی صاحب سے متعلق یا دوسرے ۔ ہیں؟ اب یہ جو ہے نارِ گمارول اس میں پڑھ کے اس میں سے نکال کے مجھے بعد میں بتانا۔ ہیں! حافظ مظفر صاحب نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ حافظ مظفر صاحب لکھتے ہیں ابن عربیؒ کے عقیدہ نسخ۔۔۔ ۔۔ اب انہوں نے ابن عربیؒ کی تفصیل نہیںبتائی کہ یہ کون سے ابن عربی ہیں؟ مولوی دوست محمد صاحب نے جو ایک مستند کتاب ہے اس مضمون پہ اس کو دیکھ کر تو دو ابن عربی ہمارے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ لیکن ایک ابن عربی، دونوں میں سے جو بھی ہیں، ان کے متعلق یہ ہے کہ سیوطی نے ابن عربیؒ کے موافق مذکورہ بالا اکیس آیات کو منسوخ قرار دے کر کہا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی آیت منسوخ نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (خود یہ لکھ رہے ہیں اصل میں۔ اس کتاب سے حوالہ دیا ہے، اس میں دونوں باتوں کا پتہ چل جاتا ہے)۔ وہ کہتے ہیں کہ سیوطی نے ابن عربیؒ کے موافق مذکورہ بالا اکیس آیات کو منسوخ قرار دے کر کہا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی آیت منسوخ نہیں مگر میرے نزدیک نسخ صرف پانچ آیات میں ہے۔ (الفوز الکبیر عربی مطبع کر اینی لاہور)یہ فوز الکبیر ان کی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی کتاب ہے یہ ۔ ٹھیک ہے۔ تو ان کا حوالہ مل گیا ہے جس میں دونوں ثبوت مل گئے ۔مگر یہاں ابن عربیؒ کی تفصیل نہیں وہ آپ نکال لیں ان میں سے۔ کون سے ہوں گے وہ؟ یہ لے لیں۔ مولوی دوست محمد صاحب کے نزدیک ابن عربی کی بیس آیات منسوخ ہیں ان کے نزدیک۔ اصل میں انہوں نے بھی حوالہ ہی دیا ہے فوز الکبیر ہی کا تو 21اور 20 جو اختلاف ہے وہ فوز الکبیر ہی میں پایا جاتا ہے۔انہوںنے جو حوالہ دیا ہے اس کی رو سے یعنی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں ’’بعض مصنّفین کی آراء دے کر کہ ابن عربیؒ کے موافق تحریر کرکے قریباً بیس منسوخ آیتیں گنوائی ہیں۔ دوسری جگہ اکیس لکھا ہوا ہے۔قریباً سے تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے بیس ، اکیس کے درمیان ہے امکان۔ لیکن فقیہہ کو ان بیس میں بھی اکثر کی نسبت کلام ہے۔ باوجودیکہ ان میں بھی بعض کی نسبت اختلاف ہے اور ان کے علاوہ اور کسی آیت کیلئے دعویٰ نسخ صحیح نہیں اور آیت استیذان اور آیت قسمت اور آیت احکام میں عدم نسخ صحیح ہے۔ اب صرف انیس آیتیں منسوخ رہ گئیں۔ میںکہتا ہوں ہماری تحریر کے موافق پانچ ہی آیتوں میںنسخ ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔ پانچ والی بات پہ پورا اتفاق ہے ۔
اب ایک اور بریگیڈیئر صاحب کی فیکس ملی ہے عبدالوہاب صاحب کی وہ جو ایک مشکل سا لفظ تھا meteoritasist میں نے کہا تھا ڈکشنریوں میں ہمیں کہیں نہیں ملا۔ لیکن ہوسکتا ہے اصطلاح ہو کوئی تو انہوں نے کہا یہ درست بات ہے۔ یہ اصطلاح ہی ہے جو Sagon اور اس کے ساتھی جو اس فن کے ماہر ہیں ان کی اصطلاح ہے۔ ہاں عرف عام میں meteorite اور meteorکا فرق نہیں سمجھا جاتا۔ یہ دو الگ الگ چیزیں ہیںاور جو اس علم کے کے ماہر ہیں وہ ان میں سے ایک مضمون سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب انہوں نے تفصیل جو بھیجی ہے وہ بالکل درست اسی طرح ہی ہے meteor وہ ان bodies کو کہتے ہیں فضا میں جو ہر وقت پھررہی ہیں بے شمار ہیں جو ستاروں کے ٹکڑے مختلف سائز کے چھوٹے بڑے بعض بہت بڑے بڑے ہجوم بھی ہیں ان کے۔ وہ سارے meteoritesکہلاتے ہیں۔ اور جب وہ زمین میں ان میں سے کوئی داخل ہواور strike کرے یا رستے میںجل جائے تو اس meteorکو meteoritesکہا جاتا ہے۔ یعنی زمین میں داخل ہونے والا۔ اور وہ جو ماہرین ہیں اس فن کے Carl Sagon ہے جس طرح وہ meteorites کے ماہر نہیں ہیں meteorsکے ماہر ہیں یعنی تمام کائنات میں meteorsکے مضمون کی study کرنے والے اور ان کے حالات، ان کا آغاز ، ان کا behaviour کیسے وہ پھر رہے ہیں، کیا کیا ہورہا ہے، کون سی طاقتیں ان پر کام کررہی ہیں۔ اس سب مضمون کو meteorsسے تعلق ہے meteoritesسے نہیں۔ meteoriteاس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور meteorites یہ ہےScience of study of Meteors۔ تو چونکہ یہ لفظ meteorology, meteoritics نہیں ہے۔ meteorologyتو موسموں وغیرہ اور اس قسم کے جو Study of Weather یہاں ۔۔۔ ٹھیک ہے۔ meteorology اس کو کہتے ہیں۔ تو meteorologyجو ہے اس کو meteorsسے confuseنہیں کرنا چاہیے۔ meteorology اور چیز ہے meteorsاور چیز ہے اور meteorites اور چیز ہے۔ یاد ہوگیا سب کو (جی) کیا یاد ہوا ہے امام صاحب بتائیں۔ meteorفضا میںکائنات میں گھومنے پھرنے والے آزادٹکڑے ہیں۔ جو کئی دفعہ ستاروںکے ٹکرانے سے، کئی دفعہ اور ذرائع سے، پھٹنے سے پید اہوئے ہیں۔ او روہ ان گنت ہیںجو ہر وقت کائنات میں چل رہے ہیں اور کسی وقت کسی جگہ ٹکراجاتے ہیں وہ meterosہیں۔ meteorites ان میں سے وہ ہیں جو زمین میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور شیطان مارد کی طرح ان کے ساتھ behaviour ہوتا ہے پھر۔ آگ کے شعلے ان کو پیروی کرتے ہیں اور جلا دیتے ہیں اور زمین کو ان کے فتنے سے بچاتے ہیں۔ یہ ہوگئے meteorites۔ اور جو ماہرین ہیں وہ meteoritesکے نہیں بلکہ meteorsکے ماہرین ہیں اور ان کی جو سائنس ہے وہ meteoritics کہلاتی ہے۔ ٹھیک ہے؟ یہ انہوں نے Chamber's Dictionary سے ، جو بڑی ڈکشنری ہے Chamber کی اس سے نکال کے اب مجھے بھجوایا ہے اورmeteorologyکا meteor سے تعلق نہیں، یہ موسموںکی سائنس کا نام ہے۔ موسم کیسے ادلتے بدلتے ہیں؟ اور یہ جو meteoritics ہے اسی سے وہ فتنہ لفظ نکلا ہے Meteoriticistاور کہتے ہیں یہ اصطلاح ہے ان کی جو Carl Sagon وغیرہ کو، ان کے جو groupہے ان کو پسند ہے۔ وہ یہی لفظ استعمال کرتے ہیں اپنے لئے۔ ہوگیا سارا مسئلہ۔ ایک رہ گیا ہے باقی شاید۔ ایک اوربھی فیکس آئی ہوئی ہے وہ تو صرف ایک ایمان میں اضافے کیلئے اصل جو تار آئی تھی کسولی سے، یہ اس کا فوٹو سٹیٹ میاں خورشید احمد صاحب نے بھجوایا ہے۔ یہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے نام معلوم ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے وہ انگریزی دان تھے نا اس وقت۔ انہوں نے ہی تار بھیجی ہوگی اورلکھا ہوگا اور حالات لکھے ہوں گے ان کے تو وہ یہ جواب وہاں سے آیا ہے Sher Ali۔ قادیان "K"سے لکھا ہوا ہے ۔ Sorry, nothing can be done for Abdul Karim.۔ تو یہ وہ ریکارڈ میںاصل تار موجود ہے اور تو نہیںکوئی رہ گیا پچھلاکوئی قرضہ۔ ایک رہتا ہے وہ جو بشیر ڈار صاحب نے بات کی تھی کہ Raamses-IIنہیں بلکہ کوئی تھا۔ کونسا نام بتارہے تھے؟
‏ Sb: منفتاح۔
حضور: منفتاح تو اس کا بیٹا تھا رعمسیس کا ۔ بعد کا ہے یہ پہلا Setiتھا۔ جو باپ تھا وہ Setiتھا اور اس کے آگے پھر Raamses-II جو ہے یہ ہوا ہے ۔ میں نے دوبارہ چیک کیا ہے سرسری طور پر ۔ تو اب جو تقریباً متفق رائے اہل علم کی، یہود علماء کی اوردوسروں کی ہے وہ یہی ہے کہ Raamses-IIہی تھا جس کے زمانے میں Exodusہوا ہے اور کئی اور اس کے شواہد ایسے ملتے ہیں جس کی وجہ سے مجھے اس پر زیادہ اطمینان ہے بہ نسبت کسی اور کے۔ ایک تو یہ کہ جو آغاز ہوا ہے ظلموںکا وہ ’’سَیٹی‘‘ کے زمانے میں بیان کیا جاتا ہے جو اس کا باپ تھا اور سَیٹی کے زمانے ہی میں حضرت موسیٰ کو بچپن میں محفوظ کرنے کا قصہ اُٹھااورچلا ہوگا۔ اگر اس کو رعمسیس کے زمانے میںشمار کریں تو یہ واقعہ پھر تاریخ کے لحاظ سے بالکل غلط جگہ Placeہوجاتا ہے۔وہ تو بہت لمبا عرصے تک رہا ہے بعد میںپھر ہجرت کب کی اور واپس کب آئے؟ جب واپس آئے تو اس وقت رعمسیس مرچکا ہوگا اور پھر جاکر وہ سلسلہ شروع ہوا ہے نشانات کا۔ تو ان کا زمانہ حضرت مسیح سے پھر بہت قریب آجاتا ہے۔ دس، گیارہ سو سال، گیارہ سو سال سے زیادہ نہیں رہتااور یہ غلط بات ہے۔ کیونکہ ویسے بھی تیرہ سو سال کاجو فاصلہ ہے وہ ہمارا جماعتی رجحان طبعی طور پر اسی طرف ہے کہ حضرت مسیح کے ساتھ جب اور بہت سی مشابہتیں ہیں تو بعید نہیں کہ زمانے کی مشابہت بھی پائی جاتی ہو اور کم و بیش تیرہ سو سال بعد، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے ہوں۔ یہ جوخیال تھا اس نے مجھے اس تحقیق پر آمادہ کیا تھا کہ دیکھوں۔ چنانچہ مختلف پیمانوں سے میں نے تاریخی کتب کا مطالعہ کرکے جو وقت نکالے ہیں بعض لے جاتے ہیں پندرہ سو تک۔ پیچھے پھینک دیتے ہیں جو دوسرے تاریخی حوالوں سے قطعاً غلط ثابت ہوتا ہے ۔ بعض قریب لے آتے ہیںجن میں سے ایک وہ حوالہ ہے ۔ غالباً جس کی پیروی کی ہے ملک صاحب نے اور وہ دوسری جگہ بیٹھتا نہیں ہے۔ قرآنی استدلال جب میںنے اپنے طور پر اس کو ان حوالوں کے پرکھنے کیلئے استعمال کیا تو دو باتیں میرے ذہن میں ایسی واضح تھیں جن کی وجہ سے میں اسی طرف مائل ہوا ہوں کہ رعمسیس تھا۔ اوّل یہ کہ اس کے باپ کے زمانے میں آغاز ہوا ہے اسرائیل پر ظلم و ستم کا اور بچوں کے سنبھالنا اور ان کو پانی میں بہانا صاف بتاتا ہے کہ کوئی غیر معمولی کوئی شاہی فرمان جاری ہوئے ہیں جن سے ڈر گئے ہیں سارے۔ اور دوسرا یہ کہ قرآن کریم نے اس فرعون کے متعلق جس نے موسیٰ سے ٹکر لی تھی ۔ ایک بات بڑی واضح بیان فرمائی ہے کہ وہ تعمیرات کا قائل بڑا شوقین تھا اور وہ کہتا ہے اے ہامان میرے لئے تعمیر اونچی کر اور Raamses-II تعمیرات کا بادشاہ کہلاتا ہے سب سے زیادہ اہم تعمیرات جو آج تک موجود ہیں وہ RaamsesII کے زمانے میں ہوئی ہیں۔ تو دونوں قرآن کریم کے استنباط اسی طرف لے جاتے ہیں کہ اس کا باپ ہوگا جس کے زمانے میں آغاز ہوا ۔ اس زمانے میں حضرت موسیٰ پیدا ہوئے ہیں اور اس کے زمانے میں پھر وہ واقعہ سلسلہ لڑائیوں کا شروع ہوا ہے۔ آگے ایک صرف مشکل معاملہ ہے ۔ باپ کے زمانہ جو ہے وہ اس کی حکومت کے لحاظ سے بہت تھوڑا ہے اور اس عرصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جوان ہوکر لڑائی کرنا اور ایک آدمی ماردینا یہ بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ دیکھنا پڑے گا کہ واقعتا سَیٹی کے زمانے میں آغازہوا تھا یا اُس سے پہلے ہوا تھا اور کیا یہ جو تاریخ بیان کی جاتی ہے کہ سَیٹی صرف اتنی دیر رہا یہ درست بھی ہے کہ نہیں؟ تو یہ ساری چیزیں تحقیق طلب ہیں تبھی میں نے اس میں بیان کیا تھا کہ جو باتیں میں بیان کررہا ہوں ایک جماعت کو سوچ کے ساتھ اپنی سوچ ملانے کیلئے تاکہ دوسرے محققین بھی ان باتوں پر غور فکر کریں۔ تحقیق کریں پہلے بتادیتا ہوں کہ ہم یہ کام کررہے ہیں مگر آخر ی جب تحقیق شدہ صورت سامنے آئے گی جو ابھی جاری ہے اس وقت انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو بتایا جائے گا۔ اس عرصے میںجو بھی محققین اپنے طور پر کوئی تحقیق کریں اس خیال کے موافق ہویا مخالف ہو وہ بے تکلفی سے مجھے بھجوائیں ۔ ان باتوں کوبھی ہم تحقیق میں لے آئیں گے۔ ایک بیچ کا جو گوشہ تھا وہ ابھی تک کافی اندھیروں میں ہے۔ اس پر بھی مزیدتحقیق کیلئے Egyptology کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ Egyptology کہلاتی ہے یہ شاید۔ جو بھی اس کا تلفظ ہے۔ Egypt کے علوم سے متعلق آج تک ہمارا کوئی ماہر پیدا نہیں ہوا۔ اور اس علم میںہمیں ضرور ماہرین پیدا کرنے چاہئیں کیونکہ قرآن کریم کی صداقت کے تعلق میں بہت ہی اہم ایسے امور ہیں جو Egyptکی تاریخ اور اس کا کھوج لگانے کے نتیجے میں ہمیں قرآن کی تائید میں مل سکتے ہیں۔ اس لیے (سوائے)بجائے اس کے کہ صرف غیروں پرانحصار کیا جائے ہمیں خود بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ (ایک) ایک نہیں بلکہ دو تین ۔۔۔چند۔۔۔ایسی Projects ہیں جن میںتحقیق ہونی چاہیے اور احمدی ماہرین کو تحقیق کرنی چاہیے۔ ایک Projectہے وہ قدیم زمانے کی تاریخ جس کے حوالے قرآن کریم میں ملتے ہیں جس کو ایک Italian Author کے حوالے سے میں نے بتایا تھا کہ قرآن کی تائید میں بہت سے ایسے ثبوت ملے ہیں کہ وہ قومیں جن کے وجود کے ہی منکر تھے ہمارے محققین۔وہ اب کھدائی میں ان قوموں کا ذکر مل گیا ہے کہ وہ موجود تھیں اور اس زمانے میں عاد، اِرم وغیرہ کے جو قصے ہیں نا اس سلسلے میں یہ بات ہورہی ہے ۔ تو(وہ یہ کہتے ہیں کہ) میں یہ چاہتا ہوں کہ احمدی محققین ان اصل کتابوں کا بھی مطالعہ کریں ۔ (جن) جواِن محققین کی جنہوں نے پہلے اس راز سے پردہ اُٹھایا ہے ۔ ان کی کتابیں ہیں پھر ان مادوں کا مطالعہ کریں وہ مادے جہاں سے یہ تحقیق شروع ہوتی ہےsources۔ اور اگر کوئی اپنے بچے ان علوم میںیہاں پڑھائیں انگلستان میں بھی، امریکہ میںبھی، یورپ میںاور جگہ خدا کے فضل سے Universitiesمیں ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ تو بعض احمدی طالب علموں کو آئندہ کیلئے ماہر بنانے کیلئے ان مضامین میں داخل کرنا چاہیے۔ لوگ اس لیے توجہ نہیں کرتے کہ یہ عام طور پر non-paying professionals کہلارہے ہیں۔ پا س ہوگئے تو نوکری کون دے گا؟ اس لیے بہتر ہے کمپیوٹر پڑھ لو یا کوئی سائنس کی اور چیز پڑھ لو۔ تو اس لیے مگر تحقیق کا جذبہ اور شوق ہو تو یہ کرنا چاہیے اور اس میں بھی آگے خدا کے فضل سے بہت سے نئے نئے ایسے امکانات پید ا ہورہے ہیں Universitiesکو طلب ہے ان ماہرین کی۔ تو رزق کا تو اللہ تعالیٰ انتظام کردے گا مگر ہمیںماہرین ضرور چاہئیں۔
ایک مضمون ہے جو تحقیق طلب اسی سلسلے میں وہ ہے پرانے Egypt کی سلیں سلیبیں ان کی جو slabsہیں ۔ سلیبیں نہیں Slabsہیں ان کا مطالعہ۔اور اس کیلئے Egypt کی پرانی زبان کیا کہتے ہیں griphal... griph...griph۔۔۔ اس ۔۔۔ مجھے نام یاد تھا لیکن۔۔۔ ہیں؟۔ ۔۔griphics? hgro...? hy.... oh hyrogriph۔
Something like that I agree, but not exectly I'd hear it.....any way something like that it's not essential that we (may) recall the write word now here...
یہ آپ نے علم کی بنا پردیا ہے یا اندازے کی بنا پر (میرا بھتیجا ہے اس نے مجھے لکھ کے دیا تھا) پہلے ہی۔ اچھا اچھا۔ ہاں جی ۔ میں یہی تو۔۔۔ یہی مجھے لفظ آرہا تھا کہ Lہے R نہیںہے بیچ میں۔ اسی لیے میں یہ مان نہیں رہا تھا اس کو Graphicsبنادیا ہے بعض لوگوں نے ۔ اصل میں ہے Hyrogliphics۔ Lکے ساتھ یہی ہے نا؟جو انہوںنے لکھ کے دیا تھا۔ ہاں تویہ بھی غالباً درست ہی ہے۔ یہی مجھے بھی یاد تھا۔ Hyeroglyphicsہے یہ وہ زبان ہے ان کی،تصویری زبان جس کو اب انہوں نے بریک کرلیا ہے۔ اس کی Codeکو اور واضح طور پر ایک پورا تحقیق شدہ مضمون ہمارے پاس ہے لیکن اس میں بھی اختلافات ہیں اور بعض لفظوں کے پڑھنے سے متعلق محققین متفق نہیں ہیں۔ اور وہاں بعض دفعہ چالاکیوں کے موقعے مل جاتے ہیں ان محققین کو۔ اپنی مرضی کا کوئی ترجمہ کرنا ہو تو وہ جو سائے والے حصے ہیں ان میں وہ کھینچ کے لے جاتے ہیں۔ اس کے کثرت سے شواہد ہمیںملے ہیں۔بائبل ریسرچ کے دوران۔ کہ بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں یہ عیسائیوں نے اپنے عقیدے کی خاطر ایک مضمون(کو) کے امکان کو بالکل نظر انداز کردیا ۔ دوسرے کو خود بخود اخذ کرلیا۔ تو اس لئے ہمیں ماہرین چاہئیں اس مضمون پر بھی۔ Hebrew کی اور Greek کی Original Study کے اوپر وہ اس میںبھی تحقیق کریں اور ضمناً مجھے یاد آگیا کہ ایک ہماری تحقیق چل رہی ہے ایران میں ایران سے تعلق میں۔ وہاں جو ۔۔۔ کونسا تھا صوبہ؟ جس میں وہ۔۔۔ ہرات؟ ہرات ہی ہے نا۔ ہرات Nothernصوبہ جو ہے اس کے ساتھ ملتا ہے ایران کے ساتھ۔ ہرات میںایک ریسرچ کی ضرورت ہے۔ وہ امریکہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی مخلص ایسا مل گیا ہے جس نے اپنے آ پ کو پیش کیا ہے۔ اسی طرح ہمارے رُوس کے نو احمدیوں میں سے ایک دوست نے اپنا نام پیش کیا ہے کہ میںبھی اس تحقیق میں شامل ہونا چاہتا ہوں ۔ تو وہ ہم اس کو انشاء اللہ منظم کریں گے۔ ایک جو تحقیق ہے وہ Turkey سے تعلق رکھتی ہے جس کا کل میں نے ذکر کیا تھا(حضرت یحی)حضرت یحیٰ کہاں گے؟ کہاں غائب ہوئے؟ اور جن دو یحیٰ کا ذکر ملتا ہے وہ کون تھے؟ اور وہ اس جزیرے کی کیا حالت ہے اب؟ Patmosجزیرہ جو ہے وہ ابھی تک آباد ہوا ہے یانہیں ہوا؟ تو میرے خیال میں ہمارے جوراشد صاحب اس وقت سن رہے ہوں گے درس Turkey کے مبلغ ، وہ ابتدائی تحقیق تو فوراًشروع کردیں، معلومات حاصل کریں کہ Ephises وہاں سے پتہ نہیں کتنی دور ہے؟بہت زیادہ دور تو نہیںہوگا۔ بہر حال اسی ملک کا حصہ ہے یا اب وہ رہا بھی ہے کہ نہیں نئے جغرافیہ میں۔ کیونکہ تاریخ تو بدلتی رہتی ہے اس کے ساتھ جغرافیہ بھی ۔ ظاہر میں تو نہیں بدلتے لیکن تاریخی جغرافیہ بدلتاہے ۔ تو یہ وہ ابتدائی تحقیق شروع کردیں اور پھر اگر ان کیلئے یعنی ممکن ہو تو Turkey کے دائرے میں ہی ہو یا باہر بھی ہو تووہ جاسکتے ہوں تو مجھے لکھیں فوری طور پر، فیکس کریں کہ ہم تیار ہیں پھر وہ تحقیق کریں گے۔ وہ Patmosبھی جاسکتے ہیں تو جائیں کیونکہ بعید نہیں کہ Patmosمیں کوئی ایسی غاریں مل جائیں ۔ یہ اکیلے تو کھدائی نہیں کرسکیں گے لیکن بہرحال ایک امکان کی طرف اشارہ ضرور کرسکتے ہیں کہ یہاں تحقیق کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کچھ investmentکی ضرورت ہے۔ تو بعض دفعہ پرانے زمانے کے رواج تھا جیسے وہ مرتبانوں میں کاغذات داخل کیا کرتے تھے، ہوسکتا ہے اس یحیٰ کا جو وہاں موجود تھے، اس یحیٰ کی کچھ تحریریں، بعض غاروں میں مل جائیں۔ بعض Slabsپر کندہ چیزیںمل جائیں۔ توبڑی گہری نظر سے ابتدائی جائزہ لے لیا جائے پھر جو بھی ماہرین اس مضمون کو آگے بڑھاسکیں گے انشا ء اللہ ان کو وہاں تحقیق کیلئے بھیجیں گے۔ ٹھیک ہے؟ کوئی رہ تو نہیں گیا اب تحقیق والا حصہ۔
اچھا جی اب قرآن کریم کے معجزات کا ذکر ہو رہا تھا۔ تخلیق آدم سے متعلق حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قرآن کریم دو طرح سے زندگی کی تخلیق کے آغاز کا ذکر کرتا ہے ۔ایک وہ آغاز جس کے نتیجے میں بالآخر انسان پیدا ہوا اور مٹی سے کہتا ہے کہ ہم نے شروع کیا۔ لیکن پانی سے بھی کہتا ہے کہ ہم نے شروع کیا۔ پھر ایک گلے سڑے پانی کی سٹیج (Stage) بھی آئی ہے۔ تو تمام وہ امور جو تخلیق آدم سے تعلق رکھتے ہیںان میں انبتکم نباتاً بھی آتا ہے۔ تمہیں نباتات کی طرح اُگایا ہم نے اور مخاطب انسان ہے ۔ تو یہ سارے ادوار ہیں جو مختلف ارتقائی ادوار کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں جو میں نے ابھی باسط سے پوچھا تھا کہ بتائیں آپ وہ کتاب کہاں تک پہنچی ہے؟اس میں خلاصۃً میں نے اس مضمون کا ذکر کردیا ہے۔ لیکن یہاںمیںآپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خلق الانسان من صلصال کالفخّارکا بھی ذکرملتا ہے ۔ کہ ہم نے انسان کو کھنکتی ہوئی مٹی کی ٹھیکریوں سے پیدا کیا ہے ۔ اب وہ جو نظریہ تھا وہ تو (over...)گیا کہ گیلی مٹی سے گوندھا اور ایک پتلا بنایا ۔ کیونکہ ٹھیکریوں سے تو نہیں اس طرح پتلے بنائے جاتے۔ تو قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ قرآن کریم بعض Stages کا ذکر کرتا ہے جن میں سے زندگی گزری ہے۔ اور اس سلسلے میں جو میںنے تحقیق کی تھی پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں غالباً۔ اس کتاب میں بھی اس کا ذکر آئے گا وہ یہ ہے کہ جب Ordinary Inorganic Chmeicals، Organic Chemicalsمیں تبدیل ہوئی ہیں آغاز میں تو یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا سائنسدانوں کیلئے کہ بغیر زندگی کے وہ مادّہ کیسے تیار ہوگیا جو زندگی کی پیدوار ہے۔ عامۃ الناس تو Inorganic, Organic کے معنی نہیں سمجھ سکیں گے ان کو آسان کرنے کیلئے میں بتاتا ہوں کہ chemicals ، کیمیا ۔ زندگی کو اگر یہاں زمین سے نکال دیں کلیتہً تو تمام کی تمام کیمیا جس شکل میں پائی جاتی ہیں ان کو Inorganic Chemicals کہتے ہیں۔ اور ان میں کاربوہائیڈریٹس ہیں میں وہ تین elements کون سے ہیں باسط صاحب ؟ (کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن)کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن کا combination ،Hydroxy-Hydroxy گروپ ہوتا ہے شاید ایک اور ایک Carbo Hydroxy گروپ ہے۔ یہ جو کاربن، ہائیڈروجن ، آکسیجن کے combinations ہیں یہ وہ organic chemicals بناتے ہیں۔ لیکن عام لوگوں کے سمجھنے کیلئے اتناکافی ہے کہ زندگی کے وجود سے پہلے جتنی بھی کیمیائی شکلیں تھیں وہ Inorganic کیمیا کی تھیں ان کو Organic کیمیامیں یعنی وہ کیمیائی شکلیں جو زندگی بنانے کیلئے لازمہ ہیں، ان کیمیا کی وجود کے بغیر زندگی بن ہی نہیں سکتی، خواہ ابتدائی زندگی بھی ہو۔ اس کیلئے بھی Organic Chemicals کی ضرورت ہے۔ وہ پیدا ہی زندگی سے ہوتی ہیں، زندگی ہو تو وہ پید اہوں اور وہ ہوں توزندگی پیدا ہو۔ اس لیے مرغی انڈے کی کہانی تو بعد میں بنی ہے کہ کون پہلے تھا ۔یہ بہت قدیم ترین جو معمہ انسان کیلئے ہے وہ یہی ہے کہOrganic Chemistry پہلے تھیں۔ Chemicals پہلے تھیں یا زندگی پہلے تھی۔ اگر زندگی پہلے تھی تو وہ جس materialسے بنی تھی وہ تھا ہی نہیں اوراگر زندگی بعد میں ہوئی ہے تو زندگی ہی تو وہ materialپیدا کرتی ہے جس سے زندگی بنتی ہے۔ یہ قدیم ترین معمہ ہے جس کے حل تلاش کرتے ہوئے سائنسدانوں نے جب قدم آگے بڑھایا تو بعض امکانی ایسی ۔۔۔زمین کے ماحول متعلق، آکسیجن نہیںتھی، فلاں نہیںتھا ایک زمانے میں اور بہت سی تبدیلیاں ہیںجو( پہلے تھیں) اب رونماہوئی ہیں پہلے نہیں تھیں۔ اس ماحول کا تصور باندھ کے انہوںنے جو تجربے کیےLaboratories میں یعنی فرضی طور پر وہ ماحول بنایا اور بجلی کے شعلے اس پر ڈالے تو اس کے نتیجے میں chemicalsکچھ ایسی بنیں جو Inorganicسے زندگی کی مدد کے بغیر، ان کے دعویٰ کے مطابق وہ Organic Chemicals پید اہوگئیں، جن پر زندگی کی بناء ہے۔ مگر وہ بہت ہی ابتدائی تھیں۔ جب بعض دوسرے سائنسدانوں نے ان پر مزید غورکیا تو ان کو یہ مشکل درپیش ہوئی کہ یہ جو Chemicalsبنی ہیں آسمانی بجلیوں اور دوسرے محرکات کے نتیجے میں، اس کے نتیجے میں جو chemicalsہمیں scientists بتاتے ہیں کہ یہ بنی ہوگی ۔۔۔۔بن سکتی ہے ، وہ reversableچیز ہے۔ وہ پانی کے اندر واپس اپنی اصل شکل کی طرف لوٹ جاتی ہے، آگے ترقی کر ہی نہیںسکتی۔ جب ایک قدم آگے اُٹھائے گی تو پانی کی موجودگی میں وہ پھر واپس دوسرے recation میں تبدیل ہوجائے گی کہ جہاں سے آئی تھیں وہیں واپس۔ ایک چکر ہے جو چلتارہے گا اور اس چکر کو توڑ کر جب تک آگے انتہائی complex chemicals نہ بنیں، زندگی کے آغاز کا تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ اس تحقیق کے دوران بعض scientists نے بعض explorers(سے)کی تحقیقات سے بھی فائدہ اُٹھایا اور غالباً آسٹریلیا کے ایک حصے میں وہ پہلی دفعہ اس معاملے میں ایک break-through ہوا ۔ وہ یہ تھا کہ زندگی کی ایک کیمیا اگر پانی میں بن چکی ہو اور چکر میں چلی ہو، آگے نہ بڑھتی ہو، اگرکسی وقت سمندرمیں طغیانی آئے اور اس کو وہ اُچھال کر اوپر چٹانوں پر پھینک دے پانی کو جس میں یہ موجود ہوں اور وہ چٹانیں ایسی ہوں جس میں siliconبکثرت پایا جاتا ہو تو Silicon میںجب یہ کیچڑ ملے گا جس میں یہ زندگی کی کیمیا موجود ہے تو وہ دھوپ کے اثر سے وہ خشک ہوجائے گا کیونکہ ایسے بڑے بڑے طوفان روز بروز تو نہیںآتے۔ وہ ایسی جگہ کا تصور کرتے ہیں جہاں کہیں بہت ہی بڑا طوفان اس پانی کو پھینکے اور پھر اس کے بعد صدیوں، شاید ہزاروں سال تک بھی نہ وہاں پہنچے یا پہنچے تو اتنی جلدی نہ پہنچے کہ کیمیاوی عمل مکمل نہ ہوچکاہو(۔۔۔)۔ وہ کہتے ہیں اس خشک مادے میں جب دھوپ اس کو bakeکردے گی تو پَپڑیاں بن جائیں گی اس کی siliconکی اور ان silicons کی پپڑیوںپر شدید دھوپ میں وہ جو کیمیا تھی وہ اس کی سطح پر تبدیلیاں پیدا کرے گی اپنے اندر اور پھر وہ کیمیا بن سکتی ہے، Organicکیمیا،جس کو پانی واپس اصل کی طرف نہیں دھکیلتا بلکہ آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ پھر اس کالامتناہی ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ stageلازم ہے ترقی کے دوران کہ خشک، پپڑیاں سخت کھنکنے والی ٹھیکریوں کی طرح ۔ ان میں سے زندگی گزرے۔ وہ جب پانی واپس اس کو claim کرلے۔ تو اس میں سے پھر آگے ترقی شروع ہو۔
یہ جو حصہ ہے یہ وہ اب بتائیں چودہ سو سال پہلے ، ایک کتاب قرآن ہے جو ٹھیکریوں کاذکر کرتا ہے۔ کوئی دنیا کی کتاب اشارۃً بھی یہ بات بیان نہیں کرتی اور اس صدی کے تازہ ترین سائنسدانوں کے سوا اس سے پہلی صدی کے سائنسدانوں کا وہم و گمان بھی اس طرف نہیں گیا تھا کہ یہ کیا ہوا اور قرآن کریم فرماتا ہے خلق الانسان من صلصال کالفخّار ہم نے انسان کو پیدا کیا ایسی مٹی کی خشک ٹھیکریوں سے جو آپس میں بجتی تھیں، کھنکھناتی تھیں ۔تو یہ ساری stages ہیں جن کا قرآن کریم ذکر فرمارہا ہے کہ زندگی ان سے گزری ہے۔ وخلق الجان من مارجٍ من نارٍ اور ہم نے جن کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا ۔ دوسری جگہ قرآن کریم اسی مضمون کو بیان فرماتے ہوئے کہتا ہے و من قبلہ انسان سے پہلے جن کو پیدا کیا۔ من مارجٍ من نارٍ ۔ تو یہ جن کیا ہے؟اس ضمن میں جب میں نے تحقیق کی کہ سائنس کی روشنی سے پتہ چلے کہ وہ جنات کیا تھے۔ تو ان کی طرف اوّل رہنمائی توآنحضور ﷺ کے اس ارشاد نے فرمائی کہ ہڈیوں سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ جنوں کی خوراک ہیں اور یہ تمہیں نقصان پہنچاسکتی ہیں، ضرررساں ہیں۔ یعنی یہ مطلب نہیں تھا کہ نعوذ باللہ کہ استنجا کرو گے تو رات کو جن آکے پڑ جائیں گے۔ جس طرح لوگوں کا خیال ہے ۔ صاف پتہ چلتا ہے حدیث کے مضمون سے کہ جس وقت استنجا کیا جارہا ہے اس وقت وہ جنات جن کی یہ غذا ہے تمہیں نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اب یہ حدیث خود ایک معجزہ ہے کیونکہ اس زمانے میںبیکٹیریا کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ وہ زندگی کی قسمیں جو(آنکھ سے) ننگی آنکھ سے دکھائی دے ہی نہیں سکتی تھیں اورہڈیاں گلی سڑی ہڈیاں جو ہیں ان کا گلنا سڑنا بتاتا ہے رمیمہونا بتا تا ہے کہ کوئی جراثیم اس پہ کام کررہے ہیں۔
پس قطعی طورپر ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس کو جن فرمارہے ہیں وہ غیر مرئی مخلوق ہے جو ہڈیوں کو غذا بناتی ہے اور اُن کے اثر سے پھر ہڈیاںآہستہ آہستہ وہ بوسیدہ ہونے لگتی ہیں۔ وہ نقصان دہ ہیں اگر ننگے جسم میں داخل ہوجائیں، ننگے حصوں میں بعض تو واقعتا وہ وائرس ایسے ہیں جو خطرناک ہوسکتے ہیں۔ تو اُس سے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ بعض جن کا ایک اطلاق بیکٹیریا یا وائرس پر ہوسکتا ہے اور یہ دونوں امکان تحقیقات کے لحاظ سے درست ثابت ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بیکٹیریا کی تحقیق جب ہوئی ہے کہ سب سے پہلے بیکٹیریا کون سے تھے جو پیدا ہوئے ۔تو دو قسم کے بیکٹیریا ہیں ۔ ایک وہ جن کا نیو کلیئس نہیں اور پورا سیل پورے کا پورا divide ہوتا تھا بغیر نیوکلیئس کے اور ایک وہ جو نیو کلیئس رکھتے ہیں۔ پھر انہی میں سے ایک قسم ایسی تھی جو آگ کے اثر سے پیدا ہوتی تھی اور ان کا نام ہی سائنسدانوں نے Pyro-bacteria رکھا ہے۔ یعنی آگ سے براہ راست طاقت حاصل کرنے والے بیکٹیریا۔ اور یہ جو ہمیں مڑھیوں میں آگ دکھائی دیتی ہے نا بعض دفعہ ہندوستان، پاکستان میں لوگ کہتے ہیں جن آگئے۔ سائنسدان کہتے ہیں وہ جو آگ اُٹھتی ہے اس وقت وہاں وہ Pyro-bacteria کثرت سے ملتے ہیں۔ اور سمندر کے اندر بھی بہت گہرائی میں آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو بعض بہت سخت قسم کی گرم gases وہاں بھی پھرتی ہیں اور وہاں بھی یہ کہتے ہیں کہ زندگی کے آغاز وہاں سے بھی امکان ہے کہ ممکن ہے کہ وہاںہوا ہو۔ تو اس سے پہلے کہ انسان کی پیدائش کا آغاز ہوا اوروہ آگے بڑھی، وہ سلسلہ آگے بڑھا، قرآن کریم کے مطابق جنات کی پیدائش کا آغاز ہوچکا تھا اور وہ آگ سے پیدا ہوتے تھے۔ اب یہ تحقیق شدہ امر ہے کہ Pyro Bacteria جو انسانی زندگی کے آغاز سے پہلے کے ہیں وہ آگ سے پیدا ہوتے، آگ سے energyحاصل کرتے اور آج تک موجود ہیں اور اس سے پہلے جو آسمانی blastسی چیز پیدا ہوئی ہے من قبلہ من نار جو ہے من ۔۔۔۔ کیا ہے؟ آیت پوری؟ و خلق الجان من قبلہٖ من مارجٍ من نّار لفظ مارج ہے۔ ہم نے آگ کے مارج سے اس سے پہلے جن کو پیدا کردیا تھا، انسان کی پیدائش سے پہلے۔ تو وہ جو مارج ہیں انہوں نے ہوسکتا ہے آغاز میں وہ بیکٹیریا یا وہ viruses پیداکیے ہوں جو پانی میں گھولیں تو پھر وہ متعفن مادہ پیدا ہوسکتا ہے جس کی طرف قرآن کریم ذکر فرماتا ہے اور اس متعفن مادہ سے پھر کیمسٹری بھی آگے بڑھی ہو اور پھر انسان کی تخلیق کی ایک اور منزل طے ہوگئی ہو ۔ یہ امکانات ہیں جن پر مزید احمدی سائنسدانوں کوتحقیق کرنی چاہیے۔ میں نے جس حد تک کی ہے اس کا مختصر ذکر میں نے اس کتاب میں جو میں نے ابھی ذکر کیا تھا وہ ایک لیکچر تھا Zurichمیں، اس میں کیا ہے۔ مگر یہاں میں صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اس کو اعجاز کہتے ہیں۔ حیرت انگیز علمی اعجاز کہ جو آج بھی تمام دنیا کو baffle کررہا ہے۔ کوئی اس کی نظیر نہیں مل سکتی دوسری کتب میں اور یہ لوگ کہتے ہیں جی قرآن میں معجزہ کوئی نہیں۔تو قرآن کی فصاحت و بلاغت ہی کو صرف معجزہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن تو حیرت انگیز اعجازات سے بھری پڑی ہے۔ ایسی کتاب ہے کہ بہت سے ایسے ہیں جو ابھی بھی ہمارے لیے ایک اچنبھا ہیں لیکن ہر اگلا قدم جو دریافت کا اُٹھ رہا ہے وہ قرآن کا گواہ بن کر اُٹھ رہا ہے، اس کی مخالف سمت نہیں اُٹھ رہا۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ آگے ہے مرج البحرین یلتقین۔ بینھما برزخ لا یبغین۔ فبایّ الاء ربّکما تکذّبان۔ اللہ تعالیٰ نے، اس کا جوترجمہ ہمارے انگریزی ترجموں اور تفاسیر میں ملتا ہے وہ یہ ہے مرج البحرین: اس نے سمندروں کو پانی کو چلادیا۔ حالانکہ لفظ مَرجَ بعینہٖ وہ معنے رکھتا ہے جس کو انگریزی میں mergeکہتے ہیں۔ اورmergeاس لفظ کی ، اس عربی لفظ کی غیر متبدل شکل ہے جو آج تک انگریزی میں ملتی ہے۔ تو دراصل یہ پیشگوئی تھی اور اس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں وہ یہ سمجھے ترجمہ کرنے والے کہ چونکہ ملے نہیں تھے بعد میںملنا ہے۔ اس لیے مرج کا وہ معنی نہیں ہوسکتا، ہم اس کا دوسرا معنی لیں گے کہ متحرک کردیا۔ تو متحرک کردیا تو پھر متحرک تو سارے سمندر ہی ہوتے ہیں۔ بحرین کا متحرک کرنا کیا مطلب ہے؟ دراصل یہ ماضی کے لفظ میں پیشگوئی ہے۔ یلتقیٰن میں وہ ایک دوسرے کی ملاقات کیلئے گویا شوق رکھتے ہوئے بڑھیں گے آگے۔ ایسا وقت آئے گا کہ وہ mergeہوں گے دونوں اور merge کس طرح ہوں گے؟ یلتقیٰن موجیں مارتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف وہ بڑھیں گے۔ بینھما برزخ لا یبغیٰن ۔ اس کا ترجمہ ہے سردست ان کے درمیان ایک روک ہے۔ پس یہ جو مرج کا لفظ ہے کہ مستقبل کے ہونے والے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن بینھما کا مطلب ہے سردست ایک روک ہے ورنہ ’’مرج البحرین یلتقیٰن‘‘ کا مضمون ثابت ہی نہیں ہوسکتا۔ تو یہ ہے پیشگوئی قرآن کریم کی۔ دوسمندروں کے آپس میںملنے کا واقعہ اور یہ واقعہ کب ہوا ہے؟ سب سے پہلے Suez Canal کی صورت میں۔ Suez Canal کی تعمیر کا آغاز ایک French Engineerنے کیا تھا۔ اسی کے دماغ کا Ideaتھا ۔ 1859ء سے 1869ء تک وہ خود اس کا نگران رہا۔ سیاست کے بدلنے سے Suez Canal کے حالات بدلتے رہے۔ ایک وقت آیا کہ 1875ء میں انگریزی کمپنیوں نے سب سے بالا حقوق حاصل کرلیے Suez Canal پر۔اور پھر 1888ء میں اس کے فوائد کا تمام عالم کیلئے کھلا ہونے کا ایک انٹر نیشنل معاہدہ ہوا کہ اس پانی سے سب قوموں کو فائدہ اٹھانے کا برابر کا حق ہوگا۔ لیکن جو حقوق ہیں پیسے، کرائے وصول کرنے کے وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ تو یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے آغاز ہی سے شروع ہوجاتا ہے اور چونکہ اس دور سے تعلق تھا اس لیے پیشگوئی عظیم الشان وہاں پوری ہوئی۔ دوسری یہی پیشگوئی Panama میں پوری ہوئی ہے۔ Panama میں بھی دو سمندر ملے ہیں اور وہاں 1881ء میں سب سے پہلے۔ عجیب بات ہے کہ وہاں بھی French Engineer نے ہی آغاز کیا ہے۔ یعنی دونوں جگہ French کو یہ توفیق ملی ہے اور وہ پھر 1899ء میں abandon ہوگئی یہ تجویز۔ 1881ء میں شروع ہوئی ، 1899ء میں وہاں کی سیاست جیسا کہ آج کل بھی بڑی الجھی ہوئی ہے کافی مشکلات ہوتی ہیں۔ تو اس کمپنی کو وہاں سے اپنایعنی withdraw کرنا پڑا، وہاں سے نکلنا پڑا ۔ لیکن 1903ء میں امریکہ نے ان کوPanama کو ان کے اوپر Columbian جو حاوی تھے ان کے خلاف بغاوت میں مدد دی۔ ان کی سرپرستی کی اور کولمبیا کی حکومت کا جو وہاںقبضہ تھا Panama پہ اس کو اتار پھینکا اور اس احسان کے نتیجے میں انہوں نے Panama کے حقوق حاصل کرلیے۔ اور پھر امریکنوں نے اس کو پھر دوبارہ بنایا ہے جو مکمل ہوئی۔ تو یہ دو سمندر ملاتی ہے ایک Atlantic Ocean اور ایک Pacific Oceanکو۔ یہ Panamaہے اور Panamaواقع ہے نکاراگوا اور کوسٹاریکا کے نیچے جو Central Americaکہلاتا ہے ۔ اس میں اوپر ہے نکاراگوا پھر آتا ہے کوسٹاریکا پھر Panamaہے ۔Panamaمیںنیچے جاکر اس کے بھی نچلے حصے میں وہ یوں کرکے ٹیڑھا ساجزیرہ ہے وہاں ہے یہ Panama Canal۔ ا س کا رقبہ ہے 82کلومیٹرز اور بحر الکاہل کو بحراوقیانوس سے ملاتی ہے۔ Suez Canal کی لمبائی ہے 165کلو میٹر اور یہ Red Seaکو، کونسا سمندر کہلاتا ہے وہ؟ Atlantic سے تو نہیں ملاتی۔ Meditranian- Meditranianکو کیا کہتے ہیں۔ اوقیانوس؟ اوقیانوس تو Atlantic ہے بحیرہ روم؟ اچھا بہرحال Meditranianہے Meditranianکو Red Seaسے یہ ملاتا ہے ۔ اب یہ پیشگوئی دیکھیں کیسی عظیم الشان ہے مرج البحرین یلتقیٰن۔ وہ دو سمندروں کو ملائے گا جو موجیں مارتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف لپکیں گے ملاقات کیلئے ۔ بینھما برز خ لا بیغیٰن۔ ان دونوں کے درمیان ابھی ایک برزخ ہے۔ جو روک دور نہیں ہوسکتی۔ کسی انسان کے وہم و گمان میںبھی یہ بات آسکتی تھی کہ سمندر ملائے جائیں گے؟ اور یہ دو کا لفظ جو ہے یہ دو دفعہ پورا ہوا ۔ ایک دفعہ Suezکی صورت میں ، ایک دفعہ Panamaکی صورت میں۔ایک دفعہ مشرق میں اور ایک دفعہ مغرب میں۔ یہ بھی خدا کی عجیب شان ہے کہ بعض پیشگوئیاں جو عالمی حیثیت کی ہوں وہ دوبار چمک دکھلاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حق میں جو چاند سورج نے 1894ء میں گواہی دی تھی وہی گواہی امریکہ کے خطے کیلئے 1895ء میں پھر دہرائی گئی اور بعینہٖ انہیں تاریخوں میں وہاں گرہن لگا۔ تو اس کو پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ یہ تو خدا کی خاص تقدیر ہے۔ یہ بتانے کیلئے کہ اب قرآن کے نشان ایک خطے سے تعلق نہیں رکھیں گے۔ ایسے نشانات جلوے دکھائیں گے جو دونوں دنیائوں کے اوپربرابر حاوی ہوں گے۔ اور یہ دور ہے قرآن کریم کی فتح کا جو تمام دنیاپر حاوی ہوجائے گا۔ پس احمدیت کے آغاز میںان نشانات کا اُبھرنا اور دو دو بار اپنے جلوے دکھانا، ایک دفعہ اس دنیامیں، ایک دفعہ امریکہ کی دنیا میں۔ یہ کوئی اتفاقی حادثات نہیں ہیں، عظیم الشان اعجازات ہیں۔ اب ان معجزوں کو دیکھیں اور وہ ابھی ہم نے بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا تھا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہاتھ بڑھانا اور مالٹا یا سنگترہ ہاتھ میںآجانا اور چاولوں کا بڑھنا یا مسیح کے زمانے میں جو معجزات ہوئے ۔ اس معجزے کے مقابل پر ان کی کیا حیثیت ہے؟ وقتی طور پر چند لوگوں کے ایمان میں اضافہ کا موجب بن گئے۔ مگر عالمی نوعیت نہیں ہے ان کی، آفاقی نوعیت نہیں قرآن جن کو معجزہ قرار ۔ یہ ہے قرآن کی شان۔ ناقابل یقین باتیں ہیں جو ہوہی نہیں سکتیں اور وہ ہوکے رہتی ہیں۔ اور تمام دنیا اور مختلف زمانے اس پر گواہ ٹھہرتے ہیں اور قیامت تک یہ نشان ایسے ہیں جن کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ نہ چاند سورج گرہن کا نشان مٹاسکتا ہے ، نہ یہ نہر Suezکا بنایا جانا، نہ Panamaکا بنایا جانا اور ان کو ابھی نظر ہی کچھ نہیںآرہا۔ آگے دیکھئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یمعشر الجن والانس ان ا ستطعتم ان تنفذوا من اقطار یہ سارے سورہ رحمن سے میں نے لیے ہوئے ہیں۔ یہ چند معجزات جو ہیں ۔ ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموٰت والارض فانفذوا۔ لا تنفذون الا بسلطانٍ۔ فبایّ الاء ربّکما تکذّبان۔ کہ اے جنوں کے معشر یعنی اے بڑے بڑے لوگو جو جس کو بورژوا کہہ سکتے ہیں جن جو ایسی طاقتیں ہیں جو Imperialist طاقتیں کہہ لیں یاآپ Capitalistطاقتیں ان کے بڑے بڑے آدمی ان میں سے بھی جو چیدہ چوٹی کے لوگ ہیں اور انس Proletariates عوام الناس کی طاقتو! تم میں سے بھی جو بڑے بڑے لوگ ہیں، تم اگر ان استطعتم اگر تم میں طاقت ہے تو آسمان اور زمین کی اقطار سے نکل کے دکھائو۔ اب آسمان اور زمین کی اقطار سے نکلنا، نکل کے دکھائو! یہ ایک ایسا تصور ہے جو اس زمانے میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا تھا اور کسی اور الٰہی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ آدمی کتنی چھلانگ لگالیتا ہے چھ فٹ کچھ ریکارڈ ہے آج کل۔ اُس زمانے کے لوگ اگرزیادہ بھی لگاتے ہوں گے تو کتنی لگالیں گے؟ کوہ ہمالیہ تک۔ لیکن اقطار السموٰت والارض۔ یہ زمین کے دائروں کی بات نہیں فرمارہا اللہ تعالیٰ۔آسمانوں اور زمین کے دائرے کی بات فرمارہا ہے۔ ایک ایسے وقت کے آدمیوں کو مخاطب کررہا ہے جس زمانے میں زمین کے دائرے سے نکلنے کا امکان پیدا ہوچکا ہوگا ۔ اس زمانے میں سوچیں یہ ہوں گی کہ ہم چھلانگیں مار کے کائنات کو فتح کریں اوردوسرے کنارے تک پہنچیں۔ اتنے عظیم الفاظ ہیں، یہ الفاظ خود معجزہ ہیں، فصاحت و بلاغت کا معجزہ۔ اس اعجاز کے ساتھ مل کے ایک حیرت انگیز چمک دکھلا رہا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ زمین کی اقطار سے تم نکل نہیںسکتے۔ اقطار السموٰت والارض سے نکل سکتے ہو۔ اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں جب زمین سے چاند پر انسان نے چھلانگ لگائی توبعض ، مجالس سوال و جواب وقف جدید کے زمانے میںکیا کرتا تھا، مجھ سے یہ سوال کرتے تھے اس وقت بھی کہ قرآن کریم تو فرماتا تھا کہ نہیں نکل سکو گے اور انسان نے نکل کے دکھادیا۔ اور بعض مولویوں نے فتوے دے دیئے کہ بالکل جھوٹ ہے ، کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔ یہ سب فراڈ بنایا ہوا ہے ان لوگوں نے ۔ قرآن قطعی طور پر کہتا ہے کہ نہیںنکل سکو گے۔ حالانکہ قرآن نے کہیںنہیں فرمایا کہ زمین کے دائرے سے نہیںنکل سکو گے۔ اقطار السموٰت والارض سے تم نہیں نکل سکتے۔ جس میں Implied پیشگوئی یہ ہے کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جبکہ تم زمین کے دائروں سے باہر قدم رکھو گے اور اگر یہ وہم ہو کہ آگے نکلو تو نہیںجاسکتے۔ الا بسلطانمگر اک غالب استدلال کے ذریعے۔ تم اقطار السموٰت تک پہنچ سکتے ہو لیکن جسمانی طور پر نہیں ۔ اور اب جو اقطار السموٰت پرنظر پڑی ہے انسان کی تو فاصلے اتنے ہیں کہ پندرہ بلین کہیں یا بیس بلین کہیں ۔ پندرہ بلین بھی، پندرہ بلین میل کی بات نہیںہورہی۔ پندرہ بلین Light Yearsکی بات ہورہی ہے اور سو کروڑ ایک بلین بنتا ہے؟ سو لاکھ کا ایک کروڑ، سو کروڑ کا ایک بلین اور 15سو کروڑ سال کا فاصلہ ہے کم از کم ہمارے درمیان اور اقطار السموٰت والارض کے درمیان اور یہ فاصلہ مراد یہ ہے کہ 15سو کروڑ میل نہیں بلکہ 15سو کروڑ Light Years یعنی اگر ایک انسان ایک روشنی کے کندھے پر بیٹھ کر ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کے لحاظ سے کی رفتار سے سفر شروع کرے تو پندرہ کروڑ سال کے بعد وہ وہاں پہنچے گا جہاں وہ سمجھتا ہے کہ زمین اور آسمان کا کنارہ ہے ۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلے گا کہ یہ کنارے بہت پھیل چکے ہیں۔ وانا لموسعون قرآن کریم کی آیت اپنا جلوہ دکھارہی ہے کہ ہم نے پیدا کیا، وسعتیں عطا کی ہیں لیکن ہم مزید وسعتیں دینے والے ہیں۔ اور Expanding Universe موسعونکی تشریح میںہمیںبتاتی ہے کہ تقریباًایک لاکھ ساٹھ ہزار میل کے لگ بھگ رفتار سے ،یہ فی سیکنڈ فی سال نہیں۔ فی سیکنڈ یہ کائنات پھیلتی چلی جارہی ہے ۔ تو جب تک یہ شخص جو بھی سوار ہوگا روشنی کے کندھے پر یہ پہنچے گا تو اس کو کتنے سال ہوچکے ہوں گے؟ 15کروڑ سال۔15سو کروڑ نہیں، 15نہیں 15سو کروڑ۔اور اس وقت جاکے پتہ چلے گا کہ وہ تو بہت آگے نکل گئی ہے کائنات۔ پھر وہ سفر کرکے وہاں پہنچنے کی کوشش کرے گا تو پھر، یعنی حسابی لحاظ سے ممکن ہی نہیں رہا۔ لیکن نظریاتی لحاظ سے، استدلال کے طریق پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ممکن ہوگا۔ اور آج ہمارے لیے ممکن ہوگیا ہے۔ اتنی دور کے فاصلوں کا تصور ان روشنیوں نے پیدا کیا ہے جو سفر کرتی ہیں تو ان کی کوالٹی میں تبدیلی ہوتی چلی جاتی ہے اور ان کا Spectrum بتارہا ہے کہ یہ کتنا لمبا سفر کرکے آئی ہیں۔ جس طرح مسافر ، تھکا ہارا مسافر جب پہنچتا ہے تو اس کا چہرہ دیکھ کر آپ بتادیتے ہیں کہ اس نے سفر کیا ہے۔ لیکن اتنا نہیں بتاسکتے کہ کتنا کیا ہے۔ لیکن روشنی میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھ دی ہے کہ سائنسدان اب جدید آلات کے ذریعے اس تھکی ہوئی روشنی کا پورا سفر معلوم کرلیتے ہیں۔ Spectrum اس کے جو بنتے ہیں کہ یہ کتنے ارب سال کا فاصلہ طے کرکے آئی ہے۔ تو کچھ حساب انہوں نے لگائے ہیں ایسے کہ روشنی ابھی نہیںپہنچی لیکن اندازہ ہے کہ وہاں تک یہ کائنات پہنچ گئی ہوگی ، وہاں کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچی ۔ وہ کئی ارب سال کے بعد پہنچے گی شاید۔
اس لیے یہ جو مضمون ہے روشنیوں کا سفر یہ بھی mind-bogglingہے۔ ناممکن ہے کہ انسان عام ذہن کے ساتھ جو خدا نے دیا ہے اس کو خواہ کتناہی ذہین ہو وہ ان فاصلوں ، ان حسابوںکا تصور کرسکتا ہو۔ اور قرآن کریم نے پیشگوئی کی ہوئی تھی پہلے کہ تم نہیں نکل سکو گے ، تمہیں وہم پیدا ہوگا کہ نکلو گے ، نکل نہیں سکو گے۔ مگر استدلال کی رُو سے استدلال پر سوار ہوکر تم یہ سارے سفر طے کرسکو گے۔ اب ایسی کوئی پیشگوئی دکھائیں تو سہی بائبل میں۔ نذارس پتہ نہیں کس کو زندہ کیا تھامسیح علیہ السلام نے۔ وہ کہاں گیا غائب ہوگیا کچھ پتہ نہیں۔ وہ جو سور مارے گئے ڈوب کے، ان کا کیا بنا؟ اس سے کیا بنی نو ع انسان کو فائدہ پہنچا؟ کوئی ایسا زندہ نشان ہے جسے آج بھی دکھاسکیں؟ لیکن یہ وہ قرآن کے اعجاز کی منہ بولتی تصویریں ہیں جو کائنات پر مرتسم ہیں، ذرّے ذرّے پر نقش ہیں۔ کوئی دنیا کی طاقت ان کو میلانہیں کرسکتی، ان کو مٹا نہیں سکتی۔ پھر فرمایا ولہ الجوار پہلی جو آیت تھی اس کا آخری حصہ میں پڑھنا بھول گیا تھا۔ یعنی اس کے بعد جو آیتیں آتی ہیں ان میں پھر ایک پیشگوئی ہے ولہ الجوار المنشأت فی البحر کالاعلام کہ ان دونوں سمندروں میں جو ملیں گے، جس وقت ملیں گے اس وقت یہ حالت ہوگی ، تم اس وقت پہچان لینا کہ وقت آگیا ہے کہ کشتیاں اتنی بڑی بڑی ہوں گی کہ گویا سمندر میں پہاڑ چل رہے ہیں۔ اب اس کی نشاندہی بھی وقت کی کردی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میںایسی کشتیوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ ہو بھی نہیں سکتا تھا کہ سمندر میں گویا پہاڑ چل رہے ہوں۔ اعلام کا لفظ بلند جھنڈوں پر بھی استعمال ہوتا ہے اور پہاڑوں پر بھی۔ تو دونوں معنی اگر اکٹھے پڑھے جائیں تو یہ مطلب بنے گا کہ وہ جو ملنے کا وقت ہے ہم اس کی ایک نشانی تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں پہاڑوں کی طرف بلند کشتیاں بلندجھنڈے اُٹھائے ہوئے کہ یہ امریکہ کا جھنڈا ہے ، یہ فرانس کا جھنڈا ہے یہ Britain کا جھنڈا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ ان سمندروں میں خوب پھر رہی ہوں گی۔ وہ زمانہ ہے جب یہ واقعہ ہوگا۔ پس(واقعہ) زمانے کی نشاندہی بھی ایسی کردی۔ وہ نشاندہی خود اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے جو اس زمانے کے انسان کے تصور میںبھی نہیں آسکتا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم اگر سفر نہیں کرسکو گے جسمانی تو اس کی راہ میں کیامشکلات حائل ہیں۔ کیوں نہیں کرسکو گے؟ یرسل علیکما شواظ من نارٍ تم دونوںپر آگ کے شعلے برسائے جائیں گے۔ گویا پگھلا ہوا تانبا جیسے ہو فلا تنتصراناور تم ان کے خلاف طاقت نہیں پائو گے۔ کوئی مدد حاصل نہیں کرسکو گے۔ اب بعض لوگ جو شعلوں کوجنوں سے محدود کرتے ہیں اور علماء یہ کہتے ہیں کہ جن بھی آگ کے ہیں اور خد اکی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں ان پر آگ برسے گی۔ اور یہی نقشے قرآن نے کھینچے ہوئے ہیں۔ گویا خدا کہیں اور بیٹھا ہوا ہے اور جن ادھر سے جاکر خبریں حاصل کرنے کیلئے اوپر اُٹھ رہے ہیں اورزمین سے۔ یہ گفتگو بھی کیوں جی باسط میاںاس میں آگئی ہے نا کتاب میںہماری؟ یہ جنوں کے اوپر آگ برسنے والا مضمون اس کتاب میںآیا کہ نہیں آیا۔That's allلیکن میں وہ جو ۔۔۔ اچھا وہ دوسرے میں ہے۔وہ مجھے یاد آگیا ہے۔ جب میں نے ربوہ میں آغاز ہی میں جلسہ سالانہ پہ انصاف اور عدل نہ۔۔۔ عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ کا مضمون شروع کیا تھا ۔ اس میں یہ مضمون اُٹھایا ہوا ہے کہ خداتعالیٰ ہماری حفاظت کس طرح کرتا ہے اور اصل مراد ان شعلوں سے کیا ہے؟ مگر یہ جو آیت ہے یہ ان کے اس فرضی تصور کو بالکل باطل قرار دیتی ہے۔ فرماتا ہے انسان بھی جانے کی کو شش کرے گا اور انسان پر بھی۔یعنی اگر یہاں لفظ انسکو انسان سمجھنا ہے تو یہ مطلب بنے گا۔ اگر جن و انس کا وہ معنی لیں جومیں بیان کررہا ہوں کہ بڑی طاقتوں کے نمائندے اور عامۃ الناس طاقتوں کے نمائندے، دونوں جب کوشش کریں گے تو دونوں پر یہ شعلے برسیں گے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک محقق شدہ،تحقیق شدہ بات ہے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں۔ امریکہ نے بھی کوشش کی جو بورژوا طاقتوں کا معشر تھا ان میں چوٹی کی طاقت تھی اور روس نے بھی کوشش کی جو Proletariate طاقتوں میں چوٹی کی چیز تھی، وہ ان کا معشر کہلاتا ہے۔ اور دونوں نے یہ بتایا کہ جب یہ نکلے ہیں یاان کو پہلے ہی اندازہ ہوگیا تھا تو ان کو کئی قسم کے حفاظت کے سامان کرنے پڑے ہیں۔ ورنہ radiations اتنی خوفناک ہیں اور ایسے ایسے خوفناک حملے ہورہے ہیں آگ کی ایسی قسموں کے جو اس زمین پہ تصور میں بھی نہیں آسکتیں۔ ایسی Highly charged radiation کی قسمیں ہیں وہ ان سے بچنے، بچتے بچاتے بمشکل اتنی دور جاسکتے ہیں کہ ان کا روز کا نان نفقہ جو ہے وہ ان کے پاس رہے اور جب وہ ختم ہو تو لازماً مجبور ہوں گے واپس آنے پر۔ کیونکہ ان سب کی حفاظت کیلئے جو ذرائع ہیں وہ ختم ہوجائیں تو حفاظت ختم ہوجائے گی، خوراک ختم ہوگی تو ختم ہوجائیں گے۔ تو پہنچ جو ہے بس وہاں تک ہی ہے اس سے آگے نہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ آسمانی وہ شعلے اور ان کا نظام اور meteor جن کا ذکر کیا تھا یہ جو برس رہے ہیں ۔ یہ انسانی زندگی کے spanتک بھی اس کو آگے نہیں جانے دیں گے۔ کیونکہ آگے جاکے بعض ایسے علاقے آتے ہیں اوپر جاکے جن میں، اوپر سے مراد یہ ہے کہ زمین سے دور ہٹ کر کہ جن میںاس کثرت کے ساتھ اور اتنے خطرناک meteors ہیں اور radiation کے ایسے charges چل رہے ہیں کہ جو حفاظت کا انتظام اب تک انسان کرسکا ہے وہ اس کیلئے کافی نہیں ہے۔ ایک چھوٹا meteor بھی ٹکراجائے۔ بعض ایسی zonesہیں جہاں بچ کے نکلنا ممکن ہی ان کیلئے نہیں رہتا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے جو rocketsبھیجے ہیں اس میں انسان نہیں ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے لامتناہی سفر شروع کردیا ہے لیکن وہ سفر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ کبھی بھی اس کنارے تک پہنچ سکتا ہی نہیں حسابی رو سے۔ بغیر زندگی کے بھی جو سفر ہے کیونکہ اس کی رفتار 25ہزار میل فی گھنٹہ کی ہے۔ اب 25ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار اور کہاں پھیلتی ہوئی کائنات۔ ایک لاکھ 60ہزار میل فی سیکنڈکی رفتار سے پھیل رہی ہو یہ تو اس کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے کبھی۔ تو قرآن کریم نے جو دعوے فرمائے ہیں وہ سو فیصدی درست ہیں اور ایسے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں جن تک اس زمانے کے تمام علماء کی مجموعی حکمت اور مجموعی علم بھی رسائی نہیں رکھتے تھے۔اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔
پھر قرآن کریم کا ایک عجیب انداز ہے پیشگوئیوں کا کہ مختلف سواریوں کاذکر فرماتا ہے اور ان سواریوں کے حوالے سے آئندہ ایجاد ہونے والی سواریوں کا ذکر فرمادیتا ہے اور دنیا کی کسی کتاب میں یہ بات نہیں ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں تو نظر ڈال کے بتارہا ہوں۔ ہے تو نکالو، دکھائو! کہ سواریوں کا ذکر چل رہا ہے اور یہ بتادے کوئی کتاب کہ آئندہ اور بھی ایجاد ہوں گی اس سے زیادہ۔ اور یہ تینوں سطحوں سے تعلق رکھنے والی سواریوں کا ذکر ہے۔ زمین پر چلنے والی، سمندر والی اور مکینیکل ، ہر قسم کی سواریوں کا ذکر یہاں ملتا ہے ۔ وہ دیکھیں فرماتا ہے:والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا و زینۃً و یخلق مالا تعلمون۔ کہ حمار بھی ہیں اور خیل بھی گھوڑے بھی ہیں، خچر بھی ہیں اور نہ گھوڑے ہیںاور خچر ہیں اور حمیر گدھے ہیں لترکبوھا و زینۃ یہ تمہاری سواری کے بھی کام آتے ہیں اور تمہارے لیے زینت کا بھی سامان ہیں۔ و یخلق مالا تعلمون لیکن یہیں بات ختم نہیں ہوئی۔ خدا ایسی سواریاں پیدا فرمائے گاجن کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ یہ پیشگوئی نکال کے دکھائیں کہیں سے۔ سواریوںکے ذکر ملیں گے مگر وہیں ان کی حد تک محدود ہوکر ختم ہوجاتے ہیں ۔ پھرکشتیوں کے حوالے سے فرماتا ہے وایۃً لھم انّ حملنا ذرّیّتھم فی الفلک المشحون اور ان کیلئے ایک نشان یہ ہے کہ ان کی اولاد کوتو ہم نے بھری ہوئی کشتیوں میں پھر سفروں کی توفیق عطا فرمائی۔ و خلقنا لھم من مثلہٖ مایرکبون اور ان کیلئے ہم ایسی سواریاں بھی پیدا کرچکے ہیں یا کریں گے جو ان سے ملتی جلتی ہیں مگر یہ نہیں ہیں۔ ما یرکبون جن کے اوپر وہ آئندہ سفر کیا کریں گے۔ یعنی سمندر سے تعلق رکھنے والی بھی ایسی سواریاں ہوں گی جن(سے) جن پر وہ بیٹھ کر آئندہ سفر کیا کریں گے۔ یہ جو آئندہ سواریوں کے متعلق قرآن کریم میں کھلی کھلی پیشگوئیاں تھیں ان کا آسمان سے بھی تعلق ہے اور آسمان سے تعلق (ایک) بعض اور آیات میں ملتا ہے ۔ فرماتا ہے والسماء ذات الحبک آسمان کو گواہ ٹھہراتے ہیں جس میں رستے بنادیے گئے ہیں اور رستے چلنے کیلئے بنائے جاتے ہیں اوراب جب آپ موجودہ نظام جو ہے Air Traffic کا، اس کو پڑھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ کتنا Complicated معاملہ ہوگیا ہے اور بہت Advance Computersکی مدد سے اب یہ ہوا میں رستے بنارہے ہیں کہ اس نے فلاں رستے سے جانا ہے، اس نے فلاں رستے سے جاناہے۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ آسمان پر جو کہکشاں کا رستہ ہے وہ مراد ہے۔ حالانکہ قرآن کریم والسماء ذات البروج بھی کہتا ہے اور والسماء ذات الحبک بھی فرماتا ہے۔ یہاں ان رستوں کی گواہی ہرگز نہیں ۔ آئندہ آنے والے زمانے کی پیشگوئیوں کے ذکر میں فرمارہا ہے۔ اس لئے آئندہ آنے والے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔
پس ان سواریوں کا آسمان پرمحیط ہونا ان رستوں سے ثابت ہے۔ یہ تفسیر سو فیصد درست ہے اور یہی وہ تفسیر تھی جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو سمجھادی گئی تھی ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دجال کے ذکر میںآنحضرت ﷺ نے جو Fire-Power سے چلنے والی سواریوں کا ذکر فرمایا ہے وہ بعینہٖ ان آیات کے مطابق ہے۔ فرماتے ہیں زمین پر بھی چلے گا دجال کا گدھا لیکن اس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ آگ کھاکر چلے گا، چارہ کھاکر نہیں۔ اور سمندرمیں بھی چلے گا۔ ایسے بڑے بڑے جہازوں کی شکل میں جن پر خوراکیں لدی ہوں گی اور خوراک کے پہاڑ لدے ہوں گے ۔ تو وہ اب کالاعلام کی پیشگوئی قرآن کریم کی دیکھیں اور رسول اللہ ﷺ کے دجال کے گدھے کا ذکر سمندری جہازوں کی صورت میں ۔ اور پھر فرمایا رسول اکرم ﷺ نے کہ وہ دجال جو ہے اس کا گدھا سمندروں سے۔ نہ cloud lineسے اوپر چلا کرے گا۔ ایک طرف زمین پر چلے گا، ایک طرف cloud-lineسے اوپر اور پھر فرمایا کہ اس کا ایک پائوں مشرق میں ہوگا تو ایک مغرب میں ہوگا۔ اب یہ جتنے جہاز اُٹھتے ہیں مشرق سے اور مغرب میں landکرتے ہیں مثال ہے ۔۔۔۔ دونوں طرف رہے ہیں ۔ لیکن رخ زیادہ تر مغربی ملکوں کی طرف ہی ہے۔ یہ مرکز ہیں کشش کا۔ اس لیے یہ بھی فصاحت و بلاغت کی شان ہے قرآن کریم کی کہ جو مرکز ہے انجذاب کا جس طرف کھنچے جارہے ہیں لوگ ۔ ان کی طرف رخ دکھایا ہے کہ ایک پائوں مشرق میں ہوگا اس گدھے کا ااور دوسرا مغرب میں۔ جس مطلب ہے اس کی flightکا فاصلہ مشرق سے مغرب تک محیط ہوگا۔ تو ایک ہی پیشگوئی۔۔۔۔ ایک ہی لفظ ہے چھوٹا سا وہ مایرکبون۔۔۔ مثل ما یرکبون یا لاتعلمون والی پیشگوئی ہے۔ والخیل والبغال والحمیر لترکبوھا و زینۃ و یخلق مالا تعلمون ایسی سواریاں بنائے گا خداتعالیٰ جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تمہیں علم نہیں اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ کو علم پہلے دے دینا تاکہ بعد کے آنے والا انسان یہ نہ کہے کہ یہ تو اشارہ تھا سواریاں، جانور پیدا کرنے کی طرف ۔ تم خواہ مخواہ کھینچ تان کر اس کو پیشگوئیاں بنارہے ہو۔ اور آئندہ زمانے کی سواریاںدکھا رہے ہو یہ درست نہیں۔اگر کوئی یہ اعتراض کرسکتا تو اس کا منہ ہمیشہ کیلئے دجال والی احادیث نے بند کردیا۔ اوّل تو اس آیت کی طرز بیان ہی بتارہی ہے کہ جانوروں کو تو تم جانتے ہی ہو جو ہیں۔ان کے علاوہ کس سواری کے جانور کا اضافہ ہوا دکھائو تو سہی۔ خیل، حماریہی دوجانورہی ہیں ناں جن پر چڑھتے ہیں ۔ تو ان کے ان میںاضافہ کا کوئی اشارہ بھی نہیں اس (حدیث) اس قرآن کی آیت میں۔ سواریوں کے عجیب و غریب ہونے کا جن کا انسان اس زمانے کا انسان تصور نہیں باندھ سکتا تھا۔ جس کا کوئی ان کو علم نہیں تھا۔ اس کی پیشگوئی ہے اور اس کی تائید میں وہ احادیث جو آگ کھا کر چلنے والی سواریوں سے تعلق رکھتی ہیںوہ اس پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس ایک اعجاز میں یہ طاقت ہے کہ تمام دشمنان اسلام کا منہ بند کردے۔ ناقابل یقین بات ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں اور وہ ہورہی ہے۔ مجھے یہ تجربہ ہے بارہا سوالات کی مجالس میں ایسی باتیں اُٹھاتے ہیں لوگ۔ ایک دفعہ آسٹریلیا میںبھی یہ بات چھیڑی گئی تھی Anti Christ کے متعلق۔ تو جب میں نے یہ بیان کیںاحادیث وہ نعوذ باللہ من ذالک مسلمانوں کواور، مسلمانوں کے بزرگوں کو Anti Christ ثابت کرنا چاہتے تھے۔ ایک پادری نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ تم دوسری باتیں تو بڑی بیان کررہے ہو ۔ اس وقت اس مجلس میں ایک سکول میں مجلس تھی جس میں اساتذہ اور طلباء پر بہت نیک اثر پڑ رہا تھا اسلام کا تو اس کو توڑنے کیلئے ، ایک پادری صاحب جو بڑی دور سے تشریف لائے تھے انہوں نے ایک طالب علم سے یہ سوال کروادیا اور اس کے بعد پھر میں نے ان کو نہیں دیکھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھاگ گئے ہیں پھر۔ کیونکہ جب میں نے دجال والی پیشگوئیاںشروع کیں کہ پہچان میںتمہیں بتادیتا ہوں تم بتائو دجال کون ہے؟ کس نے ایجاد کی ہیں یہ سواریاں؟ وہ کون سی قوم ہے (جس کے)جو اس کے ذریعے دنیایہ عروج حاصل کرگئی اور Master بنائی گئی؟ تو بلا استثناء سارے طلباء بار بارحامی میں یا سر ہلاتے یا آوازیں نکالتے تھے، ہاتھ اُٹھاتے تھے۔ میں نے کہا پہچان گئے ہو؟ کہتے ہاںپہچان گئے ہیں ۔کیونکہ مولوی نہیں پہچانتا بس یہ مصیبت ہے۔ لیکن جوبیچارے دجال کہلارہے ہیں وہ پہچانتے ہیں اور بغیر غصے کے جان جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں ہاں ٹھیک ہے۔ یہ پیشگوئی آج کل کے زمانے کی سواریوں کے سوا کسی چیز پر اطلاق پا ہی نہیں سکتی اور اس صفائی سے اطلاق پاتی ہے کہ کوئی اور توجیہہ ممکن نہیںہے۔
پس جو ان سواریوں کاموجد ،جو ان کا مالک، ان قوموں میں سے جو پادری ہیں جو دنیا کو حضرت مسیح علیہ السلام کا غلط تصور پیش کرتے ہیں وہ Anti Christہیں۔ نہ کہ مغربی سائنسدان۔ Anti Christ سے مراد ہرگز مغربی سائنسدان نہیں ہیں بلکہ وہ پادری ہیں جن کی ایک آنکھ اندھی ہے، ایک آنکھ روشن ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ اس مضمون میں جو ایک آنکھ اندھی ہے یعنی دائیں اندھی اور بائیں روشن۔ اس میں اس قوم کے دو طبقوں کا ذکرہے۔ جنہوں نے بعدمیں پیدا ہونا تھا جو Anti Christ ان میں سے ہیں وہ مذہبی آنکھ کے اندھے ہیں جو دائیں آنکھ ہوتی ہے ۔ اور وہ جو سائنسدان ہیںجو ان کی خدمت کریں گے اور سواریاں ایجاد کریں گے وہ بائیں آنکھ رکھتے ہیں اور دائیں آنکھ رکھتے ہی نہیں۔ چنانچہ وہ حقیقتاً اب کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے ورنہ اب تک سارے Scientists اپنے آپ کو Secularکہتے تھے او رSecular کہنے پہ مجبور بھی اس لیے ہوئے کہ جو اندھی آنکھ تھی، اس نے دیکھنے والی آنکھ کی مخالفت کی ان کو زندہ بھی جلادیا۔ تو یہ معنی زیادہ صحیح بیٹھتا ہے دجال کی تصویر کا کہ اس زمانے میں جو قومیںہوں گی، جو اصل قوم ہے بڑی جس کو دنیا پر عروج حاصل ہوگا وہ عیسائی قوم ہوگی۔ عیسائی قوم کے دو حصے ہوں گے۔ ایک حصہ وہ جو گہری فراست رکھتا ہوگا اور زیر زمین پاتال تک نظر رکھتا ہوگا اور وہ راز جو دنیا سے مخفی ہیں وہ ان کے کھوج نکالے گا اور عجیب عجیب ایجادات کرے گا۔ مگر وہ بائیں آنکھ ہے جو روشن ہے جس کا مطلب ہے وہ Secularلوگ ہیں۔ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اسی قوم کا ایک طبقہ جو دراصل Anti Christ ہے وہ اس زمانے کے پادری ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا غلط تصور پیش کرکے عیسائیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ پس Anti Christ ان معنوں میں کہ بظاہر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تائید کررہے ہوں گے مگر ایسے فرضی تصور پیش کریں گے کہ اس کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس ضمن میں اس حوالے کے بعد میںاس درس کو ختم کرتاہوں۔ ڈاکٹر J. Petersonآگے Smaithلکھا ہوا ہے ۔ مجھے تو Smithلفظ یاد ہے۔ پتہ نہیں۔ انگریزی میں پتا نہیں کیوں نہیںلکھتے۔کئی بار سمجھایا ہے کہ حوالہ بھیجا کرو تو رومن زبان میں رومن alphabetsمیں جو تلفظ ہوتاہے، جو نام ہوتا ہے وہ لکھ دیا کرو۔ اس سے صحیح تلفظ کا پتہ چل جاتا ہے ورنہ اردو میں بعض جو انہوں نے نام لکھے ہوئے ہیں مترجمین نے وہ اتنا دورہٹ گئے ہیں اصل نام سے کہ ان کی تلاش ہی مصیبت بنی ہوئی ہے۔ میںنے اور باسط صاحب نے مل کے بدھ ازم پر جب ۔۔۔۔۔ میری جو کتاب تھی اس میں بدھ ازم پر حوالے چاہئیں تھے۔ ان پر جو اردو میں ذکر تھے ناموں کے ان سے جب کھوج لگانا شروع کیا تو مصیبت پڑ گئی۔ کتنے مہینے میںجا کے وہ مسئلہ حل ہوا تھا؟ باسط بیچارے نے بہت ہی محنت کی اس پہ، ابھی تک کہتے ہیں پورا حل نہیں ہوا ۔ کسی زمانے میں کسی نے کوئی کتاب پڑھی ہے اس پر نام ہی اُوٹ پٹانگ لکھ دیئے ہیں ۔ اردو میں حوالہ تھااپنے تلفظ سے اگر انگریزی میں بھی لکھ دیتے تو نقصان کیا تھا؟ تو بہر حال ہم نے پھر Mrs. Saliha Safiلائبرین جو ہیںبہت مخلص ہماری خدا کے فضل سے active ممبر ہیں یہاں کی۔ ان سے مدد لی ۔ انہوں نے پھر ہر جگہ کھوج لگایا۔ اس نام سے ملتے جلتے ناموں کے متعلق تحقیق کی۔ کمپیوٹرائزڈ سیکشن سے مدد لے کر ۔ تو الا ماشاء اللہ ہم قریباً وہ معاملہ حل کرچکے ہیں۔ تو میری گزارش ہے احمدی محققین سے کہ جب وہ رومن زبان کے علاوہ کسی دوسری زبانalphabet میں لکھی جانے والی زبان میں کتابوں کے ترجمے کرتے ہیں یا حوالوں کے ترجمے کرتے ہیں تو اصل جو proper nouns ہیں ان کے اصل نام Roman Alphabets میں جس میں وہ پائے جاتے ہیں وہ ضرور بھیجا کریں ۔ بہر حال J. Peterson، Petersonتو ہے نا ایک شخص ۔ اس کی کتاب ’’بائبل کا الہام‘‘ صفحہ 6پر یہ درج ْہے ’’بہت سی باتیں جو بائبل کے متعلق میرے کئی ایک خیالات کے الٹادینے والی ہیں۔ایسے اشخاص کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں جو نہ تو بے اعتقاد ہیں نہ مذہب کے دشمن ہیں، نہ اس کی توہین روا رکھنے والے ہیں۔ بلکہ وہ بڑے ادب اور لحاظ سے سالہاسال تک اس کے متعلقہ امور کی تحقیقات میں مشغول رہے۔ ان میںیونیورسٹیوں کے پروفیسر، کلیسا کے بشپ او راعلیٰ عہدیدار اور ایسے ایسے اصحاب شامل ہیں جن کی اعلیٰ علمیت، دینداری، خدا پرستی میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں۔ اور یہ نہ صرف ایک جماعت ہے بلکہ مختلف سلسلہ خیالات کے پابند ہیں۔ وہ اب بائبل کی نسبت وہ خیال نہیں رکھتے جیسا کہ انہیں بچپن میں تعلیم دی گئی تھی۔‘‘۔مراد یہ ہے کہ پادریوں نے بائبل کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ان تعلیم یافتہ سائنسی نسلوں کو بائبل کے متعلق ایسی غلط تعلیم دی ہے کہ دہریہ بنا کے چھوڑ دیا ۔ دین سے ہی یہ لوگ بس منحرف ہوگئے اور بہت بڑا دہریہ بنانے میں جو کاروبار کیا ہے وہ پادری کی غلط تشریحات اور توجیہات نے کیا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ ڈاکٹر J. Peterson بھی اسی کی تائید کررہے ہیں۔ کہتے ہیں میرے خیالات کو بائبل کے متعلق بگاڑنے میں وہ نسلیں تھیں ہماری پہلی معلمین کی جنہوں نے بائبل کی ایسی غلط تعلیم دی ہے کہ اس پر ایمان رہ ہی نہیں سکتا۔ تو Anti Christ کا مطلب ہی یہی ہے کہ Christ کی سچائی کے خلاف یہ کام کررہے ہوں گے اور اپنی طرف سے اس کی تائید میں کررہے ہوں گے۔
پس قرآن کریم نے جو سواریوں کے ذکر میں Anti Christ کی پیشگوئی کی وہ دونوں طرح اعجاز ہے۔ اس زمانے کی دو آنکھوں کا نقشہ دیکھیں کتنا صاف کھینچا ہے۔ ایک روشن آنکھ ہے ، ایک اندھی آنکھ ہے۔ جو اندھی آنکھ ہے وہ جس کی دوست ہے اس کو نقصان پہنچارہی ہے اور سب سے بڑ امذہب کو نقصان پہنچانے والا یہ سلسلہ تھا جس کی کوکھ سے پھر دہریت اس Proletariate نظام کی صورت میں پھوٹی جسے ہم اشتراکیت کہتے ہیں۔ پس یہ بہت بڑا ایک دجل ہے جس نے اس زمانے کو شدید نقصان پہنچائے ہیں اور قرآن کریم میں ان کی واضح کھلی کھلی پیشگوئیاں موجوداور ان کی تائید میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اللہ نے جو آسمان سے علم عطا فرمایا وہ اگر کوئی ایک آدھ ابہام کی شکل کسی کو نظر آتی بھی ہو تو اس پر سے بھی پردے اُٹھا چکا ہے۔ اللھم صل علیٰ محمدو علیٰ آل محمد و بارک وسلم ۔ اب کچھ رہتے ہیں ذکر وہ پھر کل کریں گے انشاء اللہ۔ اور پھر اس کے بعد اگلی آیت۔ ٹھیک ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ13 رمضان بمطابق14؍ فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل جو باتیں ہورہی تھیں کہ بعض تحقیق طلب امور ہیں جن میں ریسرچ ہونی چاہیے اور کچھ ہو بھی رہی ہے۔ اس میں ایک ذکر ’’کشتی ٔ نوح‘‘ کے متعلق میں بھول گیا تھا۔ کشتی نوح کا جو ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ آئندہ آنے والوں کیلئے ایک نشان بنے گی۔خاص ایسی آیت ہے جو وقت کے ساتھ ختم نہیں ہورہی اسی وقت بلکہ آئندہ بھی غالباً اس کا اثر چلے گا۔ یہ استنباط ہے میرااس سے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو بھی کہیں ممیز (Mummies) کی طرح دریافت ہونا چاہیے۔اس کا غالباً میں نے کسی مجلس میں ذکر کیا تھا تو کراچی سے منیر احمد خان صاحب نے (جو ہماری ماموں زاد بہن جنہیں ہم ’’چھمو‘‘ کہتے ہوتے تھے ان کے میاںہیں) انہوں نے مجھے ملاقات کے وقت بتایا کہ میں پہلے ہی اس پر بہت تحقیق کرچکا ہوں اور مضمون کو بہت آگے بڑھاچکا ہوں۔ تمام لٹریچر جو دنیا میں اس کے متعلق پایا جاتا ہے اس کا طالعہ بھی کرچکا ہوں۔ سائنسی جغرافیائی لحاظ سے ، موسموں کے لحاظ سے غرض کافی وسیع تحقیق تھی ان کی اور چونکہ خود بھی سائنسدان ہیں اس لئے ان کا انداز بھی سائنسی (Scientific) تھا۔ کئی سال سے میں انہیں کہہ رہا ہوں کہ اب بس کرو کافی تحقیق ہوگئی کچھ بھیجو تاکہ شائع کریں۔ وہ تو اب تک نہیں کرسکے لیکن ایک مغربی محقق نے اس کا کھوج لگانے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ کل میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج اس کا ذکر کروں گا تو ہمارے شاکر صاحب نے از خود کہا کہ آپ نے کشتی نوح کا ذکر نہیں کیا اور رات میں نے ٹیلیویژن کے channel 4 پر فلم دیکھی ہے جس میں ایک مغربی محقق نے باقاعدہ جگہ دریافت کی ہے اور اس کی تصویریں لی ہیں۔
قرآن کریم ’’جودی‘‘ کا ذکر کرتا ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں تک مجھے یاد ہے یہ لکھا ہے کہ جودی کا پہلے پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے لیکن اب ایک جگہ جودی آرمینیا کی پہاڑیوں میں ملی ہے۔ اس کا نام جودی ہے۔تو ساری تحقیق ایک طرف اور یہ جغرافیائی نقطہ نگاہ سے یہ جائزہ لینا کہ اگر اس پہاڑ تک جس کا ذکر جودی کے طور پر کیا جاتا ہے پانی بلند ہوجائے تو باقی دنیا کتنی غرق ہوگی اور اتنا پانی اس برتن میں سما سکتا ہے کہ نہیں کیونکہ جو نقشہ قرآن نے کھینچا ہے وہ تو ایک پیالے کا سا نقشہ ہے ۔ ایک ایسا علاقہ ہے جو چاروں طرف سے پہاڑیوں میں گھراہوا ہے خواہ وہ بہت وسیع ہی ہو مگر جب بہت زیادہ بارشیں ہوں تو ایسے علاقے جو پیالوں کی طرح ہوتے ہیں ان میں پانی کے نکاس کے بعض رستے تو ضرور ہوتے ہیں مگر جب بہت زیادہ بارش ہوجائے اور زمین بھی اُبلے تو نکاس کی رفتار تھوڑی ہوتی ہے اور پانی بڑھنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے کہ پانی اس سطح تک پہنچ جائے کہ ویسے وہ نہ رہ سکتا ہو۔عام سیلاب بھی جو روز مرہ آتے ہیں ان میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ انگلستان میں سیلاب آئے تھے اور بظاہر بالکل ہموار (Flat) جگہ ہے لیکن جب بارش بہت زور مارتی ہے اور دریا بھی ابلتے ہیں تو وہ علاقے جو عام طور پر اس پانی کو اپنے پاس سمیٹ سکتے ہی نہیں ان میں آٹھ آٹھ، دس دس، چودہ چودہ فٹ تک پانی چلا جاتا ہے۔ تو اس نقطہ نگاہ سے بھی پھرتحقیق ضروری ہوگی کہ کتنی تیز بارش ،کتنا خوفناک طوفان چاہیے پانی کو اس مقام تک اونچا کرنے کیلئے۔ اوراس کے جو نکاس ہیںوہ اتنے زیادہ تو نہیں کہ اتنا اونچا پانی ہو ہی نہ سکتا ہو۔ سوائے اس کے کہ ہزارہا میل کا علاقہ غرق ہو ۔ تو یہ ساری باتیںایسی ہیں جو دیکھنے والی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری دنیا میں تاریخی لحاظ سے اس کی گواہیاں تلاش کرنا۔ چنانچہ میں نے عثمان چینی صاحب سے کہا تھا کہ وہ چینی تاریخ میں تلاش کریں۔ چنانچہ ہم کافی Sittings کرچکے ہیں اور کافی مطالعہ کے بعد انہوں نے ایک پرانے نبی کاتو نہیں مگر بعض بڑے بزرگوں کا ذکر کیا ہے جن کے زمانے میں ایک طوفان آیا تھا چائنہ کی تاریخ کے مطابق اور وہ طوفان بالکل حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے مشابہ ہے ۔ تو کیا حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد چائنا میںگئی ہے اور انہی تاریخی یادوں کو ساتھ لے گئی ہے اور زمانہ بھی کم و بیش وہی حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ ہے۔ اس لئے حیرت انگیز آپس میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
تو منیر احمد خان صاحب اور دوسر ے محققین کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ تحقیق کے دائرے کو وسیع کرنا ہوگا۔ محض تنگ دائرے میں تحقیق جو ہے کافی نہیں ہے۔ تاریخی حوالوں کے لحاظ سے، قومی روایات کے لحاظ سے اوروہ جو میں نے واقعہ بیان کیا تھا حضرت نوحؑ کے طوفان کا (درس کے دوران کیا تھا نا) جس میں دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں کھدائیوں کے دوران تختیاں نکلی ہیں جن میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام تو نہیں نام کوئی اور ہے مگراس نام کے ساتھ بعینہٖ وہی واقعہ لکھا ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کا ہے۔ اس کے ناموں کی تفصیل مجھے یاد نہیں اس پر میں نے ریسرچ گروپ کو لگایا ہوا ہے تحقیق کیلئے۔وہ یہ دریافت ہے کہ کھدائی کے دوران دریائے دجلہ کے کنارے پر غالباً یعنی دجلہ کے قریب نسبتاً فرات سے ایسا ایک علاقہ تھا جہاں کھدائی کے دوران مٹی کی پلیٹیں ملی ہیں اور ان کے اوپر بڑے واضح الفاظ میں بعض تاریخی واقعات لکھے ہوئے ہیں اور خلاصہ اس کایہ ہے کہ لکھنے والا بتاتا ہے کہ میںپھر حق کی تلاش میں ڈھونڈتا ہوافلاں مشہور بزرگ کے پاس پہنچا جو بہت بڑا عالم اور عقل کاایک میناردکھائی دیتا تھا، مشہور تھا بہت۔ اس کے پاس پہنچا اس نے جو واقعہ بیان کیاکہ ایک ایسا واقعہ گزرا تھا۔ اس میں بعینہٖ حضرت نوح علیہ السلام والا واقعہ ہے۔ تمام روایتوں کے قریب تر وہی روایت ہے جو تختیوں پہ لکھی ہوئی ملی۔اور نام کوئی اور لے رہا ہے کہ اس طرح خداتعالیٰ نے یہ کیا اور طوفان آیا پھر اس نے کشتی بنوائی۔ کشتی کے اوپر جوڑے لیے اور ایک ایک وہی اور قرآن کے بیان کے مطابق ہے ۔ بائبل کے مقابل پر قرآن کے بیان کی تائید ہے اس میں نمایاں طور پر۔ تو وہ حصہ بھی تحقیق طلب ہے کہ وہ روایات کیا تھیں جو قطعی طور پر سلوں میں ملتی ہیں، ان کو نظر انداز تو نہیں کیا جاسکتا۔ اورحضرت نوح علیہ السلام کے نام کے متعلق تحقیق شروع ہوجائے گی پھرکہ کیاحضرت نوح کا نام یہی نام تھا یایہ ایک جس طرح مسیح کہتے ہیں اس سے ملتا جلتاصفاتی نام تھا اور اصل نام وہ تو نہیں جو سلوں پہ لکھا ہوا ہے۔ اور پھرجہاں کشتی ملتی ہے وہاں تک سلطنت کا پھیلائو۔ سلطنت کا ضروری تو نہیں مگر علاقہ وہ جس جگہ یہ تختیاں ملی ہیں اور جس علاقے کے ساتھ ذکر ہے۔اس کا اس علاقے سے جوڑکیا ہے (جہاں کہا جاتا ہے کہ کشتی ملی ہے)۔ او رکشتی بھی Preserve (محفوظ ) تبھی ہوسکتی ہے یا تو وہ پہاڑوں میں زلزلے میں آکر دب چکی ہو اور یا پھر ایسی ٹھنڈی جگہ پر ہو جہاں برفیں رہتی ہیں ہمیشہ۔یہ جوآپ کی تحقیق ہے جو آپ نے بتائی ہے۔ شافعی صاحب۔۔ یہ غالباً ٹھنڈا علاقہ ہے۔۔۔۔یہ ایسا علاقہ ہے جو بہت ٹھنڈا ہے اور ہر وقت وہاں برف رہتی ہے اور یہ وہی غالباً آرمینیا کا علاقہ ہے جس سمت سے وہ آئے تھے Herdsاور بعض یہاں ایسے ہیں Pass(درّے) جو ہمیشہ (Below Zero) رہتے ہیں ۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ علاقہ کشتی جس زمانے میں برفیں پگھلی ہیں،اس زمانے میں جب برفیں پگھلی ہیں تو یہ طوفان آیا ہے کیونکہ اتنا بڑا طوفان صرف بارش سے نہیں آسکتا اور قرآن کریم نے یہ جو یہ فرمایا ہے کہ زمین سے چشمے ابل پڑے، تو یہ چشمے ابلنے کا منظر برفوں کے غیرمعمولی پگھلنے کا تصور سامنے لاتا ہے۔ کیونکہ پہاڑوں پر جب بہت زیادہ برفیں پگھلتی ہیں تو underground وہ دریا بنتے ہیں جو سطح زمین سے نیچے چلتے ہیں اور پھر کسی جگہ جاکے وہ پھوٹتے ہیں تو اچانک بے شمار سوراخوں سے گویا کہ دریا کی طرح پانی ابلے گا، اور یہ بتارہا ہے کہ اس سے پہلے وہاں بہت بڑی کوئی گرمی کی لہر آئی ہوگی جو وسیع پیمانے پر برفوں کو پگھلا نے کا موجب بن جائے۔ پھر تاریخی جغرافیہ کا اس پہلو سے مطالعہ ہے کہ کن حصوں میںتاریخی طور پر سردی گرمی کی لہریں آتی رہی ہیں اور ان کا انطباق اس مضمون سے ۔ پس تحقیق کے جو امکانی دائرے ہیں ان کامیں ذکر کررہا ہوں ضروری نہیں ہے کہ صرف منیر احمد خان صاحب تک ہی تحقیق کو محدودرکھا جائے۔ ایک حصے پر انہوں نے نظر ڈالی ہے ، دوسرے حصے جو میں بیان کررہا ہوں ۔ قومی تاریخوں سے اور جغرافیائی لحاظ سے اور حسابی رو سے پتہ کرنا کہ یہ ممکن ہے کہ نہیں۔
ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے پوچھا تھا کہ مجھے حساب لگاکر بتائیں کہ اگر بائبل جو بیان کرتی ہے اتنا پانی ہو جو ساری سطح زمین کو ڈھانپ لے تو یہ حسابی لحاظ سے کیسے ممکن ہے، کیا تقاضا کرتا ہے حساب۔ انہوں نے کہا کہ حساب یہ تقاضا کرتا ہے کہ جتنے سمندرکے پانی ہیں اتنا ہی سمندر کاپانی اور آجائے توپھر یہ نقشہ پورا ہوگا کہ وہ اس کو بھر دے اس کے بغیر ممکن نہیں۔ تو ساری برفیں بھی اگر پگھل جائیں تب بھی ساری زمین کو اتنا نہیں ڈھانپ سکتیں جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ مگر قرآن کریم نے تو بہت ہی معقول نقشہ کھینچا ہے ساری دنیا کے غرق ہونے کا ذکر ہی کوئی نہیں۔ اس علاقے کا طوفان ہے لیکن وسیع علاقہ ہے اورطوفان ایسا ہے جس کی تاریخ میںکوئی مثال نہیں۔ پس اس پہلو سے اس کے شواہدلازماً موجود ہونے چاہئیں اور کشتی نوح کا اعجاز بھی قرآن کریم کے مطالعے سے لگتا ہے کہ باقی رہنے والا اعجاز ہے جس طر ح فرعون کی لاش کا اعجاز تھا۔ پس یہ جو عمومی تبصرہ میں نے کیا ہے اس کی روشنی میں اور اس کے علاوہ بھی جوتحقیق کے گوشے آپ کے ذہن پر روشن ہوں ان کو پیش نظر رکھ کر تحقیق کریں اور بہت آہستہ آہستہ نہ کریں۔ دنیا کی تحقیق بہت تیزی سے آگے جارہی ہے اور ہم نے صرف ان سے قدم ہی نہیں ملانے بلکہ آگے بڑھنا ہے انشاء اللہ۔
الذین قالوا ان اللہ عھد الینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔ آل عمران :184تا 186
پہلی آیت پر جوبات چل رہی ہے قرآن کریم کی بعض پیشگوئیوں کامیں نے ذکرکیا تھاکچھ اور بھی ہیں۔ ویسے تو بہت زیادہ ہیں میں نے کہا تھا کہ چندمیں چنوں گا اور مثال کے طور پر ان کا ذکر کروں گا مگر اس میںجو اذالنفوس زوّجت والی پیشگوئی ہے وہ تو ہم روز پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم دیکھیں یہاں بیٹھے جاپان سے مل گئے ہیں اور ساری دنیا سے ہمارا رابطہ ہوا ہے۔ یہ زوّجتکی عظیم مثال ہے او رمذہبی دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہے جو زوّجتکی مثال پیش کررہی ہے کوئی دنیا میں ایسی جماعت نہیں بلکہ دوسری جو غیر مسلم، غیرمذہبی تحریکیںہیں لیکن انسانی امور میں دلچسپی لینے والی وہ بھی دیکھتی ہیں تو حسرت سے کہتی ہیں کہ ہم سوچا کرتے تھے کہ کاش رابطے کا کوئی ایسا نظام ہمارے درمیان بھی ہوتا مگر نہیں ہوسکا۔ چنانچہ آسٹریلیا سے جو ان کی سیکرٹری تبلیغ کی رپورٹ ملی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے ایک موقعے پریہاں کے ممبر پارلیمینٹ کو بھی اور دوسرے بارسوخ لوگوں کو حکومت سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اور خدمت کرنے والوں کو بھی بلایا تھاتاکہ مسجد کا تعارف کروائیں۔ جب MTA والے کمرے میں پہنچے ہیںاور دیکھا انہوں نے کہ دنیامیں کیا ہورہا ہے اب مجھے یاد نہیں کہ وہ وزیر تھے یا اور کوئی حکومت کے افسر تھے بڑے لیکن وہ خدمت کے کاموں میں بھی ملوث ہیں بہت۔ تو انہوں نے بڑی حسرت سے کہا کہ ہم یہ سوچا کرتے تھے کہ کوئی ایسا بھی T.Vہو جو سارے عالم پہ محیط ہو اور اس میں اچھے اچھے کاموں والوںکے آپس میں رابطے ہوں لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ پہلے ہی وجود میںآچکا ہے وہ تمہارے ذریعے وجود میںآچکا ہے۔ یہ بھی ایک پیشگوئی ہے اذالنفوس زوّجت جو اپنی ایک نئی شان کے ساتھ جماعت احمدیہ کے ذریعے پوری ہوئی ہے اور تمام دنیامیں ہمارے نفوس اللہ کے فضل سے اس پیشگوئی کے مطابق مل گئے ہیں۔اور النفوس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ قابل ذکر وجود جو خدا کی نظر میں نفوس کہلانے کے مستحق ہیں ان کا آپس میں امتزاج ہوگا، ایک دوسر ے سے ملائے جائیں گے۔تو یہ پیشگوئی جاپان کی طرف لے گئی مجھے پھر۔ ان کی رپورٹ کو دیکھ کے یاد آیا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے جو کل ذکر کیا تھا جن جاپانیوں کا ذکر شکریئے سے کیا گیاہے بہت ان کو پیغام پہنچایا تو بیحد خوش ہوئے اور ان کاجو تعاون ہے پہلے سے بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ عجیب قوم ہے جب یہ مطمئن ہوجائیں کہ لوگ اچھے ہیں تو پھر اس پر اپنا سب کچھ فدا کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں اور شروع میں ان لوگوںکا مجھے پتہ ہے یہی وہ رویہ تھا پاکستان سے آنے والوں کی طرف اور ایک دم ان کیلئے اپنی تجارت کے راستے کھول دیئے اور فرش ر اہ ہوگئے ان کیلئے۔ ہر قسم کی سہولتیں دیں لیکن جب بددیانتیاںشروع ہوئیں توبڑا سخت ردّ عمل پیدا ہوا پھراور اس کے بعد ہرپاکستان کی تجارت یاتو مرگئی یا پھر بہت چھان بین کے بعد کچھ بچی ۔ تو یہ قوم ایسی ہے جو شریف النفس ہے اس لحاظ سے کہ اگر حالات عام ہوں اور اخلاق پر زیادہ دبائو نہ ہوں تو روز مرہ کی زندگی میں ان کے اخلاق بہت اعلیٰ درجے کے ہیں۔ دنیا کے پردے پر روز مرہ کی زندگی میں ایسے اخلاق آپ کونہیںملیں گے۔ مگر اگر اعتماد اُٹھ جائے ایک دفعہ تو پھر اچانک منہ پھیر لیتے ہیں، بالکل بے تعلق ہوجاتے ہیں۔ تو اس علاقے میں یہ کہتے ہیں کہ اعتماداز سر نو قائم ہوا ہے ۔ ورنہ یہ ہم لوگوں کو سمجھتے تھے کہ بیکار سے لوگ ہیں ان کو رہنے کی تہذیب ہی نہیں ۔ اب وہ اللہ کے فضل کے ساتھ اتنے متاثر ہیں کہ سب کچھ نچھاور کئے ہوئے ہیں اور اور تنظیمیں بھی پہنچ رہی ہیں کہ ہم بھی تم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاںتک کہ ایک دلچسپ واقعہ یہ لکھا ہے کہ جتنے بھی خدمت کرنے والے کیمپ ہیں وہ بجلی کے بغیر ہیں۔ وہاں تو سب کچھ درہم برہم ہوچکا ہے۔اور بہت وقت لگے گا بجلی کے نظام کو بحال کرنے پر اس لیے جنریٹرز کے ذریعے ہم یہ کررہے تھے۔تو محکمہ بجلی کو جب پتہ چلا کہ ہم کیسی خدمت کررہے ہیں توانہوں نے فیصلہ کیا کہ تاریں پوری کھینچ کے کھمبے لگائے جائیں جس فاصلے سے بھی بجلی آسکتی ہے ، ان کے کیمپ کو لازماً بجلی مہیا کرنی ہے اور مفت مہیا کرنی ہے اوربجلی کا روز مرہ کا خرچ ہے وہ بھی وصول نہیں کیا جائے گااور اس کے صدقے جو دوسرے کیمپ جوکوشش کرکے آگے آچکے تھے ان کے بھی مزے ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ جو ارد گرد کیمپ ہیں ان کو بھی ہم بجلی دے دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کی شرافت جو جاپانی قوم کے اندر پائی جاتی ہے جس طرح نلکہ لگا کے پانی سے رابطہ ہوجاتا ہے ہمارے کیمپ نے ان کی شرافت سے رابطہ کرلیا ہے اور بہت اچھے اچھے نیک نمونے تعاون کے ظاہر ہورہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزاء دے اور اس خدمت کے دائمی اثرات ان پر قائم کرے۔میں نے کل کہا تھا کہ جاپانی امام صاحب بتائیں تو سہی کہ کس طرح شکریہ ادا کرنا ہے امام صاحب تو نہین بتاسکے (یہ آپ نے لکھا ہے۔ اچھا) ۔۔۔۔۔۔۔۔ جاپانی زبان میں ان کا شکریہ ادا کردوں Aari Gato Guzai Masاَرِس گاتو گوزائی مَس۔Thank you very much۔
زوّجت والی پیشگوئی کے علاوہ الحطمۃ کا بھی غالباً میں نے پہلے ذکر کیاتھا کہ حطمۃ روحانی معنوں کے علاوہ قطعی طور پر اس زمانے میںایجاد ہونے والے ایٹم بم کا ذکر کرتی ہے اور اصطلاحیں وہ استعمال کررہی ہے جس نے پرانے زمانے میں تفسیر کرنے والوں کوبہت دقت میں مبتلاء رکھاہے۔ کیونکہ واضح طور پر جب تک پتہ نہ ہو کہ ایٹم بم دنیا میں کوئی چیز ہے ایسی سورت کی تشریح کرنا جو قطعی طور پر ایٹم بم کے وجود پر روشنی ڈال رہی ہو اور کھلے لفظوں میں ڈال رہی ہو تفسیر والوں کیلئے بڑی مشکل پڑ جاتی ہے کہ یہ کیا چیز ہے آخر۔ سب سے اہم نقطہ اس میں یہ ہے ۔ پہلے تو میں اس کاعمومی تعارف کروائوں۔
ویل کل ھمزۃ۔۔۔۔ سورۃ الھمزۃ:2تا 6
اس میں ایک فردکا بھی ذکر چل سکتا ہے اور قرآن کریم کا محاورہ جس طرح بتاتا ہے کہ بعض قوموں کا ذکر بھی چل سکتا ہے۔ ایک فرد کے حوالے سے ہر وہ شخص جو یہ صفات رکھتا ہو جو قرآن کریم ہمزۃ المزۃ فصاحت کرنے والی باتیں، پھاڑنے والی باتیں۔ دنیا میں ڈپلومیسی کے ذریعے سے ایک مصیبت ڈالی ہو۔ ان لوگوں کے متعلق ہے کہ وہ ضرور حطمۃ میںگرائے جائیں گے اور ہاں دولت مند اتنے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری دولت اور دنیاوی ذرائع ہمیں ہمیشگی عطا کرسکتے ہیں۔اور دنیا کی کوئی طاقت اب ہم سے اقتدار نہیں چھین سکتی۔ یہ نقشہ ہے ان قوموں کا کہ جن کے متعلق فرمایا لینبذن فی الحطمۃ وہ ضرور حطمۃ میں ڈالے جائیں گے ۔ اب حطم کا لفظی ترجمہ ایک تو لفظ ہے حطم سے جس کا مطلب ہے کوٹ کر چورا چورا کردینا اور ذرّہ ذرّہ کردینا اور کوٹ کر جو باریک ترین ذرّے بن جائیں ان کو حطمۃکہیں گے ۔ چنانچہ لغت میں ملتا ہے کہ روشنی کی ایک Beamآرہی ہو کہیں کمرے میں اس میں معلق جو ہلکے ہلکے ذرّے جو عام آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے مگر روشنی سے منور ہوکر ایک دم نظر آنے لگ جاتے ہیں وہ بھی حطمہ کی مثال ہے۔ مگر اصل اس کا ترجمہ ہے باریک ترین چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ جو کوٹ کوٹ کر بنایا جاسکتا ہے۔ اس ذرّے میںان کو ڈالا جائے گا۔ اب وہ ان قوموں کو ایک ذرّے میںکیسے ڈالاجائے گا؟ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وما ادرٰک ماالحطمۃ تجھے کیا پتہ کہ حطمہ کیا چیز ہے؟ اور ہم بتا کیسے سکتے ہیں کیونکہ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا۔ جہاں بھی قرآن کریم میں وما ادرٰک کامضمون آیا ہے وہاں خداتعالیٰ کی بے بسی نہیں بلکہ انسان کی بے بسی کا ذکر ہے کہ انسان ابھی ان باتوں کا ادراک حاصل نہیں کرسکتا ان باتوںکو پہنچ ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ وقت نہیں آیااس کیلئے۔نارا اللہالموقدۃیہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے الموقدۃ جو خوب بھڑکائی گئی ہے التی تطلع علی الافئدۃ یہ ایسی آگ ہے جو دلوں پر جھپٹتی ہے ۔ پس اس لفظ ’’دلوں پر جھپٹتی ‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے گزشتہ مفسرین نے تو بہت کم لکھا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو ایک روحانی طور پر ایسی آگ قرار دیا ہے جو دلوں کو کھاتی رہتی ہے اور اس دنیا میں ان کیلئے جہنم کا سامان پیدا کردیتی ہے۔مگر آگے پھر فرمایا انھا علیھم مؤصدۃ۔ فی عمدٍ ممدّدۃٍ ۔ ان کے اوپر یہ آگ بند کی گئی ہے ایسے ستونوں میں جو کھینچ کر لمبے ہوگئے ہوں اور بیضوی شکل اختیار کرکے (یوں کرکے) لمبے ہوجائیں۔ اب ذرّہ کی تعریف ہورہی ہے۔ اصل بات یہ بھولیں نہیں حطمہ کی تعریف ہورہی ہے حطمہ کیا چیز ہے؟ اور حطمہ ایک ایسی آگ ہے جو قوموں کو ہڑپ کرسکتی ہے اور ہے وہ اتنی چھوٹی چیزکہ ایک ذرّے میںقید ہے لیکن پھٹنے سے پہلے وہ کھینچ کر لمبا ہوگا اور ستون کی شکل اختیا ر کرلے گا تھوڑی دیر کیلئے ۔بعینہٖ یہی نقشہ ایٹم بم کا پھٹنے سے پہلے کا Scientific رسالوں میں مَیں نے دیکھا ہے اور جو تصویریں کھینچی ہیں وہ بالکل عمودکی (یوں کرکے) پھٹنے سے پہلے لمبے ہو رہے ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت کابالکل لفظی لفظی ترجمہ ان تصویروں میں دکھائی دیتا ہے۔ پھر دلوں پر جھپٹنے کا مضمون تھا کہ ایک تو روحانی معنی ہے وہ بالکل درست ہے کہ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں۔ اس کے بغیر تو پچھلا سارا زمانہ قرآن کریم کی اس سورۃ کی برکتوں سے بالکل محروم رہ جاتا۔ اگر کوئی روحانی پیغام نہ ہوتا تو۔ کیونکہ ابھی ایٹم کا زمانہ آیا ہی نہیں تھا وما ادرک کا دور نہ تھا۔ اس کے متعلق جب میں نے تحقیق کی تو ایک سائنسی رسالے میں ایسا مستند مضمون ملا جس کو لکھنے والے دنیا کے چوٹی کے علماء اوراس فن میں ساری دنیا میں مستند ہیں۔ ان میں تصویریں دے کر انہوں نے یہ بات سمجھائی اور خاص طور پر جاپان کا ذکر کیا کہ جاپان پرایٹم بم جب گرا ہے تو اس کی جو Waves نکلی ہیںEnergyکی اس کا ہم نے مطالعہ جوکیا ہے تو پتہ یہ چلا کہ گرمی کی آگ کی Waveآگ پھٹی ایک دم لیکن جو آگ کی لہر کے سفر کی رفتار تھی وہ ہلکی تھی اور جو Shock Waves تھیں ان کی رفتار تیز تھی اس لئے لوگ جو مرے ہیں وہ Shock Waves کے دل پر اثر ہونے کی وجہ سے مرے ہیں۔ اب بتائیں کہ یہ کیسا اعجاز ہے جس کی کوئی مثال دنیا میں نظر آتی ہے۔ 1400سال پہلے جبکہ ایک ذرّے میں آگ کے بند ہونے کا کوئی وہم و گمان بھی نہیںہوسکتا تھا اس کو ایسے طریقے سے پھر بیان کردیا کہ وقت کا انسان اسے چیلنج کرکے تمسخر بھی نہ اُڑاسکا یعنی مفسرین کو دیکھا تو خاموش ہیں اس بات پر یہ جو سورت ہے اس پر زیادہ سے زیادہ یہ کہتے ہیں کہ جہنم میں کچھ ستون ہوں گے! ان ستونوں میں آگ بند کرنے کا کیا مطلب؟ ستون تو مان لیے ہال ہے ستون ہیں مگر ان ستونوں میں آگ بند کرنے کا کیا ذکر ہوا اور پھر اس کو حطمہ کیوں کہا جارہا ہے۔ اس کی کوئی تشریح کہیں نہیں ملتی ۔ تو یا تو مفسرین خاموش ہوکر گزر گئے ہیں یاایک آئندہ جہنم کے تصور میں اپنے دل کو مطمئن کررہے ہیں کہ اس دنیا میں تو ناقابل فہم ہے۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے فرمایا تھا کہ تم نہیں سمجھ سکتے کہ وہ دور ایسا ہے جس کی وجہ سے تم نہیں سمجھتے مگر قرآنی پیشگوئیوں کے پورے ہونے کے جب وقت آتے ہیں تو انسان کا علم اس زمانے میں اتنا بڑھ چکا ہوتا ہے کہ پھر وہ باتیں جو پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ تو اللہ کے فضل سے ہم اس دور میں پیدا ہوئے ہیں جہاں ہم نے اس سورت کو بھی اپنی کمال شان کے ساتھ، پوری تفصیل کے ساتھ بعینہٖ اسی طرح پورا ہوتے ہوئے دیکھا ہے جیسے لفظی ترجموں کے تقاضے ہیں۔ کسی کھینچ تان سے مضمون پیدا کرنے کاموقعہ نہیں ہے کہ ہم کھینچ تان کریں، یہ مضمون نکالنے کی کوشش کریں اس کو سیدھا سادہ لفظی ترجمہ پڑھ لیں تو ایٹم بم کی اس سے اچھی تصویر اور کوئی نہیں کھینچ سکتا اور اس کے اثرات کے متعلق یہ بات کہ تطلع علی الافئدۃ آگ کا دلوں پر جھپٹنا جسم کو چھوڑ کریہ ایک ایسا مضمون ہے جو عقل کو حیران کردیتا ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں حطمہ تو چھوڑو حطمہ کا تصور بھی عجیب و غریب ہے حیرت انگیز مگر آگ ہو جوBodies کو جلانے سے پہلے دلوں پر حملہ کرے اور ان کو بھسم کردے وہ کیسی آگ ہوسکتی ہے؟ کوئی سوچ سکتا تھا؟اب جب تک میں نے آپ کو بتایا نہیں آپ میں سے اکثر تعلیم یافتہ بھی ایسے ہیں جن کواس مضمون کا پتا نہیں تھا اور مجھے خود بھی جب تک میں نے اس آیت سے متاثر ہوکر تحقیق نہ شروع کی مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ ایٹم بم کیسی تباہی مچاتا ہے اور کس طرح موتیں واقع ہوتی ہیں۔ تو اس تحقیق کے دوران یہ مضمون دیکھ کر تو میںحیران ہی رہ گیا۔ اللہ کی شان ہے، عجیب کلام ہے اور قلب محمد مصطفی ﷺ ہی ہے جو اس کلام کا متحمل ہوسکتا تھا۔ کوئی دنیا کا طور ایسا نہیں ہے جس پر یہ جلوہ نازل ہو اور وہ ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجائے مگرمحمد رسول اللہ کا دل ہے جس نے اس وحی کو قبول کیا۔ حملھا الانسان تمام ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے، تمام عواقب سے باخبر ہوکر اس کو آگے بڑھ کر قبول کیا۔ پس قرآن کے نزول کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺکا نزول اس طرح منسلک ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا اور ایسے موقعوں پر بے شمار درود بھیجنا چاہیے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺپرجنہوں نے ہمیں توہمات کی دنیا سے نکال کر اعجاز کی وہ دنیا دکھائی جس کی کوئی مثال دنیا میں دکھائی نہیں دیتی۔ کل عالم اس ایک ایک معجزے کی روشنی سے بھر گیا ہے۔ پس یہ جوجلوہ ہے اس سورت کاکل عالم کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں اس کو دیکھ کر اور اس کی کوئی نظیر دوسری کتابوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں زوّجت کی ایک او رمثال ابھی بات میں آسٹریلیا کی کررہا تھا اور میں نے کہا تھا کہ مجھے یاد نہیں کہ وہ وزیر تھے یا کون؟ تووہ کہتے ہیں کہ وہ وزیر تھے امیگریشن کے وہ اور ان کے ساتھ ایک ٹیم آئی تھی جو 4 تاریخ کو مسجد آئے تھے اور وہ حیران ہواکہ اتنی چھوٹی سی جماعت اور اتنا بڑا کام۔ MTA چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ،انہوں نے کہا بہت ہی عظیم کام ہے۔جسوال صاحب یہاںنہیں ہیںان کو ورنہ میں مبارکباد دے دیتامگر وہ کسی اور جگہ دیکھ رہے ہوں شاید، تو زوّجت میں یہاں سے وہاں تک فاصلے بھی مل گئے ہیں آسٹریلیا کے اور یہاں کے بھی ، جاپان اور یہاں کے بھی عجیب اللہ کی شان ہے۔ اس نے ایک اوربات دلچسپ بھی کہی تھی وہ پہلے پیغام میں شامل نہیں تھی ، امیر صاحب نے اب بھیجی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ ہم خطبہ براہ راست سننے کیلئے رات کے بارہ بجے اکٹھے ہوتے ہیں تو اس نے کہا بات یہ ہے کہ اگر ہم یہ انتظام سارے کر بھی لیں ، آگئے آپ ٹھیک ہے۔ مبارک ہو بہت بہت۔ آپ کوبھی مبارک ہو۔ ہاں خیر مبارک ۔ اگر ہم اکٹھے کر بھی لیں تو رات بارہ بجے سنے گا کون ہماری بات؟ ا س لیے کوشش ہی بیکار ہے۔ تو وہ جماعت کہاں سے پیدا کریں گے جو ایسی دیوانی اورعاشق جماعت ہو کہ وہ آدھی رات کو بھی پروگرام چل رہے ہوں تو سارے اٹھ کے آتے ہیں۔ ایک دفعہ حمید الرحمن صاحب نے جب ان کے پاس ابھی انٹینا وغیرہ کا انتظام نہیں تھا مسجد جانا پڑتا تھا،انہوں نے بتایا کہ ہم آج کل روزے اس طرح رکھتے ہیں کہ صبح صبح اُٹھ کے ایک ڈیڑھ بجے ہی اپنی وہ افطاریاں باندھتے ،ساتھ انتظام کرتے ہیں اور پھر برفوں سے گزرتے ہوئے احمدیہ سنٹر میں اکٹھے ہوتے ہیں اور بڑا لمبا سفر ہے جو کم از کم ایک گھنٹے کا ان کے گھر سے یاغالباً 40منٹ سے ایک گھنٹے کے درمیان ہے جب ٹریفک نہ ہو مگر برفوں میں تو بہت ہی مشکل ہے اور پھر وہیں ہم خطبہ سنتے ہیں اور اس کے ساتھ پھر یا درس ہورہا ہوتا تھا اس زمانے میں اور وہیںسحری کرتے ہیں۔ تو کسی جگہ احمدی دنیا میں افطاری ہورہی ہے اور درس سنے جارہے ہیں اور کہیں سحری ہورہی ہے اور درس سنے جارہے ہیں۔ ہر وقت جو 24گھنٹے کا ایک ایک لمحہ ہے اس میں کوئی احمدی دنیا استفادہ کررہی ہے۔ اور ایک وقت میںہے لیکن کہیں رات ہے اور کہیں دن ہے۔ کہیں صبح ہے کہیں آدھی رات ہے تو یہ جو زوّجت کی جومثال ہے یہ عجیب و غریب مثال ہے اور احمدیوں کے سوا توفیق ہی کسی کو نہیں ملی ہے تو کوئی مولوی دکھائیں اب وہ بڑا زور مار رہے ہیں بیچارے سعودی عرب کی منتیں کررہے ہیں بلینز(Billions) ڈال دو لیکن ایسا کر کے دکھائو ۔ وہ کریں گے لیکن فائدہ ہمیں پہنچے گا یہ میں آپ کو بتادوں۔انشاء اللہ۔
بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں پیشگوئیاں ابھی پوری ہونے والی ہیں اور بہت قطعی ایسے نشان مل رہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی کہ وہاں تک پہنچے۔ تو ان آیات کو پہلے میںنے رکھا تھا اب چھوڑ رہا ہوں کیونکہ ان کی تشریح میں پھر بہت زیادہ وقت لگے گا ۔ یہ سمجھانا پڑے گا کہ یہ رخ کیا ہے سائنس کااو ریہ کس طرف جارہی ہیں پیشگوئیاں ۔ خسف القمر و جمع الشمس والقمر یہ میں پہلے گفتگو کرچکا ہوں۔فالیوم ننجیک ببدنک کے متعلق بھی میں بات کرچکا ہوں۔ فرعون کی لاش کے متعلق اوراس میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں کرنے والی لیکن درس میں ایک ہی بات کو تو بہت زیادہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہ جو میں نے نظریہ پیش کیا تھا اس کے پیچھے بہت سے ایسے محرکات اور ایسے شواہد ہیں جن کے نتیجے میں ہمیں پوری کہانی کو اس طرح مربوط کرکے پیش کرنا پڑے گا کہ ایک بات پر زور دے کر دوسری طرف جو حصہ ہے اس کوبے دلیل نہ چھوڑ دیا جائے۔ یا ناقابل قبول نہ بنادیا جائے۔ اب جہاں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رکھنا ہے اس پیشگوئی کے ذکر میں میں بتارہا ہوں وہاں یہ دیکھنا پڑے گا کہ دو فراعین ہیں ۔ایک فرعون کے زمانے میں آپ پیدا ہوتے ہیں اور پہلی ہجرت کرتے ہیں ۔ دوسرے کے زمانے میںواپس آتے ہیں اور پھر ایک لمبا مقابلہ ہوتا ہے جو کافی سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور اس کے بعد پھر اجتماعی انخلاء (یعنی Exodus) ہے۔ اب دیکھیںجو Seti(سَیٹی) تھا رعمسیس کا باپ اس کا زمانہ ہے 11سال بادشاہی کا۔ 11 سال کی بادشاہی میں اگر کوئی بچہ پیدا ہو اور اسی کے دور میں وہ ہجرت بھی کرجائے تو اس سے پہلے ہجرت کا یہ واقعہ کہ وہ ایک مضبوط جوان بن چکا ہو جو کسی کو مکہ مارے اور وہ مرجائے۔ یہ قابل قبول ہی نہیں بات، تسلیم ہی نہیں ہوسکتی۔ تو اس حصے میں بھی تحقیق کرکے اصل حقیقت معلوم کرنی پڑے گی کہ Setiکے زمانے میں حضرت موسیٰ پیدا ہوئے تھے یا پہلے پیدا ہوچکے تھے۔ اگر Seti کے زمانے میں مانا جائے گا تو کچھ مشکلات ہیں، یاپھر Seti کے زمانے کی تحقیق کرنی پڑے گی کہ آیا 11سال تھا بھی کہ نہیں یالمبا تھا اور اگر Seti ہی کے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں تو پھر رعمسیس ثانی کے زمانے میں داخل ہوتے ہیں جس کا زمانہ بہت طویل ہے اور اگراس بات کومانا جائے جو ڈار صاحب نے پیش کی تھی تو مشکل یہ بنے گی کہ اس بادشاہ کے زمانے میں اگر پیداہوئے تو پھر وہ اگلا بادشاہ ہیجس کے زمانے میں Exodusہوئی۔ تو تقریباً 70-60 سال اس کا زمانہ بادشاہت ہے۔ اور90نہیں بلکہ بعض محققین 95سال اس کی عمر بتاتے ہیں۔ یہ 95سال کی عمر میںمرا ہے ، بہت young(نوعمر)تھا جب یہ بادشاہ بنا ہے ۔ ابھی لڑکا ہی تھا جب اس کو فوجوں کا سربراہ بنادیاگیا تھا اور اس کے بڑے بھائی کے ساتھ کوئی Mystery گزری ہے وہ Mystery بھی ابھی تحقیق طلب ہے ۔ پھر یہ جب اگر وہاں پیدا ہوئے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہاں سے نکلنے کا واقعہ اس کی موت سے کچھ پہلے کا ہوگا اوراس میں 60-50سال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ممکن ہے اسی کے زمانے میں گزارے ہوں۔ پھر جب نکلے ہیں تو مدین کی زمین سے واپس آئے ہیں ۔ جب یہ اطلاع ملی ہے کہ بادشاہ فوت ہوچکا ہے اب واپس جائو اور میں نے پہلے بھی اشارہ کیا تھاایک موقعہ پرکہ پرانے زمانوں میں یہ دستور تھا یہ بھی ابھی مزیدتحقیق طلب ہے کہ ایک بادشاہ کے جانے کے ساتھ قانون بدل جایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ ان کے خدائوں کے تصور بدلتے تھے اس کے مطابق قانون بدل جاتا تھا۔ تو ایک بادشاہ کے وقت میں کسی نے جرم کیا ہو اور بھاگا ہو تو جب اس کی حکومت کا تختہ الٹ جائے خواہ مر کریا ویسے تو اگلے بادشاہ کی وقت از خود وہ جرم قائم نہیں رہتا ۔ چنانچہ جس فرعون کے سامنے پیش ہوئے ہیں اس نے اس جرم کے حوالے سے آپ کوپکڑا نہیں۔ پکڑ سکتا تھا ورنہ۔ وہ کہتا ہے کہ تو نے ہمارا جرم کیا تھا اور بھاگ گیا تھا لیکن پکڑتا کیوں نہیں پھر۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا رواج وہاں تھا کہ بادشاہ بدلنے سے نئے قوانین آجاتے تھے اور بعض پرانے مجرم جو ہیں وہ پھر اپنے ملک میں واپس آسکتے تھے۔ اگر نہیں تھا تو پھر یہ تعجب انگیز بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔
اچھا اب اس کاسارا زمانہ دیکھنے کے بعد اگرحضرت موسیٰ علیہ السلام اگلے فرعون کے وقت میں پہنچتے ہیں تو اس زمانے میں Exodus کے کیا نشان ہمیںملتے ہیں اور وہ کون سا فرعون تھا؟جو تعمیرات تو پہلا کرگیا ہے اورقرآن اس کو تعمیرات والا فرعون کہہ رہا ہے۔ تو تحقیق کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا کہ جو خواہش کرو وہ تحقیق ہوگئی۔ تحقیق کے دوران کئی مشکلات پیش ہوتی ہیں۔ مختلف پہلو کھنگالنے پڑتے ہیں ۔ پس ان تمام پہلوئوںپر وقت لگے گا کیونکہ یہ جتنی قدیم تاریخ ہے اگرچہ تختیوں میںملتی ہیں مگرچونکہ زبان کے متعلق بھی دقتیں ہیں۔ اس لیے ہم اتنی جلدی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے مگر میں جماعت کو مطلع کررہاہوں اس وقت تک یہ صورتحال ہے۔ آئندہ اس سلسلے میں جو مواد مہیا ہو وہ اگر علماء تحقیق کے بعد بھیجیں توقابل قبول ہوگا، شکریہ کے ساتھ قبول کریں گے۔ پس یہ جو ہے فرعون کا واقعہ اس پر اب مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔
اذا زلزلت الارض زلزالھا۔۔۔۔۔ سورہ زلزال:2تا 6
یہ سورۃ الزلزال ہے جس میں ایک ایسے زمانے کی خبر دی گئی ہے جب زمین پہ لرزہ طاری ہوجائے گا اور انقلابات کیلئے جوہلچل ہوتی ہے ویسی ہلچل مچے گی۔ واخرجت الارض اثقالھا اور زمین اپنے بوجھ باہرنکالے گی۔ راز نہیںفرمایا اثقالھا ہے۔اثقالھا میں وہ دور بنتاہے جس میں Heavy Metals کا زمانہ ہوگا ۔جبکہ Heavy Elements دنیا میں آکرانقلابی تبدیلیاں پیداکریں گے سائنس میںاوراثقالھا کااور مطلب بنتا نہیں ۔یا دوسرا کہ زمین اپنی عام چیزیں اُگلے گی جو بوجھل ہوں گی ۔ تو یہ تو حضرت دائود علیہ السلام کے زمانے میںبھی تھا۔ تانبہ بھی نکلا تھا لوہا بھی نکلا تھا ۔ تو وہ باتیں جوماضی سے تعلق رکھتی ہیں ان کو پیشگوئی کے طور پر مستقبل میں بیان کرنا بے معنی بات ہے ۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیزیں جو پہلے زمین اُگلا کرتی تھی وہ آئندہ اگلی جانے والی چیزوں کے مقابل پر اثقال کہلا ہی نہیں سکیں گی۔ وہ معمولی بے وزن چیزیں ہوجائیں گے۔ اس وقت جو زمین بوجھ نکالے گی وہ بہت بھاری ہوں گے اور بعض ایسے ہیں جو اس زمانے میں جو Heavy Metals سمجھی جاتی تھیں ان سے بھی دگنے وزن کی ہیں،بہت زیادہ ان کا Atomic Number ۔پس سورۃ زلزال میں بھی ایسا واقعہ ہوگا فرماتا ہے و قال الانسان مالھا۔ انسان کہے گا کہ اس کو ہو کیا گیا ہے؟ یہ کس دنیا میں ہم آگئے ہیں۔ عجیب و غریب چیزیں ہیں جو زمین اچھال اچھال کر باہر پھینک رہی ہے۔ یومئذٍ تحدث اخبارھا۔ بانّ ربک اوحیٰ لھا ۔ سائنسدان یہ نہ سمجھیں کہ از خود ہورہا ہے۔ تیرا ربّ ہے جس کی تقدیر اتر رہی ہے زمین پر اور اس تقدیر کے تابع یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ یہ زمانہ مقدر تھا کہ اس زمانے میں یہ واقعات ہوں گے اور یہ جو چیز ہے تقدیر کے تابع بعض چیزوں کا اجتماع یہ ہر دور میںہمیشہ ہوا کرتا ہے اور دنیاوی ترقیات کا ایک تعلق روحانی تجلیات سے بھی ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ جب تشریف لائے ہیں تو آپ کے نور کے انتشار سے صرف مسلمان دنیا ہی نہیں جاگی ہے بلکہ تمام دنیا میں اچانک علوم کی طرف توجہ اور غیر معمولی انہماک اور پھر نئے نئے علوم کا جاری ہونا۔ یہ سارا سلسلہ صدیوں پرمحیط ہوا اور پھر مغرب نے بھی اسی کا فیض پایا ۔ لیکن مغرب میںجب سائنسی امور چمکے ہیں اصل میں اور خوب زور سے جلوہ دکھایا ہے تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے انطباق ہوتا ہے۔ اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی بات لکھی بھی ہے کہ جب آسمان سے روحانی نور اترتا ہے تو اس کا ایک انتشار ہوتا ہے جو تمام دنیا پہ اثر انداز ہوتا ہے اور دنیاوی علوم بھی اس روحانی نور سے فیض پاتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں چمک پیدا ہوجاتی ہے دکھائی دینے لگتے ہیں اور انسانوں کی آنکھوں میں بھی ایک خداتعالیٰ نئی روشنی عطا کرتا ہے۔ تو یہ وہ مضمون ہے ساراجس کے متعلق بانّ ربک اوحی لھا کی آیت اشارہ کرتی ہے جس کی طرف کہ یہ جو باتیں ہورہی ہیں یہ الٰہی تقدیر اور وحی کے تابع ہورہی ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی حادثات نہیںہیں اب ایک پیشگوئی ہے بنی اسرائیل سے متعلق ۔ وقلنا من بعدہ لبنی اسرائیل اسکنو الارض فاذاجاء وعد الاخرۃ جئنا بکم لفیفًا۔ کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا اس وقت ہم تمہیں ساری دنیا سے سمیٹ کر اکٹھا کرلیں گے اب یہ جو دور ہے یہ آخرین کا دورقرآن کریم کی جو سورۃ آخرین کی ہے وہ اس دور کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مگر آخرۃ لفظ جوہے اس کا مطلب آخر نہیں ہے بلکہ ایک فرق ہے اس کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ دورِ آخرین سے مراد ہے وہ دوسرا دور اور آخرۃ کہتے ہیں بعد میں آنے والا ۔تو بعد کے آنے والے زمانے میں جوعجیب باتیں رونما ہونے والی ہیں ان کی پیشگوئیاں کچھ سائنسی ہیں، کچھ مذہبی نوعیت کی ہیں، کچھ سیاسی نوعیت کی ہیں سب قرآن کریم میں موجود ہیں۔ یہ جو پیشگوئی ہے یہ مذہبی نوعیت کی ایک پیشگوئی ہے جس میں یہود کے متعلق فرمایا گیاکہ ہم تمہیں تمام دنیا سے اکٹھا کرکے ارض مقدس میں لے آئیں گے۔ اب یہ جو واقعہ ہواہے اس میں لوگ کہتے ہیں کہ یہود کی چالاکی، ان کی سازشیں وہ ذریعہ بنے ہیں جس طرح سائنسدان ذریعہ بنتے ہیں مگر یہ مقدر تھا قرآن بتارہا ہے۔ اس میں ناممکن تھا اس کو بدلتے۔ اب مسلمان علماء کو چاہیے تھا کہ اس آیت کا مطالعہ کرکے ایسی کوششیں نہ کرتے جو تقدیر کو بدلنے کی کوشش ہو اس سے ان کو نقصان پہنچنا تھا اور ہر دفعہ جب خداکی تقدیر سے ٹکرائے ہیں ان کو نقصان پہنچا ہے۔ اس تقدیر کو سمجھ کر وہ کوششیں کرنی چاہئیں تھیں جن کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے کہ وہ کوششیں ضرور کامیاب ہونی تھیں ان کی طرف توجہ نہیں کی۔ تو میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہاتھ توڑ کر بیٹھ رہتے کہ خدا کی تقدیر نے ظاہر ہونا ہے۔ میں یہ بتارہا ہوں کہ یہ ایسی مبرم تقدیر تھی جس کے ،متعلق کوئی تبدیلی ممکن نہیں تھی۔ لیکن اس کے بعد ایک اوربھی تقدیر مقدر ہے۔ اس طرف اگر توجہ کرتے تو کم سے کم نقصان پر اسرائیل میں وہ جئنا بکم لفیفًا کی پیشگوئی پوری بھی ہوجاتی اور آخری فیض مسلمان اٹھاتے اور آخری فتح مسلمانوں کو ہوتی ۔ وہ یہ ولقد کتبنا فی الزبور یہ بنی اسرائیل 105ہے۔ اور اب جو ہے الانبیائ۔ میں نے کہا بنی اسرائیل کو دوسرا کیا نام ہے اس سورۃ کا؟ اسرا؟ اسرا ہاں تو عربوں میںرائج ہے نام وہ اسراء ہے نا؟ میں اس لیے بتارہا ہوں کہ بعض عرب بھی سنتے ہیں یورپ سے بھی بلکہ USSR کی ریاستوں سے بھی بعض خط ملتے ہیں کہ ہم دلچسپی لے رہے ہیں، عرب بیٹھے ہوتے ہیں درس کو بھی سنتے ہیں خطبے بھی سنتے ہیں تو ان کو میں۔ ان کو ہمیشہ اشتباہ ہوجاتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کیا چیز ہے؟ جس سورۃ کو ہمارے عموماً برصغیر میں اور دوسرے علاقوں میں بھی بعض بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہ اپنی طرف سے ان کی ایجاد نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے جونام ثابت ہیں ان میں سے ایک یہ نام ہے مگر عربوں میں جو قرآن کریم چھپتے ہیں ان میں اس سورۃ کا نام اسراء لکھا ہوتا ہے۔ پس جب میں بنی اسرائیل کا حوالہ دے رہا ہوں تو جو عرب سن رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ سورۃ اسراء ہے جو ان کے چھپے ہوئے قرآن پر لکھی ہوتی ہے۔ اس میں سورۃ اسراء 105یا بنی اسرائیل 105 اور آیتوں کا جب میں حوالہ دیتا ہوں تو ہم بسم اللہ کو پہلی آیت شمار کرتے ہیں۔ تو بعض دفعہ ان کے ہاں 104ہوگا نمبر 105نہیںہوگا تو اس کو بھی ذہن میں رکھ لیں۔ دوسری آیت ہے الانبیاء :107-106آیات ہیںدو ولقد کتبنا فی الزبورمن بعد الذکر۔۔۔
کتنا کھول کرخداتعالیٰ نے یہ پیغام سمجھایا تھا کہ اب اگر تم اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہو تو عبا دالصلحین بننا پڑے گا۔ خدا کے پاک نیک بندے بنو گے تو یہ زمین ملے گی ورنہ نہیں ملے گی جو مرضی زور لگالو۔ ان ھذا لبلغا لقومٍ عبدین اس میں ایک بہت بڑا پیغام ہے وہ خدا کے بندے جو محمدرسول اللہ ﷺ کی امت میں ہیں عبدین کہلاتے ہیں ان کیلئے اس میں بہت بڑا پیغام ہے، ایک عظیم پیغام ہے بلاغ اس کو سمجھیں گے تو فائدہ اُٹھائیں گے نہیں سمجھیں گے تو ٹکریں مارتے رہیں گے۔ ان کا کچھ بھی نہیں بنے گا۔ اب تک تو نہ سمجھنے والا دور چل رہا ہے ۔ پس یہ درس سن رہے ہیں عرب بھی اور تمام دنیا میںبھی لوگ سن رہے ہیں ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ اس پیغام کو سمجھیں یہ بلٰغًاہے۔بہت بڑا عظیم الشان پیغام ہے اس کے تابع اپنی روز مرہ کی زندگی کو صالح بنائیں اور یہ صالح بنانے کا جو مضمون ہے اس کا حکومت کے تختے الٹنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حکومت اسلام کے نام پر تختے الٹنے کی کوششیں جو ہیں یہ اسلام کو یااسلامی دنیا کو مزید کمزور کریں گی۔ کبھی بھی اس کا فائدہ نہ ماضی میں ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا۔ اس لیے یہ ظلم نہ کریں اپنی جان پر۔ ایک خود کشی کے بعدیہ دوسری خودکشی ہورہی ہے۔ پہلے خدا کی تقدیر سے غلط طریق پر ٹکرانے کی کوشش کی گئی اور اس سے نقصان ہوا کہ جتناتھوڑا ملنا تھا اس کوبڑھادیا گیابہت۔ وہ اسرائیل جو اسرائیلیوں کی کوششوں سے ملنا تھا ان کووہ تو چھوٹا سا خطہ تھا جو اسرائیل ان کو مسلمانوں کی ناسمجھی کے نتیجے میں ، ان کی Leadership کی غلطیوں کے نتیجے میں ملا ہے وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے کیوں جی آفتاب صاحب کتنے گنا زیادہ ہے وہ؟میںنے گلف کرائسز(Gulf Crisis) میںحساب کرکے بتایا تھا 20-25گنا بن جاتاہے۔ بہتزیادہ ہے اس سے جو اصل تھا بالکل چھوٹا ساتھا۔ الانبیا کی 107-106 یہ آیت جو ہے زیر نظر نہیں آئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں مل سکتا ہے مگرہم نے زبور میںدائود علیہ السلام کو جس کے نام پر صیہونی تحریک چلی ہے Zain Hill کا۔ حضرت دائود علیہ السلام سے تعلق ہے تو Zainist Movement نے جو اسرائیل دیا تھا۔ تو اگر تم چاہتے ہو کہ اسے حاصل کرو تو زبور پڑھ کے دیکھ لو وہاں ہم نے کہا تھابالآخر یہ زمین میرے عبادت گزار نیک بندوں کو ملے گی۔ عبادی الصالحوناس پیغام کو بھول گئے حالانکہ تنبیہہ بھی تھی کہ ان فی ھذا لبلٰغًا لقومٍ عبدین ۔ تو قرآن کریم ہر موضو ع پرپیشگوئیاں ایسی واضح فرماتاہے جو کھیل تماشے نہیں ہیںیا جادوگری سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں لیکن ایساجادو ہے جیسا دنیا میں کبھی دکھایا نہیں گیا۔ یعنی وہ کھل کر پورے افق کو گھیر لیتا ہے کہ اس میں ذہنی تاثرات وغیرہ کی کوئی بحث نہیں رہتی۔ جس طرح سورج چڑھتا ہے اس طرح قرآن کی پیشگوئیاں جب سچی ثابت ہوتی ہیں تو سورج کی طرح چڑھ جاتی ہیں۔ پھر حتی اذا فتحت یاجوج وما جوج وھم من کل حدبٍ ینسلون میں جو تفصیلی پیشگوئیاں ہیں یہ بہت لمبا مضمون ہوجائے گا مگر اس کا اکثر دور توگزرچکا اور ہم دیکھ بھی چکے ہیں۔ ایک صرف تشریح ضروری ہے اس سلسلے میں۔ مفسرین کو مشکل پڑ ی ہے اس آیت کے ترجمے میں و حرام علی قریۃٍ اھلکناھا انھم لایرجعون۔ یعنی یہ حرام ہوچکا ہے ہر اس بستی والوںکیلئے جس کو خدا ایک دفعہ موت دے دے ، جس کو ہلاک کردے کہ وہ پھر لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ مفسرین پڑھتے ہیںآگے جب حتی اذافتحت یاجوج وماجوج یہاں تک کہ یاجوج او رماجوج کو کھولا جائے گا جب اور وہ نکلیں گے تو بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ مطلب ہے اس وقت پھر مردے زندہ کیے جائیں گے واقعتا۔ اور یاجوج ماجوج کے زمانے میںیہ جوسنتہ اللہ تھی یہ تبدیل ہوجائے گی اور آئندہ مردے زندہ ہونے شروع ہوجائیں گے۔ یہ درست نہیں ہے حتیٰ کا ایک مطلب ہوتاہے ’’یہاں تک کہ‘‘ (Even When) یعنی دنیاوی ترقیات جب اتنی بڑھ جائیں گی کہ یاجوج ماجوج سائنسی لحاظ سے اپنے عروج کو پہنچ جائیںگیحتی اذافتحت یاجوج وماجوج۔ اس وقت بھی یہ قانون تبدیل نہیں ہوگا کہ ’’مردے لوٹ کے واپس نہیںآسکتے‘‘ یہ ترجمہ ہے جو قرآن کریم کی دوسری آیات سے متصادم نہیںبلکہ عین اس کے مطابق اور سنت اللہ میں تبدیلی کا تقاضہ نہیں کرتا بلکہ سنت اللہ کے زیادہ مضبوطی کے ساتھ جاری ہونے پر گواہ ہے کہ یاجو ج ماجوج بیشک نکل آئیں جتنی مرضی سائنسی ترقیات ہوں اور ان کو دنیا پر عبور حاصل ہوجائے یہ قانون اس وقت بھی نہیں بدلے گا یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کے زمانے میں بھی نہیں بدلے گا۔ یہ معنی ہے اس کا ۔ پھریسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفًا فیذرھا قاعًا صفصفًا۔
