• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1997ء۔ 1998ء

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1997ء۔ 1998ء

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ یکم رمضان بمطابق31؍ دسمبر 1997ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ درس مبارک ہو سب کو۔ اور وہ جو منہ کی خشکی تھی۔ پریکٹس شروع کی ہوئی تھی ۔ اس کیلئے بھی دعا کریں اللہ کرے کہ روزوں کے وقت خاص طور پر یہ لعاب ساتھ دے جائے۔ ٹھیک ہے؟
آج ہم نے سورۃ النساء کی آیت 47سے درس شروع کرنا ہے۔اور اس درس کے متعلق یہ کہنا ضروری ہے کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ربوہ کی طرف سے یہ درخواست آئی تھی کہ پہلے دس دن درس ذرا پہلے ختم کیا جائے کیونکہ وہاں روزہ کھولنے کیلئے کچھ تیاری اور درس کیلئے پہنچنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس لیے آئندہ دس دن تک وہ کہتے ہیں کہ پندرہ منٹ یا اس سے بھی کچھ پہلے یعنی ایک بجنے میں پندرہ منٹ یا اس سے بھی کچھ پہلے درس ختم کردیا جائے۔ تو دیکھیں گے (انشاء اللہ) یہی کوشش کریں گے اور اگر گھنٹے کا بھی ہوجائے حرج تو نہیں ہے ۔ کیونکہ پہلے بھی ایک گھنٹے کے ہوتے رہے ہیں درس۔ لیکن بہرحال میں کوشش کروں گا کہ سوا گھنٹے کے اندر اندریہ ختم کردوں۔ ٹھیک ہے آیت 47سے شروع کرنا ہے ناں؟ یایھاالذین سے ۔۔۔۔۔۔ یہ اوپر کی آیت کا نمبر دیاہوا ہے آپ نے؟
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھاالذین اوتوا الکتب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اثما مبیناO (النسائ:48تا51)
سردست یہ چار آیات ہیں جن کی میںنے تلاوت کی ہے۔ اگر ان سے وقت بچا تو پھرآئندہ اگلی آیات بھی(انشاء اللہ) تلاوت کرکے دوبارہ ان کو شروع کیا جائے گا۔ آج کے درس کی پہلی آیت ہے۔ یاایھاالذین اوتو الکتاب امنوا بما نزلنا مصدقًالما معکم من قبل ان نطمس وجوھا۔اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو جو اوتوالکتاب جن کو کتاب دی گئی۔امنوا بما نزلنا مصدقًالما معکماس بات پر ایمان لے آئو بما نزلنا مصدقًا لما معکم کہ جس کی یہ کلام الٰہی تصدیق کررہا ہے۔ بما نزلنا سے مراد کلام الٰہی جو ہم نے نازل فرمایا ہے۔مصدقًا لما معکماس بات کی تصدیق کررہا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ من قبل ان نطمس وجوھااس واقعہ سے پہلے پہلے ایمان لے آئو کہ بعض چہرے مٹادیئے جائیں۔فنردھا علی ادبارھا پس ہم انہیں ان کی پیٹھوں کے بل پھیر دیں اونلعنھمیا ان پر *** کریں جیسا کہ ہم نے *** کی اصحاب سبت پر ۔یعنی ان لوگوں نے جنہوں نے سبت کے بارے میں زیادتی کی تھی وکان امراللہ مفعولا۔ اللہ کا حکم ہوکرر ہنے والا ہے، اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ مفعولاً معنی ایک ایسی چیز جس نے بہرحال ہوکر ہی رہنا ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں عجیب و غریب مضامین پیش کیے گئے ہیں جن کا تعلق نطمس وجوھًا سے ہے۔ ہم چہروں کو مٹادیں ۔ اگر حسب سابق میں ان سب تفاسیر کو لوں اور ان کا بیان شروع کروں تو ایک مضحکہ خیز تفسیر بن جائے گی ۔ اگرچہ ہر جگہ مجھے ردّ تو کرنا ہوگا اور ردّ کروں گا لیکن بذات خود قرآن کریم پر وہ تفسیر بھی ایک الزام ہے۔ نطمس وجوھًا کی ایسی تفاسیر کی گئی ہیں جو تمامتر غلط ہیں اور تمامتر لفظی ہیں سوائے چند بزرگوں کے جنہوں نے حق کو پالیا اور ان باتوں کی معنوی تفاسیر کی ہیں۔ ورنہ کہانیوں میں بس گئے ہیں سارے اور ایسی باتیں بھی بیان کرنی شروع کردی ہیں جن کا بائبل میں کوئی ذکرہی نہیں کہ واقعتہً یہود کے ساتھ یہ ہوا تھا اور اس پر عیسائیوں کو طعن کا موقع دیتے ہیں کہ ہماری بائبل میں تو ایسا کہیں نہیں لکھا ہوا کہ اصحٰب السبت کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ یہ مسلمانوں نے کہاں سے گھڑ لی ہیں باتیں۔ تو یہ سب گھڑی ہوئی باتیںاس دور سے تعلق رکھتی ہیں جس میں صحاح ستہ سے مستند احادیث کی بجائے صرف قصے کہانیوں پراعتماد کیا گیا اور مزے لے لے کر باتیں بیان کی گئیں۔ چند باتیںان میں سے میں بیان کردیتا ہوں۔ ورنہ اگر گزشتہ طریق پر ایک ایک کتاب کا حوالہ دے کر پڑھنا ہو ا تو سارا وقت اسی میں صرف ہوجائے گا۔ جو قصے کہانیاں ہیں وہ یہ ہیں کہ نطمس کا مطلب ہے مٹادینا، ملیامیٹ کردینا، کوئی نشان باقی نہ چھوڑنا۔ یہ چیزیں جو ظاہری طور پر اطلاق پاتی ہیں۔ ان سے ان مفسرین نے یہ کہانیاں گھڑلیں کہ بعض یہود کے چہرے بالکل چٹیل بنادیے گئے تھے، ملیا میٹ کرکے ان کا اونچ نیچ ختم کردیا گیا تھا اور انہیں مروڑ کر جس طرح پھانسی میں گردن ہوتی ہے اس طرح مروڑ کر ان کو ان کی پیٹھوں کے پیچھے پھیر دیا گیا تھاا ور پھر وہ کہاں گئے۔ غائب کہاںہوگئے ، پھر سمندر کی لہروں نے انہیںاٹھالیا اور وہ ہمیشہ کیلئے غرق ہوگئے۔ یہ کہانیاں وہ ہیں جن پر عیسائی او ریہودی بھی ہنستے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں عجیب و غریب کہانیاں تم نے ہماری طرف منسوب کردی ہیں۔ ہماری بائبل میں تو کہیں بھی نہیں لکھا کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔ لکھا یا نہ لکھا یہ ساری باتیں لفظی بیان کے تتبع کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ جس نے کہانیاں ڈھونڈنے پر ان کو مجبور کیا ہے اور جو کہانیاں ڈھونڈی گئی وہ اس صدی کی احادیث سے تعلق رکھتی ہیں جو پانچ سوچھ سو سال بعد شروع ہوئی ہیں اور اس سے پہلے ان کا کوئی وجوددکھائی نہیںدیتا۔ بہرحال اب میں حل لغات سے شروع کرتا ہوں اس سے بہت کچھ آپ کو سمجھ آجائے گاکہ اصل میں اس آیت کا منطوق کیا ہے۔
الطمس: ازالۃ الاثرباالمھر یہ عربی عبارت پوری پڑھنے کی بجائے میں اس کا اردو ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔یہ المفردات راغب سے لی گئی ہے اور مفردات نے اس کے تمام پہلوئوں کو سمجھ کے، تمام پہلوئوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ طمس کے معنی مٹا کر نشان دور کرنے کے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا واذاالنجوم طمست یعنی جب ستارے مٹادیے جائیں گے۔ جب ستارے مٹائے جاتے ہیں تو ان کو ملیامیٹ نہیں کیا جاتا۔ وہ دکھائی نہیں دیتے، دھندلے پڑجاتے ہیں اور نظر سے دور ہٹ جاتے ہیں۔تو ایک یہ معنی اس آیت کے ترجمہ میں ملحوظ رکھیں۔ فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ اموال کے متعلق بھی یہی لفظ استعمال فرماتا ہے جیسا کہ فرمایا ربنااطمس علیٰ اموالھم اے اللہ ان کے مال مٹادے، مال مٹادے کا مطلب ہے برباد کردے ان کے اموال کا کوئی نام و نشان نہ رہے۔ تو جب چہروں پر یہ استعمال ہوگا تو چہرے کے اور معنی بھی ہیں مگر ایک یہ ہے کہ ان کو بے حیثیت کردیا گیا، ان کو دور کردیا گیا، خدا کی نظر سے غائب ہوگئے۔ یعنی خدا کی رحمت کی نظر سے دورہٹ گئے گویا کہ ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا ۔ چنانچہ اس کا ترجمہ لکھتے ہیں یعنی بعض ستارے بالکل غائب ہوجائیں گے ، اے ہمارے ربّ ان کے اموال مٹادے، تباہ کردے یعنی ان کی صورت مٹادے۔ ولو نشاء لطمسنا علی اعینھم اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کی روشنی ختم کردیتے۔ اب طمسنا علی اعینھم کایہ مطلب نہیں لیا امام راغب نے کہ آنکھوں کو ملیا میٹ کرکے برابر کردیا جائے کہ وہ دیکھنے کی کوشش کے باوجود دکھائی نہ دے۔ طمسنا علی اعینھم کا مطلب یہ لیتے ہیںان کی آنکھوں کی روشنی ختم کردی کہ جیسے کوئی نشان مٹادیتا ہے یہ محاورہ ہے۔ کسی چیز کا جیسے نشان مٹادیاجائے، آنکھوں کا نشان اس طرح مٹا کہ ان کی روشنی ختم کردے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے من قبل ان نطمس وجوھًا۔ اس سے پہلے کہ ہم ان کے چہرے مٹادیں، یہاں ان کے چہرے نہیں ۔من قبل ان نطمس وجوھًا بعض چہرے یا بڑے بڑے چہرے مٹادیں۔ یہ ان کے کا ترجمہ کہاں سے لیا آپ نے؟ امام راغب کے ترجمہ میں اس سے پہلے کہ ہم ان کے چہرے مٹادیں لکھا گیا ہے۔ حالانکہ اصل عبارت میں یہ نہیں ہے۔ من قبل ان نطمس وجوھًااس سے پہلے کہ ہم بعض چہرے مٹادیں یا بعض عظیم الشان چہرے مٹادیں۔ اس کے بارے میں علماء کے ایک طبقہ کا یہ خیال ہے کہ یہ اسی دنیا میں اس طرح ہوگا۔ اب امام راغب اپنا خیال نہیں بلکہ جو کہانیاں گھوم رہی ہیں اُن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کے چہروں پر بال اُگ آئیں گے اور ان کی شکلیںمسخ کرکے کتوں اور بندروں سی کردی جائیں گی۔ چہرے پر بال اُگ آئیں گے سے کیا مراد ہے؟ کیوں فرمایا: کیوں جی۔ بولیے کہانی بناتے ہیں کہ چہرے موڑ دیے جائیں۔ اب یہ پیٹھوں کے بل توپیچھے گدی پر تو بال اُگتے ہیں۔ تو علماء کا خیال یہ ہے کہ گدی کے بالوں کی طرح چہرے پر اس طرح بال اگ آئیں گے کہ گویا وہ مڑے ہوئے چہرے ہیں۔ اور صرف اسی پر بس نہیں واقعتہً چہرے موڑ ے بھی جائیں گے مروڑ کر۔ امام راغب کہتے ہیں کہ صرف یہی نہیں علماء کا یہ خیال ہے کہ ان کی شکلیں مسخ کرکے کتوں اور بندروں سی کردی جائیںگی۔ امام راغب کو تو ا ب مشورہ نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اگر وہ اس زمانہ میں ہوتے تو میں انہیںکہتا کہ ان علماء کو بہتر علم ہوگا۔ وہ گھر کے رازدان ہیں، اس لئے ان کی بات مان جائیں۔ احادیث کا وہ ترجمہ جس کی کوئی بنیاد نہ ہو یا قرآن کا وہ ترجمہ جس کی کوئی بھی بنیاد نہ ہو اگر علماء اپنی طرف سے کرتے ہیں تو ا س کا وبال ان پر پڑنے دیں۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو بہتر جانتے ہیں۔ لیکن یہ کہانی کہاں سے لی گئی ہے میںنے تلاش کی ہے مجھے کہیں نہیں ملی۔ ان کی شکلیں مسخ کرکے کتوں اور بندروں سی کردی جائیں گی۔ دراصل اس میں ایک سچائی بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کتے بھونکتے ہیں اور سچائی کو بھونک بھونک کر اس کارستہ کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں، اس مضمون کو قرآن کریم نے دوسری آیات میں بیان فرمایا ہے۔ اس لیے کتوں کو اصلی کتے سمجھ لینا اور یہ کہ ان کی شکلیں کتوں جیسی بنادی جائیں گی، یہ جہالت کی حد ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بندروں سی کردی جائیں گی یہ بھی درست ہے ۔ قرآن کریم نے بگڑے ہوئے علماء کی مثال بندروں سی دی ہے اور سؤروں سے بھی دی ہے۔ لیکن ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہ واقعتہً بندر اور سؤر کی شکل پر آجائیں گے۔ بندر اور سؤر کی طبعی شکل پر آجائیں گے ؟طبیعت کی شکل پر۔ سؤر گندگی کا نشان ہے، سؤر اجاڑنے کا نشان ہے ہر طرف بربادی پھیلاتا ہے، سؤر اپنے ہی ہم جنسوں کو کھاجانے کا نشان ہے اور یہ تمام صفات جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے بعینہٖ ان لوگوں پر پوری اترتی ہیں اور بندر نقالی کی مثال ہے۔ لاکھ کوشش کرے انسان بن نہیںسکتا، مگر انسان کی طرح ڈگڈگی پر ناچتا اور گاتا ہے۔ گاتا نہ بھی ہو تو منمن کی آوازیں نکالتا ہے اور اسے پہنایا بھی وہ سب کچھ جاتا ہے جوجو یا کو پہنایا جاتا ہے۔ تو اس پہلو سے یہ مثالیں تو ٹھیک ہیں مگران کے معانی درست نہیں ہیں۔ انہوں نے ظاہر پر محمول کرکے قرآن کریم اور ابدی صداقتوں سے ظلم کیا ہے اور علماء کے دوسرے طبقے کایہ خیال ہے کہ طمس کا تعلق آخرت سے ہے۔ امام راغب کے نزدیک جن علماء کو اتنا احساس ضرور ہے کہ اس دنیامیں یہ واقعات نہیںگزرے اور قرآن سچا ہے اور وہ اپنی تفسیر کو بھی سچامانتے ہیں کہ ظاہراً ہوگا۔ تو وہ احتیاط کے تقاضے کے طور پر اسے آخرت میں دکھائی دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد جب جی اُٹھیں گے تو بندروں کی شکل اور سوروں کی شکل پر ہی اُٹھیں گے۔ اقرب الموارد میں طمس الشیء درس و انمعی مٹ گیا، یہ معنی دیے گئے ہیں۔ طمست القمر والنجم والبصر ذھب ضوء ھا۔ چاند ستارے اورآنکھ کی روشنی جاتی رہی، یہ بالکل صحیح معنی ہے۔اور لغت عربی اقرب الموارد ان کو دے رہی ہے ، اس میں کسی تاویل کی گنجائش باقی نہیں۔ بالکل صاف صاف کھلے معنی ہیں۔ طمست القمر والنجم والبصرکہ ان کی روشنی جاتی رہے چاند اور سورج کی اور وہ نظر سے غائب ہوجائیں۔تو یہ طمس کا معنی ہے اور اسی طرح آنکھ کی روشنی جاتی رہے۔ پھر واطمس علی اموال فرعون کی مثال دے کر اقرب الموارد لکھتی ہے کہ مراد ہے کہ انہیں ہلاک کردے۔ اب یہ بالکل واضح بات ہے کہ یہ لوگ بہت ہی ظالم تھے جو ہلاک کردیے گئے۔ طمس الغیم النجوم۔ اذھب ضوء ھا۔ بادل نے ستاروں کی روشنی کو طمس کردیا یعنی ان کو ڈھانپ دیا۔ اب وجوھًاکی تفسیرمیں یعنی لغت ۔۔۔۔۔۔ کی جائے تو باقی تفسیروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کے معنی بالکل واضح ہوکر کھل جائیں گے۔ اور ہمیں اب ان تفسیروں کی تفسیر میںجانے کی ضرورت نہیں ہے۔
میںنے غور سے سب تفسیریں دیکھی ہیں ان میںاکثر نزول سے تعلق میں بیہودہ بحثیں ہیں جن کا کوئی بھی وجود اصلی حقیقی کتب صحاح ستہ میں یا دوسری کتب میں نہیںملتا۔ نزول کا شوق رکھنے میںعلامہ سیوطی سب سے آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ہر آیت کریمہ کے پیچھے ایک شان نزول بنادیتے ہیں، جس کو ایک ہی واقعہ سے محدود کرکے جوڑ دیتی ہے اور عالمی کتاب، جو کل عالم کیلئے نازل ہوئی تھی۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک یا دو یہودیوں کی خاطر نازل ہوئی ہے اور کسی سے اس کا تعلق نہیں۔ اس لیے میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا کہ اسباب نزول ایک لغو چیز ہے اور جمع ہوئی ہیں یہ علامہ سیوطی کی ولادت 849ھ میں ہوئی ہے۔ آٹھ سو،ساڑھے آٹھ سو سال بعد رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے یہ علامہ پید اہوئے ہیںاور وفات 911ھ میں ۔ اب اندازہ لگائیں کہ وہ ساری حدیثیں جو آٹھ سو سال تک ڈوبی رہیں ان کا نام و نشان نہیں یعنی اصل قابل اعتماد حدیثوں میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔ وہ آٹھ سو سال کے بعد کھوج کیسے نکال سکتے ہیں او رہمارے علماء نے اتنا ان کو مرتبہ دے رکھا ہے علامہ سیوطی۔ کہ جہاں علامہ سیوطی کا نام آجائے وہیں پہ پگڑیاں جھک جاتی ہیں۔ بڑے علامہ ہیں بہت کچھ اکٹھا کیا ہے لیکن رطب و یابس، ایسا جو قرآن اور حدیث کی شان کے خلاف ہے، کم سے کم اس کو توردّ کردیں۔ اس کے ساتھ تو علماء طمس کا سلوک کریں جیسا کہ طمس کی بحث گزررہی ہے۔ جو اچھی باتیں ہیں وہ پکڑلیں کیونکہ اچھی باتیںقرآن اور حدیث کے مطابق ہوں گی ہمیں اس سے کیا غرض کہ صحت ہے کہ نہیں ، لیکن ہیں مطابق۔ اس لیے وہ ساری باتیں ان کی قابل قبول ہیں جوقرآن اور حدیث کے مطابق ہیں۔ باقی کے ساتھ ان کے وجوھًا کے ساتھ طمس ہونا چاہیے۔ کلیتہً ان چیزوں کو مٹادینا چاہیے۔ اب اس آیت کی شان نزول میں صرف آپ کو لطیفۃً سنا دیتا ہوں۔ علامہ سیوطی اسباب النزول میں لکھتے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے (ایک حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بڑا ظلم کیا ہے ان لوگوں نے ، اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح کے مدارج بلند فرمائے بڑا ظلم ہوا ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر۔ ان سے روایت کردیتے ہیں جو الٹی سیدھی باتیں اکثر جھوٹی ان کی طرف منسوب کردیتے ہیں)۔ آنحضورﷺ نے یہود کے بڑے بڑے علماء سے گفتگو فرمائی۔ ان میں عبداللہ ابن سودیہ او رکعب بن اُسَیر شامل تھے ۔ حضور ﷺنے ان سے فرمایا اے گروہ یہود اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور اسلام قبول کرلو۔ بخدا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں۔ وہ کہنے لگے اے محمدﷺ ہم تو اس سے بے خبر ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: یایھاالذین اوتوا الکتاب امنو ا بما نزلنا۔۔۔۔ الخ یعنی انہوں نے یہ جواب دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل کردی۔ اتنا لغو قصہ ہے کہ قرآن کریم اس طرح یہود کے مطالبوں پر نازل ہوا کرتا تھا۔ حالانکہ یایھاالذین اوتواالکتاب امنوا بما نزلنا قرآن کی الف سے لے کر س تک مسلسل اسی طرح اس مضمون کی آیات جاری ہورہی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی کتاب قرآن کریم ہے۔ یہ یہود کے اس سوال پر کہ ہمیں تو نہیںپتہ کہ نازل ہواہے۔ اسی وقت آیت نازل ہوگئی کہ ہم جو کہہ رہے ہیں کہ نازل ہوگیا ہے۔ اب جو محمد رسول اللہﷺ پرایمان نہیںلاتے تھے وہ اس آیت کو کیسے مان جائیں گے۔
امام رازی نے اس میں ایک بات اٹھائی ہے وہ دلچسپ اور عمدہ بات ہے کہ اس میں یہ جو ضمیر پھیر دی گئی ہے حاضر سے غائب کی طرف۔ اے لوگو یہ کہہ کر مخاطب کیا گیا لیکن جہاں یہ ذکر ہے ان نطمس وجوھًا فنردّھا علی ادبارھا اونلعنھم کما لعنا اصحب السبت۔ اس میں غائب کا ذکر ہوگیا ہے۔ وہ کہتے ہیں حاضر سے غائب کا ذکر اس لیے ہے کہ عملاً یہ لوگ خدا کی نظر سے دور ہٹ گئے یعنی ان پر *** جو پڑی تو اتنا دورہٹ گئے کہ دور کی بات غائب میں کی جاتی ہے۔ اس لیے علامہ رازی نے یہ ایک عمدہ نکتہ نکالاہے۔بہرحال اب میں اصل آیت میں وجوھًا کے لفظ کی تشریح کرنا چاہتا تھا وہ میں کردیتا ہوں اسے۔لغت میں وجوھًا کی جو تفسیر ہے وہ یہاں نہیں ہے۔وجوھًا کی؟ کہاں ہے؟ہاں یہ ہے)۔ اقرب الموارد کے نیچے الوجہ نفس الشیء کسی چیز کی ذات کو الوجہ کہا جاتا ہے۔ الوجہ سید القوم یہ بہت اہم بات ہے کہ قوم کے سردار کو بھی قوم کا چہرہ کہتے ہیں۔ ھم وجوہ القومان کو وجوہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قوم کا چہرہ ہوتے ہیں۔ ای ساداتھم و اعیانھم یعنی ان کے سرداران قوم ۔ وجہ کی جمع وجوہ ہے اور وجوہ القوم یعنی سرداران قوم او ررئوسا۔ الوجہ، القصد والنیۃ اور وجہ قصد اور نیت کو بھی کہتے ہے۔ رجل وجہ ذوجاہٍ۔ ایسا انسان جو صاحب حشمت ہو اسے وجہکہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں وجہ کا استعمال ہے کثرت کے ساتھ میرے ذہن میں وہ تھا۔کہ اس کی مثالیں نہیںہیں یہاں۔ اللہ تعالیٰ کیلئے وجہ کااب استعمال ہے اور بہت کثرت سے وجہ کے استعمالات ہیں جو اپنے مضمون کو خود کھول دیتے ہیں اور کسی لغت اور کسی تفسیر کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ میں وہ ڈھونڈ رہا تھا وہ آپ تلاش کرلینا اگر ضرورت پڑی تو کل بیان کردیں گے۔ اب میں بغیر کسی تفسیری حوالہ کے مضمون آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ایک آدھ بات جو میں نے نشان لگائی ہوئی تھی وہ آپ کے سامنے رکھنی تھی وہ دیکھ لیتا ہوں باقی پھر۔ علامہ رازی وجوہ سے مراد مسخ ہونا یعنی روحانی او رمعنوی طور پر ان کا قلع قمع ہوجانا لکھتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وجود سے مراد مکھ لیا ہے۔ جیسا کہ ہندوئوں میں جو گائوں کا مکھ ہوتا ہے اس کو مکھی بھی کہتے ہیں؟ کم از کم مکھ لفظ تو بہر حال جو گائوںکا سربراہ یا نمبردار یا جو نام بھی اس کو دیں اس کو مکھ کہتے ہیں اور مکھ کا معنی ہے چہرہ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ ترجمہ کیا جو ہندی اور عربی میں برابر معنی رکھتا ہے ایک ہی، یعنی چہرہ بھی اور سردار بھی۔ اب منٹگمری واٹ نے اسی کہانی کو جو بیان کی گئی ہے علماء کی طرف سے اس کے متعلق لکھتے ہیں منٹگمری واٹ: Story is not faceable in Jewish legend.۔ کہ یہ کہانی جو بیان کی گئی ہے مسلمانوں کی طرف سے یہ جیوش بائبل تو درکنار جیوش legend میں بھی نہیں ہے۔ یعنی یہ کہانی یہودیوں کی کہانیوں میں کہیں نہیں ملتی۔
اب میں اس آیت کی سیدھی سادھی صاف تفسیر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یایھا الذین اوتواالکتاب امنوا بما نزلنا مصدقا لما معکم ۔ اے وہ لوگو جن کو کتاب دی گئی ہے ایمان لے آئو اس بات پر مصدقا لما معکم جو اس کی تصدیق کررہی ہے ، جو تمہارے پاس ہے۔ اس میں سب سے پہلے یہ بحث اٹھتی ہے کیا واقعہ ہی اُن چیزوں کی تصدیق کررہی ہے جو ان کے پاس ہے؟ کیونکہ یہ ایک مبحث بنا ہوا ہے کہ قرآن کریم تو کہتا ہے تصدیق کررہی ہے اور ساتھ ہی اُن سب باتوں کی تکذیب کررہا ہے جو یہود کے پاس تھیں۔ تو اس آیت سے کیا مراد ہے کہ امنوا بما نزلنا مصدقالما معکم جو کچھ تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کررہا ہے۔ مصدقًا کا معنی جو یہاں خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کی ایک ۔۔۔ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ تمہیں دکھارہا ہے یعنی تمہاری بائبل میں جو کچھ تمہارے پاس ہے اس میں سے جو پیشگوئی کا رنگ رکھتا تھا او روہ پیشگوئی جب پوری ہوتی ہے تو وہ تصدیق کردیتی ہے کہ پورا ہونیوالا واقعہ اصل پیشگوئی کی تصدیق کردیتا ہے ۔ تو یہ مراد نہیں ہے کہ قرآن کریم بائبل کے ہر رطب و یابس کی تصدیق کررہا ہے۔یہ بعض دشمنوں نے غلط فہمی کی وجہ سے اور بعضوں نے جان بوجھ کر اس طرح قرآن کریم پر زبان طعن کسی ہے، زبان طعن طراز کی ہے۔امر واقعہ یہی ہے جیسا کہ میں بیان کیا ہے ۔ آنحضرتﷺ مصدق تھے ان تمام پیشگوئیوں کے جو عہد نامہ جدید نے یا عہدنامہ قدیم نے کی ہیں۔ اور وہ اتنی کھلی کھلی صفائی کے ساتھ پوری ہونے والی پیشگوئیاں ہیں کہ سوائے اس کے کہ دشمن اس سے آنکھیںپھیر لے ، دیکھتی ہوئی چیز کو نہ دیکھے اس کے سوا اُس کیلئے انکار ممکن نہیں اور نطمس کا مضمون اس بات سے تعلق رکھتا ہے ۔ تم ایمان لے آئو اس چیز پر جو تمہاری کتابوں میں کھلم کھلا لکھی ہوئی ہے۔ تم اس کو مٹا نہیں سکتے او رمحمد رسول اللہ ﷺپرایمان لے آئو اور اس کتاب پر ایمان لے آئو جو 100% ان پیشگوئیوں کی عملی تصدیق کررہی ہے کہ ہاںہم وہی ہیں ، اسی طرح ظاہر ہوگئیں۔ یہ بہت لمبا مضمون ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کررہی ہے۔ اور اس پر تحقیقات کا کام پہلے بھی ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور اب بھی دوبارہ جو میں نے نئی تحقیقات کی انجمنیں مقرر کی ہیں ان کے سپرد بھی یہ کیا ہے کہ اسے اور بڑھائیں ۔ تمام پیشگوئیاں جو پرانے عہد نامہ میںیانئے عہد نامہ میں درج ہیں ان پیشگوئیوں کی چھان بین کرکے ثابت کیا جائے کہ تم نے خواہ مخواہ غلط انطباق کیا ہے۔ غلط جگہوں پر چسپاں کیا ہے اور وہاں گنجائش ہی کوئی نہیں ۔ کل جو ریسرچ کے پیپر میں دیکھ رہا تھا جو مختلف ریسرچ گروہوں کی طرف سے مجھے واپس ملے ہیں ان میں اتفاق سے یہی مضمون تھا۔ بہت سے نئے لکھنے و الے دنیا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایسے محققین ہیں جن کو ان پیشگوئیوں کی اس لیے سمجھ نہیںآرہی کہ صحیح جگہ اطلاق نہیںکرتے۔ جب تک وہ رسول اللہﷺ پراور قرآن کریم پران کا اطلاق نہ کریں، ان کو ان کی سمجھ آہی نہیں سکتی۔ ایسی اٹکل پچویں مارتے ہیں ، ایسی احمقانہ باتیں کرتے ہیں حالانکہ وہ ۔۔۔۔ علماء ہیں۔ تو ضروری ہے کہ ان کا تتبع کیا جائے اور اس صورت میں مقالے لکھے جائیں کہ جب وہ ان علماء کو بھیجے جائیں تو ان کو دکھائی دینے لگے۔ اس وقت تو یہ صورت ہے کہ گویا ان کی آنکھوں کو طمس کردیا گیا ہے۔ آنکھوں کے سامنے ایک بات دیکھ رہے ہیں اور دیکھ نہیں سکتے۔ تو آنکھوں کا نور لے جانا، چہروں کا طمس ایک یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ ان کو کھلی کھلی باتیںبھی دکھائی نہیں دیتیں، محسوس نہیں ہوتیں۔۔۔۔ فنردّھا علی ادبارھا۔ ان نطمس وجوھًا فنردھا علی ادبارھا۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ ان کو پیٹھوں کے بل پھرادیویں۔ ان کے چہرے طمس کردیں یعنی مٹادیں، ان میں صلاحیت نہ ہو اور پیچھے کے بل لوٹادیں یعنی پہلے وہ بڑھ کر آگے آکر سردار بن گئے تھے اور قوم کے بڑے بڑے انسان بن گئے تھے ۔ادبارھا کا مطلب کہ جہاں سے آئے تھے واپس چلے جائیں، دورہٹ جائیں، ان کی سرداریاں جاتی رہیں۔ اونلعنھم کما لعنا اصحٰب السبت یا ان پر ایسی ہی *** ڈالیں جیسی اصحاب السبت پر *** ڈالی تھی۔ وکان امراللہ مفعولاً اور اللہ کی بات ہوکر رہنے والی ہے۔ اصحاب سبت پر کیسی *** ڈالی تھی اس کامیں بعد میں ذکر کرتاہوں۔ اب میں دوسرے معنی نطمس وجوھًا کے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ وجوھا سے مراد سردارہیں۔ قوم کے بڑے بڑے لوگ کیونکہ قرآن کریم نے وجہ کا استعمال ہر جگہ عظیم الشان بڑے لوگ ، سردار، خدا تعالیٰ کا وجہ یعنی اللہ تعالیٰ کی بلند شان۔ ایسی تمام چیزوں کیلئے لفظ وجۂ استعمال ہوا ہے او روجوہ سے مراد یہ ہے کہ تمہارے سردار یہ سب کچھ کام کرتے ہیں۔ان کے علم میںہوتا ہے ، عوام الناس کے تو علم میں نہیں ہے۔لیکن جو یہود اور عیسائیوں کے سردار تھے ان کے علم میں تھا کہ بعینہٖ یہی پیشگوئیاں جو اپنی آنکھوں کے سامنے رسول اللہﷺ کے حق میں پوری ہوتے دیکھتے ہیں وہ بائبل میںموجود ہیں۔یہی وجہ تھی جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرمایا اور احادیث میں اس کی تفاصیل بھی بیان ہیں کہ بعض دفعہ وہ کتابیں پڑھتے ہوئے بعض جگہ ہاتھ رکھ لیا کرتے تھے۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے علم میں تھا کہ اگر ان جگہوں کو پڑھ کے دیکھا جائے تو کھلا کھلا اشارہ محمدرسول اللہ ﷺاورقرآن کریم کی طرف ہوگا۔ اس لیے وہاں وہ ہاتھ رکھ کے چھپالیا کرتے تھے۔ تو ان کو علم تھا اور ان کی آنکھوں کے سامنے ایک موجود چیز مٹ گئی گویا تھی ہی نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کا سلوک ان سے بعینہٖ وہی ہوا ہے۔ اس میں ایک ذرہ بھی ظلم نہیں کہ ان کو مٹا کر غائب کردیا جائے، ان کی سرداریاں چھین لی جائیں، واپس پہلے حال کی طرف لوٹ جائیںجہاں سے انہوں نے ترقی کی تھی اور خود ان کے ماننے والے بھی ان کو بھلادیں سرداروں کے طور پر۔ اب یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ وہ یہود جو یہ کام کیا کرتے تھے آج کے عیسائی محققین خود ان کو مٹا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں ان کے یہ بدافعال اب ان کو برے لگنے لگے ہیں اور نطمس وجوھا کا ایک زمانہ اب بھی آیا ہے۔ یعنی آج کل کے زمانے میں خود ان کے ماننے والے ان کے چہرے اپنی تاریخ سے مسخ کرکے ان کو مٹا کر الگ کررہے ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ یہ سب جھوٹے واقعات ہیں ، یہ انہوں نے قصے بنائے ہوئے ہیں۔ مثلاً وہ پیشگوئیاں جو انہوںنے زبردستی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر چسپاں کی تھیںیا دوسروں پر اب خود عیسائی لکھنے والے لکھنے لگے ہیں کہ یہ چسپاں تو نہیںہوتیں۔ اس لیے وہ اورباتیں سوچتے ہیں۔ لیکن یہ تو قطعیت کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ ان کے نزدیک بھی چسپاں نہیں ہوتیں۔ تو نطمس وجوھا کا ایک منظر ہم اس دنیامیں اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ہمارے جتنے محققین ہیں جن کو میں نے اس کام پر لگایا ہوا ہے ان کو میں مزید ہدایت دیتا ہوں کہ زیادہ تفصیل سے نئی تحقیقات کا اس آیت کریمہ سے جو تعلق ہے اس کو خود انہی کے الفاظ میں دکھائیں تاکہ ہمارے ہاں ایک نیا لٹریچر وجود میںآئے۔ جو قرآن کریم کی آیت کے ہر مخفی سے مخفی پہلو اور اشارے کو بھی ابھار کر سامنے لے آئے۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء و من یشرک باللہ فقد افتری اثما عظیمایقینا اللہ تعالیٰ نہیں بخشے گا ان یشرک بہ ا س بات کو کہ اس کا شرک کیا جائے یا اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ ویغفر مادون ذٰلک لمن یشاء اور بخش دے گا اس کے سوا جس جس کو چاہے گا جس جس کو نہیں۔جس کیلئے بھی چاہے گا۔ لمن یشاء جس شخص کیلئے یہ پسند کرے گا کہ شرک کے سوا اس کی باقی تمام باتیں ختم کردی جائیں، معاف کردی جائیں وہ ایسا کرے گا۔ ومن یشرک باللہ فقدافتری اثما عظیما اور جو بھی اللہ کا شریک ٹھہرائے ، فقدافتری اثما عظیما ۔ تو اس نے بہت بڑا گناہ افتراء کے طور پر گھڑ لیا ہے ۔ گناہ گھڑنا یہ ایک نیا محاورہ ہے۔ افتری اثما عظیما سے اصل معنی یہ ہے کہ اس نے ایک بہت ہی بڑے گناہ کی بات کہی ہے جو اپنی طرف سے گھڑی ہے۔ وہ اس کا ثبوت کہیں کتابوں میں نہیں ملے گا۔ اس نے خود اپنی طرف سے گھڑ لیاہے اور وہ اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں جو لغوی بحثیں اٹھائی گئی ہیں ان میں سے ایک افتری فری کی بحث ہے۔ فری الشییء فریا قطعہ و شقہ فاسدا کما یفتری الخراز العدیم اس نے اس کو اس طرح کاٹا یا پھاڑا جس طرح جوتا تیار کرنے والا چمڑے کو کاٹتا ہے۔ قدافتری اثما عظیما اس لفظ فری سے نکلا ہوا ہے کہ اس نے اصل چیز کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا ۔ اب جوتے والی مثال تو یہاں لگتی نہیں ہے اس لیے اس کے کوئی اور معنی بھی ہونے چاہئیں۔ وفری علی فلان ۔۔۔۔۔۔اصل معنی یہ ہے کہ اس نے کسی کی طرف ایک جھوٹ باندھا کسی پر ایک جھوٹ باندھ دیا یہ اس کا معنی لغت میںاقرب الموارد میںدرج ہے۔ کسی شخص کے خلاف ایک جھوٹی بات جس کی کوئی بنیاد نہ ہو اپنی طرف سے گھڑ کرمنسوب کردی جائے۔ وفری الارض سارھا اور ہل چلانے کیلئے بھی لفظ فری استعمال ہوتا ہے ، اس نے زمین کو پھاڑ دیا۔ ھویفری الفری ای یاتی بالعجبایک ہے عجیب و غریب کام کرنا او ریہ معنی بھی یہاں اطلا ق پاتا ہے۔ فریٌ۔ الفریُ فتح الجزع للخوف۔ اس کو چھوڑ دینا چاہیے۔ افتری کا لفظ سوراخ کرنے کے معنوں میںبھی آتا ہے، فساد کے معنوں میں بھی آتا ہے اور جھوٹ اور شرک کے معنوں میںبھی آتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا انظر کیف یفترون علی اللہ الکذبدیکھو اللہ پر کیسے یہ جھوٹ گھڑتے ہیں اور جھوٹ کے معنوں میں افترائً مثلاًان آیات میںہے افترائً علی اللہ قد ضلوا۔ انہوںنے یہ بات محض افتراء کے طور پر اللہ پر گھڑی ہے اور ا س کے نتیجہ میںوہ گمراہ ہوگئے ہیں یا گمراہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے یہ بات گھڑلی ہے۔ ولکن الذین کفروا یفترون علی اللہ الکذب لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں یعنی پہلے کفر ہے ، پہلے انکار ہے اور جب انکار کردیا تو پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ایک معدوم چیز ہے اس پر جو مرضی گھڑلو۔ جیسے جوشخص کسی کے پیٹھ پیچھے کوئی بات کرتا ہے تو جب تک سنتا نہیںاس کو نقصان نہیںپہنچاسکتا۔تو درحقیقت یہ دہریت کی علامت ہے۔ بنیادی طور پر وہ اللہ کوغیر موجود مانتے ہیں اور جب غیر موجود مانتے ہیں تو جو چاہیں بکواس کرتے پھریں اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ امام راغب کہتے ہیں بہت بڑی چیز کو بھی کہتے ہیں فری یعنی برے معنوں میں کہ کتنی بیہودہ ، کتنی بڑی بات کی ہے اور بہت عجیب چیز کو بھی کہتے ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ایسی باتیں اللہ کے متعلق چسپاں کرنے لگتے ہیں اور بناوٹ کی چیز کیلئے بھی یہی لفظ آتا ہے۔ فرماتے ہیں ان تینوں کا ایک ہی معنی کی طرف اشارہ ہے یعنی لغو،بیہودہ باتیں جن کا حقیقت حال سے کوئی بھی تعلق نہ ہو۔
اب شان نزول کا قصہ محض انا للہ کے پڑھنے کی خاطر میں آپ کو سنارہا ہوں تاکہ آپ بھی انا للہ پڑ ھ لیں۔ یہ آیت اتنی عظیم الشان یغفر مادون ذلک لمن یشاء وغیرہ بہت عظیم الشان آیت ہے۔ اس میں علامہ سیوطی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ یہ نو سو سال کے بعد ان کو خبر پہنچی ہے کہ ایوب انصاری یہ کہتے ہیں۔ کیا کہتے ہیں؟ ایک شخص آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، کہنے لگا میرا ایک بھتیجا ہے وہ حرام کاری کے کاموں سے باز نہیں آرہا کیا علاج کروں۔ ہر قسم کی حرام خوری ، حرام کاری، ہر بدی اس میں موجود ہے اور باز ہی نہیں آتا، کوئی ترکیب بتائیں۔ پوچھا اس کا دین کیا ہے ۔ اس نے عرض کیا نماز پڑھتا ہے اور توحید کا قائل ہے۔ اب آنحضرت ﷺ یہ بات سن کر جیسا کہ حضور ﷺ کا مزاج آپ کی صحاح ستہ کی احادیث سے اور ویسے بھی قرآن سے ثابت ہے ۔ یہ کہتے کہ اگر وہ مجاہد شرک نہیں کرتا اور توحید کا قائم ہے تو حرام خوریاں کیسے کرتا ہے؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا کہ تم وعدہ کرو ایک نیکی کا اس نے کہا میں کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا جھوٹ نہ بولنا۔ اس کے بعد ساری بدیاں رک گئیں۔ توحید تو ایک ایسا عظیم الشان مضمون ہے کہ توحید کے بعد کسی بدی کے باقی رہنے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ مگر اس کہانی میں یہ درج ہے کہ جب رسول کریم ﷺنے یہ سنا کہ اچھا وہ نماز پڑھتا ہے، توحید کا قائل ہے آپ نے فرمایا اس سے اس کا دین بطور ہبہ لے لو۔ کہا جائواس سے کہو اپنا دین مجھے تحفتہً دے دے تاکہ وہ دین تمہیں مل جائے اور بدیاں اس کے پاس رہ جائیں۔ اگر وہ نہ دے تو اس سے اس کا دین خرید لو۔ یعنی وہ دین جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ اس میں بیع ہو ہی نہیں سکتی۔ کوئی سودا بازی نہیں، کوئی تبادلہ نہیں ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک رسول کریم ﷺنے فرمایا اس سے خرید لینا کہنا پیسے لے لو، اپنا دین مجھے دے دو۔ اس شخص نے اس سے دین طلب کیا تو اس نے دینے سے انکار کریا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر وہ شخص آنحضور ﷺکے پاس آیا اور حضور کو ساری صورتحال بتائی اور کہا میں نے اسے دین کے معاملے میں بڑا کٹر پایا ہے۔ اس کے باوجود ساری بدکاریاں موجود ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفرمادون ذلک۔ کہ اس کیلئے اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ بدکاریاں ، بدیاں کرتے پھرو چونکہ تم مشرک نہیں ہو اس لیے اللہ سب کچھ بخش دے گا۔ یہ لغویات ہیں جو علامہ سیوطی کے نام پر اسلام میں ہر طرف رائج ہیں اور راسخ سمجھی جاتی ہیں۔ اور بدقسمتی سے ہمارے علماء بھی علامہ سیوطی کے سامنے سرجھکا کے جب میں کوئی بات پوچھوں، علامہ سیوطی نے یہ فرمایا، یہ فرمایا علامہ سیوطی نے۔ جو میں نے آپ کو پڑھ کردکھادیا۔ اصل بات ہے دعا اور توبہ سے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے یعنی مشرک جب توبہ کرلیتا ہے اور شرک سے باز آتا ہے تب اس کی بخشش کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم ﷺکو یہ سنن الترمذی سے روایت لی گئی ہے، یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے ابن آدم جب تک تو مجھ سے دعا کرتے ہوئے مغفرت کی امید رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا جب تک تو مجھ سے دعا کرتے ہوئے مغفرت کی امید رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا۔خواہ تیری کوئی بھی حالت ہو مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں اور اس حالت میں تو مجھ سے بخشش چاہے تو میں بغیر کسی پرواہ کے تیرے گناہ بخش دوں گا۔ یہ بخشش چاہنا میں ساری کنجی ہے بات کی جوشرک پرقائم رہیںہرگز ان کے گناہ نہیں بخشے جائیں گے۔ جو شرک پر قائم بظاہر نہ ہوں تو حید کا نعرہ مارتے نظر آئیں لیکن ہر قسم کی بدیوں میں ملوث ہوں اور بخشش نہ چاہیں ہرگز ان کے گناہ نہیں بخشے جائیں گے۔ اس آیت کریمہ کی رو سے ان کے بخشے جائیں گے جو شرک سے پاک ہوں خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی ہو اور جو پہلے انہوںنے ظلم کیے ہیں اپنی جان پر ان کیلئے وہ اللہ کی طرف استغفار سے توجہ کریں اور استغفار کی تفسیر میں پہلے درسوں میں بیان کرچکا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے استغفار کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں کہ انسان گویا مٹی کھود کر اس میں خود دفن ہوجاتا ہے یعنی اپنے گناہوں کو دفن کردیتا ہے اور ایسا ملیا میٹ کردیتا ہے کہ دیکھے سے دکھائی نہ دیں، تب وہ بخشش کا طالب ہوتا ہے۔ تو ان ساری باتوں میں جو اس مضمون میں حدیثیں لی گئی ہیں اگر وہ میں پڑھ کر سنائوں تو ہر سننے والا یہ سمجھ لے گا کہ اب ہمیںکھلی چھٹی ہے جتنے چاہیں گناہ کرتے پھریں، جو چاہیں گناہ کرتے پھریں صرف اللہ کو ایک مان لو اور رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ تمہارے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ یعنی آنحضرت ﷺکی ساری تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ تمہیں پاک ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے گناہ کرتے پھرو اور امید رکھو کہ چونکہ اللہ تعالیٰ شرک کے سوا ہر گناہ کو بخش دیتا ہے اس لیے تمہاری ہر قسم کی کرتوتیں کلیتہً معاف کردی جائیں گی۔ اتنی بدکارامت نکلے گی، اتنی ظالم امت وجود میںآئے گی کہ اس کی مثال ڈھونڈنی مشکل ہوجائے گی۔ پہلی کتابوں میں بھی کہیں یہ مضمون کہیںبیان نہیں ہوا۔ اس لیے یہ جومرکزی دور کے علماء ہیں ان میں سے بعض کا یہ انتہائی ظلم ہے قرآن کریم پر بھی اور امت محمدیہ پر بھی۔ اور یہی ملاں ہیں آجکل جو تعلیم دیتے پھرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالی دے دو اورباقی تمہارے گناہوں کے ہم ضامن ہیں۔ سب مٹادیے جائیں گے ۔ ابھی مجھے کل ایک خط ملا ہے ایک طالبعلم کاوہ غیر احمدی طالبعلم ہے وہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے مولوی تو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ رمضان مبارک میں روزہ رکھ لو یا جو کوئی کام کرلو یا شب برات کی بات تھی شاید تو اس کے ساتھ تمہارے ہر قسم کے گناہ کلیتہً مٹادیے جائیں گے ، کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ مزید جو دلچسپ بات لکھی ہے وہ یہ ہے ایک احمدی نے کہ امتحان میرا قریب ہے اور بہت تعصب جاری ہے اور کثرت سے لوگ روپے دے کر پرچے لکھوارہے ہیں اور پرچے نکلوابھی رہے ہیں اوران کے جواب لکھے لکھائے اندر داخل کررہے ہیں ۔ کہتے ہیں میں نے ایک طالبعلم سے کہا کہ آپ یہ کیا حرکتیں کررہے ہیں آپ تو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ کہنے لگا فکر نہ کر و ہم نے معلوم کرلیا ہے اسلام۔ ہمارے مولوی صاحب نے کہا ہے کہ ضرورت پوری کرنا ایک جائز فعل ہے ، قرآن کی رو سے تمہاری ضرورت پوری ہونی چاہیے اور اس راہ میں کتوں کو کچھ پیسے ڈال دو کیا فرق پڑتا ہے، اپنی ضرورت پوری کرو۔ چنانچہ ہم تو اپنی ضرورت پوری کریں گے اور ہمارے مولوی کے نزدیک تو یہی اسلام ہے۔ اب ان لوگوں نے اسلام کا یہ حلیہ بگاڑ رکھا ہے اور ابھی وجوہ القوم ہیں، یہ وجوہ القوم ہیں جن کو مٹادینا مقدر ہوچکا ہے اور اس تحریر کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ جو قرآن کی تحریر ہے یہ منحوس چہرے جنہوں نے قوم پر قبضہ کررکھا ہے اور قرآن کریم کی غلط تعلیمات دے کر تمام اسلام کا ستیاناس کردیا ہے، یہ وہ چہرے ہیں جو مٹائے جائیں گے اور ضرور مٹائے جائیں گے او رآنے والا وقت ثابت کرے گا۔
آنحضرتﷺ کاتو،توحید باری کیلئے غیر ت رکھنا اتنا عظیم تھا کہ یہ ساری باتیں جو رسول کریم ﷺکی طرف منسوب کی جارہی ہیں یا قرآن کی طرف منسوب کی جارہی ہیں ان کا تصور بھی نہیں باندھا جاسکتا ، وہ بھی گناہ ہے۔ رسول اللہﷺ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے یہ بھی روایتیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی ہوں یا نہ ہوں اگر مستند احادیث سے ہوں اور احادیث کا مضمون بتارہا ہو کہ یہ باتیں سچی ہیں ، اگرچہ بکثرت جھوٹی روایتیں بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہیں ان روایات کو ردّ کرنے کا کسی کو حق نہیں کیونکہ وہ روایات قرآن اور مزاج محمد مصطفی ﷺکے مطابق ہیں اور تمام قرآن کی آیات اور احادیث ان کی تائید کرتی ہیں۔ اس لیے اس سے غرض نہیں کہ وہ کس کی روایت ہے ۔ لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ روایات ضرور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہوگی کیونکہ سچی روایت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے کہا ماشاء اللہ و شئت جو اللہ نے چاہا اور آپ نے چاہا۔ اس پر حضورﷺ نے فرمایاکہ کیا تونے مجھے اور خدا کو یکساں سمجھ رکھا ہے۔ کیا میں خدا کی کوئی خدائی اور اس کی جو وہ چاہتا ہے ا س میں شریک ہوچکا ہوں۔ یہ کہو فقط خدا نے چاہا۔ اب یہ جو مسئلہ ہے یہ بالکل درست ہے مگر ان معنوں میں درست ہے اور اس کی تشریح کیا حقیقی ہونی چاہیے، یہ بیان کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ اور رسول کو جب اکٹھا باندھا جائے توجو اللہ اوررسول چاہیں ۔مستند احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ یہ کہا کرتے تھے کہ جو اللہ اور رسول چاہے۔وہ ایک بریکٹ میں ایک محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی خاص معاملے میںایک رسول نے بھی چاہا اس لیے ہوگیا۔ وہ تمام تر تعلیمات قرآن سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے اور اللہ اور رسول کو اکٹھا باندھ دیا گیا ہے۔ یعنی جو کچھ بھی قرآن میں بیان ہے اس کے سوا خدا کا رسول جو بھی اللہ کی طرف منسوب ہونے والی کتاب ہے اس کے سوا خدا کا رسول اپنی طرف سے کوئی بات بنا سکتا ہی نہیں اور جو کچھ بھی یہ رسول بیان کرے گا ماینطق عن الھوی۔ ان ھو الا وحی یوحی۔ یعنی اپنی طرف سے گھڑی ہوئی باتیں بیان نہیں کرتا۔ وہ لازماً ایسی وحی ہے جو اس پر نازل کی جارہی ہے ۔ یہ موقع وہ موقع نہیں تھا اس موقع پر اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ دعا کریں میرے بچہ ہوجائے اور کہے کہ پھر جیسا اللہ نے چاہا اور آپ نے چاہا۔ یہ شرک ہے ہرگز یہ نہیں کہنا چاہیے اور اس شرک کے خلاف رسول اللہﷺ دیکھو کس طرح مستعدی کے ساتھ نبرد آزما ہوئے ہیں۔ اپنی ذات کے متعلق بات ہے ، تعریفی کلمہ ہے لیکن بڑی سختی سے اس کو ردّ کردیا ہے۔ تو اللہ ہی چاہتا ہے جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور انسان صرف دعائیں کرکے خدا کی تقدیر کو بندوں کے حق میں آسان کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جب وہ دعائیں مقبول ہوجائیں تو پھر جیسا اللہ نے چاہا ویسا ہی ہوا ۔ یہ وہ کلام ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت پابندی کے ساتھ پیروی فرمائی ہے۔ یعنی اس طرز کلام کی پیروی فرمائی ہے اور اِسے مضبوطی سے پکڑے رکھا ہے۔ تمام مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام میں کہیں آپ کو یہ دکھائی نہیں دے گا کہ جو اللہ نے چاہا اور میں نے چاہا۔ یا کسی شخص نے یہ لکھا ہو اور مسیح موعود علیہ السلام نے اسے قبول کرلیا ہو۔ہمیشہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اور اللہ نے چاہا۔ پس ان معنوں میں یہ حدیث ہے اور 100%درست ہے اور اس کی کسی اور تاویل کی سوائے اس کے کہ جو میں نے آپ کے سامنے بیان کردی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں: یہ آیت قرآنی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشائکہ اللہ تعالیٰ لا یغفر ان یشرک بہجو اس کا شریک ٹھہرائے یا اس کا شریک ٹھہرایا جانا یہ معاف نہیں فرماتا۔ ویغفر مادون ذلک اور جو کچھ اس کے سوا ہے وہ سب کچھ معاف فرماسکتا ہے۔ لمن یشاء اس کیلئے جس کیلئے وہ چاہے۔ اب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ آیت محبوب ہو ہی نہیںسکتی تھی اگر آپ اس کے پہلے حصہ کے مصداق نہ ہوتے۔ اگر خود آپ نے نعوذ باللہ من ذالک خد اکا کوئی شرک کیا ہوتا یا شریک ٹھہرایا ہوتا تو آپ کیسے کہہ سکتے تھے کہ یہ آیت مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ یہ آیت تو سب سے زیادہ ڈرانے والی ہوتی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو نعوذ باللہ من ذالک شرک میں مبتلاء ہیں اور اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ آیت جو کہتی ہے کہ شرک کو معاف نہیں کیا جائے گااس کو پسند کرتے ہیں اس لیے پسند کرتے ہیں کہ یغفر مادون ذلک فرماتے ہیں میں وہ ہوں کہ جس نے کبھی شرک نہیںکیا اور شرک کے سوا کوئی چھوٹے موٹے گناہ ہوگئے ہوں تو ان سے میں اپنے آپ کو پاک قرار نہیں دیتا اور اللہ کے اس فرمان پر کہ یغفر مادون ذلک لمن یشاء اس پر میں راضی ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ لمن یشاء میں مَیں بھی شمار ہوں گا۔ یہ عظیم الشان بیان ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو اس آیت کی بڑی عمدہ تفسیر ہے۔
اب وہی علامہ سیوطی ان کے نزدیک تو یہ ترجمہ ہے کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک رسول کریم ﷺنے فرمایا جو ایسی حالت میںوفات پائے کہ اللہ کے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ بخشا جائے گا خواہ اس کے گناہ ریت کے ذروں کے برابر ہوں۔ اب امت محمدیہ کو کھلی چھٹی مل گئی کہ اتنے گناہ کریں جو ابھی تک نہیںکرسکے۔ ریت کے ذروں کے برابر گناہ کریں یعنی ساری دنیا کو گناہوں سے بھردیں اور یقین رکھیں کہ اگر وہ لاالہ الا اللہ پڑھتے ہوئے جان دے گا تو بہت کافی ہے ۔ حالانکہ مرتے وقت لاالہ الا اللہ کچھ بھی اس کے حق میں کام نہیں آتا۔ مرتے وقت کا لاالہ الا اللہ اس کے خلاف گواہ بنایا جائے گا اس وقت لاالہ الا اللہ کہنے کا وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ اب ایک طرف تو یہ روایت ہے کہ جو مرضی گناہ کرتے پھرو اور دوسری طرف مسند احمد بن حنبل کی یہ روایت بھی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ قبروں پر جانے والی عورتوں اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں اوراُن پر چراغ جلانے والوں پربھی *** ہے۔ اب دیکھو کتنی قبروں پر چراغ جلائے جاتے ہیں اور بھری پڑی ہے پاکستان میں نعوذ باللہ من ذالک امت مصطفی ۔قبروں کی پوجا کرنیوالے وقت کے بادشاہ بھی ہیں جو قبروں پر حاضری دے کر یہ اطمینان دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی اس شرک میں ساری قوم کے ساتھ ہیں۔ اور اس شرک میں اب کسی بھی بریلوی یا دیوبندی کا فرق باقی نہیں رہا۔ اہلحدیث کو میں سمجھتا ہوں کہ کم سے کم وہ نسبتاً توحید کے زیادہ قائل ہیں او رغالباً یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں بکثرت اہلحدیث تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کیا۔ اب بھی اہلحدیث میں اگر آپ ان کو چھان پھٹک کر دیکھیں ان کا توحید سے تعلق باقی سب فرقوں کی نسبت زیادہ ہے اگرچہ ہمارے دشمن ہیں لیکن جو ان کی خوبی ہے وہ ہمیںتسلیم کرنی پڑتی ہے ۔وہ قبروں پر نہیںجاتے، وہ *** ڈالتے ہیں ان پر جو قبروں پر دیئے جلاتے ہیں۔ اب یہ لوگ جو ہیں یہ لاالہ الا اللہ پڑھتے ہیں اور ان کا لاالہ ان کو کیسے بچائے گا جب کہ رسول کریمﷺ فرماتے ہیںکہ *** ہے ان لوگوں پر ، خداتعالیٰ نے ان کو ملعون قرار دیاہے۔امام رازی کہتے ہیں کہ اس آیت پر اگر گہرا غور کیا جائے توپھر مذہبی اصطلاح میں یہود کو بھی مشرک قرار دینا پڑے گا۔ اب یہ استدلال بڑا دلچسپ نکالا ہے انہوں نے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آیت بتاتی ہے کہ شرک کے سوا ہر عمل بخشا جائے گا۔ ٹھیک ہے؟ اور یہ آیت بتاتی ہے کہ یہودی بخشے نہیں جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے وہ مشرک ہیں اور اگر مشرک ہیں تو پھر اہل کتاب کیوںکہا جارہا ہے ان کو؟قرآن مشرکوں کو اہل کتاب کہہ رہا ہے ۔ یہ ایک الگ جھگڑا شروع ہوجائے گا ، اس کی گہرائی میں جانا پڑے گا۔اب ایک اور تفسیر آگے کھینچ لی گئی کہ اگر یہودیت شرک کے سوا کوئی اور چیز ہے تو اس آیت کے حکم سے یہودیوں کی بخشش لازمی ہوگی یغفر مادون ذلک۔ یہودیوں کے متعلق ایک طرف یہ اعلان کہ وہ معلون ہیں ، وہ بعض معاملات میں بخشے نہیں جائیں گے، اللہ کی *** ان پر، چہرے مسخ ہوگئے اور ساتھ ہی یہ آیت کریمہ نازل ہورہی ہے کہ بخشش کا اعلان کرتی ہے ۔ یہ کہتی ہے کہ شرک کے سوا ہر گناہ بخشا جائے گا۔ پس چونکہ یہودی نہیں بخشے جائیں گے، یہ استنباط ہے اس لیے لازماً وہ مشر ک ہیں۔ اس آیت کا پہلی آیت سے تعلق ہے اس طرح کہ اس آیت میں یہودیوں کی سرزنش کا سامان ہے۔ اگر یہودیت اس میں شرک میں داخل نہ ہوتو معاملہ یوں نہ ہوتا۔ اب محض آیت کو پوری طرح نہ سمجھنے کے نتیجہ میں یہودیت کو شرک بنادیا گیا۔ حالانکہ اب میں دوبارہ جب آیتیں آپ کے سامنے پڑھ کر سنائوں گا ۔ تواس میں اس سے یہ استنباط ہو ہی نہیں سکتا۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میںیہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس آیت کے مضمون میں دھوکہ لگ سکتا ہے یعنی بعض غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔کہتے ہیں اس سے زیادہ واضح اور قطعی آیت یہ ہے۔ قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ۔ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعًا۔ کہہ دے اے میرے بندو الذین اسرفوا علی انفسھم جنہوں نے اپنے نفس پر کسی قسم کی زیادتی کی ہو۔ اس میںشرک بھی شامل ہے او رہر قسم کے گناہ جو اپنے نفس کے خلاف ہوتے ہیں وہ داخل ہیں۔ لاتقنطوا من رحمۃ اللہ اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو۔ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعًا یقینا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو اکٹھا بخش دیتا ہے۔ لاتقنطوا من رحمۃ اللہ سے اور ان اللہ یغفر الذنوب جمیعًا سے انہوں نے یہ چیز نکالی ہے یعنی توبہ شرط ہے۔ یہ اس آیت سے نکالنے کی مجھے وجہ سمجھ نہیںآسکی۔ توبہ کا شرط ہونا تو قرآن کریم میں ہر طرف پھیلا پڑا ہے۔ اس کثرت سے بیان ہے توبہ کا ۔ توبۃ النصوحہ کا بیان ہے ایسی توجہ کا جو گناہوں کو چاٹ جائے، ختم کردے گی۔یہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ علماء ان آیات سے توبہ نکالنے کا مفہوم کیوں نکالتے ہیں۔ ان آیات کی روشنی میںاس آیت کا ترجمہ کریں جن کا توبہ سے تعلق ہے اور وہ قطعیت کا حکم رکھتی ہیں۔ وہ ایسی آیات نہیںہیں جن کو آپ مبہم آیات قرار دیں، محکم ہیں متشابہ آیات نہیں ہیں۔ ان محکم آیات کوملادیں اس آیت کے ساتھ تو مضمون بالکل کھل جاتا ہے۔ کسی گھبرانے کی ضرورت نہیں او رغلط ترجموں کی ضرورت نہیں۔ ہمارے جوتفسیری نوٹس ہیں ان میں بھی ایک بہانہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ترجمہ بالکل سادہ صاف کھلا ساترجمہ ہے۔ خدا ہر ایک گناہ بخش دے گا جس کیلئے چاہے گا، بس شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا۔ جس کیلئے چاہے گا جو ہے یہ ہے اصل بنیاد۔ اللہ تعالیٰ کسی کیلئے بے وجہ کوئی بات نہیں چاہتا۔ لمن یشاء میں دراصل کنجی ہے۔ یہی مضمون ہے شاء کا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہتھیار بنا کر تمام آریہ ورت کو چیلنج کیا۔ جو قرآن کریم پر حملے کرتے تھے اور کہتے تھے اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس لیے کہ اپنے آپ کو نعوذ باللہ من ذالک یہ بنادے وہ بنادے قادر ہے کرسکتا ہے اور علماء اسلام اس کا جواب نہیں دے سکتے تھے کیونکہ وہ جب کہتے تھے قادر ہے تو کلی قادر مان کر مجبوراً ان بحثوں میں پڑ جایا کرتے تھے۔ یہاں تک ظلم اور زیادتی ہوئی ہے کہ ان کی مسلمان علماء کی آپس کی بحثوں میںبھی یہ بات بڑی شدو مد سے اٹھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ پر بھی قادر ہے جو لوط کی قوم نے کیاان اللہ علی کل شیئٍ قدیر۔ اس قدر احمقانہ باتیں اٹھائی گئی ہیں ان لوگوں کو اگر کسی کو بے حرمتی کے الزام پر پھانسی لگاناچاہیے تو یہ فرقے موجود ہیں ان کو پھانسی چڑھائو۔ ایسی بے غیرت قوم ہے علماء کی یہ بدقسمتی سے۔ اب یہ بے غیرتی کا اظہار ہے اگرچہ رمضان میں ، روزے میں ، درس میںاِک سخت لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے مگر جو بے غیرتی کا مضمون ہے یہاں سختی کے معنوں میں نہیں ۔ یہ ایسی عرض حال ہے اِس میں ایک ذرہ بھی خلاف واقعہ بات نہیں۔ جو بات میں نے بیان کی ہے یہ آجکل کے علماء کو اپنے لٹریچر میں دکھائی دیتی ہے۔ ان بحثوں کا علم ہے۔ اب کیوں ان کے خلاف نہیں اٹھتے؟ اگر نہیںاٹھتے تو دین کی غیرت نہیں دکھارہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں سے مناظرے کے وقت اس بات کو کھول دیا کہ شاء کا مطلب ہے جو چاہے ، جو اس کا دل چاہے، جس کی طرف اس کی رغبت ہو۔ ہر وہ چیز جس کی طرف خدا کی رغبت ہو اسے وہ کرسکتا ہے۔ کوئی اس کوروک نہیںسکتا۔ اور اللہ اپنا جوتفصیل سے تعارف کرواتا ہے اس میںگناہ کی طرف رغبت کا کوئی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔ ہر جگہ نیکی کو پسند کرتا ہے بدی کو ردّ کرتا ہے۔ پس بدیوں کو قدیر کے ساتھ باندھنا اور شاء کو بیچ میں سے بھول جانا یہ بہت بڑا ظلم ہے۔
اب چونکہ وقت ختم ہورہا ہے باقی انشاء اللہ کل یہاں سے ۔۔۔۔ کریں گے۔ ٹھیک ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ روزے نے جتنی بھی گلے کی خشکی کرنی تھی کرلی لیکن خدا کے فضل سے گزارہ ہوسکتا ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ11؍رمضان بمطابق10؍ جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
ناظر صاحب اعلیٰ کی درخواست ہے کہ آئندہ دس دن کیلئے بھی درس کا یہی وقت رکھا جائے۔ تو آج سے جو تبدیلی کا خیال تھا وہ اب نہیںہوگی اور سب سے پہلے تو آپ سب کو یہ نئے عشرہ کا پہلا دن مبارک ہو اورمباہلہ کے سال کے دم چھلہ سال کا پہلا دن۔ 98ء اس کا دم چھلہ سال ہے ناں۔ اس کا پہلا دن سب کو مبارک ہو او راب ایک صرف بات کہوں پھر درس شروع ہوجائے گا۔ اس سے پہلے سب لوگ ایسی باتیں لکھتے تھے کہ میری منہ کی خشکی دور ہو اور ان کو خوشی پہنچے اور کھل کے بات کرسکوں۔ کل ایک خط آیا جس نے منہ بند ہی کردیا بالکل ، ہمیشہ کیلئے منہ بند کردیا۔ وہ کہتے ہیں آپ ہمیں جو کہتے رہتے ہیں MTAکو کیوں نہیںکہتے۔ سارا شکوہ MTA سے ہے کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں تو زیادہ سے زیادہ حاضری چھ سات سو ہوا کرتی تھی درس کی۔ اور اکثر دیکھ بھی نہیںسکتے تھے ا ن کو۔ کوئی ستونوں کے پیچھے،کوئی کسی جگہ چھپا ہوا، کوئی پیچھے بیٹھا ہوا۔ چہرہ کتنے لوگ دیکھتے تھے؟ سو سے زیادہ نہیںہوں گے اور اب ایک لاکھ آدمی MTA کے ذریعے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اب اس کو محسوس ہو یا نہ ہو ۔ اس لیے آپ اپنا شکوہ MTA سے کریں ، ہم سے شکوے بند کردیں۔ تو یہ منہ بند کرنے والا ایک خط ہے۔ مگر دلچسپ تھا اس لیے میں نے بیان کردیا۔ یہی آیت کریمہ سورۃ النساء کی آیت 60 ابھی جاری ہے۔
یایھاالذین امنوا اطیعواللہ و اطیعوالرسول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذلک خیر و احسن تاویلاًO النسائ: 60
بحر محیط میںوہی دلیل چل رہی تھی کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کے مراد ہو ہی نہیںسکتے۔ اس میںجو دو دلیلیں انہوں نے اٹھائی ہیں ایک یہ کہ اولی الامر کی اطاعت کا حکم آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی دیا گیا تھا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں امام نہ تھے۔یہ بات جوہے یہ شیعہ مانتے ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں امام تھے مگر عقل کے لحاظ سے بہت عمدہ دلیل ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اس سے مراد امراء ہی ہیںبشرطیکہ معصیت کا حکم نہ دیں۔بہت عمدہ رائے ہے جو انہوں نے بیان فرمائی ہے۔
یہ جو ترکیبیںآئی ہیںمختلف ان سے بہت فائدے پہنچے ہیں ماشا ء اللہ۔ایک نے صفحہ الٹنے کی ترکیب ایک لکھی ہوئی ہے جب سے اس پر عمل کیا ہے کوئی پانی لگانے کی ضرورت نہیں۔ خوب سوجھی کسی کو ماشاء اللہ۔ اس نے کہا یہ صفحے میں آپ کو میں دکھادوں۔ ایک صفحہ اس طرح الٹ دیں نیچے سے دوسرا صفحہ دوسری طرف الٹ دیں اور سارے صفحوں کو اس طرح الٹ دیں ، ایک کے بعد دوسرے کو ، کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور یہ جوہے یہ نیچے سے اٹھا ہوا ہوگاخود بخود تو آپ لوگ بھی فائدہ اٹھائیں ان ترکیبوں سے۔
یہ سارے حوالے شیعہ دوبارہ دیے ہوئے ہیں۔ سارے نئے نئے حوالے ہیں ۔ صرف آئمہ مراد ہیں، صرف ہم لوگ مراد ہیں۔ تفسیر صافی کا بھی اسی قسم کا حوالہ ہے۔ اس میں صرف ایک نئی بات یہ رکھی گئی ہے اطعیوااللہ و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم میںحضرت امام علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ تین ہیں جن کے متعلق یہ حکم نازل ہوا تھا۔ یہ ساری باتیںشیعوں کی پہلے گزرچکی ہیںاس نئے درس میں ان کے تکرار کی ضرورت نہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر: اطیعوااللہ و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم کہا مانو اللہ اور رسول کا اور اپنے حکام کا۔ اولی الامر منکم کا وہی ترجمہ ہے جو جماعت کی طرف سے پیش جاتا ہے ہمیشہ اپنے حکام کا۔ ’’الٰہی خلفاء کی اطاعت و انقیاد و فرمانبرداری سیاست اور تمدن کا اعلیٰ او رضروری مسئلہ ہے بلکہ ان کی فرمانبرداری خود الٰہی فرمانبراری ہے۔ قرآن کریم میں ہے من یطع اللہ و الرسول فقد اطاع اللہ اور فرمایا اطیعوااللہ واطیعواالرسول و اولی الامر منکم جہنم والوںکو فرمایا الم یاتکم رسل منکم کیا رسول دوزخیوں میں سے ہوں گے۔ پس منکم سے مراد نوع انسانی ہے‘‘۔یہ تفصیل نظر سے نہیں گزری اس لیے میں سمجھ نہیںسکا اس مضمون کو۔ کیوں جی آپ سمجھے ہیں ۔ایک فقرہ بیچ میں سے اٹھا کر رکھ دیا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کم گو تھے یعنی کم گو ان معنوں میں کہ بہت سے مضامین کا خلاصہ تھوڑے لفظوں میں بیان فرمادیا کرتے تھے اور اس پہلو سے آپ کے مطالب کو پانا کچھ دقت طلب تھا یعنی غور سے بیٹھ کر دیکھنا پڑتا تھا یا آپ کی مجلس میں وہ بات واضح ہوجایا کرتی تھی خود ہی۔ تویہ بھی ان فقروںمیں سے ایک ایسا فقرہ ہے جس کے متعلق میںکہ نہیں سکتا کچھ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور میں چاہتا ہوں وہ آپ کو پڑھ کر سنادوں کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بات کو بڑی وضاحت سے خوب کھول کھول کر بیان فرمایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں ’’بعض مسلمان غلطی سے آیت کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکم صرف مسلمان حکام کے حق میں ہے کہ ان کی اطاعت کی جاوے لیکن یہ بات غلط ہے اور قرآن کریم کے اصول کے خلاف ہے۔ بیشک اس جگہ لفظ منکم کا پایا جاتا ہے مگر منکم کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو تمہارے ہم مذہب ہوں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو تم پر بطور حاکم مقرر ہوں۔ من ان معنوں میں استعمال ہوتاہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کو مخاطب کرکے فرماتا ہے الم یاتکم رسل منکم کیا تمہارے میں سے رسول نہیں آتے رہے۔پس یہ دیکھیں کیسا عمدہ استدلال ہے ایک ایسی آ یت کا جس کی طرف عام دماغ منتقل نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس کلام میں یہ آیت پیش نظر ہو۔ الم یاتکم رسل منکم وہ جو ہے نہ جہنمیوں میںسے رسول وہ ان معنوں میں ہوگا کہ کیا تم میں سے رسول نہیںآتے رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مذہب کی بات ہورہی ہے کہ تم کفار میںسے رسول نہیں آتے رہے۔ بنی نوع انسان مراد ہیں اورکفار مراد نہیںہیں یعنی مذہب کا اس سے کوئی تعلق نہیں منکم والی آیت سے۔ اس آیت میں منکم کے معنی اگر ہم مذہب کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول کفار کے ہم مذہب تھے۔ پس ضروری نہیں کہ منکم کے معنی ہم مذہب کے ہوں۔ یہ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس جگہ اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ حاکم جو تمہارے ملک کے ہوں ان کی اطاعت کرو۔ یعنی یہ نہیں کہ جو بھی حاکم ہو اس کی اطاعت کرو۔ ا ب منکم میں ایک نئی قیدحضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ لگادی ہے کہ حاکم تو ایک عام چیز ہے ، دنیا میں ہر جگہ حاکم ہوتے ہیں تو اگر منکم نہ ہوتا تو یہ مطلب بنتا ہے کہ جہاں بھی کوئی حاکم ہے ہرایک کی اطاعت کرو ۔ لیکن اپنے حاکم کی اطاعت کرو یہ معنی ہیں من کے کہ جو حاکم تمہارے ملک میںمسلط ہے اس کی اطاعت کرو۔ لیکن اس میں ایک وسعت بھی پائی جاتی ہے کہ مسلمان جہاں جہاں ، جس جس ملک میں جاتار ہے گا ، منتقل ہوتا رہے گا وہاں ایک حاکم ملے گا اس کو اوراس کی اطاعت فرض ہوجائے گی۔ اب کل والا مسئلہ جو میں نے پھیرا تھا ایک جرمن احمدی نے بڑے جوش سے لکھا تھا کہ مجھے حکم ہومیں تلوار سونت کر نکل جائوں ان کو یہ آیت روک رہی ہے۔ کیونکہ احمدی آج ہجرت کرکے جس ملک میںبھی جائے گا وہاں اولی الامر ہوگا اور کوئی اولی الامر اپنی سرزمین سے پاکستان پر حملے کی اجازت نہیں دے گا۔ تو یہ آیت ہی اس کا ردّ ہے اصل۔ ہمیں اختیار ہی نہیں ہے کہ ہم نعوذ باللہ من ذالک یہ سوچیں بھی کہ ہم پاکستان پر حملہ کریں گے کیونکہ قرآن کریم ہمارے دین کی حفاظت فرمارہا ہے ، ہمیں ایسی تعلیم دے رہاہے جس میںکوئی بھی رخنہ نہیں۔آگے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:-
’’یہ معنی نہیں کہ قرآن اور حدیث کی رو سے فیصلہ کرلو بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اگر حکام کے ساتھ تنازعہ ہوجائے تو خدا اور اس کے رسول کے احکام کی طرف اس کو لوٹادو۔ اور وہ حکم یہی ہے کہ انسان حکومت وقت کو اس کی غلطی پر آگاہ کردے۔ اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ کو چھوڑ دے۔ یعنی لوٹانے کا ایک یہ معنی ہے کہ جب تم لوٹائو گے تو یہی فیصلہ نظر آئے گا۔ یہی رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ ہے ، یہی قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ اگر حاکم وقت ظالم ہو تو تمہارا جہاد صرف اتنا ہے کہ اس کے ظلم کے باوجود اس سے اختلاف رائے کا اظہار کرو اور پھرمعاملے کو اس پر چھوڑ دو ۔ پھر اس کا سر اگر کھجور کے برابر ہے یعنی ایک کشمش کے برابر بھی ہو اور غلام ہو پھر بھی تم اطاعت کرو اس کی۔اگر وہ نہ مانے تو پھر اللہ تعالیٰ پر اس معاملے کو چھوڑ دو۔ وہ خود فیصلہ کرے گا اور ظالم کو اس کے کردار کی سزا دے گا‘‘۔
غیر مذہب کے اولی الامر کا ثبوت قرآن کریم سے
(پہلے بھی یہی تھا مگر مزید عنوان بنایا گیاہے)
قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے وہ بھی دلالت کرتا ہے کہ حاکم خواہ کسی مذہب کا ہو اس کی اطاعت ضروری ہے۔ یہ بھی پہلے درسوں میںچونکہ گزرچکا ہے بہت تفصیل کی ضرورت نہیں۔ یہ سوال و جواب کی مجالس میں بھی یہ بات آچکی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار فرعون کے زمانہ میں ایسا تھا جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ دین الملک میں اس کو کوئی اختیار نہیں تھا۔ وہ دین الملک میں مذہب مراد نہیں ہے دین الملک میں اس کی حکومت مرا دہے اور اس حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام اتنے بے بس اور بے اختیار تھے کہ جب تک وہ قانون اجازت نہ دے اپنے بھائی کو اپنے پاس روک نہیں سکتے تھے۔ حالانکہ ایک بڑے وسیع اقتصادیات کے دائرے میں آپ کو مکمل بادشاہی حاصل تھی۔ لیکن فرعون نے دی ہوئی تھی۔ یا فرعون تونہیں تھا وہ الملک جو بھی تھا اس نے دی ہوئی تھی ، اس کی عطا سے جتنی آزادی تھی وہ آپ استعمال کرتے تھے جو بات باہر تھی اس میں آپ بے اختیار تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا کہ دین الملک میں ہی اس کے ٹھہرنے کا انتظام ہوگیا۔ اس لیے وہ چھوٹا سا واقعہ نظر آتا ہے بظاہر اور بعض مفسرین سمجھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ ترکیب تھی کہ وہ بانٹنے والا ڈول جو خاص سونے کااور اس میں ہیرے جواہر جڑے ہوئے تھے وہ اپنے بھائی کے تھیلے میں رکھ دیں۔ ہرگز یہ ترکیب حضرت یوسف علیہ السلام کی نہیں تھی کیونکہ قرآن کریم بالکل واضح طور پر فرماتا ہے کہ کدنا لیوسف ہم نے یہ ترکیب کی تھی ۔ اب اللہ تعالیٰ تو مالک ملک ہے وہ چاہتا تو ویسے ہی رکھ دیتا مگر یہ خداکی عجیب شان ہے کہ جو احکامات ملکوں کے متعلق جاری فرماتا ہے خود بھی ان کی پابندی کرتا ہے، ان کوتوڑتا نہیں۔ لیکن پابندی کرتے ہوئے انہیں میں سے رستہ نکالتا ہے۔ اس لیے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید قرآن کریم کا بیان چھوٹی سے بات کو بڑا کرکے دکھانے والا ہے ۔ چھوٹی سی بات نہیں تھی اللہ تعالیٰ کے منشاء اور تقدیر کے مطابق ایسا فیصلہ ہواکہ قانون اپنی جگہ بحال رہا اور حضرت یوسف علیہ السلام کی مراد پوری ہوئی۔ پس حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ان کے بھائی ان کے پاس چھوٹے بھائی کو لائے تو وہ ان کو وہاں کے بادشاہ کے قوانین کی رو سے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے اس لیے خداتعالیٰ نے خود ان کیلئے ایک تدبیر کردی چنانچہ فرماتا ہے کذالک کدنا لیوسف ۔ ماکان لیاخذ اخاہ فی دین الملک الا ان یشاء اللہ(یوسف :77) یعنی اسی طرح ہم نے تدبیر کی کیونکہ وہ بادشاہ کے قوانین کے مطابق اپنے بھائی کو نہیںرکھ سکتے تھے ہاں مگر اس صورت میں خداتعالیٰ ایسا ہی چاہتا ۔ فتح البیان میں ہے کہ بادشاہِ مصر کا قانون اور تھا اور اس کی شریعت اور تھی۔ پس خداتعالیٰ نے الہاماً یوسف علیہ السلام کے بھائیوںکے منہ سے نکلوادیا کہ جو چور ثابت ہو اسی کو غلام بنا کے رکھ لینایہ ساری باتیں اکٹھی ہوئی ہیں۔ یہ ہے مکراللہ ، یہ ہے تدبیر ، اکٹھی ساری چیزیں جمع ہوگئیں۔ ان سے پوچھا کیا انہوں نے کہا جس کے پاس سے نکلے اسی کو رکھ لو۔ اب یہ بھی تو تصرف کے سوا ممکن نہیں تھا۔اسی طرح اجعلنی علی خزائن الارض کے نیچے لکھا ہے کہ قد استدل بھذہ علیٰ ان یجوز تولی الااعمال من جھۃ السلطان الجائر والکافر۔ سلطان خواہ جائر ہو خواہ کافر ہو دونوں صورتوں میں المن و تق بنفسہ بالقیام بالحق یعنی اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ظالم بادشاہ کافر بادشاہ کی طرف سے عہدوں کا قبول کرنا اس شخص کیلئے جائز ہے جو اپنی جان پر اعتبار رکھتا ہے کہ وہ حق کو قائم رکھ سکے گا۔ اب یہ جو عہدوں کا قبول کرنا یہ ایک بہت اہمیت رکھنے والا معاملہ ہے۔ انگریزی حکومت ہو یا غیر انگریزی حکومت ہو، آج کی ہو یا گزشتہ زمانوں کی حکومت ہو، حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو جو عہدہ ملتا ہے وہ ان کیلئے جائز ہے اور مسلمان حکومتوں کی طرف سے غیروں کو جو عہدہ ملتا ہے وہ ان کیلئے جائز ہے۔ یہ دستور ملک ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ حق کے قیام سے یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی شریعت کو چلا سکے۔ کیونکہ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کے معاملہ سے ظاہر ہے کافر کی ملازمت کیلئے یہ شرط نہیں کہ مومن اپنا ذاتی خیال چلا سکے اور ساری زندگی حضرت یوسف علیہ السلام نے اسی طرح غیر کے قانون کے تابع زندگی بسر فرمائی۔ کافر کی ملازمت کیلئے یہ شرط نہیںکہ مومن اپنا ذاتی خیال چلاسکے۔ پس حق کی حفاظت سے یہی مراد ہے کہ ظلم کی باتوں میں ساتھ شامل نہ ہوجائے۔ پس حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملہ سے بھی ظاہر ہے کہ خواہ یہ گورنمنٹ کافر ہی کیوںنہ ہو اس کی وفاداری ضروری ہے۔ اب یہ عنوان ہے۔
حکومت کی اطاعت کا حکم احادیث کی رو سے
جب ہم رسول کریمﷺ کے کلام کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی حکومت کی اطاعت کا خاص حکم پاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں علیک السمع والطاعۃ فی عسرک ویسرک و منشطک و مکرھک وأثرۃٍ علیک۔ یعنی تم پر واجب ہے حکم ماننا اور اطاعت کرنی تنگی میں کشائش میں ، خوشی میں، ناراضگی میں اور اس وقت بھی جب تمہارے حقوق تلف کیے جاتے ہیں۔ (اب جنہوں نے یہ پانی بھیجا تھا ان کا بھی حق ہے۔ کبھی کبھی انگلی لگالی جائے۔ وہ دیکھتے ہوں گے کہ کیا فائدہ ہوا )۔ اسی طرح روایت ہے کہا جاتا ہے کہ آپ سے صحابہ ؓ نے دریافت کیا کہ یا نبی اللہ ارء یت ان قامت علینا امراء یسئلون حقھم و یمنعون حقنا فما تامرنا فاعرض عنہ ثم سئلہ۔ اب یہ جو لفظ اعرض عنہ ہے یہ بہت ہی ایک اہم نکتہ ہے جس کے متعلق میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں ۔ اب پھر اگر بعض لوگوں نے نہ سناہو تو ان کے سامنے رکھوں گا۔ فقال رسول اللہ ﷺ اسمعوا و اطیعوا فانما علیھم ماحملوا و علیکم ماحملتم۔ یعنی اے نبی اللہ (کسی نے سوال کیا) بتائیے تو سہی کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مقرر ہوں جو اپنے حق تو لے لیں اور جوہمارے حقوق ہیں وہ نہ دیں تو ہم کیا کریں۔ آپ نے پہلے تو اس کے سوال کا جواب نہ دیا لیکن جب اس نے دوبارہ دریافت کیا تو فرمایا۔ یہ طریق خاص حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کاطریق تھا کہ وحی کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔ ہر ایسے معاملے میں سب سے پختہ حدیث قدسی کا یہ نشان ہے۔ سب سے پختہ نہیں تو یوں کہہ دیں گے کہ جہاںواضح طور پر فرمایا گیا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس کے بعد حدیث قدسی کا یہ نشان ہے کہ رسول اللہ ﷺسے جب کوئی سوال کیا جاتا تھا جس کا فوری طور پر قرآن میںیاپہلی الٰہی تشریحات میں ذکرنہ ملتا ہو یا ذکر ہو اور آپ کی توجہ نہ گئی ہو تو کبھی اپنی طرف سے جواب نہیں دیتے تھے۔ ماینطق عن الھوی کا ایک یہ معنی بھی ہے ، کبھی ایک جواب بھی اپنی طرف سے نہیںدیا۔ رک کر انتظار فرماتے تھے۔ منہ دوسری طرف کرلیا۔ اتنے میںوحی نازل ہوتی۔ وہ جو بخاری کی کتاب کی حدیث ہے جس میں آئندہ زمانہ میں امت میں سے ایسے انسان کے آنے کا ذکر ہے جو آسمان سے ستارے بھی نوچ لائے۔ اس حدیث میں یہی طرز تھی جو آپ نے اختیار فرمائی۔ سالوہ من ھم یا رسول اللہ من ھؤلاء منہ ادھر پھیر لیا۔ پھر کسی نے پوچھا یا رسول اللہ اس طرف منہ کرلیا۔ پھر اتنے میںمعلوم ہوتا ہے وحی نازل ہوگئی اور وہ حدیث ایک حدیث قدسی بن گئی ہے۔ پس اسی طرح یہاں یہ طریق آپ نے اختیار فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو کیونکہ وہ اپنے کیے کی جزاء پائیں گے تم اپنے کیے کی جزاء پائو گے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استنباط مزید یہ ہے کہ ان احادیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا یہ مطلب ہو کہ صرف مسلمان حاکم کی اطاعت کرو، دوسرے کی نہ کرو۔ اشارۃً بھی رسول اللہ نے کہیں اس کا ذکر نہیں فرمایا۔ کوئی شخص کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ کسی خاص ملک یا خاص بادشاہ کے ماتحت رہے یعنی اگر کوئی شخص خود ایک ملک کو چنتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ پھر اس ملک کے آئین کی اطاعت کرے اور حکومت کے خلاف مقابلہ کیلئے نہ کھڑا ہوجائے۔ آجکل کے زمانہ میں تو حکومت کی چاردیواریاں ایسی وضاحت کے ساتھ مقرر ہیں اور حکومت کی بائونڈری کہ ان کے بعد کسی قسم کا حاکم وقت سے یا اس کے اولی الامر ہونے سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ جہاں بھی آپ جائیں گے کسی بادشاہت میںداخل ہوں گے حالانکہ پرانے زمانہ میں ایسے علاقے بھی ہوا کرتے تھے جو بادشاہتوں سے آزاد ہوتے تھے، No man's landہوتی تھی۔ جیسا کہ مکہ سے جو رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بعد جن مسلمانوں کو آپ نے عہد شکنی سے بچنے کی خاطر مدینہ میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوںنے رستے میں ، صحرا میں ایسی جگہیں بنالیں جن پر کسی کی حکومت نہیںتھی اور اپنی زمین بنالی۔ بعد میں اسلامی فتوحات میں انہوںنے بہت اہم کردار ادا کیا۔ پس آج کے زمانہ میں تو یہ ممکن ہی نہیںہے جہاں بھی بھاگ کے جائیں گے وہاں کوئی نہ کوئی حکومت موجود ہوگی۔ اور آپ کا اس حکومت میں داخل ہونے کے ساتھ یہ ایک لازمی عہد ہوگا جو آپ کو باندھنا پڑے گا۔ خواہ وہ ظاہر منہ سے اقرار کریں نہ کریں لیکن آپ کو اجازت مل ہی نہیںسکتی کسی حکومت میں جانے کی جب تک یہ عہد داخل نہ ہو کہ تم ہماری اطاعت کرو گے۔ پس اولی الامر منکم تو سب مولوی کررہے ہیں۔ نکال کر دکھائو کوئی مولوی۔ پاکستان کے مولوی یہاں آئے ہوئے ہیں کوئی ہے جو انگریز حکومت کا انکار کرے کہ اولی الامر نہیں ہے۔ مجال نہیں کسی کی انکار کرے۔ کون سے ملاں جرمنی جاتے ہیں یا بیلجیئم جاتے ہیں جو اولی الامر کے یہ معنے کرتے ہیں جو ہم پر ٹھونسنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن خود وہ معنی کرسکتے ہی نہیں۔ اگر آج یہ اولی الامر کے مسلمان ہونے کا انکار کردیں اور ساری حکومتوں کو پاکستان مطلع کردے کہ یہ صرف مسلمان حاکم کی اطاعت کریں گے غیر مسلم کی نہیں کریں گے تو سب کے پاسپورٹ ضبط یا ویزے ختم۔ ساری دنیا کو ملاں کی مصیبت سے نجات مل جائے گی۔ تو اس رمضان میں یہ بھی آزماکر دیکھیں۔ یعنی خدا نے طاقت نہیں دی ان کو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلے کے خلاف کوئی اور ترجمہ کرسکیں اس آیت کا۔ یہ اولی الامر ہے۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اولی الامر ہیںجو بات کہہ دی وہی پتھر پر لکیر ہوگئی اور ان کی عملی زندگی اس کے خلاف کسی قسم کا اظہار ناراضگی کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی۔ یعنی غلط کہنا تو درکنار اظہار ناراضگی بھی کہیں نہیں کرسکتے یہاں کہیں کسی مولوی نے اگر کہا ہو کہ یہ غیر مسلم حکومت ہے ہم نہیں مانیں گے تو مجھے اطلاع کریں۔ فوراً یہاں کی حکومت انہیں ملک بدر کردے گی۔ تو اولی الامر وہ ہوتا ہے کہ جس کی بات یعنی روحانی اولی الامر وہ ہوتا ہے جس کا عمل عملاً چھاکر یہ ثابت کردیتا ہے کہ یہ الٰہی امر عطا ہوا ہے۔ اس کی ایک دوسری مثال میں یہ دیا کرتا ہوں ۔ فرمایا ؎
یہ حکم سن کے جو بھی لڑائی کو جائے گا
وہ دشمنوں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اب جہاد کے خلاف تو یہ ہمارے متعلق کہتے رہتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ من ذالک جہاد کے منکر ہیں اور کہتے ہیں یہ مسیح موعود علیہ السلام نے حکم دیا ہے۔ یہ کون ہوتا ہے قرآن میں حکم جاری ہے مگر اس حکم کو ٹال کے نہیں دکھاسکتے۔ آج بھی وہی بات ثابت ہے یہ حکم سن کے جو بھی لڑائی کو جائے گا، جہاں جہاںیہ اٹھیں گے غیر مسلم کے خلاف، جہاد کے نام پر تلواریں اٹھائیں گے اور انگریز ہوں یا غیر انگریز ہوں ، مغربی طاقتوں کے خلاف جہاں بھی تلوار اٹھائیں گے ضرور ہزیمت اٹھائیں گے۔ اس قانون کو بدل کے تو دکھائیں، کسی ایک جگہ بدل کر دکھادیں۔ ہرگز بدل نہیں سکتے کیونکہ یہ فیصلہ اولی الامر نے کیا ہے، اللہ کے منشاء کے مطابق یہ فیصلہ اولی الامر نے کیا ہے۔ آنحضرت ﷺکی پیشگوئی کے مطابق۔ جس پیشگوئی میں تھا یضع الحرب۔ پس جو حکم ہے یہ بھی تو دیکھیں چلا کہاں سے ہے، کہاں سے جاری ہوا اور کس رستے سے پہنچا ہے۔ محمد رسول اللہﷺ کے رستے سے پہنچا ہے۔ اب اس حکم کو توڑ کر تو دکھائیں کہیں یہ اولی الامر ہے۔ اصل بادشاہ روحانی امور کا اور دنیاوی امور کا بھی۔ جو اللہ سے حکم لیتا ہے اور محمد رسول اللہﷺ کے فرمودات کو آگے جاری کرتا ہے۔ اس کے خلاف ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، کچھ نہیں کرسکتے۔ ابھی بورڈ کے نوٹس ہیں اس کی ضررت ہی کوئی نہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس وضاحت کے بعد مضمون بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ یہ وہی باتیں ہیں جو نوٹس سے لی گئی ہیں لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنی کتاب میں کھل کر اس پر روشنی ڈال دی ہے تو وہی کافی ہے۔ اب حضرت مسیح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض مزید حوالہ جات درج ہیں۔ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 596 ’’ اے مسلمانو! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقعہ ہو تو اس امر کو فیصلہ کیلئے اللہ اوررسول کے حوالے کردو۔ اگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہو تو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن تاویل ہے‘‘ ۔ پھر الحق دہلی ۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ 184 ’’فان تناعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ والرسولیعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اوررسول کی طرف ردّ کرو اور صرف اللہ اوررسول کو حکم بنائو کسی او رکو نہیں‘‘۔ یہ سارے جو حوالے ہیں ناں انگریزی جارج سیل کے یہ سب میں نے نظر ڈال لی ہے۔ ان میں۔۔۔۔۔ کچھ بھی مزید بات نہیں ہے جو اس مضمون پر آپ کے سامنے پیش کی جاسکے۔
اسباب نزول میںبیضاوی کی ایک روایت ہے ’’ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔ اب ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوا اور وہ عظیم آیت نازل ہوئی جو تمام زمانوں پر حاوی ہے، تمام دنیا پر حاوی ہے ، مسلمانوں کے ہر معاملے پر حاوی ہے، اس نے کچھ بھی ایسا حصہ مسلمانوں کی زندگی کا نہیں چھوڑا جس پر اثر انداز نہ ہوئی ہو اور اس کو یہ کہنا کہ کوئی جھگڑا ہوگیا تھا اس کی وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ ساری عبارت میں پڑھ کر سنائوں تو بہت ہی فضول باتیں اس میں لکھی گئی ہیں جن کا حقیقت حال سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ اب شاہ عبدالقادر وہ شخص تھا جو مسلمانوں سے عیسائی ہوگیا تھااور وہیری جو مفسر لکھنے والا ہے ناں امریکن اس کا یہ خاص استاد تھا یا مرید تھا یا دونوں ایک ہی چیز کے دونام تھے۔ اس کو اس بات کی سمجھ آگئی ہے کہ یہ آیت ان معنوں میں استعمال نہیں ہوسکتی جو دوسرے ملاں کرتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک بہت بڑا ملاں تھا شاہ عبدالقادر۔یہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور جو اختیار والے ہیں تم میں سے‘‘۔ مسلمان کی کوئی شرط نہیںیہ بالکل درست ترجمہ کیا ہے اس نے۔ ’’پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو رجوع کرو صرف اللہ کے اور رسول کے۔ اگریقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ یہ خوب ہے اور بہترتحقیق کرتا ہے‘‘۔اس تعلق میں جو بنیادی بات ہے وہ شاید آپ پر ابھی کھلی نہ ہو کہ جھگڑا چل کیوں رہا ہے۔ اصل میں حضرت امامہدی کے متعلق سارے جھگڑے کی بنیاد ہے۔ یہ کہتے ہیں منکم کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے ’’تم میں سے‘‘ تو اس سے بعض دوسری احادیث پر بڑا نمایاں اثر پڑتا ہے ’’تم میں سے ہی ایک ہو‘‘۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بحث کو امام مہدی کے حوالے سے ایک الگ حدیث کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان دونوں کو آپس میں باندھنا ضروری ہے۔ حدیث ہے فامکم منکم اور وہ امامت کرائے تمہاری منکم جبکہ وہ تمہی میں سے ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہاں منکم سے مراد وہ نہیں ہے جو پہلا منکم تھا بلکہ امکم منکم سے مراد یہ ہے کہ تمہی میں سے ہو اور تمہاری امامت کرائے۔ اور ایک لمبی بحث اٹھائی ہے اس پر جس سے پتا چلتا ہے ہے کہ یہاں منکم سے مراد امام مہدی تمہی میںسے ہو ایک ہے معاملہ امام مہدی کا۔ وامکم منکم اور تم میں سے کوئی شخص امامت کرارہاہو۔ یہ اس وضاحت کے ساتھ اس معاملے کو سمجھیں۔ وامامکم منکم اور وامکم منکم یہ دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا ۔ ایک معنی یہ ہے یعنی وہ مسلمان ہوگا ، دوسرا ہے وہ امام ہوگا وامکم منکم اور تم میں سے کوئی شخص امامت کرائے گا۔یعنی امام تو وہ ہوگا لیکن نماز امامت کیلئے ایک اور شخص آگے کیا جائے گا۔ یہ وہ حدیث ہے جس کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دستور تھا کہ کسی اور کو امام کے طور پر کھڑا کردیا کرتے تھے ۔ یعنی روحانی امام امام مہدی آپ ہی تھے اور امکم منکم میں تمہارے میں سے کوئی اس کی امامت کرائے یہ معنی لیا کرتے تھے اور اس پہلو سے رسول اللہﷺ کے کسی حکم کی باریک سے باریک تشریح کو بھی نظر انداز نہیں فرمایا کرتے تھے۔ اور بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام ہوکر خدا نے امام مقرر کیا دوسرے کے پیچھے کیوں نماز پڑھتے ہو۔ لیکن یہ حدیث اس کاجواب ہے کہ امام ہوکر دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ وامکم منکم میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے جب یہ طریق اختیار کرلیا تو آئندہ کیلئے سب کیلئے جائز قرار دے دیا گویا کہ ۔ چنانچہ جرمنی میں جب ظہر اور عصر کی نمازیں مجھے جمع کرکے اور قصر کرنی پڑتی تھیں تو بعض جگہ ایسا وقت آتا تھا کہ بھاری اکثریت شامل ہونے والوںکی مسافر نہیںہوتی تھی اور میں اکیلا یا چند میرے ساتھ مسافر۔ تو طبیعت پر بڑا بوجھ پڑتاتھا کہ ہم توقصر کرکے بیٹھ گئے اور سارے کے سارے پیچھے نماز یں پڑھ رہے ہیں۔ تو اس وقت مجھے یہ حدیث یاد آئی اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق اور اس نے میری مدد کی۔ میں نے اعلان کیا کہ امکم منکم کے وہ معنی ہوں گے۔ تمہارا روحانی امام چاہے میںہی ہوں مگر مسیح موعود علیہ السلام سے بڑا روحانی امام تو تم میں کوئی نہیں آسکتا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے یہ جائز تھااور جائز تھا کہ دوسرا امام آپ کی نماز میںامامت کرائے میرے لیے بدرجہ اولیٰ جائز ہے کہ کوئی اور امام آگے آئے۔ چنانچہ میں نے مقرر کردیے تھے بعض دوسرے امام کہ وہ آگے بڑھ کے امامت کرائیں اور بعضوں نے اس کو اپنا حق بنالیاتھا پھر میں نے ان کو ہٹادیا۔ میں نے کہا جو لوکل امام ہے وہی امامت کرائے گا۔ یہ نہیں کہ مرکزی امام میرے ساتھ ساتھ بھاگے پھرے ہر جگہ اور وہ کہتا ہے کہ مجھ پر فرض نہیں ہے کہ میں آدھی کروں۔ اس لیے وہ سلسلہ بھی میں نے بند کردیا تھا۔ تو آئندہ بھی اگر یہ ہو تو لوگ سمجھ لیں اس بات کو کہ اس کے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فعل ہے۔
بعض احادیث اطاعت امیر کے متعلق مزید احادیث ہیں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھا فی المعصیۃ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، یہ حدیث مسلم کتاب الامارۃ سے لی گئی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایاجس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ یہ معاملہ اولی الامر میں منکم جو عام استعمال ہے اس سے الگ ہے۔ یہاں روحانی امیر کی بات ہورہی ہے جس کو اللہ نے امیر مقرر فرمایا ہو۔ اگر کسی کو اللہ نے امیر مقرر فرمایا ہو تو اس کی نیچے جو چھوٹے عہدیدار ہیں ان کی اطاعت بھی فرض ہوجاتی ہے۔ اطیعوااللہ و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم کا ایک یہ معنی بھی ہے کہ وہ امیر جو اللہ کے حکم سے تم پر قائم کیا جائے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کی سند اس کو حاصل ہو ایسے امیر کے متعلق فرمایا جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔ جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ پس بہت سے لوگ یہ جھگڑا لے بیٹھتے ہیں کہ ہم نے تو مقامی عہدیدار صدر کی نافرمانی کی ہے اور ہماری یہ مراد نہیں ہے کہ آپ کی بھی نافرمانی یا جماعت کی ہے۔وہ غلط کہتے ہیں۔ یہ حدیث ان کا منہ بند کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر مقامی صدرہو یا جو بھی چھوٹے سے چھوٹا عہدہ تمہارے نزدیک ہو اگر اسے خداتعالیٰ کے قائم کردہ نظام کے تابع ایک صاحب امر نے مقرر کیا ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرے اور نہیں کرے گا تو یہ سلسلہ دور تک نکلے گا۔ یعنی اس کی نافرمانی آخر خلیفہ وقت کی نافرمانی اور خلیفہ وقت کی نافرمانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو صاحب امر ہیں اس زمانہ میں آپ کی نافرمانی ہو گی اور آپ اگر صاحب امر ہیں تو محمد رسول اللہﷺ کے تابع صاحب امیر ہیں۔ آپ کی احادیث اور پیشگوئیوں کے مطابق صاحب امر ہیں۔ تو بات بہت دور تک پہنچے گی۔ آخر وہیں تان ٹوٹے گی جہاںٹوٹنی چاہیے۔ یعنی ہر وہ شخص جو الٰہی نظام میںکوئی عہدہ دیا جاتاہے اگرکوئی غور کرنے والا غور کرکے دیکھے تو اس کی نافرمانی دراصل حضرت محمد رسول اللہﷺ کی نافرمانی بن جاتی ہے۔ ایک او رموقع پر یہ بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ یہ یہاں سے لی گئی ہے۔ عن عبداللہ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال السمع والطاعۃ علی المراء المسلم فی مااحب او کرہ مالم یومر بمعصیۃ۔ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ اب یہ حدیث بھی بعض دفعہ بہت پیچیدگیاں پید اکرسکتی ہے اگر دماغ پیچیدہ ہو اورا س حدیث کے مطلب کو واضح نہ سمجھے ۔ ابھی میں نے آپ سے کہا ہے کہ اگر کوئی چھوٹے سے چھوٹا عہدیدار بھی حکم دیتا ہے تو آپ کو ماننا پڑے گا ۔ لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ اس نے معصیت کا حکم دیاتھا اس لیے میںنے نہیں مانا اور حدیث رکھ دے تو سارا بنا بنایا نظام کا تارو پود بکھر جائے گا۔ یعنی معصیت کا فیصلہ کرنا یہ بھی امیر کا کام ہے اور اس معاملے کو امیر کو لوٹانا چاہیے کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معصیت ہے۔ واقعتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ کرنے کامیں مجاز نہیں ۔ مگر کچھ تھوڑے سے تامل کا مجھے اختیار دیا جائے کہ جب تک میں معاملے کو اوپر پہنچا کر معلوم نہ کرلوں کہ معصیت تھی کہ نہیں اس وقت تک میںرکا رہوں۔ یہ بہت عمدہ مؤقف ہے اور اس مؤقف کو اختیار کرکے ہم نے بعض افریقن ممالک کے دیرینہ جھگڑوں کو حل کرلیا۔ جہاں یہی سوال اٹھا کرتا تھا کہ اگر امیر خلاف شرع فیصلہ دے تو ہم کیا کریں۔ خلاف شرع فیصلہ ہوتا ہی نہیںتھا ، یہ بہانہ تھا لوگوں کا۔ ہم سمجھتے ہیں خلاف شرع ہے۔ اور سمجھوں میں اتنا اختلاف تھاکہ سارے نظام کی تارو پود بکھر جاتی تھی اگر اس اصول کو اپنائیں۔ جب میںنے ان کو ان سب لوگوںکو مخاطب کرکے تفصیلی خط میںسارا معاملہ سمجھایا ۔ میں نے کہا آپ کیلئے تو ہروقت یہ بات کھلی ہے کہ جب بھی آپ یہ سمجھیں کہ معصیت کا حکم ہے تو آپ بلا تامل آجکل کے زمانے میں تو فیکس کے ذریعہ چند منٹوں میں مجھے اطلاع کرسکتے ہیں، تو کیوں نہیں کرتے۔ وہاں جو اَڑ کے بیٹھ جاتے ہیں مجھے اطلاع کردیا کریں اور میںجواباً آپ کو بتادوں گا کہ یہ فیصلہ آ پ کا درست ہے یا امیر کا درست ہے۔ جب یہ فیصلہ جاری کیا گیا تو ان کا معصیت کا بہانہ اُڑ ہی گیا۔ کیونکہ دل جانتا تھا کہ معصیت نہیں ہے اور دل جانتا تھا کہ اگر میری طرف معاملے کو رجوع کیا گیا تو میں امیر ہی کے حق میںفیصلہ دوں گا۔ اچانک سارا فساد بیٹھ گیا۔ اب شاذ کے طور پر کہیں ہوتا ہے ورنہ بالکل اٹھتا ہی نہیں۔ کیونکہ انسان کا دل اپنے حال کو خود بہترجانتا ہے۔ خواہ کتنے ہی بہانے پیش کرے وہ اپنی حقیقت حال کو خوب سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ نفس کے بہانے ہیں اور حقیقت حال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بہرحال یہ حدیث ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’جب تک معصیت کا حکم نہیںملتا ایک مسلمان کیلئے صرف سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ اس حکم کو پسند کرے یا ناپسند کرے اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو کوئی سماعت اور اطاعت نہیں ہے‘‘۔ پس ایسے معاملات میں جہاں بعض دفعہ غلطی سے بعض عہدیدار شریعت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں ایک حکم جاری کردیتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہوتا ہے وہاں بلا استثناء ہمیشہ ان کو آخر معزول کرنا پڑتا ہے اور جو شخص رکے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی پڑتی ہے۔ لیکن وہ ازخود نہیں رکتے وہ فوری طور پر معاملہ میری طرف بھجوادیتے ہیں اور کوئی عملی دقت پیش نہیں آتی۔اس لیے جب سے یہ وضاحت ہوئی ہے ایسے واقعات بہت کم ہوگئے ہیں لیکن شاذ کے طور پر سال میںایک یا دو دفعہ ایسے واقعات ضرور میرے سامنے آجاتے ہیں جن میں دخل دینا پڑتاہے ۔
ایک مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 213پر یہ حدیث نبویؐ درج ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کا کیا خیال ہے کہ جب ہم پر ایسے لوگ حکمران ہوجائیں جو آپ کی سنت کی پیروی نہ کرتے ہوں اور نہ ہی آپ کے حکم کے تابعدار ہوں تو ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا ایسے شخص کی کوئی اطاعت نہیں جو اللہ عز و جل کی اطاعت نہیں کرتا۔ اب اس حدیث کے الفاظ پر گہری نظر سے غور ضروری ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ عرض کیا کہ جب ہم پر ایسے لوگ حکمران ہوجائیں تو ہرگز رسول اللہﷺ کے قائم کردہ امراء مراد نہیںہیں۔ بالکل کھلی بات ہے اور ایسے حکمرانوں کی پیشگوئی خود رسول اللہﷺ نے فرمائی تھی کہ ایسے ظالم حکمران آجائیں گے جو شریعت کے خلاف اپنی دھونس جمائیں گے اور خدا اور خدا کے دین کی کوئی پرواہ نہیں کریںگے۔ ایسی صورت میں جن دینی معاملات میں وہ دخل دیں گے اگر تم ان کا انکار کرو تو رسول کریمﷺ فرماتے ہیںمیںتمہیں اس سے آزاد کرتا ہوں کہ تم ان کی اطاعت کرو۔ پس امیر محمد رسول اللہ ﷺہی ہیںاور آپ خود ایسے حکمرانوں کی اطاعت سے امت کو آزاد کررہے ہیں۔ اور یہ وہ وقت نہیںتھا کہ جس میں کوئی شخص رسول اللہﷺ کے پاس جاکر یا کسی روحانی امیر کے پاس جاکر پوچھتا کہ میں اس میں کیا کروں۔ اس لیے یہ افراتفری کا عالم ،انارکی کا عالم اس زمانہ میںآیا ہے جس زمانہ کے متعلق خود رسول اللہ ﷺنے پیشگوئی فرمائی ہوئی تھی کہ ملوکیت کا ایک ایسا دور آنے والا ہے ۔ تو اس کو عام پرمحمول نہیںکیا جاسکتا، نہ اس دور میں جبکہ خداتعالیٰ نے امارت کو دوبارہ قائم فرمایا ہے۔ اس حدیث کو عذر کے طور پرپیش کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ بات خوب کھل گئی ہے جس بات میں حدیث ہے درمنثور سے لی گئی ہے یہ تو روایت تو کمزور سہی مگر چونکہ میں نے اپنا اصول بنارکھا ہے کہ اگر بات پختہ ہو اور رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہوسکتی ہو تو ہمیں ضرور اس کو قبول کرنا چاہیے۔ خواہ وہ تیرہ سو سا ل کے بعد حدیث ظاہر ہوئی ہو۔ امرحدیث قرآن کے مطابق ہو امر حدیث رسول اللہﷺ کی شان کے مطابق ہو تو ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ کس نے روایت کی ہے۔ کسی نے نہ بھی کی ہوتی تو ہم اس کو قبول کرتے۔ اس کے سوا مفر ہی نہیں ہے۔پس یہ بھی ان حدیثوں میں سے ہے ۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس بات میں خالق کی معصیت ہوتی ہو اس میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔ اب خالق کی معصیت ایک ایسا امر ہے جس کا پیمانہ ہر انسان کے دل میں رکھ دیا گیاہے۔خالق کون ہے جو حمد کے لائق ہے۔ خالق وہ ہے جس میں ایک ادنیٰ بھی کمزوری نہیں پائی جاتی۔ پس ایسا خالق جس میں ایک ذرہ بھی کمزوری نہیں اور ہر بات حمد کے لائق ہے۔ اس کا ایک دل کے اندر ایک ایسا عکس رکھ دیا گیا ہے جو فطرت کاعکس ہے جو ہمیشہ صحیح فیصلہ دے گی اگر کوئی انسان خود اسے داغدار نہ کرے یا بدنیتی کے ساتھ اس کی طرف بات منسوب نہ کرے۔ فطرت انسانی اس معاملے میں دنیا میں ہر جگہ وہی فیصلہ دے گی جو کسی او رجگہ دیاجاتا ہے۔جھوٹ کو جھوٹ سمجھے ، غلط کو غلط سمجھے گی، کسی کی حق تلفی کو حق تلفی سمجھے گی۔ یہ وہ معاملات ہیں جو توحید باری تعالیٰ کو کل عالم پر نافذ کردیتے ہیں۔ پس اس حدیث میں یہ بہت عمدہ معاملہ ہے کہ فرمایا خالق کی طرف رجوع کرو۔ اگر تمہارے نزدیک وہ خالق جس نے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے صرف مسلمان ملکوں کو پیدا نہیں کیا اگر وہ خالق اس قسم کا حکم دے سکتا ہے اور تمہاری فطرت اس کے حق میںگواہی دیتی ہے اور ہر ملک میںوہ حکم نافذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ شرط ہے جو اس میں مضمر ہے تو پھر تمہارا حق ہے کہ تم اس بات سے انکار کردو۔ خواہ وہ کسی ملک یا کہیں کا بادشاہ ہو ۔ کسی بھی قوم یا دین سے تعلق رکھنے والا ہو۔
اب ایک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بھی ہے شاید شیعوں کو یہ قبول ہو۔ بخاری شریف میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت درج ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک سریہ بھیجا اور ایک انصاری شخص کو ان کا امیر مقرر کرکے انہیں اس کی اطاعت کا حکم دیا۔ اس کو ان پر کسی وجہ سے غصہ آگیا (یہ میں پہلے بیان نہیں کرچکا۔ آگ جلائو اس میں چھلانگیں لگا دو۔ بیان نہیں کرچکا اسے۔ اچھا) جھگڑا ہوا کہ امیر کی اطاعت کہاں تک فرض ہے اس پر اس امیر نے کہاکہ لکڑیاں اکٹھی کرو اور آگ جلائو پھر اس میں چھلانگیںلگادو۔ انہوں نے لکڑیاں اکھٹی کیں اور آگ جلائی لیکن جب اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ گئے ، یہ ہے خالق کی اطاعت، فطرت کی بولی ہے کہ اللہ نے تو ہمیںآگ سے بچانے کے سامان پیدا کیے ہیں یہ کون ہوتا ہے ہمیں آگ میں جلانے کا حکم دینے والا۔ لکڑیاں اکٹھی کرنے تک تو سب جی سائیں ، حاضر سائیں لیکن جب آگ روشن ہوگئی اور بھڑک گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ نور عطا فرمادیا ۔ یہ حکم ہے جو خالق کے حکم سے ٹکرارہا ہے۔ تمہیں آگ سے بچانے کے سامان پیدا کیے جارے ہیں ، یہ کون ہوتا ہے امیر جو تمہیں آگ میں ڈالے۔ تو ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا ہم نے تو نبی اکرمﷺ کی پیروی آگ سے بچنے کیلئے کی تھی۔ بالکل وہی بات ، کیسا عمدہ نکتہ ہے۔ یہ ہے خالق کی بات، فطرت پہ نقش ہے۔ کوئی اس نقش کو مٹا نہیں سکتا۔ ہم نے تو نبی اکرمﷺ کی پیروی آگ سے بچنے کیلئے کی تھی کیا ہم خود اس میں داخل ہوجائیں۔ اسی کیفیت میں تھے کہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور امیرکا غصہ بھی اتر گیا۔ یہ بحث مباحثہ جو ہورہا تھا اتفاق سے اتنی ہی لکڑیاں تھیں اس زمانہ میں جو اکٹھی کی گئی تھیں وہ جل بجھ کر خود ہی ٹھنڈی ہوگئیں۔ اس کا مطلب ہے تین چار گھنٹے تولگے ہوںگے اس بحث مباحثے میں اور اس عرصے میںامیر صاحب کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ جب نبی اکرم ﷺکے حضور اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایاکہ اگر وہ اس آگ میں داخل ہوجاتے تو پھر کبھی اس میں سے نہ نکلتے۔یعنی معصیت جو خدا کی معصیت ہے وہ اتنی کھل جاتی کہ اس کے بعد کوئی شخص بہانہ بنائے کہ مجھے امیر نے حکم دیا تھا اس کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ اب یہ روایت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ اولی الامر کس کو کہہ رہے ہیں ایک قافلے کے امیر کو۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ وہ خود اولی الامر تھے ۔ تو یہ میں نے اس لیے کہا تھا کہ یہ روایت تو شیعہ مانیں گے ناں کم سے کم کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ ہے، ان کی روایت ہے بخاری میں درج ہے اور اس حدیث سے میرے علم کے مطابق کبھی کسی شیعہ نے انکار نہیںکیا اور یہ ثابت کررہی ہے کہ اولی الامر کون ہوتا ہے اور اللہ کا حکم سب پر غالب ہے اور جب اللہ کا حکم غالب ہو تو دکھائی دیتا ہے صاف۔ اس میںکسی اشتباہ کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔ مسلم کتاب الامارۃ سے ایک اور حدیث اسی تعلق میں یوں درج ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے ہم سے بیعت کے وقت عہد لیا کہ تنگی ہو یا آسائش، خوشی ہو یا ناخوشی ہر حال میں ہم آپ کی بات سنیں گے۔ آنحضرت ﷺ سے ہم نے عہد بیعت کے وقت یہ عہد کیا اور اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے خواہ ہم پر دوسروں کوترجیح دی جائے۔ نیز ہم ان لوگوں سے جو کام کے اہل اور صاحب اقتدار ہیں مقابلہ نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ ہم کھلا کھلا کفر دیکھیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برہان آجائے کہ حکام غلطی پرہیں۔ جب یہ برہان آئے گی تب ہم رکیں گے ورنہ نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے اور حق بات کہیں گے۔
کتاب اللہ کے پابند کی اطاعت لازم ہے
(میں نے کہا آپ دیکھ لیا کریں مجھے یہ بار بار دیکھنا نہ پڑے وقت ہو تو بتادینا) اب مجھے خشکی کی وجہ سے کوئی جلدی نہیں ہے درس ختم کرنے کی اب میں ڈیڑھ گھنٹے کا بھی دے سکتا تھا کیونکہ اللہ کے فضل سے آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اب میری زبان خشکی کی وجہ سے رکتی نہیں سوائے اس منہ بند کرنے والے کے۔ اس کے بارے میںاب میں زبان نہیں کھول سکتا۔ لیکن میں خود محسوس کررہا ہوں کہ اللہ کے فضل سے خوب چل پڑی ہے ، بالکل ٹھیک چل رہی ہے۔یحیٰ بن حسین بیان کرتے ہیں یہ مسلم کی روایت ہے انہوں نے اپنی دادی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کو خطبہ حجۃ الوداع میں سنا آپ فرمارہے تھے کہ اگر تم پر ایک غلام کو حاکم مقرر کیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تم کو چلانا چاہے توتم اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔پس نظام جماعت احمدیہ میں تو کتاب اللہ کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ سو فیصد کتاب اللہ اور کتاب اللہ کی باریکیاں نہایت لطیف، تقویٰ کی باریک راہوں پر احکامات مبنی ہیں۔ ایسی صور ت میں کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ عذر رکھ لے کہ اللہ کے خلاف ہے اس لیے ہم نہیں مانیں گے۔ یہ نفس امارہ کا حکم ہے جو بار بار امر دیتا ہے اور میں پھر یہ وضاحت کردوں کہ جب سے میں نے ایسے لوگوں کویہ کھلی چھٹی دی ہے کہ بلا تاخیر مجھے فیکس کے ذریعہ بتادیا کرو انہوں نے بتانا ہی بند کردیا ہے کیونکہ مقامی طور پر جھگڑا تھا جب تک مجھ تک نہیں پہنچتا۔ اب MTA کی یہ بھی تو ایک خوبی ہے اور اس نئے دور کے فیکسز کے زمانے کی کہ ہم بالکل یک جان ہوگئے ہیں۔اب جو میں بات کررہاہوں وہ فجی آئرلینڈ میں سنی جارہی ہے اور اگر وہاں ذرہ بھی کوئی اختلاف ہو کسی مسئلے پر درس ختم ہونے سے پہلے پہلے یہاں فیکس پہنچ جائے گی۔ تو اب ہم ایک ہوچکے ہیں اور یہ دنیا کو ایک کرنے کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے صرف مسیح موعو علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے۔ کوئی اور طاقت نہیں دنیا میں جو یہ کہہ سکے کہ ہم نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پس یہ بولتے رہیں، ان کو بولنے دیں ، ان بیچاروں کو انہوں نے غصہ تو نکالنا ہی ہے ناں کسی طریقے سے۔ لیکن افسوس صرف یہ ہوتا ہے کہ جب غصہ نکالتے ہیں تو اپنے لیے جہنم کا انتظام کرتے ہیں۔ جس کی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ نار جہنم بہت خبیث چیز ہے۔ بہت خطرناک چیز ہے اگر کسی مولوی کا ہاتھ تھوڑا سا جل جائے کسی چیز سے اس وقت وہ سوچے کہ آئندہ جب اس کا چہرہ جھلسایا جائے گا ان باتوں پر جو وہ جانتا ہے کہ جھوٹ ہیں۔ یہ سب مولوی جو ہم پر الزام لگارہے ہیں دل سے گواہ ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے اور اس کے باوجود بولے چلے جاتے ہیں ، مجھے ان پررحم آتا ہے چاہے آپ مجھ پہ اس پر غصہ کریں یانہ کریں۔ مجھے واقعتا رحم آتا ہے اور جب بھی کبھی میں آگ کو دیکھتا ہوں تو میرا خیال ان کی طرف چلا جاتا ہے کہ ان بیچاروں کا کیا بنے گا۔ پس اگرچہ دعا ہماری یہی ہے کہ ان کو ٹکڑے کردے ان کے بڑوں کو شریروں کوسزا دے مگر مجبوری کی بات ہے یہ۔ ہرگز میں ہمارا دل نہیں چاہتا کہ یہ اس حالت پر مریں۔ صرف ان کو دعا پہنچے گی جو لوگوں کیلئے جہنم بھڑکانے کا انتظام کرتے جاتے ہیں اورکھلی چھٹی ملی ہوئی ہے ان کو۔ پس اس خاطر کہ یہ دائرہ کم ہوجائے۔ بجائے اس کے کہ کروڑوں ان کی وجہ سے سزا پائیں یہ چند اگر انہوں نے فیصلہ کر ہی رکھا ہے اور قرآن سے پتا چلتا ہے کہ بعض لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ انہوں نے ضرور جہنم کا منہ دیکھنا ہے تو ان کیلئے ہماری مجبوری ہے اس میںہم بے اختیار ہیں۔ مگر یاد رکھیں اس مجبوری میں بھی رحم کا عنصر شامل ہونا چاہیے اور میں ہمیشہ اس عنصر کو اپنے دل میں غالب دیکھتا ہوں۔یہ جو بہت لمبی ایک حدیث ہے مسند احمد بن حنبل کی (اس میں کوئی خاص بات ہے۔ چلیں میں سنادیتا ہوں آپ کو)۔ حضرت حرف اشعری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیاتھااور میں بھی تم کو ان پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوںجن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اب الفاظ بڑے محتاط ہیں اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کا حوالہ بھی ایک معنے رکھتا ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے یہ وضاحت فرمادی ہے کہ میںاس لیے ان پانچ باتوں کا حکم نہیں دے رہا کہ یحیٰ بن زکریا علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کسی حکمت سے میں یہ بات بیان کررہا ہوں کہ ان کو بھی یہ دیا گیا تھا لیکن یہ پانچ باتیں وہ ہیں جن کامجھے حکم دیا گیا ہے اس لیے میں بیان کرتا ہوں ۔ وہ پانچ باتیں کون سی ہیں۔ جماعت کے ساتھ رہو، امام وقت کی باتیں سنو اور اس کی اطاعت کرو، دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو وطن چھوڑ دو اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو، پس جو شخص جماعت سے تھوڑا سا بھی الگ ہوا اس نے گویا اسلام سے گلو خلاصی کرالی۔ یہ بہت ہی عظیم الشان حدیث ان معنوں میں ہے کہ اس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق ہے۔ اور دوبارہ اس دنیا میں جس ایلیا نے آنا تھاوہ چونکہ یحیٰ علیہ السلام کی شکل میں آیا تھا اس لیے ہمارے دور میں جس ایلیا نے نازل ہونا تھا وہ ایک معنے میں یحیٰ علیہ السلام کا مثیل بن گیا اور یہ بحثیں بہت اٹھائی گئی ہیں۔یہ پانچ باتیں بالکل وہی ہیں جو مسیح موعود علیہ السلام ہمیںکہتے ہیں اور دوسری الٰہی کتب میں اس ترتیب سے کہیں درج نہیںہیں۔ پس لازماًیہاں رسول اللہ ﷺکے ذہن میں ایک پیشگوئی ہے ۔ فرمایا وہ امام جب یہ باتیں کرے گا تو یہ نہ سمجھنا کہ وہ اس کی باتیں ہیں وہ میری باتیں ہیں، جو خدا نے مجھے حکم دیا ہے وہ ان باتوں کو آگے جاری کرے گا۔ اب دوبارہ یہ حکم سن لیں۔ یہ بعینہٖ جماعت احمدیہ کے اوپر اطلاق پانے والے احکامات ہیں اور اس سے پہلے دیگر الٰہی کتب میں آپ کو کہیں اس طرح نظر نہیںآئیں گے اور اس ترتیب کے ساتھ۔ فرمایا جماعت کے ساتھ رہو، اور جو نہیں رہتا اس کے متعلق کہا وہ بھی میری جماعت میں سے نہیں ہے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ بڑی تاکید ہے کہ جماعت کا دامن نہ چھوڑو ،اس کے ساتھ رہو۔ امام وقت کی باتیں سنو، بڑی تاکید فرمائی آپ نے کہ میرے بعدقدرت ثانیہ آئے گی اور وہ وقت کی امام ہوگی۔ اس وقت اس کی بات سننی پڑے گی۔ لازماً اطاعت کرنی ہوگی یہ حکم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تاکید کے ساتھ جماعت کو دیا اور اس کی اطاعت کرو امام وقت کی باتیں سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ اب یہ سنئے۔ دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو وطن چھوڑ دو۔ اب بتائیں کھل گیا کہ نہیں معاملہ۔ بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ۔ آج صرف ہماری جماعت ایک ہے جس کو دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑتا ہے اور رسول اللہﷺ نے اس زمانہ میںیہ پیشگوئی فرمادی تھی کہ ایسا ہوگا۔ دل درود بھیجتا ہے رسول اللہ ﷺپرکس پیارسے ، اس محبت سے ہمارا ذکر فرمایا جو اور کسی پر اطلاق نہیںپارہا۔ سب دنیا میں ایک ہم ہی توہیں جواس حکم کے مصداق ٹھہرتے ہیں۔ دین کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو وطن چھوڑ دو اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔پس جو شخص جماعت سے تھوڑا سا بھی الگ ہوا اس نے گویا اسلام سے گلو خلاصی کرلی، دین کی خاطر الگ ہو اور جہاد کرو۔ اب بتائیں تلوار کے جہاد کا کونسا موقع ہے یہاں۔ دین کی خاطر وطن چھوڑو اورجہاد کرو۔ اگر جہاد ممکن ہوتا اس زمانہ میں وطن چھوڑ کر توتلوار کے جہاد کی کوئی گنجائش یہاں موجود تھی۔لیکن جس زمانے کی بات فرمارہے ہیں کہ دین کی خاطر وطن چھوڑنے پڑیں گے وہاں وہ زمانہ بتارہا ہے کہ تلوار کے جہاد کی گنجائش نہیں۔ اسی جہاد کی گنجائش ہے جو جہاد اکبر ہے اور جو احمدی ساری دنیا میں کررہا ہے۔ یعنی جہاد بالقرآن نہ کہ جہاد بالسیف۔ جہاد بالقرآن ہی ہے جو اولیت رکھتاہے اور جہاد بالسیف ایک ثانوی جہاد ہے جیسے پانی نہ ہو تو تیمم کرلیا جاتاہے ۔ مگر تیمم بھی فرض ہے جب پانی نہ ہو۔ پس جہاں جہاد کا حکم اطلاق پائے گا اگر جہاد بالقرآن ممکن نہ رہے اور مجبور کردیا جائے کہ جہاد بالسیف کیا جائے تو وہ اولیت ہوجائے گی اس جہاد کو۔ اس کو آپ تیمم کہہ کر ردّ نہیںکرسکتے۔ کیونکہ تیمم کو بھی ردّ نہیں کرسکتے۔ وہ ایک قائمقام حکم ہے جو اپنی ذات میں کامل اور مکمل ہے ۔ مرتے وقت تک تیمم کا حکم اسی طرح رائج ہوتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بار بار تیمم فرماتے تھے۔ پس میںنے جو تیمم کہا تو کوئی اس کو ہلکا نہ سمجھے ۔ اس کے علاوہ آگے بھی حدیث چل رہی ہے سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ نظام جماعت میں شامل ہوجائے۔ اب دیکھیں دوبارہ نظام جماعت میں شامل ہوجائے۔ اس سے زیادہ واضح جماعت احمدیہ کے نظام کی تصویر کھینچی نہیں جاسکتی اور رسول اللہﷺ چودہ سو سال سے بھی پہلے یہ بات بیان فرمارہے ہیں۔ اور جو شخص جاہلیت کی باتوں کی طرف بلاتا ہے۔ وہ جہنم کا ایندھن ہے جو شخص جاہلیت کی باتوں کی طرف بلاتا ہے خواہ وہ نظام جماعت کے اندر داخل ہوکر ا س کے بہانے اس کے پردے میں بلائے وہ شخص جہنم کا ایندھن ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ!خواہ ایسا شخص نما زبھی پڑھے، روزہ بھی رکھے او راپنے آپ کومسلمان بھی سمجھے ۔ اگر وہ ان باتوں کی طرف بلائے تو کیا وہ بھی جہنم کا ایندھن ہے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہاں اگر وہ روزہ بھی رکھے اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہے تو پھر وہ اگر جاہلیت کی باتوں کی طرف بلائے تو وہ جہنم کا ایندھن ہے۔ اے اللہ جل شانہ کے بندو! یہ بات یاد رکھو کہ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہیں انہیں تم بھی مسلمان کہو۔ یہ سارا سلسلہ وہی چل رہا ہے ایک ادنیٰ سا بھی فرق نہیں۔یہی تو ہمارا دعویٰ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے آگے تحقیق میں پڑنے کا تمہارا کوئی حق نہیں ، تم اس کو ضرور مسلمان کہو۔ اللہ کے نزدیک اس کا جو بھی معاملہ ہو تو جہاں یہ فرمایا کہ اگر کسی نے پوچھا تھا کہ اگر مسلمان ہو ، روزہ بھی رکھے پھر بھی تو فرمایاکہ اگر وہ جاہلیت کا حکم دیتا ہے اس کے باوجود جب تک وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تم اس کو غیر مسلم نہیںکہہ سکتے۔ بہت ہی عظیم الشان حدیث ہے ، اتنی تفصیل میںگئی ہے کہ اس زمانے کے سوا کسی اور زمانہ پر اطلاق پاہی نہیں سکتی۔ یہی تو جھگڑا چل رہا ہے ۔ ہم کہتے ہیں ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تم سمجھو نہ سمجھو۔ لیکن تمہیں ہمیہں مسلمان کہنے کا جو حق ہے وہ حق چھیننے کا کوئی حق نہیں اور تمہیںلازماً ہمیں مسلمان کہنا پڑے گا جب تک کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں۔ اسی لیے ہم نے دیکھا محاورے میں غیر احمدی مسلمان، غیر مسلم ہم باقی سب قوموں کیلئے محاورہ استعمال کرتے ہیں لیکن غیر احمدیوں کیلئے ہمیشہ غیراحمدی مسلمان کہتے ہیں ۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ انہوں نے امام وقت کا انکار کردیا ہے اور بعض ان میں سے ایسے شریر ہیں کہ مسلمان کہلاسکتے ہی نہیں۔ جو خود خدا بن بیٹھا ہو وہ مسلمان کیسے رہ گیا۔ لیکن جب تک وہ منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں گے ، احمدی بھی ہمیشہ ان کے اس حق کو تسلیم کریں گے اور ان کو غیراحمدی مسلمان کہیں گے۔ غیر مسلم نہیں کہیں گے۔ یہی ہمارا طریق ہے ۔ فرمایا جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہیں انہیں تم بھی مسلمان کہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کا نام مسلمان او ر مومن رکھا ہے۔ یعنی خداتعالیٰ نے جولوگ میری طرف منسوب ہوچکے ان کانام مسلمان رکھ دیا۔ اس لیے ان کا یہ حق تم کبھی نہیں لے سکتے۔ اور یہ وہ حق ہے جو آنحضرتﷺ نے بھی کبھی نہیںچھینا۔ خدا فرمارہا ہے قرآن کریم میں کہ یہ لوگ ایسے ہیں جن کے سینوں میں ایمان نے جھانک کر بھی نہیں دیکھا، جو جھوٹے اقرار کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ تو رسول اللہ ہے تو اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں باوجود اس کے کہ تو رسول اللہ ہے۔ لیکن ان کو مسلمان کہنے کا حق اسی طرح جاری رہے گا۔ تو نے یہ حق نہیںچھیننا۔ جو حق رسول اللہﷺ نہ چھینیں جن کو خدا بتائے جو دلوں کی باتوں کا واقف ہے ان کے دل میں اسلام نہیں ہے۔ وہ حق یہ ملانے اپنا بیٹھیں اور خدا بن کر دلوں کی باتیں کریں اور اگر وہ سچی بھی ہوں ان کی باتیں تو خدا سے بڑھ کر تو سچی نہیں ہوسکتیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ کو فرمارہا ہے کہ یہ سچی بات ہے ان کے دل میں کوئی ایمان نہیں۔ لیکن ان کو غیر مسلم نہیںکہنا جب تک یہ اپنے آپ کو مسلمان کہیں۔
یہ یہ مولوی لوگ جو خدا بنتے ہیں اور دلوں میں اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے دل میں یہ کہا یہ آیت ان کو بھی ہمارے سے بچارہی ہے۔ کیونکہ جب تک منہ سے یہ کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں مجبوراً کہنا پڑے گا۔ پس یہ اس آیت کا منطوق اس حدیث کا منطوق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا۔ بہت ہی عظیم الشان جماعت احمدیہ کے حق میں ایک جاری فیصلہ ہے۔ابھی کل بھی اس درس کا کچھ حصہ باقی رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا پتہ چلا کہ واپس آئے کہ نہیں۔ میرے آنے سے پہلے پہلے پتہ کرنا۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ12؍رمضان بمطابق11؍ جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ ۔
سب سے پہلے تو معذرت ہے آج دیر سے آنے کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب میں چلنے ہی والا تھا تو ایک بہت ضروری فون آگیا جس کو مجھے مجبوری تھی ضرور اس کی پوری بات سننی چاہیے تھی۔ تو ساری تاخیر اسی وجہ سے ہوئی ہے یعنی میرے تاخیر سے آنے کی اور کوئی وجہ نہیں اور یہ ایک معذرت ہے جومجبوری تھی۔ اب آج کا درس اسی آیت کریمہ سے شروع ہوگیا جس کا پہلے ہی درس جاری ہے اس لیے وہی تلاوت میں پھر کرتا ہوں۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
یایھاالذین امنوا اطیعوا للہ واطیعوالرسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذٰلک خیر و احسن تاویلاًO (النسائ:60)
اس پر بہت سی بحثیں گزر چکی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جنہیں میں نے اس دتھے میں سے بہت غور کے بعد نکال دیا ہے کیونکہ یہ وہ تمام بحثیں میرے So Called قرطاس ابیض کے جوا ب میں میری جوابی جوتقریریں تھیں ان میں آچکی ہیں ساری۔ یعنی انگریز کاخودکاشتہ پودا اوریہ سب کچھ بیان سارے اس میں آگئے ہیں تفصیل سے آچکے ہیں اس درس کو اب دوبارہ اسی موضوع کیلئے وقف نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اصل بات کیا تھی جس کی وجہ سے یہ سارا جھگڑا شروع ہوا اور کیوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بار بار اسی آیت قرآنی کی رو سے اپنے مؤقف کو بیان کرنا پڑا اور شرائط بیعت میںیہ بات لکھنی پڑی کہ اطاعت جو قرآن لازم کرتا ہے وہ تم پہ لازم رہے گی خواہ انگریز کی حکومت ہو۔ یہ اتنی اہم بات ہے اس پر مختصر سی روشنی میں ڈالوں گا کہ کیوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مؤقف اختیار فرمایا ۔ اس سلسلہ میں ایک اقتباس ’’الاقتصاد فی مسائل الجہاد‘‘ مطبوعہ وکٹوریہ پریس صفحہ 51سے لیا گیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف یہ وقت کے علماء اس زمانے میں بار بار حکومت انگریزی کو مطلع کرتے تھے کہ یہ مذہب کا صرف فراڈہے اور دراصل ایک خونی مہدی کا تصور ہے جو لے کر مسیح مرزا غلام احمد قادیان کھڑا ہواہے اور اس کی تحریک کو جب تک قانون کی روسے آپ دبا نہیں دیں گے اس وقت تک یہ خطرہ آپ کے سر پر لٹکتا رہے گا ۔ یہ لب لباب ہے ان علماء کی کوششوں کا۔ اکثر جو اعتراض اٹھانے والے ہیں وہ اس پس منظر کا ذکر نہیں کرتے اس لیے آج کے پڑھنے والے بہت متعجب ہوتے ہیں کہ خدا کا نبی اور وقت کی حکومت کی اتنی اطاعت کہ شرائط بیعت میںداخل کرلیا او ربار بار قوم کو تاکید ہے اور حکومت کو تاکید ہے کہ دیکھ لو میرے متبعین سارے کے سارے تمہارے وفادار ہیں۔ یہ حرکت ایک نبی سے کیسے ہوسکتی ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تو میں مولوی محمد حسین بٹالوی کا یہ حوالہ جو میںنے ابھی دیا ہے یہ پڑھ کر سناتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قسم کے علماء کا سامنا تھا۔’’عہد و امن والوں سے لڑنا‘‘ یہ وہ نہیں ہے حوالہ جس میںانہوں نے الزام لگایا ہواتھا(ہاں۔۔ وہ۔۔۔ دوسراحوالہ کہاں ہے جس میں اعلان ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بڑا خطرناک آدمی ہے اور یہ ۔وہ بھی اس تقریر میںآچکا ہے جو میری جوابی تقریر تھی ناں۔۔۔ قرطاس ابیض کے جواب میں اس میںوہ تفصیل سے آچکا ہے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کا حوالہ یہاں اس وقت نہیں ہے لیکن جو میں نے جواباً تقریر کی تھی او رکئی تقریروں پرمشتمل ایک مضمون بیان کیا تھا اس میںیہ وجہ بیان کی تھی ۔ مولوی محمد حسین کے حوالے سے اس کے اخبار میں شائع شدہ عبارت تھی۔ وہ انگریزوں کو یہ کہتا تھا کہ یہ مرزا غلام احمد قادیانی مفسد اور باغی ہے اور آپ کو صرف یہ کہتا ہے کہ میںمہدی ہوں یا مسیح ہوں۔ حالانکہ اسلام کی رو سے مہدی ضرور خونی ہوناہے اور اس نے قتل و غارت کا بازار گرم کرناہے ، اب تم اس کی باتوں میں آگئے اور کل کو اس نے اپنے اسلامی پرپرزے نکالے تو پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ اسلام کیا کہتا ہے تمہارے متعلق اور یہ ان باتوں کا قائل ہے۔یہ تھی وہ کوشش جو صرف ان کی نہیں بلکہ دیگر علماء کی بھی تھی اور خود یہی محمد حسین بٹالوی یہ لکھنے پر مجبور ہوا اسی انگریزی حکومت کے متعلق کہ ’’عہد و امن والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد، ملکی ہو یا مذہبی ، نہیں ہو سکتا‘‘۔ اب یہ دیکھ لیں اپنے دفاع میں جب بولا ہے یہ تو انگریزوں کو کیا یقین دلارہا ہے عہد و امن والوں سے لڑنا ہرگز شرعی جہاد خواہ ملکی ہو یا مذہبی نہیں ہوسکتا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہتے ہیں شرعی جہاد نہیں توشور ڈالتے ہیں۔ بڑے خطرناک دوغلے مولویوں سے واسطہ پڑا ہے۔ شاید ہی تاریخ مذہب میں اس قسم کے خوفناک دوغلے مولوی اور پیش کیے جاسکیں ۔ مفسدہ 1857ء میں اب جو غدر کا الزام بار بار ، 74ء کی جو بحث ہوئی تھی ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جو پیش ہوکر ساری جماعت کا مؤقف پیش کیا تھا قومی اسمبلی میں ۔اس میں بڑے بڑے لہک لہک کرانہوںنے مفسدہ 1857ء کو ایک اسلامی جہاد قرار دیا تھا اورکہا تھا کہ دیکھو مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یہ مفسدہ ہے یہ فساد ہے او ریہ جہاد ہے ہی نہیں، تو کتنا بڑا حملہ کیا ہے ان قربانی دینے والوں پر، جنہوں نے اپنی جان کی بازی لڑادی اور اسلام کی خاطر ایک غیر حکومت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس مفسدہ کے متعلق تفصیلی حوالے سے سرسیّد احمد سمیت میں اسی جوابی کارروائی میں دے چکا ہوں لیکن یہاں مفسدہ کا چونکہ ذکر آرہا ہے ا س لیے میں پھر دوبارہ آپ کو سناتا ہوں۔ ’’مفسدہ 1857ء میں جومسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہگار اور بحکم قرآن و حدیث و مفسد و بدکردار تھے‘‘۔ (سن لو جی مولویوں کی بات)۔ ’’ اکثر ان میں عوام کالانعام تھے بعض جو خواص علماء کہلاتے تھے وہ بھی اصل علوم دین ، قرآن و حدیث سے بے بہرہ تھے یا نافہم و بے سمجھ۔ باخبر اور سمجھ دار علماء اس میں ہرگز شریک نہیں ہوئے اور نہ اس فتح پر جو اس غدر کو جہاد بنانے کیلئے مفسد لیے پھرتے تھے انہوںنے دستخط کیے‘‘۔
علامہ اقبال نے بہت زبان کھولی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اور یہاں تک کہا کہ یہ ’’غلام نبی‘‘ ہے جو ہمیں منظور نہیں۔ ایک نبی جو غلام ہو ، غیر قوم کا اور غیر مذہب کا وہ ہمیں کسی طرح منظور نہیں ۔ اس کا ذکر میں سورۃ یوسف میںکرنابھول گیا تھا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام منظور نہیں ہیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی انکار کرو۔ کیونکہ قرآن کریم نے انتہائی وضاحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ وہ ایک ایسے بادشاہ کا مطیع تھا جس کا دین اپنا دین تھا اور وہ ’’دین الملک‘‘ ہے اس دین ملک میں حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک کوڑی کا بھی اختیار نہیں تھا۔ اگر اللہ تبدیل نہ کرتا تو اپنے بھائی کو پاس رکھنے کا بھی اختیار نہیں تھا۔ پس اقبال کا جواب تو اوّل اور باقی سب جو اقبال سے متاثر ہیں ان کایہ جواب ہے کہ سورۃ یوسف کو پڑھ لو اور فیصلہ کرو کہ کیا دو نبیوں کا انکار اکٹھا کرنا ہے یا دونوں کو ماننا ہے۔ اگر مسیح موعود علیہ السلام کا انکار اس بنا پر ہے تو یوسف علیہ السلام کا انکار لازم آئے گا اور اگر یوسف علیہ السلا م کومانو گے تو مسیح موعود علیہ السلام کو لازماً ماننا پڑے گا کیونکہ اس پہلو سے ان دونوں کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں۔ اور اقبال صاحب کا جو آزاد بنے پھرتے تھے اور بہت خوددار کہ انگریزی حکومت کے سامنے ہم کیسے سر جھکائیں، سرجھکانے کے توقائل نہیں تھے مگر انگریزی حکومت کے اوپر اپنا سر قربان کرنے کے قائل تھے۔ فرماتے ہیں ، ملکہ وکٹوریہ کی جب وفات ہوئی ہے تو علامہ اقبال نے لکھا، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں جوکہتے تھے ناں سایہ ہے خدا کی رحمت کا وکٹوریہ، اس پر بہت مولویوں نے شور مچایا ہوا ہے اور علامہ اقبال بھی ’’غلام نبی‘‘ اور یہ سب کچھ ردّ کرنے کے بعد کہتا ہے ؎
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا (ملکہ وکٹوریہ کی طرف اشارہ ہے)
اک غم گسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
سن لیا ہے آپ نے یہ نوٹ کن لوگوں سے ہمیں واسطہ پڑ رہا ہے۔
ع اے شمع بزم ماتم سلطان جہاں
کیا تھی جھلک تیری کہ ثریا تلک گئی
سبحان اللہ، اس کی جھلک تو ثریا تک چلی گئی لیکن ثریا سے ایمان لانے والا جو واپس آیا ہے اس کا ذکر کیوںنہیںکرتے اب۔میرا سر قبول ہو وہ کہاں گیا ہے؟ وہ اس میں نہیں ہے۔ ہنگامہ ۔۔۔۔ میرا سر قبول ہو۔
ع وہ درد غم لگی ہے کہ ٹوٹا ہے بند بند کیا مرغ روح توڑ کے اپنا قفس گیا
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو یہ جنازہ اسی کا ہے
جس کا دلوں پہ راج ہو مرتا نہیں کبھی
صدیاں ہزار گردش دوراں گزار دے
وکٹوریہ نہ مڑ کے نام نیکو گذاش
ہے زندگی یہی جسے پروردگار دے
وکٹوریہ نہیںاب مرسکتی، نہ وکٹوریہ نے مرنا ہے ان کیلئے نہ عیسیٰ نے مرنا ہے ، اسلام مرجائے گا ان کی بلا سے مرتا پھرے۔
پژمردہ کر گئی ہے جو بادخزاں تجھے
صد نوبہار ناز تجھے روزگار دے
مرحوم کے نصیب ثواب جزیل ہو
ہاتھوں میں اپنے دامن صبر جمیل ہو
دعائیں ہورہی ہیںان کے جنازے پر ۔ وہ نہیں ناںملا۔ وہ بھی بڑا دلچسپ ہے کہ میرا سر قبول ہو اقبال اور کیا خدمت کرسکتا ہے۔ انگریز کی خاطر ملکہ وکٹوریہ کے راج کو طول دینے کیلئے ایک اقبال کا سر ہی تو ہے جو حاضر ہے۔ اور جب سر کی بات آئی تو ان سے سرلیا۔ سر مانگا تو دل سے مانگا۔ بہت دلچسپ مضمون ہے مگر مجبوری ہے اس درس میں محض مختصر ذکر کرسکتا ہوں زیادہ نہیں کرسکتا۔ اب سنیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیوں فرمارہے ہیں کہ یہ اولوالامر حکومت ہے اس کا انکار نہ کرو ہرگز اپنی طرف سے نہیںفرمارہے بیعت میں جو الفاظ داخل ہیں اس بناء پر داخل ہیں کہ آنحضرت ﷺکا حکم ہے اس کے سوا چارہ کوئی نہیں۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ یہ ہیں ’’قرآن میں حکم ہے اطیعوااللہ و اطیعواالرسول و اولی الامرمنکم ’یہ بنا ء ہے‘قرآن میں حکم ہے اطیعوااللہ و اطیعوالرسول و اولی الامر منکم اب اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگرکوئی کہے کہ گورنمنٹ منکممیں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے وہ منکم میں داخل ہے ۔ پس اطاعت کا حکم جماعت کو صرف اس میں ہے جو گورنمنٹ شریعت کے مطابق کرتی ہے۔ جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے، اشارۃ النص کے طور پر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کی باتیں مان لینی چاہئیں۔ یہ حکم عام ہے اصل میں صرف انگریزی حکومت سے تعلق نہیںرکھتا۔ چونکہ ہندوستان پر ان دنوں انگریزی حکومت کا راج تھا اس لیے اسی کے حوالے سے بغاوت کی باتیں ہوا کرتی تھیں اور اسی کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ثابت کرنا تھا کہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف تم تلوار اٹھائو جو دارالحرب نہیں بلکہ دارالامن ہے اور ایک دفعہ جب اس کے معاہدے میںداخل ہوگئے ہو تو تلوار سے اس کو ہٹاناتمہارے لیے جائز نہیں۔ سوائے اس کے کہ تمہاری شریعت میں دخل انداز ہو اور شرعی امور میں تمہیں اسلام سے الگ رستہ دکھانے پر مجبور کرے۔ یہ بات تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بکثرت انگریز کی تعریف فرمائی۔ ہمیشہ یہ کہہ کر یہ ایسی مہربان حکومت ہے جس نے ہمارے مذہب میں دخل اندازی سے کلیۃً پرہیز کیا ہے اور غیروں کی دخل اندازی سے ہمیںمحفوظ رکھا ہے اور وہ حکومت جو پنجاب میں رائج تھی جس کی رو سے اسلام پر عمل درآمد کرنا یہاں تک کہ اذان دینا بھی ناجائز تھا۔ اس کے شر سے جو غیر اسلامی شر تھا انگریزی حکومت نے ہمیںبچالیا ہے۔ اب جتنی بھی تعریف ہے وہ اس بات پر نہیں کہ مجھے مال دیے،جماعت احمدیہ کو انگریزوںنے Popular کرنے کی کوشش کی یا میری تائید میںکچھ لکھا ایک جگہ بھی یہ ذکر نہیں۔ ہر جگہ یہ ذکر ہے کہ اسلام جو ہمیں بہت پیارا تھاجس کے خلاف حکومتی کارروائیاں، فساد کی کارروائیاں جاری تھیں، ان سب کے خلاف انگریزی حکومت نے ہمیں امن عطا کیا اور اس پہلو سے ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ اپنے محسن کا شکریہ ادا کرے۔ ان شکریوں میں ایک بھی بات اپنی ذات پر احسان کی نہیں تھی۔ اس کے برعکس انگریزی حکومت کے جو خاندان سے سلوک تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام الگ لکھتے ہیں۔ ساری جائیدادیں جو پہلے سے مغلیہ وقت سے ہمارے خاندان میں چلی آرہی تھیں وہ ساری ضبط کرتے کرتے آخر پر پانچ سات گائوں رہ گئے اور ان کے مقدموں میں جو بھی خاندان کی دولت تھی ساری خرچ ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے والد نے مجبور کیا کہ تم مقدمے لڑو اور آپ سخت کراہت سے یہ مقدمے لڑتے تھے اور اپنے والد کو کہا کرتے تھے کہ آپ جو پاک دھن ہے وہ بھی ضائع کردیں گے، ان لوگوں نے بات نہیں ماننی۔ چنانچہ بہت معمولی سی ایک علاقے پر ایک قسم کی امارت عطا ہوئی ان معنوں میں کہ مالیہ وصول کرنے والے جو نمبردار ہوتے ہیں وہ تمہارے ہوجائیںگے۔ اب ان کی چیزوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے خاندان میں آئی بھی نہیں۔ اپنے خاندان میں ان معنوں میں کہ وہ حضرت مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بہت ہی مداح اور آپ کے زیر احسان بھی تھے کئی پہلوئوں سے ان کی اولاد میں منتقل ہوئی ہے وہ یعنی مرزا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت مرزاغلام قادر کی وجہ سے ہوئی ہے جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو تفصیل سے آپ جاکے دیکھیں تو بالکل کچھ اور بات نکلتی ہے۔ بہر حال یہ میں اب حوالہ بتاتا ہوں وہ یہ کہتے ہیں یعنی دشمن کہ انگریز چونکہ غیر مسلم تھا اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا اس لیے جو بھی تم کہو مرزا صاحب کا فرض تھا کہ وہ انگریز کے خلاف تلوار کے جہاد کا اعلان کرتے۔ سمجھ گئے! یہ بات اچھی طرح یادر کھیں۔ اب ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا فتویٰ سن لیجئے۔ مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 5صفحہ 387 میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو کوئی جماعت سے نکل گیا اور امارت کو حقارت سے دیکھا وہ اللہ جل شانہ سے اس حال میںملے گا کہ اس کے ہاں اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوگی۔ اب جماعت سے کون نکلا ہے؟ فرمایا ، مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن۔ یہی روایت مسلم کتاب الامارۃ میں بھی انہی الفاظ میں ملتی ہے اور بخاری کتاب الاحکام میںبھی یہ روایت الفاظ کے معمولی فرق سے ملتی ہے۔یعنی اتنی قطعیت ہے اس روایت کو حضرت، اس کا ترجمہ تو نہیں ناں دیا ہوا نیچے۔ میں ابھی کردیتا ہوں۔ یہ نیچے صرف مسلم لکھا ہوا ہے۔ ہاں ، ہے وہی پھر میں بخاری ڈھونڈ رہا تھا یہاںبخاری نہیں ہے، بخاری میں بھی ہے، مسلم میں بھی ہے اور مسلم میں دو روایات ہیں یعنی اس کو ہر طرح سے مضبوطی سے باندھا گیا ہے۔ روایت کے لحاظ سے جو بہترین سند ہوسکتی ہے وہ ہم پیش کررہے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو صبر کرے کیونکہ جو کوئی اپنے امیر سے بالشت بھر بھی دور ہو کر مرا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔وہ دوسری حدیث کہاں چلی گئی؟ مات میتۃ الجاھلیۃ میں تواسی کی تلاش کررہا ہوں۔ اس آیت کریمہ کی رو سے جس کا ذکر گزرا ہے ا سکے حوالے سے، حضرت رسول اللہﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اگر تمہارا حاکم غیر مسلم بھی ہو، اگر تمہارا حاکم ہرقسم کے عیوب میں ملوث ہو، بدکردار بھی ہو، تب بھی قرآن کی رو سے تم پر اس کی اطاعت لازم ہے او رجو اس کی اطاعت نہیں کرے گا وہ اس حکم قرآنی کی روگردانی کرے گا ۔ یہ وہ روایت ہے جو میں ڈھونڈ رہا ہوں۔ یہ اس میں اتفاق سے سوء اتفاق سے داخل نہیں ہوسکی مگر اس روایت کی روشنی میں جس کا تعلق اسی آیت کریمہ سے ہے۔ ان روایات کی روشی میں کہ جو اولی الامر ہے اس کی تم نے اطاعت کرنی ہے۔ آنحضرتﷺ نے اپنا مؤقف اتنا واضح فرمادیا ہے اور غیر مسلم حکومت کا حوالہ دے کر واضح فرمایا ہے اس وقت تمہیں قرآن کی اطاعت کرنا ہوگی اور قطع نظر اس کے کہ غیر مسلم کیا کرتا ہے اگر وہ خلاف تمہارے کرتا ہے تو تم صبر کرو اور صبر کے سوا تمہیں کوئی حق نہیں ہے ہتھیار اٹھانے کا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہی تعلیم جو حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ نے قرآن کے حوالے سے دی ہے جب پیش کرتے ہیں اور اپنی شرائط بیعت میں یہ بات لکھتے ہیں اس حوالے سے کہ اللہ کا حکم افضل ہے اگر انگریز تمہارے خلاف کارروائی پہلے کرتا تو تمہارے پاس صبر کے سوا چارہ نہیں تھا۔ مگر خوش ہو کہ خلاف نہیں ہے بلکہ تائید میں ہے اور اسلام کو کھلی اجازت ہے پنپنے کی اور تمام شرعی امور میں عملدرآمد کی۔ اس حوالے کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان مولویوں کی ساری کتابیں ظہیر وغیرہ سب جو بھی بیہودہ لغو، ہرزہ سرائی کی گئی ہے اس کی کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ معاف کرنا یہ حوالوں کی چھان بین پہلے سے موجود ہے، حوالے بھی ہمارے پاس موجود ہیں لیکن چونکہ اس درس میں وہاں سے جو حوالے آئے ہیں میرے پاس اس وقت میرے پاس وہی سرمایہ ہیں میں انہیں کو استعمال جس حد تک کرسکتا ہوں کررہا ہوں ۔ لیکن جن حوالوں کا میں نے ذکر کیا ہے یہ بڑی تفصیل کے ساتھ مکمل پختہ حوالوں کے ساتھ ہمارے پاس موجو دہیں اور اگر ضرورت پڑی دوبارہ اٹھانے کی تو پھر میں آپ کے سامنے پیش کردوں گا۔ (کھانسی۔ معاف کرنا)
الم ترا لی الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضللاً بعیدًاO (سورۃالنسائ: 61)
کیا تونے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا؟ یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ تجھ پر اتاراگیا ہے اس پر ایمان لے آئے ہیں۔ وما انزل من قبلک اور گمان کرتے ہیں کہ جو کچھ تجھ سے پہلے اتارا گیا تھا اس پر بھی وہ ایمان لے آئے ہیں۔ یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کی طرف اپنے معاملات کو لے جائیں ۔ وقد امروا ان یکفروا بہ حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت کے فیصلوں کا انکار کریں و یرید الشیطان ان یضلھم ضلالاً بعیدا اور شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں مبتلاء کردے۔ زعم کے متعلق المفردات میں درج ہے حکایت قولٍ یکون مذمۃ لکذب ولھذا جاء فی القرآن فی کل موضعٍٍ ذمہ القائلون بہ نحو زعم الذین کفروا بل زعمتم کنتم تزعمون ، زعمتم من دونہ ۔ الزعم: ایسی بات کا بیان جس کے جھوٹے ہونے کا گما ن ہو۔ یہ ہے زعم ۔قرآن کریم نے ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کیلئے ہر جگہ پرمذمت آئی ہے ، جیسے زعم الذین کفروا، بل زعمتم، کنتم تزعمون، زعمتم من دونہ یہ سارے قرآن کریم کے حوالے امام راغب دیتے ہیں ۔ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ زعم کے ساتھ ایک ایسا خیال خواہ کیسا ہی پختہ کیوںنہ نظر آئے ، ایسا خیال وابستہ ہوتا ہے جس میں جھوٹے ہونے یا غلط ہونے کا امکان ، احتمال موجود ہوتا ہے اور قرآن کریم نے انہی معنوںمیں اس کو استعمال فرمایا ہے۔ یہ جو بعض لفظ ہلکے ہلکے مٹے ہوتے ہیں وہ دراصل کچھ ان کا قصور نہیں ، کچھ یہ بات بھی ہے ۔ اب آپ میری صحت کی باتیں سنتے رہتے ہیں تو یہ بھی سن لیجئے کہ میںعام ڈاک کو اور عام موٹے لفظوں کو بغیر عینک کے پڑھتا ہوں اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید میں پرانا ذیابیطس کا مریض یااور ان کو توڑنے کیلئے یہ بات کافی ہے۔ ہمارے سب سے چوٹی کے آنکھوں کے ماہر جنرل نسیم تھے۔ انہوں نے جب پہلی دفعہ میرا معائنہ کیا تو حیران رہ گئے کہ آپ کو تو بہت پہلے عینک لگ جانی چاہیے تھی اور اب بھی میں ویسے لگارہا ہوں تاکہ شاید آپ کو ضرورت پڑ جائے ورنہ وہ کہتے تھے میرے علم کے مطابق آج سے دس سال پہلے آپ کو عینک لگ جانی چاہیے تھی۔آخر وقت تک وہ اس بات پر ہنسا کرتے تھے۔ یہ ایک سوء اتفاق ہے کہ یہ جنرل ضیاء الحق کے بھی ڈاکٹر تھے مگر وہ اور باتیں ہیں۔ میںیہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کے توہمات ساتھ ساتھ دور ہوتے چلے جائیں کہ ذیابیطس کے مریض کا زخم اچھا نہیں ہوا کرتا، اس کو ہمیشہ زخم میں مشکل پیش آتی ہے اور یہی خیال ہمارے ڈاکٹر ، جو کیا نام ہے ان کا، جو دانتوں کے ماہر ۔۔۔۔کے، ہاں ڈاکٹر احسان وہ جب بھی علاج میرے دانت کا، میرا دانت جب نکالا انہوں نے اور باتو ںباتوںمیں یہ ذکر چلا کہ مثلاً پیشاب کی تکلیف کا، جو بار بار ہوجاتی ہے اس کا تعلق فکر سے ہوتا ہے ذیابیطس سے نہیں۔ لیکن وہ بار بار بڑے احترام کے ساتھ بار بار اس بات کو پوچھے چلے جارہے تھے کہ آپ اپنا ٹیسٹ کروالیں۔ مجھے لگتا ہے آپ کو ذیابیطس ہوگئی ہے ۔میں نے کہا آپ تجربہ کار ڈاکٹر ہیں ناں کہتے ہاں۔ کتنے لوگوں کے آپ نے دانت نکالے ہیں؟ کبھی کسی دانت کے زخم کو بغیر ایلو پیتھک اینٹی بائیوٹک کے آپ نے اس تیزی سے مندمل ہوتے دیکھا ہے جیسے اب دیکھاہے۔ انہوں نے کہا کبھی نہیں۔ میں نے کہاکبھی آپ نے دیکھا کہ خون کا اخراج فوراً بند ہوجائے اورآپ جو دوائیں دیتے ہیں اخراج بند کرنے والی ، میں نے آپ لوگوں کو بتایا میںنے نہیں استعمال کیں اور نہ کروں گا۔ اور جتنا آپ نے وقت بتایا تھا اس سے آدھے وقت سے بھی پہلے اس کا اخراج بند ہوگیا ہے۔ تو کوئی ذیابیطس کا مریض آپ کو یاد ہے اس قسم کا؟ انہوں نے کہا بالکل نہیں۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اگر اس وقت سے ذیابیطس چل رہی ہو جب یہ سلسلہ شروع ہوا تھا تو اب تک تو کچھ بھی نہیںرہناتھا، آنکھوں کا۔ لیکن ابھی بھی خدا کے فضل سے اکثر میری عمر کے تونہیں اس سے بہت چھوٹی عمر کے لوگوں کی بھی عینکیں ایسی ہیں جو ان کو کسی وجہ سے لگ گئیں۔ ڈاکٹر صاحب وہی خاص طور پرسر ہلارہے ہیں عینک کے ۔ لیکن یہ جو باتیں ہیں یہ ایسی ہیں جو لوگوں کے علم میں نہیں اس لیے خواہ مخواہ بے ضرورت مجھے تنگ کرتے ہیں لکھ لکھ کے۔ آپ کو یہ بھی ہوگیا ہوگا، وہ بھی ہوگیا ہوگا۔ فلاں بات بھی ہوگئی ہوگی ۔ان کو میں بتادینا چاہتا ہوں کہ خد اکے واسطے یہ سلسلہ بند کریں مجھے اپنے حال کی بہت زیادہ خبر ہے اور جو پیچیدگیاں ہیں ان سے بھی میں واقف ہوں اور یہ مسئلہ آپ کا جہاں تک تعلق ہے صرف دعا سے حل ہوگا ،آپ دعائیں کریں اور یہی میرے لیے بہت بڑی خدمت ہے اور میں بھی اس رمضان کے دوران دعائوں کے اثر کو دیکھ رہا ہوں ۔ کہ مجھے پہلے سے بہت افاقہ ہے الحمدللہ۔ اس لیے اللہ جو بھی تقدیر ظاہر فرمائے اس پر راضی ہوں۔ تو یہ آپ کا ’’زعم‘‘ ہے کہ میں ذیابیطس کا مریض ہوں ۔ یہ زعم کے تعلق میںمجھے خیال آیا تھا کہ ساتھ یہ بھی ذکر کردوں۔
یتحاکمواالمفردات میں درج ہے بنیادی طور پر یہ لفظ اصلاح کی غرض سے روکنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ میں نے کہا میں ضمناً جو ادھر ادھر کی باتیں کرجاتا ہوں درس میں اس کو برا نہ منائیں۔ یہ ذرا درس کی فضا کو تازہ ، زندہ اور جاگی ہوئی رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ بنیادی طور پر یہ لفظ اصلاح کی غرض سے روکنے کیلئے استعمال ہوتا ہے، اسی سے لگام کیلئے حکمۃ الدابۃ کالفظ آتا ہے۔یہ پہلے بیان نہیں ہوچکا۔ لگام کا حکمۃ الدابۃ کے متعلق۔ تحاکموا الی الحاکم وہ حاکم کے پاس بغرض فیصلہ اپنا جھگڑا لے کر گئے۔ یہ وہ مرکزی پہلو ہے جس پر میں اس آیت میں جو مضمرمضمون ہے اس کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کروں گا۔ یتحاکموا الی الطاغوت میں کبھی بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دینی معاملات کو انگریز کی طرف رجوع کرکے یہ نہیں فرمایا کہ دیکھو تم میرے حق میں فتویٰ دے رہے ہو اور غیروں کو یہ نہیں بتایا کہ چونکہ انگریزی حکومت اس مذہبی معاملے میںمیرے ساتھ ہے، اس لیے میںدرست ہوں ۔ اس کے بالکل برعکس انگریزوں نے جو خداکا بیٹا بنایا ہوا تھا اس کے خلاف سارے ہند میں ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جنہوںنے علم جہاد بلند کیا اور فیصلہ خدا اور رسول اور قرآن سے چاہا اوریہ وہ لوگ تھے جو انگریز کے فیصلے کو ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ ان یتحاکموا الی الطاغوت تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس آیت کریمہ میں نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مؤقف کہ انگریزحکومت ہم پر نافذ ہے۔ یہ معنی رکھتا ہے کہ دینی معاملات میں بھی انگریز مددگار ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریز کی مدد کے تعلق میں اتنی شدت سے سخت زبان استعمال کی ہے کہ وہ جو مدح کی باتیں تھیں اس کے سامنے وہ پارہ پارہ ہوجاتی ہیں۔ مدح کی ہے انصاف کے معاملے میں اور یہ مدح کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ، یہ مدح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺنے فرمائی ۔ جب بھی مسلمانوں کے معاملے میں انصاف کیاگیا آپ نے بہت کھل کر تعریف فرمائی لیکن جہاں دین کا معاملہ تھا وہاں ابوطالب کی بات کو بھی کوئی حیثیت نہ دی۔فرمایا: میر اخدا ہے ، میرا معاملہ اسی کے پاس ہے وہی فیصلہ کرنے والا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواپنے آقا سے ایسی قریب کی مماثلت ہے کہ جن باتوں پہ یہ اعتراض کرتے ہیں انہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ظاہر و باہر ہوتی ہے۔ اب صرف یہ مسئلہ اٹھا کے دیکھ لیں کہ انگریزوں کی تعریف اور انگریزوں سے روحانی جہاد اتنا سخت کہ ادنیٰ بھی مداہنت اس میں نہیں۔ انگریز کو دجال کہہ رہے ہیں۔ مجال تھی کسی مولوی کہ کہ اس زمانے میں کہ انگریز کو دجال کہہ دے ، انگریزی حکومت کو ان کے جو پادری خاص طور پر عیسائیت کی نمائندگی میںہندوستان پر چڑھ دوڑے تھے، ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دجال قرار دیا اور اس دجالیت کے اثر کو دور کرنے کیلئے آپ نے نہ صرف دینی ، علمی ، قلمی جہاد فرمایا بلکہ ایسی پیشگوئیاں بھی فرمائیں جن سے پتا چلتا تھا کہ اب چند سال کی بات ہے، تم لکھ لو کہ سلطنت برطانیہ اس کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی۔ سلطنت برطانیہ بیٹھے بیٹھے یہ پیشگوئیاں فرمارہے ہیںسلطنت برطانیہ تہ ھشت سال بعد ازاں آثار ضعف و اضمحلال۔ آٹھ سال کی تو بات ہے جہاں اتنی دیر برداشت کیا ہے دیکھو۔ مگر یہ اس کے آثار ضعف و اضمحلال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کے نتیجہ میں ہوئے ہیں۔کیونکہ آپ کی دعائوں کے نتیجہ میں پیشگوئی تھی کہ نمک کی طرح شاید دجال پگھلے گا اور یہ ساری باتیں آپ اطیعوااللہ و اطیعواالرسول کے تابع فرمارہے ہیں اور یہ مولوی اس قدر بدکلامی کرتے ہیں مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ، جب آپ سوائے اسلام اور قرآن کے اور رسول کے اور کسی کی بات نہیں کرتے اور جس جہاد کی آپ کو توفیق ملی ہے اس کا عشر عشیر بھی، اس کا ہزارواں حصہ بھی اس زمانے میں دوسر ے مسلمانوں کو نصیب نہیں ہوا۔ ان کے دتھوں کے دتھے ہمارے پاس موجود ہیں جس میں وہ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کو کفر قرار دے رہے ہیں، ظلم قرار دے رہے ہیں اور اپنی فرمانبرداریوں کا یقین دلارہے ہیں انگریزی حکومت کو۔ تو وہ شخص جو نہیں یقین دلاتا، جو کہتا ہے جو ہوجائے مجھ سے ہوجائے جس کے خلاف انگریز پادریوں نے قتل کے مقدمے کیے، انگریز حکمرانوں نے جس کے خلاف ہرقسم کی کارروائیاں کیں اس کو یہ انگریز کا پودا کہتے ہیں اور اس آیت کریمہ کے تابع یہ سارا مضمون ہے۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حکم جس کو مانا ہے وہ ان لوگوں نے مانا ہے۔ انگریز کی طرف اپنے معاملات ان لوگوں نے رجوع کیے ہیں، انگریز کے مصنوعی خدا کی تائید ان لوگوں نے کی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف یہ انگریز کے کان میں پھونکا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، تمہارے مصنوعی خدا کو ہم زندہ مان رہے ہیں، آسمان پر بیشک چڑھادیا ہے ہم نے اور یہ اس زمین میں دفن کرنے کے درپے ہے۔ تو دیکھو لو کون تمہارا ہے اور کون ہمارا ہے۔ تو دو قسم کی تحریرات ہیں ان کی ایک قسم کی تحریر کے مقابل پر ان کی صرف دوسری تحریرات کے ساتھ نتھی کرکے شائع کردی جائیں تو اتنا ہی کافی ہونا چاہیے مگر بہرحال ہم نے بہت تفصیل کے ساتھ اس معاملے میں پہلے خطبات میں ذکر کردیا ہے اگر آپ میں سے کسی نے دیکھنا ہو تو وہاں سے دیکھ سکتا ہے۔ زجّ اقتداء کا برعکس ہے ۔ اسباب نزول کی بحث آگئی ہے۔ آج کوئی اسباب نزول کے متعلق بھی سوال ہے یا آئندہ کریں گے؟ اسباب نزول سے متعلق میںاتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسباب نزول کے متعلق میرا جو شدت کے ساتھ مؤقف ہے اس کو میں پوری وضاحت کے ساتھ قرآن و حدیث کے حوالوں کے ساتھ انشا ء اللہ آئندہ پیش کروں گا۔ اس مؤقف سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اسباب نزول کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ میرے نزدیک یہ معاملے کو مشتبہ بنادیا گیا ہے۔ مواقع النزول اور بات ہے اور اسباب النزول اور بات ہے ۔ جن واقعات کو بیان کرکے بہت سے اہل علم اصحاب نے ان کو سبب نزول بیان کیا ہے میرے نزدیک ان کا کوئی حق نہیں تھا کہ ان واقعات کو نزول کا سبب بیان کرتے۔ نزول کے اسباب قرآن خود بیان کرتا ہے اور ہر معاملے پر روشنی ڈالتا ہے۔ اگر قرآن کہے کہ میرے نزول کے اسباب آفاقی ہیںاور بعض علماء کہیں کہ حادثاتی ہیں تو حادثات رونما ہوئے تو قرآن کی ان آیات کا نزول ہوا تو کتنا نقصان پہنچائیں گے وہ قرآن کے مضمون کو اور قرآن کی آفاقی حیثیت کو۔ پس میرا جہاد اس بات کے خلاف ہے کہ قرآن نے جہاں اسباب نزول خود بیان کردیے ہیں جہاں ہر سورۃ میںاگر کسی معین واقعہ سے ذکر تھا تو خود بیان فرمایا کہ یہ اس واقعہ سے متعلق آیت ہے اور جہاں نہیں ذکر فرمایا وہاں بلا شبہ یہ ذکر فرمایا ہے کہ یہ ایک آفاقی کتاب ہے۔ اس آفاقی حیثیت کو آپ واقعات سے محدود کریں تو قرآن کی خدمت نہیں ہوگی۔ قرآن کی تعلیم پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔ پس اس پہلو سے انشاء اللہ تعالیٰ میں آئندہ کسی درس میںتفصیل سے یہ مضمون چھیڑوں گا سردست میں ، اب یہ علامہ واحدی کی روایت کو بھی چھوڑ ہی دیا جائے۔ خلاصہ یہی ہے کہ وہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کا جھگڑا تھا جس کے اوپر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ بالکل وہی شکلیں ہیں ، وہی صورتیں ہیں ان سب حدیثوں کی یعنی مزعومہ حدیثوں کی۔ اس کے متعلق میں انشا ء اللہ میں اپنے علماء کو بھی اس بحث کے دوران نصیحت کروں گا کہ ان کو کیا کرنا چاہیے، میں ان سے کیا توقع رکھتا ہوں۔ اور بہت بڑی خدمت کرسکتے ہیں ہمارے حدیث کے ماہرین جنہوں نے تخصص اختیار فرمایاہے اور ایک نیا حدیث سے متعلق علم کلام مبنی بر قرآن اور مبنی بر حدیث وہ پیش کرکے بہت سی ایسی اغلاط کو دور کرسکتے ہیں جو جگہ پاگئی ہیں ۔ان کی ان کوششوں کے بعدان بڑے بڑے علماء کے متعلق ہم دعا تو کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب فرمائے انہوں نے بہت محنت کی ہے مگر ان کی باتوں کو مانیں گے نہیں وہی بات مانیں گے جو رسول اللہ ﷺاور قرآن کے حوالے سے ہمیں منوا کے دکھائیںگے۔ ورنہ اس مسئلہ کو نہ چھیڑا گیا تو یہ فساد جاری رہے گا اور بہت بڑا فساد ہے جو ان بڑے ناموں کے حوالے سے اس وقت امت محمدیہ میں جاری ہوچکا ہے ۔ تو انشاء اللہ یہ تفصیلی باتیں ہوں گی۔ اب میرا خیال ہے وقت گزرچکا ہے آج سوال و جواب بھی آپ نے کرنے تھے ناں۔ آپ کو پتا نہیںتھا اچھا اچھا! میں اسی لئے اس کو دیکھ رہا ہوں بار بار۔ پہلے ہمارا دستور تھا کہ آخری پندرہ منٹ سوالات کیلئے وقف کیا کرتے تھے آج مجھے یہ مشورہ دیاگیا ہے کہ آج بھی ہم آخری پندرہ منٹ سوالات کیلئے وقف کریں۔ تو اس وقت تک میں انشاء اللہ اس آیت کی تفسیر بیان کردوں گا۔ حضرت امام رازیؒ نے بالکل واضح کھلی ہوئی بات لکھی ہے جو ہر شخص کے استنباط کی تائید کرتی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ اور رسول کی اطاعت کرنا واجب کردیا تھا تو اس آیت میں منافقین اور دلوں میںبیماری والوں کا ذکر کیا جو رسول کی اطاعت نہیں کرتے ، اس کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوتے اور کسی غیر سے فیصلہ چاہتے ہیں۔ گزشتہ آیت میں ، امام رازی پھر لکھتے ہیں گزشتہ آیت میںاللہ تعالیٰ نے منافقین کے طاغوت سے فیصلے کرانے کے رجحان کو ظاہر کیا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺسے فیصلہ کرانے سے ان کے نفور کو ظاہر کیا ہے ۔مفسرین کہتے ہیں کہ صرف منافقین ہی آنحضرتﷺ کے فیصلے سے رکتے تھے کیونکہ وہ ظالم تھے اور جانتے تھے کہ نبی اکرمﷺ رشوت نہیں لیتے اور کڑوا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک رائے ہے کہ ان کا یہ روکنا دین سے عداوت کے باعث تھا ۔ اب یہ بات کہ نعوذ باللہ من ذالک رشوت نہیں لیتے تھے اور ہمیشہ کڑوا فیصلہ کرتے ہیں یہ بالکل درست بات نہیں۔ کسی غیر کو وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتاتھا کہ آنحضرتﷺ رشوت لیتے ہوں گے نعوذ باللہ من ذالک۔ اس لیے اگر سب مال لٹادیا غرباء اور فقراء اور مومنین میں اس کے متعلق اس الزام کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ تو انہوں نے الزام لگایا تھاکہ مال اپنوں کو دے دیا لیکن رشوت کا کوئی الزام کبھی بھی رسول اللہ ﷺ پر ثابت نہیں ہے اگر ہوگا تو میرے علم میں نہیں آیا کبھی۔ تویہ جو ہے کہ ظالم۔ چونکہ وہ ظالم سے رشوت نہیں لیتے اور کڑوا فیصلہ کرتے ہیں۔کڑوا فیصلہ ہمیشہ اس وقت ہوا کرتا ہے جب کسی کے مؤقف کے خلاف ہو اور یہ کہنا کہ ظالم ہمیشہ یہ کہاکرتے تھے کہ ہمیشہ ہی رسول اللہ ﷺ کڑوافیصلہ کرتے ہیں درست نہیں ہے۔ کیونکہ بہت سے یہود بعض دفعہ دونوں فریق جھگڑتے ہوئے آپ کے پاس آتے تھے تو جب ایک کے حق میں فیصلہ کرتے تھے تو وہ کڑوا تو نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس لیے مسلمانوں اور یہود کے جھگڑے ، مسلمانوں اور مسلمانوں کے جھگڑے، جتنے بھی جھگڑے رسول اللہﷺ کے عہد میں پیش ہوئے ہیں ان میں فیصلہ ایک کے حق میں لازماًتھا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ الزام لگ ہی نہیںسکتا کہ جب بھی فیصلہ کرتے ہیں کڑوا فیصلہ کرتے ہیں۔ہاں فریق ثانی اس کو کڑوا سمجھتا تھا ابھی بھی سمجھتا ہے۔ جتنے مرضی آپ انصاف سے فیصلہ کردیں ایک فریق بڑبڑاتا ہواہی جاتا ہے ۔ دیکھو جی وہی بات ہوئی ناں دوسرے کے حق میںفیصلہ کردیا۔ تو اس سے اتنی نصیحت پکڑیں کہ جو فیصلہ ہو اور ایک اختیار رکھنے والی اتھارٹی یعنی جو اس منصب پرمامور ہو اس کا فیصلہ ہو تو اسے خدا پر چھوڑدینا چاہیے یا اس کی اپیل کرنی چاہیے۔ یہ پبلک میں ، عوام الناس میں یہ باتیں کرنا یہ غلط فیصلہ ہوگیا ہے یہ جائز نہیں۔ یہ ساری باتیں،آگے ایک ہی مضمون میں چل رہی ہیں اس لیے میں دیکھتا جارہا ہوں اور چھوڑتا جارہا ہوں۔یہ جو بات ہے بعض لوگوں نے کچھ سرکشوں سے فیصلہ کروانے کا ارادہ کیا اور محمد ﷺسے فیصلہ نہ کروانا چاہا۔ یہاں طاغوت مراد ہیں یہ ہوتا ہوگا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ مگر یہ منافقین کیسے ہوسکتے تھے یہ مجھے سمجھ نہیں آرہی۔ بات یہ منافقین کی کررہے ہیں۔ منافقین وہ تھے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا اور کیا کبھی ایسا واقعہ کسی اہل علم کے نزدیک ہوا ہے کہ مسلمان کہلاتے ہوئے بھی رسول اللہﷺ سے فیصلہ لے کر اسلام کے خلاف سرکشوں سے فیصلہ کروانے کی طرف وہ مائل ہوئے ہوں۔ کیوں جی آپ کے علم میں ہے ۔ اس لیے اگر ہمارے ربوہ کے علماء جو ماشاء اللہ بہت علوم میں تخصیص کرچکے ہیں ان کے علم میں ایسا واقعہ ہو تو مجھے بتائیں۔ میرے علم میں تو کوئی ایسی حدیث نہیں ہے کہ مسلمان کہلاتے ہوں۔ اندر اندرتو خلاف ورزی کرتے ہوں گے۔ وہ تو کرتے ہی تھے لیکن کھلم کھلا رسول اللہ ﷺسے کہیں کہ آپ فیصلہ نہ کریں ۔ ابوجہل فیصلہ کرے یا فلاں فیصلہ کرے۔ یہ بات میرے علم میں نہیں ہے۔ شیعہ حدیث میں بھی کوئی ایسی بات نہیں جو قابل ذکرہو۔ میرا خیال ہے کہ اس آیت کریمہ کامضمون بالکل واضح اور کھلم کھلا ہے اس میں ہمیں کسی اور تفصیلی بیان کی ضرورت نہیںہے۔
الم تر الی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک کیا تونے ایسے لوگ نہیں دیکھے جو یہ گمان کرتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دعوے میںجھوٹ کی ملونی کا شامل ہونا ایک قریب ترین احتمال ہے یعنی ایسا دعویٰ کرتے ہیں جس کے متعلق اس کا جھوٹا ہونابعید از قیاس نہیں ہے اور دعویٰ کیا کرتے ہیں جو تجھ پرایمان اترا ہے ہم ایمان لے آئے جو تجھ سے پہلے اتارا گیااس پر بھی ایمان لے آئے۔ یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت اور اس کے باوجود وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت کی طرف اپنے معاملات کو پھیریں۔ وقد امروا ان یکفروا بہ اور حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کا انکار کردیں۔ ویرید الشیطن ان یضلھم ضللاً بعیدا اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہت دور کی گمراہی میں پھینک دے۔ پس یہاں ان یتحاکموا سے مراد ان کا عملی کردار ہے ۔ جب وہ اپنے عمل کی تشکیل کرتے ہیں جو بھی اعمال بجالاتے ہیں ان کو وہ شیطانی احکامات کے تابع ڈھالتے ہیں اور جو منہ کی بات کہتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے تجھے اپنا سردار مان لیا۔ پس میرے نزدیک اس آیت کریمہ کا یہی کھلا کھلا معنی ہے اور باقی انشاء اللہ آئندہ کل آیت 62کی بحث ہوگی۔ اب آپ اپنا کام شروع کردیں۔
کیا؟ رشید صاحب، ہاںرشید صاحب کے سوالات تو پتا ہی ہیں سب کو کوئی اور ہے سوالات کرنے والے کتنے ہیں جو ہاتھ اٹھائیں گے؟ اور ، ہیں، ہاں۔ انور صاحب کے سوال بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ آپ بتائیں پہلے، مؤذن صاحب، چوہدری آفتاب صاحب وہاں چلے جائیں، چوہدری عبدالرشید صاحب کو میںنے اس لیے موقع نہیںدیاکہ پندرہ منٹ تو ہیں پندرہ منٹ میں ان کو سوال واضح کرتے ہی وقت گزرجائے گا۔ دراصل یہ سوال واضح کرتے کرتے اور سر کھجاتے کھجاتے وقت گزار جاتاہے ۔ فرمائیں۔
س: حضور آپ نے فرمایا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی کو ملکی قانون کے ماتحت رکھ نہیںسکتے تھے اپنے پاس۔ تواس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنے والدین کو اور بھائیوں کو کیسے بلالیا؟
ج: زبردستی رکھا تھا ۔ اس ملک میں تو سب کو آنے کی اجازت تھی۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی کو بھی آنے کی اجازت تھی مگر جس قافلے، جن بھائیوں کے درمیان وہ آئے تھے وہ ان کو واپس لے جانا چاہتے تھے اور زبردستی حضرت یوسف علیہ السلام ان کو روک نہیں سکتے تھے۔ یہ بحث ہوئی ہے ساری، لیکن جو ان کے والدین تھے وہ تو شوق سے حضرت یوسف علیہ السلام کے کہنے پر خود ہی چلے آئے تھے۔ سمجھ گئے ہیں۔ جی ۔ جزاک اللہ۔ اگلا کون سوال کرنے والا۔ ہاں فرمائیں۔ ان کو تو سب دنیا جانتی ہے کئی دفعہ آچکے ہیں، اپنا تعارف کروادیں ڈاکٹر صاحب۔نعیم احمد ، ومبلڈن پارک۔’’ پورا بتادیں‘‘۔ ڈاکٹر نعیم احمد قریشی، ومبلڈن پارک۔ ٹھیک ہے۔
س: حضور جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی حکومت مذہبی آزادی دیتی ہے تواس حکومت کے خلاف کس قسم کی جدوجہد کرنا غیراسلامی ہے۔ اگر یہ فرضی صورتحال آج کل کے زمانے میںہو کہ ایک غیر مسلم حکومت ایک مسلمان ملک کے اوپر قبضہ کرتی ہے ’’مسلمان ملک کے اوپر قبضہ کرتی ہے‘‘۔ جی سیاسی یا ملک کی ہوس ہے تو’’ اس کے خلاف لڑائی جائز ہے‘‘۔ لیکن مذہبی آزادی دیتی ہے وہ آپ۔
ج: مذہبی آزادی دیتی ہے قبضہ زمین پرکرتی ہے۔ جو شخص بھی آپ کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے اگر بالآخر آپ اس کو تسلیم نہ کریں یہ اور مسئلہ ہے ۔ انگریز کے خلاف جو ابتدائی لڑائی کی کوششیں تھیں اس کو اپنے ملک سے باز رکھنے کی وہ بالکل جائز تھیں اور انگریزی حکومت کا ہرگز حق نہیں تھا کہ تلوار کے زور سے وہ کسی سرزمین پر قبضہ کرے۔ وہ کوششیں جائز تھیں قرآن اور حدیث کی رو سے۔ لیکن قرآن اور حدیث کی ر و سے جب تم ہار گئے ، جب تم نے ان کی بالادستی تسلیم کرلی، جب انہوں نے ملک میں امن قائم کردیا او روہ دارالحرب نہیں رہا تو لڑائی کا ملک نہیںرہا بلکہ دارالسلام بن گیا اور یہی لفظ تمام بڑے بڑے علماء نے لکھے ہیں کہ انگریز کی حکومت اب دارالحرب نہیں دارالسلام بن چکی ہے۔ اس وقت ان کے خلاف تلوار کا جہاد جائز نہیں ہے۔ سمجھ گئے ہیں بات (جی) لیکن اب جو کچھ ہورہا ہے ، دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرتے پھرتے ہیں، اس کے خلاف جدوجہد کرنا آخری دم تک جدوجہد کرنا ، سلطان ٹیپو کی طرح اپنی جانیں قربان کرکے جدو جہد کرناعین اسلامی روح ہے۔ شکریہ۔ جزاکم اللہ۔
اگلا سوال۔ کون تھے سوال کرنے والے ہاتھ اٹھائیں ۔۔۔ پوچھ لیا، ٹھیک ہے۔ آج تو صرف رشید صاحب ہی ر ہ گئے ہیں باقی۔ کوئی اور ہے چلے جی آجائیں میدان میں۔ یہ بھی ہیں حیات صاحب بھی۔ سبحان اللہ آپ دونوں کے درمیان ہم وقت تقسیم کردیتے ہیں کیونکہ عدل کا مضمون چل رہا ہے۔ چلیں جی۔
حضور جزاکم اللہ احسن الجزائ۔ حضور پہلے تو درخواست ہے کہ کل جو حدیث آپ نے ارشاد فرمائی تھی حضرت یحیٰ سے مروی حدیث آپ نے بیان فرمائی تھی۔ اگر اس کو شائع کیا جائے کافی مقدار میں تو، ہمیںتو علم نہیں تھا میں نے کبھی سنی نہیں، کئی ہیں میرے ساتھ ۔ علم ہوگیا ناں ۔ ہاں جی اب تو پتہ لگ گیا۔ اب اشاعت ساری دنیا میں ہورہی ہے اس کی دیکھ لیں۔ جب یہ چھپیںگے تووہ بھی چھپ جائے گی۔ جب یہ سلسلہ درس چھپے گا تو وہ بھی چھپ جائے گی انشاء اللہ ۔ دوسری عرض یہ ہے جی وہ آپ نے آیت نمبر اٹھاون میں کل فرمایا تھا ، پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں کتنے مختلف مقاما ت ہیں۔ ہم جب دعا کرتے ہیں تو لوگوں کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بڑھائے۔ تو اس کے صحیح معنی پلیز ذرا سمجھادیں؟
ج: آپ کو معین علم ہونا چاہیے کتنے درجات ہیں۔ یہ چاہتے ہیں آپ؟ ہاں جی۔ پتا تو چل جائے۔ ان میںسے اپنے لیے کچھ اختیار کرنے ہیں آپ نے؟ کہ میں فلاں درجہ نہیں فلاں درجہ لونگا۔ کیوں جی کیا وجہ ہے سوال کی؟ حضور یہ اس لیے پوچھا ہے کہ جنت النعیم ،جنت الفردوس یہ مقامات دو کا تو مجھے علم ہیں اور باقی ذرا۔۔۔ میں اس کی وضاحت اپنے خطبات میں بہت حد تک کرچکا ہوں اور بار بار بیان کرچکا ہوں کہ جنتوں کے درجات کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔ جنت النعیم، جنت الفردوس جو بھی نام مختلف رکھ لیں ان میں جو بھی داخل ہوگا اس کے درجات کی کوئی معین حد نہیں ہے ۔ اس لیے جنت الفردوس، جنت النعیم کے جو بھی معانی ہوں اس سے مراد نہیں ہے کہ ایک جنت میں جاکر انسان وہیں اٹک رہے گا ۔ ہر جنت کی قسم ہمیشہ کیلئے ترقی پذیررہے گی اور اس میں انسان کے جذبات اور اس کی خواہشات لامتناہی ہوں گی۔ ایک پل بھی ایسا نہیں آئے گاجب اس پہ یکسانیت یا بوریت کا لفظ اطلاق پاسکے سمجھے ہیں۔ جی۔ اس لیے آپ کو جو بھی جنت ملے گی انشاء اللہ ملے گی تو اس پر آپ راضی ہوجانا اور ایک ہی جگہ بیٹھنے نہ رہنا جس طرح آپ کی عادت ہے۔
حضور جنت میں گھنے سایوں سے کیا مراد ہے؟ کیا! جنت میں گھنے سایوں سے کیا مراد ہے؟ سایوں سے مراد مختلف قرآن کریم میں جگہوں کا ذکر ملتا ہے، سایہ پناہ دیتا ہے، سایہ اسی وقت اچھا لگتا ہے جب وہ سردی پیدا کرنے کی بجائے مخالف ماحول کے اثرات سے پناہ دے۔ پس ان پر سائے ہوں گے، میں ا س کا ایک یہ مطلب سمجھتا ہوں کہ ان سایوں میں سے کچھ ان کے ایسے اعمال کا ذکر مخفی طور پر موجود ہے جن کا اثر اگر ان پر پڑے تو ان کی جنت میں ایک قسم کی تلخی پیدا ہوجائے گی۔ مثلاً گزرے ہوئے واقعات میں جنہوں نے لوگوں سے زیادتیاں کی ہوئی ہیں، جو لوگوں نے زیادتیاں کی ہوئی ہیں، کئی قسم کے واقعات ہیں جو اس روح کو یاد تو ہوں گے۔ جو روح دوبارہ جنم لے گی اس کی یادداشت پہلے سے بھی تیز ہوچکی ہوگئی۔ تو اگر وہ چیزیں اس کو تکلیف دیتی رہیں تو یہ بے سایہ زندگی ہے اپنے ہی اعمال کے بداثرات سے وہ گھنے سایوں میں ہوں گے۔ ان تک ان بداعمال کا ایک ذرہ بھی اثرنہیں پہنچے گا۔ آپ کا وقت ختم ہوگیا ۔ بس جزاکم اللہ۔
اب حیات صاحب ماشاء اللہ، بصیر حیات صاحب لکھ کے لاتے ہیں آجکل۔ جی حیات صاحب فرمائیے۔ السلام علیکم حضور! وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔
This question is about Ramazan, Hazoor! "Why this question is in English? Read your question in Urdu! Please? This question is about Ramazan?
