• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

درس بخاری ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ۔ حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
درس بخاری ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ۔ حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ عنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹس بخاری جلد اول پہلے تین پارے
درس از حضر ت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ
مرتبہ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
صحیح بخاری پر نوٹ
صحیح بخاری کا درجہ
صحیح بخاری امام محمد بن اسماعیلرحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب ہے ۔ قرآن مجید کے بعد نہایت بابرکت اور قابل قدر اور واجب العمل ہے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی اس کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب قرار دیا ہے۔ اور میں بھی بحمد للہ اس پر یقین رکھتاہوں۔ میں نے صحیح علم اور خداداد شعور سے اس کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہی پایا ہے۔ اس لیے میں علی وجہ البصیرت اس کی شہادت دیتاہوں۔
بخاری نے اپنی صحیح کو کیسے شروع فرمایا؟
امام بخاری نے اپنی صحیح کو بدأ الوحی سے شروع فرمایا ۔ کیونکہ اسلام کا مدار وحی پر ہے۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ابتداء اور اس کی تکمیل وحی سے ہوئی ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کو وحی سے شروع کیا۔
امام بخاری کی روایت میں خصوصیت
امام بخاری کو اہل بیت سے بڑی محبت تھی۔ اس لیے وہ اپنی صحیح کو اہل بیت کی روایت سے شروع کرتے ہیں اور اہل بیت میں سے بھی انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکو منتخب کیا۔
حضرت عائشہ نوجوان تھیں واقعات کو محفوظ رکھ سکتیں تھیں۔ اور ان کو بے تکلف بیان کر سکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص فہم اور سمجھ عطا فرمائی تھی۔ پس امام صاحب اپنی روایت کو اہل بیت اور اہل بیت میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے لیتے ہیں۔
کیف بدء الوحی
وحیکا ابتداء یا اسلام کا ابتداء کیونکر ہوا۔ اس کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی روایت کے موافق یوں بیان کیا۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حارث بن ہشام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ قسم وحی کی مجھ پر سخت ہوتی ہے۔ پھر یہ حالت دور ہو جاتی ہے۔ اور جو کچھ کہ فرشتہ نے کہا ہوتاہے میں اس کو اخذ کر چکا ہوتاہوں۔اور کبھی فرشتہ متمثل ہو کر آدمی کی صورت میں مجھ سے کلام کرتاہے۔ پس میں یاد کر لیتاہوں۔ جو کچھ وہ مجھے کہتاہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بتاتی ہیں کہ سخت سردی کے دن آپ پر وحی اترتی دیکھی ہے کہ باوجود سخت سردی کے آپ کی جبینِ مبارک سے پسینہ بہنے لگتا۔
وحی نبوت
چونکہ وحی کبھی جمادات کو بھی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا بان ربک اوحی لھا۔ (الزلزال:) اور کبھی آسمانوں کو بھی ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا واوحیٰ فی کل سماء امرھا ُ(سورۃ فصلت:۱۳)اور کبھی حیوانات کو بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ فرمایا۔ واوحی ربک الی النحل (النحل:۶۹) اور کبھی عورتوں کو بھی ہو جاتی ہے ۔ اوحینا الی ام موسی (قصص:۸)اور کبھی ان لوگوں کو بھی ہو جاتی ہے جو خدا تعالی کے پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ فرمایا۔ واذا وحیت الی الحواریین (المائدہ ) وحی نبوت کو ممتاز کرنے کے لیے قرآنِ مجید کی اس آیتِ شریفہ کو امام صاحب لائے ہیں۔ اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین …… الخ
وہ وحی نبوت جو حضرت نوح اور ان کے بعد انبیاء علیہم السلام پر ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہوئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء کس طرح ہوئی اور اللہ بزرگ وبرتر کا ارشاد ہے انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح والنبیین ۔ یعنی بے شک ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح پر نوح اور ان کے بعد کے نبیوں پر وحی بھیجی تھی۔
۱۔ حمید ی نے سفیان کی روایت سے اور سفیان نے یحی بن سعید انصاری کی روایت سے بیان کیا جس نے کہا کہ مجھ کو محمد بن ابراہیم تیمی نے بتایا جس نے علقمہ بن وقاص سے روایت کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمام اعمال (ارادی کا موں کا ) کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے موافق ہی بدلہ ہے پس جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے ہو گی یا کسی عورت سے نکاح کے لیے تو اس کی ہجرت اسی کے لے ہے جس کی طرف اس نے ہجرۃ کی ۔
۲۔ عبد اللہ بن یوسف نے مالک بن ہشام بن عروۃ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے بواسطہ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کی حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے۔ اور جو کچھ کہ فرشتے نے کہا ہوتاہے میں اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں متمثل ہو کر مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں یاد رکھتا ہوں جو کچھ وہ کہتا ہے ۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے یقینا سخت سردی والے دن آپ پر وحی اترتے دیکھی ہے کہ باوجود اس شدت سردی کے آپ کے جبین مبارک سے پسینہ بہتاتھا۔
۳۔ یحی بن بکیر نے لیث سے لیث نے عقیل سے اس نے ابن شہاب سے اس نے عروہ بن زبیر سے اس نے عائشہ ام المومنین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہ جس امر سے رسول اللہ پر وحی کی ابتداء ہوئی وہ رئویا صالحہ تھی جو حالت نیند میں ہوئی تھی۔ اور جو خواب آپ دیکھتے تھے وہ صبح روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا۔ پھر آپ کو خلوت گزینی کی محبت دی گئی اور آپ غار حراء میں خلوت فرمایا کرتے تھے۔ اور آپ تحتث کیا کرتے ۔ یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس آنے کے بدوں کئی رات تک لگاتار عبادات کرتے رہتے تھے۔ اور اتنا عرصہ کے لیے آپ خوراک لے جایا کرتے تھے پھر (ختم ہونے پر ) خدیجہ کے پاس واپس آتے اور پھر اسی مقرر خوراک لے جاتے یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آگیا اور آپ غار حرا میں تھے ۔ پس آپ کے پاس فرشتہ آیا فرشتہ نے کہا کہ پڑھو۔ آپ نے جو اب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں آپ نے فرمایاکہ فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے بھینچا ۔ یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا پھرکہا کہ پڑھ میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیںپھر تیسری مرتبہ مجھے پکڑا اور بھینچا اور چھوڑ دیا اور پھر کہا اقراء باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق ۔ اقراء وربک الاکرم ۔ یعنی اپنے خالق رب کے نام کی تبیلیغ دنیا میں کر وہ خالق رب جس نے ایک حقیر جونک جیسے کیڑے سے جو منی میں پیدا ہوتا ہے الانسان بنایا۔ ہاں پڑھ اور تبلیغ کر اور خوف نہ کر۔ تیرا رب اکرم ہے۔ رسول اللہ اس وحی الہی کے بعد واپس آئے اور آپ کا دل دھڑکتاتھا۔ پس آپ نے خدیجہ بنت خویلد کے پاس آئے اور کہا مجھے کمبل اوڑھا دو۔ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ ان لوگوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا یہاں تک کہ جب آپ کا دل ٹھکانے آیا تو آپ نے خدیجہ کو سب حال جو کہ گزرا سنایا اور کہا بے شک مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہ نے کہا بخدا ہرگز نہیں آپ کو اللہ تعالی کبھی بھی ناکام نہیں کرے گا۔یقینا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور دکھیاروں کے دکھوں کو آپ اٹھاتے ہٰں جو خیر کہیں نہیں ملتی وہ تیری صحبت مں مل سکتی ہے۔ تو مہمان نوازی کرتا ہے اور پاک ضرورتوں میں مدد گار بنتاہے۔
پھر خدیجہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی اپنے چچا زاد کے پاس لائیں اور وہ ایک شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گیا تھا اور عبرانی میں کتابت کیا کرتاتھا۔ پس وہ انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتاتھا جس قدر کہ اللہ کو منظور ہوتاتھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ نظر کمزور ہو گئی تھی پس اس کو خدیجہ نے کہا اے میرے عم زاد بھائی اپنے برادرزادہ سے اس کی کیفیت سن ۔ ورقہ نے کہا اے میرے برادرزادہ تم کیا دیکھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اس سے بیان کر دیا ورقہ نے سن کر کہا کہ یہ ناقوس (فرشتہ)ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسی پر نازل کیا اے کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کو آپ کی قوم (مکہ سے )نکالے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکالیں گے۔ ورقہ نے کہا ہاں۔ ایسا کوئی شخص نہیں آیا جو آپ جیسی بات لے کر آیا ہو جس کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو اور اگر میں آپ کے ایام نبوت میں ہوا تو آپ کی بہت مدد کروں گا۔ پر تھوڑے ہی دنوں بعد ورقہ مر گیا اور وحی بند ہو گئی۔
ابن شہاب نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بند ہونے کا ذکر فرماتے تھے اسی بیان میں فرمایا کہ ایک دن میں جارہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی پس میں نے نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا میں نے دیکھ اکہ زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں ڈر گیا اور واپس گھر آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ مجھے کمبل اوڑھا دو۔ اس پر اللہ نے یہ وحی نازل فرمائی یایھا المدثرo قم فانذرoوربک فکبرoوثیابک فطھرo والرجز فاھجر(سورۃ المدثر:۱تا۵) یعنی اے کپڑے میں لپٹ پڑنے والے اٹھ۔ اور اپنی گمراہ قوم کو مخلوق پرستی و بد اعمالی کے نتیجوں سے جو اس دنیا میں اور اس سے گزرنے کے بعد پیش آنے والے ہیں ڈر اور بت پرستوں کے میں جو اپنے ناچیز بتوں کی بڑائی اور تو یقین کرتاہے اپنے خدا قادر مطلق کی عظمت و بزرگی ظاہر کر اور پاکی اور پاک دامنی اختیار کر اور شرک و بت پرستی اور ہر قسم کی نجاست و ناپاکی سے اپنے آپ کو بچا۔ پر وحی کی آمد گرم ہو گئی اور لگا تار آنے لگی۔ اور اس روایت کو عبداللہ بن یوسف و ابو صالح اور ہلال بن رداد نے زہری سے روایت کیا ہے ۔یہاں تک سیٹنگ ہوئی ہے۔
کہ آپ ایک عظیم الشان نبی ہونے والے ہیں۔
مکہ سے ہجرت : ورقہ نے بتایا ہے کہ آپ کی قوم مکہ سے آپ کو نکالے گی یوں تو انبیاء علیہم السلام کے لیے کچھ نہ کچھ ہجرت ضروری ہوتی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو ورقہ نے کہا تو وہ کتب سابقہ میں اس بشارت کو دیکھ چکا تھا۔ چنانچہ یسعیاہ ۱۳؍۲۱ سے جو پیشگوئی شروع ہوتی ہے وہ صاف ہے جس میں لکھا ہے۔ ’’عرب کی بابت الہامی کلام ‘‘ ’’عرب کے صحر ا میں تم رات کاٹو گے اے دوانیوں کے قافلو پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو ۔ اے تیما کی سرزمین کے باشندو روٹی لے کے بھاگنے والے سے ملنے کے لیے نکلو‘‘
غرض ورقہ کی پیشگوئی کی مکالمہ الہیہ کی بناء پر نہ تھی بلکہ کتب سابقہ کے علم اور انبیاء علیہم السلام کے حالات کی واقفیت پر تھی جب کہ آگے اس نے خود بیان کیا کہ ایسا کوئی شخص نہیں آیا جو آ پ جیسی بات لے کر آیا ہو اور اس کے ساتھ دشمنی نہ کی گئی ہو۔
فترۃ الوحی: وحی کا آنا رک جانا۔
۴۔ موسی بن اسماعیل نے روایت کی ہے کہ ابو عوانہ نے بیان کیا بواسطہ موسی بن ابی عایشہ اس نے سعید بن جبیر کے ذریعہ بیان کیا کہ ابن عباس سے اللہ تعالی کے کلام لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ کے متعلق روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے نازل ہونے پر سخت محنت اٹھاتے تھے۔ اور اپنے دونوں ہونٹ جلد جلد ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جاوے) ابن عباس نے کہا میں اپنے دونوں ہونٹوں کو اسی طرح ہلاتاہوں جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہلاتے تھے اور ابن سعید نے کہا کہ میں اسی طرح (تمہارے سمجھانے کو ) اپنے ہونٹوں کو ہلاتا ہوں جس طرح پر ابن عباس کو ہلاتے ہوئے دیکھا پھر سعید نے اپنے ہونٹوں کو ہلایا (مختصرا )اللہ تعالی نے یہ وحی آپ پر نازل کی لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرآنہ ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ تو اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کر تاکہ جلدی جلدی قرآن کو یاد کر لو یقینان اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے یہ مراد ہے کہ تمہارے سینہ میں اس کو جمع کر دینا اور پھر اس کو تمہارا پڑھنا۔ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ۔ ابن عباس کہتے ہیں کیعنی اس کو سنو اور چپ رہو۔ یہ ہمارے ذمہ ہے کہ اس کا مطلب بھی سمجھا دیں۔ پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے کہ تم اس کو پڑھ لو۔
اس وحی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ جب آپ کے پاس جبرائیل آتے تھے تو آپ سنتے تھے جب جبرائیل چلا جاتا تو آپ اسی طرح پڑھتے تھے جس طرح پر جبرائیل نے پڑھا تھا۔
حاشیہ حدیث نمبر ۴: حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے کمال کا پتہ لگتا ہے کہ کس طرح پر آپ نے بدء الوحی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبا ت اور قرآن مجید کی حقیقت پر بحث کی ہے اس حدیث میں تاریخی شہادت سے قرآن مجید کی حفاظت اور صحت کو ایسا واضح کیا ہے کہ کوئی شخص توڑ نہیں سکتا۔ یہ آیت قرآن مجید کے جزو ۲۹ سورۃ القیامۃ میں ہے اور یہ آیت قرآن مجید کی جمع و ترتیب کی تاریخ کی ایک کلید ہے اس سے رد رفض اور ان لوگوں کا سخت رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم معاذ اللہ بیاض عثمانی ہے کیونکہ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا جمع کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھا دینا اللہ تعالی کا اپنا کام ۔ لہذا یہ ایک ثابت شدہ صداقت ٹھہری کہ جمع قرآن شریف مع ترتیب آیات و سور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی وحی سے عمل میں آیا جس طرح پر قرآنی آیات کی وحی کا نزول ہوا ۔ اس طرح پر وحی الہٰی پونے کی ترتیب اور جمع بھی آپ ہی کی (خاکسار مرتب نے اس آیت کی تفسیر ربط کے ساتھ بحمد للہ پارہ ۲۹ کی تفسیر میں کی ہے جو شائع ہو چکی ہے)۔
اس آیت کی زیر تفسیر سورۃ طٰہٰ کی یہ آیت بھی کرتی ہے ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ (سورۃ طہ:۱۱۵)پھر اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں قرآن مجید کی حفاظت کی پیشگوئی بھی ہے جو آج تک پوری ہو رہی ہے کیونکہ اگر انسان کا کام ترتیب اور جمع ہوتا تو اس میں کسی نہ کسی وقت فرق آجانا ممکن تھا مگر اس حدیث نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تکفل خود کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفاظت وحی کے لیے کیسے حریص تھے۔ ابن عباس اور سعید نے خود وہ حالت دکھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ اور یہ بھھی کہ اس حفاظر اور تلاوت وحی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف اٹھاتے تھے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا۔ یہ حدیث شیعہ پر خصوصا حجت ہے کیونکہ ابن عباس سے روایت ہے جو ان کا مسلم نہ اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کی محنت اور کوشش کا پتہ چلتاہے ۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء ۔
۵۔ عبدان نے عبداللہ سے اس نے انس سے اس نے زہری سے اور بشربن محمد نے عبداللہ سیاس نے انس سے اور ثمر نے زہری سے ایسا ہی اس نے کہا کہ مجھے عبد اللہ ن عبد اللہ نے بذریعہ ابن عباس روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے کہ ایک خوش ہوتے تھے اور تمام دنیوں سے زیادہ آپ رمضان میں سخی ہوتے تھے جب کہ آپ جبرائیل کو ملتے تھے اور رمضان کی ہر رات کو آپ سے ملتے تھے اور قرآن شریف کا دورکرتے تھے۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (شفقت علی خلق اللہ کے لیے )ہو ایسے بھی زیادہ تیز سخاوت میں رہتے تھے۔
۶۔ ابوالیمان الحکم بن نافع سے روایت ہے۔ کہ ہم کو شعیب نے زہری کے ذریعہ سے بتایا کہ مجھے عبد الہ بن عبداللہ نے خبر دی کہ جس نے عتبہ بن مسعود سے سنا جس کو عبد اللہ بن عباس نے خبر دی اور اس کو ابا سفیان بن حرب نے بتایا کہ ہرقل (شاہ روم )نے اس کے پا س ایک قاصد بھیجا اور وہ اس وقت قریش کے چند سواروں میں تھے جو کہ ملک شام میں بطریق تجارت گئے ہوئے تھے۔
پس وہ سب اس کے پاس آئے ایلیا (بیت المقدس) میں آئے ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور اس کے ارد گرد رئوساء روم موجود تھے ۔ پھر اس نے ان سب قریش کو بلایا اور اپنے ترجمان کو بھی بلایا اور اس نے پوچھا کہ تم میں سے سب سے زیادہ اس شخص کا (جو مدعی نبوت ہے ) قریب النسب کون ہے؟ ابو سفیان نے کہا کہ میں اس سے رشتہ میں قریب تر ہوں۔ ہرقل نے حکم دیا کہ اس کو میرے قریب کر دو اور اس کے اتھ والوں کو بھی اس کے پیچھے ہی قریب رکھو پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان کو کہدو کہ میں ابو سفیان سے اس شخص کا حال پوچھتا ہوں پس اگر یہ میرے سامنے جھوٹ بیان کرے تو تم اس کی تکذیب کر دینا ابو سفیان کہتے ہیں کہ قسم بخدا اگر مجھے اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ مجھ سے جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے تو میں اس کے سامنے ضرور جھوٹ بیان کرتا۔
(حاشیہ حدیث نمبر ۵)
اس حدیث کو بھی مختلف واسطوں سے ابن عباس نے روایت کیا ہے ان میں مختلف لوگوں نے ابن عباس تک اس کو پہنچایا ہے۔ یہ حدیث جہاں ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا اظہار کرتی ہے وہاں قرآن مجید کی حفاظر پر دلیل ہے۔ حدیث نمبر ۴ میں یہ تو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں اور خارجا ققرآن مجید کے جمع اور قرآن اور بیان کا وعدہ اللہ نے خود کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد اختتام وحی اس کو اسی طرح پڑھ دیتے جیسے جبرئیل پڑھتے تھے۔ یہاں یہ بتایا کہ رمضان کی ہر رات کو جبرائیل آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا تدارس کرتے اور اس طرح پر قرآن کریم محفوظ رہا۔ اس سے پایا جاتاہے کہ خصوصا رمضان شریف میں قرآن کریم کا دور اور غور ضروری ہے کیونکہ رمضان کو نزول قرآن سے ایک خاص مناسبت ہے اس لیے رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر تدبر حقانی و معاف قرآنی کریم کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ چونکہ یہ ایک فضل تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس نعمت کے شکریہ میں شفقت علی خلق اللہ کے لحاظ سے بڑی سخاوت کرتے تھے اور یوں تو ہے ہی سخی تھے ایسے سخی جو دوسروں پر عطا کرکے خوش ہوں مگر رمضان میں آپ کا یہ جودوسخا پھر اس سے بھی زیادہ تیز ہوتاکیا مطلب آپ بہت سخاوت کرتے تھے۔
حاشیہ حدیث نمبر ۶
اس حدیث کو اس بات میں درج کرنے کی وجہ ظاہر ہے کیونکہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے باب بدء الوحی سے مقصود یہی رکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبات اور قرآن مجید کی حقانیت ظاہر ہو اس لیے یہ ضروری امر تھا کہ اس حدیث کو جو اس مطلب کی زبردست مرید ہے اس باب میں بیان کیا جاتا۔ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں پہلا امر تنقیح طلب آپ کی لائف قبل از نبوت قرار دی ہے اور اس کے لیے خدیجۃ الکبری کی شہادت پیش کی ہے جہاں وہ آپ کے فضائل مخصوصہ کی شہادت دیتی ہیں ۔ پھر آپ کی سیرۃ بعد النبوت کو ابن عباس کی روایت سے پیش کیا کہ آپ اجود الناس تھے ۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ آپ کی غرض ادعائے نبوت سے حصول زر نہ تھا اگر یہ مقصد ہوتا تو آپ اجودالناس نہ ہوتے۔ پھر تیسری دلیل ابوسفیان کی شہادت ہے جو اس نے آپ کے دعویٰ نبوت پر آپ کی زندگی قبل نبوت اور ھالات بعد نبوت پر دی ہے۔ یہ شہادت ایسی معتبر ہے کہ جو ہرقل کے سامنے شہادت دے رہے ہیں تو وہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ بولنے تک کو تیار رہتے پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل اور کمالات سے یہ شخص واقف نہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ وہ خود مسلمان ہوتا۔ پس یہ ایک نہایت ہی قیمتی شہادت اثبات نبوت پر ہے۔
ہرقل: (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نسب کیا ہے؟
ابوسفیان: وہ نجیب الطرفین ہے۔
ہرقل : کیا تمہاری قوم میں اس سے پہلے بھی کسی نے پہلے بھی یہ بات کہی ہے (دعوی نبوت کیا ہے؟)
ابوسفیان : نہیں ۔
ہرقل: کیا اس کے آبائو اجداد میں کوئی بادشاہ ہو گزرا ہے ؟
ابوسفیان : نہیں ۔
ہرقل : کیا امیر لوگ اس کو عموما اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں یا غریب لوگ؟
ابوسفیان : ضعیف لوگ ہی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ہرقل : کیا وہ دن بدن بڑھتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں ؟
ابوسفیان : بلکہ زیادہ ہوتے ہیں۔
ہرقل: کیا کوئی ان کے دین میں کامل طور پر داخل ہونے کے بعد ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے ؟
ابوسفیان : نہیں۔
ہرقل: کیا اس دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ کا الزام دیا؟
ابوسفیان:نہیں ۔
ہرقل : کیا وہ عہد شکنی کرتاہے ؟
ابوسفیان:نہیں ۔ اور اب ہم ان کی مہلت میں ہیں نہیں جانتے کہ وہ اس عرصہ میں کیا کرے گا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ اس حکم کے سوا اور کچھ بھی مجھے اضافہ کا موقع نہیں مل سکا۔)
ہرقل : کیا تمہاری اس کی جنگ ہوتی ہے ؟
ابوسفیان : ہاں
ہرقل :تمہاری لڑائی کا کیا انجام ہوتاہے ؟
ابوسفیان : ہمارے اور اس کے درمیان لڑائی کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ کبھی ہم جیت جاتے ہیں اور کبھی ہو۔
ہرقل: وہ تمہیں کیا حکم دیتاہے؟
ابوسفیان:خدائے واحد کی عبادت کرو۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کچھ تمہارے باپ دادا شرک کی باتیں کیا کرتے تھے چھوڑدو۔ اور ہم کو نماز پڑھنے اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔
اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان کو کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دو کہ میں نے تم سے اس کے نسب کا سوال کیا تو تم نے بتایا کہ وہ ہم میں نجیب الطرفین ہے اور تمام رسول اپنی قوم میں عالی نسب ہوتے ہیں۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا تو کیا تم میں سے کسی اور نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا تو تم نے بتایا کہ نہیں میں نے یہ خیال کیا تھا کہ اگر کوئی اور انسان پہلے یہ بات کہہ چکا ہو تو میں کہوں گا کہ وہ صرف پہلی بات کی تقلید کرتے ہیں جو اس سے پہلے کہی گئی۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے آباء واجداد میں کوئی بادشاہ تھا تو تم نے کہا نہیں میری غرض اس میں یہ تھی کہ اگر ان کے آباو اجداد میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہوں گا کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو اپنے باپ کی ملاک کا طالب ہے اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ اس دعوٰی سے پیشتر کبھی تم نے ان پر جھوٹ کا الزام لگایا تم نے کہا نہیں پس میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو لوگوں پر جھوٹ بولنا چھوٹ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے پھر میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے آدمی اس کی متابعت کرتے ہیں یا ضعفاء ۔ تو تم ے کہا کہ غریب لوگ اور دراصل غریب آدمی ہی پیغمبروں کے پیروہوا کرتے ہیں۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ ان کی جماعت بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے تو تم نے جواب دیا کہ وہ بڑھ رہی ہے اور دراصل ایمان کا بھی یہی حال ہے یہاں تک کہ اس کی تکمیل ہو جائے۔ پھر میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی شخص بعد اس کے جو کامل طور پر دین میں داخل ہو چکا ہو اس سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے بتایا کہ نہیں اور دراصل ایمان کا یہی حال ہے جب اس کی بشاشت دل کو مل جاوے پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں تم نے کہا نہیں۔ اور یہ بات یہی ہے کہ انبیاء ورسل اسی طرح وعدہ خلافی نہیں کرتے اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہٰں کیا حکم دیتاہے تو تم نے کہا کہ ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ خدائے واحد کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں اور نماز سچ بولنے اور پرہیز گاری کا حکم دیتے ہیں۔ پس اگر جو کچھ تم کہتے ہو سچ ہے تو وہ عنقریب جو میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے۔ (یعنی سلطنت روم ان کے قبضہ میں آ جائے گی۔) اور بے شک میں (بذریعہ صحف سابقہ) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں اور مجھے یقین نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے پس اگر میں جانتا کہ میں اس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں آپ کی ملاقات کے لیے اہتمام کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا یقینا آپ کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقدس مراسلہ منگوایا جو آپ نے دحیہ کے ہاتھ امیر بصری کے پاس بھیجا تھا۔ اور اس نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا۔ پس اس کو پڑھ کر پڑھوایا اس کا مضمون یہ تھا۔ اللہ رحمن رحیم کے نام کے ساتھ اس کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرقل بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلامتی جو ہدایت کی پیروی کرے بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں آپ کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تو مسلمان ہو جائے گا۔ تو امان پائے گا اور اللہ تعالی تمہیں دوہرا ثواب عطا کرے گا۔ اور اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیرو گے تو تم پر ساری رعیت کے (ایمان نہ لانے کا) گناہ ہو گا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آجائو جو ہمارے تمہارے درمیان میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تم سب اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنااور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب بنائے ۔ پس اگر تم اس بات سے اعراض کرو پھر کہدو کہ تم اس بات کے گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔
ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہا کہہ لیا ور نامہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ چکا ۔ اس کے پاس بہت لوگ جمع ہو گئے اور شور زیادہ ہوا اور ہم کو وہاں سے رخصت کر دیا گیا تو میں اپنے ساتھی دانوں سے کہا جب کہ ہم باہر کر دیئے گئے کہ ابن ابی کبنتہ کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اس سے بنی اصغر کا بادشاہ خوف کھاتا ہے پس میں ہمیشہ اس امر کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو داخل کر دیا۔
اور ابن ناطور ایلیاء کا حاکم تھا اور ہرقل شام کے نصرانیوں کاامیر تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب ہرقل ایلیا میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر رہا تو اس کے بعض مذہبی خواص نے کہا کہ ہم آپ کو پریشان خاطر پاتے ہیں اور ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کا ہن تھا ور اسے علوم نجوم میں مہارت تھی۔ تو اس نے اپنے ارکان کے سوال کے جواب میں کہا کہ رات جب کہ میں نے نجوم میں نظر کی تو یہ دیکھا کہ ختنہ کرانے والی قوم کا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو) کہ اس قوم میں سے کون لوگ ختنہ کراتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختن نہیں کرتا ہے ۔ پس یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لکھ بھیجئے کہ ان میں جس قدر یہود ہیں سب کو قتل کر دو۔ وہ انہیں باتوں میں مصروف تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی پیش کیا گیا جو کہ غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا۔ جب ہرقل نے اس سے یہ خبر سنی تو کہا کہ اس کو لے جائو اور دیکھو کہ اس کا ختنہ کیا ہوا ہے یا نہیں۔ پس انہوں نے اس کو دیکھا او ہرقل سے بیان کیا کہ اس کا ختنہ ہوا ہوا ہے اور ہرقل نے اس سے عرب کا حال پوچھا اس نے بتایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔
ہرقل نے کہا کہ یہی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) اس زمانہ کا بادشاہ ہے جو غالب ہو گیا ہے پھر ہرقل نے اپنے ایک دوست کو رومیہ میں یہ ماجرا کہہ بھیجا ۔ وہ بھی علم میں اس کا ہی ہم پلہ تھا اور ہرقل حمص کی طرف چلا گیا ۔ اور ابھی حمص میں ہی تھا کہ اس کے دوست کا خط آ گیا اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ہرقل کے ساتھ کو کہتا تھا۔ کہ وہ نبی ہیں اس پر ہرقل نے روم کے بڑے بڑے لوگوں کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا پھر کہا کہ اس کے دروازے بند کر دو۔ اور پھر ہرقل ان لوگوں کے پاس آیا اور کہا اے سرداروان روم کیا اس ہدایت اور تمہارا یہی حصہ ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا ملک قائم رہے تو اس نی کی بیعت کر لو یہ سنتے ہی وہ لوگ ……کی طرح دروازوں کی طرف دوڑ پڑے اور دروازوں کو بند پایا جب ہرقل نے ان کی نفرت دیکھی تو ان کے ایمان لانے ہوگیا ۔ اور کہا کہ انہیں میرے پاس واپس لائو۔ اور پھر اس نے کہا کہ یہ بات میں نے ابھی اس لیے کہی تھی تاکہ معلوم کروں کہ تم اپنے دین پر کس قدر قائم ہو اور وہ مجھے معلوم ہو گئی اس پر لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے۔ اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔ کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان و یونس اور………نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔
حاشیہ: اس حدیث پر اور کچھ کہنے کی چندآں ضرورت نہیں اس لیے کہ اس کا مضمون بہت صاف ہے ۔ ابوسفیان اور ہرقل کے سوال و جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت نبوت کا زبردست معیار ہیں۔ خصوصا ایسی حالت میں کہ ابوسفیان آپ کا اس وقت ……اور معاند تھا اور وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اگر قوم میں کاذب مشہور ہونے کا اندیشہ ہوتا تو میں جھوٹ بھی بیان کرتا۔ اس حد تک پہنچے ہوئے معاند کی زبان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں شہادت حقہ کا ادا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی……اور مطہر زندگی کا ثبوت ہے۔ ہر صادق کی صداقت ان اصول عشرہ سے پرکھ لو۔
ابن کبشہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام شرارت سے رکھا ہوا تھا۔
بصری۔ رومیہ ۔ حمص شہروں کے نام ۔ اور ایلیاء بیت اللہ کو کہتے ہیں۔ بصری ملک شام میں ہے۔……کے متعلق اختلاف ہوا ہے کہ وہ ایمان لایا تھا یا نہیں۔ اگرچہ یہاں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بظاہر ایمان نہیں لایا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عزت کے کلمات استعمال کرنا کہ میں آپ کے قدم دھوئوں ایک بادشاہ کے من سے معمولی نہیں ہیں۔ اور ارادت اور محبت ……… بہرحال قطع نظر اس بحث کے کہ وہ مسلمان ہوا یا نہیں یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ شان کو ظاہر کرتی ہے۔ اور ہرقل پولیٹیکل پیچیدگیوں سے خائف ضرور ہوا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب مقدس احادیث کی صحت کے لیے اچھا معیار ہے۔ خصوصا اس وقت جب وہ اصل مکتوب مل گیا ہے اور اس کا عکس شائع بھی ہو چکا ہے اس گرامی نامہ دعوت سے آپ کے قلب کی جرات اور شوکت کا پتہ ملتا ہے جو ہرقل جیسے عظیم الروم کو ایمان لانے کی حالت میں اتمام حجت عذاب کا کرتے ہیں۔ اس مکتوب مقدس سے خط و کتابت کے اصول پر رونی پڑتی ہے جو یورپ کی متمدن قوموں نے اختیار کیا ہے۔ یہ دراصل تہذیب اور ادب کی خوشہ چینی ہے۔ اس زمانہ کی خط و کتابت کے طریقہ پر نظر کرو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو سامنے رکھ دو۔ نظر آئیگا۔ اللھم صل علی محمد وآل محمد وعلی خلفائہ محمد وبارک وسلم
باب۲
ایمان کے کامون کے بیان میں اور اللہ تعالیٰ کا قول لیس البر ……الایۃ
۸۔ عبد اللہ بن محمد ابو عامر عقدی سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا اور اس سے عبداللہ بن دینار نے اوراس سے ابی صالح نے جس کو ابو ہریرہ نے روایت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے اور حیا بھی ایک شاخ ہے۔
حاشیہ باب نمبر۲:
سورۃ البقرۃ کے بائیسویں رکوع میں یہ آیات موجود ہیں ۔ ان کی تفسیر خاکسار نے سورۃ البقرۃ کی تفسیر پارہ نمبر ۲ کے صفحہ ۴۹ پر کہہ دی ہے۔ اس آیت کو عنوانِ باب قرار دے کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان کی تفصیل اور حقیقت کو بیان کر دیا ہے اور اس کے ماتحت میں جو حدیث بیان کی گئی ( حدیث نمبر۸)ہے۔ اس میں اجمالاً بتایا ہے کہ ایمان کی ساٹھ سے اوپر کچھ شاخیں ہیں۔ اس بیان میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ستر کا عدد بھی آیا ہے۔
اس میں شعبہ (شاخ) کے لفظ میں ایک خاص زور ہے۔ جس پر غور کرنے سے مسئلہ کفرو ایمان کی حقیقت سمجھ میںآجاتی ہے اور ایمان اور اس کے ثمرات کا بھی پتہ ملتاہے۔
شجرِ ایمان:
قرآنِ مجید میں آیا ہے : اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِیْ السَّمَائِ تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذًنِ اللّٰہِ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ۔ (سورۃ۱۳ رکوع ۱۵)
اس آیت میں ایمان کی مثال ایک درخت سے دی گئی ہے۔ اور ظاہر کیا ہے کہ اس میں تین باتیں ہوں ۔ اَصْلُھَا ثَابِتٌ ۔ یعنی اصولِ ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں۔ اور فی ذاتہٖ یقین ِ کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں۔ اور فطرت ِ انسانی اس کو قبول کرے ۔دوسری بات اس میں یہ ہو کہ فَرْعُھَا فِیْ السَّمَائِ ۔ اس کی شاخیں آسمان پر ہوں ۔ کیا مطلب؟ صحیفہ فطرت اس کا شاہد ہو۔ اس کی فروعات جیسے اعمال کا بیان، اخلاق کا بیان وغیرہ وغیرہ مختلف شعبے مکمل ہوں اور ان میں عملی روح اور نشوونما کی قوت ہو۔
سوم: تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ ۔ ہر وقت پھل دیتا رہے ۔ سدا بہار ہو۔ ایمان کی حقیقت پیچھے بیان کی تھی کہ اس میں قلبی شعور لسانی اقرار اور اعمال ہوتے ہیں۔ یہاں بھی تین ہی باتیں بیان کی ہیں۔ اس کے بالمقابل کفر کی مثال بھی ایک خبیث درخت سے دی ہے۔ پس ایمان ایک درخت کی مثال ہے۔ جس قدر اس کے عمل اور نشوونما کی قوت اور پھول پھل کی قوت ظاہر ہو گی ۔ اسی قدر مضبوط اور قوی ہوگا ۔ اور نتیجہ خیز سمجھا جائے گا۔ جس قدر حصہ اُس کا کمزور ہوگا، اُس قدر وہ مقامِ ایمان سے گر جائے گا۔ اس درخت کی مثال سے جہاں کفرو ایمان کی حقیقت خوب سمجھ میں آتی ہے وہاں اَلْاِیْمَانُ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ کا مسئلہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
حیا ایمان کا حصہ ہے:
غرض جبکہ ایمان ایک درخت ہے اور اس کی مختلف شاخیں ہیں۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حاشیہ از یعقوب علی عرفانی صاحب