اس میں مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ اس پہ گفتگو کی ہے۔فیذرھا قاعًا صفصفھا لا تری فیھا عوجًا ولا امتا یہ جو آیات ہیں ان میں ایک اور بھی روشنی پڑتی ہے ہے کہ جب خداتعالیٰ پہاڑوں کا ذکر کرتا ہے کہ پہاڑوں میں یہ ہوا۔ حضرت دائود علیہ السلام کے بھی پہاڑوں کا ذکر ہے۔ میں نے مثال دی تھی قرآن کریم میںجگہ جگہ ان امور پر دوسری جگہ خوب وضاحت فرمادی گئی ہے کہ جب ہم پہاڑ کی بات کرتے ہیں تو بڑی قومیں مراد ہوتی ہیں، طاقتور لوگ مراد ہوتے ہیں، عظیم الشان انسان مراد ہوتے ہیں اور اسی طرح پرندے بھی قومیں ہیں تم لوگوں کی طرح ۔ پہلی قوموں کو بعض دفعہ پرندوں کے حوالے سے یاد کیا گیا ہے۔ کیڑیوں کاذکر ملے گا لیکن دراصل بعض قوموں کا ذکر تھا جیسے النملہ قوم تھی ایک جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے وہ انسان تھے۔ وہ قوم تھی ہماری کی لیکن دابۃ الارض کی Category میں اس کو بیان فرمایا گیا ہے۔ تو یہاں پہاڑ کے مضمون پر ایک اور روشنی پڑتی ہے کہ پہاڑ سے کیامراد ہے؟ یہاں پہاڑ سے مراد وہ دنیاوی قومیں اور ان کی عظمتیں ہیں اور یاجوج ماجوج کے دورہی سے ان آیات کا تعلق ہے۔ فرماتا ہے یسئلونک عن الجبال۔ وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ فقل ینسفھا ربی نسفًا تو ان کو کہہ دے کہ اللہ انہیں ریزہ ریزہ کردے گا۔ اب وہ کون سے پہاڑ تھے جن کے متعلق سوال ہوتا تھا اور رسول اللہ ﷺ اس کا کیا جواب دے رہے ہیں یہ جومسئلہ ہے یہ اس سورۃ میں، ان آیات میں خوب اچھی طرح کھول دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے ایک طرف رومن حکومت تھی جو عظمت کا ایک پہاڑ تھی ایک طرف ایرانی حکومت تھی جو دوسری طرف سے ایک عظمت کا پہاڑ تھا ان دو عظیم طاقتوں کے درمیان چھوٹا سا عرب تھا۔ اس میں یہ ایک تحریک اٹھی ہے جو ساری دنیا پر غالب آنے کی دعویدار تھی۔ تولوگ یہ پوچھتے ہوں گے، آگے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پہاڑوں جیسی ان طاقتوں کا کیا بنے گا؟ اسلام کیسے ان پر غالب آئے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان طاقتوں کی بحث نہیں کی بلکہ آئندہ آنے والی طاقتوں کا ذکر چھیڑا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جن کو تم پہاڑ سمجھ رہے ہو یہ تو کوئی چیز ہی نہیں یہ تو تمہارے دیکھتے دیکھتے پامال ہوجائیں گی۔ لیکن آئندہ زمانے میںایسے پہاڑ آنے والے ہیں جو بہت ہی عظیم ہوں گے جن سے مقابلے کی کسی دوسرے انسان میںطاقت نہیںہوگی۔ ان پر بھی اسلام غالب آئے گا اور وہ کیسے غالب آئیگا ینسفھا ربی نسفًااللہ ان کی طاقتوں کو پارہ پارہ کردے گا۔ فیذرھا قاعًا صفصفًا تم ان کو ایک چٹیل صاف میدان کے طور پر دیکھو گے ۔ لا تری فیھا عوجًا ولا امتًا اس میں نہ کوئی بلندی دیکھو گے نہ کوئی نشیب دیکھوگے۔نشیب و فراز سے یعنی ہموار ہوجائیں گے وہ لوگ یعنی وہ لوگ جنہوں نے وہ پہاڑ بنائے ہوئے تھے ان کی طرف اب ضمیر پھیر دی ہے پہاڑ کہہ کر بظاہر پہاڑوں کا ذکر کیا ہے باتیں انسانوں کی شروع کردی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے یومئذ یتبعون الداعی لا عوج لہ اب یہاں جمع جو ذوی العقول کی جمع ہے وہ پھیری ہے پہاڑ کا ذکر کرتے ہوئے یتبعون کا کیا مطلب ہوگیایتبعون الداعی۔ اس وقت جب کہ وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ،جب وہ ہموار ہوجائیں گے ۔ وہ زمانہ ہوگا جبکہ اس داعی یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کو قبول کرنے کیلئے ان کی طبیعتیں صاف ہوچکی ہوں گی ۔ اس وقت جبکہ ان کی طاقتوں کے غرور توڑ دیے جائیں گے تب وہ اس لائق ہوں گے کہ اس رسول ’’الداعی‘‘ جو محمد رسو ل اللہ ہیں ان کی طرف توجہ کریں اور ان کی پیروی کریں اور منطق دیکھیں کیسی عمدہ اس میںبیان ہوئی ہے۔ لا عوج لہ اس میںکوئی عوج نہیں محمدرسول اللہ ﷺ میں، محمدرسول اللہ ﷺ میںکوئی کجی نہیں ہے۔ تو کجی والے لوگ بے کجی والے انسان کو قبول کیسے کرسکتے ہیں جب تک ان کی کجیاںسیدھی نہ کی جائیں۔ تو فرمایا کہ اس طریق پرکہ اپنی طاقتوں میں وہ مگن ہیں اور غرور میںاپنے آپ کو حقیقتاً پہاڑ سمجھے ہوئے ہیں ان لوگوں تک تم اسلام کا پیغام پہنچائو گے اکا دکا الا ماشاء اللہ توہوتے رہتے ہیں مگر قومی طور پر وہ اسلام میںداخل نہیں ہونگے۔ کیونکہ ان کے دماغوں میں کجیاںآگئی ہیں۔ ان کے دین میں بھی ان کی دنیاوی سوچوں میں بھی ٹیڑھا پن ہے۔ اور محمد ﷺ وہ ہیں جن میں کجی کوئی نہیں ہے۔ فرمایا لا تریٰ فیھا عوجًا ولا امتًا ۔تو جب ان میں کجیاں ٹوٹ جائیں گی اور ٹیڑھا پن ان کا ،اونچ نیچ ختم ہوجائے گا تب تم دیکھو گے یومئذ یتبعون الداعی لا عوج لہ۔ اب وہ اس لائق ہوئے ہیں کہ اس داعی یعنی محمد ﷺ کی پیروی کریں جس میں کوئی کجی نہیں ہے۔
یہ جو آیت ہے یہ سورۃ کہف کی ابتدائی آیات کی یاد دلاتی ہے۔ وہاں قطعی طور پر عیسائی قوموں سے متعلق پیشگوئیاں ہیں کیونکہ ساری سورت ہی عیسائیت کے متعلق ہے اور آئندہ زمانے میں دجال کے عروج سے تعلق رکھتی ہے یہ سورت ۔ رسول اللہ ﷺ نے دجال سے بچنے کیلئے اس کی پہلی دس آیات اور آخری دس آیات تلاوت کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ ایک طرف فرمایا دجال سے بچنے کیلئے یہ نسخہ ہے اور جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تووہاںدجال کاذکر نہیں عیسائیوں کاذکر مل رہا ہے تو اس سے زیادہ اور کیا نشاندہی ہوسکتی ہے اور ان عیسائیوں کا ذکر مل رہا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خداکا بیٹا بنا کر ایک بہت بڑ ے ظلم کے مرتکب ہیں۔ تو کل جو میں نے یہ کہا تھا کہ وہ پادری جنہوںنے مسیح کا دین بگاڑا ہے اور مسیح پرحقیقت میں سب سے بڑا ظلم کرنے والے ہیں ان کی طرف اشارہ ہے Anti Christ یا دجال کے طور پر۔ اب یہ جو حدیث ہے اور یہ جو سورۃ ہے یہ کس طرح اکٹھے ہوجاتے ہیں دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجًا۔ کہ سب تعریف خدا کی ہے اس نے کتاب اتاری ہے اپنے بندے پر اور اس میں اس نے کوئی کجی نہیں رکھی۔ دیکھ لیاآپ نے کجی کا لفظ کس طرح آیا ہے۔ اکثر مفسرین کتاب کہتے ہیں کہ کتاب کی طرف اشارہ ہے مگر سورۃ طٰہٰ کی یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ کتٰب کے علاوہ لازماً بلکہ اوّل جو پیش نظر تھے وہ حضرت محمد رسول اللہﷺ تھے۔ وہاں کتٰب کا ذکر نہیں فرمایا کہ اس کتاب کی پیروی کریں گے جس میں عوج نہیں ہے بلکہ اس رسول کی پیروی کریں گے جس میں کوئی عوج نہیں ہے۔ اور یہ زمانہ وہی ہے جو عیسائیت کی ترقی کا زمانہ ہے کیونکہ سورہ کہف میں یہ ذکر پہلے آچکا ہے تو وہی پہاڑ ہیں۔ تو اب دیکھ لیجئے کہ قرآن کریم میں ایک لفظ پہاڑ کامختلف جگہوں پر آتا ہے اور قرآ ن کریم خود ان کی تشریح کرتا چلا جاتا ہے ان پہاڑوں کی۔ پس یہ وہ قرآن کریم کا اسلوب تھاجس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا یہ وسیع اور محیط اصول ہے۔ ہر جگہ قرآن کریم میں یہی اندازآپ کوملے گا کہ بڑے بڑے مسائل کی کنجیاں تھمادیتا ہے۔ ایک لفظ کو حل کرکے اس سے آگے پھر سارے مضمون کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یومئذ یتبعون الداعی لا عوج لہ وہ وقت ہوگا، وہ دور ہوگا جب یہ قومیں ضرور قبول کریںگی۔ جب ان کی کجیاں دورہوچکی ہوں گی۔ جب مار پڑ جائے قدرت کی طرف سے ،جب طاقتوں کے پہاڑ ٹوٹنے شروع ہوجائیں پھر اندرونی طور پرنفسیاتی لحاظ سے ایسے لوگ حق کو قبول کرنے کیلئے زیادہ تیار ہوچکے ہوتے ہیں نفسیاتی طور پر۔ پس یہ بھی ایک عظیم پیشگوئی ہے اور ان میں سے جو کچھ پوری ہوچکی ہیں کچھ ہورہی ہیں۔سورہ کہف کے حوالے سے اس کو دیکھیں تو ایک حصہ اس کا پورا ہوچکا ہے اور ایک حصہ پورا ہونے والا ہے جو انشاء اللہ خدا کرے تو اس صدی کے آخر تک خدا اس کے آثار دکھادے یا اگلی صدی کے آغاز میں وہ مالک ہے مگراب دن قریب آرہے ہیں کہ جب پہاڑ ضرور توڑے جائیں گے۔ اور اس کے بعد وہ نفسیاتی عمل شروع ہوجائے گا جس کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے اس سورۃ میں ۔ تو پھر محمد رسول اللہ ﷺ بے عوج رسول کی قبول کرنے کیلئے وہ نفسیاتی، ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہوں گے۔ یہ بھی بہت عظیم پیشگوئیاں ہیں اذالسماء انفطرت والی سورۃ میں بھی لیکن اس کو پھر بہت کھولنا پڑتا ہے اس میں وقت نہیں ہے۔ پھر آنحضور ﷺ کے معاً بعد خلافت کے اجراء اور مستحکم ہونے کا ذکر اور خوف کا اور پھر اس کا امن میں تبدیل ہونے کا ذکر آیت استخلاف میںسورۃ نور کی آیت 56میں ملتا ہے۔ تو اعجاز کی تو بھر مار ہے قرآن کریم میں ۔ ایک ایک معجزہ عالمی حیثیت کا ہے۔ کل عالم پر غلبہ پاتا ہے اور دونوں جہانوں کوپہلی زمینوں کو بھی اور بعد کی زمینوں کو بھی وہ اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ واذ الارض مدت بھی فرمایاکہ یہ زمین جو ہے یہ لمبی کردی جائے گی۔ اور پہلے یہ زمین آدھے جہاں پر مشتمل تھی پھر ایک دور آیا جب کہ امریکا دریافت ہوا(اور اسے یہ نئی دنیا کہتے ہیںیہ۔ یہ کوئی ہمارا بنایا ہوا محاورہ نہیں ہے) تو نئی دنیاایک عطا ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو تم دنیا جس کو کہہ رہے ہو یہی نہیں ہے بلکہ ایک وقت آئے گا اذا الارضمدت جبکہ زمین کو اور بھی پھیلادیا جائے گا تم ایک نئی دنیا اسی دنیا سے دریافت کر لو گے۔ تو پیشگوئیوں کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے، جس کو پنجابی میں کہتے ہیںنا کہ انت نہیں ہے کوئی، کوئی آخری کنارہ نظر نہیںآتا اور ہر پیشگوئی کلیتہً ایک سورج ہے جو چمک رہا ہے اور جس میں تبدیلی کرنے کی کسی کی مجال نہیں ہے۔
اب اس کے ساتھ ہم دوسری آیت کی طرف اب منتقل ہوتے ہیں۔ یہ ہے ۔ یہ جو حوالے ہیں اور بھی بہت سے تھے ان کو اکٹھا کرلیں کیونکہ مضمون بہت اہم ہے آئندہ کبھی کبھی کسی موقع پر جو آیات رہ گئی ہیں ان کا ذکر چھیڑیں گے جب کھلا وقت ہواور کسی نہ کسی آیت پر الگ بحث کا وقت مل سکے فان کذبوک فقد کذب الرسل من قبلک جائُ و بالبینت والزبر والکتب المنیر۔ پھر اگر وہ تجھے جھٹلائیں تو کیا ہوا، یہ حضرت مصلح موعود نے ترجمہ کیا ہے تو کیا ہوا؟ مراد ہے جھٹلاتے رہیں، جھٹلانے دیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیوں اس لیے کہ فقد کذب الرسل من قبلک۔ پہلے بھی تو رسول جھٹلائے گئے ہیں۔ اس میں اس بحث کی ضرورت نہیں کہ تمام رسول جھٹلائے گئے ہیں کیونکہ باپ بیٹاکے وقت کی ہماری پاس کوئی شہادت نہیں ہے بعضوں کے متعلق کہ ان کو جھٹلایا گیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام کوجھٹلایا گیا پھر وہ الگ ہوگئے۔ پھر اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے انہوں نے بھی نبوت کی ابراہیم علیہ السلام کے دور ہی میںاور کیا اس وقت ان کو جھٹلایا گیا تھا یا نہیں۔ اس کی شہادتیں اکٹھی کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ لیکن رسل چونکہ نکرہ میں بیان ہوا ہے اس لیے ایک عمومی تاریخی سلسلے کی طرف اشارہ ہے۔ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیںکہ کیا سوفیصدی تمام تر نبیوں کو جھٹلایا گیا تھا۔ بلکہ اگر اس جنس کے اکثر پر یہ ثابت ہوجائے تو دلیل قائم ہوجاتی ہے کہ تو بھی توایک رسول ہے اور رسولوں کو اس سے پہلے جھٹلایا جاچکا ہے اور کثرت سے جھٹلایاگیا ہے۔ پس وہ بھی تو روشن نشان لے کر آئے تھے۔آگے کیا نشانات لے کر آئیبالبینٰت کھلے کھلے نشان لے کر ۔ والزبراور ٹکڑا ٹکڑا نشان لائے یا ٹکڑا ٹکڑا کچھ کلام انہوں نے پیش کیا ہے۔ والکتب المنیراور پھر کھلی کھلی روشن کتاب لے کر بھی آئے ہیں۔اس میں جب مفسرین اس کی لغت کی بحث میں پڑتے ہیں تو زیادہ تر توجہ زبرپر کرتے ہیں کہ زبر کیا چیز ہے؟ اس سلسلے میں میں پہلے اس کاحل لغات بتاتا ہوں زَبَرَہُ کا مطلب ہے رماہ بالحجارۃ کسی کو پتھر مارنا۔ اس لیے ڈانٹنے کیلئے بھی لفظ زبراستعمال ہوتا ہے۔زبر توبیخ کرنا کسی کی زجر توبیخ کہتے ہیں کہ ڈانٹنا، ڈپٹنا تو یہ لفظ زبر کے تابع ہے و زاد فی مفردات المراغب کتابۃً غلیظۃًاور مفرد امام راغب میںلکھا ہے کہ وہ کتاب جو موٹے وہ لکھتے ہیں۔ زبرۃ الکتاب جب عرب کہتے ہیں تو مراد ہے موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہواسے زبور کہا جاتا ہے۔ لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کیلئے مخصوص ہوچکا ہے جو حضرت دائود علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی جیسا کہ فرمایا و اٰتینا داوٗد زبورًا۔ امام راغب کے نزدیک زبور اس الٰہی کلام کو کہتے ہیں امام راغب بعض دوسروں کا حوالہ دیتے ہیں کہ جن میں شرعی تعلیم نہ ہو کہ یہ کرو اور وہ نہ کرو بلکہ حکمتوں کا بیان ہو۔ اور زیادہ تر بحث تعلیم کی حکمتوں وغیرہ سے تعلق رکھتی ہو ۔ بعض دوسروں نے یہ کہا ہے کہ زبور کا تعلق ڈانٹ سے ان معنوں میں ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کی زبور میں عام طور پر بد اعمال لوگوں کے خلاف تنبیہہ ہے اور جھوٹوں اور فتنہ پردازوں کے خلاف ہلاکت کی اور نامرادی کی پیشگوئیاں ہیں۔ تو اگرچہ واضح طور پر یہ تو حکم نہیں ہے کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو مگر جو فاسق وفاجر لوگ ہیں جگہ جگہ ان کا ذکر ملتا ہے اور ان کی ہلاکت کا پیغام ملتا ہے۔ گویا کہ ان کو ڈانٹا گیا ہے۔بداعمال لوگوں کو جگہ جگہ دھتکار کی گئی ہے، ان پر پھٹکار ڈالی گئی ہے ،ان کو ڈانٹا گیا ہے، ان معنوں میں وہ زبور کہلاتی ہے۔ اور زَبَرَ زبورکا ایک مطلب ہے ٹکڑا ٹکڑا جیسا کہ قرآن کریم کی آیات میںملتا ہے۔ ایک تو قرآن کریم میں زبور کا جو ذکر ہے وہ میں پڑھ چکا ہوں پہلے ہی۔ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصّٰلحون۔ اچھا اب ایک عجیب ہے بات اس آیت میں زبور جو حضرت دائود علیہ السلام کی زبورتھی اس کی ایک خاص صفت بیان فرمادی ہے۔ حضرت دائود علیہ السلام کی زبور کا ہر باب ذکر الٰہی سے شروع ہوتا ہے اور اس ذکر کے بعد پھر پیشگوئیاں ملتی ہیں ۔ ہلاکت کی ، بدکاروں کا ذکر اور ان کی خرابیوں کی ۔تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کا یہ انداز تھا۔ پس ذکر کے بعد تم وہاں یہ پیشگوئی بھی دیکھو گے کہ ان الارض یرثھا عبادی الصّالحون۔ کہ یہ ارض مقدس یعنی الارض اسے میرے پاک نیک بندے ہی دراصل آخر پہ ورثے کے طور پر پائیں گے۔ اتونی زبرالحدید۔ سورۃ کہف میں ہے کہ وہ بادشاہ یا وہ خداکاخاص بندہ جس نے ایک قوم کی مدد کی تھی کہ دوسری ظالم حملہ آور قوم ا س پر چڑھ دوڑتی تھی اور بار باریہ ذوالقرنین کی بات ہورہی ہے۔ ان کی حیثیت کیا تھی یہ اس بحث کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مختلف مفسرین نے مختلف نام لیے ہیں ، ان کے مرتبہ پر بحث ہوئی ہے۔ مگر میں یہ کہہ رہاہوں خدا کا وہ بندہ جس کا ذکر اس میں ملتا ہے اس نے جب دو بلندیوں کے درمیان دیوار کو برابر کردیا تو اس نے کہا اتونی زبرالحدید اب مجھے لوہے کے ٹکڑے لاکر دو۔ تو زبر سے مراد یہاں ٹکڑے ہیں۔ فتقطعوا امرھم بینھم زبرًا۔ اور انہوں نے اپنے معاملہ کو جو بھی خدا نے ان کو شریعت عطا فرمائی تھی اس کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، یعنی پھیل گئے، متفر ق ہوگئے، فرقہ بازیوںمیں مبتلاء ہوگئے۔ تو زبر سے مراد ظاہری طور پر لوہے کا ٹکڑا بھی ہے اور زبر سے مراد قوموں کا افتراق اور پھیل جانا بھی ہے۔اور زبر سے مراد جو میں ابھی سمجھتا ہوں آگے ایک اور وہ بیان کروں گا۔ زبور کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زبور دراصل سارے کا سارا الٰہی کلام نہیں ہے۔ وہ حضرت دائود علیہ السلام کی مناجات ہیں۔ اور اسی لیے قرآن کریم میں حضرت دائود علیہ السلام کے ذکر میں یہ ملتا ہے کہ اے پہاڑو! اوّبی معہُ جب میرا یہ بندہ دائود میری حمد کے گیت گاتا ہے، میری تسبیح بیان کرتا ہے تو تم بھی اس کے ساتھ شامل ہوجایا کرو اور پرندوں کو بھی یہی حکم تھا۔ تو حضرت دائود علیہ السلام کا جو اندازبیان ہے اللہ کی حمد کا وہ غیر معمولی ہے۔ بہت دل پراثر پڑتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کے ساتھ حوالہ دیا ہے کہ دائود کی جب تم زبور پڑھو گے تو تمہیںذکر ملے گا اور ذکر کے بعد پھر پیشگوئیاں بھی ملیں گی۔ تو حضرت دائود علیہ السلام کی زبور میں ایک بات تو ذکر والی نمایاں ہے اوردوسری یہ ہے کہ ایک باب کا دوسرے باب سے کوئی ایسا رابطہ نہیں ہے کہ ایک مسلسل کتاب ہو جس کے باب ایک کے بعد دوسرے ظاہر ہورہے ہوں اور زمانی ان میں ترتیب ہو یا مضمون کی کوئی ترتیب پائی جائے۔ 150ابواب ہیں اور پانچ کتابیں ہیں۔ ان کوآپ پڑھ کے دیکھ لیں ان میں قرآن کریم کی طرح یا دوسری الٰہی کتب کی طرح کوئی مسلسل مربوط مضمون نہیں ملتا بلکہ غزل کا رنگ ہے۔ جس طرح غزل میں مختلف مضامین اکٹھے ہوجاتے ہیں اسی لیے اس کو غز ل بھی کہا گیا ہے اور Psalms of David ہیںاور Psalms of Psalms یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کا بھی یہی انداز تھا۔ اپنے باپ سے جو سیکھا انہوں نے اور بہت ہی پیارے انداز میں اللہ کی حمد بیان کی ہے اس کو کہتے ہیں غزل الغزلات ۔ تو غزل کا جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ الگ الگ ٹکڑوں میں ایک مضمون ہے اور اس کے پھر ہر شعر میں بھی ایک الگ مضمون شروع ہوجاتا ہے۔ تو ان معنوں میں خداتعالیٰ کی اورپھر خدا تعالیٰ کا الہام بھی ان میں ٹکڑا ٹکڑا ملتا ہے کہیں کہیں۔
پس حضرت دائود علیہ السلام کے وہ گیت جو ذکر سے بھرے ہوئے تھے اور اللہ کو پسند آئے ان میں چیدہ چیدہ مقامات پر اللہ تعالیٰ کا الہام بڑے واضح طور پر نظر آتا ہے اور پیشگوئیاں ہیں جو لفظاً لفظاً خدا کا الہام نہ بھی ہوں تو حضرت دائود علیہ السلام کے اوپرجو خداتعالیٰ کا کلام ظاہر ہو اہے اس کو انہوں نے بیان کیا ہے کہ اس کا یہ نتیجہ نکلے گا ۔ مگریہاں ہے جاء و ا بالبینت والزبر ۔ سوال یہ ہے کہ کیا تمام انبیاء میں صرف حضر ت دائود علیہ السلام ہی کو زبور ملی تھی اور باقیوں کو نہیں ملی۔ تو پھر یہاں انبیاء کو جمع کی صورت میں کیوں بیان فرمایا گیا ہے کہ انبیاء کو گویا کہ عام طریق تھا کہ انبیاء کو زبور ملا کرتی تھیں۔ توایک تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی جو ہیں دعائیں وغیرہ ان کو ہم ویسے توزبور نہیں کہتے مگر جن معنوں میںقرآن یہاں کہہ رہا ہے زبر ۔ زبرکے طور پر ہم ان کو قرار دے سکتے ہیں کہ یہ بھی زبر کی ایک مثال ہے۔ پس غزل الغزلات کہیں یا Psalms of Solomon کہیں یا Psalms of Psalmsکہیں وہ بھی زبور کی طرح کی ایک چیز ہے، اگرچہ اصطلاحاً اس کو زبورقرار نہیں دیا جاتا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوپر کوئی شرعی حکم نازل نہیںہوا جو نیا ہو اور قرآن کریم سے باہر ہو۔ لیکن زبور آپ کو دی گئی ہے کیونکہ آپ ’’دُرّثمین‘‘ کا مطالعہ کریں تواتنا ملتی ہے حضرت دائود علیہ السلام کے گیتوں سے اور اس طرز سے کہ بعض جگہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ بالکل وہی طرز بیان ہے اور جو لاعلم لوگ ہیں وہ اس بات کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درندوں کی طرح حملہ کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ انہوں نے پرانی کتابیں پڑھی نہیں ہیں ان کو پتہ نہیں کہ زبور کے انداز کیا ہیں۔ اس لیے وہ نہیں سمجھ سکتے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی کلام میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں دائود ہوں اور جالوت میرا شکار ہے اور وہاں جو ہے
کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
یہ بعینہٖ یہی مضمون حضرت دائود علیہ السلام میں ملتا ہے۔ کہ میں تو ایک گندا کیڑا ہوں جس سے انسان شرم کھاتے ہیں۔ ایک ذلیل اور حقیر چیز ہوں کسی کو کوئی قدر نہیں ہے۔ پس میں تیری طرف جھکتا ہوں ۔ بڑے ہی دردناک انداز میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو انگیخت کیا گیا ہے۔ انہ اوّاب۔ واقعتا وہ اوَّاب بھی تھے۔ اوّاب کی صفت مختلف معنوں میں استعمال ہوئی ہے مگر میں حضرت دائود کی صفت کی وجہ سے آپ کو اوّاب بتارہا ہوں کہ آپ واقعتا خدا کی طرف ایسا جھکنے والے تھے کہ اس کے نتیجے میں روح پگھلتی ہے،جب ان باتوں کو انسان پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے مشابہت اتنی نمایاں ہے کہ اس لیے وہ خدا کے پاک بندے جن کو زبور عطا کی گئی ان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی داخل ہیں اور آپ کاجو دعویٰ ہے یونہی بے محل نہیں ہے کہ میں ہوا دائود۔آپ نے دائود۔ ع وہ شجر ہوں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے۔یہ بھی ہے نا؟
وہ درخت ہوں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے ۔ تو زبورکو پڑھ لیں اور درثمین پڑھیں تو خود آپ کو گواہی مل جائے گی کہ یہ بھی زبور ہی کی قسم کی ایک چیز ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کی گئی ہے۔ پس بیناتو ہ نشانات ہیں جو عظیم الشان روشن دلیلیں خواہ وہ الفاظ میںہوں خواہ وہ اعجازی ایسی تجلیات ہوں کہ جن کو عرف عام میں معجزہ کہا جاتا ہے۔ وہ Miracleساری چیزیں بینات ہیں مگراصل بینہ کا معنی ان معجزوں پر صادق آتا ہے جو غلط خیالات اور صحیح خیالات میں کھلی کھلی تمیز کردیں۔ اندھیرے کو روشنی سے جدا کرکے الگ پھینک دیں اور بدی کو نیکی سے نکال کرباہرماریں۔ اتناواضح اور روشن کردیں انسانی دماغ کو اور اس کی قلبی کیفیات کو کہ اس کا تصور خدا کے الہام سے منور ہوچکا ہو اور وہ غلط بات نہ دیکھے نہ سمجھے۔ کسی مفہوم کو سمجھنے میں غلطی نہ کرے۔ ایسے ایسے معجزات جو کلام کی صورت میں ہوں یا نشان کی صورت میں ہوں ان کو بینات کہا جاتا ہے۔ اور زبر کی میں تشریح کرچکا ہوں کہ وہ کلام جس میں ذکر ملتا ہوکثرت سے کیونکہ قرآن کریم نے ذکر کے حوالے سے زبور کی تعریف فرمائی ہے اور پیشگوئیاںملتی ہوں لیکن احکامات نہ ملیں۔ یہ جس کلام پر بھی صادر آئے گا وہ زبور کہلائے گا۔یعنی جمع ہے زبر کی۔ زبر اس کی جمع ہے؟ میں نے کہا زبر توجمع ہے۔ زبور سنگل ہے نا؟ یا وہ بھی ایک جمع ہے؟ یہ ہم نے دیکھا نہیں غلطی ہوگئی۔ کیونکہ زبر تو جمع۔ مجھے تو زبور بھی جمع ہی لگتی ہے کیونکہ سارا 5زبور ہیں سنگل کے تابع تو وہ پانچ اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔ میرے پاس وہاں Dictionary ہے بائبل کی اس میں دیکھ لیں گے۔اور کتٰب منیر سے شرعی کتاب جو شریعت پر بات کرتی ہے اور اوامر اور نواہی کو بیان فرماتی ہے۔باقی ساری جو گفتگو ہے اس کا زبر کے اوپر اور کتاب پر میں اس کا خلاصہ پہلے بھی بیان کرچکا ہوں۔ الکتٰب کے متعلق تو تمام مفسرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وہ الٰہی کلام ہے جس میںاحکامات اور یعنی اوامر اور نواہی یعنی کسی بات سے روکنے کی تعلیم ۔ یعنی شریعت جس پہ ہو اس کو الکتاب کہا جائے گا۔ اگلی آیت ہے کل نفسٍ ذائقۃ الموت و انما توفون اجورکم یوم القیامۃ۔ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے اور تمہیں تمہارے اجور میں نے کہا وقت ہوچکا ہے اب اس آیت کو کل کیوں نہ شروع کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔اس آیت کو کل ہی شروع کریں گے پھر ورنہ بہت جلدی اس کو چھوڑنا پڑے گا پھر۔ کوئی بات تو نہیں رہ گئی کوئی۔ کوئی نیا حوالہ وہاں سے آیا ہو۔ نہیں؟ اچھا۔ اچھا جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ14 رمضان بمطابق15؍ فروری 1995ء
دو تین دن میں جو Faxesوغیرہ آئی ہوئی تھیں ، کہیں وقت نہیںملاتھا ان پر نظر ڈالنے کا، وہ بھی سامنے رکھی ہیں۔ بعض ایسے مضامین سے تعلق رکھتی ہیں جو درس کے دوران بیان ہوئے ہیں۔ کچھ تائیدی حوالے ہیں ، کچھ اور تبصرے ہیں۔ وہ کہاں ہے ڈاکٹر امتیاز کی فیکس۔ ہیں؟ ۔۔۔ یہ اس کا Doubleہے سلطان صاحب۔ ایک تو ڈاکٹر امتیاز صاحب کا جو M.Dہیں سینٹ لوئیس جماعت کے ، ان کا وہ پچھلی دفعہ اتوار کو جو سوال و جواب ہوئے تھے اس پر تبصرہ آیا تھا۔ کچھ تو ان کے اخلاص کی وجہ سے کچھ جذباتی ردّ عمل زیادہ ہی نظر آتا تھا لیکن جو علمی بات انہوں نے اٹھائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے تعجب ہوا ہے اور میں ڈاکٹروں کی طرف سے معذرت خواہ ہوں کہ سوال سے یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ گویا آپ نے وہ شوگر بنانے والے جو Enzymes ہیں، اس کو سمجھ لیا ہے کہ یہ antibioticہے۔ کہتے ہیں بالکل غلط بات ہے۔ بالکل درست ہے ۔ تحقیق سے ثابت شدہ بات ہے کہ خفیف مقدار میں antibioticاثر رکھنے والی، antiseptic اثر رکھنے والی بعض ایسی پروٹینز موجود ہیں لعاب دہن میں ، جس کے نتیجے میں جو ہلکی ابتدائی infectionsکے احتمالات ہوتے ہیں وہ منہ میںچبانے کے ذریعے ہی دور ہوجاتے ہیں۔ تو کہتے ہیں اگر وہ کوئی میڈیکل ڈکشنری دیکھ لیتے تو اسی میں ہی Sliva کے نیچے اچھی ڈکشنریوں میں وہ ذکر ہے کہ کون کون سے antiseptic مادے اس میں موجود ہیں ۔ خفیف ہونے کے باوجود مؤثر ہیں۔ یہ خلاصہ ہے ان کا اور باقی اپنے اخلاص کا اظہار ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے۔ لیکن جذبات میں آکراخلاص کی وجہ سے ہی ہو بیشک، زیادہ ردّ عمل دکھانے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ یہ سوال جواب چلتے ہیں۔ ان میں ہر شخص اپنے مزاج اور اپنی بناوٹ کے مطابق سوال کرتے ہیں۔ کوئی حرج نہیں اس میں۔ میں نے اسی وقت ذکر کردیا تھا۔ یہ اشارہ اس لیے تھا کہ کوئی باہر دوست زیادہ ردّ عمل نہ دکھادیں۔ میں نے ان سے پوچھا تھا آپ جانتے ہیں نا؟ کہ پہلے بھی بارہا آپ سوال کرچکے ہیں میں کبھی ناراض ہوا ہوں آپ سے۔ از خود انہوں نے کہا نہیں۔ یہ وارننگ تھی سب دنیا کے سننے دیکھنے والوں کو کہ وہ بھی میرے ساتھ چلیں اور خوامخواہ ضرورت سے زیادہ ردّعمل نہ دکھائیں۔ ایک ردّ عمل ان کے بڑے بھائی صاحب کا بڑا سخت ملا تھا۔ ان کو بھی میں نے چٹھی میں لکھا کہ نامناسب ہے یہ بات، چھوڑدیںاس کا پیچھا۔ علمی بحث ہے بس۔ اس میں اگر کوئی مزید تائیدی حوالے ملیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ ایک ڈاکٹر سلطان احمد صاحب جوحضرت مکرم مولوی دوست محمد صاحب کے صاحبزادے ہیں انہوں نے اس پر ایک بہت اچھا حوالہ بھجوایا ہے(اس لیے اس نے یہ کرلیا ہے اچھا)۔ و ہ کہتے ہیں کہ Sliva کے متعلق جو latestتحقیق ہے اس پر ایک کتاب سے انہوں نے حوالہ دیا ہے By William. F.۔ یہ پڑھا نہیں جارہا مجھ سے۔ میں نے کہا تھا کہ ذرا صاف لکھوا کے ٹائپ کروادیںمگر وہ ابھی پہنچا نہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ Professor of Physiology University of California یہ ہیں اور ان کی کتاب شائع ہوئی ہے جس میں اس مضمون پر جو جدید ترین تحقیق ہے اس کا ذکر انہوں نے کیا ہے۔ اپنی کتاب میں کہ Sliva میں ایک سے زائد ایسے بہت خفیف مقدار میں مگر بہت طاقتور Proteins اور بعض Enzymes ہوتی ہیں جو بیکٹیریا کو مختلف قسم کے بیکٹیریا کو اور Viruses کو منہ میں ہی ختم کردیتے ہیں۔ پس اگر ایک انسان طیب خوراک کھاتا ہے اور وہ بھاری Infection سے پاک ہے تو روز مرہ اس کی حفاظت کا انتظام ہے اصل میں۔ کچھ نہ کچھ جراثیم راہ پاجاتے ہیں اچھے کھانوں میںبھی اور اچھے پانی میں بھی۔تو ان کو یہ ان کا قلع قمع کرنے کیلئے یہ Sliva کافی ہوتا ہے۔ لیکن اس قسم کی باتوں سے کئی فائدے پہنچتے ہیں۔ اگر محض علمی لحاظ سے گفتگو ہو۔ سب سے دلچسپ اس سلسلہ میں عبدالرحمان صاحب جو ہمارے ماریشس کے ہیں originally لیکن آج کل کینیڈا میں وہSettle ہو چکے ہیںان کی طرف سے فیکس ملا کہ کل جب جو فیکس اس کے ایک دن یعنی پیر کو انہوں نے بھیجا ہے کہ کل جب یہ گفتگو ہو رہی تھی تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ اتفاق ہوا ہے یا اللہ تعالی کی طرف سے ایک خاص تائیدی نشان ہے کہ ایک ہفتہ پہلے ایک بہت ہی اہم مضمون اسی موضوع پر Protein in sliva found to block AIDS virus in test-tube study.یہ شائع ہوا ہے۔ اور کہتے ہیںوہ پڑھ کے میرے ذہن میں تھا۔ جب یہ گفتگو ہورہی تھی تو میرا ذہن اس طرف گیا تو میں آپ کے اور باقی احمدیوں کے علم میں اور ایمان میں دلچسپی پید اکرنے کیلئے ایمان میں اضافے اور علمی دلچسپی کے لحاظ سے یہ مضمون ان کے ساتھ Shareکرتا ہوں۔ وہ یہ کہتے ہیں، مضمون تو پورانہیں میں پڑھ سکتا اس وقت، خلاصہ اس کا یہ ہے کہ Dental Surgeons کی ایک Research Team تھی جو Dental Surgery کے تعلق میں منہ سے تعلق رکھنے والا جراثیم اور ان پر یہ ایک لمبے عرصے سے تحقیق کررہی تھی۔ اس ٹیم کے ممبروں کی طرف سے جو یہ مضمون شائع ہوا ہے اس کا عنوان ہے Protein in Sliva Found to Block AIDS Virus ۔ کہ تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا کہ Sliva میں ایک ایسی پروٹین بھی پائی جاتی ہے جو بہت ہی کم ہے۔ یہ عنوان میں نہیں لیکن آگے مضمون میں لکھا ہوا ہے ۔ بہت ہی ہلکی مقدار میں پائی جاتی ہے لیکن طاقتور اتنی ہے کہ AIDS Virus کا بھی مقابلہ کرتی ہے اور اس پر تحقیق اس لیے شروع ہوئی کہ عام طور پر خون میں جس حد تک AIDS Virus ملتا ہے، کم و بیش اسی نسبت سے Sliva میں بھی ملنا چاہیے۔ اور Sliva کے ذریعے Infection آگے چلنی چاہیے۔ خاص طور پر یہ لوگ کہتے تھے شروع شروع میں ڈر گئے تھے۔ بہت کہ جب ایڈز چل رہی ہے تو یہ اس قسم کا Virus ہے جو خون اور Sliva دونوں میں پایا جانا چاہیے۔
پس وہ خیال یہ تھا کہ تھوک کے ذریعے Direct نہ سہی لیکن جُوٹھے برتنوں وغیرہ کے ذریعے یہ خطرہ ہے کہ یہ وباء بہت جلدی پھیل جائے گی۔ اس پر جب ڈاکٹروں نے تحقیق شروع کی تو اس بات پر ان کو تعجب ہوا کہ Sliva کے ذریعے یہ بیماری پھیل نہیں رہی اور پھر انہوں نے Test-Tube میں واقعتا ایڈز کے جراثیم ڈال کر تجربے کیے تو Sliva کے بغیر تو وہ نشوونما خوب پاتے تھے اور خون کے Red-Blood Carpsles کے ساتھ bindہوجاتے تھے ایڈزکے وائرس ۔ لیکن جب Slivaہوتا تھا تو اس میں وہ اثر نہیں دکھاتے تھے۔ بہت شاذ کے طور پر کہیں یہ واقعہ ہوا ہے۔ اس کے متعلق بھی وہ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ شاذ جو مثال ملتی ہے Sliva کے ذریعے Infecitonآگے بڑھنے کی اس میںہماراکہتے ہیںتاثر یہ ہے کہ خون کے ذرّات بعض دفعہ منہ سے زخموں سے بیچ میں شامل ہوجاتے ہیں اور اصل Culprit Sliva نہیں بلکہ وہ خون کے ذرّات ہیں۔ بہت لمبے عرصے تک یہ تحقیق جاری رہی۔ پھر ایک Swedishڈاکٹر نے Scientistہے، اس نے معلوم کی ہے اصل Chemicalجو اس کی ذمہ دار ہے۔ اور اس پر یہ مضمون دلچسپ آیا ہوا ہے۔ اس کا بیٹا،اس Scientistکا بیٹا Dentist تھا اور اس تحقیق کے دوران اس نے پتہ ہے کتنا Slivaاکٹھا کیا ہے؟ ایک ہزار لیٹر! اپنے مریضوں سے جب اُن کا تھوک نکلتا ہے زیادہ تو ایک جگہ وہ Spittleمیں تھوکتے رہتے ہیں۔ وہ جمع کرکر کے اپنے ابا کی اتنی مدد کی کہ ایک ہزار لیٹر Slivaاکٹھا ۔ اور یہ اتنی خفیف مقدار میں ہے کہ اگر کثرت سے Slivaمہیا نہ ہوتا تو اس کو الگ نتھار کر Studyکرنا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے بہت محنت کی اور آخر یہ دوا نکال لی اور الگ کرلی۔ اس کو S.L.P.I کہتے ہیں۔اور اس کا جو خلاصہ ہے Secretary Leucocide Protious Inhibitor ۔ یہ ا سکا نام ہے ٹیکنیکل ۔ لیکن اس کو انہوں نے جو نام دیا ہے وہ ’’سلیپی‘‘ ہے تاکہ آسانی سے سب ڈاکٹر یاد رکھیں۔سلیپی کے متعلق جب ریسرچ پھرآگے بڑھی تو یہ بات سامنے آئی کہ یہ اس دوا کا خاص مقصد ایڈز کو چیک کرنا ہے ایڈز کو۔ اب اصل جو میں بات سمجھانا چاہتا ہو، اللہ کی شان دیکھیں یہ سلیپی تو جب سے انسان بنا ہے اس کے لعاب میں موجو دہے۔ اب خداتعالیٰ کتنی آگے کی سوچتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ ایک سوال جواب کی مجلس میں بتایا تھا کہ میرے نزدیک وہ جو جنس کی بے راہ روی سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، ان کواللہ تعالیٰ جنس کی بے راہ روی تک محدود رکھتا ہے سوائے اس کے کہ حادثات ہوں۔ حادثات تو ہر جگہ ایک الگ مضمون ہے۔ اس لیے کہ صرف وہی لوگ سزا پائیں (کیونکہ یہ سزادینے کی خاطرہے)۔ جو بے راہ روی اختیار کرتے ہیں۔ باقی اس سے بچائے جائیں ۔ تو یہ جو مضمون ہے یہ اُبھرا ہے ۔ دراصل اس حوالے کا تو بہانہ ہے اصل بات یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں خدا کی شان کہ ایڈز کو محض جنسی بے راہ روی تک محدود رکھنے کی خاطر ایک ایسی پروٹین اللہ تعالیٰ نے Sliva میں شامل فرمائی جس کا اصل مقصد ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایڈزکو چیک کرے اور دوسرے antibiotic اس کی کوئی وہ صفات ان کو معلوم نہیں ہوسکیں۔ جب انہوں نے antibiotic صفات کے طور پر سلیپی کے تجربے کیئے تو حیران ہوگئے کہ کچھ بھی جراثیم کچھ بات اس میں نہیں تھی۔ اور واقعہ یہ تھا کہ ایڈز کو چیک کررہی ہے۔ تو پھر تحقیق سے جو دلچسپ بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ براہ راست antibioticنہیں لیکن inhibitorہے۔ تبھی اس کے نام میں Inhibitor لفظ رکھا گیا ہے۔ Inhibitor کا مطلب ہے کہ جو روک دیتی ہے۔ اس کا دفاع کردیتی ہے کسی ذریعے سے بغیر مارے۔ اور دفاع یہ اس طرح کرتی ہے کہ Red-Blood Carpsles کے گرد یہ جو سلیپی ہےSlivaکے اندر شامل ہے یہ کوٹنگ کردیتی ہے، جب منہ میں Sliva کے علاوہ جراثیم ایڈز کے موجود ہوں تو یہ تمام خون میں جا کے مل کے توان کے جراثیم کے گرد بھی کوٹنگ کردیتی ہے۔ جراثیم سے مراد ہے ان کے وائرس۔ ان کے گرد بھی کوٹنگ کردیتی ہے اور خون کے Red-Blood Carpsles کے گرد بھی کوٹنگ کردیتی ہے اور وہ پھر Slip ہوجاتا ہے مگر پکڑ نہیں سکتا اس کو۔ Slip ہونے کا تصور لفظ سلیپی میں ہی موجود ہے کہ وہ وائرس بار بار کوشش کرتا ہے کہ خون کے ذرّے کو پکڑے اور اس کے اندر داخل ہو لیکن Bindنہیں ہوسکتا اور اس میںوہ ایک ایسی چیز ہے جو Bindنہیں ہونے دیتی اس کو۔ تو اتنا گہراخداتعالیٰ کی طرف سے Slivaکے اندر ہی Protective نظام شامل ہے کہ عقل اسے دیکھ کے دنگ رہ جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جو مضمون بھیجا ہے وہ antibiotic prperty سے تعلق رکھتا ہے، سلطان نے جو بھیجا ہے اس میں antibiotic properites کا ذکر ہے یہ inhibiter کے طور پر اس سے بہت زیادہ طاقتور چیز ہے یہ کہتے ہیں کہ سلیپی بہت ہی خفیف مقدار میں ہے مگر اثر کے لحاظ سے انتہائی وسیع دائرہ ہے اس کا۔ پوری طرح Sliva ایڈز کے خلاف حفاظت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے سوائے Accidentsکے اور اس سلسلے میں انہوں نے جب تجربے کیے سلیپی کو الگ نتھار کر تو ٹیسٹ ٹیوب میں تجربے کیے تو کہتے ہیں ایسی ٹیسٹ ٹیوب جس میںسلیپی استعمال ہوئی تھی اس کو خوب اچھی طرح Wash کرکے اپنی طرف سے کلیتہً سلیپی کے وجود سے پاک کرکے جب اس میں پھر وائرس ڈالا گیا تو پھر بھی وہ مؤثر ثابت ہوا۔اتنے خفیف ذرّات جو ہومیو پیتھک زیادہ بن جاتے ہیں بہ نسبت ایلو پیتھک کے ان میں پھر بھی دفاع کی طاقت تھی۔ کہتے ہیں ایسی ٹیوب جس کو ایک دفعہ استعمال کرلیا گیا سلیپی میں دھو کر اس کو پھر استعمال کیا گیا۔ تین ہفتے تک ایڈز کے خلاف طاقتور ثابت ہوئی۔ تو اس لیے خفیف کہنا کافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شان بہت ہی عظیم اور بہت ہی لطیف ہے خداتعالیٰ۔ وہ یہ جو دفاعی نظام ہے بہت تھوڑا ہونے کے باوجود بھی چونکہ Designed ہے بعض حملوں کے خلاف اس لیے نہایت مؤثر اور اتنی مقدار میں ہے جتنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ دھوکر صاف کرکے تین ہفتے تک اس میں یہ دفاعی اثر قائم رہتا ہے۔ ایک یہ ہے۔
دوسرا ہے ہمارے منیر احمد خان صاحب جن کا کل میں نے ذکر کیا تھا ایک ریسرچ کے سلسلے میں۔ انہوں نے ہر بات کی سوائے اس کے جو کرنی چاہیے تھی یعنی اس کا اشارہ بھی نہیں کیاکہ فرعون وہ جو نوحؑ کی کشتی کہاں گئی۔ اس کا مضمون کہاں تک پہنچا ہے۔ وہ Sagon کی بات چھیڑ بیٹھے ہیں اور شقّ قمر کے سلسلے میں اس حوالے سے یہ بات کو آگے بڑھا کر کہتے ہیں ایک کتاب ہے فرشتے نے جولکھی ہے یعنی اس کو اس کا نام ہی ہے کیا نام ہے؟ فرشتہ۔ تاریخ فرشتہ نام ہے۔’’تاریخ فرشتہ‘‘ اس میں ذکر موجود ہے کہ جنوبی ہندوستان میں اس زمانے میں یہ نشان اس وقت کے وہاں کے ایک راجے نے دیکھا تھا اور اس کو دیکھ کرپھر وہ اسلام قبول کرلیا اس نے۔ پھر اپنا تخت چھوڑ دیا اور عرب روانہ ہوا تاکہ وہ خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھ سکے۔ وہاں اس کے پہنچنے کا کوئی ذکر تو نہیں ملتا۔ لیکن فرشتے کی تاریخ میں یہ حوالہ ہے اور اس کے وجہ سے اس نشان کے نتیجے میں وہاں اور بھی اسلام پھیلا۔ بعض دوسری تاریخ کی کتب نے اسلام پھیلنے کی اور وجوہات بیان کی ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے یہ جو حوالے ہیںیہ ہم نے سن رکھے تھے پہلے بھی۔ مشکل یہ ہے کہ غیر نہیںمانیں گے۔ جب تک غیر مسلم لٹریچر سے کوئی حوالہ نہ ہو۔ ہم اگر فرشتے کا حوالہ دیں گے تو وہ کہہ سکتے ہیں
؎ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا ؟
مسلمانوں کی روایتوں سے ہمیںکیا غرض ہے۔ کوئی غیر کی گواہی بتائو۔ اسی لیے میں نے یہ کہا تھا کہ قرآن کی جو آیت ہے وانشقّ القمروالی ، وہ اپنی ذات میں مکمل ہے۔ کسی اور شہادت کی محتاج ہی نہیں ہے۔ اگرچہ شہادتیںملتی ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب میں میں نے کسی ہندو راجہ کے نشان دیکھنے کا ذکر پڑھا تھا۔ مجھے یاد نہیںوہ حوالہ کون سا تھا۔ وہ ہندو لٹریچر کا شاید تھا مگر یہ ہمارے محققین کو تحقیق کرنی چاہیے ۔ اگر ہندو لٹریچر کا حوالہ ہو تووہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ جیسا کہ راجہ شال باہن کا حوالہ وہ پرانا اس میںملتا ہے جو ہندو لٹریچر ہے ۔ اس لیے ہم بڑی تحدی سے اس کو مخالف کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ مگر تاریخ فرشتہ میں اور بہت سے ایسی باتیں ہیں، روایات، کہانیاں راہ پاگئی ہیں۔ اسی طرح بعض اولیاء کے ذکر میں بہت سی شہادتیں ملتی ہیں جن میں سے جو سچی بھی ہو سکتی ہیں اور غلط بھی کیونکہ مبالغہ آمیزی اس زمانے میں ایک دستور تھا ۔ تو ان کو بناء کرکے ہم قرآن کریم کی صداقت کے طور پر گواہ پیش نہیں کرسکتے کیونکہ کمزور گواہ پیش کرنا ایسے مقدمے میں بعض دفعہ اُلٹا مشکل پیدا کردیتا ہے۔ وہ مضبوط دلیل کو چھوڑ کر کمزور کو رگیدنے لگ جاتے ہیں۔ اس لیے اس سلسلے میں ہر ایک کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ میں حتی المقدور کوشش کرتاہوں کہ دشمن کو ایسے فرار کی راہوں کو اختیار کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
پس وہ گواہی اپنی ذات میں کامل ہے جو قرآن کریم میں ہے۔ غیر مسلموں کے مسلمہ اصول کے مطابق ہے کہ قرآن کریم اپنے زمانے کے جو واقعات بیان کرتا ہے وہ غلط نہیں ہوسکتے۔ اور اس کو بعض شدید دشمنوں نے بھی کڑوا گھونٹ کرکے تسلیم کیا ہے یہ اصول ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن اپنے زمانے کی تاریخ پر جب کوئی گفتگوکرتا ہے تو وہ ضرور ویسا ہی ہوا ہوگا ورنہ مسلمان مرتد ہوجاتے اور دشمن اُٹھ کھڑے ہوتے کہ یہ کیا باتیں کررہے ہو۔ یہ تو نہیں ہوا۔ تو وہ جو معجزہ شق القمر کا اس میں نہ صرف یہ بیان کرتا ہے کہ ایسا ہوا بلکہ یہ فرماتا ہے قرآن کریم کہ دوسرے لوگ اس بات کے اس رنگ میں گواہ ہیں کہ انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ سحر مستمر کہا ہے۔ یہ تو ایک ویسا ہی جادو ہے جو پہلے بھی ہم دیکھتے رہے ہیں، ایک جاری سلسلہ ہے۔ اشارۃً بھی اس کے انکار کو کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس لیے یہ جو بحث ہے بڑی اہم ہے اور میں شکر یہ ادا کرتا ہوں ان کے حوالے کا لیکن مجبوری ہے اس کو ہم بہت زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔ سوائے اس کے کہ وہ Hindu Source کا حوالہ نکالیں۔ ایک اور بات جو اٹھائی گئی ہے لفظ ’’سیگان‘‘ ہے یا ساگاں ہے۔ مجھے یاد نہیں میںنے کیا ادا کیا تھا۔ اگر تو امریکن Pronounciation بن گیا ہے یہ ، یہ سیگان ہی ہوگا اور اگر French جو اصل نام ہے French۔ اس کو ابھی تک بحال رکھا گیا ہے تو ا س لیے اس کو ساگاںبنے گا۔ Sagan میں Pronounce Nنہیں ہوتا Frenchمیں اور N کی بجائے غُناّں بعض دفعہ ادا کیا جاتا ہے۔ساگاں تو او رلمبے ساگاںجو SA ہے وہ زیادہ اونچا آ نہیںکرتے انگریزی کی طرح۔ ’’ساگاں‘‘ہلکا نسبتاً ۔ زبر اورالف کے درمیان Pronounciation کرتے ہیں لیکن اگر یہ انگریزی میں جا کے Englisize ہوچکا ہو تو پھر اس کا Pronounciation سیگان ہی ہوگا۔ منیر صاحب نے اس کو سیگان لکھا ہے۔ تو سب کچھ لکھا ہے مگر مطلب کی بات نہیں کی کہ کشتی کے وہ کہاں تک پہنچے ہیں۔ وہ ریسرچ جو ہے وہ میری دلچسپی کا موجب ہے۔ ہاں ایک کبابیر سے حوالہ آیا ہے ۔ جس میں تاریخی بحث ایک کتاب سے اُٹھائی ہے ڈاکٹر حسین مونس کی جو قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں وہ جو واقعہ ہے۔ غلبت الروم فی ادنی الارض و ھم من بعد غلبھم سیغلبون۔اس کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیںکہ انہوں نے جو تاریخیں دی ہیں وہ ہرقل روم پر تخت نشین ہوا ہے 610ء میںجو آنحضرت ﷺ کی نبوت کا سال تھا۔ اسی سال ہرقل روم کے تخت پر تخت نشین ہوا اور پھر شام فارسی اور شام اور مصر۔۔۔پھر فارسی افواج شام اور مصر کی حدود پار کرگئیں اور 613ء میں بمقام انطاکیہ پہلی بار رومیوں کو شکست ہوئی ۔ تو یہ تین سال نبوی بنتا ہے یہ عیسوی ہے۔ اگر اس کوہجری میں بھی ڈالا جائے تو تھوڑا سا فرق پڑے گا ایک مہینے کے قریب ۔ اس سے زیادہ نہیںپڑے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت تو یہ ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ نو سال کے اندر اگر واپسی ہے اس تاریخ سے تو پھر یہ ہجرت مکہ سے پہلے پہلے واپسی اس کا غلبہ دوبارہ روم کا غلبہ اپنے دشمن ایران پر ہوجانا چاہیے تھا۔ یہ جب سوال اُٹھتا ہے تو اب دوسرا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ حقیقت میں اس آیت کا نزول کب ہوا ہے اور چونکہ شرطیں ورطیں جو بِدّھی گئی ہیں وہ اس آیت کے نزول کے بعد ہوئی ہیں ۔ اس لیے شکست کی بجائے قرآن کریم کا یہ منشاء ہوسکتا ہے کہ اب جب ہم یہ اعلان کررہے ہیں بہت مشرک بگلیں بجارہے ہیں اور مسلمانوں کو اس سے تکلیف پہنچ رہی ہے۔ تو آج اس آیت کے نزول سے لے کر 9سال کے اندر یہ واقعہ ہوگا۔ اگر یہ ہو تو شکست کا سال اہمیت نہیں رکھے گا۔ بلکہ نزول کا سال اہمیت رکھے گا۔ اس لیے اس پہلو سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ان کے نزدیک اس کتاب کے حوالے سے فتح کا تعلق ہے وہ یہ لکھتے ہیں کہ 622ء میں فارسیوں کے ساتھ جنگ شروع کردی۔ یعنی 610ء سے 22تک ۔ 12سال تک گویا کہ وہ انہوں نے دفاعی کارروائی مؤثر نہیں کی روم نے۔ اگر یہ تاریخ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لازماً پھر قرآن میں آیت نزول کے وقت سے ہی ہمیں بضع سنین کاآغاز کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کی جوابی کارروائی ہی بارہ سال بعد ہوئی ہے۔ اس لیے شکست سے وہ سرا باندھا نہیںجاسکتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ 622ء میں جوہجری کا سال تھا، اس میں اس نے کارروائی شروع کی ہے اور 627ء میں نینویہ کے مقام پر فارسیوں کو شکست فاش دی ہے۔ 627ء ہجری جو ہے یہ غزوۂ خندق کا سال بنتا ہے ۔ تو جو بدر والا واقعہ ہے اس سے ایک سال پہلے یعنی جب ہجرت ہورہی تھی اس وقت جوابی کارروائی شروع ہوچکی تھی۔ بدر کا واقعہ 2ہجری کے آغاز میں ہے۔ ا سکا مطلب یہ بنتا ہے کہ بعید نہیں کہ اس وقت کوئی بڑی فتح رومیوں کو نصیب ہوئی ہو جو بالآخر فارسیوں کی آخری شکست پر جنگ احزاب کے وقت منتج ہوئی ہو۔ تو حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے اگر بدر کا لکھا ہے جیسا کہ بیان کیا گیا تھا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو یقینی طور پربدر کا لکھا ہے تو مجھے بعد میں حوالہ ملا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یقینی طور پر بدر کے سال ہی کو وہ فتح کا سال قرار دیا ہے ۔ تو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ بدر کے سال سے ایک سال پہلے رومیوں کی جوابی کارروائی شروع ہوچکی تھی اور اس وقت بدر تک ان کی کسی بڑی کامیابی کا بھاری امکان ہے کیونکہ وہی جو مہم تھی جوابی کارروائی کی، وہی بالآخر مکمل فتح پر منتج ہوئی ہے۔ تو یہ عرصہ ہے جس کے اندر وہ فتح ہوئی ہے اور یہ عرصہ 3اور 9 سال کے درمیان ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ آیت کریمہ جو نازل ہوئی ہے وہ اس سے کھینچ کر 9سال پہلے لے جائیں تو وہ آیت یہ بتائے گی کہ تین سال تک تو بہر حال کچھ نہیں ہوگا۔ تین سال تک اس کا کوئی امکان نہیں ہے کہ رومی سنبھل سکیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بڑی بھاری شکست ہوئی ہے ان کو۔ تین سال کے بعد وہ تیاری شروع کریں گے غالباً اور اس تیاری کے نتیجے میں بقیہ چھ سال کے عرصہ کے اندر ان کو اللہ تعالیٰ نمایاں کامیابی عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد پھر مسلمانوں کی واپسی کا سوال شروع ہوگا ۔ تو یہ عمومی مضمون جو ابھرتا ہے وہ یہ ہے۔ اس پر مزید تحقیق انشاء اللہ جاری رکھیں گے۔
ایک راجہ نذیر احمد نے دو تحفے بھجوائے ہیں ۔ ایک فرعون کے متعلق ان کا اپنا تبصرہ کہ کیا ہوسکتا ہے۔ وہ ان کے نزدیک تو یقینی طور پر مسئلہ حل ہوگیا ہے کوئی بقیہ گنجائش نہیں رہی۔ ایک یہ تحفہ ہے (دوسرا ہے 2کیوریٹو سمیل پرس (Curetive Smell Purse ارسا ل ہیں۔ جو انہوں نے Curative Purse Systemنکالا ہے)۔ یہ انہوں نے اس تجربے کی بناء پر کہ لاش بعض دفعہ چھ چھ گھنٹے بعد بھی دریافت ہو تو وہ صاف بچ جاتی ہے، یہ کہا ہے کہ یہ تو صاف بات ہے کہ فرعون غرق ہوگیا ہوگا۔ اس کو نکال لیا ہوگا اور اس کی Mummy اسی وقت انہوں نے کردی۔ اس لیے یہ کہنا کہ مچھلیاں کھاگئیں ہوںیا دیر کے بعد دریافت ہوئی ہو لاش۔ یہ بعید از قیاس بات ہے۔ باقی رہا کہ اس کا اس کی Mummy پھر بنی ۔ وہ کس عمر میں تھا؟ کون سا فرعون ہے؟ تو ا س کے متعلق کہتے ہیں وہ تو غتربود کرگئے ہیںوہ لوگ مصری جو ہیں اس میںچالاکی کرگئے ہیں۔ کوئی اس لیے کسی مزید تحقیق کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ہے اور ضرور ہونی چاہیے کیونکہ مستند تواریخ جو ہیں ان کو نظر انداز کرکے محض یہ کہنا کہ چھ گھنٹے میں لاش دریافت ہوجائے تو وہ بغیر کسی نشان کے Mummify ہوسکتی ہے، یہ کافی نہیں ہے۔ چھ گھنٹے کیا، بارہ گھنٹے بعد بھی ہوسکتی ہے لا ش بغیر نقصان کے۔ میں نے خود ایک لاش نکالی تھی دریائے چناب میں ڈوبی ہوئی وہ بارہ گھنٹے سے بھی زائد وہ تھی۔ لیکن جب اس کو نکالا گیا تو بالکل تازہ لاش تھی۔ ایک ہمارے احمدی فوجی تھے جو رخصت پہ آئے ہوئے تھے۔ وہ تیرنے گئے وہاں چوٹ لگی ہے گھٹنے پر چٹان سے لگ کر تو اس کے صدمے سے وہیں بیہوش ہوئے ہیں اور نیچے گر گئے ۔ جب میں نے ان کو تلاش کیا غوطہ لگا کے تو وہ لگتا تھا آدمی صحت مند زندہ بیٹھا ہوا ہے تو ان کی بغل میں ہاتھ ڈال کے پھر میں نے ان کو باہر نکال لایا۔ حالانکہ اس سے پہلے کافی غوطہ خور بیچارے کوشش کرچکے تھے۔ لیکن نہیںنکال سکے تھے۔ مجھے جو خدا کے فضل سے کامیاب ہوئی اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن میں جب قادیان میں تالاب بنا تھا تو ہم پیسہ پھینک کر اندازہ لگا کے کہ کہاں ہوگا مقابلہ کیا کرتے تھے غوطے لگا کے کہ کون پہلے پہنچے۔ تو وہ چونکہ ہلتا ہوا جاتا ہے اس لیے لوگ اندازاً اِدھر اُدھر ڈھونڈا کرتے تھے اورمیںعین اس کی سیدھ میںاس کے نیچے اندازہ لگاگے غوطہ وہاں مارتا تھا اور الا ماشاء اللہ سیدھا پیسے پہ ہاتھ پڑتا تھا۔ وہ لہراتا ہوا وہیں گرتا تھا جہاں ڈوبا ہے۔ تو بڑا لوگ حیران ہوا کرتے تھے یہ کس طرح نکال لیتا ہے۔ تو وہ جو تھے غوطہ خور ماہرین وہ اس کی لاش کو اس خیال سے کہ لہروں نے آگے پہنچادیا ہوگا، تھوڑا سا ہٹ کے تلاش کررہے تھے اور میں ان سے تحقیق کرکے کہا مجھے یہ بتائیں کہ کہاں ڈوبا تھا۔ کوئی گواہ ایسا کہ جس نے دیکھا ہو یہاں تھا وہ تو انہوں نے جگہ بتائی۔ میں نے وہی پرانا Trick استعمال کیا۔ سیدھا گیا اورسیدھا ان کی لاش کے اوپر پہنچ گیااور وہاں سے اس کو بغل میں لے کے تو باہر نکال لیا اللہ کے فضل کے ساتھ۔ تو اس بات کی تو بحث ہی نہیں ہے کہ چھ گھنٹے یا 12 یا چوبیس گھنٹے میں بھی صحتمند حالت میں،صحتمند تو نہ سہی لیکن صاف ستھری حالت میں لاش دریافت ہوسکتی ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ اس سے جلدی ہوگئی ہو کیونکہ رائوٹ کے دوران جو ڈوبتے ہوئے کے اردگرد محافظ ہیں، ان کا فوراً کوشش کرنا ایک زیادہ طبعی امر ہے اور اس وقت وہ ساکن جگہ نہیں ہے لہریں اس کو جوار بھاٹا جو ہے وہ دھکیل کے کسی دوسری طرف لے جاسکتا ہے۔ اس لیے جو لاش کے زخمی اور مچھلیوں کے کھائے جانے کا تعلق ہے وہ اس Scenario میں بیان کیا جاتا ہے کہ اگر اس رائوٹ کے بعد وہ سارے پھر غرق ہوگئے ہوں تو اس کے بعد پھر اس کے بچنے کا کوئی سوال نہیں رہتا فوری نکالنے کا۔ پھر ایک بڑی جدوجہد ہوگی۔ اس میں بیشمار مردے ہوں گے اس میں سے فرعون کو پہچاننا اور نکالنا یہ بہت زیادہ وقت چاہتا ہے۔ لیکن یہ بحث بھی محض یہ بحث کافی نہیں ہے۔
فرض کرتے ہیں چوبیس گھنٹے کے بعد بھی وہ مل گیا اور درست ہے کہ اس کو Mummy ہوگئی اور وہ ٹھیک مل جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے سے پہلے بھی تو ہوسکتا ہے۔ اور وہ امکان پھر اپنی جگہ باقی رہتا ہے۔ اس لیے امکانات کی بحث میں پڑ کر یہ کہنا کہ مسئلہ حل ہوگیا ، یہ درست طریق نہیں ہے۔ لازماً تحقیق ہونی ہوگی۔ کیا ایسے فرعون کی کوئی لاش ملی ہے جو Mummify ہوا ہو اور تاریخ کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا فرعون کہلاسکتا ہو۔ یہ ہے اہم بات۔ اگر Raamses II ہے تو اس کی جولاش غرق ہوئی ملی وہ 95سال کی لاش ہونی چاہیے اور پچانوے سال کا بڈھا فرعون وہ اس کی پیروی کرتا ہوا غرق ہوا ہو، یہ بڑی بعید از قیاس بات ہے۔ اور جو بعد کا فرعون ہے اس میں اور اعتراضات پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اگر پہلے پیدا ہوئے تھے تو اس پچانوے سال تک وہ Exodus منتظر رہا ہے۔ یعنی پہلے پیدا ہوئے ۔ اگر دس سال بھی پہلے پیدا ہوئے ہوں، پچھلے فرعون میں، اوّل تو وہ بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ جوان موسیٰ علیہ السلام جس نے پہلی ہجرت کی تھی وہ دس سال کے اندر اندر جوان ہوکر مکے ما ر کے ہجرت نہیں کرسکتا۔ اور جاتے ہی شادی بھی ہوجائے اس کی۔وہیں بیٹھے بیٹھے جب دعا کی ربّ انی لما انزلت الی من خیر فقیر ۔ تو اس دس سالہ بچے کو فوراً انہوں نے داماد کے طور پر بھی قبول کرلیا۔ یہ ساری باتیں قرین قیاس نہیں ہیں لیکن اگر دس سال بھی عمر مانی جائے تو جس وقت یہ فرعون جو کہتے ہیں ڈوبا ہوا دستیاب ہو گیا ہوگا جو Raamses یہ دریافت ہوا ہے تو 95 سال وہ بھی جمع کرلیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر110,115سال بنی اس وقت نہ 105 سال بنی جب ہجرت ہوئی ہے اور ایک سو پانچ سال کی عمر کے بعد چالیس سال انہوں نے ویسے ہی بیچاروں نے صحرانوردی کی تو ایک سو پینتالیس سال ہوگئے۔ پھر چالیس سال وہ قوم کے ظلم کے نتیجے میں مزید صحرانوردی کرنی پڑی اور ہجرت ہی کی حالت میں وفات پائی۔ تو 185سال عمر بن جاتی ہے تو یہ جو تاریخی روایات ہیں بائبل کی روایات جو واقعات جس طرح قرآن بیان کررہا ہے اس سے بالکل مخالف ہیں۔ ہر گز ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جو موسیٰ علیہ السلام فرعون سے مقابلہ کررہا ہے وہ حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ واپس لوٹا ہے۔ جوانِ رعنا ہے، مضبوط ہے اور مقابلے کے بعد جب بھی اس کی غرقابی کا واقعہ ہوا ہے وہ رعمسیس کے پچانوے سالہ بڈھے فرعون کے ساتھ مطابقت نہیں کھاسکتا۔ ناممکن ہے۔ تو ہوسکنااور بات ہے ہوا کیا ہے بالکل اور بات ہے۔ اس پہلو سے تحقیق لازماً ہونی چاہیے اور ہم تو یہاں جاری رکھیں گے۔ دوسرے احمدی مخلصین جو تحقیق کا جذبہ رکھتے ہیں، شوق رکھتے ہیں، کتابوں تک رسائی ہے ان کو بھی میں یہ درخواست کروں گا کہ فرعون کے مضمون پر بہت گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا ایک چیلنج ہے۔ ایک بہت بڑا عظیم معجزہ ہے جس کو بعض توہمات مبہم بناسکتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ قرآن کریم کی غلامی کا حق ادا کریں۔ تمام ابہامات کو دور کریں اور قطعی شواہد کے ساتھ جسے صرف خوش خیال لوگ ہی قبول نہ کریں بلکہ مخالف بھی قبول کرنے پر مجبور ہوں۔ ان شواہد کے ساتھ قرآن کی تائید کریں۔ تب ہمین تسکین قلب نصیب ہوگی۔ اس لیے یہ ڈاکٹر امتہ اللطیف کا بیان کافی نہیں کہ لاش چھ گھنٹے کے بعد بھی مل جائے تو وہ بغیر مچھلی کھائے ہوئے زخموں کے مل سکتی ہے۔ یہ تو مبحث ہی نہیں۔ مل سکتی ہے اور اس روایت کے اوپر یہ کہہ دیا جائے کہ بند ہوگئی سب جستجو مسئلہ حل ہوگیا، یہ درست بات نہیں ہے۔
ایک مرزا مشتاق احمد صاحب سرہندی نے بہت سے ایسے واقعات لکھے ہیں جو معجزات کارنگ رکھتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء سے یا ایک اور دوست نے لکھا ہے بعض دوسرے بزرگوں سے جو بہت بعد تک صحابہ وغیرہ یا غیر صحابہ بھی زندہ رہے، ان کے ساتھ اللہ کے تعلق کا ثبوت ہیں اور بعض باتیں اعجازی رنگ رکھتی ہیں۔ یہ درست ہے مگر ہر اس بات کو جو اعجازی رنگ رکھتی ہو اور تاریخ احمدیت میں ہزارہا شواہد کے طور پر پھیلی ہو اسے درس میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نہ یہ بات دوسروں کیلئے کوئی ثبوت بنے گی۔ یہ مضمون ہی وہ ہے جس کو شروع سے ہی قرآن اس طرح Treatکررہا ہے کہ یہ ذاتی امور کے جو معجزات ہیں، خواہ کتنے ہی بڑے دکھائی دیں یہ ازدیاد ایمان کا موجب تو ہیں لیکن غیروں کے سامنے مقابلے کے طور پر پیش نہیں کئے جاتے اور اس لیے قرآن کریم کے معجزات ہی وہ ہیں جو کافی ہیں اور اس کے سوا اس بحث میں مزید معجزے داخل کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ قرآن کا مدّعا جو ہے اس کے خلاف کوشش ہورہی ہوگی۔ قرآن کہتا ہے یہ ہیں معجزے جو آفاقی نوعیت کے ، ساری دنیا میں بڑی شان سے اُبھرتے ہیں۔ سائنسی معجزے جن تک کسی انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی تھی سوائے عالم الغیب خدا کے۔ ان میں ان معجزوںکو شامل کرلیا جائے کہ فلاں صحابی نے یہ کیا اور فلاں کے اوپر یہ واقعہ ہوا۔ یہ تو خلط مبحث ہوگا اور جس شان کا قرآن کا بیان ہے اس کی تائید نہیںہورہی ہوگی بلکہ اس کے خلاف توہمات پیدا کرنے والی بات ہوگی۔ اس لیے یہ اپنا مضمون الگ ہے، ہم احمدیو ں کے تقویت ایمان کیلئے۔ بعض دفعہ جلسوں میں بھی یہ بیان کرتے ہیں۔ میں نے بھی احمدی خواتین کے بعض معجزات بیان کئے، بعض دوسروں کے بھی۔ وہ غیروں کے مقابل پر اعجاز نہیں ہے بلکہ جماعت احمدیہ جو جانتی ہے کہ ہم کہنے والے بھی سچے ہیں، وہ ریکارڈ بھی سچے ہیں ان کے تقویت ایمان کا بھی موجب بنتا ہے یہ ذکر اور ان کو اللہ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ میں تومحض اس غرض سے یہ مضامین بیان کرتا ہوں اور ساری دنیا کو میں نے پہلے ہی ہدایت کی ہوئی ہے کہ ہر احمدی خاندان جس میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے نشانات ملتے ہیں ان کو محفوظ کرے اور ہمیں بھجوائے ۔ مگر وہ اس تعلق میں کام نہیں آئیں گے۔ یہ میں وضاحت کررہا ہوں۔ وہ ویسے ہی اپنی ذات میں ایک مفید کوشش ہوگی اور ہر خاندان جو گواہ ہوجائے گا احمدیت کے حق میں، ان کی جو مجموعی شکل ہے وہ بالآخر ہوسکتا ہے بہت سے شرفاء پر اثر انداز ہو کہ اتنے کثیر تعداد میں کل عالم پر پھیلے ہوئے جو واقعات ہیں وہ ضرور کوئی بات رکھتے ہیں اور کوئی جان رکھتے ہیں۔ اس حیثیت سے وہ کام آسکتا ہے۔ مگر جو قرآن کے معجزات ہیں وہ تو مضمون ہی الگ ہے۔ اس کی شان، اس کا دائرہ، اس کا زمانہ بہت دُور دُور تک محیط ہے۔اس کے بعد کوئی اور بھی بات رہ گئی ہے یا ختم کردیں جو کرنی ہے۔
اچھا راجا نصراللہ صاحب نے سیّد احمد صاحب بریلوی شہیدؒ سے متعلق حوالے کچھ بھجوائے ہیں اور یہ سارے ’’ارواح ثلاثہ المعروف حکایات اولیائ‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ لیکن یہ جو حکایات والے قصے ہیں ان پر بناء کرنا بڑا مشکل ہے او روہ میں نے دیکھے ہیں۔ بہت سے ان میں ایسے واقعات ہیں جن سے یہ استنباط بھی ہوتا ہے کہ حضرت سیّد احمد شہیدؒ کو جو بعد میں دیکھا گیا ہے وہ ایک کشفی حالت تھی اور روحانی حالت تھی کیونکہ وہ واقعہ جو یہ بیان کررہے ہیں تائید میں ، اس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے ساتھ کہ اس طرح سیّد احمد شہیدؒ نے یہ کام یوں کروادیا اور ہم نے دیکھا تو غائب تھے۔ تو صاف پتہ چلتا ہے یہ ویسے ہی واقعات ہیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد حضرت مریم ایک ہیں جن کو اس طرح کا کشفی تجربہ ہوا تھا۔ اور بھی لوگوں نے کشفی طور پر مسیح کو دیکھا تھا تو وہ کشفی گواہیاں الگ نوعیت کی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ایک کشفی مضمون کی گواہیاں رکھتی ہیں اپنے اندرذات میں اور ایک ہے حقیقی گواہی، جیسا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کا جسم سمیت آنا اور بتانا کہ میں روح نہیں ہوں اور میں انسان ہوں۔ اورپھر کچھ کھالینا ، زخموں کو بلا کر دکھانا کہ یہ دیکھو یہ میرا زخم ہے۔ یہ میر ازخم ہے۔ یہ ایک حقیقی گواہی ہے۔ تو یہ جو گواہیاں ہیں ان کی مزید ضرورت نہیں ہے ہمیں۔ صرف یہ کہنا کافی تھا کہ حضرت سیّد احمد صاحب کی شہادت کوئی قطعی ثابت شدہ حقیقت نہیں اور یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے میں حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کرچکا ہوں کہ کسی نبی کا قتل ہونا اگرچہ ممنوع نہیں مگر کسی نبی کا قتل ثابت نہیں ہے۔ پس اگرحضرت یحیٰ کی شہادت بھی نہ حضرت سیّد احمد کی شہادت بھی ثابت نہ ہو تو حضرت یحیٰ علیہ السلام سے مماثلت قائم ہوجاتی ہے اور وہی مقصود ہے ہمارا۔ مماثلت ہے مگر پھر آگے تلاش کرنا بھی تو ضروری ہے کہ ہواکیا۔ دو امکانات ہیں ۔ یا تو یہ کہ حضرت سیّد احمد صاحب زخمی حالت میں ہوں اور گجروں نے ان کو وہاں سے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کسی اور جگہ منتقل کردیا ہواور واپس اس لیے نہیں آئے تھے کہ قوم نے بیوفائی کی تھی۔ یہ بات تو قطعی ثابت ہے کہ جس علاقے میں انہوں نے جہاد شروع کیا ہے وہاں کے لوگوں کی نشاندہی پرسکھ فوجیوں کو موقع ملا تھا کہ ان کو گھیرلیں اور شدید ہزیمت پہنچائیں۔ پس یہ جو صدمہ تھا کہ یہ قوم بے وفاہے، اس کے نتیجے میں زخمی حالت میں جب بچا کے ان کو باہر لے جایا گیا ہے تو ہوسکتا ہے انہوں نے کہہ دیا ہو ان لوگوں میں مَیں اب واپس نہیں آئوں گا۔ بعض دفعہ انبیاء بھی ایک ہجرت کرجاتے ہیں۔ ان میںکچھ ناراضگی کا پہلو بھی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت ذالنون مچھلی والے جو ہیں ان کی ہجرت میں ایک صدمے کا پہلو بھی تھا۔ قوم کے خلاف نہیںتھامگر بہر حال ایک مایوسی تھی کہ قوم نے تو توبہ نہیں کی اور اللہ نے معاف کردیا ہے۔ مگر یہاں جو ان کے واقعات میں نے دیکھے ہیں حضرت سیّد احمد صاحب شہیدؒ کے ، پتہ نہیں شہید ہوئے بھی تھے کہ نہیں۔ ان کے واقعات میں یہ اندازہ ہوتا ہے آخری دنوں میں جو واقعات ہیں کہ اگر کوئی گواہی نسبتاً حقیقی نظر آئی ہے اور جس سے گفتگو ہوئی ہے تو اس نے یہ بیان کیا ہے کہ میں نے تین آدمیوں کے ساتھ سیّد احمد صاحب کو دیکھا۔ تین آدمیوں میںاور میں نے پہنچانا اور میں زخمی تھا یا بیمار تھا، میں پیچھا نہیںکرسکتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں چھوڑے کیوں جاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہے اب میں دوبارہ تم لوگوں میں نہیں آئوں گا۔ اور انہوں نے کہا مجھے بھی ساتھ لے چلیں تو انہوں نے انکار کردیا۔ دو الگ الگ واقعات ہیں ۔ ایک تو ہے جو زخمی کا واقعہ ہے یا بیمار کا کہ میں انہیں آوازیں دیتا رہ گیا لیکن انہوں نے توجہ نہی کی اور وہ تینوں چلتے ہوئے روحوں کی طرح نہیں بلکہ چلتے ہوئے انسانوں کی طرح غائب ہوگئے۔ ایک واقعہ اسی سے ملتا جلتا اور ہے۔ایک مریض کا نہ وہ ایک صحتمند آدمی کا۔ اس کی روایت یہ ہے کہ میں نے تین آدمیوں کو دیکھا ۔ ان میں سیّد احمد صاحب شہیدؒ کو پہچان لیا۔ وہ تینوں سفر کررہے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں کیوں چھوڑے جاتے ہیں۔ اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا مگر جانے پر اصرار رہا کہ میںجائوں گا اور میں واپس نہیں آئوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔ انہوں نے انکار کیا۔ تب کہتے ہیں میں نے پیروی کی یعنی زبردستی ساتھ جانے کی کوشش کی تو میری ٹانگیں اتنی بوجھل ہوگئیں کہ میں ان کا تعاقب نہیں کرسکا اور اس کو میں سمجھا کہ اللہ کی طرف سے ایک گویا کہ علامت ظاہر ہوئی ہے کہ میں ساتھ نہیں جائوں گا۔ پس جو بھی گواہیاں میں نے دیکھی ہیں ان کی روایات میں، ان میں یہ دو گواہیاں ہیں جو کچھ حقیقت کا رنگ رکھتی ہیں۔ مگر یہ بھی امکانات ہیں۔
پس ہوسکتا ہے حضرت سیّد احمدصاحب ہجرت کرکے اس پہاڑی علاقے میں چلے گئے ہوں اور پھر باقی دن وہیں گزارے ہوں۔ مگر پھر ہمارا فرض ہے کہ تلاش کریں۔ گجر قومیں جو ارد گرد آباد تھیں۔ کہاں کہاں آباد تھیں؟ ان میں کیا کوئی ایسی قبر ملتی ہے جو کسی بڑے بزرگ کی ہو اور اس کی Identity واضح نہ ہو۔ پس جہاں ہم حضرت یحیٰ علیہ السلام کی قبرکی تلاش کررہے ہیں ، وہاں سیّد احمد صاحب کی قبر کی بھی تلاش جاری رہے تو یہ دونوں ملتے جلتے، ایک دوسرے سے تعلق والے مضمون ہیں۔ پس ریسرچ میں اس کو بھی شامل کرلیا جائے ۔ جو پاکستان کے احمدی ہیں وہ سیّد احمد صاحب کے معاملے میں تحقیقاتی Expeditions بھجوائیں ان علاقوں میں اور مزید جستجو کریں کہ ان کا کیا امکان ہے۔ اگر وہ بچے ہیں تو کہاں غائب ہوئے۔ قطعی طو رپر ان کا قتل ہونا اور دفن ہونا ثابت نہیں ہے۔ یہ تو جتنے بھی محققین ہیں صرف اولیاء کا ذکر کرنے والے نہیں۔ دوسرے محققین بھی یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ جو لاش بیان کی جاتی ہے وہ اس طرح اکٹھی ہوئی تھی۔ کسی لاش کے ساتھ کوئی سر جوڑ اگیا اور اس کو دفنادیا گیا۔ اس لیے ضروری نہیں کہ وہ سیّد احمد صاحب ہی ہوں۔ یہ ہیں جو گذشتہ تبصرے چند دنوں میں اکٹھے ہوئے ہوئے تھے۔ جن کو میں اس وقت بیان نہیں کرسکا تھا۔ جس کی وجہ سے آج کے درس میںکچھ تاخیر ہوگئی ہے ۔ مگر یہ ساری ایسی چیزیں ہیں جو پچھلے درسوں کا تتمہ ہیں اور بیان کرنی اور سمجھانی ضروری تھیں۔ایک اورآپ نے اکٹھا کردیا ہے ۔ اچھا ٹھیک ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
فان کذبوک فقد کذب ۔۔۔۔۔۔۔ وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرورO آل عمران آیت:186-185
کل نفسٍ ذائقۃ الموت ۔ ہر جان موت کامزا چکھنے والی ہے یا ضرور چکھے گی۔ و انما توفون اجورکم اور جہاں تک تمہارے اجروں کا تعلق ہے تمہارے اعمال کی جزاء کا تعلق ہے وہ تمہیںقیامت کے دن پورے پورے دیے جائیں گے۔فمن زُحزح عن النار۔ پس جو شخص آگ سے بچایا جائے اورجنت میں داخل کیا جائے تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو محض متاع الغرور ہے۔ایک دھوکے اور وہم کی دنیا ہے۔ جو سرسری سی چیز ہے۔ اس میں کوئی ٹھوس Substantial ایسی بات نہیں ہے کہ تم اس کو اہمیت دو یا ایسی زندگی ہے جو دھوکوں سے بھری پڑی ہے۔ طرح طرح کے دھوکے اس زندگی کے ساتھ شامل ہیں۔ ان کو اہمیت نہ دو بلکہ جو اصل حقیقت ہے کہ تم واپس خدا کی طرف لوٹ کے جائو گے اس کو اہمیت دو اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالو۔ یہ مضمون ہے جو ترجمے میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں اب ایک لفظ اس سے پہلے میں نے آیت اس لیے پڑھی ہے اس پروہ جو گفتگو تو ہوچکی ہے۔ مگر لفظ زُبُر کی میں نے بات کی تھی کہ یہ تحقیق طلب معاملہ ہے کہ زَبَر ، زَبُور اور زُبور اور ان میں واحد کیا ہے اور جمع کیا ہے۔ اس کے متعلق مجھے پوری طرح واضح نہیں تھی بات۔ اور میں نے کہا تھا کہ زُبُورجو ہے کتاب وہ تو پانچ کتب پر مشتمل ہے۔ تو اس پر مختلف علماء نے جوتبصرے بھیجے ہیں، ان سے یہ بات نکلتی ہے کہ لفظ زَبُور تو واحد ہی ہے لیکن جب زُبور پڑھا جائے تو یہ جمع بن جاتی ہے۔ پس قرآن کریم نے جو لفظ زُبُور لکھا ہے یہ زَبُور کی جمع زُبُورہے او رمفردات نے اسی کی تائید کی ہے ۔ اور جہاں تک زبور کتاب جواردو میںلکھی بائبل ملتی ہے اس میں زَبُور لکھا ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک کتاب کا نام زَبُور ہے اور کتاب کے لحاظ سے اگرچہ پانچ حصے ہیں مگر یوں سمجھ لیں کہ ایک ہی کتاب ہے گویا کہ وہ پانچ حصوں میں۔ اس لیے ہر ایک کے اوپر زبور لکھا جاتا ہے فی کتاب زبور۔ لیکن قرآن کریم نے زُبُور جو پڑھا ہے لکھا ہے ’’ز‘‘ کی پیش سے ، یہ جمع کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور بھی ہے اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر بات ہاں وہ زُبْر تو الگ چیز ہے وہ بھی ایک ہے۔ منجد نے بھی زبور کو ایک یعنی بمعنی کتاب پیش کیا ہے اور جمع زُبُور بیان کی ہے اور قرآن کریم نے جمع ہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔آگے دوسری آیت کے متعلق اب میں آپ کے سامنے پہلے حل لغات کے لحاظ کے لحاظ سے سے بحث کرتا ہوں۔سورۃ آل عمران آیت 186۔
سب سے پہلے تو نفسکی بحث اُٹھائی گئی ہے ۔ تاج العروس میں بھی ہے اور دوسری بہت سے لغت کی کتابوں میں زیادہ تر اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ نفس کیا چیز ہے؟ کیا روح ہی کا دوسرا نام نفس ہے یا کچھ اور ہے۔ اور نفس کی کیا حقیقت ہے؟ اس کے جو مختلف معنی تاج العروس نے بیان کئے ہیں ۔ اس نے الرُّوح بھی لکھا ہے اس کو، الدَّمُ بھی لکھا ہے، اَلْجَسَدُ بھی لکھا ہے۔ وَ الْحَقِیْقَۃُ بھی لکھا ہے و عین الشیٔ یعنی دراصل جو چیزہو اندرونی طور پر ، اس کا تشخص ہو جس چیز کا، اس تشخص کو نفس کہتے ہیں۔والعظمۃ، والھمۃ یعنی ذو نفس انسان وہ ہے جو صاحب عظمت ہو،ہمت والا ہو۔ العزت کو بھی نفس کہا گیا ہے۔ غیب کو بھی اور العقوبۃ کو بھی والارادۃو الاُنفۃ ۔ روح، خون ، جسم، حقیقت، اصل ، عظمت، ہمت، عزت، غیب، سزا، ارادہ، انانیت وغیرہ۔ یہ ساری چیزیں حتف انفہٖ میں جو ہے نا سانس کانکالنا ۔ یہ اُنف سے اصل میں انا مراد لی گئی ہے۔ تو ایک شخص کی انانیت، اس کی اندرونی ’میں‘ جو ہے اس کو بھی نفس کہا جاتا ہے۔ پھر لغات کی تو بڑی لمبی بحثیںہیں، خلاصہ تو یہی ہے۔ حضرت امام راغب کو ذرا زیادہ غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ و تنفس النھار عبارۃ عن توسُّعہ کہتے ہیں تنفس النھار کا ذکر ملتا ہے۔ایک تو ذی روح تو نہیں مگر جاندار چیزوں کے متعلق نفس کا استعمال تو کم و بیش انہی معنوں میں ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ حضرت امام راغب یہ مزید بات کہتے ہیں کہ بے جان چیزوں میں بھی ہمیں تنفس کا ذکر ملتا ہے ۔جیسا کہ والصبح اذا تنفس اور صبح گواہ ہے جس وہ تنفس لے۔ تو کہتے ہیں اس کی مراد اس سے مراد غالباً اس کا پھیل جانا ہے۔ تو میرے ذہن میں تو اذا تنفسکا معنی یہ آتا ہے کہ جب وہ حرکت میں آجائے۔ جب اس میں Activities شروع ہوجائیں۔ تنفُّس کے بغیر ایک بے جان سی چیز پڑی ہوتی ہے۔ صبح جب ظاہر ہوتی ہے تو اس وقت خاموشی کا عالم ہوتا ہے۔ دنیا جاگتی نہیں ابھی۔ تو صبح جب جاگ اُٹھے اور سانس لینے لگے کا مطلب ہے کہ دن کی Activities شرو ع ہوجائیں ۔ تو تنفس کا جس طرح ایک نیم مردہ سے تعلق ہے وہی منظر قرآن کریم نے صبح کا کھینچا ہے کہ سوئی ہوئی صبح جاگ اُٹھتی ہے اور Activities بڑی کثرت سے شروع ہوجاتی ہے۔ دوسری بحث جو مفسرین نے اُٹھائی ہے وہ ذائقۃ الموت سے متعلق اور متاع الغرورسے متعلق ہے۔ اس میں جو اہم اس کی باتیں ہیں ان کا میں خلاصہ آپ کو پیش کردیتا ہوں۔ ایک تو نفس کی بحث میں ہے مثال اخرجوا انفسکم۔ مراد یہ ہے کہ جان۔ واعلموا ان اللہ یعلم مافی انفسکم فاحذروہ سے مراد یہ ہے اپنے اندر زندگی کے آخری حصے میں جو تم باتیں اپنے شعور کے آخری حصے میں جو باتیں چھپاتے ہو، وہ بھی اللہ کے علم میں ہیں ۔ تو نفس، شعور کی آخری کیفیت کا نام بھی رکھا گیا ہے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حوالہ دیا گیا ہے تعلم مافی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک ۔ کہ تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے۔ میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے؟ تو یہاں اللہ کا نفس کسی دنیاوی جاندار چیز سے مشابہ قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ لفظ کا وہی معنی ہے کہ آخری شعور کی کیفیت جو ہر موجود ذی شعور چیز میں ہوتی ہی ہے ۔ خواہ وہ کسی قسم کی نوعیت کا ذی شعور ہو۔ اس کے شعور کی آخری حالت کو نفس کہا گیا ہے اندرونی حالت کو۔ تواللہ کا۔ شعور کے بغیر تو خداتعالیٰ ہے ہی کچھ نہیں۔ شعور ہی تو ہے اصل میں۔ تو اس لیے نفس سے مراد وہا ں اللہ کا شعور ہے۔ پھر آگے ہے منافست وغیرہ۔ اس کی ضرورت نہیں ۔ نفس کہتے ہیں سانس کو۔جو تنفّس دراصل اسی سے نکلا ہے۔ والصبح اذا تنفس وہاں سانس لینے کو کہا جاتاہے تنفس۔رسول کریمﷺ کے متعلق یہ روایت بھی آتی ہے کہ جب یمن سے آپ نے خوشبودار ہوا کاذکر فرمایا تو یہی لفظ نفس استعمال فرمایا۔روایت ہے لاجد نفس ربکم من قبل الیمن میں یمن کی جانب سے اپنے ربّ کا سانس محسوس کررہاہوں۔ اس کی خوشبو مجھے آرہی ہے۔ تو یہاں نفس سے مراد اللہ کے ربّ کی رضا ہے۔ یا ایسے شخص کا سانس ہے جو جس کا ہر سانس رضائے باری تعالیٰ کے مطابق چلتا ہے۔ بہر حال ایک معنوی استعمال ہے جو لفظی طور پر اس کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ لفظی ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا اس کا۔ لا تسبوا الریح فانھا من نَفْس الرحمن ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ نَفْسِ الرَّحمٰنتم ہوائوں کو گالیاں نہ دیاکرو۔ ہوائیں چلتی ہیں۔ یہ بڑی گندی ہوا نکلی ہے۔ اس ہوا نے یہ تباہی مچادی ۔ فرمایاوہ اللہ کا سانس ہے۔ مراد یہ نہیں کہ خدا انسانوں کی طرح یا جانوروں کی طرح سانس لیتا ہے۔مراد یہ ہے کہ یہ نظام جو ہوا کا ہے یہ خداتعالیٰ کی طرف سے بالارادہ ایک لازمی طو رپر تم لوگوں کی زندگی کی حفاظت کیلئے چلایا گیا ہے۔ اس لیے کبھی یہ ہوائیں تمہیں تکلیف بھی پہنچاسکتی ہیں ، کبھی ان میں تم سختی بھی دیکھتے ہو، گرمی کی شدت بھی پاتے ہو۔ لیکن تمہیںہرگز ان ہوائوں کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ کی تقدیر کے تابع چلتی ہیں۔ اس لیے جس مالک نے بھیجی ہیں اس کی خاطر، اس کی عظمت کی خاطر تم اس کے بھیجے ہوئوں کی بھی عزت افزائی کرو اور ان سے بدتمیزی سے پیش نہ آئو۔ زمانے کے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پہ فرمایا کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیونکہ یہ دراصل خدا کی تقدیر کو گالیاں دینے والی بات ہے۔ تو اس قسم کے جاہلانہ رواج جو صرف عربوں میں ہی نہیں، ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی باریک نظر وہاں تک بھی پہنچی ہے اور ہمیں اعلیٰ اخلاق سکھائے ہیں اس معاملے میں اور بیہودہ لغو باتو ں سے پرہیز کی تلقین فرمائی ہے جو بعض دفعہ حقیقت میں گستاخی بن جاتی ہے۔ جو بعض دفعہ انسان کو اور گناہوں کی طرف مائل کردیتی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ جو زمانے کو گالیاں دیتے ہیں ، جو ہوائوں کو گالیاں دیتے ہیں وہ دراصل خداتعالیٰ کی تقدیر سے منحرف ہونے لگتے ہیں ۔ پھر ان میں صبر نہیں رہتااور دُعا کے مضمون سے غافل ہوجاتے ہیں۔ خدا کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا مزاج کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ تو یہ ایک معمولی بات نہیں ہے۔ یہ چھوٹی سی بات گناہ کبیرہ پر منتج ہوسکتی ہے۔ بڑی بڑی غفلتوں کی حالتیں پیدا کرسکتی ہے۔ اب نفاس کی بحث بھی چھیڑ دی گئی ہے اس کی کوئی ضرورت نہیںتھی یہاں۔ تازہ تازہ بچہ جسے کہتے ہیں نا۔ تازہ بچہ اس کو صَبْی منفوسکہتے ہیں۔ بعض ہمارے ہاں کہتے ہیں بڑا پیارا تازہ بچہ دیکھا ہم نے۔ تازہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ پہلے اس کا سانس بند ہوا ہوتا ہے پھر وہ جاری ہوتا ہے تو اس جوڑ پر جب ابھی وہ آیا ہی ہے اس کو صبی منفوس کہتے ہیں۔ پھر ذائقہ کی بحث اُٹھائی گئی ہے۔ ذوق کیا چیز ہے؟ وجود الطعام۔ کل نفس ذائقۃ الموت فرمایا گیا۔ یہ بحث مفسرین نے اٹھائی ہے کہ موت کو چکھ کر چھوڑ دیتا ہے، یہ کیا مطلب ہوا۔ ذوق تو کہتے ہیں کسی چیز کو تھوڑا سا چکھنا،اور کھانا نہ۔ تو ذائقۃ الموت سے کیا مراد ہے؟ یہ مضمون دراصل حل ہوتا ہے جب ذَوْق کا لفظ ہم قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی پڑھتے ہیں۔ ذُقْ انک انت العزیز الکریم۔ عذاب چکھتے وقت اللہ فرماتا ہے اس کو چکھ۔ اور دوسری اور آیات میںبھی عذاب کے ساتھ لفظ چکھنا استعمال ہوا ہے۔ اس میں ایک گہری نفسیاتی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ وہ چیزیں جو سخت ناپسندیدہ ہوں، ان کو انسان کھا ہی نہیں سکتا یا پی ہی نہیں سکتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ چکھ سکتا ہے۔ اور شدید ردّ عمل پیدا ہوتا ہے پھر۔ اب گرم چائے غلطی سے آپ ٹھنڈی سمجھ کر گھونٹ بھرنے کی کوشش کریں پھر آپ کو ذق کا مضمون سمجھ آئے گا کہ چکھنا کیوں استعمال ہوا ہے۔ تو موت کو بھی انسان چکھتے چکھتے ہی پھر آخر اسے قبول کرتا ہے۔ تو ذُق کا جو لفظ ہے بہت ہی پیارا اور انسانی فطرت پر روشنی ڈالنے والا ہے کہ بری چیزوں کو ایک دم ہڑپ نہیں کرسکتا۔ کچھ کچھ آہستہ آہستہ اس کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ بالآخر تو مرنا ہی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ چکھ کر چھوڑ دے گا موت کو۔ اس کی مثالیں بھی ہیں قرآن کریم میں لیذوقوا العذاب تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں۔ یہ بھی ایک مثال ہے۔ ذق انک انت العزیز الکریم بھی ایک مثال ہے۔ پھرتوفی کی بحث اُٹھائی گئی ہے کہ توفی کیا چیز ہے اوریہ چونکہ ہمارے احمدیہ علم کلام سے بہت گہرا تعلق رکھتی ہے یہ بحث۔ اس کو میں بعد میں پھر الگ چھیڑوں گا۔ اور زُحزح کی جو بحث اُٹھائی ہے وہ یہ ہے الزحزح: البُعدُ کسی چیز سے دوری اختیار کرنے کو زحزح کہتے ہیں۔ ایک شخص کسی سے پیچھے ہٹ گیا یا دور ہوگیا۔ اور یہ صرف لازم میں نہیں بلکہ متعدی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کسی کو دھکیل کر ایک طرف کردیا یا کھینچ لیا۔ کسی چیز سے ہٹا لیا۔
پس یہ سارے مضامین ہیں جو لفظ زحزح کے مختلف استعمالات میں شامل ہیں اس کی مثالیں دی گئی ہیں۔ زحزحہ عنہ، تزحزح ای باعدہ فتباعد۔ یعنی اس نے اسے کسی چیز سے دور کیا اور وہ ہٹ گیا پیچھے۔ و منہ دخلت علی فلان فتزحزح لی عن مجلسہٖ ای تنھّٰی۔ میں فلاں کے پاس گیا تو میرے لیے اس نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور ایک طرف ہوگیا۔ زحزح فلان عن مکان ازا لہٗ۔ اس نے فلاں کو اس کی جگہ سے ہٹادیا۔ پس متعدی کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، صرف لازم کے معنوں ،میں نہیں۔ کسی کو اس جگہ سے ہٹا کر ایک طرف کردینا۔ زحّ الشیٔ یزحہ زحًّا۔ جذبہ کھینچنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر یہ کھینچنا محبت سے اپنی طرف لگانے کیلئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ کسی بری چیز سے کھینچ کر دور کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے کہ باعدہ منہ۔ دَفعہ ۔ کسی چیز سے، تکلیف دہ، نقصان دہ چیز سے ہٹا کر ایک طرف کردیا یا کھینچ کر اس کو اس سے الگ کردیا۔ پس وہ دور ہوگیا اس سے۔ اس کو دور کردیا ۔ لفظی جو اردو میں یہ ترجمہ بنے گا اس کا۔ بعض کہتے ہیں اصل اس کا زاح یزیح ہے۔ جس کا مطلب ہے تاخر۔ زاح کہتے ہیں پیچھے رہ جانے والا ۔ پیچھے رہ گیا اور پیچھے سے تیزی سے دھکیلنے کیلئے بھی زوح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لسان العرب نے گواہی دی ہے۔ زُحزح عن النار پیچھے ہٹالیا گیا اس کو ۔ آگ سے وہ پیچھے ہٹ گیا۔ وما ھو بمزحزحہٖ مِن النار ان یعمر۔ انسان خواہ کتنی بھی عمر پاجائے اس کا عمر پانا اس کو آگ سے ہٹا نہیں سکے گا۔ وہ آگ کی طرف بڑھے گا بہر حال۔ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکے گا ۔ کنارہ کرنا بھی پہلے میں بیان کرچکا ہوں۔ یہ مفردات راغب نے بھی دیا ہوا ہے۔ اقرب الموارد میںبھی یہ بحث ہے۔ اس کے علاوہ متاع کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ متاعمنفعت کی چیز کو کہتے ہیں۔ فائدہ مند چیز کو۔ تھوڑا سا اس میں کچھ مزا بھی پایا جاتا ہو ۔ضرورت زندگی کی، زندگی کی ضرورت کی اشیاء کو بھی متاع کہا جاتا ہے۔ بعضوں نے ترجمہ کیا ہے المتاع کل ما یُنتفع بہٖ من الحوائج ہر وہ چیز جس سے انسانی ضرورتوں میںمثلاً طعام اور دوسری چیزیں، رو زمرہ کی زندگی کی ضروریات ۔ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہو ، اس کو متاع کہتے ہیں۔ اس لیے کہتے ہیں کہ بعض لغت کی کتابوں میں لکھا ہے کل ما ینتفع بہٖ من عروض الدنیا۔ جو کچھ بھی دنیا کی چیزیں ہیں ، جن سے بھی کوئی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہو۔ ان فائدہ مند چیزوںکو کہا جاتا ہے متاع۔ کثیر ھا و قلیلھا۔ خواہ وہ زیادہ ہو خواہ وہ تھوڑی ہو۔ سوی الفضۃ والذھب۔ لیکن چاندی او رسونے کو متاع نہیں کہا جاتا۔ یعنی وہ اپنی ذات میں ایک دولت رکھتی ہے۔ اگرچہ فائدہ مند تو ہے لیکن ایسا فائدہ نہیں کہ جس کو انسان اپنی زندگی کی حوائج میں استعمال کرسکتا ہو۔ دولت کا مضمون اور ہے ۔ کرنسی متاع میں نہیں آئے گی۔ اور چاندی اور سونا چونکہ ایک کرنسی کا معنی رکھتے ہیں اور ایسی چیز نہیں جس کو انسان کھا کے زندہ ہوسکے۔ جب بھوک ہو ، پیا س ہو، کپڑے کی احتیاج ہو، موسموں سے بچنا ہو تو چاندی سونا تو کام نہیں آتے براہ راست۔ وہ جو چیز کام آتی ہے اس کو متاع کہتے ہیں۔اور غرور ، غرہ یغرہ کسی کو فریب دیا، بے بنیاد امیدیں دلائیں۔ اور مغرور اس شخص کو کہتے ہیں،ہاںایک اور بھی دلچسپ بات ہے کہ مغرور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی عورت سے یہ سمجھ کر شادی کرلے کہ وہ آزاد ہے لیکن نکلے لونڈی۔ اتنا باریک دھوکے کو بھی ایک الگ مضمون کی صورت میں ان تفاسیر نے پیش کیا ہے نہیں لغت کی کتب نے۔ اور غرور جب کہا جاتا ہے تو مراد شیطان ہے۔ کیونکہ جو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلاء کرتی ہیں ، شیطان ان میںسب سے زیادہ خبیث ہے اور دنیا میں ہر فریب کے پیچھے شیطانی عمل کارفرما ہوتا ہے۔ اس لیے مجسم دھوکہ شیطان ہے اور الغرورکا لفظ قرآن کریم میں شیطان کیلئے استعمال ہوا ہے۔ very Decietful۔Lane کہتا ہے very decietful applied in this sense as a epithet to the present world۔کہ دنیا کو بھی deceitful ہی کہا گیا ہے۔ ان معنوں میں متا ع الغرور فرمایا گیا ہے کہ دنیا تو محض دھوکے کی چیز ہے۔ آئیے اب تفسیر کی طرف واپس آتے ہیں۔ واپس کیا شروع ہی نہیں کی میرا خیال ہے۔
تفسیر کی بحث میں کوئی ایسی بات مجھے ملی نہیں جو میں آپ کے سامنے کسی خاص اہم نکتے کے طور پر پیش کرسکوں۔ زحزح عن الناریہ جو لغت کے حوالے سے جو باتیں کی ہیں انہی کو فقروں میں دہرایا گیا ہے اس کے سوا کوئی چیز نہیں ملتی۔ صرف ایک روایت شیعہ روایت میںایک دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن ابی طالب سے روایت ہے ان کے متعلق کہ ایک دفعہ ایک آنے والا آیا ۔جس کی حرکتیں تو ہم محسوس کررہے تھے لیکن اس کو دیکھ نہیںرہے تھے۔ اس نے کہا اے اہل بیت تم پر سلام ہو۔ اللہ کی رحمت اور برکات ہوں ۔ ہر جان موت کا ذائقہ چکھنے والی ہے اور یقینا تمہیں بروز قیامت پور اجر دیا جائے گا۔ بلا شبہ خدا کے ہاں ہر مصیبت کا حل، ہر مرنے والے کا خلف اور ہر محرومی کا مداوا ہے۔ پس اللہ کے ساتھ وابستہ رہو اور اسی سے آس رکھو۔ یقینا ہرمصیبت حرم ثواب سے آتی ہے اور سلامتی رہے تم پر اور اللہ کی رحمت اور برکات۔ جعفر بن محمد نے بیان فرمایا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر دریافت فرمایا خود کہ آیا تم جانتے ہو یہ کون ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا یہ خضر علیہ السلام تھے۔ یہ جو آخری حصہ ہے روایت کا یہ بتارہا ہے کہ یہ ایک فرضی بات ہے۔ یہ ساری روایت ہی فرضی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ کسی خضر کی دائمی زندگی کا قرآن کریم میں کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا کہیں۔ ایک بزرگ کا ذکر ملتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چلا تھا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام جس کے ساتھ اجازت لے کے چلے تھے۔ مجمع بحرین پر وہ ملا تھا۔ عموماً مفسرین ان کانام حضرت خضر رکھتے ہیں۔اور چشمہ حیوان سے پانی پینے والا ایک انسان جس نے آب حیات کودریافت کرلیا اور پی کر ہمیشہ کی زندگی پاگیا۔ یہ تصور حضرت خضر سے وابستہ ہے۔ اور پانیوں کے خطرات سے نجات دینے والا بھی خضر ہی کہلاتا ہے۔ پس یہ سب کہانیاں ہیں جن کاکوئی وجود نہیں ہے۔ اور قرآن کریم کے اس واقعہ سے خضر کے مضمون کو باندھنا ظلم ہے۔ کیونکہ وہ آنحضور ﷺ کے متعلق ایک عظیم پیشگوئی ہے۔ اتنی حیرت انگیز شاندا رپیشگوئی، اس کو ایک فرضی وجود کے ساتھ منسوب کرکے رسول اللہ ﷺسے سے الگ کرلینا اور اس آیت کے مفہوم کو ہی مبہم کردینا، یہ درست نہیںہے۔واقعہ یہ ہے کہ مجمع البحرین کی طرف سے کچھ دیر آگے بڑھتے ہیں۔ پھر واپس لوٹتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایک ’فتٰی‘ بھی ہے، نسبتاً ایک نوجوان۔ مراد یہ ہے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اور مجمع البحرین وہ ہے جہاں اسلام کی،یہودیت کی اور عیسویت کی حدیں اسلام سے ملتی ہیں۔ وہاں مچھلی کھل جاتی ہے۔ وہ نوجوان جو تھا کہتا ہے میری مچھلی کھوئی گئی ہے۔ مچھلی روحانی معانی اور روحانی غذا اور روحانی نعمتوں کو کہاجاتا ہے۔ پس وہ جگہ ، زمانے کا وہ جوڑ جہاں عیسائیت اسلام سے ملی ہے ، وہاں عیسائیت نے اپنی حقیقتوں کو کھودیا ہے۔ اسی لیے وہ فتٰیقصو وار دکھایا گیا ہے گویا کہ ، کہ وہ عیسائیت کا مظہر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کہاں ہے ہماری غذا۔ وہ تو نہیں نظر آرہی۔ وہ کہتے ہیں جہاں مجمع بحرین تھا وہاں وہ گم ہوئی اور پھر وہ سمندر میں تیر کے نکل گئی۔ تو مچھلی جوکھانے کیلئے آئی تھی، ظاہر بات ہے کہ وہ کھانے والی مچھلی نہیں ہے بلکہ ایک زندہ حقیقت کو جو نعمتوں اور روحانی زادراہ کی نمائندگی کرتی ہے ، وہ چیز تھی۔ اور مجمع البحرین میں جس سمند رمیں وہ گئی ہے وہ اسلام کا سمندر ہے اور آئندہ سے اب وہ اسلام ہی میں ملے گی۔ اس کے بعد پھر وہاں وہ بزرگ دکھایا جاتا ہے جس کو خضر کہتے ہیں۔ اور اس بزرگ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا اور وہ نوجوان غائب ہوگیا۔ جس کا مطلب یہ ہے موسوی امت کا کنارہ آگیا ہے۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی نمائندگی میں کچھ دیر اس کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں جو نیا نبی ظاہر ہوا ہے ۔ جس نے پہلی امت کا خاتمہ کرکے ایک نئی دائمی شریعت کی بنیاد ڈالی ہے اللہ کے حکم کے ساتھ۔ یہ محمد رسول اللہﷺ کاکشفی نظارہ ہے ۔ اور جو واقعات وہاں بیان ہوئے ہیں ان کی تفصیل میں اگر آپ جائیں، گہری نظر سے ان کا مطالعہ کریں تو آئندہ آنے والے ایسے واقعات ہیں جو امت محمدیہ کے ساتھ ہوں گے اور ان کے اوپر روشنی ڈالتے ہیں۔یہاں تک کہ بعض دنیوی منفعتیں بھی جو موجود تھیں اور ان کی خبر نہیں ہوسکی بعض دوسری قوموں کو ورنہ وہ کلیتہً ہتھیا لیتیں۔ وہ دبی ہی موجود رہی ہیں اور عملاً دوسروں کے علم سے ان کو الگ رکھا گیا ہے، وہ آخر ظاہر ہوئیں۔ مثلاً تیل کی دولت ہے۔ پس دنیاوی ترجمہ بھی کرو یا روحانی ترجمہ کرو، ہر لحاظ سے وہ ایک عظیم الشان موسوی کشف ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے اور خضر وضر کوئی بات نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺہی ہیں جو اعلیٰ حکمتوں پر نظر رکھ کر اللہ کے حکم سے فیصلے کرتے ہیں اور آپ کی امت کی تقدیر بھی گہری حکمتوں پر مبنی ہے۔ جس کا سرسری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس کی کنہہ کو انسان پا نہیں سکتا۔ تو خضر کے حوالے سے میں بتار ہا ہوں کہ یہ جو روایتیں جہاںبھی اس قسم کی فرضی باتیں داخل ہوں وہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے صاحب عرفان انسان کی طرف ان کو منسوب کرنا یہ زیادتی ہے اور اسے ہم اس طرح قبول نہیں کرسکتے۔آگے کل نفس ذائقۃ الموت میں یہ بات اُٹھائی گئی ہے کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ۔ پھر نفس اور ذات ایک ہی چیز ہیں۔ اس معنی کی رو سے جمادات بھی اسم کے لفظ میں شامل ہوں گے۔ جس سے جمادات پر بھی موت لازم قرار پاتی ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ خدا نے فرمایا ہے کہ فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شاء اللہ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ الا من شاء اللہ کے استثناء میں شامل ہونے والوں پرموت نہ آئے گی۔ مگر اس سے قبل جو عموم اس آیت میں زیر بحث آیا ہے وہ ہر ایک چیز کی موت پر دلالت کرتا ہے ۔ نیز اہل النار اور اہل جنت کی موت پر بھی دلالت کرتا ہے۔ اس طرح ایک جگہ موت کا عام ذکر کیا ہے، ایک جگہ خاص، جو استثناء ات کے ساتھ ہے۔ یہ تضاد کیا ہے؟یہ بحث چھیڑی ہے ایک مفسر نے۔
یہ حضرت امام رازی تفسیر کبیر رازی میں یہ بحث اٹھاتے ہیں۔ اس کو سمجھانا ضروری ہے پہلے کہ یہ بحث ہے کیا۔ کہتے ہیں تعلم مافی نفسی ولا اعلم مافی نفسک میرے نفس میںکیا ہے تو جانتا ہے ، میں نہیں جانتا تیرے نفس میں کیا ہے۔ اس میں اللہ کیلئے بھی نفس کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ حضرت امام رازی بڑی باریک نظر سے اس آیت کو سمجھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر کل نفسٍ ذائقۃ الموت میں استثناء ہی کوئی نہ ہو اور ہر نفس پر موت وارد ہو توحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضرت احدیت کو مخاطب کرکے یہ کہنا کہ جو تیرے نفس میں ہے وہ میں نہیں جانتا، خدا کو بھی نفوس میں شامل کردیتا ہے اور اس پہلو سے یہ اعتراض وارد ہوگا کہ نعوذ باللہ من ذالک پھر کل اگربلا استثناء بیان ہے تو نعوذ باللہ کیا خداتعالیٰ پر بھی موت واقع ہوجائے گی۔ یہ ہے جو بحث اُٹھارہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھارہا ہوں کہ محض پڑھنے سے آپ کو سمجھ نہیں آئی ہوگی۔ اب پھر جواب اس کے بعد سنیں۔پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ کیا اس میں جمادات بھی شامل ہوجائیں گی۔ یعنی وہ چیز جو ہمارے علم کے مطابق زندگی سے عاری چیزیں ہیں۔ یعنی Inanimates۔ مادہ، کہتے ہیں وہ بھی شامل ہوجائیں گے اس میں؟جیسا کہ یہ جو استنباط ہے بڑایہ ہے تو دلچسپ مگر سمجھ نہیں آئی کہ امام رازی نے کیوںیہ اس آیت سے استنباط کیا ہے۔ یہ آگے جاکے کھلے گا معاملہ ۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آسکی۔ کیونکہ جو مثال دیتے ہیں وہ یہ ہے فصعق من فی السموت و من فی الارض الا من شاء اللہ کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن جب خداتعالیٰ جلوہ دکھائے گا۔ کہتے ہیں دو حالتوں میں صور پھونکا جائے گا۔ ایک آواز کے ساتھ سارے بیہوش ہوجائیں گے اور ایک آواز کے ساتھ پھر وہ جی اُٹھیں گے۔ جو پہلا صور پھونکنا ہے وہ اللہ کی تجلی کا اظہار ہے اصل میں۔ جیسا کہ فخر موسی صعقا خدا کی جب تجلی ظاہر ہو، ایسی جو بہت زیادہ عظیم الشان ہو تو اسے برداشت کی طاقت نہیں ہوتی۔ اور یہ اس مضمون کی طرف اشارہ ہے دراصل۔ حضرت امام رازی کا استنباط یہ ہے اس میں اور اشکال یہ پیدا کرکے دکھارہے ہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے اور زمینوں میں ہے ، اس میں جمادات بھی آجاتی ہیں۔ مجھے اس لیے تعجب ہے اس استنباط پہ کہ لفظ ما نہیں فرمایا قرآن کریم نے، من فرمایا ہے۔ اورمن زندہ چیزوں کیلئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ جمادات کیلئے۔ اگر جمادات کو پیش نظر رکھا جاتا تو لفظ ما استعمال ہونا چاہیے تھا من کی بجائے۔ کیونکہ ما کا مطلب ہے ’جو بھی ‘اور من کا مطلب ہے ’جو بھی زندہ وجود‘ ۔ تو ما اور من میں یہ فرق ہے۔ اسی لیے میں یہاں رک جاتا ہوں کہ حضرت امام رازی تو بہت ہی گہری نظر رکھتے ہیں۔ لغت پر تو انہوں نے اس کو دلیل بنا کر جمادات پر کس طرح اس آیت کا اثر دیکھا ہے، یہ آگے جاکر کچھ ممکن ہے وہ مضمون کھولیں تو پتہ چل جائے۔ لیکن ایک اور اعتراض اس سے یہ اُٹھایا گیا ہے الا من شاء اللہ، من شاء اللہ کے استثناء میں داخل ہونے والوں پر موت نہ آئے گی۔ یہ وہ استنباط کرتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے موت کی عمومیت کی بھی بحث ہوچکی ہے۔ اس کا جواب بھی بڑا واضح ہے۔ یہ بھی سمجھ نہیںآئی کہ کیوں حضرت اما م رازی نے اس کواٹھایا ہے۔ کیونکہ یہاں صعق من فی السموت میں موت کی نفی، موت کے استثناء کا ذکر ہی نہیں اس آیت میں۔ بیہوشی کے استثناء کا ذکر ہے کہ اس وقت جو غش کھاکر گریں گے ان میں سب شامل ہوں گے اور جو کل نفس ذائقۃ الموت ہے یہ الگ مضمون ہے رسول اکرم ﷺ نے صعق کا مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ الا من میں موسیٰ علیہ السلام شامل ہیں۔کیونکہ موسیٰ علیہ السلام پر ایک دفعہ یہ بات آچکی ہے ۔ وہ اس تجربے سے اپنی زندگی میں ہی گزرچکے ہوں گے۔ تو جو پہلا صور پھونکا جائے گا ، اس کے بعد جو تجلی ظاہر ہوگی اس سے موسیٰ علیہ السلام بیہوش نہیں ہوں گے کیونکہ دوسرے صور کی دفعہ وہی لوگ زندہ ہوں گے جو پہلی تجلی سے مغلوب ہوکر بیہوش ہوئے ہیں۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام تو پہلے ہی زندگی میں بیہوش ہوچکے تھے ۔ اس لیے وہ مستثنیٰ ہوں گے اور جو بیہوش ہونے والے ہیں ان میں رسول اللہ ﷺ اپنے آپ کو بھی شامل فرماتے ہیں۔ مگر سب سے پہلے جو آنکھ کھلتی ہے ، ہوش آتی ہے، اس میں اپنے آپ کو پیش فرمایا ہے یا کسی اور کا ذکر کیا ہے؟
حضور: یہ حدیث نکالنا۔ مجھے تو یہ یاد ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو تو مستثنیٰ کردیا اور سب سے پہلے ہوش آنے والوں میں رسول اللہ ﷺ نے اپنا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن یہ ایک شبہ پڑتا ہے کہ کسی او رکا نہ ذکر کیا ہو۔ اس لیے چیک کرلیں اس کو۔ کل پھر میں وضاحت کردوں گا۔ اب جواب سن لیں۔
اس میں ممکن ہیں جو اشکال میں نے پیش کئے ہیں وہ بھی حل ہوگئے ہوں۔ اس دنیا میں رہنے والے جومکلف ہیں وہ مراد ہیں۔ اس آیت میں جو عموم ہے اس سے اس دنیا کے رہنے والے جو مکلف ہیں، وہ مراد ہیں۔ جیسا کہ اس آیت کے آخر پہ فرمایا فمن زُحزح عن النار و اُدخل الجنۃ فقد فاز۔پس کہتے ہیں کہ یہاں مَن عمومیت یہ عمومیت نہیں ہے کل من علیھا فانٍ میں عمومیت وہ نہیں ہے کیا ہے وہ؟ ہاں کل نفسٍ ذائقۃ الموت اس میںوہ عمومیت نہیں ہے اس نفس میں عام نفس نہیں ہے بلکہ وہی نفوس مدنظر ہیں جن سے جواب طلبی ہوگی۔ جو شریعت کے لحاظ سے پابند بنائے جاتے ہیں اور اس کے انکار کے نتیجے میں یاان سے انحراف کے نتیجے میں بعض دفعہ سزا بھی پاتے ہیں۔ تو جنہوں نے قیامت کے دن جواب دینے ہیں یہاں انہی نفوس کا ذکر ہے نہ کہ ہر نفس کا۔ ایک یہ جواب حضرت امام رازی نے دیا ہے۔ کہتے ہیں فلاسفروں کا خیال ہے کہ اس جسمانی زندگی پر موت کا وارد ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ زندگی رطوبت غریزیہ اور حرارت غریزیہ سے قائم ہے۔ پھر حرارت غریزیہ آہستہ آہستہ رطوبت غریزیہ کو ختم کرتی جاتی ہے۔ جب یہ رطوبت ختم ہوجاتی ہے تو حرارت غریزیہ بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ جس سے موت وارد ہوتی ہے۔ ایک انہوں نے اس زمانے کا فلسفہ کابیان کیا ہے جو دلچسپ ہے۔ وہ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ طاقت جو ہے اس میں ایک تپش ہے جس سے Energy حاصل ہوتی ہے اور ہر انسان اس تپش کا محتاج ہے لیکن وہ تپش جلاتی بھی ہے۔ اس کا علاج اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایک گیلی حرارت بھی جسم کے اندر رکھ دی ہے۔ ایسی رطوبت جو نمدار ہے ۔ پس رفتہ رفتہ جو حرارت غریزیہ ہے وہ رطوبت غریزیہ کو کھاتی جاتی ہے۔ یعنی روز مرہ کی زندگی میںجب انسان Energy حاصل کرکے اس کو عمل میں تبدیل کرتا ہے تو جو خشک آگ ہے وہ گیلی آگ کو یا گیلی Energy کے Source کو رفتہ رفتہ خشک کرتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان جب بوڑھا ہوتا ہے تو اس کی رطوبتیں خشک ہوجاتی ہیں۔ وہ ان معنوں میں لے رہے ہیں اس کو۔ اور وہ سوکھا ہوا جسم، جلد سوکھ جاتی ہے ، جھریاں خشکی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ تمام Glands خشک ہونے لگتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب وہ Energy اس رطوبت پر غالب آجاتی ہے تو اس کا نام موت ہے۔ یہ فلسفہ بیان کرتے ہیں اور یہ فلاسفر کہتے ہیں کہ کل نفسٍ ذائقۃ الموت اس بات پر دلیل ہے کہ اس بدن کی موت سے نفوس نہیں مرتے کیونکہ چکھنے کے فعل کے واقع ہوتے وقت چکھنے والے فاعل کا باقی ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کل نفس ذائقۃ الموت میں روح مراد نہیں ہے۔ کیونکہ فلاسفر جو غور کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ بدن مرا کرتا ہے اور روح نے تو چکھا ہے اس کو۔ تو چکھنے کے ایک اور معنی پھر بیان کرتے ہیں کہ چکھنا اس لیے فرمایا گیا کہ روح جو بدن میں رہتی تھی ، اس نے بدن کو مرتے ہوئے دیکھا ہے۔ گویا کہ مزا بدن کی معرفت چکھ لیا ہے۔ لیکن وہ خود نہیں مرے گا۔ ایک یہ تشریح اس فلسفیانہ بیان سے وابستہ فرمائی گئی ہے۔ اس سے یہ دلالت نکلتی ہے کہ نفس اور بدن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ نیز بدن کی موت کی وجہ سے نفس نہیں مرتا اور بتانا یہ مقصود ہے کہ موت صرف جسمانی زندگی پر ہے نہ کہ ارواح پر۔ مگر بعض روایات میں اس کے برعکس بھی آیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کل من علیھا فانٍ نازل ہوئی تو فرشتوں نے کہا مات اہل الارضاہل زمین مرجائیں گے اور پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو ملائکہ نے کہا ہم بھی مرجائیں گے۔وانما توفون اجورکم یوم القیامۃ اس جگہ خداتعالیٰ بتاتا ہے کہ انسان کو اس کا اجر اورثواب مکمل طور پر۔۔۔ اس بحث سے پہلے جو یہ روایت بیان کی گئی ہے یہ محل نظر ہے۔ اس کی چھان بین کرنی چاہیے ، اس لیے یہ درست معلوم نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں جب یہ آیت ہوئی نازل کل نفس ذائقۃ الموت تو اس پر فرشتوں نے کہا کہ ہم بھی مرجائیں گے ۔ پہلے تو تھا کل من علیھا فانٍ جو کچھ بھی زمین یا سطح زمین پر ہے اس پر موت آئے گی وہ فنا ہوجائے گی تو فرشتوں نے کہا ہم بچ گئے۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی کہ کل نفس ذائقۃ الموت تو فرشتے بھی چونکہ اپنے آپ کو نفس سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم بھی مارے گئے اور اس پر ایک بڑی دلچسپ اور بھی کہانی بنی ہوئی ہے کہ پہلے پھر فلاں فرشتے مرے تو دوسروں نے کہا چلو ہم بچ گئے ۔ پھر ان کی باری آگئی۔ پھر ان کی باری آئی۔ پھر ان کی باری آئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو کہا اب تم کہاں جاتے ہو۔ مار بیٹھے نا سب کو۔ اب تمہاری باری ہے ، تم بھی مرجائو۔ تب یہ مضمون پورا ہوا۔ حالانکہ اس آیت کا اگلا حصہ اس سارے مضمون کی نفی فرمارہا ہے۔ وانما توفون اجورکم یوم القیامۃ انہی کی بحث ہورہی ہے جن کو اجور ملنے ہیں۔ اس لیے حضرت امام رازی کا جو پہلا نکتہ تھا وہی دراصل قابل قبول ہے اوروہ معقول ترین تشریح ہے کہ یہاں ذائقۃ الموت میں ہر نفس مراد نہیں بلکہ وہ نفس مراد ہے جو مکلف کیا جاتا ہے کسی طرز عمل کا اور اس طرز عمل پر مکلف ہوکر اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو جزاء کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اگر ناکام ہوجاتا ہے تو سز اکا مستحق ٹھہرتا ہے۔پس اس آیت کا اگلا حصہ و انما توفون اجورکم یوم القیامۃ فرشتوں کو از خود اس سے مستثنیٰ قرار دے رہا ہے۔ کیونکہ ان کے تو کوئی اجر نہیں ہیں جو ان کو قیامت کے دن دیئے جانے ہوں۔
پس ایسی تمام روایات جو درایت کے اعتبار سے قرآن کے مخالف ہوں اور آنحضور ﷺ کی حکمت بالغہ کے منافی ہوں، ان کی سند خواہ کسی حیثیت کی ہو، قابل قبول نہیں ہے۔ بنیادی اصول یہی ہے کہ قرآن اور محمد رسول اللہﷺ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جس بات کو قرآن ردّ کرتا ہے اس کو محمد رسول اللہ ﷺ ردّ کرتے ہیں پس قرآن کی ردّ شدہ بات کی تائید میں آنحضرت ﷺ کا کوئی حوالہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے سند جیسی بھی ہو، مضمون جھوٹا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی طرف کوئی جھوٹا مضمون منسوب نہیںہوسکتا۔ پس یہ حل ہے اس کا کہ کل نفس ذائقۃ الموت میں دراصل وہ نفوس مراد ہیں جن کی جواب طلبی ہوگی۔ اس موقع پر وہی مراد ہیں ۔ کیونکہ جانوروں کو تو مکلف نہیںفرمایا گیا۔ کل نفس کے مضمون کو اگر پھیلائیں گے تو انما توفون اجورکم یوم القیامۃ کا کیاپھر موقع ہے؟ جن لوگوں نے اس کو عام کیا ہے وہ اس مشکل میں پھنس کر پھر اور کئی قسم کی کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں بکریاں بھی آئیں گی، سانپ بچھو بھی آئیں گے، ہر قسم کے جانور لائے جائیں گے اور جو جو غلطیاں وہ اس وقت کرچکے ہیں ان کو اس کی سزائیں دی جائیں گی۔ تویہ ان کو مکلف خواہ مخواہ بنادیا۔ حالانکہ وہ اپنا اختیار ہی نہیں رکھتے ہاںاو رنہ کا، قبولیت اور نہ قبولیت کا۔ وہ تو جس روش پر ان کو قانون قدرت نے ڈال دیا ہے اس سے ایک ذرّہ بھی سرمو بھی بالارادہ انحراف کی طاقت نہیں رکھتے اور فرشتوں سے ان کا مضمون زیادہ ملتا جلتا ہے۔ بیان کی طاقت جاندار کی طرف منسوب ہی نہیں کی اللہ تعالیٰ نے۔ الرحمٰن۔ خلق الانسان ۔ علمہ البیان۔ انسان کو اللہ نے رحمن خدا نے پیدا کیا ہے اور انسان کو بیان سکھایا ہے۔ بیان کا ایک مطلب ہے بڑااور اوّل مطالب میں ہے یہ بات کہ وہ کھرے کھوٹے میں تمیز کرسکتا ہو۔جانور بیچارے نے کھرے کھوٹے میں کیا تمیز کرنی ہے۔ اس لئے اس کومکلف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک بحث یہ اٹھائی ہے توفون اجورکم یوم القیامۃ میں کہ قیامت کے دن اجر ملے گا تو جو پہلا اجر کا ذکر ملتا ہے احادیث میں کہ قبر میں ایک کھڑکی کھولی جائے گی ۔ ایک کھڑکی ایسی ہوگی نیکوں کیلئے جو جنت کی ہوا اور جنت کے مزے لے کے آئے گی۔ ایک اہل جہنم کیلئے ہوگی جو جہنمی آگ کے جھونکے ان پر بھیجے گی اور اس کی وہ سزا پائیں گے۔ تو وہ توقیامت سے پہلے کی باتیں ہیں۔ تو قرآن کریم کے اس مضمون کی یہ حدیث مخالف کیسے ٹھہری؟ کیا اس کو ردّ کیا جائے گایا اس کی کوئی تشریح ڈھونڈی جائے گی۔ حضرت امام زمخشری فرماتے ہیں کہ یہ چیز اس روایت کی نفی کرتی ہے جس میں کہا کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ کہتے ہیںاگر یہ کہاجائے کہ یہ نفی کرتی ہے تو میر اجواب ہے کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ توفی کا لفظ اس وہم کو دور کردیتا ہے کیونکہ تُوَفُّون کا مطلب یہ ہے کہ پورا اجر قیامت کے دن دیے جائو گے۔ پورا اجر دینے کا وعدہ معمولی اجر دینے کی راہ میں حائل نہیںہوتا۔ پس اگر پہلے بھی اجر کچھ مل جائے تویہ آیت جو ہے یہ اس کے مضمون کے منافی نہیں۔یہ میں نے آپ سے کہا تھانا کہ تفسیر کشاف مجھے بہت پسند ہے۔کیونکہ حضرت امام زمخشری بڑے عارف انسان ہیں۔ بہت اچھے نکتے نکالتے ہیں بعض اور صرف عذاب قبر کا سوال نہیں۔ اس دنیا میں بھی تو اجور ملتے ہیں ہمیں۔ اس دنیا میں بھی اجور ملتے ہیں۔ یہ سلسلہ یہیں سے جاری ہے۔ لیکن اصل بڑا اجر جو کلیۃً مکمل طور پر عطا ہوگا وہ قیامت کے دن عطا ہوگا ۔ اس سے پہلے اس کے چھوٹے چھوٹے مظاہر ہوں گے۔ کچھ کچھ شکلیں اس کی ہم دیکھیں گے۔ فتح البیان میںلکھا ہوا ہے کہ ذائقۃ من الموت بھی آتا ہے روایت میں۔جبکہ جمہور نے اسے مضاف، مضاف الیہ اس معنوں میں قرار دیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جسم موت کا ذائقہ چکھنے والے ہیں جب کہ جان نہیں مرے گی۔ذائقۃ الموت کہتے ہیں اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا استنباط ہے۔کہتے ہیں یہ استنباط اس کل نفس ذائقۃُ الموت میں تنوین کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔یہ بحث بالکل بے تعلق ہے اور ہم ایسی روایتوں کو اہمیت نہیں دیتے جو قرآن کریم کے مضمون کو دوسرے لفظوںمیں پیش کریں۔سوائے اس کے وہ قرآن ہی کے اس لفظ کے بعض معنی کی طرف اشارہ کرنے میں ممد ہوں۔ نئے معنی پید اکرنے کے لحاظ سے یہ قابل قبول نہیں ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ قرآن سے باہر رہ گیا ہے۔
پس جو مختلف قرآن کریم کی قرأتیں ملتی ہیں ا س کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن تو اسی قرأت میں نازل ہوا جو اہل مکہ کی زبان تھی۔ جو فصاحت و بلاغت میںسب سے بلند مرتبہ رکھتی تھی۔ اور اس روایت کو جب سنتے تھے لوگ اور ان آیات کو یاد کرتے تھے تو جس قسم کے تلفظ کی عادت ہو ، بعض دفعہ از خود بلا ارادہ وہ تلفظ زبان پہ جاری ہوجاتا ہے۔ تو مختلف قرأتیں عربی کی قرأتیں عرب میں رائج تھیں۔ اس پہلو سے قرآن کریم کی آیات مختلف روایتوں میں جاکر بعض مختلف رستوں میں ڈھلنے لگیں اور اس کے خطرے کے پیش نظر کہ نعوذ باللہ کوئی اس سے یہ استنباط نہ کرے کہ قرآن کریم میں تحریف ہوئی ہے اور مختلف قرآن کی ایسی آیات بھی ہیں جو باہر پڑی ہوئی ہیں، قرآن میں داخل نہیں مگر ہمیں ان کی ضرورت رہے گی گویا کہ ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ امت پر بہت بڑا احسان کیا یا اپنی ذات پر سب سے بڑا احسان یہ کیا کہ اس خدمت کی توفیق پائی کہ تمام دوسری قرأتوں کو نکال کر جو مستند قرأت تھی جو مکے میں رائج تھی اور جس کے متعلق تمام زندہ صحابہ جو وہ آیتیں رسول اللہ ﷺ سے سن چکے تھے وہ گواہی دیتے تھے۔ اس لمبے تحقیقی دور کے بعد قرآن کریم کی وہ قرأت قبول کی گئی جس کے متعلق مستند صحابہ کی گواہیاں تھیں کہ ہم نے خود حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے یہ قرأت سنی ہوئی ہے اور ان گواہیوں کا غلبہ دوسری قرأت بیان کرنے والوں کو کمزور دکھا تاتھا۔ تو ان سب کو چھوڑ دیا گیا۔ لیکن مفسرین نے ان کو کھینچ تان کے ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ قرأت کسی ایسے معنی کی طرف اشارہ کرتی ہو جو اس لفظ میں موجود ہے پہلے سے ہی۔ لیکن ایک عام طور پر پڑھتے وقت وہ معنی ذہن میں نہیں آتا ۔ اگر اس پہلو سے وہ قرأت دیکھ لی جائے جو ممد ہو قرآن کے موجود لفظ کے معانی میں وسعت دینے کیلئے تو یہ محل اعتراض نہیں ہے۔ جو اصل دلیل ہے جس پر یہ بحث اٹھائی گئی ہے فتح البیان کی طرف سے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر نفس مراد ہوتا کہ نفس چکھے گا موت کا مزا۔ پہلے میں بیان کرچکا ہوں کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ جسم مرتا ہے جیسا کہ اما م رازی نے بیان کیا ہے۔ نفس چکھے گا مزا۔ تو وہ کہتے ہیں ثابت ہوا کہ نفس نہیں مرے گا۔ اس مضمون کو ایک اور دلیل کے ساتھ یہ بیان کررہے ہیں کہ اگر وہ بھی مر جائے تو اپنی موت کی حالت میںموت کا مزا کیسے چکھ سکتا ہے۔ یہ ہے اصل بات۔ اور وہ حضرت امام رازی نے جو بات بیان فرمادی ہے اس وقت فلسفیوں کے حوالے سے، وہی ہے اصل کہ بدن مرتا ہے اور جو جان ہے اندر وہ زندہ رہتی ہے منتقل ہوجاتی ہے۔ پس موت دراصل انتقال کا نام ہے۔ روح کے انتقال کا نام موت ہے۔ اسی لئے ہم اردو میں بھی کہتے ہیں فلاں صاحب انتقال فرماگئے۔ تو روح کے مرنے کا نام نہیں بلکہ روح کے انتقال کا نام ہے۔ سیّد مقبول دہلوی صاحب نے ’’کتاب الصافی فی تفسیر القرآن‘‘ کا ایک ترجمہ کیا ہے۔اس میں وہ روایت ہے جو میں بیان کرتا ہوں۔ صرف ہیں۔ ایک بج کر 20منٹ ہوگئے ہیں او ہو مجھے تو پتا ہی نہیں لگا آپ کی انگلی نے اٹھنا ہی بند کردیا ہے اب۔ کیونکہ آپ کے خیال میں وقت ہوتا ہے دوسرے پروگرام اب پیچھے پھینک دیتے ہیں۔ اس کو جاری رکھتے جزاک اللہ۔ مگر انگلی اٹھ جائے تو مجھے اندازہ تو ہوجائے گا کہ کہاں کہاں پہنچے ہوئے ہیں یہ جو ہے نہ روایت دلچسپ یہ سنا کر آج کا درس ختم کل انشاء اللہ پھر یہیں سے بات آگے بڑھائیں گے۔ کہتے امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اس زمین کے باشندے اسی طرح مر جائیں گے۔ پھر آسمان والے مریں گے۔ یہاں تک کہ کوئی نہیں رہے گا۔ مگر ملک الموت، حاملان عرش، جبرائیل اور میکائیل۔ یہ کس طرح پتہ لگا ان کو، کچھ پتہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف روایت منسوب نہیں ہے۔ کہتے ہیں یہ لوگ باقی رہ جائیں گے۔ پروردگار عالم باوجود اپنے علم کے ملک الموت سے دریافت فرمائے گا کہ کون کون اب باقی ہیں۔ وہ جو آیت ہے کہ صور پھونکا گیا اور سب مرگئے۔ اس کے ہی منافی روایت ہے۔ یعنی سب نہیںمریں گے بلکہ جب سب مرچکیں گے بظاہر تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا ملک الموت سے کہ کون کون باقی ہیں۔ ملک الموت سب کو بتادیں گے کہ یہ بات ہورہی ہے۔ اس وقت جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ تم دونوں بھی مرجائو اور فرشتے عرض کریں گے کہ پروردگار یہ دونوں تیرے رسول اور امین ہیں۔ حکم ہوگا کہ یہ امر طے کرچکا ہوں میں کہ جس نفس میں روح ہے وہ موت کو ضرور چکھے گا۔ اب روح کا لفظ اپنی طرف سے اضافہ کردیا ہے۔جس لفظ میں روح کا کوئی ذکر ہی نہیںملتا اس آیت میں۔ میںروح کا مضمون کل بیان کروں گا کہ نفس اور روح میں فرق کیاہے۔ پھر ملک الموت سے باوجود علم سوال ہوگا کہ اب کون کون باقی ہے؟ اب بتائیں بیچارہ کیا کرے گا۔ عرض کریں گے کہ ملک الموت اور حاملان عرش ۔ اس وقت حاملان عرش کو حکم ہوگا کہ تم بھی مرجائو۔ اوّل سے اب تک ملک الموت کو لاعلمی میں رکھا گیا ہے۔ تو ملک الموت ، حاملان عرش جنہوں نے عرش اُٹھایا ہوا ہے ان کو بھی ماردے گا۔ تو عرش کون اُٹھائے ہوئے ہوگا اس وقت۔ اس کا مطلب ہے کہ جو فرضی تصور ہے نا ان کا عرش اٹھانے کا، اس کو بھی ماردیتی ہے یہ روایت۔اس وقت کہتے ہیں ملک الموت بہت غمگین ہوجائیں گے۔ سخت حزین اور غمگین ہوں گے کہ ساری عمر تو میںمارتا رہا لوگوں کو، اس وقت کوئی صدمہ نہیںہوا۔ اب لگتا ہے میری بار ی آنے والی ہے۔ کہتے ہیں کسی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھے گا۔