مہربانی فرماکر اپنے سوال کو اردو میں پڑھیں؟ ابھی تو انگلش میں لکھا ہے۔ ویسے اس سوال کو کسی انگریزی سوال جواب کی مجلس کیلئے اٹھارکھیں۔اس کو اردو بعد میں کردیں گے ۔ پہلے انگریزی پڑھ لیتا ہوں اس کے بعد اردو۔ ’وقت نہیں رہا ، پانچ منٹ، چار منٹ تو رہ گئے ہیں ؟صرف۔ کیوںجی! پھر انگریزی میں پڑھ دوںپہلے۔اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں کہ انگریزی میں پڑھنے کا ہمیں کوئی بھی فائدہ نہیں کیونکہ یہ عالمی مجلس اردو میں لگی ہوئی ہے۔ حضور اگر ایک آدمی جو کہ کیمبرج میں رہتا ہے ایک وہاں پر وہ روزہ نہ رکھ سکے ایک Week کیلئے یا ایک دن کیلئے روزہ نہ رکھ سکے ۔ تو ایک آدمی جو کیمبر ج میں رہتا ہے اگر وہ کیمبرج میں ایک دن یا ہفتہ کیلئے روزہ نہ رکھ سکے جو لنڈن سے گیا ہو۔ ’’اچھا اچھا‘‘ اور کیمبرج پہنچا ہو۔ جی۔ اور کیمبرج میں جاکر ایک دن یا ہفتہ کا روزہ نہ رکھ سکے۔ جی۔ تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے؟ یا بعد میں روزے رکھ لے؟ رمضان میں اس سے زیادہ بشاشت کا اظہار نہیں ہوسکتا ۔ سبحان اللہ۔ سوال یہ ہے کہ ایک آدمی لنڈن سے کیمبرج پہنچے، کیمبرج میں ا سکا قیام ایک دن یا ہفتہ کا ہو او روہ وہاں روزے نہ رکھ سکے تو وہ کیا کرے ۔ کیا روزے رکھے یا نہ رکھے؟ یہ سوال ہے ۔جی۔
جب روزہ نہیں رکھ سکے گا تو رکھے گا کیسے؟ روزہ یہ ہے کہ روزہ نہیں رکھ رہا۔ نہیں آیا وہ روزہ رکھے ایک دن یا ایک week کیلئے وہ گیا ہے وہاں پرسفر میں، تو روزہ رکھے یا نہ رکھے؟اگر وہ مسافر ہے توروزہ نہیں رکھے گا لیکن روزہ کیلئے علماء نے عموماً تین دن کی شرط رکھی ہے یعنی چودہ دن نماز والی نہیں۔ بلکہ اگر کوئی ارادہ کرکے چلے کہ میں تین دن کے اندر وہاں سے واپس آجائوں گا تو اس صورت میں وہ روزہ نہیں رکھے گا۔ اگر تین دن کی اس کی واضح نیت ہے تووہ سفر ہی شمار ہوگا اور روزہ نہیں رکھے گا لیکن اگر ایسے حالات پیدا ہوں کہ وہ واپس نہ آسکے اور تین کی بجائے چار دن، پانچ دن، دس دن ، تیس دن، رمضان تک وہ چلتا رہے اور اس کا اختیار نہ ہو کہ کب اس نے واپس لوٹنا ہے تو یہ ساری حالت حالت سفر ہوگی۔ سمجھ گئے۔ اگر تین دن کے اندر اندر واپس لندن آجائے گا تو وہاں نہیں رکھے گا یہاں آکر روزے رکھنا شروع کردے گا۔ ٹھیک ہے۔ یہی بات ہے ناں ۔اگر تین دن سے زیادہ کی نیت ہو تو پھر روزے رکھے گا ۔ ٹھیک ہے۔دوسرا سوال ہے، جو آدمی یہاں پر لندن میں آتے ہیں کیمبر ج سے واہ واہ سبحان اللہ کیسی معین باتیںفرمارہے ہیں۔ کیمبرج سے لنڈن آرہے ہیں وہ۔ پہلے کیمبرج جارہے تھے۔ اور وہ آتے ہیں اس کام کیلئے ایم ٹی اے کیلئے یا دوسرے کاموں کیلئے۔ تو کیا وہ روزہ رکھیں گے اور یہاں پر آکر افطاری کریں گے؟ نہیں وہ سفر ہے، ہنسی کا برا نہ منائیں لوگ خوش ہورہے ہیں آپ سے، آپ کی باتوں سے۔ آپ سے ان سب کو محبت ہے۔ اور خوشی سے پیار سے ہنس رہے ہیں، سمجھ گئے ہیں۔ رمضان میں نعوذ باللہ من ذالک کسی کی تحقیر یا تخفیف ہرگز نہیں ہوسکتی اس کے علاوہ بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے آپ ان کی ہنسی کو برا نہ منائیں۔ آپ سے سب کو محبت ہے، آپ کی باتوں سے سب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ سمجھ گئے ہیں ناں بات۔ روزہ اگر وہ سفر کی حالت میں نہیں رکھے گا، لنڈن چاہے ایک دن بھی ٹھہرنا ہو اس نے یا زیادہ ٹھہرنا ہو تین دن تک اگر اس نے ٹھہرنا ہو تو اس کو روزہ نہیںرکھنا۔ خواہ وہ ایم ٹی اے کے کام آئے یا کسی اور کام آئے ۔ سمجھ گئے ہیں کہ نہیں۔ ابھی ہے شبہ کوئی۔ کلیئر نہیں ہوئی بات ، نہیں ہوئی ناں۔ آپ کے چہرے سے نہیںہوئی، اچھا۔ کمیوٹ کرنے کی بات کررہے ہیں؟ جی۔ کمیوٹ کرنے کی بات نہیں کررہے، وہ کہتے ہیںروزہ وہاں رکھے افطار یہاں کرے یہ منع ہے۔ میںنے یہ بات کی ہے کہ ایک آدمی کیمبرج سے چلتا ہے لنڈن آنے کیلئے لیکن وہWeek میں ایک دفعہ یا دو Week میں ایک دفعہ کام کیلئے آتا ہے یہاں پر تووہ روزہ رکھے گا یا نہیں رکھے گا؟دو ہفتہ میں کبھی ایک دن وہ یہاںآنا چاہتا ہے ۔ جی ۔ کام کیلئے۔ جی۔ تو سفر ہے اس کا روزہ نہیں رکھے گا۔لیکن اب بتائیں اب کیا بات ہے۔ بس ابھی ٹھیک ہے۔ ہوگیا ٹھیک۔جی جزاک اللہ۔ دونوں مسئلے حل ہوگئے لندن والوں کے بھی کیمبرج والوںکے بھی۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ13؍رمضان بمطابق12؍ جنوری 1998ء
دوست جنازے کے بعد تشریف لارہے ہیں اس لیے تھوڑا سا وقت لگے گااگرچہ درس کا وقت شروع ہوچکا ہے لیکن باہرنمازہائے جنازہ غائب اور نماز حاضر ہورہی تھی ۔ ٹھیک ہے ۔اعلان کردیا ہے تینوں کا سب کا ڈاکٹر صاحب کی جگہ ابھی تک خالی پڑی ہے۔ ڈاکٹر مجیب کی، وہ آئے ہوئے ہیں یا غائب ہیں؟ وہ ایسی جگہ بیٹھتے ہیں کہ اب وہ مستقل اس کا فیچر بن گئے ہیں درس کا(ہیں)۔اچھا جی اب شروع کرتے ہیں۔ باقی لوگ آہستہ آہستہ آتے جائیں گے۔ آج ہم نے سورۃ النساء کی آیت 62 سے درس کا آغاز کرنا ہے۔
واذا قیل لھم تعالوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و یسلّموا تسلیمًاO (النسائ:62تا 66)
آیات جو آج کے درس میںزیر نظر ہیں ان پر اگرچہ بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بڑے بڑے دتھے بن گئے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ بہت کم وقت لیں گی درس میں کیونکہ اکثر بحثیںبیکار ہیں اور بے تعلق بحثیںہیں۔ ان میں الجھ کر سارے دماغوں کو الجھانے والی بات ہوگی کیونکہ علماء نے بہت بہت باریک نکتے از خود اٹھاکر جن کا اس آیت سے تعلق نہیں بنتا۔ اس پرایسی بحثوں میں مبتلا ہوگئے ہیں جو ناختم ہونے والی بحثیں بن گئی ہیں۔ بعض دفعہ ایک غلطی دوسری غلطی پر منتج ہوجاتی ہے مگر بہرحال اب مختصراً جتنا ذکر ان کا کرنا پڑا میںکروں گااور ساتھ ان آیات کی عام واضح تشریح کرتا چلا جائوں گا جو بالبداہت نظر آجاتی ہے یعنی اگر انسان کسی پرانے محدث یا مفکر یا کسی بھی مفسر کے خیالات سے متاثر نہ ہوچکاہو تو پھر یہ بالبداہت نظر آنے والی باتیں ہیں۔ اگر ایک دفعہ دماغ میں ان کی بحث گڑ چکی ہو تو پھر بے وجہ بیشمار الجھنیں دکھائی دیں گی۔ یہ تمہید ہے اس کے بعد اب میں اس آیت کی تفسیر شروع کرتاہوں۔
واذا قیل لھم تعالو اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آئو تو تو منافقوں کو دیکھتا ہے کہ وہ تجھ سے بالکل پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ صد یصد کی بحث غالباً اس سے پہلے گزرچکی ہے جس کا مطلب ہے رکنا یا روکنا۔ (اس لئے اس بحث کو اب یہ جو لعاب دہن والی بات ہے یہ بے اختیارہوتی ہے مگر آپ یہ بتائیں کہاں گئی وہ آپ کی ٹکیہ یہ جنہوں نے یہ ترکیب بتائی تھی ناں وہ ترکیب ناکام ہوگئی ہے اب کیونکہ دتھے میں پڑے پڑے وہ اتنا جڑ گئے ہیں کہ اٹھتے نہیں فوراً۔ سمجھ گئے ہیں! کل سے وہ اس کو حاضر کر دیناپھر)۔ یہ سب باتیں پہلے گزرچکی ہیں۔ پہاڑ کی روک کو بھی صدّ کہتے ہیں۔ یہ لفظ دوسری آیات میںپہلے آیا ہے اس لیے اس کو ۔۔۔۔۔۔ ایمان کی حقیقت بزعم خویش۔ یہ بھی پہلے ذکر گزر نہیںچکا؟ علامہ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ منشاء یہ ہے کہ اے محمدﷺ کیا تو ان منافقوں کو نہیں جانتا جو تجھ پر نازل شدہ پر بزعم خویش ایمان رکھتے ہیں۔ اور ان کو جو اہل کتاب میں سے اپنے گمان سے پہلے کے نازل شدہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ طاغوت سے فیصلہ کروائیں۔ واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہسے مراد یہ ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تعالوا تم اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کی طرف آجائو جو اس نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اور اس رسول کی طر ف آئو تاکہ وہ تمہارے درمیان فیصلہ کردے رأیت المنافقین یصدون عنک یعنی وہ تیرے پاس فیصلہ کی غرض سے آنے سے خود بھی باز رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں۔ علامہ طبری کی یہ بات عمدہ ہے اور دراصل یہی مرکزی نکتہ ہے جس کو چھوڑنے کے نتیجے میں اور کئی قسم کے وہم پیدا ہوئے ۔ اذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ سے یہ مرا دہے کہ اللہ تعالیٰ نے یعنی جو فیصلہ اس کتاب میں نازل کردیا ہے کہ اولی الامر منکم والا (یہ اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے) کہ جب تم خدا اور رسول کی اطاعت کا عہد کر بیٹھے ہو تواپنے معاملات کو خدا اور رسول کی طرف لوٹایا کرو۔ ان آیات کی تفسیر میں جب آگے مختلف مفسرین نے بیان کی ہے جھگڑا یہ پڑگیا ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کوچھوڑ کر کس کی طرف جایا کرتے تھے اور وہ منافقین ایسے تھے جن کو پہچانا جاسکتا ہے؟ یاان کی پہچان میں کوئی دقت پیش آتی تھی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ منافقین کا ذکر قرآن کریم میں اسی تعلق میں پہلے گزرچکا ہے اورا س میں آنحضرتﷺ کو بتایا گیا ہے کون منافق ہیں۔ لووا رء و سھموہ اپنے سر مٹکاتے ہیں اور ان کو کہاجاتا ہے کہ تو بہ کرو اور رسول اللہ ﷺکی طرف آئو اور استغفار کرو ۔ وہ سارے مضامین یہاں بیان کیے گئے ہیں اس لیے اُن آیات کو اگر سمجھ لیا جائے تو اِن آیات کو سمجھنے میں ذرا بھی دقت پیش نہیںآتی۔ باوجود اس کے کہ وہ منافق اپنے طرزعمل کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور صحابہ بھی ان کی نشاندہی کرسکتے تھے۔ مگر اُس ساری سورت میں کہیں یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو منافق کہہ کر منافق سمجھ کر ان کی حرکات کے نتیجے میں ان کو گردن زدنی کر دو۔کہیں کوئی اشارہ نہیں۔ یہ ہے کہ ان کو توجہ دلائوکہ اگر وہ استغفار سے کام لیں، توبہ کریں تو رسول تو پہلے ہی ان کے استغفار پر آمادہ بیٹھا ہے۔ یہ ہے اصل بات جو اِن آیات میں بھی ایک دوسری جگہ بیان ہورہی ہے اور قرآ ن کریم کے جوڑوں میں سے ایک یہ بھی جوڑا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سے مضامین جوڑا جوڑا بیان ہوتے ہیں اور مختلف زاویوں سے ان پر روشنی پڑتی ہے۔ پس اس بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون تھے اور ان کو کیا سزا ملنی چاہیے۔ اکثر مفسرین کا دماغ سزا کی طرف گیا ہے اور وہ حیران بیٹھے ہیں کہ سزا کیوں نہیںمل رہی، اس کی عجیب عجیب توجیہات کرتے ہیں۔ اس بحث میں پڑ گئے ہیں کہ وہ طاغوت کون تھاجس کی طرف وہ رجوع کیا انہوں نے اور نعوذ باللہ من ذالک ایسی ایسی باتیں اس میں بیان کردی ہیں جو فی الحقیقت کلمہ کفر پر منتج ہوتی ہیں۔ یہ خلاصہ ہے ان بحثوں کا۔
اب میں آپ کو مختصر ان علماء کی باتیں بیان کرتا ہوں(آپ سے)۔ علامہ ابو حیان کے نزدیک رأیت المنافقین سے ظاہر ہے کہ اس رئویت سے مراد ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ہے کہ انہوں نے ظاہری طور پر روکا ہے۔ یہ غلط ہے رأیت کا تومحاورہ ہے أرء یت قرآن کریم میں اس کثرت سے ملتا ہے کہ اس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ اس میں کیا تجھے سمجھ نہیں آئی، کیا تونے پہچان نہیں لی یہ بات، دیکھی بھالی نہیں تمہاری۔ ان معاملات میں اس تعلق میں أرء یت کا محاورہ قرآن کریم میں عام ہے۔ علامہ ابو الحسن القمی کہتے ہیں کہ اس آیت میں منافقین سے مراد آل محمدﷺ کے سب دشمن ہیں اور انہی کے بارے میںیہ آیت آئی ہے۔ اب اس آیت میں کیا ہے اذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدودًا (کہ جب تو دیکھتا ہے) جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آئو ما انزل اللہ و الی الرسولجو اللہ اور اس کے رسول پر اتارا گیا۔ رأیت المنافقین یصدون عنک صدودًا تو منافقین تجھ سے رکتے اور تجھ سے بچتے ہیں۔ یہاں حضرت علی رضی اللہ کا ذکر کہاں ملتا ہے۔ بات تورسول اللہ ﷺکی ہورہی ہے مخاطب آپ کو فرمایا جارہا ہے اور ان کا رکنا بھی آپ سے رکنا ہے اس کا حل انہوں نے یہ تلاش کرلیا ہے کہ ایک اور جگہ یہ ان کی روایت آئے گی ۔ وہ کہتے ہیں دراصل یہ آیت جو ہے یہ مکمل آیت نہیں ہے۔ یہ آیت یوں تھی واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول یا علی رأیت المنافقین کہتے ہیں کہ آیت یوں تھی جو غلطی سے مختصر بیان ہوگئی ہے کہ اے علی جب بھی تو دیکھے کیا دیکھے؟ کہ وہ رکتے ہیں انت و رسول اللہ تو اس طرح وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیچ میں داخل کرکے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ دراصل اس میں منافقین سے مراد آل محمدﷺ کے سب دشمن ہیں اور دشمن از خود آل محمدﷺ کے بنادیا ہے۔ بات چلی جو ہو ہی نہیںرہی وہ آل محمدﷺ کاذکراور اس کی دشمنی کا کوئی تذکرہ یہاں موجود نہیں ہے۔ ایک روایت جو آگے آئے گی جوپہلے بھی شاید گزرچکی ہے۔ میں اس میں بحث کرتا ہوں۔ طاغوت کی طرف حوالہ دیتے ہیں، اس میں ان لوگوں نے بڑے ظلم سے کام لیا ہے کہ ایک ایسا واقعہ بیان کرنا شروع کردیا ہے جس کا تعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ رسول اللہﷺ سے تو وہ گھبراتے تھے اور اپنا مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گئے اور مقدمہ سے اس شخص کا (قتل ہونا )قتل کیا جانا قطعی طورپر ثابت تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوری طور پر اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ یہ روایت جو ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ کیونکہ آنحضرتﷺ کے متعلق سب جانتے تھے کہ اگر کوئی نرمی کا پہلو لے سکتا ہے تو یہ وجود لے سکتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق سب جانتے تھے کہ نہایت خشمگیں ہیں اور اگر سختی کا پہلو نظر آیا تو ضرور سختی کا پہلو لیں گے اور اس روایت میں ایک اوردھوکا یہ کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ بیان کیا گیاہے کہ انہوں نے اس لیے اس کو قتل کیا کہ رسول اللہﷺ کی طرف کیوں فیصلہ نہیں لے کے گیا۔ اب یہ نئی بات بنائی ہے حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کوئی حق نہیں تھا کہ کسی کو قتل کرتے۔ رسول اللہ ﷺکی موجودگی میں، آپ کی اجازت کے بغیر قتل کا فیصلہ اپنے ہاتھ میںلیتے۔ انہوں نے فیصلہ یہ دیا تھا کہ دو فریق ہیں جھگڑنے والے، ایک شخص کا قتل ثابت ہے اور ان کی اپنی کتابوں سے اس شخص کو لازماً قتل کرنا چاہیے۔ پس مقدمہ کا فیصلہ تھا قتل کرنا۔ لیکن یہ بھی جھوٹ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف گئے ہی نہیں اور جھوٹ اس لیے ثابت ہے کہ یہاں طاغوت کی بات ہورہی ہے نعوذ باللہ من ذالک کہ وہ طاغوت کی طرف جاتے ہیں اور تجھ سے ہٹ جاتے ہیں۔ تو ان لوگوں سے پوچھے کوئی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف لے جاکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیا شکل پیش کررہے ہیں کیا وہ نعوذ باللہ من ذالک طاغوت بنتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسے ہٹا کر فیصلہ کو ان کی طرف لے جایا جارہا ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا ایک دلچسپ اقتباس ہے۔ جس میں آپ نے اس بات کو ایک عجیب رنگ میں بیان فرمایا ہے۔ رأیت المنافقین یصدون عنک صدودا۔ ایک کہانی مشہور ہے کسی یہودی کا کسی منافق سے جھگڑا ہوا وہ دونوں بارگاہ نبوی میں گئے۔ نبی کریم ﷺنے یہودی کو ڈگری دی جو منافق کے مضر تھی۔ اس نے کہا میں تو عمر کافیصلہ مانوں گا۔ چنانچہ وہا ںگئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تمہاری گردن اڑاتا ہوں یہ جو بات کہی ہے فرمایا ہے یہ کہانی مشہور ہے۔صاف پتا چلتا ہے کہ اس روایت پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذرا بھی اعتبار نہیں۔ اور کہانی کہہ کر اس بات کا حوالہ دے دیا ۔ اب اسباب نزول للواحدی میں اس قصے کا ذکر ہے اور اس پر ایک مختصر تبصرہ ابھی ہمارے حافظ مظفر صاحب کا ہے۔ واحدی نے اسباب نزول میں ذکر یہ کیا ہے قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت قیس نامی ایک انصاری اور ایک یہودی کے مابین ایک جھگڑے کے بارے میں نازل ہوئی ۔ دونوں آنحضرت ﷺکو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ کرانے کیلئے مدینہ کے ایک کاہن کے پاس گئے۔ (یہ کہانی بالکل عجیب و غریب ایک اور ہی کہانی ہے) یعنی انصاری بھی اور وہ یہودی بھی دونوں ہی گویا کہ اس آیت کی تحقیق یااس کی تخفیف کا موجب بنے حالانکہ ہرگز یہ صورت ناممکن ہے۔ کہ انصاری ہو اور جھگڑے میں وہ آنحضرت ﷺکی بجائے کسی اور طرف رجوع کرے (نام بھی ہے قیس نامی ایک انصاری)۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی مذمت کی۔ یہودی اللہ کے نبی کے فیصلہ طرف بلاتا تھا اسے معلوم تھا کہ حضور اس پر ظلم یا ناانصافی نہیںکریں گے۔ جبکہ قیس انصاری اس سے انکار کرتا تھا ۔ اب یہ بھی کیسی لغو بات ہے انا للہ کہ یہودی تو جاتا تھا رسول اللہ ﷺکی طرف لیکن قیس انصاری نے کہا ہرگز نہیںکیونکہ میرے خلاف فیصلہ ہوجائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمان ہونے کے دعویدار اور اہل کتاب یہودی کی مذمت کی۔(نازل فرمائی اور مسلمان ہونے کے دعویداروں کی اور اہل کتاب یہودی کی مذمت کی)۔ اب وہ بیچارا کس بات پہ مذموم ہوا اس نے تو رسول کریم ﷺکی طرف ہی معاملہ کو لے جانا چاہا تھا۔ تو اس قسم کی شان نزول کی یہ باتیں علامہ واحدی نے ایسی اکٹھا کردی ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ مولوی حافظ مظفر احمد صاحب نے جوماشا ء اللہ حدیث کے بہت اعلیٰ درجے کے ماہر ہیں مختلف روایات جو میں بیان کرتا ہوں ان کی تائید میں اور روایات بھی ڈھونڈی ہیں یا ڈھونڈتے ہیں۔ اگرچہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ روایات کہیں کہیں دور دور سے بیچارے نکال کر لاتے ہیں لیکن چونکہ تائید میں ہوتی ہیں اس لیے انہوںنے ان کو بیان ضرورکرنا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرجو ان غلط روایات میں ظلم کیا گیا ہے کہ انہوں نے گویایہ بیان کی۔ اس تعلق میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے مروی ہے کہ یہ آیت ایک منافق بشر نامی کے بارے میں اتری جس کا یہودی سے جھگڑا ہوا۔ (اب یہاں نام بھی بدل گیا)۔ پہلا نام کچھ اور تھا یہاں نام ۔۔۔۔۔ اس لیے کہ جھوٹ کے پائوں نہیںہوتے۔ کبھی اِدھر چلاگیا کبھی اُدھر چلا گیا۔ ظلم یہاں پرحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ پر کیا ہے ان سے مروی ہے کہ یہ آیت ایک منافق بشر نامی کے بارے میں اتری جس کا یہودی سے جھگڑا ہوا ۔ منافق نے کعب بن اشرف سے فیصلہ کروانا چاہا جبکہ یہودی نے نبی کریم ﷺسے ۔ اب یہی بات بالکل بدل گئی۔ کعب بن اشرف کے پاس وہ لے جانا چاہتا تھا مقدمہ اور وہاں نام بشر کی بجائے کیا نام ہے؟ قیس ، قیس نام درج ہے اور ایک کاہن کی طرف یہ لوٹے تھے۔ اور یہاں پھر اس روایت میں یہ ہے کہ یہود مسلمان نے جس کو اب یہ منافق کہہ رہے ہیں بشر کہہ کے ۔ اگر پہلی روایت پر قائم رہتے تو اس کو منافق نہیںکہہ سکتے تھے کیونکہ اس کے متعلق کوئی منافقت کی روایت نہیں ہے۔اس لیے ساری بات ہی بدل ڈالی کہ وہ شخص جو مسلمان تھا وہ منافق تھا اور یہودی گویا کہ سچا ، سچے دل کا تھا اور رسول اللہ ﷺپر سچا ایمان رکھتا تھا۔ منافق راضی نہ ہوا۔۔۔۔ (ٹھہریں)۔۔ (ہاں) منافق کعب بن اشرف انا للہ ۔۔۔کے پاس جانا چاہتا تھا اور یہودی رسول اللہﷺ کی طرف جانا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں دونوں پھر چلے گئے آخر رسول اللہ ﷺکی خدمت میں یہودی مسلمان کو گھسیٹتا ہوا رسول اللہ ﷺکی خدمت میںلے گیا۔ آنحضرت ﷺنے فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا جس پر منافق راضی نہ تھا۔ اس نے کہا چلو اب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فیصلہ کرواتے ہیں۔ اتنی لغو کہانی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس کو کس طرح ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں درج کرلیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہودی نے سارا قصہ سنایا کہ یہ شخص رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا ذرا ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔ تلوار لینے گئے، جو یہ کہا ہے ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں کہتے ہیں وہ اندرتلوار لینے گئے تھے ، اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا۔ روایات اکٹھی ہوجاتی ہیں ہماری کتابوں میں جہاں نزول کی وجوہات معلوم کرنے کا شوق حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اورہر رطب و یابس کو اکٹھا کردیا گیاہے۔ آخر پر مولوی حافظ مظفر احمد صاحب نے بھی وہی بات کہی ہے جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ وہ بھول گیاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن سے ان کی جلالی طبیعت کے باعث منافق ویسے ہی ڈرتے تھے ۔ کس طرح ایک یہودی اور ایک منافق ان سے فیصلہ کروانے پر آمادہ ہوسکتا ہے او روہ بھی رسول اللہ ﷺکے فیصلے کے بعد، معلوم ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ان کی تلوار کھینچ لینے کی شہرت کے باعث ہے کہ فوراً تلوار میان سے نکال لی۔ اس دروغ گو نے اس وجہ سے اس کو استعمال کیا اور نہ سوچا کہ یہی بات جو اس قصہ گو کوبعد میں پتا چلی منافق کو پہلے سے معلوم تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو منافقوں کی گردنیں توڑنے کو پہلے ہی تیار رہتے ہیں۔ پھر وہ وہاں فیصلہ لے جانے کے کیسے استدعا کرسکتا تھا۔ انہوں نے یہ بات زائد کی ہے کہ آپ نے جویہ کہاہے بار بارکہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ پرظلم کیا گیا ہے انہوں نے کہا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی ظلم کیا گیا ہے۔ یہ بھی میں ویسے کہہ چکا ہوںکہ یہ ظلم صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی ظلم ہے اور ان معنوں میں ظلم ہے کہ اس وقت انہیں نعوذباللہ من ذالک طاغوت کے حوالے سے ۔۔۔۔ ذکرطاغوت کا ملتا ہے اور اس حوالے میں نعوذ باللہ من ذالک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آگیاہے۔
فکیف اذا اصابتھم مصیبۃ بما قدمت ایدیھم ثم جاء و ک یحلفون باللہ ان اردنا الا احسانا و توفیقا۔ پھر یہ کیوں ہوتا ہے کہ جب ان پر ان کے افعال کے نتیجے میں کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ گھبراجاتے ہیں اور تیرے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہم نے تو صرف نیک سلوک اور صلح کرانے کاارادہ کیا تھا۔ اب اس میں بھی انہوں نے نام تلاش کیے ہیں، واقعات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے وہ کون لوگ تھے۔ جو رسول اللہ ﷺسے ہٹ کر کسی دوسری جگہ گئے پھر ان کو اور مصیبت پڑ گئی پھر وہ واپس آئے۔اب جس کو مصیبت پڑی تھی اس کا تو سر قلم ہوگیا تھا وہ واپس کیسے آگیا۔ اس لیے اپنے استدلال میںیہ ساری باتیں بھول جاتے ہیں کہ ان آیات کا اس سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ کہتے ہیں جب ان کو دوسروں سے فیصلوں میںمصیبت پڑتی ہے پھر وہ واپس آتے ہیں اور کون لوگ تھے کیا مصیبت پڑتی تھی، کب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس آیا کرتے تھے اس کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ حلف کی بحث بیکار ہے ہم جانتے ہیں۔ سب بحثیں پہلے گزر چکی ہیں۔ حلف کس کو کہتے ہیں۔ واذااصابتھم مصیبۃ کی تفسیر میں امام رازیؒ پہلی تفسیروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد نعوذ باللہ من ذالک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منافقین کے ایک ساتھی کو قتل کرنا ہے۔ اب وہی بات جو میںدکھارہا ہوں اگر یہ ہے اذا اصابتھم مصیبۃ تو پھر رسول اللہ ﷺکے پاس کیسے حاضر ہوگیا جس کا سر اڑا ہوا تھا، وہ بے گردن ، بے سر کا جسم حاضر ہوا تھا۔ یہ غلطی ہوگئی مجھے تو مصیبت پڑ گئی اس فیصلہ سے۔ نہایت لغو باتیں ہیں یعنی اِن پر غور کرتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ ضرورت کیا ہے ان کو ردّ کرنے کی مگر چونکہ علماء میں رائج ہے اس لیے بتانا پڑتا ہے کہ بالکل لغو بحثیں ہیں۔ اصابتھم مصیبۃ میں کہتے ہیں اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منافقین کے ایک ساتھی کو قتل کرنا ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو نہیںمانا تھا۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مسلک زَجَّاج نے اختیا ر کیا ہے ۔ ابو علی الجبائی کہتے ہیں اس مصیبت سے مراد اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ ﷺکوحکم ہے کہ منافقین کو غزوات میں اپنے ساتھ نہ لے کر جائیں ۔ اب آیت دیکھیں اذا اصابتھم مصیبۃ۔۔۔۔۔۔اس میں کہاں ذکر ہے غزوات کا اور منافقین کو ساتھ لے جانے کا بس یہ ٹامک ٹوئیاں ہیں ۔ ابو مسلم الاصفہانی کہتے ہیںکہ جب اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں یہ خبر دی کہ وہ طاغوت سے فیصلہ کرنے کی طرف راغب ہیں اور رسول اللہﷺ کے فیصلہ کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بشارت دی کہ عنقریب ان کو ایسے مصائب پہنچیں گے جو انہیں آپ کی طرف دھکیل دیں گے۔ یہ بشارت دی ہے گویا رسول اللہﷺ کو بہت شوق تھا فیصلے کرنے کا خود اور بشارت دی گئی ہے کہ مصیبتیں پڑیں گی تو آپ ہی آپ آئیں گے آپ کے پاس، آپ فکر نہ کریں۔ یہاں تک کہ وہ منافقین رسول اللہ پر ایمان کا اظہار کرنے لگیں گے۔ اور وہ حلف اٹھانے لگیں کہ ان کا احسان اور موافقت پید اکرنے کا ارادہ تھا۔ یہ ساری بالکل لغو بے معنی باتیں ہیں۔ یہاں قسمیں چونکہ وہ کھاتے ہیں اور وہ اصل بات مفسرین کے ذہن میں سے نکل چکی ہے اس لیے وہ سارے قسموں میں پڑ گئے ہیں کہ وہ کیوں قسمیں کھاتے تھے کیا کرتے تھے؟ حالانکہ جیسا کہ میں نے دوسری قرآن کریم کی آیات سے آپ پر ثابت کیا ہے۔ وہ قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ہم آپ کے مطیع ہیں ، آپ کو سچا مانتے ہیں اور اس کے باوجود اللہ اور رسول کے کہنے کے مطابق فیصلہ نہیں کیا کرتے تھے۔ بلکہ ان کے خلاف استنباط ازخود اپنی طرف سے کرلیا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق یہ آیات نازل ہورہی ہیں اور ان لوگوں کا تعلق رسول اللہ ﷺکے زمانے سے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے آئندہ زمانوں سے بھی ہے کیونکہ وہ آیت جو تمام دنیا کو اللہ اور رسول کی اطاعت کی طرف بلاتی ہے اور اولی الامر کی اطاعت کی طرف۔ اس آیت کا تعلق ہر زمانے سے ہے اور وہی بنیاد ہے اس کی اس کے بعد یہ سب ذکر چلیں گے۔ توفرمایا کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے کہ جب ان کے جھگڑے ہوں اور وہ سمجھیں کہ وہ جھگڑے اگر ہم نظام جماعت یا نظام الٰہی کی طرف لے کے جائیں تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر ہم آپس میں طے کرلیں یا عدالتوں میں لے جائیں تو یہ طاغوت کی طرف جانا ہے یعنی دینی نظام جو محمد رسول اللہ ﷺاللہ اور رسول کا نظام ہے اس سے ہٹ کر وہ ایسے نظام کی طرف رجوع کریں جو طاغوتی نظام ہے۔ تو ایسی صورت میں لازماً ان پر مصیبتیںپڑیں گی اور کئی ایسے ہوں گے کہ واپس لوٹیں گے اور کہیں گے ہم نے تو نیک نیتی سے ایسا کیا تھا اب ہمارا معاملہ نپٹادو اور ان کو مصیبتیں پڑیں گی تو ان کا رخ اس طرف ہوگا۔ اس آیت کی صحت کو سو فیصد آج بھی جو روز مرہ واقعات گزرتے ہیں ان سے جانچا جاسکتا ہے۔ یعنی یہ آیات کسی ایک وقت تک محدود نہیں بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت اور آپ کی طرف معاملات کا رجوع کرنا ایک دائمی حکم ہے۔ اس کا ہرگز کسی ایک واقعہ یا کسی ایک محدود زمانے سے تعلق نہیں اور دائمی حکم ہمیں پورا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنی آنکھوں سے بعینہٖ اس آیت کی تفسیر کو ہم آئے دن مقدمات کے سلسلے میں دیکھتے ہیں۔
اب اس سلسلہ میں میں بہت تفصیلی باتیں تو میں نہیں کروں گا مگر اتنا میں آپ کو بتادیتا ہوں امیر صاحب بھی اس کے گواہ ہوں گے بیٹھے ہوئے ہیں یہاں۔ ان کے پاس بھی ایسے مقدمات آتے ہیں کہ جب وہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ نظام جماعت سے اگر ہم نے رجوع کیا تو جو ہم چاہتے ہیں دونوں فریقوں میں ظلم ہوتا ہے۔ یتحاکموا الی الطاغوت دونوں فریقوںکا ظلم شامل ہے۔ دونوں اپنے دل کی بدنیتی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمہ اگر ہم نے نظام جماعت کے سامنے پیش کیا تو جو ہم چاہتے ہیں وہ نہیں ملے گا۔ دونوں فریق یہی سمجھتے ہیں اس لیے ہم نظام جماعت کے طور پر ان کو چھٹی دے دیتے ہیں ۔ ہم توکہتے ہیں اچھا طاغوت کی طرف لے جائو، جو خرچ کرنا ہے کرو، جو مقدمہ بازیاں کرنی ہے کرو۔ اتنا نقصان اٹھاتے ہیں، اتنی مصیبت پڑتی ہے کہ بیشمار خرچ کرکے جو کچھ چاہتے تھے زیادہ مل جائے وہ زیادہ توکیا ملنا تھا جو پلے تھا وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور جب سب نقصان اٹھابیٹھتے ہیں ، نقصان کر بیٹھتے ہیں اپنا تو پھر جماعت کو کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو صرف نظام جماعت کو ان جھگڑوں سے بچانے کیلئے نیک نیتی سے ایسا کام کیا تھا اور معاملہ ابھی تک وہیں پڑا ہوا ہے۔ اس لیے ہمارے درمیان فیصلہ کردیں۔اس وقت میری ہدایت ہے ان امیر صاحب کو اور سب امراء کو کہ آپ نے ہاتھ بھی نہیں لگانا ۔ اپنی طرف سے یہ خیال کہ گویا رسول اللہﷺ کو شوق تھا کہ وہ فیصلہ اپنی طرف لے کے جائیں گے بالکل جھوٹ ہے ہم اپنی فطرت سے جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ۔ جب یہ روگردانی کرتے ہیں اور دنیا کی جھک مارتے ہیں تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ اب جو چاہو کرتے پھرو اب ہمارے پاس نہ آنا۔ چنانچہ یہ دونوں خاندان اس قسم کے برباد ہوجاتے ہیں ۔ یہ گواہی ہے ان کی بربادی کی جو اس آیت کے حق میںگواہی ہے یہ واقعہ ہوتا رہے گا۔ ہمیشہ ہمیش کیلئے اسی طرح ہواکرے گا۔کہ جب یہ لوگ خدا کے نظام سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی طرف جائیں گے ان کو وہاں کچھ نہیں ملے گا۔ اِسی قسم کاایک خط کل بھی آیا تھا جس میںایک صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان ہے ، آپ پر ایمان ہے لیکن نظام جماعت پر ایمان نہیں۔ ان کو میںنے جواب لکھوایاہے یا لکھوانا ہے(لکھوادیا ہے ناں ابھی لکھوادوں گا، میں ابھی بتابھی دیتا ہوں)۔ ان کو میں نے یہی لکھوانا ہے کہ آپ نے جب یہ کہا کہ نظام جماعت پر اعتماد نہیں تو اس سلسلہ میں ہمارے درس جو ایک دو دن کے گزرے ہیں پیچھے یہ سن لیں ایک دفعہ۔ وہ درس سننے کے بعد آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں رہتا۔ آپ نظام جماعت کو ردّ کرکے مجھ سے کاٹیں یا اپنا تعلق مجھ سے بھی کاٹیں، مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کاٹیں، پھر جہاں چاہیں جائیں۔ پھر آپ کو جو مصیبت پڑے گی اس کے بعد یہ نہ کہنا کہ ہم نے نیک نیتی سے ایسا کام کیا تھا۔ لیکن اگر نظام جماعت کو آپ اللہ کا نظام سمجھتے ہیں جو اللہ نے اس دنیا میں اس دور میں قائم فرمایا ہے تو پھر آپ کو ہرگز کوئی حق نہیں کہ نظام سے کٹ جائیں اور مجھے بھی نظام سے کاٹنے کی کوشش کریں۔ یعنی ایک قسم کی چاپلوسی ہے کہ آپ پر تو پورا ایمان ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ نے جو نظام قائم کررکھا ہے وہ جھوٹا ہے۔ ایسی لغو بات ہے کہ بیک وقت قبول ہو ہی نہیں سکتی۔ بعض مفسرین نے مسجد ضرار کے انہدام کا واقعہ ان آیا ت سے باندھا ہے اور مصیبت جب ان کو پڑی تو وہ دیکھ کر آپ کی طرف بھاگے بھاگے آئے۔ اس میں اتنی بات توملتی ہے کہ مسجد ضرار سے متعلق وہ یہ کہتے تھے کہ ہم نے نیک نیتی کی خاطر یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنارکھی ہے اس سے زیادہ اس واقعہ سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ یہاں حضرت امام شوکانی ؒیہ نکتہ لاتے ہیں بما قدمت ایدیھم سے مراد یہ ہے کہ وہ گناہ جو ان سے سرزد ہوئے۔ ان گناہوں کے نتیجے میں ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ وہ طاغوت کی طرف جانا پسند کرتے ہیں، یہ بالکل درست ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کے دل میں کوئی ظلم ، کوئی جور ایسی جگہ بنالیتا ہے تو اس کے بعد ان کوخدا اور خدا کے نظام کی بجائے شیطان کی طرف جانا زیادہ اچھا لگتا ہے کیونکہ ان کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ تفسیر کبیر رازیؒ میں حضرت رسول اللہﷺ سے فیصلہ نہ کروانے کی توجیہات بیان کی گئی ہیں ۔ یہ ساری باتیں یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں عمومی فیصلہ دے چکا ہوں اس معاملہ میں کہ میرے نزدیک یعنی میرا اپنا ذاتی فیصلہ یہ ہے کہ یہ ساری بحثیں آیات کے سیاق و سباق اور تسلسل کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔ کسی انفرادی واقعہ سے ان آیات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی منافق کو ڈھونڈ کر تلاش کرنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ جاری سلسلہ ہے، آج بھی جاری رہاہے اور کل بھی جاری رہے گا۔ اور یہ آیات قرآنی کے دوام پر ظاہر کرنے والی ایک دلیل ہے، دوام کو ظاہر کرنے والی، یہ مسلسل چل رہی ہیں اور ایک مضمون دوسری آیت اٹھاتی ہے اور آئندہ زمانوں تک ان کا اثر چلتا ہے، چلتا رہے گا۔
اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قولاً بلیغا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ ان کے دلوں میں ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ پس تو ان سے اعراض کر اور انہیں نصیحت کر اور انہیں ان کے نفوس کے متعلق موثر بات کہہ۔ اب جہاں اعراض کا حکم ہے وہاں مفسرین نے اعراض نہ کرنے کا نتیجہ نکالا ہے اور ایسے جھگڑے میں مبتلاء ہوگئے ہیں کہ قیامت تک یہ جھگڑا پھر طے نہیں ہوسکے گا اگر ۔۔۔ بات کو کھول دیا جائے۔ اولئک الذین یعلم اللہ مافی قلوبھم صاف ظاہر ہے کہ تم نہیں جانتے ان کے دلوں میں کیا ہے۔ اللہ جانتا ہے ان کے دلوںمیں کیاہے۔ فاعرض عنھم اس لیے تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ ان سے اعراض کرو۔ جہاں تک ممکن ہوان سے روگردانی کرو اور ان کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرو۔ وعظھم اور ان کو نصیحت کرو۔ وقل لھم فی انفسھم قولاً بلیغا اور ان سے ایسی بات کرو جو ان کے دلوں کی گہرائی تک اتر جائے یعنی نصیحت ایسے انداز سے کرو کہ ان کو سمجھ آنے لگ جائے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور وہ اپنی غلطی سے باز آکر دوبارہ الٰہی نظام سے منسلک ہو جائیں۔ یہ اس کا واضح معنی ہے جس کے سوااور کوئی معنی اس طرف منسوب ہو ہی نہیںسکتا۔ لیکن علماء جب بحثوں میں پڑ تے ہیں تو دیکھیںکیسے کیسے باریک نکتے بیان کرتے ہیں۔ حضرت امام راغبؒ نے اعراض کے معنے میں جو آیات پیش کی ہیں واعرض عن الجاھلین، من اعرض عن ذکری، و ھم عن آیاتھا معرضون۔ یہاں سب اعراض کرنے والوں کا ذکر قرآن کریم میںجو موجود ہے آیات کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ جاہلین سے اعراض کر تو مراد یہ ہے کہ ان کے معامالات میں دخل اندازی نہ کر، ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ ومن اعرض عن ذکری جس نے میرے ذکرسے اعراض کیا یعنی میرے ذکر سے توجہ پھیردی اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، اللہ جو چاہے گا اس سے سلوک کرے گا۔ وھم عن ایاتھا معرضون اور وہ ذکر الٰہی کی جو آیات ہیں ان سے اعراض کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا ومن اعرض عن ذکری پس عن ایاتھا معرضون سے، ذکر سے اعراض مراد ہے ۔ وھم عن ایاتھا معرضون۔ حضرت امام رازیؒ قولاً بلیغا کے ضمن میں لکھتے ہیں مکانی یا زمانی ہر دو لحاظ سے کسی مقصد یا امر کی آخری حد کو پالینا۔ یہ معنی بہت ہی لطیف اور عمد ہ معنی ہے اور اس کو میں اس لیے بیان کررہا ہوں کہ اس کو آپ ہمیشہ ہمیش نظر رکھیں۔بلغ ماانزل علیک میں بلغ سے کیا مراد ہے اور ہم جو تبلیغ میںمصروف ہیں تو ہم بلغ کا حق تب ادا کریں گے جب تک لفظ بلغ کو نہ سمجھ لیں اس وقت تک اس مضمون کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ امام راغب فرماتے ہیں مکانی یا اندرونی ہر دو لحاظ سے کسی مقصد یا امر کی آخری حد کو پالینا۔ یعنی اگر تبلیغ کرنا ہے تو ایسی تبلیغ کرو کہ اس شخص کے سمجھنے کیلئے جتنے بھی امکانات ہیں، اس کی عقل و فہم کی جتنی بھی حدود ہیں اُس کے آخری کنارے کو چھو جائو ، تمہاری طرف سے ایک ادنیٰ سی کمی کسی پہلو سے نہ ہو اس کو کہتے ہیں بلغ۔باقی ساری وہی باتیں ہیں جو میںسمجھتا ہوں کہ بے تعلق اس آیت کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ کوئی خاص چیز قابل ذکر ہوئی تو میںعرض کردوں گا۔ اب دیکھیں اعرض کا معنی بالکل الٹ لے لیا گیا ہے۔ علامہ قرطبی ایک معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ مراد یہ ہوسکتی کہ عن قبول اعتراضھم، اعرض عن قبول اعتراضھم یعنی ان کا عذر قبول کرنے سے اعراض کرو۔با ت پہنچائو اور ان کا عذر قبول نہ کرو اور بعد میں یہ کہا ہے کہ جب قبول نہ کرو تو پھر ماروگے ، کیا کرو گے۔ تو بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں مراد یہ ہے کہ قل لھم فی انفسھم قولاً بلیغا یعنی ان کو تخلیہ میں رازدارانہ طور پر موثر ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ حسن کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو بتادو کہ اگر تم نے دل کی بات ظاہر کی تو میں تم کو قتل کردوں گا۔ یہ اعراض ہے۔ علیحدگی میں چھپ کر ان کو سمجھائو کہ ایسی باتیں نہ کیا کرو اور اس کے بعد بھی اگر ان کے دل میں یہ بات بیٹھی رہے گی جو بھی بات ہے تو ان کو توجہ دو کہ دیکھو اگر تم نے کیا تو میںتمہیں قتل کردوں گا، یہ مراد ہے اس آیت سے۔ علامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ تو ان سے اعراض کرنے پر ہی اکتفا کر اور ان کی پردہ دری مت کر، اعراض کرنے پر ہی اکتفا کر اور پردہ دری مت کر اور پردہ دری نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اگر پردہ دری کی تو وہ شرارت میں اور بڑھ جائیں گے ۔ اس آیت میںکہیں بھی یہ اشارہ موجود نہیں۔ لیکن علامہ رازی مختلف مفسرین کے قول درج کرتے رہتے ہیں اس لیے کوئی بعید نہیں کہ کسی اور مفسر کا یہ قول درج کیاہو۔ اسی طرح علامہ رازی ہی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں وعظھم سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نفاق ، مکرو فریب، حسد اور جھوٹ پر ڈانٹتا ہے نیز آخرت کی سزا سے ان کو خوف دلاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ادعوا الی سبیل ربک مختلف علماء کی بحثوں میں وہ یہ ساری باتیں کہہ رہے ہیں۔ جن کے اوپر میں سمجھتا ہوں کہ وہ قابل قبول نہیںہیں۔ آخر پر اپنی بات جو کہتے ہیں وہ بہت اچھی اورعمدہ بات ہے۔ کہتے ہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وعظ سے مراد آخرت کے عذاب سے ڈرانا ہے اور قول بلیغ سے مراد دنیاوی سزا سے ڈرانا ہے۔ تو گویا ان سے کہا جائے کہ تمہارے دلوں کے نفاق اورشر کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ پس تمہارے اور تمام دوسرے کفار کے مابین کوئی فرق نہیںرہا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر سے تلوار صرف اس لیے اٹھادی ہے کہ تم نے اپنا ایمان ظاہر کیا ہے لیکن اگر تم ان گندے اعمال پر مداومت اختیار کرو گے تو تمہارا کفر پر قائم رہنا سب پر واجب ہوجائے گا تب تمہارے لیے تلوار ضروری ہوجائے گی۔ بے تعلق بحثیں ہیں۔
تلوار کا شوق جو ہے ناں وہ نہیں اب چھوڑرہا ان لوگوں کو۔ بلیغ وعظ کی صفت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے وعظ کا حکم دیا ہے پھر حکم دیا ہے کہ وعظ قول بلیغ یعنی اثر کرنے والی بات پر مشتمل ہونا چاہیے اور یہ کہ یہ پراثر کلام حسن الفاظ اور حسن معانی کا عمدہ مرقع ہوجو حسن عمل کی ترغیب اور ترھیب او روعید، وعید بد کا انجام ( یہ وعید کے بعد کامہ ڈال دیا تھا اس لیے میں رک گیا ہوں وعید نہیں وعید بد کا انجام لکھنا چاہیے تھا)۔ ڈرانے اور جزاء سزا پر مشتمل ہو۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ کلام دلچسپ، حسین ہو، دلکش ہو، عمدہ نصائح پر مشتمل ہو اور دلوں کی گہرائی تک اترے پھر ان لوگوں کے بچنے کا کوئی امکان پیدا ہوسکتا ہے۔شیخ ابوالحسن قمی لکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جو عداوت ان کے دلوں میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیلئے ہے فاعرض عنھم وعظھم و قل لھم فی انفھسم قولاً بلیغا یعنی اُن پر پوری طرح حجت تمام کردے اور ان کے معاملہ کو پھر قیامت تک کیلئے چھوڑ دے۔ اگر چھوڑ دیں تو بہت اچھی بات ہے۔ جو مرضی سمجھتے رہیں اگر قیامت تک کیلئے صحابہؓ کو نعوذ باللہ من ذالک رگیدنے اور خلفاء کے خلاف باتیں کرنے سے باز آجائیں اور خدا پر چھوڑدیں معاملہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن چھوڑتے نہیں۔
اب یہ آیت 65ہے۔ وما ارسلنا من رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ توابًا رحیمًاO (النسائ: 65)
(آج جو میرے منہ کی خشکی ہے وہ کچھ کل سے زیادہ ہے اور اس میں گھبرانے کی بات نہیںکیونکہ رات بہت دیر سے گزری ہے یہ کچھ اونچ نیچ تھوڑا سا ہوتا رہتا ہے، کچھ غذا کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ جو لوگ غذائیں لکھ لکھ کر بھیجتے ہیں میں کھا کر دیکھتا ضرور ہوں کہ دیکھیں اس کا کیا اثر پڑتا ہے ۔ تو آج بھی کسی مہربان کی تجویز کردہ غذا کھائی تھی۔ میرا خیال ہے اس کی وجہ سے ہے۔ دوسرے یہ کہ اس دوا میں جو میں نے بیان کیا تھا اس میںیہ انتباہ موجود ہے کہ فوری نتیجے کی توقع نہیں رکھنی۔ لمبے عرصے تک کی دوائی کھانی پڑے گی اور اس کا اثر رفتہ رفتہ ظاہر ہوگا اور بڑھتا رہے گا ۔ یہ چیز بالکل قطعیت سے ثابت ہے کہ ہر روز خداتعالیٰ کے فضل سے جو اس کی علامتیں تھیں جن کی وجہ سے میں پریشان تھا، ان علامتوں میں ہر روز کمی آرہی ہے۔ آیا یہ دس ہفتے لگیں گے یا ایک ہفتہ یا دو ہفتے لگیں گے، یہ اللہ پر ہے۔ لیکن اس کے متعلق میں نے بڑی گہری تحقیق کی ہے اس دوا کے متعلق مختلف کتابوں میںہر جگہ یہ تنبیہہ ہے کہ اس سے فوری نتیجے کی توقع نہ رکھنا لیکن نتیجہ ظاہر ہونا شروع ہوجائے گا اور اتمام تک پہنچتے پہنچتے اس میں کچھ وقت لگتا ہے۔ تو اسلیے بعض دفعہ میں نے دیکھا کہ نظروں میںپھر پریشانی آگئی تھی۔مجھے بار بار سمجھانا پڑتا ہے بالکل نہ گھبرائیں میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں اللہ کے فضل سے)۔ اور ہم نے کوئی رسول بھی سوائے اس غرض کے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے نہیںبھیجا اور جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ اگر اس وقت وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے بخشش چاہتے اور رسول بھی ان کے حق میںبخشش طلب کرتا تو ضرور اللہ کو بہت شفقت کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پاتا(پاتے)۔ یہاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تفسیر صغیر میں ترجمہ دیا ہے یہ وہی ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معین لوگ اس وقت وہ موجود تھے۔ اس لیے اسی طرح ان کا حوالہ دینا چاہیے تھا۔ مگر جو بیان میرا پہلا گزرچکا ہے اس کی رو سے بھی یہ آیت ایک دائمی اثر والی آیت ہے۔ اگر رسول اللہ (اللہ اور رسول کی اطاعت کو اس لیے قبول کریں کہ وہ اللہ کے اذن سے ہے تو پھر اس کے بعد ان کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ جب بھی ان سے کوئی غلطی ہو تو وہ استغفار کریں اور اللہ اور رسول سے بھی استغفار چاہیں۔ لوجدواللہ توابًا رحیما یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ رسول کو تواب اور رحیم پائیں گے ۔ لوجدواللہ توابا رحیما وہ اللہ کو بہت زیاہ تواب اور رحیم پائیں گے۔ یہاں رسول سے استغفار کے کیا معنی ہیں۔ رسول کا ان کے حق میں بخشش طلب کرنے کے کیا معنی ہیں؟ یہ مراد ہے ، وہ اللہ سے استغفار کرتے ہیں اور رسول بھی اگر ان سے استغفار کرے گا، ان کی طرف سے استغفار کرے گا۔ تو یہ بات کھولنے والی ہے جو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ دراصل پرانے زمانے میں رسول اللہ ﷺ جو سب کیلئے استغفار چاہتے تھے، اس کا اظہار عبداللہ بن ابی بن سلول کی روایت سے ہوتاہے کہ کس قدر آپ کے دل میںمومنوں ہی کیلئے نہیں بلکہ منافقوں کیلئے بھی استغفار کا جذبہ پایا جاتا تھا۔ یہاں تک (آپ کا فرمانا)عرض کرنا اللہ کے حضور کہ تو نے ستر مرتبہ روکا ہے تو میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا۔ یہ تعلقات ہیں ان آیات کے اور وہ استغفار ہمارے لیے جاری ہے یہ ماضی میں نہیںرہ گیا ، اس آیت کا دائرہ زمانے میں محدود نہیںہے یہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس کوجب مفسرین کی نظر سے آپ پڑھیں گے تو ان کو ماضی کے واقعات کے طور پر پڑھیں گے، میں ان کو جاری و ساری ہر زمانہ کے اوپر اطلاق کرتا ہوا دیکھتا ہوں اور رسول کریمﷺ کااستغفار ہم سب کیلئے موجود ہے۔ وہی استغفار ہے جو ہمارا سہارا بنا ہوا ہے۔ پس جس رسول کا استغفار قیامت تک کیلئے ہو اسے زمانے سے محدود کرنا درست نہیں ہے۔ یہ پہلو ہے جو میں کھولنا چاہتا ہوں اگرچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا ترجمہ آیات کے زمانی حوالہ کی وجہ سے مجبوراً وہی کیا ہے جو آپ کے سامنے کیا گیا ہے لیکن فی الحقیقت جیسا کہ میں نے بات کھول دی ہے کہ کسی زمانی تعلق کی آیات نہیں ہیں۔ اب اس پر بہت لمبے مضامین ہیں جو وقت لیں گے، تھوڑا سا مجھے صفحے پلٹنے میں۔ اب یہ اس بات کا چونکہ غلط ترجمہ سمجھ چکے ہیں ایک دفعہ اس بات کا پیچھا ہی نہیںچھوڑرہے مفسرین۔ یعنی جب انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ، اپنا فیصلہ طاغوت کے پاس لے گئے اور رسول سے فرار کی راہ اختیار کی تو پھر واپس لوٹنا پڑتا ہے ان کو، پھر ان کو استغفار کرنا پڑتا ہے۔ یہ سارے قصے پہلی آیت کے حوالے سے گزرچکے ہیں۔ اس لیے میں ان کو دوبارہ نہیںاٹھاتا۔
اب یہ بھی ایک ایسی فرضی کہانی گھڑلی گئی ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ابوبکرالعصم کہتے ہیں کہ منافقین کی ایک جماعت آنحضرتﷺ کے بارے میںایک تجویز پر آپس میں اکٹھی ہوئی۔ اب اس آیت کا دیکھیں کیا تعلق ہے اس سے۔ کوئی دور نزدیک اس کا کوئی ذکر نہیںملتا۔ اور اس غرض کیلئے آنحضرتﷺ کے پاس گئے۔ آنحضرتﷺ کے پاس جبرائیل آئے اور آپ کو منافقین کی اس تجویز سے اطلاع کردی۔ حالانکہ منافقین کو تو ان کی پیشانیوں سے رسول اللہﷺ سمجھتے تھے۔ تمام منافقین پر آپ کو اطلاع تھی۔ جس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسی جماعت آئی ہے جنہوں نے ایک ایسا ارادہ کیا ہے جسے وہ پا نہیںسکیں گے۔ پس وہ کھڑے ہوجائیں اوراللہ تعالیٰ سے اس قدر استغفار کریں یہاں تک کہ میں ان کیلئے بخشش کی دعا کرنے لگوں۔ یہ منافقین ہی تھے جو گئے تھے۔ اس روایت کے مطابق اور ان کو کہنا کہ جنہوں نے تدبیر کی ہے وہ کھڑے ہوجائیں یہ کیا مطلب ہوا۔ وہ تو منافق جماعت گروہ گیا تھا اسی گروہ کے متعلق کہتے ہیں جبرائیل نے بتایا تھا۔ تو آپ نے ان کو بٹھادیا گویا کہ اور پھر کہا کہ اب بتائو کس کس نے تدبیر کی ہے کھڑے ہوجائو۔ اور اتنا استغفار کرو کھڑے ہوکر کہ میںتمہاری بخشش کی دعا کرنے لگوں۔ ان میںسے ایک بھی کھڑا نہ ہوا۔ تدبیر لے کرگئے تھے لیکن کھڑا کوئی نہ ہوا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے ان کے نام لے لے کرفرمایااے فلاں تو کھڑا ہوجا، اے فلاں تو بھی کھڑا ہوجا، اے فلاں تو بھی کھڑا ہوجا۔ ان بارہ کے بارہ آدمیوں کو آپ نے کھڑا کردیا۔ کھڑے ہونے کے بعد انہوںنے کہا جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے ہم نے اسی کا ارادہ کیاتھا، ہم مانتے ہیں اور ہم اپنے اس ظلم کی وجہ سے جو ہم نے اپنی جانوں پر کیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں پس آپ ہمارے لیے بخشش طلب کیجیے۔ اس پر نبی اکرم ﷺنے فرمایا اب تم سب کے سب یہاں سے چلے جائو معاملہ کی ابتداء میں میرا تمہارے لیے بخشش طلب کرنا اقرب تھا۔ اور اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں میری دعا قبول فرماتا لیکن اب میرے پاس سے چلے جائو۔ یہ اعراض ہے۔عجیب و غریب چیز ہے یہ۔ اب آگے اعتراض ، فرضی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اگر وہ اکیلے بخشش طلب کرتے اور صحیح طور پرتوبہ کرتے تو کیا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہ فرماتا۔ پھر نبی اکرمﷺ کے استغفار کو ان کے استغفار کے ساتھ ملانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بات کہ نبی اکرمﷺ کے استغفار کو منافقوں اور گناہگاروں کے استغفار کے ساتھ ملانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے لیکن اس کا پہلی بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نکتہ یہ ہے کہ منافقین کیلئے جب بھی وہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اوراستغفار کریں ان کیلئے خالی وہ استغفار کافی کیوں نہیں سمجھا گیا اور رسول اللہﷺ کا استغفار کیوں ضروری قراردیا گیا۔ ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے دو گناہ کیے ہیں ایک اللہ کا گناہ کیا ہے اور ایک رسول کا گناہ کیا ہے۔ اللہ کا گناہ اللہ کا کام ہے بخشے نہ بخشے لیکن رسول کا گناہ جو اس سے اعراض کیا، اس کی تخفیف کی، یہ ایسا گناہ ہے کہ جب تک رسول اس کو بخش نہ دے یعنی اس کو بخشنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ سے ان کی خاطر استغفار نہ کرے اس وقت تک یہ بات مکمل نہیں ہوتی۔ اتنے حصے میں مجھے حکمت دکھائی دیتی ہے۔ مجھے یہ مضمون اچھا نظر آیا ہے کہ آنحضرتﷺ کی بھی جو گستاخی ان گناہگاروں کے اعراض کے نتیجے میں دکھائی دیتی ہے اس گستاخی پر اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کے محمد رسول اللہﷺ خوداس کو بخش کر اور مجھ سے بخشش کے طلب گار ہوں پھر یہ معاملہ صاف ہوگا اور اس کو گویا کہ صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا یعنی اس ظلم کو۔
اب اطاعت کی بحث میں بہت کچھ زور مارا گیا ہے۔ اوربہت سے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اطاعت باذن اللہ اس کے سلسلے میںجو میں نے پڑھا ہے سب روایات پڑھ کے سنانا یا خیالات پڑھ کے سنانا ممکن نہیں لیکن میںمختصراً مضمون آپ کو سمجھادیتا ہوں۔ جتنے بھی رسول پہلے گزرے ہیں ان سب کا ذکر ہے۔وما ارسلنا من رسولٍ الا لیطاع باذن اللہ سوائے اس کے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم کے ساتھ۔ یہ معاملہ صرف رسول اللہﷺ کیلئے خاص نہیں ہے۔ جتنے بھی رسول گزرے ہیں سب کی اطاعت کا حکم ہے اللہ کے اذن کے ساتھ۔ اس پر عجیب و غریب بحثیں یہ اٹھائی گئی ہیں کہ اللہ کے اذن کے ساتھ اگر ان کی اطاعت فرض ہے توپھر اطاعت سے نکلنے کا کیا امکان واجب ہے، اطاعت سے گریز کیسے ہوسکتا ہے؟ جبری عقیدہ والوں نے یہ نکتہ اس لیے اٹھایا ہے وہ کہتے ہیں یہ آیت صاف بتارہی ہے کہ جتنے بھی رسول آئے ہیں ان کی اطاعت کا حکم اللہ کے اذن سے تھا اور اللہ کے اذن سے روگردانی ممکن نہیں۔ اس لیے اس حکم کے باوجود جن لوگوں نے اطاعت نہیں کی گویا ان کیلئے مقدر تھا کیونکہ اللہ کے اذن سے وہ باہر بھاگ نہیں سکتے تھے۔ تو گویا عملاً اس آیت کا یہ مطلب نکلتاہے کہ اللہ کے اذن میںجو گزشتہ انبیاء کو عطا ہوا یہ بات داخل تھی کہ اس اذن کی نافرمانی کرنے والا بہت ایک بڑا گروہ ہوگا او رمیرے اذن کی نافرمانی کا ان بندوں کو حق ہی کوئی نہیں سوائے اس کے کہ میں اجازت دوں۔ پس اذن سے مراد یہ ہے کہ میری اجازت سے وہ لوگ نافرمانی کریں گے۔ پس جبریہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کی اجازت سے نافرمانی کی یا اس کے حکم سے نافرمانی کی تو ان کا اپنا کیا اختیار تھا اس لیے بے اختیار مارے گئے۔ وہ یہ تو نہیںکہتے کہ بے اختیار مارے گئے ان کے نزدیک تو ہر چیز جبریہ ہی ہے مگر مختلف علماء کے ساتھ بحثوں میںجبریہ نے اس آیت پر بھی انحصار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کو آپ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اب میں چند ان کی باتیں میں آپ کے سامنے اگر وقت اجازت دے تو کھول دیتا ہوں۔وقت جو ہے وہ اجازت دیتا ہی نہیں کبھی۔ کیونکہ تفسیر کے معاملات بڑے دلچسپ اور دھیمے دھیمے سمجھنے والے ہیں، آہستہ آہستہ کبھی کبھی اس معاملہ میں کبھی کوئی ہمارے بشیر حیات صاحب ایک چمک پیدا کردیتے ہیں ۔ یعنی مگر ویسے دھیمی چیز ہے یہ، آہستہ آہستہ سمجھنے والی باتیں ہیں ، اس کو ہمیشہ اس رنگ میں نہ لیں کہ گویا ہر وقت آپ کے دل میںایک دلچسپی قائم رہے گی۔ آپ کو دلچسپی کلام اللہ سے ہونی چاہیے اور اس کو سمجھنے کیلئے مختلف زاویوں سے کلام اللہ کے الفاظ پر غور کرنا ضروری ہے یہ تفسیر ہے۔ اگر اس پر سے آپ اس طرح گزرجائیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جب بھی آپ قرآن کریم کی تلاوت دوبارہ کریں گے آپ کے دل پر مضامین از خود اترنے شروع ہوجائیں گے۔ یہ سارے طاغوتی بحثیں شروع ہوئی ہوئی ہیں میں اِن کو نہیں چھیڑتا۔ یہ وہ روایت ہے امام رازیؒ کی جس کے متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ جبریہ فرقہ اس کو استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت فرقہ جبریہ کے مذہب کا بطلان بھی کرتی ہے۔ ابو علی الجبائی اسی آیت کو ان کے بطلان کیلئے استعمال کرتے ہیں اور فرقہ جبریہ والے اسی آیت کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہے جو پیش نظر رہنا چاہیے کیونکہ وہ کہتے ہیں اب آیت جبریہ کا بطلان کس طرح کرتی ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اس لیے بھیجے ہیں کہ ان کی نافرمانی کی جائے۔ الا باذن اللہ جو کہہ دیا وہ بات آپ کو سمجھادی ہے۔ جبریہ کہتے ہیں کہ رسول اس لیے بھیجے تھے کہ ان کی نافرمانی کی جائے کیونکہ اذن اللہ سے باہر جانے کا تو اختیار نہیں تھا اور اس کے باوجود اکثریت نے ان کی نافرمانی کی ہے اس لیے آپ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اللہ کے اذن کے خلاف باہر گئے۔ کیونکہ اللہ کے اذن میں یہ شامل تھا کہ میںرسول بھیجوں گا تم نافرمانی کرنا۔ اس آیت سے انہوں نے یہ استنباط کیا ہے۔ علامہ علی الجبائی اسی آیت سے ان کے اس استنباط کو ردّ فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںان جبریہ (یہ مٹے ہوئے فقرے ہیں) ان کا گویا موثر بڑا واضح جواب دیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت جبریہ کے حق میں تو نہیں ظاہراً نہیں مگر اگر کوئی اورآیت سارے قرآن میں جبریہ کے خلاف نہ ہوتی تو یہی ایک آیت کافی تھی۔ ان کے رد کیلئے۔ پس اگر انہوں نے یہی کہنا تھا تو یوں کہتے کہ اطاعت اور نافرمانی کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے ہیں۔ پس یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مقصود الٰہی کسی رسول کی نافرمانی نہیںتھا بلکہ اللہ تعالیٰ صرف یہ چاہتاتھا کہ پیغمبر کی اطاعت کی جائے۔ یہ باریک نکتہ انہوں نے یہ نکالا ہے کہ یہ آیات کریمہ اگر جبریہ کے عقیدے کے مطابق ان کا ترجمہ کیا جائے تو تمام رسولوں کا بھیجا جانا گویا کہ اس مقصد کیلئے تھا کہ تااللہ اور رسول کی نافرمانی کی جائے اور یہ خداتعالیٰ کے اوپر بڑا بھاری الزام ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ اپنے رسولوں کے متعلق اطاعت کی شرط اتنی لگاتا ہے کہ اس پر جبریوں کا یہ عقیدہ بالکل بے حقیقت اور بے معنی ہوجاتا ہے۔ یہ اتنا سا وقت تھا بات کرنے کو۔ کیوں جی ختم ہوگیا ہے؟ اب کچھ باتیں میں دیکھ لوں گابعد میں اس کو اگر ضروری ہوئی تو رکھ لیں گے وگرنہ پھر اگلی آیت شروع کردیں گے۔ یہ رکھ لیں صفحہ، ٹھیک ہے۔ اچھا جی السلام علیکم۔ کون سا روزہ گزرا ہے آج ۔ تیرہ۔ اب تیزی آگئی ہے رمضان میں بہت ۔ہیں۔ ہاں۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ14؍رمضان بمطابق13؍ جنوری 1998ء
وما ارسلنا من رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیطاع باذن اللہ۔۔۔۔ لوجدواللہ توابا رحیماOالنساء :65
یہ پہلے بھی گزرچکی ہے اور ابھی کچھ حصہ باقی ہے۔
اس آیت کے ذکر میں ایک روایت جو امام رازی نے پیش کی ہے اور قابل توجہ ہے کیونکہ اس میں بعض ایسی باتیں ہیں جو ہو نہیں سکتیں۔ وہ یقینا ایک غلط روایت اس مضمون میںداخل کردی گئی ہے۔ اس روایت سے میں اس آج کے درس کو شروع کرتاہوں۔ اطاعت کی طاقت اور توفیق اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ اس عنوان کے تحت یہ روایت مروی ہے وما ارسلنا من رسولٍ الا لیطاع باذن اللہہم نے کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا مگر اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی گئی یہ وہ ’’اذن اللہ کی اطاعت کی گئی‘‘ کی بحث میں جو مفسرین الجھے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھ رہے کہ پہلے دن سے ہی حضرت آدم کو جب خداتعالیٰ نے اپنا نمائندہ بنا کے بھیجا توحضرت آدم کی اطاعت باذن اللہ فرض ہوئی ہے، آدم اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیںرکھتا تھا۔ تویہ مضمون دراصل اسی طرف اشارہ کرنے والا ہے کہ مسلسل ہمیشہ سے یہی دستور جاری ہے کہ اگر اذن اللہ نہ ہو تو کسی شخص کو خواہ کیسی ہی برتری دو اس کو، کیسا ہی اس کا مقام سمجھو ہرگز وہ خدا کے نزدیک اطاعت کے لائق نہیں ہوگا۔ جب اذن اللہ ہوا تو پھر اطاعت لازمی ہوگی اور اذن اللہ کے ساتھ جو اطاعت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنی ذات میں جہاں تک اطاعت کا معاملہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کی اطاعت کے ساتھ جب اذن اللہ شامل ہوگیا تو پھر خدا کی اطاعت ہے،اس کی اطاعت اور اس کو سجدہ کرناگویا خدا کو سجدہ کرنا ہے۔ یہ مسلسل مضمون چلا آرہا ہے اور یہ آیت دراصل اسی مضمون کو پھر اٹھارہی ہے کہ کوئی بھی ایسا نبی نہیں تھا جس کی اطاعت خدا کی خاطر نہ کی گئی ہو۔ پس آنحضرت ﷺ کے حوالے سے آپ کی اطاعت بھی اللہ کی خاطر کی جاتی ہے مگر اس کے علاوہ بعض اور امور ہیں جن میں رسول اللہﷺ کو بعض پہلوں پر ایک درجہ حاصل ہے ۔اللہ کے حکم سے اطاعت تو سب نبیوں کی برابر ہے مگر آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نمائندگی میں جو مالکیت کی چادر پہنائی ہے اس کے جلوے ہیں جو یہ ہم دیکھ رہے ہیں اور یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی کتب میں خوب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ وہ مالکیت کا درجہ جو پہلے کبھی کسی نبی کو نہیں ملا وہ حضرت محمد مصطفی ﷺکو ملا ہے اور اس لئے مالک چونکہ فیصلے کرتے وقت زیادہ اختیار رکھتا ہے بہ نسبت غیر مالک کے۔ اس لیے حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کے قضائی فیصلوں کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ مضمون چلا آرہا ہے کہ قضائی فیصلوں میں تم انحراف کرتے ہو۔یہ ساری چیزیں اس میںیہ بات خصوصیت سے داخل ہے کہ اگر حضرت محمد رسول اللہﷺ کسی معین وحی کی طرف اشارہ نہ بھی کریں، قرآن کریم کی کسی آیت کا حوالہ نہ بھی دیں تب بھی آپ کی مالکیت میں خداتعالیٰ کی نمائندگی آپ کے فیصلے کو اللہ ہی کا فیصلہ قرار دے گی اور آپ اللہ کے فیصلے کے خلاف اپنی ذات سے کچھ فیصلہ نہیں دے سکتے۔ گویا کہ مبنی بروحی ہونے کے باوجود ہر موقعے پر قضاء کے فیصلے میں کسی وحی کا نازل ہونا ضروری نہیں ہے اور یہی بحث ہے جو علماء میں اٹھائی گئی ہے۔ وحی کا کسی معین فیصلے میںنازل ہونا ضروری نہیں ہے اور اس کے باوجود رسول اللہﷺ کے قضائی فیصلے وحی کا حکم رکھتے ہیں اور اس نظر سے جب رسول اللہﷺ کے فیصلوں پرنظر ڈالتے ہیں تو ہرگز سرمو بھی اس میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں دیکھیں گے، لازماً آپ کے سارے فیصلے اللہ کی طرف سے عطا کردہ ملکیت کی صلاحیت کے نتیجے میں ہیں۔یہ آنحضرتﷺ کا دوسرے انبیاء سے امتیاز ہے اور اس پہلو سے جو رسول اللہﷺ کی اطاعت کرے گا وہ کون سے ہدایت کے رستے اس کو عطا ہوں گے؟ یہ وہ مضمون ہے جو آگے کھلے گا۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ کی کلی اطاعت کرو ان قضائی فیصلوں میں بھی جن میں آپ کسی وحی کا حوالہ نہ دیں، ان پر بھی آپ کی اطاعت کرنے سے تمہیں نقصان کوئی نہیںہوگا بلکہ اگر نہیں کر وگے تو نقصان اٹھائو گے اور تمام واقعات جو اس تعلق میںبیان کیے گئے ہیں اسی بات کو مزید ثابت کرتے ہیں خواہ علماء نے اس کا رخ کسی اور طرف پھیرا ہو۔لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ وہ اسی چیز کو ثابت کرتے ہیں کہ قضائی فیصلوں میں رسول اللہﷺ کو حکم عدل اس طرح ماننا کہ گویا وہ اللہ کی طرف سے ہر معاملے میں ایک وحی نازل ہوئی تھی ۔ اگر اس طرح کر گے تویہ کلی ، کامل اطاعت ہے، جو ایسی کامل اطاعت کریں گے ان کو خداتعالی ہدایت کے رستے دکھائے گا اور وہ ایسے رستے ہوں گے جو آیت اھدنا الصراط المستقیمO صراط الذین انعمت علیھم کے تابع وہ صراط مستقیم کے رستے جو نبی تک ممتد ہوتے ہیں ان سب رستوں پر اللہ تعالیٰ چلائے گا۔یہ اتنا واضح، کھلا کھلا صاف مضمون ایک تسلسل میں جاری ہے، جس کو بعد کے علماء نے اپنے بعض خیالات کی وجہ سے موڑنے کی کوشش کی ہے مگر خدا کی بیان کردہ صراط مستقیم کو کوئی موڑ نہیں سکتا۔ یہ تمہید ہے۔ اب میں آپ کو وہاں سے شروع کرتا ہوں جو علماء نے اس پر بحثیں اٹھائی ہیں۔ڈاکٹر صاحب آپ نے بھی کبھی۔۔۔ انگلی تر کی ہے۔ کبھی کرلیتے ہیں؟ پھر کیا احساس ہوتا ہے۔ گندا کام کیا لیکن یہی انگلی استعمال کرتے ہیں ناں؟ یہ جو وضو کے بعد ہروقت صاف رکھی جانے والی انگلی ہے۔ آپ جب لب سے تر کرتے ہیں تو آپ کو کبھی اس پہ گندگی کا احساس ہوا ہے؟ مریض کے لب سے اگر تر کرلیں تو پھر غلطی سے ۔اب علامہ رازیؒ کا یہ بیان میں آپ کو پڑھ کر سناتاہوں۔ ہمارے بعض اصحاب کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر ایک خیر وشر ، کفرو ایمان، اطاعت و نافرمانی سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے سوا ظہور پذیر نہیںہوتا الا لیطاع باذن اللہ۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ اس اذن سے مراد امر اور ذمہ داری ہو۔ کیونکہ اس کے رسول ہونے کا اس کے علاوہ کوئی اور معنی ہی نہیں کہ خدا نے اس کی اطاعت کا حکم دے دیا ہے اور اگر اس اذن سے مراد وہی امر ہے تو اس صورت میں آیت کا معنی یہ ماننا پڑتا ہے۔ وما اذنا فی طاعۃ من ارسلنا الا باذنا اور یہ ایک ناپسندیدہ تکرار ہوجاتی ہے۔ پس اذن کا معنی یہاں پر جہاں پر خدا سے توفیق اور۔۔۔۔ کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے اس آیت میں یہ مخذوف ہوگا وما ارسلنا من رسولٍ الا لیطاع بتوفیقنا و اعانتنا یہ جو مضمون ہے یہ ہے قابل توجہ اس سے وہ کہتے ہیں اس کو مخذوف سمجھنا چاہیے ۔ اس آیت میں الا لیطاع بتوفیقنا و اعانتنا حالانکہ یہ بحث نہیں ہے۔ اس موقع پر توفیق کی بحث نہیں ہے صرف رسول کے منصب کی بحث ہے۔ رسول کی اطاعت محض اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مطیع ہے او رجن معاملات میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا مطیع بنانا محفوظ سمجھا ان معاملات میں اس کو صاحب امر بنادیا اور اللہ کے اذن سے اس میں یہ صلاحیت پیدا ہوئی ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔ پس یہ توفیقنا و اعانتنا کی بحث جو ہے یہ اطاعت کرنے والوں کی نسبت سے انہوں نے شروع کردی ہے، حالانکہ اس آیت میں رسول کے مرتبہ کی بحث ہے، توفیق کی بحث نہیں ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہر چیز کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی سے ملتی ہے جس کو جس چیز کا اہل سمجھے اس کی توفیق عطافرماتا ہے۔ مگر اس بحث میں ،اس آیت میں دراصل کسی چیز کو حذف ماننے کی کوئی ضرورت نہیںہے میرے نزدیک۔ اور جب حذف مانا بتوفیقنا و اعانتنا تو پھر یہ بحث چل پڑے گی خود بخود جو انہوں نے جبریہ نے نکالی تھی کہ جب اللہ نے توفیق ہی نہیں تو پھر وہ کیا کرتے؟ اس لیے مجبور ہیں وہ نہ اطاعت کرنے پر۔ تو یہ توفیقنا و اعانتنا جو قرآن کریم کے کلام میں جو داخل کی گئی یہ باتیں کہ گویا یہ حذف ہے ، گویا یہ مخذوف ہے۔ تو یہ قرآن کریم کے مضمون کو بگاڑنے کے مترادف بات بنتی ہے اس مضمون کو سمجھانے کی بات نہیں ہے اب اس کا یہ معنی لیں گے پھر اس کا مطلب یہ بنے گا اس صورت میں کہ صرف ان لوگوں سے جنہیں اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دیتا ہے، ان کواذ ن دیتا ہے، اب اذن عام ہے۔ جو نہیں مانتا وہ بھی اذن کے تابع منکر ہے اور اذن کے خلاف بغاوت کرنے والا ہے کجا یہ کہ بیچ میں تھوڑا سا حصہ ظاہر کرکے یہ کرلو کہ اذن گویا تھا ہی مومنوں کو۔ حالانکہ اذن مومنوں کو نہیں ہے، تمام بنی نوع انسان کو اذن ہے۔ ہر موقع پر جب بھی نبی آیا، جس قوم میں آیا اس ساری قوم کواس نبی کی طرف سے اذن تھا یعنی اللہ کی طرف سے اس قوم کوا ذن تھا کہ نبی کی اطاعت کرو کیونکہ یہ میری طرف سے بول رہا ہے اپنی طرف سے نہیں بول رہا۔ آگے پھر دیکھیں ایسی غلط بات کہنے پرمجبور ہوگئے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اس توفیق اور قوتِ اعانت سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ تقاضا ہی نہیںکیا کہ نبی کی اطاعت کرو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ گناہگار کیسے بنیں اگر تقاضا ہی نہیںکیا۔
اب ایک اور ذرا الجھی سی بات ہے وہ مجھے سمجھ نہیں آرہی میںآپ کو کیسے سمجھائوں؟ ابھی ٹھیک کردیتے ہیں اس کو۔ یہ تو درست ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہوں اور نافرمانیوں سے منزہ ہوتے ہیں ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں، معصوم ہوتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں منزہ ہوتے ہیں یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ انبیاء کرام نافرمانیوں سے منزہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ آیت ان کی مطلق اطاعت پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی یہ آیت بتارہی ہے کہ ان کی کلیتہً ہر معاملے میں اطاعت کی جائے۔ پس اگروہ گناہگار خود ہوتے تو پھر یہ لوگوں کو یہ پابند نہیں کرسکتے تھے مومنوں کو کہ ان کی ہر بات میں اطاعت کرویہ بات تو بالکل ٹھیک ہے۔ اب ابوجعفر الطبری یہ استنباط کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺکی اطاعت فرض ہے۔ اس استنباط کی ضرورت کیا پڑی ہے؟ واضح کھلی کھلی بات ہے۔ آنحضرتﷺ کی اطاعت باقی نبیوں سے بالا فرض ہے ۔ اس میں پھر وہ جھگڑے لے آتے ہیں یہ ۔آیات بہت اونچے مضامین کو بیان کرنے والیں ہیں، یہ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی بحث میں ان کو الجھانا نہیںچاہیے۔ علامہ آلوسی کا خلاصہ یہ ہے رسول کی اطاعت خدا کی اطاعت اور اس کی نافرمانی خد اکی نافرمانی ہے، یہ توایک عام واضح بات ہے جو ہر مسلمان کو معلوم ہونی چاہیے۔ کم سے کم ان درسوں میں تو اس کا کثرت سے ذکر ہوچکا ہے۔ یہ سب وہی بحثیں ہیں جو بار ہاگزر چکی ہیں۔ اب ایک علامہ ابوحیان الاندلسی کی روایت ہے جو بالخصوص یہاں قابل ذکر ہے۔ کیونکہ اس میں مضمون ایسا ہے کہ عامۃ الناس اس کو بڑا پسند کرکے اس میں رسول اللہﷺ کی اطاعت میں ایک شرک کا مضمون داخل کردیتے ہیں اور ایک ایسی روایت کو قبول کرلیتے ہیں، جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ پس اس روایت کو بیان کرنے میں جو اصل لطف اٹھاتے ہیں وہ ایک شعر کا ہے جو ایک اعرابی نے پڑھاتھا اس شعر کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ بس کمال کی روایت ہوگئی اب اسے من و عن قبول کرنا چاہیے۔لیکن جیسا کہ علماء نے اس پر بحث اٹھائی ہے یہ روایت قطعاً غلط ہے۔ اور ایک ووسری روایت جو اس سے زیادہ صحیح ہے اس میں اس مضمون کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا اور اس پہلو سے یہ روایت جو مقبول زیادہ ہے لیکن غلط ہے، یہ میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں۔عنوان ہے آنحضرتﷺ ۔ابوحیان نے یہ روایت پیش کی ہے جن کا زمانہ چھ سو چون میں نے کہا یہ کمال ہوگیا ہے ان کے متعلق ۔ تویہ اپنی ولادت سے چار سو سال پہلے فوت ہوگئے تھے۔ دو سو پینتالیس ہے یا سات سو پینتالیس ہے؟ اوہو! جو لکیر ڈالی ہے سات کے اوپر اس نے دو بنایا ہوا ہے اس کو۔میں نے غور کرکے دیکھ لیا ہے واقعی یہی ہے۔ لیکن سرسری نظر میں دو سو پینتالیس لگتا ہے۔ میں حیران تھا کہ پیدائش سے اتنا پہلے کیسے فوت ہوگئے؟۔ چھ سو اور سات سو سال بعد کی روایت ہے یہ، اس کو یاد رکھ لیں آپ۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے روایت ہے کہ جب ہم نے رسول اللہﷺ کو دفنادیا اور آپ کو دفن کیے ہوئے تین دن گزرگئے تو ایک اعرابی آیا اس نے خود کو آپ کی قبر مبارک پر گرادیا اور آپ کی قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈال کر کہنے لگا ؎
یاخیر من دفن فی الترب اعظمہ
فطاب من طیبھن قاع والعطم
نفسی الفداء لقبرٍ انت ساکنہ
فی العفاف و فیہ الجود والکرم
شعربہت اچھا ہے۔ اس پہلو سے اس شعر کی خاطر اس روایت نے ایک قبولیت حاصل کرلی اور آخری بات یہ بالکل لغو اور بے تعلق ہے اس کے ساتھ ہی لگ گئی ہے۔ شعرکا ترجمہ یہ ہے کہ مٹی میں مدفون نشیب وفراز کو معطر کرنے والی ہڈیوں والوں میں سے اے بہترین شخص! یا یوں کہہ سکتے ہیں اے سب دفن ہونے والوں میںسے بہترین اعظمہ جس کی ہڈیاںمٹی میں مل گئیں۔ کیوں جی یہ ترجمہ جائز ہے نا؟ اے وہ بہترین شخص جس کی ہڈیاں مٹی میں مل گئی ہیں۔ سب مٹی میں مل جانے والی ہڈیوں سے میں سے سب سے اعلیٰ شخص۔ فطاب من طیبھن یعنی آپکی ہڈیوں سے،اس کی خوشبو سے تمام اونچ نیچ معطر ہوگئی ہے۔ نفسی الفداء القبرٍ انت ساکنہ میری جان فدا ہو اس قبر پر جس کاساکن تو ہے فیہ العفاف اس میں عفت ہے فیہ الجود والکرم اس میں سخاوت اور کرم ہے، یہ شعر بہت پیارا ہے۔ آگے کیا ہے؟ آگے یہ لکھتے ہیں: پھر کہنے لگا یا رسول اللہﷺ !آپ فرمایا کرتے تھے اور ہم آپ کی باتیں سنا کرتے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے لے کر کلام کو محفوظ کرتے اور ہم آپ سے لے کر اسے یاد کرلیتے تھے۔ یہ ساری باتیں عجیب ہیں ایک ایسے اعرابی کی طرف منسوب کرنا جو کہیںباہر سے آیاہے اور ظاہر کرتاہے کہ وہ مدینے میں ہی رہتا ہے اور ہرو وقت حضرت رسول اللہﷺ کے کلام کو سنتا ہے، بالکل غلط بات ہے ۔ اعرابیوں کو تو مدینے کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کلام پہنچایا کرتے تھے اور جب بھی کبھی وہ شہر آتے ان سے سنتے ہوں گے۔ لیکن یہ کہنا یہ مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے اور اسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی نازل فرمایا ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاء وک۔ اب یہ سارا حوالہ جو دے رہے ہیں ناں دلیل یہ بعد کی بنائی ہوئی بات ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ بھی سنا کرتے تھے کہ جب کوئی اپنی جان پرظلم کرے گا تو تیری طرف آئے گا تو پھر یہ اس کے ساتھ ہوگا۔ اب وہ کہتا ہے میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور میںاپنے گناہوں پراللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے ہوئے آیا ہوں۔پس آپ بھی میرے ربّ سے بخشش طلب کیجئے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس پر قبر سے آواز آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔یہ ہے۔ حضرت علی بیان کرتیہیں کہ اس پر قبر سے آواز آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔ یہ بالکل جھوٹ قصہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور جو علماء نے اس پر بحثیںاٹھائی ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
علامہ ابو حیان اندلسی متوفی 757ھ (اس میں وہ ۔۔۔ نہیں ہے ۔۔۔) انہوں نے جو اس کی روایت بیان کی ہے اس کاکوئی حوالہ نہیںدیا اور جن کتابوں کا حوالہ دیا وہ کتابیں بے اعتبار ہیں اور ان کتابو ں نے آگے راوی کو رسول اللہﷺ تک نہیںپہنچایا۔ پس یہ ساری کی ساری روایت ایک کہانی کے طور پر تو ہے اور اچھے شعر کی خاطر اس کو معلوم ہونا چاہیے ۔ لیکن جو مضمون بیان ہو اہے اس کا حقیقت حال سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہی روایت ابن کثیر متوفی 774ہجری یہ بیس سال بعدفوت ہوئے ہیں علامہ ابوحیان سے، انہوں نے اپنی تفسیر میں شیخ ابو منصور الثواب کے حوالے سے درج کی ہے یہ روایت جو اصل متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ دستیاب ہے۔ الشیخ ابو منصور الثواب کے متعلق کشف الظنون جلد دوم مطبوعہ استنبول 1942ء میں سن وفات 477ھ لکھا ہوا ہے اور کتاب کا نام الشامل جس میں قطبی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مختلف انسائیکلوپیڈیا دیکھے ہیں جن کے مطابق الشیخ ابو منصو الثواب کی کتاب کا پورا نام ہے الشامل فی فروع الشافعیۃ۔ قطبی کا پورا نام ابو نصر محمد العرفی متوفی 431ھ ہے اور ان کی کتاب کا نام التاریخ الیمینی ہے۔ ابو نصر محمد السباب کی ’’الشامل‘‘ اور قطبی کی ’’التاریخ‘‘ ربوہ میںدستیاب نہیںہے اس لیے اس کتاب تک پہنچنے کا ابھی تک وقت نہیں ملا علماء کو۔ ابن کثیر جو اسی واقعہ کے متعلق روایت لائے ہیں وہ بالکل مختلف ہے اور اس کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ عنوان انہوں نے بھی یہی باندھا ہے کہ آنحضرتﷺ کو شفیع بناتے ہوئے بخشش طلب کرنایا ان کے مضمون کایہ خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے۔ ترجمہ اس روایت کا یہ ہے ۔ ایک جماعت نے اسے بیان کیا ہے، ایک جماعت نے! کوئی روای معین نہیں ہے جس میں ابو منصور الثواب شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ، جس میں مشہور قصے لکھے ہیں یہ روایات کا حال ہے ۔ ابو منصور الثواب نے اپنی کتاب جس میں مشہور قصے لکھے ہیں درج کیا ہے ایک قصے کے طور پر۔ جو عتبی کا بیان ہے عتبی کہتے ہیںیہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں، عتبی کا بیان ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھا تھا،اب دیکھیںکتنا فرق پڑگیا ہے! اور وہ روایت تو بالکل بے اثر ہے اس لیے اس کو چھوڑ ہی گئے ہیں۔ اس روایت کو یہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ایک کہانی ہے اور ایک کہانیاں بیان کرنے والے نے اپنی روایت لکھی ہے، وہ یہ ہے۔ میں آنحضرتﷺ کی قبر مبارک کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ۔ میں نے یہ آیت ولو انھم اذ ظلموا سنی اور آپ کے پاس اپنے گناہوں کا استغفار کرتے ہوئے آیا ، اس نے کہا میں نے ایک آیت سنی ہوئی ہے چونکہ یہ اس لیے میں آپ کی قبر پر اپنے گناہوں کا استغفار کرتے ہوئے آیا ہوں تاکہ اپنے ربّ کے حضور آپ کی شفاعت طلب کروں۔ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے جن کا پہلے ذکر گزرچکا ہے۔عتبی بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ اعرابی توواپس چلا گیا اور مجھے نیند آگئی۔کوئی آواز قبر سے نہیں اُٹھی۔ خوا ب میں آنحضرتﷺ کو دیکھتا ہوں آپ نے خواب میںفرمایا کہ جا اس اعرابی کو خوشخبری سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف کردیے۔ تو دیکھیں کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہ اگرچہ کہانی کے طور پر پیش ہوئی ہے لیکن مضمون کے لحاظ سے یہ پھر بھی اس سے بہت بہتر ہے۔ زمین و آسمان کا فرق ہے اور اسے ہر مومن پھر بھی قبول کرسکتا ہے کہ ایسے شخص کی حالت کے متعلق رسول اللہﷺ کو اللہ نے آگاہ فرمایا ہو اور رئویا میںایک صحابی نے جو پاس بیٹھا ہوا تھا یہ پیغام سنا اور آگے جاکے اس کوپہنچایا ہو یا نہ پہنچایا ہو یہ اس کا کام تھا۔ علامہ جمال الدین القاسمی نے یہ وقتی نکتہ بہرحال صحیح سمجھا اور عمدگی سے بیان فرمایاہے۔ وہ کہتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کے باذن اللہ فرمانے سے مراد یہ ہے اس رسول کی اطاعت کا سبب ہی اذن الٰہی ہے اور اس لیے ان کی طرف اس کو مبعوث کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ سب اس کی اطاعت اور اتباع کریں یہ ہے مرکزی بات ہے۔ چنانچہ یہ آیت وہ درج کرتے ہیں من یطع الرسول فقد اطاع اللہ۔ جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔
اب شیعہ مصنف لکھتے ہیںکہ یہ آیت جو قرآن کریم میںدرج ہے یہ اس طرح نازل نہیںہوئی تھی یہ اور طریقے سے نازل ہوئی تھی اس لیے جو شیعہ احباب ہیں خاص طور پرنوٹ کرلیں۔ امام ابوجعفر کی روایت ہے۔ایک تو اپنے آئمہ پرشیعہ مصنفین نے اتنا ظلم کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ امام جھوٹ نہیںبول سکتا اس لیے اس کی روایت در روایت در روایت کہانی بیان کرنے کی ضرورت نہیں وہ سلسلہ روایت سے بالا ہیں امام۔ اس لیے صرف ان کا کہنا کافی ہے۔ لیکن یہ جو بیان کرنے والے ہیں یہ جھوٹے ہیں۔ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ امام کی طرف جو حوالہ دے رہے ہیں امام نے تو جھوٹ نہیںبولا، ہم مانتے ہیں ان کے آئمہ پاکباز تھے لیکن اِنہوں نے جھوٹ بولا ہے ان پر اور اس کو یہ چھپالیتے ہیں اس طرح کہ یہ امام چونکہ نہیں بول سکتا جھوٹ اس لیے یہ روایت سچی ہے۔ امام نے کہا کہ نہیں کہا یہی تو بحث ہے۔ اس کیلئے کوئی شرم نہیں۔ فرضی باتیں حضرت امام ابوجعفر کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ اب یہ ایسی جو بہت ہی خطرناک بات ہے ہرگز کوئی سچا امام ایسی بات نہیں کرسکتا۔ وہ کہتے ہیں ابوجعفر کی روایت ہے کہ آیت ولوانھم اذظلموا انفسھم جاء وک فاستغفروا اللہ ۔ آیت یہ ہے ولو انھم اذ ظلموا اوروہ لوگ کیوں ایسا نہیں ہوا کہ جب انہوںنے ظلم کیا انفسھم اپنی جانوں پر جاء وک تیرے پاس آتے وہ رسول اللہ ﷺکے پاس فاستغروااللہ اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے تیرے حضور حاضر ہوتے اوراللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ تیری بخشش کی دعائوں کو ساتھ شامل کرلیتے ہیں۔ ان کو فائدہ پہنچتا کیونکہ ہر ظلم کرنے والے کی دعا اتنی مقبول نہیں ہوسکتی اگر رسول اللہﷺ کی دعا اس کے ساتھ شامل نہ ہو۔ جب آپ کی دعائیں شامل ہوگئیں تو پھر اسے اپنی بخشش کا پورا یقین ہوجانا چاہیے ۔ یہ مضمون ہے اس آیت کریمہ کا ۔ کہتے ہیں دراصل یوں نازل ہوئی تھی ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاء و ک یا علی کہتے ہیں یاعلی حذف ہوگیا بیچ میں سے۔ رسول اللہﷺ کے پاس جاتے ہی نہیں، اے علی جب تیرے پاس آئیں۔ جنہوں نے بھی اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اے علی! جب وہ تیرے حضور حاضر ہوں فاستغفروااللہ اوراللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں واستغفرلھم الرسول اور رسول بھی ان کیلئے بخشش طلب کرے۔ گویا کہ یہ مضحکہ خیز تصور ابھرے گا کہ رسول اللہﷺ ہر آنے والے سے پوچھیں گے ، علی کے پاس گئے تھا پہلے؟ وہاں سے ہوکے آئے ہو؟ حاضری دے دی تھی؟ وہ کہیں گے ہاں ہم حاضری دے کے آئے ہیں۔ اچھا اب میں تمہارے لیے استغفار کروں گا۔یعنی علی کے حضور حاضری رسول اللہﷺ کے استغفار کیلئے لازم ہوگئی ۔ یہ ظلم کیے ہیں ان شیعہ حضرات نے قرآن کریم پر اور امت مسلمہ پر ۔ لیکن اس کا جواب وہ نہیں ہے جو ان دنوںمیں ہورہا ہے قتل و غارت اور ظلم و سفاکی ۔ہرحال میں قتل و غارت اور ظلم و سفاکی قرآن کریم کے لحاظ سے ایک غیر شرعی امر ہے، ممنوع امر ہے اور خدا کے نام پر ہرگز تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں ۔ یہ لوگ مریں گے اور خدا کے حضور حاضر ہوںگے۔ اللہ ان سے حساب کرے گا، اللہ پوچھے گا، لیکن بندوں کو ہرگز حق نہیں ہے کہ وہ شیعوں کے ان عقیدوں کے اوپر با زپرس کرتے ہوئے ان کے خلاف تلوار اٹھائیں۔ اعرض عنھم کا حکم ان کو یاد رکھنا چاہیے، ان سے اعراض کے سوا اور کوئی جائز مسلک نہیں ہے ہمارے لیے۔پس اعراض ان معنوں میں کہ بلغ کا امر ساتھ جاری ہو۔ ان کو سمجھایا جائے ،جیسے ہم کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیں یہ غلط باتیں ہیں،نامناسب ہیں، بہت بڑے گناہ ہیں جن میں آپ ملوث ہورہے ہیں ایسی باتیںکرکے۔ معصوم صحابہ رضوان اللہ علیہم پہ ظلم کرتے ہیں، جب ان کے خلاف آپ فرضی باتیں بیان کرتے ہیں۔ اس لیے آپ ان چیزوں سے باز رہیں۔ اتنا کام ہمارا ہے، ان کا رکنا یا نہ رکنا ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ نہیں رکیں گے تو اللہ کے حضور جوابدہ ہوں گے ۔ یہ سیدھا سادہ ، صاف قرآنی مسلک ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
فلا و ربک لا یومنون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسلموا تسلیمًاO النسائ: 66
پس تیرے ربّ کی قسم فلا و ربک ہرگز نہیں، اس کے سوا اور کوئی بات درست نہیں۔ لاان معنوں میں آتا ہے ۔ وربک تیرے ربّ کی قسم لایومنون حتی یحکموک فیما شجربینھم ہرگز یہ صحیح معنوں میں ایمان نہیں لائیں گے جب تک تجھے اپنا حکم قبول نہ کرلیں۔ یعنی رسول اللہ ﷺ ہی حکم ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ بعد میں ردّ کرتے ہیں ۔پہلے ترجمہ کردیتا ہوں۔ فیما شجر بینھمان معاملات میں جن میںان کا آپس میں جھگڑا ہو۔ لایجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما۔ اپنے نفس میں ہرگز ذرا بھی حرج محسوس نہ کریں ان امور میں جن میں تو فیصلہ دے دے۔ ویسلموا تسلیما اور ان کیلئے لازم ہے کہ تیرے حضور یا خداتعالیٰ کے حضور پوری طرح فرمانبردار ہوکر حاضر ہوں اور اس موقع پر یسلموا تسلیما کی ضمیر اوّل طور پر رسول اللہﷺ کی طرف پھرتی ہے کہ وہ جب تک تیرے فیصلوں کے معاملے میں اپنے نفس کو کلیتہً بچھادیں اور اسکے تابع سمجھیں اس وقت تک ان کو حقیقت میں ایمان نصیب نہیں ہوسکتا۔ لایومنون حتی یہ ہے بنیادی بات۔ کہتے ہیں حکم کے معنے کیا ہیں؟ جب لوگ کسی کو ثالث بنائیں تو کہتے ہیں حکّموا فلانا حکّموہ محکموہ بینھم امروہ ان یُحکم یہ لسان العرب ہے۔ اقرب الموارد کہتی ہے کہ حکّمو فلانا اذا جعلوہ حکما۔ جب کسی کو ثالث بنایا جائے تو اس کیلئے کہا جاتا ہے کہ حکّم اور حکّموااور اسے اپنے درمیان ثالث مانا۔ حضرت امام راغب شجر کی بحث میں بات کرتے ہیں۔باہمی جھگڑا، ۔۔۔۔۔اس کو التشاجر کہا جاتا ہے۔ کہا جائے گا شجرنی عنہ جب کسی کے متعلق عن کا لفظ استعمال ہو شجر کے ساتھ تو اس سے مراد یہ ہوگی۔ مجھ سے جھگڑا کرکے مجھے کسی امر یا شر سے ہٹادیا، توجہ کو کسی دوسری طرف پھیر دیا۔ شجرہ بالرُمح ای طعنہ بالرُمح۔ شجرہ بالرمح یعنی اسے نیزہ مارا۔ اب یہ ساری باتیں یہاں بے تعلق معلوم ہورہی ہیں۔ سوائے اس کے فیما شجر بینھم کے معنوں میں یہ ہو کہ کوئی کسی کو دکھ پہنچائے۔ نیزہ مارنے کامطلب یہ نہیں کہ کسی کو نیزہ ہی مارا ہو بلکہ کسی کی دل آزاری کرے، کوئی طعن کرے شجرہ بالرمح ای طعنہ بالرمح یعنی طعن کا مطلب بھی مارنا ہی ہے لیکن یہاں معنوی مارنا مراد ہوسکتاہے ورنہ یہ معنی لیے جائیں گے کہ صرف اس وقت تیرے پاس آئیں جب کوئی نیزہ ماردے۔ تویہ معنی بالکل درست نہیں ہے۔ معنوی طور پر نیزہ مارنا مراد ہے۔ اقرب میںلکھا ہے کہ شجر بینھم الامر تنازعوا فیہ انہوں نے کسی معاملے میں جھگڑا کیا۔ طعن کا لفظ جو ہم محاورے میںاستعمال کرتے ہیں یہ وہی لفظ ہے اصل میں لیکن اس کاجسمانی معنی ہوتا ہے زخم لگانا، کسی چیز کو زخمی کردیا۔ تو چونکہ دل زخمی ہوتے ہیں باتوں اور بیہودہ سرائی کے نتیجے میں دلوں کو زخم پہنچتا ہے اس لیے وہاں طعن کا لفظ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں بھی اور عربی میں بھی طعن کا یہی مطلب ہے ایسی بات کی جائے جس سے کسی کو تکلیف پہنچے، جس سے اس کا دل زخمی ہو۔ حرجا سے مراد ہے کہ کسی کا دل تنگ ہوجائے یا سینہ تنگ ہو۔ رجل حرَج و حرِج ایسے شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو کم ظرف ہو ، تنگدل ہو۔ حرج صدرہ یحرُج حرجا، ضاق لم ینشرح لخیرٍ۔ اس کا سینہ تنگ ہوا اور عمل خیر پر اسے انشراح نہیں ہوا۔ المفردات یہ کہتے ہیں کہ حرج کا اصل کسی جگہ ایک جگہ جمع ہونا۔ اب حرج جو لفظ ہے اس میںایک جگہ ہجوم کرنا مراد ہے۔ چیزوںکا اکٹھا ہوجانا۔ اس طرف سے تنگی کا مفہوم ذہن میںآتا ہے۔ تنگی کو بھی حرج کہتے ہیں اور اس طرح گناہ کو بھی حرج کہتے ہیں کیونکہ گناہ لازماً دل میں ایک ایسی تنگی پیدا کرتا ہے جس کے متعلق رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا کہ دل میں اگر کوئی بات کھٹکے اس کو چھوڑ دو وہ گناہ ہے۔ تو وہ جو کھٹکتی ہے بات، تنگی پید اکرتی ہے وہ گناہ کی خصلت ہے۔ گناہ سے لازماً تنگی پید اہوتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا ثم لا یجدوا فی انفھسم حرجا۔ پھر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یجعل صدرہ ضیقا حرجا اس حَرَجًا کو حَرِجًا بھی پڑھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سینہ اس کے کفر کی وجہ سے تنگ ہوا کیونکہ کفر سے بھی دل کو سکون حاصل نہیںہوتا۔ اس لیے یہ تو ایک تصوراتی اعتقاد ہے۔
اب جوشان نزول کا ذکر ملتا ہے بعض صحاح کے حوالے سے۔ صحیح بخاری اور تفسیر وغیرہ۔ ان میںبھی جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کو غور سے پڑھیں تو وہاںہرگز ان امور کو جن کی طرف اشارہ ہے شان نزول کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، یہ بعد کے علماء نے کھینچا تانی کی ہے۔ اب یہ روایت جو بخاری کی ہے۔ اس کی تفسیر میں اس لیے جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان واقعات کا اس آیت سے تعلق نہیں ہے میرے نزدیک ۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جھگڑے ہوئے کوئی رسول اللہ ﷺکے پاس گیا، کوئی نہیں گیا۔ یہ آیت بہرحال ایک دائمی حالت سے تعلق رکھتی ہے اور دائمی طور پر رسول اللہ ﷺکے فیصلوں سے انسان کو شرح صدر ہونا چاہیے۔ اس مضمون کو بیان کررہی ہے یہ۔ مگر شان نزول کے حوالے سے اس کو پیش کیا گیا ہے کہ بخاری میں بھی ایک شان نزول ہے۔ راوی کہتا ہے قال الزبیر فما احسبُ ھذہ الایۃ الا نزلت فی ذلک۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت اس امر کے متعلق نازل ہوئی ہوگی۔ اب صاف بات ہے کہ شان نزول نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ایک واقعہ ہوا ہے۔ میرے نزدیک ہوسکتا ہے اس آیت کا تعلق اس سے ہو۔ تو وہ شان نزول نہیں ہے بلکہ ایک نفس کی رائے ہے۔ یہ جو روایت ہے اس میں مَیں نے کہا ۔ ناں۔ زبیر کہتے ہیں یہ اصل زبیر راوی نہیں ہیں۔ زُہری عروۃ سے روایت کرتے ہیں ۔ راوی عروۃ ہے اصل میں اور زبیر کا ایک انصاری شخص سے جھگڑا ہوا ہے اس حدیث میں جو اصل مضمون ہے، جس کو اہمیت دینی ضروری ہے۔ وہ وہی ہے جو مالکیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے میں اس حدیث کے الفاظ کو خواہ یہ آیت اس واقعہ سے پہلے یا بعد میں نازل ہو اس سے تعلق براہ راست ہے کہ نہیں، اس بحث کو چھوڑ دیں۔ مگر یہ روایت اس قابل ہے ، اس لائق ہے کہ اسے غور سے سنا جائے۔کیونکہ اس سے رسول اللہﷺ کی مالکیت کی صفات سے متمع ہونے کا اظہار ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کچھ مالکیت کی صفات ضرور عطا فرمائی ہیں جو عام نبیوں سے بالا ہیں۔ زہری عروۃ سے روایت کرتے ہیں کہ زبیر کا ایک انصاری شخص سے زمینوں کو سیراب کرنے والی ایک نالی کے بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا تو نبی ﷺاکرم نے فرمایا کہ اے زبیر تو اپنے کھیت کو پانی لگا لے پھر اپنے ہمسائے کیلئے پانی چھوڑ دے۔ زبیر کا جو کھیت تھا وہ اونچی جگہ تھا جس طرف سے پانی بہہ رہا تھا اس طرف سے پانی بہہ کر پھر آگے نیچے اترتا تھا۔ اب یہ بحث ہورہی تھی کہ نچلا آدمی جس کی زمین نیچے تھی وہ چاہتا تھا کہ زبیر اس کو کھلا اختیار دے۔ پہلے اس کا کھیت سیراب ہو پھرا س کا ہو۔یہ جھگڑا چلا ہوا ہے دونوں کے درمیان۔ نبی ﷺنے فرمایا اے زبیر تو اپنے کھیت کو پانی لگالے پھر اپنے ہمسائے کیلئے پانی چھوڑ دے۔ اس پر انصاری نے کہا یارسول اللہ! انصاری نے جس کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کیلئے پانی چھوڑ دو اس نے کہا یا رسول اللہ یہ آپ کا پھوپھی زاد ہے ناں۔ پھوپھی زاد بھائی بنتا ہے اسی لیے آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا ہے؟ اس پر آنحضرتﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ آپ نے فرمایا،اب یہاں دیکھیں آپ کی شان مبارک کس طرح جلوہ گر ہوتی ہے۔ اے زبیر! تو اپنی فصل کو پانی لگا یہاں تک کہ پانی منڈیروں تک بھر جائے پھر اپنے ہمسائے کیلئے پانی چھوڑ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر فیصلہ انصاف پر مبنی تھا تو یہ دوسرا فیصلہ پھرانصاف پر مبنی نہ ہوا۔ کیونکہ اس میں ایک زائد شرط یہ لگادی گئی ہے کہ تھوڑا سا پانی، ضرورت کا پانی لگاکر اس کو چھوڑ دینا یہ نہیں درست۔ اب میں کہتا ہوں کہ پورا پانی لگائو۔ یہ مسئلہ ہے جو زیر بحث ہے کہ کیا رسول اللہﷺ کا پہلا فیصلہ درست تھا؟ یا دوسرا فیصلہ درست تھا؟ اگر دوسرا فیصلہ درست تھا تو پہلا فیصلہ کیوں دیا گیا؟ یہ میں عرض کررہا ہوں کہ آنحضرتﷺ کو اختیار تھا کہ عرف عام میںجو چیزیں فائدہ مند ثابت ہوں ان میں کسی حکم میں نرمی پیدا کرلیں اور یہ نرمی آپ کے دل کی نرمی کا مظہر تھی اوراس معاملے میں آپ ایک ایسے منصف نہیںتھے جو لازماً قانون کی لفظی پیروی کا محتاج ہو۔ وہ قانون میں نرمی پیدا کرنے کا حق بھی رکھتا ہو جو مالک کا کام ہے، عام منصف، عام ججوں کو یہ ملکیت کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ قانون نے جو کہا وہ اسی طرح پڑھ دیں گے۔ مگر رسول اللہﷺ کو یہ ملکیت کا حق حاصل تھا ۔ خدا کی نمائندگی میں آپ ان امور میں چاہتے تو نرمی پیدا کردیتے، جو منصف کو حق نہیں ہے صرف، جو مالک کا حق ہے۔ چنانچہ پہلے جو آپ نے نرمی پیدا کی وہ مِلک کے لحاظ سے او رمِلک کے لحاظ سے جو نرمی پیدا کی ہے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ جب بھی ملکیت کا حق استعمال کرتے ہیں تو نرمی کی طرف مائل ہوتے ہیں سختی کی طرف نہیںہوتے۔ پس شجر بینکم والی آیت میں یہ ایک بہت ہی اہم راہنماء آیت بنتی ہے کہ عجیب احمق لوگ ہیں اپنے جھگڑوں کو رسول اللہﷺ کی طرف لے جانے کی بجائے جو محض انصاف سے فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ انصاف کے ساتھ احسان کو شامل کریں گے، یہ دوسروں کے پاس دوڑتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے یا کرتے رہے ہیں تو ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے۔ پس اصل اطاعت یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی آپ کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے اطاعت کی جائے اور یقین رکھا جائے کہ ہر فیصلے میں آپ کا فیصلہ ہر دوسرے فیصلے سے بہتر ہوگا اوراس میں کوئی نرمی اور احسان ہوں گے جو عام منصف کے فیصلوں میں نہیں ملتے۔پس جب اس نے ایسا اعتراض کیا تو آپ کا رنگ تکلیف کی وجہ سے تبدیل ہوگیا، تکلیف لازم تھی کہ میں اس شخص کے حق میں احسان کررہا ہوں یہ اوپر سے الٹ کے مجھے یہ باتیں کرتاہے۔ اس لیے اب پھر اگر انصاف چاہتا ہے تو انصاف یہ لے۔ پھوپھی زاد بھائی کو میں نے دبایا ہوا تھا تھوڑا سا، اپنے قریبی ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ توقع تھی پھر یہ تم اگر انصاف چاہتے ہو پھر یہ انصاف ہے۔
زبیر کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجربینھم اسی معاملہ کے بارہ میں نازل ہوئی ہے۔ سمجھتے ہیں ایک واقعہ ہوگیا ہے۔ آیت پہلے ہوئی یا بعد میں ہوئی اس سے بحث نہیں ہے مگر اس کو شان نزول نہیں کہا جاسکتا۔ میںنے اس کا نام رکھا تھا مواقع النزول کہ یہ قرآن کریم کی ایک شان ہے کہ بعض موقعوں پر بعض آیات نازل ہوئی ہیں۔ لیکن وہ موقعے سبب نہیں ہیں۔ موقعے ہوتے یا نہ ہوتے ان آیات نے نازل ہونا تھا۔ لیکن ایسے وقت نازل ہوئیں جب موقعے کا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ تویہ ایک الگ مضمون ہے جس کو ان شاء اللہ میں بعد میں پھر پیش کروں گا۔باقی ساری بحثیں میرے خیال میں بے تعلق ہیں یا ایسی بحثیںہیں جن کے متعلق آپ پہلے سے جانتے ہیں ۔ درسوں میںان کا ذکر گزرچکا ہے۔ روح المعانی میں شجرکے جھگڑے ہونے سے متعلق ایک نکتہ یہ پیش کیا گیا ہے،فیما شجر بینھم اس میں درخت کو شجر کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کی شاخیں بھی آپس میں گڈ مڈ ہوئی ہوتی ہیں اورجھگڑے کیلے تشاجر کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ وہ دو جھگڑنے والوں کی باتوں میں اختلاف ہوتا ہے۔ ان کے دعووں میں فرق ہوتا ہے اور ان کی بعض باتیں بعض باتوں میں گڈ مڈ ہوگئی ہوتی ہیں۔ یعنی شاخوں میں جس طرح آپس میں الجھائو ہے اور کھول کر ان کو الگ الگ نہ کیا جائے تو بات نہیںکھلے گی۔ اس طرح جھگڑے کرنے والوں کابھی ایک درخت بن جاتا ہے اور ہر ایک کے مطالبے کی شاخ دوسرے کے مطالبے کی شاخ میں الجھ جاتی ہے اس لیے اس کو شجرکو جھگڑا کہا گیا ہے۔ یہاں علامہ آلوسی وہ حق بات کرتے ہیں جو دل کو تسکین دیتی ہے او ربالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں۔ اس آیت کا حکم یوم قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔کیسی عمدہ بات اور صحیح بات فرمائی ہے۔ اس آیت کا حکم یوم قیامت تک باقی رہنے والا ہے اورصرف ان لوگوں سے مخصوص نہیں ہے جو عہد نبویؐ میں موجود تھے۔ پس آپ کی شریعت کا فیصلہ دراصل آپ ہی کا فیصلہ ہے۔ اب یہاں کچھ تھوڑا سا الجھادیا گیا ہے بات کو ۔ اس میںکوئی بھی شک نہیںکہ یہ آیت کریمہ قیامت تک سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن شریعت اگر صرف مراد لی جائے تو شریعت تو اپنی جگہ قیامت تک کیلئے تعلق رکھتی ہی ہے کہ رسول اللہﷺ کا الگ ذکر کیوں ہے۔ اس بحث کو یہ سمجھ نہیںسکے مگر اتنا ضرور سمجھ گئے ہیں کہ اس آیت کا تعلق ہمیشہ کیلئے ہے۔ وجہ جو بیان کی ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ شریعت کا تعلق ہمیشہ کیلئے ہے وہ تو ہے ہی۔ رسول اللہﷺ کا اضافی حق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے اس کا تعلق بھی قیامت تک کیلئے ہے۔ یہ مضمون ہے جو اصل مضمون ہونا چاہیے تھا لیکن بہرحال بات ان کی سچی ہے کہ قیامت تک کیلئے ہے ۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں اگر ایک قوم ہو ، حضرت صادق رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک قوم ہو جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہو اور پابند صوم و صلوٰۃ ہو ، زکوٰۃ ادا کرتی ہو، بیت اللہ کا حج بھی کرتی ہے اور پھر کسی بات کے متعلق وہ یہ کہیں گے کاش! آنحضرتﷺ نے اس کی بجائے یوں کیا ہوتا۔ جس کام کے بارے میں اپنے نفسوںمیں تنگی محسوس کریں تو مشرک ہوجاتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ جو پابندی کرتے ہیں وہ تو شرک کی پابندی تو ہر ایک پر لازم ہے۔ اگر وہ یہ کہیں کہ کاش! آنحضرتﷺ نے اس کی بجائے یوں کیا ہوتا ، یہ اشارہ کررہے ہیں شریعت کی طرف۔ اگرشریعت میں رسول نے اس کی بجائے یہ کیا ہوتا تو گویا وہ خود رسول اللہ شارع بن گئے ۔ حالانکہ شارع تو صرف اللہ ہے اور تمام مفسرین یا اوّل درجے کے جو پہلے مفسرین ہیں ، فقہاء ہیں انہوں نے بلا استثناء اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ شارع صرف اللہ ہے۔ آنحضرتﷺ ہرگزشارع نہیں ہیں۔ پس کاش کیا ہوتا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ نے فیصلہ دے دیا ہے ، شریعت نازل ہوگئی۔ یہ جو بحثیں چل رہی ہیں ہیں یہ رسول اللہﷺ کے اضافی حق کے متعلق بحثیں ہیں ۔ اضافی حق جو لوگوں کیلئے نرمی پیدا کرنے والا ہے اگر شریعت کے ظاہر پر چلتے تو ان کیلئے سختیاں ہوسکتی تھیں مگر رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جو حسن احسان کا ایک اضافی حق شرعی امور میں عطا فرمادیا ہے یہ ساری آیات اس سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر کوئی اس حق کو رسول اللہﷺ کا حق سمجھتے ہوئے آپ کے قضائی فیصلوں کو بھی اسی طرح احترام سے دیکھے گا جیسے شریعت نازل ہے اور شریعت کے احکامات ہیں اس کے ساتھ خداتعالیٰ غیر معمولی سلوک فرمائے گا۔
اب ایک بحث یہ اٹھائی گئی ہے جو رسول اللہﷺ کو محبوب ترین ماننے یا محبوب ترین تسلیم کرنے کے بعد ایمان کا اصلی تقاضا پور ا ہوتا ہے یہ بحث ہے۔ ایک بات جو قرآن کریم میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ نص صریح کے طور پر درج ہے اس کیلئے انہوں نے بعض احادیث کو پیش کیا ہے اوران اصل آیات کو چھوڑ دیا ہے۔وہ آیت وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک رسول تمہیں ان سب سے زیادہ پیارا نہ ہو جو تمہاری پیارے وجود ہیں، تمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمہارا ہر محبوب، اس وقت تک تم ایمان کی حلاوت نہیں چکھ سکتے، نہیں جانتے کہ کیا چیز ہے۔ اور یہ آیت اتنی واضح اور صریح ہے اس کے بعد کسی دوسری آیات سے استنباط کرکے اس مضمون کو ثابت کرنے کی ضرورت کوئی نہیں۔ کیونکہ جو آیت صریح ہو اور اس مضمون میں اوّلیت رکھتی ہو اسی کا حوالہ کافی ہونا چاہیے اور یہ بات ثابت کرنے کیلئے کہ کیوں رسول اللہﷺ محبوب ہونے چاہئیں اس لیے کہ جھگڑوں میں لوگ لے کر جاتے تھے، یہ بالکل غلط بات ہے۔ جھگڑوں کے پاس جائو یا نہ جائو اصل بحث یہ ہے کہ اگرا پنی جان، مال، عزت ، اپنے عزیز و اقرباء سے زیادہ رسول اللہﷺ محبوب نہ ہوں تو گویا ہم نے ایمان کی حلاوت کا مزہ ہی نہیںچکھا۔ اب قمی جو شیعہ تفسیر ہے وہ یہ لکھتی ہے اصل کہتے ہیںیہ ہونا چاہیے تھا قرآن کریم میں جو نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ آیت ہونی چاہیے اصل میں۔ فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک یا علی۔ اے علی! تیرے ربّ کی قسم فلا و ربک رسول اللہﷺ کے ربّ کی قسم نہیں ہے۔ اے علی! تیرے ربّ کی قسم جب تک وہ تجھے حَکم نہ مان لیں وہ مومن نہیں کہلاسکتے۔ فیما شجربینھمیعنی ایسی بات جس میں انہوں نے تیرے خلاف تیرا حق غصب کرنے کیلئے پختہ عہدو پیمان کیا ہے انا للہ و انا الیہ راجعون۔آیت کریمہ کو کس طرح انہوں نے بگاڑ کے رکھ دیا ہے ۔ تحریف بھی ایسی ظالمانہ تحریف، کہتے ہیں یہ آیات اس آیت کے ساتھ مکمل نہیں ہیں یہ ہونا چاہیے تھا اس میںکہ اے علی! تیرے ربّ کی قسم ہے ، محمد رسول اللہ کے ربّ کی قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا لایجدوا فی انفھسم حرجا مما قضیت علیھم یا محمد علی لسانک ومن ولائک۔ اب یہاں علی سے خطاب محمد کی طرف پھر گیا ہے اور یہ معنے بنیں گے کہ اے محمدﷺ! وہ اس فیصلے سے اپنے نفسوں میں تنگی نہ پائیں جو تو نے اپنی زبان سے علی کی ولائت کے بارے میں ان کے خلاف کیا ہے اور علی کے بارے میں اس فیصلے کو تسلیم کرلیں۔کہتے ہیں اس آیت کریمہ کا یہ مطلب ہے ۔ یہ جو بحثیں آرہی ہیں اب یہ ساری باتیں بڑی تفصیل سے میں اپنے گزشتہ درسوں میں دہراچکا ہوں امر ولایت اور وہ وزیراس کے تالاب پر نصیحت۔ اور وہ جھوٹی روایتیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں اصل حوالے ہم نے چیک کیے ان میں موجود ہی نہیں تھیں باتیں اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا مسلک جن کے متعلق اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ یہ ولی ہے اور سارے جھوٹے ہیں دوسرے ان جھوٹوں کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اورا ن کے حکم پر سریات ہوئے ہیں ، لڑائیاں ہوئی ہیں ، ان میں آگے آگے جانا یہ سارے امور تفصیل سے میرے گزشتہ درسوں میں بیان ہوچکے ہیں۔ ان کے تکرار کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان آیات کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’اے پیغمبر! تمہارے ہی پرودگار کی قسم ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنے باہمی جھگڑے تم ہی سے فیصلہ نہ کرائیں اور صرف فیصلہ ہی نہیں بلکہ جو کچھ تم فیصلہ کردو اس سے کسی طرح دل گیر بھی نہ ہو ں بلکہ کمال اطاعت اوردلی رضامندی اور شرح صدر سے اس کو قبول کرلیں تب تک یہ لوگ ایمان سے بے بہرہ ہیں‘‘۔ یہ آگے جتنی روایتیں ہیں وہی امیر احمد علی کے اگر لغو کا لفظ استعمال کریں تو بیہودہ سرائیاں ہیں ان کو چھوڑ دیں،اٹھالیں۔
ولو انا کتبنا علیھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشد تثبیتاO النسائ: 67
اور اگر ہم انہیں یہ حکم دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو یا یہ کہ اپنے گھروں سے نکل جائو تو ان میں سے چند کے سوا باقی یہ کام نہ کرتے اور اگر وہ جس کام کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے اسے کرلیتے تو ان کیلئے بہتر اور زیادہ تثبیت کا موجب ہوتا۔ ولو انا کتبنا علیھم ان اقتلوا انفسکم اواخرجوا من دیارکم اس آیت میں ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو گائے کے ذبح کرنے کے تعلق میں یہودی امت میں پیش آیا اور موسوی امت میں پیش آیا اوراس میں جو حکم ہے فاقتلوا انفسکم اس آیت کی تفسیر بالکل اس سے مختلف ہے جو علماء نے سمجھی ہے اور اس اختلاف تفسیر کی وجہ سے اس آیت کے معنی کو بالکل دوسری طرف موڑ تے چلے گئے ہیں۔ آنحضرتﷺ کے تعلق میں جب یہ حوالہ دیا گیا ہے تو پہلے ضروری ہے کہ ہم اصل بات کو سمجھیں کہ ہوا کیا تھا۔ یہود نے جب نافرمانی کی تو اس کی سزا کے طور پر خداتعالیٰ نے فرمایا فاقتلوا انفسکم کہ تم اپنے نفسوں کو قتل کرو یعنی اپنی انانیت کو قتل کرو، تمہارے اندر جو غلط حکم دینے والا نفس امارہ اس کو ذبح کرو ۔ یہ ہرگز نہیں فرمایا کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردو اگر یہ حکم دیا ہوتا ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردو تو حکمت کلیتہً الٰہی کی دعوت سے اٹھادی جاتی۔ اتنی غلط بات بنتی ہے کہ چونکہ تم نے ایک معاملے میںصحیح فرمانبرداری نہیں کی اس لیے اب سب ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جائو۔ جو قتل کرتے کرتے آخر میں باقی بچیں گے ان کاکیا حال ہوگا کیا وہ خودکشی کرلیں پھر۔ اُقتلوا انفسکم کا یہ معنی بھی ہے کہ اپنی جان اپنے آپ کو بھی مارو، تو چھریاں مار مار کے مرجائو۔ یہ ہرگز قرآن کریم کا منشاء نہیں ہے اور اس بارے میں تفصیلی بحث میں پہلے کرچکا ہوں۔ اس لیے اس ساری بحث کو یہاں اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ آپ یاد رکھیں کہ علماء کی تفسیریں اس واقعہ کو اسی طرح تسلیم کرنے کے نتیجے میں بہک گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ نہیں کہا تھا کہ اور جواب کہا ہے یہ جو واقعہ ہے اس کے حوالہ سے ہونا چاہیے۔ اب یوں بنے گا ولو انا۔۔ ہوگیا؟ تو یہ آیت شروع ہی ہوتی ہے۔ اس کو ابھی کل کیلئے جاری رکھیں گے انشاء اللہ۔ اب یہ درس کے ہوتے ہوتے لعاب پھر واپس آنا شروع ہوگیا ہے۔ اب دیکھا ہے نا بیچ بیچ میں تر ہوتا جاتا ہے۔ تو وہ بات سچی ہے کہ آہستہ آہستہ اثر ہوتا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اچانک اندرسے لعاب بھر جاتا ہے۔ اور بعض آپ کے ہم پیشہ ڈاکٹر مجھے وہ کریمیں بھیج رہے ہیں کہ ہونٹوں پر لگائو۔بالکل بے تعلق بات ہے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں اس میں ۔ اچھا جی!
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
15رمضان المبارک 14 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ ۔
آج ہم نے سورۃ النساء کی آیت 67 پیش کرنی ہے۔ پہلے تلاوت کی ہوئی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جاری ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مواد اسی طرح پڑا ہوا ہے۔
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ولوانا کتبنا علیھم ان اقتلواانفسکم اواخرجوا من دیارکم ما فعلوہ الا قلیل منھم۔ ولوانھم فعلوا ما یوعظون بہ لکان خیرالھم واشد تثبیتا۔ جہاں تک لفظی معنیٰ کا تعلق ہے وہ میں پہلے دوسری آیات کے حوالے سے ان تمام الفاظ کی لغت کی تشریح کرچکا ہوں۔ اس لئے انہیں یہاں سے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً واعظ کے متعلق اور اقتلوا انفسکم کے متعلق جو مفسرین کی بحثیں ہیں وہ ہمارے لائق ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ بہت بعد کے مفسرین کی بحث اٹھائی ہوئی ہے۔ جس زمانے میں یہ خیال علماء کے دل میں جاگزیں ہوچکا تھا کہ یہود کو واقعتا ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم ملاتھا تو ان کی ساری تفسیریں اس مفروضے پر مبنی ہیں۔ اور یہ مفروضہ یہاں لگتا نہیں اس کو لگانے کی خاطر انہوں نے بڑا زور مارا ہے۔ لیکن لگ ہی نہیں سکتا۔ اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے تو میں ابھی ان تفسیروں میں نہیں جاؤں گا اس آیت کی تشریح کرکے آپ کو سناتا ہوں کہ یہ معنیٰ یہاں چسپاں ہوہی نہیں سکتا۔ اور اگر ہم انہیں یہ یہ حکم دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کردو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے چند کے سوا باقی یہ کام نہ کرتے۔ اگر یہود کو یہی حکم تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے تو اس آیت کا یہاں یہ معنیٰ بنے گا کہ ہم نے یہ حکم نہیں دیا کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو جبکہ یہود کو یہ حکم دیا تھا کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو یہود نے اس پر عمل درآمد کیا تم اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مطیع تم نے، تم ہوتے تو اس سے روگرداں ہوجاتے اور عمل درآمد نہ کرتے یہ مطلب نکلتا ہے۔ یہ ناممکن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ماننے والوں نے تو قربانیوں کی انتہا کردی۔ ہجرت، گھر چھوڑے تو اپنے گھر چھوڑنے کا حکم تھا گھر چھوڑدیئے۔ غزوات میں ساتھ چلنے کے لئے انتہائی خطرناک مواقع پر اپنی جانیں لے کر حاضر ہوگئے۔ احد میں کیا ہوا؟ خندق میں کیا ہوا؟ تو ان کو یہ کہنا کہ دیکھو تم پر احسان ہے کہ تمہیں یہ نہیں کہا گیا کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو اور گھروں سے نکلو۔ گھروں سے تو نکلے اور قتل کے لئے اپنے نفوس کو پیش کردیا۔ اس سے سوا ان سے کیا توقع ہوسکتی تھی؟ پھر ابھی یہاں اس موقع پر شکوہ ہے کہ اگر تمہیں یہ کہا جاتا تو تم ایسا نہ کرتے۔ کہا گیا اور کیا۔ لیکن یہود کی طرح نہیں کہا کہ ایک دوسرے کو مارنا شروع کردو اور وہ کہنا وہاں ہے ہی غلط وہاں یہ کہا ہی نہیں گیا تھا۔ یہود کو جو کہا گیا تھا وہ کچھ اور تھا تو اس لئے اس آیت کی تشریح میں تمام علماء نے ٹھوکر کھائی ہے اور بہانے تراشے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو اس کے ظاہری اطلاق سے نکال کے لے جائیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ یہ ناممکن ہے اگر عقیدہ یہ ہو کہ یہود کو واقعتا ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو یہ آیت کریمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شان کے خلاف ہے۔ اس کے حق میں نہیں ہے۔ اس لئے جو میں تشریح آپ کے سامنے کروں گا یہ آپ کو ان حوالوں میں کہیں نظر نہیں آئے گی۔ اور میرے نزدیک یہ سب بیکار ہیں۔ کیونکہ مفروضے پر مبنی ہیں اور جو میں تشریح کرتا ہوں اس کے سوامیرے نزدیک کوئی اور تشریح یہاں برمحل نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مدح میں بیان نہیں ہوسکتی ولوانا کتبنا علیھم ان اقتلواانفسکم اواخرجوا من دیارکم ما فعلوہ الا قلیلا منھم اب یہود سے کیا مطالبہ تھا پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے۔ یہود کو ان کی نافرمانی کے نتیجے میں سخت ترین سزا دی گئی تھی جو کہ توریت کا انداز ہے۔ ہلکی بھی ہوسکتی تھی لیکن ان کو بہت سخت سزا دی گئی اور سزا کا مقصد یہ تھا کہ تم اپنے اوپر اپنی ساری جائز چیزیں حرام کرلو۔ اقتلوا انفسکم کا یہ مطلب ہے۔ جو تمہارے لئے جائز بھی قرار دیا گیا تھا وہ اپنے اوپر حرام کرلو کیونکہ اس کے سوا اب تم اپنی گناہوں کی پاداش نہیں چکھ سکتے اور اتنی سخت سزا تھی۔ اقتلوا انفسکم کی کہ یہود اس پر پورا نہیں اتر سکتے تھے سوائے چند کے۔ پس تمام کے تمام اللہ کے نزدیک ان معنوں میں گناہ گار ٹھہرے کہ جو نفس کی سختی کا حکم ان کو دیا گیا تھا وہ اس کو سرانجام نہیں دے سکے بجا نہیں لاسکے سوائے چند تھے حضرت موسیٰ کے ساتھ جنہوں نے اپنے آپ پر ہر قسم کی سختی برداشت کی اور حضرت موسیٰ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حوالے سے یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ کہ یہ اتنا احسان کرنے والا رسول ہے اور خدا کی ملکیت کے اندر خدا نے اسے ان معنوں میں شامل کرلیا کہ جو سختی کے تقاضے تھے ان میں اس کی دل کی نرمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ ان سے نرم سلوک کرے۔ پس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کہیں بھی رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے شریعت کے سخت پہلوؤں کا تقاضہ نہیں کیا ان کے نرم پہلوؤں کا تقاضہ کیا ہے یہ جب آپ سمجھ لیں تو سارا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ تمام امور میں ہمیشہ جہاں سختی کا پہلو موجود تھا اختیار کیا جاسکتا تھا وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے بلااستثناء نرمی کا پہلو اختیار فرمایا ہے روزے رکھنے کے متعلق حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مثال دی اور پھر بار بار اپنی عبادت کے رنگ میں نرمی اختیار کی تاکہ لوگوں پہ مشقت نہ پڑے۔ یہ تعلیم دی تھوڑا سا صبح چلو تھوڑا سا شام چلو تھوڑا سا آرام کرو۔ غرضیکہ بے شمار احادیث ہیں جو اس مضمون پر روشنی ڈال رہی ہیں۔ ان کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا کیونکہ دھیان وہ یہود کے قتل کی طرف گیا ہے۔ ان احادیث کو دیکھیں تو یہ مراد ہے کہ دیکھو کتنا عظیم الشان رسول ہے جو ہر معاملے میں تم سے سب سے نرمی کا سب سے زیادہ نرم پہلو کو اختیار کرتا ہے۔ اور تمام تعلیم اور تمام اسوہ اس بات سے بھرا پڑا ہے اس لئے اگر رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی نصیحت کو ہی اپنا حرض جان بنائیں تو ان کا دین آسان ہوگا ان کا دین مشکل نہیں ہوسکتا اورا س آسان دین پر عمل درآمد ممکن ہے۔ یہ پہلو ہے جو ولوانھم فعلوا ما یوعظون بہ لکان خیرا لھم واشد تثبیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ یہ بات سمجھ لیتے اور اختیار کرتے تو ان کو ثبات قدم عطا ہوتا کیونکہ نسبتاً روزمرہ نرم تعلیم پر عمل کرنا آسان ہے۔ اور اس پر ثبات قدم ہوسکتا ہے۔ پس ان لوگوں نے یہ ظلم کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو سمجھ نہیں سکے یعنی منافقین تو سمجھ سکتے ہی نہیں تھے مگر بالعموم جن لوگوں نے بھی کبھی اعتراض کیا خواہ منافقوں کے زمرے میں نہ بھی شمار ہوں وہ رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اس عظیم شان کو نہیں سمجھ سکے کہ آپ نرمی کی طرف مائل رہے ہیں۔ اور ہمیشہ نرمی کی طرف مائل ہونے کے نتیجے میں دین کو آسان بنادیا۔ الدین یسر۔ دین آسان ہے اس کو مشکل نہ بناؤ تمام زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اسی کی تعلیم دی ہے۔ اور یہ وہ ضروری چیز تھی جس کے نتیجے میں لکان خیرالھم واشد تثبیتا اگر وہ اس بات کو سمجھ لیتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اس مقام کو تو ان کو تعلیم پر عمل کرنا آسان بھی ہوتا اور وہ ہوتی بھی تعلیم الٰہی یہ نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی آسانی پیدا کرلی گئی ہے اور ثبات قدم نصیب ہوتا۔ اس واضح تشریح کے بعد کسی دوسری تشریح کی اس میں سے ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ یہود کی طرف لے جاتیں ہیں۔ اور کچھ نہ کچھ غلط معنی اختیار کرکے پھر واپس اس طرف لوٹتی ہیں۔ اورا س آیت میں وہ معنی ٹھیک بیٹھتا ہی نہیں۔ (ٹھیک ہے یہ سنبھالیں)
واذالاتینھم من لدنا اجرا عظیما اور اس صورت میں ہم انہیں یقینا اپنے پاس سے بہت بڑا بدلہ دیتے۔ کس صورت میں؟ اس صورت میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی حقیقت کو سمجھتے آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اعلیٰ مقام کو سمجھتے اور جو تعلیم کا نرم پہلو اختیار فرمایا ہے اس کو ضرور بجالاتے اور اس صورت میں ہم ان کو باوجود اس کے کہ وہ اپنی ذات میں بھی اجر ہے یعنی تعلیم کا نرم ہونا ایک اجر ہے جس پر انسان آسانی سے عمل کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور اجر بھی ہم دیتے من لدنا خاص اپنی طرف سے۔ اور اجرعظیم وہ ہے جو ہماری طرف سے اس نرمی کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجے میں پھر ایک فضل کے طور پر نازل ہوگا اور وہ بہت بڑا فضل ہے۔ یہ اس کا تعلق ہے پچھلی آیت سے۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ پرانے علماء نے اس سلسلے میں کیا فرمایا ہے۔ حضرت ابن عربی جو ایک صوفی بزرگ ہیں وہ قتل نفس کا معنی وہی روحانی طور پر اپنے اوپر سختی مراد لیتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ یہ اجرعظیم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظہور کی صورت میں ان کے قتل نفس کے وقت انہیں ملا۔ یعنی قتل نفس کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ نے اور نفس کے قتل کرنے سے مراد یہ خودکشی نہیں لے رہے۔ بلکہ روحانی لحاظ سے سختی اختیار کرنے کا معنی اس میں مضمر ہے۔ طبری میں صرف اجر سے مراد ثواب عظیم۔ اب یہاں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ من عندنا من لدنا۔ من عندنا۔ یعنی الجنۃ حالانکہ اجر عظیم میں تشریح اگلی آیت میں آنی تھی وہ اجرعظیم کیا ہے؟ اور جنت مراد نہیں ہے یہاں۔ سب من لدن کا وہی ترجمہ جو سب کو معلوم ہے وہی کررہے ہیں کہ ہماری طرف سے۔ کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس پہ بحث کی جائے۔ ولھدینٰھم صراطا مستقیما اب اجرعظیم کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ من لدنا اجرا عظیما کیا دیں گے۔ ولھدینٰھم صراطا مستقیما اور وہ اجر یہ ہوگا کہ ہم انہیں صراط مستقیم پر ڈال دیں گے۔ وہ صراط مستقیم کون سی ہے؟ جس کا سورۃ فاتحہ میں ذکر ہے۔ وہ صراط مستقیم وہ ہے جس راہ پر درجہ بدرجہ انسان صالح، شہید، صدیق اور نبی تک بن سکتا ہے۔ یہ تسلسل ہے مضمون کا اور اب دوبارہ آنکھیں کھول کر پڑھیں تو اس تسلسل کا انکار ممکن ہی نہیں ایک آیت دوسرے کے مضمون کو اٹھاتی ہے۔ پھر آگے چلاتی ہے۔ پھر اس سے آگے پھر اس سے آگے یہاں تک کہ اس نے اس آیت میں ضرور داخل ہونا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ ومن یطع اللہ والرسول فاولٰٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم۔ وہاں جاکر اس مضمون کی تان ٹوٹے گی اور صحیح مضمون میں آپ داخل ہوجائیں گے۔ اب بلااستثناء شروع سے آخر تک یہی روانی ہے۔ آیات میں جو ایک کا مضمون پکڑتی ہے جیسے میڈلے ریس میں ایک سوٹی کو ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے اور پھر اگلی پارٹی کے سپرد کردیا جاتا ہے اسی طرح آیات یہ کام کررہی ہیں۔ رفتہ رفتہ آپ کو اس آیت کی طرف لے جارہی ہیں جہاں من یطع اللہ کا ذکر ہے۔ ولھدینٰھم صراطا مستقیما۔
وفقنٰھم لصراط المستقیم۔ طبری نے لکھا ہے۔ ہم ضرور ان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دیں گے۔ صراط مستقیم پر چل کے تو یہاں پہنچے ہیں۔ لیکن آگے کیا مراد ہے؟ کیوں دوبارہ صراط مستقیم کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے؟ اس بحث کو یہ نہیں اٹھاتے۔ اب چونکہ وہ صراط مستقیم جس پر نبی تک انسان سفر کرسکتا ہے وہ اس زمانے کے لوگوں کو منظور نہیں تھی وہ صاف بات سے بہک چکے تھے۔ اس لئے سب نے یہ ترجمہ یوں کرنے کی کوشش کی ہے۔ صراط مستقیم سے مراد جنت کی طرف رہنمائی ہے۔ بائی پاس کرگئے ہیں اس آیت کو اور مراد یہ لیتے ہیں کہ جنت میں لے کے جائیں گے تو جنت میں تو اس سے پہلے بھی وعدے چلے آرہے ہیں۔ جو یہ کام کرتے ہیں۔ ان کو شروع سے ہی بار بار جنت کی خوش خبریاں دی جارہی ہیں۔ اس لئے اسے جنت میں جو پہنچایا گیا ہے ایک بائی پاس کے ذریعے۔ تو اس آیت سے گھبرانے کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ صراط مستقیم اس آیت میں داخل ہوتی تو سارا مضمون بدل جاتا اور وہ مضمون انہیں قبول نہیں تھا۔ اس لئے یہ کہتے ہیں ایک ایسی صراط مستقیم ہے جو جنت کی طرف لے جائے گی۔ اب یہ رستہ سن لیں کون سا ہے اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ یہ وہ رستہ ہے جو قیامت کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔ اب قیامت کا میدان کون سا ہے جس سے ہوکر یہ رستہ گزرتا ہے۔ قیامت کے جو نقشے کھینچے گئے ہوئے ہیں قرآن کریم میں وہ تو بالکل اور ہیں۔ اور بالکل واضح ہیں اس لئے یہ وہ رستہ ہے جو قیامت کے میدان سے ہو کر گزرتا ہے یہ ایک فرضی قصہ ہے۔ ابن عربی نے وہی اعلیٰ درجہ کے فلسفیانہ اور صوفیانہ معنی فرمائے ہیں آپ فرماتے ہیں یعنی نفس کی منازل اور مقامات سے اور اس طریق سے مراد طریق وحدت ہے اور توحید پر استقامت ہے یعنی نفس کی منازل سے گزریں گے وہ یہ صراط مستقیم ہے۔ تمام تفاسیر وہی بائی پاس کررہی ہیں جس کا میں نے اشارہ کیا ہے۔ وہ اگلی آنے والی آیت سے یہ مفسرین گھبرا رہے ہیں۔ کیونکہ اگر اس کا برحق ترجمہ کیا جائے تو اس کے سوا معنی ظاہر نہیں ہوتا جو جماعت احمدیہ کا موقف ہے۔ آگے تفصیل۔ پھر کیا ہوگا۔ اس رستے پرچلتے ہوئے باغات میں داخل ہوں گے۔ سارے یہ حوالے بیکار ہیں اس پہلو سے وجہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اب میں آیات کے اس تسلسل کو بیان کرتا ہوں جو میں پہلے مختصراً ذکر کرچکا ہوں کہ یہ ساری آیات اس آیت کریمہ میں داخل ہوتی ہیں۔ اصل رستہ یہ ہے جو اس آیت میں داخل ہوتا ہے۔ اور وہ یہ ہے۔
(تلاوت) اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصٰلحین۔ وحسن اولئک رفیقا۔ اور جو لوگ بھی اللہ اور اس رسول (یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم) کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ مع الذین کا ترجمہ تفسیر صغیر میں کیا گیا ہے وہ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا۔ اگر اس کو کھلا چھوڑ دیا جائے اور ساتھ ہی ترجمہ کیا جائے جیسا کہ غیراحمدی علماء اصرار کرتے ہیں تو پھر یہ بنے گا۔ ’’پس یہی لوگ ہوںگے جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا۔‘‘ لیکن ساتھ کا معنیٰ من بھی ہواکرتا ہے اور ساتھ کا معنی شریک محفل بھی ہوا کرتا ہے تو قرآن کن معنوں میں یہاں ساتھ کا لفظ استعمال فرمارہا ہے۔ اگلی آیت اس کی تشریح فرمارہی ہے۔ ای من النبیٖین والصدیقین وہ ساتھ ہوں گے صرف شریک محفل ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ مرتبے کے لحاظ سے وہ نبیوں میں داخل ان میں سے بعض نبی ہوں گے۔ بعض صدیق ہوں گے۔ بعض شہید ہوں گے۔ بعض صالح ہوں گے۔ من النبیٖن والصدیقین میں اس آیت میں جو مراتب ہیں ان کی طرف بالعموم اشارہ فرماکر ان لوگوں کو ان لوگوں میں سے کسی ایک کے ساتھ منسلک فرمادیا گیا ہے۔ یعنی نبی جو نبی ہوگا وہ من النبیٖن کا عنوان جو ہے وہ اس کو کور (Cover) کرے گا۔ جو صدیق ہوں گے ان میں سے صدیق کے تابع آئیں گے۔ جو شہید ہوں گے وہ شہید کے اور جو صالحین ہیں وہ صالحین کے تابع۔ یہ آیت ہے جو کھلم کھلا خاتم النبیٖن کی تشریح کرتی ہے اور ایک ایسی اعلیٰ تشریح کرتی ہے کہ اس سے بہتر تشریح ممکن نہیں ہے۔ یہاں خاتم النبیٖن کو تمام فیوض سے روکنے والا نہیں بیان کیا گیا۔ بلکہ تمام فیوض کو جاری کرنے والا بیان کیا گیا ہے۔ پہلے اس سے دستور یہ تھا کہ جو بھی نبیوں کی تعلیم پر عمل کرتے تھے ضروری نہیں تھا کہ ان کی اس تعلیم کی وجہ سے ان کو بڑے بڑے مراتب عطا کئے جاتے لیکن اس کے باوجود گزشتہ زمانوں میں یہی ہوتا رہا ہے۔ کہ جن لوگوں نے بھی اپنے وقت کے رسولوں کی اطاعت کی ہے انہیں میں سے نبی بھی پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں میں سے صدیق بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اور اسی طرح یہ مضمون صالحین تک پہنچتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ انبیاء کی اطاعت سے تو اللہ تعالیٰ بعضوں کو نبی بناتا تھا جن کو مناسب سمجھتا تھا حالانکہ ان سے تقاضے ادنیٰ ہوا کرتے تھے۔ یعنی اطاعت کا وہ رنگ ان میں نہیں ڈھونڈا جاتا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت میں ڈھونڈا گیا ہے اس کے باوجود ان لوگوں کو اللہ نے کسی مرتبے سے محروم نہیں رکھا یہ ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی دنیا کا عالم انکار نہیں کرسکتا۔ تمام گزشتہ انبیاء کے متبعین کو اللہ تعالیٰ نے نبی بھی بنایا اور صدیق، شہید، صالح بھی بنایا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ آیت کیا اس کے برعکس مضمون پیش کررہی ہے کہ محمد رسول اللہ کے متبعین سے یہ درجے یا بعض ان میں سے چھین لئے گئے ہیں۔ یہ بحث ہے صرف۔ علماء کے نزدیک نبوت کا درجہ چھین لیا گیا ہے۔ اور اسی وجہ سے مع کا معنی ایساکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ نبوت کسی طرح اس میں سے نکل جائے۔ اور معیت کا ایسا معنی لیتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متبعین کی گستاخی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی گستاخی ہے۔ اس کا یہ مطلب بنے گا کہ گزشتہ زمانوں میں توہمارا دستور تھا یعنی اللہ یہ کہہ رہا ہے گویا کہ ہمارا دستور تھا کہ انبیاء کے متبعین میں سے بعضوں کو ہم نبی بھی بنادیا کرتے تھے۔ بعضوں کو صدیق، بعضوں کو شہید حسب مراتب۔ لیکن یہ دستور اب بدل چکا ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم آگئے ہیں۔ اس لئے آپ کے آنے کے بعد آپ کا کوئی متبع نبی نہیں بن سکتا۔ پس پہلے مقامات کو آگے لے جانے والا نبی نہیں بلکہ ان کو گھٹانے والا نبی ہے۔ اور اس کے متبعین کم سے کم ایک نعمت سے ضرور محروم کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ اس نعمت کے متعلق وعدہ تھا اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم اور اس میں کوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں لگائی گئی تھی۔ کوئی روک نہیں ڈالی گئی۔ یہ معنی ہے جو ان لوگوں کے اصرار کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے اور اس معنی کو ہم ہرگز قبول نہیں کرسکتے کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شان کے خلاف ہے اور اس آیت کے الفاظ کریمہ کے خلاف ہے۔ جو اس معنی کو رد کررہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا مرتبہ اور مقام رحمتیں اور فضل بند کرنے والا نہیں بلکہ رحمتیں اور فضل جاری کرنے والا ہے۔ پس اس آیت کریمہ کا وہی معنی نکلے گا جو خاتم کے لفظ کے ساتھ پوری طرح مطابقت رکھتا ہو اور خاتم کی بحث میں میں اس سے پہلے بارہا ذکر کرچکا ہوں کہ خاتم میں فیض کا اجراء مراد ہے۔ فیض کو ختم کرنا مراد نہیں۔ کیونکہ خاتم کا جو بھی آپ معنی کرکے دیکھیں بنیادی طور پر خاتم وہ مہر ہے جیسی یہ مہر جو اس پہ چسپاں ہے۔ وہ دوسرے پر چسپاں کردے گی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم خاتم ہیں ان معنوں کی رو سے کہ آپ کی مہر نے لوگوں کو نبوت عطا کی ہے۔ اور جتنے بھی نبی ہیں اگر اس پہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خاتمیت کی مہر ہے تو وہ نبی ہیں ورنہ نہیں ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خاتمیت میں انبیاء کی تمام بنیادی صفات موجود ہیں۔ اور وہ صفات ہیں جن پر پہلے جتنے بھی نبی آئے ہیں وہ ان صفات کے حامل تھے۔ یعنی نبی کے لئے جو بنیادی شرط ہے کہ وہ اپنی طرف سے بات نہ کرے جو اس پر نازل ہورہا ہے وہی آگے بیان کرے خداتعالیٰ کی طرف سے امین مقرر ہو اور امانت کا حق ادا کرے۔ یہ وہ بنیادی شرط ہے نبوت کی جو بدرجہ اتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم میں موجود ہے۔ لیکن گزشتہ انبیاء بھی ان صفات کے حامل تھے اور وہ تمام انبیاء بھی ان صفات کے حامل تھے جن کا ذکر قرآن کریم میں موجود نہیں ہے۔ دنیا کے پردے پہ نظر ڈال کے دیکھ لیں بے شمار نبی آئے ہیں۔ اگر آپ نے ان کی نبوت کو پرکھنا ہو تو مہر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے پرکھو اگر وہ نشان ملتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی نبوت کے اندر مرکزی نشانات ہیں تو پھر ان کو نبی کہا جاسکتا ہے اور ان کی پہچان اس مہر سے ہوگی اس مہر کے علاوہ ان کی کوئی اور پہچان نہیں ہے۔ یہ پہلو وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو تمام دیگر نبیوں سے بالا قرار دیتا ہے۔ کیونکہ جتنے بھی پہلے نبی گزرے ہیں ان میں سے ایک نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میری مہر سے باقی نبیوں کو پہچانو بلکہ اب بگڑی ہوئی صورت میں ان کے دعوے ایسے موجود ہیں کہ ہماری مہر سے اپنوں کو پہچانو اور باقیوں کو رد کردو چنانچہ انبیاء میں کسی نبی کا آپ نام آپ ذہن میں رکھیں اس نے کبھی کسی اور قوم کے نبی کی تصدیق نہیں کی۔ کوئی ایک دکھاؤ۔ عیسائیوں کو لے لو۔ یہود کے سب فرقوں کو لے لو اس سے پہلے انبیاء کو لے لو۔ کسی نے بھی تمام عالم پر ظاہر ہونے والے انبیاء کی تصدیق نہیں فرمائی۔ کیونکہ ان کو ضرورت نہیں تھی وہ محدود قوموں کے لئے تھے۔ ایک ہی نبی ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جنہوں نے کل نبیوں کی تصدیق فرمائی ہے یہاں تک تصدیق فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اوپر ایمان لانے کے لئے یہ شرط مقرر ہوگئی کہ اگر ایک اور بھی نبی پر ایمان نہیں لاؤ گے تو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر ایمان نہیں لاؤگے۔ اپنے اوپر ایمان لانے کو اس شرط کے ساتھ باندھ دیا ہے کہ اگر تم میرے پر ایمان لاتے ہو تو میں تو سب کا مصدق ہوں جس کا میں مصدق ہوں اس پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ اگر مجھ پر ایمان لاتے ہو اور مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکار کرتے ہو تو تمہارا مجھ سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ اگر مجھ پر ایمان لاتے ہو اور موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان نہیں لاتے یا کرشن علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نہیں لاتے یا بدھ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نہیں لاتے یا دیگر انبیاء جو مختلف بھیسوں میں ظاہر ہوئے ان پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے کاٹے گئے۔ اس کو کہتے ہیں تصدیق۔ یہ تصدیق دنیا میں کبھی کسی نے نہیں کی اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خاتمیت کا یہ تقاضا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تمام انبیاء کی تصدیق فرماتے اور جو اس تصدیق میں آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھ شامل نہ ہوتا اس کو اپنے سے کاٹ کے الگ کردیتے۔ پس یہ زمانے سے آزاد ایک کیفیت ہے ہر زمانے کے لئے۔ آئندہ زمانوں کے لئے بھی۔ پہلے زمانوں کے لئے بھی۔ جس کی آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے تصدیق فرمائی وہ نبی ہے جس کی نہیں فرمائی وہ نبی نہیں ہے۔ یہ معنیٰ اس آیت میں مزید اٹھایاگیا ہے۔ اب پہلے معنے کی رو سے سوال ایک پیدا ہوتا ہے کہ پھر پہلے انبیاء کے ماننے والوں میں کثرت سے نبی کیوں نہیں ملتے؟ تو اس کی وجہ میں پہلے بارہا بیان کرچکا ہوں کہ تصدیق شرط ہے اس لئے جو بھی نبوت کا دعوے دار ہوگا اس کا فرض ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی تصدیق دکھائے بڑے بڑے بزرگ اولیاء پیدا ہوئے ہیں۔ محدثین پیدا ہوئے ہیں جن میں نظر غائر سے نبوت کی علامتیں ملتی ہیں۔ اور گزشتہ امتوں میں جو بڑے سے بڑے نبی گزرے ہیں ان کے برابر امت محمدیہ میں محدثین ملتے ہیں جو وہ تمام شانیں اپنے اندر رکھتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ جو بائیبل کے نبیوں میں مذکور ہیں۔ اگر انصاف کی آنکھ سے دیکھ کر امت محمدیہ کے بزرگوں کا موازنہ پہلے نبیوں سے کریں جن کو بائیبل نے نبی قرار دیا تھا پھر آپ انصاف سے موازنہ کرکے دیکھ لیں کہ آپ کو کون نبوت کی شان میں زیادہ عظیم دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ سارے محدثین تمام اولیاء اللہ اور تمام وہ بزرگان جن کی بات میں کررہا ہوں بالجملہ کررہا ہوں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس نے عالمی ہونے کا دعویٰ کیا ہو جس نے یہ کہا ہو کہ میں کل عالم کو اسلام کا پیغام پہنچانے والا ہوں۔ اور اس سلسلہ میں اس نے ایک جہاد عام کیا ہو۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے نبوت کا معیار بلند کردیا ہے اب معیار کے ساتھ وقتی نبوت اور علاقائی نبوت نبوت نہیں کہلاسکتی۔ اب وہی نبوت نبوت کہلائے گی جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی متابعت میں کل جہانوں کے لئے ہو۔ لیظھرہ علی الدین کلہ کا مظہر ہو سارے جہانوں کو اسلام کے زیرنگیں کرنے والی نبوت ہو۔ ایسا شخص صرف ایک ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے تصدیق فرمائی ہے۔ کہیں اس کو عیسیٰ کہا گیا ہے کہیں اس کو مہدی کہا گیا ہے مگر ہر صورت میں پیغام یہی دیا گیا ہے کہ یہ شخص جو نبی ہوگا یہ کل عالم میں میرے کام کو اسی طرح پھیلائے گا اسلام کی ترقی جہاں رک گئی ہے وہاں سے اٹھا کر آخر تک تمام دنیا پر اسلام کو محیط کرنے کے لئے اور تمام ادیان پر اسلام کو محیط کرنے کے لئے ایک جدوجہد کا آغاز کرے گا۔ یہ ہے خاتمیت کی اصل پہچان کہ خاتمیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اس تصدیق ہی کا نام ہے اور یہ تصدیق سب نبیوں کو حاصل رہی آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت میں اس تصدیق کے لئے ایک ایسے وجود کوچنا گیا جس نے کلیۃً آپ کے رنگ اختیار کرنے تھے اور اسلام کو ازسرنو ادیان باطلہ پر غالب کرنا تھا اس کے سوا کسی اور کے لئے یہ استعمال ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ پس اس پہلو سے اس بحث کو میں پہلے کئی دفعہ اٹھابھی چکا ہوں مختلف صورتوں میں مگر اب اس آیت کے حوالے سے آپ کو یاد دہانی کروارہا ہوں ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم کا مطلب یہ بنے گا پس جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا پس مع الذین انعم اللہ علیھم ایسا اطاعت کرنے والا ان لوگوں کے گروہ میں شامل ہوگا جن کے اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام فرمائے یعنی کن معنوں میں شامل ہوگا من النبیٖن نبیوں میں سے ہوگا مع النبیٖن نہیں فرمایا۔ اب مع کی تشریح من کے الفاظ نے کردی۔ مع کن معنوں میں یعنی ساتھ ساتھ پھرنے والا۔ مجلس میں شریک۔ فرمایا نہیں من النبیٖن یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مطیع نبیوں میں سے ہوں گے والصدیقین والشھداء والصالحین اور صدیقوں میں سے ہوں گے اور شہداء میں سے اور صالحین میں سے ہوں گے۔ اگر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متبعین نبی ہوں گے تو پہلے نبیوں سے بڑھ کر ہوں گے کیونکہ محمد رسول اللہ کی صفات کے جامع ہوں گے ورنہ نبی نہیں قرار دے سکتے۔ بعینہٖ یہی معنی بعض گزشتہ بہت بلند پایہ علماء نے فرمائے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت میں جو مرتبے عطا کئے گئے ہیں خصوصاً وہ جو مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل ہوں وہ پچھلے تمام آئمہ سے اور بزرگوں سے بڑھ کر ہوں گے اس لئے کہ وہ شخص جس کو الام المھدی کہا جائے گا یا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لقب سے مخاطب کیا جائے گا وہ حضرت محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی تصویر ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اخلاق کو اپنا کر آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شکل اختیار کرنے والا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں یہ کیسا جاہلانہ خیال ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی تصویر بن جائے اورر پہلے نبیوں سے ادنیٰ ہو گویا نعوذباللہ من ذالک یہ صورت ادنیٰ ہے۔ یہ اخلاق کا ڈھانچہ جس کی پیروی کرکے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مشابہ بننے کی کوشش کرتا ہے اگر یہ اصل ادنیٰ نہ ہوتو پھر اس کی نقل اتار کے بالکل وہی شکل اختیار کرنے والا ادنیٰ کیسے ہوگیا اور اگر وہ ادنیٰ ہے تو پھر پہلے تمام انبیاء سے یہ بھی ادنیٰ بنا۔ کیونکہ اس کی شکل ادنیٰ بنی اور خود بھی پھر ادنیٰ ہوگیا نعوذباللہ من ذالک۔ یہ ایک کفر کی بات ہے۔ چنانچہ شیعہ مفسرین تک نے بھی یہ لکھا اور تسلیم کیا کہ ہمارے آئمہ سے بھی بڑھ کر جو الام المھدی ہے اس وجہ سے بڑھ کر ہے کہ وہ محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ایک سچے نسخے کی اک تصویر بنی ہوئی ہے۔ جس کو ہم آجکل ہم عکس لیتے ہیں ناں تصویروں کا True کاپی۔ وہ True کاپی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں True کاپی ہوگا اس لئے ہمارے ائمہ سے لازماً بڑھ کر ہوگا۔ یہ وہ مضمون ہے جس کے ساتھ معیت کا مضمون اور بعد میں آنے والا فقرہ آپ کو سمجھ آئے گی۔ اگر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے غلام نبی ہوں تو وہ نبوت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے نبی ہوں گے اور اس پہلو سے وہ لازماً پہلوں سے اعلیٰ ہیں۔ (ٹھیک ہے) اگر وہ صدیق ہوں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو پہلے تمام صدیقوں سے وہ افضل ہیں۔ اگر وہ شہید ہیں جیسا کہ شہداء کا حال آپ جانتے ہیں تو گزشتہ تمام شہداء سے وہ افضل ہیں۔ کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متبعین ہیں۔ یہاں معیار اونچا کردیا گیا ہے اور اگر صالحین ہیں تو بحیثیت صالحین بعض صالحین نبی بھی ہیں وہ الگ مسئلہ ہے۔ بحیثیت صالحین چوتھے درجے کے لحاظ سے یہ گزشتہ تمام صالحین سے جو پرانے انبیاء کے پیچھے چل کر صالح بنے تھے ان سے افضل ہے۔ (ٹھیک ہے) اگر یہ ہے تو حسن اولئک رفیقا سے کیا مراد ہے؟ یہ لوگ ہیں جو بہترین ہیں۔ ان کی رفاقت بہترین ہے۔ جن لوگوں کو ان کی رفاقت نصیب ہوگی وہ خوش نصیب ہیں۔ اگر یہ معنیٰ نہیں لیا جائے اور جیسا کہ دوسرے علماء نے اس مضمون کو پھیرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے کہ یہ سارے (وحسن اولئک رفیقا) یہ پہلے لوگوں کے رفیق ہوں گے جو نبی گزرے یا شہید ہوئے اور کیسی عمدہ رفاقت ہے ان کی۔ پرانوں کو ان پر فخر ہونا چاہئے کہ ہمیں ان کی رفاقت نصیب ہوئی ہے۔ نہ کہ ان کو پرانوں پر۔ کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھیوں کا مرتبہ تو بہت بلند ہے۔ اس لئے حسن اولئک رفیقا میں یہ علماء یہ چکر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ثابت کیاگیا ہے کہ یہ لوگ ساتھی کے طور پر تو ٹھیک ہیں مگر جو گزشتہ گزرے ہوئے ہیں ان کا ساتھ ان کو نصیب ہوگا۔ پرانے نبیوں کے ساتھ ہوں گے۔ پرانے شہیدوں، صادقوں کے ساتھ ہوں گے اور کیسا عمدہ ساتھ ان کو ملا ہے۔ حالانکہ ان کو ساتھ ملا ہے۔ جو پرانے لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں گے ان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے غلاموں کے ساتھ شریک کردیئے گئے۔ اب اس آیت کی تفصیلی بحث میں میں پڑتا ہوں۔ مختلف علماء نے جو بحثیں اٹھائی ہیں وہ چھیڑ کر پھر میں معیت کی سب قسموں کا ذکر میں کروں گا اور حوالے دوں گا۔ المفردات میں لکھا ہے کہ یہ اجتماع چار طرح سے ہوسکتا ہے۔ دونوں ایک مکان میں اکٹھے ہوں دونوں ایک زمانے میں اکٹھے ہوں دونوں ایک اضافی معنی میں شریک ہوں دونوں ایک درجہ اور مرتبہ میں یکساں ہوں۔ یہ چار امکانات ہیں جو امام راغب نے اس سے لئے ہیں۔ ایک فرضی روایت یہ بیان کی گئی ہے۔ معجم الکبیر للطبرانی میں جس کا فرضی ہونا واضح ہے اور دوسرے علماء نے اس کو پکڑا ہے کہ بالکل فرضی بات ہے۔ حقیقت حال سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ روایت بیان کرتی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم آپ تو جنت میں ہوں گے نبیوں کے ساتھ اور آپ کے ساتھ اعلیٰ درجے کے لوگ ہوں جو مقام بالا میں رکھے جائیں گے اگر میں جنت میں چلا گیا تو ڈرتا ہوں کہ آپ کا دیدار نہ کرسکوں گا کیونکہ میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں گا۔ (اس کا مطلب ہے) ابھی آنحضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اسے جواب نہیں دیا تھا کہ جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے ساتھ نازل ہوئے۔ ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیٖن والصدیقین والشھداء والصالحین۔ (معجم الاوسط للطبرانی) کہ اس آیت کا منطوق صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھ رکھے جائیں گے مرنے کے بعد اور جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ آیت اس وقت ظاہر کی جب یہ سوال ہورہا تھا۔ امام فخرالدین رازی اس پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ہم ان روایت کی صحت کا انکار نہیں کرتے مگر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آیت کے نزول کا سبب اس سے بہت بڑا ہو۔ اب امام فخرالدین رازی بہت سی روایات پہلوں کی لے چکے ہیں جن کا انکار کرنے سے ان کو مشکل پیش آسکتی تھی۔ اس لئے یہ ایک بڑا اچھا عذر تراشا ہے کہ چلو ہم انکار تو نہیں کرتے لیکن آیت کے نزول کا سبب اس سے بہت بڑا ہے۔ یہ نزول کا سب ہو نہیں سکتا اور وہ ہے اطاعت کی طرف مائل کرنا اس کی ترغیب دلانا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ سبب کا خاص ہونا عمومی معنے لینے میں معیوب نہیں ہے۔ پس ایک عام آیت ہے جو تمام مکلفین کے حق میں ہے اور وہ حق یہ ہے کہ جو کوئی بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کے نزدیک عالی درجات اور بڑے مراتب کے حصول میں کامیاب ہوگا۔ غرضیکہ امام رازی چاہے کسی عذر سے اس معنوں کو رد کریں وہ اس معنوں کو رد کرتے ہیں۔ یہ معنی مراد نہیں ہوسکتے۔ ابوحیان اندلسی فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کا فرمان مع الذین انعم اللہ علیھم اللہ تعالیٰ کے قول صراط الذین انعمت علیھم سے ملتا ہے۔ یہ پتے کی بات ہے۔ کی تفسیر ہے۔ انعمت علیھم کی تفسیر ہے۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول من النبیٖن تفسیر ہے انعم اللہ علیھم کی۔ یہ وہی معنے لے رہے ہیں اس جگہ جو ہم لیتے ہیں کہ انعم اللہ علیھم آیت میں جو خوشخبری دی گئی تھی کہ تم یہ سارے مراتب پاسکتے ہو اس کی تفصیل ہے کہ کس طرح پاسکتے ہو محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت کے ذریعے پاسکتے ہو۔ اگر اس اطاعت سے باہر ہوگئے تو ان مراتب کو نہیں پاسکتے۔ اتنی اچھی بات کرنے کے بعد پھر جب نظر آیا کہ یہ کیا کہہ گیا ہوں میں پھر گھبرا کر وہ پیچھے لوٹے ہیں اور کہتے ہیں اولئک مع الذین ۔ من الذین سے مراد فرشتے ہیں۔ کیسی عجیب و غریب بات ہے۔ فرشتے تو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے تابع ہیں۔ فرشتوں کو تو وہ مقام نصیب نہیں ہوا جو محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو نصیب ہوا۔ سب سے بڑے فرشتے کے پر جلتے تھے وہاں تک جانے سے تو اس آیت کریمہ میں مع سے مراد فرشتے لینا اتنا لغو خیال ہے کہ ساری اچھی بات جو پہلے کی تھی اس پہ پانی پھیر رہے ہیں۔ میں اس لئے بتارہا ہوں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کے کہنے کی وجہ سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ پر ضمناً بتایا ہے کہ ایک اچھا عمدہ خیال آگیا اور پھر اس سے گریز کی کتنی تیزی سے کوشش کی ہے۔ اب یہاں تفسیر شیعہ میں یہ ہے النبیٖن سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں۔ صدیقین سے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ شہداء سے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صالحین سے مراد ائمہ ہیں۔ حسن اولئک رفیقا یہ بات ختم ہوگئی اس پر۔ (یہ جو تفسیر اصل جو میری شروع ہونی ہے یہ ابھی اس کے بعد ہوگی یہ میں ضمناً بتارہا ہوں کہ پرانے علماء کیا کیا کہہ گئے ہیں اس پر) روح المعانی کے مصنف علامہ الوسی اس معنی سے شروع کرتے ہیں کہ روحانی منازل چار ہیں۔ جن میں سے بعض بعض سے کم تر ہیں۔ اول منازل الانبیاء ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو الٰہی طاقت مدد دیتی ہے۔ اور ان کا نفس اعلیٰ اور پاکیزہ مراتب میں ان کی مصاحبت کرتا ہے۔ یہ وہی معنے ہیں سارے جو ہم لیتے ہیں یہ بڑے بڑے مراتب درجہ بدرجہ بیان کئے گئے ہیں۔ تیسری منزل شہداء کی ہے۔ یہ مضمون تفصیلی ہے اس مضمون پر ہمیں کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیونکہ بعینہٖ اسی طرح یہ درجات کو کھول رہے ہیں جس کا ذکر بکثرت ہمارے لٹریچر میں ملتا ہے ایک ایک درجے کو لے کر اس پر بحث فرمارہے ہیں۔ کاملین کے چار مراتب ہیں نبوت اور نبوت کے مدار کا قطب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں۔ یہ ایسے عمدہ الفاظ میں انہوں نے اعتراض سے بچنے کی کوشش کی ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ نبی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی ہیں۔ من النبیٖن کیونکہ متبعین کو نبی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن قطب کی پیروی کرنے والے انبیائ۔ قطب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں اور اس قطب کی طرف منہ کرنے والے نبی ہوسکتے ہیں کیونکہ محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا قطب اعلیٰ درجے کے مراتب کی طرف راہنمائی کررہا ہے۔ چاہو تو آؤ شامل ہوجاؤ اور اس مرتبے کو حاصل کرلو پھر صدیقیقت، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر شہادت۔ شہادت کے مدار کے قطب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہ انہوں نے بنائے ہیں۔ پھر ولایت اور ولایت کے مدار کے قطب حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ ہیں۔ اور اس آیت میں صالحیت کے لفظ سے ولایت کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بہت صوفی مزاج لگتے ہیں بزرگ۔ کیونکہ پوچھنے والے نے ان سے پوچھا کہ بتاؤ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہاں رکھو گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کردیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کردیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ اس کا بہت اچھا جواب دیا ہے انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے ایک حصہ تو شہادت کے مرتبہ میں سے پایا اور دوسرا حصہ ولایت میں سے۔ عارفین کے نزدیک آپ کے ذوالنورین ہونے کا یہ معنی ہے۔ بہت عمدہ تشریح ہے۔ (یہ کس زمانہ کے ہیں علامہ الوسی؟ لیکن بہت عمدہ مضمون بیان فرمایا ہے۔ اور جواب بھی بہت اچھا دیا ہے) یہ ذوالنورین کی بحث آج کل چلی ہوئی ہے۔ وہ میں نے حوالوں کی ایک کمیٹی بنائی ہے بتائی تھی نا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی دو بیٹیوں سے آپ کی شادی کا ہونا ذکر وہ واقعتا ایسا ہوا ہے۔ یہ ساری صورتیں ایسی ہیں جن پر ہم ابھی تحقیق کررہے ہیں بہت دلچسپ اور اہم تحقیق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں آپ کی کون سی بیٹیاں ہیں جن کا ذکر ملتا ہے کہ آپ ان کے ہاں جایا کرتے تھے۔ ان سے محبت کے تعلقات استوار تھے۔ اگر آپ اپنی یادداشت سے کام لیں تو آپ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا کوئی ذکر نہیں ملے گا اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شان کے منافی بات ہے کہ آپ صرف ایک بیٹی سے پیار کریں اور باقی سب بیٹیوں کو نظرانداز کردیں جو مشکل وقتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ جو بحث ہے جب اس کو اٹھایا گیا تو ان کے ذکر کی باتیں بہت سی مولوی دوست محمد صاحب نے بیان فرمائی ہیں لیکن ان باتوں میں خود مزید تحقیق کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اس لئے میں نے ایک کمیٹی اب مقرر کردی ہے کہ جن پہلوؤں سے میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی پوری شان اپنی اولاد سے تعلق اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تعلق کی قطعی احادیث سے ثابت ہوجائے کہ یہ بیٹیاں تھیں؟ کس کس سن میں وفات ہوئی؟ اس عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا آنا جانا ان کے ساتھ معاشرت اس کا کیا ثبوت ملتا ہے؟ یہ ساری باتیں اکٹھی ہوں گی تو پھر سمجھ آئے گی کہ ذوالنورین کے کیا معنی ہیں؟ میرے اس مسئلہ کو علامہ الوسی نے تو حل کردیا ہے وہ کہتے ہیں ذوالنورین کے معنی اور ہیں لوگ غلط طرف چلے گئے ہیں۔ ذوالنورین کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو شہادت کا مرتبہ بھی نصیب ہوا اور ولایت کا مرتبہ بھی نصیب ہوا یہ اس تعلق میں میں اصل سے ذرا سا ہٹ گیا۔ اب احادیث میں مذکور شہداء یعنی کس کس کو شہید کہا گیا ہے؟ شہید کا ایک معنی تو وہ ہے جو لغوی معنی ہے جو اسلامی لغت میں لیا جاتا ہے جو راہ حق میں اپنی جان گنوا دے لیکن یہ بات آپ یاد رکھیں کہ یہ چاروں مراتب بدرجہ اولیٰ نبیوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ صالحین کا لفظ نبیوں کے ذکر میں ملے گا۔ صدیق کا لفظ نبیوں کے ذکر میں ملے گا۔ شہید کا لفظ نیبوں کے ذکر میں ملے گا بلکہ یہ ہوگا کہ سب سے بڑا شہید جو سب شہیدوں پر شہید ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں۔ پس محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اس ذکر کے ساتھ یہ مسئلہ تو حل ہوگیا کہ یہاں جو چار مراتب بیان ہوئے ہیں یہ نبیوں سے الگ کوئی مراتب ہیں اور لغوی معنے ہیں اور جہاں لفظ نبی استعمال ہوا ہے وہ بھی لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ورنہ نبی سارے مراتب کا حامل ہوا کرتا ہے۔ اب اس پہلو سے جو الفاظ حدیث کے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں یہاں شہداء کا مضمون حدیث کے حوالے سے آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ -1 من قتل فی سبیل اللہ ایک یہ معنی ہے کہ جو اللہ کی راہ میں مارا جائے یہ وہ لغوی تشریح ہے جو ہم سب جانتے ہیں۔ -2 المبطون جو پیٹ کے مرض سے مرجائے۔ اب ظاہر ہے کہ مع الذین انعم اللہ علیھم میں جو شہید کا ذکر ہے وہ پیٹ کے مرض سے مرا ہوا مراد نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے۔ -3 المطعون۔ من مات فی الطاعون۔ وہ بھی شہید ہے اب جو طاعون کے مارے ہوئے ہیں نعوذباللہ من ذالک اس آیت میں تو نہیں آسکتے اس لئے اس آیت کا جو منطوق ہے وہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی احادیث پر غور کرنے سے ازخود ظاہر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مطعون کس بات کا شہید ہے جس کو طاعون سے مرنے والا شہید کہا گیا ہے وہ گواہ ہے اس بات کا کہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے جو پیش گوئی فرمائی تھی کہ آئندہ زمانے میں ایک کیڑا نکلے گا۔ گواہ بن رہاہوں اس کا مگر اپنی موت سے اس کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ پیش گوئی بالکل سچی نکلی۔ پس ان معنوں میں ہم تمام طاعون سے مرنے والوں کو احمدیت اور اسلام (یعنی ایک ہی بات ہے) اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کے طور پر شہداء کے اس طورپر پیش کرتے ہیں۔ یہ سارے مرنے والے اپنی موتوں سے شہادت دے گئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی روحانی وجود ہیں جن کی تائید میں قرآن نے کہا تھا کہ ان کے انکار کے نتیجے میں ایک کیڑا نکلے گا زمینی جو لوگوں کو ہلاک کرے گا۔ -4 الغرق۔ ڈوب کرمرنے والا شہید۔ اب فرعون شہید ہے؟ شہید ہے ان معنوں میں شہید ہے کہ اس نے گواہی دی کہ اس کے حق میں موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئی سچی نکلی۔ اس نے غرق ہونا تھا پس بحیثیت غرق کے اس کی شہادت ان معنوں میں ہے۔ -5 والـمرء ۃ یـقـتلھا ولدھا جماع۔ وہ عورت جو بچے کی ولادت کے دوران فوت ہوجائے وہ شہید ہے۔ بچے کی ولادت کے دوران فوت ہونے والی عورت ان معنوں میں شہادت کے لحاظ سے پہلے سب گروہوں سے من قتل کے سوا قریب تر ہے شہید کے معنے کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع جو سلسلہ توالد شروع ہوا ہے اس کو جاری رکھتے ہوئے اس نے گویا اپنی قربانی پیش کردی۔ اور ایک قربانی ایسی ہے جس کے بعد پھر کوئی بدعمل ثابت نہیں ہوسکتا جو اس کا آخری فعل ہے۔ پس یہ شہید ایک نسبتاً منفرد اور الگ شہید ہے۔ -6 جل کر مرجانے والابھی شہید ہے۔ اب کتنے ہیں جو جل کے مرجاتے ہیں۔ آئے دن یہاں بھی مرتے رہتے ہیں باہر بھی مرتے رہتے ہیں۔ وہ شہید کیسے ہوگئے۔ یہ بتائیں جی۔ جل کر مرنے والا شہید ہوجاتاہے۔ جل کر مرنے والا جان لیتا ہے کہ جہنم کی آگ کیا چیز ہے اس سے وہ پہچان لیتا ہے کہ بڑی بلا ہے۔ اگر یہ دنیا کی آگ مرتے وقت وہ اپنے عمل سے نہ سہی اپنی نفسیاتی حالت سے گواہی د ے جاتا ہے کہ دنیا کی آگ اگر اتنی خطرناک چیز ہے تو پھر اگلی آگ کا کیا حال ہوگا۔ -7 والمغموم یعنی الھدم شھادۃ۔ والمغموم۔ مغموم کیوں لکھا ہوا ہے یہ۔ سمجھ نہیںآئی۔ مغموم معنی تو غم زدہ۔ المغموم یعنی الھدم شھادۃ۔ مکان گرنے سے دب کر موت واقع ہوجانا شہادت ہے۔ اس کا کوئی جواز میں ڈھونڈ رہا ہوں کہ یہ کس معنوں میں شہادت ہے۔ ھدم۔ میرا خیال ہے یہ قرآن کریم کی بہت سی آیات کی صحت کی شہادت دیتا ہے مرنے والا اس طرح۔ قرآن کریم فرماتا ہے کیا تم اس چیز سے محفوظ ہو کہ تم پر چھت گر جائے۔ تم پہ وبال نازل ہوجائے آسمان سے ٹکڑا گر جائے تم محفوظ نہیں ہو اس لئے ہر شخص اپنی عاقبت کی خبر کرے کسی وقت بھی اس پر ان بلاؤں میں سے کوئی نازل ہوسکتی ہے۔ پس یہ شہید ہے ان آیات کریمہ کی صحت یعنی یہ مرنے والے شہید ہوجاتے ہیں اس آیت کریمہ کی صحت کے حق میں اور اسی طرح دیکھیں ان دونوں کا تعلق ہے قرآن کریم میں آتا ہے تم کیا اس بات سے محفوظ ہو کہ تم پر چھت گرے یا تم چھت کے ساتھ نیچے جاگرو۔ اور اوپر سے تم پر کوئی چیز گرے یا تمہارے نیچے سے زمین نکل جائے۔ اگلا ہے والمحفور شھادۃ۔ کسی گڑھے یا کنویں میں گر کر مارا جانے والا شہید ہوجاتا ہے۔۔ یعنی ہمارے اوپر ہر طرف سے موت مسلط ہے۔ ان آیات کریمہ میں جن میں یہ ذکر مختلف معنوں میں ملتا ہے ان کی تقریباً میرے خیال میں تقریبا نہیں سب کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اس شہادت کے موضوع پر مل جاتی ہے۔ اور متعلق چیزیں ہیں کسی نہ کسی آیت سے ان کا جوڑ ثابت ہے اب ایک اور شہادت کا ذکر ہے جو شخص حق پر مارا جائے وہ ضروری نہیں کہ دین کی خاطر حق ہو اگر اللہ نے اس کو حق دیا ہے اور حق کی حفاظت میں مارا جائے تو اس کا درجہ شہداء سے قریب تر ہوگا۔ یعنی بعینہٖ وہ لغوی شہید تو نہیں بنیں گے مگر ان معنوں میں وہ قریب ترین ہوں گے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا ومن قتل دون مالہ جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو اگرچہ بظاہر مال کی حفاظت کرنا کوئی نیکی کا کام نہیں مگر اللہ نے اس کے مال کو محترم بنادیا تھا۔ حرام کردیا تھا دوسروں پر۔ پس اللہ نے جو اس کو عطا کیا اس کی حفاظت میں جو مرتا ہے وہ بھی ایک نیکی کا فعل سمجھا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ان لوگوں کو بھی ایک گونا شہیدوں کا مثیل بنادیا گیا۔ لیکن اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ ان کو مرنے کے بعد شہیدوں کا رتبہ عطا کیا جائے گا کیونکہ من قتل دون مالہ میں من عام ہے۔ اور اس میں مسلمان ہونا شرط نہیں ہے۔ اور من عام ہونے کے لحاظ سے ساری دنیا میں ہر روز ہی لوگوں کے مالوں پر چھینا چھپٹی ہوتی ہے۔ اور بکثرت لوگ مالوں کی حفاظت میں مرتے ہیں۔ قیامت آئی پڑی ہے دنیا میں تو گویا یہ زمانہ شہداء کا زمانہ ہے کہ سارے مالوں کے لئے مرنے والے جو ہر مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کیا یہ نعوذباللہ شہداء میں داخل ہوں گے۔ ہر گز نہیں۔ یہ مراد نہیں ہے کہ من قتل دون مالہ جو اپنے مال کی حفاظت کرے گا وہ شہید ہوگا۔ ایک اور معنی یہاں شہادت کا یہ بنتا ہے کہ اپنے مال کی حفاظت میں مرنے والا ایک نمایاں حیثیت اختیار کرجاتا ہے وہ گواہ بن جاتا ہے قوم کی بدکرداری پر اور ان حالات پر جن حالات میں مال محفوظ نہیں رہے۔ اور ایسے شخص کے نام اخباروں میں اچھالے جاتے ہیں آئے دن لوگ مرتے ہیں۔ ان کے نام اچھالے نہیں جاتے مگر لڑنے والا خواہ کیسا ہی بدکردار ہو اگر اپنے مال کی حفاظت میں مرتا ہے تو اخباروں میں اس کے نام چھپ جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر نام آ جاتے ہیں۔ تو اس لئے وہ ایک قسم کا شہید ان معنوں میں ہے کہ سب کے سامنے اس بات کا گواہ ہوگیا کہ قوم بدکردار ہوچکی ہے یہاں مال و جان محفوظ نہیں ہے۔ -10 من قتل دون اھلہ ظلما۔ جو اپنے اہل و عیال کو ظلم سے بچاتے ہوئے مرتا ہے وہ بھی ایک قسم کا شہید ہے۔ یہ پہلی نویں قسم کی ذیل میں آتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے اہل و عیال کو بچاتے ہوئے مرتے ہیں۔ جب کہ خود ان کی زندگی ان کے بعض دفعہ اہل و عیال کی زندگی بھی دہریت میں صرف ہوتی ہے۔ اور دین حق کی مخالفت میں صرف ہوتی ہے۔ پس یہ دونوں شہید اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ان سے اللہ کچھ نرمی کا سلوک فرمائے تو اللہ کی مرضی ہے۔ مگر ان کو بہرحال وہ شہادت کا مرتبہ نہیں ملے گا جو دین حق کی خاطر مرنے والے کو ملتا ہے۔ قتل ہونے والے کو ملتا ہے۔ -11 موت الرجل فی الغربۃ شھادۃ وطن سے دور ی کی حالت میں موت بھی ایک شہادت ہے۔ اس میں مہاجرین بھی شامل ہیں۔ جو اگر مرتے ہیں تو وہ شہادت دین کی شہادت ہے لیکن جو اپنے نفس کی خاطر ہجرت کرتے ہیں اور سفر کرتے ہیں ان میں بکثرت ایسے مہاجرین شامل ہیں جو لاکھوں کروڑوں تک پہنچ گئے ہیں جو اپنے وطن کو چھوڑتے ہیں مالی اغراض کی خاطر یا ایسے دباؤ کے نتیجے میں جس کا دین سے کوئی بھی تعلق نہیں تو اگر آپ ان الفاظ کو عام کرنا شروع کریں جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں وہ شہید ہوگیا وہ بھی شہید ہوگیا تو جتنے بھی اپنے وطن سے نکلے ہوئے دھوکے دے کر دوسرے ملکوں میں داخل ہوئے جھوٹ کا سہارا لے کر پناہ ڈھونڈنے والے، جب بھی مریں گے شہید ہوجائیں گے۔ یہ ہرگز مراد نہیں ہے فی الغربۃ شھادۃ کس چیز کی شہادت ہے۔ کسی چیز کی شہادت ہے۔ بعض غربت کی موتیں اللہ کی خاطر ہیں۔ بعض نفس کی خاطر ہیں۔ بعض دنیاوی ظلموں کی خاطر ہیں۔ غرضیکہ ہر مرنے والا اس وجہ کے لئے گواہ بن جاتا ہے جو وجہ اس کے وطن چھوڑنے کا موجب بنی۔ -12 اب دیکھیں یہاں پہلے سب میںمسلمان مراد نہیں تھے اور عمومی بیان تھا۔ اب اس بارہویں نمبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم واضح طور پر مسلمان کا ذکر فرمارہے ہیں۔ مامن مسلم یظلم مظلمۃ فیقاتل الا قتل شھیدا۔ ایسا مسلمان جو ظلم کی وجہ سے لڑنے پر مجبور ہو پھر قتل ہوجائے وہ شہید ہے۔ یعنی اگرچہ دین کی خاطر ظلم نہ ہو اگر کوئی ایسا مسلمان ہو ہے مسلمان لیکن مارا گیا ہے ظلم کے نتیجے میں اس کو بھی خداتعالیٰ شہادت کا ایک مرتبہ عطا فرمائے گا۔ اچھا جی۔ -13 اب یہ شہیدان عشق بھی ہیں دنیا میں۔ اسی پر بات ختم کردیں گے۔ من عشق فکتم فعف فمات فھو شھید۔ جو شخص عاشق ہوگیا کسی پر لیکن عشق کو چھپائے رکھا اور عفت اختیار کی پھر اسی حال میں مرگیا تو وہ شہید ہے۔ اب کیا وہ سارے شعراء جو اسی قسم کی شہادت کے دعویدار ہیں وہ جنت میں جائیں گے۔ بعض شعراء تو عام اعلان کرتے ہیں عشق کا۔ ان کا تو ذکر ہی کوئی نہیں مگر بعض شعراء کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے دل میں چھپایا ہوا ہے۔ وہ بدنام نہ ہو ہمارا محبوب وہ تو اس بیان میں آجائیں گے۔ تو کیا اس بنا پر وہ کشتۂ عشق شمار ہوکر جنت میں داخل ہوں گے۔ یہاں جنت میں ان کا داخل ہونا امکان ہے اگر یہ شرطیں پوری کرنے والے ہوں۔ کتم وعف فمات اس حالت میں وہ عشق کو چھپائے پھرے کہ اس کی وہ عفت وجہ ہو اس کی یہ چونکہ اللہ کی خاطر ہوگا اس لئے ایسی حالت میں اگر مرگیا تو اللہ اس کو جزاء دے گا۔ اس سے ہمیں کوئی مفر نہیں اور امید یہی رکھتے ہیں کہ ایسے کشتگان عشق بھی اللہ کی مغفرت کی چادر میں لپیٹے جائیں گے۔ (ٹھیک ہے۔ ابھی کافی دن لگنے ہیں اس آیت پر اب۔ ہیں۔ میں نے کہا ابھی صبر سے بیٹھے رہو کافی دن لگنے ہیں اس آیت پر۔ بڑی لمبی آیت ہے۔ بہت وسیع معنے رکھتی ہے۔)
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
16 رمضان 15 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کل سورۃ النساء آیت 70 سے درس جاری تھا۔ جب وقت ختم ہوا اور ابھی یہ کچھ دن اور جاری رہے گا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن اولئک رفیقا۔