نزول وحی کے مختلف طریقے ہیں اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طریقوں کا ذکر فرمایا ہے۔ قرآن مجید سے اس کی تائید اور تصدیق ہوتی ہے ۔ چنانچہ او من ورای حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنہ ما یشاء انہ علی حکیم ۔ وکذالک اوحینا الیک روحا من امرنا۔
خلاصہ مطلب یہ کہ اللہ تعالی کسی سے کلام کرتاہے یا تو وحی بھیجتاہے۔ یا پس پردہ یا ارسال رسل کے ذریعہ اور اسی طرح پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی ہوئی ۔ وراء الحجاب میں رئویا کشوف وغیرہ داخل ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرشتہ کو شکل انسانی متمثل ہونے کی جو صورت بیان کی ہے قرآن مجید میں اس قسم کی وحی کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ سورۃ مریم میں فرمایا۔ فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لہا بشرا سویا۔
ہم نے مریم کے پاس جبرائیل کو یہی جو پورے انسان کی شکل میں اس کے سامنے متمثل ہو گیا اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جو ملائکہ آئے وہ بھی متمثل تھے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرشتوں کو متمثل دیکھا جیسا کہ لیکھرام کے متعلق اور ایک بار جب کہ اس نے کہا جئت من حضرۃ الوتر وغیرہ گویا یہ کیفیت اس زمانہ میں بھی مشاہدہ میں آئی اور ہم نے بلاواسطہ ان دیکھنے والوں سے سنا۔
وحی کی پہلی صورت جس کو حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اورگھنٹی کی آواز سے تشبیہ دی ایک اعلی درجہ کی وحی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر اس کے متعلق کہا ہے۔ کہ یہ صورت الہام کی ایسی ہے کہ جب خدا تعالی کسی امر غیبی پر اپنے بندہ کو بعد دعا اس بندہ کے مطلع کرنا چاہتا ہے تو یک دفعہ بے ہوشی اور ربودگی اس پر طاری کر دیتاہے۔ جس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے جاتا ہے اور ایسا اس بے ہوشی اور ربودگی اور بے خودی میں ڈوبتاہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتاہے۔ اور نیچے پانی کے چلا جاتاہے۔ غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے جو غوطہ سے بہت ہی مشابہ ہے باہر آتا ہے تو اپنے اندر میں کچھ ایسا مشاہدہ کرتاہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ گونج کہ فرو ہو جاتی ہے تو ناگہاں اس کو اپنے اندر سے ایک موزوں اور لطیف اور لذیذ کلام محسوس ہوتی ہے اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت عجیب ہے اور جس کے عجائبات بیان کرنے کے لیے الفاظ کفایت نہیں کرتے ہیں یہی ایک حالت ہے جس سے ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل جاتاہے۔
یہ آیت قرآن شریف سورۃ النساء رکوع ۴۳ میں ہے اس میں اللہ تعالی نبوت کے سلسلہ جاریہ کی طرف اشارہ فرمایا ہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نبوت کوئی نیا سلسلہ نہیں جس طرح پر دوسرے انبیاء علیھم السلام خدا تعالی کی وحی سے مشرف ہوتے رہے اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث اور شرف ہوئے ہیں۔ دوئم اس آیت کے بیان سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ وحی نبوت ا ن تمام وحیوں سے ممتاز ہے جو کھی زمین آسمان ، عوام مردوں اور عورتوں یا جانوروں کو ہو جاتی ہے۔ سوم یہ بھی مدنظر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی تمام انبیاء سابقین کی وحیوں کی جامع ہے۔
وحی کیا ہوتی ہے۔ یہ ایک نئی بحث ہے مختصرا الفاظ میں اس کی تعریف یہ ہے کہ معرفت کاملہ کے لیے جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کرے جس کی بشریت کے رزائل شعلہ نور سے چل کر نئی ہستی پیدا ہو گئی ہوتی ہے اور ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی ہوتی ہے جو پہلی زندگی سے متغائر ہوتی ہے۔ شعلہ محبت الہٰی اسے سر سے لے کر پیر تک اپنے اندر لے لیتاہے۔ اسوقت وہ مظہر تجلیات الہٰی ہوتاہے اور جس طرح پر آفتاب کی شعاعیں ایک صفاف اور روشن شیشہ پر پڑتی ہیں اس طرح پر تجلیات الہیہ کا انعکاس اس کے قلب صافی پر پڑتاہے ایسی حالت اور صورت میں خدا تعالی کا فصیح بلیغ اور لذیذ کلام اس کی زبان پر جاری ہوتاہے جو ایسی شوکت ، برکت اور غیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتاہے۔ اور ایک نور اس کے ساتھ ہوتاہے جو بتاتا ہے کہ یقینی ہے ظنی نہیں ہے۔ رحمانی ہے شیطانی نہیں ہے۔ پر اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں اور ایسے مورد وحی نفوس کے تمام اعضاء اور جوارح کیا طاقتیں تیز ہو جاتی ہیں اس کی زبان کو یہ شرف ہوتا ہے کہ کیا باعتبار کیفت کیا باعتبار کمیت ایسا بے مثل کلام اس کی زبان پر جاری ہوتاہے کہ دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس طرح پر اس کی آنکھ کی کشفی قوت بڑھ جاتی ہے ۔ جس سے وہ مخفی در مخفی چیزوں کو دیکھ لیتاہے۔ اور بعض اوقات لکھی ہوئی تحریریں اس کے سامنے پیش ہوتی ہیں۔ اور مردوں سے زندوں کی طرح ملاقات کر لیتاہے۔ اور ہزاروں کوس تک اس کی نظر جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے ایسا ہی اس کے کان کو لغیات کی شنوائی کی قوت دی جاتی ہے۔ علی ہذالقیاس تمام حسیں تیزی ہو جاتی ہیں اور بباعث نہایت درجہ فنا فی اللہ ہونے کے اس کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے اور اس کا ہاتھ خدا کا ثابت ہوتا ہے اور اگرچہ اس کو خاص طور پر الہام ہو تب ہی جو کچھ اس کی زبان پر جاری ہوتاہے وہ اس کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتاہے۔ کیونکہ نفسانی ہستی اس کی بالکل جل جاتی ہے اور سفلی ہستی پر ایک موت طاری ہو کر ایک نئی اور پاک زندگی اس کو ملتی ہے۔ جس پر ہر وقت انوار الہیہ منعکس ہوتے رہتے ہیں۔
حاشیہ برحدیث نمبر ۱:
اعمال کا مدار نیات پر ہے ۔ یعنی نتیجہ ٗ عمل نہیں اس کی نیت کو بڑا دخل ہے اور اعمال کا مدار نیات پر ہے یہ امر واقعہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ زریں اصول (گولڈن رول) ایسا عجیب ہے کہ دنیا کی تمام متمدن اور بخیال خویش مہذب اقوام بنا اپنے قوانین میں اس کو داخل فرمایا ہے ۔ تمام قوانین فوجداری کو پڑھو وہاں نیت اور ارادہ کا ذکر ضرور کیا ہے۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسنا کو جس اعلی مقام پر لے جانا چاہتے ہیں وہ اخلاص فی الدین ہے اس لیے یہ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی اور یہ حدیث خود اس کی حقیقت کو بیان کر رہی ہے۔ قرآن مجید نے بھی صاف الفاظ میں فرمایا۔ واعبد اللہ مخلصین لہ الدین ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خطرات اور نیات میں فرق ہے۔ نیت عزیمت اور ارادہ کے مفہوم کو ظاہر کرتی ہے اس لیے قرآن مجید میں ارشاد یوں بھی آیا ہے ۔ ولکن یوخذکم بما کسبت قلوبکم کیا مطلب کہ جن امور پر تمہارے قلوب عزیمت کر لیں اس کے لیے تم جوابدہ ہو۔
بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کو ایسی حدیث سے شروع کیا اور اس میں انہوں نے بتایا کہ اس کے پڑھنے پڑھانے اور ان کی نیت خالصۃ للہ ہو۔ معلوم ہوتاہے کہ ان کی طبیعت پر خشیۃ اللہ بہت غالب تھی۔ پر اس حدیث مین نیت کے ثمرات کی مثال دی ہے کہ جو شخص دنیا کے حصول یا نکاح عورت کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اس کی ہجرت کا یہی مقصود ہو گا وہ ہجرت الی اللہ ہو گی۔
ہجرت کے معنی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دوسرے موقعہ پر آئے ہیں۔ کہ ہجرۃ سے یہ مراد ہے کہ انسان اللہ تعالی کی نور ہی سے ہٹ جاوے اور عام طور پر ہجرۃ کا مفہوم یہ ہے کہ جس جگہ اللہ تعالی کے احکام کی بجا آواری میں غفلت دقت اور روک پیداہو۔ اس کو چھوڑ دینا اگر کوئی مجلس ایسی ہے جس میں بیٹھنے سے طبیعت میں نیکی کے لیے جوش نہیں پیدا ہوتا بدیوں کی طرف رجحان بڑھتا ہو تو اس مجلس اور ایسے مقام کو چھوڑ دینا ہی ہجرت ہے ایسی کتابیں زیر مطالعہ ہوں جو غفلت برتائیںانہیں ترک کر دو غرض ایسی مجلس ایسا مکان ایسی کتابیں چھوڑ دینا ہی ہجرت ہے جہاں غفلت اور اللہ تعالی کے احکام سے سستی اور دوری پیدا ہو۔ قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ سورۃ النساء رکوع ۴۰ میں فرمایا وقد نزل علیکم فی الکتاب اذا سمعتم ۔
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی ابتداء بیان ہوئی ہے اور حدیث نمبر ۲ میں اقسام وحی کی تفصیل تھی وحی کی ابتداء رویا ء صالحہ سے ہوئی اور وہ رویائے صالحہ آپ کے پورے ہوتے تھے۔ پھر خلوت گزینی کی محبت آپ کے وہیں پیدا ہوئی جس کی وجہ سے آپ غار حرا میں جا کر عبادت کرتے اسی حالت میں آپ پر وحی نازل ہوئی جو سورۃ العلق کی ابتدائی آیتیں ہیں اور یہ پہلی وحی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی اس کے الفاظ میں جو شوکت، جلال اور جبروت ہے وہ ظاہر ہے اس پر مفصل بحث الحمد للہ میں نے ترجمۃ القرآن کے پارہ نمبر ۳۰ میں کی ہے ۔ مگر اتنا بیان بھی یاد رکھنا چاہیے یہ کلام الہٰی اعلی درجہ کی جلالی پیشگوئیوں پر مشتمل ہے۔
اول :
ربک الذی خلق میں پیشگوئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے۔ کہ ربوبیت الہٰی نے جو تیری خاص پرورش فرمائی ہے اور اپنے ہاتھ سے تیر ا پیڑ لگایا ہے ۔ اور تیرے مبارک پھلوں کا انتظار ہے۔ وہ تجھے ضرور کامیاب اور سر سبز کرے گی اور تیرے نونیال کی اعداکے تیزی اور مخالف جھونکوں سے بچائے گی۔
دوسری پیشگوئی خلق الانسان من علق میں ہے میں نے اس مٹی کے کیڑے یا جونک کی طرف دھیان کرو کہ وہ کیا حقیر اور ذلیل تھا جس کا ایسا خوبصورت باکمال انسان بنا دیا جب ہماری ربوبیت نے ایک کیڑے کو اس شکل و صورت تک پھر پہنچایا ہے اور ایک غایت اور مقصد کے لیے۔ جو ربوبیت کا اصل تقاضاہے۔ کمال عطا فرمایا ہے۔تو کیا رب ہماری ربوبیت اس کا ساتھ چھوڑ دے گی ہم اپنی ربوبیت کا سایہ عاطفت اس پر رکھیں گے۔ جب تک وہ الانسان اپنی خلقت کی علت غائی کو نہ پہنچ جاوے ۔ طبی دنیا بھی بڑی جدو جہد کے بعد اس نقطہ پر پہنچی ہے کہ نبی میں ایک قسم کے کیڑے ہوتے ہیں جنہیں سپرے …… کہتے ہیں ۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیرہ صدیاں پیش کر یہ صداقت کھل جاتی ہے۔
تیسری پیشگوئی اقراء وربک الاکرم میں ہے اس میں اشارہ ہے کہ تو محترم اور مکرم ہو گا اور علاوہ بریں اس سلسلہ تبلیغ میں تیری محنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی الہی کے بعد واپس گھر آئے اور آپ کا دل دھڑکتاتھا۔ پس آپ خدیجہ بنت خویلد کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے کمبل اوڑھا دو۔ تو ان لوگوں نے آپ کو کمبل اوڑھا دیا۔ یہاں تک کہ جب آپ کا دل ٹھکانے آیا تو آپ نے خدیجہ کو سب حال جو گزرا تھا سنایا اور کہا بے شک مجھے اپنی جان کا خوف ہے خدیجہ نے کہا بخدا ہرگز نہیں آپ کو اللہ تعالی کبھی بھی ناکام نہیں کرے گا۔ یقیناآپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور دکھیاروں کے دکھوں کو آپ اپناتے ہیں جو چیز کہیں نہیں ملتی وہ تیری محبت میں مل سکتی ہے۔ تو مہمان نوازی کرتا ہے اور پاک ضرورتوں میں مددگار رہتاہے۔
بقیہ حواشی صفحہ ۳ ۔ حدیث نمبر ۳ پر حواشی :
اللہ تعالی کی طرف سے ان کو ایک وسعت قلب اور جرات عطا کی جاتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی سیرت پر نظر کرنے سے معلوم ہوتے ہیں لا یخاف لدی المرسلین ۔ کی وحی جب ان کو آجاتی ہے تو ا سپر وہ گھبراتے اور ڈرتے نہں۔ پت تو ان کے اندر اللہ جرات پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپے رفیقوں کو یہی کہہ دیتے ہیں لا تخف ان اللہ معنا ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خشیت علی النفس اس ابتدائی مرحلہ کا بیان ہے اور یہ آپ کی رسالت کی ایک دلیل ہے ۔ حضرت موسی علیہ السلام جب مبعوث ہوتے ہیں اور فرعون کو تبلیغ کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ بھی پہلے خوف ہی کا اظہار کرتے ہیں چنانچہ عرض کرتے ہیں ربنا اننا تخاف ان یفرط علینا وان یطغی قال لا تخافا اننی معکما اسمع واری ۔
غرض حضرت خدیجہ الکبری جو آپ کی محرم راز اور آپ کی پرائیویٹ زندگی کو غائر نظر سے دیکھنے والی ہیں اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت کو پیش کیا ہے جو قبل نبوت انہوں نے دیکھی تھی اس لیے کہ نبی اور مامور کی وہ زندگی ہمیشہ قابل حجت ہوتی ہے جو وہ اپنی بعثت سے پہلے گذارتاہے اسی بناء پر قرآن مجید نے اس دلیل کو خود پیش کیا ہے ۔ جہاں فرمایا ۔ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ۔ (میرے خیالمیں یہ ہے کہ جناب خدیجۃ الکبری کے پاس)

ابن عم یا عم :خدیجۃ الکبری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ کے پاس لے گئیں اسے ابن عم کہا یا عم کیونکہ عربی میں اے عم اور ابن عم قریبا ایک ہی طرح کہے جاتے ہیں۔ بہرحال اس میں اختلاف ہے کہ وہ ابن عم کہا یا عم ۔
خدیجۃ الکبری کی غرض :
خدیجۃ الکبری کی غرض اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ وہ صحف انبیاء سے واقف تھا اور خدیجۃ الکبری کی پاک فراست نے سمجھ لیا تھا کہ اس قسم کے مکالمات اور مخاطبات انبیاء کے سوا نہیں ہوتے پس وہ اس خیال سے کہ صحف انبیاء ایسے واقف انسان اس پر کچھ روشنی ڈالے گا۔ چنانچہ ورقہ نے آپ کی کیفیت کو سن کر یہی ظاہر کیا۔
بقیہ حاشیہ ـ::::::::تیری سخت مخالفت ہو گی ۔ اور ایک عالم تجھے ذلیل وخوار کرنے پر آمادہ ہو گا۔ اور حکمت الہاہیہ کے اقتضا سے کچھ عرصہ تک بظاہر ایسا ہو گا کہ تو مغلوب اور شکست نظر آئیگا ۔ اور کفر و شرک اپنی جیت پر ناز کرے گا مگر آخر کار غلبہ اور فتح تیرے حصہ میں آئیگی ۔ اور تو اکرم اور عزیزہو گا۔ اس لیے کہ تیرا رب جس نے تجھے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بطور پرورش کیا ہے وہ اکرم ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کا مربوب بھی بطور ظل کے اکرم ہو۔
یہ ابتدائی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی ایسے نشانات سے مملو ہے۔ جو ایک دہریہ اور مادہ پرست پر بھی حجت ہے۔ ان الفاظ کی شوکت اور قوت کو دیکھو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو دیکھو بے سروسامان وجود ہے۔ لیکن آخر جس قوت کے ساتھ یہ دعوے کیے گئے تھے وہ پورے ہوئے ۔ والحمد للہ علی ذالک ۔
بخاری صاحب نے کتاب التفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو اور صفات بھی بیان فرمائی ہیں کہ آپ امانتوں کو ادا کرتے ہیں اور راستباز ہیں جھوٹ نہیں بولتے۔ یہ حدیث بھی الہل بیت سے ہی بخاری نے روایت کی ہے حضرت خدیجہ الکبری آپ کے صفات و فضائل بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پا ک (لائف)سیر ت کی کلید ہے۔ بیوی انسان کی حقیقی محرم راز اور اس کی پرائیویٹ زندگی کی واقف ہوتی ہے۔ انسان اس سے بے تکلف ہوتا ہے پس اگر وہ اپنے شوہر کی اعلی خوبیوں کا اعتراف کرتی ہے۔ تو یہ بے نظیر بات ہے
خشیت علی نفسی ۔ کیوں فرمایا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء کرام کے ساتھ بشریت بھی ہوتی ہے۔ نبی کریم اس عظیم الشان کام کو دیکھتے تھے اور رسالت کے فرائض کی ادائیگی میں مخالفت کے وسیع سلسلہ کو مشاہدہ کر رہے تھے ۔ تو اس میں جان کے لالے تو صاف نظر آتے تھے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
باب اول بدء الوحی پر اجمالی نوٹ

اول : ہر کام کے لیے ایک نیت ہوتی ہے پس وہ نیت محض اللہ تعالی کی رضا کیلئے ہو اخلاص فی الدین کا سبق دیا ہے اس کے تحت میں ہجرت الی الدنیا اور ہجرت الی اللہ کا تفرقہ بتایا ہے۔
دوم : چونکہ اسلام کی بنا وحی الہٰی پر ہے اس لیے بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بدء الوحی سے اپنی کتاب شروع کی ہے۔ اور اس میں امور ذیل کو طبعی ترتیب کے طور پر زیر نظر رکھا۔
الف : وحی نبوت کا امتیاز دوسری وحیوں کے مقابلہ میں دکھانے کے لیے انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح (الایۃ )کو بغرض استشہاد پیش کیا اور اس آیت کو اس لیے بھی پیش کیا تاکہ وحی نبوت ایک استقرائی امر ثابت ہو۔
ب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نبوت کا ابتداء رویا صالحہ سے ہوا۔
ج: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گوشہ گزینی اور عبادت قبل نبوت اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کو کسی شہرت اور ناموری کی ضرورت نہ تھی۔ بلکہ آپ گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ غارِ حرا میں چلے جاتے اور وہاں عبادت کرتے ۔ آغاز وحی کا وہیں سے ہوا۔
د۔ اس حالت میں آپ پر سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جو اپنی عظیم الشان پیشگوئیوں کی وجہ سے میٹیریالسٹ Materialistلوگوں پر حجت اور دلیلِ نبوت ہیں۔
ہ۔ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکی اندرونی شہادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائف قبل بعثت پر جس میں آپ کے اخلاقِ فاضلہ کا ذکر اور اعتراف ہے۔
سوم : قرآن مجید کی وحی کے نزول اس کی حفاظت کی حقیقت ابن عباس ایسے مشہور بزرگ کی روایت سے بیان کی۔
چہارم : ابوسفیان ایسے مخالف کی شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل پر آپ کی نبوت کی دلیل ہے اور یہ دلیل اور ہی قوی ہو جاتی ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بلاخر وہ خود مسلمان ہو گیا۔
پنجم : ہر قل کے نام جو خط لکھا گیا تھا وہ خط بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک دلیل ہے کہ کس بصیرت اور جرأت سے ملتا ہے اور آج اس مکتوب کے محفوظ مل جانے میں احادیث کی صداقت پر بھی ایک دلیل ہے۔
مشکل اور خاص الفاظ کے معنی
تکسب المعدوم : جو چیز کہیں نہیں تھی وہ آپ کی صحبت میں مل جاتی ہے۔ اور جس کسی کو کچھ نہیں ملتا اس معدوم کو مہیا کر دیتے ہیں۔ یہ رسولوں ہی کی شان ہوتی ہے۔
فتر الوحی : وحی کا آنا رک گیا
تابعہ میں ’’ہ‘‘ کی ضمیر یحی بن بکیر کی طرف جاتی ہے۔
تابعہ ہلال : تابعہ ہلال کے معنی ہیں ابن شہاب اور ان کو زہری بھی کہتے ہیں۔
بوادرہ : گلے اور کندھے کے درمیانی گوشت کو کہتے ہیں۔
خبیث النفس : سست
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
صحیح بخاری پر نوٹس حصہ اول

ایمان کی حقیقت پیچھے بیان کی تھی کہ اسمیں قلبی شعور لسانی اقرار اور اعمال ہوتے ہیں۔ یہاں بھی تین ہی باتیں بیان کی ہیں۔ اسکے بالمقابل کفر کی مثال بھی ایک خبیث درخت سے دی ہے۔ پس ایمان ایک درخت کی مثال ہے جسقدر اسمیں عمل اور نشونما کی قوت اور پھل پھول کی قوت ظاہر ہوگی اس قدر مضبوط اور قوی ہوگا اور نتیجہ خیز سمجھا جائیگا جسقدر حصہ اسکا کمزور ہوگا اسی قدر وہ اس مقام ایمان سے گرجائیگا اور اس درخت کی مثال سے جہاں کفروایمان کی حقیقت خوب سمجھ میں اآتی ہے وہاں الایمان یزید وینقص کا مسئلہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔
حیا ایمان ہے :
غرض جبکہ ایمان ایک درخت ہے اور اسکی مختلف شاخیں ہیں جو انسانی فطرت کے موافق اسکی قوتوں کے نشونما کا ذریعہ ہیں انمیں سے حیا بھی ایک شاخ ایمان کی ہے اور وہ بھی ایمان میں ہے۔ حیا انسان کیلئے عفت اور احصان کیلئے ایک ضروری چیز ہے گویا حیا کو ایک شاخ ایمان ظاہر کرکے ان تمام اخلاقی شعبوں کی طرف رہنائی ک ی جو انسان کی پاک دامنی اور علو ہمت وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
باب ۳ اس بیان میں کہ مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔
حدیث نمبر ۹ : ہم سے بیان کیا آدم بن ابی یاس نے جس سے شعبہ کے بواسطہ عبداللہ بن ابی کفر اور اسماعیل نے روایت کیا نے بواسطہ عبداللہ بن عمر بیان کیا جنسے آنحضرت ﷺ سے روایت کی کہ فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جوان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔
ابوعبداللہ نے ک ہا اور ہم ابومعاویہ نے بیان کیا کہ ہم سے داؤد بن ابی ہند نے بیان کیا اور انہوں نے عامر سے روایت کی اور عامر کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر کو آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد بیان کرتے ہوئے سنا اور الاعلی نے داؤد سے انہوں نے عامر سے اور انہوں نے عبداللہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو روایت کیا۔
حاشیہ برباب ۳ چونکہ نبی کریم ﷺ امن عامہ قائم کرنے آئے تھے اور وہ مذہب جوآپ ؐ کو دیا گیا تھا وہ بجائے خود سلامتی کا منبع ہے اور اسلام کو دینے والا خدا السلام ہے اس لئے آپ نے امن اور سلامتی کی بنیاد رکھدی۔ جو لوگ تاریخ عرب جاہیلیت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہاں کیسی خطرناک امن شکنی پیدا ہوچکی تھی۔ اسی حالت میں آپکی یہ تعلیم المسللم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ایک بابرکت اور امن کی بارش تھی۔ اس باب کے تحت میں حدیث نمبر ۹ میں یہی بیان کیا ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف آپؐ کو امن پیدا کرنا مقصود تھا وہاں دوسری طرف اس قوم کو جو حلقہ اسلام میں داخل ہوتی آپ ﷺ زبان اور ہاتھ پر حکومت اور کنٹرول کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور ان تمام امور سے روکتے ہیں۔ جو زبان یا ہاتھ کی بداعتدالیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور جنکا اثر دوسروں پر پڑتا ہے۔ علم الاخلاق کے ان تمام شاخوں پر اسی ایک جملہ سے بحث ہوسکتی ہے جو ہاتھ اور زبان کے معایب کو دور کرنے کیلئے قرار دی گئی ہیں۔
باب ۴ اس بیان میں کہ کونسا اسلام افضل ہے۔
حدیث ۱۰
ہم سے سعید بن یحیٰ بن سعید اتوشی نے حدیث بیان کی اور اسکو ابی نے اس سے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ اس سے ابی بردہ نے اس سے ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک مرتبہ صحابہ نے کہا یا رسول اللہؐ کونسا اسلام افضل ہے فرمایا جسکی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔
حاشیہ باب نمبر4
یہاں بحث ہے کہ کونسا اسلام افضل ہے احادیث میں متعدد مرتبہ اس قسم کی بحث آئیگی اسلئے یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام روحانی طبیب ہوتے ہیںَ ان کے پاس مختلف امراض کے مریض آتے ہیں ۔ جسطرح ایک جسمانی طبیب ہر بیمار کو اور مرض کے حسب حال نسخہ تجویز کرکے دیتا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کرتے ہیں۔ جب ایک یا دوسرے مقام پر اس قسم کے سوالات کہ کونسا اسلام افضل ہے۔ کونسا کام نیک ہے وغیرہ کے جواب میں آپ کچھ فرماتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ دوسرے نیکی کے کام نہیں یا اسی پر حصر ہوگیا بلکہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ مسائل کی استعداد اور حالت کے ماتحت جواب دیا گیا ہے۔ مثلا ایک شخص حضرت کی خدمت میں آیا جسکو والدین کی خدمت میں سستی کا مرض ہوتو آپ نے اسکو یہی جواب دے دیا کہ والدین کی خدمت بہترین نیکی ہے یا کوئی مہمان نوازی میں سست ہو تو اسکو کہدیا کہ مہمان نوازی کرو۔ کسی کو کہہ دیا کہ شرمگاہ کی حفاظت کرو۔ قس علی ہذا۔
پس اس قسم کی تمام احادیث کیلئے یہ امر بطور ایک کلید کے یاد رکھنا چاہئے۔
باب 5 کسی کو کھانا کھلانا اسلام ہے :
حاشیہ باب4 ابھی حدیث نمبر10میں مثلا مسلمان اور مہاجر کی ایک تعریف کی گئی ہہے تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بس اسلام اور ہجرت کی اسقدر حقیقت ہے نہیں بلکہ اسلام اور ہجرۃ کی یہ بھی ایک شریان ہے اور اسکو افضل اسلام اسلئے قرار دیا کہ مسلمانوں میں اخوت اور محبت امن پیدا ہو۔ اور اسطرح وہ جس اللہ کو مضبوط پکڑنے کیی قابلیت پیدا کریں اور اگر ایک دوسرے کی ایذارسانی اور نکتہ چینی اور بدگوئی پر ہی تلا رہتا تواصل مقصود ہاتھ سے جاتا رہتا اسلئے اسکو افضل اسلام قرار دیا۔
باب ۵ کسی کو کھانا کھلانا اسلام ہے۔
حدیث ۱۱
عمر بن خالد سے لیث نے اس سے یزید نے اس سے ابی انحر نے اس سے عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ؐ سے پوچھا کہ کونسا کام بہتر ہے؟ فرمایا کہ کھانا کھلادو اور جسکو جانتے ہو اور نہ جانتے ہو اسکو السلام علیکم کرو۔
حاشیہ باب5 حدیث 11 اس باب میں جو حدیث بیان کی ہے اسمیں اسلام کا بہترین کام کھانا کھلانا اور السلام علیکم کہنا بتایا ہے۔یہ دونوں کام بھی محبت۔ اخوت ۔ اتحاد پیدا کرتے ہیں۔ اسلام علیکم ایک مسلمان کا قومی نشان تعارف ہے۔ ایسا قابل قدر کہ دنیا کی کوئی قوم اپنے اداب تمدن میں اسکی نظیر نہیں دکھاسکتی۔ کھانا کھلانا قرآن کریم نے نشانات ابرار میں سے لکھا ہے چنانچہ فرمایا ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما واسیرا۔ انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکورا۔ اور سورۃ یاسین میں اسکا خلاف ضلالت کا موجب قرار دیا ہے۔ واذا قیل لہم انفقوا مما رزقکم اللہ قال الذین کفرواللذین آمنوا انطعم من لو یشاء اللہ اطعم ان انتم الا فی ضلال مبین ۔
السلام علیکم کو ایمان کا نشان قرار دیا ہے قرآن مجید میں فرمایا ل لاتقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا اور جو تم کو السلام علیکم کہے اسکو مت کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔

باب ۶ یہ امر بھی ایمان میں ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو۔
حدیث ۱۲
مسدد یحییٰ سے وہ شعبہ سے وہ قتادہ سے حدیث بیان کرتے ہیں جن سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور اسی حدیث کو حسین المعلم کے واسطہ سے روایت کیا ہے جس نے قتادہ سے روایت کی کہ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فرمایا رسول اللہ ؐ نے کہا ' تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جبتک اپنے بھائی کیلئے ایسی چیز کو پسند نہ کرے جو اپنی زات اور نفس کیلئے پسند کرتا ہے۔ '
حاشیہ باب نمبر6 حدیث نمبر12 اس باب کے نیچے جو حدیث بیان کی ہے وہ بھی اسلام کی اس عالمگیر برکت اور نبی کریم ﷺ کی عالمگیر رحمت کو ظاہر کرتی ہے۔ جو دنیا میں اخوت اور مواسات کے رنگ میں نازل ہوئی دنیا کے ریفارموں اور مصلحین نے دنیا میں قیام امن کیلئیء مساوات کے مسئلہ کو غلط طور پر جاری کرنے کی کوشش کی مگر ان پاک الفاظ میں کہ مومن مومن ہی نہیں ہوتا جبتک اپنے بھائی کیلئے وہی نہ چاہے جو اپنی ذات کیلئے ۔ اس اصل پر اگر پورا عمل درآمد ہوتو آج دنیا سے تمام بداخلاقیوں۔ شرارتوں اور مظالم کا خاتمہ ہوجاوے۔ اسکے برکات ظاہر ہیں۔ (اللھم ارزقنا )

باب ۷ رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنا ایمان ہے۔
حدیث ۱۳
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جبتک کہ میں اسکے نزدیک اسکے باپ اور اسکی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
حدیث۱۴
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا کہ جبتک میں اسکے نزدیک اسکی اولاد اور اسکے باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
حاشیہ باب7حدیث نمبر13-14
اس سے ظاہر ہے کہ ایمان کامل کا نشان یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ ہر ایک محبوب ترین چیز سے محبوب ہوجاوے۔ حدیث نمبر13میں حضور ﷺ نے اس حقیقت کو قسم کے ساتھ مؤکد فرمایا ہے نفس الامر میں یہ بالکل درست اور سچ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہی تعلیم دی ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم ۔ یعنی انکو کہدو کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ تم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوجاؤ گے اور تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اللہ غفور رحیم ہے۔ اسمیں یہ بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع محبوب الٰہی بنادیتی ہے۔ مگر اتباع کامل کیلئے محبت تام کی ضرورت ہے۔ اور دنیا میں اولاد اور والدین ایسے رشتے ہیں جو سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں پس جبتک انسان ان تمام محبتوں کے مظاہر کو نبی کریم ﷺ پر قربان کرنے کی قوت اور توفیق نہیں پالیتا وہ خوبی ایمان میں پیدا نہیں ہوسکتی ۔ (اللھم وفقنا ھذا امین)
پھر ایک دوسری جگہ فرمایا ان اللہ وملائکتۃ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنوا صلو ا علیہ وسلموا تسلیما۔ ایسا ہی ولکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ بھی اسکا موید ہے۔ غرض یہ بالکل سچے ہے کہ جبتک آنحضرت ﷺ کل مالوفات ومحبوبات عالم سے زیادہ عزیز اور محبوب ہوجاوے وہ بات جسے ایمان کہتے ہیں نصیب نہیں ہوتی۔ (مولیٰ کریم وہ محبت رسول عطا فرما جو دنیا کی کل محبتوں کو جلادے اور پھر اپنی وہ رضا عطا فرما جسمیں ساری ہی محبتیں نثار ہوجاویں۔(آمین ثم آمین)
افضل النبی : یہ دونوں احادیث جنکی موید قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات مؤید ہیں ظاہر کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو نہ صرف انبیاء علیہم السلام پر فضیلت ہے بلکہ کل کائنات عالم سے آپ افضل ہیںَ اس سے ان لوگوں کا وہم بھی دور ہوجاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے یونس بن حی پر فضیلت نہ دو۔ ایسی حدیث جو نصوص صریحہ قرآنیہ اور صریح ارشاد نبی کریم ﷺ کے خلاف ہو طبیعت اسکے قبول کرنے سے رکتی ہے۔ لیکن اگر نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہونے کا احترام احترام اسکیک انکار پر جرأت نہ دلائے تو اس سے آنحضرت ﷺ کی اور بھی رفعتِ شان اور معرفتِ عبودیت اور مقام الوہیت کی شان نظر آتی ہے۔ غرض ایمان کیلئے ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوں۔
باب ۸ حلاوۃ ایمان میں
حدیث نمبر۱۰
انس رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہا اپ نے فرمایا تین باتیں جس شخص میں ہونگی وہ حلاوتِ ایمان کا مزا پائیگا۔ ۱ اللہ تعالیٰ اور اسکا رسول اسکے نزدیک تمام ماسوا سے زیادہ محبوب ہو ۲ اگر کسی سے محبت کرے تو اللہ ہی کیلئے ۳ کفر میں واپس جانے کو ایسا ہی سمجھے جیسا آگ میں ڈالے جانے کو۔
حاشیہ باب 8حدیث
حلاوۃ الایمان کے متعلق تین امر بیان ہوئے ہیں اور یہ ایک کیفیت ہے۔ جو اپنے آچار سے ظاہر ہوسکتی ہے۔ ان امور ثلاثہ میں سے نمبر ۱ اللہ اور اس کے رسول سے محبت تام ماسوا سے بڑھ کر محبت ہے۔ اور وہ حدیث جو اوپر آنحضرت ﷺ سے محبت نامہ کا اظہار کرتی ہیں ان کو اس سے ملائیں تو حقیقت صاف سمجھ نہیں آتی ہے۔ کہ اصل محبت اللہ تعالیٰ ہی سے ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں بتادیا کہ کسی سے محبت کرتے تو اللہ تعالیٰ ہی کیلئے کرے یعنی نبی کریم ﷺ سے جب انسان تمام محبتوں کو قربان کرکے محبت کرتا ہے تو چونکہ وہ اللہ ہی کی رضا کیلئے اسی لئے وہ محبت اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔
اور تیسری بات کفر سے کامل بیزوری کا اظہار ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کے فضل سے کفر کے کسی شعبہ سے نجات پاوے تو پھر اسکی طرف رجوع سے بیزار ہوجاوے گویا استقلال اور استقامت علی الاسلام ہو۔

باب ۹ انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے۔
حدیث نمبر۱۶
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انصار سے محبت ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بغض نفاق کا نشان ہے۔
باب 9 اور حدیث 16
انصار آنحضرت ﷺ کی ایسی جماعت صحابہ کا نام ہے جو حضور علیہ السلام کی ہجرت سے پہلے مدینہ میں مسلمان ہوچکے تھے اور جب حضور ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو انہوں نے ہر طرح سے آپؐ کی اعانت کی اور خدا تعالیٰ سے انصار کا درجہ پایا۔ اور علاوہ بریں وہ لوگ جو ساعاتِ عسر میں نبی اللہ کا ساتھ دیتے ہیں اور اسکے من انصاری الی اللہ کہنے پر ساتھ ہوجاتے ہیں اور نحن انصار اللہ کہکر اپنے قول اور فعل سے ثابت کردیتے ہیں وہ فی الحقیقت انصار اللہ ہی ہوتے ہیں ان سے محبت ایمان ہے اور ایمان کی علامت ہے کیونکہ ایسے لوگوں سے وہی شخص محبت کریگا جو ان ساعات عسر میں داعی اللہ کی حقیقت پر ایمان رکھتا ہو۔ اور اسکی نصرت کو ضروری سمجھتا ہو۔ اسی لئے انصار اللہ سے محبتِ ایمان اور ان سے بغض نفاق ٹھہرا۔ قرآن مجید نے انکی تعریف کی ہے اور انکی پیروی اور اتباع کو رضاء الٰہی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا السابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ واعدلھم جنات تجری تحتھا الانہار خالدین فیھا ابدا وذالک الفوز العظیم۔
مہاجرین میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور انصار لوگ اور جنہوں نے نیکی میں انکی پیروری کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور وہ اس سے راضی ہوئے ( یعنی رضا بالقضاء کے مقام پر پہنچے) خدا تعالیٰ نے انکے لئے باغ طیار کررکھے ہیں جن کے نیچے ندیا ں بہہ رہی ہیں۔ اور وہ اس میں رہ پڑیں گے ہمیشہ کیلئے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
اب غور کرو کہ ایسی قوم جس سے خدا تعالیٰ راضی ہے اور جنہوں نے رضا بالقضا کا پورا نمونہ دکھایا ان سے محبت کرنا فی الحقیقت ایمان کی علامت ہے۔ اور محبت سے اطاعت پیدا ہوتی ہے۔ پس اس میں انصار اللہ کی پیروی کی تعلیم ہے۔

باب ۱۰
حدیث نمبر۱۷
عبادہ بن صامت (جو جنگ بدر میں شریک تھے اور شب عقبہ میں وہ ایک نقیب تھے) سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا اور اس وقت آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت تھی کہ تم لوگ مجھ سے اس امر پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے اور نہ چوری کروگے اور نہ زنا کروگے اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور نہ کسی پر بہتان لگاؤ گے اور امر معروف میں نافرمانی نہیں کروگے پس جو کوئی تم میں سے اسکو پورا کریگا تو اسکی جزا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی میں مبتلا ہوجائیگا اور دنیا میں اسکا بدلہ اس کو مل جائیگا پس وہ اسکا کفارہ ہوجائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی میں مبتلا ہوجائیگا اور اللہ تعالیٰ اسکو پوشیدہ رکھے گا تو اللہ ہی کے سپرد ہے چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو سزاد دے دے(عبادہ کہتے ہیں) ان امور پر ہم نے آپؐ سے بیعت کرلی۔
حاشیہ باب 10 وحدیث نمبر17
اس حدیث کے رو سے ایمان کے چند امور کا پتہ لگتا ہے جنپر آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے بیعت لی اور اس میں یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی شخص بعد بیعت ان مناھی میں سے کسی کا ارتکاب کریگا تو اسکی دو صورتیں ہیں یا تو یہ کہ ان غلطیوں اور خطاؤں کیوجہ سے وہ دنیا میں ممخرب ہوتو وہ عذاب اس شخص کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیگا اور اگر اللہ تعالیٰ نے اسکی پردہ پوشی کی اور اس دن میں اسکو کسی عذاب سے محفوظ رکھتا تو پھر اللہ تعالیٰ چاہے تو معاف کردے اور چاہے عذاب دے۔
اس میں نبی کریم ﷺ کو یہ تسلیم کرنا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے کیونکہ یہی گناہوں کی سزا اس دنیا میں ملتی ہے جو ہر چند اپنے نتیجہ میں عفو کا رنگ رکھتی ہے مگر رسوائی اور ذلت سے خالی نہیں اور اگر پردہ پوشی ہوتو یہی اسکے ساتھ خطرہ عذاب آخرت کا لگا عذاب اپنے ترک معاصی عمدہ چیز ہے۔
امیر المؤمنین نورالدین نے اس حدیث پر فرمایا کہ میں بھی تم سے انہیں امور پر نتیجہ لیتا ہوں غور کرو۔ اور سوچو۔
باب ۱ ۱ فتنہ سے بھاگ جانا دین ہے۔
حدیث نمبر۱۸
ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قریب ہے جو مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں۔ جنکو لیکر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور چٹیل میدانوں میں بھاگ جاوے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچالے۔
باب 11 وحدیث 18
اس حدیث میں ایک گر تسلیم کیا گیا ہے کہ فتنہ سے بھاگ جانا بھی دین ہی ہوتا ہے۔ دراصل یہ حدیث ایک پیشگوئی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں پر ایک ایسا وقت آجائیگا کہ وہ ہر قسم کے فتنوں میں متبال ہوجائیں گے میں (مرتب) سمجھتا ہوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں اسلام پر اندرونی اور بیرونی حملے جو آج ہورہے ہیں اسکی نظیر 13سو سالوں کے اندر نہیں ملتی ایسے وقت میں اپنے دین کو بچانا یہی ایمان ہے۔ اور چونکہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ الفتنۃ اشد من القتل اسلئے فتنہ سے بھاگنا فی الحقیقت ایک ایمان کا ایک شعبہ ہے۔
پہاڑوں پر بھاگ جانیس ے یہ مراد نہیں کہ سچ مچ پہاڑوں پر جوگیوں اور راہبوں کی طرح کوئی شخص بھاگ جاوے بلکہ نہایت مضبوطی سے اپنے ایمان کی حفاظت کرے اور دوسروں کیلئے بموجب فتنہ نہ بنے ۔ ربنا لا تجعلنا فتنۃ للقوم الظالمین (آمین)

باب ۱۴ نبی ﷺ کا ارشاد کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور معرفت دل کا فعل ہے جیساکہ فرمایا ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم
حدیث نمبر۱۸
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ لوگوں کو اعمال کا حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم کرتے جو انکی طاقت کے نیچے ہوتے۔ صحابہ نے ایک مرتبہ عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ کی نہیں ہیں بے شکر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے سبب سے(اہل مکہ کی) پہلی اور پچھلی خطاؤں کو معارف کردیا ہے اسپر آپؐ غضب ناک ہوئے یہانتک کہ آپ کے چہرہ مبارک پر غضب کے آثار ظاہر ہونے لگے پر آپ ؐ نے فرمایا کہ تم سب سے زیادہ پرہیز گار اور تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا جانتے والا میں ہوں۔
باب 14 حدیث18
جس باب کے نیچے یہ حدیث بیان ہوئی ہے اس میں قرآن مجید کی اس آیت ولکن یواخذ کم بما کسبت قلوبکم سے استشہاد کیا گیا ہے۔ اس میں عام طور پر دل میں فطرۃ کا گزرنا مراد نہیں کیونکہ مجرد حضرات پر مواخذہ نہیں ہوسکتا اسلئے کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ ان خیالات پر مواخذہ نہیں کرتا۔ جو ہمارے اختیارات سے باہر ہیںَ ہاں اس وقت مواخذہ ہوتا ہے جب ہم ان خیالات کی زبان سے یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے تحریک ثواب حاصل کرتے ہے۶ں جب یہ دلی خیالات اور خطرات کی رحبت دیتے ہوں اور ہم اعمال صالحہ کے ساتھ مقابلہ کرکے ان خیالات کے برعکس عمل میں لاویں بہرحال۔ مجرد خطرات موجب مواخذہ نہیں اسی لئے آیت میں بھی لفظ کسبت کا ہے جو عزیمت کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکی تائید اسی آیت سے ہوتی ہے۔ ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسئولا۔
حدیث نمبر18میں جو فرمایا کہ حضور ایسے اعمال کا حکم دیتے جو لوگ کرلیں تو یہ قرآن مجید کی اس آیت کے نیچے ہے۔
لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا صحابہ کی اس عرض داشت پر کہ ہم آپ کے مثل نہیں الاخیر آنحضرت ﷺ کا غضب ناک ہونا اس پہلو سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ گویا صحابہ محنت ہائے شاقہ اور ریاضت ہائے شدید کی خواہش کرتے تھے۔ اورآنحضرت ﷺ جو تعلیم دیتے تھے اسے اپنے لئے کافی نہ سمجھتے تھے۔ یہ امر اداب رسول اللہ ﷺ کے خلاف اور معرفتۃ الٰہی کے منافی ہے اس لئے آنحضرت ﷺ کو یہ جواب دینا پڑا کہ میں تم سے زیادہ اتقی اور اعلم باللہ ہوں۔ پس یہاں اداب الرسول کا سبق دینا مقصود تھا اور یہ ایمان میں داخل ہے قرآن کریم کی سورۃ حجرات بہترین معلم ہے اسی باب میں آیت خذوامااتاکم الرسول بھی اسی کی مؤید ہے۔
غفرلک ماتقدم من ذنبک الایۃ کی تفسیر تفسیر القرآن میں خدا کے فضل سے کہی جاچکی ہے۔ یہاں تکرار کی ضرورت نہیں۔
باب ۱۳ جو شخص کفر میں واپس جانے کو ایسا برا سمجھے جیسے کوئی آگ میں ڈالے جانے کو برا دسمجھتا ہے تو یہی ایمان کی بات ہے۔
حدیث نمبر۱۹
انس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس کسی میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ حلاوتِ ایمان کو چکھے گا وہ شخص جس کے نزدیک اللہ اور اسکا رسول سب سے زیادہ محبوب ہو اور وہ شخص جو کسی شخص سے اللہ ہی کیلئے محبت کرے اور وہ شخص جو کفر میں واپس جانے کو بعد اسکے جو اللہ تعالیٰ نے اسکو کفر سے نکالا ایسا برا سمجھے جیسے کوئی آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔

باب ۱۳ مومنوں کی حسبِ اعمال فضیلت میں
حدیث ۲۰
ابوسعید خدری نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ حکم دیگا کہ جسکے دل میں رائی کے ذرے کے برابر بھی ایمان ہے اس کو دوزخ سے نکال دو پس فرشتے اسکو نکال لیں گے۔ اور وہ سیاہ ہوگئے ہونگے پھر وہ حیایا نہر حیاۃ میں ڈالے جاویں گے (حیا یا حیاۃ کے متعلق مالک نے جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں شبہ ظاہر کیا ہے) پھر وہ سرسبز ہوجائیں گے جیسے دانہ تروتازگی سے پانی کی روانی کی طرف گرتا ہے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد زرد باہم لپٹا ہوا نکلتا ہے۔
وھیب نے کہا کہ عمرو نے الحیاۃ ہی بیان کیا ہے اور نیز اس نے خردل من الایمان کے خردل من خیر کیا ہے۔
باب نمبر13 کی حدیث باب8حلاوۃ الایمان میں بھی آچکی ہے گو دوسرے ذریعہ سے۔
باب نمبر14وحدیث نمبر40 مومنوں کی اعمال سے فضیلت ایک بین امر ہے ایمان بھی ایک قلبی فعل ہے جس میں قدرِ ایمانی معرفتہ ترقی کریگی اسی قدر مدارج میں تعاوت ہونا ضروری ہے ۔ الایمان یزید وینقص کے ضمن میں سے اسپر کسقدر بحث کردی کہ جبکہ جسمانی الوان السنہ میں اور قویٰ عقبیہ میں تفاوت موجود ہے۔ تو باطنی اور روحانی علامہ میں جو معرفت الٰہیہ پر مبنی ہیں تفاوت ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید فضلنا علی بعضہم علیٰ بعض کہتا ہے۔
صحت حدیث پر نکتہ : حدیث نمبر40پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہا یک بات نہایت ہی قابل قدر ہے جو احادیث کی صحت اور ثقافت کی دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ صحابہ ایک ایک منظر کی چھان بین کرتے تھے۔ اور اگر کسی راوی کو کسی لفظ کی متعلق کوئی شک واقع ہوتا تھا تو صاف صاف بیان کردیتا تھا۔ مثلا ایسی حدیث میں مالک کو صاف طور پر یاد نہیںرہا کہ حیا کا لفظ بولایا حیاۃ کا اور وھب نیء عمرو سے روایت کی کہ انہوں نے حیاۃ کا لفظ بولا تھا۔ اور خردل من الایمان کی جگہ خردل من خیر کہا تھا۔ یہ امر انکی صاف گوئی اور راستبازی کی دلیل ہے جس سے احادیث کی صحت کے متعلق انکی احتیاط کا پتہ ملتا ہے۔
پر اس حدیث م یں آنحضرت ﷺ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جسکے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو وہ بھی ایمان ہو وہ بھی جنت میں دوزخ سے نکال کرداخل ہونگے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ادنی سے ادنی درجہ کی نیکی ہو وہ بھی ضائع نہیں ہوتی۔ جبکہ قرآن مجید اسکی تصدیق کرتا ہے من یعمن مثقال ذرۃ خیر یراہ۔ اس حدیث میں دوزخ کی حقیقت پر بھی لطیف بحث ہے جو کسی دوسرے موقعہ کیلئے چھوڑ تے ہیں ۔ وباللہ الرفیق۔

حدیث نمبر ۲۱
ابوسعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا میں نے لوگوں کو (ایک خواب میں) کہ دو قمیصیں پہنے ہوئے ہیں بعض ان میں ایسے ہیں کہ پستانوں تک ہی ہیں اور بعض اس سے نیچے ہیںَ اور عمر بن الخطاب میرے سامنے پیش ہوئے وہ وہ جو قمیص پہنے ہوئے تھے وہ ایسے کھینچتے ہوئے چلتے تھے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے اسکی کیا تعبیر کی فرمایا دین۔
حاشیہ حدیث نمبر۴۴
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص اپنے بھائی کو ایسی ہی نصیحت کررہا ہوگا ۔ جب اس ملک میں عورتیں کسی نئی آئی ہوئی دلہن کو بے تکلفی کیلئے کہتی ہیں جن سے کی شرم اسکے ہوئے کرم جن سے کی بے حیائی اس نے کھائی دودھ ملائی۔ یعنی جب وہ کھانے پینے کے وقت حد سے زیادہ ضعف عادت شرم وحیا کرتی ہے تو اوپر والیاں اسطرح کہتی ہیں کہا گر کھانے پینے میں شرم کریگی تو بھوکی مریگی۔ بہرحال وہ کچھ ایسی ہی نصیحت کررہے ہونگے جس پر حضور ﷺ نے منع فرمایا۔
حیا سے مراد وہ رنج ہے جو انسان کو اپنے کسی عیب کے دوسروں پر ظاہر ہونے سے ہوتا ہے۔حیا کی ہم یوں تعریف کریں گے کہ یہ وہ فطری قوت ہے جو ہر قسم کی رزائل سے محفوظ رہنے کیلئے انسان کو اشارہ کرتی ہے اگر اسی اشارہ پر عمل کیا جاوے تو کسی نہ کسی وقت خدا تعالیٰ کے فضؒ سے ازالۂ عیب ہوجاتا ہے ۔ میری سمجھ نہیں الحیاء من الایمان کے یہ معنی ہیں ایمان کے کمال کا ایک یہ بھی شعبہ ہے کہ انسان اپنے نفس سے بھی شرم کرے۔ بہر حال حیا کی مفصل بحث گو ان کتابوں میں ہوگی جو فلسفۂ اخلاق پر لکھی گئی ہیں یہاں مجھے یہ ظاہر کرنا ہے کہ اس سے رسول اللہ ﷺ کی عظمتِ شان کا پتہ لگتا ہے اور آپ کے اعلیٰ درجہ کے معلم اخلاق ہونے کی شہادت ملتی ہے کہ آپ نے حیاء کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فلسفہ قویٰ کو کیسے سمجھا تھا اور کیسی پاک فطرت تھی اور کسطرح پر آپ دوسروں کا تزکیہ نفس کرنا چاہتے تھے۔

باب ۱۶ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ اگر کفار شرک سے توبہ کریں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دیں تو ان سے مداخلت نہ کرو۔
حدیث نمبر۴۳
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہانتک وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں پس جب ایسا کرنے لگ جائیں تو مجھ سے دنیا خون اور مال بچا لیں گے بجز حق اسلام کے اور انکا حساب اللہ کے حوالہ ہے۔
باب 16 حدیث 43
یہ حریت جو اس باب کا عنوان ہے سورۃ توبہ میں ہے اور پہلے ہی رکوع میں ہے سورۃ توبہ ایک الٹی ٹیم ہے کنار کیلئے کہ مسئلہ جہاد بالسیف میں ہی امر یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے اس وقت تک منکرین اور مخالفین ِ اسلام کے مقابلہ میں تلواریں اٹھائی جب تک انکے مظالم حد سے نہیں گزر گئے اور پھر جب انکا مقابلہ دفاعی رنگ میں حفاظت خود اختیاری کیلئے کرنا پڑا تو یہی ان جنگوں سے مقصود امن عامہ کا قیام تھا نہ کچھ اور بڑی بڑی رعایتیں ملحوظ رکھیں۔عورتوں۔ بچوں بڈھوں کے قتل سے روک دیا پھل دار درختوں اور عبادت گاہوں وغیرہ کی حفاظت کی اور سب سے بڑھ کریہ فرمایا۔
لا تعتدوا ان اللہ لا یحب المتدین۔
ایسی حالت میں بھی آپ نے اس قدر حسنِ ظن سے کام لینے کی تعلیم دی کہ اگر کنار شرک سے توبہ کریں اور نماز پڑھنے لگیں تو ان سے کوئی مداخلت نہ کی جاوے۔ باب الایمان میں میں اس عنوان کے قائم کرنے سے یہ مطلب ہے کہ ایمان اعمال ظاہری پر بھی اطلاق پاتا ہے ایک شخص جو مسلمانوں کے سے اعمال بجا لاتا ہے۔ ہمارا حق نہیں کہ اسکے ایمان کا انکار کردیں۔
حاشیہ حدیث نمبر23
یہ حدیث میدان جنگ کے موقعہ پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کی مندرجہ عنوان باب کی آیت سے ظاہر کر لڑائی کہ وقت اگر مدمقابل اسلام لاوے تو مان لو۔ یہ بھی نبی کریم ﷺ کی وسعتِ حوصلہ اور کمال حسنِ ظن کی بات ہے۔ ورنہ میدانِ جنگ میں ہر قسم کے مکاید ہوسکتے ہیں۔
الا بلحق الاالسلام کے یہ معنی ہیں کہ اسلام نے جن جانبر صورتوں میں امنِ عامہ کے قیام اور حفاظتِ جان کیلئے قصاصی صورتیں رکھی ہیں ان صورتوں کے پیش آجانے سے ان کے خون اور اموال مامون اور محفوظ نہیں ہوسکتے کیونکہ ایسی حالت میں ایک مسلمان ان احکام کے نیچے ہے۔ اور صرف مسلمان ہونا اسکے لئے جانبر نہیں کردیتا۔ کہ وہ خون کرے یا کسی کا مال ناحق لے لے۔ بلکہ اسلام تو اس پر یہ ضروری ٹھہرتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسروں کومحفوظ رکھے۔ اب اگر وہ اسکے خلاف کرتا ہے تو حدوداور تعزیرات اسپر ظاہر ہونگے۔
پس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ زمرہ مخالفین سے نکل آئیں گے۔ اور اسی اعلان جنگ میں جو سورۃ توبہ میں ہے وہ شامل اور مخاطب ہونگے۔ بلکہ انکے ساتھ وہی مراعات ہونگی جو ایک مسلمان کیلئے ہیں اور جن حدود اور شرائع کے نیچے ایک مسلمان مستوجبِ سزائے قتل یا جرمانہ ہوسکتا ہے وہ اسپر بھی انہیں صورتوں میں عائد ہونگی۔

حدیث ۲۴
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا پھر؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد( سعی فی الدین) کرنا پھر فرمایا حج مبرور۔
باب 17 حدیث24
یہ آیت تو سورت زخرف کے آخری رکوع میں ہے قرآن شریف نے ایمان اور اعمال دو جدا جدا چیزیں رکھتی ہیں شروع ہی میں یؤمنون بالغیب کے بعد یقیمون الصلوٰۃ سے لیکر مما رزقنا ھم ینفقون کو جدا اعمال کے رنگ میں ظاہر کیا ہے۔ اور بار بار مختلف مقامات پر ایمان اور اعمال کو جدا جدا بتایا ہے۔ جس آیت کو اس باب کا بخاری صاحب نے عنوان تجویز کیا ہے اور جو سورۃ زخرف میں ہے اس سے پہلے یہ سلسلہ الا خلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو الا المتقین سے شروع ہوا ہے۔ اور اس کے بعد متقین کے معنی خود ہی بتائے ہیں۔ الذین آمنوا بایاتنا وکانوا مسلمین۔ اس میں ایمان اور اسلام دو جدا جدا چیزیں موجود تھیں۔ اور ایمان اور اسلام کے معنی رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بڑی وضاحت سے بیان فرمائے ہیںَ جو آگے اسی کتاب الایمان میں آئے گی اس میں ایمان کو الگ کیا ہے اور اسلام کو اعمال اور عبادات کا مترادف گویا بتایا ہے ویسی حالت اور صورت میں قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی تفسیر اجازت نہیں دیتی کہ ایمان اور اعمال کو ایک ہی چیز قرار دیا جاوے جس آیت سے اس مقام پر استنباط کیا گیا ہے۔ اسکا سیاق سیاق نہیں بتاتا کہ ایمان ہی عمل کا نام ہے۔ اگر ایمان اور عمل ایک ہی شے ہوتے تو قرآن مجید میں حدود اور شرائع اور امر ونواہی کی حاجت نہیں رہ جاتی ان شواہد اور دلائل کی موجودیگ میں ہے مسلک صحیح نہیں معلوم ہوتا سب سے عجیب بات یہ ہے کہ اسباب کے نیچے جو حدیث بیان کی گئی ہے اس نے ایمان اور اعمال میں خود ایک تفرقہ کرکے دیکھا دیا ہے۔ کیونکہ پہلے آپؐ نے ایمان کو افضل العمل بتایا ہے پھر اسکے بعد سوال پر جہاد اور حج بتائے ہیں جو صریح اعمال ہیں۔
مخالفین اسلام کی غلطی : جہاد کے معنوں مین مخالفین اسلام نے دھوکہ دینے کی بڑی کوشش کی ہے اور اس سے مراد انہوں نے مخالفین اسلام کا قتل وغارت بتائی ہے حالانکہ یہ غلط ہے جہاد کے معانی سعی فی الدین ہیں والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا قرآن مجید میں خود موجود ہے اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہ امر بڑے دعوے کے ساتھ پیش کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جہاد کا لفظ قتل وغارت پر کبھی نہیں بولا گیا۔ مساعی جمیلہ کو جہاد کہتے ہیں۔
حج مبرور : جسمیں رفث وفسوق وجدال ریا وسمعہ اور کوئی شرارت مدنظر نہ ہو۔

باب ۱۸ جبکہ کوئی شخص سچ مچ مسلمان نہ ہوا ہو بلکہ مسلمان کرلینے یا قتل کے خوف سے مسلمان ہوگیا ہو(وہ مومن نہیں) بوجوہ ارشاد الٰہی قالت الاعراب آمنا قل لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا یعنی بادیہ نشینوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے۔ اے نبیؐ کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم کہو کہ ہم مطیع ہوگئے۔ اور اگر کوئی شخص فی الحقیقت مسلمان ہوگیا ہو تو وہ مومن ہے اللہ جلشانہ کے ارشاد کے موافق ان الدین عبداللہ الاسلام (اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے) ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ۔
حدیث نمبر ۲۵
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور سعد بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسی عطا میں ایک شخص کو چھوڑ دیا جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا پس میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ حضور نے فلاں شخص سے کیوں اعراض فرمایا؟ بخدا میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں آپ نے فرمایا مومن یو مسلم۔ پھر میں تھوڑی دیر خاموش رہا پھر اس شخص کی بابت جو کچھ مجھے معلوم تھا اس(علم) نے مجھے مجبور کیا پھر میں نے اپنی بات کو دہرایا میں نے یہ کہا کہ یا رسول اللہ حضور نے فلاں شخص سے کیوں اعراض فرمایا؟ بخدا میں تو اسے مومن جانتا ہوںَ اسپر رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے قول کو دوہرایا اور فرمایا کہ اے سعد! میں ایک شخص کو دے دیتا ہوں بحالیکہ جسکو نہیں دیا گیا وہ مجھے بہت ہی عزیز ہوتا ہے مگر میں اس پہلے کی نسبت ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو وہ سرنگوں آگ میں ڈالا جاوے۔
اور اس حدیث کو یونس اور صالح اور محمد بن عبداللہ زہری کے بھتیجے نے زہری سے روایت کیا ہے۔
حاشیہ باب 18 حدیث 25
اس باب میں مومن اور مسلم کے درمیان عام امتیاز بتایا ہے کہ حقیقی ایمان کسی خوف یا ڈر سے پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لئے قرآن مجید میں آیا ہے لا اکراہ فی الدین۔ اس سے ان لوگوں کے اوہام باطلہ کی بھی تردید ہوتی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا۔ اگر کوئی شخص بخوف مسلمان ہوتو قرآن مجید تو اسے اسکو مومن نہیں کہتا بلکہ مسلم عام معنی کے لحاظ سے جس سے مراد ہے مطیع وفرمانبردار۔
نکتہ معرفت :
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض اوقات ایک لفظ جب تنہا ہوتو اس کے معنی بڑے وسیع ہوتے ہیں اور جب وہ کسی اور لفظ کے ساتھ ہوتو اسکے معنی محدود ہوتے ہیں۔ اور پھر وہی لفظ بعض حالتوں میں متضاد معنی بھی پیدا کردیتا ہے۔
یہی ایمان اور اسلام کا لفظ دیکھو۔ مثلا قد افلح المؤمنون میں مومن بڑا وسیع المعنی ہے لیکن ان الذین امنوا وعملواالصلحت میں معانی میں ایک خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر دوسری جگہ منافقوں اور کافروں کے مقابلہ میں باوجود انکے دعوی ایمان کے فرمایا۔ ماھم بمؤمنین ۔
اسی طرح اسلام کے متعلق ایک جگہ فرمایا انالدین عنداللہ الاسلام۔ لیکن دوسری جگہ قالت الاعراب امنا قل لم تؤمنواولکن قولوااسلمنا میں اسلام کا مفہوم بالکل متضاد ہوگیا۔ اسلئے بخاری نے ایک باب باندھا ہے تاکہ اسکی تصریح ہوجاوے۔
حقیقت اور مجاز :
اس باب میں بخاری صاحب حقیقت کا لفظ لائے ہیںَ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت اور مجاز کی بحث تیسری صدی تک پیدا نہیں ہوئی اسکے بعد یہ بحث نظر آتی ہے۔ بخاری صاحب کے زمانہ میں یہ لفظ مجاز حقیقت کے مقابلہ میں نہیں بولتے تھے۔ غرض باب18میں مومن اور مسلم میں ایک امتیاز معنوی بتایا گیا ہے اور حدیث نمبر25میں آنحضرت ﷺ نے اپنے عمل سے تالیفِ قلب کے ثبوت دیا ہے۔ کہ کسی ایسے شخص کو جو ابھی ضعیف الایمان تھا اپنے عطیہ سے نار جہنم میں گرنے سے بچا لیا۔اور کفر بالرسول ایک مرتبہ رکھتا ہے اور کفر بالعشیرہ کی جدی ہی صورت ہے۔
اصلاح معاشرہ :
اس باب کے ماتحت جو حدیث نمبر27میں بیان ہوئی وہ کفر بالعشیرہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اور کفر بالعشیرہ کی سزا جہنم دکھایا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے کشفی مشاہد کی بنا پر عورت کا اپنے شوہر کے احسانات کو فراموش کردینا کفر بتایا ہے اور اسلئے ایمان کے شعبوں میں سے شوہر کی حق شناسی اور احسان شناسی بھی ایک شاخ ایمان کی ہے۔ اس سے آنحضرت ﷺ وہ عظیم الشان اصلاح کرنا چاہتے تھے اور آپ نے جس پر حسن معاشرہ اور سوشل لائف کا سارا نظام منحصر ہے یہ ایک نہایت لطیف اور قابل قدر باب آنحضرت ﷺ کی لائف کے اصلاحی حصہ کا ہے اور اسے میں اسی شخص کیلئے چھوڑتا ہوں جو اسپر لکھنا چاہے تاہم میں اتنا ضرور کہوں گا کہ جہاں حضور علیہ السلام نے عورت ذات کی کوئی عظمت کو ازسر نو قائم کیا وہاں الرجال قوامون علی النساء کے ماتحت عورتوں کو شوہروں کی اطاعت اور قدر شناسی کی وہ تعلیم دی کہ دنیا کی کوئی کتاب کوئی مذہب اور کوئی ہادی نہیں دے سکا۔ یہاں تک احسان فراموشی کو گونہ کفر قرار دیا اللھم صل علی محمد وبارک وسلم۔
باب ۱۹ السلام علیکم اسلام سے ہے اور عمار نے کہا کہ تین باتیں جس شخص نے جمع کرلیں اس نے ایمان کے تمام شعبوں کو جمع کرلیا اپنی ذات کے مقابلہ میں انصاف کرنا تمام لوگوں سے سلام علیکم کرنا اور تنگدستوں میں رہ خدا میں خرچ کرنا۔
حدیث نمبر۲۶
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول خدا ﷺ سے پوچھا کہ کونسا اسلام بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور السلام علیکم کہو ۔ ہر شخص سے خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں۔
حاشیہ باب 19حدیث 26
باب 19میں اپنی ذات کے مقابلہ میں انصاف کرنا ایک ایسی عظیم الشان تعلیم ہے کہد وسرے مذاہب اسکا مقابلہ نہیں کرسکے اور تنگدستی میں راہِ خدا میں خرچ کرنا بھی اعلیٰ درجہ کے ایثار کی تعلیم ہے اس باب کے ماتحت جو حدیث ہے وہ پہلے آچکی ہے۔
باب ۲۰ شوہر کی ناشکری کفر ہے اور (کفر کے مراتب میں) کوئی کفر کسی کفر سے کم ہوتا ہے کوئی زیادہ اس مضمون میں ابوسعید کی روایت آنحضرت ﷺ سے ہے۔
حدیث نمبر ۲۷
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جہنم دکھایا گیا تو اسکے ساکنین میں سے زیادہ تر عورتوں کو پایا کیونکہ وہ کفر کرتی ہیں ۔ پوچھا گیا کہ کیا اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ شوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیںَ (اے مخاطب) اگر تو کسی عورت کے ساتھ زمانہ دراز تک احسان کرتا رہے اسکے بعد کوئی امر تجھ سے خلاف جو کہے تو جھٹ کہدیگی میں نے تم سے کبھی آرام پایا ہی نہیں۔
حاشیہ باب20حدیث27
جسطرح پر ایمان ایک درخت ہے اور اسکے سٹے اور شاخیں ہیں اسی طرح کفر ایک درخت ہے اور اسکی بھی شاخیں ہیںَ اس باب میں یہ بھی بتایا کہ کفردون کفر یعنی کفر کے مراتب میں کوئی فعل کفر کا بڑا ہوتا ہے کوئی چھوٹا۔ مچلا کفر باللہ جدی شان رکھتا ہے۔
باب ۲۱ گناہ جاہلیت کا فعل ہے اور گناہ کا مرتکب بدوں شرک کے ان کے ہی ارتکاب سے کافر نہ کہا جاوے کیونکہ نبی ﷺ نے کسی کو فرمایا کہ بے شکر تو ایسا آدمی ہے کہ تجھ میں جاہلیت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے موافق ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ یغفر مادون ذالک من یشاء میں اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشتا کہ اسکے ساتھ کسی کو شریک کیا جاوے اور اسکے علاوہ جسے چاہے بخشدے۔
حدیث نمبر ۲۸
معرور کہتے ہیں کہ ابوذر سے میں نے ملاقات کی مقام زبدہ میں اور اس نے ایک چادر پہنی ہوئی تھی اور اس کے غلام کے اوپر بھی ویسی ہی چادر تھی میں نے اس سے سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو ماں کی گالی دی۔ اسپر مجھے نبی ﷺ نے فرمایا اے اباذر کیا تو نے اسکو اسکی ماں سے غیرت دلائی ہے؟ بے شک تو ایسا آدمی ہے کہ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا مادہ باقی ہے تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انکو تمہارے ماتحت کردیا ہے پس جسکا بھائی اسکے ماتحت ہو اسکو چاہئے کہ جو خود کھائے اسکو بھی کھلائے اور جو خود پہنے اسکو بھی پہنائے اور اپنے غلاموں سے وہ کام نہ لے جو انپر شاق ہو اور اگر کہو تو خود بھی انکی مدد کرو۔
حاشیہ باب21حدیث28
اس باب میں عام گناہ اور شرک کا امتیاز بتایا ہے اور اس طرح پر کتاب الایمان کے نیچے اسکو لاکر شرک کو خطرناک چیز ظاہر کیا ہے۔ اس باب کے نیچے جو حدیث پیش کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ بدزبانی اور گالی گلوچ کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپؐ اس سے سخت بیزار اور اسکو جہالت قرار دیتے تھے اور جہالت کو ایمان کی ضد بتایا ہے۔
اصلاح غلامی : پھر اسی حدیث سے آنحضرت ﷺ کی اس اصلاح کا پتہ لگتا ہے جو انسداد غلامی کیلئے آپ نے فرمائی۔ غلامی کا کیا انسداد کیسا ہے کہ متعصب سے متعصب عیسائیوں کو بھی آپ اسکی بے اختیار تعریف کرنی پڑی ہے چنانچہ گاڈ فری ہیگنس ایک عیسائی مؤرخ نے بڑے زور کیس اتھ اپنی کتاب محمدؐ اینڈ محمڈن ایزم میں خصوصیت سے اسی حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ اسکا جو اثر مسلمانوں کے اخلاق اور سوشل برتاؤ پر پڑا اور اس سے ظاہر ہے کہ فاروق اعظم جب جلیل الشان خلیفہ(رضی اللہ عنہ) اپنے عین عروج کے زمانہ میں اپنی باری میں اونٹ کی مہار پکڑ کر جسپر آپ کا غلام سوار تھا پاپیادہ چلنے کو فخر سمجھتے تھے یہ تبدیلی معمولی تبدیلی نہیں ہے اس قسم کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ بیان یہ مقصود نہیں کہ مسئلہ غلامی پر کوئی تفصیلی بحث کی جاوے۔ ابوذر کا واقعہ بتاتا ہے کہ اسکا لباس ویسا ہی تھا جیسا اس کے غلام کا۔ اور خود نبی کریم ﷺ نے اپنی تعلیم میں بتادیا تھا کہ غلاموں کے ساتھ بھائیوں کا سا سلوک کرو۔ انکے کھانے پیچنے۔ اور لباس اور میں اپنے لباس اور کھانے پینے کے مقابلہ میں کوئی فرق اور امتیاز نہ رکھو۔

باب ۲۲ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرادو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام مسلمان رکھا ہے۔
حدیث نمبر۲۹
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں اس مرد کی(حضرت علیؓ) مدد کو چلا پس مجھے ابوبکر ملے اور مجھ سے پوچھا تم نے کہاں کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا اس مرد( علیؓ) کی مدد کرونگا۔ انہوں نے کہا۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ مقابلہ کریں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ قاتل کیلئے تو ٹھیک ہے مگر مقتول کاکیا حال(یعنی وہ کیوں دوزخ میں جائیگا) آپؐ نے فرمایا کہ وہ اپنے مقابل کے قتل کا شائق تھا۔
حاشیہ باب22حدیث 29
اس باب سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اگر دو مسلمان گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ کیونکہ مسلمان کی شان ہی نہیں کہ باہم لڑیں اور اسکے ماتحت جو حدیث بیان کی ہے اسمیں نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد پیش کرکے کہ قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں جائیں گے باہمی جدال وقتال سے نفرت دلائی ہے۔
یہ باب اس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد قراء کی ایک قوم تھی جنکا مذہب یہ تھا کہ انسان گناہ کرنے سے کافر ہوجتا ہے۔ اسی قسم کے عقیدوں کے تحت میں حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا۔ یہ بڑی سخت قوم ہے انکے نزدیک اگر عورت کو نظر بد سے دیکھ لے تو کافر ہوجاتا ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ کی جنگیں ہوئیں تھیں تو صحابہ چار گروہ تھے ایک حضرت علیؓ کو حق پر سمجھتے تھے دوسرے کہتے تھے کہ معاویہ قاتلونِ مثمان ؓ کا طالب ہے۔ بعض نے دونوں کو معذور سمجھا بعض نے کہا کہ کیوں خانہ جنگی کرتے ہیں اور گھر میں تلوار چلاتے ہیںَ یہ ابوبکر اس آخری گروہ میں سے تھا اور احنف حضرت علی کے سپہ سالار تھے الغرض اسباب میں دو مسلمانوں کے باہمی جدال وقتال سے سخت نفرت دلائی ہے۔
تعلیقات : بخاری صاحب کو جہاں کوئی حدیث نہیں ملتی مگر بات پکی ہوتو وہ اسے تتعلیقات کہتے ہیں۔
باب ۲۳ ظلم کے مراتب میں (کوئی ظلم کسی ظلم سے کم ہوتا ہے کوئی زیادہ)
حدیث نمبر ۳۰
عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ جب یہ آیت الذین امنواولم یلبثواایمانہم بظلم اولئک لھم الدین وھم معتدون (جو لوگ مومن ہوئے اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا انکے لئے امن ہے وہ بامراد ہونے والے ہیں) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے عرض کیا ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ان الشرک لظلم عظیم۔ (بے شک شرک بڑاظلم ہے)
حاشیہ 23حدیث30
اس باب میں ظلم کے مراتب اور مدارج کیطرف اشارہ کرکے ظلم کے معنے شرک بتائے ہیں اور شرک سے منع کیا ہے۔ قرآن کریم سے بڑھ کر کس کتاب نے شرک کی اسقدر مذمت اور قباحت بیان نہیں کی یہانتک کہ فرمایا ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذالک۔ اس سے بڑھکر تہدید کیا ہوسکتی ہے گویا ہر قسم کیک گناہ کیلئے معافی کی صورت ہے مگر شرک کیلئے الوہیت کے جلال مقتضی نہیں کہ اسے معاف کرے ۔ قرآن کریم میں اور بھی بہت سے مقامات میں جنمیں شرک کی برائی اور اسکے برے نتائج کا ذکر کیا گیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہی ایک برائی ہے جو انسان کو تمام صداقتوں اور علوم حقہ سے محروم کردیتی ہے اور ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ آمین
باب ۲۴ منافق کی علامات میں
حدیث نمبر ۳۱
ابوہریرہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیںَ کہ آپ نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں۔
۱ جب بولے جھوٹ بولے
۲ جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔
۳ جب اسکے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
حدیث نمبر ۳۲
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا نبی ﷺ نے جسمیں چار باتیں ہوں گی وہ پکا منافق ہے اور جسمیں ان میں سے کوئی ایک ہوگی تو اسمیں نفاق کی ایک خصلت ہے۔ جبتک وہ اسے چھوڑ نہ دے :
۱ جب اسکے سپرد امانت ہوتو خیانت کرے۔
۲ جب ابت کرے تو جھوٹ بولے۔
۳ جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔
۴ جب جھگڑا کرے تو گالی دے(اعمش سے روایت کرنے میں سفیان نے شعبہ سے متالجت کی ہے)
حاشیہ باب24حدیث31,32
باب24میں منافق کے علامات بتائے ہیں اسکے ضمت میں جو دو حدیثیں بیان کی ہیں ان میں چار علامتیں بیان کی ہیں منافق چونکہ مومن نہیں ہوتا اسلئے بخاری صاحب اسکی علامات کو کتاب الایمان میں لائے ہیں اور یہ امر قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الآخر وما ھم بمؤمنین (بقرہ) اسمیں صاف لکھا ہے وما ھم بمؤمنین۔ جو علامات یہاں نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی ہیں وہ قرآن مجید سے بھی ثابت ہیں۔ اول جھوٹ۔ وھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون۔ اور انکو دردناک عذاب دیا جائیگا۔ کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر سورۃ منافقون میں تو صاف لکھا ہے ان المنافقین لکذبین۔ بے شکک منافق جھوٹ بولتے ہیںَ دوم بدعہدی کرتے ہیں سورۃ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان اللہ ہلا یہدی القوم الفاسقین۔ اور فاسق کے معنی خود قرآن مجید کرتا ہے الذین ینقضون عہد اللہ من بعد میثاقہ۔

باب ۲۵ لیلۃ القدر میں قیام ایمان کی بات ہے۔
حدیث نمبر ۳۳
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جوکوئی ایماندار ہو کر اور موجب ثواب سمجھکر لیلۃ القدر میں قیام کرے تو اسکے اگلے گناہ بخشدے جائیں گے۔

حاشیہ باب25حدیث33
لیلۃ القدر ایک معروف ومشہور رات ہے جو رمضان میں ہوتی ہے لیکن لیلۃ القدر مامور کے زمانہ کو بھی کہتے ہیں اس صورت میں مامور ومرسل ربانی کے زمانہ میں قیام بہرحال قابل قدر اور موجب ایمان ہے اور اس وقت اسکو قبول کرنا آسان امر نہیں ہوتا اور یہ ظاہر بات ہے۔
لیلۃ القدر کی حقیقت : حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسکے متعلق جو تحریر فرمایا ہے وہ یہ ہے (نقل کرواز فتح اسلام)

باب ۲۶ جہاد کرنا ایمان کی بات ہے۔
حاشیہ باب26
جہاد کے متعلق پہلے بحث کردی گئی ہے کہ وہ سعی فی الدین کا نام ہے یہ بھی وقتی ضرورتوں کے موافق کبھی مالی قربانی سے ہوتی ہے اور کبھی زبان سے اور کبھی نثار جان کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاد کی حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنا سکھایا گیا ہے اور دنیا کی محبوب ترین اشیاء کو دین کیلئے قربان کرنے کی تعلیم ہے۔ یہ ایثار۔ یہ قربانی اور مجاہدۂ ایمان کے بدوں کب حاصل ہوسکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ اگر اللہ تعلایٰ کی راہ میں مجھے مارا جاوے پھر بھی میری یہ آرزو ہوگی کہ اس موت پر حیات کو قربان کروں کیونکہ یہ موت نہیں بلکہ حیات ہے اور حیات بھی حیات طیبہ۔

باب ۲۹ دین آسان ہے اور آنحضرت ﷺ کا ارشاد کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حنیفجہ ہے جو سہل ہے۔
حدیث نمبر ۳۷
ابوہریرہ ؓ سے ورایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دین آسان ہے اور جو شخص دین میں تشدد کریگا وہ مغضوب ہوگا پس تم لوگ میانہ روی کرو اور قرب الٰہی حاصل کرو۔ اور خوش ہوجاؤ اور صبح اور دوپہر کے بعد کچھ رات میں عبادت کرنے سے استعانت الٰہی چاہو۔
حاشیہ باب29حدیث 37
دین حنیفہ سے مراد ملت ابراہیمی ہے چنانچہ قرآن مجید سورۃ بقرہ کے رکوع16میں فرماتا ہے وقالواکونوا ھودا اور نصاریٰ تہتدوا قل بل ملۃ ابراہیم حنیفا۔ ایسا ہی سورۃ آل عمران میں فرمایا قل صدق اللہ فاتبعوا ملۃ ابراہیم حنیفا۔ حنیف کے معانی بھی قرآن مجید نے خود ہی کردئے ہیںَ ماکان من المشرکین پھر اسکے معنی فرمائے قانتا للہ ۔ مخلصین لہ الدین۔ الدین یسر یہ بالکل سچی بات ہے قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے۔ یرید اللہ بکم الیسر۔ میانہ روی کی تعلیم اسی حدیث نمبر37سے صاف ظاہر ہے اور یہ قرآن مجید میں وقصد فی مشیک موجود ہے۔ اور اوقات عبادت کیلئے بھی سورہ روم کے رکوع ۲ میں ہدایت ہے فسبح ن اللہ حین تمسون وحین تصبحون ولہ الحمد فی السموت والارض وعشیا وحین تظہرون۔
اسلام اوقات عبادت میں دوسرے تمام مذاہب سے ممتاز ہے اور اسکی تشریح مزید اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نماز کی بحث میں کریں گے۔ وباللہ التوفیق۔

باب ۳۰ نماز ایمان میں سے ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ماکان اللہ لیضیع ایمانکم (اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری نمازیں ضائع کرے)
حدیث نمبر ۳۸
براء سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ پہلی مرتبہ مدینہ میں آئے تو اپنے اجداد کے اخوالہ(ننہال) میں جو انصار رہے اترے اور آپ نے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے سولہ یا سترہ مہینے نماز پڑھی مگر آپ کو یہ پسند آتا تھا کہ آپکا قبلہ کعبہ کی طرف ہوجاوے اور سب سے پہلی نماز جو آپ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی وہ عصر کی نماز تھی اور آپ کے ساتھ ایک قوم نے نماز پڑھی ان لوگوں میں سے جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی ایک شخص نکلا اور وہ کسی مسجد کے لوگوں کی طرف گزرا اور وہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے رکوع کررہے تھے پس اسنے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کررکے کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مکہ کی طرف منہ کرکے نامز پڑھی ہے پس وہ جس حالت میں تھے مکہ کی طرف پھر گئے اور جب آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو یہود اور اہل کتاب بہت خوش ہوتے تھے ۔ مگر جب آپ نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا تو یہ انکو ناگوار ہوا۔ زبیر جواس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسحٰق نے براء سے اس حدیث میں یہ بھی نقل کیا ہے کہ قبل تحویل کے اسی پہلے قبلہ پر کچھ لوگ مرچکے تھے تو ہم کو علم نہ تھا کہ انکے بارے میں کیا کہیں اسپر اللہ تعالیٰ نے آیت ماکان اللہ لیضیع ایمانکم نازل فرمائی۔
حاشیہ باب30حدیث38
ایمان بمعنی نماز قرآن مجید کی آیت ماکان اللہ لیضیع ایمانکم سے ثابت کیا ہے۔ اسی باب کے نیچے جو حدیث ہے وہ تحویل قبلہ کے واقعات پر مشتمل ہے۔

باب ۳۱ آدمی کے اسلام کی خوبی (کا کیا نتیجہ ہوتا ہے)
حدیث نمبر ۳۸
ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا کہ جب آدمی مسلمان ہوجاتا ہے اور اسکے اسلام میں حسن پیدا ہوجاتا ہے تو اللہ تعلایٰ اس کے تمام گناہوں کو جو اس نے کئے تھے معاف کردیتا ہے اور پھر اس کے بعد بدلہ ہوتا ہے کہ نیکی کا بدلہ اسکے دس گنے سے لیکر سات سو گنے تک اور بدی کا بدلہ اسی قدر( دیا جاتا ہے) مگر یہ کہ اللہ اس سے درگزر فرمائے۔
حدیث نمبر ۳۹
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص تم میں سے اپنے اسلام میں خوبی پیدا کرلیتا ہے تو جونیکی وہ کرتا ہے وہ اس کیلئے دس گنے سے لیکر سات سو گنے تک لکھی جاتی ہے اور جو برائی وہ کرتا ہے وہ اسکے لئے اتنی ہی لکھی جاتی ہے۔
حاشیہ باب31حدیث38,39
اسلام میں حسن پیدا ہونے سے میہ مراد ہے کہ انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوجاتا ہے اور عبادت واطاعت الٰہی میں ایک حسن اور خوبی پیدا کرتا ہے اور وہ حسن فی العبادت مرتبہ احسان کے نیچے ہوتا ہے جسکی تعریف اسی باب میں آگے آتی ہے قرآن مجید کی یہ آیت بلیٰ من اسلام وجہہ للہ وھو محسن فلہ اجرہ عندربہم لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون ۔ اس حسن کو ظاہر کرتی ہے اور ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔ ایسا ہی الذین احسنوا الحسنیٰ وزیادہ بھی اسی کی مؤید ہے۔
اس باب کے نیچے جو احادیث امام صاحب لائے ہیں انمیں دو باتوں کا ذکر ہے۔ اول اللہ تعالیٰ اسلام میں حسن پیدا ہونے سے پچھلے گناہ معاف کردیتا ہے۔ اور پھر ان اعمال صالحہ کا بدلہ دس گنے سے لیکر سات سو گنے تک عطاء کرتا ہے۔
یہ ایک ثابت شدہ صداقت ہے ۔ قرآن مجید نے ان الحسنات لیذھبن السیئات میں اسکی حقیقت کو بیان کردیا ہے اور جب بدیاں چھوڑ کر انسان نیکی اختیار کرلیتا ہے تو پھر ان گناہوں کے معاف ہونے میں کیا شبہ رہا۔ رہی یہ بات کہ نیکی کا بدلہ دس گنے سے لیکر سات سو گنے تک دیتا ہے یہ بھی ایک امر واقعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسکو قرآن مجید میں ایک مثال کے ذریعہ دکھایا ہے مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ واللہ یضعف لمن یشاء واللہ واسع علیم۔ یہ امر اللہ تعالیٰ کے فضل کا نشان ہے اور اس سے امید وسیع ہوتی ہے جو ایمان کا جزو ہے اور بدی کا بدلہ اسی قدر جزاء ہے۔