پھر آخر سوال ہوجائے گا کہ اب کون باقی ہے۔ جواب ملے گا پروردگار صرف ملک الموت باقی ہے۔سارے گئے ۔ حکم ہوگا کہ اے ملک الموت تم بھی مرجائو۔ چنانچہ وہ بھی مرجائیں گے۔ اس وقت آسمان و زمین خالص قبضہ قدر ت خدا میں ہوں گے۔ خداتعالیٰ اس وقت یہ فرمائے گا کہ اب وہ کہاں گئے جو میرا شریک ٹھہراتے تھے اور میرے سوا اوروں کو خدا بناتے تھے؟ اور یہ جو آواز آئے گی اس وقت کوئی سننے والا نہیں ہوگا اور یہ آواز شیعہ راوی کو پہنچ گئی ہے۔ تو باقی انشاء اللہ پھر۔ ٹھیک ہے؟ السلام علیکم ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ15 رمضان بمطابق16؍ فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج بھی درس سے پہلے کچھ مختلف Faxes اور پیغامات وغیرہ جن کا پچھلے درس سے تعلق ہے ان سے متعلق میں کچھ آپ کو بتاتا ہوں۔ ایک میں نے ذکر کیا تھا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے آنحضرت ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام پہلے ہوش میں تھے اور وہ بیہوش ہوئے ہی نہیں تھے۔اور سب سے پہلے میں اُٹھا تھاا س کے بعد۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام تو بیہوش ہی نہیں ہوئے اور رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں پہلے اٹھا ہوں۔ جو میں نے دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام تھے اس وقت ، ہوش میں تھے۔ اور اس کی تشریح فرمائی ہے کہ وہ شاید جو پہلے چونکہ فخر موسی صعقا کا واقعہ گزر چکا ہے اس لیے دوبارہ بیہوشی کا کوئی موقعہ نہیں تھا۔ یعنی موقعہ تو ہوسکتا تھا مگر اللہ نے بچالیا۔ اس ضمن میں جو روایت بھیجی ہے جو حافظ صاحب نے بھیجی ہے یا مولوی دوست محمد صاحب نے، سیّد عبدالحئی شاہ صاحب نے بعینہٖ اسی کی تائید کررہی ہے اور بھی بعض روایات بھیجی ہیں تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ ہیں۔ بخاری میں بھی ہے ۔ میں بتادیتاہوں آپ کو پڑھ کے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔ مدینہ منورہ کے بازار میں(یہ تو دوسرا حصہ ہے اس کا پس منظر) جھگڑا ہوگیا تھا یہودی سے۔ آنحضور ﷺ سے اس جھگڑے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور صور پھونکا جائے گا تو سارے آسمان اور زمین والے بیہوش ہوجائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے گا وہ بیہوش نہ ہوں گے۔ پھر دوسری بار پھونکا جاوے گا تو یکایک سب لوگ کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوسرا صور پھونکے جانے کے بعد میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھائوں گا تو میں دیکھو ںگا کہ جناب موسیٰ علیہ السلام عرش کا ایک پایا تھامے ہوئے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے سر اٹھاویں گے، مجھ سے پہلے ہوش میںآجائیں گے یا ان لوگوںمیں سے ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ یہ ہے سنن ابن ماجہ کی حدیث۔ لیکن حافظ مظفر احمد صاحب نے جوبخاری کی حدیث بھیجی ہے جو زیادہ واضح اور قطعی ہے۔ اس تھپڑ والے واقعہ پر جس پہ جھگڑا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا تخیرونی علیٰ موسیٰ فان الناس یصعقون۔ فاکون اوّل من یفیق فاذا موسیٰ باطش بجانب العرش فلا ادری اکان فی من صعق فافاق قبلی او کان ممن استثنی اللہ عز و جل۔ یہ بعینہٖ وہی مضمون ہے مگر مختصر بخاری میں ان الفاظ میں ہے ویسے فرق کوئی نہیں ہے دونوں روایتوں میں۔ صرف یہ ہے کہ بطش کا لفظ جو تھا نا بجانب العرش۔ باطش بجانب العرش ۔اس کا ترجمہ وہاں یہ کیا گیا تھا عرش کا ایک پا یہ پکڑے کھڑے تھایا طش کو تھامنے کو ہاتھوں سے پکڑنے کو کہتے ہیں۔ مگر پا ئے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہاں یہاں قائمہ کا لفظ آیا ہے قائمۃ من قوائم۔ تو بخاری کی حدیث میں کسی ستون یا تھمبے کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ عرش کی جانب تھامے ہوئے یعنی ذات باری تعالیٰ کی طاقت سے۔ یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو چمٹے ہوئے ہیں اور عرش معنوی رنگ میں زیادہ دکھائی دیتا ہے یہاں بخاری والی حدیث میں لیکن جو سنن ابن ماجہ کی ہے اس میں بظاہر ایک جسمانی تصور ابھرتا ہے کہ کوئی باقاعدہ پایا تھا جس کو پکڑا ہوا تھا۔ مزید انہوں نے وہ کھجور والے واقعہ کے متعلق فرمایا ہے۔ وہ Pollinationکررہے تھے۔ Male اور Female درخت ہوتے ہیں تو اس کا Stamen وغیرہ جھاڑ رہے تھے جو Female کھجوریں تھیں ان کے پھولوں کے اوپر۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکیا ضرورت ہے اس کی کیوں تکلیف کررہے ہو۔ وہ جو روایت ہے اس میں وہ حصہ تو مجھے واضح طور پریاد نہیں تھا اس لیے حافظ مظفر صاحب نے میری مدد کیلئے مجھے اصل روایت بھیجی ہے۔
ایک معجزہ شق القمر کی بات میں نے کی تھی کہ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ہندو کا حوالہ بھیجا ہے ۔ہندو روایت کا ذکر فرمایا ہے اور وہ زیادہ ہمارے حق میں مفید ثابت ہوگا۔ امتہ المنان صاحبہ ، امتہ المنان قمرصاحبہ ۔ اہلیہ میر غلام احمد صاحب نسیم نے وہ اصل حوالہ بھجوادیا ہے۔ کہتی ہیں آج درس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شق القمر کے بارہ میں ذکر کیا تھا وہ حوالہ یہ ہے۔ پنڈت نند کشور صاحب نے معجزہ شق القمر کی نسبت کہاکہ بھوج سوانح ایک کتاب سنسکرت میں ہے۔ مجھ سے پنڈتوں نے بیان کیاہے کہ اس میں شق القمر کی شہادت راجہ بھوج سے ہے کہ وہ اپنے محل پر تھا۔ یکایک اس نے چاند کو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے پنڈتوں کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ چاند اس طرح پھٹا۔ راجہ نے خیال کیا کہ کوئی عظیم الشان حادثہ ہوگا۔ پنڈتوں نے جواب دیا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پچھم کے دیس میں ایک مہاتما پیدا ہوا ہے وہ بہت یوگی ہے۔ اس نے اپنے یوگ بھاش سے چاند کو ایسا کردیا ہے۔ تب راجہ نے اسے تحائف ارسال کئے۔ اب یہ جو روایت ہے یہ شنید کی حد تک ہے ابھی۔ پنڈت نند کشور نے معجزہ شق القمر کی نسبت کہا کہ بھوج سوانح ایک کتاب سنسکرت میں ہے۔ مجھ سے پنڈتوں نے بیان کیا ہے کہ اس میںشق القمر کی شہادت ہے۔ کتاب توہے لیکن آگے بیان دربیان ہے۔ پنڈتوں نے بیان کیا ہے کہ اس میں یہ ہے۔ تو اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ اگر یہ ہندوستان میںمہیا ہو تو ہندوستان کی جماعتیں اس پہ تحقیق کریں اور اصل نکالیں ۔ یہ بہت ہی اہم واقعہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو تحقیقی مضامین چھیڑے ہیں ان کو وہاں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ ان کو لازماً آگے بڑھانا چاہیے اور بعض لوگ اس سے سمجھتے ہیں نعوذ باللہ من ذالک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان گویا کافی نہیں سمجھا جارہا ، اس پر بس نہیں کی جارہی ،یہ بالکل جہالت کی بات ہے۔ خدمت کا تقاضا ہے کہ جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تیرہ سو سال پہلے کی ان بحثوں کو جو مزید تحقیق کی محتاج تھیں ، مزید تقاضے کررہی تھیں کہ ان پر مسلمان کام کریں ان کو وہاں سے اٹھایا اور بحثوں کو پھر زندہ کیا اور تحقیق کے حق ادا کیے ۔ بالکل نئی روِش پر ایسی تحقیق فرمائی جو کافر اور مومن کو برابر مطمئن کرسکے۔ یہی میرا مسلک ہے اور اس مسلک میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خواہ کسی کو اختلاف ہو مجھے کامل اطمینان ہے کہ یہ خدمت قرآن اور خدمت اسلام کا تقاضا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہی زندگی تھی، مجسم تھے آپ۔ یہی زندگی سے مراد ہے کہ گویا خدمت قرآن اور خدمت اسلام اور آپ کا پیکر ایک ہی چیز کے دو نام بنے ہوئے تھے۔ پس اس روح کو آگے بڑھانا خواہ بعض لوگوں کو لفظی طور پر کہیں اختلاف دکھائی دے۔ میرے نزدیک عین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اور سعادت ہے۔ اس درس کے دوران جو یہ سلسلہ چلا ہے بعض ایسے مسائل میں نے چھیڑے ہیں تحقیق کی غرض سے جماعت کو توجہ دلائی ہے جو عرف عام میں اس سے پہلے اور طرح سمجھ گئے ہیں اور اس پر بعض جگہ بے چینی ہے۔ بعض اپنی بے چینی کا اظہار کردیتے ہیں بعض اپنے دلوں میں دبا بیٹھتے ہیں۔ بعض مجالس لگا کر ذکر کرتے ہوں گے تو میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خدمت قرآن کے تقاضے ہیں جو مجھے مجبور کررہے ہیں اس کے سوا اور کوئی اس کا مقصد نہیں ہے ۔ ادنیٰ بھی اس میں ذات اور انانیت کا ایک شائبہ تک اس میں شامل نہیں ہے۔ اور اسی مضمون پر پرسوں کی بات ہے اور کل رات بھی اسی تسلسل میں۔ رات کے وقت میں نے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ مجھے اس مسلک پر قائم رکھ کہ قرآن کی ہم نے بہرحال خدمت کرنی ہے خواہ وقتی طور پر کچھ لوگ اختلاف بھی کریں۔ مگر ان پر بھی یہ بات روشن فرمادے اور مزید ایسے اسرار روشن فرما جن سے ثابت ہوجائے دنیا پر کہ قرآن ہی حق ہے اور باقی دنیا کے علوم لازماً اس کی خدمت کیلئے بنائے گئے ہیں۔ یہ مضمون تھا جس پر میں نے خصوصیت سے دعا کی۔ اب اللہ کی عجیب شان ہے کہ تائید کے رنگ میں کس طرح بات کسی اور کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔ آج ہی مجھے فون کے ذریعے ایک ایسی احمدی بچی کا پیغام ملا جس کا اس مضمون سے کوئی علمی تعلق نہیں ہے اور نہ وہ اس کا تصور اس آیت کی طرف جاسکتا ہے جس کا اس خواب میں ذکر ہے۔ اس نے رئویا دیکھا کہ میں قرآن کریم کا درس دے رہا ہوں مگر تلاوت کا انداز ایسا ہے جیسے میں عبادت کررہا ہوں اور نما زپڑھ رہا ہوں تو یہ مجھے سمجھ نہیں آئی یعنی یہ بات ایسی ہے کہ اسکا ذہن سوچ نہیں سکتا۔ درس دے رہا ہوں لیکن عبادت ہو رہی ہے گویا کہ نماز پڑھی جارہی ہے۔ وہ کہتی ہے میں نے بلند آواز سے اپنی ساتھی اور بھی ایک دو خواتین تھیں ان سے کہا یہ کیا ہورہا ہے کہ لگتا یہ ہے کہ مجھے تو لگ رہاہے کہ درس دے رہے ہیں یہ دیکھ رہی ہوں کہ درس دے رہے ہیں مگر ساتھ ہی یہ تاثر ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیںاور تلاوت اس طرح کرتے ہیں جیسے نماز پڑھ رہے ہوں۔ تو اس نے جواب دیا کہ یہ حفاظت قرآن کررہے ہیں۔ اب یہ حفاظت قرآن کا مضمون قرآن کریم میں ہے۔ انا نحن نزلناالذکر و انا لہ لحافظون۔ کہ ہم نے قرآن کریم کوذکر کے طور پر نازل فرمایا ہے اور ہم ہی ہیں جو اس کی حفاظت کا انتظام فرمائیں گے۔
اس مضمون کی تشریح میں علماء نے بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہ بات واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے اشخاص کو مامور فرماتا رہے گا ہمیشہ جن پر اپنی طرف سے علوم روشن کرے گا اوروہ پھر آگے قرآن کریم کی حفاظت کے سامان کریں گے۔ جب بھی اس حفاظت کو کسی طرف سے کوئی چیلنج ہوگا یا خطرہ درپیش ہوگا تو اللہ کا نظام ہے جو جاری ہے۔ تو اس آیت کی طرف اس بچی کا جو یہاں کی پروردہ ہے ، اس کا ذہن جا ہی نہیں سکتا نہ اس کو اس بات کا علم ہے۔ لیکن دیکھیں اللہ تعالیٰ کس طرح تائید سے ایک دوسرے کے ذریعہ سے تقویت عطا فرماتا ہے۔ اسی سلسلے میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پرسو ں رات میں بات کررہا تھا لقمان سے کھانے کے بعد یعنی افطاری کے وقت کہ مجھے تو یہ یاد تھا کہ حضرت نواب عبدالرحمن خانصاحب کی اولاد ہوئی تھی لیکن اور اس کا میں نے ذکر بھی کیا تھا۔ عبد الرحیم صاحب کا تو مجھ یا د تھا نہیںتھی لیکن غلطی سے میں نے کہہ دیا تھا ان کا مجھے یاد تھا کہ ہوئی تھی اور اس ضمن میں مَیں نے کہا کہ مزید پتہ کرو ہوسکتاہے اولاد بعض دفعہ ہوتی ہے اور فوت ہوجاتی ہے ، مزید پتہ کرو کہ کیایہ میری یادداشت غلط تھی یا کچھ اور واقعہ ہے اور اس کے علاوہ کیونکہ یہ مضمون شروع ہوگیا ہے ۔ ایک یہ بھی بات بیان کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا فرمایا تھا کہ جس کا تعلق میرے خاندان سے ہوگا یعنی اس خاندا ن میں سے جس کا تعلق میرے خاندان سے ہوگا اس کی اولاد ہوگی تو یہ میں نے کہا مجھے تو یاد نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہیں لکھا ہو۔ مگر بات ایسی ہے جس کی جستجو ہونی چاہیے اور حضرت پھوپھی جان کی شادی اس کا بھی پتہ کرو کب ہوئی اور پھر یہ بھی پتہ کرو کہ حضرت نواب محمد علی خانصاحب کی دوسری بیگم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بہت تعریفی کلمات فرمائے ہیں وہ کیا بات تھی۔ اب یہ رات بات ہوئی ہے ۔ صبح نواب عباس احمد خان صاحب کی فیکس آئی ہوئی ہے جس میں ساری باتیں اسی طرح بیان کردی ہیں جو میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا۔ میں نے تولقمان سے تسلی کروائی۔ میں نے کہا تم نے تو نہیں فون کیا ۔کہنے لگا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں بھول ہی گیا تھا۔ تواللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تائیدی نظام جاری ہے اور یہ عظیم الشان نظام ہے جو دلوں کو تقویت بخشتا ہے اور انسان کو مشکل راہوں پربھی سہارا دیتا ہے۔ یہ عجیب ہے کہتے ہیں۔ آج درس القرآن میں معجزات اور تاریخی واقعات کا ذکر چل رہا تھا اس سلسلہ میں حضرت نواب محمد علی خانصاحب کے ذکر میںعرض ہے۔ ’’ حضرت نواب صاحب کی اولاد حضرت مسیح موعود کی دونوں بیٹیوں سے چلی۔ حضرت موصوف کی باقی اولاد میں صرف آپ کے بڑے بیٹے نواب عبد الرحمن خان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جو چند روز زندہ رہ کر وفات پاگیا‘‘۔ یہ وجہ ہے جو میرے ذہن پہ تاثر تھا کہ ان کی اولاد تھی۔ بیٹا ہوا ہے مگر چند روز زندہ رہ کر وفات پاگیا ۔ حضرت نواب صاحب موصوف کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں حضرت نواب صاحب کو خواب میں دکھایا گیا تھاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے باغیچے میں پودے لگا رہے ہیں۔ یہ خواب جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے سامنے پیش کی گئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تعبیر کی کہ آپ کی اولاد حضرت مسیح موعود سے چلے گی یعنی اس کے علاوہ نہیں چلے گی اور بعینہٖ یہی بات ہوئی ہے۔ وہ دو بیٹے جو دوسروں میں بیاہے گئے وہ بے اولاد ہوگئے یا جس کی اولاد ہوئی وہ بھی فوت ہوگیا اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر بیاہے گئے خود نواب صاحب اور آپ کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحب جو پھوپھا جان تھے ہمارے۔ ان کے اولاد ہوئی اور زینب جو حضرت چچا جان کے ہاں بیاہی گئی تھیں ان کی اولاد ہوئی اور وہ جو دو بیٹے تھے ایک بڑا اور ایک چھوٹا ان کی اولاد نہیں ہوئی یا زندہ نہ رہی تو یہ ایک ایسا عظیم الشان معجزہ ہے جو معجزوں کے ذکر میں بھی ساتھ بیان ہونے کے لائق تھا۔ اس کی طرف میں پھر دوبارہ واپس آئوں گا ۔ آگلا لکھتے ہیں کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صرف چار سال عمر تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا نواب مبارکہ بیگم یعنی 1900ء کے لگ بھگ اور لفظ نواب جو ہے یہ اس زمانے میں جبکہ ابھی آپ کی شادی کا ابھی کوئی وہم و گمان نہیں پیدا ہوتا تھا ، عمر کے لحاظ سے بھی اور حالات کے لحاظ سے بھی۔ اس وقت لفظ نواب کا ساتھ آنا یہ بھی ایک بڑا اعجاز ہے اور بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ غیر معمولی حالات میں پھر یہ شادی ہوئی ہے۔ پھر حضرت نواب صاحب موصوف کی پہلی زوجہ مہر النساء بیگم 1898ء میں وفات پاگئیں صفحہ 197,196۔ جس کے بعد آپ کی پھر دوسری شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشورے پر حضرت نواب صاحب کی پہلی بیگم کی چھوٹی ہمشیرہ امتہ الحمید سے ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر بارہ سال کی تھی۔یہ وہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا تھا کہ مجھ سے اصل میں فائزہ نے ذکر کیا تھا ایک دفعہ۔ میری بیٹی کو پڑھنے کا کافی شوق ہے کہ نواب صاحب کی ایک بیوی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تعریف فرمائی ہے۔ تومیں نے کل رات یہی پوچھا تھا کہ ان کے متعلق مجھے تفصیلی علم نہیں ذرا معلوم کرکے بتائو۔ تواب یہ اللہ تعالیٰ نے آواز وہاںتک پہنچادی اور انہوں نے اس کا ذکر بھی کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشورے پر حضرت نواب صاحب موصوف کی دوسری شادی آپ کی پہلی بیگم کی چھوٹی بہن امتہ الحمید کے ساتھ ہوئی اس وقت ان کی عمر بارہ سال کی تھی۔ مرحومہ موصوفہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نیم کشفی حالت میں دیکھا جیسا کہ آپ ایک اولیاء اللہ خدا سے تعلق رکھنے والی خاتون ہیں۔ اور آپ کے ہاتھ میں دس روپے سفید اور صاف ہیں۔ وہ دس روپے آپ نے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف پھینکے ہیں اور ان روپوں سے نور کی کرنیں نکلتی ہیں۔ جیسا کہ چاند کی شعائیں ہوتی ہیں اور وہ نہایت تیز اور چمکدار کرنیں ہیں جو تاریکی کو روشن کردیتی ہیں اور میں اس وقت ۔۔۔ یہ حضرت مسیح موعود کے الفاظ ہیں۔۔۔ اور میں اس وقت تعجب میں ہوں کہ روپیہ میں سے کس قدر نورانی کرنیں نکلتی ہیں اور خیال گزرتا ہے کہ ان نورانی کرنوں کا اصل موجب خود وہی ہیں یعنی ان کے اندر خداتعالیٰ نے نور بھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ دس روپے جو اچھالتی ہیں ان سے بھی نورانی کرنیں نکل رہی ہیں۔ یہی وجہ تھی اصحاب احمدمیںلکھا ہوا ہے یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے موصوفہ امتہ الحمید کو اپنی بیٹی بنالیا۔ آجکل جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو متبنّٰی بنانا منع فرمایا ہے اور کئی لوگ بیٹا بیٹی بنالیتے ہیں ۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ کسی شخص کے کہنے سے کوئی شخص بیٹا کہلائے بھی تو شرعاً اس کے اوپر بیٹے والے قواعد نہیں لگیں گے اور اگر کوئی بیٹی کہے بھی تو شریعت کے معاملات میں وہ اس طرح مستثنیٰ نہیں ہوگی ، شریعت کے فرائض سے جس طرح حقیقت میں بیٹی ہوتی ہے۔ یہ مراد ہے اس سے اور اسی لیے قرآن کریم نے ثابت کردیا کہ رسول اکرم ﷺ کوخدا نے جب فرمایا کہ اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرو تو یہ عین ایک قرآنی منشاء کے مطابق جو وہ بات کھولنا چاہتا تھا اس کی ایک مثال تھی تاکہ دوسروں پر مؤمنوں پر قرآن فرماتا ہے پھر بعد میں کوئی حرج نہ ہو کہ ہماری مونہوں کی باتیں کہیں ہمیں بعض چیزوں میں پابند نہ کردیں۔ کیونکہ جس کو بیٹا کہا ہو منہ سے یا بیٹی کہا ہو ، سوال یہی پید اہوگا کہ اگر ایسے حالات بدلیں کہ اس سے شادی ہوسکتی ہو تو کیا وہ شادی جائز ہوگی۔ پھر اگر شادی جائز بھی ہو گی تو کیا یہ مکروہ بات نہیں ہے کہ ایک طرف سے کسی کو بیٹا کہہ دیا جائے پھر اس کی مطلقہ سے شادی یا بیوہ سے شادی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ تو ان تمام امور کا حل قرآن کریم میں پیش فرمادیا گیا اور رسول کریم ﷺ کے دل میں اس کا جوش نہیں تھا ، اس کے خلاف ایک طبیعت میں کراہت تھی کہ لوگ کیا کہیں گے ۔یعنی اگر میں شادی کروں تو لوگوں پر اس کا بد اثر پڑ سکتا ہے نبوت کے منصب کے اعتبار سے اور کئی باتیں ہوسکتی ہیں یا یہ بھی وہم گمان ہوسکتا ہے کہ میں اپنی خاطر کررہا ہوں حالانکہ اس مطلقہ کے تقاضے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد پر وہ شادی کی تھی جو عرب رواج کے لحاظ سے گر کر شادی کرنے والی بات تھی۔ ایک اعلیٰ خاندان کی لڑکی اگر کسی غلام سے چاہے وہ آزاد کردہ ہو شادی کرے تو عربو ں میں یہ ایک ناک کٹنے والی بات تھی۔ تو آنحضرت ﷺ کے ارشاد پر انہوں نے بلا چون و چرا وہ شادی کرلی تھی۔ اس پر خداتعالیٰ نے جب وہ مطلقہ ہوئیں تو اس کا دراصل یہ اعزاز بخشا تھا کہاں غلام کہاں دنیا کا آقا، تمام کائنات کا آقااور یہ اعلیٰ مقصد تھا جو خداتعالیٰ کے پیش نظر تھا اور ساتھ ضمنی فائدہ یہ تھا کہ مسلمانوں میں یہ مونہوں کی باتوں کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے۔ یہ وہ تھی بات جو رسول اللہ ﷺ دل میں چھپائے ہوئے تھے کہ خدا کا منشاء تو معلوم ہوتا ہے مگر روکیں ہیں رستے میںنفسیاتی۔ پاک دلوں کے حال پر تو لوگوں کی نظر نہیں ہوتی۔ ظاہری طور پر اپنے دلوں سے وہ ان کی طرف نیتیں منسوب کرلیتے ہیں ۔ تو یہ جو بات ہے اسی ضمن میں آپ کو بتانا چاہتا تھا ضمناً ذکر آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب بیٹی بنایا تو نعوذ باللہ پھر شریعت کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کی۔ آج بھی دنیا میں تمام مسلمانوںمیں ہر جگہ بیٹا کہنا پیار سے یا بیٹوں کی طرح اپنالینا یا جس کی اولاد نہیں ہوتی وہ بیٹا بنالیتی ہے عورت ، یہ ساری باتیں موجود ہیں۔ صرف یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ شریعت سے وہ تعلقات بالا نہیں ہیں ، اس سے آزاد نہیں ہیں۔ یہ سمجھانا تھا لفظ بیٹی کے حوالے سے۔ اب آگے چلتے ہیں۔
موصوفہ1806ء لکھا ہوا ہے غالباً یقینا 1906ء مراد ہوگی۔ 1906ء میں بیس سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اب دیکھ لیں 1906ء میں آ پ کا وصال ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نواب مبارکہ بیگم کا جو الہام ہوا ہے وہ 1900ء میں ہوا۔ اس عرصے میں آپ کے ایماء پر ان امتہ الحمید کی شادی نواب محمد علی خانصاحب سے کروائی گئی۔ اب کس کے علم میں تھا کہ پھر وہ بھی فوت ہوجائیں گی چھوٹی عمر میں اور پھر پھو پھی جان نواب مبارکہ بیگم واقعتا نواب کہلائیں گی اوربلکہ نوابی کے اجراء کا واحد ذریعہ بن جائیں گی۔ واحد تو نہیںیعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق میں حقیقی نوابی اگر جاری رہے گی تو اس خاندان سے اب جاری ہوگی۔ یہ ساری باتیں اس میں موجود ہیں۔ چنانچہ نواب محمد علی خانصاحب کی وہ اولاد جو مسیح موعودعلیہ السلام کے خون سے تعلق نہ جوڑ سکی وہ لاولد مرگئی اور آپ کی نوابی مسیح موعود کے خاندان کی وساطت سے جاری ہوئی ہے۔ یہ ہے جو عظیم پیشگوئی یا عظیم معجزہ ہے۔ جس کو سمجھانا ضروری تھا۔ اس تعلق میں ۔ آگے ہے نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے شادی کا خیال کب پیدا ہوا اور پھر کب شادی ہوئی۔ اس کے تذکرے میں لکھتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیغام دیا تو آپ نے احتراز کیا اور شروع میں آپ کا دل اس طرف مائل نہیں ہوتا تھا ، عمر کا بھی فرق تھا اور بھی بعض دیگر پہلو ہوں گے۔ مگر پھر بہت اصرار کیا گیاتو آپ مان گئے۔ اور جب یہ شادی ہوئی ہے کس سن میں حضرت نواب مبارکہ بیگم کے ساتھ سن اس میں درج نہیں ہے۔بہرحال اب یہ معاملہ تو تقریباً سارا حل ہوچکا ہے۔ جو میں بات یاد دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا سبحان اللہ تبارک وتعالیٰ زاد مجدک ینقطع ابائک و یبدأُمنک۔ تویہ الہام پہلے 1883ء میں ہوا ہے۔ پھر 1896ء میں بھی ہوا ہے۔ پھر 1900ء میں ہوا ہے ۔ پھر 1906ء میں ہوا ہے۔ یہ الہامات کی جو تکرار ہوتی ہے یہ ان الہامات کے اثرات کے بعض نئے دائروں کی طرف اشارہ کرنے کیلئے بھی ہوتی ہے۔ اور یہ وہی سال ہیں جن میں یہ جو میں نے مضمون بیان کیا ہے ان کا ایک تعلق ہے۔ پس جو حضرت نواب محمد علی خانصاب کو خواب دکھائی گئی تھی یا رئویا دکھائی گئی تھی وہ میرے نزدیک اسی الہام کی برکت میں اس کی ذیل میں آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سبحن اللہ تبارک وتعالیٰ پاک ہے اللہ جو برکتوں والا ہے اور بہت بلند ہے۔ زاد مجدک تیرا مجد بھی وہی خدا ہے جو بڑھائے گا۔ ینقطع ابائک تیرے آباء کاٹے جائیں گے ۔ و یبدأُ منک اور تجھ سے شروع کیا جائے گا ۔ اس کی بہت سی تشریحات ملتی ہیں۔ حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن جو آخری بات نتھر کر سامنے آئی وہ یہ تھی۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر اچھی بحث فرمائی ہے ، تاریخی حوالے دیے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے وہ سارے افراد جو ان الہامات کے دوران موجود تھے یا آغاز میں کم سے کم موجود تھے ان کی تعدادتقریباً ستر بنتی ہے ۔ ان میں سے ایک ایک کرکے مرے او رکوئی اولاد پیچھے نہ چھوڑ کر گئے۔ انہی کی اولاد ہوئی جن کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہو ایا جن کے بچوں نے آگے احمدی ہونا تھا اور جن کے بچوں میں سے کوئی احمدی نہیں ہونا تھا ان کے بچے ہوئے بھی تو مرگئے۔ بیٹیاں بھی لاولد مرگئیں۔ تو یہ جو عظیم الشان نشان ہے یہ ایسا ہے جو آفاقی نشانات کی طرح اہمیت رکھتا ہے۔ کسی انسان کا کوئی بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسروں کے اولاد وں کو جو اتنا بڑا خاندان ہو ان کو لاولد کرتا چلا جائے اور وہی بچے جس کا تعلق جڑے۔ جسمانی تعلق کے اعتبار سے یہ ایک مثال ہے کہ حضرت پھوپھی جی جن کو ہم پھوپھی جی کہتے تھے آصفہ میری بیوی کی دادی تھیں وہ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شدید ترین معاند کی بیٹی تھیں اور ان کے کوئی اولاد نہیں چلی آگے سوائے پھوپھی جی کی نسل کے اور وہ اللہ کے فضل سے جاری ہوئی۔ ان کی شادی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے ہوئی تھی اور جس طرح امتہ الحمید بیگم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ بہت ہی بزرگ اور خدا سے تعلق والی تھیں۔ اولیاء اللہ کے مقام کی طرح ان کا مقام دیکھا۔ حضرت پھوپھی جی کے متعلق میں نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خودیہ سنا ہے اور یہ تو ہمارے خاندان میں عام روایت ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ عورتوں میں سے اگر کسی کے متعلق میں گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ صاحب الہام اور کشف تھی تو وہ یہ پھوپھی جی تھیں۔ مراد یہ نہیں کہ صرف یہی تھیں ، ایک اندا ز ہے بیان کا اور یہ میں نے خود اپنے کانوں سے حضرت مصلح موعود سے یہی بات اسی طرح سنی۔ تو حضرت پھوپھی جی کے تو کشف اور الہامات کے اور رئویائِ صادقہ کے پورے ہونے کے واقعات کثرت سے ملتے ہیں اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق کی وجہ سے پھر ایک دائمی نشان بن گئیں اپنی نیکی کا بھی اور اولاد کے اجراء کے لحاظ سے بھی اور مرزا گل محمد صاحب جن کی اولاد اب یہاں لنڈن میں بھی ہے ان کے ساتھ بھی یہی واقعہ ہوا ۔ ان کے والد مخالف اور محروم رہے سعادت سے اور ان کے بیٹا ہوگیا۔ اب بظاہر یہ تعجب کی بات تھی کہ الہام سے تو اگر اس کے ظاہری معنے لیے جائیں دوسرے بھی ہیں تو یوں لگتا ہے ینقطع ابائُک تیرے آباء کاٹے جائیں گے یا کٹ جائیں گے تو یہ کیا بات ہوئی کہ وہ بیٹا ہوا۔ وہ بیٹا احمدی ہوگیا اور بڑا مخلص احمدی ہوا۔
پس سارے خاندان کے حالات کا تتبع کرکے دیکھیں تو وہی خاندان کا شخص باقی رہا جس نے اپنا تعلق مسیح موعود سے جوڑا یا جس کی اولاد نے جوڑا وہ بچی اورآگے اس کی اولاد آگے جاری ہوئی۔ جنہوں نے نہیں جوڑا اگر اولاد تھی بھی تو لاولد مرگئی ۔ تو بہت بڑا ایک عظیم معجزہ ہے اور یہ اسی کا سایہ حضرت نواب محمد علی خانصاحب پر پڑا ہے۔ اور آپ کی رئویا کی تعبیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھیں کیسی شاندار کی اور بعینہٖ اس کے مطابق ہوا۔ ان کے متعلق میں نے کسی سے سنا ہے۔ ہمارے عبدالرحیم خالد خان تھے جو حضرت پھوپھی جان سے بڑا تعلق تھا ان کا ۔ وہ شکوہ کیا کرتے تھے بعض دفعہ اپنی خاص ادا میںکہ آپ نے اپنے بیٹے محمد احمد کی تو شادی کردی مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں یعنی اپنے سگے بیٹے کی اورآگے وہ صاحب اولاد بھی ہوگئے اور مجھے چھوڑ دیا۔ یعنی شکوہ اس رنگ میں کہ گویا میں سوتیلا بیٹا تھا حالانکہ انہوں نے تو پہلے سوتیلے بیٹے نواب عبداللہ خانصاحب کی بھی تو شادی کی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں۔ مگر یہ ایک انداز تھاایک محبت اور پیار کا اور چونچلوں کا۔ مگر وہ یہ سمجھتے تھے دل میں یقین رکھتے تھے کہ آئندہ اس خاندان میں جو بھی نسل چلے گی وہ اب اسی مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے تعلق کی برکت سے چلے گی۔ ان کی ایک بات جو بعد میں مجھے خیال آیا وہ بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ نواب محمد علی خان صاحب کا کیا تعلق تھا نوابی خاندان سے؟ تو آج صبح جب یہ بات ہورہی تھی میں نے لقمان سے پوچھا کہ تم نے تو نہیں کہیںلکھا اس نے کہا نہیں۔ تو ان سے میں نے پوچھا کہ تمہیں یاد ہے کہ نواب محمد علی خانصاحب کا مالیر کوٹلہ کے نوابی خاندان سے کیا تعلق ہے تو جو انہوں نے یادداشت سے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے دادا دراصل اصل نواب تھے۔ حضرت نواب محمد علی خانصاحب کے دادا اوران کے والد بچپن میں فوت ہوگئے ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی کویا وہ چھوٹے تھے۔چھوٹے تھے۔ فوت نہیں ہوئے تھے ، چھوٹے ضرور تھے اس وقت جب ان کے دادا فوت ہوئے ہیں تو ان کے چچا کو حکومت نے وہ فرمانروائی امانتاً سونپی تھی کہ جب تک یہ بچہ بڑا نہیں ہوتا تم اس کی نگرانی کرو ریاست کی۔ یہ چلا کرتا تھا سلسلہ۔پھر جب وہ بڑے ہو گئے تو پھرانہوں نے انکار کر دیا اور غالبااس دوران میں ان کے والد فو ت بھی ہو گئے۔تب نواب محمد علی خان صاحب نے مقدمہ کیا برٹش حکومت میں کہ اصل نوابی سلسلے کا حق دارمیں ہوں اس لئے مجھے یہ ریاست دلوائی جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب دعا کے لئے لکھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو پسندنہیں فرمایا اور کہا کہ اس دنیا سے تعلق کی کوشش نہ کرو۔چھوڑ دو اس بات کو۔ یہ تمہارے لئے اور تمہاری اولاد کے لئے مفید نہیںہو گی۔اس پر پھر out of court یعنی عدالت سے باہر ایک تصفیہ ہوا اس نواب صاحب کے اور نواب عبداللہ محمد علی خانصاحب کے درمیان جو دراصل حقیقی وارث تھے اور وہ یہ تھا کہ زمینیں جو ہیں متفرق وہ تم لے لو مگر نوابی میں رکھو ں گا اپنے پاس۔ تو نواب محمد علی خانصاحب یہ بات مان گئے۔ اس طرح پھر نواب تو اپنے حقیقی ٹائٹل کے لحاظ سے کیونکہ وارث تویہی تھے۔ نواب تو کہلاتے رہے مگر ریاست نہیں رہی۔ لیکن وہ زمینیں ملیں جو آگے پھر بہت سی برکتوں کا موجب بنیں۔ تو اس نوابی کا جو آئندہ سلسلہ ہے وہ مسیح موعود کے تعلق سے جاری ہوا ہے۔ یہ میں سمجھا رہا ہوں۔ اس طرح باریک در باریک اعجاز ہیں جو کچھ مومنوں کے لحاظ سے بھی ان کے ایمان کی تقویت کا موجب ہے۔ لیکن ان کا ایک ایسا پہلو بھی ابھرتا ہے جو غیروں پر بھی ایک حجت بن جاتا ہے اور ان پر ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ پس ینقطع ابائک و یبدأُمنک کے عظیم الہام کو اس کے ساتھ جب جوڑ کر رکھا جائے تو صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں ایک عظیم معجزہ ہے اور وہ جو معجزات میں نے بیان کئے تھے ۔ ان کے ذکر میں اس کو بھی شامل کرلینا چاہیے۔
کیوں جی۔ کوئی اور بھی رہتی ہے بات؟ ہاں۔ کشتی نوح بھی ہے۔ آج تو سفر کشتی پر ہی ہوگا۔اب کشتی نوح کے متعلق میں نے جو منیر خانصاحب کو چھیڑا تھا اس لیے کہ مجھے جب انہوں نے مجھ سے ایک دفعہ آکر تفصیل سے بات کی تھی۔ جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں سب سے زیادہ درست Scientific اور قابل قبول ان کی طرز تحقیق تھی اور بہت میں خوش ہوا ۔ میں نے کہا آپ نے تو کمال کردیا ہے، میرا دل راضی ہوگیا ہے۔ اب اس کو چھوڑنا نہیں اور آگے بڑھانا ہے۔ تو میں ذرا انگیخت کررہا تھایہ کچھ تھوڑا سا چھیڑ خوانی سے ابھریں اور کوئی بات بتائیں۔ ان کی طرف سے تفصیلی ایک خط ملا ہے آج۔ اس میںایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے ایک احمدی دوست نے جو لندن میں رہتے ہیں انہوں نے وہ جو میں نے ذکر ضمناً کیا تھا نا کہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا ہے کہ جودی آرمینیا کے پہاڑوں میں سے ملا ہے اور کہیں نہیں ملا تو وہ سمجھے کہ ثابت ہوگیا کہ بائبل کا جو ارارات ہے وہی جگہ ہے جہاں وہ کشتی لگی ہوگی اور وہیں محفوظ ہوگی۔ اب اس پر ایک So-Called محقق کی فلمیں بھی دکھائی جارہی ہیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ بات ناممکن ہے کیونکہ ارارات جن دوست نے اس نظریے کو پیش کیا ہے وہ خود لکھ رہے ہیں کہ اس کی بلندی 16,986فٹ سطح سمندر سے ہے۔ اور وہ جو حساب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے مجھے لگا کے دیا تھا وہ ان کی فراست کی بات ہے کوئی لمبا چوڑا Mathematics میں نہیں لے جانے والاان کو۔ انہوں نے کہا اتنی سی دو ٹوک بات ہے کہ بائبل کے نزدیک سارے پہاڑوں کی چوٹیاں ڈوب گئی تھیں تو کوہ ہمالہ کی چوٹی اگر ڈوبے تو جتنے زمین سے ابھار ہیں باہر کی طرف ، اتنی ہی سمندر کی گہرائیاں ہیں اور ان گہرائیوں میں جتنا پانی ہے اس پر اتنا پانی اور ڈالا جائے جتنا موجود ہے تو پھر جاکر پہاڑ ڈوبیں گے ، ورنہ نہیں ڈوب سکتے۔ یہ تھا دراصل ان کا بہت تیزی کے ساتھ Mathematics کرنا۔ تو یہ جو 16,000 اگرچہ Mount Everest سے تو نیچے ہے لیکن سولہ ہزار فٹ اگر پانی بلند ہو کسی جگہ تو لازماً ساری دنیا غرق ہوچکی ہوگی اور کوئی عذر اس کا بیان نہیں کیا جاسکتا کہ دو طرف پہاڑوں کا سلسلہ ہے اس لیے وہاں پانی رہ گیا ہوگا۔ تو اس لیے میرا دل تو کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی اس کو قبول نہیں کرسکا کہ ارارات ہی وہ جگہ ہو ۔ مگر جو تحقیق انہوں نے بھیجی ہے وہ بہت عظیم الشان ہے۔ اور وہ پہلو بھی لیئے ہوئے ہے اپنے ساتھ سوائے چین کے، جن کا میں نے ذکر کیا تھا۔ پہلے ہی انہوں نے پرانی روایات اور وہ مٹی کی تختیاں جو پکائی ہوئی تھیں جن پر عبارتیں لکھی ہوئی ہیں وہ ساری روایات بھی پیش نظر رکھی ہیں اور وہ جو روایت جو مجھے سب سے زیادہ پسند آئی تھی Epic of Gilgamesh کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر بھی انہوں نے نظر ڈالی ہے اور ان ناموں کی پیروی کی ہے جو بیان کیے گئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ ساراواقعہ Dead Sea کے ارد گرد ہوا ہے اور Dead Sea کا علاقہ Depression میں ہے اوروہاں اگر اتنا پانی برسے کہ وہاں جو پہاڑیاں ہیں وہ ڈوب جائیں تو ہر گز بعید از عقل نہیں ہے اور جغرافیائی لحاظ سے یہ ممکن ہے کہ ایسا واقعہ ہوا ہو اور Dead Sea کی سطح پہلے زمانے میں نسبتاً بہت اونچی ہوا کرتی تھی۔ اب بہت نیچے ہوگئی ہے مگر اس سے قطع نظر یہ تو تحقیق شدہ بات ہے یہ Depression ہے جس طرح ہالینڈ ہے ناسمندر سے نیچے اسی طرح یہ اس سے بہت زیادہ نیچے ہے۔ بہر حال یہ تفصیل میں یہاں بیان نہیں کروں گا۔ میںنے اس کا مطالعہ کرلیا ہے میں ان کو بتارہا ہوں اور جو باتیں بھی انہوں نے لکھی ہین ان میں سے کسی ایک سے بھی کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ مگر اب ان کو جلدی اس تحقیق کو شائع کرنا چاہیے۔ ان کو تردّد یہ ہے کہ بعض معاملات میں شواہد کیلئے مزید تفصح کی ضرورت ہے، مزید جستجو اور تحقیق کی ۔ تو کریں بیشک لیکن ساری عمر تو نہ لگادیں اس کے اوپر۔ کچھ ہمیں بھی مزہ آئے دیکھیں کہ کتاب شائع ہو علمی دنیا میں ایک تہلکہ مچے اور ایک احمدی محقق کی عظیم الشان تحقیق جو فرضی حکایتوں پر مبنی نہ ہو بلکہ Scientific جستجو پر مبنی ہوا ب یہ دنیا کے سامنے آنی چاہیے۔ بہر حال منیر خان صاحب کا میں سب کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں بہت ہی عمدہ تحقیق ہے اور بڑا عاجزانہ رنگ اختیار کیا ہوا ہے کوئی علمی تکبر کا شائبہ بھی نہیں اور بہت پہلو دیکھے ہیں انہوں نے۔ صرف وہ چین والا پہلوہے وہ رہتا ہے ۔ آج میری ملاقات ہے عثمان چینی صاحب سے۔ ان سے کہوں گا کہ وہ اس تحقیق کا حصہ ان کو بھی بھجوادیں۔ یہ دیکھنے والی بات ہے کہ یہ کہانیاں کیسے چین میں پہنچیں اور کیا حضرت نوح کی اولاد میں سے کوئی چین میں اس زمانے میں پہنچا ہے اور اس نے پھر آگے اس کی نسل جاری ہوئی ہے۔ جو لطف کی بات ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ وہی ہے۔ حضرت نوح کے واقعات کا جو یہاں زمانہ ہے وہی زمانہ اس چینی بزرگ کا زمانہ ہے جس کے زمانہ میںکہا جاتا ہے کہ ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا اور سب کچھ غرق ہوگیا تھا اور اس کے کناروں پر پھر آبادیاں چڑھی ہیں اورکناروں پر سے دوبارہ پھر آہستہ آہستہ اس غرق شدہ زمین میں نیچے کی طرف اترنے شروع ہوئے ہیں لوگ ۔ مگر بہرحال یہ بھی وہ زیر نظر لے آئیں میںان کوروایات بھجوادوں گا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
کل نفسٍ ذائقۃ الموت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وماالحیوۃ الدنیا الا متاع الغرورO آل عمران: 186
اس ضمن میں ذائقۃ الموت کی گفتگو ہوچکی ہے۔ توفون کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اس کا لفظ توفی سے بہت تعلق ہے۔ اس ضمن میں مفسرین نے بہت لمبی بحثیں اٹھائی ہیں جو میں ذکر کروں گا مگر پھر میں نے سوچا تو اس خیال کو بدل دیا ہے کیونکہ پہلے ہی ہماری ضمنی بحثیں اتنے مختلف دائروں میں جاچکی ہیں کہ اگر وفات مسیح کو ہی دوبارہ عنوان یہاں بنالیا گیا تویہ درس کا بقیہ حصہ بھی چند دن وفات مسیح پر ہی لگ جائے گا حالانکہ وہ اتنی محقق بات ہے اتنی واضح اور کھلی ہوئی بات ہے کہ دن بدن اب مسلمانوں کے علماء کی نئی نسلیں سوائے پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی علماء کے بڑے زور کے ساتھ اس طر ف مائل ہورہے ہیں اور عربوں میں مصری علماء میں تو کھلم کھلا وفات مسیح کا اقرار کیا جارہا ہے۔ اور وہ تعلیم یافتہ لوگ جو احمدی دلائل سے گھبرا کر پناہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں کسی طرف وہ کہتے ہیں یہ بحث ہی کوئی نہیں۔ فوت ہوگیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اگلی بات کی طرف نہیں آتے کہ اگر فوت ہوگیا تو پھر جس کی آمد کی خبریں کثرت سے ملتی ہیں وہ کون ہے؟ تو کہتے ہیں یہ اہمیت ہی کوئی نہیں ، یہ سب فرضی کہانیاںہیں فو ت ہوگیا ختم ہوا اورچونکہ زندہ سمجھا گیا تھا اس لیے وہ روایتیں بھی ساری فرضی ہیں جو زندہ مسیح کے اترنے کی روایتیں ہیں۔ تو بہر حال اللہ ان کو عقل دے۔ تازہ تازہ معجزات احمدیت کے ہرموڑ پر ان کو گھیرے رہیں گے۔ اس سے بچ کر نکل تو نہیں سکتے۔ لیکن فرار کے بہانے ہیں وہ بناتے رہیں بیشک۔ تو میں اب وفات کا مختصر ذکر کروں گا۔لفظ توفی کا جو مفسرین نے ذکر فرمایا ہے لیکن موضوع بنا کر حضرت مسیح کی زندگی اور موت کا مسئلہ یہاں نہیں چھیڑوں گا۔
ہاں روح اور نفس کے تعلق میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ بعض لوگ نفس اور روح کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ نفس سے متعلق جتنی آیات ہیں وہ ساری میں نے اکٹھی کرکے پہلے سے ہی مجھے اس معاملے میں جستجو تھی وہ اکٹھی کرکے ان پر تفصیلی غور کیا ہے۔ روح سے متعلق آیات ہیں ان پر غور کیا ہے تو نفس صرف شعور کا نام ہے دراصل اور شعور کی بے شمار قسمیں ہیں اور اسی حوالے سے حدیث میں اللہ کے نفس کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اورورنہ نفس تو خداتعالیٰ کا ان معنوں میں نہیں ہے جو ہمارے ہاں جان کہلاتی ہے۔ نہ یہ روح کے معنوں میں ہے بلکہ نفس صرف ایک شعور ہے جو زندگی کا شعور اپنے وجود کا شعور۔ آخری خلاصہ اس کایہی بنتا ہے لیکن اس ضمن میںروح کیا چیز ہے یہ بحث پھر اٹھے گی۔ میں آپ کے سامنے وہ آیات رکھتا ہوںجن میں روح کا ذکر ہے۔ ایک تو ثم جعل نسلہ من سلالۃ من مائٍ مھینٍ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ پہلی آیت ہے الذی احسن کل شیء خلقہ و بدأ خلق الانسان من طین۔ وہی ذات ہے جس نے جو کچھ بھی پیدا فرمایا اس کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ پید اکیا ہے۔ نہایت ہی اعلیٰ درجہ پر طریق پر پیدا فرمایا ہے۔ و بدأ خلق الانسان من طین ۔ اور انسان کی تخلیق کو ہم نے مٹی سے شروع کیا۔ ثم جعل نسلہ من سلالۃٍ۔ پھر اس کو ایک ایسے حقیر سے پانی یعنی معمولی پانی سے بنایا جو دراصل اس کا خلاصہ تھا یعنی جس کو نطفہ کہا جاتا ہے۔ ثم جعل نسلہ من سلالۃٍ من ماء مھینٍ۔ اس نطفے سے اس کا پھر نسل جاری کی ہے۔ جو ایک معمولی سا پانی سمجھا جاتا ہے ۔ ثم سوّٰہُ اورپھر اسی سے ہم نے اس کو سوّٰی کیا ہے۔ اس کو ٹھیک ٹھاک کیا ہے ، اس کو ترقی دی ہے اور متوازن بنادیا ہے۔ اس کے بعد یہ واقعہ ہوا و نفح فیہ من روحہٖ ۔ پھر اللہ نے اس میں اپنی روح پھونکی و جعل لکم السمع والابصار والافئدۃ۔ اور تمہارے لیے شنوائی اور بصیرت ۔ والافئدۃ اور وہ دل پیدا کئے جو دراصل شعور کی آخری صورت ہے۔ جس کی طرف قرآن کریم افئدۃ کے طور پر حوالہ دیتا ہے۔ یہاں روح بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یعنی روح کے قریب ترین جو معاملات کو سمجھنے والا نظام ہے اس کو افئدۃ کہا جاتا ہے۔ قلیلاً ما تشکرون۔ بہت تھوڑا ہے جو تم شکر کرتے ہو۔ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ ان باتوں میں کتنے عظیم احسانات ہیں خداتعالیٰ کے اور کتنا بڑا نظام ہے جو تمہاری تخلیق سے پہلے جاری کیا گیا تھا۔ یہ ہے روح کا لفظ کہ جو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کے بعد پھر روح اتاری ہے۔ ثم سوَّاہ جب اس کو ٹھیک ٹھاک کرلیا پھر روح اتاری۔ اس ضمن میں یہ جو ایک تحقیق کینیڈا کے ایک مغربی گائنا کالو جسٹ (Gynecologist) نے شائع کی تھی ۔اس کا میں اسی درس میں ذکر کرچکاہوں پہلے کہ نہیں۔ اس تحقیق کی رو سے وہ کہتا ہے کہ مجھے اس بات نے بہت تعجب میں مبتلاء کردیا کہ ایک حدیث میرے علم میں آئی جس سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بچہ جب بن جاتا ہے اور ایک خاص مقام تک پہنچتا ہے جہاں سے وہ پھر آزاد زندگی کا اہل ہوچکا ہوتا ہے۔ یعنی اگر Abortion ہو تو پھروہ زندہ رہ سکتا ہے۔ وہ حدیث Quote کرکے لکھتے ہیں اس حدیث میں جو قت بتایا گیا ہے کہ فرشتہ پھر اس میں روح ڈالتا ہے وہ بعینہٖ وہی وقت ہے جو ہمارے علوم اور جستجو کے نتیجہ میں بچے کا وہ لمحہ ہے اس کا، وہ منزل کہہ دیں جس کے بعد وہ زندہ رہ سکتا ہے اگرچہ اس کو پالنے کیلئے Incubation وغیرہ کرنی پڑے گی۔ لیکن عقلی علمی لحاظ سے امکان موجود ہوجاتا ہے ۔ کہتا ہے یہ حدیث کہ اس وقت فرشتہ روح ڈالتا ہے اس میں یہ حیرت انگیز ہے۔ یہ معنے کیا ہیں ، کیا مطلب ہے فرشتہ روح ڈالتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ گویا جس طرح ویدوں کا عقیدہ ہے کہ روحیں الگ آزاد پھرتی ہیں اور جو مادہ الگ ہے۔ مادے کو بعض ترقی یافتہ صورتوں میں روح عطا کی جاتی ہے اور روح اوپر سے خدا تعالیٰ ڈال دیتا ہے۔ یہ تصور درست نہیں ہے۔ فرشتے کا روح ڈالنے سے مراد ہے خدا کا نظام ہے ایک۔ اور فرشتے خدا کے ہر نظام کو چلانے والے ہیں۔ پس کوئی ایک اکیلا فرشتہ نہیںآتا روح ڈالنے والا۔ مراد یہ ہے کہ زندگی بخش نظام جو اللہ تعالیٰ کا ہے جو انسان کو دوسرے حیوانات سے ممتاز کردیتا ہے وہ نظام حرکت میں آتا ہے اور خداتعالیٰ نے اس پر جو مبعوث فرمارکھے ہیں فرشتے یا جو بھی ان کو آپ کہیں وہ اس وقت اس کو روح بخش دیتے ہیں مگر پیدا اندر ہی سے ہوتی ہے باہر سے پکڑ کے نہیں ڈالی جاتی۔اس لیے اس کو نفخ روح فرمایا گیا ہے اور قرآن کریم تو اس بارے میں بالکل واضح ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے میں اپنی روح پھونکتا ہوں تو وہ عقیدہ تو لازماً باطل ہوگیا کہ باہر روحیں آزاد پھر رہی ہیں قدیم سے اور ان کو پکڑ پکڑ کے فرشتے اندر داخل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنی روح پھونکتا ہوں میں۔ اپنی روح سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب خود قرآن کریم دیتا ہے۔ و یسئلونک عن الروح۔ وہ تجھ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ قل الروح من امر ربی۔ ان سے کہہ دو کہ روح امر ربی کا دوسرا نام ہے اور اس سے زیادہ تمہیں سمجھا ہی نہیں سکتے۔ یعنی خدا تو سمجھا سکتا ہے اس لحاظ سے مگر انسان کو وہ طاقتیں عطا نہیں کی گئیں۔ وہ صلاحیتیں موجود نہیں اس میں کہ اس سے زیادہ بات کو سمجھ سکے۔ تو یہ مسئلہ کہ حضرت عیسیٰ میں روح پھونکی یا فلاں میںروح پھونکی ، آدم میں روح پھونکی، بچے میں روح پھونکی جاتی ہے یہ ہمیشہ کیلئے اس آیت کریمہ نے حل کردیا۔ یسئلونک عن الروح ۔ قل الروح من امر ربی۔ اللہ کے امر کا دوسرا نام ہے، کن کا دوسرا نام ہے۔مگر جب انسانی زندگی کے تعلق میں جب کن چلتا ہے تو روح بن جاتا ہے اور باہر سے پکڑی پکڑائی روح نہیں ہے جو آتی ہو۔
ایک او رصاحب نے اپنی تحقیق فوراً روانہ کردی ہے کہ فلاں جگہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک شہر ہے کشتی نوح وہاں گئی ہوگی۔ اس بات کو چھوڑ دیں ۔ یہ بہت گہری لمبی تحقیق کی باتیں ہیں اور تحقیق کے معاملات میں جذبات، امید یں اور ایک آدھ بات کا علم ہوجانا کافی نہیں ہوا کرتا۔ منیر احمد خانصاحب کے ساتھ میری تفصیلی باتیں ہوچکی ہیں اور اب جب انہوں نے تحریر بھیجی ہے میں قطعی طور پر آپ کو یقین دلاتا ہوں جب یہ شائع ہوگی تو انشاء اللہ تمام اہل علم کے دماغ اس سے روشن ہوں گے وہ بات کرتے ہیں، خود سائنسدان ہیں ، بڑے ماہر سائنسدان ہیں۔ کراچی کی سب سے اونچی چمنی انہوںنے بنائی ہے۔ اور اس نے تمام باقی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا کہ ان کے خیال میں بھی نہیںآسکتا تھا کہ پاکستان میںانجینئرایک اتنی بڑی اونچی مضبوط او رمستحکم چمنی Design کرکے اس کو پھر پایہ تکمیل تک پہنچاسکے گا۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی زیرک انسان اور صاحب علم ہیں ۔ تو ان کے اوپر کام پڑا ہوا ہے کیوں آپ بیچ میں خواہ مخواہ اور اتنی جلدی یہ بھیجا ہے مجھے ان صاحب نے کہ اتنا اہم مضمون کہیں نظر سے رہ نہ جائے۔ ان کا جذبۂ شوق تو بہت اچھا ہے، پسندیدہ ہے مگر موقعہ محل کے مطابق دخل ہونے چاہئیں۔اگر کہیں آپ تھک نہ گئے ہو ں تو ایک چھوٹا سا لطیفہ سنادوں آپ کو؟ ایک دفعہ ایک پنچائیت لگی ہوئی تھی اور پنچائیت میں قتل کا مقدمہ تھا۔ تو یہ باتیں تو جھوٹی ہیں کہ قومی طور پر کوئی جولاہے بیوقوف ہوئے یا مراثیے ہوگئے لیکن ہمارے ملک میںلطیفے اپنی جہالت کی وجہ سے قوموں کی طرف منسوب کیے ہوئے ہیں۔ تو کہتے ہیں اس وقت جبکہ پنچائیت بند دروازوں میں ہورہی تھی ایک جولاہے صاحب تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا اور بہت انہیں جلدی تھی کہ جلدی سے کھولا جائے ۔ تو چوہدری نے کہا کھولو پھر بلائو اس کو کیا کہتا ہے۔ تو اس نے کہا کہ بہت ضروری بات کرنی ہے۔ چوہدری نے کہاکہ دیکھو پنچائیت ہے قتل کا معاملہ ہے۔ اتنی سنگین بات ہے تم ٹھہر کے بات کرلینا۔ تو اس نے جواب دیا چوہدری جی قتلوں گھٹ نئیں اے گل۔ جو بات ہے وہ قتل کے لگ بھگ پہنچ رہی ہے۔ تو انہوں نے کہا اچھا پھربتائو۔ تو پنچابی میں اس نے کہا کہ چوہدری جی پرار جیہڑی تہاڈی مجھ مر گئی سی مڑ کے نئیں ڈٹھی۔ پچھلے سال تمہاری بھینس مرگئی تھی وہ دوبارہ نہیں دیکھی پھر کبھی۔ بات تو ٹھیک تھی قتلوں گھٹ نہیں۔ موت کا ہی ذکر تھا۔ مگر میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ایسی باتیں جو اچانک یہاں پیش کی جاتی ہیں وہ اور نوعیت کی ہوتی ہیں۔ ہمارے محققین جو ہیں وہ تحقیقات جو بھجواتے ہیں ان پر میں بعد میں غور کرتارہتاہوں ۔ لیکن اگر غلطی سے کوئی ایسالفظ مجھ سے بیان ہوجائے جو درستی چاہتا ہو تو پھر میں یہاں بھی کہتا ہوں امام صاحب وغیرہ کو بھی کہ یہ ادب کا تقاضا نہیں ہے کہ آپ خاموش بیٹھے رہیں۔ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ فوراً مجھے بتائیں۔ ایسی صورت میں وہ جو پیش کرنے والے ہیں یہ ان کاکام ہے۔ تو جنہوں نے یہ روایت بھیجی ہے ان پر نہیں ہے میرا کوئی اعتراض۔ پیش کرنیوالوں پر ہے کہ انہوں نے کیوں اتنا اہم سمجھا اس کو کہ فوری طور پر آگے بڑھادیا ہے۔وہ قتلوں والی بات نہیں ہے یہ تو۔ موقعہ محل کے مطابق دخل دینا چاہیے ۔ اس قسم کے بعض دلچسپ واقعات اوربھی ہوتے رہتے ہیں۔سفروں کے دوران فرانس میں بھی ہوا تھا ایک۔ اس وقت تو وقت نہیں ہے مگر۔ عین تقریر پر جب آخری وقت پر پہنچی ہوئی تھی اچانک چٹ مل گئی مجھے ایک عظیم واقعہ ہوگیا ، فوری طور پر توجہ کی جائے۔ وہ چھوڑ دیتا ہوں وہ بیچارے دوست خفت نہ محسوس کریں۔اچھا جی۔ یہ دو روح کے جو ہیں نا قصے میں نے آپ کو بتایا ہے ذکر جہاںملتا ہے۔ تیسرا ایک اور تھاوہ میں نے ۔ہاں رفیع الدرجات ذو العرش یلقی الروح من امرہ علی من یشاء من عبادہ۔ یہاں اسی امرکے ساتھ اس بات کی باندھ دیا کہ یلقی الروح من أمرہ سے مراد اپنے حکم سے نہیں یعنی حکم سے بھی ہے مگر أمر ہی کی ایک قسم ہے روح۔ روح من امرہ۔ علی من یشاء من عبادہ۔ یہاں روح سے مراد حکم الٰہی، الہام الٰہی ہے۔ یہاں وہ روح نہیں ہے جوبچے میں داخل ہوتی ہے یا بچے سے پیدا ہوتی ہے۔ تو قرآن کریم میں یا تو حضرت جبرائیل کو الروح قرار دیا گیا ہے یا الہام الٰہی کو روح قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ آدم کے متعلق فرمایا فاذا سویتہ و نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین۔ کہ جب میں آدم کو برابر کردوں ٹھیک ٹھاک کردوں یعنی انسانی لحاظ سے وہ کامل وجود بن چکا ہو اس وقت تک بھی تم پر اس کی اطاعت لازم نہیں ہے۔ ونفخت فیہ من روحی۔ جب میںاس کو الہام کروں اس میں اپنی روح یعنی اپنا أمر پھونکوں دوسرے معنوں میں مامور بنادوں۔ تو لفظ أمر ہے جو کنجی ہے روح کو سمجھنے کیلئے اس سے زیادہ ہمیںکوئی استطاعت نہیں ہے۔ یہ امرکبھی شریعت والا الہام بنتا ہے، کبھی دوسرا الہام بنتا ہے، کبھی زندگی کی وہ قسم بن جاتی ہے جو پھر قیامت تک جاری رہے گی اور دوبارہ پھر اٹھا کر اس کی جواب طلبی کی جائے گی۔
پس نفس ایک عام لفظ ہے اور روح ایک خاص لفظ ہے جو انسان سے پہلے قرآن کریم میں کسی زندہ چیز کے متعلق استعمال نہیںہوا۔ اس کا تعلق آدم علیہ السلام کے بعد کے دور نبوت سے ہے اور انسان کو جو خاص صلاحیتیں ملی ہیں جن کے نتیجے میں وہ زندہ رکھا جائے گا مرنے کے بعد بھی۔ اور اس کی جواب طلبی ہوگی اور پھر قیامت کے بعد لامتناہی اس کا سفر ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو روح ہے۔تو اس لیے ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے مفسرین کی باقی بحثوں میں۔ اتنا ہی کافی ہے ہمارے لیے کہ نفس اور روح میں یہ فرق ہے اور باقی ادخل الجنۃ فقد فازمیں لفظی بحثیں صرف اٹھائی گئی ہیں کہ جو بھی آگ سے دور ہٹایا گیا جنت ا س کو عطا کی گئی۔ جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہو گیا۔ وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور۔ اور دنیا کی زندگی محض ایک دھوکے کی متاع ہے ۔ یعنی عارضی دھوکے میں مبتلاء کرنے والی یا ایسی جو دیکھنے میں تو حقیقی دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت اس کی کچھ بھی نہیںہے۔ آناً فاناً جدا ہوجانے والی چیز۔ تو یہ وہ زندگی ہے ۔ صرف ایک بحث اس میں باقی رہ جاتی ہے جو Bellنے اٹھائی ہے۔ Richard Bell کی عادت ہے کہ وہ قرآن کریم کی نئی ترتیب دیتا ہے میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اس نے نئے نئے نمبر دیئے ہوئے ہیں اور اس کی کسی نے نہیںدنیامیں سنی۔ اس کے اپنے محققین بھی جب Bell کو پڑھتے ہیں تو ان کو یاد آجاتا ہے ورنہ اس کی کوئی Value کوئی حقیقت ہی نہیں بالکل ،لغواور بے معنی بات ہے۔ مگر اس کے انداز سے کئی باتیں ہمیں قرآن کریم کے حق میں ثبوت کے طور پہ ملتی ہیں کہ دیکھو اس نے کیسی جہالت سے کام لیا ہے۔ بات کو سمجھا نہیں ترتیب بدلی اور مضمون کو بگاڑ دیا۔ جب تک اصل ترتیب کے مطابق نہ پڑھا جائے ، وہ مضمون بنتا ہی نہیں۔ اب ترتیب اس نے خود ایک دے دی ہے۔ وہ ترتیب یہ ہے کہ Verse 186 کو اس نے 183بنادیا ہے اور 185کو 182بنادیا ہے اور کہتا ہے کہ اس موقعہ اور محل میں ان کا کوئی جوڑ ہی نظر نہیںآتا، سمجھ ہی نہیںآتی کہ کیا بات ہے اور 182کو 183 سے کوئی نسبت نہیں۔ مراد ہے 185 کو اس کے نزدیک 186 سے کوئی تعلق نہیں اور دیگر جو باتیں ہورہی ہیں ان سے بھی یہ مضمون بے تعلق ہے ۔ اس پہلو سے میں آپ کو بتاتا ہوں ۔ 185 آیت یہ ہے فان کذبوک فقد کذب رسل من قبلک جاء و ا بالبینات و الزبر والکتاب المنیر ۔ اگر وہ تیری تکذیب کریں تو اس سے پہلے بھی تو رسولوں کوجھٹلایا گیا ہے۔ جاء و ا بالبینات وہ روشن نشان لے کر آئے اور زبور لے کے آئے۔ زُبر یعنی کئی قسم کی زبوریں ان کو عطا کی گئی (جمع کے صیغہ میں)۔ والکتاب المنیراور کھلی کھلی روشن کتاب لے کرآئے تھے۔ یہ تین بنیادی چیزیںہیںجو رسالت کیساتھ وابستہ ہیں۔ ان کے دائرے ہی میں رہے ہیں رسول۔ کوئی رسول یہ چیز لے کے آیا، کوئی وہ لے کے آیا مگر ان میں سے بھی ایسے ہیں بلکہ بھاری اکثریت بحیثیت نوع تم ان سے یہ سلوک کرتے رہے کہ تم پہلے رسولوں کو جھٹلاتے رہے ہو۔ ایک عام دستور ہے۔ اس میں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ سو فیصد رسول جھٹلائے گئے یا نہیں۔ رسل میںمضمون اتنا ہی ہے کہ رسولوں کی نوع پہلے گزر چکی ہے اور رسولوں سے تم ایسا سلوک کرتے آئے ہو۔ اس کے بعد آیت ہے کل نفسٍ ذائقۃ الموت۔ دلیلیں پہلے گزر چکی ہیں اسی سورۃ میں مباہلے کا ذکر بھی آیا ہے۔ تمام جو بھی انسان کوشش کرسکتا تھا کسی کو سمجھانے کی وہ ساری کوششیں اس سے پہلے پہلے گزرچکیں۔ ان کے جھگڑوں کی باتیں ان کے بار بار طعن آمیزیوں کا ذکر گزر چکا ہے ۔اب صرف یہ باقی رہ جاتا ہے کہ پھر اس کا فیصلہ کیسے ہوگا۔ وہی بات اللہ فرمارہا ہے۔ کل نفسٍ ذائقۃ الموت۔ تمہیں اب گھبرانے کی بات کوئی نہیں۔ اب موت ہی فیصلہ کرے گی ہمارے درمیان۔ اب اس منزل پرآگئے ہیںجہاںیقینی بات ہے کہ میں نے بھی مرنا ہے اور تم نے بھی مرنا ہے اور یہی وہ مضمون ہے جو قرآن کریم دوسری جگہ بعینہٖ اسی طرح بیان کرتاہے کہ وہ بھی مرنے والے ہیں اور اے محمد ﷺ تو بھی مرے گا اور پھر یہ فیصلے ہوں گے کہ کون سچا تھا اور کون جھوٹا تھا؟ تو یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جن پر حجت تمام ہوچکی تھی، جن سے ساری بحثیںاپنے انجام کو پہنچیں مگر انہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا ۔ فرمایا و انما توفون اجورکم یوم القیامۃ اور مسلمانوں کو ساتھ یہ بتایا ہے کہ تمہیںجوتمہارے تمام تر اجور جو ہیں وہ قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ حضرت امام زمخشری کی اس بات سے مجھے پوری طرح اتفاق ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ صرف قیامت کو ملیں گے بلکہ توفون کا جو مضمون ہے کہ پورے پورے اصل حق جو ہے وہ تو تمہیں قیامت ہی کو ملے گا۔ یہاں نمونے ہیں خدا کے عدل کے جو تم چکھتے ہواور اس سے بھی خوش ہوتے ہو۔ لیکن فرمایا ومن زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقد فاز۔ جو آگ سے بچایا جائے اور جنت میںداخل ہو وہی ہے جو کامیاب ہوگا۔ تو جب فیصلوں کا دن آگیا تو پھر دلیلیں ختم ہوجائیں گی۔ مرنے کے بعد ایسے فیصلے ہوں گے جو کھلم کھلا دو ٹوک ایک کو اہل جنت بنارہے ہوں گے، ایک کو اہل جہنم بنارہے ہوں گے۔ تو مضمون میںاس کا کوئی تعلق ہی دکھائی نہیںدیتا۔ نہایت ہی واضح اور کھلم کھلا تعلق ہے اور آگے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و ما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور۔ دنیا کی زندگی میں تم نے اگربغلیں بجانی ہیں، کچھ دیر عیش و عشرت کرنی ہے تو کرلو۔ اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔عارضی دور ہے آیا او رگزر گیا اور بعد میںیہی لگتا ہے کہ دھوکا ہی تھا اور اکثر شعراء نے بھی یہی بات بیان کی ہے اور اکثر سوچنے والوں نے بھی ، اہل فکر نے بھی کہ مرتے وقت پتہ چلتا ہے کہ دنیا کچھ بھی نہیں تھی۔ آئی گئی اور یونہی ایک تماشا سا تھا۔ خواہ مخواہ اتنی اہمیت دی، خواہ مخواہ اتنے نقصانات اٹھائے اور آخری وقت میں سارے حسرت سے مرتے ہیں۔ نیک بھی حسرت سے مرتے ہیں اس خیال سے کہ نیکیاںاور بھی کرسکتے تھے جن سے محرورم رہ گئے اور بد اور طرح کی حسرت سے مرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بدیوں کا موقعہ نہیںملا ، بعض کہتے ہیں اوہو اب پتہ چلا کہ بدیوں سے تو ہم نے اپنی عمر ضائع کردی اور اب جواب طلبی کے وقت کو پہنچ گئے ہیں۔ اب بے اختیاری ہے واپس نہیں لوٹ سکتے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
لتبلون فی اموالکم و انفسکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فان ذلک من عزم الامورO آل عمران: 187
کہ تمہیں آزمایا جائے گا اموال سے بھی اور جانوں سے بھی ۔مرا د یہ ہے تمہیں کچھ تکلیفیں پہنچیں گی۔ جن کا تعلق جان سے ہوگا یعنی جانی تکلیفیں اور اموال سے بھی ہوگا۔ اور اس کے علاوہ جذباتی تکلیفیں بھی بہت پہنچیں گی اور یہ بھی اسی تسلسل کی بات ہے کہ ہم نے جب فیصلہ قیامت پہ چھوڑ دیا ہے ۔ اب تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ ا ب باز نہیں آئیں گے۔ اس دنیا میں تو انہوں نے تمہارا پیچھا پھر بھی نہیں چھوڑنا۔ ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب خاص طور پر جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی ان سے تم آئندہ زمانوں میں بھی بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور یہ جو Commentries کے میں حوالے دیتا ہوں یہ قرآن کریم کا ایک اعجاز ہے کہ بتایا ہے کہ اہل کتاب مسلسل مسلمانوں پر دلآزار حملے کرتے رہیں گے اور آئندہ زمانوں میں بھی ان کے حملوں سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی رہے گی۔ ومن الذین اشرکوا اذًی کثیراً اور ان سے بھی تکلیف تمہیں پہنچے گی جنہوںنے شرک کیا ہے۔ اور یہ صرف اہل مکہ کی بات نہیں اس زمانے میں بھی سب سے زیادہ دلآزاری مسلمانوں کی اور اسلام کی بے حرمتی اہل کتاب کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس کے بعد مشرکین کی طرف سے اور باقی سارے مذاہب بالکل الگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب یہ دیکھیں کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے ۔ Buddhism بھی بہت وسیع مذہب ہے ۔ دنیا کے مذاہب میںاس کی تعداد اگر عیسائیت سے زیادہ نہیں تو کم بھی نظر نہیں آتی مجھے تو۔ کم و بیش مقابلہ ہے اور بہت وسیع علاقوں پہ پھیلا ہوا ہے۔ مگر ان کوکوئی جنون نہیں ہے اسلام پر حملے کرنے کا۔ اسی طرح دیگر مذاہب ہیں جن کے کچھ باقیات ہیں۔کچھ اور نئی دنیا کے یاپرانی دنیائوں کے مذاہب ہیں۔ اگر اسلام دشمنی میںکوئی مذہب آگے آئے ہیں تو وہ اہل کتاب کے مذاہب ہیں یا مشرکین ہیں۔ ان دو کو خداتعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پہ بیان فرمادیا تھا کہ تمہیں ضرور ان دونوں سے تکلیف پہنچے گی۔ أذًی کثیرًا بہت تکلیفیں اٹھائو گے ان کے ہاتھوں۔ و ان تصبروا و تتقوا اگر تم صبر سے کام لو اور تقویٰ اختیار کرو فان ذلک من عزم الامور تو یہ بہت بڑے ہمت کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ ان جذباتی روحانی اذیتوں کے نتیجہ میں کہیں بھی تلوار کے جوابی حملے کا ذکر نہیں۔ قتل کا ذکر نہیں، سزائیں دینے کاذکرنہیں ہے۔بلکہ صبرکا اور تقویٰ کا ذکر ہے۔یہاں جوابی حملے کا اس لیے ذکر نہیں کہ دوسری آیات میں یہ مضمون الگ بیان ہوچکا ہے کہ جادلھم بالتی ھی احسنجب مقابلہ کرو ان لوگوں کا تو بہترین دلیلیں لے کر ان سے آراستہ ہوکر ان سے مقابلہ کیا کرو۔اس لئے یہ مطلب نہیں کہ دلیلوں سے مقابلہ نہیںکرنا مگر فرمایا کہ ایسی حالت بھی ہوگی کہ جہاں تمہیں مقابلے کی طاقت نہیں رہے گی بظاہر ۔ تم سنو گے تم میں جواب دینے والے نہیںہوں گے۔ اس وقت صبر سے کام لینا ہے اور جلد بازی میںجو روحانی بدلے ہیں وہ جسمانی طو رپر لینے کی کوشش نہ کرنا۔ عملاً اس وقت یہی ہورہا ہے ۔ ابھی حال ہی میں آج کل بہت اس مضمون کو اٹھایا جارہا ہے کہ چودہ سالہ عیسائی لڑکے کو رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کے یا اسلام کی ہتک کے الزام میں پکڑا گیا اور عدالت نے اس کی پھانسی کا فیصلہ دے دیا۔ بہت شور ہے دنیامیں ۔ جب احمدیوں کے اوپر یہ سب کچھ ہوتا تھا تو ساری دنیا خاموش بیٹھی تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جو شور ہے۔ یہ محض انصاف کی محبت میں نہیں ہے بلکہ اہل کتاب کے اس بغض کے نتیجہ میں ہے جو قرآن سے ہے اور اسلام سے ہے۔ اور ظلم یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے ان لوگوں کے ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں۔ قرآن نے کہا تھا کہ دلآزاری ہوگی تو تم صبر اور تقویٰ سے کام لینا اور انہوں نے نئے نئے حکم ایجاد کرکے قرآن کی طرف منسوب کردیئے ہیں کہ بچے کی طرف بھی اگر گواہی منسوب ہو اور گواہی چند ایسے لوگوں کی جو سارا معاشرہ ہی جھوٹا ہوچکا ہے۔ مذہبی اختلاف کی بناء پر ان کی گواہی کی کوئی بھی قدر و قیمت ویسے ہی نہیں رہتی۔ لیکن اگر ہو بھی تو قرآن نے اس کا یہ حل بیان ہی نہیں فرمایا کہیں۔ کسی جگہ گستاخی اللہ کی گستاخی، رسول کی گستاخی، قرآن کی گستاخی کی سزا دینے کا اختیار بندے کو نہیں دیا گیا۔ ہر جگہ جہاں بھی ذکر آیا اللہ اپنے ہاتھ میںا س بات کو رکھتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے اس موقعہ پر اگر احسن طریق پر جدال نہیں کرسکتے جیسا کہ اس وقت احمدی اللہ کے فضل سے سب دنیا میں احسن جدال میںمصروف ہیںتو ان کیلئے صبر اور تقویٰ کے سوا او رکوئی راہ نہیں ہے۔ اور اس کو جب چھوڑیں گے مزید نقصان اٹھائیں گے اور اس وقت یہ ہورہا ہے، ساری دنیا میں اسلام کی بدنامیاںہورہی ہیں۔ اور بڑھ بڑھ کے حملے کرتے ہیں اور ان کے مولوی جو ٹیلیویژن پر پیش کئے جاتے ہیں بڑی ہٹ دھرمی کے ساتھ اور ضد کے ساتھ مزید اسلام کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں کہ ہاں ہاں اسلام کا یہی حکم ہے اور مثالیںدیتے ہیں کہ امریکہ میں Rape کی سزا نہیں ہے قتل؟ وہ کہتے ہیں کہ قتل تو نہیں مگریہ یہاں تک بھی کہا گیا Guilty تو ہے۔ دیکھ لو پھر! اگر کوئی گستاخی کرے گا رسول کی اور اسلام کی تو ہمارا مذہب کہتا ہے کہ اس کو یہ جسمانی سزا دو۔ اگر یہ ہو جائے سلسلہ چل پڑے تو گستاخی کی تعریف کیا ہے؟ کیا وہ اختلاف جو بڑے بڑے اختلافات ہیں، وہ گستاخیاں ہیں کہ نہیںیعنی خدا کا بیٹا بنانا جس کو قرآن کریم کہتا ہے کہ بہت ہی بہت بڑے گناہ کی بات ہے گویا کہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے اتنی بات ہے۔ یہ گستاخی ہے کہ نہیں اور مشرکین کے عقیدے گستاخیاں ہیں کہ نہیں۔ تمام وہ مذاہب والے جو رسول اللہ ﷺ کواپنے عقیدے کی رو سے جھوٹا سمجھتے ہیں او راس با ت پر مصر ہیں ۔ یہ سب گستاخیاں ہیں کہ نہیں؟ اگر گستاخیاں ہیں تو پھر تلواریں پکڑو اورساری دنیا کو قتل کرو۔ اگر انصاف ہے دل میں اور حقیقت میں شرافت اور غیرت ہے دین کی تو پھر یہ نہ کرو کہ اپنی عدالتوں میں بعض اقلیتوں کو پکڑ و اور دھکیلو اور ان کے خلاف سچی جھوٹی گواہیاں اکٹھی کرکے اُن پرفیصلے دو۔ اگر تم سچے ہو اس دعویٰ میں کہ قرآن ہتک اور گستاخی کے نتیجہ میں قتل واجب قرار یتا ہے تو ساری دنیا تمہاری دین دار بن جاتی ہیں۔ جب تک یہ لوگ باقی ہیں جو خد اکے منکر ہیں ،خدا کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے ہیں، بیٹا بناتے ہیں، شریک ٹھہراتے ہیں اور سب کے عقیدوں میںیہ بات داخل ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نعوذ باللہ Imposter تھے۔ ان کو یہ گستاخی دکھائی نہیںدیتی۔ عجیب یہ جہالت کا دور ہے اور اس کے باوجود یہ نئے نئے اپنے قوانین گھڑتے ہیں۔ قرآن کریم نے واضح طور پر ان کو متنبہ کیا تھا ۔ تم ایسی تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اس تاریخی دور میں حقیقتاً اگر اسلام کی دلآزاری کی کوئی کتاب لکھی گئی ہے تو یا اہل کتاب کی طرف سے لکھی گئی ہے یا ہندوئوں کی طرف سے۔ ہندو جواس زمانے میں مشرک ہونے کے لحاظ سے اہل مکہ کاایک نیا دور ہیں یعنی وہی شرک کے اندا زجو ان کے تھے وہ ان کے بھی ہیں۔
تو قرآن کی یہ پیشگوئی بھی ایک اعجاز ہے کہ آئندہ یہ ہوگا او رتم اہل کتاب سے سنو گے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ صبر سے کام لینا اور تقویٰ سے کام لینا۔ جہاں تک گزشتہ مفسرین کا تعلق ہے اس میں ایذاء کی بحث اٹھائی گئی ہے۔ دکھ تکلیف جو جسم یا اس کے نتائج و متعلقات میں ہو، دنیاوی ہو یا اخروی ہو۔ دونوں صورتوں میں اذًی جسمانی بھی ہوسکتی ہے اور روحانی اذیت پہنچانا بھی اس میںشامل ہے۔ اورقرآن کریم نے تو صدقات دے کر اس کو جتانے کو بھی اذًی کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ ولا تبطلوا صدقٰتکم بالمن والاذی۔ اپنے صدقات کو احسان جتا کر والاذی اور اس کے نتیجہ میں ان پر بوجھ ڈال کر یا ان کی تحقیر کرکے اپنے صدقات کو ضائع نہ کیا کرو۔ والذین یوذون رسول اللہ۔ یہ آیت بھی مفسرین نے لکھی ہے کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺکودکھ پہنچاتے ہیں، ہتک رسول، قرآن کریم بیان فرمارہا ہے مضمون کو اسی طرح چھیڑرہا ہے کہ وہ لوگ جو گستاخی رسول کے مرتکب ہوتے ہیں اتنی زیادہ کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو آپ کے صبر کے باوجودشدید دکھ پہنچتا ہے ان کے ساتھ کیا کرو لھم عذاب الیم ان کو اللہ کی طرف سے عذاب دیاجائے گا۔ اللہ ہی ہے جو ان کو دردناک عذاب میں مبتلاء کرے گا۔ کہیں ان کویہ نہیں فرمایا ان کے متعلق کہ تلواریں اٹھائو اور ان کی قتل و غارت شروع کردو۔ اور بھی مثالیں أذًی کی بہت سی دی گئی ہیں۔ اس کو چھیڑنے کی مزید ضرورت نہیں۔ ولا یضروک شیئًا الا اذًی بھی آتا ہے قرآن کریم میں کہ اے رسول تجھے وہ کوئی گہرا نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔ باتیں کریں گے دلآزاریاں ہوں گی۔ اذی سے مرا دمعمولی جسمانی تکلیفیں بھی ہوسکتی ہیں اور دل کی آزاری بھی اذی میں شامل ہے۔ اس لیے نتیجۃًمراد ہے اسلام کو نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔اور عزم الامور جو قرآن کریم نے فرمایا ہے اس میں کہتے ہیں عزیمت سے مراد ہوتی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے فاذا عزمت فتوکل علی اللہ وغیرہ کے حوالے دے کر کہ اس سے مراد یہ ہے کہ مضبوطی سے انسا ن اپنے کسی ارادے پر قائم رہے اور عزم سے مراد مضبوط فیصلہ کرنا ہے اس میں قائم رہنے کا مضمون اس لیے ہے کہ فتوکل علی اللہ فرمایا دیا۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ۔ اے رسول جب تو مشوروں کے بعد فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر اس پر قائم رہ اس لیے کہ تیرا توکل پھر اللہ پر ہے اور اللہ کے توکل کا تقاضا ہے کہ تو اس فیصلے سے پھر منحرف نہ ہو اور اس میںلغزش نہ کھائے ورنہ توکل ٹوٹے گا۔ یہ مراد ہے۔ تو عزم ایک ایسے فیصلے کو کہتے ہیںجس پر انسان مضبوطی سے قائم ہوجائے اور عقدۃ النکاح کے سلسلے میں بھی عزم کا ذکر ملتا ہے۔ لا تعزموا عقدۃ النکاح یعنی نکاح کرنے کے سلسلے میں۔ اس لیے پختہ سوچے سمجھے ارادے کو بھی عزم کہا جاتا ہے۔ او رعزیمت ایک قسم کے تعویذ گنڈے کو بھی کہتے ہیں ۔ سب جگہ مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ ایذاء رسانی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے صبر اور تقویٰ کی ہی ہدایت فرمائی ہے۔ بعض استثنائی واقعات ملتے ہیں جو بغاوت اور عہد شکنی کے نتیجہ میں لوگوںکو سزادی گئی ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی دلآزاری کے نتیجے میںنہیں بلکہ عالم اسلام کو نقصان پہنچانے مثلاً کعب بن اشرف کاواقعہ ہے۔ وہ اپنے شعروں کے ذریعہ اور دوسری سازشوں کے ذریعہ تمام عرب قبائل کو انگیخت کرتا تھا کہ اسلام ،مسلمانوں پر حملہ آور ہوں او رخود رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک معاہدہ کے پابند بھی تھے وہ لوگ ۔ ان کو دیس نکالا ملا تھا لیکن بعض شرطوں کے ساتھ کہ وہ اسلام کے خلاف سازشوں میںشریک نہ ہوں گے۔ تو جہاں اس قسم کے بہت سارے محرکات اکٹھے کام کرتے ہیں وہاں بعض دفعہ یہ علماء ایک کو بیان کرکے نتیجہ اس کی طرف منسوب کردیتے ہین کہ سزا اس لیے ہوئی تھی کہ اس نے گستاخی کی تھی۔ اگر یہ بات تھی تو ہر گستاخ کو کیوں سزا نہ ملی ۔ وہ جو مدینے میں چاروں طرف گستاخیاں کرتے پھرتے تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ آئے دن سازشیں کررہے ہیں، تکلیفیں پہنچارہے ہیں، تو ان کو پہچان بھی لیتا ہے جانتا ہے۔ ان کو جب کہا جاتا ہے کہ رسول سے معافی مانگو یا استغفار سے کام لو تو سر مٹکاتے ہیں۔ معروف لوگ تھے! ان کو کیوں قتل نہ کیا؟ پس عقل کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی طرف وہ بات منسوب کی جائے جو آپ کے کردار کے مطابق درست ثابت ہوسکتی ہو اور عمومی کردار کی نفی نہ کرتی ہو۔ پس یہ وہ ایک تشریح ضروری تھی کیونکہ بعض جگہ مفسرین نے کعب بن اشرف کے سوال کو بھی اٹھایا ہے اس ضمن میںلیکن نتیجہ وہی نکالاہے کہ صبرہی کی تلقین کی۔
مشکوٰۃ میں،جامع ترمذی میں او ردیگر احادیث کی کتب میں تفصیل سے ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قریش کیا کیا تکلیفیں دیاکرتے تھے اور پھر مدنی دور میں یہودی آپ کو کس کس طریق سے تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ علیکم السام کہہ دیا کرتے تھے کہ نعوذ باللہ من ذلک تجھ پر *** ہو اور رسول اللہ ﷺ سمجھتے تھے اس بات کو۔ ایک موقعہ پر آپ کو اسی طرح کسی یہودی نے السام علیکمکہا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح نہ کرو ، ایسے سخت کلامی نہ کرو تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے سنا نہیں تھا کہ اس نے کیا کہا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں میں نے سنا تھا۔ اس نے کہا تھا علیکم السامتم پر ہلاکت ہو مگر تم نے سنا نہیںمیں نے کیا کہاتھا؟ میںنے وعلیکم تو نہیں کہا۔ میں نے علیکم کہا ہے۔ یعنی اس تفصیل سے نہ سہی مضمون یہی ہے اس حدیث کا۔ لفظاً لفظاً تو مجھے یاد نہیں۔ تو میں نے بھی تو علیکم کہہ دیا تھا کہ تم پر ہو۔ تو اس سے زیادہ جواب اور تم کیا چاہتی ہو ؟ ایک کی *** ایسی ہے جو ٹکر اکر خود اس پر پڑنی ہے خواہ جواباً دعا کی جائے یا نہ کی جائے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور رسول اللہ ﷺ کا یہ کہہ دینا علیکماس سے بڑی سزا تو دنیا میں کسی کو مل ہی نہیںسکتی۔ وہ جو واپس پھینکی ہے، یہ نشانے پر پڑی ہے۔ بعض دفعہ گرینیڈ پھینکتے ہیں نابعض سپاہیوں کے اوپر، تو وہ وہی گرینیڈ اٹھا کر واپس پھینکتے ہیں۔ اور وہ پھٹتا اس وقت ہے جب پھینکنے والے کے منہ پر پڑتا ہے۔ تو یہ اس کی مثال ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے کسی جگہ بھی نہ زبانی کلامی سختی کرنے کو پسند فرمایا یعنی سخت کلامی جس کو کہتے ہیں۔ آپ نے کبھی بھی جواب کو ناپسند نہیں فرمایا۔ اچھے اچھے جواب صحابہ دیا کرتے تھے رسول اللہ ﷺ کو بیان فرماتے تھے مگر جہاں گالی گلوچ سامنے شروع ہوگئی اس کو آپ نے پسند نہیں فرمایا۔ اور جسمانی طور پر بھی جواب کو پسند نہیں فرمایا جیسا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے واقعہ میںثابت ہے۔ اب یہاں روح المعانی لکھتی ہے کعب بن اشرف کا ذکر کرکے بھی کہ یہود کے شریر کعب بن اشرف اور دیگر یہود کے شریر جو رسول اللہ ﷺ کی ایذاء رسانی کیا کرتے تھے اس کے متعلق خداتعالیٰ نے صبر اور تقویٰ کی تلقین فرمائی ہے۔ اس حوالے سے کہہ رہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہو کہ کعب بن اشرف سے تجھے جوذاتی دکھ پہنچتا ہے اس وقت تونے صبر سے کام لینا ہے اور رسول اللہ ﷺ ا س کو نظر انداز کرکے اس سے انتقام کا فیصلہ کرلیں۔ حضرت میاں بشیرا حمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مضمون کو بہت عمدگی سے چھیڑا ہے اور حل فرمایا ہے کہ کعب بن اشرف کاجو قتل ہے وہ ایک سیاسی شرارت اور عہد شکنی اور دغا بازی کے نتیجہ میں ہے۔ وہ آنحضرت ﷺ کی ذاتی تضحیک یا تمسخر یا ایذاء رسانی سے تعلق نہیںرکھتا۔ چنانچہ مفسرین بھی دیگر یہود کوساتھ شامل کرتے ہیں۔ان سب کو کیوں نہ قتل کروادیا؟ کیوں نہ دوبارہ فوج کشی کی اس وجہ سے سزاد ینے کیلئے؟ جب عہد شکنی کی ہے توپھر خیبر کی طرف فوج کشی ہوئی ہے لیکن دکھ پہنچانے کے نتیجہ میں نہیں ہوئی۔ یہ وضاحت میں ضروری سمجھتاہوں کیونکہ اکثر یہ بحثوں میں بات آجاتی ہے ۔ یعنی اہل کتاب سے بھی گفتگو کے وقت کعب بن اشرف کے حوالے سننے پڑتے ہیں۔ باقی اور کوئی ایسی بات نہیں ہے ۔ سارا مضمون اسی سے بھرا ہوا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عزم الامورسے متعلق یہ ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ’’حقوق اللہ کو بجالانا بھی عزم الامورہے‘‘۔ یعنی ان دکھوں کے باوجود اللہ کے حقوق کو اگر بجالاتے رہو اور اس میں کوئی کمی نہ آنے دو یہ عزم الامورہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور وفا میں تم پرکوئی ابتلاء غلط رنگ میں اثر انداز نہ ہوسکے۔ اللہ سے محبت اوراس سے تعلق کو کوئی ابتلاء زخمی نہ کرسکے۔ یہ عزم الامور میں داخل ہے۔ باقی سب وہی باتیں ہیں جو پہلے ہوچکی ہیں میرے خیال میں ۔ کوئی نئی بات نہیں ہے۔اور آج بڑی دیر کے بعد آخر انگلی اٹھ ہی گئی ہے ۔جسوال صاحب نے یاد دلادیا ہے۔ مجھے خیال آیا کہ اصل میں وقت تو ہمارے پاس ہے لیکن دوسرے بعض پروگرام بھی قربان کرنے پڑتے ہیں۔ جو پہلے سے اس پروگرام میں آئے ہوں۔ لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ بعض جگہ مثلاً پاکستان میں روزے کا وقت ہوجاتا ہے اور پھر بعض دفعہ اگر ہم لمبا چلائیں تو یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ نماز، نماز مغرب اپنے آخری وقت کو پہنچ چکی ہو۔ یا پہلے ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ آخری وقت سے بھی گزر جاتی تھی۔ تو اس لیے مناسب یہی ہے کہ ایک بجے کے بعد لگ بھک 15-10منٹ کے اندر ہی ہم اس درس کو ختم کردیا کریں۔ اس لیے اب اجازت چاہتا ہوں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ17 رمضان بمطابق18؍ فروری 1995ء
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
واذ اخذ اللہ میثاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مایشترونO آل عمران:188
ترجمہ اس کایہ ہے کہ وہ وقت یاد رکھنے کے لائق ہے اذ اخذ اللہ میثاق الذین جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا عہد لیا تھا ان سے جن کو کتاب دی گئی تھی۔ وہ عہد کیا تھا؟ لتبیننہ للناس کہ تم اسے ضرور لوگوں کے اوپر کھول دو گے، اس کتاب کے مضامین کو یا اس کتاب کی تلاوت کو کھلم کھلا لوگوں کے سامنے پیش کرو گے۔ ولا تکتمونہ اور نہ اس کے ظاہر کو چھپائو گے نہ اس کے باطن کو چھپائو گے۔ تبینن کا تقاضا ہے کہ تکتمون کا یہ ترجمہ کیا جائے۔ تبینن کا مطلب ہے اس طرح کھول کے بیان کرو گے کہ ہر بات سے پردہ اُٹھا دو گے اور کوئی ظاہری مطلب ہو یا لفظی عبارت ہو یا معنوی بات ہو، کسی پر پردہ ڈھانکنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ یہ تبینن کے مفہوم میں داخل ہے۔ اس کی مزید تکرار اس کا برعکس لفظ پیش کرکے فرمایا کہ یہ بھی کہا گیا ولا تکتمونہ چھپانا کچھ نہیں ہے۔ فنبذوہ وراء ظھورھم انہوں نے اس عہد کو اچھال کے اپنے پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔ واشتروا بہ ثمنًا قلیلًا اور اس کے بدلے معمولی قیمت قبول کرلی۔ فبئس ما یشترون تو جو کچھ بھی وہ لیتے ہیں اس کے بدلے وہ بہت ہی برا ہے۔ یہ ہے آیت جس کی زیادہ تر بحث ’’میثاق‘‘ کے لفظ کے گرد گھومتی ہے اور دوسرے لغوی وہ الفاظ ہیں جن کی لغوی بحث بھی آتی ہے۔ تو حل لغات سے پہلے ہم شروع کرتے ہیں۔
’’میثاق‘‘ لفظ کو تو پہلے بھی آپ بار بار سن چکے ہیں اور اس کی تشریح بھی ہوچکی ہے۔ پختہ عہد ایسا جس سے زیادہ پختہ عہد تصور میں نہیں آسکتا۔ اس کیلئے لفظ میثاق بولا جاتا ہے۔ یعنی قطعی طور پر جو Bindingہوجائے دونوں فریق کے اوپر۔ اس سے ٹلنے کی، اس سے انحراف کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ وثاق لفظاً بندھن کو کہتے ہیں اور وثقٰی نہایت مضبوط چیز کو۔ موثق عہد یا بندھن۔ موثق کا لفظ بھی آتا ہے۔ میثاق کا لفظ بھی آتا ہے۔ واثق کا مطلب ہے کسی سے عہد و پیمان کیا۔ اوثق مضبوط رشتہ باندھا۔ یہ غریب القرآن نے مختلف معانی اس کے پیش کئے ہیں۔ وثق الشیٔ وثاقۃ صار وثیقا ای محکما وثق الشیٔ و ثاقۃً میں مزید معنی کی شدت پائی جاتی ہے ۔ جب اس کے Infinitive کو دہرایا جائے۔ مصدر کو دوبارہ بیان کیاجائے تو اس صورت میں معنوںمیں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس نے عہد کو بہت محکم کردیا۔ ایسا کہ وہ پھر ٹوٹ نہ سکے۔ ارض و ثیقۃ اس زمین کوکہتے ہیں جس پر بہت جھاڑ ہوں اور Thick Foliage ہو جیسے افریقہ میں Bush ہوتی ہے اس کیلئے وثیقۃ لفظ استعمال ہوگا کہ جس میں داخل نہ ہوسکے انسان یا داخل ہونا مشکل ہو۔ یعنی بہت اچھی طرح گاڑھا جنگل ہو تو وثیقۃ کثیرت العشبوہ زمین جو جھاڑیوں سے بھرکر، اتنی قریب قریب جھاڑیاں ہوں کہ وہ گاڑھی ہوجائیں۔وثق الشیٔ وثاقۃیہ وہی پہلے معنی ہیںارض و ثیقۃ کے معنی میں بیان کرچکا ہوں۔ اذٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے اس آیت میں۔ اذٰی کے متعلق ترجمہ ہے کہ الشر الخفیف۔ فان زادَ فھو ضرر۔ اذٰی سے مراد تھوڑی تکلیف ہے۔ شر تو عموماً فسا دکے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس لیے یہاںجو شر کا لفظ ہے وہ تکلیف کے معنوں میں ہے، فساد کے معنوں میں نہیں۔ أشرّ اُرید بمن فی الارض ام اراد بھم ربھم رشدًا۔ وہاں وہ شرلفظ تکلیف پہنچانا، ضرر پہنچانا۔ یہ لفظ شر کے اندر ہے ۔جو زیادہ شدت ہوجائے تو پھر یہ ضرر ہوجاتا ہے لیکن خفیف ہو تو اس کو اذٰی کے ساتھ یاد کرتے ہیں ۔ لفظ اذٰی سے ۔ قرآن کریم میں جو حیض کے متعلق لفظ استعمال ہوا ہے، وہاں بھی لفظ اذٰی استعمال ہوا ہے کہ لوگ کہتے ہیں یہ حیض کیا ہے؟ یہ کوئی پلیدی نہیں ہے۔ کوئی ناپاک چیز نہیں ہے۔ یہ اذًی ہے ۔ ایک معمولی سی، عورت کیلئے ایک تکلیف کا دور ہے۔ وہ اس سے گزرتی ہے لیکن اس کو پلیدی یا ناپاکی نہ سمجھنا۔ یہ مفہوم ہے اصل میں اور جب بڑھ جائے تو وہ ضرر ہوجاتا ہے۔ النبذبے پرواہی سے پھینکنا۔ جیسا کہ میں نے کہا نا۔ کسی چیز کو toss away یا chuck away کرنا۔ کوئی ضرورت نہیں ۔ یا dump کردینا۔ اس کیلئے لفظ نبذاستعمال ہوتا ہے۔ تو انہوں نے اس عہد کی کوئی قیمت نہ سمجھی۔ اسے انہوں نے یو ں اٹھا کر پیچھے پھینک دیا کہ چھوڑواس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نبذ طرحہ و رمی بہٖ وہی tossing یا chucking away ۔ یہی عربی میں معنی اس کے دیے گئے ہیں۔ دوبارہ اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ کہتے ہیں نبذ کا معنی عہد توڑنا ہے۔دراصل صرف توڑنا ہی نہیں بلکہ تحقیر کے ساتھ، تخفیف کے ساتھ اس پر سے اعتما د اُٹھ جائے کہ کوئی اس کا فرق پڑے گا اور بیکار اور بے معنی چیز سمجھ کے اس کو اٹھا کے پھینک دیا جائے۔ یہ معنی اس میں پائے جاتے ہیں، نبذمیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے جو اس کامتفرق جگہ پہ استعمال فرمایا ہے وہ سورۃ طٰہٰ میں آیت 97 میں ہے ۔ فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتھا۔ یعنی سامری سے جب سوال کیا گیا کہ تم نے یہ کیا ظلم کیا ہے؟ یہ پیچھے جو بچھڑا بنالیا ہے۔ تو اس کے جواب میں اس نے کہا فقبضت قبضۃً من اثرالرسول میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھری ۔ فنبذتھا تو اس کے بعد نبذتھا پھر ضمیر پھیر ی جاتی ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں ۔ اس مٹھی کو بچھڑے پر پھینکا تو بچھڑا بول اٹھا ۔ یہ مراد نہیں ہے ۔ نبذتھا سے مراد اپنا جو پہلا طریق تھا اس کو ترک کردیا۔ جو ہدایت کی راہ تھی اس کو ترک کردیا۔ اب یہ بحث اس تفصیلی مطالعہ سے سامنے آئے گی کہ ھا کی ضمیر میںکیا مراد ہوسکتی ہے۔ مگر عامۃ الناس میں جو ترجمے پیش کئے جاتے ہیں یا تفسیر، اس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سامری نے یہ کہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جن جگہوں پہ چلا کرتے تھے وہاں سے خاک کی مٹھی لی اور وہ جو سونے کا بچھڑا بنایا، اس کے اوپر جب میں نے ڈالی تو اس خاک کی برکت سے وہ نبوت کرنے لگا۔ یعنی یہ بالکل ایک تماشہ سا ترجمہ ہے۔ جو اس طرف منسوب کیاجاتا ہے۔ مگر نبذتھا جو ہے یہ وہی معنی ہے عہد شکنی کا معنی۔ اصل معنی یہی ہے کہ میں نے چونکہ موسیٰ کو سمجھا کہ یہ یہ چالاکیاں نعوذ باللہ من ذلک،یہ یہ کرتا ہے حرکتیں اور میں نے اندازہ لگایا کہ لوگوں کو خواہ مخواہ خدا کی طرف منسوب کرکے باتیں بیان کرتا ہے اور وہ ان حیلوں بہانوں سے وہ قابو آجاتے ہیں۔ تو میں نے کہا میں کیوں نہ بنائوں پھر۔ یہ مرادہے۔ اور اس کے نتیجے میں پھر میں نے ایک بچھڑا بنایا۔ اس میں کوئی آلہ اس نے بنایا تھا ایسا جس سے آواز نکلتی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ دیکھو۔ یہ خد اہے یا خدائی صفات والا ایک وجود بول رہا ہے۔ واما تخافن من قومٍ خیانۃً فانبذ الیھم علی سوائٍ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پوری طرح عہدوں کی پابندی کرنی ہے لیکن اگر کسی قوم سے متعلق تم محسوس کرو کہ وہ خیانت سے کام لے رہی ہے، تو ان سے اس کے مقابل پر ویسا ہی سلوک کرو جیسا وہ کررہے ہیں۔ یہ عہد شکنی نہیں ہے بلکہ یہ عہدوں کی حفاظت کیلئے ضروری ہے کہ جو عہد شکن ہو اس کو اس کی عہد شکنی کا مزا چکھایا جائے مگر اتنا اتنا جتنا جتنا وہ عہد شکنی کرتا ہے یا جیسے جیسے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت ہی اعلیٰ انصاف کی تعلیم ہے کہ عہد شکنی کے آثار دیکھ کر ان پر یلغار نہیں کردینی۔ علی سوائٍ بہت ہی خوبصورت ایک انصاف کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ جتنا بھی تم ان کے اندر عہد شکنی کے آثار پائو اسی حد تک ان سے ویسا ہی سلوک کرو تا کہ ان کو معلوم ہو کہ عہد شکنی کے نتیجے میں یہ یہ تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ غریب القرآن فی لغات القرآن میں لکھا ہے کہ انتبذ کے ساتھ اگر من آجائے تو علیحدہ ہونا مراد ہوتی ہے اس سے ۔ ثمنًا کی بحث ہے۔ یہ بھی پہلے بار ہا گزر چکی ہے۔ یہ لفظ گزرچکا ہے۔ اس پر مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔ کسی قسم کا زر نقد ہو یا متبادلہ یا Barter۔ اس کیلئے لفظ ثمن استعمال ہوتا ہے۔ Value کیلئے بھی لفظ ثمن استعمال کرسکتے ہیں اور Price کے معنوں میں بھی لفظ ثمن استعمال کرسکتے ہیں ۔ یعنی قدر اور قیمت۔ یہاں اس کا جو مادہ ہے وہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ثمن آٹھویں حصے کو کہتے ہیں۔ اور آٹھ حصوں میں سے ایک یعنی آٹھواں حصہ ہی ہوا نا۔ ثامن آٹھواں۔ ثمانیۃ ازواج جو قرآن کریم میںآیا ہے وہ اسی سے لیا گیا ہے۔ و ثمانیۃ ایامٍ حسوما یہ قرآن کریم میں آیت آئی ہے کہ آٹھ دن برابر وہ ہلاک کرنے والی آندھی ان پر چلتی رہی۔ اس کی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ اس کو کیوںچھیڑا گیا ہے مگر یونہی زائد گفتگو ہے ایک۔ ثمانیۃ کے ساتھ اس لفظ ثمن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ مادہ وہی ہوگا مگر ان معنوں میں جن میں قرآن کریم نے لفظ ثمناستعمال کیا ہے یا تجارت میں جو جاری ہے اس کا آٹھویں سے کوئی دورکا بھی تعلق نہیں۔
اب جہاں تک تفاسیر کا تعلق ہے اصل بنیادی طور پر جو بحث اٹھتی ہے یہاں وہ یہ ہے کہ میثاق الذین اوتوا الکتاب سے کیا مراد ہے۔ ہمیں پتہ ہے میثاق النبیینہے ایک، اور ایک میثاق اہل کتاب ہے۔ یہ کونسا میثاق ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے اس کو چھپانا نہیں اس کو خوب ظاہر کرناہے اور چھپانا نہیں۔ فنبذوہ وراء ظھورھم۔ اس سلسلے میں مفسرین دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جویہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کوئی ایسا معین عہد نہیں ہے جولیا گیا ہو، ہمارے علم میں نہیں ہے۔اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء جو تعلیم دیاکرتے تھے وہی تعلیم زور کے ساتھ بیان کرتے تھے اور نصیحت کیا کرتے تھے اس کو چھپانا نہیں ہے۔ تو عمومی تاکید جو انبیاء اپنے اپنے وقت کے لوگوں کو دیا کرتے تھے اس طرف اشارہ ہے کوئی معین میثاق ہمیںاس مضمون کا بائبل میں نہیں ملتا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاںمیثاق کا لفظ ہے اس لیے لازماً میثاق چونکہ معمولی عہد نہیں ہے عام نصیحت نہیں کہا جاسکتا کہ عام نصیحت تھی جو لوگوں کوکی جاتی تھی۔ اس سے تو قرآن کریم کی شان میں ایک حرف آئے گا کہ لفظ میثاق استعمال کیا اور مراد عام نصیحت لے لی تو میثاق تو ضروری ہے وہ کہاں سے ڈھونڈیں۔ انہوں نے یہ اپنی طرف سے دلوں کو مطمئن کیا یہ کہہ کر کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جس میںآنحضرت ﷺ کی پیشگوئیاں ہیں اور وہ تاکیدی عہد تھا کہ جب وہ آئے گا تو ضرور اس کی تائید کرنی ہے گویا میثاق النبیٖن بحوالہ حضرت محمد مصطفی ﷺ جس میں خصوصیت سے آپ کے آنے کی پیشگوئی تھی یہ میثاق ہے او راس صورت میں وہ کہتے ہیں تبیننہ میں ہٗ کی ضمیر آنحضرت ﷺکی طرف بھی جائے گی اگرچہ کتاب کی وساطت سے جائے گی او ریہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے کہ بعض دفعہ ایک مفہوم دو منازل رکھتاہے۔ ایک میں آپ داخل ہوتے ہیں اور پھراگلے کی خبر خود دے دیتا ہے۔ مثلاً و اسمہ احمدکی پیشگوئی ہے۔ اس میں اوّل مصداق حضرت محمد رسول اللہﷺہیں۔ مگرچونکہ آپ کی وہ شان مراد ہے جس نے آخرین میں ظاہر ہونا تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کی وساطت سے آپ کے اس مظہر تک بات پہنچتی ہے جس نے آخرین میں آنا تھا اور وہ بھی براہ راست مخاطب ہوجاتا ہے۔ تو بالکل یہی مسلک اس آیت سے متعلق ان مفسرین نے لیا ہے کہ اگرچہ کتاب کی طرف ہی ضمیر جائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا اسے پہلے معاً پہلے ذکر نہیں ہے تو مراد یہ ہوگی کہ کتاب کے حوالے سے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق جو عہد تھا وہ مراد ہوگی۔ یہ ایک استنباط ہے اور بعض نے اس استنباط کے بغیر بھی یہ مسلک پیش کیا ہے کہ مراد یہاں قرآن ہے۔ حالانکہ قرآن یہاںمراد ہو ہی نہیں سکتا۔ قرآن کریم کی بجائے اپنے عہد کو جو وہ پیچھے پھینکا کرتے تھے وہ ظاہر بات ہے ایک لمبا تاریخی کردار ہے ان کا جو عہد لینے کے دن سے شروع ہوکر قرآن کے نزول تک جاری ہے اور اس کردار کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سختی سے پکڑ ہے کہ تم ظالمانہ کارروائی کرتے رہے ہو اس کی سزا تمہیں ملے گی ۔ تو اس کردار کے حوالہ سے رسول اللہ ﷺ کابراہ راست ترجمہ کرنا اشکال پید اکردے گا۔ کیونکہ حوالہ تو تاریخی ہے۔ ہمیشہ تم نے اس عہد کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینکا ۔ اگر رسول اللہ ﷺ مراد ہوں تو وہ تو اب جب قرآن نازل ہوا ہے اور آج کے یہود جو مخاطب ہیں وہ اس ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس لیے سابقہ میں ان کو ملزم قرار دینا کہ اس عہد کو ہمیشہ تم پیٹھ کے پیچھے پھینک دیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کا نعوذ باللہ من ذلک پہلے ہی انکار کیا کرتے تھے ، یہ قرآن کی طرف بات منسوب نہیں ہوسکتی۔ اس لیے لازماً کوئی عہد موجود ہے جس عہد کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے وہ عہد میں آپ کوبتاتا ہوں۔ کھلم کھلا بائبل میں موجود ہے اور اتنا واضح ہے کہ اس کے بعد کسی اور اشارے کی ضرورت نہیںرہتی۔ اور یہ عہد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے لیا تھا جو سلسلہ بسلسلہ آگے چلا ہے۔ تین جگہ اس میثاق کا ذکر ملتا ہے جو سب سے اہم اور واضح میثاق ہے وہ یہ ہے۔ اس کا حوالہ استثناء باب 6آیت 4 تا 18 ہے۔ سُن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پرنقش رہیں اور تو ان کو اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا۔ یعنی یہ عہد ایسا ہے جس کو تمہیں تبیننہ والا مضمون بہت کھلا کھلا یہاں بیان ہوا ہے کہ آئندہ جو تمہاری نسلیں آئیں گی تم ان سے عہد لیتے چلے جائو۔ ضرور تم ان کو کھول کے بتائو کہ یہ ہم نے اپنے خدا سے عہد باندھا ہوا ہے ، اس کوظاہر کرنا ہے۔ یہ ہے وہ مضمون جو قرآن کریم نے بیان فرمایا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اوراٹھتے وقت ان کا ذکر کیا کرنا۔ تبیننہ کی اس سے بڑھ کر گواہی کیامل سکتی ہے؟ کہ جیسا کہ قرآن کریم نے نقشہ کھینچا تھا بعینہٖ اسی طرح یہ عہد بائبل میں موجود ہے۔ پھر فرمایاہے ’’اور تو نشان کے طور پر ان کو اپنے ہاتھ پر باندھنا اور وہ تیری پیشانی پر ٹیکوں کی مانند ہوں‘‘۔ تبیننکے مضمون کو دیکھیں کہاں سے کہاں تک کھول کر بیان فرمایا گیا ہے۔ بائبل میں اور قرآن میں جو لفظ استعمال کیا ہے یہ بعینہٖ اس پر صادق آتا ہے بلکہ اپنے تمام تر معانی کے ساتھ اس پر صادق آتا ہے۔ کہتا ہے پیشانی پر ٹیکے لگالینا اس بات ہے۔ ’’اور تو ان کو اپنے گھر کی چوکھٹوں اور اپنے پھاٹکوں پر لکھنا اور جب خداوند تیر اخدا تجھ کو اس ملک میں پہنچائے جسے تجھ کو دینے کی قسم اس نے تیرے باپ دادا ابراہام اور اضحاق او ریعقوب سے کھائی اور جب وہ تجھ کو بڑے بڑے اور اچھے اچھے شہر جن کو تو نے نہیں بنایا اور اچھی اچھی چیزوں سے بھرے ہوئے گھر جن کو تو نے نہیں بھرا اور کھودے کھدائے حوض جو تو نے نہیں کھودے اور انگور کے باغ اور زیتون کے درخت جو تو نے نہیں لگائے عنایت کرے اور تو کھائے اور سیر ہو تو تو ہوشیار رہنا ایسا نہ ہو کہ تو خداوند کو جو تجھ کو ملک مصر یعنی غلامی کے گھر سے نکال لیا بھول جائے۔ تو خداوند اپنے خدا کا خوف مانگنا اور اس کی عبادت کرنااور اس کے نام کی قسم کھانا۔ تم اور معبودوں کی یعنی ان قوموں کے معبودوں کی جو تمہارے پاس آتی رہتی ہیں پیروی نہ کرنا کیونکہ خداوند خدا تیرے خدا جو تیرے درمیان ہے غیور خدا ہے تو ایسا نہ ہو کہ خداوند تیرے خدا کا غضب تجھ پر بھڑکے اور وہ تجھ کو روئے زمین پرسے فنا کردے۔ تم خداوند اپنے خدا کو مت آزمانا جیسا کہ تم نے اسے مَسَّہ میںآزمایا تھا۔ تم جانفشانی سے خداوند اپنے خدا کے حکموں اورشہادتوں اور آئین کو جو اس نے تجھ کو فرمائے ہیں ماننا اور تو وہی کرنا جو خداوند کی نظر میں درست اور اچھا ہے تاکہ تیرا بھلاہو‘‘۔ یہ جو قوانین حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں یہ ہے وہ پوری تعلیم جس تعلیم سے متعلق ان سے عہد لیا گیا تھا کہ اس کو خوب کھول کر ظاہر کرنا ہے اور کوئی چھپانے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ پس یہ ہے حکموں اور شہادتوں اور آئین کو ظاہر کرنا۔ اس میں وہ ساری چیزیں آگئی ہیں جن کے متعلق قرآن انہیں کو ملزم کرتاہے اور مجرم ثابت کرتا ہے کہ اس عہد کے باوجود تم نے حکموں کو بھی چھپایا ہے، آئین کو بھی چھپایا ہے اور شہادتوں کو بھی چھپایا ہے۔ پس شہادتوں کا لفظ بتاتا ہے کہ اس میں وہ عہد بھی آجاتے ہیں جو آئندہ انبیاء سے متعلق باندھے گئے تھے۔ صرف آنحضرت ﷺ سے متعلق نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ذکر بھی ملتا ہے بائبل میں ان کے متعلق بھی وہ پابند بنائے گئے تھے۔ پس جب ایک شہادت کو چھپالیا اور اس عہد شکنی کے مرتکب ہوگئے تو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں انہی لوگوں نے ویسا ہی کردار دکھانا تھا۔ تو یہ تاریخی جرائم ہیں جن کا ذکر اس آیت میںملتا ہے اور عہد یقینی طور پر بعینہٖ قرآن کے مطابق استثناء باب 6 آیات 4 تا 18 میں مذکور ہے۔یہاں تک ان کی عہد شکنی میں جو یہ تین باتیں ہیں ان میں سے ایک کی مثال یہ دیتا ہوں کہ احکام کو وہ جان بوجھ کر اپنے فوائد کیلئے چھپالیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک مجرم مرد اور عورت پیش ہوئے جو یہودی تھے اور ان کی سزا بائبل کی رو سے آنحضور ﷺ نے جاری فرمانی تھی۔ آپ نے فیصلہ کیا کہ یہ جرم ایسا ہے جس کا تمہاری شریعت سے تعلق ہے اس لیے میری شریعت نہیں بلکہ تمہاری شریعت ان پر جاری ہوگی۔ آجکل جو مسائل ہیں شریعت کے نفاذ کے اس میں یہ بہت ہی راہنما حدیث ہے جو بخاری کتاب التفسیر سے لی گئی ہے۔ جب ان سے سزا کا پوچھا گیا کہ بتائو تم خود ہی بتائو اب کہ تمہاری کتاب میںکیا سزالکھی ہوئی ہے؟ انہوں نے جھوٹ بولا کیونکہ وہ جو ان کے مذہبی راہنما تھے جو لے کر آئے تھے مجرموں کو ساتھ وہ ان کی رعایت کرنا چاہتے تھے ان سے فائدے حاصل کرچکے تھے ۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ بس منہ کالا کرو تھپڑ وپڑ ماردو بس ٹھیک ہے کافی ہوگئی۔ تو اس پراللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو تواس حال پر نہیں چھوڑ سکتا تھا کیونکہ آپ نے فیصلہ دینا تھا ، اللہ نے راہنمائی فرمانی تھی وہاں اس وقت عبداللہ بن سلام کے متعلق آتا ہے غالباً وہی ہیں عبداللہ بن سلام ہی ہیں وہ وہاں موجود تھے اور وہ بڑے عالم تھے ۔ یہودیوں سے وہ مسلمان ہوئے تھے انہوں نے کہا اے یہودیو تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ تورات میں اس کی یہ سزا لکھی ہوئی ہے۔ لائو تورات ابھی میں تمہیں دکھاتا ہوں۔ تورات لائی گئی تو جہاں رجم کی یعنی سنگسارکرنے کی سزاکا ذکر تھا اس پر انہوں نے ہاتھ رکھ لیا اور ارد گرد سے پڑھ لیںآیات۔ تو انہوں نے کہا یہ ہاتھ اٹھائو ۔ ہاتھ اٹھایا تو نیچے سے وہ آیت نکل آئی، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی شریعت کے مطابق پرکھے جائو گے اور تمہارا معاملہ اس کے مطابق کیا جائے گا اس لیے یہ سزا جاری کی جائے۔ یہ بخاری کا حوالہ ہے۔ جو حوالہ میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنایا تھا اس میں وہ سارے مضامین آگئے ہیں دراصل۔ آخر پر جو توجہ طلب ہیں کہ شہادتوں کو بھی نہیں چھپانا، حکموں کو بھی نہیں چھپانا اور آئین کو بھی نہیں چھپانا۔ شہادت سے مراد روز مرہ کی شہادت بھی ہے۔ لیکن سب سے بڑی شہادت آنے والے انبیاء کی شہادت ہے اور وہ پہلے بھی چھپاتے رہے ہیں اور بعد میں بھی چھپایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بکثرت ایسے انبیاء گزرے ہیں جن کو تکلیف پہنچائی ہے اس وقت کے علماء نے اور ان کے حق میں شہادتوں کو چھپایا گیا ہے، تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں۔ بائبل ان کے ذکر سے بھری ہوئی ہے۔ پس قرآن کریم کی یہ گواہی قطعیت کے ساتھ اپنے تمام پہلوئوں سے بائبل اور تاریخ کے حوالے سے درست ثابت ہوتی ہے۔
ایک یہ بحث اٹھائی گئی ہے کہ اس کا پہلی آیت سے تعلق کیا ہے؟ تو حضرت امام رازی نے جو تعلق بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ان کی ظاہری ایذاء رسانی کا ذکرپہلے گزرچکا ہے اور اب وہ روحانی طور پر ایذاء رسانی کرتے تھے۔ اس لیے اس آیت کا پہلے مضمون سے یہ تعلق ہے کہ یہود جو جسمانی طور پر مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں سازشیں کرتے اور ان کے دشمنوں کا ساتھ دیا کرتے تھے یہ بھی ان کی ایک عہد شکنی تھی۔ یہ امام رازی نے تو نہیں لکھا مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ عہد شکنی ہی تھی۔ کیونکہ رسول کریم ﷺسے میثاق مدینہ میںیہ طے پاچکا تھا کہ کوئی حملہ آور ایسا نہیں ہوگا جو مدینہ پر حملہ آور ہو اور اس میںاہل مدینہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے خلاف کسی طرح بھی ان کی مدد کریں۔ تو چونکہ ہر خطرناک موقعہ پر یہود نے اس عہد کو بار بار توڑ اتو پس یہ جسمانی ایذاء رسانی بھی ایک عہد شکنی ہی تھی۔ تو یہ دو تعلق بن جاتے ہیں اس مضمون سے۔ روحانی طور پر بھی وہ ایذاء پہنچائیں گے اور پہنچاتے ہیںاور وہاں بھی عہد شکنی کرتے ہیں۔ پس حضرت امام رازی کا یہ جو نکتہ ہے یہ بہت اہم اور درست ہے ۔ یہ تعلق بنتا ہے۔ جہاں تک عہد لینے کا تعلق ہے چونکہ بائل کا وہ حوالہ ان کے سامنے نہیں آیا اس لیے انہوں نے بھی وہ عمومی جواب دیا ہے کہ خدا نے یہ عہد انبیاء کے ذریعہ لیا تھا اس طرح کہ سب انبیاء نے اپنی اپنی امت کو ہر کام اور ہر فرض کے دلائل بتادیے تھے۔ اب دلائل بتانا نہیں ہے بلکہ واقعتا موسیٰ کے ذریعے معین عہد لیا گیا ہے۔حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اہل کتاب سے عہد لیا سے مرا دیہ ہے کہ وہ آنحضور ﷺپرایمان لائیں گے اور لوگوں میں ان کا چرچا کریں گے۔ تو اگر یہ معنی لیا جائے تو میں پہلے بھی ان کا ذکر کرچکا ہوں کہ اس کا تعلق تو تاریخی حوالہ سے نہیں ہے کوئی، ان کی تاریخ سے نہیں ہے بلکہ اس زمانہ میں جو واقعات رونما ہورہے تھے اس سے ہے لیکن قرآن کی یہ آیت تو محض اس کا ذکر نہیں کرتی ایک پرانی جاری بد عادت کا ذکر فرمارہی ہے یہ آیت جو ان کو بار بار مجرم ثابت کرتی ہے۔ اکثر دوسرے مفسرین جو اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں بحر المحیط بھی ان تفسیروں کی فہرست میں شامل ہے۔ روح المعانی میں بھی یہی معنی لیا گیا ہے اور جامع البیان تفسیر میں یہ سارے مؤقف بیان کردیے ہیں کہ بعض کا یہ خیال ہے ، بعض کا یہ خیال ہے۔ بعض نے کہا یہ صرف یہود کے بارہ میں تھی اور بعض نے کہا یہ دین کے علماء کے بارہ میںتھی اور بعض نے کہا کہ تمام قوم کیلئے تھے۔ یہ اور پہلو سے بحث ہورہی ہے کہ سارے یہودی اس میں پیش نظر ہیں یا ان کے علماء تو اس پر بعض مفسرین کہتے ہیں کہ تمام قوم شامل ہے ، ان کا سب کا رویہ اس میں ایک ہی طرح تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ذکر چلتا ہے علماء کا اور قوم جب ان کے غلط رویے کو قبول کرلیتی ہے اور ان کے کہنے پرجرائم میں مبتلاء ہوتی ہے تو ان کے فیصلے پر صاد کردیا کرتی ہے ۔ گویا کہ ان کے فیصلوں کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ان کی مؤید بن جاتی ہے ، اس لحاظ سے وہ مجرم ہوتی ہے ۔ لیکن اوّل مجرم مذہبی قوموں میں فساد کے ذمہ دار وہ علماء ہوتے ہیں جو جان بوجھ کر دین کا علم رکھنے کے باوجود اپنی منفعتوں کی خاطر اس کے غلط ترجمے کرتے یا ان کے مضامین کو انسانوں سے چھپاتے ہیں۔ آگے سب وہی مضامین ہیں۔ حوالوں کی بھر مار ہے لیکن بات وہی ہے ہر جگہ ۔ علامہ سیوطی نے اذٰی کی بحث میں یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ مسلمان عورتوں کے اوپر وہ اپنے اشعار میں غلیظ ناپاک حملے کیا کرتے تھے، ان کی کردار کشی کیا کرتے تھے۔ یہ بھی اذی ہے مگر یہ تو خباثت کی بڑھی ہوئی شکل ہے اسے اذی نہیں کہا جاسکتا کیونکہاذی تو تکلیف کی ابتدائی صورت کو کہتے ہیں اور جب وہ بڑھ جاتی ہے تو اس کو ضرر کہا جاتا ہے لیکن مفسرین نے جہاں تک ان کا ذہن کام کرتا رہا کئی معنے نکالنے کی کوشش کی ہے۔
علامہ زمخشری کے نزدیک لتبیننہ میں ہٗ کی ضمیر کتاب کی طرف ہے اور یہاں بھی یہ علامہ زمخشری میرے نزدیک بالکل صحیح مضمون کو پاگئے ہیں ۔ وہ کتاب جو یہود کو دی گئی تھی اس میں جو عہد تھا یا عہد کی مختلف صورتیں تھیں وہ ان سب عہد کی مختلف صورتوں سے انحراف کرتے رہے اورعہد شکنی کے مرتکب ہوئے۔ بحر المحیط نے لکھا ہے کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ضمیر ایمان بالرسول کی طرف لوٹتی ہے۔کوئی اور نئی بات ان تفاسیر میں یہ جو حوالے میرے پاس ہیں اگر آئی تو میں آپ کو بتادوں گا۔ اس وقت تک تو نظر نہیںآرہی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہی معنی لیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں ’’کہ اللہ نے جب تم سے پختہ اقرار کتاب والوں سے لیاکہ اس کو بیان کیا کرو گے اور چھپائو گے نہیں‘‘۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی نظر بھی اسی حوالہ کی طرف ہوگی غالباً جو میں پڑھ چکا ہوں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی نبذہمیں ہٗ سے مراد عہد یا کتاب ہے۔ مگر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مضمون کو یہ نوٹس کی صورت میںاب پتہ نہیں کیوں یہ کیا مراد تھی آپ نے اس کو عام لیا ہے۔ اس سے کوئی خاص نبی یا قوم مراد نہیں بلکہ ہر نبی نے اپنی قوم سے یہ عہد لیا کہ وہ تعلیم کو پھیلائیں گے۔ یہ وہی مسلک ہے جو پہلے میںبعض حوالوں سے پیش کرچکا ہوں ۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا جو مؤقف ہے وہ عین اس کے مطابق ہے یا میرا مؤقف یوں کہنا چاہیے کہ عین اس کے مطابق ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا مؤقف تھا اور میں حوالہ دکھا چکا ہوں آپ کو۔ ویری نے اس کو رسول اللہ ﷺ کی طرف جو پیشگوئیاں اشارے کررہی تھیں اس کے حوالے سے پیش کرکے اس نے اپنی جو عادت تھی وہ پوری کی ہے۔
You shall surely publish it, that is the prophecies concerning Muhammad contained in the "Pentateuch". The claim set up here is virutally this, that the great burden of prophecy was the advent of Muhammad, just as Christians regard the spirit of prophecy to be the testimony of God to Jesus as the Christ. It would appear from this passage that Muhammad, consciously or unconsciously, being decieved by designing converts from Judaism, had conceived that the prophecies of the Old Testament concerning the coming one related to him".
اب یہ دیکھیں نا کس چالاکی سے یہ پھر حملہ کی طرح باندھتا ہے۔ اوّل تو معنے وہ ’’ایک‘‘ منسوب کرلیے جو بعض مفسرین نے ایک امکانی معنے کے طور پر پیش کئے ہیں اور وہ کوئی اہل اسلام کا کوئی متفقہ مؤقف نہیں ہے۔ کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پرانے عہد سارے شامل ہیں اس میں۔ ان میں وہ آنے والے انبیاء کی جس میں دوسرے انبیاء بھی شامل ہیں ان کی شہادت دینے کا جزو بھی شاید داخل ہے۔ یہ اگر ہو تو اس پر پھروہ اعتراض نہیں کرسکتا اس لیے جان جان کر یہ لوگ وہ معنے اخذ کرلیتے ہیں جن پر پھر حملہ کرنے کیلئے ان کے پاس گنجائش نکل آتی ہے تو کہتا ہے اور پھر کہانی یہ بنائی ہے ۔ چونکہ پہلے ہی دل میں یقین لیے بیٹھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نعوذ باللہ من ذلک اپنی طرف سے باتیں گھڑا کرتے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو علم کیسے ہوا بائبل کا پھر؟ اور ایسی گہری باتیں بائبل کے متعلق کہ یہ بھی تھا وہ بھی تھا یہ آنحضرت ﷺ کو اتنا گہرا علم کیسے ہوگیا؟ آجکل کے اس زمانے میںجولوگ سن رہے ہیں عیسائی ملکوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ان کو بھی نہیں پتہ بلکہ مسلمان مفسرین کی نسلیں گزریں، کئی نسلیں گزرگئیں ان کا اس حوالے کی طرف ذہن نہیں گیا جو موجود تھا اور قرآن کریم اس کو کھول کے بیان کررہا ہے۔ یہ احساس کمتری ہے ان مغربی مستشرقین کا جو پھر ان کیلئے بہانے تلاش کرنے کی طرف اکساتا ہے۔ان کو تو وہ کہتا ہے کہ دراصل یہ جو بات تھی یہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے یہودیوں نے آنحضرت ﷺ پرایمان لاکر ان کو ورغلاتے ہوئے بائبل کی وہ باتیں بیان کیں جو اور مقصد کی خاطر تھیں یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں تھیںاور ان کو رسول اللہﷺ کویقین دلادیا کہ یہ آپ کے متعلق ہیں ۔ یہ ایسا استدلال ہے جو اپنی ذات میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا ہوا ہے پہلے ہی۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان کیوں لائے تھے اور یہود کی جماعت کو اورطاقتور جماعت کو چھوڑ کر اپنے سارے رشتے توڑکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کیوں ہوئے تھے؟ اگر ان کو بائبل سکھا کر دھوکے میںشامل ہونا تھا ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا توجو رویہ ہے وہ انتہائی اطاعت گزار کامل خادم کا رویہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عشق میں سب دنیا وما فیھا سے بے خبر ہوگئے تھے۔ پس یہ جو اس کا کہنا ہے کہ وہ ان کو کہتے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺکے متعلق ایک تھوڑا سا اس نے پہلی دفعہ یہ امکان چھوڑا ہے کہ شاید جان بوجھ کر نہ کیا ہو۔ کہتاہے consciously or unconsciouslyمگر unconsciously کی گنجائش یہاں ہے ہی کوئی نہیں۔ اگر دنیا والوں سے سن کر یہ کیا تھا تو unconscious کا کیا مطلب ہوا؟پھر تو پتہ تھا کہ یہ غلط بات ہے ۔ میں بنار ہا ہوں مجھ پہ نہ وحی نازل ہوئی نہ کچھ اور ایک یہودی سے میں نے بات سنی ہے میں آگے چلا رہا ہوں۔ تو یہ ساری فرضی کہانی اس نے خود بنائی ہے، خود گھڑی ہے اور واقعات اس کو جھٹلاتے ہیں اور وہ حوالہ جو میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھا ہے جو غالباً اس کے پیش نظر ہے وہ حوالہ بتارہا ہے کہ رسول کریمﷺ کایعنی قرآن میں جو ذکر ہے ۔ رسول اللہﷺ کی طرف نہیں خدا کا جو اعلان قرآن میں ہے وہ پہلے ہے اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مداخلت اورمدد کرنا بعد میں ہے۔ وہ آیت نازل ہوچکی تھی اس آیت کی روشنی میں رسول کریم ﷺ یہود کے فیصلے کیا کرتے تھے اور یہ باتیں ان کی طرف سے رونما ہورہی تھیں۔ اس ضمن میں ایک موقعہ پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے ۔ تو ایک جاری شہادتوں کا سلسلہ موجود تھا یعنی قرآن کریم اس سے پہلے یہ بیان دے بیٹھا ہے۔ پھر عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہودی کو پکڑنا یہ تائید غیبی تو ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مگر یہ جاہلانہ استنباط کہ اس وجہ سے آپ کو پتہ چلا کہ بائبل میں کیا احکام ہیں اور وہ احکام اپنی طرف سے بنا کے قرآن میں بیان کردیے حالانکہ جس حکم کا بیان ہے اس کا قرآن کریم میں ذکر ہی نہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس موقعہ پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو بات بیان کی ہے وہ تو ذکر ہی نہیں ہے قرآن کریم میں۔ اگر ذکر ہوتا تو رسول اللہ ﷺ خود ہی معلوم کرلیتے کہ تمہاری بائبل میں یہ لکھا ہوا ہے اس جرم کی سزا میںاور نہ بعد میں ذکرملتا ہے۔ اس لیے یہ سارا قصہ ہی فرضی ہے۔ایک جھوٹ پر دوسرے جھوٹ کو قائم کیا اور دوسرے پر تیسرے کو۔ یہ ان کا طریق ہے رسول اللہ ﷺ پرحملے کرنے کا۔ آپ کو اس سے متنبہ رہنا چاہیے۔
اب Montgomery Watt کا ایک حوالہ ہے۔ اب اس نے بھی رسول اللہﷺ کیProphecies کا ذکر کرکے اس تک آیت کو محدود کیا ہے اور اس طرح اس آیت کی جو شان ہے ساری تاریخ بنی اسرائیل کی اور عہد کا علم اس کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیںیہ۔ کیونکہ اگر یہ تسلیم کرلیں تو پھر قرآن کریم کے حق میں یہ خود گواہ بن جائیں گے کہ ایسی ایسی باتوں کا قرآن کو علم ہے جس کااس زمانہ کے علماء کو بھی پتہ نہیں تھا آج بھی اکثر کو پتہ نہیں اور قرآن بڑے کھلم کھلے وہ حوالے دے رہاہے کہ تمہارے اندر یہ بھی بات تھی وہ بات بھی تھی، وہ بات بھی تھی۔یہ اس طرح یہ بددیانتی کرتے ہیں یہ الزام نہیں ہے ان لوگوں پر۔ یہی منٹگمری واٹ صاحب ہیں۔ جنہوں نے جماعت احمدیہ کابھی ذکر کیا ہوا ہے ۔وہ حوالہ کہاں ہے؟ میرمسعود احمد صاحب نے بھجوایا ہے نا یہ حوالہ؟ اچھا سعود احمد صاحب ہمارے مولود احمد صاحب مرحوم کے بھائی جو ہیں۔ سعود معروف تو وہی ہیں تاریخ والے۔ ہیں! اچھا سعود احمد خان لکھا کرتے ہیں۔ یہاں وہ نہیں ہیں تو کوئی غیر معروف سعود ہیں۔ ناصر آباد کے۔ ناصر آباد کہاں؟ ربوہ کے۔ اچھا ربوہ کے ہاں یہ جو بھی ہیں انہوں نے اچھا حوالہ دیا ہے۔ میں نے ذکر کیا تھا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت احسان کیا کہ وہ جو اصل رائج قرآن کریم کی قرأت تھی جس پر گواہ موجود تھے کہ آنحضرت ﷺ سے ہم نے یہی قرأت سنی ہے اس قرأت کو اخذ کرلیا اور دوسری قرأتیں جو اردگردمختلف قبائل کے تلفظ کی تبدیلی کی وجہ سے رائج تھیں ۔ اگرچہ اصل آیت وہی تھی ان قرأتوں کو ثانویںحیثیت دی اگرچہ ان کا انکار نہیں کیا کہ موجود ہیں۔ مگر قرآن کے اصل متن میں ان کو نہیں داخل فرمایا۔ یہ ایک بہت عظیم خدمت تھی قرآن کریم کی جو اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق کے بغیر کسی کو نصیب ہوہی نہیں سکتی۔ تو حافظون جو ہیں قرآن کیلئے خدا نے پیدا کیے ہیں ان میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مقام ہے۔ اس مؤقف سے یہ چڑتے ہیں لوگ اور جماعت احمدیہ کے اس مؤقف کا ذکر کرنے پریہ مجبور ہے لیکن ایسے رنگ میں کہ کوئی اس کو قبول ہی نہ کرے اور پھر غلط بات بھی منسوب کرتا ہے۔ جماعت احمدیہ نے کہیں بھی ان روایات کو کالعدم قرار نہیں دیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض دفعہ جیسا کہ میں نے مؤقف بیان کیا تھا کہ قرآن کریم میں موجود قرأت کی تائید میںان معنوںکی تائید میں جو مسیح موعود علیہ السلام نے لیے ہیں ان قرأتوں کو پیش فرمایا ہے جو دوسری شکل میں ملتی ہیں۔ تو بنیادی اصول یہی ہے کہ قرآن کریم میں جو آیات موجود ہیں یہی اصل ہیں۔ وہ قرأتیں جو تلفظ کے اختلاف رکھتی ہیں وہ ان عرب قبائل کے تلفظ سے تعلق رکھتی ہیں لیکن معنوں کے لحاظ سے ان میںکوئی فرق نہیں۔ ایک یہ مؤقف ہے۔ دوسرا مؤقف یہ ہے کہ وہ قرأتیں جو مختلف مضامین کی طرف اشارے کررہی ہیں بظاہر ان میں سے وہی قرأتیں قابل قبول ہیں جو قرآن کریم کے اندر موجود قرأت کی مخالفت نہیںکرتیں ، ان سے ہٹ کر معنے پیش نہیں کرتیں بلکہ ان کے بطون کی طرف اشارے کررہی ہیں کہ اسی قرأت کے اندر یہ امکانی معنے بھی داخل ہیں وہ امکانی معنی بھی۔ یہ ہے جماعت کا مؤقف۔ اب یہ صاحب کہتے ہیں:
The existance of variance, however, has been found inconvenient especially in modern times.