’’اور جو لوگ بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ لوگ بہت ہی اچھے رفیق ہیں۔‘‘ اس آیت میں کچھ ایسے پہلو مزید سامنے آئے ہیں جو اس سے پہلے جو میرا مضمون تھا جلسہ سالانہ پر ’’عرفان ختم نبوت‘‘ وہ ویسے بہت تفصیلی تھا لیکن اس میں کچھ پہلو اس میں سے رہ گئے تھے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اس درس میں ان سارے پہلوؤں کو پوری طرح کھول کر بیان کردیا جائے۔ اگرچہ سارا عرفان ختم نبوت کا خطاب تو دوبارہ اس میں شامل نہیں ہوسکتا۔ لیکن ا س کے علاوہ بھی بہت سی ایسی چیزیں ہوں گی جن کے شامل ہونے سے یہ مضمون جماعت احمدیہ کے لئے مکمل ہوجائے گا۔ اور اس کے جتنے پہلو بھی غیراحمدی علماء اپنے حق میں بیان کرتے ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی جائے گی اچھی طرح۔ معیت کا لفظ ایسا ہے جس پر ان لوگوں نے بہت بحثیں اٹھائی ہیں۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ معیت صرف اخروی ہے۔ حالانکہ اخروی ہے اس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن جو اس دنیا میں عمل کریں گے ان کی جزاء اس دنیامیں کیا ہوگی یہ بحث ہے۔ جہاں تک اخروی معیت ہے وہ معیت عمومی ہے وہاں درجے ہی نہیں دیئے جائیں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ چونکہ دنیا میں تم نے یہ عمل کئے تھے اس لئے اس معیت کا مطلب ہے تمہیں یہ درجہ دیا جارہا ہے۔ نیک لوگ نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ محبت کرنے والے جن سے محبت ہے ان کے ساتھ ہوں گے۔ یہاں درجوں کی بحث نہیں ہے۔ لیکن اس دنیا میں جو لوگ نیک عمل کریں گے ان کا درجہ کیا ہوگا۔ یہ بحث ایک بالکل دوسرا مضمون ہے جس کا صراط الذین انعمت علیھم سے تعلق ہے۔ پس ان دونوں مضمونوں کو آپس میںگڈ مڈ کرنے کے نتیجے میں ان لوگوںن نے اس آیت کو بالکل ایک طرفہ کردیا ہے کہ سوائے آخر کے اس آیت کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ یہ مضمون میں کھولوں گا انشاء اللہ۔ لیکن وہ روایات جو بیان کرتے ہیں ان روایات کے اوپر کچھ مزید چھان بین کی ضرورت ہے۔ شہداء کی بات ہورہی تھی۔ ایک صرف نہیں ابھی تو 22 ہیں کل ہیں۔ اس آیت میں جتنے الفاظ آئے ہوئے ہیں ان کی احادیث کی روشنی میں تشریح۔ من قتل دون نفسہ فھو شھید۔ المیت من ذات الجنب شھید۔ یہ تمام قسمیں مرنے والوں کی ہیں جو روزمرہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایک بھی ایسی نہیں سوائے ایک دو کے جہاں مسلم کا لفظ آیا ہے۔ جن کا تعلق دین سے ہو۔ حادثانی موتیں ہیں۔ ڈوب کے مرنے والے ہیں۔ اپنے مال جان کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اور ان میں نمونیا بھی شامل کردیا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ جو نمونیہ سے مرتے ہیں یہ چیز اس لئے بیچ میں داخل کی گئی ہے باقی تو میں بیان کرچکا ہوں کہ غیرمعمولی اموات کا ذکر تو کسی نہ کسی چیز پر مرنے والا شہید ہوجاتاہے۔ ذات الجنب کی شہادت کا قصہ مجھے ابھی سمجھ نہیں آسکی۔ سوائے اس کے کہ کچھ لوگوںں نے بعد میں داخل کیا۔ السل شھادۃ سل کی بیماری سے موت شہادت ہے۔ الدیغ شہید موذی جانور کے ڈسنے سے مرنے والا شہید ہے۔ اب سوال یہ ہے (ڈاکٹر صاحب کہ) ذات الجنب اور سل کو کیوں نمایاں کیا گیا ہے۔ ان کا کیا تعلق ہے یہاں (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں لکھا ہوا ہے۔) ایک بات تو صاف سمجھ آرہی ہے سل کا نمونیہ سے تعلق ہے۔ وہ سارے علاقے جہاں راتیں بہت ٹھنڈی ہوجایا کرتی ہیں وہاں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے سل عام ہے۔ کیونکہ نمونیے سے پھیپھڑے کمزور ہوجاتے ہیں۔ اور پھیپھڑے کمزور ہوجائیں تو سل کی بیماری عام لگتی ہے۔ اس پہ جو دنیا کے مختلف ممالک کے کوائف چھپے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ان سرد علاقوں جہاں اچانک نمونیہ ہوتے ہوں ان کا تعلق آپس میں تین بیماریوں کا آپس میں تعلق ہے۔ ایک ملیریا دوسرے نمونیہ تیسرے سل یہاں ملیریا کا کوئی تعلق نہیںتھا۔ اس لئے اس کا ذکر نہیں ہوا۔ ان علاقوں میں ملیریا نہیں تھا۔ باقی سب جگہ جو دنیا میں جہاں تحقیقات ہوئی ہیں اس میں ملیریے سے بات چلی ہے کہ ملیریا کے مریض ایسے ٹھنڈے علاقوں میں جہاں رات اچانک سردی پڑتی ہے۔ اپنے کپڑے اتار پھینکتا ہے اور اس حالت میں جب بخار اتر رہا ہے اس کو نیند آجاتی ہے۔ تو اترے ہوئے کپڑوں میں اس کو ٹھنڈ لگتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ایک تو بخار کی کمزوری پھر اس اچانک ٹھنڈ لگنے سے اس کے پھیپھڑوں پہ اثر پڑتا ہے اور اس طرح پھیپھڑے جب کمزور ہوجائیں تو ایسا مریض سل کا ایک شکار ہے۔ تو یہ تینوں باتیں تو میرے ذہن میں آگئی ہیں۔ مگر یہاں صرف سل اور اس سے پہلے نمونیہ کا ذکر ہے ۔ بہرحال یہ شہید وہ تو نہیں ہیں جو راہ مولیٰ میں شہید ہوتے ہیں اور ان کے مراتب کا ذکر نہیں ہے۔ مگر غیرمعمولی موتیں ہیں۔ غالباً وہاں صحرائے عرب میں کیونکہ اچانک سردی بہت ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہوگا اور وہ شہید ہیں اس بات پر کہ یہاں کے حالات ایسے ہیں کہ ہم حوادث زمانہ کا شکار ہوگئے۔ اس پہ کوئی ہمارا اختیار نہیں تھا۔ یہ معنیٰ اگر نہ بھی ہو تو دینی معنیٰ اس میں کوئی نہیں ہے بہرحال۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صحرائے عرب میں مشرک وغیرہ سارے جتنے اس طرح مرتے تھے وہ سارے اللہ تعالیٰ کے حضور شہید کا رتبہ پائیں گے یہ بالکل غلط بات ہے اس لئے اس کو ملانا نہیں چاہئے۔ موذی جانور کا کاٹا ہوا یہ بھی اچانک واقعہ ہونے والا نمایاںں ہے۔ اور ایسا بچہ جو پیدا ہوتے ہی فوت ہوجائے اس کے متعلق تو شہید ہو یا نہ ہو اس کے متعلق تو ویسے ہی گواہی ہے کہ وہ فطرت پر پیدا ہوا ہے اور وہ لازماً جنت میں جائے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق جو یہ روایت ملتی ہے کہ ان بچوں کے وہ نگران ہوں گے۔ اور ان کی تربیت کریں گے۔ والخارمن دابۃ شھیدا۔ اب سواری سے گر کر مرنے والا بھی شہید ہوگیا۔ بالکل صاف ظاہر ہے کہ وہی ایک بیان جاری ہے ایسی موتیں جو عام روزمرہ کی وفات سے الگ ہوں ان سب کے لیے شہید کا لفظ آیا ہوا ہے۔ ورنہ سواری سے گرنے والے تو بڑے بڑے خطرناک دشمن مشرک بھی ہوسکتے تھے۔ وصاحب الحرم شھید ایک صرف عام مرنے والے کا ذکر ہے اور وہ اس لئے وہ غیرمعمولی عمر پانے والا ہو۔ وصاحب الحرام شھید بہت زیادہ بوڑھا ہوکر مرنے والا شخص بھی کیونکہ وہ اپنے بچپن کی طرف لوٹ جاتا ہے اور ایک معصومیت کا رنگ اس میں آجاتا ہے یا عام انسانوں سے زیادہ عمر پانے والا لازمی بات ہے ان سے ایک استثناء ہے۔ ان سے نمایاں ہوکر الگ دکھائی دیتا ہے۔ من سئل شھادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشھداء وان مات علی فراشۃ۔ یہ ایک مضمون ہے جو واقعی شہادت کے رتبہ پانے والوں میں بعض اشخاص کو داخل کرتا ہے اور یہ عقل اور دل اس کے قائل ہوتے ہیں۔ جو صدق دل سے شہادت کا طلب گار ہو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کی منازل پر پہنچا دے گا۔ اگرچہ اس کی موت اپنے بستر پر ہی واقعہ ہو۔ یہاں حضرت خلد بن ولید کا آخری وقت پیش نظر ہونا چاہئے۔ اس وقت آپ کی خواہش جو ہے شہادت کی اس حدیث کے تابع وہ بھی اور دوسرے مجاہدین بھی جو اس درجہ شہادت کا شوق رکھتے ہوں کہ زخموں سے کوئی بدن کا حصہ خالی نہ ہو ان کی موت بستر پر بھی ہو تو اللہ کے نزدیک وہ شہید کی موت ہوگی۔ اب احادیث میں شہداء کون کون ہیں؟ یہ حدیثیں اس لسٹ کے بعد کوئی اور وجہ ہے جو اکٹھی کی گئی ہیں؟ ہیں؟ آگئی ہیں ناں سب؟ ان کی سپورٹ میں کچھ حدیثیں ہیں۔ یہ خلاصہ تھا جو ساتھ درج ہے۔ اس میں میرا خیال ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ کہیں تو ایک سرسری نظر سے میں دیکھ لوں۔ کہ شاید کوئی بات رہ گئی ہو۔ جن حدیثوں سے یہ باتیں لی گئی ہیں ان میں سے بہت سی حدیثیں بھی محل نظر ہیں۔ میں۔۔۔۔۔۔ ابھی دیکھ لیا ہے۔ شہادت کے مضمون کو بگاڑ دیں گی۔ پس ضروری ہے کہ ان حدیثوں کی الگ چھان بین کی جائے۔ جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے اس میں آیت من یطع اللہ والرسول کا یہ معنی نکالنا کہ کوئی رسول مبعوث نہ ہوگا۔ قرآن کریم کی بعض آیات اس کے خلاف گواہی دیتی ہیں۔ مگر اس موقع پر میں میں اس کو نہیں رکھنا چاہتا۔ اب مع کی بحثوں میں غیراحمدی علماء نے جو مختلف استدلال کئے ہیں آیات سے ان کو غور سے پڑھنے سے ان کا جواب وہیں سے نکل آتا ہے۔ اور اس ضمن میں کسی لمبے تردد یا پہچان کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً ایک یہ آیت ہے یا ایھا الذین امنوا قاتلوا الذین یلکونک من الکفار والیجدوا فیکم غلظۃ واعلوما ان اللہ مع المتقین۔ وہ کہتے ہیں دیکھو اللہ متقیوںں کے ساتھ ہے۔ تو کیا اللہ متقیوں میں سے ہے۔ غیراحمدی یہ معنیٰ کریں گے۔ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ جب مع کا لفظ ایک اعلیٰ شان کے واحد وجود کا تعلق کثرت کے ساتھ ملارہا ہو تو یہاں مع کا معنی من ہوہی نہیں سکتا۔ ایک وجود کہا جائے کہ میں ان میں سے ہوں تو اس کا مطلب من ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ وجود جو ہے وہ جنس میںمختلف ہے۔ وہ اپنی نوعیت میں مختلف ہے، اپنی شان میں مختلف ہے اور اپنی انفرادیت میں مختلف ہے۔ اس کی انفرادیت اس کی توحید ایسی ظاہروباہر ہے کہ وہ دوسرے لوگوں میں سے نہیں ہوسکتا۔ ان کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ پس ہر جگہ جہاں بھی ان اللہ مع کا معنی ہے۔ وہاں ساتھ کا معنی ہے اس کی مدد پر ہے۔ اس کی تائید میں ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسر معنی ممکن ہی نہیں۔ پس یہ آیت ان کو کوئی بھی فائدہ نہیں دے سکتی۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ ایسا ہے جو ہر کس و ناقص کو معلوم ہونا چاہئے۔ اور اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ نہ ہم یہاں کبھی بھی مع کا معنی من کرتے ہیں۔ یہ بھی وہی چیز یہ آیت ہے۔ سورۃ التوبہ کی یہ دوسری آیت ہے سورۃ البقرۃ کی۔ اس میں اشھر الحرام بالشھرا لحرام والی آیت دے کر آخر پر لکھا ہو ہے واعلموا ان اللہ مع المتقین وہی جواب ہے اللہ متقیوں کے ساتھ ہوگا۔ تو اس کا معنی من ممکن ہی نہیں اور مضمون خود سمجھا رہا ہے کہ اس کا من معنی کیا جاسکتا ہی نہیں کیونکہ نوع مختلف ہوگئی۔ شان مختلف ہوگئی۔ اور علاوہ ازیں وہ ایک ہی ہے۔ وہ زیادہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لئے مع کے دوسرے معنوں کا ناکر ہم کرتے ہی نہیں۔ یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھ لیں معیت کے دوسرے معانی ہیں یہاں اس آیت میں کیا ہیں۔ یہ بحث صرف ہورہی ہے۔ اب اس کا الٹ دیکھ لیجئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم فرماتے ہیں غار میں جب غارِثور میں چھپے ہوئے تھے۔ اذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا خوف نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں ساتھ کا معنی تائید الٰہی مراد ہے۔ اور من ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ اللہ ہمیں میں سے ایک ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے تو بے وجہ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں یہاں مع کا معنی معیت یا تائید کے سوا ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اب یہ آیت ہے سورۃ توبہ کی اور ایک آل عمران کی آیت ہے۔ یہ تو اپنے حق میں نہیں دے سکتے وہ آیت ہے۔ ربنا اننا سمعنا منادی ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار۔ یہ آیت غیراحمدی اپنے حق میں دے ہی نہیں سکتے کیونکہ یہاں صرف من کے معنے نکلتے ہیں دوسرے نہیں بن سکتے۔ تو یہ کیوں بیچ میں شامل کرلی خواہ مخواہ۔ ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ غلط جگہ لگ گئی ہے۔ اس دعا کا جو ہمیں سکھائی گئی ہے۔ یہ مطلب ہے ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیاتنا ’’اے خدا ہمارے گناہ بخش ہماری برائیاں دور فرمادے‘‘ توفنا مع الابرار اب یہاں ایک ہی جنس کے لوگ مراد ہیں۔ اس دنیا کی بات ہورہی ہے کیونکہ توفنا مرنے کے بعد نہیں ہوگا تو مرنے کے بعدکی جو معیت کی حدیثیں ہیں وہ بالکل اور مضمون رکھتی ہیں اس دنیا میں جب مع کا لفظ اپنے ہم جنسوں کے ساتھ استعمال ہو اور اچھے لوگوں کا ذکر ہو تو وہاں من کے سوا معنی ہو ہی نہیں سکتا اب یہاں دیکھ لیں اے خدا ہمیں ابرار کے ساتھ وفات دینا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب نیک لوگ مررہے ہوں تو اس وقت ہمیں بھی مار دینا ہرگز یہ مطلب ہو سکتا ہی نہیں۔ اس لئے مع کا معنیٰ ہر موقعہ اور محل کے مطابق کرنا ہوگا۔ اس دنیا کے معاملات میں جب مع چسپاں ہوگا ور ہم جنسوں پر چسپاں ہوگا تو ایک اورر معنے ہوں گے اس کے۔ ہم اس بحث میں پڑتے ہیں یہ گڈ مڈ کردیتے ہیں مع کے دوسرے استعمالات کے ساتھ حالانکہ ہمارا انکار ہی نہیں ہے کہ مع کے دوسرے استعمال ممکن بلکہ ضروری ہیں۔ وہاں من کرنا گناہ عظیمہ ہوگا۔ من کیا جاہی نہیں سکتا مگر جہاں مع ایک مرتبہ عطا کرتا ہے لفظ مع اور محل مدح میں ہے انسانوں کے لئے وہاں خدا کے فضل کے ساتھ اس کا معنی ہمیشہ من پائیں گے۔ دوسری سورۃ توبہ کی انہوں نے پہلی آیت دی تھیں اللہ کی معیت کی۔ یہاں انسانون کی معیت کی یہی سورۃ گواہ ہے کہ یہاں من کے معنے بنتے ہیں۔ یآیھا الذین امنوا اتقواللہ وکونوا مع الصادقین۔ ’’اے لوگو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ کیا مراد ہے صادقوں کے ساتھ ہوجاؤ؟ امام صاحب سچ بولتے ہیں ان کے ساتھ ساتھ چلو۔ اور یہی کافی ہے۔ یہ ہوہی نہیں سکتا سوائے من کے یہاں اور کوئی معنی نہیں بن سکتا۔ صادقوں کے ساتھ ہو یعنی صادقوںمیں سے ہو۔ سچ بولنے والے بنو۔
(سورۃ التوبہ آیت119) ربنا امنا بما انزلت واتعبنا الرسول فاکتبنا مع الشاہدین اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے اس پر جو تونے اتارا۔ واتبعنا الرسول اور ہم نے اس رسول محمد رسول اللہ کی اطاعت کی۔ کی پیروی کی فاکتبنا مع الشاہدین پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔ گواہوں کے ساتھ لکھنے کا کیا مطلب بنے گا یہاں۔ کچھ بن سکتاہے جو رسول کی سچائی کے گواہ ہوں ہمارا نام ان کے ساتھ لکھ لے کا مطلب من کے سوا اور ہو ہی نہیں سکتا۔ ہمیں بھی ان لوگوں میں شمار فرما جو محمد رسول اللہ کی صداقت پر گواہ بن گئے ہیں۔ یہی آیت 54ہے۔ آل عمران کی یہ المائدۃ آیت 84 میں بھی ہے اسی مضمون کی آیت یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشاہدین اے خدا ہم ایمان لے آئے ہیں پس ہمیں ایمان لانے والوں میں سے لکھ لے۔ کیا ایمان لانے والے الگ رہیں؟ اور ہم الگ رہیں؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ من کے سوا ترجمہ ممکن ہی نہیں۔ واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ وارکعوا مع الراکعین۔ اب رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ کی اس کا مطلب یہ ہے کہ رکوع کرنے والے الگ ہیں اور تم الگ ہو۔ اور تم رکوع اس وقت کیا کرو جب لوگ رکوع کررہے ہوں گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے مسجدوں میں جہاں رکوع کا اعلان ہو وہیں جھک جاؤ اس وقت یہ معیت ہوجائے گی۔ مع الراکعین کا مطلب ہے تم رکوع کرنے والوںمیں سے ہو ان لوگوں میں سے ہو جو اللہ کے حضور رکوع کرتے ہیں۔ تو دیکھئے مع کے استعمال موقعہ و محل کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ بعض جگہ مع کا معنی من کرنا پڑتا ہے۔ اس کے سوا ممکن ہی نہیں اور جہاں خدا نے خود من کردیا ہو وہاں یہ مولوی کہاں جائیں۔ من النبیٖن والصدیقین۔ مع پہلے فرمایا اور معنی خود کردیا۔ تو یہ بحث ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے خود من کا معنی کردیا ہے اور موقعہ و محل بتارہے ہیں کہ یہاں من سے مراد ان مرتبہ والوں میں ایک ہونا ہے۔ اور یہ مضمون سورۃ قائمہ کی آیت اھدنا الصراط المستقیم سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس مضمون کو باقی معیت کے استعمالات کے ساتھ گڈ مڈ کرنا ظلم ہے۔ بالکل واضح اور کھلا کھلا مضمون ہے۔ اب ربوہ سے جو مواد ملا ہے مع بمعنی من یہ وہی ہے۔ جو ہم نے یہاں تیار کیا ہے؟ اچھا اس میں سے ضمناً جو میں بیان کرچکا ہوں ان کو چھوڑ کر باقی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ سب سے پہلے تو مع کا لغت کا معنی دیکھنا چاہئے ہمیں لغت کیا کہتی ہے مع کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مفردات القرآن مصنفہ امام راغب میں لکھا ہے۔ وقولہ فاکتبنا مع الشاہدین ایاجعلنا فی زمرتھم اشارۃ الی قولہ فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم امام راغب دیکھیں کیسی پتے کی بات لاتے ہیں۔ کتنی لطیف بات ہے۔ مفرادت راغب صفحہ 435 یہ پتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفردات راغب کا حوالہ دے دیتے ہیں۔ صفحہ 435 اس لفظ میں دیکھنا چاہئے۔ صفحہ 435 مختلف اشاعتوں کے مختلف صفحے ہوں گے۔ ہمارے جو حوالے والے ہیں بہت کمزور ہیں اس معاملے میں۔ ان کی تربیت کی ضرورت ہے۔ ایسا حوالہ ہونا چاہئے کہ اس کے سوا کسی اور جگہ نظر پڑ ہی نہ سکے وار وہ حوالہ تھا دیکھئے مع کہ زیر لفظ مع اور اگر صفحہ دینا ہی ہے تو پھرا س کی اشاعت کا پتا۔ کس زمانے میں چھپی تھی۔ کس مطبع سے چھپی تھی یہ تعیین کریں گے تو پھر حوالہ درست ہوگا۔ آگے فرمادیا یعنی فاکتبنا مع الشاہدین یہ معنے کہ ہم کو زمرۃ شاہدین میں داخل فرما جس طرح کہ آیت فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم پھر دوبارہ پھر یہی دوسری آیت کے حوالے سے بھی شاہدین کے حوالے سے بھی یہی بات کررہے ہیں۔ معنے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت کرنے والے منعم علیھم کے زمرہ میں شمار ہوں یہ امام راغب کا فیصلہ ہے۔ بالکل یہی فیصلہ ہے جو جماعت احمدیہ کا موقف ہے۔ تفسیر بحر محیط میں حضرت امام راغب کے اس قول کی تشریح یوں درج ہے یعنی امام راغب کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں شامل کئے جائیں گے۔ مقام اور مرتبہ صرف ایک جسمانی معیت نہیں ہے یا روح کا روح کے ساتھ ملنا نہیں ہے۔ مقام اور مرتبے میں شہیدوں اور صالحین میں شامل کئے جائیں گے۔ یعنی اس امت کا نبی ، نبی کے ساتھ اب یہ سن لیں ذرا اس کے بعد ملانوں کے پاس کیا گنجائش رہے گی۔ یہ پہلے کی کتاب ہے تفسیرمحیط احمدیت کا کوئی تعلق نہیں اس کتاب سے۔ فرماتے ہیں یعنی اس امت کا نبی، نبی کے ساتھ، صدیق، صدیق کے ساتھ۔ شہید، شہید کے ساتھ، صالح، صالح کے ساتھ۔ اگرچہ قیامت کے دن سب اکٹھے ہوجائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی فیض سے آپ کی امت کے مراتب بلند کئے جائیں گے اور ان کو قرب کا احساس ہوگا۔ یہ بالکل اور معنیٰ ہے۔ لیکن اس دنیا میں مرتبے کی جہاں تک بحث ہے اس میں کہتے ہیں اس امت کا نبی نبی کے ساتھ ہوگا۔ اگر امت کا نبی ہو ہی نہیں سکتا تو کیسے جائے گا۔ مع بمعنی من ایک آیت جو پہلے نہیں پڑھی گئی وہ یہ ہے فاولئک مع المؤمنین الا الذین تابوا واصلحوا واعتصموا باللہ واخلصوا دینھم سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کرلی اور اللہ کے ذریعے سے اپنی حفاظت چاہی اوراپنی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کردیا۔ یہ اتنی شرطیں ہیں یہ سب کچھ کرنے کے بعد یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے۔ ترجمہ ہوسکتا ہے یعنی مومن نہیں ہوں گے لیکن مومنوں کی صحبت ضرور نصیب ہوجائے گی ان کو۔ یہ بالبداہت غلط ہے اس کا معنیٰ من کے سوائے ہو ہی نہیں سکتا۔ فاولئک مع المؤمنین یہ لوگ یقینا مومنوں میں سے ہوں گے۔ سچے مومن ہوں گے۔ وسوف یؤتی اللہ المؤمنین اجرا عظیما اور عنقریب یا ضرور اللہ تعالیٰ مومنوں کو اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ (میں نے کہ یہ جو (لب) والا معاملہ ہے ابھی تک حل نہیں ہوا۔ لب لگانے والا۔ یہ جو بض لوگوں کو خیال ہے کہ یہ ایک ناپسندیدہ عادت ہے میں نے اس پر حوالے اکٹھے کئے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میں نے خود دیکھا ہوا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو میں نے خود دیکھا ہوا ہے۔ لقمان نے گھربیٹھے گواہی لکھ کے دی ہے کہ نہیں ابھی۔ آگئی ہے اس کی بھی۔ کہ کس کثرت سے آپ یہ استعمال کیا کرتے تھے۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میں نے خود دیکھا ہوا ہے وہ چلتے پھرتے کتاب الٹتے تھے تو یوں کرتے تھے تو یوں کرتے تھے۔ اور مجھے آپ نے خود دیکھا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ بھی گواہ ہے کہ جب سے کاغذ ایجاد ہوا ہے یہ حرکت ساتھ ایجاد ہوئی ہے۔ تو اس سلسلے میں دلچسپ مواد میں نے اکٹھا کرنے کے لئے ربوہ کو ہدایت دی ہے۔ وہ پھر میں آپ کو کسی وقت سنادوں گا۔ تاکہ ان ہائیجینک سمجھنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ان ہائیجینک نہیں اور جو ان ہائیجینک کہتے ہیں وہ خود بھی ہاتھ ان کا جاتا ہوگا ضرور لبوں کی طرف۔ تفسیر بیضاوی میں آیت بالا کے الفاظ مع المؤمنین فاولئک مع المؤمنین کا ترجمہ یہ کیا ہے، فاولئک مع المؤمنین ومن اعداد ھم فی الدارین یعنی وہ لوگ دونوں جہانوں میں مومنوں کی گنتی میں شامل ہیں۔اس دنیا میں بھی اس دنیا میں بھی۔ یہ نہ بھی ہو تو واضح بات تھی۔ اب ابلیس کو سجدے کے وقت معیت حاصل تھی ایک۔ ان لوگوں کے ساتھ تھا۔ جنہوں نے سجدہ کیا ہے۔ لیکن من ہونا ثابت نہیں تھا۔ کیونکہ حرکتیں الگ الگ اور مراقب الگ الگ ہیں۔ اس لئے مراتب کا ایک ہونے سے من کا لفظ صادق آسکتا ہے جب مراقب بدل جائیں تو ہرگز اس کا معنی من نہیںکیا جاسکتا سوائے اس کے کہ وہ شخص انکار کرے نیک لوگوں کے ساتھ ان میں سے ہونے کا۔ جب یہ کہا جائے گا تو پھر مع کا معنی من کیا جائے گا۔ اب ابلیس والا واقعہ اس پر گواہ ہے جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ سارے فرشتوں کے ساتھ سجدہ کریں کل اجمعین سب کے سب سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کیا الا ابلیس۔ ابلیس نے نہیں کیا۔ ابی ان یکون مع الساجدین۔ یہاں مع من کے معنوں میں ہے۔ اس نے انکار کیا کہ ساجدوں میں سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائے ورنہ مع الساجدین وہ کھڑا تھا ساتھ ہی۔ اس کے سامنے ہی فرشتے سجدے کررہے تھے۔ تو صاف پتا چلا کہ موقعہ و محل کے مطابق مع کا معنی من بھی ہوسکتا ہے اور مع کا معنی ساتھ بھی ہوسکتا ہے تو ابلیس کو ایک معیت حاصل تھی جو فرشتوں کے ساتھ سجدہ کرنے والوں کی معیت تھی۔ لیکن ان میں سے نہیں تھا۔ اس لئے اس نے انکار کردیا مع الساجدین۔ کہ وہ ساجدوں کے ساتھ ہو۔ اس نے ساتھ کھڑے ہونے کا انکار کبھی بھی نہیں کیا۔ تو یہ انکار کیا میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گا۔ جو سجدہ کرتے ہیں۔ ولقد خلقکم ثم صورکم ثم قلن للملائکۃ السجدوا لادم فاسجدوا الا ابلیس لم یکن من الساجدین یہاں مع الساجدین کی بجائے من الساجدین کا لفظ اس کے متبادل کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمارا ستنباط بالکل ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ مع کا استعمال فرماتا ہے بعض دفعہ اس کی تشریح کے طور پر اس کی جگہ من کا لفظ استعمال فرمادیتا ہے۔ تو اسی آیت کریمہ من یطع اللہ میں یہی ہوا ہے۔ پہلے مع کا لفظ انعم اللہ علیھم پھر من النبیٖن مع کی تشریح من کے معنوں میں۔
سورۃ الحدید آیت 20: والذین امنوا باللہ و رسلہ اولئک مع الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم والذین کفروا وکذبوا بایاتنا اولئک اصحاب الجحیم۔ والذین امنوا باللہ ورسلہ باقی رسولوں کا ذکر ہے یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا ذکر بطور خاص آیت خاتم النبیین اور اس آیت میں ہے وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر اولئک مع الصدیقون یقینا یہی لوگ ہیں جو صدیق ہیں۔ والشھداء عند ربھم اور اپنے رب کے حضور شہداء ہیں۔ اس آیت سے جو استنباط کیا گیا ہے ہمارے علماء کی طرف سے میں اس کو درست نہیں سمجھتا کیونکہ ھم الصدیقون میں صدیق بطور مرتبہ کے بیان نہیں ہوا اور اسی طرح شہداء کے بعد صالحین کا نام بھی مذکور نہیں ہے۔ اس لئے یہ آیت اس لحاظ سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ اس مضمون سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی کرنے والوں کو نبوت عطا ہوئی۔ ان کو وعدہ دیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ گزشتہ انبیاء کی پیروی سے نبوت نہیں ملی یہ درست نہیں ہے۔ ملتی رہی ہے لیکن مع کی بحث کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سیدھا سادھا موقعہ محل پر استعمال کرو۔ اور وہ ہماری ساری ضرورتیں پورری کردے گی۔ یہ کہنا کہ پہلے انبیاء سے صرف صدیق پیدا ہوتے تھے یہ اس لئے غلط ہے اولئک ھم الصدیقون صدیقون میں تو نبی بھی شامل ہے۔ صدیق لفظ جو ہے یہ بہت بڑا اورعام لفظ ہے۔ اس میں انبیاء شامل ہیں۔ اس لئے اس کو اگر ان کو شوق ہو تو ان کو کہیں چھوڑ دیں فی الحال اس وقت۔ اب جہاں تک ختم نبوت کے فیضان کا تعلق ہے۔ کہ یہ ایک جاری فیضان ہے۔ اتنی سی بحث ہے ساری من یطع اللہ کے نیچے۔ باقی ساری معیت کی بحثیں اصولاً میں نے بیان کردی ہیں۔ کہ موقعہ محل کے مطابق معیت کے معنے مختلف ہوں گے۔ لیکن اس آیت میں فیضان ختمِ نبوت کا اجراء قطعیت کے ساتھ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے جیسا کہ میں بعض پہلے علماء کے حوالے بھی دیے ہیں۔ مفردات وغیرہ کے اور اس سے مفر نہیں کہ اس میں اھدنا الصراط المستقیم والے وعدے کی خوشخبری دی گئی ہے کہ تم لوگوں کے حق میں پورا ہوگا۔ یعنی تمہیں میں سے وہ قافلہ بنایا جائے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے چل کر ان میںصالحین بھی ہوں گے اور صدیق بھی ہوں گے، شہید بھی ہوں گے صدیق بھی اور پھر اس امت کا رسول بھی جیسا کہ پہلے گزرا ہے۔ اس امت کے نبی اس لئے یہ بحث کہ اس میں ختم نبوت کی وجہ سے ہم معیت کے معنے بدلتے پھریں یہ اس لئے بیکار اور لغو بحث ہے کہ قرآن کریم کی دوسری آیت کھلم کھلا امتی نبوت کے جاری رہنے کی خبر دے رہی ہیں۔ اور اس وضاحت سے خبر دے رہی ہیں کہ اس کا کوئی دوسرا ترجمہ ممکن ہی نہیں، ایک دفعہ یہاں ایک چین کے ماہرعالم تشریف لائے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے کہ مجھے صرف ختمِ نبوت والے مسئلے پر آپ سے اتفاق نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کا حق ہے۔ لیکن آپ بتائیں قرآن سے چاہیں گے یا حدیث سے کس مضمون سے آپ مواد چاہیں گے جو میری تائید کرتا ہو۔ انہوں نے کہا میں تو صرف قرآن سے چاہوں گا۔ میں نے چار آیات نکالیں۔ اور ان کے سپرد کیں کہ آپ تین دن تک جتنا زور مارنا ہے مار لیں۔ ان آیات کے ہوتے ہوئے ختم نبوت کا وہ عقیدہ جو آپ نے بنارکھا ہے وہ انصاف سے کہیں کہ آیات اس پہ قائم ہیں یا نہیں۔ تین دن کے بعد سر پھینکا ہوا آئے اور کہا کہ ان آیات کے ہوتے ہوئے میرے پاس کوئی امکان نہیں ہے کہ میں پرانے مولویوں والے عقیدے پر قائم رہ سکوں۔ سوائے ایک آیت کی تشریح کے۔ وہ اس پر ہمارے دو تین دن لگ گئے۔ اور جب تشریح مکمل ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اب میں بات سمجھ گیا ہوں۔ اب اس کے بعد میرے پاس اس کے سوا کوئی امکان نہیں کہ امت محمدیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے تابع نبوت کو جاری سمجھوں۔ تابع نبوت کو من یطع اللہ (مطیع) نبوت کو لیکن میں ابھی احمدی نہیں کیونکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ چسپاں نہیں ہورہا۔ا س لئے اس بہانے سے وہ نکل گیا۔ اس کو میں نے کہا مجھے بتاؤ کیوں نہیں چسپاں ہورہا میں ثابت کروں گا۔ کچھ عرصہ گفتگو ہوئی پھر وہ یہاں سے بھاگ گیا۔ مگر اس کی نیت مسلمانوں کا اپنے علاقے کے مسلمانوں کا لیڈر بننا تھا۔ اس عقیدے سے تو اس کو بس نہیں تھا کیونکہ اتنا انصاف ان لوگوں میں ہے۔ چین کے علماء میں یعنی بعض میں کم سے کم کہ جب واضح شہادت (قرآن کی ہو) تو سر جھکادیتے ہیں۔ لیکن فرار کی اور راہیں بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں صداقت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے ثابت نہیں ہوئی۔ اس لئے میں جاتا ہوں یہاں سے۔ تو وہ اپنے واپس گئے ہیں۔ پھر سعودی عرب گئے پھر ایران گئے پھر دوسری جگہ ۔ جہاں سے پیسہ اور لیڈرشپ ملی ہے وہاں گھومتے پھر ے ہیں۔ لیکن سعادت سے محروم رہ گئے ہیں۔ ایک آیت ان میں سے یہ تھی۔ جو اب میرے سامنے ہے۔ یا بنی ادم اما یأتینکم رسلا منکم یقصون علیکم ایاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ اے بنی آدم اے آدم کی اولاد اما یأتینکم رسولا جب تمہارے پاس رسول آئیں منکم تم میں سے ہوں۔ یقصون علیکم یعنی وہ رسول نہیں جو فرشتے آیا کرتے ہیں۔ اس لئے منکم کی شرط اس لئے بیان کی گئی کہ انسان ہوں۔ فرشتے رسول نہیں وہ بھی تو آیا کرتے ہیں۔ یقصون علیکم ایاتی وہ میری آیات تم پر تلاوت کریں۔ میری آیات تم پر تلاوت کریں۔ یہ نہیں فرمایا ان پر نازل ہورہی ہوں۔ صاف ظاہر ہوا کہ یہاں امتی رسولوں کا ذکر ہورہا ہے۔ جن سے پہلے آیات کی تلاوت ہوچکی ہے۔ انہوں نے ان آیات کو آگے تلاوت کرنا ہے نہ کہ ان پر نازل ہوں گی۔ پس آیات یعنی قرآن کریم میں جو شریعت ہے ان کے نزول کا اپنے اوپر دعویٰ نہ کریں۔ یقصون علیکم ایاتی جو میری آیات قرآن کریم میں مراد یہ ہے نازل ہوچکی ہے۔ وہ لوگوں سے بیان کریں اس کے بعد فمن اتقی واصلح فلا خوف علیھم ولا ھم یحزنون اس کے بعد جو بھی خدا کا خوف اختیار کرے گا اور اپنی اصلاح کرے گا تقویٰ کرے گا اصلاح کرے گا اس پر فلا خوف علیھم اس پر کوئی خوف نہیں ہے۔ ولا ھم یحزنون اب ا س سے بنی آدم مخاطب ہیں اس میں۔ صرف مسلمان مخاطب نہیں۔ سارے بنی آدم کے لئے یہ پیش گوئی ہے۔ کہ تم میں سے رسول آسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ ان آیات کی تلاوت کریں جن کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان آیات کو تفصیل سے بیان کرو۔ یقصون اس کی پیروی کرو اس کی تشریح کرو۔ ایسے رسول اگر آئیں تو ہرگز وہ حارج نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خاتمیت میں۔ یہ آیت تھی جس پہ وہ کچھ مزید غور چاہتے تھے۔ اور جب ان کو پتا چل گیا ساری دنیا میں (فلاں) ساری دنیا کے لئے آنا ہے اور آنے والے نے بھی ساری دنیا کے لئے دعویٰ کرنا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت کا دعویٰ کرنا تھا۔ نیا قرآن نہیں بنانا تھا۔ تو پھر ان کا دل صاف ہوگیا کہ ہاں مجھے سمجھ آگئی ہے۔
(آل عمران آیت180 ) ماکان اللہ لیذر المؤمنین علی ما نتم علیہ حتی یمینہ الخبیث من الطیب وماکان اللہ لیطلع کم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ ن یشاء فامنوا باللہ ورسلہ وان تؤمنوا وتتقوا فلکم اجر عظیم یہ تو عمومی آیت ہے جو میں نے خاص چنی ہوئی ہیں یہ ان میں سے نہیں ہے۔ اب سورۃ حج کی ایک آیت ہے یہ بھی ہم پیش کرتے ہیں۔ اس سے لازماً ہماری تائید میں استنباط ہوتاہے۔ مگر عمومی آیت ہے۔ اللہ یصطفی من الملائکۃ رسولا ومن الناس یعنی خدا ایک جاری کردار بیان فرمایا گیا ہے یعنی کہ کان اللہ اللہ پرانے زمانوں میں چنا کرتا تھا۔ اور رسل کو ساتھ بیان کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اب بھی جب خدا رسولوں کو ، فرشتوں کو رسول بنا کر بھیجتا ہے تو من الناس کے اوپر کوئی پردہ نہیں ہے وہ چاہے تو فرشتوں کی طرح انسانوں کو بھی رسول کے بھیج سکتا ہے۔ یہ ایک جاری دستور ہے اللہ تعالیٰ کا۔ اس دستور کے اوپر اس آیت میں یا اس کی بعدکی آیت میں کوئی ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں لگائی گئی۔ یہ اللہ کی شان ہے جب چاہے کرے گا جس کو چاہے گا کرے گا۔ یہ بھی داعیان الی اللہ باذنہ و سراجا منیرا یہ استنباط والی آیت ہے۔ وہ قطعی آیات جن کو میں پیش کیا کرتاہوں ان میں سے نہیں ہے یہ ۔ اب ایک یہ آیت ہے جو میں نے ان صاحب کے سامنے پیش کی تھی۔ اور اب آپ کے سامنے اس کو رکھتا ہوں۔ واذاخذ اللہ میثاق النبیٖن لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولینصرنہ قال ء اقرر تم واخذتکم عن ذلکم امری قالوا اقررنا قال ناشھدوا وانا معکم من الشاھدین۔ مثاق النبیین والی یہ آیت ہے۔ اور اس آیت سے یہ ان کے بڑے سے بڑے علماء بھی سخت گھبراتے ہیں۔ کیونکہ ان کے موقف کو قطعیت کے ساتھ غلط ثابت کردیتی ہے۔ میثاق کے متعلق جب مولانا مودودی سے یہ سوال کیا گیا کہ میثاق النبین والی آیت تو بتاؤ یہ کیا قصہ ہے تو انہوں نے یعنی جا کر کیونکہ عالم ہونے کے لحاظ سے اتنا علم تو ان کو ہونا چاہئے کہ یہودیوں کے ساتھ جو میثاق ہے وہ اور ہے اور میثاق النبیین اور ہے یہودیویں کے ساتھ میثاق والی آیت الگ بیان ہوئی ہے اور اسی طرح بیان ہوئی ہے۔ کہ ان کا یہ میثاق حضرت موسیٰ سے لیا گیا تھا۔ اور یہ میثاق جو ہے اس کو میثاق النبیین کہتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے قرآن کریم میں سورۃ احزاب میں اس آیت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ پس میثاق النبیین والی آیت کو کسی دوسری آیت کے ساتھ منسلک نہیں کیاجاسکتا۔ ۔ بالکل الگ مضمون ہے۔اس آیت کا ترجمہ یہ ہے ’’یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے یہ پختہ عہد لیا کہ میں نے ہی تم کو کتاب اور حکمت دی ہے‘‘ یعنی کتاب اور حکمت جو تمہیں دی گئی ہے میں نے دی ہے۔ میں مالک ہوں۔ میری مرضی ہے جس کو چاہوں دوں۔ پس اگر کوئی رسول تمہاری تعلیمات کا مصدق تمہارے پاس آئے تو اس پر ضرور ایمان لانا ہے۔ تعلیمات کا مصدق یہ ایک ایسا اصول ہے جو ماضی پر بھی چسپاں ہوسکتا ہے حال پربھی۔ مستقبل پر بھی۔ اگر کوئی خدا کی طرف سے آنے کادعویٰ کرے اور اس چیز کی تصدیق کرے جو اس سے پہلے نبی اور اس کی کتاب کی تعلیمات میں موجود ہے اس کا انکار کیوں کروگے۔ سر پھرا ہے جو انکار کروگے۔ وہ تو تائید کررہا ہے۔ اور اپنے مؤید کا تم انکار کررہے ہو۔ یہ حرکت تائید کرنے والوں سے نفرت کرنا یہ بعض ملکوں میں ہورہی ہے۔ جتنا زیادہ ان کے عقیدے کی تائید کروگے اتنا زیادہ پھانسی پر لٹکنے کے اہل قرار دیئے جاؤگے۔ اور اگر تائید نہ کرو تو پھر کھلی چھٹی ہے۔ یہ جہالت جس کی کوئی مثال پرانی تاریخوں میں نہیں ملتی یہ جہالت آجکل رائج ہے اور یہ آیت کریمہ اس کو اس جہالت کو ننگا کرکے دکھا رہی ہے۔ کس بات کا انکار کررہے ہو تمہاری تائید کا۔ تائید کا کون انکار کیا کرتا ہے۔ اختلاف کرے تم سے تو پھر انکار کرو۔ لیکن تم سے نہیں اختلاف نبی کی تعلیمات سے جو پہلے گزرے ہیں۔ یہ بحث ہونی چاہئے صرف کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے نعوذباللہ من ذلک اور کتاب قرآن کریم سے نعوذباللہ من ذالک کیا جماعت نے کبھی انکار کیا ہے۔ جب وہ انکار نہیں کرتے تو کہتے ہیں یہ جرم ہے تمہارا۔ انکار کیوں نہیں کرتے اگر انکار کروگے تو بچ جاؤگے پھر تم ان ہندوؤں، عیسائیوں، مشرکوں، یہودیوں، دہریوں کے ساتھ ہوجاؤگے۔ جن کے لئے اب مسلم لیگ کے دروازے کھل گئے ہیں۔ لیکن اگر تم نے تائید کی قرآن کریم کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی تو بند ہیں۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یہ آیت ہے فرمایا کیا تم اقرار کرتے ہو انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم گواہ رہو۔ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ تائید کیسے کریں گے یہ تو پرانے زمانے کی باتیں ہورہی ہیں بظاہر تائید کا مطلب ہے اپنی امت کے لئے ان کے حق میں گواہی دے جانا۔ اگر تمہاری امت نے ان کی تائید نہ کی تو گویا اس عہد پر قائم نہیں رہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی سچی امت وہی ہے جو اس مؤید کی تائید کرتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی تائید کرتاہے۔ اور اگر وہ اس سے ہٹیں تو گواہ رہو کہ تم نے اپنا فرض پورا کردیا آگے ان کی مرضی۔ اب یہی آیت کریمہ اسی میثاق کی طرف یعنی یہ آیت کریمہ نہیں ایک اور آیت کریمہ اسی میثاق کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حوالے سے بات کرتی ہے۔ کیونکہ یہ مولوی کہہ سکتے تھے کہ یہ میثاق پرانے زمانے کے لوگوں سے لیا جاتا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا زمانہ آیاتو یہ میثاق لینا بند کردیا گیا۔ اس کا جواب اسی سورۃ میں ہے جس سورۃ میں آیت خاتم النبیین ہے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ کہاں رکھا ہے جہاں وسوسہ ہے وہاں اس کا جواب موجود ہے۔ وہ آیت یہ ہے۔ واذاخذانا من لنبیٖن میثاقھم ومنک ومن نوح وابراہیم و موسی و عیسٰی ابن مریم واخذنا منھم میثاقا غلیظا۔ لیسئل الصادقین عن صدقھم و اعد للکافرین عذابا الیما۔ یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا۔ میثاق النبیین کون سا ہے؟ جس کا ابھی ذکر گزرا ہے۔ اسی کو میثاق النبیین کہا گیا ہے قرآن کریم میں کہیں اور کسی میثاق کو میثاق النبیین نہیں کہا گیا۔ وہ مضمون اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ظہور پر ختم ہوجانا چاہئے تھا تو اس کا کیا مطلب ہے۔ واذاخذنا من النبیٖن میثاقھم ومنک جب ہم نے نبیوں سے ان کا میثاق لیا اور تجھ سے بھی۔ نبیوں والے میثاق میں تو یہ ذکر آتاہے جو ہماری طرف سے آئے رسول ہونے کا دعویدار ہو اگر تائید میں ہوگا ہماری تو اس کی تائید تمہیں کرنی پڑے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد اگر کوئی آسکتا ہی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے کیوں میثاق لیا۔ (کیوں جی کسی کو سمجھ آئی ہے بات کی۔ کیوں لیا ہے میثاق۔) میثاق النبیین میں ہے کہ جب ہم نے تمہیں تعلیم دی بعد میں اگر کوئی ہماری طرف سے آئے جو تائید کرتا ہو تم نے اس کی ضرور تائید کرنی ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں آپ کے وصال کے بعد ایسا کسی کا آنا ناممکن تھا تو منک کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ ہم نے یہ عہد تجھ سے بھی لیا ہے۔ اس کے بعد نبیوں کا ہے ان سے بھی لیا ان سے بھی لیا۔ سب نبیوں کا ذکر کرکے فرمایا میثاقا غلیظا اس میثاق کو معمولی نہ سمجھو یہ بہت پختہ عہد ہے جو لیا گیا ہے۔ اس پہ تم لوگ پوچھے جاؤ گے۔ اور فوراً سنایا ’’ یسئل الصادقین عن صدقھم‘‘ یہ عہد اس لئے باندھا ہے پختہ کہ پوچھا جائے وہ جو صادق ہونے کا دعویدار ہے تو کہتے ہیں ہم سچے ہیں۔ اپنی اطاعت میں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو تسلیم کرنے میں تاکہ ان کے صدق کے متعلق ان سے پوچھا جائے واعد للکافرین عذابا الیما اور کافروں کے لئے ہم نے بہت دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ تفسیر حسینی میں یہ درج ہے۔ واذاخذنا یاد رکھو کہ لیا ہم نے من النبیٖن نبیوں سے۔ میثاقھم ان کا عہد۔ ان کا اس بات پر کہ خدا کی عبادت کریں اور خدا کی عبادت کی طرف بلائیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کریں۔ یا ہر ایک کو بشارت دیں اس پیغمبر کی ان کے جو ان کے بعد ہوگا۔ یہ میثاق النبیٖن والی آیت کی تفسیر ہے۔ اور یہ عہد پیغمبروں سے روزِ۔۔۔۔۔۔۔ میں لیا گیا۔ ومنک اور لیا ہم نے تجھ سے بھی یہ عہد اے محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تو صاف کھل کے بات بیان کردی گئی یہ پیغمبروں کے بعد آنے والے پیغمبروں کی تائید کا حوالہ ہے اور روزِ ۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ عہد لیا گیا یعنی ایک مقدر تقدیری عہد ہے جو ہر ایک سے لفظاً لفظاً لینا ان معنوں میں شاید ضروری نہ بھی ہو مگر نبی کی سرشت میں یہ بات داخل ہے کوئی نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی سرشت کے اعتبار سے اپنے آنے والے پیغمبر کے انکار پر امت کو تیار کرے۔ جتنے بھی ہیں ان کی سرشت میں یہ ہے کہ جس خدا نے ہمیں بنایا ہے ہماری اطاعت اس کی وجہ سے فرض ہوئی ہے۔ یہ نہ ہو کہ ہماری قوم بعد میں آنے والوں کا انکار کردے۔ اس لئے ان کی سرشت بولی ہے ہرجگہ اور انہوں نے ہر جگہ آنے والوں کی تائید میں نصیحتیں فرمائیں ہیں۔ دوسرے قرآن کریم میں ایک آیت ہے جو آئندہ زمانے میں ٓنے والوں کا ذکر کررہی ہے کیونکہ اس کا معنیٰ یہ لینا کہ قیامت کے دن یہ ہوگا۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ اقتت کا لفظ ہے معین وقت میں۔ واذالرسل اقتت جب رسول معین وقت کے اوپر اٹھائے جائیں گے۔ یا مبعوث کئے جائیں گے یعنی آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو بروزی رنگ میں دوبارہ ظاہر کرے گا۔ شیعہ لوگ اسی سے استدلال کرتے ہیں کہ امام مہدی کے زمانہ میں تمام رسول لائے جائیں گے، شیعہ سنیوں کو بتانے کے لئے اپنی پاپولیریٹی کے لئے اپنے عقیدوں کے خلاف بھی معنے لے لیتے ہیں۔ مگر یہ وہ آیت کریمہ ہے جس میں وہ اپنے آئمہ کے نبی بنانے کی خاطر مجبور ہیں کہ اس کے معنی وہ یہ لیں۔ یعنی امام مہدی کو خصوصیت کے ساتھ۔ وہ چونکہ نبی کا مرتبہ دیتے ہیں اور آئمہ کو بساوقات نبیوں سے بالا مرتبہ بھی دیتے ہیں مگر امام مہدی کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کے آنے سے گویا سارے رسول اٹھائے جائیں گے۔ تفسیر قمی میں لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر (یہاںں بھی تفسیر قمی صفحہ بیکار حوالہ ہے۔ اگر پورا حوالہ ہوتا ان کو سن رہے ہوں گے۔ حوالوں میں توجہ کریں ہمارے لٹریچر میں اکثر حوالے اس لحاظ سے بہت ناقص ہیں۔ چنانچہ مجھے جب بھی ضرورت پڑتی ہے بہت چھان بین دوبارہ کروانی پڑتی ہے۔ یہ الفاظ ہیں یہاں۔ کس ایڈیشن میں ہیں۔ تو علماء یہ آسانی کے ساتھ جو کتب سامنے ہے اس کا حوالہ دے اس کا۔ یہ درست نہیں ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں اس کا اگلا صفحہ پچھلا صفحہ کس وقت شائع ہوئی تھی۔ کس مطبع سے شائع ہوئی تھی۔ بہرحال تفسیر قمی کا آ پ ان سے منگوائیں اصل حوالہ کیا ہے۔) لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دنیا میں واپس آئیں گے اور امیرالمؤمنین مہدی کی مددکریں گے۔ وہ سارے رسول ضرور دنیا میں واپس آئیں گے۔ اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے۔ ان کا جو استنباط کا طریق ہے وہ سطحی ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعۃً وہ نبی دنیا میں دوبارہ آئیں گے۔ مگر امام مہدی کے تابع تمام دنیا کے نبیوں کی قومیں کی جائیں گی۔ تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ان سب قوموں کے سردار اسی دنیا میں ثابت ہوجائیں۔ یہ بحث نہ رہے۔ یہ صرف دعویٰ ہے واقعۃً اس زمانے میں ایک ایسا شخص مبعوث ہو جو اپنے آپ کو غلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کہہ رہا ہو۔ اور اسی کے تابع تمام دنیا کی قوموں نے اسلام میں داخل ہونا ہو۔ یہ گویا ان نبیوں کی گواہی ہوگی کہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سب سے اوپر ہیں۔ وہ ایک شعر جس پہ اعتراض کرتے ہیں غیراحمدی مولوی کہ حضرت عیسیٰ کی ہتک ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی ہتک تو بالکل برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ وہ یہ کہتے ہیں۔ وہ شعر یہ ہے کہ:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بڑھ کر غلام احمد ہے
اب لفظ غلام احمد ان کو نظر نہیں آتا۔ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو نظر آجاتا ہے۔ ابن مریم کا ذکر تم کیا لگائے پھرتے ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا غلام جو ابن مریم بن کے آیا ہے۔ وہ اس ابن مریم سے بہتر ہے جو پہلے ظاہر ہوا تھا۔ کیونکہ یہ غلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہے۔ وہ غلام موسیٰ تھا۔ یہ اتنی سی منطق بھی ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ یہ تفسیر کبیر کا ایک حوالہ ہے امام رازی کا اور یہ وہ ایک عمومی حوالہ ہے اسے غیر احمدی تسلیم کریں یا نہ کریں مگر ان کے نزدیک المک سے مراد نبوت ہے۔ مالک الملک تؤتی الملک من تشاء وہ کہتے ہیں اس آیت میں الملک سے مراد نبوت اور رسالت کی حکومت ہے۔ جیسا کہ فرمایا کہ ہم نے ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آل کو کتاب اور حکمت عطا کی۔ اس آیت کا ظاہر اور باہر اطلاق تو شاید اس مضمون سے نہ ہوتا ہو مگر ملک یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا خدا تعالیٰ کی ملکیت کا مظہر ہونا اور مالکیت کا مظہر ہونا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفصیل سے تحریرات ہیں اور میں بھی بہت سی تحریرات کا حوالہ دے چکا ہوں۔ ( یہ کہاں ہے اس کا حوالہ جو پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لیں) مع بمعنی روحانی قرب یہ تو پہلے حوالے آچکے ہیں۔ ہاں۔ اچھا (ربوہ سے اس سلسلے میں جو مواد ملا ہے اس میں سے کچھ میں پہلے بیان کرچکاہوں تفصیلی آیات کے حوالے سے انہوں نے مختصر حوالہ دیا ہے۔) مع بمعنی روحانی قرب کے توفنا مع الابرار اب یہاں روحانی قرب کا معنی ہے ہی نہیں۔ لکھا ہوا ہے اس نے توفنا مع ۔۔۔۔۔۔۔۔ توفنا مع الابرار کا مطلب ہے من الابرار تو روحانی قرب کی بحث نہیں ہے۔ ان میں سے ہونا مراد ہے۔ فاولئک مع المؤمنین یہاں بھی من مراد ہے۔ انہوں نے بمعنیٰ روحانی قرب کے معنی وہ من لئے ہوئے ہیں غالباً۔ وارکعی مع الراکعین اور سجدہ کرنے والوں کے ساتھ اے عورت تو بھی سجدہ کر۔ یہ بھی من کے معنوں میں ہی آتا ہے۔ ان اللہ معنا بھی اس بھی دے دیا ہے ۔ یہ کیسے من کا معنی دے سکتا ہے۔ یہ عجیب و غریب جلدی میں چیزیں اکٹھی کی گئی ہیں۔ اس پر میں آج گفتگو نہیں کرسکتا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں غلط حوالے آئے ہوئے ہیں۔ ایک مضمون کے ہیں ہی نہیں consistanltly ان اللہ معنا کا معنی تو روحانی قرب ہے لازمی بات ہے۔ لیکن توفنا مع الابرار میں روحانی قرب مراد نہیں۔ من الابرار مراد ہے۔ مع المؤمنین روحانی قرب مرادنہیں۔ من المؤمنین مراد ہے۔ پس ساتھ بیچ میں یہ بھی جڑ دیا ہے ان اللہ معنا تو اللہ من ہم میں سے ہے۔ نعوذباللہ من ذلک۔ ان معی رب سیھدین یہ سب خلط ۔۔۔۔۔۔ ہوا ہوا ہے۔ (اس فہرست کو آپ اٹھا لیں اور مجھے تو شاید وقت نہ ملے آج اور آپ اس پر زور لگاکر دیکھیں۔ میری مرضی کے مطابق ہر حوالے کو اس کی جنس کے مطابق ڈھالیں۔ من والے حوالے الگ ہوں۔ روحانی معیت کے معنوں میں الگ ہوں اس دنیامیں معیت کے معنی الگ ہوں۔ اور قسمیں پہچانی جائیں کہ جب اللہ اپنے آپ کو کسی کا مع کہتا ہے تو اس کا معنی من ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسی قسمیں جہاں مع کا معنیٰ من ناممکن ہے۔ ایسی قسمیں جہاں من کے سوا معنی ممکن ہی نہیں۔ اور آخرت میں معیت کی باتیں۔ اس میں من کی بحث نہیں آئے گی۔ کیونکہ آخرت میں جو معیت ہوگی وہ محبت درجوں وغیرہ کے لحاظ سے تو بات بالکل کھل جائے گی، سمجھ گئے ہیں۔ آپ۔ ابھی وقت ہے دس منٹ۔۔۔۔۔۔۔) اب بعض احادیث پیش خدمت ہیں۔ ان کے متعلق میں نظر تو نہیں ڈال سکا مگر علماء کا خیال ہے یہ تائیدی احادیث ہیں۔ ابھی بات کھل جائے گی آپ کے سامنے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ مسند احمد بن حنبل اور مشکوٰۃ سے یہ حدیث لی گئی ہے مشکوٰۃ میں تو مختلف احادیث جمع ہوئی ہوئی ہیں۔ تو اور مشکوٰۃ کے حوالے سے کیا مطلب ہے۔ وہاں مسند احمد بن حنبل کا حوالہ ہی ہوگا۔ یا اور یا کسی اور حدیث کا ہے تووہ لکھنا چاہئے تھا۔) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھالے گا۔ اور خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگی پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو اٹھالے گا۔ پہلی نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اپنی نبوت ہے تم میں نبوت قائم رہے گی جب اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھالے ۔ اس کے بعدخلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگی۔ یعنی وہ خلافت جو نبی کے رستے پر اس کے بعد قائم کی جایا کرتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھالے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذاء رساں بادشاہت قائم ہوگی یعنی ایسے بادشاہ مسلط کئے جائیں گے جو اپنی رعایا کو دکھ دیں گے۔ جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے۔ اور تنگی محسوس کریں گے۔ جب یہ دور ختم ہوگا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق ا س سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہوگی۔ جیسا کہ آجکل ہم دیکھ رہے ہیں یہ پرانے جابر بادشاہتوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ بادشاہت کے زور پر جو چاہو منوا لو کسی قسم کی بادشاہت۔ اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کے بعد ان بادشاہتوں کی حقیقت ختم ہے کوئی معنے نہیں ہیں۔ لیکن ویسے قائم رہتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد پرانی جابر امتیں بھی جاری رہی ہیں تو یہ مراد نہیں کہ وہ بادشاہت وہاں ختم ہوجائے گی۔ جب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائیں گے۔ یعنی ایک آخری دور جو بادشاہتوں کا وہ یہ ہے۔ نہایت سفاک ظالم انسانی حقوق کے خلاف ورزی کرنے والے اپنی مرضی کے من مانے معنی کرنے والے یہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آجائے گا اورا س ظلم و ستم کے دور کو ختم کردے گا۔ اس کے بعد یہاں یہ انہوں نے اپنی طرف سے معنے کئے ہیں ترجمے والوں نے اور یہ ظلم و ستم کے دور کو ختم کردیتے ہیں۔ اصل حدیث کے الفاظ میں ہے ہی نہیں۔ تو دیکھنا چاہئے آنکھیں کھول کے حوالہ لکھتے وقت کوئی ایسا غلط ترجمہ نہ کردیں جو ہماے مضمون کی طرف سے بات کو پھیرے ابھی میں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ پیشگوئی نہیں ہے کہ ظالم بادشاہتیں یک دفعہ اٹھادی جائیں گی۔ مراد یہ ہے آخری دور میں ظالم بادشاہتیں ہوں گی۔ اسی دور میں اللہ کو رحم آئے گا اور منھاج النبوۃ پر دوبارہ سلسلہ شروع ہوگا۔ یہ لکھنے والے نے اپنی طرف سے لکھ دیا ہے۔ کہ وہ ظالم باشاہتیں اٹھادی جائیں گی اور ختم کردی جائیں گی۔ اصل حدیث کے الفاظ میں نہیں ہے۔ صرف اتنا ہے کہ جابر بادشاہت قائم ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا۔ اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کردے گا۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ اصل الفاظ میں نہیں ہے۔ اس کے بعد پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوگی یہ فرماکر آپ خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد وہ خلافت جاری ہوگی جو نبوت کے آنے سے جاری ہوتی ہے۔ ۔ اس کے بغیر جاری ہو ہی نہیں سکتی۔ پہلی خلافت منھاج النبوۃ پہ کیسے قائم ہوئی تھی نبی تھا۔ اگر نبی نے نہیں آنا تو وہ خلافت کیسے قائم ہوجائے گی جو منھاج النبوۃ پر قائم ہوا کرتی ہے۔ اس کے قائم ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کوئی ذریعہ نہیں جس ذریعے سے اس کو قائم کیا جاسکے کیونکہ نبوت کے تابع امتیں اکٹھی ہوتی ہیں جب وہ ایک ہوجائیں اور اس کی اطاعت میں ایک مٹھی کی طرح ہوجائیں پھر ان میں خلافت علی منھاج النبوۃ ہوا کرتی ہے۔ اور یہ تیاری قوم کی نبی کیا کرتاہے۔ اس لئے آج کے زمانے میں جتنی کوششیں بھی ان کی ہوئی ہیں۔ عالمی خلافت قائم کرنے کی وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ نہ کبھی ہوسکتی ہیں۔ جتنا مرضی زورر لگا لیں۔ ناممکن ہے کہ یہ امت محمدیہ کی اجتماعیت کے لحاظ سے ایک ایسا خلیفہ تجویز کریں جس کو ساری امت محمدیہ تسلیم کرلے۔ یہ منھاج النبوۃ کی باتیں ہیں۔ اور حضرت مسیح موعوعد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کے بعد خلافت جو قائم ہوئی ہے اس میں دنیا کے کسی کونے میں بھی جو بھی مسلمان بس رہے ہیں کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں وہ اس مرکزی خلافت کے قائم اور اس کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں۔
پس یہ پیشگوئی بالکل کھلی کھلی تھی جس کو علماء نے نظر انداز کردیا اور اس کا نقصان دیکھ رہے ہیں۔ ایک دوسری حدیث ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو بخاری کتاب التفسیر سوۃ جمعہ میں بیان ہوئی ہے۔ اور یہ وہ حدیث ہے جس کو میں بارہا پہلے بیان کرچکا ہوں۔ جس کو چھوڑا بھی جاسکتا ہے اب کیوں جی بخاری والی وہ حدیث جس میں ہے کہ ثریا سے ایمان لے آئے گا۔ یہ اس کثرت سے پہلے میں بیان کرچکا ہوں کہ اب درس کے محدود وقت کے لحاظ سے اسے چھوڑ دیتا ہوں۔ لیکن یہ بہت ہی پختہ مضمون ہے جو جماعت احمدیہ کی تائید میں ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ آئندہ زمانے میں ایسے شخص کو نازل فرمائے گا جو ثریا سے بھی ایمان کو کھینچ لائے گا۔ یعنی اس زمانے میں لوگوں کا ایمان عملاً اٹھ چکا ہوگا۔ اب یہ جو احادیث ہیں جن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جیرے بعد کوئی نبی نہیں علماء کا بہت زور ان احادیث پر ہے اور اس کے جواب میں وہ اس جلسہ سالانہ کی تقریر میں نتے تمام ایسی احادیث پڑھ کر ان کا توڑ کیا ہے۔ ان کے غلط استنباط کا توڑ کیا ہے حدیث کا توڑ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ حدیث جو ہے یہ ظاہر کررہی ہے کہ اگر زمانی طور پر بھی نبوت کی نفی ہے تو ایک جگہ جا کر وہ زمانہ بند ہوجائے گا۔ اس وقت تک نبی کی نفی ہے۔ وقت ہوگیا ہے۔ ٹھیک ہے کل پھر۔ اب یہ کافی لمبا مضمون ابھی چل رہا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اس کو جلدی ختم کردوں پرانے مضامین کی تکرار نہ ہو۔ لیکن کہیں کہیں اس لئے تکرار ضروری ہے کہ جو نئی نسل کے لوگ ہیں جونئے لوگ شامل ہورہے ہیں اور MTA کی وجہ سے بڑی کثرت سے ایسے لوگ اب دیکھ رہے ہیں۔ جن کے خواب و خیال میں بھی عرفان ختم نبوت والی تقریر نہیں ہے۔ اس لئے ان نئے لوگوں کی تربیت کی خاطر کچھ نہ کچھ اگر تکراربھی ہوجائے تو حرج نہیں مگر بہت لمبی نہیں ہوسکتی۔ باقی انہوں نے دیکھنا ہے تو اس کی ویڈیو آڈیو وغیرہ مہیا ہیں۔ اس تقریر کی۔ وہ اس کو حاصل کریں اور اس سے استفادہ کریں۔
‏bcdbcd

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
18رمضان المبارک 17 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ
آج جو پانچ منٹ کی تاخیر ہوئی ہے اس کا کون سب بنا ہوگا؟ کوئی اندازہ ہے؟
آپ آتے تھے مگر کوئی عنان گر بھی تھا
پرائیویٹ سیکرٹری صاحب۔ کیونکہ لباس پہ اختلاف ہوگیا۔ وہ سرخ والا چوغہ تھا ناں جو کشمیری چوغہ پہنتے ہیں میرے خیال میں وہ رات کا لباس نہیں دن کا لباس ہے اور کشمیر اور پاکستان میں بھی سب دن کو پہنتے ہیں۔ میں اسی میں آنے والا تھا۔ صبح سے وہی پہنا ہوا تھا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اصرار کیا یہ ہرگز نہیں بالکل نامناسب بات ہے۔ میں پھر مجبوراً اوپر گیا اور اوپر سے بدل کر آیا۔ ٹھیک ہے ناں۔
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
ومن یطع اللہ والرسول فاولئک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وحسن اولئک رفیقا۔ (سورۃ النساء آیت 70)
اس آیت کا درس جاری ہے اور اس ضمن میں میں نے وہ حوالہ دیا تھا تفسیر قمی کا۔ کل میں نے زبانی بات کی تھی کہ تفسیر قمی میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دنیا میں واپس آئیں گے اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد سارے رسول آئیں گے اور پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ختم نبوت کی مہر نہیں ٹوٹے گی۔ یہاں ایک قابل ذکر بحث ہے کہ یہ حوالہ جو ہے کس کی طرف منسوب ہوا ہے؟ کس امام کی طرف؟ (ہاں آگے ہے۔ تفسیر قمی کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) میں امام کا حوالہ ڈھونڈ رہا ہوں کس امام کی طرف یہ منسوب ہوا ہے؟ (میں نے کہا اس حوالے کے نیچے لکھا ہوا ہے بحارالانوار جلد 13 مصنفہ علامہ محمد باقر مجلسی۔ یہ علامہ محمد باقر مجلسی کا حوالہ ہم صرف پیش کررہے ہیں؟ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کہ وہ امام ابوجعفر کا ہے؟ وہ کہاں ہے امام ابوجعفر نکالیں اس میں سے) کیونکہ میرے نزدیک تو علامہ باقر مجلسی کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے کہ ان کے حوالے کو لے کر ہم اپنے درس قرآن میں تائیدی حوالوں کے طور پر پیش کریں۔ اگر امام کی طرف منسوب ہو تو وہ ہوسکتا ہے لیکن بہت سے اماموں کی طرف منسوب حوالے ہم نے رد بھی کردیئے ہیں۔ یہ کیا وجہ ہے؟ ایک فرق میں کیوں کررہا ہوں؟ اماموں کی طرف منسوب وہ حوالے میں رد کرتا ہوں اگر وہ نامناسب ہوں جن میں بغیر سند اور روایت کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی روایت درج ہوتی ہے اور یہ امام کی طرف منسوب ہو کر سمجھتے ہیں کہ یہی کافی ہے۔ گویا کہ ہمارے نزدیک امام نے کہا ہے۔ حالانکہ امام نے آگے سند کو پیش نہیں کیا وہ جہاں بھی امام سند پیش نہ کرے وہاں ضروری ہے کہ سند کی تلاش کی جائے۔ کیونکہ امام تک پہنچنے والی باتیں ان لوگوں کو غلط پہنچ سکتی ہیں لیکن جب امام اپنی رائے بیان کرے اور اس رائے کو ہم اس لحاظ سے رد نہ کرسکیں کہ وہ درست پہنچی ہے۔ آگے۔ تو امام کی رائے کے طور پر اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ جس حدیث کا وہ حوالہ دیتا ہے اگر وہ حوالہ نہیں ہے وہ حدیث موجو ہی نہیں تو ہم اس حدیث کو رد کردیں گے مگر امام اپنی رائے دیتا ہے اس کا ایک رتبہ ہے اور ان سب آئمہ کا ہمارے نزدیک ایک بڑا مقام ہے۔ ان کی رائے کو اہمیت ہے نہ کہ ایک فرضی حدیث کے حوالے سے رائے قائم کی ہے۔ اب سمجھ گئے ہیں؟ اس پہلو سے باقر مجلسی صاحب کا یہ حوالہ اٹھالیں۔ یہ دیکھ کے بتائیں کہ اس میں کسی شیعہ امام کے حوالے سے یہ ذکر ہے کہ ان کی یہ رائے تھی۔ اصل میں لفظ امام باقر نے یہ مسئلہ دھندلا دیا ہے۔ کیونکہ امام باقر ایک امام کا نام بھی ہے لیکن جب لفظ مجلسی میں نے دیکھا تو پھر سمجھ آئی کہ اوہو یہ تو سارا قصہ ہی ہاتھ سے گیا۔ سمجھے ہیں؟ شوق تو ہے علماء کا تائیدی حوالوں کا مگر احتیاط بھی لازم ہے۔ اب یہاں کے بہت سے حوالے ایسے موجود ہیں جن کا تعلق ایسی احادیث سے ہے جن میں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یہ احادیث کثرت سے بیان ہوئی ہیں اور ان پر غیراحمدی ائمہ کا بہت حد تک انحصار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ بعدی کی تشریح جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمادی اور بالکل قطعی طور پر یہ گنجائش نہیں رہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی آسکے تو پھر اس آیت کریمہ سے ایسے معنیٰ لینا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے واضح ارشادات کے مخالف ہوں یہ درست نہیں۔ یہ بڑی قطعیت کے ساتھ ان کا استدلال ہے۔ اس سارے پہلو پر میں اختصار کے ساتھ نظر ڈالوں گا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ بعد میں آنے والے ایسے لوگ ہیں جو اب درسوں میں شامل ہورہے ہیں ان کی خاطر کچھ نہ کچھ ان کو علم ہونا چاہئے اس مسئلے کا اور آئندہ چونکہ تبلیغ میں بہت زور ہے اور کثرت سے داعی الی اللہ پھیل رہے ہیں اس آیت کریمہ کا منطوق ان کومعلوم ہونا چاہئے اور نبوت کی بحث کا پوری طرح علم ہونا چاہئے۔ اب میں وہ حدیثیں لیتا ہوں جن سے ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے نزدیک معیت کا معنیٰ عمومی معیت کا معنیٰ ہے نہ کہ منھم والا معنیٰ۔ ان احادیث میں ایک حدیث ہے عن ابی سعید عن النبی ؐ قال التاجر الصدوق الامین مع النبیٖن والصدیقین والشھدائ۔ اب آیت کا حوالہ یہی ہے لیکن معیت کا مضمون بدل گیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ تاجر نبی نہیں ہے چونکہ وہ نبی نہیں ہے اس لئے ساتھ معنیٰ یہاں اور ہونا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا ہر جگہ مع کا محل بتائے گا۔ یہاں بالکل واضح ہے۔ ایک عام تاجر جو سچا ہو جس کے مومن ہونے کی بھی کوئی شرط مقرر نہیں ہے وہ تاجر جو اپنی تجارت میں سچا سودا کرتا ہے اس کو ان لوگوں کی محفل نصیب ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ اخری بات ہورہی ہے۔ اس دنیا میں اس کے درجے اور مقام اور مرتبے کی بحث نہیں ہے کہ وہ کن میں سے ہوگا۔ اس کو صالح بھی نہیں کہا گیا۔ ایسے تاجر صالح ہوا کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہوگا سے مراد محض اخروی دنیا میں ان کا مرتبہ ایسے ایمانداروں میں شمار ہوگا ان کا جو اپنی امانت کا حق ادا کرتے ہیں کیونکہ نبی سب سے زیادہ اپنی امانت کا حق ادا کرتے ہیں اس لئے اخروی دنیا میں ان کو معنوی معیت حاصل ہوگی یعنی روحانی معیت حاصل ہوگی نہ کہ جسمانی معیت۔ ایک دوسری روایت ہے اسی مضمون کی جس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنن الدارمی سے لی گئی ہے اس میں شہیدوں کو بھی داخل کرلیا گیا ہے۔ ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا سچا ایماندار تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ پہلے بھی یہی تھا؟ شہیدوں کا بھی ذکر ہے لیکن صالحین کا ذکر نہیں ہے اس میں۔ سچا امانتدار تاجر صالحین میں سے نہیں ہوگا مگر صرف پہلے تین درجوں میں سے ہوگا۔ یہ ایک بات محل نظر ہے۔ معنیٰ تو وہی ہے جو میں بیان کرچکا ہوں کہ یہاں معیت میں ان کے ان چار انعاموں میں سے کسی ایک انعام سے متعلق ہونا ثابت نہیں ہے۔ محض ایک ایسی معیت ہے جو جزا کے طور پر صحبت کے طور پر عطا ہوگی۔ ان میں سے ایک کا ہونا اس سے مراد نہیں ہے۔ شرح جامع ترمذی میں ایک بیان ہے۔ اس میں حدیث وہی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے تجارت میں جس نے صدق و امانت کی جستجو کی وہ زمرۂ ابرار یعنی انبیاء اور صدیقوں میں شمار ہوگا۔ وہ کہتے ہیں یہاں تاجروں کو اس مضمون کے انتہائی درجہ کے کوشش کرنے کے لئے ابھارا گیا ہے۔ اب ان احادیث سے ایک معنیٰ تو معیت کا تو یہ ثابت ہوا کہ عمومی طور پر ان میں سے ہونا مراد یہ نہیں ہے کہ وہ درجے پائیں گے وہ سارے۔ ایسا ہر تاجر شہید بھی شمار کیا جائے گا صدیق بھی اور نبی بھی۔ یہ تو ظاہراً عقل اس کو رد کرتی ہے۔ یہ معنی یہاں مراد ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن ایک ایسا معنی ہے جو مفسرین نے کبھی بیان نہیں کیا اور جو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھا دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایسا سچا تاجر سب سے زیادہ سچا تاجر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تھے۔ آپ امین تھے اس وقت بظاہر دنیا کے اموال کے اور اس سے بڑا امین تاجر دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ دیکھو میں امین تھا اور دنیا کے اموال میں اور تجارتوں میں امین تھا دیکھو میرا مقام خدا نے بڑھا کر کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ تو یہ اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی عام جو اپنے متعلق طرزعمل تھی اس سے بعید نہیں ہے کہ خود اپنے نفس کو ابھار کر سامنے لانے کی بجائے ایک عمومی نصیحت فرمائی گئی ہے کہ تجارت میں دیانت سے کام لو اور اگر اس میں اخلاص ہوگا اور محض اللہ کی خاطر اصولاً تم اپنی امانت کا حق ادا کررہے ہوگے تو تمہارا مرتبہ بلند ہوتے ہوتے ان سب میں سے گزر سکتا ہے اور آخری مقام وہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے خود حاصل کیا ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ واقعۃً وہ اس مقام کو پالیں گے اگر دنیا میں اطلاق کرنا ہے تو اس کے سوا اور کوئی معنیٰ نہیں بنتا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ معنی بھی درست ہے خواہ کوئی اختلاف کرے یا نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اکثر اپنے متعلق چھپی ہوئی باتیں مخفی باتیں کرتے تھے تاکہ اپنے نفس کو ابھاریں نہیں اور لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا تھا کہ جس نے سمجھنا ہے وہ بات سمجھ لے۔
اب معیت کا ایک معنیٰ ہے جس کے ساتھ انسان کو محبت ہو اس کے ساتھ ہوگا۔ اب اس دنیا میں وہ سارے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے محبت کرتے تھے وہ آپ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے مگر مرتبوں میں شریک نہیں تھے۔ اس لئے ساتھ کا یہ معنی اس دنیا میں بھی جائز ہے معیت کا کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں پھر چلتے پھرتے رہیں اور ان سے لطف اندوز ہوں۔ لیکن ان میں سے نہ ہوں اس لئے اس معنی کا اطلاق ان میں سے کا اس وقت ہوگا جب آیت اھدنا الصراط المستقیم سے اس آیت کو جوڑ کر اور مراتب پانے کی بحث اٹھے گی اس وقت بالکل اور معنی ہوگا۔ لیکن عام معیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی صحبت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے محبت کرنے والے سارے اکٹھے بیٹھا کرتے تھے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہاں معیت سے مراد من ہے۔ ان معنوں میں کہ وہ ان کے ہم مرتبہ ہوگئے۔ پس الگ رہتے ہوئے بھی انسان معیت اختیار کرسکتا ہے۔ مرتبے میں الگ ہوتے ہوئے بھی اور اس سے ہمیں انکار نہیں۔ عین حقیقت ہے اور اس بحث سے جو نبوت والی بحث ہے اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس حدیث میں عن انس ابن مالک قال جاء رجل الی رسول اللہ فقال یا رسول اللہ متی الساعۃ وقال ما اعددت فی الساعۃ قال حب اللہ و رسولہ قال فانک مع من احببت قال انس فما فرحنا بعد للاسلام فرحا اشد من قول النبی فانک مع من احببت قال انس فانا احب اللہ ورسولہ وابابکر وعمر فارجوا ان اکون معھم وان لم اعمل باعمالھم۔ اب وان لم اعمل باعمالھم اس بات نے مضمون کو بالکل کھول دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں محبت کی وجہ سے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اگرچہ میرے عمل وہ نہیں ہیں اس لئے میں مرتبے میں ان کا شریک نہیں ہوسکتا تو اعمالھم والے حصے نے من ہونے کے معنی کو بالکل رد کردیا۔ اقرار کررہے ہیں کہ میں ان میں سے نہیں ہوں اس کے باوجود میں ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ پس ان معنوں میں معیت محض ایک سرسری معیت ہے جو مجلسی معیت ہوتی ہے اور محبت کرنے والے کو خوشی پہنچاتی ہے کہ میں ان لوگوں کو اپنے گردوپیش دیکھ رہا ہوں۔ ایک اور حدیث صحیح مسلم کی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کسی کے سوال کہا اے اللہ کے رسول قیامت کب آئے گی؟ یہ وہی ہے شاید۔ ہاں یہ وہی ہے ہاں یہ ترجمہ تھا۔ اب یہ جو معیت ہے یہ دوری کے باوجود پھر بھی نصیب ہوسکتی ہے۔ مراتب کی دوری لیکن روحانی لحاظ سے بظاہر اکٹھے چلتے پھرتے ہونا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان پھر رہے تھے مگر آپ کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ وہ ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں تھے اس لئے وہاں من کا معنی عقلاً ہو ہی نہیں سکتا ساتھ کا معنیٰ ان معنوں میں کہ ایک ہی مجلس میں شریک ہوگئے لیکن دوری کتنی تھی اس کا بیان اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مراتب کی دوری کے لحاظ سے کتنا فاصلہ تھا۔ یہ بخاری کی حدیث ہے۔ عن ابی سعید الخدری یہ میں ترجمہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا کہ اہل جنت بالاخانوں میں رہنے والوں کو اپنے اوپر ایسے فاصلے پر دیکھیں گے جیسا کہ افق پر طلوع ہونے والے چمکدار ستارے کو دیکھ رہے ہیں۔ جو بالاخانے والی آیت ہے والذین امنوا وعملوالصالحات لنبوئنھم من الجنۃ غرفا تجری من تحتھا الانھار خلدین فیھا۔ نعم اجر العاملین۔ دوسری ہے۔ لکن الذین اتقو ربہم لھم عرف من فوقھا غرف تجری من تحتھا الانھار وعداللہ لاتخلف اللہ المیعاد۔ پہلی عنکبوت کی 59 یعنی انسٹھ دوسری الزمر کی 21 آیت۔ تیسری سبا کی 38 آیت ہے۔ وما اموالکم ولا اولادکم بالتی تقربکم عندنا زلفی الا من امن عمل صالحا فاولئک لھم جزاء الضعف بما عملوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وھم فی الغرفٰت امنون۔ یہ پہلی دو آیات ہیں جن میں بالاخانوں کا ذکر گزرا ہے۔ قیامت کے دن وہ لوگ جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لئے بالاخانے مقدر ہیں۔ اب یہ جو لوگ ہیں خصوصیت کے ساتھ جن کا ذکر کیا ہے ان کو جنت میں لوگ اس طرح دیکھیں گے جس طرح ستاروں کو دیکھتے ہیں زمین سے۔ اب اس سے اندازہ کرلیں کہ رسولوں کا مقام کتنا بلند ہوگا۔ عام متقی محسن لوگ ہیں جن کا ذکر ہورہا ہے اور ان سے ادنیٰ درجے کے مومن جو جنت میں ہی ہوں گے وہ ان بالاخانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح زمین پر بیٹھا ستاروں کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور ویسے ان کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔ یعنی عمل میں وہ شریک ہوں گے ان میں اور آپس میں باتیں بھی کریں گے لیکن یہ استنباط کررہا ہوں کہ رسول اور پھر رسولوں میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ان کا مقام کتنا بلند ہوگا۔ اس کا تصور کرنے سے ہی عقل ڈول جاتی ہے۔ ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ انسان ستاروں سے بالا ایک اور جہان بناکے دکھائے۔ سوچ بھی نہیں سکتا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا علومرتبت کا یہ مقام ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کہتے ہیں میں تمہارے ساتھ ہوں گا تو یہ انکسار کا سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ یہ ان بلندیوں کے باوجود دیکھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم وہیں ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی برکت سے آپ کے غلاموں کے مراتب بلند کرکے یعنی ان معنوں میں بلند کرکے کہ ان کی خامیوں سے قطع نظر رکھتے ہوئے ان کو محبت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے قریب ان کو دیکھنے کا موقعہ ملے گا۔ یہ آیت جو ہے اس منطوق پر یہ بالکل واضح اور قطعی حقیقت کے طور پر ہے ان معنوں میں جب نبیوں کی معیت عطا ہوگی تو ہرگز مراتب کی معیت مراد ہو نہیں سکتی۔ مراتب سے الگ رہتے ہوئے بھی ایک ظاہری قرب دکھائی دے رہا ہو گا تاکہ محبت کرنے والے کی محبت کو تسکین حاصل ہوجائے اور جس سے محبت ہے اس کا مرتبہ نیچے نہ ہو۔ اب ایک حدیث اور جو بیان کرتے ہیں علماء وہ بہت اہم ہے اور میرے نزدیک بالکل ہی واضح ہے اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ وہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی آخری بیماری میں ایک تو وہ الفاظ ہیں فی الرفیق الاعلیٰ ان کے علاوہ اس آیت کی تلاوت بھی آپ نے فرمائی وہ حدیث یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر ایک نبی جب بیمار ہوتا ہے تو اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا میں رہے چاہے تو آخرت کو پسند کرلے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم مرض الموت میں تھے ایک دفعہ آپ کی آواز بہت زیادہ بیٹھ گئی میں گوش برآواز ہوئی تو آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا مع الذین انعم اللہ علیھم من البنیٖن والصدیقین والشھداء والصالحین پس مجھے معلوم ہوگیا کہ وہی اختیار آپ کو بھی دیا گیا ہے۔ اب یہاں مع الذین انعم اللہ کے یہ معنی کرنا کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ان میں نہیں ہیں اور وفات کے بعد ہوں گے یہ انتہائی ظالمانہ معنے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تو ان سب کے سردار ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی کی وجہ سے تو انعام مل رہا ہے۔ تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھے یہاں اس دنیا میں تو کوئی انعام نہیں ملا مگر مجھے وہ انعام دے جو میرے مطیعوں کو تو نے جنت میں دینا ہے۔ اس لئے انتہائی احمقانہ استنباط ہے اس کا کوئی بھی تعلق اس آیت کے استنباط سے نہیں ہوسکتا۔ اس وقت رسول اللہ کا یہ فرمانا صاف ظاہر کررہا ہے کہ آپ اپنے مطیع غلاموں کی بات نہیں کررہے نہ معیت کسی بحث معیت من کی بحث سے متعلق ہے۔ یہاں یہ فرمارہے ہیں کہ اے اللہ مجھے اٹھالے اس دنیا سے اور جنت میں جہاں میرے غلام ادنیٰ غلام نبی موجود ہیں اور ادنیٰ غلام شہید صالحین موجود ہیں مجھے ان کی معیت میں لے جا۔ بسااوقات انسان اس دنیا میں بھی رؤیا میں یہ تجربہ کرتا ہے کہ اس دنیا سے تعلق کاٹ کر جو ادھر جاچکے ہیں ان کی طرف میں منتقل ہوجاؤں تو اس حدیث کے صرف اتنے معنے ہیں۔ دوسرے معنی لئے جاہی نہیں سکتے۔ ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی گستاخی ہوگی۔ اب ایک روایت سہل بن معاذ کی اپنے باپ سے ہے۔ اس میں یہ روایت درج ہے۔ قال من قرء الف آیۃ فی سبیل اللہ تبارک وتعالیٰ کتب یوم القیمۃ مع النبیٖن والصدیقین۔ اس میں حسن نے بھی ایک ہزار دفعہ آیات پڑھیں اللہ کی راہ میں۔ قرء الف آیۃ ایک ہزار آیتیں فی سبیل اللہ، اللہ کی راہ میں پڑھیں تبارک وتعالیٰ کتب یوم القیمۃ مع النبیٖن والصدیقین قیامت کے دن وہ اس کا درجہ نبیوں میں صدیقوں میں اور شہداء میں اور صالحین میں ہوگا۔ وحسن اولئک رفیقا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اور یہ بہت اچھے ساتھ ہیں اگر اللہ چاہے۔ اب جس شخص نے بھی ایک ہزار آتیں پڑھیں فی سبیل اللہ وہ قیامت کے دن نبیوں صدیقوں شہداء اور صالحین میں لکھا جائے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ عقل اس بات کو رد کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے بڑی وضاحت کے ساتھ صالحین کے حالات بیان فرمائے شہداء کے صدیقین کے نبیوں کے اور ایک شخص جو ان میں ہے ہی نہیں وہ بیٹھا ہزار دفعہ ایک آیت تلاوت کردے تو ان میں شامل ہوجائے گا۔ یہ حدیث لازماً کسی ایسے راوی سے مروی لگتی ہے جو مستند نہیں ہے۔ اس حدیث کے راویوں کی جو بحث ہے ان میں سے چار کی ثقاہت پر اتفاق ہے مگر دو کے متعلق ملی جلی رائے ہے۔ میرے خیال میں اس روایتی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ایک بات بالکل بالبداہت ثابت ہے اول تو یہ کہ قیامت کے دن کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا ہے اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں تو یہ معنی بعید از عقل نہیں ہیں کہ ایک شخص ایک ہزار قرآن کریم کی آیات کو اخلاص اور توجہ سے پڑھتا ہو۔ قرآن کریم کی کوئی سی بھی ہزار آیت لے لیں اسن کے اندر ان سب مراتب کی ذمہ داریوں کا ذکر مل جائے گا۔ اس لئے یہ معنی جو ہیں ان معنوں میں راویوں کی بحث سے قطع نظر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ آپ قرآن کریم الف سے ی تک دیکھ لیں اٹھاکے کہیں سے کھول کر ایک ہزار آیات پڑھ کر دیکھیں ان میں لازماً ان سب باتوں کا ذکر موجود ہے۔ ان سب ذمہ داریوں کا موجود ہے۔ پس اگر ایک شخص ایک ہزار آیات کی تلاوت اخلاص کے ساتھ کرتا ہے اور ان کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھالتا ہے تو قیامت کے دن اس کا ان لوگوں میں اٹھائے جانا یا ان کی معیت نصیب ہونا کوئی بعید از عقل بات نہیں۔ اب اس دنیا ہی میں نبوت کا تعلق ان احادیث سے بالکل نہیں ہے بلکہ قیامت میں اعلیٰ مرتبہ کے لوگوں کے ساتھ ہمجول ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی ایک اور قطعی گواہی یہ ہے کہ عمروبن مرہ الجمعنی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا ور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں نیز کیا میں پانچوں نمازیں پڑھتا ہوں اور اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہوں اور رمضان کے روزے بھی رکھتا ہوں۔ یہ جو شرطیں ہیں یہ شرطیں ایک عام صالح کی شرطیں ظاہر بات ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا جو ایسی حالت میں وفات پائے اس دنیا میں اسے یہ نصیب نہیں ہوں گے۔ محض محض نماز پڑھنے اور قرآن پڑھنے سے جو چار مراتب کا ذکر ہے وہ ہرگز اسے نصیب نہیں ہوں گے جو ایسی حالت میں وفات پاجائے وہ قیامت کے روز نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ اب ظاہر بات ہے کہ قیامت کے دن ایک ایسے عام نمازی کو نبی اور صدیق اور شہید نہیں بنایا جاسکتا۔ اس نے بننا تھا دنیا میں وفات سے پہلے بن جاتا۔ پس بات ہی اور مضمون کی ہورہی ہوتی ہے اس کو نکال کر ایک غلط جگہ چسپاں کرتے ہیں حالانکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے ان باتوں کو خوب کھول دیا ہے۔ اب یہ نو ہے ان حدیثوں کا ذکر جس سے غیراحمدی استنباط کرتے ہیں۔ معیت جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا مع کے معنے میں لازماً استعمال ہوتی ہے مگر موقع محل کے مطابق دیکھنا ہوگا کہ یہاں معیت سے مراد ایک قرب ہے صحبت ہے یا مقام اور مرتبے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس پہلو سے یہ ساری احادیث وہ ہیں جو قیامت سے تعلق رکھنے والی اور قیامت کے بعد جی اٹھنے کے بعد ایک ایسی معیت کا ذکر کررہی ہیں جس میں مراتب مختلف ہیں اور ستاروں سے بھی بالا مراتب ہیں لیکن ویسے احسان کے طور پر ایک معیت حاصل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھ دنیا میں بھی ان لوگوں کو ہوا کرتی تھی جو آپ کے صحابہ تھے انہیں لوگوں میں بیٹھتے اٹھتے اور وہ یہی چاہتے تھے کہ قیامت کے دن بھی یہی سلسلہ جاری رہے اور یہ ان کے مرتبوں کی تعیین کی نشاندہی نہیں کررہی ہیں یہ حدیثیں۔ مع والی حدیثوں کو من کے معنوں میں اور دوسرے میں نے کچھ حدتک بیان کردیا تھا کچھ اور حدیثیں بھی انہوں نے اکٹھی کی ہیں مگر میرے خیال میں وہ کافی بحث گزرچکی ہے اس لئے ان کو دوبارہ دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ مع من کے معنوں میں مثلاً میں نے اس میں ایک قالوا طائرکم معکم تمہارا نصیب تمہارے ساتھ ہے۔ منکم کے معنوں میں یہاں لیا ہے لاتشھد معھم ان میں سے ہوکر گواہی نہ دے۔ قل لن تخرجوا معی ابدا تم میرے ساتھ کبھی اکٹھے نہیں نکلوگے۔ لیکن یہاں تو معی کا وہ عام معنی ہی بنتا ہے من والا غلط ہے۔ یہ ساری بحثیں میں اس وقت کرچکا ہوں اس لئے مزید حوالوں کی ضرورت نہیں ہے۔
اب اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ ان علماء نے یہ جو حدیثیں پیش کی ہیں یا بعدی والی حدیثوں سے استنباط کیا ہے اصل بحث یہ اٹھتی ہے کہ کیا اس آیت کریمہ کے ساتھ امت محمدیہ کو وہ مراتب محمد رسول اللہ کی غلامی میں مل سکتے ہیں کہ نہیں جو پہلے بنی اسرائیل کو جو موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی سے کبھی نہیں ملے اور اگر ان کا ذکر ملتا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ذکر ملتا ہے جو موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلام بنی اسرائیل نہیں تھے۔ اس لئے بعض علماء کو یہ دھوکا ہوا ہے بے وجہ کہ گویا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ بنی اسرائیل میں غلامی کے نتیجے میں کوئی سعادت ملی ہے۔ بنی اسرائیل وہ بنی اسرائیل جو موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تابع تھے ان میں ہرگز کسی نبی کی محبت کا عشق یا اس کی متابعت کے نتیجے میں کوئی بلند مرتبہ عطا نہیں ہوا۔ سب کا حال مذکور ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست انعام کے طور پر نبوت بخشی ہے ان کی وجہ سے نہیں بخشی مگر جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو وہاں یہ مضمون بالکل بدل جاتا ہے۔ وہاں ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکتیں اس کی دعاؤں کے نتیجے میں آگے اولاد میں منتقل ہورہی ہیں۔ وہ مضمون بالکل دوسرا ہے۔ مگر بعض لوگوں نے اپنی لاعلمی کے نتیجے میں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ کردیا ہے۔ یہ بالکل درست نہیں ہے۔ اب لانبی بعدی والی حدیثیں جو ہیں ان پر بہت حدتک ان کا انحصار ہے جو یہ استدلال رکھتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم وضاحت اور قطعیت کے ساتھ یہ فرماتے ہیں اور مسلسل بارہا فرماچکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا تو اے احمدیو! تمہیں اس آیت کریمہ کا یہ ترجمہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد اس آیت کی برکت سے دنیا میں کوئی نبی مبعوث ہوسکتا ہے۔ یہ استدلال ہے۔ اور اپنی طرف سے انہوں نے بہت ٹھوس استدلال کیا ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اب غور کرکے دیکھیں ایک طرف اس آیت کا ترجمہ ہم یہ کرتے ہیں کہ غلامان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو نبوت کا وعدہ دیا گیا ہے اور دوسری طرف جس پر یہ آیت نازل ہوئی ہے وہ یہ کہہ رہا ہو کہ ہرگز میرے بعدکوئی نبی نہیں تو کیا اس کا یہ معنی لیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو اس آیت کا مفہوم معلوم نہیں تھا یا کوئی اور معنیٰ ہے اور اس آیت کے ہوتے ہوئے بھی لانبی بعدی کی احادیث کا کوئی معنیٰ اور ہے جواس آیت پر اطلاق نہیں پارہا۔ وہ کیا معنی ہے۔ پرانے گزشتہ بزرگوں اور صلحاء نے اس پر غور کیا ہوگا۔ ان کے لئے تو کوئی اپنا فائدہ مقدر نہیں تھا۔ ان پرانے بزرگوں نے جب اس آیت پر، ان احادیث پر غور کیا ہے تو لازم ہے کہ اپنا ان کا کوئی نفع نقصان اس سے وابستہ نہیں تھا۔ انہوں نے محض بیرونی نظر سے اس کو دیکھا ہے یعنی خود اس میں شامل نہیں تھے اور تقویٰ کی آنکھ سے دیکھا ہے اور ان احادیث کے ساتھ موازنہ کیا ہے اس آیت کریمہ کا بھی۔ پھر جو صورت ابھرتی ہے وہ اصلی اور حقیقی صورت ہے۔ اس لئے اب میں آپ کے سامنے یہ احادیث رکھتا ہوں۔ سب سے پہلے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وہ مشہور حدیث ہے جب آپ نے کسی پکارنے والے کو پکارتے ہوئے سنا لانبی بعدی (رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اس حدیث کا ذکر) تو آپ نے فرمایا قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولوا لا نبی بعدہ۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو خاتم النبیٖن تو کہا کرو مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اسی حدیث نے جو اثر ہے اس نے علماء کو ایک حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن سے ہم نے آدھا دین سیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مرتبے کو جو خوب جانتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پروہ مرتبہ ظاہر ہوا ہے کم ہی کسی پر ہوا ہوگا۔ لیکن آپ نے گلی میں ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا اور اس سے پریشان ہوئیں کہ غلط معنی لے لئے جائیں گے۔ اور کہا بعدہٗ نہیں کہنا۔ اس حدیث کی بحث میں شیخ الامام حضرت ابن قتیبہ متوفیٰ 266؁ء وہ یہ لکھتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول لیس ھذا من قولھا ناقض بقول النبیؐ لانبی بعدی۔ کہ یاد رکھو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اس قول کا مناقض نہیں ہے جس میں آپ نے فرمایا یعنی اس سے متصادم نہیں ہے ٹکراتا نہیں ہے۔ لا نبی بعدی۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ لانہ ارادہ لا نبی بعدی ینسخ ما جئت بہ کیونکہ آپ کی مراد یہ تھی کہ کوئی نبی میرے بعد نہیں آسکتا جو اس کو منسوخ کردے جو میں لایا ہوں۔ من یطع اللہ کی بات واضح ہوگئی۔ اطاعت شرط ہے۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت ہے تو پھر وہ نبیوں میں سے ہوسکتا ہے لیکن اگر اطاعت کے دائرے سے نکل گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی کسی بات کو اپنے زعم میں منسوخ کیا تو وہ بلااستثناء نبیوں کے بلکہ نیکوں کے دائرے سے بھی باہر چلا گیا۔ کیسی عمدہ تعریف فرمائی ہے۔ حضرت امام ابن قتیبہ متوفیٰ 266ھ۔ حضرت ابن عربی محی الدین ابن عربی ولادت 560ھ اور وصال 1165ھ۔ آپ نے اس مضمون پر بہت ہی عمدہ بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے وجود سے ختم ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت۔ حضرت ابن عربی ان کو بھی اب کافر قرار دے کے دکھائیں ناں۔ اپنا پاکستان کا حکم چلائیں ان پر، وہ نبوت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے وجود پر ختم ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آسکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے۔ بعینہٖ وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ آپ بیان فرماتے ہیں تو یہ ظالم ان پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور ماننے والوں کو بھی واجب القتل قرار دیتے ہیں اور ابن عربی پر ان کو زبان کھولنے کی جرأت نہیں ہے۔ خود انہیں میں سے اٹھ کھڑے ہوں گے جو ان پر قتل و غارت شروع کردیں اگر ابن عربی کے متعلق یہی گستاخانہ کلام کریں۔ کوئی شریعت نہیں اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھ سکتا ہے۔ ’’اور یہی معنی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی اور لا رسول بعدی ولا نبی میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت ر ہو۔ من یطع اللہ کی کیسی عمدہ تفسیر ہے۔ ہاں اس صورت میں نبی آسکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آسکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو۔ پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کردیا گیا ورنہ مقام نبوت بند نہیں۔ اس میں ساری احادیث لانبی بعدی والی اورا س آیت کریمہ کا منطوق ساری چیزیں داخل ہوگئیں۔ مطیع نبی آسکتا ہے۔ پس ومن یطع اللہ والرسول حضرت محی الدین ابن عربی ولادت 560ھ وفات 1165ھ۔ یہ آپ کا ایک اور اقتباس ہے فتوحات مکہ جلد 2 باب 73 مطبوعہ یہ سب انہوں نے دے دیا ہے شکر ہے۔ فرماتے ہیں کہ: نبوت کلی طور پر اٹھ نہیں گئی اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے یہی معنی ہیں لا نبی بعدی کے۔ اب وہ حدیثیں ساری بیان کرتے پھریں منبروں سے، ان سب حدیثوں کے صحیح معانی بیان کرکے گزشتہ علماء نے امت پر جو احسان کرنا تھا کردیا۔ یہ اسے قبول کریں یا نہ کریں یہ اب ان کا کام ہے۔ پس ہم نے جان لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا لانبی بعدی کا فرمانا انہی معنوں سے ہے کہ خاص طور پر میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نہ ہوگا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد اور کوئی نبی نہیں یہ بعینہٖ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد قیصر نہ ہوگا۔ اور جب یہ کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہوگا۔ حالانکہ قیصر بھی آتے رہے اور کسریٰ بھی آتے رہے مگر ان کی اپنی کوئی شان نہیں تھی۔ صاحب شان قیصر وہی تھا جو گزر گیا بعد میں ادنیٰ درجے کے آتے رہے تو یہ ایک تمثیل تو ہے لیکن بعینہٖ یہ مراد نہیں ہے کہ آنے والے نبیوں کو ایک علیحدہ شریعت خواہ ادنیٰ درجے کی ہو وہ نصیب ہو علیحدہ شریعت تسلیم ہو ہی نہیں سکتی۔ اب حضرت امام حضرت محمد طاہر جو برصغیر پاک و ہند کے بڑے مشہور محدث اور عالم گزرے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کی تشریح فرماتے ہوئے مجمع البحار میں لکھتے ہیں۔ ھذا ناظر الی نزول عیسیٰ وھذا ایضا لا بینا فی حدیث لا نبی بعدی لانہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ۔ اب یہ 1578ء میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ بہت بعد کے زمانے کے عالم ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا عقیدہ شہرت پا گیا تھا اور اکثر علماء یہ سمجھتے تھے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی واپسی ہونے کی وجہ سے لانبی بعدی کی احادیث میں سے اس کو مستثنیٰ کرنا ہوگا۔ وہ الگ بحثیں اٹھائی ہیں انہوں نے۔ لیکن امام محمد طاہر صاحب یہ فرمارہے ہیں کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا) وہ یہ کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ کہنا کہ یہ نہ کہو لا نبی بعدہ امام محمد طاہر کے نزدیک اس وجہ سے تھا کہ گویا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نزدیک عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنا تھا حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی بھی نہیں آنا تھا۔ اس کا ذکر و اذکار بھی نہیں۔ انہوں نے اپنی ایک توجیہہ پیش کی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول کی۔ لیکن احتیاطاً ساتھ یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ ایضاً لا ینا فی حدیث لا نبی بعدی علاوہ ازیں عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کا ذکر حدیث لانبی بعدی کو متناقض نہیں ہے اس سے متصاد نہیں ہے لانہ اراد لا نبی ینسخ شرعہ اتنی سی بات چونکہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی شرح منسوخ نہیں کرنی اس وجہ سے وہ نبی کہہ رہا ہوگا۔ لیکن شرع منسوخ نہیں کرنی تو پھر کوئی بھی امت محمدیہ میں سے نبی ہوسکتا ہے۔ اب امام عبدالوہاب شوانی۔ یہ بھی اسی زمانے کے ہیں 976ھ کے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا عقیدہ عام شہرت پاگیا تھا اور یہی سمجھا جارہا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی پرانے عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام دوبارہ نازل ہوں گے۔ اس عقیدے کی شہرت کے باوجود آپ الیواقیت والجواہر جلد 2صفحہ 35 میں اس حدیث کے تابع لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے قول لا نبی بعدی اور لا رسول بعدی سے مراد یہ ہے کہ آپ کے بعد شریعت لانے والا نبی نہیں ہوگا۔ اب یہ سارے علماء اور بزرگان کیا ان علماء کے نزدیک گردن زدنی ہیں جو اس زمانے کی پیداوار ہیں جس زمانے پر وہ حدیثیں اطلاق پارہی ہیں۔ کہ مساجد ہدایت سے خالی ہوں گی وہ ساری حدیثیں۔ ان کو دوہرانے کی ضرورت نہیں یہاں۔ اسی طرح شارح مشکوٰۃ جو 1014ھجری میں ملا علی قاری بڑے مشہور بہت ہی معروف علماء میں سے ہیں جنہوں نے مشکوٰۃ کی شرح لکھی ہے اور آپ کا زمانہ 1014ھ کا ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جو میں عرض کررہا ہوں کہ شہرت عام تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نازل ہوں گے لیکن قطع نظر عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معنی وہ بیان کرتے ہیں جس میں غیرشرعی ہونا، غیرشرعی نبی ہونا جو تابع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہو اس کا آنا جائز ہے۔ وہ یہ لکھتے ہیں۔ حدیث میں لا نبی بعدی کے جو الفاظ آئے ہیں اس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی بنی ایسی شریعت لے کر پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو۔ اب جو الفاظ انہوں نے استعمال کیے ہیں یہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام والی بات سے الگ ہیں۔ کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ کیسا عمدہ مضمون کو کھول دیا ہے فرماتے ہیں کوئی نبی ایسا پیدا نہیں ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے یعنی اس کی شریعت آپ کی شریعت کو منسوخ کرتی ہو۔ امام ملا علی قاری فقہ حنفیہ کے مشہور ائمہ میں سے ہیں اپنی کتاب موضاعات کبیر کے صفحہ 58,59 مطلع مجتبائی1315ھ (یہ حوالہ ہے اس کا ) وہ فرماتے ہیں: فلایناقض قولہ خاتم النبیٖن اذاالمعنی انہ لایاتی نبی ینسخ ملتہ ولم یکن من امتہ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا یہ قول کہ ابراہیم زندہ رہتے تو صدیق نبی بنتے (جب آپ کے صاحبزادہ ابراہیم کو دفنایا جارہا تھا تو آپ نے فرمایا اگر ابراہیم زندہ رہتے تو صدیق نبی بنتے آیت خاتم النبیٖن کے مناقض نہیں۔ کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی نبی نہیں آسکتا جو آپ کی ملت کی تنسیخ کرنے والا ہو یا آپ کی امت میں سے نہ ہو۔ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی ذکر اذکار بھی نہیں۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق جو آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صاحبزادے تھے آپ کی بات ہورہی ہے اور آپ کا نبی ہونا اس لئے ممکن ہوتا اگر آپ زندہ رہتے کہ آپ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت پر ہوتے دوسرے آپ کی امت میں سے ہوتے جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ بات اطلاق پا ہی نہیں سکتی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 1176ھجری فرماتے ہیں قرۃ العینین فی تفضل الشیخین صفحہ 319 یہ پتہ نہیں کب کی چھپی ہوئی ہوگی شاید ایک ہی کاپی ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے قول لا نبی بعدی ولا رسول سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ جو نبوت و رسالت منقطع ہوگئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے۔ اب بتائیں کیسا عمدہ کلام ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا بہت بڑا مقام ہے اور آج کل کے جو علماء بننے کے دعویدار ہیں آپ کی جوتیوں کے غلام بننے کے بھی اہل نہیں۔ تمام ہند میں ان کا ایک شہرہ ہے اور اس کے علاوہ اردگرد بھی پھیلا ہے۔ کتنا عمدہ استنباط کتنا سچا اور صادق استنباط ہے کہتے ہیں ہمیں معلوم ہے ان کا دعویٰ تو نہیں تھا نبوت کا کہتے ہیں اس قول لا نبی بعدی ولا رسول سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ جو نبوت و رسالت منقطع ہوگئی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے نزدیک یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے۔ حضرت شیخ نوشاد گنج حدث سترہ فرزند عالیجاہ حضرت برخوردار (نہ بھی پڑھیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا) نواب صدیق حسن خان کو کوئی ایسی اہمیت نہیں۔ یہ اٹھالیں۔)
اب ان حدیثوں کا یہ معنی لینا کہ ان حدیثوں کے ہوتے ہوئے آیت من یطع اللہ میں کسی نبوت کا کوئی وعدہ نہیں دیا گیا یہ تو سارے قصے کو ان احادیث ان باتوں نے جو انبیاء کے استنباط ہیں اور عقل پر مبنی استنباط ہیں انہوں نے اس کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ صرف ایک چیز اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ من یطع اللہ شرط ہے آئندہ کبھی بھی کوئی غیر مطیع نبی نہیں آئے گا جب بھی آئے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا مطیع آئے گا۔ یہ بجائے اس کے کہ ان کے موقف کو فائدہ دیں یہ ہمارے موقف کو بڑی مضبوطی سے واضح کرہی ہیں اس میں ایک ذرہ بھی جھول نہیں رہنے دیتیں۔ لازماً جب بھی کوئی نبی آیا تو وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مطیع کے طور پر آئے گا اور لا نبی بعدی کی کوئی حدیث بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ کیونکہ ان احادیث کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ مطیع ہوگا۔ اس لئے وہ ہمارے حق میں حدیثیں بیان کررہے ہیں۔ ان سے ہرگز گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ بارود اور توپ خانہ اٹھااٹھاکر آپ کو پکڑا رہے ہیں کہ ان کو ابھی ہمارے خلاف استعمال کرو۔ ہمارا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مطالب سے ٹکرارہا ہے اور تمہارا مطلب ان کے مطابق ہے۔ اب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد نزول نبی اللہ ہوگا اس کا حوالہ اب میں دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی اللہ ہی ہوگا اس کے کیا معنی ہیں۔ اول تو وہ حدیثیں ظاہر کررہی ہیں کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بحث الگ ہے آئے گا تو نبی اللہ ہی ہوگا یہ ظاہر بات ہے۔ مگر امت محمدیہ میں سے بھی اگر کوئی مسیح پیدا ہو تو یہ تمام احادیث جو بیان کی گئی ہیں اس کے منافی نہیں ہیں اس کے قدم نہیں روک سکتیں۔ الحجج الکرامہ میں یہ حدیث درج ہے۔ اچھا یہ حدیثیں ساری وہ ہیں جو اب یہ خود ایک طرف انکار کرنے کے بعد کہ نبوت بند ہوچکی ہے کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اس کے بعد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو شخص یہ کہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد نزول نبی نہ ہوں گے وہ پکا کافر ہے۔ باوجود اس بات کے وہ امت محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے پھر بھی بدستور رسول اور نبی رہیں گے۔ اب یہ جو تضادات ہیں یہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گرد گھوم رہے ہیں۔ میرے خیال میں توان کی کوئی ایسی اہمیت نہیں ہے کہ ان تضادات کو بیان کریں جو یہ کہتا ہے کہ پرانا رسول دوبارہ اترے گااور بنابنایا رسول اسی طرح رسول رہے گا اس پر الگ بحثیں ہیں جو میں اٹھا چکا ہوں اور یہ تمام بحثیں بڑی تفصیل سے میں بیان کرچکا ہوں کہ یہ اپنے عقیدے سے متصادم باتیں کررہے ہیں۔ اول تو یہ بحث اٹھے گی کہ کوئی عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام گیا بھی ہے کہ نہیں اوپر اور جب اس بحث کا ہم خاتمہ کردیتے ہیں تو اس کے ساتھ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جسمانی نبوت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے اور یہ اتنی واضح بحثیں ہیں کہ اب میں دوبارہ ان کو یہاں اٹھا نہیں سکتا۔ بہت لمبا مضمون ہے۔ عام سوال و جواب میں یہ باتیں آتی ہیں اور آپ سن چکے ہیں کہ بنیادی بات اس میں احمدیوں کو یاد رکھنی چاہئے کہ پہلے پتا کرو کہ کوئی رسول اترے گا بھی کہ نہیں یا کوئی چڑھا بھی تھا کہ نہیں؟ کس طرح تم نے چڑھایا کہاں چڑھایا؟ اور آیات قرآنی اسے زمین پر لے آتی ہیں واپس تو پھر جو گیا ہی نہیں وہ آئے گا کیسے؟ جو چڑھا ہی نہیں اس نے کہاں سے اترنا ہے۔ اس لئے جہاں نبوت کے آنے کی بحث ہے نبی کی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کی لازماً ایک ایسے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہے جو پرانے کی خوبو پر ہو اور امت محمدیہ میں پیدا ہو۔ اور اس موعود نبی کے نبی ہونے کے متعلق قطعیت ہے۔ وہ لازماً نبی ہوگا تو علماء اس سے بھاگ کر اوپر چڑھ جاتے ہیں تاکہ کسی طرح زمین والے نبی امت محمدیہ میں پیدا ہونے والے سے چھٹکارا حاصل کرکے سیدھا آسمان پر چڑھ جائیں اور وہ بحثیں بھی میں اٹھا چکا ہوں کہ آسمان پر وہ چڑھ کر وہاں جا ہی نہیں سکتے جہاں عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھے ہیں کیونکہ دس ملین سال تو وہاں جانے میں لگیں گے ان کو اگر شعاعوں پر بیٹھ کر چڑھیں۔ دس ملین سال اترنے میں لگیں گے اور دس ملین Light Years یعنی شعاع کے کندھوں پر بیٹھیں اور روانہ ہوجائیں تو یہ ان کاحال ہوگا۔ اگر یہاں سے مٹ گئے اور دوبارہ وہاں پیدا کئے گئے جیسے کہ بعض ٹائم مشینوں میں بیان کیا جاتا ہے تو پھر یہاں وفات ہوئی اور وہاں ایک اور وجود ظہور میں آیا تو کسی پہلو سے یہ بھاگ سکتے ہی نہیں۔ اس استنباط کو جو میں کھول کر بیان کرچکا ہوں آپ غو سے سنیں۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ فراراختیار کرسکیں۔ ان کو لازماً یا اس غلط عقیدے کے ساتھ مرنا ہوگا یا عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری موت کو تسلیم کرنا پڑے گا اور آسمان پر جانے کا عقیدہ کہتے ہیں ممکن ہے خدا کے لئے وہ اٹاھدے اس بات کو ممکن ہے تو اس کا ذکر کیوں نہیں فرمایا قرآن کریم میں؟ اگر شعاع سے آگے نکلنا ممکن ہے تو تمام دنیا کا سائنسدان نعوذباللہ من ذالک ایسے قرآن کا انکار کردے گا سارے جہان کا سائنسدان وہ کہے گا تمہارا قرآن یہ کہتا ہے کہ شعاع کی رفتار سے آگے بڑھ جاؤ اور پھر بھی زندہ رہو اور قائم رہو یہ ناممکن ہے۔ حسابی طور پر ثابت کرچکے ہیں ایک ادنیٰ بھی جھول ان کے استدلال میں نہیں تو اس پر یہ کہتے ہیں ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو قادر ہے وہی تو ہم کہہ رہے ہیں کہ اگر قادر ہے تو ذکر کیوں نہیں کرتا اس کا۔ قرآن کریم میں یہ کیوں نہیں فرماتا کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو میں نے اوپر پہنچادیا اور ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے مگر اپنی قدرت کے خلاف قادر نہیں ہوتا۔ یہ سائنس کے حوالے دنیا کے سائنسدان اور باشعور لوگ دیتے ہیں وہ خداتعالیٰ کی اس کائنات کے حوالے دیتے ہیں جو اس نے پیدا کی ہے جس میں کوئی تضاد نہیں ہے تو جہاں وہ یہ کہہ کر رد کرتے ہیں سائنسدانوں کی باتیں ہیں بے وقوفوں کی ان کو کیا پتا خداتعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ سائنسدان یہ کہہ رہا ہے کہ یہ کائنات اس طرح ہمیں خداتعالیٰ نے دی ہے اور اس کائنات میں یہ بات شامل ہے اور کائنات میں کوئی تضاد نہیں یہ قرآن کریم دعویٰ کررہا ہے یہ خدا نے جو کائنات پیدا کی ہے اس میں کوئی وجود تیزی سے حرکت نہیں کرسکتا۔ اس کا آخری جواب جو میں نے دیا تھا وہ یہ بنتا ہے وہ کہتے ہیں کوئی بعید نہیں کہ یہاں ختم کرردیا جائے ٹائم مشین میں داخل ہوجاؤ یہاں فنا ہوگئے اور وہاں ایک ٹائم مشین میں سے نکل آئے دوبارہ۔ اگر یہاں فنا ہوئے تو اس سے زیادہ موت کے اور کیا معنی ہیں؟ یہاں مریں گے پھر وہاں پیدا ہوں گے۔ تو یہ ایک نبی اور بھی بن گیا جو یہاں فوت ہوتا ہے اور کہیں پھر پیدا ہوتا ہے۔ سوائے اس کے آخرت میں پیدا ہو اور اس دنیا میں سب نبیوں نے اسی طرح ہونا ہے یہاں فوت ہوں گے اور وہاں پیدا ہوں گے تو ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے اس کے سوا کہ یا عقل کو چھٹی دیں یا ہماری بات تسلیم کریں۔ لیکن جو پرانے چوٹی کے علماء ہیں انہوں نے عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول کا ذکر ایسے انداز میں فرمایا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کیسی ان کو خدا نے روشنی عطا فرمائی تھی۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فرمایا ہے یہ وہی شیخ ہیں جن کی تفسیر عرائس البیان میں یہ ذکر ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے فرمایا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری زمانے میں نزول (قائل تھے نزول کے ) عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آخری زمانے میں نزول ان کے دوسرے بدن سے تعلق کی صورت میں واجب ہے وہ بدن اور ہوگا جس میں عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نزول فرمائیں گے۔ صاف پتا چلا کہ یہ اصل میں عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے قائل ہیں اور سارا زمانہ اس وقت اس بات کا گواہ تھا کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنا ہے اور اس کو یہ رد کر نہیں سکتے تھے تو ان کی حکمت بالغہ نے یہ بات سمجھی سوچی کہ وہ رسول جس نے عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بن کے آنا ہے لازماً دوسرے بدن میں ہوگا۔ پرانے والے مسیح کا بدن تو مٹی ہوگیا وہ تو اب دوبارہ نہیں اٹھ سکتا۔ سراج الدین صاحب ابن وردی (ان کا حوالہ بھی میں پہلے سوال و جواب کی مجالس میں اکثر دیا کرتا تھا پر وہ دوسری باتیں سامنے آتی گئیں اوریہ ذرہ نظر سے ہٹ گیا ابن الوردی، سراج الدین ابن الوردی یا وردی؟ جو بھی ہے۔ (چھوٹے چھوٹے اونچ نیچ ہوجاتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ آدمی وہی ہیں) سراج الدین۔ وہ کہتے ہیں ایک گروہ نے کہا ہے کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص مبعوث ہوگا جو عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فضل اور شرف میں مشابہ ہوگا۔ جس طرح نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہہ دیا جاتا ہے تشبیہہ کی وجہ سے حقیقی شخصیات مراد نہیں ہوتیں۔ کیسا اعلیٰ کلام ہے۔ کیسا روشن پرمعارف کلام ہے۔ پس پہلے بھی لوگ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عروج کے قائل ہوا کرتے تھے مگر ساتھ ساتھ ہی ان میں ایسے علماء بھی تھے جو حقیقت حال کو سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ یہ عوام الناس کے عقیدے بن گئے ہیں لوگوں کی بناء صرف عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوبارہ آنے پر ہے اس سے انکار نہیں کہ آنا ہے مگر اس سے بھی انکار نہیں کہ پہلے جس کے ساتھ نہیں آئے گا ایک نئے جسم کے ساتھ آئے گا۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ 564 جلد 5 ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ وہ نبی بھی ہو اور اس کے ساتھ ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا پیروکار بھی ہو۔ احکام شریعت کے بیان کرنے اور حضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے طریقت کی مضبوطی کے لئے خواہ ان مقاصد کے لئے اس کی طرف وحی بھی ہو ۔ یہ صرف عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات کررہے ہیں اس لئے رہنے دیں۔ یہ زیر بحث نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب الخیر الکثیر میں فرماتے ہیں۔ امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا حق یہ ہے کہ اس میں سیدا لمرسلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے انوار کا انعکاس ہو۔ عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو وہ صرف ایک امتی ہوگا۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہوگا اور اسی کا دوسرا نسخہ ہوگا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ اب یہ نزول اگر ہو تو یہ کچھ اس کو ہونا پڑے گا اسم جامع محمدی۔ حالانکہ قرآن کہہ رہا ہوگا رسولا الی بنی اسرائیل اور ساری تاریخ بیان کررہی ہو گی کہ اس بے چارے رسول کو کوئی بھی غلبہ، ظاہری غلبہ نمایاں نصیب نہیں ہوا۔ پس اسم جامع محمدی جو رسول ہوگا وہ پرانا رسول ہو نہیں سکتا۔ اس کا اسم جامع ہونا تو ثابت ہے لیکن ا س کا پرانا رسول ہونا ثابت نہیں ہے۔ اب یہی بات مہدی کے حوالے سے بھی کی گئی ہے یعنی عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو کہہ رہے تھے ناں کہ پرانا ہے مہدی کو تو نہیں مانتے کہ پرانا ہے۔ اب شرح خصوص الحکم مطبوعہ مصرف 35 مطبع النمیسیہ العثمانیہ 1309ھ۔ ’’آخری زمانے میں آنے والا مہدی احکام شریعت میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا تابع ہوگا ’مہدی‘ لیکن علوم و معارف کی حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء مہدی کے تابع ہوں گے چونکہ مہدی کا باطن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا باطن ہے اب اس سے کہاں بھاگیں گے علمائ۔ اتنی قطعیت کے ساتھ اور لکھا ہے کہ یہ قول سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ اب فتوے لگادیں آپ کے اوپر ہوگیا یہ مفتی شفیع کا چھوڑ ہی دیں اس کو۔ یہ بھی اب پورا ہوگیا اب بعض اور فیصلہ کن ارشادات ہیں جو اسی دتھی میں ہیں وہ ان شاء اللہ کل پڑھ لیں گے پھر یہ سلسلہ یوں ختم ہوجائے گا۔ (انشاء اللہ) ٹھیک ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
19 رمضان۔ 18 جنوری 1998ء
آیت من یطع اللہ والرسول پر بحث جاری ہے۔ یعنی ابھی اس کے کچھ پہلو باوجود اختصار کے پھر بھی بیان کرنے والے ابھی باقی ہیں۔ لیکن اس کی اب تلاوت کے بعد کچھ امور ایسے رہ گئے تھے، پچھلے درسوں میں جن کے متعلق کچھ مزید مواد کا انتظار تھا، تو پہلے میں وہ بیان کروں گا۔ پھر اس کے بعد اس آیت کے لئے باقی جو وقت ملے گا وہ تشریح ہوگی۔ اور پھر پندرہ منٹ سوال و جواب کے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ومن یطع اللہ والرسول فالئک مع لذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا۔ کل میں نے تفسیر قمی کے ایک حوالے کو اس لئے رد کردیا تھا کہ اس میں جن کی طرف وہ روایت منسوب تھی۔ وہ امام ان معنوں میں نہیں تھے جن معنوں میں ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اولاد میں امامت کو تسلیم کرتے ہیں۔ یعنی تمام آئمہ جو بعد میں شیعوں میں آئے ہیں وہ آئمہ خود صالح اور بزرگ تھے۔ ان کی صداقت و صالحیت پر ہرگز کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔ روایات وہ غلط ہوئی ہیں جو ان کی طرف منسوب ہوکر پھر آگے بغیر سلسلہ روایات کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تک پہنچائی گئیں وہ ساری مشکوک روایات ہیں۔ کیونکہ شیعہ مسلک کے حق میں ایک عذر تراشا گیا ہے۔ لیکن آئمہ کی اپنی رائے اگر ثابت ہوجائے قطع نظر اس کے کہ پرانی روایات کیا گزری ہیں اس کو ہمیں ضرور اہمیت دینی ہوگی۔ تفسیر قمی کے حوالے میں امام جعفر صادق کا ذکر ملا ہے کہ یہ جتنے بھی حوالے ہیں اس میں حضرت امام جعفر صادق صاحب کی طرف بات منسوب ہوئی ہے۔ اور اس پہلو سے ان کی رائے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ تفسیر قمی میں یہ لکھا ہے کہ امام ابوعبداللہ امام جعفر صادق صاحب ولادت 83ھ وفات 148ھ انہوں نے یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے بھی نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دنیا میں واپس آئیں گے اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے۔ یہ ناصرف یہ کہ بات بہت اہم اور عمدہ ہے بلکہ اس کی بناء قرآن کریم پر ہے واذ الرسل اقتت کے متعلق یہ تفسیرہے۔ اصل میں۔ اور حضرت امام جعفر صادق کا زمانہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانہ کے بہت قریب ہے۔ اس لئے ان کی اپنی رائے کو جو تفسیر سے متعلق ہو یا اپنی تفسیر کو جو قرآن کریم کی آیات پر مبنی ہو اس کو ہم کسی صورت میں بھی ثانوی حیثیت نہیں دے سکتے۔ امام باقر مجلسی کی روایت پر میں نے عرض کردیا تھا کہ امام باقر مجلسی کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ (اب وہاں سے حوالہ آگیا ہے کہ ) امام باقر مجلسی نے جو بحارا الانوار میں روایات لکھی ہیں وہ امام جعفر صادق کی طرف سے لکھی ہیں۔ اس لئے امام جعفرصادق کے مقام اور مرتبہ کو تو میں بیان کر چکا ہوں۔ جو ان کی رائے کے متعلق لکھا ہے کہ ان کایہ خیال تھا یا ان کا یہ فیصلہ تھا۔ اس فیصلے پر کسی اور حدیث کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ انہوں نے حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔ انہوں نے اپنے غوروفکر کے بعد قرآن کریم اور احادیث سے استنباط کرتے ہوئے جو رائے قائم کی ہے وہ رائے اہم اور ضروری ہے۔ا س لئے یہ امام جعفر صادق کی طرف سے ان روایات کو قبول کرنا ہوگا۔ اب روایت ان کی جو محمد باقر مجلسی نے جو حضرت امام جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کی ہے وہ ا گلے صفحے پر ہے یہاں میںپڑھ کر سناتاہوں اور یہ مروی ہے ایک ایسے شخص سے جس نے حضرت امام جعفر صادق کا زمانہ بھی پایا اوراس کے بعد آنے والے امام کا زمانہ بھی پایا۔ ابو عبداللہ نام ہے ان کا غالباً۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ روایت سن لیجیے یہ بہت اہمیت رکھتی ہے ہمارا سید مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کعبہ سے ٹیک لگا کر کہے گا اے لوگوں کے گروہو سنو! جو چاہتا ہو کہ وہ آدم اور شیش کو دیکھے سو دیکھے وہ میں ہوں۔ سنو جو چاہتا ہو کہ نوح اور اس کے بیٹے حام کی طرف دیکھے وہ میں ہوں۔ سنو جو چاہتا ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھے پس میں ہی ابراہیم اورا سمٰعیل ہوں۔ سنو جو موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے پس میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں۔ سنو جو چاہتا ہے کہ عیسیٰ اور شمعون کو دیکھے تو مجھے دیکھے میں ہی عیسیٰ اور شمعون ہوں۔ سنو جو محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور امیرالمؤمنین کو دیکھنا چاہتا ہے سو میں ہی محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور امیرالمؤمین بھی ہوں۔ سنو جو آئمہ کو دیکھنا چاہتا ہے جو حسین کی اولاد سے ہیں سو سب امام میں ہی ہوں۔ میری دعوت کو قبول کرو کیونکہ میں تمہیں ایسی باتوں کی خبر دیتا ہوں جن کی تمہیں خبرے دے دی گئی تھی اور جن کی تمہیں خبر نہیں دی گئی تھی۔ بعض ایسی باتیں جن کا تمہیں علم تھا اور بعض ایسی باتیں جو پہلے بیان نہیں کی گئیں تھیں اس میں جو ایک صرف الجھن پیدا ہوسکتی ہے وہ ہے کعبہ سے ٹیک لگا کر وہ کہے گا لیکن یہ اب الگ بحث ہے کہ وہ امام مہدی کون ہے۔ کعبہ سے ٹیک لگانے والے ایک امام کو تو انہوں نے قتل کردیا تھا۔ تو اصل پوائنٹ یہ ہے کہ جو ابھی امام مہدی ظاہر ہوگا ان کے نزدیک اس کا یہ مقام ہے اس امام مہدی کو یہ ثابت کرنا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں وہ ہمارا فرض ہے۔ اور دوسرے استنباط سے ہم قطعی طور پر ثابت کرچکے ہیں جیسا کہ چاند، سورج گرہن کی حدیث سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔ پس یہ فیصلہ باقی رہے گا کہ وہ کون سا امام ہے لیکن یہ فیصلہ خود امام جعفرصادق کرچکے ہیں کہ جو بھی ہوگا اس کا کا یہ مقام و مرتبہ ہوگا۔ شہید کی جو گزشتہ درسوں میں یہ بحث گزری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق شہید کون ہوتاہے اس میں ایک من مات فی الطاعون المطعون۔ یہ بھی ذکر تھا اس کی ایک تشریح میں نے پہلے درس میں کردی تھی کہ اگر یہ عام ہے تو طاعون میں مرنے والا دراصل شہادت دیتا ہے اس بات کی کہ خدا کافرمان سچا تھا اور اپنی موت سے قرآن کریم کی صداقت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی صداقت کی شہادت دے دیتا ہے۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سامنے نہیں تھے وہ اب مرکز سے ملے ہیں اور ان اقتباسات میں جو بحث ایک احمدی کے ذہن میں ابھرنی چاہئے وہ اٹھائی گئی ہے وہ شخص وہ احمدی جو طاعون میں مرجاتا ہے مرتا رہا شاذ کے طور پرا س کاکیا حکم ہے؟ کیا وہ شہید بھی ان معنوں میں ہوگا جن معنوں میں ایک مومن شہید ہوا کرتا ہے۔ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے مل گئے ہیں۔ اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ’’پھر تیسرا مرتبہ شہید کا ہے عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جوشخص لڑائی میں مارا گیا یا ڈوب گیا یا وبا میں مرگیا مگر میں کہتا ہوں کہ اس پر اکتفا کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعیدہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا۔‘‘
پس شہید کی بحث میں جو حقیقت شہادت ہے اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہی اقتباسات ہیں اور اس کے علاوہ طاعون میں جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں ظاہو ہوا تھا اس میں وہ شاذ احمدی جو مرتے تھے ان کے اوپر اس حدیث کی روشنی میں کیا کیا روشنی پڑتی ہے۔ تیسرے کہاں سے؟ پہلا تو عام لوگوں کا معنیٰ تھا۔ دوسر احضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا معنی ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو شہید کہلاتے ہیں وہ گویا خداتعالیٰ کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شہید وہ ہی نہیں ہوتا جو قتل ہوجائے۔ کسی لڑائی یا وبائی امراض میں مارا جائے ( یہ میں پڑھ چکا ہوں) بلکہ ایسا قوی الایمان انسان ہوتاہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔ اب تیسرا ہے جو لوگ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیںان کو معلوم نہیںکہ طاعونی موت توعذاب الٰہی ہے۔ یہ ایک ایسی بحث کی طرف اشارہ ہے جس کاعام احمدیوں کو علم نہیں۔اس لئے یہ بتاناضروری ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں طاعون نے گواہی دی اور جبکہ کثرت سے دوسرے مارے جارہے تھے احمدیوں میں محض شاذ کے طور پر مارے گئے۔ ان شاذ میں ایسے بھی تھے جن کا عمل کمزور ہوگا۔ یا کوئی ایمانی کمزوری ہوگی اور کچھ ایسے بھی تھے جو لازماً ایک عام وبا میں کچھ کچھ مرنے چاہئے تھے ورنہ نشان اس شان کا نشان نہیں رہتا۔ جو نشانوں کی ایک عمومی عادت ہے۔ نشانات کے متعلق یاد رکھیں کہ سوفیصد اس طرح ظاہروباہر دکھائی نہیں دیتے کہ کلیۃً اس کے خلاف کوئی شک کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ نشانات میں ہمیشہ ایک پردہ سا رہتا ہے اور وہ پردہ ایمان والوں کی پہچان ہوا کرتا ہے۔ پس یہ پہلو یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پردے کو گویا اللہ تعالیٰ اگرچہ آپ کی پیشگوئی میں یہ تھا کہ کچھ لوگ ضرور مریں گے لیکن باقیوں کے مقابل پر بہت کم جو عذاب ہے اس میں کثرت سے لوگ مررہے ہوں گے۔اور جو خدا کے پردے کے نیچے مریں گے احمدی، وہ شاذ کے طور پر ہوں گے۔ ان کی ایمانی کمزورری بھی ممکن ہے اس کی وجہ۔لیکن ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو حادثاتی طور پر بہت زیادہ قریب رہنے کے نتیجے میں یا بعض اندرونی بیماریوں کی وجہ سے طاعون کی طرف مائل ہوچکے ہوں اور وہ بھی طاعون میں مارے جائیں پس ضروری نہیں کہ ان کو یہ قرر دیا جائے کہ وہ واقعۃً ایمانی طور پر یا عملی طور پر بدکار تھے۔ اس لئے ان میں بعض وہ بھی ہوسکتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کا ایمانی قصور کوئی نہ ہو۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی حدیث کو اگر ان پر چسپاں کیا جائے تو یہ بات بنے گی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اخفاء کا پردہ بعض کمزوروں پر بھی ڈال دیا۔ اور ان کو شہید کہہ کر ان میں واقعۃً شہید یا اس پردے کے نیچے شہید ہونے والے اکٹھے مذکور ہوگئے۔ یہ بحث ہے جو دراصل پس منظر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر کا۔ اب میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر پڑھتا ہوں۔ تاکہ آپ کو خوب اچھی طرح سمجھ آجائے۔ جو لوگ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیں یہ غیراحمدی تھے۔ وہ کہتے تھے تم تو طاعون کو عذاب الٰہی کہہ رہے ہو۔ اور یہ تو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم شہادت بیان کررہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہیں جو لوگ طاعون سے مرنا شہادت بتاتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ طاعونی موت تو عذاب الٰہی ہے۔ لیکن جو حدیث میں آتا ہے اگر مومن ہو کر طاعون میں مرجاوے تو شہادت ہے۔ وہ حدیث عمومی نہیں ہے۔ اگر شہادت کے معنوں میں لینی ہے تو پھر جو مومن ہو کر طاعون میں مرجائے وہ شہادت ہے۔ تویہ اللہ تعالیٰ نے گویا ہر مومن کی پردہ پوشی کی ہے۔ جو میں نے واقعہ پہلے بیان کیاہے یہ ہے پردہ پوشی۔ کثرت سے اگرمرنے لگیں تو شہادت نہ رہے گی۔ پھر تو عذاب ہوجائے گا۔ شہادت کا حکم شاذ کے اندر ہے کثرت کافروں پر ہوتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں جو انکار کرنے والے اور انکار میں آگے بڑھنے والوں کو بعض دفعہ اس طرح صفا کردیا گیا کہ بستیاں ان سے خالی ہوگئیں۔یہ عذاب الٰہی تھا۔ اس پر اس حدیث کا یہ اطلاق ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کہ یہ شہید اللہ کے نزدیک گویاکہ ایک مقام شہادت حاصل کرنے والے ہیں۔کیونکہ عام طو رپر کثرت سے مرنا عذاب الٰہی کی علامت ہے ناکہ شہادت کی علامت۔ شہادت کا اطلاق شاذ پر ہوگا۔ا وروہ شاذ وہ احمدی تھے جو طاعون کے ضمن میں مرگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا نہایت ہی لطیف معنیٰ کیا ہے اس حدیث کا کہ اللہ نے ان کی پردہ پوشی فرمادی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا اعلان یہ تھا کہ جن کا ایمان کمزور ہو وہ بھی میرے گھر میں نہیں ہیں۔ لیکن بعض بغیر ایمان کی کمزوری کے بھی مرنے تھے۔ ان کے ساتھ ان کو ملادیا۔ اور یہ ان کی پردہ پوشی ہوگئی۔ واضح ہوگیا مضمون پورا۔ ٹھیک ہے۔ اب اس آیت کریمہ کے تعلق میں بعض احادیث میں پھر اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ایک حدیث وہ ہے جو بعد کی بحث میں پہلے آنی چاہئے تھی۔ اور میں ہمیشہ اس کو بیان کیا کرتا ہوں۔ لیکن کاغذات میں نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ اس لئے اب شروع کرتا ہوں۔ خبردار رہو کہ عیسیٰ ابن مریم اور میرے درمیان کوئی نبی یا رسول نہیں ہوگا۔ خوب سن لو کہ وہ میرے بعد امت میں میرا خلیفہ ہوگا۔ وہ ضرور دجال کو قتل کرے گا صلیب کو پاش پاش کردے گا۔ اور جزیہ ختم کردے گا یعنی جزیہ کے مضمون کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یعنی جنگ کی صورت میں جو ہوا کرتا ہے۔ اس وقت میں جنگوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یاد رکھو جسے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو ۔ وہ انہیں میرا سلام ضرور پہنچائے۔ یہ حدیث ہے جو طبرانی الاوسط والصغیر سے لی گئی ہے اس کی روایت پر جو بھی پہلے علماء گزرے ہیں انہوں نے یہ بحث نہیں اٹھائی کہ یہ حدیث کمزور ہے۔ لیکن اس سے استنباط کئے گئے ہیں۔ پس اس کی روایات کی تفصیل کی یہاںضرورت نہیں۔ یہ مضمون اپنی ذات میں ایساہے جو بالکل کھلم کھلاظاہروباہرپوراہوچکا ہے۔ کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے فضل کے ساتھ تشریف لائے یعنی عیسیٰ ابن مریم اور ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ پس لا نبی بعدی کا ایک یہ بھی معنیٰ ہے۔ کہ میرے بعد اس وقت تک جب تک مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ظاہر نہ ہوجائے اور کوئی نبی نہیں۔اس معنی کو غیراحمدی علماء تسلیم کرنے پہ مجبور ہیں۔ کیونکہ وہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مراد پرانا عیسیٰ لیتے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ اس کی نبوت سلب نہیں ہوسکتی۔ اس لئے پھنس گئے ہیںا س میں۔ بے اختیار ہوگئے ہیں۔ وہ اس حدیث کو لازماً تسلیم کریں گے۔ کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور عیسیٰ ابن مریم کے درمیان کوئی رسول نہیں۔ یہاں ہم دونوں متفق ہوگئے۔ اب ہمارا کام ہے یہ ثابت کرنا۔ کہ وہ عیسیٰ ابن مریم آسمان پر نہیں چڑھا ہوا۔ چڑھا ہی ہے تو اترے گا کیسے۔ اس لئے جو بھی عیسیٰ کا دعوے دار ہوگا وہی یہ شخص ہے۔ اور لانبی بعدی کی یہ تشریح سب کو مسلم ہوگئی۔ آج چونکہ سوال جواب کی مجلس بھی ہونی ہے اس لئے اب میں جس حد تک ممکن ہو ا خاتم کے بعض دوسرے معنی آپ کے سامنے رکھوں گا۔ اور جب سوال و جواب کا وقت آئے گا اس وقت مجھے بتادیں۔ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ معاف کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حدیث ابھی آنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔ ایک اہم حدیث جو خاتم النبیین آیت کی تشریح میں پیش کی جاتی ہے ہماری طرف سے اس کے حوالے کا انتظا تھا وہ آگیا ہے۔ یہ حدیث سنن ا بن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلوۃ علی ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم یہ اس سنن ابن ماجہ میں درج ہے۔ اس لئے یہ حدیث اپنی ذات میں کھری قوی اور مضبوط حدیث ہے۔ اور اس حدیث کو پرانے علماء نے رد نہیں کیا۔ بلکہ اس کو قبول کرتے ہوئے یہ بحث اٹھائی ہے کہ خاتم النبیین کے ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا بیٹا نبی کیسے ہوگیا۔ (سمجھے ہیں مطلب؟)۔ (اب آپ کا ارشاد) آیت خاتم النبیین 5ہجری میں نازل ہوئی تھی۔ اس کے نزول کے تقریباً چار سال بعد 9ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صاحب زادے حضرت ابراہیم کی نوعمری میں وفات ہوگئی۔ باوجود اس کے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم آیت خامت النبیین کا مفہوم ہر دوسرے انسان سے بہتر سمجھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اپنے نوعمر بچے کی وفات پر فرمایا ’’لوعاشن ابراہیم لکان صدیقا نبیا۔‘‘ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچا نبی بن جاتا۔ اب اس حدیث پر جو سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے یہ الفاظ ہیں۔ اس میں مختلف الفاظ سے بھی بعض دوسری حدیثیں ملتی ہیں۔ مگر ہرجگہ نبی ہی قرار دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ بنیادی الفاظ یہی سب سے اعلیٰ اور عمدہ ہیں۔ اور یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر رہتا تو نبی ہوجاتا ۔ اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے ۔ جو ملا علی قاری کا حوالہ ہم دیا کرتے ہیں وہ یہ حوالہ ہے کیونکہ بعض لوگوں نے بعض بے وقوفوں نے یہ خیال کیا تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اس لئے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے مارا ہے ابراہیم کو کہ کہیں نبی نہ بن جائے۔ گویا کہ نبی کا بننا اپنے اختیار میں ہوا کرتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا اس لئے مرگیا یہ کہ کہیں بڑا ہوکے نبی نہ بن جاتا۔ یہ نہایت ہی جاہلانہ استدلال ہے ا سکے متعلق حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ (’’موضوعات کبیر‘‘ صفحہ 58,59 مبلع مجتباعی 1315ھ میں یہ طبع ہوئی ہے)۔ میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوجاتا۔ اور اسی طرح حضرت عمرکے متعلق یہ کہتے ہیں یہ روایت آتی ہے کہ اگر عمر نبی ہوجاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے پس یہ قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت میں سے نہ ہو۔ یہاں عیسیٰ کا معاملہ تو صاف ہوگیا۔ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت میں سے نہیں ہیں۔ دو شرطیں بیان کی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت سے نہ ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم یہ کہتے ہیں کہ اس کی موت حائل نہیں ہوئی اس میں اس کی موت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ نہ مرتا تو خودبخود نبی ہوجاتا۔ یہ مراد ہے کہ اگر یہ نہ مرتا خدا کی تقدیر اس کو نہ مارتی تو اس کا نبی ہونا خاتم النبیین کے منافی نہ ہوتا۔ یہ مرا دہے اس لئے منافی نہ ہوتا کہ خاتم النببین کے تابع اس کی امت میں سے ایسے شخص کا نبی بننا جو اس کی شریعت پر ہوا ور اس کی امت کا تربیت یافتہ ، ا س کا غلام ہو۔ یہ بات آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے۔ اب خاتم مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ ان معنوں میں کہ آپ کی شریعت آخری ہے اور قیامت تک منسوخ نہیں ہوسکتی۔ مگر غیر تشریعی تابع محمدی امتی نبوت کا امکان ختم نہیں ہوا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی وساطت اور آپ ہی کے فیض سے جاری ہو۔ اور آپ ہی کی مہرِتصدیق اس پر ثبت ہو۔ (یہ میری جو جلسہ سالانہ والی تقریر تھی فیضان ختم نبوت اس میں حوالے آچکے ہیں سارے۔ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔ہاں۔اس میں بھی ہے۔ تو میں سرِدست اس میں سے بعض چن کے بیان کروں گا۔ کیونکہ اس کی ساری تفصیلی بحث میں اگر ہم پڑیں گے تو یہ پھر سارا رمضان ہی اس بحث میں گزر جائے گا۔) ایک اہم حوالہ حضرت سید ولی شاہ محدث دہلوی کا ہے۔ جو ہندوستا ن میں غیرمعمولی اثر رکھتے ہیں۔ اور ان کی ولایت اور ان کے علم کے اوپر کوئی ملاں زبان نہیں کھول سکتا۔ تفہیمات الٰہیہ اب تو کتاب کا نام تفہیمات الٰہیہ ہے ایسی تفہیمات جو اللہ کے اذن سے اور اللہ کے خاص فضل سے آپ کو نصیب ہوئیں۔ فرماتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر نبی ختم ہوگئے یعنی آپ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہوسکتا جس کو خداتعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مبعوث کرے۔ یہ معنیٰ ہے۔ (تفہیمات الٰہیہ جزدوم صفحہ 58 مطب حیدری مطبوعہ 1387ھ 1967ء مطبوعہ اکادمیہ الشاہ ولی اللہ الدہلوی حیدر آباد) تو یہ آج کل کے زمانے میں شائع ہونے والی وہ کتاب ہے جس کا حوالہ بڑی قطعیت کے ساتھ بتا رہا ہے کہ شرعی نبوت ختم ہوئی ہے نہ کہ غیرشرعی۔ اب حضرت صوفی شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی المتوفی 638 یا 638 ہی ہے نا؟ یہ حوالہ ہے جو میں سمجھتا ہوں خاص طور پر آپ لوگوں کو یادد رکھنا چاہئے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا کمال ہے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی فرمارہے ہیں۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا کمال ہے کہ آپ نے درود شریف کی دعا کے ذریعے اپنی آل کو مرتبہ میں انبیاء سے ملادیا۔ اور حضرت ابراہیم سے بڑھ کر آپ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ کی شریعت کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ دو باتوں کا جواب اس میں آگیا ہے جو بعض دلوں کھٹکتی رہیں ہیں۔ ایک کہ ابراہیم کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور امامت بخشی ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا کمال ہے کہ درود شریف میں حوالہ دے کر اپنی امت کے بزرگوں اور صلحاء کو ان سے ملادیا جو احضرت ابراہیم سے فیض پا کر درجاتِ امامت کی اور نبوت تک پہنچے۔ لیکن حضرت ابراہیم پر ایک ایسی فضیلت عطا کردی۔ جو ابراہیم کو نہیں تھی۔ آپ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ کی شریعت کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ جب کہ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شریعت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت منسوخ ہوچکی تھی۔ یعنی جو کچھ بھی اس میں تھا۔ ہمیں علم نہیں ممکن ہے وہ منسوخ ان معنوں میں نہ ہوئی ہو بلکہ وہ سارے امور جو شریعت میں تھے وہ تورات میں بھی داخل ہو گئے ہوں۔ لیکن ان معنوں میں منسوخ کہ اب اس کے حوالے کی ضرورت نہ رہی۔ اس کے بعد جو بھی حوالے چلے وہ موسوی شریعت کے حوالے چلے ہیں۔ وہ موسوی شریعت کے حوالے چلے ہیں تو شریعت کبھی منسوخ نہ ہوگی۔ یہ ہے اصل بنیادی معنیٰ ابن عربی کا۔ (مولانا روم مولانا جلال الدین رومی)۔ اب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا ایک اور اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ الخیر الکثیر میں آپ نے فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہوسکتا جو مستقل طور پر بلاواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے فیض پانے والا ہو۔ کوئی ایسا نبی نہیں ہوسکتا جو مستقل طو ر پر بلاواسطہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے یہ دو امور ہیں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باربار وضاحت فرمائی ہے کہ مجھے مستقل نبی ان معنیٰ میں نہ کہو کہ گویا میں ازخود نبی بن گیا ہوں یعنی میں اپنی روحانی صلاحیتوں کی وجہ سے خداتعالیٰ نے براہ راست مجھے چنا ہے۔ یہ مراد ہے جو مستقل کا انکار ہے۔ اور یہ بات پیغامیوں سے بحث میں یہ بہت کام آنے والی ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کا انکار ان حوالوں سے کرتے ہیں جہاں مستقل نبوت کا انکار ہے۔ یہ مستقل نبوت ہے جس کا معنیٰ شاہ ولی اللہ دہلوی نے کیا۔ اور بعینہٖ یہی معنیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے عبدالحئی فنگی وغیرہ۔ یہ سارے حوالے میں پہلے دے چکا ہوں۔ یہ بھی دے چکا ہوں مگر یہ میں چھوڑ رہا ہوں طوالت کے خوف سے لیکن بعض اہم حوالے جو اس زمانے میں احمدیوں کو ازبر ہونے چاہئیں وہ ان میں سے ایک یہ مولانا محمد قاسم صاحب کا حوالہ بھی ہے۔ جو دیوبند کے بانی مبانی ہیں۔ او دیوبندی ان کے خلاف زبان کھولنے کی جرات نہیں کرسکتے۔ مگر ان کے حوالوں کو نظرانداز کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر زبان درازی کرتے ہیں۔ جو باتیں قاسم نانوتوی نے کہیں اگر وہی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہیں تو حضرت مسیح موعود پر زبانیںد راز کرتے ہیں۔اور قام نانوتوی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ میں ثابت کروں گا کہ وہی باتیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیں اس لئے نام صرف مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رکھ کے بے ہودہ سرائی کریں پہنچے گی مولانا قاسم نانوتوی کو بھی۔ وہ ان کے شر سے بچیں گے نہیں۔ فرماتے ہیں ظل اور اصل میںتساوی بھی ہو تو کچھ حرج نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور کہتے ہیں دیکھو ظل تو ویسے ہی ہوتا ہے کہ برابری ہوگئی۔ اور اس پر بڑی بے ہودہ سرائی کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رسول اللہ کے برابر ہونے کا دعویٰ کردیا کہتے ہیں ظل تو بالکل وہی ہوتا ہے شیشے میں دیکھو بعینہٖ وہی چیز نظر آتی ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے یہ لکھا ’’افضلیت ظل اور اصل میں تساوی بھی ہو بالکل ایک جیسے ہی ہوں تو کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ افضلیت بوجہ اصلیت پھر بھی خود ہے خاتم النبین کی طرف ہی رہے گی۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا عکس ہوا ناں جتنا صاف و شفاف دل کا شیشہ ہوگا اتنا ہی صاف و شفاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم دکھائی دیں گے۔ تو ظل جتنا مساوی ہوگا مرتبہ تو اس کا ہی ہوگا جس کا ظل ہے نہ کہ ظل کا مرتبہ تو کیسا عمدہ نقطہ ہے جو یہی حضرت مسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں۔ تو ان لوگوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ سن لیجئے۔ ’’میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں۔ اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگر ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے۔ جوا س کے چراغ سے نور لیتی ہے وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے۔ یہ دعویٰ ہے اب گالیاں دے کے دیکھیں مسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو، ساری قاسم نانوتوی صاحب کو پہنچیں گی۔ یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعے سے ہے۔ اور اسی کا مظہر ہے۔ اور اسی سے فیض یاب ہے۔ (چشمہ معرفت صفحہ 324 روحانی خزائن جلد 23 اور صفحہ 340)پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا ہے۔ اگر میںا ٓنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا ۔ اس سے پہلے امتی کے حوالے گزرچکے ہیں کہ امتی ہوکر ان کی نبوت کا دعوے دار ہے تو یہ اسلام کے خلاف نہیں بشرطیکہ نئی شریعت کا دعوے دار نہ ہو۔ یہ دو شرطیں بتمام و کمال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں ملتی ہیں۔ فرماتے ہیں اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرفِ مکالمہ و مخاطبہ نہ پاتا۔ کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت) اور بغیر شریعت نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔ (تجلیات الٰہیہ ، یہ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411,412 سے لیا گیا ہے) اب آپ دیکھیں جو اس سے پہلے میں علماء کے بزرگوں کے حوالے پڑھ چکاہوں۔ پرانے بزرگوں سے لے کر اب تک بعینہٖ یہی بات وہ کہتے ہیں۔ اور کافر نہیں ہوتے۔ اور جب وہی بات حضرت مسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں تو ان علماء کے (ان کو میں کیا کہوں اب رمضان کا مہینہ ہے چھوڑ دیتے ہیں) ان علماء کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ کچھ وہ کچھ ہوجاتے ہیں۔ حضرت مسیح موود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں صرف اس نبوت کا دروازہ بند ہے جو احکام شریعت جدیدہ ساتھ رکھتی ہو۔ پہلے سب بزرگوں نے یہی بات کہی ہے کہ ایسا دعویٰ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اتباع سے الگ ہوکر دعویٰ کیا جائے لیکن ایسا شخص جو ایک طرف اس کو خداتعالیٰ اس کی وحی میں امتی بھی قرار دیتا ہے اور پھر دوسری طرف اس کا نام نبی بھی رکھتا ہے یہ دعویٰ قرآن شریف کے احکام کے مخالف نہیں ہے کیونکہ یہ نبوت بباعث امتی ہونے کے دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی نبوت کا اک ظل ہے کوئی مستقل نبوت نہیں۔ اب جہاں بھی مستقل نبوت کا انکار ہے ان معنوں میں انکار ہے۔ اور بہت سے غیر مبائع اچھالتے پھرتے ہیں لفظ مستقل کو۔ ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود تشریح فرمائی ہے اس پہ غور نہیں کرتے۔ کہ مستقل کن معنوں میں انکار کررہے ہیں۔ وہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے فیض یاب نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا امتی نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شریعت کا سو فیصدی تابع فرمان نہ ہو وہ مستقل نبی ہے اور ایسے نبی کے طور پر آپ کہتے ہیں میں ہرگز مستقل نبی نہیں ہوں۔ باقی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اور بہت سے حوالے ہیں۔ یہاںمیں ان کی تکرار نہیں کرتا کیونکہ مضمون سارا ان میں بیان ہوگیا ہے۔ حوالے تو بہت ہی عظیم الشان حوالے ہیں لیکن اب میں وقت کی کمی کی وجہ سے باقیوں کو چھوڑ رہا ہوں۔ شعروں میں آپ نے یہ مضمون آخر پہ لکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوں۔ شعر تو جلدی یاد ہوجاتے ہیں لوگوں کو یہ باتیں مشکل سے یاد ہوتی ہیں۔
وہ پیشوا ہمارا، جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد ، دلبر میرا یہی ہے
وہ یار لامکانی، وہ دلبر نہانی
دیکھا ہے ہم نے اس سے بس رہنما یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دیکھایا وہ مہ لقاء یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
اب اس کے بعد جو بھی بد زبانی کرے گا اس کی بدزبانی اللہ تعالیٰ اس کو لوٹائے گا۔ اب زمانی طور پر جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خاتمیت پر زور دیتے ہیں ان کے متعلق بعض اہم حولے میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
حضرت سید عبدالقادر جیلانی 561ھ۔ حضرت عبدالقادر صاحب جیلانی کے مرشد طریقت اور پیر خلفاء حضرت ابو سعید مبارک ابن علی محزومی وفات 513ء کا یہ حوالہ ہے۔ اس کا حوالہ جو تحفہ مصطفی شریف یہ بے احتیاط حوالہ ہے اس کے اصل حوالہ منگوانا چاہئے۔ کائنات میں آخری مرتبہ انسان کا ہے جب وہ عروج پاتا ہے تو اس میں تمام مراکز مذکورہ اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ظاہر ہوجاتے ہیں۔ یہ دیکھیں عارفانہ کلام خود بول رہا ہے۔ کتنا واضح کلام ہے۔ آخری مرتبہ انسان کا ہے۔ جب وہ عروج پاتا ہے۔ تو اس میں تمام مراکز مذکورہ اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اور اس کو انسان کامل کہا جاتا ہے۔ اور عروج کمالات اور سب مراتب کا پھیلاؤ کامل طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم میں ہے اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو خاتم النبیٖن قرار دیا گیا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا عروج دو پہلو سے۔ ایک یہ کہ انسانیت آپ پر آکر کامل ہوئی ہے۔ اور اس کامل انسان نے روحانیت میں جو مدارج طے کئے وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئے۔ پس اس پہلو سے آپ ہی ہیں جو خاتم النبیٖن بنتے ہیں۔ ابوعبداللہ محمد بن علی حسین۔ یہ ابو عبداللہ کا حوالہ میں اس وقت confuse کررہا تھا۔ اس میں سے الحکیم الترمذی متوفی 308ھ آپ فرماتے ہیں ’’یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیٖن کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی یہ علماء جہلاء یہی باتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پرانا عیسیٰ اس لئے آسکتا ہے کہ وہ مبعوث ہونے کے لحاظ سے آخری نہیں ہے۔ مبعوث ہونے کے لحاظ سے آخری صرف حضور صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں۔ اس بحث کو اٹھاتے ہوئے حضرت ابوعبداللہ محمد بن علی حسین 308ھ (پرانی بات) اس میں یہ فرمارہے ہیں یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیٖین کی تعریف یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی کیا فضیلت و شان ہے؟ او اس میں کون سی علمی بات ہے۔ یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تعریف ہے۔ اتنا پرانے بزرگ کسی طرح علماء کے سامنے بالکل شیروں کی طرح گرج رہے ہیں کہ تم جاہلوں اور بے وقوفوں کو یہ تاویل کر رکھی ہے کہ بعثت کے لحاظ سے آخری ہیں۔ تو اس میں شان کیا ہے؟ کہتے ہیں اس میں بعثت کے بعد سے آخری ہونے میں ہرگز کوئی شان نہیں ہے۔ کوئی علمی بات ہے یہ؟ صرف صرف یہ کہہ کے اس کو رد کردیا گیا ہے۔ اب آخر پر وقت ختم ہورہا ہے شاید سوالات کا شروع ہونے والا ہے۔ (ابھی نہیں اچھا ٹھیک ہے۔ ہوجائے گا) مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کی باتیں گزری تھیں۔ اب یہ جو عوام، جہلاء کون لوگ ہیں جن کا یہ خیال ہے جو صحیح علماء ہیں اونچے درجے کے ان کو اس زمانے سے لے کر آج تک یہی خیال رہا ہے۔ یعنی اب تو جھگڑے نے اور صورت اختیار کرلی۔ مولانا قاسم نانوتوی صاحب کے زمانے تک ان بزرگ علماء کا وہی خیال رہا ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ فرماتے ہیں عوام کے خیال میں وہ جو اس نے کہا تھا ناں جہلاء کا خیال ہے) عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آ پ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سب میں آخری نبی ہیں۔ یعنی نبوت حاصل کرنے کے اعتبار سے آپ کا زمانہ سب سے بعد۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگیا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ و خاتم النبیٖن فرمایااس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ یہ قرآن کریم پر یہ تبصرہ ہے علماء غور کرلیں۔ آیت خاتم النبیٖن پر تبصرہ ہے کہ ان معنوں میں یہ کیسے ہوسکتا ہے نعوذباللہ من ذالک یہ آیت غلط ہوجائے گی اگر تم یہ معنیٰ کروگے تو۔ پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبیٖن فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتاہے ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح سے نہ کہیے۔ یعنی رسول اللہ کی نعوذباللہ مذمت قرار دو۔ کہ یہ آیت آپ کی مذمت میں نازل ہوئی ہے تو پھر جو چاہو بولتے پھرو۔ اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔ اب بتائیں علماء وہ اس آیت کے وہ معنے لیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مذمت کے معنے ہوں گے۔ یا وہ معنے لیں گے جو مدح کے معنے ہوں اور جو مدح کے معنے ہیں امن میں ان کے امام اور ہمارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریحات بعینہٖ وہی ہیں۔ اس لئے میں نے کہا تھا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالی دیں اور اپنے امام کے خلاف زبان نہ دراز کریں۔ اب سنئے یہ ہمیں غیرمسلم کہتے ہیں اس معنیٰ کے لحاظ سے جو خاتم النبیٖن کا معنیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم پر روشن فرمایا۔ کہتے ہیں اس معنے کی وجہ سے تم غیرمسلم ہوگئے۔ ان کے امام کہتے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ اہم اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہیں۔ ان سب کو غیرمسلم قرار دے رہیں ہیں۔ اگر اہل اسلام میں ہوتے تو یہ معنیٰ نہ کرتے جو مذمت کا معنیٰ ہے اور واقعۃً ٹھیک ہے اہل اسلام میں سے ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق مذمت کا معنیٰ؟ یہ تو تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ پس یہ جو قوانین ہیں۔ آج کل کے نئے بنے ہوئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ہتک کے خیال سے یا الزام کے نتیجے میں گردن زدنی قرادر دیئے جارہے ہیں۔ محمد قاسم صاحب نانوتوی کے فتویٰ کے مطابق یہ سب سے زیادہ ان ملانوں پر اور ان لوگوں پر چسپاں ہوتی ہے یہ بات۔ اس لئے پہلے اپنے آپ کو پھانسیاں دو۔ کیونکہ آپ کے امام کا فیصلہ ہے کہ تم اہل اسلام نہیں رہے۔ اور تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی گستاخی کی ہے اس لئے اسلام میں نہیں رہے اس لئے ہتک رسول کا مقدمہ ان لوگوں پر چلنا چاہئے اور ان کو سرِعام پھانسی دینی چاہئے۔ مگر پاکستان میں رہ کون جائے گا۔ وہی رہ جائیں گے جن کو یہ غیرمسلم کہہ رہے ہیں۔ اور وہی رہ جائیں گے جو پاکستان کے بنانے میں مددگار تھے قائداعظم کے بظاہر پاکستان چھوٹا ہوجائے گا مگر بہت بڑا ہوجائے گا۔ ایک اور حوالہ مولانا قاسم صاحب نانوتوی کا یہ سارے انہی معنوں میں ہیں اس لئے میں چھوڑ رہا ہوں ان کو۔ آخر پر حضرت مسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چشمۂ مسیحی (روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 389 کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں۔ ’’اے نادانو! اور آنکھوں کے اندھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور ہمارے سیدومولا اس پرہزار سلام اپنے افاضے کی رو سے تمام انبیاء پر سبقت لے گئے۔ کیونکہ گزشتہ نبیوں کا افاضہ ایک حد تک آکر ختم ہوگیا اور اب وہ قومیں اور وہ مذہب مردے ہیں۔ کوئی ان میں زندگی نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا روحانی فیضان قیامت تک جاری ہے۔‘‘ فیضان تھے مگر ختم ہوگئے اور وہ چشمے بند ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود آپ کے اس فیضان کے اس امت کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی مسیح باہر سے آوے وہ پرانے فیضان کو جاری کرنے والا ہوگا۔ بلکہ آپ کے سایہ میں پرورش پانا ایک ادنیٰ انسان کو مسیح بناسکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے اس عاجز کو بنایا ہے۔ تو ادنیٰ انسان آپ کی عاجزی ہے ورنہ اتنا بلند مرتبہ انسان بنایا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے خطبات میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات پڑھے تھے وہ پڑھتے ہوئے بھی میرا دل لرز رہا تھا کہ بعض احمدی عام وہ سمجھیں گے ہم تو مارے گئے۔ روزے سے ایسی محبت ایسا عشق جان جارہی ہے مگر روزہ نہیںچھوڑا جاتا۔ رمضان کے آنے کا ایسا انتظار، رمضان کے جانے کا ایسا غم۔ بکثرت اپنے دلوں کو ٹٹول کے دیکھو تو اس کے مطابق آپ پورے نہیں اتریں گے۔ میں بھی اس کے مطابق ہرگز پورا نہیں اترتا۔ تو یہ اس وجہ سے خوف زدہ نہ ہوں۔ کیونکہ حضرت مسیح مووعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام بہت بالا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے جو ستاروں کی تشبیہہ دی تھی مثال دی تھی اس کے مطابق آپ نے روحانی طور پرا تنی ترقی فرمائی ہے کہ آپ کو دیکھ کر بھی دل لرزتا ہے اب اس بات کو یاد رکھیں کوشش کرنا اور آپ کی متابعت کرنا فرض ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی متابعت فرض ہے تو جو آپ کے پیچھے چلا اس کی متابعت بھی فرض ہے۔ لیکن یہ خیال کرلینا کہ مجھے ابھی یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا۔ ابھی میرا مقام وہ نہیں پہنچا۔ روزمرہ میں اپنی کمزوریاں دیکھتا ہوں اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اس سے احتیاط کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ کوشش کو مزید جاری رکھنے کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔ چونکہ وہ مقام اور مرتبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنا بیان کررہے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسا فرض کریں کہ اس زمانے میں دنیا کا کوئی بہترینAthlete اپنا تجربہ بیان کررہا ہو۔ اب دنیا کے بہترین Athlete کے نیچے ساری دنیا کے جوان پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں کمزور بھی ہیں ۔ ان میں تھوڑا دوڑنے والے بھی ہیں آجکل پارک میں جا کر دیکھیں بڈھے بھی دوڑ رہے ہیں جوان بھی دوڑ رہے ہیں مگر ان کو انگلستان کے Athlete سے بھی کوئی نسبت نہیں وہ گویا کوسوں ان سے آگے نکلا ہوا ہے۔ اور ایسے Athlete ہر ملک میں موجود ہیں جو اپنے وطن کی شان ہیں۔ا ب ان کو دیکھ کر کیا عامۃ الناس کلیۃً مایوس ہوجائیں گے؟ کیا وہ کہیں گے اوہو یہ ہے اصل جو آگے بڑھ رہا ہے ہم تو کچھ بھی نہیں۔ ہم تو اس کے مقابل پر قدم قدم ٹھوکر کھانے والے لوگ ہیں۔ تو مایوسی کا کوئی سوال نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان حوالوں کو اس طرح پڑھیں کہ آپ اس زمانے میں سب سے بلند مقام اور مرتبہ پانے ولے ہیں۔ اور یہ آپ کی کیفیات ہیں۔ اس لئے بتائی جارہی ہیں۔ کہ فرض ہے امام کا کہ اپنی ان کیفیات کو بتائے تاکہ وہ نمونے کے طور پر سامنے Set ہوجائیں اسی لئے قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے وہ مقامات بتائے جن کا عام آدمی جو ہوش و حواس میں ہو تصور بھی نہیں کرسکتا کہ میں ان باتوں کو پاسکتا ہوں۔ پس ان خطبات سے مجھے بعض دفعہ خیال آتا رہا کہ لوگ گھبرا نہ جائیں کیونکہ آج کل یہ درس شاید خطبات سے بھی زیادہ لوگ سن رہے ہوں اس لئے میں ان کو بتاتا ہوں کہ گھبرائیں نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاص مرتبہ کو پیش نظر رکھیں۔ اور کوشش کریں پیروی کی جس حدتک ممکن ہے۔ مگر برسوں لگیں گے اس پیروی کے بعد اس احساس میں کہ ہم نے واقعۃً کچھ پابھی لیا ہے۔ اور پھر بھی ابھی آپ صالحین ہی میں شمار ہورہے ہوں گے یا ابھی یعنی صالحین میں شمار ہونے میں کچھ عرصہ باقی ہوگا۔ سمجھ گئے ہیں بات کو۔ اس لئے ڈرنا نہیںمگر پیروی نہیں چھوڑنی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم بطور زینت کے جملہ انبیاء میں آپ نے ایک مقام زینت حاصل کیاہے۔ اور خاتم کا یہ معنیٰ بھی پرانے بزرگوں نے کررکھا ہے اور اس کو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیش کرتے ہیں تو پھر وہی بے ہودہ لغو سرائی۔ حضرت امام محمد بن عبدالباقی زرقانی متوفی متوفی ہے ناں یا متوفیٰ ہے۔ متوفیٰ۔ میں پہلے متوفی ہی پڑھتا رہا ہوں جب کبھی۔ کل ایک دفعہ پڑھا تھا۔ متوفیٰ سے میں سمجھا تھا مرنے والا لیکن متوفیٰ جس کو مارا گیا۔ تو ابھی پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا متوفیٰ ہونا چاہئے تھا میں ایک دو دفعہ کہہ چکا ہوں آ پ لوگوں نے ٹوکا نہیں مجھے امام محمد بن عبدالطاقی زرقانی متورفیٰ 1122 ، 1710ء اور ابن عساکر دونوں کا قول ہے۔ خاتم النبیٖن کے معنیٰ یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنی ظاہری اور روحانی بناوٹ اور اخلاق میں سب سے زیادہ حسین ہیں کیونکہ آپ نبیوں کا حسن و جمال ہیں۔ یعنی نبی حسن پکڑتا ہے تو آپ کی پیروی سے پکڑتاہے۔ وہ صفات جو آپ میں بدرجہ ہائے اتم موجود ہیں جہاں تھوڑی تھوڑی نبیوں کے چہروں پر دکھائی دیتی ہیں وہ خوبصورت دکھائے دیتے ہیں۔ اس انگشتری کی مانند جس سے زینت اور تجمل حاصل کیا جاتاہے یعنی جو انگوٹھیاں پہن کر اپنے ہاتھوں کی خوبصورت بناتی ہیں۔ وہ انگوٹھی اگر اتار دی جائے تو ہاتھ بچے کھچے خالی خالی دکھائی دیتے ہیں۔ تو انبیاء نے گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی انگوٹھیاں پہنی ہوئی ہیں۔ اور ان سے ان کے ہاتھ زینت پارہے ہیں۔ (ہوں میں نے کہا یہ لکھ لیں پھر اب یہ سلسلہ ایک دو دن اور چلے گا چلتے جائیں جو ختم ہوگئے پھر اگلی باتیں شروع ہوں گی) بعض باتوں کا میں نے وعدہ کیا تھا وہ حوالے آبھی گئے ہیں وہاں سے لیکن و ہ ا س درس کے اختتام پر اگلی آیات کے درس پہلے درمیان میں ہم وہ بیان کردیں گے۔ یہ اٹھالیں)
آئیے جی رشید صاحب میدان میں آجائیں۔ ناں ابھی ٹھہر جائیں تھوڑی دیر معاف کریں۔ ابھی لوگوں کو موقع دیں پہلے ماشاء اللہ حیات صاحب بھی موجود ہیں۔ بشیر حیات صاحب ابھی ٹھہریں۔ آپ فرمائیے۔
س 1: السلام علیکم حضور علیکم السلام حضور یہ ایک کتاب گھر گھر تقسیم ہوئی ہے اس میں ایک حوالہ انہوں نے ایک حوالہ دیا ہوا ہے مولانا نے
٭ کس نے؟ غیراحمدیوں کی کتاب؟
٭ یہ کیا ہے حقوق العباد و خاتم الفساد۔
٭ کس کی کتاب ہے؟
٭ یہاں برمنگھم میں کسی اور سے
٭ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ ایسے بے ہودہ حوالوں کی یا بے ہودہ نہ بھی ہوں تو ان کو چھوڑ دیں۔
٭ انہوں نے قرآن مجید کی ایک آیت کی تشریح کی ہوئی ہے
٭ درس سے متعلق بات کریں۔ جو میں درس دے رہا ہوں ان کے متعلق کوئی سوال ہے تو باتیں کریں۔ آپ خواہ مخواہ غیراحمدی جو علماء کی شائع شدہ کتابیں ہیں وہ اٹھالیتے ہیں اور اس میں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال شروع کردیتے ہیں۔ آپ ان سے ملیں جنہوں نے لکھی ہے ان سے سوال کریں۔
٭ حضور انہوں نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے۔
٭ آپ یہ بتانا چاہتے ہیں غلط کیاہے۔
٭ نہیں ہماری تائید میں ہی کیا ہے۔
٭ تو پھر کیا حرج ہے؟ بہت سے تراجم ہیں قرآن کریم کی جن میں کثرت سے آیات ہماری تائید میں ترجمہ ہوئیں ہیں۔ یہاں اس موقع پر ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے ہمیں کوئی تائید حاصل نہیں ہوگی اس موقع پر بے شمار آیات ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں جن کے متعلق غیرا حمدی علماء نے وہی ترجمے کئے ہیں جو جماعت احمدیہ کے قرآن کریم میں درج ہیں اس لئے محض یہ دکھاوے کی خاطر کہ فلاں مولوی نے یہ ترجمہ کردیا بے کار بحثیں ہیں۔ آپ کو میں سمجھا رہا ہوں بیٹھ جائیں خدا کے لئے۔
س 2: فرمائیے۔ پچھلے سال تو میں نے بند رکھے تھے ان کے سوال آج دیکھتے ہیں کہ شاید کوئی اصلاح ہوگئی ہو۔
٭حضور ایک جہاد کے بارے میں سوال ہے؟
٭آگے آجاؤ۔
٭میرے سوال کے جواب میں آپ نے ایک حدیث بیان کی ہے اس میں اس کا جواب آگیا لیکن تھوڑی سی مزید وضاحت چاہئے۔
٭ذرا نیچے ہوکے بات کرو تاکہ مجھے بھی بات پہنچے۔
حضور کیا یہ ممکن ہے کہ آئنہ مستقبل میں کبھی جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی طرف سے جسمانی جہاد کا بھی حکم ہو۔
جواب: یہ امکان تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بیان فرمایا ہوا ہے۔ کہ حالات اگر بدل جائیں اور تلوار مسلمان کے مذہب کے خلاف اٹھائی جائے تو عین ممکن ہے کہ اس وقت کے امام کو اللہ تعالیٰ تلوار کے جہاد کی بھی اجازت دے دے۔ یہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہوا ہے۔
س 3 : اب کون ہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فرمائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم۔
٭وعلیکم السلام۔
٭حضور قرآن پاک کی سورۃ النساء کی یہ آیات جو ہیں ومن یطع اللہ والرسول
٭ہیں؟ رسول؟ نہیں رسول۔
٭ہاں من یطع الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیٖین والصدیقین والشھداء والصلحین وحسن اولئک رفیقا۔ ’’پس جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے۔‘‘
٭یہ دیکھیں اس کا ترجمہ میں بار بار یہاں کرچکا ہوں۔ آپ ترجمہ نہ دہرائیں۔ سوال کریں۔
٭سوال یہ ہے کہ اس کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو کیا حضرت مسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے۔ آئندہ زمانے میں؟
ج: ان آیات کی شرائط کو پور کرنے والا آسکتا ہے اگر خدا اسے بنادے۔ سمجھے۔ نبی کوئی کسبی معاملہ نہیں ہے۔ یہ وہبی معاملہ ہے اور حسب ضرورت اللہ تعالیٰ نبوت عطا فرمایا کرتا ہے پس اگر آئندہ بعینہٖ ان آیات کی شرائط کو اس طرح پورا کرنے والا کوئی شخص پیدا ہو تو اول درجہ نبوت کا انعام پانے کا مستحق ٹھہرے۔ اگر ضرورت زمانہ کا تقاضہ ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو نبی بنا سکتا ہے۔ اس کا ہاتھ نہیں کوئی روک سکتا۔ ٹھیک ہے جزاک اللہ آگے یہ جو شرطیں ہیں اگر کی یہ بہت اہم ہیں کیونکہ سلسلے کے لٹریچر میں بعض جگہ یہ بھی کسی کو ملے گا کہ کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بنایا گیا ہے اور نہیں اور ان معنوں میں غیر احمدی اعتراض کرتے کہ گویا آپ ہی خاتم بنے۔ وہ زمانی لحاظ سے مانتے ہیں یہ کہتے ہیں زمانی لحاظ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے آپ کی خاتمیت چھین کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ڈالدی۔ اس کا جواب میں دے رہا ہوں۔ اصولاً علمی طور پر اس آیات کا یہی ترجمہ ہمیں تسلیم ہے اور تسلیم کرنا پڑے گاگر اللہ کے نزدیک ایسا شخص ہو اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی تصدیق اس کو حاصل ہو تو ہمیں کیا تکلیف ہے۔ بے شک آئیں سو بسم اللہ۔ ٹھیک ہے۔
س 4: اگلا بتائیں۔ چوہدری رشید صاحب آپ کی باری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہو۔ چوہدری رشید صاحب ذرا ٹھہریں۔ ایک منٹ۔ ایک ادھر بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭السلام علیکم حضور۔
٭آپ دونوں کا انتظار لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی خاطر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں لوگ بتاتے ہیں بڑا مزہ آتا ہے۔ اصل غرض کا مزہ بھول جاتے ہیں اور آپ لطیفوں کے مزے اٹھاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نعیم احمد قریشی۔
٭حضور کل بھی اور آج بھی درس میں لانبی بعدی کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے امت مسلمہ کے جو تمام علماء ہیں شروع سے حضرت محی الدین ابن عربی سے لے کر شاہ ولی اللہ تک ہر ایک جماعت کی جو تشریح ہے خاتم النبیٖن اس کے قائل رہے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ ۔۔۔۔۔ لیکن امت مسلمہ کا عقیدہ بگڑتا گیا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد۔۔۔۔۔۔۔ کب اور کس سٹیج پر یہ کیا گیا۔
ج: میں عرض کررہا ہوں تدریجاً یہ خیال پھیلا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں۔ اور نزول کی احادیث سے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہاں ظاہر جسمانی نزول مراد ہے اورر یہ بات بھول گئے کہ لفظ نزول قرآن کریم میں تمام انبیاء میں سے سوائے رسول اللہ کے کسی کے حق میں استعمال نہیں ہوا۔ یہ نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سی ٹھوکریں لگیں ہیں۔ لفظ نزول کا ظاہری معنیٰ لے لیا گیا اور قرآن کی طرف توجہ کرکے یہ نہیں پہلے معلوم کیا کہ انبیاء میں سے کسی کے لئے قرآن کریم نے لفظ نزول استعمال کیا ہے اگر وہ یہ کرتے تو ان کو یہ صاف دکھائی دیتا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے علاوہ ایک بھی نہیں ہے جس کے متعلق قرآن نے لفظ نزول استعمال فرمایا ہو۔ اور آپ کا نزول ہمارے سامنے ہے۔
سائل ٭ شروع سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد سے یہ غلط عقیدہ ہے۔
حضور انور٭ شروع سے جب سے رسول بنے ہیںنزول کا لفظ سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اور کسی کے لئے استعمال نہیں کیا گیا۔ اور آپ کا نزول ہمارے سامنے ہے کیسے ہوا ہے۔ پس نزول روحانی مراتب میں سب سے آگے بڑھنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جو اپنے زمانے میں سب سے زیاددہ فائدہ مند چیز ہو۔ اس کی بکثرتت مثالیں میں دے چکا ہوں۔ اب قرآن کریم نے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق نزول کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے امام کے لئے لفظ نزول استعمال فرمایا ہے۔ اپنے حوالے سے بڑھ کر تو نہیں فرمایا۔ ان معنوں کے تابع فرمایا ہے۔ پس یہ بات لوگ بھول گئے ان دو باتوں کو ملا نہیں سکے۔ اور یہ عقیدہ آج تک دلوں میں جگہ پاگیا کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نزول کا ذکر فرماتے ہیں آپ کی مراد جسمانی نزول ہے یہاں تک ان کی ٹھوکر کی وجہ جائز ہے۔ یعنی اس لحاظ سے کہ درمیان میں خیالات میں ایک قسم کے الجھاؤ پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ لیکن ایک چیز جو ان کو کرنی چاہئے تھی وہ یہ تھی کہ قرآن کریم پہ پہلے غو ر کرکے اور احادیث پر غو ر کرکے اس مضمون کی آیات اور احادیث کو نکالتے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے یہ فرمایا ہوتا کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت نہیں ہوئے۔ قرآن کریم نے یہ کہا ہوتاکہ وہ مرے نہیںہیں۔ اس لئے میں جب نزول کہوں گا تو جسمانی نزول مراد ہے۔ اس کا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جب نزول کا لفظ فرماتے ہیں تو روحانی معنوںں میں فرمارہے ہیں یہ باتیں ہیں جو رفتہ رفتہ غلطیوں کا موجب بن گئیں۔ اور اس زمانے کے علماء میں جب یہ باتیں عام تھیں اس زمانے میں بعض علماء کا اس شان کے ساتھ ان معنے کے مخالف معنے بیان کرنا یہ ان کی عظمت کو بھی بتاتاہے اور بتاتا ہے کہ انہوں نے قرآن اور حدیث سے حقیقت میں یہ بات سمجھی تھی ورنہ ان کو جرأت نہ ہوتی کہ عامۃ الناس اور عام علماء کے مقابل پر کھڑے ہوکر اس شان سے للکارتے کہ تم غلط سمجھ رہے ہو۔ اب واضح ہوگئی بات۔
جی بالکل شکریہ۔
س 5: آئیے اب رشید صاحب۔ (رشید صاحب) حیات صاحب بچارے۔ شاید اگلی اتوار تک بات جاپڑے۔
٭حضور السلام علیکم
٭وعلیکم السلام۔
٭حضور سوال یہ ہے کہ اگر انسان توبہ کرنے کے بعد گناہ کربیٹھے تو کیا پھر تو بہ قبول ہوسکتی ہے یا نہیں؟
٭(حضور) توبہ النصوح کیا ہوتی ہے؟
٭پکی توبہ۔
٭ تو اس کے بد گناہ کیسے کرنا چاہئے۔
٭جی پھر گناہ ہوجائے۔
٭ ہو ہی نہیں سکتا۔ توبۃ النصوح کے بعد گناہ ہو ہی نہیں سکتا۔ توبۃ النصوحہ وہ توبہ ہوگی کہ مرتے دم تک پھر دوبارہ گناہ کا خیال دل میں نہ آئے۔ تب اس کو توبۃ النصوح کہا جائے گا۔ ورنہ تو بہ ہزار توبہ ہی ہوتی ہے عام دنیا میں توبہ کرتے ہیں لوگ اور ٹوٹتی بھی ہے توبہ وہ آپ نے شعر نہیں سنا ہوا۔
جام مے توبہ شکن
جام مے توبہ شکن جس کاجام مے توبہ شکن ہے اس کو توبۃ النصوح کی توفیق نہیں ملتی۔ جام مے تبہ شکن۔ تو بہ میری جام شکن۔ لیکن میری توبہ ایسی پکی ہے جس کو آپ توبۃ النصوح سمجھ رہے ہیں کہ وہ خالی کرکے جام توڑی جاتی ہے۔ سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے اس کو آپ توبۃ النصوحہ کہہ رہے ہیں۔ا بھی سمجھ نہیں آئی ہے آپ کو۔
٭ آگئی ہے۔ جزاک اللہ
٭ آگئی تو پھر جاکر بیٹھ جائیں۔
٭ آئیے حیات صاحب۔ جزاک اللہ آپ نے ان کو اچھا وقت دے دیا۔
س 6 : انہوں نے پڑھنا ہے سوال ابھی۔
٭السلام علیکم حضور۔
٭ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
٭ آج کے درس میں یہ حدیث کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا۔ غیراحمدی اصحاب کہتے ہیں کہ چونکہ نبوت بند ہوگئی ہے اس لئے ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زندہ نہیں رکھا گیا۔
حضور انور٭ اس کا جواب تو میں دے چکا ہوں۔ اس کاجواب دے چکا ہوں۔
٭ اچھا ۔ دوبارہ دے دیں۔ جہلاء کا خیال ہے۔ کیا؟
حضور انور ٭ اگر آپ کو میرے جواب کی خبر نہ پہنچی ہو تو آپ دوبارہ درس کو سنیں۔ اس حصے کو۔ آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ لیکن جلدی سے ایک اور سوال کرلیں۔ ابھی وقت ہے۔ اس سوال کا جواب میں دے چکا ہوں۔
٭ اچھا بس ٹھیک ہے پھر۔
س7: اگلا سوال
٭اگلا سوال درس کے بارے میں نہیں ہے لیکن ہے ضروری سوال۔
٭آپ کو حق ہے جو مرضی کہیں۔
٭ Mr S.S. Abdul Hussan Ali Nadvi اپنی کتاب Qadiyanism Acritical Study صفحہ 102 میں لکھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ایک مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اسلام کے نظام میں جبکہ مرزا صاحب کے ساتھیوں کو وہی درجہ دیا جاتا ہے۔ جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ رکھتے ہیں۔ حضور اس بارہ میں فرماویں کہ کیوں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی وہی درجہ رکھتے ہیں جو کہ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم رکھتے تھے؟
ج : ایک تو درجے کا لفظ ان معنوں میں غلط ہے کیونکہ درجہ تو صحابہ میں بھی فرق فرق ہے۔ صحابہ کی Category میں داخل ہیں یہ سوال ہونا چاہئے۔ کیوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ گزشتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ کی Category میں داخل ہیں۔ واخرین من ھم لما یلحقوا بھم۔ اس آیت کریمہ میں یہ مضمون بیان ہوچکا ہے۔ اور بخاری شریف کی حدیث سے اس کی تشریح میں بار بار کرچکا ہوں۔ کہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے علم کے مطابق قرآن کے بیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اس علم کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا آنے والا ایک ایسا بھی ہوگا جس کے ماننے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اصحاب سے ملا دیئے جائیں گے۔ وہ ملنا عمومی Category کا ملنا ہے نہ کہ ہم مرتبہ ہونا۔ ہم مرتبہ ان معنوں میں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مرتبہ ہے۔ یہ کہنا کہ ضرور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرتبہ کے برابر مرتبہ ملے گا یہ ضروری نہیں یہ دھونس ہے۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح ایک مرتبہ ملے گا۔ یہ درست ہے۔ پس یہ جواب میں بارہا دے چکا ہوں اور تفصیل سے دے چکا ہوں۔ امید ہے آپ کے لئے یہ تشفی کا موجب بن جائے گا کہ نہیں؟ نہیں مشکل سے نہیں لگ رہا۔
٭ ٹھیک ہے حضور۔
٭ہیں؟ (ٹھیک ہے) گزارا ہوجائے گا ہیں؟ یہی کہنا چاہتے ہیں نا آپ؟
٭ جی۔
٭کہ آپ کا گزارا ہوجائے گا۔ آپ کا گزارا بھی بہت بڑی چیز ہے۔ جزاک اللہ
السلام علیکم
‏bcdbcd

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ 2؍رمضان بمطابق یکم جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سب کو نیا سال مبارک ہو۔جماعت کا ۔یہ 97ء کا سال ختم ہوا۔ ہیں؟ اور یہ مباہلہ کب ہوا تھا شروع؟ 97ء کے سال سے شروع ہوکر 97ء کے سال میںختم ہونا تھا؟ ہاں۔ رمضان کے شروع میں ہوا تھا نا۔ تو ابھی مباہلے کے چند دن باقی ہیں۔ یہ اس حساب سے دس دن تک چلے گا نا۔ رمضان کے پہلے عشرے تک یہ جاری رہے گا۔ یہ مطلب ہے؟ اور بہت کچھ رونما ہوچکا ہے ، کچھ ہونے والا ہے اللہ کے نزدیک انشاء اللہ۔
ان اللہ لایغفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اثماً عظیما۔ (النسائ: 47)
اس آیت کی تشریح کا ایک بڑا حصہ گزرچکا ہے اور کچھ ابھی باقی تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس میں پڑھ رہا تھا اور اس کے علاوہ اس آیت کی طرف جو غلط باتیں منسوب کی گئی ہیں ان کا بڑا حصہ پہلے گزرچکا ہے۔ ان میں سے بعض ایسی ہیں جو بعض دوسری آیات سے ردّ کرنے کی محتاج ہیں۔ میںانشاء اللہ آج اس پر بحث کروں گا۔ ’’اللہ تعالیٰ ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور جو گناہ اس سے ادنیٰ ہو جس کے حق میں چاہے گا معاف کرے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا ہو اس نے بہت بڑی بدی کی بات بنائی ہے‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’خدا ہر ایک گناہ کو بخش دے گا جس کیلئے چاہے گا۔ پر شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا۔ اسی طرح پر خدا نے قرآن میں فرمایا ویغفر مادون ذلک یعنی ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا نہیں بخشے گا۔ شرک کے نزدیک مت جائو اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو۔ یہاں شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جائے بلکہ ایک شرک یہ ہے کہ اسباب کی پرستش کی جائے اور معبوداتِ دنیا پر زور دیا جاوے اس کا نام ہی شرک ہے‘‘۔’’ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا نہیں بخشے گا‘‘۔ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام گناہوں کو مادون ذلک کے تابع لیا ہے۔ لیکن شرک کا دائرہ زیادہ وسیع کردیا ہے۔ یعنی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شرک نہ کرو تو جو مرضی کرلو۔ اوّل تو اس کا ردّ موجود ہے میں ابھی پڑھوں گا آپ کے سامنے۔ دوسرا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرک کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ اور بہت سے گناہوں کو شرک کے دائرہ میں داخل کرلیا ہے یعنی وہ دنیا پرستی جس کے متعلق میں پہلے بھی خطبات میں زور دے چکا ہوں یہ شرک کی ہی قسم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ایک فقرے میں اسی بیان کو تقویت دی ہے کہ ’’معبوداتِ دنیا پر زور دیا جاوے اسی کا نام شرک ہے‘‘۔ پس وہ خدا کے علاوہ طاقتور نظر آنے والے لوگ جن کی پناہ میں دنیا آتی ہے اور شر سے پناہ کے وقت ان کی طرف بھاگا جاتا ہے۔ یہ شرک ہے اور وہ ساری زندگی جو ان کے تابع خرچ ہوتی ہے وہ گناہ ہے اور ایسا گناہ ہے جس سے اگر توبہ نہ کی جائے تو اللہ اسے معاف نہیں فرمائے گا۔تو مادون ذلک میں جو یہ خیال کرلیتے ہیں کہ اللہ کو ایک کہہ دو اور پھر دنیامیں جس کی پناہ میں چاہو آئو اور جو مرضی کرتے پھرو۔ اس کا ردّ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ایک فقرے میں موجود ہے (الحکم جلد 214 مورخہ 30؍جون 1903ئ)۔عام طور پر میں ، وہیری کو اب quoteنہیں کرتا کیونکہ اس کی دشمنی اظہر من الشمس ہے یا اظہر من الشمس تو نہیں کہنا چاہیے اس کی دشمنی تاریک ترین راتوں سے زیادہ تاریک دشمنی ہے۔ اور اس کے متعلق کافی کچھ کہا جاچکا ہے۔ اس کو ردّ کرنے کیلئے گزشتہ مضامین بہت کافی ہیں اور بار بار اس کا نام درس میںلیتے ہوئے تکلیف پہنچتی ہے۔ لیکن یہاں ایک بات بیان کرنی ضروری ہے وہیری نے یہ من یشاء کے اوپر ایک طنز کیا ہے اور گویا عیسائیت کی تعلیم کو اس سے بہتر قرار دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
To whom He pleased to those who repent before death and accept of Islam. These he forgive not on the ground of their good works, nor on account of any atonement, but because he pleases.