باب ۳۲ اللہ تعالیٰ کو وہ دین کا کام سب سے زیادہ پیارا ہے جو ہمیشہ( بنتا) رہے۔
حدیث نمبر ۴۰
عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ آپؓ کے پاس آئے اور اسوقت عائشہؓ کے پاس کوئی عورت (بیٹھی ہوئی) تھی آپؐ نے پوچھا یہ کون ہے عائشہ بولیں کہ یہ فلاں عورت ہے۔ اور اسکی نماز( کی کثرت) کا حال بیان کرنے لگیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ٹھہرو تم پر وہی فرض ہے جسکی تم طاقت رکھو۔ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ تو اجر دینے سے نہیں تھکتا یہانتک کہ تم (عبادت کرنے سے) تھک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پیارا وہ نیکی کا کام ہے جسپر اسکا کرنے والا مداومت کرے۔
حاشیہ باب32حدیث40
اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعلایٰ کے نزدیک محبوب عمل وہی ہے جسمیں استقلال اور دوام ہو۔ قرآن کریم میں جو اکثر جگہ صبر کی تلقین کی گئی ہے تو اس سے یہی دوام مراد ہے۔ کیونکہ صبر کے معنی نیکیوں پر مداومت اور بدیوں سے پرہیز پر استقلال کا نام ہے۔ یہ دوام علی الاعمال استقامت کے نام سے بھی موسوم ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ۔ نیکیوں پر دوام اور استقامت اللہ تعالیٰ کی استعانت اور نصرت کو جذب کرتا ہے اور چونکہ دین اسلام آسان اور سہولت اپنے اندر رکھتا ہے اسلئے یہ بھی تعلیم کرنا آپؐ کو مقصود ہے کہ انسان ایسا کام نہ کرے جو طبیعت اکتا جاوے اور ناقابل برداشت ہوجاوے اور اسی میں بجائے لذت اور ذوق کے تلخی اور سستی پیدا ہوجاوے۔ اسلام اعتدال کی تعلیم دیتا ہے اور وہ کسی حال میں بھی انسان کو ایک ہی طرف جھک جانے کی ہدایت نہیں کرتا اسکے یہ معنی نہیں کہ تھوڑی سی بدی بھی نعوذ باللہ کرلینی چاہئے بلکہ غرض یہ ہے کہ بدیوں سے تو بچنا ہی چاہئے۔ عبادت یہ بھی اتنا زور نہیں دینا چاہئے کہ وہ ناقبل برداشت ہوجاوے۔ بلکہ ہر ایک فعل دنیا کا بھی عبادت ہی ہوجاتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ
باب ۳۳ ایمان کا اور کم ہونا(ثابت ہے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد وزدناھم ھدی( اور ہم نے انکی ہدایت زیادہ کردی) ویزداد الذین امنوا (اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جاوے) اسپر دلیل ہے اور نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے الیوم اکملت لکم دینکم کیونکہ جب کمال سے کچھ چیز رہ جاوے وہ ناقص ہے۔
حدیث نمبر ۴۱
انس سے روایت ہے کہ فرمایا نبی ﷺ نے کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے اور اسکے قلب میں ایک جو کے برابر بیکی بھی ہو وہ دوزخ سے نکالا جائیگا۔ اور جوشخص لاالٰہ الا اللہ کہے اور اسکے قلب میں گیہوں کے برابر نیکی ہو وہ بھی نکالا جائیگا۔ اور جوشخص لاالٰہ الا اللہ کہے اور اسکے قلب میں ذرہ بھر نیکی ہو۔ ابوعبداللہ کہتا ہے کہ ابان نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں ہم سے انس نے نبی ﷺ سے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر ۴۲
عمرؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے اسے کہا کہ اے امیر المؤمنین تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جسکو تم پڑھتے ہو اگر ہم میں سے یہودیوں کے گروہ پر وہ آیت نازل ہوتی۔ تو ہم اس دن کو عید بنالیتے۔ امیر المؤمنین (عمرؓ) نے پوچھا کہ وہ کونسی آیت ہے۔ یہودی نے کہا کہ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بے شک کہ ہم اس دن اور اس مقام کو شناخت کرلیا ہے جسمیں یہ اایت نازل ہوئی۔ آپ اس دن عرفہ میں مقیم تھے اور وہ جمعہ کا دن تھا۔
باب 33حدیث41,42
ایمان کی زیادتی کے مسئلہ پر پہلے بحث ہوچکی ہے۔ یہاں ابھی امام صاحب نے دو اایتوں کو اس امر کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ ایمان بڑھتا ہے اور کم ہوجانے کے متعلق قرآن کریم کی آیت تکمیل ہدایت سے استدلال کیا ہے۔الیوم اکملت لکم دینکم الایۃ میں تکمیل دین سے مراد تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت مراد ہے اور اس سے غرض یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سنن و کے موافق ہدایت اسلام کی تکمیل تدریجا فرمائی۔ میری سمجھ میں اسلام کسی حالت میں ناقص نہ تھا۔ ناقص سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرورتِ وقت کے لحاظ سے کافی نہ ہو بحالیکہ اسلام اور اس کی ہدایات ہر زمانہ میں اسکے حسب حال اور کافی تھیں کہ آنحضرت ﷺ کے وقت جو تکمیل ہوئی تو اس کا یہ منشاء یہ ہے کہ کمالات نبوت آنحضرت ﷺ پر ختم ہوگئے اور آپؐ کی نبوت اور ہدایت کا دامن ابدی اور غیر فانی قرار پاگیا اور اسی میں تکمیل اشاعت ہدایت کا راز ہی مضمر کیا گیا کہ وہ شخص جسکے وقت اور عہد میں اشاعت ہدایت کی تکمیل کا جزو پورا ہوگا اور وہی آپؐ ہی کے رنگ میں رنگین اور آپؐ کی اتباع میں فنا اور گم ہوگا۔ غرض اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کسی وقت اسلام ناقص تھا۔

حدیث 41
اس امر کو ظاہر کرتی ہے کہ ایمان یا نیکی کا ادنی سے ادنی جزو میں بشرطیکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید شامل ہو انسان کو بالآخر دوزخ سے نجات دلوائے گی اور یہ قرآن مجید سے بھی ثٓبت ہے من یعمل مثقال ذرۃ خیر یرہ۔ برہ کے معنے گیہوں کے دانے ہیں اور ذرہ چنیونٹی کو بھی کہتے ہیں اور سورج کی کرن سے جو منتشر جزو ایک کوہڑی میں معلوم ہوتے ہیں وہ بھی ذرات ہی کہلاتے ہیں ۔ ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں جو فرمایا کہ لا الٰہ الا اللہ کہے تو ایسے طور پر نہیں جیسے کوئی منتر وٹ کیا جاتا ہے بلکہ اسکی کیفیت اور مفہوم اسکے اس کے اندر ہو اسی لئے دوسری روایت میں فرمایا کہ خیر کے بجائے ایمان فرمایا۔
حدیث 42
حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد کہ ہم نے اس مقام اور دن کو شناخت کرلیا ہے بمقابلہ اس کے کہ ہم اس دن کو عید بناتے یہ ظاہر کرتا ہے کہ جمعہ کا دن مسلمانوں کا عید ہی ہوتا ہے پھر کسی اور عید کی محض اس آیت کے نزول کی وجہ سے کیا ضرورت ہے عید پہلے سے موجود ہے۔ اس آیت کو جو بخاری صاحب اس باب کے نیچے لائے ہیں تو غرض تکمیل دین اور تکمیل اسلام ونعمت ہے ۔ وہ ایمان اعمال صالحہ کے متعلق ہدایات اور انکے نتائج وثمرات ہیں اور انہیں یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان بڑھتا ہے اور کامل ہوتا ہے۔

باب ۳۴ زکوٰۃ کا ادا کرنا اسلام سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد وما امروا الا لیعبدو اللہ مخلصین لہ الدین ویقیمواالصلوٰۃ ویؤتواالزکوٰۃ وذلک من
حدیث نمبر ۴۳
طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے کہ ایک نجومی آدمی جسکے بال بکھرے ہوئے تھے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ہم اسکی آواز کی گن گناہٹ سنتے تھے۔ مگر کچھ سمجھتے نہ تھے یہاں تک کہ جب وہ قریب آیا( تو پتہ لگا) کہ وہ آنحضرت ﷺ سے اسلام کی حقیقت پوچھتا تھا تب آپؐ نے فرمایا کہ رات دن میں پانچ نمازیں ہیں اس نے پوچھا کہ کیا اس کے سوا بھی( کوئی نماز مجھ پر فرض ہے) آپ نے فرمایا نہیں ۔ مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے پڑھے پھر آپؐ نے فرمایا اور رمضان کے روزے اس نے کہا کہ کیا اس کے سوا بھی مجھ پر (فرض) ہیں آپ نے فرمایا نہیں۔ مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے رکھے ۔ طلحہ کہتے ہیں کہ آپ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا اس نے کہا کہ کیا مجھ پر اس کے علاوہ(اور کوئی صدقہ بھی) ہے آپؐ نے فرمایا کہ نہیں۔ مگر ہاں اگر تو اپنی خوشی سے دے۔ طلحہ کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹا کہ اللہ کی قسم میں اس سے کم زیادہ نہ کروں گا ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو بامراد ہوگیا۔
حاشیہ باب34حدیث43
اس باب میں ادائے زکوٰۃ کو اسلام کا ایک جزو قرار دیا ہے یا اسلام کا کام ٹھہرایا ہے۔ کتاب الایمان کے تحت میں اسلام اور ایمان کو گونہ مترادت نہیں ظاہر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ایمان کامل کیلئے اعمال صالحہ کا صدور ضروری ہے ۔ قرآن مجید کی جس آیت کو استدلال کیلئے پیش کیا ہے اس میں عبادت مخلصا لہ الدین امام الصلوٰۃ اور ایتاء الزکوٰۃ کو دین قرار دیا ہے اور اس باب کے نیچے جو حدیث بیان کی ہے اس میں الدین یسر کے ساتھ مطابقت کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اسلام کی حقیقت یا اعمال اسلام بتائے ہیں اور فرائض کی تعلیم دی ہے اور سائل جو یہ کہا کہ بخدا میں اس پر کچھ زیادہ نہ کرو ں گا تو اس سے یہ مطلب ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد پر عمل کروں گا اپنی طرف سے کوئی اضافہ نہیں رکوں گا اور یہ ہے ہی سچ۔ بزہد وورع کوش وصدق وصفا و لیکن برمصطفیٰ اور رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کہ اگر اس نے سچ کہا تو بامراد ہوگیا یہی حقیقت اپنے اندر رکھتا ہے۔
باب ۳۵ جنازوں کے ساتھ جانا ایمان کی بات ہے۔
حدیث نمبر ۴۴
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جوشخص کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ ایماندار ہوکر اور ثواب سمجھ کر جاتا ہے اور جب تک اس پر جنازہکی نماز نہ پڑھ لی جاوے اور اسکے دفن سے فراغت نہ کرلی جاوے اس کے ساتھ رہتا ہے تو وہ اجر کے دوحصہ لیکر واپس لوٹتا ہے ہرحصہ احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے ۔ اور جو شخص نماز جنازہ پڑھ لے اور پھر قبل اس کے کہ وہ دفن کیا جاوے لوٹ آوے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے۔
حاشیہ باب۳۵ حدیث۴۴
اتباع جنائز کو ایمان میں داخل کرکے آنحضرت ﷺ نے ہمدردی اور مواساۃ اسلامی کی ایک خاص نظر قائم کی ہے ایسے موقع پر جب کسی کا کوئی عزیز فوت ہوجاتا ہے تو بالطبع ایسے شخص کو ہمدرد وغمگسار کی ضرورت ہوتی ہے نبی کریم ﷺ نے جنازے کے ساتھ جانیا ور دفن کرنے تک ساتھ رہنے کو ایمان کا حصہ قرار دیا چونکہ بعض آدمی اس قدر وقت ممکن تھا نہ دے سکتے اس لئے جنازے کی نماز تک تو ساتھ رہنا ضروری قرار دیا اور قبر میں دفن کرنے تک ساتھ دینا موجب ثوب مزید قرار دیا۔ وہی الدین یسر کے مسئلہ کو ہر جگہ مدنظر رکھتا ہے اور ثواب کے ایک حصہ کی مقدار جو احد کے پہاڑ کے برابر تھا بتائی اس سے مراد کثرت ہے اور زیادت ثواب مقصود ہے اور قیراط بمعنے حصہ استعمال ہوئی ہے۔

باب ۳۶ مومن کا اس بات سے ڈرنا کہ اس کی بے خبری میں اس کا عمل اکارت کردیا جاوے اور ابراہیم بن تیمی نے کہا کہ میں جب اپنے قول کو اپنے فعل سے مطابقت کرتا ہوں تو مجھے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں میں خدا تعالیٰ کے حضور جھوٹا نہ ہو جاؤں اور ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کے تیس صحابہ سے ملاقات کی وہ سب اپنے منافق ہونے سے ڈرتے تھے ان میں سے کوئی شخص یہ نہ کہتا تھا کہ میں جبرائیل اور میکائیل میں ایمان رکھتا ہوں اور حسن بصری سے منقول ہے کہ نفاق کا خوف وہی کرے گا جو مومن ہے اور اس سے بے خوف وہی شخص ہوجائیگا جو منافق اور باہم قتال اور گناہ پر اصرار کرنے اور پھر توبہ نہ کرنے پر اصرارکرتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلیل ہے کہ ولم یصروا علی مافعلوا وھم یعلمون۔
حاشیہ باب۳۶
ایمان بین الخوف والرجا ہے۔ اس باب میں بخاری علیہ السلام نے ایمان کے اس ضروری حصہ کو بتایا ہے۔ خوف سے احتیاط پیدا ہوتی ہے جب انسان حبط اعمال سے ڈرتا رہے گا تو ضرور وہ کوشش کریگا کہ ان اعمال کا خیال رکھے جو حبط کا موجب ہوگئے ہیں قرآن مجید میں اسکی تصدیق ہوئی من کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ یہ خوف ایمان کو محفوظ رکھتا ہے اور اگر انسان خوف نہ کرے اور اپنے ایمان پر ناز اور گھمنڈ کرے تو یہ بے خوفی اللہ تعالیٰ اس سے پناہ میں رکھے۔ (آمین)

حدیث نمبر ۴۵
زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابووائل سے مرجئہ(ایک فرقہ) کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا ۔ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر۔
حاشیہ حدیث نمبر۴۵
باب ۳۶ کے نیچے جوحدیث بخاری صاحب لائے ہیں بظاہر اس کا کوئی تعلق باب مذکور سے معلوم نہیں ہوتا لیکن دراصل انہیں یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ جب انسان ایمان اور اعمال کے حبط ہوجانے سے دڑتا ہے تو وہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کی احتیاط کرتا ہے اور حبط اعمال بعض اوقات ادنیٰ ادنیٰ باتوں سے ہوجاتا ہے جیسے گالی دینا۔ یہ فسق ہے اور فسق نفاق کا نشان ہے اور مسلمان سے لڑنا گونہ کفر ہے پس انسان کی اصلاح اس طرح ہوسکتی ہے کہ وہ گالیوں کو چھوڑ دے اور باہی جدال وقت سے پرہیز کرے۔
مرجئہ : یہ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ اول جن سے امام بخاری کو مقابلہ ہوا یہ وہ لوگ تھے جو کہتے تھے ایمان بڑی نعمت ہے مگر اس سے آگے ان کا یہ مذہب ہے کہ بحالت کفر کافر کو کوئی نیکی مفید نہیں ہے اسی طرح پر ایمان کی حالت میں کوئی بدی مضمر نہیں یہ نہایت کطرناک راہ ہے یہ لوگ ایمان کا نام لیکر ہر قسم کے گناہ کرتے تھے حالانکہ قرآن مجید میں صاف ہے۔ من یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شر ایرہ۔
آج کل بھی مسلمان اس پر عملی رنگ میں مصر ہوتے ہیں خدا کرے تم ایسے نہ ہو(آمین)
دوم وہ لوگ ہیں جو اعمال کو ایمان کا جزو نہیں سمجھتے ۔ امام بخاری ان کو بھی مرجئہ ہی سمجھتے ہیںَ
تیسرے وہ تھے جو کہتے تھے کہ حالت ایمان میں اعمال بد کا کیا حکم ہوگا۔ یہ کسی قدر محتاط توہین مگر فیصلہ کن بات ان کی بھی نہیںَ اصل اور صحیح طریق یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے وہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لائے اور یہ یاد رکھے کہ اعمال کی پاداش ضروری ہے ایمان وہی باور اور مثمر ثمرات ہوتا ہے جس کے ساتھ اعمال صالحہ ہوں۔

حدیث نمبر ۴۶
عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دفعہ) شب قدر بتانے کو نکلے مگر دو مسلمان باہم لڑرہے تھے اس لئے اسکی اطلاع اٹھالی گئی( مجھے بھول گئی) اور شاید یہی تمہارے لئے مفید ہو اب تم شب قدر کو ۲۳ دن ۲۱ دن اور ۲۵ ویں کو تلاش کرو۔
حاشیہ حدیث نمبر۴۶
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے دو مسلمانوں کی باہمی لڑائی کا نتیجہ دکھایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی ناپسند اور مکروہ ہے کہ بعض اوقات انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ جو فیوض قوم پر ہوتے ہیں باہمی قتال سے وہ رک جاتے ہیں چنانچہ آپ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر بتانے کو میں نکلا تھا مگر فلاں فلاں کی جنگ نے اسکی اطلاع بھلا دی۔ خمیس اور سبع اور تسع سے یہ مراد ہے ج ب پانچ دن یا سات دن یا نو دن باقی ہوں۔

باب ۳۷ جبرائیل کا نبی ﷺ سے ایمان اور اسلام اور احسان اور الساعۃ کی بابت پوچھنا اور نبی ﷺ کا ان سے بیان کرنا۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے بیان فرمایا کہ جبرائیل تمہیں تمہارا دین تعلیم کرنے آئے تھے آپؐ نے ان سب کو دین قرار دیا اور جو ایمان کی باتیں نبی ﷺ نے عبدالقیس کے وفد( ڈیپوٹیشن) سے بیان فرمائیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ
حدیث نمبر ۴۷
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی ﷺ لوگوں کے سامنے (تشریف فرما) تھے۔ یکایک آپؐ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور لقاء اللہ پر اور اللہ کے رسولوں پر اور حشر نشر پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ مفروضہ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے پوچھا کہ احسان کیا چیز ہے؟ کہ تم اللہ کی عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ حالت نصیب نہ ہو تو یہ خیال رہے کہ وہ تمہیں دیکھتا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ الساعۃ کب ہوگی؟ آپؐ نے جواب دیا کہ جواب دینے والا سائل سے زیادہ نہیں جانتا ہاں میں تمہیں اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوںَ جب لونڈی اپنے مردار کو جنے اور سیاہ اونٹوں کے چلانے والے عمارتوں کو بنا کر رہنے لگیں اور ان پانچ جزوں میں ہے جن کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان اللہ عندہ علم الساعۃ تلاوت فرمائی اس کے بعد وہ شخص پیچھے پھر ا تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس درس لاؤ مگر وہان کسی کو نہ پایا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم کرنے آئے تھے( ابوعبداللہ کہتا ہے کہ نبی ﷺ نے ان سب باتوں کو ایمان ہی میں سے ٹھہرایا)
حاشیہ باب۳۷ وحدیث نمبر۴۷
اس باب میں اور اس کے ضمن میں بیان کردہ حدیث میں جبرائیل کے ذریعہ ایمان ۔ اسلام۔ احسان اور الساعۃ کی حقیقت سمجھائی گئی ہے۔ اور اس کا نام آنحضرت ﷺ نیا الدین رکھتا ہے۔ اس حدیث کی تصیحا اور تفسیر قرآن مجید مٰں الدین کے نیچے حضرت امیر المؤمنین کی بیان کردہ لکھی گئی ہے وہ یہاں نقل کی جاتی ہے۔
الساعۃ سے مراد عربوں کی تباہی کی گھڑی ہے اس کے نشانات آنحضرت ﷺ نے بتادئیے ہیں اور یہ عباسیوں خے آخری زمانہ میں شروع ہوگئے۔
حدیث نمبر ۴۸
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسفیان ابن حرب نے بیان کیا کہ ان سے ہرقل نے کہا کہ میں نے تم سے پوچھا کہ محمدؐ کے پیرو بڑھ رہے ہیں یا کم ہورہے ہیں تو تم نے جواب دیا کہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی یہی حالت ہے یہانتک کہ وہ کامل ہوجائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص انکے دین میں داخل ہوکر پھر اسکو برا جان کر بھی مرتد ہوتا ہے تم نے کہا کہ نہیں اور ایمان کی حالت اسی طرح ہے جبکہ اسکی بشاشت دلوں میں مل جاوے پھر کوئی شخص اس سے ناخوش نہیں ہوسکتا۔
حاشیہ باب نمبر۳۸ حدیث نمبر۴۸
اس باب کا کوئی عنوان بخاری صاحب نے قائم نہیں کیا مگر جو حدیث یہاں بیان کی ہے اسمیں ایمان کی تکمیل اور ایمان کے متعلق بشاشت پیدا ہونے کا ذکر ہے۔

باب ۳۹ اس شخص کی بزرگی کا بیان جو اپنے دین کے سبب بری باتوں سے ہٹ جاوے۔
حدیث نمبر ۴۹
لقمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناکہ آپ ؐ فرماتے تھے حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونون کے درمیان شبہ کی باتیں ہیں جنکو بہت سے لوگ نہیں جانتے پس جوشخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا اور جو شخص شبہ کی چیزوں میں مبتلا ہوجاوے تو وہ اس جانور کی طرح ہے جو سلطانی چراگاہ کے پاس چرتا ہے قریب ہے کہ اسمیں جاپڑے (لوگو) آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کاایک چراگاہ ہے خبردار رہو کہ اللہ کا چراگاہ اسکی زمین میں اسکی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں۔ خبردار رہو کہ بند میں ایک ٹکڑہ گوشت کا ہے جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے۔ اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے تو تمام بدن خراب ہوجاتا ہے۔ سنو وہ ٹکڑہ دل ہے۔
حاشیہ باب نمبر۳۹ وحدیث نمبر۴۹
اس باب کے نیچے جو حدیث بیان کی ہے اس سے بتایا ہے کہ ایمان جو دل میں پیدا ہوتا ہے اگر قوی اور زندہ ایمان ہوتو وہ قلب کی اصلاح کرکے کل جسم کی اصلاح کا موجب ہوجاتا ہے کیا مطل؛ب اس کے سارے اعضاء سے اعمال صالحۃ کی توفیق ملتی ہے اور اگر ایمان صحیح نہیں تو پھر دل بھی فاسد ہوجاتا ہے اور اعمال صالحہ کی بجائے بدیاں سرزد ہوتی ہیں۔
حلال اور حرام کے ظاہر ہونے سے یہ مراد ہے کہ کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے کھلی کھلی حرام اور کھلی کھلی حلال قرار دی ہیں۔ اور بعض ایسی ہیں کہ انمیں علماء کا اختلاف ہے۔ پس مومن محتاط وہی ہے جو ان شبہ والی چیزوں سے بچے اور جوان میں مبتلا ہوتا ہے تو اسکی ایسی مثال ہے جیسے کوئی جانور سلطانی چراگاہ میں داخل ہوجاوے۔ خدا تعالیٰ نے جن چیزوں کو حرام کردیا ہے یہ گویا ایک سلطانی چراگاہ ہے پس اسمیں داخل ہونے سے بچنا چاہئے۔ کیا مطلب نواہی اور محرمات سے پرہیز کرو۔

باب ۴۰ خمس کا ادا کرنا ایمان کی بات ہے۔
حدیث نمبر ۵۰
ابوحمزہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے ساتھ بیٹھتا تھا تو وہ مجھے اپنے تخت پربٹھا لیتے تھے ایک مرتبہ انہوں نے مجھے کہا کہ تم میرے پاس رہو میں تم کو اپنے مال میں سے کچھ دے دوں گا۔ اسلئے میں دو مہینے ان کے پاس رہا بعد ازاں انہوں نے(ایک دن) کہا کہ عبدالقیس کا وفد( ڈیپوٹیشن) جب نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپؐ نے ان سے کہا کہ تم کون قوم ہو یا یہ پوچھا کہ تم کون جماعت ہو۔ وہ بولے کہ ہم ربیحہ میں آپ نے فرمایا مرحبا بالقوم( یا مرحبا بالوفد)
پھر ان لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ہم سوائے ماہ حرام کے آپ کے پاس نہیں آسکتے کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان قبیلہ کفار مضر کے لوگ رہتے ہیں۔(ان سے ہمیں خوف رہتا ہے) اسلئے آپ ہم کو کوئی ٹھیک بات بتادیجئے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اسکی اطلاع کردیں اور ہم سب اسپر(عمل کرنے سے) جنت میں داخل ہوجائیں اور ان لوگوں نے آپ سے پینے کی چیزوں کی بابت پوچھا تو آپ نے انہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا انکو ھکم دیا صرف اللہ پر ایمان لانے کا۔ آپ فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ صرف اللہ پر ایمان لانا کسطرح ہوتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا اللہ اور اسکا رسول خوب واقف ہے آپ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اور انکو حکم دیا کہ نماز پڑھنے کا اور زکوٰۃ دینے کا اور رمضان کے روزے رکھنے کا۔ اور اس بات کا کہ مال کا غنیمت کا پانچواں حصہ(بیت المال) میں دیدیا کرو اور چار چیزوں سے انکو منع کیا۔ حنتم سے اور دبا سے اور نقیر سے اور مزفت سے اور کبھی ابن عباس مزفت کی جگہ مقیر کہا کرتے تھے اور آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو یادکرلو۔ اور اپنے پیچھے والوں کو اسکی اطلاع کردو۔
حاشیہ باب۴۰ حدیث ۵۰
خمس مال غنیمت کے پانویں حصہ کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں عبدالقیس کے ڈیٹوٹیشن کو جو تعلیم آنحضرت ﷺ نے دی اسکا ذکر کیا ہے۔ ماہ حرام سے مراد رجب ہے۔ حنتم۔ دبا اور نفیر اور مذفت اور مقیر خاص قسم کے برتنوں کے نام ہیں جنمیں قبل شراب حرام ہونے کے شراب پی جاتی تھی۔ آنحضرت ؐ نے انکے استعمال کی قطعا مخالت کردی کیونکہ انکو دیکھر شراب کی تحریک ہوسکتی تھی۔ اسلئے آپؐ نے قطعا مخالفت کردی۔

باب ۴۱ جوحدیث میں آیا ہے کہ ارادی کام ارادے سے ہوتے ہیں اور ہر شخص کیلئے وہی ثمرہ اور نتیجہ ہے جو اس نے ارادہ کیا پس داخل ہوگیا اسمیں ایمان کیوں کہ اعمال میں ایمان اور وضوء اور نماز اور زکوٰۃ اور حج اور صوم اور تمام احکام (شرعیہ) داخل ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل کل یعمل علی شاکلتہ یعنی علی نیتہ اور آدمی کا اپنی بیوی پر خرچ کرنا اور اسکو ثواب سمجھے تو صدقہ ہے اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ(اب صرف) جہاد باقی ہے۔
حدیث نمبر ۵۱
عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ارادی اعمال کے نتائج ارادہ کے موافق ہوتے ہیں اور یہ شخص کیلئے وہی ہے جو اس نے نیت کی جسکی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے حضور بھی اسکی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے ہی لئے ہوگی۔ اور جسکی ہجرت حصول دنیا یا کسی عورت سے نکاح کرنے کیلئے ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے حضور اسکی ہجرت انہی امور کیلئے ہوگی جنکے لئے اس نے ہجرت کی ہے۔
حدیث نمبر ۵۲
ابومسعود نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا جب مرد اپنی بیوی پر اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتا ہے تو وہ اسکے حق میں صدقہ کا حکم رکھتا ہے۔
حدیث نمبر ۵۳
سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے جو کچھ حاصل کرو گے اسکا اجر تمہیں ضرور دیا جائیگا۔ یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو اسکا بھی اجر ملے گا۔
حاشیہ باب۴۱ حدیث ۵۱،۵۲،۵۳
اس باب کے مضمون پر پہلے نوٹ لکھا جاچکا ہے۔ البتہ حدیث نمبر۵۲،۵۳ سے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور انکی کی تعلیم بھی ضمنا مقصود ہے اور یہ بھی سکھایا ہے کہ انسان اللہ تعلایٰ کی رضا کیلئے جو کام کرتا ہے خواہ وہ جسمانی ہو یا دنیوی ہو وہ بھی دین ہوجاتا ہے۔ اسمیں ان لوگوں خیلئے ایک خاص سبق ہے جو دنیا کو دین سے الگ کرتے ہیں نبی کریم ﷺ کا یہ کمال ہے کہ آؐ دنیا کو بھی دین بتادینے کا نسخہ اور گر بتاتے ہیں اللھم صل علی محمد وبارک وسلم۔

باب ۴۲ نبی ﷺ کا ارشاد کہ دین خیرخواہی کا نام ہے اللہ کیلئے اسکے رسول کیلئے ائمہ مسلمیں اور عامۃ المسلمین کیلئے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد اذانصحواللہ ورسولہ
حاشیہ باب۴۲
اسمیں دین کی ایک اور حقیقت بتائی گئی ہے یعنی دین نصح کا نام ہے اور وہ نصح اللہ کیلئے ہو اسکے رسول کیلئے اور ائمۃ المسلمین کیلئے اور عامۃ المسلمین کیلئے۔
نصح اللہ کی حقیقت یہہ ہے کہ جناب الٰہی کی عظمت وتسبیح بیان کی جاوے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات اسماء افعال اور محامد میں وحدہ لاشریک اور لیس کمثلہ سے ثابت کیا جاوے اور اپنے عمل اور قول میں اسکالحاظ رکھا جاوے۔ جو اعتراضات اللہ تعالیٰ کے اسماء ، افعال، محامد عبادت پر ہوتے ہوں انکو دور کیا جاوے اور ایسی مجلسوں سے علیحدگی اختیار کی جاوے جہاں اللہ تعالیٰ کے کسی فعل پر یا محامد پر مبنی جاتی ہو۔ تمام کاموں میں رضائے الٰہی مقصود ہو۔
رسول اللہ کیلئے نصح کیا ہوتی ہے؟ عام طور پر مامورین اور مرسلین کی ذات پر اور علی الخصوص نبی کریم ﷺ کی ذات پر آپ کی تعلیم پر آپ ؐ کی جماعت پر جو اعتراض کئے جاتے ہوں انکا جواب دیا جاوے اور آپؐ کو کامل اور عظیم الشان نبی ثابت کیا جاوے اور احادیث صحیحہ کی خدمت ہو۔ بادشاہوں کیلئے نصح یہ ہے کہ انکی اطاعت کی جاوے وفادی کے ساتھ انکے احکام کی فرمانبرداری ہو غدر اور بغاوت کی راہوں سے بچتے رہیں۔ شریر کمیٹیوں میں جو سلطنت اور حکام سلطنت کے خلاف ہوں شریک نہ ہوں اور انکی بھلائی کیلئے دعاکریں۔
عام مسلمانوں سے نصح یہ ہے کہ انکو زبان اور ہاتھ سے دکھ نہ دیا جائے ان کے ساتھ ہمدردی ہو اور انکی تکالیف کے دور کرنے میں کوشش کرنا۔ حسن سلوک غرض انکے اموال ۔ نفوس اور آبرو کی حفاظت کرنا۔

حدیث نمبر ۵۵
زیادیں کہتے ہیں کہ میں نے جریر بن عبداللہ سے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ فوت ہوئے ہیں وہ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی اور لوگوں کو کہا کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کے خوف اور وقار اور سکینۃ کو اپنے اوپر لازم رکھو ۔ یہانتک کہ امیر تمہارے پاس آجاوے اسلئے کہ امیر ابھی تمہارے پاس آتا ہے۔ پھر کہا کہ اپنے امیر کیلئے خدا سے معافی چاہو کیونکہ وہ خود ہی قصور وار ان کو معاف کردینے کی خصلت کو پسند کرتے تھے پھر کہا کہ اما بعد میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے مسلمان اپنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے کی شرط لی۔ پس اسی پر میں نے آپ سے بیعت کی اور اسی مسجد کے رب کی قسم کہا کہ کہتا ہوں میں تمہارا خیر خواہ ہوں اسکے بعد انہوں نے استغفار کہا اور (منبر سے ) اتر آئے
حاشیہ حدیث نمبر۵۵
اس حدیث میں کوفہ کے ایک واقعہ میں بتایا ہے کہ جریر بن عبداللہ مغیرہ بن شعبہ گورنر کوفہ کے سیکرٹری تھے اور انہو ں نے مغیرہ کی وفات پر اہل کوفہ کو ایک خط سنایا اور اہل کوفہ کو کہا یہ انقلاب گورنر کی وفات سے جو ہوا ہے اس موقعہ پر وقار اور سکینۃ سے کام لو۔ گویا ہر قسم کا فتنہ وفساد بر پا ہونے دو یہانتک کہ نیا امیر آجاوے۔ پھر انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر جن شرائط کے ساتھ بیعت کی تھی مسلمانوں کی خیر خواہی بھی ان میں تھی اسلئے انہوں ںے ظاہر کیا کہ میں تمہاری خیر خواہی سے یہ بات کہتا ہوں۔
کوفہ والے بڑے شرارتی تھے حضرت عثمان ؓ کو انہوں نے قتل کیا حضرت علی ؓ کو بھی انہوں نے قتل کیا اور حضرت امام حسین کو دکھ دیا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا غرض یہ لوگ بڑے شریر تھے۔ بہرحال مغیرہ بن شعبہ کے سیکرٹری نے انکو نصح دین کے معانی بتائے ہیں۔

کتاب العلم
باب ۱ علم کی فضیلت میں اور عزوجل کا ارشاد رفع اللہ الذین امنوا منکم والذین اوتوا العلم ورجات واللہ بما تعملون خبیر۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد رب زدنی علما(علم کی فضیلت کی دلیل)
حاشیہ باب ۱
کتاب العلم میں بخاری صاحب نے مسئلہ تعلیم پر بحث کرتے ہوئے ایک عجیب ترتیب کو مدنظر رکھا ہے پہلے فضیلۃ العلم پر بحث کی ہے اور اسکو قرآن مجید کی آیت سے مدلل کیا ہے اول بتایا کہ اللہ تعالیٰ اہل علم کے درجات بلند کرتا ہے پس ہر شخص رفع درجات کی فطرتی خواہش رکھتا ہے اس لئے فرمایا کہ ایسے شخص کو مومن ہونا چاہئے اور اہل علم ہونا چاہئے۔ دوسری تعلیم ییہ دی کہ جبکہ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دعا تعلیم فرمائی۔ رب زدنی علما۔ اس سے ظاہر ہے کہ علم کیسی نافع اور قابل عزت چیز ہے۔
باب ۲ جس شخص سے کوئی علم (کا مسئلہ) پوچھا جاوے اور وہ کسی بات میں مشغول ہو تو(اسکو مناسب ہے) کہ بات کو پورا کرے تب سائل کو جواب دے۔
حدیث نمبر ۵۶
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) اس حالت میں کہ نبی ﷺ مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کررہے تھے۔ کہ ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ الساعۃ کب ہوگی تو رسول اللہ ﷺ نے کچھ جواب نہ دیا اور اپنی بات بیان کرتے رہے۔ اسپر کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اسکی بات سن تو لی مگر (چونکہ) آپ کو اسکی بات بری معلوم ہوئی اس سبب سے آپ نے جواب نہیں دیا۔ اور کچھ لوگوں نے کہا کہ(نہیں) آپ نے سنا ہی نہیں یہانتک کہ جب آپ اپنی بات ختم کرچکے تو فرمایا کہاں ہے( میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد یہ لفظ تھے) ساعۃ کے متعلق پوچھنے والے سائل نے کہا کہ یارسول اللہ میں حاضر ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ جس وقت امانت ضائع کردی جاوے تو ساعۃ کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کسطرح ہوگا آپ نے فرمایا جب کام اسکے ناہل کے سپرد کیا جاوے تو الساعۃ کا انتظا ر کرنا۔
حاشیہ باب ۲
اس باب میں ادب حصول علم سکھایا ہے۔ سائل کو کبھی ایسے وقت سوال نہیں کرنا چاہئے جب تک معلم الدین اپنی بات پوری نہ کرلے اور اگر غلطی سے ایسا ہوجاوے تو پھر خاموشی کے ساتھ اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے جب تک وہ پہلے سلسلہ کلام کو ختم کرلے۔
الساعۃ : الساعۃ کے متعلق پہلے بیان کردیا گیا ہے کہ اسی سے قیامت مراد نہیں بلکہ یہاں عربوں کی سلطنت کے زوال کا ذکر ہے کچھ آثار اور نشانات حدیث جبرئیل میں آئے ہیں یہاں ایک اور بات نبی کریم ﷺ نے یہاں بیان کی اور وہ یہ ہے کہ جب حکومت نا اہل لوگوں کے سپرد ہوگی امانت بمعنے رعایا ہے۔ قرآن مجید میں ان اللہ یامرکم ان تؤدواالامانات الی اھلھا کے بھی یہی معنی ہیں۔