کہ گویا مسلمان بے چین ہوتے ہیں۔ نئے حملوں کے جواب دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔
The ordinary Muslim is mostly unaware of the existence of the seven sets of readings and the modern heretical sect,
کہتا ہے جو مرتد فرقہ ہے نا اسلام کا احمدیہ جماعت۔ کہتا ہے یہ ہیں جو ہمارے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں ۔ کہتا ہے۔
The modern heretical sect of the Ahmadiyya appears to deny it in the interest of propaganda, even the existence of the pre-Usmanic veriance.
بالکل جھوٹ ہے۔ پروپیگنڈا کی خاطر مراد ہے کہ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو پتہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں یہی مؤقف ہے جماعت کا جو کام آئے گا۔ اس کی حقانیت اس کی طاقت کو تسلیم کرگیا ہے یہ۔ کہ یہی وہ مؤقف ہے جو اسلام کے پروپیگنڈا میں مفید ہوسکتا ہے۔ یہاں تک تو درست ہے لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ جماعت احمدیہ نے نئی بات ایسی گھڑی ہے جس کاحقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سے پہلے ان کے وجود سے ہی انکار کررہی ہے۔ بالکل جھوٹ ہے۔ تو بعض لوگ جو مستشرقین سے مرعوب ہوتے ہیں ۔ یہاں یونیورسٹیوں میں پڑھ کے جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں جو بھی بات کرتے ہیں کلام الٰہی ہے۔ یہ عمداً بات کو مروڑ سکتے ہیں، جھوٹ منسوب کرسکتے ہیں۔ میں نے مطالعہ موازنہ مذاہب میں پہلی دفعہ یہ بات معلوم کی تھی کہ یہ جب دوسرے مذاہب کی بات کرتے ہیں تو قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ اس سے مجھے پتہ چلا کہ اسلام پر اور احمدیت پر جب انہوں نے لکھا تو بعض معاملوں میں واضح طور پر ہمارے عقیدے کے خلاف ہماری طرف بات منسوب کر رہے ہیں تو یہ حال اگر ہم سے ہوا ہے تو میں نے سوچا اوروں سے بھی ہوا ہو گا۔پھر جب بعض جگہ میں نے موازنے کئے تو پتہ چلاکہ وہ مذہب کے پیروکار جن کی طرف یہ ایک عقیدہ منسوب کرتے ہیں اس سے منکر ہیں۔وہ کہتے ہیں بالکل نہیں ہم یہ عقیدہ نہیں مانتے۔تو اس لئے یہ خواہ مخواہ کا غلط اعتماد کے بڑے بڑے علماء ہیں ضرور سچی بات کرتے ہوں گے د رست نہیں ہے۔اپنے مطالب کی خاطر باتوں کو مروڑ سکتے ہیں اور انہی لوگوں کی نسلیں ہیںجن کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہو رہا ہے۔یہ Bell نے کبھی کبھی یہ بات سچی کرجاتا ہے ۔جو یہ بات درست لکھی ہے کہ اس سے مرادجو Selling ہے آیات کی اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ باقاعدہ سودا کرکے وہ بیچا کرتے تھے بلکہ معمولی فوائد حاصل کرنے کیلئے کہیں دوستی کا نباہ ہوگیا، کہیںمنہ ملاحظے ہوئے، کہیں تھوڑی سی منفعت بھی مل گئی۔ تو یہ ہے اصل بات جو قرآن کریم کہنا چاہتا ہے کہ یہود کو یہ عادت تھی۔ اب اگلی آیت میں نے بیان کیا تھا کہ جو عہد شکنی اور پیچھے پھینک دینے کا مضمون یہ ہر تعلق میںجاری اور ساری ایک یہود عادات کا سلسلہ ہے جو تاریخ میںگہرا دور تک پھیلا ہوا ہے۔ نہ کہ صرف آنحضرت ﷺ کا انکار۔ اس انکار پر یہ سلسلہ منتج ہوا ہے اپنی منتہٰی کو پہنچا ہے یہ مراد ہے۔ اس کی تائید سورۃ البقرہ کی آیت101، 102 کرتی ہے۔ اوکلما عاھدوا عھدا نبذہ فریق منھم۔ کیا یہ انہوںنے طریق اپنا رکھا ہے؟ یہ کیساطریق ہے کہ جب کبھی بھی کوئی عہد باندھا ہمیشہ اس کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔ بل اکثرھم لایومنون بلکہ ان میں اکثر ایسے ہیں جو ایمان نہیں لاتے یا نہیں لائیں گے۔ ولما جاء ھم رسول من عند اللہ جب کبھی بھی ان کے پاس اللہ کی طرف سے رسول آیا مصدق لما معھم جو تصدیق کیا کرتا تھا اس بات کی جو ان رسولوں کے سامنے تھی یعنی خدا کی طرف سے تائید یافتہ حوالے جو پہلی کتب کے ذکر ملتے تھے ان کا مؤید ہوا کرتا تھا۔ نبذ فریق من الذین اوتو االکتاب کتاب اللہ وراء ظھورھم تو وہ ان سب رسولوں سے یہی سلوک کیا کرتے تھے۔ کتاب کو پیچھے پھینکتے تھے لیکن اپنے مقاصد کیلئے اور ان رسولوں کے انکار کی نیت سے اور ان کو تنگ کرنے کے خیال سے وہ کتابوں کی تعلیم پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔ یہ ہے کتاب پیچھے پھینکنا اور یہ ایک جاری دستور تھا۔ تو اسے صرف ایک وقت پر محدود کرنا درست نہیں ہے۔لیکن اس آیت میں ایک ایسا اشارہ ملتا ہے کہ انبیاء سے مختلف وقتوں میں عہد ہوئے ہیں اور ہوسکتا ہے اسی وجہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انبیاء کی عمومی تعلیم اور اس تعلیم پر قوم کو قائم رہنے کی ہدایت کے مضمون کو اس آیت سے لیا ہے اور میثاق میں اسی کی طرف اشارہ سمجھا ہے۔ اس میں یہ مضمون اپنی جگہ اپنے طور پر بیان ہوا ہے لیکن عام عہد کو میثاق کے طور پر قرآن نہیں بیان کرتا بلکہ غیر معمولی قوت کے ساتھ باندھا ہوا میثاق جو ہے اسی کو میثاق کہتا ہے اور جیسا کہ میں نے اصل حوالہ پیش کردیا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تائیدی حوالہ بھی پیش کیا ہے اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے اور میں اس پر کامل یقین سے قائم ہوں کہ میثا ق جس کا قرآن اشارہ کررہا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو اپنی قوم سے میثاق لیا تھا جس میں یہ تمام تفاصیل آگئی ہیں وہی میثاق مراد ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
لایحسبن الذین یفرحون۔۔۔ بمفازۃٍ ۔۔۔۔۔۔۔ عذاب الیم۔ آل عمران:189
یہ گمان نہ کر یعنی پہلے یفرحون کا ذکر کرتا ہوں۔ لا تحسبن الذین یفرحون وہ لوگ جو اپنے ان اعمال پر جو وہ لائے ہیں ۔ بما أتوا سے مرا د ہے کہ جو کرتوتیں کررہے ہیں، جو کچھ پیش کررہے ہیں، اپنے اعمال آگے بھیج رہے ہیں یہ سارا معنی أتوا میں داخل ہے۔پس جو کارروائیاں یہ کرتے ہیں یا کرچکے ہیں اور ان پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے کمال کردیا ہے اور ایک اور صفت یہ ہے ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا۔ ایک تو جو کچھ کرتے ہیں اس پر اترارہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں۔ دوسرے بیحد شوق ہے کہ ان باتوں میں بھی ان کی تعریف کی جائے جو کی ہی نہیں انہوں نے۔ یعنی لوگوں کے کریڈٹ بھی اپنی طرف منسوب کرنا بھی ان کج خیال لوگوں کی عادت ہوا کرتی ہے۔ فلا تحسبنھم بمفازۃٍ من العذاب۔ یہاں لا تحسبن کے فعل کو دہرایا ہے۔ پہلی دفعہ جو لاتحسبن ہے اس کا کوئی جواب بظاہر نہیں آتا لیکن فلا تحسبن کو دہرایا ہے ۔ اس لیے یہاں میں اس کا ترجمہ اب کرتا ہوں۔ مراد یہ ہے ہرگزگمان نہ کر اور ہر گز گمان نہ کر۔ یہ تکرار مراد ہے۔ پہلے ’’ہرگز گمان نہ کر‘‘ کے بعد ان کی بد کرداریوں کا ذکر فرمادیا پھر نتیجہ نکالنے سے پہلے ’’گمان نہ کر‘‘ پر زور ڈالا ہے بڑی شدت کے ساتھ۔ فلا تحسبنھم بمفازۃٍ من العذاب۔ ہر گز یہ وہم بھی تمہارے دماغ میں نہ آئے کہ یہ عذاب سے بچائے جائیں گے عذاب سے محفوظ رکھے جائیں گے۔ ولھم عذاب الیم ان کیلئے دردناک عذاب مقدر ہے۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کا ترجمہ اب لغت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ’’یفرحون‘‘ فرح الرجل بالشیٔ انشرح صدرہ بلذۃٍ عاجلۃٍ۔ کسی فوری لذت سے کسی کا سینہ کشادہ ہو گیا۔ تو فرحت سے مراد انہوں نے فوری لذت کیا ہے مگر قرآن کریم میں اس کے خلاف مضمون پایا جاتا ہے کیونکہ لفظ فرح کو مؤمنوں کے حوالہ سے خدا کی طرف سے عطا ہونے والی ایسی لذت میں بھی بیان فرمایا گیا ہے جو دائمی ہے۔ ایک واقعہ سے تعلق رکھتی ہے لیکن ہمیشہ ہمیش کیلئے مسلمانوں کے دل ٹھنڈا کرنے والی۔ یومئذً یفرح المؤمنون۔ آج کے دن یا یہ وہ وقت ہے جب مسلمان فرح محسوس کریں گے ، ان کے سینے کشادہ ہو جائیں گے۔ یہ کوئی عارضی اتفاقی فرح کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو جب اللہ تعالیٰ عظیم فتح عطا فرمائے گا غیروں پر تو اس وقت ان کے سینے کشادہ ہوجائیں گے اور وہ ایک دائمی خوشی کا وعدہ ہے جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ مگر فرح کا لفظ ناپسندیدہ معنوں میں بھی آتا ہے اور اگر ان معنوں میں لیا جائے تو پھر غالباً عارضی لذت کے معنے اس میں پائے جائیں گے۔ الفرح نقیض الحزن۔ حزن کا برعکس مضمون فرح میں ہے ایک یہ بھی معنی بیان کیا گیا ہے۔ پھر میں نے جیسا کہ بیان کیا غلط معنوں میں ناپسندیدہ معنوں میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان کے متعلق فرح فخور۔چھوٹی چھوٹی باتوں پرخوش ہوکر اترانے لگتا ہے ، فخر کرنے لگتا ہے۔ تو یہاں جو فرح ہے یہاں وہ عارضی لذتوں کے اوپر ہی بیشمار چھلانگ لگادینا بہت بڑی چھلانگیں لگادینا اس طرف اشارہ ہے۔ ان اللہ لا یحب الفرحین۔ اللہ تعالیٰ فرحین کو پسند نہیں کرتا حالانکہ دوسری جگہ مسلمانوں کے متعلق مؤمنوں کے متعلق فرمایا ہے یفرحون اور وہ پسندیدگی سے ذکر فرمایا ہے تو فرحین میں وہی مضمون ہے فرح فخوروالا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اترانے لگتے ہیں اچھلنے لگتے ہیں اپنی بساط سے بڑھ کر دعوے کر بیٹھتے ہیں۔ فبذلک فلیفرحوا بھی قرآن کریم میںآیا ہے اور پھر آگے یہ آیت بھی انہوں نے دی ہے یومئذٍ یفرح المؤمنون ۔۔۔ اچھا مفرح کا ایک اور معنی ہے لغت میں قرض سے دبا ہوا انسان۔ حدیث میں ہے لا یترک فی الاسلام مفرح۔ اسلام میں قرض سے دبا ہوا کوئی نہ چھوڑا جائے۔ افراح خوشی حاصل کرنے اور خوشی کے ازالہ دونوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی یہ وہ لفظ ہے جو اضداد پر آتا ہے۔ یعنی جو ایک دوسرے کے متقابل اور نقیض معنوں کیلئے دونوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کئی عربی الفاظ ایسے ہیں جو اس طرح دہرے معنے رکھتے ہیںجو ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں لیکن موقعہ اور محل بتاتا ہے کہ یہ کیا ہے۔ تو مفرح سے مراد یہ ہے جس کی ساری خوشیاں چھین لی گئی ہوں۔ جس کومعمولی عارضی خوشی بھی نصیب نہ رہی ہو اور وہ شخص جوقرضوں میں دب جاتا ہے اس کا نقشہ مفرح کے طور پر حدیث میںملتا ہے کہ مفرح کو اس طرح اپنے حال پر نہ چھوڑدو کہ وہ ان بوجھوں تلے دب کر ہلاک ہوجائے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے بوجھ اتارے جائیں اور اس کے قرض ادا کیے جائیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے اس حدیث سے تعلق میںکہ اسلام نے ذمہ واری لے لی ہے کہ ہر مفرح کا بوجھ اتار دیا جائے۔ اگر یہ ہو تو ایک غلط جورجحان ہے بعض لوگوں میں کہ تجارت کے نام پر اپنی خوش فہمی سے قرضے اٹھالیتے ہیں ، جائیدادیں برباد کر بیٹھتے ہیں اور پھر بھی وہ قرضون کے تومار اترتے نہیں۔ اگر یہ معنے ہوں کہ اسلام میں ان کے متعلق انشورنس ہے ایک کہ لازماً ان کے سارے قرضے اتارے جائیں گے ۔تو اسلامی سوسائٹی میں تجارت برباد ہوکے رہ جائے گی اور تجارتی ذمہ واریوں کا کلیتہً فقدان ہوجائے گا۔ اس لیے یہ مراد نہیں ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو قرضوں سے ایسے دب گئے ہیں کہ ان کی خوشیاں سب برباد ہوچکی ہوں ان کے پاس تو اپنا روز مرہ کھانے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہوسکتا اور نہ ان سے کوئی تجارت کرے گا، نہ ان پر کوئی اعتماد کرے گا۔ ایسے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ کر ان کو برباد نہ کرو بلکہ ان کا سہارا بنو، کچھ نہ کچھ ان کا روز مرہ کی زندگی کا گزارا ہونا چاہیے۔ میں اس کایہ مطلب لیتا ہوں مگر یہ ضمنی بات تھی۔ اصل لفظ فرح کے ایک معنے کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ فرح کا ایک معنی اس کے برعکس بھی ہے وہ شخص اگر مفرح کہا جائے تو مراد ہے جس کی تمام خوشیاں چھین لی جاچکی ہوں اور خصوصاً مقروض کے تعلق میں جو بے انتہا زیر بار آگیا ہو ، یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
مفازۃ۔ الفوز کے تو معنی ہیں سلامتی کے ، کامیابی کے، عظیم کامیابی کیلئے بھی فوز کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ذلک ھو الفوز الکبیر۔ اور کبیر کے لفظ نے مزید کامیابی کے مضمون کو اور روشن کردیا،اجلا کردیا ہے۔ ذلک ھوا لفوز المبین۔ قرآن کریم میںآتا ہے اولئک ھم الفائزون۔ المفازۃ: قیل سمیت تفاؤۃًللفوز و سمیت بذلک اذا وصل بھا الی الفوز فان الفقر کما یکون سببًا للھلاک فقد یکون سببًا للفوز۔المفازۃ کہتے ہیں کہ یہ نام تفاؤل کے طور پر دیا گیا ہے اور نام دیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کو عبو رکرکے ہی کامیابی ہوتی ہے۔ کس کو عبور کرکے؟ المفازۃ۔ لفظ مفازۃ صحراء کو کہتے ہیں ۔تو وہ کہتے ہیں کہ دراصل اس کے معنوں میں، اہل لغت بحث کررہے ہیں کہ بنیادی معنی صحراء کا پایا جاتا ہے۔ تو المفازۃسے مراد یہ ہے کہ ایک ایسے ابتلاء میں جومہلک ثابت ہوسکتا تھا ایک انسان نے عبور حاصل کرلیا، کامیابی سے اس میںسے گزر گیا۔ بہت بڑی کامیابی ہے کہ صحراء پار کرگیا یعنی دنیا کی کوئی ہلاکت اس پر غالب نہ آسکی۔ تو عام طور پر فوز کا لفظ قرآن کریم میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے ، پس منظر میں یہ معنے پائے جاتے ہیں کہ لوگ تو ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کو بڑ ی کامیابیاں عطا فرماتا ہے اور وہ ہلاکت سے برعکس معنے لے کرنکلتے ہیں یعنی ہلاک ہونے کی بجائے ہمیشہ کی زندگی پاجاتے ہیں۔ پس انہی معنوں میں وہ صحابی جن کو نیزہ سے چھیدا جارہا تھا ان کے منہ سے یہ کلمہ نکلا تھا فزت برب الکعبۃ کہ ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ تو بظاہر ہلاکت نے ان کو مغلوب کیا ہے دیکھنے والوں کی نظر میںلیکن وہ جانتے تھے کہ اس صحرا سے میں کامیابی سے گزراہوں اور خداکی نظر میں مَیں اپنا اجر ضرور پائوں گا۔ اور جو خدا کی راہ میںقربان ہو وہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تو یہاں آکر اس معنوں میں وہ صحرا اور کامیابی کے دونوں معنے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ بعض جگہ وہ کہتے ہیں فوز الرجل اذ اھلک۔ یہ معنے بھی آتے ہیں۔ فاز کا مطلب تو ہے کہ وہ کامیاب ہوگیا لیکن وائو کے ساتھ جب فوز استعمال کریں گے فوز الرجل یعنی وہاں فوز الرجل تھا۔ فوز الرجل ہے ہلاکت لیکن فوز الرجلکامطلب ہے وہ ہلاک ہوگیا ۔ حالانکہ لفظ وہی ہے یعنی وہ صحرا میںماراگیا اس سے پار نہیں اتر سکا۔ تو یہ معنے ہیں کہ یہ گمان نہ کر کہ وہ عذاب سے مفازت حاصل کر لیں گے ان کا جو عذاب ہے جو خدا نے مقدر کیا ہے وہ ان کو گھیر لے گا، ان کو مغلوب کردے گا۔ اس میں سے کامیابی سے اپنے وجود کو بچا کرنہیں نکل سکیں گے۔ اقرب الموارد نے بھی مفازۃ کا معنی دیا ہے۔ ایسا الفلاۃ جہاں کوئی پانی نہ ہو۔ لا ماء فیھا۔ دوسرے معنے دیے ہیں ہلاکت کا مقام۔ پھر اقرب الموارد میںنجات کا مقام اور کامیابی کا مقام بھی اسی لفظ مفازۃ کو بیان کیاہے۔ وہ جنگل جس میں پانی نہ ہو یہ بھی معنی ہے۔ اصل میںیہ جو متضاد معنوں کا مضمون ہے یہ اصل کو نہ سمجھنے سے دماغ میں آتا ہے ورنہ متضاد نہیں ہیں۔ فاز کا مطلب ایک لق و دق صحرا کو جس میںپانی نہ ہو عبور کرنا ہے۔ جو مارے جائیں گے وہ فوز کے طور پر آئیں گے۔ جو بیچ میں ہلاک ہوگئے کامیاب نہ ہوسکے اور جو پار اتر گئے وہ فاز کے لفظ کے تابع بیان ہوں گے۔ باقی اکثر روایتیں وہی ہیں۔ اہل کتاب سے بات پوچھنا، ان کا چھپانا وغیرہ ان کے تذکروں سے بہت سی ہماری تفسیریںبھری پڑی ہیں اور جہاں تک کیا ہورہا تھا جس کی طرف اشارہ ہے نزول۔ نزول کا ذکر ہے جہاں تک تو شان نزول بیان کرنے والے لکھتے ہیں کہ یہ آیت بعض منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺکسی غزوہ کیلئے نکلتے تو بعض منافقین پیچھے رہ جاتے اور وہ اپنے پیچھے رہ جانے پر بڑے خوش ہوتے۔ جب رسول اللہ ﷺ واپس آتے تو عذر پیش کرتے اور حلف اٹھاتے اور پھر بان یحمدوا بما لم یفعلوا اور یہ بھی چاہتے کہ جو کچھ انہوںنے نہیںکیااس کی تعریف کی جائے۔ یہ بے تعلق باتیں ہیں ساری۔ قرآن کریم کا مضمون بالکل واضح اور روشن ہے۔ اہل کتاب جن کے اندر بعض کجیاںپائی جاتی ہیں ان کجیوں کے نفسیاتی الجھائو کا ذکر ہے کہ جب یہ کجیاں پائی جائیں تو نفسیاتی الجھنیںایسے لوگوں کو تعریف کا ایسا طلبگار بنادیتی ہیں اس کی ایسی بھوک دلوں میں پیدا کردیتی ہیں کہ جو کچھ نہیں کیا وہ بھی پھر چاہتے ہیں کہ اس کی بھی تعریف کی جائے اور یہ اگلا قدم ہے بیماری کا۔ پہلے ہر بات جو کی ہے ا س میںشیخی بگھارنا کہ بہت اچھا کام کردیا ۔ پھر آخر میں جو نہیں کیا اس کی بھی مل جائے ساتھ تعریف تو کیا حرج ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مضمون ہے جس کا کسی وقتی کردار سے کوئی تعلق نہیں ایک دائمی مستقل مضمون ہے جس کو قرآن کریم بیان فرماتا ہے ۔ لیکن دوسرے اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ منافقین سے کوئی تعلق نہیں تھا اس آیت کا۔ قال کثیر من المفسرین نزلت فی احبار الیھود۔ یہ یہود کے جو علماء تھے بڑے بڑے ان کا ذکر چل رہا ہے اور انہی کے تعلق میں آئی ہے۔ حضرت امام رازی بیان کرتے ہیں وہ ساری باتیں جو پہلے گذرچکی ہیں انہی کا اعادہ ہے کوئی نئی بات نہیں۔ حضرت امام رازی کہتے ہیں کہ بعض لوگوںنے اس کو الذین اشرکوا کی طرف اشارہ سمجھا ہے جو اس سے پہلے ذکر گزرچکا ہے او ربعض مفسرین نے الذین یفرحون سے مراد یہود لیے ہیں جو تورات میں تحریف کرتے تھے۔ یہ تو بالکل ظاہر ہے بالکل جن کا ذکر چل رہا ہے انہی کے ساتھ گہرا تعلق ہے ، انہی کی عادات ہیں جو قطعی طور پر تاریخی لحاظ سے ثابت ہیں۔ سیل اس معاملے میں وہی مسلک اختیار کرتا ہے جو درست جائز مسلک ہے کہ حق کا یہ اخفاء جویہود کی طرف سے ہوا کرتا تھا وہ اس آیت کی شان نزول ہے۔
اس ضمن میں اگلی آیت شروع کرنے سے پہلے یہ میں سمجھانا چاہتا ہوں یہ جو بنیادی بیماری بیان فرمائی ہے یہ صرف یہود سے خاص نہیں ہے یہ بگڑے ہوئے اخلاق کی قوموں میں عموماً ملتی ہے اور یہ ایسی ایک بیماری ہے جو روحانی ہلاکت پر بھی منتج ہوسکتی ہے ۔ اس لیے جماعت احمدیہ کو اپنے ہاں اس پر نظر رکھنی چاہیے ۔ جہاںجہاں یہ عادتیں پائی جائیں ان کی پوری طرح بیخ کنی کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک تو یہ بات کہ ایسے لوگ ہمیں ہر جگہ ملتے ہیں۔ بچپن سے وقارِ عمل میں بھی میں نے دیکھا ہے باہر کے کاموں میں بھی دیکھا ہے کہ اپنے کام پر خصوصیت سے فخر کرنا اور نمایاں طور پر اس کو اٹھانا گویا کہ اس ساری خدمت میں مرکزی نقطہ ایک شخص بنا ہوا ہے اور اسی کے زور پر سارے کام چل رہے ہیں۔یہ جو عادت ہے یہ اچھی نہیںہے کیونکہ خدمت دین میں جو بھی زیادہ خدمت کی توفیق پا رہا ہے اس پر اللہ کا فضل ہو رہا ہے اور وہ خدا کے زیر احسان ہے نہ کہ دین اس کے زیر احسان ہے اس لئے حمد کا مضمون تو چلتا ہے وہاں کہ ایسا انسان اللہ کی حمد کرے اور اللہ کی حمد ہی کامقام ہے۔ جو اپنی حمد کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیںاور وہی ان کی حمد کے سارے مضمون کو جھوٹا کردیتی ہے بات۔ بعض وہاں جو غلطیاں کرتے ہیں کہ جب خدا کے فضل سے کسی خاص خدمت کی توفیق پاتے ہیں کوئی اچھی بات لے کے آتے ہیں تو خدا کی حمد کی بجائے اپنے نفس کی تعریف کی طرف توجہ مائل ہوتی ہے۔ بہت اچھلتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کردیا، ہم نے یہ کام کردیا اور جب یہ عادت ان کی پختہ ہوتی ہے تو اس عادت سے ایک اور عادت بچہ لیتی ہے۔ خدا کی حمد سے غافل ہوئے ہیںتو جھوٹ کی وجہ سے اور جھوٹی حمد میںبھی پھر مبتلاء ہوتے ہیں اس سے بھی عار کوئی نہیں۔ تو اپنے لیے حمد کا مضمون باندھنے میں پھر کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اپنے سے کچھ نہیں بنا تو چلو غیر نے جو کچھ کیا وہی اپنے نام لگالو اور یہ عادت بھی روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے لوگوں میں نظرآتی ہے اور میں یہ نہیں کہہ سکتا اب تک کہ جماعت اس سے کلیتہً پاک ہے کیونکہ یہ عادت مذہبی تعلق میں نہ سہی روز مرہ کی عام چھوٹی باتوں میں معمولی سمجھی جارہی ہے اور ہے بہت خطرناک ۔ اس لیے قرآن کریم نے جہاں یہود کی ہلاکت کے ضمن میں نفسیاتی تجزیے پیش کیے ہیں ان سے سبق لے کر اپنی اخلاقی تربیت میں ہمیں مدد حاصل کرنی چاہیے۔ اور اس چیز کو سخت ناپسند کرنا چاہیے کہ کسی خدمت دین میںکوئی اپنے آپ کو اتنا اچھالے کہ میں ہی میں ہو ں اور فرح فخور بن جائے اورپھر جہاںبھی لوگ کسی کے کام کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں یہ بہت ہی مہلک بات ہے اور بہت باریک گناہ ہے جو ہماری ہر سطح میں کسی نہ کسی رنگ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ کوئی دور کی بات نہیں کہ یہودی تاریخ میں تلاش کریں۔ یہاں تک ہوتا ہے بعض دفعہ کہ مجھے ایک رپورٹ ملتی ہے کہ ہم وہاںگئے اور وہاں یہ رابطے قائم کیے اور اللہ کے فضل سے بہت نیک اثر پڑا اور مجھے شک پڑتا ہے کہ رابطے کروانے والے کا نام نہیں ہے اس میں۔ اور جب میں تحقیق کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ واقعتا ایک ایسا مخلص غیر معروف سا انسان بھی تھا جو دراصل ذمہ دار ہے اس کامیابی کا۔ اب اس کا نام لے دیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تعریف تو ختم ہوگئی۔ ملے تو ہم تھے، اثر تو ہم نے ڈالے ہیں۔ یہ کیا چیز ہے اس نے تو صرف ایک واسطہ بن کے وہاں تک رسائی کرائی تھی۔ یہ وہی بیماری ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے ۔ اس لیے مفازۃ اس معنے میں بھی نہ سمجھیں اپنے آپ کو کہ ہم ان امتحانوں سے کامیابی سے گزر گئے ہیں۔ یہ امتحان روز مرہ ہمارے سامنے ایسے صحراء لے کے آتے ہیں جن میں سے بہت سے آدمی کامیابی سے نہیں گزر تے اور رپورٹوں میں تو بالکل صاف دکھائی دیتے ہیں اگرچہ افتراء کی حد تک معاملہ نہیں پہنچا۔ جھوٹ بول کے نہیں کہتے مگر کتمان کے ذریعہ وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جن لوگوں کی جو خوبی ہو جنہوں نے خدمت کی ہے ان کو نمایاں کرنا یہ ایک بہت ہی اہم کام ہے اور ان کیلئے دعا کی تحریک کرنا۔ ایسے لوگ جو ان کے واسطہ سے فیض پاتے ہیں اورخدمت کی توفیق یا زیادہ خدمت کی توفیق پالیتے ہیں یہ ان کے برعکس کوئی بات نہیں ہے بلکہ اگر وہ ایسا کریںتو ان کی شان اور بھی بلند ہوگی کیونکہ جو لوگوں سے فائدہ اٹھا کر نیک کام کرتا ہے اورا س کو عمدگی سے کرتا ہے اس کا اپنا ایک کریڈٹ ہے جو کوئی اسے چھین نہیں سکتا لیکن اگر وہ بیان کردے کہ کون ذریعہ بنا تھا تو اس کامرتبہ اونچا ہوتا ہے بہ نسبت کم ہونے کے۔یہ بھی ان کی نادانی ہے جو اس بات کو سمجھتے نہیں۔ پس اگر حمد کا شوق ہے تو سچی حمد مہیا ہوسکتی ہے ۔ قرآن کریم نے سچی حمد کے ذریعے ہمارے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے بعض امراء ہیں ماشاء اللہ وہ رپورٹ دیتے ہیں تو بڑی دیانتداری سے تفصیل سے کہتے ہیں فلاں شخص نے خدمت کی اس کو نہ بھولیں، فلاں نے یہ خدمت کی، فلاں نے یہ خدمت کی۔ ان میں جو میں نے رپورٹیں پڑھی تھیں مثلاً کل جمعہ میں ان میںہمارے ہبۃ النور صاحب بھی کبھی نہیں چھپاتے اس کا نام جو زیادہ اجر کا مستحق دکھائی دیتا ہے۔ ان کو جو زیادہ قابل تعریف دکھائی دیتا ہے کہ فلاں نے بھی یہ کام کیا ، فلاں نے بھی یہ کام کیا۔ ہمارے ناروے کے امیر صاحب جو رپورٹیں بھیجتے ہیں ان میںبھی لازماً ذکر کرتے ہیں ، کون کون لوگ اصل خدمت کرنے والے ہیں اور بعض جگہ mixed ہے معاملہ۔ مختلف لوگ اپنے اپنے رنگ میں کرتے ہیں۔ہمارے جرمنی سے بھی مختلف قسم کی رپورٹیں آتی ہیں۔ امیر صاحب نے تو کبھی بھی لوگوں کی خدمت کو بغیر ان کا ذکر کیے اپنے نام نہیں لگایا۔ کبھی ایک واقعہ بھی نہیں ہوا لیکن بعض کارندے جو براہ راست رپورٹیں بھیجتے ہیں وہ اس بیماری میں مبتلاء ہوتے ہیں اور کچھ معمولی کچھ زائد لیکن ان کیلئے میں فکر مند ضرور ہوجاتا ہوں۔ تو میں اب نام لیے بغیر جماعت کو عمومی نصیحت کرتا ہوں کہ یہود کے قصے جب وہ پڑھتے ہیں تاریخ میںتویہ کوئی ایسے قصے نہیں ہیں جو قرآن کریم نے صرف سابقہ تاریخی حوالہ سے بیان کیے ہیں۔ قرآن کریم فطرت کی کتاب ہے اور قرآن کریم کی گواہیاں انسانی فطرت میں ثبت ہیں اور تاریخی حوالے ملیں نہ ملیں انسان کی فطرت زندہ گواہ ہے کہ یہ سچا کلام ہے اور اسی طرح ہوا کرتا ہے۔ پس جو ہوتاتھا وہ اب بھی ہوتا ہے۔ مجرموں میں یہ طریق کھل کر سامنے آجاتا ہے جو ان کو ہلاک کردیتاہے اور وہ لوگ جو خدا کے فضل سے بچے ہوئے ہیں ان کے اندر بیماریوں کے جراثیم پید اہوجاتے ہیں۔ جراثیم کی موجودگی پرمطمئن رہنا کہ ابھی ان کی Incubation مکمل نہیں ہوئی اور پوری طرح ہلاکت کی منزل تک ہمیں نہیں لے کے گئے۔ یہ بہت ہی غفلت کا طریق ہے اور خوش فہمی ہے کہ ہم بچے ہوئے ہیں۔ ہلاکت کے جراثیم جس قسم کے میں بیان کررہا ہوں یہ آگے پھر پرورش پاتے ہیں ، اولاد میں منتقل ہوتے ہیںان لوگوں کے۔ ان خدمت کرنیوالوں کے تابع جو لوگ ہیں ان میں یہ عادتیں چل پڑتی ہیں اور یہ وہ بچے ہیں جراثیم کے جو بڑی تیزی سے آگے بچے دیتے چلے جاتے ہیں اور اگر آپ کو پتہ ہوکہ جراثیم کس رفتار سے بڑھتے ہیں تو ڈر کے مارے آپ کی جان نکل جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو روکنے کے انتظام کررکھے ہیں۔ اگر وہ نہ ہوں تو انسانی جسم سو فیصد مکمل طور پر جراثیم کے قبضہ میں چلا جائے۔ تو اس لیے نھی عن المنکر کا مضمون اور أمر بالمعروف کا مضمون ہماری مستقل زندگی اور صحتمند زندگی کی ایک ضمانت ہے اس سے غافل ہوں گے تو مار کھائیں گے ۔پس اس لحاظ سے میں اپنا فرض یہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے اندر یہی جراثیم اس لیے موجود ہیں کہ سارے انسانوں میں موجود ہیں کہیں غالب آچکے ہیں، کہیں مغلوب ہیں ابھی تک، کہیں Incubate کررہے ہیں۔ اور جہاں یہ متحرک ہوگئے ہیں Incubate کررہے ہیں وہاں غیر معمولی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ہمارے نظام تربیت کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ یہ بیماریاں جماعت احمدیہ کے صحتمند وجود میںنشوونما ہی نہ پاسکیں بلکہ اکھیڑ کر باہر پھینک دی جائیں تاکہ آئندہ نسلیں ہم سے صحتمند عادات سیکھیں اور آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی صحتمند عادات عطا کریں ۔ یہ وہ آخری پیغام تھا جس پر میں اس درس کو ختم کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک محض علمی بحثیں کرلینا قرآن کریم کے اعلیٰ مقاصد کو پورا نہیں کرتا۔ وہ تربیتی پیغامات جو قرآن کریم کی اس تاریخی بحث میں شامل ہیں وہ اصل مرکزی نکتہ ہیں او رہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ18 رمضان بمطابق19؍ فروری 1995ء
و للہ ملک السموت والارض واللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر۔ آل عمران:190
آج اتوار کا دن ہے اور درس کے آخر پر نصف گھنٹہ سوال و جواب کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے ایسے سوالات ہیں جو لمبا جواب چاہتے ہیں اور بعض پچھلے درس میں بیان کردہ مضامین سے متعلق وضاحتیں ہونا ضروری ہیں کیونکہ سوالات سے پتہ چل رہا ہے کہ بعض لوگ بعض غلط فہمیوں کا شکار ہو گئے ہیں۔تو وہ سارا مسئلہ ایسا ہے جسے ایک دفعہ کھول کر اس مخمصے کو ختم کرنا چاہیے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں۔ آپ سمجھ کیا رہے ہیں؟مقصد کیا ہے؟ تحقیقات کن رستوں پر چلائی جائے گی اور کیوں ضروری ہے؟ یہ وضاحتیں بہت اہم ہیں ۔ اس لیے آج صرف اس چھوٹی سے آیت کی تلاوت تبرکًا کی ہے۔ مختصراً میں اس پہ گفتگو کرکے جو سوالات آئے ہوئے ہیں ان کو چھیڑوں گا پھر۔ اور اس کے علاوہ کچھ چھوٹی موٹی باتیں،کچھ مشورے،کچھ حالات جاپان کے بھی ہیں ناں۔ آپ کے پاس اس کا ذکر بھی ضروری ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو بھول گئے ہیں حالانکہ بالکل بھولے نہیں۔ سب سے پہلے و للہ ملک السموت والارض (آل عمران:190)۔ ملک سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق جو ترجمہ اقرب الموارد نے دیا ہے یعنی اس کی تشریح۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ مراد ہر وہ چیز ہے جو کسی کی ملکیت بن سکے اور اس پر تصرف کیا جاسکے۔ یہ مذکر بھی آتا ہے اورمؤنث بھی۔ مذکر اور مؤنث یہی ہے ناں تلفظ عربی میں۔مذکر اور مؤنث مگر اردو میں مذکر اور مؤنث بھی بول لیتے ہیں۔۔ عام طور پر جو عربی میں تلفظ ہیں وہ لازم نہیں ہے کہ اردو میں اسی طرح نوک پلک درست کرکے پیش کئے جائیں۔ روز مرہ، عرف عام میں اردو میں بہت تصرفات ہوچکے ہیں اور بعض ایسے تصرفات ہیں جو جاری ہیں اور رفتہ رفتہ وہ اپنی ایک جگہ بناتے چلے جارہے ہیں۔ مثلاً ہرقل لفظ ہے۔ ایک سوالات میں سے یہ بھی آیا ہوا تھا کہ آپ نے ہرقل پڑھا ہے حالانکہ عربی میں ھرقل ہے۔ تو اردو میں ھرقل جو ہے وہ قابل قبول نہیں ہے شنید کو۔ اور جب اردو میں درس ہورہا ہے تو جب ھرقل کا ذکر آئے گا تو لفظ ھرقل ہی پڑھا جائے گا۔ اسی لفظ سے وہ بادشاہ معروف ہے اردو میں اور یہ جو تلفظ کے تصرفات ہیں وہ ایسے ہیں کہ بڑے بڑے صاحب علم لوگ جو اپنے زمانے میں زبان پر سند تھے وہ بھی عربی اثر سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے تلفظ پر اصرار کیا کرتے تھے۔ حضرت حافظ مختار احمد صاحب، وہ ہمیشہ مُبلِغ اتنے روپے پڑھتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ ان سے لمبی گفتگو کی۔ میں نے کہا حضرت حافظ صاحب میں جانتا ہوں آپ بہت بڑے عالم ہیں آپ کو علم ہے کہ عربی لفظ مَبلَغ ہے، مُبلَغ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں جو مرضی ہو۔ میں نے تو جو باپ دادا سے سنا ہے وہی پڑھوں گا۔ مُبلِغ ہی پڑھا کرتے تھے۔ تو وہ لوگ جو درستیاں تلفظ کی کرواتے ہیں ان کو میں بتادیتا ہوں کہ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنی زیادہ اہمیت نہ دیں۔ زبان ایک جاری ، تبدیل ہوتی ہوئی ندی کی طرح ہے جو کروٹیں بدلتی ہے۔ لہریں نئی نئی پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ مٹی اُٹھاتی ہے کچھ پھینکتی ہے۔ مگر ایک چیز ایسی ہے جس میںلازماً ، ضرور درستی ہونی چاہیے۔ بعض دفعہ تیزی سے گفتگو کرتے ہوئے قرآن کریم کی کسی آیت کے کسی لفظ کا تلفظ اس صحت کے ساتھ ادا نہیں ہوتا جو ضروری ہے۔ وہاں کسی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے ایسی تبدیلیاں اگر غلطی سے ہوگئی ہوں باوجود اس کے کہ علم ہے مجھے کہ یہ تلفظ یوں ہے۔ ایک کسی نے توجہ دلائی ہے کہ آپ نے صحیح تلفظ پڑھتے پڑھتے ایک جگہ اس کو یوں بدل دیا تھا۔ تو جہاں تو اسی مضمون میں صحیح تلفظ جاری ہے۔ اتفاقاً ایک زیر زبر میں غلطی ہوگئی ہے۔ بعض دفعہ سننے میں بھی فرق پڑ جاتا ہے۔ بعض دفعہ جب بولتے ہوئے جب زبان سوکھی ہوئی ہو تو انسان کہنا وہی چاہتا ہے جو ذہن میں ہے۔ مگر پوری طرح ادا نہیں ہوتا مگر یہ کوئی معذرت نہیں ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کے تلفظ میں یا آیات کی تلاوت میں ایک معمولی سی غلطی بھی قابل برداشت نہیں ہونی چاہیے ہمارے لیے۔یعنی ان معنوں میں کہ ہم کہتے ہیں جاری ہے چلو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگوں کو پتہ ہی ہے۔ اس کی درستی میں بیشک مجھے فوری طور پر مطلع کیا کریں۔ لیکن اوّل تو یہاں جو موجود علماء ہیں ان کو بڑے غور سے دیکھنا چاہیے تاکہ لوگوں کو Fax بھیجنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے اور یہیں درستی ہوجائے۔۔
ا ب لفظ مُلک کی بحث ہورہی ہے کہ مُلک اس کو کہتے ہیں جو ملکیت بنتی ہے اور املاک اسی سے لفظ نکلا ہے اور کہا جاتا ہے کہمُلک میں بادشاہت ہے اور مِلک میں تصرف ہے۔یہ بھی فرق بعض لوگوں نے کئے ہیں ۔ اس ضمن میں Lane یہ لکھتا ہے ملک Dominion, Sovereignty, Kingship, Rule۔ اور یہاں جو پہلا میں نے حوالہ دیا تھا اس میں اقرب الموارد کہتی ہے لما یملک و یتصرف بہ یذکر و یؤنث یہ مذکر بھی کہا جاتا ہے اور مؤنث بھی کہا جاتا ہے یا مذکر بھی پڑھاجاتا ہے اور مؤنث بھی پڑھا جاتا ہے۔ اردو ڈکشنری میں احتیاطاً دیکھ بھی لیں آپ۔قرآن کریم میں جہاں اللہ کے حوالے سے لفظ ملک آیا ہے اس میں مکمل دونوں معنی پائے جاتے ہیں۔ اس بارے میں مجھے ذرّہ بھی شک نہیں۔میں نے دیکھا ہے اس کا استعمال قرآن کریم میں مختلف جگہوں پرغور سے دیکھا ہے۔وہاں ملک کے اندر ملکیت بھی ہے اور بادشاہت بھی ہے اور اس کا تعلق خداتعالیٰ کی صفت مالکیت سے ہے۔ مالکیت میں اگرچہ مِلک کا تصور زیادہ بظاہر اُبھرتا ہے۔ ایک شخص مالک ہے۔ لیکن جو مالک کل ہو وہ Perfect Sovereign ہوجاتا ہے۔ ہم جتنے مالک ہیں ہمارا ملک کا تصور اور ملک کا تصور اس لیے الگ الگ ہے کہ ہم دنیا کی جائیدادوں میں اپنے دائرے میںمالک ہیں۔ اور اختیارات کے لحاظ سے State مالک ہے، ریاست مالک ہے اور چونکہ یہ تفریق جاری رہتی ہے ۔ خود ہمیں اپنی جائیداد پر تصرف کا پورا حق نہیں ہوتا۔ یہاں آپ چاہیں اپنی زمین پر اپنے نقشے کے مطابق کچھ بنوائیں تو آپ کو اختیار نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی باریک باتوں میں بھی حکومت دخل دیتی ہے کہ تمہاری ملکیت یہاںختم، ہمارا ملک یہاں سے شروع ہوجاتاہے۔ اس لیے انسانی استعمال میں لفظ مِلک اورمُلک نے دو الگ الگ دائرے اپنا لیے اور اس وجہ سے یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ لفظ ملک میںجائیداد مراد ہے۔ ملکیت ہے یا بادشاہت ہے۔ خداتعالیٰ کے ہاں یہ کوئی فرق نہیں ہے۔ جو کامل مالک ہو اس کے ہاں ظاہری جسمانی ملکیت اور قانونی اورتصرفاتی ملکیت کے فرق نہیں رہتے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ذکر میں جب بھی قرآن کریم میں لفظ مُلک ملے گا۔ خواہ کسی صورت میں بھی ملے گا، اچھی طرح اس کو ذہن نشین کرلیں کہ مالک کل کے معنوں میں ملتا ہے اور وہاں جو سیاسی تصرفات ہیں وہ بھی اسی کے ہوتے ہیں اوراقتصادی تصرفات بھی اسی کے ہوتے ہیں اور ملکیت کے دوسرے تصرفات مثلاً ورثے میں یہ جائیداد اس کو دینی ہے کہ اس کو دینی ہے، یہ بھی اسی کے چلتے ہیں۔ تو یہ بحث جو علماء نے اُٹھائی ہے اس لحاظ سے بے ضرورت ہے کہ یہاں کیا مراد ہے۔ خدا کے تعلق میں لفظ ملک میں سب کچھ مراد ہے ۔ جو مُلک اور مِلک مالکیت کے تصورات میں پایا جاتا ہے۔ امام راغب نے مفردات میںلکھا ہے آیت و قد اتینا آل ابراھیم الکتاب والحکمۃ و اتیناہ ملکًا عظیمًا۔ یعنی ملک سے مراد اللہ کیلئے الملک الحق بھی آتا ہے۔ اس لیے فرمایا لہ الملک ولہ الحمد ۔ اور فرمایا قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشائ۔ گویا مُلک سے مراد کسی شیٔ کا گرفت میںلینا اور اپنے حکم سے اس پر تصرف کرنا ہے۔ مِلک مُلک کیلئے بطور جنس کے ہے۔ لہٰذا ہرمُلک مِلک ہے ۔ یہ حضرت امام راغب نے وہی بات بیان فرمائی ہے جو میں آپ کے سامنے عرض کر چکا ہوں۔ کہ خدا کے ہاں جب لفظ مُلک استعمال ہوگا تو کامل گرفت میں کوئی چیز ہو۔ وہ ظاہری صورت میں بھی اور تصرفات کی ہر صورت میں اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس لیے وہ بادشاہ بھی ہے اور مالک بھی ہے۔ سردست تو یہاں اتنا ہی کہنا کافی ہے۔ تفسیری نکتے سے میںدیکھتا ہوں اگر کوئی خاص بات قابل ذکر ہو تو بتائوں گا۔ یہ بحث اُٹھائی گئی ہے ۔ یہاں للہ ملک کی کیا ضرورت تھی؟ کیا تعلق ہے۔ تو ایک مفسر کہتے ہیں کہ چونکہ اس سے پہلے گزر چکا ہے ان اللہ فقیر و نحن اغنیاء ، یہ بحث گزر چکی ہے۔ کون غنی ہے کون فقیر ہے۔ تو Conclusion یہ نکالا گیا ہے۔ للہ ملک السموت والارض حضرت امام رازی کے نزدیک اس کا تعلق پہلی آیت سے یہ ہے کہ بعض لوگ جن کیلئے سزا کا فیصلہ ہوا ہے، جس کا پہلے ذکر گزرچکا ہے وہ کسی پہلو سے، کسی صورت میں بچ نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ جہان بھی اللہ کا ہے، وہ جہان بھی اللہ کا ہے۔ یہاں بھی اس کی مالکیت ہے، وہاں بھی مالکیت ہے۔ اس لیے للہ ملک السموت والارض بتارہا ہے کہ تم خدا کی پکڑ سے بچ کر دنیا میں کہیں کوئی پناہ نہیں حاصل کرسکتے۔نہ اس جَوّْ میں حاصل کرسکتے ہو جس کو سماء کہاجاتا ہے اور یہاں سماء کا معنی جَوّ کے علاوہ دوسری دنیا بھی لیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آسمانی سے مراد وہ روحانی دنیا بھی ہوتی ہے جو ملاء اعلیٰ کی دُنیا کہلاتی ہے۔ اس لیے یہ معنیٰ بھی درست ہے۔ کہ نہ اس زندگی میں تم سزا سے بچ سکتے ہو، نہ آئندہ زندگی میں بچ سکتے ہو۔ لیکن صرف سزا تک محدود کرنا درست نہیں کیونکہ جزاء کا بھی تو ذکر ہے۔اس لیے خلاصہ کلام یہی ہے اور اسی پر میں اس بات کو آج ختم کرتا ہوں کہ للہ ملک السموت والارض واختلاف الیل والنھار لایات لاولی الالباب اس میں خداتعالیٰ نے آیات لاولی الالباب کا بھی ذکر فرمایا ہے، اختلاف رات اور دن کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ یہ دراصل خداتعالیٰ کا اس دنیا میں جوتصرف ہے بالخصوص اور اس پر آسمانی محرکات جواثر انداز ہوتے ہیں ان کا ذکر ہے۔ وہ زمانہ ہے مسلمانوں کی کمزوری کا۔ ایک پیشگوئی کی جارہی ہے کہ تم اہل کتاب سے خصوصاً اور مشرکین سے بھی کثرت سے دکھ دیکھو گے، بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے مگر تمہیں ایسا نقصان نہیں پہنچاسکیں گے کہ تمہارے آخری غلبے کی راہ میں حائل ہوجائیں۔ وہ غلبہ تمہارا مقدر ہے اور لازماً تم فتح مند ہوگے۔ یہ مضمون ہے جس کو یہاں اٹھایا جارہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ للہ ملک السموت ولارض واللہ علی کل شیئٍ قدیر کے معاً بعد اس آیت میں جو 191ہے یہ بتاتا ہے کہ اس مضمون کا اس مضمون سے بھی تعلق ہے جو بعد میں آرہا ہے اور اس مضمون سے بھی وہی تعلق ہے جو پیچھے گزر گیا ہے ۔ تو دراصل بعد میں آنے والی آیت جس پر تفصیلی گفتگو کل ہوگی ۔ یہ آیت ہمیں بتارہی ہے کہ للہ ملک السموت والارض میں صرف آئندہ دنیا کے عذاب و ثواب کا ذکر نہیں بلکہ اس دنیا میں ان تصرفات کا ذکر ہے جو خدا کی تقدیر لازماً اسلام کے حق میں کرے گی۔ اور ایسا زمانہ آئے گا کہ جو مالک کے بندے ہیں ، جو سچے بندے ہیں وہی اس دنیا میں مالک بن جائیں گے اور وہی مالک کے نمائندہ ہوں گے۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عظیم نکتہ یہ بیان فرمایا کہ قرآن کریم کی صفات میں جو سورۃ فاتحہ میں خداتعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں ان میں لفظ مالک جو آخر پر رکھا ہے اس کا سب سے گہرا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے ہے اور اس صفت کی کامل جلوہ گری اس دنیامیں آنحضرتﷺ کرتے ہیں اور بائبل میں بھی جہاں وہ پیشگوئی ہے تاکستان والی یعنی انگوروں کے باغ والی اس میں مالک کے آنے کا جو ذکر فرمایا گیا ہے وہ بھی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے آنے سے پورا ہوا ہے۔
پس وہ مِلک ہے جس کی طرف یہاں اشارہ ہے۔ اصل مالک کا نمائندہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور ان پر تمہیں عارضی غلبے نصیب ہوئے ہوئے ہیں اور تم ایذاء رسانی میں حد سے بڑھتے چلے جاتے ہو۔ لیکن یہ بات بھول نہ جانا کہ اللہ ہی کی ملک ہے اور وہ کرکے دکھائے گا ، اس دنیا میں کھول دے گا اس مسئلے کو کہ اس مالک کا اصل بندہ، حقیقی بندہ کون ہے؟ اور کو ن ہے جس کو ملکیت کے اختیار بالآخر سونپے جائیں گے۔ پس اسلام کے آخری کامل غلبے کی یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے۔ اور اسی مضمون کو آگے اگلی آیت بھی اُٹھاتی ہے لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اس دنیا اور اس دنیا کی جزاء کا بھی اس میں ذکر ملتا ہے ،مگر وہ اصل تعلق نہیں ہے۔ اصل تعلق وہی ہے جو میں نے سورہ فاتحہ کے حوالے سے بیان کیا ہے اور حضرت رسول اکرمﷺ سے متعلق پیشگوئی جو انجیل میں پائی جاتی تھی اس کے حوالے سے اس مضمون کو جوڑا ہے۔ پس یہ وہ آئندہ آنے والا وقت ہے جس کا آغازاس دور میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوچکا ہے۔ آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی وہ ابھی تک آغاز ہی دکھائی دے رہا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
؎ ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز تو میں کردوں انجام خدا جانے
تو وہ آغاز ہی کا دور تھا جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک ممتد رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ’’گناہ سے نجات کیسے ممکن ہے‘‘ میں مضمون بیان فرمایا ہے وہ بھی بعینہٖ اس کے مطابق ہے۔ اس لیے اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہو کہ میں کچھ اور کہہ رہا ہوںاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں سب معاملہ روشن ہوچکا ہے وہ اس غلط فہمی میں مبتلاء نہ رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالکل صاف لکھ چکے ہیں کہ میری آمد کا آغاز جو ہے وہ دُھندلکوں میں رہے گا کچھ عرصے تک اور یہی مقدر ہے۔ اورآئندہ وہ زمانہ آئے گا جبکہ میرا قدم اس سفید مینار پر ہوگا جو سب دنیا دیکھے گی اور وہ روشن دلائل کے ساتھ مجھے پہنچاننے لگے گی۔ پس الحمدللہ کہ ہم اس دور میں داخل ہورہے ہیں ، جس دور کی پیشگوئیاں اس آغاز کے ساتھ وابستہ تھیں اور ہمیشہ کیلئے مقدر تھیں ۔تو انشاء اللہ یہ باتیں باقی پھر کل شروع کریں گے۔ اب میں متفرق مضمون جو اکٹھے ہوگئے ہیںان پر گفتگو کرتاہوں۔
ایک تو سب سے پہلے ایک شکوہ ملا ہے پاکستان سے۔ وہ ہمارے ایک دوست ہیں جنہوں نے جو میں نے لطیفہ سنایا تھا کل یا پرسوں اس کے بارے میں شکوہ کیا ہے۔ وہ میں نے کہا تھا کہ بڑی ظالمانہ حرکت ہے ، ہمارے ملک میں یہ جہالت پائی جاتی ہے کہ بعض قوموں کو بعض برائیوں کا Symbol بنادیا ہے بعض خصوصیات کا Symbol بنادیا ہے اور وہ زمیندارہ معاشرہ جو پنجاب میں پایا جاتا ہے اس میں تو خصوصیت سے یہ بدی ہے کہ ہر بیوقوفی کا لطیفہ جولاہوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور مذہبی گفتگو ہو تو سکھوں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ یہ جاہلانہ طریق ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا لیکن چونکہ وہ لطیفہ ایک جولاہے کی طرف منسوب تھا اور سب کو پتا ہی ہے۔ اس لیے وہاں سے لفظ جولاہا اُڑا کر کوئی فائدہ تو نہیں پہنچاسکتا تھا۔ بیان کرکے اس کیخلاف اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کرسکتاہوں جو قرآنی تعلیم پر مبنی تھے۔ ذاتی خیالات ان معنوں میں نہیں مگر وہ ذاتی اس لیے کہ میرے دل میں ان کے متعلق بڑا جوش پایا جاتا ہے کہ جن ملکوں میں بعض قوموں کو ذلیل کردیا جائے جو دراصل ان کی ترقی کا موجب ہیں، وہ قومیں ذلیل ہوجایا کرتی ہیں۔ اس لئے اس راز کو سمجھنا چاہیے اور یہ جو قومی تفریق اور یہ جہالت کی باتیں ہیں ان کو ختم کرنا چاہیے۔ یہ صحیح پیغام قبول کرنے کی بجائے ایک بڑے ہی دکھے ہوئے دل والا جولاہا لکھتاہے کہ میرے ارد گرد جو زمیندار ہیں وہ پہلے سے بھی بڑھ کر تضحیک میں اور اونچے ہوگئے اور تمسخر اور دل آزاری سارا دن میر ادل دکھایا ہے کہ یہ جولاہا ہے دیکھو جی۔ میری طرف حوالہ دے کر اب توانہو ں نے بھی کہہ دیا ہے کہ تم بڑے بیوقوف ہو۔ اب یہ تو بڑا ظلم ہے ۔ اپنے گناہ میرے کندھوں پر نہ رکھ کر چلائیں۔ میں نے تو بالکل کھلم کھلا کہہ دیا تھا کہ یہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اور واقعہ اب یہ ہے کہ میں آ پ کے سامنے اقرار کرتاہوں ہم مغل کہلاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اصل میں فارسی الاصل ہیں۔ اور ایک توجیہہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مغل ایران میں آکر آباد ہوئے ہوں اور دونوں باتیں بیک وقت درست ہوں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو صاف لکھا ہے کہ یہ کوئی غلطی ہوگئی ہوگی۔ اصل میں ہم فارسی الاصل ہیں اور بیگ ایک خطاب بھی ہوا کرتا تھا، اب مغلوں کی ایک اچھی ذات سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے رشتے ہوئے ہیں پٹھانوں میں بھی، ہمارے رشتے ہوئے ہیں سیّدوں میں بھی۔ میری ماں بھی سیّد تھی، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں بھی سیّد تھیں۔ ہمارے رشتے ہوئے ہیں چوہدریوں میں بھی، میری بہن چوہدریوں میں بیاہی ہوئی ہے۔ تو اس بیچارے کی دلداری کی خاطر میں بتاتا ہوں کہ میں نے خود دیکھا ہے جن قوموں کو بڑا معزز اور عقل والا سمجھا جاتا ہے ایسے ایسے بیوقوف لوگ ان میں دیکھے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور شرفاء کہلانے والوں میں بڑے کمینے آدمی بھی پیداہوتے ہیں، ایسے جو اپنے ماحول میں ضرب المثل بن جاتے ہیں۔ مغلوں میں بھی انتہائی بیوقوف موجود ہیں، سیّدوں میں بھی سخت بیوقوف اور دوسری قومیں جو ہیں پٹھان وغیرہ سب میں موجود ہیں۔ وہ جب بیوقوفیاں کرتے ہیں تو ان کی بیوقوفیاں ذات کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ذات کے حوالے سے بیان ہوتی ہیں کہ فلاں شخص بڑا بیوقوف ہے۔ اب اتفاق سے کسی جولاہے یا کسی اور قوم کے آدمی سے ویسی ہی غلطی سرزد ہو تو کہتے ہیں دیکھو نا! ہے نا کمینہ آدمی، ہے نا بیوقوف ، قوم ہی ایسی ہے۔ یہ جہالت کی باتیں ہیں۔ وہ جہالت کی باتیں ہیں جن کا احمدیت میں موجود ہوناایک گناہ کبیرہ ہے۔ چونکہ آنحضرت ﷺنے آخری خطبہ میں حجۃ الوداع کے خطبہ میں اپنے پائوں تلے ان خبیث باتوں کو روند ڈالا تھا ۔ جو محمد رسول اللہ ﷺکے پائوں تلے کچلی جائیں اور ردّ کردی جائیں ہمیشہ کیلئے وہ ہمارے دلوں میں جگہ پاجائیںتو بڑے ہی کمینے دل ہوں گے۔ وہ جولاہے یا وہ میراثی یا نائی یا تیلی کمینے نہیں ہوں گے ، وہ دل کمینے ہوں گے جن میں وہ رد کی ہوئی ذلیل باتیں جو محمد رسول اللہ ﷺکچل کے پھینک چکے ہیں وہ ان دلوں میں جگہ پاجائیں۔ تو ان سے معذرت کے ساتھ میں بتانا چاہتا ہوں یہ مقصد تھا کہ میں نے ساتھ بتادیا تھا تاکہ لوگوں کے دل سے یہ باتیں دور ہوں مگر چونکہ یہ مشہور لطیفے ہیں، میرے نام چھپانے سے بات چھپ تو سکتی نہیں تھی، یہ بہتر تھا کہ میں نام بھی بتاتا اور اس بات کے خلاف تعلیم دیتا۔ اس کے برعکس مختلف قومیں جن کو چھوٹی قومیں بتایا جاتا ہے ان میں بڑے بڑے معزز لوگ میں نے دیکھے ہیں، بہت ہی اعلیٰ خلق کے مالک، بہت ہی متقی، بہت ہی خدا پرست اور روشن ضمیر، روشن دماغ۔ تو ہر جگہ یہ بات ملتی ہے ۔ اس کا تعلق تو آنے والی آیت سے ہے لیکن چونکہ آج ان کا شکوہ آگیا تھا میں نے کہا ان کی تکلیف لمبی نہ چلے۔ وہ میں کل پھر اگر اشارۃً ضرورت پڑی تو اس کو چھیڑوں گا۔ انّ فی خلق السموت ولارض واختلاف الیل والنھار لایات لاولی الالباب۔ اس مضمون سے اس کا تعلق ہے جو انشاء اللہ کل میں پھر بیان کروں گا۔
ٹوکیو کی خبریں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام بہت اچھی طرح جاری ہیں اور جاپانی قوم کی طرف سے دن بدن اس کام کو سراہنے کے حیرت انگیز نمونے نظر آرہے ہیں۔ بہت ہی مہربان ہیں، بہت ہی محبت کے ساتھ ہمارا شکریہ ادا نہیں کرتے بلکہ اس کے عملی اظہار کیلئے ہر قسم کی ہماری مدد کرتے ہیں۔ یہ جاپانی قوم کی بڑی خوبی ہے۔ بڑی بااخلاق قوم ہے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ اخلاق نسبتاً سطحی ہیں ۔ خداتعالیٰ کی ہستی میں ان کی جڑیں نہیں ہیں۔ ہمیں ان اخلاق کو دائم بنانا ہے۔ اس پہلو سے اپنے تعلقا ت کو جاپان میںجب استوار کرتے ہیں تو ان کو بار بار خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آئیں کیونکہ ان کے ہاں خداکے ساتھ ذاتی تعلق کا مضمون کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ارواح کے ساتھ تعلق کا مضمون تو ملتا ہے، بادشاہ کے ساتھ تعلق اور اس کو خدائی تعلق سمجھنا یہ مضمون تو ملتا ہے مگر ذات باری تعالیٰ سے ذاتی تعلق کاکوئی مضمون دکھائی نہیں دیتا۔وہاں اپنی نیکی کی تشریح میں یہ بات داخل کریں، ہم تو تم جیسے عام لوگ ہی ہیں بلکہ ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے تم سے صدیوں پیچھے دکھائی دیتی ہے مگر اسی مٹی سے ہمیں کسی نے اپنے ہاتھ میں اٹھایا ہے اور اس مٹی کو کندن بنادیا ہے اور سونے سے کندن بنا کرتا ہے، لیکن یہ مٹی سے کندن بنانے والا ہے۔ اور ہمارے اندر جو تم صفات دیکھتے ہو اس کا تما م تر سہرا قرآن کریم پر اور آنحضرت ﷺ پر ہے جن کی تعلیم اور جن کی روحانی برکت سے ہمارے اندر یہ عظیم اخلاقی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس طرح ہر ایک کولیکچر دیناتو میری مراد نہیں ہے۔ اس مضمون کو ذہن میں رکھیں اور حسب موقع جہاں بھی کوئی قبول کرنے کے مزاج میں ہو وہاں پیار اور محبت سے ان باتوں کو بیان کیاجائے۔ کہتے ہیں ٹوکیو TBS TV نے ہمارے کیمپ میں رضاکاروں کے ساتھ آکے گفتگو کی اس کو ریکارڈ کرایا اور ایک ممبر آف پارلیمینٹ Tsaki Suki Eeda صاحب ہمارے ہاںتشریف لائے اور ہمارے کام کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ان کی بیگم بھی ساتھ تھیں۔ پھر KDD جاپان کمپنی کے مالک یا کرتادھرتا مسٹرولا نے ہمارے رضاکاروں کے کام کودیکھ کر آج ایک دستی فون جو موبائل فون ہے وہ ہمیں تحفے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور اندرون ملک اور بیرون ملک ہر جگہ اس فون سے جو بھی فون ہوسکتا ہے اس کا کسی کو خرچ بھی نہیں دینا پڑے گا۔ یہ مفت ہے ۔ یہاں تک کہ شیل کمپنی نے اپنے پمپ کو ہدایت کی ہے کہ جو بھی احمدی گاڑی رضاکاروں کی تم سے پٹرول ڈلوائے اس سے پیسے نہیں لینے۔ عجیب و غریب نمونے ہیں وہاں ان کے احسان مندی کے اور پاکستان میںہم جب خدمت کرتے ہیں تو مولوی پہنچ جاتے ہیں کہ ان سے خدمت لینا حرام ، ان کو مارو،کوٹو۔ مقدمے بناکے وہ ڈاکٹر بیچارے جو اپنے کاروبار چھوڑ کر خدمت کیلئے پہنچے ان پر دفعہ 298 کے مقدمے اور 295 کا اصرار کہ اس نے جو پاکستان کے نادار مریضوں کا خیال کیاہے یہ ہتک ہے رسول اللہ ﷺکی۔ یعنی گویارسول اللہ ﷺکے کردار سے یہ بات مطابقت نہیں کھاتی۔ وہ کردار جو محمد رسول اللہ ﷺ کو دیکھتاہے اس کے ساتھ مطابقت نہیں کھاتی یہ درست ہے مگر محمد رسول اللہ ﷺکے کردار ہی سے تو سب کچھ سیکھا ہے۔ وہی تو ہے جو ہر جگہ حسن بن کے چمکتا ہے مگر ان پر یہ مقدمے، یہ مطالبے کہ ان کو پھانسی کے ذریعے موت کی سزا ہونی چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے بڑی گستاخی کی ہے رسول اللہ ﷺکی،نادار مریضوںکا خود ان کے گھر وں تک پہنچ کر مفت علاج کررہے ہیں، یہ کون سا اسلام ہے۔ لیکن جاپان کو دیکھیں کیسا پاک فطرت، نیک فطرت کا مظاہرہ ہے۔ اور اس قسم کی باتیں حیرت انگیز ہیں کہ پٹرول پمپوں کو ہدایت ہو کہ ان کی جو گاڑی ہو وہ مفت پٹرول ڈلوائے گی اور اعتماد دیکھیں کتنا ہے! ان کو پتہ ہے کہ احمدی رضاکار اس کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے ۔ ورنہ کوئی اور ہوتا تو وہاں تانتا لگ جانا تھا پٹرول ڈلوانے والوں کا۔ ایک طرف سے آتا دوسری طرف سستا بیچا جاتا۔ کہتے ہیں یہاں تک کہ جرمن اور ہالینڈ کے رضاکار بھی اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ وہ ہمارے کیمپ میں آکر اور ہمارے ساتھ مل کر خدمت کررہے ہیں اور کہتے ہیں جو مزہ یہاں خدمت کا آرہا ہے وہ اور جگہ نہیں ہے۔تو بہت ہی اللہ کے فضل سے پیارے نیک نمونے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ کہتے ہیں جاپان کے رضاکاروں میں سے می یوشی حسب سابق بہت ہی محنت کررہے ہیں اور اب وہ ہمارے کیمپ کے نائب انچارج ہیں۔ کہتے ہیں بہت ہی ان کا تعلق محبت کا بڑھتا چلا جارہا ہے۔ پروفیسر ناتسو یاما روزانہ بلا ناغہ کام کرنے آتے ہیں اور کہتے ہیں اب تو میری بیوی عقیلہ بھی ماشاء اللہ بچوں کو لے کر حاضر ہوگئی ہے تاکہ وہ لنگر میں جو اندرونی خدمات ہیں ہر قسم کی وہ بھی سرانجام دے ۔
اب ہیں سوالات۔ اب اندازہ کریں اس خط سے کہ بات کچھ اور کہی جارہی ہے، سمجھا کچھ اور جارہا ہے اور دلیلیں اس پہ عجیب و غریب اوٹ پٹانگ قائم کی جارہی ہیں اور بعض ایسے لوگوں سے ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے متعلق توقع ہی نہیں ہوسکتی۔ ایک صاحب ہیں جنہوں نے افریقہ میںڈاکٹر کے طور پر خدمت کی ہوئی ہے اور عیسائیت کے ساتھ ان کا بارہا تصادم ہوا ہے تبلیغی لحاظ سے اور اس وجہ سے انہوں نے بائبل کا مطالعہ بھی کیا ہے، اچھی نظر سے کیا ہے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے پمفلٹس بھی چھپے ہوئے ہیں لیکن درس کو وہ کیا سمجھ رہے ہیں، یہ عجیب بات سن لیجئے۔ وہ کہتے ہیں آپ کے درس سے یہ بات، یہ تاثر تو قائم ہوگیا ہے کہ کوئی نبی قتل نہیں ہوسکتا۔ اب یہ میں نے کب کہا ہے؟ نہ میں نے کہا نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا ۔ وہ کہتے ہیں نا!
وہ بات سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
مگر اس کا تو سارے زمانے میں کوئی ذکر نہیں ، فسانے کی بات چھوڑو۔ قطعی طور پر مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے میں بیان کرچکا ہوں کہ کسی نبی کا قتل ہونا ہرگز بعید نہیں ہے لیکن کسی نبی کے متعلق قطعاً ثابت ہوجانا کہ وہ قتل ہوگیا ہے ہمارے علم میں ابھی تک کوئی نہیں۔ اس وضاحت کے باوجود ان کایہ لکھنا وہ دراصل بعض حوالے پیش کرنا چاہتے تھے وہ ان کو بہانہ مل گیا ہے۔ سمجھنے میں بعض دفعہ غلطی ہوجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے میرے بیان میںکچھ غلطی ہوگئی ہو لیکن جس چیز سے مجھے تعجب انگیز تکلیف ہوئی ہے وہ ان کا یہ استدلال ہے کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود یہودی تھے ،یہود کی طرف مبعوث ہوئے اور یہود کے انبیاء کی تاریخ ان سے بہتر کوئی نہ جانتا ہوگا‘‘۔اس کے اندرجو باتیںچھپی ہوئی ہیں میں ان کو ظاہر کروں گا۔ ’’اِنہوں نے بڑی تحدی اور وضاحت سے اپنی قوم پر قتل انبیاء کا الزام لگایا تھا‘‘ یہ استدلال ہے ان کا۔ اب اس میں دیکھیں کتنی ناپسندیدہ باتیں چھپی ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ بائبل کو کون کہتا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کتاب؟ اور انجیل کے حوالے جو وہ دیتے ہیں وہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوپر نازل ہوئی تھی ۔ تو اس کا یہ استدلال کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہترقوم کے حالات کو ن جانتا تھا۔ اس لیے وہ قابل قبول ہے جو بائبل میں انہوں نے خدا کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ نہایت نامعقول دلیل اور وہی انداز ہے جو مستشرقین آنحضرت ﷺکے متعلق استعمال کرتے ہیں کہ محمد کے علم میں یہ بات تھی اس لیے یہ بات یوں لکھی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺخداسے سنتے اور کلام کرتے تھے جو خدا فرماتا تھا یا دل میںالقاء فرماتا تھا وہی کہتے تھے اور ہر نبی جس کی کتاب بڑی ہو یا چھوٹی ہو، صحیفہ ہو شرعی ہو یا غیرشرعی ہو۔ ہر نبی وہی بات کہتا ہے جو خدا سے علم پاتا ہے۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ تصور باندھنا کہ وہ چونکہ یہودی قوم سے تھے اس لیے یہودی تاریخ پر گواہ تھے اور ان کا یہ لکھنا حرف آخر بن گیا کہ ضرور قتل ہوئے ہوں گے۔ یہ بالکل غلط استدلال ہے۔ جب خدا کے کلام کی طرف رجوع کریں گے توپھر انجیل اس وقت لیں گے ۔ پہلے قرآن پہ تو گفتگو کرلو۔ جب قرآن کہہ چکا ہو او ربار بار کہہ چکا ہو کہ انبیاء کو تم قتل کرتے تھے تو پھر انجیل کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے۔ اب یہ دوسری منحوس بات اس میں یہ ہے کہ قرآن کریم کے بیان کو اہمیت نہیںہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اپنی ذاتی حیثیت سے یہ بات نہ کہتے تو یہ تاریخی واقعہ مشتبہ رہتا اور قرآنی بیان کی گویا کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ہم جو بحث کررہے ہیں قرآن کے اس حوالے سے کررہے ہیں کہ قرآن کریم میں قتل انبیاء کا ذکر ہے ۔ کسی نے انکار نہیں کیا کہ قرآن کریم میں قتل انبیاء کا ذکر ہے اور یہ استنباط جو دوبارہ میری طرف منسوب کیاہے یہ بھی بالکل غلط ہے کہ قتل انبیاء کا جہاںبھی ذکر ہے لازماً اس کے دوسرے معنے ہیں اور جسمانی قتل کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ پھر دوبارہ اس کو میری طرف منسوب کیا ہے۔ اب ساری دنیا گواہ ہے کہ ایسی بات کوئی نہ میرے تصور میں ہے نہ کوئی ایسی بات کہہ سکتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی باوجود اس کے کہ قرآن کریم کی ایک آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے بظاہر کہ قتل انبیائ، انبیاء کے حق میں درست نہیں ہے اس کے نتیجے میں مثلاً عصمت کی جو آیت ہے ولو تقول علینا بعض الاقاویل۔ لاخذنا منہ بالیمین۔ ثم لقطعنا منہ الوتین۔ فما منکم من احدٍ عنہ حاجزین۔یہ مشہورجو آیت ہے اس سے عام طور پر یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺاگرکوئی غلط بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تو ان کی سزا یہ ہوتی کہ ان کو ضرور قتل کردیا جاتا۔ چونکہ قتل نہیں ہوئے اس لیے ثابت ہوا کہ یہ سچے نبی ہیں۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور ایک اورآیت جو ہے قرآن کریم میں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افإن مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم۔ یہ اللہ کا رسول ہی توہے، اپنی تمام تر رفعتوں کے باوجود رسالت سے اوپر نہیں نکلا، رسالت کی آخری حدوں کو چھوا مگر رسول رہایہ مراد ہے۔ افإن مات او قتل پس اگر یہ مرجائے یا قتل ہوجائے تو انقلبتم علیٰ اعقابکم۔ کیا تم حق رکھتے ہو کہ مرتد ہوجائو اور اپنی ایڑیوں کے بل گھوم جائو، واپس چلے جائو۔ اس آیت میں اور اس آیت میں بظاہر ایک فرق دکھائی دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بہت ہی اعلیٰ ، بہت ہی دلنشیںتشریحات فرمائی ہیں جس سے جو ظاہری تضاد ہے وہ حل ہوجاتا ہے۔ مگر مسلک یہ لیا ہے قطعی طور پر کہ کسی نبی کا قتل ہونا اس آیت کی رو سے جو اب میں نے پڑھی ہے ناممکن نہیں ہے، ہرگز ناممکن نہیں ہے کہ کوئی نبی جسمانی لحاظ سے قتل ہوجائے۔ کیونکہ یہاںہرگز روحانی معنوں کے قتل کی بحث ہی نہیں ہے۔ افإن مات او قتل میں لازماً جسمانی قتل کی گفتگو ہورہی ہے اور اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام قطعی طور پر فرماچکے ہیں کہ میرے نزدیک قتل انبیاء قرآن کی رو سے جسمانی لحاظ سے بھی بعید نہیں، ناممکن نہیں۔ اسے رول آئوٹ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات کہنے کے بعد پھر فرماتے ہیں ایک اور جگہ جو حوالہ میں نے پیش کیا تھا کہ کسی ایک نبی کے متعلق بھی قطعیت کے ساتھ، سو فیصد یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نبی قتل ہوا ۔ اب یہ استنباط بالکل کھلا اور واضح ہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اب اس کو یہ حضرت اس طرح پھر Develop کرتے ہیں۔ کہتے ہیں پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو لکھا ہے کہ کسی نبی کا یقینی قتل ہونا ثابت نہیں۔ کہتے ہیں اس سے جو استنباط آپ نکال رہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدم علم سے عدم شیٔ لازم نہیں آتا۔ اب یہ وہ محاورہ ہے جو ہمیں جامعہ کے پہلے سال میں پڑھایا گیا تھا اور عام بات ہے ، انٹرنیشنل قانون کا ایک معروف نکتہ ہے کہ علم نہ ہوناکسی چیز کا ہرگز ثابت نہیںکرتا کہ وہ چیز ہوئی ہی نہیں۔
پس کہتے ہیں چونکہ علم نہیں ہے اس لیے حضرت زکریا یقینا قتل ہوگئے۔ یہ کیسے نیتجہ نکالا۔ اس کاکتنا غلط استعمال ہوگیا، الٹ استعمال ہوا ہے۔ عدم علم سے عدم شیٔ لازم نہیں۔ اگر کسی چیز کا علم نہیں تو یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ چیز ہوئی نہیں بالکل غلط ہے یہ بات درست ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ کسی نبی کے متعلق قطعی طور پر اس کا قتل ثابت نہیں تو اس کے بعد کسی ایک نبی کے متعلق قتل کے ثبوت پر اصرار کیا جائے تو یہ کیا تضاد ہے کہ نہیں؟ اس بات کو بھول کے اوٹ پٹانگ منطق ایک بنالی ہے اور اسی مضمون پر بعض اور خط بھی ملے ہیں۔ ایک تفصیلی خط ہے جس میںحمامۃ البشریٰ اوردوسرے حوالے ہیں وہ سارے حوالے میں پہلے ہی مولوی دوست محمد صاحب سے منگواچکا ہوں۔ درس سے پہلے ہی وہ میرے پاس تھے ، ان کا مطالعہ کیا گیا ہے اور بڑے غور اور فکر کے بعد وہ نتیجہ آپ کے سامنے رکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے میں اخذ کرنے پر مجبور ہوا ہوں۔ بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے کہ ایک خلیفہ کے پہلے خلیفہ سے تضادات ڈھونڈتے رہیں۔ ایک خلیفہ کے وقت کے نبی سے تضادات ڈھونڈتے رہیں،ایک نبی کے دوسرے انبیاء سے تضادات ڈھونڈتے رہیں اور ایک نبی کے اللہ سے تضادات ڈھونڈتے رہیں۔ یہ جو مضمون ہے یہ ایک بہت ہی گہرا مضمون ہے۔ اس کی طرف مجھے یاد کرانا آخر پر میں آکر کچھ بات کہنا چاہتا ہوں تاکہ جماعت کو اندرونی بیماریوں سے بچایا جاسکے اور ان کے خلاف ان کو متنبہ کیا جائے۔ گہرائی تک انسانی فطرت پر غور کرتے ہوئے یہ مضامین میں نے دیکھے ہیں جو بہت ہی اہم ہیں اور سمجھانے لازم ہیں۔ پیغامیوں نے دیکھو کیا کیا؟ ساری زندگی اس بات پہ ضائع کردی ، ساری عمر اپنی گنوادی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان تضادات ڈھونڈتے رہے۔ اگر یہی نہج اختیار کریں گے بعض علماء تو ان کے اور خوارج کے درمیان اتنا ہی فرق رہ جائے گا کہ قرآن نیزوں پر ابھی نہیں اٹھائے ورنہ اُٹھالیں گے پھر۔ اس لیے یہ باتیں سمجھانے والی ہیں۔ میں کسی ناراضگی اور غصے کی وجہ سے نہیں بلکہ چونکہ میں جراثیم دیکھ رہا ہوں بیماریوں کے سب سوالات میں نہیں۔ بہت سے سوالات ایسے ہیںجو بڑے متقیانہ انداز میں ہیں اور استغفار کرتے ہوئے ، سبحان اللہ پڑھتے ہوئے کیے گئے ہیںپوچھنے کیلئے کہ ایک خلش ہے اور ویسے جو سوالات ہیں وہ تو ثابت ہیں کہ یہ ابراہیمی صفت ہے۔ پس دو طرح کی خلشیں ہیں جو دل میں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک صفت ابراہیمی سے جس میںجواب ملتا ہے اللہ تعالیٰ کہتا ہے افلم تومن ہے یا اولم تومن ہے جب نکالیں تو اصل آیت نکالا کریں۔ قرآن کریم کی آیت میں کوئی ڈھیل برداشت نہیںہوسکتی۔ بعینہٖ جو اصل آیت ہے میں سنائوں گا لیکن مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ تو جو پوچھ رہا ہے مجھ سے کہ مردوں کو کیسے زندہ کیا جائے گا تو تُو ایمان نہیں لاتا۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا بلیٰکیوںنہیں اللہ میں تو مومن ہوں ولکن لیطمئن قلبی لیکن طمانیت قلب چاہتا ہوں ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے طمانیت قلب کی خاطر بعض سوال ہوسکتے ہیں اور تمام صلحاء کا اور انبیاء کا یہی طریق رہا ہے کہ جب وہ سوال کرتے تھے تو طمانیت قلب کی خاطر کرتے تھے۔ اس کے برعکس یہ بھی ایک تاریخ ہے مذہب کی کہ سوالات اس لیے کئے جاتے ہیں تاکہ بعضوں اور بعض دوسروں مقدسین کے درمیان یا خداکے بندوں کے درمیان تضادات کو دکھایا جائے۔ آنحضرت ﷺکی مخالفت جو اہل کتاب کی طرف سے ہوئی ہے اس کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ اور باتیں ہیں، جو بائبل کہتی ہے وہ اور باتیں ہیں اور یہ تضاد ہے۔ ایک طرف تم بائبل کو سچا کہتے ہو دوسری طرف جھٹلارہے ہو اس لیے ہم ایسے نبی کو قبول نہیں کرسکتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا ہوا؟ یہی ہوا کہ تم تو متضاد باتیںکرتے ہو۔ایک طرف کہتے ہو ایلیا آسمان پرچڑھ گیا ، مانتے ہو کہ بائبل سچی تھی دوسری طرف یوحنا کو ایلیا بتارہے ہو۔ تو یہ جو مضمون ہے یہ دوبارہ پھر میں انشاء اللہ نصیحت کے رنگ میں بتائوں گا۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ اقتباسات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجھے بھجوائے گئے ہیں جن کے اندر یہ مفہوم سطروں کے نیچے دوڑ رہا ہے کہ یہ کیا کررہے ہو ؟ کیا تمہاری نظر نہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماچکے ہیں اور اس کے باوجود وہ مسلک پیش کررہے ہیں جو نعوذ باللہ من ذلک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مسلک سے متصادم ہے۔ اس شوق میں یہ خود لکھنے والے اس بات کے مجرم بن جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں تضاددکھائیں۔ اب دیکھیں میرا تضاد مسیح موعود علیہ السلام سے تو نہیں دکھاسکتے ۔ ناممکن ہے کیونکہ جہاں بھی سرسری نظر سے کوئی تضاد دکھائی دیتا ہے، دے سکتا ہے اس کی گہرائی میں اتر کر میں ثابت کرسکتا ہوں کہ ہرگز تضاد نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺکی جو خدمت جس رنگ میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے فرمائی ہے بعینہٖ اس نہج پر مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھ کر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت پر مامور ہوں اور یہ ماموریت وہ حکم والی ماموریت نہیں۔ یہ وہ ماموریت ہے جس پر ہر خادم مامور ہوتا ہے اور یہ جو عالمی حرب ہے اسلام کی اس میںجو دائو پیچ میں استعمال کرتا ہوں خالصۃً مسیح موعود علیہ السلام سے سیکھے ہوئے ہیں۔ اور تضاد کا کیا سوال ان کی تو نظر وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی جن باریکیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کا میں نے مطالعہ کیا ہے اور جو جومیں نے نعمتیں پائی ہیں مسیح موعود علیہ السلام سے اور جس رنگ میں آپ کے علم کلام ، آپ کے انداز اور آپ کے طرز حرب یعنی غیروں سے لڑائی کے انداز کو میں نے سمجھاہے ان لوگوں کا تصور بھی وہاں نہیں جاسکتا کیونکہ ان چیزوں کیلئے ایک غیر معمولی عشق کی ضرورت ہے جو ملائیت سے نہیں پیدا ہوتا، ملائیت سے تعصب کا تعلق قائم ہوتا ہے اور ملائیت کے مختلف درجے ہیں، جب انتہاکو پہنچ جائے تو بڑی ایک بیہودہ سی چیز، گندی سی چیز بن کے ابھرتی ہے مگر نفس کے اندر بھی مختلف ملائیت کے مقامات ہیں اور مختلف عشق کے مقامات ہیں۔ تو جماعت کو عشق کے تعلق میں ترقی کرنی چاہیے نہ کہ ملائیت کے تعلق میں۔ اور عشق کی نظر سے جب دیکھتے ہو تو ایک خدا کے بندے کا دوسرے خدا کے بندے سے کبھی تضاد دکھائی نہیں دے گا۔ اگر نظر آتا ہے تو ایسا انسان استغفار کرتا ہے، دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے مسائل حل کردیتا ہے۔ بعض دفعہ وہ پوچھتا ہے تو اسی طرح پوچھتا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تھا کہ اے خدا بتا مجھے مردے کیسے زندہ کرتا ہے؟ اور وہی جواب پھر وہ دیتا ہے میں تو طمانیت قلب کی خاطر یہ کررہا ہوں ۔ اب دیکھیں جو تضادمیری طرف منسوب کرنے کی کوشش کی گئی اگر ان کے استدلال کو مان لیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ایک بڑا کھلا واضح تضاد دکھائی دے گا۔ وہ کہتے ہیں تم کہتے ہو کہ اس بات کا امکان ہے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام قتل نہ ہوئے ہوں اور یہ کہنا درست نہیں کہ یقینی اور قطعی طور پر حضرت یحیٰ علیہ السلام قتل ہوگئے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک استدلال میں یہ واضح ذکر فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ جو حضرت سیّد احمد صاحب کا تعلق ہے وہ ارہاص کا تعلق ہے جو پہلے آتا ہے ویسا ہی تعلق حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ حضرت یحیٰ علیہ السلام کا تھا۔ پس دونوں کا قتل ہونا یہ بتاتا ہے کہ ان دونوں میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے۔ تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یحیٰ علیہ السلام کے قتل کا قطعی ثبوت نہیں؟ ایک طرف یہ لکھا ہے تو دوسری طرف یہ بھی تو فرمایا ہے کہ کسی نبی کا یقینی طور پر قتل ہونا ثابت نہیں۔ تو اب بتائیں تضاد کہاں ہوگیا پھر؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قول کا دوسرے قول سے تضاد آپ ثابت کررہے ہیں میں نہیں کرتا اور میرے قول کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تضاد آپ ثابت نہیں کرسکتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی نبی کا قتل ثابت نہیں اور پھر کہا جائے کہ دیکھ لو فلاں بھی قتل ہوگیا اس لیے میں مسیح موعود ہوں اور وہ میرا ارہاص ہے۔ ان دونوں باتوں میں ایک تضاد دکھائی دے گا۔ اس لیے اس کا معنی وہ جو عمومی دلائل کا انداز ہے تبھی سمجھ آئے گا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جہاد کے اسلوب سے آپ واقف ہوں۔ آپ کے جو مناظرات ہوئے ہیں غیروں کے ساتھ ان سے واقف ہوں، انبیاء کے جہاد کے اسلوب سے آپ واقف ہوں، قرآن کریم جب غیروں سے مخاطب ہوتا ہے اس کے اسلوب سے آپ واقف ہوں ، تب جاکر سمجھ آئے گی کہ کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اور مضمون ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ میرے اور مسیح علیہ السلام کے درمیان مشابہت یقینی موجود ہونا ضروری ہے ورنہ مسیح سے میں کوئی مماثلت نہیں رکھوں گا ، اس کا مثیل نہیں کہلاسکتا۔ اس لیے قطعی طورپر لازماً اہم امور میں بعض مماثلتیں ضروری ہیں۔ لیکن مماثلت کے متعلق آپ فرماتے ہیں اس مضمون کو اتنا آگے نہیں بڑھایا جاسکتا کہ جس طرح مسیح مصلوب ہوا میں بھی اسی طرح مصلوب ہوں، جس طرح اس کو چھانٹے مارے گئے مجھے بھی مارے جائیں، جس طرح تاج پہنایا گیا ۔ آپ نے فرمایا یہ مماثلت سے مراد نہیں بلکہ بعض ایسے شواہد قطعی ملنے چاہئیں جسے ہر سلیم فطرت انسان ایک مماثلت کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔ یہی مماثلت کا مضمون ہے دراصل جو ان دونوں سوالات پر حاوی ہے جو میں نے چھیڑ رکھے ہیں جن پہ میں تحقیق کروارہا ہوں۔ایک حضرت زکریا علیہ السلام والا معاملہ اور ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کون تھا؟ چونکہ میرے نزدیک مختلف زمانے جو بیان ہوئے ہیں ان میں ایک زمانہ ہے جو بعینہٖ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان تاریخی سالوں کے فاصلے کو ویسے ہی دکھارہا ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اورحضرت مسیح علیہ السلام کے درمیان تھا اس کو قبول کیا جائے تو پھر کونسا فرعون بنے گا اور بہت سے مسائل ہیں یہ میں اس ذکرمیں بعد میں چھیڑوں گا۔ تو یہ جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید میں اپنا کوئی علمی نکتہ دکھانے کی خاطر بات کررہاہوں ان کو تصور بھی نہیں ہے کہ میری خدمت کے مقاصد کیا ہیں، میں کن باتوں میں اتر کر گہرے مطالعہ کے بعد مجبور ہوجاتا ہوں۔ بعض دفعہ ایسا مسلک لینے پر جو آپ کے مروجہ تسلیم شدہ مسلک کے خلاف ہوتا ہے اور کسی مسلک کا تیرہ سو سال سے جاری رہنا ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ لازماً درست ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک لمبے عرصے تک حیات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے اور مسیح علیہ السلام کے جسمانی رفع کے قائل تھے اور باوجود حیرت انگیز فراست کے اور الہام پانے کے ایک لمبے عرصے تک یہی سلسلہ رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار وحی کے ذریعے فرمایا کہ غلط ہے یہ عقیدہ، اس کو چھوڑ دو، قرآن میں یہ عقیدہ درج ہے۔ وہ وجود جو دن رات قرآن کی تلاوت کرتا تھا اس کی نظر میں وہ بات نہ آئی ۔ لیکن جب اللہ کی انگلی نے دکھائی تو دکھائی دینے لگی اور حیرت انگیز قطعی ثبوت موجود تھے۔ توزمانے کی باتیں جو ہیں یہ بعض دفعہ بڑے بڑے اولیاء اللہ کو بھی، متقیوں کو بھی وقتی طور پر غافل کردیتی ہیں اور یہ اللہ کا تعلق ہے جو آنکھیں کھولنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی علمیت پر انحصار کرکے فخرکرتے ہوئے یہ نہ سمجھیں کہ جو آپ کو ظاہری صورت میں نظر آرہا ہے وہی درست ہے۔ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض مضامین سے پردہ اٹھانے کیلئے ایک نئے دور کا آغاز فرمائے اور اپنی ہدایت اور رہنمائی میں تحقیقات کو ایسے رستوں پر چلادے جن سے بعض اہم امور جو اسلام کی تائید میں عظیم نشان کے طور پر ثابت ہوں وہ ظاہر ہوں۔ یہ مضمون ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت یحیٰ علیہ السلام اور حضرت سیّد احمد صاحب کی مثال اب دیکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو دلیل دے رہے ہیں اس دلیل کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مماثلت ہے۔ اگر یہ ثابت ہوجائے جیسا کہ امکان ہے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام شہید نہ ہوئے ہوں اگر یہ ثابت ہوجائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کسی نبی کے متعلق قطعاً شہید ہونا ثابت نہیں ہے تو پھر تضاد پیدا ہوگا ، پھر وہ دلیل ٹوٹ جائے گی کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق تو ثابت ہوگیا کہ وہ شہید نہیں ہوئے اور حضرت سیّد احمد صاحب کی شہادت ثابت ہوگئی ۔ یہ ہے تضادجس کو دورکرنے کیلئے میں نے دو رُخا تحقیق کی ہدایت کی ہے۔ اورابھی تک میری طرف کوئی ایک مسلک منسوب کرنا جائز نہیں ورنہ میں تحقیق کیوں کہتا۔ میں تو بار بار ہدایت کررہا ہوں کہ یہ اہم مضمون ہے جس میں تحقیق ہونی چاہیے۔ مجھے ایک ذرّہ بھی اس بارے میں شک نہیں کہ یہ تحقیق جن اسرار سے پردے اٹھائے گی وہ دونوں میںسے ایک بات ضرور ثابت کریں گے یا یہ کہ دونوں ہی یقینا شہید ہوگئے اس کو ہم Rule Out نہیں کرسکتے۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام بھی اور حضرت سیّد احمد صاحب بھی یا یہ کہ دونوں کے حالات مشتبہ رہے او رمشتبہ حالا ت کا جو ذکر ملتا ہے تاریخ میں ان میں مماثلت پھر دکھائی دینی چاہیے۔ کچھ نہ کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں مثلاً حضرت سیّد احمد صاحب کے متعلق غیبوبیت کا لفظ بولاجاتا ہے اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کے ذکر میںجو میں اب تک تحقیق کرچکا ہوں اور کرواچکا ہوں اس میں حضرت یحیٰ علیہ السلام کے غائب ہونے کا امکان موجود ہے ۔ حضرت سیّد احمد صاحب کا کٹا ہوا تن سے جدا سر بتایا جاتا ہے کہ کہیںسے حاصل کیا گیا اور دراصل Body ان کاثبوت نہیں تھا بلکہ وہ سر تھا جو قتل کا ثبوت تھا اور بعینہٖ یہی بات حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق تاریخوں میںملتی ہے کہ جسم نہیں تھا بلکہ وہ سر جو طشتری میں پیش کیا گیا وہ ثبوت تھا کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام قتل ہوگئے۔ اب اس سر کی بھی کہانی کا نہ سر ہے نہ پیر ہے۔ اس سر کی کہانی کا بھی نہ سر ہے نہ پیر ہے۔کیونکہ دوسری شہادتیں سر دست جو بیان کررہی ہیں وہ اس کے مخالف جارہی ہیں اس لیے کسی سکھ جرنیل کا کہیں سے سر اکٹھا کروا کر Body سے جوڑ دینا اس کو کوئی تاریخی قطعی ثبوت کہے تو مجھے یہ منظور نہیں ہے۔ غیبوبیت جہاں تک تعلق ہے یہ وہ غیبوبیت نہیں ہے جو فرضی غیبوبیت لوگوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس کے فرق کو اچھی طرح یاد رکھیں۔ وہ جعفر تھانیسری صاحب جو ان کے مرید تھے وہ بہت ہی عاشق تھے حضرت سیّد احمد صاحب کے اور وہ غیبوبیت کے قائل تھے لیکن یہ وہ غیبوبیت نہیں جو مہدی کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے یا بعض اور غائب ہونے والوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے جیسا کہ حضرت الیاس علیہ السلام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بھی غائب ہوئے ہوئے ہیں وہ آسمان پہ چڑھائے گئے یا عیسیٰ علیہ السلام کی غیبوبیت بیان کی جاتی ہے وہ آسمان پر چڑھ گئے۔ یہ وہ غیبوبیت نہیں ہے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ مرے نہیں ہیں کہیں چھپ گئے ہیں اور ایک لمبے عرصے تک ان کو اس بات کا اتنا یقین تھا کہ وہ کہتے تھے مجھے جس طرح اپنی موت کا یقین ہے اس طرح مجھے حضرت سیّد احمد کی زندگی کا یقین ہے، بہت ہی خوبصورت کلام ہے۔ موت سے زیادہ یقینی بات تو کوئی نہیں ہوسکتی مگر ایک انسان کا قول تھا۔ رفتہ رفتہ وہ مایوس ہوگئے اس لیے کہ ان کی غیبوبیت کا تصور یہ نہیں تھا کہ زندہ رہیں گے ہمیشہ۔ جب ایک لمبے عرصے تک ان سے رابطہ نہیں ہوسکاتو بالآخر انہوں نے خود اپنے اس عقیدے کو یہ کہہ کر بدل لیا کہ اب میںجس مضمون کا پلڑا بھاری ہے یعنی اہل علم میں جو لوگ ان کے قتل کے قائل ہیں میں بھی ان میں مجبوراً شامل ہوجاتاہوں۔ کیونکہ مجھے حضرت سیّد احمد سے اس عرصے میں کوئی نہ سندیسہ آیا نہ کوئی تعلق قائم ہوسکا۔اس لیے اتنے لمبے عرصے کی مایوسی کے بعدمیں مجبور ہوگیا ہوں کہ دوسرے فریق کے ساتھ شامل ہوجائوں ۔ لیکن غیبوبیت کا اس واقعہ سے اور ان لوگوں سے مایوسی کا ایک تعلق ہے اور وہاں رہ کر زندہ نہ رہ سکنے کے احتمالات کے ساتھ ایک تعلق ہے اور یہ ایک پیشگوئی اس رنگ کی تھی جس رنگ میںحضرت مسیح علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میں تمہیں چھوڑ کر چلا جائوں گا گمشدہ بھیڑوں کی طرف۔یہاں گمشدہ بھیڑوں کی طرف نہیں مگر گجروں کی طرف ضرور گئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اپنی بیگم جو دوسری بیگم تھیں ان کو اس مشہور واقعہ شہادت سے پہلے آپ نے یہ بتایا کہ میں غائب ہونے والا ہوں اور مجھ پر ایک زمانہ آئے گا جب میں غائب ہوجائوں گا۔ ان کی قطعی گواہی محفوظ ہے جس کی وجہ سے غیبوبیت کا عقیدہ چلا ہے۔ ہمارے بعض ایسے احمدی مخلصین ہیں جن کو کافی شوق ہے علمی تحقیقات کا۔ بعض بیچارے مسکین سے لوگ ہوتے ہیں نہ ان کو اپنے علم کا کوئی زعم مگر بیحد تحقیق کا شوق ہوتاہے تو چونکہ باہر سے ان کو دلداری نہیں ملتی اس لیے مجھے بھیج دیتے ہیں اورمیں پڑھتا ہوں، متاثر ہوتا ہوں ان کو ، ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہوں کہ شاباش بہت اچھا کام کیا ہے۔ تو اس سلسلے میں مقصو د صاحب جو غالباً U.B.L. میں ہیں ملازم، انہوں نے اپنا مضمون مجھے ایک بھجوایا کہ میںنے حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق لکھا تھا لیکن مولویوں سے بڑا ڈرتا ہوں اس لیے آپ کو بھیج رہا ہوں اور اس میں انہوں نے بعض بڑے اچھے نکات بیان کئے ہیں۔ یہ مضمون درس کے بعد میں نے پڑھا ہے اور درس کے بعد اس کے نکات جو ہیں بعض آپ کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ انہوں نے مضمون کے مرکزی نکات بھیجے ہیں او رکہتے ہیں کہ کتاب میں بھیجوں گا آپ کو، میں لکھ چکا ہوں پوری کتاب، وہ جب آئے گی تو پھر انشاء اللہ آئندہ اس سے استفادہ کرکے قابل ذکر باتیں آپ سے بیان کروں گا۔
ڈاکٹر نصیرطاہر صاحب راچسٹر سے لکھتے ہیں کہ میرے پاس ایک کتاب ہے جس میں حضرت سیّد احمد صاحب شہید کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ اس میں جو خاص قابل ذکر بعض باتیں ہیں میں بیان کرتا ہوں کہ مولانا یحیٰ علی عظیم آبادی پھانسی گھر میں اکثر نہایت درد سے دردؔ کی یہ رباعی سیّد صاحب کے حق میں پڑھاکرتے تھے۔
اتنا پیغام درد کا کہنا
کونسی رات آپ آئیں گے
جب صبا کُوئے یار سے گزرے
دن بہت انتظار میں گزرے
یہ جو رباعی ہے یہ پہلی دفعہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میں نے سنی تھی اور انہوں نے اسی ذکر میں یہ مجھے بتائی تھی۔ یہ بہت ہی اعلیٰ کلام ہے حضرت میر دردؔ کا جو اِدھر بھی چسپاں کیاجاتا ہے۔ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری مصنف سوانح احمدیہ تاریخ عجیبہ جو سیّد صاحب کے بہت بڑے تذکرہ نگار اور واقف حال تھے ، والد مرحوم مولانا عبدالحئی صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں: میں خاندانِ پٹنہ کے بتوصل جناب سیّدنا کے حضور میںانتساب بیعت رکھتا ہوں مگر براہ راست بھی مجھ کو ایک مرتبہ پھانسی گھر میں جس کا ذکر صفحہ 26کے آخری پارے تاریخ عجیبہ میں درج ہے اور ایک مرتبہ بروقت رہائی 1300ہجری میں پیام و سلام پہنچنے کا فخر حاصل ہوا اور مجھ کو حضرت مرشدنا کی حیات و ظہور کا ایسا یقین ہے جیسے اپنی موت کا۔مولوی حیدر علی صاحب اور ان کے فرزند کو 1202ہجری میں زیارت کا فخر حاصل ہوا ۔ مولوی حیدر علی صاحب چند ماہ بعدانتقال کرگئے اور ان کے فرزند زندہ موجود ہیں۔ اس ذکر کے بعد وہ لکھتے ہیں:یہ ماہ فروری 1892ء کا خط ہے۔ ارمغان احباب میں والد مرحوم نے بسند صحیح اور حضرت مولانا مظفر حسین سبقانی نے یہ روایت کی ہے کہ میں نے حضرت سیّد صاحب سے دس باتیں سنی تھیں جن میں سے نو پوری ہوچکی ہیں اور ایک باقی ہے یعنی آپ کی غیبوبیت، اس کا ثبوت۔ کہتے ہیںجو باقی نو سنی تھیں وہ من و عن پوری ہوگئی ہیں۔ مگر میں نے خود حضرت سیّد صاحب سے یہ ذکر سنا تھا کہ آپ آخر پر غائب ہوجائیں گے۔ کہتے ہیں والد صاحب مرحوم نے حضراتِ دیوبند کے استفسار پر اپنی یہ رائے ظاہر کی تھی جس سے ان حضرات نے بھی اتفاق کیا کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیّد صاحب نے اس قسم کی پیشگوئیاں فرمائی ہیں۔ لیکن وقوع میںاب تک اشتباہ ہے یعنی پیشگوئیوں کے بیان میںکوئی شک نہیں لیکن وقوع کے بارے میں شبہ ہے کہ جس طرح فرمایا تھا ویسا ہوچکا ہے یا نہیں۔ مولوی محمد جعفرصاحب تھانیسری نے سوانح احمدی میںجو اس خط کے مصنف ہیں اس بات کا اظہار کیا کہ ایسی بھی بہت روایتیں ہیں کہ اس واقعہ بالا کوٹ کے بعد متعدد لوگوں نے سیّد صاحب اور ان کے رفیقوں کو دیکھا اس میں شک نہیں کہ آپ کی شہادت اور غیبویت میںروزِ اوّل سے اختلاف ہے یعنی اس وقت سے دو گروہ بٹے ہوئے ہیں۔ روز اوّل سے اختلاف ہے مگر اب بُعدِ زمانہ کے سبب جو ساٹھ برس سے بھی زیادہ ہوگئے خیال غیبوبت خود بخود لوگوں کے دلوں سے محو ہوتا جاتا ہے۔ سیّد صاحب کی چھوٹی بیوی صاحبہ جن سے قبل از معرکہ بالا کوٹ سیّد صاحب نے اپنی غیبوبت کی پیشگوئی کی تھی اور سیّد صاحب کے اکثر اقرباء اور اہل قافلہ آپ کی غیبوبت کے قائل تھے مگر پنجاب و ہندوستان کے اکثر آدمی پلہ شہادت کو غلبہ دیتے ہیں۔ پس امکان کی بحث ہورہی ہے یقین کی کہیں کوئی بحث نہیں ہے۔
پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام کا قتل بھی ثابت نہیں بلکہ مشکوک حالات ہیں اور ان مشکوک حالات کی مماثلت حضرت سیّد احمدصاحب کے مشکوک حالات سے بعینہٖ ثابت ہوجائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت نہیںبلکہ سو فیصد آپ کی تائید ہوگی اور جو مقصد اعلیٰ آپ بیان کرتے ہیں یہ اس کی تائید میں شہادت ہوگی کہ اگر قتل ہوئے اورقتل ثابت ہو تب بھی ارہاص کے طور پر دونوں مماثلتیں ثابت، اگر قتل ثابت نہ ہو تودونوں کا نہیں ہوگا۔ یہ ہے دلیل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اصل دلیل ہے۔ ارہاص کی مماثلت، ایک طرح سے ہوئی ہو یا دوسری طرح سے یہ ثانوی باتیں ہیں۔ یہ ان باتوں کو نہیں سمجھتے کہ یہ مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی مخالفت نہیں ورنہ اگر تحریر کے لفظوں کو پڑھیں گے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ایک بات کہہ کے اس کی دوسری جگہ مخالفت کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے کے فتح نصیب جرنیل تھے جن کو خدا نے مقرر فرمایا اور آپ کے جو حربے تھے جو جہاد میں آپ نے استعمال کیے ان سے لاعلمی کے نتیجے میں بہت سے غیر توٹھوکر کھاہی گئے، بعض اپنے بھی نہیں سمجھ سکے اور لاہوری جماعت کا وجود آیا۔ وہی باتیںجو نبوت کے متعلق آپ نے ایک جگہ ایک معنے میں فرمائیں، دوسری جگہ دوسرے معنوں میں فرمائیں۔ یہ ایسے باریک در باریک مطالب پرمبنی تھیں کہ ان میں ایک شعشے کا بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مگر ظاہری نظر سے دیکھنے والوں نے یہاں تک اختلاف سمجھا کہ ایک پوری جماعت ہے جو آپ کے بعض حوالے پیش کرکے کہتی ہے کہ دیکھ لو مرز امحمود نے کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی ہے اور آپ یہ کہتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں۔ حالانکہ جو دلائل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش فرماتے ہیں وہ ان باریک مصالح پر نظر رکھ کر فرماتے ہیں جن کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبوت کا انکارکیا ۔ کن معنوں میں انکار کیا ہے اس کی گہرائی پر نظر ڈال کر پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مؤقف لیا ہے۔ میں جو مؤقف لے رہا ہوں بعینہٖ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقصد کی تائید میں لے رہا ہوں اور یہ بیان کررہا ہوں کہ جہاں آپ کہتے ہیں کہ دیکھ لو دونوں میں مماثلت ہے اور اہل عرب کو اس طرف بلاتے ہیں کہ دیکھ لو وہ بھی قتل ہوا ، وہ بھی قتل ہوا اور ارہاص کے لحاظ سے ایک اور دلیل میرے حق میں ٹھہری۔ تو مراد یہی ہے کہ ارہاص کی مماثلت پر زور ہے نہ کہ قتل پر۔ قتل پر اس حد تک ہے کہ اس وقت تک عامۃ المسلمین میں دونوں کے قتل کا عقیدہ رائج تھا اوراستدلال کے رنگ میں بعض دفعہ مخاطب کے مسلمات کو اس کے سامنے ایک دلیل کے طو رپر پیش کیا جاتاہے۔ یہ باریک فرق نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض لوگ جلد بازی سے اچھل جاتے ہیں کہ اوہو ہو یہ تم نے تومخالفت کردی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو وقتی مصلحتوں کے پیش نظر یہاں تک کہا کہ یہ جو تارہ نکلا ہے یہ میرا خدا ہے۔ اب نعوذ باللہ من ذلک کیا وقتی طور پر آپ مشرک ہوگئے تھے؟ طرز استدلال ہے اور بتایا جارہا ہے کہ تم اس کو خد اسمجھتے ہو ، چلو فرض کریں یہ خدا ہے تو بعض دفعہ مخالف کے عقائد کو وقتی طو رپر یوں بیان کیا جاتا ہے کہ گویا کہنے والا اس کاقائل ہے اور ایک مقصد حاصل کیا جاتا ہے مگر یہاں اس سے زیادہ معاملہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جو حالات حضرت یحیٰ علیہ السلام کے معلوم ہوئے تھے یا حضرت سیّد احمد کے معلوم ہوئے تھے ان میں غالب پلڑا، بھاری پلڑا اسی بات کا تھا کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام بھی شہید ہوگئے اور حضرت سیّد احمد بھی شہید ہوگئے۔ اس لیے اس کواستدلال کے طور پر استعمال کرنا ہرگز ثابت نہیں کرتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک یقینی طور پر حضرت یحیٰ علیہ السلام قتل ہوئے ہیں جبکہ آپ یقینی طور پر کہہ رہے ہیں کہ کسی نبی کے قتل کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ باتیں سمجھارہا ہوں اہل علم کو کہ باریک چیزو ں پر غور کرتے وقت دیکھا کریں کہ کئی کئی امکانات ہیں۔ بہت وسیع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو عالمی ایک مصلحت ہے جنگ کی اس کو اختیار کرکے آپ نے کئی طرح سے دلائل پیش کئے ہیں نبوت کے مضمون کو سمجھانے کیلئے بھی،وفات مسیح کو سمجھانے کیلئے بھی، اپنی صداقت کے ثبوت میں بھی اور بعض لوگوں کو ان میں تضادات دکھائی دیتے ہیں ، کتابیں شائع کردی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تضادات پر لیکن یہ جو تضادات کا سلسلہ ہے یہ آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا کیونکہ یہ بہت گہری بیماری کی نشاندہی کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کے منصب پر فائز کرتاہے اگر وہ کم علم بھی ہے تو اس سے یہ بات بہرحال ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کے خلاف بات کرے۔ اور نعوذ باللہ من ذلک اپنی علمیت جھاڑنے کی خاطر ایسی باتیں بیان کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو غلط تھے میں سچا ہوں، یہ خیال *** ہے، یہ کم فہمی کا نتیجہ ہے بلکہ دل کی بیماری کا مظہر ہے۔ یہ جو بیماری ہے یہ جب گہری ہوجاتی ہے تو انبیاء کے انکار پر منتج ہوتی ہے اور قرآن کریم نے ایک جگہ اس مضمون کو یوں باندھا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ اور نبیوں کے درمیان فرق کرتے ہیں ان کے خلاف تعذیر کا اظہارہے۔ خدا اور نبیوں میں کون فرق کیا کرتا ہے وہی لوگ جو ایک نبی کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا کے کلام سے متصادم باتیں بیان کرتا ہے پھر اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ بھی جو نبیوں اور نبیوں کے درمیان فرق ڈال دیتے ہیں ایک دوسرے سے کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی جاہل اور ظالم لوگ ہیں۔ یہی سلسلہ چلتا ہے ہمیشہ آگے تک اور جو واضح کفار ہیں وہ بھی یہی حرکت کرتے ہیں اور جو منافقین ہیں وہ بھی یہی حرکت کیاکرتے ہیںاور وہ لوگ جو منافق نہیںہیں لیکن سطحی علم کے کھوکھوں میں بیٹھے ہوئے وہ اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھتے ہیں ان سے بھی یہ غلطی ہوجاتی ہے نادانستہ، منافقت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی انانیت اور علم کا دھوکہ جو ہے وہ بعض دفعہ انسان کو ٹھوکر پر مجبور کردیتاہے اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہیںجو متقی، خدا پرست اور منکسر مزاج ، وہ جب بظاہر ایک تضاد کو دیکھتے ہیںتو استغفار سے کام لیتے ہیںاور دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خود ان مشکل مضامین کوان پر حل کردیتا ہے۔ یا جس کی طرف سے ان کو یہ خیال ہو کہ شاید اس کو سمجھنے میں غلطی لگی ہو اس کو بڑے انکسار کے ساتھ متوجہ کرتے ہیں کہ یہ پہلو بھی دیکھ لیجئے۔ اگراس کو پیش نظر رکھ کر آپ یہ فیصلہ کررہے ہیں تو خدا نے آپ کے سپرد کام کیا ہے۔ آگے بڑھیں اور خدا جس طرح چاہتا ہے کرتے رہیں ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں۔ مگر یہ پہلو دکھانے کے لائق تھا ہم نے دکھادیا۔ اکثر احمدی علماء ، بھاری اکثریت جو حقیقی اور ٹھوس علم رکھتے ہیں ان کا یہی مسلک ہے۔ اس لیے مجھے اللہ کے فضل سے کوئی فتنہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لیے جماعت ہرگز نہ گھبرائے کہ کوئی فتنہ پیدا ہوچکا ہے مگر انہی باتوں نے فتنے پیدا کیے ہیں اور ان کی یاد بھیانک ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایسے فتنے پیدا ہوتے رہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانے میں ایسے فتنے پید اہوتے رہے ۔ جماعت کے ایک حصے کو جو ان فتنوں کا بانی تھا ان کوتو خدا نے کاٹا ہی مگر بعض نادان اور کم علم اور کم فہم لوگ بھی ساتھ کاٹے گئے او رنقصان اُٹھاگئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی تعالیٰ عنہ کوئی نکتہ بیان فرماتے تھے تو بعض علماء قسم کے لوگ جواس زمانے میں ہمیں نظر آتا تھا کہ دل میں کچھ مرض ہے وہ ہم خیال لوگ ایک دوسرے کی طرف دوڑاکرتے تھے اور ایک دوسرے کے گھروں میں میٹنگ ہوتی تھی کہ دیکھو جی یہ آج خطبے میں بات ہوئی ہے، دیکھا ناں یہ کس طرح کی بات ہے یہ درست نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے ہیں،حضر ت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہہ رہے ہیں، ہم کس کی بات مانیں؟ تاریخ یہ کہہ رہی ہے ، آپ یہ بیان کررہے ہیں اور اس طرح اس مضمون کو بڑھایا کرتے تھے اور قادیان میں جنہوں نے پرور ش پائی وہ گواہ ہیں کہ اڈے ایسے بنے ہوئے تھے اور پھر ان اڈوں نے حقیقت پسندی کا روپ دھارا، حقیقت پسند پارٹیاں بنیں اور ربوہ میں بھی ان لوگوں کے اڈے قائم ہوئے اور کئی لوگوں کو نقصان پہنچا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ بعض ہم خیال جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کوئی نکتہ اہم بیان فرماتے تھے جو عام مروجہ نکتوں سے بظاہر متصادم تھاتو یہ سمجھنے کی بجائے کہ خدا نے جس کو زمام امامت عطا فرمائی ہے وہ گہری مصلحتوں کے بغیر بات نہیں کرسکتا وہ اعلیٰ مفادات کی حفاظت میں باتیں کرتاہے ، آپ کے مقصد کو حاصل کرنے کی بجائے لفظوں کو پکڑ کر اکٹھے ہوجایا کرتے تھے۔ایک کا دوسرے سے رابطہ ، دوسرے کا تیسرے سے رابطہ، بات سُنی دوڑے دوڑے اس گھر میں گئے، پھر اس گھر میں گئے، پھر اس گھر میں گئے کہ دیکھ لیا ناں آج یہ کیا بات کہہ گئے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ ایک طرف حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ، ایک طرف بیعت کی ہوئی ہے اور دوسری طرف دیکھا ناں تم نے کیا کہہ گئے ہیں؟ یہ پھر منافقت پر منتج ہوجاتی ہے بات۔ اللہ کی مرضی ہے جسے بچانا چاہے وہ بچالے، جسے کاٹنا چاہے وہ کاٹا جائے اور اس زمانے میں مجھے یاد ہے کہ میں ایسے موقعے پر اکثرحضرت مولوی ابو العطاء صاحب سے ملا کرتا تھا چونکہ حضرت مولوی ابو العطاء صاحب ان علماء سے تعلق رکھتے ہیں جو ظاہری علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے اور گہری فراست تھی اطاعت کے معاملے میں۔ کامل یقین تھا کہ ناممکن ہے کہ کوئی خلیفہ وقت مسیح موعود علیہ السلام کے مؤقف کے خلاف کوئی بات بیان کرے یا احادیث کے مؤقف کے خلاف، رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئیوں کے خلاف کوئی پراپیگنڈا شروع کردے ۔ اس لیے ان سے مل کر جب میںیہ بتاتا تھا کہ میں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے یہ سمجھا ہوں، یہ فتنہ آپ کو دکھائی دے رہاہے، اس خطرے کی پیش بندی کی خاطر آپ نے اس مضمون کو چھیڑا ہے نہ کہ مجددیت کا انکارمراد ہے بلکہ یہاں تک آپ نے فرمایا کہ خلیفہ وقت بھی مجدد ہوسکتا ہے اس کو کیوں چھوڑ دیتے ہو۔ تو حضرت مولوی صاحب کے خیالات ہمیشہ بعینہٖ اپنے مطابق ہی پاتا تھا او رزیادہ تو میں لوگوں کے ساتھ ایسی بحث نہیں کیا کرتا تھا۔جب مجھ سے کوئی چھیڑتا تھا اس کو ضرور سمجھایا کرتا تھا لیکن اگر کسی سے ذہنی طور پر رابطہ اورمضمون پر گفتگو تھی تو وہ حضرت مولوی ابو العطاء صاحب سے تھی۔ دوسروں سے اس لیے نہیں کہ وہاں کچھ اڈے بھی بن گئے تھے، کچھ ایسے جو ان لوگوں کے خلاف متشدد ہوگئے تھے اور اس کی وجہ سے مسئلے حل ہونے کی بجائے ان میں اور زیادہ فاصلے بڑھتے چلے جاتے تھے ، کچھ ایسے تھے جو دوسری طرف بکھر کردوسرے پول بن رہے تھے ۔ تو میرے نزدیک یہ بات مہلک ہے۔ اور بہت گہرا نقصان پہنچاسکتی ہے ۔ اس لیے اگرچہ میں یہ آثار نہیں دیکھ رہا کہ واقعتہً نعوذ باللہ من ذلک ایسے اڈے بن رہے ہوں مگروہ جو جراثیم جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا موجود رہتے ہیں اگر وقت پر ان کی نشاندہی نہ ہو اور ان کا تجزیہ نہ ہو تو ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ یہ جو خطرے ہیں یہ ان لوگوں سے درپیش ہوتے ہیں جن کی قبولیت بیعت میں ایک انانیت کا پہلو اپنی جگہ قائم رہتا ہے ۔ وہ یہ مضمون سمجھتے ہی نہیں کہ آدم کو جو سجدے کا حکم تھا وہ کیا معنے رکھتا ہے۔ اس لیے وہاں سے بات چلے گی ، آدم کو کیوںکوئی سجدہ کرے؟ مراد یہ ہے کہ فإذا سویتہ و نفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین۔ جب میں اسے ایک منصب پر فائز کرچکا ہوں بتاچکا ہوں ۔ تومراد ہے اللہ کی خاطر خواہ تمہیں باتیں سمجھ آئیں یا نہ آئیں مان لیا کرو، اپنی انانیت کو اس کے سامنے جھکائو۔ یہ ہے سجدے کا مفہوم نہ کہ سرزمین پر ٹیک کر ماتھا ٹیکنا جس کو کہتے ہیں یہ مراد ہرگز نہیں ، اپنی انانیت کو اللہ کی خاطر اس یقین پر کہ خدا نے جس کو چنا ہے اس کو وہ خود عقل بھی دیتا ہے،اس کو سمجھاتا ہے۔ اللہ کی خاطر اپنی انانیت کو اس کے سامنے جھکنے میںمانع نہ رکھنا۔ اس کو جھکائو گے تو پھر تم ان لوگوں میں سے ہوگے جو سچے فرمانبردار ہیں۔
پس میں جانتا ہوں بعض لوگ بیعت کرتے ہیں لیکن علم کی انانیت کا سر اسی طرح بلند رہتا ہے اور وہ اس طرح خلیفہ وقت کو دیکھتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی نکتہ ایسا بیان ہو جو ان کے اپنے نکات جو انہوں نے اپنے طور پر بعض سیکھے ہوئے ہیں اس کے مطابق ہو تو اس طرح تائیدی خط لکھتے ہیں جیسے بچے کو شاباش دی جارہی ہے کہ آپ سے توقع تو نہیں تھی بلے بلے واہ واہ کیا نکتہ بیان فرمادیا ہے، یہی تو نکتہ ہے جو میں کہا کرتاہوں ہمیشہ یہ ہے وہ انانیت کا سجدہ یعنی بظاہر سجدہ ہے لیکن سجدہ نہیں ہے انانیت کا سر اسی طرح اونچا ہے اور ویسے چاہے جتنے مرضی معارف اللہ سے حاصل کرکے کوئی خلیفہ بیان کرے اس کا لطف نہیں ان کو آتا وہ گنگ ہو کے بیٹھے رہتے ہیں بلکہ مٹھیاں زیادہ کسی جاتی ہیں اور یہ ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح موقع ملے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کا سہارا لے کر یہ کہا جائے کہ دیکھ لو مسیح موعود علیہ السلام سے ٹکرا رہے ہو تم ، اپنی انانیت سے ٹکرانے کی جرأ ت نہیں ہے ، یہ کہنے کی جرأت نہیں ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں آپ یہ سمجھ رہے ہیں۔ غلط کہہ رہے ہیں آپ، میں سچ کہہ رہاہوں۔ اس لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں موقع ملے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی ظاہری بیان سے خلیفہ وقت کا بیان ٹکراتا ہوا دکھائی دے وہاں یہ گھوڑے دوڑاتے ہیں، ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور تائیدیں حاصل کرتے ہیں، خود بھی لکھتے ہیں، دوسروں سے لکھواتے بھی ہیں کہ اعلان کردو کہ تم غلط ہوگئے ہو۔ اب ان کی زندگی کا مقصد ہی یہی ہے ۔ یہ خشک خول میںبسنے والے زندگی کی روح سے عاری ہوتے ہیں۔ اللہ چاہے تو ان کے سانسوں کی رمق جاری رکھے میری تو یہی دعا ہے۔ اللہ چاہے تو ان سے وہ روح کھینچ لے جو دراصل نفخ روح سے تعلق رکھتی ہے اور پھر وہی مٹی کی مٹی ہوجائیں جس طرح جس مٹی سے آدم کو اُٹھایا گیا تھا لیکن نفخ روح سے پہلے مٹی ہی تھی اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ پس یہ وہ باریک بیماریاں ہیں جن کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ہر وہ شخص جو خلیفہ وقت سے وہ تعلق رکھتا ہے جو میں بیان کررہا ہوں ۔ ایک مولویت کی انانیت کا ہروقت تاک میں کہ کوئی غلط بات کہے اور ہم اس کو پکڑیں یا غلط بات نہ بھی ہو تو ہمیں غلط لگے تو ہم اس کو پکڑیں اور صرف اس بات پر خوش ہوں جو ہماری تائید میں ہو۔ یہ فطرت کی گہری منافقت کی رازدان باتیں ہیں ان فطرت کی گہری منافقتوں کی رازدان ہیں مگر کبھی کبھی اللہ ان سے پردہ اُٹھادیتا ہے۔ اس بیماری سے بچیں یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے اور اسی کی مختلف شکلیں ہیں جو آغازہی سے اہل اللہ کے انکار پر منتج ہوا کرتی ہیں۔ شیطان نے جس جذبے سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیاہے وہی جذبہ ہے جو آگے بڑھتا ہے اور ہمیشہ یہی ہے۔ تضاد دکھانااورثابت کرنا یہ قدر مشترک ہے جو ساری تاریخ پہ دکھائی دے رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق میں نے بتایا، رسول اللہ ﷺ کے متعلق بتایا۔ سارے عیسائی مستشرقین کا آج تک یہی زور ہے کہ وہ کہیں خدا کے کلام کا محمد رسول اللہ ﷺکے کلام سے تضاد ہے اور پھر خلفاء کے پیچھے خارجین پڑ گئے کہ تمہارا اس مسلک سے تضاد ہے جو محمد رسول اللہﷺ کا مسلک تھا اور آپ کے پہلے خلفاء کا مسلک تھا۔ یہاں تک کہ بیت اللہ میں نماز دوگانہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کے مسلک پر تلواریں تن گئیں او رکہا کہ ثابت ہوگیا کہ تم کافر ہو ۔ تو یہ اگر دائرے کے اندر رہے اور ارتداد کا رنگ کھلا کھلا اختیار نہ کرے تو خارجیت بن جاتی ہے اور خارجیت کا پھوڑا کچھ دیر پکتا ہے پھر پھوٹا کرتا ہے اور پھر کچھ لوگوں کو جو اس کے گرد بسنے والے ہیں ان کو بھی پیپ بنادیتا ہے، وہ گندے مادے کے طور پر خدا کی تقدیر سے باہر پھینک دیے جاتے ہیں۔اس لیے میں پھر دوبارہ وضاحت کررہا ہوں بیماری کی نشاندہی ہے انسانوں کی نہیں لکھنے والوںکی حوصلہ شکنی نہیں ہے مگر لکھنے والوں کو خود اپنے نفس کا حال معلوم ہوسکتا ہے اگر وہ جس طرح میں نے ان کو سمجھایا ہے۔ اپنا تجزیہ کریں اور قرآن کریم کا یہ بیان سچا ہے کہ بل الانسان علی نفسہٖ بصیرۃ و لو القیٰ معاذیرۃ۔ یہ بڑا گہرا نکتہ ہے کہ انسان جتنے مرضی عذر تلاش کرکے اپنی بات کو مختلف برتنوں میں سجا کے پیش کررہا ہو اگر وہ غور کرنا چاہے تو بل الانسان علیٰ نفسہٖ بصیرۃ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ اپنے نفس میں ڈوب کر اپنی اندرونی نیتوں کے آخری کناروں تک پہنچ جائے اور معلوم کرلے کہ یہ سفر کہاں سے شروع ہوا تھا ۔ تو ایسے لوگوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ استغفار سے کام لیتے ہوئے اپنا تجزیہ خود کیا کریں اگر انہوں نے خود اپنا تجزیہ صحیح نہ کیا تو یاد رکھیں خدا کی تقدیر یہ تجزیہ کرے گی اور ان کو نکال کے باہر پھینک دے گی ۔ پھر کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکے گی لیکن اگر تقویٰ سے سوال ہیں اور خلوص نیت کے ساتھ سوال ہیں جس کے ہاتھ پربیعت کی ہے اس کا منصب سمجھتے ہیں تو پھر ایسے سوال رحمت ہیں ان پر کوئی اعتراض کی گنجائش نہیں ہے، ان میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس بات کو سوچنا چاہیے کہ ایک جاہل کو جو خدا نے اُٹھا کر منصب خلافت پر کھڑا کردیا ہے تو اس کے بعد اس کو چھوڑ دیا ہے یا اس کی تائیدیں فرمارہا ہے؟ اگر تائیدیں فرمارہا ہے تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے معانی کے مخالف ہو اور پھر اس کی تائیدیں جاری ہوں۔ اس کا تو مطلب ہے کہ نعوذ باللہ خدا نے مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دیا ہے اور اس خلیفہ کی تائید شروع کردی جس کو خدا نے نعوذ باللہ من ذلک ان لوگوں کے خیال میںجاہل ہوتے ہوئے بھی اس خطرے کے باوجود کہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے جماعتی حقیقی اعتقادات کو نقصان پہنچائے گا پھر بھی اس کو جاری رکھا اور اس کے بعد تائیدیں اس طرح کیں گویا اس بات کی پرواہ ہی کوئی نہیں کہ حرکتیں کیا کررہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو یوں پیش فرمایا ہے کہ دکھائو تو سہی
’’میری طرح جس کی تائیدیں ہوئی ہو ں بار بار‘‘
اب میں آپ کو بتاتا ہوں ۔ دیکھیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشگوئی یہ اس موقعے کیلئے استعمال ہوسکتی تھی، بہت عمدہ بات تھی مجھے تو خیال نہیں گیا مگر عبدالسمیع خان صاحب ربوہ نے اسی عالمی درس سے متاثر ہوکر ایک پیشگوئی بھجوائی ہے جو اس بات کی مؤید ہے بڑی کھلی کھلی مؤید ہے جو میں بیان کررہاہوں کہ اگر آپ نے ایک خلیفہ کی بیعت کی ہے تو درست کی ہے اس خلیفہ کو خدا نے مقرر فرمایا ہے وہ کمزور ہو، ناکارہ ہو خدا اپنے تقرر کی غیرت رکھتا ہے اور حفاظت فرماتا ہے اور اس کے مخالفین کو ضرور نامراد کیا کرتا ہے۔ پس ہر وہ اختلاف جو مخالفت سے اُگا ہے وہ اس پودے کی طرح ہے نجتثت من فوق الارض مالھا من قرارٍ۔ اسے تو ضرور اکھاڑا جائے گا وہ شجرہ خبیثہ ہے اس کو قرار نہیں ملے گا ، یہ میں بتادیتا ہوں Warning کے طور پر لیکن سچے پاک اختلافا جو کثر ت سے مجھے ملتے ہیں ان کے خلاف کوئی ردّعمل نہیں ہے ہرگز نعوذ باللہ من ذلک نہ کسی ایک معین شخص کے متعلق میں اعلان کررہا ہوں کہ وہ منافق ہے ہرگز نہیں۔ وہ اپنا حال مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔ اصول میںنے بتادیا ہے ، سمجھادیا ہے کہ کس طرح پہچان کریںپھر ان کا معاملہ اور خدا کا معاملہ ہے پھر میںبیچ میںسے ایک طرف ہٹ جائوں گا۔ یہ سنیے! مسجد اقصیٰ قادیان میںپہلی دفعہ سات جنوری 1938ء کو لائوڈ اسپیکر لگا۔ 1938ء کو سات جنوری کو لائوڈ سپیکر لگتا ہے اور یہ اتنا بڑا واقعہ ہے اس زمانے کے لحاظ سے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پہ خطبہ دیتے ہیں اور اس وقت میں دس سال کا تھا۔کیونکہ اٹھائیس میں پیدا ہوا ہوں آخر پر۔ تو اس وقت وہ خطبے میں فرمارہے ہیں ’’ اب وہ دن دُور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ پر بیٹھا ہواساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہوسکے گا‘‘۔اب بتائیں کہ میرے جیسے جاہل نادان بچے کا وہاں موجود ہونا کوئی تصور بھی کرسکتا تھا کہ یہ و ہ لڑکا ہوگا جو اُٹھے گا اور اس پیشگوئی کا مصداق بنے گا۔ فرماتے ہیں:
’’ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی علمی دقتیں بھی ہمارے رستوں میں حائل ہیں لیکن اگر یہ تمام دقتیں دُور ہوجائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیںترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں یہ تمام دقتیں دور ہوجائیں گی تو بالکل ممکن ہے کہ قادیان میں قرآن اور حدیث کا درس دیا جارہا ہو اور جاوا کے لوگ اورامریکہ کے لوگ اور انگلستان کے لوگ اور فرانس کے لوگ اور جرمنی کے لوگ اور آسٹریلیا کے لوگ اور ہنگری کے لوگ اور عرب کے لوگ اور مصر کے لوگ اور ایران کے لوگ اور اسی طرح تمام ممالک کے لوگ اپنی اپنی جگہ وائرلیس کے سیٹ لئے ہوئے وہ درس سن رہے ہوں‘‘۔
اس طرح خدا اپنے نشان ظاہر کرتا ہے پھر کیوں شکوک اور وہموں میںمبتلا ہوکر تم اپنی عاقبت کے درپے ہوتے ہو لیکن اگر خالص ہو اپنے عہد بیعت میں اور خدا کی تائیدیںتمہیں یقین دلارہی ہیں کہ یہ درست فیصلہ تھا بیعت کا تو پھر اپنے طرزِ عمل میں وہ ادب اختیار کرو جو لازم ہے۔ میرے جیسے کمزور انسان کیلئے نہیں بلکہ نفخ روح کے تقاضے کی وجہ سے کیونکہ جس خلیفہ کو خدا بناتا ہے جو اس کے مسند پر بیٹھتا ہے وہ اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے۔ نئی نفخ روح اس پر نہیں ہے لیکن اسی نفخ روح سے برکت پاتا ہے اس لیے اس مقام کو کبھی نظر سے ہٹانا نہیں اورذاتی طور پر میں اپنے آپ کو جوسمجھتا ہوں مجھے بہتر پتہ ہے، میں نہایت ناکارہ انسان ہوں، علمی لحاظ سے کمزور، بسااوقات اتنی غلطیاں کرتا ہوں کہ سارے خلفاء نے مل کر جو ظاہری علوم کی غلطیاں ہیں میں پھر بتارہا ہوں ظاہری علوم کی وہ اتنی نہیں کی ہوں گی جتنی میں اکیلا ہی کرچکاہوں اب تک، پھر بھی اللہ برداشت فرمارہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ غلطیاںبشری کمزوریاں ہیں، بچپن کی غلط Schooling کے نتیجے میں۔ میری تربیت اللہ اور طرح فرمارہا تھا سکول کے پڑھنے والے مولوی بن رہے تھے وہ اور طرح بن رہے تھے، ظاہری علوم پہ جو ان کو دسترس ہوئی وہ مجھے نصیب نہیں ہوئی میںجانتا ہوں۔ مگر اگر وہ ہوتی تو یہ نہ ہوتا جو اب نصیب ہے ۔ اس لیے جن تقاضوں کے پیش نظر اللہ مجھے تیار کررہا تھا ان میں ان غلطیوں کا شامل ہونا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے ان پر کوئی غلط نتیجے نہ نکالیں مگر خدا کی تائید بہرحال میرے ساتھ ہے ،رہے گی اور ہر خلیفہ کے ساتھ جب تک مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ مقاصد پورے نہیںہوتے اسی طرح جاری رہے گی اور جو شخص اس سے تعلق کاٹ لے گا اس کا خدا سے تعلق کاٹا جائے گا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے اوراپنی وفا کے تقاضوں کو کما حقہٗ بیان کریں۔ اور ایک اور لطیف بات جو عبدالسمیع خان صاحب نے اس میں بیان کی ہے۔ اس میں یہ بیان ہے کہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ سات جنوری 1938ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ پیشگوئی کررہے ہیں اورماریشس سے سات جنوری کو اس عالمی پروگرام کے آغاز کا آپ نے اعلان کیا ہے۔ اعلان پہلے کیا ہے سات جنوری کے متعلق بتایا تھا کہ سات جنوری سے یہ عالمی انتظام جو ٹیلیویژن کے ذریعے تمام عالم کو مربوط کرنے کا انتظام ہے یہ شروع ہوجائے گا۔ تو عین اسی دن وہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے اور اللہ کی شان دیکھیں ۔ میں تو نکما سا کھلنڈراسا لڑکا تھا وہاں بیٹھا ہوتا تھا اپنے کپڑوں کا بھی ہوش نہیں تھا اکثر ایک ہاتھ سے شلوار پکڑنی پڑتی تھی کہ بعض دفعہ نالا ڈھیلاہوجاتا تھا یہ بھی ہوش نہیںتھی تو لوگ مجھے دیکھ کے ہنسا کرتے تھے، یہ کس قسم کے بیہودہ لباس میں پھرتا ہے لیکن اللہ کی شان ہے جس کو چاہے جوبنادے اور اس کی تائید پھر ایسی کرتا ہے کہ اس کو پھر کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی وہ آسمان پر چمکتی ہے مگر یہ تائید دراصل یاد رکھیں ہمارے آقا و مولا حضرت محمدﷺ کی تائید ہے۔ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے خداتعالیٰ نے یہ فضل آسمان سے اتارے ہیں۔ میں اپنی ذات کو مرکزی نقطہ بتانے کے طور پر پیش نہیں کررہا محض بعض لوگوں کے شکوک دور کرنے کی خاطر بتار ہاہوں کہ اس الٰہی منصوبے میں جو اوّل اور آخر طورپر حضرت محمد مصطفیﷺ کی خاطر بنایا گیا تھا جو مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں اس کا ظہورمقدر تھا اس عاجز کو اس کا ایک معمولی ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے یہ سعادت بھی کوئی کم سعادت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان معاملات کو سمجھنے اور اپنی روحانی اور علمی تربیت کرنے میںان امور کو پیش نظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ20 رمضان بمطابق21؍ فروری 1995ء
آج کا درس شروع کرنے سے پہلے کل کا قرض چکا دینا ضروری ہے۔ہم بات کررہے تھے کہ قرآن کی رُو سے کیا تصویر ابھرتی ہے اور اس کے مقابل پر بائبل اور تاریخ دان کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔ تو اس ضمن میںقرآن کریم کی کچھ آیات میں نے کل آپ کو سنائی تھیں۔ اس مضمون پرواپس آنے سے پہلے میں بائبل کا بتانا چاہتا ہوں کہ بائبل نے اس میں کیا کردار ادا کیا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کو ابھارنے پر، ان کے مٹے ہوئے نقوش کو تازہ کرنے میں اور ایک کہانی ذہنوں میں تعمیر کرنے میں بائبل نے کیا کردار اداکیا ہے۔