اب یہاں جہاں تک not, not کا تعلق ہے یہ مسلمان علماء کی غلط تفسیروں کے نتیجے میں اس نے ایک نتیجہ نکالا ہے اس کا حقیقت حال سے کوئی بھی تعلق نہیں ۔ لیکن جہاں وہ یہ کہتا ہے کہ not on account of any atonement اس کے نزدیک اٹونمنٹ اللہ کی pleasure سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ہے اصل سوال جس کو یہاں چھیڑناضروری ہے۔ not on account of any atonement but because he pleaseth۔ اب اٹونمنٹ کیا ہے؟ atonementکسی پاک تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ اٹونمنٹ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مان کر ہمارے گناہوں کو اٹھانے والا قرار دینا ،یہ اٹونمنٹ ہے۔ اس کے سوا اٹونمنٹ کی کوئی حقیقت نہیں اور ایسے شخص Deathسے پہلے repentکریں یا نہ کریں۔ جب ایک دفعہ وہ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا مان جائیں اور یہ یقین کرلیں کہ عیسیٰ نے ہمارے گناہوں کا بوجھ اٹھالیا تو پھر جو گناہ کرتے پھریںموت بے معنی اور بے حقیقت ایک دروازہ ہے اس میں گزرنے سے پہلے پہلے، ہر قسم کے گناہ جتنے بھی اٹونمنٹ کے بعد یہ کرتے ہیں وہ معاف ہوجاتے ہیں اور اٹونمنٹ کے عقیدے میں ہرگز یہ شامل نہیں کہ موت کے وقت یا موت سے پہلے مانا جائے۔ ایک دفعہ مان لو تو پھر جو چاہو کرو۔ تو اس قسم کی حماقت والی بات ہے کہ اسلام تو جیسا کہ میں بیان کروںگا بہت پاک تبدیلیوںکا تقاضا کرتا ہے ۔ مگر یہ کہتاہے Pleaseاللہ کا pleaseہونا کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتا اٹونمنٹ کے مقابلے پر۔ یعنی خدا کے نعوذ باللہ فرضی بیٹے کو مان لو تو یہ تمہارے گناہ بخشنے کیلئے کافی ہے خدا راضی ہو یا نہ ہو اور تمسخر کے رنگ میں He pleases کو اس نے ہائی لائٹ کیا ہے کہ دیکھو جی مسلمانوں کا دین He pleases، اللہ pleaseہوجائے تو کافی ہے ۔ تو اور کیا پایا ہے پھر ، اگر اللہ pleaseنہ ہو تو کیا باقی رہ جاتا ہے۔ اس قسم کے احمقانہ حملے یہ کرتا چلا جاتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے He pleasesکی تشریح کی تھی He pleasesسے مراد خدا کی رضا ہے۔ اور خدا کی رضا گناہ گاروں کو نصیب نہیں ہوتی یہ ایک قطعی حقیقت ہے۔اب توبہ اور بخشش کے تعلق میں بعض آیات میں رکھتا ہوں۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہٖ و یغفر مادون ذلک۔ اللہ شرک کونہیںبخشے گا اس کے سوا جو کچھ ہے وہ بخش دے گا۔ مگر کیسے بخشے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ اس ساری بحث کو ان مفسرین نے نہیں اٹھایا کہ کیسے بخشے گا؟ اس کا طریقہ کار بخشش کا کیا ہے۔ سورہ تحریم میںآیت 9میں درج ہے یایھاالذین امنوا توبوا الی اللہ توبۃً نصوحًا۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم اپنے گناہ کی بخشش چاہتے ہو تو توبوا الی اللہ توبۃً نصوحًا اللہ کی طرف توبۃ النصوح کرتے ہوئے دوڑو اور جھکو۔ عسی ربکم ان یکفرعنکم سیاتکم ہرگزبعید نہیں کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے دور کردے یعنی گناہ کی بخشش کیلئے برائیوں کا دور ہونا ضروری ہے اور برائیوں کے دور ہونے کیلئے اللہ کی طرف سے ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اور ایسی توبہ کرتے ہوئے جس کو نصوحا فرمایا گیا ہے یعنی جس کے بعد کسی گناہ کا کوئی تصور بھی باقی نہ ہو۔ یہ توبہ ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یکفر عنکم سیاتکم توبہ کی قبولیت کا پہلا نشان یہ ظاہر ہوگا کہ تمہاری برائیاں تم سے دور کردی جائیں گی۔ پس وہ تما م لوگ جو گناہوں سے توبہ کے خواہاںہیں ان کا اپنے اعمال کا جائزہ لینا ضروری ہے اگر وہ دیکھیں کہ وہ خدا کی طرف جھکتے ہیں اور لپکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی برائیاں گرتی چلی جارہی ہیں اور کم ہورہی ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ ویدخلکم جنت تجری من تحتھا الانھراور برائیاں دور کرنے کے بعد یدخلکم جنتٍہے اس سے پہلے نہیں ہے۔ اور وہ جو پہلی روایات گزری ہیں ان میں تو یہ بیان ہے کہ برائیوں کے پہاڑ اٹھا کر جنتوں میں داخل ہوگے، کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ توبۃ نصوحا کے بغیر گناہوں کی بخشش نہیں اور توبۃ نصوحا انسان کے خدا کی طرف جھکنے کا نام ہے اور ایسا کامل جھکنے کا نام ہے کہ اس وقت اس کی نیت میںبدی کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہے۔ اوریہ فیصلہ کرلے کہ آئندہ میں نے کوئی بدی نہیں کرنی۔ پھر اگر بدی سرزد ہو اوراللہ چاہے اور ان حالات کے مطابق جن میں بدی سرزد ہوئی ہے اس کو معاف فرماسکتا ہے۔ لیکن شرط نہیں ہے۔ شرط یہی ہے کہ پہلے تم اپنے گناہ جھاڑو اور کامل خلوص کے ساتھ خدا کی طرف دوڑو۔ آگے سورۃ النساء آیت 19اور 18 میں توبہ کے مضمون کی تفسیر یوں درج ہے انما التوبۃ علی اللہ للذین یعملون السوء بجھالۃٍ ثم بتوبون من قریبٍ فاولئک یتوب اللہ علیھم۔ یہ خیال کہ لاالہ الا اللہ کہہ دو اورپھر گناہوں میںملوث ہوجائو اور ریت کے ذروں کے برابر گناہوں کے بوجھ اٹھالو۔ اس خیال کو یہ آیت بالکل باطل قرار دے رہی ہے۔ اس میں بہت دلچسپ انداز میں توبہ کرنے والوں کی کچھ اور توبہ قبول ہونے والوں کی کچھ شرطوں کا ذکر ہے۔ انما التوبۃ علی اللہ توبہ اللہ پر فرض ہے۔ علی اللہ للذین یعملون السوء ان لوگوں کی توبہ اللہ کیلئے قبول کرنا فرض ہے التوبۃ علی اللہ۔ جو برائیاں کرتے ہیں بجھالۃٍ جہالت کی حالت میں۔ ان کو حقیقت حال میں ان برائیوں کا علم نہیںہوتا۔ ثم یتوبون من قریب پھر ان برائیوں کے بعد جلد ہی توبہ کرتے ہیں۔ لمبا عرصہ اس غفلت کی حالت میں نہیں رہتے فاولئک یتوب اللہ علیھم پس یہی لوگ ہیں یقینا۔ یقینا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ توبہ کے ساتھ رجوع فرمائے گا ، توبہ کے قبول کرتے ہوئے ان پر جھک جائے گا۔ وکان اللہ علیما حکیما اور اللہ تعالیٰ بہت علم رکھنے والا او ربہت حکمت والا ہے۔ اب یہاں علیم اور حکیم کہہ کر یہ فرمادیا گیا ہے کہ اپنی طرف سے جھکنے والوں کی بحث نہیں ہے۔ اگر اللہ کے نزدیک جو علیم ہے وہ واقعتہً جھکیں گے اور وہ حکیم ہے ، وہ حکمت رکھتا ہے، حکمت کا مالک ہے۔اگر اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ ان کی توبہ سچی ہے اور قبول کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی توبہ کوقبول فرمائے گا۔ و لیست التوبۃ للذین یعملون السیات ان لوگوں کی توبہ قبول نہیںہوگی ، ہرگز ان کی کوئی توبہ نہیں ہے۔ یعملون السیات وہ لوگ جو برے عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔ حتی اذا حضر احدھم الموت یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک تک موت آجائے۔ موت اس تک آپہنچے۔ قال انی تبت الان وہ کہہ دے کہ اب میں نے توبہ کرلی ۔ کل کے درس میں نے بیان کیا تھا کہ موت کے وقت توبہ نہیں ہوا کرتی۔ اور یہ جاہل لوگ جو کہتے ہیں کہ اس وقت کہہ دو لاالہ الا اللہ تو توبہ قبول ہوگئی۔ یہ قرآن کے بالکل منافی باتیں کرتے ہیں۔ان لوگوں کی توبہ کسی قیمت پہ قبول نہیں ہوگی، گویا برائی کرتے ہیں۔ حتی اذا حضر احد ھم الموتیہاں تک کہ موت ان تک آپہنچے۔ قال انی تبت الان وہ کہہ دے کہ اب میں نے توبہ کرلی ۔ولا الذین یموتون وھم کفار ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی جو مریں اس حالت میں کہ وہ اللہ کا انکار کرنے والے ہوں۔ اولئک اعتدنا لھم عذابًا الیمًا یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ ومن یعمل سوئً او یظلم نفسہ ثم یستغفراللہ ، یجد اللہ غفوراً رحیما او رجو کوئی بھی برائی کرے اویظلم نفسہ یا اپنے نفس پر ظلم کرے یہاں ظلم سے مراد جیسا کہ اکثر لیا گیا ہے شرک ہے۔ پس ایسا شخص بھی جو کوئی برائی کرے یا شرک میں مبتلاء ہو ثم یستغفراللہ پھر استغفار کرے یجد اللہ غفوراً رحیما تو دونوں صورتوں میں اس نے خواہ عام بدیاں کی ہوں یا شرک کا مرتکب بھی ہوگیا ہو اگر وہ اللہ سے استغفار کرے گا تو اللہ کو غفورو رحیم پائے گا۔ہر قسم کے گناہ بخشے جاسکتے ہیں اگر استغفار پیدا ہو، اگر توبہ کی طرف توجہ پیدا ہو۔ ومن یکسب اثما فانما یکسبہ علی نفسہٖ پس جو کوئی بھی گناہ کماتا ہے وہ اپنے نفس کے خلاف گناہ کماتا ہے۔ و کان اللہ علیما حکیما۔ اور اللہ تعالیٰ بہت جاننے والا اور حکیم ہے۔
یہاں بھی وہی دو صفات دہرائی گئی ہیں جو پہلے دہرائی گئی تھیں۔ یعنی اس مضمون سے ان دو صفات کا گہرا تعلق ہے ۔ خدا کا صاحب علم ہونا اس بات کی دلالت ہے کہ جب وہ بخشے تو صحیح بخشے گا اور لوگوں کے خیال پر نہیں بخشے گا بلکہ اپنے علم پر بخشے گا اورحکمت کا تقاضا یہ کہتا ہے کہ جو بخشنے کے مستحق لوگ ہیں ان کو بخشا جائے اور جن کی بخشش سے ان کو یا بنی نوع انسان کو فائدہ نہ حاصل ہو ان کونہ بخشا جائے۔ویستعجلونک بالسیئۃ قبل الحسنۃ و قد خلت من قبلھم المثلٰت وہ یستعجلونک بالسیئۃ وہ تجھ سے برائی مانگنے میں زیادہ جلدی کرتے ہیں قبل الحسنۃ۔ حسنۃ سے یعنی خوبی سے پہلے ۔وقد خلت من قبلہ المثلٰت اور اس سے پہلے نصائح یعنی پرانے گزشتہ واقعات ان کے سامنے ہیں، جو گزرچکے ہیں۔وان ربک لذو مغفرۃٍ للناس علی ظلمھم وان ربک لشدید العقاب۔ وہ اللہ سے برائی طلب کرنے میں تو جلدی کرتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ مغفرت طلب کرنے میں جلدی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کے باوجود ان کو بخشنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وان ربک لشدید العقابلیکن یاد رکھو وہ شدید العقاب بھی ہے۔ یعنی یہ خیال کہ گناہ میں ملوث رہو اور استغفار نہ کرو پھر بھی بخشے جائو گے، یہ جھوٹ ہے کیونکہ وہ جیسا مغفرت میں بے انتہا ہے ویسا ہی جب وہ پکڑ پر آتا ہے تو بہت سخت پکڑ کرتا ہے(سورہ اعراف آیت7) ۔ حم۔ تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم۔ غافر الذنب و قابل التوب شدید العقاب ذی الطول۔ لاالہ الا ھو الیہ المصیر سورۃ المومن یا غافر؟ اچھا! بریکٹ میںغافر کردینا چاہیے تھا ۔ یا غافر ۔ میں نے کہا کوئی اورہی چیز نکالی ہے آپ نے۔ المومن سورۃ کا نام غافر بھی ہے اور بعض قرآن کریم کی طباعتوں میںمومن نام کی سورت نہیں ملے گی بلکہ غافر نام کے ملے گی ، اس لیے یہ دو حوالے ہیں۔ دونوں کی آیات سے ظاہر ہے کہ ایک ہی ہیں یعنی دو تا چار۔ حٰم خدا کی حمد اور اس کی بزرگی کو ثابت کرتی ہے یہ سورۃ۔ تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم کتاب کا نزول ہے اللہ کی طرف سے جو عزیز اور علیم ہے۔ غالب حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ غافر الذنب و قابل التوب وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ شدید العقاب ذی الطول بہت احسان کرنے والا ہے۔ شدید العقاب کا مطلب ہے پکڑ میںسخت ہے۔ ذی الطول بہت احسان کرنیوالا ہے۔ لاالہ الا ھو الیہ المصیر اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ اس میںدیکھیں غافر الذنب گناہ کو بخشنے والا ہے لیکن وقابل التوب ایسی صورت میں کہ وہ توبہ کو قبول کرتا ہے۔ شدید العقاب لیکن یاد رکھو کہ اگر تم نے ایسی توبہ نہ کی جو قبول کرنے کی مستحق ٹھہرے تو وہ اپنی پکڑ میںبہت سخت ہے۔ ذی الطول اور اس کے ساتھ ساتھ بیک وقت وہ احسانات میں بے انتہا ہے ، اس کا کوئی ثانی نہیں احسان کرنے میں۔ اس خدا کو یاد رکھو، اس کی عقوبت کے نیچے نہ آئو، اس کے احسان کے طالب رہو۔ لاالہ الا ھو یہ ہے توحید باری تعالیٰ اس کے سوا اورکوئی معبود نہیں الیہ المصیر۔ واذا جائک الذین یؤمنون بایتنا فقل سلم علیکم کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ایمان لے آئے ہیں بایتنا ہمارے نشانات پر یعنی تیرے پاس میرے وہ بندے آئیں جو ہمارے نشانات پرایمان لے آئے ہیں۔ فقل سلام علیکم تو ان سے کہہ دے کہ تم پر سلام ہو۔ کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ اللہ نے اپنے نفس پر رحمت کو فرض کردیا ہے۔ رحمت سے کیا مراد ہے؟ انہ من عمل منکم سوئً بجھالۃٍ ثم تاب من بعدہ و اصلح فانہ غفور رحیم یعنی رحمت پر فرض کیا ہے مگر اس شرط کے ساتھ،ان معنوں میں کہ انہ من عمل منکم سوئً بجھالۃٍ کہ تم میں سے اگر کوئی برائی جہالت کی وجہ سے ، غفلت اور لاعلمی کی وجہ سے کرے ثم تاب من بعدہ پھر وہ اس کے بعد توبہ کرے واصلح اور اپنی اصلاح کرے ، فانہ غفوررحیم تو اس حالت میں اللہ کو بہت بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا پائے گا۔
سورۃ النحل آیت 120بھی بالکل یہی مضمون بیان کررہی ہے۔ سورۃ النساء میں بھی ان کو کھولا گیا ہے۔ الا الذین تابوا و اصلحو واعتصمو باللہ و اخلصوا دینھم۔ اس میں ایک اور شرط بڑھادی گئی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے وہ لوگ جو جہنم کے سب سے ذلیل حصے میں ہوں گے۔ ان میں استثناء کن لوگوں کا ہوگا جو وہ حرکتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جہنم میںجائیں گے۔ ان لوگوں کا استثناء ہوگا ان میں سے۔ الا الذین تابوا جنہوں نے توبہ کی ، واصلحوا اور اپنی اصلاح کی ، اگلی شرط یہ ہے واعتصموا باللہ اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑ بیٹھے۔ اصلاح کے بعد کوئی بیہودہ حرکت جو پہلے کیا کرتے تھے دوبارہ نہیں کی۔ جو لوگ مضبوطی سے پکڑ بیٹھیں واخلصوا دینھم للہ اور اپنے دین کو اللہ کیلئے خالص کردیں، فاولئک مع المومنین یہ وہ لوگ ہیں جو مومنوں کے ساتھ یا مومنوں میں سے ہوں گے۔ پس سوف یوتی اللہ المومنین اجرا عظیما اور یہ وہ مومن ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ پھر سورۃ شوریٰ میں چھبیسویں آیت بھی یہی توبہ کا مضمون جو میں بیان کررہا ہوں بیان کرتی ہے۔ پھر سورئہ الاعراف میں آیت 154بھی اسی مضمون کو مزید تقویت دیتی ہے۔ پھر سورئہ المائدہ میں وہی توبہ ظلم کے بعد اصلاح پھر توبہ، توبہ کے بعد پھر اصلاح ۔ یہ تمام مضامین ہیں جو اس آیت کریمہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہٖ کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشے گا ویغفر مادون ذلک اس کے سوا سب کچھ بخش سکتا ہے،، بخش دے گا یعنی لمن یشاء اس کیلئے جس کیلئے وہ چاہے۔ اور جو آیات میں نے بیان کی ہیں وہ کھول رہی ہیں کس کیلئے وہ چاہتا ہے۔ اس کے بعد کسی بیہودہ بحث کی ضرورت ہی باقی نہیںرہتی، تما م مسئلہ خوب کھول دیا گیا ہے۔ من یشاء ڈھونڈو کہ وہ کون کون ہیں جن کیلئے اللہ تعالیٰ بخشش چاہے گا اور قرآن کریم نے اس مضمون کو بالکل کھلا دن کی طرح روشن کردیا ہے۔ اس کے بعد وہ منطقیانہ یا عجیب و غریب بحثیں جن کا میں نے اشارہ کیا تھا وہ بالکل بیکار اورباطل بحثیںہیں ان کی ضرورت نہیں رہتی۔ اب اس کے بعد خدا کی طرف سے مغفرت بھی عطا ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کی طرف سے پاک کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے مغفرت انہی کو عطا ہوتی ہے جو پاک کردیئے جاتے ہیں۔
سورۃ النسا آیت 50میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم تر الی الذین یزکون انفسھم کیا تونے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا یزکون انفسھم وہ اپنے آپ کو خود پاک قرار دیتے ہیں ۔ یزکون انفسھم کے دو معنی ہیں ، ایک یہ کہ اپنے لوگوں کو جن کی خوشامد مقصود ہو،جن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہیں ان کو پاک کہتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ بڑے پاک لوگ ہیں یعنی ان کا گروہ یا جن کی خوشامد مقصودہو۔ اور دوسرا اپنے نفس کو پاک قرار دیتے ہیں۔ ہم تومزکی لوگ ہیں ، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ بل اللہ یزکی من یشاء حالانکہ تزکیہ نفس کرنا اللہ کاکام ہے۔وہ من یشاء پھر وہی لفظ ہے، وہ جس کا چاہے گا تزکیہ فرمائے گا ولا یظلمون فتیلاً اور وہ فتیلا بھی ظلم نہیںکیے جائیںگے ۔لفظِ فتیلا سے کیا مراد ہے ؟ کھجور کی گٹھلی جب کھجور کا چھلکا اوپر سے اتار دیں یعنی گودا اس کا اتاردیں ، اس کی گٹھلی کی جواندر لکیر ہے اس پر غور کریں تو اس میں ایک باریک سا دھاگہ ہوا کرتا ہے اور وہ دھاگہ فتیل ہے۔ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولا یظلمون فتیلاً یعنی ایک فتیل بھر بھی وہ ظلم نہیںکیے جائیں گے۔ یعنی اگروہ ان کے اعمال کسی اجر کے مستحق ٹھہرے ہوں تو خواہ وہ اتنا چھوٹا اجر بھی ہو جتنا فتیل ہوتی ہے یعنی کھجور میںجو کچھ گودا ہے وہ آپ کھاجاتے ہیں اور جو گٹھلی پھینک دیتے ہیں اس میں بھی کچھ تھوڑا سا چمٹا ہوا ہے ،تو اللہ کی نظر اتنی باریک ہے کہ تمہارے اعمال جو کمائیں گے اس میں سے ایک باریک دھاگہ بھی اگر انہوںنے کمایا جس کو تم عموماً پھینک دیتے ہو اللہ اسے پھینکے گا نہیں، اللہ اس کا بھی اجر دے گا۔ یہی آیت جس میں آتا ہے یزکون انفسھم ۔ دوسری جگہ یوں بیان ہوئی ہے فلا تزکوا انفسکم ۔ھو اعلم بمن اتقی تو اپنے لوگوں کی یا اپنے آپ کی پاکیزگی کی باتیں نہ کیا کرو۔ ھوا اعلم بمن اتقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کون متقی ہے۔ یہ جو پوری آیت ہے اللہ بہتر جانتا ہے وہ یوں ہے۔ سورئہ النجم کی آیت 33میں ہے۔ الذین یجتنبون کبائر الاثم والفواحش وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہ جومعروف گناہ ہیں، معلوم گناہ ہیں ان سے اجتناب کرتے ہیں والفواحش اور فحشاء سے بھی دور بھاگتے ہیں الا اللمم مگر چلتے چلتے جیسے کسی سے کندھا لگ جائے، دھیمے چل رہے ہوں تو اس کو لمم کہیں گے۔ توچلتے چلتے جیسے گناہ سے سرسری سی ملاقات ہوگئی ہو۔ اتفاقاً ہر روز انسان کو یہ واقعات گزرتے ہیں کہ گناہ سے ایک سرسری سی ملاقات ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کو وہ گناہ کھینچ لیتے ہیں اور ان کی نظریں ان باتوں پر جم جاتی ہیں اور بعض لوگ کی نظریں لمم کے سوا او رکوئی تعلق نہیںرکھتیں اور ایسے مواقع سے ہٹ جاتی ہیں۔ اور فرمایا وہ لوگ جو گناہ کبیرہ سے بچتے ہیں والفواحش اور پھیلنے والی بدیوں سے جو بیماریاں ہیں۔ جوایسی بیماریوں کی طرح جو سارے معاشرے میں پھیل جاتی ہیں اور ایک دوسرے سے لگتی چلی جاتی ہیں جیسے نزلہ ، زکام، کھانسی ۔ ہر قسم کی چیزیں جو جب پھیلیں تو متعدی صورت میں دوسروں کو بھی لگ جایا کرتی ہیں۔ الا اللمم ان دونوں چیزوں میں لمم سے زیادہ ان کا کوئی تعلق نہیںہوتا ۔ ان ربک واسع المغفرۃ تیرا ربّ بہت وسیع مغفرت والا ہے۔ ھوا اعلم بکم وہ تمہیں اچھی طرح جانتا ہے، اتنا زیادہ جانتا ہے کہ اذانشأ کم من الارض کہ جب تم زمین سے اٹھائے جارہے تھے ، یعنی تمہاری تخلیق ابھی آغاز میں تھی اس وقت بھی خدا کی تم پر نظر تھی اور جانتا تھا کہ زندگی کے جن مراحل سے تم گزرو گے ان کے نتیجے میں تمہارے اندر کیا کیا خصلتیں پیداہوں گی۔ جیسے کہتے ہیں ’’دائی پوتروں سے واقف ہوتی ہے‘‘ پیٹ کے اندر بچہ ہو اس کی حرکتوں سے واقف ہوتی ہے۔ اچھی دائیاں ہاتھ لگا کر بتادیتی ہیں کہ کس قسم کا بچہ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ پیدائش کی بات نہیںہورہی ، ماں کے پیٹ کی بات نہیں، جب تخلیق کا آغازہوا تھا اس وقت سے خدا تمہیںجانتا ہے۔ واذ انتم اجنۃ فی بطون امھاتکم اس وقت بھی تمہیں جانتا تھا جب تم ماں کے پیٹ میں جنین تھے۔ یعنی صرف پرانی بات یاد نہیں اللہ کو نئی باتیں بھی یاد ہیں۔ اس وقت جو تمہاری کیفیت ہوئی ہے جو کچھ تم نے ماں کے پیٹ سے لیا ہے ان سب کا خد اواقف ہے۔
پس اس صورت حال کے بعد فرمایا فلا تزکوا انفسکم تم کیا چیز ہو تمہیںکیا علم ہے کہ کون متقی ہے؟ کون غیر متقی ہے؟ کون پاک ہے کون غیر پاک ہے؟فلا تزکوا انفسکم اپنی لاعلمی کا اقرار کرو اور بے وجہ اپنی سوسائٹی میں سے ان لوگوں کو جن کو تم پسند کرتے ہو پاک پاک نہ کہا کرو۔ یہ چیزان کیلئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ ھو اعلم بمن اتقی وہ جانتا ہے کہ جس نے تقویٰ اختیار کیا ۔ یہاں زکی کے مقابل پر اتقی کاذکر ہے اور یہ وہ بنیادی بات ہے جو سمجھنے کے لائق ہے۔ تزکیۃ انہی لوگوں کو ہوتا ہے جن میںتقویٰ پایا جائے۔ تزکیۃ بظاہر غیر متقیوں میں بھی دکھائی دے گا، بڑے بڑے پرہیز گار نظر آئیں گے ۔ تو کہیں گے کہ ہم کبائر سے توبہ کرتے ہیں کبائر کو ہم نے ہاتھ نہیںلگایا۔ لممکے سوا ہم نے کسی چیز کو چھوا تک نہیں۔ اس لیے ہم مزکی لوگ ہیںوہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا ہے۔ حالانکہ ان کے اندر تقویٰ کے خلاف باتیں دکھائی دیں گی۔ مثلاً ان کا یہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہ ہمارا تزکیہ ہوگیا ہے یہی تقویٰ کے خلاف ہے۔ جو سچا مزکی ہے وہ تو اپنی نیکیوں پہ پردے ڈالتا ہے اور انبیاء کی تمام زندگی اس بات پرگواہ ہے پردے ڈالتے گزری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی سے پہچانے جاتے ہیں کہ اپنی نیکیوں پہ پردے ڈالتے ہیں
؎ میں تھا غریب و بے کس و گمنام و بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
(یہی ہے نا اس کے بعد)وہ جب تک اللہ نے نہیں کہا کہ اٹھ او رباہر نکل اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نیکیوں کا کسی جگہ کوئی ذکر نہیں کیا اور جب کیا ہے تو اللہ کے حکم پر دنیا کو بتانے کیلئے کہ تقویٰ اس کو کہتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی ذکر نہیں۔ پس وہ لوگ جو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اپنا اشتہار بن جائیں اور کہیں دیکھو یہ متقی جارہا ہے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوا۔ اس تقویٰ سے عاری ہوتے ہیں۔ تقویٰ والے ان چیزوں کو چھپاتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے نبوت کے بعد بھی یہی طریق جاری رکھا۔ بہت سی احادیث میں بعض نیک لوگوں کی مثالیں دی ہیں جو خود آپ کی مثال تھی لیکن نام نہیں لیا۔ جب غور کریںتو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺخود ہیں۔ تو اس پہلو سے اپنے آپ کا تزکیہ نہ کرتے پھرو یہ خود تقویٰ کے خلاف بات ہے۔ ھواعلم بمن اتقی۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ جانتا ہے ا س کو جو تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ فتلت الحبل فتلاً یہ میں بیان کرچکا ہوں کہ فتل سے کیا مراد ہے۔ فتل اصل میں بٹی ہوئی رسی کو کہتے ہیں اور فتل کے مضمون میں بٹنا شامل ہے مگر چونکہ رسی سے مشابہ کھجور کی گٹھلی کے اندر کی چیز ہے اور وہ بڑی مضبوطی سے چمٹی ہوئی ہوتی ہے ،اگر اس کو آپ اکھیڑیں تو پوری کی پوری ساتھ اکھڑ جاتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مضبوطی میں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بٹی ہوئی ہو اس پہلو سے اس کو بھی فتیل کہاجاتا ہے۔ مگر اس لغت کی بحث کی اب ضرورت نہیں رہی میں زبانی بیان کرچکا ہوں۔ اقرب الموارد نے اور مفردات نے دونوں نے یہی معنے بیان کیے ہیں۔ اب تعریف ہوتی بھی ہے اور اپنوں سے نیک ظنیاں بھی کی جاتی ہیں مرنے کے بعد بھی خیر سے ذکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ تو یہ کون کون سی احتیاطیں ہیں جن کے ساتھ تعریف جائز قرار دی جاسکتی ہے۔ اس میں ایک حدیث ہے صحیح بخاری کتاب الادب سے جو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان ہے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے ایک شخص کو دوسرے ایک شخص کی تعریف میں مبالغہ کرتے سنا۔ فرمایا تم نے ہلاک کردیا یا تم نے اس آدمی کی کمر توڑ دی۔ پس ایسی تعریفیں جو مداہنت کی خاطر کی جائیں اور جن میں انسان گویا خدا کی طرح عالم الغیب ہونے کا دعوی کر بیٹھے یعنی عملاً اور پھر اس شخص کو بڑھا چڑھا کر بیان کرے وہ بڑا بزرگ آدمی ہے ۔ کوئی کہے کہ نہیں وہ فلاں بزرگ ہے ، تونہیں جی نہیںتمہیںنہیں پتا وہ بہت بڑا بزرگ ہے۔ ایسی باتیں نہ صرف انسان کو بلکہ ساری قوم کو ہلاک کردیتی ہیں اور جھوٹی پیرپرستیوں کی نشوو نما کرتی ہیں اورجبّہ اور دستار کی طرف دوڑاتی ہیں ۔ آنحضرت ﷺکی باریک نظر نے اس خطرے کو بھانپ لیا اور فرمایا تو نے اسے ہلاک کردیا۔ اس کی تم نے ایسی تعریفیں کی ہیں، تم نے اس کا کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ دوسری جگہ قوم کو ہلاک کردیا کے الفاظ بھی رسول اللہﷺ نے فرمائے ہیں۔ یعنی جس نے کسی شخص کی ایسی تعریفیں کی اس نے گویا ساری قوم کو ہلاک کردیا۔ یعنی وہ لوگ جو ان تعریفوں کے جھوٹے اثر سے ایک غلط دکھاوے والے انسان کے پیچھے دوڑ پڑیں گے ساری قوم ہی ہلاک ہوجائے گی۔ اور ایسی قوم میں جھوٹی باتوں کو اچھی باتیں سمجھا جائے گا۔ دکھاوے کو ہی نیکی سمجھ لیا جائے گا۔ پس اس پہلو سے یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے جس سے جماعت کو توبہ کرنی چاہیے۔ ہر گز ایسی تعریفوں میں ملوث ہونے کی ضرورت نہیں۔ جیسے ’’جی ہمارے ہاں فلاں شخص صاحب جو ہیں وہ تو بڑے نیک ہیں‘‘۔ بعض لوگوں نے کہا یہ تو نورالدین ہے۔ اس کو تو حضرت خلیفۃ الاول سے مشابہت ہے ، کسی نے کچھ کہاکسی نے کچھ کہا اور وہ ساری خبریں مجھے پہنچتی رہتی ہیں۔ میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو تم کون ہوتے ہو نور الدین بنانے والے ، اللہ بناتا ہے جسے نورالدین بناتا ہے اور تمہارے فتوئوں سے کوئی بھی فائدہ نہیںہوگا مگر وہ شخص ہلاک ہوجائے گا اس کو اپنے متعلق غلط فہمی پیدا ہوگی۔ اور واقعتہً ہلاک ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے بچالیا دعائوں سے مگر بار بار ثابت ہوا کہ وہ نورالدین بہر حال نہیں ہے۔ کیونکہ نور الدین کی صفات سے برعکس صفات اس کی ننگی ہوتی رہیں۔ پس یہ میں سمجھا رہا ہوں کہ اپنے ہاں شرک کے بت نہ بنا بیٹھو۔جگہ جگہ جب تم بت بنائو گے تو یہ شرک ہے جسے پھر بخشا نہیں جائے گا اور تم بھی ہلاک ہوگے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کرلو گے۔ فرمایا ’’اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی تعریف کرے ‘‘تعریف توکی جاتی ہے تعریف کرنا منع نہیں ہے مگر فرمایا’’ تو وہ یہ کہے میں اسے ایسا سمجھتا ہوں اللہ بہتر جانتا ہے۔ البتہ خد اکے ہاں کسی کو پاک قرار نہیں دیتا۔ میں یہ نہیںکہتا کہ اللہ کے علم کے مطابق یہ شخص پاک ہے‘‘۔جہاں تک میں نے دیکھا ہے یہ ٹھیک ہے۔ ایسی گواہی کی بعض دفعہ ضرورت پیش آجاتی ہے جیسا کہ نظام جماعت خود مطالبہ کرتا ہے کہ آپ بتائیں فلاں شخص کیسا ہے۔ تو اس کے جواب میںاگر وہ تعریف کرتاہے تو یہ گناہ نہیں مگر اس شرط کے ساتھ تعریف کرنی چاہیے کہ میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ تو یہ ہے اللہ کے ہاں اس کا کیا مقام ہے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ یہ تعریف بالکل جائز ہے اور اس سے قوم ہلاک نہیںہوتی۔
آنحضرتﷺ نے ایک اور موقع پر یہ فرمایا یہ سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب المدحۃ سے یہ روایت لی گئی ہے۔ ’’معاویہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ۔ ایک دوسرے کی خوشامد کرنے سے بچو۔ یہ تو ذبح کرنا یعنی ہلاکت ہے‘‘۔ یعنی جب تم ایک دوسرے کی خوشامدیں کرتے ہو اور خوشامد کی خاطراس کی نظر میں اچھا بننے کیلئے اس کی تعریفوں میں مبتلاء ہوجاتے ہو تو یہ ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ یعنی دونوں معنے اس میںاس ذبح کے لفظ کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ فرمایا فانہ الذبح پس یہ ذبح ہے۔ اب ذبح میں قوم کا ذبح بھی شامل ہے ، ایسے شخص کا بھی ذبح شامل ہے۔ تعریف کرنے والے کا بھی ذبح شامل ہے اور جس کی کی گئی ہے اس کا ذبح بھی شامل ہے ۔ تو ایک لفظ الذبح کہہ کر رسول اللہﷺ نے یہ سارے معانی اس مضمون میں داخل فرمادیئے۔ میں اب تک کوشش یہی کررہا ہوں کہ شیعوں کی روایات کو چھوڑ دوں کیونکہ ایسی ایسی روایات ہیں کہ بعض دفعہ مجھے اتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ الفاظ سخت ہوجاتے ہیں۔ اور گزشتہ درسوں میں مَیں نے تجربہ کیا کہ اپنے آپ کو روکتے روکتے بھی سخت لفظ نکل جاتے ہیں۔ اسے بعض لوگوں نے بھی محسوس کیا ۔ اس لیے میں حتی المقدور اس سے اجتناب کرتا ہوں۔ سخت لفظوں کا نکل جانا دراصل اس تعلق کی بنا پر ہے جو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ، حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) او رحضرت عثمان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے ایک سچے مومن کو ہونا چاہیے۔ جب ان کے خلاف بدزبانی سنو گے تو قرآن کے حوالے سے سنو گے تو طبیعت کا اشتعال ایک بے اختیاری چیز ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی لوگوں کو ضبط کی تلقین فرماتے رہے ہمیشہ اور واقعتہً فرماتے تھے ۔ مگر جب رسول اللہﷺ پرحملہ ہو تو برداشت نہیںکرسکتے۔ تویہ نسبتی چیزیں ہیں۔ طبیعت کا ہیجان اپنے پیاروں کے خلاف باتیں سننے سے ایک طبعی امر ہے۔ لیکن یہاں میں آپ کو پھر ایک دفعہ یاد کرادوں کہ بالکل بھول ہی نہ جائیںکہ شیعہ حضرات کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں۔ یہ علامہ ابوالحسن القمی کی ایک تفسیر ہے۔ اس میں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کا تقیہ کیا حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کس طرح تحریروں کو بدل دیتے ہیں ۔ یہ اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ میںنے جو پہلے حوالے دیے تھے یا ہمارے لٹریچر میں جو حوالے ملیں گے ان میں بعض جگہ آپ تبدیلی دیکھیں گے آپ سمجھیں گے کہ حوالہ دینے والے نے غلط حوالہ دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل تو احتیاط ہورہی ہے مگر اس سے پہلے ہمارے احمدی ادب میں حوالوں کے بارے میں بے احتیاطیاں برتی گئیں۔ بس نام لکھ دیا کتاب کااور چھٹی ہوگئی۔ حالانکہ حوالے کا مضمون ایک بہت ہی گہرا علمی مضمون ہے اور مغرب کی تعریف اس بارے میں جتنی بھی کی جائے کم ہے کہ حوالوں کے بیان میں انہوں نے بہت زیادہ احتیاط اختیار کی ہے اور بہت زیادہ احتیاط کا نظام اختیار کیا ہے۔ اس لیے ان کے حوالے میں کبھی بھی کوئی غلطی نہیں دیکھی گئی۔ کس نے لکھا او رترجمہ تھا یا اصل کتاب تھی پہلی بار کس رسالے میں شائع ہوا اور اس رسالے کا حوالہ کیا ہے۔ تاریخ اشاعت کیا ہے۔ کس مطبع سے وہ شائع ہوا تھا۔ اس قسم کی باتیں جب کھول کر بیان کردی جائیں تو حوالے کی تلاش میں کبھی غلطی بھی نہیںلگتی اور حوالے کا مضمون غلط نہیں ہوا کرتا۔ بہر حال یہ تفسیر القمی کے دو ایڈیشن ہیں۔ ایک ایڈیشن ہے طبع شدہ 1313ھ یعنی 1896ء ۔ یہ پہلا ایڈیشن ہے جس کا ہمارے لٹریچر میںحوالہ ملتا ہے ۔ اس ایڈیشن میں لکھا ہے ’’یہ ان لوگوںکا ذکر ہے جنہوں نے اپنے آپ کو صدیق، فاروق اور ذوالنورین کہا یعنی یزکون انفسھم کہ وہ اپنے آپ کی تعریف کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں ۔ کہتے ہیں یہ ان لوگوں کا ذکر ہے نعوذ باللہ من ذالک جو اپنے آپ کو صدیق، فاروق اور ذالنورین کہا۔ حالانکہ صدیق اور فاروق اور ذوالنورین لوگوں نے کہا اور ان میں سب سے آگے پیش پیش حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ تو یہ ایسے جاہلانہ وار ہیں جو خود اپنے اوپر کرتے ہیں لیکن کھلم کھلا اس آیت میں جس کا دُور سے بھی خلفاء ِراشدہ سے تعلق نہیں اس میں گھسیٹ کر اپنی دشمنی یا اپنے بیر ظاہر کرنے میں کوئی کمی نہیںچھوڑتے۔ لیکن جب یہ احساس ہو اکہ حالات بدل گئے ہیں اب شیعہ سنّی فسادات بھی ہورہے ہیں اور سنی حساس ہوگئے ہیں اس بات میں، تو ایک ایڈیشن ان کا 1386ھ میں شائع ہوا ہے 1965ء میں یعنی موجودہ دورمیں۔اس میں پہلی روایت کو بالکل بدل دیا گیا ہے اور چالاکی سے بات وہ کی مگر اور طریقے سے ۔ یہ لکھتے ہیں ’’جہاں حضرت علی امیر المومنین کے ان دشمنوں کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے لیے وہ القاب اختیار کیے جن کے وہ مستحق نہ تھے‘‘۔ یعنی مسلمانوں سے بچنے کیلئے یہ ہیر پھیر کرکے بات وہی کی ہے لیکن ایک تو تحریف کی۔ ’’القمی‘‘ کا مصنف مرگیا یہ کتاب گزشتہ صدی میں شائع ہوئی تھی اس کے الفاظ بدلنے کا کسی شیعہ کو یا غیر شیعہ کو حق نہیں ہے۔ ایک تو یہ بھی جھوٹ سراسر تحریف ہے جس کے مرتکب ہوئے اور دوسرے بات کو چھپایا بھی وہ ننگی ہورہی ہے ، اس کا گند بدبو دے رہا ہے اس سے مفر ممکن نہیں۔ اب اگلی آیت۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
الم تر الی الذین اوتوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الذین امنو سبیلاً(النسائ:52)۔ہاں میں یہی دیکھنے لگا تھا۔(یہ اس سے پہلے ایک اور آیت ہے تزکون انفسھم والی جو آیت ہے نا اس کے بعد یہ آیت آتی ہے)۔ انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب و کفی بہ اثما مبینا(النسائ:51)۔
انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب دیکھ وہ اللہ پر کیسا جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اب بات کس کی ہورہی ہے ۔ یہود خصوصاً اور اہل کتاب عموماً جن کی باتیں چل رہی تھیں۔ اسی تعلق میں یہ تزکیہ نفس والا مضمون بیان ہونا شروع ہوا ۔ اسی تعلق میں یہ آیت بھی ہے کہ دیکھو وہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ کسی کا تزکیہ کرتا ہے تو انہوں نے یہاں بھی افتراء سے کام لینے سے پرہیزنہیں کیا۔ قرآن کریم نے بیان کردیا نا کہ اللہ جس کو چاہے اس کا تزکیہ فرماتا ہے۔ تو یہود کی بہت سی ایسی جماعتیں تھیں اور اب بھی ہوں گی جو یہ بیان کرتی تھیں کہ ہمارا تزکیہ ہوا ہوا ہے۔ پہلے ہی سے ہم اللہ کے نزدیک مزکی ہوچکے ہیں اور ان قسموں میں سے بعض یہودی یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اگر سزا ملی بھی تو چند دن کی سزا ملے گی۔ اور وہ مقدّر دن ہیں گنتی کے چند دن۔ جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تین دن کیلئے جہنم میں جھونکنے کی نعوذ باللہ ناپاک کوشش کی، اسی طرح یہودی بھی چند دن کی جہنم کہتے ہیں مگر دوسرے کو نہیں اپنے آپ کو اس جہنم میں جھونک کر بہت جلدی وہاں سے نکل آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمارا تزکیہ ہوگیا ہے‘‘۔ پھر ان میں سے ایسے بھی تھے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم بچوں کی طرح پاک ہیں اورجب سوال کیا کرتے تھے مسلمانوں پر کہ یہ بچے جو پید اہوتے ہیں پاک نہیں ہیں؟ کہتے ہیں پاک ہیں۔ تو دیکھو ہم بھی پاک پید اہوئے ہیں اور اس پاکی کو کوئی تبدیل نہیںکرسکتا۔ یعنی یہودی بچے پاک ہیں صرف۔ گویا باقی بچے پاک نہیں ۔ اگر باقی بچوں کو پاک مانا جائے تو پھر ہر شخص اپنے وزن میںجو پید اہوگا وہ پاکیزہ ہی رہے گا ، پاکیزہ ہی اٹھے گا، پاکیزہ ہی مرے گا۔ قرآن کریم نے جو بیان فرمایا ہے بچوں کی پاکی کا وہ یہ مضمون نہیں ہے۔ فابواہ یہودانہ او ینصرانہٖ۔ ایسے بچے پیدا تو پاک ہوتے ہیں اس وقت وہ یہودی نہیںہوتے، اس وقت وہ عیسائی نہیں ہوا کرتے، ان کی فطرت پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس پاک فطرت پر ان کو پید اکیا وہ اسی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ماں باپ جب وہ بڑے ہوتے ہیں اس وقت ان کو یہودی بناتے ہیں یعنی جب یہودی بنادیتے ہیں ناپاک کردیتے ہیں۔ تو یہ مرا دہے اوینصرانہٖ یا غلط مذہب پڑھا کر ان کی پاکی پر حملہ کردیتے ہیں وہ پھر پاک نہیں رہتے ۔ اس طرح معصوم نہیںرہتے جس طرح پیدا ہوئے تھے۔ اس مضمون پر میں نے گزشتہ سال تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔ اس لیے میں اس کو زیادہ آگے نہیں بڑھاتا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہود کی افتراء کی باتیں کون کون سی ہیں جن کی طرف من جملہ یہ آیت اشارہ کر رہی ہے۔ انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب ظاہر بات ہے کہ تزکیہ سے تعلق رکھنے والی ایسی باتیں ہیں جو خدا پر افتراء باندھتے ہوئے اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اس میں ایک تفسیر میں قرآن کریم کی ایک دوسری آیت کا ذکر جس کا میں نے ذکر کردیا ہے اشارہ موجود ہے۔ لن تمسنا النار الا ایاما معدودۃً (البقرۃ:80) وہ یہ کہا کرتے تھے کہ سوائے چند دن کے ہمیں آگ نہیں چھوئے گی۔ اور دوسرا وہ یہ کہا کرتے تھے لن یدخل الجنۃ الامن کان ھودا او نصاری ’’وہ ہرگز جنت میں نہیںجائیں گے سوائے اس کے کہ جو یہودی ہو اور نصاریٰ ہو‘‘۔ یہ مراد نہیںہے یہ البقرہ کی 111آیت ہے،کہ یہودی اور عیسائی دونوں اس دعوے میںمتفق تھے کہ ہم دونوں جنت میں جائیں گے۔ مراد یہ ہے کہ یہودی اپنی جگہ اور عیسائی اپنی جگہ ایک ہی دعویٰ رکھتے تھے۔ یہودی کہتے تھے کہ یہودیوں کے سوا کوئی جنت میںداخل نہیں ہوگا اور عیسائی کہتے تھے کہ عیسائیوں کے سوا اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ تویہ افتراء ہے جو انہوں نے اللہ پر باندھ رکھا ہے اور اس طرح یہ گویا اپنا تزکیہ نفس بیان کرتے ہیں۔ بچوں کی طرح جومعصوم ہونے کادعویٰ ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب میں ملتا ہے جس کی صحت کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مگر مضمون ایسا ہے جو ٹھیک بھی ہوسکتا ہے، ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ اب درّ منثور جلد 2صفحہ 171پہ یہ درج ہے ’’ضحاک کہتے ہیں کہ یہود کہا کرتے تھے‘‘۔ اب اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے( ہے کوئی حوالہ؟ ملا؟) (یہ تفسیروں کی مصیبت ہے۔ بغیر حوالے کے بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچادیتے ہیں اوریا اس زمانے تک پہنچادیتے ہیں وہاں کیا ہوا کرتا تھا اور ہم تلاش کرتے رہتے ہیں کوئی حوالہ ہی نہیں ملتا۔ سنی سنائی باتیں ہیں )۔ وہ کہتے ہیں ’’یہود کہا کرتے تھے ہماری اولاد جب پیدا ہوئی تو وہ گناہگار نہ تھی۔ انہی کی طرح ہمارے بھی کوئی گناہ نہیں ہیں۔ اگر پیدائش کے وقت ان کے کوئی گناہ ہیں تو ہمارے بھی گناہ ہیں ، ہم انہی کی طرح ہیں‘‘۔ یہ ایک محض لغو بات ہے کہتے تھے یا نہیںکہتے تھے۔ یہ کہنا کہ ہم انہی کی طرح ہیں یہ بالکل جھوٹ ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہود یہ کہتے ہوں۔ میرے علم میں تو کوئی یہودی ایسے نہیں ہیں جوکہتے ہیں کہ چونکہ ہماری اولاد معصوم تھی اس لیے ہم بھی معصوم ہیں۔ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہماری اولاد معصوم یعنی صرف یہودیوں کی اولاد معصوم ہے۔ یہ دو باتیں مختلف باتیں ہیں لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ چونکہ ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے اس لیے ہم بھی معصوم ہیں، یہ انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں اور ان کے بچوں کا معصوم پیدا ہونا اس کے سوا ممکن نہیںکہ ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے ۔ پس یہ بحث ایک بالکل لغو بحث ہے اس کی تفصیل میں میرے خیال میں ہمیں جانے کی ضرورت نہیںہے۔انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب۔ یہ ہمارے بورڈ کی طرف سے جو نوٹ مرتب ہوئے ہیں جن کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی عبارات سے یا ملفوظات سے یہ نوٹ تیار کئے گئے ہیں۔ اس میں یہ لکھا ہے انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب یہ یہودیوں کے افتراء ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں مزکی کیاہے۔ یہی بات میں پہلے بیان کرچکا ہوں ، یہ افتراء ہے کہ اللہ نے ہمیںمزکی قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس نے مزکی نہیں کیا یہ اپنے پاس سے بات بناکر اس کی طرف منسوب کررہے ہیں اور نتیجہ اس کے برعکس نکلے گا۔ یعنی مزکی تو نہیں بنیں گے لیکن جھوٹ کی پاداش میں پکڑے جائیں گے اور جو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ و کفی بہٖ اس کیلئے یہی گناہ کافی ہے۔ مزکی یا غیر مزکی کی بحث کو چھوڑو، تھے یا نہیں تھے؟ لیکن اب پکڑے گئے ہیں۔ جب انہوںنے اللہ کی طرف ایک غلط بات منسوب کردی تو ان کیلئے کافی ہے یہ بات کہ ان کو جہنم میں لے جائے۔ و کفی بہ اثما مبینا اور یہ بات جو اللہ پر افتراء کررہے ہیں اپنے تزکیہ کے متعلق یہ بات اپنی ذات میں اس بات کیلئے کافی ہے اثما مبینا کہ ان کے خلاف ایک کھلا کھلا گناہ لکھا جائے اور یہ کھلا کھلا گناہ ان کو جہنم میں دھکیل دے۔
حضرت امام رازی نے کفی بہ کے لفظ کو فرمایا ہے کہ عظمت شان کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ کفی بہٖ کا جو عام عربی میں استعمال ملتا ہے ہر جگہ وہ مبالغے کے معنوں میں ملتا ہے۔ عظمت شان سے مرادیہ نہیں ہے کہ اچھی چیزوں کیلئے صرف ہو۔ عظمت شان سے یہ مراد ہے کہ خواہ واہ واہ اس سے بڑی بات ممکن نہیں ہے۔ تو کفی بہ اثما مبینا سے مراد یہ ہے کہ اس سے بڑا گناہ ان کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ جو ان کو غیر مزکی قرار دینے والا ہو کہ خد اپر جھوٹ باندھ دیا۔ چنانچہ امام رازی فرماتے ہیں ’’ کفی بہ کا لفظ تعظیم کیلئے آتا ہے ۔یہ تعظیم مدح کی جہت سے ہو یا مذمت کیلئے ۔ مدح کے معنوں میں فرمایا وکفی باللہ ولیا و کفی باللہ نصیرا۔ اللہ بہت کافی ہے ایک ولی کے طور پر ۔ و کفی باللہ نصیرا اور اللہ ایک مدد گار کے طور پر بہت کافی ہے۔ اور مذمت کی مثال یہی آیت ہے جو یہاں بیان ہورہی ہے کفی بہ اثما مبینا۔ تو امام رازی نے کفی بہ کے مضمون کو عربی لغت کے لحاظ سے خوب کھول دیا ہے۔ اب وہ اگلی آیت ہے جو غلطی سے میں پہلے پڑھ چکا تھا۔ پھر ٹھیک کرلیا گیا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یومنون بالجبت والطاغوت و یقولون للذین کفروا ھؤلاء اھدی من الذین امنو سبیلاً۔کیاتونے ان لوگوں کو نہیں دیکھا یا تجھے ان لوگوں کا حال معلوم نہیں جنہیں کتاب الٰہی میں سے ایک حصہ دیا گیا تھا،کتاب الٰہی میں سے ایک حصہ۔نصیب جو لفظ ہے اصل میں یہ اس علامتی جھنڈے سے یا سنگ میل سے نکلاہے۔ سنگ میل زمین میں گاڑ دیا جاتا ہے اور اس کے حوالے سے فصلوں کا فاصلہ طے کیا جاتا ہے اور نصب اس جھنڈے کوبھی کہتے ہیں جو گاڑ دیا جائے جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ فلاں قوم کا نشان ہے، اس کی عظمت کا نشان ہے اور اسی سے لفظ نصیب نکلا ہوا ہے۔ اور نصیب کا مطلب یہاںایک اور معنی ہے گاڑنے کا معنی نہیں بلکہ ایک حصہ ایک مضمون میں سے تمام نہیں بلکہ تھوڑا سا۔ المفردات راغب لفظ نصیب سے متعلق لکھتی ہے ’’ہر وہ چیز جسے بطور علامت قرار دیا جاتا ہے۔یہ امام راغب ہمیشہ بہت پتے کی بات کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں وہ جو رستے میں سنگ میل دیکھتے ہو یا جھنڈوں کو گاڑا جاتا ہے ان کی حیثیت محض علامت کی ہے۔ ایک علامت کے علمبردار ہوتے ہیں پس ہر وہ چیز جو کوئی علامت اپنے اندر رکھتی ہو وہ نصیب کہلاتی ہے‘‘۔ ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اسے بھی نصیب کہتے ہیں اور اس کی جمع انصاب ہے۔ یعنی نصیب کالفظ بد معنوں میںبھی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کے سوا جس کی عبادت کرتے تھے اس کیلئے کچھ علامتیں تیروں وغیرہ کی یا نیزوں کی صورت میںمقرر کرلیا کرتے تھے۔ پس اللہ کے سوا عبادت کی جائے تو اسے بھی نصیب کہتے ہیں اور اس کی جمع انصاب ہے۔ اوتوا نصیبا من الکتاب میں یہ نصیب مراد نہیں ہے۔ یہ میں بتادینا چاہتا ہوں کہ الکتاب اللہ کی طرف حوالہ رکھتی ہے اور یہ نصیب وہ نصیب نہیں ہے جسے جھوٹی عبادت کیلئے ایک مثال سمجھا گیا ہے۔ اصل نصیب کا امام راغب کے نزدیک وہ اقرب الموارد میں بھی اسی طرح آیا ہے وہ یہ ہے ’’النصیب الحظ، الحصۃ من الشیٔ‘‘نصیب حظ یعنی حصے کو کہتے ہیں۔ پوری چیز نہ ہو بلکہ اس کا ایک حصہ ہو۔’’وھو عند ابی حنیفۃ السدس‘‘اور وہ حصہ ابوحنیفہ کے نزدیک چھٹا حصہ ہے۔ یہ بات پتا نہیں کہاں سے انہوں نے نکال لی ہے’’ابو حنیفہ کے نزدیک چھٹا حصہ ہے‘‘۔ یہ میرا خیال ہے کوئی اس بحث میں چلے گئے ہیں شاید وصیت کی بحث میں۔ وہ جو ہے نا مختلف لوگوں کے وصیت میں حصے ہیں وہاں نصیب کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تو یہاں معلوم ہوتا ہے کہ اقرب الموارد کا ذہن اس طرف مائل ہوگیا ہے اور نصیب کا وہ ترجمہ کیا گیا ہے جو خداتعالیٰ نے حصے مقر ر فرمائے ہوئے ہیں اور وہاں امام ابو حنیفہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ یہاں اس آیت میں جو دو لفظ خصوصیت سے مذکور ہیں وہ قابل بحث ہیں ان کو سمجھنا ضروری ہے۔ الجبت والطاغوت جبت کس کو کہتے ہیں؟ اور طاغوت کس کو کہتے ہیں؟ دیکھیں جن کو حصہ دیا گیا تھا کتاب میں سے اس حصے کو وہ بھلا بیٹھے ہیں یعنی کتاب ساری نہیں دی گئی تھی کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا یعنی پورا قرآن کریم ان کو عطا نہیں ہوا بلکہ پرانی تعلیمات کا ایک حصہ تھاجو بائبل سمیٹے ہوئے تھی ۔ ان لوگوں کا یہ حال ہوا پھر آخر کہ انہوں نے اس نصیب کو بھی چھوڑ دیا اس پر ایمان لانا ختم کردیا۔ یومنون بالجبت والطاغوت اس کے بدلے وہ جبت اور طاغوت پر ایمان لانے لگے۔ اب جبت کیا چیز ہے؟ اور طاغوت کسے کہتے ہیں؟ یہ حضرت امام راغب کے حوالے سے میں المفردات سے پیش کرتا ہوں۔ حضرت امام راغب کی سن وفات کا پہلے شاید ذکر نہیں گزرا ۔ یہ بہت بعد میںپیدا ہوئے ہیںیعنی 503ھ میں لیکن حضرت اما م راغب کا دماغ اتنا روشن اور اتنا پاکیزہ ہے کہ شاذ کے طور پر کبھی انہوں نے کوئی غلطی کی ہوگی ورنہ قران کریم کے الفاظ کے بیان میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے قرآنی آیات کے ذریعے معانی کرتے ہیں، کسی لغت کی اور ضرورت نہیں۔ پس قرآنی لغت کیا ہے؟یہ سیکھنا ہو تو حضرت امام راغب سے سیکھیں۔ ہر لفظ کے قرآنی آیات کے سہارے سے معانی کرتے ہیں، اس میں غلطی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ فرماتے ہیں وہی بات کہ بطور علامت نصب کیا جانے والا پتھر لیکن پھر فرماتے ہیں نصیب کے بعد اب ان کی بحث آئے گی جبت اور طاغوت کی۔ المفردات لامام راغب میںلکھا ہے الجبت یقال لکل ماعبد من دون اللہ جبتٌ۔ فسمی الساحر والکاھن جبتًا۔ جبت کا لفظ ہر اس چیز کیلئے بولا جاتا ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہونیز ساحر اور کاہن کو بھی جبت کا نام دیا گیا ہے۔ دراصل جو قوم میںساحر اور کاہن پید اہو جاتے ہیں یہ خدا والا حصہ چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ پس ان کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ یہ جھوٹی باتیں جادوگری، کہانت ان چیزوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور انہی کی عبادت کرتے ہیں اور جو جھوٹی باتوں یعنی کاہنوں اور ساحروں کے پیچھے لگ جائے اس کا عبادت الٰہی سے کوئی دور کا بھی تعلق باقی نہیں رہتا۔ جتنی قومیں رسوم میں مبتلاء ہوگئیں جن کے متعلق غالب کہتا ہے
؎ ہم مؤحد ہیں ہمارا خویش ہے ترک رسوم
امتیں جب مٹ گئیں اجزء ایماں ہوگئیں
تو توحید کی ایک اچھی تعریف غالب نے بھی کی ہے ۔ غالب کہتا ہے کہ توحید اس بات کا نام ہے کہ سب قسم کی رسموں کو ملیامیٹ کردو ، تمام رسوم جو تمہارے اندر راہ پاگئی ہیں ان کا انکار کردو جو باقی رہ جائے گا وہ توحید ہے۔ پس آج کی امت مسلمہ کی بھی ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہ فرضی باتوں اور کہانت کے قصوں اور جادوگری کی باتوں میں مبتلاء ہوگئے ہیں۔ ہر قسم کے لوگ انہی کا شکار ہوگئے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یہود نے بھی یہ غلطی کی تھی، امت مسلمہ کو ایک تنبیہہ ہے کہ دیکھو یہود کی طرح تم اس خوفناک غلطی میں مبتلاء نہ ہوجانا۔ چنانچہ اقرب الموارد نے انہی معنوں سے غالباً ملتے جلتے معنے کیے ہیں۔ الصنم والکاھن والساحر والسحر۔ جبت کے لفظ میں بت بھی آجاتے ہیں ، کاہن بھی آجاتے ہیں، جادوگر بھی آجاتے ہیں او رجادو بھی۔ افریقہ میں جماعت کو اس کے خلاف بہت بڑا جہاد کرنا چاہیے۔ کیونکہ باجود اس کے افریقہ عملاً نئی روشنی میں داخل ہوچکا ہے لیکن جادوگری اور کہانت نے افریقہ کاپیچھا نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ بعض احمدیوں کے متعلق بھی مجھے اطلاع ملی کہ یہ یقین رکھتے ہیں جادوگری پہ۔ اور اس کے ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے بعد اگر وہ پھر بھی جادوگری پہ ایمان رکھیں گے تو ان کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں۔ کتاب الٰہی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو یہود کی بگڑی ہوئی حالت کا طریق تھا کہ وہ ان باتوں میں مبتلا ہوگئے اور پھر بکھرتے چلے گئے۔ وقت ہوگیا؟ … نوٹ کرلیں۔ اچھا ہوا میری نظر پڑ گئی ورنہ آپ نے تو بتانا نہیں تھا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
20 رمضان۔ 19 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ ڈاکٹر صاحب! آپ اپنی ہومیوپیتھک کلاس سے واپس آگئے۔ اچھا۔ کس معیار کی کلاس ہے یہ؟ بہت اچھے ہوتے ہیں اور کھلی دعوت ہے سب کو۔ خاص خاص۔ اچھا۔ ٹھیک ہے۔ ہیں؟ ایک سو پونڈ۔
ومن یطع اللہ والرسول وحسن اولئک رفیقا۔ (النساء 71) اس آیت کریمہ کی بحث میں چونکہ ہم نے بہت سا مواد نکال دیا تھا۔ تاکہ اتنا تھوڑا رہنے دیا جائے کہ آج کل کے داعین الی اللہ کے کام آسکے۔ اور اتنا واضح ہو کہ وہ علمی معیار کم رکھنے کے باوجو بھی اسے استعمال کرسکیں۔ جو مواد میں نے پیش کیا ہے اس کو پمفلٹس کی صورت میں مختلف زبانوں میں تیار کرواکے تو تمام دنیا کے داعین الی اللہ ک جس جس زبان کی ان کو ضرورت ہے اس میں مہیا کردیا جائے۔ پس یہ ان شاء اللہ وہاں جو غلط فہمیاں پھیلائی جاتی ہیں اس کامؤثر جواب مل جائے گا۔ اب ایک دو حوالے باقی ہیں اس کے وہ میں آپ کے سامنے پڑھ کے رکھتا ہوں۔ محمد علی شوکانی اس کی ضرورت نہیں حوالے کی۔ انگوٹھی کی بحث پہلے گزرچکی ہے۔ زینت ہے۔ انگوٹھی کے تعلق میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ حوالہ ہے۔ ’’جب ہم انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلۂ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار اور رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہے۔ جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی۔ پھر فرماتے ہیں ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے وجود باوجود سے انبیاء علیھم السلام کو ایسی ہی نسبت ہے جیسی ہلال کو بدر سے ہوتی ہے۔ ‘‘ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے عشق میں جو تحریریں ہیں یہ زندہ اور بولتی ہوئی تحریریں ہیں۔ ہمارے علماء بھی اور دوسرے بھی ہمارے علماء تو ماشاء اللہ پھر بھی روحانی علوم سے فیض یافتہ ہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر ساری جماعت کے کسی بزرگ کسی عالم کے ساتھ ملتی نہیں ہے یہ۔ میں نے تجربہ بارہا کیاہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریریں بھی اور حضرت خلیفۃ المسیح اول کی تحریریں بھی اور دوسرے بزرگوں کی تحریریں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شان میں جب اس خیال سے پڑھی کہ یہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر ہے تو دو چار سطروں کے بعد اچانک دیکھنا پڑا اوپر کہ کس کی تحریر ہے۔ یہ بات ہی اور ہے۔ اب دیکھیں۔ ایسی زندگی ہے کہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ اس میں سے کبھی۔ بار بار اس کو پڑھیں اور سنیں یہ زندگی مٹ نہیں سکتی۔ زرقانی وغیرہ کے حوالوں کی ضرورت نہیں۔ آخری حوالہ جو آخری بات تھی اس مضمون کی وہ میں نے پڑھ دی ہے۔ خاتم بمعنی مصدق و محافظ و کسوٹی یہ لفظ کسوٹی درست ہے اسی طرح اس کا تلفظ ہونا چاہئے کسوٹی کا۔ لیکن ہم نے اپنے سکول میں پرانے زمانے میں ایسے اساتذہ سے جو پنجابی زیادہ جانتے تھے ان سے کسْوَٹّی سنا ہے اس کا۔ اور پنجابی میں شاید کسوٹی ہی کہتے ہوں۔ کسنے والی یا گھسنے والی وٹی۔ وٹہ کی چھوٹی ناں وٹی بن جاتا ہے۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ اردو میں بھی یہی مضمون ہوگا لیکن ہم تو بچپن سے ہی گھروں میں کسوٹی ہی سنتے آئے تھے اس لئے میں نے ساری ڈکشنریاں چیک کی ہیں اور ہرایک جگہ کسوٹی لکھا ہوا ہے کسی جگہ بھی کسوٹی نہیں لکھا ہوا۔ اس لئے اگر کوئی تلفظ غلط رکھتا ہے تو درست کرلے۔ اس میں بھی دیگر علماء کے حوالے کی ضرورت نہیں۔ صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ یا دو حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ براہین احمدیہ صفحہ 258 حاشیہ 11۔ پہلے حوالے کا میں نے حوالہ۔ پہلا جو اقتباس پڑھا تھا اس کا حوالہ دینا بھول گیا تھا۔ ہیں ناں موجود اس میں۔ ’’جب ہم انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ یہ حوالہ سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 82) اور دوسرا حوالہ ہے الحکم 10 جنوری 1899 عیسوی۔یہ اصل سے تو نہیں نکالا ہوگا۔ ہیں؟ اب بھی وہی بے احتیاطیاں جاری ہیں۔ اب جس کے سامنے تھی اس نے کبھی بھی ہو نہیں سکتا کہ سارے الحکم کا مطالعہ کیا ہو اور یہ حوالہ نکال دیا ہو۔ یہ نکلے ہوئے حوالے ہیں کسی کتاب میں معین طور پر درج ہوئے ہیں اس کا حوالہ دینا چاہئے تھا۔ اب یہ حوالہ جو میں پڑھنے لگا ہوں براہین احمدیہ 258 حاشیہ 11 ۔ یہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 285پہ درج ہے۔ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اخلاق کا دونوں مصائب و تکالیف میں (دور اور فتح و اقبال میں یہ ناقل نے لکھا ہوا ہے۔) مصائب و تکالیف میں اور فتح و اقبال میں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصل الفاظ یہ نہیں ہیں۔ مصائب اور تکالیف چاہئے تھا۔ مصائب و تکالیف اور فتح و اقبال جو بھی ہونا چاہئے تھا ناقل کی تحریر ہے۔، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نہیں ہے۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے۔ (یہ ایک بہت ہی عظیم اور لطیف نکتہ ہے جو پہلے کبھی کسی اور عالم کے حوالے سے آپ کو دیکھنے میں نہیں ملے گا) وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے۔ کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا۔ کیسا عظیم اور لطیف نکتہ ہے کہ آپ کی مہر نے ان کی تصدیق کی ہے۔ اس لئے وہ اچھے نہ ہوتے تو کیسے تصدیق پاتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے۔ پس آپ کے حسن کمال حسن نے دوسروں کے حسن کو بھی سچا کر دکھایا۔ سچا کردیا کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کوتصدیق کیا۔ ان کو ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کردیا ہے۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا یہ ایک اور حوالہ ہے۔ ’’وہ خاتم الانبیاء بنے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا۔ بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ (ا س تحریر میں ایک بات خاص طو پر توجہ طلب ہے جو اسی قسم کی بعض اور تحریروں میں بھی توجہ طلب ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عمومی ذکر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق القابات بھی پڑھتے ہیں اور آپ کا آپ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں لیکن جہاں تحریر کی شان کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کو ایک عظیم وجود کے طور پر بتایا جائے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے تو وہاں پھر اس شان کا مرد اس شان کا نبی، وہاں فوری طور پر واحد کی طرف صیغہ پلٹ جاتا ہے اور یہ گستاخی نہیں بلکہ عظمت ہے اور یہی بیان قرآن کریم میں ملتا ہے ہمیں۔ اللہ تعالیٰ جب کائنات کے قوانین کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو انا کا لفظ اس میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب اپنی توحید کو اس طرح پیش کرنا چاہتا ہے کہ اور کوئی شریک نہ ہو اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے وہاں صرف واحد کا صیغہ ہوا کرتا ہے وہ ایسا ہے وہ ایسا ہے یہ چیزیں اس کی عظمت کے خلاف نہیں کہ ہم Single, Singular میں اس کا ذکر کریں ورنہ اردو تحریر میں کسی کے متعلق کہا جائے وہ آتا ہے وہ جاتا ہے تو یہ سوء ادب سمجھا جاتا ہے۔ مگر سوء ادب بھی بنتا ہے اکثر صورتوں میں لیکن بعض صورتوں میں سوء ادب نہیں بلکہ اس کی ایسی شان کا بیان ہے جس میں کوئی شریک نہیں۔ پس ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے مطالعہ میں اس چیز کو مدنظر رکھیں بعض ایسے مواقع آتے ہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شان ، خدائے واحد کے بعد زمین پر توحید کا تقاضا کرتی ہے۔ ہر ایسی جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو واحد میں پیش کیا ہے۔ اب دیکھیں شروع ہوتا ہے جمع کے صیغے سے) ’’وہ خاتم الانبیاء بنے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم خاتم الانبیاء بنے ’’مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا‘‘ ان سے نہیں یہاں اس سے ہے۔ ’’بلکہ ان معنوں سے کوئی وہ صاحبِ خاتم ہے۔ بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کی امت کے لئے قیامت تک مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجز اسکے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ۔ ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 27,28 روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 29,30)
اب خاتم سے متعلق چھان بین کے بعد جو بھی میں سمجھتا تھا کہ بہت ضروری حوالے ہمیں عام کرنے چاہئیں مختلف زبانوں میں وہ میں نے اکٹھے کردیئے ہیں۔ اب شان نزول کے متعلق آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ایک تفصیلی مضمون شان نزول کے متعلق بھی بیان کروں گا کیونکہ اس لفظ نے لوگوں کو بہت دھوکے میں مبتلا رکھا ہے اور آجکل کے علماء نے کثرت کے ساتھ شان نزول تلاش کرکرکے آیتوں کے معانوں کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی ارادتاً کوشش نہ بھی کی ہو اپنے علم کے زعم میں کہ ہم نے شان نزول معلوم کرلی عملاً قرآن کریم سے انصاف نہیں کیا۔ اس سلسلے میں اب میں تمام مختلف علماء کے حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ شان نزول اور بات ہے اور مواقع نزول اور بات ہے۔ قرآن کریم برمحل، موقع پر جب ضرورت تھی اس کے مطابق اتارا گیا اور ایسے تمام مواقع قرآن کریم میں درج ہیں۔ اس میں آپ کو کسی واحدی اور کسی اور کی شان نزول کی روایت کی تلاش کی ضرورت نہیں۔ سارا قرآن اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ جہاں کسی آیت کا کسی اہم واقعہ سے تعلق ہے وہاں وہ بیان ہوا ہے اور وہ بھی شان نزول نہیں ہے بلکہ ایک واقعہ پر ایک آیت کے اطلاق کو دکھایا گیا ہے اور باقی سب جگہ کسی شان نزول کی ضرورت نہیں۔ آپ سارا قرآن پڑھ لیں کسی شان نزول کے علم کے بغیر اس کے وسیع تر عالمی معانی کی رو سے آپ برمحل ترجمہ کرسکتے ہیں جو پچھلی آیات کے تسلسل میں ہوگا ورنہ شان نزول پر زور ردینے والوں کے لئے ایک اور نقصان دہ صورت یہ بن جاتی ہے کہ جب وہ آیت گزرتی ہے سامنے سے ان کو شان نزول یاد آجاتی ہے اور شان نزول مختلف وقتوں میں ہوئی ہے اور آیات کی ترتیب اور طریقے سے کی گئی ہے۔ آیات کی ترتیب میں یہ اصول پیش نظر رکھا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ مسلسل ایک مضمون دوسرے مضمون میں منتقل ہوتا چلا جائے۔ اور ایک تسلسل کی لڑی ہے جو الف سے لے کر س تک مسلسل چلتی ہے۔ یہ جو یا بسم اللہ کی ب سے لے کر الناس کی سی تک مسلسل چلتی ہے۔ اب جہاں شان نزول آپ کے دماغ پر مسلط ہوجائے وہاں اس لڑی کو آپ بھول جائیں گے اور وہاں ٹھہر کر یہ آیت فلاں وقت اس جگہ نازل ہوئی حالانکہ پہلی آیات کے تسلسل میں وہ چل رہی ہے اور شان نزول کی ترتیب اور تھی اور ان آیات کی ترتیب اور ہے اس لئے میں زور دے رہا ہوں کہ شان نزول کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ تاکہ آپ کو قرآن کریم کے معانی سمجھنے میں نسبتاً آسانی رہے۔ ہجرت کا واقعہ ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہیں اس آیات کا اس میں حدیث ہو تو قرآن کی آیت کافی ہے، خود ہی بتارہی ہے کیا واقعہ گزرا ہے۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ ہے۔ ساری روایتیں غلط اور یہ قرآن کا واقعہ کافی اور لازماً صحیح ہے۔ تو شان نزول نقصان پہنچائے گی۔ ان آیات کے تعلق میں جہاں قرآن کریم نے خود شان نزول بیان فرمائی ہے۔ ایسی صاف اور پاکیزہ شان نزول ہے کہ اس میں یہ جو بعد کی بنائی ہوئی غلط حدیثوں سے کوئی غلط روشنی نہیں پڑتی۔ بلکہ اپنی ذات میں وہ آیت بالکل مکمل اور کامل ہے اور کسی اور شان کی ضرورت نہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق میں نے ذکر کیا تھا ناں دیکھا۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی قبر کھودی ہے، ہڈیاں دیکھیں ہیں۔ اٹھاکے جو ٹھیک ہڈیاں ہیں وہ ایک طرف کررہے ہیں ٹھیک طرح اور دوسری جو غلط ہیں اٹھاکے باہر پھینک رہے ہیں۔ بہت ڈر گئے تھے لیکن ابن سیرین نے یا کسی اور عالم نے جو اس زمانے میں تھے انہیں تو مبارکباد اور انہوں نے کہا تجھ سے بہت عظیم الشان کام سرزد ہونا ہے۔ رسول آللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق جو غلط روایات عام ہوئی ہیں ان کو تم نے اٹھا کر باہر پھینک دیا اور جو روایات آپ کی شایان شان ہیں ان کو اکٹھا کرلیا۔ یہ تعبیر ہے اس رؤیا کی اور اسی ضمن میں میں اپنے علماء سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ شان نزول والی آیات کا تجسس کریں، تفحص کریں اور جہاں تک بھی ممکن ہو ایسی روایات کو اٹھاکر باہر پھینک دیں اور علمی طور پر ثابت کریں کہ یہ روایت ان وجوہات سے علم، علمِ روایت بھی ہو اور علم درایت بھی یعنی روایت کے لحاظ سے تو اکثر ہیں ہی جھوٹی۔ بے تعلق، تے تکی چار پانچ سو سال بعد سر اٹھانے والی روایتیں۔ وہ روایات کے علم کے لحاظ سے قطعاً بے اعتبار ہیں اور ان کو ہمارے علماء کو بے اعتبار کرکے دکھانا چاہئے۔ اور درایت کے اعتبار سے یعنی عقل اور سمجھ کے اعتبار سے درایت کے لحاظ سے صرف اتنی بحث کافی اور ضروری ہے کہ رسول آللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور قرآن کریم کی شان کے خلاف ہیں۔ جب شان کہتے ہیں تو اپنے ذہن میں جو شان ہے وہ نہیں مراد۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق اور نہایت اہم صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا جو کردر ثابت ہوتا ہے۔ یہ روایات اس سے متصادم ہیں اس لئے شان نزول سے ان کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہئے۔ یہ علمی کام ہے جس کی میں توقع رکھتا ہوں کہ ہمارے ائمہ، ہمارے علماء آپس میں معاملہ طے کرکے تو اس کام کو آگے بڑھائیں گے۔ اس ضمن میں زیادہ سے زیادہ ذہن تو حافظ مظفر احمد صاحب کی طرف جاتا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ عطا فرمایا ہے اور مولوی دوست محمد صاحب کو بھی ایک ملکہ عطا فرمایا ہے کہ جہاں بھی اچھی روایت ہو وہ زیادہ سے زیادہ سمیٹتے ہیں اور درایت پر اس معنے میں اعتبار کرتے ہیں کہ بہت اچھی بات لگ رہی ہے لیکن روایت کے معاملے میں اتنی احتیاط نہیں کرتے جتنی حافظ مظفر احمد صاحب نسبتاً بہت زیادہ کرتے ہیں۔ تو مولوی دوست محمد صاحب اس پہ ناراض نہ ہوں کیوں کہ ان کی جو خدمتیں ہیں قرآن کریم اور احادیث اور سلسلے کے لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کتب کے تعلق میں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ یہ چھوٹی سی بات جو ان کے ولولے سے تعلق رکھتی ہے اس کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو ان کی ایک بڑی عظمت ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ علامہ جلالدین سیوطی جو خود اسباب نزول کے تعلق میں میرے بار بار کے بیان سے کافی بدنام ہوئے ہوں گے۔ وہ لکھتے ہیں جابری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نزول قرآن کی دو قسمیں ہیں۔ا یک قسم وہ ہے جو ابتداء یعنی بغیر کسی سوال اور واقعے کے نازل ہوئی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو کسی سوال یا واقعہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ جو قسم واقعہ یا سوال کے بعد نازل ہوئی ہے یا وہ واقعہ یا سوال نہ بھی ہوتا تو قسم نے نازل ہونا تھا۔ ایک آیت قرآن کریم کی ایسی ہے جس میں زیادہ سوال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر قرآن نازل ہورہا ہو اور تم زیادہ سوال کروگے تو تمہارا جواب قرآن کریم میں اس صورت میں بھی مل سکتا ہے جو تمہارے لئے تکلیف دہ ہو یعنی قرآن کریم نے جو اصولی نرمی کردی تھی تم نے اس کی معین سختی کا مطالبہ کردیا جو اگر نہ کرتے اور اصولی نرمی کے تابع چلتے تو تمہارے لئے زندگی آسان ہوجاتی اس لئے لاتسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم تسؤکم یہ عام ہدایت ہے لیکن سوال کے جواب میں اگر یہ سمجھا جائے کہ قرآن نازل ہی اسی طرح ہوتا رہا کہ ادھر سوال ہوئے ادھر جواب آگیا یہ درست نہیں ایسے سوالات کی کثرت سے منع فرمایا اور بعض سوالات کے جواب دیے جیسے کہ قرآن خود کہہ رہا ہے کہ اکثر سے بعضوا عن کثیر کے معنوں میں یہاں مضمون ہے۔ Exact آیت یاد نہیں مگر اللہ تعالیٰ اکثر کو نظرانداز کررہا ہے۔ تمہارے سارے سوالوں کا جواب نہیں دے رہا لیکن نمونۃً بعض جگہ سوالوں کے جواب بھی ملتے ہیں اور وہ سوال اکثر مسلمانوں کے نہیں بلکہ مشرکین اورا ہل کتاب کے سوال ہیں۔ ان کا ذکر کرنا اس لئے ضروری تھا کہ آئندہ تاریخ میں قرآن کریم میں ہمیشہ کے لئے یہ بات محفوظ رہ جائے کہ اس قسم کے لغو اور بے ہودہ سوال کیا کرتے تھے۔ ان کا جواب تو قرآن نے دیا لیکن ان کے سوالات کی بے ہودگی دکھانے کے لئے۔ وہ جو مرجائے پیٹ میں کسی کے لئے حلال ہے؟ کس کے لئے حرام ہے؟ یہ چیزیں ان کے ذہن میں اہمیت کی چیزیں تھیں تو قرآن نے ان کے نمونے دکھا دیئے ہیں اور بتادیا ہے ایسے لغو سوالوں سے تم پرہیز کرو لیکن جو کرنے والے تھے اکثر مشرکین تھے جن کا جواب دیا گیا ہے یہ مومن تو رک جاتے تھے اور بات نہیں کھولا کرتے تھے زبان نہیں کھولا کرتے تھے ایسے معاملات میں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جب کسی آیت کا ذکر فرمادیتے تھے پھر سوال ہوا کرتے تھے جیسا کہ بخاری شریف میں وہ حدیث ہے جس میں واٰخرین منھم لما یلحقوا کی بحث ہے۔ سوال کیا گیا آیت کے نزول کے بعد کہ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے جواب دیا۔ یہ بالکل اور مسئلہ ہے اس کو اسباب نزول نہیں کہہ سکتے۔ اب واحدی مشہور ہے جنہوں نے 468 ھجری میں وفات پائی اور اس معاملے میں اسباب نزول میں آخری سند سمجھے جاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں قرآن کے اسباب نزول کی بابت بجز ان لوگوں کی روایت اور سماعی بیان کے جنہوں نے قرآن کے نزول کو بچشم خود دیکھا اور اسباب نزول میں درک پیدا کیا اوا س علم کی تحقیق کی ہے کوئی دوسری بات کہنا ہرگز روا نہیں۔ اب جنہوں نے خود دیکھا اور اسباب نزول میں درک پیدا کیا۔ پرانے صحابہ جن کا ذکر ہورہا ہے جنہوں نے خود دیکھا انہوں نے تو اسباب نزول میں درک نہیں پیدا کیا وہ تو جو دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ درک پیدا تو واحدی صاحب نے کیا جنہوں نے دیکھا نہیں اور بعد میں تصورات کی دنیا سے اندازے لگا لگا کر باتیں پیش کیں۔ مگر بہرحال اتنی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو خود گواہ تھے موقع کے جنہوں نے آیت کے نزول کا ایک واقعہ دیکھا ان کے سوا کوئی دوسری بات ہرگز روا نہیں۔ اور ان کی کتاب اکثر دوسری باتوں میں پڑی ہوئی ہے مگر منصف مزاج اس حد تک تو ہیں بہرحال کہ ایک شوق تھا خدمت کا خدمت کرلی لیکن اتنی بات مان گئے کہ دیکھی ہوئی بات کے سوا کوئی روا نہیں ہے۔ محمد بن سیرین کا قول ہے۔ میں نے عبیدہ سے قرآن کی ایک آیت کے متعلق کچھ دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ خدا سے ڈرو اور حق بات کہو۔ وہ لوگ گزر گئے جن کو اس بات کا علم تھا کہ خدا نے کس بارہ میں قرآن کی کون سی آیت نازل کی۔ یہ جو پچھلی روایت سے میں نے استنباط کیا تھا کہ وہ لوگ گزر گئے وہ واتری کے زمانے میں نہیں تھے۔ یہ واقری نہیں ہے ۔ واحدی کے زمانے میں نہیں تھے۔ یہ بات ابن سیرین کہہ رہے ہیں۔ جو نبوت کے بہت قریب ہیں۔ واحدی تو چار سو سال بعد پیدا ہوئے اور ابن سیرین کا زمانہ 33 تا 110ھجری۔ اندازہ کریں کتنا قریب ہے۔ ۳۳ تا ۱۱۰ ھجری بہت قریب کا۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں میں نے عبیدہ سے قرآن کی ایک آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا خدا سے ڈرو۔ حق بات کہو۔ ۳۳ اور ۱۱۰ کے درمیان کا واقعہ ہے۔ وہ لوگ گزر گئے جن کو اس بات کا علم تھا کہ خدا نے کس کے بارہ میں قرآن کی کون سی آیت نازل کی ہے۔ ایک اور عالم کا قول ہے کہ سبب نزول کی شناخت ایک ایسی بات ہے جو صرف صحابہ کو ان قرائن کے ذریعے سے معلوم ہوتی تھی جو کہ ان معاملات کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے۔ صحابہ کو ان قرائن سے یعنی اس میں بھی ان کے کہنے میں بھی ہرگز کوئی قطعیت نہیں ہے۔ صحابہ بعض آثار کو دیکھتے تھے اور ان آثار پر اپنی ایک رائے قائم کیا کرتے تھے۔ اسے قرآن کا سبب نزول قرار دے دینا نہ ان کا حق تھا نہ انہوں نے ایسا کیا۔ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں اندازہ ہے کہ شاید یہ معاملات ہیں جن کے تعلق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اور اس پر بھی۔ یہ ایک عالم کا قول سن لیجئے۔ اور اس پر بھی بساوقات کسی صحابی نے سبب نزول کو یقین اور جزم کے ساتھ بیان نہیں کیا بلکہ یہی کہا میں سمجھتا ہوں یہ آیت فلاں معاملے میں نازل ہوئی ہوگی۔ اب بتائیں سبب نزول کا مسئلہ کہاں گیا؟ کہاں واحدی کا اصرار یہ آیت فلاں موقع پر نازل ہوئی کہاں وہ صحابہ جو موقع پر موجود تھے ان کی احتیاطیں دیکھیں۔ وہ کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ غالباً یہ آیت اس مضمون سے کی ہے ابن تیمیہ کہتے ہیں صحابہ کا یہ قول کہ اس آیت کا نزول فلاں امر میں ہوا ہے۔ کبھی یہ معنے رکھتا ہے اس کے نزول کا فلاں سبب تھا اور کبھی اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اگرچہ یہ سبب نزول نہیں لیکن ایسا مفہوم آیت میں داخل ہے کہ اس کی مثال یہ ہے کہ جس طرح کہا جائے اس آیت سے یہ مراد لی گئی ہے کہ گول مول بات کرکے یہ ابن تیمیہ نے کہا بیان کیا ہے یہ سبب نزول کے متعلق قطعیت کوئی نہیں ہے۔ زرقشی نے اپنی کتاب البرہان میں بیان کیا ہے کہ صحابہ اور تابعین کی بابت یہ بات معلوم ہوئی ہے جس وقت ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ نزلت ھذہ الایۃ فی کذا یہ آیت فلاں معاملے میں نازل ہوئی ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آیت فلاں آیت فلاں حکم کو شامل ہے۔ نہ یہ کہ اس کی بتائی ہوئی وجہ آیت کا سبب نزول ہے۔ یہ بات بالکل کھل گئی۔ بہت ہی عمدہ قول ہے زرقشی کا۔ وہ کہتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے تو یاد رکھو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ آیت فلاں حکم کو شامل ہے۔مراد یہ ہے کہ فلاں واقعہ جو گزرا ہے اس پر جو حکم لگتا ہے وہ اس آیت میں موجود ہے۔ نہ یہ کہ اس کی بتائی ہوئی وجہ آیت کی سبب نزول ہے۔ اور صحابہ تابعین کا اس طرح کہنا آیت کے ساتھ حکم پر استدلال کرنے کی حدیث سے ہے۔ نہ کہ سبب وقوع کو بیان کرنے کی قسم ہے۔ اب میں نے مواقع نزول بیان کیا تھا۔ سبب نزول اور چیز ہے مواقع نزول اور چیز ہے۔ اگر آپ اس اصطلاح کو درست کرلیں اور نزول کے مواقع پرر بحث کریں تو اتنی سی بات ہوگی کہ یہ آیت جیسا کہ قرآن کریم کا دستور ہے بعض دفعہ ایک موقعہ پیدا ہو تو جس آیت نے نازل ہونا ہی تھا وہ بعد میں نازل ہونے کی بجائے اس موقعہ پر نازل ہوجاتی ہے۔ وہ سبب نزول نہیں موقعہ نزول ہے تو مواقع نزول کی بحث سے یہ سبب نزول کا جھگڑا ختم ہوجاتا ہے۔ پھر ایک اور جھگڑا یوں بن جاتا ہے کہ مفسرین جنہوں نے آیت کے نزول کی بحثیں اٹھائی ہیں۔ ایک ہی واقعہ کے بالکل مختلف وقتوں میں ہونے والے ایک ہی آیت کے مختلف وقتوں میں ہونے والے واقعات کو اس آیت کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ یعنی آیت ایک ہے اور کہا ہے اس کا سبب نزول مثلاً کبھی یہ ہوگا کہ مدنی دور میں ہوا ہے کبھی کہ کہ مکی دور میں کبھی ابتداء میں کبھی کسی وقت تو وہ دو تین روایتیں ایسی اکٹھی کرلیتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ قرآن کریم کی وہی آیت اس طرح نازل ہوئی ہو جس طرح وہ بیان کرتے ہیں۔ پس جس کے ذہن میں اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے اندازے کے مطابق اس کو جوڑا ہے۔ ایک آیت ایسی نازل ہوسکتی ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں ہونے والے متعدد واقعات سے مضمون کے لحاظ سے تعلق ہو اور ان بزرگ صحابہ نے جب یہ کہا کہ اس کا یہ سبب نزول ہے تو ان معنوں میں سبب نزول نہیں جن معنوں میں واحدی نے کہا ہے۔ وہی معنی جیسے ایک عالم زرقشی کا میں نے قول دیا ہے انہی معنوں میں فرمایا اور واقعات چونکہ متعدد ایسے ہوا کرتے تھے جن کا ایک ایک ہی آیت سے تعلق مضمون کے لحاظ سے تھا اس لئے انہوں نے اس کو اس واقعہ سے جوڑ دیا ہے بس۔ تاکہ اس آیت کا اطلاق اس واقعہ پر ہوجائے۔ اب جو آیات ہیں جن میں تمام ضروری اسباب نزول کا ذکر موجود ہے وہ آیات میں مختصر آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ آپ کو سمجھ آجائے کہ ان آیات کے ہوتے ہوئے ان تمام معاملات میں کسی اور سبب نزول کی گواہی کی ضرورت نہیں اور ان واقعات کے ہوتے ہوئے باقی گواہیاں بالکل بے کار اور مضمون کو خلط ملط کرنے والی ہوں گی۔ اور سبب نزول کا یہ حال ہے کہ قرآن کریم بعض ایسے سوشل معاملات کا ذکر کرتا ہے جس کے متعلق کوئی روایت آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اور قرآن نے ضروری سمجھا کہ ہدایت ہو۔ قرآن کو علم تھا کہ یہ جو راوی ہیں بہت سے انہوں نے اکثر وہ روایتیں چننی ہیں جو ان کے مسائل یا ان کے جھگڑوں سے تعلق رکھتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی زندگی کے سوشل حالات پر روشنی ڈال رہی ہیں۔ یہ بہت اہم مضمون ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ایک دعوت کا ذکر ہے اور اس دعوت سے پتہ چلتا ہے جس طرح قرآن نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ پہلی دفعہ واقعہ نہیں ہوا یا ایک ہی دفعہ نہیں ہوا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ اپنے عزیزوں اپنی بیویوں وغیرہ کے عزیزوں کو دعوت پہ بلایا کرتے تھے۔ اب حدیثوں کی چھان بین کریں اگر کوئی ہیں تو کہیں دور ہیں پڑی ہیں علماء کو ان کی کوئی بھی ضرورت نہیں پیش آئی۔ نہ اہمیت سمجھی مگر قرآن نے اس معاملے کو خوب کھولا ہے اور بڑی تفصیل سے کھولا ہے ۔ اس طرح انتظار نہ کیا کرو وہاں بیٹھے کھانا پک رہا ہے اندر اتنی حیرت انگیز تفصیل ہے کہ آدمی ورطۂ حیرت میں ڈوبتا ہے کہ قرآن کریم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی سوشل زندگی پر روشنی نہ ڈالی ہوتی تو ہم اس سے بے خبر رہتے۔ اب ایک اور مسئلہ اسی سلسلے میں میں نے اٹھایا ہوا ہے۔ علماء اس پر بحث کررہے ہیں۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی بیٹیاں تھیں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہیں تھیں۔ اور ان بیٹیوں کے متعلق اب بہت چھان بین کرکے روایتیں نکالی جارہی ہیں اکثر روایات میں وہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے سوا کوئی بیٹی تھی ہی نہیں۔ لیکن جس وقت وہ آیت نازل ہوئی ہے بنات کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے قطعیت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی بیٹیاں تھیں اور جب میں نے پوچھا کہ حدیثوں سے نکالو تو بڑی مشکل پیش آئی ہے علماء کو حدیثیں ڈھونڈنے کی۔ میں جو زورر دے رہا ہوں ڈھونڈو۔ وہ یہ سمجھتے ہیں گویا میرے نزدیک بیٹیاں تھیں نہیں اور قرآن کریم کی یہ آیت میرے سامنے ہے۔ یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ قرآ ن کریم نے بنات کا لفظ استعمال فرمایا ہو اپنی بیویوںسے کہہ دے بنات سے اور مومن عورتوں سے کہہ دے۔ اس میں جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ہے اس وقت آپ کی بنات موجود تھیں۔ اور احادیث اس ذکر سے خالی ہیں۔ اس لئے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاایک اختلافی مسئلے میں ایک نمایاں شہرت پاگئیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے محبت اور اختلاط یعنی ملنا جلنا اور آپ کا آنا جانا اس کو کسی شیعہ محدث نے نظرانداز نہیں کیا۔ کسی شیعہ راوی نے نظر انداز نہیں کیا اور غیرمعمولی طور پر اس کو اٹھا کر بیان کیا۔ یہاں تک کہ بالآخر اس دھوکے میں خود ہی مبتلا ہوگئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اور بیٹیاں تھیں ہی نہیں۔ چنانچہ شیعہ مصنفین یہاں تک کہنے کی جرات کرنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی بس ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاتھیں۔ باقی پہلے فوت ہوگئی ہوں گی اور یہ سب غلط باتیں منسوب ہوئی ہیں۔ امرواقعہ یہ ہے یہ جو آیت (نکالیں وہ آیت بنا والی۔ ہاں۔ یہ نشان والی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے) یایھآلنبی قل لازواجک وبناتک۔ سورۃ احزاب کی یہ آیت ہے اور کم سے کم پانچ ھجری سے اس کا تعلق ہے کم از کم۔ اور بعد کے زمانے سے۔ تو اس وقت تک خدا تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے یآیھالنبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین تو بنات سے نساء المؤمنین مراد نہیں ہیں۔ یدنین علیھن من جلابیبھن اگر ایک صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں تو یہ اوڑھنیاں جھکانے والیں بنات کون تھیں؟ پس قرآن کریم سے قطعیت سے ثابت ہے کہ اس زمانے تک لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اور بیٹیاں تھیں ۔ اور آپ کا ان سے معاشرتی تعلق ایک محبت کرنے والے باپ کا تھا۔ لیکن بد نصیبی ہے ہماری کہ ان روایات کو عمدگی سے بیان کرکے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے گھر ان کاآنا جانا، آپ کا ان کے گھر آنا جانا یہ روایات میں محفوظ نہیں کیا گیا اور روایات کاثر اتنا صرف دکھاتی ہیں جو اب تک مجھے ملی ہیں کہ گویا وہ یہ دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہسے بیاہی گئیں تھیں اور ذوالنورین کا یہ ظاہری معنی بھی ان کے حق میں پوار اترتا ہے۔ مگر وہ روایتیں خود مشکوک ہیں۔ اس لئے کہ ان میں عجیب و غریب ایسی باتیں درج ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے توقع نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہکو مخاطب کرکے ان روایات میں ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے تیرے سے بیاہتا رہتا۔ اب یہ بات مزاج النبی کے خلاف ہے اور اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہکو کہنا بالکل قرین قیاس نہیں ہے۔ تو روایات بھی وہ ہیں جو گڈ مڈ ہوگئی ہیں اس لئے علماء کا میں نے ایک بورڈ بنایا ہے۔ جو اس بات کو اچھی طرح صاف کریں تاکہ ہمارے علم کلام میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا اپنی سب بنات سے تعلق پوری طرح کھل کے آجائے اور ایک پردہ اٹھ جائے جو اب تک عقلوں پہ پڑا ہوا ہے۔ اب ہجرت سے متعلق سورۃ التوبہ آیت چالیس ہے۔
الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذ اخرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا۔ اب یہ آیت قرآنی ہے جو ایک تاریخ کا ایسا قطعی حصہ ہے جو کسی اور کو روایت سے معلوم نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ خدا دیکھ رہا تھا وہی راوی ہے اور اور اس نے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا حال بیان کیا ہے۔ اس آیت سے بعض متشدد شیعوں کو بہت تکلیف ہے کہ اس میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم فرمارہے ہیں لاتحزن ان اللہ معنا وہ اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑا سخت بے چین تھا اور خطرہ تھا کہ وہ بول پڑے اور باہر والوں کو نظر آجائے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اس کی آواز کو دبایا ہے اور فرمایا کہ لاتحزن ڈر نہیں ان اللہ معی نہیں فرمایا ان اللہ معنا فرمایا۔ اور یہ جو معنا ہے یہ شیعہ نظرانداز کرجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق گواہی دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق یہ فرمایا وہ یہ کہہ رہے تھے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہ خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ پس وہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نعوذباللہ من ذلک منافق ہو ان کے نزدیک اللہ معاف فرمائے اور وہ ڈر رہا ہو اور خطرہ ہو کہ ساری ہجرت کو خطرے میں ڈال دے گا وہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔ یہاں وہی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے جو سب کو منظور ہے۔ صدیق ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا ساتھی تھا۔ اور ان دونوں کا ساتھی اللہ تھا۔ فانزل اللہ سکینتہ علیہ وایدہ بجنود لم تروھا۔ اب جب یہ کہا کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے تو انزل اللہ سکینتہ علیہ وایدہ بجنودلم تروھا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی طرف سکینت کو پھیردیا گیا ہے۔ سکینت عطا کرنا محمد رسول اللہ کو مقصود تھا اور آپ ہی کو عطا ہوئی ہے آپ ہی کی خاطر فرشتے اترے ہیں مگر جہاں تک اللہ کی معیت کا تعلق ہے ابوبکر کی صدیقیت پر اس سے بڑی گواہ کوئی اور آیت نہیں ہوسکتی کہ ان اللہ معنا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اب یہ شان نزول ہے اس آیت کی۔ کس حدیث کی ضرورت ہے؟ کون سی حدیث ایسی تفصیل سے ان لطیف امور سے ہمیں آگاہ کرسکتی تھی؟ جتنی یہ آیت کررہی ہے۔ سورہ توبہ چالیس۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہاوالا واقعہ سورۃ الاحزاب آیت ۳۸ میں اس طرح درج ہے جو میں آپ کے سامنے بارہا رکھ چکا ہوں۔ اس سے ایک بات قطعیت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم یہ شادی نہیں چاہتے تھے اور آپ کے دل میں کمزور ایمان لوگوں کی ٹھوکر کا خطرہ تھا۔ اگرچہ اس علیحدگی کا سبب یہ نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنی نعوذباللہ من ذلک خواہش تھی۔ علیحدگی کا سبب یہ تھا کہ حضرت زید کا دل اٹھا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے کہنے پر یہ شادی ہوئی تھی۔ اور آپ کے خاندان کی ایک عزیزہ کی شادی ہوئی تھی۔ اب یہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کہ اس کے بعد مجھے ان سے شادی کرنی پڑے گی یہ ایک خطرہ تھا۔ خواہش ہوتی تو زید کو روکتے نہیں۔ خطرہ ہوتا تو روکنا چاہئے تھا چنانچہ آیت بتارہی ہے کہ زید کو روک رہے ہیں۔ ہرگز نہ ایسا کر۔ رک جا۔ اپنے پا س رکھ لے۔ ان ظالم مولویوں نے کچھ کا کچھ بناکے رکھ دیا ہے۔ پس اسباب نزول کی روایتوں نے قرآن کریم کے اس مضمون کی مضمون کی دھجیاں تو نہیں ادھیڑ سکتے مگر قرآن کریم کے تقدس کو ان روایات سے پارہ پارہ کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ بالکل اور مضمون منسوب کردیا ہے۔ اب ان روایا ت کو دیکھیں اس آیت کے بعد ان کی ضرورت کیا ہے۔ وہ غلط فہمیاں پیدا کررہی ہیں۔ یہ آیت غلط فہمیاں دور کررہی ہیں۔ ماللہ مبدیہ و تخشی الناس۔ وہ اپنے نفس میں جب اس سے کہتا تھا امسک علیک زوجک واتق اللہ اے زید اپنی بیوی کو روک رکھ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر۔ وتخفی فی نفسک ماللہ مبدیہ اب اس کا یہ ترجمہ روایات کرتی ہیں کہ تو زید کو منہ سے تو یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور روک رکھ اور تیرے دل کے تقویٰ کا یہ حال تھا کہ تو چاہتا تھا کہ روکے نہیں اور تو اس سے شادی کرلے۔ یہ کتنی خطرناک بات ہے اتنا بڑا الزام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر نعووذباللہ آپ کی طرف سچے منسوب ہونے والوں کا۔ نعوذباللہ وہ سے منسوب نہیں ہوسکتے۔ ان کا ہے اسباب نزول کی روایات کی وجہ سے۔ اتنی لغو اتنی بے ہودہ روایات اکٹھی ہوگئی ہیں کہ ان کو دیکھ کر انسان کے ہوش اڑ جاتے ہیں کہ دنیا کا سب سے پاک رسول نعوذباللہ من ذلک اس طرح دروازے کھٹکھٹائے بغیر اندر داخل ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں عورتوں کو دیکھتا ہے۔ اس پہ پھر اچانک اس کو عشق ہوجاتا ہے۔ استغفراللہ ربی اس کے تو ذکر سے بھی زبان جلتی ہے۔ فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکیلا یکون علی المؤمنین حرجا۔ ہم نے پھر مجبور کیا ہے تجھے اس شادی پر۔ تاکہ یہ فائدہ حاصل ہو۔ اب بتائیں کسی اسباب نزول کی بحث کی ضرورت ہے۔ جہاں خدا سبب نزول بیان فرما رہا ہے وہاں اتنی وضاحت کے ساتھ ایسی شان و شوکت کے ساتھ بیان کرتاہے کہ اس پر کوئی روایت روشنی نہیں ڈال سکتی اندھیرا پھینک سکتی ہے۔ اب بیویوں کی خوشی کی خاطر حلال کو حرام نہ قرار دینے کے متعلق جو سورہ التحریم کی آیت میں اس پر پہلے بحث گزرچکی ہے کئی دفعہ۔ اس پہ بھی گزر چکی ہے مگر یہ ایسی بحث ہے جس کو میں احترام کی وجہ سے بار بار چھیڑنا نہیں چاہتا۔ بیویوں کی خاطر حلال۔ احترام کی خاطر یوں کہہ لیں احترام تووہاں بھی اسی طرح ہے۔ یہ شہد کوحرام حلال کیا یا کسی اور چیزکو یہ باتیں یہاں مذکور نہیں ہیں اور روایات نے خوامخواہ بیچ میں داخل کی ہیں۔ صرف اتنا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ جو چیز اللہ نے تجھ پر حلال کی ہے حسن خلق کی وجہ سے اپنی بیویوں کی خاطر اگر وہ ان کو ناپسند ہو تو اپنے اوپر حرام نہ کر۔ یہ منطوق ہے اس آیت کا سورہ التحریم ۲ سے ۴ تک آیات اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہیں۔ اب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ دوسراذکر ہے جس میں سورۃ النور آیات ۲۲ میں کہ غریب رشتہ داروں کی مدد نہ کرنے کی قسم نہ کھائیں۔ اب یہ واقعہ واقعہ افک سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ غریب رشتہ دار جنہوں حضرت عائشہ پر الزام لگایا تھا۔ ان کی مدد کیا کرتے تھے اور اس کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ روکنے کا فیصلہ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرماکر ایک واضح حکم آپ کو ایسا دیا جس کا قیامت تک ایسے معاملات سے تعلق ہے کہ شرعی امور میں یا دیگر نیکی اور بدی کے معاملات میں اگر کچھ غریب لوگ جو محتاج ہوں وہ بدی کریں تو اس کی سزا دینا اللہ کا کام ہے لیکن ان سے محض غربت کی وجہ سے، مدد کا ہاتھ نہیں روکنا چاہئے۔ اس آیت کریمہ کا آج بھی اسی طرح اطلاق ہوتا ہے۔ بساوقات مختلف ممالک سے جب غریبوں کی سفارشیں آتی ہیں تو بعض جگہ لکھا ہوتا ہے ہے تو بہت غریب فاقہ کش مگر نظام سلسلہ کے خلاف ہے۔ اور بعض اور امور گنا گاری کے اس میں ہیں۔ تو میں ہمیشہ ان کی اس رائے کو رد کردیتا ہوں۔ میں ان سے کہتا ہوں جتنی آپ کو توفیق ہے غریبوں کی خدمت کی ان میں جو بدتر حال کے لوگ ہیں خواہ ان کا اسلام سے تعلق نہ بھی ہو ان کو بھی اگر آپ کو توفیق ہو تو شامل کرنے کی تو شامل کرلیا کریں کجا یہ کہ فلاں کمزوری ہے اس میں فلاں کمزوری ہے۔ مستحق تو ہے مگر اس کی امداد نہیں ہونی چاہئے۔ یہ میرا استنباط ایسی آیت کریمہ سے ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی اور میں یہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ شان نزول اگرچہ بظاہر ایک واقعہ سے تعلق رکھتی ہے مگر حکم جاری و ساری اور سب زمانوں سے تعل رکھتا ہے۔ اب وہی جو معاشری آیت جس کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں سورۃ الاحزاب آیت ۵۴۔ بہت لمبی آیت ہے جو پوری آیت دیکھیں اس صفحے پر بھری ہوئی ہے ماشاء اللہ اس آیت میں وہ باتیں درج ہیں لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم الی طعام غیر ناظرین انہ۔ اب صاف پتہ چلتا ہے کہ ایک رواج تھا لوگ داخل ہوا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنی حیا کی وجہ سے اپنے ہی گھر میں ان کو بعض احتیاطیں کرنے کی طرف متوجہ نہیں فرماسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں میں کسی دنیوی حیاء کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ احکام کو جاری کرتا ہے قطع نظر اس کے کہ اس تعلق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم حیا محسوس فرمارہے ہیں یا نہیں فرمارہے۔ قطع تعلق نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ اپنی انسانی فطری حیا کی وجہ سے رک رہے تھے اور تربیت کے لحاظ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے احترام کے لحاظ سے ضروری تھا کہ اللہ وہ بات کھولے پس وہ حیا اپنی جگہ اچھی اور پیاری ہے مگر عجز کی صورت میں بساوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے ایسے مقام کا ذکر فرمادیتاہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنے عجز سے نہ بیان کریں۔ پس یہ کوئی نعوذباللہ من ذلک گناہ کی بات نہیں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم حیا کررہے تھے مگر یہ ساری آیات کا مطالعہ کرکے دیکھیں تمام معاشرتی تفاصیل اس میں بیان ہوئی ہیں۔ رشتہ داروں کو بلایا جاتا تھا وہ آیا کرتے تھے۔ کافی بڑی تعداد ہوگی ان لوگوں کی جو مختلف بیویوں کے رشتہ دار اکٹھے ہوجایا کرتے تھے اور وہ پھر اپنی طرف سے زیادہ ہی بے تکلف ہونے کی کوشش کرتے تھے اور اس بے تکلفی میں مزے اڑاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے گھر کو اپنا گھر بنایا ہوا ادھر ادھر کی باتیں کررہے ہیں۔ یہ کئی دفعہ ہوا ہوگا۔ روایتوں میں ذکر نہیں۔ صاف پتہ چلا کہ روایتوں نے معاشرتی اقدار اور تمدنی اقدار کی اس طرح حفاظت نہیں کی۔ مسئلوں میں الجھے ہیں لوگ بہت حد تک لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے کے تمدن کو دل چاہتا ہے کہ کھول کر بیان کیا جاتا۔ افسوس کہ اس کا ذکر وہاں نہیں ملتا لیکن قرآن کریم نے احزاب ۵۴ میں اس کا ذکر فرمایا ہے اور کوئی حدیث موجود نہیں اسباب نزول والی۔ خود قرآن اپنا سبب نزول بیان فرمارہا ہے۔ اور اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق جو عظمت و احترام کا تقاضا ہے اس کا ذکر کسی حدیث میں نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے یہ فرمایا ہو نہ بولا کرو یہ کرو۔ کچھ ملتا ہے ذکر لیکن اس شان اور صفائی سے نہیں ملتا جیسا سورہ التحریم میں ملتا ہے۔ آیت ۳۔ یایھا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون۔ (ہیں یہاں تحریم لکھی ہوئی ہے۔ دیکھ لیں۔ ابھی چیک کرلیں۔ آیت ۳۔ بالکل ٹھیک ہے) حجرات۔ جزاک اللہ) آپ نے اچھی نظر رکھی اس بات پر کہیں بے چارے لکھنے والی غلطی سے یہ کردیتے ہیں کوئی نقص نہیں ان معنوں میں کہ ارادتہً انہوں نے تو کچھ نہیں کیا مگر غلطی سے لکھا جاتا ہے بعض دفعہ۔ آپ ساتھ ساتھ درست کرواتے جائیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سامنے تم اونچی آواز میں اس طرح اپنی باتیں کرو گے تو تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون تمہارے اعمال، نیکیاںساری گر جائیں گی ضائع ہوجائیں گی اور تمہیں علم بھی نہیں ہوگا۔ یہ آیت کریمہ ان روایات بیان کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہونی چاہئے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دربار میں تو کھلی چھٹی تھی ایک بدوی کھڑا ہوتا تھا اور یہ اعلان کردیتا تھا اور ایک اور الزام بھی لگا دیتا تھا کہ آپ نے اموال میں نعوذباللہ من ذالک خرد برد کی ہے تو یہ باتیں مستقلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے غلام جو کسی مسند پر فائز ہوں ان کے متعلق بدرجہ اولیٰ جائز اور ضروری ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دربار میں اٹھ کر اس طرح کھلی بایں کرسکتے ہو تو اب کیوں نہیں کرسکتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جو کھلی باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم فرمارہا ہے۔ ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون۔ تمہاری ساری عمر کی نیکیاں ضائع ہوجائیں گی اور تمہیں علم بھی نہیں ہوگا۔ پس اگر یہ نیکیاں ضائع کرنے کی خاطر ایسی بدتمیزیاں کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ لیکن قرآن کریم کی اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہوگا جو حد ادب سے نکلتے ہیں اور کہہ دیں جو مرضی ان کو سزا تو نہیں ملتی کوئی مگر منہ سے ایسی بات کردیتے ہیں جس سے ان کی اپنی نیکیاں اور نیک اعمال خدا کی نظر میں گر جاتے ہیں۔ اب کلام الٰہی صحابہ کیسے سنا کرتے تھے۔ اس کا عمومی بیان شان نزول کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے ہے تاکہ آئندہ آنے والے اس سے نصیحت پکڑیں کہ صحابہ کی یہ شان ہوا کرتی تھی تم بھی اس شان سے قرآن کریم سناکرو۔ سورۃ المائدہ آیت چوراسی ۸۴۔ واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینھم تفیضض من الدمع مما عرفوا من الحق۔ یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشاہدین۔ تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو (بہیں گے) بہ رہے ہوں گے۔ یعنی جب آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ صحابہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے ان کے متعلق شرط یہ ہے مما عرفوا من الحق یعنی قرآن کریم کو اتنا غور سے سنتے ہیں کہ اس کے حق کا عرفان پاجاتے ہیں۔ یہ مراد نہیںقرآن سنو رونے لگ جاؤ۔ مراد یہ ہے کہ ایسے صحابہ جب قرآن کریم کو سنتے ہوئے غور کرتے ہوئے عرفان کا موتی چن لیا کرتے تھے اس وقت اس کے اثر سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجایا کرتے تھے۔ یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشاھدین۔ وہ یہ کہتے تھے اے اللہ! ہم ایمان لے آئے۔ حالانکہ ایمان پہلے سے لائے ہوئے تھے۔ عرفوا من الحق نے ایمان کو ایک اور منزل تک پہنچا دیا۔ یہ مراد ہے۔ تو جب بھی تم قرآن کو اس طرح سنو گے کہ اس کے عرفان کی طرف توجہ رکھو گے اور جب کوئی انہیں عرفان کا نکتہ ہاتھ آئے گا تو بے اختیار طبعی بات ہے تمہارے دل پر دل میں ایک ہیجان پیدا ہوگا اور جذباتی طور پر آنسو بھی بہہ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ دعا ضروری ہے ربنا امنا اے خدا! اب ہم ایک اور ایمان لے آئے ہیں ان باتوں پر۔ ایک ایمان پہلے تھا لیکن جو اب عرفان نصیب ہوا ہے اس سے یہ ہمارا ایمان ترقی کرگیا ہے۔ فاکتبنا مع الشاھدین پس ہمیں شاہدین میں سے لکھ لے۔ یہ شاہد کا ایک اور معنی بھی ہے گواہوں میں سے لکھ لے۔ ہم گواہ ہیں کہ قرآن کریم میں ایسے مضامین ہیں کہ جب ان کا عرفان نصیب ہو تو انسان کے دل پر وہ مضمون قبضہ کرلیتا ہے۔
(سورۃ التوبہ اکانوے۹۱)
خدا کی راہ میں خرچ کی توفیق نصیب نہ ہونے پر بعض صحابہ کی حالت یہ بھی بڑی دردناک سی آیت ہے۔ توفیق نہیں ملتی بعض دفعہ انسان کو لیکن صحابہ کا کیا حال تھا جب توفیق نہیں ملتی تھی تو خوش ہوا کرتے تھے وہ تو روتے ہوئے واپس چلے جایا کرتے تھے کہ ہم اپنی جان کا نذرانہ لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ اور تو ہمیں توفیق نہیں ملتی۔ کوئی قبول نہیں ہورہا۔ یعنی وقت کے حالات کا تقاضہ تھا۔ ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملھھم قلت لا اجد ما احملکم علیہ۔ تولوا و اعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون۔ یہ جو صحابہ کی شان ہے یہ ایک خاص واقعہ سے محدود نہیں ہے۔ یہ آئندہ کے لئے ہمیشہ کے لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے ایک نمونہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اور نمونے کے تعلق میں آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک آیت کریمہ یس معلوم ہوتا ہے کہ رسول ہی صرف نمونہ نہیں بلکہ بعض صحابہ بھی نمونہ ہیں۔ اب اس آیت کو نکالیں اس آیت کو سمجھنے میں وہ آیت مددگار ہے۔ اس آیت کو سمجھنے میں یہ آیت مددگار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ جب رسول نمونہ ہوگیا تو صحابہ کے نمونہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ رسول مطاع کے طور پر تو ہرجگہ نمونہ ہے اللہ مطیع ہونے کے لحاظ سے بہت نمونہ ہے مگر رسول کے مطیع ہونے کے لحاظ سے صحابہ ضرور نمونہ ہوں گے۔ اور یہ نمونے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں۔ اس لئے بعض لوگ جو اس خیال میں مبتلا ہوں کہ صحابہ کے نمونہ ہونے کی کیا ضرورت ہے اور اس کو پھر وہ ممتد کردیتے ہیں صحابہ کی اور باتوں پر۔ فلاں صحابہ نے یہ کہا تھا، فلاں صحابی نے یہ کہا تھا۔ ہر بات میں وہ نمونہ نہیں ہیں۔ نمونہ ان باتوں میں ہیں جن باتوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت میں وہ ایک حیرت انگیز اطاعت کا نمونہ دکھانے والے لوگ تھے۔ اور جو توفیق نہیں ملتی تھی آپ کے کہنے کے باوجود اس پر ان کا کیا حال ہوا کرتا تھا۔ یہ آیت جو ہے یہ اسی تعلق میں ہے۔ لقد کان لکم فیھم اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر یعنی صحابہ کے متعلق فیھم اسوۃ حسنۃ ہے۔ ومن یتول فان اللہ ھوالغنی الحمید۔ (یہ پوری لمبی آیت اور جگہ بھی شاید اس کا ذکر ہے کہیں۔ اسوہ ہونے کا اچھا نہیں اتنی کافی ہے بس) میری باتوں کو یہ بات کافی ہے کہ صحابہ بھی نمونہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے نمونہ کے علاوہ ان کا ذکر ہے۔ لقد کان لکم فیھم اسوۃ حسنۃ۔ تمہارے لئے صحابہ میں بھی ایک اسوہ حسنہ تھا۔ وہ اسوۃ حسنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حوالے سے بیان ہو نہیں سکتا کیونکہ ناممکن ہے کہ آپ خرچ کرنے کے مواقع ہوں اور خدمت کے مواقع ہوں اور نہ کرسکیں۔ آپ نے سب کچھ کردیا۔ اس لئے نہ کرنے والوں کا نمونہ تو صحابہ میں ہی مل سکتا تھا۔ نہ کرسکنے والوں کانمونہ جب کہ دل تیار تھے کرنے کے لئے۔ پس اس آیت کریمہ کا بھی اسی سے تعلق ہے اور پھر ثلاثۃ الذین خلفوا پیچھے رہنے والے جن میں تین جو تین تھے سورۃ التوبہ ایک سو سترہ۱۱۷ ایک سو اٹھارہ۱۱۸۔ ان کی پیچھے رہنے پر ان کے دل پر کیا گزری۔ یہ سارے واقعات پہلے بیان ہوچکے ہیں کئی دفعہ۔ یہ بھی نمونہ تھے۔ نمونہ ہیں آئندہ آنے والوں کے لئے۔ نعوذبالہ من ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حوالے سے پیچھے رہنے والا نمونہ بیان کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ تو جہاں کہیں بھی ضرورت پڑی ہے شان نزول خدا نے خود بیان فرمائی اور وہاں شان نزول کا بیان کرنا ضروری تھا تاکہ یہ مضمون کھل جائے۔ اور یہ ثلاث والا جو واقعہ ہے یہ شان نزول قرآن کریم نے اس وجہ سے بیان فرمائی ہے تاکہ ان پر غور کرو اور معلوم کرو کہ تمہارے دل کا کیا حال ہے ان کے مقابل پر۔ عبس و تولی سورۃ عبس آیت ۲ تا ۵۔ اس میں اس نے وہ چیں بجبیں ہوگیا اور منہ موڑ لیا۔ یہ تفسیر صغیر جو ہے عبس چیں بجبیں ہوا اور مونہہ موڑ لیا۔ ان جآء ہ الاعمی اس بات پر کہ اس کے پاس ایک نابینا جسے واقف لوگ جانتے ہیں یہ بریکٹ میں ہے۔ آیا اور اے رسول کون سی بات تجھے اس پر آگاہ کرسکتی تھی۔ کہ وہ ضرور پاک ہوجائے گا۔ یاموجبات عبرت کو یاد کرے گا تو یہ یاد کرنا اسے نفع بخشے گا۔ اس آیت کی تشریح ایک اس تفسیر صغیر میں ملتی ہے۔ ایک اور تشریح بھی ملتی ہے جو اس سے مختلف اور ضمیروں کو دوسری طرف پھیرنے والی ہے۔ اب یہ ساری یہ تضادات نہیں ہوتے وہ علماء جو کم حوصلہ ہوں وہ اس بات میں کہہ دیتے ہیں یہ تضاد ہوگیا۔ تضاد نہیں حضرت مصلح موعود کا طریق تھا اور یہی طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر میں تھا کہ آیت کی مختلف تشریح فرماتے تھے۔ آیت کی خدمت کی خاطر کہ ایک کو یہ تشریح دل کو بھا جائے دوسرے کو دوسری تشریح دل کو لبھا سکتی ہے اور وہ تشریحیں الگ الگ ہوتی تھیں اور ایسی صورتوں میں بعض دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشریحات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مختلف بھی ہیں۔ اور جو کم حوصلہ علماء ہیں وہ ہ کہہ سکتے ہیںکہ دیکھو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک نعوذباللہ من ذلک خلیفۂ وقت نے ایک تشریح کی۔ یہ جہالت ہے ان کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو مقصد تھا وہ یہ عظیم خلفاء بہتر سمجھتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ آپ کا مقصد خدمت قرآن ہے اور قرآن سے اعتراضات کو اٹھانا ہے۔ کچھ باتیں آپ نے پیش فرمائیں اور کچھ آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوچیں کہ میرے نزدیک اگر یہ مؤقف اختیار کیا جائے تو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اول مقصد یعنی خدمت قرآن اس طرح بھی پورا ہوسکتا ہے۔ اور بظاہر اختلاف ہے لیکن اختلاف تشریح میں اس وجہ سے ہے کہ مقصد ایک ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ایک نئی تجویز ذہن میں آئی جو نعوذباللہ من ذلک ہرگز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گستاخی نہیں ہے۔ بعض علماء مجھے پتہ ہے میں سے بحثیں کرچکا ہوں اسی معاملے میں۔ خاص طور پر پیغامیوں کے سکھائے پڑھائے لوگ یہ بتاتے کہ حضرت مصلح موعود نے اس بات میں اختلاف کیا، اس بات میں اختلاف کیا اور گویا کہ مرزا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم عدل نہ مانا۔ یہ بالکل جھوٹا الزام ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفۃ المسیح اول کی بھی عزت کی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی پوری عزت فرمائی مگر جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسا مضمون سمجھایا جو بظاہر پہلے مضمونوں سے بعینہٖ متفق نہیں ہے مگر ان مقاصد میں متفق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدمت قرآن کے مقاص تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح اول کے خدمت قرآن کے مقاصد تھے اس لئے اپنی تشریح کی ہے باوجود اس کے کہ وہ تشریح الگ تھی پہلی تشریح۔ تو یہ جو تمیز کرتے ہیں لوگ۔ ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ میں اور ایک خلیفہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں ان کو قرآنی تعلیم کی الف ب کی بھی گویا نہیں سمجھ۔ وہ لانفرق بین احد من رسول میں من رسلہ میں جو مضمون ہے وہی مضمون دراصل یہاں اطلاق پاتا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور باقی انبیاء میں فرق نہیں تھا۔ زمین آسمان کا فرق۔ جیسا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے گزرا ہے۔ دس دن پیچھے چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو ہزار سال چلنے سے روشنی نہیں ملتی تھی اس کے باوجود قرآن کریم اجازت نہیں دیتا کہ رسولوں اور رسولوں اور نبیوں اورنبیوں میں فرق کرو۔ وہ فرق بنیادی طور پر خداتعالیٰ کی طرف سے ایک منصب پر فائز ہونے کا فرق ہے اور اس منصب کے احترام میں اوراس کی اطاعت میںتمہیںکسی فرق کی اجازت نہیںہے۔ کیونکہ جہاںایک رسول باعث قابل اطاعت ہے وہاںاس لئے قابل اطاعت ہے کہ اللہ نے فرمایا۔ وہی موقعہ ایک بہت عظیم رسول کے متعلق میںبھی آسکتاہے جو مراتب میں اس سے بدرجہا بہتر ہو مگر متابعت اس کی اس لئے کررہے ہیں کہ اللہ نے فرمایا۔ الہ نے فرمایا اس میں فرق آپ کیسے کرسکتے ہیں۔اللہ نے ایک غریب اور کمزور کو بتادیا۔ایک امیراورطاقتورکوبتادیا۔دونوںصورت میں حکم اللہ کا چلتاہے اور اس لئے فرق کی اجازت نہیں۔اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خلفاء میںجو تفریق کرنے والے مولوی ہیں یا پیغامی خاص طور پر جو تفریق کرتے ہیںوہ جاہل لوگ ہیں۔ان کو ہرگز پتہ نہیں کہ تفریق کس موقعہ پر اجازت ہے اور کس موقعہ پر نہیں۔ سمعنا و اطعنا کہنے والے لوگ (اس موقعہ پر تفریق کرتے ہیں۔جس) اس موقعہ پر بعض اختلاف کرتے ہیں جن اختلافات کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک اجازت ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں آپ کے علماء صحابہ نے بعض ایسی قرآن کریم کی تشریحات پیش فرمائیں جو مسیح مووعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تشریح کے علاوہ تھیں۔اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو پسند فرمایا۔ تو نعوذباللہ من ذلک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قرآن کے جاری مطالب کے اوپر ان معنوں میں مہر نہیںہیںجن معنوںمیںغیراحمدی مولوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو مہر بناتے ہیں۔معارف قرآن جاری رہیں گے اور مقصد یہی ہے کہ تم قرآن کے خادم بنو اور خدمت میں اگر قرآن کی آیات اس مضمون کو سند بخشیں اور محض تفسیر بالرائے نہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعلیٰ مقاصد خدمت قرآن ان تشریحات سے پورے ہوتے ہوں تو ہرگز کسی کو اس بارے میں زبان کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔اگر کھولے گا تو اپنے نفس کو ہلاک کرے گا اس کے سوا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اب اس آیت میں عبس وتولی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود ہی ایک جگہ اور معنے بیان کررہے ہیںایک دوسری جگہ اور معنے بیان کررہے ہیں۔تضاد نہیںیہ خواہش اور یہ عشق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے بدخلقی کے الزام کو رفع کریں۔آپ نے ایک طریقے سے وہ الزام رفع کرنے کی کوشش کی اور میں نے ایک اور طریقے سے رفع کرنے کی کوشش کی۔اور اب جو میں دیکھتا ہوںتو مجھے اپنے اس مضمون پر قطعاً ذرا بھی شک نہیں کہ وہی معنے ہیں جو خودمصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اشارۃً یہاں منظور ہیں۔ عبس وتولی سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں مگر جس آیت کو بعض ظالموں نے سوء الخلق سمجھا ہے یہ آپ کے عظیم الشان خلق کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ عبس وتولی ایک اندھا آیا ہے اور اس نے دخل اندازی کی ہے جب کہ ایک سردار جس کے ہدایت پاجانے سے اس کی ساری قوم کی ہدایت وابستہ ہوسکتی تھی وہ بیٹھا ہوا باتیں کررہا تھا اس نے آکر بیچ میں ایک دخل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے ایک لفظ بھی نہیں بولا جس سے اس کی دل شکنی ہو۔ عبس و تولی۔ چہرے پر شکن آئے ہیں ماتھے پر جس کو سردار نے دیکھ لیا اور کہا کہ دیکھو یہ میری عزت کررہا ہے۔ میں باہر سے آنے والا ایک سردار ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے فرمایا۔ قوم کے سرداروں کی عزت کیا کرو۔ اور اس کے دخل اندازی کا اس نے برا نہ منایا لیکن اس اندھے کو نہیں پتہ چلا۔ پس ایسی عظیم الشان آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے خلق کے متعلق ہے جس کو توڑ مروڑ کو دوسرے معنے پیدا کرنے کی بعض دفعہ کوشش کی جاتی ہے بعض دفعہ ایک اور اچھا معنی سمجھ کر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے تضادات نہیںہیں جنہیںآپ خاطر میں لائیں کیونکہ یہ دیانتداری سے کوششیں ہیں خدمت قرآن کی۔ اور اب ہماری ضد ہے کہ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فلاں جگہ یہ کہا فلاں جگہ یہ کہا یہ سارے جو خشک ملاں ہیں ان کی حرکتیں ہیں۔صحیح معنوں میں قرآن کا عرفان حاصل کرنے والا ایسی حرکتیں نہیں کرسکتا۔(وقت ہوگیا۔ کافی ہے۔ اچھا جی)
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
21رمضان المبارک 20 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ ۔
درس القرآن کے اوقات کے متعلق یہاں لندن جماعت کا مشورہ یہ ہے کہ وہی رہنے دیئے جائیں جو ہمیشہ سے رہے ہیں کیونکہ ان کو نماز کی وقت پر ادائیگی میں سہولت ہوگی ایک بجے یہ نماز ہوتی ہے پھر دوسرے مشاغل بھی ہیں اس لئے سردست یہی دیکھتے ہیں اگر چند منٹ اوپر چل گیا تو پھر اتنی سختی نہیں کریں گے جتنی پہلے کیا کرتے تھے کہ عین پونے ایک بند کردیں اس سے زیادہ اور کوئی تبدیلی نہیںہوگی۔
شان نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں اور جو ابھی باقی ہیں اور اس سلسلے میں چونکہ ہر دفعہ تعوذ کی ضرورت نہیں پڑتی آیات ایک دفعہ پڑھ دیا جائے تعوذ تو پھر ضرورت نہیں پڑتی لیکن پہلی دفعہ جب تلاوت ہے تو بہرحال تعوذ ہونا ضروری ہے۔ اس لئے میں پہلی آیت جو اس وقت میرے سامنے ہے یؤثرون علی انفسھم والی اس کی تلاوت کرتا ہوں اور پھر حسب سابق مضمون شروع ہوجائے گا۔
اعوذباللہ من الشیطین الرجیم ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
والذین تبوؤالدار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یحبون من ھاجر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھوالمفلحون۔ (سورۃ الحشر آیت نمبر 10)
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے مال جو مدینہ میں پہلے سے رہتے تھے۔ یہ ترجمہ کچھ عجیب سا ہے۔ اچھا پہلی آیت کا تسلسل ہے اس لئے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ جو مال ہے اللہ کی راہ میں دینے والے ان کے تعلق میں یہ آیت ہے یہ مال ان لوگوں پر بھی خرچ ہوگا اسی طرح وہ مال ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو مدینہ میں پہلے سے رہتے تھے۔ اور مہاجرین کے آنے سے پہلے ایمان قبول کرچکے تھے۔ اور ان سے محبت کرتے تھے۔ جو ان کی طرف ہجرت کرکے آئے اور اپنے دلوں میں اس مال کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے۔ یہ بریکٹ میں ہے جو ان کو دیا گیا تھا۔ اور باوجود اس کے کہ خود غریب تھے مہاجرین کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے تھے۔ اور جن لوگوں کو اپنے نفس کے بخل سے محفوظ رکھا جائے ایسے تمام لوگ بامراد ہونے والے ہیں۔
یہ آپ مہاجرین مکہ کا جیسا مدینہ میں استیصال کیا گیا اس کو کھول رہی ہے اس مضمون کو اور خدا کی راہ میں ملنے والا مال اگرچہ غریب انصار پر بھی خرچ ہوگا لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ جو کچھ بھی تھا اپنی تنگی ترشی کے باوجود مہاجرین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رکھی انہوں نے اور مال لینا ان کی خواہش میں داخل ہی نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو بغیر مال کے مال خرچ کرنے والے لوگ تھے۔ پس انصار کی اس کیفیت کو بیان کرکے ہمیشہ کے لئے انصار کے اس دل کے حسن کو قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا گیا ہے جو ان کے دل میں تھا اور اگر یہ آیت کریمہ اس طرح نازل نہ ہوتی تو شاید انصار یا مہاجرین میں سے کوئی گواہی نہ دے سکتا۔ پس یہ آیت خود اپنے شان نزول کو ظاہر کررہی ہے اور بتارہی ہے کہ اللہ کی نظر دل کے لطیف در لطیف خیالات پر پڑتی ہے اور وہ جو خد اکی راہ میں قربانی کرنے والے ہیں اگرچہ خود ان کو دیا جانا مقصود ہے لیکن اس دینے کی خاطر انہوں نے کوئی قربانی نہیں کی یعنی لینے کی خاطر کوئی قربانی نہیں کی بلکہ مال کے بغیر وہ تو قربانی کرنے والے لوگ تھے۔ یہ شان نزول اس طرح بیان ہوکہ پھر من یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون یہ آخری حصہ آیت کا بتارہا ہے کہ یہ مضمون صرف ماضی میں رہ جانے والا مضمون نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے جاری مضمون ہے۔ ان کے طرزعمل کو یوں بیان فرمایا گیا ومن یوق شح نفسہ جو اپنے دل کی خساست سے بچایا جائے فاولئک ھم المفلحون یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے لوگ ہیں پس قیامت تک جو بھی اس طرزعمل کو اختیا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مفلحون میں شمار ہوگا۔
اب ایک آیت میں معاشرتی امور کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے لیکن اسے شان نزول میں اس لئے داخل نہیں کیا گیا کہ معین طور پر بعض لوگوں کا ذکر ہے۔ قرآن کریم بسااوقات پردہ پوشی فرماتا ہے اور معین لوگ جو کسی برائی میں ملوث ہوں ان کا ذکر کئے بغیر معاشرے میں ایک جاری برائی کا ذکر کرکے اسے دور کرنے کی طرف توجہ دلا دیتا ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا کہ فلاں یہ حرکتیں کیا کرتا تھا اور فلاں یہ باتیں کیا کرتا تھا۔ یہ ناجائز حرکت ہے کیونکہ قرآن کریم نے جہاں پردہ ڈالا ہو وہاں پردہ اٹھانے کی کوشش کرنا ایک مذموم بات ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی میں بیان کرچکا ہوں کہ ازواج مطہرات کے متعلق قرآن کریم میں تبصرے ہیں۔ اور پردہ ڈالا گیا ہے ان پر۔ اور مفسرین پوری کوشش کرتے ہیں پردے نوچ نوچ کر ایک طرف پھینک دیں اور جو باتیں بیان کرتے ہیں وہ خیال ہیں۔ اس لئے گستاخی بھی ہے اہل بیت کی اور قرآن کریم کی طرف وہ باتیں منسوب کرنا ہے جو قرآن نہیں کہنا چاہتا۔ تو شان نزول کے اس شوق میں آکر یہ بے حرمتی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ اور ستاری کے خلاف کام کرتے ہیں۔ وہ ستاری جو اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمائی۔ اس پہلو سے اس آیت کو کھلا رکھا گیا ہے اور شان نزول خود ظاہر ہے کہ کس بات پر ہوئی کچھ نہ کچھ لوگ یہ حرکتیں کیا کرتے تھے۔ یاایھاالذین امنوا لا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیرامنھم اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی دوسری قوم پر تمسخر نہ کرے۔ عسی ان یکونوا خیرامنھم بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ یعنی ایمان کی بدولت جو پہلے تمسخر کا نشانہ بنائے گئے تھے وہ ان لوگوں سے بہتر ہوجائیں جن کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے، ان کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ ولا نساء من نساء اور خصوصیت کے ساتھ عورتوں میں چونکہ یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ وہ خاندانی تفاوت اختیار کرلیتی ہیں یا کوئی کمزوری دیکھتی ہیں کسی عورت کی بعض دفعہ مجلسوں میں اشارے کرنے لگتی ہیں۔ ہنسنے لگ جاتی ہیں۔ تو یہ فطری کمزوری خصوصیت سے اس وقت بھی موجود تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کوئی عورت کسی اور عورت پر اس طرح طعن نہ کرے، اس طرح تمسخر نہ کرے، اس طرح اس کو تخفیف کی نگاہ سے نہ دیکھے کیونکہ بعید نہیں کہ وہ اس سے بہتر، ان عورتوں سے بہتر ثابت ہو۔ اور بالعموم نام رکھنے کی عادت اور چھیڑنے کی عادت اس طرح کہ کسی کو برالگے۔ تلمزوا میں پیار کے نام مراد نہیں ہیں۔ جس طرح ہم موٹا بچہ کہہ دیتے ہیں یا بڑا بچہ یا چھوٹا بچہ یہ وہ نام ہیں جن پر وہ خود فخر کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اس نام سے ان کو بلایا جائے۔ تلمزوا میں وہ نام ہیں جو تنگ کرنے کی خاطر ذلیل کرنے کی خاطر سوسائٹی رکھ دیتی ہے اور ایسے لوگوں کو وہ نام برا لگتا ہے ہمیشہ اس کے متعلق فرمایا کہ ولاتلمزوا انفسکم اپنے آپ کو طعن سے بچاؤ اپنے وجودوں پر طعن نہ کیا کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو تم طعن کرتے ہو وہ تمہارا ہی حصہ ہیں۔ تمہارا معاشرہ کا حصہ ہیں۔ ان کو زیرالزام لاؤگے اور طعن کروگے تو گویا تمہارا اپنا معاشرہ چھیدا جائے گا بس اس پہلو سے تم احتیاط کرو ولاتنابزوبالالقاب یہ القاب وہ ہیں جو میں بیان کرتا ہوں یعنی جس کے متعلق میں اشارہ کرچکا ہوں یہ القاب کی عادت سکولوں میں بچوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کیسٹ کی خرابی کی وجہ سے صحیح سمجھ نہیں آسکی) رجحانات موجود ہوں وہاں حتی الامکان ان چیزوں سے پورا پرہیز ضروری ہے۔ بئس الاثم الفسوق بعد الایمان ایمان لانے کے بعد فسوق کا نام بہت ہی برا ہے۔ الاثم الفسوق فسوق تو اطاعت سے نکل جانے اور گمراہی کو کہتے ہیں الاثم الفسوق یہ تنابزوا بالالقاب کی ایک صفت ہے جو بیان ہورہی ہے۔ یہ بہت ہی برا نام ہے جو فسوق کا نام ہے بعد الایمان ایمان کے بعد جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نام تم رکھو گے اور ایمان لانے کا دعویٰ رکھنے کے باوجود یہ حرکتیں کروگے تو عملاً تم ایمان کے دائرے سے نکل جاؤگے۔ ومن لم یتب اسی لئے یہ لم یتب کی تنبیہہ ہے ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون اب اس اعلان عام کے بعد اگر اب بھی کوئی توبہ نہ کرے تو پھر یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک ظالم لکھے جائیں گے۔ سورۃ الحجرات آیت 12۔
اب ایک اور آیت معاشرے پر روشنی ڈال رہی ہے۔ میں نے عرض کیا تھا نا کہ بعض باتیں احادیث میں اس کثرت سے نہیں ملتیں کیونکہ وہ اختلافی مسائل کی بحثوں میں الجھ گئی ہیں۔ اور اپنے اپنے گروہ کی تائید میں جو بھی ان کو مواد میسر آیا اس کو بہت زیادہ اچھالا گیا ہے۔ اگر قرآن کریم براہ راست معاشرے پر سے پردہ نہ اٹھاتا تو ہمیں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔ یہ آپ بھی اسی پہلو کو روشن کررہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یایھالذین امنوا لاتدخلوا بیوتا بیوتکم حتی تستأنسوا ایسے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جو تمہارے اپنے گھر نہیں ہیں مگر اجازت کے ساتھ تسلموا علی اھلھا اور ان لوگوں پر سلام بھیجا کرو جن کے گھروں میں تم جانا چاہتے ہو پہلے السلام علیکم کہا کرو۔ ذلکم خیر لکم لعکم تذکرون یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اب یہ معاشرہ جس کو آج کل کی تہذیب میں نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ بغیر اجازت کے کہیں نہیں جانا داخل نہیں ہونا کھٹکھٹانانہیں یہ آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم نے رائج فرمادیا تھا اور اگر ایسا معاشرہ ہو تو تالوں کی بھی ضرورت کوئی نہیں کیونکہ اول تو کوئی جب تک اس کو معین کام نہیں ہوگا وہ کسی گھر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں کرے گا اور جو اس کا گھر نہیں ہے وہ جب تک اجازت نہیں دے گا اس میں داخل نہیں ہوگا۔ اب ہمارے ہاں آج تک اس آیت کا جتنا اثر ہونا چاہئے وہ مفقود ہے، مغربی معاشرے میں بہت حد تک اس آیت کے منطوق کو اختیار کرلیا گیا ہے۔ یہ آیت جو چاہتی ہے اس سے ملتا جلتا معاشرہ یہاں قائم ہوگیا ہے اور گھروں میں بغیر پوچھے بغیر اجازت کے یونہی دروازے نہیں کھٹکھٹاتے پھرتے لیکن آج کل مشرقی دنیا میں یہ بہت بیماری عام ہے یعنی جوتی پہنی اور گھر گھر پہنچنا شروع کیا اور بغیر اجازت کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں تو پہرے دار مقرر ہیں اس لئے نہیں اندر آتے ورنہ اگر پہرے دار نہ ہر کسی کو کہاں میسر ہوتے ہیں پہرے دار تو ہر وقت تانتا بندھ جائے اگر پہرے دار یہاں نہ ہوں تو پہلے ایک ایسا وقت گزرا تھا جب میں نے پہرے داروں کو روکنے کی ہدایت پہنچا دی تھی جب بھی میں گھر میں داخل ہوا ہوں اجنبی چہروں سے گھر بھرا ہوتا تھا۔ اور بچیوں کے لئے مصیبت بیگم کے لئے مصیبت ہر وقت کا تقاضا۔ اب یہ آگیا، اب یہ آگیا، اب یہ آگیا اور اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ دیکھو قرآن کریم نے کتنا پہلے ہماری حفاظت فرمائی ہے۔ چودہ سو برس پہلے ہمارے معاشرے کو تنبیہہ دی ہے جو آج تک پوری طرح مسلمان نہیں سمجھ سکے۔ پس گھروں میں جانے سے پہلے پوچھ لیا کرو۔ ٹیلی فون عام ہیں، پتا کرلیا کرو، ان بچارے احمدیوں پر بھی رحم کرو جن کے گھر پہرے دار مقرر نہیں ہوتے اور فون پر بات کرکے ان سے پوچھا کرو ہم آنا چاہتے ہیں، ہمیں وقت بتائیے کس وقت آئیں۔ صرف یہی حفاظت نہیں فرمائی بلکہ بعض وقتوں کو خصوصیت سے معین کردیا کہ ان میں تو تم نے جانا ہی نہیں، شوق پورے کرنے ہیں تو دوسرے وقتوں میں پورے کرو مگر ان شرطوں کے ساتھ کہ بغیر اجازت کے داخل نہیں ہونا، داخل ہونے سے پہلے السلام کہنا ہے اور سلام کہنے کے بعد اس کے اہل سے اگر جواب میں آئے کہ ہاں ٹھیک ہے تو پھر جاؤ ورنہ نہ جاؤ۔ ذلکم خیرلکم لعلکم تذکرون یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم تقویٰ اختیار کرو یہ سورۃ النور کی آیت 28 ہے۔ اس آیت کے حوالے سے میں نے حضرت زینب والی روایات جو بیان کی جاتی ہیں ان سب کو رد کیا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ جس رسول پر یہ آیات نازل ہوں وہ اپنے منہ بولے بیٹے کے گھر یا کسی گھر میں بھی بغیر اجازت کے اور بغیر سلام کہے داخل ہواور سارا فتنہ و فساد شان نزول والا اس آیت کو نظرانداز کرکے ڈالا گیا ہے۔ یہ آیت کلیۃً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے کردار کی حفاظت کرتی ہے۔ اور اعلان عام کرتی ہے کہ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اس آیت کے منطوق کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر الزام لگارہے ہیں۔ اب اس سورۃ النور میں جہاں یہ 28 ویں آیت اجازت والی بات چل رہی ہے وہاں تفصیل سے اتنی تفصیل سے معاشرتی امور کا ذکر ہے کہ صاف پتا چل رہا ہے کہ اس زمانے میں کچھ بے احتیاطیاں اس میں پیدا ہوا کرتی تھیں۔ لیکن قرآن کریم نے جب تاکید بھی فرمائی تھی کہ یہ کام نہیں کرنے، اجازت بھی فرمائی کہ کسی حد تک تم ایک دوسرے کے معاشرتی تعلقات کی وجہ سے آنا جانا برقرار رکھ سکتے ہو تو یہ آیت تفصیل سے نازل ہوئی ہے جو اپنی شان نزول کے لحاظ سے کسی حدیث کی محتاج نہیں نہ کسی حدیث میں یہ ذکر ملتا ہے جو ذکر قرآن کریم میں مل رہا ہے یہ احادیث کو تلاش کرلیں اس تفصیل سے کہیں ملتا ہی نہیں قرآن کریم فرماتا ہے لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج اندھوں پر کوئی حرج نہیں اور لنگڑوں پر کوئی حرج نہیں نہ مریض پر نہ تم پر اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادوں کے گھر سے یا اپنی ماؤں یا ننھیال کے گھر سے یا اپنے بھائیوں کے گھر سے یہ پہلے میں آیت پوری کرلوں پھر میں پڑھتا ہوں اس کو۔ یہ کھانے کا ذکر چونکہ ترجمہ میں بعد میں آیا ہوا ہے اس لئے سمجھ نہیں آرہی کہ گھر سے گھر سے کا کیا مطلب ہے لیس علی الاعمی حرج کسی اندھے پر کوئی حرج نہیں یعنی اس کا کوئی قصور نہیں اس کو طعنہ دینے کی ضرورت نہیں کہ گھر بیٹھا کھارہا ہے ولا علی الاعرج حرج اور ہاتھ پاؤں سے معذور انسان اعرج یعنی لنگڑاا ور مجبوریاں ہوں جسمانی ولا علی المریض حرج یا دائمی بیمار پر بھی کوئی حرج نہیں ولا علی انفسکم یا خود تم لوگوں پر عموماً ان تاکلوا من بیوتکم او بیوت اباء کم کہ تم اپنے گھروں میں بیٹھے وہاں کھانا کھایا کرو، یا اپنے آباؤاجداد کے گھروں سے کھانا کھایا کرو یعنی یہاں مراد یہ ہے کہ ان باتوں کے علاوہ عام طور پر نکما رہنا اور گھر بیٹھے روٹیاں توڑنا مناسب نہیں ہے اگر مجبوریاں ہوں تو بہتر ہے علی انفسکم سے مراد یہ ہے کہ اپنے گھروں میں جو گھر کے لوگ ہیں انہوں نے تو کھانا کھانا ہی ہے وہیں اس لئے ان پر تو طعن کا سوال ہی نہیں لیکن باقی لوگوں پر تمہیں طعن نہیں کرنا چاہئے۔ سوائے اس کے کہ وہ بھی معاشرے میں یا اقتصادیات میں کچھ حصہ نہ طعن نہیں کرنا چاہئے۔ توقع یہ ہے کہ ہر مسلمان مومن صحت مند لولہا لنگڑا نہ ہو اندھا نہ ہو اپاہج نہ ہو اس کو اقتصادیات کا پہیہ چلانے میں حصہ لینا چاہئے اور یونہی کسی کے گھر نہیں بیٹھا رہنا چاہئے یہ یونہی بیٹھ رہنے والے جو ہیں نہ ان کے اوپر قدغن لگائی گئی ہے اب یہ لوگ ضروری نہیں کہ اپنے آباؤ اجداد کے گھر میں بس رہے ہیں اعرج اور اندھے اور اپاہج بعض دفعہ اپنے بھائیوں کے پاس رہتے ہیں، بعض دفعہ اپنے دوستوں کے پاس رہتے ہیں، ہر اندھے اپاہج کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس کے امیر ماں باپ زندہ ہوں جو اسے اپنے گھر میں پناہ دیں۔ پس اس آیت کا ایک منطوق یعنی ایک وجہ یہ ہے کہ اس بات کو نیکی سمجھ کر عام کرو وہ لوگ جو بے سہارا ہیں ان کو اپنے گھروں میں رکھ کر ان کے کھانے پینے کے انتظام کرو، یہ اسلامی معاشرے کے خلاف نہیں، اگرچہ وہ صرف دوست ہی ہوں تمہارے بلکہ اسلامی معاشرہ چاہتا ہے کہ ان سب لوگوں کو کوئی نہ کوئی سہارا میسر ہو، یہ ساری آیت کا مضمون کھل کر ابھی آپ کے سامنے آجائے گا۔ کوئی حرج نہیں ان تأکلوا من بیوتکم اوبیوت اباء کم او بیوت امھاتکم آباؤاجداد کے گھروں میں اپنی ماؤں کے گھروں میں او بیوت اخوانکم یا اپنے بھائیوں کے گھروں میں اوبیوت اخواتکم یہاں خواہ بہنوں کے گھروں میں بھی رہو۔ اب یہ جو ہمارے ملک میں خصوصاً ایشیا میں ایک نفرت پائی جاتی ہے کہ بچی کے گھر میں نہیں رہنا قرآن کریم اس تصور کو توڑ رہا ہے یا بہن کے گھر نہیں رہنا اس تصور کو قرآن کریم توڑ رہا ہے۔ اگر ضرورت موجود ہو اور ایسا ضرورت مند اپنی بہن کے گھر ٹھہر رہا ہو تو بہنوئی کا فرض ہے کہ اس کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ کرے اور ہرگز احساس نہ ہونے دے کہ وہ بہن کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔ یہاں معاشرے کا عمومی فرض ہے۔ اس میں بہن کے پاس آجائے تو بہن کا زیادہ فرض ہے کہ خدمت کرے۔ جبکہ صدیق سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ بھی خدمت کرے۔ تو جو رشتے دار نہیں ہوگا وہ بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے۔ تو بہن اگر رشتہ دار ہونے کی وجہ سے خدمت کرتی ہے تو اس کی ساس کو اس کے خاوند کو ہرگز اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ یا اعتراض کرکے وہ اپنے اخلاق کو داغدار نہ کرے بیوت اخوانکم او بیوت اخواتکم او بیوت اعمامکم او بیوت عماتکم جو اپنے چچوں کے گھر رہے خواہ اپنی پھوپھیوں کے گھر رہے دونوں صورتوں میں جائز ہے۔ اوبیوت اخوالکم یا خالاؤں کے گھر رہے۔ او ماملکتم مفاتحہ او صدیقکم ایک لفظ چھٹ گیا ہے کوئی اچھا ٹھیک ہے۔ میں یہی دیکھ رہا تھا کچھ مجھے چھٹا ہوا نظر آرہا تھا۔ او بیوت اعمامکم اوبیوت عماتکم اوبیوت اخوالکم یا اپنے ماموؤں کے پاس۔ اخوال خالو نہیں بلکہ ماموں کے لئے آتا ہے۔ او بیوت خالاتکم یا اپنی خالاؤں کے پاس رہے۔ اب ٹھیک ہے نا۔ او ماملکتم مفاتحہ۔ یا جن کی چابیاں تمہارے سپرد کی گئی ہوں۔ یہ کیسے گھر ہیں جن کی چابیاں سپرد کی جاتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسے دوستوں یا غریبوں یا محتاجوں کو آپ اپنے گھر میں آنے جانے کے لئے کھلی چھٹی دے دیتے ہیں اور اپنے گھروں کی چابیاں ان کو دے دیتے ہیں کہ تم سنبھالو وہ بھی خدمت کا ایک رنگ ہوتا ہے تو فرمایا کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ایسا کرو اور اوصدیقکم یا اپنے کسی دوست کے گھر اب صدیقکم نے یہ بات کھول دی ہے کہ اس سے پہلے جو رشتہ داروں کی ذمہ داریاں تھیں ان کی ذمہ داریاں معاشرتی ذمہ داریاں ہیں۔ رشتے کی وجہ سے نہیں۔ کیونکہ اگر ان سب رشتوں میں سے کوئی بھی نہ ہوتا تو دوستی کا رشتہ اس تقاضے کو پورا کرنے والا ہونا چاہئے تھا۔ کوئی نہ کوئی اللہ کے نزدیک ان کا مومن غریبوں کا والی وارث ضرور ہوگا۔ جو اپنے طور پر قربانی۔۔۔۔۔۔ کتنی عظیم الشان آیت ہے جو ہر پہلو کو ہر معاشرتی پہلو کو خوب کھول کر بیان کررہی ہے۔ اور افسوس ہے کہ نہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کی مثال نظر آتی ہے نہ ترقی پذیر ملکوں میں نہ پیچھے رہ جانے والوں میں اگر کوئی مثال اچھی دکھائی دیتی ہے تو افریقہ میں دکھائی دیتی ہے۔ افریقہ میں خداتعالیٰ کے فضل سے اس آیت کے اوپر پوری طرح عمل ہورہا ہے۔ یا بڑی حد تک عمل ہورہا ہے۔ ایسے گھر ہیں جہاں کسی شخص کا گھر ایک محل بن گیا ہے لوگوں کے آنے کی وجہ سے غریب رشتہ دار، یتیم رشتہ دار، مصیبت زدگان یہاں تک کہ دوست بھی سارے وہاں اکٹھے ہوتے ہیں اور اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ ایک ہی روٹی سب کے لئے پکتی ہے۔ تو یہ معاشرے کا جو حسین تصور ہے اس کو زندہ رکھنے میں آج افریقہ نے ہماری مدد کی ہے۔ اور اس معاشرے کو جماعت میں پھیلنا چاہئے۔ لیکن ایدیوں کے لئے یہ معاشرہ نہیں ہے ایدی اس کو کہتے ہیں جو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے۔ ہرگز اس کا ذکر نہیں ہے نہ اس کو سہارا مل رہا ہے۔ صاف بتارہا ہے کہ وہ محتاج لوگ جو بچارے اپنی کمائی سے معذور ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ضمانت عطا فرمائی ہے کہ اسلامی معاشرے میں کوئی معذور بھی بھوکا نہیں رہے گا۔ اور ہر ایک کے لئے انتظام کیا گیا ہے۔ لیکن جو بغیر معذوری کے دوسروں پر پڑتا ہے وہ اس اقتصادی معاشرے کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرہ اور بھی غریب ہوتا چلا جائے گا۔ اس لئے اس فرق کو ملحوظ رکھیں عام طور پر جو مجھے مسلسل شکایتیں ملتی ہیں ان میں اس آیات کو نظرانداز کرنے کے نتیجہ میں جہاں کوئی شخص اپنی بہن کے پاس یا خالہ وغیرہ یا بھائی کے پاس آکر ٹھہر گیا ہے وہاں دوسرے رشتہ دار اس پر طعن کی زبان کستے ہیں اور طرح طرح سے اس کو ذلیل کرتے ہیں اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ خبریں روزانہ تقریباً شاذ ہی کوئی دن گزرا ہو کہ جب یہ ڈاک میں نہ ملتی ہوں۔ پس جو لوگ اس درس کو سن رہے ہیں ان کا فرض ہے کہ اس بات کو اور بھی آگے پہنچائیں اور احمدی معاشرے میں افریقہ سے بہتر حسن سلوک قائم ہونا چاہئے اور جو لوگ اس کی اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتے ان کو آرام سے سمجھانا چاہئے کہ تم نے ایک مؤثر وجودد بننا ہے اسلامی اقتصادیات کا اور تم سے یہ توقع نہیں کہ تم معذوروں کی طرح ہو کر بیٹھ جاؤ۔ آگے فرماتا ہے لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعًا اواشتاتا یہ بھی کوئی حرج نہیں کہ ایسے لوگ جو تمہارے گھر کا وجود بن گئے ہیں بیمار ہیں، کمزور ہیں، ان سے کسی قسم کی بے حیائی کی توقع نہیں ہوتی اس لئے پردے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو ضرور الگ ایک میز لگا کر وہاں روٹی ڈال دیا کرو ان کی عزت افزائی اگر کرو اور اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاؤ تو اور بھی بہتر ہے اور اجتماعی صورت میں جب اکٹھا کھانا کھارہے ہوں وہاں نظروں کو احتیاط وہ اجتماعیت خود سکھادیتی ہے جہاں سب موجود ہیں وہاں لازم ہے کہ نظروں کو احتیاط سکھانے کا ماحول موجود ہے۔ پس فرمایا کوئی حرج نہیں کہ تم اکٹھے کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ۔ اب اشتاتا سے یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ سارا خاندان ہی الگ الگ وقتوں میں کھاتا ہے اس صورت میں ان کو کوئی ذلت محسوس نہیں ہوگی لیکن اگر ان کا ساتھ شامل کرنا تمہارے گھریلو ماحول میں مشکل پیدا کرتا ہے تو ان کو الگ بھی کھلا سکتے ہو۔ مگر عزت سے کھلانا چاہئے۔ روٹی ڈالنے والی بات نہ ہو بلکہ جس طرح خود تم اچھی طرح کھاتے ہو ان کو بھی اچھی طرح کھلاؤ۔ فاذا دخلتم بیوتا فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عنداللہ مبارکۃ طیبۃ ماذا دخلتم بیوتا جب تم گھروں میں داخل ہو تو فسلموا علی انفسکم اپنے آپ پر اپنے لوگوں پر جو تمہارے معاشرے کا حصہ ہیں تمہارے گھر والے ہیں سلام کہا کرو۔ اب سلام کہنا صرف دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے کے لئے ضروری نہیں جب اپنے گھر میں بھی داخل ہو تو سلام کہنا ضروری ہے۔ بعض لوگ جو جھگڑے میرے سامنے آتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں کہ دیکھنے کے لئے کہ بیوی کیا کررہی ہے اچانک چھاپہ مارتے ہیں اور داخل ہونے سے پہلے کوئی سلام نہیں کہتے دبے پاؤں داخل ہوئے۔ اچھا تم یہ حرکتیں کرتی رہتی ہو پیچھے سے۔ قرآن کریم کتنی عظیم کتاب ہے۔ ایسی بیویوں کی بھی حفاظت فرمائی ہے۔ اپنے گھروں میں داخل ہونے والوں کو کہا کہ خبردار بغیر سلام کے نہیں داخل ہونا، اپنی بیگمات کی عزت کی حفاظت کرو ان کی پردہ پوشی کرو وہ بھی چاہتی ہوں گی کہ جس حال میں وہ کام کررہی ہیں اس حال میں وہ تمہیں دکھائی نہ دیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے جھاٹے پھولے ہوئے دوپٹے اڑے ہوئے سر سے اور صفائیاں ہورہی ہیں۔ بعض بیویاں پسند نہیں کرتیں کہ اس حالت میں ان کے خاوند ان کو دیکھیں تو ان ساری چیزوں کی قرآن کریم نے حفاظت فرمائی ہے۔ اب بتائیں اس آیت کریمہ کو کس شان نزول کی ضرورت ہے۔ جس شان نزول کا اظہار یہ آیت خود کررہی ہے اس کے ہوتے ہوئے کون سی حدیث آپ لاکے دکھائیں جو ان ساری باتوں کی حفاظت کرتی ہو اور قرآن کریم کی شان نزول کو زیادہ نمایاں کرکے دکھائے۔ اتنی لطافت کے ساتھ اس باریکی کے ساتھ یہ شان نزول بیان ہوئی ہے کہ اس کا کوئی دوسرا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جو شان نزول ڈھونڈتا پھرتا ہے حدیثوں میں۔ اب پھر دیکھئے فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عنداللہ مبارکۃ کتنا عظیم الشان وہ شخص ہوگا جو جب بھی گھر میں داخل ہو سلام اللہ کی خاطر کہے اور خدا کا تحفہ لوگوں کو پہنچائے۔ گھر والوں کو کہ تحفہ مبارک خدا کی طرف سے بنے تم سلام کہوگے تو اللہ کا تحفہ سارے گھر کو پہنچے گا۔ مبارکہ طیبہ کذلک یبین اللہ لکم الایات لعلکم تعقلون اب دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح آیات کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا گیا اب تمہیں شان نزول کی واحدی کی حدیثیں چاہئے تو ڈھونڈتے رہو بے شک۔ اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچے گی وہ بات۔ فرضی باتیں بنائی گئیں ہیں اتنی تفصیل اتنی لطافت اتنی باریکیاں جب اللہ باتیں کھولتا ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے کذلک یبین اللہ لکم اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات کو کھولتا ہے لعلکم تعقلون تاکہ کچھ عقل کرو۔ اب تعقلون کا کیا موقع تھا یہاں ظاہر ہے کہ لوگ عقل نہیں کرتے۔ آج بھی نہیں عقل کرتے۔ یہاں تفلحون کی بجائے تعقلون فرمایا گیا ہے۔ کہ عقل سے غور سے آنکھیں کھول کے پڑھو، تمہاری عقل کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ جب تم ان باتوں کو نظرانداز کردیتے ہو، تمہاری بھلائی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اتنا کھولا ہے مضمون کو اور ابھی عقل کے اندھے چپ کرکے ان آیات سے گزر جاتے ہیں اور اپنے معاشرے میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کرتے۔
سورۃ النور میں نظریں نیچی کر رکھنا یہ بیان ہوا ہے۔ قل للمؤمنین یغضوامن ابصارھم ویحفــظوا فــروجــھم ذلک ازکی لھم عنداللہ خبیربما یصنعون۔ اس میں پردے کا وہ مضمون جو مردوں سے خصوصیت سے تعلق رکھتا ہے وہ بیان ہوا ہے کہ محض عورتوں کو چادریں پہنانا مقصود نہیں ہے تم لوگ جو پھرتے ہو تم خود اپنی نظروں کی حفاظت کیا کرو اور ان کو ادھر ادھر بہکنے نہ دیا کرو۔ اگر تم اپنی نظروں کی حفاظت کروگے تو یہ تمہاری پاکیزگی کی حفاظت کے لئے بہت ہی اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے بہت باخبر ہے جو یصنعون جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
سورۃ بنی اسرائیل آیت 2 ۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجدالحرام الی المسجدالاقصی الذی بارکنا حولہ لنریہ ایاتنا انہ ھوالسمیع البصیر۔ اب اس آیت کریمہ سے متعلق بہت سی احادیث شان نزول کی ملتی ہیں جو اس کے مضمون سے متصادم ہیں۔ اور اس کی تائید میں کچھ نہیں ہیں۔ ایسی روایات کو رد کرنا ضروری ہے۔ بظاہر شان نزول کی باتیں ہیں مگر قرآن کریم کے واضح منطوق کے خلاف ایک غلط تصور قائم کرتی ہیں۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے کر چلی لیلا رات کے وقت من المسجدالحرام مسجد حرام سے الی المسجدالاقصی دور کی مسجد کی طرف چلی الذی بارکنا حولہ جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی تھی۔ لنریہ من ایاتنا تاکہ اسے ہم اپنے نشانات دکھلائیں انہ ھوالسمیع البصیر اب یہاں اسریٰ اور معراج کے متعلق جو غلط روایات شان نزول کے نام پر مسلمان لٹریچر میں راہ پاگئی ہیں ان کا رد ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو رات کے وقت اپنے بندے کو لے کے چلی کہ جب خدا لے جانے والا ہو اور ساتھ ساتھ ہو تو یہ تصور کہ خدا کہیں اور تھا اور وہاں سے جہاں خدا نہیں تھا اس طرف حرکت ہورہی ہے جہاں خدا تھا یہ سارے تصور کی جڑ اکھیڑ دیتی ہے یہ آیت او راکثر حدیثیں شان نزول والی ہیں اسی مضمون پر ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم براق پر بیٹھے اور بڑی تیزی سے حرکت شروع کی وہاں مسجد اقصیٰ سے ہوتے ہوئے آگے آسمان کی طرف روانہ ہوئے یا براہ راست مختلف احادیث سے مختلف مضامین ہیں۔ لیکن وہاں گئے جہاں خدا تھا اور گویا خدا جہاں نہیں تھا وہاں سے حرکت شروع کی ہے اور یہ آیت اتنا قطعی رد ہے اس بات کا کہ وہ یہ کہہ رہی ہے کہ اللہ اپنے رسول کو ساتھ لے کے چلا ہے یعنی ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی معیت سے آپ جدا نہیں ہوئے۔ پس وہ جلوہ جو خدا کا ہے وہ صفاتی جلوہ ایسا جلوہ ہے کہ اس سے زیادہ بڑا جلوہ کسی اور انسان کو نہیں دکھایا گیا۔ پس یہ سفر ایک صفاتی سفر ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان صفات عرش محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر جلوہ گر ہوئی ہیں۔ یہ مضمون ہے جو ظاہری طور پہ اطلاق کرنے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ جس مسجد اقصیٰ کا ذکر ملتا ہے وہ مسجد اقصی وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ جسمانی مسجد اقصیٰ موجود نہیں تھی وہاں تو ایک ہیکل سلیمانی پر گندگی کا ڈھیر تھا۔ پتھر، گند سارے علاقے سارے شہر کا گند وہاں انڈیل دیا کرتے تھے۔ تو کیا نعوذباللہ من ذلک اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو وہاں لے کے گیا ہے؟ وہ گند دکھانے کے لئے؟ نہایت جاہلانہ باتیں ہیں۔ مسجدالاقصیٰ سے مراد ایک ہے ایسی جو ثابت کرتی ہے اس بات کو کہ ظاہری مسجد مراد نہیں ہے اورر صرف وہ حدیثیں درست ہیں جو اس مسجد اقصیٰ کے مضمون کو کھولنے والی ہیں۔ ان حدیثوں میں بعض ایسی احادیث ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے تمام انبیاء نے نماز پڑھی تھی۔ اب یہ وہ مضمون ہے جو اذالرسول اقتت کے ساتھ مطابقت کھاتا ہے۔ یہ وہ مضمون ہے جو خاتم النبین کے ساتھ مطابقت کھاتا ہے۔ یہ مضمون ہے جو ایک پیش گوئی کا رنگ بھی رکھتا ہے کہ وہ مسجد اقصی جو جسمانی مسجد نہیں بلکہ روحانی طور پر ایک مقام کا نام ہے اس مسجد اقصیٰ سے جب گزر ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا تو تمام انبیاء آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے آکے نماز پڑھتے ہیں۔ گویا کہ اس اسراء میں یا اسے معراج کہیں جو چاہیں کہیں عام طور پر دو آیتیں الگ الگ ہیں جو ایک اسراء کے لئے استعمال ہوئی ہے ایک معراج کے لئے مگر حدیثیں ان کو جوڑ بھی دیتی ہیں، راستہ بتاتی ہیں کہ معراج کا راستہ فلسطین سے ہوکر گزرا ہے پھر اوپر گیا ہے۔ تو یہ یاد رکھیں کہ یہ آیت صرف ان احادیث کی تصدیق کرتی ہے جن کا مضمون اس آیت میں شامل ہے۔ مسجد اقصیٰ کوئی ہے جو ظاہری مسجد ہو نہیں سکتی کیونکہ سب نبیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ اگر وہ جسمانی طور پر ظاہر ہوئے تھے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمیوں کے لئے کوئی مسجد وہاں موجود ہونی چاہئے تھی۔ جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ لیکن روحوں کے لئے کسی جسمانی جگہ کی ضرورت ہی کوئی نہیں ہوا کرتی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے جو نماز پڑھی گئی ہے وہ روحانی ہے اور اس پہلو سے کوئی نبی ایسا نہیں ہے جس نے اپنی اطاعت کا دم نہ بھرا ہو۔ جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو اپنا امام تسلیم نہ کرلیا ہو۔ یہ پیش گوئی تھی۔ اس اسراء میں جو آئندہ زمانے میں پوری ہونی تھی۔ جبکہ تمام ادیان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو غلبہ نصیب ہونا تھا۔ الذی برکنا حولہ لنریہ من ایاتنا وہ مسجد جس کے ماحول کو برکت دی ہے ہم نے تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو اپنی آیات دکھائیں کہ کیا کیا عظیم الشان واقعات ہونے والے ہیں۔ کتنے عظیم مقدرات ہیں آپ کی ذات سے وابستہ جو آئندہ ظہور پذیر ہوں گے۔ انہ ھوالسمیع البصیر یقینا وہ ان لوگوں کی حالتوں کو خوب جاننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ السمیع البصیر یہ عمومی ہیں ان لوگوں کی بحث اس میں نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا ہے جو سب لوگوں کی دعاؤں اور پکاروں کو سنتا ہے اور البصیر ہے وہ خود آپ کے حالات پر نظر رکھتا ہے اور اگر ظاہری طور پر اس کو بلایانہ بھی جائے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ کس چیز کی ضرورت ہے یا آئندہ ضرورت پیش آسکتی ہے۔ یہ سورۃ بنی اسرائیل کی وہ آیت ہے جس کے متعلق میں نے بیان کیا ہے کہ کثرت کے ساتھ شان نزول کی بحثیں اٹھائی گئی ہیں جو اس آیت کے مخالف پڑتی ہیں اور اس لطافت کے ساتھ اس مضمون کو نہیں کھولتیں جو یہ آیت خود کھول رہی ہے اس لئے ان کی ضرورت ہی کوئی نہیں۔ سوائے ان کے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو اس کی تائید میں ہو ایسی حدیثوں کو ضرور عزت کا مقام دینا چاہئے جو قرآن کریم کی تائید میں ہوں اور بعض پہلو اخفاء کے جو دکھائی دیتے ہوں ان کو روشن کررہی ہوں۔
پس سورۃ الجن میں ایک آیت ہے جو جنوں کے وحی سننے سے متعلق ہے۔ قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا۔ تو کہہ دے کہ اوحی الی میری طرف وحی کی گئی ہے انہ استمع نفرمن الجن کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے غور کے ساتھ سنا اسمع کیا سنا؟ قرآن کریم یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جب قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے۔ فقالوا انا سمعنا قرانا عجبا۔ سنا قرآن کریم ہی ہے آیت خود بتارہی ہے لیکن مراد یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تلاوت فرمارہے تھے اس وقت انہوں نے سنا جبکہ امرواقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے نزول کی طرف اس کا کوئی بھی اشارہ نہیں ہے۔ ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ جو نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر ہورہا ہوتا تھا اس وقت یہ جن اس نزول کو سنتے تھے۔ اور شریک ہوجایا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی دوسری آیات اس تصور کو بالکل باطل قرار دیتی ہیں۔ اور رد کررہی ہیں۔ انا سمعنا قرانا عجبا ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے یہ کون لوگ تھے کب سنا اور یہاں کون سے جن مراد ہیں اس پر شان نزول کی حدیثیں بہت سی ہیں۔ لیکن یہ بات بھول جاتیں ہیں کہ اوحی الی اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے اے رسول تو کہہ دے کہ مجھ پر یہ بات وحی کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھیس بدل کر کسی وقت مجلس میں شریک ہوئے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو پتا نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ اللہ فرماتا ہے تو کہہ دے مجھ پر یہ بات وحی کی گئی ہے ورنہ مجھے نہ پتا چلتا کہ جنوں میں سے ایک گروہ نے تیری بات کو قرآن کو اس وقت سنا جب تو تلاوت کرتا تھا یا اس کی آیات بیان کررہا تھا۔ تاریخی لحاظ سے بعض روایات کا جب تتبع کیا گیا ہے یعنی میں نے اس کے متعلق محنت کی تو پتا چلا کہ افغانستان کے بعض باشندوں نے یہ بعد کی ان کی تاریخ سے ثابت ہے اپنے گروہ بھیجے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی طرف لیکن وہ اس رنگ میں گئے ہیں کہ نظر نہیں آیا تھا کہ یہ کیوں آئے ہیں اور کیا کرنے آئے ہیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جائزہ لیں کہ یہ کیا ہورہا ہے اور کیسی باتیں کرتا ہے یہ رسول اور کیا وحی بیان کرتا ہے اپنی طرف سے۔ یہ جن ان معنوں میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور اہل عرب کی نظر سے غائب تھے یہ لوگ اور پتا نہیں تھا کہ ان علاقوں میں اسلام پھیلنے کی یہ وجہ بنے گی۔ ان کا گروہ آئے گا اور یہ باتیں سن کر واپس جائے گا اور اپنی قوم سے کہے گا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے۔ یہ ان سب روایات کی صحت کی محتاجی سے ہمیں یہ آیت الگ کررہی ہے جو اور اور واقعات بیان کررہی ہیں۔ اس لئے بعید نہیں کہ کچھ اور واقعات بھی ایسے ہوئے ہوں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے ملنا چاہتے ہوں اور الگ ملنا چاہتے ہوں اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ان کی طرف گئے ہوں جیسا کہ احادیث میں آتا ہے اور یہ بھی بعید نہیں کہ ان لوگوں کا گروہ واپس گیا ہوا ور پھر ان کو یہ تاکید کی گئی ہو قوم کی طرف سے کہ تم علیحدگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے ملو اور اچھی طرح معاملہ کو سمجھ لو اور پھر آکے ہمیں بتاؤ تاکہ پھر ساری قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے چلنے کا فیصلہ کرلے اور تاریخ افغانستان سے یہ بات ثابت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ انہوں نے اس مقصد کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی طرف آدمی بھیجے تھے۔ اور پھر وہ لوگ ایمان لے آئے تھے۔ پس جو واپس گئے ہیں قرآن کریم میں دوسری جگہ ان جنوں کا ذکر ملتا ہے واپس گئے ہیں تو جاکر بتاتے رہے ہیں کہ دیکھو یہ خیال غلط ہے یہ خیال غلط ہے جو ہم دیکھ کے آئے ہیں وہ اور بات ہے ان تفاصیل کی یہاں ضرورت نہیں وہ دوسری آیت میں بیان ہوچکی ہیں ہوںگی۔
اب جنگی حکمت عملی سے متعلق سورۃ آل عمران آیت122، 123 میں یہ مضمون درج ہے وہ یہ ہے واذ غدوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلیتوکل المؤمنون۔ اور اس وقت کو یاد کر کہ جب تو اپنے اہل و عیال سے صبح صبح الگ ہوا تھا تبویٔ المؤمنین مومنوں کو ان کی جنگ کی معینہ جگہیں دکھا رہا تھا کہ تم نے یہاں بیٹھنا ہے تو نے یہاں بیٹھنا ہے۔ واللہ سمیع علیم اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا ور جاننے والا ہے۔ واذھمت طائفتن منکم ان تفشلا واللہ ولیھما وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ اس وقت کو یاد کر جبکہ ان حالات کو دیکھ کر تم میں سے دو گروہ بزدلی دکھانے پر تیار ہوگئے تھے۔ حالانکہ اللہ ان کا دوست تھا اور مومنوں کو تو اللہ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہئے۔ یہ جو ہے ان کا دوست تھا اس میں کوئی ایسے قبائل تو ہو نہیں سکتے جو غیر مسلم ہوں مسلمانوں میں سے بعض قبیلوں نے کمزوری دکھائی ہوگی وہی ہے۔ خزرج میں سے بنو مسلم اور اوس میں سے بنوحارثہ تھے۔ یہ روایات بتارہی ہے کہ انہوں نے کمزوری دکھانی تھی یا دکھائی تھی پھر کیا بنا ان کا؟ اب یہ بھی ان آیات میں سے ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ستاری کا پردہ ڈالا گیا ہے اور یہ کہہ کرکہ واللہ ولیھما ان کی کمزوری کو صاف تو نہیں کیا گیا مگر کمزوری کے باوجود اللہ نے جو حسن سلوک ان سے فرمایا یا اللہ کے ولی ہوتے ہوئے بھی ان سے یہ کمزوری سرزد ہوگئی۔ اللہ کی ولایت کو ان سے چھینا نہیں گیا اس لئے جب ہم چھان بین میں زیادہ آگے جائیں گے تو ایک قسم کا ان کا ایک ایسا عمل جو جیسا بھی ان سے سرزد ہوا پسندیدہ بہرحال نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے اوپر داغ بن کر پڑا رہے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واللہ ولیھما جو کمزوری دکھانے والے تھے ان کا بھی اللہ ولی تھا۔ مطلب ہے کہ ولایت نے ان کے اوپر پردہ ڈال دیا ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون اور مومن جو ہیں اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ اب یہ تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صبح صبح نکلنے کی اور ایک شخص کو وہاں بٹھانے کی بہت محنت کا کام ہے بہت جلدی نکلے ہیں اور ہر ایک کو اپنے مقام پر بٹھایا ہے اس کی تائید میں کوئی اور حدیث ہو یا نہ ہو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تفصیل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی زندگی کا ایک دن دکھایا گیا ہے کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے کہ کتنا وقت لگایا ہے۔ سورۃ آل عمران (122، 123)
یہ آیت بھی جنگ میں جو خداتعالیٰ کی تائید کے وعدے تھے ان کے ذکر پر مشتمل ہے۔ اذتقول للمؤمنین الن یکفیکم ان یمدکم ربکم بثلثۃ الف من الملئکۃ منزلین۔ کیا جب تو مومنوں سے کہہ رہا تھا کہ کیا یہ بات تمہارے لئے کافی نہیں ہوگی ان یمدکم ربکم کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے بثلثۃ الف تین ہزار کے ذریعہ من الملئکۃ فرشتوں میں سے منزلین جو اتارے جائیں گے۔ یہ قرآن کریم کی آیت ان فرشتوں کی نوعیت کی تفصیل بیان نہیں فرمارہی کہ وہ کیسے اتارے جارہے تھے۔ مگر تین ہزار فرشتوں کا ذکر ہے یعنی ایسے مواقع پیدا ہوتے ہیں تین ہزار جہاں اسی مدد کی ضرورت تھی۔ میرے نزدیک یہ آیت اس مضمون کو وضاحت سے بیان کررہی ہے اور اگرچہ اہل علم نے تفصح کیا اور ایسی روایات کو اس آیت کی شان نزول بنادیا جن میں انہوں نے لوگوں کو فرشتوں کو اترتے دیکھا ہے لڑتے دیکھا ہے جو جنگ بدر اور جنگ احد دونوں کی تفاصیل میں جانے سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح نہیں ہوا۔ اس رنگ میں فرشتے نظر نہیں آئے اتفاقاً کسی کو کشفاً کوئی فرشتہ دکھائی دیا ہو تو بعید نہیں ہے مگر تین ہزار مواقع پر اللہ کی طرف سے غیرمعمولی تائید کا ہونا یہ جتنے بھی جنگ میں شریک مسلمان تھے وہ گواہ ہیں کہ کس طرح اللہ نے ان کی مدد فرمائی ہے۔ کس طرح خداتعالیٰ نے ان کو دشمن کے وار سے بچایا ہے۔ اور کس طرح ایک غلطی سے ان کو محفوظ رکھا گیا ہے بعض دفعہ ایسے لوگوں کو واقعۃً فرشتے دکھائی دیئے اور انہوں نے کہا کہ ادھر ہٹ جاؤ اور یہ جگہ اختیار کرو تو یہ روایات اگرچہ ایک دلچسپی کے لئے تو اہمیت رکھتی ہیں کہ بعض صحابہ کے تجارب کا ذکر کرے مگر جو کہانیاں اس سے بنالی گئی ہیں وہ بالکل غلط ہیں اور نامناسب ہیں۔ اس آیت کریمہ کے ہوتے ہوئے ان کہانیوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اب ایک واقعہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی گواہی ہے تو کسی اور گواہی کی کوئی ضرورت نہیں رہتی قرآن کریم فرماتا ہے سورۃ انفال 18 میں فلم تقتلو ھم ولکن اللہ قتلھم اب یہ فرشتوں کا نزول اور کس طرح وہ تائید کیا کرتے تھے۔ مراد یہ ہے کہ قانون قدرت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حق میں چلادیا گیا اور وہ روزمرہ کی جو ہوائیں چلا کرتی تھیں ان کے رخ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی افادیت کی خاطر اس طرح پھیر دیئے گئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ کی مددگار بن گئیں۔ اور دشمنوں کی مخالف ہوگئیں۔ اب دیکھیں اس کو کہتے ہیں فرشتوں کا نزول یعنی کائنات چلانے والے جو فرشتے مقدر ہیں ان فرشتوں نے اس وقت کی ہواؤں کے رخ اس طرح پھیرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حق میں ہوگئے اور مخالف کے خلاف ہوگئے۔ فلم تقتلو ھم ولکن اللہ قتلھم اب یہ فرشتوں کا نزول اس طرح ہوا ہوتا تھا کہ تم سمجھتے ہو گویا کہ تم نے ان کو قتل کیا ہے کافروں کو اور تمہارے زور کی وجہ سے وہ تباہ ہوئے ہیں۔ یہ جھوٹا غلط تصور ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی دعاؤں سے اور اس قتال سے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے کیا ہے اس قتال کی وجہ سے دشمن نے شکست کھائی ہے۔ اور اس قتال میں فرشتوں کی حمایت آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو حاصل تھی۔ چنانچہ فرمایا وما رمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی اے محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جب تو نے مٹھی چلائی ہے کنکریوں سے بھری ہوئی مارمیت اذرمیت تو نے نہیں چلائی جب تو نے چلائی ولکن اللہ رمی بلکہ اللہ نے چلائی تھی۔ اب اس آیت کریمہ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ نعوذباللہ من ذلک شرک کی تعلیم دینے والی آیت نہیں ہے۔ ہرگز مراد نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے جب مٹھی چلائی تھی جب کہ چلائی تھی وہ اللہ کا ہاتھ تھا اللہ کے ہاتھ سے مٹھی چلائی جارہی تھی۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کی تقدیر کے تابع تو نے مٹھی چلائی تھی گویا اس مٹھی چلانے کے ساتھ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ کائنات اور نظام کائنات تیرا حامی ہوگیا۔ چونکہ وہ حامی ہوگیا اس لئے تجھے مقدرت نہیں تھی اس لئے یہ اللہ کی تقدیر تھی گویا وہ مٹھی خدا چلا رہا تھا کہ سارا نظام جو ہواؤں وغیرہ کا جو قدرت کا نظام ہے وہ تیری مٹھی کے تابع ہوگیا۔ اس لئے کہ خدا کا ارادہ تھا اس نظام کو تابع ہونا ہی تھا۔ پس وہ مٹھی گویا اللہ نے چلائی تھی۔ ولیبلی المؤمنین من بلاء حسنا تاکہ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے ذریعے سے مومنوں پر ایک بڑا امتحان پڑا لیکن نیک امتحان ہے۔ لیبلی المؤمنین منہ بلائً حسنا مومنوں کو تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے آزمائے۔ مگر یہ آزمائش نیکی کی آزمائش تھی اچھی آزمائش تھی کسی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس ہوا کے رخ پر جب مومن چڑھ دوڑے تو یہ بلائے حسنہ تھی ان کے لئے۔ ان اللہ سمیع علیم۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ احزاب کے ضمن میں یہ آیات پہلے بیان کرچکا ہوں غالباً تفصیل سے۔ نہیں؟ شروع کے درسوں میں بیان کرچکا ہوں۔ اس لئے اگر یہاں وقت بچالیا جائے تو حرج بھی کوئی نہیں۔ یہ اب پڑھی ہے اتنی آیت تو یہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔
سورۃ احزاب 10 تا 11 میں احزاب کے واقعات کو قرآن کریم نے خود محفوظ فرمالیا ہے۔ اس لئے کسی اور شان نزول کا محتاج نہیں چھوڑا ان کو۔ ایسی عمدگی سے ان واقعات کو بیان فرمایا ہے کہ جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا۔ اب یہ آیات پڑھ کر میں ان کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ تفصیلی بحث انہیں درسوں کے سلسلہ میں آغاز میں کی گئی تھی۔ یایھاالذین امنوا ذکروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کان اللہ بما تعملون بصیرا۔ (احزاب 10، 11) دشمن کیوں بھاگا؟ کیسے بھاگا اس کا خلاصہ اس آیت میں بیان کردیا گیا ہے۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اللہ کی نعمت کو یاد کرو علیکم اپنے اوپر اذ جاء تکم جنودا جبکہ تم پر لشکر چڑھ دوڑے یہ نعمت تھی اللہ کی لشکروں کا آنا نعمت ان معنوں میں تھا فارسلنا علیھم ریحا جو تم پر چڑھ دوڑے ان پر خدا نے ہوا چلائی۔ اب پہلے بھی ہوا کا ایک واقعہ گزرا ہے اس مٹھی چلانے میں۔ اور اس میں وضاحت کے ساتھ خداتعالیٰ فرمارہا ہے کہ اللہ کی تقدیر تیرے حق میں چلی تھی وہ مٹھی تو نہیں چلارہا تھا اللہ کی تقدیر چلا رہی تھی۔ یہاںکوئی مٹھی بھی نہیں چلی اور انہیں ہواؤں کو مسخر کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اور مثال دے دی۔ پس قوانین قدرت مومنوں کے حق میں مسخر کئے جاتے ہیں۔ اور قوانین قدرت خدا کے دشمنوں کے خلاف مسخر کئے جاتے ہیں۔ اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ حادثاتی واقعات ہیں۔ قدرت کا نظام ہے ہوا چلاہی کرتی ہے مگر ہوا کوئی سرپھری ہے کہ جب بھی چلے عقل کے ساتھ مومنوں کے حق میںچلے اور غیروں کے خلاف چلے۔ پس سرپھری ان کو سوچنا چاہئے جو یہ کہتے ہیں کہ اتفاقی حادثہ ہے۔ ہوا چلتی ہے ایسی عقل کے ساتھ گویا کہ صاحب شعور ہے اور جس طرف کو چلنا چاہئے اسی طرح چلتی ہے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کا نظام جو قوانین قدرت کو کنٹرول میں کئے ہوئے ہے وہ جب بھی مومنوں کا معاملہ ہو ان کے حق میں حرکت میں آتا ہے اور جب بھی دشمنوں کا معاملہ ہو ان کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔ پس یہ حادثات اتفاقی نہیں ہوتے بلکہ تقدیر الٰہی کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ وجنود الم تروھا وجنود الم تروھا میں کون سے جنود مراد ہیں جو اس ہوا کے علاوہ تھے۔ ہوا تو ان پر چل پڑی وجنودالم تروھا میں وہ فرشتے ہیں جو ان کے دلوں کو رعب سے بھر رہے تھے۔ اور ان کے اندر افراتفری پیدا کررہے تھے۔ یہ بھی روحانی وجود ہیں جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھی اپنی جگہ سے نہیں دیکھ رہے تھے۔ مگر لازماً ایسے خدا کے فرشتے اترے ہیں جو نہ دکھائی دینے آنکھوں سے دکھائی نہ دینے کے باوجود بڑی شدت کے ساتھ ان کے دلوں میں خوف پیدا کررہے تھے۔ اور جو واقعہ ہوا ہے وہ بالکل اس کے مطابق ہوا ہے۔ اذجاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم وہ بلندیوں کی طرف سے بھی اور زیریں علاقے کی طرف سے بھی یہ مراد بھی ہوسکتی ہے من اسفل منکم من فوقکم و من اسفل منکم یعنی تمہیں ہر طرف سے گھیر لیا تھا۔ تمہارے پیچھے سے بھی اور آگے سے بھی ہر طرف سے تمہارے لئے نکلنے کی کوئی راہ نہیں چھوڑی تھی نہ تم بلندیوں میں پناہ ڈھونڈ سکتے تھے نہ اترائیوں میں پناہ ڈھونڈ سکتے تھے۔ اذزاغت الابصار اور اس کا وہ نتیجہ نکلا جو ہونا چاہئے تھا کہ جب آنکھیں پھر گئیں ٹیڑھی ہوگئیں زاغ معنے اب اس کو اردو میں ہم پھر گئیں بھی کہہ سکتے ہیں وبلغت القلوب الحناجر اور دل ہنسلیوں سے ٹکرانے لگے وتظنون باللہ ظنونا اور تم میں سے ایسے لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اب جو پہلے گزرا ہے بلاء حسنا اس کی ایک شکل یہاں بھی آتی ہے بعض لوگ ابتلا میں ڈالے جاتے ہیں۔ مگر ان پر خوف غالب آجاتا ہے اور ان کا ابتلا ابتلاء حسنہ نہیں رہتا لیکن مومن جب ابتلاء میں ڈالے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ابتلاء سے کامیابی سے گزارتا ہے اور وہ ابتلاء حسنہ ثابت ہوتا ہے۔ یعنی پہلے سے بڑھ کو وہ نیکیوں میں ترقی کرجاتے ہیں۔ ان کی مثال بھی قرآن کریم نے یہاں دے دی ہے۔ ھنالک ابتلی المؤمنون بعض لوگوں کی تو آنکھیں پھر رہی تھیں لیکن مومنوں کی شان کیا تھی ھنالک ابتلی المؤمنون مومنوں پر ایک ابتلاء آیا ہے وزلزلوا زلزالا شدیدا اور وہ شدید زلزلے میں مبتلا کردیئے گئے۔ لیکن چونکہ مومن تھے اس لئے کامیابی سے ان سے نکل گئے۔ ابتلاء سے نکل گئے۔ واذ یقول الکفرون والذین فی قلوبھم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرورا مومن اس ابتلاء میں ثابت قدم رہے حالانکہ وہ شدید جھٹکے تھے جن سے ان کو گرجانا چاہئے تھا مگر منافق گر گئے۔ اور جن کے دل میں مرض تھا وہ یہ کہنے لگے کہ اللہ اور رسول نے ہمارے سے محض جھوٹے وعدے کئے ہیں۔ دھوکے کے وعدے کئے ہیں۔ حقیقت میں ہمارے لئے کوئی بھلائی مقدر نہیں تھی۔ لیکن واقعات نے بتادیا کہ وہ مومن سچے نکلے جنہوں نے قرآنی پیش گوئیوں کے ساتھ ان واقعات کا تعلق باندھا اور پہلے سے بڑھ کر خدا کی نظر میں مقام پاگئے۔ یہ تمام آیات باقی بھی اگرچہ تفصیل سے چونکہ روشنی ڈال چکا ہوں اس لئے اب ان ابتدائی آیات کی تمہید کے بعد مزید میرا خیال ہے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اس آیت کا میں اعادہ کرتا ہوں جس آیت میں مومنوں کے ثابت قدم ہونے اور ان کے ابتلاء کو حقیقت میں ابتلاء حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ احزاب 21 تا 23 آیت میں سے آخری آیت ہے۔ ولما رأی المؤمنون الاحزاب قالوا ھٰذا ما وعدنا اللہ ورسول۔ جب یہ باتیں ہورہی تھیں منافقوں کی آنکھیں پھر رہی تھیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب کوئی جائے پناہ باقی نہیں۔ وہ مومن جن کے ابتلاء کا ذکرر پہلے گزرا ہے ان کا حال یہ ہے جب انہوں نے احزاب کو دیکھا قالوا ھٰذا ماوعدنا اللہ رسولہ یہی تو اللہ نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسول نے کہ اس طرح سارے عرب سے گروہ در گروہ لوگ تم پر امنڈ پڑیں گے۔ وصدق اللہ ورسولہ اور یہ بات اللہ اور رسول نے سچی کردکھائی۔ حالانکہ اس سے پہلے جس زمانے میں یہ پیشگوئی ہوئی تھی اس کے کوئی دور کے بھی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے بلکہ وہ پیش گوئی ایک خوش خبری کا اعلان تھا۔ کہ درمیان کے سب ابتلاؤں میں سے کامیابی سے گزر جاؤ یہاں تک کہ تمہیں اتنی عظمت نصیب ہوگی کہ جب تک سارا عرب یہ فیصلہ نہ کرلے کہ ہم نے مل کر ان کو اڑانا ہے ان کو کوئی توفیق نصیب نہیں ہوگی۔ اس دوران جتنی جنگیں ہیں ان سب کی کامیابیوں کی پیش گوئی اس آیت کریمہ میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مکی آیت ہے اور ہجرت سے پہلے کی ہے اس میں ہجرت بھی آگئی اس میں تمام جنگوں سے حفاظت کا ذکر آگیا۔ بہت عظیم الشان پیش گوئی ہے اس آیت کریمہ میں اور ان مومنوں نے پہچان لیا۔ اب اس آیت کریمہ کی شان نزول اور بیان کرنے کی ضرورت کیا ہے وہ تو بہت پہلے نازل ہوئی تھی۔ نزول سے جو واقعات پیدا ہونے تھے نزول کے تعلق میں وہ بہت بعد میں ہونے تھے۔ اس لئے یہ خیال کرلینا کہ کسی واقعات کے پیش نظر آیات نازل ہوتی ہیں اس بات کو یہ آیت جھٹلا رہی ہے۔ تو اہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ مسلمانوں کو اتنی ۔۔۔۔۔۔ ملے گی کہ وہ مکہ چھوڑ کر چلے جائیں گے اور خداتعالیٰ کے اس سارے عرصہ میں ان کی حفاظت کرے گا۔ ان پر پے درپے حملے ہوں گے اور ہر حملہ سے اللہ ان کو نجات دے گا۔ جنگوں میں بظاہر ان کو خطرات درپیش ہوں گے مگر وہ چھوٹے ہونے کی بجائے بڑے ہوکر نکلیں گے ہر جنگ سے اور یہ حفاظت اس حد تک ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا جس میں اللہ تعالیٰ نے بڑے ہجوم کا ذکر فرمایا ہے کہ جوق در جوق عرب قبائل حملہ آور ہوجائیں گے اور وہیں فرمادیا کہ جس خدا نے تمہاری پہلے حفاظت کی ہے وہ آئندہ بھی کرے گا اور یہ سارے پیٹھ دکھا کر بھاگ اٹھیں گے۔ اور ان کا کوئی نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔ یہ مومنوں کو دکھائی دے رہا تھا یہ آیات کریمہ وہ سنتے تھے۔ ان کو کسی سمجھانے کی ضرورت نہیں تھی ان کی تو آنکھیں کھل گئی تھیں۔ کس شان کا رسول ہے کتنے عظیم الشان دعوے ہیں اس کی کامیابی اور حفاظت کے اور آج خدا نے توفیق بخشی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ھٰذا ما وعدنا اللہ ورسولہ یہ ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی طرف وصدق اللہ ورسولہ اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ اللہ اور رسول نے سچ کہا اور وما زاد ھم الا ایمانا وتسلیما ان کو اس واقعہ احزاب نے ایمان اور فرمانبرداری میں بڑھانے کے سوا ور کچھ نہ دیا تو شان نزول کے تعلق میں یہ ساری آیات پیش نظر رکھیں جس تفصیل سے اللہ تعالیٰ شان نزول بیان فرماتا ہے اور واقعات ہونے سے بہت پہلے بھی اس کی شان نزول خدا کے پیش نظر ہوتی ہے ان پر تو قرآن روشنی کررہا ہے۔ اگر کوئی اور شان نزول ان آیات کی کوئی بیان کردے تو بالکل بے معنی اور بے تعلق ہے۔ (ہیں اچھا جی) اب اس کے بعد احزاب کے بعد یہود۔ میرا خیال ہے اس کو اگرچہ بہت سی باتیں پہلے آچکی ہیں لیکن اس درس کے دوران ان سب باتوں کا نزول کے حوالے سے اعادہ ہوجائے تو حرج کوئی نہیں۔ (کیوں جی ٹھیک ہے نا؟ یہ لیں جی۔ یہ کل تک خیال ہے کہ ختم ہوجائے گا۔ ہیں) تو پرسوں پھر آیت 71 سورۃ نساء کی آیت 71 کریں گے۔ ہیں؟
اب وہ ایک اور بھی مضمون لٹکا ہوا ہے خطبے سے تعلق ہے اس کا درس سے نہیں مگر خطبے میں اب دوبارہ اس کو اٹھانا بے محل ہوگا میں نے ایک دفعہ یہ عرض کی تھی کہ بعض روایات سے یوں لگتا ہے کہ کوئی شخص آیا ہے اس نے سوال کیا ہے اس نے کہا ہے میرا دین اتنا ہی ہوگا میں اس سے زائد نہیں کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے کلمات تعریف بیان فرمائے۔ میں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا قطعیت نہیں تھی کہ ہوسکتا ہے یہ حضرت جبریل ہی ہوں جو اس طرح بعض دفعہ بے پہچانے آجاتے تھے۔ اور ایک مضمون ایسا بیان دیتے تھے جس کا واضح کرنا ضروری ہوا کرتا تھا۔ اس سلسلے میں اگر کوئی روایت ایسی ہو جو معین شخص کے متعلق ہو تو علماء سے میں نے گزارش کی تھی کہ وہ ان روایات کو بھی بھیجیں اور دوسری روایات بھی بھیجیں جو دوسری طرف مضمون کو الٹنے والی ہوں یعنی جس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہو کہ اگر یہ درست ہے بعید نہیں کہ کوئی انجانا شخص آیا ہو اس قسم کی روایات ہم نے اکٹھی کرلی ہیں۔ اور انشاء اللہ سوال و جواب میں رکھنا چاہتے ہیں آپ؟ کل انشاء اللہ درس کے دوران ہی تو درس کے دوران ہی میں بیان کردوں گا کیونکہ اس طرح ایک گہرا تعلق اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھ خصوصی سلوک سے ہے جو اللہ تعالیٰ فرمایا کرتا تھا کہ انجانے لوگ بھی کچھ دکھائی دیتے تھے کوئی کہیں سے آیا ہوا کوئی اعرابی ہے یا نجد سے آیا ہے یا کسی اور جگہ سے جس کی تفصیل کا علم نہیں۔ اس نے سوال کردیا ور اس کے بعد چلا گیا بعض مفسرین نے کھوج لگایا ہے اور کوشش کی کہ ان کو معین کریں۔ چنانچہ بعض احادیث میں ان کا معین ذکر مل گیا ۔ اور اس پر بہت تفصیلی روایات ہیں۔ وہ یہ شخص تھا۔ یہ حرکتیں کیا کرتا تھا۔ مگر یہ بیان کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس کے بالمقابل وہ روایات بھی تو ہیں جو اسی واقعہ سے متعلق ہیں اور اجنبی باتیں ہیں اس کے متصادم باتیں ہیں تو یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ ایسے واقعات دو تین دفعہ ہوئے ہیں اور وہ احادیث جو غیر معین شخص کی باتیں کررہی ہیں ان کے متعلق بعید نہیں کہ وہ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام تعلیم صحابہ کی خاطر آئے ہوں۔ پس یہ یقینی مسئلہ کے طور پر نہیں میں بیان کررہا میں امکانی طور پر بیان کررہا ہوں جب وہ روایات سامنے آئیں گی کل انشاء اللہ یا پرسوں تو یہ مسئلہ کھل جائے گا۔
اجازت ہے اب ٹھیک ہے۔ السلام علیکم۔
‏bcdbcd

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن
22 رمضان المبارک 21 جنوری 1998ء
ڈاکٹر صاحب آپ پیچھے چلے گئے ہیں آج کیا بات ہوگئی۔ ذرا تاخیر سے پہنچے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں۔ اب یہاں مستقل آپ نے اڈا بنالیا ہے، اس لئے یہیں رہا کریں بے شک۔ ماشاء اللہ اب یہ دوسرا دن رمضان کا گزر رہاہے۔ تیسرا، تیسرا، دوسرا ہے کہ تیسرا؟ بائیس ہے ناں؟ ہاں دوسرا ہے۔ اعتکاف والوں کے لحاظ سے تیسرا ہے، مگر ویسے، آخری عشرے کا دوسرا دن گزررہا ہے اب۔ جب یہاں پہنچتے ہیں تو بہت تیزی آجاتی ہے رمضان کے گزرنے میں۔ سوائے معتکفین کے۔ ان کے بعض دفعہ گھٹنے جواب دے جاتے ہیں۔ اس لئے آہستہ گزرنے لگ جاتا ہے رمضان۔ کوئی ایسا تو نہیں اس دفعہ جو خراٹوں کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے باقی معتکفین میں مخل ہورہا ہو۔ ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے؟ شاباش۔ ہم نے کافی تجربے سے چن چن کر الگ کئے ہیں وہ لوگ۔ جن کے اعتکاف کی وجہ سے باقیوں کا اعتکاف ضائع ہوجاتا تھا۔
شان نزول کا مضمون جاری ہے۔ اور آج یہود کی جلاوطنی سے تعلق میں جو آیت کریمہ ہے سورۃ الاحزاب 27، 28 آیات کریمہ جو ہیں ان کی تلاوت ہوگی۔
وانزل الذین ظاھروھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکان اللہ علی کل شیء قدیرا۔ (احزاب 27، 28)
یہ سورۃ احزاب کی ستائیس اور اٹھائیس آیات ہیں۔ اور اس میں ان مشرکین، حملہ آور مشرکین کی مدد کرنے والے یہودی قبیلے کا ذکر ہے کہ کس طرح انہوں نے عہدشکنی کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے، اور مسلمانوں سے بالعموم دھوکا کیا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ خود جو ہمیشہ ایک مصیبت بنے ہوئے تھے اور جن کا وجود وہاں مدینے کے مسلمانوں کے لئے ایک بہت آزمائش تھی وہ کلیۃً وہاں سے نکال کے باہر کردیئے گئے۔ یہ ہے مضمون اس آیت کریمہ کا۔ اور اس کی وجہ خود وہ بن گئے۔ جنہو ں نے عہدشکنی کی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس ساری شان نزول کو خود بیان فرمادیا ہے کہ کس طرح یہود وہاں سے نکالے گئے۔ اب اس تعلق میں جو مستشرقین یا دوسرے یہودی جو الزام لگا سکتے تھے ان کے الزامات کا رستہ بند کردیا گیا۔ اگرچہ اب بھی بعض دفعہ یہ لوگ بولتے ہیں اس بات پر لیکن کئی یہودمصنفین نے بھی ا س بات کا اقرار کیا ہے کہ اس معاملے میں وہ مجرم تھے اور اس بات کے وہ مستحق تھے یا سزاوار تھے کہ ان کو نکال کے باہر کیا جاتا۔ اب کوئی حدیث کی کتاب جو شان نزول سے تعلق رکھتی ہے یا حدیث، کتاب نہ ہو، کسی کتاب میں بھی ملتی ہو، جو شان نزول سے تعلق رکھتی ہے وہ اس واقعہ کے Framework کے اندر رہنی چاہئے۔ اگر یہ آیات نازل نہ ہوئی ہوتیں تو محض احادیث میں ان واقعات کے بیان سے غیرمسلم مطمئن نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے جو سمجھنی چاہئے کہ قرآن کریم کے متعلق مستشرقین بھی شدید متعصب معاندین بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ جن دنوں میں قرآن اتارا جارہا تھا ان دنوں کی تاریخ کو جب قرآن کریم رجسٹر کرتا ہے اس کو منضبط کرتا ہے تو وہ تاریخ لازماً سچی ہے۔ اور وہ جھوٹی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ مستشرقین کا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہوا ہے بہت سخت معاندین کا بھی آخری نتیجہ ہے جو انہوں نے قرآن اور تاریخ کے مطالعہ سے نکالا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر ہر طرف سے الزامات کی بوچھاڑ تھی، مشرکین کی طرف سے، یہود وغیرہ کی طرف سے کہ تم اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتے ہو۔ اور وہ واقعات جو آنکھوں کے سامنے گزرر ہے تھے اگر ویسے نہ گزرتے تو سب مسلمانوں نے جو مسلمان ہوچکے تھے انہوں نے بھی چھوڑ کے بھاگ جانا تھا۔ کہ اس طرح قرآن نازل ہورہا ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے واقعہ اور طرح سے ہورہا ہے اور قرآن اور طرح سے بیان کررہا ہے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ تو ان آیات کی روشنی میں قطعیت سے ثابت ہے کہ یہ واقعات اسی طرح ہوئے ہیں۔ اور ان کا ذکر اس وجہ سے اس شہادت کو تقویت دینے کے لئے ضروری تھا اور اب جو شان نزول کی احادیث ہیں ان سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ اس وجہ سے یہ آیات نازل نہیں ہوئیں بلکہ ان واقعات کو ریکارڈ کرنے کے لئے یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعات گزر چکے تھے۔ یہ مدینے کی تاریخ کا حصہ بن رہے تھے۔ اس وقت جب یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو انہوں نے ان کی صحیح صورت حال منضبط کرلیا ہے اور تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں ایک دائمی سبق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے مومنوں سے جو وعدے کئے ہوئے تھے وہ پرانے وعدے تھے، انہوںنے اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو اس طرح پورے ہوتے دیکھا کہ ان کو کوئی بہانہ بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو اپنے عہد پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس عہد کے نتیجے میں ایک مصیبت پالی گئی تھی۔ ان معنوں میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تو اپنے عہد کے سچے تھے اور وہ حسن سلوک فرمارہے تھے جو یہود سے ہونا چاہئے تھا۔ مگر دشمنوں نے اندرونی طور پر باطن میں عہدشکنی کرکے مسلمانوں کے لئے ایک مصیبت کھڑی کردی تھی۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو نکالنے کا کیا طریق تھا؟ یہ آیت اصل میں اس بات پر روشنی ڈال رہی ہے۔ کہ اللہ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا خیال رکھتا تھا اور آپ کے عہدوں کا پاسبان تھا کہ ادنیٰ بھی عہد سے روگردانی کے بغیر وہ مسائل جو ان عہدوں سے متعلق تھے وہ اللہ نے خود حل فرمادیئے۔ یہ ایک بہت عظیم الشان نشان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کا۔ اور پھر واورثکم ارضھم ودیارھم۔ اب مدینے پر جو غیروں کا حملہ تھا، سارے احزاب کا حملہ تھا اس کا مقصد کیا تھا؟ اس کا مقصد تھا کلیۃً ان کو اپنی جائیدادوں اور اپنی ملکیتوں سے محروم کردیا جائے۔ اور سرچھپانے کی کوئی جگہ نہ رہے۔ پاؤں رکھنے کی کوئی جگہ نہ رہے۔ یہ مقصد تھا یہ آیت بتارہی ہے کہ اس مقصد سے بالکل برعکس نتیجہ ظاہر کیا گیا۔ اب اس میں اگر خدا کا ہاتھ کسی کو دکھائی نہیں دیتا تو اس کو وہ اندھا ہے۔ اس کو اپنے ادراک کا علاج کرنا چاہئے۔ بعینہٖ oppposite نتیجہ ہے۔ واورثکم ارضھم ودیارھم تمہاری زمینیں تنگ کرنے کی بجائے تمہاری جائیدادیں محدود کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسا انتظام فرمادیا کہ اس حملے کے نتیجے میں اس کا برعکس نتیجہ نکلا اور اس کی بڑی شدید ضرورت تھی۔ پس عہدشکنی مسلمانوں کے خلاف نہیں گئی ان کے حق میں گئی، اس احزاب کے دور میں سے گزرنے کے بعد اتنی غربت اور اتنی مشکلات تھیں جو احزاب میں دکھائی دے رہی تھیں اگر یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو ان کے حل کی کوئی صورت نہیں تھی۔ پس اللہ نے دشمن کو پاگل بناکے یعنی پاگل تو تھا ہی۔ ان سے بدعہدی کروا کر ایک بہت بڑا عظیم الشان احسان کیا ہے مسلمانوں پر کہ اب روزمرہ کی مصیبت سے بھی نجات اورجس مقصدکو لے کر آئے تھے اس کا الٹ نتیجہ اب دیکھ لو اپنی آنکھوں کے سامنے۔ تمہاری ساری غربت کی ضرورتیں جو اس زمانے میں خاص طور پر احزاب میں پہلے سے بڑھ گئی تھیں ان سب کا ازالہ اسی جنگ احزاب نے کردیا ہے یہ ہے اصل اس کی شان نزول۔ اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس کے Framework کے اندر ان واقعات کی حدود کی چاردیواری میں اگر کچھ حدیثیں ملیں جو ان واقعات پر مزید روشنی ڈالیں تو بسم اللہ۔ بہت ہی اچھی بات ہے۔ مگر شان نزول وہ ہے جو میں بیان کررہا ہوں۔ اس میں وہ ساری حکمتیں پیش نظر ہیں۔ واقعات کس طرح رونما ہوئے اس کی تفصیل نہ بھی ہوتی تو یہ آیات کافی تھیں۔ لیکن اگر تفصیلات مل جائیں تو سو بسم اللہ ہمیں وہ بھی اچھی لگیں گی۔