باب ۳ جوشخص بیان علم میں اپنی آواز بلند کرے۔
حدیث نمبر ۵۷
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہمارے ایک سفر میں جو(نبی ﷺ کے ہمراہ کیا تھا) نبی ﷺ پیچھے رہ گئے پھر آپ ہم سے اس وقت ملے کہ نماز میں ہم نے دیر کردی تھی اور ہم وضوء کررہے تھے تو جلدی سے ہم اپنے پاؤں کو دھو رہے تھے پس آپ نے اپنی بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا کہ ٹخنوں کو آگ سے خرابی ہے۔
حاشیہ باب ۳
اس میں بطور تہدید کے بتایا کہ پاؤں کو پورا دھونا چاہئے۔ اور نیز یہ بتایا ہے کہ معلم کا حق ہے اگر وہ کسی وقت بلند آواز سے جو غصہ اور تنبیہہ کا لہجہ رکھتی ہو اپنے سامعین کو علم سکھائے۔
باب ۴ محدث کا حدیث بیان کرتے وقت حدثنا اور اخبرنا اور انبأنا کہنا (درست ہے) اور ہم سے حمیدی نے کہا کہ ابن عینیہ کے نزدیک حدچنا اور انبأنا اور اخبرنا اور سمعت (سب کے مواقع استعمال) ایک ہی تھے اور ابن مسعود نے کہا حدثنا رسول اللہ ﷺ وھوالصادق المصدوق اور شفیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا کہ سمعت النبی ﷺ کلمۃ کذا اور حذیفہ نے کہا ہے کہ حدثنا رسول اللہ ﷺ حدیثین اور ابوالعالیہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ سمعت النبی ﷺ فیما یروی عند ربہ اور اس نے کہا کہ عن النبی ﷺ یرویہ عن ربہ اور ابوہریرہ نے کہا ہے کہ عن النبی ﷺ ہرویہ عن ربکم ربارک وتعالیٰ
حدیث نمبر ۵۸
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ ایک درخت ایسا ہے کہ اسکے پتے خزاں سے نہیں گرتے اور وہ مومن کی مثل ہے پس مجھے بتاؤ کہ وہ کیا درخت ہے تو لوگ جنگلی درختوں کے متعلق سوچنے لگے عبداللہ بن عمر کہتے ہیں میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں شرما گیا۔ آخر صحابہ نے عرض کی کہ حدثنا ماہی یارسوللہ ( یارسول اللہ آپ ہی بتادیں کہ وہ کیا ہے) تو آپ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
حاشیہ باب ۴
اس باب میں امام بخاری نے محدثین کے ایک مسئلہ کی حقیقت بیان کی ہے بعض محدثین حدثنا۔ اخبرنا وغیرہ الفاظ کے مواقع استعمال جدا جدا سمجھتے تھے مگر امام بخاری اسکے مخالف ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ صحابہ ان تمام الفاظ کو بلا تفریق استعمال کرتے تھے۔
باب ۵ امام کا اپنے ساتھیوں کے سامنے انکیک علم کی آزمائش کیلئے مسئلہ کا پیش کرنا
حدیث ۵۹
ابن عمر نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایادرختوں میں سے ایک درخت ہے کہ اسکے پتے نہیں گرتے اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے تم مجھے بتاأ کہ وہ کون سا درخت ہے ابن عمر کہتے ہیں کہ لوگ جنگل کے درختوں کے خیال میں پڑ گئے۔ کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں شرما گیا بالآخر صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ آپ ہی ہمیں بتائے کہ وہ کونسا درخت ہے آپ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

حاشیہ باب ۵
اس باب میں اصول تعلیم کا ایک اصل تعلیم کیا ہے۔ جن لوگوں نے فن تعلیم پر کتابیں لکھی ہیں آج انہوں نے یہ بتایا ہے کہ اس امر کے معلوم کرنے کیلئے کہ آیا طالب علم توجہ اور غور سے پڑھ رہے ہیں یا نہیں استاد کو کبھی کبھی سبق کے اثنا میں سوالات عام یاخاص کرنے چاہئیں ۔مگر بخاری علیہ الرحمۃ نے آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے اس اصل کو آج سے ایک ہزار سال پہلے وضع کرکے بتایا چنانچہ اس باب میں یہی بتایا گیا ہے۔
باب ۶ حدیث کا خود پڑھنا اور پڑھکر محدث کو سنانا اور حسن بصری اور سفیان ثوری اور امام مالک نے بھی آپ پڑھ لینا کافی سمجھا ہے اور بعض محدثیں کے ساتھ قرأت میں خمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے وہ جو انہوں نے نبی ﷺ سے کہا تھا کہ کیا اللہ تعلایٰ نے آپکو حکم دیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں آپ نے فرمایا ہاں پس وہ محدثین کہتے ہیں کہ خمام بن ثعلبہ کا یہ کہنا نبی ﷺ کے سامنے پڑھنا ہے اور خمام نے اپنی قوم کو اطلاع کی اور قوم کے لوگوں نے اسکو کافی سمجھا اور امام مالک نے مگر کیسے استدلال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے پڑھی جاتی ہے تو حاضرین کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے سنایا اور معلم کے سامنے کتاب پڑھی جاتی ہے تو پڑھنے والاکہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص نے پڑھایا حسن بصری سے روایت کے کہ انہوں نے کہا کہ عالم کے سامنے پڑھنے میں کچھ حرج نہیں ہے اور سفیان سے روایت ہے کہ انوہں نے کہا جب محدث کے سامنے پڑھ چکا ہو تو حدثنی کہہ دینے میں کچھ ہرج نہیں محمدؐبن سلام کہتے ہیں کہ میں نے ابوعاصم سے سنا وہ امام مالک اور سفیان سے نقل کرتے تھے کہ عالم کے سامنے خود پڑھنا اور عالم کا پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
حدیث نمبر ۶۰
انس بن مالک کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص شتر سوار آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھایا اور اسکا زانو باندھ دیا پھر صحابہ سے کہا کہ تم میں محمد ﷺ کون ہے اور اسوقت نبی کریم ﷺ صحابہ کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے تو ہم نے کہا یہ مرد صاف رنگ تکیہ لگائے ہوئے(بیٹھے ہیں یہ محمد ﷺ ہیں) پھر اسی شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبدالمطلب کے بیٹے! نبی ﷺ نے فرمایا ہاں ہاں میں تجھے جواب دیتا ہوںَ پھر اس نے کہا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنے والا ہوں اور میں سختی سے پوچھنے والا ہوں۔ آپ اپنے دل میں مجھ پر ناخوش ہوں۔ آپ نے فرمایا جو تیری سمجھ میں آئے پوچھ وہ بولا کہ میں آپ کو آپکے اور آپ سے پہلے لوگوں کے پروردگار کی قسم دیتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کوتمام آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا (اللھم) ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا اللہ نے آپکو حکم دیا ہے ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپکو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ کیا سال بھر میں رمضان کے مہینے کے روزے رکھنے کا اللہ نے آپکو حکم دیا ہے ۔ آپ نے قسم کھا کر فرمایا ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپکو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپکو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ (زکوٰۃ) ہمارے مالوں سے لیں۔ اور اسے ہمارے فقیروں پر تقسیم کریں ۔ تو نبی ﷺ نے قسم کھا کر کہا ہاں اسکے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس دین پر جو آپ لائے ہیں ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے ان لوگوں کا جو میرے پیچھے ہیں سفیر ہوں میرا نام خمامہ بن ثعلبہ ہے اور میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کے عیسائیوں میں سے ہوں۔
حاشیہ باب ۶
معلوم ہوتا تھا کہ کوئی سمجھ دید آدمی بدیوں میں سے آئے اور وہ آپ سے پوچھے اور ہم سنی تو ایک شخص جنگل کے رہنے والوں میں سے آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس آپکا قاصد پہنچا ہے اور اس نے ہمیں اس بات کی اطلاع دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں آپ کو اللہ بزرگ وبرتر نے رسول بنا یا ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا پھر اس نے کہا کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا ؟ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل نے پھر اس نے کہا کہ زمین اور ستاروں کو کس نے پیدا کیا ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔ پھر اس نے کہا کہ پہاڑوں میں فوائد کس نے رکھے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یہ سن کر وہ کہنے لگا تو آپ کو اس اللہ کی قسم ہے جس نے آسمان وزمین کو پیدا کیا اور پہاڑوں کو نصب کیا اور اسمیں فوائد کرھے کیا اللہ نے آپکو پیغمبر بنایا آپ نے فرمایا ہاں پھر اس نے کہا کہ آپ کو اس کے قاصد نے ہم سے کہا تھا کہ ہمارے اوپر پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اور ہمارے مالوں میں زکوٰۃ فرض ہے آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔اسپر اس نے کہا کہ آپکو اس کی قسم جس نے آپکو رسول بنایا کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر اس نے کہا کہ آپ کے قاصد نے کہا تھا کہ ہمارے اوپر سال بھر میں ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں۔ا اپؐ نے فرمایا اس نے سچ کہا وہ پھر بولا آپکو اسی خدا کی قسم جس نے آپکو رسول بنایا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپکو حکم دیا ہے آپؐ نے فرمایا ہاںَ اس نے کہا کہ اس خدا کی قسم جس نے آپکو صداقت کے ساتھ بھیجا ہے میں ان باتوں پر نہ کچھ زیادتی کرونگا اور نہ کمی کرونگا۔ نبی کریم ؐ نے (اسپر فرمایا) کہ اگر یہ سچ کہتا ہے تو یقینا جنت میں داخل ہوگا۔
حاشیہ باب ۶
چھٹے باب میں جو(کتاب العلم کا ہے) بھی اصول تعلیم پر لطیف بحث ہے اور کمال کی بات یہ ہے کہ امام صاحب نے ان اصولوں کو نبی کریم ؐ کے ارشادات سے اخذ کیا ہے۔ محدثین میں اس امر میں یہی اختلاف ہے کہ آیا استاد کے سامنے شاگرد خود پڑھے تو زیادہ مستند ہے یا استاد پڑھ کر سناتا جاوے۔ امام بخاری نے اس مسئلہ پر وسعت حوصلہ سے نظر کی ہے وہ ان میں سے کسی ایک یا دوسرے کی تردید نہیں کرتے۔
دونوں طرف دلائل ہیں۔ اس زمانہ میں فن تعلیم سب انہیں اصولوں پر ہورہی ہے۔ پہلے ضروری ہوتا ہے کہ استاد خود پڑھ کر سنائیا ور طلباء اس سے وتصحیح تلفظ اور اس کے مطالب کو سیکھیں اور پھر اپنی زبان سے ادا کرکے اسپر قادر ہوں۔
حسن بصری، امام مالک اور سفیان ثوری رحمھم اللہ تعالیٰ نے جدید فلسفہ تعلیم کے اصل کی تعلیم دی ہے۔ بڑے بڑے کالجوں میں یہی طریف ہے کہ پروفیسر ایک مضمون پر لیکچر دے رہا ہے اور طلباء اس کو نوٹ کررہے ہیں اور ہمارے ملک میں بھی زہادی تریہی طریقِ مروج معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود پڑھا کرتے اور استاد کو سن کر طلباء یاد کرتے تھے۔
ہمارے موجودہ امام امیر المؤمنین نورالدین سلمہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی طریق ہے وہ درس قرآن دیتے وقت خود تلاوت کرتے اور خود اس کا ترجمہ اور تفسیر کرتے ایسا ہی درست حدیث میںَ لیکن کبھی کبھی وہ بعض درسوں میں ایسا ہی کرتے کہ کوئی اور قاری ہو اور آپ غلطیاں بتا کردرست کرتے جاتے ہیں۔ بہرحال آجکل کے فن تعلیم پر یہ احسان محدثین کا ہے۔
اس باب کے نیچے جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ؐ کو اپنی نبوت پر کیسا وثوق اور یقین تھا۔
اخلاق محمد ﷺ : علاوہ بریں آپ کے اخلاق کیسے وسیع اور پاک تھے کہ ایک شخص مسجد میں اونٹ لئے ہوئے گھس آتا ہے اور وہ حفظ مراتب کی پرواہ نہ کرکے بے باکانہ طور پر آپؐ سے سوالات کا سلسلہ شروع کرتا ہے ایک ایک بات پر خدا کی قسم دیتا ہے مگر آپؐ نہایت خوش دلی کے ساتھ اسی کے رنگ میں اسے تعلیم کررہے ہیں۔ا ور ان باتوں سے قطعا برا نہیں مناتے۔ یہ آپؐ کے اخلاق اور علی خلق عطیم ہونے کی دلیل ہے۔ معلم کے اخلاق ایسے وسیع ہونے چاہئیںاور گھبرانہ جانے والا دل اس کے سینہ میں ہو۔
باب نمبر۷
اس باب میں مناولہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے اور اہل علم کی تحریر جو دوسرے شہروں میں جاویں( وہ قابل اعتبار ہے) ۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ عثمان ؓ نے مصاحف لکھوا اور انکو اطراف وجوانب میں بھیجا۔ اور عبداللہ بن عمر اور یحیٰ بن سعید اور مالک نے بھی اس کو جائز سمجھا ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ کے متعلق نبی کریم ؐ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جب کہ آپؐ نے سردار لشکر کیلئے ایک تحریر( بطور ہدایتِ نامہ) لکھی اور انکو کہہ دیا کہ جب تک تم فلاں فلاں مقام پر نہ پہنچ جانا اس تحریر کو نہ پڑھنا۔ پس جب وہ اس مقام پر پہنچے تو لوگوں کے سامنے اس کو پڑھا اور نبی کریم ؐ کے حکم سے جو اس میں لکھا تھا سب کو مطلع کیا۔
حدیث نمبر ۶۲
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہر سول خدا نے اپنا خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اس کو یہ حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دے دے اور بحرین کے حاکم نے اسے کسری(شاہ ایران) تک پہنچا دیا۔ پر جب کسریٰ نے اس کو پڑھا تو اپنی بدبختی سے اسکو چاک کرڈالا۔ ابن شہاب(راوی) کہتے ہیں کہ میں یہ خیال کرتا ہوں کہ ابن مسیب نے یہ کہا کہ رسول اللہ نے (خط کے چاک کی خبر سنکر) ان لوگوں کو بددعا دی کہ وہ بالکل ٹکڑے ٹکڑے کردئیے جاویں۔
حدیث نمبر ۶۳
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپؐ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ بے مہر کا خط نہیں پڑھتے لہذا آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ اس میں محمد رسول اللہ کندہ تھا (انس کہتے ہیں کہ اس انگوٹھی کی سفیدی کو اب بھی آپؐ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں) شعبہ جو اس حدیث کی راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں نے قتادہ سے کہا کہ آپکو کس نے کہا کہ اس میں محمد رسول اللہ کندہ تھا وہ بولے انس نے کہا تھا۔
حاشیہ باب۷ حدیث ۶۲،۶۳
مناولہ محدثین کی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ ایک کتاب صحیح لکھی ہوئی ہو اور استاد اپنی اس کتاب کو دیدے اور یہ کہہ دے کہ جو کچھ اس میں کہا ہے اس کی روایت کرو یا اس پر پڑھو۔ لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ آیا اس کتاب میں کسی حدیث کو دیکھ کر روایت کرنا درست ہے یا نہیں اور لوگوں کو اس پر عمل کرنا چاہئے یا نہیں۔ محققین کی یہی رائے ہے کہ جائز ہے۔ امام بخاری نے اس کی تائید کی ہے اور اسکے متعلق حضرت عثمان ؓ کے مصاحف سے استدلال کیا ہے۔ پھر آنحضور ؐ کے خطوط سے استدلال کیا ہے۔ اورآنحضرت ؐ کے اس ہدایت نامہ سے استدلال کیا جو آپؐ نے ایک سردار لشکر کودیا۔
اس باب کے ماتحت جو دوحدیثیں بیان کی گئی ہیں ان سے بھی یہی ثابت ہے۔ اگر یہ درست نہ ہو تو ہر علوم کی تبلیغ واشاعت میں بڑا نقص واقع ہوتا۔ امام بخاری نے تبلیغ واشاعت علوم دینی کی بڑی خدمت کی ہے جزاھم اللہ احسن الجزائ۔ حدیث نمبر ۶۲ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ نے جب ایک مکتوب لکھنے یا لکھوانے کا ارادہ فرمایا اور آپکو بتایا گیا کہ مکتوب الیہ لوگوں کا مذاق ہے کہ وہ بدون مہر کسی خط کو مصدق نہیں لکھتے اور نہیں پڑھتے۔ تو آپ نے اپنی مہر بنوا کر لگوادی۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ واشاعت دین کیلئے ان طریقوں کا مدنظر کرھنا بھی ضروری ہے۔ جس قوم میں تبلیغ کرنا چاہو۔ اسی بنا پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں اہل یورپ کو تبلیغ کیلئے اپنا فوٹو اتروایا تھا۔
حدیث نمبر ۶۳ میں جو پیشگوئی ہے وہ پوری ہوچکی سلطنت ایران کے حصے بخرے تو جو ہوئے وہ ہوئے خود اس کسریٰ کو اس کے ہی ب یٹے نے قتل کرڈالا۔
(عبرۃ لاولی الابصار)
باب ۸ علم کی مجلس میں جو شخص وہیں بیٹھ گیا جہاں مجلس ختم ہوتی ہو اور جو شخص حلقہ میں جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا۔
حدیث نمبر ۶۴
ابوواقدیثی سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ؐ مسجد میں تشریف فرماتھے اور لوگ آپکے پاس بیٹھے تھے۔ تین شخص آئے تو ان میں سے دو رسول اللہ ؐ کے سامنے آگئے اور ایک چلا گیا( ابوواقد) کہتے ہیں کہ وہ دونون کچھ دیر آپ کے پاس کھڑے ہوئے پھر ان میں سے ایک نے حلقہ میں گنجائش دیکھی اور وہ اس کے اندر بیٹھ گیا اور دوسرا سب کے پیچھے ( جہاں مجلس ختم ہوتی تھی) بیٹھ گیا۔ اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیا تھا۔ پس رسول اللہ ؐ نے(وعظ) سے فراغت پائی تو (صحابہ کو) فرمایا کیا میں تمہیں تین آدمیوں خی بات نہ بتاؤں کہ ان میں سے ایک نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو پناہ دی اور دوسرے نے حیا کیا تو اللہ تعالیٰ نے (اسکو گرفت گناہ سے) بھی حیا کیا۔ تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اسی سے اعراض فرمایا۔
حاشیہ باب۸ حدیث نمبر۶۴
اہل علم کی مجلس میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جانا چاہئے اور اس امر کا لحاظ نہیں کرنا چاہئے کہ کچھ سنتا ہے یا نہیں۔ علم دین کی مجلس ایک بابرکت مجلس ہوتی ہے۔ اسکی برکات سے آدمی نے اپنے ظرف کے موافق کچھ نہ کچھ حصہ لینا ہے اس سے آنحضرت ؐ اور اسلام کی علم دوستی عیاں ہے۔

باب ۹ نبی کریم ؐ یکا ارشاد کہ بسا اوقات وہ شخص جسکو(حدیث) پہنچائی جاوے سننے والے سے زیادہ اسے یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔
حدیث نمبر ۶۵
ابوبکر ہ( ایک دفعہ) نبی کریم ؐ کا ذکر کرنے لگے کہ آپ اپنے اونٹ پر بیٹھے تھے اور ایک شخص اس کی مہار پکڑے ہوئے تھا آپ نے (صحابہ کو خطاب کرکے) فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے تو ہم چپ رہے یہانتک کہ ہم نے خیال کیا کہ قریب ہے جو آپ اس دن کے مشہور نام کے سوا کوئی اور نام بتائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا ہاں۔ پھر آپؐ نے پوچھا کہ یہ کونسا مہینہ ہے تو ہم نے پھر سکوت کیا یہانتک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس کا نام بدل کربتائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا ہاںَ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ یقینا تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو آپس میں ایسی ہی عزت والی ہے جیسے تمہارے اس دن کی عزت وحرمت تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں ہے۔ پس چاہئے کہ حاضر غائب کو پہنچادے اس لئے کہ شاید ایسے شخص کو پہنچائے جو اس سے زیادہ اس کو یاد رکھے۔
حاشیہ باب۹ حدیث نمبر۱۰
اس باب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سننے والے صحابہ تھے۔ پھر ان سے تابعینِ کو حدیث پہنچی اور تابعین سے تبع تابعین کو۔ پس تابعین یا تبع تابعین میں سے بعض لوگ ممکن ہیں اپنے فہم وفراست میں صحابہ یا تابعین سے بڑھ جاویں۔ اس باب کے نیچے جو حدیث بیان کی ہے اس سے آنحضرت ؐ کا امن عامہ کو قائم کرنا مقصود ہے۔ اور صحابہ کے اس ادب کا علم آتا ہے جو وہ نبی کریم ؐ کے حضور رکھتے تھے۔ ابوجود یکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کون سا دن ہے یا مہینہ ہے مگر ادب کے سبب سے خاموش رہے کہ مبادہ نبی کریم ؐ کیا فرمائیں۔
باب ۱۰ کسی (بات) کے کہنے اور کرنے سے پہلے اس کا علم ضروری ہے اسپر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دلیل ہے فاعلم انہ لا الٰہ الا اللہ (پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتدا فرمائی اور علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ انہوں ںے نبیوں کے علم کو میراث میں پایا ہے۔ جس نے بھی علم حاصل کرلیا اس نے بڑی دولت حاصل کرل۹ی۔ اور جوشخص کسی راستہ میں علم حاصل کرنے کیلئے چلے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء (اللہ تعالیٰ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو عالم ہوں) اور فرمایا ہے ۔ وما یعقلھا الا العالمون (اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ) وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحٰب السعیر (اور کافر کہیں گے کہ اگر ہم سمجھتے یا سنتے تو آج اہل دوزخ میں سے نہ ہوتے ۔ اورفرمایا ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون (کیا عالم اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں؟) اور نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے جس کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسکو دین کا فہم عنایت کرتا ہے اور علم تو سیکھنے سے ہی آتا ہے۔ اور ابوذر نے ایک مرتبہ کہا کہ اگر تم مجھ پر تلوار رکھ دو ( اور اس نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا) پھر بھی اگر میں یقین کروں کہ اس سے پہلے کہ تم مجھ پر تلوار چلاؤ۔ ایک جو میں نے رسول اللہ ؐ سے سنا ہے کہہ سکونگا تو ضرور اسکو کہونگا اور نبی ؐ کا ارشاد لیبلغ الشاھد الغائب (بھی علم کے ظاہر کرنے کا حکم دے رہا ہے۔) اور ابن عباس نے کہا کہ کونوا ربانیین میں ربانیین سے مراد علماء وفقہاء ہیں۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ ربانی وہ شخص ہے جو لوگوں کو علم کی چھوٹی چھوتی باتیں بڑی بڑی باتوں سے پہلے تعلیم کرے۔
حاشیہ باب ۱۰
اس باب کے نیچے کوئی حدیث تو بیان نہیں کی مگر اس باب میں کئی ایک ضروری امور کی تصریح ہوئی ہے۔ اول جب تک کسی چیز کا علم نہ ہو اسکے متعلق کچھ مت کہو۔ دوم انبیاء کی وراثت علم ہے اور علماء ربانی کو یہ ملتی ہے اس سے شوق علم پیدا کیا ہے ۔ سوم تحصیل علم کیلئے سفر کرنا اور نکلنا جبکہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہوگو یا جنت کے راستہ پر جاتا ہے ۔ چہارم علم حقیقی کا نتیجہ خشیت اللہ ہے۔ پنجم علم کی ضرورت پر بحث ہے اس میں بتایا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے اور عقل صحیح اور شعور کامل عذاب نار سے بچالیتا ہے۔ ششم اللہ تعالیٰ کے فضل کا علم اس بات سے ہوسکتا ہے کہ جس کو فہم دین عطا ہو وہ خدا تعالیٰ کا پسندیدہ انسان ہے۔ ہفتم علم کیلئے سعی اور کوشش ضروری ہے۔ ہشتم ۔ علم دین کی تبلیغ کو موت سے پہلے پہلے ہمیشہ طیار رہنا چاہئے۔ بخاری صاحب قرآن مجید کی بحث بھی حل کرتے جاتے ہیں چنانچہ اس حدیث میں ربانیین کے معانی کردئیے کہ ربانی وہ لوگ ہیں جو عالم ہوں اور باریک سے باریک علمی بات کو چھوٹے اور آسان طریق سے سمجھا دیں۔ ان میں حلم ہو۔
باب ۱۱ نبی کریم ؐ کا لوگوں کے وعظ اور علم کیلئے وقت وموقع مقرر کرنا ہر قوت انکو اس طرف مشغول نہ رکھنا تاکہ وہ گھبرا نہا جائیں اور نہ دنیوی کاروبار سے محروم رہیں۔
حدیث نمبر ۶۶
ابن مسعود کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے ہمیں نصیحت کرنے کیلئے کچھ دن مقرر کردئیے تھے۔ ہمارے ملال کے لحاظ سے (ہر روز وعظ نہ فرماتے تھے)
حدیث نمبر۱۲
انس نبی کریم ؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (دین میں) آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوشخبری دو اور (ڈرا ڈرا کر) انہیں متنفر نہ کرو۔
حاشیہ باب۱۱ حدیث نمبر۱۱،۱۲
اس باب میں یہ بتایا ہے کہ تعلیم کیلئے خواہ وہ دین ہی کی تعلیم کیوں نہ ہو اوقات مقرر ہوجانے چاہئیں۔ اس سے ضبط اوقات کا علم آتا ہے اور تعلیم ایسے طریق پر ہو کہ لوگوں کو ناگوار نہ معلوم ہو بلکہ نہایت آسانی کے ساتھ اور خوشی کے ساتھ وہ دین کو سیکھ لیں۔

باب ۱۲ جس شخص نے علم(حاصل کرنے) والونکی تعلیم کیلئے کچھ دن مقرر کدرئیے (اس نے غلطی نہیں کی)
حدیث نمبر ۶۸
ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود لوگوں کو ہر پنجشنبہ کو وعظ سنایا کرتے تھے تو ان سے ایک شخص نے کہا کہ اے ابوعبدالرھإن۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں ہر روز وعظ سنایا کریں وہ بولے کہ اس سے مجھے یہ بات روکتی ہے کہ میں اس امر کو برا جانتا ہوں کہ تمہیں رنجید ہ کروں اور بے شک میں تمہاری نسیحت کیلئے اسی طرح وقت معین رکھتا ہوں جسطرح نبی کریمؐ ہم لوگوں کی نصیحت کیلئے وقت مقرر رکھتے تھے۔ ہماری پریشانی کے خوف سے(ہر روز وعظ نہ کرتے تھے)
حاشیہ باب ۱۲ حدیث نمبر ۱۴
اس باب میں بھی باب ۱۱ کی تائید مزید ہے۔

باب ۱۳ جس کیلئے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسکو دین کی سمجھ عنایت فرماتا ہے۔
حدیث نمبر ۶۹
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ معاویہ کو خطبہ پڑھتے سنا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے نبی کریمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسکو دین کی سمجھ عنایت فرماتا ہے۔ اور میں تو صرف تقسیم کرنے والاہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے اور (یاد رکھو) کہ یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی جو شخص ان کی مخالفت کریگا انکو نقصان نہ پہنچا سکیگا یہانتک کہ امر اللہ آجائے۔
؁حاشیہ باب ۱۳ حدیث نمبر ۱۴
اس باب میں بہترین خیر کو فہم دین قرار دیا ہے قرآن کریم میں اس کی تائید موجود ہے۔ من یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا۔ اور حکمۃ کی تشریح اور حقیقت قرآن کریم پارہ نمبر ۱۰ میں خوب بیان کی ہے۔ وقفی ربک الا تعبدوا ایسے شروع ہوتا ہے اس آیت میں تمام ہدایات جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق ہیں دیکر فرمایا ذلک مما اوتی ربک من الحکمۃ علاوہ بریں آنحضرت ؐ نے اس جگہ ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یہ امت حق پرقائم رہے گی اس کے مخالف یہ امت ہے جو ولتکن منکم امت یدعون الی الخیر میں بیان ہوئی ہے۔ اور یہ امت مامور ان الٰہی اور انکے نوائب خلفاء کی جماعت ہوتی ہے۔ پھر علی قدر مراتب اس سے حصہ لینے والے۔ میں اس کو ماموروں اور خلفائے مامورین کی جماعت قرار دینے کیلئے اس امت سے استثناء کرتا ہوں اور اس حدیث میں یہ حصہ کہ جو شخص ان کی مخالفت کریگا ان کو نقصان نہ پہنچا سکیگا یہانتک کہ امر اللہ آجائے۔ قرآن مجید میں امراللہ کی حقیقت سورہ نحل کے شرو ع میں بیان کردی ہے۔ مخالفین ومنکرین ِ نبوۃ وہدایت پر جو عذاب کی پیشگوئیاں ہوئی ہیں انکے پورا ہونے اور ومتبعین کی کامیابیوں کی بشارتوں کے پورا ہونے کا نام امر اللہ ہے۔

باب ۱۴ فہم علم کے متعلق
حدیث نمبر ۷۰
مجاہد کہتے ہیں کہ میں مدینہ تک ابن عمر کے ساتھ رہا میں نے انکو نبی کریمؐ کی کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ چنانچہ ایک حدیث ہے کہ انوہں نے کہا ہم نبی کریمؐ کے حضور تھے کہ آپ کے پاس جمار لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اسکی کیفیت مسلمان کی سی ہے ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ میں کہہ دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں سب سے چھوٹا تھا اسلئے چپ رہا۔ نبی کریمؐ نے خود فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

حاشیہ باب ۱۴ حدیث نمبر ۱۵

باب ۱۵ علم اور حکمت میں غبطہ کرنا درست ہیا ور معرب نے فرمایا کہ اس سے پہلے کہ تم سردار بنائے جاؤ علم حاصل کرو( ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی اور نبی کریمؐ کے اصحاب نے بوڑھے ہوجانے کے بعد علم حاصل کیا تھا)
حدیث نمبر ۷۱
عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا۔ غبطہ جائز ہے مگر دو شخصوں کی عادتوں پر۔ اس شخص کی عادت پر جسکو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس مال پر ان لوگوں کو قابو دے جو اسکو راہ حق میں صرف کریں اور اس شخص کی عادت پر جس کو اس نے علم عنایت کیا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے حکم کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم کرتا ہو۔
حاشیہ باب ۱۴، ۱۵
ان پر دو ابواب میں فہم علم اور تحریص تحصیل علم کی تاکید کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ ایک علمی دین لیکر آئے تھے اور اسلام ایک علم دوست اور علم نواز مذہب ہے۔ وہ لوگ کیسے جھوٹے اور افتراء پرور ہیں جو کہتے ہیں کہا سلام کو علوم سے نفرت ہے۔ حضرت امیر المؤمنین نورالدین سلمہ اللہ تعالیٰ کا یہ مقولہ مجھے کبھی نہیں بھولتا جو آپؐ نے بار بار فرمایا ہے۔
کہ جوں جوں سائنس اور نئے علوم ترقی کرینگے قرآن کریم کی صداقت اور نبی کریمؐ کی صداقت روز روشن کی طرح کھل جائیگی۔

باب ۱۶ موسیٰؑ کے سمند میں خضر کے پاس جانے میں جو کچھ کہا گیا اور اللہ بزرگ وبرت کا ارشاد ھل اتبعک علی انتعلمنی الآیۃ (کیا میں آپ کے ساتھ رہوں)
حدیث نمبر ۷۲
عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ ابن قیس عباس نے اور حربن قیس فزاری نے موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے ارے میں اختلاف کیا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ وہ خضر ہے۔ ناگاہ ابی بن کعب ان دونوں کے پاس سے گزرے تو ابن عباس نے انکو بلایا اور کہا کہ بیشک میں نے اور میرے اس رفیق نے موسیٰ ؑ کے ہمنشین کے بارے میں اختلاف کیا ہے جن سے ملنے کی سبیل موسیٰ ؑ نے اللہ تعلایٰ سے پوچھی تھی۔ کیا تم نے نبی کریمؐ کو انکی کیفیت بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ابی بن کعب نے کہا ہاں۔ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ موسیٰ ؑ ایک دفعہ بنی اسرائیل کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتفاق سے ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان سے کہا کہ آپ اپنے سے زیادہ جاننے والے کو جاانتے ہیں موسیٰ ؑ بولے کہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ پر وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے۔ پس موسیٰ ؑ نے اپنے پروردگار سے انکے ملنے کی سبیل پوچھی تو اللہ تعالیٰ نے انکے لئے مچھلی کو نشان قرار دیدیا اور ان سے کہ دیا گیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ پڑو اس لئے کہ تم ان سے مل جاؤگے۔ پس موسیٰ ؑ دریا کہ کنارے کنارے مچھلی کی علامت کا انتظار کرتے رہے۔ پھر ایک مقام پرپہنچ کر موسیٰ ؑ سے انکے خادم نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو اس وقت میں مچھلی کو بھول گیا ور مجھے اس کا یاد کرنا شیطان نے بھلادیا۔ موسیٰ ؑ بولے کہ یہی جگہ ہے جس کی ہم جستجو کرتے تھے پھر وہ دونون پانے قدموں کے نشانوں پر لوٹ پڑے تو انہوں نے خضر کا پایا۔ پھر ان دونوں کی حالت وہی ہے جو اللہ تعلایٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی۔
حاشیہ باب ۱۶،۱۹
ان دونون ابواب میں اس امر کی ضرورت بتائی ہے کہد ین کے علم کی تحصیل کیلئے سفر کی ضرورت ہیا ور اس میں بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ باوجود یکہ اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نبی تھے مگر اپنی علمی ترقی کیلئے ان کو بھی ایک لمبے سفر کی ضرورت پیش آئی۔ یہ واقعہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس واقعہ خضر وموسیٰ ؑ میں نبی کریمؐ کو یہ تعلیم کرنا بھی مقصود ہے کہ جو شخص تحصیل علم کیلئے نکلے اسکو نہایت صبر اور حوصلہ کے ساتھ اس مقصدر کو پورا کرنا چاہئے۔ دوسرے اگر کسی اہل دل کی صحبت میں رہنے کا موقع ہوتو بعض اوقات اگر کوئی ایساز امر معلوم ہوجوبظاہر خلاف شرع نظر آتا ہو تو ایسے حسن ظن کے حوالہ کرکے اس وقت تک کا انتظار کرے جب اللہ تعالیٰ اسے کھولدے۔ نیز کبھی اپنے علم وفضل کی شیخی اور لاف زنی کرنی بھی نہیں چاہئے۔ حضرت موسیٰ ؑ کا یہ واقعہ آپ کا ایک معراج ہیا ور اس کی تفصیل قرآن مجید میں آئی ہے۔

باب ۱۷ نبی ؐ کا ارشاد کہ اللھم علمہ الکتب (اے اللہ اسکو کتاب کا علم دیدے)
حدیث نمبر ۱۸
ابن عباس کہتے ہیں کہمیں نے ایک دفعہ گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ اے اللہ کہ اس کو اپنی کتاب کا علم عطا فرما۔
حاشیہ باب ۱۷ حدیث ۱۸
اس باب میں نبی کریمؐ کی دعا کو پیش کرکے گویا سبق دیا ہے کہ حصول علم دین میں دعاؤں سے بہت کام لینا چاہئے۔ اللہ تعلایٰ ہی جب تک تفقہ فی الدین اور بصیرت فی الکتاب عطا نہ کرے تو فہم دین حاصل نہیں ہوسکتا۔ حضرت ابن عباس کیلئے نبی کریمؐ نے علم الکتاب کی دعا فرمائی ہے۔ اس لئے حضرت ابن عباس کو قرآن کریم کی معرفت اور علم کا حاصل ہونا اللہ تعلایٰ کے فضل کا نشان ہے۔
حضرت ابن عباس کے فعل سے جو حدیث نمبر ۱۸ میں آیا ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چونکہ دعاؤں کیلئے ایک خاص جوش اور اضطراب کا پیدا ہونا ضروری ہے اور یہ دعا کرنے والے کے اختیارمیں نہیں ہوتا اس لئے جو شخص چاہتا ہے کہ دعا کرائے دعا کرنے والے سے اپنے تعلقات کو نہ صرف بڑھانا چاہئے بلکہ ان طریقوں کو اختیار کرنا چاہئے جو اس کے جوش اور عقد ہمت کیلئے محرک ہوسکیں۔

باب ۱۸ لڑکے کا سننا کس عمر سے درت ہے۔
حدیث نمبر ۱۹
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ گھدی پر سوار ہوکر چلا اوررسول خداؐ منی ٰ میں بغیر کسی دیوار کے نماز پڑھ رہے تھے تو میں کسی صف کے آگے سے گزرا اور اپنی گدی کو چھوڑ دیا کہ وہ چرنے لگی اور میں صف میں داخل ہوگیا۔ مجھے اس بات سے منع نہیں فرمایا۔
حدیث نمبر ۲۰
محمود بن ربیع کہتے ہیں کہ مجھے رسول خداؐ کی ایک کلی یاد ہے میں پانچ برس کا تھا آپؐ نے ایک ڈول سے پانی لیکر میرے منہ پر (کلی) کی تھی۔
حاشیہ باب ۱۸ حدیث ۱۹-۲۰
اس باب کے ماتحت دو حدیثیں جو امام بخاریؒ نے بیان کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم پانچ سال کا بچہ بھی کوئی بات بیان کرے تو وہ محض اس کی کمی عمر کی وجہ سے ساقط عن الاعتبار نہیں ہوسکتی چنانچہ محمود بن ربیع نے اپنی پانچ برس کی عمر کا واقعہ بیان کیا ہے اور یہ امر تحصیل علم کیلئے بہت مفید ہے۔

باب ۱۹ علم کی جستجو میں سفر کرنا ضروری ہے۔ اور جابر بن عبداللہ ایک مہینہ کا سفر کرکے اس حدیث کیلئے عبداللہ بن انیس کے پاس گئے تھے۔
حدیث نمبر ۲۱
ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے اور حر بن قیس خزاری نے موسیٰ کے صاحب کے بارے میں اختلاف کیا۔ ابی بن کعب ان دونوں کے پاس سے گزرے تو ان کو ابن عباس نے بلایا اور کہا کہ میں نے اور میرے اس یار نے موسیٰ کے صاحب کے بارے میں اختلاف کیا ہے جن سے ملنے کی سبیل موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھی تھی۔ کہ تم نے رسول خدا ؐ کو ان کا کچھ حال بیان فرماتے تھے کہ ایک دن اس حالت میں کہ موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں وعظ فرمارہے تھے کہ ناگاہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور اسنے پوچھا کہ کیا آپ اپنے سے زیادہ عالم کو جانتے ہیں موسیی نے کہا کہ نہیں۔ آپ ؑ فرماتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے موسی پر وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جانتا ہے۔ تب موسیٰ نے ان سے ملنے کی سبیل پوچھی تو اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو ان کیلئے نشان قرار دے دیا۔ اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم یہ م چھلی کو نہ پاؤ تو پیچھے لوٹ جانا اس لئے کہ تم خضر سے مل جاؤ گے۔ پس موسیٰ دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں موسیٰ کے خادم نے کہا کہ جب ہم پتھر کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور اس کا یاد رکھنا مجھے شیطان نے ہی بھلایا۔ موسیٰ نے کہا کہ یہی ہے جس کی ہم تلاش کرتے تھے۔ پس وہ دونوں الٹے پاؤں لوٹے تو انہوں نے خضر کو پالیا۔ پھر ان دونوں کا حال وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
باب ۲۰ اس شخص کی فضیلت کے بیان میں جو پڑھے اور پڑھائے۔
حدیث نمبر ۲۲
ابو موسیٰ نبی ؐ سے روایت کرتے ہیں کہا ٓپ ؐ نے فرمایا اس ہدایت اور علم کی مثال جسکے ساتھ مجھے اللہ تعلایٰ نے مبعوث فرمایا ہے موسلادھار بارش کی سی ہے جو زمین پر پڑی تو جوزمین ہوتی ہے وہ اس کو جذب کرلیتی ہے اور بہت گھاس اور سبزہ اگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی کوروک لیتی ہے پھر اللہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس کو پیتے ہیں اور اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں اور زراعت کو سیراب کرتے ہیںَ اور کچھ مہینہ زمین کے دوسرے حصے کو پہنچا کہ جو بالکل چٹیل میدان ہے نہ پانی کو روکتا ہے نہ سبزی اگاتا ہے۔ پس یہی مثال ہے اس شخص کی جو اللہ کے دین میں فقیہہ ہو جاویا ور جس چیز کے ساتھ مجھے اللہ تعالٰٰ نے مبعوث فرمایا ہے اسکو فائدہ دے اور وہ اس کو پڑھے اور پڑھائے۔ اور مثال ہے اس شخص کی جس نے اس کی طرف سر تک نہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کو جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں قبول نہ کیا۔ ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ اسحاق نے ابواسامہ سے وکان منھا طائفۃ قیلت الماء روایت کیا ہے۔
قاع یعلوا المائ۔ والصفصف المستویٰ من الارض (چٹیل زمین) چٹیل میدان