‏ Egyptologists جو Egypt کی تاریخ کو آثارِ قدیمہ سے پڑھتے ہیں ان کے بیانات بہت حد تک اس لحاظ سے قابل اعتماد ہیں کہ جو لکھا ہوا وہ انہوں نے پڑھا اور اس کے مطابق ایک تاریخی منظر Creat کیا ہے۔ ان کے ان تاریخی مناظر کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کے ساتھ کوئی Linkنہیں ، کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ سارا تاریخی مواد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے آپس کے مقابلے کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ بلکہ اسرائیل کا نام بھی پہلی بار منفتاح کے زمانے میں ایک ؟پہ ملا ہے ورنہ اسرائیل کا نام تک نہیں ملتا۔ اس لیے ایک طرف ان کا ہے تاریخ دانوں کا اور مصر کے ماہرین کا نظریہ صرف سیکولر حد تک وہ نظریہ بہت حد تک قابل قبول ہے مگر کلیتہً نہیں۔ سیکولر سے مرا دہے غیر مذہبی تاریخ جو مصر کی وہ پیش کرتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے کوئی تعصبات شامل نہیں ہیں۔ وہ حوالے ان تحریروں کے دیتے ہیں جو آج تک کندہ ہو موجود ہیں۔ ایک حد تک قابل اعتبار اس لئے کہ اس تاریخ میں جو بھی ماہر ہیں ان سب کا یہ متفقہ مسلک نظر آتا ہے کہ Egyption اپنی تاریخ کی حفاظت میں پوری طرح دیانتدار نہیں تھے۔ فراعین مصر کی ہر ناکامی، ہر نامرادی اور ہر ذلت آمیز واقعہ کو وہ چھپاتے تھے اور ہر کامیابی کو بڑھا کر بیان کیا کرتے تھے۔ اس حد تک یہ ناقابل اعتبار ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اس لیے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا اورمقابلے کا کوئی ذکر نہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ظاہر وجہ ہے کہ اس زمانے میں ان کا تکبر یہ اجازت ہی نہیں دیتا تھا کہ ایک شخص ہے، اب مزدوروں کا نمائندہ بن کے لیبر لیڈر بنا ہوا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ اس لیبرکو آزا کرو، ہم اس کو اپنی عظیم تاریخ میں کیوں مذکور کریں۔ تو اس کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ خاص طور پر اگر اس کے ہاتھوں سے زک اٹھاگیاہو بادشاہ۔ پھر تو اس کی ہوا تک نہیں آنے دیں گے ذکر میں۔ اوریہی انہوں نے کہا ہے یہ اندازہ ہے مورخین کا کیوں نہیںہوا۔ لیکن جن فراعین کے زمانے ایک دوسرے کے بعد بیان کیے جاتے ہیں کہ کون کس کا بیٹا تھا اور عموماً کتنی عمر انہوں نے پائی ،اس کاانہوں نے بائبل کا کوئی سہارا نہیں لیا۔ یہ انہوںنے تاریخی تختیوں سے پڑھا ہے۔ اس لیے اس حصے کو ہم کسی حد تک، بہت حد تک بلکہ قبول کرنے کے پابند ہیں کیونکہ Confusion موجود ہونے کے باوجود بالعموم یہ تصویر بالکل مسلسل او رمربوط ہے اور جہاں Confusion ہے وہاں یہ خود مورخین لکھ دیتے ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ فلاں دس سے گیارہ سال تک رہا ہے یا دس سے بارہ سال تک رہا ہے یا اتنے سال سے اتنے سال تک رہا ہے۔ عمروں کے لحاظ سے کچھ Confusion وہاں پایا جاتا ہے مثلاً رعمسیس کی عمر،رعمسیس ثانی کی عمر جب وہ تخت نشین ہوا ہے عام مشہور ہے 29۔لیکن ایک مؤرخ نے جو وہ بھی بہت قابل اعتماد ماہر ہیں انہوں نے 18سال پر زور دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنابڑا نہیں تھا بہت نوجوان شہزادہ تھا جب وہ تخت نشین ہوا ہے۔تو 18سال کی عمر میں وہ آیا ہے اور یہ بھی تمام مؤرخین کم و بیش اس بات پر اتفاق کرتے ہیں ۔ اور یہاں وہ بائبل کے حوالوں سے اب سہارا لینے لگیں گے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا پیدا ہوئے ہیں رعمسیس کے آغاز میں یا اس کے بعد Seti کے آغاز میں ان دو باتوں پر یا یہ یا وہ اس بریکٹ پرسب کا اتفاق ہے۔ اورجہاں تک ان کے خروج کا تعلق ہے یعنی کس زمانے میں وہ نکلے ہیں قابل اعتماددو ہی امکان ہیں، انہی کے اندر سارے مؤرخین گھوم رہے ہیں۔ یاتو وہ کہتے ہیں اگر وہ Seti کے زمانہ میںپیداہوئے تو پھر رعمسیس کے زمانے میںمقابلہ ہوا اور ایک لمبا عرصہ رعمسیس سے ٹکر لی اور خروج اسی زمانہ میں ہوا۔کیونکہ جو عمر بتائی جاتی ہے بائبل کے لحاظ سے نکلنے کی وہ منفتاح تک پہنچتی ہی نہیں ہے۔ اس لیے ایک بڑا بھاری گروہ جو اپنے وزن کے لحاظ سے دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے وہ اسی بریکٹ کا قائل ہے کہ Setiکے زمانے میں پیدا ہوئے۔ رعمسیس ثانی کے زمانہ میں اس سے ٹکر لی اور اسی زمانہ میں آپ خروج کرگئے وہاں سے یہ گروہ جو ہے۔
رعمسیس کوسارے مانتے ہیں کہ آتاضرورہے بیچ میں اس سے بچ کے نکل ہی نہیں سکتے۔دوسرے کہتے ہیںرعمسیس کے آغاز میں پیدا ہوئے اور 67سال تک رعمسیس رہا اور اس کے بعد پھر لوٹے ہیں اور منفتاح کے زمانے میں مقابلے ہوئے۔ یہ دو ہیں بڑی واضح تصویریں ہیں جو ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑی ہیں اور اس میںتمام Confusion پیدا کرنے کی ذمہ دار بائبل ہے۔ جہاں تک ان کی تختیوں کا علم ہے اس تختیوں کے علم میں معمولی فرق سالوں کے تو ہیں لیکن تضاد نہیںہیں ۔ ایک دوسرے سے مضامین ٹکراتے نہیں ہیں۔ جہاں بائبل سے مدد لی وہاں یہ ٹھوکر کھاگئے۔ اور Egyptologistsنے یہ جو غلطی کی ہے کہ اپنی سائنس کو بائبل کے حوالے کرکے اس سے استفادہ کرنے کی خاطر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے تصور باندھنے کی خاطر جو بائبل کے بیانات قبول کرلئے اس میںوہ ایسے مخمصے میں پھنس گئے ہیں اس سے پھر نکل ہی نہیںسکتے۔ ایک بھی ایسا نہیں ہے ان میں سے جو بائبل کے سارے بیان کو من و عن قبول کرے۔ اس لیے ۔۔۔۔۔۔ایک ایسا فیصلہ جیسے ڈکٹیٹر کرتا ہے بعض باتیں تو قبول کرلیتے ہیں اور بعض کو ردّ کرنے پرمجبور ہیں کیونکہ بائبل میں تضاد بہت ہے اوروہ سارے ایسے ہیںجو فرعون کے غرق ہونے کے واقعہ کا جو بائبل میں بڑا واضح ذکر ہے اگر اتنی authenticکتاب تھی تو اس کا ذکر کیوں نہیںکرتے۔ الا ماشاء اللہ ۔آخر پہ آکرجو قرآن اور بائبل کا مقابلہ کرنے والا، موازنہ کرنے والا مصنف ہے بکائی وہ ذکر کرتاہے اور یہی ذکر کرتا ہے کہ وہ جان بوجھ کراس کو چھوڑرہے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی بے بسی ہے۔ جو تاریخ اس زمانے کی قطعی طور پر ثابت شدہ ہے اس میںتاریخ میں کسی فرعون کے ڈوبنے کا ذکر نہیں۔ یہ درست ہے کہ ہوسکتا ہے ذکر نہ ہو لیکن وہ ڈوباہو۔ مگر وہ تھاکون پھر ؟ اگر رعمسیس ڈوبا ہے تو اس کے بعد رعمسیس کی پوری تاریخ کیسے محفوظ ہے؟ ایک ڈوبنے کے واقعے سے صرفِ نظر توکیا جاسکتا ہے کہ ذکر نہ کیا جائے کہ ڈوبا تھا۔ لیکن جس وقت یہExodus بناتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام چھوڑ کر چلے گئے ہیں اس کے بعد ڈوبا ہوا فرعون 25-20سال حکومت کیسے کرسکتا ہے اور وہ ساری تاریخ بنتی چلی جاتی ہے اور لکھی چلی جاتی ہے اور اس کاجو جانشین ہے وہ اس وقت کیوںنہیں جانشین بنتا پھر Exodusکے وقت۔ وہ 20سال 30سال کے بعد کیوں جانشین بنایا جاتا ہے ۔ صاف پتہ چل رہا ہے کہ رعمسیس کے بارے میں اور اس کی لاش کاجو موازنہ ہے اس کو دیکھ کرقطعی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ وہ بڑی عمر کا بیماریوں سے ماراہوا فرعون ہے۔ ڈاکٹروں نے جو اس کی تحقیق کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کو ایک قسم کی ایک تو وہ Arterioscleryosis کی علامتیں بڑھی ہیں۔ اس کا جو آخری دور ہے بڑی بے چارگی میںکٹا ہے اسی لیے اس کی حکومت انحطاط پذیر ہوئی ہے بڑی تیزی سے آخری سالوں میں اور دانتوں کی ایسی بیماریاں تھیں اس کی جڑیں جو نظر آئی ہیں تحقیق کی گئی ہے جو بھی کھوج لگایا ہے اہل علم نے وہ کہتے ہیں کہ بڑی تکلیف دہ بیماری تھی اس کو دانتوں کی ۔ اور اس دانتوں کی بیماری سے وہ مرا ہے اور اس کے آثار ممی کے اور اس کی ہڈیوں کے جو بھی انہوں نے X-Rays وغیرہ لیے ہیں وہ یہی بتاتے ہیں کہ یہ مراطبعی موت ہے اور بیماری سے مرا ہے اور عمراس کی 95یا 100سال کے قریب تھی جب وفات ہوئی ہے۔ تو اس فرعون کو اب غرق کیسے کریں وہ؟ کہاں غرق کریں؟ یہ مصیبت ہے۔ اس لیے وہ بائبل کے غرق والے واقعہ سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں۔ تمام مؤرخین مجبورہیں کہ کم از کم اس بیان کوغلط سمجھیںاورجب اس کو غلط سمجھیںتو مجبور ہیںکہ باقی تاریخ پہ انحصار کی کیا دلیل ہے جبکہ وہ تاریخیں خود ایک دوسرے کو جھٹلاتی چلی جارہی ہیں اور اس بات کو بے وجہ مان گئے ہیں کہ ایک فرعون کے زمانے میں پیدا ہوائے اور دوسرے میں مرا، اس نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ اگر Seti کے زمانے میںوہ پیدا ہوا ہے تومنفتاح کے زمانے تک بائبل کے حساب سے پہنچ ہی نہیں سکتا، کسی قیمت پر نہیں پہنچ سکتا۔ پھر مجبور ہے اس کو بیچ میںواپس لاکر رعمسیس سے مقابلہ کروانے پر اور منفتاح والے مجبور ہیں اس کو رعمسیس کے زمانے میں پیدا کروانے پر تاکہ وہ اگلے فرعون تک جاپہنچے۔ یہ سب بائبل نے جو چکر ڈالے ہوئے ہیں یہ اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں یہ سارے۔
اب میں بائبل کے بیان پڑھتا ہوں جومصیبتیں کتنی ڈالی ہیں انہوں نے مؤرخین کو۔ اگریہ قرآن کی نعوذ باللہ ایسی بات ہوتی کوئی توقیامت آجانی تھی ذرادیکھو۔ یہ مصر کی تاریخ قرآن کو اس طرح جھٹلاتی ہے اس طرح یہ متضاد صفت کلام ہے۔ ایسے ایسے دعوے کرتا ہے جس کو عقل ایک لمحہ کیلئے بھی قبول نہیں کرسکتی۔ سب نعوذ باللہ محمد ﷺ کے دماغ کی باتیں تھیں۔ یہ پھر مضمون اس طرح جاری کرتے ہیں ۔بائبل کے متعلق آنکھیں بند کرکے،چپ کرکے تقویٰ کے بالکل خلاف اس کا اگر Criticise بھی کریں گے تومعمولی سا اس کا کوئی غلطی ہوگئی چلو آگے چلتے ہیں۔ لیکن قرآن پر حملے کرتے ہیںدرندوں کی طرح۔ اب میں بائبل کوجوباتیں انہوں نے نظرانداز کی آپ کے سامنے رکھتاہوں۔
بائبل کے مطابق لاوی کے گھرانے کے ایک شخص نے لاوی کی نسل کی ایک عورت سے بیاہ کیا، وہ عورت حاملہ ہوئی اس کے بیٹا ہوا اور اسے دیکھ کر کہ بچہ خوبصور ت ہے تین مہینے تک اسے چھپا کر رکھا ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر ہے۔ اور پھر زیادہ چھپا نہ سکی تو سرکنڈوںکا ایک ٹوکرا لیا اس پر چکنی مٹی اور رال لگا کر لڑکے کو اس میںرکھا اور اسے دریا کے کنارے جھائو میں چھوڑ آئی۔ اب دریا کے کنارے جھائو میں چھوڑ آئی۔ یہ قرآن کریم کے بیان سے متضاد ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ایک بکس میںجس میں پانی …… نہ کرسکے مضبوط بکس بنا اس میں رکھ اور دریا میں بہا تاکہ لوگوں کی نظر میں آئے۔جھائو میں چھپا ہوا کچھ پڑا ہوا نظر میں کیسے اتفاقاً آسکتا ہے۔ ہوسکتاہے دس دن نظر نہ آئے تو لڑکا تو وہیں مارا گیاناپھر وہ۔ یہ کس طرح اس کو یقین ہوگیا تھاکہ جھائو میں ہوگا تو فرعون کی لڑکی نکلے گی اور اسی وقت اس کو دیکھ لے گی یا کوئی بھی دیکھنے والا دیکھ لے گا کہ کیا بہہ رہا ہے۔ تو قرآن کہتا ہے کہ بالکل جھائووائوکوئی نہیںتھاوہ دریا میں بہانے کا فرمایا تھا تاکہ ایک بہتا ہوا بکس سب کی نظر پکڑے اور توجہ پیدا ہو اوروہ خوداگر کنارے نہ لگے تو لوگ دیکھیں تو سہی کہ یہ کیا بہہ رہاہے یہ طبعی امر ہے۔ دوسری آگے جاکے بائبل یہ کہتی ہے کہ اس کی بہن دور کھڑی تھی، اس نے دیکھا۔ پھر فرعون کی بیٹی آئی اس نے کہا کہ میں تمہیں بتاتی ہوں۔تویہ ساری باتیں فی الحال محل نظر نہیں ہیں میں آگے چلتا ہوں۔ صرف بیٹی کا واقعہ ہے جو بیٹی کاذکر کرتی ہے یہ کوئی بعید نہیں۔ ہمیں اس کو تسلیم کرنے میں کوئی عقلی روک نہیں ہے۔ کیونکہ قرآن نے جو فرعون کی بیوی کا ذکر فرمایا ہے کہ اس نے کہا تھا کہ ہم اس کو اپنالیں۔ وہ اس کے اس لیے متصادم نہیں کہ ضروری نہیں کہ فرعون کی بیوی دریائوں پہ پہنچ کے نہاتی ہو، یہ توبعید از قیاس ہے۔ یہ ممکن ہے کہ انہوں نے دریافت کیا ہو بیٹیوں نے۔بعید از قیاس اس طرح تو نہیں کہ بعض دفعہ شاہی خاندانوں کیلئے بعض جگہیں مخصوص کردی جاتی ہیں۔ جا تو سکتی بعید از قیاس تو نہیں مگریہ زیادہ امکان نظر آتاہے مجھے ۔کہ بچیاں گئی ہوں۔ خاندان کی بچیاں شاہی خاندان کی بچیاں،وہاں وہ پکنک منارہی ہوں،دریائوں میںنہارہی ہوں اس وقت یہ واقعہ ہوا ہو اورلڑکی نے پھر لازماً آکے اپنی ماں کے سپرد کیا ہوگا کہ یہ دیکھو! یہ بچہ پکڑاہے۔ماں کا اس پہ دل آگیا ہے اور اس نے یہ کہا جو قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ کیوں نہ ہم اس کواپنے پاس رکھ لیں تاکہ یہ ، پہلے کہتی ہے کہ میری آنکھوں کی پھرہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بھی بنے۔ جب یہ آیت آئے گی پھر میں صحیح ترجمہ کرکے آپ کو بتائوں گا اس وقت میں بائبل کی بات آگے چلاتا ہوں۔ وہ واقعہ جو ہے پھر ماں آئی پھر اس کے ساتھ دودھ پلانے کا معاملہ طے ہوا۔ اس کے پاس رکھوایا گیاامانتاً۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں جن میں قرآن کریم سے کوئی متضادایسا بیان نہیں ہے کہ ہم اس کو نمایاںطور پر پیش کریں۔ یہاں سے بات پھر دوسری شروع ہوجاتی ہے ’’اتنے میں جب موسیٰ بڑا ہوا تو باہر اپنے بھائیوں کے پاس گیا اور ان کی مشقتوں پر اس کی نظر پڑی اور اس نے دیکھا کہ ایک مصری اس کے ایک عبرانی بھائی کو ماررہا ہے‘‘۔ اس سے تو یوں لگتاہے کہ جیسے پہلی دفعہ باہر نکلا تھا اور مشقتوں پرنظر پڑی اور اس نے دیکھا کہ ماررہا ہے۔ یہاں بائبل اور قرآن کے بیان میں یہ فر ق ہے کہ قرآن کریم کی رُو سے پہلا واقعہ جو ایک دن پہلے گزرا ہے جو یہ واقعہ بیان کررہی ہے بائبل ، یہ دو واقعات ہیں۔ ایک پہلاواقعہ ہے۔ یہ پہلا واقعہ ہے ایک اس کے بعد دوسرے دن کا واقعہ ہے۔ پہلے واقعہ میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک شخص کی لڑائی آ پ کے مشترکہ دشمن یعنی فرعونیوں کی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے ہوئی اور دوسرے دن بھی بعینہٖ یہی ہواتھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک شخص اپنے عدّوسے لڑرہا تھا یعنی وہ ایک اورعدّوایک اور دشمن تھا۔ بائبل کہتی ہے کہ پہلے دن تو مقابلہ دشمن سے تھا دوسرے دن وہ اسرائیلی آپس میں ہی لڑرہے تھے۔ یہ بات کررہی ہے جو قرآن کریم کے بیان کے مقابل پر اس لیے کمزور ہے کہ اسرائیلی نے دھمکی دی تھی موسیٰ علیہ السلام کو۔اگریہ اسرائیلی ہے بائبل کے بیان کے مطابق ہے کہ تو نے کل بھی کروادیا تھاآج پھر کررہا ہے۔ توپھرتو جبار بننا چاہتا ہے۔ وہ اسرائیلی تو ان کا ہم قوم تھا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ دھمکی نہیں دے سکتا تھا اور اس کو اطلاع ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اتنے Panic ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ دوسرا جو دشمن تھا جب اس کے معاملے میں دوبارہ دخل دیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو اس نے پلٹ کر کہا ہے کہ تو جبار بننا چاہتاہے اور کل بھی تو نے ایساہی کیا تھا۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوف لاحق ہوا کہ یہ تو دشمن کو خبر مل چکی ہے۔جس کو میں راز سمجھتا تھا کسی کو پتہ نہیںچلا وہ تو سب کو پتہ چل گیا ہے،دشمن کو علم ہو گیا ہے تو پھر خطرہ ہے۔ پھر وہ کچھ چھپے ہیں کچھ عرصے کیلئے اورپھر مخبر نے ان کو خبر دی ہے کہ باتیںہورہی ہیں قرآن کے بیان کے مطابق۔فرعون تجھے قتل کرنے کاارادہ کررہا ہے یہاں سے نکل جا۔ یہ ہے قرآن کریم کا بیان۔ بائبل کا بیان یہی ہے کہ ’’دوسرے دن مصری اس کے ایک عبرانی بھائی کو ماررہا ہے۔ پھراس نے ادھر ادھر نگاہ کی جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس مصری کو جان سے مار کے اسے ریت میں چھپادیا‘‘ یعنی جان سے مارکر ریت میں چھپادیا۔ یہ یَتَرَقَّبُ خَائِفًا والا مضمون جوہے یہ قرآن کریم نے بعد میں بیان کیا ہے پہلے نہیں اس لیے Confusionہے۔ وہ چھپ کر جو ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو دوسرے دن نکلے ہیں باہر ، جب خبر عام ہوگئی ہے نکلنا چاہتے تھے تو اس وقت ڈر کے مارے دیکھ رہے تھے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ۔ لوگ اس وقت کم و بیش نیند کی حالت میں تھے ، پہلے دن کا واقعہ نہیں ہے یہ۔ بائبل اس کو پہلے دن کی طرف منسوب کرتی ہے۔ ’’پھر دوسرے دن وہ باہر گیا اور دیکھا کہ عبرانی آپس میں مارپیٹ کررہے ہیں۔ دو عبرانی آپس میں مارپیٹ کررہے ہیں تب اس نے اس کا جس کا قصور تھا کہا کہ تو اپنے ساتھی کو کیوں مارتا ہے۔ اس نے کہا کہ تجھے کس نے ہم پر حاکم یا منصف مقرر کیا۔ کیا جس طرح تو نے اس مصری کو مارڈالا تومجھے بھی مارڈالنا چاہتا ہے‘‘۔تو یہاں دھمکی منسوب کی ہے بائبل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم قوموں کی طرف ۔ اور وہ جو زیادتی کرنے والا تھا جس کی مدد کی تھی وہی دھمکی دیتا ہے پھر جس طرح کل اس کو مارا تھا اب تومجھے مارے گا۔ یہ قرین قیاس ویسے نظر آتا ہے کہ نہیں۔ دو قوموں کاجب مقابلہ تھا معلوم ہوتاہے کہ اس وقت زمانے میں فراعین مصر کے خلاف ایک عام رو چل پڑی تھی بنی اسرائیل میںاور ان کی جب لڑائیاں ہوتی تھیں تو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردیاںہوا کرتی تھیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دخل دیا ہے اپنے ہم قوم کے حق میں۔تو اس وقت خیال تھا کہ یہی گواہ ہے یہ شخص اور تو کوئی ہے نہیں یہ خبرتو نکلے گی نہیں باہر مگر وہ معلوم ہوتا ہے بڑا ظالم تھا آدمی سرکش کافی لڑاکا تھا۔ اس نے یہ خبر بھی مشہور کردی۔ کیونکہ جب یہ جو ریت میں چھپانے والا واقعہ بھی قرآن کریم بیان نہیں کرتاصاف پتہ چلتا ہے کہ ا سکے قتل کا علم ہواہے تحقیق ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف گواہی دی ہوگی جس کے مدد کی تھی۔ کیونکہ اس کے سرکش کے طورپر قرآن کریم بھی بیان فرمارہا ہے۔ دوسرے دن پھر وہ لڑ پڑا ایک اورسے اس وقت پھرحضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلایا اس نے مدد کیلئے تو جو دوسرا تھا مصری اس کو پتہ چل چکا تھا کہ یہ کیا واقعہ ہے، شہرت ہوگئی تھی۔ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو پتہ نہیں تھا کہ یہ کس کردار کا آدمی ہے۔ انہوںنے کہا ہم قوم میں مدد کرنے کیلئے آگے بڑھے تو اس نے کہا کہ ٹھہر ٹھہر تو جبار بننا چاہتا ہے۔ جس طرح کل تو نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا آج تومجھے قتل کرنے کے درپے ہے۔ یہ زیادہ معقول قرین قیاس واقعہ ہے جو قرآن کریم بیان کررہاہے۔ اور اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سمجھ آگئی تھی یہ بات پھیل گئی ہے۔ پھر حق میںیہ گواہی بعد میں ملی کہ وہاں فیصلے ہورہے ہیں۔ معلوم ہوتاہے کہ اس عرصہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام چھپتے پھرتے تھے اور احتیاط سے قدم باہر رکھتے تھے۔
اب مدین کا واقعہ سنیے! میں تاریخی لحاظ سے جو استنباط کروں گاوہ میں بعد میں آئوں گا ابھی آپ کوپوری کہانی سنادوں تاکہ وہ لوگ جن کو زیادہ ان باتوں کاعلم نہیں وہ آج کے درس میںشامل ہوں گے ان کو پتہ تو لگے کہ کیا باتیں ہم کررہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پہلی ہجرت اس واقعہ کے بعد ہوئی ہے بائبل کی رو سے بھی اورقرآن کی رو سے بھی اس میں اتفاق ہے۔ اور آپ مِدْیَن کی طرف گئے یا مَدْیَن کی طرف اس میں بھی اتفاق ہے۔ وہاں جاکر آپ نے پناہ لی ہے کسی کی حضرت شعیب قرآن کریم اس کو بیان کرتے ہیں اس کا نام (اور ایک جگہ دوسرا نام بھی ہے ’’رعوایل‘‘)۔ بائبل کے بیان میں تضاد ہے ایک جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر کانام ’’یترو‘‘ بیان کرتی ہے اور ایک جگہ ’’رعوایل‘‘ بیان کرتی ہے۔ یہ ہوسکتا ہے دو نام اکٹھے ہوں اس تضاد کو اچھالنے کی ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔کوئی ضرورت نہیں،نہ اس میں دلچسپی ہے۔یہ بھی وہ تھا اس کی سرزمین میں پہنچے ہیں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام اور وہاں بیٹھے ہوئے تھے درخت کی چھائوں میں جبکہ آپ نے قرآن کے بیان کے مطابق دو لڑکیوں کو دیکھا کہ وہ اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔ بائبل کے بیان کے مطابق سات لڑکیاںتھیں اور باری کا انتظار نہیں کررہی تھیں پانی بھر بھر کے وہ مشکیزے بھر رہی تھیں اپنے تاکہ بھیڑوں کو پانی پلائیں۔ پھر کچھ واقعہ ہوا پھر گڈرئیے آجاتے ہیں یہ سارا واقعہ میں بائبل کے الفاظ میں سناتا ہوں۔ ’’وہاں وہ ایک کنویں کے نزدیک بیٹھا تھا (اور مدین جس کو ہم کہتے ہیں بائبل میں مِدْیَنْ یا مِدْیَان لکھا جاتاہے یہ) مِدین یا مدیَان کے کاہن کی سات بیٹیاں تھیںوہ آئیں اور پانی بھر بھر کر کٹھڑوں میں ڈالنے لگیں (یہ کٹھڑا کیا چیز ہے۔ پتہ نہیں کٹھڑا۔۔۔۔ پانی پلانے کیلئے۔ اُنوں پنجابی وج ہن وی کٹھڑا کہندے نیں۔۔۔ پنجابی زبان بڑی قدیم اے)تاکہ اپنے باپ کی بھیڑ بکریوں کو پلائیں۔ گڈریئے آکر ان کو بھگانے لگے یہ اور طرح کی کہانی ہے۔۔۔ لیکن موسیٰ کھڑا ہوگیا اور اس نے ان کی مددکی اور ان کی بھیڑ بکریوں کو پانی پلایا‘‘۔ قرآن صرف یہ کہتا ہے کہ وہ انتظار کررہی تھیں ۔یہ مرد ہیں طاقتور ، شریر بھی ہوں گے۔ ہم انتظار کرلیتے ہیں۔ یہ بڑی معقول بات ہے، قابل قبول ہے لیکن ان سب کو ایک اجنبی نے جھپٹ کرہٹادیا یہ قابل قبول بات نظر نہیںآتی۔ مگر یہ بھی ضمنی معمولی بات ہے۔ آگے چلتے ہیں۔ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر گڈریوں کو ایک طرف کردیا اور پانی پلوادیا‘‘۔ حالانکہ اصل جگہ سے پانی پہلے ہی لے چکی تھیں بائبل کے بیان کے مطابق اور اپنے کٹھڑوں میں پانی بھررہی تھیں۔ ان کٹھڑوں میں وہ پانی پلا سکتی تھیں۔لیکن جو قرآن کا بیان یہ ہے کہ جس جگہ سے پانی لیا جارہا تھا وہاں رش تھا گڈریوں کا۔ اور ان میں یہ لڑکیاں گھسنا نہیں چاہتی تھیں۔ یہ بالکل معقول بات ہے اور پھر آخر پہ جاکر یہ فرماتا ہے کہ استحیاء کے ساتھ چلتی ہوئی آئی ہے ، شرم سے لجاتی ہوئی آئی ہے۔ تو ایسی پاکدامن، حیادار لڑکیاں ویسے ہی مردوں کے جمگھٹ میں جس میں ہرقسم کے مزاج کے کرخت لوگ ہوں گھسنا پسند ہی نہیں کرتیں۔ تو یہ قرآن کا بیان بھی بڑا شستہ اور عین انسانی فطرت کے مطابق دکھائی دیتا ہے۔مگر آخر پر جب وہ اپنے باپ ’’رعوایل‘‘ لکھا ہوا ہے اب یہ۔ اب ’’یترو‘‘ غائب ہوگیا بیچ میں سے لیکن پھر دوبارہ ’’یترو‘‘ شروع ہوجائے گا۔ ہوسکتا ہے یہ کوئی رعوایل ان کا منصب ہو، یہ تواللہ بہتر جانتا ہے۔ تو اس نے پوچھا کہ آج تم اس قدر جلد کیسے آگئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک مصری نے ہم کو گڈریوں کے ہاتھ سے بچایا اور ہمارے بدلے پانی بھر بھر کر بھیڑ بکریوں کو پلایا۔ اس نے اپنی بیٹیوں سے کہا کہ وہ آدمی کہاں ہے؟ تم اسے کیوں چھوڑ آئیں؟ اسے بلا لائو وہ روٹی کھائے۔ اورموسیٰ اس شخص کے ساتھ رہنے پر راضی ہوگیا۔ تب اس نے اپنی بیٹی ’’صفورہ‘‘ موسیٰ کو بیاہ دی اور اس کے ایک بیٹا ہوا اور موسیٰ نے اس کا نام ’’جیرسوم‘‘ یہ کہہ کر رکھا کہ میں اجنبی ملک کامسافر ہوں۔ اور ایک مدت کے بعد یوں ہوا کے مصر کا بادشاہ مرگیا‘‘۔ یہ ہے بنیادی بات جس طرف توجہ مرکوز کرلیں اپنی ۔ جس بادشاہ کے زمانے میں آپ نے ہجرت کی ہے وہ بادشاہ مرگیا ہے اور اس وقت تک یہ اپنے خسر کی بھیڑیں ہی چرارہے ہیں۔ اب اگر وہ بادشاہ رعمسیس ہے جس کے زمانے میں ہجرت کی ہے تو پھر اور شکل ابھرے گی اگر وہ پہلا بادشاہ ہے جس کے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں تو وہ پھر Setiبنتاہے۔ سمجھے ہیں؟ اگر Seti کے زمانہ میں بڑے ہوئے ہیں اور Seti ہی کے زمانے میں آپ کو جگہ چھوڑنی پڑی تو نو سال کا بچہ زیادہ سے زیادہ بنے گا جولڑ لڑ کے دوسروں کو ماررہا ہے مصریوں کو اور اس کے بعد اس کی ہجرت اتنی لمبی ہوجائے گی کہ رعمسیس Rule 67 years(حکمرانی) کرچکا ہے تب جاکر ان کی واپسی کا امکان شروع ہوگا۔ سمجھے ہیں؟یا دوسری صورت میں مؤرخین یہ زیادہ پسند کرتے ہیں۔نہ نہ I'm sorry۔ Setiجب مرگیا ہے ۔ پہلے نظریئے میں یوں بات بنے گی۔ Setiکے زمانے میںپیدا ہوئے ۔Setiکے زمانہ میں ہجرت کی ۔Setiمرگیا تو پھر واپس آئے۔ یہ عرصہ تو اتنا تھوڑا بنتا ہے کہ بائبل کا جودوسرا حساب ہے وہ اس سے بڑا سخت متصادم ہے۔ Seti دس سال زیادہ سے زیادہ رہا ہے( بعض کے نزدیک گیارہ سال تک، پندرہ تک چلتا ہے۔ چلو پندرہ بنالیتے ہیں)پندرہ سال تک Seti مکمل طور پر اس سے زیادہ آگے نہیںبڑھا اس کا راج ۔اور اس کے زمانے میں اس کے احکام جاری کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں بعض لوگوں کے نزدیک۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے تو Seti کے زمانے میںاس کے مرنے سے پہلے ۔Definately اس کے مرنے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پہلی ہجرت ثابت ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آٹھ نو سال کا بچہ تو پھر بھی اتنا ہی بنیں گے ۔ 9-8 سال کاایک بچہ ہجرت کرتا ہے وہ اکیلا وہاں جاتا ہے گڈریوں سے لڑتا ہے ، کون اس کو قبول کرے گا؟ اور پھر اس کی شادی بھی اسی وقت کروادی جاتی ہے۔ یہ ساری ایک فرضی کہانی بن جاتی ہے۔ اس لیے اور پھر اتنی دیر کے بعد وہ مرتا ہے اگر Seti ہو تو کہ Setiکی عمر اس وقت بن جائے گی اس کا راج بھی بن جائے گا ساٹھ ستر سال کا۔ کیونکہ بائبل کے نزدیک یہ واقعہ اس وقت ہوا ہے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر 80کے قریب پہنچ چکی تھی۔ جب خداتعالیٰ نے ان کو یہ اطلاع دی ہے کہ وہ بادشاہ مرگیا ہے توعمر 80 کے لگ بھگ پہنچی ہوئی تھی اس وقت۔ تو کیا Seti ہی رہا ہے اس وقت تک زندہ ؟ اگر Setiکے زمانہ میں ہجرت کی ہے تو Setiکی عمر ساری، رعمسیس کا راج ہی کھاجائے گی۔ اس لیے وہ لوگ جویہ کہتے ہیں کہ Setiکے زمانے میں پیدا ہوئے اور ہجرت اسی زمانے میں ہوئی اور رعمسیس کے زمانے میں واپس آئے ۔وہ Setiکے مرنے کے بعد مانتے ہیں۔ بائبل سے اخذ کرتے ہیں او ربائبل سے متصادم بات پیش کرتے ہیں جو ایک وقت میں دونوں باتیں قابل قبول ہیں ہی نہیں کسی قیمت پر قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لیےAcroct? "This is out of Question"۔
اب آگے چلتے ہیں رعمسیس کے زمانے میں پیدا ہوئے ۔رعمسیس کے زمانے میں پیدا ہوئے تو رعمسیس کی عمر کتنی تھی جو جس طرف میرا رجحان ہے دو کناروں میں سے میں 18سال والے کو زیادہ قابل قبول سمجھتا ہوں۔ کیونکہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ نوجوان وہ بھر پور تھا اور پھر اس کے بعد اس نے کافی بڑے بڑے مقابلے کیے ہیں او رموسیٰ علیہ السلام کے آنے کے وقت بھی مضبوط اور طاقتور نظر آتا ہے۔ اس لیے اس کی بہت زیادہ عمر وہاں نہیں بیان کی جاسکتی۔ 18سال کی عمر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاںپیدا ہوئے تو اس کی 18سال کی عمر میں ۔اور بعض کہتے ہیں کہ 1291قبل مسیح میںیہ تخت نشین ہوا تھا۔ بعض کہتے ہیں 1292قبل مسیح میں یہ تخت نشین ہوا ہے۔ جو 1291والے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت اس کی عمر 18سال کی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 1292بیان کیجاتی ہے۔ تو یہ قرین قیاس بات معلوم ہوتی ہے کہ رعمسیس جب آیا ہے اس کی حکومت کو ایک سال گزرا ہے۔ اس عرصے میں اس نے قوانین نافذ کئے ہیں اور بچوں کے قتل کا فیصلہ کیا ہے اور اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں۔ گویا کہ قریباً ایک سال بعد۔ تو 91 والی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ 91 میں یہ بادشاہ بنا ہو ۔ عمر 18سال تھی۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہجرت کی۔ جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر بائبل کے بیان کے مطابق یا محققین کے بیان کے مطابق جو میں نے دیکھی ہیں وہ 25سے 30سال تک بتاتے ہیں اور یہ قابل قبول ہے۔ رعمسیس کے زمانے میں ان کا پیدا ہونا ،رعمسیس کے زمانے میں بلوغت کی عمر کوپہنچنا ،رعمسیس کے زمانے میں مقابلہ کرنا اوردشمن کو مارنایہ تبھی ممکن ہے اگر عمر 25سے لگ بھگ ہو جو ایک جوان اپنی طاقت کو پہنچتا ہے وہ شمار کی جائے اور بعض جو محققین ہیں مثلاً Peak's Bible جو commentary ہے وہ چالیس سال بتاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جو پہلی ہجرت تھی وہ چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ لیکن قرآن کا بیان میں جب بتائوں گا وہ درستی کرے گااس کی۔ قرآن کا بیان اتنا مکمل ہے کہ اس سے تمام عمروں کا استنباط ہوسکتا ہے۔ جب میں اس کی طرف واپس آئوں گا پھر میں آپ کو سمجھائوں گا کہ کتنا عظیم الشان کلام ہے۔ مگر مؤرخین اور بائبل کے جومفسرین ہیں ان کے جواندازے کے دو کنارے ہیں وہ یہ بنتے ہیں کہ یاحضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر 25اور 30 سال کی عمر تھی جبکہ لڑنے والا واقعہ ہوا او ربادشاہ کی حکومت کو چھوڑ دیا۔ یہ اس لحاظ سے بھی ثابت ہوجاتاہے کہ Setiہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ Setiکے زمانہ میں پیدا ہوں اور 25 سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں جیسا کہ آپ کو پتہ ہے سب مؤرخین اس کو ردّ کریں گے جو Egyptologists ہیں Egypt کی تاریخ کے ماہر وہ اس کو قبول کرہی نہیں سکتے۔ اس لیے This is out of question، اس کو بھول جائیں کہ یہ Setiکے زمانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ رعمسیس ہی کے زمانہ میں پیدا ہوئے ۔ اب یہ گفتگو چلے گی کہ کیا دوسری بریکٹ رعمسیس کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور منفتاح کے زمانہ میںواپس آئے یہ قابل قبول ہے کہ نہیں۔ اور قرآن کریم جوپیش کرتا ہے نقشہ وہ اس کے مطابق ہے کہ نہیں۔ اس بات پر جب ہم آگے بڑھتے ہیں۔ تو اب ہم واپس جاتے ہیں مِدین یا مَدین۔ وہاںپہنچے ہیںحضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمرتقریباً 30,25سال کے درمیان ہے اورمعاہدہ کرتے ہیںاپنے خسر سے۔ قرآن کریم کے بیان کرتا ہے کہ اس معاہدے کی پہلی تاریخ جب معاہدہ ختم ہونا تھا وہ 68سال کے بعد واقع ہوتی ہے۔ان کے خسر نے یہ فرمایا تھا کہ میں تم سے اس بات پر معاہدہ کرتا ہوں تم میری بچی سے شادی کرو۔ اور اس لیے ضروری تھا کہ اس زمانے میں بچیوں کی حفاظت کیلئے ان کے پاس کوئی بیٹانہیں تھا۔ ذکر نہیں ملتا۔بائبل میں ذکر ہے کہ ان کا بیٹا بھی تھا لیکن قرآن کریم کسی بیٹے کا ذکر نہیں کرتا۔ بائبل بھی سات بیٹیوں کا جانا بتاتی ہے اور بیٹے کا کوئی ذکر نہیں کرتی لیکن آگے جاکر بیٹے لے آتی ہے کہیں سے۔ تو یا تو بیٹے بعد میں پیدا ہوئے ہیںاور یاتھے ہی نہیں۔ مگر سات بیٹیاںبھیجے اور بیٹا نہ ہو کوئی یہ عجیب بات لگتی ہے۔ یایہ کہہ سکتے ہیںبہت ہی چھوٹے ہوں گے ۔د ونوں صورتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس گھر میں رہنا ایک جوان مرد کے طور پر مناسب نہیں تھا سوائے اس کے کہ شادی ہوجائے۔ اور قرآن کریم بھی یہ بات پیش کرتا ہے اور بائبل بھی اس لیے اتفاق ہے دونوں کا کہ ان کے خسر نے یہ خودپیشکش کی۔ بائبل کہتی ہے کہ میری بیٹی ’’صفورہ‘‘ سے شادی کرلو۔قرآن نام نہیں بتاتا اس کالیکن یہ بتاتا ہے کہ وہ لڑکی جو حیاء کے ساتھ چلتی ہوئی آئی ہے وہ غالباً وہی ہے نظارہ یہ لگتا ہے۔ اس کا جو بیان تھا وہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ اس نے جاکے کہا قَوِّیُّ الَامِیْن وہ مرد جو ہماری حفاظت کیلئے اٹھا تھااور جس نے ہماری خدمت کی ہے وہ نہ صرف قوی ہے بلکہ بہت دیانت دار آدمی معلوم ہوتا ہے یعنی جس سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ امین ہے تو پھراس پر اعتماد کیا گیا ہے نا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا کہ اس کو بلا کے لائو۔ اس سے معاہد کیا کہ آٹھ سال کی مدت تک تم لازماً پابند ہوگے کہ میری خدمت کرو میری بھیڑ بکریاں پالو۔ ا سکے بعد میں دس سال تک میں تمہیں پھراجازت دیتا ہوں کہ دو سال اگر تم اپنی مرضی سے ٹھہرنا چاہو تو دس سال کی مدت آخری ہے۔ اس کے بعد تم الگ اور میںالگ، اور اس کے بعد جدا ہوناہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکرجو بائبل میں ملتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب پہاڑ والا واقعہ پیش آیا ہے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر اتنی ہوچکی تھی کہ وہ فرعون اس وقت تک مرچکا تھا جس فرعون کے خطرے سے آپ باہر نکلے تھے۔ خداتعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کونبی بنایا ہے تو اس سے پہلے وہ فرعون مرچکا تھا۔ اور قرآن بالکل مختلف نظریہ پیش کررہا ہے۔ اب میں بائبل کے اس نظریئے کو آگے بڑھاتا ہوں توپھر آپ اندازہ کریںکہ کتناخوفناک اور ناقابل تسلیم بات ہے جو بائبل ہمیں منوانا چاہتی ہے۔ بائبل کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں رہے۔ تقریباً چالیس سال وہ بکریاں ہی چراتے رہے اور خداتعالیٰ انتظار کرتا رہا کسی بات کا۔ جب چالیس سال گزر گئے اور آگ پر خداتعالیٰ ظاہر ہوا تو خداتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اب تجھے کوئی خطرہ نہیں ہے وہ فرعون مرچکا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی عاجز تھا اس فرعون کے سامنے اور موسیٰ علیہ السلام کو بچا نہیں سکتا تھااس سے۔ اس لیے چالیس سال انتظار کروایا اور اس وقت وہ جو خسر تھا وہ بائبل کے بیان کے مطابق ابھی ہٹا کٹا ، مضبوط موجود تھا ۔جبکہ جس وقت پہنچے ہیں اس وقت بائبل کہتی ہے وہ بہت عمر رسیدہ پیر فرتوت تھا ۔جس نے ان کو بلایا وہ کاہن۔ تو اس کی عمر میں چالیس سال اور بھی ڈال دیںآپ ابھی بھی وہ دوڑے پھرتا ہے۔ اور اس کی عمر میںپھر مزید داخل کریں توپھربھی وہ دوڑتا پھرتا ہے ۔کیونکہ اب یہاں بائبل میںتضاد ہے۔ بائبل ایک طرف یہ کہتی ہے کہ جب یہ واقعہ ہواپہاڑی والا،پہاڑ پر چڑھے اور آگ دکھائی دی ہے تو ا س کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں اپنے خسر کے پاس، اس سے اجازت لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خیر کے ساتھ جائو ٹھیک ہے ۔ اوراپنی بیوی کو اپنے بچوں کو گدھے پر لادتے ہیں اورسامان کو اور اس طرح وہ واپس چل پڑتے ہیں۔ یہ واقعہ ہے اور دوسری طرف بائبل یہ کہتی ہے کہ جب ہجرت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام باہر چلے گئے تو پھر جس جگہ آپ نے کیمپ کیا ہوا تھا پہاڑی کے پاس ،اسی پہاڑی کے پاس ان کا خسر ’’یترو ‘‘( یترو نام ہے نا) وہ ان کی بیوی بچوں کو لے کر آیا۔ یعنی وہ ساتھ نہیں تھے پہلی دفعہ یعنی۔ وہ ان کو لے کر آیا ہے اوراس نے پیغام دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام باہر نکلے اوراس کو انہوں نے جھک کر آداب پیش کئے اور شکریہ ادا کیا۔اس نے کہا اب یہ لو جی اپنے ہماری امانت بیوی بچے۔ وہ اس کے بعد تک بھی زندہ رہتا ہے۔تو پیر فرتوت کی عمر کتنی بن جاتی ہے اللہ بہتر جانتاہے۔ بائبل تو بڑھاتی چلی جاتی ہے اور اتنا صحت منداور طاقتور آخر وقت تک کہ ان کو سنبھال کر وہاںپہنچتا ہے اور پھر اجازت لے کے کہ یہ اپنا مال سنبھالو میں واپس جارہا ہوں۔ یہ ہے بائبل کا بیان۔اس رُو سے بائبل قطعی طور پر یہ بتاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب فرعون سے مقابلے کیلئے آئے ہیں اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر 80برس کی تھی واپسی پہ۔ یہ ہے Important بات۔
خروج باب 7آیت 3تا7: خداتعالیٰ نے سمجھایا اس کو حضرت موسیٰ کو کہ یہ کہنا اور یہ کہنا۔ اور ساری باتیں۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں فرعون کے دل کو سخت کروں گا اپنے نشان اور عجائب ملک مصر میںکثرت سے دکھائوں گا۔ تو بھی فرعون تمہاری نہ سنے گا۔ تب میں مصر کو ہاتھ لگائوں گا اور اسے بڑی بڑی سزائیں دے کر اپنے لوگوں بنی اسرائیل کے جتھوں کوملک مصر سے نکال لائوں گا اور میں جب مصر پر ہاتھ چلائوں گا اور بنی اسرائیل کو ان سے نکال کر لائوں گا تب مصری جانیں گے کہ میں خداوند ہوں۔ موسیٰ اور ہارون نے جیسا خداوند نے ان کوحکم دیا ویسا ہی کیا او رموسیٰ 80 برس اور ہارون 83 برس کا تھا جب وہ فرعون سے ہمکلام ہوئے ہیں۔ ٹھیک ہے؟ 80برس تک جیسا کہ ایک Commentary بھی ماننے پر مجبور ہے کہ وہ مدین میں ہی ٹھہرے رہے ہیں اور سارے حوالے اس وقت پڑھنے کا وقت نہیں مگر میں آپ کو بعد میں یہ جب مضمون اگر شائع ہوگا اس میں پیش کردیے جائیں گے کہ یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو وجوہات بیان کی ہیں اس تاخیر کی۔ اتنی دیر کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیوں بھیجا جارہا ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پوری طرح ابھی اسرائیل کے حال کی اطلاع نہیں ہوئی تھی اور جب خدا کو خبر پہنچی اور ان کا نالہ آخر آسمان پرپہنچ گیا تب بائبل کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا اوہوہو! یہ تو بڑا ظلم برداشت کررہے ہیں۔ اب میں نے سن لی آخر ان کی فریاد اور اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم جائو اور اس کو بچائو۔ لیکن طاقتور اتنا وہ خدا کہ کہتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ وہ میرابڑاگناہ ہے ان کے اوپر۔ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ توکہتے ہیں تم فکر نہ کرو وہ مرچکا ہے فرعون ۔اس لیے اب تمہیں اس فرعون سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تو خدا دو وجہ سے انتظار کررہا تھا موسیٰ علیہ السلام کے بڈھا ہونے کا۔ اوّل یہ کہ خداتعالیٰ کو پوری اطلاعات نہیںپہنچی تھیں اورجب پوری طرح فریاد آسمان تک جاپہنچی اور علم ہوا تو خدا نے فیصلہ کیا۔ مگر اس فیصلے کی روک راستے میں فرعون مصر روک بنارہا ہے۔کیونکہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ عذر قبول کیے کہ واقعی خطرہ تھا ۔ لیکن اب جبکہ وہ مرچکا ہے تو خطرہ ٹل گیا ہے اس لئے اب تم بیشک جائو۔ اس کہانی کوجیسا کہ میں نے بیان کیا قبول کریں تو Seti کی پیدائش والا واقعہ تو ویسے ہی Overvote چلا جاتا ہے کیونکہ پھر Setiاس وقت تک زندہ ماننا پڑے گا اور لازماً رعمسیس سیکنڈکے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جس میں اتنا زمانہ لمباملا۔ لیکن یہ واقعہ پھر پیدائش کے 67 years بعد ہوناچاہیے۔ اگر یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے 67 سال بعد ہوا تو جب خدا نے اطلاع دی کہ فرعون مرگیا ہے تو واپس جا اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمرکتنی بنتی ہے؟ 67سال ۔ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ رعمسیس نے 67سال حکومت کی ہے بائبل کے مطابق اور محققین کے مطابق۔ بائبل کے مطابق محققین کے مطابق۔
دوسرا نظریہ کہ اگر وہ Setiکے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو لازماً رعمسیس کے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ مؤرخین اور محققین کی یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ آغاز ہی میں پید اہوئے ہیں اورایک سال صرف گزرا تھا بادشاہی کو جب پیدا ہوئے ہیں۔پس جب وہ مرا ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمرکم سے کم 66یازیادہ سے زیادہ 67سال تھی۔سمجھ گئے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ اطلاع کررہا ہے کہ اب جائو کوئی خطرہ نہیں ۔ وہ بیٹھے کیا کرتے رہے۔ گئے کیوں نہیں؟ 80سال کے ہوئے تب واپس گئے۔ اب کیسے اس کو ہم قبول کرسکتے ہیں بائبل کے اس بیان کو۔ غلطی لگی ہے آٹھ اور اسّی میں اصل یہ بات ہے۔ میں نے جوتحقیق کی ہے۔ میں نے کہا یہ 80آیاکہاں سے بیچ میں ۔یہ بائبل کے لکھنے والوں کوصفریں بڑھانے کا بڑا شوق ہے۔ جہاںہزاروں تھا وہاں لاکھوں کردیا۔ شکر کریں یہاں دو صفریں نہیں بڑھائے، ایک ہی بڑھایا ہے۔اب قرآن کریم کا بیان اب میں سناتا ہوں اس کے مقابل پر کتنا عظیم الشان ہے۔(آٹھ سال کی وہ کہاں ہیں آیات ساری۔۔۔ کہاں تک پہنچے تھے ہم۔۔۔ یہی ہیں نا وہ قصص کا مضمون جو ہے۔ ٹھیک ہے)۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
اب اس پس منظر کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں پھر یہاںکمنٹری آپ کو سمجھ آئے گی ورنہ آپ کو سمجھ نہیں آنی تھی۔اس لیے تھوڑی سی رخصت لے کرمیں نے محققین کے اندازے اوران کے نظریات بھی آپ کوبتادیے اور بائبل کے تضادات پر بھی کچھ روشنی ڈالی۔ اب قرآنی بیان دیکھتے ہیں اس کو کسی اور کی احتیاج نہیں ہے۔ اپنی ذات میںایک مکمل مضمون ہے اور القصص کے نیچے بیان ہوا ہے۔ قصص کا مطلب ہے تاریخی کھوج لگاتے ہوئے ایسے واقعات تک پہنچنا جو حقیقت ہیں قصے نہیں ہیں۔ اگرچہ القصص کا بہت سے محققین اس کو قصوں کی جمع کے طور پر بھی لیتے ہیں کیونکہ بعض دفعہ مصدر ان معنوں میں استعمال ہوجاتا ہے اس سے مجھے انکار نہیں ہے مگر بنیادی معنی القصص کا ہے کہ کھوج لگا کر حقائق کی تلاش۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن حقائق کے تم کھوج لگاتے پھرتے ہو تم سے نہیںہونا۔ ہم بتاتے ہیں کہ اصل تعریف کیا ہے؟ اس ضمن میں جو دلچسپ باتیں سامنے آئیں گی وہ دیکھیں کیساقابل قبول ایک بہت ہی واضح مربوط منظر پیش کرتی ہیں جس میں کوئی منطقی طور پرحرف نہیں رکھا جاسکتا۔کوئی اس پر قدغن نہیںلگائی جاسکتی۔ فالتقطہ ال فرعون لیکون لھم عدوًّا وحزنًا۔یہ میں نے پڑھی دی تھی۔ انّ فرعون وھامان و جنودھما کانوا خاطئین۔ اس کو فرعون نے فالتقطہ اٰل فرعون فرعون کی آل میں سے کسی نے اٹھایاہے۔ لیکون لھم عدوًّا وحزناً۔ وہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ کیوں اٹھایا ہے۔ مگر تقدیر الٰہی یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ یہ بچہ ان کیلئے دشمنی اور غم کا موجب بنے ۔ حَزَنَجو ہے یہ بہت اہم ہے۔ دشمنی کا موجب تو جب لڑائی ہوئی ہوگیا ۔ جب تک اس فرعون کو جس کے زمانے میں یہ پید اہوا ہے زک نہ پہنچے۔ اس سے آل فرعون کے حزن کا کوئی موقعہ نہیں ہے۔ پس قرآن کریم کے الفاظ کو گہرائی سے ڈوب کر پڑھیں تو پھر تاریخ کے نقوش خود بخود ابھرتے چلے جاتے ہیں۔ عدُوّا کہہ کر کیوں نہیںبات چھوڑ دی؟ حُزن کس بات کا ہوا۔ عدوّ تھااگر عدو بھاگ گیا نکلنے پر مجبور ہوگیا تو یہ تو کافی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں اسی فرعون کو جس کے زمانے میں یہ بچہ اٹھایا جارہا ہے اس کے خاندان کو ضرور دکھ پہنچنا ہے اور وہ دکھ تبھی ممکن ہے کہ وہی فرعون جس کے زمانے میں یہ بچہ اٹھایا جارہا ہے اس کو زک پہنچی ہو اور اسی بچے کے ہاتھوں جس کو انہوں نے بظاہر پناہ دی تھی ان کو تکلیف پہنچے۔ یہ مضمون ہے عدوّا و حزنًا کا ۔ اب جہاں تک اس نیک بخت بی بی کا تعلق ہے اس کی توقعات بالکل مختلف تھیں۔ وقالت امراۃ فرعون قرۃ عینًا لی ولکفرعون کی بیوی نے کہا اوہو میری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک اور تیری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک۔ اس بیچاری کو پتہ نہیں تھا کہ خدا کی تقدیر کیا ہے؟ مگر لِیوالی بات اس کی قائم رہتی ہے کہ وہ ایمان لے آتی ہے او رلک والی بات پوری نہیں ہوتی وہاں خدا کی تقدیر اس سے ٹکراجاتی ہے۔ لاتقتلوہُ اس کا مطلب ہے کہ وہ بچہ دربار میں پہنچ گیا ہے اس وقت بھی فیصلہ ہورہاتھا کہ اسے قتل کرکے پھینک دیا جائے یا نہ پھینکا جائے۔ محض لڑکی کے اپنانے کے نتیجے میں وہ نہیں بچا۔ بلکہ جب دربار میں پہنچا ہے تو پھر بڑے بڑے سردار اکٹھے ہوئے ہوئے ہوں گے کہ یہ کیااٹھالائی ہے یہ لڑکا اور ہے یہ یقینا عبرانیوں کا بچہ اور بادشاہ کا حکم ہے کہ ہر ایک کو ذبح کیا جائے ۔ اس کو بادشاہ کے گھر میں پلنے دیا جائے۔ یہ کچھ گفتگو وہاں چلی ہے۔ تو حضرت آسیہ جو فرعون کی نیک پاکدامن بی بی تھیں جن کاقرآن نے بہت تعریف سے ذکر فرمایا ہے انہوں نے دخل دیا ہے اس مشورے کے دوران ۔کہتی ہیںمیری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈی بنے گا۔ لاتقتلوہ ہرگز قتل نہ کرو اس کو۔ عسٰی ان ینفعنا او نتخذہ ولدًا وھم لایشعُرُونابھی بات شہرت نہیںپائی،پھیلی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں اورلوگوں کو کچھ پتہ نہ ہو کہ کیا واقعہ ہوا ہے؟ یہ جوبات ہے بتارہی ہے کہ اس وقت اس بیوی کا بیٹا کوئی نہیں تھا۔یہ جو بیٹے بعد میں ہوئے ہیں وہ دوسری بیویوں سے ہوئے ہیں کثرت سے ۔انکا بھی اگر بعد میں کوئی بیٹا ہوگیا ہو تو اس بات سے اس کا ٹکرائو نہیں ہے۔ ایک اور طبعی بات یہ ہے کہ فرعون کی عمراگر 18سال کی تھی جب وہ تخت نشین ہوا ہے توایک سال کے اندر یہ واقعہ ہوگیاہے حضرت موسیٰ علیہ السلام والا ۔ تو قرین قیاس ہی نہیں ہے کہ اس وقت کئی بچے ہوچکے ہوں۔ اس لیے وہ بیٹی والا واقعہ پہلی فرعون کی کوئی بیٹی ہوگی۔ اگر بائبل کہتی ہے توقرآن تو کسی بیٹی کا ذکر ہی نہیں کررہا۔آل فرعون کہتا ہے۔آل فرعون نے اس کو دریافت کیا تھا، آل فرعون اس کو اٹھا لے گیاتھا۔ تو آل فرعون نے کئی قسم کی بچیاں پہلے فرعونوں کی بیٹیاں، خاندان بڑا وسیع تھا۔ حرم بھی اس زمانے میں ہواکرتے تھے ۔ تو وہ لوگ جو آل فرعون کہلاتے تھے وہ وہاں پکنک منارہے تھے جب ان میں سے کسی نے دیکھا اس کو لے لیا۔ جب وہ دربار میں پہنچا ہے بچہ تب یہ فیصلہ ہونے لگا تھا کہ اس کو قتل کردو۔ تودو دفعہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوقتل سے بچایا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں تکرار جو ہے ایک دفعہ پھر دوسری دفعہ یہ بار بارملتی ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن میںاس مضمون کو بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ دو دفعہ کیوںکرتاتھا۔ پھرکیا تعلق ہے دو دودفعہ کا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام بات کرتے وقت بھی اٹکتے تھے اوردو دو دفعہ بولنا پڑتا تھا ان کو۔یہ عجیب واقعہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ دو دو دفعہ کا مضمون بڑے دلچسپ انداز میں جاری ہے۔ قتل سے اس وقت خدا نے بچالیا اور آسیہ اُس کا موجب بنی۔ اس وقت تک ان کے اولاد نہیں تھی۔ اس لیے بعد میں اولاد ہوجائے تو کوئی بعید نہیں۔ کیونکہ اس زمانے میں آغاز میں ممکن ہی نظر نہیں آتا کہ اتنی جلدی ان کے بچہ ہوگیا ہو۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے و اصبح فؤادُ اُمّ موسٰی فارغًا۔ توموسیٰ کی اماں کا دل ہم نے کھول دیا، اس کو فراغت نصیب ہوئی۔ ان کادت لتبدی بہ لو لا ان ربطنا علی قلبھا لتکون من المومنین۔ موسیٰ کا دل، موسیٰ کی ماں کی بات ان کادت لتبدی بہ۔ اس کو خداتعالیٰ نے صبر عطا فرمایا ہے غیر معمولی طور پر۔ اس کے دل کو فراغت نصیب فرمائی۔ ورنہ اتنا غم تھااس بیٹے کی جدائی کا کہ اگر وہ غم ظاہر ہوجاتا اور واویلا کرتی تو پھر جوخد اکی تقدیر تھی کہ کس طرح بیٹا اس کو واپس ملے گا یہ نہیں ہوسکتی تھی۔ پھر شور پڑ جاتا اوروہ Plan ہی ساری بیکار چلی جاتی۔ لولا ان ربطنا علی قلبھا ان کادت لتبدی بہ ۔ عین ممکن تھا کہ وہ غم کو ظاہر کردیتی۔ مگر ہم نے اس کے دل کو ربط عطا فرمایا لتکون من المومنین۔ تاکہ اس کواور ایمان بڑھے کہ ہم نے جو اس سے وعدہ کیا تھا کہ یہ بیٹا بچے گا اور نقصان سے محفوظ رہے گا اور بڑا ہوکر عظیم کارنامے سرانجام دے گا اس پر اس کا ایمان بھی قائم ہوجائے ۔ وقالت لاختہٖ قصیہ وبصرت بہ عن جنبٍ وھُم لا یشعُرُون۔ یہاں پہلا واقعہ بیان کرکے ہمارے پڑھنے والے کے ذہن سے یہ خطرہ دور فرمایا دیا ہے کہ یہ بچہ جارہا ہے اس کو کہیںڈوب ہی نہ جائے۔ تو بعض دفعہ تسلی پہلے دے دی جاتی ہے کہ فکر نہ کرو یہ خیریت سے پہنچ جائے گا، دربار تک رسائی ہوگی اور وہاں جاکے اپنالیا جائے گا۔ اب واپس اللہ تعالیٰ اس مضمون کی طرف لوٹتا ہے کہ ماں سے جب جدائی ہوئی تو کیا کیا واقعات ہوئے۔ فرماتا ہے کہ اس نے اس کی بہن سے اختہ سے مراد بیٹے کی بہن سے یہ کہا کہ قصیہ۔اس کی پیروی کر۔اوروہی لفظ ہے القصص ۔جستجو کرنا، کھوج لگانا۔ اسی سے قصی نکلا ہے۔ فبصرت بہ عن جنبٍ و ھم لا یشعرون۔ وہ ساتھ چلتی کا مطلب اسے دیکھتی جاتی تھی کہ وہ جوبکس بہتا ہوا کس طرف جارہا ہے۔ اور کسی کو اس نے پتہ نہیںلگنے دیا کہ اس کا اس بکس سے کوئی تعلق ہے۔ بھولی سی بن کے ساتھ ساتھ دیکھتی جاتی تھی کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
و حرمنا علیہ المراضع من قبلُ اور اس سے پہلے ہی ہم اس پر دودھ پلانے والی نرسیں یا دائیاںحرام کرچکے تھے۔ یہ ذکر پہلے ہی آگیا ہے کہ ہم نے جو اس کو کہا تھا کہ اسے اپنے پاس رکھ کے دودھ پلا تاکہ تیرے دودھ کی عادت پڑ جائے کوئی اور دائی اس کو قبول ہی نہ ہو۔ اس چند مہینے کے عرصے میں اس دودھ کا ایسا مزہ پڑ گیا تھاحضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہ کسی اور دائی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ لیکن اللہ فرماتاہے کہ ہم نے پہلے ہی انتظام کرلیا تھا۔ فقالت ھل ادُلّکم علی اھل بیتٍ یکفلونہ لکم وھم لہ نصحون۔یہ جو دودھ پلانے والا واقعہ ہے یہ یا تو محل سے باہر ہے یا محل کے اندر ہے۔ میرا یہ تاثر ہے کہ واقعہ محل سے باہر ہواہے ورنہ اس بہن کو محل تک رسائی کیسے ہوگئی؟ کہ سیدھی وہاں جا کے محل میںکہے بنی اسرائیل کی ایک لڑکی۔ وہ کہاں پہنچ سکتی تھی محل میںاور پھر بچہ جو روتا بلکتا ہوا دریاسے Receiveکیا گیاہو پہلاخیال آتا ہے کہ اس کو دودھ پلائو۔ تو انہوں نے دوڑایا ہوگا کہ دیکھو کوئی دودھ والی عورت ہو تولے کے آئو۔ وہ جب آئیں ہیں عورتیں دودھ پلانے کی کوشش کی ہے تو اس نے بڑے غصے سے اس کو دھکا دیا ہے دودھ کو۔ عام طور پر میں نے دیکھا ہے بچے یہی کیا کرتے ہیں کہ جو دودھ قبول نہ ہواس کو ہاتھ مارکے یوں کردیتے ہیں کہ میں نے نہیںپینا۔ اس وقت یہ کھڑی دیکھ رہی تھی، ساتھ ساتھ جابھی رہی تھی۔ اس بہن نے کہا میںنہ تمہیں بتائوں میرے علم میںایک عورت ہے جس کے تازہ تازہ بچہ ہوا ہے اور وہ غالباًضائع ہوگیا تو اس کو کیوں نہ ہم Tryکریں۔ اس طریق سے اس نے اپنی ماں کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے قرآن کے بیان کے مطابق۔علی اھل بیت یکفلونہ لکم وھم لہ ناصحون۔اہل بیت تمہیں ایک ایسے مل جائیں گے۔ یہ مشورہ اس وقت ہوا تھا لیکن اس پر عمل اسی وقت نہیںہوا۔ یہ مشورہ انہوں نے لیا، اس کو لے کے دربار میںچلی گئیں ، وہاں قتل کی بحثیں ہوئیں۔فیصلہ ہوا کہ اس کو بچالینا چاہے۔ پھر وہ بات یاد آئی ہے اس لڑکی کی کہ وہ کہتی تھی کہ کوئی ایسا ہے یہ اور تو دودھ پی نہیںرہا چلو اس سے پتہ کرتے ہیں۔تو فرماتا ہے کہ اس طرح ہم نے رددنہ الی امہ کی تقرعینھا ولا تحزنی ولتعلم ان وعداللہ حقٌ ولکنّ اکثرھُم لایعلمونہم نے اس طرح اس کو اپنی ماں کی طرف لوٹادیا۔ یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں جوVet Nursesہوتی تھیںدودھ پلانے والی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی یہی رواج تھا ،ان کو اپنے گھر میں نہیں پالاکرتے تھے بلکہ ان کے گھروں کی طرف بچوں کو رخصت کیا کرتے تھے۔ حضرت حلیمہ دائی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا وہ آئیں تھیں اور رسول اللہ ﷺ کو گھر لے گئی تھیں۔تو یہ قدیم سے کوئی رواج چلا آرہا تھا ۔فراعین کے زمانے میں بھی یہی تھا ۔تو اسی لیے اس نے ساتھ ہی مشورہ بھی دیا تھا کہ گھر والے بھی اچھے ہیں۔ یکفلونہ کا مطلب ہے پتہ تھاکہ اگر وہ دودھ والی بات ،اس کی تجویز منظور ہوگئی تویہ بحث اٹھے گی کہ گھر کیسا ہے۔ کہیں کوئی بیہودہ سا گھر تو نہیں ہے۔ تو اس نے تسلی دلائی کہ بڑے اچھے لوگ ہیں میں تمہیںتسلی دلاتی ہوں۔وہاں اچھی تربیت پائے گا۔ تو آغازِ جوانی محل میںنہیں ۔نہ آغاز بچپن کا محل میں نہیںبلکہ اپنی ماں کی گود میں ہوا ہے۔ وہیں سے تربیت کا آغاز ہوا ہے اور ماں نے کفالت کی ہے۔ پھر جب اس عمر کو پہنچا کہ دودھ چھڑوالیا جاتا ہے اور بچوں کو پھراصل کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو وہ اصل سے لے کر اس فرضی اصل کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لوٹایا گیا۔ کہتے ہیں اس ذریعہ سے ہم ان کو کی تقر عینھا اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، اس کے غم دور ہوجائیں ، غم نہ کرے اور جان لے کہ اللہ اپنے وعدے میں سچا ہے جبکہ اکثر لوگوں کو اس کا علم نہیں۔
ولما بلغ اشدہواستوی اتیناہ حکمًاو علمًا و کذلک نجزی المحسنینجب وہ بالغ ہوگیا اور مضبوط ہوگیا او راپنے وجود میں قائم ہوگیا تب ہم نے اس کو حکمت کی باتیں سکھائیں اور علم عطا کیا۔ یہ ابھی نبوت کی بات نہیں ہورہی ۔اس لڑائی والے واقعہ سے پہلے کی بات ہے لیکن یہ پتہ چلتا ہے کہ کافی بڑی عمر یعنی Teenage کی جو عمرہے اس سے آگے نکل گئے ہیں۔ یہ طرز بیان تو بیس کے بعد کا زیادہ برمحل معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تیرہ، چودہ، پندرہ سال کے لڑکے کیلئے۔ و دخل المدینۃ علی حین غفلۃٍ من اھلھا وہ مدینہ میں داخل ہوا حین غفلۃ من اھلھا۔لوگ ابھی سوئے پڑے تھے۔ بائبل جو کہتی ہے نا،نکلے تھے تو حالات کا علم ہوا۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ محل میں تربیت پارہے تھے۔ محل والے پسند نہیں کرتے تھے کہ اپنی قوم سے خلاملا کریں۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام علی الصبح جبکہ ابھی اندھیرا ہوتا تھا اور لوگ ابھی سوئے پڑے ہوئے تھے اس وقت باہر نکلا کرتے تھے ، سیر سُور بھی کرآتے تھے اور بعض اپنے ہم قوموں سے رابطے بھی کرلیا کرتے تھے ۔ توعلی حین غفلۃ من اھلھا ایسی حالت میں پہنچے ہیں۔ تو وجد فیھا رجلین یقتتلان اور وہ منظر بتاتا ہے کہ وہاں لڑائی میں دخل دینے کا اور Detect نہ ہونے کا ایک زیادہ امکان موجود ہے۔ وقت بھی صبح صبح کا تھا لوگ ابھی سوئے پڑے تھے۔ دو آدمی لڑرہے تھے ایک ان کی قوم کا اور ایک دوسری قوم کا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حمایت کی اور بے فکر ہوکر حمایت کی۔ بائبل کہتی ہے کہ ادھر ادھر دیکھا تھا۔ وہ وقت ہی ایسا تھا دیکھا تھا یا نا دیکھا تھا۔بہر حال کوئی اوردیکھ نہیں رہا تھا۔ کہتے ہیں فاستغاثہ الذی من شعیتہپہلے فرماتا ہے ھذا من شیعتہ و ھذا من عدوہ یہ ایک اس کا ہم قوم ، ہم قبیلہ تھا دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا۔ جو اس کے قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اس نے مدد کی درخواست کی اس دشمن کے خلاف ۔ فوکزہ موسیٰ فقضی علیہ۔ اس کو موسیٰ نے مکامارا اور ایک ہی مکے سے وہ مرگیا۔ جس کا مطلب ہے قوی ہونااس کا اور بلغ اشدہیہ بڑی شان کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات میں پورا اترتا تھا۔ بہت مضبوط جوان تھے تبھی بیٹی نے بھی پہلے قویکا ذکر کیا ہے ۔وہ غیر معمولی تنومند اور طاقتور انسان ہے لیکن امین بھی ہے۔اس میں دیانتداری شرافت ہے۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے کہ کہیںکوئی اور قسم کا انسان نہ ہوطاقتور ۔ قرآن فرمارہا ہے کہ ایسی حالت میں اس نے مکا مارا قال ھذا من عمل الشیطنانہ عدو مضل مبین۔اسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اتنے نیک ہوچکے تھے حکمًا و علمًا مل چکا تھا۔ آپ کو شرمندگی کا احساس ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شیطان نے مجھ سے کروادیا ہے میری کوئی نیت نہیں تھی انہ عدو مضل مبینشیطان تو دشمن ہے گمراہ کرنے والا اور کھلا کھلا گمراہ کرنے والا ہے۔ قال ربّ انی ظلمت نفسیفاغفرلی فغفرلہ انہٗ ھوالغفورالرحیم۔ اسی وقت بخشش بھی مانگی ہے اللہ تعالیٰ سے ۔ بائبل نے کہاہے کہ ریت میں دفنایااس کو ۔ پتہ نہیں کچھ حصہ لیا تھا کہ نہیں یا اسی طرح چھوڑ گئے تھے اللہ بہتر جانتا ہے۔ ریت میں دفناہوا پتہ کس طرح لگ گیا لوگوں کو۔ معلوم ہوتا ہے کہ لاش کواسی طرح چھوڑ اہے ۔ کسی نے دیکھا نہیں چلے گئے ہیں۔ لیکن استغفار کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور ایسی استغفار کی کہ اللہ نے معاف بھی فرمادیا۔ قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظھیرًا للمجرمین۔ اے خداجوتو نے مجھ پر انعام فرمادیاہے اب میں کبھی مجرموں کی حمایت نہیں کروں گا۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس شخص کے مجرم ہونے کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علم ہوچکا تھا کہ یہی ہے شریر آدمی۔اب میں غلطی سے معصوم کو مار بیٹھا ہوں۔ اگلے دن جب پھر نکلتے ہیں تو پھر دیکھیں کیا دلچسپ واقعہ ہوا ہے۔ یہ وعدہ کرلیا تو فأصبح فی المدینۃ خائفًا یترقب۔ اب مضمون ہے مدینے میںپھر نکلے ہیں مگر خوف بھی تھا کل والے واقعہ کا۔ تو ادھر ادھر دیکھ رہے تھے یہ دوسرے دن کا واقعہ ہے جو بائبل نے پہلے دن کا بیان کیاہے۔فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ وہی شخص جس نے گزرے ہوئے کل کو انہیں مدد کیلئے بلایا تھا پھر چیخ چیخ کر ان کو بلا رہا ہے اپنی طرف، پکڑو پکڑو میں مارا گیا۔قال لہ موسٰی انک لغوی مبین موسیٰ نے کہا کہ میں پہچان گیا ہوں کہ توواضح طور پر کھلا کھلا گمراہ ہے۔غوی گمراہ مبین کھلا کھلا۔ لیکن قوم کی ہمدردی اتنی تھی کہ فلما ان اراد ان یبطش بالذی ھو عدولھما۔کل والا وعدہ بھول گئے جو اللہ تعالیٰ سے کیا تھا، ابھی نبی تو نہیں بنے ،اس کو پہچان بھی لیا ہے۔وعدہ کرچکے ہیں اللہ سے کہ میں آئندہ کبھی کسی ظالم شریر کی مدد نہیں کروں گا۔ لیکن قومی محبت اتنی غالب تھی دل پر کہ ارادہ کیا کہ میں اس کوپکڑوں۔ یبطش کا مطلب بطش کا مطلب پکڑنا بھی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے اس میں یہ گنجائش حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں نکلتی ہوکہ اس کو پکڑ کر الگ کردیں۔ مارنے کا ارادہ نہ کیا ہو۔ اس ضمن میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں ہم یہ سمجھیں گے کہ آپ نے وعدہ خلافی نہیں کی تھی یاد تھا۔ اب وہ صرف بچانے کی حد تک دخل اندازی کرنا چاہتے تھے وکز کا ذکر اب نہیں ملتا۔ قال یموسی اترید ان تقتلنی کما قتلت نفسًا ابھی ، ساتھ بھی نہیں ڈالا تھا تو وہ بول پڑا۔اس نے کہا اے موسیٰ! جس طرح کل تو نے قتل کیاہے آج پھر تیرا ارادہ ہے۔ تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پتہ چلا کہ یہ خبیث آدمی جو غویہے بڑاخبیث انسان، یہ میرا راز کھول بیٹھا ہے اپنا گناہ میرے ذمے ڈال بیٹھاہے۔لڑ یہ رہا تھا اتفاقاً حادثہ ہوا ۔ لوگوں کو پتہ چل چکا ہے اوریہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔وجاء رجل پھر آتا ہے ان ترید الاّ تکون جبارًا فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین۔ واضح بات ہے کہ تومحض جبار بننا چاہتا ہے ۔زمین میںایک ڈکٹیٹر بن کر ابھر رہا ہے ظالم اور سخت رو انسان بن کر۔تواصلاح نہیںکرنا چاہتا، تیری نیت اصلاح کی لگتی نہیں ہے۔ اس چیز سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دل دہلا ہے اور معلوم ہوتا ہے دوبارہ استغفار کی طرف طبیعت مائل ہوئی ہے۔وہ کہیں چھپے ہیں واپس گھر نہیں لوٹتے۔وجاء رجل من اقصی المدینۃ مدینے کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا ہے۔ یہ وہ کنارہ ہے جہاں فراعین مصر اور Royal Families وغیرہ رہتی تھیں۔ ایک کنارے پر جو غرباء کے کوارٹرز تھے یا جھگیاں تھیں مزدوروں کی اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم رہتی تھی۔ تو اقصی المدینۃ اس لیے بتایا ہے کہ کوئی شخص جس کی وہاں تک رسائی تھی وہ وہاں سے خبر سن کر دوڑا دوڑا آیا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو متنبہ کرنے لگا۔ کہتا ہے یموسی ان الملا یاتمرون بک لیقتلوک فاخرج انی لک من النصحین۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ اسرائیل کی قوم کا تھا نہ اس کی رسائی ہونی تھی وہاں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس محل میں پلے ہیں آپ کے بڑے دوست بن گئے ہوں گے۔ آپ کے مزاج میں غیر معمولی خوبی اور کشش پائی جاتی تھی۔ تو وہ کہتا ہے میں دوڑا دوڑا آیا ہوں تمہیں بتانے کیلئے وہاں یہ مشورے ہورہے ہیں۔ اور فیصلہ ہورہا ہے کہ تجھے قتل کردیں گے۔ اس لیے میں نصیحت کے طور پر تجھے بتاتا ہوں کہ بھاگ یہاں سے نکل جا۔پیشتر اس کے کہ وہ تجھے پکڑ لیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جب وہ واپس نہیں لوٹے تو انہوں نے اپنے ہم خیال،اپنے قابل اعتماد دوستوںکو پیغام بھیج دیا ہوگا کہ میں یہاں ہوں۔ کوئی بات ہو تو مجھے بتانا۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی چھپنے کی جگہ تک یہ شخص پہنچا ہے اور صبح صبح جلدی جلدی یہ خبر دے کر وہ واپس چلا گیا ہے۔ فخرج منھا خائفًا یترقب۔ تب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے نکلے ہیں خوف زدہ ہوکر۔ نگاہ رکھتے ہوئے دائیں بائیں کہ کہیں کوئی مجھے دیکھ نہ رہا ہو۔ اور ساتھ ہی دعائیں کرتے ہوئے قال ربّ نجنی من القوم الظلمین۔ اے میرے رب! مجھے ظالموں کی قوم سے نجات بخش۔ ولما توجہ تلقاء مدینجب وہ مدین شہر کی طرف( قرآن کریم اس کو مَدین ہی لکھتا ہے اس لیے میں بھی مَدین پڑھتا ہوں مگر بائبل میں اس کا تلفظ مِدَیَن یامدیان آتا ہے) جب وہ مدین شہر کی طرف رخ کیا اس نے ۔ قال عسٰی ربی ان یھدینی سواء السبیل۔ کہ بعید نہیں کہ اللہ مجھے متوازن درمیانی راہ سواء السبیل کا مطلب ہے درست راہ، درمیانی راہ، متوازن رستہ یا صراطِ مستقیم۔ اس کی طرف اللہ میری ہدایت فرمادے میں وہاں چلتا ہوں اور امید یہ رکھتا ہوںکہ اللہ کچھ کاروبار فرمائے میرا انتظام فرمائے گا۔ ولما ورد ماء مدین جب وہ مدین کے اس پانی کے پاس پہنچا جہاں بھیڑ بکریوں وغیرہ کو پانی پلایا جاتا تھا۔ یہاں ماء مدین ہے۔اس زمانے میں قوموں او رقبیلوں کے اپنے اپنے پانی اور گھاٹ ہوا کرتے تھے ۔ وہاں ان کے مال مویشی چرا کرتے تھے وہی پانی پیا کرتے تھے اور غیروں کو ان کی اجازت کے بغیر دخل کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ قومی ملکیت کا یہ چشمہ تھایا چھوٹا سا کنواں تھا وہاں جب یہ پہنچے ہیں ماء مدین ۔ وجد علیہ امۃ من الناس یسقون۔ گڈریے پہلے ہی وہاں موجود تھے اور ایک کافی جماعت ان کی وہاں اکٹھی ہوئی ہوئی تھی۔ وہ بھیڑ بکریوں کو پانی پلارہے تھے۔ ووجد من دونھم امرأتین ان سے ہٹ کر ایک طرف دو لڑکیوں کو بھی دیکھا جو انتظارکررہی تھیں باری کا۔ قال ماخطبکما انہوں نے کہا کیا معاملہ ہے تمہارا؟ کیاوجہ ہے تم ایک طرف کھڑی کیوں ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔ قالتا لا نسقی حتی یُصدر الرعائُ جب تک پہلے یہ گڈریے فارغ نہ ہوجائیں اس وقت تک ہم پانی نہیں پلاسکتیں۔ وابونا شیخ کبیر اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے ۔ یہاں شیخ کبیر کی بات آتی ہے جو بائبل میں بھی ہے۔اس وقت باپ اتنا بوڑھا ہوچکا تھا کہ وہ باہر نکل کر بھیڑوں کو پانی پلانے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اور بیٹاکوئی نہیںہے جوان۔ اس لیے جو باتیں میں بیان پہلے کرچکاہوں اس کی سند قرآن کریم میں موجود ہے۔ کسی بائبل کے حوالے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بائبل تو پھر اتنی متضاد باتیں کرتی ہے۔ کبھی کہتی ہے کہ بائبل بھی کہتی ہے وہ بہت بوڑھا تھا اور اس کے چالیس کے سال بعد ابھی وہ دوڑے پھرتا ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بال بچوں کو لے کر ان تک پہنچتا ہے پھر۔ وہ خروج کے بھی بعد یعنی Exodus کے بھی بعد۔ اس لیے بائبل کی تاریخوں میں پڑ کر تاریخ کاان لوگوں نے ستیا ناس کردیا ہے۔ ایسی الجھنوں میںڈالا ہے کہ مسلمان مفسرین بالعموم درمیانے دور کے تو الگ رہے خود احمدی مفسرین بھی اس مشکل میں پڑ گئے کہ وہ بائبل کے حوالوں سے جوان کے محققین نے نتیجے نکالے کیونکہ براہ راست احمدیوں کی تحقیق نہیں تھی۔مجبور تھے کوئی حوالہ دینے پر اپنے مؤقف کیلئے توان محققین پر بناء کرنے کی یہ وجہ بنی ۔اور یہ نہیں سوچا اس وقت یہ علم نہیں تھا کہنا چاہیے کہ ان محققین کا استنباط تاریخی ثبوت سے نہیں ہے یا Egypt کی اس تاریخ سے جو کھدائی کے بعد دریافت ہوئی ہے اس سے نہیں ہے بلکہ بائبل کے جو حوالے ہیںان پر بناء کر کے Egypt کی تاریخ کوپہلے انہوں نے مسموم کیا ، اس کا ستیا ناس کیا ۔ پھر جو نتیجے پیش کیے وہ کوئی ایک عالم بہت بڑا عالم یہ Egyptologist ہے یہ فلاں Egyptologistہے کوئی عام آدمی جو خودبراہِ راست پہلے تحقیق نہ کرلے ان کو ردّ کرنے کا مجاز دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن پہلے کسی کو یہ توفیق نہیں ملی کہ قرآن کا مطالعہ کرکے پہلے سیناریوتو بنائے ۔ اس سیناریو، اس امکانی تصویر کا بائبل کی تصویر سے بھی موازنہ کرے اور ماہرین تاریخ قدیمہ Egyptکی جو بیان کردہ تفاسیر ہیں یا تصویریں انہوں نے جوکھینچی ہیں ان سے موازنہ کرے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ ہم آپ کے سامنے کھول کریہ ساری باتیں بیان کردیں تاکہ یہ جھگڑے ختم ہوں اور یہ جو رجحان ہے کہ فلاں مؤرخ نے یہ لکھ دیا ضرور یہ ہوا ہوگا، فلاں نے یہ لکھ دیا یہ ہوا ہوگا اس کو سمجھ جائیں کہ یہ غلط ہے وہ ہو ہی نہیں سکتا جو یہ لکھ چکے ہیں۔ قرآن اس کے مخالف، اور اندرونی شہادت اتنی قطعی ہے کہ واقعات ایسے ہو نہیں سکتے۔ اب یہ دیکھ لیں Peak's کمنٹری والا کہتا ہے کہ 80سال کی عمر تھی جب آپ واپس آئے ہیں ۔ 80سال کی عمر تھی میں واپس آئے ہیںتوکہتا ہے کہ چالیس سال کی عمر میں پہنچے تھے ۔توچالیس سال کی عمر میں اب تک شادی بھی نہیں ہوئی تھی ۔وہاں وہ چالیس سال کی عمر میں پہلی دفعہ جھگڑا کیا اس کے نزدیک اور یہ عجیب سی بات نظر آتی ہے مگر ایسی ناممکن نہیں ہے کہ اسے ہم قبول ہی نہ کرسکیں۔ اس زمانے کے دستور سے متصادم ضرور ہے۔ اتنے لمبے عرصے تک لوگ کنوارے نہیں رہا کرتے تھے۔بیس پچیس کچھ ایک سال کم زائد اس سے زیادہ کاانسان ان کے کنوارے پن کا تصور نہیں باندھ سکتا۔ اور جوشیلی طبیعت، لڑائی کر بیٹھنا ۔ پھر وہاں جاکے بیٹھنا اور بیٹیوں میں سے بعض کی طرف توجہ ہوناایک بڑا مضبوط جوان ہے، رعنا جوان ہے مگر ایماندار ہے۔ یہ بتارہا ہے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں اور قرآن اس بات کی تصدیق کررہا ہے بائبل کی اس بات کی کہ وہ بہت بڈھے تھے۔ اتنے بوڑھے تھے کہ باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔ اس کو خاص طور پر پلے باندھنا چاہیے تاکہ آگے جاکر جو ہم مضمون میںموازنے کریں گے تو یہ ایک سنگ میل ہے اس کو یاد رکھنا چاہیے۔ فسقٰی لھما پھر کسی جھگڑے کا ذکر نہیں یہ نہیں کہ وہ اس نے دھکا پیلی کی ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ گڈریے بھی کوئی بدتمیز لوگ یا بداخلاق لوگ نہیںتھے۔ عورتیں حیادار تھیں،لڑکیاں بڑی شرمیلی تھیں ۔قرآن خود آگے کہتا ہے آگے جاکے پتہ چل جائے گا کہ اگر ان کو خوف تھا بھی فرضی تھا وہ لوگ ایسے لڑاکا نہیں تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر کام کیا تو کسی نے بیچ میں ماردھاڑ نہیںکی، ان سے مخالفت نہیںکی، آرام سے ان کو پانی پلایا فارغ کردیا۔پھر وہاں بیٹھ کر یہ دعاکی کہ ربّ انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر ۔اے میرے ربّ مجھے ان سے کوئی توقع نہیں۔ دیکھیں ناجس وقت ایک آدمی احسان کرتا ہے کسی پر ،تو طبعاً دل میں خیال گزرتا ہے کہ اس احسان کے بدلے میں میرے لیے کوئی اس کے اجر کی راہ کھلی ہے اور اب مجھے امید ہے کہ کچھ بن جائے گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام سارا رستہ دعا کرتے آرہے ہیں، اللہ پر توکل ہے۔ کہتے ہیں کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا اور میرے لیے خود رستہ کھولے گا ۔وہ یادجو ہے اس دعا میں منتج ہوجاتی ہے۔ ربّ انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر۔ میںنے جو مانگنا ہے تجھ سے مانگنا ہے کسی اور پر میرا کوئی انحصار نہیں ہے اور مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ میرے لیے بہترکیا ہے؟پس میری جھولی تیرے حضور حاضر ہے۔ اس میں وہ خیرات ڈال جو تیرے لیے تیرے نزدیک میرے لیے مناسب ہو۔ لما انزلت الی من خیر فقیر میں اسی کا فقیر ہوں۔مجھے پتہ نہیں کہ میں کس کا فقیر ہوں مگر اس بات کا تو مجھے پتہ ہے کہ جو تو میری جھولی میںڈالے میں اس کا فقیر ہوں۔میرے نزدیک یہ سب سے اہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا Turningپوائنٹ ہے۔ اس نے سارے مسائل حل کردیے اس دعا نے۔ پناہ دی، ایک پرامن شریف گھرانہ عطا کیا، اچھی بیوی عطا کی، عزت کی زندگی عطا کی، نبوت عطا کی۔ کیونکہ اللہ پر چھوڑ دیا تب اللہ نے کہا اچھا میں پھرساری باتیں دوں گا۔ میری نعمتوں کا آغاز یہاں سے شروع ہوگا اور جہاں اتمام نعمت ہوتا ہے وہ نبوت ہے۔ تو میں تیری ساری باتوں کو قبول کروں گا اور تجھے نبوت کے مقام تک پہنچائوں گا۔ یہ ردّ عمل اس دعا کا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے استجابت کا یہ مضمون دکھائی دے رہا ہے۔ فجاء تہ احدٰھما یہ دعا کرکے بیٹھے تھے کہ ان میں سے ایک لڑکی تمشی علی استحیاء حیاء سے لجاتی ہوئی چل کے آئی ہے، بہت شریف النفس بچی۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا تھانا کہ یہ دو بچیاں صرف خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی طبیعت کی شرافت اورحیاکی وجہ سے الگ رہا کرتی تھیں۔ اور دونوں گھستی نہیں تھیں۔ تو وہ آئی ہے اس نے کہا ان ابی یدعوک میرا باپ تجھے بلا رہا ہے۔ لیجزیک اجر ماسقیت لناتاکہ جو تو نے ہمیں پانی ہماری خاطر پانی پلایا اس کا اجردے۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود تو مانگا نہیں تھا۔ دعا کے نتیجے میں ہوا ہے چل پڑے ہیں اٹھ کے۔ فلما جاء ہ و قص علیہ القصصوہاں پہنچے ہیں اور اپنے ہونے والے خسر کو سا را قصہ بیان کیا کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے چل کر آیاہوں ،کیا واقعہ ہوا ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں وہی زبان بولی جاتی تھی جو مصر میں بولی جاتی تھی ۔یا کم سے کم Hebrew زبان جو بنی اسرائیل کی تھی وہ اس قوم میں بھی رائج تھی اور اس کا وسیع دائرہ تھا۔ تو بے تکلف اپنے مضمون کو بیان کیا ہے کسی مترجم کی بیچ میں ضرورت نہیں ہے۔ قال لاتخف نجوت من القوم الظلمین مدین تک اس وقت Egyptians کی رسائی نہیں تھی اس لیے انہوں نے تسلی دلائی کہ تم صحیح جگہ پہنچ گئے ہو، تمہیں امن نصیب ہوگیا ہے، اب بالکل ڈرنے کی ضرورت نہیں۔نجوت من القوم الظلمین ظالموں کی قوم سے تو نجات پاگیا ہے۔ اب دیکھیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کیا تھی جب چل رہے تھے۔ربّ نجنی من القوم الظلمین اس طرح قرآن کریم میں کتنے خوبصورت ربط ملتے ہیں مضامین کے ۔ ایک دعا اس کی استجابت اور وہ الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ اس کا تعلق اس بات سے ہے۔ حضرت شعیب کے منہ سے یہ وہ شعیب نبی نہیں تھے مگر ان کا نام شعیب بیان کیا جاتا ہے۔ یہ کاہن تھے اس علاقے کے۔ ان کے منہ سے بعینہٖ وہی الفاظ خداتعالیٰ نے نکلوادیے نجوت من القوم الظلمین۔ قالت احدھما اس وقت ان کو نہیں خیال آیا ہے۔ انہی میں سے ایک نے اللہ تعالیٰ نے وہ شرمیلی تھی، اس کا پردہ ڈھکا ہوا ہے بتانہیں رہا کہ کون ہے۔ مگر ایک ان میں سے تھی۔ یاأبت استاجرہ انّ خیر من استاجرت القوی الامیناے ہمارے باپ! اے میرے باپ! اس کو نوکر رکھ لے کیونکہ تو جو بھی نوکر رکھنا چاہے اس میں سب سے اچھا قوی اور امین ہوگا۔ تویہ دو صفا ت لازم ہیں ۔ امین کا لفظ اس لیے بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق اچھی رائے توتھی مگر کوئی غلط خیال دل میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ باپ کو یہ خطرہ ہوسکتا تھا کہ ایک مرد یہاں رہے گا، نوکر رکھوں گاتو میری بیٹیوں کا کیا بنے گا؟ تو بیٹی کہتی ہے کہ میں نے دیکھا ہے قریب سے میری رائے یہ ہے کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، قوی بھی ہے اور امین بھی ہے۔اتنے لطیف انداز ہیں اللہ تعالیٰ کے بیان کے۔ اب بائبل کی کہانیاں آپ پڑھیں اس کوقرآن سے موازنہ کرکے دیکھیں کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ قال انی ارید ان انکحکاسی وقت ان کو خیال آگیا کہ ٹھیک ہے مگر نکاح کے بعد کروں گا اس طرح نہیں۔ اب لوگ بے احتیاطیاں کرتے ہیں کہ گھر کا بیٹا ہے پل رہا ہے ، پردوں میںبے احتیاطیاں، فلاں چیزمیں بے احتیاطیاں اور برے نتائج۔ آنے والوں کو آنے دیا۔ یہاں کئی دفعہ واقعات ہوئے ہیں کہ جی کوئی بات نہیں بڑا اچھا لڑکا ہے گھر کا ہی ہے، آیا اور مصیبت ڈال گیا۔ بعض غیروں سے بھی احتیاط نہیں کرتے۔عیسائیوں ، سکھوں سے بھی احتیاط نہیں کرتے۔ کہ آئو جی آئوگھر کا ہی ہے۔بڑا شریف لڑکا ہے اور بیٹی کو برباد کردیتا ہے۔ وہ قرآن کریم سے سبق نہیں لیتے نہ پڑھتے ہیں نہ سبق لیتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی جبکہ پردوں وردوں کے کوئی احکام نہیں تھے، کوئی ایسی حفاظت کے انتظام نہیں تھے جو اب کیے جاتے ہیں۔وقت کا جو کاہن ایک خدا رسیدہ انسان کہتا ہے کہ میںرکھوں گا مگر اس شرط پر رکھوں گا کہ ایک کی شادی ہوجائے، اس کے بغیر مناسب نہیں ہے کہ میرے گھر میںکوئی غیر مردپلے۔ چنانچہ قرآن فرماتاہے کہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک شرط بھی بیان کی ۔ احدی ابنتی ھاتینعلی ان تاجرنی ثمانی حججٍ اس شرط کے ساتھ کہ آٹھ سال تک تو میری خدمت کر۔بہت معمر آدمی تھے۔ قرآن بیان کرچکا ہے بائبل بھی مانتی ہے ۔ان کا خیال تھا کہ آٹھ سال میں زندہ رہوں یا شاید دس سال زندہ رہوں۔اس کو بے وجہ ضرورت سے زیادہ پابند نہیںکرتا۔ شادی کی شرط یہ ہے کہ آٹھ سال کا معاہدہ اس سے تو کم کرنے کا مجاز نہیں۔ لیکن اگر تو چاہے اور تیرا دل لگا رہے اور میںزندہ رہوں توپھر دس سال تک بھی بیشک ٹھہر جانا اور اس سے آگے وہ نہیں بڑھتے۔ چنانچہ وما ارید ان اشق علیک۔ اور وہاں و ان اتممت عشراً فمن عندک۔ یہ تیری طرف سے ہے میری طرف سے کوئی اصرار نہیں ہے اس پر۔ میں تجھ پر کوئی ناواجب سختی نہیں کرڈالوں گا، کوئی بوجھ نہیں ڈالوں گا جس کو تو اٹھا نہ سکے۔ ستجدنی ان شاء اللہ من الصلحین تو یقینا مجھے نیکو کاروں میں سے پائے گا، نیک لوگوں میں سے۔ میں اچھا انسان ہوںتم سے حسن سلوک کروں گا۔ قال ذلک بینی و بینکاسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میرے اورتیرے درمیان ہوگیا طے، پکی بات ہوگئی۔ ایما الاجلین قضیتُ فلا عدوان علیدونوں میںسے جو بھی مدت میں چاہوں میری طرف زیادتی منسوب نہیں ہوسکتی۔چاہوں تو میں آٹھ سال کے فوراً بعد چھوڑ دوں چاہوں تو دس سال کی مدت پوری کروں واللّٰہ علی مانقول وکیل۔ اب یہ طرز بیان میںفرق دیکھیں تو بہت نیک مگر ایک جو نبی بننے والا تھا اس کا کلام اس سے زیادہ فائق ہے۔ وہ کہتے ہیں میری صالحیت پر اعتماد کرو۔ موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں خدا گواہ ہے میرا۔ میں جوکہہ رہا ہوںاس پر قائم رہوں گا۔آثار نبوت دیکھیںظاہر ہیں۔ آنے سے پہلے ہی حکمًا و علمًا عطا ہوچکا ہے۔ اور وہ آثا ربتارہے ہیں کہ وہ بہت بڑا انسان بننے والا ہے۔ کہتے ہیں میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور واللہ علی ما نقول وکیل۔ ہم جو بات کہہ رہے ہیں تو بھی اور میںبھی، ہم دونوں پر خدا وکیل ہے۔ وہ نگران ہے اس بات پر اس لیے اگرنیت میں آج خرابی نہیں کل ہوجائے توتب بھی خداہ گواہ رہے گا یاد رکھنا اس بات کو۔
فلماقضی موسی الاجل و سار باھلہٖ اب دیکھیں۔ جبموسیٰ نے مدت پوری کرلی جو آٹھ سال کے وقت پوری ہوتی ہے پہلی دفعہ ۔ سار باھلہاپنے اہل و عیال کو لے کروہ چلا۔ لیکن مصر کی جانب نہیں چلا، یہ خیال غلط ہے۔ وہ اپنے خسر سے رخصت ہوکر اپنا الگ گھر بسانے کی نیت سے چلا ہے۔ کیونکہ مصر کے جانے کے وقت خدا کے حکم ہوا ہے تو خیال آیا ہے۔ جانے کا خدا کے حکم پر خیال آیا ہے اور اس وقت بھی ڈر رہے ہیں۔ تو صاف پتہ چلتا ہے کہ سارباھلہٖ کا واقعہ بکریاں چرانے کے وقت تو اپنے اہل کو تو لے کے نہیں پھرا کرتا کوئی ساتھ۔مدت ختم ہوتے ہی انہوں نے کہا کہ اچھا اجازت۔ اب میں ذمہ دار ہوں اپنا گھر الگ بساتا ہوں۔ اور چلے اور پھر اس دوران جب وہ سفر کسی طرف کا کررہے تھے ،پہاڑی پر آپ نے آگ دیکھی ہے۔ اٰنس من جانب الطور نارًا ۔دیکھنے کی بجائے اٰنس کا مطلب ہے محسوس کیا ہے جیسے کوئی آگ سی ہو۔ کوئی دور کی جگہ لگتی ہے اوروہ چونکہ الٰہی ایک نور کی آگ تھی اس لیے اس کو آگ پوری طرح نہیںدیکھ رہے بلکہ آگ جیسی کوئی چیز ان کو دکھائی دی ہے ،روشنی سی دکھائی دی ہے۔ قال لاھلہ امکثوا انی انست نارًا انہوں نے کہا تم یہاں ٹھہرو میں آگ محسوس کررہا ہوں۔ اٰنس کا ترجمہ دیکھنا بھی کیا گیا ہے۔ دراصل یہاں جیسا کہ کوئی چیز ہو، احساس سا ہورہا ہے مجھے لگتا ہے ۔ یہ ترجمہ اس کا زیادہ مناسب ہے میرے نزدیک۔لعلی اٰتیکم منھا بخبرٍ او جذوۃٍ من النار۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ان کے پاس آگ بھی نہیں تھے بے سروسامانی کی کیفیت تھی۔ جداگھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیںکسی طرف رخ کرکے لیکن نہ یہ پورا پتہ ہے کہ کہاں جانا ہے ، نہ پورا سازو سامان ہے۔ تو اس وقت وہ کہتے ہیں کہ شاید آگ کے پاس لوگ بیٹھے ہوتے ہیںوہاں مشورہ کروں، کوئی خبر مجھے ملے کہ کہاں جانا مناسب ہوگا میرا۔ کس علاقے میںمَیں آباد ہوں تو بہتر ہوگا۔ یا اور کچھ نہیں تو ان سے جلتا ہوا کوئلہ ہی مانگ لائوں تاکہ ہمارے کام آئے ، ہم آگ جلائیں اور سینکیں اور آرام سے رات گزرے۔ رات کا وقت تو ظاہر ہے وہ آگ اور دکھایا جانا اور اس طرح پھر مضمون کے ہم لعلکم تصطلون تاکہ تم آگ سینک سکو۔ صاف بتارہا ہے کہ سفر ختم تھا پڑائو ڈالا ہوا تھا، وہاں یہ واقعہ ہوا ہے۔
فلما اٰتھا نُودی من شاطیئِ الواد الایمن جب وہ وہاں پہنچا ہے تو وادی الایمن جو مبارک وادی تھی یا دائیں طرف بھی کہتے ہیں ایمن کو۔ اس کے ایک کنارے سے فی البقعۃ المبارکۃ ایک مبارک جگہ سے جو بقعۃ النور کہتے ہیں جیسے ہیولاسا ۔تو ایک ایسا فضا میں ایک دائرہ سا ہے جسے اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ وہ مبارک بقعۃ ہے۔ من الشجرۃ۔ وہ شجر کو آگ لگی ہوئی نظر نہیں آرہی بلکہ شجر کے ایک مبارک حصے سے وہ روشنی دکھائی دے رہی تھی۔کیا آواز آئی ہے نودی من شاطیٔ۔ پکارا گیا ہے بلایا گیا ہے۔ ان یٰموسی انی انا اللہ ربّ العلمین یقینا میں اللہ ہوں تمام جہانوں کا ربّ۔ اوربائبل میں ہے کہ وہ فرشتہ تھا پہلے اور پھر خدا کی طرف منتقل کرتی ہے بائبل ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا ہی کی آواز تھی مگر موسیٰ کو یہ محسوس ہوا جیسے اس مبارک حصے سے آواز آرہی ہے جو درخت کے ایک طرف واقع تھا اور اس میں بہت روشنی تھی۔ اور اللہ نے اپنا تعارف اللّٰہ ربّ العلمین کا کروایا ہے ۔بائبل کہتی ہے آخر وقت تک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور خدا کے یہ جھگڑا چلتا رہا یعنی ایک تکرار ہوتی رہی کہ تو مجھے بھیج رہا ہے فرعون کی طرف۔ میںکہوں گا کیا کس نے بھیجا ہے۔ یہ تو بتادے! اللہ تعالیٰ نام نہیں بتاتا۔ کہتا ہے کہ تو یہ کہنا کہ ’’وہ‘‘ جو ہے اس نے بھیجا ہے۔جاکے فرعون کو کہنا وہ جو ہے نا ’وہ‘ اس نے بھیجا ہے۔ اب وہ ’’یہواہ‘‘ کے لفظ نے بائبل نے ایک اور مصیبت ڈال دی ۔ اللہ کی طرف وہ ضمیر پھرتی ہے بجائے اس کے کہ سیدھی طرح مان کے کہہ لیں مراد اللہ ہے اور اللہ نے ہی ایسے کیا۔ وہ تو جاکے بائبل کا وہ حصہ پڑھیں تو ہنسی آجاتی ہے مجبوراًکہ وہ موسیٰ پوچھ رہے ہیں اے خدا بتا تو سہی۔ خدا بھی نہیںکہتے۔ تو جب بول رہا ہے ۔ پیغام میں نے تیرا دینا ہے کس کا پیغا م دوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نہیں کہتا کچھ، جواب نہیں دیتا۔ نام نہیں بتاتا کہتا ہے کہ یوں کہہ دینا تم اس کو۔ کہ وہ جو ہے نا وہ اس نے بھیجا ہے۔ اب فرعون کو کیا پتہ کہ و ہ جو ہے نا وہ کیا چیز ہے؟ قرآن دیکھیں کتنا خوبصورت کلام ہے۔ آغاز ہی سے تعارف یہ کروارہا ہے اللہ تعالیٰ کہ میں ربّ العالمین ہوں۔ میں تمام جہانوں کا ربّ ہوں جو تجھ سے مخاطب ہے۔ وان الق عصاکاور میرا تجھے یہ پہلا حکم یہ ہے اپنا سونٹا پھینک دے۔ فلما راھا تھتز کانھا جان ولی مدبرًا ولم یعقب۔ سونٹا پھینکتے ہی جب دیکھا کہ یہ سانپ بن گیا ہے تو دوسرا سانس نہیںلیا۔ایسا دوڑا ہے تیزی سے کہ مڑ کے بھی نہیں دیکھا کہ پیچھے کیا ہورہا ہے۔ قوی الامین ہیں لیکن بڑا حیرت انگیز واقعہ ہوا ہے۔ سونٹا پھینکا کہ یہ عجیب آواز ہے۔میں ربّ العالمین ہوں سونٹا پھینک دے، اس کو سانپ بنادیا۔ میں تو مارا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پیچھے سے آواز دی ہے۔ یموسی أقبل ولا تخف انک من الامنین۔ اے موسیٰ! واپس آجا۔آجا آکے سامنے آ۔ اور ڈر نہیں تو امن میں ہے لازماً۔ یہ چیز تجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آواز دے کر تسلی دی۔ پھر دوسرا معجزہ دکھایا اسلک یدک فی جیبک۔ اب اپنا ہاتھ اپنی جیب میں ڈال۔ جیب سے مراد گریبان یا پہلو یہ سارے امکانات ہیں۔ یعنی جسم کے ساتھ لگادے اس کو اور اندر مس کردے کسی جسم کے ساتھ رگڑ دے اس کو۔ تخرج بیضاء من غیر سوئٍ وہ نکلے گا جب باہر تو چمک رہا ہوگا نور سے۔ اور اس میںکوئی بیماری کے آثار نہیں ہوں گے۔ جبکہ بائبل اسے مبروص کی طرح کا ہاتھ بتاتی ہے۔ جیسے برص ہوگئی ہو اس قسم کا ہاتھ تھا۔ اب دیکھیں کتنا فرق ہے بائبل کے بیان میں اور اس میں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کوڑھیوں کی طرح پیش کرتا ہے غیروں کے سامنے۔ نشان تو وہ ہے جو شان و شوکت کی طرح چمک رہاہو۔ فرمایا اس میں سفیدی ایک ایسے نور کی طرح چمک رہی تھی جس میں کوئی بیماری کے آثار نہیںتھے۔ اس حالت میںاس کو دیکھا ہے۔واضمم الیک جناحک من الرھب فذٰنک برھانٰن من ربکالی فرعون و ملائہٖپھر اسے اپنی طرف واپس کھینچ لے من الرھب۔ اللہ تعالیٰ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرتا ہے ناتو بہت لطائف پیدا ہوتے ہیں اس میں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حالت کو جانتا ہے ،چھیڑ چھاڑ بھی تھوڑی تھوڑی محبت اور پیار کی ساتھ جاری ہے۔ من الرھب کا مطلب ہے تو ہے تو ڈرپوک کافی اس سے ڈرگیا ہوگا۔ تو جس طرح ڈر کے بھاگا سونٹے سے اب فوراً ڈر کے واپس لے جا ہاتھ۔ وہی لے جا۔ اور جب تو ڈر کے سمیٹے گا زور سے تو کیا ہوگا، ہاتھ اپنی اصلی حالت میں واپس آجائے گا۔ تو من الرھب کہنا بہت ہی پر لطف کلام ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسی طرح ان سے کلام ہورہا ہے۔پھر کیا ہوا۔ فذنک برھانن من ربک یہ دوتیرے ربّ کی طرف سے نشان ہیں فرعون کی طرف اور اس کی قوم کی طرف، اس کے سرداروں کی طرف۔ انھم کانوا قومًا فسقین وہ یقینا بہت ہی فاسق لوگ ہیں۔
اب انگلی اٹھ گئی ہے وقت کہتے ہیں زیادہ ہوگیا ہے۔ باقی انشاء اللہ کل، ٹھیک ہے۔ جسوال صاحب کا یہ اصرار نہیں کہ ختم کرو۔ جسوال صاحب کو میری بات یاد ہے کہ زیادہ لمبا مناسب نہیں وہاں لوگوں نے افطاری کرنی ہوتی ہے اور زیادہ لمبا وقت وہاں مخل ہوجائے گا اس لیے یہ میرے کہنے پر انگلی اٹھارہے ہیں ورنہ تو زیادہ بھی بیٹھ سکتے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ21؍رمضان بمطابق 22؍فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ابھی ہم یہ قصص میں ہی ہیں یعنی تاریخ کی جستجو کرکے حقائق کی تلاش میں مَیںاب تک آپ کو کبھی قرآن ، کبھی تاریخ، کبھی بائبل کے حوالے سے کچھ چیزیں سمجھا چکاہوں ۔ قرآن اورجو Egyptologists کی گواہیاں ہیں یہ تو ایک دوسرے پر منطبق ہوتی چلی جارہی ہیںاور ایک معقول تصور ابھر رہا ہے کہ یہ ہوا ہوگا۔ جہاں بائبل کی Workiesآگئی ہیں بیچ میںتاریخوں وغیرہ کی وہاں سے پھر مشکل پڑتی ہے Egyptologist کیلئے کیونکہ وہ اکثر عیسائی ہیں اور اگر دہریہ بھی ہوں تو عیسائیت کا اثر ان پر بہت ہے اس لیے جب بھی وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کو فراعین کی تاریخ میں کہیں Fixکرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے کوئی اور حوالہ نہیں ہے سوائے بائبل کے جس سے وہ اندازہ لگائیں کہ کب کیا واقعہ ہوا ہوگا۔ ہم اگر قرآ ن کا حوالہ ان کو نہ بتاتے تو یہ تاریخ ہمیشہ مبہم اور تضادات سے بھری رہتی، صرف قرآن ہی کا حوالہ ہے جو اس کو بالکل صاف ستھرا کرکے ایک متوازن شکل میں ہمارے سامنے دوبارہ زندہ کررہا ہے اس تاریخ کو۔ یہ گفتگوچل رہی ہے۔ اس سلسلے میں مَیں کچھ شواہد اور بھی لے کے آیا ہوں جس سے ساری بات آخر پہ کھل جائے گی اچھی طرح لیکن شروع کرتے ہیں یہاں سے ، بائبل کے حوالے کی باتیں ہورہی تھیںنا! ایک بات قطعی ثابت ہے بائبل سے اور ان کے Commentetors بھی تسلیم کرتے ہیں، بائبل کے بیان کو اگر سچا تسلیم کیا جائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جب واپس آئے ہیںاور فرعون سے ٹکر لینا شروع کیا ہے اس وقت آپ کی عمر اسّی برس کی تھی۔ یہ یاد رکھیں اب( خروج باب7آیت 3تا 7) اور ان کے نزدیک ان کی عمر ایک سو بیس برس کی تھی جب انہوںنے وفات پائی ہے اور اسی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ تمام مفسرین وغیرہ کی طرف سے بعد میں آنے والوں کی طرف سے اس تحقیق کے بغیر کہ یہ کیا الٰہی کلام تھا کہ اسی برس میںآئے ہیں اور ایک سو بیس برس میں وفات پائی یا اور کوئی Sourceہے جس نے یہ چیزیں داخل کیں ہیں۔ وہ Source ہم نے نکال لی ہے میں آپ کو بعد میں بتائوں گا ہرگز اس کاالٰہی کلام ہونے سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں یہ ساری باتیں و ہ ہیں جو انسانوں نے بائبل میں داخل کی ہیں اور خود عیسائی محققین نے بہت تحقیقات کے بعد ان کی نشاندہی کردی ہے کہ یہ وہ ذمہ دار لوگ ہیں جنہوں نے بائبل کی Chronology لکھی اور خدا کے نام پر وہ بائبل میںداخل ہوگئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے بھی کئی سو سال پہلے اور جو بائبلیں آج کل ہمیں مل رہی ہیں ان کے تمام Version وہ تمام تر اپنی Chronology میں یعنی تاریخی واقعات کے تسلسل اور ان کے روابط میں ان Sources پر منحصر ہیںجو تین یا چار بیان کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک Source ایسی ہے جس کے متعلق اکثر کا گمان یہی ہے کہ بلکہ محققین متفق ہیں اس بات پر کہ یہ وہ Source ہے جس کی تاریخ بائبل میں داخل ہوئی ہے اور جوزیفس جو مشہور مؤرخ ہے جس کے حوالے سے پھر یہ تاریخیںلی گئی ہیں وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ اس نے اس Source سے یہ تاریخیں لی ہیں اور وہ تاریخیں آگے چلی ہیں ۔ میں اس لیے یہ وضاحت کررہا ہوں ابھی بعد میں تفصیل سے میں آپ کو وہ حوالہ دوں گا کہ جب ہم بعض دفعہ ان باتوں پر ہنستے ہیں اور تضحیک کا بھی لگتا ہے پہلو آگیا ہے تو نعوذ باللہ من ذالک ہرگز بائبل پر ہماری ہنسی نہیں ہے کیونکہ وہ تو ایمان کو نقصان پہنچانے والے بات ہے۔ بائبل کا ایک حصہ خدا کا کلام ہے اور یقینا وہ خدا کا کلام ہے جس کی قرآن نے تصدیق کردی ہے جس کو قرآن نظر انداز کرتا ہے یا قرآنی تاریخ اس کا ردّ ثابت کررہی ہے وہ خدا کا کلام ہو ہی نہیں سکتا۔یہ ہمارا مفروضہ ہے جس پر ہم کہتے ہیںکہ اگر ان تاریخوں کو لغو، بے معنی اور قصے قرار دیا جائے تو ہمیں حق ہے لیکن اس مفروضے کا ثبوت بھی تو چاہیے ورنہ لوگ کہیں گے کہ تم نے خواہ مخواہ Taunt کرنے کی خاطر بدزبانی تو کردی اور اب بہانہ ڈھونڈ رہے ہو کہ نہیں یہ خدا کا کلام نہیں ہوگا ، اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے میں اصل حوالہ آپ کے سامنے رکھوں گا جس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ خد اکا کلام نہیں تھا یہ ساری تاریخیں گپیں ہیں بلکہ ان کے جو محققین ہیں وہ کہتے ہیں Garble وہ جو ویری نے قرآن کریم کے متعلق کہا تھا وہ اس کے متعلق کہتے ہیں یہ گویا Mere Garble یہ ہذیان بکنے والی باتیں ہیں ان کا کلام الٰہی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بعد کے آدمیوں نے یہ تاریخیں بنائیں اور بائبل میں داخل کردی اور ہم نے آنکھیں بند کرکے ان کو قبول کرلیا اور آج تک چلی جارہی ہیں اس لیے آپ اگر کہیں ہنسے یا مسکرائے ہیں تو کوئی گناہ نہیں کیا۔ ہرگز نعوذ باللہ کلام الٰہی کے ساتھ یہ معاملہ نہیںکیا جارہا بلکہ ایسے انسانوں کے کلام سے ہم یہ سلوک کررہے ہیں جن کو کوئی حق نہیںتھا کہ ان کی باتیں بائبل میںداخل کی جاتیں اور اب خدا کے نام پر جو جھوٹی باتیں انسانوں کی منسوب کردہ ان کے علماء کی تسلیم شدہ ہیں ان کو ہمیں نکال کر باہر پھینکنے کا حق ہے۔ پس یہ وہ تاریخ ہے جس پہ ہم جب کبھی مسکراتے ہیں تو وہ خدا کی کہی ہوئی تاریخ نہیں یہ ان لوگوں کی لکھی ہوئی تاریخ ہے۔ ایک سو بیس برس کے تھے جب وفات پائی۔
ایک حصہ ایسا ہے جواِن بعد میںبائبل کی طرف منسوب کرنے والے لوگوں کے ہاتھ کی کمائی نہیں ہے بلکہ بائبل میں تفصیل سے اس کا ذکر ملتا ہے ۔ اس کے متعلق محققین میں سے ایک بھی نہیں کہتا کہ یہ بائبل کا حصہ نہیںتھا بلکہ بعد میں آنے والے لوگوں نے داخل کیا ہے۔ وہ رعمسیس شہر کا ذکرہے اور اس کے ساتھ ایک اور شہر کا ذکر ہے جس کی تعمیر میں بنی اسرائیل سے بہت ظالمانہ محنت لی گئی اور غلام بنا کر ان کو اس رعمسیس نے اپنی عزت کی خاطر اپنے نام کو بلند کرنے کیلئے ایک شہر تعمیر کیا ۔ پس رعمسیس کا ذکر جہاں ملتا ہے اس پر تمام محققین متفق ہیں کہ اس کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ۔ لازماً وہ فرعون جس نے موسیٰ علیہ السلا م سے ٹکر لی ہے وہ رعمسیس سے پہلے کا نہیں تھا اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ جو رعمسیس سے پیچھے ہٹتے ہیں یہ اس فرعون تک جاتے ہیں جو رعمسیس کا باپ تھا اور یہ بنالیتے ہیں قصہ کہ اس کے زمانہ میںپیدا ہوا ،رعمسیس کے زمانے میں آپس میں ٹکرائو ہوا تو اس لحاظ سے ایک معقول امکان ان کے نزدیک ہے لیکن رعمسیس کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پس رعمسیس کو اس لیے نظر انداز نہیںکیا جاسکتا کہ بائبل میں جومسلمہ طور پر واقعات تسلیم شدہ ہیں جن کا انسانی دست برد سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ بائبل کا کلام ہے اس میں رعمسیس شہر بنانے والا فرعون ضرور داخل ہوگا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں۔ دو طرح کے لوگ ہیں، کچھ کہتے ہیں پہلے موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے رعمسیس بعد میںآیا ۔ لیکن رعمسیس کا زمانہ دیکھا اور اس سے ٹکر لی۔ بعض کہتے ہیں رعمسیس کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور بعد کے فرعون سے ٹکر لی۔ یہ جو کہنے والے ہیں ان کی دلیل سوائے اس کے کوئی نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی برس کے تھے۔ اب سمجھے ہیں بات؟ کوئی تاریخی مشاہدہ نہیں ہے، کوئی آثار قدیمہ کی گواہی نہیں ہے بلکہ بائبل کی اس گواہی پر انحصار کررہے ہیں جس گواہی کو ان کے محققین خود جھوٹا اور Garble ثابت کرچکے ہیں۔ پس اسی سال کی عمر کے نتیجہ میں وہ فرعون missہوجاتا ہے پھر جس فرعون کے زمانہ میں اگر رعمسیس کے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں تو وہ فرعون missہوجاتا ہے رعمسیس، واپسی کے وقت وہ نہیں ہوگا سمجھ گئے ہیں بات؟ اس لیے کچھ ہیں جو پیچھے دھکیل گئے رعمسیس کو تو چھوڑ سکتے ہی نہیں تھے ۔ کچھ نے یہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پہلے ہوئی اور پچھلے فرعون کے وقت میں ہوئی ہے جس کا نام Setiتھا اور رعمسیس کے زمانہ میں لڑائی ہوئی اور ختم ہوئی۔ لیکن رعمسیس بعد میں زندہ رہا، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ رعمیس کو تو پھر بھی Avoid نہیں کرسکتے اس کے زمانہ میںپیدا ہوا۔ لیکن رعمسیس کے زمانہ میں اگر پیدا ہو جیسا کہ تسلیم کرتے ہیں تو جب واپس آیا تو رعمسیس تھا ہی نہیں ۔ اس لیے لازماً اس کے بعد تخت نشین ہونے والے فرعون کے زمانہ میں لڑائی ہوئی ہوگی ۔ اس لیے اس کا نام منفتاح تھا اس کو اس کی طرف منسوب کردیتے ہیں ۔ یہ Flimsiest Possible Evidence یہ شائبہ سا ہے گواہی کا وہ اسی برس کا ہونا ہے اس کے سوا کوئی گواہی نہیں اور اسی برس کا ہونا ایک قصہ ہے فرضی بات ہے اور قرآن اس کو بالکل ردّ کررہا ہے ۔ تو وہ مسلمان جو ابھی بھی اس بات کے اوپر مصر ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کو منفتاح تک پہنچایا جائے وہ بے وجہ ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ لیکن قرآن کی شہادت کو ردّ کئے بغیر وہ یہ مان ہی نہیںسکتے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ چالیس سال کے لگ بھگ اس سے پہلے بلکہ وہ واپس آچکے تھے او راگر وہ واپس آچکے تھے تو منفتاح وہاں کہاں بادشاہ بن گیا تھا۔ وہ لازماً رعمسیس ہے۔ سمجھے ہیں؟ سوائے اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو دھکیل کر آخری کنارے تک لے جائیں جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور پھر بھی منفتاح جوہے اس کے زمانہ پر وہ تاریخ اطلاق نہیں پائے گی جو قرآن بیان کررہا ہے۔ ساری تاریخی شہادتوں کو نظر انداز کرنا پڑے گا، تمام ان گواہیوں کو جو Egyptologists نے مہیا کی ہیں ان کو ایک طرف پھینکنے کے بعد پھر منفتاح تک پہنچنا پڑے گا۔ بعض لوگ جو آجکل اس پر اعتراض کرتے ہیں بعض مسلمان وہ محض اس وجہ سے یہ ایک ان کی خوش فہمی ہے ۔ یہ جو بکائی ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ’’قرآن ،بائبل اور سائنس‘‘۔اس کی رو سے یہ چونکہ اس بات کو ثابت کرنا چاہتا ہے کہ فرعون ڈوب کے مرا تھا اس لیے یہ منفتاح تک پہنچانا چاہتا ہے کیونکہ منفتاح کے متعلق ا س کا بیان ہے جس کو باقی Scientists ردّ کرچکے ہیں اور بہت سخت اس کے خلاف Opposition پائی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے بکائی کہ میں نے بعض اور Egyption Scientists کے ساتھ مل کر درخواست کی کہ اس منفتاح کی ممی کے پردے اتارے جائیں ، تو وہ بہت ناقص حالت میں اس کاجسم ملا ہے لیکن خود تسلیم کرتاہے کہ ڈوبنے کے آثار نہیں تھے بلکہ ویسے ہی ممی ناقص تھی ۔ وہ بار بار کھولی گئی ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی ہے اس کے ظاہری طور پرتوان کوکوئی ایسے آثار نہیںملے کہ وہ فرعون ڈوبا ہو۔ وہ یہ کہتا ہے کہ ہم نے پھر ایکسرے لیے اور بعض اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے اس کے اندر کے حالات معلوم کئے تو جو گواہیاں ملی ہیں وہ یہ ہیں ۔ کہتا ہے کہ بعید نہیں کہ اس کی سانس کی نالی چوک ہوئی ہو اور کچھ ہوا ہو ایسے کچھ آثار نظر آتے ہیں ۔ اب یہ جو اس کی گواہی ہے اس Scientist کے سامنے کب پیش ہوئی ، کس نے تحقیق کی ا س کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن آگے پھر یہ ایک اور گواہی بھی ساتھ دے دیتا ہے ، کہتا ہے اس کی ہڈیاں جو تھیںان میں ایسے Visions ملے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سخت صدمہ پہنچا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا۔ تو اس کو وہ کہتا ہے کہ اس سے پہلے جو ۔۔۔۔۔۔۔ہوئی ہوں گی یعنی اس سفر کے دوران جب وہ رتھ پر بیٹھا ہوا اپنی پیروی کررہا تھا تو اس وقت Shock سے اس کی ہڈیاںوڈیاں ٹوٹ گئی ہیں تو جب ہڈیاں ٹوٹنا اس کا جان لیوا ثابت ہوا تو Drowningکا جان لیوا ہونا بات ختم ہوگئی اور اس ٹوٹی ہوئی ہڈیوں والے کا خدا سے اس قسم کا ہم کلام ہونا کہ اب میں ایمان لاتا ہوں اور یہ وہ یہ بعید از قیاس ہے کہ وہ چوٹیں جو وہ بتارہا ہے اگروہ واقعتہً درست ہے تو ان چوٹوں کے بعد اس مریض کو ہوش ہی نہیں رہ سکتی کہ وہ ایمان کی باتیں کرے اور کلام کہے کہ خد اسے کلام کررہاہو کیونکہ یا وہ بیہوش ہوچکا ہے اس سے یا اس بدحالت میں پہنچ گیا ہے کہ اس کو کوئی اپنے حواس پہ قابو نہیں رہا او رپھر گواہی بھی اکیلی ہے ۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ گواہی اس کی دوسری گواہیاں جو اس مضمون میں ہیں ان کے مخالف ہے ۔ اس لیے اس کو ایک نئی Theory بنانی پڑی، وہ وہاں تک پہنچانے کیلئے اس کو بائبل کے اس کلام پر انحصار کرنا پڑا کہ اسی سال کا تھا ورنہ پہنچتے نہیں۔سمجھ گئے ہیں آپ؟ اب یہ جب کہتا ہے تووہ مسلمان خوش فہم جو اس کے پیچھے لگتے ہیں وہ قرآن کو جھٹلا کر اس کے ساتھ جاسکتے ہیںکیونکہ قرآن اسی سال بتاتا ہی نہیں۔ قرآن قطعی طور پر چالیس سے کم ثابت کرتا ہے میں آگے جاکر ملائوں گا۔ تو کیا یہ اس شوق میں کہ ڈوبا ہوا فرعون صرف ایک French Scholar بکائی کے کہنے کے مطابق منفتاح ثابت ہوجائے، قرآن کریم کو جھٹلائے بغیر وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے اور چالیس سال کا فرق قرآن کے بیان کی طرف منسوب کرکے اس کو جھوٹا کرکے اس کو سچا ثابت کرنے کی خاطر اس کو جھوٹا ثابت کررہے ہیں۔ اس میں کون سی عقل ہے معمولی ادنیٰ سا بھی عقل کی رمق رکھنے والا شخص یہ مسلک اختیار کر ہی نہیں سکتا کہ قرآن کو چونکہ ہم نے سچاثابت کرنا ہے کہ وہ ڈوبا تھا اس لیے ایک limsyگواہی کے شایدڈوبا ہو اس کو قبول کرنے کی خاطر قرآن کی اس گواہی کو ردّ کردیاجائے کہ وہ چالیس سال کی عمر کے تھے جب وہ واپس آئے ہیں سمجھتے ہیں اب۔ یہ جب اس کو مشکل پڑتی ہے تو اب اگلی اس کے اپنے خلاف گواہی سن لیں بکائی کی۔ بکائی کو پتہ ہے کہ اسی سال بھی اگر ہم مان جائیںتو تین فرعونوں کا زمانہ تو بہر حال نہیں دیکھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اس کو دھکیل سکتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو تو رعمسیس کے تخت نشینی کے پہلے سال اس نے سڑسٹھ سال حکومت کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر اس وقت سڑسٹھ سال کی تھی جب وہ فوت ہوگیا، ٹھیک!تیرہ سال بعد وہ پہنچا ہے واپس اور منفتاح اس کے مرنے کے فوراً بعد بادشاہ بن گیا اور منفتاح کا جو Ruleہے اس کی بادشاہت کا زمانہ دس سال بیان کیا جاتاہے ۔ تو اگر بکائی کے اس استدلال کو قبول کرلیںتو حضرت موسیٰ علیہ السلام توتعزیت کیلئے بھی بہت لیٹ ہوگئے تھے۔ کجا یہ کہ اس سے آکے لڑتے، اس سے جھگڑکرتے ، اس کے بیچارے کے وصال کے تین سال بعد وہاں پہنچے ہیں قبر پر اس سے باتیں کرنے کا امکان تو ہے اس سے آگے کوئی امکان نہیں۔ اس مصیبت میں پڑ کر وہ دس سال اوررعایت کردیتا ہے۔ بکائی کہتا ہے کہ دس سال تو مسلمہ ہیں نا کیونکہ سائنسدان یا محققین کہتے ہیں Ten Plus, Ten Plus ملتا ہے تو Ten Plus کا اس نے بنایا ہے Ten plus ten جو بالکل انگریزی محاورے کے خلاف اور محققین کی زبان کے بالکل منافی اس سے متصادم ۔ جب کہتے ہیں Ten plus, Eleven Plus تو مراد ہے یا چند مہینے زائد یا ایک دو سال زائد ۔ چنانچہ اس کو وہاں تک تو کسی قیمت پر بیس سال تک پہنچایا جاہی نہیں سکتا اور پھر ٹکریں جب لیںپھر بھی اس دس سال جو ا س نے دیئے ہیں نا مزید اس کو Graceکے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہاں پہنچانے کیلئے اس کے بعد پھر سات سال صرف باقی رہ گئے ۔ اس آخری سات سال میںیہ سارے جھگڑے ختم کراتا ہے یہ ۔ اور ساری تاریخ کے باقی پہلوبدلنے پڑیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بعد کی تاریخ کا زمانہ سب گڈ مڈ ہوجاتا ہے ۔ لیکن سب سے بڑا استدلال بکائی کے خلاف یہ ہے کہ قرآن کو ایک طرف سے سچا ثابت کرنے کی خاطر اس کا رجحان یہی ہے قرآن ٹھیک کہتا ہے۔ اچھی بات ہے ہم بہت خوشی سے اس کا استقبال کرتے ہیں مگر اس بنا پر ا س کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ اپنے شک سے قرآن کو سچا ثابت کرکے دکھائے اور قرآن کی قطعی گواہی کو جھٹلاکر اس کو پس پشت پھینک کر پھر اپنے وہم کو دکھا کر کہ میں نے قرآن سے ایسا ثابت کیا ہے اس کو قبول کرلیں، کوئی اس کی بات کو قبول نہیں کرسکتا جبکہ عقلاً بھی یہ باتیں ناقابل قبول ہیں۔ Chronologyکے لحاظ سے ناقابل قبول ہیں؟اس لیے میں بتارہا ہوں کہ یہ جو خوش فہم لوگ اس کا ذکر پڑھ لیتے ہیں کہتے ہیں آہا ہا اس نے ہماری تائید کردی ۔ مجھے بھی ایک مربی صاحب کا خط آگیا تھا کہ بکائی نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ ڈوب کے مرگیا تھا اور منفتاح کے زمانے میں ڈوبا تھا اور قرآن سچا ہے اور بائبل جھوٹی ہے۔ تو آپ پھر کیوں اس کو نظر انداز کررہے ہیں؟ میں اس کو تحقیق سمجھتا ہی نہیں۔ تحقیق وہ ہے جو تمام پہلوئوں کی چھان بین کے بعد ایسی صورت میںپیش کرے کہ قرآن کی فتح یقینی ہو وہ غالب ہو ، اس میں کوئی شک کا شائبہ نہ ہو یہ تحقیق ہے اور اس تحقیق کی رو سے اس کو میں اس لئے قبول نہیںکرسکتاکہ وہ قرآن کو سچا ثابت نہیں کررہا بلکہ نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کررہا ہے ، جیسا کہ میں آگے جاکر بیان کروں گا قطعی طور پر یہی شکل بنتی ہے۔سمجھ گئے ہیں آپ؟
وہ جو ذکر ملتا ہے میں نے کہا نا شہر کا ، ان پر بیگارلینے والے مقرر کئے جو ان سے سخت کام لے لے کر ان کو ستائیں سو انہوں نے فرعون کیلئے ذخیرہ کے شہر پتروم اور رعمسیس بنائے۔ رعمسیس کے بنانے کے متعلق بھی ضمناً میں آپ کو بتادوں کہ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ جہاں رعمسیس بنایا گیا ہے وہاں ایک اور شہر پہلے بھی آباد تھا۔ تو یہ کہنا کہ رعمسیس ہی نے یہ شہر بنایا تھا یہ درست نہیں ۔ وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ رعمسیس کے نام کے بعض پرانے آدمی بھی تھے لیکن اسے اگر قبول کیا جائے تو دو سو سال پیچھے ہٹنا پڑے گا کم ازکم اور پھر ساری تاریخ مسلمہ درہم برہم ہوجائے گی۔ تو محض اس شوق میں کہ یہ ثابت کیا جائے کہ رعمسیس ان لوگوں نے نہیں بنایا تھا یہ پہلے سے بنا ہوا تھا ، تمام تاریخی گواہیاں ، تمام Egyptologists کی گواہیاں ردّ کرکے اس فرضی قصے تک پہنچنا پڑے گا کہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام1290 کی بجائے چودہ سو کچھ میں پید اہوئے ہیں، چودہ سو ستر کے لگ بھگ اور پھرحضرت یوسف علیہ السلام کو دھکیل کر پیچھے پھینکنا پڑے گا اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر بن جائیں گے۔ ان لغو باتوںکو کون قبول کرسکتاہے ۔ پس تمام مغربی محققین نے بھی ان باتوں پر غور کرکے اس نظریے کو جب آغاز میں پیش کیا گیا تھا بڑی واہ واہ ہوئی تھی اس کو کلیتہً ردّ کردیا ہے اب۔ اس صدی کی کتابوں میں وہ ایک تاریخی شعبدے کے طور پر دکھائی دیتا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ محققین ان دوباتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنے پر لازماً مجبور ہیں ۔ تمام تر کہ رعمسیس کا زمانہ تو لازماً موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا یا پہلے پیدا ہوئے تھے اور رعمسیس کے زمانے میں وہ مقابلہ انجام کو پہنچا، یا رعمسیس کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور منفتاح کے زمانے میں انجام کو پہنچا۔ دونوں صورتوں میںاب میں ایک بتائوں گا۔ رعمسیس تو بہر حال ہے جو منفتاح کے قائل ہیں وہ رعمسیس کے پہلے سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کرنے پر مجبور ہیں۔ اور یہی مسلم ہوچکا ہے کہ رعمسیس کے پہلے سال پید اہوئے اور اگر اس کو تسلیم کرلیا جائے پہلے سال کو توواپسی 80سال کے بعد ہوتو منفتاح فوت ہوچکا تھا۔ وہ بھی گیا ہاتھ سے! واقعہ یہ ہے جس طرح کہ اکثر محققین کا خیال ہے اگر دس سال منفتاح کا دور سمجھا جائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بیچارے کی وفات کے بعد تین سال بعد وہاں آئے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا بیٹا بھی وہاں نہیں تھا اس وقت۔ وہ ایک ہی سال کے اندر حکومت کرکے مرچکا تھا اور اس کا پوتا جوتھا اس کا کل چھ سال کا Ruleہے ،اس میں سے بھی تین سال گزر گئے تھے۔ تو تین سا ل کے اندر اندر اس کے پوتے سے لڑائی ہوئی اور یہ واقعات ہوئے۔ اس کے پوتے کی تاریخ اتنی مبہم اور حقیر ہے کہ اس کو وہ فرعون قرار دینا جس کے ساتھ ٹکر ہوئی۔ ان باتوں کے قائل بھی وہاں جاکے شرماجاتے ہیں، رک جاتے ہیں منفتاح سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور موسیٰ علیہ السلام کی عمر منفتاح سے آگے چلی جاتی ہے۔ پس عمر کے متعلق فرض کرنے کا کسی کو حق ہی نہیں ہے، کوئی سند چاہیے۔ قرآن کریم نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ جب تم باتیں پیش کرتے ہو تویہ کہو تمہاری ٹامک ٹوئیاں ہیںا پنے فرضی قصے ہیں یا کسی کتاب میں ذکر ہے؟ کیسا عمدہ ایک تحقیقی اصول ہے کہ دو ہی کتابیں ہیں یا بائبل یا قرآن کریم ، اگر بائبل کو تسلیم کرو گے تو پھر اسی سال کے سوا کوئی ذکر ہی نہیںملتا لازماً اسّی بنا ئو گے۔ اسّی بنائو گے تو منفتاح بھی ہاتھ سے گیا۔ تین سال بعد واپس آتے ہیں اور اگر بکائی کی بات مانیں تو دس سال مزید بڑھانا پڑے گا۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ اس کی سند کیا ہے؟ Ten plusپھر دس سال اضافہ کردیا اور پھر بھی اتنی تھوڑی مدت اس کی ملتی ہے کہ وہ جب مقابلے وغیرہ ہیں وہ دکھائی نہیںدیتے، شان و شوکت اس کی دکھائی نہیں دیتی۔ پھر اس دور میں وہ باہر حملے بھی کرتا رہا ہے اور فخر سے یہ کہتا ہے کہ میں نے اسرائیلیوں کا باہر نام و نشان مٹادیا ہے اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتا ہے تو اس کو مارنے سے خوفزدہ ہے، دعائوں کی درخواستیں کرتا ہے کہ تم خدا کے حضور دعا کرو یہ عذاب ٹل جائے تو پھر ہم ٹھیک کرلیں گے۔ پھر ایک اور عذاب آتا ہے پھر ایک اور۔ اس کو تو فرصت ہی نہیں کہ اپنے اسرائیلیوں سے نپٹ کر باہر جائے اور باقیوں کا صفایا کرے تو اتنے اس میں تضادات ہیں، اتنی فرضی باتیں ہیں کہ اس کوکسی قیمت پر قبول کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ سب سے بڑی دلیل یہ کہ قرآن کریم کو جھٹلائے بغیر آپ منفتاح تک نہیں پہنچ سکتے ناممکن ہے اور کوئی شخص جس کو ادنیٰ بھی قرآن کی عزت ہے وہ یہ جرأت نہیں کرسکتامگر اس کی ضرورت بھی کوئی نہیں میں تاریخی طور پر ثابت کروں گا کہ قرآن ہی کا بیان سچا ہے باقی سب بیان جھوٹے ہیں۔ چنانچہ میں بتارہا ہوں کہ ہم بعض باتوں کوبائبل کی ردّ کریں اور بعضوں کو قبول کریں ہمیں کیا حق ہے؟ یہ ثبوت میں دے رہا ہوں کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اپنی مرضی سے Arbetrerely ہم نے تاریخیں تو ردّ کردیںاور رعمسیس کا ذکر تسلیم کرلیا۔ فرق یہ ہے کہ رعمسیس کا ذکر کوئی متنازعہ فیہ بات ہی نہیں ہے اور رعمسیس کا ذکر اس یقین کے ساتھ بائبل میں ملتا ہے جس کے ساتھ ایک شہر آباد ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔اس کے آثار قدیمہ دریافت ہوچکے ہیں۔ اس کوآپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کسی نے فرضی طور پریہ کہانی بنائی تھی اس لیے ہم مجبور ہوچکے ہیں کہ رعمسیس کے شہر کی تعمیر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میںمانیں اس سے اب چارہ ہی کوئی نہیں اور یہ وہ بات ہے جس کی طرف ایک بھی محقق یہ نہیں کہتا یعنی اس کی طرف اشارہ کرکے کہ کسی نے فرضی طور پر بنالیا تھا کیونکہ اگر یہ بات دعویٰ کرے تو سارا شہر بناہوا کہاں سے آگیا؟ لیکن تاریخیں! وہ میں بتارہا ہوں کہ محض ہم نے اپنے ذوق سے اس کو ردّ نہیںکیا بلکہ قطعی گواہیاں موجود ہیں کہ بائبل کی دی ہوئی تاریخیں فرضی قصے ہیں ان میںکوئی حقیقت نہیں ہے، ان کا خدا کے کلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسانی مؤرخین نے اندازے سے کچھ باتیں لکھیں جو بائبل میں راہ پاگئیں۔ ٹھیک ہے؟ اب جب ثبوت کی باری آگئے گی تو پھر میں واپس جائوں گا۔