اب صلح حدیبیہ کے ذکر میں سورۂ الفتح آیات انیس اور بیس کو میں لیتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لقد رضی اللہ عن المؤمنین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وکان اللہ عزیزا حکیما۔ ان کا ترجمہ تفسیر صغیر میں یوں ہے ’’ا للہ مومنوں سے اس وقت بالکل خوش ہوگیا‘‘ رضی اللہ کا لفظ آپ اکثر سنتے ہیں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے متعلق اطلاق پاتا ہے۔ تو لقد رضی اللہ کا ترجمہ یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ بالکل خوش ہوگیا۔ قد میں ایک مضمون کے ثبات کا ذکر ملتا ہے۔ کسی مضمون کو کلیۃً شدت کے ساتھ ثابت کرنے کے لئے بعض دفعہ قد استعمال ہوتا ہے۔ قد عمومی طور پر تو یہ معنے رکھتا ہے کہ یہ ہوچکا ہے واقعہ ایک۔ قریب میں جو واقعہ ہو اس سے پہلے قد آتا ہے۔ مگر جو واقعہ سوفیصدی یقینی ہو اس کے لئے بھی لفظ قد استعمال کیا جاتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان معنوں میں یہ ترجمہ فرمایا ہے ’’اس وقت بالکل خوش ہوگیا‘‘ یعنی بے حد خوشی، اس سے زیادہ مومنوں پر خدا کی رضا اور کیا ہوسکتی تھی کہ اس نے اس طرح اپنی خوشی کا ان کے لئے اظہار فرمایا ہے۔ اذیبایعونک تحت الشجرۃ ’’جب وہ تیری بیعت درخت کے نیچے کررہے تھے‘‘ فعلم ما فی قلوبھم یہ میں نے اپنی طرف سے کردیا ترجمہ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ترجمہ پڑھتا ہوں۔ ’’جبکہ وہ درخت کے نیچے تیری بیعت کررہے تھے۔ اور اس نے اس ایمان کو جو ان کے دلوں میں تھا جان لیا۔ سو اس کے نتیجے میں اس نے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی اور ان کو ایک قریب میں آنے والی فتح بخشی۔ اور بہت سے غنیمت کے مال بھی بخشے جن کو وہ قبضے میں لارہے تھے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ دو باتیں ہیں جو اس میں خصوصیت سے پیش نظر رکھنے والی ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ مکمل طور پر راضی ہوگیا۔ جو درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔ جن سے اللہ مکمل طور پر راضی ہوگیا ان سے ہمارے شیعہ بھائی مکمل طور پر ناراض ہوگئے۔ یہ تضاد ہے جو اس شان نزول سے ثابت ہے گویا اس آیت کے ہوتے ہوئے وہ سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو اس میں شامل تھے، ان کے اوپر کسی کو زبان کھولنے کی جرأت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر زبان کھولے گا تو جس طرح وہ ان سے ناراض ہوگا۔ اللہ ان سے ناراض ہوگا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمادی ہے اور آئندہ کے لئے بھی ان کو خوشخبریاں دی ہیں۔ پس ایسے لوگ جو صلح حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی روایت قبول نہیں ہوگی۔ جو اس آیت کے اس شان نزول کے خلاف ہے جو آیت خود پیش کررہی ہے۔ فانزل السکینۃ علیھم واثابھم فتحا قریبا۔ یہ فتح قریب کون سی ہے جس کا ان کو وعدہ دیا گیا ہے۔ کیوں جی؟ ہاں فتح مکہ۔ اس فتح قریب کا وعدہ پورا ہونے تک کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جو خداتعالیٰ کی استدعا کے خلاف ہو۔ یہ نکتہ ہے جو میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں۔ اس سے پہلے انہوں نے دوسری جنگوں کی باتیں کی ہیں۔ احد کی باتیں کی ہیں، بدر کی باتیں کی ہیں، نعوذباللہ من ذالک انہیں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ان جنگوں کے حوالے سے زخمی کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بکثرت لٹریچر ضائع کیا گیا منہ کالا کردیا ہے اپنے لٹریچر کا۔ ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عیب تلاش کرنے اور ان جنگوں کے حوالے سے ثابت کرنے میں کہ نعوذباللہ من ذالک ان سے اللہ تعالیٰ ناراض تھا اور اگر پہلے کبھی اچھے کام کئے بھی تھے تو ان جنگوں نے، ان جنگوں کی آزمائش نے خصوصاً جنگ احد کی آزمائش نے ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو خدا کی نظر میں کلیۃً رد کردیا۔ یہ خلاصہ ہے شیعہ لٹریچر کا، اور یہ آیت کریمہ اتنا حصہ اس لئے کافی ہے کہ اس کو کلیۃً ہمیشہ کے لئے رد کردے۔ کیونکہ صرف اس وقت خدا ان سے راضی نہیں ہوا بلکہ راضی ہونے کے نتیجے میں ایک وعدہ کیا ہے اور جب تک وہ وعدہ پورا نہیں ہوا یہ لوگ خدا کی رضا کے تابع تھے۔ جن سے خدا ناراض تھا ان کے حق میں وہ خوش خبری نہیں ہے۔ ان کے حق میں خوش خبری ہے جن سے خدا راضی تھا۔ اور وہ یہ ہے واثابھم فتحا قریبا۔ پس فتح مکہ تک تو قطعاً ثابت ہوگیا کہ شیعوں کے اعتراضات بالکل جھوٹے اور بے معنی ہیں۔ اور فتح مکہ میں ان سے اپنی پوری کی پوری رضا ظاہر کرنے کے بعد باقی پھر کون سی چیز رہ جاتی ہے۔ جس کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا ہو۔ ناراضگی کا مضمون ہی اٹھ جاتا ہے۔ ناراضگی کی بناء بہت پہلے ڈالی گئی ہے۔ شیعوں کی طرف سے۔ جب فتح مکہ ہوگئی تو پھر ناراضگی کی بناء کا کون سا موقع رہ گیا۔ ایک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وراثت کا مسئلہ تھا۔ اس کو چابی والی بات میں حل کردیا۔ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چابی لے کر کسی اور کے سپرد کردی گئی۔ تو فتح مکہ نے سارے شیعہ مسائل حل کردیئے۔ اس لئے یہ جو میں شان نزول قرآن کریم کی بیان کررہا ہوں اس میں گہری حکمتیں ہیں۔ یہ قرآن کریم ہی کی طرف سے قرآن کریم کی آیات کے نزول کی وجوہات بیان فرمائی گئی ہیں۔ ومغانم کثیرۃ تأخذونھا وکان اللہ عزیزا حکیما۔ اور اس سلسلے میں جو یہ اعتراض کئے جاتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حقوق غصب کردیئے گئے اور وہ مغانم جن کا بڑاحصہ ان کو ملنا چاہئے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ورثے کے طور پہ وہ ان کو نہیں دیا گیا۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بانٹ لیا۔ یہ آیت کیا کہتی ہے؟ اللہ نے وہ مغانم عطا کئے اور سب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو عطا کئے۔ وہ جو بیعت میں شامل تھے، کم سے کم وہ اور اس کے علاوہ ان کے ساتھی اور ان جیسے۔ ومغانم کثیرۃ یأخزونھا وکان اللہ عزیزا حکیما۔ کثرت سے ان کو مغانم عطا کئے۔ کرے گا یعنی خدا۔ اور یہ عطا کردیئے گئے۔ وکان اللہ عزیزا حکیما۔ اور اللہ تعالیٰ بہت عزت والا غلبہ رکھنے والا اور حکیم ہے۔ سورۂ الممتحنہ تیرہ آیت میں عورتوں کی بیعت اور اس کے الفاظ کا ذکر ہے۔ اب اس میں کسی اور شان نزول کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم اتنا معاملے کو ازخود کھول رہا ہے۔ یہ نہیں فرمارہا کہ بعض عورتوں نے یہ حرکت کی تھی، بعض عورتوں نے یہ حرکت کی تھی۔ ان حرکتوں کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ایک کھلم کھلا تعلیم ہے عورتوں کی بیعت سے متعلق جو مردوں کی بیعت سے الفاظ میں کچھ مختلف ہے۔ اور ہماری بیعت میں یہ چیزیں بالعموم داخل ہوگئی ہیں خواہ مردوں سے تعلق میں ہوں، خواہ عورتوں سے تعلق میں ہوں۔ اس لئے دونوں برابر ہوچکے ہیں بیعت کے الفاظ میں، لیکن قرآن کریم نے، معلوم ہوتا ہے بعض عورتوں کی طبیعت کے لحاظ سے کمزوریاں تھیں ان کو ننگا کرنے کی بجائے بیعت کے الفاظ میں ان کو ڈھانپ لیا۔ اور معاشرے میں جو بدیاں ورثے میں آئی تھیں ان بدیوں کے قلع قمع کے لئے یہ آیات اپنی ذات میں کافی ہیں۔ اور یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ عام طور پر جو اردگرد میں عورتیں ہوا کرتی تھیں وہ کیا کیا حرکتیں کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے کے لحاظ سے بعض برائیاں ایسی تھیں جو عورتوں میں خاص تھیں۔ اور ان کا ایک روزمرہ کا دستوربن چکا تھا۔ اب بتائیں اس واقعہ میں کس شان نزول کی ضرورت ہے؟ یہ خود شان نزول ہے۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ کس پس منظر میں یہ آیات نال ہوئی ہیں اور عام طور پر عرب معاشرے کا کیا حال تھا۔ فرمایا یایھا النبی اے نبی! ایھا النبی جب مخاطب یوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایھا النبی تو خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو خطاب ہوا کرتا ہے۔ اذاجاء ک المؤمنات یبایعنک علی الا یشرکن باللہ شیئا جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں یبایعنک علی الا یشرکن یہاں جب مومن عورتیں آئیں اور تیری بیعت کریں، اس سے کیا مراد ہے؟ مومن تو بنیں ہی تب جب وہ ایمان لے آئیں اور بیعت کی۔ اور اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے یبایعنک علیٰ یعنی اس بات پر بیعت کریں تو مومن عورتوں کی اس کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو بیعت پر تیاری سے پہلے ذہنی طور پر ایمان کی کیفیت ہوا کرتی ہے۔ یہ مراد نہیں کہ روزمرہ کی مومن عورتیں جب آئیں۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر عورتوں میں سے بعض ارادہ کریں، دل میں ایمان لے آئیں اور فیصلہ کرلیں کہ اب ہم نے بیعت کرلینی ہے تو جب وہ بیعت کرنے کے لئے آئیں تو ان کی بیعت قبول کیا کر۔ اور ان کے الفاظ یہ ہونے چاہئیں۔ علی الا یشرکن باللہ شیئا کہ وہ ہرگز کسی صورت میں بھی اللہ کا شریک نہیں کریں گی کسی چیز کے ذریعے بھی۔ ایک ذرہ بھی اللہ کا شرک نہیں کریں گی، ولا یسرقن اور نہ چوری کریں گی، ولا یزنین اور نہ زنا کریں گی۔ ولا یقتلن اولادھن اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی۔ اولاد کا قتل، ماں باپ دونوں کی طرف بھی منسوب ہے۔ لیکن ایک خفیہ قتل عورتیں بھی کیا کرتی ہیں جس کا مردوں کو بعض دفعہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ دو معنوں میں یہ ہوا کرتا ہے۔ ایک یہ کہ اپنا حمل گرادیتی ہیں مرد کی اجازت کے بغیر اور آج کل کی قضاء میں بھی ہمیشہ اس قسم کے مقدمات سامنے آتے رہتے ہیں اور دوسرا قتل اولاد ہے کہ ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار کے ذریعے اپنی اولاد کو تباہ نہیں کریں گی۔ اور یہ خاص لاڈ پیار کا قتل یہ عورتوں کے لئے مردوں کی نسبت بہت زیادہ عام ہے۔ ولا یأتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن اور جب بھی عموماً عورتیں جھگڑتیں ہیں یہاں عرب معاشرے کی بحث نہیں۔ یہ عام جاری دستور ہے۔ توا س وقت بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے ایسا افتراء بنالیتیں ہیں جس کا نہ سر نہ پیر۔ فرضی قصہ بناکر الزام تراشی شروع کردیتیں ہیں۔ اور میرے پاس کثرت سے ایسے مقدمات آتے ہیں، مقدمات کیا تنازع کی اطلاعیں، عورتوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئیں، ہم نے دس سال صبر کیا لیکن یہ مرد، یہ ایسا ہے، ویسا ہے، یہ یہ حرکتیں کرتا رہتا ہے۔ اگر دس سال صبر کیا تھا تو خداتعالیٰ کی نافرمانی کی تھی، ان باتوں پر صبر کرنے کا تمہیں حق نہیں تھا، تمہارا فرض تھا اس وقت علیحدگی کرتی جب یہ گزارا ہوگیا اتنی دیر تو اب ان باتوں کو کھولنے کی تمہیں اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ بعید نہیں کہ مرد بھی تمہاری کچھ باتوں پر صبر کرتا رہا ہو، اور اگر مجھے دونوں طریقوں سے یہ چٹھیاں ملنی شروع ہوجائیں تو میں کیا کیا کریدتا پھروں گا۔ اس لئے ناراضگی کی وجہ کوئی اور ہے مرد کی بدکرداری جو بیان کی جاتی ہے وہ نہیں ہوتی۔ اگر مرد کی بدکرداری ناراضگی اور علیحدگی کی وجہ ہوتی تو بہت پہلے علیحدگی ہوجانی چاہئے تھی۔ غصہ کوئی اور آیا ہے، اس غصے کو اتارنے کے لئے ساتھ یہ افتراء شروع ہوگئے ہیں اور جب تحقیق ہوتی ہے تو بعض دفعہ واقعتاً بعض باتیں کم سے کم کلیۃً افتراء نکلتی ہیں۔ اور آئے دن عورتوں کی طرف سے یہ خط ملتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتیں ہیں کہ ہم سے یہ غلطی ہوگئی تھیں، ہم نے غصے میں آکر زیادہ باتین بیان کردی تھیں جو حقیقت سے بڑھی ہوئی اور مبالغہ آمیز تھیں تو یہ عورتوں کو کسی غصے کی ضرورت نہیں، وہ جانتیں ہیں آج بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ جب وہ باتیں گھڑنے میں آئیں تو بیٹھے بٹھانے ایسی بات بنالیتی ہیں کہ مرد ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ ایک میدان ہے جس میں عورتوں اور مردوں کی برابری کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ عورتیں لازماً مردوں سے آگے بڑھ جاتیں ہیں۔ بین ایدیھن وارجلھن کیسا عمدہ نقشہ کھینچا گیا ہے ہاتھ پاؤں سامنے ہیں اور بیٹھے ہوئے باتیں گھڑ رہی ہیں۔ ولا یعصینک فی معروف اور معروف میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی، معروف کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمارے خدام الاحمدیہ کے عہد میں بھی انصاراللہ کے عہد میں لفظ معروف ہے اور بیعت میں بھی اب معروف کے لفظ ہیں ناں؟ نہیں۔ شرائط بیعت میں تو ہیں۔ یبعت کے فارم میں معروف لفظ آتا ہے؟ مگر شرائط بیعت میں معروف داخل ہے۔ معروف سے مراد یہ نہیں ہے کہ صرف عام باتوں میں جو عرف عام میں اچھی ہوں ان میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی باقی سب باتوں میں کریں گی۔ نافرمانی جو شریعت کے احکام کے تابع ہو وہ تو سراسر فسق و فجور ہے اور ظاہرتاً منع ہے۔ اور نعوذباللہ من ذالک یہ ہو ہی نہیں سکتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کوئی شریعت کا حکم دیں اور اس کے لئے کسی مزید عہد کی بھی ضرورت ہو۔ وہ عہدبیعت کے آغاز میں اس نیت میں داخل ہے کہ مسلمان ہوتا ہوں یا مسلمان ہوتی ہوں۔ تمام شریعت نافذ ہوجاتی ہے اس وقت۔ پھر معروف کا کیا مطلب ہوا؟ مراد یہ ہے کہ شریعت سے بڑھ کر روزمرہ کے امور میں جو عرف عام میں اچھے سمجھے جاتے ہیں لیکن واضح طور پر شریعت کے احکام میں داخل نہیں ہیں ان میں بھی نافرمانی کی اجازت نہیں ہے۔ یہ عہد کرو یہ نہ بتاؤ کہ نکالو آیات اور دکھاؤ کن کن خداتعالیٰ کی آیات یا منشاء کے مطابق یہ حکم دیا گیا ہے۔ اس بحث میں نہیں پڑوگے۔ یہ مردوں کے لئے بھی عام ہے اب اور عورتوں کے لئے بھی عام ہے کہ جب اچھی بات ہو تو جس کو تم نے امام بنایا ہے اس کے حکم کی پیروی کرو۔ اور اچھی بات کا جھگڑا اس سے یہ نہ کرو کہ یہ اچھی بات نہیں ہے وہ جب اچھی سمجھتا ہے تو پھر اچھی سمجھ کے قبول کرو۔ اگر شریعت کے خلاف ہے تو معروف کا سوال ہی نہیں۔ اس میں تمہارے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو سمجھو کہ امام نے شریعت کے حکم کو بہتر سمجھا یا اس امام کا ہاتھ چھوڑ دو اور بیعت میں یہ بات داخل ہے جب چاہو الگ ہوجاؤ۔ جب چاہو داخل ہوجاؤ۔ اس لئے یہ مکمل الفاظ ہیں فاستغفرلھن اللہ اس سے مکمل ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر وہ یہ کریں تو ان کے لئے استغفار کر اللہ تعالیٰ سے۔ ان اللہ غفوررحیم۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ یہاں اس شان نزول کے ساتھ جو استغفار کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیعت اکیلی کافی نہیں جب تک اس بیعت کے مقاصد کو تقویت دینے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ان لوگوں کے لئے استغفار نہ کریں۔ اب یہ سوال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم تو اب ہم میں نہیں ہیں لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا مسلمانوں کے لئے اور مومنوں کے لئے استغفار قیامت تک کا معاملہ ہے۔ کسی ایک دور سے تعلق نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی زندگی کے ایام سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی کا استغفار ہے جو ہمیں سنبھالے ہوئے ہے۔ اور قیامت تک کے لئے مومنوں کے لئے استغفار کام کررہا ہے۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس سے پتہ چلا کہ پرانی بات ہوگئی۔ پس یہ آیت اس شان نزول کو جو عورتوں کے تعلق میں ہے اتنا کھول کر اتنی تفصیل سے بیان کرتی ہے میرے والی بات ہے۔ ویسے؟ اچھا۔ اچھا! (اتنی سی بات ہے) ٹوپی اتارنے کا نہیں کہا۔ ایک طرف ہونے کا کہا ہے آپ کو۔ ٹوپی رکھیں سر پر! اب ٹھیک ہے۔ ہیں؟ گزارا ہوجائے گا ناں اب؟ وہ پچھلے بھی سرک کے ادھر ادھر ہوجائیں ذرا۔ بٹ صاحب کی ٹوپی سے ایک طرف، ادھر ادھر ہوجائیں تاکہ میرے اور ان کے درمیان میں بٹ صاحب کی ٹوپی حائل نہ رہے۔ آپ بیٹھے رہیں۔ پچھلے اپنا خود خیال کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ٹھیک ہے۔ کچھ لوگ تو درسوں اور خطبوں وغیرہ میں یوں ہلتے ہیںیوں! اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ٹوپی نیچے ہی جائے گی ناں۔ لیکن جو یوں ہلتے ہیں وہ مشکل ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے آپ یوں آگے پیچھے بے شک جھولیں لیکن یوں یوں نہ ہونا ٹھیک ہے ناں؟
سورۂ ممتحنہ آیت تیرہ: اب شان نزول کو اس زمانے کی عورتوں سے ماننا صاف ظاہر ہے کہ بالکل غلط ہے۔ یہ اکثر عورتوں کے فطری تقاضے ہیں جن کو اس آیت نے لیا ہے اور ان فطری تقاضوں کے نتیجے میں بیان ایسا ہے کہ اس زمانے کی عورتوں کی کمزوریوں کی پردہ داری ہوگئی ہے۔ پردہ داری نہیں کرنا پڑی۔ ایسا بیان ہے عورتوں کی طبیعت کا جو ہمیشہ کے لئے ہے۔ اور اسی بیان کے تابع ان پر خداتعالیٰ نے ستاری کا پردہ ڈال دیا۔
اب سورۂ فتح کی آیات جو فتح مبین سے متعلق ہیں لیتا ہوں۔ اب ضمناً اس منہ کی خشکی سے متعلق ایک میں اعلان کردینا چاہتا ہوں۔ میں نے اجازت دے دی تھی عورتوں میں۔ جو صدری نسخے بھیجنے ہیں بھیجی جائیں اور میں استعمال کرتا رہوں گا۔ اور اب جتنے امکانی طور پر صدری نسخوں کا استعمال ہوسکتا تھا وہ میں سب کرچکا ہوں اور ایک ذرہ بھی ان کا فائدہ نہیں ہوا۔ بعض صورتوں میں مشکل پڑی ہے۔ اور ایسی خشکی ان نسخوں نے عطا کی کہ جو میری دوائیوں کے بس میں نہیں تھی۔ تو آج سے میں نے یہ توبہ کرلی ہے۔ کہ رمضان کے باقی دن یہ بہت مہربان خواتین جو صدری نسخے بھیجنے کی ماہر ہوتی ہیں وہ اب مجھ پر یہ احسان بند کردیں۔ اب رمضان کے آخری دنوں پراحسان کریں اور میری ذات کے احسان سے ان آخری دنوں کو نقصان نہ پہنچے اب۔ تو اب آپ بھیجیں گی بھی تو میں یہ بالکل استعمال نہیں کرنے۔ اس لئے بہتر ہے کہ اب اپنے ٹکٹ بچائیں۔ اور اب نسخے بھیجنے بند، کافی میں نے رعایت کی ہے آپ لوگوں کی۔ تھوڑی نہیں کی۔ اس لئے یہ شکوے کہ آپ نے ہمارا نہیں استعمال کیا، ہمارا نسخہ نہیں استعمال کیا اب یہ سارے شکوے بند ہوجائیں گے۔ کئی لوگوں کے خط ڈاک میں ہوں گے ان کو میں معاف کرتا ہوں۔ یہ باز ہونے والی باتیں نہیں ہیں یہ ، یہ عورتوں کی طبیعت کے لحاظ سے مجھے خیال آیا کہ یہ داخل نہیں ہے مگر معروف کا حکم دے رہا ہوں اب اس لئے اس معروف کے حکم میں مجھے اختیار ہے اور ان کو ماننا پڑے گا۔ (سمجھ گئے ہیں ڈاکٹر صاحب) میں کیوں ایک بات سے اچھل کے دوسری طرف جاتا ہوں اس کی وجہ بیان کررہا ہوں۔ لفظ معروف نے توجہ دلائی کہ یہ کچھ بھی ہورہا ہے اور میں اس کو اس وقت بیان کردوں۔
انا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویکفر عنھم سیئٰتھم۔ (سورۃ الفتح) جہاں تک اس آیت کا اچھا پہلے ترجمہ کروں پھر بعد میں بتاؤں گا، ایک دلچسپ، لطیف بات۔ وکان ذالک عنداللہ فوزا عظیما ویعذب المنافقین والمنافقات والمشرکین والمشرکت الظالین باللہ ظن السوئ۔ علیھم دآئرۃ السوء وغضب اللہ علیھم ولعنھم واعدلھم جھنم وساء ت مصیرا۔ اس میں جو لفظی ترجمہ ہے وہ یہ ہے۔ ’’ہم نے تجھ کو ایک کھلی کھلی فتح عطا فرمائی۔ (بخشی لکھا ہوا ہے) جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تیرے متعلق کئے گئے وہ گناہ بھی جو پہلے گزر چکے ہیں ڈھانک دے گا ور جو اب تک ہوئے نہیں‘‘ یعنی ان کو بھی اسی زمرے میں شمار کرے گا کہ گویا وہ کچھ بھی نہیں رہے۔ (لیکن آئندہ ہونے کا امکان ہے) یہ مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بریکٹ میں لکھا ہوا ہے۔ آئندہ ہونے کا امکان، یہ مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک تجزیہ ہے کیوں آئندہ کے متعلق بات کی گئی ہے، لیکن یہاں میرے نزدیک احتما ل نہیں ہے۔ صرف ایک فرضی احتمال ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نعوذباللہ من ذالک یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے گناہ سرزد ہوسکتے تھے آئندہ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف ایک منطقی بحث اٹھار ہے ہیں۔ کہ اس آیت میں آئندہ کا ذکر اس لئے ہے کہ منطقی طور پر، کون جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟ مگر اللہ جانتا ہے اور وہ آئندہ کی نفی فرمارہا ہے۔ اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور تجھے سیدھا رستہ دکھائے گا، اور اللہ تیری شاندار مدد کرے گا‘‘ یہ تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا معاملہ ہے کہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا حج اس شان سے قبول ہوا ہے کہ کبھی دنیا میں کسی کا حج اس شان سے نہ قبول ہوا نہ آئندہ ہوسکتا ہے۔ حج کے متعلق سب دنیا جانتی ہے کہ پہلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ لیکن حج کے بعد جو گناہ ہوں ان کی بخشش کا کوئی وعدہ نہیں ہوا کرتا، جو لازم نہیں ہوا کرتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا حج اس شان سے قبول ہوا ہے کہ گو امکانی بحث گزری ہے آئندہ گناہوں کی لیکن اگر فرض کرو آئندہ کوئی گناہ ہو بھی جاتا تو خداتعالیٰ کے نزدیک وہ حج جو ظاہری رسوم کے لحاظ سے ادا نہیں کیا گیا اس حج کی قبولیت کا یہ حال ہے کہ پچھلے گناہ بھی معاف اور اگلے گناہ بھی معاف، یعنی ساری زندگی کو ایک تحفظ حاصل ہوگیا خداتعالیٰ کی طرف سے۔ پس یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شان میں ایک ایسا عظیم نکتہ بیان فرمارہی ہے جس کے لئے ہمیں کسی شان نزول کی حدیث کے حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب مومنوں کا حال سنیں۔ ھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین یہ المؤمنین وہ سارے مومن ہیں جو ساتھ شامل تھے۔ ان کی بھی ایک حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ یہ خیال کہ ان میں سے نکل نکل کے منافق بنتے تھے، یہ سراسر بہتان ہے اور اس آیت کریمہ کے اوپر ایک افتراء ہے۔ ھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المؤمنین وہ لوگ جو بیعت رضوان کرنے والے تھے ان کے دلوں پر سکینت اتری تھی کہ نہیں اتری تھی؟ کیا ان میں سے منافقین نے بننا تھا؟ جن کو خداتعالیٰ نے درخت کے نیچے سکینت عطافرمائی، اس کا ذکر فرماتے ہوئے اللہ فرماتا ہے واللہ جنودالسموت والارض وکان اللہ علیما حکیما۔ اللہ کے جنود ہیں آسمانوں اور زمین میں، یعنی جو فرشتے اترتے تھے وہ خداکے وہ جنود فرشتے ہیں جو نازل ہوا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق۔ اور یہ سکینت اتارتے ہیں۔ پس جو سکینت ان کے دلوں پر اتری یا اللہ تعالیٰ نے جنود بھیجے تھے جن کو آپ نہیں دیکھتے اور اس کی تفصیل دوسری آیات میں موجود ہے۔ جنودالم ترونھا۔ وہ جنود واقعتا ایسے فرشتے ہیں جو تمام کائنات کے امور پر مامور ہیں۔ ایک ایک چیز جو کائنات میں قانون قدرت کے طور پر جاری ہے جس کو سائنسدان سمجھتے ہیں کہ ازخود ہورہا ہے ازخود کیوں ہورہا ہے؟ کیوں ایسا عظیم الشان نظام کائنات ہے جس میں ہر چیز بہ حکمت ہے۔ اس بات کو بھلا دیتے ہیں۔ کیونکہ اس کو مانیں گے تو خدا ماننا پڑے گا۔ اس لئے جنود کا لفظ یاد رکھنے کے لائق ہے۔ کہ فرشتے لازماً ہر چیز کو چلا رہے ہیں۔ ورنہ قانون اگر بغیر نگرانی کے ہوتے تو متصادم ہوجاتے، ٹکراجاتے، ایک فسادعظیم برپا ہوجاتا، قانون کو جاری رکھنے کے لئے ایک پولیس فورس درکار ہوا کرتی ہے کہ نہیں؟ پس خدا نے کائنات کا قانون ہی نہیں بنایا بلکہ ایسی پولیس فورس بنائی ہے جو اس قانون کا نفاذ کروائے۔ سوائے اس چیز کے کہ خدا نے وہاں خود اجازت دی ہو کہ چاہو تو اس کی پابندی کرو، چاہو تو نہ کرو، اب سڑکوں کا نظام ہے۔ اس کے لئے ہر جگہ قانون، ہر جگہ سائن بورڈ لگے ہوئے ہیں لیکن ایک شخص کو عملاً یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ ان نگران سائن بورڈز کی پرواہ نہ کرے جو اس کی حفاظت کررہے ہیں اور کسی بورڈ پر جاکر وہ اچھل کے دوسری طرف جاپڑے تو قانون کی نافرمانی سے مراد وہاں نافرمانی ہے جہاں اختیار ہے ورنہ جہاں اختیار نہیں ہے وہاں سوفیصد باریکی کے ساتھ تفصیل کے ساتھ یہ قانون نافذ ہیں کوئی نہیں ہے جو ان کو توڑ سکے۔ اور ان کے خلاف عمل کرسکے۔ یہ جنود ہیں جن کا وعدہ ہے۔ واللہ جنود السموت والارض کہ خداتعالیٰ نے مومنوں سے یہ وعدہ فرمایا ہے لیزدادوا ایمانا مع ایمانھم یہ وعدہ نہیں فرمایا کہ منافعۃ مع منافقتھم کہ ان مومنوں کو اللہ تعالیٰ منافق بنائے گا اور ان کے نفاق کوبڑھانے کے لئے جنود اتارے گا تاکہ پہلے سے بڑھ کر منافق ہوجائیں۔ اس لئے وہ جو شیعہ عقیدہ تھا اس کا تو کوئی نام و نشان نہیں چھوڑا اس آیت نے۔ اس سے آگے چلیں کیا فرماتا ہے؟ لیدخل المؤمنین والمؤمنٰت جنٰت تجری من تحتھا الانھٰر۔ اب یہ جو بعد کی کوئی جنگ یا کوئی اور بات پیش کرنا چاہیں تو جنات میں داخل ہونے کے بعد کی پیش کریں گے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو انجام تک پہنچادیا۔ کہ جب تک یہ جنات میں داخل نہ ہوجائیں یہ لو گ اس وقت تک خدا کا وعدہ لازماً خدا پر فرض ہے اور ان کے حق میں پورا ہونا ہے۔ تو بعد کا کون سا زمانہ ہے جس میں یہ منافق ہوئے۔ جنتوں میں داخل ہونے کے بعد منافق ہوگئے؟ یہ کیسا لغو عقیدہ ہے۔ پس اور کوئی بحث نہ بھی ہو۔ سورۂ فتح کی یہ آیات شیعوں کے ہر جھوٹے الزام کو رد کرتی ہیں۔ وہ تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو صلح حدیبیہ میں شامل ہوئے ہیں جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے میرے ان سے وعدے اس دنیا کی فتح کے نہیں ہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ممتد ہیں اور جنتوں میں وہ لوگ داخل کئے جائیں گے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ پر فرض ہے۔ اور برائیاں بڑھائی نہیں جائیں گی۔ ویکفر عنھم سیئٰتھم اگر کوئی برائی رہ بھی گئی تھی تو اللہ نے اپنے اوپر فرض کرلیا ہے کہ ان برائیوں کو دور کرے گا۔ پس صلح حدیبیہ کے بعد تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا جو اس صلح میں شامل تھے سفر نیکیوں کی طرف ہے۔ برائیوں کے کم ہونے کی طرف ہے۔ اور نیکیوں کے بڑھتے ہوئے اس حد تک آگے بڑھنے کا ذکر ہے کہ خداتعالیٰ ان کو جنات نصیب کردے گا۔ اور اس دنیا میں ان میں کوئی ناپاک تبدیلی نہیں آنے دے گا۔ اب اس میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زندگی کی باتیں نہیں ہیں۔ اکثر شیعوں نے یہ بات گھڑی ہے کہ فلاں جنگ میں وہ تو خیر ہوگیا۔ کہ فلاں جنگ میں یہ حرکت کی فلاں نے۔ اس کے بعد کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے آنکھیں بند کیں تو پھر یہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بگڑے ہیں۔ یہ آیت قرآنی کہتی ہے جھوٹ بولتے ہو۔ اللہ فرماتا ہے مرتے دم تک میں نہیں بگڑنے دوں گا تم کون ہوتے ہو ان کے بگاڑ کی باتیں کرنیو الے۔ پس یہ تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی زندگی میں بھی پاک صاف اور خدا کی حفاظت کے نیچے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی زندگی کے بعد بھی مسلسل اسی حفاظت کے نیچے تھے جو اپنے مذہب کو ثابت کرنے کے لئے اس آیت کو جھٹلاتا ہے اس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ خود ذمہ دار ہے۔ اس لئے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے میرے نزدیک یہ آیات شیعہ غلط عقائد کو رد کرنے کے لئے اپنی ذات میں مکمل ہیں۔ کوئی بھی ان میں ادنیٰ سا پہلو بھی باقی نہیں رہا جو ان کی روایات کو رد نہ کریں۔ اور انہوں نے جو شان نزول بنائی ہوئی ہے آیات کی یہ آیات اس کو صاف رد کررہی ہیں۔ پس یہ شان نزول ہوتی ہے اللہ تعالیٰ شان نزول بیان فرماتا ہے۔ اس شان سے بیان کرتا ہے کہ اس میں کوئی پہلو بھی باقی نہیں چھوڑتا جس کا بیان کرنا ضروری ہو۔ اور اس کے خلاف جتنی شان نزول کی باتیں ہیں خواہ کتنی بری روایتوں سے دی گئی ہوں کتنی قوی سند کے ساتھ پیش کی گئی ہوں ان کو جس طرح سیلاب بہا کے تنکوں کو لے جاتا ہے اس طرح یہ آیات کریمہ ان فرضی شان نزول کی روایات کو خس و خاشاک کی طرح بہا کے لے جاتی ہیں۔ اب وہ منافقین ہیں جو ان آیات کی شان نزول کے برعکس معنے کرتے ہیں، یہ منافقین نہیں ہیں جن کا ذکر ہوا ہے۔ فرمایا ویعذب المنٰفقین والمنٰفقٰت والمشرکین والمشرکٰت الظآنین باللہ ظن السوئ۔ وہ منافق ہیں اور وہ مشرک بھی خدا کے غضب کے نیچے ہیں جو اللہ پر ظن سوء رکھتے ہیں۔ اللہ یہ وعدہ دے رہا ہے اور وہ بدظنیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی نیکیاں نہیں بڑھائے گا ان کو اور بدیوں میں مبتلا کرے گا، ان کے اوپر جو فضل کے وعدے ہیں وہ چھین لے گا، جنتوں میں داخل نہیں کرے گا۔ یہ سارے اللہ پر ظن سوء کا نتیجہ ہیں اور جو اللہ پر ظن سوء کرے گا وہی مشرک ہے اور وہی منافق ہے۔ علیھم دائرۃ السوء ان کی وہ جو برائیاں ان میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کو تقدیر اڑادے وہ ان کے اوپر پڑے گی اور ان مسلمانوں کا ایک ایسا روشن مستقبل دیکھیں گے کہ ان کے کوسنے ان کی بددعائیں، ان کا یہ کہ اللہ ان پر عذاب ڈالے یہ ساری باتوں کو دیکھنے سے یہ لوگ محروم رہ جائیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سچے غلام جن میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جو شہیدوں میں بھی شمار ہوئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے متعلق میں نے ایک روایت بیان کی تھی کہ وہ صدیقوں میں بھی ہیں اور شہیدوں میں بھی ہیں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو تھے خلیفہ ان چاروں کے تعلق میں اور ان کے ساتھیوں کے تعلق میں یہ آیات قطعیت رکھتی ہیں۔ اور مخالفین جو غلط مطلب لیتے ہیں ان کے متعلق فرمایا وغضب اللہ علیھم ولعنھم واعدلھم جھنم وساء ت مصیرا۔ جو برعکس لوگ ہیں ان کے متعلق فرمایا ہے (ا ن کو) اللہ تعالیٰ نے ان پر غضب کیا ہے ان پر *** کی ہے اور ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔ اب پہلی آیات میں ان لوگوں کے لئے کیا تیار تھا؟ جنت! ایسی جنت جس میں وہ داخل ہوں گے۔ یہ ایک لوگ ہیں؟ جن سے جہنم کا وعدہ کیا ہے وہ اور یہ جنت والے ایک لوگ ہوسکتے ہیں؟ پس اس بات کو پلے باندھ لیں کہ اور بھی میں نے طریقے بتائے ہوئے ہیں شیعوں سے بحثوں کے مگر آج مجھے شان نزول پر غور کرتے ہوئے یہ بات سمجھ آئی ہے پہلی دفعہ کہ یہ آیات تو کلیۃً شیعہ ازم کا قلع قمع کردیتیں ہیں۔ ایک ہی دین باقی رہتا ہے جو تمام خلفاء سے وابستہ ہو۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے جنت میں داخل ہونے تک جو وعدے کئے گئے ہیں جو ان پر ایمان لانے والے لوگ ہیں وہی سچے ہیں اور باقی سب قرآن کے مخالف ہیں۔
سیقول لک المخلفون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کان اللہ بما تعملون خبیرا۔ (فتح 10) سیقول لک المخلفون من الاعراب شغلتنا اموالنا و اھلونا یہ جنگ تبوک کا ذکر چل رہا ہے اور اس میں اعراب کی طرف سے جو بہانہ خوریاں ہونی تھیں جو عجیب عجیب عذر تراش کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے دور رہتے ہوئے بھی ان نعمتوں میں حصہ پانے کا اصرار تھا جو مشقت کرنے والے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں تھیں۔ ان کا ذکر چل رہا ہے۔ سیقول لک المخلفون من الاعراب اعراب میں سے جو پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے ضرور کہیں گے کہ ہمارے اور ہمارے اہل و عیال نے ہم کو مشغول رکھا، اسلئے ہم اس سفر پر نہیں گئے۔ پس تو ہمارے لئے استغفار کر، اب یہ جولفظ ہے استغفار کر یہ جھوٹ ہے۔ ایسے لوگ تھے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور کہتے ہم مصروف رہے یا ایسا ہوگیا ایسا ہوگیا، ہمارے لئے استغفار کر ہمیں اللہ معاف فرمائے، یہ جو عذر ہے استغفار کر کا یہ آج بھی جاری ہے۔ وہ منافقین، وہ جماعت کو دھوکا دینے والے جو اپنے لئے اپنے اعمال کے لئے جھوٹے عذر تراشتے ہیں وہ آخر پر سارا بوجھ مجھ پہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی جو بھی کمی ہے آپ کے استغفار کی ہوگی ہم تو اپنی طرف سے صاف ہوگئے اگر استغفار منظور ہوگیا آپ کا تو ہم ٹھیک ہیں ورنہ نہیں۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی یہ اتنی فراست ضرور بخشی ہے کہ ان استغفار والوں کے متعلق میں جانتا ہوں کہ محض دعا کا ایک جھوٹا بہانہ بنایا گیا ہے۔ ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں میرے استغفار کی، اور نہ یہ اس لائق ہیں کہ ان کے لئے استغفار کیا جائے۔ مگر جہاں تک ظاہر پر حکم کا تعلق ہے استغفار کرنا پڑتا بھی ہے۔ لائق نہیں ہیں خدا کی نظر میں، لیکن انسانی نظر کے لحاظ سے ان کو مستثنیٰ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ آگے اللہ کی مرضی ہے وہ استغفار سنے یا نہ سنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے بھی تو کہا تھا ناں کرلے استغفار جتنا کرنا ہے سننا میں نے ہی ہے۔ پس وہی مضمون ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری و ساری ہے۔ مجھے مجبوراً، میں خدا تو نہیں ہوں۔ دل کا حال تو نہیں جانتا، مگر اندازہ رکھتا ہوں کہ یہ ایسے ہی ہیں۔ مگر مجبوراً ان آیات کریمہ کی روشنی میں جو استغفار کے متعلق بیان کررہی ہیں ان کے لئے استغفار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن دل میں ایک خلاء سا رہتا ہے، ایک خوف سارہتا ہے کہ یہ استغفار سنا نہیں جانا اور واقعات بعد میں بتاتے ہیں کہ یہ اندازہ درست ثابت ہوتا ہے۔ مگر کوئی ایسے ہوں گے جن کے متعلق ہوسکتا ہے میرا اندازہ غلط ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کا حال بہتر جانتا ہے اور ان کے حق میں استغفار سن بھی لے اور کبھی ایسے لوگ بھی سامنے آجاتے ہیں جن کی واقعتا کایا پلٹ جاتی ہے۔ تو لفظ استغفار میں یہ بات پیش نظر رکھیں کہ استغفار کرنا آپ کے فرائض میں داخل ہے اگرچہ استغفار کی درخواست کرنے والے جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سامنے آکر وہ یہ کہا کرتے تھے یقولون بالسنتھم مالیس فی قلوبھم اپنی زبانوں سے وہ بات کہہ رہے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے۔ قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا۔ استغفار کے متعلق تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کرتے تھے۔ گناہگاروں اور منافقین کے سردار کے لئے بھی کرتے تھے۔ لیکن فرمایا ان کو یہ مطلع ضرور کردے کہ اللہ سے تمہیں کون سی چیز بچائے گی، اگر وہ تمہارے لئے ’’ضر‘‘ کا نقصان کا ارادہ کرلے۔ اوارادبکم نفعا یا اللہ اگر تم میں سے کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ پس یہ یاد رکھوکہ فیصلہ اللہ نے کرنا ہے، اگر تم نفع کے لائق اس کی نظر میں ٹھہرے تو کوئی دنیا کی طاقت اس نفع کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔ اور اگر جیسا کہ ظاہر ہے تمہارے دل میں نفاق ہے تو خداتعالیٰ کے ضر سے جو تمہیں پہنچے گا اس سے تمہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔ بل کان اللہ بما تعملون خبیرا۔ بلکہ صورتحال یہ ہے کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ اس سے بخوبی باخبر ہے۔ بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اھلیھم ابدا تمہارا حال یہ ہے کہ تم یہ گمان کیا کرتے تھے کہ حضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور مومن اپنے اہل و عیال کی طرف کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ ابدًا۔ کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ وزین ذلک فی قلوبکم۔ یہ گمان ایک خطرناک صورتحال کے اندازے کے نتیجے میں بھی ہوسکتا تھا، مگر ، اگر ایسا ہوتا تو ان کے دلوں کو انتہائی تکلیف پہنچنی چاہئے تھی، لیکن وزین ذالک فی قلوبکم ان لوگوں کو اپنے دلوں کو پہچاننے کے لئے خداتعالیٰ نے کتنی وضاحت سے نفسیاتی کیفیات کو بیان فرمایا ہے۔ محض اس اعلان پر اکتفا نہیں کیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو اور تم یہ کررہے ہو۔ فرمایا یاد کرلو اپنے دلوں کو اچھی طرح دیکھ لو تمہیں جب یہ خیال گزرا تھا کہ جنگ تبوک کا سفر اتنا خطرناک ہے کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم لوٹ نہیں سکتے تو تمہارے دل میں تو ایک غم کی آگ لگ جانی چاہئے تھی۔ ناقابل برداشت حال ہوجاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو ہم دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ پھر اے بدبختو! تم خوش ہوتے تھے اس بات پر۔ یہ خیال تمہارے دل میں زینت بنادیا گیا اور تمہیں بہت اچھا لگتا تھا کہ اب کبھی نہیں آئیں گے۔ اور ہمیشہ کے لئے ہمیں ان سے چھٹکارا ہوگیا۔ یہ آیت کریمہ قطعیت کے ساتھ ان لوگوں پر ان کا حال کھول رہی ہے۔ وظننتم ظن السوء وکنتم قوما بورا۔ اور تم نے ایک بدظنی سے کام لیا۔ ظن السوء سے مراد عام بدظنی نہیں بلکہ خدا کے حق میں بھی بدظنی کی، لوگوں کے حق میں بھی بدظنی کی، اور یہ ظن اپنی ذات میں انتہائی کریہہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم واپس نہیں آئیں گے۔ وکنتم قوما بورا اور تم ہلاک ہونے والے لوگوں میں شامل ہوگئے ہو۔ اب یہ جو ظن والی بات ہے ایک جہاد میں مصروف لوگوں کے متعلق یہ بات آج کل بھی کبھی کبھی دکھائی دیتی ہے اور یہ شان نزول ایسی ہے جس پر غور کریں گے تو آج کل کی بعض برائیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔تمام عالم میں ایک تبلیغی جہاد ہورہا ہے اور اس جہاد کی کامیابی کی خبریں جب بھی مومن سنتے ہیں وہ خوش ہوتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو خود محروم ہیں اس جہاد سے اور وہ ظن سوء رکھتے ہیں کہ مومنوں سے غلطیاں ہوں گی ان کو مار پڑے گی ، یہ ہوگا، وہ ہوگا، اگر کسی جگہ اس جہاد کے نتیجے میں جہاد کے بعدکہیں کمزوریوں کی اطلاع ملے کہ نئے داخل ہونے والوں میں یہ بھی کمزوریاں ہیں، یہ بھی کمزوریاں ہیں تو اپنے دلوں کو ٹٹول کے دیکھ لیں۔ اگر ان کو دکھ پہنچتا ہے تو یہ سچے مومن ہیں۔ اگر وہ خوش ہوتے ہیں۔ دیکھا ناں ہم کہتے تھے ناں یہ فضول باتیں ہیں تو وہ جھوٹے اور منافق ہیں اور یہ آیت ان کو رد کررہی ہے۔ اب ایسی اطلاعیں پہلے زیادہ ملا کرتی تھیں، بہت زیادہ بھی نہیں مگر کہیں کہیں ملتی تھیں۔ اور منافق پہچانے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ جب میں نے مالی میں چالیس ہزار بیعتوں کا ذکر کیا تھا تو ایک صاحب کو بہت سخت تکلیف پہنچی تھی، اور انہوں نے یہ پراپیگنڈہ شروع کردیا تھا کہ یونہی باتیں کرتا ہے چالیس ہزار کیسے ہوسکتے ہیں، ایک سال میں چالیس ہزار ہوجائیں اور اب چالیس لاکھ تک اور اس سے بھی آگے نوبت آرہی ہے۔ اب یہ ظن السوء ان کا کس طرح ہماری راہ میں حائل ہوگیا۔ لیکن ان کی منافقت کا حال مجھے معلوم ہوگیا۔ اور جب بعد کے زمانے میں خوشخبریاں ملیں تو ان کی زبان بند ہوگئی۔ وہ یہ ذکر ہی چھوڑ بیٹھے، بھاگ گئے اس میدان سے کہ خداتعالیٰ اتنی عظیم الشان فتوحات عطا فرمارہا ہے۔ ایسے شاذ شاذ لوگ ابھی بھی موجود ہیں اور ان کے متعلق مجھے بعض دوسرے دوست اطلاع دیتے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں جب آپ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابیاں بخشیں، فلاں افریقن ملک میں اس طرح بخشیں، فلاں اس طرح بخشیں تو بجائے اس کے کہ ان کو پوری خوشی پہنچے، وہ کہتے ہیں کہ دیکھو جی! یہ کثرت سے آنے والے ہیں ان میں خرابیاں بھی ہیں۔ ان میں یہ بھی ہے، ان پر تو پردہ ڈالا جارہا ہے اور دنیا کو گویا دکھایاجارہا ہے کہ ہمیں خداتعالیٰ عظیم الشان فتوحات دے رہا ہے۔ یہ رجحان جو ہوتا ہے، یہ رجحان اللہ کے ہاں رد شدہ رجحان ہے۔ اور اس رجحان کے ساتھ وہ چاہیں تو زندہ رہیں چاہیں تو اپنی عقل و دانش کی باتیں اردگرد پھیلانے کی کوشش کریں، کوئی سچا مومن بھی ان کی اس باتوں سے خوش نہیں ہوسکتا، اور سچا مومن ہمیشہ یہ کوشش کرے گا کہ جو نقصان پہنچ جایا کرتے ہیں، کثرت کی شمولیت سے اس سے استغفار کرے، تسبیح و تحمید کرے ،ا ور ہر کوشش کرے کہ وہ نقصان نہ پہنچیں، اس میں یہ مددگار نہیں ہے۔ زبان طعن دراز کرنے میں کھلے اور نڈر ہیں اور ان کو اندازہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کتنی باریکی سے نئے آنے والوں کا استقبال کررہی ہے۔ اور کتنے نظام جاری کردیئے گئے ہیں کہ ان کی خرابیاں شروع ہی میں زائل ہوجائیں۔ا ور ان میں سچے لوگوں کا امتحان ہو اور وہ سچائی پر قائم ہونے کے ساتھ اپنے اندر پاک تبدیلیاں کرکے دکھائیں اور اموال کی قربانی شروع کردیں ساتھ ساتھ، یہ جو مضمون ہے، ان کا تصور بھی اس طرف نہیں پہنچ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آج ان باتوں کی کیسی توفیق عطا فرمائی ہے، احمدیت کے آغاز سے لے کر آج تک کبھی ایسا تفصیلی نظام جاری نہیں ہوا، کہ ہر بیعت کرنے والے کے پاس پہنچا جائے، اور اس کے حالات کا جائزہ لے کر اس کی دینی، اصلاحی ، اخلاقی بہتری کے لئے معین کوششوں کا نظام ان لوگوں میں سے ہی جاری کیا جائے، اور مالی قربانی کی شروع سے عادت ڈالی جائے، صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت میں یہ بات داخل میں نے پڑھی ہے کہ شروع میں ہی ہر ایمان لانے کے متعلق رجسٹر ساتھ رکھو اور لکھواؤ کہ کتنا وعدہ کرتا ہے مالی قربانی کا، اس کے بعد یہ چیز بھول گئی اور نظر انداز ہوگئی، اور کثرت سے احمدی جو واپس گئے ہیں اپنی پہلی حالتوں کی طرف وہ اس نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے تھے۔ اگر ایسا نظام جو آج جاری ہے کسی عالم، کسی عاقل کے ذہن میں ہے کہ پہلے گزرچکا ہے تو دکھائیں؟ اتنی عظیم الشان توفیق خدا عطا فرمارہا ہے یہ ناشکرے ہیں جو اس اللہ تعالیٰ کے احسان کی ناشکری کرکے جو کچھ ان کا دین ان کے پاس ہے اس کو بھی ضائع کررہے ہیں، تفصیل میں یہاں نہیں جاسکتا لیکن تمام دنیا میں جو مبلغین محنت کررہے ہیں اور جو کام کررہے ہیں، کس طرح جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں وہ ہر جگہ گواہ ہیں کہ یہ الزام جھوٹے ہیں۔ کبھی انہوں نے پہلے اس طرح نئے آنے والوں کا استقبال نہیں کیا تھا، کبھی انہوں نے اس باریکی کے ساتھ ان کی کمزوریوں میں داخل ہوکر ان کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کبھی ان کو جواب دہی نہیں کرنی پڑی کہ تمہارے علاقے میں یہ بات ہوئی ہے، یہ کمزوریاں کیوں ہیں؟ کیوں ان کی طرف توجہ نہیں کی؟ پس یہ دور اللہ کے خاص فضلوں اور احسانات کا دور ہے۔ اور اس میں ایسے دانشوروں کو آپ کو نظرانداز کردینا چاہئے، ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں، یہ بڑھتے ہوئے قافلے کی راہ نہیں روک سکیں گے، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو نئے نظام کے تابع جو نومبائعین کی بہتری اور ان کے حالات کی درستی کی کوشش ہورہی ہے یہ اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتے کہ کتنی تفصیل سے کوشش ہورہی ہے۔ ان کو چاہئے کہ استغفار کریں اور ان لوگوں کے لئے دعا کریں جو اس میدان میں غیرمعمولی محنت سے کام لے رہے ہوں۔ اب حنین کی جنگ ہے جس کے متعلق بعض شیعہ حضرات بعض استنباط کرتے ہیں اور اس کے بعد جو اموال ہیں ان کی تقسیم وغیرہ۔ اس قسم کی بہت سی بیہودہ باتیں ہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کہ وہ اس طرح بھاگے ہوئے فلاں راستے پہ کھڑے ہوئے تھے، یہ ساری بحثیں میں ان آیات کے متعلق پہلے ایک درس میں بیان کرچکا ہوں، یعنی ان آیات کی بحث تو درس میں ابھی نہیں آئی تھی غالباً سورۂ توبہ جو ہے۔ لیکن شیعوں کے الزامات کے حوالے سے میں اس کا ذکر کرچکا ہوں مگر اب سورۂ فتح کی آیات کے بعد وہ جو میرا بیان تھا وہ اس کے مقابل پر فتح کی آیات کے مقابل پر ایک معمولی بیان رہ گیا ہے۔ جس شان کے ساتھ جنت میں داخل ہونے تک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی حفاظت فرمائی ہے اس کے بعد وہ باتیں علمی باتیں ہیں مگر اس سے زیادہ اتنی بڑی اہمیت نہیں جتنی سورۂ فتح کی آیات کو حاصل ہے۔ یہاں سورۂ توبہ آیت پچیس میں ہے لقد نصرکم اللہ فی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولیتم مدبرین۔ اللہ نے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کی ہے۔ لقد نصرکم اللہ میں جو قد کا زور ہے وہ تمام مواطن کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ یعنی صرف میرے نزدیک یہ مطلب کافی نہیں کہ بہت سے مواطن میں مدد کی ہے۔ اب مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہر موقع پر جہاں مدد کی ضرورت تھی لازماً اللہ نے مدد کی ہے۔ ورنہ ایک بھی استثناء مانا جائے تو تعجب ہوگا کہ کیوں خدا نے اس موقع پر مدد نہیں فرمائیں۔ اور اس پہلو سے جب اسلامی تاریخ کا آپ مطالعہ کریں تو ہر موقع پر جہاں ابتلاء پیش آیا ہے لازماً اللہ تعالیٰ کی مدد کے آثار آپ دیکھ سکتے ہیں اور ایک بھی واقعہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کو خدا کی مدد کے بغیر فتح نصیب ہو، پس ہر موقع پر اللہ کی مدد شامل حال رہی ہے۔ یہ خیال جنگ حنین کے وقت، وقتی طور پر پیدا ہوا اور یہی وجہ بنی ہے اس آیت کے نزول کی۔ بعض نئے آنے والے جو کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے، ان کو یہ خیال گزرا کہ پہلے تو فتوحات ہواکرتیں تھیں، مدد کی ضرورت پڑتی تھی، اب ہم آگئے ہیں، کثرت کے ساتھ ہم شامل ہوگئے ہیں، اب دشمن کی کیا حیثیت ہے؟ اب دیکھنا ہمارے ہاتھوں ان کو کیسا زک پہنچے گا۔ اس بات کو رد کرنے کے لئے یہ آیت اتری ہے۔ یہ اس کی شان نزول ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ یہ بات ہے؟ تو دیکھ لو پھر۔ اپنی کثرت پر زعم کرنے والے، اس کو کافی سمجھنے والے، اقلیت کے خلاف، یہ نہ بھولنا کہ اقلیت کو غلبہ اس لئے ہوا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ دیتا تھا، لیکن اگر حالات کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا تو اقلیت کو مغلوب ہوجانا چاہئے تھا، تم نے اس کا انکار کردیا ہے تم نے سمجھا ہے اللہ کی مدد کی ضرورت نہیں تھی، اب کثرت کو مدد میسر نہ ہو تو تمہارا کیا حال بنے، یہ دیکھ لو، جھوٹی اقلیت سے مار کھاجاؤگے، اس لئے نہیں کہ اللہ اقلیت کی مدد کررہا ہے، اس لئے کہ اللہ نے اپنی مدد کا وعدہ جو ہمیشہ کے لئے تھا وہ ایک موقع پر وقتی طور پر وہ ہاتھ کھینچ لیا، تمہیں دکھانے کے لئے کہ اللہ کی مدد تھی جو کام کیا کرتی تھی نہ کہ کثرت اور قلت کی بحث، اذاعجبتکم کثرتکم جب تمہاری کثرت نے تمہیں اپنے اوپر ایک جھوٹے فخر پر مجبور کردیا، فلم تغن عنکم شیئا کوئی کارروائی تمہاری کام نہ آئی وضاقت علیکم الارض اور تم پر اپنی اکثریت کے باوجود زمین تنگ ہوگئی، بما رحبت اس وجہ سے جو تم پر رعب پیدا ہوگیا، ثم ولیتم مدبرین اور پھر تم اس سے بھاگ اٹھے، دوڑ پڑے، ضاقت علیکم الارض بما رحبت، رحبت سے مراد میرے نزدیک وہ رعب ہے جو لڑائی کا رعب ان پر طار ی ہوگیا تھا، اور وہ خوف جس کے نتیجے میں وہ بھاگے ہیں، اس کی وجہ سے زمین تنگ ہوگئی ۔ اب کیسی مزے کی بات ہے، کثرت ہوتو زمین تنگ ہونی ہی چاہئے تھی، تو فصاحت اور بلاغت کا یہ بھی ایک عجیب انداز ہے کہ کثرت ہوتے ہوئے زمین تنگ ہوگئی، مراد یہ ہے کہ تمہاری کثرت نے تمہاری فتح کی زمین تم سے چھین لی، اور تمہیں پاؤں رکھنے کے لئے بھی جگہ نہیں ملی۔ اور اٹھ دوڑے فراخی کی تلاش میں اس وقت بتاؤ کون تمہارے کام آیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم وہ اقلیت جس وجہ سے ہمیشہ فتح ملا کرتی تھی، اس اکثریت میں بھی وہی اقلیت تمہارے کام آئی، اسی نے ہی جنگ کا پاسا پلٹا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ مغانم کثیرۃ کے جو وعدے تھے وہ بھی پورے ہوگئے، ان میں بھی کوئی کمی نہیں آئی، تو یہ شان نزول ہے۔ اس عظیم الشان طریق پر یہ اللہ تعالیٰ ان حالات کو بیان فرماتا ہے اور وہ حدیثیں جو اس سے ٹکرانے والی ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق دوسرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے متعلق فرضی باتیں گھڑتی ہیں، یہ آیات ان کو جھٹلارہی ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور فتح مکہ والی آیات سورۂ فتح کی آیات بھی اس مضمون کے خلاف وجوہات پیش کرنے والے لوگ جو شان نزول کی حدیثوں میں مبتلا ہوکر غلط تشریحات کرتے ہیں، یہ آیت اپنی ذات میں بھی ان کارد کررہی ہے مگر فتح مکہ، سورۂ فتح والی آیات تو بڑی شدت کے ساتھ ان کارد کررہی ہیں۔
سورۃ البقرۃ 154، 158۔
یایھا الذین امنوا اے لوگو جو ایمان لائے ہو استعینوا بالصبر والصلوۃ صبر کے ذریعے اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہو۔ ان اللہ مع الصٰبرین۔ یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اب یہاں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نہیں فرمایا، یہ کیا وجہ ہوئی؟ صبر تو نسبتاً کم درجے کی ایک خوبی ہے، الـصلٰوۃ اصل چیز ہے جو جان ہے ساری عبادتوں کی، یہ کیوں نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہے؟ کیوں ڈاکٹر صاحب کچھ ذہن میں آرہا ہے کہ نہیں؟ کبھی کبھی ذرا سوچ کی تبدیلی کی خاطر یہ سوال و جواب بھی ہوجائیں۔ کیونکہ وقت ایک منٹ کا رہ گیا ہے اور اس آیت کو دوبارہ کل اٹھانا پڑے گا، کیا خیال آیا؟ (ڈاکٹر صاحب نے کچھ بتایا) بنی نہیں کوئی بات استعینوا بالصبر والصلٰوۃ۔ صبر کے متعلق اللہ کی استعانت مانگو، اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی استعانت مانگو، والصلٰوۃ اور نماز کی۔ ان اللہ مع المصلین نہیں فرمایا۔ مع الصٰبرین۔ ٹھیک ہے ناں تو کل انشاء اللہ۔ اب تو وقت گزرچکا ہے۔ کل اس کے متعلق بات کریں گے۔ میں نے جان کے چھوڑ دیا ہے اس کو اس بات پر کہ لمبی بحث کی ضرورت ہے اور ایک دو منٹ میں نہیں ہوسکتی تھی۔ ٹھیک ہے؟ یہ تو ٹھیک ہے مگر آپ تو کہتے تھے کہ کل ختم ہوجائے گا، مجھے لگتا ہے اس نے کافی دن لینے ہیں، دو تین دن لینے ہیں کم از کم۔ اور یہ بحثیں ایسی ہیں جو بہت ضروری ہیں۔ اس نظر سے پہلے ان آیات کا معائنہ نہیں کیا گیا۔ میرے علم میںنہیں ہے۔ توا للہ تعالیٰ کا ہر رمضان میں ایک خاص احسان ہوتا ہے، خاص مضمون ابھر کر سامنے آتا ہے، اس دفعہ شان نزول والا، رمضان ہے یہ۔ ٹھیک ہے۔ السلام علیکم
‏bcdbcd

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن
23 رمضان۔ 22 جنوری 1998ء
شان نزول سے متعلق جو آیات پیش کی جارہی تھیں ان میں اتنا زیادہ مواد اوامرونواہی کا اکٹھا کرلیا گیا تھا اگر ان میں سے ہر ایک کی شان نزول اور متعلقہ احادیث پر بحث کی جائے تو یہ رمضان بھی اور اگلا رمضان بھی سارا اسی پرخرچ ہونا تھا۔ اس لئے وہ سب میں نے نکال دی ہیں۔ صرف چند نمونے کے طور پر سامنے رکھنے کے لئے پیش کی ہیں۔ جن کا ایک مقصد ہے۔ کسی مقصد کی خاطر بعض چنی گئی ہیں صرف۔ اس لئے وہ کل کا جو سلسلہ ہوچکا وہ ہوچکا اب ایک آیت فتح مبین سے متعلق کل زیر بحث آئی تھی۔ وہ ابھی بھی اس وقت میرے سامنے ہے۔ اور اس کے بعد جنگ حنین کا بھی ذکر ہے اور فتح بعید اور فتح قریب کی بحث ہے اس میں۔ اس ضمن میں انشاء اللہ اتوار کو سوال جواب کی مجلس میں ایک بات کا تفصیلی جواب دوں گا۔ کہ میں نے کیوں یہاں حج کی بات کی ہے۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا سفرحج سے بہت پہلے ہوا تھا۔ اور وہ عمرہ تھا بظاہر جس سے روکا گیا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ میں نے پچھلی دفعہ جب اس آیت پر تفصیلی گفتگو کردی تھی تو ابھی تک ذہنوں میں یہ بات حاضر ہوگی۔ اور اس خیال سے میں نے ان تفاصیل کو بیان نہیں کیا اب پھر وہاں سے ایک سوال اٹھا ہے اسی بات کا آپ حج کی بات کررہے ہیں حالانکہ حج کا وقت نہیں ہے حج کا مہینہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا سفر ایک عمرے کے لئے تھا۔ اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اس سفر کا مقصد آخر حج تھا۔ اور جو کچھ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے وہ مذہبی رسومات وہاں ادا کی ہیں ان کا حج سے تعلق ہے عمرے سے تعلق نہیں۔ تو یہ انشاء اللہ اتوار کو میں بعض لوگوں کی یادداشت چونکہ کچی ہے، اس لئے ان کی خاطر مجھے مجبوراً اتوار کے سوال و جواب میں اس کو پھر چھیڑنا پڑے گا۔ لیکن میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ ذرا تھوڑا ذکر کروں اور تفصیلی بحث میں نہ جاؤں مگر بعض سادہ لوگ، عالم بھی ہوں تو وہ ان باتوں کی تفصیل کو نہیں سمجھتے اور ایسے سوال اٹھادیتے ہیں جو درحقیقت پہلے جواب دیئے جاچکے ہیں۔ سمجھ گئے ہیں؟ اب اس کے بعد وہ کون سی آیت تھی کل جس پر بحث ہورہی تھی۔ وہ کہاں ہے؟ ہیں؟ اچھا اچھا۔ وہ آیت جس کا میں نے کل سوال اٹھایا تھا۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے جب مواد اس کا مانگا تو ضروری مواد جو ساتھ ہونا چاہئے تھا وہ تھا ہی نہیں۔ اس لئے میں نے ان کو لکھوا دیا تھا کہ یہ چیزیں فوراً مہیا کردیں۔ غالباًً ان کو وقت نہیں ملا اور وہ فوری طور پر مہیا نہیں کرسکے۔ تو جب بھی یہ آجائیں گی چیزیں تو انشاء اللہ اس بات پر گفتگو ہوگی۔ اچھا اب یہاں سے شروع کرتے ہیں۔ سورۃ توبہ۔
لقد نصرکم اللہ فی مواطن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولیتم مدبرین۔ (توبہ 25)
یہاں جو مواطن کثیرۃ کا ذکر ہوا ہے نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرثکم اس کے متعلق میں گفتگو کرچکا ہوں پہلے۔ نہیں کی؟ ہاں کل ہورہی تھی۔ صرف ایک سوال ایسا اٹھایا گیا ہے اس میں جس کا تعلق خیبر کی فتح سے کیا گیا ہے وہ کہتے ہیں جو اموال ملے ہیں کثرت سے وہ خیبر میں ملے ہیں جو جنگ حنین کے بعد کا واقعہ ہے۔ خیبر والی روایات کو اس واقعہ سے جوڑنا یہاں بے تعلق ہے۔ سورۃ فتح کی بحث میں یہ بحث آئے گی۔ اس لئے کہ جنگ حنین کے بعد بکثرت اموال تقسیم ہوئے ہیں اور زمینیں بھی تقسیم ہوئی ہیں۔ اس لئے کسی کا یہ کہنا کہ یہ بے تعلق بات ہوئی ہے۔ بالکل غلط بات ہے ہرگز درست نہیں کیونکہ جس کثرت سے حنین میں اموال تقسیم ہوئے ہیں اورجائیدادیں تقسیم ہوئی ہیں۔ زمینیں تقسیم ہوئی ہیں۔ا س کی کوئی اور مثال دکھائی نہیں دیتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا حاتم طائی کی اولاد کے لئے اپنا حصہ چھوڑ دینا اور حضرت حلیمہ کے رشتے داروں کے متعلق میں اپنے حصے چھوڑ دینے۔ بہت کثیر اموال اور جائیدادیں اس جنگ کے بعد حصے میں آئی ہیں۔ پس یہ وہم کہ یہ میں خلط مبحث کررہا ہوں وہ دراصل خیبر سے تعلق والی حدیثیں تھیں جن کو میں یہاں جوڑ رہا ہوں بالکل غلط ہے۔ تمام تفاصیل میرے ذہن میں ہیں اور میرا خیال یہ تھا، حسن ظن تھا کہ علماء کے ذہن میں بھی ہوں گی کیونکہ ان آیات کی یہ تفسیر میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ کس کثرت سے کیا کیا واقعات ہوئے وہ تو یوں لگتے ہیں جیسے پورا عرب دوبارہ تقسیم ہورہا ہے۔ اور وہ بھول گئے ہیں اس بات کو اور چونکہ عام تفسیروں میں اور روایتوں میں خیبر کا ذکر ملتا ہے۔ اس لئے خیبر کی طرف لے جاتے ہیں اس کو اور فتح قریبہ اور فتح بعیدہ میں بھی خیبر کی بحث چلتی ہے۔ یہ ساری باتیں انشاء اللہ میں جب یہ آیت یہ جو ضروری ہے یہ مواد اکٹھا ہوجائے پھر میں انشاء اللہ بیان کروں گا ٹھیک ہے؟ مگر سرسری طور پر میں بتارہا ہوں کہ اس بات کو یاد رکھیں،یہ تو کوئی بھول چوک کے مسائل نہیں ہیں یعنی میری طرف سے نہیں ہیں بہرحال۔ سننے والوں کی طرف سے اگرہوگئے ہوں تو الگ بات ہے۔ اب اس آیت کریمہ پر گفتگو ہوگی۔
اذ جاء ک المنٰقون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قٰتلھم اللہ انی یؤفکون۔ (المنافقون 2)
یہ آیت اور اس کے تسلسل میں آگے پھر بعض اور آیات ہیں جو شان نزول کے تعلق میں بیان کرنی ضروری ہیں۔ سب سے اہم میرے نزدیک یہ آیت اس پہلو سے ہے کہ یہاں قرآن کریم نے جو کھل کر واضح بات بیان فرمائی ہے، بہت سی ایسی احادیث جو قتل مرتد سے تعلق رکھتی ہیں وہ ان آیات کی اس شان نزول سے واضح طور پر ٹکراتی ہیں جو ان آیات میں خود بیان کی گئی ہیں۔ منافق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور کہتے تھے نشھد انک لرسول اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے۔ واللہ یعلم انک لرسولہ اللہ سے بہتر کون جانتا ہے اللہ جانتا ہے کہ تو اسی کا رسول ہے۔ واللہ یشھد ان المنافقین لکذبون۔ اور اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔ اب یہ کون منافق تھے؟ کیا ان کا علم تھا یا نہیں تھا؟ کیا اسی وجہ سے ان کو قتل نہیں کیا گیا کہ ان کا علم نہیں تھا؟ یا یہ آیات صراحت سے بتارہی ہیں کہ ان کا علم تھا وہ کون لوگ ہیں۔ اور اس کے باوجود ان کا قتل نہیں کیا گیا بلکہ قتل مرتد سے متعلق جو متفرق احادیث پیش کی جاتی ہیں ان آیات سے کھلم کھلا ٹکراتی ہیں۔ اتخذوایمانھم جنۃ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنایاہوا ہے۔ یعنی جنۃ زرع یا ڈھال جو کچھ بھی ہے اس کے پیچھے ہو کہ وہ اپنے جسموں کو بچاتے ہیں فصدوا عن سبیل اللہ اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ انھم ساء ماکانوا یعملون۔ بہت برا ہے جو وہ کرتے ہیں یہ سارا نقشہ تفصیل سے ان کا لکھا ہوا ہے۔ ذالک بانھم اٰمنوا ثم کفروا فطبع علی قلوبھم فھم لا یفقھون یہ اس لئے ہے کہ انھم امنوا کہ ایمان لے آئے ثم کفروا پھر کفر اختیار کیا۔ ارتداد اور کیا ہوتاہے۔ ایمان لے آئے اور کفرا ختیار کیا فطبع علیٰ قلوبھم اس کے نتیجے میں ان کے دلوں پر مہریں لگادی گئی ہیں۔ فھم لا یفقھون اور وہ نہیں جانتے نہیں، اس کا شعور رکھتے یا تفقہ نہیں رکھتے اس کا۔ واذا دار ء یتھم تعجبک اجسامھم یہ معین لوگ نہیں ہیں تو اور کون ہیں واذارء یتھم تعجبک اجسامھم ۔ ان کے جسم ان کی ظاہر شکل و صورت تجھے پسند آئے گی دیکھنے میں۔ بڑے بڑے اچھے اچھے نمبردار قسم کے لوگ دکھائی دیں گے۔ واذا رء یتھم تعجبک اجسامھم وان یقولوا تسمع لقولھم۔ جب وہ باتیں کرتے ہیں تو تو ان کی باتیں سنتا ہے۔ کانھم حھسب مسندۃ گویا کہ وہ چنی ہوئی لکڑیوں کی ایک ظاہر سجاوٹ ہے یحسبون کل صیحۃ علیھم ہر آفت جو پڑتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ انہی پر ٹوٹے گی ھم العدو یہ دشمن ہیں۔ فاحذرھم پس ان سے ڈر یعنی ان سے احتیاط کر اور اپنا بچاؤ کر قاتلھم اللہ انی یؤفکون۔ اللہ ان سے لڑائی کرے گا۔ یا قاتلھم کا مطلب ہے *** ہو اللہ تعالیٰ کی ان پر۔ اللہ نے ان پر *** ڈالی ہے اور اللہ کے ذمے ہے ان کو ہلاک کرنا۔ انی یؤفکون دوسرا قاتل کا مفہوم ہے ان کی عقلوں پر مار پڑگئی ہے۔ *** پڑی ہوئی ہے ان پر۔ وہ نہیں جانتے کہ کہاں ’’یؤفکون‘‘ کہاں وہ بہکائے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ راہ حق سے ہٹ کے دور چلے جاتے ہیں۔ اب یہاں میرا استنباط یہ ہے کہ یہ لوگ معین تھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق واضح حکم ہے کہ یہ لوگ جب باتیں کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور خوف کرتے ہیں کہ کوئی آفت ان پر نہ آپڑے۔ کوئی بھی زلزلہ آئے، کوئی بھی ابتلاء آئے اس میں یہ خشک لکڑیوں کی طرح اس کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ یہ معین لوگ ہیں کہ نہیں۔ اگر نہیں تو یہ حکم کیوں ہیں ھم العدو فاحذرھم یہ دشمن ہیںں ان سے بچو۔ اگر معلوم ہی نہیں کہ وہ دشمن ہیں وہ ہیں کون تو بچیں کیسے ان سے۔ پس یہ وہ باتیں ہیں جو ساری سوسائٹی میں معلوم تھیں۔ تمام صحابہ اس آیت کریمہ کی شان نزول کی روشنی میں جانتے تھے یہ کون لوگ ہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم بھی ان سے احتیاط برتتے تھے۔ تاکہ ان کے شر سے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن اس کے باوجود خدا نے دی تھی ’’انہوں نے اپنی قسموں کو اپنے لئے ایک ڈھال بنالیا ہے۔ اللہ کہتا ہے یہ وہ لوگ ہیں۔ ان کے قتل کا کیوں حکم نہیں ہوا؟ سوال یہ ہے کہ اتنی وضاحت کے بعد، خدا سے بہتر کون دلوں کا حال جانتا ہے ا ور جو جانتاہے اس نے اس کو بتادیا جس کو بتانا ایسے صاحب امر کو بتانا ہے جو ہر فیصلہ کرسکتا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو ان سب منافقین کا قتل و غارت کا حکم دے دیتا۔ اس منصب پر فائز ہونے کے باوجود، باوجود اس کے آپ جانتے ہیں دیکھتے ہیں پہچانتے ہیں۔ آپ کو ان کے قتل کا حکم نہیں بلکہ وہ ایمان لاتے ہیں پھر اس سے پھر جاتے ہیں اور مرتد کس کو کہتے ہیں۔ یہ آیات اپنی شان نزول کے لحاظ سے جس کی تفصیل ان آیات میں درج ہے ان تمام احادیث کے فرضی پیغام کو رد کرتی ہیں جس میں قتل مرتد کے حکم کی بحثیں ساری چلائی گئی ہیں۔ ان آیات کے ہوتے ہوئے، اور ایک اور موقع ایسا ہے قرآن کریم کا اس میں بھی قتل مرتد کے حکم کی نفی بڑی وضاحت کے ساتھ ملتی ہے، اور ان میں سے ایک عبداللہ بن ابی بن سلول والی آیات بھی ہیں جو اس کے بعد آئیں گے اس میں اس بدبخت کے اس اعلان کا ذکر ہے کہ نعوذباللہ من ذالک جب وہ لوٹے گا مدینے میں تو وہاں کا سب سے معزز انسان یعنی وہ خود عبداللہ نعوذباللہ من ذالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق بدتمیزی کی ہے ان کو نکال دے گا۔ اب ارتداد کی بدترین مثال ہے یہ۔ ایسی بدترین مثال جس کے اوپر ساری سوسائٹی گواہ ہوگئی۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر اگر یہ ارتداد کی آیات نازل ہوتیں کہ تم نے ان کو جو مرتد ہو اس کو قتل کردینا ہے وہ تمام حدیثیں اپنی ساری روایت کی طاقت کے ساتھ ایک طرف کردیں اور اس واقعہ کو ایک طرف کردیں۔ یہ آیات ان کو قبول کرنے کی راہ میں حائل ہوجائیں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے علم میں ہے اور مرتد بھی وہ جو بدتمیزوں کا سردار بے حیاؤں کا سردار ہے۔ اور اس کے قتل کی اجازت نہیں دیتے۔ کیوں اس کا جناہ پڑھا؟ یہ سارے مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق میں تفصیلی گفتگو پہلے کرچکا ہوں۔ اس لئے ان کو دوبارہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہے شان نزول کا پہلو۔ کہ قرآن کریم کی آیات اپنے اندر ایک ایسی شان نزول رکھتی ہیں کہ ان سے خواہ کتنی ہی قوی، روایتی طور پر قوی احادیث ٹکرائیں گی تو وہ گرجائیں گی یا ان کی ایسی تاویل کرنی پڑے گی جو ان آیات کے مطابق اور شایان شان ہو۔ مثلاً ایک شخص مرتد بھی ہے لیکن اس کے علاوہ وہ جنگی اصولوں کے مطابق فتنہ اور فساد کی وجہ سے قتل کے لائق ہے۔ اور اس کے قتل کا جواز ان آیات میں ملتا ہے جن میں ہر ایسا باغی اور فسادی، جو ملک میں فساد کرتا پھر رہا ہو۔ اور ہزاروں معصوموں کے قتل کا ذمہ دار ہوسکتا ہے ایسے شخص کو قتل کرنا بعینہٖ انصاف کے مطابق ہے۔ اور اس کا قتل مرتد سے تعلق نہیں ہے۔ پس جہاں یہ دو باتیں مل گئیں وہاں بعض علماء نے حدیثوں کی شان نزول ان آیات سے باندھی ہے جن کا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ قتل مرتد والی آیات کو ، وہ احادیث جو قتل مرتد والی آیات سے بظاہر تعلق رکھتی ہیں وہ احادیث ایک اور مضمون سے تعلق رکھتی ہیں وہ ملک میں فتنہ و فساد ولی قرآنی آیات سے تعلق رکھتی ہیں، احادیث سے نہیں کہنا چاہئے، قرآن کریم کی دوسری آیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ آیات اپنی جگہ واضح ہیں اور ان سے ان کو ملاؤ تو وہ بات بالکل کھل جائے گی اور قتل مرتد والی یہ جو آیات ہیں جو میں نے پڑھی ہیں ان سے ان کا تصادم نہیں ہوگا پس قرآن کریم کی شان نزول تمام ایسی روایات سے ہمیں الگ کردیتی ہیں اور بچالیتی ہیں جن کا قرآن کریم سے ہی تصادم ہورہا ہو۔ اورا س تصادم کو روکنے کے سلسلے میں یہ آیات قتل مرتد کے مضمون میں یہ دونوں عبداللہ بن ابی سلول والی اور دوسری یہ اتنی مستحکم اور محکم آیات ہیں کہ ان کا کوئی توڑ کسی اور روایت کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قرآن کی محکم آیات کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ پس میں نے بتایا کہ جو صلح کرنی ہے ان آیات کی ان روایات سے وہ مضمون الگ ہے، ان کا تعلق اور آیات سے ہے، ان آیات سے ان کا جوڑنا ہی غلط ہے اور یہ آیات بتارہی ہیں کہ ہرگز تمہیں ان کو اس کے ساتھ جوڑنے کی اجازت نہیں نہ حق پہنچتا ہے۔
اب ایک مسجد ضرار والی آیات ہیں جن کے متعلق میں پہلے بھی اپنے خطبات میں جو پاکستان کے So-Called ’’قرطاس ابیض‘‘ کے جواب میں میں نے جو خطبے دیئے ان میں ان آیات کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ لیکن یہاں اس وقت جو مسجدوں کی بے حرمتی ہورہی ہے، اس کے تعلق میں میں پھر مختصراً بات دہراتا ہوں کہ یہاں مسجدوں کو گرانے کا کوئی عام حکم نہیں ملتا۔ اور شان نزول یہ آیت خود بیان کررہی ہے۔ اور گرانے کی وجہ اللہ کا خاص حکم ہے۔ جو اس موقع پرنازل ہوا ہے۔ اور اس کا اس خاص مسجد سے تعلق ہے۔ اب یہ شان نزول ان آیات نے خود کھولی ہے کسی اور حدیث کی ضرورت نہیں ہے اور اس کی وجہ سے ایک عام حکم میں کسی قوم کی دخل اندازی نہیں ہوگی۔ جو مسجدوں کے احترام کا عمومی حکم ہے۔ اب میں آیات پڑھتا ہوں پھر میں اس بحث کو زیادہ کھولوں گا۔ والذین اتخزصلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلما مسجدا ضرارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ یشھد انھم لکذبون۔ (التوبہ 108)
اس آیت کا اطلاق جماعت احمدیہ پر زبردستی کیا جاتا ہے اور سند حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسجدوں کو گرانا جو ضرار ہوں وہ جائز ہے اور عین اللہ کے حکم کے مطابق ہے۔ اس سلسلے میں ضمناً یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ جن کو یہ لوگ مسجد کہتے ہی نہیں ان پر اس آیت کا اطلاق کیسے آئے گا ان کے ہاں تو احمدی عبادت گاہیںکہلاتی ہیں۔ اور غیرمسلم عبادت گاہیں کہلاتی ہیں۔ اس لئے دیکھیں کیسی عقل پھر گئی ہے۔ آیت ضرار سے احمدیوں کی مسجدیں گرانے کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ یہ مسجد یں پہلے ہی نہیں یہ غیرمسلموں کی عبادت گاہیں ہیں۔ اب بتائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے کب اور کہاں غیرمسلموں کی عبادت گاہیں منہدم فرمائی ہیں۔ اگر فرمائی ہیں تو ایسی جگہ یہ جہاں اس عبادت گاہ میںعبادت کرنے والے مسلمان ہوچکے تھے۔ طائف کے ضمن میں یہ واقعات ملتے ہیں وہاں وہ مسلمان ہوچکے تھے۔ ورنہ ہر جگہ یہودیوں کے معابد تھے، عیسائیوں کے معابد تھے، غیرمسلموں کے معابد کے انہدام کا کہیں کوئی حکم نہیں ہوا کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ پس جب یہ کہتے ہیں معبد ہے احمدیوں کا اور احمدی غیرمسلم ہیں تو غیرمسلم کے معابد کو مٹانا اور گرانا اس آیت سے کیسے نکل آیا۔ جونہی اس کو مسجد مانیں گے وہاں یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم جھوٹے تھے یہ سراسر مسجد ہے اور اللہ کے نام پر ہے۔ دوسرے ان کو مٹانے کی جو تعلیم دیتے ہیں وہ اس بناء پر نہیں دیتے کہ وہاں فساد کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ ہرجگہ جہاں مٹایا گیا ہے وہاں یہ الزام نہیں ہے کہ یہ فساد کا اڈہ تھا۔ یہ الزام ہے جو تحریری طور پر ثابت ہے کہ یہاں یہ مسلمانوں کی طرح عبادت سرانجام دیتے تھے۔ اب بتائیں اس آیت سے اس کا کیا تعلق۔ مسلمانوں کی طرح عبادت کرنا جرم ہے اور یہ جو ساری باتیں جوا س میں درج ہیں یہ الزامات میں ہی دخل نہیں ہیں۔ تو ان کو پھر کیا حق ہوگیا کہ ان آیات سے سند ڈھونڈیں۔ پس شان نزول وہ شان نزول ہے جو آیت خود بیان کرے اور ایسی تفصیل سے بیان کرے کہ اس کا غلط اطلاق ہوہی نہ سکتا ہو۔ یہ آیات کریمہ ان میں سے ہے۔ ضرارا و کفرا و تفریقا بین المؤمنین و ارصادا لمن حارب اللہ وہ مساجد جن کو انہوں نے منہدم کیا ان پہ الزام بھی نہیں لگایا۔ یہ مساجد تفریق کی خاطر، اور حکومت کے خلاف بغاوت کی خاطر اور فساد کے لئے استعمال ہورہی تھیں اس لئے ہم نے ان مساجد کو گرادیا۔ تحریری عدالتوں میں ریکارڈ کی رو سے ثابت ہے کہ ان میں سے گرائی ہوئی مسجدوں میں سے ایک پر بھی یہ الزام نہیں تھا۔ صرف یہ الزام تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے غلاموں کی طرح اس میں عبادت کی جاتی ہے۔ کیا اس الزام پر اللہ نے حکم دیا تھا کہ ان کی مسجد گرادو یہ تیری طرح تیرے متبعین کی طرح وہاں عبادت بجالاتے ہیں۔ا سی کی سند نکال کے دکھائیں۔ کوئی ایک حدیث نکال لیں۔ ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی واللہ یشھد انھم لکذبون۔ اور وہ لوگ یہ حلف اٹھاتے تھے کہ ہم نے صرف اچھی بات ایک نیک نیت والا کام کیا ہے۔ یہ حلف اٹھاتے تھے ان کا حلف منظور ہوا کہ نہیں کیا ان پر قتل کے مقدمے بنائے گئے؟ کیا ان میں سے کسی ایک کو قتل کیا گیا؟ وہ حلف اٹھاتے تھے، جو بتارہی ہے یہ آیت کہ جھوٹے حلف تھے۔ اور یہ کہتے تھے ’’ہم نے تو نیک نیتی سے کیا تھا۔ واللہ یشھد انھم لکذبون۔ یہاں احمدیوں کی نیت پر کس خدا نے گواہی دی ہے؟ ان سے پوچھے کوئی۔ کیا ان میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا مقام نعوذباللہ من ذالک رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معین طور پر بتائے کہ یہ احمدی جھوٹ بول رہا ہے، اس کے دل میں جھانک کے دیکھ لو۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا اسوۂ حسنہ بتارہا ہے کہ جب خدا نے کہا کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اس وقت بھی ان کو قتل نہیں کیا۔ یہ جو لوگ ہیں یہ قتل نہیں ہوئے۔ ان میں سے بعض بھاگے ہیں پناہ کے لئے۔ یہ اور مسئلہ ہے اس کی تفصیل میں پہلے میں جاچکا ہوں۔ لیکن ان میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مسجد میں حاضر ہوکر یا مسلمانوں کی مسجدوں میں حاضر ہوکر عبادت سے نہیں روکا گیا۔ ایک اور فساد ان لوگوں کا یہ دیکھیں کیسی شان نزول واضح ہے۔ ان کو یہ کہا گیا ہے وہاں نہ پڑھو۔ یہاں نمازیں پڑھو۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کے پڑھو۔ یہ نہیں فرمایا تم نے نمازیں نہیں پڑھنی۔ جو اڈے بنائے ہوئے ہیں وہاں نمازوں کی خاطر اڈے ہیں ہی نہیں۔ یہ تو فتنہ و فساد کی خاطر اڈے بنے ہوئے ہیں۔ ان کو چھوڑ دو ان کو تو منہدم کرنے کا حکم مل گیا ہے۔ اب باقی مسجدیں کھلی ہیں تو مسجدوں سے روکنے والے لوگ ہیں یہ۔ اور جو عبادت گاہیں ہیں ان کو مسجد نہیں کہتے پھر منہدم کرتے ہیں غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو جانتے ہیں کہ وہاں شرک نہیں ہوتا۔ یہ الزام ہی نہیں ہے کہ وہاں شرک ہوتاہے اس لئے اگر دوسری روایات کو نظر انداز بھی سردست کردیں کہ مشرکوں کے سب اڈے گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے شرک کی وجہ سے مٹادیئے تھے۔ تو یہ ہر ایسے معاملے میں جہاں احمدیوں کی مسجد کو گرایا گیا یا نقصان پہنچایا گیا۔ ایک بھی الزام ایسا نہیں کہ اس لئے گرایا جارہا ہے کہ یہاں شرک ہوتا تھا۔ نہ فساد کا الزام ہے نہ شرک کا الزام ہے اور اس لئے گرایا جارہا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی متابعت میں جیسا کہ عبادت ہونی چاہئے تھی، یہ لوگ عبادت کرتے ہیں۔ یہ جرم گردن زدنی ہے۔ یہ جرم اس لائق ہے کہ ان کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی نقل کرنا یعنی آپ کی متابعت کرنے کا حق کیا رکھتے ہیں دلوں میں تو ان کے نہیں ہے۔ اور دلوں میں نہیں ہے کے متعلق اللہ گواہی دے رہا ہے کہ جن کے دلوں میں نہیں تھا ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو اطلاع کردی گئی تھی اور قتل کی اجازت نہیں تھی۔ تو یہ کون سے خدا راور رسول بن بیٹھے کہ ایسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن کا واقعات سے دور کا بھی تعلق نہیں اور ان واقعات کو ان آیات نے ایسا کھول دیا ہے کہ آدمی حیران ہوجاتا ہے یسے یہ آیت ہے ولاتقم فیہ ابدا۔ اس مسجد میں تو نہ جا۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کبھی نہ جا۔
لمسجد اسس علی التقوی من اول یوم احق ان تقوم فیہ۔ وہ مسجد جو اول یوم سے تقویٰ پر ہی مبنی ہے، تقویٰ پر گویا اس کی بنیادیں استوار کی گئی ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم مسجد ہے تو ہو مسجد تیرے شایان شان ہے احق ان تقوم فیہ کہ اس میں تو کھڑا ہو۔ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین۔ اس میں وہ مرد مومن ہیں جو تیری پیروی کرنے والے ہیں۔ رجال تیرے ساتھ ہیں۔ یحبون ان یتطھروا پاک کئے جائیں اور پاک ہوں واللہ یحب المطھرین۔ اللہ ایسی پاکی کی خوہش رکھنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
اب یہ ان مسجدوں میں داخل ہوئے ہیں کہ نہیں داخل ہوئے ہیں اور انہیں اپنا بھی بیٹھے ہیں۔ اگر اس آیت کریمہ سے سند لے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ داخل بھی نہ ہو۔ اپنی مسجدوں میں تقویٰ کی باتیں کرو اور پاکیزگی کی باتیں کرو۔ اس سے کوئی ان کو غرض نہیں ہے۔ ان کی مسجدوں میں ہرقسم کی سیاسی بحثیں چل رہی ہیں ان کی مسجدوں سے وہ آوازیں بلند ہورہی ہیں جو ملک کے سیاسی نظام کے خلاف بغاوت ہے۔ اور ہر مسجد فتنہ و فساد کی تعلیم دے رہی ہے۔ اور دوسری مسجدوں کے خلاف یہی فتنہ و فساد کی تعلیم جاری ہے۔ لیکن یطھروا والی بات بتارہی ہے کہ اس میں داخل ہونے اور کھڑے ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کی نیت فساد کی تھی۔ جتنی مسجدوں پہ یہ قبضہ کئے بیٹھے ہیں وہاں ان کے so-called نمازی جاکے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اور وہاں جماعت احمدیہ کی سو سالہ ناپاکی نعوذباللہ من ذالک ان پر اثرانداز نہیں ہورہی تو اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ اگر تمہیں کسی دوسری مسجد پر اعتراض ہے تو جاؤ نہ وہاں اس پلیدی سے اعراض کرو اور اپنی پاک مسجدیں جو ہیں ان کو پاکیزگی سے آباد کرو تو یہ ہی شان نزول کی اس سے تعلق رکھنے والی وہ آیات ہیں۔ جن کا تفصیلی ذکر میرے ان خطبات میں آچکا ہے لیکن مختصراً میں اس موقع پر یہ یاد کراتا ہوں کہ یہ ایک عام شکوہ ہے جماعت کو کہ ہماری مسجدوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اور انہیں اپنا بیٹھتے ہیں اور عدالتیں ان کے حق میں فیصلہ دیتی ہیں۔ اور ساری سو ، سو سالہ کی نعوذباللہ من ذالک پلیدی سے ان کو کوئی اعتراض نہیں۔ اور جب وہ ان کو لے لیتے ہیں تو وہ ویران ہوجاتی ہیں۔ انہیں مسجدوںن میں لغو سرائی ہوتی ہے بے ہودہ تعلیمات دی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف اٹھایا جاتاہے ویتطھروا والامضمون وہاں نہیں جاری ہوتا۔
اب سورۃ الجمعہ آیت 10 تا 12 میرے سامنے ہے۔ یایھا الذین امنوا اذا نودی للصلٰوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکراللہ وذروا البیع ذالک خیرلکم ان کنتم تعلمون۔ اس آیت کریمہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان ہے کہ جب نماز کے لئے جمعہ کے روز بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کیا کرو۔ یعنی دوڑتے ہوئے اللہ کے ذکر کی طرف بڑھو۔ اور وذروالبیع اور بیع کو اس وقت چھوڑ دیا کرو۔ ذٰلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے۔ اس آیت کریمہ کے تعلق میں جو مؤمنین کا معاشرہ مدینے میں قائم ہوا، اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی بات سننے کے لئے تیزی کے ساتھ مسجدوں کی طرف جایا کرتے تھے۔ صرف جمعہ کی بات نہیں۔ عام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مجالس میں بھی صحابہ کا یہ نظریہ تھا کہ جب باہر سنا کہ بیٹھ جاؤ! بیٹھ گئے۔ اور جانوروں کی طرح پھدک پھدک کرمسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ ان آیات سے ایسے لوگوں کے خلاف کوئی استنباط کرنا جو ابھی آنے والی میں ساتھ اس کے بالکل ناجائز ہے۔ صحابہ اور مؤمنین کا ہرگز یہ حال نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امامت میں ہونے والے جمعہ کی طرف بلایا جائے اور وہ چھوڑ چھوڑ کر بازاروں میں بھاگیں یہ روایات ان آیات کریمہ سے ٹکرارہی ہیں۔ اس لئے ان کو شان نزول کے طور پر پیش کرنا ہرگز جائز نہیں فاذا قضیت الصلٰوۃ فآنتشروا فی الارض جب نماز ہوجائے پھر تم بازاروں میں پھیلو اپنے کاموں میں چلے جاؤ۔ وابتغوا من فضل اللہ اور اللہ کے فضل کی تلاش کرو۔ یعنی دنیاوی امور میں جو پاکیزہ رزق تمہارے لئے مقدر ہوا ہوا ہے اس کو تلاش کرو۔ واذکرواللہ کثیرا لعلکم تفلحون اور فضل کی تلاش میں بھی کثرت سے اللہ کو یاد کرتے رہو۔ یہ قطعیت کے ساتھ ثابت شدہ مدینے کا وہ معاشرہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے صحابہ حصہ لیتے تھے اور جب وہ بازاروں میں اس آیت کریمہ کی اجازت سے پھیل بھی جاتے تھے تو ذکر الٰہی ان کی زبان پہ جاری رہتا تھا۔ اب اس آیت کے مقابل پر کوئی حدیث خواہ کیسی قوی سند رکھتی ہو وہ قابل قبول نہیں ہے۔ شان نزول خدا خود بیان فرمارہا ہے۔ ان لوگوں کی تاریخ کی باتیں ہیں۔ آگے جو آیت آنے والی ہے اس یہ وہ پھر یہ استنباط کرتے ہیں۔ واذا رأو تجـارۃ او لھوافضو الیھا ترکوک قائما قل ما عنداللہ خیر من اللھو ومن التجارۃ۔ واللہ خیرالرازقین۔ یہاں میرے نزدیک وہ مومن مرد ہی نہیں ہیں جن کی بحث پہلے گزری ہے۔ اس پر تفصیلی بحث میں پہلے اٹھاچکا ہوں۔ ترجمہ اس کا یہ ہے ’’اور جب تجارت یا کھیل کی بات دیکھتے ہیں تو تجھ سے الگ ہوکر اس کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اور تجھ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ کیا کبھی مسجد نبوی میں ایسا واقعہ ہوا ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو منبر پر اکیلا کھڑے چھوڑ گئے ہیں اور باہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھیل تماشے دیکھنے کے لئے یا تجارتوں کے لئے دوڑ پڑے ہوں۔ کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا۔ اس لئے وہ ساری نعوذباللہ من ذالک شان نزول والی روایات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے کی ایک جاری حقیقت سے ٹکرارہی ہیں۔ وہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لائق ہیں۔ ہرگز ان سے قرآن کریم کی شان نزول پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ اول وہ لوگ مراد ہوسکتے ہیں جو پہلی آیات میں مذکور نہیں ہیں۔ منافقین کچھ ایسے ہیں جن کے دلوں میں ایمان نہیں تھا۔ جن کے ذکر مختلف جگہوں پر پھیلے پڑے ہیں۔ ان کی یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ وہ جب کوئی باہرسے تجارتی قافلہ آتا تھا یا اور اس قسم کی کھیل تماشے والی باتیں ہوا کرتی تھیں تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے الگ ہوکر۔ ’’تجھے اکیلا قائم چھوڑ دیا‘‘ یہ مطلب نہیں ہے کہ مسجد خالی ہوگئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اکیلے نعوذباللہ کھڑے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ وہ تیری متابعت سے ہٹ جاتے ہیں اور ان لوگوں کی متابعت سے ہٹ جاتے ہیں، والذین معہ جن کے متعلق آتا ہے وہ تیرے ساتھ ہیں ایسے لوگ پھر بازاروں میں ملیں گے لیکن مساجد میں نہیں ملیں گے۔ تو وہاں جاکر یہ منافق ننگے ہوجاتے ہیں۔ ایک اس کا یہ مطلب ہے۔ اس معنے میں ان کی روایات کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ جو منافقین سے متعلق ہوں اور صحابہ اور مؤمنین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سچے عشاق غلاموں سے تعلق میں نہ ہوں۔ ورنہ وہ آیات سے تصادم ہوگا جو کسی صورت بھی قبول نہیں ہوسکتا۔ دوسرا میں نے پہلے بھی اس آیت سے متعلق یہ بحث اٹھائی تھی اور اب دوبارہ میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس آیت کا سیاق و سباق اور اس میں جو اذا کا استعمال ہے یہ بات خوب اچھی طرح کھل بھی جاتی ہے۔ واذا راو تجارۃ بعد کے ایک زمانے کی بات ہے۔ اذا کا لفظ عربی میں جب ماضی پر آتا ہے تو اسے مستقبل میں تبدیل کردیا کرتا ہے۔ پس فرمایا گیا ہے کہ آج کے جمعہ میں تو یہ منظر تم نہیں دیکھتے وہ تو وہ منظر دیکھتے ہو جو اوپر بیان ہوا ہے۔ مگر ایسے بدنصیبی کے دن بھی آنے والے ہیں۔ جب آئندہ مواقع پر یہ لوگ لھوو لعب کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔ اور تجارتوں میں ڈوب جائیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ کی تعلیمات سے بے بہرہ ہوتے ہوئے دنیا پرستی شروع کردیں گے۔ یہ ایک پیش گوئی ہے، آئندہ زمانوں سے متعلق اور لفظ اذا اس بات کو خوب کھول رہا ہے۔ اور اس کا پھر اوپر کی آیات سے کوئی تصادم باقی نہیں رہتا۔ ان لوگوں کی بات نہیں ہورہی کہ یہ آئندہ یہ کریں گے۔ ان لوگوں کی بات ہورہی ہے جو آئندہ زمانوں میں پیدا ہونے والے ہیں۔ اورر دوسری احادیث ان کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈال رہی ہیں کہ آئندہ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ مسلمان کہلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے ہٹ کر غیرمسلم حرکتیں شروع کردیں گے۔ تو تمام احادیث اس آیت کی شان نزول سے مطابقت رکھنے والی احادیث ہیں اور وہ قابل قبول ہوں گی۔ واذا راو تـجارۃ او لھوآنفضوا الیھا و ترکوک قائما۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ جب یہ لوگ تجارتوں اورلھوولعب کو دیکھ کرا س کی طرف لپکنے لگیں گے اس کی طرف الٹ پڑیں گے۔ وترکوک قائما یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم قائم چھوڑ دیں گے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی جو شان نبوت ہے اور شان رسالت ہے اس سے کوئی آئندہ آنے والا مضمون جو گمراہی کا مضمون ہے ٹکرا نہیں سکتا آپ کی شان اسی طرح رہے گی۔ آپ قائم رہیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ یہ انتظام فرمائے گا کہ آپ کے اس قیام کو بعد میں ثابت کردے۔ اس لئے تجھے چھوڑتے ہیں تو تجھے کوئی پرواہ نہیں اس مضمون کی آیات دوسری موجود ہیں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو قرآن کریم یوں دکھایاتا ہے کہ ’’اے اللہ دیکھ انہوںں نے اس قرآن کو چھوڑ دیا اور پیٹھ پھیر کے چلے گئے۔ تو وہاں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اکیلے دکھائی دیتے ہیں۔ شکایت کرنے والے۔ حالانکہ باوجود اس کے کہ اس آیت کا اطلاق مرنے کے بعد قیامت کی زندگی پر نہیں ہوسکتا، وہاں تو نہیں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پہلے متبعین قرآن کر چھوڑ چھوڑ کر بھاگے ہوئے ہوں اور پیٹھ پھیر کے کہیں اور چلے جائیں گے۔ اس لئے وہ آیت کریمہ اسی قائما کی تشریح کررہی ہے۔ اک آئندہ زمانے میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنی تعلیم اور اپنی پاکیزگی میں کلیۃً قائم رہیں گے خواہ آپ کی طرف منسوب ہونے والے لوگ قرآن کریم کی تخفیف کریں۔ اسے پارہ پارہ کردیں کوئی ٹکڑا ایک لے بھاگے۔ کوئی ٹکڑا دوسرا ے بھاگے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو گویا اکیلا رہنے دیں۔ اس میدان میں جہاں آپ نے حق کی حفاظت کرنی ہے اورر اپنے خدائی پیغام اور امانت کی حفاظت کرنی ہے اس قیام میں ان کی بے وفائی سے کوئی بداثر نہیں پڑے گا۔ قل ما عنداللہ خیر من اللھو ومن التجارۃ واللہ خیرالرزقین۔ تو ان کو پیغام دے دے کہ جب وہ زمانہ آئے گا جب تم لھوولعب میں مبتلا ہوگے اور تجارتوں کی طرف بھاگو گے تو یاد رکھو واللہ خیرا لرزاقین ۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والا ہے یعنی روحانی بھی اور جسمانی بھی اس لئے وہ دنیا کی پیروی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ تو پہلے جو ہیں ذکرواللہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ ان لوگوں کی نعوذباللہ من ذالک ان کی پاکیزگی پر ہرگز کوئی حرف نہیں ہے۔ جو آنے والی آیت ڈالتی ہو۔ یا ان پر کوئی تنقید کرتی ہو۔ اسی حال میں انہوں نے جانیں دیں۔ منھم من قضٰی نحبہ ومنھم من ینتظر اور کل والی آیات میں ان کا قیامت تک کے لیے پاک اور صاف رہنا یہ قطعی طور سے ثابت ہے پس اس آیت کریمہ کے وہ معنے نہیں کیے جاسکتے جو اس کی طرف بعض لوگ منسوب کرتے ہیں۔
سورۃ نور کی آیت 64۔ لاتجعلوا دعا الرسول بینکم کدعا بعضکم بعضا۔ ’’اے لوگو رسول کی دعا کو ‘‘یہ دعا سے مراد یہاں پکارنا ہے ’’رسول کو جب تم پکارتے ہو یا بلاتے ہو تو اس کو ایسا نہ بنا بیٹھنا جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ ایک بہت بڑا نمایاں فرق ہونا چاہئے۔ اس آیت میں کسی اور شان نزول والی حدیث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک جاری حکم ایسا دے دیا گیا ہے جس میں کسی شخص کو جاننے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ کون ایسی حرکتیں کیا کرتا تھا۔ کچھ لوگ سوسائٹی میں ایسی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ساتھ ایک پردہ ڈال دیا ہے۔ اور عمومی تعلیم وہ دی ہے جو کسی وقتی زمانے یعنی ایک عارضی زمانے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ایک مستقل تعلیم ہے۔ چنانچہ فرمایا ’’جب تم رسول کو بلایا کرو تو اس طرح نہ بلایا کرو جیسے تم آپ میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔‘‘
قد یعلم اللہ الذین یتسالون منکم لواذا فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ انن تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم۔ سورۃ نور کی آیت 64ہے۔ اس کا ترجمہ تفسیر صغیر میں سے یوں لکھا ہے۔ ’’اے مومنو یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم میں سے کسی کو بلانا یا ایسا ہی ہے جیسے کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا۔ یہاں الگ وہ آیت ہے؟ وہ اور ہے جو میرے ذہن میں تھی دوسری آیت ہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ میں نے اس کا ترجمہ میں نے تفسیر سے اگلا حصہ دیکھا ہے تو یہ اور آیت ہے۔ ہیں؟ ہاں ہاں! وہ ٹھیک ہے۔ وہ بعد میں رکھ لینا۔ وہ آیت جو اب میں نے شروع کیا ہے مضمون تو اگے جب بڑھا ہوں تو بالکل اور مضمون ہے اس آیت میں۔ جو آیت میرے ذہن میں تھی وہ نہیں وہ دوسری آیت ہے۔ اسی کو آپ دوبارہ نکال لینا۔ لاتجعلو دعا الرسول۔ دعا الرسول کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں فاعلی اور مفعولی اس لئے وہ ترجمہ کے لحاظ سے غلط نہیں تھا۔ لیکن موقع اور محل کے لحاظ سے یہ بات غلط تھی۔ تم رسول کو بلاؤ تو دعا الرسول کہہ سکتے ہیں اسی کو رسول کو بلانا۔ اور دعا الرسول سے مراد رسول کا تمہیں بلانا دونوںمعنے لغت کے لحاظ سے جائز ہیں مگر موقع اور محل کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے۔ یہاں دوسرے معنے مراد ہیں کہ جب رسول تمہیں بلائے تو ایسا نہ سلوک کرو جیسے تم میں سے بعض کسی دوسرے کو بلاتے ہیں ’’اے مومنو! یہ نہ سمجھو کہ رسول کا تم سے کسی کو بلانا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم میں سے بعض کا بعض کو بلانا اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو کہ تم میں سے پہلو بچاکر مجلس سے بھاگ جاتے ہیں۔ بس چاہئے کہ جو اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں۔ا س سے ڈریں کہ ان کو خدا کی طرف سے کوئی آفت نہ پہنچ جائے یا ان کو درد ناک عذاب نہ پہنچ جائے۔ یہ آیت بھی جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے۔ اپنے شان نزول کے لحاظ سے بالکل واضح ہے۔ مراد صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مجلس نہیں بلکہ آپ کی غلامی میں جو نظام قائم ہو اس نظام میں جو مجالس شوریٰ یا اہم معاملات میں غور کیا جارہا ہو تو ہرگز اجازت کے بغیر کسی کو وہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ اس کی شان نزول ہے۔ اور اس پہلو سے یہ ایک دائمی شان ہے۔ جو ہمیشہ رائج رہے گی جاری رہے گی اور ہمارا جماعت احمدیہ کا نظام عین اس آیت کے اوپرمبنی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد آپ جس نظام کی حفاظت فرمارہے تھے۔ جس نظام کے سربراہ تھے آپ کی غلامی میں اگر اس منصب پر کوئی بیٹھے تو خواہ ادنیٰ انسان بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے جن کو خدا نے امیر مقرر کیا تھا۔ ان سے سند لے کر واجب الاطاعت ہوجاتاہے۔ اور اس مضمون کی احادیث بکثرت موجود ہیں پہلے اسی درس کے دوران بیان ہوچکی ہیں۔ پس برابری کے معنی نہیں ہیں۔ ہرگز یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی قسم کی برابری مقصود ہو۔ مگر نظام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم چند ایام یا چند سالوں کے لئے نہیں تھا۔ یہ وہ نظام ہے جس نے قیامت تک جاری رہنا تھا۔ اگر ان آیات کو محض آپ کے زمانے سے باندھ دیا جائے تو آپ کا نظام ان چند سالوں میں ختم ہوجانا چاہئے۔ جن سالوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس دنیا میں زندہ تھے۔ پس شان نزول پر غور کریں تو صاف پتا چلتا ہے کہ ایک نظام مصطفی ہے جس کے تعلق میں یہ آیات جاری ہورہی ہیں۔ اور جو بھی اس سے ٹکرانے والی بات ہے وہ گرکے پاش پاش ہوجائے گی اور بے حیثیت ہوجائے گی۔ فرمایا یعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا۔ تم میں سے کچھ لوگ چپ چپ کے ایسی مجالس سے نکل جاتے ہیں۔ پتا نہ لگے کسی کو ہلکے سے کھسک کے ایک طرف ہوگئے۔ اور یہ ابھی بھی اسی طرح جاری ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ صرف اتنی تبدیلی آئی ہے کہ جب سے میں نے توجہ دلانی شروع کی ہے اب واقعۃً لوگ بہت توجہ کرتے ہیں لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر میرا یہ استنباط درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی غلامی میں تمام اہم امور میں جب ایک مجلس لگی ہو تو صدرمجلس کی اجازت کے بغیر نہیں جانا چاہئے۔ اس کا تعلق کسی خلیفہ سے نہیں ہے۔ خلیفہ سے بھی ہے مگر اس کے تابع ہر جماعت میں چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں جب خدا کے نام پر احمدیوں کو بلایا جاتا ہے اور ایک مجلس لگائی جاتی ہے تو ان کو ہرگز حق نہیں کہ یہ بدتمیزی کریں اور افراتفری میں کوئی ادھر سے اٹھ کر نکل گیا کوئی ادھر سے اٹھ کر چلا گیا ہے۔ اور ہرگز اس کے صدر مجلس کے احترام کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ ایسے معاملات مجھے بہت سی یورپ کی جماعتوں میں بھی تجربہ ہوا۔ اور ان کو میں نے تاکیداً بار بار سمجھایا کہ جو میرا نمائندہ ہے اگر اس کا کوئی حق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے تو وہ حق اس نے کہاں سے لیا؟ اس لئے کہ میری اطاعت کے حق کو تم نے تسلیم کیا۔ وہ تم نے کہاں سے لیا؟ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت کے حق کو تم نے تسلیم کیا اور اس نظام کو جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے جو اطاعت کا حق تھا دوبارہ جاری کیا اس سے لیا ہے۔ پس اس دور میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم وہ امام ہیں جنہوں نے ایک امام کو طاقت بخشی ہے۔ا س کو مطاع ہونے کی سند عطا فرمائی ہے۔ پس اگر اس زمانے میں درجہ بدرجہ ایک عام شخص بھی جو معمولی حیثیت کا ہو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے نظام کی نمائندگی کرتا تھا اس کی اطاعت سے انحراف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت سے انحراف اور خدا کی اطاعت سے انحراف تھا۔ جیسا کہ ثابت شدہ حقیقت ہے تو یہی بات ان معنوں میں جاری رکھیں کہ مرتبے کی بحث نہیں ہورہی۔ یہ بحث ہورہی ہے کہ یہ جو خدمت کرنے والے لوگ آپ کی نظر میں کیسے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں اپنی سند کن سے حاصل کرتے ہیں۔ وہ سند اگر اس وقت کی خلافت سے حاصل کرتے ہیں تو پچھلا سارا مضمون پیش نظر رکھیں اور سند کے اعتبار سے ان کی بے حرمتی کرنا اپنے سے چھوٹا دیکھنا اور یہ سمجھنا کہ ان سے بے اعتنائی کرکے ہم چلے جائیں ہمارے پر کیا فرق پڑتا ہے یہ ہماری طرح کا ایک عام آدمی بلکہ ہم سے بھی کم تر ہے ہم افسر ہیں اور یہ چپڑاسی ہے۔ یہ گستاخی ہے۔ یہ شیطانیت کی ایک مثال ہے۔ جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ اور ثابت کیا تھا کہ میں بہتر تخلیق پانے والا وجود ہوں اور یہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے میرے سامنے ۔ پس اس آیت کریمہ سے یہ بات ہے جو دراصل پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جو لوگ مجھے ایسا کہتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یخالفون عن الرمہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے امر کی یا خد اتعالیٰ کے امر کی ان معنوں میں مخالف کرتے ہیں بعید نہیں کہ ان کو کوئی فتنہ پہنچ جائے۔ اویصیبھم عذاب الیم یا کوئی دردناک عذاب ان کو پہنچے۔ یہ تصیبھم فتنہ کا مضمون ہم نے بارہا دیکھا ہے ایسے لوگ تھے بعض ایسے ہوتے ہیں جن کو خداتعالیٰ نے ضائع کردینا ہو جن کے متعلق ان کے اندر خدا نے کوئی ایس نیکی نہ دیکھی ہو کہ وہ بچائے جانے کے مستحق ہوں ان کو پھر فتنوں میں مبتلا کیا جاتاہے اور طرح طرح کے مصائب میں وہ مبتلا کردیئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بالآخر ان کو ہوش بھی آجاتی ہے بعض پھر واپسی کرتے ہیں لیکن کچھ وہ لوگ ہیں جن کو عذاب الیم پہنچنا مقدر ہے۔ کیونکہ وہ ان بے حیائیوں میں خدا کے نزدیک رد شدہ لوگ ہیں۔ ان کو ردردناک عذاب خواہ دنیا میں پہنچے یا آخرت میں پہنچے اس سے کوئی بحث نہیں ہے یہ قطعی بات ہے کہ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب پہنچے گا ۔ اور یہ لوگ اس زمانے میں ختم نہیں ہوگئے۔ جس زمانے میں اس آیت کا ظاہر اطلاق ہورہا تھا۔
اب ایسی آیات ہیں شان نزول کے لحاظ سے جن میں وہ سب آیات ہیں جن میں سوال کی بات چھڑتی تھی اور سوال کے جواب میں ایک آیت نازل ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں بعض ایسی باتیں تھیں جن کا ذکر قرآن کریم میں پہلے گزرچکا ہے اور یا جن کے متعلق میں پہلے اسی درس کے دوران بیان کرچکا ہوں۔ وہ مثلاً سائبہ کیا تھی؟ فلاں کیا تھی؟ مختلف قسم کے جانور، ان کے بیٹوں کے اندر موجود وجود۔ یہ ان لغو سوالات کی مثال کے طور پر تھی۔ اور بتایاگیاتھا کہ ایسے لغو سوالات نہ کیا کرو۔ اگر خدا وہ سن لے اور ان کا جواب دینا چاہے تو اس قسم کی بے ہودہ باتوں سے نعوذباللہ من ذالک سارا قرآن بھر جائے گا۔ اور یہ بے ہودہ باتیں مثال کے طور پر بیان کی جاتی ہیں۔ کوئی کہے گا قرآن کریم میں یب ہودہ باتیں کیسے ہوسکتی ہیں؟ قرآن فرماتا ہے شجرہ ملعونہ بھی قرآن میں ہے۔ فسق و فجور کی باتیں لوگوں کی قرآن میں موجود ہیں۔ اس لئے یہ محض بچگانہ بات ہے کہ قرآن میں بے ہودہ باتیں کیسے ہوسکتی ہیں؟ بے ہودہ باتیں ہماری رہنمائی کی خاطر قرآن میں مذکور ہیں۔ یہ بے ہودہ باتیں ہیں ان سے بچو۔ پس وہ انذار والی ساری باتیں قرآن میں موجود ہیں۔ اس سے اور ان کی موجودگی سے قرآن کریم نعوذباللہ ناپاک نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ تنبیہات ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ضروری ہے۔ کچھ ایسے سوال تھے جن کا ذکر شرعی حیثیت سے قابل توجہ تھا۔ ان میں سے ہے یسئلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج۔ یہاں سوال کو پھیر دیا گیا ہے ایک فرضی مضمون کی طرف۔ ان کے پوچھنے کی غرض اھلۃ کی کچھ اور تھی لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھی مواقتی للناس والحج چاندوں کے گھٹنے بڑھنے میں مواقیت للناس لوگوں کے لئے مواقیت ہیں۔ والحج اور حج کے تعلق میں بھی یہ باتیں ہیں اب چاند کے گھٹنے بڑھنے کا تعلق جب سے دنیا بنی ہے وقت کی بعض اوقات کی تعیین سے ہے۔ اور یہ تعلق ابھی بھی جاری ہے۔ اس کی تفسیر ایک موقع پر میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ سائنسی دنیا میں بھی اور ادوسری دنیا میں بھی اس مواقیت والے حصے کی کوئی تغلیط ثابت نہیں۔ یہ جاری و ساری مضمون ہے ا س میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
پھر فرمایا ولیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا ولکن البر من التقی وآتوا البیوت من ابوابھا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ اس آیت کو بعض ایسی روایات کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے کہ لوگ جنہوں نے گھروں میں داخل نہیں ہونا تھا حج کے دوران وہ پیچھے کی طرف سے چھلانگیں مار مار کر اپنے گھر میں جایا کرتے تھے اور ان کی بحث ہے۔ ان سے قطع نظر یہ آیت ایک دائمی حکم رکھتی ہے۔ جو اتنا واضح ہے کہ اس کے بعد کسی شان نزول کی تلاش کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس حکم کو میلا تو کرسکتیں ہیں مگر اس کی وضاحت نہیں کرسکتیں۔ قول سدید سیدھی سادھی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تمہیں کسی چیز سے روکا جائے تو بیک ڈور (Back Door) سے بھی داخل نہ ہوا کرو۔ پچھلے دروازوں سے نہ جائے، یہ مراد ہے صرف۔ اور یہ وہ چیز ہے جسے ملاں لوگ نہیں سجھ سکے اور کتابوں کی کتابیں لکھ ماری ہیں۔ کہ جب خداتعالیٰ کا کسی واضح حکم سے انحراف کرنا چاہو تو یہ حیلہ اختیا رکرو، کتاب الحیل بھری پڑی ہے ایسی باتوں سے۔ یہ حیلہ اختیار کرو، یہ حیلہ اختیار کرو۔ اور وہ حیلے اتنے گندے ہیں جن کو یہ ملاں لوگ شریعت کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں کہ اس آیت کے ظاہری منطوق سے ہٹ کر جب وہ حیلے بنتے ہیں یہ ہے Back Door سے داخل نہ ہو۔ ولکن البر من اتقی وآتو البیوت من ابوابھا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔ اتنی واضح ہدایت سے کے ساتھ تصادم اختیار کیا گیا ہے۔ اور اس کتاب کو ضبط نہیں کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اول سے آخر تک نیکی تقویٰ کی تعلیم پاکیزگی کی تعلیم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے عشق و محبت میں فنائیت کی تعلیم عظیم الشان کتب ہیں عظیم الشان تعلیمات ہیں وہ ساری ان کے حضور ان لوگوں کے نزدیک ضبطی کے لائق باتیں ہیں۔ اور یہ بدبخت کتابیں جن میں ایسی ایسی تعلیمات دی گئی ہیں کہ کوئی شخص اگر حج کے دوران نعوذباللہ من ذالک زنا کرنا چاہے تو یہ حیلہ ہے۔ یہ حیلہ اختیار کرو اور جو کچھ کرنا ہے کرو۔ تمہیں قرآن کریم کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں ہوگی اللہ کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ یہ میں نے ایک مثال دی ہے گندی۔ میں نے کہا تھا میں مثالیں نہیں دوں گا۔ لیکن ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم پر جو تیاں لے کر چڑھنے کا حیلہ۔ اس بات کا حیلہ، اس بات کا حیلہ۔ وہ پڑھتے ہوئے انسان عجیب مخمصے میں پھنس جاتا ہے کہ ان بدبختوں کے حال پر روئے یا ان کی عقلوں پر ہنسے کیونکہ وہ ساری ایسی باتیں ہیں جو انتہائی احمقانہ باتیں ہیں۔ اور بعض دفعہ ہنسی بھی آتی ہے مگر اصل مقام رونے کا مقام ہے۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے اور بتائیں یہ کہاں کتابیں ضبط ہوئیں۔ عام چھپ رہی ہیں لاہور میں اور ان مطبع خانوں میں جہاں اسلامی لٹریچر شائع ہورہا ہے۔ وہاں سے لکھنؤ سے ہر جگہ سے یہ بدبخت کتابیں شائع ہوتی ہیں اور علماء ان سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ جہاں تک ان کا بس چلتا ہے۔ چنانچہ جب پکڑے جاتے ہیں تو اس وقت بتاتے ہیں کہ یہ ہمارا حیلہ تھا اور یہاں بھی ایک ملاںاس بدبختی کے جرم میں پکڑا گیا اور اسی قم کے حیلے اس نے بیان کئے ہیں یہاں کی عدالتوں میں اور سارے اسلام کا مذاق اڑایاہے مولویوں نے۔
یسئلک الناس عن الساعۃ قل انما علمھا عنداللہ ما یدریک لعل الساعۃ تکون قریبا۔ یہ جنگ احزاب کی آیت ہے اور ساعت کے متعلق لوگوں کے سوال کا ایک جواب دیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا۔ قرآن کریم سوالوں کی وجہ سے نازل نہیں ہوتا بلکہ سوالوں کے جوابوں میں ایک ایسا جواب دیتا ہے جو اصل تعلیم قرآن کریم کو دینی ہی تھی خواہ وہ سوال اٹھتے یا نہ اٹھتے۔ ساعت کے مضمون کو قرآن قرآن کریم نے چھیڑا ہے۔ اور وہ لوگ جو عن الساعۃ سوال کرتے تھے ان کے سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔ اس کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ پس ایسے سوالات بھی اٹھتے رہے نزول قرآن کے وقت، جو اس لائق نہیں تھے کہ ان کی طرف توجہ دی جاتی۔ یسئلک الناس عن الساعۃ ۔ لوگ جو سوال کرتے تھے وہ قیامت کی گھڑی اور مرنے کے بعد جی اٹھنے والی باتوں کے متعلق سوال کیا کرتے تھے کہ وہ کب ہوگی۔ گویا کہ اس کے زمانے کے علم سے ان کو تیاری کا موقع مل جائے گا۔ یا مذاق کے طور پر پوچھا کرتے تھے۔ تجھے تو سب چیزوں کا علم ہے ۔ بتاؤ یہ گھڑی کب ہوگی ہم بھی دیکھیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل انما علمھا عنداللہ۔ یہ بات ہے جس کو بھول کر دوسری احادیث جو اس کی شان نزول میں بیان کی جاتی ہیں ان کو یہ بات غلط ثابت کررہی ہے۔ یعنی سوالوں کی وجہ سے قرآن نازل نہیں ہوتا تھا یہ کہہ سکتے ہیں اس سوال کی وجہ سے ہوا۔ اس سوال کی وجہ سے ہوا۔ فرمایا ساعت کے علم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ تفسیر فرمانی تھی۔ اور ان لوگوں کے سوال کو نظرا نداز کیا گیا ہے۔ اور تفسیر یہ فرمائی ہے انما علمھا عنداللہ۔ ساعت کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ لیکن اس ساعت کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں جو ان کے ذہنوں میں موجو ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم بھی خدا کے علاوہ ہیں یعنی بندے ہیں۔ آپ کو بھی اس ساعت کی تفاسیر کا علم نہیں ہے۔ اتنا جواب ان کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن ساعت کے اور معنے ہیں۔ ان معنوں میں ساعت قریب بھی ہو سکتی ہے۔ وما یدریک لعل الساعۃ تکون قریبا تجھے کیا بات سمجھائے کہ ممکن ہے کہ وہ ساعت بہت قریب ہو۔ اس سے مراد اس ساعت کی باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں پیشگوئی کے مطابق بہت جلد ظاہر ہونے والی تھی اور ظاہر ہوگئی۔ اور وہ ساعت اسلام کے سارے عرب پر غلبے کی ایک پیشگوئی تھی۔ جس کے متعلق فرمایا اقتربت الساعۃ وانشق القمر۔ تو ساعت کے معنے الگ الگ ہیں۔ قرآن کریم بظاہر ایک سوال کا جواب دے رہا ہے اور اسے پھیر کر اصل گہرے مضمون کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس طرح ساعت کے وہ معانی ہم پر روشن فرماتا ہے جن کا عالم لوگوں کے ذہن میں جو جو حاضر نہیں تھے تو ان کو اطلاع کردے کہ قریب ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ ساعۃ جو اصل ساعۃ جو اللہ کے علم میں ہے وہ جلد ظاہرہوجائے۔ اور واقعۃً ظاہر ہوگئی۔ سارے عرب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دین کو غلبہ نصیب ہوگیا۔ اور ایک قوم مرگئی اور دوبارہ زندہ کی گئی۔ ساعت اور کس کو کہتے ہیں۔ ساعت کا ایک پہلو ہے دنیا پر اطلاق پانے والا کہ دنیا میں سب کی صف لپیٹ جاتی ہے۔ سب مارے جارے ہیں اور ایک پہلو ہے اخروی دنیا کے لحاظ سے ان کا دوبارہ جی اٹھنا۔ تو یہ ساعت تو سب سے عظیم الشان ساعت جو اس دنیا میں واقع ہوئی کہ حضرت اقدس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے وجود سے آپ کی بعثت سے ظاہر ہوئی ہے۔ اور عرب ایک پہلو سے مٹ گیا اور قصہ پارینہ بن گیا۔ ایک پہلو سے وہ صدیوں کے مردے اٹھائے گئے۔ کیا چیز تھی جس نے ان صدیوں کے مردوں کو قبروں سے نکال باہر کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’وہ ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں‘‘ پس یہ وہ ساعت ہے جو اس تعلق میں بیان ہوئی ہے۔ پس سوالات کے جواب میں آیات کا نازل ہونا دراصل اور رنگ میں معنے رکھتاہے۔ جہاں بھی سوالات ہوئے ہیں اور کوئی آیات ہوئی ہیں۔ ظاہراً ان کو ان سے باندھا جاسکتا ہے۔ لیکن جب معانی میں ڈوب کر غور کریں تو پتا چلے گا کہ یہ آیات اپنی شان نزول خود بیان کرتی ہیں۔ ان کو نکال دیا ہے میں نے بیچ میں سے اوامر و نواہی کو کیونکہ وہ اوامر و نواہی کی بحث تو پھر نہ ختم ہونے والی ہے۔ سارا قرآن بھرا پڑا ہے۔ تو ان اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جن کے مطابق میں شان نزول کی باتیں کررہا ہوں۔ تمام دوسرے اوامر و نواہی پر ان کا اطلاق کیا جائے۔ تو قرآن کا سمجھنا نسبتاً بہت زیادہ آسان اور درست ہوگا۔
اچھا جی اب پہلے سلام کرلیتا ہوں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ خداحافظ
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
25 رمضان۔ 24 جنوری 1998ء
السلام علیکم
یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی و ما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ (بنی اسرائیل 86)
میں نے گزشتہ درس میں عرض کی تھی کہ بعض دفعہ سوالات کے جواب میں بظاہر آیات اترتی ہیں مگر وہ سوال جو وہ کرنا چاہتے ہیں ان کا جواب نہیں بلکہ حقیقت کا جواب ہوا کرتا ہے۔ اس لئے ایسے موقع پر سوال اور آیات کا آپس میں توارد ہوجاتا ہے لیکن جو گہری روح ہے سوال کی اس کا جواب دیا جاتا ہے مثلاً روح کے متعلق سوال تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ روح کے متعلق ان کو جو بھی جواب دیا جائے ان کو عقل ہے ہی نہیں کہ اس کو سمجھ سکیں۔ اس لئے اس تفصیل میں یہ آیت نہیں جاتی۔ یہ بحث نہیں اٹھتی کہ کس نے کب سوال کیا تھا اور جب یہ آیت نازل ہوئی اس لئے شان نزول اس آیت کے اندر موجود ہے کہ ایک روح کی لطافت کا معنی ان الفاظ میں سمجھانا ہے کہ انسان میں یہ شعور نہیں ہے کہ اس کو سمجھ سکے۔ پس یسئلونک عن الروح تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ جواب دیکھ لیجئے قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا۔ کہ روح تو اللہ کے امر کانام ہے اب اسے تم کیا سمجھو گے تمہیں اتنا تھوڑا علم ہے کہ ان باتوں کا کہ تم ان چیزوں کو سمجھ سکتے ہی نہیں۔ اس لئے تمہارے لئے اتنا کافی ہے کہ امر ربی سے سب کچھ ہے۔ تو ہر دوسری روایت کے احتیاج سے یہ آیت بالا ہے۔ کوئی ضرورت نہیں کہ کس نے کیا پوچھا تھا اس کا کیا جواب دیا گیا۔ یہ جواب ایک آفاقی جواب ہے۔ جو ساری کائنات پر حاوی ہے۔ امرِ ربی سے وجود ہے اور امرِربی ہی سے روح ہے۔ بس اس سے زیادہ اور کچھ انسان سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ میں نے کہا کہاں ہے وہ؟ ۔۔۔۔۔ ہیں؟ ۔۔۔ میں تو اس نشان سے آگے چل رہا تھا۔ میں حیران ہوں وہ سب چیزیں غائب ہوگئی ہیں۔ ہیں؟ اس کو اٹھا لیں اب ہماری تیاری کا وقت اتنا تھوڑا ہوتا ہے کہ افراتفری میں آگے پیچھے لگ جاتے ہیں سارے۔ اس نشان سے آگے میں نے چلنا تھا وہ سب کچھ اس سے پہلے ہے جو آج کے درس میں ہونا چاہئے تھا وہ یہاں ہے۔
شہداء کی بات ہورہی تھی۔ واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ کی بات ہورہی تھی۔ اور میں نے سوال کیا تھا کہ یہاں نماز کو ان معنوں میں بظاہر اہمیت نہیں کہ ان اللہ مع الصٰبرین فرمایا گیا ہے اور اس کے علاوہ باقی حصہ ہے ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ (البقرۃ 155)
آج کے درس میں ان آیات کریمہ سے متعلق ضروری مضامین بیان کرتا ہوں۔ استعینوا بالصبر والصلٰوۃ میں ان اللہ مع المصلین نہیں فرمایا بلکہ ان اللہ مع الصابرین فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز صبر سے بنتی ہے۔ اگر صبر کا فقدان ہو تو نماز نہیں بنتی۔ اور یہ مضمون وسیع ہے اور ہر مومن کی دعا پر حاوی ہے۔ اس لئے قرآن کریم چونکہ الٰہی کلام ہے انسان کا بنایا ہوا نہیں اس لئے یہ باریک لطافتیں اپنے پیش نظر رکھتا ہے ورنہ ایک عام دنیا کے کسی مذہبی رہنما کا کلام ہوتا تو اس نے کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ہے نہ کہ صبر کرنے والوں کے۔ اب اس ضمن میں جو متعلقہ مواد ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ لغت کی بحث کی میرے خیال میں ضرورت نہیں ہے۔
سورہ مریم آیت 66۔ رب السمٰوٰت والارض وما بینھما فاعبدہ واصطبر لعبادتہ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے فاعبدہ پس اس کی عبادت کر لیکن عبادت کی شرط کیا ہے واصطبر لعبادتہٖ اس عبادت کو صبر کے ساتھ پکڑ لے۔ جس عبادت میں صبر کا یہ مضبوط پہلو نہیں ہے وہ عبادت ہی نہیں ہے۔ ھل تعلم الا سمیا تو اس کا کوئی ہم صفت یعنی اللہ جیسا کوئی اور نام نہیں سنے گا۔ یعنی خدا کی شان توحید کا بیان اس رنگ میں بھی ہے کہ ایسا پاک نام اور کہیں کوئی نہیں سنے گا۔ وامر اھلک بالصلوۃ والصطبر علیھا۔ یہ عبادت میں نماز میں صبر کا جو مضمون ہے وہ تلقین میں بھی موجود ہے۔ اپنی اولاد کو یعنی اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کر لیکن یہ تلقین بھی تب صحیح کہلائے گی واصطبر علیھا اگر تو اس پر صبر کے ساتھ قائم ہوجا۔ ہمیشہ تلقین کرتا چلا جا۔ لانسئلک رزقا نحن نرزقک والعاقبۃ للتقوی یہ اس آیت کے سیاق و سباق کے ساتھ ملنے والی بعض باتیں ہیں اس کی یہاں تشریح کی ضرورت نہیں۔ سورۃ طٰہٰ 133 پہلی تھی سورۃ مریم 66۔ یہ صبر کے متعلق ایک حدیث ہے اس کی میرا خیال ہے یہاں ضرورت نہیں ہے اس کی۔ اس صبر اور نماز کا جو تعلق تھا جس ضمن میں میں نے سوال کیا تھا اس کے متعلق اتنا ہی جواب کافی ہے کہ عبادت میں صبر کا مضمون اس شدت کے ساتھ داخل فرمایا گیا ہے اگر صبر کو نکال دیں تو عبادت باقی نہیں رہتی۔ اس لئے وہاں ان اللہ مع الصابرین فرمایا ہے کیونکہ صابرین خواہ نماز کی حالت میں ہوں یا نماز کے بغیر ہوں دونوں صورتوں میں تحدی کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے ان اللہ مع الصابرین۔ لیکن مصلین کے متعلق محض مصلین ہونے کی وجہ سے تحدی کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ ویل للمصلین بھی آتا ہے۔ تو یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبر پر زور دیا ہے جو ہر قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے خواہ وہ نماز کی حالت میں ہو یا بغیر نماز کی حالت کے ہو۔
اب میں وہ شہداء والی بات اب شروع کرتا ہوں۔ ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ جو بھی اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ مردے نہیں ہیں بل احیاء ولکن لا تشعرون بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ یہاں پہلی بات خاص طور پر قابل توجہ یہ ہے کہ زمانہ نبوی میں شہید ہونے والوں کے ذکر تک اس آیت کو محدود کرنا اور اس کو شان نزول بیان کرنا صریحاً غلط ہے۔ کیونکہ یہ آیت یہ فرمارہی ہے جو بھی خدا کی راہ میں شہید کیا جاتا ہے قتل کیا جاتا ہے اس کو زندہ کہو مردہ نہ کہو اور قرآن کریم کی آیات بکثرت پرانے لوگوں میں سے ایسے خوش نصیب لوگوں کا ذکر کرتی ہیں جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے۔ پس یہ آیت ایک آفاقی آیت ہے اور اس کا اعلان گزشتہ سے بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کے زمانے سے بھی ہے بعد کے زمانے سے بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے ہر شہید سے ہے۔ ایک بھی مستثنیٰ نہیں۔ پس اگر اس سلسلے میں آپ ایسی روایات تلاش کریں جن میں ایک یا دو شہیدوں کی باتیں ہوں تو یہ آیت جھٹلائے گی کہ اس وجہ سے نازل نہیں ہوئی۔ اگر زمانہ نبوی تک محدود کرنا ہے اس آیت تو پہلا شخص جو خدا کی راہ میں مارا گیا وہ شان نزول ہے اس آیت کی لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے تمام ازمنۂ گزشتہ بھی اس آیت کی شان نزول میں داخل ہیں۔ جو شخص بھی اس زمانے میں مارا گیا یا پہلے مارا گیا یا آئندہ مارا جائے گا یہ سارے وہ ہیں جن کو یہ آیت شہید قرار دے رہی ہے ان معنوں میں کہ وہ زندہ ہیں اور تم ان کو مردہ سمجھتے ہو۔ لیکن زندہ کن معنوں میں ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے۔ فرمایا ولکن لا تشعرون۔ تمہیں کا شعور نہیں ہے۔ بالکل وہی بات ہے روح والی۔ روح کا شعور نہیں ہوسکتا اور کن معنوں میں وہ زندہ ہیں اس کا تم شعور حاصل نہیں کرسکتے۔ اس بات کو پلے باندھ لینا ضروری ہے ورنہ وہ احادیث جن کا اس آیت سے تعلق جوڑا جارہا ہے ان کی سمجھ نہیں آئے گی۔ ان احادیث میں ایک لطیف اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے موجود ہے مگر تفصیل موجود اس لئے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت سی ایسی باتوں کو جانتے تھے جن کا شعور بطور خاص خدا نے ان کو بخشا تھا لیکن صحابہ وہ شعور نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ Space کے متعلق پہلے میں نے بیان کیا تھا کہ وہی ہے جس میں جنت ہے وہی Space ہے جس میں جہنم بھی ہے اور قرآن کریم سے ثابت ہے بیک وقت گویا وہ بس رہی ہیں۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ تمہیں نہیں ان باتوں کا شعور۔ تم نہیں سمجھ سکتے کیا ہورہا ہے۔ پس اس پہلو سے ان احادیث پر اگر غور کیا جائے تو اس میں لطیف اشارہ تو موجود ہے لیکن وہ لوگ جو بدنی احیاء نوع کے قائل تھے یا اس میں زیادہ لطف اٹھاتے تھے انہوں نے ان احادیث کو بدنی احیاء نوع کی طرف منسوب کردیا جیسا کہ حضرت جعفرطیار کے متعلق یہی بات عام ہوگئی کہ وہ گویا فرشتے بھی پروں کے ساتھ اڑتے ہیں اور جعفر طیار بھی اسی طرح پروں کے ساتھ جنت میں اڑتے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا نام بھی طیار پڑ گیا۔ ان احادیث کی وجہ سے یعنی ان احادیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ، جو اس تعلق میں ہیں یہ آیت بہرحال قطعی اور دائمی حقیقت رکھتی ہے احیاء زندہ ہیں ولکن لا تشعرون۔ لیکن تمہیں شعور ہو ہی نہیں سکتا۔ کیسے زندہ ہیں کن معنوں میں زندہ ہیں؟
اب احادیث نبوی اور بعض دوسری آیات کی روشنی میں میں اس کی تشریح کرتاہوں۔ اخروی زندگی ان کو نصیب ہوئی ہے لیکن اس سے مختلف طریق پر نصیب ہوئی ہے جس میں عام لوگ مرتے ہیں۔ لیکن ان کو دو موتیں بہرحال نہیں ہیں۔ جو بھی موت ہے یعنی ا س دنیا سے گزرجانا وہ ایک ہی دفعہ ہے۔ چاہے قتل کے ذریعے ہو یا کسی اور ذریعے سے ہو ان کے اندر دو تبدیلیاں نہیں ہوں گی کہ ایک اب ہوجائے اور ایک پھر بعد میں ہو۔ا ور اخروی دنیا کی طرف یہ جاچکے ہیں۔ یعنی احیاء جو ہے وہ ایسا رنگ رکھتا ہے جیسے دوسرے احیاء ہم نہیں سمجھ سکتے یہ احیاء بھی نہیں سمجھ سکتے لیکن ان کے درمیان ایک فرق ہے جس فرق کو بھی ہم سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ یہ ہے اصل حقیقت۔ یعنی احیاء نو تو ہوگا ان کا کیونکہ جسم تو مرگیا۔ جسم یہاں رہ گیا پس ہر وہ حدیث جس سے یہ شبہ پڑتا ہو کہ اپنے جسم کے ساتھ زندہ ہوئے ہیں یہ سراسر قرآن کریم کی آیات کے مخالف اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی حدیث بھی جو سچی ہو قرآن کریم کی آیات کے مخالف ہو۔ پس جسمانی احیاء تو ہر گز مراد نہیں نہ یہ مراد ہے کہ ان کے جسم زندہ ہیں تم نہیں جانتے۔ جسم کو تو خود وہ مٹی میں ملا بیٹھے۔ اس پر جنازے ہوگئے ان پر دعائیں کردی گئیں تو یہ وہم کیوں آسکتا ہے کسی کے دل میں کسی حدیث کو غلط سمجھنے سے کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ان کے جسمانی احیاء کے قائل ہیں۔ جسمانی طور پر لازماً سارے صحابہ گواہ ہیں کہ تمام شہداء کو مٹی میں دفن کردیا گیا ور ان کی روحیں جسم سے جدا ہوگئیں۔ پس یہ سرسری معنی موت کے تو ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن پھر بھی حکم ہے ان کو مردہ نہ کہو۔ کیوں نہ کہو؟ اس کی تفصیل میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اس کے بہت سے معانی ایسے ممکن ہیں کہ جو ان کی روح کی حیثیت کو چھیڑے بغیر اور مضمون میں احیاء کے معانی کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہاں میں ان بحثوں کو نہیں اٹھاتا۔ اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی رو سے جو شخص بھی وفات پاجائے اس کا جی اٹھنا ایک ایسی شکل میں ہوگا کہ جسے انسان نہیں سمجھ سکتا۔ عام مردوں کا یہ حال ہے تو شہداء کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ یہ ایک دائمی قانون ہے جس کا اطلاق ہر دنیا سے روانہ ہونے والے کے متعلق ہوگا۔ نحن قدرنا بینکم الموت وما نحن بمسبوقین ہم نے تمہارے درمیان موت کو جاری کردیا ہے اور اس معاملے میں تم ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہماری راہ نہیں روک سکتے۔ ا س سے آگے جا کے کوئی راہ روک لیتا ہے فرمایا ہرگز نہیں۔ ہمیں تم پیچھے نہیں چھوڑ سکتے یہ لازمی قانون ہے جس نے ضرور جاری ہونا ہے۔ اور قانون یہ ہے اس بات میں تم ہماری راہ نہیں روک سکتے کہ علی ان نبدل امثالکم و ننشئکم فی مالا تعلمون۔ تم ہرگز اس راہ میں ہماری اس قدرت میں حائل نہیں ہوسکتے کہ ہم نبدل امثالکم تمہارے جسموں اور تمہاری شکلوں کو کلیۃً تبدیل کردیں۔ وننشئکم فی مالا تعلمون اور ایسی حالت میں تمہیں اٹھائیں کہ تم اس کو جانتے ہی نہیں۔
پس جہاں وضاحت میں فرمایا تمہیں شعور نہیں ہے وہ ان کے متعلق خصوصیت سے ہے شہداء کے متعلق اور یہاں ہر رخصت ہونے والے کے متعلق ہے کہ اخروی دنیا میں نہیں جس حیثیت میں ہم اٹھائیں گے، جس شکل صورت میں اٹھائیں گے تمہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ اب بتائیں اگر اسی حدیث سے (اگر) یہ ترجمہ لیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ے ان بزرگوں کو جن کو خد کی راہ میں جن کو شہادت عطا کی گئی ان کو جسم کے ساتھ جنت میں دیکھا ہے اور اس جسم کے ساتھ دیکھا ہے تو یہ آیت پھر کہاں جائے گی۔ احادیث درست ہیں لیکن ان کے معنی سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ یا تو ان کو تعبیر طلب خوابوں اور کشوف کے طور پر لیا جائے گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج بھی ایک عظیم الشان کشف ہے جس کے ظاہری الفاظ کی پابندی ممکن نہیں ہے اس کے معانی اگر سمجھے جائیں تو اس پر غور کرنے سے اس کشف کی حقیقت حال کا کچھ نہ کچھ علم ہوتاہے لیکن محض کچھ نہ کچھ ان آیات میں بھی وہی صورت ہے یعنی ان احادیث میں بھی کہ جہاں جسمانی طورپر آپ کو دکھائے گئے ہیں بعض شہداء اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں بنتا یہ روحانی کشوف میں تسلی کے امور ہیں، ان کے پسماندگان کے لئے اور باقی مسلمانوں کے لئے یہ تسلی ہے کہ تمہیں ایسی حالت میں رکھا جائے گا یا تم اس حالت میں دوبارہ اٹھائے جاؤگے کہ اس کے نتیجے میں جو بھی تمہاری روحانی صورت ہے تمہیں جنت ضرور نصیب ہوگی۔ اس سے تمہاری راہ کوئی نہیں روک سکتا اور جنت کے نصیب ہونے میں تم میں اور شہداء میں ایک فرق رکھا جائے گا اور وہ فرق پہلے اور بعد کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ آیت جس میں ہے کہ سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے اس کو اس غشی سے محفوظ رکھے وہ ایک عام مضمون ہے اور میں نے اس میں اشارۃً یہ ذکر کیا تھا کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء مراد نہیں من کا لفظ ہے۔ اب دل چاہے اگر کسی کا تو شہداء کو بھی داخل کردے اس میں۔ دل نہ چاہے تو بے شک نہ داخل کرے لیکن یہ قطعیت ہے کہ شہداء کی نئی زندگی کے متعلق ہم کوئی شعور نہیں رکھتے کہ وہ کیسی ہوگی۔ یہ آیت کا منطوق ہے اس کے خلاف ہر دوسری بات غلط ہے۔ جیسا کہ یہ آیت اسی منطوق کو کھول کر ظاہر فرمارہی ہے۔ علی ان تبدل امثالکم و ننشئکم فی مالا تعلمون۔ ساتھ ہی ایک ایسی چیز کا ذکر فرمادیا جس کا لوگوں کو شعور نہیں تھا اور اس زمانے کے انسانوں کو مخاطب فرمایا جن کو کلیۃً شعور نہیں تھا۔ کھول دیا اس بات کو کہ تم جتنا زور مارلو تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آئندہ زندگی کیسے ہوگی۔ ولقد علمتم النشأۃ الاولی فلوہ تذکرون۔ تم نے نشاۃ اولیٰ کی باتیں سنی تو ہوئی ہیں سب لوگوں نے سنا ہوا ہے کہ نشاۃ اولیٰ ہوئی ہے لیکن نشاۃ اولیٰ کیسے ہوئی آج تک سائنسدان اس الجھن میں مبتلا ہیں کہ کیسے ہوئی اور اس زمانے کے سائنسدانوں نے جتنا زور مارنا تھا مارلیا اور آخر پہ قلم توڑ کر بیٹھ گئے ۔ آخری جو فیصلہ ہے صاحب علم سائنسدانوں کا وہ کہتے ہیں ہم کچھ نظریات پیش کررہے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہر نظریے کی راہ میں روک ہے ہر نظریے کو آگے بڑھانے کے رستے میں چٹانیں حائل ہیں اور ہم ایک دفعہ نہیں بارہا مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم کہہ دیں کہ ہماری ایک کوشش تھی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پس اس زمانے کے انسان کا یہ حال ہے تو اس زمانے میں نشاۃ اولیٰ کے ذکر تو تھے مذاہب میں بھی تھے اور عوام الناس میں بھی تھے مگر ان کی کیفیت کا کوئی دور دراز کا بھی تصور نہیں تھا۔ کیسے ہوئی ہے؟ بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مٹی سے یوں کرکے گوندھ گاندھ کے ایک بت بنادیا اور وہی نشاۃ اولیٰ ہے۔ فرمایا غور کرو تم پہلی نشاۃ کو ہی نہیں سمجھ سکتے دوسری نشاۃ کو کیسے سمجھوگے۔ پہلی نشاۃ ایک مادی تعلق کا تصور تو رکھتی ہے، مٹی کا گوندھنے کا تصور تو رکھتی ہے۔ اس سے تم جو باتیں بناتے ہو وہ غلط اور بے معنی ہیں تو جہاں اس مادے کا ذکر ہی کوئی نہیں جس سے گوندھے جائیں گے لوگ اس نشاۃ ثانیہ کا تصور تم کیسے کرسکتے ہو۔ یہ شہداء کے متعلق ہر اس حدیث کا جواب ہے جس کے بدنی معنی لینے میں بعض علماء جلدی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہوگیا۔ شان نزول قرآن کی یہ ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے کہ زندگی کے متعلق قرآن اپنی شان نزول خود بیان کرتا ہے۔ مثالیں خود بیان کرتا ہے اور ان مثالوں میں اتنی وضاحت ہے کہ اگر غور کرنے والے غور کریں تو ان کو کسی اور چیز کی ضرور نہیں رہتی۔ نحن اولیاء کم فی الحیوۃ الدنیا اور فی الاخرہ ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم ولکم فیھا ما تدعون۔ اب یہ ساری باتیں کھلی چھوڑ دی ہیں ماتشتھی اور ماتدعون۔ ہر شخص کی اشتہا الگ الگ ہوگی۔ مگر یہ دنیاوی رزق کی اشتہا نہیں ہے تو واضح فرمادیا کہ دنیاوی مادی چیزوں سے اس کا جنت کا یا اخروی زندگی کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ یہ جو اشتہا ہے بظاہر دنیاوی چیزوں کی یہ روحوں کی اشتہا ہے اور روحوں کا ادعا ہے جو ہر روح کے مطابق الگ الگ ہوگا۔ پس یہ معنی ہیں ایک جنت میں رہتے ہوئے مرتبوں اور مقامات کے فرق کا۔ بے شمار وجود ہیں جو جنت میں ہوں گے۔ ان میں انبیاء بھی ہوں گے اور ان میں اولیاء صدیق شہید سارے اس میں جمع ہوں گے اور ہر ایک کی جنت الگ الگ ہوگی۔ ہر ایک کی جنت اس کے اشتہا سے بنے گی۔ اس کے ادعا سے بنے گی اور بظاہر ایک عمومی اجتماع کے جو سمجھا جاتا ہے کہ گویا وہ اس دنیا کی طرح ایک محفل ہے اس دنیا کی طرح ایک محفل ویسے بھی سوچنا چاہئے کہ ہو نہیں سکتی۔ جب سے دنیا بنی ہے اور جب دنیا ختم ہوگی اس وقت تک کتنے انبیاء اور کتنے بزرگ گزرچکے ہوں گے اگر آج وہ اکٹھے ہوجائیں تو ان کو ڈھونڈ کے دکھاؤ۔ پس وہ شعور جو ہے وہ ایک مختصر سی شعور ہے۔ احساس موجودگی ہے کن معنوں میں ہے اللہ بہتر جانتا ہے مگر اتنے بڑے ہنگامے کے باوجود جس کو جو اشتہا ہے اور جو ادعا ہے وہ اس وقت پورا ہوجائے گا۔ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت کی اشتہا ہے اس کے اپنے مرتبے ہیں۔ کسی حد تک وہ قریب ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔ فرمایا ہر شخص کی اشتہا اس کی حیثیت اور توفیق کے مطابق پوری کی جائے گی۔ ہمارے لئے بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ ہمیں اپنی اشتہا کو بہتر کرنا چاہئے اپنے ادعا کو بہتر کرنا چاہئے۔ جتنا ہماری اشتہا بلند ہوگی جتنا ہمارا ادعا بلند ہوگا اتنا بلند مرتبہ جنت میں ہمیں عطا ہوگا۔ چودھری رشید صاحب آپ جو پوچھ رہے تھے یہ جواب ہے اس کا۔ سمجھے ہیں نا بات۔ اپنی اشتہا کو تیز کریں لیکن ان معنوں میں تیز کریں کہ وہ خداتعالیٰ کے نزدیک آپ کے روحانی مراتب بلند کرنے کا موجب بنیں۔ اس کے بعد آپ کو کیا نصیب ہوگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ جیسی روح ویسے فرشتے سمجھے ہیں۔
اب دیکھیں بعض آیات سے غلط استنباط کے نتیجے میں یا بعض احادیث سے غلط استنباط کے نتیجے میں آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پتا لگ گیا ہے کہ جنت میں کیا ہوگا اور کیا مزے ہوں گے۔ یہ جتنی باتیں میں نے بیان کی ہیں آپ کو کچھ بھی نہیں پتلا چلا نہ مجھے پتا ہے۔ میں صرف یہ بتارہا ہوں نہ پتا ہونے کا اقراری مجرم ہوں کیونکہ قرآن کہتا ہے تمہیں پتا نہیں چل سکتا۔ پس نہیں پتا چل سکتا سوائے اس کے کہ خدا کسی کا استثناء یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استثناء فرمائے اور وہ ایک اور عالم کے وجود ہیں۔ اس عالم میں رہتے ہوئے ایک اور عالم میں بستے تھے۔ آپ کے درمیان یہاں اور وہاں کا فرق مٹ چکا تھا۔ اس عالم میں رہتے ہوئے پتا نہیں ہوسکتا یہ قطعی حقیقت ہے یہ ساری قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہے۔ اب دیکھیں ہم میں سے ہر ایک ، ایک جان تو رکھتا ہے ناں فلاتعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین ایک جان بھی نہیں جانتی اس کے لئے کیا چھپایا گیا ہے من قرۃ اعین آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے۔ جزاء بما کانوا یعملون۔ یہ جزاء ہے اس چیز کی جو وہ عمل کیا کرتے تھے۔ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اععین میں اخفی لھم کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علاوہ سب کا ذکر ہوگیا ہے۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میں اس آیت کے منطوق سے مستثنیٰ ان معنوں میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جاری بیان بتا رہا ہے کہ عام مومنین اور انسانوں کا ذکر چل رہا ہے۔ کسی ایک خاص بندے کا ذکر نہیں ہے۔ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جو بھی بنی نوع انسان ہیں ان میں سے کوئی جان نہیں جانتی۔ ورنہ بعض جانوں کو اللہ تعالیٰ علم دے سکتا ہے تو وہ وہی بہتر جانتا ہے۔ یہ سورۃ سجدہ آیت 18 تھی۔
اب سورۃ الحدید آیت 22 میں ہے: سابقوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃ عرضھا کعرض السماء والارض۔ یہ وہی آیت ہے جس کے متعلق میں پہلے اشارہ کرچکا ہوں۔ دوڑتے چلے جاؤ تیزی کے ساتھ برھو الی مغفرۃ اس مغفرت کی طرف جو تمہارتے رب کی طرف سے عطا ہوگی اور وجنۃ عرضھا کعرض السماء اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا حجم آسمانوں اور زمین کے حجم کے برابر ہے یعنی ساری کائنات کے برابر ہے۔ اعدت للذین امنوا باللہ ورسلہ۔ وہ تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں اللہ اور اس کے رسولوں پر۔ صاف پتا چل رہا ہے یہ جنت جو ہے یہ سب پرانوں پر بھی حاوی ہے اور سب آئندہ آنے والوں پر بھی حاوی ہے۔ کسی ایک ایسے وجود کا ذکر نہیں یا ایک ایسی قوم کا ذکر نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں آپ کے زمین پر رہنے کے دوران موجود تھے۔ تمام دنیا کے انسانوں پر جب سے دنیا بنی ہے اس پر یہ مضمون حاوی ہے۔ اعدت للذین امنوا باللہ رسلہ کا جسے وہ چاہے دے گا جسے چاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے۔ یہاں لفظ فضل بتارہا ہے کہ یہ جنت اس سے بہت اونچی ہے جو ہم یہاں کماتے ہیں۔ کیونکہ فضل کا مضمون ان چیزوں پر اطلاق پاتا ہے جو اپنی کمائی سے باہر کی چیزیں ہیں۔ اس سے زائد کی چیزیں ہیں۔ تو یہ جنتیں ہماری کمائی کا نتیجہ کیسے ہوسکتی تھیں جو ساری کائنات پر حاوی ہیں۔ ہماری کمائی تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی اس کے مقابل پر۔ ایک معمولی حقیر سی نقطے کے برابر بھی چیز نہیں ہے۔ ان جنتوں کے مقابل پر جو زمین و آسمان پر حاوی ہیں۔ پس فرمایا ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشائ۔ اللہ کا محض فضل ہے اخروی زندگی اور اس کی وسعتیں ناپیدا کنار وسعتیں تمام ترفضل پر مبنی ہیں۔ یہ نکال دو دماغ سے بات کہ تمہاری کمائی کا حصہ ہیں۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بخشش اپنی نجات کو بھی فضل قرار دیا کرتے تھے۔ یہ عارف باللہ کا کلام ہے یعنی جانتے ہیں کہ میں نے کتنی نیکی میں ساری زندگی بسر کردی۔ لیکن جو ملنا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے فضل کے سوا اور کوئی لفظ اس پر حاوی نہیں ہوسکتا۔ پس دیکھیں شان نزول ہر چیز کی قرآن کریم کے اندر بیان اس کے معانی اس کے متعلق جو لطیف سوال اٹھ سکتے تھے ان کا جواب موجود ہے۔ یہی وہ آیت ہے جس کے متعلق سوال کیا گیا تھا یا رسول اللہ پر جہنم کہاں ہوگی؟ اب ان کو Three Dimentional World کا تو پتا تھا یعنی اس زمانے میں جو Dimentions ہیں اس کا تو تصور رکھتے تھے صحابہ لیکن یہ بات اور Dimentions کی ہورہی تھی۔ ان بے چاروں کو کیا پتا چلنا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کہہ کے ہٹا دیا سوال کہ تمہیں نہیں سمجھ آسکتی۔ مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھایا گیا تھا یہ میں استنباط کررہا ہوں آپ کو سمجھا دیا گیا تھا اور اسی لئے میں آپ کو دو دنیاؤں میں بیک وقت بسنے والا وجود قرار دے رہا ہوں۔ اس دنیا میں بھی تھا ور اس دنیا میں بھی تھا۔
حدیث جو ہے جس کا میں نے اشارہ کیا تھا۔ بخاری کتاب التفسیر سے لی گئی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک دفعہ بتایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کی ہوئی ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا بلکہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک نہیں گزرا۔ اب ظاہری معنی لے کر دکھائیں مجھے۔ شہداء کے جنت میں اڑتے پھرنے کے ظاہری معانی ان آیات کی روشنی میں کرکے دکھادیں ناممکن ہے اور یہ بھی ناممکن ہے ان روایات کو ہم رد کردیں اس لئے اعلیٰ اور عمدہ روایات کو رد کرنے کی بجائے عقل سلیم کو استعمال کرنا چاہئے اور قرآن کریم کی شان نزول کے مطابق ان کو ڈھال لیں تو بہت قیمتی موتی ہیں جو ہمارے علم میں اضافے کا موجب بنیں گے۔ یہ علم ہوگا کہ خداتعالیٰ رسول اللہ کو اپنے پیاروں اور صحابہ کے متعلق تسلی اور تشفی میں ایسے نظارے دکھایا کرتا تھا جو تعبیر طلب ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں بنے گا ور یہ معنی کریں گے تو دل کو بہت تسلی ہوگی کہ الحمدللہ آپ بھی تو خوابوں میں دیکھتے ہیں اپنے بزرگوں کی نیکی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کشوف اور خوابیں تو اس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ پسماندگان کی تسلی کے لئے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہئے کہ خدا کے رسول نے ان کو جنت میں دیکھا بس۔ یہ اب حدیث ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا بلکہ کسی انسان کے دل میں خیال تک نہیں گزرا اس کی تصدیق کے لئے اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو فلاتعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین یعنی کوئی انسان آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے اس نعمت کو نہیں جانتا جو نیک لوگوں کے لئے اس کے خزانۂ غیب میں مخفی ہی۔ یہ بخاری کی حدیث اس آیت کریمہ کی شان کے عین مطابق اور اس کی وہی تشریح کررہی ہے جو دوسری آیات اس مضمون میں تشریح کررہی ہیں۔ پس جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی صحیح بخاری کی حدیث کو ہم ہرگز نعوذباللہ من ذلک رد نہیں کرتے۔ ان کو نام طیار کا ملا لیکن کن معنوں میں وہ پرواز کریں گے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ ظاہری پروں کے ذریعے تو فرشتے بھی پرواز نہیں کریں گے۔ وہ جو حدیث ہے ایک بوڑھی عورت کے متعلق کہ بوڑھے جنت میں داخل نہیں ہوں گے صاف بتایا جارہا ہے اس کے بعد اور کیا علماء کو چاہئے۔ صاف بتایا جارہا ہے کہ جنت میں جانے کا بدن اور ہے اور جس بدن میں انسان جان دیتا ہے وہ اور ہے۔ جنت میں جانے کا بدن اور ہے اور جس بدن کے ساتھ انسان شہید ہوتاہے وہ اور ہے۔ اس بدن کے متعلق جو جنت میں ہے اس کو اس بدن سے ظاہر کرنا ظلم ہے احسان نہیں ہے۔ باقی تو لطیف روحیں مزے کرتی پھریں گی ایک نئے عالم میں نئی استطاعتوں کے ساتھ اور ایک شہید بے چارہ اپنے وہی پرانے بدن کو زخموں سے چور کو لئے پھرے گا جنت میں گھسیٹتار ہے گا یہ کون سی عقل کی بات ہے کہ ان احادیث کو ظاہر پر محمول کردیا جائے جب کہ قرآن کلیۃً اس مضمون سے پردے اٹھاچکا ہے اور باربار واضح کرچکا ہے کہ عقل سے کام لوتم نہیں سمجھ سکتے کہ آئندہ جنت میں تمہیں کس قسم کے وجود ملیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فقرہ بہت ہی واضح اور پیارا ہے ’’یہ بوڑھی حالت میں داخل نہ ہوگی۔‘‘ بہت عجیب ہے وہ بے چاری نے واویلا شروع کردیا جنت کی خوشخبری لینے کے لئے آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی بوڑھا داخل نہیں ہوگا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ بوڑھی حالت میں داخل نہ ہوگی۔ انا انشأنھن انشآء فجعلنھن ابکارا اب دیکھ لیں بدن کی کیسی تنسیخ فرمائی گئی ہے اول تو انشأنھن میں جن روحوں کی خوشخبری ہے ان میں عورتوں کو داخل فرمایا گیا اس آت سے استنباط فرمارہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف مردوں کا ہی کام رہ جائے گا اور ان کے لئے نئی عورتیں بنائی جائیں گی جو بالکل جھوٹ ہے۔ روحوں میں مرد عورت کی تفریق نہیں رہے گی اور جو عورتیں ہوں گی ان کے متعلق فرمایا وہ بھی جعلنھن ابکارا ہم نے کو کنواری بنادیا، کنواری بنادیں گے تو یہاں کے بدن دوبارہ کنوارے کیسے بن سکتے ہیں۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ پس آیات قرآنی اتنا واضح اپنے مضمون کو خود بیان کرتیں ہیں کہ کسی اور سہارے کسی اور لغت کی ضرورت ہی کوئی نہیں رہتی۔ صاف علم ہوگیا کہ اخروی دنیا میں جو بھی دوبارہ اٹھائے جائیں گے اس بدن کے ساتھ ان کا کوئی بھی علاقہ نہیں ہوگا اور یہی قرآن کا مضمون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرماکر ایک ایسی آیت کی طرف اشارہ فرمادیا جو ہمارے ذہن میں جا ہی نہیں سکتی تھی۔ اس عورت کے حوالے سے کتنا عظیم مضمون ہے تفسیری۔ اس حدیث کی کوئی بھی سند نہ ہو حدیث بول رہی ہے اتنا واضح بول رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی کلام ہوہی نہیں سکتا۔ کوئی مفسر اپنی عقل دوڑاکے اس موقع پر یہ لگا کر دکھائے سوچ ہی نہیں سکتا وہ۔ یہاں کے واقعات جو بدن پر اثرنداز ہوئے ہیں وہ کلیۃً مٹادیئے جائیں گے اور ہر وجود ایک ایسے عالم میں اٹھے گا کہ مرتے وقت یا شہید ہوتے وقت اس کی جو کیفیت تھی وہ نہیں رہے گی۔ وہ تبدیل ہوچکی ہوگی۔
اب ایک حدیث ہے جس کاترجمہ کرنے میں تھوڑی سی کوتاہی ہوگئی ہے۔ وہ صحابی جن کے لنگڑانے کا ذکر ہے اور جن کی اس خواہش کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم دیا گیا کہ آج سورج غروب ہونے سے پہلے لنگراتا لڑکھڑاتا جنت میں پہنچ جاؤں۔ اب ان صاحب کا یہ تصور تھا کہ ٹانگ چونکہ لنگڑی تھی اسی طرح میں پہنچ جاؤں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی شہادت کا سنا تو آپ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک خواہش کی جو اس نے پوری کردی۔ اس نے I'm Sorry رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میں حیران تھا یہ میں نے کہاں سے آگیا سنا تو فرمایا اس نے اللہ تعالیٰ سے ایک خواہش کی جو اس نے پوری کردی ہے۔ یہ جو موٹا پرنٹ ہے یہ تو بڑی وضاحت سے پڑھ لیتا ہوں لیکن باریک بھی اگر زور لگاؤں تو پڑھ لیتا ہوں۔ یہ میں دکھا رہا ہوں۔ یہاں تھوڑی سی دقت تھی وہ الف پہلے میں نے نہیں دیکھا تھا۔ سین (س) کو میں سمجھ گیا تھا۔ اس نے اللہ تعالیٰ سے ایک خواہش کی جو اس نے پوری کردی ہے۔ اس نے کیا کہا تھا؟ لنگڑاتا اور اسی طرح ڈولتا ہوا میں پہنچ جاؤں۔ میں نے اس بہشت میں گھومتے دیکھا ہے اور ترجمہ یہ کیا گیا ہے بالکل سیدھا چل رہا تھا یہ غلط ہے۔ ترجمہ یہ ہے اصل الفاظ یہ ہیں صحیح ٹانگ کے ساتھ چل رہا تھا اب لفظ صحیح ٹانگ میں تمام مضامین بیان ہوگئے ہیں۔ صحیح جو اللہ کے نزدیک صحیح ہونی چاہئے وہ ٹانگ اس کو عطا ہوگی جو خدا کے نزدیک ایسے شہداء کو عطا ہونی چاہئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ٹانگ ٹھیک ہوگئی تھی۔ یہ ترجمہ کرنے والوں نے اپنی طرف سے زائد بات داخل کردی ہے اور مضمون کو بگاڑ دیا اس لئے ترجمے میں بعض دفعہ باربار احتیاط کرنی پڑتی ہے کہ جو مسلمہ ترجمے چلے آرہے ہیں ان کو آنکھیں بند کرکے قبول نہ کیا جائے۔ جو آیاتِ قرآنی کی شان نزول کے مطابق ترجمے ہوں گے سو بسم اللہ ہمیں منظور ہیں۔ جہاں وہ رخنہ ڈالیں گے ان ترجموں کو رد کردیا جائے گا اور ان الفاظ پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ صحیح ترجمے سکھادے گا۔ یہ میرا تجربہ ہے بارہا کہ جب ایک مروجہ ترجمے کو رد کیا ہے اور ان الفاظ کو غور سے دیکھا تو خود پرانے علماء کی سند اور لغت کی سند اس بات میں مل گئی کہ قرآن کریم کے ترجمے کے منشاء کے عین مطابق ان الفاظ کے دوسرے معنی بھی ہیں۔ ان کو اخذ کرلو تو ترجمہ درست ہوجائے گا۔ تو شان نزول دیکھیں قرآن کی کیسی عجیب ہے۔ اس مضمون کو قرآن کے مطابق آپ پڑھیں تو عقل ایسی روشن ہوتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ وہ روشنی آپ محض رسمی تدبر سے پا نہیں سکتے محض روایات کے ظاہر کوپکڑ کر کبھی بھی آپ اس روشنی کو حاصل نہیں کرسکتے جب تک ان کوبار بار ان کو قرآن کریم کی کسوٹی پر واپس نہ کریں اور قرآن کریم کے الفاظ سے حقیقت حال کو معلوم نہ کریں تو آپ کو کچھ سمجھ نہیں آسکتی۔ پس یہ چھوٹے سے لفظ کو چھوڑدینے سے دیکھیں مضمون کہاں سے کہاں چلاگیا۔ فرمایا میں نے صحیح ٹانگ کے ساتھ دیکھا ہے۔ صحیح ٹانگ یہ نہیں کہا کہ وہ ہڈیاں ٹھیک ہوگئی تھیں۔ صحیح تانگ جو اخروی دنیا کے لئے صحیح کہلا سکتی ہے اس کے مطابق ہے اس کی شان کے مطابق ہے میں نے اس ٹانگ سے دیکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں بھی عجیب ہیں۔ ایسی عجیب ہیں کہ خوشی سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ سبحان اللہ کس شان کا نبی ہمیں عطا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے پیچھے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اب دنیاوی زندگی کا انکار اس روایت سے جو جابر بن عبداللہ کی ہے ان معنوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ا ب تو میں اتنا زیادہ بیان کرچکا ہوں کہ ضرورت نہیں۔ مگر انہوں نے جو یہ دعا کی تھی کہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں تو جواب یہ تھا کہ دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں نہیں لوٹاؤں گا۔ اس لئے رستے بند ہیں اور شہداء کا جسم کی طرف لوٹنا کہ جسمانی طور پر زندہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب اسی واقعہ صحیح پاؤں والے کا ذکر ایک اور حدیث میں یوں ملتا ہے ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ان کی موجودگی میں عمرو بن الجموع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اگر میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور شہید ہوجاؤں تو کیا میں اپنے اس پاؤں کے ساتھ (لنگڑی ٹانگ کی طرف اشارہ کیا) جنت میں صحیح طرح چل سکوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم دیکھیں کتنے Cosistant ہیں اپنے جوابات میں ایک ادنیٰ سا بھی جھول نہیں ہے جن کو استطاعت ہے سمجھنے کی وہ سمجھ لیں جن کو نہیں وہ نہ سمجھیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے جواب میں کوئی جھول نہیں ہے۔ ایسی تفصیل سے احتراز فرماتے تھے جس کو اس زمانے کے لوگ سمجھ نہیں سکتے تھے اور یہ ضروری تھا ورنہ ایک ایسا جھگڑا کھڑا ہوجاتا کہ جس کو صحابہ سمجھنے کی استطاعت ہی نہ رکھتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم بیان کرتے چلے جاتے اس لئے آپ نے نہایت لطافت سے ان باتوں سے احتراز کردیا لیکن جواب ہمیشہ وہی دیا جو دوسرے ایسے مواقع پر دیتے رہے ہیں۔ سارے معرکۂ احد میں جو شہید ہوئے تھے ان کو اکٹھا ایک قبر میں ڈالا گیا۔ حضور آپ کی لاش کے پاس آئے (وہ لاش ابھی باہر پڑی ہوئی تھی) اور فرمایا میں تجھے میں اس پاؤں کی درست حالت کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھتا ہوں۔ یہاں درست حالت وہی لفظ ہے جو پہلے گزرا ہے۔ وہ درست حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے علم میں تھا کہ وہ اور حالت ہے لیکن اس کی ایک خواہش پوری ہوگئی مگر اس درستی کے ساتھ۔ اس ٹیڑھی ٹانگ کے ساتھ یا اس جسمانی ٹانگ کے ساتھ نہیں۔ اس روحانی ٹانگ کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھ رہاہوں جو اصل درست حالت ہے، جو خدا کے نزدیک درست ہے۔ پھر حضور کے ارشاد پر تینوں ایک ہی قبر میں دفن کردیئے گئے یعنی باپ اور (کون کون تھے وہ تین میں نے پہلے ذکر کیا ہوا ہے اس کا؟) بیٹا تھا ایک اور کون تھا ۔۔۔۔ ہاں غلام ایک بیٹا اور ایک غلام۔ یہ اکٹھے شہید ہوئے تھے۔ ان کو پھر ایک ہی قبر میں اکٹھے دفن کیا گیا۔ اب یہ شہادت والا مضمون تو ہوگیا ناں مکمل اب اس کو اٹھالیں آپ۔
اب صلح حدیبیہ کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اس سے میں ایک استنباط کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا لیکن بہت سے علماء اس کی باریکی کو بعض دفعہ نہیں سمجھ سکتے اور بعض دفعہ غور کریں تو سمجھ آسکتی ہے مگر ظاہر مسائل کو سامنے رکھنے کی وجہ سے ان کے لئے بعض دفعہ سمجھنے میں دقت پیدا ہوتی ہے۔ اب دیکھیں حج کے چار مہینے ہیں تین مسلسل اور ایک ہٹ کر۔ ذی القعد، ذی الحجہ اور محرم یہ تسلسل میں چلتے ہیں پھر رجب ہے جو بعد میں آتا ہے اس کی وجہ میں سمجھا چکا ہوں کہ کیوں وہ الگ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم جب حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے ہیں مکے کا قصد کرکے تو وہ ذی القعدہ کا مہینہ تھا جس کے بعد ذی الحج آنا تھا۔ بعد میں یعنی وہ حج کا مہینہ ان معنوں میں نہیں تھا کہ اس مہینے میں حج ادا کیا جاتا ہو اس مہینے میں عمرہ ہی ادا کیا جاتا تھا اور اگر کسی نے حجِ تمتع کرنا ہو تو وہ ٹھہر جایا کرتا تھا یہاں تک کہ حج کا مہینہ طلوع ہو اور حج کے ساتھ اپنے عمرہ کو ملادے۔ ان معنوں میں تمتع ہو جاتا تھا۔ میں نے ایک دفعہ یہ اظہار کیا تھا کہ ہوسکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا منشاء حج تمتع ہو یعنی عمرے کے مہینے میں روانہ ہوئے ہیں لیکن وہ حج کے ساتھ ملایا جاسکتا تھا اور اتنا قیام پیش نظر ہو کہ وہ دونوں مل جائیں۔ یہ ایک امکان ہے عقلی جس کو پیش کرکے یہ کہا جاسکتا تھا کہ آپ حج کی نیت سے گئے تھے۔ لیکن وہ علماء جو کہتے ہیں کہ حج کی نیت سے نہیں گئے تھے ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں جو سورۃ الفتح کی پہلی آیت سے استنباط کیا کرتا ہوں اس پر غور کرکے دیکھیں حج کے سوا اور کوئی معنی بنتے نہیں ہیں۔ اور ان خدا کی طرف سے اطلاعات پر غور کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو وحی کے ذریعہ دی گئیں۔ اس کا اطلاق حج کے سوا ہو نہیں سکتا تھا۔ پس قطع نظر اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کس مہینے میں روانہ ہوئے جو وعدہ فرمایا گیا تھا وہ حج کا وعدہ تھا نہ کہ عمرے کا اور خانہ کعبہ کے گرد طواف اور وہ ساری کیفیات جو بیان ہوئی ہیں وہ حج کی ہیں۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ جب یہ خدا کا وعدہ پورا ہوتا ہے تو حج پر ہی پورا ہوتا ہے۔ پس اس کا کوئی بھی معنی سمجھا گیا ہو اللہ کے نزدیک یہ وعدہ حج کا وعدہ تھا عمرے کا وعدہ نہیں تھا اور اس کے مطابق جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کرتے ہیں تو اللہ کے نزدیک یہ حج کے لئے سفر کرتے ہیں کیونکہ خدا نے آپ سے کا وعدہ کیا تھا۔ اس لئے اس راہ میں اگر روک ڈالی گئی ہے تو خدائی وعدے کے راہ میں روک ڈالی گئی ہے اور وہ حج جو ابھی ادا نہیں ہوا تھا اس حج کا ثواب اس سے بہت زیادہ دیا گیا جو ادا ہوئے ہوئے حجوں میں ملتا ہے۔ یہ میرا استنباط کسی اور روایت کا محتاج نہیں ہے۔ اب دوبارہ ان فتحنالک فتحا مبینا کو دوبارہ پڑھ کے دیکھیں یہ فتح مبین حدیبیہ کی فتح ہے اور آگے جاکے اس مضمون پہ میں اور وشنی ڈالوں گا کہ فتح حدیبیہ ہی نہیں تمام آئندہ فتوحات کی بناء ڈالی گئی ہے اور یہی وہ حدیبیہ ہے جس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس حج کو ادا نہیں کرسکے جو اللہ کے نزدیک حج کے طور پر ادا ہونا تھا۔ اور نہ ادا کرسکنے کے باوجود سورۃ الفتح کا آغاز بتارہا ہے کہ اس حج کو قبول کرلیا گیا جو ابھی ادا نہیں ہوا تھا۔
پس یہ حج اگر ایک سال کے بعد یا دوسال کے بعد ہوا ہو تب بھی یہ لازمی حقیقت ہے کہ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے اس کو ظاہر طور پر پورا فرمایا۔ وہی وعدہ تھا جو رؤیا میں تھا۔ قطعیت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جس شکل میں اللہ نے اس کو پورا فرمایا ہے وہ ایک بعینہٖ وہی وعدہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو رؤیا میں دیا گیا تھا اور جب اس پر سوال ہوئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ میں نے کب کہا تھا کہ اسی سال یہ ہوجائے گا۔ مگر ہونا لازم ہے جو ہونا لازم تھا وہ کیا تھا عمرہ؟ حج۔ حج کا ہونا لازم تھا۔ اس لئے میں بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں کہ آپ اس کو ذوالقعدہ میں سمجھیں یا جس مہینے میں بھی سمجھیں اللہ کا وعدہ حج کروانے کا تھا اور اللہ نے وہ حج کرواکے دکھادیا لیکن اس کی جزاء پہلے ادا فرمادی جبکہ وہ حج ابھی ادا ہوا ہی نہیں تھا۔ اور حج سے رکنا رضائے باری کی خاطر تھا مکے میں داخل ہونے سے رکنا رضائے باری تعالیٰ کی خاطر تھا۔ یہ وہ مضمون ہے جس کو سورۃ الفتح کی آیات بڑی وضاحت کے ساتھ کھول رہی ہیں۔ حج کے تصور میں جو باتیں بھی آپ لاسکتے ہیں اس کا یہی انعام ملنا چاہئے اس سے بڑھ کر انعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو عطا ہوا اور تمام صحابہ کو عطا ہوا جو آپ کے ساتھ حج کررہے تھے۔ یہ تفصیل میں پہلے روایت میں بیان کرچکا ہوں۔ اب بتائیں کیا عذر باقی رہ جاتا ہے۔ جب میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں یہ استنباط کرتا رہتا ہوں وہ حج جو ادا نہیں ہوا اس کی جزا ہر اس حج سے بڑھ کر ہے جو ادا ہوسکا۔ پہلوں کا یا بعد کا۔ تو امید ہے اب اس مضمون کو ہمارے علماء بھی اور دوسرے بھی اچھی طرح سمجھ جائیں گے۔ استنباط ذی القعدہ وغیرہ کے نتیجے میں ہرگز نہیں ہے نہ روکے جانے کے متعلق ہے اصل استنباط یہ ہے کہ اللہ کا منشاء حج کا تھا اور اس حج کو خدا نے مؤخر فرمادیا اس وقت سے جو رسول ا للہ نے سمجھا۔ اور خدا کی خاطر چونکہ آپ رکے ہیں اس لئے وہ حج جس نے بعد میں ادا ہونا ہے اس کی جزا پہلے دے دی جاتی ہے۔ کہاں ہیں وہ آیات ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اس کے بعد ۔۔۔۔۔ یہ تو حدیث ہے۔۔۔۔۔۔۔ انا فتحھنالک فتحا مبینا میں وہ پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ نکالیں ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دیکھیں یہ وعدہ جو ہے یہ زمانی قیود سے بالا وعدہ ہے۔ حج سے ہو بعد میں ہو یہ بالکل بحث اٹھ گئی ہے۔
لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر یعنی حج بے شک بعد میں آئے لیکن ہم نے تیرے پہلے، بعد کے سارے گناہ اس نیکی کی وجہ سے حج کے سب سے اعلیٰ ثواب میں لکھ لیے ہیں۔ اس حج کے جو ادا کیا جاناتھا لیکن نہیں ہوسکا۔ بعد میں ادا ہونا تھا۔ ہم جزا میں جلدی کرتے ہیں اور آج تجھے جزا دیتے ہیں۔ اور جتنی بھی ینصرک اللہ نصرا عزیزا یہ تمام جو فتوحات پھوٹی ہیں اس فتح سے ان کا منجملہ ذکر کردیا ہے۔ وینصرک اللہ نصرا عزیز آج کے بعد ہر میدان میں ایک عزیز فتح نصیب ہوگی اور یہ جو مضمون ہے میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھوں گا حیرت انگیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ اور صحابہ سب کے حق میں فتح مکہ کی بنیاد ہی نہیں ڈالی بلکہ فتح خیبر کی بھی بنیاد ڈال دی اور فتح مکہ کے بعد جنگ حنین کی بھی بنیاد ڈال دی ہے اور اس کے بعد تمام ان فتوحات کی بنیاد ڈال دی جو بہت بعد میں آنے والی تھیں۔ یہ معنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لیے ہیں جو آخری حرف ہیں۔ پس اس بحث کی بھی ضرورت نہیں کہ یہاں کون سے میدان تھے جن کی فتح کا ذکر فرمایا گیا ہے اور کون سے اموال تھے جن پر قبضے کی بات ہوئی تھی۔ جیسا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھوں گا یہ ترجمہ کرنا بھی جائز ہے کہ خیبر کا ذکر بھی اسی خوش خبری میں دے دیا گیا۔ اس کو ہرگز ہرگز بعید از قیاس قرارر نہیں دیا جاسکتا۔ پس اگر پہلے میرے کسی بیان سے یہ بات نکلتی ہو کہ خیبر ناممکن ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ میرا رجحان اس سے پہلے بعض گزشتہ علماء کی طرح اسی طرف تھا کہ خیبر اس وقت کسی صحابہ کے ذہن میں تھا ہی نہیں۔ ان سب کو شوق اور ذوق تھا مکے میں داخل ہونے کا۔ اس لئے فتح مکہ ہی کا وعدہ ہے اور اس کے بعد جب مغام کثیرۃ آتے ہیں تو ان میں جنگِ حنین کا بھی ہے وعدہ جو ہم پڑھتا ہوا دیکھتے ہیں اور جنگ حنین سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا انہیں صحابہ کے ساتھ جو صلح حدیبیہ میں شامل تھے خیبرکاقصد کرنا یہ بھی اس میں داخل ہے۔ پس اس کو کلیۃً نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مگر میرا رجحان اس لئے رہا ہے کہ صحابہ کو تو اس وقت خیبر کا خیال بھی نہیں گزرا تھا۔ ان کو خوش کرنے کے لئے جب یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو اس وقت ان کا سب کا ذہن مکے کا تھا مکے میں داخل ہونا ہے مکے میں داخل ہونا ہے اور یہی میرے ذہن میں رہا ہے ہمیشہ کہ یہ اول وعدہ ہے اور پھر باقی وعدے اس کے بعد ہیں۔ خیبر بھی ہوگا حنین بھی ہوگا ہر قسم کے وعدے ہوں گے۔ لیکن اب میں آپ کے سامنے مختلف علماء کی بحثیں اٹھا کے سامنے رکھتا ہوں جس سے آپ کو پتا چل جائے گاکہ یہ امکان وہ کہاں ہے اوہو آپ کا پاس بیٹھے رہنا ضروری ہے ورنہ حوالے ادھر ادھر ہوجائیں گے سارے۔۔۔۔) اب ایک بزرگ عالم ایسے بھی ہیں جنہوںنے غالباً میرے والا ہی استنباط کیا ہوگا کیونکہ نتیجہ وہی نکالتے ہیں۔ جبائی تفسیر الطبرسی میں ہے جو 548 میں لکھی گئی ہے وہ لکھتے ہیں۔ قتادہ اور اکثر مفسرین نے اس سے فتح خیبر مراد لی ہے۔ جبائی کے نزدیک فتح مکہ مراد ہے اور غنائم کثیرہ سے مراد غنائم حنین تھے۔ یہ بھی جبائی کا استنباط ہے۔ پس بعید نہیں کہ ان کی سوچ بھی انہیں رستوں پر چلی جن رستوںپر میری سوچ چلی تھی اور فتح مکہ کے بعد وہ خزائن جو تقسیم ہوئے ہیں وہ مکے سے ہٹ کر الگ نہیں بلکہ اسی تسلسل میں جو حنین کا واقعہ ہوا ہے اس کی طرف اشارہ ہو۔ پس یہ ایک امکان ہے جس میں پرانے علماء بھی شامل ہیں۔ میرے اکیلے کا استنباط نہیں۔ مگر اس استنباط کے وقت ان کی رائے پر میری نظر نہیں تھی یہ میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اپنے طور پر میری سوچ اسی رستے پر چل پڑی جس سے پہلے بعض دوسرے بزرگوں کی سوچیں بھی چلی ہیں۔
اب دیکھیں جو لوگ پرانی روایات لیتے ہیں وہ پھر فتح مکہ کا ذکر بھی ضرور کرتے ہیں۔ قتادہ اور ابن ابی لیلیٰ کے نزدیک اس سے مراد فتح خیبر ہے تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد فتح مکہ ہے۔ لیکن یہ اصرارہے ان کا مغانم کثیرہ سے مراد غنائمِ خیبر ہی ہیں۔ اب آگے اقوال مختلف ہیں ان آیات کے معانی میں۔ دراصل یہ سب شامل تھے اور جب مزید غور کیا تب میں سمجھا ہوں کہ اختلاف کا ان معنوں میں قرآن حق نہیں دیتا کہ یا یہ یا وہ۔ اصل تفسیر وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماگئے ہیں کہ سارے شامل ہیں۔ اور پھر جب دوبارہ ان آیات کو پڑھیں تو پھر یہ مضمون بالکل روشن ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں لکھا ہے کہ مراد فتح خیبر ہے۔ کہا گیا ہے کہ فتح مکہ مراد ہے۔ یہ ان دونوں کو اختلاف کے ساتھ پیش کیا گیا ہے یا یہ یا وہ۔ لیکن سب مراد ہیں اور بہت سے مفسرین کہتے ہیں صلح حدیبیہ ہی مراد ہے کیونکہ اسی نے ساری فتوحات کی بنیاد ڈالی ہے۔ تفسیر القرطبی میں علامہ محمد بن احد القرطبی متوفیٰ 671ھ لکھتے ہیں ابن زید الضحال نے کہا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی رؤیا کے ورے فتح خیبر ہے۔ رؤیا کے ورے فتح خیبر ہے۔ فتحا قریب میں چونکہ نزدیک ہے اس لئے فرمایا کہ فتح مکہ سے پہلے فتح خیبر ہونی تھی اس لئے یہ فرمایا گیا ہے فجعل من دون ذلک فتحا قریب۔ وہی فتح دون ذلک اس سے پہلے ایک نسبتاً چھوٹی فتح بھی ہونے والی ہے۔ مجاہد کا خیال ہے کہ یہ صلح حدیبیہ ہے اور اکثر مفسرین اسی طرف گئے ہیں۔ زہری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی فتح مسلمانوں کو نہیں دی۔ یہ حقیقت ہے۔ تمام فتوحات کی بنیاد صلح حدیبیہ میں ڈالی گئی ہے۔ صلح حدیبیہ نہ ہوتی تو وہ معاہدہ نہ ہوتا جس کی عہد شکنی کے نتیجے میں مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے کا حق عطا ہوا ہے۔ روکنے والوں سے اللہ نے کیا سلوک فرمایا۔ عظیم الشان کاروبار ہے جو روکنے کے لئے آئے تھے انہوں نے ہمیشہ کے لئے مکے میں داخلہ بند کرنے کے لئے ایک تحریر بنائی اور اس تحریر میں ایک معاہدہ لکھوایا گیا جس کو جب تک وہ نہ توڑتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم مکے میں داخل ہوہی نہیں سکتے تھے۔ اس لئے ایسا معاہدہ لکھوایا گیا جس کو توڑنے پر خود وہ مجبور ہوگئے۔ اور یہ فتح حدیبیہ تھی جس نے اس چیز کی بنیاد ڈالی۔ اگر حدیبیہ کا سفر نہ ہوتا تو مکے کا وہ سفر ہوہی نہیں سکتا تھا۔ اس لئے بعض علماء کا خیال ہے جیسے زہری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑھ کر فتح مسلمانوں کو کبھی نہیں دی۔ بہت عظیم الشان فتح ہے۔ اور زہری یہ بھی کہتے ہیں فجعل من دون ذلک فتحا قریب سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ یہ معنی ہیں من دون ذلک کے وہ خیبر کی طرف جانے کی بجائے وہ کہتے ہیں یہ حدیبیہ ہی تو تھی من دون ذلک۔ فتح مکہ سے پہلے اور تمام فتوحات سے پہلے اس لئے دون ذلک میں حدیبیہ ہی کولو۔ یہی بنیاد ہے ہرقسم کی فتوحات کی۔
اب خیبر کی فتح کی بنیاد ہی اسی وقت پڑی ہے یہ تفسیر ابطری میں جو ہے یہ روایت یہ قطعیت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو یہ ایک مسلمہ امر ہے، تاریخ اسلام کا ایک ایسا پہلو ہے جس میں اختلاف نہیں ہے۔ اس لئے اس بحث کی ضرورت نہیں کہ کس نے کیا لکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب حدیبیہ سے صحابہ لوٹے ہیں جب حدیبیہ والی فتح سے صحابہ لوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے خیبر ان کے ہاتھوں فتح کروادیا۔یہ فتح مکہ سے پہلے درمیان میں واقعہ ہوا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے خیبر کے غنائم تمام ان اصحاب میں تقسیم فرمائے جو حدیبیہ میں شامل ہوئے تھے سوائے ایک انصاری کے جن کا نام ابودجانہ سماک ہے وہ حدیبہ میں تو شامل ہوئے تھے مگر خیبر میں شامل نہ ہوسکے۔ تقریباً سارے صحابہ جو حدیبیہ میں شامل ہوئے ہیں انہی صحابہ کے ذریعے وہ خیبر فتح ہوا ہے۔ تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی خاموش تفسیر ہے من دون ذالک کا ایک امکانی پہلو تھا اور انہیں لوگوں کے حق میں تھی خوشخبری اس لئے انہیں کو لے کے چلے ہیں خیبر کی طرف۔ پس تفاسیر کا معاملہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ایسے عمل کو دیکھ کر جو کسی روایت کا محتاج نہیں جو سارے عالمِ اسلام میں مسلم ہے وہی پھر حق کے ساتھ جاتا ہے۔ پس دون ذلک میں خیبر بھی داخل کرنا چاہئے۔ اگر کہیں میرے پہلے بیان میں قطعیت سے اس کو نکالا گیا تھا تو وہ درست نہیں ہے۔ میں نے بعض علماء کے روش کو اختیار کرتے ہوئے جو پہلے گزرچکے ہیں ایک استنباط کو آگے بڑھایا ہے لیکن جب مزید چھان بین ہوئی ہے یہ ساری باتیں سامنے آئی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے استنباط کے مطابق خیبر بھی من دون ذلک میں داخل ہے۔ لیکن ان باتوں کے علاوہ یہ بات سب کو مسلم ہے کہ خیبر کی بنیاد بھی چونکہ حدیبیہ میں پڑی تھی اس لئے اصل فتح حدیبیہ کی فتح ہے۔ وہی فتح ہے جس میں حج قبول ہوتے ہیں وہی فتح ہے جس میں تمام آئندہ آنے والی فتوحات کی بنیاد ڈالی گئی ہے اور اس کو بڑے بڑے علماء تسلیم کرتے ہیں چنانچہ یہ میں عرض کرتا ہوں۔ ’’تمہارے مکہ میں داخل ہونے سے ورے جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو دکھالایا گیا تھا فتحا قریبا رکھی ہے اکثر مفسرین کا خیال ہے اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ ابن زید، الضحاک کے نزدیک فتحا قریبا سے مراد فتح خیبر ہے۔ زہری کہتے ہیںکہ اسلام میں صلح حدیبیہ سے بڑی اور کوئی فتح نہیں ہوئی اس لئے یہ جو علماء کا فرق ہے یا یہ یا وہ اس فرق کو حضرت مسیح موعود مٹادیتے ہیں ۔ براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 263,264 بقیہ حاشیہ نمبر11۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مغانم کثیرۃ تأخذ والی آیات کی تفسیر بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’خدا نے تم کو بہت سے ملکوں کی غنیمتوں کا عطا کرنا وعدہ کیا تھا۔ بہت سے ملکوں کی ارض لم تطؤھا کی طرف بھی اشارہ ہے۔‘‘ بہت سے ملکوں کی غنیمتوں کا وعدہ اس لئے اس کو خیبر پر محمول کرکے وہیں رک جانا یا حنین پر محمول کرکے وہیں رک جانا یا کسی اور مالِ غنیمت کا ذکر کرکے وہاں رک جانا درست نہیں ہے۔ یہ فتح ایسی ہے جو جاری و ساری سارے عالمِ اسلام پر اس کے مستقبل پر حاوی ہے۔ یہ تفسیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمارہے ہیں۔ ’’خدا نے تم کو بہت سے ملکوں کی غنیمتوں کا عطا کرنا وعدہ کیا تھا۔ سو ان میں سے ایک پہلا امر یہ ہوا کہ خدا نے یہودیوں کے قلعے مع تمام مال و اسباب کے تم کو دے دیئے۔‘‘ (یہ ایک سلسلے کا پہلا واقعہ ہے) اور مخالفوں کے شر سے تم کو امن بخشا۔ تاکہ مومنوں کے لئے ایک نشان ہو۔ اور خدا تم کو دوسرے ملک بھی یعنی فارس اور روم وغیرہ عطا کرے گا۔ ساری بناء اس فتح عظیم سے تعلق رکھتی ہے جو حدیبیہ میں ہوئی ہے اور وہ وعدے جو فرمائے گئے تھے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام مستقبل کی فتوحات لے لی ہیں جن کا تصور بھی اس وقت مسلمان نہیں کرسکتے تھے۔ ’’دوسرے ملک بھی یعنی فارس اور روم وغیرہ عطا کرے گا۔ تمہاری طاقت ان پر قبضہ کرنے سے عاجز ہے پر خدا کی طاقتیں ان پر محیط ہورہی ہیں اور خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے۔‘‘
پس اس کے ساتھ یہ مضمون اور یہ بحثیں اب ختم ہوجانی چاہئیں کیونکہ اس اقتباس میں تمام چیزیں آگئی ہیں اور اس سے بہت ادراک ان آیات کا ہو نہیں سکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔
(ہوگیا۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ہلنا شروع کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلکی سی آنکھ سے دیکھ لیتا ہوں آپ کا ہلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس کی ضرورت ہے اٹھالیں۔اب کل کے لئے کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلی آیت۔ ٹھیک ہے)
(وہ مباہلے والا حصہ بھی تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کب آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کب پوری آیت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شان نزول والی اوہو اچھا وہی میں کہہ رہا تھا۔ یعنی درس کی جاری آیت نہیں بلکہ شان نزول والی آیت جو ہم نے الگ رکھی ہوئی ہیں وہ کل ہوں گی اور ان کو نپٹا کر پھر ہم مباہلہ والی آیت کی طرف جائیں گے تاکہ یہ مباہلے کا سال ہے تو شان نزول کے لحاظ سے یہ بھی علم ہوجائے کہ مباہلہ ہوتا کیا ہے اور کیا مباہلہ تھا جس کا خدا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو ارشاد فرمایا تھا۔ ٹھیک ہے۔ اچھا جی
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
26 رمضان المبارک 25 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج تو اتوار کی وجہ سے ماشاء اللہ کافی بھرپور حاضری ہے۔ شان نزول کی جو بحث چل رہی ہے اس میں کچھ ایسی پیش گوئیاں ہیں جو آئندہ سے متعلق ہیں۔ اور شان نزول ماضی سے نہیں بلکہ مستقبل سے تعلق رکھتی ہے۔ اور وہ سمجھ آہی نہیں سکتی اس زمانے کے لوگوں کو سوائے اس کے کہ ایمان بالغیب ہو۔ لیکن جب وہ ظاہر ہوں گی تو شان نزول اتنی وضاحت کے ساتھ اس تفصیل سے پوری ہونے والی پیش گوئیوں پر روشنی ڈالیں گی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یعنی 1400 سال پہلے جو آیات نازل ہورہی ہیں ان کی شان نزول بعد میں آرہی ہے اور جب آتی ہے تو پھر وہ آیات سمجھ آنے لگتی ہیں اور اپنے خیال یا ایمان کی وجہ سے نہیں بلکہ اتنی وضاحت سے پوری ہورہی ہیں کہ جب تک تفصیل سے ان پر نظر نہ پڑے اس وقت تک وہ ان کے مفہوم ان کے مفسرین کے نزدیک مختلف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چونکہ میں نے اسی نظر سے مطالعہ کیا ہے اس لئے بہت سے مفسرین جماعت کے مفسرین سے بھی مجھے تفسیر میں اختلاف ہے۔ لیکن قطعیت کے ساتھ ہونے والے واقعات کی روشنی میں میرا مضمون درست بنتا ہے۔ کیونکہ میں نے اس نظر سے شان نزول والی آیات کا مطالعہ کیا اور ثابت کرنا چاہتا ہوں دنیا پر کہ قرآن کی شان نزول بسااوقات بعد میں ظاہر ہوتی ہے اور جب ظاہر ہوتی ہے تو بڑی قطعیت سے فیصلے خود کرتی ہے۔ کسی اور فیصلے کی کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پہلو سے بعض بہت سی آیات ہیں بکثرت ایسی آیات ہیں جن کی شان نزول قرآن کریم کے نزول کے بہت بعد ظاہر ہوئی ہے۔ لیکن چند میں نے نمونۃً چنی ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور جب میں آپ کو سناؤں گا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کتنی حیرت انگیز کتاب ہے یہ ۔ کتاب الٰہی۔
واذاالشمس کورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عطلت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سجرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سئلت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نشرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احضرت۔ (تکویر)
یہ سورۃ تکویر کی آیات ہیں جن کی تفسیریں مختلف کتابیں ہمارے لٹریچر میں موجود ہیں اور ایک دوسرے سے الگ الگ تفسیریں ہیں۔ ہر آیت کے تسلسل میں بات کو آگے نہیں بڑھایا گیاا ور اب جب میں آپ کے سامنے بات کھولتا ہوں تو تب سمجھ آئے گی کہ ان میں سے ہر آیت کا ایک ربط ہے۔ اور ہر آیت آنے والے واقعات کے متعلق اسی ترتیب سے ذکر کررہی ہے۔
اذاالشمس کورت۔ جب سورج کو لپیٹ دیا جائے گا۔ واذاالنجوم انکدرت۔ اور جب ستارے ماند پڑجائیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج کو لپیٹنا اور ستاروں کا ماند پڑنا کہیں سے دکھائی دے رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سورج لپٹا ہوا تو کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ اور نہ ستارے ماند پڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اپنی آنکھوں سے۔ یہ قیامت کے بعد کی بات ہے۔ نہیں۔ اذا سے پتا چلتا ہے کہ مستقبل کا واقعہ ہے۔ لیکن یہی ہونے والا ہے دنیا میں۔ تو الشمس سے مراد سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سورج یا اسلام کے سورج کے اور کوئی لیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ آیت کی ترتیب اس کی طرز بیان بتارہی ہے کہ الشمس سے مراد سراجاً منیراً یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہیں۔ اور یہ وہ دور ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شان کو لپیٹ دیا گیا اور دھندلا دیا گیا۔ اور اذاالنجوم انکدرت صحابہ جس طرح ستارے تھے اسی طرح علماء بھی اسلام میں ستاروں کا رنگ رکھتے تھے۔ اور جن علماء کا ذمہ تھا اسلام کا روشن کرنا اور نمایاں کرنا وہ ان کی روشنی بھی ماند پڑگئی۔ ان میں اسلام کی خدمت کی طاقت نہیں رہی۔ یہ وہ دور ہے واذاالجبال سیرت۔ جب کہ بڑے بڑے پہاڑ چلائے جائیں گے یہ روحانی پس منظر کھینچنے کے بعد اس کے بعد دنیاوی علامتیں کیا ظاہر ہوں گی اب یہ صاف سمجھ آنے لگ جائیں گی۔ واذاالجبال سیرت اس کے دو معانی ہیں ایک تو یہ کہ پہاڑوں پر کثرت سے چلا جائے گا۔ اور دوسرے پہاڑ برابرلوڈ اتنے بھاری بوجھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جائیں گے گویا پہاڑ منتقل کئے جارہے ہیں۔ یہ اس زمانے کی خصوصیت ہے کہ جب پہاڑوں کو یا پہاڑ جیسے لوڈز یعنی وزن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا ہے۔ دوسرے پہاڑوں کو واقعۃً اڑا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرکے ان پہاڑوں کو اڑانے کے بعد ان میں سے ایک چٹیل زمین نکالی گئی ہے۔ جس میں پھر اپنی مرضی سے مختلف کام کروائے جاسکتے ہیں۔ یہ تینوں باتیں اس زمانہ میں پوری ہوئی ہیں۔ اور پہاڑ سے مراد حکومتیں بھی ہیں۔ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جبال حکومتوں کے لئے بھی استعمال ہوتاہے۔ تو جب حکومتوں کا رسوخ اور اثر دنیا میں پھیلا دیا جائے گا اور عظیم پہاڑ جو ہیں ان کے اثر کے نیچے دنیا باقی لپیٹ دی جائے گی آجائے گی۔ یہ ساری باتیں جو اس آیت میں مذکور ہیں اور معناً اور لغت کے لحاظ سے بالکل درست ہیں۔ یہ اس زمانے میں پوری ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو اسلام کا سورج لپیٹا گیا دوسری طرف دنیا میں یہ تبدیلیاں پیدا ہوگئیں کہ دنیا کی حکومتیں اٹھ کھڑی ہوئیں اوربڑے بڑے پہاڑ جیسے وزن منتقل کرنے شروع کردیئے گئے۔ پہاڑوں میں کثرت کے ساتھ چلنا پھرنا شروع ہوگیا۔ اور پہاڑ جیسی حکومتیں اپنے اثرورسوخ میں تمام دنیا میں ہر طرف پھیل گئیں۔ اور جب پہاڑ منتقل ہورہے ہوں تو واذاالعشار عطلت کا کیا مطلب ہے پھر؟ اونٹنیاں بیکار کردی گئیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کی منتقلی اور جو ایک لوڈ کا دوسری جگہ جانا بتارہا ہے کہ اتنی عظیم الشان مشینیں ایجاد ہوگئی ہیں اتنی عظیم الشان طاقت ور ٹرانسپورٹ Transport کا کام مکمل ہوچکا ہے کہ اونٹنیاں ان کے مقابلے پر کچھ بھی نہیں رہی ہیں۔ ان کو بیکار کردیا گیا۔ اور سعودی عرب میں اونٹنیوں کا بیکار ہونا خصوصیت سے اس آیت سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ جہاں عظیم الشان نئے ٹرانسپورٹ کے انتظام اور پہاڑ جیسی چیزیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہورہی ہیں۔ وہاں بیچاری اونٹنیوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک جانور ہے جسے بیکار کیا گیا ہے۔ مگر جانوروں کی اہمیت اس کے باوجود زیادہ بڑھ گئی ہے۔ واذاالوحوش حشرت جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے۔ اگر اونٹنیاں بیکار ہورہی ہیں تو ا س سے یہ اندازہ لگانا کہ اس زمانے میں جانوروں کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی یہ اگلی آیت بتارہی ہے کہ جانوروں کی اہمیت ایسی بڑھ جائے گی کہ اس سے پہلے کبھی دنیا میں ایسا نظارہ نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ کہ دنیا جہان کے جانور ایک جگہ اکٹھے کئے جارہے ہیں۔ چڑیا گھر بن رہے ہیں جگہ جگہ۔ واذالوحوش حشرت۔ وذاالبحار سجرت۔ اب جو جانور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جارہے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ کسی سوار پر ان کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں اس آیت نے جو مضمون ظاہر فرمایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے چڑیاگھروں میں سے صرف عام جانور اکٹھے نہیں ہورہے ہیں بلکہ اتنے بڑے بڑے جانور بھی اکٹھے ہورہے ہیں کہ جن کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا نئی سواریوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ نئے ٹرانسپورٹ سسٹم کے بغیر آجکل کے زمانے میں جو جانور بڑے بڑے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جاتے ہیں یہ کسی کی پیٹھ پر سوارہوکر جاہی نہیں سکتے تھے۔ پس عشار عطلت ہوئی ہیں۔ ان میں اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اتنے بوجھ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکیں۔ لازماً نئی سواریاں بنی ہیں نئے ٹرانسپورٹ سسٹم بنے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ اتنے بڑے بڑے جانوروں کو منتقل کررہے ہیں کہ وہ عام انسان اور اس زمانے کا خصوصاً انسان اس کا وہم و گمان بھی نہیں کرسکتا ۔ا ونٹ کو بھی اٹھانے کا کوئی انتظام اس زمانے میں نہیں تھا۔ اب یہ اونٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے جاتے ہیں نمونے کے طور پر۔ ہر بڑے بڑے چڑیاگھر میں ایسے جانور نظر آتے ہیں وہ بتاؤ وہ عشارعطلت جو اونٹنیاں چھوڑی گئی تھیں ان پر چڑھ کر جاتے تھے۔ اونٹنیوں پر تو چار پانچ آٹھ دس من کا بوجھ ڈال دیں تو وہ ان کے لئے بہت کافی ہوجاتا ہے۔ صاف نظر آیا کہ وحوش حشرت کا زمانہ ایسا ہے جس میں جیسا کہ اس زمانے میں ظاہر ہوگیا ہے میں نے بتایا تھا کہ جب وہ ظاہر ہو پیش گوئی تب اس کے نزول کی سمجھ آتی ہے۔ شان نزول آج کل ظاہر ہوئی ہے۔ اس شان نزول نے ہمیں بتادیا ہے عظیم الشان بھاری بھرکم جانور جن کو عام ٹرکوں پر بھی نہیں ڈالا جاسکتا بہت خاص انتظام کرنا پڑتا ہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوکے چڑیاگھروں میں عجیب و غریب جانور آپ کو دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں کا ہاتھی کسی اور ملک میں پہنچا ہوا، کہیں کا اونٹ کسی اور ملک میں پہنچا ہوا، طرح طرح کے بھاری بھرکم جانور گینڈے، (Rhimoceros)ان کو کون اونٹنی اٹھاسکتی تھی۔ اس زمانے کے حالات نے بتایا کہ یہ ساری چیزیں وحوش حشرت میں داخل ہیں۔ واذاالبحار سجرت۔ اب سجرت کا وہ ترجمہ جو ان آیات کے تسلسل میں لازماً ہونا چاہئے وہ ہماری تفسیروں میں سے غائب ہے۔ کیونکہ سجرت کا وہ معنی جو درحقیقت fill کے معنے ہیں وہ معنے نظر انداز اس لئے کردیئے گئے کہ سمندر کس چیز سے بھرگئے۔ حالانکہ یہ وہ دور ہے جب (vessel) ویسل سے سمندر بھرے ہیں۔ یعنی کشتیوں اور جہازوں وغیرہ سے سمندروں نے بھر جانا تھا۔ اور جنگیں ہونی تھیں اور یہ سارے مضامین لغت میں مثلاً لین میں اسی طرح بیان ہوئے ہیں ۔ اب لین کا جو مصنف ہے وہ مفسر تو نہیں ہے لیکن عربی لغت پر نظر رکھتا ہے۔ اور اس نے سجر کا جو حقیقی اصل معنی وہ ہے آیت بحار کی آیت لکھ کر کہ جب سمندر کسی چیز سے مثلاً ویسل (vessel) سے بھر جائیں گے اور یہ جو ٹرانسپورٹ کا دور تھا یہ خشکی کی ہی باتیں نہیں تھیں بلکہ سمندر کی باتیں بھی قرآن کریم کررہا ہے۔ سمندر ہر قسم کے جہازوں سے بکثرت بھرجائیں گے۔ اور لڑائیوں میں بھی یہ ہوتا ہے مگر لڑائیوں کے علاوہ بھی آجکل کے سمندر جس طرح عظیم الشان جہازوں سے بھرے پڑے ہیں اس کا کوئی پہلے تصور نہیں تھا کہ اتنے بڑے بڑے جہاز، اتنے بڑے عظیم الشان سمندر، اتنی وسعتوں کے باوجود عملاً بعض دفعہ ایسے لگے گا کہ گویا پوری طرح بھر گئے ہیںکشتیوں سے۔ جنگ عظیم میں یہ واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں کہ بعض سمندروں کے علاقے پوری طرح سمندری جہازوں سے جو لڑاکا جہاز تھے ان سے بھردیئے گئے تھے۔ تو اذالبحار سجرت میں چونکہ ٹرانسپورٹ کی بات چل رہی ہے ساری۔ یہی اولیت رکھتی ہے اور لغت کی رو سے بعینہٖ یہی معنی بنتا ہے۔ کہ سمندر ویسلز سے بھر دیئے جائیں گے۔ واذالنفوس زوجت یہ ساری ٹرانسپورٹ جنہوں نے وحشی جانور اکٹھے کئے جس میں سمندر بھرے گئے یہ ساری دنیا کے انسانوں کو ملانے کا ایک ذریعہ بن جائیں گے۔ اذالنفوس زوجت سب دنیا کے انسان ایک جان بن جائیں گے۔ ایک جگہ اکٹھے کردیئے جائیں گے۔ زوجت کا ایک معنی ایک تو ظاہر جسمانی اکٹھا ہونا ہے دوسرا معناً اکٹھا ہونا ہے اور یہ ساری باتیں لغت میں موجود ہیں۔ پس زوجت کا مطلب یہ بنے گا کہ دنیا گویا ایک دنیا بن جائے گی تمام جہانوں کے انسان ایک دوسرے سے اس طرح ملادیئے جائیں گے جس طرح وہ ایک ہی عالمی برادری بن گئے ہیں۔ یعنی United Nation نے جو زوجت کا نمونہ دکھایا گویا یعنی عملًا وہ پھٹے ہوئے ہیں لیکن ظاہر طور پر تو زوجت کا مضمون ہی چل رہا ہے۔ اور علاقائی معاہدے اور اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے چلے جانا یہ تمام تفاسیر میں بعض دوسری جگہ بیان کرچکا ہوں وہ چھپ جائیں گی لیکن یہاں میں مختصراً آپ کو بتا رہا ہوں کہ ان آیات کی شان نزول اس طرح مربوط ہے اور زمانے کے واقعات بعینہٖ اس کے مطابق unfold ہورہے ہیں گویا کہ (uncurl) اپنے آپ کو کھولتے جارہے ہیں۔ واذاالموء دۃ سئلت باي ذنب قتلت۔ قانون کا دور ہوگا وہ۔ پہلی بات یہ ہے کہ زوجت میں قانون کی طرف بھی اشارہ ہے۔ دنیا آپس میں قوانین کے ذریعہ باندھی جائے گی اور ایک جان بنادی جائے گی۔ اس وقت یہ اجازت نہیں ہوگی کہ اپنی بیٹی کو بھی انسان درگور کرسکے۔ اپنی اولاد پر ذاتی ملکیت ختم ہوجائے گی۔ اور قومی ملکیت کا دور ہوگا۔ اور اگر کوئی اپنی اولاد سے ناانصافی کرے گا تو اس سے متعلق باي ذنب قتلت، پوچھا جائے گا کہ کیوں تم نے ایسا کیا۔ آج کل انگلستان میں اور ہر جگہ مغربی دنیا میں تو بہت خصوصیت کے ساتھ اس بات پر بہت زور دیا جارہا ہے کہ ماں باپ کون ہوتے ہیں اپنی اولاد کو قتل ہر معنی میں کرنے والے۔ ان کے حقوق مارنے والے ان سے زیادتی کا سلوک کرنے والے۔ جہاں دنیا میں کون کرے گا عالمی قوانین نافذ ہوں گے۔ ہوتے ہیں۔ عالمی قوانین۔ جہاں وہ لوگ مانیں کیونکہ وہ United Nations کے ممبر ز ہیں۔ وہ بے حیائی کرکے چوری کرکے الگ رہیں الگ مسئلہ ہے۔ مگر قوانین جو United Nations میں بنیادی حقوق کے ہیں۔ ان کے مطابق ہر ملک میں اس بات کو اٹھایا جاسکتا ہے کہ کسی نے اپنی اولاد سے زیادتی کی ہے۔ اب پاکستان میں چائلڈ لیبر یا انڈیا میں چائلڈ لیبر ہورہی ہے۔ یہاں کے ملک پوچھ رہے ہیں کہ کیوں ایسا کیا حالانکہ ان کے ماں باپ نے کیا ہے۔ عالمی برادری کہتی ہے ماں با پ کون ہوتے ہیں۔ ہم پوچھیں گے۔ ہمارا یہ حق ہے کیونکہ زوجت نے آپ سب کو ایک کردیا ہے۔ اور اس پہلو سے پوچھا جائے گا کہ کیوں ایسا ہوا ہے۔ یہ جو دور ہے یہ Press کا دور ہے۔ پریس سے بڑھ کر آپس میں ملانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن بھی اس طرح نہیں ملاتی جس طرح اخبارات ملاتے ہیں۔ اور ساری دنیا میں ہر جگہ ٹیلی ویژن کا انتظام ہے کہاں۔ ریڈیو کا بھی ہر جگہ انتظام نہیں۔ مگر پریس کے کاغذ چیتھڑے بھی ہوں تو ساری دنیا کی خبریں ایک دوسرے سے ملاتے چلے جاتے ہیں اور اذالصحف نشرت اس کے عین برمحل اور اسی طرح اس آیت کے بعد آنا چاہئے تھا۔ باي ذنب قتل فاذاالصحف نشرت کے بعد کیونکہ وہ زمانہ تمام عالمی برادری کو صحیفوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑنے کا زمانہ ہوگا۔ کتب کی اشاعت کا زمانہ۔ یہ بھی اذالصحف نشرت سے ملتا ہے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں تو اشاعت کا اور تفصیل سے اشاعت کا بلکہ ایسی اشاعت کا جو تمام دنیا کو باندھ دے وہم وگمان بھی نہیں آسکتاتھا۔ کوئی انسان اس زمانے کا تصور نہیں کرسکتا تھا کیونکہ زیادہ سے زیادہ وہ اگر پار چمنٹ لکھتے بھی تو کتنا پھیلا لیتے؟ نشرت بتارہا ہے کہ زمانہ نشرواشاعت کا ہے۔ اور اس زمانے کے جو اسباب مہیاتھے وہ نشرواشاعت کا زمانہ بن سکتا ہی نہیں۔ ان اسباب کے ذریعے۔ نئی ایجادات ضروری تھیں۔ اور یہ پریس کی ایجاد ہے۔ جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ واذاالصحف نشرت ۔ واذالسماء کسطت۔ آسمان کی کھال ادھیڑی جارہی ہے۔ سائنسدانوں نے آسمانی دنیا میں اتنا غور کیا ہے اتنی تفاصیل بیان کی ہیں اس میں جب آپ آسمان پر نظر کریں تو یوں لگتا ہے جیسے اس کی کھال ادھیڑ دی گئی ہے۔ جو کچھ اس نے چھپایا تھا وہ اب دنیا پر ظاہر کیا جارہا ہے۔ اور اس بات کی خبر الصحف نشرت کے بغیر ہو نہیں سکتی تھی۔ یہ جو تعلیم کا زمانہ ہے اس نے طاقت بخشی ہے انسان کو کہ دور دراز کائنات پر غور کرے اور بال کی کھال ادھیڑے۔ اور اندر کی باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ علم کا زمانہ الصحف نشرت سے مربوط ہے۔ اس پر مبنی ہے یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ الصحف نشرت کے بغیر یہ زمانہ طلوع کرتا۔ جس میں آسمان کی کھال ادھیڑی جانی تھی۔ واذالجحیم سعرت۔ ان ساری باتوں سے اسلام کا سورج غروب ہونے کے بعد ستاروں کے ماند پڑنے کے بعد ظہور ہورہی ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ بہت عظیم زمانہ آگیا ہے۔ اب انسان کو بڑا چین آگیا ہے۔ فرمایا یہ نہیں ہوگا۔ وہ چین اور وہ سکون محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور آپ کی تعلیم سے وابستہ ہے۔ تم ان سے دور ہٹ کے جتنی چاہو ترقیات کرلو، آسمان کی کھال ادھیڑلو مگر اس چیز سے بچ نہیں سکتے۔ واذاالجحیم سعرت۔ یہ کہ جہنم بھڑکائی جائے گی۔ یہ جہنم کی آگ ہے جس کو ان ساری چیزوں نے مدد دی ہے۔ جو پہلے گزر رہی ہیں باتیں جو عظیم ترقیات کا زمانہ ہے یہی جہنم کی آگ یعنی عالمی جنگ بھڑکانے کا موجب بنی ہوئی ہیں اگر ان چیزوں کو نکال دیں تو جنگیں بالکل محدود اور چھوٹے چھوٹے پیمانے پر رہ جائیں گی۔ تو جحیم سعرت اس عالمی وجود، ذکرکے بعد کہ کل عالم ایک ہورہا ہے ترقی ہورہی ہے۔ سائنس بڑی پر پرزے نکال رہی ہے۔ اس کے بعد جب جحیم سعرت کہا جاتا ہے تو بالکل ظاہر ہے کہ یہاں وہ آگ مراد ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئیاں ہیں کہ ’’آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے‘‘۔ اس طرح قرآن کریم نے اپنے اس زمانے کو اس زمانے سے ملادیا ۔ اور زوجت کا یہ مضمون بھی ہمارے سامنے آگیا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں یہ سب کچھ ہوگا اور آگ بھڑکائی جائے گی یعنی جنگیں ایسی ہوں گی جو عالمی جنگیں ہوں گی۔ اس وقت ایک جنت بھی ہے جو خدا تعالیٰ نیچے کردے گا اور وہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود ہے۔ جنہوں نے جحیم سعرت کی پیش گوئیاں کی ہیں۔ اب دیکھو شان نزول یہ ہوتی ہے۔ ایسی ترتیب سے مضمون چل رہاہے اور ہر آیت دوسرے سے مربوط ہے۔ ہر واقعہ دوسرے سے مربوط ہے۔ ہر آیت کا جو نتیجہ نکلتا ہے اگلی آیت میں اس کو اٹھالیا گیا ہے۔ اک Medley Race چل رہی ہے۔ ہر آیت ایک ڈنڈا پکڑاتی ہے دوسری آیت کو اور وہ دوسری آیت اس کو لے کر بھاگتی ہے۔ اور آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اس مضمون کا انتقال اس طرح ہوتا ہے کہ جحیم سعرت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس تفصیل کی کسی اور نے خبر نہیں دی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اور قرآن کریم کی ان پیش گوئیوں نے یا اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے یہ خبر دی کہ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں خوفناک عالمی جنگیں ہیں جو آگ کی طرح کل عالم کو لپیٹنے والی ہیں۔ اور ان میں یہ کچھ ہوگا اور یہ کچھ ہوگا۔ آگ برسائے گا۔ یہ ساری باتیں اور جہنم بھڑک اٹھے گی۔ بیان کرنے کے بعد صرف مایوسی کا پیغام نہیں۔ اذالجنۃ ازلفت۔ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے جہنم بھڑکائی جارہی ہوگی مگر جنت بھی نزدیک کی جارہی ہوگی اب صاف ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں الگ الگ دائروں سے تعلق کھنے والی ہیں ۔ ایک جہنم ہونے کے باوجود اسی میں جنت کے رستے نزدیک کردیئے جائیں گے اسی جہنم میں ایسے لوگ ہوں گے جہنم کی دنیا میں بسنے والے جن کے لئے جنت لٹکا کر نیچے کردی جائے گی۔ علمت نفس ما احضرت اس وقت انسان جان لے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے۔ یہ طریق ہے قرآن کریم کا جو حیرت انگیز یعنی بالکل انسان کو غرق کردیتا ہے حیرتوں میں اب ان آیت کو جب دوبارہ آپ تفصیل سے پڑھیں گے تو اذاالشمس کورت واذاالنجوم انکدرت سوائے اس کے اور کوئی معنی بن ہی نہیں سکتا ہے کہ اسلام کو بظاہر لپیٹ کر دنیا کی روشنی میں ترقی کی ہے لیکن وہ روشنی جہنم کے سوا ان کو کسی اور طرف نہیں لے کر جائے گی۔