حاشیہ باب ۲۰ حدیث نمبر ۲۳
اس باب میں بھی یہ ظاہر ہے کہ اشاعت تعلیم اور تبلیغ دین ایک اعلیٰ درجہ کی بات ہے اور نبی کریمؐ کے وجود کو ایک آیت رحمت قرار دیا ہے۔ جس طرح بارش اپنے فیضان سے قابل نشونما حبوب(بیجوں)کو اگادیتی ہے۔ اس طرح پر اس کی بعثت اور نزول تھا۔ قرآن مجید میں الہام الٰہی کی مثال بارش ہی سے دی گئی ہے۔ رسول اللہ نے مومن کو اس زمین کی مانند بننے کی تحریص دلائی ہے وج کود بھی بارش کے پانی سے فائدہ اٹھاتی اور دوسروں کیلئے سیر آبی کا ذریعہ ہوجاتی ہے۔
اس طرح پر اعلیٰ درجہ کے مومن کی مثال ایسی ہونی چاہئے۔ ایک جگہ یہ بھی فرمایا خیر الناس من ینفع الناس۔ بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع بپہنچائے پس فقیہ فی الدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ عمل حالت کو دورست کرکے لوگوں کو پہنچائے اور دین سمجھائے۔ یہ کام پانے اندر شان نبوت رکھتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ؐ تبلیغ دین کیلئے کس قدر حریص تھے اور آپ مستقل طور پر اشاعت ِ تبلیغ کا ایک سلسلہ قائم کرکے اٹھے ۔قرآن مجید میں بھی یہ ہدایت موجود ہے ولتکن منکم امت الآیۃ یعنی ایک ایسا گروہ مخصوص ہونا چاہئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہو۔ اور یہاں بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ تین قسم کی فطرتیں ہوتی ہیںَ اول وہ جو خود عمل رنگ میں ہدایت ربانی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسے زمین کی وہ قسم جو بارش کے پانی کو جذب کرکے اپنے اندرونی تخموں کو سر سبز کرتی اور اگاتی ہے اور دوسرا وہ حصہ جو خود تو اتنا فائدہ نہیں اٹھاتے مگر ان کے علوم اور درس وتدریس سے دوسرے فائدہ اٹھالیتے ہیں۔ آخری قسم وہ ہے جو بالکل اور غیر مفید ہوتے ہیںَ ان اقسام نفوس کی مثال ایک رنگ میں قرآن مجید کے اس مقام پر دی ہے۔ یہاں فرمایا ثم قست قلوبکم من بعد ذلک فھی کالحجارۃ اور اشد قسوۃ وان من الحجارۃ لما یتفجر منھا الانھار وان منھا لما .........الغرض نبی کریمؐ نے اشاعتِ دین وتبلیغ قرآن کریم کیلئے شوق دلایا ہے۔

باب ۲۱ علم کا اٹھ جانا اور جہالت کا ظہور(الساعۃ کا نشان ہے) اور ربیعہ نے کہا کہ جس کے پاس کچھ علم ہو اسکو یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنے نفس کو ضائع کردے۔
حدیث نمبر ۲۳
انس کہتے ہیں کہر سول اللہ ؐ نے فرمایا قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جاوے اور جہالت قائم ہوجاوے اور شراب نوشی ہونے لگے اور زنا ہو۔
حدیث نمبر ۲۴
انس سے روایت ہے کہا نہوں نے ابوقتادہ کو کہا میں تجھے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں خہ میرے بعد تم سے کوئی بیان نہ کریگا میں نے رسول اللہ ؐ سنا آپؐ فرماتے تھے کہ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم کم ہوجاوے اور جہل غالب آجاوے اور زنا کھلم کھلا ہو اور لڑائویں کی وجہ سے) عورتوں کی کثرت ہوجاوے اور مردوں کی قلت یہانتک کہ پچاس عورتوں کے پیچھے ایک مرد ہو۔
حاشیہ باب ۲۱
الساعۃ کے نشان اس حدیث میں بیان کئے ہیں۔
اول رفع العلم ہے اس سے مراد علم دین۔ علم القرآن اور اسلام ہے۔ آنحضرت ؐ نے اس میں ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ قرآن کا علم اٹھ جائیگا۔ تو وہ وقت آچکا ہے قرآن کریم کی طرف قطعا توجہ نہیں۔ دینی علوم کی جگہ رسمی اور مادی علوم نے لے لی ہے اور اس کے ساتھ ہی عملی روح بھی اٹھ گئی ہے۔ شراب کی جو کچرت ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ صرف انڈیا میں ایک ہفتہ میں پانچ کروڑ کی شراب ہوتی ہے اور ولایت کا تو یہ حال ہے کہ اگر شراب کی دوکانوں کی ایک مدین میں رکھا جاوے تو وہان پانی صرف کپڑے دھونے اور نہانے کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ پینے کی چیز صرف شراب سمجھی جاتی ہے۔ یورپ کے ریلوے سٹیشنوں پر پینے کو پانی نہیں بلکہ شراب ملتی ہے۔ اسی طرح پر زنا کی جو کثرت ہے وہ عیاں ہے ۔ کلکتہ میں ۳۲ ہزار بازاری عورتیں ہیں جو علانیہ بدکاری کرتی ہیں۔ مخفی طور پر بدکاریوں خے اڈے مزید بر آں ہیں۔ غرض اس زمانہ میں وہ نشانات جو نبی کریمؐ نے بیان فرمائے پورے ہوگئے اور ایک یہ بھی فرمایا کہ عورتوں کی کثرت ہو اس سے مراد یہ تھی کہ جنگوں کی وجہ سے عورتیں بمقابلہ مردوں کے بڑھ جاویں یہ امر جنگوں کی کثرت پر دلالت کرتا اس وقت دنیا میں جنگوں کا جو سلسلہ جاری ہے وہ نہایت خطرناک اور یہانتک ہے کہ تہذیب وشائستگی کے مدعی اسلام کی دفاعی لڑائیوں پر اعتراض کرنے والے مسیح کے برے جو تلوار چلا رہے ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ غرض اس باب کے تحت جو احادیث بیان ہوئی ہیں ان میں پیشگوئیاں ہیں اور آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں پوری شان کے ساتھ پوری ہورہی ہیں بلکہ ہوچکی ہیں۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔
باب ۲۲ علم کی فضیلت میں۔
حدیث نمبر ۲۵
ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے بحالت خواب دیکھا کہ مجھے ایک پیالہ دودھ کا دیا گیا تو میں نے پی لیا۔ یہانتک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ اس کی تری میرے ناخنوں میں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمرؓ بن خطاب کو دیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپؐ نے اس کی کیا تعبیر کی۔ آپ نے فرمایا علم
حاشیہ باب ۲۲
اس باب کے نیچے جو حدیث بیان کی ہے اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول کشفی امور جو رؤیا میں دکھائے جاویں وہ تعبیر طلب ہیں اور کبھی مادی اشیاء دکھائی جاتی ہیں اور ان کی تعبیر غیر مادی ہوتی ہے جیسے دکھایا تو دودھ گیا مگر مراد اس سے علم تھا۔ دوم حضرت فاروق اعظم ؓ کا مرتبہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ علوم اور معارف جو نبی کریمؐ کو عطا ہوئے تھے۔ ان میں سے بھی فارو ق اعظم ؓ کو حصہ ملا تھا وللہ الحمد
باب ۲۳ اس حالت میں فتویٰ دینا کہ سواری پر ہو یا کسی اور چیز پر
حدیث نمبر ۲۶
عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ حجۃ الوداع میں لوگوں خیلئے ٹھہر گئے لوگ آپؐ سے دریافت کرتے تھے ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے سہوا قربانی کرنے سے پہلے سرمنڈوالیا۔ آپؐ نے فرمایا اب قربانی کرلے۔ قربانی ہوگئی اور کچھ حرج نہیں۔ پھر ایی اور آدمی آیا اور اس نے کہا کہ بے علمی میں میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی۔ آپؐ نے فرمایا ب رمی کرلے کچھ حرج نہیںَ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں انہوں نے آپؐ سے جس چیز کی بابت پوچھا گیا تو وہ مقدم کردی گئی ہو یا مؤخر کردی گئی ہو تو آپ نے یہی فرمایا کہ ہوگئی اور کچھ حرج نہیں۔

حاشیہ باب ۲۳
اس باب میں جو حدیث بیان کی ہے اس سے یہ دکھایا ہے کہ اسلام ایک آسان دین ہے۔ سواری یا کسی اور چیز پر کھڑے ہوکر فتویٰ دینا درست ہے اور ہاتھ کے یا سر کے اشارے سے سمجھا دینا بھی درست ہے۔ یہ نبی کریمؐ کے اپنے عمل سے بتایا ہے۔
باب ۲۴ جس شخص نے ہاتھ یا سر کے اشارہ سے فتوی کا جواب دیا(جائز ہے)
حدیث نمبر ۲۷
ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی ؐ سے آپؐ کے آخری حج میں پوچھا گیا) کسی نے) کہا کہ میں نے رمی کرنے سے پہلے ذبح کرلیا ہے تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا کچھ حرج نہیں۔ اور کسی نے کہا کہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے سرمنڈوالیا ہے تو آپؐ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ کچھ حرج نہیں۔
حدیث نمبر ۲۸
ابوہریرہؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا (ایک وقت آتا ہے) کہ علم اٹھالیا جائیگا اور جہل اور فتنے غالب ہو جائیں گے اور ہرج بہت ہوگا۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ؐ ہرج کیا چیز ہے۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ترچھا اشارہ کرکے فرمایا اس طرح۔ آپ کی مراد ہرج قتل وجنگ تھی۔
حدیث نمبر ۲۹
اسماء کہتی ہیں کہ میں عائشہ کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے یہ کیسی نماز ہے تو انہو ںے آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ (دیکھ آفتاب میں کسوف ہے) پھر اتنے میں سب لوگ (نماز کسوف کیلئے) کھڑے ہوگئے۔ عائشہؓ نے کہا کسبحان اللہ میں نے پوچھا کہ کیا یہ(کسوف) کوئی نشانی ہے اور انہو ںے پانے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔پھر میں بھی کھڑی ہوگئی یہانتک کہ مجھ پر غشی طاری ہوگئی تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر(بعد نماز ورفع کسوف) رسول اللہ ؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور فرمایا کہ جو چیز ابتک مجھے نہ دکھائی گئی تھی۔ اس کو میں نے اپنی اسی جگہ(نماز میں) دیکھ لیا ہے۔ یہانتک کہ جنت اور دوزخ کو بھی اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہیاری قبروں میں آزمائش ہوگی مسیح الدنجال کی آزمائش کی مانند یا قریب۔
(فاطمہ کہتی ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ اسماء نے کیا کہا تھا مثل یا قریب) کہا جائے گا کہ اس شخص سے تجھ کو کیا واقفیت ہے تو مومن یا موحسن (فاطمہ کہتی ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ اسماء نے کیا کہا تھا حوض یا موخن) وہ کہے گا یہ محمدؐ ہیں اور یہ اللہ کے پیغمبر ہیں ہمارے پاس نشانات اور ہدایت لہیکر آئے تھے ہم نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروری کی اور یہ محمدؐ ہیں۔ تین مرتبہ کہے گا۔ پ]س اس سے کہہ دیا جائیگا کہ تو آرام سے سورہ۔ بے شک ہم نے جان لیا کہ تو محمدؐ پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن منافق یاشک کرنے والا(فاطمہ کہتی ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ اسماء نے ان دونوں میں سے کیا کہاتھا منافق کہا تھا یا شک کرنے والا) کہیگا کہ میں اصلیت تو نہیں جانتا مگر میں نے لوگوں کو کچھ ان کی نسبت کہتے ہوئے سنا وہی میں نے بھی کہہ دیا۔
حاشیہ باب ۲۴
اس باب میں بھی اسی غرض کو مدنظر رکھا ہے اس باب کے ضمن میں حدیث نمبر ۷۸ بھی ان پیشگوئیوں پر مبنی ہے جو اس زمانہ میں پوری ہوچکی ہیں حدیث نمبر ۲۹ میں دکھایا گیا ہے کہ نبی کریم ؐ کسوف کی نماز پڑھا کرتے تھیا ورے ہنماز اتنی لمبی ہوتی تھی جب تک کسوف رفع ہوجاوے۔ نماز کے بعد آپؐ نے خطبہ پڑھا۔ اس حدیث میں نبی کریمؐ کو عالم آخرت کے کچھ نظارے دکھائے گئے ہیں اور امتحان قبر کی حقیقت بتائی ہے۔ یہ آزمائش فتنہ الدجال کی طرح ہوگی۔
اس حدیث پر غور کرنے سے ایک خاص بات کا پتہ چلتا ہے کہ احادیث کی حفاظت اور صحت میں کتنی بڑی احتیاط کی جاتی تھی۔ جو لفظ یاد نہیں رہا یا س کے متعلق کوئی اشتباہ واقع ہوا تو اسے صاف الفاظ میں ظاہر کردیا۔ اور یہ بھی اس حدیث سے پتہ ملتا ہے کہ رسالت کا اور سوال ایمان بالرسالت قبر میں اہم ہوگا کیونکہ آنحضرت ؐ نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ د وسرے امور کے متعلق کوئی سوال نہ ہوگا بلکہ میرا منشا ء یہ ہے کہ اس حدیث سے ایمان بالرسالت نہایت اہم ثابت ہوتا ہے۔
باب ۲۵ نبی ؐ کا وفد عبدالقیس کے قاصدوں کو ایمان اور علم کی حفاظت کرنے اور اپنے پیچھے والے لوگوں کو مطلع کردینے کی ترغیب دینا اور مالک بن حویرث نے کہا کہ ہم سے نبیؐ نے فرمایا تھا کہ تم اپنے گھروالوں کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں دین کی تعلیم کرو۔
حدیث نمبر ۳۰
ابوحمزہ کہتے ہیں کہ ابن عباس بیان کررہے تھے اور ان کے اور لوگوں کے درمیان میں ترجمان تھا تو ابن عباس نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد نبیؐ کے پاس آیا تو آپؐ نے پوچھا کہ کون قاصد ہیں یا یہ پوچھا کہ کون لوگ ہیں انہوں ںے کہا کہ ہم قبیلہ ربیعہ سے ہیں آپ نے فرمایا مرحبا بالقوم یا یہ فرمایا کہ مرحبا بالوفد غیر خزایا ولاندیمیَ ان لوگوں نے عرض کی کہ ہم ایک دور جگہ سے آپؐ کے پاس آرہے ہیں اور ہمارے اور آپؐ کے درمیان کفار مضر کا یہ قبیلہ ہے اور ان کے (خوف یا شرارت کی وجہ سے) غیر ماہ حرام کے نہیں آسکتے۔ لہذا ہمیں کوئی ایسا کام بتادیجئے کہ ہم اپنے پیچھے والون کو اطلاع دیں اور اس کے سبب سے ہم جنت میں داخل ہوجائیں پس آپؐ نیا نہیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے انہیں منع کیا۔ انہیں حکم دیا کہ صرف ایک اللہ پر ایمان رکھیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب کیا ہے انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔ اور حکمدوانکو نماز پڑھنے کا اور زکوٰۃ دینے کا اور رمضان کے روزے رکھنے کا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ دینے کا۔ اور منع فرمایا نہیں دبا۔ حنتم اور مزفت کے استعمال سے۔ (شعبہ کہتے ہیں کہ ابوحمزہ اکثر تقریر بھی کیا کرتے تھے اور اکثر بجائے مزفت کے نقیر بھی کہتے تھے) یہ فرما کر آپؐ نے ارشاد کیا کہ ان باتوں کو تم یاد کرلو اور اپنے پچھلوں کو ان سے مطلع کردو۔
حاشیہ باب ۲۵
اس باب میں ایمان اور علم کو گویا مترادت معنوں میں بیان کیا ہے۔ اور علم سے مراد علم الایمان ہے۔ اس حدیث میں جن برتوں میں پینے سے منع کیا ہے اس سے غرض یہ ہے کہ چونکہ وہ برتن شراب نوشی کیلئے مستعمل ہوتے تھے۔ اس لئے شراب نوشی کی مذمت اور اس کی نفرت ذہن نشین کرنے کے واسطے ان برتنوں کا استعمال بھی منع فرمایا۔ اسی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کو مبلغ کی حیثیت سے رہنا چاہئے۔ جس قدر دین وہ سیکھے دوسروں کو بھی اس سے آگاہ کرے۔ خصوصا اپنے متعلقین کو۔ اگر مسلمان اس نکتہ پر عمل کرتے تو ہر شخص ان میں سے واعظ اور مبلغ ہوسکتا تھا۔

باب ۲۶ عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے ابووہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا اس کے بعد ایک عورت نے آکر بیان کیا کہ میں نے عقبہ کو اور اس کی عورت کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے مجھے اطلاع دی پھر عقبہ (مکہ سے چل کر) سوار ہوکر رسول اللہ ؐ کے پاس مدینہ آیاور آپؐ سے یہ مسئلہ دریافت کیا آپؐ نے فرمایا کہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے(اس سے یہ نکاح حرام ہے) پس عقبہ نے اس عورت کو چھوڑدیااور اس نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔
باب۲۷ تحصیل علم کیلئے باری مقرر کرنا۔
حدیث نمبر ۳۲
عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک انصاری میرا پڑوسی بنی امیہ بن زید عوالی المدینہ میں رہتے تھے اور یہ مقام مدینہ کی نواح پر تھا اور ہم رسول اللہ ؐ کے پاس باری باری آتے تھے ایک دن وہ آتا تھا اور ایک دن میںَ جس دن میں آتا تھا اس دن کی خبر میں اسکو پہنچا دیتا اور جس دن وہ آتا وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا۔ ایک دن اپنی باری سے میرا انصاری دوست آیا اور درپر آکر بہت زور سے میرے دروازے کو کھٹکھٹایا اور میرا نام لیکر کہا کہ وہ یہاں ہیں میں ڈر گیا اور ان کے پاس آیا تو وہ بولے کہ تجھے ایک بڑا واقعہ ہوگیا۔ ( رسول اللہ ؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی) میں حفصہ کے پاس گیا تو وہ رورہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا رسول اللہ ؐ نے تم لوگوں کو طلاق دیدی۔ وہ بولیں کہ مجھے معلوم نہیں۔ بعد اس کے میں نبی ؐ کے پاس گیا اور کھڑے ہی کھڑے میں نے عرض کیا کہ کیا آپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں۔ میں نے اس وقت تعجبا کہا کہ اللہ اکبر
حاشیہ باب ۲۶-۲۷
ان ہر دو ابواب سے تحصیل علم کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ اور ہر شخص کا فرض ہے کہ علم دین حاصل کرے۔
باب ۲۸ نصیحت اور پڑھانے میں جب کوئی بات اپنے خلاف دیکھے تو غصہ کرنا بھی درست ہے۔
حدیث نمبر ۳۳
ابومسعود انصاری سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ میں نماز کو باجماعت ادا نہیں کرسکتا کیونکہ فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھاتا ہے۔ ابومسعود کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی ؐ کو غیظ وغضب میں نہیں دیکھا آپؐ نے فرمایا کہ اے لوگو تم نفرت دلانے والے ہو۔ جو شخص نماز پڑھائے اسے چاہئے کہ تخفیف کرے اس لئے کہ مقتدیوں میں مریض ، کمزور اور حاجتمند ہوتے ہیں۔
حدیث نمبر ۳۴
زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ نبی ؐ سے ایک شخص نے لقطہ کا حکم پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس کی گرہ کو پہچان لے یا یہ فرمایا کہ اس کے ظرف کو اور اس کی تھیلی کو پہچان لے۔ پھر سال بھر اس کی تعلیرف کرتا رہے یعنی اعلان کرتا رہے اگر کوئی مالک نہ ملے تو پھر اس سے فائد اٹھائے اور اگر اس کا مالک آجاوے تو اسے اس کے حوالہ کردے۔ پھر اس شخص نے کہا تو آپؐ غضبنا ک ہوئے اور آپؐ کے دونوں رخسار سرخ ہوگئے(یا راوی نے کہا کہ آپکا چہرہ سرخ ہوگیا۔) اور آپؐ نے فرمایا کہ تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب۔ اس کی مشک اور اس کا سم اس کے ساتھ ہے۔ پانی پر پہنچے گا۔ پانی پی لے گا اور درخت کھائیگا۔ اس کو چھوڑ دے یہانتک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی ہوئی بکری کا کیا حکم ہے تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی اور یا پھر بیڑیئے کی۔
حدیث نمبر ۳۵
ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ کو شرعا ناپسند تھیں۔ جب آپؐ کے سامنے کثرت کی گئی تو آپ غصہ آگیا اور آپؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو ۔ ایک شخص نے پوچھا کہ میرا باپ کون ہے آپؐ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یارسول اللہ ! میرا باپ کون ہے آپ ؐ نے فرمایا تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا مولیٰ پھر جب عمر ؓ نے آپؐ کے چہرے پر آثٓر غضب دیکھے تو عرض کی کہ یارسول اللہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہیں۔
حاشیہ باب ۲۸
اس باب میں بھی الدین یسر کی حقیقت بیان ہوئی ہے اور علاوہ بریں یہ ظاہر کیا ہے کہ ایسے موقع پر جب کسی فتنہ دین کا اندیشہ ہو امیر یا امام یا معلم کا سختی کرنا بھی درست ہے۔
حدیث نمبر ۳۴ جو اس باب کے تحت بیان ہوئی ہے اس میں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو کبھی ماموروں اور ان کے قائمقام اور جانشینوں سے ایسے سوالات نہیں پوچھنے چاہئیں۔ جنکی کوئی ضرورت پیش نہ ہوئی ہو۔ خود ہی اصول دین میں بعض مشکلات تجویز کرکے سوال کرنا نہایت درجہ کی جرأت اور گستاخی ہے نبی کریمؐ نے پسند نہیں فرمایا اور آپؐ کے چہرے پر خشنمائی کے آثار نمودار ہوئے۔ پس اس سے یہ ادب اور نکتہ معرفت یاد رکھنا چاہئے۔
حدیث نمبر ۳۵ بھی اس کی مؤید ہے اس حدیث کے مطالعہ سے بھی حضرت عمرؓ کی فراست اور ایمانی حالت کا پتہ لگتا ہے۔ انہوں نے آنحضرت ؐ کے چہرہ کو متغیر پاکر فورا سب کی طرف سے ایک سپارش کے رنگ میں ظاہر کردیا کہ ہم اللہ تعلایٰ کے حضور توبہ کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ان کی ایمانی معرفت اور بصیرت کا ایک گواہ ہے۔
باب ۲۹ جس شخص نے ایک بات کی تین مرتبہ تکرار کی تاکہ اس کا مطلب سمجھ لیا جاوے۔ رسول اللہ ؐ نے الا وقول الزور فرمایا اور اس کا تکرار کرتے رہے اور ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی ؐ نے ھل بلغت تین مرتبہ کہا۔
حدیث نمبر ۳۶
انس نبی ؐ سے روایت کرتے ہیں کہا ٓپؐ جب کوئی بات کہتے تو تین مرتبہ اس کی تکرار کرتے تاکہ بخوبی سمجھ لی جاوے اور جب چند آدمیوں کے پاس تشریف لاتے تو تین مرتبہ سلام علیکم کرتے۔
حدیث نمبر ۳۷
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا رسول اللہ ؐ پیچھے رہ گئے پھر ہم آپ ؐ کو مل گئے اور ہمیں نماز عصر کا وقت تنگ ہوگیا تھا۔ ہم وضو کررہے تھے تو جلدی سے ہم اپنے پاؤں پر پانی چھڑکنے لگے۔ پس آپؐ نے بلند آواز سے دو یا تین مرتبہ پکار ا کہ ویل للاعقاب من النار
حاشیہ باب ۲۹
اس باب میں اس امر کا جواز دکھایا گیا ہے کہ ایک بات کو سمجھانے کیلئے تکرار کرنا یہانتک کہ تین مرتبہ تکرار کرنا بھی درست ہے اور اس کو نبی کریمؐ کے واقعات سے ثابت کیا ہے۔
باب ۳۱ امام یا محدث کے حضور دوزانوں کھڑا ہونا۔
حدیث نمبر ۳۸
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسولا للہ ؐ ایک دن نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہوگئے اور انہو ںے کہا کہ یارسول اللہ میرا باپ کون ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ تیرا باپ حذافہ ہے پھر آپ بکثرت فرمانے لگے کہ جو چاہو۔ پوچھو۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت عمرؓ دوزانوں کھڑے ہوئیا ور تین مرتبہ کہا کہ ہم راضی ہیں اللہ سے جو ہمارا پروردگار ہے اور اسلام سے جو ہمارا دین ہے اور محمدؐ سے جو ہمارا نبی ہے پس آپؐ کا غصہ رنج فرو ہوگیا اور آپؐ خاموش ہوگئے۔
حاشیہ باب ۳۱
اس باب کے تحت میں جو حدیث بیان کی گئی ہے اس سے بھی حضرت فاروق ؓ کی معرفت، بصیرت اور موقع شناسی کا ثبوت ملتا ہے خصوصا یہ کہ وہ نبی کریمؐ کے حضور نہایت مؤدب اور ترساں رہتے تھے۔ امر بدوں علم ومعرفت کے حاصل نہیں ہوسکتا ہر کہ عالم تر ترسان تر۔ حضرت فاروق اعظم ؓ نے آنحضرت ؐ کے حضور دازانوں کھڑا ہوکر جن امور پر اظہار رضا کیا ہے۔ وہ انسان کے اعلیٰ درجہ کے ایمان کا نتیجہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ پر راضی ہوجانا آسان کام نہیں جب تک کامل ایمان حاصل نہ ہو یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ رضا باللہ میں رضا بالقضا کا ایک مقام ضروری ہے۔ جہاں انسان تقادیر الٰہی سے صلح کرلیتا ہے اور اسلام اور نبی کریمؐ پر رضا اظہار اپنے عملی رنگ سے ہی ہوسکتا ہے۔ اسلام کے خلاف کوئی امر سرزد نہ ہو اور نبی کریمؐ کے ارشاد کے خلاف کوئی حرکت نہ ہو۔ حضرت فاروقؓ کا ایک بڑی مجلس میں اس کا اظہار کرنا انکی ایمانی اور عملی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔
باب ۳۲ مرد کا اپنی لونڈی اور گھر والوں کو تعلیم کرنا(ضروری ہے)
حدیث نمبر ۳۹
بردہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کیلئے دو گنا ثواب ہے ایک وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہے۔ اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور محمدؐ پر بھی ایمان لائے اور دوسرے مملوک غلام جب کہ وہ اللہ کے حق کو اور اپنے آقا کے حق کو ادا کرتا ہے اور تیسرا وہ شخص جس کے پاس اس کی لونڈی ہو جس سے وہ ہم بستری کتا ہے اس نے اس کو ادب دیا اور عمدہ ادب دیا۔ اسے تعلیم کی اور عمدہ تعلیم دی پھر اسے آزاد کردیا اور اس سے نکاح کرلیا۔ پس اس کیلئے دو گنا ثواب ہے پھر عامر نے جو اس حدیث کے راوی ہیں ابوصالح سے کہا کہ یہ حدیث ہم نے تمہیں بغیر کسی(تکلیف کے) دیدی ورنہ اس سے کم حدیث کیلئے مدینہ تک سفر کیا جاتا تھا۔
باب ۳۳ امام کا عورتوں کو نصیحت کرنا اور اسکی تعلیم کرنا ضروریات سے ہے۔
حدیث نمبر ۹۵
عطا بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں رسول خدا ؐ پر گواہی دیتا ہوں یا عطا نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ نبیؐ (عید کے دن مردونگکی صف سے عورتوں کی طرف) نکلے اور آپکے ہمراہ بلالؓ تھے۔ آپؐ نے یہ گمان کیا کہ شاید عورتوں نے خطبہ نہیں سنا تو آپؐ نے انہیں نصیحت فرمائیا ور انہیں صدقہ دینے کا حکم دیا۔ پس کوئی عورت بالی اور انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال اپنے دامن میں لینے لگے( اور اسماعیل ایوب سے وہ عطا سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ میں نبیؐ پر گواہی دیتا ہوں( ابن عباس) پر گواہی دینے کا لفظ انہوں نے استعمال نہیں کیا۔
حاشیہ باب ۳۲،۳۳،۳۶
ان ابواب میں مستورات کو تعلیم دینے کے متعلق ہدایات ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے ان حقوق کو جوان ان کی روحانی تربیت سے متعلق ہے کسی امر میں مردوں سے کم نہیں رکھتا بلکہ مردوں کی ذمہ د اری قرار دی کہ وہ ان کو تعلیم دیں اور ان کی وعظ ونصیحت کیلئے کوئی دن مقررکریں۔ باب ۳۲ کے نیچے جو حدیث ہے اس میں لونڈیوں کو تعلیم وتربیت کی ترغیب دلائی ہے اور پھر غلاموں کو آزاد کرنے کی تحریص دلائی ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نبی کریمؐ کی باتوں کو حاصل کرنے کے لئے کسی قدر شوق رکھتے تھے کہ وہ ذرا ذرا سی بات کیلئے مدینہ النبی کو جاتے تھے کیا اس زمانہ کے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو معلوم کرنے کیلئے سفر کی ضرورت نہیں سمجھتے انہیں امام کی صحبت میں آنا چاہئے۔
باب ۳۳ میں یوم العبد کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ نبی کریمؐ نے خصوصیت سے ان لوگوں کو وعظ کیا۔ الحمد للہ ہمارا امام عورتوں کو خصوصیت سے وعظ کہنے کا
باب ۳۴ حدیث نبوی کے سننے پر حرص کرنا۔
حدیث نمبر ۴۱
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ انوہں نے کہا یا رسول اللہ قیامت کے دن سب سے زیادہ آپکی شفاعت کا مستحق کون ہوگا۔ رسول اللہ ؐ نے کہا بے شک مجھے خیال تھا کہ اے ابوہریرہ تم سے پہلے کوئی یہ بات مجھ سے پوچھے گا اس وجہ سے میں نے تمہاری حرص حدیث پر دیکھ لی ہے سب سے زیادہ بہرہ مند میری شفاعت سے قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جو اپنے خالص دل سے یا اپنے خالص جی سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہیگا۔
عادی ہے حضرت مسیح موعود ؑ بھی اس پر عمل کرتے تھے۔ باب ۳۶ میں یہ بتایا ہے کہ عورتوں کی تعلیم وتدریس کیلئے بھی کوئی دن مقرر ہونا چاہئے اور اس میں ایک امر یہ بیان کیا ہے کہ جس عورت کے چھوٹے چھوٹے بچے فوت ہوجاویں وہ اس کیلئے موجب نجات ہونگے۔
یہ اسلام کا کمال ہے کہ وہ مومن کی امید بڑھاتا ہے ار اس میں صبر علی البلاء کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ دوسرے مذاہب میں یہ بات نہیں یہ ایک نکتہ ہے اور اسکو یہاں مفصل بیان کرنے کا موقع نہیں۔
حاشیہ باب ۳۴
اس باب میں نبی کریم ؐ کی حدیث سننے کا شوق دکھایا گیا ہے ار نیز یہ تعلیم دی ہے کہ اگر انسان سچے دل سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی کیفیت ایمانی اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ نجات پائیگا۔

باب ۳۵ علم کس طرح اٹھالیا جائیگا اور عمر بن عبدالعزیز نے اپنے نائب ابوبکر بن حزم کو یہ لکھ بھیجا کہ دیکھو تمہارے پاس رسول خداؐ کی حدیثیں کس قدر ہیں انکو لکھ لو۔ اس نے کہا مجھے علم کے مٹ جانے اور لمعاء کے معدوم ہوجانے کا خوف ہیا ور نہ قبول کی جائیگی مگر حدیث نبیؐ کی اور چاہئے کہ سب لوگ علم کی اشاعت کریں اور علماء عام مجلسوں میں بیٹھیں اور علم کو شائع کریں تاکہ جو نہیں جانتا وہ جان لے کیونکہ علم چھپانے سے مفقود ہوتا ہے۔
حدیث نمبر ۴۲
عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ بندوں کے دماغ سے نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھاتا ہے یہانتک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہیگا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرینگے(فریری کہتے ہیں کہ ہم سے عباس نے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم سے قتیبہ نے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے جریر نے اور جریر نے ہشام سے اس کی مثل روایت کی)
حاشیہ باب ۳۵
اس باب میں علم کے مرفوع ہونے کا ذکر ہے اور بتایا ہے کہ علماء دین کی موت چونکہ رفع دین کی باعث ہوجاتی ہے اس لئے علم دین کو لکھ لینا چاہئیا ور اس کی عام اشاعت کرنی ضروری ہے۔
اور ہر شخص جو کچھ بھی علم دین سے حصہ رکھتا ہو اسے ظاہر کرے۔ اس سے اشاعت اسلام اور اشاعت قرآن کریم کی تاکید ظاہر ہے۔ اسی باب کے تحت جو حدیث نمبر ۴۲ ہے اس میں بھی پیشگوئی ہے۔ اور وہ بھی اسی زمانہ میں پوری ہوگئی ہے۔ اب علماء دین تو رہے نہیں مسلمانوں کے لیڈر اور امام انگریزی خواں دین سے بے بہرہ انکے لیڈر بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ امر رسول اللہؐ کی صداقت کی دلیل ہے۔ کیا اس زمانہ کے لوگ اس پر غور کریں گے؟
باب ۳۶ کیا عورتوں کیلئے علم کے بیان کرنے میں کوئی خاص دن مقرر کیا جاوے۔
حدیث نمبر ۴۳
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ عورتوں نے نبی ؐ سے عرض کیا کہ مرد ہم سے بڑھ گئے ہیں پس آپؐ ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی دن مقرر کردیجئے۔ تو آپؐ نے ان سے کسی دن کا وعدہ کرلیا اسی دن آپؐ نے ان عورتوں کو وعظ کیا اور ان کے مناسب حال ان کو حکم دیا جو آپؐ نے انہیں فرمایا تھا کہ جو عورت تم میں اپنے تین لڑکے آگے بھیج دے(یعنی اس کے تین چھوٹے بچے اس کے سامنے مرجاویں) تو وہ اس کیلئے دوزخ کی آگ سے حجاب ہوجائیں گے۔
ایک عورت بولی کہ اگر دوہوں آپؐ نے فرمایا اور دوکابھی یہی حال ہے۔ (ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا انہوں نے عبدالرحمن بن احبہانی سے روایت کی ۔ انوہں نے ذکوان سے انہوں نے ابوسعید سے انہوں نے نبیؐ سے اس حدیث کی روایت کی اور عبدالرحمن بن اصبہانی سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوحازم سے سنا انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ تین لڑکے ایسے ہوں جو گناہ کی عمر کو نہ پہنچے ہوں۔)
باب ۳۷ جس نے کوئی بات سنی اور اسکو نہ سمجھا اور پھر اس نے دوبارہ اسے پوچھا تاکہ اسے سمجھ لے۔
حدیث نمبر ۴۴
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عائشہ ؓ نبی کریمؐ سے جب کسی ایسی بات کو سنتیں جسکو نہ سمجھتیں تو پھر دوبارہ اس کو پوچھ لیتیں۔ تاکہ اس کو سمجھ لیں۔ ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے فرمایا قیامت میں جس کا حساب لیا گیا اس پر ضرور عذاب کیا جائیگا۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا کہ اللہ پاک نے نہیں فرمایا کہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا(پس عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائیگا) آپؐ نے فرمایا یہ صرف پیش کردینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ کی گئی وہ یقینا ہلاک ہوگا۔
حاشیہ باب ۳۷
اس باب میں بتایا ہے کہ کسی دینی امر کو جب تک انسان نہ سمجھے مکرر پوچھ لے۔
باب ۳۸ چاہئے کہ حاضر کو غائب کو پہنچاوے۔ یہ حکم ابن عباس نے نبیؐ سے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر ۴۵
ابوشریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید بن عاص(والی مدینہ) جبکہ وہ ابن زبیر سے جنگ کرنے کے واسطے لشکروں کو مکہ کی طرف بھیج رہا تھا یہ کہا کہ اے امیر مجھے اجازت دے تاکہ میں تجھے ایسی بات سناؤں جس کو نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے دوسرے دن کھڑے ہوکر بیان فرمایا تھا اسکو میرے دونوں کانوں نے سنا ہیا ور اس کو میرے دل نے یاد رکھا ہے اور جب آپؐ اس کو بیان فرماتے تھے تو میری آنکھیں آپکو دیکھ رہی تھیں آپؐ نے اللہ کی حمدوثنا بیان کی پھر فرمایا کہ مکہ میں جدال کو اللہ تعالیٰ نے ھرام کیا ہے اور اسے آدمیوں نے نس حرام کیا پس جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو جائز نہیں کہ مکہ میں خونزریزی کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ وہاں کوئی درخت کاٹا جاوے پھر اگر کوئی شخص رسول اللہؐ کے لڑنے کو جواز بیان کرے تو اسے کہدو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دے دی تھی۔ اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی صرف ایک گھڑی بھر کی وہاں اجازت دی تھی پھر آج اس کی حرمت ایسی ہی ہوگئی جیسی کل تھی پس حاضر کو چاہئے کہ وہ غائب کو پہنچاوے۔ ابوشریح سے کہا گیا کہ اس حدیث کو سن کر عمرو نے کیا جواب دیا انہوں نے کہا کہ اے ابوشریح میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ حرم کسی باغی کو اور خون کرکے بھاگ جانے والے کو اور خربہ کرکے بھاگ جانے والے کو پناہ نہیں دیتا۔ ابوعبداللہ کہتا ہے کہ خربہ کے معانی خیانہ اور فساد کے ہیں۔
حدیث نمبر ۴۶
ابوبکرہ نے ایک مرتبہ نبی کریمؐ کا ذکر کیا کہ آپؐ نے فرمایا۔ تمہارے خون اور تمہارا مال(محمد جو اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں مجھے خیال ہوتا ہے یہ بھی کہا) اور تمہاری آبروئیں تم لوگوں پر ہمیشہ ایسی حرام ہیں جیسے ان کی حرمت تمہارے اس دن میں، تمہارے اس مہینہ میں ہے۔ آگاہ رہو تم میں سے حاضر کو چاہئے کہ غائب کو یہ خبر پہنچادے۔(اور محمد کہا کرتے تھے کہ رسول اللہؐ نے سچ فرمایا۔ ایسا ہی ہے) پھر دو مرتبہ آنحضرت ؐ نے فرمایا خبردار رہو میں نے پہنچادیا۔
حاشیہ باب ۳۸
اس باب میں یہ ہدایت کی ہے کہ جو شخص کوئی دین کی بات سنے وہ دوسروں کو پہنچادے یہ امر بھی اشاعت ِ اسلام وتبلیغ دین کی ضرورت بتاتا ہے اس کے تحت میں جو حدیث ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ حق کہنے میں کیسے دلیر تھے ایسے وقت میں کہ ایک شخص میدان جنگ کو جارہا ہیئا ور جوش میں ہے اس حالت میں اسکو حق پہنچایا جاتا ہے پہنچانے والے کی جرأت کے ساتھ سنتے والے کی برداشت اور ادب بھی کمال کی ہے۔ نبی کریمؐ کا نام سن کر آپ نے خاموشی سے سن لیا۔ علاوہ بریں اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ میں آنحضرت ؐ نے ابدی اور غیر فانی امن کا کیا لطیف حکم دیا ہے ایسا مستقل امن کہیں نہیں نظر آسکتا اور ساتھ ہی چونکہ بعض شریر اور بدمعاش لوگوں کو حرم کی وجہ سے جرأت ہوسکتی تھی اسلئے آنحضرت ؐ کے اس ارشاد کو ابوشریح نے خوب سمجھا اور بتادیا کہ کسی باغی، قاتل اور مفسد کو امن نہیں مل سکتا۔
باب ۳۹ اس شخص کا گناہ جو نبیؐ پر جھوٹ بولے
حدیث نمبر ۴۷
علیؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا میرے اوپر جھوٹ نہ بولنا کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے اسے چاہئے کہ ااگ میں داخل ہوجاوے۔
حدیث نمبر ۴۸
عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے باپ زبیر سے کہا کہ میں نے رسول اللہؐ کی حدیثیں جس طرح کثرت سے فلاں اور فلاں صحابی بیان کرتے ہیں تمہیں بیان کرتے نہیں سنا؟ زبیر نے کہا کہ خبردار رہو میں رسول اللہؐ سے جدا نہیں ہوںَ مگر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص میرے اوپر جھوٹ بولے تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کرے۔
حدیث نمبر ۴۹
انس بن مالک کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے یہ امر منع کرتا ہے کہ نبیؐ نے فرمایا ہے جو شخص میرے اوپر عمدا جھوٹ بولتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کرے۔
حدیث نمبر ۵۰
سلمہ جو اکوع کے بیٹے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو کوئی میری نسبت وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو ایسا شخص اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کرے۔
حدیث نمبر ۵۱
ابوہریرہ ؓ نبیؐ سروایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت ابوالقاسم نہ رکھو اور یقین کرلو کہ جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقینا اس نے مجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں بنسکتا اور جو شخص مجھ پر عمداجھوٹ بولے اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کرے۔
حاشیہ باب ۳۹
اس باب میں وضعی اور جھوٹی حدیث بنانے والوں کیلئے تہدید ہے۔ اور نبی کریمؐ پر افترا سے روکا ہے۔ ایک اور امر بھی اس باب کے تحت میں حدیث نجران میں بیان ہوا ہے کہا گر کوئی شخص رؤیا میں نبی کریم ؐ کو دیکھے تو وہ بالکل سچ ہوتا ہے۔ شیطان آپؐ کی صورت پر متمثل نہیں ہوسکتا۔