اب بائبل آگے کہتی ہے ’’ بنی اسرائیل نے رعمسیس سے سکات تک پیدل سفر کیا‘‘۔ یہ پورا شہر آباد تھا، موجود تھا سکات بھی بن چکا تھا، رعمسیس بھی بن چکا تھا ، جب ہجرت ہوئی ہے اور بال بچوں کو چھوڑ کر وہ کوئی چھ لاکھ مرد تھے اور بال بچے اگر پانچ کے حساب سے Addکیے جائیں تو تیس لاکھ کی آبادی بنتی ہے جوباہر نکل رہی ہے اور ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی تھی اور بھی کچھ لوگ چل پڑے تھے ساتھ ’’اور بھیڑ بکریاں ، گائے بیل اور بہت چوپائے تھے‘‘۔ اب یہ قافلہ ڈیلٹا سے یا کہیں سے پار کرکے دکھادیں اتنے عرصے میں جتنے عرصے میں بیان کیا جاتا ہے۔ آج کل کی Modern Army نہایت تیز رفتار سے جرمن سپاہیوں کی طرح Marchکرے تو تب بھی تیس لاکھ آدمی جمع بھیڑیں جمع بکریاں جمع ملی جلی بھیڑ یہ کوئی ڈیلٹا دنیا کا پار نہیں کرسکتے۔ تو پھر ان کا ایک بڑا حصہ غرق ہونا چاہیے فرعون کے ساتھ اور ابھی فرعون کو تو موقعہ ہی نہیں ملنا اندر داخل ہونے کا۔ ایک ہی دن میں ان کا لشکر داخل بھی ہوا اور نکل بھی گیا۔ یہ چونکہ ممکن ہی نہیں اس لیے ان کا Middle Partغرق ہوگیا ہوگا پچھلے بچ گئے ہوں گے اور فرعون نے ان کو پکڑ لیا ہوگا اس کے سوا کوئی Senario بنتا ہی نہیں ہے اس کو بھی تو استعمال کریں عقل جو خدا نے عطا فرمائی ہوئی ہے کہ بیانات کو آنکھیں بند کرکے کیسے قبول کرتے ہیں یا بائبل یا قرآن ان کے درمیان ٹانگ رکھنے کی اجازت نہیں ہے دو ہی کتابیں ہیں اور قرآن واضح کہتا ہے کتاب سے دکھائو ۔ بائبل کا بیان تو غلط ثابت ہوگیا لازماً قرآن پہ آئیں گے پھر میں بتائوں گا کہ کتنا واضح، مربوط اور کتنا خوبصورت کلام ہے کہ جو بھی گواہی ملتی ہے حق میں ملتی ہے اور ان کے خلاف نہیں ملتی۔ یہ چیز ہے جو آگے جاکے او رکھلتی چلی جائے گی اور بائبل یہ بھی بیان کررہی ہے ساتھ، قرآن تو وقت دیتا ہے کہ ایک تو ہزاروں کہتا ہے زائد نہیںتھے اور وقت اتنا دیتا ہے کہ رات کے منہ اندھیرے میںنکل کھڑے ہو، ابھی کوئی جاگا نہ ہو اور احتیاط سے نکلوکہ دشمن کو پتہ بھی نہ لگے پھر تم دریا پار کرو گے تو وقت مل جائے گا۔ امکان موجود ہے یا سمندر کا ڈیلٹا والا حصہ پار کرو۔ بائبل پتہ ہے کیا کہتی ہے؟ کہتی ہے پہلے مہینے کی پندرھویں تاریخ کو انہوںنے رعمسیس سے کوچ کیا فسح کے دوسرے دن سب بنی اسرائیل کے لوگ سب مصریوں کی آنکھوں کے سامنے بڑے فخر سے روانہ ہوئے۔تو وہ فرعون بیٹھا کیا سوچ رہا تھا اس وقت اس نے اگر پیروی کرنے تھی تو اس کی آنکھوں کے سامنے نکل رہے تھے وہیں گھیرا ڈالتے تیس لاکھ آدمی کا نکلنا کوئی آسان کام تو نہیں تھا ۔ وہ ان کو گھیرتا اور مارتا ختم کرتا۔ وہ اپنے غرق ہونے کا انتظار کررہا تھا بیچارہ کہ میرے غرقابی کے سامان پیدا ہوں تو پھر میں جائوں۔ تو دن دیہاڑے ان کا نکلنا اور پھر کتنا وقت دن کا باقی رہ گیا تھاجب یہ ڈیلٹا میں پہنچا ہے ۔ تو ایک دن میں بھی تیس لاکھ کی مار ثابت نہیں ہوسکتی۔ ایک pointکو crossکرجانا پیدل بھیڑ بکریوں کے ساتھ۔ناممکن ہے یہ Mathematisions ذرا حساب لگا کر دکھائیں تو پھر ان کو پتہ لگے گاکہ میں جو بات کہہ رہا ہوں کتنی ناممکن ہے یہ بات کہ تیس لاکھ مع بھیڑ بکریوں کے ایک دن کے عرصے کے اندر دریا پار کرجائیں جس میں سے وہ چلنے کی رفتار بھی کم ہوجاتی ہے مگر بائبل اور بھی کم کررہی ہے ۔ کہتی ہے وہ دن دیہاڑے وہاں سے چلے ہیں تو قریباًAfternoon میں پہنچے ہوں گے وہاں ،زیادہ سے زیادہ اگر دوڑتے بھی گئے ہوں تو اس کے بعد باقی وقت کے اندر تیس لاکھ آدمی بھیڑ بکریوں سمیت دریا پار کرگئے اور فرعون بعد میں پہنچا ۔ کیا یہ قابل قبول باتیں ہیں؟ہرگز نہیںصرف قرآن کی بات ہی تسلیم کے لائق ہے کہ وہ لوگ جو موت کے ڈر سے بھاگے تھے وھم الوف وہ چند ہزار تھے اس سے زیادہ نہیں تھے۔ یہ جو ہیں ناں مختلف کتب جن کا حوالہ دیتا ہے بکائی اس میں ایک Masteroہے اس کو تو وہ کہتا ہے کہ Manethoیا Egyptologist Manetho ہے ۔ وہ کہتا ہے اس کے سوا بہت کم لوگوں نے مضمون کے دونوں پہلوئو ںپر اتنا غور کیا ہے البتہ گزشتہ چند دھاکوں سے اس بارے میں کافی خیال آرائیاں ہوئی ہیںلیکن یہ سب one sidedنظریات ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ دلچسپ نظریہ J. Domisel یہ ہے جو ایسا دلچسپ نظریہ ہے کہ یہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بہت پہلے لے جاتا ہے اور فرعون بھی اسی زمانہ کا بیان کرتا ہے۔ اس کی بنا وہی تاریخ کی غلطی ہے جہاں بھی آپ کو غلطی نظر آئے گی وہاں بائبل کی تاریخ کی غلطی اس کی ذمہ دار ہوگی۔ یہ کہتاہے کہ جوTemple of Solomon ہے وہ جس تاریخ کو بنایا گیا اس سے پہلے کی جو تاریخ ہے وہ اس میںجمع کی جائے کتنے سال بنتے ہیں۔ تو چودہ سو پچانویں بی سی(BC) کا یہ واقعہ تھا جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک فرعون سے ٹکرلی اور اس فرعون کا نام طُطمُس تھا جو چودہ سو پچانوے سے پہلے کا ہے، ترانوے کے لگ بھگ کا ہے۔ اوّل تو یہ دلچسپ بات آپ کے علم میںلاتا ہوں کہ یہ جو Dinestyتھی جس کی ہم بات کررہے ہیں جس میں Setiاور یہ سب فٹ ہوتے ہیں فرعون کالقب یہاں سے شروع ہوا ہے اور اس سے پہلے بادشاہوں کو فرعون کا لقب دیا ہی نہیں جاتا تھایہ بھی ایک قرآن کریم کا اعجاز ہے بائبل کے مقابل پر کہ بائبل ان پرانے بادشاہوں کا ذکر کرکے ان کو فرعون کہتی ہے اور خداتعالیٰ کا کلام جو پاک اور سچااور غیر مبدل کلام ہے وہ ملک قرار دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں آپ کسی فرعون کا ذکر نہیں پڑھیں گے۔ ملک تھا جس کے زمانہ میں حضرت یوسف تشریف لائے ہیں اور ثابت ہوا کہ قرآن کا جو خالق ہے وہ عالم الغیب ہے۔ اس کو پتہ ہے کہ اس تاریخ کو ابھی فرعون کا وجود ہی نہیں آیا تھا۔ تواوّل تو یہاں سے اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا کہ خود بائبل جو سارا واقعہ بیان کرتی ہے فرعون سے ٹکر کی بات کررہی ہے اور فراعین کا تو وجود ہی کوئی نہیں تھا اس وقت۔ طُطمَس کو فرعون کہنا ہی غلط ہے۔ وہ تو ایک ملک تھا اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ مگر چودہ سو پچانویں کے پیچھے کرنے سے وہ ساری باتیں جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں وہ تسلیم کرنی پڑیں گی او رسب فرضی کہانیاں ہیں اس کے سوا اس کے پاس کوئی دلیل ہی نہیںہے، اس ساری بات کی کہ بائبل کا یہ جو کرونالوجی(Chronology) ہے اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کس کرونالوجی(Chronology) سے؟ جو خدا کا کلام ثابت نہیں، کس کرونالو جی (Chronology)سے؟ جو بندے کا کلام ثابت ہے۔ اس دلیل کے اوپر آپ ساری تاریخ کو تبدیل کردیں یہ کیسے ممکن ہے؟
پھر ’’Do Go‘‘Fatherکا نظریہ پیش کرتا ہے یہ بکائی اور اس کی ہم نے پوری چھان بین کی ہے یہ قریب ترین ہے حقائق کے Father Do Go یہ کہتا ہے کہ منفتاح نے جو اسرائیلیوں پر حملے کئے ہیں اور فخر سے کہتا ہے میں نے اسرائیلیوں کا بیج مار دیا ہے یہ قطعی طور پر ثابت کرتا ہے کہ اپنے باپ کا انتقام لینا چاہتا تھا اس کے باپ نے اسرائیلیوں کے ہاتھ سے بہت زک اٹھائی تھی، بہت تکلیفیں دیکھی تھیں جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے عدوا و حزنا موسیٰ علیہ السلام اس کیلئے دشمن بھی ثابت ہوئے اور اس کو بہت دکھ پہنچانے کا موجب بنے۔ اس لیے یہ Father Do Goکہتا ہے کہ یہ وہی فرعون ہے رعمسیس جس کے زمانہ میں خروج ہوا ہے، جب وہ نامراد ہوگیا تو اس کے بعد جتنے سال زندہ رہا ہے وہ ایک کسمپرسی کی حالت میںزندہ رہا ہے۔ اس کی حکومت کاانحطاط شروع ہوگیا ہے بڑی تیزی سے اور اس کا بیٹا اپنی کھوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کی خاطر یا باپ کے بدلنے لینے کیلئے اور کچھ نہیں کرسکتاتھا۔ تو اسرائیل یعنی کنعان کی طرف حملہ آور ہوا اور ایک جگہ آخر اس نے یہ Stele لکھا ہے کہ میں ان کا بیج مار آیا ہوں ۔ اب اسرائیلی کہلانے والی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اب یہ دعویٰ فخر سے بتارہا ہے کہ Complex کا مارا ہوا وہ بتانا چاہتا ہے کہ میں نے سب بدلے لے لیے لیکن اسرائیل تو موجود رہا حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ بھی گھومتے پھرتے رہے سارے بنی اسرائیلی موجود تھے۔ تو Steleنے اس کا ذکر یہ تو قطعی بات ہے کہ اس نے کہا ہے وہ Stele جو ہے وہ اس زمانہ کی تاریخ جو پتھروں او ردھات کی چیزوں پر کندہ تھی وہ ہے۔ تو ایک Stele پہ اس کا لکھا ہونا س کا طرز عمل، اس کی نفسیاتی الجھنوں کا تو گواہ ہے لیکن اس بات کا گواہ نہیں کہ اس نے جودعویٰ کیا وہ سچا تھا۔ Father Do Go بھی اس کا ذکر کرتا ہے ۔ کہتا ہے یہ انتقامی کارروائیاں تھیں۔ دس سال کل رہا ہے اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آنا فٹ ہی نہیں ہوتا مگر یہ اس پر یہ Criticismکرتا ہے عجیب دلچسپ یہ جو بکائی ہے۔ بکائی کو اور کوئی حملے کی جگہ نہیں ملتی۔ اسّی سال کو تو وہ خود بھی مان بیٹھاہے اس پر اعتراض کرتا ہے کہ Fatherہے پڑھا لکھا ہے اس نے بائبل میںیہ نہیں پڑھا ہوا کہ وہ فرعون غرق ہوگیا تھا جس کی موسیٰ علیہ السلام سے ٹکر ہوئی تھی اور وہ غرق ہو کے مرچکا ، ختم ہوا تو اس کا ذکر کیوں نہیں کرتا یہ؟ اگر یہ بات اس پر فرض ہے تو اس پر بھی تو فرض ہے کہ پھر بائبل کی یہ بات بھی مانے ۔ اگر اسّی سال کو قبول کررہا ہے ۔ تو یہ سارے فرضی قصے بائبل کی تاریخوں کی وجہ سے پید اہوئے ہیں جو بائبل کی تاریخیں تھی ہی نہیں۔ جہاں تک ڈوبنے کا تعلق ہے یہ قطعی بات ہے کہ بائبل غرق کا تو ذکر کرتی ہے بچنے کیلئے کوئی امکانی کھڑکی نہیں کھولتی ۔ اس لیے تمام مؤرخین جو رعمسیس کے زمانہ میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون کا مقابلہ قرار دیتے ہیں وہ مجبور ہیں بائبل کے اس بیان کو نظر انداز کرنے پر اور غالباً یہی وجہ ہے کہ اسلام حملوں سے اس پہلو سے بچا رہا ہے۔ کیونکہ یہ پادری اگر اسلام پر یہ حملہ کرتے کہ قرآن تو کہتا ہے غرق شدہ فرعون تھا تویہ سب سے بڑا حملہ ان کے اوپر ہونا تھا۔ کوئی فرعون وہ ایسا دکھا نہیں سکتے جس کے متعلق غرق شدہ ثابت کردیں اور باقی تاریخ بھی اس سے ملتی جلتی ہو اس لئے تمام مؤرخین جب یہ بحث چلاتے ہیں جو عیسائی کٹر پادری بھی ہوں وہ بائبل کے اس حوالے کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہ غرق ہوگیا تھا ۔ قرآن کی جہاں تک بات ہے میں یہ بات ثابت کرچکا ہوں کہ ایک کھڑکی لازماً قرآن نے کھول دی ہے کہ ننجیک ببدنک سے کیا مرادہے؟ اگر ننجیک ببدنکبمقابل روح ہے تو پھر اس کا یہی ترجمہ بنے گا کہ آج تیری روحانی نجات کا وقت نہیں رہا اور مرتے وقت روحانی نجات ہی ہے جس کی گفتگو ہونی چاہیے اور کسی مرنے والے کی توبہ اس لیے قبول نہیں ہوتی کہ اس کو اگر قبول کرلیا جائے تو آئندہ زندگی جنتی بنتی ہے۔
پس خد انے جس کا انکار کیا ہے وہ روحانی نجات ہے اور بدن کا زندہ رہ جانا اس لیے اس خاطر کہ بالآخر یہ نشان بنے اپنی واپسی کے بعد بھی اور آئندہ بھی ہمیشہ نسلوں کیلئے نشان بنے ۔یہ ایک نہایت معقول بات ہے کوئی کھینچا تانی نہیں ہے جبکہ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ عربی استعمال کی رو سے غرق شدہ کو بچایا جاسکتا ہے۔ تیسرا اگر کوئی امکان ہے تو پھر جس کے ذہن میں ہے وہ نکال کے دکھائے تاریخی حوالے سے جستجو کرے جس طرح ہم نے کتابوں کا مطالعہ کیا ہے بائبل اور قرآن اور Egyptologists کی گواہیوں کے ساتھ کہ وہ کس زمانہ میں بنے گا پھر وہ؟ اگر وہ منفتاح ہے تو پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کے پاس کیا دلیل ہے کہ منفتاح تک حضرت موسیٰ علیہ السلام پہنچ چکے تھے کیونکہ وہ اس کو پھرلازماً شروع میں پیدا ہونا چاہیے۔ جتنا لیٹ پیدا ہوں گے اتنا ہی منفتاح کا امکان ختم ہوتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر پہلے دن ان کی پیدائش مانی جائے تخت نشینی کے پہلے دن یعنی رعمسیس جس دن تخت نشین ہوا ہے اسی دن وہ اگر پیدا ہوئے ہوں فرض کرتے ہیں ہم تو زیادہ سے زیادہ سڑسٹھ سال اس کا Ruleہے اور سڑسٹھ سال کی عمر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر سڑسٹھ سال کی تھی اگر بائبل مانیں تو اس وقت نہیں واپس آئے آپ، اسّی سال بعد آئے۔ اسّی سال بعد آئے ہیں تو منفتاح ختم ہوگیا، کہاں سے منفتاح لائیں گے۔ اگر قرآن مانیںتو قرآن چالیس سے پہلے چالیس تک واپسی قرار دیتا ہے۔ وہاں منفتاح کہاں سے آگیا؟ ادھر سے نکالیں تو ادھر سے جاتا ہے اُدھر سے نکالیں تو اِدھر سے جاتا ہے۔ یہ منطق ان کے دماغ میں کیوں نہیں پڑرہی؟ Mathamatically Impossibleباتیں کررہے ہیں ۔یہ جو قصہ ہم زیر بحث لے آئے ہیں یہ تو غریب کے کفن والا قصہ ہے۔ غریب کے کفن کی چادر اگر سر ڈھانپو تو پائوں ننگے ہوجاتے ہیں، پائوں ڈھانپو تو سر ننگا ہوجاتاہے اور اس بیچارے کے تو لحاف کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ اس کے تو کمبل کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ بیچارے وہ ٹانگیں مروڑ مروڑ کر ، گھٹنے طے کرکے پھر سردی سے بچتے ہیں۔ تو یہ جو کہانی پیش کررہے ہیں یہ بہت ہی غریب کا کمبل ہے۔ اگر اس کو موسیٰ علیہ السلام کو رعمسیس کے زمانے میںپیدا کریں یعنی ان کی کہانی اگر پیدا کرے تو دھکیل کر جس دن وہ تخت نشین ہوا اسی دن اسے پیدا کردیں تو پھر بھی وہاں تک بائبل کی رو سے اس لیے نہیں پہنچ سکتا کہ بائبل بعد میں لے کر آئے گی اور قرآن کی رو سے اس لیے نہیںپہنچ سکتا کہ قرآن پہلے لے آتا ہے۔ تو نکالیںنا ںدلیل اب اپنی! کس دلیل سے اس کو یہاں فٹ کریں گے۔ سر ڈھانپیں گے توپائوں ننگے ہوں گے، پائوں ڈھانپیں گے تو سرننگا ہوگا۔ اس کتاب کو اس کی باقی باتیں ساری یونہی قصے قصے ہی ہیں۔ میں اب آپ کو پھر دوبارہ حقائق کی دنیا میں لے کے جاتا ہوںجو قرآن کی دنیا ہے۔ اس کے سوا کوئی حقائق کی دنیا ایسی نہیںجو اس Historyکو جس نے تین ہزار سال سے زائد ہو گئے انسانوں کو الجھن میں مبتلا کررکھا ہے، حل کرسکے سوائے قرآن کی۔قرآن کے قصص کے سوا کوئی ممکن نہیں ہے۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں قرآن کریم کیا فرماتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ جو محققین رعمسیس کے زمانے میں مانتے ہیں پیدا ہوئے اکثر کا یہ خیال ہے ۔ وہ مسلمان جو اس بات کے خواہشمند ہیں کہ اس کو منفتاح تک پہنچائیں وہ بھی مجبور ہیں یہ ماننے پر کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کورعمسیس کے آغاز میں پیدا شدہ مانیں۔ تمام مؤرخین یہی بات کررہے ہیں۔ اس صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو سفر ہے مدین کی طرف وہ تقریباً پچیس سال کی عمر ماننی پڑتی ہے ۔ کیوں؟ یہ قرآن سے استنباط ہورہا ہے ۔ بتائوں گا کیوں۔ کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب وہ آٹھ سال کی مدت پوری کرچکا ہے تو اس نے پھر فوراً وہ معاہدہ پور اہوتے ہی موسیٰ علیہ السلام نے اجازت مانگی ہے اپنے خسر سے او رچل پڑے ہیں۔ اور اسی سفر میں ابھی انہوں نے اپنی جگہ کی تلاش بھی نہیں کی تھی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہاڑ پر بلایا اور نبوت عطا فرمائی ۔ سمجھ گئے ہیں؟اور نبوت جو ہے وہ Earliestکب ہوسکتی ہیـ؟ ہمارے علم کے مطابق تو عموماً تیس سال کے بعد اور چالیس سال تک ۔ یہ مسلمہ ہے۔ تینتیس سال کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ نبی ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کے قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں۔ مگر قرآن بتارہا ہے کہ پختگی ، ایک ایسی پختگی ضروری ہے جو عام بلوغت کی پختگی سے زائد ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب حکم دیا کہ فرعون کی طرف جا تو قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ ہم انتظا کررہے تھے کہ وہ فرعون مرے تو تو جا۔ فرماتا ہے کہ ہم انتظار کررہے تھے کہ تو ان قدروں تک پہنچ جائے جو نبوت کیلئے ضروری ہیں۔ چنانچہ فرمایا۔ احسان اپنے بتارہا ہے ناں قرآن کریم کہ ہم نے تجھ پر کیا کیا احسان فرمائے۔ اس ذکر میںفرماتا ہے اِذاوحینا الی امک مایوحی۔ اے موسیٰ علیہ السلام ہم نے تیری ماں کی طرف وہ وحی کی جو کی گئی تھی۔ وہ کیا ہے؟ ان اقذفیہ فی التابوت اس کو اس میںڈال۔ فی التابوت۔ یہ جو تھتھلانے کا انداز ہے ناں۔ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ تھتھلاتا تو نہیں مگر یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کا ایک انداز بیان کیا ہے، اختیا ر کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب ہوتے وقت۔ بہت ہی پیارا اندا زہے لیکن یہ صرف ظاہری طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز کلام کو نہیں اپنایا بلکہ اس میںگہری حکمت ہے۔ کیونکہ محض لطیفے کے طور پر کسی انسان کی طرز کلام کو اپنانا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ حکمت کیا ہے میں ابھی آپ کو بتائوں گا۔ ان اقذفیہ۔ ان اقذ فی التابوت کیوں نہیں فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہم نے یہ نہیںکہا تھا ان اقذ فی التابوت۔ ان اقذ فیہ ای فی التابوت۔ فاقذفیہ۔ اس کو ڈال دے اس میں ۔ فی الیم تو یہ جو طرز ہے یہ عام طور پرجو باتیں کرتے وقت رکتا ہے۔ پہلے فوراً دماغ میں نام نہیں آتا۔ وہ ایسی بات کیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کیلئے تو یہ ناممکن تھا۔ تو اس میںدونوں لطیف باتیں داخل ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرز کلام یہی تھی۔ وہ خود کہتے ہیں میری زبان صاف نہیں ہے۔ اور فرعون جب طعنہ دیتاہے تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ اس کی تو زبان ہی صاف نہیں ہے، یہ کہاں سے نبوت کرے گا۔ مگر یہ کافی نہیں ہے میرے نزدیک۔ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ محض ایسی نقالی کی خاطر لطیفہ پیدا کرنے کیلئے اپنے طرز کلام میں ایک تبدیلی پید افرمائے۔ حکمت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو سیدھا یہ کہہ دینا کہ اس کو تابوت میں ڈال دے۔ ایک عورت کیلئے بہت بڑے Shockکا موجب تھا۔ اس کو ذہنی طو رپرتیار کرنا مقصو دہے۔ پہلے فرماتا ہے فیہ۔ وہ سوچتی ہے اللہ مجھے کہہ رہا ہے کہ کہیں ڈالوں ٹھیک ہے۔ اس صدمے سے جب یعنی اس Shock کیلئے اپنے آپ کو جب نفسیاتی لحاظ سے تیار کرلیتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے فی التابوت تو اب اس کو سمجھ آئی کہ خدا چاہتا ہے کہ میں اس کو تابوت میں ڈالوں۔ جس طرح ایک ماں کو صدمہ سے بچانے کیلئے ہلکی ہلکی باتوں سے اسکے بیٹے کی موت کی خبر دی جاتی ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی موت کے خطرے کے صدمے سے بچانے کیلئے آہستہ آہستہ اس سے گفتگو فرمائی۔ پھر فرماتا ہے فاقذفیہ ۔ اب اگلا قدم آگیا ہے۔ پہلا فیہ میں تو وہ بچ گئی تھی کہ چلو جی تابو ت تک ہی باری آئی ہے۔ اگلا فیہ آگیا ہے مشکل۔ وہ ہے فیہ فی الیم مگر اس کے ساتھ ہی خداتعالیٰ نے خوشخبری ایسی دی اور مسلسل دی کہ اس کو پھر سہارا دے دیا۔ ایک طرف بچے کے خطرات سے آگاہ کیا بڑی حکمت کے ساتھ، پیار کے ساتھ، نفسیاتی نقطہ نگاہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پھر اس کے بعد تسلیاں شروع کردی ہیں۔ فاقذ فیہ فی الیم فلیلقہ الیم بالساحل اس لیے کہ میرا حکم ہے کہ یہ سمندریا یہ دریا لازماً اس تابوت کو ساحل پہ اٹھا پھینکے۔اس کی لہروں کو اس کو غرق کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے ساحل پر لانا ہی ہوگا۔ یہ سن کر اب دیکھیں فؤاد امّ موسیکس طرح آہستہ آہستہ قوی ہوتا جارہا ہے ۔ کیوں؟ یاخذوہ عدولی وعدولہ تاکہ اس کو میرا اور اس کادشمن پکڑ لے۔ اب پھر ڈر گئی۔ صدموں سے بچایا کہ ڈوبے گا نہیں ، فکر نہ کرو ، آگے کیا آئے گا۔ عدولی و عدولہ و القیت علیک محبۃ منی ولتصنع علی عینی یہ سب میں نے اس لیے کیا تھاکہ اپنی محبت تیرے دل میںڈالوں۔ یہ اس لیے میں تجھے بیان کررہا ہوں۔القیت علیک محبۃً منّی کہ ہم نے اپنی محبت تیرے دل میں ڈالی۔ ولتصنع علی عینی اور یہ انتظام کیا کہ میری آنکھوں کے سامنے تو پرورش پاکے جوا ن ہو۔ اذ تمشی فتقول اختک ھل ادلک اب یہ جو دوسری جگہ ہے ناں خطرات سے بچانے کا وہ قصص میں تھا میں وہیں سے واپس دوبارہ پڑھتا ہوں۔ میںڈھونڈ رہا تھاکہ وہاں وہ ذکر نہیں ہے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی تسلیوں کا ۔ یہاں ایک پہلو سے ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسرے پہلو کو زیادہ تفصیل سے القصص میں بیان فرمایا ہے۔
فالتقطہ آل فرعون سے پہلے کی بات میں کررہا ہوں۔ واوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ ۔ یہ تو ارضعیہ والا آگیا ہے واقعہ ۔ہاں اس کے بعد ہی آتا ہے پھر وہ۔ میں نے بتایا تھا پہلے ارضعیہ والا واقعہ ہے۔ پھر اس کے پہلے یہ پس منظر ہے اور بعد میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے فالتقطہ آل فرعون لیکون لھم عدوا و حزنا و ان فرعون وھامان و جنودھما کانوا خاطئین۔ اس ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واصبح فؤاد ام موسی فارغاً ان کادت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا لتکون من المومنین ۔ وقالت لاختہ قصیہ فبصرت بہ عن جنبٍ وھم لا یشعرون۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کو سمندر میں اٹھا کر یا دریا اٹھا کر ساحل پر پھینک دے گا یہاں قرآن کریم فرماتا ہے اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کویہ تو تسلی ہوگئی کہ وہ غرق نہیں ہوگا ، بچے گا ۔ لیکن یہ جو وہم تھا کہ دشمن کے ہاتھ میں پلے گا اس کو ہم نے اس طرح دور کردیا کہ دودھ پلانے کیلئے اسی کے پاس اس کو واپس کردیااوراس کا دل فارغ ہوگیا خطروں سے۔ اور پھر یہ خوشخبری بھی اس کو دی کہ وہ بڑے ہوکر ان لوگوں کو ہلاک کرے گا۔ اس لیے ہم یہ کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے دشمن کو ہلاک کردے۔ تو یہ وہ سارا تفصیلی پس منظر ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بچپن گزرا یعنی پیدائش ہوئی ہے اور ابتداء ہوئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے واذ تمشی اختک فتقول ھل ادلکم علی من یکفلہ ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے موسیٰ ہم تجھے یاد کرواتے ہیں وہ وقت بھی جبکہ تیری بہن ساتھ ساتھ ساحل کے چل رہی تھی۔ فتقول ھل ادلکم علی من یکفلہ اب وہاں سے گزرتے گزرتے اس نے یہ بات کی ہے ، یہ بھی بڑی دلچسپ بات ہے ۔ ان میں سے ایک نہیں تھی۔ ایک اتفاقاً گزرتی ہوئی لڑکی ہے جو سیر کرتے ہوئے دریاکے کنارے سے گزررہی ہے۔ یہ بھی اس کا بہت ہی حکیمانہ انداز ہے۔ اس لڑکی کو بھی داد جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو کہ اس نے ظاہر نہیں کرنا تھا کہ یہ رشتہ دار ہے۔ وہ چلتے چلتے یوں کرکے کہتی ہے میں تمہیں بتائوں کون اس کوکرسکتا ہے۔ میں سمجھ گئی ہوں تم کیا باتیں کررہے ہو ، کیا ڈھونڈ رہے ہو ۔ یہ ہے لطف والا انداز قرآن کریم کے بیان کا ۔ اذ تمشی اختک جب تیری بہن چل رہی تھی فتقول اوریہ کہتی جارہی تھی ھل ادلکم علی من یکفلہ میں تمہیں بتا نہ دوں کہ کون اس کی کفالت کرسکتاہے۔ یہ بات سن کر پھر معلوم ہوتا ہے توجہ کی ہے۔ انہوں نے کہا ٹھہر جااے چلنے والی! کیا تو باتیں کررہی ہے۔ پھر انہوںنے یہ واقعہ سنایا۔ علی من یکفلہ۔ فرجعنک الی امک کی تقر عینھا ولا تحزن۔ یہ جو صدمہ تھا ناں کہ ایک عدو پکڑ لے گا اس کا علاج اللہ فرماتا ہے ہم نے یہ کردیا کہ ماں کا غم دور ہوجائے اور تو اس کے سامنے اس کی گود میں پلے۔ پھر فرماتا ہے وقتلت نفسًا فنجینک من الغم پھر تونے ایک نفس کو قتل کیا اور ہم نے تجھے اس غم سے بھی نجات بخشی۔ تیری پہلی ہجرت ہوئی ہے وفتنک فتونااور کئی کئی قسم کی آزمائشوں میں ہم نے تجھے گزارا۔ فلبثت سنین فی اھل مدین پھر تو چند سال اہل مدین میں رہا۔ ثم جئت علی قدر یموسی پھر تو قدر کو پہنچا اے موسیٰ ۔ اب یہ لفظِ قدر ہے جو بتارہا ہے کہ پہلی جو تھی اس کی قوی الامین ہونا اور بلوغت یہ پہنچتے وقت نہیں تھی۔ پہنچتے وقت جسمانی طور پر وہ طاقتور ہوچکا تھا اور گھبرو جوان تھا لیکن اللہ کے نزدیک ابھی نبی بننے کے قابل نہیں تھا۔ قدر کا ترجمہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کیا ہے ’’تو اس عمر کو پہنچ گیا جو ہمارے کام کے قابل ہوتی ہے‘‘۔ تو قدر سے مراد جو تخمینہ ہم نے لگایا ہوا ہے کہ کوئی انسان اتنا بڑا ہوجائے تو پھر اس کے سپرد کام کئے جائیں۔ جب اس تخمینے یا اس خدا کے مقدر فیصلے کے مطابق تقدیر کہنا چاہیے۔اس تقدیر کے مطابق جو اللہ تعالیٰ کی جاری تقدیر ہے تواس عمر کو پہنچ گیا جہاں نبوت سونپی جاتی ہے تو پھر کیا کِیا ہم نے ؟ واصطنعتک لنفسی تب میں نے تجھے اپنے نفس کیلئے چن لیا۔تو جو انتظا ر تھا وہ کسی فرعون کے مرنے کا انتظا ر نہیں تھا، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پختگی کے اس مرتبے ،اس مقام تک پہنچنے کا انتظار تھا جہاں اللہ تعالیٰ پھر ایسے بندوں کو اپنا نمائندہ بناتا ہے۔ ان کے سپرد ایک ذمہ داری کرتا ہے اور اعتماد رکھتا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوئی غلطی نہیں کریں گے اور اسی وقت فرمایا اذھب انت و اخوک بایتی ولا تنیا فی ذکری تو اور تیر ا بھائی اب چلے جائو ہماری آیات کے ساتھ ولا تنیا فی ذکری اور میرے ذکر میں میری یاد میں کوئی کوتاہی نہ کرنا۔ یہاں بھائی کا مضمون اچانک داخل ہوا ہے ۔ لیکن اس لیے کہ اس کامضمون دوسری جگہ تفصیل کے بیان ہوچکا تھا۔ قرآن کریم جب ایک ہی واقعہ کو مختلف جگہوں پہ بیان کرتا ہے تو بظاہر ایک ہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر اس میں بہت لطیف پہلو ہیں جو فرق کے ہیں۔ اور وہاں قدر والا مضمون اور اصطنعتک والا مضمون ہے جو اس کامرکزی نقطہ ہے۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیوں اتنی دیر وہاں انتظار کروایا اور فرعون کے پاس بھجوایا۔ بجھوانے سے پہلے انتظار کروایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو پہلے بھی بھیج سکتا تھا۔ فرعون سے تو خدا کو کوئی ڈر نہیں تھا۔ بلکہ موسیٰ علیہ السلام ڈرتے ہیں تو کہتے ہیں نہیں ڈرنا۔ وہی فرعون ہے جو پہلا فرعون تھا ، جس کے زمانے میں بھاگے ہیں۔ قطعی طور پر وہی ہے اور واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اب میں نے تجھے نبی بنادیا ہے اور نبی کی حفاظت میرا ذمہ ہے اور تجھے اس سے ہرگز ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہ بدبخت مرچکا تھا تو قرآن نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ وہ مرچکا ہے بائبل کے بیان کو اختیار کرلیتا کہ وہ مرچکا ، کھپ گیا، ختم ہوگیا۔ تو کیوں ڈرتاہے؟ بلکہ اشارۃً بھی اس کے مرنے کا ذکر نہیںفرماتا۔ کہتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں ۔ حضرت ہارون علیہ السلام کا ذکر دوسری جگہ وضاحت سے موجود ہے کہ جب آپ کو نبوت عطا کی گئی اوریہ فرمایا کہ تو فرعون کے پاس جا تو انہوں نے دو عذر پیش کئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے۔ کوئی شوق نہیں تھا نبوت کا۔ ایک یہ عذر تھا کہ ان کے اوپر تو میر اقتل ہے اور جہاں میری طلب ہے وہاں میں واپس جائوں گا تو مجھے قتل کردیں گے ، تیرا مقصد تو پھر بھی پورا نہیں ہوگا۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نعوذباللہ اپنی جان کی خاطر یہ بات کی ہوگی۔ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو متوجہ کررہے ہیںحضرت موسیٰ علیہ السلام کہ مقصد کیسے پورا ہوگا تیرا؟ تو نے چن تو لیا مگر بھیج ان کے پاس رہا ہے جن کو میرے خون کی تلاش ہے۔ دوسری یہ کہ میں تو تھتھلاہوں۔ میں تو اٹک اٹک کے بولتا ہوں ۔ تو تیری نمائندگی کروں اور اٹک اٹک کے بولوں یہ تو کوئی بات بنتی نہیں۔ اور پھر ساتھ ہی عرض کیا، انکار نہیں تھا۔ عرض کیا کہ میرے بھائی کو میری جگہ بنادے۔ اب بھائی کا قتل نہیں تھا اور بھائی کو خطرہ کوئی نہیں تھا۔ یہ قطعی بات ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اکیلے نکلے ہیں بھائی کو لے کر نہیںنکلے تھے۔ بھائی کو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ جس طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول کریم ﷺ پیچھے چھوڑ آئے تھے اور جانتے تھے کہ اس کو خطرہ کوئی نہیں ہے ورنہ نبی ایسی حرکتیں نہیں کیا کرتا کہ اپنے کسی عزیز کو خطرے میں یونہی جھونک دے اپنی جان بچانے کیلئے۔ بعینہٖ وہی مضمون ہمیںحضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت میں دکھائی دیتا ہے، پہلی ہجرت میں۔ نبی تو نہیں تھے مگر نبیوں والی شان توموجود تھی، عادات تو وہی تھیںناں یعنی خصلتیں بنیادی طور پر موجود تھیں۔ آپ نے اپنے بھائی کو پیچھے چھوڑا ہے اس یقین پر کہ یہ کوئی ایشیا کی پولیس نہیں ہے جو بھائی کے بدلے بھائی کو پکڑتی ہے اور بیٹے کے بدلے باپ کو قابو کرتی ہے۔ یہ فرعون مصر ظالم جتنے مرضی ہوجائیں مگر کچھ قاعدہ قانون چل رہا ہے یہاں۔اس لیے میرے بھائی کو میرے بدلے نہیں پکڑیں گے۔ اور بالکل سچی بات ثابت ہوئی۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بھائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اپنی گردن کا پھندہ بھائی کی طرف منتقل نہیں کررہے کیونکہ یہ ثابت ہوچکا تھا کہ سب سے بڑا خطرے کا جو وقت تھا اس وقت بھی فرعون مصر کی حکومت نے ایک مجرم کے بدلے اس کے رشتے دار کو نہیں پکڑا۔
پس آج اگر یہ حکومتیں پیدا ہوگئی ہیں تو یہ جدید نہیں بلکہ قدیم سے بھی قدیم ترین چیزیں ہیں۔ اور ان کا ترقی ٔ معکوس کی طرف قدم ہے۔ یہ ظلم کسی Civilized حکومت میں نہیں ہوا کرتا کہ ایک آدمی نے جرم کیا ہے ، آپ بھاگ گیا ہے تو اس کے بھائی رشتہ دار ، بڈھوں کو بھی، بیٹیوں تک کو تھانے میں بٹھالیں۔ اب یہ صرف پاکستان کی شان تو نہیں، ہندوستان بھی برابر شریک ہے اس معاملے میں۔ بنگلہ دیش میں بھی شاید ہوتی ہوں یہ باتیں اور ان دو ملکوں کا تومجھے پتہ ہے۔ قطعی طور پر ہمارے ساتھ ہوچکا ہے قادیان میں بھی۔ ایک آدمی مجرم تھا وہ بھاگا تو اس کے باپ کو،اس کے دوسرے عزیزوں کو پکڑ کے بٹھالیا تھانے میں۔ وہ آئے گا تو چھوڑیں گے۔ تو فرعون کو کچھ نہ کچھ داد تو دینی پڑے گی کہ ظالم ہوتے ہوئے بھی کچھ قاعدہ قانون پیش نظر رکھتا تھا۔ پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یقین تھا کہ ہارون کو کچھ نہیں ہوگا۔ یہ وجہ تھی جو آپ نے عرض کیا کہ میرے بھائی کو بھیج دے۔ اللہ نے اب دیکھیں اللہ کی عنایت یہ کہتا ہے کہ نبی تو میں بنادیتا ہوں ساتھ مگر بھیجوں گا تجھے۔ تم دونوں جائو اب اور فرعون سے جا کے باتیں کرو۔ اب جو پہلی باتیں فرعون سے ہوئی ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سارے فکر جھوٹے نکلے اور خد اکی بات سچی نکلی۔ وہاںہارون چپ کرکے کھڑے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی بات کررہے ہیں ساری۔ کہیں کہیں قرآن کریم حضرت ہارون علیہ السلام کی باتوں کا بھی ذکر فرماتا ہے ۔ یہ نہیں کہ بالکل گونگے تھے وہ بھی باتیں کرتے تھے مگر Burden جو ہے گفتگو کا ، خدا کی نمائندگی کا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہی اٹھایا ہے اور اس وقت ان کو پھر کوئی خوف نہیں رہا۔ جس کا مطلب ہے کہ خاص تصرف الٰہی کے تابع جب انسانی ذہن ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر بات کرتا ہے تو تھتھلاہٹ کے جو محرکات ہیں وہ غائب ہوجاتے ہیں اور یہ طے شدہ بات ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جو تھتھلے آج کل بھی اس زمانے میں (Stammerکرنے والے) وہ جب نظم پڑھتے ہیں تو نہیں Stammerکرتے۔ اور بعض دفعہ اچانک کسی دبائو کے نیچے بات ہورہی ہو جب وہ آپ بھول چکے ہوں کہ ہم Stammer کرتے ہیںتو صاف بولنے لگ جاتے ہیں ۔ ایسے ایک Stammerer میرے پاس بھی آئے تھے۔ وہ اچانک کوئی ایسی بات ہوئی تو بے ساختہ بالکل صاف کلمے بولنے لگے۔ عرب ہیں وہ، اٹلی میںہوتے ہیں ہمارے۔ تو میں نے ان کو کہا تم تو صاف بول رہے ہو۔ تو پھر وہ فوراً اٹکنے لگ گئے۔ اس لیے کہ وہ بے ساختہ ایک جواب تھا۔ اس وقت کوئی خوف دامنگیر نہیںتھا کہ کہیں میں Stammer نہ کروں۔ تو جب ایک بڑا خوف سامنے آجائے تو بعض دفعہ اس وقت چھوٹا خوف دب جاتا ہے۔ یا ایک بڑ ارعب کسی چیز کاپڑا ہوا ہو توہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ فرعون کا رعب غالب آگیا تھا اس لیے Stammeringبھول گئے۔ لیکن اللہ کی جو شان اور شوکت اور وہ نمائندگی کا جو احساس تھا اس نے اس Stammeringکو ختم کیا اور آپ سیدھا بول پڑے ۔ لیکن کہیں کہیں بعد میں گفتگو میںوہ Stammeringہوتی رہی ہے۔ اس لیے کہ فرعون نے طعنہ ضرور دیا ہے کہ یہ شخص تمہارا ، تم اس کو ترجیح دوگے میرے اوپر۔ یہ تو بات بھی صاف ستھری نہیں کرتا۔ مگر جیسا بھی تھا اللہ نے اس کو نمائندگی عطا کی۔ پھر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے واپس چلے گئے۔ کس عمر میںواپس گئے؟ قرآن کریم کہتا ہے کہ طاقتور ہوچکے تھے۔ جب مکا مارا اور وہ مرگیا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ جتنی دیرمیں پہنچے ہیں گھبرو جوان تھے، قویّ الامین تھے اور شادی کی عمر تھی، یہ کم و بیش پچیس سال بنتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ آٹھ سال کی مدت پوری کرتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس گئے ہیں اوریہ قطعیت کے ساتھ ثابت کرتا ہے کہ وہ رعمسیس کا زمانہ تھا وہ منفتاح کا زمانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے ’’قدر‘‘ کو پہنچا ہے تو پھر ہم نے تجھے اور آٹھ سال بعد قدر کو پہنچ گئے تھے۔ تو25سال میں اگر آٹھ جمع کریں تو 33بنتے ہیںاور کوئی اسلامی عالم اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ 33سال کی عمر سے نبوت کی عمر کا آغاز ہوجاتا ہے 33اور 40یا 40سے کچھ بڑھ کر ، آگے جاکر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کا جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے 50سال کی عمر تک قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہے۔ لیکن 40ضروری نہیں ہے، 40پختگی کی ایک نمائندہ عمر ہے۔اس سے دس سال اوپر، دس سال نیچے تک یہ عمر پھیل سکتی ہے۔ تو یہ مبحث ایسا نہیں جس سے اختلاف ہو۔ جو میں نے Scenario پیش کیا ہے۔ اگر 25سال کی عمر مانی جائے تو پہلی عمر جو نبوت کی ہے وہ 33سال ہم سمجھتے ہیں۔ تو 25+8تینتیس سال کی عمر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آتے ہیں۔ واضح ہوگئی بات؟ تینتیس سال کی عمر میںو اپس آنا اس لیے کہ علی قدرٍوالا انداز بتاتا ہے کہ ہم انتظار کررہے ہیں کہ تمہیں جلدی بھیجیں ۔ بھیجنے کا انتظار کررہے ہیں۔ فیصلہ کرچکے ہیں تجھے نبی بنانا ہے مگر تیری نبوت کی جو پختگی کی عمر نبوت کیلئے چاہیے ابھی وہ نہیں پہنچی تھی۔ اب تو پہنچ گیا ہے ابھی ہم تجھے فوراً کرتے ہیں اور آٹھ سال کا معاہدہ اللہ کی تقدیر کے تابع تھا۔ آٹھ سال آپ کو وہاں مصروف رکھناتھا، آپ کو گھر دینا تھا، آپ کو رشتے عطا کرنے تھے، بچے دینے تھے تاکہ اور زیادہ پختہ ہوجائیں۔ شادی کے بعد انسان کا ذہن او ربھی زیادہ پختہ ہوجاتا ہے۔ تو ان سب باتوں کے بعد عین اس وقت جبکہ عمر آپ کی پہنچتی ہے اس وقت یہ آٹھ سال کا معاہدہ بھی طے ہوجاتا ہے ، واپس چلے گئے۔ اب آگے کتنی دیر وہاں رہے؟ اب قرآن سے ہم نے یہ ثابت کرناہے ۔ میں کہتا ہوں سب باتیں قرآن میںموجود ہیں۔ بائبل کے حوالے سے جب مؤرخین یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے پاس واپس جانے کے بعد کتنا عرصہ ہونا چاہیے ۔ تو بہت مشکل میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔اس ذریعے سے وہ کوئی معین عرصہ طے نہیں کرسکتے کیونکہ بعض بائبل کے طرز بیان ایسے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ آج ایک معجزہ کل دوسرا، تیسرا، چوتھا ، پانچواں، ہفتہ دس دن میں معجزے سارے ختم ۔مگر قرآن کریم جو طرز بیان کرتا ہے وہ لمبے عرصے پر پھیلے ہوئے معجزات ہیں۔ جو موسموں کی تبدیلیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک کے بعد دوسرا پھر بیچ میں وقفہ، پھر دعا کا وقت۔ تو بائبل بھی دعا کی باتیں تو کرتی ہے مگر طرز بیان سے یہ لگتا ہے کہ جلدی گزرگیا ہے وقت اسی لئے جو محققین ہیں جب یہ عمر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کتنی دیر حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر میںرہے تو مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں۔ میں ابھی اپنے ریسرچ گروپ کو کہہ رہا ہوں مزید تحقیق کریں۔ ہم پتہ کریں گے انشاء اللہ۔ لیکن قرآن سے توہمیں بالکل واضح روشنی مل رہی ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے واوحینا الی موسی و اخیہ ان تبوا لقومکما بمصر بیوتا واجعلوا بیوتکم قبلۃً و اقیموا الصلوٰۃ و بشر المؤمنینکہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے بھائی پر یہ وحی کی تھی کہ تم دونوں اپنی قوم کیلئے اور اپنے لیے مکانوں کے رہنے کی جگہ مخصوص کرو اور وہاں نئی تعمیر کرو تو وہ مکان قبلۃً ایک دوسرے کے سامنے ہوں۔ یعنی دو رَویہ مکان ہوں تا کہ تمہاری حفاظت کا انتظام ہو۔اور دوسرا یہ کہ قبلہ رخ ہوں یعنی فلسطین کی طرف ان کا رخ ہو۔ یہ دونوںترجمے بن سکتے ہیں۔ تویہ جو تعمیر تھی یہ تو بڑا لمبا عرصہ بتاتی ہے۔ ادھر جھگڑے ہیں فرعون سے، اس میں مصروف ہیں۔ ادھر خدا ایک نیا شہر آباد کرنے کی ہدایت کررہا ہے جس کا معین نقشہ ڈیزائن بھی خدا دے رہا ہے ۔تویہ جو عرصہ ہے میرے نزدیک عموماً سات، آٹھ، دس سے کم نہیں ہوسکتا۔ جو معجزوں کا بیان قرآن کریم میں ہے اس کی طرف دیکھ لیں آپ اور یہ شہر کی آبادی کاذکر دیکھ لیں۔ پھر وہ اس میں وہ کچھ رہے بھی ہیں آخر۔ یہ تو نہیں کہ ادھر تعمیر ختم ہوئی ادھر ہی وہ Exodusہوگیا ۔ Exodusسے پہلے لازماً اس شہر سے استفادہ کیا گیا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بے معنی سا ہوجاتا۔ مگر اس میں ایک اور بات بھی ہے اس حکم کا تعلق اس بات سے بھی ہے۔ دو باتیں ہیں اس میں جو خاص طور پہ توجہ کے لائق ہیں۔ کیونکہ قرآنی بیان تو حیرت انگیز اعجاز ہے۔ اوّل یہ بتاتا ہے کہ ان لوگوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کیلئے ان کی جو پرانی Dwellings ہیں ان سے نکالنا ضروری ہے۔ ورنہ وہ تیرے کام نہیں آئیں گے۔ دریا کے کنارے بھیگی ہوئی نیچی زمین میں رہتے تھے۔ ہر قسم کی آفات جو اس دریا کے پاس رہنے کے ساتھ وابستہ ہیں ان بیماریوں کے اور ان آفات کا شکار تھے اور ذلیل قوم کے طور پر شہر سے ہٹ کر ذرا دور دریا کے کنارے بسنے والی جھگیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے ان کو عزت نفس عطا کرنی ہے۔ ان سے جو تم نے کام لینے ہیں ، جب تک انسانی قدروں کے اعلیٰ مقامات تک نہ ان کو پہنچایا جائے یہ لوگ کام نہیں آئیں گے۔ اس لیے تم جائو اسی شہر۔ مصر کے ایک طرف ایک جگہ چنو اور وہاں نئی آبادی بنائو اور ایسے منظم گھر ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی جانب کھلتے ہوں۔ جس طرح آج کل انگلستان کے گھر ہیں۔ یہ یونہی لگتا ہے کہ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور حضرت ہارون علیہ السلا م نے بنی اسرائیل سے مل کے بنوائے ہوں۔ جڑے ہوئے آپس میں اور ایک دوسرے کے سامنے اور پھر قبلۃً کا دوسرا معنی یہ لیا ہے مفسرین نے کہ جس قبلے کی طرف جانا تھا۔ دوسرے مفسرین نے تو پتہ نہیں لیا ہے کہ نہیں میں نے یہ لیا ہوا ہے اور اس کا ثبوت بھی ہے کہ قرآن کریم بعد میںعبادت کیلئے ذکر کرتا ہے اور ان کو یاد بھی دلانا تھا چونکہ کہ تم بالآخر تیار ہورہے ہو فلسطین واپسی کیلئے۔ اس لیے قلبۃً کا لفظ شاید ان کے قبلہ رخ ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پھرفرماتاہیلقومکما بمصر بیوتا واجعلوا بیوتکم قبلۃً واقیموا الصلٰوۃ ۔اقیموالصلوٰۃ کا یہاں کون سا موقع ہوگیا؟ اگر قبلہ کا ذکر کرتے ہی اقیمو الصلوٰۃکی بات کریں آپ تو قبلہ کا وہ معنی ضرور ذہن میں ابھرے گا جو نماز سے وابستہ ہے۔ تو فرمایا تمہاری عبادت بھی ہوگی عبادت کا ایک دستور مقرر ہوگا اور ایک قبلہ مقرر ہوگا ۔ اپنے گھر ایسے بنانا کہ اس میں پھر منہ ٹیڑھے نہ کرنے پڑیں۔ ان کا رخ قبلے کی طرف ہو۔ اب اگر آمنے سانے بھی ہوں تو قبلہ سیدھا ہی رہتا ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے ان گھروں کا رخ فلسطین کی جانب تھا ۔ اب جو تحقیق ہے وہ جاری رہنی چاہیے۔ یہ ابھی تک ہمارا یہ ایک اندازہ ہے تفسیری اندازہ۔ یہ جو پرانے نکلے ہیں آثار، مصر کے احمدیوں کو بھی چاہیے ، دوسرے محققین کو بھی چاہیے کہ وہ جاکے دیکھیں تو سہی کہ وہ جو بستیاںاسرائیلیوں کی پیچھے رہ گئی تھیں ، نئی بنیں تھیں ان کے رخ کیا تھے ۔ اس سے پھر یہ تفصیل معین ہوجائے گی ۔ دومیں سے ایک بات یا دونوں باتیں لازماً ملیں گی اس میں شک کی گنجائش ہی کوئی نہیں۔ وہ نئی قسم کی آبادیاں ہوں گی جو فرعونی دستور سے مختلف ہوں گی، الگ الگ مختلف رخ کی طرف کوٹھیاں نہیں ہوں گی بلکہ دو رویہ مکان ہوں گے اور ایک دوسرے کی طرف ہوں گے یا ان سب کا قبلہ فلسطین کی طرف ہوگا۔ یہ تحقیق ہو تو پھر ہم قرآن کریم کی خدمت کریں گے ۔ یہ نکال کے دکھائیں گے کہ دیکھ لو باریک ترین باتیں جو قرآن نے ضمناً بھی بظاہر بیا ن کی ہیں وہ بھی ثابت ہورہی ہیں اور قرآن کریم جو باتیں ضمناً بھی بیان کرتا ہے ان کا ثبوت لازماً موجود ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ مسلک ہمارے سامنے رکھا کہ اب یہ جو عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن کریم کی رو سے پہلے علماء زندہ آسمان پر مانتے تھے ۔ فرماتے ہیں میں بھی ایک لمبا عرصہ یہ کرتا رہا ہوں۔ لیکن جب خدا نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اس تاریخ سے پردے اٹھائے جائیں گے اور عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب سے بچا ہوا اورطبعی موت مردہ دکھایا جائے گا تو فرمایا یہ نشانات کا دور ابھی ختم نہیں ہوا۔ میرے بعد زمین پھر یہ خزانے اگلتی رہے گی اور ایسے ثبوت مہیا کرتی رہے گی جس سے اس مضمون پر مزید روشنی پڑے گی ، اس کو مزید تقویت ملے گی۔
پس قرآن کریم میں جہاں بھی ذکر ہیں ان کی تاریخی گواہیاں مدفون ہیں اور ہمارا کتابیں پڑنے کو محض تحقیق قرار دینا کافی نہیں ہے ۔ ان سب پہلوئوں کے پیش نظر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب واقفین نو جو یورپ اور امریکہ میں رہتے ہیں ان کی ایک بڑی کھیپ تیار کی جائے ان میں سے کچھ Egyptologist بنیں۔ کچھ دیگر جو آثارِ قدیمہ کے ماہرین مختلف دنیا میں کام کررہے ہیں ان کے علوم سیکھیں بڑے بڑے ماہرین کے ساتھ ان کی شاگردی بھی اختیار کریں وہ زبانیں سیکھیں جو ان کی ضرورت ہے اور اگلے تیس چالیس سال کے عرصے کے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت گہرے احمدی محققین پیدا ہوجائیں جو خدمت اسلام اور خدمت قرآن کے نظریہ کے ساتھ اپنی تحقیق کو آگے بڑھائیں لیکن تحقیق میں ایک بات لازم ہے جب بھی میرا تحقیقی گروپ سے رابطہ ہوتا ہے خواہ یہاں سے آیا ہو یا باہر سے آیا ہو۔ ان کو ایک بات میں سمجھاتا ہوں کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ قرآن کریم سچا ہے مگر قرآن کریم کو سچا ثابت کرنے کی خاطر اگر آپ نے نتیجے اخذ کیے تو یہ دیانتداری کے خلاف ہوگا، قرآن کی وفا کے بھی خلاف ہے اور تقویٰ کے ویسے بھی خلاف ہے اور سائنس کے اصول کے خلاف ہے۔آپ وہی بات ظاہر کریں جو جستجوسے ثابت ہو اوریہ یقین رکھیں ایمان رکھیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسمیں آپ کو کبھی ٹھوکر نہیںلگے گی کہ جو حقائق طبعی طور پر یقینی طور پر نکلیں گے وہ ضرور قرآن کے حق میں گواہی دیں گے یہ ہے تحقیق۔ اس لیے تحقیق پر ہمارے عقیدوںکا اثر نہیںپڑنا چاہیے۔ لیکن تحقیق کا ہمارے عقیدوں پر اثر پڑنا چاہیے۔ اور اب تک کی چودہ سو سالہ انسان کی سائنٹفک پروگریس اور اس کا ماحصل یعنی سائنسی ترقیات اور جو کچھ آج تک حاصل کیا ہے اس بات پر گواہ ہیں کہ جو کچھ بھی دریافت ہوا ہے قرآن کے حق میں ہوا ہے ، قرآن کے خلاف نہیں ہوا۔ چودہ سو سال پیچھے تمہاری پشت پر کھڑے ہیں ہماری گواہی دیتے ہوئے ۔ تو اس کو نظر انداز کرکے اس خوف میں مبتلاء ہوکر کہ کہیں ہم کچھ ایسی چیز نہ دریافت کرلیں ۔ نعوذ باللہ من ذلک جو قرآن کے خلاف ہو ۔ اس لیے پہلے ہی اپنی مرضی کے نتیجے نکالو۔ یہ درست نہیں ہے۔ چنانچہ بعض محققین نے جلد بازیاںکیں نتیجے نکالنے میں۔ اس شوق میں کہ قرآن سچا ثابت ہو۔ میں نے کہا قرآن کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے سچا ثابت کرنے کی ۔ قرآن سچا ثابت ہوچکا ہے پہلے سے ہی تم جستجو کر و بس چپ کرکے۔ جہاں تمہیں گواہی ملے وہ مجھے لا کے دکھادو لیکن استنباط تم خود نہ ابھی کرو۔ استنباط کیلئے جو پختگی چاہیے یا خداتعالیٰ کی بعض تائیدیں چاہئیں ان کے پیش نظر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ جب آپ تحقیقات کریں گے جیسا کہ میں ہدایت کررہا ہوں تو استنباط میںجلدی نہ کرنا۔ مجھے تحقیق کا ماحصل اس کی بنیادیں سب بھجوائیں، میں انشاء اللہ آپ کی مدد کروں گا کہ صحیح خطوط پر ، تحقیق کے تقاضوں کے اندر رہتے ہوئے ہم قرآن کی خدمت کریں ، چھلانگیں مارنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ نئی نسل جو ہے اس کا فیصلہ امراء نے کرنا ہے اور امیر صاحب (یو۔کے) میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے متعلق کسی نے یہ کہا تھا کہ جب آپ بات کررہے تھے سونے کی کسی جوموقع پہ تو یہ سوئے ہوئے تھے لوگ ہنس رہے تھے۔ تو میں ان کو بتارہا ہوں پورے جاگے ہوئے ہیں اللہ کے فضل سے بقائمی ہوش و حواس یہ بات سن رہے ہیں۔ آپ نے اپنے واقفین نو پر نظر ڈال کر ایک بورڈ بنانا ہے جو ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ کس حد تک کون اس قسم کے تحقیقی کاموں کی اہلیت کی صلاحیت اپنی فطرت کے ودیعت کردہ صلاحیتوں کے لحاظ سے رکھتے ہیں۔فطرتی صلاحیتوں کے لحاظ سے جس ماحول میں وہ بڑھ رہے ہیں اور ان کے ماں باپ کس حد تک Affoardکرسکتے ہیں، ان کو تحقیقات کیلئے وقف کریں۔ جب وقف نو کرچکے ہیں تو وقف سے تو اب کوئی فرارنہیں رہا باقی ، مفرنہیں ہے۔ مالی لحاظ سے میں کہہ رہا ہوں ۔ مالی لحاظ سے اگر ان کیلئے دقت ہو ایسے کالجوں میں پڑھانا مطلب ہے تقاضے کرے کچھ اخراجات کے تو یہ بھی جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان کو اس بات میں سہارا دے، ان کو کہے کہ مطمئن رہو۔ یہ لڑکے ہمیں اچھے لگ رہے ہیں، یہ لڑکیاں ہمیں اچھی لگ رہی ہیں تحقیقات کیلئے ، ان کو ان مضامین میں داخل کردو۔ میرا خیال یہ ہے کہ بچیوں کی طرف اس میں زیادہ توجہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ بچیوں کیلئے تحقیقات کے کام کرنا جہاں کہیں بھی وہ ہوں ممکن ہوتا ہے۔ ا س لیے جہاں تک کتابی تحقیقات کا تعلق ہے زبانوں کا مطالعہ اور ان کے پرانے علوم کو سمجھ کر معانی کو براہ راست اخذ کرنا اس میں لڑکیاں بہت اچھا کام دیں گی کیونکہ ان کی Administrative ضرورت ہمیں نسبتاً کم ہے ۔ لیکن جہاں Exploration کا تعلق ہے ، مختلف جگہوں پر جاکر کھدائیاں کرنا اور اس میں لڑکیوں کو ایک طرف رکھنا چاہیئے بیچاریوں کو ان پر ناجائز بوجھ نہیں ڈالنا۔ وہاں لڑکوں کو اس بات کیلئے تیار کریں اور ان کا جو دائرہ ہے وہ چونکہ ساری دنیا سے ہے۔ مثلاً جب کشتی نوح کی ہم بات کرتے ہیں تو چین کا بھی ذکر آتا ہے، چین میںبھی تو محققین چاہئیں ۔ اب مذہب ہر جگہ ہیں، سب مذاہب کی تاریخ قرآن کے مطابق ایک ہی طرف اشارہ کررہی ہے کہ ایک خدا ہے، ایک ہی خالق ہے تو یہ تحقیق صرف فرعون سے تعلق نہیں رکھ رہی بلکہ یہ ا س صدی کا جو پہلا نصف ہے اس میں میری تمنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ہوجائے گا کیونکہ تمام احمدی جو وافقین نو ہیں ان کے ماں باپ پہلے ہی اچھل رہے ہیں کہ ہمیں ہدایت دی جائے کہ ہم کیا کریں۔ تو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ ، بڑے جوش کے ساتھ وہ پیروی کریں گے ۔ تو اندازہ کریں کہ تاریخ عالم میں یہ پہلا واقعہ ہوگا کہ مسلمان محققین مغربی علوم کے مطابق، ان کی سائنس کے مطابق براہ راست وہ تحقیق کریں کہ جس کے نتائج کو وہ قرآن کریم سے موازنہ کرکے قرآن اور اسلام کے حق میں استعمال کرنے کی توفیق پاسکیں اور غلط نظریات کی تردید کرسکیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ22؍رمضان بمطابق 23؍فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فرعون کا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو مقابلہ ہوا فرعون سے وہی مضمون ہے جو آج امید ہے کہ اختتام کو پہنچے گا۔ اس ضمن میں جو سوالات ہیں پیش نظر ان سب کے جوابات ابھی تک تو نہیں مل سکے یعنی قطعی طور پر، مگر جو محققین ہیں ان کیلئے یہ ابھی رستہ کھلا ہے اس سے پہلے جو محققین ہمارے کام کرتے رہے ہیں اکثر تفاسیر تک پہنچ کر وہیں بات کو ختم کردیتے رہے کہ فلاں تفسیر میں یہ بات ہے اور فلاں تفسیر میںیہ بات ہے ۔حالانکہ تفاسیر میں احادیث بھی ہیں، مستند احادیث بھی، قطعی روایات والی احادیث بھی ۔ لیکن یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی اسرائیلیات کو دخل ہوگیا ہے اور اسرائیلیات سے مراد یہ ہے کہ وہ اسرائیلی روایتیں جو اس زمانے میں یہود اور دوسروں سے مسلمانوں تک پہنچیں۔ ان کو اگر بغیرچھان بین کے اس وجہ سے کہ یہودی بتاتے ہیں ہوسکتا ہے یہ ہو ۔ اسی طرح بیان کردیا گیا ہو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت ﷺ یا صحابہ کا یہ طے شدہ مؤقف تھا او رچونکہ ان روایات میں ایسی لغو یات بھی داخل ہیں جو قابل قبول کسی قیمت پر نہیں ہیں۔ کوئی معقول انسان نہ معجزے کے طور پر انہیں قبول کرسکتا ہے نہ انسانی تجربے کے لحاظ سے ان کو درست قرار دے سکتا ہے۔آجکل جو مختلف لکھنے والے ہیں اس زمانے میں انہوں نے یہ حوالے اٹھائے ہیں۔ بعض ایسی روایات ہیں کہ وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں لیکن راہ پاگئی ہیں۔ تو یہ استنباط کرنا اصولاً غلط ہے کہ اگر حدیث کی کتب میں روایت کے لحاظ سے معتبر روایات بات کو آخری زینے کے طور پر رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتی ہیں۔یا مختلف صحابہ تک پہنچاتی ہیں۔ تو وہ بات ایسی مستند ہوگئی کہ لازماً ہمیں قبول کرنی چاہیے ۔ یہ اصول قابل قبول نہیں ہے اس پہ میں پہلے بھی گفتگو کرچکا ہوں اور اس سلسلے میں اندرونی شہادت کو دیکھنا لازم ہے اور اندرونی شہادت میں فیصلہ کن بات ، قرآن کریم کا عمومی بیان اور حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی سیرت ہے جو قرآن سے ظاہر و باہر ہے۔ حقیقت میں قرآن اور رسول اللہﷺ کی سیرت دو ایسی الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ جو قرآن میں بیان ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ نے کرکے دکھایا ہے۔یعنی زندہ قرآن کے طور پر رسول اللہ ﷺہے ایک قسم کا تو اس پہلو سے یہ ہے فیصلہ کن بات ان دونوں سے ٹکراتی ہوئی بات اگر کوئی یا رسول اکرم ﷺکی کسی اور حدیث سے یا قرآن سے ٹکراتی ہوئی بات ایسی نظر آئے جس کی اسناد درست ہیں تو پھر ہمیں گنجائش یہ نکالنی پڑے گی کہ ان اسناد کے فہم میں کہیں قصور ہوا ہے۔ راوی نے جو بیان کیا اس کو سننے میںشنید کا کوئی قصور ہوا ہے یا پھر وہ اسرائیلیات ہیں اور اسرائیلیات کو بیان کرنا تو منع نہیں تھا لیکن اس کی سند نہیں ہے ، یہ ہے مضمون۔ اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانے میں آکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اگر ایسی باتیں داخل ہوگئی ہوں جو سائنسی نقطہ نگاہ سے اس زمانے کی شنید ہوں اس پر بنا کرکے اگر بعد میں ان کی درستی کرائی جائے تو کوئی یہ کہے کہ نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر بیان کررہے ہو یہ ایک بالکل لغو طریق ہے ، غیر معقول طریق ہے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان روایات کو قبول کرلیا ہوکیونکہ اور اس کے مقابل پر کوئی تھی نہیں جو اَب تفاسیر میں آئی ہوئی ہیں اور ان پر بنا کرتے ہوئے ایک تصور باندھا ہو اور بعد میں جو حقائق دریافت ہوں پتا چلے کہ وہ یہ بات نہیں بلکہ یوں ہونی چاہیے۔ اس پر کوئی مولوی مزاج احمدی اٹھ کر کہے کہ نعوذ باللہ من ذالک مسیح موعود علیہ السلام کو تم غلط قرار دے رہے ہو اگر اس استدلال کو قبول کیا تو یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچے گی۔ اس لیے میں متنبہ کررہا ہوں کہ اپنے تبصرے کو لگام دے کر ادب کے دائرے میں رکھنا چاہیے اور عقل کے دائرے میں رکھتے ہوئے اندازہ لگانا چاہیے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک نبی اللہ یااس کی تربیت میں پلنے والے اپنے زمانے کی بعض باتوں کو قبول کرلیں اس وجہ سے کہ وہ روایتیں پہنچی ہوئی ہیں اور مقابل پر ان کو ردّ کرنے کی کوئی قطعی شہادت ان کے پاس نہیں ہے۔ تو معصومیت سے ان باتوں کوقبول کرلینا گناہ نہیں ہے ، نہ ہی ان باتوں کیلئے سند بن سکتا ہے کہ وہ لازماً درست ہیں۔ میں اس کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب براہین احمدیہ سے لیتا ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جہاں موت سے زندگی پیدا کرنے کا مضمون چھیڑا ہے آریوں کے مقابل پر، وہاں فرماتے ہیںکہ یہ تو روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ موت سے زندگی پیدا ہوتے ہم دیکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ موت سے زندگی پیدا ہو نہیں سکتی یہ غلط ہے اور مشاہدہ یہ ہے کہ برسات کے بعد جبکہ پورے سوکھے ہوئے جوہڑ جن میں کوئی زندگی نہیں ہوتی برسات کے بعد وہ جاگ اٹھتے ہیں اور ان میں کئی قسم کے کیڑے مکوڑے ہمیں چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں، مینڈک تک نکل آتے ہیں۔ اگر مردہ سے زندہ نہیں پیدا ہوسکتا کچھ بھی نہیں تویہ کیا واقعہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ مشاہدہ درست ہے۔ لیکن اس زمانے میں ابھی سائنس نے یہ تحقیق مکمل نہیں کی تھی یا اس کا چرچا اتنا نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچے کہ وہ جومٹی سے زندگی اگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وہ دراصل بیج ہیں اس کے اندر موجود، مختلف شکلوں میں اور وہ تازہ ہوئے ہیں وہ زندہ ہوئے ہیں۔
پس قطعی طور پر مردہ سے نہیں بلکہ زندگی کے بیج سے زندگی پیدا ہوئی ہے۔ یہ ہے ایک مثال۔ اب بتائیں علماء کیا مؤقف اختیار کریں گے، وہ یہ کہیں گے کہ سارے سائنسدان جھوٹے ہیں اورمسلمہ حقیقت جو اب تمام دنیامیں ہر طرف مقبول ہوچکی ہے کہ زندگی کے بیج سے پانی کے نتیجے میںزندگی پیدا ہوتی ہے۔ اگر زندگی کا بیج کسی شکل میں بھی موجود نہ ہو تو یہ ہم نہیںدیکھتے اور یہ قدیم سے آج تک جوہوتا چلا آیاہے اسی نے توسائنس کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے ۔ تمام مشاہدات کے باوجود ایک بھی ایسا ثبوت نہیںمل سکا کہ اچانک زندگی کے کلیتہً فقدان کے باوجود کوئی چیز جی اٹھے اور زندگی چونکہ ملتی ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ اس سے پہلے زندگی کا کلیتہً فقدان تھا کیونکہ آگ اور زہریلی ہوائوں کا ایک مجسمہ سا تھا ہیولہ، آگ کے شعلے تھے گیسیں تھیں۔ اس صورت میں زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی او رٹھنڈا ہونے کے بعد اس میںرفتہ رفتہ امکان پیدا ہوئے جو ارب ہا ارب سال کے بعد ہوئے کہ اس میںکچھ نہ کچھ اگ سکے، کوئی زندگی پیدا ہوجائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلیل اس مشاہدے پر تومبنی نہیں بنے گی لیکن اس مشاہدے پر مبنی بنتی ہے ۔ اس لیے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جب ہم یہ تفصیل بیان کرتے ہیں تو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نعوذ باللہ تکذیب نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ دلیل مہیا کررہے ہیں حضور کی خدمت میں، جو اس وقت آپ کے علم میں نہیں تھی بعد میں ہمارے علم میں آئی۔ تو یہ کہنا کہ وہ دلیل اس شکل میںدرست نہیں نہ گستاخی ہے ، نہ تکذیب ہے ، نہ آپ کے مؤقف کو کمزورکرنے والی بات ہے بلکہ اور زیادہ قطعی بنانے والی بات ہے کہ زندگی کا جب کوئی وجود کسی شکل میں ممکن ہی نہیں تھا اور سائنسدان جو خود کہتے ہیں کہ زندگی کیلئے زندگی کابیج ضروری ہے ۔ اس وقت زندگی کا بیج بھی نہیں تھا وہ دیکھ رہے ہیں کہ زندگی اچانک رونما ہوتی ہے اور پھوٹ پڑتی ہے او رساری کائنات زمین پر حاوی ہوجاتی ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مؤقف ، آپ کا مسلک، آپ کا مشن اس کو تقویت دینے کیلئے آپ کی ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف منتقل ہونا اور آپ کے مؤقف کو زیادہ قطعی اور مضبو ط بنانا میرے نزدیک یہ وفاداری ہے اور بعض علماء کے نزدیک یہ نعوذ باللہ من ذالک مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آگے بڑھ کر باتیں بنانے والی بات ہے۔ بالکل اسی نقطہ نگاہ سے ہم حضرت یحیٰ علیہ السلام والے واقعہ کو بھی دیکھتے ہیں مگر وہاں نسبتاً زیادہ ہمارے حق میں شواہد مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے ارشادات سے ملتے ہیں۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ دیکھو اس نے جو تیز زبان استعمال کی اس کے نتیجے میں پھر آخر اس کا سرکٹا اور وہ پیش ہوا۔ یہ بہت تیز حوالہ ہے ، میں آج یہاں سے بات کرکے پھر میں واپس اسی موسیٰ علیہ السلام والے واقعہ کی طرف واپس جائوں گا یہ اصولی طور پر سمجھانا چاہتا ہوں۔ اس وجہ سے مجھے اس کا خیال آیا کہ ضروری ہے کہ آج جو روایات ملی ہیں ہامان اور قارون وغیرہ کے تعلق میں ان میں اس کثرت سے ایسی روایتیں ہیں جن کو بھیجنے والے خود کہتے ہیں یہ تو قابل قبول ہی نہیں مگر ہم نے اکٹھی کرکے بھیج دی ہیں تاکہ آپ خود استنباط کرسکیں۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جوپہلے بحثیں بعض اٹھائی جاچکی ہیں ان پر روشنی میں ڈالوں اور اپنے مؤقف کے متعلق سمجھادوں کہ کیا مؤقف ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو لکھا وہ دراصل ایک مناظرے کے تعلق میںہے۔ ایک ایسے مد مقابل سے بات ہورہی ہے جو نہایت خبیثانہ حملہ آپ کی ذات پر کررہا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری زبان گندی ہے ، تم بڑے سخت کلام ہو ، تمہاری زبان میں گالیاں ہیں اور یہ تم نبی ہونے کا دعویدار ہو، یہ تمہاری زبان ہے۔ اس قسم کے لوگ اس وقت بھی حملے کررہے تھے ، اب بھی کررہے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کو بتاتے ہیں کہ تمہارے مسلمات میں تمہاری طرز اگر اختیار کی جائے تو پھر یوں پیش ہوگا کہ یحیٰ علیہ السلام کو دیکھو کیسا بد کلام تھا اور اس حد تک آگے بڑھ گیا تھا بدکلامی میں کہ اسی کے نتیجے میں اس کا سرکٹا اور طشتری پر سجا کے پیش کیا گیا۔ تم اس کو قبول کرلو گے اس طرز عمل کو۔ ظاہر ہے کہ یحیٰ علیہ السلام کے حوالے سے چونکہ وہ عزت کرتے تھے نبی کے طور پران کو اس طرز کلام سے سخت تکلیف پہنچتی اور اس کو بھی انہوں نے اعتراض کا نشانہ بنا لیا او راحمدی اپنی معصومیت میں اس مؤقف کو نہیں سمجھ رہے بعض، کہ یہ ایک مناظراتی گفتگو ہے ، مناظرے کا رنگ ہے۔ اور خصم کو مقابل کو مدمقابل دشمن کو اس کی اس طرز سے سمجھایا جارہا ہے جو مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابل پر اس نے اختیار کی تھی کہ اگر یہ طرز جائز ہے اور شریفانہ ہے تو پھر یہ نتیجہ نکلے گا کہ یحیٰ علیہ السلام کے متعلق ہمیں یہ بات کہنی پڑے گی ۔ اس کو ایسی دلیل بنالینا کہ گویا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قطعی مؤقف تھا اور ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک یحیٰ علیہ السلام کا سر طشتری پر لگا کر نعوذباللہ من ذالک گستاخیوں کی بنا پر یہ پیش کیا گیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر حملہ کرنے کے مترادف ہے جبکہ دوسری جگہ آپ یہ فرماچکے ہیں قطعی طور پر کہ میرے نزدیک ایک بھی نبی کا قتل ثابت نہیں ۔ پس اگر ثابت نہیں تو یہ زبان اتنی تیز کہاں سے آگئی جو بڑی تیزی کے ساتھ ایک نبی کے قتل کی بات کرتی ہے۔ یہ وہی کم فہمی ہے جو میںاحادیث کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں۔ اسرائیلیات کے حوالے سے رکھ چکا ہوں۔ ا ن روایتوں کو جو مدمقابل پیش کیاکرتے ہیں اور عموماً رواج پاگئی ہیں ان کو قبول کرتے ہوئے ایک جوابی حملہ دشمن پر کرنا یہ ہرگز ثابت نہیں کرتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ قطعی مؤقف تھا۔ جبکہ دوسر امؤقف اس بات کے متعلق واضح ہوگیا ہے کہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ یقین وہاں کہاں رہا۔ مگر مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھتے وقت میںآپ کو بتارہا ہوں ان باتوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہے قتال جو تلوار سے کیا جاتا تھا۔ ایک وہ قتال ہے جو قلم سے کیا گیا ہے اور وہ قتال جو تلوار سے کیا جاتا تھا اس میں مختلف قسم کے دشمن جس قسم کے سلوک کیا کرتے تھے ویسے ہی جوابی حملے کیے جاتے تھے اور زیادہ ظالم کو پھر زیادہ سختی سے کچلا جاتا تھا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو قلم کا جہاد ہے اس میں آپ کی یہ جلالی شان نظر آتی ہے کہ اسلام کے دشمنوں پر انہیں تلواروں سے حملہ کیا جو تلواریں انہوں نے اسلام کے خلاف اٹھائیں۔ لیکن اس میں آپ کا اندرونی مزاج ، وہ شخصیت گہری شخصیت جو جہاد اکبر میں ابھرتی ہے ، تربیت کے دوران ابھرتی ہے وہ دکھائی نہیں دیتی اور حملے کے وقت جب خون بھی بہایا جاتاہے تو بعض نازک طبیعتوں پر بار گزرتا ہے۔ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺکے متعلق فرماتا ہے ویثخن فی الارض پوری آیت کیا ہے؟ نہیں جائز رسول کیلئے کسی کو غلام بناناحتیٰ یثخن فی الارض۔ اب رسول ایک خون بہاتا ہوا بھی دکھائی دے رہا ہے قرآن کریم میں، اب اس لمحوں کو دیکھ کر جب رسول اللہ ﷺ لڑرہے ہیں آپ کے کردار کا تصور باندھنا غلط ہے۔ وہ ایک خاص حالات میں خاص موقعے پرجو دلیری اور بہادری وہ استنباط جائز ہے۔ مگر یہ کہ نعوذباللہ آ پ جنگجو تھے ، ہر وقت لڑتے رہتے تھے یہ تو بالکل غلط بات ہے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت گیر حوالوں سے آپ کی ذات کی اصلی کیفیت اور اندرونی شان ظاہر نہیںہوتی وہ دیکھنی ہے تو آپ کے اس کلام میںدیکھیں جو بنی نوع انسان کی تربیت کیلئے آپ نے فرمایا ، جو اسلام کی خوبیوں کے ذکر میں فرمایا، جو اسلام کے پوشیدہ اور وہ راز جو لوگوں کی نظر میںنہیں تھے ان کو ابھار کر کہ گمشدہ یعنی مدفون خزانوں کو باہر نکال کر اپنی کتب میں پیش فرمایا، دیکھیں وہ شخصیت کیسی مختلف ہے ۔ وہ شخصیت جب بغیر لڑائی کے اپنا ذاتی تأثر انبیاء کے متعلق بیان کرتی ہے توکیفیت ہی اورہے۔ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایسا عشق ہے اور اتنی عظمت ان کی دل میں ہے، آپ یہاں تک فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کی جو التجا تھی کہ یہ ہو، اس کا جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا جواب محمد رسول اللہﷺ ہیںاس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کاایک مظہر بن کر گویا پہلامسیح جو دوبارہ ظاہر ہوا ہے حقیقت میں، پہلے مسیح سے بڑھ کر شان میںمگر مسیح کے طور پر وہ حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں اور احمد نام پانا یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے ۔ پھر وہی مسیحی گریہ وزاری جوش مارتی ہے تو مسیح موعود ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ پھر اور بھی ایک ایسا وقت آئے گا قرب قیامت کے وقت کہ ایک دفعہ او رمسیح ظاہر ہوگا مگر وہ ایسا مسیح ہوگا جو جلالی انذا ر کرنے کے بعد بالکل ردّ کردیا جائے گا، کوئی اس کوقبول نہیںکرے گا اور اس کا کامل ردّ جو ہے وہ انسانیت کی صف لپیٹنے پرمنتج ہوگا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انبیاء کے متعلق کلام جو مناظرے سے الگ ہے وہ آپ کی اصل آپ کا طرز عمل ان کی طرف ان کا جو مقام جو مرتبہ آپ کے دل میں تھا وہ تو اتنا عظیم الشان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اولاد در اولاد در اولاد کیلئے بھی آپ فدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پس اس ایسے شخص کے متعلق ایک حصہ وہ نکال لینا جو مناظراتی ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ مردہ علی کو چھوڑو زندہ علی کی طرف آئو ۔ اس کو بنا کر اشتعال انگیزی سے کام لینا یہ نہایت بیوقوفی ہے۔ جو غیر بیوقوفی کرتے ہیں اس میں اپنے مبتلاء نہ ہوں یہ سمجھانا چاہتا ہوں، ورنہ بہت دقتیں پیدا کرلیں گے اپنے لیے بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مسلک کیلئے بھی۔ یہ تفریق کریں کہ جہاں مناظراتی کلام ہے وہاں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو کلام ہے وہ جوابی حملہ ہے اور ایسا حملہ ہے جس کو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق آپ نے ڈھالا ہے۔ وشرد بہ من خلفھم ایسی سخت جوابی کارروائی کرو پھر کہ جو پچھلے ہیں وہ بھی ڈر جائیں اور خوفزدہ ہوں کہ اس بطل جلیل کے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ اس وقت کی جو زبان ہے وہ ایک خاص موقعے اور محل کے مطابق اقتدائے حال کے مطابق نہایت فصیح و بلیغ ہے۔ لیکن ایک احمدی بچی پڑھے گی آج، آج کی نسل کے باہر کے لوگ جب پڑھیں گے تو جب وہ حملہ دیکھیں گے تو گھبراجائیں گے میں نے دانت کا آپریشن ہوتے دیکھ کر ایک آدمی کو بیہوش ہوتے دیکھا ہے۔ تو بعضوں میںیہ حوصلہ نہیں ہوتا کہ لڑائی کے دوران کے مناظر کو حوصلے سے قبول کریں اور بعض واقعتہً اس میں گھبراجاتے ہیں ۔ مجھے بعض دفعہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تویہ شخصیت ہے کہ گالیاں سن کے دعا دو پاکے دکھ آرام دو او ردشمن کو بھی میں گالیاںدیتا ہوں دوسری طرف یہ زبان ہے۔ ہم تو بھنا گئے ہیں کیا کریں ۔ ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ دیکھو یہ جو زبان ہے کس موقعے پر ہے یہ بھی تو دیکھو۔ ایک دشمن اس سے دس گنا کم از کم یا اس سے بھی زیادہ سخت اور ظالمانہ الفاظ میں رسول اللہﷺ پرحملہ آور ہورہا ہے اس کے دفاع کیلئے ایک عاشق کادل اتنا بھی جوش نہ دکھائے کہ ایسی طرز کلام اختیار کرے کہ دشمن کے اپنے مفروضوں کے رو سے اس پر جوابی حملہ کیا جائے۔ یہ ہے اصل راز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی طرز میں فرق کا۔ اس کو سمجھ لیں تویہ بات سمجھ آئے گی کہ ہر دفعہ جو جوابی حملہ کیا ہے جو احمدیو ں کو بعض دفعہ،لیکن اکثر غیروں کو بہت سخت دکھائی دیتاہے انہی کی تلواروں سے کیا گیا ہے جنہوںنے رسول اللہﷺ پرحملہ کیا تھا اپنی نئی تلوار ایجاد نہیں کی ہے۔ اس کو دشمن کو نہتا کرکے اس کا وہ ہتھیار پکڑ لیا ہے کہ ان ہتھیاروں سے تم محمد رسول اللہﷺ پرحملے کرتے ہو ، اب میں انہی ہتھیاروں کا مزہ تمہیں چکھاتا ہوں۔ اب ان کی تیز دھار کا مزہ چکھو اور دیکھو کس طرح یہ خون بہاتی ہیں اور اپنے جواب میں بھی بہت کم لیکن جب بھی کی ہے سختی تو اسی اصول پر کی ہے اور ایک بھی استثناء اس میںآپ نہیں دیکھیںگے۔ دشمن کا مؤقف اس کے استعمال شدہ ہتھیاروں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وقتی طور پر تھاما ہے وہ مستقلاً آپ کے ہتھیار نہیں تھے اور جس طرح ایک لڑاکے کو نہتا کرکے اس کی تلوار چھین کے اسی سے سر قلم کیا جاتا ہے یہ وہ انداز ہے اگر آپ اس کو سمجھ لیں تو کہیں اشارۃً بھی آپ کے دل میںکوئی متضاد خیال پیدا نہیں ہوسکتے کہ اتنی عظیم رحمدل مشفق ہستی ، اتنی صابر جوبخشتی ہے اور بخشنے کی تعلیم دیتی ہے ۔ جس کی ساری سیرت ادنیٰ ادنیٰ غلاموں پر بھی بے انتہارحم وکرم اور بڑے بڑے قصوروں کو بھی نظر انداز کرنے والی ہے وہ یہاں کیوں ایسی سخت دکھائی دے رہی ہے۔ اس حقیقت کو اگر سمجھ جائیں گے تو تضادات کا مضمون سارا حل ہوجائے گا اور یہ بات میں پھر اختصار سے کہوں گا کہ وفاداری یہ ہے کہ مقاصد کی خدمت کی جائے لفظی طور پر اگر بشری ایسی کمزوری واقعہ ہو جو انبیاء کی شان کے خلاف نہیں ہے اور قطعی طور پر ثابت ہوکہ اس ہتھیار کے ذریعے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اب نہیں ہوسکے گی بلکہ الٹا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مؤقف کو زخمی کرے گا ۔ اس کے بدلے ایک اور طاقتور ہتھیار اسی مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے یا آپ کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کو لوگ کہتے ہیں جی تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ تم نے یہ کہہ دیا وہ یہ کہتے ہیں اس کو غلط ہے ۔ اس کو سمجھ لیں پھر کج بحثیوں سے آپ کو نجات ملے گی ۔ واضح مثال میں دے چکا ہوں موت سے زندگی پیدا ہونے کا ایک استدلال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ استدلال مشاہدت طے شدہ حقیقتوں کی رو سے درست نہیںدکھائی دے رہا۔ پس اگر نبی سے ایسی غلطی نہیں ہوسکتی توپھر تم کس طرح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو امتی نبی مانو گے۔ یہ سوال اٹھتا ہے اب امتی نبی ہو یا کسی مقام کا نبی ہو وہ ان حقائق پر بنا کرکے جو اسے دکھائی دیتے ہیں اگر نتیجہ صحیح نکالتا ہے ، بات جو دعویٰ کرتا ہے وہ صحیح ہے دعویٰ نہیں بگڑنے دیتا اور ان کو اس دعوے کی تائید میں بطور خدمت کے استعمال کرلیتا ہے تویہ ہرگز نبی کی شان کے منافی نہیں ہے تمام موجود علم کو قرآن کی خدمت میں اور اپنے دعوے کی خدمت میں لگانا ایک معقول بات ہے۔ وقت اگر بدل جائے اور وہ چیزیں جن سے خدمتیں لیں گئیں تھیں وہ اس مؤقف کی تائید نہ کریں جو پیش کیا گیا تھا لیکن ان سے قوی نئے علوم اسی مؤقف کی تائید پر کھڑے ہوجائیں تو ان سے ہٹ کر ان کو قبول کرلینا کسی کے نزدیک اگر مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گستاخی ہے اور بے وفائی ہے ، تو بہت ہی جاہل انسان ہے ۔ وفا اور عزت اور احترام کا تقاضا ہے کہ مؤقف کی حفاظت کی جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ پہلے بعض علوم بیان کرنے والوں کی وجہ سے غلط نکلے ۔ باوجود اس کے اللہ کی شان دیکھو کہ مؤقف پہلے سے بڑھ کر شان سے ثابت ہورہا ہے ۔ یہ سمجھانے کے بعد میںسمجھتا ہوں اس پر اب مزید گفتگو بیکار ہے ۔ پھر اگر کوئی اصرار کرتا ہے تودل کے بیمار بھی تو ہیں، ٹیڑھی سوچوں والے لوگ ہوتے ہیں بعض سادگی میں ہی باریک باتیں سمجھتے ہی نہیں ان کا معاملہ خدا کیساتھ ہے۔ اگر ان کے نفس کی بیماری نے ان کو ایسی سوچوں پر مجبور کیا تو پھر وہ پکڑے جائیں گے ۔ اگر سادگی اورذہنی بیماریوں نے نفس کی بیماری نے نہیں بلکہ ذہن کی بیماری نے ان کو بیچاروں کو ایسی ایسی باتیں کرنے پرمجبور کیا ہوا ہے تو کوئی حرج نہیں کرنے دو اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان سے احسان ہی کا ہوگا لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا۔ اب میںایک غلطی کی درستی کرنا چاہتا ہوں ۔ اس کا فعل کیا ہے۔۔۔ ان کا پڑھنا۔قرآن کریم کی ایک آیت کا میںترجمہ درست کرتا رہا ہوں مگر غلط لفظ سمجھ کر اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے علماء مجھے میری بار بار کی نصیحت کے نتیجے میں فوراً توجہ دلاتے ہیںاقذفیہ والا جو مضمون چلا تھا اس میں مَیں نے اقذِ کو الگ لفظ سمجھا تھا اور فی کو الگ اور قضی، یقضی جو فعل ہے عربی میں وہ آنکھ میں تنکاپرنا یعنی ڈالنے کا مضمون تو ہے مگر وہاں قرآن کریم میںیہ پیش نظر نہیں ہے۔ وہاں اقذف ایک لفظ قذف، یقذف سے۔ اقذفیہ کا مطلب ہے۔ اقذفی ایک لفظ ہے اور ہِ دوسرا لفظ ہے میں مدت سے اس غلط فہمی میں شکار رہا ہوں ترجمہ اس کا اقذ کو الگ سمجھ کے اور فیہ کو اور الگ سمجھ کر کرتا رہا ہوں اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ کل جب میں نے تفصیل بیان کی توپھر میری غلطی پکڑی گئی ورنہ ترجمے میں نہ پکڑی جاتی ۔ اسی کا ترجمہ جو قرآن کریم کا میں کرکے بھیج چکاہوں وہ چونکہ اس کے مطابق ہی ہے اس لیے علماء نے اس طرف توجہ نہیں دلائی۔ اس وقت جب تفصیل سے میں نے دونوں کو الگ الگ جدا دکھایا تب بعض ہمارے علماء نے مثلاً جمیل صاحب ہیں۔جمیل الرحمن صاحب ہیں اور مبارک مصلح الدین جن کو بعض کیا کہہ دیتے ہیں مذاق سے کہا کرتے تھے مبارک وہ چونکہ بچپن میں ان کو شوق ہے صالحیت کا اور ان باتوں کا تو مصلح موعود بھی بعض لوگوں کو بچپن میں ان کو چھیڑا کرتے تھے جس طرح ڈاکٹر صاحب کو ڈاکٹر تقویٰ کہہ دیتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔یہ اچھی بات نہیں ہے یہ اس طرح کی چھیڑ چھاڑ رفتہ رفتہ پھر اس مضمون میں داخل ہوجاتی ہے جس میں قرآن نے سخت تنبیہہ فرمائی ہے کہ لاتنابزوا بالالقاب ۔ تو مبارک مصلح الدین ہیں اور ان کو چونکہ لوگ ان کی خاص نیک ادائوں کی وجہ سے اور صالحیت پر اصرار کی وجہ سے مصلح موعود بھی کہہ دیا کرتے تھے ۔ تو چونکہ میں نے سنا ہوا تھا بعض دفعہ غلطی سے واقعتہً ان کے نام میں پہلے مصلح موعود آتا ہے دعا میں۔ لیکن میں معذرت کے طور پر پیش کررہا ہوں یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، نامناسب بات ہے،اس قسم کے نام رکھنا اچھے نہیں۔ پیار کے ساتھ محبت کیساتھ چھوٹے دائرے میں جو نا م استعمال ہوتے ہیں وہ قرآنی تعلیم کے منافی نہیںہیں۔ قرآن کریم ان ناموں کی مناہی فرماتا ہے جو نام دلوں کو دکھ دینے والے ہیں اور کسی قسم کا زخم لگاتے ہیں۔ورنہ عرب میں رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی چھوٹے چھوٹے نام رائج تھے۔ یہ ابوہریرہ بھی تو اسی قسم کانام ہے۔ بلی کا ابا۔ مگر چونکہ اس میں کوئی بھی زخم کا پہلو نہیں تھا اس لیے وہ قابل قبول تھے اور اس مضمون میں نہیں آتے۔ تو بہرحال مبارک مصلح الدین صاحب نے بھی، دونوں نے اسی مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آپ نے اقذفیہ میں اقذکو الگ فعل سمجھا اور فیہ کو الگ لفظ اس میں اور اس کی بنا پر وہ تفسیر بنی ہے لیکن یہ ثابت شدہ ہے تمام محققین تسلیم کرتے ہیں یہ قضی، یقضی سے جو آنکھ میں تنکا ڈالنے والی بات ہے اس سے نہیںنکلا یہ بلکہ قذف سے نکلا ہے آنکھ میں تنکے والا۔مضمون تو انہوں نے نہیں بیان کیا کیونکہ میرے ذہن میں وہ ہواکرتا تھا کہ اگر آنکھ میں تنکا پڑ جانا اور تنکا ڈالنا قضی سے نکلتا ہے تو ہوسکتا ہے اسی لفظ کے ایک لمبے کیے ہوئے معنے یہ ہوں کہ اس کو صندوق میں ڈال دو یا صندوق کو دریا میں ڈال دو۔ یہ وجہ تھی میری غلطی کی اور تھی غلطی بہرحال انہوں نے فرمایا ہے کہ قذف سے نکلا ہے ۔ قذف ، یقذف کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو کسی چیز میں رکھ دینا۔ تووہ تفسیر بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اب یہ ایک مثال ہے کہ میں نے معصومیت میں ایک غلطی کی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ تفسیر ختم ہوجاتی ہے جو ذوقی لطف پیدا کرنیوالی ہے۔ مگر اصل جو بنیادی بات ہے وہ پھر بھی اسی طرح رہتی ہے ۔ تو اگر یہ مجھے توجہ دلائیں تو اس میںگستاخی کون سی ہے؟ احسان ہے کیونکہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں ہم مسلسل طالب علم ہیں او ر بڑے بڑے ماہرین مثلاً یہی لکھنے والے ان میںسے بعض کی میںمثال نہیں دینا چاہتا اس وقت، مگر ایک بات مجھے لکھی میں نے ان کو بتایا کہ آپ کا یہ مؤقف درست نہیں ، یہ یوں ہے تحقیق سے یہ بات ثابت ہے۔ انہوں نے withdraw کرلیا تو سبحان اللہ سب سے اچھا کلمہ ہے اس موقعہ پر کہنے والا۔ اللہ کی ذات ہی پاک ہے اور ایسی غلطیوں سے کوئی پاک نہیں ہے۔ ضروری یہ ہے کہ جب غلطی کا علم ہو فوراً قبول کرو ورنہ تم طالب علم نہیںرہ سکتے۔اگر تم طالبعلم نہیں رہے تو تم معلم بھی نہیں رہ سکتے۔ رسول اللہ ﷺنے طالبعلم اور معلم کو اس طرح مضبوطی سے باندھ دیا ہے۔ ایک رہوگے تو دوسرے بنو گے اسی لیے جو آنحضرت ﷺ کے متعلق قرآن مجید میں آتا ہے کہ ،وہ درستوالی آیت روز پڑھا کرتا ہوں تلاوت میںجب ایک مضمون ذہن میںتیزی سے گھوم رہا ہو نا! تو اچھی بھلی یاد والی چیزیں بھی ایک طرف رہ جاتی ہیں اس چکر میں نہیں آرہی ہوتیں،تو فوراً وہ یاد نہیں آتیں۔ رسول کریمﷺ کے متعلق قرآن کریم بتاتا ہے کہ ان سے پوچھو درست۔ کیا تو نے اس کا درس کردیا تو جواب میںوہ کہتے ہیں درس کردیا خوب درس کردیا نکالیں وکذالک نصرف الایت ولیقولوا درست ولنبینہ لقومٍ یعلمون۔یہی ہے ناں؟ ولیقولوا درست اس طرح ہم محمد رسول اللہ ﷺکوسکھاتے ہیں باتیں، ایسی ایسی عظیم باتیں سکھاتے ہیں کہ وہ یہ کہیں درست ہاںہاں تو نے درس کا حق ادا کردیا۔ اس مضمون پرمجھے یہ یقین تھا کہ درس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ پڑھادیا اور ایک معنی تو ہے ہی کہ سیکھ لیا ۔ تو عام طور پر علماء یہ کہتے ہیں کہ درس جو ہے یہ صرف سیکھنے کے معنوں میں ہے سکھانے کے معنوں میں نہیں۔ مگر اس آیت کی شان نہیں ابھرتی پوری اگر اس میں دونوںمعنے نہ پائیں جائیں۔ تو پھر جب میں نے تحقیق کی تو حضرت امام رازیؒ کے حوالے سے بھی مل گیا اور دوسرے حوالے بھی مل گئے کہ درس کا اکثر معروف معنی تو سیکھنا ہے۔لیکن ایک معنی اس کا سکھانا بھی ہے۔ اور اس آیت میں یہ مطلب بنے گا پھر وہی رسول اللہ ﷺوالی حدیث یہاں بعینہٖ چسپاںہوتی ہے کہ تونے جیسا سیکھا ویسا سکھایا بھی کمال کردیا ہے۔ ولیقولوا درست تاکہ ایسی شان سے تو ان پر عرفان کی بارشیں برسا کہ یہ کہنے پر مجبو رہوجائیں کہ تو نے اپنے ربّ سے سیکھا بھی خوب اور ہمیں سکھایا بھی خوب ۔ تو یہ وہی حدیث کی بنیاد اس آیت میں نظر آجاتی ہے کہ سیکھو گے، اچھا سیکھو گے تو اچھا سکھائو گے لیکن ضد سے یا اپنے نفس کی انانیت کی وجہ سے کسی حق کی بات کو قبول نہ کرنا کہ میرے اوپر حرف آجائے گا یہ جہالت ہے جس سے جماعت کو پناہ مانگی چاہیے اور استغفار کرنا چاہیے۔ پس میںان کا ممنون ہوں ۔ الحمدللہ کہ انہوں نے توجہ دلائی۔ مبارک مصلح الدین صاحب نے بھی اور جمیل الرحمن رفیق نے بھی۔یہ نکلا ہے یہ رکھ لیں اب۔ اب کل والا مضمون باتیں اتنی نکلتی جاتی ہیںبیچ میں اور اتنا مزہ آرہا ہوتا ہے ان باتوں کا کہ اصل جو تفسیر کا دھاگہ ہے وہ چھوڑ چھوڑ کے رستہ کبھی ادھر نکلنا پڑتا ہے کبھی ادھر امید ہے لوگ اس سے بور تو نہیں ہوں گے اس بات سے۔ یہ بھی مزے دار باتیں ہیں ساری نہیں۔ تفسیر سے ہی تعلق رکھتی ہیں خواہ اس سے ہوں یا اس سے ہوں۔
فرعون کے متعلق اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو مسائل پیش نظر ہیں ایک ہے وہ ہامان کون تھا اور پھر قارون کون تھا۔ اور قارون اگرچہ جنود کے سر پر تو نہیں دکھایا گیا قرآن کریم وجنودھما فرعون و ھامان۔ ان کا ذکر کرکے جنودھما فرماتا ہے کہ یہ دو ایسی طاقتیں تھیں کہ جن کے الگ الگ لشکر تھے۔ لیکن قارون کو خزانوں والا بتاتا ہے ، بارسوخ بتاتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو مقابلے ہوئے ہیں ان میں یہ تینوں وجود بیک وقت موجود ہونے چاہئیں۔ یہ وہ تحقیق ہے اس کو آگے بڑھا کر ان شخصیتوں کا کھوج لگانا او رخاص طور پروہ خزانے کا دفن ہونا یہ ضروری ہے ۔ یہ جب تینوں شخصیتوں کے سمیت اس فرعون کی شخصیت کو منفتاح کے زمانے میں منتقل کرنے کی کوشش کوئی کرے گا تو لازماً ناکام ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ چیزیں اور جو بائبل کے Commentatorsکا یہ تسلیم کرنا یہ جو Egyptologist نے اس کا زمانہ کھولا ہے رعمسیس کا اس کے اوپر سوائے اس زمانے کے تمام تر تفاصیل کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ٹکر لینے کا مضمون کسی اور زمانے پر ثابت نہیںہوسکتا، ناممکن ہے کیونکہ اتنی وسیع اس کی مدت ، اتنی شاہانہ شان و شوکت اس کے ساتھ ایسے ایسے مدگار ہونا ان کا لڑنا وغیرہ یہ تمام باتیں محققین تسلیم کرچکے ہیں۔ مگر ان کا تسلیم کرنا کافی نہیں ہمارا خود ریسرچ کرنالازم ہے ابھی تک آسیہ کے متعلق بھی مجھے پورا اطمینان نہیں ہوا کہ یہ کون سی بیوی تھی۔ میرا اندازہ ہے میں ابھی آپ کے سامنے رکھوں گا استنباط کے اوپر، فرضی اندازہ نہیں اور وہ کب اس کی شادی ہوئی تھی اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں تو اس وقت وہ تھی آسیہ یا بعد والی بیوی ہے۔ یعنی ظاہر بات ہے کہ قرآن کے انداز سے لگتا ہے کہ آسیہ ہی وہ عورت ہے جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پناہ دینے کانیک خیال ظاہر فرمایا تھا۔آسیہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ مجھے پتہ کرکے بتائیں کہ احادیث میں کوئی ذکر ملتا ہے یہ نام کہاں سے آیا ہے۔ تو پہلے میں اس کے اوپر روشنی ڈالتا ہوں۔ صحیح بخاری سے یہ حدیث مل گئی قطعی طور پر اور اس میں ذکر ہے۔ عورتوں میں سے دو ہی کمال کو پہنچیں ایک آسیہ فرعون کی بیوی ، دوسری مریم عمران کی بی بی یہ سورۃ تحریم میں ہے نا ذکر یہ؟ کے آخر پر ۔تحریم میں ہاں اس قرآنی آیت کی تفسیر میں جہاں ان دو بیبیوںکا ذکر ملتا ہے قرآن میں فرعون کی بیوی کا نام نہیںدیا گیا تھا۔ لیکن اس کی بیوی بتایا گیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے اس کا نام آسیہ بیان فرمایا ہے۔ آسیہ نام کی تلاش جو میں نے کی تو رعمسیس کے زمانے ہی میں ایک عورت ہے جو اس کی چیف بیوی کہلاتی ہے، جو اصل Big Wife جو ہے اس کی، اس کا نام ہے’’اسونو فرہIsonofre‘‘ ISOیہ پہلے تین حرف جو ہیں وہ آسیہ کے پہلے تین حرفوں سے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ اس کی بیویوں میں کوئی اور ایسی ہے جس کے نام کے آغاز میں Isoکے حروف ملیں نہ اس سے پہلے فرعون نہ منفتاح کے زمانے میں۔ تو اس کی مزید اگر ہم چھان بین کریں تو ایک اورقطعی ثبوت مل جاتا ہے کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جس فرعون کے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں وہ یہی زمانہ تھا۔ اب آسیہ کا کچھ ثبوت توہمیں مل گیا نام کے اعتبار سے مگر ایک اور معنی بھی ہے آسیہ میں لفظی معنے جو آسیہ لفظ کے ہیںوہ کیا ہیں ۔ یہ بعید نہیں کہ یہ نام اس کاایک صفاتی نام رکھا گیاہو۔ پس اس پہلو سے جب غور کرکے وہ کہاں ہیں حوالے جس میں نام کے امکانات ہیں۔ اس کے نیچے ہی ہے۔ ہاں یہ ہے۔ نہیں آگے ہے۔ کہاں ہے؟ اس کے نیچے؟ پڑھا تو تھا میں نے کہیں۔ اچھا یہ۔ ٹھیک ہے اچھا۔ پھر وہ پہلے آگیا ہے۔ اساہ یا سوہ۔ اسوًا: رابہ و عز۔ اس کا علاج کیا ، اس سے تعزیت کی ۔ ایک آسیہ کا یہ معنی بنے گا تعزیت کرنے والی اور علاج کرنے والی اور دوسرا جس کی طرف میرا ذہن ہمیشہ سے رہا ہے اور میں یہی سمجھتا رہا ہوں وہ ہے اَسِیَ علیہ: حَزِن فھو آسن و یاس کے جو معنے پائے جاتے ہیں، غم کے معنے یہ وہ صفاتی نام ہے۔ اگر صفاتی نام ہے تو اس کی بنیاد اس میںمعلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ بہت غمگین تھی اور اللہ کے حضور التجائیں کیا کرتی تھی کہ اے خدا اس ظالم فرعون سے مجھے نجات بخش اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئی تھی اور اس کے نتیجے میں اس کومفسرین نے ایسی ایسی فرضی کہانیاں پیش کی ہیں جن کی کوئی بنیاد کہیں بھی ، نہ اسرائیلیات میں ہے ، نہ کسی اور جگہ، کہ فرعون اس کو باہر لے جا کر پتھراوپر رکھ دیا کرتا تھا اور بڑی بڑی سزائیں دیا کرتا تھا یہ سب فرضی قصے ہیں۔ لیکن قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ فرعون کی حرکتوں سے اس کے بداعمال سے وہ سخت متنفر تھی اور یہ دعا کیا کرتی تھی کہ مجھے اس سے نجات بخش اور جنت میں گھر عطا کر۔ اب وہ جو سوال ایک دفعہ پیدا ہوا تھا کہ فرعون بھی جتنی ہے تو نہیں کہیںوہ تو نہیں کہیں بخشا گیا اور جنت میں داخل ہوگیا۔ اگر یہ بات ہوتی تو آسیہ بیچاری کی تو بڑی مصیبت بن گئی۔ نجات مانگ کے وہاں پہنچی تو آگے فرعون بیٹھا ہواہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس لیے یہ بچگانہ خیالات ہیں ۔ اس نے نجات مانگی ہے اور فرعون لازماً جہنمی ہے اور آسیہ کا نجات مانگنا، جنت میںگھر مانگنا نجات کے ساتھ صاف بتاتاہے کہ وہاں فرعون کو کوئی دخل نہیں ہوگا اصل سکون اس کو وہا ں جاکے ملے گا ۔ تو آسیہ وہ عورت امکانی طور پر ’’اسینو فرہ‘‘ جو نام میں نے آپ کے سامنے پڑھا ہے ’’آئی سونوفرے‘‘ Possible نام ہے لیکن محققین کو تحقیق کرنی چاہیے اور۔ایک بات اور قرآن سے جو ثابت ہوئی تھی قطعی طور پر استنباط ہوتی ہے کہ جب بھی اس بیوی نے فرعون سے کہا ہے کہ مجھے ہم رکھ لیتے ہیں تاکہ ہم اسے اپنا بیٹا بنالیںوہاں میں نہیں کہتی ہم کہتی ہے جس کا مطلب ہے کہ فرعون کے دوسری بیویوں سے بھی ابھی کوئی بچے نہیں تھے۔ اگر کوئی بیویاں اس وقت تک ہوچکی تھیں تو اس کی اولاد دوسری بیویوں سے نہیںتھی اور یہ اس کو لالچ دے رہی ہے کہ دیکھو یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہمارے اولاد ہی نہ ہو ۔ تو لاولد مرنافرعون کیلئے بہت ہی ذلت کا موجب تھا۔ غالباً اسی دلیل سے متاثر ہوکر فرعون نے اجازت دے دی کہ ٹھیک ہے اس کو رکھ لو لیکن اس کے بعد اس کثرت سے اس کی اولاد ہوئی ہے کہ وہ منفتاح جو ساٹھ سال کا ہوچکا تھا جب وہ بادشاہ بنا ہے وہ تیرھواں بیٹا تھا اور جس وقت یہ مرا ہے فرعون اس وقت سے پہلے پہلے بارہ بیٹے مرچکے تھے اور وہ پیدا کب ہوئے کس عرصے میں ہوئے اب اس کی طرف میںآپ کو قرآن اور Egyptologist کے جو بھی واقعات ہمارے سامنے پیش کیے قرآن کے تو قطعی ہیں Egyptologist کے امکانی ہیں۔ان کے حوالے سے میں بتاتا ہوں۔ ساٹھ سال کی عمر پر سب متفق ہیں۔ اس میں اختلاف نہیں ہے کہ جب وہ مرا تھا تو ساٹھ سال کا تھا۔ کتنے سال چھوٹا تھا یہ پتہ کرنا ہے تاکہ اس کی پیدائش کا پتہ چل جائے ۔ اگر95 کاعقیدہ مانا جائے کہ پچانوے سال کی عمر میں فرعون مرا ہے اور بہت سے محققین اس کے قائل دکھائی دیتے ہیں تو پھر یہ کتنی دیر بعد پینتیس سال بعد پیدا ہوا ہے بادشاہ کی ولادت سے اور اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ بادشاہ تخت نشین کب ہوا ۔ اس مسئلے کو جب آپ طے کرلیں گے تو تخت نشینی کے کتنی دیر بعد پید اہوا یہ پتہ چل جائے گا۔ تخت نشینی کے متعلق اٹھارہ(۱۸) سے انتیس(۲۹) سال تک بیان کیے جاتے ہیں۔
پس اگر پچانوے سالہ روایت درست ہے تو اس کی عمر پینتیس سال کی چھوٹی تھی اپنے باپ سے۔ قطعی بات ہے اور باپ اگر انتیس سال میں فرعون بن گیا تھا یعنی تخت نشین ہوا تھا تو سات سال بعد یہ پیدا ہوا ہے۔ اس پہلو سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اگر اس دوران پیدا ہوئے ہوں توکوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اگر دوسری روایتوں کو مانا جائے تو پھر اس کی عمر اٹھارہ کی روایت سے تو ٹھیک نہیں بیٹھے گی۔ انتیس کی روایت سے پھر بھی ٹھیک بیٹھتی ہے۔ یہMaximumعمر جب یہ بادشاہ بنا ہے جو بیان کی جاتی ہے انتیس سال ہے۔ میں نے اس Maximumپر بناکرتے ہوئے اس کی Maximum عمر کے ساتھ اس کو باندھا جو پچانوے سال بیان ہوتی ہے اور پینتیس سال چھوٹا تھا ،بیٹا باپ سے پینتیس سال چھوٹا تھا۔توجب یہ تخت نشین ہوا کتنے سال کے بعد بیٹا پیدا ہوا ؟ سات سال بعد۔ سمجھ گئے کہ نہیں سمجھے؟ کیوں امام صاحب کچھ پلے پڑا حساب کہ نہیں۔ اگر آپ کو نہیں پڑا تو باقیوں کو کیا سمجھ آئے گی؟ یہ مجبوری ہے چاہے وقت زیادہ لگ جائے یہ سمجھا کے چھوڑنا ہے۔فرعون کی عمر پچانوے سال بیان کی گئی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ پچانوے سال اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے اس پہ اختلاف نظر نہیںآیا کہیں کہ منفتاح ساٹھ سال کاتھا جب بادشاہ بنا۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر اس کے باپ کی عمر پچانوے سال تھی اور جب وہ مرا ہے تو اس وقت اس کی عمر 95 سال تھی۔اس وقت منفتاح کی عمر ساٹھ سال تھی تو پینتیس سال چھوٹا ہوا۔کیوں جی واضح ہوگیا۔ اگر پینتیس سال چھوٹا ہوا توپید اکب ہوا؟ اب زیادہ سے زیادہ عمر کے ساتھ میں نے زیادہ سے زیادہ تخت نشینی کی عمر کو باندھا ہے۔فرضی طو رپر، ایک امکان کے طور پر۔ زیادہ سے زیادہ عمر اس کی تخت نشینی کی انتیس سال بیان کی جاتی ہے۔ ابھی پینتیس سال ہونے میں سات سال باقی ہیں۔ چھ سال پتا نہیں کہ انتیسویں سال کے شروع میں ہوا تھا یا بعد میں چھ سال تو قطعی ہیں۔ تو یہ پھر چھ سال چھوٹا بنا۔ منفتاح اس کی تخت نشینی کے بعد چھ سال کا چھوٹا نہیں بنا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چھوٹا بنا میرے ذہن میں ہے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی سال پیدا ہوگئے ہیں یا ایک سال کے اندر پیدا ہوگئے ہیں تو پانچ سے چھ سال تک یہ منفتاح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چھوٹا ہے۔ ٹھیک ہے۔ اب اور کیا امکانات ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے تو یہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس لیے کہ تیرہ بچے لڑکے اور لڑکیاں یہ فوارہ پھوٹ پڑا ہے اس کی اولاد کا وہ چھ سال کے اندر اندر اتنے کہاں سے آگئے اور یہ تیرھواں تھا ۔ تو ا س لیے ہمیں دوسری ایسی روایت کی تلاش کرنی پڑے گی جو مسلمہ ہوں اہل علم کو لیکن فاصلہ زیادہ ڈال دیں۔ اس پہلو سے جو میں نے جائزہ لیا ہے ایک روایت یہ ہے کہ چودہ سال کی حکومت گزری تھی اس کے باپ ’’سیٹی‘‘ کی جب یہ تخت نشین ہوا ہے۔ اٹھارہ بھی بتائی جاتی ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ اٹھارہ۔اس کی Reignکی عمر سیٹی کی عموماً گیارہ سال بتائی جاتی ہے۔ لیکن بعض مؤرخین چودہ بھی بتاتے ہیں۔ ٹھیک ہوگیا۔ اگر یہ فرعون رعمسیس اس کی تخت نشینی کے بعد پیدا ہوا ہو تو پھر یہ چودہ سال کا بنتا ہے زیادہ سے زیادہ یا تیرہ یا چودہ کے درمیان جبکہ سیٹی فوت ہوا ہے اور یہ تخت نشین ہوا ہے۔ چودہ سال کی عمر کے چھوٹے فرعون کے متعلق یہ تصور کہ اس کی ایک بیوی تھی اور وہ بچے کے متعلق باتیں بھی کررہی تھی یہ ذہن قبول نہیں کرتا۔ اس لیے یہ سیناریو قرآن کریم کے سیناریوں سے ٹکراتا ہے۔سمجھ گئے ہیں؟ اس لیے تلاش کرنا چاہیے اس کی عمر زیادہ تو نہیں اور؟ یہ جب تحقیق ہم نے کی تو پتہ چل ایک سٹیلی پہ اسی فرعون کا اپنا اقرار ہے کہ میرا باپ جب منارہا تھا اپنی تخت نشینی کا حبشن اور لوگوں کے سامنے پہلی پبلک رونمائی کررہا تھا تو اس وقت میں اتنی عمر کا بچہ تھا جو گودوں میں بھی کھیلا جاسکتا ہے مگر Toddler کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔ اتنی عمر کا بچہ تھا کہ میرے سر پہ اس نے تاج رکھوایا اور کہا کہ اس کو بھی ساتھ ہی آج میرے ساتھ بادشاہ بنایا جائے اور یہ بہت قابلیتوں والا بچہ ہے اور پھر اس کے بعد مسلسل اس نے مجھے پہ اعتماد کئے اور مجھے اہم ذمہ داریاںسونپیں۔ یہ Steely پر اس کا اپنا اقرار لکھا ہوا ہے۔ باقی فخر کی باتیں اگر چھوڑ بھی دیں کیونکہ وہ اس کی عادت تھی اس حد تک یہ Arrogant تھا جس کو قرآن کریم اس کو بار بار Arrogant جو کہتا ہے ساری فراعین مصر کی تاریخ میں اس سے بڑا Arrogant فرعون پیدانہیں ہوا۔ یہاں تک Arrogantتھا کہ اس کا نام بعض مؤرخین نے Chiselerرکھا ہوا ہے۔ Chiseler پتا ہے کہ کس کو کہتے ہیں Chiseler؟ کیا چیز ہوتی ہے ۔ اردو میں کیاکہتے ہیں اس کو؟ہاں چھینی۔ چھینی پنجابی میں تو کہتے ہیں اردو میں پتہ نہیں کیا کہتے ہیں اس کو۔ چھینی سے۔ ٹھہریں ٹھہریں کیا؟ اردو کی بات کررہا ہوں۔ چھینی کا لفظ ہم نے سنا ہوا ہے بچپن سے ہی۔ راج ہمارے گھروں میں چھینی چھینی کہا کرتے تھے۔ اردو میںپتہ نہیں کیا کہتے ہیں۔ چھینی تو بہرحال ہے پکی بات ہے۔ کہتے ہیں یہ چھینی والافرعون کرتا یہ تھا کہ وہ ایسے جو Stele وہ ایسے تھے کیا کہنا چاہیے اس کو؟ چھوٹے چھوٹے کتبے سے، بڑے مضبوط زمین میں دفن کیا کرتے تھے تو ان کو گاڑ کر ان کے اوپر تاریخیں لکھی ہوتی تھیں یا بعد میں لکھتے تھے ۔ وہ زندہ فراعین کے زمانے کی تاریخ محفوظ ہوتی چلی جاتی تھی اور انہیں کی دریافت نے دراصل ہمیں فراعین مصر کے حالات کے اوپر نظر ڈالنے کے موقعے مہیا کیے ہیں۔ مؤرخین کے نزدیک ان کی بہت بڑی اہمیت ہے ۔لیکن ان میںیہ جو فرعون ہے اس نے اپنے متعلق جو گپیں ماری ہیں وہ سب لوگ ذرا۔۔۔۔۔ کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہتے ہیں یہ یہ ساری ماننے والی باتیں نہیںکیونکہ یہ Chiseler تھا ۔ یہ پرانے فراعین کے جو کارنامے تھے وہ چھینی سے ان کو کٹواتا تھا کارناموں کو نہیں کٹواتا تھا نام کٹواتا تھا ان کا اور اپنا نام لکھ دیا کرتا تھاکہ میں وہ ہوںجس نے یہ بھی کام کیا تاکہProstertey بعد میں آنے والے جو دیکھیں گے کہیں گے یہ اتنا بڑا فرعون ہے اس کو Chiseler کہتے ہیں۔ Chiseler نے جو باقی گپیں ماری ہیں وہ ہم نامنظور کریں گے پتہ نہیں کتنی حد تک سچی ہیں کتنی حد تک جھوٹی ہیں۔ مگر اپنے زمانے کی تاریخ کو وہ نہیں وہ جھٹلاسکتا تھا ۔ اس لیے یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی ، سب کے سامنے اس نے کھلم کھلا اپنی پیدائش کا جو ذکر کیا ہے وہ ایسی بات نظر آتی ہے کہ وہ لوگوں کے علم میں تھی ۔ یہ فرضی بنائی ہوئی بات نظر نہیں آتی اگر اس بات کا کسی اور حقیقت سے ٹکرائو ہو تو یہ بھی ناقابل قبول ہے اس سے بعید نہیں کہ اس میں بھی گپ مارجائے۔ مگر یہ وہ گواہی ہے جس کا ٹکرائو نہیں بلکہ تائید ہوتی ہے دوسری باتوں سے۔ اس لیے رد کرنے کی کوئی وجہ نہیں تو یہ چودہ سال چار سال اس کے پہلے گزر گئے ہیں۔ چا ر سال بعد، چودہ سال اس کے بادشاہ کی بادشاہت کوگزرے ۔ تویہ جو بعض محققین کہتے ہیںکہ اٹھارہ سال کی عمر میں تخت نشین ہوا تھا یہ بالکل ٹھیک بیٹھتی ہے بات۔پس اٹھارہ سالہ تخت نشینی اس کے اور اس کے تیرھویں بیٹے کے درمیان معقول حد تک فاصلہ پیدا کردیتی ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر فرعون پچانوے سال کی عمرمیں مراتھا کہ پینتیس سال کا فرق تھا تو اٹھارہ سال کی عمر میں یہ تخت نشین ہوا ہے اور پینتیس سے سترہ سال بنتے ہیں۔ توسترہ سال کے عرصے میں بلکہ اس سے بھی پانچ کم بارہ سال کے عرصے میں بھی ایسے فرعون کے تیرہ بچے ہونا ناممکن نہیں ہے،جس کے حرم بھرے پڑے تھے اور جو اس بات پر فخر کرتا تھا کچھ بیویاںہیں کچھ Concubiues یعنی کیا کہتے Concubiues کو اردو میں؟ داشتائیں ہیں ان سے ایسے بچوں کا پیدا ہونا ناممکن نہیں ہے ۔ جہاں تک ایک بیوی کا تعلق ہے Isinofre یہ وہی ہے جو بیان کیا جاتا ہے کہ منفتاح کی ماں تھی او رمنفتاح کی ماں چار بچوں کی ماں بیان کی جاتی ہے اس کے بیٹوں میں سے چار بیٹے۔
پس یہ بات ہرگز بعید نظر نہیں آتی قرآنی بیان کے عین مطابق اس کے اندر فٹ ہوسکتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں جس عورت نے آپ کو اپنایا اس کا نام Isinofere یعنی آسیہ تھا۔ اس کا اس وقت تک کوئی بچہ نہیں تھا ۔ اتنی جلدی ہوئے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے بادشاہ بننے کے بعد کہ اس نے آتے ہی پہلے تو احکامات جاری کیے ہیں کہ ان کو برباد کردو، مروادو۔ وجہ یہ ہے کہ اس کا باپ بھی بڑا ظالم اور سخت دشمن تھا بنی اسرائیل کا اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اس کی تربیت اسی طرح کی تھی ظالم کے طور پر ۔ تو اس کا آتے ہی یہ فرمان جاری کرنا کہ پہلوٹھوں کو ماردو یا ان کے بچوں کو قتل کردو یہ کوئی بعید نہیں ہے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ہیں اور اس وقت تک اس کی اولاد نہیں تھی۔ پھر آسیہ کو خدا نے وہ بیٹا دیا ایک بیٹا نہیں چار بیٹے دیے ان میں سے ایک منفتاح تھا۔ آسیہ نے لمبا عرصہ اس کے ظلموں اور اس کی بے حیائیوں کا دیکھا ہے۔ قرآن کی دعا سے پتہ چلتا ہے جو آسیہ کی طرف منسوب ہوئی ہے کہ وہ لمبا عرصہ دکھ اٹھاتی ہے اور دعا کرتی ہے اے خدا مجھے نجات بخش دے اس سے۔ پس کب اس نے نجات دیکھی ہمیں اس کا علم نہیں مگر آسیہ کی تاریخ کا بھی مزید تجسس ضروری ہے اور اس بارے میںبھی علماء غورو فکر کریں مگر میں پھر یہی تاکید کرتا ہوں کہ مفسرین کی روایتوں پر نہ جائیں۔ ان کا براہ راست کوئی بھی علم نہیں تھا ، کوئی بھی رسائی نہیںتھی ان حقائق کی طرف ۔ یہ بعد میں دریافت ہونے والے خزانے ہیں جو زمین نے اگلے ہیں، ان کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ سے تائید کی دعائیں کرتے رہیں تو ہمیں بہت ساری باتوں پر یہ پردے اٹھانے کی توفیق ملے گی ۔ دوسرا اہم پردہ اٹھانے والا ہے ہامان یہ کون تھا؟تیسرا ہے قارون اور ان تینوں کا رعمسیس کے زمانے میںہونا ممکن ہے کیونکہ مؤرخین یہی لکھتے ہیں کہ یہ Possible شخصیتیں ہیں جو اس زمانے میں ہوسکتی ہیں۔
ہامان نام کیا ہے؟ اس کی تحقیق میں بتاتا ہوں۔ جو اندازے بیان ہوئے ہیں ان میں شیخ عبدالقادر صاحب کا الفرقان کا مضمون جو 1965ء میں شائع ہوا تھا وہ مجھے بھیجا گیا ہے ۔Egypt under the Pharaoh by.... کوئی نام ہے جو پڑھا نہیں جارہا ’’برش‘‘جرمن ہوگا شاید۔ نام ایسا ہے جو ہمارے انگریزی میں عام معروف نہیں ہے اس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ھم‘‘ بڑے کاہن کوکہتے تھے اور مان آمون سے لیا گیا ہے ۔ یہ جو بات ہے ان کی یہ بالکل درست ہے ۔ ہامان دراصل Cheif Priestجو High Priest کہلاتا تھا، اس کا ٹائٹل تھا اور ہامان کو اتنا بڑا مرتبہ تھا کہ فرعون رعمسیس نے اپنے پہلے بڑے بیٹے کو ہامان ہی بنایا تھا اور وہ Chief Priest کے طور پر بہت بڑی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھتاتھا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تیسویں سالگرہ جب اس نے منائی وہ اس کا پہلا بیٹا ہے جب رعمسیس نے اپنی تیسویں سالگرہ منائی ہے ۔ تو اس وقت وہ زندہ تھا اس کے بعد کسی سالگرہ میںجو تیس سے پچاس سال تک اس نے منائیں جن میں سے نو کے ثبوت مہیا ہوچکے ہیں Steelies کے ذریعے یعنی کتبوں کے ذریعے پتہ چل گیا ہے کہ اس نے پھر نو(۹) سالگرہیں تیسویں کے بعد پچاس تک کم از کم منائیں ہیں ، ان میں کہیں بھی اس ہامان کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہامان اس سے پہلے مرچکا تھا یا دوسری صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی سے پہلے وہ ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے غرق آبی کے وقت اس کا لشکر اگر تھا تو کسی اور ہامان کے نیچے تھا اس کے نیچے نہیںتھا۔ اور وہ ہامان جس کو فرعون کہتا ہے میرے لیے عمارت بنا وہ کوئی اور ہامان ہے۔ ایک یہ طے شدہ حقیقت ہے۔ قرآن فرمارہا ہے کہ فرعون نے ہامان سے کہا تھا کہ میرے لیے عمارت بنا اور تاریخ ثابت کرتی ہے کہ وہ ہامان جو اس کا بیٹا تھا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی سے پہلے مرچکا تھا اور مقابلوں کے وقت یہ وہاں موجود نہیں تھا۔ بلکہ اوپر کے بیٹے اتنی جلدی جلدی مرے ہیں اس کے کہ تیرہ بیٹے اپنی وفات تک اپنی آنکھوں کے سامنے یہ دیکھ چکا ہے مرتے ہوئے۔ بہر حال جنودھما کا جو ذکر قرآن کریم میںملتا ہے ، اس کی مزید تحقیق چاہیے۔ اس کی جو ہم نے تحقیق کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون کی دو Armies تھیں اس رعمسیس کی یہ ایک مزید ثبوت مل گیا ہے کہ یہی رعمسیس تھا کوئی اور نہیں تھا۔وہ کہاں ہے حوالہ جو صالحہ صفی نے بھجوایا ہے۔
His Army composed mainly of Egyptions but also including a large body of foreign masouries. Consisted of four divisions named after Gods. One of the division was Hamoon which is Haman.
اس Divisionکا جو سردار ہے وہ ہامان کہلائے گا۔ تو وہ جو چیف اس کاوزیر ہے یا جو بھی اس کا سب سے بڑا رکن اپنے بعد نمبر دو آتا ہے وہ ہامان ہی ہے۔ وہ Chief Preistبھی تھا لیکن ہامان Chief Priest اور ہامان لشکر کا سردار یہ ایک ہی تھے یا دو تھے، یہ ایک اور بحث اٹھ کھڑی ہوئی ہے میرے نزدیک دو تھے۔ ایک ہامان ہے جو Chief Priest ہے لیکن ایک لشکر کا سردار ہے۔ یہ اس لیے میںکہتا ہوں کہ دو تھے کہ اگریہ بات تسلیم ہے کہ یہ Foriegnتھے Forieng Bodiesکے تھے تو پھر دو امکانات ہیں یا تو یہ خودا نہی میں سے کوئی تھا جو Egyption نہیں تھے بلکہ باہر کے تھے یا پھر کسی Egyption ہامان کو جو Chief Priest بھی تھا اس کالشکر کا سردار بنایا گیا جس میںایک میجر لشکر Foriegners پر مشتمل ۔ مگر ہامان نام کا تھا نہ آمون نام کا یہ شکل بن رہی ہے۔ تو قرآن کریم کا یہ فرمایا کہ جنودھما کانوا خاطئین کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر دونوں کے دو الگ الگ لشکر دونوں خاطئین تھے۔ یہ ایک اور حیرت انگیز قرآن کریم کی صداقت کا ثبوت مہیا ہوتا ہے۔ اتنی باریکی سے اس رعمسیس کے زمانے کی تاریخ کا قرآن کریم ذکر فرماتا ہے کہ مؤرخین جس کو بعد میںآنے والے Stelieکی مدد سے پڑھ پڑھ کر تسلیم کرتے ہیں ہاں یہ بھی ہو اہوگا، یہ بھی ہوا ہوگا۔ قرآن چودہ سو سال پہلے یہ سب باتیں بیان کرچکا ہے اور یہ باتیں منفتاح پر فٹ نہیں آرہیں۔ تو منفتاح والے اب کہاں جائیں گے۔ سوفیصد ہی اس پر آتی ہیں پھر منفتاح تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بہت چھوٹا تھا۔ اس کا یہ خطاب کرنا کہ تو ہمارے سامنے بچہ پیدا ہوا وہ اپنے سے بیس سال بڑے کو، کوئی کہہ سکتا ہے اس طرح تو ہمارے ہاتھوں میںپیدا ہوا ہے اے باباجی۔ یہ نہیں کہہ سکتے بالکل قطعی اس میں مجھے ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ قرآن کریم ایک ہی فرعون کی بات فرمارہا ہے جس کے زمانے میں موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ، اس کی بیوی کے ہاتھوں میںکھیلے اور پلے اور جوان ہوئے اور اسی زمانے میںہجرت فرمائی۔ اسی کے زمانے میں چالیس سال کے اندر اندر واپسی ہوئی اورمنفتاح کا زمانہ اس سے بہت ابھی پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ پھر وہ مقابلے ہوئے اور ان کو ان لوگوں کو شکست فاش دی۔ یہ جو حوالہ ہے یہ Chambers Encyclopedia سے لیا گیا ہے۔یہ جو لشکروں والا حوالہ ہے۔ اب وہ دوسرا حوالہ کہاں ہے۔ یہ ہے، بہت اہم حوالہ یہ نکلا ہے غالباً۔ ہاں۔
میں نے ایک Stele کا ذکر کیا تھا جس میں منفتاح یہ فخر کرتا ہے کہ میں وہاں جاکر حملہ کرکے ان کا بیج مارآیا ہوں ، اسرائیلیوں کا بیج ہی مار آیا ہوں۔ میں نے اس سے استنباط کیا تھا کہ اگر یہاں اتنے لمبے چوڑے جھگڑے ہوں، اس کثرت سے اسرائیلی ہوں تو اس کا وہاں جاکے بیج مارنے کاکیا مطلب ہے، یہاں کیوں نہیں مار کے دکھاتا؟اس سلسلے میں مَیں اس لیے زیادہ زور نہیں دے رہا تھا کہ کوئی یہ استنباط کرسکتاہے کہ ان سے چونکہ خدمت لینی تھی اس لیے باہر والوں کا ہی دشمن بنا ہو گا۔لیکن یہ بھی بعید از قیاس بات ہے یہاں جھگڑوں میں ملوث آئے دن اس کیلئے مصیبتیں، بیماریاں، ابتلاء اور فرعون اپنی طاقت اوردعووں کے باوجود ایک ایسے آدمی کے ہاتھوں میں بے بس دکھائی دے رہا ہے جو اس کی کمین قوم سے تعلق رکھتا ہے جس کو وہ کمین دیکھ رہاہے ۔ کمینی عام کام کرنے والی دعوے بڑے بڑے کرتاکہ میںخدا کا نمائندہ ہوں وہ جب ٹکر لیتا ہے اس کو قتل کے ارادے بھی کرتا ہے ۔ قرآن یہ بھی بتارہا ہے۔ لیکن مجبور ہوجاتے ہیں آخری وہ فیصلہ کرنے سے باز رہتے ہیں، کوئی طاقت دیکھ رہے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اندر جس نے ان کو مجبور کررکھا تھا۔ اس زمانے میںاس کوفرصت کہاں سے ملی کہ وہ باہر جاکے حملے کرکے اسرائیلیوں کے بیج مارتا۔ یہ استنباط صرف میرا ہی نہیں اب یہ صالحہ صفی نے ہی یہ حوالہ دیا ہے مجھے History of the Hebrews to the Romen Periods(A.R.Othley)یہ کہتا ہے کہ یہ Stele سے اس Stele سے بہت سے محققین نے یہ قطعی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جس وقت یہ منفتاح بادشاہ بنا ہے اس سے پہلے Hebrewتمام تر اس جگہ کو چھوڑ چکے تھے اور ملک کے اندر ان کا کوئی نشان نہیںملتا تھا۔ اس لیے اس نے Steleکے الفاظ جو ہیں۔کہتا ہوںہم نے ان کا غور سے مطالعہ کیا ہے ان Stele کے الفاظ سے بہت اہم محققین یہ نتیجہ بھی اخذ کرتے ہیں کہ وہاں بیج مارا یا نہیں یہ توالگ بات ہے، شیخی بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن یہاں موجود نہیں تھے اور اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ وہ باپ کا انتقام لے رہا تھا۔ اب باپ کا انتقام جو لے رہا تھا اس سلسلے میں خدا نے اس سے کیا انتقام لیا۔ اس کے متعلق میں اب آپ کو بتاتا ہوں۔ رعمسیس کا جو زمانہ بنتا ہے وہ میں نے بیان کیا تھانا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی چالیس سال سے تو پہلے ہے بہرحال۔ کیونکہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جب نبوت کی عمر کو پہنچتے ہیں اور آٹھ سال کا اپنا معاہدہ پور اکرلیتے ہیں تو اسی وقت وہ خود بھی مزید وہاں نہیں رہنا چاہتے۔ اجازت لیتے ہیں کیونکہ اگر دس سال کا تھا تو پھر اجازت کا سوال ہی کوئی نہیں تھا۔ اجازت لینا بتاتا ہے کہ معاہدے کی آخری مدت ابھی نہیں پہنچی تھی۔ آٹھ والی مدت ہی آئی تھی وہ اپنے خسر سے اجازت لیتے ہیں کہ مجھے اجازت دو، اب ہم نے جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس وقت خدا ان کو نبی بناتا ہے اور یہ فرماتا ہے کہ اب تو اس عمر کو پہنچا ہے جو میرے کام کی عمر ہے۔ پس میںنے تجھے اپنے لیے چن لیا ہے۔ تو یہ حساب کرکے جو چالیس سال سے تولازماً کم ہے اندازے لگاکر ایک تخمیناً میں نے کہا تھا یہ بعیدنہیں کہ Earlyعمر میں آپ کو نبوت ملی ہو کیونکہ خدا کا یہ بیان کرنا کہ تو عمر کو پہنچا ہے توہم نے بنادیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ محققین اور علماء کے نزدیک جو نبی بننے کی سب سے چھوٹی عمر ثابت شدہ ہے اگر اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنادیا گیا ہو تو قرآنی بیان کے مطابق ہے اس کے مخالف نہیں ۔سمجھ آگئی بات۔ اس صورت میں33 سال کا ایک اندازہ تھا۔ تبھی میں کے 25سال کی ہجرت کا نکالا تھا۔ ہجرت 20سال سے لیکر یعنی طاقتور ہونے کی عمر کے لحاظ سے 30سال سے زیادہ نہیں بیان کرتے لوگ۔ جو مفسرین بائبل وغیرہ کے بھی ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ تیس بتاتے ہیں۔ ایک صرف ایسا ہے جو کہتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں ہجرت کی تھی۔ چالیس سال وہاں رہے تھے اور 80سال کی عمر میں واپس آئے تھے۔ یہ ایسا فرضی قصہ ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، ساری تاریخ ہی بگڑ جاتی ہے، قابل قبول نہیںرہتی۔ پس قرآن ہی ہے جو فیصلہ کن ہے اس کی رو سے واپسی کے وقت آپ کی عمر تینتیس سال کی تھی یا زیادہ سے زیادہ چالیس سال کی۔ ٹھیک ہے؟تینتیس سال کی اگر تھی تو آپ کتنا چھوٹے تھے فرعون سے۔ وہ بیٹا منفتاح تو تیس سے پینتیس سال تک چھوٹا تھا لیکن چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے چھوٹا تھا اس لیے میںنے بتایاکہ وہ اس کے درمیان فاصلہ ڈالنا پڑے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہر حال تینتیس سال چھوٹے تھے اگر یہ تینتیس سال کی عمر میں واپس آئے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں پچیس سال گزارے ، پچیس سال پہلے پیدا ہوئے تھے تو پچیس سال گزارے۔ اور آپ کے بعد چونکہ وہ دوسرا فرعون جو پیدا ہوا وہ 33سال اپنے باپ سے پینتیس سال چھوٹا تھا تو جب آپ نے ہجرت کی ہے پچیس سال کی عمر میں تو اس وقت وہ پیدا ہوچکا تھا کیونکہ وہ باپ کی عمر سے چھوٹا تھا نہ کہ باپ کی تاج پوشی کی عمر سے چھوٹا تھا اتنا۔ اس لیے Confusionپیدا ہوتا ہے میں دور کرنے کی خاطر دوبارہ واپس آپ کو لے جارہا ہوں۔ وہ اگر اٹھارہ سال پہلے پید اہوچکا تھا فرعون ۔تو اٹھارہ سال میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پچیس ڈالیں جب آپ نے ہجرت فرمائی کتنا بنا؟ تو 33سال کے تھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہجرت کی۔ اگر وہ پینتیس سال چھوٹا تھا باپ سے تو پھر کتنا بنتا ہے وہ یعنی کب پیدا ہوا پھروہ؟ سترہ سال کا تھا جب بادشاہ سترہ سال بادشاہت کرچکا تھا تو وہ پیدا ہوا تھا۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت سے پہلے یہ پید اہوچکا تھا۔ ہجرت سے واپسی کے وقت ایک لڑکا تھا لیکن بہت پختہ عمر کو ابھی نہیںپہنچا تھا یہ شکل بن رہی ہے۔ لیکن جب مقابلہ ہوا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تومقابلہ کے بعد ختم کب ہوا ۔ یہ بحث میںنے قرآن کریم کے حوالے سے بتایا تھا کہ امکان ہے اس بات کا کہ آٹھ سے دس سال تک عرصہ ضرور گزرا ہو۔ میں نے جب چھان بین کی کل اور آج کے درمیان مختلف ہماری ریسرچ ٹیموںکو بیچاروں کو لگایاہوا ہے ۔ بعض ان میں سے بڑی محنتیں کررہے ہیں، بچیاںخاص طور پر ساری ساری رات بیٹھ کہ وہ اگلی رات بیٹھ کے وہ اگلی صبح کیلئے تیاری کرتی ہیں اور بعض بڑے اچھے اچھے حوالے نکال لاتی ہیں ماشاء اللہ۔ انہوں نے جو ریسرچ کی اس کی رو سے اب میںآپ کو بتاتاہوں کہ ان کی ریسرچ کی بات بعد میںآئے گی بات پہلے میں یہ بتادوں کہ ہم اس کی رخصت کریں۔ ان کی ریسرچ سے ایک بات مل گئی ہے بہرحال کہ بہت سے محققین یہ کہتے ہیں کہ یہ عرصہ غالباً دس سال کا تھا۔ سمجھے ہیں؟ تو وہ جو میرا اندازہ تھا اس کے ساتھ محققین کی رائے بھی متفق ہوگئی اور قرآن کے اوپر چونکہ میرا اندازہ تھا اس لیے قرآن کی ایک اور شان ابھری ہے کہ قرآن کی آیات کا مطالعہ کرکے جو تم اندازہ لگاتے ہو وہ بھی درست نکلتے ہیں یعنی قرآن سے ایک استنباط کے طور پر تھا نہ لیکن محققین نے اپنے جائزے اور امور پر جو دریافت ہوئے ان پرکئے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر تینتالیس سال کی تھی جب آپ نے ہجرت فرمائی، ٹھیک ہے۔فرعون اگر اٹھارہ سال کا تھا جب وہ بادشاہ بنا تو اٹھارہ جمع تینتالیس 61یہ عمر بنتی ہے اس کی جب وہ غرقابی کا واقعہ اس کے اوپرپیش آیا ہے۔ اس عمر کے وقت منفتاح کتنا بڑا تھا 61اگر وہ (منفتاح)تیس سال چھوٹا تھا تو اکتیس سال کا تھا اگر وہ پینتیس سال چھوٹا تھا تو پھر چھبیس سال کا بنتاہے ۔ تو منفتاح ابھی لڑکا ہی تھا جب یہ واقعہ پیش آگیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس عمر کے بعد جو بیان کی sixty one کی عمر ہے اس وقت سے موت تک کیا وہ ایک سزا یافتہ کے طور پر زندہ رہا ہے اور عبرت کا نشان بن کر زندہ رہا ہے یا اسی شان و شوکت کا فرعون تھا جو پہلے تھا۔
اس مضمون پر لانے کیلئے میں نے ساری یہ تمہید دوبارہ باندھ کر آپ کے ذہنوں کو تیار کیا ہے کہ آپ قبول کرلیں اس کو یعنی سمجھ سکیں رعمسیس کے ساتھ جو ہوا ہے اس کے متعلق تحقیق ہمیں بتاتی ہے ۔ پہلی بات تو 1881ء میں رعمسیس اور سیٹی دونوں کی ممیز دریافت ہوئی ہیں ۔ 1881ء میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دعوے کے زمانے کے بہت قریب آچکا ہے معاملہ ۔ 1882ء میں آپ کو الہام ماموریت ہوا ہے اور 1881ء میں یہ دریافت ہوچکا تھا۔ پس اس کی لاش کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانے میں دریافت ہوجانا یہ مزید میرے مؤقف کو تقویت دے رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے حق میں جو خداتعالیٰ نے خزانے اگلے ہیں یا ثبوت مہیا فرمائے ہیں ان میںیہ بھی تھا کہ یہ ہوچکا تھا۔ جو منفتاح ہے وہ بعد کی دریافت ہے۔ سمجھے ہیں؟ لیکن یہ جو دو ہیں یہ اکٹھے 1881ء میںدریافت ہوچکے تھے۔
Remsis was tall and well made his elongated head was small in relation to his body and he had a bold skull, he was about six feet tall.