اب ایک اور آیت اسی تعلق میں سورۃ الانبیاء آیات 31 تا 34 اولم یرالذین کفروا ان السموت والارض کانتا رتقا ففتقنھما۔ وجعلنا من الماء کل شیء حي افلا یؤمنون۔ حیرت انگیز کلام ہے انسان حیران ہوجاتا ہے دیکھ کر کہ کیسی عظیم الشان بات ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں جب کہ زمین و آسمان کی پیدائش کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ کہ یہ کبھی جڑے ہوئے بھی تھے۔ زمین و آسمان کے متعلق اس زمانے کی ساری علمی کتابیں تلاش کرلیں اشاۃً بھی یہ ذکر نہیں کہ زمین و آسمان کبھی اکٹھے، ایک بند گیند کی طرح تھے جس میں سے کوئی چیز نکل نہیں سکتی تھی۔ رتقاً مضبوطی سے جو سی دیا جائے گیند جس کی کہ اتنی مضبوط ہو سیون اس میں سے کوئی چیز بھی باہر نہ نکل سکے۔ اس کو رتقاً کہتے ہیں ۔ اور یہ نہیں فرمایا کہ مسلمانو تم نے دیکھا کہ آسمان رتقاً تھا اے مومنو! اے انسانوں آج کے تم نے نہیں دیکھا کہ آسمان رتقاً تھا۔ اولم یرالذین کفروا ان السموت کیا کافروں نے جن لوگوں نے کفر کیا ہے انہوں نے کیا یہ بات نہیں پائی۔ جو خدا اور رسول کا انکار کرنے والے ہیں ان سے نکلوائی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ بات اور صاف ظاہر ہوا اس زمانے کے کافروں کو بھی یہ بات معلوم نہیں تھی اس لئے آئندہ کی پیش گوئی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ آئندہ زمانے میں کافروں نے یہ بات معلوم کرنی تھی۔ کہ زمین و آسمان ایک Black Hole کی صورت میں سب رتق ہوئے ہوئے تھے۔ اتنی مضبوطی سے وہ black hole ہر چیز کو سمیٹے ہوئے تھا کہ اس میں سے کسی مواد کا نکل بھاگنے کا کوئی سوال تک باقی نہیں تھا اور روشنی کو بھی وہ سمیٹ لیتا تھا۔ ہر قسم کی Radiation کو واپس اپنی طرف لے آتا تھا۔ اور ساری کائنات سے جو کچھ بھی مادے کی صورتیں تھیں وہ سمٹ کر اس میں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ یہ آج کے دور کی باتیں ہیں پرانے زمانے کی نہیں یہ وہ باتیں ہیں جن کو کافروں نے معلوم کرنا تھا اور یہی قرآن مجید لکھتا ہے کہ تم کفر کررہے ہو خدا تم سے یہ باتیں معلوم کروائے گا۔ تم دنیا کو قرآن مجید کی سچائی کے حقائق بتاؤ گے کہ یہ دیکھو کتنی سچی کتاب ہے۔ رتقاً ففتقنھما ہم نے ان کو پھاڑ دیا، اس گیند کو اس بند چیز کو پھاڑ دیا اور پھر اس میں سے زمین و آسمان نمودار ہوئے ہیں۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی افلا یؤمنون۔ ان کو یہ نظر نہیں آتا ہے کہ پانی زندگی کے لئے بنادیا ہے ہم نے۔ پانی سے ہر قسم کی زندگی پھوٹی ہے اور یہ رتقاً کے بعد مقصد کیا تھا کہ یہ زمین و آسمان پھٹ کر پھر پھیل جائیں اور ساری کائنات وجود میں آجائے۔ مقصد زندگی پیدا کرنا تھا جو ماء اگر روحانی معنوں میں لو تو روحانی پانی ہی سے روحانی زندگی پھوٹی ہے اور اگر جسمانی معنے لوتو تم جانتے ہو کہ ماء کے بغیر اس دنیا میں کسی زندگی کا کوئی سوال باقی نہ تھا۔ اب وہ زندگی جو پانی کے بغیر بظاہر موجود تھی۔ اس کے متعلق سائنسدان کہتے ہیں اس کو زندگی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ Organisms ہیں۔ وہ کیمیائی ترکیبوں کی صورت میں بعض چیزیں دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کو زندہ نہیں کہا جاسکتا۔ زندگی اس وقت پھوٹی ہے جب پانی میں سے خداتعالیٰ نے زندگی کے سامان کئے اور ہر چیز جو زندہ کہلاتی ہے وہ پانی کی محتاج ہے اور پانی کی ممنون ہے اور تمام Bar Units یعنی زندگی کے یونٹ یہ پانی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ تفاصیل سائنس کی جو آج کے دور میں ایجاد ہورہی ہیں قرآن کریم چودہ سو سال پہلے کی کتاب ہے وجعلنا من الماء کل شیء حی، لیکن اس ترتیب میں اس کو ذکر کیا گیا ۔ ورنہ آج کل کے لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگ بھی سمجھتے ہوں گے کہ پانی ضروری ہے زندگی کے لئے مگر ففتقنھما کے بعدپانی کو زندگی کا ذریعہ بنانا یہ ہے وہ عظیم الشان بات جس کے بعد پانی کے نظام کا ذکر فرمادیا۔ دنیاوی پانی جو تمہیں نصیب ہوتا ہے اور روحانی پانی جو تمہیں نصیب ہوتا ہے یہ بڑے بڑے پہاڑوں سے نصیب ہوتا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو تمہارے لئے زندگی کی کوئی صورت نہیں تھی۔ یہ باتیں کہ پہاڑوں کے ذریعے خصوصی نظام بنایا گیا پانی کا یہ تفاصیل اس زمانے کے انسان کو نہ معلوم تھیں نہ اس کا ذہن اس طرف جاسکتا تھا۔ اس دور میں ممکن ہوا ہے کہ ہم ان باتوں کو سمجھ سکیں۔ اور اسی لئے میں ان تمید بھم کا معنی ہمیشہ دسترخوان بچھانا کرتا ہوں۔ بعض علماء یہ کہیں گے کہ رواسی تاکہ تمہیں وہ لے کر زلزلے میں نہ مبتلا ہوجائیں۔ یہ معنی ٹھیک ہے میں نہیں سمجھتا کہ یہ معنی اس تسلسل میں قرآن کی شان نزول بیان کررہی ہو کیونکہ پانی کو زندگی کا ذریعہ بنایا اور پہاڑوں کو زندگی برباد کرنے کا ذریعہ بنادیا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ان تمیدبھم کا وہی مطلب ہے جو امام راغب نے بھی لکھا ہوا ہے ا ور بعض دوسرے پرانے علماء نے بھی جن کو اس کی تصحیح کا علم نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں تمید بکم کامطلب ہے کہ تمہارے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا دسترخوان بچھادیا۔ تو دنیا میں جتنے دسترخوان بچھتے ہیں یہ پہاڑوں کی وجہ سے بچھتے ہیں۔ وہ پانی جس کا ذکر فرمایا گیا ہے اس نظام کو اب خداتعالیٰ نے کھول کے بیان کردیا کہ وہ پانی اس طرح اکٹھا ہوتا ہے۔ سمندروں سے اٹھتا ہوا پانی اگر پہاڑ نہ ہوتے تو ہمیشہ ہمیش کے لئے ہماری پہنچ سے باہر ہوجاتا ۔ آج کے Scientist متفق ہیں اس پر کہ پہاڑوں کے نظام کی وجہ سے بادل اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور ان کے اندر Conversationپیدا ہوتی ہے۔ بجلی کی روئیں دوڑتی ہیں۔ ان کے نتیجہ میں پھر پانی اوپر سے برستا ہے۔ اور بجلی کی وہ روئیں جو پیدا ہوتی ہیں وہ امونیم نائیڑیٹڈ پیدا کرتی ہیں یعنی وہ کھادیں جو صرف پانی ہی نہیں ان کھادوں کے بغیر زندگی کا نظام ممکن نہیں تھا تمیدبکم ہو نہیں سکتا تھا۔ اگر خالی پانی برستا آسمان سے اور اس میں نائیٹروجن وغیرہ کی ضروریات شامل نہ ہوتیں۔ تو پھوکا پانی ہوتا۔ ساری دنیا میں جتنے کھاد بنانے والے کارخانے ہیں ان کے متعلق تحقیق یہ ہے کہ وہ سارا سال جتنی کھاد بناتے ہیں۔ ایک دن پہاڑوں پر ٹوٹنے والی بجلیاں اور پانی کا برسنا اس سے زیادہ کھاد بنادیتا ہے۔ اور یہ نظام بجلیوں کی کڑکوں سے پیدا ہوتاہے۔ پس پہاڑوں کی وجہ سے ہماری زندگی کی بنا ہے۔ خالی پانی کی وجہ سے نہیں ہے۔ پہاڑوں پر سے پانی اترتا ہے۔ کھاد اپنی خود لے کر آتا ہے۔ اور پہاڑوں پر جو سرسبزی دیکھتے ہیں آپ اگر عام کھاد وہاں پڑی بھی ہوتی تو سارے پانی نے اس کو نیچ کر کے بہا کرلے جانا تھا۔ تمام دنیا کے پہاڑ بنجر پہاڑ دکھائی دیتے ان میں کچھ بھی نہ نظر آتا۔ یہ کلام الٰہی کی شان دیکھیں۔ اس کو کہتے ہیں شان نزول پہلی آیات کی جو شان بیان کرتا ہے اس مضمون کو آگے بڑھا رہا ہے۔ فرمارہا ہے اس دور میں تم لوگ دیکھو گے کہ ہم نے جعلنا فی الارض رواسی ہم نے رواسی بنائے ہیں زمین میں اور رواسی ان پہاڑوںکو کہاجاتا ہے یا پہاڑوں کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ میخ کی طرح گہرے زمین میں گڑھ گئے ہوتے ہیں۔ اور اگر ان تمیدبکم کا مطلب یہ بنایا جائے کہ وہ بڑے مضبوط ہیں۔ اتقن کل شیء خدا نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے، لیکن یہ پہاڑ اس لئے گاڑھے گئے ہیں ان تمیدبھم کہ تم لوگوں کو زلزلوں میں مبتلا کریںا ور زندگی کی اغراض سے خالی کردیں۔ حالانکہ تمیدبکم میں یہ دسترخوان ہے جو میں بیان کررہا ہوں یہ بچھادیا گیا ہے۔ فجعلنا فیھم فجاجا لعلھم یھتدون اور پہاڑوں میں جو رستے بنائے گئے ہیں یہ ان دریاؤں کی وجہ سے بنتے ہیں جو پہاڑ سے نیچے کی طرف بہتے ہیں۔ تمام دنیا میں پہاڑوں کے رستے دریاؤں کے محتاج ہیں۔ اس تفصیل کے ساتھ یہ بات حقیقت ہے کہ جب ہم نے ناروے کا سفر کیا تھا تو ساری سڑکیں وادیوں میں سے گزرر ہی تھیں پہاڑوں کے اوپر سے چڑھنے کے لئے Special انتظام لوگوں کو کرنا پڑتا تھا۔ حکومتوں کو۔ ورنہ یہ رستے ایک دوسرے سے پہنچنا ایک دوسرے سے رابطہ یہ سب ان آسمانی پانیوں کی وجہ سے تھا جنہوں نے برس برس کر دریا جاری کئے۔ اور سبلا بنادیا اس کے ساتھ فیھا فجاجا بہت کھلے کھلے رستے بنادیئے۔ لعلھم یھتدون تاکہ وہ ہدایت پائیں اب دیکھیں زمین کے پانی کو چھوڑیں جب آسمان کے پانی کی بات کرتے ہیں تو صراط المستقیم مختلف رستے جو خدا کی طرف لے کر جاتے ہیں یہ سب آسمانی پانی کے برسنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بھی نہیں جو اس کے بغیر ہوسکے۔ تمام راہیں جو بنائی گئی ہیں وہ آسمان سے برسنے والے پانی کے نتیجہ میں بنائی گئی ہیں اور ان میں کھلے کھلے رستے بھی ہیں۔چوڑی چوڑی سڑکیں ہیں۔ صراط مستقیم ان میں داخل ہے اور پھر آسمان کو سقفاً محفوظاً بنایا ہے اب یہ ساری چیزیں جیسا کہ اوپر وہاں گزرتی ہیں پہاڑوں کے اوپر یہ ایک اور کام بھی کررہی ہیں۔ کہ زمین اور آسمان کے درمیان ایسی محفوظ چھت ہے جس میں سے آسمان پر پیدا ہونے والی مضر Radiation زمین تک نہیں پہنچ سکتی۔ سقفا محفوظا ان بندوں کے لئے ہے اسی تسلسل میں جاری ہے۔ تو اولم یرالذین کفروا کا مضمون جاری ہے۔ تم نے دیکھا نہیں تمہی نے تو ثابت کیا ہے کہ زمین اور آسمان کے درمیان خداتعالیٰ نے ایسی سطحیں بنادی ہیں یعنی فضا نہیں بلکہ آسمان کرلیں یہ نزدیک کا آسمان دور کا آسمان لیکن جو ہمارا نزدیک کا آسمان ہے وہ مختلف ایسی سطحوں میں تبدیل ہوا ہوا ہے جن کے نتیجہ میں آسمان سے اترنے والی شعاعیں کوئی یہاں جذب ہوجاتی ہے کوئی وہاں جذب ہوجاتی ہے۔ غرض یہ کہ زمین تک نہیں پہنچتی وہ شعاعیں جب تک خداتعالیٰ ان کو مضرات سے پاک نہ کرلے۔ یہ سقف محفوظ ہے۔ اور اس مضمون نے تسلسل میں اس کے سوا معانی بن ہی نہیں سکتا۔ جب سب کچھ پیدا کردیا تو برباد کرنے کے لئے تو آسمان سے Bombbarment ہونی تھی۔ آسمان کو سقف بنانا ضروری تھا یہ سب چیزیں معلوم ہیں۔ اولم یرالذین کفروا کفر کرنے والوں کو ان کے ذریعے ہی ہمارے ہاتھ آئی ہیں۔ وھم عن اٰیتھا معرضون ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود خداتعالیٰ کی آیات سے پیٹھ پھیرلیتے ہیں اور منہ پھیر کے چلے جاتے ہیں۔ جب سائنس کے ان رازوں کا مطالعہ کریں جن رازوں کا ذکر ان آیات میں ذکر ہے اور پھر دیکھیں کہ ان عقل کے اندھوں کو کیا ہوجاتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ہستی سے گھبراتے ہیں۔ پریشان ہوتے ہیں۔ پیٹھ پھر کے منہ موڑ جاتے ہیں اور طاقت نہیں ہے کہ کوئی اور تشریح کرسکیں۔ یہ سارے مضامین کسی قدراختصار کے ساتھ میں نے جو شائع ہونے والی کتاب ہے اس میں درج کئے ہوئے ہیں۔ یہاں صرف اشارۃً آپ کو بتارہا ہوں کہ قرآن کریم کی شان نزول یہ شان رکھتی ہے کہ آئندہ کی پیش گوئیوں کو اس حیرت انگیز تفصیل کے ساتھ اور ترکیب کے ساتھ اور اس وضاحت کے ساتھ پیش کرتی ہے کہ اس کا کوئی اور معانی ممکن ہی نہیں رہتا۔ جب تک ان آیات کو اپنی شان نزول بتانے والی خود آیات تسلیم نہ کیا جائے۔ وھوالذی خلق اللیل والنھار والشمس والقمر کل فی فلک یسبحون۔ جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور والشمس والقمر سورج کو بھی اور چاند کو بھی۔ اب ظاہری سورج اور چاند محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا سورج اور آپ کا چاند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پران پیش گوئیوں کے آخر پر اس قسم کا ذکر ضرورموجود ہے۔ جس میں پہلے زمانہ کے واقعات کے ساتھ آئندہ زمانہ میں ظاہر ہونے والے روحانی وجود کا بھی ذکر کردیا ہے۔ لیکن جو خاص قابل غور بات اس میں ہے وہ یہ ہے کہ ھوالذی خلق اللیل والنھار والشمس والقمر اس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ ظاہری طور پر آپ کو پتا ہے سورج کے ڈوبنے سے رات آتی ہے اور رات کی روشنی کو برقرار رکھنے کے لئے چاند آجایا کرتا ہے۔ یہ ممکن کیسے ہوسکتاہے اگر زمین اپنے گرد گھوم نہ رہی ہو۔ رواسی تو اڑ ہی نہیں سکتے وہ تو زمین میں گڑے ہوئے ہیں۔ جو کچھ گھومتا ہے ان کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ اگر وہ سیدھا چل رہے ہیں تو سیدھا چل رہے ہیں۔ دن اور رات پیدا ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ سوائے اس کے کہ یہ مانا جائے کہ چاند اور سورج زمین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس بات کی نفی اس طرح فرمادی گئی۔ کل فی فلک یسبحون۔ تمام اجرام سماوی جن میں زمین بھی ہے۔ ایک کل فی فلک یسبحون ہر کائنات کی چیز بیضوی صورت میں گھوم رہی ہے۔ بیضوی صورت میں اگر چاند اور سورج گھوم رہے ہیں تو زمین کیسے بیضوی صورت میں گھوم رہی ہے۔ زمین کی بیضوی صورت میں گھومنا ثابت کرتا ہے کہ دن رات اور موسم کا ادل بدل جس کے بغیر یہ مائدہ بچھایا نہیں جاسکتا تھا یہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور چاند بھی اس کے ساتھ ساتھ بیضوی شکل میں سورج کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور دنیا میں جو اسلام کا چاند طلوع ہونا تھا وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے گرد اس بیضوی صورت میں گھوم ر ہا ہے۔ یہ تمام مضامین اس ترتیب سے اگر آنکھیں ہوں تو پڑھنے چاہئے اور سمجھ آجانی چاہئے۔ مگر اگر غور کریں گے آپ شان نزول کے اس دوسرے پہلو پر جو میں بیان کررہا ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آنکھیں بھی نصیب کرے گا اور پھر ایک دم سارے معاملات آپ کے سامنے کھل جائیں گے۔ سورۃ الانبیاء آیات 31 تا 34 یہ مضامین ایسے ہیں جو بہت زیادہ تفصیل سے بیان کے محتاج ہیں۔ا ور اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو ناممکن ہے کہ کوئی انسان قرآن کریم کی طرف یہ باتیں اتفاقاً منسوب کرے۔ اتنا مضبوط اندرونی نظام ہے اتنا مربوط ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شان نزول وہ باتیں ہیں جو 14 سو سال بعد یا 13 سو سال بعد ظاہر ہونی تھیں۔ لیکن ان میں باریکی کے ساتھ ان کا تسلسل ان کے اندرونی نظام کے متعلق اشارے اور ان میں غور کرنے سے علوم کا ایک جہان آپ کے سامنے روشن ہوجاتا ہے۔
اب ایک (ابھی وقت ہے نا ہمارے پاس) سمندروں کا آپس میں ملنا۔ یہ بہت دلچسپ مضمون ہے۔ قرآن کریم میںصرف دو آیات ہیں جن میں سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر ہے۔ ڈھونڈ کے دیکھ لیں۔ ایک تیسری آیت کو بعض مفسرین ان معنوں میں بھی استعمال کرتے ہیں حالانکہ وہ ہرگز استعمال نہیں ہوسکتی۔ (وہ نکالیں آیت تیسری) دو آیات ہیں صرف سارا قرآن میں نے چھان مارا ہے اچھی طرح دیکھ لیا سوائے ان دو آیات کے اور کوئی آیت نہیں ہے جو سمندروں کے ملنے کا ذکر کرتی ہو۔ اور دو ہی واقعات دنیا میں گزرے ہیں جہاں سمندروں کو ملایا گیا ہے۔ اب بتائیں اس کو کہتے ہیں شان نزول آیات کی طرف آپ وہ معانی منسوب کرہی نہیں سکتے جو جب تک آئندہ زمانے کے حالات ظاہر نہ ہوں اور بتائیں نہ کہ اس آیت کی شان نزول کیا ہے۔ اس وقت تک آپ ان واقعات کو اس آیت کی طرف منسوب نہیں کرسکتے۔ حالانکہ ان آیات میں اتنی تفصیل سے ذکر موجود ہے کہ انہی واقعات کی طرف وہ منسوب ہونی چاہئے۔ اور جو دو واقعات ہونے تھے سمندروں کے ملانے کے اگر آپ غور کریں تو آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ بعینہٖ ان سمندروں کی نشاندہی کررہی ہیں وہ آیات۔ اتنی وضاحت سے کررہی ہیں کہ یہ پوچھنے کی ضرورت کوئی نہیں۔ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ کہاں کہاں یہ واقعات رونما ہوئے ہیں اور قرآن کریم کی کون سی آیت کس ملانے کا ذکر کررہی ہے اور کون سی آیت کس دوسرے ملانے کا ذکر کررہی ہے۔ یہ ساری باتیں قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اب دیکھ لیں سب سے پہلا ذکر جو قرآن کریم میں ہے۔ ان ذلک علی اللہ کبیر۔ وما یستوی البحران ھذا عذب فرات صعغ سراجہ وھذا ملح اجاج دو سمندر یہ سمندر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ یہ ایک جیسے شمار نہیں کئے جاسکتے۔ ایک میٹھے پانی کا سمندر ہے اور ایک کھاری پانی کا سمندر ہے۔ ومن کل تاکلون لحما طریا ان میں سے تم سب دونوں میں سے اچھا گوشت کھاتے ہو۔ اب یہاں مرج کا کہاں ذکر ہے۔ ملانے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ واقعۃً اس مضمون کا تعلق روحانی دنیا سے بھی ہے یعنی اسلام کا سمندر اور دوسرے سمندر دونوں سے تم فائدے اٹھارہے ہو اپنے اپنے معنوں میں۔ لحما طریا یہ تفصیل ایسی ہے جس میں اس وقت میں جا نہیں سکتا۔ لیکن میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ اس آیت میں کہیں سمندروں کے ملنے کا کوئی ذکر نہیں۔ جو آیت اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس میں اس کے سوا معنی ممکن ہی نہیں ہے کہ آئندہ سمندروں کے ملنے کی پیش گوئی ہے اور ہر پیش گوئی بتارہی ہے کن سمندروں کا ذکر کررہی ہے۔ رب المشرقین ورب المغربین دو مشرقوں کا رب اور دو مغربوں کا رب معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی چیز بیچ میں ملنے والی ہے جو یہ دونوں مشارق مشرق اور مغرب کی آپس میں ملنے والی ہیں۔ فبای الآء ربکما تکذبان پس تم اللہ تعالیٰ کی اے دونوں یعنی بنی نوع انسان میں سے بڑے اور چھوٹے لوگوں کن کن چیزوں کی تکذیب کروگے۔ مرج البحرین یلتقیان اس نے دو سمندروں کو ملادے گا۔ وہ موجیں مارتے ہوئے ایک د وسرے کی طرف بڑھیں گے۔ مگر سردست بینھما برزخ لا یبغیان اس وقت ان کے درمیان ایک روک حائل ہے۔ بیچ میں وہ اس کو CROSS نہیں کرسکتے وہ حائل ہے جو مغربین اور مشرقین کو پھاڑے ہوئے ہے بیچ سے۔ اس کو CROSS کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ مرج البحرین یلتقیان میں مرج کا ترجمہ عموماً حرکت کیا گیا ہے۔ لغت کے ایک پہلو سے درست بھی ہے۔ مگر آپLane اٹھا کے دیکھ لیں وہاں مرج کا ترجمہ بعینہٖ وہی ہے جو انگریزی میں ہے مرج کا مطلب یہ لیا گیا ہے جب ایک چیز دوسرے میں مرج Merge کرجائے۔ اور انہی معنوں میں میں لے رہا ہوں کیونکہ یہ وہ حقیقی اور اصلی معنی ہے دوسرا نسبتاً ثانوی معنیٰ ہے۔ اول معنی Lane کے مطابق مرج کرنا ہے ایک دوسرے میں جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں Merge ہوگئی چیز اسی طرح عربی میں بھی مرج کہتے ہیں۔ مرج البحرین یلتقیان وہ اللہ تعالیٰ مرج کردے گا۔ یلتقین جب مرج کرے گا تو چھلانگیں مارتی ہیں لہریں ایک دوسرے پر اور ایک دوسر ے کی طرف دوڑیں گی مگر بینھما برزخ لا یبغیان ابھی ان کے درمیان ایک ایسی روک ہے جس کو وہ توڑ نہیں سکتے۔ فبای الآ ء ربکما تکذبان پس اے دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں تم خدا کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔ یخرج منھما اللؤلؤ والمرجان لؤلؤ اور مرجان کا نکلنا ان سمندروں کی نشاندہی کررہا ہے اور Suez کینال کے سوا اور کوئی بات بنتی نہیں۔ کیونکہ Panama Canal میں دونوں طرف موتی اور گھونگھے نہیں نکلتے تو اب بتائیں کس اور چیز کی احتیاج باقی ہے قرآن نے تو خود نشاندہی بھی کردی ہے۔ کن سمندروں کی باتیں کررہے ہیں اور یہ نشاندہی اور بھی واضح ہوجاتی ہے جب یہ پڑھتے ہیں ولہ الجوار المنشئات فی البحر کالاعلام اس میں پہاڑوں کی طرح جہازدکھائی دیں گے۔ یعنی اس رستے سے جب ایک سمندر دوسرے میں ملے گا۔ اور مشرقین اور مغربین کو ملایا جائے گا تو اس وقت راستہ سمندری جہازوں سے بھرجائے گا ور اتنے بڑے بڑے جہاز دکھائی دیں گے گویا پہاڑ چل رہے ہیں نہر سویز میں فبای الآء ربکما تکذبان اب بتاؤ کس کس چیز کا انکار کرتے ہو تمام دنیا کو ایک کرنا مشرقین کو مغربین سے ملانا ایسے سمندروںکے ملانے سے ہے جن میں گھونگے نکلتے ہیں جہاں سے موتی نکلتے ہیں اور اس نہر کا استعمال اس طرح ہوگا جب یہ ایک ہوجائیں تو بہت بڑے بڑے پہاڑ جیسے جہاز نہیں دکھائی دیں گے اور واقعۃً بعض دنوں میں خصوصاً جنگ کے زمانہ میں نہر سویز بڑے بڑے پہاڑ جیسے جہازوں سے بھر جاتی ہے۔ اس لئے اس کا درمیانی حصہ بہت گہرا کھودا گیا ہے۔ تاکہ بڑے سے بڑا جہاز جو ممکن ہے بڑے سے بڑا لوڈ اٹھائے ہوئے بیچ میں سے گزر جائے۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
27 رمضان المبارک 26 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آج کے درس سے پہلے ایک دو پوائنٹس میں نے کہا تھا وضاحت طلب تفسیر کے سلسلے نہیں وہ ویسے ہیں (وہ لکھ دیئے ہیں آپ نے۔ اور وہی تھا) پہلی بات درس سے پہلے یہ بیان کرنی ضروری ہے کہ جوں جوں عید قریب آرہی ہے عید کارڈوں کی بھرمار شروع ہوگئی ہے۔ حالانکہ یہی وہ رواج ہے جس کو بند کیا گیا ہے جماعت میں۔ ہمیشہ اس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ کیونکہ عید کارڈوں کا سلسلہ ایک محض تکلف اور بے ہودہ ضیاع ہے روپے کا۔ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خصوصیت سے بند کیا تھا۔ اور اس کے بعد مسلسل یہی طریق رہا ہے اور میں بھی باربار نصیحت کرتا ہوں کہ عیدکارڈوں پر پیسے برباد نہ کیا کرو بے وقوفی ہے خواہ مخواہ کا ضیاع ہے اور اس کا پھر جواب کا جو بوجھ پڑتا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ یہ بوجھ عام آدمیوں پہ تو اتنا نہیں پڑتا ہوگا جتنا مجھ پہ پڑجاتا ہے۔ سینکڑوں بعض اوقات ہزاروں عیدکارڈ آجاتے ہیں اب میں کس کس کا جواب دوں اور ایسے لوگ یاد آجاتے ہیں جن کو نہیں لکھا عید کارڈ تو وہ پھر ایک اور مصیبت۔ تو اس سلسلے کو بالکل بند کریں عید کارڈ کا رواج جماعت میں نہیں ہے۔ عید مبارک ملیں تو دیں۔ خط اگر ان دنوں میں جارہا ہو تو اس میں عید مبارک لکھ دیں بس اتنا ہی کافی ہے امید ہے اس کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگا اور احتجاج نہیں کرنے اب کہ عید کارڈ کیوں بند کردیئے ہیں یہ بھی ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ MTA کی برکتیں بھی ہیں اور کچھ مشکلات بھی ہیں۔ (امیر صاحب آپ آجائیں اپنی جگہ پہ ان کے لئے جگہ بنادیں امیر صاحب کے لئے۔ اکثر یہاں بیٹھے ہوتے ہیں آج ایک منٹ تاخیر سے پہنچے ہیں) جو تفسیر ان آیات کی گزر چکی ہے واذالعشار عطلت واذالوحوش حشرت۔ واذالبحار سجرت۔ اس سے پہلے میں تلاوت کرلیتا ہوں۔
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
واذالعشار عطلت۔ واذاالوحوش حشرت۔ واذاالبحار سجرت۔ واذاالنفوس زوجت۔
ان آیات کی تفسیر جو سورۃ التکویر کی آیات ہیں گزر چکی ہے۔ اور ایک تسلسل میں کڑی در کڑی ایک سلسلے کے ساتھ میں نے ملاکر دکھادیا کہ یہ معانی جو واقعات سے ظاہر ہوچکے ہیں ان کا رد ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ میں اذاالبحار سجرت کے تعلق میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر جو تفسیر نہیں بلکہ ترجمہ جو تفسیری ترجمہ ہے اس کے نیچے ایک نوٹ ہے اس کو چھوڑ کر سجرت کا وہ ترجمہ بیان کیا تھا جو میرے بیان کردہ مضمون کے سلسلے میں مسلسل چلتا ہے لیکن یہ خیال غلط ہے کہ سجرت کا وہ ترجمہ اور وہ مفہوم درست نہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت سے اخذ فرمایا ہے۔ کیونکہ اس ترجمے کی ایک کڑی کے سلسلے کے علاوہ میں نے خود بھی مذکورہ کتاب کے حصے میں اور تراجم کی بھی بات کی ہوئی ہے اور بیان کیا ہے کہ ہر ترجمہ ٹھیک بیٹھ رہا ہے۔ یعنی یہ آیات اتنی عظیم الشان ہیں اس پہلو سے کہ ان کے اندر جو بھی الفاظ مختلف معانی رکھتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کو آپ اخذ کریں اور حالات پر نظر ڈالیں تو بعینہٖ اسی طرح پورے ہوچکے ہیں۔ تو یہ ایک مزید دلیل ہے قرآن کریم کی حقانیت کی کہ ایک اصول سے اور ایک بنانے والا اپنی طرف سے ایک آیات بناتا چلا جارہا ہو۔ اور ان آیات میں مشتمل ہر لفظ آئندہ کے زمانے کے حالات کی بعینہٖ عکاسی کررہا ہو۔ یہ ناممکن ہے سوائے اس کے کہ علیم و خبیر خدا کی طرف سے ان آیات کا نزول ہوا ہو اس ترجمے کو بھی دیکھ لیں وہ بھی آج کل کے حالات میں اپنی جگہ پورا اتررہا ہے اگرچہ اس سلسلے میں شامل نہیں جو میں نے بیان کیا تھا لیکن بعینہٖ پورا اتر رہا ہے۔ جب دریاؤں کے پانیوں کو نکال کر دوسرے دریاؤں اور نہروں میں ملادیا جائے گا۔ دریاؤں کے پانیوں کو نکال کر دوسرے دریاؤں میں یا نہروں میں ملادیا جائے گا۔ اس کے اوپر نوٹ ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ یہ موجودہ زمانہ کی خبر ہے اور آخری زمانہ میں انجینئرنگ کی ترقی پر دلالت کرتی ہے چنانچہ اس وقت پاکستان میں بھی کئی دریا ملائے جارہے ہیں اور ہندوستان میں بھی اور روس اور امیرکہ میں بھی اور جرمن (جرمن سے مراد غالباً جرمنی ہے لکھنے والے نے جرمن لکھ دیا ہے) اور جرمنی میں تو ربع صدی سے ملائے جاچکے ہیں۔ یہ جو معنی ہے یہ سجر کے معنی خشک کردینے کے بھی ہوتے ہیں اس معنیٰ سے لیا گیا ہے سجر کا ایک معنیٰ ایسا ہے جس کا مطلب ہے خشک کردینا (تو اب) اب دوبارہ نظر ڈال کر دیکھیں آج کل کے زمانے میں صرف پاکستان یا ہندوستان میں نہیں بلکہ جیسا کہ بیان فرمایا گیا ہے جرمنی میں بھی اور مختلف جگہوں میں دریاؤں کے پانی کو منتقل کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ واذاالبحار سجرت میں لفظ بحار ان دریاؤں پر کیسے کیسے صادق آتا ہے بڑے دریا کو بھی بحر کہا جاسکتا ہے اور اس اس پہلو سے بھی بحار کا لفظ اطلاق پاتا ہے کہ جب یہ سارے پانی سمندر میں پہنچنے سے پہلے پہلے زراعت کے لئے استعمال ہوجائیں اور ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہونے لگ جائیں تو سمندر میں پھر کچھ نہیں گرتا ابھی تک ان امور کی وجہ سے خشک سمندر دکھائی نہیں دیئے کہ سمندر خشک ہوچکے ہوں لیکن اگر بحار کا ترجمہ بحار بھی لیا جائے کہ واقعۃً سمندر خشک ہوگئے ہیں تو روس میں U.S.S.R. میں اس کی مثال ملتی ہے۔ کہ پانیوں کو کثرت کے ساتھ زراعت کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے بڑی بڑی LAKES جو سمندر کہلاتی ہیں ان کا پانی خشک ہوگیا اور بالکل معمولی اور گدلا رہ گیا۔ پس ہر پہلو سے یہ آیت اس زمانے میں پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب یہ کس کے بس میں تھا کہ اس زمانے میں یہ سوچ سکے کہ یہ یہ امکانات ہوں اور ہر امکان اپنی ذات میں پورا ہوگا۔ اسی طرح ان آیات میں سے باقی آیات کے اندر جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کے بھی مختلف معانی ممکن ہیں۔ اور اب یہ زمانہ بتارہا ہے کہ وہ معانی بھی اپنی ذات میں پورے ہوچکے ہیں۔ تو اس تفصیل کے ساتھ جب ان آیات پر آپ نظر ڈالیں تو قرآن کی عظمت کے سامنے سر جھکانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا۔ سوائے اس کے کہ کوئی ضدی دہریہ ہو جس نے ضد باندھ رکھی ہو کہ میں نے نہیں ماننا۔ پس وہ شان نزول جو مستقبل سے تعلق رکھتی ہے وہ اتنی قوی ہے اتنی طاقتور ہے کہ اس کو کسی اور روایت کا احتیاج نہیں آنے والا وقت جو اپنے حالات پھول کی ایک کلی کی طرح unfold کرتا ہے اپنی پتیاں اس وقت پہ دکھائی دینے لگتی ہے باتیں اور یہ خیال کرلینا کہ اسی پر بناء ہے یہ بالکل غلط ہے بکثرت ایسی آیات قرآن کریم کی میری نظر سے گزری ہیں جو مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن کا معنیٰ میں سمجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس زمانہ میں وہ سمجھا جا ہی نہیں سکتا اور اس کے علاوہ بے شمار ایسی آیات ہوں گی جن تک میری نظر بھی نہیں گئی ہم سرسری نظر سے پڑھ کے ایک معنی لے لیتے ہیں جو مروجہ ہے اور ان کا تعلق آئندہ آنے والے مستقبل سے ہے۔ اب قرآن کریم نعوذباللہ من ذالک یہاں ختم تو نہیں ہوگیا ہمارے زمانے تک۔ جب تک زمانہ چلے گا لازماً اس زمانے کے علماء کو یا ان لوگوں کو جن کو خداتعالیٰ پسند فرمائے ایسی اطلاعات ملتی رہیں گی جس کے نتیجے میں اس زمانے کی سائنس کی دریافتوں اس زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق قرآن کریم کے اندر بعینہٖ اسی طرح کی پیشگوئیاں ملیں گی تو یہ ایک ایسی لکھی ہوئی تحریر ہے جس کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ اب تک جو گزچکا ہے اس کے حوالے سے میں کہہ رہا ہوں کہ آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔
اب دابۃ الارض یعنی طاعون اس کے متعلق پہلے میرا خیال ہے تفصیلی بیانات بہت گزرچکے ہیں۔ تو اب اگر میں اشارۃً یہ باتیں بیان کردوں تو کافی ہوگا اور اس ضمن میں تفصیل سے میری بعض آڈیوز ویڈیوز موجود ہیں جن میں سوال جواب کی محافل میں ان آیات کا ذکر ہے اور ان آیات کا موجودہ دور پر اطلاق کیسے ہورہا ہے اس کا ذکر ہے۔ واذا وقع القول علیھم اخرجنا لھم دابۃ من الارض تکلمھم ان الناس کانوا بایتنا لایوقنون۔
واذا وقع القول علیھم جب ہمارا فرمان ان کے حق میں پورا ہونے کا وقت آیا اذا وقع القول یعنی ہمارے فرمان کا ان کے حق میں پورا ہونے کا ان کے اوپر اطلاق پانے کا وقت آیا۔ اخرجنا لھم دابۃ من الارض ہم نے ان کے لئے ایک زمینی چلنے پھرنے والا جاندار نکالا دابۃ کا ترجمہ کیڑا لیا گیا ہے اور یہ بھی درست ہے کیونکہ کیڑا بھی چلنے پھرنے والا ہے۔ مگر دابۃ کا جو لغوی معنی ہے وہ ہر جاندا پر اطلاق پاتا ہے جس کے اندر loco motion موجود ہو۔ یعنی نباتات کو دابۃ نہیں کہتے مگر وہ حیوانات جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی اپنی بدنی صلاحیت رکھتے ہیں ان سب کو دابۃ کہا جاتا ہے۔ اور زوالوجی کے تحت دابۃ کا ذکر ملتا ہے خواہ وہ زمین پر چلے یا ہوا میں اڑے یہ تمام جانور زوالوجی کی تاریخ میں دابۃ میں داخل ہوں گے پس دابۃ کا لفظ عام ہے مگر کیڑے پر بھی اطلاق پاتا ہے پس اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چونکہ طاعون کا ایک کیڑا ہے جو نکلتا ہے اسے فرمایا ہے لکھا ہے ’’ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا اس وجہ سے کہ لوگ ہمارے نشانات پر یقین نہیں رکھتے‘‘ اب یہ پیش گوئی عجیب و غریب پیش گوئی بنتی ہے اس زمانے کے لحاظ سے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں آئندہ ہم ایک کیڑا نکالیں گے جو لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانات پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہ کسی شخص کے وہم و گمان میں نہیں آسکتی تھی۔ تمام تاریخ انبیاء کی گزشتہ موجود ہے قرآن کریم میں اس کیڑے کا ذکر مستقبل کے حوالے سے کیا گیا ہے کہ آئندہ ہم ایک کیڑا نکالیں گے اس کیڑے کی مختلف نوعیتیں ہیں جن میں سے ہر ایک نوعیت کے متعلق پیش گوئی موجود ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اس کے نتیجہ میں آئندہ ظاہر ہونے والے کیڑے سے متعلق یہ پیش گوئی فرمائی ہے کہ وہ کیڑا ایک قسم کا طاعون ہوگا ایک قسم کا طاعون ہوگا۔ اب دابۃ الارض کا یہ کہ کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ظاہری طور پر طاعون کی صورت میں پورا ہوچکا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا فرمانا طاعون صاف بتارہا ہے کہ وحی الٰہی کے ساتھ آپ کو اس وحی کے معنی بھی سمجھا دیئے گئے اور آپ نے طاعون کے ساتھ ایک قسم کا لگا کر ایک اور پیش گوئی بھی ساتھ ہی کردی۔ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب العقوبات سے یہ معنیٰ لئے گئے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا یہ روایات ممد ہیں ان کو سمجھنے میں لیکن اس زمانہ میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے ان روایت کو شان نزول قرار دیا جاسکے۔ شان نزول وہی ہے جو مستقبل سے تعلق رکھتی ہے۔ اور ان میں مذکور شان نزول قرآن کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے درست ہے۔ کسی روایتی بحث میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم فرماتے ہیں یعنی اگر کوئی قوم جنسی بے حیائی میں مبتلا ہوجائے۔ جنسی بے حیائی میں مبتلا ہوجائے اور اس کی نمائش کرے تو اس میں ایک قسم کی طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے جو ان سے پہلوں میں کبھی نہیں پھیلی۔ پس طاعون کا ایک وہ معنی لیا گیا ہے جو پہلے کبھی واقع نہیں ہوا ور ایک قسم کی طاعون ہے جو پھیلے گی اسی لئے مستقبل کی پیش گوئی میں اگرچہ وہ طاعون بھی داخل ہے جس کو ہم نے عملاً پر پرزے نکالتے دیکھ لیا لیکن ایک اور طاعون بھی شامل ہے جس کا دائرہ اثر بہت زیادہ وسیع ہونا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں جو طاعون پھیلا اس کی پیش خبریاں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں اور جس طرح فرمایا اسی طرح ہوا پس قطعیت سے ثابت ہوا کہ وہ طاعون بھی اس آیت میں شامل ہے۔ لیکن وہ عالمی نہیں تھا ہندوستان اور پنجاب وغیرہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی ایسی عالمی حیثیت نہیں تھی جو ساری دنیا میں تمام عالم میں قرآن کریم کی فوقیت اس طرح دکھادے کہ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا ہو یہ اس حدیث سے ثابت ہورہا ہے۔ اور ثابت ہورہا ہے کہ یہ حدیث حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی بھی دلیل ہے۔ کیونکہ بعینہٖ اسی مضمون کی پیش گوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمائی۔ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بیٹھے بیٹھے کیسے کسی کو علم ہوسکتا تھا۔ وہ حدیث جو ہے آئندہ آنے والی کل عالمی تباہی کی اس کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو تکذیب کی جارہی ہے اس سے بھی ہے او رقرآن کی جو تکذیب کی جارہی ہے اس سے بھی ہے اللہ کی تکذیب کی جارہی ہے اس سے بھی ہے اور سزاا ن لوگوں کو ملے گی ’’جو پہلے کبھی نہیں ملی‘‘ جو جنسی بے حیائی میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ اس کو دکھانے پر فخر کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسا کہ اصولاً فرمایا ایک قسم کی طاعون بعینہٖ یہ لفظ استعمال فرماتے ہوئے لکھا ہے تذکرہ صفحہ 705 مطبوعہ ربوہ 1959 ایڈیشن۔ کہ ’یورپ اور دوسرے عیسائی ملکوں میں ایک قسم کی طاعون پھیلے گی جو بہت سخت ہوگی‘‘ اب ایک قسم کی طاعون اس حدیث کے الفاظ کے ساتھ اس مضمون کو باندھ رہے ہیں۔ آئندہ پھیلے گی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طاعون کے پھیلنے کے آغاز کا ذکر فرمایا ہے کہ وہ بے حیائی عیسائی ملکوں سے چلے گی یورپ سے چلے گی اور عیسائی ملکوں کے زیر اثر جو بھی عیسائی ہوں چاہے افریقن ہوں وہاں سے یہ بیماری پھوٹے گی لیکن حدیث کے الفاظ سے لگتا ہے کہ یہ انہی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ کل عالم پر پھیل جائے گی کیونکہ اس کا تعلق بے حیائی سے ہے اور بے حیائی اگر مشرقی ممالک میں بڑھ جائے گی یورپ سے تو وہاں بھی اسی طرح یہ پھیلے گی بیماری۔ یہ ہے قرآن کریم کی شان نزول کا ایک اور تذکرہ کہ جن زمانوں کے متعلق یہ آیات اطلاق پاتی ہیں وقت بولتا ہے علامات بتاتی ہیں کہ ہمارا ذکر تھا اور ساری دنیا میں آج یہ حقیقت خوب کھل کے ظاہر ہوچکی ہے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یعنی قابل ذکر بات کہ تمام مغربی میڈیا میںایڈز کے پھیلنے پر بکثرت ایسے انٹرویوز ہیں ڈاکٹرز کے جنہوں نے کہا یہ ایک قسم کی طاعون ہے ایک قسم کی طاعون کے الفاظ کی دوہرائی حیرت انگیز ہے۔ میں تو سنتا تھا تو میرا دل قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی عظمت میں غرق ہوجاتا تھا۔ کیسے الفاظ کی دوہرائی ہے ایک ایک چھوٹا چھوٹا ٹکڑا اسی طرح دوہرایا جارہا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اس بات کو یاد کرایا جارہا ہے کہ ایک قسم کی طاعون ہے۔ اور واقعۃً اس میں گٹھلی بھی اسی طرح کی نکلتی ہے جیسے طاعون میں نکلتی ہے۔ تو دوسری مشابہت بھی ہوگئی۔ اور علاوہ ازیں جیسا کہ ہے ایک قسم کا طاعون اس کے متعلق تمام اہم بڑے بڑے سائنٹسٹ نے یہ پیش گوئی کررکھی ہے کہ ابھی ایڈز کا تم نے کچھ بھی نہیں دیکھا جب یہ کل عالم میں پوری طرح اپنا زور ڈالے گی اور نکلے گی تو موتاموتی کا عالم ہوگا۔ کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ یہ پیش گوئی بھی یہ حصہ ابھی پورا ہونے والا باقی ہے۔ اور میں ابھی بتارہا ہوں آپ دیکھ لینا ہو نہیں سکتا کہ ایڈز کی یہ ہلاکت عالم گیر ہلاکت جیسا کہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی پیش گوئی سے ثابت ہے یہ ظاہر نہ ہو بعید نہیں کہ ہم سب اس کو اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ لیں۔ یعنی الاماشاء اللہ بعض جو وفات موت کا سلسلہ وہ تو جاری ہے لیکن میرے نزدیک اس صدی کے آخر تک اور اگلی صدی کے شروع تک ان آیات کا اور ان احادیث کا مکمل اطلاق ہوگا اور دنیا کی سب سے بڑی تباہی جو جنگوں سے علاوہ ہوتی ہے وہ ایڈز سے ہوگی پس اس پیشگوئی کو لکھ رکھو کیونکہ قرآن کی پیش گوئی ہے میری پیش گوئی تو نہیں جو میں اس سے سمجھ رہا ہوں۔ وہ میں آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں۔
دوسری چاند سورج کے گرہن سے متعلق بڑی تفصیل سے بحثیں گزرچکی ہیں اور اس میں بھی قرآن کریم کا بیان بہت ہی باریکی اور صفائی کے ساتھ پورا ہوتا ہے اور قرآن کریم کے الفاظ کا استعمال اور ان کی ترتیب بتارہی ہے یہ کوئی اتفاقاً کہی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ جن کا تعلق ماضی سے بھی ہے اور مستقبل سے بھی ہے۔ وہ آیات یہ ہیں۔ سورۃ القیمہ 7 تا 11
یسئل ایان یوم القیمہ۔ فاذا برق البصر وخسف القمر وجمع الشمس والقمر۔ یقول الانسان یومئذ این المفر۔ کلا لا وزر۔ الی ربک یومئذ مستقر۔
یسئل ایان یوم القیمۃ کوئی شخص پوچھنے والا پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا؟ اب اس کے ذہن میں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کوئی اور ہی قیامت ہوگی۔ مگر خداتعالیٰ اس قیامت کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے جس کے متعلق پوچھا جانا چاہئے تھا کہ دنیا میں وہ عظیم انقلاب جیسے ساعۃ بھی کہا گیا ہے اور قیامۃ بھی کہا گیا ہے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوا آئندہ کب ہوگا؟ کب اس انقلاب کی داغ بیل ڈالی جائے گی؟ یہ سوال ہے جو جائز اور اہمیت رکھنے والا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فاذا فرق البصر۔ یہ اس وقت آنے والی ہوگی قیامت جب نظر پتھرا جائے گی۔ یعنی ایک حیرت انگیز نشان دیکھے گی اور اس سے نظریں چندھیا جاتی ہیں جس طرح تیز روشنی کو دیکھ کر بعض دفعہ ان کی بصیرت اچکی جاتی ہے تو اتنا عظیم الشان اتنا کھلا کھلا نشان آنے والا ہے کہ اس سے لوگوں کی بصیرت اچکی جائے گی۔ ان کے اندر صلاحیت ہی نہیں ہوگی کہ اتنے تیز نشان کو دیکھ سکیں یعنی ان آنکھوں میں صلاحت نہیں ہوگی۔ جو روشنی کے باوجود اندھی رہنا پسند کرتی ہیں یہ مراد ہے۔ اور ہوگا کیا؟ وخسف القمر اب پہلی بات قابل غور یہ ہے برق البصر کا مضمون خسف القمر سے تعلق نہیں رکھتا بظاہر پہلے سورج کا ذکر ہونا چاہئے تھا کیونکہ نظریں چندھیاتی ہیں تیز روشنی میں۔ میں نے کبھی کسی کو چاند کی روشنی میں برق البصر کا نمونہ بنتے نہیں دیکھا اپنی ساری زندگی پر غور کرلیں کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ چاند کی ر وشنی میں آپ کی آنکھیں چندھیا جائیں پس باوجود اس کے کہ روشنی کی تیزی بیان کی گئی ہے سورج کا ذکر نہیں چاند کا ذکر ہے اور اس کے کئی معانی ہیں۔ سورج کا ذکر اس لئے نہیں کہ پہلے چاند نے گہنایا جانا تھا اور سورج نے بعد میں گہنایا جانا تھا یہ ترتیب ہے جس ترتیب کو قرآن کریم نے ملحوظ رکھا ہے دوسرے چاند کے گہنائے جانے کا تعلق ایک روحانی چاند سے تھا یعنی وہ چاند جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا چاند ہے۔ اس لئے اس کو اہمیت اس پہلو سے ہے۔ کہ چاند گہنایا جائے گا یاد کرلو۔ گہنائے جانے کا مطلب ایک یہ بنتا ہے کہ لوگ اس پر پردے ڈالیں گے۔ لوگ اس چاند کی روشنی کے درمیان میں حائل ہوں گے اس پہ طرح طرح کے دھند کے غبار ڈالنے کی کوشش کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ واقعۃً چاند کو گہنا کر بتادے گا کہ تمہاری ساری کوششیں بے کار ہیں جب خدا دکھانا چاہے کسی کو صداقت تو کوئی دنیا کی طاقت اس کو روک نہیں سکتی۔ وخسف القمر وجمع الشمس والقمر اب یہ نہیں فرمایا کہ شمس بھی گہنایا جائے گا جمع کے لفظ نے ایک جگہ ایک مہینے میں ان دونوں کو اکٹھا باندھ دیا۔ اور یہ الفاظ اب اتفاقی کیسے ہوسکتے ہیں۔ چاند گہنایا جائے گا وجمع الشمس والقمر اور سورج اور چاند اکٹھے کردیئے جائیں گے اب ظاہری معنے میں تو یہ ہوگئے ایک مہینے رمضان کے مہینے میں یہ جمع الشمس والقمر کا نظارہ سب دنیا نے دیکھ لیا کوئی اس کو نظر انداز کرہی نہیں سکتا اگر ادنیٰ سی بھی اس کے اندر صداقت ہو۔ لیکن اس واقعہ نے ایک اور کام کردیا ہے سورۃ جمعہ میں جو پیش گوئی تھی کہ آخرین کو اولین سے ملایا جائے گا اس واقعہ نے ان دونوں کو ملادیا ہے چاند اور سورج کے ایک مہینے میں اکٹھے ہونے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو باندھ دیا ہے۔ اور اس طرح وہ دور کے زمانے آپس میں جمع ہوگئے۔ یہ جو ترتیب ہے آیات کی یہ ترتیب اور ان سارے معانی میں اس کا بعینہٖ پورا ہونا یہ بتارہا ہے کہ قرآن کریم دوسری روایات کا محتاج نہیں۔ جب یہ باتیں پوری ہوتی ہیں تو دنیا کے راہ براہ میں پوری ہوتی ہیں سارے عالم میں یہ چرچا پھیلتا ہے اور سارے عالم میں پھیلنے کا ایک ذریعہ خداتعالیٰ نے یہ بنادیا کہ جمع الشمس والقمر بعینہٖ دوسری دنیا یعنی امریکن دنیا میں بھی اگلے سال دکھایا گیا۔ سو آدھی دنیا نے جو نظارہ دیکھا تھا وہ دوسری آدھی دنیا نے بھی دیکھ لیا۔ یہ اتفاقات کیسے ہوگئے ہیں؟ یہ سوال ہے۔ اس پر تفصیلی مضمون ہماری طرف سے شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے ایک پوری تقریر بھی اس موضوع پر کی تھی اس لئے میں ان سب باتوں کو چھوڑ رہا ہوں اس درس میں آپ لوگوں کی یاددہانی کے لئے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اور زیادہ لطف پیدا ہو۔ یہ باتیں سمجھا رہا ہوں۔ اس وقت یومئذ ویقول الانسان یومئذ این المفر۔ لوگ کہیں گے کہاں بھاگیں؟ کہاں جائیں؟ اور جب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں یہ واقعہ ہے تو واقعۃً ٹنڈے چھاتیاں پیٹ رہے تھے لاہور میں۔ کہ جائیں کہاں؟ مرزا کو ماننا پڑے گا اس لئے اس پہلے impact کے بعد بہانے بنائے گئے تلاش کئے گئے۔ بھاگنے کی کوشش کی گئی مگر یہ بات اپنی ذات میں پوری شان سے پوری ہوچکی ہے۔ مولوی بول اٹھے تھے کہ اب بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں رہی لیکن اللہ تعالیٰ فرماتاہے یقول الانسان یومئذ این المفر۔ کلا لا وزر۔ سنو آج تمہارے بھاگنے کی کوئی جگہ کوئی جائز وجہ نہیں ہے۔ صرف ایک ہے بھاگنے کی جگہ۔ الی ربک یومئذ ان المستقر۔ اگر بھاگنا ہے تو ان نشانات کو دیکھ کر اپنے رب کی طرف مستقر پکڑو وہاں جاکے قرار پکڑوگے جب تمہیں یہ پیش گوئیاں تمہارے رب کی طرف لے جائیں گی اور وہاں تم قرار پکڑ جاؤگے تو یہی صرف ایک بھاگنے کی راہ ہے باقی سب راہیں ہلاکت کی ر اہیں ہیں۔ اس مضمون کو سمجھنے میں پرانے علماء نے بھی خصوصاً حضرت محمد بن علی یعنی امام باقر نے بھی اس مضمون کی کنہوں کو بہت حد تک سمجھا ہے اور مہدی کی تائید میں جو نشانات آسمان اور زمین سے ظاہرہوں گے ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ اس کی بعثت کے وقت رمضان میں چاند گرہن کی تاریخوں میں سے پہلی تاریخ یعنی تیرہ رمضان کو چاند گرہن لگے ۔ (یہ الفاظ ان کے ہیں تیرہ یہ ہمارے علماء نے داخل کئے ہوں گے وہاں) اس بحث کو چھیڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے چاند گرہن جس طرح لگا اور اس مضمون کی سائنسی حیثیت کن تاریخوں میں لگا کرتا ہے یہ ساری بیان ہوچکی ہیں۔ اور ترجمہ میں بھی یہ چیزیں داخل نہیں کرنی چاہئیں۔ کیونکہ اس سے پھر دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ نکال کے دکھاؤ کہ کہاں لکھا ہوا ہے۔ عام لوگ بے چارے ترجمہ پڑھیں اور عالم لوگ الفاظ حدیث کے یا عبارت کے دکھائیں نکالو اب کہاں لکھا ہوا ہے تو خواہ مخواہ احمدیوں کو مصیبت میں ڈالنے والی بات ہے۔ ایک ایسی مصیبت میں جس کی کوئی ضرورت نہیں ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے سوا اس کا کوئی اور ترجمہ نہیں بنتا۔ پس انہوں نے جو کہا ہے وہ یہی کہا ہے کہ رمضان کو چاند گرہن لگے گا اور سورج گرہن کی تاریخوں میں سے 28 یہ بھی انہوں نے لکھا ہوا ہے اپنی طرف سے۔ انہوں نے اتنا صرف لکھا ہے کہ ہمارے مہدی کے زمانے میں یہ پیش گوئی پوری ہوگی اور چاند اور سورج کو مقررہ تاریخوں میں گرہن لگے گا۔ اس روایت کی ضرورت بھی کوئی نہیں تھی نہ بھی ہوتی تو کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ اس پیش گوئی کا تعلق ماضی سے بھی ہے۔ اور ماضی میں مسیح سے ہے۔ جس کے زمانے میں یہ پیش گوئی پوری ہونی تھی۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے مسیح کے زمانے میں یہ پیش گوئی پوری ہونی تھی اس لئے مسیح کے الفاظ متی باب 24 آیات 31 تا 33 میں یہ ہیں: ’’اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا ور سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔ اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی‘‘۔ وہی واقعہ ’’این المفر‘‘ کے وقت جو حرکتیں کررہے تھے یہ مسیح نے ذکر کیا ہے۔ ’’اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتاد یکھیں گی‘‘ اور آسمان کے بادلوں سے مراد یہ ہے یہ آسمانی نشان ہوگا اس کا زمین سے تعلق نہیں ہوگا آسمانی نشان اس شان کے ساتھ ظاہر ہوگا کہ ان کو ماننا پڑے گا۔ لیکن اس میں ترتیب الفاظ قرآن سے ہٹ کر ہیں اور جیسا کہ میں نے ثابت کیا قرآن کے الفاظ کی ترتیب ہی درست ہے۔ یا تو راوی سے ترتیب بھول گئی ہے یا حضرت مسیح کی پیش گوئیوں میں جو قرآن کی پیش گوئیوں سے ایک فرق ہونا چاہئے وہ فرق ظاہر کررہا ہے جس صفائی اور شان کے ساتھ قرآن کی پیش گوئیوں پہ وہ خداتعالیٰ کی روشنی پڑتی ہے پہلی پیش گوئیاں بھی اسی کی طرف سے ہوں مگر اس صفائی سے روشنی نظر نہیں آتی۔ یہ یہ کہ انہوں نے مختلف قرآن کریم کی آیات جس میں مثلاً ستارے روشنی بند کردیں گے وہ اکٹھی پیش گوئیاں بیان کی گئی ہیں اس لئے بھی الفاظ میں تبدیلی ممکن ہے کیونکہ جہاں ستاروں کی روشنی کے ماند ہونے کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے اگر حضرت مسیح کا اشارہ اسی طرف ہے تو وہاں سب سے پہلے سورج کے ماند ہونے کا ذکر ہے۔ اذالشمس کورت۔ واذالنجوم انکدرت۔ پس بعید نہیں کہ حضرت مسیح کی یہ پیش گوئی اس آیت کریمہ سے تعلق نہ رکھتی ہو بلکہ اس آیت کریمہ سے تعلق رکھتی ہو جس کا میں نے گزشتہ درس میں بیا ن کیا تھا۔ اذالشمس کورت۔ واذالنجوم انکدرت۔ اب اس کو دوبارہ پڑھیں تو اذالنجوم انکدرت۔ (ہاں) اذالنجوم انکدرت۔ اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا۔ اور ستارے آسمان سے گریں گے اب ستارے ٹوٹیں گے سورج روشنی دینی بند کردے گاا ور اور (چاند اس وقت) ابھی اپنی روشنی شروع نہیں کی ہوگی چاند نے۔ یہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چاند جو نکلا ہے یہ ان واقعات کے بعد نکلا ہے۔ جب سورج نے روشنی بند کردی اور ستارے ماند پڑگئے۔ یا جیسا کہ لکھا ہے ٹوٹے۔ اور ٹوٹنے کا ذکر بھی پیش گوئیوں میں ملتا ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے اس پیش گوئی کو اس آیت کریمہ سے یعنی چاند سورج کے گرہن والی آیت سے باندھنے کی بجائے اگر ان مختلف آیات سے باندھیں تو پھر یہ پیش گوئی زیادہ وضاحت سے سمجھ آتی ہے کہ کیوں حضرت مسیح کے الفاظ میں فرق ہے لیکن جو آخری الفاظ ہیں وہ وہی ہیں جو قرآن کریم کی اس پیش گوئی سے تعلق رکھتے ہیں کہ قومیں چھاتی پیٹیں گی اور کہیں گی کہاں بھاگ کر جائیں اب کوئی مفر نہیں رہی۔ اس مضمون کو حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اور اگلا فقرہ سن لیجئے مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیش گوئی کا ’’ا ور وہ نرسنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارہ سے ان کنارہ تک جمع کریں گے۔ پس آج جو کل عالم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پروانے آپ کی صداقت کی گواہیاں دینے والے جمع ہورہے ہیں یہ نرسنگا ہے جو آسمان سے پھونکا گیا ہے اور اب کل دنیا کو اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام میں جمع کریں گے اور یہ پیش گوئی بھی دن بدن اور وضاحت سے پوری ہوتی چلی جائے گی۔ (یہ آیت بھی پیش گوئی سے تعلق رکھتی ہے۔ میں نے عمداً چھوڑ دی ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ تفصیلی بحث کی ضرورت پڑنی تھی۔ سورۃ الرحمن کی آیت کا ذکر ہوچکا ہے اس کو دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں اور تو نہیںکوئی بات کرنے والی اس میں کرنے والی۔ ہیں؟ یہ اور ہیں کوئی؟ اچھا جی)
ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت والارض فانفذوا ولا تنفذون الا بسلطن۔ فبای الآء ربکما تکذبن۔
اس آیت پر بھی میرا خیال ہے کسی درس میں یا کسی مجلس میں تفصیل سے ذکر ہوچکا ہے۔ نہیں۔ بہت تفصیل سے اس بات کا ذکر ہوچکا ہے کہ سورہ الرحمن اگلے زمانے کے بڑے لوگوں اور عامۃ الناس کو مخاطب ہے۔ اور یہ کہہ رہی ہے کہ اگر تم میں یہ استطاعت ہے کہ تم اقطار السمٰوٰت والارض سے نکل کے دکھاؤ تو لاتنفذون الا بسلطن۔ سلطان کے یہ ہونا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کی تفصیلی بحث میں یہ کیسے پوری ہوئی ہے باقی بحثیں میں اس وقت چھوڑتا ہوں کیونکہ درس کے آخری ایام کا تقاضا ہے کہ اب میں مختصر کروں۔ لیکن ایک بات مجھے سمجھائے کوئی دنیا میں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں دنیا کے بڑے اور چھوٹے یہ تصور بھی کرسکتے تھے کہ وہ زمین کی حدوں سے نہیںزمین و آسمان کے کناروں سے نکلنے کی کوشش کریں۔ زیادہ سے زیادہ چھلانگ جو مارتا ہو اس زمانے میں آج کل چھ فٹ کی ہے تو آپ سات فٹ کی بنالیں اس سے بڑی چھلانگ انسان مار ہی نہیں سکتا تھا۔ اور قرآن کہہ رہا ہے کہ اے دنیا کے چھوٹے اور بڑو۔ مل کے زور لگاؤ اور اگر تم سمجھتے ہو کہ زمین وآسمان کے کناروں سے نکل سکوگے۔ اب بتائیں اس زمانے کا انسان سمجھ کیسے سکتا تھا؟ ناممکن ہے کہ تمام گلوب پر تمام روئے زمین پر کوئی ایک انسان بھی ایسا ہو جو یہ سوچے کہ میں چھلانگ لگاکے زمین وآسماان کے کناروں سے پرلی طرف جانے والا ہوں لیکن یہاں یقینی ایک خیال ہے جس کی طاقت کی بحث ہورہی ہے۔ ان استطعتم ان تنفذوا اگر تمہیں خیال ہے کہ اب تم میں صلاحیت ہوگئی ہے تم میں طاقت ہوگئی ہے اور یہ طاقت راکٹس کے زمانے میں نصیب ہوئی ہے۔ اب تم کہہ سکتے ہو یعنی ایک زمانہ آئے گا جب انسان کہ سکے گا کہ ہاں اب ہم نکلنے کی استطاعت رکھتے ہیں لیکن جب مزید غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ ایک وہم اور خواب وخیال تھا۔ ان کو ماننا پڑے گا کہ وہ نہیں نکل سکتے زمین کے کناروں سے تو نکل سکتے ہیں لیکن یہاں دیکھئے الفاظ بھی کتنے عظیم الشان ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ زمین کے کناروں سے نکلو۔ من اقطارالسموت والارض پوری کائنات اقطارالسموت والارض ان کے کناروں سے نکلو پس بعض لوگ جلدی میں سوال اٹھا دیتے ہیں کہ دیکھو چاندتک تو انسان پہنچ گیا کناروں سے نکل گیا یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن نے کیا لکھا ہے قرآن کریم نے یہ لکھا ہی نہیں کہ زمین کے جو قریبی آسمان ہیں زمین کے کناروں سے نہیں نکل سکتے تم اور اس کا چھوڑنابھی قرآن کی عظمت کی دلیل ہے ایک واقعہ ہونا تھا اس پہلو کو اس رنگ میں بیان کیا ہے کہ اس کے ورے ورے انسان کی چھلانگوں کا ذکر اس کی نفی نہیں کی جو چھلانگیں انسان نے مارنی تھیں اور انہیں چھلانگوں کے نتیجہ میں تو خیال گزرنا تھا کہ ہم اور بھی آگے جاسکتے ہیں۔ لیکن جب کائنات کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اور آگے کہاں جاسکتے ہیں سوال ہی نہیں پید اہوتا۔ اگر روشنی کی شعاعوں پر بیٹھ کر بھی انسان سفر شروع کرے تو 20 ملین 20 ارب سال میں بھی جس میں ہر سیکنڈ میں روشنی 1,86,000 میل چلتی ہو۔ وہ ارب سال ان میں بھی زمین و آسمان کے کناروںسے نہیں نکل سکتا۔ ناممکن ہے۔ اور یہ دعوے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانے میں کئے جارہے ہیں الا بسلطن کا کیا مطلب ہے وہ بحث جیسا کہ میں نے گذارش کی ہے پہلے میں کرچکا ہوں اس الا کی بھی ایک ضرورت تھی اور وہ ضرورت زمانہ بتارہا ہے کہ پوری ہوچکی ہے۔ اب آئندہ زمانے سے متعلق چند قرآنی آیات اور بھی ہیں چندنہیں بہت ہیں مگر میں نے چند چنی ہیں صرف ان میں سے ۔ اور بے شمار وہ ہیں جن کا ہمیں علم ہی کچھ نہیں آج۔ وقت بتائے گا اور پھر سمجھ آجائے گی کہ قرآن کریم میں موجود تھیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ واذالسماء انفطرت۔ واذالکواکب انتثرت۔ واذالبحار رفجرت۔ واذالقبور بعثرت۔ اب جب آسمان پھٹ جائے گا واذاالکواکب انتثرت۔ اور جب ستارے جھڑ جائیں گے۔ یہ پیش گوئی ہے جس کی طرف مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشارہ کیا ہے۔ کہ ستارے جھڑ جائیں گے۔ واذالکواکب انتثرت۔ واذالبحار فجرت اور جب سمندر پھاڑ کر ملادیئے جائیں گے یہ ترجمہ ہے تفسیر صغیر کا۔ بحار فجرت کی معین آیات میں نے بیان کردی ہیں لیکن فجرت کا ایک یہ معنی بھی ہے کہ جب سمندروں میں اس کثرت سے جہازرانیاں ہوں گی کہ وہ سمندر پھاڑے جائیں گے ان کے سینے پھاڑ دیئے جائیں گے اس کثرت سے جہازرانی ہوگی اس ضمن میں ایک اور بات بھی غالباً میں نے ذکر نہیں کیا تھا میں نے کہا تھا کہ lane کے مطابق سمندر پر بڑے بڑے واسلز (واسلز ہی کہلاتے ہیں نا) یا ویسلز۔ ویسلز ایک تو برتن بھی ہوتے ہیں ناں؟ ان کو ویسلز کہتے ہیں تو جو سمندری جہاز ہیں ان کو بھی ویسلز ہی کہتے ہیں میں پہلے ویسلز کہتا رہا ہوں مجھے ابھی خیال آیا ہے کہ شاید واسلز نہ کہتے ہوں ویسل ہی کہتے ہیں ٹھیک ہے۔) تو سمندر ویسلز سے بھر جائے گا یہ ترجمہ lane نے کیا ہوا ہے حالانکہ وہ مفسر قرآن نہیں ہے۔ اس نے تتبع کیا ہے الفاظ لغت کا۔ اب میں نے جو کہا کہ وہ ترجمہ وہاں درست معلوم ہوتا ہے۔ اس کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ ہیں ’’الہامی کشتیاں چلتی ہیں تا ہوں کشتیاں‘‘ کشتیاں چلیں گی تاکہ کشتیاں ہوں۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں navel battle کی اس شان سے بیان کسی انسان کے قبضہ میں نہیں تھا تو آیات کریمہ ان الہامات سے مل رہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوئے اس سے مجھے مزید تقویت اس بات کی ملتی ہے کہ جو میں ترجمہ کررہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ ورنہ الہام الٰہی اس کی تائید نہ کرتا۔ تو وہ جو ویسلز کا ذکر کررہا ہے بے شمارویسلز ہوں گے اور ان کے ذکر میں قرآن کریم میں لڑائیوں کاذکر بھی موجود ہے وہ دوسری آیات بھی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بہت خوفناک جنگیں ہونے والی ہیں۔ اور پھر آسمانی جنگوں کا ذکر بھی قرآن کریم میں ملتا ہے۔ واذالسماء ذات الحبک آسمان رستوں والا ہوگا۔ اب مفسرین یہ سمجھ رہے ہیں کہ اوپر دیکھا جائے تو ایک سادہ سا آدمی یہ خیال کرے گا کہ کچھ لکیریں آسمان پہ ستاروں کی پڑی ہوئی ہیں۔ کوئی کہکشاں کا رستہ ہے کچھ یہ ہے تو شاید اسی طرف اشارہ ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔ حالانکہ قرآن کریم بالبداہت آئندہ آنے والے وقتوں کی پیشگوئی کررہا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ انما توعدون لصادق۔ اس زمانے کے انسان کے بچگانہ خیال کہ آسمان رستوں والا ہے اس کا ذکر ہی کوئی نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے انما توعدون لصادق۔ اے انسان سن رکھ کہ جن چیزوں کا تجھے وعدہ دیا جارہا ہے مستقبل میں ظاہر ہوں گی وہ ضرور پوری ہوں گی۔ ان میں ایک یہ ہے وان الدین لواقع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا دین واقعہ ہوکے رہے گا کوئی اس کی راہ میں روک نہیں بن سکتا۔ اس وقت آسمان گواہ بنے کہ یہ پیش گوئیاں سچی ہیں کیونکہ جب پیش گوئیوں کو واقعۃً آنکھوں کے سامنے سچا ہوتا دیکھ لوگے تو دین کے واقع ہونے کا انکار کیسے کرسکوگے۔ والسماء ذات الحبک۔ آسمان رستوں والا یہ گواہی دے گاکہ اب جس دن بھی آپ باہر نکل کے دیکھیں آپ اگر مطلع ابرآلود نہ ہو آسمان کے رستے بنے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس کثرت سے رستے بنے ہوئے ہیں جو دکھائی دیتے بھی اور بعض ہمیں دکھائی نہیں بھی دیتے مگر علماء اور سائنسدان جانتے ہیں کہ آج کے آسمان کو سب دنیا نے جہازوں کے دور میں ہوائی دور میں رستوں میں تقسیم کردیا ہے۔ کوئی اوپر کا رستہ ہے کوئی نیچے کا رستہ ہے کوئی اور اس سے اوپر کا رستہ، کوئی دائیں کا رستہ کوئی بائیں کا رستہ، اگر یہ رستے نہ ہوتے تو جہاز آپس میں ٹکرا جاتے۔ تو ہر جہاز کے لئے ایک معین رستے مقرر ہوچکے ہیں۔ وہ رستے تو ہمیں نہیں دکھائی دیتے مگر جیک جو پیچھے سڑکیں بناتا چلا جاتا ہے ہر سڑک کو دیکھ کر انسان کا دل قرآن کی عظمتوں کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔میں تو جب بھی سیر پہ جاتا ہوں آسمان پہ یہ سڑکیں دیکھتا جاتا ہوں، دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ نے کس چان کا نبی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم بھیجا کس شان کی کتاب نازل فرمائی۔ کہ آج کے دہریت کے زمانے یں ایک ایک آیت خداتعالیٰ کی ہستی پر گواہی بن گئی ہے۔ اور قرآن کریم کی سچائی کی صداقت بیان کررہی ہے۔ انما توعدون لصادق۔ جو وعدے کئے جارہے ہیں لازماً سچے نکلیں گے۔ اور خدا کا دین واقعہ ہونے والا ہے۔ گواہ ہے والسماء ذات الحبک۔ اس زمانے کا آسمان گواہ ہوجائے گا جو رستوں میں بانٹا جائے گا انکم لفی قول مختلف اب اس بارے میں بھی کوئی اس زمانے میں قول مختلف کا کیا تعلق تھا اس سے؟ اس زمانے میں بڑے مذہبی اختلاف ہوں گے۔ بہت زیادہ تم ایک دوسرے کے خلافف دلیلوں کے ذریعے چڑھائی کرنے کی کوشش کروگے۔ زمانہ پھٹ جائے گا۔ اور دین مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے متعلق قول مختلف تمہیں ملیں گے۔ یہ آیات ہیں جو ضمناً مجھے یاد آئیں جو لکھی ہوئی موجود نہیں تھیں مگر یہ بھی اسی مضمون ے تعلق رکھنے والی آیات ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی آیات ہیں جن کا میں نے عمداً یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ بہت لمبی تفصیل کا تقاضا کرتی تھیں اور جس طرح استدلال کیا جارہا ہے اس طرح استدلال کا تقاضا کرتی تھیں وہ درس کا محدود وقت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واذاالقبور بعثرت جب قبریں اکھیڑی جائیں گی۔ اس کا ایک ترجمہ یہ ہے کہ اکھیڑ کر ادھر ادھر بکھیر دی جائیں گی۔ جیسا کہ آج کل کے زمانے میں بہت سے قبرستان ہیں جن کو اکھیڑ دیا گیا۔ استعمال میں لایا گیا لیکن جو معانی جس ترتیب کے ساتھ میں بیان کررہا ہوں ان میں بحار فجرت کے بھی وہ معنی ہیں جو ان آیات کے جو مجھ سے مطابقت رکھتی ہیں جن کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں اور قبور بعثرت میں وہ نئے علوم مراد ہیں میرے نزدیک جن کے ذریعے آثار قدیمہ کی تحقیق کی جاتی ہے اور قبور یعنی دبے پڑے خزانے وہ اکھیڑ کر باہر نکالے جاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے میں پہلے احمدی نوجوانوں کو توجہ دلا چکا ہوں کہ وہ قبوربعثرت کی طرف توجہ کریں کیونکہ پرانے زمانے کے آثار قدیمہ اکھیڑنے میں اکھیڑنے والے کے اپنے مذہب اور خیالات کا بہت اثر ہوتا ہے۔ اور وہ بعض ایسے واضح شواہد کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے جو درحقیقت درست نہیں ہوتا وہ آثار قدیمہ جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے جب بھی وہ دریافت ہوں گے لازماً اسلام کی صداقت پر گواہ ہوں گے ورنہ قرآن کو کیا ضرورت تھی ان بحثوں میں پڑنے کی۔ پس احمدی سائنسدانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ آثار قدیمہ کے معاملے میں زیادہ سنجیدگی سے توجہ کریں اور کثرت سے آثارقدیمہ کے اولوالعلم کو حاصل کرکے ان ٹیموں میں شامل ہوجائیں جن میں شامل ہونا ان کے لئے ضروری ہے کیونکہ اتنے اخراجات اس میں پڑتے ہیں کہ احمدی سائنسدان کے لئے الگ آثار قدیمہ کا محکمہ قائم کرنا ممکن ہی نہیں۔ کروڑہا پاؤنڈ اور ڈالر اور سب کچھ بہا دیا جائے تو اربوں پاؤنڈ یا ڈالر کے اخراجات ہیں جو بڑی بڑی حکومتیں مل کے برداشت کرتی ہیں۔ تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اپنے پیسے کو ہے ہی بالکل معمولی اس کی طرف منتقل کردیں۔ ان قوموں کو خرچ کرنے دیں اور آپ استفادہ کریں۔ ان ٹیموں کے ساتھ شامل ہوجائیں اور جب بھی کوئی دریافت ہو کہیں یہ دیکھ لو۔ یہ قرآن کریم میں یوں ہے۔ تم اس کا غلط ترجمہ کررہے ہو۔ ہم یہ ترجمہ نہیں کرنے دیں گے۔ تو اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو یہ ایک نیا دور آثار قدیمہ کی گواہی کا ظاہر ہوگا۔ جو قرآن کریم کی ان آیات کی بھر پور تصدیق کرے گا۔
علمت نفس ما قدمت واخرت اس آیت میں جو گزر گیا اس کی بات تو ہوگئی۔ قبور کے نتیجے میں تمہیں علم حاصل ہوگا۔ ماقدمت جو تم سے پہلے تاریخ گزرچکی ہے۔ اگر تم آثار قدیمہ میں غور نہیں کروگے تو تمہیں اس تاریخ کا کچھ علم نہیں ہوسکتا۔ یہ قبریں اکھیڑنی پڑیں گی۔ اور جب اکھیڑوگے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے علمت نفس ما قدمت انسان جان لے کہ اس نے پیچھے کیا چھوڑا ہے اس کی پہلی تاریخ کیا تھی۔ اخرت سے کیا معنے ہیں؟ اور جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ ناں۔ اخرت کا یہاں ترجمہ کیا گیا ہے پیچھے پھینکا ہے یا پیچھے چھوڑا ہے اور قدمت جو آگے بھیجا ہے اب قدم اور اخر کے الفاظ کے ترجمے میں کچھ اس حد تک دخل ہے انسان کی سوچ کا کہ قدم کا معنی آگے بھیجنا بھی ہوسکتا ہے اور قدم کا معنی پہلے بھیج چکا ہے جو وہ بھی ہوسکتا ہے۔ تو میں نے اس پہلو سے اس کا معنی کیا تھا مگر اب تفسیر صغیر کے معنے کو پکڑ کر دیکھتے ہیں۔ بریکٹوں کو چھوڑ دیں۔ تب وہ جان لے گی کہ کیا اس نے آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔ قبروں کو اکھیڑنے سے ’’آگے بھیجا ہے‘‘ کا مضمون کیسے بنتا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبروں کا ذکر کرتے فرماتے ہیں کہ اکھیڑ کر ادھر ادھر بکھیر دی جائیں گی تو پھر آگے بھیجنے کا کس طرح پتہ چلا؟ اب چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے تفسیری نوٹس کو بریکٹس میں لکھا ہے قرآن کریم کے ترجمے میں ایک ذرہ بھر بھی کوتاہی نہیں فرمائی۔ اس لئے یہ جو مولوی لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ نعوذباللہ تفسیر صغیر نے ترجمہ بدل دیا ہے اسی آیت سے ثابت ہے خود اپنے ترجمے سے یہ جو اگلی آیت کا ترجمہ ہے باوجودا س کے کہ مطابقت بعینہٖ نہیں کھارہا مگر ترجمے میں دیانت داری کی گئی ہے۔ ایک ذرہ بھی اس میں فرق نہیں کیا گیا۔ اب سوچیں کہ قبریں اکھیڑنے سے جیسا کہ میں نے عرضض کیا ہے آثار قدیمہ کی رو سے پچھلا تو پتا چل گیا کہ کیا تھا آگے بھیجنے کا کیا مطلب ہے؟ کہ آگے بھیجنے کا ایک یہ مطلب ہے کہ گزشتہ قوموں کی تاریخ کو جب درست پڑھاجائے تو اس سے جو پیغام مستقبل کو ملتا ہے وہ پیغام مراد ہے اور اس ضمن میں ایک موقع پر میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں کہ کس طرح آگے بھیجنے کا مضمون الٰہی آیات سے ثابت ہے۔ اور آثار قدیمہ آئندہ زمانے میں جو ہونا چاہئے اس پر بھی روشنی ڈال رہے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے آثار قدیمہ کے مطالعہ کے ساتھ بہت سے اپنے خیالات میں اصلاح کی ہے۔ اور آثار قدیمہ میں آگے بھیجنے کا مضمون اس بات سے بھی ثابت ہے کہ فرعون غرق ہوا اور آثار قدیمہ کی تلاش نے اس مضمون کو آگے مستقبل میں بڑھادیا۔ تو صاف ظاہر ہوگیا کہ صرف ماضی کے علم نہیں دیں گے بلکہ آثارقدیمہ مستقبل کا علم بھی دیں گے اور یہ مضمون ہے جو بہت وسیع ہے اور اس کے متعلق میں اشارۃً صرف کہہ سکتا ہوں۔ کئی جگہ میں نے اس کو کچھ تفصیل سے بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہ یاد رکھیں یہ مطلب ہے اس آیت کا کہ آثارقدیمہ آئندہ آنے والے حالات کو درست بناکے دکھائیں گے۔ اور ان حالات کی روشنی میں نئی صداقتیں ظاہر ہوں گی۔ جو مستقبل سے تعلق رکھتی ہیں لیکن آثارقدیمہ کے ذریعے ہاتھ آئیں گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اذالسماء انشقت واذنت لربھا وحقت واذاالارض مدت۔ والقت مافیھا وتخلت واذنت لربھا وحقت۔ یایھاالانسان انک کادح الی ربک کدحا فملقیہ یہ آیت بھی بہت لمبا وقت چاہتی ہے کیونکہ ہر آیت عظیم الشان ہے مگر اس آیت میں نئے زمانے کی دریافتیں، امریکہ کی دریافت اور اس سے تعلق رکھنے والی باتیں، سالوں کا ذکر ، کب یہ واقعہ ہوگا؟ اس کے نتیجے میں دنیا میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ یہ سارے امور ان آیات میں بیان ہوئے ہیں۔ اور ان کی بحث کو اب میں دوبارہ چھیڑدوں گا تو کم سے کم اس سال کا باقی درس تو اسی کی نذر ہوجائے گا۔ اتنا یاد رکھیں کہ آسمان پھٹ پڑے گا سے مراد یہ ہے کہ جب آسمان کے راز ظاہر ہونے شروع ہوں گے اور زمین پر گریں گے واذنت لربھا وحقت اور وہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرے گا دوسرا معنی اس کا یہ ہے جیسا کہ میں نے سورج کے متعلق بیان کیا تھا کہ جب اسلام کا آسمان پھٹ جائے گا دنیا کی نظر میں اس کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی وہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا۔ اور وہ انتظا کرے گا اپنے رب کے فیصلے کا کہ کب مجھے دوبارہ نافذ کرنا ہے۔ وحقت اور یہی بہتر ہے کہ اسلام اس وقت کا انتظار کرے جب کے اس کے آسمان کو دوبارہ بحال کیا جانا مقصود ہوگا۔ یہ وہ زمانہ ہے واذالارض مدت۔ جب زمین پھیلا دی جائے گی۔ اب اس زمانے کا انسان بھی یہ وہم و گمان تک نہیں کرسکتاتھا کہ زمین کو استری کرکر کے جس طرح کپڑے کو پھیلاتے ہیں اس طرح زمین کو پھیلایا جائے گا کہاں پھیلایا جاسکتا تھا۔ اور اس زمانے کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی زمین موجود ہے جو علم میں نہیں ہے۔ جب وہ دریافت ہوگی تو زمین پھیل جائے گی۔ اب الفاظ کو دیکھیں اس کا دوسرا ترجمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اذالارض مدت سے پتا نہیں کیا سمجھتے ہوں گے وہ لوگ اس وقت۔ مدت کہاں پھیلائی جائے گی؟ کیسے پھیلائی جائے گی؟ مگر واقعات بتارہے ہیں۔ زمانے کی زبان بول رہی ہے کہ امریکہ کی دریافت کی بحث ہورہی ہے۔ واذالارض مدت ۔ جبکہ یہ زمین جس کو تم محدود سمجھے ہوئے ہو یہ پھیلا دی جائے گی اور جب یہ زمین پھیلائی جائے گی تو چاند سورج کا گرہن وہاں بھی ہوگا کیونکہ وہ بھی تو زمین کا حصہ ہے۔ اور جب پھیلا دی جائے گی تو اس وقت زمین اپنے خزانے اگلے گی والقت ما فیھا وتخلت اور جو کچھ زمین میں ہے وہ اگلے گی اور اپنا سب کچھ باہر نکال پھینکے گی۔ یہ جو مضمون ہے اس کا گہرا تعلق امریکہ سے ہے کیونکہ تمام دنیا میں جو بھی نئے دور کی سائنسی ایجادات ہیں یہ امریکہ کی دریافت کے بعد اور امریکہ ہی میں زمین کے خزانے اگلنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور بہت تفصیلی مضمون ہے۔ قطعیت سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اگر امریکہ انقلاب نہ آتا تو تمام دنیا میں باقی باتیں بھی نہ ہوتیں۔ لیکن دو جگہ حقت کا لفظ ہے۔ ایک آسمان اسلام کے لئے، یہی حکم ہے کہ انتظار کرو۔ اور یہ زمین جو مدت ہوئی ہے جو لمبی کی گئی ہے۔ انہوں نے جو قبضہ کیا ہے اور انہوں نے جو دنیا کی طاقتوں کے سرچشموں کو اپنے قبضے میں قرار دیا ہے ان کے لئے بھی یہی بناء ہے واذنت لربھا وحقت کہ وہ اپنے رب کے حکم کا انتظار تو کرے۔ یہی بات سچی ہے یعنی تمہارے زمینیں توڑ دی جائیں گی۔ تمہاری زمینی طاقتوں کا کچھ بھی نہیں رکھا جائے گا۔ اور وہ آیت جو مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتی ہے۔ اذاالسماء انشقت واذنت لربھا وحقت۔ یہ آیت اپنی پوری شان سے پوری ہوگی۔ اور اسلام کا آسمان دوبارہ دنیا پر محیط کیا جائے گا۔ اب یایھاالانسان انک کادح الی ربک کدحا فملقیہ اس کا ایک معنی جو عام ہے وہ تو ہے ہی وہ ضرور درست ہے کہ انسان جدوجہد کرتا ہے اپنے رب کے لئے، بڑی محنت اٹھاتا ہے اور آخر اسے ملنا ہی ہے انسان نے۔ اس کے بہت سے روحانی معنے بیان کئے جاچکے ہیں لیکن یہاں لفظاً بھی یہ معنے اسی طرح پورے ہوں گے کہ اے انسان تو اپنے رب کو ویسے تو نہیں پہچان سکا لیکن یہ سارے سائنسی ادوار یہ مشقیں دنیا کے لئے، بے شمار محنتیں، تمام دنیا پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا۔ اپنے دوام کے لئے ہر قسم کے ذرائع اختیار کرنا یہ سارے انک کادح اصل یہ ہے کہ تو یہ محنت اصل میں اپنے رب کی طرف جانے کے لئے کررہا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان بناکے دکھادیا تھا پر تو نے مشکل رستہ ضرور اختیار کرنا تھا۔ تو پھر اسی طرح سہی۔ انک کادح الی ربک کدحا فملقیہ۔ تو نے اس سے ملنا ہی ملنا ہے خواہ محنت کا رستہ اختیار کرو یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی باتیںمان لو اور اب مل لو۔ اس سے مجھے وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جو ایک سائنسدان نے بیان کیا ہے کہ بعض نئے زمانے کی دریافتوں کے نتیجے میں انسان مجبور ہوگیا ہے کہ روح کی حقیقت کو تسلیم کرلے۔ اور یہ حقیقت کو تسلیم کرنا دو سو سال کی محنت چاہتا تھا۔ وہ کہہ رہا ہے ہمارے مذہبی رہنما ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ تصور کرو اور ہم روح کا انکار کرکے حقائق کی جستجو میں ان کو چھوڑ کر ان کا مذاق اڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور سفر کرتے کرتے، کرتے کرتے دو سو سال گزرتے ہیں یہاں تک کہ ہمیں سائنسی حقائق بتادیتے ہیں کہ روح کا وجوداپنی ذات میں الگ ممکن ہے اور جب یہ علم ہوتا ہے تو سامنے وہی بابے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کیوں جی ہم نہیں کہتے تھے۔ ان کے بابوں نے تو کہا یا نہ کہا یہ تو فرضی بات ہے مگر قرآن یہ کہتا ہے۔ اور ضرور یہ بات پوری ہوتی ہے حقت۔ ہوکے رہے گا۔ تمہیں آخر آنا پڑے گا ان نعمتوں کے بعد یہ کہنا پڑے گا قرآن سچ کہتا تھا۔
سورۃ الانشقاق آیت 1 تا 7۔ میں نے کہا گھڑی پہ آپ نظر رکھیں۔ یہاں میں نظر رکھتا ہوں۔ ویسئلونک عن الجبال فقل ینسفھا ربی نسفا فیذرھا قاعا صفصفا لا تری فیھا عوجا ولا امتا۔ تجھ وہ پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ فقل ینسفھا ربی نسفا۔ کہہ دے کہ میرا رب ان کو پارا پارا کردے گا فیذرھا قاعا صفصفا اور ان کو چٹیل میدان کی صورت میں چھوڑ دے گا۔ اب وہ کون لوگ تھے جو سوال کیا کرتے تھے ان پہاڑوں کے متعلق؟ کہ یہ کب مٹائے جائیں گے؟ کیسے ریزہ ریزہ کیئے جائیں گے؟ کوئی بھی نہیں کیا کرتا تھا یہ سوال۔ لیکن ان کے ذہن میں وہ پہاڑ تھے جو دنیاوی طاقتوں کے پہاڑ تھے۔ ایک طرف اہل فارس تھے۔ ایک طرف اہل روم تھے۔ یسئلونک عن الجبال۔ وہ کہتے ہیں بتاؤ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس طرف بھی تمہارے ایک دنیاوی حکومت کا عظیم پہاڑ کھڑا ہے ادھر بھی ایک دنیاوی حکومت کا ایک عظیم پہاڑ کھڑا ہے۔ تم ان میں سے نکلو گے کیسے؟ تم تو دنیا کی فتح کی باتیں کرتے ہو اور راہ میں سدسکندری سے بھی بڑھ کر روکیں حائل ہیں۔ ان کا کیا بنے گا؟ ان لوگوں کو ان دنیاوی طاقتوں کے مٹانے کے متعلق یہ آیات ہیں فرمایا یہ روکیں دور کردی جائیں گی یہ اس وقت بھی ثابت ہوگئی حقیقت اور اب بھی ہورہی ہے۔ اور اب ہونے والی ہے۔ پس پیش گوئیوں میں واقعات خود بولتے ہیں اوربولیں گے۔ اور سوفیصد ان کی سچائی کو ثابت کردیں گے۔ یہ ان آیات سے بھی بعینہٖ اسی طرح ثابت ہے پس قرآن کی شان نزول کی اور روایت کی محتاج نہیں ہے۔ وہ اس کی غلامی میں اس پر روشنی ڈالے تو کچھ اور بات ہے مگر FRAME WORK وہ آیات خود اپنا رکھتی ہیں۔ اور وہ فریم ورک اس کا جس چاردیواری میں یہ آیات چلتی ہیں مضمون کو بڑھاتی ہیں۔ وہ فریم ورک ایسا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ زمانہ جب بھی بات کرے گا اس کے حق میں کرے گا اس کے مخالف بات نہیں کرے گا۔ پس یسئلونک عن الجبال سے مراد وہ پہاڑ ہیں یعنی پہاڑ جیسی قوتیں ہیں جنہوں نے اسلام کی دونوں راہیں روک رکھی تھیں۔ فرمایا اللہ ان کو پارہ پارہ کردے گا۔ اور وقت بتاچکا ہے گزشتہ کہ روم کی حکومت کا بھی ایک بہت بڑا حصہ خداتعالیٰ نے ریزہ ریزہ کردیا اور اسلام کی اس پر حکومت ہوگئی۔ مشرق کی حکومت کا بھی خداتعالیٰ نے پہاڑ ریزہ کرزہ کردیا۔ لیکن اس کا تعلق مستقبل سے بھی ہے۔ جو اسلام کی ترقی کا آج کا دور ہے چنانچہ وہ انہی اگلی آیات سے ثابت ہے۔ لاتری فیھا عوجا ولا امتا تو ان میں کوئی موڑ نہیں دیکھے گا۔ کوئی کجی اور کوئی اونچائی نہیں دیکھے گا۔۔ یہ جو واقعہ ہے یہ مستقبل میں پورا ہونے والاا س لئے خصوصیت سے مستقبل سے تعلق رکھتا ہے کہ اس زمانے میں ایٹمی جنگوں کا دور ہوگا۔ اور وہ بڑی بڑی دنیاوی طاقتیں جو اسلام کی راہ میں حائل ہوں گی وہ ان جنگوں کے ذریعے پارہ پارہ ہوجائیں گی۔، اور ریت کے ذروں کی طرح زمین میں بچھادی جائیں گی۔ یہ ان کی عظمت کا یہ حال ہوگا۔ ان کا غرور ٹوٹ جائے گا۔ ار وہ پہاڑ سمجھ رہی ہوں گی اپنے آپ کو اور پہاڑ سمجھنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو نہیں مانیں گیں ظاہری پہاڑ مراد نہیں ہیں۔ طاقتیں مراد ہیں۔ اس کا ثبوت قرآن کریم خود پیش کررہا ہے۔ اس کی منہ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ یومئذ یتبعون الداعی لاعوج لہ اس دن یہ پہاڑ ایک ایسے پکارنے والے کے پیچھے چلیں گے جس کے اندر کوئی کجی نہیں ہے۔ اب پہاڑ کیسے چلیں گے رسول للہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے پیچھے۔ زمانہ بتا رہا ہے کہ بڑی بڑی متکبر قومیں جب توڑ دی جائیں گی۔ جب ان کا تکبر ملیامیٹ کردیا جائے گا تو یہ انسان ہیں پہاڑ نہیں ہیں جن کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ دنیاوی بڑی بڑی سیاسی قوتیں مراد ہیں جو ذی شعور ہیں پہاڑ تو بے حس اور بے جان چیزیں ہیں فرمایا یومئذ یتبعون الداعی لا عوج لہ۔ اس زمانے میں جس زمانے میں یہ واقعہ دوبارہ رونما ہونا ہے اس زمانے میں یہ پہاڑ جیسی طاقتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم الداعی کی پیروی کریں گے۔ لاعوج لہ جس کے اندر کوئی کجی نہیں ہے۔ جس کی تعلیم میں کوئی کجی نہیں ہے۔ سیدھا صاف وجود ہے جو قول سدید کاقائل ہے اور قول سدید پر ہی اس کی بناء ہے۔ یہ لا عوج کے مختلف معانی ہیں۔ وخشعت الاصوات للرحمن فلا تسمع الا ھمثا اس وقت تم دیکھو گے کہ آوازیں رحمن خدا کے سامنے جھک گئی ہیں۔ وہ مرعوب ہوگئی ہیں۔ نیچے پڑ گئی ہیں۔ وخشعت الاصوات للرحمن فلا تسمع الاھمثا۔ تو اس وقت دبی دبی آوازوں کے سوا اور کچھ نہیں سنوگے۔ یعنی انسان کی آواز خشعت کا معنیٰ ہے جو بچھ گئی سامنے، نیچی ہوگئی۔ اس وقت ساری دنیا کی بڑی بڑی بلند باگ دعاوی کرنے والی طاقتوں کی آوازیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی آواز کے سامنے مرعوب ہوجائیں گی۔ اور وہ جھک جائیں گی۔ اور رحمن خدا کے سامنے ان کو اونچی بات کرنے کی توفیق نہیں ملے گی پھر۔ فلا تسمع الاھمثا۔ تو آپس میں سرگوشیاں کریں گے کہ کیسا عظیم واقعہ ہوا ہے۔ اس طرح فتوحات ہوتی ہیں جو سارے عالم پر چھاجائیں یومئذ لا تنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا اب دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی عالمی شفاعت کا مضمون اس وقت پورا ہونا ہے جب کل عالم میں سے کچھ لوگوں نے اس شفاعت کا حق دار بننا ہے۔اسلام کے پہلے دور میں تو ایسا ہوا نہیں۔ اسلام کے پہلے دور میں تو دوسری عالمی دنیا کا پتہ بھی نہیں تھا۔ اسلام کے پہلے دور میں تو ساری دنیا پر اسلام کے غلبہ اور ان بڑی بڑی قوموں کا پارہ پارہ ہونے کا ذکر ہی نہیں ملتا۔ وہ ہی نہیں سکتا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا شافع محشر اور کل عالم کے شفیع ہونے کا مضمون اس وقت پورا ہوگا۔ جب کہ اذاالارض مدت کے لحاظ سے نئی دنیا بھی دریافت ہوجائے گی۔ نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہوں گی۔ اور سب پر غلبہ ہوجائے گا۔ تب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شفاعت کا مضمون کھل کر سامنے آئے گا۔ لاتنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمن کسی کی شفاعت کام نہیں آئے گی مگر اس کی جس کو اللہ حکم دے گا اے میرے بندے اٹھ۔ اور شفاعت کر ورضی لہ قولا اور جو معنی میں کررہا ہوں اس کے لحاظ سے یہ بنے گا رضی لہ قولا اللہ اس کو قول کہنے کے لئے راضی ہوجائے گا ایک یہ معنی ہے۔ اور رضی لہ قولا اور اس بندے کے لئے اللہ کا قول ہی سب کچھ ہوگا۔ دونوں طرف کے معانی بعینہٖ میرے نزدیک جائز ہیں۔ رضی کی ضمیر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی طرف پھیری جائے تو سب سے زیادہ اپنے رب کی باتوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم راضی ہوجائیں گے۔ (جی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک یہ تھوڑی سی آیت رہ گئی ہے اجازت ہوتو)
یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم ولا یحیطون بہ علما اللہ جانتا ہے جو پیچھے ہے یا آگے آنے والا ہے۔ اور اس کے علم کا کوئی چیز احاطہ نہیں کرسکتی۔ پس اس خدا کے یہ اقوال ہیں۔ جنہوں نے لازماً پورا ہونا ہونا ہے۔ ولمنت الوجوہ للحی القیوم اس وقت حی و قیوم خدا کے سامنے وجوہ جھک جائیں گے یعنی قوموں کے سردار یہ دنیا کے سردار جنہوں نے دنیا کو ضلالت میں مبتلا کیا ہے۔ وہ جھکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ وقد خاب من حمل ظلما پھر بھی ظلم کرنے والے تو اس وقت بھی ہوں گے یعنی اسلام کا غلبہ ان معنوں میں محیط نہیں ہوسکتا کہ ہر فرد بشر مان جائے اس وقت ظلم کرنے والے باوجود اس کے پھر بھی اپنی جان پر ظلم کرنے والے باقی رہیں گے مگر غلبہ اسلام مکمل ہوچکا ہوگا۔ (اب اس کے بعد وقت ختم ہوگیا ہے تو باقی پھر مباہلے والی آیات کل سے شروع ہوں گی۔ دو دن ہیں اس میں؟ نہیں ایک تو آخری درس کا دن ہے ناں دو دن ہیں اور دو دن میں اگر نہ بھی ہوا تو باقی آیات شروع کردیں گی پھر۔ مضمون کافی لمبا ہے ویسے اتنا دستہ سارا پڑھنا ہے؟ دیکھ لیں اچھا جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن
28 رمضان۔ 27 جنوری 1998ء
آج کے درس میں مباہلہ والی آیت پر بحث چلے گی۔ لیکن یہ میں شروع میں ہی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مباہلہ والی آیت کی طرف توجہ شان نزول والی آیات کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک الگ اپنی ذات میں ضرورت سمجھی گئی تھی کیوں کہ یہ سال مباہلے کا آخری پیغام جو ہے ہماری طرف وہ لے کر آیا ہے۔ دو دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی ہوا۔ ایک آغاز میں مباہلہ اور ایک بالآخروہ مباہلہ جو تمام دنیا کو کھلا چیلنج تھا جس میں سب شرطیں اڑادی گئیں حاضری وغیرہ کی اور اس دوسرے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روبرو حاضر ہونے کی شرط کو ضروری نہیں قرار دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصرف ہے کہ اس دور میں بھی بعینہٖ اسی طرح ہوا ہے اور آجکل جو مباہلہ کا چیلنج مل رہا ہے اس کا آمنے سامنے اکٹھا ہونے سے کوئی تعلق نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دوسرے دور کی تحریرات سے ثابت ہے کہ اصل منشاء جو مباہلے کا آپ سمجھے ہیں اور سمجھتے تھے خدائی تصرف کے تابع ہے اور الہامات کے نتیجہ میں۔ مباہلہ تو دراصل ساری دنیا کے لئے ہوتا ہے یعنی ایک مذہب کے لوگ، پیروکار جو اپنے بڑے لوگوں کے پیچھے چلنے والے ہوں ان کے تابع وہ سب دنیا کے لئے ہوتے ہیں۔ اور سب دنیا کے آدمیوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے جہاں جہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اکٹھے ہونے کی باتیں فرمائی ہیں اس میں آپ لوگوں کو یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ اول پہلے دور کے مباہلوں میں واضح اللہ کے حکم موجود تھے نمبر دو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مدعی تھے، مامور تھے اور مامور کا اطلاق سوائے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس زمانہ کے کسی پر نہیں ہوتا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلوں کے چیلنج کو نظیر بنا کر اس وقت جو ہم نے چیلنج دیا ہے یہ اس بات پہ ہمیں تاکید کرنا کہ بعینہٖ ویسا چیلنج ہو یہ درست نہیں ہے کیونکہ میرا تو ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ نعوذباللہ من ذالک کبھی بھی ایسا دعویٰ نہیں ہے کہ میں مامور من اللہ ہوں اور مباہلہ کا چیلنج اپنی طرف سے دے رہا ہوں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نمائندگی میں مباہلے کے لئے سب کو ان معنوں میں بلاتا ہوں جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھلی رخصت دی تھی کہ ساری دنیا کے لوگ جہاں جہاں بھی ہیں یہاں بیٹھے مجھ سے مباہلہ کرسکتے ہیں اشتہارات کے ذریعے اور دعاؤں کے ذریعے۔ پس ان سارے امور کی تشریح میں شروع میں اس لئے کررہا ہوں کہ اب جب مباہلہ کی باتیں شروع کروں گا تو ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اور ملفوظات وغیرہ کو ان امور سے متصادم نہ جانیں۔ بلکہ جیسا کہ میں اور تحریرات سے ثابت کروں گا متصادم نہیں ہیں مختلف وقتوں میں، مختلف حالات کے پیش نظر مختلف صورتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اختیار فرمائیں اور ان صورتوں کی وجہ سے اس آیت مباہلہ کا دوسرا ترجمہ نہیں ہوسکتا کوئی۔ کہ ان میں سے بہت سی صوتیں جو اللہ کے براہ راست الہام کے نتیجہ میں ہیں۔ پس خداتعالیٰ کی طرف سے جو مامور کو الہام ہوتا ہے اس کا اطلاق اس آیت مباہلہ پر کیسے ہوسکتاہے۔ اس میں کئی دوسری شرطیں عائد فرمادی گئی ہیں موقع اور محل کے مطابق۔ زمانے کی وسعت کے لحاظ سے کئی شرطیں عائد فرمائی گئی ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلوں کی تفصیل میں جاکر اس آیت کے اوپر اگر کسی کے ذہن میں کوئی اور روشنی پڑتی ہے تو درست نہیں ہے کیونکہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صاف لکھا ہوا ہے کہ یہ الہام کی وجہ سے اللہ کی واضح ہدایت کی وجہ سے میں ایسا کررہا ہوں۔ تو یہ شروع سے ہی میں بتا رہا ہوں تاکہ اب ذہنوں میں کسی قسم کا کوئی Confusion یا اضطراب باقی نہ رہے۔
اب میں آیت مباہلہ کے کچھ حصہ کی تلاوت کرنے کے بعد اس مضمون کو تفصیل سے لیتا ہوں۔ یہ مضمون میرا خیال ہے شاید کل تک بھی جاری رہے گا۔ مواد اتنا ہے کہ اگر اس سارے مواد کو لینا ہے۔ ہاں میں نے یہ عرض کرنی ہے کہ چونکہ میری مراد مباہلہ کے مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالنا ہے ا س لئے خصوصیت کے ساتھ اس مطالعہ میں میں نے شیعہ روایات کو لیا ہے جو مسلمانوں میں راہ پاگئیں اور ان کی وجہ سے اس آیت کے وہ معانی لئے گئے جو آیت کا ظاہر رد کررہا ہے او اس لحاظ سے شان نزول والا تعلق اس میں داخل ہوجاتا ہے کہ آیت کے الفاظ ان تمام روایات کو رد کررہے ہیں۔ اگرچہ ان روایات کا حوالہ ہمارے لٹریچر میں بھی ملتا ہے مگر اس وقت کے مسلمان لٹریچر میں ملتا تھا اس لئے وہ بھی ملے گا۔ لیکن اس پہلو سے جو میں عرض کررہا ہوں کہ تمام شیعہ روایات بے بنیاد ہیں اور آیت کا ظاہری منطوق ان کو رد کررہا ہے۔ یہ ایک مضمون میں پہلے خوب کھولوں گا پھر اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایا ت سے اگر کسی کو اشتباہ ہے وہ پیش کروں گا اور پھر آخر پر یہ آیات دوبارہ آپ کے سامنے پڑھ کر سناؤں گا کہ دیکھو ان سے کس ہدایت کے ساتھ کیا بات ثابت ہے جس کے برعکس نتیجے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ ڈھانچہ ہے سارا میرے مضمون کا۔ فمن حاجک فیہ من ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ العزیز الحکیم۔ (سورۃ آل عمران آیت 62 تا 63 )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس امکانی مباہلہ کا یہاں ذکر ہے جو ہوا نہیں۔ ایک پیغام ہے دیا گیا ہے، چیلنج دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں جو روایات سنی اور شیعہ بحیثیت تاریخی ، تاریخی حیثیت کے لحاظ سے متفق علیہ ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا تاریخ کا حصہ بن گیا ہے جس کا انکار کبھی کسی مسلمان عالم کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ یہ پس منظر ہم چونکہ ان آیات کے مطابق ہے اس لئے اسے قبول کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں صرف وہی روایات اخذ کرنے کے لائق ہیں اور ہم پر واجب ہیں جن کے متعلق سو فیصدی اتفاق سے قرآن کی تائید میں روشنی پڑتی ہو اور وہ تفسیر بیان ہو جو قرآن کی آیات میں موجود نہیں۔ یہ جو مسلمہ حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہا جاتا ہے 9ہجری میں آیا تھا لیکن نفری کے متعلق ساٹھ بیان کی جاتی ہے یہ بتایا گیا ہے کہ چودہ منتخب ممبر ان سب کے مجموعی لیڈر تھے۔ تین بڑے لیڈر عاقب، سید اور ابوحارثہ تھے۔ چودہ منتخب ممبران کے اسماء ابن کثیر نے درج کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ بعینہٖ وہی تھے یا اتنے تھے اس سے بحث نہیں ہے۔ بحث اگر ہے تو صرف اس واقعہ سے کہ نجران کے عیسائی وفد کا آنا ثابت شدہ حقیقت ہے وہ آئے اور ان کے لیڈر ان ساٹھ میں سے یا جتنے بھی وہ تھے ان کے لیڈر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے ہیں اور اس سے پہلے ایک دو بدو مناظرہ ہوا ہے۔ یہ مناظرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعویٰ سے تعلق رکھتا تھا اور آپ کا دعویٰ مامور من اللہ کا تھا۔ اس لئے جب عیسائیوں کو یہ چیلنج دیا ہے اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی وضاحت فرمادی ہے میں کیا کہہ رہا ہوں اور بہت کھول کر ایک بہت ہی لطیف تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ میرا یہ دعویٰ ہے ، یہ دعویٰ ہے اور یہ دعویٰ ہے۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ میں نے خود بنالیا ہے اپنی طرف سے اور خدا پر جھوٹ باندھا ہے تو پھر آؤ ہم یہ مباہلہ کرتے ہیں کہ تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ یہ ساری آیت میں بعد میں تلاوت کروں گا یہ ہے اصل حقیقت جس سے احتراز ممکن نہیں ہے۔ مسجد نبوی میں سب لوگ داخل نہیں ہوئے جہاں بھی یہ مناظرہ ہورہا تھا ان کے راہنماؤں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور باقیوں نے انتظار کیا اور ان سے جو باتیں ہوئی ہیں ان میں سب سے پہلے اپنے دعویٰ کی حقیقت بیان فرمائی ہے اور تفصیل بیان فرمائی ہے اور کہا اب بتاؤ تم مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھتے ہو۔ اگر جھوٹا سمجھتے ہو تو بالارادہ جھوٹا سمجھتے ہو۔ جان رہے ہو جو میں نے حقیقت بیان کی ہے کہ اس میں سچائی ہے اور اس کے باوجود اس سے احتراز کررہے ہو۔ پس اس صورت میں مباہلہ ہے کہ تم اصرار کرو کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں میں نے اپنے نفس سے جھوٹ بنالی ہے۔ اور اگر تمہیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہے تو پھر *** ڈالتے ہیں ہم دونوں اس فریق پر جو جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ ہے خلاصہ مباہلہ کا۔ ہم *** ڈالتے ہیں اس فریق پر جو بالارادہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ سارا مضمون اسی مرکزی نکتے کو نمایاں کرتے ہوئے میں نے اپنے مباہلہ کے چیلنج میں بیان کیا ہوا ہے۔ وہ سب چھپے ہوئے ہیں پہلے اور آخر میں ان میں ہر جگہ مرکزی نقطہ یہ کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعوے عمداً خدا پر جھوٹ بولتے ہوئے اور جانتے ہوئے کہ آپ مفتری ہیں یہ دعوے کئے ہیں۔ اور اگر تم قسم کھاکے کہہ سکتے ہو کہ واقعۃً یہ دعوے کئے بھی ہیں جبکہ ہم انکار کررہے ہیں کہ یہ دعوے کئے ہی نہیں تو صرف یہ صورت ہے مباہلے کی۔ اور جہاں جہاں تم سمجھتے ہو تم اصرار کے ساتھ یہ بات شائع کردو کہ ہم اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ان باتوں میں جھوٹ بول رہی ہے۔ ان کے امام جو اس زمانہ کے امام ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انہوں نے یہ دعوے اپنے کئے ہیں۔ اسی طرح کئے ہیں جس طرح ہم بیان کرتے ہیں۔ جماعت احمدیہ انکار کررہی ہے۔ پس ہم یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔ پس اگر اس حلف کے بعد آپ یہ کہہ دیں کہ اے اللہ! اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو ہم پر *** ڈال۔ اس میں کیا نقصان ہے۔ یہ کون سی مباہلے کی ایسی شرط ہے جس کو تم پورا نہیں کرسکتے یہ جو اعتقاد رکھتے ہو اگر اس اعتقاد پر یقین ہے تو یہ کہنے میں کیا حرج ہے اللہ اگر ہم جھوٹے ہوں تو *** ڈال۔ اور یہ بھی کہہ دو کہ اگر وہ جھوٹے ہیں یعنی ہم تو ان پر *** ڈال۔ اس سے کیوں مولوی گھبرا رہا ہے۔ اصل بات جو گریز کی ہے وہ یہ ہے۔ اور اس تعلق میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مناظروں کی تفاصیل ہیں اگرچہ میرے پاس موجود ہیں لیکن جن مناظروں کی اور اس کے بعد مباہلوں کی تفاصیل ہیں اس کو میں یہاں اس وقت نہیں چھیڑ سکتا کیونکہ پھر یہ بہت لمبے درسوں کا تقاضا ہوگا۔ تقاضا کریں گے۔
اب میں آپ کے سامنے یہ باتیں ایک ایک کرکے بیان کرتا ہوں جو شیعہ مسلک کے مطابق مسلمان لٹریچر میں جگہ بنا گئی ہیں اور اس آیت کے منطوق کے سراسر خلاف ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندہ تھیں۔ لیکن یہ بھی کوئی تحقیق شدہ حقیقت نہیں ہے۔ کم سے کم ابھی یہ تحقیق جاری ہے کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوسرے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیٹیاں جن کے متعلق تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیاہی گئی تھیں وہ کب کب فوت ہوئی ہیں۔ یہ میں اس لئے بیان کررہا ہوں کہ ہرگز بعید نہیں کہ اس وقت صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندہ ہوں۔ اس کا انکار نہیں کررہا۔ مگر یہ جو بیان ہے اس کی صحت میں ابھی اور تحقیق ہونے والی باقی ہے۔ صرف میں اتنا کہہ رہا ہوں یہ آیات کریمہ آل عمران کی جو 80 تک چلتی ہیں اور یہ مباہلے والی آیت 62 اور 65 نمبر ہے ان کے متعلق یہ بیان کیاگیا ہے کہ یہ اس مباحثے اور مباہلے کے دوران نازل ہوئی ہیں یہ آیات یعنی مباہلے والی آیات اسی دور میں جب تک ان کا قیام تھا اسی دور میں نازل ہوچکی تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے مباحثہ فرمایا اور کھل کر اپنا موقف بیان کردیا تب ان کو جو دعوت دی گئی تو عیسائی لیڈروں نے غوروفکر کے لئے مہلت طلب کی۔ یہ ایک روایت ہے۔
شیعہ اور سنی روایات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک چادر تلے آنے کا ذکر بکثرت ملتا ہے اور بات کو مباہلے کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ روایات آگے بیان کریں گی یہ روایات سورۃ احزاب کی آیات سے تعلق رکھتی ہیں جن میں یطھرکم تطھیرا کا وعدہ ہے ۔ اور سورۃ احزاب 5 سے 7 نبوی میں نازل ہوئی ہے۔ اس لئے قطعی طور پر واضح ہے کہ ان آیات کو جو مباہلے سے بہت پہلے نازل ہوئیں تھی مباہلے پر چسپاں کرنا ایک زیادتی ہے۔ کیونکہ جو واقعہ ہے چادر والا اس کی تفصیل میں میں جاؤں گا کہ وہ کیا واقعہ ہے۔ اس واقعہ کا تعلق آیت تطھیر سے ہے جو مباہلہ سے پہلے سورۃ احزاب کی آیات میں داخل ہے اور اس کا مسلمہ جو دور ہے وہ 5 سے 7 ہجری تک ہے جس دور میں یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اور بعد کا مضمون جو مباہلے کا ہوا ہے اس پر اس روایت کو چسپاں کیا کیسے جاسکتا ہے۔ وہ چادر والی روایت کو مدغم کیا گیا ہے اور عمداً شیعہ لٹریچر نے ان دونوں میں ابہام پیدا کرکے تو اپنی تائید میں کچھ حوالے نکالے ہیں یہ ان کی قلعی کھلے گی ابھی بعد میں۔ مباہلہ سے اصل مراد دعا اور ابتھال ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانا اور عاجزی سے ایسی دعا کرنا جس میں روح گداز ہوجائے اور پگھل جائے اور بے انتہا انکساری اور گڑگڑاہٹ کے ساتھ اللہ سے مدد طلب کی جائے۔ یہ ابتھال ہے۔ پس مباہلہ سے مراد ایسی دعا ہے اصل میں۔ آمنے سامنے اور یہ ساری باتیں نسبتاً ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دونوں فریق اللہ کو اپنا سمجھتے ہوئے گڑگڑائیں اور عاجزی اختیار کریں اور انتہائی زاری اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم ان کے لئے جوش میں آجائے اور ایک تائیدی نشان دکھائے۔ آیت مباہلہ میں جب کہ آپ سن چکے ہیں کسی مقام یا وقت کی تعیین کا ذکر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس لئے یہ بحث جب اٹھے گی کہ یہ باتیں بعد میں کیوں راہ پاگئی ہیں۔ کسی ایک جگہ جمع ہونے سے متعلق بعض پاکستان کے علماء اس دور کے علماء بھی اور مفتی جن کو بہت بڑا درجہ دیا جاتا ہے ان کے افتاء کے دائرے میں۔ ان کا حوالہ دیکھ لیجئے۔ میں یہ اپنی تائید میں نہیں بیان کررہا کہ یہ سند ہے ہم پر مگر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کل تک یہی لوگ مباہلے کے لئے ایک جگہ اکٹھا ہونا ضروری نہیں سمجھا کرتے تھے اور ان کے بڑے بڑے مفتیوں نے اس کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا۔ آج کیا ان پر بپتا پڑی ہے کہ انہوں نے یہ زور دینا شروع کیا ہے۔ بپتا یہ پڑی ہے کہ مباہلے سے بھاگنے کو اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ ایسی شرطیں لگادی ہیں جو اس وقت پوری ہو ہی نہیں سکتیں۔ لیکن مفتی اعظم اس کو لکھا جاتا ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ معارف القرآن جلد 5 صفحہ 80، 81 ادارۃ المعارف کراچی۔ ’’اصولی طور پر اس میں اعزا اور اقارب کو جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر جمع کرلیا جائے تو اہتمام بڑھ جاتا ہے۔‘‘ اصول یہ کہہ رہا ہے کہ اعزاء اور اقارب ایک جگہ جمع ہوں۔ یہ کہتے ہیں اصولی طور پر ان آیات سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہ اتفاق سے انہوں نے صحیح نتیجہ نکال لیا ہے۔
اب احادیث کی بحث شروع ہونے لگی ہے۔ لیکن یاد رکھیں یہ ساری احادیث وہ ہیں جو شیعہ لٹریچر میں راہ پاگئیں اور ان کو تقویت دینے کے لئے اتنی آوازیں بلند کی گئیں کہ رفتہ رفتہ سنیوں نے بھی یہی سمجھ لیا کہ شاید یہی واقعہ ہوا ہو گا اور بھولے پن میں ان باتوں کو مان گئے جو دراصل حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کے وارث ہونے کے حق میں دراصل بیان کی گئی تھیں اور آنکھیں کھول کر دیکھتے تو آیت مباہلہ کے سراسر خلاف تھیں۔ یہ روایات جو ہیں ان کا سلسلہ طبری سے شروع ہوتا ہے۔ طبری کے علاوہ بعض دوسری مسلم روایات جو صحیح مسلم سے لی گئی ہیں۔ یعنی سنی روایات جو صحیح مسلم سے لی گئی ہیں یا ترمذی سے لی گئی ہیں ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں ان تینوں کا ذکر موجود ہے لیکن اس بحث کو تو بعد میں اٹھانا تھا۔ پہلے اٹھانا تھا۔ طبری والی روایات جو ہیں وہ یہی ہیں نا؟ ان کو بھی رکھ لیتے ہیں یہ بعد میں اٹھائیں گے یہ مسئلہ یہ سب روایات جو اب میں آپ کے سامنے پڑھوں گا تمام تر مرسل ہیں۔ ایک بھی ان میں سے مرفوع روایت نہیں ہے۔ مرفوع روایت اس کو کہتے ہیں جس کا سلسلہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہچا دیا جائے اور وہ صحابی مذکور ہو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست وہ بات سنی ہے۔ مرسل روایات ان کو کہتے ہیں جن کا سلسلہ روایت بیچ میں ٹوٹ جائے کہیں اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک پہنچانے کا کوئی اہتمام نہ کیا جائے اور کوئی راوی نہ پیش کیا جائے جس نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہو اگر پیش کیا جائے تو محض ایک فرضی دعویٰ ہو اور روایت کی کڑیوں میں اس کا ذکر نہ ملتا ہو۔ ایسی روایت کو مرسل کہتے ہیں۔ تمام شیعہ روایات جن کا انحصار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے متعلق ہے کہ یہ رسول اللہ کے وہ اقربا تھے جن کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مباہلہ میں حاضر ہوئے ہیں ان تمام روایات کا آغاز طبری سے ہوتا ہے اور طبری نے مرسل روایات اکٹھی کرکے یہ سارا سلسلہ بیان کیا ہے اور طبری کے امام، امام طبری خود شیعہ تھے اور انہوں نے بڑے زور و شور سے شدومد سے ساری شیعہ روایات کو اتنا اکٹھا کرلیا کہ تین سو ھجری میں غالباً ان کا دور ہے۔ اس 300 ھجری میں انہوں نے جو روایات اکٹھی کی ہیں وہ فی الحقیقت تمام تر مرسل ہیں اور مرفوع نہیں۔ اور اس بحث میں الجھے ہی نہیں کہ اسے کڑی بہ کڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملایا جائے۔ بعض مسلم کتابوں کا حوالہ دے کر یہی کافی سمجھا ہے۔ سنی کتابوں کا حوالہ دے کر مدغم کردیا ہے معاملہ کو۔ اور یہاں سے بات چلی ہے اصل ان سب روایات کی۔ اس سے پہلے موجود نہیں۔ بخاری میں ان کا ذکر نہیں۔ دوسری کتب صحاح ستہ میں ان کا ذکر نہیں۔ اتنا اہم واقعہ اس دور میں گزرا ہو اس کا صحاح ستہ میں ذکر نہ ملتا ہو جن جن جگہ ملتا ہے وہ میں نے الگ یہ باب رکھا ہوا ہے وہ میں بتاؤں گا کیا ملتا ہے اور ان میں آپ میں ٹکراؤ کیا ہے۔ پس اس کو سردست چھوڑ دیجئے یہ میرا دعویٰ اچھی طرح سمجھ لیں کہ امام طبری نے آغاز کیا ہے ان سب روایات کا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یہ بات منسوب کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان کے پانچ آدمیوں کو لے کر مباہلہ کے لئے نکلے تھے۔ قرآن کریم سے جو ٹکراؤ ہے وہ میں اس کے بعد بات کروں گا۔ لیکن ان روایات کا حال تو معلوم کرلیں کہ ہیں کیا؟
ایک ابن جریر کی روایت ہے جو اسحاق سے مروی بیان کی گئی ہے۔ ابن اسحاق سے۔ اس روایت میں تو اہل بیت کو نصاریٰ نجران کے مقابل آنے کا ذکر ہی کوئی نہیں۔ لیکن ابن جریر نے یہ نقل کی ہے اس لئے میرا بتانا ضروری تھا۔ ایک دوسری روایت ابن جریر نے یہ لکھی ہے حدثنا ابن حمید قال حدثنا عیسٰی ابن فوقد عن ابی الجارود عن زید ابن علی قال کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و علی و فاطمہ و الحسن والحسین۔
یہ طبری، ابن جریر طبری کی روایت ہے۔ یعنی آیت مباہلہ سے مراد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ و حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یہ روایت جو ہے یہ ابو جارود کی طرف سے مروی ہے۔ یعنی مرسل تو ہے ہی لیکن ابو الجارود ایک ایسا راوی اس مین داخل ہے جس کے متعلق ابن معین کے نزدیک کذاب اور امام نسائی اور دار قطنی کے نزدیک متروک ہے۔ ابن حیان کہتے ہیں کہ یہ شیعہ تھا اور اہل بیت کی فضیلت کی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ یہ اس حدیث کا حال ہے۔ مرسل تو اپنی جگہ ہے ہی لیکن مرسل کے لئے بھی جو راوی ملا ہے وہ بھی اول درجہ کا جھوٹا اور اہل علم کہتے ہیں کہ نہ صرف شیعہ تھا بلکہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ اس روایت پہ جائیں گے شیعہ۔
ایک دوسری حدیث، یہ بھی، سب حدیثیں وہی ہیں جو اسی ذیل میں آرہی ہیں۔ یعنی سب مرسل ہیں اور سب کی روایتیں بیچ میں ٹوٹ گئی ہیں۔ اور ہم اب یہ بحث اٹھار ہے ہیں کہ ٹوٹی ہوئی روایتوں کا بھی یہ حال ہے کہ اور بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ یعنی ان کے رواوی متروک، کاذب اور مطعون۔ یہ زائد باتیں میں بیان کررہا ہوں ورنہ صرف یہ کہنا کافی ہے کہ مرسل ہیں ان کی کوئی حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنے والی روایا ت سے ثابت نہیں ہے۔ روایت یہ ہے:
حدثنی یونس قال اخبرنا ابن وھب قال حدثنا ابن زید قال قیل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لو *** یعنی اگر آپ نے *** ڈالی ہوتی *** القوم من کنت تأتی حین قلت ابناء نا وابناء کم قال حسن و حسین۔
میرا خیال عربی لکھی ہوئی چھوڑ ہی دوں میں سیدھا سادھا ترجمہ پڑھ دیا کرتا ہوں۔
یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ ان لوگوں یعنی اہل نجران سے ملاعنہ فرماتے یعنی مباہلہ کو یہاںں ملاعنہ کہا گیا ہے *** کے لفظ سے ثابت ہے تو اپنے ابناء میں کن کو شامل کرتے۔ آپ نے فرمایا حسن اور حسنین کو۔ یہ روایت اسی طرح مرسل، لغو، بے معنی۔ تبصرہ اس پر یہ ہے۔ ابن وھب راوی ہے اسماء الرجال کی کتب میں اس نام کے تین راوی ہیں تینوں ہی غیر معروف ہیں۔ یعنی جیسا کہ میں نے کہا ٹوتی پھوٹی ہوئی جو سند ہے وہ بھی کچی اور نکمی۔ وہ اگر مرفوع بھی ہوتی تو یہ راوی اس کو ختم کردیتے۔ ابن زید نام اس میں داخل ہے اس روایت میں۔ ابن زید نام کے چار راوی ہیں جن چاروں کے متعلق میزان الاعتدال میں جو اسماء الرجال کی کتاب ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ یہ چاروں متروک اور مجہول ہیں۔
ان سے کوئی روایت نہیں لی جائے گی، ترک کردیا جائے گا ان کو۔ اور مجہول بھی ہیں ان کے حال کا پتہ ہی کچھ نہیں اس لئے ان سے روایت کیسے لی جائے گی۔ تو یہ جو باتیں گھڑی گئی ہیں اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے ان کے اندر کوئی بھی روایت کی سند کا پہلو موجود نہیں ہے۔ ایسی سند کا جس پہ اعتماد کیا جاسکے۔ جو سندات گھڑی گئی ہیں وہ ثابت ہے کہ وہ فرضی ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں۔
ایک اور روایت ہے۔ حدثنا محمد ابن الحسین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا ہمارے پیچھے آؤ۔ پس وہ بھی ان کے ساتھ نکلے۔ مگر اس روز عیسائی مقابلہ پر نہیں آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں ڈر ہے کہ یہ شخص کہیں سچا نبی نہ ہو۔ اب اس مضمون کا تعلق اس آیت کریمہ سے جو مباہلہ والی آیت ہے دور سے بھی نہیں ملتا۔ لیکن یہ بحث الگ ہے۔ یہ ساری روایت فرضی ہے، مرسل ہے اور جو راوی درج ہیں وہ ناقابل اعتبار ہیں۔ دن کے وقت نکلے۔ ایک یہ روایت ہے کہ شامل کیا اور مباہلہ کے لئے ساتھ لے کر نکلے۔ ان روایات میں جو اندرونی اختلافات ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ بعض کے مطابق دن کے وقت نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو باہر نکلے ہیں مگر عیسائی مقابلہ کے لئے نہ آئے۔ اور بعض روایات میں رات کے نکلنے کا بھی ذکر ہے۔ پس دن کو نکلے ہیں یا رات کو نکلے ہیں جب یہ اختلاف ہوگئے تو روایت ویسے ہی ختم ہوجانی چاہئے۔ مگر وہ بنیادی اصول سب پر چسپاں ہورہا ہے کہ سب مرسل روایات ہیں اور حقیقت کوئی نہیں۔ ان میں راوی جہاں تک شام ہیں ان میں ایک راوی احمد بن مفضل ہے جو کوفی ہے اور ابوحاتم نے اسے روسائے شیعہ بیان کیا ہے۔ ایسے راوی اکٹھے کئے ہیں انہوں نے۔ سُدّی کے نزدیک محمد بن مروان کو متروک اور متہم بالکذب کہا گیا ہے۔ غلطی میں نے سدی کو تبصرہ کرنے والا سمجھ لیا تھا شروع عنوان سدی لگا ہوا ہے۔ یہی لکھنا چاہئے سدی جو اس روایت کی زنجیر میں ایک نام ہے اس کے متعلق محمد بن مروان کو۔ یہ کیا قصہ چل رہا ہے؟ یہ تو لکھنا چاہئے تھا نا۔ اسی نے تو سارا Confusion پیدا کیا ہوا ہے کہ سدی کا تبصرہ ہے۔ جب سدی کی بات ہورہی ہے تو کہنا چاہئے سدی یعنی محمد بن مروان۔ سمجھے ہیں؟ تو اگلے سال یہ احتیاطیں ہوں گی۔ اس سال تو اب یہ مشکل ہے۔ سدی یعنی محمد بن مروان اب بات ٹھیک بنی ہے۔ اس کو میزان الاعتدال کتاب میں تمام راوی جتنے بھی گزرے ہیں پہلے ان کے اوپر تنقید ہے کون تھے؟ کیسے تھے؟ اسماء الرجال کہا جاتا ہے اس کو۔ ان کے نزدیک یہ سدی یعنی محمد بن مروان متروک اور متہم بالکذب ہے۔ چھوڑا گیا ہے اس کو۔ اس کی روایتوں کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے اہل علم اس کی روایتوں کو قبول نہیں کرتے اور اس پر کذب کا الزام بھی لگایا گیا ہے کہ واضح جھوٹ بولا کرتا تھا۔
ایک اور روایت حدثنا ابن حمید سے شروع ہوتی ہے اس روایت کے مطابق اگلی صبح جب اہل نجران آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اٹھائے ہوئے اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگلی پکڑے نکلے۔ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پیچھے چل رہی تھیں۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اس چیز کی طرف دعوت دی یعنی مباہلہ کی طرف۔ جو قرآن بیان کررہا ہے وہ آپ سن لینا۔ وہ کیا اس بات سے مطابقت کھاتا ہے؟ لیکن یہ روایت ساری فرضی، مرسل، بے حقیقت اور درایت کے اعتبار سے بھی ایسا لغو مضمون یہاں باندھنے کی کوشش کی گئی ہے جسے عقل قبول ہی نہیں کرسکتی۔ یعنی گزشتہ رات جو بات ختم ہوئی تھی مناظرے کی یا مباہلے کی اس کے بعد دوسری صبح کہاجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا ہاتھ پکڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور ان کو دعوت مباہلہ دی۔ لیکن انہوںں نے مباہلہ نہ کیا۔ اس روایت میں ایک بات قابل توجہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کوئی نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر نکلے نہیں اور وہ شیعہ روایات جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی ضروری قرار دیتیں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قائمقام بنا کر ضروری قرار دیتی ہیں وہ روایات کہاں چلی گئیں؟ وہ ساری غائب ہوگئیں۔ پس ان کی روایتیں آپس میں ٹکراتی پھرتی ہیں ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہی ہیں۔ کیوں کہ ان روایات کی درایت کو اگر دیکھا جائے توا س طرح یہ روایتیں بے معنی اور بے حقیقت ہوجاتی ہیں۔ کہیں کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے کر نکلے۔ کہیں کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ہی نہیں۔ روایت میں ذکر تک موجود نہیں۔ اس روایت کے، یہ جو روایت ابھی پڑھ کر سنائی ہے۔ یہ مرسل تو ہے نا۔ سمجھ گئے ہیں نا مرسل کا کیا مطلب ہے یعنی رستے میں کہیں ٹوٹ گئی کڑی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک نہ پہنچی۔ اس کے علاوہ اس میں جوتین راوی مذکور ہیں جریر، مغیرہ اور عامر۔ یہ تینوں اتنے مجہول ہیں کہ اسماء الرجال کی کتب میں ان کا ذکر ہی نہیں ملتا۔ ایسے غیرمعروف اور مجہول لوگ ہیں جن کا نہ سر نہ پیر۔ اسماء الرجال کی کتب ان کے ذکر سے ہی عاری ہیں۔ علامہ ذھبی نے میزان الاعتدال میں جریر نام کے 14 اشخاص کا ذکر کیا ہے جس میں ایک نام جریر بھی ہے مگر ان میں سے کسی جریر کے شیخ کا نام مغیرہ نہیں ہے۔ جبکہ یہ روایت اس جریر کو پیش کررہی ہے جس کے شیخ کا نام مغیرہ ہے۔ اور یہی مجہولیت کا حال باقی سب راویوں کا ہے میزان الاعتدال اب ایک اور روایت شیعہ روایت جو طبری نے پیش کرکے سارے معاملہ کو الجھا دیا اور مباہلہ کے مضمون پر پردہ ڈال دیا ہے وہ یہ ہے۔ قتادہ کہتے ہیں میں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو اہل نجران کے مقابل پر نکلے۔ جب انہوں نے رسول اکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو ڈرے اور خوفزدہ ہوکر واپس لوٹ گئے۔ اب یہ روایت رات کو نکلنے کی اور پہلی روایت دن کو نکلنے کی۔ پس رات کو نکلے کا ذکر اول اپنی ذات میں یہ بتارہا ہے کہ ان سب روایتوں میں اضطراب واضح اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس روایت میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہی سرے سے نہیں ہے۔ نکلنے کا صرف ذکر ہے۔ اہل نجران مباہلہ سے ڈرکر لوٹ گئے۔ یہ ساری باتیں بے بنیاد اس حوالے سے توہیں کہ مرسل ہیں لیکن اس کے علاوہ یہ جو اندرونی امور بیان ہوئے ہیں یہ دوسری شیعہ روایات سے متصادم ہیں۔
ایک روایت قتادہ سے ہی اسی سند سے بیان کی گئی ہے۔ اس میں یہ ذکر موجود ہے کہ اہل نجران کے پاس جانے کا ارادہ فرمایا تو حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ ہمارے پیچھے آؤ۔ جب دشمنانِ خدانے یہ دیکھا تو وہ واپس لوٹ گئے۔ بالکل بے تعلق بات۔ کوئی ذکر اذکار ہی نہیں حقیقت میں۔ اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لے کر نکل جانا باقی صحابہ کیا کررہے تھے، کہاں کہاں پھر رہے تھے۔ یہ سارا ایک فرضی قصہ ہے جس کی حقیقت اس کے طرز بیان سے ہی ظاہر ہورہی ہے۔ اب یہ لطف کی بات ہے کہ یہی روایت بعینہٖ اسی سند سے مروی ہے جو میں اوپر پڑھ چکا ہوں۔ وہی سند اسی واقعہ کی روایت کررہی ہو اور یہ کہہ رہی ہو کہ اہل نجران نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو یہ خوفزدہ ہوئے اور ایک بعینہٖ وہی سند ان پانچوں کا ذکر کررہی ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی سند نے اتنا بنیادی اختلاف کیا ہو۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی بعد میں مرضی بنی ہے۔ جو چاہا، جس روایت میں چاہا داخل کردیا۔ میزان الاعتدال میں صفحہ 128-129 میں عبدالرزاق راوی کے متعلق یہ لکھا ہوا ہے کہ اگرچہ یہ مشہور محدث ہیں مگر ان پر شیعیت میں افراط کا الزام ہے۔ ابن علی نے فضائل کے بارے میں ان سے ایسی روایتیں کی ہیں جن سے کسی کو اتفاق نہیں۔ یہ تفضیل علی کے قائل تھے اس لئے ایسی روایتیں بنادینا یا اپنی سادگی میں ان کو قبول کرلینا ان سے بعید نہیں تھا۔ (میزان الاعتدال صفحہ 128 تا 129 جلد دوم)
شیعہ کی تفسیر کافی ہیں زیر آیت مباہلہ لکھا ہے وَھُوَ دَلِیْل عَلٰی نَبوتِہٖ وفضل من اَتٰی بھم من اھل بیتہ وشَرَّفَھُم شرفًا لَایَسْبِقُھُمْ الیہ خَلقٌ علیٍّ علیہ السلام کَنَفْسِہٖ (کافی تفسیرالقرآن و ۔۔۔۔۔ کاشانی۔ یہ حوالہ لمبا ہے اس لئے میں اس کو چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ مکتبہ اسلامیہ تہران زیر آیت مباہلہ۔ یہ شائع شدہ کتاب ہے اس میں روایت ہے آیب مباہلہ میں رسول اللہ کی نبوت کی دلیل اور ان اہل بیت کی فضیلت ظاہر ہے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساتھ لائے اور ان کو ایسی عظمت بخشی جس کی طرف مخلوق میں کوئی اسے پہنچ نہیں سکتا کیوں کہ نفس علی کو رسول خدا نے اپنے نفس کی طرح ٹھہرایا۔ یہ دیکھ لیں اب انفسنا جو آیا ہے اپنے نفس کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ لے کر نکلے۔ اور وہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو انفسنا کہتے ہیں تو حضرت علی کو انفسنا میں مراد لیتے ہیں۔ یہ شیعہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد انفسنا سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں خود بلکہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس پہلو سے مناظرے میں داخل ہونا اور مباہلہ میں داخل ہونا ان کے نزدیک ضروری تھا اور وہ ہوئے خواہ اس کی کوئی بنیاد ہو یا نہ ہو اس سے قطع نظر ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے اس لئے ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اور یہ دلیل قائم کرتے ہیں اس سے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جملہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں کیونکہ آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی نفس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مثل ہے۔
اما باقر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکھتے ہیں: اکثر علمائے شیعہ کا یہ مذہب ہے کہ حضرت امیر یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور باقی سارے امام اہل تشیعوں کے اس عقیدہ کی وجہ سے تمام پیغمبروں سے افضل ہیں۔ یہ آیت مباہلہ سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوگیا کہ حضرت علی تمام پیغمبروں سے افضل ہیں۔ اب وہ آیت آپ نے پڑھ لی ہے۔ میں اس کا اب دوبارہ ذکر کروں گا لیکن آپ سوچیں کہ اشارۃً کنایۃً اس بات کی ہوا بھی اس آیت میں موجود ہے۔ ثابت ہوگیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب پیغمبروں سے افضل ہیں۔ اب تفسیر ابن جریر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بعض ایسی احادیث بھی مروی ہیں جو سند کے اعتبار سے جو بھی حیثیت ان کی ہے مضمون کے لحاظ سے وہ عجیب دکھائی دیتی ہیں۔ وہ میں آپ کے سامنے پڑھ کے سنا دیتا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر نصاریٰ نجران مجھ سے مباہلہ کرتے تو ایک سال نہ گزرتا کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے ایک بھی باقی نہ رہتا۔ یہ ’’مباہلہ کرنے والوں میں سے‘‘ کا لفظ ترجمہ میں زائد کیا گیا ہے۔ حالانکہ نجران کا ذکر چل رہا ہے۔ اصل حدیث کے الفاظ سے ثابت ہے کہ نجران کے بسنے والے سارے کے سارے ہلاک ہوجاتے ۔ ان کے نمائندے مباہلہ کرتے تو وہ سب ہلاک ہوجاتے۔ تو یہ ہے جو میں کہہ رہا تھا مجھے اس پر تعجب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کی جو عامۃ الناس ان کے پیچھے تھے ان کی کلیۃً ہلاکت کا ذکر فرمایا ہو یہ مجھے اجنبی بات معلوم ہوتی ہے۔ ہاں اگر صرف مباہلہ کرنے والوں کا ذکر ہو تو یہ اجنبی بات نہیں۔ بعینہٖ یہی بات ہونی چاہئے تھی کہ جن لوگوں نے مباہلہ کیا رسول اللہ سے اور ساری بات دیکھ بھال کر جان بوجھ کر کذب کے طور پر گھڑی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کی جو آپ کا عقیدہ نہیں تھا۔ اگر یہ ہوتا تو ہرگز بعید نہیں کہ ان میں سے ہر ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک سال کے اندر مٹا دیا جاتا یا سال کی شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگر لگائی ہے تو بعینہٖ یہی ہونا تھا۔ کیونکہ خداتعالیٰ ویسے بھی خبر دے دیا کرتا ہے اپنے مرسلین کو کہ اس کے لئے کتنی مدت درکار ہے۔ پس قطع نظر اس کے کہ اس میں سال کا ذکر ہو یا نہ ہو یہ حدیث قابل قبول ہوسکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہو کہ جو لوگ مجھ سے مباہلہ کرتے وہ ضرور مٹا دیئے جاتے۔ مگر الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل نجران تمام تر مٹا دیئے جاتے۔ یہ درست معلوم نہیں ہوتا۔
اب دیکھیں اگلی حدیث بیان کی گئی ہے اس میں تفسیر کبیر رازی میں بھی ہے یہ۔ سیرۃ الحلبیہ تالیف علامہ علی بن برہان الدین الحلبی۔ یہ جو روایات ہیں ان سب کتابوں میں یہ حدیث موجو د ہے جس کو حدیث کہا گیا ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اہل نجران پر ہلاکت آیا ہی چاہتی تھی اور اگر وہ مجھ سے مباہلہ کرتے تو بندروں اور سؤروں کی طرح مسخ کردیئے جاتے اور وادیٔ نجران آگ سے بھڑک اٹھتی اور لازماً اللہ تعالیٰ نجران اور اس کے باشندوں کو یوں نابود کرتا کہ درختوں کے پرندے تک ہلاک ہوجاتے اور عیسائیوں پر ایک سال بھی نہ گزرتا کہ وہ سب ہلاک کردیئے جاتے۔ اب اس حدیث کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوئے ہیں یہ بعد کے زمانے کا جو جوش ہوتا تھا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہانیاں بنانے کا اس دور کی گھڑی ہوئی حدیث ہے مباہلے میں بالارادہ کذ ب اور اصرار کرنے والے لوگ ہیں وہ مراد ہیں۔ درختوں کے پرندوں اور چڑیوں بے چاروں کا کیا قصور تھا۔ انہوں نے کون سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کذب پر ادعا کیا ہے جبکہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ چرند اور پرند اگر کچھ کرتے تھے تو تائید کیا کرتے تھے۔ اور اس قسم کی روایات اور قرآن آیات کا استنباط میں پہلے پیش کرچکا ہوں کہ صرف وہ انسان جس کو شعوری اختیار دیا گیا ہے وہ تکذیب کرے پھر اس نے تکذیب کی ہے ورنہ ساری کائنات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصدق تھی۔ تمام جانور مصدق تھے۔ اپنے اپنے رنگ میں تھے۔ اپنے شعور کے مطابق تھے۔ اس کی تفصیل اللہ بہتر جانتا ہے مگر یہ استنباط قرآنی آیات پر مبنی اور احادیث پر مبنی ہے کہ ان کو جس حد تک بھی شعور تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصدق تھے۔ مکذب نہیں ہوسکتے۔ وہ بے چارے کیوں مارے گئے۔ جو مصدق ہوں وہ بھی جل کر خاکستر ہوجائیں۔ پتے پتے پر قیامت ٹوٹ پڑے۔ یہ حدیث قطعیت کے ساتھ اپنے آپ کو غلط قرار دے رہی ہے ۔ یعنی منسوب ہے اور حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات نہیں فرماسکتے۔ ابن جریر میں زیر آیت مباہلہ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس ایک بشارت دینے ولا فرشتہ اہل نجران کے مباہلہ کرنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کی خبر لایا ہے۔ اگر وہ مباہلہ پورا کرتے تو ان کے درختوں کے پرندے اور درختوں کی چڑیاں تک ہلاک ہوجاتیں۔ یہ اسی کی تائید میں ہے۔
تفسیر ابن جریر میں حضرت ابن عباس کی ایک روایت سند احمد بن حنبل کے حوالہ سے دی گئی ہے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہودی اگر موت کی تمنا کرتے تو ہلاک ہوجاتے اور آگ میں اپنی جگہ دیکھ لیتے اور وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مباہلہ کرتے تھے نکلتے تو اس حال میں واپس لوٹتے کہ ان کے اہل اور مال موجود نہ ہوتے۔ اب یہ روایت وسیع روایت ہے۔ یہود کے متعلق جیسے قرآن کریم میں فرماتا ہے اللہ تعالیٰ۔ اگر وہ واقعۃً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ من ذالک جھوٹا کہتے اصرار کرتے ہوئے یہ تمنا کرتے کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہمیں خدا موت دے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر کہتے تو لازماً مر جاتے اس کے شواہد ہمارے پاس اس دور میں بھی بکثرت موجود ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف جس نے ایک قسم کا ادعا کیا توا پنی موت خود مرگیا لیکن اس روایت میں جو یہ ذکر ہے ’’واپس لوٹتے تو ان کے اہل اور مال موجود نہ ہوتے‘‘ اس میں کہاں اکٹھے ہوئے تھے جہاں سے وپس لوٹتے یہ کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ غلط بات منسوب ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائیوں کو ایک عام چیلنج ہے۔ کیا سب دنیا کے عیسائیوں نے ایک جگہ اکٹھے ہونا تھا اور پھر واپس لوٹنا تھا اور واپس لوٹ کر یہ دیکھتے کہ ان کے مال وغیرہ سب برباد ہوچکے ہیں۔ اور جب ان روایات میں ایک سال کابھی ذکر ہے تو واپس ایک سال میں لوٹتے۔ مدینہ سے نجران کا فاصلہ اور ایک سال کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادعا کہ ایک سال کے اندر ایسا ہوتا اور یہ حدیث کے جب وہ واپس لوٹتے تو دیکھتے کہ کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ توا ن بے چاروں کا سال کہاں گیا۔ سال کا وعدہ جو چھٹی دی گئی تھی اس کو تو اس حدیث نے اگر یہ درست ہے غائب کردیا ہے۔
لَوْخَرَجُوا لَاَحْتَرَقُوْا۔ یہ ابن جریر کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہوا ہے۔ کہ اگر وہ نکلتے تو جل جاتے۔ اور یہ بھی لکھا ہوا ہے جلالین میں ہے کہ اگر وہ لوٹتے تو جل جاتے۔ یعنی اگر وہاں بیٹھے رہتے تو نہ جلتے۔ لوٹتے تو جل جاتے۔ ایسی عجیب و غریب روایات اکٹھی کرلی گئی ہیں کہ علم درایت کے لحاظ سے کوئی غور نہیں کیا گیا اور میرے نزدیک یہ سب روایات رد کرنے کے لائق ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے کھول دیا ہے مرسل روایات۔ جو راوی گھڑے گئے وہ سب جھوٹے، جو مضمون بیان کیا گیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔ اگر ایک بات کو منسوب کرو تو دوسرری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسی منسوب کی جاتی ہے جو پہلی بات کو کاٹتی ہے ۔ پس یہ ساری روایات کلیۃً رد کرنے کے لائق ہیں۔ مباہلہ نے رسول خدا اور اہل بیت کی نصاریٰ نجران کے مقابل پر آنے کی روایات پر تحقیق کی ہے۔ احادیث صحیحہ اور معتبر تواریخ میں مباہلہ کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ہمراہ اہل بیت کو کسی میدان میں لانے کا ذکر نہیں۔ تمام صحیح کتب اور مستند کتب اور مستند تواریخ میں یہ ذکر ہی کوئی موجود نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اہل بیت کو ساتھ لے کر چلے تھے۔ البتہ صحیح مسلم کتاب الفضائل اور فضائل علی ترمذی میں یہ حدیث ملتی ہے جو سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے۔
مما نزلت ھذہ الایۃ۔ فقل تعالوا ندعوا ابناء نا وابناء کم دعا رسول آللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیا و فاطمۃ و حسنا و حسینا فقال اللھم ھو لاء اھلی۔ صحیح مسلم اور ترمذی میں یہ روایت موجود ہے لیکن ان کو لے کر نکلنے کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ فرمایا یہ میرے اہل ہیں۔ اور آیت مباہلہ میں اہل کا کوئی ذکر ہی کوئی نہیں۔ اس لئے یہ تصادم آپ خود دیکھ لیں۔ آیت مباہلہ میں اور الفاظ ہیں اہل کا کوئی ذکر نہیں۔ اہل کا ذکر اس آیت تطہیر میں ملتا ہے۔ پس اس روایت کے اندر جو اندرونی اختلاف پایا جاتا ہے یہ ثابت کررہا ہے کہ یہ روایت درست نہیں۔ اب راویوں کی چھان بین میں جائے بغیر اس بنیادی بات پر جو میں نے پیش کی ہے یہ روایات رد ہونے کے لائق ٹھہر جاتی ہیں۔ صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابہ میں اور ترمذی میں یہ روایات ہیں۔ یاد رکھیں۔ اور یہ روایات اپنے اندرونی مضمون کے لحاظ سے رد کئے جانے کے لائق ہیں۔ کیونکہ یہ مضمون قرآنی آیات سے ٹکرارہا ہے۔ اس لئے رد کرنے کے لائق ہیں۔ اسی تعلق میں یہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کا ذکر ملتا ہے اس تعلق میں مسلم کتاب الفضائل باب فضائل اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ روایت موجود ہے۔ میں نے کہا تھا نا صحاح ستہ میں ان چیزوں کا ذکر نہیں مگر جتنا بھی ذکر ہے وہ پیش کرنا ضروری ہے۔ وہ کیا ذکر ہے اور صحاح ستہ اس ذکر میں آپس میں کیا اختلاف کرتی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ہمارا موقف درست ہے اور وہاں ر وایات کو سمجھنے میں راویوں نے کوئی غلطی ہے ورنہ ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوتے۔ یہ روایت مسلم کتاب الفضائل باب فضائل اہل بیت سے لی گئی ہے یعنی رسول اکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک صبح نکلے۔ آپ کے اوپر سیاہ اون کی یمنی چادر تھی جس پر کشیدہ کاری کی گئی ہوئی تھی۔ دریں اثناء حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ آپ نے ان کو اس چادر میں داخل کرلیا۔ صبح کے وقت نکلے اور اس چادر میں داخل کرلیا پھر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی ساتھ داخل کیا خود نہیں بلایا کسی کو۔ کہ آؤ تم دو میرے ساتھ ہو یہ اتفاق ایسا ہورہا ہے اس روایت کے مطابق کہ پہلے وہ پھر ان کو داخل کرلیا پھر وہ آئے اور دن کے وقت نکلے ہیں۔ چل رہے ہیں اور بیچ میں داخل کیا جارہا ہے۔ پھر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی ساتھ داخل کیا۔ پھر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی داخل کیا۔ پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے۔ ان کو بھی ساتھ داخل کرکے سورۃ احزاب کی یہ آیت پڑھی۔ ’’اے اہل بیت اللہ تعالیٰ تم سے رجس اور ناپاکی کی دھول کو دور کرکے تمہیں پاک و صاف کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ آیت پڑھی جس کا آیات مباہلہ سے کوئی تعلق ہی نہیں اور یہ مضمون اتنا خوفناک ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جارہے ہیں۔ آہستہ آہستہ شامل ہورہے ہیں۔ چادر پھیلتی جارہی ہے۔ اس میں سارے لوگ بیچ میں چل رہے ہیں ساتھ ساتھ اور آیت وہ پڑھ رہے ہیں جو آیت مباہلہ والی آیت ہی نہیں ہے۔ پس یہ روایات اگرچہ بعض صحاح ستہ میں بھی راہ پاگئی ہیں۔ مگر ان پر غور کریں تو وہ روایات جس کا یہ بیان کیا جاتاہے غلط۔ لازماً غلط نکلتی ہیں اور مباہلہ سے ان کا بہرحال تعلق نہیں ہے۔ اگر تعلق ہے تو ایک اور آیت سے تعلق ہے جو مباہلہ سے پہلے نازل ہوچکی تھی اور اس تعلق میں بھی یہ روایات مجروح ہیں اور بہت غور سے دیکھا جائے تو یہ روایات قابل قبول نہیں رہتیں کیونکہ اسی مضمون پر ایک تو رستہ چلتے جانا اور یہ شامل ہونا۔ اور اسی مضمون پر اسی تعلق میں دو روایتیں ایسی ہیں۔ نہیں ایک روایت ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے عمر بن ابی سلمہ کی روایت ہے جس کے الفاظ ترمذی میں ہے جو ایک صحاح ستہ کی کتابوں میں سے ہے یہ روایت یوں ہے:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سورۃ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں اتری ہے۔ یہ آیت جو احزاب کی آیت ہے جو تطھیر کی ہے کہ اے ہل بیت للہ تعالیٰ تمہاری تطہیر کا وعدہ کرتا ہے اس کا فیصلہ فرمادیا ہے تو یہ کہتے ہیں حضرت عمر بن ابی سلمہ روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت احزاب کی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں اتری کہ اے اہل بیت اللہ تعالیٰ تم سے ناپاکی دور کرکے تمہیں پاک و صاف کرنا چاہتا ہے تم سے ناپاکی دور کرکے تمہیں پاک و صاف کرنا چاہتا ہے۔ اس کا نجران کے عیسائیوں سے کیا تعلق؟۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں وہاں بلایا، یہ نہیں کہ رستہ چلتے یہ واقعہ ہوا ہے۔ آپ نے حضرت فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ور چادر سے ان کو لپیٹ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کے پیچھے تھے۔ ان کو بھی آپ نے چادر اوڑھائی اور فرمایا۔ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ پس ان سے رجس اور ناپاکی کو دور کردے۔ یہ نہیں فرمایا اس روایت کے مطابق کہ ان میں کسی قسم کی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ فرمایا تو نے وعدہ کیا ہے کہ میں دور کروں گا۔ پس میرے اہل بیت تو یہ ہیں، پس میری دعا ہے کہ ان سے رجس اور ناپاکی کودور کردے۔ یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو زیب دیتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ کہتے ہوئے تردد ہوتا ہے۔ مشکل پیش آتی ہے کہ اہل بیت کی طرف کسی رجس اور ناپاکی کے احتمال کا بھی ذکر کیا جائے۔ مگر حدیث کے الفاظ یہی ہیں اسی طرح پڑھ کے سنارہا ہوں۔ یہ عرض کیا اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں حسب وعدہ ان سے رجس اور ناپاکی کو دور فرمادے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے اللہ کے نبی میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوں۔ اہل بیت کے لفظ کے خیال سے ان کو خیال آیا۔ آپ نے فرمایا تمہارا اپنا ایک مقام ہیے جو بہتر ہے۔ اب بتائیں ۔ اس حدیث کو لے کے شیعہ ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں۔ جو صحاح ستہ میں سے احادیث نکلی ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مضمون کی احادیث ہیں۔ دوسری اور تیسری روایت کو حاکم نے متروک ہیں حضرت ام سلمہ اور ایک صحابی حضرت واثلہ بن سلمہ ہے؟ یا جو بھی ہے حضرت واثلہ سے مروی ہے۔ روایت کیا ہے جس میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مذکورہ بالا مضمون ہی بیان ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کی حدیث میں حضرت علی کے گھر میں اس واقعہ کے پیش آنے کا ذکر ہے۔ اب یہ ایک اور اختلاف ہوگیا ایک روایت رستہ چلتے کا بیان کررہی ہے۔ ایک روایت ام سلمہ کی بات کررہی ہے۔ ایک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے جو کہتی ہیں کہ میرے گھر میں یہ واقعہ ہوا۔ اور ایک روایت یہ ہے جس کے مطابق واثلہ کی حدیث میں حضرت علی کے گھر میں یہ روایت ہے کہ حضرت علی کے گھر میں یہ واقعہ پیش آیا۔ یہ مستدر حاکم کتاب التفسیر میں اسی طرح درج ہے۔ یہ حال تو ان روایات کا ہے۔ جہاں تک در منثور السیوطی اور تفسیر روح المعانی کا ذکر ہے اس میں اسی قسم کی روایات اسی قسم کی روایات کے برعکس بھی ملتی ہیں۔ ان کو یہ شیعہ مصنفین چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر اس طرح کی مرسل روایات کو لینا ہے تو پھر اسی قسم کی دوسری روایات کو دیکھو ان کا تصادم تو نہیں ان سے۔ ایسی روایات الدرالمنثور السیوطی اور تفسیر روح المعانی میں یوں درج ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مباہلہ میں آپ کے اہل بیت کے علاوہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضوان اللہ علیھم اور ان سب کی اولاد کو بھی بلایا گیا تھا۔ اب یہ فرضی قصہ ہے دیکھ لیں۔ ان سب کو بلایا، ان سب کی اولاد کو بلایا گیا۔ اس قسم کی من گھڑت باتیں ہماری روایات شان نزول میں راہ پاگئی ہیں۔ ان کا دور سے بھی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ساتھ یہ درج ہے بلایا تو گیا تھا لیکن چونکہ نجران کے عیسائیوں نے دعوت مباہلہ قبول ہی نہیں کی بلکہ مباہلہ کرنے سے انکار کیا اس لئے ان سب کو مقام مباہلہ میں پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ یعنی پیغام بھیج دیا گیا تھا ان سب کو۔ کس کے ذریعے بھیجا، کب گیا کوئی ذکر کسی مرفوع حدیث میں کہیں نہیں ملتا۔ لیکن کہتے ہیں یہ لکھنے والوں نے کہانی تو بنانی ہے نا کوئی یہ کہتے ہیں کہ ان کو پیغام بھیجے گئے لیکن وہ پھر ضرورت نہیں پڑی بلانے۔ اب آیت مباہلہ کی طرف دوبارہ رجوع کرنے سے پہلے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق مباہلہ سے ہے مگر مختلف وقتوں میں، مختلف معانی میں اللہ کی ہدایت کے مطابق آپ نے یہ طریق اختیار کیا۔ا ور بنیادی سند ہر جگہ یہ لی ہے کہ جو دعویٰ کرنے والا ہے آیت مباہلہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اس کا فرض ہے کہ وہ سامنے کے فریق کے معزز لوگوں کو خود اپنی زبان سے سمجھادے اور خوب ان پر واضح کردے کہ میرا یہ موقف ہے۔ تب خداتعالیٰ کے مامور کے لئے مباہلہ جائز ہوتا ہے جب اس سے پہلے یہ بات کرلے۔ پس حضرت مسیح مووعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام مباہلہ کے مضامین میں یہ بات داخل ہے۔ آپ نے اس زمانہ میں اپنے آپ کو خداتعالیٰ کا نمائندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمائندہ اور زمانہ کا امام سمجھتے تھے اور یقین سے پر تھے کہہ میں وہی ہوں اس لئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ فرض تھا کہ اپنے عقیدہ کو کھول کر ان کے سامنے بیان کریں اور یہ آیت مباہلہ اسی ذکر سے شروع ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے بیان کیاہے اور پھر تفصیل بیان فرمادی۔ پھر مباہلہ دعوت دی ہے حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کا ترجمہ ایک ایسا ترجمہ فرماتے ہیں جس کی طرف بعض سنی علماء جو اس زمانہ کے علماء بھی ہیں ان کی بھی توجہ نہیں گئی اور انہوں نے اپنے حق میں استنباط کیا ہے وہ اس کی ضرورت نہیں تھی، آیت کا پورا منطوق سمجھ نہیں سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئینہ کمالات اسلام صفحہ 265 پر یہ ترجمہ کرتے ہیں ’’ان کو کہہ دو کہ آؤ م اور تم بمعہ اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں۔ پھر ان پر *** کریں جو کاذب ہیں۔
اب آیت مباہلہ کے الفاظ (وقت ختم ہوگیا ہے) اتنی جلدی؟ واقعی ہوگیا ہے اتنی سی بات کرلینے دیں چلیں۔ یہ بہت دلچسپ ترجمہ ہے بڑا گہرائی میں اتر کر کیا گیا ہے اس لئے احمدیوں کو خوب اس کو ذہن نشین کرلینا چاہئے۔ آیت کے الفاظ میں تو بیٹیاں نہیں آئیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں یعنی ان کے سمیت، معہ ان کے مباہلہ کریں۔ پھر ان پر *** کریں۔ بیٹیاں کہاں سے نکالا گیا ہے۔ اصل میں نساء نا ونساء کم کا ذکر ہے اور لفظ نساء یا قرآن کریم میں یا نساء النبی میں آپ کی بیویں پر اطلاق پاتا ہے یا نساء المؤمنین کا ذکر ہے اور جہاں نساء المؤمنین کا ذکر ہے وہاں غیرشادی شدہ، بچیاں شامل ہیں پس لفظ نساء کی اس وسعت کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹیوں کا ترجمہ فرمارہے ہیں کیونکہ یہ غلط استنباط ہے کہ نساء سے مراد صرف شادی شدہ عورتیں ہیں۔ صنف نازک مراد ہے۔ اور ان میں باکرہ خواتین بھی شامل تھی۔ پس اگر بچیاں بھی شامل ہوں تو یہ کہتا کہ اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور عزیزوں کو مباہلہ کے لئے بلائیں یہ بعینہٖ درست ہے اور اس وسعت اور گہرائی سے دوسرے سنی علماء کی اس آیت پر نظر نہیں گئی۔ چنانچہ وہ بیٹیوں کے لفظ کے فقدان کے نتیجہ میں یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شامل ہوہی نہیں سکتیںکیونکہ وہ بیٹی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شامل ہوسکتی تھیں مگر اس صورت میں کہ ساری نساء شامل ہوں اور ان میں شادی شدہ بھی ہوں اور غیر شادی شدہ بھی ہوں۔ اس لحاظ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شامل ہونے کی نفی نہیں فرمارہے بلکہ داخل ہونے کے امکان کے اوپر ایک قطعی دلیل دے رہے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ باقی کل انشاء اللہ آج تو میرے نزدیک اتنا تیزی سے وقت گزرا ہے کہ میں حیران ہوں یہ سن کے کہ وقت ہوگیا ہے۔ ہیں؟ ہاں تفصیل سے سمجھانا بھی پڑتا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھاجی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
29 رمضان۔ 28 جنوری 1998ء
فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰٰذِبِیْن۔ (سورۃ آل عمران 62)
یہ وہ آیت مباہلہ ہے جس کے تعلق میں درس کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اقتباس سے استنباط کیا تھا کہ بیٹیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے۔ لیکن مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دو نقطے جو ایک طرف مٹے مٹے سے مجھے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نقطے ہیں ہی نہیں نشان سے ہیں اور میں نے اس کو بیٹیوں پڑھ لیا اس لئے اس کی تصحیح سب سے پہلے ضروری ہے۔ آئینۂ کمالاتِ اسلام صفحہ 265 پر یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبارت تھی، لیکن اس کو بیٹوں پڑھنے کے بعد، عبارت کا ظاہری ترجمہ بالکل درست ہوجاتا ہے، لیکن میرا استنباط اپنی جگہ قائم ہے۔ اس استنباط پر فرق نہیں پڑتا کیونکہ نسآء لفظ کو میں مردوں اور عورتوں دو جنسوں کو رکھتا ہوں اپنے پیش نظر اور اسی وجہ سے شاید میرا رجحان تھابیٹیاں پڑھنے کا، تو میں نے بیٹیاں بھی پڑھ دیا۔ یہ وجہ اگرچہ عام عربوں کو شاید قبول نہ ہو عربوں کا یہ خیال ہیء کہ وہ نسآء کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو نسآء میں بیٹیاں نہیں آیا کرتیں بلکہ بیویاں اول درجے پر اور جب کہا جائے کہ نسآء المؤمنین تو اس میں بھی غالباً مومنوں کی بیویاں یا عورتیں مراد ہیں، لیکن جب ہم بیٹے کہتے ہیں تو ساری قوم کے مرد مراد ہوا کرتے ہیں اور صرف اپنے صلبی بیٹے مراد نہیں ہوتے اس پہلو سے میرا استنباط Independently اپنے طور پر یہی تھا یہی اب بھی ہے کہ نسآء المؤمنین میں بچیاں بھی شامل ہیں ایسی عورتیں شامل ہیں جن کے نکاح نہ بھی ہوئے ہوں، شادی نہ بھی ہوئی ہوئی ہو اور یہ میرے نزدیک اس لئے ضروری ہے کہ ساری قوم پھر داخل نہیں ہوگی۔ مرد تو سارے داخل ہوجائیں گے اور قوم ساری داخل نہیں ہوگی۔ اس لئے میں ابھی بھی یہ سمجھتا ہوں کہ نسآء لفظ جو عام بولا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں دونوں جگہ استعمال ہوا ہے یا نسآء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یا نسآء المؤمنین۔ جب نسآء المؤمنین کہا گیا، تو میںاس کا مطلب یہی سمجھتا ہوں کہ مومنوں کی بیویاں صرف مراد نہیں بلکہ مومنوں کی عورتیں جو ان کے گھروں میں ہیں بالمقابل جنس مرد کے، اس لئے اگر کسی کو اس موقف سے اختلاف ہو بھی تو میرے نزدیک یہ اس آیت کے منطوق کے عین مطابق ہے جس پر بحث ہورہی ہے۔ اس میں قوم کے مرد اور قوم کی عورتیں، بیٹے اور بیٹیاں، جسے ہم قوم کی بیٹیاں کہتے ہیں اس پہلو سے میں ان کو داخل ہی سمجھتا ہوں اور جو اہل زبان ہیں ان کو اختلاف کا حق ہے، مگر اس صورت میں مباہلہ غیرمتوازن ہوجائے گا کیونکہ مرد تو ہرقسم کے شامل ہوں گے اور عورتوں کا ایک حصہ بیچ میں سے نکل جائے گا، حالانکہ مباہلے میں جو اصل مضمون پیش نظر ہے وہ پوری قوم ہے۔ ہماری قوم کا ایک جتھہ اور تمہاری قوم کا ایک جتھہ یہ دونوں نکل آؤ۔ اس لئے وہ درستی تو میں نے کردی کہ بیٹیوں کا لفظ یہاں نہیں ہے، مگر جو میرا مسلک ہے وہ اپنی جگہ اسی طرح اس بناء پر قائم ہے جو دلائل اب میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
مباہلے کے متعلق ایک اقتباس ایسا ہے، جس کے متعلق، جس کی طرف میری توجہ پھیری گئی ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک خط سے جو میر کیا نام تھا؟ عباس علی شاہ۔ ان کے نام وہ خط ہے۔ کہاں ہے وہ خط؟ یہ ساری جو بحث گذری ہے اس میں ان روایات کی میں نے تردید کی ہے بڑی سختی سے جو شیعہ روایات ہیں اور جو مسلمان سنی لٹریچر میں بھی راہ پاگئیں اور آیت کے ظاہری منطوق سے بالکل ٹکرارہی ہیں۔ میری توجہ ایک ایسی روایت کی طرف پھیری گئی ہے ، جو میرعباس علی لدھیانوی کے نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک خط سے تعلق رکھتی ہے جو 1883ء میں آپ نے اس کے نام بھیجا۔ اس ذکر میں حضرت مسیح موعو علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔
’’ظاہر ہوتا ہے کہ انوارِ روحانی کا ایک سخت چمکارا بے گانۂ محض پر بھی جاپڑتا ہے جیسے ایک عیسائی نے جبکہ مباہلہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معہ حسنین و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عیسائیوں کے سامنے آئے، دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا مباہلہ مت کرو۔‘‘
یہ روایت وہ روایت ہے جو سنی لٹریچر میں راہ پاگئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس روایت کو مباہلے میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسنین اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شمولیت کے طور پر پیش کیا ہی نہیں۔ یہ لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔ یہ بحث ہی نہیں ہے۔ نہ مباہلہ کی کوئی بات ہوئی، نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے 1886ء سے پہلے سرمۂ چشمِ آریہ کے علاوہ مباہلے کا کوئی ذکر فرمایا ہے۔ یہ 83ئ؁ کی تحریر ہے جب مباہلہ خواب و خیال میں بھی کوئی نہیں تھا۔ یہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عشقِ رسول پر دلالت کرنے والی تحریر ہے نہ کہ مباہلہ کی منطقی بحث میں استعمال کرنے کی بات۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اگر اس روایت کو سچا سمجھتے، تو اپنی مباہلے کی تحریروں میں کسی ایک جگہ بھی اس کو داخل فرماتے، کسی تحریر میں جو مباہلے سے تعلق رکھتی ہو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس روایت کو شامل نہیں فرمایا۔ جو عشقِ رسول والی بات ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حسن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر پڑتی تھی ایک حرص کے ساتھ کہ یہ بھی ہے آپ میں۔ یہ بھی ہے اور اپنے محبوب کے حسن کے جلو میں آپ کھوجاتے تھے اس روایت کا یہ مفہوم بنے گا کہ اگر یہ روایت سچی ہے گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں یہ بنے گا۔ اگر یہ روایت سچی ہے تو اس کا صرف یہ نتیجہ نکالنا جائز ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن پر نگاہ پڑکے آپ کے جلال و جمال پر نگاہ پڑ کے دشمن بھی مرعوب ہوگئے اس سے زیادہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، اس لئے جب میں ان روایات کو قرآن کریم کی رو سے رد کروں گا، تو نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے موقف کے خلاف نہیں ہوگا، کیونکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اصل موقف جو کتابوں میں چھپ گیا ہے ان میں کسی مباہلے کے ذکر میں آپ نے اس روایت کا ذکر نہیں فرمایا۔ محض اس موقعے پر ذکر فرمایا ہے کہ دیکھو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن اگر یہ روایت سچی ہو تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن نے غیروں کو بھی مرعوب کردیا۔ اس سے زیادہ کوئی نتیجہ نہیں ہے اس لئے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ گویا یہ اس کے خلاف ہے۔
اب جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا میرے نزدیک نسآء میں بچیاں بھی اس لحاظ سے داخل ہیں کہ وہ لڑکیاں جو بعض دفعہ بڑی عمر کو بھی پہنچ جاتی ہیں یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ بچی سے مراد ہمیشہ گھر میں پلنے والی بچی نہیں ہوا کرتی، بلکہ نسآء میں وہ عورتیں داخل ہیں جو اپنے حیض سے مایوس ہوچکی ہوں۔ قرآن کریم میں جہاں حیض سے محرومی کا ذکر ہے، وہاں نسآء کی بحث ہورہی ہے کہ نہیں نکالیں وہاں سے پس قرآن کریم میرے مسلک کی تائید کرتا ہے۔ بہت سی ایسی عورتیں ہیں جو بڑی عمر کو پہنچ جاتی ہیں ساٹھ ساٹھ ستر ستر سال کی کنواری عورتیں اب ان کو داخل کرو گے کہ نہیں نکالیں وَالّٰیٔ یَئِسْنَ مِنَ الْمحیضِ مِنْ نِسَآئِ کم اِنِ ارتبتم فعدّتُھنّ ثلاث اشھُر وَالّٰیٔ لَمْ یَحِضْنَ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اجلھنّ ان یضَعْنَ حَمْلَھُنَّ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا۔ ذٰلِکَ اَمْرُاللّٰہِ انزلَہٗ الیکم و من یتق اللہ۔ یہ نہیں ہے وہ۔ جہاں وہ عورتیں جو حیض سے محروم رہ جائیں۔ شادی شدہ کے علاوہ ان عورتوں کا کہاں ذکر ملتا ہے اسی تعلق میں وہ ذکر موجود ہے جو میرے ذہن میں ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ کیا اہل زبان ان عورتوں کو جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گئی ہوں اور شادی نہ کی ہو اور حیض کا آنے کا سوال ہی نہ رہے پردے کے تعلق میں ان کا ذکر ہے۔ ایسی عورتیں اگرچہ اس عمر کو پہنچیں گی، مگر ان سے پردہ نہیں کیا جائے گا جب وہ بالکل مایوس ہوجائیں حیض سے بھی۔ سمجھے ہیں؟ وہ عوتیں ہیں کہ نہیں۔ نسآء میں داخل ہیں کہ نہیں اور کنواریاں بھی ہیں اور کنوارے رہتے رہتے اس عمر کو پہنچ گئیں کہ پھر حیض آبھی نہیں سکتا۔ اس وقت وہ پردے میں ڈھیل کردیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہاں ہاں یہ آیت ہے، اس لئے اللہ کے فضل سے جو قرآن کریم کی جگہوں کی یادداشت ہے مضامین کی وہ میری بالکل پختہ ہے اگرچہ حوالہ فوراً اس طرح نظر نہیں آتا جیسے حفاظِ قرآن کو نظر آجاتا ہے۔ یہ ہے وہ۔ والقواعد من النسآء التی لایرجون نکاحا فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجات من زینۃ و ان یستعففن خیر لھن۔ یہ آیت ہے قطعی ثبوت اس بات کا جو میں پیش کررہا ہوں۔ نسآء کے لفظ میں قرآن کریم ایسی معمر عورتوں کو داخل فرمارہا ہے۔ اتنی قطعیت کے ساتھ کہ کوئی ذی ہوش اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ داخل فرمارہا ہے جن کی عمر اتنی آگے بڑھ گئی کہ حیض آنے سے ہی مایوس ہوچکی ہیں۔ ان کو اجازت ہے کہ اپنی اوڑھنیاں ڈھیلی کرلو۔ اتارلو۔ اور پردہ ایسا سخت نہ کرو۔ اب بتائیں یہاں لفظ نسآء ہے کہ نہیں۔ پس اہل عرب جو چاہیں کہیں۔ میں تو قرآن کا غلام ہوں۔ قرآن کریم نے جب لفظ نسآء میں غیر شادی شدہ عورتوں کو داخل فرمایا ہے اور یہ آیت اس کا قطعی ثبوت ہے پھر جو چاہے جتنا مرضی لغت کے اعتراض کرے مجھے اس کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں۔ پس میرا نسآء سے استنباط اس بنا پر بہت قطعی تھا۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر میں لفظ بیٹیوں پڑھا گیا، مگر میں جانتا ہوں کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جیسی قرآن کے معارف پر نظر تھی ویسی کسی اور کی نہیں ہے۔ اس لئے آپ لفظِ عورت کو ان معنوں میں نساء لے رہے ہیں جو میں بیان کررہاہوں سمجھ گئے ہیں؟ اس لئے اب یہ جھگڑا تو اب ختم ہوگیا۔ اب میں باقی حصہ شروع کرتا ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے مختلف دعوتیں دی گئی ہیں مباہلہ کی۔ اس کی تفصیل اس جگہ درج ہے، جو 25 آدمیوں کی فہرست ہے اور ان کا انجام بھی بتایا گیا ہے۔ ایک اور جگہ، وہ کون سی ہے بہتّر والی پچھتّر والی فہرست جو سارے کے سارے زندگی میں ختم ہوئے ہیں۔ کیوں جی؟
ایک فہرست شائع ہوئی ہے۔ یہ کون سی کتاب کے آخر پہ ہے؟ انجام آتھم؟ روحانی خزائن انجامِ آتھم جلد 11 صفحہ 64 تا صفحہ 72۔ اس میں ایک فہرست شائع ہوئی ہے جو مباہلے کے ایک ایسے مضمون پر بھی روشنی ڈالتی ہے جس میں مدت کا معین ہونا مباہلہ والے کی عمر، مباہلے کی دعوت دینے والے کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ صرف سال یا دو سال کی بحث نہیں ہوتی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریروں میں جہاں سال کا ذکر ہے وہاں مسلمان ابرار اور صلحاء کی سنت کا حوالہ دیا گیا ہے، ان کے نزدیک ایک سال کی مدت ضروری ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بطور مامور من اللہ جو مباہلے کی دعوت دی اس میں ان سجادہ نشینوں کے نام درج ہیں۔ تمام کے نام درج ہیں جن کو یہ دعوت دی گئی ہے اور اس کا انجام یہ ہوا ( وہ کہاں ہے؟ وہ پھر سارے مرگئے۔ ہیں؟ سارے مرگئے۔ وہ دکھائیں نا ان کی تو ضرورت ہے یہ سارے نام جن کی فہرست انجامِ آتھم کے آخر پر درج ہے سجادہ نشین اور مولویوں پر مشتمل ہے۔ بڑے بڑے چوٹی کے سجادہ نشین، بڑے بڑے چوٹی کے مولوی ان سب کا نام تھا۔ مرنے والے کہاں گئے؟ حقیقۃ الوحی کی اشاعت کے وقت جو 1907ء میں ہوئی مولویوں میں سے جن کی فہرست کتنی لمبی ہے؟ لکھا ہوا ہے۔ ہاں اس ساری تحریر میں یہ ساری بات کھل کر سامنے آجائے گی۔ پھر یہ سلسلہ مضمون کا یہاں ختم ہوجائے گا۔ انجامِ آتھم 1896ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولویوں، پیروں اور سجادہ نشینوں کو نام بہ نام دعوتِ مباہلہ دی تھی۔ یہ میں نے فہرست آپ کو دکھادی ہے عمومی طور پر۔ ان کی تعداد 106 ہے۔ 106 مولویوں اور سجادہ نشینوں کے نام آپ نے لکھے ہیں۔ مولوی 58 تھے اور پیر فرتوت وغیرہ 48۔ فرتوت کا لفظ میرے منہ سے نکل گیا ہے۔ پیر وغیرہ 48 تھے، تو یہ کل 106 بنتے ہیں۔ اب اندازہ فرمائیں مباہلے کا جلال۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کثرت سے لوگوں کو مباہلہ کے چیلنج دے رہے ہیں کہ کوئی بڑا مولوی یا پیر باقی نہیں چھوڑا اور کامل یقین ہے کہ اپنی زندگی میں خدا مجھے کامیاب کرے گا اور ان کو نامراد کرکے دکھادے گا۔ یہ ہے مباہلہ اصل اور اس مباہلے میں ان سب کا آمنا سامنا ہونا بھی ضروری نہیں تھا اس لئے یہ جو خیال کرتے ہیں مولوی یا بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض تحریرات سے استنباط کرتے ہیں کہ گویا آمنا سامنا ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے۔ ضروری ہے اس مرسل کے لئے جو خدا نے بھیجا ہو۔ اور اس کے لئے اپنا موقف بیان کرنا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا، لیکن مباہلے کے متعلق قطعیت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بہرحال لکھ چکے ہیں اور میرے سامنے یہ مثال موجود ہے کہ ان کا اکٹھا آمنے سامنے ہونا ضروری نہیں تھا۔ ان کو مباہلے کا جو چیلنج دیا گیا ہے اس کا چیلنج عمر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے پس سال والی شرط بھی اب پیش نظر نہیں ہے نہ جگہ کی شرط پیش نظر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی عمر کے اندر ان لوگوں کے رسوا ناکام اور ذلیل ہونے کا دعویٰ کررہے اور 106 مولوی اور سجادہ نشین اس فہرست میں شامل ہیں جو سارے ہندوستان میں پھیلے پڑے ہیں اور کامل یقین ہے کہ میں اکیلا موت کا شکار نہیں ہوں گا جب تک ان میں سے بھاری اکثریت پہلے موت کا شکار نہ ہوچکی ہو۔ یہ دعویٰ کسی انسان کا خدا سے تعلق کے بغیر کام ہے؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا پس مباہلہ کے متعلق یہ مولوی جتنا چاہیں شور مچائیں۔ اس بات کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مباہلے کے نتیجہ میں یہ وبال اتنوں پر ٹوٹا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی عمر کے ایک بڑے حصے کو پہنچ چکے تھے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کلیۃً بے خوف زندگی گزار رہے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ آپ کو آپ کی زندگی میں دشمنوں کی رسوائی دکھائے گا۔ یہ ہے وہ ساری تحریر جس کا پس منظر میں نے بیان کردیا اب غور سے سن لیجئے۔
نام بنام دعوتِ مباہلہ دی تھی ان کی تعداد 106 مولوی 58 پیر 48 اور حقیقۃ الوحی کی اشاعت کے وقت ، جو 1907ء میں ہوئی مولویوں میں سے صرف 20 زندہ تھے۔ 106 جن کو دعوت دی گئی تھی۔ حقیقۃ الوحی میں اگرچہ تعداد 52 لکھی گئی ہے، مگر دراصل جیسا کہ ہم نے یہاں لکھا ہے 58 مولویوں کے نام درج ہیں اور وہ دیکھ کر ہمارے علماء نے نکالے ہیں۔ وہ کہیں غلطی سے لفظ 58، 52 ہوگیا ہے، جیسا کہ یہ غلطیاں اس قسم کی میں بھی کرجایا کرتا ہوں، گویا 2/3 مولوی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلہ کے چیلنج کی نظر ہوچکے تھے۔ یہ سارے اکابر علماء تھے، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلے کے اعلان کے نتیجہ میں مرگئے اس کتاب کی اشاعت تک اور پھر وہ باقی ہیں بیچ میں سے۔ جو بچے تھے، جو اس حقیقۃ الوحی کی اشاعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں موت کا شکار ہوگئے۔ پس یہ خیال کہ صرف 2/3 مرے تھے یہ غلط خیال ہے اور آگے حقیقۃ الوحی میں بعض ان لوگوں کے نام موجود ہیں کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے ذاتی طور پر نکلے ہیں۔ اور انہوں نے گویا اپنی طرف سے چڑھائی کی ہے۔ وہ بھی اس دور میں سارے مارے گئے، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں حقیقۃ الوحی کی اشاعت تک 2/3 مرچکے تھے اور باقی اکثر آپ کی زندگی میں مارے گئے۔ جو چند بچے ہیں۔ گنتی کے چند۔ ان کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتا کہ انہوں نے دل میں توبہ کرلی تھی یا نہیں کی تھی کیونکہ وہ خاموش ہوکر پیچھے ہٹ گئے اور غائب ہوگئے۔ جس نے بھی جرأت دکھائی بے باکی دکھائی۔ آگے بڑھا وہ مارا گیا۔ طاعون سے پکڑا گیا یا کسی اور بیماری سے مارا گیا۔ یہ خلاصہ ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلے کا۔ پس وہ تحریر جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر دکھادی ہے۔ عورتوں والی بھی اور وہ دوسری بھی اس کاجو ابہام کسی کے ذہن میں تھا اس کا میں جواب دے چکا ہوں۔ نساء سے مراد مسلمان عورتیں ساری کی ساری ہیں۔ خواہ وہ بیاہی ہوں یا بیاہی نہ ہوں اور قرآن اس پر گواہی دیتا ہے۔ عورتوں کا لفظ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام استعمال فرماتے ہیں تو قرآن کے اس بیان کے مطابق فرماتے ہیں، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بڑھ کر قرآن کریم پر اور کسی کی نظر نہیں تھی۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے آپ لوگوں پر اب کھل گئی؟ جزاک اللہ
اب بہت سی مباہلے کی ایسی تحریریں ہیں، جو اگر میں پڑھتا انفرادی طور پر، تو مختلف مواقع پر ان بحثوں میں الجھ کر۔ یہ کب ہوا تھا۔ کس طرح ہوا تھا۔ نذیر سے کیا ہوا مباہلہ ہوا اور فلاں ہندو آریہ سے کیا ہوا؟ یہ بہت سی تفاصیل میں جانا پڑے گا اور یہ مرکزی بات رہ جائے گی جو میں نے اب بیان کی ہے اس لئے ان سب روایتوں کو میں چھوڑ رہا ہوں۔ یہ آخری دو ٹوک بات ہے کہ مباہلہ میں ایک سال بھی مدت ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ابرار کی سنت کے مطابق میرا یہ اندازہ ہے کہ ایک سال کی مدت سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں فرمایا، سنتِ علماء اور ابرار جو پہلے گزر چکے ہیں وہ فرمایا ہے کتنی محتاط زبان ہے لکھنے کی اور فرمایا ایک سال کی مدت بھی ہے لیکن اپنا جو مباہلہ کیا ہے آخری، اس میں تمام علماء شامل ہوگئے ہیں جگہ کی کوئی تعیین نہیں اور ایک سال کی مدت کا کوئی ذکر نہیں۔ مدعی کی زندگی میں یہ واقعہ ہونا ضروری ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اس آیت میں سال کا ذکر نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اگر وہ مباہلہ کرنے کی جرأت کرتے، تو سال کی بحث نہیں تھی ایک ایک بھی ان میں سے ہر ایک ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں پکڑا جاتا۔ یہ ہے اصل استنباط۔ پس زندگی اور سال کے متعلق جو ابہام لوگوں کے دلوں میں ہے وہ اس وجہ سے دور ہوجانا چاہئے۔ جہاں آپ نے فرمایا اسی مجلس میں مناظرہ کرلو۔ ایک موقعہ پر۔ مباہلہ کرلو۔ اس مباہلے میں آپ نکلے ہیں اور پہلے اپنے دعاوی پر تقریر فرمائی اور تقریر فرمانے کے بعد چونکہ دشمن سامنے نہیں آیا اس لئے آپ نے لعان کیا ہے اپنے اوپر کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ لعان ہے اور وہ دشمن جو سامنے نہیں آیا اس پر لعان نہیں فرمایا وہ ان کا اپنا کام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اوپر فرمادیا کہ اگر نعوذ باللہ من ذلک تم کہتے ہو کہ میں جھوٹا ہوں اور تم اس دعوے میں سچے ہو تو پھر خداتعالیٰ کی تقدیر تمہیں دکھادے گی کہ مجھ سے کیا بنا اس پر سالہا سال آخری وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی گواہ ہے کہ اس کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کوئی نعوذ باللہ من ذلک *** نہیں پڑی بلکہ مدِّمقابل پر طرح طرح کی لعنتیں پڑیں۔ یہ عمومی مباہلہ ہے جوہم نے بھی دشمن سے کیا تھا اور اس مباہلے کو گزرے ہوئے کتنی مدت گزر چکی ہے جو پہلا میں نے مباہلے کا چیلنج دیا تھا۔ کس سن میں تھا؟ 10 جون 1988ء اور آج کیا ہے؟ 1997ئ۔ 98ئ؁ ہوچکا ہے۔ 10سال گزر گئے ہیں۔ اس دس سال میں اللہ تعالیٰ اگر مجھے جھوٹا دیکھتا تھا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعووں کی تصدیق میں جھوٹا دیکھتا تھا اور دشمن کی تعلّی ہی درست تھی تو ہم اپنے اوپر *** تو ڈال ہی چکے تھے اس لئے یہ کہنا کہ ہم مباہلے کے لئے نہیں نکلے یا ہم نہیں نکلے یا وہ نہیں نکلے بہانہ جوبھی ہو۔ یہ اس لئے غلط ہے کہ ہم *** ڈال چکے تھے اور اللہ کے علم میں ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک ایک جھوٹا اپنے اوپر *** ڈال رہاہے۔ یہ پوری کیوں نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ وہی *** قبول کرے گا جس میں مولویوں کی *** بھی داخل ہو؟ ایک دعویٰ دار خود مباہلے کا اعلان کررہا ہے اور *** ڈال رہا ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ *** مجھ پر اور میری جماعت پر پڑے اور جن جن لعنتوں کا ذکر ہے اس کی تفصیل شائع ہوئی ہے اور ان میں سے ایک *** بھی اس دس سال کے عرصے میں نہ مجھ پر پڑی نہ میری جماعت پر پڑی۔ اب بتائیں مولوی مباہلہ کو کہاں لے جائیں گے اس لئے ان سب باتوں کے بیان کے بعد اب میں اس آیتِ کریمہ کو دوبارہ پڑھتا ہوں اور اس سے بے تکلف وہ استنباط کروں گا جو میں اس سے ہمیشہ کرتا رہا ہوں۔اس ضمن میں مجھے یاد نہیں کہ نزول کی بحث کے وقت اس کا خیال آیا تھا یا ویسے ہی میں چاہتا تھا یہ تو درست ہے کہ میں ویسے ہی چاہتاتھا کہ آج چونکہ مباہلے کا سال ختم ہورہا ہے۔پہلا ختم ہوا دوسرا سال شروع ہوگیا ہے، تو میں کچھ روشنی ڈال دوں اس پر، تو ہوسکتا ہے کہ نزول کی بحث سے میرا دماغ اس طرف منتقل ہوکہ اس میں اس کو داخل کرلوں اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے نزول کی بحث سے اس کا گہرا تعلق ہے اس لئے خواہ اس وقت نیت کچھ بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ نزول کی بحث میں اس آیت کی بحث نہایت برمحل ہے اب سنئے
ومن حاجک فیہ من بعد ماجاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم و نساء نا ونساء کم یہاں آیت کا ظاہری منطوق یہ ہے کہ پس تیرے اس اعلان کے بعد جو تونے کیا ہے اس مجلس میں یعنی نجران کے عیسائیوں کے سامنے جو تو نے اپنا موقف پیش کیا ہے اگر اس کے بعد بھی تجھ سے کوئی جھگڑا کرے۔ من بعد ماجاء ک من العلم بعد اس کے کہ تجھ پر اللہ کی طرف سے یہ واضح علم آچکا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں اور تو سچا ہے۔ تیرے اس علم کو پالینے کے بعد اگر پھر بھی کوئی جھگڑا کرے، تو اس وقت پھر اس جھگڑے کے نتیجے میں بحث بے کار ہے۔ اس جھگڑے کے نتیجے میں ایک دوسرے پر یا خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنے موقف کے تعلق میں لعان ضروری ہے۔ یہ مباہلہ ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب نجران کے ایک وفد کے لیڈروں کے سامنے اپنا موقف کھل کر بیان فرمادیا اور اس موقف کے بعد یہ خدا کی طرف سے اعلان فرمایا کہ فقل تعالو ندع ابناء نا و ابناء کم تو اس میں ابناء قوم کے مردوں کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم میں لفظ ابناء استعمال ہوا ہے۔ ابنائے آدم کا بھی ذکر ملتا ہے۔ غرضیکہ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے لفظ ابنآء کے عمومی استعمال کے تابع یہ آیت ہے۔ تم اپنے مردوں کو بلالو، جو بھی مرد کہلانے کے مستحق ہیں، جو بالغ ہوجائیں وہ بھی مرد بن جاتے ہیں اور نسآء کو بلالو اور نسآء سے مراد وہی ہے جو میں کھول کے بات آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں وانفسنا و انفسکم اور ہم اپنے نفوس کو اور تم اپنے نفوس کو بلالو۔ اس میں اگر کسی کو یہ شک گزرا ہو کہ ابناء اور نساء میں عام لوگ مراد نہیں ہیں تو لفظ انفسنا اور انفسکم نے اس کو خوب کھول دیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ تم اپنی جانیں جتنی بھی ہوں یعنی پوری قوم کی نمائندگی کرنے والی ان کو بلاؤ اور ہم اپنی جانوں کو بلالیتے ہیں، لیکن ندع میں بلانے سے کیا مراد ہے۔ یہ تو مباہلہ اس آیت کی طرف منسوب ہو نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہو اللہ کے فرمان کے مطابق کہ اے اہل نجران اپنے گھر پیغام بھیجو اور تمہارے علاقے میں جتنے بھی مرد اور عورتیں بستے ہیں اور جتنی بھی جانیں ہیں وہ ساری کی ساری یہاں اکٹھی ہوجائیں۔ یہ مطالبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کرنا اور خدا کے حکم سے منسوب کرنا بے حد جہالت ہے یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا موقف اختیار کیا ہو جو ظاہراً پورا ہوہی نہ سکتا ہو اور اگر عیسائیوں کو چیلنج دیا جیسا کہ اگلی آیات بتارہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بحث ہے تو پھر تو ساری دنیا کے عیسائی اس میں شامل ہوجانے چاہئیں۔ نجران کے لیڈر ان کے عیسائیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے عیسائیوں کو قرآن کریم کہہ رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان میں کہ آجاؤ ان کو بلالو۔ یہاں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوہی نہیں سکتا۔ نہ اس وقت کے سارے مسلمان اس جگہ اکٹھے ہوسکتے تھے۔ یہ ناممکن بات ہے اور خلافِ عقل بات ہے اس لئے نعوذ باللہ من ذلک اس خلافِ عقل بات کو قرآن کی طرف منسوب کرنا خلافِ عقل لوگوں کاکام ہے کوئی ذی شعور انسان، جو قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کو اپنے دل میں رکھتا ہو وہ یہ ترجمہ اس آیت کا نہیں کرسکتا۔ ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللہ علی الکذبین یہ نہیں فرمایا کہ ایک دوسرے پر *** ڈالو۔ فرمایا لفظ الکٰذبین کو پکڑلو۔ اس میں تو کسی کو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا۔ جھوٹوں پر خدا کی *** یہ تو ایک عام مضمون ہے جو سارے قرآن میں چل رہا ہے اور اس موقعے پر لعان ہی ہے دراصل جو مرکزی نقطہ ہے ان آیات کا۔ اور صرف جھوٹے پر *** کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جب جھوٹوں پر *** ہو، تو وہ جھوٹے نمائندہ ہونے ضروری ہیں ورنہ مباہلے کی یہ آیت اپنے منطوق کے لحاظ سے بے معنی ہوجائے گی اس لئے یہ دوسرا پہلو اس سے نکلتا ہے کہ اگر سرداروں کو مباہلے کا چیلنج دیا گیا ہے تو اسی صورت میں ممکن ہے کیونکہ قوم ان کے ساتھ ہے۔ اگر ان کی قوم ان کے ساتھ ہے اور ان کو سردار سمجھ کر یہ اختیار دیتی ہے، تو پھر یہ مباہلے کا چیلنج معنے رکھتا ہے۔ اگر قوم ان کو اختیار ہی نہیں دیتی تو پھر یہ مباہلے کا چیلنج کوئی معنے ہی نہیں رکھتا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو سارے عرب میں تمام مسلمانوں کا راہنما ہونے کا، روحانی امام ہونے کا اختیار تھا۔ ان لوگوں کو یہ اختیار بھی نہیں تھا جن کو وہ چیلنج دیا گیا ہے ان کو نجران کے ایک محدود علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کا اختیار تھا اور جن پر اختیار تھا ان کو بھی وہ بلانے سے معذور تھے۔ پس بلانے سے مراد اعلانِ عام مراد ہے۔ ان سب کر پیش نظر رکھ کر جن کے تم نمائندہ ہو اعلانِ عام کرو کہ ہم ان کی نمائندگی میں آپ کو ہر اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں جو آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ آپ نے اپنے آپ کو جھوٹا سمجھنے کے باوجود یہ اعلان کیا ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہے جو بڑی قطعیت سے ثابت شدہ ہے۔ پس اگر نعوذ باللہ من ذلک ایک مدعی کوئی دعویٰ کرتا ہے اور اپنے موقف کو کھول دیتا ہے اور مخالف سے لوگ اس کو جھوٹا سمجھنے کے باوجود، اس خیال کے باوجود کہ وہ جان کر جھوٹ بول رہا ہے اپنے موقف پر اصرار کرتے ہیں، تو ان سے اس قسم کے مباہلے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا، لیکن مباہلہ قوم کے نمائندوں سے ہوگا۔ اس قوم کے نمائندوں سے ہوگا جو ان کو اپنا نمائندہ تسلیم کرتے ہوں اور مباہلے کے لئے وہاں اکٹھا ہونا ضروری نہیں ہے جیسا کہ نجد کے وفد کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سارے وہاں اکٹھے ہوجاتے پس ندع میں ایک اعلانِ عام ہے تم اپنے ماتحت ساری قوم کو شامل کرلو ہم اپنے ماتحت ساری قوم کو شامل کرلیتے ہیں۔ مرد اور عورتیں، بیاہتہ اور غیربیاہتہ جو بھی ہماری قوم کا سرمایا ہے یہ سارا اس مباہلے کا شکار ہوگا اگر مباہلہ کرنے والا جھوٹا نکلا اور عمر کی وجہ جیسا کہ میں نے بیان کی ہے۔ سال کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر پیش نظر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک اس مباہلے کا فیصلہ ہوجانا چاہئے تھا لیکن وہ تو بھاری ہے اس لئے موقعہ پیش نہ آیا بعد میں جو لوگوں نے چھ سو سات سو سال کے بعد حدیثیں گھڑی ہیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب فرمائی ہیں کہ جن کو یہ آیات قطعیت سے جھٹلا رہی ہیں کہ پرندے اور چرندے اور پتے اور گھاس گویا ہر چیز جو زندہ ہے وہ ساری جل کر ہلاک ہوجائے گی۔ یہ اس آیت کا دعویٰ نہیں ہے یہ مولویوں کا دعویٰ ہے۔ اس لئے وہ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے جو چاہیں کریں۔ ہم نے اپنے مضمون کو خوب کھول دیا ہے۔
اب آپ کے نزدیک وقت باقی ہے اور میں وقت سے پہلے بات ختم کرچکا ہوں۔ میرے نزدیک یہ اللہ کی حکمت ہے کہ وقت باقی ہے کیونکہ ایک انتہائی ضروری بات جو سورہ فتح سے تعلق میں میں نے بیان کرنی تھی وہ نظرانداز ہوگئی اور وہ بات وہی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس میں اشارہ موجود ہے کہ اس موقع پر جو خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیشہ کی بعد کی آنے والی فتوحات کا وعدہ ہے اور کسی ایک فتح کا وعدہ نہیں۔ اس عبارت کو میں نے پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں کی ناں۔ یہی عبارت ہے ناں۔ اب دیکھیں اس کا وہ آخری حصہ کتنا ضروری تھا میرے لئے آپ کے سامنے پڑھ کر سنانا جو سورۃ فتح کا آخری حصہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس موقف کو انتہائی تفصیل سے بیان کرتا ہے اور جماعت احمدیہ کا ذکر اس میں موجود ہے اس لئے اس سورت میں اس حصے کو چھوڑ دینا یہ اس سورت کاحق ادا کرنے والی بات نہ بنتی۔ اب میں وہ آخری حصہ جو چھُٹ گیا تھا وہ آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شھیدا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کو وعدہ دیا جارہا ہے۔ اس وعدے کا یہ خلاصہ ہے۔ وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ یہ اس لئے بھیجا ہے لیظہرہ علی الدین کلہ۔ صرف عربوں پر فتح کی بحث نہیں ہورہی۔ محض علاقوں پر فتح کی بحث نہیں ہورہی۔ اس لئے بھیجا ہے کہ اسے تمام ادیانِ باطل پر جو رسول اللہ کے دین اور قرآن کے دین کے مخالف ان پر غالب کردے۔ یظہرہ میں میں مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیتا ہوں، لیکن بعض لوگ کہتے ہیں دین الحق مراد ہے، جو بھی مراد ہو۔ غلبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی ہوگا لیظہرہ یہ فتح کا وعدہ ہے جو عظیم الشان فتح ہے، جس سی کوئی فتح دنیا میں کبھی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہوئی قیامت تک کا وعدہ ہے، چند سالوں کا وعدہ نہیں وکفی باللہ شہیدا اور اللہ گواہی دے رہا ہے اس سے بہتر اور گواہی کیا چاہوگے وہ کافی ہے گواہ کے طور پر جب کہا جاتا ہے کہ کفی باللہ شہیدا تو مراد یہ ہے کہ زمانہ بتادے گا۔ آئندہ آنے والے حالات ثابت کردیں گے کہ اللہ کی گواہی سچی نکلی ہے۔ یہ ہے اس کی شانِ نزول محمد رسول اللہ والذین امنوا معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں بے انتہا رحیم و کریم ہیں رکعا سجدا۔ ان کو تم خدا کے حضور جھکتے ہوئے اور سجدے کرتے ہوئے دیکھوگے یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا وہ ہر فضل اللہ ہی سے چاہتے ہیں اسی کی رضا چاہتے ہیں۔ ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر، ان کی پیشانیوں پر ہیں سیماھم فی وجوھھم میں سیماھم سے مراد سجدے کی نشانیاں بھی لیا گیا ہے، مگر فی وجوھھم میں میں وجوہ کا وہی معنی لیتا ہوں، جس میں شان شامل ہوتی ہے ان کے چہرے بڑے شاندار ہیں جیسے اللہ کا چہرہ شاندار ہے اسی سے انہوں نے نور پکڑا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کی طرح ان کے چہروں پر بھی نور آگیا ہے۔ اس پہلو سے میں سیماھم کا ترجمہ سجدے کے گٹے نہیں لیتا بلکہ سیما سجدوں کے نتیجے میں جو پیشانیوں پر نور ابھر آتا ہے وہ مراد لیا کرتا ہوں۔ ذالک مثلھم فی التورۃ۔ یہ ان کی مثل تورات میں بیان ہوئی ہے ومثلھم فی الانجیل اور یہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں جن کا ذکر انجیل میں بھی ملتا ہے اور یہ وہ ذکر ہے جس کا جماعت احمدیہ سے اٹوٹ تعلق ہے۔ پس یہ فتح کے وعدے آج بھی جاری ہیں۔ یہ وہی فتح کے وعدے ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے پورے ہوتے دیکھ رہے ہیں اور ابھی بہت دیکھنے باقی ہیں۔ یہ شان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آیت کی کہ اس زمانے سے لے کر قیامت تک کی ساری باتیں جو ظہور پذیر ہونی تھیں وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فتح کے وعدے میں داخل فرمادیں۔ آگے فرمایا کذرع اخرج شطئہ فاذرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ یعجب الذراع لیغیظ بھم الکفار۔ انجیل میں جو وعدہ دیا گیا تھا وہ لازماً بعد کے زمانے کا وعدہ ہے۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہورہا ہے یہاں بھی شان نزول کے لئے کسی اور حدیث، کسی اور حوالے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ انجیل کا حوالہ جو قرآن کریم دے رہا ہے۔ وہ فرما رہا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام اس طرح پھوٹیں گے کذرع اخرج شطأہ جیسے روئیدگی اپنے ڈنٹھل نکالتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ پھوٹیں گے اور ان کے اس پھوٹنے میں ایسا احتمال پایا جائے گا کہ دشمن چاہے تو ان کو پاؤں تلے روند دے۔ یعنی خواہش کرے اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رجالٌ جو ساتھ شامل وہ اس طرح تو نہیں پھوٹے۔ وہ تو جیسا کہ تورات کا وعدہ تھا بڑی شان کے ساتھ ایک آتشیں شریعت لے کر رونما ہوئے اور دیکھتے دیکھتے انہوں نے سارے عرب پر غلبہ پالیا ہے۔ یہ بھی اور کچھ لوگوں کا ذکر ہے اور حوالہ انجیل ہے، جس سے پتا چلا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کا ذکر چل رہا ہے اور وہ ذکر ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم کی ان آیات پر غور کرکے دیکھ لیں اور کوئی ذکر بنتا ہی نہیں۔ اخرج شطأہ فاذرہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ۔ یہ ساری باتیں بیان فرمانے کے بعد فرمایا ہے یعجب الذراع لیغیظ بھم الکفار یہ ساری چیزیں کھیتی بونے والوں کو خوش کرتی ہیں اور وہ جمع کا صیغہ ہے صاف مراد ہے کہ اس زمانے میں کثرت سے لوگ دعوت الی اللہ میں مصروف ہوں گے اور یہ دین الٰہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے بیج بوئیں گے جگہ جگہ اور جب وہ بیج نکلیں گے تو بڑا خوش ہوں گے۔ کثرت کے ساتھ ایسے لوگ پیدا ہونے کا دعویٰ ہے اور جب وہ خوش ہوں گے تو ان کی خوشی کفار کو غیظ دلائے گی۔ جتنا وہ خوش ہوں گے اتنا ہی ان کو آگ لگتی جائے گی اور کہیں کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ یہ مضمون اس زمانے پر اطلاق پارہا ہے اور دشمن کی معاندانہ کوشسوں کے باوجود اس مضمون میں کوئی بھی وہ فرق نہیں ڈال سکتے۔ کہاں ان کو یہ توفیق ملی ہے جماعت احمدیہ کے ذراع یعنی سارے وہ جماعت کے داعین الی اللہ جنہوں نے تھیلیوں میں بیج ڈالے ہوئے ہیں احمدیت کے اور جگہ جگہ پھینکتے پھر رہے ہیں۔ کہاں ان کو توفیق ملی ہے کہ ان کی راہ روک سکیں قید کردیتے ہیں، مار بھی دیتے ہیں، مقدمے بھی بنادیتے ہیں مگر یہ قافلہ اسی طرح آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اور اس قافلے کو روکنے اس کے قدم تھامنے کی ان کو ہمت نہیں ہے۔ دس سال ہوگئے ہیں مجھے یہ باتیں کہتے ہوئے دس سال میں ایک دن دکھائیں کہ جب ان ذراع کے قدم یہ مولوی روک سکے ہوں۔ ایک ملک دکھائیں جس ملک میں ان ذراع کے قدم ان مولویوں نے روک دیئے ہوں۔ ہر جگہ یہ قافلہ آگے بڑھا ہے اور ان کی گواہیاںں بتارہی ہیں۔ میری اور آپ کی گواہیاں نہیں۔ ان کی گواہیاں بتارہی ہیں کہ پاکستان میں بھی ہرقسم کے شدید اقدامات کے باوجود احمدیت پھیلنے سے رک نہیں رہی۔ آج جو یہ چٹھیاں لکھ لکھ کے گورنمنٹ کے پاس دوڑے پھر رہے ہیں کہیں سندھ سے، کہیں بلوچستان سے۔ کہیں پنجاب سے کہیں صوبہ سرحد سے اے حکومت! عقل کرو۔ ہوش کے ناخن لو۔ تم نے جو کچھ کرنا تھا کرلیا ہم نے جو کچھ کرنا تھا کرلیا۔ یہ پھر بھی بڑھ رہے ہیں ان کو پکڑو۔ ان کو روکو ان کو ختم کرو۔ اگر میرا یہ دعویٰ جھوٹا تھا تو یہ مولوی کیا باتیں کررہے ہیں۔ کیوں شور ڈالا ہوا ہے۔ قیامت مچائی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں بعض اعلیٰ نمائندوں سے جو حکومت میں داخل ہیں یہ پیغام ملا کہ ہم اپنی مصیبت میں الجھے ہوئے ہیں۔ شیعہ سنی فساد پھیل رہے ہیں جگہ جگہ اور غیر حکومتیں بھی دخل دے رہی ہیں۔ تم پاکستان کے ہمدرد تو ہو جن کو وہ جانتے ہیں خدا کے لئے کچھ دیر کے لئے ہمارے لئے معاملہ آسان کردو یعنی اتنا زیادہ نہ آگے بڑھو کہ مولوی بے قرار ہوہو کر الٹ الٹ کر ہمارے اوپر پڑیں ان کے منہ بند کرنے کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے خدا کے لئے ہمارے لئے سہولت پیدا کردو۔ یہ پیغام ایک قطعی ذریعہ سے مجھے ملا اور میں نے اس کے جواب میں کہا ہم ایک وعدہ کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر ایسی حرکت ہرگز نہیں کریں گے کہ جو حکومت کے امن و امان کی کوششوں کی راہ میں کسی طرح مخل ہو مگر وہ حق دین کا جو اللہ نے ہمیں دیا ہے ہر اس احتیاط کے ساتھ ضرور استعمال کریں گے، کیونکہ اس کے بغیر ہمارا چارا نہیں ہے۔ حکمِ الٰہی کے تابع ہیں۔ اللہ کے اذن کو دوسرے مسالک کی خاطر نظرانداز کرہی نہیں سکتے۔ ہم میں یہ طاقت ہی نہیں ہے۔ اس لئے ہم سے وہ مطالبہ نہ کرو جو پورا کرنے کی ہم استطاعت نہیں رکھتے۔ ہم آپ کی خوشی میں حائل نہیں ہونا چاہتے۔ آپ کو ہم سے جو ملک کی خاطر توقعات ہیں ہم ضرور پوری کریں گے اور اس کے مطابق میں نے تمام پاکستان کی جماعتوں کو ہدایت دی ہے کہ خواہ اپنے حقوق بھی چھوڑنے پڑیں یعنی عام روزمرہ کے شہریوں کے حقوق ، جس حد تک ممکن ہے ایسی صورت حال پیدا نہ کریں جس کے نتیجہ میں حکومت کو دو محاذوں پر لڑنا پڑے ایک محاذ شیعہ محاذ اور سنی محاذ ہے، جس میں ان کے درمیان صلح کرنے کی وہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرچکے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان کی ان کوششوں کی راہ میں جماعت احمدیہ کو ہرگز حائل نہیں ہونا۔ ہم تو باربار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ شیعہ موقف جو کچھ بھی ہو، خواہ جیسا کہ لٹریچر سے ثابت ہے بڑی سخت گستاخیاں کی گئیں۔ خواہ انفسنا کے معنی صرف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لئے گئے ہوں اور آپ کی شمولیت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمولیت ان معنوں میں قرار دی گئی ہوں کہ آپ نمائندہ ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے کھڑے ہیں۔ یہ ساری باتیں بے حد غصہ دلانے والی باتیں ہیں، لیکن ہماری تعلیم یہ ہے اور قرآن سے ثابت شدہ تعلیم ہے کہ دین کے معاملات میں لااکراہ فی الدین پر عمل کرو ایسے گستاخان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو وہ جو چاہے گا فیصلہ فرمائے گا احکم الحاکمین ہے، لیکن ہتھیار اٹھانے کی تمہیں ہرگز اجازت نہیں ہے تو جس جماعت کا یہ موقف ہے اور اصولی موقف ہے، وہ ایسی حرکت کر کیسے سکتی ہے جس کے نتیجے میں شیعوں اور سنیوںں کے درمیان اس قسم کا فساد ہو۔ سارے درس میں آپ سب لوگ گواہ ہیں۔ جہاں جہاں بھی اس کا ذکر چلا ہے وہاں بلا استثناء میں نے یہ نصیحت کی ہے بڑی زور کے ساتھ کہ ان باتوں کو سن کر خدا کے لئے ناحق مشتعل نہ ہونا، کیونکہ قرآن اس بات کو رد فرمارہا ہے کہ دین کے معاملے میں مشتعل ہو کر تم اپنے ہاتھ میں تلواریں پکڑلو۔ پس قرآن کی تعلیم پر عمل کرو۔ صبر سے کام لو اور ان لوگوں کو جو یہ چاہتے ہیں کہتے رہیں ان کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ ان سے اعراض کرو اور خداتعالیٰ جو بھی فیصلہ چاہے وہ کرے گا۔ اور امرواقعہ یہ ہے کہ اس نصیحت کو نہ ماننے کے نتیجے میں ان لوگوں نے بہت سی مشکلات سہیڑ لی ہیں۔ اگر شیعوں کے متعلق یہ موقف اختیار کرتے اور قرآن کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے صبر سے کام لیتے، تو اس وعدے کو ضرور پورا ہوتے ہوئے دیکھتے کہ ان اللہ مع الصادقین۔ سارا ملک یہ فیصلہ کرتا کہ دیکھو سنی کتنے حیادار ہیں اور قرآن کریم کی تعلیم پر کیسے عمل کرنے والے ہیں۔ کتنی سختیاں ان پر ہورہی ہیں، لیکن زبان نہیں کھول رہے استغفار کرتے ہیں اور دعائین کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی توفیق بخشے اور ان لوگوں کو اصلاح کی توفیق بخشے۔ یہ اگر کرتے تو قرآن کریم کے بیانات کے مطابق مجھے سوفیصدی یقین ہے ایک ذرہ بھی میں اس سے متزلزل نہیں کہ پاکستان میں شیعوں کی جو غلبے کی لہر دوڑی ہوئی تھی وہ ساری پلٹ جاتی۔ یہ واپس اپنے اپنے گھروں کو سمٹ جاتے۔ سارا ملک یہ فیصلے کرتا کون انصاف پرست ہے۔ کون خداتعالیٰ کی تعلیم کے مطابق عمل کررہا ہے تو اس سارے امکان کو جو ان کی فتح کا امکان تھا انہوں نے ردکردیا۔ اپنے ہاتھ میں فیصلے لے لئے ہیں جو فیصلے خدا نے ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ ان فیصلوں کو یہ ٹھونس سکتے نہیں، جب ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں تو برعکس ردعمل ہوتا ہے اور بجائے شکست کھانے کے شیعہ ان پر اور غالب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ بات جیسا کہ میں نے درس میں باربار کھولی تھی میں یہاں دوبارہ دہرا رہا ہوں۔ اب جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے ہم ان لوگوں سے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے موقف پر رہنے دو۔ ہم آپ کے معاملات میں جیسا کہ میں نے کھول دیا ہے دخل بالکل نہیں دیتے، لیکن خدا نے ہم سے جو ساری دنیا میں آگے بڑھنے کا وعدہ فرمایا ہے اس وعدے کے متعلق یاد رکھو کہ ہم اس پر عمل کرنے پر مجبور ہیں یہ وعدہ کرتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن کریم بار بار حکمت کی طرف توجہ دلائی ہے ہم حکمت کو اختیار کریں گے اور صبر کو اختیار کریں گے۔ ہماری طرف سے ایک وجہ بھی ایسی ظاہر نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں دشمن کو اشتعال ہو یہ ہمارا ووعدہ ہے لیکن اللہ کی تقدیر نے جو وعدہ کیا ہوا ہے وہ اپنی جگہ ضرور پورا ہوگا۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے تم اس کو روک نہیں سکتے۔ کہاں کہاں روکوگے اور یہ پھیلنے کا وعدہ یہاں جا کر اپنے عروج کو پہنچتا ہے لیغیظ بھم الکفار۔ کفار کو بڑا طیش آئے گا انکار کرنے والوں کو بہت غصہ آئے گا اب ہم اس کو کہاں لے جائیں بتائیں، تم میں طاقت ہے کہ قرآن کے اس وعدے کو بدل دو۔ ہم میں کہاں سے طاقت ہوگئی کہ ہمارے تمام ذرائع حکمت اور صبر لیغیظ بھم الکفار کے اس آیت کے ٹکڑے کو تبدیل کرسکیں۔ ناممکن ہے۔ انہوں نے طیش کھانا ہی کھانا ہے۔ ان کا حال تو بھیڑیئے اور بھیڑ کے بچے والا ہے۔ جنہوں نے طیش کا فیصلہ پہلے کررکھا ہو وہ بہانے بعد میں ڈھونڈا کرتے ہیں۔ یہ وہ مضمون ہے جو مجھے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مکالمے کی طرف لے جاتا ہے میرے ذہن کو جو حضرت ابوطالب سے ہوا۔ ابوطالب یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ لوگ ہیں اور ابوطالب کی چھتری اگر نہ ہوتی تو نعوذباللہ محمد رسول االلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہلاک ہوسکتے تھے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے شکریے کے ساتھ وہ باتیں قبول فرمارہے تھے لیکن آپ کا دل کچھ اور جانتا تھا۔ آپ کا دل اس یقین پر قائم تھا کہ یہ لوگ اپنی غیرت میں ضرور بڑھیں گے بڑھتے رہیں گے کیونکہ میرا دعویٰ ایسا ہے، جو ان کو غیرت دلارہا ہے۔ یہی حال اب بھی ہے، لیکن ساتھ یہ بھی جانتے تھے کہ اس غیرت سے بچانے والا میرا خدا ہے۔ اور ابوطالب نہیں ہے۔ یہ آپ کے اخلاق حسنہ کا کمال ہے کہ اس وقت تک خاموشی سے دیکھ رہے ہیں اور درگزر کررہے ہیں اور ابوطالب کو جو احسان کا زعم ہے کہ میں احسانات کررہا ہوں اس زعم میں خلل انداز نہیں ہوئے، لیکن جب ابوطالب نے چیلنج کردیا اور واقعۃً یہ سمجھا کہ میں ہوں جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر ایک چھتری تان رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا اس چھتری کو اٹھالو۔ اے ابوطالب! اگر تمہیں یہ خیال ہے کہ میں تمہاری وجہ سے چل رہا ہوں تو پھر تم چھوڑدو۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تم نے جو کچھ کرنا تھا میں احسان کے ساتھ قبول کررہا ہوں، لیکن اب اس چھتری کو اٹھا کر دیکھ لو، جو چاہیں یہ کفارِ مکہ کریں۔ نہ ان کی لالچ کے نتیجے میں ہم اپنے موقف کو بدل سکتے ہیں نہ ان کے جبر کی دھمکیوں کے نتیجے میں ہم اپنے موقف کو بدل سکتے ہیں۔ آگے فرمایا خدا کی قسم اگر میرے داہنے ہاتھ پر یہ سوج اتار لائیں اور بائیں ہاتھ پر چاند اتار لائیں تو تب بھی میں اس دعوے سے باز نہیں آؤں گا یعنی تمام جلال و جمال کی طاقتیں جو ان کے پاس ان کے مقدر میں ہیں وہ میرے قدموں میں ڈال دیں تو میری ایک ٹھوکر کی نظر ہوجائیں گی۔ مجھے اس کی کچھ بھی پروا نہیں ہوگی۔ میں نے اپنے رب کے حسن اور جلال اور جمال کو ضرور بیان کرنا ہے۔ اب اس تقدیر کو کوئی ٹال نہیں سکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ غیظ کی وجہ انہی وعدوں کا پورا ہونا ہے۔ یہ بات جب لوگ نظرانداز کردیں، و ان کو معاملے کی سمجھ نہیں آتی۔ مجھ سے باہر کی دنیا میں جب میں سفر کرتا ہوں بہت سے لوگوں نے یہ سوال کئے ہیں کہ بتائیں آپ کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں۔ ایک صاحب جو بہت بڑا مقام رکھتے ہیں سیاست میں بھی اور وہ ملوث تھے پاکستان کے معاملات میں بھی وہ ریٹائر ہوگئے تو پھر غیراحمدی مولویوں وغیرہ کے ساتھ ان کا ملنا جلنا شروع ہوا اور اسلام کی تائید میں ہوگئے وہ اور ان کے اثر سے انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم ضرور کوئی غصہ دلانے والی باتیں کرتے ہیں اس لئے وہ ایک مجلس میں آئے، تو مجھے سمجھانے کی خاطر انہوں نے کہا برانہ منائیں، مگر آپ کچھ تو کرتے ہوں گے۔ کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، تو کیوں نہ ہم آپس میں طے کرلیں اور وہ ان باتوں سے باز آجائیں۔ ان کو ایک طرف کی پٹی پڑھائی گئی تھی۔ پتا نہیں کیا کیا احمدی کرتے ہیں اور پوری طرح ان کویقین تھا کہ واقعۃً ہم بھی ملوث ہیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ ہم کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا آپ عیسائی مذہب سے اصولاً تعلق رکھتے ہیں اگرچہ مسلمانوں کو سچا بھی سجھ رہے ہیں، لیکن عیسیٰ کیا کیا کرتے تھے، جس وقت ان کو غصہ آیا کرتا تھا وہ مجھے ذرا سمجھائیں کچھ دیر وہ ڈوبے رہے مضمون میں۔ تو میں نے کہا میں سمجھ گیا ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام کیا کیا کرتے تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام سوائے اس کے اور تعلیم نہیں دیا کرتے تھے جس پر کسی ذی ہوش کو غصہ آہی نہیں سکتا۔ ایک گال پر تھپڑ مارو دوسرا آگے کردو۔ کون پاگل ہے جو اس پر غصہ کرے گا، تو ان کو بات سمجھنے میں کافی دیر لگی۔ یعنی غور کرتے رہے پھر میں نے ان کی مدد کی۔ میں نے کہا آپ ذرا تاریخ انبیائِ مذاہب پر نظر ڈال کر دیکھیں۔ غصہ محض کامیابی کی وجہ سے ہوتا ہے ترقی کی وجہ سے آتا ہے ورنہ ہزار اختلاف ان کے آپس میں ہیں۔ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے جہنم کا ایندھن قرار دیتے۔ جو کچھ کہہ دیں۔ ایک دوسرے پر ایسا غصہ کبھی نہیں آیا کہ سارے مجتمع ہوجائیں اس بات پر کہ اس پودے کو مٹانا ہے۔ لیغیظ بھم الکفار۔ اس بات پر کبھی ان کو متفق نہیں دیکھو گے کہ سارے یہود فرقے اس بات پر متفق ہوچکے ہوں کہ فلاں فرقہ جو مسیح کے علاوہ ہے ایسی باتیں کرتا ہے کہ آؤ ہم سارے مل کر اس ایک کو کچل دیں۔ کبھی بھی نہیں۔ حالانکہ ان کے آپس کے اختلاف اس سے بہت زیادہ شدید تھے، جو حضرت مسیح کی تعلیم میں ملتے ہیں۔ پس پھر اس کو میں نے اچھی طرح سمجھایا کہ دیکھو غصہ جو آتا ہے وہ خدا کی طرف سے تائید کے نتیجے میں غصہ آتا ہے اور اس تائید کو وہ بندے جن کی تائید ہورہی ہے روک کیسے سکتے ہیں۔ کتنے پاگل پن کی بات ہے۔ اللہ نے ہماری تائید کا فیصلہ کرلیا ہو۔ ہماری تائید میں نشانات دکھارہا ہو اور آپ کہیں نہ اللہ میاں یہ نہ کرنا۔ ہمیں لوگ ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لوگ مجال ہے ماریں تمہیں۔ ماریں گے تو سہی، مگر معمولی نقصان پہنچائیں گے اور جماعت کے اعتبار سے تم میری حفاظت میں آگے بڑھوگے۔ اس معمولی نقصان کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جہاد ہیں۔ اس میں چھوٹا موٹا معمولی نقصان پہنچا ہے، مگر اس معمولی نقصان کے بدلے میں حمد عظیم فتح ہوئی ہے اس کی کوئی مثال تاریخِ عالم سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ ایک دفعہ میں نے گنتی کی کہ کل صحابہ اول یوم سے لے کر آخر تک شہید ہوئے ہوں ان کی تعداد کیا ہے اور اس کے مقابل پر فتح جو ہوئی ہے سارا عرب فتح ہوگیا ہے، تو کتنی چھوٹی سی قربانی ہے جس کو ہم بڑھا چڑھا کراس لئے پیش کرتے ہیں وہ طوعی ہے۔ طوعی ہونے کے لحاظ سے اس قربانی کی بڑی عظمت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دیکھو تو سہی ابراہیم علیہ السلام کا مقام کہ طوعی طور پر وہ اور تاویلیں بھی کرسکتا تھا، مگر اپنے ہاتھ سے چھری اپنے بیٹے کی گردن پر رکھ دی۔ یہ قربانی ہے طوعی، جس سے آگے ساری قربانیوں کی عظمت کا مضمون ظاہر ہوتا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی قربانیوں کو بے شمار قرار دیا جارہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے بھی۔ ان معنوں میں وہ بے شمار تھیں کہ انہیں کے تابع جو قربانیاں آج جماعت دے رہی ہے وہ بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ قربانیاں ہیں جس میں آپ نے اپنی اور صحابہ کی گردن خدا کی رضا کے سامنے رکھ دی تھی پس اس مضمون کو میں نے گو اس تفصیل سے ان کے سامنے نہ بیان کیا ہو، مگر اب میں اس بات کو کھول رہا ہوں کہ یہ مضمون ہے جس میں جماعت احمدیہ ہرقربانی کے لئے تیار ہے۔ اگر جماعت کی طرف سے شرارت کی کوئی کوشش نہ ہو اور حکومت کو یہ خیال ہو کہ ہمارے سائے تلے جماعت پل رہی ہے تو آج میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ چاہیں، تو اپنا سہارا اٹھالیں۔ تکلیفیں پہنچیں گی اس میں کوئی شک نہیں کچھ شہادتیں بھی ہوں گی، لیکن یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ ان کے سایہ اٹھانے سے خدا کا سایہ پہلے سے بہت بڑھ کر جماعت کے سر پر قائم ہوگا اور اس زور اور شدت سے جماعت کی تائید میں الٰہی لہریں اٹھیں گی کہ پاکستان تو پاکستان دنیا پر چھا جائیں گی ا ور ان کے شور سے جو آسمانی شور بعض دفعہ تائید میں اٹھا کرتا ہے دنیا کا کونہ کونہ گونج اٹھے گا۔ یہ دعویٰ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو قرآن کے دعووں پر مبنی ہے اور اس حقیقت کو آزمانا چاہتے ہو، تو آزمالو لیکن یاد رکھو کہ ہم تم سے ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں، مگر خدا جو ہماری تائید کررہا ہے ہم اس کو روک نہیں سکتے کہ اے خدا! تو اس تائید سے ہاتھ اٹھالے ورنہ ہم مارے جائیں گے ہم ہرگز نہیں مارے جائیں گے۔ جماعت نے ضرور ترقی کرنی ہے پاکستان میں بھی کرنی ہے باہر بھی کرنی ہے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش سب جگہ کرنی ہے۔ کرنی ہے اورکررہی ہے۔ کررہی ہے، تو مولویوں کو طیش آیا ہوا ہے۔ کررہی ہے تو بھاگے پھرتے ہیں۔ ایوانِ صدر کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کچھ کریں ان کا۔ پس سارا پاکستان بول رہا ہے اور مولوی کو آواز نہیں آئی کہ ان آیاتِ کریمہ میں جو سورۃ فتح کی آیات ہیں۔ آخری فتح احمدیت کی فتح کا ذکر ہے۔ یہ بات ان کے ذہنوں سے اتر گئی ہے ا ور یہ اتنی ضروری بات تھی جو میرا فرض تھا کہ آپ کے سامنے کرتا اور بتاتا کہ فتح میں کیا وعدے ہیں اور اس وقت دماغ سے اتر گیا معلوم یہ ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ اس درس کے سلسلے کے آخر پر یہ بات ہو۔ اور آخر میں جیسے خاص میٹھا یا خاص کھانا بچا کے رکھا جاتا ہے منہ کا مزہ درست کرنے کے لئے۔ اللہ کی طرف سے یہ ہماری مہمان نوازی ہو اور یہ مائدہ ہے جو آسمان سے مسیح پر اترا ہے۔ اور مسیح کے مائدے کو ہم ساری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق پارہے ہیں۔