کتاب الوضوء
باب ۱ وضوء کے متعلق
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی امرافق وامسحوابرؤسکم وارجلکم الی الکعبین کی تفیس رمیں کیا وارد ہوا ہے۔ ابوعبداللہ کہتا ہے کہ نبیؐ نے بیان کردیا ہے کہ وضوء میں ایک ایک مرتبہ ہر عضو کا دھونا فرض ہے آپؐ نے وضوء کیا ہے( اس میں دو دو مرتبہ اور تین تین مرتبہ بھی اعضاء کو دھویا ہے اور پھر تین پر زیادہ نہیں کیا اور اہل علم نے وضوء میں اسراف کرنے اور نبیؐ کے فعل سے بڑھ جانے کو مکروہ سمجھا ہے۔
باب ۲ کوئی نماز بے طہارت کے قبول نہیں۔
حدیث نمبر ۱
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہانتک کہ وضوء کرے۔ حضرت موت کے ایک شخص نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ ؓ حدث کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا فساء یا ضراط (فساء ۔ پوسھی۔ آہستہ ہوا جو خارج ہو۔ ضراط (گونہ)
باب ۳ وضوء کی فضیلت کا بیان اور وضوء کے نشانات کے سبب سے غرمحجلون ہونگے۔
حدیث نمبر ۲
نعیم مجمر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابوہریرہؓ کے ہمراہ مسجد کی چھت پر چڑھا تو انہوں نے وہاں وضوء کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کے لوگ قیامت کے دن وضوء کے نشانات کے سبب سے غر محجلون کہہ کر پکارے جاویں گے۔ پس تم میں سے جو کوئی اپنا غرہ دراز کرسکے تو اسے چاہئے کہ کرے۔
باب ۴ شک سے وضوء نہ کرے تا وقتیکہ یقین ہوجائے۔
حدیث نمبر ۳
عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کے سامنے ایک شخص کی حالت بیان کی گئی جسکو خیال ہوجاتا کہ نماز میں وہ کسی چیز کو(ہوا کا خروجٌ محسوس کررہا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ نماز سے لوٹے نہ؁ں یا پھرے نہیں جب تک کہ آواز سن لے یا بو پائے۔
باب ۵ وضوء میں تخفیف کرنا۔
حدیث نمبر ۴
ابن عباس سے روایت ہے کہ نبیؐ سوئے یہانتک کہ سانس کی آواز آئی پھر آپؐ نے نماز پڑھی اور کبھی کہتے تھے کہ آپؐ لیٹے یہانتک کہ سانس کی آواز آئی۔ پھر آپؐ بیدار ہوئے اور آپؐ نے نماز پڑھی (علی بن عبداللہ کہتے ہیں) پھر ہم سے سفیان نے کئی مرتبہ عمرو سے انہوں نے کریب سے انہوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو بیان کیا کہ ابن عباس نے کہا کہ میں ایک شب اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں رہا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریمؐ رات کو اٹھے اور آپ نے ایک لٹکی ہوئی مشک سے خفیف وضوء کیا (عمرو اس وضوء کو بہت خفیف اور قلیل بتاتے تھے) اور نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے پس میں نے بھی وضوء کیا اس کے قریب جیسا کہ آپؐ نے کیا تھا پھر میں آیا اور آپؐ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا اور کبھی سفیان کہتے تھے کہا ٓپؐ کے شمال کی جانب کھڑا ہوگیا پس آپؐ نے مجھے پھیرلیا اور اپنی جانب کرلیا۔ پھر جسقدر اللہ نے چاہا آپؐ نے نماز پڑھی پھر آپؐ لیٹ رہے اور سوگئے یہانتک کہ سانس کی آواز آئی۔ پھر آپؐ کے پاس مؤذن آیا اور اس نے آپؐ کو نماز کی اطلاع دی آپؐ اسکے ہمراہ نماز کیلئے اٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے نماز پڑھی اور وضوء نہیں کیا( سفیان کہتے ہیں) ہم نے عمرو سے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐکی آنکھ سوجاتی تھی اور آپؐ کا دل نہیں سوتا تھا۔ تو عمرو نے کہا کہ میں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے سنا کہ انبیاء کا خواب وحی ہے پھر پھر انہو ںنے انی اری فی المنام انی اذبحک کی تلاوت کی۔
باب ۶ وضوء میں اعضا کا پورا دھونا ضروری ہے اور ابن عمر نے کہا کہ وضوء کو پورا کرنے کا مطلب ہے صاف کرنا۔
حدیث نمبر ۶
اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ عرفہ سے چلے جہانتک کہ جب پہاڑی راستہ میں پہنچے تو اترے اور پیشاب کرکے وضوء کیا مگر یہ وضوء پورا نہیں کیا تو میں نے کہا یارسوللہ نماز؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے(مزدلفہ میں پڑھیں گے) پھر جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپؐ اترے اور پورا وضوء کیا پھر تکبیر کہی گئی اور آپؐ نے مغرب کی نماز پڑھی اس کے بعد ہر شخص نے اپنے مقام پر اپنے اونٹ کو بٹھادیا پھر عشاء کی نماز کی تکبیر ہوئی اور آپؐ نے پڑھی اور دونوں کے درمیان میں کوئی نماز نہیں پڑھی۔
باب ۷ منہ کا ہاتھوں سے دھونا صرف ایک چلو سے بھی درست ہے۔
حدیث نمبر ۶
ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے وضوء کیا پانی کا ایک چلو لے کر اور اس سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر ایک چلو پانی لیا اور اس سے اسی طرح کیا میں نے دوسرے ہاتھ کو ملا کر اس سے منہ دھویا پھر ایک چلو پانی لیا اور اس سے اپنا دایاں بازو دھویا پھر ایک چلو پانی لیا اور اس سے بایاں بازو دھویا۔ پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنے داہنے پیر پرڈالا۔ یہانتک کہ اسے دھوڈالا۔ پھر دوسرا چلو پانی کالیا اور اس سے بائیں پاؤں کو دھایا پھر کہا کہ میں نے رسول اللہؐ کو اس طرح وضوء کرتے دیکھا۔
باب ۸ بسم اللہ ہر حال میں کہنی چاہئے اور جماع کرتے وقت بھی۔
حدیث نمبر ۷
ابن عباس نبیؐ تک اس حدیث کو پہنچاتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا اگر تم میں سے جب کوئی شخص اپنی بی بی کے پاس آئے بسم اللہ اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا کہہ لے پھر ان کے تعلق سے کوئی اولاد مقدر کی جاوے تو اسکو شیطان ضرر نہ پہنچاسکے ۔
باب ۹ بیت الخلاء جاتے وقت کیا کہے؟
حدیث نمبر ۸
انس کہتے ہیں کہ نبیؐ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث
باب ۱۰ پاخانے جاتے وقت پانی رکھدینا
حدیث نمبر ۸
ابن عباس کہتے ہیں کہ نبیؐ بیت الخلاء میں داخل ہوئے تو میں نے آپؐ کیلئے وضوء کا پانی رکھدیا(جب آپؐ وہاں سے نکلے تو) فرمایا یہ پانی کس نے رکھا ہے آپؐ کو بتادیا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اے اللہ اسے دین میں سمجھ عنایت کر۔
باب ۱۱ پاخانہ میں یا پیشاب میں قبلہ کی طرف منہ نہ کرے مگر عمارت کے پاس یا دیوار ہو یا اس کی مثل
حدیث نمبر ۹
ابوایوب انصاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پاخانہ جاوے تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرے۔ مشرق کی طرف منہ کرو یا مغرب کی طرف۔
باب ۱۲ جس شخص نے دو اینٹوں پر بیٹھ کر پاخانہ پھرا۔
حدیث نمبر ۱۰
عبداللہ بن عمر کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں جب تم اپنی قضاء حاجت کیلئے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ بیت المقدس کی طرف(عبداللہ بن عمر کہتے ہیں) مگر میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہؐ کو قضاء حاجت کیلئے دو اینٹوں پر بیٹھے ہوئے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے دیکھا اور ابن عمر نے(یہ کہہ کر واسع) سے کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے زانوں پر نماز پڑھتے ہیں( واسع کہتے ہیں) میں نے کہا واللہ میں نہیں جانتا۔ (امام مالک نے کہا رانوں پر سجدہ کرے) یعنی وہ شخص جو نماز پڑھے سجدہ اس حال میں کرے کہ زمین سے ملا ہوا ہو۔
باب ۱۳ عورتوں کاباہر پاخانہ پھرنے کیلئے نکلنا جائز ہے۔
حدیث نمبر ۱۱
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ کی بیبیاں رات کو پاخانہ پھرنے کیلئے مناصع کی طرف نکل جاتی تھیں( مناصع کے معانی زرخ ٹیلہ) اور عمرؓ نبیؐ سے کہا کرتے تھے کہ آپؐ اپنی بیبیوں کو پردہ میں ۔ مگر رسول للہؐ ایسا نہ کرتے تھے تو ایک دن عشاء کے وقت سودہ بنت زمعہ نبی کریمؐ کی بی بی نکلیں وہ دراز قد عورت تھیں تو انہیں عمرؓ نے اس خواہش سے کہ پردہ کا حکم نازل ہوجاوے پکارا کہ سودہ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ اس کے بعد اللہ نے پردہ کا حکم نازل کیا۔
حدیث نمبر ۱۲
حضرت عائشہؓ نبی کریمؐ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے اپنی بیبیوں کو فرمایا کہ تمہیں اپنی حاجتوں کیلئے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی۔ (ہشام نے کہا حاجت سے مراد براز ہے)
باب ۱۴ گھروں میں پاخانہ پھرنا۔
حدیث نمبر ۱۳
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں کسی ضرورت سے حفصہ کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ ؐ کو قضائے حاجت کرتے ہوئے قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے دیکھا۔
حدیث نمبر ۱۴
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا کہ دو اینٹوں پر بیٹھے ہوئے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے قضائے حاجت کرتے تھے۔
باب ۱۵ پانی سے استنجا کرنا۔
حدیث نمبر ۱۵
انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبیؐ جب اپنی حاجت کیلئے نکلتے تھے تو میں اور ایک لڑکا اپنے ہمراہ پانی کا ایک برتن لے آتے تھے جس سے آپؐ استنجا کرتے تھے۔
باب ۱۶ وہ شخص جس کے ہمراہ اسکی طہارت کیلئے پانی لے جایا جاوے ابودرداء نے (عراق والوں سے) کہا کہ کیا تم میں صاحب النعلین والطہور والوساد (عبداللہ بن مسعود) نہیں ہے۔
حدیث نمبر ۱۶
انس کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ جب اپنی حاجت کیلئے نکلتے تھے تو میں اور ایک لرکا آپؐ کے پیچھے جاتے تھے ہمارے ساتھ پانی کا ایک ظرف ہوتا تھا۔
باب ۱۷ استنجے کیلئے جانے میں پانی کے ساتھ غزہ (چھوٹی برچھی) کالے جانا بھی (درست ہے)
حدیث نمبر ۱۷
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا ایک برتن اور غزہ اٹھاتے تھے۔ پانی سے آپؐ استنجا فرماتے تھے۔
باب ۱۸ داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت ہے۔
حدیث نمبر ۱۸
ابوقتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی تم میں سے پانی پئے تو چاہئے کہ برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانے جاوے تو اپنی شرمگاہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے نہ چھووے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے استنجا کرے۔
باب ۱۹ جب پیشاب کرے تو اپنے عضو خاص کو اپنے دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے۔
حدیث نمبر ۱۹
ابوقتادہ نبی کریمؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے پیشاب کرے تو اپنے عضو خاص کو اپنے دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے اور نہ اپنید ائیں ہاتھ سے استنجا کرے اور نہ پانی پیتے وقت برتن میں سانس لے۔
باب ۲۰ پتھروں سے استنجا کرنا۔
حدیث نمبر ۲۰
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمؐب کے پیچھے پیچھے چلا اور آپؐ قضائے حاجت کیلئے نکلے تھے اور آپؐ کی عادت تھی کہ ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے میں آپؐ سے قریب ہوگیا تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے لئے پتھر لاؤ تاکہ میں ان کے ذریعہ پاکی کروں یا اسکی مثل کوئی لفظ فرمایا اور ہڈی یا گدھے کی لید میرے پاس نہ لانا پس میں اپنے کپڑے کے دامن میں پتھر لیکر آپؐ کے پاس گیا اور ان کو میں نے آپؐ کے قریب رکھ دیا اور میں آپؐ کے پاس سے ہٹ آیا پس جب آپؐ قضائے حاجت کرچکے تو پتھروں کو استعمال کیا۔
باب ۲۱ گدھے کی لید سے استنجا نہ کرے۔
حدیث نمبر ۲۱
عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ پاخانے گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں تین پتھر آپؐ کے پاس لے آؤں۔ دو پتھر تو مجھے مل گئے اور تیسرے کو تلاش کیا مگر نہ ملا تو میں نے ایک ٹکڑا گدھے کی لید کا لے لیا اور وہ آپؐ کے پاس لے آیا۔ آپؐ نے دو پتھر لے لئے اور لید گرادی کہ یہ نجس ہے۔
باب ۷۳ عورت کا اپنے باپ کے چہرہ سے خون کا دھو دینا(درست ہے) اور ابوالعالیہ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میرے پاؤں پر مالش کردو کیونکہ وہ بیمار ہے۔
حدیث نمبر ۱۵۳
ابوحازم سے روایت ہے کہ انہوں نے سہل بن سعدی سے سنا اور ان سے لوگوں نے پوچھا کہ(ابوحازم کہتے ہیں کہ میرے اور سہل کے درمیان کوئی آدمی نہ تھا) کسی چیز سے نبی کریم ﷺ کاعلاج کیا گیا تو وہ برے کہ اسکا جاننے اب کوئی باقی نہیں رہا۔ حضرت علیؓ اپنی ڈھال میں پانی لے آئے تھے اور فاطمہ آپ کے چہرہ سے خون دھوتی تھیں پھر ایک چٹائی لیکر جلائی گئی اور آپ کے زخم میں اسکی راکھ بھر دی گئی۔
باب ۷۴ مسواک کرنا (سنت ہے) اور ابن عباس نے کہا ہے کہ میں رات کو نبیؐ کے پاس رہا تو میں نے دیکھا کہ آپ نے مسواک کی۔
حدیث نمبر ۱۵۴
ابوہریرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ کو مسواک کرتے دیکھا اس مسواک سے جو آپ کے ہاتھ میں تھی آپ اع اع کرتے جاتے تھے اور مسواک آپ کے منہ میں تھی گویا کہ آپ ابکائی کرتے تھے۔
حدیث نمبر ۱۵۵
حذیفہ کہتے ہیں کہ جب نبی ﷺ رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے تھے۔
باب ۷۵ مسواک کا بڑے شخص کو دینا سنت ہے اور ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں اپنے کو ایک مسواک سے مسواک کرتے دیکھا پھر میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے ایک ان میں دوسرے سے بڑا تھا میں نے ان میں سے چھوٹے کو مسواک دیدی تو مجھے کہا گیا کہ بڑے کو دیجئے۔ پھر میں نے وہ مسواک ان میں سے بڑے کو دیدی۔
باب ۷۶ اس شخص کی فضیلت میں جو باوضوء سوئے۔
حدیث نمبر ۱۵۶
براء بن عازب کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے فرمایا کہ جب تم اپنی تو نماز کی طرح وضوء کرو۔ پھر اپنے دائیں جانب پر لیٹ جاؤ پھر بعد اس کے یہ دعا پڑھو اللھم اسلمت وجھی الیک وفوضت امری الیک والجأت ظھری الیک رغبۃ ورھبۃ الیک لا ملجاأ ولا منجأ منک الا الیک (یعنی اے اللہ میں نے تجھ سے امید وار اور خائف ہوکر اپنا منہ تیری طرف جھکا دیا اور اپنا ہر ایک کام تیرے سپرد کردیا اور میں نے تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا اور میں رکھتا ہوں کہ تجھے یعنی تیرے غضب سے تیرے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں) امنت بکتابک الذی انزلت ونبیک الذی ارسلت (میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے اس نبی پر جسے تو نے ہدایت کیلئے بھیجا)
پس اگر تم اپنی اس رات میں مرجاؤگے تو ایمان پر مروگے اور ان کلمات کو تمام ان باتوں کے بعد کہو جو تم کرنا چاہتے ہو یعنی اسکے بعد کلام نہ کرو۔ براء کہتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو نبی ﷺ کے سامنے دہرایا تو جب میں امنت بکتاب ک الذی انزلت پر پہنچا تو میں نے کہدیا ورسولک تو فرمایا نہیں ونبیک الذی ارسلت پہلا پارہ تمام ہوا الحمدللہ

کتاب الوضوء پر حاشیہ اور ریمارک
کتاب الوضوء کے تحت میں طہارت اور ازالہ نجاست کے بہت سے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ اسکے سہولت فہم کیلئے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ان مسائل کو ایک ایسی ترتیب کے ساتھ جمع کردیا جاوے جوگو بخاری کی ترتیب پر نہ ہو مگر ان میں یک جائی رنگ پیدا ہوجائے۔ کتاب الوضوء دراصل طہارت کی ایک کتاب ہے۔
طہارت کی ضرورت طہارت کی ضرورت اور فضیلت پر کسی بھی بحث کی حاجت نہیں قرآن مجید طہارت کی ضرورت اور فضیل تپر فرماتا ہے ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ یادوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ جو لوگ روحانی اور جسمانی پاکیزگی اختیار کرتے ہیں وہ اللہ تعلایٰ کے محبوب ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کے حقائق ومعارف پر اطلاع پانے اور اس صریم قدس میں داخل ہونے کیلئے طہارت کو قرار دیا ہے ۔ لایمسہ الا المطہرون ۔ ایسا ہی ابوالملۃ ابراہیم اور اسماعیل علیہھما الصلوٰۃ والسلام سے عہد طہارت کا لیا جاتا ۔ قراان کریم میں موجود ہے وعہدنا الی ابراہیم واسماعیل ان طہرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود ۔ یعنی ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجود کرنے والوں کیلئے پاک وصاف رکھو۔ اور بالآخر سید الانبیاء ﷺ کو ارشاد الٰہی یوں ہوا کہ وثیابک فطہر والرجز فاھجر اپنے لباس کو پاک وصاف رکھو اور یہ قسم کی نجاست سے الگ رہو۔ یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ میں کی کوئی بھی تمیز کروں اور بلکہ میں نے نفس مضمون کی تائید کیلئے انکو پیش کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسکو نصف الایمان فرمایا ہے۔ اسلئے ہر مومن مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ طہارت کی پابندی کرے۔ اسکے علاوہ کوئی متمدن اور شائستہ قوم نہیں اور کوئی فرد ساحب عقل وحوش نہیں جو صفائی کے مفاد سے آگاہ نہیں اور اسکو پسند نہ کرتا ہو۔ طبی اصولون کی بناء پر صفائی اول درجہ کا اصول ہے جو حفاظتِ جسم وجان کیلئے قرار دیا گیا ہے اور چونکہ جسمانی امور کا اثر روحانی امور پرپڑتا ہے اسلئے طہارت جسم طہارت روح کیلئے ایک ذریعہ بشرطیکہ اسکی پاک اور مفید تاثیران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاوے اور صفائی اور طہارت کی غرض وغایت بناؤ سنگار اور بانکیں تک محدود نہ ہو جو اصلی عرض وغایت طہارت کی نہیں۔ اسلام چونکہ وحی سے انسان اور پھر بااخلاق پھر باخدا انسان بناتا ہے اسلئے اسکی تعلیم میں بھی تدریجی رنگ موجود ہے۔
طہارت کے اقسام اور قدرتی ذریعہ : یہ ظاہر کرنا بھی بے موقع ہوگا کہ طہارت کا مفہوم ہے پاکیزگی اور صاف رہنا اور چونکہ یہ پاکیزگی اور ستھرائی جسم اور روح دونون کی ہوتی ہے اسلئے طہارت کی دو قسمیں سمجھنی چاہئیں روحانی اور جسمانی اسلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین اس آیت سے طہارت کے دونوں قسم ثابت ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں قسم کی سفائی میں لازم وملزوم کا سا تعلق ہے کیونکہ جسمانی صفائی کا روح پر اثر ضرور پڑتا ہے ۔ پس بدن سے صاف رکھنا جسمانی طہارت ہوگی اور ہر قسم کے بیہودہ عقیدہ اور خیالات بد اور اخلاق قبیحہ سے بچانا روحانی طہارت ہوگی اور انسان کی تکمیل اور روحانی اصلاح کیلئے دونون قسم کی صفائی کی ضرورت ہے۔ اور قدرت اسکے لئے ایک جوش انسان کے اندر اس مطلب کیلئے رکھتا ہے جیسا کہ ان شاء اللہ العزیز آگے چل کر بیان کرونگا۔
پس طہارت کی ضرورت ایک ضرور ت آگئے ہیں اور وہ جسمانی صفائی ایک قدرتی ذریعہ ہے اسلئے پہلے وہیں سے شروع کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
جسمانی صفائی کا قدرتی ذریعہ : طہارت کیلئے انسان کے اندر قدرتا ایک زبردست جوش اور کشش موجود ہے۔ جسکو اللہ تعالیٰ نے جو عزیز وحکیم ہے اس فطرتی تقاضے کے پورا کرنے کیلئے اور یہ مختلف صورتوں میں اپنا کام کررہا ہے ۔ مثلا انسان کے اندر ایک ایسا سلسلہ رکھا ہے کہ دو نفیس اور ممد حیات اجزاء کو لے رہا ہے اور خبیث ارو مضر مادوں کو دور کررہا ہے اس نظام میں کہیں بول وبراز کے راستے سے کہیں پسینہ کے ذریعہ کہیں اور طریقوں سے وہ گندگیاں اور نجاستیں دور ہورہی ہیں۔ جو اسکی رگ جان کو کاٹ دینے والی تھیں اور ایسا ہی روحانی طہارت کیلئے قویٰ مختلفہ کی باہمی مضاربت کا سلسلہ جاری ہے جو مضر اور ہلاک کن قوتوں کو دبا رہا ہے یہ ایک ایسا نظام ہے جو ہر آن اور ہر لحظہ جسم انسان کے اندر جاری ہے مگر افسوس کہ ہم اس سے فائدہ اور عبرت حاصل نہیں کرتے۔ انسانی بناوٹ پر نظر کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو وہ نجاستیں ہیں جو انسان کے اندر سے نکلتی ہیں اور بعض باہر سے لگ کر اسکو پلید کرتی ہیں۔ اسطرح پر نجاستوں کی دو قسمیں ہوں گی داخلی اور خارجی۔
طہارت وازالہ نجاست : پھر یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ازالہ نجاست ہے اور دوسرا طہارت۔ طہارت ازالہ نجاست سے بڑی ہوتی ہے۔ اسلے نناز کے واسطے صڑف ازالہ نجاست ہی کافی نہیں بلکہ طہارت ضروری چیز ہے۔ ازالہ نجاست کیلئے پانی بہت بڑا ذریعہ ہے اسلئے ضمنا اسپر بھی بحث کی حاجت معلوم ہوتی ہے۔
پانی کے احکام : اسجگہ اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ پانی کے احکام پر سن ہجری کے ایک سو برس تک کوئی بحث نہیں ہوئی۔ نبی کریم ﷺ سے بھی دو دفعہ معمولی سوال ہوا ہے بعد میں بحثیں اسکے متعلق لکھی گئیں تو اسکی جڑ محض مقامی حالات ہیں نہ کچھ اور بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں کثرت سے صاف اور تازہ پانی ہر وقت میسر آسکتا ہے اور بعض جگہ پانی کی سخت قلت اور دقت ہوتی ہے۔ اسلئے فقہاء اور علماء اہلِ حدیث کے درمیان احکام المیاہ کے متعلق ایک بحث نظر آئیگی۔ مگر اس اصل پر جب ان بحثوں کو دیکھا جاوے تو فقہاء اور اہل حدیث کے علماء کے درمیان تنازعہ باقی نہیں رہ جاتا میں نے ان بحثوں کو پڑھ کر جو خلاصہ سمجھا ہے میں اسے حوالہ قلم کردیتا ہوں۔
پانی خواہ مینہ کا ہو یا دریا کنوئیں کایا چشمہ کا خود پاک ہے اور نجاست اور مطہر ہے۔ کوئی چیز پڑ کر آئے رنگ بو مزہ کو تبدیل نہ کردے۔ لیکن اگر نجاست نہ ہوگا یعنی اس سے وضوء یا غسل جائز نہ ہوگا۔
قلتین کی بحث کا خاتمہ : پانی کے احکام میں قلتین کی بحث بھی موکتہ بحث ہے مگر میری رائے یہی ہے کہ اس بحث میں پڑنے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسے ملک میں پیدا کیا ہے جہاں بافراط پانی میسر آتا ہے اور قلتیں کی بحث پر غور کی حاجت نہیں رہنے دیتا۔ لیکن ہمارے بعض علماء اللہ تعالیٰ انپر رحم کرے ان بحثوں میں الجھنا اپنی واقفیت اور معلومات علمی کی شان سمجھتے ہیں ۔ قلتین کی بحث میں ایک حدیث پر زور دیا جاتا ہے اذا بلغ الماء قلتین لم یحمل نجسا۔ اس حدیث کی معنوں نے صورت تنازع پیدا کی ہے اور اہل حدیث تو یہ کہتے ہیں کہ جب دو قلے پانی ہو تو اسمیں کسی نجاست کے پڑنے سے وہ نجس نہیں ہوتا بشرطیکہ اسکا رنگ۔ مزا ۔ بو تبدیل نہ ہو۔ برخلاف اسکے فقہاء کہتے ہیں کہ خواہ بو ۔ رنگ ۔ مزا تبدیل ہو یا نہ ہو مگر نجاست پڑتے ہی وہ ناپاک ہوجاتا ہے۔ مجھے حرت امیر المؤمنین کے فیض صحبت سے اسکے متعلق جو سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ فقہاء کے معنوں میں نفاست کا زیادہ خیال ہے اور اہل حدیث کے معنوں میں قلت آب کے سوال کا حل کیا ہے۔ اوریہ دونوں بحثیں مقامی حالات اور ضرورت کے لحاظ سے طے ہوسکتی ہیں۔ قلہ کی مقدار کیا ہے؟ آجکل آج کل کے پیمانہ میں ۱۸ من ۱۳ سیر ہوتا ہے۔
اسکے علاوہ ایک اور بحث بھی ہے کہ کنوئیں میں کوئی جانور گر پڑے یا مرجاوے تو کیا کیا جاوے۔ بخاری نے باب ۱۵۸ میں اسپر روشنی ڈالی ہے۔ اسکے لئے ہم احمدیوںکیلئے ایک آسان راہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتادی ہے کہ جہاں سنت صحیحہ سے کچھ نہ ملے تو فقہ حنفی پر عمل کرو ۔ پانی کے ان ضروری احکام کے بعد اب پاخانہ پیشاب کے آداب سے اس کتاب الوضوء کے مضامین پر کسی قدر تشریحی نوٹ لکھ دئیے جاتے ہیں ۔ وباللہ التوفیق
پیشاب پاخانے کے آداب
اسلام کی خصوصیات : اسلام کی خصوصیت جو دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی جس سے آنحضرت ﷺ کی قوت قدسی اور تقرب الی اللہ کا پتہ لگتا ہے ۔ نقل کرواز حقیقت نماز ص۳۶

ہمارے یہاں پانی بکثرت مل جاتا ہے اسلئے ازالہ نجاست پانی سے زیادہ بہتر اور مناسب ہے اور آنحضرت ﷺ بھی اسکو نظافت کے لحاظ سے زیر عمل لکھتے جبکہ باب ۱۰ حدیث ۸ سے ظاہر ہے اور ایسا ہی باب ۱۵ حدیث ۱۵ اور باب ۱۶ ،۱۷ بھی اسکی تائید کرتے ہیں۔ ان احادیث کو غور سے پڑھو۔
(نوٹ) اگرچہ اس باب میں ذکر نہیں آیا مگر آداب پاخانہ کے ذیل میں یہ ذکر کر دینا غیر مناسب نہیں ہے کہ اگر کوئی انگوٹھی پہنی ہوئی ہو اور اسپر خدا تعالیٰ کا نام یا کوئی متبرک کلمہ کندہ ہو تو اسے پہن کر پاخانہ مٰں جانا منع ہے اس سے خدا تعالیٰ کے نام کی بے ادبی ہوتی ہے۔
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنا : باب ۱۸ حدیث نمبر ۱۸ میں نبی کریم ﷺ نے دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اسمیں ایک روحانی نکتہ ہے جبکہ اوپر میں نے بیان کیا ہے نبی کریم ﷺ عام امور سے روحانیت کے طرف لے جاتے تھے دائیں ہاتھ کو عربی میں یمین اور فارسی میں راست کہتے ہیں ۔ اسلئے صداقت اور راستی کو نجاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ شیطان کے حملہ کو بھی اہل دل لوگوں نے بائیں طرف سے لکھا ہے اسلئے یہ ہدایت ہے کہ برے خیالات پیدا ہوں تو بائین طرف تھوک دے۔ اور لاحول پڑھے۔ پس اسمیں صداقت اور راستی کی عظمت کو دکھایا ہے۔
اسی حدیث میں ایک اور صداقت : اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اس امر سے بھی منع کیا ہے کہ پانی کو پیتے ہوئے اسمیں سانس نہ لو۔ یہ ایک علمی نکتہ ہے جو سانس
پاخانوں کے متعلق ایک بحث : ان احادیث پر غور کرنے سے جو باب ۱۲،۱۳،۱۴ میں بیان ہوئی ہیں یہ امر ظاہر ہے کہ اولا باہر کھلے میدانون میں پاخانہ ھر نا مفید ہے۔ یہانتک کہ نبی کریم ﷺ کی بیویاں امہات المؤمنین بھی باہر جایا کرتی تھی اسطرح پر کچھ نہ کچھ چہل قدمی بھی ہو جاتی ہے اور باہر کی ہوا ہر قسم کے تعفن اور سڑاند سے پاک ہوتی ہے۔ اسلئے جو عورت یا مرد اطمینان کے ساتھ باہر جاسکیں تو یہ مفید ہے لیکن اگر حالات اس قسم کے ہوں کہ ب اہر جانے کا موقع نہ ہو یا اور اسباب ہیں تو گھروں میں پاخانہ پھیرنے کی مخالفت نہیں مگر باب ۱۲ اور باب ۱۴ کے ماتحت جو احادیئث بیان ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بہترین پاخانے وہ ہیں جو مکان کی طھت پر ہوں اسکی وجہ طاہر ہے کہ وہاں ہلکی دھوپ اور ہوا پڑکر وہ سڑاند اور عفونت جو مضر صحت ہوتی ہے پیدا نہیں ہوگی۔ دھوپ اور روشنی وبائی جراثیم کو کچل دیتے ہے ہمارے ملک میں کا طریق یا پاخانوں کا طریق معلوم نہیں کیونکہ پیدا ہوا۔ ان احادیث پر غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ پاخانہ چھت پر ہوں اور کھلے ہوں تاکہ سورج کی روشنی اور دھوپ اور کھلی ہوا ان مضرات کو دور کرسکے۔
استنجے کے متعلق ہدایات : سے استنجا کرنے کے متعلق باب ۱۸ میں ہدایت کی کہ بائیں ہاتھ سے کئے جاویں اور باب ۲۰ والے میں گدھے کی لید اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ اور ڈھیلیوں کی تعداد تین بتائی جیساکہ باب ۲۶ میں ہے اسمیں سر یہ ہے کہ اگر کوئی حد ہوتی تو وہمی لوگ سارا دن استنجا کرتے ہی میں گزار دیتے اور بعض احادیث میں کوئلہ سے استنجا کرنا بھی منع کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئلہ اور ہڈی خراش پیدا کرتے ہیں اور لید میں بعض موذی جانور پیدا ہوجاتے ہیں علاوہ بریں ان میں حشرات کے زہریلے علامات اور ہوا سے متعفنہ کے سبھی مواد اور اثار ان میں پائے جاتے ہیں آنحضرت ﷺ نے اس نظر سے ان چیزوں سے منع کیا ہے۔
پیشاب کے آداب : پیشاب کے آداب پاخانہ کے آداب میں شامل و داخل ہیں۔ باب ۱۹ میں بتایا کہ داہنے ہاتھ سے پیشاب کرتے وقت پیشاب گاہ کو نہ پکڑے ۔ پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا چاہئے۔ یہ طہارت اور نظافت کی دلیل ہے۔ اور پیشاب کرکے استنجا کرلینا چاہئے۔ نبی کریم ؐ کا فعل زیادہ تر یہی ثابت ہے کہ وہ پیشاب یا پاخانہ کے بعد پانی سے استنجا کرتے تھے(باب ۵۵،۵۶،۵۷) پیشاب بیٹھ کرنا چاہئے لیکن اگر کوئی عذر شدید ہو اور چھینٹیں پڑنے کا بھی احتمال نہ ہو تو کھڑے ہوکر کرلینے میں مضائقہ نہیں۔ مگر اسکو عام طور پر معلوم بھی نہیں بنا نا چاہئے۔ یہ انگریزوں کی تقلید ہے۔ علاوہ بریں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے مین اسی وعید سے ڈرنا چاہئے جو باب ۵۵ اور ۵۷ میں عذاب کا آیا ہے پس اس رعایت سے اور کسی عذر کیوجہ سے اگر کھڑے ہوکر پیشاب کرلیا جاوے تو یہ کوئی گاہ اور حرام نہیں ہے۔ ہاں عام بات ہے کہ بیٹھ کر کرو۔
نبی کریم ﷺ کی وسعت ِ خیالی : باوجود طہارت کو حاصل تھا آپ تو تنگ دل نہ تھے نصاری نجران کو مسجد میں گرجا کرلینے کی اجازت دینا عام بات ہے۔ اس کتاب الوضوء کے باب ۵۸ اور ۵۹ کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے سامنے آپکی مسجد میں ایک اعرابی نے پشیاب کردیا آپ نے اسکو روکا نہیں اسلئے نہیں کہ نعوذباللہ مسجد میں پیشاب کرنا کوئی برا فعل نہیں۔ نہیں بلکہ پیشاب کرتے ہوئے روک دینا بھی طبی طور پر مضر ہے اور آپؐ نافع للناس اور رؤف الرحیم تھے اسلئے آپ نے پسند نہیں کیا کہ اسے مبتلائے امراض کریں۔ پس آپ نے اسکو دھلادیا اور وہ بھی معمولی طور پر پانی کا ایک دول بہا دیا آپکا یہ عمل سخت گیر لوگوں کیلئے ایک اسوہ حسنہ ہے۔
بچے کے پیشاب کا کیا حکم ہے : بچہ اگر دودھ پیتا ہو اور کپڑے پر پیشاب کردے تو اسپر پانی چھڑک دینا کافی ہے۔ (باب ۶۰)
متفرق باتیں : پیشاب کے آداب کے بارہ میں بطور تتمہ یہ بیان کردیا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عام رستوں اور گزرگاہوں پر درختون کے نیچے جہاں لوگ آرام کریں غسل خانوں اور پانی کے گھاٹوں پر ۔ کھڑے پانی میں (باب ۶۹) پیشاب یا پاخانہ کی ممانعت کی ہے کسی جانور کے بل اور سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع کیا۔ اسکی منفی اور حقیقت ظاہر ہے۔ پیشاب یا استنجا کرتے وقت سلام کا جواب دینے یا سلام کرنے سے بھی ممانعت فرمائی۔
جانوروں کے پیشاب کے متعلق : باب ۶۷ سے معلوم ہوتا ہے اونٹ اور چارپاؤں اور بکری کے رہنے والے مکانات جہاں انکا پیشاب وغیرہ بھی ہوتا ہے انکو نجس قرار نہیں دیا گیا۔
اگر گھی مین چوہیا مرجاوے : باب ۶۸ میں پانی میں مرنے والے جانوروں کے مسئلہ پر احکام المیاہ میں میں نے بحث کردی ہے اس باب کے نیچے جو حدیث نمبر ۹۶ بیان ہوئی ہے اسمیں لکھا ہے کہ اگر گھی مین چوہیا گر گئی ہو تو اسکو نکال ڈالو اور اس کے ارد گرد جسقدر گھی ہو وہ نکالکر باقی کھالو۔ اسی حدیث پر ایک آریہ نے ایک مرتبہ اعتراض کیا تھا کہ پلیگ کے جراثیم انسانوں تک چوہوں سے پہونچتے ہیں۔ پھر اس گھی میں یہ زہریلی تاثیر ہوگی۔ میں نے اس نادان معتراض کو بتایا تھا کہ گھی بجائے خود ایک تریاق ہے اور وبائی جراثیم اور سمی مادوں کو وہ کچل دیتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی اعلیٰ درجہ کی طبی واقفیت ہے ۔ چوہا اگر گھی میں مرجاوے تو اسکے وہ جراثیم گھی میں زندہ نہیں رہ سکتے اور نہ گھی میں انکی مزید پیدائش ہوسکتی ہے۔ اسلئے سرور کائنات ﷺ نے اس گھی کے اس حصہ اور ارد گرد کے حصہ کو نکال کر باقی کے استعمال سے منع نہیں فرمایا۔ یہ ہے اور اس سے انکار کر جہالت ہے۔
کتاب الوضوء کے بعض ضمنی ابواب : ابھی تک مسائل وضوء پر میں نے کوئی بحث نہیں کی اس سے میری غرض یہ ہے کہ پہلے متفرق امور پر تشریحی نوٹ لکھ دئیے جاویں پھر صرف وضئو کی بحث رہ جائیگی اور وہ بھی وضوء کے فلسفہ اور حقیقت کی۔
مسواک کی بحث : اب قبل اس کے کہ وضوء کے متعلق ضروری مسائل یا فلسفہ وضوء پر ریمارک کرکے اس حاشیہ کو کتم کیا جاوے مسواک کی بحث لکھ دینی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اسطرح پر وہ تمام ضمنی امور طے ہوجائیں گے۔ وباللہ التوفیق۔
باب ۷۴ اور باب ۷۵ میں مسواک کے متعلق مسائل بتائے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے طرز عمل اور دوسری احادیث اور ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسواک کو بہت پسند کرتے تھے۔ اور یہ بھی آپکے نور نبوت کا ایک ثبوت اور آپکے علمی اعجاز میں ایک اضافہ ہے ان ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رات کو جب اٹھتے تو بھی مسواک کرتے اور دوسری احادیث سے جو ہر چند اس موقع پر نہیں آئی ہیں ثابت ہوتا ہے کہ آپ تلخ لکڑی کی مسواک کو پسند کرتے تھے۔ مسواک کے کیا فوائد ہیں یہ ایک ظاہر امر ہے۔ منہ کے اندر جو کثافت اور غلاظت تنفس کی آمد وشد کی وجہ سے پیدا ہو وہ ہر وقت نماز پ۹ر دور ہوتی رہے اور دانتوں کی صفائی اور بد بو کے دہن کا دور ہونا اور مسوڑوں کی مضبوطی بھی ہوتی ہے اور دانتوں کی صفائی اور مضبوطی کا اثر غذا کے چبانے پر پڑتا ہے جو بالآخر صحتب پر مؤثر ہوتی ہے۔ دانت اور منہ صاف ہوتو کھانے کے ساتھ ان غلیظ اور کثیف ذرات کا غذا کے ساتھ جانے کا احتمال باقی نہیں رہتا جو مسواک نہ کرنے کی وجہ سے جاتے ہیں۔
مسواک جو تلخ لکڑی کی ہو وہ اس لئے بھی۹ مفید ہوتی ہے کہ ایک تو تلخی سیمنہ کا لعاب زیادہ خارج ہوتا ہے جو اندر سے تمام باریک نالیوں کو دھو ڈالتا ہے جو صرف غرغرہ سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ مسواک کے ریشہ اور غرغرہ کا پانی ان نالیوں کے اندر نہیں پہنچ سکتا۔ بلکہ خوردبین کے بغیر وہ نظر بھی نہیں آسکتیں۔ دوم تلخ لکڑیوں میں یہ ایک خاص قوت ہے کہ وہ تمام امراض کے کیڑوں اور فاسد ہواؤں کی زہروں کو دور کردیت ہیں غرض مسواک کا کرنا اور پھر تلخ لکڑی کی مسواک کرنا ایک عجیب طبی فلسفہ ہے اور یہ سائینٹفک بات ہے۔
میٹھی نیند اور سونے کی دعا : بخاری نے پہلے پارہ کو ختم کرتے ہوئے ایک باب باندھا ہے کہ باوضوء سونے میں فضیلت ہے حقیقت میں وضوء کے سبب سے جو دورانِ خون میں مدد ملتی ہے اور اسکے جو فوائد طبی نظر سے ہیں انپر انشاء اللہ ابھی بحث ہوگی۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ آنحجرت ؐ کی قدسی قوت اور روحانی طاقت کسی حدتک بڑی ہوئی ہے اور وہ انسان اور خدا کے درمیان سچا رشتہ عبودیت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نیز جو اخوالموت ہے اسمیں بھی انسان دنیا وما فیھا سے ایک قطع تعلق کرتا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ پھر الٹے کا یا نہیں اسلئے ایسے موقع اور اسی حالت میں ایک دعا آپ نے تعلیم کی ہے۔ اور سونے کا وہ طریق تعلیم کیا جو آج بڑے بڑے ڈاکٹر بھی میٹھی نیند سونے کیلئے اس سے بہتر تجویز نہیں کرسکتے۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا ہے کہ جب یہ دعا پڑھے تو اسکے بعد کوئی بات نہ کرے اور دوسری جگہ عشاء کے بعد باتیں کرنے سے منع فرمایا نماز عشاء کے بعد سو جانا اور علی الصباح نماز کیلئے اٹھنا اس طبی طریق کو بتاتا ہے جو آج یورپ نے ایجاد کیا ہے کہ رات کو جلدی سونا اور صبح کو سویرے اٹھنا نہایت مفید ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سونے سے پہلے دماغ اور قلب کی ایسی حالت ہونی چاہئے کہ کسی قسم کی گھبراہٹ یا جوش یا بے چینی قریب نہو ہو۔ اور دن بھر کے جھگڑوں سے قطعا الگ ہو کر دماغ اور قلب کو مطمئن کرلیان چاہئے۔ روحانیت سے ناواقفیت اور حقیقی اطمینان سے بے نصیب اسی اطمینان کو یورقپین لوگوں کے متبع ہوکر دل لگی کی باتوں اور ہنستی مذاق اور لاف زنی میں تلاش کرتے ہیں مگر اس روحانی اور آسمانی فلاسفر نے جس نے محض تعلیم الٰہی سے تمام فیضان حاصل کیا اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے نماز اور دعا کی تعلیم دی اگر غور سے دیکھا جائے تو اس سے بہتر کوئی طریق اطمینان قلب کیلئے میسر نہیں آسکتا ۔ الا ان بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ عبادت دعا اور ذکر سے بڑھکر اور کوئی طریقہ مفید نہیں ہوسکتا۔ اسلئے عشاء سے بعد آپ نے باتین کرنے سے منع کیا اور سونے سے پہلے دعا کامل رضا بالقضا کی تعلیم ہے۔ ظاہرا بناوٹی طریق پر انسان خواہ کتنا ہی اپنے دل کو جذبات ۔ تفکرات علیحدہ کرنا چاہے مگر وہ اصل رضا ۔ تعلیم ۔ صبر اور شکر کی روح جو نماز اور دعا سے حاصل ہوتی ہے کسی اور طرح پر نہیں ہوسکتی۔ پس میٹھی نیند سونے کیلئے جو طریق آنحضرت ؐ نے تعلیم کیا ہے اس سے بہتر ممکن نہیں۔ دل چاہتا ہے کہ اسپر بہت دل کھولکر لکھو مگر یہ مختصر نوٹ ان باتوں کے متحمل نہیں ہوسکتے اسلئے یہاں ہی ختم کردیتا ہوں اللھم صل علی محمد علی آل محمد وبارک وسلم۔