یہ ممی سے جو انہوں نے پڑھا ہے یہ قصے کہانیاں ہیں ممیز نے بتائی ہیں خود اپنی کہانی خودکہ یہ چھ فٹ لمبا تھا اس کا جو سر تھا وہ اپنے باڈی کی نسبت سے زیادہ اونچا تھا۔ ایک عالی،متکبر اور Arrognat فرعون کا سر لمبا ہی بڑا ہی ہونا چاہیے۔ واقعی پھولا ہوا تھا ظاہری طور پر بھی Medical studies show he died in advance old age perhaps in his nintees۔ تو نوے سے پچانوے سال کا جو تصور ہے اس کو Medical Study سپورٹ کررہی ہے ۔ اس لیے یہ اب محض فرضی بات نہیںرہی۔X-rays of his bones show arthritus of the hip which would have cause him to walk with a painful limp۔ اس کا تکبر توڑنا جو ہے وہ اس طرح بھی تھا کہ جس فخر سے وہ قدم مارا کرتا تھا زمین پہ اس کی ایک ٹانگ لنگڑی کردی گئی تھی اور شدید تکلیف ہوتی تھی اس کو چلتے وقت ۔ اس لیے وہ Limpکرکے آخری عمر میںچلا ہے۔Then he had a Saries problem with his teeth the bone mere the roots being badly pited with abssess causing un pleasent breath ۔یہ کہتے ہیں کہ un pleasent breath جو اس کا تھا اس کو ذرا mild لفظ استعمال کیا ہے نہایت offensive breath کا نقشہ کھینچتے ہیں کہتے ہیں جو دانتوں کا ہم نے معائنہ کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے اس کی جڑوں کا کہ نہایت تکلیف دہ بیماری تھی دانتوںکی۔ جو ایک عذاب میںمبتلاء رکھتی ہے انسان کو اور اس کے علاوہ منہ سے سخت بدبو پھوٹتی تھی۔ ایک یہ نقشہ ہے جو میڈیکل ہسٹری سے ہمیںملتاہے۔ دوسرا ڈاکٹرRozale David ،mystries of the mummies رعمسیس کے متعلق کہتی ہے کہ ہماری تحقیق کے مطابق اس کو Artereoh تھا جو ایک کئی سال سے Developہورہا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ ہوا ہے اس کے بعد جوبقیہ تیس سال ہیں اس میںاس کو یہ بیماری بھی ہوئی جس نے اس کو چلنے پھرنے سے بھی معذور رکھا اور تکلیف پید اہوئی۔ پھر دانتوں کی بڑی شدید بیماری ہوئی جس کے متعلق ڈاکٹروں نے بعض جگہ بعضوںنے لکھا ہے کہ اسی بیماری سے یہ مرا ہے اور بڑی تکلیف میں مرا ہے۔ اور پھر۔۔۔۔ ہوئی جس نے بالعموم اس کی یادداشت کو کمزور کیا ، ہمت کو کمزور کیا اور اگرچہ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اس کے ہوش و حواس آخر وقت تک قائم تھے اس کے خلاف کوئی گواہی نہیں ملتی۔ مگر ہوش و حواس کا قائم ہونا ان تکلیفوں میں کوئی خاص مددگار نہیںبنتا۔ لیکن جب یہ مرا ہے تو ایک لمبے عرصے تک inafective ہوکے مرا ہے۔ چنانچہ مؤرخین جب اس کی تاریخ کے آخری دورکا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں وہ عمر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کی عمر ہم بتاتے ہیں جب یہ 61کا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام باہر نکل گئے۔ اس عمر کے بعد کی اس کی تاریخ بالکل مردہ ہوچکی ہے، تمام شا ن وشوکت اس سے جاتی رہی ہے اس کے بعد اس کے کوئی حملے نہیں ملتے ۔ اس لیے کہیں میںنے ایک دفعہ پہلے کہاتھا کہ اس نے بعد میںبھی اسرائیلیات پہ حملے کیے ہیں وہ غلط ہے بات ۔ میںنے جو خوب اچھی طرح تحقیق کی ہے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے اور وہ بات میرے مؤقف کے خلاف جاتی تھی مگر چونکہ میں نے کہیںپڑھا تھایا سنا تھا اس لیے مجبور تھا بیان کرنے پر۔ یہ درست بات ہے کہ اس 61کی عمر کے بعد اس کے کوئی بیرونی حملے ثابت نہیں ہیں اور دن بدن اس کی حکومت کو decline ہوا ہے۔ سکڑی ہے دوسرے حملہ آور تیز ہوئے ، نوآبادیاں جو باہر کی تھیں مصر کی وہ ہاتھ سے جاتی رہیں اور انحطاط شروع ہوچکا ہے مسلسل۔ پس قرآن کریم کایہ بیان بھی درست ہے کہ اس واقعہ کے بعد و ہ زمین جو ہے وہ سرزمین وہاں سے ان لوگوں کی شان و شوکت جاتی رہے گی اور ان سے قدم اکھیڑ دیے جائیں گے اور اس سرزمین کا وارث بنی اسرائیل بنائے جائیںگے وہ جو مستضعفین فی الارض۔ جن کو بے طاقت سمجھا گیا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں آج پیشگوئی کل فوراً پوری ، یہ بات نہیںہوا کرتی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے بعض دفعہ لمبے وقت لگتے ہیں تیاریوںمیں۔پس یہ وہ تیاری کا دور ہے جس میں اس کی کمزوری جسمانی کمزوری جس کو لازماً اگر میرا نظریہ درست ہے اس کے سوا کوئی اور دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ یہ مجبوری ہے تو پھر یہ وہی فرعون ہے جو ڈوب کر نکلا ہے مگر بد حالت میں نکلا ہے۔ بعد میںزندہ رہا ہے تو بیماریوں کی صورت میں مفلوج سی زندگی گزاری ہے۔ اس کی سلطنت کی شان و شوکت ہاتھ سے جاتی رہی اور آخر جب یہ مرا ہے تو منفتاح نے اپنے باپ کی ان تلخ یادوں کے نتیجے میں انتقامی کارروائی کے طور پر ان علاقوں میں حملے کیے ہیں جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھی جاکر آباد ہوئے تھے اور آباد ہونے کیلئے کوشش کررہے تھے کم سے کم۔ تواس کو یہ تو نہیںمعلوم ہوسکتا تھا کہ اس وقت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کالشکر کہاں ہے۔ لیکن جو چند لوگ اس علاقے میں فلسطین کے علاقے میں اس کو ملے ہیں یا تو واقعتہً صفایا کردیا ان کا اس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہی اسرائیلی ہیںیا پھرجھوٹ بہت بولا، گپیں ماری ہیں، مار کٹائی کی ہوگی اور واپس آگیا۔ لیکن بیج توڑ رہا ہے اور ایسا بیج رہا کہ کچھ دیر کے بعد فرعون اور اس کے خاندان کا بیج ، اس کی قوم کا مصر سے مٹ جاتاہے کیونکہ منفتاح کے زمانے میںانحطاط جاری رہاہے باوجود ان حملوں کے اور اس کے بیٹوں کے دوران بڑی تیزی سے پھر یہ حکومت ہاتھ سے گئی ہے ۔ پھر Greeksکا حملہ ہواہے جس نے ہمیشہ کیلئے ان کے دور کا خاتمہ کردیا ہے اور Greeks کے حملے کے نتیجے میں پھر بنی اسرائیلیوں کو خدا نے فتح کا راستہ دکھایا۔ اللہ کی تقدیر دیکھیں کیسے کام کرتی ہے۔ کیونکہGreeksجو تھے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام قبول کیا ہے اوربہت حد تک ہم Greekزبان کے محتاج ہیں اصل بائبل تک پہنچنے اور جو بھی بائبل تھی Greekنے اس میں بہت کردار ادا کیا کیونکہ Egyptپر Greeceکا قبضہ بہت لمبے عرصے تک سے چلاآرہا تھا اور وہی قبضہ ہے جوایک عجیب رنگ میںانتقال نہیں اقتدار کا موجب بنا کیونکہ جو فرعون کے ملک پر قابض تھے وہ عیسیٰ علیہ السلام کے غلام بنائے گئے اور بنی اسرائیلی اس پر قابض ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ کے وعدے اس طرح پورے ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ آج بات ہوئی اور کل اچانک ہوگیا۔ تاریخ بدلائی جاتی ہے اور حیرت انگیز طریق پر اللہ تعالیٰ تصرف فرماتا ہے۔پس یہ وہ فرعون ہے اور یہ اس کا انجام ہے جو میںنے آپ کے سامنے رکھا ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی۔ ایک اور کہتا ہے کہ in the late period of his life Remsis 2nd became Saini and many rebellions on the ۔۔۔۔۔جو میں نے حوالہ دیا ہے یہ کتاب ہے J.E. Bery, S.A. Cook and F.E.یہ کیا ہے؟ The Cambridge Ancient History میں یہ جو 1924ء میں شائع ہوئی تھی اس میں یہ ذکر ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی اسی سے ملتے جلتے مضمون کی باتیں ملتی ہیں۔ لیکن اب میںاس کو Concludeکرتے ہوئے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان سب باتوں کے باوجود میں سمجھتا ہوںکہ ریسرچ جاری رہنی چاہیے۔ کیونکہ یہ دراصل مجھے اس مؤقف سے کوئی محبت نہیں ہے کہ فرعون ڈوب کر بچ گیا ہو ہرگز کوئی تعلق اس مؤقف سے نہیں۔ میرے مزاج کے برعکس مؤقف ہے ۔ میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ اس فرعون کی لاش دستیاب ہوجائے جس سے موسیٰ علیہ السلام نے ٹکر لی ہو اور وہ ڈوب کے مر بھی گیا ہو تو پھر ہم وہ معنی لے لیں گے کہ جسم بچے گا مگر جان نہیںبچے گی۔ لیکن چونکہ شواہد مجھے مجبور کررہے ہیں تمام تر تاریخی شواہد اس بات کے سوا میرے لیے رستہ کوئی نہیںچھوڑتے کہ اس آیت کا یہ ترجمہ کروں کہ تیری روح کی نجات کا وقت نہیں ، ایمان لانے کا وقت اب نہیں ہے۔ہاں جسمانی زندگی کی نجات دینا اللہ کی شان کے خلاف نہیںہے ۔ اس لیے ڈوبنے کے باوجود تجھے ہم زندہ رکھ سکتے ہیں لیکن زندہ رہو گے تو تب بھی ایمان سے کوئی فائدہ تمہیں نہیں پہنچے گا۔ یہ جو دائمی اصول قرآن کریم میں بار بار بیان ہوا ہے کہ مرتے وقت کی توبہ قبول نہیں کی جاتی یہ اس طرف اشارہ ہے اگر وہ توبہ خدا قبول فرمالیتا تو پھر اس کو جنت میںجانا لازم تھا۔ یہ استنباط ہے لیکن یہ میرا ایسا مؤقف نہیں جس کو میں کہوں کے اس کے سوا دوسرا ممکن نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ممکن اگر ہے تو دکھائو کہ کیا ممکن ہے۔ میری وہ شکست بھی میری فتح ہی ہوگی کیونکہ میں تو قرآن کی محبت میں قرآن کا اعجاز دکھارہا ہوں اور قرآن کو ایک ظالمانہ اعتراض سے بچانے کی کوشش کررہا ہوں جو قرآن کی مدد سے کرسکا ہوں ۔ کوشش اس طرح سے نہیںکررہا کہ گرا پڑا کمزور آدمی اس کو میں بچارہا ہوں۔ جب میں نے قرآن کا مطالعہ کیا تو قرآن میں اتنے قوی دلائل اپنے دفاع کے موجود تھے کہ ان کی روشنی ہی سے میں نے وہ تاریخ پڑھی جو اس سے پہلے کبھی کسی نے فرعون کی تاریخ کو اس حوالے سے نہیں پڑھاتھا اور میرے نزدیک تمام باتیں۔۔۔۔۔ کی طرح کھل کر اپنے اپنے مقام پر بیٹھ گئی ہیں۔ پس اگرکسی نے اختلاف کرنا ہے تو گناہ نہیں ہے تقویٰ سے اختلاف کرو مگر بارِ ثبوت اب تم پر ہے ،وہ فرعون دکھائو جس کے زمانے میں قرآن کے بیان کردہ واقعات فٹ بیٹھتے ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ اس کوملتا ہو جس کے متعلق ایک اور کتاب ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ اکثر بہترین مؤرخین جو دانشور لوگ ہیں وہ یہ ماننے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ رعمسیس کے زمانے ہی میں موسیٰ علیہ السلام کی ٹکر ہوئی تھی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ وہ تمام باتیں جو اس کی تاریخ کی ہمیں دکھائی دیتی ہیں وہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعات سے ہی مطابقت کھاتی ہیں اور ان واقعات میں بائبل جہاں قرآن سے ملتی ہے وہ ان کے پیش نظر ہیں۔ تعمیر والا فرعون اس کے بڑے بڑے دبدبے اس کے زمانے میں ایک الگ لشکر کا موجود ہونا جو ایک اور سربراہ کے تابع ، بڑی طاقتور لشکر تھا یہ حوالے دے کر اور باتیں بیان کرکے وہ یہی نتیجہ نکالتے ہیں۔پس اگر کوئی یہ ثابت کردے کہ فرعون رعمسیس نہیں تھا بلکہ کوئی اور تھا تو یہ سارے لشکر اٹھا کر اس کے زمانے میں دکھانے پڑیں گے۔ اس کے زمانے کی ایک آسیہ دکھانی پڑے گی، اس کے زمانے نہیں آسیہ تووہ پہلے مانتے ہیں نا! اس کے زمانے میں اس کا جاہ و حشم اس کے تعمیر کرنا شہر کے شہر اور بنی اسرائیل کی وہ جو ٹکر اوروہ ساری باتیں فرعون سے وہ نشانات کا بار بار نازل ہونا یہ ساری باتیں وہاں دکھانی پڑیں گی۔ اگر دکھادیں گے تو پھر بھی میں ہی جیتوں گا کیونکہ قرآن کی جیت میری جیت ہے۔ پھر میںکہوں گا ہاں قرآن کے متعلق اب یہ مؤقف بھی ثابت ہوگیا ہے کہ جو فرعون تھا وہ یہ تھا اور مرگیا تھا تو میرا کیا نقصان ہے، مجھے تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ تو گھبرائیں نہیں میرے متعلق مجھے خدا کے سپرد رکھیں اور اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے تحقیق کرکے ثابت کریں محض ایک دو تفسیروں کے حوالے دے کر کہہ دینا کہ جی یہ اور فرعون تھا یہ ناقابل قبول ہے۔کیونکہ وہ مؤقف اب تک جو میں ثابت کرچکا ہوں نعوذ باللہ من ذالک قرآن کریم کو جھٹلائے بغیر قبول ہو ہی نہیں سکتا۔ منفتاح تک پہنچنے کیلئے آپ کو۔ جب کہ قرآن سے یہ ثابت ہوچکا ہو کہ آغاز ہی میں رعمسیس کے آغاز ہی میں موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے ۔ اتنا لمبا عرصہ گزرجاتا ہے کہ قرآن کا یہ قطعی بیان کہ چالیس سال کی عمر سے پہلے پہلے واپس لوٹ آئے ہیں۔ اس کو جھوٹا کیے بغیر آپ منفتاح تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس لیے جب تک قرآن سے جائز رستہ نہیں نکالتے میں آپ کو کبھی اجازت نہیں دے سکتا کہ قرآن کو جھٹلاکر منفتاح کے اندر داخل ہوں، یہ جذباتی قصے ہیں آپ کے ان کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔
اب اجازت چاہتا ہوں باقی انشاء اللہ پھر تفسیر کا معاملہ پرسوں سے شروع ہوگا۔ آج میں نے کہا تھا نا جمعرات تک میں کردوں گا اصل میں جمعرات کا لفظ جو میں بول گیا تھا مجھے یہ بھی ہوش نہیں تھی کہ آج جمعرات ہے یا بدھ ہے ۔ تومیں سمجھا تھا بدھ آج بدھ ہے اور جمعرات تک میں انشاء اللہ کرلوںگا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمادیا یہ جو ہے نا جب انسان ایک گفتگو کررہا ہے تحقیقی امور میں اور ڈوب کر کرتا ہے تو بعض دفعہ مافیہا سے آدمی بالکل بے خبر ہوجاتا ہے۔ اچانک انسان جانتا ہے یہ میں کیا بات کررہا ہوں ۔ اس لیے کہ وہ مافیہا سے الگ ہوجاتا ہے وہ جو آیت کا آپ کو یاد ہے جو میں بیان کررہا تھا ان فی خلق السموت والی آیت کا مضمون اب وہ ہزارووں دفعہ تلاوت کی ہے وہ پتہ ہے کہ اس آیت کے سر پر ہے وہ جو آیت بعد میںآنے والی تھی ۔ لیکن اکیلی آیت کے مضمون میں اس حدیث کے حوالے سے ایسے نشے کی کیفیت تھی کہ ارد گرد کی کوئی ہوش ہی نہیںتھی۔ تو جب وہ حوالہ آیا تو میں نے کہا یہ تو کوئی اور آیت ہے یہ تو الگ ہے ۔ تو یہ وہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک انسان جب ایک مضمون میں ڈوب پر محویت کے عالم میں گفتگو کرتا ہے تو کچھ دیر کیلئے ماحول کے واپس آنے کو کچھ بعض دفعہ وقت لگتا ہے چند لمحے۔ جس طرح روشنی سے اندھیرے کمرے میں آتے ہیں۔ تو آنکھوں کو Adjustment کرنی پڑتی ہے۔ آپ نے تعجب آپ کو بھی ہوا تھاآپ کو بھی ہوا تھا پھر مجھے بھی ہوا کہ میں کیا بات کہہ رہا تھا۔ لیکن اس کا جواز موجود ہے ۔ تو انشاء اللہ پھر اب تفسیر قرآن کے سلسلے میں پرسوں سے پھر ازسر نو جہاں سے ہم نے وہ ذکر چھوڑا تھا آخری آیات ان سے انشاء اللہ تفسیر شروع کریں گے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ24؍رمضان بمطابق 25؍فروری 1995ء
جاپان کا ذکر پہلے تھوڑا سا ۔ مجھے تو یہ عادت پڑگئی ہے ہوسکتا ہے سننے والوں کو بھی پڑ گئی ہوکچھ۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیہ کیمپ میں ارشد محمود صاحب اور منشی صاحب کی معاونت میں کام جاری ہے۔ کھانے کی تقسیم اور مختلف محلوں میں پانی کی سپلائی کے علاوہ خیمے لگاکر ان میں خاندانوں کو ٹھہرانے ، سائیکلوںکو پنکچر لگانے، چائے اور امدادی سامان کی تقسیم کا کام جاری ہے۔ وہاں سائیکلوں کا کافی رواج ہے اس علاقے میں؟
‏PS: نہیں کافی رواج نہیں ہے ۔ سڑکیں خراب ہونے کی وجہ سے۔ حضور: ہاں اچانک پھر زیادہ آئے ہوں گے ۔مگر ٹوکیو وغیرہ کی طرف تو میں نے سائیکل دیکھا ہی نہیں کبھی۔P.S: نہیں وہاں نہیں ہیں۔
ہاں۔ تو گنجائش ہی کوئی نہیں وہاں۔ موٹروں سے توچلنے والوں کوبھی جگہ نہیں ملتی۔ مشکل ہے۔کہتے ہیں صبح شام ان لوگوں کو بعضوں کو گھروں میں ضرورت کی چیزیں پہنچانے کا کام بھی شروع ہوچکا ہے اب۔ اور Shore Shell والوں نے مٹی کا تیل بھی ہمیں بلا معاوضہ مہیا کرنا شروع کردیا ہے۔ جو ہم مختلف خیموں میں ہیٹروں کیلئے استعمال کرتے ہیں اور فوٹو گرافروں اور صحافیوں کیلئے یہ پسندیدہ منظر ہے۔ ہم اندازہ لگارہے تھے کہ اب تک قریباً ایک کروڑ روپے کا سامان تقسیم کرچکے ہیں اور یہ جاری ہے سلسلہ اللہ کے فضل کے ساتھ۔ نئے رضاکاروں میں خالد رشید بٹ ابن رشید احمد صاحب بٹ بھی شامل ہوگئے ہیں اور ایک جاپانی صحافی Yamamoto اور ایک مشہور اخبار کے نمائندہ Gomiصاحب نمایاں ہیں۔ ان دونوں صحافیوں نے اپنے کام کو بھول کر ہمارے کام میں مدد شروع کردی ہے اور بھرپور کام کررہے ہیں اور واپس جانے لگے تھے تو روپڑے اور جذبات کو برداشت نہیں کرسکے۔ ایک ان میں سے اس کا نام نہیں لکھا جس کی یہ کیفیت تھی۔
ایک خبر پاکستان سے آئی تھی کہ جس طرح جوہماری خبریں ہورہی تھیں کہ ہم نے وہاں اللہ کے فضل کے ساتھ چاول اور دال کا سوپ وغیرہ شروع کیا ہوا ہے تو وہاں یہ بتائے بغیر کہ یہ کون لوگ ہیں پاکستان کے اخباروں نے خبر دی ہے کہ ایک Crime Syndicate نے جو مافیا کی ایک شاخ ہے اور وہ خوفناک کاروبار کرتی ہے، اس نے اپنے نیک فہمی کی خاطر یہاں یہ کام شروع کیا ہوا ہے۔ تو پاکستان سے بڑا بھر بھرایا ہوا پیغام ملا تھا کہ یہ لوگ پتہ نہیں کیا سمجھ رہے ہوں گے کہ اصل حقیقت کیا ہے معلوم کریں۔ تو وہاں سے میں نے معلوم کیا ہے ان کی اطلاع مل گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں اخبار کی جو خبر تھی یہ Yamaguchi Group کے بعض ٹھیکیداروں نے جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ Crime Syndicate میں involved ہیں آئندہ ٹھیکوں کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے کھانا تقسیم کیا تھا ایک دفعہ۔ یہ وہ خبر ہے اور یہ اسی طرح گئی ہوگی ۔ تو وہ جان کے یاپڑھی نہیں گئی ان سے پوری طرح۔ انہوںنے وہ نام اڑادیا ہے تاکہ لوگوں کا ذہن اس طرف چلا جائے کہ جماعت احمدیہ کے Worker یہ وہ لوگ ہیں اس کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں جماعت احمدیہ سے۔
اب جو unfinished business ہے پہلے وہ لیتے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ یہاں ہمارے پاس ایسے حوالے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بائبل نے جو اپنی تاریخیں وغیرہ نکالیں ہیں ان میںبہت حد تک انحصار کیا ہے جوزیفس سے۔ جوزیفس جو سیفس ہے لفظ اصل میں۔ جوزیفس پڑھتے ہیںلوگ مگر جو سیفس لفظ ہے تو جو سیفس کے اوپر انحصار کیا ہے جس نے آگے Manifo پر انحصارکیا ہے۔ جس نے بہت سی گپیں بنائی ہوئی ہیں۔ تو یہ جو Connection ہے آپس میں اس کے میں حوالے دوں گا وہ بھول گیا تھا اس وقت دینا۔ یہ مجھے بعد میں یادآیا تو اب میں لے آیا ہوں ۔ کیونکہ یہ وعدہ ہے جو پورا ہونا ضروری ہے۔ اس کے متعلق ایک حوالہ ہے جوسیفس Josephus Flavius۔
A Jewsh Historian has a mantion in Peaks commentry as having derived his informaiton form the writings of Manifo which Josephus has preserved.
اور یہ جو ہے ا س کے اوپر دوسرے Commenterکمنٹیٹر مزید لکھتے ہیں ۔ مثلاً نیو جیروم کمنٹری ہے بائی آر ای برائون اور بھی کمنٹیٹرز Commentersاس بات میںمتفق ہیں کہ
The works of Josephus are extensively used by the author of the Bible and provides indispensible material for the student of the Bible.
تو جوسیفس سے بائبل نے بہت کھلا فائدہ اٹھایا۔ اور یہاں یہ Authorمانتے ہیں کہ خدا نہیں ہے کوئی اور ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توجوسیفس سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ اس لیے ظاہر بات ہے کہ یہاں یہ اقرار ہے کہ ہماری بائبل میں جو بہت سے واقعات ہیں وہ روایتیں لوگوں نے اکٹھی کی ہیں۔ اس ضمن میں ایک یہ حوالہ بھی بڑا واضح ہے۔ History of Old Testament by Dr. P.Hemish ۔ یہ لکھتے ہیں۔
For the history of the Old Testament one of the sources is the history sketched of Egypt form the begning down to Alexander the great by an Egyption priest called Manifo 3rd century BC.
تو یہ اقرار اور بھی موجود ہیں اتنے ہی کافی ہیں پڑھنے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بائبل کے Author انسان تھے۔ جیسا کہ یہ خود محققین مانتے ہیں اور انہوںنے ہی یہ سب کچھ اکٹھا کیا ہے ۔ تو قرآن کریم کا بار بار یہ بیان کہ اس میںہدایت بھی ہے نور بھی ہے ۔ آج بھی اس میں ایسی باتیں ہیں کہ تم استفادہ کرسکتے ہو، ان میں کوئی تضاد تونہیں ہے ان دوباتوں میں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی احادیث دراصل بائبل کی روایات کے ایک پہلو سے مشابہہ ہیں۔ بائبل میںبہت سی ایسی روایات ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف باتیں منسوب کرتی ہیں۔ حدیث میں جب یہ ذکر آئے تو اسے حدیث قدسی کہا جاتا ہے۔ یہ قرآنی وحی کے درجے کی بات تو نہیں ہے۔ کیونکہ انسانی روایتیں ہیں اسے تمام محققین ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ مگر تمام احادیث میں سب سے افضل مقام اس حدیث کو ہے جو حدیث قدسی کہلاتی ہے۔ یعنی معتبر صحابہ نے روایت کی آنحضرتﷺ تک پہنچائی اور پھر آگے حضوراکرم ﷺ اس بات کو خدا تک پہنچاتے ہیں ۔ کہتے ہیںکہ اللہ نے مجھے یہ فرمایا یا اللہ نے یہ کیا۔ تو وہ حدیث قدسی کی جو حیثیت ہے وہ بعض بائبل کی روایات سے مشابہہ ہے۔ اور وہ تمام روایات جن میںخداکا معین حکم موجود ہے۔ اس میں وہ نور اور ہدایت ہے اور اسی طرح وہ روایات جو محفوظ ہیں جو انبیاء کی سیرت پر روشنی ڈالتی ہیں کسی حد تک وہ محفوظ ہیں ، مگر ایک پہلو سے بہت زخمی بھی ہیں جہاں ان کی خدا کی محبت، ان کے بتوں کا ذکر ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ کسی جھوٹے کوکوئی ضرورت نہیں تھی، نہ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ اس زور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عشق کا اظہار کرے۔ جھوٹوں کی دلچسپی کا مضمون ہی نہیں ہے یہ۔ مگر سوائے اس کے کہ کوئی شخص خود دعویٰ کرے اوردکھانے کی خاطر کہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں وہ دعویٰ اس کا جو طرز بیان ہے وہ خود اس کو جھوٹا کررہا ہوتا ہے جگہ جگہ۔ اس تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں مگر فرق یاد رکھ لیں ان باتوں کا۔ ایک پہلو ہے جو محفوظ کیا جاتا ہے۔ وہ ہے پیشگوئیوں کا ۔ پیشگوئیاں جب تک پوری نہ ہوں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر وہ حفاظت نہ فرمائے تو پیشگوئیوں کامضمون مبہم اور کلیتہً اعتبار سے اترجائے ، اعتبار کے لائق نہ ٹھہرے۔ اس لیے جب تک قرآن کریم نے بائبل کی پیشگوئیوں کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ پر چسپاں نہیں کیا اس وقت تک وہ محفوظ چلی آرہی تھیں۔ جب یہ دعویٰ کردیا گیا کہ یہ قرآن یا رسول اللہﷺ پر چسپاں ہوتی ہیں یا اسلام پر۔ تو پھر اس میں تبدیلیاں شروع کی گئی ہیں۔ تو پیشگوئیوں میں تبدیلیاںہوتی ہیں مگر اس وقت جب وہ پوری ہوچکی ہوں اور پھر بعض ادنیٰ مقاصد کی خاطر انسان ان کا رخ موڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو بائبل میں نور بھی ہے ،ہدایت بھی ہے اور جہاں تک بنیادی تعلیمات کا تعلق ہے اکثر و بیشتر وہ تعلیمات بھی محفوظ ہیں مگر اس حد تک جس حد تک آنے والی کتاب ان کی تائید کرتی ہے۔
پس اس پہلو سے جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آتا ہے مصدقا لما بین یدیہ من التورٰۃ تو اس سے مراد بعض بلکہ بہت سے تراجم میں یہ لی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے تورات گزرچکی ہے وہ اس کی تصدیق کرتا تھا۔ رسول اللہﷺ کے متعلق جو آتا ہے مصدقا لما بین یدی من التورۃ اور کیا ہے؟(مصدقا رسول اللہ ﷺ کیلئے جہاں آیا ہے وہ بھی نکالیں)۔ اس کا بھی میں نے دیکھا ہے کئی ترجموں میں یہ بات یہ راہ پاگئی ہے کہ مراد اس سے لی جاتی ہے جوپہلے بائبل میں باتیں گزرگئی ہیں ان کی تصدیق کرتا ہوں ۔یہ درست نہیں ہے میرے نزدیک اور اس سے کئی قسم کی خرابیاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ یہی ترجمہ ہے جس کے اوپر پھر غیر اعتراض کرتے ہیں کہ ایک طرف تو تصدیق ہے کہ جو کچھ بھی تورات میں تم اور انجیل کے طور پر تم پاتے ہو رسول ﷺنے فرمایا میں مصدق ہوں اور دوسری طرف واضح طور پر ان کے بعض دعووں کو جھٹلاتے ہیں کہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ غلط بات ہے انسان کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں۔ تو بین یدیہ کا اصل مطلب جو مسلمہ ہے وہ ’’سامنے ہے‘‘ مراد یہ ہے کہ میرے سامنے یعنی وہ تعلیم جس کی خدا نے تصدیق فرمائی ہے۔ جو میرے سامنے موجود ہے ،جس کو الہام نے سچا بتایا ہے۔ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ تو من التورۃ وکتب جو بھی لفظ آئیں اس میں مصدقا لما بین یدی آئے یا مصدقا لما بین یدیہآئے۔ یعنی وہ ایک غائب کا صیغہ ہے اور ایک متکلم کا مراد یہی ہوگی کہ جو کچھ میرے سامنے بائبل کے مصدقہ حصے ہیں جن کی اللہ نے تصدیق فرمائی ہے اور مجھے ان پر مطمئن فرمایا ہے یعنی جو میرے زیر بحث آرہے ہیں۔جو میں بائبل کے حوالوں کے طور پر پیش کررہا ہوں ان کامیں لازماً مصدق ہوں کیونکہ یہ خدا کی طرف سے ہیںلیکن انسانی جو دست برد ہوئی ہے اور انسان نے جو دخل اندازی کی ہے ۔ اس کی تصدیق اس تصدیق میں شامل نہیں ہے۔ یہ اس لیے سمجھانا ضروری ہے کہ یورپ میں بارہا احمدی مبلغین کو اس دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ Johovah Witnesses والے اور دوسرے یہ سوال اٹھادیتے ہیں اور بیچارے ناحق پریشان ہوجاتے ہیں تو ان سے کہیں وہی طریق ہے قرآن کریم کا۔ عظمت دیکھیں ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ جو رسول کریم ﷺ کے متعلق طریق استعمال فرمایا ہے کہ یہ تصدیق کرتا بعینہٖ انہی الفاظ میں حضرت مسیح کا پرانی بائبل سے رشتہ ثابت کیا۔ مسیح بھی اس طرح تصدیق کیا کرتا تھا اور یہ ثابت ہے کہ مسیح بہت سی باتوں کو جھٹلاتا تھا ۔ ان کے وہ ترجمے قبول نہیں کرتا تھا جو یہ کرتے تھے۔ ان کو ظاہر پر مبنی نہیں مانتا تھا۔ جیسا کہ حضرت ایلیاء کے آسمان پر جانے کا واقعہ ہے اور جسم سمیت اترنے کا ہے۔ تو پھر وہی اعتراض حضرت مسیح پر بھی پڑے گا۔ اس لیے قرآن کریم کو عیسائیوں کے حملوں سے بچانے کیلئے یعنی اور بہت سے مقاصد ہیں یہ ایک نہیں ہے۔ ضمنی مقاصد بعض حاصل کرتا ہے قرآن کریم۔ یہ مضمون عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی اسی طرح بیان فرمادیا ہے کہ وہ بھی تو تصدیق کرتا تھا جو اس کے سامنے تھا۔ مگر وہ تصدیق اس بائبل کے تمام حصوں پر حاوی نہیںتھی جس کو تم بائبل سمجھتے ہو۔ یہ ہے وہ مضمون جو ذہن نشین ہونا ضروری ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
الم۔ اللہ لاالہ الا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آل عمران: 1تا 4
بین یدیہ کا مطلب یہاں اُس طرح واضح نہیںہورہا ، وہ دوسری آیت ہے جو میرے پیش نظر ہے جس میں کوئی ابہام نہیں رہتا سمجھنے میں۔ اس آیت میں ہے والذی اوحینا الیک من الکتب ھوالحق مصدقًا لما بین یدیہ یہ جو وحی ہے ہے یہ ہے مصدق کیونکہ پھر بین یدیک کا لفظ آنا چاہیے تھا اگر رسولﷺ تو تصدیق کرنے والا ہے۔۔۔۔ یہ بھی اس لیے وہ بات پوری نہیں کرتا میں رسول اللہ ﷺ کے مصدق ہونے والی آیت کا پوچھ رہا ہوں۔ یہ مصدق وحی ہے اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ابہام پیدا ہوجاتا۔ جو آیت میںتلاش کررہا تھا جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آتا ہے نا مصدقا لما۔ ۔۔۔۔ اب یہاں کتاب کی طرف آیا ہے۔ قالو یقومنا انا سمعنا کتابا انزل من بعد موسیٰ مصدقا لما بین یدیہ یھدی الی الحق تو کتاب اور وحی اب یہاں کتاب آگئی ہے کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے جو اس کے سامنے ہے بین یدیہ کا پیچھے والا ترجمہ کرنا یہ عام محاورے کے مخالف ہے ۔ اگر امکان ہے تو دور کا امکان ہے۔ ہر جگہ خلف اور بین یدیہ کا جو تقابل ہے قرآن کریم میں کھلم کھلا استعمال ہوتا ہے۔ وہ جو حفاظت والی آیت ہے۔ لہ معقبات من بین یدیہ و من خلفہ یحفظونہ من امراللہکہ ہر وہ شخص جو رات کو چلتا ہے یا دن کو اندھیروں میں چھپ چھپ کے چلتاہے یا ظاہر چلتا ہے لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ۔ اگر بین یدیہ کا مطلب پیچھے کیا جائے تو من خلفہ کا کیا مطلب ہے پھر۔ تو بین یدیہ کا ظاہری محاورہ بکثرت استعمال ہونے والا سامنے کیلئے آتا ہے نہ کہ گزرے ہوئے کیلئے۔ پس اس لحاظ سے ہر جگہ ترجمے میں گزرے ہوئے کا جو ترجمہ ہے وہ اس تعصب کی وجہ سے یہ سابقہ تعلیم کی بات ہورہی ہے۔ اس لیے جو کچھ گزرا ہوا بائبل میں آیا سب کی تصدیق ہوگئی اور جہاں یہ آپ ترجمہ کریں وہاں یہ خطرہ مول لے لیا کہ گویا پھر بائبل جو دو جلدوں میں پائی جاتی ہے اس کی تصدیق ہے مگر جب بین یدیہ کی بات کی جاتی ہے تو کتاب جو اس کے سامنے ہے یعنی کتاب کے اندر وحی نازل ہوچکی ہے، اس نے تصدیق والے حصوں کو کھول کر بیان کردیا ہے ، جہاں تصدیق نہیںتھی وہ مشکوک چیزیں ہیں۔ اس ترجمے کی قطعیت کے ساتھ صحت اور درستی بائبل اور قرآن کے موازنے سے ثابت ہوجاتی ہے۔ ایک جگہ بھی اس میں استثناء نہیں کہ قرآن کریم میں جہاں بائبل کے کسی واقعہ کو قبول کیا ہے اور اسے بیان کیا ہے وہ لازماً سچا نکلتا ہے۔ قرآن کریم نے جہاں بائبل کے کسی کائنات کے مشاہداتی بیان کو قبول کیا ہے وہ لازماً سچا نکلتا ہے، جس کو چھوڑ دیتا ہے وہ بین یدیہ نہیںرہا۔ اور اکثر ان میں سے غلط نکلتے ہیں ۔ جن سے اختلاف کرتا ہے وہ تو قطعاً غلط ہوتے ہیں مگر جن کو چھوڑ دیتا ہے ان کوبعض دفعہ چھوڑنا ایک ان کی ثانوی اور بے معنی حیثیت کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جو اصل مضمون سے کوئی خاص تعلق نہیںرکھتا۔ لیکن بسا اوقات غلطیوںکی وجہ سے چھوڑتا ہے۔ اس لیے بین یدیہ کا ترجمہ یہ کرنا ضروری ہے کہ جو خدا کی اس وحی نے تصدیق فرمادی ہے اور وہ مضمون جو اس کے سامنے ہے اس کا یہ مصدق ہے اور وہ بائبل میں اسی طرح ملے گا اور اس کا ایک اور لطف کا پہلو یہ ہے کہ بعض دفعہ مصدق ہے مگر وہاں وہ چھپاجاتے ہیں اس کو۔ یعنی قرآن کریم کہتا ہے سامنے ہے اللہ نے بتادیا ہے اور جو عیسائی ہیں یہ چھپا جاتے ہیں اس کو۔ اور یہودی بھی کہ یہ تو ہے ہی نہیں ۔ تو پھر اس کو ڈھونڈ کر نکالنا پڑتا ہے بتانا پڑتا ہے کہ جس کی قرآن تصدیق کرتا ہے وہ لازماً تورات میں یا انجیل میں موجود ہے۔ یہ بھی ایک ضمنی بحث تھی مگر سمجھانے کیلئے ضروری تھی۔
اب ایک او ربہت دلچسپ سوال ہے جس کی طرف میں آتا ہوں اور جب وہ قذی والی بحث چلی تھی۔ اقذفیہ فی الیم اقذفیہ فی التابوت اقذفیہ فی الیم تو میں نے یہ کہا تھا کہ یہ مجھ سے یہ ترجمہ غلط ہوا ہے کیونکہ میں اقذ کو الگ لفظ سمجھ رہا تھا اور فیہ کو الگ اور مگر ترجمہ فی ذاتہٖ غلط نہیں تھا کیونکہ معنے وہی بنتے ہیں کہ اس کو تابوت میں ڈال اس کو دریا میں بہا۔ مگر سوال کرنے والے نے بڑی ذہانت سے سوال کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے خود اس کا تفصیل سے بیان کرنا مجھے وہ بات خود تفصیل سے بیان کرنی چاہیے تھی ۔ سوال کرنے والے نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے ترجمے میں جوغلطی تسلیم کرلی ہے یہ تو بڑی اچھی بات ہے اور یہ تقویٰ کی علامت ہے، مجھے تسلی ہے۔ مگر جو تفسیر اس کے نتیجے میں کی گئی تھی اس پر کیا اثر پڑے گا، اس کی وضاحت ضروری ہے ورنہ ایک دائرہ ابہا م کا باقی رہ جائے گا ہمارے لیے۔ ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ ترجمے کے بدلنے سے تفسیر بھی بدلے گی کہ نہیں یا اس تفسیر کو اور تائیدات حاصل ہیں ۔ ان الفاظ میں تو نہیں مگر اس مفہوم کا سوال مجھ سے کیا گیا تو میں نے کہا کہ یہ بہت اچھا سوال ہے میں اس کا جواب درس ہی میںدوں گا۔ اب درس میں اس کے جواب کا تعلق ایک تو اس بات سے ہے کہ اقذفیہ میں اقذ کو الگ فعل شمار کرنا اور فیہ کو حرف۔ حرفِ جار اور ہ کو ضمیر، جار مجرور بنانا یہ امکاناً تو درست ہوسکتا تھا عربی کے لحاظ سے۔ لیکن اس موقعے پر یقینا درست نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو یہ کہ اقذ کی بجائے اقذی چاہیے تھا کیونکہ مخاطب عورت ہے۔ اب قذف یقذف سے اگر آپ فعل بنائیں امر مؤنث تو اقذفیچاہیے تو یہ اقذفی ایک ہی لفظ تھا اور ہ الگ ہے یعنی کس کو ڈال ؟ اس کو ڈال۔ اس لیے اس پہلو سے تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس کیلئے کوئی بھی جواز ڈھونڈا جائے ، یہ غلط ہے ترجمہ اقذ کو الگ پڑھنا اور فیہ کو الگ پڑھنا غلط ہے۔ لیکن اگلا حصہ اس کا دلچسپ ہے جس سے اور بہت سی باتیں ۔۔۔ جب غلطی کی آپ چھان بین کریں تو فائدہ ہوتا ہے ۔ ایک بات یہ کہ مجھے کیوں اس طرف رجحان پیدا ہوا وہ بات وہی تھی کہ اس میں ایک تکرار کا مضمون پایا جاتا ہے جیسے کوئی بات کرتے ہوئے رکتا ہے پھر چل پڑتا ہے، پھر رکتا ہے ، پھر چل پڑتا ہے اور تکرار کا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اتنا گہرا ہے اور بڑا پر لطف ہے کہ جب بھی میں نے باشعور طور پر اس آیت پر غور کیا تو یہ جو اقذ والا پہلو تھا نظر انداز ہوگیا کہ ضمیر عورت کی طرف ہے۔ یہ اقذ تو مرد کی ضمیر بنتی ہے اور وہ جو صوتی اثر تھا وہ مجھے بہا لے گیا اس بات میں کہ گویا بات کی تکرار ہورہی ہے اس کو ڈال اس میں ڈال۔ اس کو ڈال اس میں ڈال اور یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انداز بیان تھا ۔ لیکن یہ کہنے کے باوجود اب اللہ تعالیٰ کس طرح حفاظت فرماتا ہے اس کا بھی ایک مضمون ہے کیونکہ قرآن کریم سے جو اللہ تعالیٰ کا ایک تصور پیدا ہوتا ہے اس میں یہ تو ملتا ہے کہ علی قدر مراتب گفتگو فرماتاہے مگر مجھے یہ بعید سی بات لگی کہ ایک بچے کے Stammering کی نقل اتار رہا ہو۔ اس لیے میں نے وہی بیان کیا کہ محض اس لیے یہ درست نہیں ہے ضرور اور مقصدہوگا اور محض Stammering کی نقل اتارنا اللہ کی شان کے خلاف ہے۔ زائد مطلب لے تو اس سے ایک پیار کا انداز پیدا ہوجاتا ہے وہ درست ہے۔ اس لیے میں نے پھر اس کا وہ مطلب بیان کیا جو میرے نزدیک وجہ ہوسکتی تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو سنبھالنا، ان پہ صبر کا آہستہ آہستہ بیان کرناتاکہ ان کو گہرا صدمہ نہ پہنچے۔ اب جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے تفسیری حصے کا۔ وہ ترجمہ تو بدلا نہیںترجمے کا انداز بدلا ہے ترجمہ تو وہی ہے انداز بدلنے کے باوجود قائم ہے کیونکہ وہ صوتی اثر ہی کی وجہ سے تو مجھے خیال آیا تھا یہ صوتی اثر تو ضرور پڑتاہے۔ اقذفیہ فی الیم اقذ فیہ فی التابوت اقذ فیہ فی الیم چنانچہ میں نے ربوہ بھجوایا تھا کہ تلاش کرو اس کی او رمثال یہ کوئی ایسا اثر ہے جو ہوسکتا ہے کوئی اور بھی اس میں مبتلاء ہوا ہو۔ توبڑی پرلطف مثال مل گئی ہے عبدالرحمن صاحب مبشر کی۔ انہوںنے لفظی ترجمہ ٹکڑوںٹکڑوں میںکیا ہے اور وہاں اقذ کو ایک فعل بنایا ہے اور فیہ کو جار مجرور بنایا ہے۔ تو صاف پتہ چلا کہ یہ صوتی اثر اتنا طاقتور تھا کہ وہ اچھے گریمیرین تھے او رلفظاً لفظاً ترجمہ کیا مگر اس تاثر میں وہ بھی بہہ گئے اور اقذ کو الگ کردیا اور فیہ کو الگ کردیا۔ اس طرح انہوں نے لفظاً ترجمہ لکھا ہوا ہے۔ لیکن یہ بیان ضروری ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ جو تاثر ہے وہ اس اقذف کو ایک لفظ اگر بنایا جائے تو آیت کا صوتی اثر پھر بھی قائم رہتا ہے ۔ اس لیے تفسیر میں اس پہلو پر کوئی اثر نہیں ہے۔ طرز بیان خدا کا بتارہا ہے کہ ایک خاص انداز ہے جو ذہنوں پر یہ اثر ڈالتا ہے کہ گویا ایک بات کی تکرار ہورہی ہے۔ اب تکرار کا جو پہلو ہے چونکہ یہ میرے ذہن میں موجود تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کاایک تکرار سے گہرا تعلق ہے۔ اس لیے اس غلطی میںاس تاثر کو جو درست ہے تقویت مل گئی۔ سمندر میںغرقابی آپ دیکھیںدو مرتبہ پیش آئی اور دونوں مرتبہ اللہ نے اعجازی طور پر آپ کی حفاظت فرمائی ، ایک بچے کے طورپر اور ایک بڑے ہوتے ہوئے۔ جس قوم سے غرقابی کا خطرہ تھا بچے کو ا س سے تو خدا نے بچا لیا جو قوم غرقابی کے درپے تھی وہ غرقاب ہوگئی اور وہ نہ بچ سکی۔ تو یہ عجیب مضمون ہے لطیف، تکرار ہے اس میں گہری لطافتیں پوشیدہ ہیں ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام مکا مارتے ہیں ایک دفعہ اور دوسری دفعہ پھر مارنے پر آمادہ بیٹھے ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ بچالیتا ہے ان کو ۔ تو وہاں بھی ایک تکرار ہے ۔ ایک اور تکرار یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فرعون کے خاندان نے دو دفعہ مدد کی ہے اور دونوں دفعہ زندگی بچانے میںمدد کی ہے۔ ایک مرتبہ فرعون کے خاندان کا ایک آدمی جو اقصی المدینہ سے دوڑا ہوا آیا تھا اور یہ خبر دی تھی کہ وہاں اندر مشورے ہورہے ہیں تیرے قتل کے۔ بھاگ یہاں سے اور دوسری دفعہ اس زمانے کی کوئی روایت موجود نہیں مگر قرآن کریم نے عمداً ارادۃً اس بات کو محفوظ فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آئے ہیں اور فرعون سے ٹکر لی ہے تو آپ کے قتل کے مشورے ہورہے تھے ۔ تو یہاں بھی دو دفعہ مشورے ہوئے اور وہاں کون مددگار بنا فرعون کے خاندان کا ایک شخص ۔ وہ ان کو سمجھاتا ہے کہتا ہے دیکھو عقل کی بات کرو اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا تمہیں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے۔ لیکن اگر سچا نکلا تو تم مارے گئے، اس لیے قتل کی باتیں چھوڑدو۔ اب چونکہ قتل نہیںکیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہی فرعون کے خاندان کا فرد آپ کا مددگار بن گیا۔ تو یہاں بھی ایک عجیب تکرار ہے جو اتفاقی حادثہ نہیں ہے ۔ پھر ہجرت دو دفعہ ہے انبیاء کی ایک دفعہ کی ہجرت تو ثابت ہے مگر دو دفعہ کی نظر نہیںآتی کہیں شاذ کے طور پر ہوسکتی ہے۔ مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معاملے میں تو بڑی قطعی اور واضح ہے ، ایک انفرادی ہجرت اور پھر دوسری ہجرت ہے۔ تو دو دو دفعہ کی جو تکرار تھی پائی جاتی تھی اس سے میں ہمیشہ لطف اندوز ہوتا تھا کیونکہ صوتی تاثر نے وہی تکرار کا منظر پیش کیا ۔ اس لیے میرا ذہن اس طرف گیا ۔ اب یہ مسئلہ تو حل پہلا کرلوں کہ تفسیر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا ۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے پیار کا تعلق اور ان کے طرز کو اختیار کرنا ان سے ان کے مراتب اور عقول کے مطابق کلام کرنا ہے اس پہ کوئی اثر نہیںپڑتا۔ اس غلطی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت فرمائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اقتباس اس مضمون پر حرف آخر ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی او رکمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے جس پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی اور کمال باطنی کیونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہوگا اس لیے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اعلیٰ مقام اور مرتبہ پرواقع ہوا جہاں تک کوئی دوسر ا کلام نہیں پہنچا۔ پس کلام الٰہی کا جس پروہ نازل ہورہا ہے اس کی کیفیات اس کے حالات سے ایک تعلق ہوتا ہے ۔ اس مضمون کوسمجھ کر بعض دفعہ جو غلطیاں دکھائی دیتی ہیں بعض کلام کی وہ بھی حل ہوجاتی ہیں۔ میں پہلے بھی اس پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ بعض لوگ بالکل بے علم ہوتے ہیں عربی کا کوئی ان کو علم نہیں مگر عربی الہام ہوجاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ سچے ہیں مگر ان کے خدا کو تو عربی آتی ہے ، وہ تو قرآن کا بھی خالق ہے۔ اب اس میں ایک اور بحث چل پڑے گی کہ قرآن مخلوق ہے یا نہیں؟ یہ اس کو چھوڑ دیتے ہیں مگر قرآن اسی نے الرحمن۔ علم القرآن ۔ خلق الانسان۔ قرآن سکھانے والا تو وہی ہے۔ علم القرآن ہے نا؟(الرحمن۔ علم القرآن۔ دیکھیں نکالیں یہ درست ہے کہ ہیں۔ خلق الانسان۔ علمہ البیان۔ مجھے تو اب یہ پکا یاد ہے کہ یہی ہے دیکھ لیتے ہیں۔ غلطی کا امکان تو ثابت ہوگیا کہ ہوسکتی ہے۔ یہی بحث چل رہی ہے نکالیں)۔ الرحمن ۔ علم القرآن تو قرآن سکھانے والا جو ہے وہ تو رحمن خدا ہے لیکن اس کے باوجود جن دوسروں سے کلام کرتا ہے اس کاوہ معیارنہیں ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ میںنے تو اس کو ایک او رنظریے کے طو رپر پیش کیا تھا وہ بھی میں درست سمجھتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو عارفانہ کلام ہے وہ اس مضمون کو ایک اور طرح بیان فرمارہا ہے ۔ میں نے یہ بیان کیا تھا کہ میرے نزدیک ہر انسان کے اندر ایکReception Set ہے ۔ جس طرح ریڈیو خبریں سنتا ہے وہ ریڈیو اسٹیشن خواہ کسی شان کا ہی ہو کتنی طاقت کا کیوں نہ ہو، اگر سیٹ خراب ہواور کمزور ہو تو آواز ویسی ہی آئے گی اور بعض دفعہ کمزو رریڈیو اسٹیشن بھی ہو تو سیٹ اچھا ہو تو بڑی دور سے اس کی آواز کو اچھی طرح پکڑ لیتا ہے ۔ اگر انسان میں ایسا رسیونگ سیٹ نہ ہو تو وحی کا مضمون باطل ہوجاتا ہے۔ پھر کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ باہر کی آواز نہیںآرہی اندرسے آواز پیدا ہورہی ہے۔ اگر باہر کی آوازہو تو ہر وحی کو سب لوگوں کو سننا چاہیے۔ تو یہ مضمون ہے جومیں بارہا بیان کرچکا ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت رسول اکرم ﷺ کے حوالے سے جو بات بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کاجو اندرونی سیٹ تھا وحی کو وصول کرنیوالا اس پر آپ کی قوت قدسیہ نے ایک جلا پیدا کردی تھی آپ کے اندر جو پاکیزگی تھی۔ یہ محض ایک عام صنعت کا مضمون نہیں ہے کہ بعضوں کواچھا اندرونی سیٹ مل گیا، بعضوں کو کمزور۔ آپ کی پاکیزگی اور باطن کا قدس تھا جس نے ایک نور پید اکیا تھا اس وجہ سے وہ الہام جو آپ پر نازل ہوا ہے اس نور میں ڈھل کر ایک عجیب شان کا الہام بن گیا ہے۔ یہ مضمون ہے۔ پس اس پہلو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو کلام ہے اس کا باقیوں سے کلام کا جو فرق ہے وہ بڑا واضح ہے۔تمام مفسرین اس کو نوٹ کرتے ہیں اور اسی لیے قرآن کریم کی اس آیت کابھی حوالہ دیتے ہیں کلم اللہ موسی تکلیمًا۔ کسی اور نبی کے متعلق یہ بات نہیں آئی کہ اللہ نے اس سے خوب خوب کلام کیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ سوال کرتے جاتے ہیں، جواب دیتے جاتے ہیں۔ ادھر آ، واپس آجا، دوڑ نہیں ۔ اور ایسا طرز کلام ہے جو کسی اور نبی کی ذات میں نہیںملتا جس کا مطلب ہے کہ قدر مراتب کو خداتعالیٰ نے ملحوظ رکھا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک اپنا سادہ پیارا سا انداز تھا اور وہ بے تکلف باتیں کرتے تھے جس سے اللہ تعالیٰ لطف اٹھاتا تھا اور اسی طرح ان سے کلام کرتا تھا ۔ اب یہ کوئی کہے کہ لطف اٹھانے والا مضمون خدا کیلئے درست نہیں ۔تو یہ تو ویسے ہی میں بتاچکا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ سے تو ثابت ہے کہ اللہ حظ اٹھاتا ہے یہاں تک کہ ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ وہ جو میزبان مچاکے مار رہا تھا مہمان کو یہ اثراندھیرے میں یہ اثر ڈالنے کیلئے مہمان پرکہ میں بھی کھارہا ہوں تو آسمان پر اللہ بھی مچاکے ماررہا تھایا لطف اٹھارہا تھا۔ جو ترجمہ ہے بعض لوگوں نے مچاکے مارنے کا بھی کردیا ہے۔ مگر یہ توقطعی ثابت ہے کہ ان مچاکوں کا اللہ لطف اٹھارہا تھا۔ تو اللہ کا بھی لطف اٹھانے کا ایک مضمون ہے جو بہت لطیف ہے اس کی تفاصیل میں تو ہم نہیںجاسکتے مگر بندے کے مطابق خدا ایسے طرز عمل اختیار کرتا ہے جیسا بندہ بھی کرسکتا ہے۔ اس مضمون کا حل آنحضرت ﷺ نے فرمادیا ہے جب یہ فرمایا یہ بھی حدیث قدسی ہے اناعند ظن عبدی بی۔کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ تو مجھے سمجھ ہی نہیںسکتا اس کا ادراک ہو ہی نہیں سکتا وہ کیسے مجھے پائے گا، وہ کیسے میرے متعلق تصورباندھے گا ایک ہی صورت ہے کہ میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق ڈھل جائوں اور اس کیلئے ویسا ہوجائوں ۔تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اگر کلام میں اختلاف ہے تو یہ خدا کی شان کے خلاف نہیں بلکہ اس کی شان کا مظہر ہے۔جیسے تھے ویسا بن جاتا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کویہ مضمون سکھایا بھی خوب طریقے سے کہ تم سے جو میں پیار کی باتیںکرتا ہوں تم یہ نہ سمجھو کہ اور سے نہیں کرسکتا۔ تم سے تمہارے مزاج کے مطابق کرتا ہوں، کسی اور اسے اس کے مطابق کرتا ہوں۔ ایک گڈریا تھا جو جوئیں نکال رہا تھا اپنے کپڑوں کی اور بیٹھا ہوا وہ جوئیں نکال کے مارر ہاتھا اور ساتھ ساتھ باتیں کررہا تھا اللہ تعالیٰ سے۔ اے میرے ربّ! اگر تو آجائے میرے پاس میںتیری جوئیںنکالوں، میلے کپڑے دھوئوں ، پائوں کے کانٹے نکالوں، تجھے تازہ دودھ پلائوں، حضرت موسیٰ علیہ السلام جاتے ہوئے سن رہے تھے انکو اتنا غصہ آیا یہ بات بھول گئے کہ مجھ سے بھی اللہ میرے مزاج کے مطابق باتیں کرتا ہے اور کہا خبردار ہے تیری جو تونے ایسی بات کی۔ تو کیا سمجھتا ہے خدا کوئی بندوںکی طرح، تیری طرح محتاج، فقیر انسان ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی ڈانٹنے کیلئے۔ اے موسیٰ توکون ہے میرے اور میرے بندے کے درمیان دخل دینے والا۔ میں تو بہت لطف اٹھارہا تھا۔
تو یہ جو مضمون ہے س مضمون کے پیش نظر وہاں فیہ والا جو مضمون تھا میرے ذہن میں اسی طرح ابھرا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوچونکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ تیری ماں پر وحی ہوئی تھی تو اسی انداز میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انداز میں کلام ہورہا ہے۔ مگر دوسرے ترجمے نے یہ تو بتایا کہ کلام اس طرح ٹکڑوں میں نہیں تھا مگر وہ صوتی تاثر پھر بھی قائم ہے۔ اقذ فیہ فی الیم، اقذ فیہ فی التابوت۔ اقذ فیہ فی الیم، تو وہ جو لطف والا حصہ ہے وہ قائم رہے گا دوسری باتیں اس پر گواہ ہیں اور سارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا تعلق گواہ ہے اس لیے اس بارے میں تو پوری طرح مطمئن رہیں کہ ایک ادنیٰ پہلو بھی اس تاثر کا غلط نہیں ہے۔ دوسرا پہلو ہے جس نے مشکل ڈالی ہوئی ہے وہ یہ تھا کہ میں نے تو یہ بیان کیا کہ چونکہ صرف منت کرنے کی خاطر خدا ایسا بیان نہیں کرسکتا۔ منت کا مضمون اگر کسی بڑے مقصد کے ساتھ اتفاقاً پورا ہوتا ہو تو یہ فصاحت و بلاغت ہے۔ لیکن محض اس لیے نہیں کرسکتااس لیے کیا مقصد ہوگا میںنے یہ مقصد بیان کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل کو تسلی دینے کیلئے کہ ایک واقعہ ہونیوالا ہے یہ یوں ہے ۔ پھر بتادیا کہ یوں ہے یہ بھی ایک اندا ز ہے News Brake کرنے کا۔ اس مضمون کے برعکس وہ معنی بنے گا جو اقذفی سے بنتا ہے اور اس نے مجھے مشکل میں مبتلا کئے رکھا مجھے کافی دیر تحقیق کرنی پڑی ہے۔ اس لیے آج میں اس بات کو اب سمجھا کر سمجھنے کے بعد سمجھا رہا ہوں ۔ میر ا ذہن پہلے تو اقذ کا لفظ میں نے کبھی غور کیا ہی نہیں تھا۔ طرز بیان سے ثابت تھا کہ یہ ترجمہ ہی ہوسکتاہے اسی طرح غالباً عبدالرحمن مبشر نے بھی کہہ دیا اس کا مطلب ’’ڈال‘‘ ۔ یہ تحقیق جو میں نے تھوڑی سی پیش کی تھی یہ وجہ نہیں بنی تھی اقذ کا ترجمہ کرنے کی۔ یہ بعد میں تلاش کیا کہ آخر اقذ ہے کیا چیز ۔ اور اس پر غورتو کریں کہ آیا اس مضمون کا کوئی معنی پایا بھی جاتا ہے کہ نہیں۔ تو پھر یہ باتیں سامنے آئیں کہ اقذ جو قذیٌ ہے اس تنکے کو کہتے ہیں جو آنکھ میں پڑتا ہے۔ عام طور پر جولغت کی کتابیں ہیں وہ اسے فعل لازم بتاتی ہیں۔قذا کا مطلب ہے تنکا پڑ گیا آنکھ میں اور دوسرا مفہوم اس میں یہ تھا کہ ایک طرف لگ گیا۔ تیسرا مفہوم اس میں یہ تھا کہ پانی پہ پڑا ہوا تنکا سرکتا سرکتا کنارے لگ گیا۔ اور چوتھایہ تھا کہ دریا پر بہتا ہوا تنکا وہ بھی اگر کنارے لگ جائے تو یہ قذ لفظ کے اندر شامل ہے سب ۔تو اس پہلو سے پھر خیال پیدا ہوا کہ کچھ تو مضمون کو تقویت ملتی ہے مگر یہ غلط خیال ہے ۔ یہ اچھا مضمون نظر آرہا ہے بظاہر کیونکہ ایک چھوٹا سا بچہ ایک طرف لگا ہوا بظاہر ایک حقیر چیز تنکے کی طرح بہہ رہی ہے لیکن دریا اس کوآرام سے کنارے لگا دیتا ہے جس طرح تنکا گلاس کے پاس آہستہ آہستہ تیر کر پہنچ جاتا ہے ۔ مگر ناممکن ہے یہ ترجمہ اس لیے کہ اقذی نہیں ہے اقذ ہے۔ اس لیے میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ اس میں ایک پہلو تو ہے لطف کا، آہستگی کا ، نرمی کا مگر وہ مضمون میں نہیںہے۔ اس کے برعکس اصل لفظ کیا ہے اقذفْ سے اقذفی ۔ اقذفْ کے متعلق جب میں نے تحقیق کی تھی تو وہاں ساری مشکل پڑی تھی جس کو مجھے حل کرنے میں وقت لگا ہے۔ اقذف بالکل برعکس مضمون بیان کرتا ہے۔ پھینکنا، زور سے مارنا، اس قوت سے مارنا کہ جس چیز پر پڑے اسے ٹکڑے ٹکڑے کردے اور پھر منفی پہلو یہ بھی ہیں کہ گالی دینا اور معصوم عورتوںپر الزام تراشی ، تیر چلانا کسی پر۔ اب یہ سارے پہلو جو ہیں اس نے مفسرین کو مشکل میںڈالا ہوا تھا پہلے ہی ۔ اب وہ جو یہاں تفسیر جو ہے وہ اثر انداز ہوئی ہے اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے کہ اب اصل تفسیر کیا بنے گی۔ مفسرین اس بات پر گھبراتے ہیں چنانچہ وہ زیادہ سے زیادہ پناہ اس بات میں ڈھونڈتے ہیں کہ قَذَفَ کا لفظ رکھنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اورقرآن کریم کی وہ آیات پیش کرتے ہیں۔ کہاں ہے؟ ہاں پانچ آیتیں۔ کہتے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ قذف میں اگرچہ بہت ہی سخت گیر منظر ہے ، کوئی پتھر مارا کسی کے اوپر، تیر چلادیا اور اس زور سے مارا کہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور پھینک دیا، گلے سے اتارا۔ لیکن بعض آیتوں سے ثابت ہے کہ اس میں آرام سے رکھ دینے کا مفہوم بھی ہے وہ آیات یہ ہیں۔ سورۃ الانبیائ:19۔ سب میں نہیں لیکن بعض میں ہے بل نقذف بالحق علی الباطل ۔ یہاں تو آرام سے رکھنے کا مضمون نہیں ہے بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں یعنی وہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے(سورۃ الانبیاء :19)۔ قل ان ربی یقذف بالحق علام الغیوب (سورۃ سبا:49) کہہ یقینا میرا ربّ یقذف بالحقوہ حق کے ساتھ مارتا ہے۔ اب یہاں بھی وہ مضمون ہے جو باطل پر مارنے والا ۔ لفظ باطل نہیں ہے مگر ۔ پھر سورہ سبا میںہے وقد کفروا بہ من قبل و یقذفون بالغیب من مکان بعید۔ دور کی بات کرنا، تیر چلانا، کسی چیز کو اٹھا کر دور پھینکنا یا دور کی بات سوچنا، ان معنوں میں ہے ۔ وقد کفروا بہ من قبل وہ اس سے پہلے انکار کر بیٹھے ہیں ویقذفون بالغیب اور وہ دور کے معاملات میں ٹامک ٹوئیاںمارتے ہیں، دور کے تیر چلارہے ہیں۔ شاید نشانے پر بیٹھ جائے ۔ جبکہ کوئی نشانے پر لگنے کا کوئی سوال نہیں۔ من مکان بعید اتنی دور ہیں کہ وہ اصل حق سے تو بہت ہی پیچھے ہٹے ہوئے ہیں۔ پھر آیا لایسمَّعون الی الملاء الاعلی و یُقْذَفُوْنَ من کل جانب۔ لا یسمعون الی الملاء الاعلی ملاء اعلیٰ کی بات تو یہ لو گ یہ شیاطین نہیں سن سکیں گے۔ ان کو استطاعت ہی نہیں ہے ۔ ویُقذفون من کل جانب وہ دھتکار کر ، دھکے دے دے کر پیچھے پھینک دیئے جائیںگے۔اب یہاں بھی کوئی واضح مضمون نظر نہیںآرہا۔ ولھم عذاب واصب۔ تو جو قذف کا معنے رکھنا ہے وہ کسی اور آیت سے اگر کوئی ہے تو میرے سامنے اس وقت نہیں مگر ایک بات قطعی ہے کہ وہ مضمون جو مادی چیزوں سے تعلق نہ رکھتا ہو اس میںتو قذف کا آپ معنی رکھنا بھی بیشک کرلیں لیکن یہاں لفظ قذف کسی مادی چیز پر استعمال ہو وہاں اٹھا پھینکنا، دور مارنا، اتار نا گلے سے اور جلدی سے کسی چیز کو پھینک دینا، یہ مضامین آتے ہیں۔ یہ مشکل تھی کہ ایک طرف میں یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ دلداری فرما رہا ہے اور اس کو تسلی دے رہا ہے یہ لفظ اقذ سے میںنے اندازہ لگایا اور فیہ کی تکرار سے اندازہ لگایا اور دوسری دفعہ یہ مضمون کہ اتنا سختی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو کہہ رہا ہے اس کو بچے کو پھینک۔ اس کو بھی پھینک، دور کردے۔ یہ کیا مطلب ہے۔
پس مفسرین میں سے امام رازی نے ایک توجیہہ یہ پیش کی ہے کہ چونکہ تیر چلانے کا مضمون ہے دور پھینکنا تو مراد یہ تھی کہ یہ بچہ تجھ سے دور جانے والا ہے ۔ اس لیے جب سمندر میںجائے گا تو اقذف کا امر اس پر ثابت آجائے گا ، صادق آجائے گا ۔ اسے اپنے سے دور پھینک دے۔مگر مشکل یہ ہے کہ سمندر والے معاملے یم یا جھیل یا دریائے نیل کے متعلق جیسے یم آتا ہے اس پہ توٹھیک ہے جو صندوق سامنے پڑا ہوا تھا اس میں بچے کو دے مارنے یا زور سے پھینک دینے کا استدلال کہاں سے نکلا پھر؟ وہ نہیں نکلتا۔ چنانچہ غور کے بعد جو میں مضمون سمجھا ہوں مجھے اس کی پوری تسلی ہے تو بعض دفعہ ایک غلطی ایک اور مشکل کو حل کا موجب بن جاتی ہے اور یہ ہے قرآن کریم کی حفاظت کا مضمون کہ اگر کوئی غلطی ہوتی بھی ہے تو اللہ مضمون کی حفاظت فرماتا ہے اس کے نیک نتائج بھی ظاہر کردیتا ہے۔ اب میںیہ سمجھ رہا ہوں اس کامضمون۔ جہاں تک ماں کا خوف دور کرنے کا تعلق ہے اس کے ساتھ ہی جڑا ہوا اسی آیت کا حصہ یہ ہے کہ فکر نہ کرنا وہ سمندر یا دریا کا پانی اسے باہر پھینک دے گا۔ ڈوبے گا نہیں یہ تسلی لفظوںنے دی ہے طرز بیان نے نہیں دی۔ طرز بیان میں کیوں ایسا طریق اختیار کیا گیا ہے میں سمجھتا ہوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت فوری خطرہ تھا اور فرعون کے لوگ تلاش کرتے ہوئے ان گھروں میں پہنچ رہے تھے جہاں کسی بچے کی خبر ہو۔ اللہ پہلے ہدایت دے بیٹھا تھا کہ کچھ دیر اس کو دودھ پلا اور اپنے پاس رکھ اورمانوس کر اور اس ہدایت کے تابع وہ بالکل بے فکر ہوگئی تھیں کہ کچھ نہیں ہوتا خدا نے جو مجھے فرمادیا ہے۔ اس وقت یہ خبریں کھلی ہوں گی، نکلی ہوں گی باہر، کہ فلاں جگہ ایک بچہ ہے۔ تو ہوسکتا ہے فرعون کے سپاہی اس کی تلاش میں نکلے ہوں اور فوری خطرہ درپیش ہو۔ تو ماں کو Panicبتانے کی خاطر کہ Panicکا موقع ہے۔ ہلکی بات نہ کرنا ، اب آہستہ روی نہ اختیار کرو تیزی سے اس کو اتارکے پھینک کے نکالنے کی کوشش کرو جلدی سے جلدی۔ Immediate،Emergency کا معاملہ ہے وہاں لفظ قذفوہ مضمون ادا کردیتا ہے۔ ورنہ یہ اس قسم کے موقع پر سختی کا کلام اچھا لگ ہی نہیں رہا۔ مگر اس مضمون کے ساتھ بعینہٖ فٹ بیٹھتا ہے او ریہ بتانا مقصود ہے کہ تو پھینک بیشک اس کو، حفاظت کا وعدہ میں کرتا ہوں لیکن دیر نہ کرنا۔ جلدی جلدی اس کو نکال اور اپنے سے دور بھیج۔ تویہ سارا مضمون ہے جو تفسیری پہلو پرکس حد تک اثر انداز ہوا اور اس کی وجوہات کیا تھیں۔ یہ میں نے آپ کے سامنے بات کھول دی ہے۔ تمام مفسرین اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں قذف میں جو سخت لفظ آتا ہے وہ کیوں ہے اور کیسے اس سے نپٹیں، کیسے اس کے بد اثرسے نجات پائیں۔ بعض کہتے ہیں کہ سخت گندی گالی دینا ، الزام تراشی ایسے ایسے لفظوں پر استعمال ہوتا ہے۔ اس موقعے پر کیامحل تھا تو وہی ہے دوری کا مفہوم جو حضرت امام رازی نے بیان کیا ہے مگر صرف دوری کا نہیں، جلدی ہے کسی چیز میں یعنی کہتے ہیں کہ بس پھینکنے کی کر ، اب اس کو رکھنے کے نخرے نہ کر اور جہاں تک انجام کا تعلق ہے اللہ کہتا ہے میں سنبھال لوں گا اس کی فکر نہ کر۔ پس یہ ایک چھوٹا سا سوال جو کسی نے کیا ہے میں اس کا ممنون ہوں بہت ہی ضروری تھا اور اس مضمون کی طرف میری رہنمائی نہ ہوتی اگر یہ سوال نہ کیا جاتا۔اب اچھا جی جو اصلی مضمون ہے اس کی طرف آئیں گے نا اب؟ ابھی وقت ہے ناں ہمارے پاس؟
تو اب روز مرہ یہ دستور بنتا جارہا ہے کہ پچھلا قرضہ اتارنے میں وقت لگ جاتا ہے اور الگ سرمایہ کاری کا وقت ہی نہیں رہتا ۔ ابھی بھی گھنٹے کے قریب ہوگیا ہے نا؟
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان فی خلق السموت والارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقنا عذاب النارO(آل عمران:192)
اس سے پہلی آیت پر میں نے کہا تھا اس الگ غور کرکے اس کے مطالب الگ بیان کروں گا کیونکہ جو روایت میں نے بیان کی تھی وہ اس ایک آیت کو الگ پیش کررہی ہے جبکہ بعض روایات ان آیات کو اکٹھا کرکے پیش کررہی ہیں اور ایک رات کا ایسا واقعہ بیان کرتی ہیں جس میں آنحضور ﷺ نے یہ ساری آیات تلاوت فرمائیں اور ان کے اثر سے آپ بہت خاص کیفیت میں تھے لیکن وہ روایات جو ہیں وہ دو طرح سے پہلی روایت سے مختلف ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت عائشہ کے گھر کا واقعہ بیان نہیں کرتیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلکہ دوسرے گھرکا واقعہ بیان کرتی ہیں اور دوسرا فرق بڑا یہ ہے کہ وہ ساری رات کے جاگنے کی بجائے صبح تہجد کے وقت جاگنے کا ذکر کرتی ہیں اور وہ روایت جو میں نے پیش کی تھی اس میں ساری رات کے جاگنے کا ذکر ہے۔ یہ آیات مجموعی طور پر بھی حضور اکرم ﷺکو بہت پیاری تھیں اور دل پر گہرا اثر کرنے والی تھیں اور ان پر بہت غور فرمایا کرتے تھے ۔ اس لیے اس بحث کو میں بعد میں اٹھائوں گا ۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس ایک آیت کا وہ مفہوم جو میں نے بیان کیا تھا وہ مضمون قرآن کے مضمون کے ربط کو ظاہر کرنے کیلئے ضروری تھا۔ اچانک وہ مخالفوں کی کوششیں، ان کی بدزبانیاں، ان کی الزام تراشیاں قرآن کریم کا یہ کہنا کہ دور تک تمہیں یہ تنگ کرتے چلے جائیںگے ، اس کے بعد یہ مضمون اچانک بیچ میں کیسے داخل ہوا۔ اور رسول کریمﷺ کا غیر معمولی شکر ادا کرنا اس سے میں یہ سمجھا تھا اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ لازماً آنحضرتﷺ نے اس میں خوشخبری پائی ہے ۔ حالانکہ یہی آیت دوسری سورتوں میں اختلاف والی مختلف جگہ قرآن کریم میں ملتی ہے ۔ بعض جگہ لفظوں میں اختلاف ہے مگر یہ لفظ اختلاف ان میں موجود ہے اور زمین و آسمان کے تعلق میں موجود ہے۔ ان آیات پر اتناغیر معمولی شکر کا اظہار جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایسا مغلوب کردے کہ وصال کے لمبے عرصے بعد تک جب کوئی پوچھتا ہے تو ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ خود بھی روتی جاتی تھیں ، اس قدر متاثر تھیں اس واقعہ سے کہ آنسو برداشت نہیں ہورہے تھے، روتے روتے یہ بات بیان کی کہ میںنے رسول اللہ ﷺکو دیکھا ساری رات ایسا کیا آپ نے۔ تو یہ ضرور اس آیت کا کوئی خاص مضمون ہے جو مضمون کے تسلسل میں فٹ بیٹھتا ہے وہاں اس کا تقاضہ ہے کہ اس کا وہ معنی کیا جائے جو پہلا مضمون جس معنے کے تقاضے کررہا ہے اور وہ یہی ہے کہ رات سے دن نکلیں گے اختلاف اللیل والنھار راتوں کے دن کے بدلنے میں کچھ نشانات ہیں ۔ مگر وہ نشانات کیا ہیں اور اس مضمون کا جو انسانوں کی تقدیریں بدلنے کا مضمون ہے اور قوموں کے عروج اور زوال کا مضمون ہے اس سے کیا تعلق ہے۔ اگلی آیات میرے نزدیک اس پر روشنی ڈال رہی ہیں اس لیے یہ مضمون آگے مسلسل جاری ہوگا لیکن اس سے پہلے کہ میں وہ بیان کروں میں آپ کے سامنے وہ رکھتا ہوں۔ میں نے تلاوت کرلی ہے نا اس کی؟ ہاں۔ جو مفسرین نے کہا یا لغت کے لحاظ سے کیا بحثیں اٹھائی گئی ہیں۔
قیام کی بحث ہے سب سے پہلے لغت میں، یذکرون اللہ قیاما۔ قیامًا سے کیا مرا دہے؟ سب جانتے ہیں۔ قیام کھڑے ہونے کو کہتے ہیں ضد قعد بیٹھنے کا ضد الٹ ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے استعمالات عربی لفظ قیام کے ہیں جو لغت محفوظ کرتی ہے۔ قام الامر: اعتزل۔ قام المائ: جمد۔ جب قام الامر کہتے ہیں تو مراد ہے معاملہ متوازن ہوگیا اور جب قام المائکہتے ہیں تو مطلب ہے وہ جم گیا یعنی وہ مائع چیز کے اوپر جب قام کہیں گے تو وہ کھڑی ہوگئی منجمد ہوگئی۔ قام علیہ الدابۃ اس پر وہ چوپایہ قامکھڑا ہوگیا۔ مطلب ہے کہ اس نے آگے چلنے سے انکار کردیا ، تھک گیا، بیٹھ گیا ۔ تو بظاہر وہ بیٹھتا ہے لیکن لفظ قاماستعمال ہوتا ہے علیہ کے معنے میں۔ اپنے سوار کے مقابل پر اس نے اس کے مقصد کے خلاف ایک رویہ اختیار کرلیا۔ قام الحق: ظھر و ثبت ۔ حق قائم ہوگیا یعنی وہ ظاہر ہوا اور مضبوطی سے قدم گاڑ لیے۔ قام بہ ظھرہ: اس کی کمر اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔ اب یہ بظاہر لگتا ہے کہ کمر نے اس کومضبوطی دی ہے لیکن مراد یہ ہے کہ کمر ٹوٹ گئی اس کی، کمر میں درد شروع ہوگئی۔ تو قام بہ جب بھی وہ کھڑا ہوتا ہے کمر بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے مراد یہ ہے کہ جہاںتکلیف ہو اس کا احساس جاگ اٹھتا ہے ورنہ عام طور پر آدمی کھڑا ہو تو کسی عضو بدن کی طرف اس کی توجہ نہیں جاتی۔ اگر پائوں میںتکلیف ہے ، موچ ہے تو پائوں نمایاں ہوکر سر تک اپنا پیغام پہنچارہا ہوتا ہے۔ تو قام بہ یہاںجوہے ظھرہ کے معنوں میںمرا دہے کہ کمر میںتکلیف ہے ۔ جب وہ اٹھتا ہے تو وہ تکلیف بھی اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اور ایسی تکلیفیں جو عام طور پر مجھے بھی اب علاج کیلئے پہنچ رہی ہیں ان میں یہ بہت علامت ملتی ہے کہ جب تک ہم بیٹھے رہیں وہ تکلیف خاموش بیٹھی رہتی ہے، جب کھڑے ہوں تو تکلیف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ تو عربی محاورے میں بھی یہ دلچسپ چیزیں ہیں۔(مطلب یہ نہیں کہ ہومیو پیتھک ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہرگز مراد نہیں)۔ اوجعہ قام المتاع بقضائ: تعدلت قیمتہ قام بامرٍ یہ تفاصیل ہیں جن کا اس مضمون سے کہیں کوئی باریک معنوں میں کہیں تعلق قائم کسی نے کرناہو تووہ غور کرے ہمارے نزدیک تو سیدھا سادھا مضمون اس میںواضح کھلا کھلا جو قیام کا مضمون ہے جو سب کوویسے ہی معلوم ہے۔ وہ ہے جویہاں پیش نظر ہییذکرون اللہ قیاما وہ اللہ کو قیام کی حالت میںیاد کرتے ہیں۔ ایک تو نماز کا نقشہ بھی ہے، نماز میںکھڑے ہو کر بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن یہاں نماز مراد نہیں ہے کیونکہ سوائے اس کے کہ بعض مفسرین نے نماز ان معنوں میںمراد لی ہے کہ نماز میںبعض دفعہ لیٹ کر بھی نماز پڑھنے کا حکم ہے، اجازت ہے تو قیاما و قعودا و علی جنوبھم وہ کھڑے ہوکر یاد کرتے ہیں اور بیٹھ کے یاد کرتے ہیںاور پہلوئوں پر یاد کرتے ہیں۔ انہوںنے وہ فقہی بحث اٹھالی ہے حالانکہ اس جگہ اس موقعہ پہ فقہی بحث کا کوئی تعلق نہیں اور بعض دوسرے مفسرین نے بڑی شدت سے اس کو ردّ کیا ہے کہ فقہی بحث اٹھانا بالکل مضمون نہیںہے یہاں۔مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد کیلئے تو ہر Posture جس حالت میں بھی انسان ہو وہ روک نہیں بنتا اس کا کوئی خاص انداز خدا کی راہ میں حائل نہیں ہوتا یاد الٰہی جاری رہتی ہے۔ لیکن آگے جاکر جب مفسرین کا غور میں بتائوں گا تو دیکھیں کتنا انہوں نے باریکیوں میںغور کرکے مختلف توجیہات پیش کی ہیں اس آیت کے ہر جزو کی۔ قعودا کے متعلق کہتے ہیں بیٹھنا، بیٹھنے کی جگہ ۔ مقعد صدق عند ملیک مقتدر قرآن کریم میں آتا ہے اور منہ رجل قعدۃ ایسا شخص جو سست رو ہے ، کاہل ہو، بیٹھا رہنے کا عادی ہو اس کو رجل قعدہ کہتے ہیں۔ گھات لگا کے بیٹھنے کیلئے بھی قعود کا لفظ استعمال آتا ہے جیسا کہ شیطان کہتا ہے لاقعدون لھم صراطک المستقیم اے خدا میں تیرے سیدھے رستے پر گھات لگا کر بیٹھا رہوں گا۔ اقعدنّ اس لیے آتا ہے کہ جب انتظار کرنا ہو دشمن کا تو لمبا ہوتا ہے اس لیے اور پھر چھپنا بھی ہوتا ہے تو بیٹھنا ہی اصل وہ انداز ہے جس میں کسی کی گھات لگائی جاسکتی ہے۔ پہلو میںلیٹ کر تو گھاتیںنہیںلگائیں جاتیں اور سارے جانور بھی جب گھات لگاتے ہیں تو بیٹھ جاتے ہیں۔ شیر بھی جب گھات لگاتا ہے توبیٹھ جاتا ہے ۔ تو یہ مضمون بھی اس میں ہے مگر اگر اس کوقرآن کریم کی اس آیت پر چسپاں کرناہو تو اسکے وسیع تر معنوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے اس سے کم میں نہیں۔ قیام کا مطلب ایک یہ بھی ہے کہ دشمن کے مقابل پر انسان ڈٹ جائے اور قعد کا ایک یہ مطلب بھی ہے کہ دشمن کا انتظار ہورہا ہے اور صبر کے ساتھ اس کیلئے گھات بنائی جارہی ہے ۔ تو یہ معنی ضرور ٹھیک بیٹھے گاپھر کہ خدا کے بندے ہر حالت میں خدا کو یاد کرتے ہیں۔ یہاں بیٹھنے سے مراد بیٹھنا اور قیام سے مراد ظاہرا ًکھڑے ہونانہیں بلکہ جب وہ مد مقابل کے سامنے نکلتے ہیں اور مقابلے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ کو یادکررہے ہوتے ہیں جب وہ قعود کی حالت میںہوں اس وقت بھی یعنی بیٹھے ہوئے گھاتیں لگائے ہوئے ہیں مگر یہ سب معنے دور کے ہیں۔اصل معنے جب میں بیان کروں گا جن کا پہلے مضمون سے تعلق ہے بہت زیادہ گہرے اور بہت زیادہ اہم ہیں مگر ابھی مفسرین کی باتیں پہلے میں آپ تک پہنچادوں پھر اس کے بعد اس کی باری آئے گی۔ مقاعد للسمع نجومیوں کی رصد گاہیں وہاں بھی کھڑے ہونے کے مقام کا ذکرنہیں ہے بلکہ بیٹھ کر ایک لمبے کائنات کے مطالعہ اور غور کا مضمون مقاعد کے ساتھ باندھا ہے ۔ وہاں بیٹھ رہنے کی جگہیں ہیں وہ صبر کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں اور بہت ہی اچھا مضمون ہے یہ۔ کیونکہ جورصد گاہوں میںبیٹھنا ہے بڑا صبر چاہتا ہے، مچھلی کا شکار بھی بڑا صبر چاہتا ہے مگر اس کا مقابلہ ہی کوئی نہیں سالہا سال تک یہ بیچارے دیکھنے والے آسمان پرنگاہیں لگائے بیٹھے ہیں شاید کوئی واقعہ ظہور میں آجائے اور بعض دفعہ سالہاسال کی محنت پھر آخر پھل لاتی ہے اور ایک آدمی جو اس وقت بیٹھاہوا ہو لیکن جاگا ہوا بیٹھا ہو وہ اس واقعہ کو پکڑ لیتا ہے پھر اس کے نا م سے وہ ستارے منسوب ہوجاتے ہیں جو اس نے دیکھے ہیں۔ تو قرآن کریم نے لفظ مقاعد للسمع میں ان لوگوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو ہروقت نظر رکھتے ہیں او پر کیاہورہا ہے اور وہ رصدگاہیں بنا بیٹھے ہیں یہ بھی مقاعد کا ایک مضمون ہے جو مفسرین زیر غور لائے ہیں۔ فکر کے متعلق پھر بحث ہے کہ فکر کیا چیز ہے؟ فکرۃمعدوم علم کو معلوم کے پیچھے چلانے کی طاقت کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کا کھوج لگاتے ہوئے اس کے رستے پر چلتے ہوئے علم کو اس سے باندھنا۔ یعنی فرضی باتیں نہیں بلکہ اگر علم ہے تو کوئی معلوم ضروری ہے اگر کوئی معلوم ہے تو اس سے اس علم کا تعلق کیا ہے کیا ثبوت ہے کہ معلوم اس علم سے ایک رشتہ رکھتا ہے۔ اس جستجو کو مفردات راغب کے نزدیک فکر کہتے ہیں۔ دوسرے تفکر کے معنے عقل کی نظرکے مطابق اس قوت کو گھمانے کے ہیں۔ کہتے ہیں تفکر میں ایک گھومنے کا مفہوم بھی ہے یعنی جگہ جگہ جستجو میں انسان نظر دوڑائے ؎ ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے ۔ ہاں یہ لفظ وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ فکرکے ساتھ باندھا ہے۔
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دین دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
تو یہ تفکر کا معنی جو لغت دیتی ہے بعینہٖ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر پر صادق آتا ہے ۔ کہتے ہیں یہ قوت انسان کو تو حاصل ہے حیوانو ں میں یہ نہیں ہے کہ وہ فکر کرکے دوڑائیں۔ یہ ہمارا دعویٰ ہے ہوسکتی ہے حیوانوں میںبھی ہو۔ بعض حیوانوں میں تو لگتا ہے کہ وہ فکر کو دوڑاتے ہیں چنانچہ ہاتھیوں سے متعلق یہ ثابت ہے،چیتوں کے انداز سے ثابت ہے کہ جو شکاری ان کے شکار کو نکلتا ہے اس کا وہ اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ چکر مارے گا کہاں پہنچے گا اور وہاں پہلے ہی پہنچ کر اس شاخ پر بیٹھ جاتے ہیں جس پر سے وہ اچانک جھپٹ کر اس کو اچک لیتے ہیں۔ تو یہ جواندازے لگانا اور فکر کو دوڑانا یہ کسی حد تک معمولی دائرے میں جانوروں میں بھی ملتا ہے۔ رجل فکیر یہ ق کے ساتھ نہیں ک کے ساتھ ہے مگر ہمارے ہاں تو عموماً ہر فقیر کو فکیر ہی پڑھا جاتا ہے۔ کثیرۃ الفکرۃ بہت غور کرنے والا انسان جو کثرت سے غور کرے باطل نقیض الحق کو کہتے ہیں جھوٹ کا Oppositeبرعکس باطل ہوتا ہے۔ ابطل کسی چیز کو خراب کرنا یا مٹادینا بھی کہتے ہیں۔ لیحق الحق و یبطل الباطل۔ یہاں یبطل الباطل کا معنی یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ وہ اس کو خراب کردیتا ہے ، ویران کردیتا ہے یا مٹادیتا ہے لیکن قطعیت سے اس کے جھوٹ کا پول کھول دینا بھی، اسے لازماً جھوٹا ثابت کردینا بھی، اس مضمون میں شامل ہے۔ ضروری نہیں مٹانا ہو یبطل الباطل جھوٹ کے ہر پہلو کو اس کے لحاظ سے اس کو بودہ اور ناقابل تسلیم ہونا ثابت کردیتا ہے۔ بطل بُطلاً و بطولا و بُطلانا۔ فسد او سقط حکمہ و ذھب ضیاعا و خسرا یعنی خراب ہوا اور اس کا حکم ساقط ہوگیا اور ضائع ہوگیا۔ بطل فی حدیثہ بطالۃ: ھزل ۔ اس نے بودی بات کہی ۔بے حقیقت، بے معنی اور کچی بات کہی۔ بَطُلَ بُطولۃ وبطالۃ: صار شجاعا۔ وہ بہادر ہوگیا۔ بَطَّلہ : عطَّلہ۔ کسی کو معطل کردیا اس کو بطَّل بھی کہتے ہیں ط کے ساتھ۔ ابطل جاء بالباطل: وہ باطل لایا۔الباطل ضِدُّ الحق یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ سبحان جو لفظ ہے وہ سبح سے نکلا ہواہے کثرت کے ساتھ تسبیح کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے ۔ اس کا مادہ ہے سبح سبحا و سباحۃ۔ السبح المر السریع فی الماء والھوائ۔ یعنی سبح کا لفظ تیرے کے معنوں میں پانی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ہوا کیلئے بھی۔ہوا پر تیرنے کو بھی سبح کہتے ہیں اور پانی پرتیرنے کو بھی سبح کہتے ہیں لیکن اس میںتیزی کا مضمون داخل ہے۔ آہستہ تیرنے والے کو نہیںکہیں گے بلکہ تیز تیرنے والے اور تیزی سے اڑنے والے کو سباح کہیں گے۔ کل فی فلک یسبحون میں قرآن کریم جوفرماتا ہے کہ ہر کائنات میں ہر چیز سبح کی حالت میں ہے۔ فالسّبحٰت سبحًا اور وہ اڑکر تیزی کے ساتھ اڑ کر اور غیر معمولی رفتار کے ساتھ فضا میںاڑتے ہوئے جو آئندہ زمانے میں ہوائی جہاز اورراکٹس وغیرہ کام کریں گے ان کی پیشگوئی میں السّبحٰت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے اس کا کیا تعلق بنے گا پھر۔ والتسبیح تنزیہ اللہ تعالیٰ و اصلہ المرُّ السریع فی عبادۃ اللہ تعالیٰ و جُعِلَ ذالک فی فعل الخیر۔ایک مفردات راغب نے یہ توجیہہ فرمائی ہے کہ تسبیح اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنے کو کہتے ہیں یعنی اس کا ہر عیب سے پاک ہونا اور اصل معنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میںتیزی سے گزرنا ہے۔ یہ لفظ نیک کام کے معنوں میںاستعمال کیا جاتا ہے مگر یہ جو تشریح ہے یہ دل کو مطمئن نہیںکرتی اگرچہ حضرت امام راغبؒ کا بہت بڑا مقام ہے مگرعبادت میں تیزی سے آگے بڑھنا خدا کو ہرقسم کے عیب سے پاک قرار دینے سے کیا مطابقت رکھتا ہے۔ یہ تشریح نہیں ہے۔ وحُمِل ذالک علی الا ستثناء و ھوان یقولَ اِن شاء اللہ و یدل علی ذالک قولہ ۔ تسبیح سے استثناء کے معنے بھی لیے گئے ہیں یعنی انشاء اللہ کہنا۔ اذا قسمو ا لیَصْرِمُنَّھَا مصبحین ولا یستثنون یہ آیت کا حوالہ دیا ہے۔دراصل میرے نزیک اگر کوئی اس کا تسبیح سے تعلق ہے ان معنوں میں ہے کہ انسان جو تیرتا ہے وہ یہ استطاعت رکھتا ہے کہ پانی کے اوپر سوار رہے اور اس سے الگ رہے اور اس کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دے اور ہر وہ ہستی جو ہر نیک و بد سے تعلق رکھتی ہے مگر اس کے اثر سے مرعوب نہیں ہوتی یا اس کے اثر سے مغلوب نہیںہوتی۔ یہ تسبیح کا معنی ہے جو میرے نزیک درست بیٹھتا ہے یا قریب ترین ہے اس مضمون سے جس مضمون میںہم لفظ تسبیح جانتے ہیں اور کرتے ہیں۔ فضا میں بھی پرندہ اڑتا ہے تو ہر وقت خطرہ ہے کہ وہ زمین پر جاپڑے لیکن وہ اس سے بالا ہے تو خطرات کو دعوت دیتے ہوئے خطرات کے رہتے ہوئے ان خطرات سے مغلوب نہ ہونا اور ان کاکوئی بداثر قبول نہ کرنا یہ لفظ تسبیح ہے جو سبح کے معنوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اب جب تفصیلی بحث میں آتے ہیںمفسرین ۔تو اکثر و بیشتر وہ قیام اور قعود اورجنوب کے اوپر بحثوں میں وقت خرچ کردیتے ہیں کہ قیام سے کیا مراد ہے؟ قعود سے کیا مراد ہے؟ بیٹھ کر عبادتیں ہیں یا ذکرالٰہی ہے؟ اور یہاں تک بحثوں کوباریک نظر سے دیکھا گیا ہے کہ یہ بحث اٹھائی ہے کہ جنوبھم کیوں ہے یذکرون اللہ قیاما و قعودا و جنوبھم کیوں فرمایا، محض مستریحًا کیوں نہ کہہ دیا آرام کی حالت میں۔ لیکن اس سے پھر آگے فقہی استنباط کئے گئے ہیں بعض نے یہاں تک کہا کہ ثابت ہواکہ اگر مریض ہو اور لیٹ کر نماز ضروری ہو تو لازم ہے کہ وہ پہلو کے بل پھر نماز پڑھے اور سیدھا لیٹا ہوا نماز نہ پڑھے۔ حالانکہ یہ ہرگز بات ثابت نہیں ہے ۔ ہر وہ حالت جس میں مریض اطمینان سے اللہ کو یاد کرسکتا ہے اگر اس کے پہلو دکھتے ہوں اور وہ پہلو کے بل ہو ہی نہ سکے تویہ استنباط تو پھر باکل غلط ثابت ہوگا اس کے حق میں ،برعکس معنے پیداکرے گا۔ اس لیے باریکیاں تو بہت ہیں لیکن اتنا عظیم الشان مضمون ان چھوٹے چھوٹے فقہی مسائل کی طرف منسوب کردینا یہ اس مضمون کی شان کے خلاف ہے۔ پھر یہ بحث اٹھائی گئی ہے کہ اور یہ کسی حد تک درست ہے۔ حضرت امام رازی کہتے ہیں کہ انسان جب غور وفکر کرتا ہے تو سیدھا اپنی گدی کے بل لیٹ کر عموماً ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس لیے پہلو پر کیا کرتا ہے۔ اورگدی کے بل لیٹنے سے نیند آجاتی ہے ، پہلوکے بل نہیںآتی۔
اب یہ پہلو یہ بات درست نہیں، کیونکہ اکثر لیٹنے والے پہلوکے بل ہی لیٹتے ہیں اور پہلو کے بل ہی نیند آتی ہے گدی کے بل تو شاذ ہی لوگوں کو آتی ہوگی اور بچوں کو تو باندھ کر لٹایا جاتا ہے سر ٹھیک کرنے کیلئے، ان کوتو آجاتی ہے مگر وہ پھر بھی بیچارے کوشش کرتے ہیں کروٹیں بدلنے کی اور آنحضرتﷺ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ آپ پہلو کے بل ہی آرام فرمایا کرتے تھے ۔ پہلو کے بل ہی سوتے تھے ، پہلو کے بل ہی سستاتے تھے اور دائیں پہلو کے بل خصوصیت سے۔ اس لیے وہ جو تفسیر ہے ایک ذوقی نقطہ ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ مضمون اس مضمون سے کیا تعلق رکھتا ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں اور یہ جو فرمایا ہے کہ لایتٍ نشانات ہیں ان لوگوں کیلئے جو۔کن لوگوں کیلئے نشانات ہیں؟ اب میں اس کی طرف آتا ہوں ان فی خلق السموت والارض واختلاف اللیل والنھار لاٰیتٍ لاولی الالباب یاد رکھو اگر تم عقل والے ہو ، اب ذکر والا مضمون بعد میں آئے گا پہلے عقل والا ہے تو یاد رکھنا کہ جو قومی حالات ہیں یہ از خود نہیںبدل جایا کرتے ، ان میں قوموں کا بہت بڑا دخل ہے ، ان کے کردار کابہت بڑادخل ہے، ان کے عزائم کا بہت بڑا دخل ہے۔ ان اللہ لایغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات کو خود نہیں بدلا کرتا حتی یغیروا مابانفسھم یہاں تک کہ وہ خود اپنے حالات کو تبدیل نہ کریں۔ پس کائنات میں جو تم دیکھ رہے ہو کہ رات اور دن بدل رہے ہیں یہ تو از خود بدلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں مگر تمہیںغور کرنا چاہیے اسکو اتنا آسان نہ سمجھو کہ قوم کی تقدیریں بھی اسی طرح از خود بدلیں گی۔ ان کیلئے تمہیںتفکر کی ضرورت ہے غور کرو اور یاد رکھو اور دوسری آیات سے فائدہ اٹھائو۔ پس اس آیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو میں نے بیان کی۔ میں یہ مضمون یقینی طور پر درست سمجھتا ہوں کہ مراد یہ ہے کہ غورکرو قومی حالات از خود نہیںبدلاکرتے۔ اس میںمحنت اور توجہ اور قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اور غور وفکر کے بغیر تمہیں طاقت ہی نصیب نہیں ہوسکتی اور آئندہ زمانوں میں بھی جو قومیں طاقتور ہوں گی وہ تدبر کے نتیجے میں ہوں گی۔ پس جو اہل اللہ ہیں ان پر دوہرا فرض ہے کہ وہ تدبر کریں کیونکہ باقی دنیا تو تدبر کرتی ہے اس وہم میںکہ حادثاتی دنیا ہے اتفاقاً پیدا ہوئی ہے جوباطل بھی ہوسکتی ہے اور بیکار بھی ہوسکتی ہے۔ وہ جو تدبر کرتی ہے بودی اور بے معنی سمجھتے ہوئے اس کو اتنی ٹھوس چیزیں ملتی ہیں کہ اپنے تدبر کے ماحاصل کے ذریعے وہ دنیا پر غیر معمولی غلبہ حاصل کرلیتی ہے اور طاقتور ہوجاتی ہے ان کا دن چڑھ جاتا ہے دنیاوی لحاظ سے ۔ عجیب بات ہے کہ وہ مومن جن کو خدا یہ مضمون کھول کر بیان کردے وہ تدبر چھوڑ دیں اور فکر چھوڑدیں ۔ ان کا تدبر اس لیے لازم ہے کہ وہ جب تدبر کریں گے تو کائنات کے رازجتنے بھی دریافت کریں گے وہاں خدا کے نشان ان کوملتے چلے جائیں گے اور ان کا تدبر اورتفکر ان کو حق سے دور نہیں پھینکے گا بلکہ حق کی طرف مائل کرے گا اور ہر سفر خدا کی جانب ہوگا۔ یہ ایک عمومی مضمون ہے جو ان آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اب میں پڑھ کر پھر اس کے بعض پہلوئوں کو نمایاںطور پر بیان کرتاہوں۔ الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم۔ پہلے ہے ان فی خلق السموت والارض واختلاف اللیل والنھار لاٰیتٍ لاولی الالباب ان کیلئے آیات ہیں بہت بڑے بڑے نشانات ہیں اس میں۔ کن کیلئے کن کا ذکر ہورہا ہے۔ الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم ان کا ذکر نہیںہورہا جو دنیا کے سائنسدان ہیں کیونکہ ان کیلئے تو فائدے تو ہیںآیات نہیںہیں۔ وہ دیکھتے ہیں اعجازی کیفیتوں کو مگر اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ تو اولو الالباب کی تعریف یہ نہیںہے کہ عام سائنسدان۔ وہ بھی تو دن رات غور کرتے ہیں اور فائدے اٹھاتے ہیں بلکہ اولی الالباب سے قرآنی تعریف میںیہ مراد ہے کہ وہ اپنی سوچوں کو ذکر الٰہی کے تابع رکھتے ہیں اور ان کی تمام سوچیں ذکر الٰہی سے روشن رہتی ہیں، ان کاجستجو کا ہر قدم انہیںنئے نئے معارف بھی عطا کرتا ہے،نئے نئے راز بھی عطا کرتا ہے مگر ہر راز خدا کے قریب تر کررہا ہے خدا سے دور نہیں کررہا۔ یہ پیغام ہے مسلمانوں کو کہ تم نے آئندہ اگر اپنی تقدیر بدلنی ہے اور دوسروں پر غالب آنا ہے تو تمہیں یہ فوقیت حاصل ہے ان پر۔ کہ ان کا دنیا کا تدبر ذکر الٰہی کے بغیر ہے اس لیے وہ سفر علم کے باوجود اندھیروں کا سفر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات باطل ہے اس لیے باطل سمجھ کرجو تدبر کرے گا وہ بنی نوع انسان کیلئے نقصان کاموجب بنے گا کیونکہ باطل بیکارفضول چیز،ضائع بھی ہوجائے تو فرق کیا پڑتا ہے۔ جب بے مقصد ہے تو ایک قوم دوسری قوم کو ہلاک کردے ، صفحۂ ہستی سے مٹادے تو کیا فرق پڑتاہے ۔ تو ایسے فکر کرنے والے جتنا بھی زیادہ فکرکرتے ہیں وہ دنیا کیلئے ایک طرف سے فائدہ کاموجب بن رہے ہیں دوسری طرف ان کے ہاتھوں دنیا کی ہلاکت کے سامان پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے ذکرضروری ہے اور وہ محققین تو کہلاسکتے ہیں اولی الالباب نہیںکہلاسکتے۔ اولی الالباب کی شرط ہے کہ اللہ کی یاد ہو۔ اب آپ یہ دیکھ لیں کتنا عظیم مضمون ہے جس کو آج کے زمانے کی تاریخ ہر باریکی کے ساتھ سچا ثابت کررہی ہے ۔ بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوئے بڑی بڑی ایجادات ہوئیںاور ان ایجادات سے فائدے اٹھائے گئے مگر مادی لیکن وہ ایجادات ان لوگوں کو خداکے قریب نہ لے گئیں بلکہ ان کی ترقی کا ہر قدم خدا سے دوری کا قدم ہے اور بنی نوع انسان کیلئے خطرات کا قدم ہے۔ یہ تمام ایجادیں جو ایک وقت تک بنی نوع انسان کے فائدے میں استعمال ہوئیں بالآخر ایسے خوفناک نتائج پر منتج ہوتی ہیں کہ تمام ہلاکتیں ان ایجادات سے پھوٹتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ غیر معمولی عالمی تباہیاں جن کا کوئی تصور بھی پہلے انسان نہیں کرسکتا تھا وہ وجود میںنہ آتیں۔ یہ باطل کے لفظ میں وارننگ موجود ہے اگر اولو الالباب وہ نہیں ہو جو قرآن بیان کررہا ہے یعنی ذکر الٰہی کے ساتھ تمہاری عقلوں کا تعلق نہیں ہے تو پھر تم مارے جائو گے کیونکہ پھر تمہیں باطل ہی باطل دکھائی دے گا اورباطل کے نتیجے میں فساد ہے۔ بطلکا معنی بھی ایک فساد کا ہے ان ترقیات سے ضرور فسادات پھیلیںگے بنی نوع انسان کی ہلاکت کے سامان ہوں گے یہ بودی باتیں ہیں جو رہ نہیں سکتیں۔ یہ بودا کپڑا جس طرح ادھر سے جوڑوتو ادھر سے پھٹ جاتا ہے۔ اس طرح ان کی ترقیات جو ہیں ان کے فوائد کو بودا بنا کر دکھائیں گی اوروقتاً فوقتاً ان کا بودا پن اور ان کے فساد کی اندرونی کیفیات دنیا کو ہلاکت میں مبتلاء کریں گی۔ یہ ایک منفی رو ہے اس مضمون کی، برعکس مضمون کی جو ساتھ ساتھ جاری ہے اور مسلسل جاری ہے تو اس کا علاج کرنا تھا۔ ذکر الٰہی کرنے والے ان خدا کی کائنات پر غور کرنے والوںنے آغاز میں مسلمانوں نے یہی سبق لیا اور ایک لمبا عرصہ تک مسلمان علماء اس آیت کے مضمون کی متابعت کرتے ہوئے صرف قرآن پر غور نہیں کررہے تھے بلکہ قرآن کی روشنی میں خداتعالیٰ کی کائنات پر بھی غور کرتے رہے اور ان کے غور کے نتیجے میں ایمان ترقی کیا ہے اور مادہ پرستی ان پر غالب نہیں آئی۔ بڑے بڑے مفکرین پید اہوئے، بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوئے مگر وہ دیندار رہے اور ان کے سائنسی مشاہدات نے ان کوبے دین نہ بنایا لیکن جب ان کے غور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رلیسنس ہوا ہے یہاں۔ تو وہ غور ذکر الٰہی سے خالی ہوگیا اور اس کے نتیجے میں پھر جو نقصان پہنچے اور کچھ پہنچ رہے ہیں یہ انہیں کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں۔ اس غور کو ذکر الٰہی سے کاٹنے میں سب سے زیادہ ظالمانہ کردار اس زمانے کے چرچ نے ادا کیاہے کیونکہ اس زمانے کا چرچ یہ کہتا تھا کہ جوسچائیاںتم سچائیوںکے طور پر پیش کررہے ہو وہ بائبل کو جھٹلا رہی ہے اور بائبل سے تضاد رکھتی ہیں۔ گویا تم یہ اعلان کررہے ہو اگر بائبل خدا کا کلام ہے تو تم یہ اعلان کررہے ہو کہ دنیا تو سچی ہے بائبل باطل ہے اور اس کی ہم تمہیں اجازت نہیںدے سکتے۔ تو وہ کتاب جس میں انسانوں نے ایسی خامیاں پیدا کردی تھیںکہ مفکر اس کو باطل کہے اس کتاب کو ۔اور کائنات کو سچا اس کے مقابل پر ٹھہرائے یہ تضاد تھا جو لمبا عرصہ چل نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ ان کے مفکرین چرچ کی مخالفت کی وجہ سے دن بہ دن ذکر الٰہی سے دور ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ کلیتہً سیکولرازم کا دور آگیا انہوں نے کہا ہمیںچرچ سے یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ہم توسچائی کے پیروکار ہیں اور سچائی خدا کے بغیر ڈھونڈنے کی کوشش کی یعنی حق کو حق کے بغیر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مادی پہلو تو ان کو ملتا رہا بائیں آنکھ ان کی روشن سے روشن تر ہوتی چلی گئی زمین کے نیچے کے جو مدفون راز تھے وہ بھی پڑھنے لگ گئی مگر دائیں آنکھ اندھی رہی ۔ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو یاد رکھو کہ خدا کے نزدیک اولوالالباب وہی ہیں جو ذکر الٰہی کے ساتھ غور کرتے ہیں۔ ان کا ہر قدم فلاح کا قدم ہے وہ کبھی بھی یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ یہ باتیں اتفاقی حادثات کا نتیجہ ہیںاور یہ کرو گے تو وہ تبدیلی آئے گی وہ رات دن میںبدلے گی۔ یہ مضمون ہے۔
پس یہ مضمون آج بھی سچا ہے ، آج بھی لازم ہے وہ احمدی جن کو خداتعالیٰ نے اولوا الالباب قرار دیا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کے سچے اور گہرے مفہوم میں پیرو کہلاتے ہیں اور واقعتاہیں۔ پیرو تو بے شمار ہیں مگر گہرے معنوں میںاورمعنے کی لطافتوں میںاترتے ہوئے میرے نزدیک جیسی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت حضرت رسول اللہﷺ کی پیرو ہے کوئی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تو یہ آیت اگر ایک وقت تک بھلا دی گئی تو اب وقت ہے کہ اگر ہم نے رات کو دن میں تبدیل کرناہے، محمد رسول اللہ ﷺکا سورج دنیا پر چڑھانا ہے تو محنت کرنی پڑے گی یہ نہ سمجھیں اس آیت کا پیغام کہ اختلاف اللیل والنھار تو ہوتا ہی رہتا ہے، ہوجائے گا۔ اللہ فرماتا ہے وارننگ دے رہا ہے اور رسول کریم ﷺ(وہ فکر والی جوروایت ہے۔ ۔۔۔۔) ایک حدیث میںآتا ہے کہ یہ جو آیت ہے اس پر فکر کرنا لازم ہے اور ضرور فکر کیاکرو اس پر۔ کہ یفکرون کا کیامطلب ہے۔ (وہ آیت نکال دیں) یہ اس مضمون سے بہت گہرا تعلق رکھتی ہے جو میں بیان کررہا ہوں یعنی آنحضور ﷺان باتوں کو محض ایک سرسری لطف کی باتیں نہیںسمجھا کرتے تھے کہ رات کو اٹھے دیکھا بڑا لطف آیا۔ یہ لطف تو سارے اٹھاتے ہیں ۔چاندنی کی لطف بھی سارے اٹھاتے ہیں مگر اولوا الالباب نہیں ہیں اور مذکر نہیں ہیں اور ذکر کرنے والے نہیں ہیں اور مجسم ذکر نہیںہیں۔جب رسول اللہﷺ دیکھتے ہیں توپیغام دیتے ہیں قوم کو کہ اس میں بہت سی غور کی باتیں ہیں اگر تم نے غور نہ کیا تو تم اس آیت کے مضمون کا حق ادا نہیں کرو گے ، اس کو سمجھنے کا حق ادا نہیں کرو گے، اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔لائیں جی! مل گئی؟ نہیں نہیں وہ دوسری۔۔۔۔۔ اسی آیت کے حوالے سے جو واضح ہدایت ہے کہ فکر کیا کرو وہ بڑا دلچسپ بہت ہی پیارا فقرہ ہے اس میں بہت سے مطالب آتے ہیں۔ ہاں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوع روایت ہے یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے جو مرفوع ہے آپ تک پہنچتی ہے اور آگے رسول اللہﷺ تک پہنچاتی ہیں ۔ آپ نے فرمایایعنی اگرچہ یہ نہیں فرمایا کہ قال لیکن مرفوع ہے کیونکہ مضمون لازماً رسول اللہﷺ کا ارشاد کردہ بیان فرمارہی ہیں۔ ویل لمن قرأ ھذہ الایۃ ولم یتفکر فیھا کہتی ہیںہلاکت ہے اس پر جو یہ آیت پڑھے جو فکر کی دعوت دے رہی ہے اور اس آیت پر بھی غور نہ کرے۔ بہت ہی پیارا کلام ہے مطلب ہے کہ یہ کہہ دینا کہ فکر کرتے ہیں یہ پڑھ لینا کافی نہیں، یہ فکر سب سے پہلے اس آیت سے شروع ہوگا اور ہلاک ہوگیا وہ شخص جو آیت تو پڑھتا ہے مگر اس آیت پر بھی غور نہیں کرتا اس نے باقی آیات پر کیا غور کرنا ہے۔ تو فکر کا کیا معنی ہے اور اس کے کیا نتائج نکلیں گے یہ بہت بڑا عظیم خوشخبری کا پیغام تھا پہلی آیت میںبطور خاص نمایاں طور پر دیا گیامگر وہ تمام آیات جو اسی کی تشریح کررہی ہیں ان میں بھی ہے اور شکر کے مضمون میں ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا صرف ایک آیت کا ذکرنہیں فرمایا بلکہ ان سب آیات کا ذکر فرماکے یہ بیان فرمایا کہ ان آیات کے نتیجے میں میں بیحد خداتعالیٰ کے احسانات کے نیچے دب گیا ہوں، مجھ پہ لازم ہوگیا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کروں۔ پس شکر کا حق تفکر سے ہوگا اور جیسا کہ میں نے بیان کیاہے اس تفکر کے متعلق میں مختصر۔ اب زیادہ وقت نہیں مگر میں مختصراً ایک دو باتیں بیان کرنا چاہتاہوں۔ میں سائنسدانوں کو بڑی دیر سے دعوت دے رہا ہوں کہ جس طرح ان لوگوں نے اپنے علوم کو اور اپنی تحقیقات کو خد اسے دوری کا ذریعہ بنایا ہے اس کے برعکس اللہ اپنے مومن بندوں سے غورو فکر کرنے والوں سے اہل ذکر سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ قطعیت کے ساتھ اس کا برعکس مضمون ثابت کریں اور ان کی ہر جدوجہد کا ماحصل آخر پہ یہ ہو ربنا ماخلقت ھذا باطلا اے ہمارے ربّ تو نے اس کائنات کو باطل نہیں پیدا فرمایا ۔ غور اور تفکر اور تدبر کے بعد یہ اعلان جو ہے یہ ایک مسلسل جاری اعلان ہے اس لیے بعض مفسرین نے جب یہ مشکل دیکھی تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہاں ’’کہتے ہیں یقولون‘‘ کا مضمون محذوف ہے مگر بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں یہ بات نہیں یہ زبان حال کا مضمون ہے وہ اس تدبر کے دوران جہاں جہاں بھی فکرکو دوڑائیں گے ہر جگہ ان کو یہی، ان کے دل کی آوازیہ ہوگی ربنا ماخلقت ھذا باطلا۔ اب اس بات کو سائنسدان زیادہ یقینی صورت ، زیادہ قطعی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں اگروہ اولوالالباب ہوں، اگر وہ اللہ کو یاد کرنے والے ہوں۔قیاما وقعودا وعلی جنوبھم تو ان سائنسدانوں میں سے اتفاقاً بعض غیروں میںپیدا ہونے لگ گئے ہیں اور اس کی وجہ سے مجھے بڑی Panic ہے کہ عجیب ظلم ہے کہ قرآن جس کو سکھائے وہ ان باتوں کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ایک غفلت کی دوڑ میں دنیا کی عظمتیں بھی کھودے اور دین کی عظمتیں بھی کھودے اور جب ازسر نو دور آئے کہ خدا کے وہ بندے پیدا ہوں جنہوں نے اس سیادت کو ان کے ہاتھوں سے لے کر اسلام کے ہاتھوں میں تھمانا ہے اس وقت بھی دوسرے پہل کرجائیں۔
پس سائنس کی جو مختلف میں باتیں کرتاہوں یہ درست ہے کہ چونکہ سائنسدان نہیں ہوں اس لیے اس میں خامیاں بھی ہوتی ہوں گی مگر میں نمونے دکھانا چاہتا ہوںکہ یہ دور ہے جو قرآن کی خدمت کرنا چاہتا ہے اس کیلئے لازم ہے کہ سائنس کا مطالعہ قرآن کے ساتھ تعلق میں کرے اور co-relationship کا مضمون ہے جس کی طرف میں بڑی دیر سے متوجہ کررہا ہوں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے لمبے عرصہ تقریباً اپنی تمام زندگی طلباء کے امور کا انچارج بنائے رکھا حالانکہ میں ناظر تعلیم نہیں تھا مگر ان کی سٹوڈنٹ کے ایسوسی ایشن کا Pattern بنایا ہوا تھا اور پہلے دن سے ہی میں اپنے طلباء کو اپنے ساتھی طلباء کو یہی کہا کرتا تھا کہ خدا کیلئے انقلاب پیدا کرو اپنی سوچوں میں جو مضمون بھی تم پڑھ رہے ہو وہ ہر مضمون خادم ہے اوران آیات کے حوالے سے بتاتا رہا ہوں کہ خدا نے یقین دلایا ہے تمہیں، جن کو یقین نہیں تھا کہ یہ باطل ہے کہ نہیں ہے انہوں نے جب غور کیا توباطل نہیں دیکھا لیکن مادی حد تک ان کا نتیجہ پہنچا اور ٹھہر گیا۔ قرآن فرمارہا ہے کہ روحانی لحاظ سے بھی یہ نتیجہ زیادہ قوت کے ساتھ ظاہر ہوگااگر تم جستجو کرو ۔ تو پھر کیوں Interelate نہیں کرتے۔ پس آج میںپھر اس پیغا م کو دہرارہا ہوں کہ اس آیت پر تفکر اگر آپ نے نہ کیا اور وہ نتیجہ نہ نکالا جو میں کھول کھول کر آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں تو رسول اللہﷺ کے ارشادکے مطابق ایسا شخص ہلاک ہوگیا ، اس نے فائدہ کچھ نہیںاٹھایا۔ابھی ہم نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے صرف روحانی دینی پہلو سے نہیں بلکہ مادی پہلوسے بھی۔ تمام سائنس کا رخ خدا کی طرف پھیرنا ہے اور قطعیت سے ثابت کرنا ہے کہ ہر انگلی خدا کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نظم کا مطالعہ کریں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ
چشم مست ہر حسیں ہر د م دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسو ئِ خمدار کا
کیا عجب تونے ہر ایک ذرّے میںرکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا
وہ عجیب مضمون ہے مسلسل یہی انگلی اٹھا رہی ہے اور اسی آیت کی تفسیر معلوم ہوتا ہے وہ کلام اور پھربھی ابھی تک احمدی سائنسدان سوئے پڑے ہیں سوائے چند ایک کے۔ مگر جب وہ جاگیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ ان کا ذکرکا پہلو توخالی پڑا ہے۔ قرآن تو مجسم ذکر ہے ، قرآن کے علم کے بغیر وہ کیسے اہل ذکر بنیں گے اور اگر اہل ذکر بنے بغیر غور کریں گے تو غلطیاں کھائیں گے اور ٹھوکر پہ ٹھوکر کھائیں گے ۔ تولازم ہے ان کیلئے کہ قرآن کا علم بھی ساتھ ساتھ حاصل کریں اور اللہ کی محبت دل میں پید اکریں اور اس کی یاد رکھیں پھر ان کے نتائج درست ہوں گے۔ جو سائنسدان اس کے بغیر کوشش کرتے ہیں مجھے کئی دفعہ اپنی کوششوں کا ماحاصل بھجوایا کرتے ہیںجو نتیجہ نکالا ہے اس سے مجھے جہاں بھی سقم نظر آیا یہی سقم نظر آیا۔ تو ان بیچاروں کو قرآن کی تعلیم کا علم نہیں اور خدمت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور co-relationship میں غلطی کرجاتے ہیں۔ پس لازم ہے احمدی محققین طلباء کیلئے کہ قرآن کا علم بھی ساتھ ساتھ حاصل کریں اور ذاتی گہرے مطالعہ سے ان آیات پر ٹھہر کر غور کیا کریں جو ان کو معلوم ہو کہ قدرت سے تعلق رکھنے والی آیات ہیں پھر انشاء اللہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان کو بہت نعمتیں ملیں گی۔ جب آغازِ جوانی ہی سے میں اپنے قرآن کریم پہ ایسی آیات پر نشان لگایا کرتا تھا اوریا صفحے موڑا کرتا تھا کیونکہ مطالعہ کے تسلسل میںٹھہر کر الگ نوٹ لکھنا میرے ذاتی مزاج کے خلاف تھا اور لطف منقطع ہوجاتا تھا ۔ تو جیسے وہ کہتے ہیں بعض لوگ پانی پیو پیاس لگی ہو وہ کہتے ہیں ڈیک نہ ٹوٹے ایک دفعہ ڈیک ٹوٹ گئی تو مزا نہیں رہتا پانی کا۔ تو اس لیے میں یہ حرکت کرتا تھابعد میں قرآن کریم میںجگہ جگہ نشانات اور یہ۔ مگر وہ نشانات جو تھے وہ آئندہ میرے لئے نشانِ منزل بن گئے کیونکہ پھر میں نے جو جو جب بھی مطالعہ کیا آئندہ سائنسی امور کا تو وہ نشان ہمیشہ صحیح طرف لے جانے والے تھے۔ ایک دفعہ بھی اس کے برعکس مضمون میں نے نہیںدیکھا۔ تو قرآن کا مطالعہ کریں اور وہاں سے پہلے رہنمایاںحاصل کریں پھر اپنے علوم کے دائرے میں اس تحقیق کو جو دنیا نے کی ہے اور آپ بھی کررہے ہیں ان مضامین کا تعلق باندھیں اور بتائیں کہ یہ روشنی پڑتی ہے ۔ اس ضمن میں وقف کے پیغام مجھے آنے شروع ہوگئے ہیں جب میںنے فراعین مصر کے تعلق میں یہ کہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ ایک نئی واقفین نوکی کھیپ تیار ہو جن کو مختلف مضامین کیلئے Specialist بنایا جائے تاکہ اس صدی کے نصف تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہم ان تمام علوم پر قبضہ کرلیں یہ ایک ایسا قبضہ ہے جو ہماری دسترس میں موجودہے ، پہلے مسلمانوں میں سے کسی نے یہ کوشش ہی نہیں کی ، جدوجہدنہیں کی، نہ ان میںیہ اتنے قربانی کرنے والے موجود ہیںجو اپنی ساری زندگیاںدین کی خاطر وقف کریں اور دنیاوی فوائد سے آنکھیں پھیرلیںیا منہ پھیر لیں۔
پس میں اس کو پھر تکرار سے کہتا ہوںجن لوگوں کو آپ نے یہ علوم سکھانے ہیں ۔ آفتاب خان صاحب! آپ کیوں چھپ گئے ہیں اس موقعہ پر، سامنے آجائیں اب۔ ان کیلئے قرآنی تعلیم کا انتظام لازم ہوگا۔۔۔۔۔ وہ تمام ایسے محققین کوجن کو آپ زبانیں سکھائیں گے ، پرانی تہذیبوں کے علوم سکھائیں گے او رماہرین کے ساتھ ان کو معلق کریں گے، ان کا ساتھ ساتھ نظام جماعت کی طرف سے تعلیم قرآن کا انتظام ضروری ہے۔ ٹھوس طریق پر وہ تعلیم ہو محض سرسری ترجمے پر نہ ہو۔ ان کو لازماً آپ کو عربی گرامر بھی سکھانی پڑے گی ور نہ دیکھیں گرامر بہت باریک باریک نکات ادھر ادھر ذرا سے نظر انداز ہوجائیں تووہ ترجمے پر اثر پڑ جاتا ہے۔ تو گرامر بھی سکھائیں اور تفاسیر جو جماعت احمدیہ کی ہیں وہ بھی ان کو سکھائیں لیکن یہ دکھانا ضروری ہے کہ قرآن کی پیروی قطعیت کے ساتھ کریں، تفاسیر کی پیروی لازم نہیںہے۔ بڑے سے بڑا مفسر بھی غلطیاں کھاجاتا ہے اس لیے یہ حوالہ کہ میں نے کیا کہا ہے یا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا فرمایا ہے یا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کہا۔ یہ حوالے تقلید پیدا کرتے ہیں اچھی چیز ہے نیکوں کی تقلیدہے۔ لیکن تحقیق میں تقلید ہر دفعہ ممکن نہیں رہتی۔ بعض جگہ ضرور بعض قدم دوسری طرف بھی اٹھتے ہیں اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ نے ہدایت حاصل کرنی ہے تو جدھر آپ کو سچ کی انگلی اشارہ کرتی ہوئی دکھائی دے اسی طرف جائیں اور باقیوں کے کہے کا معاملہ خدا پر چھوڑ یں۔ وہ بھی متقی لوگ ہیں اور اگر ان سے کوئی تقویٰ کی حالت میں کوئی بشری غلطی ہوئی ہے تو آپ اس کے دیندار ہی نہیںہیں۔آپ نے تقویٰ سے وفا نہیںچھوڑنی ، سچ جہاں کہے گا وہاں جائیں تو پھر قرآن کا آپ سے وعدہ ہے کہ ذالک الکتاب لاریب فیہ۔ ھدًی للمتقین۔ اس کتاب کامطالعہ اگر تقویٰ سے کریں گے تو ہم اعلان کرتے ہیں کہ یہ کتاب لازماً ہدایت کی طرف لے کے جائے گی لیکن تقویٰ کے ساتھ اس مضمون کو سمجھنا یہ سب مفسرین پر برابر چسپاں ہورہا ہے مگردوسرا مضمون اگر پوری طرح روشن نہ ہو تو پھر غلطیوں کے امکان ہوجاتے ہیں تو وہ مضمون ان کی تقویٰ کے ابہام کی طرف اشارہ نہیں کرتا ۔ وہ مضمون اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تقویٰ نے قرآن سے تو ہدایت پانے کی توفیق بخشی مگر وہ دوسرے مضمون جو دنیا کے تھے ان سے لاعلمی کے نتیجے میںیانسبتاً کم علم کے نتیجے میںجب co-relationship کیا۔ تو نتیجہ درست نہیں نکلایہ ممکن ہے اور تقویٰ کے ہوتے ہوئے بھی یہ ممکن ہے۔ کیونکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ available fact سے جو نتیجہ نکل سکتا ہے وہی نکالو۔ اگر Factsبدلیں گے تو وہی تقویٰ اور رستوں کی طرف رہنمائی کرجائے گا تو تقویٰ ہے جو اصل ہے جس کو پکڑے رہنا لازم ہے۔ اس لیے وقتی اختلاف آپ کا اورسچائی کا اگر ہوجاتا ہے اتفاق سے بھی قابل معافی ہے کیونکہ آپ نے نتیجے بہرحال تقویٰ کے ساتھ نکالے ہیں، ان واقعات پر نکالے ہیں جو آپ کے سامنے ہیں ۔ وقت بدلیں گے تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو توفیق دے دے گا جو آپ کی غلطیوں کو ٹھیک کردیں گے لیکن ہدایت کا رستہ یہی ہے۔ایک منٹ بیٹھ جائیں۔ یہ ہمارے جو دوست ہیں بڑے نیک بزرگ آدمی ہیں لیکن نیکی زیادہ ہوجاتی ہے بعض دفعہ۔ نیکی بہت جب غلبہ کرجاتی ہے تو پھر دماغ پر اثر پڑ جاتا ہے ۔ تو میں ان کو سنبھالتا ہوں پھر پیار سے۔ دیکھا۔ اب چونکہ یہ نیک ہیں اس لیے میری بات مان گئے ہیں ۔۔۔۔ ورنہ محض ویسے کوئی پاگل پن کا دورہ ہوتا تو اس نے بغاوت سے یہ کہنا تھا خبردار مجھ سے کیا کہہ رہے ہیں۔ جزاک اللہ ۔ السلام علیکم۔ اچھا جی اب اسی پر ختم کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کچھ توجہ بھی فرمائیں ان کی طرف ٹھیک ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ25؍رمضان بمطابق 26؍فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
انّ فی خلق السموت والارض۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من انصار۔ (آل عمران: 191تا193)
اس آیت کریمہ پردرس جاری تھا کل الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السموت والارض۔اکثر باتیں جو میں نے بیان کرنی تھیں وہ تو کرچکا تھا لیکن دو باتیں ایسی رہتی ہیںجن کا ذکر ضروری ہے۔ ایک اور امکانی تفسیر اس کی موجود ہے جو بعض لوگوں کے ذہن میں خصوصاً جوپاکستانی احمدی ہیں پڑھتے رہتے ہیں ان کے ذہن میںابھرتی ہے اور جب تفسیربیان کی جاتی ہے تواس قسم کے خیالات ویسے بھی دماغ میںپیدا ہوسکتے ہیں ۔ وہ درست ہیں یانہیں یہ ضروری ہے کہ میں اس بات کا ذکر کرکے اصلا ح کروں۔ دوسرا ہے ’’باطل‘‘ سے کیا مراد ہے اور فقنا عذاب النارکا اس مضمون سے کیا تعلق ہے۔ اس ضمن میں جو خیال مَیں بتارہا ہوں میں نے بیان کیا تھا کہ ان آیات پرغور کرنے کاجو حکم ہے قرآن کریم میں یعنی حکم نہیںبیان ہے کہ وہ غور کرتے رہتے ہیں اور فکر کرتے ہیں۔آنحضرت ﷺ نے اس کو تاکیدی حکم بنادیا اور فرمایا ’’ہلاکت ہے ان پر جو اس پر غور نہیںکرتے اور فکر نہیںکرتے‘‘۔ میں نے اس سلسلے میں روحانی تعلق کو سائنسی تحقیق کے ساتھ جوڑا اور بیان کیا کہ جب تک دنیاوی تحقیق اور سائنسی تحقیق کو ذکر الٰہی سے متاثر ہوتے ہوئے اس کے اثر کے تابع آگے نہ بڑھائیں،انسان کا قدم خدا کی طرف اٹھنے کی بجائے غیر اللہ کی طرف اٹھ سکتا ہے اور جس مقصد کیلئے خداتعالیٰ نے عقل عطا فرمائی ہے ، اس مقصد سے انسان پرے ہٹ جاتا ہے یعنی عقل ماری جاتی ہے ۔تو اولی الالبابکی تعریف میں اولوالالبابکے ساتھ اولوالذکر ہونا لازم ہوگیا۔حقیقت میں ذکر کے بغیر جو تحقیق بھی ہو وہ گمراہی کی طرف لے جائے گی۔ مگر حقیقت کی طرف نہیں لے کے جائے گی۔ اور یہ بات جو ہے اس کا میں نے ذکر کیاتھا پہلے مضمون سے تعلق ہے کہ کائنات پر غور کرو کہ زمین وآسمان میں بہت سے نشان ہیں اور ایک یہ بھی ہے کہ راتوں سے دن نکلتے ہیں تو اسلام پر جو سختی کے دن ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان کے بعد ایک صبح کی امید رکھو۔ لیکن صبح کی امید کا تعلق اس ذکر سے ہے یہ ہے جو نکتہ میں خاص طور پر پیش کرتا رہا ۔ایک نکتہ جو لوگوں کے ذہن میں ابھرتا ہے مجھے علم ہے بعض اس پر غور کرتے ہیں تو ان کو یہ خیال آتا ہے کہ یہ اشارہ مراد ہے کہ تم بھی اسی طرح سائنس میں ترقی کرو جس طرح اہل مغرب نے ترقی کی ہے اور ترقی کرو گے تو پھر تمہیں غلبہ نصیب ہوگا۔ بہت ہی ایک بظاہر جذب والا خیال ہے دل اس طرف مائل ہوتا ہے مگر کس کا؟ وہ جو اسلام کو Nationalist Movement کے طور پر دیکھتا ہے اسی کا دل اس طرف مائل ہوتا ہے اور بعض دفعہ عمداً اور بعض دفعہ ایک عام تاثر کی وجہ سے جو ایک لمبے عرصہ انگریز نے حکومت کی اس کے تاثرکی وجہ سے اس قسم کے مضامین کی طرف ذہن کا منتقل ہونا کوئی غیر طبعی بات نہیں ہے ایک امکان موجود ہے کہ روشن ضمیر انسان بھی ان حالات میںپرورش یافتہ ہے جہاں ایک لمبا عرصہ ایک اور قوم نے حکومت کی اور قرآن کریم اس راز سے پردہ اٹھارہا ہے کہ کیوں حکومت کی۔ انہوں نے غوروفکر کیا مگر ذکر سے خالی تھا اس لیے خدا سے دور ہٹ گئے مگر حاصل ضرور کچھ کیا۔ تم بھی کرو تو پھر تمہیں غلبہ عطا ہوجائے گا۔ یہ مضمون میرے نزدیک درست نہیں اس محل پرمناسب نہیں اور آئندہ اس مضمون کے نتیجہ میں اگر ہم اس کو تسلیم کرلیں تو اسلام کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ اسلام جغرافیائی مذہب نہیں ہے اس لیے اہل ذکر کا غلبہ ذکر کی وجہ سے۔ یہ مضمون تو بہت ہی خوبصورت ہے اور اس مضمون سے بالکل پیوستہ ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے زبور میںبعد الذکر یہ لکھ رکھا تھا یا لکھ رکھا ہے کہ یرثھا عبادی الصالحون۔ عبادی جو صالح ہیں یہ ترجمہ کے لحاظ سے میں آ پ کو بتادیتا ہوں اصل آیت آئے گی تو بتائوں گا کہ یہ میں نے لکھ رکھا تھا کہ صالح بندے ارض مقدس پر غالب آئیں گے۔ تو یہ بالآخر مراد ہے۔تو غلبہ صالحیت کا ہے ، غلبہ نیکی کا ہے، غلبہ ذکرکا ہے، غلبہ کسی مذہبی قوم کا نہیں ہے۔ اگر یہ رجحان قائم رہے کہ مذہبی قوم مراد ہے تو پھر کیا پاکستان پر غلبہ مراد ہے یا انڈونیشیا کایا ملائشیا کا یا عرب ممالک کا۔ تو اسلام کی عظیم فتح کے ساتھ یہ تمسخر والی بات بن جاتی ہے کہ غلبہ بھی ہوا تو کن لوگوں کا ہوا جو خود اسلام سے دور جاچکے ہیں۔ اس لیے یہ جو Temptationہے ایک قسم کا طعمہ ملتا ہے یہاں انسانی عقل کو اور شروع میںبہت اچھا لگتا ہے۔ طعمہ ہوتا ہی وہ ہے جو اچھا لگتا ہے۔ تو اس میں نہیںمبتلاء ہونا۔ اسلام Racismکے بنیادی طور پر مخالف ہے۔ کسی قوم کو بھی Racistخیالات کی اجازت نہیںدیتا۔ وہ آیت یہ ہے ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون وہی ہے یرثھا عبادی الصالحون کہ ہم نے لکھ رکھا تھازبو ر میں کہ میرے بندے جونیک ہوں گے وہی غالب ہوں گے۔
پس وہ نیک بندوں کے غلبہ کا وقت آئے گا اور پہلے اس مضمون کونہ سمجھ کے نیکی کی طرف توجہ دینے کی بجائے لڑائیوں کی طرف توجہ دی گئی اور قرآن کی پیشگوئی سچی نکلی کہ لڑائی کے ذریعے غلبے کا تو میں کوئی ذکر نہیں کررہا۔ قومی غلبے کی بحث ہی نہیں ہے۔ غلبہ دین کا غلبہ ہے اور نیک لوگ ہیں جو حق رکھتے ہیں کہ پرانے مقدس مقامات کی طرف لوٹائے جائیں اپنی نیکیوں کے ساتھ۔تو یہاں غلبۂ اسلام کا مضمون اسی معنوں میں بیان ہوا ہے الذین یذکرون اللہ قیاما و قعوداوعلی جنوبھماگر تم ان آیات پر غور کروگے تو تم یاد رکھنا کہ جتنا تم سجود میں ، رکوع اور سجود، قیام اور سجود میںترقی کرو گے اور یاد کو اس طرح اپنے دل پر پہنالوگے کہ گویا لیٹتے ہوئے اور سوتے ہوئے بھی وہ یاد تمہارے ساتھ رہتی ہے۔ تو پھر وہ خدا تبدیل کرے گا رات کودن میں۔ یعنی اسلام کا اپنی خوبیوں کے ساتھ غلبہ ہوگا اور دین کا غلبہ ہوگا نہ کہ کسی قوم کا غلبہ ہوگا۔ یہ تشریح رہ گئی تھی کل ۔ اس لیے میںنے ضروری سمجھا کہ آج اس کو پورا کرلوں۔ دوسرا ہے ماخلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار۔ اے خدا تو نے باطل پیدانہیں کیا، فقنا عذاب النار کا اس سے کیا تعلق ہوا۔ اصل میں باطل ہوتا ہے بے مقصد ہوجائے چیز۔ جس کا کوئی مقصد نہ رہے اس کوباطل کہتے ہیں۔ تو جو چیز اپنے مقصد کوکھودے یا مقصد پورا کرنے کی اہلیت سے عاری ہوجائے اسے ضائع کردیا جاتا ہے۔ اسے ردّی میں پھینک دیاجاتا ہے یا ماڈرن زمانوں میں جلادیا جاتا ہے اور پرانے زمانوں سے بھی یہی دستور ہے کہ گھر کے وہ روز مرہ کے استعمال کے پلنگ یا چارپائیاںاور پیڑھیاں وغیرہ وغیرہ کرسیاں۔ پرانے زمانے میںہمارے ہاں کرسیاں نہیں ہوتی تھیں اس لیے میں نے آخر پہ ذکرکیا ہے یہ سب جب کام چھوڑدیں، چولیں ڈھیلی پڑ جائیں، پلنگ گرنے لگ جائیں نیچے تو اس وقت پھرآخر دردناک فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ان کو جلادیا جائے ۔ تو باطل کا جلانے سے تعلق ہے یعنی ضائع کردینا اور اس وجہ سے طبعاً اہل علم کو اور اولوالالباب کو یہ خیال پیدا ہوگا کہ اگر یہ باطل نہیں ہے تو اس کے مقاصد ہیں۔ اگر ہم نے مقاصد کو سمجھانہیں اور ان کو پورا کرنے کے اہل نہ ہوئے تو ہم ایک ردّی کی چیز بن جائیں گے، ہماری زندگیاں باطل ہوجائیں گی اور باطل کی سزا پھر نار ہے۔ اور ہم اس بات کے اہل نہیں ہوں گے کہ ہمیں قائم رکھا جائے۔ یہ مضمون سورئہ کہف کے آخر پر بھی اس طرح بیان ہوا ہے۔ تو قرآن کریم کی آیات ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اور ان سے جومطالب نکلتے ہیں اگر قرآن کی بعض آیات دوسرے آیات کے مضمون کو تقویت دیتی ہوں تو وہی حقیقی اور سچی تفسیر ہے ورنہ قرآن میں ہر مضمون میں جوڑا موجود ہے اور یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ہرمضمون کا آپ تلاش کرکے دیکھ لیں جوڑا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتا ہے ایک دوسرے کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ تو اس لحاظ سے نار کا ایک تو یہ معنی ہے دوسرا معنی یہ ہے کہ (أطفأھااللہ والی آیت ہے نار والی میں نے لکھوائی تھی کہاں ہے وہ۔۔۔ کلما اوقدوا نارًا ہاں وہ ہی میںپوچھ رہا ہوں۔ نکالیں میں دکھاتا ہوں)۔ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نار کالفظ جنگ کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکائیں گے اللہ تعالیٰ اسے بجھادے گا (اصل الفاظ قرآن کریم کے یہ میں نے کہا ہے نکالیں ابھی بتاتا ہوںآپ کو مضمون یہی ہے بالکل قطعی طور پر) تو ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار میں یہ واضح بیان ہے کہ وہ لوگ جو باطل سمجھتے ہیں وہ سخت آگ کے عذاب میں یاجنگوںکے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے اور ان کی سائنسی ترقیاں، ان کا غورو فکر ان کو اس ہلاکت سے نہیں بچاسکے گا جس ہلاکت کے سامان وہ خود پیدا کررہے ہوں گے۔ تو باطل سمجھنے کا طبعی نتیجہ آگ ہے اورباطل سمجھنے کا طبعی نتیجہ آگ جو ہے اس میں ایک اورمضمون کا سلسلہ ہے جو لوگ باطل سمجھتے ہیں ان کی اخلاقی قدروں کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی( جولوگ یہ ۔۔۔ آیت کون سی ہے وہ۔۔کلما۔۔۔اچھا ٹھیک ہے)۔ کلما اوقدوا نارًا للحرب أطفأھا اللہ وہ جب کبھی بھی جنگ کی آگ بھڑکائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے بجھادے گا ۔ تو آگ کو جنگ قرار دینا یہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔
اب میں بتاتا ہوں وہ جو بیچ میں ایک سلسلہ رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب ایک انسان کسی چیز کو باطل سمجھے، بے مقصد سمجھے تو اس کے ساتھ ہی یہ تصور لازمی ہے کہ ہماری کوئی جواب دہی نہیں ۔جوا ب دہی کا تعلق بامقصد پروگراموں سے ہوتا ہے۔ایک آپ تعلیم کیلئے کالج بناتے ہیں، ایک بامقصد باطل تو نہیں ہے یہ۔ جب آپ پڑھ کے نکلنے لگتے ہیں تو ایک جواب دہی کا دور آتا ہے تمام حکومتیںجو قانون اور قاعدے کے مطابق چلتی ہیں وہاںہر قانون کیلئے جواب دہی ہے ۔اس لیے ان کوہم باطل نہیںکہہ سکتے۔ باطل سے مرا دہے Chaos فساد اور یہ سارے معنے اہل لغت بیان کرتے ہیں باطل کے۔ تو فساد اور Chaos کے نتیجہ میں انسان کسی دوسرے کے سامنے جواب دہ نہیں رہتا اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ یہ دنیا باطل ہے ہم مرنے کے بعد کسی کے حضور پیش نہیں ہوں گے ، ہمارے اعمال نامے کا کوئی مؤاخذہ نہیںہوگا تو ان کے فیصلے جب وہ Crisis کے وقت کرتے ہیںہمیشہ مہلک ثابت ہوتے ہیں اور وہی فیصلے ہیں Immoral فیصلے جو جنگوں پر منتج ہوتے ہیں ۔یہ ایک بنیادی بات ہے جس میں کہیں آپ کو ئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے۔ ہر جنگ کے پیچھے ایک Immoralityہے اور Immorality سے پہلے یہ تصور ہے کہ یہ باطل ہے کوئی فرق نہیں پڑتا جو جیت گیا جیت گیا، جو طاقتور ہے وہ دوسرے کوکھاجائے اور اس سے ہمیںکوئی فرق نہیںپڑتا۔ طاقتور کا غلبہ یہ اصول جس کو Might is Right کہتے ہیں یہ باطل سے پیدا ہوتا ہے باطل کے پیٹ سے اور جب یہ بڑھے گا فساد پھیلے گا۔ اب پاکستان میں جو جدوجہد ہورہی ہے مختلف فریقوں میں وہ اسی اصول پر ہورہی ہے کون طاقتور ہے اور اصولوں کو چھوڑ کر طاقتوروں سے سمجھوتے کی کھلم کھلی باتیں ہوتی ہیں حالانکہ قطع نظر اس کے کہ حکومت تمہارے پاس رہتی ہے یانہیں اگر تم اصول پر قائم رہو اور باطل کے سامنے نہ جھکو تو خدا کی اس کو تائید حاصل ہوگی اور اگر باطل کے سامنے جھک کر سمجھوتے کرلو گے تو تمہیں کوئی تائید نہیں ملے گی۔ یہ مضمون ہے جس کویاد رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میںتحقیق کا بھی میں نے کہا تھا کل کہ تحقیق کو آگے بڑھانا چاہیے اور تحقیق کو سمجھنا چاہیے کہ کیا چیز ہے؟ اس لیے میں نے کہا تھا کہ تحقیق کا تقلید سے تعلق نہیں ہے۔ اب لفظ تقلید کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہوسکتا ہے کچھ لوگ بیوقوفی سے جاہلانہ انانیت کو تحقیق سمجھ لیں اور سمجھیں کہ وہ اہل علم سے آزاد ہیں اور جو دل میں آئے بس وہی سچ ہے۔ یہ ایک بہت ہی بڑی ہلاکت خیز غلطی ہوگی اگر کوئی یہ سمجھے۔ تو کل یہ کہنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ تفسیر میںنے اس کی بیان نہیں کی کہیںیہ نہ ہو کہ لوگ حوالے دے دے کر پھر اور غلط راہیں میری طرف منسوب کرکے آگے بڑھائیں جو تعلیم اور تربیت کے منصب پر ہو اس کا کام پل صراط پر چلانا ہے اصل میںاور پل صراط پر چلانا بہت نازک مسئلہ ہے۔ ایک طرف سے بچاتے بچاتے ذرا سا دھکا اونچا تھوڑا سالگ گیا تودوسری طرف جا پڑتا ہے آدمی۔ اس لیے جو۔۔۔۔۔ Balacingہے یہ اللہ تعالیٰ ہی عطا فرمائے ،اور تھمائے تو پھر انسان حفاظت کے ساتھ نازک مراحل سے گذار سکتا ہے قوم کو ورنہ نہیں۔ اس لیے یہ منصب خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وابستہ فرمادیا ہے ہمیشہ کیلئے کہ خلافت آپ پر اس وجہ سے مامور نہیں ہے کہ کوئی حکومت کرے، اس لیے کہ آپ کو تقویٰ کی باریک راہیں دکھائے اور احتیاط رکھے کہ کہیں بھی افراط تفریط واقع نہ ہو اورجو بیچ کی راہ ہے اس کے اوپرآپ چلیں اسی کا نام پل صراط سے کامیابی ہے۔ اگر اس دنیا میں آپ نے پل صراط پر چلنا سیکھ لیا اور باریک دھاگوں پر بھی چلیں اور قدم لغزش نہ کھائے تو یقین رکھیں کہ اگلی دنیا میں بھی آپ کو پل صراط پر سے کامیابی سے گزرنا نصیب ہوگا۔ اگر یہاں گرگئے تو وہاں بھی گرے ہوئے ہی سمجھیں ۔اس لیے یہاں پریکٹس ضروری ہے تو وہاں ۔۔۔میں اب مضمون دوبارہ بتاتا ہوں۔ میں نے جب کہا کہ آپ اپنے علم کی خاطر جو آپ کو حقائق ملتے ہیں اس میں تقلید نہ کریں یہ نہ سمجھیں کہ پہلے کسی بزرگ نے مثلاً میںنے اپنا بھی کہاکہ اگر میں آپ کا امام ہوں تو اس میں آپ کہیں کہ میرے لیے لازم ہے کہ میں پیروی کروں یہ مضمون میرے ذہن میں کیاتھا وہ میں کھول دیتا ہوں تاکہ کوئی ٹھوکر کا رستہ باقی نہ رہے۔ روزمرہ مجھ سے یہ ہوتا ہے کئی دفعہ میں ایک ایسی بات بیان کردیتا ہوں جو اس علم کے دائرے والے لوگ سمجھتے ہیںکہ یہاں تھوڑی سی سمجھنے میں غلطی لگی ہے اگر وہ یہ سوچ کر بیٹھ رہیں کہ یہ ہمارا امام ہے اور اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ ہے اس لیے ہمیں یہی ماننا چاہیے سائنس جھوٹی ہے۔ تو یہ ایک جاہلانہ خیال ہوگا او رجہالت کو فروغ دینے والے رجحان ہوں گے جن کو روکنے کی خاطر میں نے وہ بات کی تھی ۔ اب کئی دفعہ ڈاکٹر صاحب مجیب صاحب ہومیو پیتھک کلاس میں بیٹھے ہوتے ہیں وہاںایک آدھ اصطلاح میںکچھ سمجھنے میںغلطی ہوگئی یا اس کو غلط، ایک لفظ کو زائد بیان کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد ہے ڈاکٹر صاحب کو وہ واقعہ۔ ۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے اور دوسرا کیا لفظ ہے؟ ہاںہاں یہ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ کیا چیز ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا چیز ہے؟ اس ضمن میں اصطلاحی مجھ سے ایک چھوٹی سی غلطی ہوئی تھی اب وہ ڈاکٹر صاحب سامنے بیٹھے ہوئے تھے انہوںنے فوراً مجھے کہا کہ نہیں یہ یوں نہیں ہے، یہ یوں ہے۔ میں نے کہا الحمدللہ ، جزاک اللہ احسن الجزائ، بالکل ٹھیک ہے وضاحت ہوگئی۔ اور کئی دفعہ آپا طاہرہ صدیقہ بھی تو ڈاکٹر ہیں نا ان کاہارٹلے پول سے فون آجایا کرتا تھا کہ آپ نے جوبات کہی تھی اس سے شاید یہ تاثر پڑتا ہو تو میںآپ کو بتادوں کہ یہ یوں نہیں ہے یوں ہے۔ تومیں شکریہ سے قبول کرتا تھا اس لیے حقائق ایسے حقائق جو روزمرہ کے ہیں اور سرسری انسانی غلطیوں سے ان کا تعلق ہے ان میں یہ سمجھ لینا کہ چونکہ یہ ہمارا امام ہے اس لیے ان باتوں میں بھی غلطیوں سے پاک ہوگا اور اصلاح میں رک جانا یہ تقویٰ نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی بات بیان کی جائے جس کادین سے بھی تعلق ہے اور دینی تشریح اس پر مبنی ہے اس میں اگر کوئی غلطی کسی کو دکھائی دیتی ہے وہ پہنچانے کے بعد اگر امام یہ فیصلہ کرے کہ دینی امور میں بہتر سمجھتا ہوں اور یہ یونہی ہے تو اس کے بعد تقویٰ کا یہ تقاضا نہیںہے کہ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنالی جائے اور اتحاد کو اختراق کی خاطر استعمال کیا جائے۔ وہ جوخلافت ہے وہ تو توحید پر قائم کرنے کی خاطر ہے۔ توحید صرف فرضی، آسمانی توحید نہیں بلکہ خدا کی توحید جو تقاضا کرتی ہے کہ بنی نوع انسان اس توحید سے وابستہ ہوکر ایک ہوجائیں۔ یہ تعلق ہے جو خلافت کے مضمون میں قرآن کریم نے باندھا ہے ۔ تو خلافت کو استعمال کرتے ہوئے توحید کی بجائے تفریق پیداکریں۔ تقویٰ کے نام پر یہ جھوٹ ہے اس لیے محققین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تقویٰ کے اندر ایک انکسار کا پہلو بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انکسار کے بغیر تقویٰ ہو ہی نہیںسکتا۔ کیونکہ تقویٰ آسمانی نور کو کہتے ہیں اور انانیت نفس کے اندھیرے کا نام ہے۔ جتنی جگہ آپ خالی کریں گے انانیت سے اسی کا نام عاجزی ہے اگر انکسار میںدرجۂ کمال کو پہنچ جائیں گے تو سار ابرتن تقویٰ کیلئے خالی ہوگیا اور اگر اپنے لیے بچا کے رکھیں گے تو اتنے حصے اندھیرے ہی رہیں گے ۔ یہ ہے اصل تقویٰ کا مضمون جو انکساری کے ساتھ چلتا ہے جس حق گوئی میں تکبر آجائے یا انانیت آجائے کہے کہ میں نہیں جانتا وہ کیا مجھے تو یہی نظر آرہا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ سچ پر قائم رہومیںضرور ہوں گا، یہ نفس کے دھوکے ہیں۔ اس لیے جوباتیں اہل علم کو خدا عطا کرتا ہے ان پر ادب سے ان کے سامنے سرجھکانا یہ وہی مضمون ہے کہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم اور اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے فرمادی تھی کہ ہم نے اسے علوم سکھائے تھے جو علوم ہم نے اسے سکھائے وہ تو فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھے ۔ اس لیے ذاتی علم اور بات ہے ذاتی علم میں نیک انسان خواہ کسی مرتبے کا ہو غلطی کرسکتا ہے۔ لیکن وہ علوم جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے وہ علوم لازماً دوسروں پر اس کو ایک ایسی فوقیت عطا کرتے ہیں کہ ان کے سامنے سر نہ جھکانا یہ خود اپنا نقصان اور گمراہی کی علامت ہے یا گمراہی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ تو یہ احتیاط رکھیں کہ تقویٰ کے نام پر پل صراط کے دوسری طرف ہی نہ جھک جائیں کہ وہاںجاپڑیں۔ بہت نازک ہے یہ۔۔۔۔ Balancing کے ساتھ جس طرح Ropeرسیوں پرسفر ہوتا ہے ویسا معاملہ ہے مگر تحقیق کے ساتھ جس سچائی کی ضرورت ہے اس کو چمٹے رہنا ہے دوسرا پہلو یہ مراد تھا کہ عقائد کی وجہ سے جو حقائق ہیں ان کو دھکے دے کر ایک طرف نہ لے کے جائیں۔ آزادی کے ساتھ وہ حقائق جو آپ کو حقائق دکھائی دیتے ہیں ان کی پیروی کریں اور یقین رکھیں کہ خدا تعالیٰ کی کائنات میں کوئی تضاد نہیںہے، ناممکن ہے کہ کلام الٰہی تخلیق سے متقابل یا متصادم ہو۔ وہ نظام جو خدا نے ظاہر میںپیدا فرمایا ہے وہی خدا ہے جس نے ایک باطنی نظام قرآن کی صورت میں ہمیںعطا فرمایا جو پورا جہان ہے۔ اس لیے وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم قرآن کی مدد کریں گے اگر ہم پہلے عقیدہ اور پھر اس کے حق میںحوالے تلاش کریںصرف یہ نیک نیتی تو ہے لیکن اگر کوئی بات اس سے ہٹتی ہوئی دکھائی دے تو یہ خیال کرنا کہ میں آگے نہیں چل سکتا یہ درست نہیںہے۔ وہاں warningہیں ، وہاں احتیاط کا تقاضا ہے یہ اصول لازماً درست ہے کہ قرآن کا کائنات کے حقائق سے کوئی تصادم نہیں ہے ۔ اگر آپ کو تصادم نظر آتا ہے تو دو باتیں ہیں، آپ کی نظر کا قصور اور اس احتمال کو آپ کس طرح دور کرسکتے ہیں۔ مگر جب تک نظر کا قصور درست نہ ہو اور وہ اہل علم سے بات کرنے کے بعد پھر درست ہوا کرتا ہے اس وقت تک یہ تو نہیں آپ کہہ سکتے کہ دیکھ تو میں اس کوسیاہ رہا ہوں مگر لازماً سفید ہوگا یہ ناجائز ہے ۔ استغفار کا مقام شروع ہوجاتا ہے آپ یہ دعا کریںکہ اے اللہ مجھے یہاں ایک تصادم دکھائی دے رہا ہے اس لیے یا میں قرآن نہیں سمجھا یا میں اس قانون فطرت کو نہیں سمجھا جو میرے سامنے ہے ۔ تو ان دو غلطیوں کے احتمالات بہت سی مختلف صورتیں پیدا کردیتے ہیں۔ایسے موقعہ پر اہل علم کی طرف رجو ع کرنا یعنی وہ اہل علم جن کا قرآن کریم میںاہل علم کے طور پر ذکر ہے اور وہ ایک اصطلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انما یخشی اللہ من عبادہ العلمائُ۔ جس طرح اولوالالباب کی تعریف فرمائی گئی ہے جو عام تعریف نہیںبلکہ قرآنی تعریف ہے ، اصطلاحی تعریف ہے اسی طرح خداتعالیٰ نے علماء کی ایک تعریف فرمائی ہے اور وہ اس موقعہ پر بالکل صادق آتی ہے۔ جو بحث میںکررہا ہوں اس وقت گفتگو کررہا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے صرف علماء ہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ تو علم خدا کے خوف کو کم نہیںکرتا بلکہ پیداکرتاہے یہاں تک کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم کے بغیر خدا کا خوف عطا ہی نہیں ہوسکتا۔ تو وہ علم جو خدا سے بے خوفی پیدا کرے وہ علم ہی نہیں پھر۔ علم کو خدا خوفی کا واحد ذریعہ قرار دے دیا تو ہر وہ علم سچاہے جو خدا کا خوف عطا کرتا ہے اور اگر علم خدا کے خوف سے دور لے جاتاہے تو وہ جہالت ہے۔ تو خدا خوفی تقویٰ ہی کاتو دوسرا نام ہے۔
یخشی اللہ من عبادہ العلمائُ۔ تو مضمون یہ بنتا ہے کہ آپ علم میںترقی کریں تو خدا کا خوف بڑھے گا اور جب خدا کا خوف بڑھے گا تو ہر ایسے موقعہ پر جہاں شک پیدا ہوتا ہے وہاں آپ استغفار کی طرف مائل ہوں گے طبیعت آپ کی جھکے گی خد اسے دعا کریں گے اور یہ حوالہ دیں گے اللہ کو کہ لاریب فیہ تیرے کلام میںتو کوئی شک ہے ہی نہیں۔لیکن ھدًی للمتقینکا وعدہ بھی ہے اگر میں نہیںسمجھ سکا تو پھر میرا تقویٰ بڑھا اورمجھے وہ نور عطا کر جس سے میں سمجھ جائوں مگر یہ فیصلہ کرنے کیلئے یہ دعائیں لازم ہوا کرتی ہیں اور اگر خود نہ سمجھ آئے تو پھر ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ جو دینی علم میں خدا سے ڈرنے والے لوگ ہیں اور اس میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ اس تعلق میں کہ قرآن کریم کو پڑھ کر ہرکس و ناکس قرآن کریم کے حقائق سے آگاہ نہیںہوسکتا۔ اس لیے جب میں نے کہاکہ قرآن شریف پڑھادیں تو کہیںبعض نوجوان ہمارے یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے ترجمہ سیکھ لیا بس کافی ہوگیا، اب ہم مجاز ہیں جوچاہیںترجمہ کریں اور سائنس کواس کے ساتھ ادل بدل کرجو نئے مضمون چاہیں ۔۔۔ یہ غلط طریق ہے غلط بات ہے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے لایمسہ الاالمطھرون کہ قرآن کریم ہے توسہی پڑھنے کے لائق کتاب لیکن جومطہر نہ ہوں مطہر کا مطلب ہے جن کو خدا پاک نہ کرے وہ اس کو چھوبھی نہیںسکتے۔ حالانکہ ہر ناپاک آدمی اس کو چھو سکتا ہے۔ وہاں جہاںبِکتا ہے قرآن کریم بازاروں میں یعنی نسخے بکتے ہیں اس کے اور بڑ ے بڑے ناپاک اور گندے لوگ اس نیت سے خریدتے ہیں کہ قرآن پر حملے کریں۔ اس کی مثالیں میں دے چکاہوں۔ تو یہاں مطھرون سے مرادوہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قرآنی علوم کے سمجھانے کیلئے پاک فرماتا ہے اور وہ ان کو اس کے مطالب عطا کرتا ہے ۔ توجب تک اس مرتبے تک نہیں پہنچتے مطھر کے مرتبے تک جو تحقیق کرنے والے طالب علم ہیںان کو اپنے مرتبے اور مقام کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اور جن کو خدا یہ منصب سونپتا ہے جن کے سپرد یہ کام کرتا ہے ان کے سامنے سر اٹھانا اور کہنا کہ جی ہم نے بھی پڑھا ہے قرآن اس میں تو یہ لکھا ہوا ہے،یہ سوائے جہالت کے اور کچھ نہیں ہے۔ انانیت ہے اور دھوکہ کھانے والی بات ہے تو ان سب تفاصیل کو مدنظر رکھتے ہوئے تقویٰ کی راہ پر قائم رہنا، Spadeکو Spadeکہنا لیکن بعض موقعوں پر استغفار اور دعائوں اور سبحان اللہ کے بعد۔ جرأ ت اور جسارت کے ساتھ نہیں کہ ہم نے دیکھ لیا اس لیے لازماً Spade ہے۔ اس انکسار کے ساتھ کہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے مگر ممکن ہے ہماری نظر کا قصور ہو۔ اس لیے اے خدا تو بھی ہماری اصلاح فرما اور اے وہ لوگو جن کو خدانے علم بخشا ہے تم بھی ہماری مدد کرو کہ تم اس کوSpadeنہیں دیکھ رہے تو کیا وجہ ہے؟ یہ ہے تحقیق اولوالالباب کی تحقیق۔ اور بات بات پر ذکر الٰہی کے ساتھ عقل کو روشنی ملتی ہے۔ تو امید ہے اس کے بعد کسی غلط مفہوم کو میری کل کی بات کی طرف منسوب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔
اب میںاگلی آیت کا مضمون لیتا ہوں ۔ کیوں جی وقت ہوگیا ہے۔ اس کا سوالوں کا؟ ۔۔۔ نہیں ابھی تو آپ باتیں کچھ کرکے آپ بھول گئے ہیں۔ میرے آنے سے پہلے مجھے یہ کہہ رہے تھے بڑے مخفی طریق پہ کہ سوال زیادہ لگتے ہیں اگر آدھا گھنٹہ پہلے شروع کیا تو پورے نہیں ہوں گے۔ اس لیے مشورہ یہی ہے کہ کچھ زیادہ وقت دے دیں۔ اب میں نے پوچھا تو بالکل بھولے بن گئے ہیں کہ مجھے پتا ہی نہیں۔ کتنا تھا وہ! آپ نے اندازہ لگایا کچھ؟ آٹھ سوال ہیں۔ اچھا پھر یوں کرتے ہیں کہ اگلی آیت میں داخل ہونے سے پہلے سوال شروع کردیتے ہیں اور سوالات کے بعد پھر جو وقت بچے گا پھر اس تسلسل میں شروع ہوں گے۔ اب اس کے بعد سوالات تو کوئی نہیںہیں۔ کیونکہ اتوار کو ہی سوالات ہوتے ہیں۔ اور پہلی اتوار کے سوال بمشکل ہم نے کل ختم کیے ہیںاس لیے بہتر یہی ہے کہ اب سوالات کو سردست نہ لیا جائے بلکہ اس مضمون کو آگے بڑھایا جائے۔ اس ضمن میں ہاں اتفاقاً یا کوئی Urgent چیزیں بعض ملیں تو اس وقت ان پرغور ہوسکتا ہے۔ کل ہی کے درس کے ذکر میں ایک سلسلے کے بزرگ عالم نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ نے ان فی خلق السموت والی آیت کو لیا ہے حدیث میں آتی ہے الگ لیکن یہ بھی توحدیث ہے کہ ساری آیات پر غور کرتے ہوئے بھی رسول اللہ ﷺنے رات گذاری( تو اونگھ گئے ہوں گے اس وقت) یہ تو میں کل بیان کرچکا ہوں۔ پھر ایک اور حدیث کی طرف توجہ دلائی کہ ہلاکت ہے ان کیلئے جو فکر نہیں کرتے ۔کہتے ہیں شاید یہ بھی آپ کی نظر میں نہیں آئی۔ تو مجھے سمجھ نہیں آئی۔ بعض دفعہ درس سنتے ہوئے بھی لوگ اونگھ جاتے ہیں یہ دونوں باتیں ہیں جن پر کل خوب گفتگو ہوئی اور رات کو یہ خط لکھا گیا ہے ۔ تو جہاں تک ۔۔۔یہ بھی بشری کمزوری ہے اسی پہ تو گفتگو ہورہی ہے۔ ہم انسان کمزور مخلوقات ہیں ٹھوکر کھاجاتے ہیں کبھی نیند غلبہ کرلیتی ہے۔ ایک ہی ہے جس کو کوئی ٹھوکر نہیں ، کوئی نیند کا غلبہ نہیں۔ لاتأخذہ سنۃ ولا نوم اللہ کی ذات ہے اسی لیے ایسے موقع پر سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے۔ تو اب شروع کریں پھر ان سوالات کو؟ بسم اللہ چلیں۔
حضور: یہ تونوٹس ہیں سوالات کہاں ہیں؟ سوالات نکالیں۔۔۔۔
ایک تو صالحہ صفی صاحبہ کا سوال ہے جس کا جواب مجھے بھی نہیںآتا اور ایسا سوال ہے جومیرے دل میں بھی پیداہوتا رہتا ہے اور ابھی تک یہ خلش باقی ہے اور سوال کا کوئی میں حل سمجھ نہیںسکا۔ اگر کسی کے علم میں آیا ہو تو میری مددکرے ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو تجلی مانگی تھی طور پہ اس پہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ تو اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کے متعلق بہت سے قرائن قرآن کریم کے قرائن بلکہ بعض بڑی قطعی آیات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جس کا موسیٰ متحمل نہیں ہوسکتا تھا وہ محمد رسول اللہ ﷺ متحمل ہوسکتے تھے اور وہ پہاڑ جو وحی کو برداشت نہیں کرسکا محمد رسول اللہ ﷺآگے بڑھے اور اس کو قبول فرمالیا، قبول کرلیا ۔ ایسی وحی جو زمین و آسمان نے انکارکردیا اور پہاڑوں نے ۔ یہ وہ آیت ہے جو میں کہہ رہاہوں فحملھا الانسان دیکھو انسان کامل محمد رسول اللہ ﷺنے اسے اٹھالیا اس بوجھ کو اورکامیابی سے اس کو اٹھایا ہے ۔ تو اس کے بعد اس حدیث کے ساتھ اس کا کیا تطابق ہے؟ اگر یہ تشریح درست ہے اور اس میںقطعیت کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کھول کر ، واضح لفظوں میں یہ مضمون بیان فرمارہا ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوپر تو وہ تجلی اتری بھی نہیں تھی پہاڑ پر اتری تھی اور وہ تجلی وہ اعلیٰ شان کی تجلی وہ نہیں تھی جو قرآنی تجلی ہے بلکہ ایک قسم کا ایک جلالی اظہار تھا نمونے کے طور پر اور تمثیل کے طورپر بتایا گیا کہ پہاڑ اس کو نہیں متحمل ہوسکے تو مانگ رہے تھے وہ دنیا کی تجلی اور اس تجلی کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ وہ متحمل نہیں ہوسکتے تھے، محمد رسول اللہﷺ ہوسکتے تھے۔تو اس حدیث کا پھر کیا مطلب ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ اس تجلی کے نتیجہ میں بیہوش ہوچکے تھے پہلے اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ بیہوش نہیں ہوں گے اور محمد رسول اللہﷺ بیہوش ہوجائیں گے۔ جو اس سے بڑی تجلی کے متحمل ہوچکے تھے۔ تو یہ ایک تضاد پیداہوجاتا ہے اس لیے میںمعذرت کے ساتھ صالحہ صفی صاحبہ سے گذارش کرتا ہوں کہ مجھے بھی نہیں سمجھ آئی اس بات کی اور میںدعا بھی کررہا ہوں، غوربھی کررہا ہوں ۔اہل علم جو قرآن پر غور کرنے والے ہیں وہ اگر بتائیں اس میں کیا تطبیق ممکن ہے۔ توایک اچھا خیال ہے لیکن حدیث کی بھی چھان بین ضروری ہے اس حدیث کی صحت اور اس پر خوب غور ، کب دریافت ہوئی یہ حدیث پہلی دفعہ، کون کون سے راوی تھے؟ تو اور ایسے احتمالات جو اس کے برعکس ہوں یا اور معانی کچھ ایسے ہوں جو اس تضاد کودور کرنے والے ہوں تو یہ ایک دعوت عام ہے فکر کیلئے ۔ ایک سوال ہے محمد انور صاحب (بالٹی مور) کا ۔ بالٹی مورہاں۔ چھینی کو کہتے ہیں تیشہ کہتے ہیں شاید۔ تیشہ تو بڑی چیز ہے۔
حضور: کیا ہوا؟
حضور: ہا ں مگر چھینی کا اردو لفظ کیا ہے؟ چھینی ہی ہے؟
‏SB: چھینی ہی ہے۔
حضور: چھینی ہے ۔ بس پھر ٹھیک ہے۔ یہی پوچھ رہا تھا میں۔ میںنے کہا تھا چھینی کو پنچابی میں توچھینی کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ہم چھینی ہی کہا کرتے تھے۔ درست ہے یا غلط ہے؟ یا کوئی اورلفظ ہے۔ تو انہوں نے کہا ہے اس کوتیشہ۔ تیشہ تو بڑی چیز ہے۔ تیشے سے پہاڑوںکی کھدائی ہوتی ہے۔ جیسا کہ
؎ تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ
وہ کوہکن جو ہے وہ تیشہ سے پہاڑ کھودتا تھا۔ چھینی سے تو نہیں کھودا کرتا تھا۔ بہر حال یہ توایک ضمنی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں آپ نے جو مثال دی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک حوالے کی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے برسات کے بعد جوہڑ سے زندگی پیدا ہونے کامنظرجو کھینچا ہے اس میں عدم سے زندگی کی بحث نہیں تھی بلکہ بظاہر زندگی کے آثار نہ ہوں اور پھر زندگی پیدا ہوجائے یہ بحث ہے۔ یہ ان کی بات درست نہیں ہے کیونکہ میں نے بڑے غور سے اس بات کا مطالعہ کیا تھا مجھے یاد ہے۔ اور پہلی دفعہ وہی میرے ذہن میں بات اُٹھی تھی۔ وہ جو براہین احمدیہ ہے وہ عدم سے وجود کی بحث کررہی ہے ۔آریہ کہتے تھے کہ عدم سے وجود ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ ساری بحثیں ہیں جن میںضمناً یہ بات بھی آئی ہے۔ وہ بحثیں یہ ہیں کہ کیا روح اور مادہ مخلوق ہیں یا قدیم سے ہیں؟ آریہ کہتے ہیں خدا میں تخلیقی طاقت نہیں ہے بلکہ خدا کی تخلیقی طاقت صرف Chemist کی طاقت کی طرح ہے کہ یہاں سے ایک دوائی پکڑی دوسری وہاں سے پکڑی، ان کو ملایا اور ایک تیسری چیز بنادی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم سے یہ ثابت فرماتے تھے اور یہی درست اور بے شمار دلائل اس کے دیے ہیںکہ خداتعالیٰ نے تخلیقی طاقت سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ دو چیزوں کوملاکر ایک تیسری چیزپیدا کرے بلکہ عدم سے وجود پید اکرسکتا ہے۔ اس ضمن میں آپ نے جووہ مثال دی تو وہاں مینڈک کی مثال بھی دی یعنی گویا مٹی سے بارش کے بعد جہاں کوئی مینڈک نہیںتھا وہاں چھوٹے چھوٹے مینڈک ایک دم بولنے لگ گئے اور آج آپ نے دیکھا تو جھیل خالی ہے مینڈکوں سے۔ کل گئے ہیں تو وہی جس کو ہم ڈھاب کہا کرتے تھے، جوہڑ، اس میں مینڈک بول رہے ہیں۔ یہ اس طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس سے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ یہ بھی اسی کا ثبوت معلوم ہوتا ہے جس کے بیشمار ثبوت اور دے چکے ہیں کہ اچانک زندگی عدم سے وجود میںآئی۔ اس مضمون پر سائنسدانوںنے بہت لمبا عرصہ بحثیں کی ہیں او رایک وقت میںسائنسدانوں کا ایک گروہ تھا جو اس بات کا قائل تھا اور اس بحث کوزوآلوجی میںکہا جاتا ہے Spontaneous Generation اور A Spontaneous Generation کہ کیا زندگی اچانک گارے اور مٹی سے وجود میںآسکتی ہے کہ نہیں اور یا ضروری ہے کہ کوئی زندگی کا بیج پہلے موجود ہو۔ اس بحث میں اس زمانے میںکچھ سائنسدان یہ بھی کہا کرتے تھے اور ابھی بھی آپ ڈکشنریاں اٹھاکے دیکھیں تو یہ کہتے ہیں کہ آج کل شاید ہی کوئی سائنسدان ہو جو Spontaneous Generation کا قائل رہا ہو۔ تو ہم سو سال پہلے کی بات کررہے ہیں ۔صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک مطالعہ ذاتی مشاہدہ نہیں بلکہ اس زمانہ میں سائنسدان بھی یہ بات کہا کرتے تھے ۔ لیکن جوں جوں تجربات ہوئے، ترقی ہوئی قطعی طور پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاں سے کلیتہً زندگی کا بیج ماردیا گیا ہو ان ٹیسٹ ٹیوبز کے اندر زندگی ازخود پیدا نہیں ہوسکی۔ یہ بات میں بیان کرنے کے بعد کہہ چکا، بتاچکا ہوں کہ اس قسم کی بعض غلطیاں جو زمانہ کے علم سے تعلق رکھتی ہیں یا وقتی بشری کمزوریوں سے عالم الغیب نہ ہونے کے نتیجے سے تعلق رکھتی ہیں وہ اہل اللہ میں بھی پائی جاتی ہیں مگر وہ اس بات کو کبھی خدا کی طرف منسوب نہیں کرتے کہ خدا نے مجھے یہ فرمایا ہے۔ چنانچہ اسی مضمون کو میں کالج کے زمانے میںجب دہریوں سے بات کیا کرتا تھاتو ثبوت کے طور پر پیش کیاکرتا تھا۔ یہ دیکھ لو آج کل کے زمانے میں بھی اتنی ترقی کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل اللہ اور خدا سے تعلق والے ایک بات بیان کردیتے ہیں جو بشری یعنی اس زمانے کے بشری علم کے نتیجے میں ویسے ہی سمجھ آنی چاہیے۔ غلطی کی بجائے یوں کہہ سکتے ہیںکہ اس زمانے کے بشری علم کے مطابق ویسی دکھائی دینی چاہیے مگر ویسی نہیں تھی۔ مگر الہامات جو آپ کو ہوئے ہیں ، جو باتیں قطعی طور پر آپ نے خدا کی طرف منسوب کی ہیں وہاںکوئی ایسی بات موجود نہیں۔ پھر میں ان کو قرآن کی طرف لیجاتا تھا کہ قرآن کریم کو دیکھ لو وہاں بھی بالکل یہی مثال ہے کہ وہ نبی جس پر ایسا کلام نازل ہوا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کہتا ہے عالم الغیب ہوں ایک ذرّہ بھی اس میں غلطی نہیں وہ جب کھجوروں کے اوپر Stemenسے Polan گراتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ Stemenتو نہیں کہنا چاہیے شاخیں جن میں Stemens لگے ہوتے ہیں یعنی جن میں Male Organs ہوتے ہیںکھجوروں کے ، ان کے اوپر جو Polanہوتے ہیں جس سے الرجی بھی پیدا ہوجاتی ہے وہ دراصل مادئہ منویہ ہے ان کھجوروں کا یا ہر پودے کا۔ تو بعض پودے ایسے ہوتے ہیں جو Female ہیں یعنی مادہ ہیں ان میںصرف Uterus قسم کی چیز ہوتی ہے ، شکل بھی کچھ ملتی جلتی ہے۔ تو اس صراحی سے صراحی کے اوپر جب تک یہ Stemen سے وہ جھاڑ ے نہ جائیں Polans اس وقت تک وہ Pregnantنہیں ہوسکتا۔ تو یہ اس سائنس کی تفاصیل کا تو علم نہیں تھا مگر تجربے سے اس زمانے میں لوگ جانتے تھے کہ یہ کرنا پڑتا ہے۔ تو عرب زمیندار اپنے دستور کے مطابق یہ کررہے تھے تو آنحضور ﷺ کا گزر ہوا آپ نے فرمایا کیا ضرورت ہے اس کی چھوڑدو۔ اور جب چھوڑ دیا گیا تو ان کو کوئی پھل نہ لگا۔ وہ بڑے ہوگئے کافی دیر کے بعد ۔ معلوم ہوتا ہے یہ پتہ چلا کہ وہ پھر آگے خالی رہے پھل دار نہ بن سکے۔ اس پر جب رسول اکرم ﷺ سے شکوہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں جن امور پر رسول بنایا گیا ہوں ان میںکوئی غلطی نہیںہے مگر یہ تمہارے زمیندارے کی باتیں ہیں۔ ضمناً میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ قرآن نے ہر علم سکھایا ہے اور آنحضرت ﷺ نے زمیندارہ بھی سکھایا ہمیںاور بہت سے باریک اصول سکھائے۔ضمناً بعض دفعہ ، بعض دفعہ براہ راست۔ عورتیں کھیتیاں ہیں جب فرمایا تو اس میں بعض بنیادی اصول زمیندارے کے ہمیں سمجھادیے۔ پھر وہ مومن کی مثال جو روئیدگی سے ہے اور بھی روئیدگی کی ذکر ملتے ہیں۔ اگر غور سے مطالعہ کریں توبہت سے ایسے علوم بھی ان میں موجود ہیں جوزمیندارے سے تعلق رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود اصل جو بات تھی وہ یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کا یہ فعل آپ کی علمی مقدرت کے خلاف نہیں ہے اور ایک ادنیٰ بھی آنحضرت ﷺ پر منفی اثر نہیں ڈالتا۔ یہ بتاتاہے کہ بشری حالت کے باوجود عالم الغیب نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے علم غیب کے خزانے آ پ پرکھولے گئے ہیں کہ وہ تعداد دیکھو کہ ایک بشر ہے جس کو اس زمانے کے عام علم کے مطابق یہ علم نہیں اور اقرار کرتا ہے کہ Polan کااس کی صراحی کوکیا کہتے ہیں؟ Ovaryیانہیںوہ Ovaryتو ہے مگر نباتات کیلئے بھی Ovaryرہتاہے لفظ؟ کچھ اور؟ ہیں؟
‏SB: Stigma
حضور: Stigma?