وعداللہ الذین امنوا وعملوا الصلحت منکم مغفرۃ و اجرا عظیما۔ اس زراعت کے کام کو آپ لوگ جاری رکھیں اللہ تعالیٰ کا آپ سے ایک وعدہ ہے اور اس سورت کے آخر پر یہ وعدہ یوں درج ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے دور کے متعلق یہ مغفرت کا وعدہ اور گناہوں کے مٹنے کا وعدہ تھا اور جس کی وضاحت میں پہلے کرچکا ہوں۔ اب قرآن کی فصاحت و بلاغت کو دیکھئے۔ عین آخر پر وہی وعدہ دہرایا جارہا ہے اور اصل وعدے کی عظمت یہ ہے۔ ہمارے پھیلنے میں وہ عظمت نہیں ہے کیونکہ اس میں نقائص بھی ہوں گے۔ کئی لوگ شہید ہوں گے جو دل سے پوری طرح ابھی حقیقی اسلام کو قبول نہیں کرسکے ہوں گے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے اوپر لوگ انگلی اٹھاتے ہیں کہ بعض ایسے بھی شامل ہوگئے ہیں جن کو پوری طرح اسلام کا علم ہی نہیں پوری طرح کلمے کا بھی بعض لوگوں کو پتا نہیں پس یہ سارے لوگ اس غلبے میں تو بہرحال داخل ہوں گے کیونکہ اس غلبے نے رکنا نہیں ہے مگر ہمارے ساتھ جو اصل وعدہ خدا کا ہے وہ اس کی مغفرت کا وعدہ ہے۔ ان سب کوششوں میں اگر ہماری کوتاہی سے کچھ خرابیاں راہ پاگئیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے۔ اے میرے مخلص بندو! تم نے میری خاطر میری رضا کی خاطر یہ سارے کام کئے ہیں اس لئے میں تجھ سے یہ وعدہ کرتا ہوں۔ امنوا وعملوا الصالحات منھم وہ بعد کے لوگ جو مسیح کے ذکر میں مذکور ہیں۔ جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ان کے متعلق فرمایا۔ اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان میں سے نیک عمل بجا لائے۔ مغفرۃ و اجرا عظیما۔ اللہ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا۔ پس اے جماعت احمدیہ عالمگیر! تمہیں کیا فکر ہے کس بات کا غم ہے۔ غم ان معنوں میں تو ہوتا ہے جو انسان کی بے قراری کے نتیجے میں پیدا ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ہوتا تھا۔ مجھے بھی ہوتا ہے آپ کو بھی ہوتا ہے، مگر غم ان معنوں میں کہ گویا ہمارا نقصان ہوجائے گا۔ فکر کے معنوں میں۔ جماعت احمدیہ کا ہرگز مقام نہیں ہے کہ وہ غم کرے ان معنوں میں اور خدا کا یہ وعدہ مغفرت کا ہمیں نصیب ہوا ہے۔ اس سے بڑا وعدہ سوچا بھی نہیں جاسکتا اور اب جو اجرا عظیما کی باتیں ہورہی ہیں وہ اس پھیلاؤ کے بعد ہیں اس اجرِ عظیم سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے غلبے کا وعدہ ہوگا۔ اس سے بڑا اجر ہمیں کوئی نہیں مل سکتا۔ ہم جس کام میں مصروف ہیں اس کا منتہاء یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت ساری دنیا پر ہو مشرق پر بھی ہو اور مغرب پر بھی ہو اور وہی ایک رسول ہو جس کی متابعت کے دعوے سے لوگوں کے سر فخر سے، لوگوں کے چہرے فخر سے تمتما اٹھیں۔ سر فخر سے اونچے بھی ہوا کرتے ہیں، مگر بعض دفعہ جھکتے بھی ہیں جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مکے میں داخل ہوتے ہوئے جھک گیا تھا اور فخر بھی تھا کہ خدا نے مجھے چنا ہے۔ اس بات کے لئے۔ اس لئے میں نے اس فقرے کو یوں بنالیا ہے کہ ان کے چہرے تمتما اٹھیں اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کی مغفرت کی چادر نے ہمیں ڈھانپ لیا ہے اور اجرِعظیم کا وعدہ کیا ہے جس کی خاطر ہم اپنی جان وار رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت مشرق پر بھی ہو اور مغرب پر بھی، شمال پر بھی ہو اور جنوب پر بھی اور ساری دنیا نورِ مصطفوی سے چمک اٹھے اور اک نور ہی نور ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے جو ساری دنیا میں پھیل جائے۔ یہ اگر ہو تو اس سے بڑا اجر اور کیاہوسکتا ہے۔ پس انشاء اللہ آخری وقت ہم یہی دعاؤں میں صرف کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اجر عطا فرمائے۔ جہاں تک کوشش تھی میں نے ہر پہلو سے اس مباہلے کے مضمون کو کھول دیا اور سورہ فتح کے مضمون کو بھی ہر طرح سے کھول دیاہے کہ جو توفیق تھی اس کے مطابق تو میں کر بیٹھا ہوں، جو کمزوریاں ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی پردہ پوشی فرمائے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
30رمضان المبارک 29 جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کا درس کا وقت بہت محدود ہے کیونکہ ہر غوروفکر کے بعد یہی نتیجہ نکلا ہے کہ اہل پاکستان کی سہولت کے لئے اور اسی طرح بعض اور جماعتوں کی سہولت کی خاطر اس درس کا وقت کم کردیا جائے کیونکہ ان کے ہاں روزے کھلنے ہیں۔ پھر نمازیں پڑھنی ہیں۔ نماز مغرب اپنے وقت پر ادا ہونی ہے۔ اس پہلو سے آج صرف 40 منٹ تک کل وقت ہے؟ ساڑے گیارہ بجے شروع ہوکر سوا بارہ بجے ختم ہونا چاہئے۔ 45 منٹ اور سوا بارہ بھی چند منٹ اوپر کھینچ سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ تو میں نے سوچا ہے کہ آج کا درس جو تین قل کے متعلق ہو اکرتا ہے اس کو مختصر کیا جائے۔ اور بارہ بجے تک اس درس والے حصے کو ختم کردیا جائے۔ باقی پھر جو وقت بچے گا وہ انشاء اللہ دوسری باتوں میں دعاؤں میں لگ جائے گا۔ اس لئے میں نے وہ نوٹس اٹھا لئے ہیں بیچ میں سے۔ پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ تینوں قل کے درس سے متعلق اتنے تفصیلی نوٹس موجود ہوتے تھے کہ اگر ان میں ایک دفعہ داخل ہوجائے تو بعض دفعہ ایک ہی سورۃ کی بحث میں تقریباً سارا وقت گزر جایا کرتا تھا۔ اور پھر بھی بہت سا مضمون تشنہ رہ جاتا تھا۔ تو اس دفعہ میں نے سوچا ہے کہ عمومی حوالے کے ساتھ آپ لوگوں کو تینوں قل کے متعلق نصیحت کروں گا۔ اور پھر آگے بات دعاؤں کی طرف چلی جائے گی۔ ٹھیک ہے؟
حضور نے سورۃ الفاتحہ، الاخلاص، الفلق اور الناس کی تلاوت فرمائی۔
آج عام دستور سے ہٹ کر میں نے سورۃ فاتحہ سے اس درس کی تلاوت کا آغاز کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی دراصل آخر پر سورتوں میں دہرائی گئی ہے اور خلاصۃً سورۃ فاتحہ ہی کے مضامین ہیں جو خصوصیت کے ساتھ ان تین سورتوں میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ اور دوسرے الحمدللہ جو سورۃ فاتحہ کی بسم اللہ کے بعد پہلی آیت آتی ہے اس میں بے اختیار دل سے جو حمد اٹھتی ہے وہ موجودہ حالات پر غور کرکے جماعت احمدیہ کے ساتھ جو خاص سلوک ہورہا ہے اللہ کا رحمتوں کا اور فضلوں کا اس کی وجہ سے میری دل سے یہ آواز اٹھی کہ الحمدللہ سے ہی تلاوت کا آغاز ہو۔ اور یہ درس اور یہ توفیق جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے اس کا بہترین تشکر الحمد سے ہوتا ہے۔ پس بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین۔ تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ سورۃ فاتحہ میں جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ تمام سورتیں داخل ہیں۔ اور اس ضمن میں اس سے پہلے میں نے ایک دفعہ بڑی کھل کے روشنی ڈالی تھی کہ میرے نزدیک یہ سورتیں کس کس طرح داخل ہیں اور عملاً سورۃ فاتحہ کی گویا ایک تکرار ہے تین حصوں میں۔ تکرار اس لئے کہ اس کے بعض مضامین کی طرف خصوصیت سے توجہ دلانے کے لئے ان سورتوں کا نزول ہے اور سورۃ فاتحہ سے ان کا ایک تعلق ہے۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ سورۃ اخلاص یعنی قل ھواللہ احد یہ وہ سورۃ ہے جس کا نام بھی اخلاص ہے۔ جس میں ایک پیغام ہے جو ہم سب کے لئے ہے کہ اگر تم توحید باری تعالیٰ کو اخلاص سے پکڑلوگے اور اپنے ایمان کو خدائے واحد کے لئے خالص کردوگے تو صرف یہی ذریعہ ہے جس کے ذریعے تم اعوذ کی پناہ میں آؤگے۔ یعنی اللہ کی پناہ میں آؤگے اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ پس میں سورۃ اخلاص کو اس پہلو سے وہ Gateway سمجھتا ہوں جو آگے کھلنے والی شاہراہوں کے سامنے لگایا جاتا ہے۔ اور اگر اس Gate سے داخل ہوگئے تو اس شاہراہ پر سفر کرسکوگے اگر نہیں داخل ہوگے تو تم اس شاہراہ پر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔ پس سورۃ توحید کے مضمون پر غور کرو۔ اور اپنے آپ کو اللہ کے لئے خالص کردو۔ یہ ہوگا تو پھراس کی پناہیں حاصل ہوجائیں گی۔ پھر ہرقسم کی پناہیں جو شیطان رجیم سے انسان مانگا کرتا ہے۔ اس کا ذکر ملے گا آگے کہ یہ کیسی پناہیں ہیں۔ اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی عفو کی چادر اور مغفرت کی چادر اور حفاظت کی چادر کس طرح ڈھانپ لے گی۔ یہ وہ مضمون ہے جو سورۃ توحید سے شروع ہوتا ہے۔ قل ھواللہ احد۔ اعلان کردے کہ اللہ ایک ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ اعلان کر اور کرتا چلا جا۔ کیونکہ قل کا لفظ ہمیشہ دہرایا جائے گا۔ جب بھی آپ کہیں گے قل تو جو سن رہا ہے اس کو بھی پیغام ہے کہ تو آگے کہہ دے۔ تو بہت ہی پیارا انداز ہے قرآن کریم کا ایک مضمون کو ہمیشہ کے لئے جاری و ساری کرنے کا۔ کہ قل سے یہ بات شروع کی گئی ہے کہہ دے کہ اللہ ایک ہے۔ اب آپ سب لوگ سن رہے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔ تو جب تک آگے نہیں کہیں گے اس سورۃ کا اطلاق اس کے مضامین کا اطلاق آپ پر نہیں ہوگا۔ آپ کو لازماً قل ہی کہنا پڑے گا۔ جب آپ قل کہیں گے تو آپ کے سننے والے سارے اس پیغام کو آگے لے جائیں گے۔ احد اور واحد میں فرق ہے۔ احد وہ ہے جس سے نیچے بھی تقسیم نہیں ہوسکتی اور جس کے اوپر بھی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ وہ ایک ہی ہے نہ وہ تین اقنوم میں بانٹا جاسکتا ہے نہ اس کے بعد کسی اور کا سوال پیدا ہوگا کیونکہ احد پہلا لفظ ہوگا۔ ایک گنتی کی پہلی قسم ہے۔ پس احد وہ ذات ہے جس میں کسی اور کی شمولیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ لفظ احد نے اسی موقع پر ہی تثلیث کا قلع قمع کردیا ہے۔ اللہ ایک ہے۔ اس لئے بھی قلع قمع فرمایا ہے کہ اس معاملے میں عیسائیوں کے لئے اتفاق کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ باوجود تثلیث کے قائل ہونے کے وہ احد بھی مانتے ہیں اور مجبور ہیں احد ماننے پر۔ اور جب مسلمان اعتراض کرتے ہیں کہ تم لوگ تو تثلیث کے قائل ہو تو کہتے ہیں تم نہیں سمجھتے ہم ایک کے قائل ہیں۔ اور ایک کی آگے تقسیم ہے اس کے اندر جب اندر کی تقسیم مانی تو لفظ احد کو مان کر اس کو جھٹلادیا۔ کیونکہ احد میں کوئی اندرونی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ آخری یونٹ جو اکائی کا ہے وہ احد ہے۔ اور اس احد کو وہ مانتے ہیں کہتے ہیں ہم مواحد ہیں۔ پس جب احد کو مانا تو اس کے تقاضوں کو بھی ماننا پڑے گا۔ اس سے بڑھ کر الصمد لفظ میں عیسائیت کا تار پود بکھیر دیا جاتا ہے۔ لفظ الصمد صرف عیسائیت کے لحاظ سے ضروری نہیں بلکہ ہمیں توحید کو خالص کرنے کے لئے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ صمد کے بہت سے معانی کئے گئے ہیں، لیکن اس موقع پر چند معانی جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں وہ ہماری زندگیاں سنوارنے کے لئے کافی ہونے چاہئیں۔ صمد وہ چیز ہے جس کو کسی اور چیز کا سہارا نہ ہو۔ اور ہر چیز کو اس کا سہارا ہو۔ ایسے وقت آسکتے ہیں کہ جب وہ چیز نہ ہو جس کا ہر ایک کو سہارا ہو تو ساری کائنات غرق ہوجائے۔ بیک وقت بکثرت لوگ موجود ہوسکتے ہیں۔ مخلوقات موجود ہوسکتی ہیں، لیکن جب ان کو خطرہ درپیش ہو۔ ان کو محسوس ہو کہ گویا فنا ان کی آنکھوں میں جھانک رہی ہے اس وقت اگر صمد کوئی ذات نہ ہو تو سارے مٹ جائیں گے۔ لیکن اگر صمد ذات ہے تو وہ نہیں مٹیں گے۔ اس شرط کے ساتھ کہ صمد سے ان کا تعلق ہو۔ دوڑ دوڑ کر صمد کی طرف آنے کی عادت ہو۔ ان کو پتا ہو کہ ہمارا اصلی بسیرا صمد ذات ہی ہے۔ اسی سے ہماری زندگی وابستہ ہے۔ پس دنیا کے لحاظ سے ظاہری طور پر اس کے معانی لیں یا روحانی معنوں میں جیسا کہ میں اب بیان کررہا ہوں۔ صمد ذات وہ ذات ہے کہ جب ساری مخلوقات کو خطرہ ہو تو وہ ایک ہی ذات ہے جو اس خطرے کو ٹال سکتی ہے۔ اگرچہ اس خطرے سے پہلے وہ الگ الگ اور اس سے بے نیاز دکھائی دیتے ہوں۔ اب اس پہلو سے آج کی دنیا کو دیکھ لو۔ ساری دنیا تقریباً ساری دنیا اللہ سے بے نیاز دکھائی دیتی ہے۔ مگر جیسا کہ قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہے اگر کسی وقت کسی ایک وجود یا تمام انسانیت کو ایسا خطرہ لاحق ہو جو ان کو دکھائی دے دے کہ ہم ہلاکت کے منہ میں جارہے ہیں تو اس وقت تثلیث کا نعرہ کہیں سے بلند نہیں ہوگا۔ ایک خدا کا نعرہ بلند ہوگا اگر ہو ور نہ مٹادیئے جائیں گے۔ وہ لوگ جو بچائے جائیں گے وہ وہی ہیں جن کا تعلق پہلے بھی اللہ کی ذات سے اور اس کی توحید خالص سے ہے۔ ان کا طبعی رجحان ہر خطرے میں اس کی طرف دوڑنے کا رجحان ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی فرماتے ہیں:
نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں
یعنی جب دشمن شوروغوغا میں بڑھا تو ہم اپنے یار نہاں میں چھپ گئے۔ پس یہ پناہیں ہیں جو نصیب ہوں گی اور معوذتین انہی کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ توحید خالص سے اللہ کی پناہ میں داخل ہو اور ہمیشہ ذہنی طور پر رہو۔ خواہ تم دنیا میں کہیں چلتے پھرو۔ اگر ذہنی طور پر خدا کی طرف لپکنے کی عادت ہے اور ہر خطرے کے وقت اسی کی طرف دوڑ ہے تمہاری تو یاد رکھو کہ ایسے وقت میں جب دنیا غرق ہورہی ہوگی تمہیں خدا اپنے فضل کی کشتی میں بچائے گا۔ جیسے نوح سے اس نے سلوک فرمایا۔ اس کشتی میں جو پناہ تھی وہ اللہ کی اس محبت کی پناہ تھی۔ ان لوگوں کے لئے تھی جو ہمیشہ اللہ ہی کی طرف دوڑا کرتے تھے۔ جو نہیں دوڑتے تھے وہ دنیا میں بکھر گئے اور تباہ ہوگئے۔ پس اس پہلو سے سورۃ توحید کو اپنائیں گے اور اس کی گہرائی میں جائیں گے تو پھر آپ کو خداتعالیٰ کی وہ پناہیں حاصل ہوں گی جن کے بغیر ہمارا بچنا ناممکن ہے۔ اللہ کو صمد سمجھیں اور اس پہلو سے جو تثلیث کے متعلق میں بیان کرتا ہوں باتیں وہ سردست بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک ہی ذات جو ہمیشہ سے ہے وہ صمد ذات ہے۔ جس کو کسی اور کا سہارا نہ ہو اس کا ہمیشہ سے ہونا ضروری ہے اگر خدا مسیح کی پیدائش سے پہلے موجود نہ ہوتا اور اگر مسیح بھی ساتھ موجود ہوتا تو احد کا دعویٰ غلط۔ لم یلد ولم یولد کا دعویٰ غلط لیکن عیسائی بھی مانتے ہیں کہ اللہ پیدا نہیں ہوا۔ یعنی جس کو باپ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ پیدا نہیں ہوا۔ بیٹا پیدا ہوا تو وہ باپ کا ساتھی کیسے ہوگیا۔ جو پیدا ہوا اس نے باپ کی صفات قبول نہ کیں اور جب باپ کی صفات قبول نہ کیں تو باپ کا بیٹا کیسے بن گیا۔ تو یہ سورۃ بہت ہی لطیف ہے۔ عیسائیت کا قلع قمع کرنے میں مگر اس بحث میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صمد کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور یہ جو آخری حصہ ہے خلاصہ یہ بھی خلاصہ ہے احد کا ہی۔ ولم یکن لہ کفوااحد۔ صمد ہونا اور بن باپ ہونا لازم تھا۔ کیونکہ اس کا کوئی کفو نہیں ہے۔ شادیاں ہم کفو سے ہوا کرتی ہیں۔ پس وہ ذات جس جیسی کوئی ہے ہی نہیں چیز اور اس پہلو سے عیسائی مجبور ہیں ماننے پر کہ وہ بے مثل ہے۔ اور بے مثل اس وقت بھی مانتے ہیں۔ جب مسیح تو کہتے ہیں ظہور ہوا تھا اس سے پہلے بھی یہ بے مثل تھا۔ جب مسیح باپ کا بیٹا ہوا تو بے مثل نہ رہا۔ اور اللہ بے مثل ہے یہ بھی ان کو مسلم ہے اس لئے اس سورۃ پر بہت بے چین ہوتے ہیں عیسائی۔ Wherry نے اس سورۃ کے حسن کو دیکھتے ہوئے اس کو اپنانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اس بے وقوف کو یہ علم نہ ہوا کہ وہ عیسائیت کو منہدم کرکے اسے اپنا سکتا ہے۔ وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ ساری باتیں عہدنامہ قدیم میں بھی موجود ہیں۔ اگر عہدنامہ قدیم میں موجود ہیں۔ سچی ہیں کہ جھوٹی ہیں۔ خود فخر کررہا ہے ان کے سچے ہونے پر اگر وہ سچے ہیں تو عیسائیت جھوٹی ہے۔ بہرحال ان تفاسیر کو چھوڑتے ہوئے کفوااحد کا یاد رکھیں کہ جو ہستی پیدا نہ کی گئی ہو اور آگے پیدا نہ کرے وہ اپنی ذات میں اکیلی ہے۔ اور اس کا ثانی ان معنوں میں موجود ہی نہیں کہ اس کے ساتھ اس کا رشتہ ہوسکے۔ کیونکہ وہ چیزیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں ان کے ساتھ رشتہ ممکن نہیں۔ تو یہ کہانی جھوٹی اور فرضی ہے کہ حضرت مریم کے ساتھ نعوذباللہ من ذالک خداتعالیٰ کا رشتہ قائم ہوا۔ لیکن جس کا رشتہ کسی سے نہیں ہے۔ اس کا ہم سے کیا رشتہ ہوگا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق سے خالقیت اور مخلوقیت کا رشتہ چلتا ہے۔ اس کے سوا کوئی رشتہ نہیں۔ پس اگر اپنے آپ کو خدا کی مخلوق مانیں اور یہ ذہن نشین رہے کہ ہم ایسی ذات سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں جس کا بدنی رشتہ کسی سے نہیں ہے مگر روحانی رشتہ ہر اس چیز سے ہوسکتا ہے جو اس کی مخلوق بنے۔ پس اگر آپ بے کفو خدا کی مخلوق بننا چاہتے ہیں تو اس میں ایک یہ بھی آپ کے لئے پیغام ہے کہ اس کی ہر اس صفت کو اپنانے کی کوشش کریں اور اس کی نقالی کی کوشش کریں جس کی مثال کوئی نہیں۔ پھر سمجھ لیں کہ یہ عارضی رشتہ خدا سے قائم ہورہا ہے اپنانے کے نتیجہ میں مستقلاً خدا کی کوئی صفت آپ کی صفت نہیں بن سکتی۔ کیونکہ اگر ہوئی تو اللہ بے مثل نہ رہے گا۔ پس پرتو کے طور پر خداتعالیٰ کی تمام صفات انسان اپنا سکتا ہے۔ اس سے عکس پڑتا ہے اور اس سے زیادہ خداتعالیٰ کی کوئی صفت بھی دائمی نہیں بن سکتی انسان کے لئے۔ اسی لئے مالک یوم الدین کا جو پیغام ہے وہ یہی پیغام ہے۔ اس کا کفو کوئی نہیں۔ یعنی اس کے سوا کوئی ملکیت باقی نہیں رہی۔ کوئی صفات کسی کی باقی نہیں رہیں گی۔ وہ ایک رہ جائے گا۔ا س لئے وہ بے مثل اور بے قصور ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ اسی سے اس سے تعلق قائم ہوگا اور یہ احساس بھی ہمارا فرض ہے کہ یہ صفات ہماری نہیں ہیں۔ بلکہ مالک کی صفات ہیں جن سے ہم نے تعلق کی خاطر ان کو اپنایا ہے۔ جو سب سے زیادہ ان کو اپنالے گا وہی مالک کی صفات میں سے سب سے زیادہ حصہ پانے والا ہوگا۔ اور اس پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سوا دنیا کا کوئی اور وجود نہیں ہے۔ جس نے مالک کی صفات سے اس تفصیل سے حصہ پایا ہو کہ ہر صفت کو اپنی نہ سمجھا ہو بلکہ مالک ہی کی سمجھا ہو۔ جہاں تک کہ مالک نے اس پر رحم فرمایا ہو اور کہا ہو کہ تو نے میری صفات کا حق ادا کیا ہے۔ آ اب تو بھی میری مالکیت میں ان معنوں میں شریک ہو جا کہ مخلوق میں تو مالک ہو اور خدا کی مالکیت کا مظہر ہو۔ اپنی صفات کے لحاظ سے نہیں بلکہ مظہر ہونے کے لحاظ سے۔ یہ تعلق جب آپ قائم کرلیں گے تو پھر معوذتین میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اللہ کی پناہیں آپ کو نصیب ہوں گی۔ اس کے بغیر معوذتین میں داخل ہو ہی نہیں سکتے۔ معوذتین ان دو آخری سورتوں کو کہتے ہیں جن میں اعوذباللہ کی ہدایت ہے۔ اب آپ جب ہمیشہ قرآن سے پہلے اعوذباللہ پڑھتے ہیں تو دراصل اس کا خلاصہ ان دو سورتوں میں آگیا ہے۔ ہم اللہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ سے پناہ مانگتے ہیں، لیکن وہ پناہ بے کار ہے اگر توحیدخالص پر قائم نہ ہوں۔ اس لئے لاکھ کروڑ دفعہ پڑھتے رہیں ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ آہی نہیں سکتے جب کہ توحیدخالص کا گیٹ آپ کے لئے نہ کھلے اور اس کے رستے سے آپ معوذتین میں داخل نہ ہوں۔ جب داخل ہوں گے تو ساری پناہیں آپ کو نصیب ہوجائیں گی۔ ہر زمانہ کے انسان کو نصیب ہوجائیں گی۔ اس تعلق میں قل اعوذبرب الفلق کے متعلق آپ یاد رکھیں کہ فلق پھاڑنے کو کہتے ہیں۔ جب ایک چیز نتھر کے دوسرے سے الگ ہوجائے۔ اور فالق الحب والنوی میں یہی مضمون ہے کہ وہ گٹھلیوں کو جو بیج کا مضمون اپنے اندر رکھتی ہیں اور بیجوں کو جو یہی بیج کا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں یعنی ان سے نشوونما ہوتی ہے ان کو پھاڑنے والا ہے۔ جب وہ پھاڑتا ہے ومن شرما خلق تو شر کا مضمون اٹھتا ہے اور شر کا مضمون خداتعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا لیکن پھاڑنے کا ایک طبعی فعل ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب بھی بیج پھوٹتا ہے یا گٹھلی کوئی چیز اگاتی ہے تو اس کے ساتھ ہی شر کا مضمون ازخود جاری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے تو بیج کو اور گٹھلی کو اس لئے نشوونمادی کہ وہ وہ برکتیں لے کر اٹھیں جن برکتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو بنایا۔ لیکن جب کوئی چیز پیدا ہوتی ہے تو وہ اگر وہ برکتوں سے انسان عاری رہے تو اس کا ایک شر ہے جو اس کو ساتھ پہنچے گا جیسے روشنی نہ رہے تو اندھیرا ایک شر لے کر آتا ہے۔ پس ان معنوں میں شر ہے نا کہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود شر کو پیدا فرمایا۔ من شرغاسق اذاوقب نے اس مضمون کو کھول دیا کہ اندھیرا ہی شر لے کر آتا ہے تو اندھیرا خدا سے دوری کا نام ہے۔ پس من شرماخلق میں یہ وہم کسی کو گزرے کہ اللہ نے شر پیدا کردیا۔ اگلی آیت اس کو جھٹلارہی ہے۔ ومن شرغاسق اذاوقب۔ رات جب پھیل جاتی ہے جب اندھیرا گہرا ہوجائے جب ہر چیز کو ڈھانپ لے اور کوئی صحیح راہ دکھائی نہ دے وہ شر ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگی جارہی ہے۔ پس آج کے زمانے میں بھی یہ رات پھیلی پڑی ہے۔ آج کے زمانے میں بھی ہر صداقت کو اس انسان کے قلب کی گمراہی نے ڈھانپ لیا ہے۔ کیونکہ وہ فی الحقیقت توحید کا قائل نہیں رہا اس لئے اس کے نتیجہ میں لازم تھا کہ اندھیرا پھوٹے پس ان اندھیروں سے پناہ مانگیں اور ہمیشہ پناہ مانگتے رہیں۔ اور آپ وہ استثناء بن جائیں جس کا بعد میں اس سورۃ اور اگلی سورۃ میں ذکر ملے گا۔ ومن شرغاسق اذاوقب کے بعد من شر نفثت فی العقد۔ نفثت فی العقد کے بھی بہت معانی ہیں۔ ان میں ایک جو صاف کھلا معنیٰ ہے وہ ہے تعلقات کو توڑنے میں کوشش کرنا اور اس کوشش میں خود کو اپنی ذات کو الگ کردینا۔ تاکہ پتا نہ لگے کس نے فساد برپا کیا ہے۔ پس جب شر پھیلتا ہے اندھیرے کے وقت تو اس کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ تمام تعلقات میں غیراللہ کا دخل ہوجاتا ہے اور وہ تعلقات توڑنے کا دور ہوا کرتا ہے۔ بظاہر باندھے جاتے ہیں مگر فی الحقیقت وہ تعلقات توڑے جاتے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ جو ماں، بیٹے،بہن بھائی،قوموں کا قوموں سے عملاً تعلق ٹوٹا ہوا ہے یہ UNITED NATIONS کے دھوکے میں نہ آئیں۔ یہ وہم ہے UNITED NATIONS خود ان تعلقات کو توڑنے کا ذریعہ ہے۔ اور یہ آیت تمام دنیا پر راج دہانی کررہی ہے۔ کہ یہ دور ایسا ہوگا جس میں تعلقات کو کاٹا جائے گا۔ خصوصیت کے ساتھ اللہ سے انسان کے تعلق کو توڑنے کے لئے شرارتیں کی جائیں گی۔ اور تم اگر اللہ کی پناہ میں آتے ہو تو توحید خالص تمہیں بچائے گی۔ اور تمہیں ہر فساد اور فتنے کے زمانے میں خدا کی طرف سے یہ تحفظ حاصل ہوگا کہ تمہارا اللہ سے تعلق نہیں ٹوٹے گا۔ خواہ دشمن جو چاہے کوشش کرے۔ اس کے نتیجے میں تمہیں خداتعالیٰ ایسی ترقیات عطا فرمائے گا کہ سارا زمانہ گھاٹے میں ہوگا تم سے لوگ حسد کریں گے۔ پس من شرحاسداذاحسد نے بتادیا کہ اگر تم اس تعلیم پر قائم رہے تو تم سے ضرور حسد کیا جائے گا۔ کیونکہ تمہیں ہوگے جس نے ترقی کرنی ہے۔ تمہیں ہوگے جو آئندہ زمانوں کا بیج بنوگے اس کی گٹھلیاں بنوگے۔ تم سے پھوٹیں گی وہ خداتعالیٰ کی برکتیں جنہوں نے آئندہ زمانوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور قرآن کی برکتوں سے ڈھانپ دینا ہے۔ اگر تم وہ ہو تو پھر من شرحاسداذاحسد اس بات کے لئے تیار بھی رہو اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے رہو۔ پس شرحاسد سے اللہ تمہیں پناہ دے گا جب وہ حسد کرے گا۔ وہ حسد اس وقت کرے گا جب تم ترقی کروگے۔ اور جب تم ترقی کروگے تو اعوذ نہ بھولنا۔ یہ دعا نہ بھولنا کہ اے اللہ یہ ترقی ہمارے لئے فضل کی ترقی ہو۔ اور اس ترقی میں حاسد کا ہر حسد ناکام اور نامراد رہ جائے۔ پس آج کل کے دور میں جو جماعت احمدیہ کی ترقی کا اور پھیلنے کا ایک خاص دور ہے۔ اس میں یہ سورۃ ہمارے غیرمعمولی کام آتی ہے۔ اگراس کے مضمون کو آپ سمجھ لیں کہ تعوذ کرنا ہوگا بالارادہ کرنا ہوگا۔ ہر ترقی کے وقت زیادہ سے زیادہ اللہ کی پناہ میں آنے کی استدعا کرنی ہوگی۔
اب آخری سورۃ جو ہے قل اعوذبرب الناس (چند منٹ بارہ سے اوپر بھی ہوجائیں تو کوئی حرج تو نہیں) اس سلسلے میں بہت ہی اہم بات قابل ذکر یہ ہے۔ یہ سارے بے سہارا لوگوں کے لئے ایک بہترین دعا ہے۔ عجیب عنوان ہے۔ عجیب تکرار ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ کس طرح خدا نے دنیا کے بے سہارے لوگوں کو اپنا بتایا اور بتایا کہ تم سب کی پناہ میں ہوں۔ یہ دور جس کا ذکر گزرا ہے اس میں ساری دنیا بے سہارا ہوگئی۔ ظالموں کے دست کرم پر اگر وہ دست کرم کہا جاسکتا ہے ان کی بقا رہ گئی ہے۔ اور ہر مضمون کے لحاظ سے جو انسان کے لئے ضروری ہے اس میں وہ بے سہارا ہوگئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کیسا عظیم خطاب ہے۔ رب الناس تم پاگلوں کو کیا ہوگیا ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ ناس کا رب ہے اور پھر تمہیں کوئی مصیبت پڑسکتی ہے۔ کہ تم ہوش کرو اور اے ناس اے عوام الناس جو ربوبیت سے کلیۃً عاری ہو۔ تمہاری پرورش تمہاری دیکھ بھال کے لئے فرضی دعاوی ہیں۔ لیکن فی الحقیقت تم سے دھوکہ ہورہا ہے اور تمہارا یہ رزق تم سے نوچا جارہا ہے اور کھینچا جارہا ہے۔ استحصال ہورہا ہے اور ساری دنیا میں غریب عوام الناس خواہ کسی ملک کے بھی ہوں ان کا ستحصال ہورہا ہے۔ فرمایا یاد رکھو رب الناس کی پناہ میں آئے بغیر تمہارے استحصال کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اللہ تمہیں جب کہہ رہا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں تو پھر تمہیں کیا غم ہے۔ صرف احساس نہیں ہے نا۔ علم نہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اس لئے دھکے کھاتے پھر رہے ہو۔ لوٹو رب کی طرف۔ رب کی طرف لوٹو گے۔ کہوگے کہ ہاں واقعۃً اللہ ہمارا رب ہے۔ تو تمہارے تمام اقتصادی مسائل کا حل اسی میں ہے۔ اور کسی حل کی ضرورت نہیں۔ اللہ کو اپنا رب بنالو۔ رب الناس۔ ملک الناس۔ اقتصادیات کے بعد سیاسیات کا دور ہے۔ اور لوگ ملوکیت چاہتے ہیں۔ اور تم ملوکیت سے عاری ہو تمہارے نام پر Democracies بنتی ہیں۔ تمہارے نام پر بڑی بڑی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ خواہ Bourgeoisie ہوں یا Proletariat (Proletariat ہوں۔ ہاں) یعنی جو Capitalism کے نتیجہ میں ہوں یا روسی کمیونزم کے نتیجہ میں ہوں۔ جتنی بھی طاقتیں سیاست میں اکٹھی ہوتی ہیں وہ تم غریبوں کے نام پر اکٹھی ہوتی ہیں۔تمہارے نام پر حکومتیں لی جاتی ہیں۔ اور تمہیں ہو جو ان حکومتوں کے جبرواستبداد کا نشانہ بنتے ہو۔ کتنا رحم فرمارہا ہے اللہ اپنے بندوں پر۔ دنیا کے بے سہاروں کے لئے یہ سورۃ ایک عظیم پیغام لے کر آتی ہے۔ اے بے سہارا لوگو جن کی نہ اقتصادیات رہی نہ جن کا کوئی ملکیت میں کسی قسم کا حصہ رہا۔ تم سے طاقتیں لے کر تمہیں محروم کیا جارہا ہے۔ یاد رکھو اللہ ہے جو ملک الناس ہے۔ اسی طرف لوٹو۔ جب اس کی طرف لوٹو گے تو اس کی ملوکیت اور اس کی ملکیت ناس کے حق میں چلے گی ان کے مخالف نہیں چلے گی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ تم نے اس کو اپنا معبود تسلیم نہیں کیا۔ الہ الناس۔ یہ بات بھول جاتے ہو کہ معبود وہ تھا۔ اور تم نے ان دو بدبختیوں کو معبود بنارکھا ہے۔ پس پناہ میں آؤگے تو معبود پہچان کر آؤگے۔ جس جس نے بھی اپنے معبودحقیقی کو پہچان لیا وہ اس سے اس کو Guarantee ہے اے بے سہارا لوگوں اے میرے بندو۔ تمہیں بے سہارا چھوڑنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا۔ تم اپنی بے وقوفیوں اور غلطیوں کی وجہ سے بے سہارا ہوگئے ہو۔ اب بھی وقت ہے کہ اس کی الوہیت کی طرف لوٹو۔ جب اس کی الوہیت کی طرف لوٹوگے تو کوئی انسان بھی بے سہارا نہیں رہے گا اور نظام الٰہی ساری کائنات کو ڈھانپ لے گا۔ اور یہ وہ نظام ہے جس کے کچھ نمونے ہم نے جماعت احمدیہ میں دیکھ لئے ہیں۔ ایک ہی جماعت ہے جس میں فی الواقعہ اوپر سے نیچے تک دور تک غریبوں کے حالات پر نظر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ توفیق کے مطابق۔ توفیق سے بڑھ کر تو انسان کو مکلف نہیں بنایا گیا۔ لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے ساری دنیا میں دیکھ بھال کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ اور کل بھی وہ ہمارے اس معاملے میں جو مقرر ہیں دوست ان کو بلاکر میں بتاتا رہا ہوں کہ فلاں جگہ سے یہ اطلاع ملی ہے۔ Canada میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ Australia میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ فلاں ملک میں یہ واقعہ ہوا ہے۔ اور پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش میں بھی کچھ لوگ ہیں جو بے سہارا پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس وقت ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ رمضان سے پہلے پہلے مجھے یقینا اطلاع دو کہ فوری طور پر رابطے کرکے ان لوگوں کا جو ہمیں علم ہوا ہے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا کوئی سامان پیدا کردیا گیا ہے۔ کشمیر سے خبر آرہی ہو یا بعض دفعہ امریکہ سے خبر آرہی ہو۔ کہیں سے کوئی خبر ہو ایک دنیا میں صرف مرکز ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر ایک اصول کے تابع، آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دین کے نظام کے تابع سب دنیا پر پھیلادی گئی ہے۔ کوئی ناس بھی بے سہارا نہیں رہے اس پہلو سے۔ اگر یہ جماعت کا نظام واقعۃً دنیا کو قبول ہوجاتا تو سارے تردد دور ہوجانے تھے۔ دنیا میں ایک شخص واحد ایسا ہوتا جس کو قرآن کا فیض نہ پہنچ رہا ہوتا اور یہ آخری سورۃ اپنی امن کی چادر اپنی حفاظت کی چادر اس کے سر پر نہ پھیلاتی۔ پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ یہ نظام جلد از جلد دنیا پر غالب آئے اور فی الحقیقت ہم یہ اعلان کرسکیں کہ قل اعوذبرب الناس۔ ملک الناس۔ الہ الناس۔ من شرالوسواس الخناس۔ خناس کے شر سے ہمیں محفوظ رکھنا جو ہماری جماعت میں بھی کام کرے گا اور جماعت کے نظام سے تمہیں توڑنے کی کوشش کرے گا۔ اور وسوسے پھیلائے گا اور بتائے گا کہ تعلق کو توڑو۔ کہو ہمیں کیسے تم کاٹ سکتے ہو۔ ہم تو خدا کی پناہ میں آگئے ہیں۔ جس کو اللہ کی پناہ نصیب ہو وہ ہر خطرے سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ پس اس پیغام کو مدنظر رکھتے ہوئے میں امید رکھتا ہوں کہ آپ آج کے دن بھی اپنی دعائیں کرتے رہیں گے اور آئندہ بھی ہمیشہ اس پہلو سے دعائیں کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ عطا فرمائے۔ اور وہ دو پناہیں خصوصیت سے عطا فرمائے جو معوذتین میں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اب یہ تو درس کا حصہ ختم ہوا۔ اب جو باقی چیزیں ہیں وہ کہاں ہیں۔ نکالیں۔ یہ جو آج کی باتیں ہیں یہ ساری درس کی دعاؤں میں شامل ہیں اصل میں۔ اس کو الگ مضمون نہ سمجھیں۔ یہ ایسی تفصیل نہیں ہے جو دعاؤں سے الگ ہو۔ اس لئے ساتھ ساتھ دعاؤں کا مضمون بھی جاری ہے۔ اس لئے وہ رسمی طور پر ہاتھ اٹھا کے جو دعا کی جاتی ہے وہ چند منٹ بھی ہو تو یہ سارا وقت ہی ہمارا دعاؤں میں صرف ہورہا ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ ساری دنیا میں احمدی جو جو بھی سن رہے ہیں وہ اپنی دعاؤں میں ان تمام امور کو پیش نظر رکھیں گے۔
رمضان المبارک اور تحریک دعا
میں بالعموم اس لکھی ہوئی فہرست کو چھوڑ کر اپنے ذہن سے دعاؤں کی تحریک کرتا رہتا ہوں۔ کیونکہ مجھے ذہن میں یہ ساری Catageries زیادہ تر حاضر ہیں۔ مگر ایک دفعہ مجھے یاد ہے پچھلی دفعہ ایک Catagery کا ذکر میں بھول گیا تھا تو بعد میں شکوہ آیا تھا۔ اس لئے آج میں جہاں تک ہماری توفیق ہے ہم نے کوشش کی ہے کہ کوئی رخنہ نہ رہے۔ یہ میں فہرست آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں۔
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ اللھم صل علی محمد وال محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔ عالم اسلام کی ترقی اور اس کے الجھے ہوئے مسائل کے حل کے لئے دعا، عالم اسلام جب میں کہتا ہوں تو تمام دنیا میں اسلام کی طرف منسوب ہونے والے مسلمان پیش نظر ہیں۔ اس کو عالم اسلام کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ عالم مسلم ہے مگرا س محاورے کا عام ہونا مجھے مجبور کرتا ہے کہ یہ محاورہ استعمال کروں۔ سارے عالم اسلام کے الجھے ہوئے مسائل جن میں دینی مسائل بھی شامل ہیں اور سیاسی مسائل بھی شامل ہیں۔ اور اقتصادی مسائل بھی شامل ہیں۔ ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی راہنمائی فرمائے اور ان مسائل کو حل فرمائے۔
گزشتہ صلحائے امت جتنے بھی گزرے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے بعد ان سب کو اپنی عمومی دعا میں یاد رکھیں۔ ان کے بڑے احسانات ہیں۔ اس وقت کے لوگوں پر بھی اور آئندہ آنے والے لوگوں پر بھی۔ ایسے ایسے صلحاء ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کشف میں دکھایا گیا ہے اور کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے لئے دعائیں کیں ہیں۔ پس ان کی دعائیں ہمیں پہنچتی ہوں گی۔ اور پہنچے گی غالباً، غالباً کیا یقینا مجھے یقین ہے کہ وہ پہنچے گی۔ لیکن ہماری دعائیں بھی تو ان کو پہنچنی چاہئیں۔ دجال کے فتنے کے شر سے بچنے کے لئے یہ فتنہ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا بڑا خطرناک فتنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں اگر خدا پناہ نہ دے تو دجال کے فتنے سے تو کوئی انسان کوئی قوم بچ نہیں سکتی۔ امن عالم کو لاحق خطرات کے ازالہ کے لئے یہی دجالی فتنہ ہے جس نے امن عالم کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اشاعت اسلام اور احمدیت اس سلسلے میں ہمارے رستے میں جو مشکلات ہیں اللہ تعالیٰ دور فرمائے۔ اور کثرت سے طباعت کا حق بھی ادا کریں اور اشاعت کا بھی اور مضامین بھی ایسے ہوں جو اللہ کی نظر میں مقبول ہوں۔ واقفین زندگی اور واقفین نو کے لئے بھی دعائیں کریں، واقفین زندگی کے لئے دعائیں تو ہمیشہ ذہن میں رہتی ہیں، واقفین نو کے لئے بھی۔ مگر واقفین زندگی میں سے ایک طبقہ ایسا ہے جو خدمت کے میدانوں میں نکلا ہوا ہے۔ وہ خصوصیت کے ساتھ آپ کی دعاؤں کے محتاج ہیں۔ بیماریاں جو مختلف ممالک میں جانے کی وجہ سے ان کو ملتی ہیں یا جس کے ساتھ ان کا آپس میں رابطہ قائم ہوتا ہے۔ گھر بیٹھے وہ بیماریاں ان کو لاحق ہوہی نہیں سکتی تھیں۔ اور پھر بیوی بچے جب ساتھ لے کے جاتے ہیں تو بیماریوں کی وجہ سے ان کو واپس بھیج دینا پڑتا ہے۔ غرضیکہ بہت گہری مشکلات میں ہیں اور پھر بھی اللہ کے صبر کے ساتھ وقف کا حق ادا کئے جاتے ہیں اور مجھے لکھتے ہیں کہ آپ پرواہ نہ کریں۔ میرے بیوی بچے میرے ہاتھ سے جائیں۔ میرے گھر پہ پیچھے جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ بعضوں کے ماں باپ فوت ہوجاتے ہیں پیچھے اور یہ واقفین لکھتے ہیں کہ ہمیں خدمت دین سے محروم نہ کیا جائے۔ پس یہ وہ واقفین ہیں جن کو آج کے درس میں خاص طور پر دعا میں یاد رکھیں۔ اور یہ جو میں باتیں کررہا ہوں ساتھ ساتھ دعائیں کرتے رہیں۔ وہ آخری دعا چند منٹ کی جو ہونی ہے یہ ساتھ دعائیں ہورہی ہیں ہاتھ اٹھیں نہ اٹھیں دل سے یہ دعائیں اٹھتی رہیں۔ قرآن کریم کی خدمت پر مامور مرد اور خواتین جنہوں نے اپنا مقصد ہی یہ بنالیا ہے۔ واقفین زندگی اور ساری جماعت قرآن کی ایک عمومی خدمت تو کررہی ہے۔ مال جان اور پیسے سے۔ مگر بہت سے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں میرے علم میں ہیں جو آخری وقت تک جتنا بھی ان کو توفیق ہے وہ قرآن دوسروں کو پڑھا کر اپنے دل کی یہ حرص پوری کرتے ہیں کہ ہم بھی قرآن کی خدمت کرنے والوں میں ہوں۔ کمزوریاں ان کے علم کی ہوں گی لیکن جس خلوص نیت سے وہ قرآن کریم پڑھاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے۔ وہ سارے خدمت کرنے والے کارکنان اور داعیان الی اللہ ان کو اکٹھا میں نے اس لئے باندھا ہے کہ دعوت الی اللہ کے ساتھ ایک خدمت کرنے والوں کی ٹولی بھی ہوا کرتی ہے جن کی خدمت کے بغیر دعوت الی اللہ آگے بڑھ نہیں سکتی۔ مالی خدمت بھی ہوتی ہے، جانی خدمت بھی ہوتی۔ بعض گھر بیٹھی عورتیں کھانے پکاتی ہیں ان مہمانوں کے لئے جو اللہ کا پیغام سننے کے لئے ان کے گھر آتے ہیں۔ تو ہر قسم کی خدمت کرنے والے۔ خصوصاً وہ جن کا دعوت الی اللہ سے تعلق ہے ان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ شہدائے احمدیت کے لئے ان کے لئے جن کی رگوں میں قیامت تک کے لئے یہ مقدس خون دوڑتا رہے گا۔ یعنی ان کی اولادیں قیامت تک کے لئے شہدائے احمدیت کے لئے جو خدا کے حضور زندہ ہیں اور جن کی زندگی کا ایک یہ ثبوت ہوگا کہ ان کی نیکیاں ان کی اولاد کی رگوں میں دوڑتی رہیں گی۔ خدا کرے کہ ان کی ساری اولاد ہمیشہ اپنے زندہ مرحوم شہداء کے ورثے میں اب ان کی نیکیوں کو زندہ رکھیں۔ اسیران راہ مولا کے لئے ان کی فیملیوں ان کے خاندانوں کے لئے۔ یہ بھی بڑا ایک دکھ کا ذکر ہے کہ راہ مولا میں اسیر ہو کر جو اپنے گھروالوں سے جدا ہوتے ہیں۔ سالہا سال بعض دفعہ دس، بارہ سال، پندرہ سال تک وہ جدا رہتے ہیں۔ اور ان کا دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں خدا ان کا پرسان حال ہے۔ اور رہے گا۔ اور ان کے لئے خصوصیت سے آپ دعائیں کریں۔ درویشان قادیان ہیں۔ جنہوں نے قادیان میں دھونی رمالی۔ اہل ربوہ ہیں جنہوں نے ربوہ کی نیکیوں کو آباد کیا ہوا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ شریر ہر طرح سے کوشش کرکے ان کے اندر من شر النفثت فی العقد والا مضمون داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ہمیشہ اس کو جھٹک دیتے ہیں۔ اور آج ربوہ کی بھاری اکثریت ایسی ہے جو خلافت سے اس طرح اٹوٹ طور پر منسلک ہوچکی ہے جو اس سے پہلے کبھی مجھے یاد نہیں۔ اس کثرت سے اہل ربوہ کو خلافت احمدیت سے اتنا گہرا ذاتی تعلق قائم ہوا ہو۔ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ پہلے کتنے محلے تھے جن کا براہ راست خلافت سے کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ جمعہ پہ بھی شاذ کے طور پر آنے والے لوگ تھے اور مسجد تقریباً خالی رہا کرتی تھی۔ یعنی بھرتی بھی تھی تو آبادی کا بہت تھوڑا حصہ تھا جو اس مسجد کو بھرا کرتا تھا۔ لیکن نہ آنے والے مختلف محلوں میں رہنے والے بہت بھاری تعداد تھی براہ راست خلافت سے تعلق والے جو غور کرکے آپ دیکھیں تو چند سوکے سوا آپ کو نہیں ملیں گے۔ لیکن آج خدا کے فضل سے 30، 40 ہزار ایسے ہیں جن کو خدا کے فضل سے براہ راست خلافت سے تعلق قائم ہوچکا ہے۔ اور وہ سارے فتنہ و فساد کی کوششیں ناکام و نامراد رہ گئی ہیں۔ پس بڑھتے ہوئے وقت نے ہمیں اور بھی خدا کی پناہ میں داخل کردیا ہے جس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ ہماری دعائیں اللہ کے ہاں مقبول ہیں۔ اگر ہم توحید خالص کی محبت میں یہ سفر نہ کرتے تو خدا کی پناہوں میں داخل ہوہی نہیں سکتے تھے۔ خدا کی پناہیں ہمیں ڈھانپ رہی ہیں۔ ربوہ میں بھی قادیان میں بھی دوسرے تمام ممالک میں بھی اور یہ سایہ پھیلتا اور بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ہمارا اخلاص مقبول ہوگیا ہے۔ اللہ ہمیشہ اس اخلاص کو مقبول رکھے۔ اور کبھی بھی ہم رضا سے عاری نہ رہیں۔ یہ دعا ہے جو آج آپ میرے ساتھ مل کے کرتے رہیں۔ کثرت سے درود پڑھیں یعنی آج ہی صرف نہ پڑھیں بلکہ ہمیشہ پڑھتے رہیں۔ درود ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی امت سے اس طرح باندھتا ہے کہ پھر الگ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ درود میں آل محمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا ذکر ہے۔ اور حقیقت میں آل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آل کے ذکر کے ساتھ ملتا ہے۔ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آل وہ آل تھی جو روحانی طور پر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چلنے والی تھی۔ لاینال عھدی الظالمین کا مضمون اس پر اطلاق پاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا اس آل سے جو تعلق کو قائم رکھنے والی آل تھی۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی روحانی آل میں داخل ہونے کا بہترین ذریعہ درود ہے۔ پس درود کی کثرت کریں اور ہمیشہ اٹھتے بیٹھتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے احسانات کو یاد کرکے درود پڑھا کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس درود کی برکت سے آپ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے تعلق اٹوٹ یعنی ایسا تعلق ہوجائے گا جو توڑا جا ہی نہیں سکتا اور جو خداتعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں اور حفاظتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو حاصل ہیں ان کا سایہ ہم پر بھی پڑے گا اور اس سائے میں ہم آگے قدم بڑھانے کی توفیق پائیں گے۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو ہیں یا جو گزر گئے ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ ان صحابہ نے بہت فیض پہنچایا ہے ہمیں۔ ان کے نیک اعمال کے نتیجہ میں خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہماری پہلی نسلوں نے بھی بہت کچھ سیکھا اور اب کی نسلوں نے بھی بہت کچھ سیکھا۔ اس کثرت سے صحابہ کا فیض ہم پر جاری ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جنہوں نے قادیان میں آنکھیں کھولی ہیں وہ جانتے ہیں کہ صحابہ کی کیسی کیسی برکتیں جماعت کو نصیب ہوئی ہیں۔ پس صحابہ کو ضرور دعاؤں میں یاد رکھیں۔ پہلے صحابہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے زمانہ کے صحابہ تو ستاروں کی طرح تھے۔ ان کے فیوض بھی آج تک ہمیں پہنچ رہے ہیں۔ درس میں ہمیشہ ان کا ذکر خیر چلتا ہے۔ اور اس زمانے کے صحابہ جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے پہلے صحابہ سے ملائے گئے ان سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو ان کی آل کے حوالے سے یاد رکھیں۔ یہ دعائیں کریں کہ اللہ اس خاندان کو زیادہ زیادہ اس آل میں شامل فرمادے جس آل کے ساتھ خداتعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کے وعدے ہیں۔ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے احسان کا تو بدلہ اتارا جا ہی نہیں سکتا۔ مگر وہی پہلو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اوپر بھی اطلاق پاتا ہے کہ دونوں کی ایک ظاہر آل یعنی خونی رشتہ بھی ہے جس نے آپ پر اتنا احسان کیا۔ اس کے خونی رشتہ کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ اس کو حقیقی آل بنادے۔ اور یہ مضمون دونوں جگہ برابر اطلاق پائے گا۔ جماعت کے ابتلاؤں کے دور کے ختم ہونے کے لئے لکھا ہوا ہے۔ ابتلاؤں کا دور تو ختم نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ابتلاؤں میں ہی جماعت آزمائی جاتی ہے اور چمکائی جاتی ہے۔ یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ آئندہ ابتلاء کب اور کیسے ہوں گے یہ دعا ضرور کریں کہ اس ابتلاء میں جو جماعت آزمائی جارہی ہے ہمیں اس کا ایسا پھل عطا فرما کہ ہمارے دل سینے جیسے کہا جاتا ہے کانوں تک راضی ہوجائیں۔ اور اتنی رحمتیں نازل فرما کہ دشمن نامراد ہوجائے اور من شر حاسد اذاحسد کا مضمون ہماری آنکھوں کے سامنے کھل جائے اور ہم دیکھ لیں کہ ان کا حسد ہمیں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ اس پہلو سے ان دشمنوں کے لئے جنہوں نے جماعت کے لئے ابتلاء کھڑے کئے ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں۔ میں تو ہمیشہ ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان ابتلاؤں کے عذاب سے بچائے جو انہوں نے خود اپنے اوپر سہیڑ رکھے ہیں۔ مگر خدا کے علم میں کچھ ایسے لوگ ہوا کرتے ہیں جن کے اوپر آخری فیصلہ صادر ہوچکا ہوتا ہے۔ کہ یہ لوگ باز آنے والے نہیں۔ پس جو باز آنے والے نہیں ہیں جو ہمارے علم میں نہیں۔ ہوسکتا ہے مرتے وقت تک کوئی باز آچکا ہو۔ مگر اللہ کے علم میں ہیں۔ ان کے حق میں ہم دعا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ خدا کے علم کے مطابق وہ باز آنے والے نہیں ہیں۔ ان کے لئے ہماری دعا ہے اللھم مزقھم کل ممزق سحقھم تسحیقا کہ اے اللہ ان کو پارہ پارہ کردے ان کی خاک اڑادے تاکہ ان کی راہنمائی یعنی جس کو وہ راہنمائی کہتے ہیں اس کے نتیجہ میں قوم ان کی نحوستوں سے بچائی جائے۔ پس مقصد اعلیٰ قوم کا بچانا ہے۔ ان لوگوں کے لئے دعا ہے مزق کی جنہوں نے اس کے سوا باز ہی نہیں آنا کیونکہ خدا کے علم میں ہے کہ انہوں نے باز نہیں آنا۔ پس اللہ کے حکم کے مطابق جیسے نوح نے دعا کی تھی جب اس کو علم دیا گیا تھا کہ یہ لوگ اب باز آنے والے نہیں۔ پس ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کون کون ہیں؟ مگر اللہ بہتر جانتا ہے اس کے علم میں جو باز آنے والے نہیں ان کے لئے اس دعا سے بہتر اور کوئی دعا نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اس دعا کا فیض باقی عوام الناس کو پہنچے گا۔ جو ان کی وجہ سے شر میں مبتلا کئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ لاتذر علی الارض من الکافرین شریرا کی دعا جو الہامی دعا ہے یہ بھی یاد رکھیں۔ اس دعا میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا۔ کافروں کا کچھ بھی باقی نہ چھوڑ۔ Sellective دعا ہے۔ ان معانوں میں لاتذر علی الارض من الکافرین شریرا۔ پس اے خدا تیرے علم میں جو شرالناس لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کو مصیبتوں میں مبتلا کررکھا ہے ان میں سے اب کوئی نہ چھوڑ ہر ایک کو پکڑ لے اور یہ دور جاری ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں برکت ڈالے اس وقت تک ممتد کرے کہ ہم اپنی آنکھوں سے خدا کا یہ وعدہ پورا ہوتا ہوا دیکھ لیں۔
مختلف لوگ جو مختلف سیاستوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں دنیا میں مختلف طاقتیں ان سے کھیل کر رہی ہیں۔ مختلف خطے ہیں جن کو طرح طرح کی سیاستی مصیبتیں ہیں اور مذہب کے نام پر بھی ان سے کھیل کھیلا جارہا ہے۔ سیاست کے نام پر بھی، اقتصادیات کے نام پر بھی ان میں سے بعض میں سناتا ہوں۔ اہل بوسنیا ہیں جو خصوصیت سے ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں۔ اہل کشمیر ہیں جو خصوصیت سے ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں۔ اہل فلسطین ہیں جو خصوصیت سے ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں۔ چیچنیا کے باشندے ہیں جنہوں نے اسلام کی غیرت میں قدم اٹھایا وہ درست تھا یا غلط تھا لیکن وہ جو قدم اسلام کی غیرت میں اٹھایا گیا تھا اللہ ان کی راہنمائی فرمائے ان کو سیدھے رستے پر ڈالے۔ پس چیچنیا کے باشندوں کو بھی یاد رکھیں۔ سیرالیون میں جو اس وقت ظلم جاری ہے۔ سیرالیون قوم بڑی عظمت والی قوم ہے۔ کیونکہ اس نے اسلام احمدیت کو کھلے ہاتھوں سے WELCOME کیا تھا استقبال کہا تھا۔ ان کی مصیبتیں بھی اللہ دور فرمائے۔ گیمبیا اور دیگر افریقن ممالک میں جو بھی قوم کے راہنما خود اپنی قوم کو مصیبتوں میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان راہنماؤں کو ہدایت فرمائے اور اس قوم کے لئے اس حفاظت کا انتظام فرمائے جس حفاظت کے بغیر کوئی دنیا کی قوم باقی نہیں رہ سکتی۔ یعنی اللہ کی حفاظت۔ پس گیمبیا کے لئے اس کے عوام کے لئے۔ گیمبیا کے حکمرانوں کے لئے خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی فرمائے۔ اور ہم گیمبیا کے حکمرانوں کی ہلاکت نہیں چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ان کو ہدایت دے دے۔ اور ہدایت کے نتیجہ میں جو فضل گیمبیا پر نازل ہوں گے وہ اس واقعہ سے جو پہلے گزرا ہے اس سے میں سمجھتا ہوں کہ پہلے سے بہت بڑھ کر ہوں گے۔ اور ایک نئے دور میں گیمبیا داخل ہوجائے گا۔ دعا کریں کہ جلد ہم اس نظارے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
دکھوں سے چور انسانیت کے لئے۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں۔ آپ جانتے ہیں یہاں کیا ہورہا ہے۔ ان مسلمانوں کے لئے جن کے حقوق غصب کئے جارہے ہیں۔ خواہ مسلمانوں کی طرف سے ہوں یا غیرمسلموں کی طرف سے ہوں۔ وہ مسلمان ممالک جو غیرمسلم طاقتوں یا مسلم طاقتوں کے جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ ممالک جہاں متشدد ملاں کی طرف سے عورتوں اور بچوں پر مذہب کے نام پر نہایت سفاکانہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ ان میں خصوصیت سے افغانستان اور الجیریا ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اللہ کے نام پر اللہ کی رحمت کے نام پر۔ خداتعالیٰ کی توحید کے نام پر خدا کے بندوں پر ایسے ظلم۔ عورتوں پر، بچوں پر ظلم، ان کا قتل عام۔ یعنی ایسی بھیانک باتیں ہیں جس کی تفصیل میں میں نہیں جاسکتا۔ مگر یہ لوگ مظلوم آپ کی دعاؤں کے مستحق ضرور ہیں۔ وہ ممالک ملاں کے تشدد نے جن کو ظلم کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ آخر پر ایک دفعہ یہ تکرار ہوگئی ہے کہ وہ مولوی جو خدا کی مخلوق کو بہکا رہے ہیں ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ ان کو عقل دے اور آگ کے عذاب سے بچائے۔ ان کے لئے بھی دعا کریں جو بہکائے جارہے ہیں۔ خدا ان کی آنکھیں کھولے۔ ان ملکوں کی عوام کے لئے راہنما سیاسی اغراض کے لئے جن کے راہنما سیاسی اغراض کی خاطر جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خواہ وہ ہندوستان والے ہوں یا پاکستان والے ہوں کہیں کے بھی ہوں ان ملکوں کے لئے، ان راہنماؤں کے لئے مگر خصوصیت سے ان عوام الناس کے لئے دعا کریں کہ جب بھی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے عوام الناس پہ بھڑکتی ہے یعنی اس کی جلن اس کی تباہی اس کی ہلاکت جیسے عوام پر ٹوٹتی ہے ویسے کسی اور پر نہیں ٹوٹا کرتی۔ یہ بڑے بڑے راہنما تو اپنے محلوں میں بیٹھے رہ جاتے ہیں اور عوام الناس بچارے جلتے مرتے گلیوں میں مارے جاتے اور پھر مزید بھوک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پس ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
لوگوں کے جو اپنے مسائل ہیں مختلف۔ بیماروں کی جو ضرورتیں ہیں، محتاج ہیں، معذور ہیں، چٹیوں میں مبتلا لوگ ہیں۔ بیوگان اور یتامیٰ خصوصی دعاؤں کے محتاج ہیں۔ وہ بچیاں جن کے رشتے نہیں مل رہے۔ بے اولاد لوگ۔ بے کار اور بے روزگار لوگ۔ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ۔ آپس کی خوانگی ناراضگیوں کا شکار جن کو محبت سے اور صلح سے نہیں آتا۔ خواہ وہ میاں بیوی ہوں یا اور ہوں۔ رشتے دار ہوں۔ اقتصادی بدحالی سے جو سارے ملک کو ڈھانپ لیتی ہے اس سے اور حوادث زمانہ کے نتیجہ میں مصیبتوں کی بھینٹ چڑھنے والے لوگ۔ اور ان ماؤں کے لئے بھی دعا کریں جن کے بچے لاپتہ ہوگئے ہیں۔ یا دین سے گم گشتہ ہوگئے ہیں اور وہ ان کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ زمینداروں کے لئے دعا کریں۔ تاجروں کے لئے دعا کریں۔ آجروں کے لئے دعا کریں۔ اجیروں کے لئے دعا کریں۔ مقدموں میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے دعا کریں۔ طلباء کے لئے اور ہر قسم کے علوم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی عقلوں اور ذہنی صلاحیتوں اور قلبی صلاحیتوں کے صیقل ہونے کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
(دومنٹ رہ گئے ہیں۔ تھوڑا سا اوپر ہوجائے تو حرج کوئی نہیں)
وہ لوگ بھی ابھی مغرب کو لمبا کرسکتے پیچھے دھکیل سکتے ہیں اور پھر بھی وقت پہ پڑھ سکتے ہیں۔ اس لئے تھوڑا سا اور چلئے میرے ساتھ۔ چندہ تحریک جدید اور وقف جدید کی ادائیگی والوں کے متعلق ہمیشہ اعلان ہوا کرتا ہے۔ جنہوں نے رمضان سے پہلے سوفیصدی ادائیگی کردی ہے۔ ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ وہ کارکنان جو اس درس کی تیاری میں میرے ساتھ شامل رہے ہیں۔ ایک بڑی بھاری ٹیم ہے اور سب دنیا میں وہ ٹیم ہے۔ جن کی مدد کا میں محتاج رہا ہوں۔ پس یہ درس جو آپ کے سامنے پیش کیا گیا یہ جماعت احمدیہ کا تحفہ ہے میرے اکیلے کا نہیں۔ سارے مختلف علوم کے ماہرین اس میں دن رات لگے رہے ہیں۔ درس سے پہلے بھی اور درس کے دوران بھی۔ میں مختصراً ان کا ذکر کردیتا ہوں۔
سید عبدالحئی شاہ صاحب ہیں، محمد اعظم اکسیر صاحب، محمد یوسف شاہد، محمد مقصود احمد منیب۔ یہ مربیان سلسلہ ہیں جو سید عبدالحئی شاہ کی نگرانی میں اس کام پر دیر سے مامور ہیں۔ یہ انہی کے سپرد ہیں۔ سارا سال مدد دینے والے ان دوستوں میں جو علماء ہیں۔ ان میں رانا تصور احمد خان، محمد انور نسیم، نوید احمد سعید یہ مربیان ہیں۔ ہنگامی طور پر مدد دینے والے۔ مبشر احمد کاہلوں جو ناظر مقامی ہیں۔ ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ہیں۔ منیر احمد بسمل نائب ناظر اشاعت۔ ندیم احمد باسط، فضیل احمد عیاض مربیان شعبہ سمعی و بصری۔ شبیر احمد ثاقب، عبدالسمیع خان، مبشر احمد ایاز۔ یہ جامعہ کے اساتذہ ہیں۔ رابطہ لائبریری اور فوٹوسٹیٹ میں ایک بڑا بھاری عملہ ہر جگہ Involve ہے۔ یہاں بھی انہوں نے دن رات کام کیا ہے۔ محمد اسلم شاد پرائیویٹ سیکرٹری۔ مظفر احمد قمر نظارت علیائ۔ حبیب الرحمان زیروی۔ محمد صادق ملک علاؤ الدین۔ یہ خلافت لائبریری کے ہیں۔ پھر مولوی دوست محمد صاحب اور حافظ مظفر احمد صاحب سے جب بھی ہم نے کوئی استفسار کیا ہے فوری جواب دیا ہے ان لوگوں نے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس درس کی برکتوں میں شامل فرمائے۔
لندن میں درس القرآن کے نوٹس تیار کرنے والی ٹیم کے اسمائ۔ مکرم عبدالمجید صاحب عامر، محمد جلال شمس صاحب، منیر احمد جاوید، لجنہ ریسرچ ٹیم نویدہ شاہد، صوفیہ محمود اور نبیلہ شاہ اور (ان میں شمس صاحب وغیرہ کا ذکر نہیں آیا وہ آگے آنا ہے۔ یا؟ آگے آنا ہے نا کہ نہیں)
شمس صاحب سے جب بھی میں نے پوچھا کام کیا اس سلسلے میں تو فوراً انہوں نے کوشش کی ہے۔ تو دعا میں شامل کرلینے میں کیا حرج ہے ان کو۔
ہاں عندالضرورت تعاون کرنے والے عبدالمومن طاہر، فیروز عالم، اخلاق احمد انجم، نصیر احمد قمر، ہادی علی صاحب اور شمس صاحب۔
‏Technical مدد کرنے والے۔ مبشر احمد ظفر، اسلم خالد، مبارک احمد ظفر، اور پیر محمد صاحب۔ دن رات انہوں نے اس میں محنت کی ہے۔ اور ملک محمود احمد صاحب۔ بشیر احمد صاحب ہمارے دفتر کے ہمارے گھر کے پروردہ بشیر۔ اور منیر عودے صاحب، عبدالحفیظ کھوکھر، عبدالشکور ناصر صاحب جرمنی سے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ آج کل پرائیویٹ سیکرٹری کا بڑا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
اب میں آخر پر رسمی طور پر جیسا کہ دعا میں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہوں مگر یاد رکھیں کل کی عید میں ہم نے غریبوں کو شامل کرنا ہے۔ عید کے وقت کا وہ پیغام اتنا وقت نہیں دیتا آپ کو کہ آپ تیاری کرلیں۔ آج یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے اپنے غریب بھائیوں کے دکھ بانٹنے ہیں یہ ہماری خوشیاں ہوں گی۔ اور اپنی خوشیاں ان کو دینی ہیں۔ ان کے ساتھ بانٹنی ہیں۔ یہ دو طرفہ سلسلہ شروع ہوجائے تو اس سے انسانیت ایک ہوتی ہے۔ اونچ نیچ کی تمیز مٹنے میں مدد ملتی ہے۔ پس کل کے لئے آج ہی میں اعلان کررہا ہوں تیاری کریں کہ اللہ ان غریبوں کی بھی عید بنادے۔ جن کے گھر میں بعض دفعہ کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی جس سے وہ اپنی عید منائیں۔ کوئی اچھے کپڑے نہیں ہوتے۔ جو بچوں کو پہنا سکیں۔ آئیے اب دعا میں شامل ہوجائیں۔ آمین
اب آخر آپ سب کو یہ خداتعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو رمضان کا مہینہ ہم نے گزارا ہے اس کی مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ رمضان ہمارے لئے اب بھی مبارک فرما رہا ہے۔ سارا سال مبارک فرمائے۔ اور آئندہ نسلوں تک کے لئے اس رمضان کو ان کے لئے جو ہماری اولادیں ہوں گی آگے آنے والے لوگ ہیں ان کے لئے مبارک فرمائے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ4؍رمضان بمطابق 3؍ جنوری 1998ء
چھٹیاں ختم ہوگئیں ساری بالکل؟ہیں؟ ابھی تک ہیں؟ توڈاکٹر مجید دکھائی نہیں دیے۔وہ اکثر رخصتوں پہ ضرور حاضر ہوا کرتے ہیں اور بغیر ا س کے آج رخصت نہیں ہے ناں؟ نہیں ۔ آیت 52ہے ناں آج؟
الم ترالی الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجدلہ نصیراO(النسائ:53,52)
یہ دوآیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورئہ نساء کی باون اور ترپن آیات ہیں۔ ان میں سے پہلی آیت پر درس ہورہا تھا جب وقت ختم ہوگیا۔ اس آیت کا تعلق چونکہ اسلامی تاریخ سے ہے اور جنگ احزاب میں جو صورتحال پیش آئی خصوصیت سے اس کے ساتھ ان آیات کا تعلق ہے اس لیے اس کی تفسیر میں کچھ مزید اور وقت لگے گا۔ الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتٰب۔ کیا تجھے ان لوگوں کاحال معلوم نہیں ۔ کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو ، جن کو کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا ۔یومنون بالجبت والطاغوت۔ وہ جبت او ر طاغوت کی عبادت پر ایمان لاتے ہیں ۔ ویقولون للذین کفروا۔ اور ان لوگوں سے کہتے ہیں جنہوں نے کفر کیا ھؤلاء اھدٰی من الذین امنوا سبیلاً۔ کہ یہ لوگ، جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے مقابل پر ہدایت میں زیادہ بڑھے ہوئے ہیں یا زیادہ ہدایت رکھتے ہیں، ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں۔ اھدی سبیلاً اصل میں لگتا ہے کہ رستے پر چلنے کے اعتبار سے یہ زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اس میں نصیب پر بحث گزرچکی تھی۔ نصیب کس کو کہتے ہیں اور طاغوت کی بحث جاری تھی جب یہ تمام۔ نہیںجب درس کا وقت ختم ہوا۔ میں نے غالب کا ایک شعر بھی اس سلسلے میں پڑھا تھا جس میں ’’امتیں جب مٹ گئیں‘‘ کہہ دیا تھا۔ حالانکہ ’’ملّتیں جب مٹ گئیں‘‘ کے الفاظ تھے ۔ تو یہ بھی لوگ درست کرلیں۔
ع ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
اب میں الطاغوت کی بحث اٹھاتا ہوں۔مجھے ذہن میںخیال آیا کہ میں نے یہ نہیں پہنا ہوا۔ہیں نا! طاغوت ہر سرکش کو کہتے ہیں اور یہ لفظ جمع میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مفرد میں بھی اور دونوں صورتوں میں قرآن کریم نے اس کو استعمال فرمایا ہے۔ حد سے بڑھا ہوا اور حد سے بڑھے ہوئے لوگ۔ المفردات الامام راغب میں طاغوت سے مراد ہر حد سے بڑھنے والا لیا گیا ہے۔ تمام معبودانِ باطلہ کو طاغوت کہتے ہیں۔ طاغوت جمع بھی استعمال ہوتا ہے اور واحد بھی۔ یہ میں المفردات سے پڑھ کے سنارہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فمن یکفر بالطاغوت - والذین اجتنبوا الطاغوت- اولیاء ھم الطاغوت- یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت۔یہاں پر بھی طاغوت سے مراد ہر ایک حد سے بڑھنے والا ہے۔ ساحر، کاہن ، باغی، جن کو بھی طاغوت کہا جاتا ہے۔ لسان العرب میں الطاغوت کے معنی الشیطان لیے گئے ہیں۔ اوراسی طرح کاہن ، ہر شخص جو گمراہوں کا سردار ہو اس کو بھی طاغوت کہتے ہیں۔ ایک حدیث ہے مسند احمدبن حنبل کی جلد 5صفحہ 60۔ اس حدیث میں کچھ اصطلاحیںاستعما ل فرمائی گئی ہیں جن کا اس آیت کریمہ سے تعلق ہے۔ عوف نے حیان کے واسطے سے بیان کیا کہ ۔۔۔بن قبیصہ کے والد نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عیافت ، طرق اور طیرۃ جبت سے ہے۔ یعنی عوف کے نزدیک عیافت سے مراد پرندوں کو اڑا کر فال لینا ہے۔ جبت والطاغوت میں جو لفظ جبت استعمال ہوا ہے وہ اس قسم کی بیہودہ حرکتیں، جیسے زائچے بنانا، لکیریں کھینچنا، پرندے اڑا کران سے فال لینا، یہ سب شیطانی افعال ہیں اور جبت کی تعریف میں داخل ہیں۔ یہود کا بت پرستوں کو مومنوں پر فضیلت دینا تعصب اور عناد کی وجہ سے تھا۔ اب یہ بحثیں ساری اس بات پہ اٹھی ہیں کہ حسد کرنے والے کون ہیں؟ کیوں حسد کرتے ہیں؟ اور مومنوں میں اورکافروں میں فرق کرنے والے کون لوگ تھے؟ اور انہوں نے کیا وسیلہ اختیار کیا ؟ یہ سارے امور ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مختلف تواریخ کی کتب میں جو ان آیات کے تعلق میں تاریخی واقعات بیان ہوئے ہیں وہی واقعات ہمارے لٹریچر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتب میں او رحضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب ’’آیت خاتم النبییٖن‘‘ میں بھی ملتے ہیں۔ اس لیے بجائے اس کے کہ میںالگ الگ حوالے پیش کروں میں ان کے متعلق اکٹھا ذکر کردوں گا۔ کیا تونے ان لوگوں کی طرف نہیںدیکھا جن کو کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا۔ وہ جبت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی علامت یہ ہے کہ یقولون للذین کفروا ھؤلاء اھدی من الذین امنوا سبیلاً۔ کہ وہ لوگ جو کافر ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایمان لانے والوں کے زیادہ قریب ہیں۔ دراصل یہ واقعات تاریخی طور پر جنگ احزاب میں رونما ہوئے ۔ اس وقت جبکہ مسلمانوں کو کفار یعنی مشرکین نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا، اوپر سے بھی آگئے تھے اور نیچے سے بھی۔ ہر طرف سے مدینے کا انہوں نے گھیرائو کرلیا تھا۔ اس وقت کی بات ہے کہ ایک شخص حیی بن اخطب جو اس سے پہلے اس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ، جس کو نکال دیا گیا تھا مدینے سے اور یہ لوگ خیبر میں آباد ہوگئے تھے ۔ حیی بن اخطب زیادہ تر جنگ احزاب کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے دورے کئے اور تمام قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا۔ حالانکہ ان کا دین مسلمانوں کے دین کے بہت زیادہ قریب تھا۔ یعنی قربت کی وجہ سے دین اسلام سے ہمدردی نہ دکھائی بلکہ مشرکوں سے باوجود ان کے شرک کے انہوں نے ہم آہنگی کا اعلان کردیا۔ جہاں جہاں بھی قبائل میں گیا، مکے کا دورہ کیا، دوسرے قبائل کا دورہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ اس سے پوچھتے تھے کہ تم تو مؤحد ہو، تمہارا تو مسلمانوں سے تعلق ہونا چاہیے۔ تو جواب میں یہ کہا کرتا تھا یہ اور اس کے ساتھی کہ ہمارے نزدیک تم ہدایت کے زیادہ قریب ہو۔ تو شرک کی تائید کی اور توحید کے خلاف ہوئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ آگے فرماتاہے کہ ان پر *** ڈالی گئی اور ان کی کچھ بھی پیش نہیں جائے گی۔ یہ تمام حیلوں کے باوجود ناکام اور نامراد ٹھہریں گے۔ جنگ احزاب کے وقت یہ شخص، اس کو ایک پیغام کی وجہ سے ، خفیہ طور پرمدینے آیا اور وہاں ایک قبیلے کو اپنانے کیلئے اس نے کوشش کی۔ آغاز میں تو انہوںنے انکار کردیا اور کہا کہ جس رسول سے ہم نے عہد و پیمان باندھے ہیں وہ کبھی بھی اپنے عہد و پیمان میں جھوٹا نہیںنکلتا۔ اس لیے بہت بے حیائی ہوگی اگر ہم آج اس ضرورت کے وقت اس کو چھوڑ دیں۔ چنانچہ یہ واقعات جو ہیں اس طرح پیش آئے ۔ یہ میں آپ کے سامنے دوسری تواریخ کی بجائے احمدیہ کتب سے پیش کرتا ہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب والا اقتباس اسی میں ہے؟ جی اس آیت کے ساتھ ؟ اچھا اس کے ساتھ کیوں نہیں لگا۔ یہ تھا؟ اچھا ٹھیک ہے۔دونوں جگہ جاسکتی تھیں یہ کون کون سے؟ ہاں! دونوں اقتباس ٹھیک ہے۔ اب پھر یہ زبان کی خشکی شروع ہوگئی ہے اس ضمن میں مَیں یہ عرض کروں کہ جو لوگ بہت ہمدرد ی میں مجھے نسخے لکھ لکھ کے بھیجتے ہیں وہ یہ سلسلہ بند کردیں ۔ کیونکہ بہت سے ایسے نسخے ہیں جو میں نے خود پڑھائے ہوئے ہیںاور آغاز میں بہت پہلے میں ان کو استعمال کر بیٹھا ہوں۔ اور وہ میری کتابوں سے دیکھ دیکھ کے مجھے نسخے بھیجتے ہیں او رکچھ اس کو سطحی بیماری سمجھ کے ہونٹوں کی مرہم بھیجتے ہیں کہ اس سے ہونٹ خشک ہونے بند ہوجائیں گے۔ اس کا تعلق ہرگز اس سے نہیں ہے۔ اس کا ایک گہرا تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی پیشگوئی سے ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا تھا کہ آپ دو زرد چادروں میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ یعنی ذہنی بیماری جو Inteligence کی بیماری نہیں بلکہ ذہنی دبائو کا۔۔۔ نتیجہ ہوتی ہے اور اس دبائو کی وجہ سے انسان بعض دفعہ بعض چیزیں فراموش بھی کرتا ہے، لیکن مستقل وہ بیماری ایسی نہیں ہے کہ جو ذہن پر دبائو ڈال دے اور کسی لمبی بیماری پر منتج ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورانِ سر کی جو تکلیف تھی وہ یہی بیماری تھی۔ بے انتہا ذمہ داریاں، بے انتہا مصروفیات اور پھر جماعت کی فکر ان چیزوں کی وجہ سے دورانِ سر پیدا ہوتا تھا اور ذہن کے اثر سے پیشاب کی تکلیف ہوتی تھی اور بار بار آتا تھا۔ اس تکلیف میں جب آپ گھونٹ گھونٹ پانی بھرتے تھے، پانی پیتے تھے، تو پیشاب کی تکلیف بڑھ جاتی تھی اور اگر اس کو روکتے تھے تو پھر یہی جیسے کہ ہونٹ کی خشکی اور دبائو جو ہیں اندرونی، ابھر جایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام عمر اس بیماری کا مقابلہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے اور جہاں بھی ذکر ملتا ہے یہی ملتا ہے کہ میں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کی زبان پہ جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ میری ذات میں پوری ہورہی ہے۔ یہی وہ تکلیف تھی جوورثے میں پھرآگے چلی ہے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہمیشہ یہی تکلیف رہی اور ان کا گھونٹ گھونٹ پانی پینا تقریروں کے دوران سب کو یاد ہونا چاہیے۔ لیکن اس زمانے میں لوگ زیادہ عقل رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ہم سے بہتر جانتا ہے اس لیے ان کو نسخے لکھ کے نہ بھیجے جائیں۔ لیکن اب وہ عقل نسبتاً کم ہوگئی ہے اور اس گہرے پس منظر سے واقف نہیں ہیں لوگ کہ کس طرح پیشگوئیوں میں باتوں کاذکر ہے اور ان سے مفر نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کو تو اکثر بھلا بیٹھے ہیں۔ بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کو بھی یہی تکلیف ہوئی۔ خلافت سے اس کا تعلق تو ہے لیکن اصل میں یہ جسمانی اور خونی رشتہ ہے، جو اس کے علاوہ کام دکھاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی علاج کیلئے بلایا کرتے تھے لیکن آپ کو بالآخر روزے ترک کرنا پڑے کیونکہ آپ کی بیماری روکنے کی وجہ سے خون میں ایک قسم کا جس کو انفیکشن کہتے ہیں ناں گردوں کی اور مثانے کی انفیکشن، اس کی وجہ سے بخار چڑھنے لگ گیاتھا، اس قدر شدید سردی سے کانپ کر بخار چڑھتا تھاکہ سارا کمرہ لرزتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ مجھے بھی بلایا کرتے تھے ۔ چنانچہ میں بھی علاج تجویز کرتا رہا اور وقتی طور پر خدا کے فضل سے بیماری کنٹرول میں آجاتی رہی۔ مگر چونکہ یہ گردوں کی انفیکشن میں تبدیل ہوگئی تھی اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بالآخر روزے ترک کردیے اور جب یہ بیماری بڑھی تو آخری وقت تک آپنے روزے نہیں رکھے۔ لیکن گردوں کی انفیکشن کا علاج ہومیو پیتھک میں بھی کیا دوسری دوائوں سے بھی کیا، میں بھی کرتا رہا۔ یہ بیماری چونکہ آپ نے اپنی ذات تک محدود رکھی اس لیے اس کی تفصیلات جماعت کو نہیں بتائی گئیں۔ لیکن مرزا لقمان وغیرہ جوسارے جانتے ہیں پاس بیٹھا کرتے تھے، ان کو علم ہے کہ کس طرح آپ نے بڑی شدت کے ساتھ اس سے مقابلہ کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے آخری عمر میں چند سال تک آپ کو روزے رکھنے کی توفیق نہیںملی۔ یہی وہ بیماری ہے جو اب میرے حصے میں آئی ہے اور میں بہت مقابلہ کررہا ہوں کہ جس طرح بھی بن پڑے روزے ضرور رکھوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ میرے لیے راہنما بنا ہوا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے تو جب تک جان کنی کی حالت نہ پہنچ جائے میں روزے چھوڑنہیں سکتا۔ تو آج تک روزے ہمیشہ رکھے ہیں اور روزوں میں درس آنے کی وجہ سے اب یہ تکلیف نمایاں ہوکر سب کے سامنے آگئی ہے۔ تو کوشش میں یہی کررہا ہوں کہ کسی طرح روزے بھی رکھوں اور درس کا حق بھی اد اکروں ، اگر یہ ہوسکا تو انشاء اللہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ اگر یہ نہ ہوسکا تو میں آپ کو بتادوں گا کہ اب میں روزے سے نہیں ہوں، مگر درس ضرور دے رہا ہوں۔
اس میں ایک اور مشکل ہے کہ روزہ رکھوںیا نہ رکھوں پانی بار بار پینا پڑے گا۔ جب پانی پیوں گا تو پھر پیشاب بار بار آئے گا پھر میں یہاں آپ کو چھوڑ کر کیسے جائوں گا۔ پھر مجھے اُٹھ کے جانا پڑے گا۔ اس وقت آپ لوگ گھبراجائیں گے کہ اس کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے؟ اٹھ اٹھ کے جاتا ہے ۔ تو جو بھی اللہ کے ہاں صورتحال واضح ہوئی اس کے ساتھ آپ کو لازماً گزارہ کرنا ہوگا اور اس میں لوگوںکے نسخے میرے کسی کام نہیں آسکتے۔ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ کتنی گہرائی میں جاکر میں نے اپنے لیے وہ علاج تجویز کیے ہیں۔ جو میں خواہش رکھتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے وقت بھی میرے تجربے میںہوتے، اگر ہوتے۔ ہوتے! اب یہ زبان میں تھوک کی وجہ سے ’ت‘کالفظ ٹھیک ادا نہیں ہوا۔ اگر اس وقت معلوم ہوتے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو شاید روزے نہ چھوڑنے پڑتے، لیکن یہ تصور ہے صرف۔ اب اس جدو جہد میں، بیماری میں بہت سی باتوں میں نمایاںفرق پڑ رہا ہے۔ وہ کیا باتیں ہیں ان کی تفصیل میں یہاں بیان نہیں کرسکتا اور ان باتوں کو مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ لیکن یہ میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کے فضل سے مسلسل فرق ضرور پڑ رہا ہے اور بیک وقت مسلسل یہاں بیٹھنے کی جو طاقت نصیب ہورہی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ، یہ نئے علاج یعنی جو خدا نے میرے ذہن میں ڈالے ہیں ان کی وجہ سے نصیب ہورہی ہے ۔ اب اس کے بعد میری جماعت سے درخواست ہے کہ مہربانی فرماکر اپنی محبت کی وجہ سے وہ سارے نسخے لکھنے بندکردیں جو مدت پہلے میں آزماچکا ہوں۔ جو میرے ہی نسخے ہیں۔ مجھے پتا ہے کہ کہاں تک وہ کام کرسکتے ہیں ، کہاں وہ کام کرنا بند کردیتے ہیں اور یہ تفصیلات بعد میں جب توفیق ملے گی پھر کسی وقت آپ کو بتائوں گا۔ اس وقت آپ حیران ہوں گے کہ کس طرح اس بیماری کا تعلق سلسہ در سلسلہ مجھ تک پہنچا ہے جو رسول اللہ ﷺکی ایک پیشگوئی کے نتیجہ میں ہے۔ اس پیشگوئی کے نتیجہ میں میں مرتبے کا دعویٰ تو نہیں کر رہا۔ میں صرف یہ بتارہا ہوں کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جس سے رہائی ممکن نہیں، دعا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو میرے حق میں اور جماعت کے حق میں نرم کردے۔ پس اس سے زیادہ آپ میری مدد نہیں کرسکتے اور اتنا ہی رکھیں اور مشورے اور خط وکتابت اور ہمدردیاں ان سب کو ایک طرف کردیجئے۔ جزاکم اللہ احسن الجزائ۔ اب اس تفصیل میں جاتے جاتے جو میرے ہونٹ خشک ہوئے ہیں اس سے میں بہتر تھا کہ میں غزوہ خندق کے حالات ہی سنا دیتا آپ کو مگراب بہرحال سناتا ہوں۔
یہود و مشرکین کا متحد ہوکر آنحضرت ﷺاورصحابہ کے خلاف جنگ کرنا۔ غزوئہ خندق جسے غزوئہ احزاب بھی کہتے ہیں۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ آپ نے سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر اپنی فوج کے گردا گرد خندق کھدوالی تھی، جیسا اس زمانے میںاہل فارس کا دستور تھا۔ (یہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان لگ رہی ہے۔ وہی ہے؟) اس موقع پر عرب کے بہت سے قبائل اہل اسلام کے استیصال کو اکٹھے ہوئے۔ یہود کی ایک جماعت سلام بن ابی حقیق نضری و حیی بن اخطب نضری و کنانہ بن ربیع بن ابی حقیق نضری و خوضع بن قیس واعی و ابو عمار وائل بن نضیر اور بنی وائل قبیلے بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر خیبر سے چل کر قریش مکہ کے پاس آئے ۔ یہ وہ قبائل ہیں جن کا اخراج پہلے جنگ احد کے بعد ہوچکا ہے۔ یہ خیبر سے چل کر قریش مکہ کے پاس پہنچے۔ انہیں اپنی کمک اور رفاقت کے قوی وعدے دے کر آنحضرت ﷺسے لڑنے کو کہا اور سخت ترغیب دی کہ ایک دفعہ مل کر مسلمانوں کا استیصال کر ہی ڈالیں۔ قریش نے انہیں کہا اے گروہِ یہود! تم لوگ پہلے اہل کتاب ہو اور تم ہمارے اور محمد ﷺکے درمیان اختلاف کی وجہ جانتے ہو یعنی ہم مشرک ہیں اور وہ مؤحد ہیں۔ یہ تو بتائو کہ ہمارا دین اچھا ہے یا دینِ محمدؐ؟ تم جو اُٹھ دوڑے ہو ہماری تائید میں تو کیا وجہ ہے؟ کیا دین محمدؐ تمہارے قریب نہیں ہے۔ انہوںنے یہود، بنی اسرائیل اہل کتاب، مؤحد، بت پرستی کے دشمن کہا۔ تمہارا دین اس سے کہیں بہتر ہے اور تم اس سے زیادہ حق پر ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمارہے ہیں انہی کے حق میں یہ آیت اتری۔ الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتاب یومنون بالجبت والطاغوت و یقولون للذین کفروا ھؤلاء اھدی من الذین امنوا سبیلاً۔ پھر ام یحسدون الناس علی ما اعطاھم اللہ من فضلہ ۔ لقد اعطینا ال ابراھیم الکتاب والحکمۃ و اعطینا ھم ملکا عظیما۔ آگے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ا س کے نیچے ایک نوٹ ہے ۔ تم اس سے زیادہ حق پر ہو۔ اس پر ایک ( ؎ ۱ )لگاکے نیچے نوٹ ہے ۔ سبحان اللہ عداوت اور بغض دیکھئے اہل کتاب قریش مکہ کی بت پرستی کو عمداً اسلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ یقینا یہی ایک بات کافی ثبوت عداوت کا ہے جو یہودان مدینہ نے اسلام کی نسبت ظاہر کی اور اس عداوت نے انہیں بڑے بڑے عذروں اور مکروں پر آمادہ کیا، جس کا لازمی نتیجہ وہ تمام غزوات ہوئے جو یہود سے پھیلے۔دوسرا حوالہ الم تر کے اوپر ہے ۔ آپ فرماتے ہیں’’تونے نہ دیکھے وہ لوگ جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب کا مانتے ہیں بتوں کو اور شیطانوں کو اور کہتے ہیں کافروں کو یہ زیادہ پاتے ہیں مسلمانوں سے راہ۔ (یعنی یہ ایک قسم کا لفظی ترجمہ ہے )زیادہ پاتے ہیں مسلمانوں سے راہ۔ یا تیسرا ہے یا حسد کرتے ہیںلوگوں کو اس پر جو دیاان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے۔ سو ہم نے تودی ابراہیم کے گھر یہ کتاب اور علم اور ان کو دی ہم نے بڑی سلطنت۔ یہ ابھی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا اقتباس جاری ہے۔ قریش اس بات سے نہایت خوش ہوئے اور اجتماع عظیم کیا۔ پھر وہ یہود غطفان قیس کے پاس آئے۔ غطفان قیس۔ یہ قیس قبیلہ کے جو غطفان تھے ان کے پاس آئے اور وہی مضمون پیش کیا اور کہا کہ قریش سب اس امر میں ہم سے متفق ہیں۔ وہ بھی جمع ہوئے ، قریش اور غطفان نکل کھڑے ہوئے ۔ قریش کا سپہ سالار ابو سفیان تھا اور غطفا ن کا عینیہ بن حصین فزاری۔ غرض دس ہزار فوجی جرار بڑے بڑے منصوبے باندھ کر خدائی لشکر کے مقابلے کو روانہ ہوئے ۔ قریش تو مدینہ کے اس طرف اترے جہاں بارشی ندیاں بہتی تھیں۔ قریش یعنی جو مکے سے چلے تھے وہ مدینے کے اس طرف اترے جہاں بارشی ندیاں بہتی تھیں۔ کنانہ، اہل تہامہ، بنی قریظہ، بنی نضر، غطفان، اہل نجد وغیرہ احد کی طرف اترے اور مسلمان وہاں اترے جہاںسلع نام پہاڑ ان کے عقب میں تھا اور تعداد میںفقط تین ہزار تھے۔حیی بن اخطب خیبر کا ایک یہودی۔ یہ وہی ہے جو ساری شرارتوں کا سردار ہے۔ ساری سازشوں کا بانی مبانی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کو دیس نکالا دیا گیا تھا اور خیبر میں آباد ہوگیا۔ کعب بن اسدقرظی۔ رئیس بنی قریظہ کے پاس آیا۔ یہ بنی قریظہ وہ یہودی ہیں جن کومدینے سے نکالا نہیں گیا تھا اور جنہوں نے رسول اللہﷺ سے یہ عہد باندھا تھا کہ ہم کسی صورت میں بھی اگر آپ پر حملہ ہوا تو مخالف کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کعب بن اسد قرظی رئیس بنی قریظہ کے پاس آیا اور کعب قبل اس کے اپنی قوم کی جانب سے آنحضرت ﷺکے ساتھ مسالمت کا معاہدہ کرچکا تھا ۔کعب قرظی نے یہ کہہ کر دروازہ بند کردیا یعنی جب حیی بن اخطب مخفی طور پر اس کے پاس پہنچا تو دروازہ اس نے یہ کہہ کر بندکردیا کہ میں نے آنحضرتﷺسے معاہدہ کرلیا ہے اور میںنے اس شخص کو سوائے وفا اور صدق کے نہیں دیکھا۔ یہ ایک یہودی کا اقرار ہے اس وقت جبکہ ابھی اس کا دل بددیانت نہیں ہوا تھا۔ اتنا اچھا اقرار کیسی اچھی گواہی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کووفا اور صدق کے سوا نہیں دیکھا اس لیے میں نقضِ عہد نہیںکرنے کا۔ تب حیی بن اخطب نے بڑے زور سے اس کوکہا کہ او کمبخت! میں تو لشکر کرار اور فوجِ جرار تیرے پاس لایا ہوں۔ دیکھ وہ مجتمع الاسیال یعنی جہاں ندیاں بہتی ہیں او رجمع ہوکر چلتی ہیںوہاں اترے پڑے ہیں اور غطفان ان کے مقدمۃ الجیش ہیں اور وہ احد کے پاس ٹھہرے ہیں اور مجھ سے ان سب جماعتوں نے مضبوط عہد باندھ رکھا ہے یا باندھا ہے کہ محمدﷺ کے استیصال کیے بغیر یہاں سے ٹلیں گے نہیں۔ غرض بڑے الحاح اور اصرار سے آخر کعب راضی ہوگیا اور نقضِ عہد کی شامت سے نہ ڈرا ۔ جب یہ خبر آنحضرت ﷺکوہوئی ۔ آپ نے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اورخواد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لیے بھیجا کہ یہود کی خبر لاویں۔ یہ خبر آنحضرت ﷺکوہوئی۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ خبر کیسے ہوئی۔ ہرگز بعید نہیں کہ وحی کے ذریعہ رسول اللہ ﷺکو متنبہ فرمادیا گیا ہوکہ یہ قبیلہ دغا پر اتر آیا ہے۔ آپ نے اس قبیلے پر اثر رکھنے والے مسلمان صحابہ کو جو ان کے محسن تھے ان کے پاس بھجوایا۔ ان میں دو سعد تھے، ایک سعد بن معاذ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور ایک سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خواد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لیے بھیجا کہ یہود کی خبر لاویں۔ کہیں کفار مکہ سے مل تو نہیںگئے یعنی ان کے علاوہ ان کو بھی بھیجا۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے۔ اب ’’مل تو نہیں گئے‘‘ سے صاف پتا لگ رہا ہے کہ وحی کے ذریعہ یہ خبر ملی ہے ورنہ ’’مل تو نہیں گئے‘‘ کاکوئی سوال نہیں تھا۔ آپ بتاتے کہ مجھے علم ہوا ہے کہ مل گئے ہیں، تو ان کو روانہ کیا گیا ہے وحی کی تائید میںشواہد کے حصول کیلئے اور متنبہ ہونے کی خاطر۔ اچھا اس لیے بھیجا خبر لاویں۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے دیکھا یہود سخت بگڑے ہوئے ہیں اور مخالف ہوگئے ہیں۔ اس پر انہوں نے ان سے مزید بحث کو مناسب نہیں سمجھا یہ لوگ واپس چلے آئے اور اس واقعہ کو نبی عربﷺ پرظاہر کیا۔ عضل اور قارہ ہے یہ لفظ۔ عضل اور قارہ ہے نا۔ عضل اور قارہ نے جیسے اصحاب الرجیع کے ساتھ خزل اور مکاری کی ہے ایسی ہی اس تکلیف کے وقت یہود نے عہد شکنی کی ۔ اسی واسطے اس غزوئہ احزاب اور خندق کے واقعہ میں قرآن فرماتا ہے: اذجاء و کم من فوقکم و من اسفل منکم واذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنون ھنالک ابتلی المومنون و زلزلوا زلزالاً شدیدًا اور دوسری آیت ہے یا اسی آیت کا دوسرا حصہ ہے واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبھم مرض ماوعدنا اللہ و رسولہ الا غرورًا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب کہنے لگے منافق اور جن کے دلوں میںرعب ہے جو وعدہ دیا تھا ہم کو اللہ تعالیٰ نے، اس کے رسول نے، سب فریب تھا۔ میں شروع سے اس آیت کا ترجمہ کردیتاہوں۔
اذ جاء وا کم من فوقکم و من اسفل منکم جب وہ تمہارے اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی چڑھ دوڑے یعنی نچلی طرف سے جو نشیب کا علاقہ تھا اور جو اوپر کا علاقہ تھا دونوں طرف سے تمہیں گھیرے میں لے لیا۔ واذ زاغت الابصار جبکہ آنکھیں زاغت الابصار کا مطلب ہے جو لگ گئیں اوپر یعنی آنکھوں میںایک قسم کی سختی وار دہوگئی اوروہ جیسے مرنے والی کی آنکھ اٹک جاتی ہے ایک طرف اس طرح ان لوگوں کی آنکھیں اٹک گئیں۔ وبلغت القلوب الحناجر اور سینے دھڑکتے ہوئے حناجر سے جالگتے تھے یعنی ہنسلی کی ہڈی سے دل کی دھڑکن ٹکراتی تھی ۔وتظنون باللہ الظنون اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے یہ وہ خطرے کا وقت ہے انتہائی جب یہود نے غداری کی ہے۔ ھنالک ابتلی المومنون و زلزلوا زلزالاً شدیدا یہ وہ وقت تھا جبکہ مومن آزمائے گئے اور شدید جھٹکوں میں مبتلاء کیے گئے۔ ایک ایساخوفناک زلزلہ طاری ہوا جس کے نتیجے میں اگر ایمان کمزور ہوتے تو وہ ٹل جاتے۔ اس وقت منافقوں نے یہ آواز دی والذین فی قلوبھم مرضاور جن کے دلوں میں مرض تھا ماوعدنا اللہ و رسولہ الا غرورًا کہ ہمیں رسول نے سوائے دھوکے کے ۔ اللہ اور رسول نے دھوکے کے سوا ہم سے کوئی وعدہ نہیںکیا۔ وہ آیت کریمہ جہاں مومنوںکی شان ہے وہ کہاں ہے؟ وہ بتارہی ہے کہ پہلے بھی خدا نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اس میں ہے؟ ان کے ایمان اور بھی مضبوط ہوگئے۔کہاں ؟ نکال دیں۔۔۔ پرائیوٹ سیکرٹری صاحب پوری کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح میں ان کو کہتا ہوں کہ وہ ترتیب دے دیں لیکن چونکہ ہمارے پاس وقت اتنا زیادہ نہیں ہے کہ میں دوبارہ نوٹوں کو پھر دیکھ سکوں اس لیے کچھ آپ لوگوںکو تکلیف کرنی پڑے گی۔ یہ آیت ہے حافظ صاحب جزاکم اللہ۔ ولما رأی المؤمنون الا حزاب قالوا ھذ ماوعدنا اللہ و رسولہ و صدق اللہ و رسولہ ومازادھم الا ایمانا و تسلیما۔ ایک طرف ان منافقوں کا حال تھا ، وہ یہ اعلان کررہے تھے کہ خدا اور رسول نے ہم سے دھوکے کے وعدے کے سوا اور کوئی وعدہ نہیں کیا ۔ایک طرف سچے مومن تھے جو اسی صورتحال سے دوچار ہونے کی وجہ سے خداتعالیٰ کی پہلی پیشگوئیوں کو اس صورتحال میں پورا ہوتے دیکھ رہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے وعدہ سچا نہیں نکلا؟ یہ وعدہ تو بہت پہلے سے کیا جاچکا تھا۔ اس طرح احزاب چڑھ دوڑیں گے اور اس طرح وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ بھی جائیں گے۔ وہ آیات کریمہ جو اس سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھیں۔ مومن ان آیات کو یاد کرکے اپنے ایمان میں اور بھی ترقی کرنے لگے۔ حالانکہ ابھی اس کا دوسرا حصہ پورا نہیں ہوا تھا۔ ان آیات میں یہ وعدہ تھا کہ جیش یا جیوش جو صحرائے عرب سے تعلق رکھتے ہیں وہ مدینے پر چڑھ دوڑیں گے اور اسے مکمل طور پر گھیر لیں گے اور اس وقت کیا حالت ہوگی لوگوں کی۔ لیکن ان کے مقدر میںیہ بات لکھی ہوئی ہے کہ ضرور پیٹھ دکھا کراُٹھ بھاگیںیا اُٹھ دوڑیںگے۔ اور واپس اپنے اپنے قبائل کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔ اس پیشگوئی میںکسی لڑائی کا ذکر نہیں۔ اس پیشگوئی میںیہ ذکر تھا کہ اللہ کے فضل کے ساتھ یہ واقعہ ہونا ہے اور لازماً انہوںنے پیٹھ دکھانی ہے اور اٹھ دوڑنا ہے۔ یہ پیشگوئی مومنوں کواس وقت یاد آگئی جو بہت پہلے سے قرآن کریم میں درج تھی اور وہ سمجھ گئے کہ اس کا اطلاق اب ہورہا ہے۔ پس جب قبائل کو دیکھ لیاتو یہ یقین بھی ایک لمحہ کیلئے بھی متزلزل نہیں ہوا کہ ان کے ساتھ وہی حشر ہونا ہے جو پہلے سے بیان کیا جاچکا ہے۔ یہ ہے ساری صورتحال جس کو آپ تاریخی طور پر اپنے ذہن میںنقش رکھیں۔ ولما رأی المؤمنون الا حزاب قالوا ھذاماوعدنا اللہ و رسولہ۔یہی تو ہے جس کا وعدہ اللہ اور رسول نے کیا تھا۔ و صدق اللہ و رسولہ۔اللہ اور رسول کا وعدہ سچا ہوا کرتا ہے،سچا نکلا۔ومازادھم الا ایمانا و تسلیما۔ان کو ایمان اور سپردگی کے سوا ، خدا کے حضور اپنے آپ کو مکمل طور پر پیش کرنے کے سوا، اس واقعہ نے اور کچھ نہ دیا۔ کسی چیز میں نہیں بڑھایا، یعنی مگر ایمان میں بڑھادیااور اللہ کے حضور اپنی سپردگی میں بڑھادیا۔ مِنَ المومنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ۔ ان مومنوں میں سے ایسے تھے جنہوں نے اس وقت اپنی جان پر کھیل کر وہ وعدے جو انہوں نے اللہ اور رسول سے کیے تھے ان کو سچا کر دکھایا، لیکن کچھ ایسے تھے من قضی نحبہ و منھم من ینتظریعنی من قضی نحبہ کچھ ایسے تھے جنہوں نے اپنے وعدوں کو ، اپنی خواہشوں کو پورا کردکھایا ومنھم من ینتظر اور انہی میں سے تھے جو انتظار کرتے رہ گئے کیونکہ خدا کی تقدیر نے دشمن کو بھگادیا اور ان کو لڑنے کا موقعہ نہ ملا۔ وما بدّلوا تبدیلاً اس کے بعد مرتے دم تک یہ لوگ بدلے نہیں۔ ایسا نشان دیکھ چکے تھے کہ ان کیلئے کسی تبدیلی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پس اس قرآنی آیات کے خلاف جو مختلف شیعہ ترجمے آپ کو ملیں گے وہ سب جھوٹ ہیں۔ یہ آیت غیر مبدل ہے اس کی گواہی ایسی ہے جو قیامت تک تبدیل نہیںہوگی اور ان لوگوں کی صداقت کے حق میں یہ کہہ رہی ہے وما بدلوا تبدیلاً ہرگز یہ کبھی بھی تبدیل نہیںہوئے۔ یہ ہے ان آیات کا ذکر خیر۔
اب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان۔ ’’اس لڑائی میں نوفل بن عبداللہ کفا ر کی طرف سے حملہ آور ہوا۔ نوفل بن عبداللہ بھی جویہودی تھا اور خندق میں گر کر مرگیا۔ دشمنوں نے خون بہا دے کر اس کی لاش لینی چاہی مگر نبی اللہ نے مفت دے دی۔ یہ نعش بھی ایک نشان تھا اور ان کے قبضے میں جانا بہتر تھاوہ اس لاش کو اپنے منہ سے اپنے سامنے دیکھیں اور جان لیں کہ اللہ اور رسول کی باتیں سچی نکلتی ہیں۔ پس آپ نے اس کے بدلے کوئی روپیہ قبول نہیں فرمایا۔ اس شدت کی حالت میں مختلف اقوامِ ، عرب اور نواحی مدینہ کے یہود کی حملہ آوری اور اسلام کی کمزوری کو منافق اور کمزور لوگ دیکھ کر چل نکلے اور تین سو آدمی آپ کے پاس رہ گیا۔ تین سو آدمی کن لوگوں میں سے رہ گیا؟ صحابہ تو تین ہزار تھے۔ ان میں تو ایک کی کمی بھی نہیں آئی۔ تین سو آدمی اہل مدینہ میں سے ، جنہوں نے یہ عہد کررکھا تھا مومن نہ ہونے کے باوجود کہ ہم ساتھ دیں گے اور مومن ہونے کے باوجود بھی ان کے ساتھ ان پر اصرار نہیںتھا رسول اللہ ﷺ کا کیونکہ پہلے وعدے میں جومدینہ میں آنحضرت ﷺ کے ورود پر کیا گیا تھا اس وعدے میں ان لوگوں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم مدینے سے باہر جاکر نہیںلڑیں گے۔ پس رسول اللہﷺ ہمیشہ عہد وپیمان کا خیال رکھا کرتے تھے۔ پس یہ تین سو وہ لوگ ہیں جو پیچھے رہ گئے، جنہوں نے کلیتہً علیحدگی اختیار نہیں کی، مگر تین ہزار کا جو لشکر جرار تھا وہ اپنی جگہ اسی طرح قائم رہاہے اور مابدلوا تبدیلاً میںان کا عزم اور ان کا قدم ثبات شامل ہے۔ اب یہ واقعہ دلچسپ اور عظیم الشان یہ ہے، اس قلیل جمعیت میں خدائی لشکر اسلام کی امدادکو آیا۔ یعنی ان لوگوں سے کوئی امداد نہیںملی۔ اللہ کی طرف سے ایک لشکر امداد کو آیا۔ ہوا کی تیزی اور سردی نے دشمن کے ڈیرے، خیمے اکھیڑ، دشمن کو راتوں رات بھگادیا۔ اور کفی اللہ المومنین القتال کی تصدیق ظاہر ہوئی‘‘۔ اب اس واقعہ کا ذکر میں نے پہلے گزشتہ ایک درس میں تفصیل سے کیا تھا۔ وہی وفد جو بنو قریظہ اور بنو نصیر۔ وہ کون سے تھے؟ جن۔۔۔ بنو قریظہ تھے؟ جن کی طرف سے واپس لوٹا تھا وہ؟ بنو قریظہ ہی تھے نا؟ یہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی کتاب میں سے سرسری نظر ڈال کر دیکھ رہا ہوں کہ وہ کون معین لوگ ہیں جو عہد شکنی کے مرتکب ہوکر پھر بعد میں سزایافتہ ہوئے۔ ہاں بنو قریظہ ہی ہیں۔ حیی بن اخطب کو یہ اہل مکہ نے چال سکھائی تھی کہ تم خفیہ طور پر بنو قریظہ قلعہ کی طرف جائو اور بنو قریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرلو، تو اس انتہائی خطرے کے وقت جب وہ پیچھے سے حملہ آور ہوں گے تو کلیتہً مسلمانوں کیلئے کوئی جائے مفر نہیں رہے گی اوریک دفعہ ان کا استیصال ہوجائے گا۔ یہی بنو قریظہ والا واقعہ ہے جو عظیم الشان پہلو یہ رکھتا ہے کہ اس وفد کی واپسی کے نتیجہ میں وہ دشمن کے خیموں کا اکھڑنا اور ان کا بھاگ اٹھنا وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس واقعہ کو، کیونکہ یہ بہت ایمان افروز ہے میں مختصر پھر بیان کردیتا ہوں۔جب رسول اللہ ﷺکاوفد بنو قریظہ سے مایوس ہوکر واپس آیا ہے تو آپ نے ان کو ہدایت کی تھی کہ مخفی طور پر مجھے بتانا کھلم کھلا نہ بتانا کہ کیاواقعہ ہوا ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کے دل کمزور پڑیں گے اور ان کے حوصلوں میں کمزوری واقع ہوجائے گی، کمزوری پیدا ہوجائے گی۔ اس لیے خفیہ طور پر انہوںنے رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بتائی۔ اب چونکہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے ہوا تھا اور رسول اللہﷺ نے اس کی تصدیق پالی کہ جس طرح خدا نے مجھے خبر دی تھی بعینہٖ یہی ہوا ہے۔ اس جوش میں آپ نے نعرئہ تکبیر بلند کیا آپ نے فرمایا اللہ اکبر ، وہ اتنا زبردست نعرہ تھا کہ سارے مسلمانوں کے لشکر سے نعرۂ ہائے تکبیر اللہ اکبر۔ ان کو پتا نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺنے کیوں نعرہ مارا ہے؟ لیکن ان سب نے بیک وقت جب رسول اللہ ﷺکانعرہ سنا تو بے اختیار سارا لشکر اسلام نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھا۔ یہ نعرے سن کر جو گھیرے میں لینے والے دشمن تھے یعنی احزاب ان میں کھلبلی پڑ گئی، انہوں نے اندازے لگائے۔ انہوںنے کہا کہ اس کمزوری کے حال میں جبکہ دشمن ہمارے ساتھ مل چکا ہے اور پیچھے سے حملہ آور ہونے کی بات سوچ رہا ہے انہوںنے اس قدر زور سے جو نعرہ مارا ہے ضرور ان کو کہیں سے کمک آگئی ہے اور شکست کی ظاہری صورت فتح میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اور ہو نہیںسکتاکہ لشکر اسلام اتنے یقین اور اتنے عزم کے ساتھ نعرے بلندکررہا ہو جبکہ ان کے ہاتھ میںکچھ بھی نہ ہو، جبکہ موت ان کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال رہی ہو۔ اس سے جو لشکر کفار میں کھلبلی مچ گئی عین اس وقت بہت تیز آندھی چلی اور ادھر کھلبلی مچنا اور ادھرآندھی کا تیزی سے چلنا، اس سے دشمنوں کے خیموں میںروشن آگیں بجھ گئیں، جو شرک کی علامت تھی، جو ان کے باطل خدائوں کا ایک نشان تھا اور جب آگیں بجھیں تو ان مشرکوں کے حوصلے اور بھی پست ہوگئے۔ بے انتہا گھبراگئے اور اس افراتفری میںان کو یہ بھی خیال نہیں رہا کہ جن سواریوں پہ وہ اٹھ کر چڑھ کر دوڑ رہے ہیں ان کو پیچھے سے تیروں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ اور وہ ان پر چڑھ کر اسی طرح ان کو ایڑھیں لگارہے تھے اور جب نہیں نکل سکیں وہ سواریاں تو اپنے ہاتھوں سے ان کوقتل ذبح کردیا اور پیدل دوڑ پڑے۔ اتنی افراتفری ہوئی ہے کہ اس کی کوئی مثال کسی جنگ میں آپ کو کہیں دنیامیں دکھائی نہیں دے گی۔ یہ ہے اللہ کی فوج، کیسے نازل ہوئی ہے اور کس وقت میں کس طرح ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اس واقعہ کو پڑھ کر کوئی انسان جس میںذرّہ بھی شرافت ہو اور وہ انصاف کی رو سے تاریخ اسلام کا مطالعہ کرے وہ رسول اللہ ﷺکے حق میں خداتعالیٰ کی نصرت کا انکار نہیں کرسکتا۔عجیب نصرت کا حال ہے ، اور جب یہ دوڑ پڑے اور بکھر گئے تو بنو قریظہ اپنی بے وفائی کی وجہ سے مصیبت کا شکار ہوگئے۔ ان سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ اُن کی طرف گئے اور ان کا اس رعب اور دبدبے سے یہ حال تھا کہ خود انہوںنے اپنے کھجوروں کے درخت اور دوسری چیزیں اپنے ہاتھوں سے برباد کرنی شروع کردیں۔ یہ ایک تفصیلی واقعہ الگ ہے، مگر یہ دیکھیں ایک ہی موقع ایک ہی بات جس کو اسلام کے خلاف جانا چاہیے تھا وہ ہر پہلو سے اسلام کے حق میں ہوگئی۔ یہ وہ نشان ہے جو آنحضرت ﷺکی صداقت کا ایک ایسا نشان ہے جس سے دشمن آنکھیں بند کرلے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی صرف نظر کرے، تویہ الگ مسئلہ ہے ۔ لیکن وہ اس بات میں انصاف پر نہیں ہوگا اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کیلئے *** کا وعدہ ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’سیرت خاتم النبییٖن‘‘ صفحہ 573اور صفحہ 585پر یہ عبارت لکھتے ہیں اس کے آخر پر وہ تقریباً وہی بات ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبارت میںآچکی ہے، اس لیے میں ساری عبارت کو نہیں دہراتا ۔ آخر پر فرماتے ہیں’’جب یہ لوگ بنو قریظہ کے مساکن میں پہنچے اور ان کے رئیس کعب بن اسد کے پاس گئے تو وہ بدبخت ان کو نہایت مغرورانہ انداز سے ملا اور سعد ین کی طرف سے معاہدہ کا ذکر کرنے پر اس کے قبیلہ کے لوگ بگڑ کر بولے جائو محمد اور ہمارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے یہ واقعہ ہوا تھا جب وہ وفد واپس پہنچا ہے۔ اب اس بات کی خبر یہ میںآپ کو اصرار سے بتارہا ہوں۔ اس بات کی خبر پہلی دفعہ ان کو وہاں ہوئی ہے۔ پس رسول اللہ ﷺکابھجوانا لازماً وحی کے نتیجے میں ہوسکتا ہے اور اسی واقعہ نے سارا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یومنون بالجبت والطاغوت و یقولون للذین کفروا ھؤلاء اھدی من الذین امنوا سبیلاً۔ یہ لوگ یعنی یہود ،کفار مکہ اورمشرکین کومسلمانوں پرجو ترجیح دیا کرتے تھے یہ ہے دراصل ان کی *** کی وجہ اور اس ترجیح دینے کے باوجود ان کو کچھ بھی میسر نہ آیا۔ وہ جو کفار مکہ کی مدد کو نکلے تھے جب ان کو مدد کی ضرورت پیش آئی تو کفار مکہ ان کی مدد نہیں کرسکے۔ یہ ہے اعلان کہ ان کو کوئی نصیر مہیا نہیںہوا اور تاریخ اسلام، تاریخ عرب خواہ وہ کسی کی بھی لکھی ہوئی ہو اس بات پر گواہ ہے کہ جو یہود پر بپتا پڑی تو وہ کفار مکہ جن کی خاطر انہوںنے دین کو بگاڑا تھا وہ ان کے کام نہیں آسکے۔یہ آیت ہے؟ اولئک الذین لعنھم اللہ ومن یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیرا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے *** فرمائی ہے اور جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس کے بعد *** کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ ان کو ملعون کیا گیا ہے ، ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے۔ کوئی ظلم نہیں ہوا اور جب اللہ کسی کو ملعون قرار دے دے فلن تجد لہ نصیرا تو تو کبھی بھی ان کے حق میں کسی کو مددگار نہیں پائے گا۔ یہ دوسری پیشگوئی ہے جو بڑی شان سے پوری ہوئی ہے۔ جب یہود پر بپتا پڑی تو مشرکین ان کے کسی کام نہیں آسکے۔ خود ان کو اپنے وبالِ جان کو اپنے اوپر لینا پڑااو رکلیتہً ان کی بیخ کنی کردی گئی۔ یہ بیخ کنَی ہے یا بیخ کنُی ہے؟ مجھے تو کنَی یاد ہے لیکن آپ نے نوٹس میں کنُی لکھا ہوا ہے۔ کنُی اور چیز ہے ، کُن کا مطلب تو ہونا کرنا ہے۔ کنَی ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے نا؟ چیک کرلیا ہے آپ نے؟ ٹھیک ہے میں نے اس پر لکھا ہوا تھا کہ بیخ کنی نہیں مجھے کُنی نہیں کنَی لگ رہا ہے ٹھیک ہے۔اولئک الذین لعنھم اللہ و من یلعن اللہ فلن تجد لہ نصیرا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:- ’’یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے *** کی ہے اور جس پر خدا *** کرے اس کیلئے کوئی مددگار نہیں‘‘۔ یہ شان نزول والے پیچھا نہیں چھوڑتے اور اکثر روایات انہوں نے علامہ واحدی سے لی ہوئی ہیں جو 464ھ میںامام کے طور پر اُبھرے ۔ یعنی پیدا ہوئے ہیں وفات ہوئی ہے 468ھ میںان کی۔بمطابق 1076ء ۔ اب آپ سوچیں کہ کیا ایسی روایات جن میںشانِ نزول کی بات ہو اس تمام 400سال دبی ہوئی رہ سکتی ہیں جو بعد میں علامہ واحدی پر ظاہر ہوئی ہیں۔ اس لیے جب بھی ہم نے ان کا تتبع کیا ہے بلا امتیاز یہ روایتیں اس راوی تک پہنچی ہیں جس کے متعلق علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ جھوٹا اور بدکردار یا جھوٹا اور بے اعتبار اور اہل علم اس کی روایات ردّ کرتے ہیں ، اس تک جاپہنچتی ہے۔ بیچ میں جو لوگ پیدا ہوئے ہیں عجیب و غریب وہ اس کے علاوہ ہیں۔ 400 سال تک ایک ایسے راوی کی روایتوں کو اندر اندر چلنے کا موقعہ ملا ہے۔ ملا بھی ہے یا نہیں؟اللہ بہتر جانتا ہے کس نے گھڑلی ہیں یہ باتیں۔ مگر اہل علم کے نزدیک ان روایات کی کوئی بھی سند نہیں۔ وہی روایات قریش اور ان کے یہود کے درمیان عجیب و غریب باتیں بیان کررہی ہیں جن کے متعلق آپ یاد رکھیں کہ ان کی ہرگز کوئی سند نہیں، ہرگز لائق توجہ نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ساری باتیں وہ کہہ رہے ہیں ۔ وہ باتیں جو قابل قبول ہوسکتی ہیں، جو ان روایات سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ قرآن کریم خود بیان کررہا ہے۔ تعجب ہے! عقلیں کیوں ماری گئیں ہیں؟یعنی وہ باتیں جو قرآن کریم اس وضاحت سے کھول رہا ہے کہ ایک موٹی عقل والے کو بھی سمجھ آجانی چاہئیں۔ ان آیات کو چھوڑ کر ان روایات کی طرف منتقل ہورہے ہیں جن کی سند ہی کوئی نہیں اور ان سے مضمون نکالنے کی کوشش کررہے ہیں اکثر غلط اور جب صحیح نکالتے ہیں تو وہی جو قرآن کریم میں پہلے سے موجود ہیں۔ اس لیے میں آپ کو بار بار ان لوگوں سے متنبہ کررہا ہوں۔اب ملعون کاکوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یہ ایک واضح بات ہے جس کو اللہ تعالیٰ دور فرمادے ۔ جس پر اللہ تعالیٰ *** کرے اس کا کوئی مددگار ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نتیجے کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالا جا ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کسی روایت کی ضرورت نہیں لیکن یہ ضروری ہے معلوم کرنا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ معلوم ہوچکا ہے ۔ یہ *** کا وعدہ اور ان کی مدد نہیں ہوگی، یہ قرآن کی رو سے ان لوگوں پر ابتلاء آنے سے پہلے کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب یہ فرمایا کہ ان ملعونین کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہ وعدہ اس وقت تھا جبکہ سارا عرب ان کی مدد کیلئے تیار بیٹھا تھا۔ یہ ہے شان قرآن اور اس شان کو ظاہر کرنے کیلئے کسی روایت کی ضرورت نہیں۔ اپنی ذات میںکھلی، ظاہر وباہر، روشن ، سورج اور چاند کی طرح چمک رہی ہے، اس کو کس سہارے کی ضرورت ہے؟ سوال ہی نہیںپیدا ہوتا۔ پس بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ لوگ جن پر *** ڈالی گئی تھی جب ان پر مصیبتیں ٹوٹی ہیں تو ان کی مدد کو کوئی نہیںآیا۔
علامہ رازی نے اس بات کو بہت شدت سے اُٹھایا ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو جو انہوں نے عبادت کرنے والوں سے بہتر قرار دیا تھا یہ ایک ایسی *** ہے جو کبھی بھی ایسی قوم کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اور حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان امور کا ذکر حالات حاضرہ کے تعلق میں بیان فرمایا ہے وہ کہاں ہے روایت جس میں یہ ہے کہ آجکل کے علماء بھی یہی طریق اختیار کریں گے۔ درس دیتے وقت جو میرے ذہن میں ترتیب اٹھتی ہے اس کا میں پہلے سے ان کو بتا نہیںسکتا ناں اس لیے بیچارے مجبور ہیں ان روایات کو کہیں نہ کہیں جوڑنے سے۔ بعض دفعہ وہ آیات بعد میںآتی ہیں جن سے اس کا تعلق ہونا چاہیے مگر مضمون کے تسلسل میں یہ باتیں مجھے پہلے سوجھتی ہیں اس وقت پھر آپ لوگ یہ افراتفری دیکھتے ہیں۔ ان کو حوالے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ بتائیں جی اب۔ مل گیا نہیں؟ میں زبانی بتادیتا ہوں۔ وہاں جب آئے تو پھر بات کھلے گی۔ وہ لوگ جو خدا سے دور لوگوں کو جن کی دوری ظاہر و باہر ہے ان کو حسد کے نتیجے میں زیادہ بہتر ایمان والا قرار دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ایمان میں ان کے قریب تر ہیں ان کو دور ہٹاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا ظلم ایسا ظاہر ہے کہ اس کے اوپر کسی اور دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ایسا حسد کے سوا ممکن نہیں۔ حسد کے نتیجے میں انسان جس سے حسد کرتاہے اس کی ساری اچھی باتیں نظر انداز کردیا کرتا ہے اور وہ لوگ جو اس حسد میں اس کے ممد ہوسکتے ہیں ان کی طرف دوڑتا ہے، خواہ وہ دشمن ہوں خواہ وہ ظالم ہوں کیسے بھی ہوں وہ ان کے ساتھ جا کھڑا ہوتا ہے ، اس سے ایک بات جو قطعیت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا کوئی دین نہیں، کوئی ایمان نہیں۔ اب اس صورتحال کو مختصراً آج کے زمانے پر (یہ جب آگے آئے گا وہاں پڑھ دیں گے ۔ اب میں اپنے طور پر مختصراً بتارہا ہوں)کہ آج کے زمانے پر چسپاں کرکے دیکھیںوہ مسلمان کہلانے والے جنہوں نے احمدیت کی مخالفت اس بنا پر کی کہ نعوذ باللہ ہم رسول اللہﷺ کوخاتم النبییٖن نہیں مانتے، محض اس بنا پر مخالفت کا آغاز کیا ۔ وہ جو کارروائی ہوئی ہے اسمبلی کی اس ساری کارروائی میںایک الزام بھی احمدیت پر نہیں رکھ سکے کہ ہم رسول اللہ ﷺکو افضل الرسل نہیں مانتے، تمام چیزیں جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پیش کیں وہ یہ ثابت کررہی تھیں کہ محمد رسول اللہﷺ کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عاشقانہ تعریف کے سوا کچھ نہیں کہا اور ختم نبوت کاعقیدہ وہاں یہ اٹھا ہی نہیں سکے، کیونکہ ان کو پتا تھا کہ یہ عقیدہ اٹھانے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ کیونکہ ہم نے جو مؤقف پیش کیا تھا اس کو اس وضاحت کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس کے بعد ان کے پاس ان کا اختیار ہی نہیںتھا کہ ختم نبوت کا عقیدہ اُٹھاتے ۔ پس ساری بحث میں ختم نبوت کا کوئی عقیدہ نہیں اٹھایا گیااوریہ اعلان کیا گیا کہ یہ لوگ سب سے بدتر ہیں ان کو ہمارے ملک میں وہ مقام نہیںملے گا جو غیروں کوملا ملتا ہے۔ اسی بنا پر پھر ضیاء نے اپنے فیصلے جاری کیئے۔ اب میں مختصراً آپ کو یہ بتارہا ہوں کہ انہوں نے کوشش کی تھی کہ ہمیں رسول اللہ ﷺکامنکر اور خاتم النبییٖن کا منکر اور ان کا مددگار ثابت کریں۔ یہی کوشش تھی ناں ۔ آج کیا ظاہرہوا ہے؟ مسلم لیگ مجبور ہوگئی ہے یہ اعلان کرنے پر کہ وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺکے منکر ہیں، جو آپ کو نعوذ باللہ من ذالک مفتری علی اللہ کہتے ہیں اور وہ لوگ جو محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبییٖن تسلیم نہیں کرتے، مفتری بھی بیان کرتے ہیں اور خاتم اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ ان کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام خاتم ہیں۔ آج کھلے اعلان کی رو سے ان کو اپنے سینے سے لگالیا گیا ہے اور یہ اعلان کیا گیا ہے یہ لوگ مسلم لیگ کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ احمدی جو خاتم النبییٖن مانتے ہیں اور کم سے کم اتنا ان کو اقرار ہے کہ رسول اللہﷺ کی حمد میں اورمدح میں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے اس کے مقابل پر یہ کچھ بھی پیش نہیں کرسکتے۔ اس لیے منہ سے بولیں یا نہ بولیں ان کی بے اختیاری ثابت کررہی ہے کہ رسول اللہ ﷺکے بعد آج تک عاشقان محمد رسول اللہﷺ میںسب سے بڑا مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حاصل ہوا ۔ ان کواور ان کی جماعت کو رسول اللہ ﷺسے کاٹ کر پھینکنے کی کوشش میں خود یہ سرکتے رہے ہیں ، یہاں تک کہ ایک ایسا مقام آگیا کہ جب عیسائی دنیا نے ان پر دبائو ڈالا اور کہا کہ تم عیسائیوں کو پرے پھینک رہے ہو اور عیسائی طاقتوں سے روٹی مانگ رہے ہو۔ یہ نہیںچل سکتا۔ انہوںنے کہا ہرگز نہیںآپ ہمارے مائی باپ ہیں، آ پ ہمارا حصہ ہیں ، آپ مسلم لیگ میں شامل ہیں۔ اب دیکھیں کتنا بڑا فرق ہے، کتنا بڑا ظلم ہے۔ آج اگر مسلم لیگ کی صف میں شامل ہونے کے بعد ایک عیسائی یا ہندو یہ اعلان کرے اے مسلمانو ہمارے ساتھیو! جن کو مسلم لیگ کی چار دیواری کی حفاظت حاصل ہے ، ہم اعلان کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک محمد مصطفی ﷺایک بہت بڑے مفتری تھے، خدا پر جھوٹ بولنے و الے تھے اور یہ تم لوگوں کا جھوٹا خیال ہے کہ وہ خاتم تھے۔ خاتم اگر تھے تو یا عیسیٰ علیہ السلام ہیں یا کرشن علیہ السلام یا ہمارے دوسرے معبودانِ باطلہ۔ آپ کو ہرگز خاتمیت نصیب نہیں ہوئی۔ آج قانون پاکستان ان کی حفاظت کرے گا اور مجال ہے جو کوئی ان پر حملہ کرسکے۔ ان پر کوئی دفعہ نہیں لگ سکتی۔ کیونکہ مسلم لیگ کا اعلان ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، ہمارے ساتھ شامل ہوگئے ہیں ۔ تو احمدیت کو مسلم لیگ سے نکال کر مسلم لیگ کو اسلام سے نکالنا پڑا ۔ یہ میں عرض کررہا ہوں کہ ایسی صورتحال ہوجایا کرتی ہے کہ کھسکتے کھسکتے یہ ہر قسم کی ذلالت میں اس طرح مبتلا ہوجاتے ہیں کہ جھوٹ ماننا پڑتا ہے ۔ مسلم لیگ سے احمدیوں کو نکالتے نکالتے قائداعظم کی برسی پر قائد اعظم کی صدارت کی سیٹ پر اس کو نافذ کردیا جو اس کا پیر اور گرو قائد اعظم کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ یہ حال ہوگیا ہے اب اس مسلم لیگ کا۔ ہمارے پیچھے پڑے تھے خدا نے ان کوکہاں تک پہنچادیاہے اور ان کو یہ دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ میں نے جیسے عرض کیا تھا،مباہلے کے نشانات میں سے ایک یہ بھی نشان ہے۔ کہاں تک پہنچے ہیں، کہاں تک گرگئے ہیں؟ لیکن انشاء اللہ تعالیٰ ان تفصیلات کو میں بعد میں مباہلے کے وقت بیان کروں گا۔ اس تفسیر میں سردست یہی کافی ہے۔باقی آپ سنبھال لیں اوراس کو آگے پیچھے کرلیں۔ ٹھیک ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ5؍رمضان بمطابق 4؍ جنوری 1998ء
السلام علیکم۔
آج ساتواں روزہ ہے؟پانچواں ؟ اسی طرح تیز ہوتے جاتے ہیں پھر، رفتار بڑھ جاتی ہے۔ درس شروع کرنے سے پہلے کچھ ایک دو باتیں ہلکی پھلکی ہوجایا کرتی ہیں۔ کل کے درس میںجو میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ خدا کے واسطے میرے ہومیو پیتھ نہ بنیں یا میرے طبیب نہ بنیں۔ ہمیشہ اس کا الٹ اثر پڑتا ہے بعض طبیعتوں پہ۔ آج جب میں گیا ہوں تووہاں فیکس پڑی ہوئی تھی کہ آپ یہ علاج کریںاور وہ علاج کریں اور میرے درس سننے کے بعد ہے۔ اس وقت مجھے وہ غالب کا شعر یاد آگیا کہ
یاربّ وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور
لیکن ایک فیکس ایسی تھی جو اس کے برعکس ایک دن پہلے کی تھی۔ اور وہ ، وہ تھی جس پہ مجھے بہت ہی لطف آیا اس وجہ سے کہ میں درس سے جاتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ راجہ نذیر ظفر صاحب کو کائی پیغام نہیں ملا ابھی تک اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ ان کا پیغام ملا تو یہ ہوگا اور اس میں انہوں نے اپنی سونگھنے والی دوائوں کا بھی ذکر کیا ہوگا۔ اب یہ ایسا اتفاق ہے حسن اتفاق، کہ اس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں جماعت کے اتنے زیادہ لوگوں کو قطعی طور پر جانتاہوں کہ دنیا میں کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا۔ بکثرت لوگوں کا مجھے علم ہے کہ وہ یہ ہیں اور راجہ صاحب کے خط نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ کیونکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ راجہ صاحب نے ۔۔۔۔۔۔ لکھنا چاہیے تھا وہ کہ آپ میرے Smell جو ہیں وہ روزے کے دنوں میں سونگھ بھی سکتے ہیں اور اس سے آپ کا روزہ بھی نہیں ٹوٹے گا اور آپ کو فلاں دوا استعمال کرنی چاہیے۔ جو دواانہوں نے تجویز کی، اس کے حوالے دیے ہوئے ہیں وہ جس وقت ان کی ابھی ان کی دکان شروع نہیں ہوئی تھی اس سے پہلے سے مجھے علم ہے اور ان کی دکانداری بہت اعلیٰ ہے اس میں کوئی شک ہی نہیں۔ تجارت کے چوٹی کے ماہر ہیں۔ خدا کرے ہومیو پیتھی کے بھی ایسے ہی ماہر ہوں۔ لیکن ان کو زیادہ تر توجہ اپنے ادب کی طرف کرنی چاہیے۔ ماشاء اللہ نظمیں خوب لکھتے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ راجہ صاحب کبھی کبھی ایسی اعلیٰ پائے کی نظمیں بھی کہ سکیں گے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ ان کے نظموں سے بے اختیار دل سے داد نکلتی ہے۔ تو اس ذکرِخیر کے بعد اب میں درس شروع کرتا ہوں۔ اب پتا نہیں راجہ صاحب ہنس رہے ہیں یاپچھتارہے ہیں اللہ بہتر جانتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ام لھم نصیب من الملک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان اللہ کان عزیزًا حکیما۔ (النسائ:54 تا 57)
سردست ان چار آیات کی تلاوت کی ہے اور اگر اس سے زیادہ کی ضرورت پڑی تو انشاء اللہ اس کے بعد میں پھر تلاوت کرلوں گا۔ ام لھم نصیب من الملک فاذا لایؤتون الناس نقیرًا۔ کیا ان کیلئے ملک میں سے بھی کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہو تو وہ لوگوں کو ایک نقیر کے برابر بھی نہ دیں۔نقیر کھجور کی گٹھلی کے اندر کی جو لائن ہے اس کے ایک طرف ایک نقطہ ہوا کرتا ہے Depression اس کو نقیر کہتے ہیں۔ تو اس Depression میں جو کچھ آتا ہے وہ بھی نہ دیں۔ یہ ایسے کنجوس لوگ ہیں اور ان کی کنجوسی مال کے بڑھنے سے اور ملک کے بڑھنے سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جتنا زیادہ ان کو مقدرت حاصل ہو، لوگوں کے معاملات ان کے سپرد ہوں اتنا ہی یہ اپنی کنجوسی میں پہلے سے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ عمومی معنے ہیں اس آیت کریمہ کے اور مفسرین نے جو نکات اٹھائے ہیں خاص طور پر میں ان کی طرف اب متوجہ ہوتا ہوں۔ یہ واقعہ تو آپ کو پتا ہے، کس واقعہ کی طرف اشارہ ہورہا ہے۔ یہود نے جو حرکت کی جنگ احزاب کے وقت اس سلسلے میں ان کی جو کوششیں تھیں وہ ملک کے بغیر تھیں۔ یعنی ان کو ابھی ملک عطا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ملک عطا ہونا ان کے مقدر میں تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ملک کی بحث چھیڑی ہے۔ ملک سے کیا وہ ملک مرادہے جو حضرت دائود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ان کیلئے مقدر تھا؟ یا ملک سے مراد آسمانی بادشاہت میں حصہ ہے؟ یا ملک سے مراد عمومی زمینی بادشاہت میں حصہ ہے؟ یہ سارے امور وہ ہیں جن کو مفسرین نے چھیڑا ہے اور اب میں بعض ان میں سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
المفردات اور لسان العرب میں نقیر کی بحث میں یہ گزرا ہے کہ نقیر سے مراد کھجور کی گٹھلی کی پشت پر پایا جانے والا گڑھا ہے۔ یضرب بہٖ المثل فی الشی التفیف اور اس کا معنی ہے فی الشیء التفیف اس لکڑی کو بھی کہتے ہیں جس کو چھید کر اس میں نبیذ بنایا جاتا ہے۔ وھوکریم النقیر اور اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ نقیر کے لحاظ سے بہت معزز ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ چیز بنائی جاتی ہے( یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے آپ کو اس آیت کو سمجھنے میں کسی قسم کی مدد ملے ۔ آگے چلتے ہیں)۔ امام رازی کے نزدیک جو مختلف مفسرین کی توجیہات کو اکٹھا پیش کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں فرماتے ہیں یہود کہتے تھے کہ ہم بادشاہت اور نبوت کے زیادہ حقدار ہیں۔ اس لیے ہم عربوں کی پیروی کس طرح کریں؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے نظریہ کو باطل قرار دیا ہے۔(2)یہود یہ خیال کرتے تھے کہ آخری زمانہ میں حکومت ان کو دوبارہ دی جائے گی اور وہ یوں کہتے تھے کہ یہود میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو ان کی حکومت اور سلطنت کی تجدید کرے گا اور ان کے دین کی طر ف لوگوں کو دعوت دے گا۔ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردیدکردی ہے۔تیسرے یہاں ملک سے مراد ملکیت ہے یعنی اگر ان کے بس کی بات ہوتی تو تیری نبوت کو ردّ کردیتے یعنی اختیار مراد ہے ملک سے اور اگر حق ملکیت ان کا ہوتا تو چھوٹی سے چھوٹی چیز دینے سے بھی بخل کرتے۔ پس نفی وہ اس بات پر وہ کیسے قدرت رکھ سکتے ہیں۔ پھر علامہ رازی بیان کرتے ہیں کہ ابوبکر الاصم کہہ رہے ہیں کہ باغوں والے اور مالدار لوگ تھے اور اصحاب عزووقار تھے ۔ اس کے باوجود وہ ناداروں پرذرّہ برابر خرچ کرنے سے بھی بخل کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اب اس آیت کے متعلق یہ چار تشریحات جو پیش ہوئی ہیں ان کے متعلق میں اپنا تبصرہ کرتا ہوں۔
یہود کہتے ہیں کہ ہم بادشاہت اور نبوت کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے ہم عربوں کی پیروی کس طرح کریں۔یہ بات اس لیے غلط ٹھہرتی ہے کہ باوجود یہ سمجھنے کے انہوں نے عربوں کی پیروی کی ہے اور مشرکین سے جاملے۔ پس دعویٰ تو یہ تھا کہ ہم برتر ہیں اور خود اپنا کمتر ہونا اپنے اس فعل سے ثابت کردیا اور یہاں اگر اختیار ہوتاتو نقیر کے برابر بھی نہ دیتے۔ یہ یہود کی بے اختیاری کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے ٹکرانے کے نتیجہ میںیہ ایسے بے اختیار ہوگئے تھے کہ اپنی خواہش کے خلاف وہ چیز عربوں کے سپرد کر بیٹھے جس پرخود دعویدار تھے۔ وہ کہتے تھے مملکت ہماری ہے، بادشاہت کا حق ہمارا ہے اور عربوں اور جاہلوں کو کیا پتہ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں وہ نقیر بھر جو دینے پر تیار نہیںتھے ، وہ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے اور اپنے دین کو مشرکین کے دین میں شامل کرکے ان کو کہا کہ تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ یعنی جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دین کو بہتر قرار دیا تو اس میں تمام معاندین کا دین آجاتا ہے۔ پس یہ نقیر نہ دنے والے والے کیاکچھ دے بیٹھے۔ یہ محض حسد کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور ایک بے اختیاری ہے۔ کہ جب سچائی سے ٹکرائو تو تم اپنے پاس کچھ بھی نہیں رکھ سکتے۔دوسرا حصہ ہے یہود یہ خیال رکھتے تھے کہ آخری زمانہ میں حکومت ان کو دوبارہ دی جائے گی ،اس کا بھی ردّ فرمایا گیا ہے یہاں، آئمہ کی طرف سے۔ میرے نزدیک ان کا یہ ردّ کرنا بالکل غلط ہے۔ کیونکہ آخری زمانے میںان کو حکومت دی جانے کی پیشگوئی بڑی وضاحت کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہے اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل پر ان کی حکومت بعینہٖ اس پیشگوئی کے نتیجے میں ہے۔ ا س لیے یہ خیال کرلینا کہ اس آیت کریمہ میں اس کا بھی ردّ ہورہا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ ردّ ایک اور چیز کا ہورہا ہے جس کو مفسرین پوری طرح سمجھے نہیں۔ ان کا یہ خیال تھا کہ یہود ہی میں سے ایک ایسا شخص کھڑا ہوگا جو ان کے دین کی طرف سے جہاد کرے گا گویا کہ اور اپنی جنگی کوششوں کی وجہ سے دوبارہ ان کو سلطنت عطا کرے گا۔ یہ خیال جھوٹا تھا، ایسا ہونا ان کی کم فہمی تھی۔ چنانچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) جو ان میں ظاہر ہوگئے، انہوں نے ان کی خاطر اس سے رومن حکومت سے کوئی جہاد نہیں کیا اور کوئی ایسی لڑائی نہیں کی جس کے ذریعے ان کا تاج و تخت چھین کر ان کے سپرد کردیا جاتا۔ پس اس تصور میں وہ غلطی خوردہ تھے مگر آخرت میں یعنی آخرت سے مراد مرنے کے بعد کی آخرت نہیں بلکہ اس دنیا کے آخر میںجسے ہم آخرین کا زمانہ کہتے ہیں اس زمانہ میں ان کا تاج و سلطنت پر قبضہ کرناایک مقدر بات تھی جو انہوں نے بہرحال کرنا تھا اور یہ قرآن کریم کی واضح پیشگوئی موجود ہے۔ لیکن ایک شخص کے ذریعے نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی تقدیر کے ظاہر ہونے کے نتیجے میں یہ ظاہر بات ہوجانی تھی۔ چنانچہ آپ دیکھیں کوئی ایسا شخص ظاہر نہیں ہوا جس نے اس عظیم الشان قبضے میں ان کی مدد کی ہو۔ تمام یہود کی مجموعی کوششیں تھیں اور چونکہ مقدر کے مطابق ضروری تھا اس لیے ہوکے رہنا تھا اور اس کے مقابل پر مسلمانوں کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے لیکن یہ پیشگوئی کتنی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آخری زمانہ میں خدا دوبارہ ان کو طاقت دے گا کہ اس کا ردّ جو وہ سمجھتے ہیں مفسرین اس آیت میں کیا گیا ہے یہ غلط ہے۔ تیسری بات ، یہاں ملک سے مراد ملکیت ہے۔ یعنی اگر ان کے بس کی بات ہوتی تو تیری نبوت کا وہ ردّ کردیتے۔ اب یہ عجیب بات ہے، بس کی بات کیا۔۔ ۔ نبوت کا ردّ کرنے کے نتیجے میں تو ساری شرارت شروع ہوئی ہے۔ اگر بس کی بات ہوتی تو تیری نبوت کو ردّ کردیتے۔ اس سے مراد غالباً مفسرین یہ سمجھے ہیں کہ تیری نبوت کا ردّ کردینا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ اور اگر ان کو حق ملکیت ہوتا تو وہ جو چھوٹی سی چھوٹی چیز دینے سے بھی بخل کرتے ہیں۔ نفی و اثبات پروہ کیسے پوری طرح قدرت رکھ سکتے ہیں؟ یہ ذرا گاڑھا سا مسئلہ ہے جو مفسرین کے الفاظ میں امام رازی نے اٹھایا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کیا مسئلہ تھا ان کا؟ ملک سے مرادملکیت ہے۔ مراد غالباً یہ ہے کہ اگر ان کو اس دور میں کوئی ملکیت نصیب ہوتی اور ان کے قبضہ قدرت میں ہوتا کہ تیرے انکار کے ساتھ اپنی فضیلت کو بھی باقی رکھ سکتے تو ایسی صورت میں وہ ضرور انکار کرتے اور اپنی فضیلت کو اپنی ملکیت کی بالا دستی کواپنے پاس برقرار رکھتے ۔ اگر یہ بات ہے تو ہوسکتا ہے یہ تفسیر درست ہو۔ مگر پیچیدہ سی بات ہے جس کی اس آیت کریمہ میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ابولاصم کے متعلق جیسا کہ لکھا ہے وہ مالدار لوگ تھے ، اصحاب عزو وقار تھے، اس کے باوجود ناداروں پر ذرّہ برابر خرچ نہیں کرتے تھے۔ یہ ایک عمومی سی تفسیر ہے جو اس زمانہ کے یہود کی کھینچی جاسکتی ہے لیکن اس تفسیر میں بھی ہمیں کچھ استثناء دکھائی دیتے ہیں۔ اس زمانے کے یہود میں بڑے بڑے غریبوں پر خرچ کرنے والے بھی تھے۔ایسے ایسے نام مشہور تھے جن کے اوپر قصیدے لکھے گئے ہیں اور ان وسیع القلب لوگوں میں سے ایسے بھی تھے جب بنو نضیر کو سزا ملی ہے اور بنو قینقاع کو سزا ملی ہے تو انہوں نے اپنے دل کے حوصلے اور اپنی ۔۔۔۔۔۔ کا برسرعام اعلان کیا ہے ۔ ان میں ایسی عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی جو عظمت اور آپ کی خوبیاں تھیں ،ان کا انکار نہیں کر سکیں۔تواس لئے یہ کہنا کہ اس آیت کریمہ میں ان کو کلیتہ محروم کر دیا گیا ہے، یا محروم بتایا گیا ہے یہ درست معلوم نہیں ہوتا۔اب میں علامہ الفیض کاشانی،تفسیر الصافی کے متعلق یہ بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ حسب سابق ان کی عادت ہے کہ ہر بات کو کھینچ کر اپنے آئمہ کی طرف لے جاتے ہیں۔اور نعوذ باللہ من ذالک اس میں حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ،حضرت عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور حضرت عثمان( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی برائی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں،سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اب میں بہت تفصیل سے اٹھا کر اس کا ردّ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ مگر احمقانہ باتوں کو آپ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے تاکہ آپ یاد رکھیں کہ کیسی کیسی چیزیں ہیں جو یہ ۔۔۔۔ لیے پھرتے ہیں۔ ایک بہت دلچسپ بات ہے جو چھوٹی سی ، وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ یہ جو مفسر ہیں یہ حوالہ دیتے ہیں امام باقر علیہ السلام کا اور اس حوالہ کی کوئی سند نہیں ہے۔ حضرت امام باقر( علیہ السلام) بہت چوٹی کے عالم تھے، بہت بزرگ اور حضرت امام باقر( علیہ السلام) ہی ہیں جنہوں نے شیعوں کے تعصب کو اپنے پائوں تلے کچلا ہے اور اعلان کیا ہے کہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ اوّلین بزرگ جنہوں نے اپنے جان مال کو پیش کیا ان کے اوپر باتیں کرے کوئی انسان اور میرا مقرب ہو۔ پس امام باقر (علیہ السلام) کی طرف یہ اسی طرح باتیں منسوب کرتے ہیں جس طرح حضرت ابن عباس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے سنّی لوگ ظلم کرتے ہیں اور حضرت عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا نام لے کر ہر چیز کہہ دیتے ہیں۔ یہاں امام باقر علیہ السلام کی طرف جو بات ہے وہ اپنی حماقت کی وجہ سے حضرت امام باقر (علیہ السلام) کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتی۔ اتنی احمقانہ بات ہے کہ آپ سنیں گے تو حیران ہوںگے کہ امام باقر( علیہ السلام) اور یہ بات؟ کہتے ہیں ام لھم نصیب من الملک کے بارے میں مروی ہے۔ اب دیکھیں مروی کا مطلب ہے ناں۔ اس میںجو جھوٹ مرضی بول جائو ’’بیان کیا جاتا ہے‘‘ کس نے بیان کیا کون تھا یہ سب جھوٹ قصہ ہے۔۔۔۔ آپ نے فرمایا اس سے مراد امامت اور خلافت ہے یعنی یہود کی جو صفات بیان کی جارہی ہیں کہتے ہیں اس سے مراد امامت اور خلافت ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد ہم لوگ ہیں۔ اور نقیر سے مراد وہ نقطہ ہے جو کھجور کی گٹھلی کے درمیان ہوتا ہے یہ بات کہ ہم لوگ کیسے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں یہ تخصیص شاید اس وجہ سے ہے کہ دنیا پید اہی ان کیلئے کی گئی ہے، یعنی اہل بیت کیلئے اور خلافت ان کا حق ہے۔ اور اگر اموال ان کے ہاتھ میں ہوں تو تمام لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں گے اور اگر ان کے حق کو روکا گیا تو گویا سب لوگوں کومحروم کردیا گیا۔ نقیر سے یہ نکتہ نکالا ہے یہ نقطہ ہے ناں نقیر۔ اس سے یہ نکتہ نکالا ہے! کیا دلیل بنتی ہے یہ۔ نہایت ہی احمقانہ بات ہے۔ آگے چلیں دیکھیں آگے ہے، گویا کہ وہی تمام لوگ ہیں یعنی اہل بیت اور یوں بھی لکھا گیا ہے کہ ہم ’’ناس‘‘ ہیں۔ ’الناس‘ ساری دنیا کے جو ہیں وہ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ اشبہ الناس ہیں۔ یعنی اہل بیت تو ناس ہیں اور شیعہ ناس سے ملتے جلتے لوگ ہیں یعنی وہ ناس میں شمار نہیں ہوں گے سارے شیعہ۔ وہ ناس یعنی اہل بیت کے نقال ہیں اور سب لوگ نس ناس ہیں یعنی ستیاناس!!! یعنی انسانیت سے گرے ہوئے۔ ترجمہ ساتھ یہ کیا ہوا ہے۔ ناس، اشبہ الناس اور نس ناس ان میں ساری آیت کریمہ کے معانی کا ستیا ناس کردیا گیا ہے اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کلام الٰہی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ اب میں امام سیوطی کی بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ وہی امام سیوطی ہیں جن کا ذکر بارہا گزرچکا ہے۔ 849ھ تا 911ھ ان کا زمانہ ہے۔ 849ھ۔۔۔ ساڑھے آٹھ سو سال بعد رسول اللہ ﷺکے یہ بزرگ نمودار ہوتے ہیں۔ اور 911ھ میںوفات پاجاتے ہیں۔ ’’الدرالمنثور‘‘ ان کی کتاب ہے اس میں جو چاہیں باتیں وہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ (رضوان اللہ علیھم) کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور آخر ٹانگ اس پہ ٹوٹتی ہے کہ سدھی کہتے ہیں کہ اس میں یہ بتایا گیا ہے ۔ یہ ساری باتیں محض لغو ہیں اور ہرگز اس لائق نہیں کہ ان کی طرف توجہ دی جائے۔ کیونکہ ان کی تمام اسناد، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اوّل تو مکمل ہی نہیں۔ 800سال کی اسناد مکمل کرسکتے ہیں یہ؟ ناممکن ہے۔ 800سال تک مسلسل سینہ بہ سینہ ، منہ در منہ روایات چلتی ہوں اور ان صاحب امام سیوطی تک پہنچی ہوں۔ اس لیے لازمی بات ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا اور اگر یہ روایتیں اس طرح چلتی تو ان سب کو یاد رکھنے والا کون تھا؟ اور پہلے زمانہ میں یہ روایت چلتی ہوئی لوگوں کی نظر میں کیوں نہیں آئی؟ اس لیے آپ سے میری یہ پھر گزارش ہے کہ امام سیوطی صاحب کا نام جتنا بھی بڑا ہو قرآن کا نام سب سے بڑا ہے اور قرآن کی تفسیر میں ان کو اپنی فرضی ، من گھڑت روایات کے نتیجے میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اور جو لوگ بھی ان سے مرعوب ہیں ان کو میرا یہی پیغام ہے کہ خدا کا خوف کریں ، جو اوّل ہے اس کو اولیت دیں یعنی قرآن کریم، صحاح ستہ کی احادیث اور تاریخ اسلام، رسول اللہ ﷺکا وجود۔ باقی سب باتیں چھوڑدیں۔ وہ آپ کو گمراہی کی طرف لے جائیں گی۔ امام رازی کا مقام بالکل مختلف ہے ۔ اگرچہ آپ بھی بہت بعد کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک ایسا دل عطا فرمایا تھا ،ایسا انصاف کا جذبہ عطا کیا تھا کہ ہر قسم کی تفاسیر کو اکٹھا کرنے کے بعد اپنی طرف سے جب بیان کرتے ہیں کہ میں یہ سمجھتا ہوں ، اس میں ہمیشہ آپ کو روشنی نظر آئے گی الا ماشاء اللہ۔ تو امام رازیؒ اور امام راغب یہ دو ہیں جن سے تفسیر قرآن کو سمجھنے میں ہمیں مدد لینی چاہیے اور ان کا بہت بڑا احسان ہے امت پر کہ انہوں نے ہمیں تفاسیر کو سمجھنے میں بہت مدد دی ہے۔تفسیر کبیر جلد 10صفحہ 129ام لھم نصیب من الملک فاذالا یؤتون الناس نقیرًا اس ضمن میں حضرت امام رازی لکھتے ہیں واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں یہود کو سخت جہالت کا شکار قرار دیاہے۔ بوجہ اس اعتقاد کے کہ بتوں کی پوجا عبادت الٰہی سے افضل ہے۔ جب انہوں نے اس بناء پر سمجھوتہ کرلیا شرک سے تو عملاً یہ سمجھوتہ کیا ہے کہ عبادت الٰہی سے مشرکوں کا دین بہترہے۔ کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺکے متعلق یہود یہ ضرور کہتے تھے کہ یہ عبادت الٰہی کرتے ہیں، خواہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے دین اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ مگر عبادت الٰہی اور توحید باری تعالیٰ کے متعلق یہود نے کبھی بھی آنحضرتﷺ پرالزام رکھنے کی جرأت نہیں کی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے وہ ٹل نہیں سکے۔ اوراس کے باوجود کفار مکہ کو اور مشرکین عرب کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے جب انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺکے دین سے ان کے دین کو بہتر قرار دیا تو امام رازی یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ ان کی سخت جہالت تھی کیونکہ اس طرح انہوں نے بتوں کی پوجا کو عبادت الٰہی سے افضل قرار دے دیا۔ یہ بالکل درست ہے اور یہی بات ہوئی ہے۔ اس آیت میں ان کا ذکر بخل اور حسد کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اذً الایؤتون الناس نقیرًا میںجو بخل اور حسد کا ذکر ہے یہ اگلی آیات میں زیادہ کھل جائے گا او رحسد کا نام لے کر یہ بات ہوگی ۔ لیکن امام رازی غالباً ان آیات پر مجموعی نظر رکھتے ہوئے یہ فرمارہے ہیں کہ بخل اور حسد دونوں اس طرح مشترک ہیں کہ بخیل اور حاسد چاہتا ہے کہ دوسروں کو نعمت نہ ملے ۔ بخیل تو وہ ہے جو اپنے پاس موجود نعمت کو دوسرے تک نہیں پہنچنے دیتا اور حاسد چاہتا ہے کہ اللہ کی نعمت اس کے بندوں سے روک دے۔ اب یہ دو باتیں یہود میں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ بخل ان معنوں میں کہ جو دین ان کو خدا نے عطا فرمایا تھا وہ اللہ نے عطا کیا تھا اور ابراہیم علیہ السلام کو اور پہلے بزرگوں کو عطا کیا تھا جب خدا نے یہ دین دوسروں کو بھی دیا تو اس بات میں یہ بخل کرنے لگے کہ گویا ہمارا حق ہے کہ ہم اللہ سے فیض پائیں اور غیروں کا حق نہیں ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مومنوں کو بڑھادیا کم کرنے کی بجائے، اپنی تائیدات سے ثابت کردیا کہ جو دین ان کو عطا ہوا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے تو پھر حسد کرنے لگے اور حسد کا معنی پہلے بھی بیان ہوچکا ہے حسد سے مراد یہ ہے کہ انسان چاہے کہ کسی کو جو کچھ نعمت نصیب ہوئی ہے وہ کم ہوجائے ، وہ اس کے ہاتھ سے جاتی رہے ، وہ اتنا ذلیل و خوار ہوجائے دنیا میں کہ ہم اپنی فضیلت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے گر جانے کی وجہ سے اس سے اپنے آپ کو اونچا محسوس کریں۔ یہ حسد کا مضمون آج بھی دنیا میںجاری و ساری ہے ۔ وہ لوگ جو کسی کا اچھا نہیں چاہتے اور پھر اس سے اچھا بن کر دکھا نہیںسکتے ان کے پاس اس کے سوا رستہ ہی کوئی نہیں رہتا کہ اس کی ٹانگ کھینچ کے اس کو نیچا دکھائیں اور اوپر سے دیکھ کے کہیں کہ دیکھو ہم اس سے افضل ہیں۔یہود کا یہی حال ہوگیا تھا اور ٹانگ کھینچنے کے تعلق میں ان کو گرانے کیلئے ان کے پاس او رکوئی صورت نہ رہی تھی کہ مشرکین کو ان سے بہتر قرار دیں۔ اور جب مشرکین کو بہتر قرار دیا تو اپنے دین کا بھی ستیا ناس کردیا۔ وہ بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کے ساتھ ہی مشرکین کی نظر میں گر کر بے حیثیت ہوگیا۔ کیونکہ اگر شرک بہتر ہے توحید سے تو پھر یہود سے بھی شرک بہتر ہے۔ تو اپنے آپ کو گرائے بغیر یہ رسول اللہﷺ کوگرانے کے مقدرت نہیں رکھتے تھے۔ یہ وہ بات ہے کہ ان کو ملک میں کوئی نصیب نہیں تھا،یعنی ایسے بے اختیار لوگ تھے کہ ان کے نصیب میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ اپنے آپ کو گرائے بغیر محمد رسول اللہ کو گرا کر دکھانے کی کوشش کرتے۔ اپنے آپ کو تو گرالیا اور رسول اللہﷺ کی فضیلت اور بالا دستی پھر بھی باقی رہی۔ ان مضامین کو اب ان آیات میں اٹھایا گیا ہے۔
(وہیری کی باتیں لکھی ہوئی ہیں، بیکار ہیں۔ چھوڑ دیتے ہیں ان کو)۔ منٹگمری واٹ نے بھی Mighty Kingdom ترجمہ کیا ہے۔ نصیب من الملک۔ اس کا معنی Mighty Kingdom ہوسکتا ہے۔ کیونکہ نصیب نکرہ ہے اور نصیب نکرہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ عظمت شان کو ظاہر کرتا ہے ۔ تویہ ترجمہ منٹگمری واٹ نے جوکیا ہے اس سے انکار نہیں ۔یہ ممکن ہے کہ اگر ان کو غیر معمولی طور پرملک نصیب ہوتا تو پھر اپنے ہاتھ سے جو چیزیں چھوڑ رہے ہیں غیروں کیلئے وہ بھی نہ چھوڑتے ۔ بلکہ ایک نقیر کے برابر بھی نہ چھوڑتے۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہو ںکہ ایک اچھا نکتہ ہے جو انہوںنے بیان کیا ہے۔ سیل اکثر بیضاوی کے حوالے دیا کرتا ہے او رسیل کی تفسیر تمام تر الا ماشاء اللہ تقریباً کہنا چاہیے کہ البیضاوی کے تابع ہے۔ بیضاوی، ایک ہی کتاب ہے جو انہوں نے غور سے پڑھی ہوئی ہے او رجب بھی حوالہ دیتے ہیں بیضاوی کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس لیے بیضاوی کو انگریزی میں پڑھنا ہو تو سیل کو پڑھ لو۔ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ سیل کہتا ہے کہ Kingly Power مراد ہے یہاں۔ اگر اس کو ملادیا جائے پہلی آیات سے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جیوش کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ They were attempting to guide the policy of Medina۔ وہ مدینے کی پالیسیز کو گائیڈ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ But this is doubtful، doubtfulبات۔ بالکل غلط ہے ۔ واقعتہً وہ مدینے کی پالیسی کو گائیڈ کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اس کی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں(میر محمد علی۔۔۔۔۔۔ فضول بحث ہے چھوڑ دو)۔ اب اس کے بعد آیت کریمہ یہ ہے۔
ام یحسدون الناس علی مااتھم اللہ یہ پہلے بھی ذکر گزرچکا ہے حسد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مااتھم اللہ من فضل۔ اللہ نے جو اپنے فضل سے محمدرسول اللہ ﷺاورآپ کے ساتھیوں کو عطا فرمایا تھا کیا اس پہ یہ حسد کرتے ہیں؟ مااتھم اللہ من فضلٍ۔ جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا کیا ۔ اب یہاں جو بحث اٹھے گی وہ الناس کی بحث ہے ، وہ پہلی بحث نہیں ہے جو میں بیان کرچکا ہوں الناس وغیرہ۔یہ بحث بالکل اور ، اور بہت ہی برمحل بحث ہے۔ یحسدون الناس میںکون لوگ مراد ہیں؟ آنحضرت ﷺہی دراصل ان کے حسد کا مورد تھے۔ تو آپ کو الناس کہہ کر کیوں مخاطب فرمایا گیا؟ اور الناس سے مراد مدینے کے صحابہ ہیں یا اردگرد کے اورلوگ بھی شامل ہیں؟ یا بنی نوع انسان شامل ہیں؟ تو علماء نے بڑی برحق بحث اٹھائی ہے کہ الناس کی طرف توجہ کرو۔ یہاں کیا مضمون ہے؟ اس مضمون کو قرآن خود یوں کھول رہا ہے مااتھم اللہ من فضلٍ۔ الناس و ہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی طرف سے فضل عطا فرمایا ہے اور ساری بحثوں کا جواب اسی آیت کے حصے میں موجود ہے۔ محمد رسول اللہﷺ الناس میںگویا ساری انسانیت کا خلاصہ تھے۔ قل یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعًا وہ الناس جو ہے، جس نے محمد رسول اللہ ﷺسے فضیلت حاصل کی ہے وہ الناس ہے خواہ وہ دنیا میں کبھی بھی ہوں، کہیں بھی ہوں او رآج کے زمانے میںبھی الناس کے پیشوا محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ اور اس پہلو سے آپ کے ساتھ جو فضل خدا نے عطا فرمایا ہے اس پر یہ حسد کریں گے اور کرتے چلے جائیں گے اور سورۃ الناس میںجس حسد کا ذکر ہے من شر حاسدٍ اذا حسد وہ آئندہ کیلئے پیشگوئیاںہیں کہ حسد کریں گے ۔مگر اس حسد کا کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ دعاکرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے محفوظ رکھے جب یہ حسد کریں۔ اور خداتعالیٰ تمہیں ان کے حسد سے بچالے گا۔ توالناس میں چونکہ آئندہ زمانے کے محمد رسول اللہﷺ کے متبعین بھی شامل تھے اس لیے اس کو ایک ہی لفظ کے اندر زمانوں سے الگ محمد رسول اللہﷺ کے تمام متبعین کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اوّل ذکر محمد رسول اللہ ﷺکا ہے کیونکہ الناس کا خلاصہ آپ ہیں۔ اس کے بعد جو مضمون ہے وہ بالکل اس کے مطابق کھل جاتا ہے اور مطابقت رکھتا ہے۔ فرمایا فقد اتینا ال ابراھیم الکتاب والحکمۃ واتیناھم ملکاً عظیمًا۔ اللہ وہ ہے جس نے اس سے پہلے ابراھیم کو بھی کتاب اور حکمت عطا کی تھی۔ واتینا ھم ملکاً عظیمًا اور انہیں بہت بڑ املک عطا کیا تھا۔ یہاںتمام شیعوں کا ردّ بھی آجاتاہے جو الناس کے الٹ پلٹ معنے کرتے ہیں۔ ابراہیم کے باپ کی کون سی خوبی تھی جس کے بدلے ابراہیم کو ملک عطا کیا گیا؟ ابراہیم کے باپ میں وہ کون سی صلاحیتیں تھیں ؟ وہ عظمتیں اور رفعتیں تھیں جن کے نتیجے میں ابراہیم کو کتاب عطا فرمائی، حکمت عطا فرمائی اور ملک عظیم عطا فرمایا اور اس کے وعدے دیے۔ پس یہ جو رشتے کے نتیجے میں روحانی عظمتوں کو حاصل کرنا ان کا وارث ہونا اس کا محمد رسول اللہ اور آپ کی آل سے ان معنوں میں کوئی تعلق نہیں۔محمد رسول اللہﷺ سے پہلے ابراھیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے۔ سب یہود اور سب اہل کتاب جن میںعیسائی شامل ہیں اس بات کے بہرحال گواہ ہیں کہ اگرچہ ان کے آپس میں جھگڑے ہوئے ہیں کونسا بیٹا سعادت پاگیا مگر ابراہیم کے معاملے میں یہ جھگڑا نہیں اٹھاسکتے۔ ان کوجو کچھ عطا ہوا ہے اللہ کے فضل سے عطا ہوا ہے اور اللہ کا فضل اگر ابراہیم پر ہوسکتا ہے تو دنیا کے ہر انسان پر ہوسکتا ہے۔ وہی فضل اگر محمد رسول اللہﷺ پر ہوا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ آپ نے وراثت میں پایا ہے، اس فضل نے ہونا ہی ہونا تھا اور ابراہیم علیہ السلام پر اللہ کا یہ بھی فضل ہے کہ آپ کے وارثوں میں سے ایک شخص ہے جو ابراہیم کے فضل کو بہت بڑھادے گا ، جو فضل ابراہیم پر نازل ہوا وہ ساری دنیا میں عام کردے گا۔ مگر وراثت کی وجہ سے نہیں۔ اگر وراثت کو تسلیم کرلو تو اس آیت کے معنے ختم ہوجائیں گے۔
پس یہود کو جھٹلانے کیلئے اور ان کا منہ بند کردینے کیلئے اور تمام غلط معانی کرنے والوں کا منہ بند کرنے کیلئے جن کے نزدیک آنحضرت ﷺاس لیے عظیم تھے کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تھے۔یہ آیت کریمہ اکیلی کافی ہے۔ ہرگز رسول اللہ اس لیے عظیم نہیں تھے کہ ابراہیم علیہ السلا م کی اولاد تھے۔ ابراہیم علیہ السلام اس لیے عظیم تھا کہ اس کی اولاد میںمحمد رسول اللہ پیدا ہوئے اور ابراہیم کی فضیلت اپنی ذات میں ایسے باپ کی اولاد ہونے کے باوجود جس کو خدا نے جہنمی قرار دیا ہے اپنی ذات میں اللہ کے فضلوں کے ساتھ ہے اور انہی کے ممنون ہے۔ اس کے سوا ابراہیم کے اندر کوئی ورثے کی فضیلت نہیں تھی۔ یہ مضمون ہے جو اس آیت کریمہ کی جان ہے۔ چنانچہ اتینا اٰل ابراھیم الکتاب والحکمۃ اب اللہ یہ فرماتا ہے کہ آل ابراہیم کو جو کتاب اور حکمت عطا کی گئی تھی وہ ورثہ کیسے بنی ہے کیونکہ آل ابراہیم میںہر قسم کے بد بھی شامل تھے اور اگر ورثہ اتنا قوی چیز ہے تو ابراہیم کو ملنا چاہیے تھا، اپنے باپ کا ورثہ جو نہیں عطا ہوا۔ آل ابراہیم کو جو ورثہ ملا ہے یہ ابراہیم کی دعائوں کے طفیل ان لوگوں کوملا ہے جو روحانی لحاظ سے اس کا اہل قرار دیے جانے کے مستحق تھے۔ جسمانی لحاظ سے یہ ورثہ نہیں چل سکتا ورنہ ابراہیم بھی نہیں چل سکتے۔ جسمانی ورثہ مانتے ہی ابراہیم سے تعلق کاٹنا پڑے گا۔ ایسی اعلیٰ دلیلیں ہیں قرآن کریم کی ، ایسی مضبوط ہیں کہ ان پر غور کریں تو باقی سب دلیلیں ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہیں کچھ بھی ان کاباقی نہیں رہتا۔ ام یحسدون الناس علی مااتھم اللہ من فضل اب اللہ نے اپنے فضل سے عطا کیا ہے، اس پر حسد کیسے کرسکتے ہیں اللہ کے فضل پر کوئی حسد ممکن نہیں۔ جانتے ہیںکہ پہلے بھی فضل سے عطا ہوا تھا، جانتے ہیں کہ اولاد کو جو برکت ملی وہ فضل کے طو رپر تھی نہ کہ ورثے کے طور پر۔ واتینٰھم ملکاً عظیمًا اور ہم نے ان کو ایک بہت بڑا ملک عطا فرمایا تھا۔ اس ضمن میں یہ یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ میرے نزدیک یہ اسلام کو ایک عظیم ملک عطا ہونے کی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم پر جو فضل فرمائے ان میں ایک ملک عظیم بھی تھا۔ اور چونکہ محمد رسول اللہﷺ پر اس سے بڑھ کر فضل فرمائے ہیں اس لیے لازماً آپ کو ایک ایسا ملک عطا ہونا مقدر ہے جس کی بادشاہی تمام دنیا پر حاوی ہے اور یہ وہ دن ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔ یہ ہے خلاصہ ان آیات کا اور اب میں حل لغات وغیرہ کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔یحسدون۔ حسد یحسد الحسد۔ تمنی زوال نعمۃ من مستحقٍ لھا یہ المفردات امام راغب نے اس کی تشریح فرمائی ہے۔ نعمت کے کسی مستحق سے نعمت چھن جانے کی خواہش کو حسد کہتے ہیں ۔ پس محمد رسول اللہﷺ مستحق تھے۔ اب اس سے بڑھ کر نعمت کا اعلان اپنے حق میں کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے یہ چاہا کہ ان سے چھینی جائے اور اسی حسد نے ان کو ذلیل و رسوا کیا ہے۔ المفردات الامام راغب نے لکھا ہے مومن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتاہے۔اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ گزشتہ ایک تفسیر کے دوران میں نے کہا تھا کہ رسول اللہ ﷺنے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم جھوٹی تعریفیں کرو گے تو گویا ساری قوم کو ہلاک کردو گے۔ وہ وجہ میں نے بیان کردی تھی کہ فلاں لفظ میں جس کو آزاد چھوڑا گیا ہے اس میںیہ سارے معانی داخل ہیں۔ ان معانی کو اس سے نکالا نہیں جاسکتا ۔ لیکن اس وقت ایک بات کہنی بھول گیا جو ، وہ بھی محمدر سول اللہ ﷺکا کلام اور بالکل برحق ہے وہ اس کے بالکل الٹ بات ہے۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا جس نے یہ اعلان کیا کہ یہ قوم ہلاک ہوگئی تو گویا اسی نے اس قوم کو ہلاک کردیا۔ دونوں افراط تفریط سے بچنے کی شدید ضرورت ہے ۔ اگر ایسے منافقین قوم میں باتیں پھیلائیں کہ جی یہ بات تو ایسی ہے کہ ہلاک ہوگئے ،ہم خراب ہوگئے، ہم گر گئے، ہم ذلیل اور ر سوا ہوگئے، ہماری خوبیاں جاتی رہیں تو جب ان کو پہچان لیں کہ یہ منافقین وہ ہیں جن کے متعلق محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ ہلاک کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر تم ان کے پیچھے لگو گے تو تم سے خود اعتمادی جاتی رہے گی اور تم رفتہ رفتہ قوم کو مایوسیوںمیں مبتلا کردو گے۔ ہرگز ایسا نہیں کرنا۔ پس اس وقت مجھے ذہن میں تھا کہ میں یہ بھی بیان کرکے اس کے مقابل پر جو دوسری صورت ہلاکت کی ہے وہ بھی کھول دوں لیکن وہ ذہن سے اتر گئی ۔ اب یہ جو ہلاکت کی باتیں ہیں یہود کی ان سے مجھے یاد آگئی ہے۔تو یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے ۔ المفردات کہتی ہے بادشاہت کادائمی حق توصرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لہ الملک ولہ الحمدملک اسی کا ہے اور حمد بھی اسی کی ہے۔ الملک اور الحمد یہ دونوں اسی کی ہیں کیا معنے رکھتے ہیں؟ (کیوں علمائے کرام)۔ اس لیے کہ الملک وہ ہے جو ٹلتا نہیں جس کے ہاتھ نہیں بدلتے۔ ورنہ اگر کسی کو عارضی بادشاہت نصیب ہو اگر قوموں کو ہو اور سینکڑوں سال کی بھی ہو جب وہ جاتی رہی توان کے سارے کیے کرائے پر اگلی بادشاہت پانی پھیر دے گی۔ ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا اور دنیا میں بادشاہتوں کے عروج اور زوال کا قصہ آپ پڑھیں اور اس پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی عظیم بادشاہت جس کا ذہنوں پر اثر اور رعب ہو ایسی نہیں جسے دوام حاصل ہوا ہو۔ ہر بادشاہت لازماً گرتی ہے اور لازماً نابود ہوجاتی ہے۔ Roman Empire ہو یا کسی بادشاہت کا قصہ آپ پڑھ کر دیکھ لیں ان کا زوال ان کے عروج سے زیادہ یقینی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح موت زندگی سے زیادہ یقینی ہے۔ ان کی موت ان کا زوال ہے اور یہ اللہ کی ملکیت کو ثابت کرتاہے۔خدا کی ملکیت کی شان اس طرح ظاہر کرتاہے کہ جس طرح موت نہ ہوتی تو زندہ لوگ مغرور ہوجاتے اور وہ خدا کی ہمیشگی میں دعویدار بن بیٹھتے، موت نے کردیا رسوا کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ ہر بادشاہ، ہر بڑا ، ہر چھوٹا لازماً مرے گا اور یہ اعلان کرتا جائے گا کہ لہ الملک ملک اللہ ہی کا ہے۔ ہر بڑی حکومت، ہر چھوٹی حکومت لازماً آخر رسوا ہوجائے گی اور یہ اعلان کرکے مرے گی کہ سب بادشاہت اللہ کیلئے ہے ، ہماری بادشاہت عارضی ہے۔ یہ ہے لہ الملک اور دوسرا ایک اور بات ا س میں امام راغب نے یہ پیش فرمائی ہے ولہ الحمد ۔ الحمد بھی اللہ ہی کی ہے کیونکہ حمد وہ ہے جس کے بعد کوئی حرف مذمت نہ آئے جو کامل ہو اور ہمیشہ باقی رہے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام کائنات جس طرح چل رہا ہے ا س میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کرسکتا اور اس کائنات کے نظام کا باقی رہنا اور اٹل ہوکرباقی رہنایہ اس کی حمد کررہا ہے۔ یہ وہ مضمون ہے جو میں نے سائنس کے حوالے سے پہلے بہت کھول کر بیان کیا ہے۔ ہر چیز جو کائنات میںہے وہ اللہ کی حمد گارہی ہے اور کامل حمد وہی ہے جس میں ساری کائنات شامل ہے اور اس کے ایک حصے کا بھی ردّ کسی سے ممکن نہیں ہے۔ بڑے سے بڑے سائنسدان بھی جب تلاش کرتے ہیں کوئی وجہ نقص کی تو ہار کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان کی تھکی ہوئی نظریں واپس لوٹ جاتی ہیں اور اللہ کی کائنات میں کوئی نقص نہیں نکال سکتے۔ یہ مضمون چونکہ میں بارہا تفصیل سے بیان کرچکا ہوں اس لیے دہراتا نہیں ہوں ۔ لیکن ولہ الحمد میں یہ الحمد کے معنے ہیں جو باقی رہے اور ہمیشہ رہے اور ملکوں کے بدلنے سے اس کو کوئی فرق نہ پڑے۔ لہ الملک ہی اللہ کاملک ہے۔ اس کی ایک قطعی دلیل یہ ہے کہ وہ ملکوں کو تبدیل کردیتا ہے۔ جب کہ جن کا الملک نہ ہو وہ بادشاہتوں کو عارضی طو رپر تبدیل کرتے ہیں، تھوڑے حصہ زمین میںتبدیل کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی بادشاہتیں خدا تعالیٰ کے فیصلے کی دست نگر ہیں وہ جب چاہے گاان کی بادشاہتیں مٹ جائیں گی۔ وہ خدا کی بادشاہتیں مٹا نہیںسکتے اور خدا ان کی بادشاہتیں مٹاتا چلا جاتا ہے۔ صاف ثابت ہوا کہ لہ الملک۔
چنانچہ اس ضمن میںامام راغب یہ آیت پیش فرمارہے ہیں قل اللھم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء اے اللہ مالک الملک تو تو ہے ، جس کو چاہتا ہے ملک عطا کردیتا ہے اور صرف عطا نہیںکرتا و تنزع الملک ممن تشاء اور جس سے چاہتا ہے ملک کو چھین لیتا ہے۔ تجھ میں عطا کی بھی صفت ہے اور چھیننے کی بھی صفت ہے۔ وتنزع الملک ممن تشاء ۔آگے فرماتے ہیں پس بادشاہت کا دائمی حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے(اسی بات کو دہرادیا گیا ہے آگے سمجھ نہیں آئی کیوں دہرایا گیا ہے بعینہٖ وہی لفظ ہیں) اس کا خلاصہ یہ نکالا ہے ’’پس ملک کامعنی ہے کسی چیز پر ایسا قبضہ کہ اس میں قابض کا حکم چلتا ہو پس ہر ایک مُلک مِلک ہوتی ہے اور ہر مِلک مُلک نہیں ہوتا ۔ اس سے کیا مراد ہے؟ بادشاہ خواہ کتنا ہی بڑا عظیم ہواس کے ماتحت رعایا کو اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی ملکیتیں حاصل ہوتی ہیں۔ وہ اپنی جائیداد پر قابض ہوتا ہے، اپنے کھیتوں پر ، اپنے باغوں پر قابض ہوتا ہے ، ٹیکس بادشاہ کو دیتا ہے لیکن ملکیت اپنی ہی سمجھتا ہے۔ پس ٹیکس لینے کے نتیجے میں بادشاہ اس کا مالک نہیں بن سکتا حکومت خواہ کتنی ہی عظیم ہو اس میںانفرادی ملکیتیں اپنی جگہ قائم رہیں گی اور ان کو توڑ انہیںجاسکتا۔ جو بادشاہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا اس کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی مگر ناممکن ہے کہ وہ انسان کی ملکیت کے حق کو اس سے چھین سکے۔ امام راغب یہ بیان فرمانا چاہتے ہیں کہ ہر ملک جو ہے وہ مُلک نہیں ہوا کرتی ، ہر مِلک ملک نہیںہوتا۔ یعنی اگرچہ جو ملکیت حاصل ہے وہ بادشاہت نہیں ہے اس میں انسان اپنا قانون نہیں چلاسکتا مگر بادشاہ کیلئے ایک بے اختیاری او رمجبوری ہے کہ ہر ملک ملک نہیں ہوا کرتا۔ یعنی ہر ملک جو ہے وہ ملک نہیں بن سکتا۔ ہر ملک مِلک نہیں ہوسکتا۔ اور یہ بے اختیاریاں ہیں جن کا امام راغب کے نزدیک ان آیات میں ذکر موجود ہے او ربادشاہت کے زمانے میں، بادشاہ کے دور میں اللہ جب کسی کی مِلک کو چھین لیتاہے تو ثابت کردیتا ہے کہ وہ بادشاہ ہے جس کو مِلک کے اندرونی طور پر دخل حاصل ہے۔ جب ایسی ہوائیں چلادیتا ہے کہ مِلک کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ وہ ثابت کردیتا ہے کہ میںبادشاہ ہوں ورنہ تمہارے بادشاہوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ تم سے سب کچھ چھین لیں۔میں چاہوںتو سب کچھ چھین سکتا ہوں۔ یہ خلاصہ کلام ہے حضرت امام راغب کے بیان کا۔ لسان العرب نے یہ بیان کیا ہے مَلک مُلک اور مِلک سے کسی چیز پر مکمل کنٹرول مراد ہے، تصرف اور مقدرت مراد ہے۔ تو یہ الملک یہود کو نصیب نہیں ہوا یہ وہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت امام رازیؒ (544ھ تا606ھ)آپ فرماتے ہیں واضح رہے کہ حسد صرف فضیلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پس جوں جوں انسان کی فضیلت مکمل اور کامل ہوتی ہے توں توں حاسدوں کا حسد بڑھتا جاتا ہے۔تو یہاں جو فرمایاام یحسدون الناس تو یہ ایک دلیل ہے ا ن کو نیچا دکھانے کیلئے، یہ جو حرکتیں کررہے ہیں وہ تو حسد کی ہیں، چھیننا چاہتے ہیں۔ اب کیا حسد کرنا اس بات کو ثابت نہیں کررہا کہ ان کو ایک فضیلت حاصل ہے۔ اور وہ فضیلت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ پس یہود کا حسد کرنا یہ اقرار جرم ہے اور اپنی ذلت کا ایک ایسا اقرار ہے جو ہمیشہ کیلئے کردیا گیا اور اس کو بدل نہیں سکتے۔ اگر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی واقعتہً حقیر تھے، اگران کو ملک میں کوئی حصہ نہیںتھا ، اگر ان کی خاطر خداتعالیٰ ملک کو تبدیل نہیں کرتا تھا ، اگر ان کی خاطر خداتعالیٰ ایسی وبائیں نازل نہیں فرماتا تھا ، ایسی ہوائیں نہیںچلاتا تھا جس سے دنیا کے مِلک کی بے حیثیت ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ جب رسول کریم ﷺ پیشگوئی فرماتے تھے تو حکومتیں تبدیل ہوجاتیں تھیں۔ اہل رو م کو اہل فارس پر وہ فضیلت عطا ہوئی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کی وجہ سے عطا ہوئی او رکثرت سے ایسے نشان ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا ملک محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں جلوہ گر ہوا ہے اور یہ حسد ہے جو ان کو آگ میں جلارہا ہے ، کوئی اس کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ اب سارے یہود کی کوششوں پر آپ نظر ڈال کے دیکھ لیں تو یہی حسد ہے جو فضیلت پر ہوا کرتا ہے نہ کہ گراوٹ پر۔ دنیا میں آپ کبھی کسی کو نہیں دیکھیں گے کہ وہ کوئی چیز گر جائے اور ذلیل ہوجائے اس سے وہ حسد کرنا شروع کردے۔ اوہویہ تو ہمیں ایسی گراوٹ اور ذلت تو ہمیں ملنی چاہیے تھی۔ جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں ملنی چاہیے تھی اوراس سے زائد ہونی چاہیے تھی ، اس کو نہیں ملنی چاہیے تھی تو اپنی ذلت کا اقرار کردیا۔ پس قرآن کریم کا یہ عنوان ہے یحسدون والا ۔ اس نے یہود کے سارے دلائل کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے حسد کیوں کرتے ہو؟ یہ بتائو۔ اپنی فضیلتوں کو مشرکین کے قدموں میںڈال دیا ، اتنی ذلت حسد کے سوا ممکن نہیں تھی۔ پس جب تم حسد کرتے ہو تو اس کا کوئی پھل تمہیں نہیں ملے گا۔ پس امام رازی نے کیسی پتے کی بات فرمائی ہے۔ کہتے ہیں مزید برآں دن بدن آپ کی سلطنت قوی تر، عظمت و شوکت میں زیادہ اور معین ومددگاراکثریت میں ہوتے جارہے ہیں اور یہ تمام چیزیں تمہارے غیر معمولی حسد کا سبب ہیں۔ ان چیزوں کو بدلا کے دکھائو۔
پھر عجیب و غریب استدلال درّ منثور میں کیا گیا ہے وہی علامہ سیوطی کی کتاب جو 849ھ میں پیدا ہوئے اور 911ھ میں وفات پائی(I'm sorry کیا ہوا؟ 849ھ نہیں کہا تھا میں نے؟ ہاں ہاں۔ معاف کرنا 849ھ میں پیدا ہوئے اور 911ھ میں وفات پائی)۔اس روایت کی تفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ کس صفحے میں درج ہے؟ کون سا؟ ہاں در منثور جلد 2صفحہ 173 ۔ اس میں سنن نسائی کتاب الجہاد میں بااختلاف الفاظ اس مضمون کی یہ حدیث ملتی ہے۔ ان کے بیان کے مطابق کہ ایک بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیںہوتے۔ یہ بات اپنی ذات میںدرست ہے کہ ایمان اور حسد اکٹھے نہیںہوسکتے۔ لیکن جو بات انہوں نے بیان کی ہے وہ بالکل غلط اور بے موقع اور بے معنی ہے۔ ان کے نزدیک ایک مومن اگر کسی کافر کو قتل کردیتا ہے تو وہ اس کافر کے ساتھ مومن جہنم میں اکٹھا نہیں ہوگا کیونکہ ایمان اور حسد اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ تو یہ ایسی لغو بات ہے کہ جب اس کو مومن کہہ دیا تو اس نے آخر کسی کو قتل کیوں کیا؟ حسد کی وجہ سے؟ حسد کی وجہ سے تو قتل نہیں کرسکتا۔ اس نے اگر قتل کیا ہے تو یا وہ حاسد ہے اور حاسد ایک مقتول کے ساتھ اکٹھا ہوسکتا ہے جہنم میں۔ اور اگر اس نے حسد نہیں کیا تھا تو جھک کیوں ماری؟ قتل کیوں کیا؟ اور اس کو قتل کی سزا ملنی چاہیے ۔وہ یہ کہتے ہیں کہ ’’قتل کی سزا اس لیے نہیں ملے گی کہ وہ مومن ہے اور مقتول کافر ہے‘‘ اور قرآن کریم کے وہ تمام مضامین نظر انداز کردیتے ہیں جن میںیہ بتایا گیا ہے کہ کافر کو بھی قتل کروگے توتم سزا وار ہوگے۔ ایسے مقدمات محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوتے رہے ہیں۔جہاں ایک یہودی کے مسلمان کو قتل کرنے کا معاملہ تھا یا مسلمان کے یہودی کو قتل کرنے کا معاملہ تھا اور ان مقدمات کو آپ نے سنا ہے اور فیصلہ انصاف کے ساتھ کیا ہے ۔ ایسے انصاف کے ساتھ کہ رہتی دنیا تک وہ دنیا کو روشن رکھے گا۔ اس میں ان یہود کے حق میں فیصلہ دیا جنہوں نے مسلمان کو قتل کیاتھا۔ چونکہ اس مسلمان کے قتل کی گواہی سوائے مسلمانوں کے اورکوئی نہیں دے سکتا تھا جو اس کے دین پر تھے اور سوال اٹھایا گیا کہ یا رسول اللہ ہم یہود کو کہاں سے اکٹھا کریں؟ فرمایا کرو یا نہ کرو، انصاف کا تقاضابہرحال رہے گا۔ جب تک غیر مسلم اس بات میںگواہ نہیں ہوتا کہ ایک مسلمان کو قتل کیا گیایہود کی طرف سے۔ میں اس کو تسلیم نہیںکروں گا۔ یہ ہے شان محمدی ﷺ میں جو ان روایات کا ذکر کرتا ہوں یہ بتانے کیلئے کہ جو حدیث (بیان کردہ ان کی حدیث 800 سال بعد جمع ہونے والی) جوشانِ مصطفوی پر حملہ آور ہو اس کو ہم ہرگز قبول نہیں کرسکتے۔ کلیتہً ردّ کریں گے اور یہ حدیث وہ ہے یہودی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے یہ کہا کہ اس نے ہمارے یہودی کو قتل کیا ہے ، رسول اللہﷺ نے ان کی بات کو تسلیم کیا ہے اور ان کے خلاف فیصلہ دیا جو مسلمان تھے۔ ان حالات میں وہی کوشش اور باتیں۔ پس قتل کا معاملہ کسی اسلامی حکومت میں اس سے بالا تر ہے کہ کسی کا مذہب کیا ہے۔ اگر مسلمان کا قتل غیر کرے گا یا غیر کا قتل مسلمان کرے گا تو محض انصاف کے پیمانوں سے جانچا جائے گا اور انصاف مصطفوی سے جانچا جائے گا۔ اب ایک بات یہاں یہ بیان کی گئی ہے القرطبی میںحسد ایک مغموم عمل ہے اور حاسد مغموم رہتا ہے۔ اب حاسد وں کو مغموم تو میں نے کبھی نہیںدیکھا۔ حاسد تو آگ میں جلتے رہتے ہیں ۔ غم ایک اورکیفیت کا نام ہے لیکن انہوں نے بنالیاہے کہ حاسد مغموم رہتا ہے۔ مغموم سے مراد اگر وہ آگ ہے جوسینے میںکھولتی ہے اس کو یہ غم کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اس کا جو بھی نام رکھیں یہ درست ہے کہ حاسد کے سینے میں ہمیشہ ایک آگ کھولتی رہتی ہے۔ اب انہوں نے چونکہ غم قرار دیا ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ حاسد کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حسد کا شکار رہتا ہے اور غم اس کو ایسے چمٹ جاتا ہے کہ آنسو تھمتے ہی نہیں۔ حالانکہ آنسو ان کے نہیں تھمتے جن کو غیروں سے ہمدردی ہو اور ان کو اپنی کوششوں کے باوجود ہلاکت سے بچانہ سکیں۔ یہ آنسو رسول اللہ ﷺکے آنسو تھے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔ وہ غیروں کی ہلاکت پر آنسو بہاتے ہیں، حسد کی وجہ سے نہیں۔ یہودیوں میں آپ نے کبھی یہ روایت نہیں سنی ہوگی یا تاریخ اسلام میں پڑھا ہوگا کہ یہ یہودی جو حاسد تھے ہر وقت روتے رہتے تھے ، ان کو رونے کا پتہ ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ تو ان کو خود توجہ دلاتا ہے کہ تم لوگ حسد کی آگ میںبھڑک رہے ہو ، جل رہے ہو، اس کا رونے سے کیا تعلق ہے؟ لیکن ہمارے مفسرین دور دُور کی کوڑیاں لاتے ہیں۔ ایک بات انہوںنے بہرحال درست فرمائی ہے اور وہ آخری نکتہ ہے علامہ قرطبی کا۔ وہ کہتے ہیں ’’حسد وہ پہلا گناہ ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی زمین وآسمان میںنافرمانی کی گئی۔ شیطان حاسد ہے‘‘ (لیکن اس نے یہ نافرمانی روتے ہوئے نہیں کی۔ جلتے ہوئے کی تھی) اور ہر وہ شخص جو شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے وہ اسی حسد کی آگ میں جلتا ہے‘‘ جو عمدہ نکتہ انہوں نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ’’آسمان میں توابلیس کا آدم علیہ السلام سے حسد تھا اور زمین میں قابیل کا ہابیل سے حسد تھا‘‘۔ یہ عمدہ پوائنٹ ہے جس کی وجہ سے پھر حسد کوہمیشہ کیلئے ردّ فرمادیا گیا اور قرآن کریم میں اس کی سزا دی گئی ہے دنیاوی پہلو سے اس حسد کی مثال قابیل کی ہے۔ یعنی آدم ہی ہے جس سے یہ دونوں باتیں پھوٹی ہیں۔ جس کے ساتھ دنیا کا آغاز ہوتا ہے۔ یعنی روحانی پہلو سے سب سے بڑا لعین حاسد پیدا ہوگیا اور جسمانی پہلو سے ان کے اپنے بچوں میں سے ایک نے اس حاسد کی پیروی کی اور اپنے بھائی سے حسد کرنے لگا ۔
پس حسد کا ایک اور مضمون ہم پر کھل گیا کہ حسد ضروری نہیں کہ غیر سے کیا جائے، اپنوں سے بھی حسد کیاجاتا ہے اور حسد کے نتیجے میں اشتعال پیدا ہوتا ہے، آنسو رواں نہیں ہوا کرتے۔ پس قابیل نے جب ہابیل سے حسد کیا تو اس کی نیکیوں اور خوبیوں کو دیکھ کر حسد کیا اور یہ دیکھا کہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کی دعائیں قبول نہیںہوتی۔ کیونکہ اس میںخرابیاں تھیں۔ اس بناء پر جب اس نے قتل کیا ہے تو ہمیشہ کیلئے یہ بنیاد ٹھہری کہ آئندہ سے اگر تم ایک انسان کو بھی قتل کرو گے تو گویا تم نے تمام بنی نوع انسان کو قتل کردیا۔ یہ قرآن کا بیان ہے اور ایک دنیا میں قتل اور اس کے جو پید اہونے والے نتائج ہیں ان کا آغاز بھی حضرت آدم کے زمانے سے شروع ہوتا ہے اور اس طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔یہاں میں علامہ قرطبی کا ممنون احسان ہوں۔میں آپ کو سمجھادوں کہ حسد انتہائی خبیث صورت میں اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے بھائی سے کریں اور اس کی بہت مثالیں ملتی ہیں۔ کئی لوگ اچھے بھلے ، عمدہ معاشرے میں منسلک رہتے ہیںجب تک ان کے ماں باپ زندہ ہوں، بھائی بھائی سے حسن سلوک کرتا ہے اور لگتا ہے کہ ایک دوسرے کی کامیابیوں سے خوش ہیں۔ لیکن ادھر ماں باپ نے آنکھیں بند کیں اور ادھر حسد نے زور مارا اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں، چھوٹی چھوٹی یہ ورثے کی تقسیم میں اتنا حسد کرنے لگتے ہیں کہ سارے معاشرے میں زہر گھول دیتے ہیں۔ پس یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اس قسم کے حسد سے محفوظ رکھے۔ باقی انشاء اللہ کل بیان کروں گا۔ السلام علیکم۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ6؍رمضان بمطابق5؍ جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
درس سے پہلے کی جو ایک دو باتیں ہوا کرتی ہیں چھوٹی چھوٹی ان میں سے ایک یہ ہے کہ آج میں اپنی ہار مان گیا ہوں۔ ایک فیکس کل اور آگئی تھی اس میں ایک خاتون نے شکوہ کیا ہوا تھا کہ آپ ہمارا پیدائشی حق کیوں چھین رہے ہیں؟ ہمارا پیدائشی حق ہے کہ جس سے ہمیں تعلق ہو اس کو ضرور کوئی چٹکلہ بتائیں اور آپ ہمارے درمیان میں خواہ مخواہ دیوار حائل کررہے ہیں ۔ تو میں نے اسی وقت تسلیم کرلیا تھا آج کے بعد کوئی شکوہ نہیں ہو گا لیکن چٹکلے جو ہوتے ہیں نا عورتوں کے کھانے پینے کے، کہتے ہیں دہی کھائو، فلاں چیز کھائو، فلاں چیز نہ کھائو وہ ان کا پیدائشی حق ہے، وہ بیشک استعمال کریں لیکن اکثر صورتوں میں یاد رکھیں میں پہلے استعمال کرچکا ہوا ہوں گا۔ چنانچہ جو نئے چٹکلے آئے تھے وہ استعمال کرکے دیکھ لیے تھے کل ہی اور ان کا کوڑی کا بھی اثر نہیں پڑا ۔ لیکن بہر حال یہ ان کا حق ہے میں ناراض ہرگز نہیں ہوں گا۔ وہ بیشک لکھتی رہا کریں، جو چاہیں مگر چٹکلے ہوں۔ میرے اوپر نہ ایلو پیتھ بنیں نہ ہومیو پیتھ بنیں۔ سمجھ گئے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ ہاں (ہنسی) یہ ٹھیک ہے ناں۔
’’یہود اورمسلمانوں میں فرق‘‘ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مضمون تھا جس کا بہت سا حصہ میں کل ویسے ہی بیان کرچکا ہوں۔ آخر پر آپ کا یہ نوٹ صرف اتنا سنادیتا ہوں یہ ترک موالات اور احکام اسلام 1920ء کی یہ تقریر ہے یعنی 1920ء سے بھی وہی حالات تھے جو آج ہمارے سامنے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں’’ افسوس کہ آج باوجود قرآن کریم کے احکام صریح کے مسلمان بھی اس غلطی میں مبتلاء ہیں ، بعض لوگ اپنے رشتہ داروں سے کہتے ہیں کہ تم عیسائی ہوجائو پرواہ نہیں مگر احمدی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی آنکھیں کھولے ۔یہ 20ء سے سن 20یہ طرز عمل جاری تھی اور آج یہ اعلان ہوا ہے کہ چلو ہم غیر مسلم ہوجاتے ہیں کیوں کہ ہمارے دروازے سب مشرکوں اور غیر مشرکوں کیلئے کھل گئے ہیں تمہیں نہیں اندر آنے دیں گے۔ تو اس لیگ میں ہم اندر جائیں گے کیونکہ جہاں آگے ایک شرک کرنے والے بیٹھے ہوں ، خدا کی ہستی کا انکار کرنے والے بیٹھے ہوں ، رسول اللہ ﷺکی رسالت کا انکار کرنے بیٹھے ہوں ،آپ کی خاتمیت کا انکار کرنے والے بیٹھے ہوں۔ ہمار ا سر پھرا ہوا ہے جو اس لیگ میں داخل ہوں۔ اس لیے دروازے بند ہی رکھیں کیونکہ آپ نے ہمیں باہر رکھنے کیلئے عملاً خود اسلام سے کلیتہً روگردانی کرلی ہے۔ یہ اعلان آپ نے سنا نہیں لیگ کا کہ ہمار ے دروازے سب غیر مسلموں کیلئے کھلے ہیں مراد کیا ہے جو اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرتے ہیں اور رسول اللہﷺ کوگالیاںدیتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی برتری کا اعلان کرتے ہیں اورکرشن علیہ السلام کی فضیلت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم خدا کو بھی نہیں مانتے ، دہریہ ہیں سب آجائو ہماری باہیں وا ہیں، سینے کھلے ہیں تم ہمارے ساتھ شامل ہوجائو لیکن یہ لوگ جو ہیں نا ’’مرزائی‘‘ یہ بڑے خطرناک ہیں ان کو نہیں ہم نے داخل کرنا، ان شرطوں کے ساتھ داخل کون ہوتا ہے وہاں۔ کوئی احمدی پاگل ہی ہوگا جو احمدیت کی گردن پر چھری پھیر کر پھر ان لوگوں میں اب داخل ہوگا جہاں یہ اجتماع ہے ہر قسم کے رسول اللہ ﷺکے دشمنوں کا‘‘۔ تو میں جو کہہ رہا تھا بات وہ بالکل درست تھی کہ یہ مباہلے کے سال میں خدا نے یہ کرکے دکھادیا ہے ہمیں۔ میں جو پوچھ رہا تھا ناں کہ ابھی مباہلے کے دن باقی ہیں کہ نہیں۔ میرے ذہن میں یہی باتیں تھیں کہ فیصلے کچھ ہونے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے یہ کھلم کھلا احمدیت کی جیت دکھادی ہے۔ اب یہ سر کو پیٹیں، آسمان سے اب کوئی آتانہیں۔ اب ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نوٹ میں نے کہاتھا میں سنائوں گا۔ یہ 1920ء کا ہے اس لیے میں نے آپ کوپڑھ کر سنایا ہے۔ یہ لگتا ہے آج کل کے واقعات ہیں، آجکل کے نہیں پرانے زمانے سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ آیت 55سے آج کا درس شروع ہوگا۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ام یحسدون الناس علی مااتاھم اللہ من فضلہٖ فقد اتینا ال ابراھیم الکتاب والحکمۃ و اتینھم ملکاً عظیما۔اس آیت کی بحث بہت حد تک گزر چکی ہے ۔ اب میں یہ ام یحسدون الناس کی توبحث میں کرچکا ہوں پہلے اس میں پھر بھی یہی لگا ہوا ہے ۔ اچھا! یہ جو الناس کی مختلف تشریحات میں آپ کے سامنے کل رکھ چکا ہوں وہی تشریحات یا ان سے ملتی جلتی ہیں جو تفسیر کبیر رازی میں بھی درج ہیں۔ الناس کے بارہ میں وہ کہتے ہیں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ مراد رسول اللہﷺ ہیں اور ایک شخص کے متعلق بعض دفعہ ایک جمیعت کالفظ استعمال ہوا کرتا ہے۔ یہ پہلے بھی میں بارہا اس کی مثال آپ کے سامنے رکھ چکا ہوں ۔ امام رازی نے بھی یہی مثال دی ہے وہ فرماتے ہیں فلان أمّۃٌ وحدَہٗ وہ ایک امت ہے اپنی ذات میں یعنی اس کے اندر امت کا بیج اور امت کا خلاصہ موجود ہے ۔ تمام دنیا مٹ جائے تو وہ اکیلا امت کی نمائندگی کرے گا اور اسی سے پھر امت پید اہوگی ۔ اس سلسلے میں آپ نے وہی آیت رکھی ہے ان ابراھیم کان أمّۃً قانتًا ۔ اس سے پہلے میںایک خطبہ بھی دے چکا ہوں کہ ابراہیم اپنی ذات میں ایک فرمانبردارامت تھا یعنی اس کے گرد و پیش کے لوگ بس رہے تھے، ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ابراہیم تھا تو اس امت کے پنپنے کے سامان موجو دتھے، یہ ابراہیم کی ذات میںداخل تھی اور ابراہیم ہی سے امت بنتی ہے۔ پس یہ ہے الناس کا ایک معنی جو ان آیات کے حوالے سے دیا ہے جو میں اپنے گزشتہ درس میں ان آیات کا حوالہ نہ دے سکا تھا۔(الناس)سے مراد پھر وہ سب آپ پر ایمان لانے والے۔ یہ بات بھی کل گزرچکی رسول اللہﷺ پرجو ایمان لانے والے ہوں ، جو آئندہ زمانوں میںایمان لانے والے ہوں وہ بھی باعث حسد ہوں گے ۔ جیسے سورۃ فلق کے آخر پر آتا ہے ناں(من شرّ حاسدٍ اذا حسد)یہ فلق کا زمانہ قیامت تک چل رہا ہے اور یہ تین سورتیں آخری جو ہیں ان کے زمانے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلتے ہیں۔ قل ھواللہ احد۔ قل اعوذ بربّ الفلق۔اور قل اعوذ بربّ الناس۔ تو یہی بات حق ہے کہ الناس سے مراد وہ تمام لوگ جو آنحضرت ﷺپر ایمان لانے والے ہوں،خواہ اس زمانے میں ایمان لاچکے ہوں یا بعد میں لاناہو۔ بعضوں نے الناس سے عرب مراد لیے ہیں یہ غلط ہے بالکل۔روح المعانی میں آلوسی نے یہ لکھا ہے کہ ایک رائے یہ ہے کہ الناس سے وہ تمام سیاہ و سرخ مراد ہیں جن کی طرف آنحضرت ﷺمبعوث فرمائے گئے۔ یہ درست بات ہے یہی بات میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ اب یہ امام رازیؒ کی وہ ساری بحثیں ہیں میرے سامنے، جو میںگزشتہ درس میں بغیر کسی حوالے کے ازخودبیان کرچکا ہوں ملک عظیم کیا ہے؟ آل ابراہیم کا اس بحث سے کیا تعلق ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا فرمائی تھی اور حکمت عطا فرمائی تھی۔ بورڈ کے مرتب کردہ نوٹس جو اس وقت میرے سامنے ہیں اس میں ایک بات ایسی اٹھائی ہے جو میرے نزدیک محل نظر ہے۔ اس قدر بخیل ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان کے پاس کچھ نہیں پھر بھی مررہے ہیں اوربخل سے کام لے رہے ہیں۔ اگر انہیں کچھ مل جائے تومعلوم نہیں کیا غضب ڈھائیں ، یہ رشید رضا کا استدلال ہے جو بورڈنے اختیار کیا ہے،کہ کیسااچھا یہ استنباط ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ یہود کو کبھی بادشاہت نہیںملنی چاہیے اگر ان کوبادشاہت مل گئی تو یہ کسی کو بھی کچھ دینے کے نہیں۔ یہ بادشاہت تو پہلے مل چکی ہے حضرت دائود علیہ السلام کے وارث حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وارث کہلانے والوں نے اس بخل کا اظہار کردیاجو رسول کریم ﷺ کے زمانے میںان سے ظاہر ہوچکا ہے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں اگر ہوجائے تو پھر کیا کریں گے؟ ہو یا نہ ہو یہ ان کی طبعی حالت ہے کسی کو نقیر تک دینے کے روادار نہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ کچھ مخفی مصالح اس کے پیش نظر ہوں اُن کے۔ باقی وہی باتیں ہیں جو میںپہلے بیان کرچکا ہوں۔ کل کی جو تفسیر تھی اس میں ایک اہم بات رہ گئی تھی جو اَب ان نوٹس کو دیکھ کے مجھے یاد آرہی ہے۔
بعض لوگوں کایہ مسلک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلتیں ورثہ میں حضرت رسول اللہﷺ نے پائیں اور حضرت رسول اللہﷺ کی فضیلتیں ورثہ میںوہ لوگ جو آپ کے خون سے آگے جاری ہوں گے ان کو ملیں گی آپ کی صلب سے پیدا ہونے والے۔ ان سب باتوں کا ردّ ان آیات کریمہ میںموجود ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺاسماعیل علیہ السلام کی اولاد تنہا اولاد نہیںتھے۔ حضرت رسول اللہﷺ کے علاوہ سارا عرب اور مشرکین بھی اسماعیل علیہ السلام ہی کی اولاد تھے۔ سوائے چند قبائل کے قریش تو لازماً حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد تھے۔ تو اگر اولاد ورثہ پاتی ہے تو سب کوپانا چاہیے اور اس ورثے سے ان کومحروم نہیں کیا جاسکتا لیکن وہی محروم ہوتا ہے جو روحانی تعلق کاٹ لے۔ پس شیعوں کایہ اعتراض کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم چونکہ رسول اللہ ﷺکی پشت سے نہیں تھے اس لیے ابراہیم علیہ السلام کاورثہ نہیں پاسکیں گے یہ بالکل جھوٹا اورلغو ثابت ہوگیا۔رسول اللہ ﷺخود بھی تو اس لیے وارث ٹھہرے تھے کہ ان خوبیوں کے وارث تھے جو ابراہیم علیہ السلام کو عطا ہوئی تھیں اور اللہ سے اپنا تعلق قائم رکھا تھا ۔ توآپ کے صحابہ رضوان للہ علیھم بھی اسی نسل سے تھے اور جنہوں نے بھی خدا سے اپنا تعلق رکھا وہ ورثے کے حقدار بن گئے۔ پس یہ ورثے کو چند عشرہ مبشرہ یا اس سے بھی کم میں محدود کردینایہ بالکل ایک لغو کوشش ہے ۔ ورثہ کامضمون یہ آیت ہمیشہ کیلئے حل کردیتی ہے۔کہ ابراہیم کی خوبیاںکن کوملیں؟ وہ سب جو اس کے وارث ہوئے۔ رسول اللہﷺ سے پہلے بھی ملتی رہیں اور رسول اللہﷺ کویہ خوبیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل کے طور پر عطا ہونی تھیں ، ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے نہ ہوتا تب بھی عطا ہوتیں۔ یہ اللہ کا احسان ہے ابراہیم علیہ السلام پر اس کی نسل سے یہ پیدا ہوئے لیکن عطا اس لیے ہوئیں کہ روحانی طور پر اللہ سے اپنا تعلق قائم رکھا۔ پس وہ سارے قریش ابراہیم ہی کی نسل تھے اور ان میں سے جس نے بھی روحانی طور پر اپنا تعلق خدا سے قائم رکھا وہ وارث حقّہ وارثِ حقٌ ہیں یعنی یقینی وارث ہیں ان کی وراثت سے ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد میرا خیال ہے مزید تو کوئی بات نہیںرہتی۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
فمنھم من امن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظلاً ظلیلاً۔(النسائ: )
میرا خیال ہے آج شاید انہی آیات پر وقت ختم ہوجائے گا۔اس کے بعد بعض آیات ایسی آنے والی ہیں جولمبا عرصہ لیں گی ہوسکتا ہے ایک ایک آیت پر تین چار روز گزر جائیں۔ ا س لیے اس رمضان میںجہاں تک آیات کو Cover کرنے کا یعنی زیادہ آیات سے گزرنے کا تعلق ہے یہ غالباً ممکن نہیں رہے گا کیونکہ میںنے جو اگلی آیتوں پہ نظر ڈالی ہے ان میں بہت اہم آیات ایسی ہیں جن پر تفصیلی بحثیں ہو بھی چکی ہیں اور دوبارہ ہمیںاٹھانی بھی پڑیں گی۔ اب فمنھم من امن بہٖ ان میں سے بعض جو اس نئی کتاب پر ایمان لے آئے اور بعض ان میں سے اس سے رک رہے اور جہنم تمازت میں بہت زیادہ ہے۔فمنھم من امن بہٖ اس سے کون لوگ مراد ہیں؟ ومنھم من صد عنہ اور ہٖ سے کیا مراد ہے؟ ا س سلسلے میں جو آیت پہلے گزری ہے اتاھم اللہ من فضلہٖ کی بحث میں یہ بحث اٹھ سکتی ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺمراد ہیں تومنھم من امن بہٖ سے رسول اللہ ﷺمرادہوں گے ومنھم من صد عنہ اور ان میں سے ایسے بھی ہیںجنہوںنے اس سے روک رکھا ہے۔ صدّ کا ایک معنی جو اس ترجمہ تفسیر میں ملتا ہے وہ ہے ’رک رہے‘۔ اور صدّ کا دوسرا معنی جو قرآن سے ثابت اور عربی لغت میںبھی رائج ہے وہ ہے ’روک دینا کسی چیز سے‘ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں روکنے کا معنی زیادہ برمحل ہے۔ چونکہ ومنھم من امن بہٖ انہی میں سے ایسے ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہﷺ کو قبول کرلیا ہے اور اگر ہٖ کی ضمیر قرآن کریم میں نصیب کے طور پر جیسے نصیب من الملک میں پہلی کتاب مراد ہے یا اتاھم اللہ من فضلہٖ میں قرآن کریم بھی فضل الٰہی ہے تو اگر یہ معنے لیںدونوںمعنی یہاں برمحل بیٹھیں گے۔ ان میں سے ایسے بھی یہود ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کو دل سے قبول کرلیا ہے اور ایسے بھی ہیں جو رسول اللہ ﷺکو سچا جانتے ہوئے بھی ان سے لوگوں کو دور کررہے ہیں اور جنہوں نے قرآن کو دل سے قبول کرلیا ہے اور قرآن کو سچا جانتے ہوئے بھی لوگوں کواس سے پرے ہٹا رہے ہیں۔ وکفی بجھنم سعیرًا اور ان لوگوں کیلئے جہنم کی آگ کافی ہے۔ یعنی سعیر کے لحاظ سے سعیر کہتے ہیں تمازت اور بھڑکن ایک شدید سوزش کے ساتھ جو چیز بھڑک رہی ہو اس کو سعیر کہتے ہیں۔ تو کفی بجھنم سعیرًا جہنم ایک بھڑکنے والی تمازت کے طور پر ان کیلئے کافی ہے۔ جو بعینہٖ حسد سے پید اہونے والی آگ کی مشابہ ہے۔ جس حسد کی آگ کا پہلے ذکر گزرا ہے وہی ہے جو سعیربن کر ان کو اپنے اندرجھونکنے والی ہے۔ اب صد عنہ کے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