‏SB: Stemen
حضور: Stemen تو مردانہ ہے نا۔ Stigma ہی ہے غالباً۔ جو بھی ہے بہرحال اس کو چھوٹی سی بحث ہے ۔ وہ جو صراحی ہے زنانہ صراحی کھجور کے اندر اس کے اوپر اگر یہ مردانہ مادہ نہ گرایا جائے تو وہ Fertile نہیں ہوسکتا۔ یہ بات تھی تو اس سے لاعلمی بظاہر شان رسالت کے خلاف نہیں ہے بلکہ شان رسالت کے حق میں ایک عظیم نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھوالذی بعث فی الامیین رسولاً منھم ایسا رسول چنا جو امیّیّن میں سے تھا اور اس کو ساری دنیا کا معلم بنادیا ۔ تو یہ جو ایک حیرت انگیز انقلاب ہے زمین سے آسمان تک کا انقلاب، یہ صداقت پر بھی دال ہے او رشان محمد مصطفیﷺ پہ بھی دال ہے اور اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ تمام تر شان نبوت کی تعلق باللہ میں ہے اور وہی علم ہے جو خدا سے ملتا ہے۔ یہ ویسا ہی مضمون ہے جیسے آدم کے زمانے میںشروع ہوا تھا۔ اللہ نے سکھایا تو پتہ چلا ورنہ نہیں پتہ تھا۔ تویہ مضامین ہیں مگر ان بحثوں میں اگرآپ پڑ گئے تو ان بحثوں کو عام روزمرہ چھیڑنا گستاخی پر منتج ہوسکتا ہے اور غلط گروہ بندی پر منتج ہوسکتا ہے۔ میں مجبور ہوں چھیڑنے پر کیونکہ میں نے آپ کو بعض باریک راہیں دکھانی ہیں۔ لازماً میرا فرض ہے جس حد تک میں سمجھتا ہوں اللہ کے علم کے ساتھ۔ لیکن اس کو روزمرہ بحثوں کانمونہ بنالیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فلاں غلطی کی تھی کہ نہیں کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے نعوذ باللہ من ذالک یہ کیا تھا کہ نہیں کیا تھا۔ تو پھرایک طرف وہابیت اٹھے گی اور ایک طرف بریلویت۔ اور آپ سبق کیوں نہیںحاصل کرتے اس دردناک المیہ سے کہ اسلام میں جب یہ بحثیں اٹھائی گئیں کہ رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا کہ نہیں تو پھر ایسے خوفناک فرقے وجود میںآئے ہیں اور ایسے متصادم ہوئے ہیں کہ آج تک ان کی مصیبت سے اسلام کو نجات نہیں مل سکی۔ گستاخیاںہوئیں رسول اللہ ﷺ کی شان میں مدمقابل کی انانیت کی وجہ سے۔ جب بریلویوں نے بعض حوالے پیش کیے بریلوی مزاج کے لوگوں نے جو عالم الغیب سمجھتے تھے،شیعہ بھی عالم الغیب سمجھتے ہیں اپنے آئمہ کو بھی۔ تو ان سب نے بریلوی مزاج، شیعہ مزاج نے جب مبالغے کئے اس بات میں تو وہ جو سمجھتے تھے کہ توحید کے خلاف ہے انہوں نے آغاز میں جولڑائی لڑی ہے وہ توحید کی خاطر ۔ اس لیے جو ابتدائی بزرگ تھے ان کے اوپر یہ حملہ نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے انانیت کی وجہ سے یہ بحثیں شروع کی ہیں۔ بڑے بڑے نیک مخلص لوگ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ توحید پر حملہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کو یا کسی اور نبی کو خدا کے مدمقابل رکھنا یہ شرک ہے، اس مقصدکے خلاف ہے جس کی خاطرآنحضورﷺ تشریف لائے ۔لیکن جب یہ زمانہ گزرگیا، اللہ سے ڈرنے والے علماء کے بدلے وہ علماء پیداہوگئے جو انانیت کے مظہر تھے، اپنی ذات کو خدا سمجھتے تھے، وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے تھے کہ فریق مخالف جیت جائے۔ پھر وہ اتنا بڑھے ہیں بدتمیزی میں کہ یہ حقیقت ہے یہاں پاکستان میں جو کتابیں چھپی ہوئی ہیں ان میںحوالے موجود ہیں کہ نعوذباللہ من ذالک یہاں تک غلو کیا ہے توحید کے نام پر یہ جو وہابی لوگ ہیں انہوں نے اور یہ دیوبندی وغیرہ کہ وہ یہ بھی بحث اُٹھاتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک شیطان کا علم رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تھا اور بعض جانوروں کا نام لے کر کہتے ہیں۔یعنی وہ عبارتیں پڑھ کے انسان پہ زلزلہ طاری ہوجاتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے ذکر میں یہ خبیث باتیں سوجھتی کیسے ہیں ان لوگوںکو؟ تو وہ باتیں جو باریک مطالب سے تعلق رکھتی ہیں ان کو روزمرہ کی بحثوںمیں شامل کرلینا اوریہ گویا علمی بحثیں ہورہی ہیں یہ نہایت ہی خطرناک بات ہے، یہ تقویٰ اور ادب کے خلاف ہے۔ میں کئی دفعہ لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ تمہارے ماں باپ میں اگر فرض کرو کوئی نقص ہو۔ ہوتے ہیں نقص اور یہ نقص نہیں ہے جو میں بات کررہا ہوں۔ مگر ان میںنقص بھی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے میں نقص کی بات نہیں کررہا۔ یہ نقائص سے پاک لوگ ہیں لیکن بشر ہونے کے لحاظ سے بعض مظاہر ہیںان کے جو ان کے اولواالالباب ہونے پر مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ وہ اللہ سے علم پاکر اولوالالباب بنے ہیں۔ مگر ماں باپ میں تو ویسے ہی نقائص ہوتے ہیں۔ تو بچے آپس میںبحثیں کیا کرتے ہیں دوسروں سے پھر خصوصیت سے کہ یہ دیکھو یہ نقص ہے کہ نہیں یہ یوں ہے، یہ تو بدتمیزی سمجھی جاتی ہے۔ لوگ اس کاذکر بھی نہیںکرتے۔ تو ان مسائل میں دخل اندازیاں نہ کریں۔ اپنی بحثوں میں ان کو شامل نہ کریں۔ اگرکوئی بات پوچھنی ہے تو ڈرتے ڈرتے دعائوں کے بعد استغفار سے وقت کے خلیفہ کو لکھا کریں اور وہ آپ کی رہنمائی کرے گا۔ مگر اگر مبحث بنائے تو وہی تفریقیں جنہوں نے پہلے اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا وہی احمدیت میںجاری ہوجائیں گی اور پھر بہت شدید نقصان پہنچے گا۔
یہ ایک سوال ہے ۔ وہ حوالوں والے آپ نے الگ کردیے ہیں؟ کہیں رکھ دیے ہیں۔ اچھا جی یہ ہیں۔ وہ سوال ۔ہر حوالہ اس متعلقہ سوال کے نیچے لگائیں جو میں نے آپ کو اکٹھے کروائے تھے نا تاکہ ڈھونڈنا نہ پڑے۔ امۃ القیوم صاحبہ سوال کرتی ہیں کہ جو حضرت یحیٰ علیہ السلام کے ذکر میں آپ نے باتیں کی تھیں اس ضمن میں میرے ایک سوال کا بھی جواب دیں کہ آنحضرت ﷺ نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کو اکٹھے دیکھا۔ اس میں کیا راز ہے؟ یہ تو راز ہے ہی کوئی نہیں۔ کھلی کھلی بات ہے۔ وہ ایک وقت کے رسول تھے۔ ایک جیسے حالات سے گزرے اور کئی پہلوئوں سے ہم مرتبہ بھی۔ اس معنوں میں ہم مرتبہ نہ ہوں کہ باریک فرق جو ہیں وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مگر ملتے جلتے حالات میں ایک ہی جیسے بعض یعنی ایک ہی جیسے بعض جو میں ڈھونڈ رہا ہوں لفظ وہ یہ ہے بعض مشابہتیں لے کر پیدا ہوئے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ان کو عطا ہوئی تھیں۔ اس لیے ان کا اکٹھا دیکھنا یہ عین مناسب حال ہے اور یہی ہونا چاہیے تھا۔ وہ مناسبتیںہی ہیں جن کے ذکر کی وجہ سے اوّل اوّل مجھے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے حضرت یحیٰ علیہ السلام شہید نہ ہوئے ہوں۔ باوجود اس کے کہ میر ایہ عقیدہ ہے کہ نبی شہید ہوسکتا ہے۔ مگر کیوں خیال آیا تھا؟ وہ اسی وجہ سے آیاتھا ۔ اس لیے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ دیکھیںکتناقرب ہے دونوںکے اندر اور حالات ملتے جلتے معلوم ہوتا ہے ہوں گے۔ چنانچہ فرمایا یٰیحیٰ خذ الکتاب بقوّۃ واتیناہ الحکم صبیًا ہم نے کہا اے یحیٰ کتاب کو مضبوطی سے تھام لے، پکڑ لے اورہم نے اس کو بچپن کی حالت ہی میں حکم سے نوازا تھا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا بچپن ہی میں آپ کوکلام عطا ہوا اور بچپن کے زمانے میںجب حضرت مریم نے اشارہ کیا کہ اس سے پوچھو تو انہوں نے کہا قال انی عبداللہ اٰتانی الکتاب وجعلنی نبیًا ۔تو دونوں کے بچپن میں خداتعالیٰ رئویا صالحہ کے ذریعے ایسے پیغام دے رہا تھا جس سے وہ یہ کہہ سکتے تھے اگرچہ صاحب کتاب نبی ابھی نہیں بنے تھے مگر رئویا صالحہ کے ذریعے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو بتاچکا تھا کہ تم ایک بڑے منصب کیلئے تیار ہورہے ہو۔ پھر وجعلنی مبارکاً۔۔۔۔ نہیں حضرت یحیٰ والی پہلی آیت ۔ وحنانا من لدنا وّزکوٰۃً وّ کان تقیا۔ وہ ہماری طرف سے بہت نرم دل لے کر پیداہوا تھا، بہت ہی اعلیٰ نرم اخلاق کا مالک تھا۔ وزکوٰۃ زکوٰۃً بعض دفعہ لفظ تو زکوٰۃ زکوٰۃ دینا ہے اور زکوٰۃ انسان کے متعلق تو زکوٰۃ نہیںآتا ویسے۔ مگر زکوٰۃ کے بہت سے مطالب ہیں ۔ ایک مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ ایسی دیا کرتا تھا کہ گویا وہ مجسم زکوٰۃ تھا اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت ہے کہ انہوں نے جو جماعت بنائی وہ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے فقیرانہ جماعت بنائی تھی وہ اپنے آپ کو خود Dispossessکردیا کرتے تھے ۔ اتنی زکوٰۃ دیتے تھے کہ کسی چیز کے بھی گویا مالک نہیں رہے اورپھر جو کچھ بچتا تھا اس کو Community کی مشترکہ ملکیت سمجھا کرتے تھے ۔ تو زکوٰۃ اس حد تک دینا کہ سارے برابر ہوجائیں ۔ یہ مضمون ہے جو زکوٰۃ فرمایا گیا ہے کہ وہ تو گویا مجسم زکوٰۃ تھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا وجعلنی مبارکا اینما کنت و اوصانی بالصلوۃ والزکوۃ مادمت حیا۔ مجھے حکم ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں زکوٰۃ ضرور اد اکرنی ہے۔ تو اب آپ یہ دیکھ لیں کہ زندہ ہیں کہ نہیں تو وہاں تو دو ہی دیکھے تھے اس آسمان پر رسول اللہ ﷺ نے ایک حضرت یحیٰ علیہ السلام او رایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو کیا دونوں ایک دوسرے کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔ وہ کیسی زکوٰۃ ہے، حیّی ہیں کہ نہیں حضرت یحیٰ علیہ السلام کوتو مانتے ہیں وہ وفات بھی پاگئے ، قتل بھی ہوگئے ۔ توایک وہ جس کا تمہارے عقیدے کے مطابق قتل ہونا قطعی طور پر ثابت ہے اور میرے عقیدے کے مطابق امکان موجود ہے کہ وہ زندہ رہے۔ اب تحقیق کرنے والی ہے۔ لیکن ایک تو تم کہتے ہو یقینا زندہ ہے اور اگر وہ یقینا زندہ ہے تو حضرت یحیٰ علیہ السلام پر تو زکوٰۃ ساقط ہوگئی تمہارے عقیدہ کے مطابق کیونکہ وہ مقتول ہوئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہ ساقط نہیں ہوئی۔ تو وہ زکوٰۃ حضرت یحیٰ علیہ السلام کو دیتے ہیں اوپر بیٹھے۔ اور کیسی عجیب بات ہے کہ جو مجسم زکوٰۃ ہو وہ دوسرے سے زکوٰۃ وصول کررہا ہے اور وہاں معنی ہی نہیں بنتے زکوٰۃ کے ۔ تو یہ بھی نہیں لوگ غور کرتے مگر یہ مماثلت کے طور پر میںبتارہاہوں۔ یہ ضمنی بحث آئی ہے۔ وبرا بوالدتی نہ پہلے حضرت یحیٰ والی)۔
وبرا بوالدیہ ولم یکن جبارًا عصیًّا۔ اس سارے طرز کلام میں قرآن کریم نے یہ باقاعدہ اسی طرز کو مسلسل اختیار کئے رکھا ہے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام کے تعلق میں غائبانہ حوالے دیتا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے فتوے جاری ہوتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تعلق میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود بول کر وہی باتیں اپنی طرف منسوب کررہے ہیں مگر آئی تو خدا کی طرف سے ہی ہیں وہاں فرمایا برابوالدیہ ولم یکن جباراکہ وہ اپنے والدین کیلئے مجسم نیکی تھا، بیحد نیکی کے ساتھ پیش آیا کرتا تھا ولم یکن جبارا عصیا اور وہ کوئی جبار شخص نہیں تھا جو سختی سے پیش آئے اور زبردستی کرے والدین پر ۔ اور عصیا اور ان کے حق میںنافرمانی نہیںکرتا تھا ، گناہگار نہیں تھا۔ ان کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرمایا وبرابوالدتی میں اپنی والدہ کیلئے بَرّ ہوں اور دیکھیں وہی لفظ استعمال ہوا ہے ولم یجعلنی جبارا شقیا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے جبار نہیں بنایا اپنی ماں کے مقابل پر اور نہ شقیا جو ایسا بدبخت ہو کہ نافرمانی کرے مضمون وہی ہے۔ پھر فرماتا ہے آخری جو مثال کی آیت ہے کیوں ان دونوں کو اکٹھا ہونا چاہیے اصولاً طبعاً۔ وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیا۔ یحیٰ پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوا اس دن بھی اس پر سلام تھا ہویا ہے دونوں معنے بن جاتے ہیں ویوم یموت اور جس دن وہ مرے گا اس دن بھی اس پرسلام ویوم یبعث حیا اور جس دن وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا اس دن بھی اس پر سلام۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ یہ بیان کیا انہوںنے والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا مجھ پر سلامتی ہو جس دن میںپیداہوا اور جس دن میںمروں گا ویوم ابعث حیا اور اس دن بھی جب میں زندہ کرکے اٹھایا جائوں گا۔ کتنی مشابہتیں ہیں۔بعینہٖ وہی الفاظ استعمال ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ موت کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہم استدلال کرتے ہیں کہ یہاں فرمایا اموت پس قتل نہیںہوئے زندہ بچ گئے اور بعد میں طبعی وفات ہوئی۔ قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کے حوالے میں جو اس دنیا سے خلا کے طریق بتائے ہیں وہ دو ہی بیان فرمائے ہیں۔ افائن مات او قتل یعنی موت کو قتل سے الگ بیان فرمایا ہے۔ یہ جو باتیں ہیں اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ کہنا اموت اور یحیٰ علیہ السلام کے متعلق وہی لفظ موت کا استعمال کرنا قتل کا نہ کرنا کوئی حکمت رکھتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کہہ سکتا تھا وہ قتل ہوگیا۔ ویوم اقتل جس دن میںقتل کیا جائوں گا تو یہ بڑی ٹھوس باتیںہیں جن کے پیش نظر اس تحقیق کی طرف توجہ پیدا ہوئی تھی یہ یونہی کوئی بچگانہ جذباتی باتیں نہیں ہیں اتفاقی خیالات کا نتیجہ نہیں ہے ۔ اس لیے جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ قائم ہے اورہمیشہ قائم رہے گا کہ کسی ایک نبی کے متعلق بھی قطعیت کے ساتھ یہ صحیح ثابت نہیں ہوسکا کہ وہ قتل ہوگیا ہے جبکہ نبی قتل ہوئے ہیں بیک وقت یہ دونوں باتیں ہیں۔ اس وقت تک یہ آیات ہمیں تحقیق کی دعوت دیتی رہیں گی اور ہم تحقیق کرتے رہیں گے ۔ لیکن یہ جو لوگوں کو وہم ہے کہ اس سے مسیح موعود علیہ السلام کااستدلال باطل ہوجاتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے ۔ اگریہ ثابت ہوگیا کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام قتل نہیں ہوئے تھے تو میرا ایمان ہے کہ ساتھ یہ بھی ثابت ہوگا کہ حضرت سیّد احمد صاحب بھی قتل نہیںہوئے تھے۔ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام قتل ہوئے تھے تو یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ سیّد احمد بھی قتل ہوئے تھے۔ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ دونوں کے حالات مشکوک ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ کیا ہوا تو تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا استنباط اسی مضبوطی کے ساتھ قائم اور ثابت رہے گا۔ اس لیے اس وہم میں مبتلا ہوکر کہ گویا نعوذ باللہ کوئی تحقیق مسیح موعود علیہ السلام کے مقاصد کے برخلاف نتیجہ نکال سکتی ہے ۔ آپ اس سے رکیں اور ڈریں یہ بالکل غلط آپ کا وہم ہے ناممکن ہے کہ کوئی تحقیق جو سچائی کی تلاش میں ہو وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مقاصد اور مطالب سے متصادم ہو یعنی اس سے ٹکراتی ہو۔
اوراگلا ۔۔۔۔ ایک سوال ہمارے مرزا مشتاق احمد صاحب ناصر نے یہ بھی اچھاعلمی ذوق شوق رکھتے ہیں ۔ انہوںنے یہ کیا ہے کہ یہ جو فرمایا گیا ہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں اس کی نوعیت کیاہوتی ہے یعنی کن معنوں میں زندہ ہوتے ہیں یہ ہمیں سمجھائیں۔ تو میں ان کو کیسے سمجھاسکتا ہوں جبکہ قرآن کریم یہ فرمایاتا ہے بل احیاء وہ زندہ تو ہیں ولکن لا تشعرون لیکن تمہیں شعور نہیں ہوسکتا۔ تو جس کے متعلق قرآن نفی فرماچکا ہے کہ تمہیںشعور نہیںہوسکتامیں کیسے شعور آپ کو بخشوں ۔ اس لیے تسلیم کریں کہ زندہ ہیں اور ایسی حالت میں زندہ ہیں کہ ہمیں شعور نہیں ہوسکتا۔ پس اس سے زیادہ بات نہیں ہے ۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں کہ روحانی جسم جو عطا ہوتا ہے وہ نسمہ کہلاتا ہے ملاء اعلیٰ میںرکھا جاتا ہے ، تسبیح کرتے ہیں یہ باتیں بیان کرکے وہ سوال کیا کرتے ہیں؟ کیا یہ مقام جنت سے پہلے کامقام ہے؟ یہ تو جہاں سے پڑھا ہے وہیں سے پتا کریں۔ نسمہ جہاں بیان کررہے ہیں۔ آگے چلیں۔ ایک ہمارے مصطفی صابر صاحب ہیں ماشا ء اللہ علم دوست آدمی ، بڑے مخلص لیکن سوال ان کے خاص ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ وہ یہ کہتے ہیں ان کاعربی کا خط ہے جو۔۔۔۔ نہ انگریزی کا جو انگریزی میں ترجمہ ہورہا ہے وہی سن رہے ہوں گے اس وقت تووہ ان کے اپنے الفاظ وہاں اسی طرح دہرائے جائیں گے۔ اس کامیں چونکہ اردو کررہا ہوں اردو میں ترجمہ پیش کرتا ہوں ان کا یہ خیال ہے کہ میں نے جو یہ کہا کہ تحقیق ہونی چاہیے کہ فلسطین میں وہ کھنڈرات جو موجود ہیں ۔۔۔۔ نہ مصر میں ان میںوہ عمارتیںجو قرآنی حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنوائی تھیں ان کا قبلہ کس طرف ہے ۔ کیا وہ یروشلم کی طرف یا فلسطین کی طرف قبلہ ہے؟ یا قبلۃً سے صرف یہ مراد ہے کہ آمنے سامنے؟ تو اس پر انہوں نے فرمایا ہے کہ میرے نزدیک اگر قبلہ ۔۔۔۔ ہو تو پھر وہ مکہ کی طرف ہونا چاہیے یروشلم کی طرف نہیں ہونا چاہیے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہی ہدایت ہوگی کہ مکے کی طرف قبلہ کرو۔ اب اس کے دلائل ان کے یہ ہیں کہ اس وقت یروشلم کی کوئی مذہبی اہمیت نہ تھی ۔ جب رسول اللہ ﷺ نے یروشلم کی طرف منہ کیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ کو کیوں اللہ تعالیٰ نے مکے کے مقابل پرجس کی اہمیت زیادہ ظاہر ہوچکی تھی یروشلم کی طرف منہ کرنے کی کچھ عرصہ اجازت دی اور دوسرے یہ کہ یروشلم کی مذہبی اہمیت ظاہر ہو یا نہ ہو، میرے نزدیک جو قبلہ ہے وہ کسی مادی عمارت کی طرف نہیںہوا کرتا بلکہ وہ وحدت کا نشان ہوا کرتا ہے اور جہاں مرکز بننا ہو وہ اللہ کے علم میںتھا ۔ وہ جو اسرائیلی ہیں وہ تمام تر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اس سے پہلے بھی سب وہ ان کا مرکز خدا نے یروشلم یا فلسطین کا علاقہ مقرر فرمارکھا تھا ہمیشہ سے اور ابھی بھی ہے۔ تو خدا کے علم میں ہے جب و ہ کہتا ہے قبلہ کرو تو اپنے نبی کو سمجھادیا ہوگا کہ اگر یہ معنی درست ہے کہ ایک طرف اب عبادت کیا کرو تاکہ تم میں قومی یکجہتی پیداہو۔ توبتادیا ہوگا مگر وہ مکہ نہیں ہوسکتا میرے نزدیک۔ لیکن ان کی دلیل دوسری یہ ہے کہ یروشلم میں کوئی ایسا ٹیمپل نہ تھاکہ اس کی طرف منہ کرکے عبادت کی جاتی۔ اب وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو ٹیمپل(Temple) تعمیر کیا اس کیوجہ سے عبات اس طرف ہوئی ہے۔ تو جب رسول اللہ ﷺ پڑھا کرتے تھے اس طرف منہ کرکے نماز ، اس طرف وہاں کونسا ٹیمپل تھا اور نہ صرف یہ کہ ٹیمپل نہیں تھا بلکہ منہدم ہوکر ایسا ruinبن چکا تھا جس میںکوڑا شہر کا کوڑ ا کرکٹ پھینکا جاتا تھا ، گندگی تھی۔ تو نعوذ باللہ من ذالک کیا رسول اکرم ﷺ اس ٹیمپل کو مدنظر رکھ کے اس طرف منہ کیا کرتے تھے؟ہرگز نہیں۔ آنحضرت ﷺ کا یہ مسلک تھا کہ جب تک خداتعالیٰ کوئی نئی شرعی احکام نازل نہ فرمائے پہلی شریعت کے احکامات جاری رہیں گے No man's land بیچ میںکوئی نہیں ہے اور اس مسلک کے تابع اس کو قبلہ اوّل کہا جاتا ہے۔ تو حضرت رسول اکرم ﷺ کی سنت ثابت کرتی ہے کہ قبلہ اوّل مکہ نہیں تھا قبلہ اوّل یروشلم تھا او رمکے کا حج ہونے کے باوجود مکے کی طرف منہ کرکے عبادت کاکبھی اس سے پہلے کسی قوم کو حکم نہیں ملا۔ تو قبلہ اوّل بتاتا ہے اگر آنحضور ﷺ کے نزدیک قبلہ اوّل مکہ تھا تو آپ مکے کی طرف ہی منہ کرکے نماز پڑھتے نہ کہ یروشلم کی طرف منہ کرکے۔ پھر Temple of Solomon موسیٰ علیہ السلام کے کئی سو سال بعد بنایا گیا ۔ یہ وہ اس کا جواب میں دے چکا ہوں۔ Temple of Solomonتو بالکل بے تعلق بات ہے ۔ ٹیمپل کی عبادت نہیںہورہی بلکہ ٹیمپل وہاںبنایا گیا جو مرکز بنایا گیا تھا مرکز ہی میں ٹیمپل ہونا چاہیے تھا یہ جو اوّلیت کس چیز کو ہے ۔ اوّلیت اس علاقے کوہے جس کو خدا نے یہود کا مرکز بنانا تھا یا اسرائیلیوں کا اور جہاںمرکز ہے وہاں پھر مرکزی عمارتیں بھی بنائی جاتی ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں اس کے مقابل اس وقت مکہ حج کیلئے جایا جاتا تھا۔ ہاں مکہ یہ درست ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں مکہ حج کیلئے جایا جاتا تھا جبکہ ٹیمپل ابھی نہیںبنا تھا۔ توکیا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میںمکہ حج کیلئے نہیںآیا جاتا تھا؟ عجیب سوال ہے ۔ اگر مکے کی طرف حج کیلئے آنا قطعی دلیل ہے کہ یہی قبلہ ہونا چاہیے ۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں آیا جاتا ہوگا لیکن رسول اللہ ﷺ کے زمانے میںتو بکثرت آیاجاتا تھا پھر بھی آپ اس طرف منہ کیا کرتے تھے۔ تورسول اللہ ﷺکو یہ حکمت سمجھ نہیں آئی کہ ادھر حج کیلئے آتے ہیں تو میں کیوں فلسطین کی طرف منہ کروں۔ یہ بات کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کیلئے جو طریق کار مقرر کیا ان کی اولاد نے ان کی روایات کو برقرار رکھا۔ یہ وہی جواب میرا پہلابھی ہے کہ جن روایات کو برقرار رکھا ان کے ہوتے ہوئے بھی رسول اللہﷺ نے فلسطین ہی کو قبلہ اوّل سمجھا نہ کہ اس علاقے کو اور سمجھنے کے باوجود ایسی بے قراری تھی کہ قبلہ یہ ہو۔ کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرا تقلب ہم نے دیکھ لیا، تو کس طرح گریہ و زاری کے ساتھ کروٹیں بدلتا تھااور سجدے میںپھیر پھیرکے اسی مضمون کے اوپر غور کیا کرتا تھا التجائیںکرتا تھا کہ یہ قبلہ ہونا چاہیے۔ درست ہے تیری بات اور ہم اسی کو قبلہ مقرر کرتے ہیں۔ یہ جو مضمون ہے محمدرسول اللہﷺ پرپہلی دفعہ کھولا گیا، موسیٰ علیہ السلام پر نہیںکھولاگیا۔ اس لیے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہیے ۔ پھر کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے جنہوں نے حج کی روایات برقرار رکھیں۔ یہ اندازے ہیں کسی کو کچھ پتا نہیں کوئی ذکرنہیںملتا۔ کسی جگہ بھی کہ حضرت شعیب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر تھے وہ حج کیلئے جایا کرتے تھے۔ مگر انہوں نے استنباط اس بات سے کیاہے کہ انہوںنے ثمانٍ حججٍ فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں ثمانی حججٍ ہے مراد وہی ہے مراد ان کااسی آیت کی طرف اشارہ ہے ثمانیۃ حججٍہے نا؟
ثمانی حججٍ۔ ثمانی حججٍخالی۔ تو حجج جو بیان فرمایا حضرت شعیب نے شرط آٹھ سال اس کیلئے حجج کہہ کر یہ گویا یہ ثابت کیا کہ حج ہونی چاہیے یہ بہت دور کی کوڑی ہے او رلغت عربی اس کی تائید نہیںکرتی۔ لغت کی چھان بین سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ حج اس کا جو مادہ ہے حِج ہے حِجۃ ہے کیا ہے؟حِج۔ حِجلفظ سال کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے آزادانہ اور حج ارادے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ حَجَّ اس سے فعل بنتا ہے ۔ اس نے ارادہ کیا، اس نے ایک مقصد باندھااور سال بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ پس ان دونوںمعنوں کی ترکیب سے یہ مذہب میںاصطلاح بنی ہے حج کی۔ حج کرنا اوّل معنی نہیںتھا ۔ وہ مقام جہاں سالانہ نیتیں باندھی جاتی ہوں ہر سال اس کے ارادے باندھ کر انسان سفر کرے اس کوحج کے طور پرپیش فرمایا ۔ گویا کہ جو روٹ کے اندردو معانی ہیں ان کے پیش نظر حج ایک اسلامی اصطلاح بن گئی اور یہ بات حضرت شعیب کے خواب و خیال میںبھی نہیں تھی۔ حج کا جو ذکر حضرت شعیب کے ۔۔۔۔۔۔ وہ سال کے معنوں میںآتا ہے۔ قرآن کریم میںایک عجیب یہ فصاحت و بلاغت ہے کہ جس زمانے میں جو اصطلاح رائج ہوتی ہے بسا اوقات اس زمانے کی تعین کی خاطر وہ اصطلاح بیان فرمادیتا ہے۔ جیسا کہ الذی ببکۃ فرمایا حالانکہ اس وقت مکہ کہا جاتا تھا اور قرآن کریم مکے کے طور پر بھی اس کو یاد کرتا ہے یہ بتانے کیلئے کہ وہ قدیم گھر جب بنا تھا تو اس زمانے میں اس وقت کے لوگ اسے مکہ نہیںکہاکرتے تھے بلکہ بکۃ کہا کرتے تھے ۔ تو اس طرح ضمنی لطیف اشارے ہیں جو تاریخ کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔ تو انہوں نے جو حج کا لفظ سال کیلئے استعمال کیا ہے یہ عربوںمیںرائج رسول اللہ ﷺکے زمانے تک بھی تھا بعد میں بھی رہا مگر بعض لوگوں میں خصوصیت سے بعض قبیلوں میںیہ لفظ سال کیلئے استعمال ہوتا ہوگا۔ اس لیے حضرت شعیب کی مزیدتعین کہ اس وقت سال کوکیاکہا کرتے تھے ۔ اگر اشارۃً ہوجائے تو حرج کیا ہے اور لفظ انہوں نے حج ہی استعمال کیا ہوگا پھر۔ بعینہٖ اس کی تکرار بھی ہوگئی تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ حج کی طرف اشارہ ہے اور چونکہ حج کی طر ف اشارہ ہے اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات سمجھ آئی ہوگی کہ مکے کی طرف قبلہ ہونا چاہیے اور اگر سمجھ آگئی تھی تو بیچ میں پھر قبلہ بدلاکیوں۔ وہ تو دائمی قبلہ تھا حج کا۔ Solomon Temple نے آکے قبلے بدلادئیے سارے۔کیوں بدلادیے۔ کیونکہ جو دائمی قبلہ ہو اگر وہ اوّل ہے اور آخر ہے توبیچ میں اس کوقطع کرنے کی کوئی دلیل نہیں بنتی، کوئی استدلال نہیں ہے۔ مندرجہ بالا باتیں بتاتی ہیںکہ ابتداء میں عبادت کی سمت مکہ کی طرف تھی۔ یہ انہوں نتیجہ نکالا ہے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ مندرجہ بالا باتیں بتاتی ہیں کہ آنحضور ﷺکے زمانے سے پہلے کبھی بھی مکہ عبادت کی سمت مقرر نہیں ہوا۔ حج کیلئے ہمیشہ سے مقرر تھا مگر کسی مذہب سے قطعاً ابراہیمی مذہب ہوں یادوسرے اشارۃً بھی یہ بات ثابت نہیں کہ اس کو قبلہ بنایا گیا ہو۔ پہلا قبلے کا ذکر جو ملتا ہے وہ فلسطین کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا ملتا ہے یا نماز اس طرف منہ کرکے بھی ذکرنہیں ملتا اصل میں۔ اسے قبلہ اوّل کہا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے اس طرف منہ کرکے نمازیں پڑھی ہیں ۔ عیسائیوں میں یہ رواج ہے کہ نہیں ۔یہود میںمیرے علم میں تو نہیں ہے مگر چونکہ خداتعالیٰ نے فلسطین کی اہمیت بیان فرمائی یہود کا مرکز ارض مقدس کے طور پر پیش فرمایا اس لیے رسول اللہﷺ نے کسی ایک سمت کی طرف منہ کرنا تھا آپ نے اس کو چن لیا مگر مکے کو قبلہ بنانے کا حکم آنحضرت ﷺپر نازل ہوا ہے۔ اگر یہ جاری و ساری مضمون تھا تو ناممکن تھا کہ رسو ل اللہ ﷺاپنی مکے سے محبت کے باوجود یا خانہ کعبہ سے محبت کے باوجود اس قدر بے قرار ی میںوقت کاٹتے جس کو خدا بھی نوٹ فرماتا ہے۔ تو یہ بات آپ پر روشن نہیں تھی کہ ہمیشہ سے اس طرف منہ ہے تو میںکیوں منہ موڑلوں۔ اس لیے جو دلائل آپنے دئیے ہیں جزاک اللہ وہ میرے مضمون کی تائید کررہے ہیں اس نتیجے کی نہیں کررہے جو آپ نے نکالا ہے۔ پھر کہتے ہیں مندرجہ بالا باتیں تو بتاتی ہیں اس کے بعدکہتے ہیں کہ یہودیوں کیلئے یروشلم بطور قبلہ ان کی Bablyon میں پہلی مرتبہ جلاوطنی کے بعد قرار دیا گیا یا ان کی دوسری جلاوطنی کے بعد جبکہ ٹیمپل کو Jesusکی وارننگ کے بعد تباہ کردیا گیا یا کا لفظ بتاتا ہے کہ ان کو خود اس بارہ میںشک ہے۔ یہ جومضمون ہے قبلے کا اس کا تعلق ہجرت سے بھی ہے اور قرآن کریم نے اسی تعلق میں اس مضمون کو باندھا ہوا ہے اصل میں۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ جس طرف تم لوگوں کو جانامقدر ہے اس طرف منہ رکھنااس کویاد رکھنا، اس سمت کونہ بھولنا ورنہ عبادت کے ساتھ سمت کاکوئی تعلق نہیں ہے محض عبادت کے ساتھ۔ چنانچہ قرآن کریم اس سارے مضمون کو بیان کرنے کے باوجود یہ فرماتا ہے فاین ما تولوا فثم وجہ اللہ۔ یاد رکھنا مکے کی طرف منہ کرنے سے عبادت کابذات خود تعلق نہیں ہے جدھر بھی تم منہ کرو فثم وجہ اللہ وہیں اللہ کا منہ پائو گے یعنی اللہ کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے قابل ہوسکتے ہو۔ اس کے ساتھ جو دلائل دوسرے ہیں وہ کہاں ہیں؟ جو آیات ہیں قرآن کریم کی اس میںکوئی اور بھی ہیں شاید ان کے دلائل وہ میں دیکھ لوں پہلے۔ ہاں ایک انہوں نے اور بھی مضمون چھیڑا ہوا ہے وہ میںاس کی طرف بعد میںآتا ہوں ۔ پہلے میں قرآن کریم کی وہ آیات آپ کو سنادوں جن میں قبلے کا ذکر ہے ۔فلنولینک قبلۃ ترضھا جس قبلے کو تو چاہتا ہے پہلی بار اس قبلے کا تقرر ہوا ہے رسول اللہ کی طبعی محبت سے جو خدا کے پہلے گھر سے تھی فول وجھک شطر المسجد الحرام و حیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہٗ یہ تاریخ میں پہلا حکم ہے اس سے پہلے یہ حکم نہیں تھا۔ ومن حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام۔ جہاں کہیں سے بھی تو خروج کرے یعنی مکے سے تو نکالا جائے گا فول وجھک شطر المسجد الحرام۔ تو مسجد حرام کی طرف منہ رکھنا یہ ایک پیشگوئی کا رنگ بھی ہے۔ اب یہ بحث کہ یہ مدنی آیت تھی یا مکی ۔ یہ اس لیے بے تعلق ہے کہ جب تک ہجرت سے واپسی نہ ہو اس وقت تک یہ آیت پیشگوئی کا رنگ ہی رکھے گی۔ پیشگوئی یہ ہے کہ تجھے ہم واپس لے کے جائیں گے خواہ وہ پہلے بیان ہوئی ہو یا بعد میں بیان ہوئی ہو واپسی ہے جو اس میںوعدہ کیا گیا ہے جہاں تک سمتوں کا تعلق ہے یہی سورۃ البقرہ کہتی ہے وللہ المشرق والمغرب مشرق اور مغرب تو اللہ ہی کے ہیں دونوںفاینما تولوا فثم وجہ اللہ پس جدھر بھی تم منہ کرو گے وہیں خدا کا چہرہ پائو گے۔ وہیں خدا کی توجہ کو دیکھو گے۔ ان اللہ واسع علیم اللہ تعالیٰ بہت وسعتیں دینے والا ہے اور جاننے والا ہے۔ مطلب ہے اسلام نے پھیل جانا ہے قبلہ تو یہی رہے گا مگر عین نشانہ لگانا ممکن ہی نہیں رہے گا۔ ہم نے بڑی باریک ان سے کمپسوں سے نشانے باندھنے کی کوشش کی ہے مگر اتنا باریک ہے معاملہ دور ہو کے مکے سے کہ آپ ایک ذرّہ بھی ایک ڈگری کا سیکنڈ نہیں بلکہ سیکنڈ کے بھی سوواں حصہ ادھر منہ کرلیں ذرا سا تو وہ خانہ کعبہ missہوکے کسی اور طرف جاکے نماز پہنچ جائے گی۔ تو واسع علیم کامطلب ہے اللہ جانتا ہے اسلام نے پھیلنا ہے اوریہ وہم میں نہ مبتلا ہوں کہ تم کوشش کے باوجود کہیں نشانے نہ missکررہے ہو ۔ کوشش کرو جائز خوب، حکم ہے خدا کا۔ لیکن مراد اللہ ہے تو جدھر بھی تمہارا منہ ہوگا وہ اللہ ہی ہے۔ جب میں سپین گیا تو وہا ں میں نے مساجد کو جدید آلات کے ذریعے چیک کیا کہ ان کا رخ کیا تھا۔ تو کسی مسجد کا رخ خانہ کعبہ کے دائیں طرف سے نکل جاتا تھا کسی کابائیں طرف سے نکل جاتا تھا اور بڑے بڑے بزرگ لوگ تھے اپنے تقویٰ کے مطابق انہوں نے ہر بار احتیاط اختیار کرکے مسجدیں بنائی تھیں مگر یہ غلطیاں ان کو غلطی ہم کہتے ہیں لیکن دراصل اس زمانے کے علم کا ماحصل یہی تھااس سے زیادہ ان کو توفیق نہیں مل سکتی تھی۔مگر خدا یہ شک دور کررہا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں تقویٰ کے ساتھ کوشش کرو نہیں نشانے لگے تو کوئی فرق نہیںپڑتا اللہ کو تو بات پہنچ ہی جائے گی۔ اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا۔ اب یہ مضمون ہے البقرہ149 من حیث خرجت فول وجھک شطرالمسجد الحرام میں نے کہا تھا کہ اس میں ہجرت سے واپسی کا مضمون ہے یہاں 149 آیت میں یہی مضمون چل رہا تھا جس کی وجہ سے میں نے وہ نتیجہ نکالا اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیرکہ جہاں کہیں بھی تم ہو اللہ تمہیں اکٹھا کرلے گا، واپس لے آئے گا اکٹھا کرکے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک زمین کا وعدہ کیا گیا تھا اس زمین کا تعلق اس وعدے سے ہے جس کے نتیجے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو محض فرعون کے عذاب سے نہیں بچانا تھا بلکہ اس موعود زمین تک پہنچانا تھا اگر یہ وعدہ نہ ہوتا تو اتنی مصیبت کی کیا ضرورت تھی۔ جہاں اچھی جگہ ملتی جاکے بیٹھ رہتے لیکن گھومتے رہے ہیں ارد گرد اور ہروقت قبلہ وہی رہا ہے ارض مقدس۔ تو یہ کہنا کہ ارض مقدس آپ کے پیش نظر ہی نہیں تھی ہجرت میں یہ درست نہیں ہے ۔لین حِجَۃ دیتا ہے یا حِجَّۃ دیتا ہے؟ حِجَّۃ؟
دونوں طرح ہے لین ہم نے دیکھی تواس میں ہے حجَّ حجّ ای قصد کہ حج کا جو اصل معنی ہے وہ قصد کرناہی ہے۔ حِجۃ is also a yearعرب کہتے ہیں اقمت عندہ حِجۃ یعنی میں اس کے پاس ایک سال ٹھہرا ۔ اب جب یہ کہتے ہیں تو ان کے تصور کے کسی گوشے میں بھی حج نہیں ہوتی۔ پھر وہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ترجمہ کیا I stayed at his abode a year۔ دوسرا وہ کہتے ہیں ثلاث حججٍ کوامل وہ کہتے ہیں عرب جب یہ کہتے ہیں ثلاث حججٍ کوامل تو مراد ہے Three complete years۔ تو حجج میں یہ معنی پایا جاتا ہے ایک استنباط انہوں نے سنین سے لیا ہے وہ کہاں ہے؟ اچھا! وہ کہتے ہیں آپ نے جو یہ استنباط کیا ہے کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام وہاں آٹھ سال کی مدت یا کچھ زائد دس اور آٹھ کے درمیان رہے ہیںیہ بھی درست نہیں معلوم ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے وہاں سنین کا لفظ استعمال فرمایا ہے بضع سنین نہیں فرمایا۔ بضع کا لفظ چھوڑنے سے مراد ہے کہ سنین کاعرصہ لمبا بھی ہوسکتاہے۔ تو یہ استنباط پھر کیسے مکمل ہوگیا۔ یہ بھی ان کی غلط فہمی ہے۔ لفظ سنینایک غیر معین سالوں کی جمع کانام ہے ۔ لیکن جہاں معین ذکر آچکا ہو وہاں بضع کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔جہاں یہ ذکرہو کہ آٹھ سال کی مدت ہے دس سال تک ممتد ہوسکتی ہے وہاں بضع کہنا معاملے کو مشکوک کردے گا نہ کہ اس پر روشنی ڈالے گا۔ کیونکہ فرض کریں پورے آٹھ سال کے بعد نہ نکلے ہوں اور نو اور دس کے درمیان نکلے ہوں تو اگر بضع آجاتا تو اس پر یہ اطلاق نہیںپاتا اور اگر لفظ بضع ہوتا تو تین سے شروع ہوجاتی ہے مدت واپسی کی، امکان شروع ہوجاتا ہے۔ مگر بضع کا مطلب ہے تین سے نو سال تک ۔ تو اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی کہ خود ہی بات واضح فرمانے کے بعد اس میں شبہات پیدا فرمانا شروع کردے۔ تولفظ سنین عمومی سالوں کی جمع کانام ہے جوزیادہ بھی ہوسکتی ہے ۔ یہ درست ہے لیکن بضع کی شرط نہ لگانا اس لیے لازم تھا کہ نہ لگائی جائے کہ اوّل تو آٹھ سے پہلے کاکوئی سوال نہیں تھا دوسرے آٹھ سے دس تک کا امکان موجود ہے۔ اس لیے مسلسل میں اس امکان کو پیش نظر رکھ کر یہی کہتا رہا ہوں کہ غالباً طرز سے لگتا ہے کہ آٹھ سال کے معاً بعد یہ واقعہ ہوا ہے ۔ لیکن بعید نہیں کہ د س سال تک ہوچکا ہو اور دس سال کے وقت یا اس کے لگ بھگ وہ گئے ہوں وہاں سے ۔تو اس لیے اگر یہ بات درست ہے تو پھر بضع کا لفظ اطلاق پا ہی نہیں سکتا مگر اس کے علاوہ بھی وہ مضمون اتنا واضح اور قطعی ہے کہ اس کو بڑھانے کی کوئی تک نہیں ہے یا پھر بائبل میں جائیں گے یا قرآن میں رہیں گے۔ اگر قرآن سے نکل کے باہر جائیں گے تو پھر اسّی سالہ موسیٰ علیہ السلام کی واپسی ماننی پڑے گی، سارا وہ نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ میں نے توتحقیق کیلئے کہاتھا اگر یہی تحقیق ثابت کرے کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف منہ تھا تو سو بسم اللہ۔ ہمیں کیا نقصان ہے۔ تعجب ضرور ہوگا کہ پھر یہ ساری باتیں جو میں نے بیان کی ہیں رسول اللہ ﷺ کے کیا علم میں نہیں تھیں مگر مجھے یقین ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف کسی صورت میں بھی اس کا رخ نہیںنکلے گا ۔ ارض فلسطین کی طرف بالعموم رخ معین ہوسکتا ہے یا پھر وہ دوسرا معنی ہے کہ وہ آمنے سامنے کسی بھی رخ پر بنائے گئے ہوں گے اور اس زمانے میں چونکہ رخ کی تعیین کے ذرائع معین نہیں تھے لیکن سورج وغیرہ کے حساب سے لوگ بہت زیادہ ذہانت سے رخ معین کیا کرتے تھے کیونکہ کامل بناء اس پر ہوا کرتی تھی۔ اس لیے فلسطین کی سرزمین کنعان کی سرزمین معلوم تھی خوب اچھی طرح اہل مصر اس سے واقف تھے ۔ اس لیے عموماً اس طرف رخ کرنا یہ ممکن تھا اگر مکے کی طرف ہوا تو پھر وہ دائیں طرف جھک جائے گا یعنی جنوب کی طرف وہ قبلہ جھکے گا۔ اگر فلسطین کی طرف ہو تو مکے کے مقابل پر شمال کی طرف ہوگا اور چونکہ فاصلے تھوڑے ہیں اس لیے بڑا نمایاں Sharp Angle بنے گا۔ تو تحقیق میں کوئی حرج نہیں ، تحقیق کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ مصطفی صابر کو لمبی زندگی عطا فرمائے تاکہ وہ اس تحقیق کانتیجہ ہم دونوں دیکھیں۔ اچھا جی السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ اور تونہیں کوئی سوال؟
ہاں وہ سوال اب نہیں ہوسکتے۔ میاںانس نے کچھ سوال۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک سوال اگر کہیں تومیں کردیتا ہوں۔ پہلا جو ہے خلق الانسان من صلصال کالفخار۔ اس ضمن میںایک علمی سوال انہوں نے اٹھایا ہے کہ قرآن کریم سے آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ Guided Evolution ہوئی ہے اور قطعی طور پر قرآن کریم نے اس کے تمام مراحل کا ذکر فرمایا ہے ہر سٹیج بیان کی ہے کہ کس طرح مرتبہ بمرتبہ اور طبقاً طبقاً انسانی زندگی یا زندگی نے اپنے عروج کا سفر طے کیا ہے۔ اس ضمن میںکہتے ہیں آپ نے ایک منزل صلصال کی بیان کی تھی اور وہاں قرآن کریم فرماتا ہے صلصال کالفخار۔ فخّار کی طرح صلصال اور دوسری جگہ فرماتا ہے ولقد خلقنا الانسان من صلصال من حمأ مسنون ہم نے اسے گلے سڑے کیچڑ سے بنائی ہوئی صلصال سے پید اکیا۔ تو ان میں تو بظاہر گویا کہ ایک تضاد ہے کوئی تضاد نہیں ادنیٰ بھی تضاد نہیں۔ صلصال کو یہ نہیںفرمایاصلصالٍ من الفخار فخار تو کوئی چیز ہی نہیں جس سے صلصال بنتی ہو ۔ صلصال تو اس مٹی کی پپڑیوں کو کہتے ہیں جو خشک ہوکر ٹھیکریاں سی بن چکی ہوں۔ فخار کہتے ہیںگھڑے کو اور گھڑے کی جو ٹھیکری بجتی ہے اس سے جو آوا زپیدا ہوتی ہے اس کا نام فخار رکھنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے یعنی کھنکتی ہوئی پکی ہوئی مٹی جو پک چکی ہو اور اتنا پختہ ہوچکی ہو کہ اس سے کھنک پیدا ہو ، آواز پید اہو ۔ یہ ہے اس کا مادہ اور اس کی حکمت جو اہل لغت نے لکھی ہے۔ جہاں صلصال من حما مسنون فرمایا ہے اس پر تومیں وضاحت کے ساتھ پہلے بارہا روشنی ڈال چکا ہوں اور یہی مضمون تھا جس سلسلے میںمَیںنے حوالہ دیا تھا ۔ میںیہ گزار ش کررہا تھاکہ کیمیائی ترقی کا جودور شروع ہوا ہے اس میں ایک آغاز ہی میںایسی منزل آئی کہ Inorganic Matter جب Organic Matterمیںبدلی ہے یعنی زندگی کی اینٹیں بنانے کیلئے جس مادے کی ضرورت تھی وہ Organic مادہ ہونا چاہیے تھا اور Organicمادہ زندگی ہی سے بنتا ہے۔ یہ چکر تھااس کا حل بیان کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ جب سائنسدانوں نے جو اندازے لگائے اور ان منازل کو جو انہوںنے سوچے Repeatکیا ہے Laboratoriesمیں تو یہ بات پتا چلی کہ یہ امکان ہے قدرت کی طرف سے کہ بجائے اس کے کہ زندگی پہلے ہو اور زندگی کا مادہ بعد میں ہو آسمانی اثرات سے یہ ممکن ہے کہ سمندر میںوہ زندگی کے مادے کا آغاز ہوجائے جو Inorganic Chemicals کو Organic Chemicals میں بدل دیتا ہے۔ یہ بحث تھی اس پر جب مزید غور کیا تو پتا چلا جو مادہ بنتا ہے وہ Reversable Process رکھتا ہے ۔ وہ ایسی کیمیا ہے جو پانی کے اندر جب تک پانی میں رہے گی وہ ازخود واپس اپنے اصل کی طرف لوٹتی چلی جائے گی ۔ اسلیے لامتناہی چکر ہے وہ ایک قدم بھی ترقی کا نہیں اٹھاسکتا اگر وہ پانی میں رہے ۔اس کاحل کیا ہے اس کا حل تلاش کرتے ہوئے کھوج لگاتے ہوئے اب پچھلے ایک دو دھاکوں میں غالباً یہ بات نکلی ہے کہ سائنسدانوں نے وہ جگہ بھی دریافت کی ہے جہاں یہ واقعہ وہ کہتے ہیں ہوسکتا ہواہو اور جو منظرکشی کی ہے وہ یہ ہے کہ سمندر کے اس پانی نے جس میںوہ زندگی کے مادے کا مادہ موجود تھا یعنی زندگی جس مادے سے بنی ہے وہ پیدا ہوچکا تھا لیکن ابتدائی حالت میں تھا تو وہ ابتدائی حالت اگر بہت Concentrate ہوجائے تو حمأ مسنون کی کیفیت ہوگی۔ کیونکہ وہ حما اسی کیچڑ کو کہتے ہیں جس میںزندگی Decay ہوئی ہو اس کے سوا نہیں کہہ سکتے۔ تو قرآن کریم نے گویا یہ بھی روشنی ڈال دی کہ محض پانی نہیں اچھالا گیا جس میںکیمیائی مادے موجود تھے بلکہ وہ کیچڑ اچھالا گیا ہے جس میںاس کثرت سے وہ مادے پیدا ہوچکے تھے۔ Reversable Processمیںہوتے ہوتے ان کا بہت زیادہ اجتماع ہوا ہے Concentrationہوگئی ہے کہ اسے ہم کیچڑ سے تشبیہہ دے سکتے ہیں یعنی زندگی کے مادے اس میں مسلسل Decay کررہے ہیں اس پانی کو ہم نے اچھال کر ایک ایسی جگہ پھینک دیا جہاں وہ خشک ٹھیکریوں میںتبدیل ہوا اور جو سائنسدان کہتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اتنی Strong Sun-Rays تھیں اس زمانے میں کہ Bakeہوئی ہے مٹی باقاعدہ اور Bake ہوکے اس کی پپڑیاں بن گئی ہیں۔ اور ان پپڑیوں کی سطح پر سورج کی گرمی سے اگر وہ پپڑیاں۔۔۔۔ Silicon کا مادہ رکھتی ہوں تو خشک Dryحالت میں کیمیا ترقی کرکے اگلی اس کیمیامیں بدل سکتی ہے۔ یہ بھی سائنسی مشاہدے سے ثابت شدہ بات ہے کہ اتنی خطرناک گرمی میںسوکھی ہوئی مٹی کی پپڑیوں کی سطح پر وہ ردّ عمل ممکن ہے کہ وہ کیمیا جو بار بار پانی میںواپس اپنے اصل کی طرف لوٹتی تھی وہ اگلاقدم اٹھالے اور ایک ایسی کیمیا میں بدل جائے کہ اگر دوبارہ پانی اس جگہ پہ قبضہ کرے اور ان ٹھیکریوں کو بہا کر پھر سمندر میں لے جائے تو وہ ترقی یافتہ شکل کیمیا کی جس کیلئے خشک دور سے گزرنا لازم ہے مٹی کی پپڑیوں کے بغیر بن ہی نہیں سکتی۔ وہ پھر لامتناہی سفر پانی کے اندر ترقی۔۔۔۔۔ کرسکتی ہے ۔ یہ مضمون ہے اس لیے حمأٍ مسنون تو اس پر مزید روشنی ڈالتا ہے اور اس کے مخالف نہیں ہے بلکہ اسی مضمون کی تفصیل ہے۔ اب وقت چونکہ زیادہ ہوچکا ہے اب باقی پانچ دن ہیں یا چار دن ہیں؟
چار دن ہیں۔ ایک دن نکل جائے گا درس آخری کیلئے ۔ تو تین دن میں اگرخداتوفیق دے تو اس کو سورۃ آل عمران کو Cover کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ پھر جو خدا کی مرضی۔ ٹھیک ہے۔ اچھا جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ26؍رمضان بمطابق 27؍فروری 1995ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ربنا انک من ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انک لاتخلف المیعادO(آل عمران: 193تا195)
ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ۔ اے ہمارے ربّ یقینا جسے تو آگ میں جھونک دے تو تو نے اسے ذلیل اوررسوا کردیا اور ظالموں کیلئے کوئی مددگار نہیں۔ اے ہمارے ربّ یقینا ہم نے ایک بلانے والے کو ، ایک پکارنے والے کو سنا۔ جو ایمان کی طرف بلارہا تھا یہ کہتے ہوئے أن امنوا بربکم کہ اپنے ربّ پر ایمان لے آئو۔فامنا پس ہم ایمان لے آئے۔ ربنا فاغفرلنا ذنوبنا اے ہمارے ربّ ہمارے گناہ بخش دے۔لفظاً ہے ہمارے لیے ہمارے گناہ بخش دے۔ وکفر عنا سیاتنااور ہم سے ہماری برائیاں دور فرمادے۔ وتوفنا مع الابراراور ہمیں نیکوں کے ساتھ وفات دے۔ربنا واتنا ماوعدتنا علی رسلک اور اے ہمارے ربّ ہمیں عطا فرما جو وعدے تو نے کیے ہیں ہمارے ساتھ وعدتنا علی رسلک اپنے رسولوں کے ذریعہ۔ جو گزشتہ رسول ہیں ان سب کے ذریعہ جو تونے آئندہ ہم لوگوں سے متعلق وعدے فرمائے ہیں وہ پورے فرمادے۔ ولا تخزنا یوم القیمۃ اور قیامت کے دن ہمیںرسوا نہ کرنا۔ انک لاتخلف المیعاد یقینا تو وعدوں کے خلاف نہیںکیا کرتا۔ یعنی وعدہ خلافی نہیں فرماتا۔ اس سے پہلے نار کا ذکر گزرچکا ہے۔ عذاب النار کا اس میں خزیہ کا کوئی ذکر نہیں۔ماخلقت ھذا باطلاً سبحنک فقنا عذاب النار۔ کہ اے خدا یہ کائنات تو نے بیکار پیدا نہیںکی، بے مقصد پیدا نہیں کی۔ پس ہمیں ایسا نہ بنانا کہ ہم اس کے مقاصد سے بے خبر رہ کر آگ کاایندھن بن جائیں اور ہمارے وجود کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔ ان معنوں کے بعد میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ وہ لوگ جو کائنات کو باطل سمجھتے ہیں کوئی مقصد اس کا نہیںسمجھتے ان پر اس دنیا میں بھی آگ کا عذاب جنگوں کی صورت میںنازل ہوتا ہے اور وہ ان کو گھیر لیتا ہے۔ ان دونوں معنوں کے لحاظ سے یہ آیت مسلسل دونوں مضامین کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ پہلی صورت میں اگر جنگ کے معنے لیے جائیں اور دنیا میںجنگ کا عذاب بھی مراد لیا جائے تو یہ ہے۔ ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ۔ ان لوگوں کو جب تو جہنم کی آگ میں جھونکے گا تو ایک مقصد ہے تاکہ ان کے تکبر ٹوٹیں اور یہ ذلیل اور رسوا ہوکر نکلیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جنگوں سے پہلے جو تکبر کی حالت ہوتی ہے بڑی قوموںکی وہ جنگوں کے بعد نہیںرہتی اور ان کی سوچوں میں ایک نمایاں تبدیلی واقعہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ ان میں بڑی سے بڑی طاقتور قوم بھی جنگ کے دوران ذلیل ضرور ہوتی ہے۔ آپ دیکھیں جنگ عظیم اوّل میں بھی اور ثانی میں بھی جب جرمنوں کے Alliedمتحدہ جو لوگ کیا کہتے ہیں ان کو؟ اتحادی، اتحادی جرمنوں کے قیدی بنائے جاتے تھے تو وہ ان سے انتہائی ذلت آمیز سلوک کرتے تھے۔ آج تک وہ Documentry جو اس زمانہ کی دکھاتے ہیں ، ناقابل برداشت ذلت کا سلوک ہے۔ اور جاپانی تو حد ہی کردیتے تھے۔ جس طرح جاپانیوں نے ان لوگوں کو ذلیل کیا ہے اس کی کم مثال دنیامیںملتی ہے۔ لیکن جب یہ ان کے قابو آتے تھے تو یہ بھی کمی نہیںکرتے تھے۔ مگر شاید قاعدہ قانون کی زیادہ پابندی کرتے ہوں۔ مگر اب فلمیں دکھانا ان کے اختیار میںہے۔ اس لیے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سے ایسے سلوک تھے جو انہوں نے ان سے روا رکھے ۔ مگر اب وہ دکھائے نہیں جارہے۔ مگر قرآن کریم بتارہا ہے کہ جنگ کی حالت میں اگر اس کاجنگ بھی ترجمہ کیاجائے جیسا کہ جائز ہے ۔ قرآن کے خود اپنے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ معنی بھی جائز ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو ذلت ،آگ کے عذاب کے بعد ذلت کا مضمون ہے جو سمجھنے کے لائق ہے۔ آگے میں مفسرین کا ذکر کروں گا تو اس میں یہ بات کھولوں گا کہ آگ کے عذاب کے بعد ذلت کاکیوں ذکرہے۔ لیکن میں محض تمہیداً یہ بتارہا ہوں ابھی ہم نے لغت کی بحث شروع کرنی ہے۔یہ دونوں مضامین یعنی دنیا میںجنگوں کے ذریعہ قوموں کو سزادینااور آخر ت میں جہنم کی سزا دینا۔ یہ دونوںمضامین مسلسل پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں۔ أخزیتہ کے نیچے لکھا ہے خزی الرجل۔ رسوا ہوگیا۔ پس خزی سے باب افعال ہے أخزی۔ مرا دیہ ہے کہ رسوا ہوگیا نہیں بلکہ رسوا کردیا۔ کہتے ہیں خواہ وہ رسوائی انسان کو اپنی ذات سے پہنچے یا غیر کی طرف سے پہنچے۔ دونوں صورتوں میں لفظ خزی کا اطلاق ہوگا۔ أخزییہ خزی اور خزایۃ سے باب افعال ہے۔ مفردات راغب صفحہ 270پر اس کی یہ بحث اٹھائی گئی ہے۔ أخزیت: خزی ، یخزی خذیًا و خِذیًا: ذلّ وھان و قیل وفی بَلَّیۃٍ۔ ذلیل ہوا، رسوا ہوا یا مصیبت میںگرفتا ہوا۔ خزی منہ و خزیہٗ خزایۃً و خزی و استحیٰی منہ واستحیاہُ۔ ایک معنے اس کے شرم اور حیا کے بھی ہیں۔ تو مراد یہ ہے کہ ایسا رسوائی والا عذاب جس سے انسان سخت شرمندگی محسوس کرے اورمنہ چھپاتا پھرے یہ معنے اس عذاب کے مضمون میںداخل ہیں۔ پھر ہے الخزی : الھوان والعقاب والبعد والندامۃ واصل الخزی یستحی منہ۔رسوائی ، سزا، دوری، ندامت۔ خزی سے مراد وہ چیزہے جس سے شرمندگی لازم ہو۔ اخزی اللہ فلانا فضد ھہ اس نے اس کو رسوا کیا۔ اقرب الموارد ۔انک من تدخل النار فقد أخزیتہ تمامٌّ دخلہ الخصوص فی مواضع منھا۔ حضرت امام رازی کے نزدیک جوبہت سی تشریحات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قولہ انک من تدخل النار فقدأخزیتہ عام دخلہ الخصوص فی مواضع منھا ان قولہ تعالی و ان منکم الا واردھا کان علی ربک حتما مقضیا۔ ثم ننجی الذین اتقوا یدل علی ان کل المؤمنین یدخلون النار و اھل الثواب۔۔۔۔۔ یصانونلکھاہوا ہے یہ لفظ۔ یہی ہے ؟یصانون عن الخزی؟ کچھ اور ہے لفظ شاید ۔
‏PS: لکھا تو یصانون ہے۔
حضور: اس کامطلب ہوتا ہے بچنا کسی سے؟ یصانیھا؟ ان الملائکۃ الذین ھم خزنۃ جھنم۔ یکونون فی النار وھم ایضًا یصانون۔ وہی لفظ ہے یصانون عن الخزی بچائے جانے کے معنوں میں۔حضرت امام رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ عام ہے۔ دخلہ فی الخصوص فی مواضع منھا۔ بعض موقعہ پر اس میں خصوص بھی برتا گیا ہے۔ مگر یہ عام معنی ہے یعنی ہر شخص جہنم میںضرور جانے والا ہے۔ و ان منکم الا واردھا کان علی ربک حتما مقضیا۔ ثم ننجی الذین اتقوا۔ یہ جو ثم لفظ ہے یہ تخصیص پیدا کرنے کیلئے آیا ہے۔ ان میںسے ایک گروہ جہنم میں داخل ہونے کے بعد پھر بچالیا جائے گا۔ یہ جو اس آیت کا ترجمہ ہے کہ ہر شخص مرنے کے بعد یہ ان معنوں میں کہہ رہے ہیں ۔ لازماً جہنم میںجائے گا یہ ایک عقیدہ ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی آیت کی تفسیر کے دوران سختی سے ردّ فرمایا ہے کیونکہ دوسری آیات قرآنی اس کے خلاف گواہی دیتی ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے وہ تو اس سے دور رکھے جائیں گے۔ اتنا دورکہ اس کی حسیس تک نہ سن سکیںگے۔ یعنی حسیس کہتے ہیں وہ آواز جو ہلکی ہلکی کھسکھساہٹ والی آواز پھس پھس کی آوا ز جو سرگوشی کی سی آواز ہو او رجہنم کے متعلق فرمایا ہے وہ خوب جوش مارے گے اور ابل رہی ہوگی اور غیر معمولی وہاں سے آوازیں چیخ و پکار کی بھی آرہی ہوں گی۔ تو اتنا دور رکھے جائیںاگر کہ حسیس تک نہ سن سکیں گے۔ تو ان کو عذاب کی کوئی لپٹ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ کسی صورت میں نہیںپہنچ سکتی۔ اس لیے یہ معنی کرنا اس آیت کے بھی منافی ہے اور جو سورۃ الاعراف میںمضمون بیان ہوا ہے اس سے بھی یہ متصادم ہے۔ کہیں ثابت نہیں قرآن کریم سے کہ جہنم میں خدا کے پاک بندوں کو ڈال کر پھر نکال لیا جائے گا۔ لیکن چونکہ ان علماء نے اس آیت کو لفظاً من و عن قبول کرلیا ہے ، اس کے معنے پر مزید غور نہیںکیا یا بعض نے کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا اس لیے یہ مشکل پیش آگئی ہے۔ وہ کہتے ہیں تھوڑا سا دھکا دے کے پھر نکال لیا جائے گا۔ لیکن جائیں گے سارے کے سارے ضرور۔ اور جب نکالاجائے گا تو وہ تخصیص ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے برعکس جو معنے لیتے ہیں وہ میںآپ کے سامنے پڑھ کے سنائوں گا مگر ابھی اس مضمون پر اور بھی آراء ہیں وہ بھی میں آپ کو بتادوں۔ وہی بات اس کا ترجمہ بھی نیچے لکھا ہوا ہے۔ اس آیت میں عام مفہوم ہے جبکہ بعض جگہ اس میں خاص مفہوم داخل کیا گیا ہے۔ امام رازی کے نزدیک وہ جو خاص مضمون داخل کیا گیا ہے تمام مومن آگ میںداخل ہوں گے البتہ اہل ثواب رسوائی سے بچ جائیں گے۔ تو کہتے ہیں عذا ب دو قسم کا ہے۔ ایک آگ کا عذاب جو جلانے والا اور ایک ہے رسوائی جو اس کے بعد ذکر آیا ہے۔ فقد اخزیتہ جس کو تونے آگ کا عذاب دیا اس کو رسوا بھی کردیا۔ تو یہ جو تفصیلی بحث انہوں نے اٹھائی ہے بڑی دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں ملائکہ بھی تو جہنم میںہوں گے۔ وہ آگ کے فرشتے جو وہاں داروغے مقرر ہوں گے تو وہ بھی غلاظًا شدادًا جو ہیں وہ بھی آگ کے عذاب سے بچائے جائیںگے یعنی رسوائی کے عذاب سے۔ حسن تھدیہ من عذاب من النار من عذاب الخزی الخجالۃ۔حضرت امام رازی ذکر کرتے ہیں کہ بہت سے پرحکمت لوگ ایسے ہیں ، حکماء جنہوں نے اس آیت کے روحانی معنے کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہاں عذاب آگ سے مراد وہ ظاہری آگ کا عذاب نہیں ہے بلکہ گناہوں کے نتیجہ میں جو دل میں ایک سزا کے طور پر آگ بھڑکائی جاتی ہے وہ ہے۔ اور وہ اس سے زیادہ خطرناک ہے جو ظاہری آگ ہے۔ اور وہی خزیۃ کی آگ ہی ہے۔ تو وہ کہتے ہیں حضرت امام رازی بعض دوسروں کا ذکر نام لیے بغیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ان کے نزدیک عذاب چونکہ آیت عذاب النار کے بعد رسوائی پر متنبہ کررہی ہے ۔ رسوائی خجالت ہے یہی روحانی عذاب ہے اوراگر روحانی عذاب جسمانی عذاب سے زیادہ سخت نہ ہوتا تو عذاب النار کے بعد خجالت یا رسوائی کا عذاب پر التواء کا مضمون ہرگز نہ ہوتا۔ یعنی جو میں نے بیان کیا ہے اس سے کچھ مختلف نتیجہ نکالا ہے اصل میں۔ وہ کہتے ہیں پرانے حکماء نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ خزیۃ سے مراد روحانی عذاب ہے اور پہلا عذاب جو ہے آگ کا وہ گویا کہ جسمانی ہی ہے۔ اس پہلو سے وہ اس کی ترتیب کی توجیہہ پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں خزیہ تو پہلے ہوتی ہے جب مار کوٹ کے ذلیل کرکے آگ میں پھینکا جائے ۔یہ آگ کے عذاب کے بعد کیا ذلت کی بات ہے۔ تو اس مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر وہ یہ توجیہ کرتے ہیں کہ آگ کا عذاب اپنی جگہ درست مگر اس کے علاوہ بعد میں ندامت اور شرمندگی کا عذاب بھی ان کو ملے گا اور وہ استنباط یہ کرتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ آگ کے عذاب سے یہ اندرونی آگ کا عذاب زیادہ سخت ہے ورنہ اللہ پہلے اس چھوٹے عذاب کا ذکر فرماتا پھر اس بڑے عذاب کاذکر کرتا۔ تو بعد میں بڑے عذاب کا ذکر بتاتا ہے کہ بعد میںخزٰیۃ کا ذکر بتاتا ہے کہ یہ عذاب آگ کے عذا ب سے بڑا ہے۔
یہ ہے تفسیر طَبری۔ طِبری کہتے ہیںبعض لوگ بعض طَبری۔ میں اسے طَبری پڑھا کرتا ہوں۔ کیوں جی طَبری ہے ناں۔ قال بعضھم معنی ذلک ربنا انک من تدخل النار من عبادک فتخدرہ فیھا فقد أخزیت۔ قال ولا یخزی مومن مصیرہ إلی الجنۃ و ان عذب بالنار بعد العذاب۔ عن انسٍ فی قولہ ربنا انک من تدخل النار فقد أخزیتہ قال من تخلد۔ تو وہ کہتے ہیں بعض کے نزدیک ربنا إنک من تدخل النار سے مراد وہ بندے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے یعنی وہ گناہگار جو ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تفریق ہے ان مومنوں سے جو مومن ہونے کے باجود، پاکباز ہونے کے باوجود ، بخشے جانے کے باوجود کچھ دیر کیلئے آگ میںجائیں گے۔ تو یہ جو ہمیشہ کامضمون ہے یہ گناہگاروں کو الگ کردیتا ہے ان پاک لوگوں سے جو جلدی نجات پاجائیں گے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من تدخل النار سے مراد ایسے لوگ ہیں جودائمی طور پر جہنم میںہیں۔ یہ تو درست ہے یعنی لمبا عرصہ جہنم کی سزا ہے مگراس سے یہ استنباط کرنا کہ رسول اللہ ﷺکے نزدیک کچھ لوگ تھوڑی دیر کیلئے جائیں گے بالکل غلط ہے بلکہ الٹ مضمون ہے۔ یہاں صرف ان لوگوں کاذکر ہے جو ہمیشہ جہنم میںرہیں گے یا لمبے عرصہ تک رہیں گے۔ یہ اگر مطلب ہو تو خود بخود مومنین کے داخل ہونے کا احتمال ہی ختم ہوجاتا ہے ساتھ ہی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں : اس آیت میں ایک لمبا مضمون چلا آرہا ہے اس میں سے آئینہ کمالات اسلام میں سے میں نے اتنا حصہ چنا ہے۔ اس آیت میں بیان فرمایا کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیںہے۔ متقی بھی! اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں۔ اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اس دنیا میں جو دارالابتلاء ہے انواع و اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں۔ یعنی خدا کی خاطر خود اس دنیا میںہر قسم کی جہنم قبول کرتے ہیں یا ہر قسم کی جہنم کی آگ ان کے خلاف بھڑکائی جاتی ہے اور صبر اور رضا کے ساتھ وہ اس آگ سے سلامت نکل جاتے ہیں ۔ یہ وہ مراد ہے کہ ان منکم الا واردھاکہ تم میں سے لازماً ہر شخص اس میں وارد ہونے والا ہے۔ وہ ستائے جاتے ہیں اور دکھ دیے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کرسکتا اور حدیث صحیح میں ہے کہ تپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ بھی نار جہنم ہے۔ تو ایک اور معنی بھی بیان فرمادیا کہ مومن کو بسا اوقات اس دنیامیںسزا مل جاتی ہے اور وہ چیزیں جو باقی لوگوں کیلئے حادثاتی واقعات ہیں روزمرہ کے ۔ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کی کمزوریوں کی سزا کے طور پر بھیج دیتا ہے ۔ تو ایک مغفرت کا ایک بہت ہی خوبصورت اندا زہے جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا او رمسیح موعود علیہ السلام نے اس کو سمجھا ورنہ ہماری نظر نہ پہنچتی اس بات کی طرف۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر عذاب کو جہنم کے عذاب کو خدا کی طرف منسوب کرنا ہو کہ ضرور وہی دے گا اس دنیا میں اور جو اپنے شوق سے پہنچا ہوا عذاب نار یعنی خود خدا کی خاطر جہنم میںجھونکنا انسان کا یا غیروں کی طرف سے وارد کردہ آگ وہ مراد نہ بھی سمجھو تو حدیث اس مضمون پر روشنی ڈال رہی ہے کہ مومن کو جو روزمرہ کی تکالیف پہنچتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو سزا کے حق میں لکھ دیتا ہے۔گویا آگ کا وعدہ تپ کی صورت میں پورا ہوگیا۔ اور بعض دفعہ لوگ جو بخار میں جل رہے ہیں کہتے ہیں میں پھنک رہا ہوں بخار میں۔ آگ لگی ہوئی ہے سارے بدن میں۔کینسر کے بعض مریض میرے پاس آتے رہے ہیں وہ کہتے ہیں سرسے پائوں تک اندر لگتا ہے آگ لگی ہوئی ہے۔ تو یہ اگر مومن بندہ ہو خدا کا تو اس کیلئے اس میں رحمت کا نشان بھی ہے۔ ان منکم الا واردھا اس رنگ میں اس کے حق میں اس دنیا میں ہی پورا ہوگیا۔ مگر جو غیر مومن اور کافر ہے اس کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا میں بھی عذاب ہے اور اس دنیا میں بھی عذاب ہے۔تو ان کیلئے یہ عذاب آئندہ عذاب سے کفایت نہیں کرتا ، اس کی راہ میں حائل نہیںہوتا۔ پھر فرمایا دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کیلئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے ۔ یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میںتکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں۔ پس وہ بطیب خاطر اس جہنم میںوارد ہوجاتا ہے تو معاً اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں جن کا ماحاصل یہ ہے کہ مومن اسی دنیا میں نار جہنم کا حصہ لے لیتاہے اور کافر جہنم میں بجبرو اکراہ گرایا جاتا ہے۔ لیکن مومن خداتعالیٰ کیلئے آپ آگ میں گرتا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بیان فرمایا کہ مومن گرتا توہے آگ میں لیکن فوراً بچایا جانے کا مفہوم بھی اس پر صادق آتا ہے۔ دیکھنے والے بعض دفعہ یہ سمجھتے ہیں کہ سخت عذاب میں مبتلاء ہے۔ لیکن اس کو اللہ تعالیٰ ایسی سکینت عطا کرتا ہے اور ایسی طمانیت بخشتا ہے کہ وہ اس حالت میںلطف اٹھارہا ہوتاہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا یانارکونی بردًا و سلامًا علی ابراہیم۔ اس میں یہ نہیںملتا کہ آگ میںہم نے پڑنے ہی نہیںدیا۔ یہ خاص توجہ کے لائق بات ہے۔ فرمایا ہم نے کہا یانارکونی برداوسلاما علی ابراھیم۔ اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا ۔ دو معنے ہیں اس کے۔ ایک تو عام معنی یہ ہے کہ دشمنوں نے آگ بھڑکائی مگر اس آگ سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔ پیشتر اس کے کہ وہ ابراہیم کو جلاسکتی وہ مخالفت کی آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ ایک یہ معنی بھی ہے ۔ ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس تکلیف میں بھی ڈالا گیا اللہ نے اس تکلیف کے عذاب سے ان کو محفوظ رکھا اور ہر بار یہ حکم ہوا یانارکونی برداو سلاما علی ابراھیم کہ اے آگ میرے بندے ابراہیم پر تو ٹھنڈی پڑ جا۔ تو دنیا میں ہی وہ عذاب آتے ہیں جومومن کو اگر حادثاتی صورت میں بھی ملیں۔ اپنی مرضی سے تو کوئی تپ نہیں چڑھاتا۔ تو اللہ کی مغفرت اسے اس کی غفلتوں اور کمزوریوں کے نتیجہ میں سزا کے خانے میںلکھ کر یہ حساب اس دنیا میں ہی چکا دیتی ہے۔
ربنا انک من تدخل النار ۔۔۔ من انصار کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نوٹس میں درج ہے کہ انصارکی کئی اقسام ہیں۔ رشتہ دار، دوست، اولاد وغیرہ۔ فرمایا اللہ کے مقابل پرکوئی بھی مدد نہیںکرسکتا۔ اس لیے ان پر توکل اور بھروسے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر توکل کرو اور اس سے تعلق استوارکرو۔ اب دوبارہ اس آیت کی طرف میں پھرآتاہوں ربنا انک من تدخل النار فقد أخزیتہ۔ اس میں ایک مفہوم تو اس دنیا کا میں بیان کرچکا ہوں کہ وہ قومیں جو اس دنیا میںجہنم کی آگ یعنی حرب کی آگ میں مبتلاء کی جاتی ہیں، ان کا پہلے ذکرہوچکا ہے باطل سمجھتی ہیں۔ یہ اس کے ساتھ تعلق ہے اس مضمون کے ساتھ۔ تو دنیا کو باطل سمجھنے والوں کی ترقیات خود ان کیلئے جہنم پیدا کردیتی ہیں اور اس کانتیجہ یقینا رسوائی ہوتا ہے اور اس طرح ان کے تکبر ٹوٹتے ہیں۔ یہ تکبر ٹوٹنے کا جو مضمون ہے یہ قرآن سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اور اس کے نتیجہ میں بالآخر ان کے مزاج اسلام کوقبول کرنے کیلئے تیار ہوں گے۔ یہ وہی مضمون ہے جو سورہ طٰہٰ میں بیان ہوا ہے کہ وہ توڑے جائیں گے او رریزہ ریزہ کردیے جائیں گے اور ہموار کردیے جائیں گے۔ لاتری فیھا عوجًا ولا امتا۔ توان میں نہ کوئی بلندی دیکھے گا نہ کوئی پستی۔ برابر ہوجائیں گے سب۔ یومئذٍ یتبعون الداعی۔ اب وقت ہے ان کیلئے وہ اس بات کے اہل ہوئے ہیں کہ اس داعی کو قبول کریں جس میںکوئی عوج نہیں۔ تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہ دنیا میںجو جنگوںکے عذاب ہیں ان کا ذکر چل رہا ہے اور ان عذابوں سے دن بدن وہ رسوا ہوکراپنے تکبر میں ان کے تکبر ٹوٹیں گے اور وہ کمتر ہوتے چلے جائیں گے،عامی سطح پر آتے چلے جائیں گے۔ یہ سلسلہ اس وقت دنیا میںجاری ہے اور ہندوستان سے جو سلوک ہوا ہے جنگ عظیم کے بعد وہ جنگ عظیم سے پہلے ممکن نہیں تھا۔ تکبر صرف نہیں بلکہ سوچیں ایسی ہیں بعض جن کا تعلق اختیار سے نہیں ہے۔ ایک امیر آدمی جو ایک لمبا عرصہ امیر رہتا ہے تو وہ غریبوں کی حالت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ بعض لوگ جو لمبا عرصہ بادشاہتیں کرتے ہیں ان میں نیک دل بھی ہوں تو ان کو تصور نہیں کہ محکومی کیا چیز ہے۔ لیکن جب ان کے قوم کے ایک حصے کو جنگ کے دوران محکومی کے مزے ملتے ہیں اور وہ معلوم کرتے ہیں کہ آزادی کیا چیز ہے تو پھر ان غریب قوموں کا بھی ان کو خیال آتا ہے جو لمبے عرصے آزادی سے محروم رہیں۔ تو اس کے نتیجے میں ان کیلئے اللہ تعالیٰ نجات کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ تو یہ جو خزی ہے یہ بے مقصد بھی نہیں ہے۔ میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ عجیب مضمون ہے اس آیت کا۔ باطل کا جو مضمون چل رہا ہے۔تو اللہ تعالیٰ بھی تو باطل سے بالا ہے اور پاک ہے۔ اسی کا تو ارشاد ہے کہ یاد رکھنا میرا کوئی فعل بھی باطل نہیں ہے۔ اس کائنات کا مطالعہ بھی جتنا کرو گے اتنا باطل دکھائی نہیںدے گا۔ تو اس آیت پر غور سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سزائیں بتارہا ہے وہ بھی باطل سے خالی ہیں اور باطل کہتے ہیں بے مقصد ہونے کو اصل میں۔ تو جتنی بھی خزی کی سزائیں آگ کے عذاب کے بعد ملتی ہیں وہ ایک مقصد پورا کرتی ہیں ۔ اور اس دنیا میں وہ مقصد رفتہ رفتہ حالات کو تبدیل کرنا ہے اور بلند قوموں کو جو اپنے آپ کو Ivory Tower پر چڑھائے بیٹھی ہوں ان کو ان کی سزا ان کے۔۔۔ زاویہ نگاہ کی سزا مراد ہے۔ اور وہ خزی سے ہوسکتی ہے اس کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک احساس ذلت ان کے اندر پیدا نہ ہو اس وقت تک یہ کمزور اور غریب اور ذلیل قوموں کے حالات سے ہمدردی ہی نہیں رکھ سکتے۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ وہ لوگ ہیں کیا۔ تو رفتہ رفتہ مزاج تبدیل ہوتے ہیں اور یہ مزاج کی تبدیلی اس صدی میں تو بڑی نمایاںدکھائی دے رہی ہے۔ چودہ سے پہلے کے مزاج اور تھے چودہ کے بعدکے اور ہیں۔ انتالیس سے پہلے کے مزاج اور تھے چوالیس کے بعد اور ہیں یا پینتالیس کے بعد ، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ غالباً تیسری جنگ عظیم وہ ہوگی جس کے بعد اسلام کے غلبے کیلئے ان کے مزاج ہموار ہوچکے ہوں گے۔ اس لیے یہ محض سزا ہی نہیں ہوتی ایک مقصد ہوتا ہے ۔ اب یہ خیال کہ سب مٹ جائیں گے یہ غلط ہے۔ وہ باقی رہیں گے تو لاعوج والے رسول کی پیروی کرسکیں گے ۔ اس لیے یہ ہرگز درست نہیں کہ آئند ہ جنگیں ان کو مکمل طور پر ہلاک کردیں گے۔ قرآن کریم نے ہلاکت کی بجائے تکبر ٹوٹنے کا ذکر فرمایا ہے۔ اور اگر وہ عجز سے اسلام میں داخل ہوجائیں توبعیدنہیں کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد پھر بھی معزز وہی رہیں۔ کیونکہ ان کے اندر جو ترقی حاصل کرنے کا مادہ ہے وہ اسلام میں بھی جوہر دکھائے گا۔ اس مضمون کو سمجھنے کیلئے رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد کہ جو جاہلیت میں افضل تھا وہ اسلام میں بھی افصل ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ جاہلیت کی برتریاں اسلام میں بھی جاری ہیں۔ وہاںمراد خوبیوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے جو جاہلیت کے زمانہ میںغیر معمولی خوبیاں رکھتا تھا اسلام میں آکر وہ خوبیاں اور بھی چمکیں گی اور وہ ذلیل و رسوا ہو کر گرائے نہیں جائیں گے بلکہ وہ ذلت کو قبول کرکے اسلام میں داخل ہونا ان کے مراتب کی بلندی کا موجب بنے گا نہ کہ گرانے کا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ لیں، کس تکبر کی حالت میں تھے۔ کس شان کی حالت میں گلیوں میں پھرا کرتے تھے۔ جب وہ اس خزی سے خزی سے گزرے ہیں جو خدا کی خاطر انہوں نے خود قبول کی ہے تواس نے ان کا مرتبہ بڑھادیا بجائے کم کرنے کے اور دائمی کردی ان کی عزت۔ یہی حال اوّل صحابہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ اور اور دوسرے صحابہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر بہت سے جنہوں نے اسلام کی خاطر ذلت قبول کرلی اور وہ ذلت بے مقصد نہیں تھی ان کے مراتب کو بڑھاگئی۔
تو ایسے لوگ جو یہاں اچھے ہوں اس دنیا میںیعنی ان میں صلاحیتیں ایسی ہیں کہ وہ چمک سکیں اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ان کے درجہ گریں گے نہیں ان کیلئے خوشخبری ہے۔ ان کی وہ سعادتیں برقرار رکھی جائیں گی مگر اچھے رنگ میں۔ یہ جو مضمون ہے جو قومیں ہیں غریب اور تیسرے درجہ کی آجکل کہلاتی ہیں ان کیلئے اس میںافسوس کا مقام نہیںہے۔ ان کیلئے یہ پیغام ہے کہ تم بھی وہ خوبیاں تو ضرور حاصل کرو جو ان لوگوں میں ہیں ورنہ اسلام کے بعد یہ پھر بھی اوپر ہی رہیں گے۔ تو خداتعالیٰ انصاف کا سلوک فرماتا ہے جو قانون اس نے جاری فرمائے ہیں وہ ضرور اپنا عمل دکھاتے ہیں۔ تو تمہیںایک غلبہ ہے ان پر ، ایک نوعیت کی فضیلت حاصل ہے کہ دینی لحاظ سے تم ان سے بہتر ہو۔ لیکن جب یہ اسلام قبول کرلیں گے تو اس وقت تک تم اگر دنیوی حالت میں ان کی خوبیوں کو اپنا نہ چکے ہوگے تو ان کو پھر فضیلت نصیب ہوجائے گی۔ تو کوئی ذلت بھی جو اس دنیامیں پہنچتی ہے وہ بے مقصد نہیں ہے اور باطل نہیںہے۔ دوسرا پہلو ہے قیامت کے دن عذاب کے بعد أخزیتہ کا ذکر۔ اگر ہم قیامت کے مضمون میں جائیں تو من تدخل النار فقد أخزیتہ ہاں ایک اور پہلو۔۔۔ وما للظلمین من انصار۔ جتنی بھی جنگیں ہیں ان میں کم و بیش سارے ہی فریق ظالم ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ باریک تفریق فرماتا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو ان جنگوں کے اوّل ذمہ دار ہوتے ہیں اور حقیقت میں ان جنگوں کا آغاز ان کی ظالمانہ سوچ کے نتیجہ میں یا ظالمانہ اعمال کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو مدد نہیں دی جاتی۔ مقابل پر اگر مجرم بھی ہوں اور عام حالات میں پاک صالح لوگ نہ بھی ہوں تو بعض جگہ نسبتی فیصلے چلتے ہیں۔تکڑی کا طول یہ تو نہیںدیکھتا کہ اس طرف کیا ہے یااس طرف کیا ہے۔ وزن دیکھتا ہے صرف۔ اور وزن کے اعتبار سے فیصلے کرتا ہے۔ تو توازن جب پیدا ہو، آپس میں مقابلہ ہو تو نسبتاً جو وزن رکھتا ہے وہ نیچے جھکے گا اور جونسبتاً ہلکا ہے وہ اوپر جائے گا۔ تو یہاں ظالمین کا لفظ الظالمین یعنی دنیا کے اطلاق میںیہ ہے وہ ظالم لوگ خاص جو دوسروں کے مقابل پر زیادہ ظالم ہوں گے ان کیلئے کوئی مددگار نہیں آئے گا یعنی آخر وہ شکست کھائیں گے۔ تو رسوائی دونوں کیلئے ہے لیکن ایک کیلئے شکست بھی مقدر ہے اور ایک کیلئے عذاب اوررسوائی تک ہی معاملہ ٹھہرے گا ۔ لیکن وہ رسوائیاں ان کیلئے بھلائی کا موجب بنیں گی۔ قیامت کے حساب سے یہ معنی بنے گا۔ انک من تدخل النار فقد أخزیتہ۔ اے خدا جس کو تو نے آگ کے عذاب میں ڈالا ہے۔ فقد أخزیتہ میں قد کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ بعد کا فیصلہ نہیں بلکہ پہلے کافیصلہ ہے۔کیونکہ عربی محاورہ ہے کہ جب لفظ قد ماضی سے پہلے آتا ہے تو ہوچکنے کے معنی میں آتا ہے۔ تو مراد یہ ہے کہ تو تو انہیں ذلیل کرچکا ہے۔ اس لیے یہ اس خیال کا میں مؤید نہیں ہوں کہ عذاب کے بعد پھر ذلت کا ذکر ہے۔ بلکہ عذاب کی کیفیت کا بیان ہے کہ عذاب ہے کیا۔ یعنی ان کو ذلیل و رسوا کرنا ہی وہ نارجہنم ہے جس میں وہ مبتلاء کیے جائیں گے۔ پس وہ گروہ جو روحانی معنی لیتا ہے ، ایک ایسے گروہ کا ذکربھی میں نے کیا تھاکچھ تھوڑا سااختلاف ہے ان کے بیان میں۔ لیکن آگ کے عذاب کو بھی روحانی کہنے والے یقینا پرانے علماء میں موجود تھے۔ اور اگر وہاں جسم نہیں ہیں ہمارے تو عذاب جسمانی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے مجبوری ہے کہ اس عذاب کو روحانی مانا جائے اور روحانیت کا عذاب بعض دفعہ متمثل ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسی شکل اختیار کرتا ہے جو ہمارے جسمانی تجربوں کے قریب تر ہوجاتی ہے۔اس روحانی عذاب کے ہوتے ہوئے اس کا جسمانی تمثل اسی صورت میںممکن ہے جس صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روح کے دوبارہ جی اٹھنے کے مضمون پر ایک عجیب لطیف روشنی ڈالی ہے جو اس معاملہ میں ایک ہی ہے۔ اور ساری اسلامی تاریخ میں، علماء کی گفتگو میں ، ان کے تبصروں میں ، ان کی تفاسیر میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ روح میں سے جب انسان مرتا ہے تو ایک اور روح پیدا کی جاتی ہے اور جو پہلی روح ہے جو بدن کے مقابل پر لطیف تھی۔ جس طرح میںنے ظالموں کا مقابلہ کیا توبعض ظالموں کے مقابل پر بعض جو زیادہ ظالم ہیںوہ سزا کے مستحق ٹھہریں گے جنہوں نے ظلم میں اوّل راہ اختیار کی ہے۔ اس طرح روح کا بھی ایک نسبتی معاملہ ہے۔وہ روح جو ہمارے بدن کے مقابل پر لطیف ہونے کی وجہ سے روح کہلاتی ہے اس کے تعلق میں ہم اس کے ہر تجربہ کو روحانی کہتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ روحانی عذاب ہوگا وہ روح عذاب پائے گی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ روح ایک اورروح کا بدن بنائی جائے گی جو لمبے ارتقائی دور سے گزرتے ہوئے ایک نئی تخلیق میں داخل ہوگی اور قیامت تک جو لمبا انتظار ہے وہ اسی حکمت کے پیش نظر ہے۔ کہ وہ لطیف سے لطیف تر تخلیق جو ایک روح سے پیدا ہورہی ہے ایک روح بن رہی ، وہ اپنے تمام مدارج سے مکمل طور پر گزرجائے پھر وہ اس قابل ہوگی کہ اس کو اٹھایا جائے پھر۔ اور یہ روح بدن کا کام دے گی۔ مگر ایسا بدن نہیںجیسا ہمارا بدن ہے۔ وہ کچھ ایسا بدن ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم اس کوسمجھ نہیںسکتے۔ تم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ہم کس شکل میںتمہیں اٹھائیں گے۔ مگر نسبتی جائزے کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی عطا فرمائی کہ یہ روح جو ہے یہ ہوگی تو روح ہی مگر اس کے مقابل پر بدن کی طرح ہوگی۔ اور ہمارے بدن کے مقابل پر جو روح ہے وہ بدنی حیثیت رکھتی ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہ بدن اور معنوں میں ہے کچھ لیکن نسبتی لحاظ سے اس کا عذاب گویا بدنی عذاب بن جائے گا۔اور جو عذاب ہے وہ متمثّل ہو کر اس کیلئے ایسا ہی ہے جیسا اس بدن کو آگ معلوم ہوتی ہے۔ اس طرح اس کو اپنا عذاب آگ دکھائی دے گا اور وہ روح تکلیف اٹھائے گی جو اس بدن سے پید اہوئی ہے۔ تو یہ مضمون ہے قد أخزیت میں کہ پہلے ہی اللہ تعالیٰ ذلیل کرچکا ہے، رسوا کرچکا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ اے خدا جسے توآگ میں ڈالے تو تو اس کے حق میں رسوائی کا فیصلہ کرچکا ہے۔ اور جسے تو رسوا کرے پھر اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ آگ جو ہے وہ درحقیقت رسوائی اور ذلت کی آگ ہے جو بھڑکائی جائے گی اور انتہائی خوفناک عذاب کی صورت میں ان پر ظاہر ہوگی۔ وما للظلمین من انصار۔ اس صورت میں بھی جو ظالم ہیں ان کیلئے کوئی مددگار نہیںہوسکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام نے ظالمین کی گفتگو جو چھیڑی ہے وہ اس آیت کے تعلق میںبھی ہے مگر وہ مضمون سے ذرا ایک طرف لے جائے گی۔ وہ ہے ظالم۔ الظالم سے مراد وہ ظالم ہیں جو بدیوں میںظالم ہیں۔ اور ’’ال‘‘ یہاں تخصیص کا فائدہ دے کر اس گروہ کو الگ کررہا ہے۔ کچھ ظالمین ایسے ہیں جو نیکیوں میں ظلم کرنیوالے ہیں۔ یعنی اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔ وحملھا الانسان۔ انہ کان ظلومًا جھولاً۔ وہ مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام دیتے ہیں اور اسی طرح مقتصد والی آیات کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک ہی لفظ متضاد چیزوں پر اطلاق پاتا ہے اور دونوں میںوہ اس کا معنی درجہ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ تو ظالم وہ جو بدیوںمیں بھی حد سے زیادہ اپنے خلاف اپنے مقصد کے خلاف کام کرنے والا ہو او رظلم کرنیوالا ہو دوسروں پر لیکن دراصل اپنی جان پرظلم کررہا ہو۔ ایک یہ ظالم ہے۔ ایک یہ ہے کہ جو اپنی جان پر خود ایسا ظلم کرتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماتا ہے اور اس کا ہر ظلم رحمت پر منتج ہوتا ہے اور وہ الظالمین نیک لوگ ہیں اور ان کوان کی نیکی کے کمال کے طور پر ظالم کہا گیا ہے۔ پس وہ لوگ جو خود آگ میں اپنے آپ کوجھونکتے ہیںبڑے ظالم ہیں یعنی گویا کہ خودکشی کرلیتے ہیں مگر خد اکی خاطر یہ ظلم کرنے والے ہیں۔ اس لیے اللہ اس کا بد نتیجہ ظاہر نہیںہونے دیتا اور اس آگ کو بھی ٹھنڈا فرمادیتا ہے اور اس کی دائمی جزاء ان کو عطا کرتاہے۔ ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان اے ہمارے ربّ ہم نے سنا، منادی کو۔ ایک منادی کو ۔ لفظاً اس کاترجمہ ہیمنادِیًا کسی ایک منادی کو ۔ لیکن یہاں عظمت کے اظہار کیلئے یہ نکرہ آیا ہے۔ ایک عظیم الشان منادی کو، ایسا کہ اس پر ’’ال‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں ہے، ہے ہی وہی۔ شہروں میں سے ایک شہر کہتے ہیں ناں۔ دلی تھا شہروں میں سے ایک شہر۔ تو شہر نہیں، ایک شہر۔ تو بعض دفعہ ایک چیز اتنی عظیم ہوتی ہے کہ اسے مخصوص کرنا اس کی عزت افزائی نہیں بلکہ اس کی عزت کوگرانے کاموجب بن جاتی ہے گویا اور بھی شہر ہیں۔ تو منادیًا سے مراد وہ منادی ہے ، ایسا بلانے والا جس کی شان میںکوئی شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ گویا وہی ہے اور کوئی ہے ہی نہیں اس کے مقابل پر۔ ایسے منادی کی آواز کو ہم نے سنا ینادی للایمان جو ایمان کیلئے منادی کررہا تھا۔ اس پر جو لغت وغیرہ کی بحث ہے اور کچھ مفسرین کی پہلے میں اس کو چھیڑتا ہوں۔ یہ لفظ منادی کس سے بنا ہے؟ عام طور پر ندی کا مطلب یہی سمجھا جاتا ہے آواز۔ اور رائج ہوچکا ہے لیکن دراصل اس کا مادہ آواز نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ ندی نمی کو کہتے ہیں۔ ندا الارض زمین کی نمی۔ تو اسی سے ندی لفظ نکلا ہے اسی سے نادی منادی وغیرہ لفظ بنتے ہیں۔ تو رطوبت نمی اور شبنم کیلئے بھی لفظ ندی استعمال ہوا ہے۔ شجرٌ ندیانٌ۔ تروتازہ درخت۔ یہ سارے معانی تاج العروس نے بھی دیے ہیں محیط نے بھی اور راغب نے بھی۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اس کے بنیادی معنی اکٹھا اور یکجا ہونے کے ہیں۔ رطوبت اور نمی کے ہیں، یہ دو معنی ہیں۔ حالانکہ دراصل رطوبت ہی میں اکٹھا کرنے کا معنی ہے۔ کیونکہ جب مٹی خشک ہوجائے تو ھبائً منبثاء بن جاتی ہے۔ وہ پراگندہ ریزے ہوجاتی ہے۔ ریزہ ریزہ ہوکر پراگندہ ہوجاتی ہے۔ نمی اس کو اکٹھاکرتی ہے ۔ تو اس لیے ندی کے اندر جو اکھٹا کرنے کا مفہوم بیان فرمایا گیا ہے یہ درست ہے۔ لیکن نمی الگ مضمون نہیں اس کے اندر داخل ہے۔ اس مضمو ن کو بھی ابن فارس کے حوالہ سے تاج اور محیط اور راغب نے بیان کیا ہے۔ آواز دینے کے مفہوم سے اس کے معنی ایک مجلس میں اکٹھے ہوکر باتیں کرنے کے ہوگئے۔ ناداہٗ منادات۔ اس میں ندوہ بھی ہے نا ایک مجلس اور الندوۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو مجلس میں اکٹھی ہو ۔ دارالندوہ ہندوستان میں بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میںایک دارالندوہ عربوں کا بھی تھا ان کا قریش مکہ کا۔ تو یہ جو دارالندوہ کا مضمون ہے وہاں دراصل اکٹھے ہونے کے معنی ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ندوہ دو قسم کا ہے۔ ایک وہ جو شرارت اور فسادکیلئے۔وہ کونسی آیت ہے؟ دوسرا ندوہ ہے نیکی کیلئے۔ تویہاںمنادی ان ینادی کی بحث میں یہ گفتگو اب اٹھے گی کہ کس قسم کی ندا مراد ہے اور کیوں۔ ندوہ کہتے ہیں اکٹھے ہونے کو لیکن اگر اکٹھے ہوکر اختلاف کی باتیں ہو اور فساد پھیلایاجائے تو اس ندوہ کا نام دراصل اس نام کی ذلت ہے ورنہ یہ ندوہہونا چاہیے اکٹھا کرنے اورنیکی کے کاموں کیلئے جو حقیقت میں انسان کو انسان سے ملاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو کھول کر بتایا ہے کہ نجوہ کا لفظ ہے ند وی نہیں نجوہ کے معنوں میں ندوہ نہیں ملے گا آپ کو۔ وہ لفظ نجوہ ہے۔وہی دارالندوہ میں جو نجوے ہوتے تھے۔ یہ لفظ ملتا جلتا ہے اس لیے میرے منہ سے ندوہ نکل رہا تھا۔ اچانک بات کرتے ہوئے یکدم یاد آیا وہ تو نجوہ ہے لیکن ہے ندوہ کا نجوہ۔ اسی ندوہ میں رسول کریم ﷺ کے خلاف نجوے ہوتے تھے۔ اور ندوہ کے مضمون کے بالکل برعکس کارروائیاں ہوتی تھیں۔ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے نجوہ وہ اچھا ہے جس میں خیر کی باتیں ہوں، نیکی کی طرف بلایا جائے۔
پس نادی منادی جو ہے وہ اس آواز کو کہیں گے جس میںرطوبت کے معنے پائے جائیں۔ گیلی مٹی کے معنے پائے جائیں۔ گیلی مٹی میں نشوونما کی طاقت ہے اور خشک مٹی میں وہ نہیں۔ تو منادی گویا کہ درحقیقت اسی یاد کو تازہ کرتاہے لفظ منادی جو آدم کے ساتھ وابستہ ہے۔ آدم کو جب اللہ نے پیدا فرمایا تو شیطان نے یہ اعتراض کیا تھا کہ تو نے یعنی اسے مٹی سے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے، مجھ آگ سے پیدا کیا ہے۔ مجھے اس پر غلبہ عطا ہوا ہے اورآگ مٹی کوجلا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زیادہ دلیل وہاں نہیں دی کیونکہ یہ ایسی بودہ بودی بات تھی کہ جوویسے ہی ردّ کرنے کے لائق ہے۔ ہلاکت پر یا ہلاکت کی صلاحیتوں پر کیسا فخر ہے۔ جو نشوونما کی صلاحیتیں ہیں وہی فخر کے لائق ہیں اور غلبہ بھی پھر بالآخر اسی کو ہوا۔ تمام تر آگ کی کوششیں گیلی مٹی کی طاقت سے مغلوب ہوگئی ہیں۔ اب یہ آگ کا شعلہ تھا زمین۔ اسی سے خداتعالیٰ نے وہ پانی سے زندگی پیدا کی ،گیلی مٹی سے زندگی پیدا کی اور آگ اس پر غالب نہ آسکی۔ اور دن بدن وہ مٹی آگ پر غالب آتی چلی گئی اور اب انسان جو آگ پر قابض ہے جس نے جہاز بھی بنائے اور کشتیاں بھی ، سمندری کشتیاںبھی آگ سے چلنے والی اور جہاز اور پھرموٹر گاڑیاں ، ریلیں یہ سارے گیلی مٹی کے آگ پر غلبہ کی دلیلیں ہیں، گیلی مٹی غالب آگئی اور آگ کو غلام بنالیا۔ تو اس لیے شیطان کا یہ دعویٰ کا یاکسی اور کا دعویٰ ٹھیک ہے۔ٹھیک ہے۔۔۔۔ یہ غلط ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ الندی نادی کس لفظ سے نکلا ہے یہ میں بتارہا ہوں کہ یہاںمنادی سے مراد اہل لغت اور اہل تفسیر دو مرادیں بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ مراد حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں اور ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں قرآن ہے۔یہ میں بعد میں بتائوں گا ۔ میں اب یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اس میں ندی کے تمام اصلی معنی شامل ہیں۔ اور مراد یہ ہے کہ ایسا بلانے والا جو صلاحیت رکھتا ہے جمع کرنے کی اور اس کاجمع کرنا نمو کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ تمہاری نشوو نما کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس کی بات کا جواب دو گے تو ایک سلسلہ ترقی کا تمہارے قبول ندا کا نتیجہ میں پھوٹ پڑے گا۔ اور وہ سلسلہ ایسا ہے جیسے پودے نکلتے ہیں ہری ہری شاخیں نکلتی ہیں اور پھر پھل دار درخت بن جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تویہ مضمون اس منادی کے لفظ میںمیر ے نزدیک داخل ہے۔ تبھی یہ تمام لغت کی کتابیں شجر ندیان کہتی ہیں کہ ہرے بھرے تازہ درخت جو پتوں اور پھولوں سے اور پھلوں سے بھی لدا ہو۔ اس کوندیان کہتے ہیں ۔ تو منادی میں بھی وہی معنی ہے۔ شجرہ طیبہ کے معنے جس کے اندر پھل ہے اور بلانے کے معنے بھی ہیں۔رسول اللہﷺ سب نے ندا سے بلانے کا معنی ضرور لیا ہے۔ تو وہ جو زبان حال سے بلاتا ہے وہ بھی منادی ہے جو آوا زسے بلاتاہے وہ بھی منادی ہے۔ الندوہ۔ دارالندوہ یہ تو ساری بحث وہی ہے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ہے اس میں بھی ندا کا یہ معنی اب سمجھ آئی ورنہ اگر صرف آواز ہوتا تو یہ بات سمجھ نہ آتی۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کے اشعار ہیں جس کے بعد وہ مضمون رسول اللہﷺ کی مدح میں بھی تبدیل ہوتا ہے۔
تو فرماتے ہیں انی اموت ولاتموت محبتی میں تو مرجائوں گا لیکن میری محبت کبھی نہیںمرے گی۔۔۔۔۔بذکرک فی التراب ندائی تیرے ذکر کے ساتھ میری مٹی کی ندا بول اٹھے گی اور جواب دیا کرے گی تیرے ذکر کے اوپر کہ تیرا ذکر زندگی بخش ہے میرے لیے۔ اب یہ لفظ ندا یہاں ان معنوں میں بہترین طور پر اطلاق ہوتا ہے کہ محبت میں ایک نمی ہے، محبت میں آنسو ہوتے ہیں۔ تو میری بظاہر خشک مٹی تیرے ذکر سے تروتازہ ہوجائے گی اور اس میں محبت کی نمی پیدا ہوگی اور وہ بول اٹھے گی۔ تو بہت ہی خوبصورت کلام ہے اگر ندا کے اصل معنوں کو بھی اس میںشامل سمجھا جائے ۔ ویسے بھی اچھا لگا کرتا تھا لیکن اب تو اور بھی زیادہ پیارا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری بحث ندا کے بعد سیئۃ کی اٹھائی گئی ہے(ابھی ہے کافی وقت)۔ السوء کل ما یَعُمُّ الانسان ۔ سوء اس چیز کو کہتے ہیں ، ہر وہ چیز جو انسان پرغم عائد کرے، غم طاری کردے۔ خواہ وہ دنیوی امور ہوں خواہ وہ دینی امور ہوں۔ امور الدنیویہ والاخرویۃ و من الاحوال النفسیۃ والبدنیۃ والخارجۃ من فواۃ مالٍ و جانٍ وفقد حسیمٍ۔ حسیم ہے یا حمیم لکھا ہوا ہے حمیم ہی ہوگا میرے خیال میں۔ ہاں حمیم قریبی دوست کوکہتے ہیں نا۔جو بہت ہی قریب ہو اس کوحمیم کہتے ہیں۔ یعنی بہت ہی گرم دوست ہے۔ توجس کی دوستی میں بے انتہا گرم جوشی یا قربانی کا مادہ پایا جائے اس کو حمیم کہتے ہیں۔تو مطلب اس کا یہ ہے ہر وہ چیز جو انسان کو غم سے نجات بخشے۔ غم میں مبتلا کرے خواہ وہ امور دنیوی ہوں یا اخروی ہوں۔ اس کا تعلق احوال نفسانیہ سے ہو یا بدنیہ سے ہو یا امور خارجہ سے ہو۔ جن کا تعلق مال اور جاہ و جلال کے چلے جانے سے یعنی نقصان ہونے سے ۔ فواۃ کا مطلب ہے جوہاتھ سے جاتا رہے۔ کھویا جائے یا کسی قریبی رشتہ داریا بہت قریبی دوست کے فوت ہوجانے سے ہو۔ یعنی حمیمکے ضائع ہوجانے سے ہو۔یہ ساری سیئۃ کی تعریفیں ہیں۔ تو ہر وہ چیز جسے نفس ناپسند کرے۔ خلاصہ یہ نکلا۔ ہر وہ خبر ہر وہ واقعہ یا تکلیف یا بیماری یہ سب چیزیں اس میں آجائیں گی جو نفس کو اچھی نہیںلگتیں۔ وہ سیئہ کہلاتی ہیں۔ لیکن یہ معنی اس لحاظ سے درست نہیں کہ قرآن کریم نے لفظ سیئۃ کو ایسے معنی میں بھی استعمال فرمایا ہے کہ نفس کواچھی لگتی ہے لیکن وہ ہوتی بری ہے اور بالآخر نہایت ہی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔ پس اور ایسی ہی سیئات ہیں جن کا انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ جو نفس کے اندر چھپی ہوئی ہوتی ہیں اور انسان کو ان کی لذت آرہی ہو تی ہے۔ پس سیئۃ کو ان معنوں پرمحدود کرنا کہ گویاہر وہ چیز جس سے نفس تکلیف محسوس کرے یہ درست نہیں ہے۔ ہربرائی جو انسان محسو س کرے یا نہ کرے جواس کے اعلیٰ مقاصد کے خلاف ہو جو اسے باطل بنارہی ہو وہی سیئۃ ہے۔پھر کسب سیئۃ کا قرآن شریف میںدیکھیں کس طرح ذکر ہے۔ بلی من کسب سیئۃ۔ لم تستعجلون بالسیئۃ۔خبردار! جو سیئۃ کمائے گا کوشش کرکے اس کو سزا ملے گی۔ لم تستعجلون بالسیئۃ۔ تم سیئۃ کے حصول کیلئے اتنی جلدی کیا کررہے ہو۔یہ کیا بھاگ دوڑ لگائی ہوئی ہے کہ ہم پہلے پہنچ جائیں سیئۃ تک۔ اگر سیئۃ ایسا مضمون ہے جو نفس کوبرا لگتا ہے۔تو یہ قرآن کریم کی آیت پھر کیا معنی رکھتی ہے؟ لازماً معناً اور اپنی کنہوںکے لحاظ سے اپنی اصلیت کے لحاظ سے ہر چیز جو معیوب ہے بری ہے انجام کار انسان کے مفاد کے مخالف ہے۔ اس کو قرآن کریم سیئۃ قرار دیتا ہے۔ خواہ انسان کوپتہ چلے یا نہ چلے۔ پھر سیئۃ وہ چیز ہے جو نقصان ضرور پہنچاتی ہے اور سیئہ کا اصل انسان ہے۔ خدا کی طرف سے نہیںآتی بلکہ انسان کے اندر سے پید اہوتی ہے۔ ما اصابک من حسنۃٍ فمن اللہ۔ جو بھی تمہیں حسن پہنچے گی اچھی بات تو یا د رکھنا وہ اللہ کی طرف سے آتی ہے۔ ومااصابک من سیئۃ اور جو برائی تجھے کسی مصیبت میں مبتلاء کرتی ہے فمن نفسک تو وہ تیرے نفس سے پیدا ہوتی ہے۔ والحسنۃ والسیئۃ ضربان أحدھما بحسب اعتبار العقل والشرح۔ حسنہ اور سیئہ دو قسم پر ہیں دو قسموں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ضربان۔ ضرب کہتے ہیںایک چوٹ کو، مار کو لیکن قسم کیلئے بھی لفظ ضرب آتا ہے ۔ مثال کیلئے بھی لفظ ضرب استعمال ہوتا ہے۔ فرمایا من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسیئۃ فما یجزی الا مثلھا۔ کہ جو بھی حسن چیز کرتا ہے نیکی کے کام بجالاتا ہے اس کو دس گناہ زیادہ ملے گا اور جو بری بات کرتا ہے فلا یجزی الا مثلھا۔ اس کو اس کے برابر سے زیادہ نہیں دیا جائے گایعنی اس کی سزا۔
 
Top