سب سے پہلے المفردات الصدُودُ اور الصّدُّ کبھی اس کے معنی کسی چیز سے ہٹنا یا رکنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ یصدون عنک صدودًا وہ تجھ سے زبردستی پیچھے ہٹتے ہیں۔ یعنی کشاں کشاں تیری کشش ان کو اپنی طرف لیے چلے جاتی ہے مگر وہ بریکیںلگاتے ہیں جس طرح کہ رسّہ کشی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سارے کہتے ہیں کہ رُکو، رُکو ،رُکو ۔تو دوسری طرف طاقتور پارٹی اپنی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے۔ یہ نقشہ امام رازیؒ کھینچتے ہیں۔ کبھی کسی چیزسے ہٹنایا رکنامراد ہوتا ہے جیسے فرمایا یصدون عنک صدودًا بہت کوشش کرکے ، زور مار کے تجھ سے دور رہنا چاہتے ہیں مگر تو ان کوکھینچ لے جائے گا۔ دوسرا فرماتے ہیں کہ کبھی ہٹانا اور روکنا بھی اس سے مراد ہوتاہے جیسا کہ فرمایا و زین لھم الشیطن اعمالھم فصدھم عن السبیل شیطان نے ان کے اعمال کوان کیلئے خوبصورت کرکے دکھایا و صدھم عن السبیلاور شیطان نے ان کو رستے سے روک لیا۔ رکا تو پہلے ہی ہوا ہے وہ خود، یہاں روکنے کے سوا اور معنی بنتے نہیں۔ پس امام راغبؒ نے یہ بہت اچھی مثال پیش کی ہے۔ پھر فرماتے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے صدّ ، یصدُّ، صدودًا و صدّ یصدُّ صدًّا۔ الصّدُّ پہاڑ کا وہ حصہ جو رستے میں روک بن جائے۔ پس روکنے کے معنوں میںیہ بھی ہے کہ جس طرح ایک پہاڑ کی طرح روک حائل ہوجاتی ہے اور انسان کو رستہ بدلنا پڑتا ہے آگے نہیں بڑھ سکتا اس طرح یہ پہاڑ بن کر تیرے راہ میں حائل ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک دیتے ہیں ۔ اسی معنی کو اقرب الموارد نے بھی جو لغت کی کتاب ہے لکھاہے۔ الجبل وناجیۃ الوادی والشعب وادی یا گھاٹی کا ایک کنارہ پہاڑ جو روک دے یعنی کسی کیلئے روک بن جائے۔ سعیرًا کا عام لفظ ہے جو میں پہلے ترجمہ کرچکا ہوں۔ لسان العرب نے اس کے معنی دیے ہوئے ہیں بہت گرم ۔ عذاب السعیرای حمیم آگ کا شعلہ زن ہونا یہ سعیر کہلاتا ہے۔ السّعر التھاب النار۔ التھاب النار کا بھڑک اٹھنا۔ اور یہ بحث ایسی نہیںہے جس میں زیادہ وقت لگایا جائے۔ یہ عام علم کی بات ہے جو ہر ایک کو معلوم ہے۔ سعیر کس چیز کوکہتے ہیںاور بار بار قرآن میں اس کا ذکر آچکا ہے۔ یہ ایک تفسیر بحر المحیط سے اقتباس میرے سامنے ہے اس پہ پہلے تفصیل سے میں نے نظر نہیں ڈالی۔ مگر میںآپ کو بتادیتاہوں کہ علامہ ابو حیان الاندلسی اس تفسیر کے مصنف ہیں اور آپ کا زمانہ 654ھ تا 745ھ ہے۔ یہ اندلس کے رہنے والے تھے پورا نام ابو عبداللہ محمد بن یوسف بن علی ابوحیان غرناطہ میں پیدا ہوئے اور قاہرہ میں وفات پائی۔ ان کی تفسیر کا نام البحر المحیط ہے۔ شافعی مسلک سے تعلق تھا۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ کیوں ان کی تفسیر کو یہاں داخل کیا گیا ہے۔ وہ کون سی عجوبہ بات یا نئی بات لائے ہیں ۔ فمنھم من امن بہٖ و منھم من صدّ عنہ میںعلامہ فرماتے ہیں کہ دراصل اس میں بھی اشارہ یہود کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے اور اس ایمان کی کیفیت کی طرف ملتاہے۔ یہ اشارہ ہے کہتے ہیں آل ابراہیم میں سے کچھ ابراہیم پر ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا جیسا کہ فرمایا فمنھم مھتدٍ و کثیر منھم فاسقونقرآن کریم فرماتا ہے کہ انہی لوگوں میں سے یہود میں سے جن کا دعویٰ ہے ابراہیم پر ایمان لانے کا ان میں مھتدٍ بھی تھے یعنی وہ جن کو ہدایت نصیب ہوگئی۔ و کثیرمنھم فاسقون لیکن اکثران میں فاسق تھے ۔ تو منھم من امن بہٖ سے مراد وہ کہتے ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے یہودبھی سارے کے سارے ابراہیم پر ایمان لانے والے تھے ہی نہیں کیونکہ قرآن کریم نے ان کی اکثریت کوفاسق بیان فرمایا ہے اور فاسق کا مطلب ہے جو راہ راست سے ہٹ کر الگ ہوچکے ہوں۔ تو یہ فاسقون ہیں کیونکہ سارے کے سارے ابراہیم کی ذات پر ایمان لانے والے ہیں ہی نہیں ۔پس تیرا انکار ایسے لوگوں کیلئے ایک طبعی بات ہے جو اس رسول کو بھی نہیںمانتے جس کی طرف خود شوق سے منسوب ہورہے ہیں اور اس کا بھی انکار ہی کر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے تجھ پر کیسے ایما ن لاناتھا؟ یہ ایک تسلی کا فقرہ ہے گویا کہ اے رسول ان کی باتوں کا غم نہ کر یہ تو جو دعویٰ کرتے ہیں خود اس کو اپنے لیے بھی جھٹلادیتے ہیں اس لیے نئے رسول پر ایمان لانا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ نکتہ ہے ان کاجس کی وجہ سے یہ رکھا گیا ہے یہاں۔ ساتھ ہی یہ دوسرے پہلو کو بھی نظر انداز نہیںکرتے۔ فرماتے ہیں یا اس سے مرادوہ یہود ہیں جو کہ آیت یاایھا الذین اوتوالکتاب امنوا بما نزلنا کے مخاطب ہیں اور اس خطاب کے باوجود ان میں سے اکثر اس پر ایمان نہیں لاتے ۔ باقی باتیںوہی ہیں جو عام فہم گزرگئی ہیں۔ امام رازیؒ کی کوئی نئی بات ہے یہاں آگے یا وہ گزشتہ باتیں ہی ہیں؟ اب میں نے گزشتہ طریق کو اس حد تک بدل دیا ہے کہ ساری تفسیریں پڑھ پڑھ کے نہیں سناتا اس سے بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔ جو تفسیر میرے نزدیک ٹھیک ہے، ہونی چاہیے وہ میں آپ کو سنادیتا ہوں۔ اس کے علاوہ گزشتہ تفاسیر کی چھان بین کرکے ایسی باتیںنکالتا ہوں جو میںنے اپنی تفسیر میںبیان نہیں کی تھیں اوراُن آئمہ نے بیان کی ہوئی ہیں۔ اکثر باتیںوہی ہوتی ہیں جو میں بیان کرچکا ہوتاہوں۔ لیکن کہیں کہیں بعض ایسے نکات ہیں جن کا علم آپ کو ضروری ہے کیونکہ درس کے دوران ہم صرف اس مسلک کو پیش نہیں کرتے جو ہم نے خود سمجھا ہے بلکہ ان اچھے نکات کو بھی سامنے رکھتے ہیں جو گزشتہ بزرگوں نے پیش کیے اور اس سے ان کیلئے دعا کی تحریک ہوجاتی ہے اور ان کا حق ہے کہ وہ اچھی باتیں جو انہوں نے نکال کر الگ پیش کی ہیں انہی کے نام سے منسوب ہوکر بیان کی جائیں۔ پس یہ وجہ ہے جومجھے کچھ دیر لگتی ہے تلاش میں۔ یہ وہی باتیں ہیں امام رازی کی جومیں پہلے بیان کرچکا ہوں۔
آگئے آگئے امام سیوطی صاحب انا للہ و انا الیہ راجعون۔ امام سیوطی کی تفسیر بھی سن لیں کیونکہ بہت ان سے مرعوب ہمارے اندر موجود ہیں۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم خلیل الرحمن نے فصل بوئی اور لوگوں نے بھی فصل بوئی۔ اس سال لوگوں کی فصل تباہ ہوگئی مگر حضرت ابراہیم کی فصل بچی رہی۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس محتاج اور سائل بن کر آئے اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں کہا کہ جو کوئی ایمان لائے گا اس کو میں دوں گااور جو انکار کرے گا اسے نہیں دوں گا یہ ابراہیمؑ کا مرتبہ ہے ان کے نزدیک ہے۔ شرط لگادی کہ بھوکے لوٹ جائو سارے مرجائو فاقوں سے۔ یہ جو فصل میری بچی ہے میں صرف ان کو دوں گا جو اب مجھ پر ایمان لائیں گے یعنی منافقت کا وہ دروازہ کھول دیا جو پھر آگے کبھی بند نہیں ہوا ہوگا او رجو بھوکے تھے انہوں نے واپس کہاں جانا تھا بھوکے۔ انہوںنے کہا ہوگا ہم ایمان لے آئے، ہم ایمان لے آئے، ہم ایمان لے آئے۔ یہ تفسیر ہے علامہ سیوطی کی۔ آگے کیا کہتے ہیں؟ پس ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ان کو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فصل میں سے کچھ دے دیا اور جو ایمان نہ لائے انہوں نے آپ سے نہیںپایا۔ پس یہ قول اسی بارہ میں ہے۔ فمنھم من امن بہٖ۔۔۔۔۔ انا للہ و اناالیہ راجعون، رسول اللہﷺ کا عظیم مرتبہ بیان ہورہا ہے۔ امت محمدیہ کا عظیم مرتبہ بیان ہورہا ہے۔ قرآن کریم کا کمال اور رسول کریمﷺ کی فضیلتوں کا کمال۔ اور ان کو یہ سوجھی ہے کہ یہ وہ واقعہ ایک ہوا تھا کہ ساری آیت اس کے ذکر میں آئی ہے ساری ومنھم من صد عنہ اور صدّعنہ میں کون ہے سب سے بڑا روکنے والا؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام۔۔۔ نعمت سے روکنے والے تھے کون؟ حضرت ابراہیم جو آگے کھڑے ہوگئے تھے کہ پہلے ایمان لائو پھر تمہیں نعمت عطا کی جائے گی۔ اب شیعوں کا ذکر بھی چلتا ہی رہے گا کہیں نہ کہیں۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایسی تفصیل سے یہ ان کی نظر جاتی ہے اشخاص پر کہ قرآن کریم کی آیات میں دو ر دور تک تلاش کرکے دیکھیں کوئی اشارہ ان کا نہیں ملتا۔ لیکن یہ معین کردیتے ہیں کہ یہ آیت فلاں فلاں فلاں شخص کے متعلق ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ فمنھم من امن بہٖ انہی میںسے تھے جو اس پر ایمان لے آئے مراد امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السلام یہ تھے جو ایمان لائے تھے۔ کیسے مراد لے لی خواہ مخواہ بات یہود کی ہوری ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بات توڑ دی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شدید گستاخی ہے کہ اس وقت جب کہ یہود کی باتیں ہورہی ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گویا یہود کے نمائندے کے طور پر پیش کردیا ہے۔یہ تھے جو ایمان لائے تھے لیکن یہی نہیں آگے لکھتے ہیں منھم من امن بہٖ میں امیر المومنین علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد ہیں اور ھُمْ سے مراد سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار رضی اللہ عنھم آپ کو سمجھ آئی ہے کچھ۔ یہ آیات پڑھتے وقت کبھی دماغ جاتا ہے ان کی طرف، جو منہ میں آئے کرتے چلے جاتے ہیں اور منھم من صد عنہ میںمیرا خیال ہے یہ اوّلین ہیں کیونکہ یہ قرآن کریم کے معانی کے رستہ میں روک بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس سے لوگوں کو ٹال کرایک دوسری طرف لے جاتے ہیں۔ ومنھم من صد عنہمیں ہم سے مراد دوسری رائے یہ ہے کہ آل محمدؐ مراد ہیں اور ان کے ادبار سے ان کا حق غصب کرنے والے۔ یہ لیں جی یہ تفسیر۔ اور اب اگلی آیت 57۔ پڑھ چکا ہوں اس کو؟ تلاوت کرچکا ہوں اس کی؟
ان الذین کفروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عزیزًا حکیمًاO النسائ:57(تحت اللفظ تلاوت فرمائی)۔
جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہم انہیں آگ میں ڈالیں گے سوف نصلیھم کا تفسیر صغیر میں ترجمہ ہے ہم جلدی انہیں آگ میں ڈالیں گے۔ سوف جلدی کے معنوں میںبھی استعمال ہوتا ہے، کچھ دیر کے بعد بھی، اور یقین کے معنوں میں بھی سوف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ایک بات جولازماً ہوکر رہنی ہے اس میں فوری یا کچھ دیر کی بحث نہیں اٹھتی یہ تو بہرحال ہوکر رہنا ہے۔ اس مضمون کو عرب سوف کے صیغے سے استعمال کرتے ہیں اور قرآن کریم میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ پس میں اسی کو ترجیح دیتا ہوں کہ سوف نصلیھم نارًا سے مراد یہ ہے کہ وہ لازماً آگ میں جھونکیں جائیں گے ، آگ میں داخل ہوں گے۔ لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تفسیری ترجمہ میںایک یہ خوبی ہے کہ اس کا اطلاق اس وقت فوری ان کے دلوں کی جلن کی صورت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ پس اگر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی تو پھر اس سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے کہ سوف نصلیھم نارًا میں ہم جلدی ہی انہیں آگ میں ڈالیں گے۔ سے یہ مراد لی جاسکتی ہے کہ حسد کی آگ جو انہوں نے بھڑکائی ہے اس میں یہ بہت جلد جلتے ہوئے دکھائی دیں گے یعنی ان کی جلن بھڑک اٹھے گی۔پس اگر یہ معنیٰ لیے جائیں تو اس حدتک منظور ہیں لیکن پھر جہنم میں داخل ہونے کے متعلق جلدی کا لفظ جو بہت بعد میں آنے والا ہے یہ کچھ طبیعت میں ایک اشتباہ پیدا کرتاہے۔ تو دونوں صورتوں میں معنی جائز ہیں۔ سوف کا معنی فوری بھی کیا جاسکتا ہے اور سوف کا معنی بدیر لیکن یقینا سوفیصدی سچی بات۔ کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودًا اس اگلے حصے سے میں یہ استنباط کرتا ہوں کہ یہاں مراد اخروی دنیا کی جہنم ہے۔ اس دنیا کی جہنم ضمناً آپ مرادلے لیں تو لے لیں لیکن مراد وہ نہیں کیونکہ یہ واقعہنضجت جلودھم بدلنھم جلودًا غیرھا یہ اصل میںاخروی جہنم میں ہونے والا واقعہ ہے۔ لیذوقوا العذاب تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں۔ ان اللہ کان عزیزًا حکیمًا یقینا اللہ تعالیٰ بہت غالب بزرگی والا اور حکمت والا ہے۔ یہ جو جہنم میں ہے کبھی بھی ان کی کھالیں آگ میں ڈالے جائیں گے ۔ جب کبھی بھی ان کی کھالیں گل جائیں گی ہم انہیں ان کے سوا اور کھالیں بدل کردے دیں گے۔ یہ جو کھالوں کا جلنا جہنم کی آگ میں یہ ایک طبعی امر ہے اور اگر وہ جلی ہوئی کھالیں لپٹی رہیں کسی کے گرد تو وہ آگ سے دفاع بن جایا کرتی ہیں یعنی جسم پر جو جھلسی ہوئی جلد ہے وہ ایک حد تک تو اندر اثر کرتی ہے گرمی اس میں سے گزر کر لیکن بہت زیادہ نہیں کرسکتی اس لیے اندر سے کچھ تازہ خون اور تازہ رگیں وغیرہ موجود رہتی ہیں۔ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ میں جب ان کے چمڑے جلائے جائیں گے تو پھر ان کو بدل بھی دیا جائے گا اور اس لیے بدلا جائے گا تاکہ براہ راست آگ جسم پر حملہ آورہوسکے۔ لیذوقوا العذاب کیونکہ جہنم کا مقصد تو یہ ہے کہ وہ عذاب چکھیں ، اس لیے عذاب کی راہ میں کوئی روک حائل نہیںہونے دی جائے گی۔معنوی طور پر اس کو اس دنیا میں بھی اطلاق کرسکتے ہیںمگر اس مضمون کو کھینچ کر لمبا کرنا پڑے گا اور ضرورت سے زیادہ لفظوں سے ہٹ کر ایک تشریح میں داخل ہونا ہوگا۔ اس لیے میرے نزدیک ہمارے اس درس کیلئے یہی کافی ہے کہ اسے اخروی عذاب کی طرف محمول کرکے اسی کے لحاظ سے اس کے معنی کیے جائیں۔ اب حل لغات۔
نضجت: نضج یقال نضج اللحم نضجا و نضجًا اذا ادرک شیّہ نَضِجَ اللَّحمُ یہ ہمارے کچن والے زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ کیوں فضل صاحب ہیں یہاں کہیں یا نہیں۔ لکھتے ہیں اس وقت کہاجاتا ہے جب گوشت اچھی طرح پک جائے اور اس کے بھننے کی مہک اٹھنے لگے۔ یہ ہمارے کچن والے خوب جانتے ہیں اور بعض دفعہ نہیں بھی جانتے۔ میں نے ان کوکئی دفعہ سمجھایا ہے کہ جب پلائو کا گوشت بھن جائے اور خوشبو دینے لگے اس وقت اس میں چاول ڈالنے کی فکر کیا کریں۔ اس سے پہلے پانی نہ ملائیں اور چاول نہ ڈالیں۔ کیونکہ اگر یہ خوشبو نہ اٹھے جس کااس لغت میں المفردات میں ذکر کیا ہے اس وقت تک وہ کچان کی بو سارے چاولوں پر چھا جاتی ہے۔ اس لیے فضل صاحب اس کو غور سے۔۔۔ اور کسی کو فائدہ ہو نہ ہو آپ کو اتنا فائدہ ضرور ہوجائے گا ۔۔۔۔۔ بھننے کی مہک اٹھنے لگے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے دنیا پر اگر ان کے اوپر اطلاق کریں گے تو ان کے بھننے کی مہک اٹھے یہ کوئی اچھی بات نہیں لگ رہی۔ طبیعت اس کوقبول نہیں کرتی کہ یہود جل رہے ہیں اور پھر ان کے چمڑوں کی مہک خوشبو اٹھ رہی ہے ، اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن دوسرا معنی وہ یہ ہے نضج الثمر واللحم بالطبخ نضجا: ادرک و طاب اکلہ فھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ پھل پک گیا اور گوشت پکانے سے پک گیا۔ اب یہ دونوںچیزیں بھی ایک ہی معانی رکھتی ہیں۔ پھل پکیں یا گوشت پکے یہ اچھی چیز ہے۔ اس کو جہنم پر اطلا ق نہیںکیا جاسکتا۔ امام راغبؒ عزیز کے تعلق میں بیان فرماتے ہیں عزیز یعنی طاقتور، جو غالب آئے مگر مغلوب نہ ہو اور اقرب المواردبھی اکثر امام راغبؒ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور انہوں نے یہ ترجمہ کیا ہے عزیز کے معنی ہیں محکم اور طاقتور۔ ایسا قیمتی جو نادر اور نایاب ہو اور ایسا وجود جس کی عزت کی جائے۔ ان اللہ کان عزیزًا حکیمًا میں جو مضمون ہے یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔ آگے عزیز کی بحثیں اٹھائی گئی ہیں جو میں بارہا پہلے بیان کرچکا ہوںاو راس تفسیر میں اب ان کو دہرانے کی ضرورت نہیںہے۔ اس تفسیر میں کوئی ایسا نکتہ نہیں ہے نیا جو بار ہا ہماری تفاسیر میں بیان نہ ہوچکا ہو۔ اس لیے میں اس تفسیر کو چھوڑ رہا ہوں۔ اب آگئے علامہ ابو الحسن قمی بعض دفعہ بہت اچھی اچھی باتیں بھی بیان کرتے ہیں بعض دفعہ عجیب و غریب بھی۔ یہ شیعہ مؤقف علامہ القمی پیش کررہے ہیں۔ کہتے ہیں ان الذین کفروا بایتنا سوف نصلیھم نارًا یقینا وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہم ضرور ان کو جہنم میں جھونکیں گے۔ آیات سے مراد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر آئمہ علیہ السلام ہیں۔ وہ بعد میںجتنے بھی بارہ امام آئے ہیں ناں وہ سارے کہتے ہیں اس آیت سے مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کلما نضجت جلودھم بدلنا ھم جلودًا غیرھا لیذوقوا العذاب ان اللہ کان عزیزًا حکیمًا کے بارہ میں ابو عبداللہ سے جب پوچھا گیا کہ جلدوں کو دوسری جلدوں کے ساتھ کیسے تبدیل کیا جائے گا تو انہوں نے جواب دیاکیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب آپ کوئی کچی اینٹ لے کر تھوپتے ہیں اور مٹی بنالیتے ہیں پھر آپ اسے گوندھ کر اس کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں رہ جاتی ہے۔ جلدوں کا بدلنا بھی اسی طرح پہ ہے۔ اب سیدھا سادا جلدوں کا بدلنا چھوڑ کر کچی اینٹوں سے مثال دینا بالکل بے تعلق بات ہے۔ سمجھ آنے کی بجائے جو پہلے سمجھ آئی ہو وہ بھی مٹی ہوجائے گی، کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اب سنیے ، اگلا حصہ ان کا یہ ہے کوئی خاص بات نہیں۔ اب امام سیوطی ،یہ ذرا دلچسپی پیدا کرنے کیلئے ضروری ہیں ہمارے لیے تاکہ لوگ جو تھک رہے ہوں یا نیند آرہی ہو تو وہ ایکدم اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہ فرماتے ہیں کہ عن ابن عمر قال قال رجل عند عمر کلما نضجت جلودھم بدلنھم جلودًا غیرھا فقال کعب عندی تفسیر ھذہ الایۃ۔ یہ ساری عربی عبارت چھوڑ کر اب میں ترجمہ پڑھتا ہوں۔ درمنثور جس کا کل ذکر گزرا تھا اس سے لی گئی ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ اب یہ شیعہ تفاسیر کے بعد یہ اب ان علامہ کی باری آئی ہے۔ ماشاء اللہ عجیب و غریب چیزیں سوجھتی ہیں ان کو۔ ساری نہیں دی ہوئی ترجمہ چھوٹا دیا ہوا ہے ، تین صفحے پر پھیلا ہوا ہے امام سیوطی والا ترجمہ ۔ غالباً میں نے نشان اسی پر ڈالا ہوگا شاید کیونکہ آگے یہ سارا ترجمہ کرنے کی بجائے ایک صفحے میں اتنا سا آیا ہوا ہے۔ آگے چلنا ہے؟ اچھا اچھا ہاں۔ ٹھیک ہے۔ تو امام سیوطی صاحب یہ روایت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کا ایک واقعہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا جو سات سو سال تک غوطہ مار کے اندر اندر چلا گیا اور آٹھ سو سال کے بعد اس نے سر نکالا ہے اور سرنکالا توبہت گدلے پانی میں سرنکالا۔ ایسی لغوبات جو ایک لمحہ کیلئے بھی انسان قبول نہیں کرسکتا وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نعوذ باللہ من ذالک منسوب کردی گئی۔ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت پڑھی گئی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اپنے ابا کے متعلق کہ میں موجود تھا جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی تو اس وقت معاذ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ میرے پاس اس کی تفسیر ہے ، اجازت ہو تو میں بیان کردوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے، شوق سے بیان کرو۔ انہوں نے تفسیر یہ کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ۔ اب سنیے کہ ایک شخص نے کلما یہ ساری وہی بات ہے ہاں پھر وہی دوبارہ وہی بات۔ ہیں؟ روایتیں الگ ہیں۔ ہاں باتexactly وہی ہے۔ ۔۔۔۔سامنے کھڑے ہوگئے ۔ ہاں بات یہ ہے جو مرکزی نقطہ ۔ کہتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے معاذ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں آپ کو تفسیر نہ بتائوں ، مجھے معلوم ہے۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہے نعوذ باللہ من ذالک کہ جب ان کی جلدیں گل جائیں گی ہم دوسری جلدیں ان کو بدل دیں گے اور جلدوں کے بدلنے کا عمل ایک گھنٹے میں 120مرتبہ ہوگا یعنی ایک منٹ میں دو دفعہ۔ فرمایا میں نے بھی حضور سے ایسے ہی سنا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کیسا جھوٹ کستے ہیں یہ لوگ انا للہ۔۔۔ کوئی نام و نشان نہیں اس کا کسی سند میں اور کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواباً فرمایا میں نے بھی تو ایسے ہی سنا ہے یعنی پہلی طرح سے ہی ہے تفصیل کہ ہر گھنٹے میں 120دفعہ جلدیں بدلی جارہی ہوں گی۔اس پر ایک بزرگ نے فرمایا یعنی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کے بارہ میں کہتے ہیں مجھ تک اس آیت کی تفسیر اس طرح پہنچی ہے کہ ایک آدمی کی جلد ایک دن میں 70ہزار مرتبہ جلائی جائے گی۔ اب یہ لغویات قرآن کریم کی طرف منسوب کرتے ہوئے کوئی شرم نہیں آتی ان کو اور نام اونچے بنائے ہوئے ہیں۔ حوالہ دیا ہو سیوطی کا تو سب کے منہ بند ہوجاتے ہیں کہ بس اب علامہ سیوطی نے بیان کردیا۔
آگے کہتے ہیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ نعوذ باللہ من ذالک کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے مجھے راز کی یہ بات بتائی ، راز کی بات کسی دوسرے صحابیؓ کو نہیں بتائی صرف ان کو ایک راز کی بات بتائی ہے اور یہ راز کی بات سینہ بہ سینہ چل کے امام سیوطی تک پہنچ گئی۔ وہ راز کی بات پتا کیا ہے؟ کہتے ہیں راز کی بات یہ بتائی کہ جہنم میں آگ کے بنے ہوئے درندے اور آگ کے بنے ہوئے کتے ہوں گے اور آگ کے بنے ہوئے آنکڑے ہوں گے۔ وہ لوہے کے ٹکڑے جن کے آگے وہ لگے ہوتے ہیں کانٹے سے ان سے کھینچتے ہیں چیز کواور آگ کی بنی ہوئی تلواریںہوں گی اور ملائکہ کو بھیجا جائے گا کہ جو جہنمیوں کو ان آنکڑوں کے ساتھ ان کے تالوئوں سے لٹکائیں گے۔آنکڑے یہاں ڈال کر ان کو لٹکادیں گے اوپر اور ان تلواروں سے انہیںعضو عضو کاٹیں گے، ایک ایک بند بند ، جوڑ جوڑ ان کا کاٹ لیں گے اور ان درندوں اور کتوں کے آگے ان کے اعضاء ڈالیں گے اور وہ ان کے جسم کے ٹکڑے ان کتوں وغیرہ کے، درندوں کے جو آگ کے بنائے ہوں گے اُن کے آگے ڈال دیں گے وہ جب بھی کوئی عضو کاٹیں گے اس کی جگہ پر نیا عضو نمودار ہوجائے گا۔ یہ مراد ہے جلدیں جو کاٹی جائیں گی کہتے ہیں جب بھی وہ کوئی عضو کاٹ کے پھینکیں گے تو پہلا عضو تو کتے کھاگئے ہوں گے اور دوسرا اسی جگہ نکل آئے گا فوراً۔ کہتے ہیں یہ راز کی بات تھی جو نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت ﷺنے اس آیت کی تفسیر میں مجھ سے بیان کی۔ اب اسے کیا کہے انسان!ایک اور نکتہ درّ منثور نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ابو صالح کہتے ہیں کہ ابومسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ کافر کی جلد کتنی موٹی ہوگی؟یعنی موٹاپا بھی تو پتا ہونا چاہیے، کتنی موٹی ہوجائے گی تاکہ دیکھیں آگ کہاں تک اثر کرتی ہے اس میں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نہیں مجھے تو علم نہیں۔ ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا 42ہاتھ کے برابر موٹی ہوگی ۔ یعنی 42ہاتھ ایک کے بعد دوسرا رکھتے چلے جائو اتنی موٹی ان کی جلدیں ہوں گی۔ جن کا ذکر چل رہا ہے یہ۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتنا سچ کہا تھا’’نہیں‘‘۔ معصوم بھولے آدمی ہیں، جو کچھ ان کویادہے کہا ، جو نہیں یاد نہیں کہا اور نعوذ باللہ من ذالک ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی روایت 42ہاتھ کی یہ اب امام سیوطی تک جا پہنچی اور گزشتہ لوگوں کو اس کاکوئی علم نہیں ہوا اور جن کو علم ہوا اس کا ذکر امام سیوطی ہی کی یاددہانی سے ہواکہ ان کو علم تھا۔ ان کو کوئی علم نہیں تھا سوائے امام سیوطی کے بیان کو اگر سچا مانا جائے تو یہ کہتے ہیں کہ ان کو بھی علم تھا جو چار سو سال پہلے گزر چکے تھے یا پانچ سو سال پہلے۔ اس زمانے کی کتب میں اشارۃً بھی ان کا علم نہیں ملتا۔ پس یہ کتاب جو ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے سوائے اس کے کہ درس میں ذرا تھوڑی سی جان پید اکردی جائے۔ ایک اور حوالہ ہے ہمار ابورڈ کا نضیج کی بحث میں ۔ اس کے بھی سچے غلط ہونے کی گواہی فضل صاحب دیں گے ۔ یہ لکھتے ہیں باورچی گرمیوں میں آگ کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ان کوکوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ یہ مراد ہے جلد کا عادی ہوجانا۔ وہ گلے یا نہ گلے۔ آگ کے پاس بیٹھے رہنے سے آہستہ آہستہ تکلیف کا احساس مٹ جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ ٹھیک ہے یہ بات فضل صاحب؟
فضل صاحب: تکلیف تو حضور ہوتی ہے۔
حضور: ہیں؟ ہوتی ہے۔ وہ ٹھیک بات ہے آپ کی۔ہاں
اما م شوکانی بھی کئی دفعہ نئی باتیں سامنے لاتے ہیں ۔ علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ یہاںجلد سے مراد قمیصیں بھی ہوسکتی ہیں۔ سرابیلھم من قطران یہ آیت انہوں نے اپنی تائید میں پیش کی ہے۔ تو مراد یہ ہے کہ وہ بالکل ننگے تو نہیں ہوںگے ، قمیصیں پہنی ہوں گے اور قمیصوں پر جلود کا لفظ مجازاً استعمال ہوتا ہے ۔ مگر جو آگ دکھائی گئی ہے اس سے تو قمیصیں ایک دم بھک سے اڑ جائیںساری کی ساری۔وہ قمیصوں والا کوئی مضمون نہیں آتا سامنے۔ ساری پتے کی بات اس میں اس طبعی حقیقت کا خلاصہ بیان ہوگیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ ہے ’’بہشت میںبھی ہر روز ایک تجدد ہوتا رہے گا‘‘۔ یعنی جہنم کے ذکر سے آپ نے بہشت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ایک حالت میں پڑے رہنے سے انسان اس کاعادی ہوجاتا ہے اور عادت کا توڑنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جہنم کا مضمون اس طبعی مضمون سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ جنت میں بھی یہ تبدیلی ضرور ہوتی رہے گی اور مجھے یہ حوالہ پڑھ کے اس لیے بہت خوشی ہوئی ہے کہ یہی مضمون میں ہمیشہ سوال و جواب کی مجالس میں بیان کرتا رہتا ہوں کہ وہ جنت جو ایک حال پر کھڑی ہوجائے وہ توجہنم کے مشابہ ہوجائے گی۔ انتہائی بوریت کی علامت ہے کہ انسان ایک ہی حال پرہمیشہ پڑا رہے۔ اس لیے قرآن سے ثابت ہے کہ جنت میں بھی لازماً تبدیلیاں ہورہی ہوں گی۔ اور انسان ہر روز اپنے آپ کو گویا ایک نئی جنت میں پائے گااور نیا لطف اٹھائے گا۔یہ نہیں کہ ابدلآباد تک شہد کے گھونٹ ہی بھرتا رہے اور حلوے کی ڈھیریوں پہ بیٹھا رہے۔ یہ جنت کا تصور ملانوں کا ہے قرآن کا نہیں ہے۔ اور الحمدللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی تصور کو اس آیت میں بھی پیش فرمایا ہے۔ بدلنھم جلودًا غیرھا خدا کا تجدد بے پایاں ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یعنی یہ جو سلسلہ ہے آگ میں جلنے کا اس کا احساس ہرروز تازہ ہوتا رہے گا اور تازہ احساس کا جو سلسلہ ہے وہ جلد سے گوشت اور گوشت سے اندر تک یہ مطلب ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ غم اور فکر احساس جب بھی جاگے گا جاگتا چلا جائے گا اور یہی حالت مومنوں کو جنت میں بھی نصیب ہوگی اور ان کی جنت کے لطف کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
باقی باتوں کی اب اس آخری بات کے بعد ضرورت نہیں رہتی۔یہ تلاوت ہوچکی ہے؟ والذین امنوا وعملوا الصالحات سندخلھم جنتٍ تجری من تحتھاالانھر اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہیں انہیں ہم ضرور ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہتے چلے جائیں گے۔ ان کیلئے ان میں پاک بیویاں ہوں گی اورہم انہیں گھنے سایہ میںرہنے کیلئے داخل کریں گے۔ چونکہ جنت کا ذکر اس کے ساتھ ہی آنا تھا اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر بہت ہی برمحل اور برموقع ہے ۔ جس سے صاف پتا چل گیا کہ جنت میں جو یہ نقشہ کھینچا جارہا ہے ایک قسم کے ٹھہرائو کااور ٹھہرائو کے دوام کا ایسی بات نہیں ہوگی۔ کوئی ٹھہرائو نہیں۔ بہتے ہوئے پانی کی طرح انسان کی زندگی جنت میں ایک مقام سے دوسرے مقام میں بہتی چلی جائے گی اور اس کے لذتیں بھی ہمیشہ نئے احساسات کے ساتھ بیدار ہوتی رہیں گی۔ اب ان آیات کامَیں نوٹس وغیرہ کے حوالے سے آپ کے سامنے ترجمہ کرتا ہوں۔ یعنی اس مضمون کو اس آیت کے مضمون کو نوٹس کے حوالے سے رکھتا ہوں۔ اس میں چونکہ ازواج مطہرات کا بھی ذکر ہے اس لیے اس پہلو سے اس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوگئی ہے اور علماء کرام نے بھی ازواج مطہرۃکے اوپر ہی کو سمجھنے پر ہی زور دیا ہے۔ المفردات راغب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لھم فیھا ازواج مطہرۃ کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ایسی بیویاں دی جائیں گی جو دنیا کی میل کچیل اور گندگیوں سے پاک ہوں گی۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اخلاق سیئہ سے پاک ہوں گی۔ اور ظلاً ظلیلاً المفردات میں لکھا ہے اس تعلق میں خوشحالی اور آسودگی کیلئے کنایہ ہے۔ الظلۃ، سحابۃ تظلُّ ظلۃ ایسے بادل کو کہتے ہیں جو سایہ کردے۔پس سایہ اس وقت اچھا لگتا ہے جب سایہ ضرورت سے زیادہ ٹھنڈ پیدا نہ کرے۔ جو سایہ خوشگوار ی پیدا کرے تو وہ سایہ ہمیشہ اچھا لگتا ہے ۔ ورنہ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے پر سایہ آئے تو وہ توعذاب بن جائے گا۔ ظلاً ظلیلاً سے مراد ایساسایہ ہے جو ان کو سکینت بخشے اور جو ان کی دل کی طلب ہے وہ ان کیلئے مہیا کرے۔ اب ایک حدیث ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں کہانیاں بن سکتی ہیں اور لفظی ترجمے کی طرف دماغ منتقل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ یہ حدیث بعینہٖ اسی مضمون کو بیان کررہی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ تبدیلیاں ہورہی ہوں گی اور ناختم ہونے والی تبدیلیاں۔ چنانچہ بخاری کی یہ حدیث ہے کتاب الرقاق سے لی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺسے روایت ہے کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے نیچے برق رفتار گھوڑے کا سوار سو سال بھی سفر کرتا رہے گا تب بھی اس کو پار نہ کرسکے گا۔ بجلی کی سرعت سے چلنے والا گھوڑا سو سال بھی چلتا رہے گا اسے پار نہیں کرسکے گا۔ یہ درخت سے مراد کیا ہے؟ واقعہ میں وہاں کوئی اتنا بڑا درخت ہے۔ اس کے تو کوئی معنی نہیں ساری جنت ہی جنت ہے درختوں سے بھری پڑی ہے۔مراد صرف معنوی ہیں کہ اگر ایک درخت اتنا عظیم سائے والا ہو کہ سوار اس کی ایک طرف سے داخل ہو تو وہ ہمیشہ اس میں سفر کرتا رہے تو اس درخت کی لذت سے کبھی بھی محروم نہیں ہوگا۔ اس درخت کے سائے سے اس کی رفتار اس کو محروم نہیںکرے گی۔ یعنی اس کا چلنا اس کا ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلنا ایک طبعی امر ہے۔ مومن جنت میں برق رفتاری سے سفر جاری رکھے گا مگر ان نعمتوں کے سائے سے باہر نہیں نکل سکے گا جن نعمتوں کے سائے اس پر دراز ہوں گے۔ یہ معنی ہیں اس حدیث کے اور اس پہلو سے لازماً بخاری کی ہو یا نہ ہو یہ آنحضرت ﷺ ہی کا کلام معلوم ہوتا ہے۔ اب امام رازی نے لمبی بحث اٹھائی ہے مگر ایک بات ایسی بھی کہی ہے جس کا تعلق دنیا سے ہو نہیںسکتا اور قرآن ساری دنیا کا کلام ہے۔ فرماتے ہیں عرب میں کیونکہ گرمی ہوتی تھی اس لیے سائے کو پسند کرتے تھے ۔ اس لیے ظلاً ظلیلاً وغیرہ کے محاورے آئے ہیں۔ حضرت امام رازی بعض دفعہ ایسی غلطی بھی کرجاتے ہیں، اکثر نہیں کرتے مگر ہوبھی جاتی ہے ان سے غلطی، جس کو اہل مغرب نے اعتراضات کا نشانہ بنایا ہے اور قرآن کو جھٹلانے کیلئے ان دلیلوں کو پیش کیا ہے جو اس وقت کے معصوم لوگوں نے عرب کے ماحول میں اس طرح بیان کردیں گویا اور کوئی نہیں سنے گا، گویا یہ پیغام سائبیریا نہیں پہنچے گا، یہ الاسکا نہیں پہنچے گا ، یہ دوسرے ممالک میں نہیں جائے گا اور اپنی دیواروں میں محفوظ باتیں کردیں۔اب اس زمانے میں جبکہ اسلام کا عالمی ہونا طشت ازبام ہوچکا ہے، کھل چکا ہے، سب کے سامنے ۔غیر ان باتوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں دیکھو علامہ رازی نے بیان کیا ہوا ہے کہ اس لیے یہ جنت کا نقشہ ہے کہ عربوں کو یہی نقشہ اچھا لگتا تھا اور انگریزوں کاکیا بنے گا؟ سائبیریا کے رہنے والوں کا کیا بنے گا؟ کیا ان کو یہی نقشہ اچھا لگتا ہے؟ تو پھر قرآن کی عالمی حیثیت کہاں گئی؟
پس اس پہلو سے قرآن کی تفسیر میں احتیاط لازم ہے۔ یہ ایک لازمی بات ہے کہ قرآن کل عالم کو مخاطب ہے کسی ایک خطے کو مخاطب نہیں ۔ اس لیے عربوں نے اپنے سے ملتی جلتی باتیں اگرکچھ پائیں ہیں تو وہ ان کا ذہنی تعصب تھا اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ وقت ہوچکا ہے؟ یہ لے لیں اب۔ باقی انشاء اللہ کل ۔ اب دیکھتے ہیں اللہ کے فضل سے وہ مضمون بیان کرنے میں تو مجھے کوئی دقت نہیں ہورہی ٹھیک ہے ناں۔ اور نسخے کسی کے کام نہ آئیں۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ7؍رمضان بمطابق6؍ جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
آج کی مجلس کے آغاز میں کوئی نیا کام ایسا نہیں جو میں بیان کرسکوں۔ تھک تھک کے لوگ آخر خاموش ہوگئے ہیں۔صرف ایک خط مولوی دوست محمد صاحب کا میرے سامنے پڑاہوا ہے۔ یہ اچھا دلچسپ خط ہے، کل کے درس سے تعلق میں اور اس میں یہ معروف واقعہ ہے جماعت احمدیہ کی تاریخ کا۔ لیکن کل کے درس میں اس کا میں نے ذکر نہیںکیا تھا۔ مولوی دوست محمد صاحب نے اچھا کیا یہ برمحل بات کی ہے۔ شمس العلماء سیّد ممتاز علی صاحب ولادت 1860؁ء اور وفات 1935؁ء ۔ یہ بہت چوٹی کے مشہور پاکستان اور ہندوستان کے علماء میں سے ہیں۔ شمس العلماء سیّد ممتاز علی کا نام پورے بلندیٔ ہند میں عزت سے یاد کیا جاتا تھا۔ شدھی کی تحریک کے دوران ان کو خیال آیا کہ جوسب سے زیادہ کامیاب کام کررہا ہے اس کی مدد ہونی چاہیے۔ چنانچہ یہ ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر ہے ’’تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں کو ہوئی ہے۔ اس لیے میں نے چاہا کہ تحریری بہنوں کو اعتراض نہ ہو۔ تہذیب النساء یہ رسالہ نکالا کرتے تھے، کہ وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں۔ تہذیب النساء میں جو شریک بہنیںتھیں، جو خریدا کرتی تھیں، اس کو وہ اپنے ذمہ لے لیں۔ مگر اس اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقے کے لوگ سب کافر ہیں اور ان کا کفر ملکانہ راجپوتوں کے کفر سے بھی زیادہ شریر ہے۔وہی یہودی عادت جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ دیکھیں کتنی صفائی سے پوری ہوری ہیں، سب کافرہیں۔ اور ان کا کفر ملکانہ راجپوتوں کے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اس زمانے میںعلماء کا کام مسلمان بنانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جو اور آگے بڑھ گیا ہے ذرا۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان نہ ہوگا جس کے متعلق سب علمائے دین بالاتفاق یہ کہہ سکیں کہ واقعی یہ ٹھیک مسلمان ہے۔ ہمار ے علماء سے جسے چاہو کافر بنوالو لیکن اگر ان سے چاہو کہ چند کافروں کو مسلمان بنادو تو یہ کام ان سے نہیں ہوسکتا‘‘۔ یہ اچھا انہوں نے بھیجا ہے اقتباس ماشاء اللہ۔ اب سورۃ النساء کی آیت 58ہے۔
والذین امنوا وعملو الصّٰلحٰت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وندخلنھم ظلاً ظلیلاًO (النسائ: 58)
اس آیت پر ابھی بحث جاری تھی کہ وقت ختم ہوا۔ نعمائِ جنت کی تشریح میں یہ ذکر چلا تھا کہ لھم فیھا ازواج مطہرۃ کے ان کیلئے جنت میں پاکیزہ جوڑے ہوں گے۔ مطہرۃ سے کیا مراد ہے؟ اس پر یہ جو مختلف علماء نے روشنی ڈالی ہے یا سایہ ڈالا ہے وہ یہ ہے۔ امام رازی نے تفسیر کبیررازی میںاِن علماء کی باتیں جواکٹھی کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے ’’فرمان الٰہی لھم فیھا ازواج مطہرۃ ہے۔ اس سے مراد دو قسم کی طہارتیں ہیں۔ ایک حیض اوراَ نفاس اور دوسری دنیاوی ناپاکیوں سے وہاں عورتیں پاک ہوں گی، ان کو حیض نہیں آئے گا، نفاس نہیں ہوگا اور ایک یہ ہے کہ بنا بیٹھیں ہیں عورتیں یہاں والی اس پر تلے بیٹھے ہیں ۔لیکن کچھ جو وقفے پڑ جایا کرتے ہیں شریعت کے کہتے ہیں وہ نہیں پڑیں گے۔ اس کی مثال سورۃ بقرۃ کی دوسری آیت سے لیتے ہیں لھم فیھا ازواج مطہرۃ وھم فیھاخالدون یہ خلود کی جو حالت ہے نا ان کی میا ں بیوی کے تعلقات کی یہ ہے مطہرۃ۔ اب سنیے ازواج مطہرات کی اصل بات لفظ زوج جوہے یہ مرد کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور عورت کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ وخلقنا من کل شیئٍ زوجَین۔ ہم نے ہر چیز میں سے زوجین بنائے ہیں۔ اب پھولوں میں بھی دیکھو تو نر اور مادہ ہیں اور اکثر جو جانور ملتے ہیں زوجین ان میں نر اور مادہ دونوں ملتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کو زوج کہا جاتا ہے۔ اس لیے زوج سے مراد گویا ایک مکمل چیز کے دوآدھے ٹکڑے کردیے جائیں تو ایک دوسرے سے جو پوری طرح انطباق کرے گا اس کو زوج کہیں گے۔ تو نر اور مادہ کا تصور جو یہاں ملتا ہے اس میں زوج دونوں کیلئے برابر استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے جو وہاں زوج کا استعمال کیا ہے اگر اس سے مراد جیسا کہ یہ علماء مردوں پربات کوختم کردیتے ہیں یہ لیا جائے کہ صرف مردوں کیلئے جنت ہے اور عورتوں کیلئے کوئی جنت نہیں ۔ تو نہایت ہی ظالمانہ خیال ہوگا۔ کیونکہ قرآن کریم کی دیگر آیات بکثرت اس کو ردّ کررہی ہیں، عورتوں اور مردوں دونوں کیلئے جنت ہے۔ تو مرد تو ان عورتوں کے ساتھ ٹھہریں گے جن کو خون نہیں آئے گا،نفاس نہیںہوگا۔ عورتیں کہاں جائیں گی ان کیلئے کوئی جنت نہیں؟ یہ سوال پیدا ہوتا ہے دراصل یہ محض ناسمجھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اس دنیا میں جو کچھ ہم انسانی تعلقات پاتے ہیں ویسے ہی وہاں ہوں گے۔ یہ بالکل جھوٹ اور لغو خیال ہے۔ مودودی صاحب کی جو تفسیر قرآن ہے اس میں تویہاں تک لکھا ہوا ہے کہ غیر مسلم بچیاں جو بڑی ہوجائیں گی وہ جنت میں تو جا نہیںسکیں گی کیونکہ ان کادین اسلام نہیں تھا اور جہنم میں پھینکی نہیں جاسکتیں کیونکہ جرم نہیںکوئی کیا اور مسلمانوں کو ان سے کوئی فائدہ بھی اٹھانا چاہیے۔ تو کہتے ہیں کہ جنت سے باہر باغات ہوں گے جن میں وہ جوان لڑکیاںپلیں گی اور جب مولانا مودودی یا ان کے پیروکاروںکو کوئی خواہش پیدا ہوئی تو کچھ دیر کیلئے جنت سے باہر جاکر اپنی حاجات پوری کرآیا کریں گے۔ یہ ان لوگوں کا قرآن ہے یہ ان لوگوں کی تفسیریں ہیں۔ ان کو ضبط نہیں کیا جاتا ان سے ضبط کرتے ہیں تو تفسیر صغیر کرتے ہیں ، تفسیر کبیر کرتے ہیں حد سے زیادہ دشمنی ہے اور حد سے زیادہ حماقت ہے۔ اس میں پل رہے ہیں ۔ ان جنتوں میں یہ کیونکہ اگر یہ ہماری کتابیں مان لیں تو ان جنتوں سے چھٹکارا ہوجائے گا ان کا۔ یہ جائیں گے کہاں بیچارے۔ اس لیے ان کی تفسیروں میں یہ بات شامل ہے کہ زوج سے مراد مرد ہے صرف اور اس کو وہ عورتیں مہیا ہوں گی جن کو یہ کچھ نہیں ہوگا۔ اب ظاہر بات ہے کہ یہاں والی عورتیں ان کے ذہن میں نہیں ہیں کہ وہاں جاکر وہ اس قسم کی عورتیں بن جائیں گی جن کے حیض بند ہوجائیں گے۔ یہ تو قطعی بات ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات نہیں ہے کہ یہاں کی عورتیں۔ اب ان عورتوں کی جنت کہاں گئی جو یہاں بیچاری روزے رکھتیں، پاکیزگیاں اختیار کرتیں اللہ کے نام پر، اپنے فروج کی حفاظت کرتیں، دن رات درود پڑھتیں وہ کہاں جائیں گی۔ اصل بات یہی ہے کہ جو میں نے پہلے کئی دفعہ بیان کی ہے کہ یہ مرد اور عورت کاتصور روح کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ روح کیلئے حوالے تو ملتے ہیں مگر مرد کے حوالے ، لیکن ساتھ ہی قرآن کریم میں یہ وضاحت ہے کہ روحوں کی جنس نہیںہے لیکن ان کی طرف اشارہ مذکر میں کیا جاتا ہے یہ بتانے کیلئے کہ روحوں میںکوئی ایسی کمزوری نہیں ہے کہ جس کے اوپر دوسرا جوڑا غالب آئے۔ مرد اور عورت مذکر اور مؤنث میں یہاں یہی منظر نظر آتا ہے کہ مذکر غالب ہوتا ہے اور مؤنث مغلوب ہوتی ہے۔ قرآن کریم کی رو سے روح کے ساتھ اس لیے مذکر کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس میں اس قسم کی کمزوری کی طرف خیال نہ جائے لیکن سب روحیں ایک ہی ہوجائیں گی اور ایسی حالت میں اٹھائی جائیں گی کہ ان میں آپ پہچان نہیں کرسکیں گے ۔ پہچان ان معنوں میں نہیں کرسکیں گے کہ یہ نہیں پہچان سکیں گے کہ دنیا میں یہی چیزیں تھیں،کلیتہً تبدیلی ہوجائے گی۔ ایسی تبدیلی کہ انسانی ذہن تصور بھی نہیںکرسکتا کہ خود کس صورت میںاٹھایا جائے گا اورجس صورت میں بھی اٹھایا جائے گا وہ اپنے آپ کو پہچان نہیں سکے گا اس صورت میں سوائے اس کے کہ اللہ اس کو شعور بخشے تب وہ اپنے آپ کو پہچانے گا۔ ایسی صورت میںجنت میںسب روحیں یکساں اپنے مقابل پر کچھ لذت کے سامان پائیںگی اور وہ لذت کے سامان جنسی نہیںہوںگے بلکہ روحانی ہوں گے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں انہوں نے جنت کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ ایسی جنت بنادی کہ کوئی نیک آدمی اس میں جانا پسند نہیں کرے گا۔ ان کی عورتیں تو پتا نہیں کہاں پھینکی گئی ہیں، ان کی محبتیں یہاں کی کہاں چلی جائیں گی۔ ان کے تعلقات کے تقاضے وہ چاہتے ہیںان کی بہنیں ، ان کی مائیں، ان کی بیویاں ان سے ملیں وہاں جاکے ۔ لیکن ان کی جنت میں تو ان کا نشان ہی نہیں۔ تو اپنے تعلق اور اس سے محرومی کا نام جہنم ہے ۔ انہوں نے عنوان غلط لگا دیے ہیں۔ اب اگلی آیت
ان اللہ یامرکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمیعًابصیرًا O النسائ:59
یہ عدل کا مضمون ہے جو ہرچیز پر حاوی ہے اور اس سے پہلی آیت میں بھی مردوں اور عورتوں زوجین میں جو عدل کا مضمون تھاوہ بالکل ظاہر و باہر تھا۔ جو خدا اِس دنیامیں عدل پہ اتنا زور دیتا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ اُس دنیا میں عدل کے تقاضوںکو بھلادے گا اور نیکوں میںتمیز کرے گا مرد کون ہے اور عورت کون ہے؟ پس یہ آیت بہت برمحل ہے کیونکہ عدل ہی کا مضمون ہے جو چل رہا ہے اور اس میں تمام دنیاوی امور اور اسلامی حکومتوں کو چلانے کا ایک ایسا محکم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ اس سے کسی قسم کی غلطی کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ یہ وہ مضمون ہے جس کو میں نے ہمیشہ غیرمسلموں کے سامنے اسلامی حکومت کے نام پر رکھا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ بتائو اس سے بہتر حکومت کا کیا تصور رکھتے ہو۔ اور آج تک ایک بھی ایسا نہیں جس نے اس مضمون سے بہتر حکومت کا کوئی تصور پیش کیا ہو۔ اس میںڈیموکریسی کا ایک بیان ہے لیکن ڈیموکریسی اکیلی طرز حکومت نہیں ہے۔ ڈیمو کریسی کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح چاہو اپنی حکومتیں بنائو اس میںتمہارے مشورے شامل ہوں، تمہاری رائیں درست ہوں لیکن بعض شرطوں کے ساتھ تمہاری ڈیموکریسی میں پارٹی بازیاں ہیں ، تم پارٹی کی خاطر ووٹ دیتے ہو۔ لیکن اسلامک ڈیموکریسی میںکوئی پارٹی بازی نہیں۔ وہاں جب بھی ووٹ دینا ہوگا عدل کے طور پر دینا ہوگا اور جس کی امانت ہے اس کے سپرد کرنی ہوگی۔ یہ لفظی ترجمہ یہ ہے اللہ تمہیںحکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہلوں کے سپرد کیا کرو واذا حکمتم بین الناس اسی امانت کے نتیجے میں اگر تمہیں حکومت حاصل ہوجائے امانتیں ان کے اہلوں کو دو جو بھی امانت کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ پھر اذا حکمتم بین الناس اگر تمہیں لوگوں پر حکومت کا اختیار حاصل ہوجائے ان تحکموا بالعدل تو کس نے تمہیں ووٹ دیا تھا، کس نے نہیں دیا تھا اس کو بھلادو۔ تحکموا بالعدل پھر محض عدل کے نام پر حکومت کرو۔ ان اللہ نعما یعظکم بہ اللہ بہت ہی اچھا ہے نصیحت کرنے والا۔ ان اللہ کان سمیعا بصیرا اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت دیکھنے والا ہے۔ سورۃ نساء آیت نمبر59۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں حَکَمَکے اصل معنے کسی چیز کی اصلاح کیلئے اسے روک دینے کے ہیں۔ اسی بناء پر لگام کو حکَمۃ الدّابۃ کہتے ہیں۔ یعنی لگام چونکہ سواری کو بے سروپا بھاگنے اور اِدھر اُدھر حرکت کرنے سے راستے سے ہٹ کر ادھر اُدھر جانے سے روکتی ہے اس لیے اس کو حکَمکہتے ہیں۔ تو حکم وہ چیز ہے جو کسی کو عین راہ راست پر چلائے اور جیسا کہ سواری کو لگام راہ راست پر چلاتی ہے اس لیے لگام کو بھی حکمۃ کہتے ہیں۔ ایک شاعر کہتاہے کہ یا بنی حنیفہ احکموا سفھاء کم اے بنی حنیفہ اپنے سفہاء کے منہ میںلگام دو جو بیوقوف ہیں تم میں ان کے منہ میں لگا م دو۔ یہاں اَحْکِمُوْا کا معنی حکومت کرنا نہیں بلکہ لگام دینا ہے۔ الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا ناں لازم کیا جائے۔ جیسا کہ فرمایا یحکُمُ بہ ذواعدلٍ منکم تم میں سے جو ذوا عدل ہیں ، عدل والے لوگ ہیں وہ فیصلہ کریں۔ خواہ ان کو فیصلہ ٹھونسنے کا اختیار ہو یا نہ ہو، خواہ کوئی ان کے فیصلے سے روگردانی کرے ۔ مگر ذواعدل کا کام ہے ،دو صاحب عدل لوگ تمہارے رشتہ داروں میں سے وہ اٹھیں اور عدل کے مطابق فیصلہ کریں۔ ایک شاعر کہتا ہے فاحکم فحکم الفتاۃ الحی اذانولت الی حمام ۔۔۔۔۔۔۔؟ اس نوجوان عورت کی طرح عدل سے فیصلہ کرو، اس نوجوان عورت کی طرح عدل سے فیصلہ کرو جس نے پانی پر وارد ہونے والی کبوتروں کی ٹکڑی کو دیکھ کر ان کی صحیح تعداد بتادی تھی۔ اس عورت نے مفردات میںہے اس لیے میں احتراماً یہ پڑھ رہا ہوں۔ مگر مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کس عورت نے کتنی کبوتریاں گنی تھیں ۔مگر جو بھی گنی تھیں امام راغب کہتے ہیں ٹھیک گنی تھیں۔ اس لیے چونکہ گنتی ٹھیک تھی اس لیے وہ عدل سے فیصلہ تھا ۔ امام راغب لکھتے ہیں مفردات میں کہ حکم کا لفظ حکمہ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا۔ یہ بالکل واضح اور قطعی بات ہے کہ ہرحکم جو دیا جاتا ہے وہ حکمہ نہیں ہوا کرتا لوگ بے حکمت حکم بھی دیا کرتے ہیں لیکن ہر حکمت کی بات کو حکم کہہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے اندر داخل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس میں حکم کے معنی بڑی شدت سے پائے جاتے ہیں۔ اگر اس کوردّ کردو گے تو اپنا نقصان کرو گے ۔حکَم ماہر منصف کو کہا جاتا ہے اس میںلفظ حاکم سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ حکَم حکمًا عدلاً جو حضرت امام مہدی اور مسیح دونوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ پیشگوئیوں میں رسول اللہ ﷺ کی وہ یہ حکم ہے۔ کہتے ہیں یہاں حاکم سے بہت زیادہ شدت کیلئے لفظِ حکم بولا جاتا ہے۔ ایسا ماہر منصف جس سے غلطی کا کوئی بھی شائبہ نہ ہو، وہ جب فیصلے پر بیٹھے گا ، وہ بڑے زور سے صحیح فیصلہ نافذ کرے گا۔ اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ افغیرَاللّٰہ ابغی حکمًا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہہ دے افغیراللہ ابغی حکمًا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میںاللہ کے سوا بھی کوئی حکم ڈھونڈوں ، کسی اور کی طرف اپنے فیصلے لے جائوں۔ اب عدل کی بحث میں امام راغب لکھتے ہیںعدل کے معنی برابر برابر حصے کرنا ہے۔ ایسے انصاف سے کاٹو کہ دونوں حصے برابر ہوجائیں۔ اور سرمو بھی فرق نہ ہو یعنی جس کا جو حق ہے اسے ویسا ہی دے دو۔ پس حق کی تقسیم کے وقت عدل کا مضمون اٹھتا ہے جب بھی حق تقسیم کیے جائیں گے وہاں عدل سے کام لینا ضروری ہے اور یہ اسلامی حکومت کی مرکزی حیثیت ہے، وہ کسی صورت بھی عدل سے نہیں ہٹے گی۔ کس نے اس حکومت کو نافذ کیا اس کوبھول جائے گی۔ حکومت کیسے چلائی جانی ہے وہ ایک عدل ہے۔ جس کے حصہ جو آئے گا بعینہٖ اس کو اتنا حصہ دیا جائے گا۔ اس لیے قرآن کریم اسی تعلق میں یہ فرماتا ہے لایجرمنکم شنان قومٍ علی الَّا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ۔ کہ اے مسلمانوں جب تم حاکم بنائے جائو تو کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل سے ہٹ جائو اعدلوا ھواقرب للتقوی حکومت تقویٰ سے کرنی ہے اور عدل کرو گے توتقویٰ نصیب ہوگا ورنہ تقویٰ نصیب نہیں ہوگا ۔ اقرب میں ہے العدل ضد الجور یعنی ظلم کا برعکس عدل ہے۔اب یہ عدل کی مختلف قسمیں ہیں مگر اس کی مرکزی حیثیت کو آپ نے پہچان لیا ہے کہ عدل کہتے کس کو ہیں۔ اس کے بعد مزید لغت کی بحث کی ضرورت نہیں۔
یعظکم کے متعلق المفردات میں لکھا ہے کہ یہاں یعظکم سے ایسی عام نصیحت مراد نہیں ہے کہ کرو یا نہ کرو۔ الوعظ کے معنی ایسی زجر و توبیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو۔ خلیل نے اس کے یہ معنے کیے ہیں کہ خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پید اہو نعما یعظکم بہ یہ اللہ تعالیٰ کے متعلق آتا ہے نا آخر پہ ان اللہ نعما یعظکم بہ اس میں کوئی یہ نہ سمجھے کہ اللہ بہت ہی اچھی نصیحت فرمارہا ہے ۔ مانو تو مانو نہیں تو بیشک نہ مانو، نصیحت ہی تو ہے۔حضرت امام راغب فرماتے ہیں کہ واعظ کا جو حقیقی اصلی معنی ہے اس میں زجرا ور توبیخ دونوں شامل ہیں۔ اس میں ڈانٹ بھی ہے ڈپٹ ہے اور خوف دلایا جاتا ہے۔ خلیل نے اس کے معنے کیے ہیں خیر کا تذکرہ اس طرح کرنا جس سے دل میں رقت پید اہو (کھانسی آئی ۔ فرمایا معاف کرنا)۔ اب امانت سے متعلق آیات اور احادیث۔آیات میں تو انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنا و اشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلومًا جھولاً۔ انا عرضنا الامانۃ علی السموت وہ کیا امانت ہے جس کا ذکر چل رہا ہے۔ امانت خدا تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی ایک ذمہ داری ہے جسے ہر حال میں انسان کو ادا کرناہے۔ اگر اس سے آپ روگردانی کریں گے تو اپنی پیدائش کا مقصد کھو بیٹھیں گے۔ الامانۃ سے مراد قرآن کریم ہے۔ انا عرضنا الامانۃ علی السموٰت والارض ہم نے اس امانت یعنی قرآن کریم کو آسمانوں او رزمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا فابین ان یحملنھا انہوں نے انکار کردیا اس بات سے کہ وہ اسے اٹھالیں۔ اب ابین میں تو بظاہر گستاخی پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیش کیا انہوں نے انکار کردیا۔مگر ابین ان یحملنھا و اشفقن منھا انہوں نے اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھا کہ وہ اس کا بوجھ اٹھاسکیں، اس سے وہ ڈر گئے۔ اس میں گستاخی نہیں بلکہ اپنی حیثیت کی جانچ ہے اور اس حیثیت سے محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی دنیا میں ایسا نہیں تھا جو اس امانت کو اُٹھاسکتا۔ اس لیے ان کا رکنا بظاہر انکار ہے مگر انکار برمحل ہے۔ وہ یہ صلاحیتیں ہی نہیں رکھتے تھے کہ قرآن کریم کی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ وحملھاالانسان الانسان نے اس کو اُٹھالیا۔ کتنا عظیم الشان ایک ہم خراج تحسین کہتے ہیں مگر اللہ کیلئے خراج کا لفظ نہیں کہا جاتا اس لیے اس سے بڑھ کر کسی انسان کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ ایسی امانتیں جس کو سب نے ردّ کردیا بڑے بڑے بلند پایہ لوگو ں نے دنیاوی لوگوں نے ، دینی لوگوں نے ہر ایک نے جو بڑے بڑے مناصب رکھتا تھا ، جب اپنی پہچان کی تو اس امانت کو اٹھانے سے ڈر گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ مگر یہ امانت کسی نے اٹھانی تھی کیونکہ اس امانت کی خاطر ہی تو کائنات کو پیدا کیا گیا تھا۔ اس لیے حملھا الانسان محمد رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر اس کو اٹھالیا۔ انہ کان ظلومًا جھولاً اس معاملے میں اس امانت کا حق ادا کرنے میں محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی جان پر بہت ظلم کیے ہیں۔ ظلومًا اپنے نفس پر بے انتہا ظلم کرنے والا تھا یہ شخص ہر بات جو اس قرآن کے تقاضے کے خلاف تھی اس کو ردّ کردیا اور اتنے عظیم الشان تقاضے ہیں اس میں انسانیت سے کہ ہر چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ظلُوم فرمایا ہے اور جھولاً عاقبت کی کوئی پرواہ نہیں۔میں اپنے یعنی رسول اللہ ﷺ نے گویا یہ کہا کہ میں اپنے اوپر تمام وہ جائز چیزیں بھی حرام کرلیتا ہوں یعنی ان سے باز رہوں گا، جو ایک نمونہ بننے کیلئے میرے لیے ضروری ہیں۔ غیروں میں وہ چیزیں خوبیوں کے طور پر دکھائی دے سکتی تھیں۔ مگر جس نے قربانی کی ہے بنی نوع انسان کے ہر طبقے کیلئے ،ہر نوع کیلئے قربانی کی ہے کہ وہ دیکھے کہ میں یہاں سے بھی قربانی کرسکتا ہوں اور وہاں سے بھی قربانی سے پیش آ سکتا ہوں۔ اس لیے میرے پیچھے لگ کر وہ قرآن کے سارے تقاضے پورے کرسکیں اور آگے آگے میر انمونہ دیکھیں۔ اس معاملے میں جھولاً تھا جو تکلیف نفس کو پہنچنی تھی وہ تو پہنچنی تھی مگر پرواہ نہیں کی کہ کیا تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ سورۃ احزاب کی آیت ہے۔ جو اسی آیت کے مضمون پر مزید روشنی ڈال رہی ہے۔ سورۃالانفال میں آیت 28اسی مضمون امانت کو لیتی ہے۔ یایھاالذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول و تخونوا امانتکم و انتم تعلمون۔ وہ نصیحت جو بظاہر نصیحت نظر آرہی تھی وہ ایک انتہائی پابند کرنے والی ایک ہدایت ہے او روعظ اسی ہدایت کو کہتے ہیں جو پابند کردے۔ چنانچہ سورۃ الانفال کی آیت اٹھائیسویں آیت میں ہے یایھاالذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول و تخونوا امانتکمکہ اے لوگو جب تم اپنی امانتوں میں خیانت کرتے ہو جو خدا نے تمہارے سپرد کی ہوئی ہیں وہ چھوٹی چھوٹی ہی سہیں مگر یاد رکھنا کہ جب ان میں تم خیانت کرو گے تو اللہ اوررسول کی امانت میں خیانت کرو گے۔ یہ مسئلہ کوئی ذاتی حیثیت کا نہیں یہ شریعت پر عملدرآمد کرنے کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس لیے تمہیں اپنے دائرے میں بھی خیانت کا حق نہیں ہے۔ خیانت اپنے چھوٹے دائروں میں کرو گے تو اللہ اور رسول کی امانتوں کے بھی لازماً خیانت کرنیوالے بن جائو گے۔
پس خیانت کا مضمون ادنیٰ سے ادنیٰ افعال سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ہر شخص جو خائن نہ ہو وہی یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اللہ اور رسول کی پیروے کرے۔ لیکن اگر وہ اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات میں خیانت کرے گا تو وہ راہ راست سے ہٹ جائے گا اور اللہ اور رسول کی خیانت کرنیوالا بن جائے گا۔ پس اس آیت کریمہ میں ان تؤدوا الامانات الی اھلھا میں یہی مضمون ہے اور ساتھ ہی فرمایا ہے ان اللہ نعما یعظکم بہ بہت ہی عمدہ نصیحت فرمارہا ہے مگر نصیحت ایسی ہے جس پر لازماً عمل کرنا ہوگا۔ سورۃ المعارج میں انہی امانات کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وھم لامنتھم و عھدھم راعون کہ وہ لوگ ایسے ہیں خدا والے جو اپنی امانتوں میںاور اُن عہدوں میں جو وہ کرتے ہیں راعون ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان پر ہروقت نگاہ رکھتے ہیں کہ کبھی بھی ان چیزوں میں کوتاہی نہ ہو۔ والذین ھم بشھادتھم قائمون۔ والذین ھم علی صلاتھم یحافظون۔ اولئک فی جنت مکرمون۔ اب درجہ بدرجہ امانت کے اس مضمون کو دینی امانتوں کی طرف پھیر دیاگیا ہے۔ دین کی امانتوں کا حق وہی ادا کرتے ہیں جو پہلے اپنی امانتوں کا حق ادا کرتے ہیں ۔دین کے عہدوں کی پابندی وہی لوگ کرتے ہیں جو پہلے اپنے عہدوں کی پابندی کرتے ہیں۔اور یہی وہ لوگ ہیں ھم بشھادتھم قائمون جو اپنی گواہیوں پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ جب گواہیوں سے ہٹ جائیں کسی اثر کے نتیجے میں آج ایک اثر پڑ گیا کل دوسری حکومت کا اثر پڑ گیا اور گواہیاں بدلتی رہیں، ان کے معنے بدلتے رہے۔ یہ لوگ امانت کا حق ادا کرنا نہیں جانتے اور وہی لوگ جو شہادات میں پختہ ہوتے ہیں ہم علی صلاتھم یحافظون یہی وہ لوگ ہیں جو نمازوں کی بھی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اولئک فی جنت مکرمون یہی وہ لوگ ہیں جو جنتوں میں اعزاز کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ مکرمون ان کی عزت کی جائے گی۔ آگے ایک سفر کی آیت ہے جس میں رِھان مقبوضۃ وغیرہ کا ذکر ہے۔ یہ چونکہ مضمون بڑا پیچیدہ ہے اور تفصیل سے وضاحت چاہتا ہے اس لیے میں یہاں اس تمام تفصیل کو چھوڑ دیتا ہوں۔احادیث نبوی سے جب ہم اس مضمون کی وضاحت چاہتے ہیں تو یہ ایک ایسی حدیث ہے صحیح بخاری کی جو اس پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب امانت ضائع ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ امانت کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا امور کی کلید نااہل لوگوں کے سپرد کی جائے تو قیامت کا انتظا ر کرنا۔ یہ ہے وہ اس مضمون کے ساتھ تعلق جو میں نے آیت شروع میں تلاوت کی تھی امور کی کلید نااہل لوگوں کے سپرد کی جائے تو یہ امانت میں خیانت ہے۔ اور پھر اس کی سزا کیا ہے۔ قیامت کا انتظار کرنا ۔ ترجمہ کرنے والے نے لفظ قیامت جو ترجمہ کیا ہے یہ درست نہیں ہے۔ بلکہ اصل لفظ کو اسی طرح چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ فانتظر الساعۃ تو ساعۃ کا انتظار کرنا۔ اب قیامت کے ساتھ چونکہ غلط تصورات باندھے گئے ہیں اور قیامت کے ساتھ ایک دم زمین کا الٹ پلٹ ہوجانا ہمارے ذہنوں میں ابھرتا ہے اس لیے قیامت کے اگرچہ دوسرے معانی بھی ہیں مگر یہاں ساعۃکا قیامت ترجمہ کرنے سے ساری حدیث کا مضمون الٹ پلٹ ہوجائے گا اور اسی غلطی کی وجہ سے بہت سے مسلمان علماء نے ٹھوکر کھائی اور انہوں نے سمجھا کہ مسیح کے ساتھ چونکہ ساعۃ مقدر ہے اس لیے ادھر مسیح آئے اورادھر قیامت آجائے گی سب کچھ اکھڑ پکھڑ جائے گا۔ سب دنیا ملیا میٹ ہوجائے گی۔ حالانکہ مسیح کے ساتھ قرآن کریم میں ہے وانہ لعلم للساعۃ فرمایا گیاہے۔ مسیح ساعۃ کی نشانی ہے۔ اس قیامت کی نہیں جو علماء سمجھتے ہیں اور ساعۃ کی سب سے پہلی نشانی کون تھا۔ آنحضرت ﷺ اقتربت الساعۃ وانشق القمرجب آپ نے انگلی اٹھائی تھی تواس وقت قیامت الساعۃ قریب تھی۔ تو وہ ساعۃ قریب ہوتے ہوئے اتنی دور کیسے ہٹ گئی کہ تیرہ چودہ سو سال گزر گئے۔ نہ مسیح آئے نہ وہ ساعۃ آئے۔ اس لیے قرآن کریم کے ساتھ جب بھی یہ لوگ اپنی بے سمجھی کے ساتھ کھیلیںکرتے ہیں تو اس کے حقیقی مضمون کو کھودیتے ہیں۔ پس یہاں یاد رکھیں کہ ساعت کی ریہرسل ہورہی ہے۔ حضرت مسیح ساعۃ کی نشانی ہیں۔ آنحضرت ﷺساعت کی نشانی تھے۔ ان دو نبیوں کے سوا سارے قرآن کریم میں کسی اور نبی کو ساعۃ کی نشانی قرار نہیں دیا ۔ کتنا مضمون کھل جاتا ہے۔یعنی اوّل محمد رسول اللہ ﷺ پھر آپ کے نقش قدم پر آنے والا وہ مسیح جس نے دنیا میں ضرور نازل ہونا ہے اور وہ اسی ساعت کا اعلان کرے گا جس ساعت کو رسول اللہ ﷺ نے شروع کیا تھا۔ یعنی نمایاں تبدیلیاں اور ہمیشہ ایسی نمایاں تبدیلیوں سے پہلے ایک منفی ساعت بھی رونما ہوجایا کرتی ہے۔ جبکہ دنیا ظلم اور جور سے بھر جاتی ہے۔ اس کا نام بھی ساعت ہے اور اسی ساعت کی طرف اس حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ بالکل واضح کھلا ذکر موجود ہے کہ یعنی ہوگی تو وہ ساعت لیکن قیامت نہیں ہوگی ان معنوں میں جب دنیا میں فاسد، فاسق، جبر کرنے والے لوگوں کے حق مارنے والے بادشاہ آنے شروع ہوجائیں گے حکومتیں آنی شروع ہوجائیںگی اس وقت انتظار کرنا کہ ان کیلئے ایک ساعت مقدر ہے جو ان کا سارا نظام اکھاڑ کے پھینک دے گی وہ ان کے ظلم و جور پر مبنی نظام حکومت کو اکھیڑ دے گی۔ یہ وقت ہے جو نہ صرف مذہبی قوموں پر آیا کرتا ہے بلکہ غیر مذہبی قوموں پر بھی آیا کرتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں تبدیلیوں کی تاریخ پر آپ غور کریں جب بھی ظلم و جور سے دنیا بھرتی ہے تو اسی کے اندر سے وہ ساعت اٹھتی ہے، ایک ردّعمل رونما ہوتا ہے جو فاسق اور ظالم نظام کو پارہ پارہ کرڈالتا ہے۔ یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے جس کی طرف آنحضرت ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے یعنی کھل کے بلکہ اشارہ کیا کھل کے ذکر فرمایا ہے اور یہ بیان کردیا ہے کہ اس ساعت کو ٹالنے کا صرف ایک طریق ہے کہ جب تم ووٹ دوتو امانت اس کے سپرد کرو جو اس کا اہل ہو ۔ مذہب نہیں دیکھنا، اس کی قومی وابستگیاں نہیں دیکھنی اور کوئی رشتہ نہیں دیکھنا۔ یہ دیکھنا ہے کہ وہ عدل کے تقاضے پورے کرتا ہے کہ نہیں۔ دنیاوی حکومت میں بھی عدل اسی طرح نگران رہے گا جس طرح دینی حکومت میں عدل نگران رہتا ہے۔ اب مسلم کتاب الزکوٰۃ باب خازن للامین والمرأۃ اذا تصدقت من بیت اس میںایک خزانچی ہونے کے مضمون کو بیان فرمایا گیا ہے۔ ضمناً مجھے یاد آگیا کہ ایک کتاب ہے جوجہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے پاس ربوہ میں بھی تھی۔ اس کتاب میں امام بخاری اور امام مسلم کی وہ روایات اکٹھی کردی گئی ہیں جو الفاظ کے لحاظ سے زیادہ تر ملتی ہیں ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ تمام ایسی حدیثوں کو اکٹھا کیا جائے جو بعینہٖ ملتی ہوں اور پھر ایک کتاب بن سکے۔ چند حدیثیںہوں گی پھر اس پر بات کیسے ٹھہرجائے گی۔ لیکن سویڈن کے ایک غیر مسلم مستشرق مصنف نے یہ بہت ہی حکمت اور علم کی بات کی ہے اس نے یہ کتاب لکھی تھی اور اس نے اس کتاب کے متعلق یہ وصیت کی تھی کہ یہ ساری کتب جو میں نے اسلام پر اور مختلف امور پر لکھی ہیں یہ ابشالہ یونیورسٹی کوتحفۃً وصیت میں دی جارہی ہیں ۔ ان میں یہ کتاب بھی شامل تھی۔ شکر للہ کہ ان سے غلطی ہوگئی اور انہوں نے اس وصیت پر غور ہی نہیںکیا اور کتابوں کی نیلامی بلالی کہ یہ اپنے پیچھے کتابیں چھوڑ کے جارہا ہے۔ مولوی محمد احمد صاحب جلیل کے داماد ہیں غالباً انہوں نے ناصر پرویز پروازی صاحب انہوں نے اس وقت یہ کتاب حاصل کرلی۔ جب ابھی ان کوغلطی کا احساس نہیںہوا تھا اور اس کی ورثے میںچھوڑی ہوئی کتاب آج میرے پاس وہاں پڑی ہوئی ہے۔ انہوںنے فوراً کتاب خریدی اور ادھر انہوں نے کتاب خریدی ادھر پتا چل گیا کہ غلطی ہوگئی تھی، تمام سیل بند کردی گئی۔ اورجو بقیہ کتابیں تھیں ان کو اب ابشالہ یونیورسٹی میں امانتاً رکھوادیا گیا ہے۔ تو جس کی امانت تھی یعنی ہماری وہ ہم تک پہنچ گئی ہے۔ اب آئندہ سے آپ جب حدیث کے حوالے دیکھا کریں گے تو بہت آسانی ہوجائے گی۔ اوروہ میرے دفتر سے آپ وصول کرلیں۔ یعنی یہ امانت میںخیانت نہیں ہوئی بلکہ امانت کا حق ادا کردیا ہے۔ تؤدو الامنت الی اہلھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ صحیح مسلمان امین اور امین خزانچی وہ ہے جسے جو حکم دیا جاتا ہے اسے صحیح صحیح نافذ کرتا ہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خوشدلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے تو ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والے کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا۔ اس حدیث میںہمارے لیے ایک کوثر بہادیا گیا ہے۔ اصل امین امانت کے وارث تو حضرت رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اب آپ نے جو امانت کا حق ادا کیا اور سب کچھ من و عن ہمیں بیان فرمادیا اب ہم اس کو آگے چلائیں تو ہمارے حصے میںکیا ہے۔ ہم نے تو ایک امین کی باتوں کو اس کے احسان کو دنیا میں جاری کیا ہے ۔ تو اس جاری کرنے میںدوپہلو ہیں ۔ اگر ہم اس کو جاری کریں اور کچھ غلطی سے اپنے نفس کی ملونی شامل کردیں تو ہم سے پوچھا جائے گا یعنی جس طرح آنحضرت ﷺ اللہ کے حضور امین ٹھہرے ہیں آپ کا ہر متبع اپنے دائرہ عمل میں اسی طرح امین ٹھہرتا ہے اور امانت کا حق تب اد اکرے گا اگر وہ جیسا کہ آنحضورﷺ نے احتیاط کے ساتھ نوک پلک کو درست رکھتے ہوئے پیغام ہمیں پہنچایا ہے۔ اگر وہ ہم آگے پہنچائیں گے تو یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی امانت کا حق اد اکرنے والے ہوں گے۔ اگر اس حق میں غلطی ہوئی تو عمربھر کیلئے وہ غلطی ہم پر *** ڈالتی رہے گی، یہ حدیث اس مضمون پرروشنی ڈالتی ہے اور آنحضور ﷺ نے دوسرے موقع پر نوکر کی مثال بھی دی ہے۔ایک نوکر اگر اپنے مالک کے کہنے پر کوئی چیز خوشی اور خوشحالی کے ساتھ اور قلب کی وسعت کے ساتھ آگے تقسیم کردیتا ہے جیسا مالک نے کہا ہے تو وہ نوکر بھی مدح کا مستحق ہے اور اس نے اپنے مالک کا حق خوب ادا کیا۔ لیکن اگر کوئی نوکر خسیس ہو اس کا دل کنجوس سخت کنجوسی کی طرف مائل ہو ،مالک تو کہتا ہے کہ اس کو اتنے ڈول ڈال دو وہ تھوڑا سا لے کر کہے گامیں نے سب کچھ کردیا ہے۔ وہ مالک کی وسعت قلبی کی راہ میں حائل ہوجاتاہے اور اس کی اس کو سزا ملنی چاہیے۔ پس یہ حدیث ہمیں ہم سب کو ایک ایسا خزانچی بنارہی ہے جس نے محمد رسول اللہ ﷺکے جاری کردہ خزانوں کی امانت کا حق ادا کرنا ہے۔ چنانچہ یہ خزانے وہی ہیں جوہمیشہ سے چلے آرہے ہیں۔ نبی امانت کا حق اد اکرتا ہے اور غیر نبی نہیںکرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے: وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میںدیتا ہوں اگر ہو کوئی امیدوار۔ تو خزائن تو خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں ۔ ان کاہر نبی امین ہوا کرتا ہے اور اُن سے بددیانتی کرنے والے ہرنبی کے زمانے میں لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ان ساری تعلیمات کو حضرت ﷺنے یکجا کردیا ہے اور حضرت محمدﷺ کے فیض سے فیض پاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو عام کردیا اورفرمایا کہ یک قطرہ زبحر کمال محمد است میں جو یہ خزانے لوٹارہا ہوں یہ اپنی طرف سے نہیں ۔ یک قطرہ زبحر کمال محمد است محمد رسول اللہ ﷺکے سمندر کا ایک قطرہ ہے جو میں جاری کررہا ہوں اور ایک کوثر بن گیا ہے جس نے فائدہ اٹھانا ہے وہ اٹھائے ۔ اس مضمون میں بددیانتی کی انتہا ملانوں نے کی ہے۔ جنہوں نے یہ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تو 300معجزات بیان کیے اور محمد رسول اللہ ﷺکے تیس معجزات ۔ حالانکہ اپنے جو 300معجزات نہیں نشانات بیان کیے اور ان سارے نشانوں کو محمد ﷺ کے ایک معجزہ کی طرف منسوب کرکے اس کے ایک قطرے سے جاری ہونے والے نشانات بیان فرمایا ہے۔ اتنی ظالمانہ بددیانتی سے کام لیتے ہیں مولوی کہ امانت کے حق کی باتیں ہورہی ہیں اور ان کو امانت کا پتا ہی کوئی نہیں کہ امانت کیا چیز ہے۔
اب شان نزول میں بھی کچھ باتیںہیں۔ میںدیکھ کے بتاتا ہوں شاید کوئی بتانے والی بات ہو۔ اب اتنی تو زبان خشک نہیں ہوئی خشک تو ہے کہ انگلی کو لعاب نہ لگاسکے۔ اتنا سا لعاب تو باقی ہے ماشاء اللہ ایک روایت تومیرا خیال ہے کہ پہلے گزرچکی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ وہ سردار جس کے سپرد خانہ کعبہ کی چابیاں تھیں آنحضرت ﷺنے اسی کو چابی دینے کیلئے چنا لیکن اس آیت کا مصداق وہ نہیں ہے۔ اتنی عظیم الشان آیت جو تمام جہان پر حاوی ہو او ررہتی دنیا تک جس پر عملدرآمد ہو اس کی شان نزول یہ بیان کررہے ہیں کہ اس شخص کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ یہ قرآن کریم سے بہت بڑی زیادتی کی جارہی ہے ۔ الامانۃ جس کی خاطرآیاوہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیںجو حق ادا کرنے والے ہیں اور ان حقوق میں سے ایک چھوٹا سا حق تھا فردی انفرادی جو آپ نے پورا کردیا تو گویا اس عالمی حق کو ادا کرنے کی طرف توجہ ہٹا کر یہ علماء ہمیںکہتے ہیں کہ یہ آیت اس لیے نازل ہوئی تھی کہ اس کا حق اد اکرو ۔ یہ علامہ واحدی صاحب نے یہ شان نزول کا نکتہ بیان کرکے پھر آگے لکھا ہے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کی تھی اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ معذرت کے ساتھ عثمان کو لوٹادو۔ اس پر عثمان نے کہاکہ علی پہلے تم نے بڑی زیادتی کی تھی۔ یہ سارے علامہ واحدی کے قصے ہیں۔کوئی بھی حقیقت نہیں ۔ کہتے ہیں آخر عثمان نے کہا اشھد ان محمدًا رسول اللہ ابھی وہ رسول اللہ ﷺپر ایمان نہیں لایا تھا اس کے نتیجے میںایمان لایا۔ تب جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ جب تک بیت اللہ رہے گا اس کی چابی اورخدمت کا انتظام اولاد عثمان کے پاس رہے گا۔ چنانچہ آج تک ایسا ہی ہے۔ علامہ شوکانی جیسامیں نے پہلے بھی بیان کیا تھا، بسااوقات بہت اچھی باتیں بیان کرتے ہیں اور تعریف کے ساتھ اور دعا کے ساتھ ان کا ذکر خیر چلنا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں یہ آیت کریمہ ان امہات الآیات میں سے ایک ہے جو بہت سے احکام شریعت پر مشتمل ہے۔ اب وہ عثمان والا واقعہ کہاں اور کہاں اس آیت کی عظمت اور اس کی وسعت کا بیان امام شوکانی کی زبان میں۔ وہ کہتے ہیں جو آیات دوسری آیات کی ماں ہوتی ہیں ان میں سے ایک جلیل القدر آیت ہے یہ۔ وہ امہات الآیات میں سے بھی ایک بہت بڑی شان کی آیت ہے۔چونکہ اس میں یہ بہت سے احکام شریعت پر مشتمل ہے کیونکہ اس آیت میں تمام انسان اپنی تمام امانتوں کے بارہ میں مخاطب ہیں ۔ اب سن لیا آپ نے وہی بات جو ہم کہہ رہے ہیں اس کو حضرت امام شوکانی نے پہلے زمانہ میں کس طرح کھل کر سمجھا اور کھل کے بیان کیا اور پھر تین علماء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ان کے نزدیک مسلمان حکام مخاطب ہیں۔ لیکن علامہ کے نزدیک صرف حکام مخاطب نہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے دائرہ امانت میںپوچھے جائیں گے اوریہ وہ سب اس میںمخاطب ہیں۔ فرماتے ہیں اس کتاب میں سب سے اوّل والیان داخل ہیں یہ کہنا جائز ہے کہ اوّل طور پر اس آیت کا اطلاق حکمرانوں پرہوگا اور درجہ بدرجہ رعایا پر بھی ہوگا۔ وہ حدیث زبانی یاد ہے آپ کو کلکم راعٍ و کلکم مسئول عن رعیتہٖ یہی ہے ناںیہ وہ مضمون ہے۔آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک ، ایک گڈریا ہے اور گڈریا وہ ہوتا ہے بھیڑیں جس کی ملکیت نہیں ہوتیں لیکن ان کی ذمہ داری اس کو ادا کرنی ہے۔ وہ مالک نہیں ہوتا لیکن پوچھا جاتا ہے۔ فرمایا کہ تم پھر آگے تفصیل ہے۔ کہ ہر خاوند اپنی بیوی کا اسی طرح گڈریا ہے، ہر بیوی آگے اپنے بچوں کی گڈریا ہے۔ درجہ بدرجہ ہر انسان کی جو بھی حیثیت ہے اس کو بیان کرکے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں تمہاری ملکیت نہیں ہیں، ملکیت خدا کی ہیں، تمہارے سپرد امانتاً دی گئیں ہیں۔ پس تمہارا صرف اتناکام ہے کہ جوابدہی کیلئے تیار رہو۔ ضرور پوچھا جائے گا ہر شخص امین ہے۔ اور آنحضرتﷺان سب پر امین ہیں۔ پس آپ جب بھی پیغام دیا کرتے تھے فرماتے تھے کہ میں نے اپنی بات کو واضح کردیا؟ فلیبلّغ الشاھد الغائب۔ پس جب وہ پوری طرح بات سمجھ کر اقرار کیا کرتا تھا کہ ہاں یا رسول اللہ اس وقت فرمایاکرتے تھے اب تم میرے امین بن گئے ہو ، جو حاضر ہے وہ غائب کویہ پیغام پہنچا دے۔ پس یہ آیت بہت ہی عظیم آیت ہے جیسا کہ امام شوکانی نے کہا ہے بہت سی آیات ہیں جوامہات ہیں جن سے آگے آیتیں پھوٹی ہیں لیکن یہ توایسی آیت ہے جو سارے قرآن پر، ساری تعلیم پر ،ساری بنی نوع انسان پر حاوی ہے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ، اعلیٰ اور ادنیٰ سب اس میں برابر مخاطب ہیں۔ علامہ طبرسی اس میںلکھتے ہیں یہ وہی طبرسی بھی وہی بات کہہ رہے ہیں تقریباً لیکن اس عمدگی کے ساتھ نہیں جیسے علامہ شوکانی نے بیان کی ہے۔ اب علامہ الفیض کاشانی یہ شیعہ ہیں نا یہ دیکھیں کیا کہتے ہیں 1065ھ۔ ان اللہ یامرکم کافی اور دوسری متعددکتب میں بہت سی روایات اس بارے میںہیں کہ اس آیت میں خطاب آئمہ علیھم السلام سے ہے رسول اللہ سے نہیںہے ۔ ان کے آئمہ سے خطاب ہے کہ ان میں ہر ایک کو حکم ہے کہ اپنے سے بعد آنے والے امام کو امانت سپر کردیں جو بھی بعد میں آنے والا امام ہے اس کے سپردوہ امانت کردیں اور اس کو وصیت کریں کہ یہ خطاب تمام امانتوں کے بارے میں ہے اور اس کے بارے میں کافی کے علاوہ عیاشی میں حضرت باقر سے روایت ہے کہ خدا نے اس آیت میں ہم آئمہ کو مراد لیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ امام اوّل اپنے بعد آنے والے امام کو علم و کتب اور صلاح سونپتا رہے۔ حالانکہ وہ تفسیریں جو پرانی تفسیریں ان کو منظور ہیں کہ ٹھیک ہیں۔ ان تفسیروں کی رو سے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے امامت چھینی گئی ہے اورا للہ کے حکم سے وہ بیت اللہ کی نگرانی کرنے والے عثمان کے سپرد کردی گئی تھی۔ تو یہ آیت توبالکل الٹ جارہی ہے۔ ان کی امامت تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شروع ہوتی ہے اور یہ آیت ہے جو کھلم کھلا بتارہی ہے کہ علی امانت کا حقدار نہیں تھا، حقدار وہ شخص تھا جو غیرمسلم تھا، جب اللہ کے حکم سے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چابیاں لے لی گئیں اور اس غیر مسلم کے سپرد کردی گئیں تو امانت کا حق اد اہوگیا۔ اب اس کو کہاں لے جائیں گے، اس زمانے سے آج تک یہی چلا آرہا ہے اسی کے خاندان کے اولادکو یہ چابیاں سونپی جاتی ہیں اور کوئی دنیا کا شیعہ اس حقیقت حال کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ تو اس آیت سے اگر کوئی استنباط ہوتا ہے تویہ استنباط ہوتا ہے کہ شیعوں کے امانت کے استنباط سب جھوٹے ہیں، ان میںکوئی حقیقت نہیں ہے۔
امام رازی کے حوالے ہیںتفصیل میںجانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا کافی ہے کہ وہ کہتے ہیں جملہ دینی اور دنیوی معاملات کیلئے یہ آیت عام ہے۔ تفسیر کبیر رازی میں یہ لکھا ہوا ہے امانت عظیم الشان عمل صالح ہے یعنی امانت محض ایک عام نیکی نہیں بلکہ اس آیت میںلفظ امانت ان معنوں میںاستعمال ہوا ہے کہ وہ بہت عظیم الشان عمل صالح ہے اور مومنوں نے امانت کا مسئلہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چل کربلندتر کردیا ہے ،وہ ہر کام جو ان سے متوقع ہے اس کو بہترین طور پر ادا کرتے ہیں تو یہ امانت کا حق ادا ہوتا ہے۔احسنہ والی آیت جوہے اس میں یہی مضمون ہے کہ وہ لوگ ہیں جواحکام میں سے احسن پر عمل کرتے ہیں ہے نا ذہن میںآیت بعد میںنکال لیں۔ چھوڑدیں یعنی یہ قطعی طور پر آیت موجود ہے جس میں مومنوں کی شان یہ بیان فرمائی گئی ہے۔ عبادالرحمن کون لوگ ہیں۔وہ لوگ ہیں جو جب ان کو کچھ مخاطب کرکے کہا جاتا ہے تو اس میں سے احسن پر عمل کرتے ہیں۔ کیوں حافظ صاحب۔ یاد آگیا کچھ کچھ یاد آرہا ہے آپ کوہے ناں؟ کیونکہ آپ نے مسکرانا شروع کردیا ہے ۔ تو امانت کا حق ادنیٰ طو رپر بھی ادا ہوسکتا ہے اور بہت اعلیٰ طور پر بھی اد اہوسکتا ہے۔تو مومنوں کی شان قرآن کریم میں یہ بیان فرمائی ہے جو اللہ کے عباد ہیں جو اعلیٰ درجے کے مومن ہیں ان کو جب کچھ کہاجاتا ہے تو اس میںسے احسن کی پیروی کرتے ہیں یعنی حکم کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں۔ ادنیٰ بھی کرلو تو گزارہ ہوجاتاہے مگر بہت ہی اچھے طریق پر سب سے اعلیٰ درجے پر عمل کیا جائے تو اس کو احسن کہتے ہیں۔ اور اللہ کا احسان یہ ہے کہ ہمارے معاملات میں سے جو ہم بد بھی کرتے ہیں اور برے بھی کرتے ہیں جن بندوں کو بخشے گا ان کے احسن اعمال کو لے لے گا اور بد اعمال کو چھوڑدے گا۔تو اتنا عظیم الشان مضمون ہے یہ امانت کا جوایک دوسرے سے متعلق ہے۔ حافظ صاحب آپ کو پہلے یاد آئی، پہلے آپ پڑھیں۔ انہوں نے کتاب کی مدد سے ڈھونڈی آپ کا حق ہے پہلے پڑھیں۔ (حافظ صاحب نے یہ آیت پڑھی) واتبعوا احسن ماانزل الیکم من ربکم یہ نہیں ہے وہ آیت اس میں بھی وہی مضمون ہے یعنی مضمون وہی ہے میں دوسری آیت کہہ رہا تھا آپ پڑھیں۔ الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ۔ اولئک الذین ھداھم اللہ واولئک ھم اولوالالباب۔ اب اس کا ترجمہ کرکے سنادیں۔ اس آیت میں ایک لفظ اولوالالباب استعمال ہوا ہے۔ جس کیلئے ہمیں ضمنی طور پر تھوڑا سا مین (main) تفصیل سے ہٹ کر وہاں جانا پڑے گا کیونکہ یہ بہت ہی اعلیٰ بات ہے جو بیان ہورہی ہے۔ کہاں ہے جی وہ آیت۔ ذکر کن لوگوں کا ہے؟ والذین اجتنبوالطاغوت۔۔۔۔۔ لھم البشری وبشر العباد۔ میں کہہ رہا تھا کہ عبادالرحمن یا اللہ کے عباد کی بات ہورہی ہے۔ وہ ہے یہ موقع پہلی آیت میں یہ ہے کہ جو طاغوت سے کلیتہً اجتنا ب کرتے ہیں وانابو الی اللہ اور الطاغوتکو چھوڑ کر اللہ کی طرف جھکتے اور اس کے حضور اپنی گردنیں خم کردیتے ہیں، اس کا قرب چاہتے ہیں لھم البشریٰ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خوشخبری ہے۔ فبشّر عباد پس میرے بندوں کو یہ خوشخبری دے دے۔ الذین یستمعون القول میرے بندے کون ہوتے ہیں جن کیلئے خوشخبری ہے یستمعون القول فیتبعون احسنہ وہ بات سنتے ہیں غور سے او رپھران باتوں میں سے جو بیان کی جاتی ہیں سب سے اچھی بات کو پکڑ لیتے ہیں یعنی سب سے مشکل مضمون پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اولئک الذین ھداھم اللہ یہ وہ لوگ ہین جن کو اللہ نے ہدایت عطا فرمائی ہے ۔ اولئک ہم اولوالالباب یہ وہ لوگ ہیں جو الباب والے لوگ ہیں یعنی جن کے دماغ میں بہت سی عقل کی گٹھلیاں ہیں۔ یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاہے۔ فرماتے ہیں اولوالالباب میں یاد رکھوکہ لب اپنی ذات میں ایک عقل کے مرکز کو کہتے ہیں ۔ الباب وہ گودا یعنی جس طرح اخروٹ کا گودا ہوتا ہے وہ بھی لب ہے لب اللباب کیا ہوتا ہے۔ کسی بات کاماحصل آپ نے فرمایا ہے اس قسم کا ایک گودا نہیںمؤمنون کے دماغ میں اس قسم کے بکثرت گودے ہیں۔اور ان گودوں کی کثرت کی وجہ سے وہ جس مضمون پر بھی غورکرتے ہیں جس کروٹ بھی غور کرتے ہیں حقیقت حال کو پاجاتے ہیں۔ پس وہ جو آیت ہے ان فی خلق السموت والارض واختلاف الیل والنھار لایت لاولی الالباب وہ آیات اس لیے ہیں کہ کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان میں سے ہر ایک کیلئے ایک لب مومن کے دماغ میںموجود ہے اور وہ آیات کو اس لب کے ذریعے حل کرتا ہے جو لب نہیں ہے الباب ہیں۔ پس یہاں بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے۔ واولئک ھم اولوا الالباب جو بہترین چیز کو پکڑتے ہیں یہ بات کے مغز کو پاجاتے ہیں۔ اولوالالباب سے مراد کسی بات کی کنہ کو اس کے مغز کو پاجانے والے لوگ ہیں۔ پس یہی وہ بات ہے آگے پھر دوسرا مضمون آجاتا ہے۔
امام ابوالفضاء کی تفسیر ہے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں نے کہایہ اٹھالیں۔ آنحضرت ﷺکی ایک حدیث اس مضمون پر درج ہے وہ بھی بعینہٖ اس آیت کے مطابق ہے۔ فرمایا کہ أدّ الامانۃ الی من أتمنک جو شخص بھی تمہارے سپرد امانت کرتا ہے اس کی امانت کا حق ادا کرو یعنی ڈیمو کریسی ہو یا دوسرے معاملات ہوں۔ جب اس نے اپنا ووٹ تمہیں دے دیا اور یہ یقین رکھاکہ تم اس کے حقوق کا خیال رکھو گے تو اس نے اپنی طرف سے بہترین شخص کے سپرد اپنی امانت کردی۔ پس تمہارا فرض ہے کہ تؤدوا الامنت الی اھلھا تم اہلوں کو امانت کا حق سپرد کرو، وہ اس حق کو لوٹائیں گے اور امانت میں خیانت نہ کرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ چنتے وقت تمہیں یہ خیال رکھناہوگا کہ اس کو امانت سپرد کرو جو امانت واپس کرنا جانتا ہو لیکن اگر یہ لوگ خیانت کررہے ہوں جنہوں نے تمہیں چنا ہے تو کیا تمہیں بھی خیانت کا حق ہوگا ۔ کیوں ڈاکٹر صاحب تو کہتے ہیں نہیںہوگا۔ کیوں نہیںہوگا۔ Tit for Tat نہیں؟ وہ خیانت کریں اور آپ کو جواباً خیانت کا حق نہیں۔ وہ اس آیت کریمہ میں اور اس سے ملتی جلتی آیات میںمضمون واضح ہے اگر یہ تم سے ظلم بھی کریں تو تم ان پر ظلم نہیں کرو گے۔ تو وہ حق چھین لیا گیاہے کہ خیانت کے بدلے ان سے خیانت سے پیش آئو۔ یہ جو معاملہ ہے خیانت کے بدلے خیانت سے پیش آنا یہ بعض اور صورتوں میں جائزبھی ہے اور ان صورتوں کو واضح کرنا ضروری ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا اس سے تعلق ہے آنحضور ﷺ نے کبھی بھی عہد کرنے والوں سے عہد شکنی نہیںکی مگر جب انہوںنے عہد شکنی کی تو اللہ نے آپ کویہ حق عطا فرمایاکہ وہ عہد ٹوٹ گیا ہے اب۔ اس لیے وہاں خیانت کے بدلے خیانت کرنے کے یہ معنے بنتے ہیںکہ انہوں نے اپنے حق کو توڑ دیا ہے۔ اس لیے تم جو پابندکیے گئے تھے کہ ان سے معاملہ حسن و احسان کا کرو یعنی اس عہدمیں جو باندھا گیا تھا اس کے دائرے میں تم پابند رہو ۔ یہاںعدل عام کا ذکر نہیں ہے اس لیے بعض لوگوںکو غلط فہمی ہوگی۔ اگر وہ حدیثیں پڑھیں گے تو کہیں گے یہاں کچھ اور ہے اور وہاں کچھ اور ہے۔ وہاں ہرگز عدل عام کی بات نہیںہورہی ۔وہاںآنحضرت ﷺفرماتے ہیں اس معاہدے کے اندر جو شقیں ہیں ان کا عدل عام سے تعلق نہیں باہمی سمجھوتے سے تعلق ہے۔ ان شقوں کی رو سے بعض دفعہ رسول اللہﷺ نے اپنے حقوق چھوڑ دیے اور قربانی کی باوجود اس کے کہ حق رکھتے تھے، وہ حق نہیں لیے جب تک کہ دشمن نے اپنا امانت کا حق توڑڈالا۔ جب اس نے اس معاہدے میں عہد شکنی کردی تو اللہ نے محمد رسول اللہ ﷺکو آزاد کردیا کہ اب تم ان سے ایسا معاملہ کرو کہ اپنے حقوق اپنے ہاتھ میں لے لو اور یہ معاہدہ تمہارے حقوق کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہے جس کو بعض لوگ خیانت سمجھ رہے ہیں کہ خیانت کے بدلے خیانت کا حق ہے۔ ہرگز ایک دفعہ بھی رسول اللہ ﷺنے ایسے معاملات میں خیانت نہیں کی۔ بلکہ ان کا حق جو تھا اس معاہدے کے اندر وہ ٹوٹنے کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺکے حقوق آزاد ہوگئے اور اپنے حقوق پر عمل پیرا عدل کے ساتھ ہوئے ہیں ناانصافی کے ساتھ نہیں ہوئے۔ اچھا جی! اب وقت ہوگیا ہے باقی انشاء اللہ پھر کل یہ مضمون ابھی تھوڑا سا آگے چلے گامیرے خیال میں( یہ لے لیں آپ)ٹھیک ہے! آج کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے لوگوں کی آنکھیں کھلیں میرا خیال ہے کہ ویسے ہی مضمون نے جگائے رکھا ہوگا۔ کیوں جی ڈاکٹر صاحب۔ٹھیک ہے ناں۔ بچوں کا کیاحال تھا۔میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ بھی جاگے رہے ہیں سوئے نہیں۔ کیوں جی پیچھے ہے شاید سونے والا بچہ آپ لوگوں کونیند تو نہیں آئی۔ کچھ سمجھ بھی آئی کہ نہیں۔ آگئی۔ شاباش ، زندہ باد۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ8؍رمضان بمطابق7؍ جنوری 1998ء
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیوں جی آج کا درس کا پہلے کالطیفہ ۔ وہ کتاب نہیں ہے جو کل پیش کی گئی تھی۔ ہیں؟ حافظ صاحب نے کہا تھا اٹھا کے دیکھ لیں۔ کہاں ہے وہ؟ اب چھوڑدیں وہ ۔۔۔۔ زبانی مجھے یاد ہیں اب۔ کل میں نے سنایا تھا کہ ایک ہمارے بزرگ استاد ۔۔۔ تشریف لائے اور سویڈن سے اپنے داماد کا ایک اعجاز ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ اور فرمارہے تھے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اعجازی طور پر اس کے ہاتھ میں آگئی۔ اس ۔۔۔۔۔۔ جانی تھی۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب تو میرے پاس ربوہ میں بھی ہوتی تھی۔ اور ایک اور مصنف نے بالکل یہی کتاب لکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ۔۔۔۔ میری یادداشت نے میرا ساتھ دیا، تو اس پر انہوں نے تشریح فرمائی کہ نہیں وہ نہیں ہوسکتی کیونکہ اس مصنف نے جو لکھا ہے ۔ اس نے اس طرح روایتوں کو زیادہ کرلیا ہے۔ ملتے جلتے الفاظ کی وجہ سے اور جو میرے داماد کے ہاتھ میں چیز آئی ہے وہ واقعی اعجاز ہے۔ میں آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ ان کے جانے کے بعد کل میں نے ان کو کہا تھا کہ کتاب پکڑیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو وہی کتاب ہے جو آپ کے پاس ہوا کرتی تھی۔ یہ تو عام کتاب ہے۔ اس مصنف کی ہے ہی نہیں جس کی طرف منسوب ہورہی ہے۔ یہ ایک مسلمان مصنف ۔۔۔۔۔ ہے۔ اس کی کتاب ہے اور وہ ساری دنیا میں پھیلی پڑی ہے۔ تو میں نے جب دیکھاتو میں نے کہا یہ تو وہی کتاب ہے۔ بالکل۔ تو اس طرح ہمارے بعض بزرگوں کی اپنے عزیزوں کے متعلق بلند خوش فہمیاں میری چھوٹی چھوٹی غلطیوں میں بدل جاتی ہیں۔ تو جب انسان اپنوں کے متعلق سوچتا ہے تو ان کو پورا حق دیتا ہے اور جب غیروں کے متعلق سوچتا ہے تو ان کے سارے حق چھین لیتا ہے بعض دفعہ ۔ تو یہ قصہ اعجاز کا اسی قسم کا تھا۔ الحمدللہ کہ میری یادداشت نے وفا کی اور یہ اعجاز، اعجاز نہیں نکلا۔ تو کسی کو غلط فہمی ہوئی ہو تو وہ دور کردی جائے اس کے متعلق۔ ٹھیک ہے۔ اور لے آتے تو دکھا جاتا ان کو۔ اس وقت تو میرے پاس وقت ہی نہیں تھا نظر ڈالنے کا وہ تو کتاب ان کے سامنے رکھی ہوئی تھی ۔ بڑی زبردست۔ ۔۔۔ کی۔ اورا پنے داماد کی طرف سے اور آپ کی خاطر تحفہ پیش کردیا گیا ہے۔ الحمدللہ کہ وہ مسئلہ حل ہوگیا ہے اب۔ اور ہونا یہ چاہیے تھا تاریخی امور ہوتے ہیں جو میری طرف منسوب ہوجائیں۔ ان کی غلطیاں بھی اللہ ہی درست فرمادیا کرتا ہے۔ اب میں آیت اسی کا درس جاری ہے۔
اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان اللہ یامرکم ان تؤدواالامانٰت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمیعًا بصیرًا O (النسائ: 59)
یہ میں حدیث آپ کے سامنے پڑھ کے سناچکا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو امانت تیرے پاس ہے اسے لٹا اور جو خائن ہے اس کے ساتھ بھی بددیانتی نہ کر۔ اس کی تفصیل کل گزرچکی ہے ساری۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت پر وہ نکتہ بیان فرمارہے ہیں جو اس میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور میں بارہا پہلے بیان کرچکا ہوں کہ وراثت کے طور پر امانت کا حق اوپر سے نیچے یہاں منتقل نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ اسی آیت سے شیعہ مصنفین دوسرے نتیجے نکالتے ہیں بلکہ نیچے سے اوپر کی طرف حق منتقل کیا گیا ہے اور اوپر جاکر جب حق اپنے مقام کو پہنچ جاتا ہے تو پھر حکومت کا طریق اوپر سے نیچے اترتا ہے کیونکہ وہ مِلک ہے مالک کا کام ہے۔ تو ڈیموکریسی کے متعلق اس سے پہلے کبھی کسی او رالٰہی کتاب نے اس طرح کھل کے بات نہیں کی۔ اگرچہ ہر طرز حکومت کو تسلیم کیا گیا ہے قرآن کریم میں اس شرط کے ساتھ کہ حکومت انصاف کی ہو لیکن ڈیموکریسی کو بحیثیت ڈیموکریسی کبھی دنیا کی کسی کتاب نے اس طرح پیش نہیں کیا کہ عوام الناس سے پوچھو ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک حق عطا فرمایا ہے جو اس کی امانت بھی ہے اور وہ امانت کسی او رکی اس کے پاس ہے۔ ہر شخص کو اس امانت کے استعمال کا حق عطا فرمایا ہے جو اس کے پاس کسی اور کی ہے اور وہ جو اور ہے اس کی اہلیت کی تفصیل بیان فرمادی ہے قرآن کریم نے وہ نیک ، مخلص، صاف ستھرا، جھوٹ سے پرہیز کرنیوالا ایسا شخص ہر شخص کے اوپر ایک حق رکھتا ہے کہ جب وہ ووٹ دے تو اس کو دے۔ کیونکہ یہ اس کے پاس اس کی امانت ہے۔ ڈیموکریسی کی دوسری تعریفوں میں یہ خوبی نہیں ہے اور کہیں بھی یہ خوبی نہیں آتی ذکر بھی نہیں ملتا کہ جب بھی تم ووٹ دینے لگو اس وقت تم ایسے شخص کا انتخاب کروجو نہایت دیانتدار، مخلص ، اپنے قول کا سچا ، اپنی شہادت پر ہمیشہ قائم رہنے والااور عامۃ الناس کے حقوق کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ڈیموکریسی کی تعریفیں پڑھ لیں آپ کہیں اس کا ذکر تک نہیں ملتا۔ بس جس خاطر ڈیموکریسی تھی اس بنیادی چیز کو تو ڈیموکریسی نے بھلادیا، اس کی شرطوں میں وہ شامل ہی نہ ہوئی For the people اصل چیز تھی۔ of the people, by the people یہ الگ مسئلہ ہے اس کا ضروری نہیں کہ for the people سے تعلق ہو۔ for the people کا مطلب ہے لوگوں کی خاطر ۔ تو لوگوں کی خاطر اگر کوئی ڈیموکریسی کام کرسکتی ہے تو صرف یہی قرآنی ڈیموکریسی ہے جس میں یہ شرط لازم کردی گئی ہے کہ ڈیموکریٹک ووٹ دیتے وقت دیکھو کہ لوگوں کی خاطر کون سب سے اچھا انسان ہے۔ اس کی امانت اس کو واپس کردیں۔ پارٹی کی خاطر کاکوئی ذکر نہیں ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ا س لیے ڈیموکریسی کی بہترین تعریف یہی ہے جونیچے سے اٹھ رہی ہے۔ حالانکہ نظام اسلام اوپر سے نیچے حرکت کرتا ہے۔ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تعریف بیان فرمائی ہے۔ ساتھ ہی فرماتے ہیںمیں اس آیت ہی کو پیش نہ کرلوں اس وقت تک اس کا پورا لطف نہیں آئے گا اس مضمون کا جب تک میں اس آیت ہی کو پیش نہ کرلوں جس میں اسلامی حکومت اوراس کے فرائض کونہایت مختصراً لیکن محیط الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ یأمرکم ان تؤدوالامانات إلی اہلھا و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل۔ ان اللہ نعمّا یعظکم بہ۔ ان اللہ کان سمیعًا بصیرًا۔ ۔۔۔۔۔ وہی مضمون ہے جو میں پہلے بارہا بیان کرچکاہوں ۔ لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے بہت پہلے اسی مضمون کو پوری طرح کھول کر بیان کرچکے تھے۔ صرف فرق یہ ہے ایک کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ حسن اتفاق سمجھیں یا توارد سمجھیں یہ مضمون میرے دل میں اپنے طور پر پہلے ہی سے ہمیشہ سے اسی طرح جاگزین ہے اور اس کی تفصیل کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت اعلیٰ رنگ میںاپنی ایک کتاب میںبیان فرمایا جس کا نام ہے، بہت لمبا اقتباس ہے اسی سے یہ دتھہ بھرا ہوا ہے سارا۔ اچھا’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ اس میں ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ میں یہ سار ا مضمون اپنی تفصیل سے موجود ہے۔ لیکن میرا اقرار اپنی جگہ درست ہے کہ میں نے یہ کتاب پڑھنے سے پہلے اپنے طور پر یہی مضمون سمجھا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک توارد ہوا ہے جو صحیح باتوں میں ہوجایا کرتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تؤدو الامانات إلی اہلھا میں فرماتے ہیں ’’خداتعالیٰ کی مخلوق کا انتظام ایسے لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہوں، کمیٹیوں میں ممبروں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا کرو‘‘۔ یہ مضمون دوسری اہم ضروریات میںپھیلادیا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور جو ہمارے نظام جماعت میں جاری ہے۔ کہ ہر جگہ ہر پہلو سے جو Grassroot Levelیعنی گھاس کی جڑیں جہاں اگتی ہیں اس لیول تک اس آیت کو پہنچائو۔اور اس کے مطابق انتخاب کا الٰہی طریق سیکھو۔ وہ ڈیموکریٹک بھی ہے لیکن مالکیت پر جاکر ٹوٹتا ہے۔ ڈیموکریٹک ہونے کے لحاظ سے (تمہیں) تربیت کرتاہے تمہاری کہ آخر تم نے خلیفہ کا انتخاب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے درجہ بدرجہ مسلسل اس آیت کریمہ کی روشنی میں انتخاب کے طریقے سیکھو۔ اپنے آپ کو پیش نہ کرو، دوسروں کوکرو ، کسی رشتہ داری یا تعلق کی وجہ سے انتخاب نہ کرو بلکہ جب بھی کرو اہلیت دیکھو اور اہلیت میں تقویٰ شرط ہے۔ یہ کرتے ہوئے جب تم اوپر تک پہنچو گے تو وہاں نظام ملکیت اللہ کے ہاتھ میں پائو گے۔اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میںفیصلوں کی طاقت لے لے گا اور اپنے خلیفہ کو ایسی غلطیوں سے بچائے گا جو Root Causeکے انتخاب کی وجہ سے ہوجایا کرتی ہیں۔ جو بنیادی طور پر انتخاب ہوتے ہیں عملاً یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ ذاتی تعلقات ضرور کام کرہی جاتے ہیں، کچھ اپنے مفادات اثر ڈال دیتے ہیں، کچھ خاندان اور جتھہ داریاں یہ اثر انداز ہوجایا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے اگرچہ ہرممکن کوشش کی جاتی ہے کہ انتخاب تقویٰ پر مبنی ہو مگر آخر تک پہنچتے پہنچتے وہ حالت نہیں رہتی اور لازماً پھر ان کے اجتماعی فیصلوں میں بھی یہ باتیں دکھائی دیتی ہیں۔ شوریٰ میں بھی بسااوقات یہ رنگ دکھائی دیتا ہے اور اس وقت خلیفۃ المسیح کو متنبہ کرنا پڑتا ہے کہ دیکھو تم کسی جتھے کی نمائندگی کرنے نہیں آئے بلکہ تم اللہ کی نمائندگی کرنے آئے ہو اور یہ انتخاب اوپر کی طرف اللہ کے ہاتھ میںیوں چلا جاتا ہے کہ وہ مالک ہے اور جو فیصلہ وہ فرمائے گا وہی فیصلہ تمیں تسلیم کرنا ہوگا اور ساری شوریٰ کلیتہً شرح صدر کے ساتھ اس فیصلہ کو قبول کرلیتی ہے۔ ایسا Perfect نظام شوریٰ، ایسی Perfect ڈیموکریسی جس کو اوپرپہنچا کر ہر غلطی کے احتمال سے پاک کردیا گیا ہو ، ساری دنیامیں کہیں دکھائی نہیں دے گا۔ تلاش کرکے دیکھیں، چراغ لے کر ڈھونڈیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ جماعت احمدیہ کے سوا کہیں اور بھی آپ کو حقیقی ڈیموکریسی کی روح اس کے تمام تر تحفظات کے ساتھ ملتی ہو یہ وہ تحفظات ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت نبی کریم ﷺ کے روبرو دو شخص آئے کہ ہمیں کام سپرد کیجئے ہم اس کے اہل ہیں۔ فرمایا جس کوہم حکم فرمادیں خدا ان کی مدد کرتا ہے جو خود کام کو اپنے سر پر لے اس کی مدد نہیں ہوتی۔ پس تم عہدے اپنے لیے خود نہ مانگو۔ یہ بھی ایک بہت اہم نصیحت ہے جو اسی تعلق میں ساری جماعت کیلئے ہے کہ اپنے آپ کو وَلا تزکوا انفسکم میں یہ مضمون ہے۔ اپنے آپ کو خواہ مخواہ اہل نہ سمجھا کرو اگر تم اہل ہو توصرف خدمت کیلئے پیش کرو اس سے زیادہ کام نہیں۔ اگر منتخب کرلیے جائو تو فبھا اگر نہیں تو پھر تمہیں شکوہ کی اور شکایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہی بہتر ہوگا جو فیصلہ اوپر سے کیا جائے گا۔ (یہ حوالے نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۔۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔ صفحہ 16پر ہاں۔ یہ ہے کیانام صفحہ ہے کیا۔ کیالکھا ہوا ہے۔ صفحہ پر 16ٹھیک ہے بھی آپ کا تو امانت کا حق ہے ۔ مگر میری سمجھ سے بالا ہے کہ صفحہ کے اوپر ۔۔۔۔۔ اور پھر سترہ)۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مکتوب ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب جموں کو لکھا اس میں بھی آپ نے کچھ وضاحت فرمائی ہے۔ امانتوں کو ان کے حقداروں کو واپس دے دیا کرو، خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیںرکھتا (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 39) جو بھی اس وقت چھپی ہوئی موجود تھی اس کا صفحہ ہے۔ ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہوجائیں ۔ ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے تؤدو الامانات الی اہلھا۔ مکتوبات جلد دوم صفحہ 13اور حاشیہ صفحہ 47 تا48۔بہت ہی اعلیٰ مضمون ہے جو اس سے پہلے غالباً کبھی کسی کو نہیں سوجھا۔ تؤدو الامانات الی اہلھا میں فرمایا ہماری جانیں بھی تو امانت ہیں اوران کا اہل اللہ ہے۔ پس اپنی جانوں کو اس طرح سنبھال کے رکھو کہ خدا کی امانت میں خیانت نہ ہو اور اللہ کے سپرد کھڑی رہیں۔ سبحان اللہ کیا بات ہے امام وقت کی۔ جس کو خدا امام مقرر فرماتاہے اس کے لبائوں کے سارے طبق روشن فرمادیتا ہے، اس کی تمام عقلی صلاحیتیں قلبی صلاحیتوںکے ساتھ مل کے چمکتی ہیں یہ اس کی مثال ہے ایک۔ابن کثیر نے ایک ایسی روایت بیان کی ہے جو میرے خیال میں سوائے اس کے کہ آپ کو عجیب و غریب باتوں میں الجھادے اور کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ہر گناہ کا کفارہ ہوسکتا ہے مگر امانت میں خیانت کا کوئی کفارہ نہیںہوگا۔ اگرچہ کوئی شہادت پاجائے۔ اب یہ مضمون ہی آنحضرت ﷺ کے فرمودات سے (یہ) متصادم ہے ۔ شہید کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور اس کی امانتوں کا حق اور طرح سے ادا کیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺنے اس مضمون کو دوسری جگہ بہت کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کے نزدیک بخش دیا جائے اور اس نے کسی اور کا حق دینا ہو تو اللہ اس کی نیکیوں میںسے ایک حصہ جو اس حق کو پورا کرنیوالا ہو اس کی طرف منتقل فرمادیتا ہے۔ لیکن اگر وہ نیکیوں سے پورا نہ ہو تو خدا اپنی طرف سے وہ پورا کردے گا۔ مگر اس کو جہنم میں نہیں ڈالے گا۔ اب یہ مضمون اس مضمون سے کتنا متصادم ہے اور جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ نہایت ہی خوفناک ہے اور یہ انہی روایات میں سے ہے جن کا نہ سر نہ پیر ، اہل تفسیر نے اپنی طرف سے سب رطب و یابس اکٹھا کرلیا ہے جو کسی نے روایت بیان کی وہ انہوں نے اکٹھا کرلیا۔ اب اس کی رو سے یہ بات یوں آئے گی خواہ وہ شہید ہوا ہو راہ مولیٰ میں لیکن یہ حق نہیں بخشا جائے گا اسے کہا جائے گا تو اپنی امانت ادا کر وہ کہے گا میںکس طرح امانت ادا کروں جب دنیا ختم ہوچکی ہے۔ سب نظام درہم برہم ہوگیا، نہ وہ لینے والاموجود، نہ میرے پاس کوئی حق۔ لایملک نفس لنفسٍ شیئًا کے مضمون کو یہ بات بھلارہی ہے۔ کوئی میرا ملک ہی نہیںرہا میں کیسے کروں۔ تو جہنم کے پیندے میں اس کیلئے امانت متمثل کی جائے گی ۔ اسے دکھایا جائے گا وہ دیکھو جہنم کے دور نیچے تمہیںکیا دکھائی دے رہا ہے وہ کہے گا امانت۔ وہی امانت جو میں نے کھائی ہوئی تھی تو حکم ہوگا جائو اس کو اٹھا کے لائو نیچے سے۔ وہ اس کی طرف لپکے گا جہنم کے شعلوں میں سے گزرتا ہوا اس کے پیندے تک اتر جائے گا اور اسے اپنے کندھے پر اٹھالے گا اور واپس آئے گا لیکن واپس آتے آتے وہ کندھے سے پھسل کر پھر گر جائے گی ، پھر حکم ہوگا جائو بھاگو واپس۔ یہ شہداء سے اللہ کا سلوک نعوذ باللہ من ذالک ان تفاسیر میںدرج ہے۔ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ ہم احمدی پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی روشنی اور ظلمات کی نسبت ہی کوئی نہیں۔ بے انتہا فرق ہے، حد سے زیادہ تاریک رات کا دن سے جوفرق ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ فرق ہے۔
اب شان نزول بھی سن لیں ایک، اگر یہ سنانے کے لائق ہوئی۔ اب ابن کثیر آثار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی ایک روایت دیتے ہیں جو اکثر مفسرین کوبہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن سوچتے نہیں کہ اس عبارت کو اسی طرح لینے سے انسانی زندگی کس حد تک بگڑ جائے گی اور اس میں عبادت کے تصور کی کیاا ہمیت باقی رہے گی۔ آثار صحابہ میں اب آثار صحابہ میں مراد یہ ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف بات منسوب کیے بغیر ایسی باتیں اپنی طرف سے کہیں ہیں جو اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی باتیں ہیں۔ ضرور رسول اللہ ﷺ نے کہی ہوں گی۔ یہ آثار ہیں، آثار صحابہ میں یہ روایت ملتی ہے کہ عدل یومٍ کعبادۃ اربعین سنۃً کہ ایک دن کا عدل چالیس سالہ عبادت کے برابر ہے۔ حالانکہ مومن کا تو ہر لمحہ عدل میں گزرتا ہے۔ عبادتوں سے چھٹی ہوگئی۔ اگر ایک دن عدل کرلے اور باقی سارا دن ظلم کرتا رہے تو اس کا ایک دن چالیس سالہ عبادتوں کے برابر ہوجائے گا۔ نہایت ہی لغو بات ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی واضح ہدایت سے متصادم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر یہ گرجاتی ہے بات۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ امت جس کو سر سے پائوں تک عدل کا قائمقام قرار دیا جائے ، عدل کا حفاظت کرنے والا قرار دیا جائے، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ فرمائیں کہ ایک دن میں ایک دفعہ عدل کرلیا کرو بس کافی ہے۔ اتنا کافی ہے کہ چالیس سال تم ظلم کرتے رہو اور چالیس سال عبادتیں نہ کرو تو یہی عدل تمہاری عبادتوں کا قائمقام ہوجائے گا۔ یہ رطب و یابس ہے جوہماری کتب میں راہ پاگیا ہے انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس آیت میں بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی طرف انگلی اٹھانا ضروری ہے ورنہ سرسری نظر سے آپ اس آیت کو پڑھیں گے تو بہت سے امور کو چھوڑ جائیں گے ۔ جیسا کہ میں نے اپنی تفاصیل میں پہلے عرض کیا ہے اس آیت کریمہ میںا مام وقت کی طرف اشارہ موجود ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ یہ آیت ایک امام کا تقاضا کرتی ہے۔ حضرت امام رازیؒ نے یہی نکتہ پایا اور بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہر ایک کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ فیصلہ میں اختیار چاہتا ہے کہ ایک امت کا امام ہو اور یہی وہ نعمت ہے جو امت محمدیہ سے جو امت محمدیہ کہلاتی ہے اٹھالی گئی اور اس نعمت کے اٹھائے جانے کی وجہ سے وہ اب امت محمدیہ کہلانے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ اگر سچی امت ہوتے تو ان میںایک امام ضرور ہوتا جو الٰہی تائید یافتہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ سے روشنی پاکر وہ ساری امت کی ہدایت کرتا۔ یہ امامت کا تصور شیعوں سے بھی اٹھ چکا ہے کیونکہ ان کے نزدیک جو امام تقلیدکے لائق ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ امام نہیں ہے، وہ نائب امام ہے۔ امام تو صدیوں پہلے روانہ ہوگیا کہیں اور اس نے اس نائب امام سے اپنا رابطہ رکھا ہوا ہے۔ لیکن جس سے رابطہ رکھا ہے اس کی دیانتداری کا یہ تقاضا ہے کہ وہ صاف کہے کہ مجھے اس بارے میں کھلی کھلی ہدایت نہیںملی اور یہی دعویٰ ہے امام خمینی ہوں یا کوئی ہوں ان کی اتنی سچائی تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ کبھی بھی یہ نہیںکہتے کہ آج مجھ پر امام ظاہر ہوا اور امام نے یہ باتیں بتائیں ۔ انہوں نے ایک نیا مسلک بنالیا ہے کہ میں چونکہ دنیا میںنائب امام ہوں اس لیے میری بھی حفاظت کی جارہی ہے۔ اس مسلک کا کوئی تعلق قرآن کریم کی کسی آیت یا کسی حدیث سے نہیں ہے ۔ ان کے آئمہ کا بھی یہ خیال نہیں تھا۔ پس سوائے جماعت احمدیہ کے امام کے کوئی نہیں ہے جو امامت یا امامت کے وہ تمام لوازم اپنے ساتھ رکھتا ہو۔ جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے سچی امامت کہلانے کی مستحق ہے۔ امام رازیؒ اس بارے میں یہ فرمارہے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل۔۔۔ میں اس بات کی قطعی وضاحت موجود ہے کہ ہر شخص کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ بلکہ ان میں سے بعض کیلئے حکم ہے اس صورت میں یہ آیت مجمل ٹھہرتی ہے اور اس چیز کی وضاحت نہیں کرتی کہ کوئی شخص کیسے حاکم بنے گا۔ یعنی یہاںآخری حاکم بنانے کی بحث وہ کیسے بنے گا، یہ اس آیت میں کہتے ہیں نہیں اُٹھائی گئی۔ البتہ تمام رہنما اصول اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیںکہ امت کیلئے ایک امام اعظم کا ہونا ضروری ہے۔ نیز یہ کہ وہی ایک ایسا وجود ہوگا جو ملک میں قاضی اور والی مقرر کرنے کا اہل ہوگا۔ اب دیکھیں جماعت احمدیہ کے قیام سے کتنا پہلے امام رازی نے وہ تفسیر فرمادی جو بعینہٖ صادق آتی ہے اور آج سوائے خلیفہ وقت کے کسی کو قاضی اور والی مقرر کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر کسی کے دماغ میں یہ خیال ہو تووہ اس کو نکال دے، ہٹادے ، کاٹ دے۔ یہ سب راہنما اصول اس آیت کے اجمالی بیان کی وضاحت کررہے ہیں ۔ دیکھا آپ نے امام رازیؒ کا مقام۔ کیسی کیسی اعلیٰ باتیں بیان فرماتے ہیں۔ اسی لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امت کیلئے گائو ں گائوں رازی عطا ہونے کی دعا کی ہے۔ حالانکہ بہت بعد میںآئے لیکن بہت پہلوں سے آگے بڑھ گئے۔ کیونکہ ان کی سوچ میں تقویٰ کااثر بہت نمایاں ہے اور تقویٰ ہی سے روشنی ملتی ہے۔ اب عدل سے متعلق آیات اور احادیث ہیںان کی ضررت ہے یا چھوڑ دیا جائے ؟ مضمون بہت ہی لمبا ہوجائے گا۔ ہاں، پہلے بہت بیان ہوچکے ہیں۔ سورۃ رحمن کی اس آیت کا میںمختصر ساذکر کردیتا ہوں۔ جو میرے تصور عدل کی بنیاد ہے اور قرآن کریم نے ساری کائنات کو ایک ایسا عدل کا تصور عطا فرمایا ہے جس کے بعد انسان کیلئے عدل کو چھوڑنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ والسماء رفعھا ووضع المیزان اس نے آسمان کو اونچا کیا اور بنی نوع انسان کیلئے توازن کا اصول مقرر کردیا۔ ہم جس کو عدل کہتے ہیں اس عدل سے ہی تو ساری کائنات بنی ہے۔ عدل کو نکال دیں تو ساری کائنات ملیامیٹ ہوجائے گی۔ کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہے گا۔ والسماء رفعھا آسمانوں کی رفعتوں کا موجب ووضع المیزان ہے کہ اس نے آسمانوں کوجو رفعتیں عطا فرمائیں ہیں خواہ وہ تمہارے ذہن میں آسمان کی رفعتیں ہوں یا عملاً اس کی رفعتیں ہوںوہ تمام تر اس بناء پر ہیں کہ یہ توازن کے اصول پر قائم کیاگیا ہے اور یہ توازن ایسا ہے جس کو دنیا کے بڑے بڑے سائنسدانوں نے محسوس کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر یہ توازن نہ ہو تو ساری کائنات مٹ جائے گی اور تعجب سے حیرت سے کچھ کہا ہے کہ توازن اس تفصیل سے کیوں پایا جاتا ہے اور ایک خیالی خدااگرچہ خدا کے قائل نہیں تھے لیکن ایک خیالی خدا کے قائل ان کوہونا پڑا۔ آئن سٹائن اسی تصور کو ایک موقع پر اتنا کھلا کھلا بیان کردیتا ہے کہ ساری عمر اس کو دہریوں کے سامنے جواب طلبی کرنی پڑی، جواب دہی کرنی پڑی کیونکہ اگر اس کا وہ تاثر درست مانا جائے جو اس نے اس وہم اس خطرے سے بغیر پیش کیا تھا کہ لوگ مجھے خدا کا قائل نہ سمجھ بیٹھیں ۔ وہ یہ کہتا تھا کہ کائنات پر جتنا بھی میں نے غورکیا ہے اتنا مکمل نظام عدل ہے ، اتنا مکمل اتنی مکمل یک جہتی پائی جاتی ہے کہ بغیر کسی بنانے والے کے یہ ہو ہی نہیں سکتا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ۔۔۔۔۔ اتنی وسیع کائنات جو 18,17بلین لائٹ ایئرز (Lighty Years) پر پھیلی پڑی ہو اس کو آپ دیکھتے چلے جائیں ، غور کرتے چلے جائیں جو بھی بات دریافت کریں گے وہ عین اس بنیادی اصول کے مطابق ہوگی جو عدل کا اصول ہے۔ اس اصول کو Smithyکہتا ہےSmithyکا مطلب ہے ایسی چیز جیسی ادھر ہے ویسی ادھر ہو اور اسی کا نام میزان ہے اسی کا نام عدل ہے۔ مگر وہ سب باتیں کہنے کے باوجود دہریہ کا دہریہ رہا کیونکہ’’ عقل اندھی ہے اگر نیر الہام نہ ہو‘‘ان سب باتوں کو بیان کرنے کے بعد ساری عمر پچھتایا ہے۔ اور ادنیٰ ادنیٰ لوگوںنے اس کو خط لکھے ۔ کوئی امریکہ سے کوئی کہیںسے ، کہ ہیں آپ کو تو ہم بہت بڑا آدمی سمجھتے تھے، ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ تو خدا کے قائل نہیں ہیں ، آپ نے تو یہ لکھ دیا ہے۔ کہتے ہیں نہیں نہیں یہ مطلب میرا نہیں تھا میں ویسے ہی بیان کررہا تھا اصل میں مَیں بھی صاف دہریہ ہی ہوں تمہاری طرح۔ اس لیے دہریت میں اپنی عظمت دیکھی تو دہریت کی طرف منتقل ہوگیا۔گویا کہ وہ عدل اس میں نہیں تھا جس عدل کی تعریف کررہا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر۔ ایسے ہی بدنصیب ہوتے ہیں کہ وہ عدل کو دور سے دیکھتے اور اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن اپنی ذات میں وہ عدل عنقاء ہوتا ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ ہم نے نظام پیدا کیا الا تطغوا فی المیزان اس لیے پید اکیا ہے کہ تم اس پر غور کرو اور اپنی ذات میں یہ عدل کانظام قائم کرو۔ الا تطغوا فی المیزان تاکہ تم نظام کے پلڑے کو ایک طرف نہ جھکا دینا۔ کیسی عمدہ یہ آیت اطلاق پارہی ہے آئن سٹائن کے اس مضمون پر کہ ہم نے تو اس لیے بیان کیا تھا کہ تم عقل کرو گے اور اپنی ذات کو کسی ایک طرف نہیں جھکائو گے۔ نظام کائنات کو تم نے دیکھا ہے یہ اس لیے عظیم الشان نظام اور اس لیے حیرت انگیز امور کو سمیٹے ہوئے ہے کہ یہ عدل پر قائم ہے۔ اگر تم نے اپنے عدل کا پلڑا اس کے مطابق نہ کیا تو تمہیں نقصان پہنچے گا۔ اس بات کو یہ بھلا گیا۔ واقیموالوزن بالقسط اب دوبارہ تاکید ہے انسان کو۔ اقیموا لوزن بالقسط وزن کو انصاف کے ساتھ قائم کرو اور ولا تخسروا المیزان اور تول کو کم نہ کرو۔ یہ مضمون جوہے یہ ایک طرف اور وہ حدیث بیان کردہ کہ ایک دن میںایک دفعہ عدل کرلو توکافی ہے۔ 40سال کی عبادتیں لکھی جائیں گی۔ دیکھیں کتنے متصادم مضامین ہیں ۔ باقی ساری آیات عدل کی جویہاں اکٹھی ہوئی ہیں وہ میں مختلف مواقع پر مختلف درسوں میں قرآن کریم کے بیان میں خطبات میں بیان کرچکا ہوں اس لیے اب اس مضمون کویہاں ختم کرتاہوں۔ دیکھ لیتا ہوں کہ کوئی خاص بات قابل ذکرہوتو آپ کے سامنے رکھ دی جائے قابل ذکر تو ساری باتیںہیں جومیں پہلے بیان نہ کرچکا ہوں۔
مسلم کی ایک حدیث ہے جس میں مراتب کا بیان ہے کہ انصاف کوئی معمولی بات نہیں، انصاف کرنیوالے عزو جل رحمن کے دائیںہاتھ نورانی منبروں پر متمکن ہوں گے۔ یہ آیت جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی تھی یہ سورۃ رحمن کی ہے۔ اس لیے یہ الفاظ حدیث کے بتارہے ہیں کہ یہ کسی اور نے نہیںجوڑے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ہی بیان فرمائے ہیں کیونکہ رحمن خدا کے ذکر کے ساتھ میزان کا ذکر موجو دہے اور فرمایا کہ جو لوگ اس مضمون کی حفاظت کریں گے ان صفات کی اپنی ذات میں حفاظت کریں گے وہ رحمن خدا کے دائیں طرف روحانی منبروں پرمتمکن ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل خانہ کے بارے میں اپنے فیصلوں میں اور اپنے زیر ولایت لوگوں کے بارے میں انصاف سے کام لیتے تھے۔ اب ایک اور بات اس حدیث کی قدسی ہونے کی طرف اشارہ کررہی ہے اور اس حدیث کو یقینی بنارہی ہے ، ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وکلتا یدیہ یمین ۔ عام لوگوں کے ذہن میں یہ تصور نہیںآسکتا یہ دایاںہاتھ اور یہ بایاں ہاتھ ۔ مگر رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی نہیںسکتاکہ یہ دونوںہاتھ دائیں ہاتھ ہی ہیں۔ اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہاتھ ہی ہیںکہ یہ نہ خیال کرلے کہ ایک اللہ کا بایاں ہاتھ بھی ہے۔ اللہ کی قدرت جو ہے وہ دونوں طرف حاوی ہے اور دونوں میں صفات دایاں ہونے کی ہیں یعنی صحیح او ربرحق صفات۔ بس اس پہلو سے رسول اللہ ﷺ نے اس غلطی کو ساتھ ہی دور فرمادیا کہ رحمن کے دائیں ہاتھ جب بیٹھیں ہوںگے ۔ تو مراد یہ نہیں ہے کہ وہ سمت کے لحاظ سے کوئی مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی تو کوئی سمت نہیں ہے ، وہ قدرت کی نشاندہی کرنیوالے ہاتھ ہیں۔ ہر چیز پر ا س کو قدرت حاصل ہے۔ ہر چیز پر انصاف کے ساتھ قدرت حاصل ہے ۔ پس اہل خانہ کے بارے میں یا زیر ولایت لوگوںکے بارے میں اگر تم انصاف سے کام لوگے تو قیامت کے دن یہ درجہ تمہیں ملے گا کہ اللہ کے داہنے ہاتھ نورانی منبروں پر متمکن ہوں گے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی زندگی میں ایک قرب کامقام ہوگا اس سے زیادہ اس کا اورکوئی معنی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک نورانی قرب کامقام حاصل ہوگاان لوگوں کو۔ اور اس کے بعد کسی کا اپنے گھر سے ، اپنے اہل و عیال سے ، اپنے زیر کفالت لوگوں سے ناانصافی کا کوئی وہم بھی نہیں دل میں پیدا ہونا چاہیے۔ایک اورحدیث ہے ابن ماجہ کی وہ بھی زیر نظر رکھنی چاہیے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایایقینا اللہ تعالیٰ قاضی کی اس وقت تک تائید کرتا رہتا ہے جب تک وہ ظلم کی راہ اختیار نہیں کرتا جو نہی وہ ظلم کی راہ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کاعدل کا طریق سارا بیان ہے پہلے میری تقریروں میں اور درسوں وغیرہ میں بیان ہوچکا ہے۔ باتیں سب بہت ہی پیاری ہیں مگر مجبوراً چھوڑنا پڑ رہا ہے یہاں ذکر ان کا۔ کیونکہ اس میں دوبارہ کہنے والی بات ہوگی۔ مجاہد والی حدیث بھی آگئی ہے اس میں۔یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث جو ہے وہ میں کیونکہ عموماً جماعتی نظام میں لوگوں کو عہدے دینے میںمیری راہنما ہوتی ہے اس لیے میں وضاحت کردوں کہ میں اپنی طرف سے کوئی جبر سے کام نہیںلیتا بلکہ رسول اللہ ﷺکی سنت پر عمل کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ہم اپنے کام پر ہرگز اس شخص کو نہیں لگائیں گے جو اس کی خواہش کرے۔ اس لیے بعض لوگ کہتے ہیں آپ نے معاف نہیں کیا۔ بار بار لکھتے ہیں۔ بھئی میں معاف کرچکا ہوں۔ پھر میرا عہدہ کیوں نہیں بحال کرتے۔ ان کو یہ جواب ہے ہر ملک سے ایسے ایسے عجیب و غریب خطوط آتے ہیں کہ ابھی تک بعض مربی بھی لکھتے ہیں آپ نے معاف کیوںنہیںکیا؟ میں نے کہا میںنے کردیا ، دل سے اتار دیا۔ تو پھر لگائیں اب مجھے دوبارہ۔ میں کہتا ہوں اس لیے نہیں لگاتا کہ رسول اللہ ﷺ فرمارہے ہیں کہ تمہاری مرض نہیں گئی۔ تمہارا مرض ابھی تک دور نہیں ہوا، تمہیں اس عہدہ کی خواہش ہے اور سمجھتے ہو کہ معافی کی علامت یہ ہے کہ وہ عہدہ تمہیں دے دیا جائے۔ اب رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس کو معاف نہیںکروں گا۔ معافی کا کوئی ذکرہی نہیں،چھوڑدیا ہے اس بات کو۔ پھر فرمایا عہدے پر نہیں میںلگائوں گا جس عہدے کی وہ خواہش کرتا ہے یہ اس کی بیماری ہے دل کی۔ پس میں جب بھی یہ فیصلے کرتاہوں لوگ مجھے حدیثیں لکھ لکھ کے بھیجتے ہیں کہ آپ عفو سے کام نہیں لے رہے، آپ رسول اللہ ﷺ کی طرح ان باتوں کومٹادیں او ربھول جائیں اور اب ہمیں دوبارہ اس عہدے پر متمکن فرمادیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ کام مجھ سے نہیںہوگا۔ اس کیلئے دنیا میں جوجماعت ملتی ہے وہاں چلے جائیں لیکن یہ جماعت رسول اللہ ﷺ کے طرز عمل پر مبنی ہے یہاں معافی کا عہدوں کی خواہش سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اب اتنا سمجھیں کہ آپ کیلئے اتناکافی ہے کہ آپ کو جماعت میں رہنے دیا جارہا ہے۔ جن جماعتی کاموں میں آپ حصہ لے رہے ہیں بیشک حصہ ڈالیں ۔ بعض لوگ پھر اپنی مائوں سے لکھواتے ہیں، اپنی بہنوں سے خط لکھواتے ہیںکہ ہمارا تو رو رو کے برا حال ہے۔ آپ نے ان کومعاف ہی نہیںکیا اور کیوں نہیں کیا؟ اس لیے کہ جس عہدے پر انہوںنے عہدے کا حق ادا نہیں کیاتھااور آپ نے ہٹادیا تھا اس عہدے پر ابھی تک فائز نہیں کیا۔ حالانکہ اس عہدے کے اہل نہ سمجھ کر ہٹایاتھا۔ لیکن دوبارہ جب یہ اصرار کرتے ہیں کہ ہمیںنافذ کیا جائے تو ثابت کردیتے ہیں کہ میرا فیصلہ درست تھا۔ ہرگز لائق نہیں تھے کہ اس عہدے پر فائز ہوتے اورا بھی بھی ہمیشہ یہی ہوگا ۔اگر کسی دن میں ان کے طرز عمل کی وجہ سے آئندہ آٹھ دس سال میں کبھی بھی ان کو دوبارہ مقرر کروں تو میںایک رسک لے رہاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان کی خواہش نے ان کی اہلیت کو ملیامیٹ کردیا ہے ۔ یہ حدیث میرے جو سامنے ہے یہ بالکل اسی مضمون کوبیان کررہی تھی ۔ اس لیے میںنے یہ ذکر چھیڑ لیا کہ بعض لوگ خود نہیں لکھتے ان کو منع کردیتے ہیں کہ خبردار جو تم نے اپنے لیے دوبارہ لکھا۔ تو ان کی بہنیں، ان کی مائیں ،ان کے بھائی بڑے دردناک فقرے لکھ کررحم کے طالب بنتے ہیں یہاں رحم کا سوال نہیں۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو خود خالی بننے کی خواہش کرے اور عہدے کو حاصل کرنے کیلئے دوسروں سے مدد طلب کرے تو وہ اس پر مسلط کردی جاتی ہے اور جو کوئی قاضی بننے کی نہ تو خواہش کرے اور نہ ہی اسی عہدے کیلئے لوگوںسے مدد طلب کرتاہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فرشتہ نازل کرتا ہے، اس کی راہنمائی کرتاہے۔ اس لیے اپنے بیچارے معصوم بہن بھائیوں کی مدد لینا بھی چھوڑ دیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے واضح ارشادات کے منافی ہے۔ یہ ساری باتیں ہوچکی ہیں۔۔۔۔۔۔ امام رازیؒ کی تفاسیر ہیں جوبہت عمدہ ہیں مگر پہلے بارہا بیان ہوچکی ہیں اس لیے ضرورت نہیں۔ سیل کی کمنٹری کی تو عملاً ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ البیضاوی کو ہی نقل کرتاہے۔ سوفیصد بیضاوی انگریزی میںپڑھ لیںیا عربی میں پڑھ لیں ایک ہی بات ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھاالذین امنوا اطیعوا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسن تاویلاً O (النسائ: 60)
میںنے دوبارہ تاویل کا لفظ اس لیے پڑھا ہے کہ عموماً ہمارے ہاں عربی وائو کو اردو وائو میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور وائو دانتوں کے ہونٹوں سے ملنے سے پید اہوتی ہے ۔ وائو Very یہ انگریزی Vجو ہے یہ ہماری اردو کی وائو بنی ہوئی ہے او رعربی وائو دونوںہونٹوں سے بنتی ہے۔ جو انگریزی میں Wہے اور انگریزی میںجیسے Wاور Vکا فرق کیا گیا ہے یہ فرق اس لیے ملحوظ رکھنا چاہیے کہ عربی میں Vہے ہی کوئی نہیں۔ عربی میں صرف Wہے۔ کوئی حرف بھی انگریزی Vکے مقابل کا نہیں ہے اور ہمارے ملک میں چونکہ عادت ہے Vکو بیان کرنے کی یعنی دانت اور ہونٹ ملاکر West, Very وغیرہ جو جو چیزیں بھی آپ کہتے ہیں عام طور پر ہمارے ہونٹ دانتوں سے لگ جاتے ہیں۔ عرب ہمیشہ صرف W بیان کرے گا ۔ وا یعنی گول ہونٹ اور گول ہونٹوں سے جو وائوادا ہوتی ہے یہی قرآن کریم میں ہر جگہ استعمال ہوئی ہے ۔ تومیں یہاں تأویلاً پڑھ گیا تھا ۔ آپ لوگوں نے نوٹ تو نہیںکیا لیکن عادتاً میںنے پڑھ لیا تھا تو میں بتارہا ہوں کہ میں نے کیوںدہرایا ہے تاویلا لفظ ہے تاویلا نہیں ہے اور اس عرصے میں دوبارہ لعاب بھی اکٹھا ہوگیا ہے پھر یہ کھیل جاری ہے مسلسل۔ او رمیں سمجھتا ہوں کہ بالعموم مجھے رفتہ رفتہ اس بیماری سے خداتعالیٰ کے فضل سے شفا مل رہی ہے لیکن یہ کچھ لمبا عرصہ چاہتی ہے اور رات اوردن کی میری جو کیفیات ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہر علامت میں کمی واقع ہورہی ہے اور اگر کوئی مجھے مشورہ نہ بھی دے تو جس گہری نظر سے میں نے مطالعہ کیا ہے اس بیماری کا میرا خیال ہے دوسرے دنیا کے کسی ہومیو پیتھ کو شاید یہ توفیق نہ ملی ہو۔ کیونکہ میںنے دعا سے مدد مانگی ہے اور دعا سے مدد کے بعد اس بیماری کی وہ کیفیتں مجھے بتادی گئی ہیں جو اس سے پہلے میرے تصور میں بھی نہیںتھیں۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب شیشیاں بنا بنا کے مجھے دے کے وہاں سے اٹھا لے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ عمومی علاج ہے جو ہومیو پیتھ کرتے ہیں ،ہماری کتابوں میں درج ہے سب کتابوں میں درج ہے مگر اس کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔ ایسی استثنائی چیز ہے جو جب تک اللہ تعالیٰ نہ سمجھائے انسان کو سمجھ نہیں آسکتی۔ اس لیے میں نے چونکہ دعا پہ زوردیااس لیے میں سمجھ رہاہوں کہ اب خدا کے فضل سے میرے رات دن کی کیفیت پہلے سے بدرجہا بہتر ہے اور اب بھی جب میںآپ سے بات کررہا ہوں آپ نے رمضان کے شروع کی میری زبان کی خشکی دیکھی ہوگی اور اب محسوس کیاہوگا اس میں فرق پڑ گیا ہے۔ پڑگیا ہے کہ نہیں پڑا؟ ہاں بہت فرق پڑا ہے ، یعنی لعاب پھر واپس آجاتاہے اپنا زور مارکے۔تو یہ وجہ یہ بتارہی ہے مجھے بات کہ انشاء اللہ صحیح رستے پر گامزن ہوں اور امید ہے کہ رمضان ختم ہونے سے پہلے پہلے یہ بیماری ختم ہوچکی ہوگی۔ اگرآپ کی دعائیں شامل حال رہیں۔
یہ آیت بھی بہت تفصیلی بحث کو چاہتی ہے (یہ سارا دتھہ اسی مضمون پرہے)۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت اختیار کرو اَطِیْعُوْا الرسول اور رسول کی اطاعت اختیار کرو۔ واولی الامر منکم اور اپنے میں سے جو صاحب امر ہو اس کی اطاعت اختیار کرو۔ یاایھاالذین امنوا اطیعوااللہ والرسول نہیں فرمایا گیا یہ خاص ایسی بات ہے جو آپ کو نوٹ کرنی چاہیے۔ میں مزید پھر لوٹ آئوں گااس کی طرف میں صرف اتنا اشارہ کررہا ہوں سر دست۔ واولی الامر منکم اور جو بھی تم میں سے تمہارا امیر مقرر ہو اس کی اطاعت کرو۔ اولی الامر منکم کاایک معنی جس پر غیراحمدی زور دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارا مسلمان امیر ہو جو شریعت پر چلنے والا ہو تو اس کی اطاعت کرو ورنہ نہ کرو۔ لیکن قرآن کریم فرماتا ہے فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ والرسول۔ جب آپس میں تمہارااختلاف ہو تو اللہ ، رسول کی طرف اسے لوٹائو۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ فیصلہ اللہ اور رسول کے فیصلوں پرمبنی نہیں ہوتا جو مسلمان امراء عموماً دیا کرتے ہیں ۔ اس لیے مسلمان یا غیر مسلم کی بحث نہیں ہے۔ ایک طرف قرآن ہے اور ایک طرف حدیث اور رسول اللہﷺ کا عمل ہے ، یہ اللہ اور رسول کا فیصلہ ہے اگر تمہارے اولی الامر خواہ وہ کسی دین سے تعلق رکھتے ہوں ایسے امور میںفیصلہ دیں کہ جو تم سمجھتے ہوکہ قرآن اور حدیث کے واضح فیصلوں کے مخالف ہے تو اس صورت میں رُدّوہ الی اللہ والرسول اللہ اور رسول کی طرف فیصلے کولوٹادو اور اس صورت میں جب تضاد نمایاںہو۔ اپنے حاکموںکی بات نہ مانو ۔یہ مضمون بہت ہی وسیع ہوجاتا ہے اور اسلامی تعلیم جو مختلف ملکوں میںمختلف مسلمانوں کی راہنما ہے ان کیلئے بھی اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے شاید ایک دو دن اسی مضمون کی تفسیر میںگزریں۔ ردوہ الی اللہ والرسول اللہ اور رسول کی طرف اس بات کو پھیر دو ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر اگر تم واقعتا ایمان لاتے ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔ یہ یومِ آخر کا ذکر کیوں فرمایا گیا؟ اس لیے کہ حساب کتاب اس معاملے میں یوم آخرمیں ہوگا اگر تمہارا فیصلہ درست تھا کہ واقعتا اللہ اور رسول نے تمہیںروکے رکھا اطاعت سے تو قیامت کے دن تم بری الذمہ ہوگے لیکن اگر یہ نفس کی بات ہوئی اور تم کسی اور وجہ سے اطاعت سے الگ ہوگئے ہو تو امیر کی اطاعت سے پھرنے والے کیلئے یاد رکھنا چاہیے کہ تؤمنون باللہ والیوم الاخر کہ تمہارے اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان کا انحصار اس بات پر ہے کہ تم ان فیصلوں کو ان دونوں باتوں کو پیش نظر رکھ کے فیصلے کیا کرو۔ ذالک خیر و احسن تاویلاً بہت سی تاویلیں بیان کی گئی ہیں ان آیات کی۔ا للہ فرماتا ہے یہ تاویل جو ہے ذالک خیر یہ درست تاویل ہے اچھی تاویل ہے۔ واحسن تاویلاًاور سب تاویلوں سے اچھی تاویل یہی ہے۔
حل لغات:المفردات امام راغب: طاعۃ سے مراد لغت کے لحاظ سے امام راغب کی سند جس کو حاصل ہے وہ یہ ہے فرمانبرداری اور اطاعت جس کی ضد کرہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ائتیا طوعًا او کرھًا ولہ اسلم من فی السموت والارض۔ طوعا و کرھا اطاعت اگرچہ قرآن کریم کی رو سے ہم پر لازم ہے لیکن ہر انسان پر لازم ہے۔ ہم جب اس اطاعت کو قبول کرتے ہیں تو اس میں طوعاً کے یہ معنی پائے جاتے ہیں۔ ہم خوشی کے ساتھ باوجو داس کے کہ دنیا کے اعتبار سے اطاعت کا جوا اتار کر پھینک کر باہر نکل سکتے تھے۔ ہم نہیں نکلتے۔ اس اطاعت کے جوئے کو مضبوطی سے اپنے اوپر ڈالے ہوئے ہیں۔ اس لیے ایسے امور میں اطاعت جو فرض ہیں اس اطاعت کو ثواب سے محروم نہیں کرتی کیونکہ فرائض کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم وہ کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ جو فرائض قرآن کریم ہم پر عائد فرماتا ہے اس کے ساتھ ہی لا اکراہ فی الدین کی آواز آتی ہے کہ ان باتوں میںکوئی بھی تمہارا اختیار نہیں ہے۔یعنی تمہارے پر جبر کوئی نہیں ہے۔ اس لیے چاہتے ہو تو اطاعت کرو لیکن یاد رکھو کہ اطاعت کے سوا رشد کا کوئی رستہ نہیں ہے۔ جب بھی اطاعت سے روگردانی کرو گے نقصان اٹھائو گے۔ پس یہ بات سمجھنے کے بعد جبراً کسی پر اسلام کو نافذ نہیں کیا گیا یعنی یہ بات سمجھانے کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ جبراً اسلام کو نافذ نہیں کیا جارہا۔مگر ضمیر کی آواز ایک جبر ہے جو دل سے اٹھتی ہے اوراسی کورشد کہتے ہیں۔ وہ آواز جب اٹھے گی ہمیشہ قرآنی احکام کے حق میں اٹھے گی۔ تو امام رازیؒ فرمارہے ہیں کہ ایک اسی مضمون کی آیت ہے جو زمین و آسمان سے تعلق میں ہے۔ وہ ہے ائتیا طوعا او کرھا ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا و کرھا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام رازی نے کرھًا کو( کیا؟۔۔۔ امام رازی راغب۔۔۔ میں کیا کہہ رہا تھا؟ رازی منہ پر چڑھا ہوا ہے اچھا کی آپ نے یاد دلادیا)۔ المفردات امام راغب نے ائتیا طوعا او کرھا کو اس مضمون کے ساتھ کیوں باندھا ہے اور ساتھ ہی ولہ اسلم من فی السموت والارض طوعا و کرھا کیوں بیان کرسکتے ہیں آپ؟ علماء کرام میں سے؟ (ہوں) کائنات جواللہ کی اطاعت کررہی ہے وہ طوعا ہی ہے ناں؟ خود بخود حاضر ہے۔حاضر سائیں جس طرح کہتے ہیں اے خدا جو تیرا حکم ہم پہ چلے گا۔ لیکن کرھا کون لوگ ہیں۔ اسی کائنات میں شیاطین بھی داخل ہیں۔ اسی کائنات میں وہ باغی لوگ ہیں جو کائنات کا رخ بدلنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی اس پر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔یہ روحانی لوگ بھی ہیں اور دنیاوی لوگ بھی ہیں۔ اب جتنی ہماری پرانے زمانے کی کیمیا بنانے کی کوشش تھی وہ ساری رائیگاں گئی اور ان کو مجبور کیاگیا ہے کہ تم خدا کے قانون کو نہیں بدل سکتے۔ پس ائتیا طوعا اوکرھا میںسب امور شامل ہیں۔ اگرچہ کائنات طوعی طور پر ہی خدا کے حضور جھکی ہوئی ہے اس کے جھکنے میں کوئی کرھا نہیں ہے۔ اللہ نے کہا کن فیکون لیکن اسی کائنات میں ایسے بندے بھی ہیں جو کائنات کے نظام کو اپنی مرضی کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ کر دیکھو جو بن پڑتی ہے کرو ۔ ناممکن ہے کہ تم خدا کی کائنات کے اصول تبدیل کرسکو۔ تم ضائع اور برباد ہو جائوگے لیکن یہ اصول تمہیں مجبور کردیں گے کہ آخر ان کی بالا دستی کو تسلیم کرو اور روحانی لحاظ سے شیطان جو خداتعالیٰ کے اصولوں میں دخل اندازی کرکے آپ کوسمجھاتا ہے کہ اس سے تم بہتر نتیجہ حاصل کرلو گے ، ان دونوں کا ردّ ان آیات میں موجود ہے۔ پس حضرت امام راغب نے بے وجہ یہ بیان نہیں کی بلکہ ان آیات کے بہت باریک اور لطیف معنوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔
المفردات تنازعتم سے متعلق یہ لکھتی ہے نزع الشیء جذبہ من مقرّہ۔ اب ان سب باتوں کا ترجمہ آ پ کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔ جذبہ من مقرّہ کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچ لیا۔ تنازعتم سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کھینچنا کسی چیز کو کہ جو اپنے مقرسے ہٹ جائے۔ یعنی اس کا ہر چیز کا ایک مقر ہے ، ہر چیز کی ایک جگہ مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے بنارکھی ہے۔ جب تک وہ وہاں ٹھہری ہوئی ہے وہ انصاف کا مظہر ہے۔ اس کو ہم ایکوی ریبریم کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں جو اصطلاح ہے ایکوی ریبریم کی۔ اس میں معنی یہ ہیں کہ توازن اتنا برقرار ہوجائے کہ جس پہلو رکھ دیا جائے وہ اسی پہلو پڑی رہ جائے اور ازخود ادھر ادھر نہ گرے۔ یہ ایکوی ریبریم اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میںموجود ہے۔ خدا کی ہر تعلیم کو ایک مقر حاصل ہے اور اگر وہاں وہ پڑی رہے تو اس کے از خود ایک طرف یا دوسری طرف مائل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیںہوتا۔ یہ ہے مقرا س کوامام راغب یوں بیان فرماتے ہیں۔ اس نے کمان کو اس کے وسط سے کھینچا ۔ اس میں بھی نزع کا لفظ ہے کمان کو اگر اپنے حال پر رہنے دیں تو اس کا بیچ کا جو وتر ہے جو دو سروں کو باندھتا ہے وہ اپنی جگہ سے نہیں ٹلے گا۔ ایک ہی جگہ اس کی مقرر ہے وہ وہیں آئے گاہمیشہ جب آپ کھینچیں گے اور چھوڑیں گے تو واپس شدت کے ساتھ جاکر کچھ دیر کانپ کر پھر وہیں کھڑا ہوجائے گا۔ امام راغب کے نزدیک نزع القوس عن قبضہ میں یہی مضمون ہے ۔ نزع العداوۃ والمحبۃ من القلب دل سے دشمنی اور محبت کو نکال دیا۔ یہ بھی ایک معنی قرآن کریم کی رو سے سمجھنا ضروری ہے کہ اس دنیا میں اگر ایک دوسرے سے دشمنی ہو اور دونوںویسے جنتی ہوں تو جنت میں جاکر کیا وہ دشمنیاں باقی رہیں گی؟ اب سوکناتہ ہے رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں وہ سوکناتہ اپنا جلوہ دکھایا کرتا تھا۔ اور وہ بڑی شدت دکھادیتا تھا۔ مگر جنت میں یہ سب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوں گی۔ تو کیا وہ دل کے بغض یا فطری تقاضوں کے نتیجے میںایک دوسرے سے کچھ عناد رکھنا یہ جنت میںبھی اسی طرح پایا جائے گا یا نہیں؟ اس کے متعلق لفظ نزع کی بحث اٹھاتے ہوئے امام راغبؒ کہتے ہیں ونزعنا ما فی صدورھم من غلٍ یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں کو جو جنت میں داخل ہوں گے ان کو ہر قسم کے غل سے پاک کردے گا۔ ہر قسم کے بغض و عناد اور دشمنیاںاورطبعی ہو ںیا غیر طبعی ہوں اگر وہ جنت میں جائیں گے تو ان کو کھینچ کے باہر نکال دے گا۔ یعنی ان کی جڑیںاکھیڑ دے گا، ان کا نام و نشان باقی نہیںچھوڑے گا۔ پس نزع ایسے کھینچنے کو بھی کہتے ہیں جیسے پودے کو جڑ سے اکھیڑ دیا جائے یہاں تک کہ اس کے ریشے تک باقی نہ رہیں زمین کے اندر۔ نزع فلان کذا۔ تنزع الملک ممن تشائُ کہتے ہیں اسی طرح ملک کو کسی سے کھینچ لینا قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے ثابت کرتا ہے کہ جب خدا کھینچتا ہے کسی سے ملک تو اس میں ملک کی کوئی شان بھی باقی نہیں چھوڑتا۔ تنزع الملک ممن تشاء اے خدا تو جس سے چاہتا ہے ملک واپس لے لیتا ہے۔ پس جب اللہ ملک چھینتا ہے تو پھر اس کا نام و نشان مٹا دیتا ہے۔ جیسے دل غل سے پاک ہوں گے قیامت کے دن دنیا میںجس کاملک چھینتا ہے اسکو کلیتہً ہر ملکیت سے محروم کردیتا ہے ۔اور یہ دردناک انجام بہت سے دنیادار بادشاہوںکاہم نے دیکھا ہے۔ التنازع ۔ المنازعۃ یعنی اپنی جانب کھینچنا۔ جس میں دو فریق شامل ہوں۔ فان تنازعتم میں دو فریق ہیں ایک فریق بات کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے دوسری طرف دوسرا فریق ہے جو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ اس باہمی اختلاف کو جو دو طرفہ ہواکرتا ہے تنازع کہا جاتا ہے۔ اور یہ جھگڑنے کی صورت ہے۔ باقی لسان العرب کی ساری باتیں حضرت امام راغبؒ کی اِن تشریحات کے تابع ہیں۔
اقرب الموارد نے نزع میںایسے مریض کا حال بیان فرمایا ہے جو موت کی اس غشی میں داخل ہورہا ہو جس میں پھر زندگی اور موت کے درمیان ایک جھگڑا شروع ہوجاتاہے۔ زندگی روکنے کی کوشش کرتی ہے اورموت لے جانے کی کوشش کرتی ہے اس حالت کو ہم نزع اس لیے کہتے ہیں ۔ فردوہ کی حل لغات بیان کرتے ہوئے حضرت امام ۔۔۔ (نا یہ لسان العرب ہے) اس میں وہی نکتہ بیان فرمارہے ہیں جو ہم ہمیشہ جماعت کے مؤقف کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ من یرتدد منکم میں ضمیر اس شخص کی طرف ہے جو مرتد ہونا چاہے اور ہرگز کسی پر ارتداد کو ٹھونسا نہیں جاسکتا، ممکن ہی نہیں ہے۔ ارتداد کا حق ہر شخص کو اپنے طور پر ہے۔ لیکن کسی کو زبردستی مرتد نہیںبنایا جاتا۔ یہ مضمون ہے جو جماعت احمدیہ کی طرف سے بارہا پیش کیا جاتا ہے جس کو یہ مولوی سمجھنے سے انکار کرتے ہیں اور میری کتاب جو ہے قتل مرتد اس میں بھی اس مضمون کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے احادیث کے حوالے سے۔ ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم تاویلیں کرتے ہیں لیکن قرآن کریم نے تاویل کو اچھے معنوں میں استعمال فرمایا ہے۔ جب حقیقت حال کو آپ سمجھ لیں تو یہ احسن التاویل ہے اور اللہ تعالیٰ خود اس آیت کریمہ کی تاویل فرمارہا ہے اور فرماتا ہے ذالک خیرو احسن تاویلاًتأویلا۔ اب کہ معلوم ہوتا ہے آپ نے نوٹ کیا ہے میرے ہونٹوں کو کیونکہ امام صاحب کی نظر سے مجھے یک دم خیال آیاکہ میں وے ادا کررہا ہوں ۔ہے ناں کیا تھا نا نوٹ؟ مفردات راغب نے وہی باتیں بیان کی ہیںجو میں پہلے کئی دفعہ بیان کرچکا ہوں۔ اچھا باقی کل انشاء اللہ ۔ٹھیک ہے۔
‏bcdbcd
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ماہ رمضان
مورخہ9؍رمضان بمطابق8؍ جنوری 1998ء (مسجد فضل لندن)
(آج تو ایک صاحب نے یہ چیز بھی بھیج دی ہے جو پہلے بھی ہوا کرتی تھی لیکن ہم نے چھوڑ دی تھی بیچ میں۔لعاب کے بجائے اس کو تر کرنے کیلئے۔ میں تو لعاب کا امتحان لے رہا تھا تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں چھوڑدو ۔ جب سے میں نے اجازت دی ہے ناں کہ اب جو مرضی لکھو بھرمار پڑی ہوئی ہے کافی۔ اس لیے اب میرا خیال ہے ذکر ہی چھوڑدوں۔جتنا ذکرکروں گا اور لوگ بھیجیں گے۔ ہیں!)
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھاالذین امنوااطیعواللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسن تاویلاً O (النسائ: 60)
اس آیت کریمہ پر ابھی حل لغات تک بحث پہنچی تھی اور لسان العرب کا حوالہ میرے سامنے ہے تاویل سے متعلق۔ أوّلہ و تأوّلہ فسّرہاس کا مطلب یہ ہے اس نے کسی چیز کی تفسیر بیان کی۔ وقولہ عز وجل ولما یاتھم تاویلہ ای لم یکن معھم علم تاویلہ اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے ولما یاتھم تاویلہ یعنی ان کے پاس اس کی تفسیر ابھی تک نہیں آئی۔ مطلب یہ ہے کہ ایسی آیات ہیں جو محکمات تو ہیں لیکن ان کے اندر گہرے مسائل ہیں جن کو ابھی تک لوگ سمجھ نہیں سکے اور دوسرا معنی ہے متشابہات ہیں جن میں دونوں معانی ممکن ہیں لیکن ان لوگوں کو ابھی تک صحیح معنے کی سمجھ نہیں آئی۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں مَیں کثرت سے ایسی آیات جانتا ہوں جن کے متعلق اس زمانے میں ابھی تاویل نہیں آئی تھی حالانکہ وہ محکمات ہیں۔ پس مفسرین کا یہ خیال کہ یہ صرف متشابہات سے متعلق ہے یہ درست نہیںہے۔ آئندہ زمانے میں علوم کے ترقی پانے کے نتیجہ میں قرآن کریم کے علوم کی شناخت ہوتی جاتی ہے اور بکثرت ایسی آیات ہیں جن کی اس زمانے کے انسان کو سمجھ آہی نہیںسکتی تھی۔ وہ آیات کریمہ ہیں جو میرے نزدیک اس آیت کے ضمن میں داخل ہیں۔ ولما یاتھم تاویلہ اگرچہ موقعہ اور ہے مگر یہ ایک اصولی مضمون ہے جوہر جگہ حاوی ہے۔ چنانچہ زمین و آسمان کے تعلق میں اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتا ہے وتحسبھم جامدۃ و ھی تمرمرالسحاب کہ پہاڑوں کو تم میخوں کی طرح گڑے ہوئے دیکھتے ہو۔ وھی تمرمر السحاب جبکہ یہ بادلوں کی طرح Coastکررہے ہیں۔یعنی ایسی صورت میںچل رہے ہیں کہ تمہیں ان کے پیچھے کسی Power کا استعمال سمجھ نہیں آرہی اور وہ خود بخود گھومتے آہستگی کے ساتھ یا نرمی روی کے ساتھ گھومتے جارہے ہیں اور وتحسبھم جامدۃً اور تم ان کو زمین میں گڑا ہوا دیکھتے ہو۔ اب آپ بتائیں کہ اس آیت کریمہ کی اس زمانے میں کسی کو سمجھ آسکتی تھی؟ سوائے رسول اللہ ﷺ کے جن کو ان مضامین سے آگاہ فرمایا گیا مگر آپ اس زمانے کے لوگوں کی بے خبری کی وجہ سے ان باتوں کو بیان نہیںفرمایا کرتے تھے کیونکہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ ایک ہی ایسے موقع پر جب زمین و آسمان کا ذکر گزرا کہ جنت تمام زمین و آسمان پر حاوی ہے کلھم جو کچھ بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ خود خاموش رہے ۔ جس کسی نے پوچھا یارسول اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جنت تو سارے جہانوں پر ہر چیز پر حاوی ہو، ساری کائنات پر اور جہنم بھی وہیں ہو۔ اب یہ مادی تصور اس زمانے کا ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا تھا مگر اس زمانے کے تصور نے جو Dimensions کا تصور پیش کیا ہے اور لہروں کا تصور پیش کیا ہے جو ایک ہی جگہ موجود ہوتی ہیں اور ہمیں دکھائی نہیں دیتیں، محسوس نہیں ہوتیں اور ان کا جہاں اور ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسی طرح ہوگا لیکن تمہیں شعور نہیں ہے اس بات کا۔ اس سے میں استنباط کرتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کا شعور عطا فرمایا تھا اور آپ اس لیے بات نہیں فرماتے تھے یعنی تفصیل سے۔ اشاروں کنایوں میں باتیں کرتے تھے تاکہ اس زمانے کا انسان بھٹک نہ جائے۔ وہ حیران ہو کے دیکھے یہ کیا باتیں کررہا ہے۔ اب یہی آیت کریمہ جو میںنے آپ کے سامنے پڑھی ہے وتمر مر السحاب یہ ممکن ہی نہیں جب تک زمین اپنے ہی گرد گھوم نہ رہی ہو۔ اس کا کوئی ترجمہ کر کے دکھائیں ہو ہی نہیں سکتا جب تک یہ ترجمہ نہ کیا جائے کہ تم خیال کرتے ہو کہ پہاڑ جامد ہیں۔ اگر جامد ہیں توزمین بھی جامد ہے کیونکہ وہ مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں یہ بھی بتایاتھا۔ اگر مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیںاور واقعتا جامد ہیں تو تم خیال کیسے کرتے ہو کہ جامد ہیں۔ یہ کیوں بادلوں کی طرف گھو م رہے ہیں،اگر گھوم رہے ہیں تو لازم ہے کہ زمین بھی ساتھ گھوم رہی ہے۔ پس زمین کی دورانی حرکت جو اپنے ارد گرد ہورہی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے اس آیت سے واضح، بہتر اور عمدگی سے بات بیان کرنے والی مجھے کوئی اور آیت دکھائی نہیں دیتی۔ جس نے زمانے کے علم کو چیلنج نہیں کیا۔ یعنی بھڑکایا نہیں ہے کہ دیکھوہم یہ باتیں کررہے ہیں اور تم کیا سمجھ رہے ہو لیکن حقیقت حال کو بتادیاہے۔ تو یہ بھی ان آیات میں سے ہے لما یاتھم تاویلہ ان تک اس کی تاویل نہیںپہنچی تھی کیونکہ زمانہ بہت پیچھے کا تھاابھی آئندہ زمانے میں ان آیات کی تاویل ہونے والی تھی۔
پس میرے نزدیک صرف تاویل والی آیتیں وہ نہیں ہیں جو متشابہ ہیں بلکہ وہ تمام آیات جن کے مضامین اس وقت کا انسان نہیں سمجھ سکتا تھا اور آئندہ زمانے میں ان کی تاویل خداتعالیٰ نے ظاہر فرمانی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے بکثرت ایسی آیات میرے علم میںہیں جن کی بعینہٖ یہی صورت ہے۔ اس زمانے کا لباس اوڑھے ہوئے بالکل بھی سمجھ نہیںآسکتی تھی لوگوں کو کہ اس کے اندر ایک مستقبل کی بات لپیٹی ہوئی ہے۔ تو یہ تو تاویل کا حال ہے۔ وفی حدیث ابن عباسٍ اللھم فقہہ فی الدین و علمہ التاویل اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے آپ کو دعا دی اللھم فقھہ فی الدین اللہ تعالیٰ اسے دین میںفقہ عطا فرمائے یعنی گہری سمجھ اور بوجھ اور حقیقت حال کا علم عطا فرمائے وعلمہ التاویل اور اسے تاویل سکھا یعنی تفاسیر جو آیات کی اصلی حقیقی تفاسیر ہیںسب سے کثرت سے، سب سے زیادہ کثرت کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احادیث میں یہ تفاسیر ملتی ہیں لیکن ظلم کرنے والوں نے اندھیر کردیا ہے ۔ جو بھی اپنی تفسیر وہ بیان کرنا چاہیں اور سمجھتے ہوں کہ عام تفسیر سے ہٹ کر ہے انہوں نے بلا استثناء ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر بات گھڑلی ۔ جب ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام آجاتا ہے تو علماء خاموش ہوجاتے ہیں یعنی آپ کو تو رسول اللہ ﷺ نے دعا دی ہوئی ہے کہ اے اللہ اسے فقہ عطا فرما۔ آپ کیسے ایسی بات کرسکتے ہیںجو فقہ کے خلاف ہو۔ تو ان حدیثوں کی کثرت ہوگئی ہے۔انہوں نے ان صحیح حدیثوں کوڈھانپ لیا ہے اور یہ بہت بڑا ظلم ہے قرآن کریم پر جو بدنصیبی کے ساتھ خود ایک درمیانے دور کے علماء نے قرآن کریم پرکیا ہے۔ تاویل کا ایک دوسرا معنی اقرب الموارد نے بیان کیاہے اور وہ بھی لغت کے لحا ظ سے بہت عمدہ معنی ہے۔ اوّل کا مطلب ہے اس نے اس کو پھیرا ، الٹایا پلٹایا۔ پس گائے جب جگالی کرتی ہے تو یہی عمل کرتی ہے۔ کھانے کو ایک دفعہ باہر لاتی ہے اور اس کو الٹتی پلٹتی اور پیستی ہے پھر دوبارہ وہ کھانا واپس لے جاتی ہے پھر نکالتی ہے۔ تو ایک مضمون پر بار بار غور کرنا یعنی یہ ذہنی جگالی ہے۔اسے نکالنا اور الٹ پلٹ کر دیکھنا کہ اس کے مختلف پہلو کیا ہیں۔ اس کو رَجَّعَہٗ یعنی اس کو الٹاپلٹا،لوٹایا، پھیرا۔ ان معنوںمیں یہ تاویل کا لفظ ہے۔ اور اسی طرح تاویل کا لفظ رئویا کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں بیان کیا گیا ہے۔ عبرھا خواب کی تعبیر کی۔ وہ بھی دراصل وہی مضمون ہے کہ رئویا کو الٹ پلٹ کر دیکھا، اس کی گہرائی میں اترے اور جو مضامین ایک کہانی کے پردے میں چھپے ہوئے تھے ان کو نکال کے باہر کیا۔ ایک اقرب الموارد نے بات لکھی ہے مگر وہ غلط ہے۔ گزشتہ بیان کی روشنی میںجو قرآن کریم کے حوالوںسے لیا گیا ہے یہ درست نہیں ہے کہ کسی بات سے اندازہ مراد لینا تاویل کہلاتا ہے اور کسی بات کا قطعی معنی بیان کرنا تفسیر کہلاتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ تاویل غلط بھی ہوسکتی ہے ۔ جو اہل علم نہ ہوں اور جن کے دلوں میں بیماری ہو وہ متشابہات میںجو معنی بیان کرتے ہیں اس کو بھی تاویل کہاجاتا ہے۔ پس صرف یہ تاویل ہے جو اندازے کی تاویل ہے اور اس تاویل سے روکا گیا ہے اور قرآن کریم کے متعلق اس قسم کی تاویل جو نفسی خیالات کے نتیجے میں پیدا ہو یہ درست نہیں بلکہ گناہگاری کا موجب بنتی ہے۔ الواحدی: (الواحدی کو آپ نے کیوں پکڑ لیا دوبارہ پھر۔ ہیں! ہم تو کافی دامن بچاکر چلتے ہیں اس سے) وفات ان کی 468ھ میں ہوئی تھی اور سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے بعد صحابہ سے نعوذ باللہ بڑھ کر اسباب نزول کا ان کو علم ہوا ہے۔ ان کی وفات 468ھ میں ہوئی ہے اندازہ کریں۔ ۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اب میںکیا کہوں۔ جو کہانی انہوں نے بیان کی ہے وہ عجیب و غریب کہانی ہے کہ ایک لشکر میں حضرت خالد بن ولید اس کے سردار مقرر ہوئے اور عماران کے ساتھ تھے عمار بن یاسر اوراس لشکر کے آنے کا پتہ چل گیا اور وہ لوگ وہاں سے اٹھ بھاگے۔ اس پر ایک شخص نے ان سے عرض کی (اس کا نام کیا ہے؟) اس کا نام بھی احتیاطاً درج نہیں کیا گیا وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اس لشکر میں سے اور اس نے کہاکہ میں مسلمان ہوتا ہوں۔ کیا میں یہاں ٹھہرا رہوں؟ یا میں بھی اٹھ بھاگوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر تم مسلمان ہوتے ہو تو ٹھہرے رہو کچھ نہیںہوتا اور اس کے بعد جب حملہ کیا باوجود اس کے اس علم کے دینے کے کہ سب لو گ جاچکے ہیں خالد بن ولید نے بھرپور حملہ کیا۔ دیکھا کہ وہاں صرف اسی کا خاندان تھا اور سب بھاگ گئے تھے۔ خالدبن ولید نے اس کوپکڑ لیا ، اس کے مال پر قبضہ کرلیا۔ اور کہا کہ اب ہم تمہیں بھی نہیں جانے دیں گے۔ یہ عجیب و غریب کردار حضرت خالد کا یہ ناقابل یقین بات ہے ویسے ہی۔ کہتے ہیں جب قبضہ کرلیا تو اس وقت عمار نے خالد بن ولید کو کہا کہ خبردار اس پہ ہاتھ نہ ڈالنا، اس کو میں نے پناہ دی ہے۔ تو خالد نے کہا امیر میں ہوں اور پناہ تم دیتے پھرتے ہو۔ انہوں نے کہا ایسا ہی ہوا ہے اور یہ درست ہے اورمیرے پناہ دینے کے بعد تمہیںاس پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ چنانچہ خالد بن ولید اسے قتل کرنے سے رک گئے اور اس کے اموال بھی امانتاً رکھ لیے۔ پھر جھگڑا ان دونوں کا چلتا رہا۔ اس وقت کیاہوتا ہے پھر۔ ہاں ۔۔۔ ابوالیخزان جو نام ہے یہ عمار بن یاسر ہی کا دوسرا نا م کنیت ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ابوالیخزان یعنی عمار بن یاسر کے پاس چلا گیا وہ شخص۔ صبح خالد نے جب ان پر حملہ کیا تو اس کے علاوہ کوئی آدمی نہ ملا۔ اس پر انہوں نے اسے اور اس کے مال کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ عمار ان کے پاس گئے اور کہا اس شخص کو چھوڑ دیں کیونکہ یہ تو مسلمان ہے اور میں نے اسے امان دی تھی اور ٹھہرے رہنے کاحکم دیا تھا۔ اس پر خالد نے کہا کیا تو اس آدمی کو پناہ دیتا ہے حالانکہ امیر میں ہوں۔ عمار کہنے لگے ہاں میں ا س آدمی کو پناہ دیتاہوںباوجود یہ کہ امیر آپ ہیں۔ اس معاملے میں دونوں کے درمیان تکرار ہوئی ۔ پھر وہ نبی اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس آدمی کے بارے میں انہیں بتایا۔ اس پر آنحضرتﷺ نے اس شخص کو امان دی اور عمار کی پناہ کو جائز قرار دیا اور آئندہ کیلئے انہیںامیر کی اجازت کے بغیر پناہ دینے سے منع کردیا۔ یعنی اس وقت تک جو ہوگیا ہوگیا لیکن آئندہ کیلئے منع کردیا۔راوی کہتے ہیں کہ عمار اور خالد آنحضرت ﷺکے سامنے جب جھگڑے تو عمار نے خالد کے ساتھ سخت کلامی کی اس پر خالد کو غصہ آگیا اور عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ اس غلام کو مجھے گالیاں دینے کی اجازت دے رہے ہیں۔ خدا کی قسم اگر آ پ یہاں نہ ہوتے تو یہ مجھے کبھی گالیاںنہ دے پاتا۔ عمار آزاد کردہ غلام تھے ۔ اس پر نبی اکرمﷺ نے فرمایا اے خالد! عمار کو چھوڑ دو۔ کیونکہ جو عمار کو گالی دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کی سزا دے گا اور جو عمار سے ناراض ہوگا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔ عمار کھڑے ہوئے اور چل پڑے تب خالد نے جاکر ان سے معافی مانگی اور اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ اولی الامر منکم کی اطاعت کیا کرو۔ اب اولی الامر منکم جو ساری کائنات پر حاوی ہے یعنی سارے زمین ۔۔۔ زمین و آسمان پر تو نہیں کہنا چاہیے اس وقت لیکن ساری دنیا پر کل عالم پر حاوی ہے اور ہر مضمون پر حاوی آیت ہے یہ اس جھگڑے کی وجہ سے نازل ہوئی تھی اور اس کی خبر ان صاحب کو ، کیا نام ہے ان کا؟ واحدی صاحب کو 478ھ سے پہلے پہلے پہنچ گئی تھی۔ ان کی ساری کتاب ہی اس مضمون پرمشتمل ہے۔ وہ روایات جن کاکوئی نام و نشان نہیں ملتا پرانے زمانے میں وہ 478ھ سے پہلے پہلے ان کے مرنے سے پہلے پہلے ایک دم نمودار ہوجاتی ہیں۔ اور ہر بات کی ان کو شان نزول کا پتہ ہے۔ پہلے علماء کو کوئی پتہ نہیں تھا۔ یہ کتابیں ہیں جن پرلوگوں نے انحصار کررکھا ہے۔ امام سیوطی صاحب فرماتے ہیں یاایھاالذین امنوا اطیعواللہ یہ اس کے بھی بعد آئے ہیں 911-849ہجری۔ اب یہ واحدی کے بعد کتنے سال بنتے ہیں؟ تین چار سو سال بعد آئے ہیں تقریباً۔ 400سال بعد آنے کے باوجود بخاری کی ایک روایت کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ سورۃ النساء باب قولہ واولی الامر منکم ذوی الامر۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ ابن حذافہ ابن فیض کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ اذ بعثہ النبی ﷺ فی سریۃٍ قضا اخرجہ مختصرا۔ کیوں جی بخاری کی جو آیت بخاری میں جس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے اصل میںیہی بات درج ہے جو انہوں نے لکھی ہے؟ کیا؟ ۔۔۔۔ اس میں ذکر ہے کہ رسول اکرم ﷺنے جب اس کو مقرر فرمایا تو یہ آیت نازل ہوئی؟ بخاری میں نہیں ہے ناں یہی میں پوچھ رہا ہوں۔ بخاری کی جس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں علامہ سیوطی صاحب وہ حدیث موجود ہے لیکن اس میں اشارہ بھی نہیں اس بات کا جو اس میں سے نکال رہے ہیں۔ بخاری کی حدیث میں صرف اتناہے کہ ان کوبھیجا تھا لیکن یہ ہرگز ذکرنہیں کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی اور اس تعلق میںنازل ہوئی ، یہ مختصر اشارہ کرکے استنباط اپنا کردیتے ہیںاور پھر بھی علماء کے زمرے میں شمار ہورہے ہیں۔اوربہت بڑے عالم کے طور پر اس زمانے کے علماء پر چھائے ہوئے ہیں۔ بڑا بھاری ظلم ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ جو میری طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے جو میں نے نہ کہی ہو اس نے جہنم میں اپنا گھر بنایا۔ اب یہ رسول اللہ ﷺکی بات کو منسوب کررہے ہیں ، ویسے تو بیشمار کرتے ہیں لیکن بہانے ہیں لوگوں کی روایات کے۔ یہاں جو واضح روایت ہے اس میں درج ہی نہیں ہے یہ بات ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اللہ ان کومعاف فرمائے، ان کی غلطیاں خلوص کی غلطیا ںہوں۔
یہ حدیث بہت سخت ہے جو میں نے پڑھی ہے مگر اس واقعہ پر اطلاق پارہی ہے ۔ مراد غالباً یہ ہوگی کہ جان بوجھ کر انہوں نے نیک نیتی سے کیا ہوگا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔دائودی نے اسی روایت کے حوالے سے اس بات پر یہ تبصرہ کیا ہے۔ ۔۔ یہ محض وہم ہے یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر افتراء باندھا گیا ہے کیونکہ عبداللہ بن حذافہ اس لشکر عظیم کے ساتھ نکلے تھے اور کسی بات پر ان کو طیش آگیا اور انہوں نے آگ جلائی اورلشکر سے کہا کہ اس میں کود جائو۔ پس بعض تو رکے رہے اور بعض اس فعل پر تیار ہوگئے۔ یہ محض لغو قصہ ہے اور حافظ ابن حجر نے اس کا جواب دیاہے کہ اس قصہ میں فان تنازعتم فی شیئٍ سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک طرف حکم کی بجاآوری میں اطاعت دکھانے اور دوسری طرف آگ سے بچنے کیلئے توقف کرنے پر آپس میں جھگڑے تھے او ریہ آیت نازل ہوگئی۔ یہ علامہ سیوطی کا قول ہے۔ کیوں جی سر پیر سمجھ آئی اس کی۔ تین الگ الگ واقعات شان نزول میں بیان ہوگئے ہیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور تینوں کے واقعات قابل قبول نہیں اورعلامہ سیوطی نے تینوں کو معتبر روایات کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات اس آیت میں بہت رہنما یعنی سمجھنے میں بہت رہنما یا رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: اگر حاکم ظالم ہوتو اس کو برا نہ کہتے پھرو۔ بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو۔ خدا اس کو بدل دے گا یا اس کونیک کردے گا۔ یہ ایک ایسی عادت ہے جو بدقسمتی سے اب جماعت کے اندر بھی جگہ جگہ نظر آنے لگ گئی ہے۔ اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو۔ مراد اس میں یہ نہیں ہے کہ برے کو برا نہیں کہنا۔ مراد یہ ہے کہ ہر انسان حاکم کے متعلق اپنا ایک نظریہ باقیوں سے الگ رکھ سکتا ہے اور اپنے معاملے میں اس کو ظالم سمجھ سکتا ہے۔ پس اگر تم سے ایسا ہو تو تمہیںہرگز یہ حق نہیں ہے ۔ یہ آیت کریمہ اس بات سے روک رہی ہے کہ اسے لوگوں میں برا کہتے پھرو اور یہ دعویٰ کرو کہ ہمارا تجربہ ہے، ہم نے اسے ظالم پایا ہے۔ اس لیے ہم اس کے ظلم کا اعلان کریں گے کیونکہ یہ امکان ہے کہ اس شخص نے غلطی کی ہو اور حاکم نے درست فیصلہ کیا ہو اور فیصلے جب خلاف ہوتے ہیں اس وقت لوگ بولتے ہیں۔میرے پاس انبار پڑا ہوا ہے ایسی شکایتوں کا کہ لمبا عرصہ اسی حاکم کی تعریفیں کرتے ہوئے گزر گئی ، اس کو اچھا کہا اور جب اپنے خلاف فیصلہ دیا تو بھڑک اٹھے ۔ تو اس آیت کریمہ سے یہ مضمون جو نکالا گیا ہے یہ بہت ہی اعلیٰ درجے کا مضمون ہے کہ اگر تمہیںاپنے حکام سے اختلاف ہو تو اس اختلاف پرتمہارے اپنے دل میں رہنا برا نہیں ہے یعنی اپنی ذات میں برا نہیں ہے لیکن یہ حق تمہیں نہیںپہنچتا کہ اپنی رائے کو عوام الناس میں پھیلائو اور حکام وقت کے خلاف بد اطمینانی پیدا کرو۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو یعنی صاف معلوم ہواکہ تمہاری اصلاح کی ضرورت ہوسکتی ہے۔اگر اصلاح ہوجائے تو تمہیں صاف بات دکھائی دینے لگے گی ۔ ردوہ الی اللہ والرسول کے یہ معنے بہت ہی عظیم الشان معنے ہیں۔ اس آیت کا اطلاق ہر صورتحال پر مختلف رنگ میںہوتا ہے لیکن یہ جو پہلو ہے کبھی کسی مفسر کو یہ نہیں سوجھا کہ (ردوہ الی اللہ و رسولہ) میں حاکم کے فیصلے کو اللہ اور رسول کے فیصلوں پر انطباق کرکے دیکھو اور اپنی اصلاح کیلئے کوشش کرو۔ بعید نہیں کہ تم اللہ اور رسول کے فیصلے سے دور ہو۔ جب تم وہاں لے جائو گے تو اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے اگر نیک نیتی سے کرو گے تو تمہاری اصلاح ممکن ہے ۔ لیکن اگر اس کی تشہیر کرتے پھرو گے تو پھر تمہاری اصلاح کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ اگر تم درست ہوئے (یہ بھی تو ہوسکتا ہے) تو اللہ کا فیصلہ یہ ہے خدا اس کو بدل دے گا یا اس کو نیک کردے گا۔ کیساعمدہ حل ہے مسائل کا اللہ نے اپنے اختیار میں جو لے لیا ہے (ردوہ الی اللہ ورسولہ) اللہ اوررسول پہ معاملے کو چھوڑ دو ۔ اس کا تیسرا معنی یہ نکلتا ہے کہ جب اللہ نے کہاہے کہ مجھ پر چھوڑ دو توپھر توکل کرو اور اللہ پر چھوڑ دو تمہارے نیک رویے کے نتیجے میں اگر تم صحیح ہو اور حاکم غلط ہے تو خدا اس کوبدل دے گا یا اس کو نیک کرے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو لاہوری فتنہ پھیلا تھا وہاں اسی مضمون کو آپ نے بیان فرمایا تھا اپنے متعلق میں۔۔۔ اپنے تعلق میں۔ آ پ بھی حاکم وقت تھے یعنی روحانی طور پر۔ آپ نے فرمایا کہ میرے بارے میں یہ جھگڑے چھوڑ دو کہ میں درست کررہا ہوں یا غلط کررہا ہوں ۔ جب تک میں حاکم ہوں اللہ کے حضور میںجواب دہ ہو۔ تمہارا کام اطاعت کرنا ہے اور اگر واقعتا میں ظالم ہوں تو پھر اللہ مجھے اٹھالے گا ۔ یہ جوہے نا بدل دے گا حاکم کو یا اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرمادیتا ہے یا اس کو دور کردیتا ہے ۔ تو بعض لوگوں کو دور اس لیے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان عہدوں سے وہ معزول نہیں کیے جاسکتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسا عمدہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں تم دعائیں کرو ، کوششیں کرو لیکن فتنہ پھیلانے کا حق نہیں ملے گا تمہیں۔ تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارا کیابنے گا اس حاکم کو تو ہم تبدیل کر نہیں سکتے۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تبدیل کرسکتا ہے یعنی ایسے شخص کو اس وقت وفات دے سکتا ہے جب وہ سمجھے کہ اس نے ایسی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ اس کے ماتحت لوگ بھگت رہے ہیں۔ تو یہ ایک بہت ہی پاکیزہ مضمون ہے۔ ہرگز خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ مراد نہیں تھی کہ تم سچے نکلو گے تو میںمارا جائوں گا۔ یہ صرف ایک مثال کے طور پر ان کے دلوں کو تسلی دینے کیلئے آپ نے فرمایا ہے کہ اس بات میں تسلی رکھو کہ اللہ سب کا حاکم ہے ۔ جب ا س کے سپرد معاملہ کرو گے تو وہ حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (یہ جو حوالہ تھا) یہ الحکم جلد 5صفحہ 9مورخہ 24؍مئی 1901ء صفحہ 9ہے۔
اب میں آپ کے سامنے یہ عرض کررہا ہوں کہ یہ ساری باتیں جو اللہ تعالیٰ مجھے سمجھارہا ہے یہ محض خلافت کا فیض ہے جو میں سمجھ رہا ہوں ۔ اس میں میری ذات کا کوئی ملکہ نہیں ہے کیونکہ میں نے آپ کو ہدایت دینی ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات سے مجھے آگاہی بخشی جاتی ہے جو آپ روزمرہ پڑھتے ہیں اور آپ کو سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہورہا ہے۔ سرسری معنوں میں لے لیتے ہیں۔ اب اس آیت کو علماء اپنے دلوں میں کھنگال کے دیکھیں، جگالی کرکے دیکھیں ۔ ان کو پہلے ان مضامین کی طر ف کبھی توجہ نہیں ہوئی ہوگی ۔ یہ خلافت پر اعتماد کی خاطر بیان کررہا ہوں نہ کہ اپنے نفس کی بڑائی کے طور پر۔ پھر فرمایا اطیعواللہ و اطعیوالرسول و اولی الامر منکم یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی تابعداری کرو۔ اولی الامر کا یہ معنی علماء کے اس معنے سے بالکل متصادم ہے جو کہتے ہیں کہ یہاں اولی الامر سے مراد مسلمان بادشاہ ہے اور وہ زور دیتے ہیں منکمپر کہ تم میں سے ہے۔ حالانکہ یہ عربی گرائمر سے نادانی کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ اطعیوالرسول و اولی الامر ۔۔۔ اولی الامر ایک ایسی ترکیب ہے ’امر کا مالک‘جو مضاف مضاف الیہ ہے اور عربی قائدہ ہے کہ مضاف مضاف الیہ کم کی طرف براہ راست منتقل نہیں ہوا کرتا یا اپنی طرف براہ راست منتقل نہیں ہوا کرتا۔ اب یہ مسئلہ چونکہ گرائمر کا پڑ گیا ہے اور پھر لوگ مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ آپ گرائمر کی باتیں کرتے ہیں اور ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں لیکن یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اسے مجھے بہرحال وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ہوگا۔ واولی الامر کا مطلب ہے امر کا مالک۔ اگر یہ کہنا ہو تمہارا۔۔۔ تمہارے امر کا مالک تو یہ نہیں کہہ سکتے اولی الامر کم یہ قاعدے کے خلاف بات ہے۔ اولی الامری نہیں کہہ سکتے اس میں بھی منی کہنا پڑے گا۔ یعنی مِنا یا مِنی جو بھی لفظ بنے گا۔ یہ نکتہ ہے جسے پلے باندھ لینا ضروی ہے۔ عربی گرائمر ہر گز اجازت نہیں دیتی اور قرآن کریم کا اسلوب اور احادیث کا اسلوب ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ اولی الامر کو کم کی طرف بغیر من کے منسوب کردو۔ منکم کا مطلب یہ نہیں ہے تم میں سے ہو۔ منکم کا مطلب ہے تمہارا۔ منا کا مطلب یہاں یہ نہیں ہے کہ ہم میں سے ہی ہو۔ منا کا مطلب ہوگا ہمارا۔ تو جب مضاف مضاف الیہ کو آپ اپنی طرف یاکسی غیر کی طرف منسوب کرنے لگیں گے تو عربی قاعدے کی رو سے اس میں کم یا نی یا نا وغیرہ کااستعمال ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ان کے درمیان من ڈالا جاتا ہے۔ پس یہ وہ من ہے جس کا مطلب یہ ہے تمہارا اولی الامر نہ کہ اولی الامر جو تم میں سے ہو۔ کیوںڈاکٹر صاحب! سمجھ آگئی ہے نا اس بات کی؟ سب کو باقیوں کو بھی؟ کسی کو شاید نہیں آئی پیچھے سے۔ کیوں جی؟ فرمائیے۔ جو حاضر ہیں اگر ان کو سمجھ نہ آئی تو جو غائب ہیں ان کو نہیں آنی۔ آپ کیا باتیں کررہے ہیں آپس میں بتائیں۔ آپ دونوں کیا گفتگو فرمارہے تھے؟ ابھی ایک دوسرے کی طرف جھکے تھے، باتیں، نہیں کررہے تھے؟۔۔۔ہیں؟۔۔۔ وہ کررہے تھے؟ یہ کیا ہورہا تھا پھر۔ بغیر بات کیے یوں ایک دوسرے کی طرف منہ۔ جس طرح مرغے چونچیں مارتے ہیں ۔ یہ کیا ادا تھی؟ ۔۔۔ منکم ۔۔۔ بات کو غور سے سن لیجئے۔ منگلا صاحب آپ بتائیں۔ آپ کو اگر سمجھ آگئی تو امید ہے کہ دنیا کو سمجھ آجائے گی۔ اس لیے کہ آپ کی زبان اور ہے اور آپ کو غور سے سننا پڑتا ہے۔ اب فرمائیے۔ آپ اس بات کو سمجھ گئے ہیں؟ (جی) کیا سمجھے ہیں؟ (تمہارا ہوگا ۔۔۔ تمہارا۔۔۔ تم میں سے نہیں)۔ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ بات ہے اس کو پلے باندھ لیں۔ ’’تمہارا‘‘ مراد ہے ’’تم میں سے‘‘ مراد نہیں ہے۔ دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے‘‘۔ یہاں اولی الامر تمہارا اولی الامر تم جیسوں میں سے ہونا ضروری نہیں جو روحانی طور پر تمہارا بادشاہ مقرر ہوگا اس کو اولی الامر منکم کہیں گے اور جو جسمانی طور پر بادشاہ ہوگا خواہ اس کا کوئی بھی دین ہو اس کو بھی اولی الامر ہی کہیں گے۔ اور فرمایا اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہوسکے وہ گویا ہم ہی میں سے ہے۔ یعنی اس کی اطاعت لازم ہے۔ تو جھگڑے سے مراد اگر کوئی دنیاوی بادشاہ دین کے معاملات میں ایسی دخل اندازی کرے کہ اس کے نتیجے میں امر اللہ کی طرف نہ پھر سکے اس کی طرف پھیرنا پڑے گا۔ مثلاً اس زمانے میں ہمارے بادشاہ جو پاکستان پر مسلط ہیں مختلف بھیسوں میں مسلط ہیں، انہوں نے جب بھی یہ فیصلہ دیا کہ نماز پڑھنا جرم ہے۔۔۔ احمدیوں کیلئے نما زپڑھنا جرم ہے، کبھی بھی احمدی اس جرم سے باز نہیں آئے۔ جب انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ لاالہ الا اللہ کہنا جرم ہے اور اس سے انکار ضروری ہے تو احمدیوں نے بلا استثناء ہمیشہ لاالہ الا اللہ کہا اور اس سے انکار نہیں کیا۔ پس یہ ہے اولی الامر منکم۔ ہم ان کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ کہاں تک؟ جہاں تک اللہ اور رسول کا قول ہمیںاجازت دیتا ہے، اس حدسے آگے نہیں بڑھتے اور اس کے نتیجے میں ہم ہر قسم کے مظالم کا شکار ہونے پر اپنے آپ کو آمادہ پاتے ہیں۔ کبھی بھی کوئی احمدی ایسا نہیں جس پر قانون کی تلوار لٹکی ہو اور اسے کہے کہ تم لاالہ الا اللہ کا انکار کردو اس نے اس کا انکار کیاہو۔ انہوں نے ایک اور بہانہ بنایا ہو اہے۔ وہ کہتے ہیں لاالہ الا اللہ منہ سے کہتے ہیں دل سے اس کا انکار کرتے ہیں۔ جب بھی تلوار چلی ہے ان کے اوپر اس جھوٹے دعوے کے نتیجے میں چلی ہے کہ ان کے منہ پر لاالہ الا اللہ ہے اور ان کے دل میں لاالہ الا اللہ نہیںہے۔ اب جو دل میں گھس کر دیکھتا ہے کہ لاالہ الا للہ ہے یانہیں ہے وہ کون ہے؟ وہ خدا۔۔۔ تو لاالہ الا اللہ کا انکار کردیا انہوں نے۔ یہ نکتہ جو ہے یہ سمجھنے کے لائق ہے۔ جونہی احمدی کو لاالہ الا اللہ کے انکار کامجرم قرار دیتے ہیں اس دلیل پر مجرم قرار دیتے ہیں جس دلیل کی رو سے وہ خود اللہ ہونے کا دعویٰ کریں اور اللہ کے دعویٰ کے بغیر وہ احمدیوں کو ملزم کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے تارڑ صاحب نے جو فتوے دیے ہوئے ہیں پہلے اور دوسرے ایسے ہی جنہوں نے ان کی بناء اس بات پر تھی کہ ہمارے نزدیک ہمیںیقین ہے کہ ان کے دل میں لاالہ الااللہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں حق ہے کہ ان کو (گردن زدنی) قرار دیں۔اور وہ کہتا ہے میرا دل میرے پاس ہے۔ احمدی کہتا ہے میرا دل میرے سینے میں دھڑک رہا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دل میں کیا ہے۔ اور میرا دعویٰ یہ ہے کہ سوائے اللہ کے میرے دل میں اور کوئی نہیں ہے۔ اس پر اگر کوئی جج یہ کہہ دے یا کوئی حاکم کہ تم جس کے سینے میں اپنا دل ہے تم اپنے دل کا حال نہیں جانتے یا جھوٹ بول رہے ہو۔ ہم تمہارے دل کا حال بہتر جانتے ہیں۔ یہ دعویٰ خدائی کا دعویٰ ہے اور یہ دعویٰ کرتے ہی ان کا لاالہ الا اللہ گیا۔ تو احمدیوں پر حملہ کر ہی نہیں سکتے سوائے اپنے دین پہ حملے کیے۔
یہ ثناء اللہ صاحب پانی پتی بھی اس مضمون پر روشنی ڈال رہے ہیں بسااوقات یہ اچھی باتیں کیا کرتے ہیں۔ 1225ھ میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ اور یہ حکم یعنی امیر کی اطاعت کا حکم مشروط ہے کہ جب تک شریعت کے خلاف نہ ہو۔ سیاق آیت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلے میں عدل کرنے کا حکم دینے کے بعد لوگوں کو اولوالامر کی اطاعت کرنے کاحکم دیا ہے۔ بہت اچھی بات یہ سمجھے ہیں۔ حالانکہ اس دور کے علماء عموماً رستے سے بھٹک چکے تھے، ان کو زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی باتوں کی۔ لیکن کہتے ہیں کہ عدل کا پہلے حکم دیاہے اور یہ حکم کلیتہً حاوی حکم ہے کسی صورت بھی اس کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ پس عدل کاتقاضا یہ ہے کہ اولی الامر کا حکم جب مالک کے حکم سے ٹکرائے یعنی اللہ کے حکم سے تو عدل کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی بات کو مانو اور اس کی بات کو چھوڑو۔ لیکن اس میں ایک اور بات کا انہوں نے اپنی طرف سے اضافہ کرکے اس مضمون میںرخنہ ڈال دیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی اطاعت اسی صورت میں ہے کہ وہ عدل پر قائم رہیں۔ یہ دوسر ا نکتہ ہے یہ بالکل غلط بات ہے ۔ ان کے عدل پر قائم رہنے کا فیصلہ کون کرے گا۔ ہر بادشاہ وقت کے عدل پر قائم ہونے کا فیصلہ اگر ہر کس و ناکس جو اس کی بادشاہی میں وقت گزاررہا ہے کرے تو ا س نتیجے میں فساد عظیم برپا ہوگا۔ پس سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلے کے اور کوئی فیصلہ بھی قابل اطلاق نہیں ہے کہ اگر دنیاکا ظاہری بادشاہ ہے جب تک تمہارے دین کو بدلنے کی کوشش نہ کرے خواہ ظلم کرے ، تمہیں اس کی اطاعت کرنا ہوگی اور روحانی بادشاہ تو بدلتا ہی نہیں اس لیے اس کی اطاعت تو ویسے ہی لازم ہے۔ اولی الامر سے مراد صاحب قدرت اور اہل علم ہیں۔ ایک یہ مضمون بیان ہوا ہے (کس کتاب میں؟( الحسبۃ فی الاسلام أو وظیفۃ الحکومیۃ الاسلامیۃ) یہ تو مصر کی چھپی ہوئی کوئی تازہ کتاب ہے ناں(۔۔۔۔) 1318ھ کی ۔ 1318ہجری (سن کونسا بنتا ہے؟) ہیں؟ یہ طباعت کا سن لگ رہاہے مجھے۔ کیونکہ (ابن تیمیہ) تو بہت پہلے کے ہیں۔ تو ایسے موقع پہ لکھ دینا چاہیے ساتھ۔ اسی نے مجھے مشکل میں ڈالاہوا ہے۔ ہے؟ معاف کرنا وہ میںنے دیکھا نہیں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے)۔ ابن تیمیہ کا حوالہ ہے ولادت 661ھ ہے یعنی 1263ء اور وفات 728ھ یعنی 1328ء ۔ 1928---1328 میںسے نکالیں تو کتنے سال بنتے ہیں؟ 600---700 ٹھیک ہے نا۔ تو 1328 ء جو ان کی وفات کا سال ہے وہ 28کے لحاظ سے میری پیدائش کا سال ہے اور مجھ سے بعینہٖ 600سال پہلے یہ وفات پاچکے ہیں۔ میری پیدائش سے پہلے مطلب ہے۔ ابن تیمیہ بہت زبردست عالم ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اب اس موقعے پر ان کا علم کس چیز کی طرف دلالت کررہاہے۔ فرماتے ہیںاللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنی اطاعت اپنے رسول کی اطاعت اور مومنین میں سے اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا اور اولوالامر سے مراد اصحاب الامر یعنی حکم دینے کی اہلیت رکھنے والے اور وہی لوگ ہیں جو لوگوں کوحکم دیتے ہیں۔ اور اس میں اہل قدرت و طاقت اور اہل علم و کلام دونوںشامل ہیں۔ یوں اولوالامر کی دو قسمیں بنتی ہیں۔ ایک علماء اور ایک امراء ۔ علماء تو یہ چونکہ خود بھی ماشاء اللہ بہت بڑے عالم ہیں ، عام علماء ان کی مراد ہو ہی نہیںسکتی کہ عام علماء کو اولوالامر کہہ سکتے ہیں ۔ علمائ۔۔۔ پس جب تک یہ ٹھیک رہتے ہیں سارے لوگ ٹھیک رہتے ہیں اور جب یہ بگڑتے ہیں تو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بنو اعمس) قبیلے کی ایک خاتون کے استفسار پر کہ ہماری یہ حالت کب تک رہے گی فرمایا ’’جب تک تمہارے آئمہ درست رہیں گے‘‘۔ پس دینی علماء اولوالامر اسی وقت تک کہلاسکتے ہیں جب تک وہ خدا کی نظر میں اپنے فیصلوں میںدرست ہوں اور اپنے استنباط میںدرست ہوں۔ دوسرا اولی الامر میں بادشاہ، مشائخ و دیگر ذمہ دار افراد اور ہر وہ شخص جس کی پیروی کی جاتی ہے شامل ہے۔ ان میں سے ہر ایک پر فرض ہے کہ وہ ان امور کا حکم دیںجن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ان امور سے منع کریں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ اب یہ جو بحث بدل کر پھر علماء دوبارہ دین کی طرف لے جاتے ہیں یہ اس کا ان کواس میں کوئی حق نہیں ملتا کیونکہ ایک دفعہ تسلیم کرلیا کہ ہر اولوالامر کا کہنا ماننا ضروری ہے تو اس سے کیا بحث ہے کہ وہ قرآن کے مطابق حکم جاری کرے کیونکہ ان اولوالامر لوگوں میںان کے نزدیک دہریہ، ہندو، عیسائی ، سکھ ہر مذہب کے اولوالامر شامل ہوجاتے ہیں۔ جب اولی الامر لفظ کو آزاد کرتے ہو اور پھر اس دنیاوی حکومت کی باتیں کرتے ہو تو یہ شرط کہاں سے ہوگئی کہ وہ مسلمان حاکم ہی ہوگا جبکہ خود تسلیم کرلیا ہے کہ یہ آزاد ہے۔ تو اس کے بعد یہ ترجمے درست نہیںٹھہرتے کہ اس کا فرض ہے کہ وہ یہ حکم دے۔ اس کا قرآن کی رو سے کوئی بھی فرض نہیں رہتا سوائے ایک کے کہ عدل سے حکومت کرے اور یہی اس آیت کریمہ کی روح ہے۔ اسی عدل کے بیان میں یہ نازل ہوئی ہے اور اسی لیے (ان تحکموا بالعدل) کا حکم ہے کہ حکام کا جہاں تک تعلق ہے وہ دنیادار ہوں ، دہریہ ہوں، جو مرضی بدبلائیں ہوںجب وہ حکومت کریں اگر وہ عدل کے ساتھ حکومت کریں گے تو وہ حکومت اسلام کی روح سے اس لائق ہے کہ اسے اسلامی حکومت قرار دیا جاسکے۔ یعنی طرز حکومت اسلامی ہے۔ اگر وہ عدل سے حکومت نہ بھی کریں گے تو تمہیں یہ حق نہیں ہے کہ ان کی اطاعت سے انکار کردو۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ جور کرنے والا ہو، ظلم کرنے والا حاکم ہو تو کیا پھر بھی ہم اس کی اطاعت کریں؟ آپ نے فرمایاہاں پھر بھی اطاعت کرو۔ اور بڑے جلال سے فرمایا ہاں پھر بھی اطاعت کرو۔ اگرچہ وہ غلاموں میں سے ہو ۔جس کو اہل عرب آزاد نیچا دیکھتے تھے اور افریقہ کا لفظ بھی آتا ہے اس میں یا ۔۔۔حبشی ہاں حبشی غلام ہو۔ اہل حبشہ کے جو غلام عرب میںآیا کرتے تھے ان کو خصوصیت کے ساتھ نیچا دیکھا جاتا تھا۔ اسی لیے بلال حبشی سے لوگوں کا یہ سلوک تھا۔ آپ نے فرمایا ہاں اگر وہ حبشی غلا م بھی ہو اور اس کا سر منقے کے برابر ہو۔ Raisinsجس کو انگریزی میں کہتے ہیں اس کے برابر سر ہو ، عقل سے عاری ہو، غلام بھی تمہارے نزدیک نہایت ادنیٰ درجہ کا اگر وہ تم پر حاکم مقرر ہے تو اس کی خلاف ورزی کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔
یہ ہے اولی الامر منکم اس حدیث نے اس آیت کی ایسی تشریح فرمادی ہے کہ اس کے بعد ملاّنے جو چاہیں شور مچاتے پھریں۔ رسول اللہ ﷺ کی اس تفسیر کے بعد ان کو کلام کرنے کا حق نہیں رہتا۔ ہر حاکم کی جب تک وہ حاکم ہے اطاعت فرض ہے سوائے اس کے کہ وہ تمہارے دین میں زبردستی دخل اندازی کرے اور اس کے احکامات کو توڑ نے کی کوشش کرے۔ پھر اس کا ظلم برداشت کرو پھر بھی بغاوت کا حق نہیں ہے۔ اسی لیے جب جماعت احمدیہ کے متعلق جب لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ تمہیں قرآن نے حق دیا ہے کہ ان کی اطاعت نہ کرو ۔مگر میں ان سے کہتا ہوں کہ یہ حق رسول اللہ ﷺ کو زیادہ علم ہے۔ ایسے امور میں ان کی اطاعت ہم پر فرض ہے جو قرآن سے متصادم نہیںہیں اور صرف ان امور میں ان کی اطاعت سے نکلنے کا حق ہے جو قرآن اور حدیث سے متصادم ہیں۔اس حق کو استعمال کرنے کے باوجود ان کے خلاف علم بغاوت کرنے کا کوئی حق نہ یہ آیت دیتی ہے نہ کوئی اور حدیث ہمیں دیتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم وہاں تلوار کی بغاوت نہیں کرتے کیونکہ قرآن نے ہمیں حق ہی نہیںدیا۔ رسول اللہ ﷺنے حق ہی نہیں دیا ہم کون ہوتے ہیں ان کے خلاف تلوار اٹھانے والے۔اس لیے بعض جوشیلے آدمیوں کو جو ملک چھوڑ کر باہر نکل گئے تھے اور زور دیتے تھے کہ ہمیں اجازت دو۔ میں نے کہا تم تلوار پکڑو اور بیشک حملہ آور ہوجائو ۔ مجھے افسوس ہوگا تمہاری حالت پر کہ تم نے حماقت سے کام لیا ہے۔ لیکن اگر تمہارے نزدیک قرآن کا امر پورا نہیں ہورہا تو وہاں بیٹھے بیٹھے تم اپنے آپ کو حقدار سمجھتے تھے تو ان کے خلاف آواز بلند کرو۔ جرمنی پہنچ کے کیوں خیال آیا اور اگر جرمنی پہنچ کے خیال آیا ہے تو پھر مجھ سے کیوں اجازت لیتے ہو۔ میراتو یہ مسلک ہی نہیں ہے۔ میرے نزدیک تو وہاں سے نکل جانا ایک احتجاج ہے اور اپنی کمزوری کی حالت کو تسلیم کرنا ہے اور ایسے ملک میںجانا ہے جہاں فراخی ہے ، جہاںہمارے دین میں دخل اندازی نہیں ہے یہ مقصد تھا، یہ تمہیں حاصل ہوگیا ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو الٹانے کا مقصد یہ تمہیں اگر حق ہے بھی تو طاقت نہیں ہے۔ کرکے دکھائو۔ ا س لیے اگر تم نے میری بات کا انکار کرنا ہے تو تلواریں پکڑو اور پاکستان کے جہاز پر چڑھو اور ایئر پورٹ پر جاتے ہی حملہ آور ہوجائو اور جو کچھ آئے رستے میں تہس نہس کردو۔ میں نے ایک ایسے شخص کو لکھا کہ اس کے نتیجے میں تم وہ سپین کے وہ پاگل کیا کہتے تھے اس شخص کو۔ہیں؟۔۔۔۔ کیا؟۔۔۔ (ہاںہاں پڑھیں) ریڈرک نہیں۔ وہ جو تلوار پکڑتا تھا او رہر چیز پر حملہ کردیتا تھا یہ میری دشمن ہے اور Wind-millسے ٹکراگیا تھا۔ اچھا بھلا نام مجھے یاد تھا ، ابھی ذہن سے اتر گیا ہے صبح، ابھی یاد آجائے گا۔ ایک جنونی ہے سپین کا جس کو انہوں نے اس قسم کا کیریکٹر بناکے پیش کیا گیا ہے جس قسم کے خطوط مجھے ملتے ہیں۔ اس کردار کے مالک کویہ دماغ میں بات آگئی تھی کہ میں ہرمخالف کو زیر کروں گا اور وہ کیساہی خوفناک مخالف کیوں نہ ہو۔ میر افرض ہے کہ میںاس سے ٹکرائوں اور اس معاملے میں میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔ چنانچہ اس کی کہانی لکھی گئی ہے۔ اسکے ساتھ ایک غلام بھی تھا وہ بیچارہ بھی ساتھ ساتھ ٹھوکریںکھاتا پھرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک Wind-Millکو اس نے دیکھا اور Wind-Mill کا آپ کو پتہ ہے نا جو ہوائی پن چکی ،ہون چکی۔ کیسی طاقتور چیز ہے،کس قدر زور سے گھومتی ہے۔ اس نے اپنے غلام کو کہا دیکھو کتنا بڑادشمن سامنے ہے لیکن میری جرأت کا تقاضا ہے، میں کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں، میرا فرض ہے کہ میں اس پہ حملہ کردوں۔ چنانچہ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور Wind-mill سے جاکے ٹکرایا اور بجائے اس کے کہ Wind-mill کو پارہ پارہ کرتا اس کے گھوڑے کے بھی ہوش اڑگئے ، ٹکڑے ٹکڑے بکھر گئے اور خود بھی وہ بڑی مشکل سے دور جاکر زمین پر گرا اور اپنی جان بچائی۔ یہ وہ سپین کا فرضی ایک ہیروہے۔ جس کی کہانی سب دنیا میںمشہور ہے۔ اور جیسا کہ ایک دفعہ مضمون ایک دماغ میں آجائے تو ہٹ کر دوسرانام بھی ذہن میں نہیںآیا کرتا یہ میری۔۔۔ ہاں Don Quixotes ڈان کے زوٹے، ڈان کویکزوٹ اس کو پڑھتے ہیں اردو میں اور سپینش میں ہے ڈان کے حوتے۔ وہاں ایکس جو ہے اس کو ایکس نہیں پڑھتے سپینش میں، اس کو ح پڑھتے ہیں یا خ سے ملتی جلتی ۔ تو اس کا تلفظ ہے ڈان کے خوتے اور ہمارے اردو میں اس کا نام ڈان کویکزوٹ ہے۔ تو ایسے Don Quixotes کو میں کہتا ہوں کہ مجھ سے اجازت نہ لو، اپنی مرضی کرو اور مجھے بتانا اگر تم بچے کہ ایئر پورٹ پہ تمہارا کیا حال ہوا تھا۔ ایئر پورٹ سے ٹکر لینا اور ہون چکی سے ٹکرلینا یہ ملتی جلتی باتیں ہیں (اوہو) اب یہ ہے ۔۔۔ ابن تیمیہ کی میں عرض کررہا ہوں بہت چوٹی کے عالم ہیں مگر ہمارے علماء کی یہ مجبوری ہے کہ جو کچھ انہوں نے اپنے حکومت کے دور میں ۔۔۔ اپنی غالب حکومتوں کے دور میں دیکھا اس کے مطابق انہوں نے بعض آیات کے ترجمے کیے ہیں اور وہ اس میں معذور اور مجبور تھے۔ ۔۔ کوئی خاص بات نہیں۔
علامہ شوکانی۔ یہ علامہ شوکانی کے بھی کئی حوالے میں دیتا رہتا ہوں ولادت 1173ہجری میںہوئی تھی اور وفات 1250ہجری میں ہوئی، 1250ہجری پہ کون سا سن بنتا ہے؟۔۔۔ اب کون سی ہجری ہے۔ 1418ھ تو 1250ھ کا مطلب ہے تقریباً پونے دو سو سال پہلے۔ ٹھیک ہے۔ علامہ شوکانی اتنی دیر کے بعد۔۔۔ میں ان کو بہت پرانا۔۔۔۔ اور پرانا سمجھا کرتا تھا۔ بہرحال علامہ شوکانی کومیں نے عموماً بہت عمدہ استنباط کرتا ہوئے پایا ہے۔ عموماً تو نہیں توکم سے کم بہت سی جگہوں پر ان کا استنباط عمدہ ہوتاہے۔ یہ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد آئمہ، بادشاہ اور قاضی ہیں۔ اس میں آئمہ کیلئے کسی مذہب کی شرط یہ نہیں لگاتے اور یہ مسلک ہمارا بھی ہے۔ یہ تو بیکار ہے۔۔۔ القاسمی چھوڑ دیں اس کو۔ اب القاسمی حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے یعنی تفسیر میں یہ لکھا ہو اہے اولی الامر سے مراد اہل حق امراء ہیں ۔ اب اہل حق کا جھگڑاپھر چل پڑا ۔ کیا پتہ کہ کون اہل حق ہے اور کو ن نہیں ہے۔ اب آگئے القمی شیعہ مفسر وہ کہتے ہیں اولوالامر سے مراد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیںبس۔ اطعیواللہ و اطعیواالرسول و اولی الامر منکم رسول اللہﷺ کو حکم ہورہا ہے یہ آیت آپ پر نازل ہوئی ہے کہ اے رسول اولی الامر کی اطاعت کر اور اولی الامر کون ہے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ یہی وجہ ہے غالباً یہ دل سے یہی سمجھتے ہیں۔ دل سے سمجھنے کے ساتھ میںنے غالباً پھر بھی احتیاطاًلگایا ہے۔ مگر واضح طور پر یہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اولی الامر جو فرمایا گیا ہے یہ اس سے بڑھ کر اطاعت ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اے محمد ﷺکس کی اطاعت کر، علی کی اطاعت کر۔ کیونکہ وہ اولی الامر ہے۔ غالباً اسی وجہ سے یہ غالی شیعوں میں یہ بات ملتی ہے اور ان کی کتب میں لکھی ہوئی ہے اور شیعہ جو مرثیہ کرنے والے لوگ ہیں کیا کہتے ہیں ان کو عزا دار ۔ذاکر ہاں وہ پاکستان میں اس سے پہلے کھلم کھلا اس طرح کی تقریریں کیا کرتے تھے اور گا گا کے بیان کرتے تھے کہ علی کا اولی الامر ہونا اتنا عظیم نکتہ ہے کہ تم سوائے اس بات کے اس کو سمجھ نہیں سکتے کہ جب معراج کی رات کو حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ مکے سے سفر کرتے ہوئے مارا مار بہت لمبی مسافتیں طے کرتے ہوئے آخر خدا کے حضور حاضر ہوئے ۔ یہ وہ مقام تھا جس سے پہلے قرآن کی رو سے جبرائیل کے پر بھی جلتے تھے۔ کوئی اور وجود نہیں تھا جو ان مقامات کو طے کرسکتا۔ لیکن جو وجود پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اس سے ایک غلطی ہوگئی اس نے اپنا ہاتھ باہر نکال دیا۔ تو حضرت۔۔۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ہیں علی؟‘‘ تم یہ تو تمہاری انگوٹھی ہے۔ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انگوٹھی سے پہچان لیاکہ اولی الامر کون ہے۔ یعنی خدا جو امر دیتا ہے وہ اصل تو اولی الامروہ ہے نا۔ تو رسول اللہﷺ پربھی علی حاوی تھے اور یہ راز رہا جب تک آپ مکے میں رہے اور یہ واقعہ ابتداء ہی کا ہے، نبوت کے آغاز کا واقعہ ہے۔ اس وقت سے مسلسل حضرت علی ہی اولی الامر بنے رہے ہیں اور گویا رسول اللہﷺ نے دیکھ بھی لیا اور اس کے باوجود اپنا امر ان پر چلاتے رہے ۔ اب یہ دیکھیں کیسی لغو بات ہے ۔لغو بات تو ہی ہے مگر انتہاء کی لغو بات ہے۔ اور اس کا عذر یہ پیش کرتے ہیں شیعہ علماء کہتے ہیں دراصل اب یہاں تو خدا بنایا ہے نا حضرت علی کو وہاں رسول اللہﷺ سے بڑھ کر مرتبہ اس طرح دیتے ہیں کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہ ﷺسے مشابہت تھی اور اسی طرح کا لباس پہنا کرتے تھے ، اسی طرح کی پگڑی ہوتی تھی تو جبرائیل ؑجب نبوت کی پہلی وحی لے کے آئے ہیں تو بجائے اس کے کہ حضرت علی کے پاس پہنچتے غلطی سے غار حرا میں پہنچ گئے ان کو اور کوئی ٹھکانہ ملا ہی نہیں۔غار حرا دیکھا تو انہوں نے کہا ہاں یہ وہی (علی)ہے۔ اور آپ کو تاج نبوت پہنادیا۔ بعدمیں پتہ چلا کہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ تو میں اناّ للہ ان کے حالت پر پڑھ رہا ہوں۔ یہ تو رسول اللہ ﷺتھے، محمد تو علی نہیں تھے۔ اس کے بعد پھر یہ معاملہ اخفاء میں ہی رکھا گیا۔آخر جبرائیل کی غلطی تھی کسی ایسے ویسے کی غلطی نہیںتھی۔ اس لیے اگر غلطی سے ایک شخص اولی الامر کی بجائے خود اپنے ہاتھ میں کسی کو فیصلہ لے کر امان دے دے تو اس کو تو آپ کہتے ہیں کہ چلو اجازت ہے تو اللہ پھر جبرائیل علیہ السلام سے کیوں یہ سلوک نہ کرے۔ اسی آیت کا مضمون ہے کہ اولی الامر کے اس صورت میں رسول اللہﷺ نے یہ مؤقف اختیار فرمایا کہ میرے مقرر کردہ امیر کے خلاف تمہیں از خود پناہ دینے کا حق نہیں ہے لیکن اگر غلطی سے دے دو تو پناہ جائز ۔ بعینہٖ اسی صورت کا اطلاق حضرت جبرائیل کی غلطی پر بدرجہ اولیٰ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جبرائیل سے کہے گا کہ بڑی تم نے خدمت کی ہے ، جب سے دنیا بنی ہے، جب سے نبوت جاری ہوئی ہے تم نے ایک بھی غلطی نہیں کی۔ ہمیشہ نشانے پہ پہنچے ہو۔ اب یہ اچھا تو نہیں لگتا کہ تمہاری ایک غلطی پر میںاتنا برا مناجائوں کہ اس غلطی کو کالعدم قرار دے دوں۔ جو ہوگئی سو ہوگئی۔ اب یہ جو چیز ہے۔۔۔۔ اگر یہ غلطی سے ایسا ہوگیا تو پھر حضرت علی واپس نیچے اتر آئے یہ نہیں سوچتے اگر غلطی سے دے دیا تھا اور اس غلطی کو تسلیم کرلیا گیا (ملائِ اعلیٰ) نے تو علی کی پوزیشن واپس نیچے زمین پہ آگئی۔ پھر وہ اولی الامر منکم کے نیچے ہوگئے۔ تو ان کے ایسے چکر ہیں جس میں لغویت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن بڑے بڑے علماء شیعہ ہیںجو اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں اور عقل نہیںکرتے، سوچتے ہی نہیں ان باتوں کو کئی ایسے ہیں جنہوں نے میرے درسوں میں اور خطبات میں ان امور کی وضاحت کے نتیجے میں بیعت کرلی ہے اور بڑے مضبوط احمدی مسلمان شمار ہورہے ہیں، بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے مجھے جنہوں نے ایسا کیا ہے مجھے خط میں لکھا کہ اس سے پہلے تو ہمیں کچھ سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔ جو آبائو اجداد سے سنتے چلے آتے تھے وہی ہمارا دین بن گیا تھا مگر آپ نے جس وضاحت سے استدلال کے ساتھ بات کی ہے تو اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں کہ آپ سچے ہیں اور ہم غلط جھوٹے ہوا کرتے تھے۔ تو پاکستان میں بھی جہاں شدید مخالفتیں ہوئی ہیں بعض ایسے لوگوں نے احمدیت میں داخل ہوکر ثبات قدم کا حق ادا کیاہے ، ان کی جائیدادیں لٹ گئی ، ان کے رشتے توڑے گئے لیکن وہ قائم رہے۔ انہوں نے کہا جب حق ہمارے پاس آگیا ہے اب ا سکے بعد ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ واپس اپنے پہلے دین کی طرف لوٹ جائیں ۔ پرانے علماء نے بھی اس جھگڑے کو اٹھایا ہے اور بحر محیط کے جو مصنف ہیں انہوں نے قطعیت سے ثابت اپنے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اولی الامر منکم سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد نہیں ہیں۔ ایک بہت عمدہ استدلال انہوں نے کیا ہے اس بات سے یعنی جو میں نے استدلال کیا ہے وہ الگ ہے لیکن یہ بھی ایک بہت اچھا نکتہ ہے۔ وہ کہتے ہیں امراء او رفقہاء سے خود اس آیت کی رو سے غلطی اور سہو ممکن ہے اور ان کی غلطی کی وجہ سے تم اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاتے ہو۔ اگر اولی الامر منکم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں تو ماننا پڑے گا کہ ان سے سہواً و خطا ممکن ہے۔ اور تم جس امام کاتصور پیش کرتے ہو وہ سہو و خطا سے بالا ہے۔ تو خود تمہارے امامت کے تصور سے یہ عقیدہ متصادم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ امام ہیں۔ یہ بہت اچھا نکتہ انہوں نے استعمال کیاہے۔ کہتے ہیں ایک طرف امام کوغلطی سے مبرّأ دوسری طرف اس مقام پر اس کو امام مان رہے ہو جس کے متعلق یہ امکان ہے ، یہ احتمال ہے کہ اس نے غلطی کی ہو۔ فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللہ ورسولہ اس کا اس آیت سے وہ استدلال کررہے ہیں اس کا ۔ اگر یہاں پر واجب الاطاعت امام مراد ہوتا تو اس کی طرف معاملہ لے کر جانا واجب ہوتا اور وہی تنازعہ کا فیصلہ کرتا۔ ان تنازعتم فی شیئً فردوہ الی اللہ و رسولہ کی بجائے اسے امام کی طرف جانا چاہیے تھاکہ جو اولی الامر منکم ہے ، اس کی طرف فیصلہ لے کے جائو۔ اس کو تو بھلا ہی دیا۔ جب جھگڑا چلا تو اللہ اور رسول کی طرف لے گئے تو وہ واجب الاطاعت کہاں سے ٹھہراپھر اس کو واجب الاطاعت قرار دے کر فیصلے کا وقت آیا تو وہ اس سے چھین لیا۔ یہ استدلال ہے جو انہوں نے بڑی مضبوطی سے کیا ہے۔(کیا؟ اچھا جی معاف کرنا) یہ بحر محیط کی بحث جاری ہے اس کو باقی میں نے کہا تھا نا اس کو کچھ وقت لگے گا۔ ابھی اور بھی بعض آنے والی ہیں روایات۔ یہ آپ اٹھالیجئے۔
 
Top