باب ۶۰ اور باب ۶۶ میں بتایا ہے کہ اگر جنابت یا کسی اور چیز کے دھونے سے بھی داغ نہ جاوے تو اس کا کچھ حرج نہیں ازالہ نجاست ضروری ہے اسمیں بھی الدین یسر کا رنگ دکھایا ہے۔
تتمہ احکام المیاہ باب ۳۳ میں کتے کے پانی کے بترن میں منہ ڈالنے کے مسائل کو بیان کیا ہے اور اسی ضمن میں بعض دیگر امور کا بھی تذکرہ ہے۔ بہر حال یہ بتایا ہے کہ کتاب جس برتن میں بھی منہ ڈالے اسکو سات بار دھویا جاوے اور یہ بھی ثابت ہے کہ ایک مرتبہ اسکو مٹی سے مانجھ کر صاف کیا جاوے۔
ایک اعتراض کا جواب : بعض نادانوں نے جو نور نبوت سے کوئی حصہ نہیں رکھتے جیسے آریہ وغیرہ۔ انہوں نے اسپر اعتراض کیا ہے اور اس اعتراض کو کسی دوسری حدیث سے ملا کر اور بھی موکد کیا ہے کہ کتا منہ ڈالے تو سات بار اور بلی اگر منہ ڈالے تو ایک بار کیوں دھویا جاتا ہے؟
یاد رکھو کہ اس قسم کے احکام میں بعض روحانی فوائد ہوتے ہیں۔ اور انکا جاننا موقوف ہے مناسبت کے علم پر آنحضرت ؐ کی فراست اور نور نبوت ایک ایسا مقیاس تھا کہ وہ ان امورن کو جانچ لیتے تھے آجکل تو مقیاس وغیرہ آلات کے ذریعہ انسان بہت سے امور کو معلوم کرلینا آسان سمجھتا ہے مگر مجھے تعجب کہ انہیں اس امر کے تسلیم کرنے میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ ایک کامل انسان اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور ایماء سے سوسائٹی کیلئے مفید اور موثر احکام کو معلوم کرسکے۔
کتے کے لعاب کا اثر بہت زہریلا ہوتا ہے اور وہ برتن وغیرہ ہر ایک چیز میں یکساں ہوتا ہے علاوہ بریں کتے کی بے حیائی، درندگی ، لالچ ایسے امور ہیں جو مشاہدہ میں آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس شخص کو جو تقریب الی اللہ کے درجہ سے گر جاوے اور دنیا اور اسکی گری ہوئی خواہشوں میں مبتلا ہوجاوے کتے سے تشبیہہ دی ہے ۔ سفلی جذبات میں اسپر انسان کتے کی طرح ۹ہر وقت نفسانی جوشوں پر جھکا رہتا ہے پس ان امورن کو مد نظر رکھ کر اور اسی طبی مصلحت کی بناء پر کہ اسکے لعاب میں رطوبت کا اثر قوی اور زہریلا ہوتا ہے آنحضرت ﷺ نے اس برتن کو سات مرتبہ دھونیکا حکم دینا آنحضرت ﷺ کو نور نبوت کے ذریعہ سے معلوم ہوچکا تھا کہ اس حد تک دھونے سے وہ اثر پلیدی اور زہر رفع ہوجاتا ہے اور مٹی میں ایسی تریاقی خاصیت ہے کہ وہ بدبو کو دور کرتی ہے۔ اور بعض سمی اثروں کو زائل کردیتی ہے۔
نبی کریم ﷺ کا علمی اعجاز : آنحضرت ﷺ نے تیرہ سو برس پیشتر اپنے نور نبوت سے یہ حکم دیا تھا آج طبی تحقیقات اور سائینٹفک بلند پروازیوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہر قسم کی مٹی میں نو شادر کا ایک جزو ہوتا ہے۔ اور نوشادر کے علاج ککئے مفید چیز ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتے کی رطوبت کے زہریلی اثروں کے دور کرنے کی ایک تریاقی خاصیت مٹی میں ہے جو اپنے اندر نوشادری اجزاء رکھتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کمال حکمت اور دانائی پر مبنی ہے۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم
اس باب کے ضمن میں کتے کے شکار کے بعض مسائل بھی بیان کردئیے گئے ہیں۔
باب ۴۰ پر نوٹ : اس باب میں وضوء سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کے مسائل بتا دئیے ہیں اور اسمیں صحابہ کی ارادت اور عقیدت کا اظہار ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے وضوء کا بچا ہوا پانی استعمال کرتے تھے اپنے چہرہ اور سینہ پر مل لیتے تھے۔
وضوء کا بیان : وضوء کے متعلق کتاب الوضوء میں جو مسائل بیان کئے گئے ہیں اور انکے ضمن میں جو اور مسائل ان احادیث سے استنباط ہوتے ہیں انپر بھی بحث کی گنجائش نہیں معلوم ہوتی۔ میں نے حقیقت نماز میں فلسفہ وضوء وغیرہ پر خدا کے فضل وکرم سے حضرت امیر المؤمنین نورالدین ہی کے فیض صحبت سے ایک سیر کن نہیں تو کم از کم ضروری بحث کردی ہے اسکو میں یہاں دیدیتا ہوں۔ا ور جن مسائل کا اندراج اسمیں نہیں ہوا اسکو یہاں بطور تتمہ بحث وضوء آخر میں شامل کرتا ہوںَ وباللہ التوفیق۔
کتاب الوضوء کے ضمن میں بعض دیگر امور وضوء کے متعلق
۱ کوئی شخص اپنے ساتھی کو وضوء کراسکتا ہے۔(باب ۳۵)
۲ وضوء نہ ہو تو قراان مجید کی تلاوت جائز ہے البتہ اگر حمام میں کوئی ننگا ہو تو اسکو سلام علیکم کرنا درست نہیں( باب ۳۶)
۳ ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا درست ہے۔(باب ۴۲)
۴ اپنی بیوی کے ساتھ وضو ء کرنا یا اسکے بچے ہوئے پانی کو استعمال کرنا یا نصرانیہ کے گھر کے پانی سے وضوء کرنا درست ہے۔(باب ۴۴)
۵ ہر قسم کے برتن میں وضوء کرلینا درست ہے(باب ۴۶،۴۷)
۶ بکری کا گوشت یا ستو وغیرہ کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا(باب ۵۰)
۷ ستو اور دودھ کھا کر کلی کرلینی چاہئے۔(باب ۵۱،۵۲)
۸ وضوء سے بچا ہوا پانی استعمال میں آسکتا ہے۔(باب ۴۵)
خدا کے فضل وکرم سے خلاصۃ وتمام مسائل جو کتاب الوضوء میں آئے ہیں لکھے جاچکے ہیں اور اسکے ساتھ پہلا پارہ صحیح بخاری کا ختم ہوتا ہے۔ الحمد للہ اولا وآخرا وظاہرا وباطنا۔








کتاب الغسل
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد وان کنتم جنبا فاطہروا الی قولہ لعلکم تشکرون ۔ اور اسکا فرمانا یا ایھا الذین امنوا الی عفوا غفورا سے غسل کی فرضیت۔
باب ۱ غسل سے پہلے وضوء کرنا چاہئے۔
حدیث نمبر ۱
نبی کریم ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب جنابت کا غسل فرماتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر وضوء فرماتے جسطرح نماز کیلئے وضو کرتے تھے پھرا پنی انگلیاں پانی مٰن داخل کرتے او ان سے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر اپنے سر پر تین چلو پانی اپنے ہاتھ سے ڈالتے پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔
حدیث نمبر ۲
حضرت میمونہ زوجہ نبی کریم ﷺ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل کے وقت پہلے وضو فرمایا جسطرح نماز کے واسطے آپکا وضوء ہوتا تھا۔ سوا اپنے دونوں پاؤں کے دھونے کے اور اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں نجاست لگ گئی تھی اسے بھی دھو ڈالا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہا لیا۔ بعد اس کے اپنے دونوں پاؤں کو اس جگہ سے ہٹا لیا اور انکو دھو ڈالا۔ یہ طریق آپکے غسل جنابت کا تھا۔
باب ۲ مرد کا اپنی بی بی کے ہمراہ نہانا درست ہے۔
حدیث نمبر ۳
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں اور نبی ﷺ ایک برتن یعین ایک قدح سے جسکو فرق کہتے ہیں غسل کرلیا کرتے تھے۔
باب ۳ ایک صاع یا اسکے قریب پانی سے غسل کرنا۔
حدیث نمبر ۴
ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں اور حضرت عائشہؓ کے(رضاعی) بھائی عائشہ کے پاس گئے تو ان سے ان کے بھائی نے رسول اللہ ﷺ کے غسل کی کیفیت پوچھی پس انہو ںے ایک ظرف صاع کے قریب منگوایا اور اس سے غسل کیا۔ اور اپنے سر پر بہایا ۔ ہمارے اور ان کے درمیان پردہ تھا۔
حدیث نمبر ۵
ابوجعفر (امام باقر) کہتے ہیں کہ میں اور میرے باپ (امام زین العابدین) جابر بن عبداللہ کے پاس تھے اور ان کے پاس کچھ لوگ اور بھی تھے۔ انہوں نے ان سے غسل کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ایک صاع پانی تجھے کافی ہے۔ ایک شخص بولا مجھے تو کافی نہیں ہے۔ تب جابر نے کہا کہ ایک ساع پانی اس شخص کو کافی ہوجاتا تھا جو تجھ سے زیادہ مال رکھتا تھا اور جو ہر بات میں تجھ سے اچھے تھے۔ (یعنی نبی کریم ﷺ ) پھر جابر نے صرف ایک کپڑا پہنکر ہماری امامت کی۔
حدیث نمبر ۶
ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اور میمونہ دونوں ایک ظرف سے غسل کیا کرتے تھے۔
باب ۴ جس نے اپنے سر پر تین بار پانی بہایا۔
حدیث نمبر ۷ جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتا ہوں اور یہ کہہ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔
حدیث نمبر ۸ محمد ؐ بن علی(امام باقر) جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انوہں نے کہا نبی ﷺ اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے تھے۔
حدیث نمبر ۹ ابوجعفر یعنی امام باقر کہتے ہیں کہ مجھے جابر نے کہا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے(حسن بن محمد بن حنفیہ کی طرف اشارہ ہے) میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ جنابت سے غسل کسطرح کیا جاتا ہے میں نے کہ نبی ؐ تین چلو لیتے تھے اور اسکو اپنے سر پر ڈالتے تھے پھر اپے باقی بدن پر پانی بہاتے تھے تو مجھ سے حسن نے کہا کہ میں بال والا ہوں( مجھے اس قدر قلیل پانی کفایت نہیں) میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔
باب ۵ غسل میں بدن پر ایک بار پانی بہانا(بھی کافی ہے)
حدیث نمبر ۱۰
میمونہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے غسل کیلئے پانی رکھ دیا تو آپ نے اپنا ہاتھ پر پانی لیکر اپنے خاص مقامات کو دھویا پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑ کر دھویا ۔ بعد اس کے کلی کی اور ناک میں پانی لیا۔ اور منہ اور دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنے بدن پر پانی بہالیا پھر اپنے اس مقام سے ہٹ گئے اور دونوں پاؤں کو دھولیا۔
باب ۶ جس نے نہاتے وقت حلاب اور خوشبو سے ابتداء کی
حدیث نمبر ۱۱
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبی و جب جنابت سے غسل کرتے تھے تو کوئی چیز مثل حلاب وغیرہ کے منگواتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ میں لیکر پہلے سر کے داہنے طرف سے ابتداء کرتے پھر بائیں جانب لگاتے تھے پھر اپنے دونوں ہاتھ سر کے نیچے رگڑتے تھے ۔
باب ۷ جنابت کے غسل میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا۔
حدیث نمبر ۱۲
حضرت میمونہ کہتی ہیں میں نے نبی ﷺ کیلئے غسل کا پانی رکھ دیا تو آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر گرایا اور دونوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا بعد اسکے اپنے ہاتھ زمین پر مٹی سے رگڑ کر معنوں کو مٹی سے ملکر دھویا پھر کلی کی پھر ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے منہ کو دھویا اور سر پر پانی بہایا۔ پھر اس جگہ سے ہٹ گئے اور اپنے پاؤں دھوئے۔ پھر ایک کپڑا بدن پونچھنے کو آپکو دیا گیا۔ مگر آپ نے اس سے نہیں پونچھا۔
باب ۸ غسل کے وقت ہاتھ کا مٹی سے ملنا
حدیث نمبر ۱۳
میمونہ سے روایت ہے کہ نبی و نے جنابت سے غسل فرمایا تو سب سے پہلے اپنی شرمگاہ کو دھویا پھر ہاتھ کو دیوار سے رگڑ کر دھو ڈالا۔ بعد اس کے وضوء کیا جسطرح نماز کیلئے آپکا وضوء ہوتا تھا پھر آپ اپنے غسل سے فارغ ہوئے تو اپنے دونوںپاؤں دھوئے۔
با ب۹ کیا جنبی اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں ڈالے۔ قبل اس کے کہ اسکو دھوئے جبکہ اس کے ہاتھ پر کوئی نجاست سوائے نجابت کے نہ ہو۔ اور ابن عمر اور برائے بن عازب نے اپنا ہاتھ پانی میں ڈالا۔ حالانکہ اسے دھویا نہ تھا پھر وضوء کیا اور ابن عمر نے اور ابن عباس نے اس پانی میں جو غسل جنابت سے ٹپکا کرتا برتن میں گرا) کچھ حرج نہیں سمجھا۔
حدیث نمبر ۱۴
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور میں ایک برتن سے گسل کیا کرتے تھے اور ہمارے ہاتھ اسمیں پڑتے تھے۔
حدیث نمبر ۱۵
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب جنابت کا گسل فرماتے تھے تو پہلے اپنا ہاتھ دھوتے تھے۔
حدیث نمبر ۱۶
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں اور نبی ؐ غسل جنابت ایک ہی برتن سے کرتے تھے۔
حدیث نمبر ۱۷
انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی ﷺ اور کوئی بی ابی آپکی بی بیوں میں سے دونوں ملکر ایک برتن سے غسل کرلیا کرتی تھے۔
باب ۱۰ جس شخص نے غسل کی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی گرایا۔
حدیث نمبر ۱۸
حضرت میمونہ بنت حارث کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے غسل کیلئے پانی رکھا اور آپ کیلئے پردہ ڈال دیا پس آپ نے اپنے ہاتھ پر پانی گرایا اور اسے ایک دوبارہ دھویا۔ (سلیمان راوی حدیث کہتے ہیں مجھے یاد نہیں تیسری بار کا بھی ذکر کیا یا نہیں) پ۰ھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا پھر اپنا ہاتھ زمین پر یا دیوار پر ملا پھر کلی کی اور ناک میں پانی لیا اور منہ اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ اور اپنا سر دھویا پھر اپنے بدن پر پانی بہایا پھر اس مقام سے ہٹ گئے اورا پنے دونوں پاؤں دھوئے میں نے آپ کو ایک کپڑا بدن پونچھنے کیلئے دیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے کیا یعنی( بدن کو نچوڑ ڈالا اور اس کپڑے کو نہ لیا)
باب ۱۱ غسل اور وضوء مٰں تفریق کردیتا۔ اور ابن عمر سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے پاؤں کو بعد وضوء خشک ہوجانے کے دھویا۔
حدیث نمبر ۱۹
ابن عباس کہتے ہیں کہ میمونہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کیلئے میں نے پانی رکھدیا تاکہ آپ اس سے غسل فرماویں تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی گرایا اور انکو دو مرتبہ یا تین تین مرتبہ دھویا پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ بعد اس کے اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کو دھویا پھر اپنے سر کو تین بار دھویا بعد اس کے اپنے باقی بدن پر پانی بہایا پھر آپؐ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔
باب ۱۲ ایک بار جماع کرنے کے بعد پھر غسل کرکے جماع کرے(یا بدون غسل) اور جو ایک ہی غسل میں اپنی تمام بیبیوں کے پاس دورہ کرے اور سب کے پاس جاکر آخر میں غسل کرے۔(تو درست ہے)
حدیث نمبر ۲۰
محمدؐ بن منقشر کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات عائشہ ؓ سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ اللہ عبدالرحمان پر رحم کرے میں رسول اللہ ﷺ کے خوشبو لگا دیا رکتی تھی اور آپ۶ اپنی بی بیوں کے پاس جایا کرتے تھے۔ پھر صبح کو احرام باندھ لیا کرتے تھے ۔ خوشبو کی مہک آپ کے جسم سے نکلتی رہتی تھی۔
حدیث نمبر ۲۱
انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی ﷺ اپنی تمام بیبیوں کے پاس ایک ہی وقت میں رات دن میں دورہ کرلیتے تھے اور وہ گیارہ تھیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس سے کہا کہ کیا آپ ان سب کی طاقت رکھتے تھے وہ بولے کہ ہاں بلکہ ہم کہا کرتے تھے کہ ااپ کو تیس مردوں کی قوت دی گئی ہے۔ ( اور سعید نے قتادہ سے نقل کیا ہے کہ انس نے ان سے نو بیبیاں بیان کیں)
باب ۱۳ کا کپڑے اور جسم سے دھوڈالنا اور اس کے سبب سے وضوء کرنا۔
حدیث نمبر ۲۲
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں کثیر المذی آدمی تھا تو میں نے ایک شخص مقداد سے کہا کہ وہ نبی ﷺ سے اسکا حکم پوچھے اور میں خود پوچھتے ہوئے بہ سبب آپؐ کی بیٹی کے اپنے نکاح میں ہونیکے شرمایا تو اس شخص نے پوچھا تو آپ نے فرمایا وضوء کر اور اپنے عضو مخصوص کو دھو ڈالو۔
باب ۱۴ جس شخص نے خوشبو لگائی اور بعد اسکے غسل کیا اور خوشبو کا اثر باقی رہ گیا۔
حدیث نمبر ۲۳
محمد بن کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ سے پوچھا اور ان سے ابن عمر کا یہ قول بیان کیا کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ صبح کو احرام باندھوں اس حالت میں کہ میرا بدن خوشبو سے مہک رہا ہو۔ تو عائشہ بولیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے خوبشو لگائی بعد اس کے آپ نے اپنی بیبیوں کے پاس دورہ فرمایا پھر صبح کو احرام باندھا۔
حدیث نمبر ۲۴
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ گویا میں نبی ﷺ کو مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اور آپ محرم تھے۔
باب ۱۵ غسل میں بالوں کا خلال کرنا ضروری ہے یہانتک کہ جب یہ سمجھ لے کہ اس نے کھال کو تر کرلیا پھر اسپر پانی بہائے۔
حدیث نمبر ۲۵
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ؐ جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے اور وضوء فرماتے جس طرح آپکا وضوء نماز کیلئے ہوتا پھر غسل کرتے یعنی اپنے ہاتھ سے اپنے بالوں کا خلکل کرتے تھے ۔ یہانتک کہ جب آپ سمجھ لیتے کہ کھال کوتر کردیا تو اس پر تین بار پانی بہاتے تھے پھر اپنے بدن کو دھوتے اور عائشہ ؓ نے کہا میںاور رسول خدا ﷺ دونوں ایک جگہ سے نہاتے تھے دونوں اس سے چلو بھر بھر کرلیتے تھے۔
باب ۱۶ جس نے حالت جنابت میں وضوء کیا بعد اس کے اپنے باقی بدن کو دھویا اور وضوء کے مقامات کو پھر دوبارہ نہیں دھویا۔
حدیث نمبر ۲۶
میمونہ کہتی ہیںکہ رسول خدا ﷺ نے جنابت کے وضوء کے لئے پانی رکھا پھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر دو مرتبہ یا تین مرتبہ پانی گرایا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا پھر اپنا ہاتھ زمین یا دیوار میں دو مرتبہ یا تین مرتبہ مارا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے دونوں ہاتھ اور کہنیاں دھوئیں پھرا پنے باقی بدن کو دھویا پھر وہاں سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ میمونہ کہتی ہیں پھر میں آپ کے پاس کپڑالے گئی تو آپ نے اسے نہیں لیا اور اپنے ہاتھ سے پانی نچوڑتے رہے۔
باب ۱۷ جب مسجد میں داخل ہوجانے کے بعد یاد آجاوے کہ جنبی ہے تو اسے چاہئے کہ فوار نکل جاوے اور تیمم نہ کرے۔
حدیث نمبر ۲۷
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک مربتہ نماز قائم کی گئی تو جب آپ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اس وقت یاد کیا کہ جنبی ہیں پھر ہم سے فرمایا کہ تم اپنی جگہ پڑھو اور آپ لوٹ گئے اور غسل کیا بعد اسکے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر آپ نے تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے ہمراہ نماز پڑھی۔
باب ۱۸ غسل جنابت کا پانی ہاتھوں سے لینا۔
حدیث نمبر ۲۸ حضرت میمونہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کیلئے غسل کا پانی رکھدیا اور آپ کیلئے پردہ ڈالدیا پھر آپ نے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انکو دھویا پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی گرایا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا پھر اپنا ہاتھ زمین پر مار کر اسکو ملا پھر اسے دھویا۔ بعد اس کے کلی کی اور ناک میں پانی لیا اور منہ اور ہاتھوں کو دھویا پھر اپنے سر پر پانی ڈالا اور باقی بدن پر پانی بہایا بعد اس کے وہاں سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں دھولئے پھر میں نے ایک کپڑا بدن صاف کرنے کو آپکی طرف بڑھایا مگر آپ نے اسے نہیں لیا۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بدن صاف کرتے ہوئے چلے آئے۔
باب ۱۹ جس شخص نے غسل میں اپنے سر کا داہنے حصہ سے ابتداء کی۔
حدیث نمبر ۲۹
عائشہ کہتی ہیں کہ جب ہم میں سے کسی کو جنابت ہوجاتی تھی تو وہ اس طرح پر غسل کرتی تھی کہ اپنے دونوں ہاتھوں سے تین مرتبہ اپنے سر پر پانی لیکر ڈالتی تھی۔ پھر اپنے ہاتھ سے سر کے داہنے حصہ کو پکڑ کر ملتی تھی اور دوسے ہاتھ سے سر کے بائیں حصہ کو ملتی تھی۔
باب ۲۰ جس شخص نے ایک گوشہ ہوکر غسل کیا اور جس شخص نے ایسی حالت میں بھی پردہ کیا (دونوں نے جائز کیا) مگر پردہ کرنا افضل ہے۔ میں نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا لوگوں سے زیادہ اس امر کا مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جاوے۔
حدیث نمبر ۳۰
ابوہریرہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل برہنہ غسل کیا کرتے تھے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا جاتا تھا اور موسی ﷺ تنہا غسل کیا کرتے تھے تو بنی اسرائیل نے کہا کہ واللہ موسیٰ کو ہم لوگوں کے ہمراہ غسل کرنے سے سوا اسکے کچھ مانع نہیں ہے کہ وہ ہے ۔ اتفاق سے موسیٰ ایک غسل کرنے گئے اور اپنا لباس حجر کے حوالہ کیا وہ حجر انکا لباس لے کر بھاگا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اسکے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے بھاگئے کہ ثوبی یا حجر ثوبی یا حجر۔ یہانتک کہ بنی اسرائیل نے موسیی کی طرف دیکھ لیا اور کہا کہ واللہ موسیٰ کو کچھ بیماری نہیں اور حجر ٹھہر گیا۔ موسیی نے اپنا لباس لے لیا اور حجر کو مارنے لگے اور ابوہریوہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم حضرت موسیٰ کی اسپر چھ یا سات نشان ہیں۔
حدیث نمبر ۳۱
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اس حال میں کہ ایوب برہنہ نہار رہے تھے ان پر سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں تو ایوب انکو اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے تو ان میں انکے پروردگار نے پکارا کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیںا س سے جو تم دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کردیا انہوں نے کہ اہاں قسم تیری بزرگی کی لیکن مجھے تیری برکت سے بے پروائی نہیںہے۔
باب ۲۱ لوگوں سے نہانے کی حالت میں پردہ کرنا ضروری ہے۔
حدیث نمبر ۳۲
ام ہانی بنت ابی طالب کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی تو مں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا اور فاطمہ آپ پر پردہ کئے ہوئے ہیں آپ نے فرمایا۔ یہ کون ہے ۔ میں نے کہا کہ میں ام ہانی ہوں۔
حدیث نمبر ۳۳
حضرت میمونہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ پر پردہ کیا جبکہ آپ غسل جنابت کررہے تھے پس آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر انی گرایا اور اپنی شرمگاہ کو اور جہاں کہیں نجاست لگ گئی تھی دھویا پھر اپنا ہاتھ دیوار پر مارا پھر ملا۔ پھر وضوء فرمایا جس طرح آپکا وضوء نماز کیلئے ہوتا تھا سوا پاؤں کے دھونے کے پھر آپ نے اپنے بدن پر پانی بہایا اسکے بعد وہاں سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں دھولئے۔
باب ۲۲ جب عورت کو احتلا م ہو(تو کیا کرے)
حدیث نمبر ۳۴
ام المؤمنین سلمہ کہتی ہیں کہ ابوطلحہ کی بی بی ام سلیم رسول اللہ ﷺ کیپاس آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ حق بات کے بیان کرنے سے نہین رکتا کیا عورت پر غسل (فرض ہے) جبکہ اسے احتلام ہوتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اگر منی کی تری کپڑوں پر دیکھے (تو اس پر غسل فرض ہے)
باب ۲۳ جنبی کا پسینہ پاک ہے اور مومن کسی حالت میں نجس نہیں ہوتا۔
حدیث نمبر ۳۵
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ کی کسی گلی میں انہیں رسول اللہ ﷺ مل گئے اور ابوہریرہ جنبی تھے پس وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے سے کترا گیا اور جاکر غسل کیا اور پھر آیا تو آپ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ تم کہا ں چلے گئے تھے ابوہریرہ نے کہا کہ میں جنبی تھا اور میں نے ناپاکی کی حالت میں آپ کے پاس بیٹھنا برا جانا آپ نے فرمایا سبحان اللہ مومن کسی حال میں نجس نہیں ہوتا۔
باب ۲۴ جنبی کو اختیار ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلے اور بازاروغیرہ میں چلے کا ہے کہ جنبی کو اختیارہے کہ پچھنے لگوائے۔ ناخن کٹوائے۔ سر منڈوائے۔ اگرچہ اس نے وضوء بھی نہ کیا ہو۔
حدیث نمبر ۳۶
قتادہ سے روایت ہے کہ انس بن مالک نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ نبی ﷺ ایک رات میں اپنی تمام بی بیوں کے پاس دورہ کرلیتے تھے۔ اور اس وقت آپکی نو بیبیاں تھیں۔
حدیث نمبر ۳۷
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ مل گئے اور میں جنبی تھا پس آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور میں آپکے ہمراہ چلا یہانتک کہ آپ ایک جگہ بیٹھ گئے۔ تو میں آہستہ سے نکل گیا اور اپنے مقام پر جاکر غسل کیا پھر آیا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے فرمایا ابوہریرہ تم کہاں چلے گئے تھے۔ میں نے آپ سے کہہ دیا کہ میں ناپاک تھا نہانے گیا تھا آپ نے فرمایا سبحان اللہ مومن کسی حال میں نجس نہیں ہوتا۔
باب ۲۵ نبی کا غسل سے پہلے گھر میں رہنا جبکہ وہ وضوء کرلے جائز ہے۔
حدیث نمبر ۳۸
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہؓ سے پوچھا کہ نبی ﷺ جنابت کی حالت میں سوتے تھے وہ بولیں کہ ہاں اور وضوء کرلیتے تھے۔
باب ۲۶ جنبی کا قبل از غسل سونا جائز ہے۔
حدیث نمبر ۳۶
ابن عمر سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ ؐ سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کوئی بحالت جنابت سو سکتا ہے ۔ آپ نے فرمایا ہاں جب تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وضوء کرے اور سورہے۔
باب ۲۷ جنبی کو چاہئے کہ وضوء کرے اور پھر سوئے۔
حدیث نمبر ۴۰
عائشہ کہتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ بحالت جنابت سونے کا ارادہ کرتے تھے تو اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالتے اور نماز کی طرح وضوء کرلیتے تھے۔
حدیث نمبر ۴۲
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ مجھے رات کو جنابت ہوجاتی ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وضوء کرلو اور اپنے عضو مخصوص کو دھو ڈالو۔ اور بعد اس کے سو رہو۔
حدیث نمبر ۴۱
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ عمرؓ بن خطاب نے نبی ﷺ سے فتویٰ طلب کیا کہ ہم میں سے بحالت جنابت کوئی سوسکتا ہے تو آپ نے فرمایا ہاں وضوء کرلے۔
باب ۲۸ غسل جب بھی فرض ہے کہ جب دونوں ختان مل جاویں۔
حدیث نمبر ۴۳
ابوہریرہ ؓنبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چاروں شعبوں کے درمیان بیٹھ گیا(یعنی اس نے جماع کا ارادہ کیا) پھر اسکے ساتھ کوشش کرے تو یقینا غسل واجب ہوگیا۔
باب ۲۹ جو چیز عورت کی شرمگاہ سے خارج ہو اور وہ کہیں لگ جاوے تو اسکا دھونا ضروری ہے۔
حدیث نمبر ۴۴
زید بن خالد جنبی نے عثمان بن عفان سے پوچھا اور کہا کہ بتاؤ جب مرد اپنی عورت سے جماع کرے اور منزل نہ ہو تو اسکا کیا حکم ہے؟ عثمان نے کہا کہ وضوء کرلے جس طرح نماز کیلئے وضوء کرتا ہے اور اپنے عضو مخصوص کو دھوڈالے اور عثمان نے کہا کہ میں نے یہ رسول اللہ ؐ سے سنا ہے پھر میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام طلحہ بن عبید اللہ او ر ابی بن کعب سے پوچھا انہو نے بھی اسکو اسی بات کا حکم دیا۔
حدیث نمبر ۴۵
ابی بن کعب نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ جب مرد اپنی عورت سے جماع کرے اور منزل نہ ہو تو کیا کرے آپ نے فرمایا اسکے جس مقام نے عورت سے مس کیا ہے اسے دھوڈالے پھر وضوء کرے اور نماز پڑھ لے۔ کہتا ہے کہ غسل میں زیادہ احتیاط ہے اور ہم نے اس حدیث کو صرف لوگوں کے اختلاف کے سبب سے بیان کردیا۔ ہمارے نزدیک پانی زیادہ پاک کرنے والا ہے( یعنی بہر حال غسل کرلینا چاہئے )
تفسیر نوٹ کتاب الغسل پر
غسل کے متعلق طبی تحقیق : غسل حفظ صحت کے قوانین اور اصولوں میں سے ایک ضروری اصل سمجھا گیا ہے۔ قطع نظر مذہب کے سوال کے تمام قوموں اور متمدن لوگوں نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا ہے اور چونکہ طہارت اور پاکیزگی کا اثر روح پر ضرور پڑتا ہے اور عبادت جو روح کی غذا ہے اسکے لئے طاہرت بھی پر ایک اہل مذہب نے جزو اور لانیفک قرار دی ہے۔ پس اسلام نے جو ہر طرح سے کامل اور مکمل مذہب ہے اس جزو کو چھوڑا نہیں بلکہ بعض صورتوں میں اس لازمی عمل کو فرض قرار دیا ہے۔ اور بعض صورتوں میں سے مسنون ۔ چنانچہ حجاع اور احتلام کے بعد ایسا ہی حیض ونفاس کے بعد غسل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ جوبڑی اخلاقی اور طبی مصلحتوں پر حاوی ہے۔
غسل جسم کو تقویت اور روح کو تازگی وفرحت عطا کرتا ہے کیونکہ جسم کی تمام سطحی گردو میل صاف ہو کر مسامات جلدی کھل جاتے ہیں اور تب فضلاتی رطابات وغیرہ بخوبی خارج ہوجاتی ہیں۔ پھر اختلاف حرارت جسم وپانی سے دورانِ خون میں حرکت ہوتی ہے اور خون کی رگوں اور اعصاب کی حرارت سطح اصل حالت پر قائم رکھنے کے واسطے اپنی اپنی قوت خرچ کرنی پڑتی ہے اور اس طرح پرغسل سے شریانوں اور اعصابون کو تغیر تبدل موسم برداشت کرنے کی عادت رہتی ہے۔
غسل جنابت : الغرض غسل چونکہ حفظ صحت کے ضروریات میں سے ایک تھا۔ اسلئے آنحضرت ﷺ نے بعض حالتوں میں اسکو فض قرار دیا ہے۔ نم میں سے ایک صورت غسل جنابت کی ہے۔ اس کتاب الغسل میں غسل کے طریقے اور اسکے متعلق مختلف مسائل اور صورتوں کا ذکر ہوگا۔ جنپر ضرورتا ہم نوٹ لیں گے۔ لیکن یہاں اجمالی طور پر غسل کے متعلق ایک تبصرہ لکھدینا ضروری ہے۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے انسانی نفس کو ہلاکت سے بچانے کیلئے کے اصولوں پر شرح وبسط کے ساتھ تعلیم دی ہے۔ اسی سلسلہ میں غسل جنابت کے احکام ہیں چونکہ ہر کے بعد بشرطیکہ وہ قواتی طور پر اعضائے مخصوصہ میں پہلے اجتماع خون ہو کر تمام اعضاء اور قویٰ کا خلاصہ منی کے ساتھ خارج ہوجاتا ہے جس سے تمام عضلات واعصاب کو خفیف ضعف پہنچتا ہے اسلئے گسل کرنے کے بعد خون منتشر ہوکر تمام جسم میں پھر برابر تقسیم ہوجات ہے۔ اور ضعف رفع ہوکر پوری تازگی اور بشاشت آجاتی ہے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جماع سے مراد وہ حجاع ہے جو خواہش صادق اور صحت قویٰ کی حالت میں قواعد قدرت کے ماتحت کیا جاوے نہ وہ جماع جسمیں شہوت پر ست لوگ بیہودہ طور پر دن رات مشغول رہتے اور طرح طرح کی بے حیائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا جنون ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ (آمین)
پس جماع صادق یا احتلام کے بعد غسل کا فرض قرار دیا جانا اس طبی حیثیت سے ہے اور اسکے اندر بعض اخلاقی خوبیاں بھی ہے مثلا گسل کے ساتھ پاکیزگی اور طہارت کا خیال ہونا انسان کی ایک بڑی حد تک اس فعل کی وحشیانہ کثرت اور آوارگی سے روکتا ہے۔ منی کے متعفن ہونے سے نہایت مضر اور مہلک مادے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر اس کے قطرات پارچات پر بھی لگ جاویں تو انکا صاف کرنا بھی ضروری امر ہے۔
چونکہ اسلام اس طبی فعل سے میں ہمیں ایک اعتدال پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے غسل ایک ایسی صورت ہے کہ جہاں اس سے طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں اس سے اعتدال اور اخلاقی صلاحیت کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔
شرم گاہ : کتاب الغسل میں مرد کے شرمگاہ سے مراد آلہ تناسل۔ خصے اور ساتھ مل رانوں کا وہ حصہ جو اعضائے سے ہے مراد ہے اور پہلے اسکو دھونا ضروری ہے۔

غسل جنابت کب ہوتا ہے ؟ ـ: کتاب الغسل کے باب ۲۸(غسل جب بھی فرض ہے کہ دونوں ختان مل جاویں) سے معلوم ہوتا ہے جماع کے بعد غسل مردوعورت پر واجب ہوجاتا ہے۔
۱ خواہ انزال ہویا نہ ہو۔ انزال ہونے کی صورت میں باب ۲۹ کی حدیث نمبر ۲۴،۲۵ سے یہ رخصت بھی معلوم ہوتی ہے کہ رمد وعورت اپنے مقامات مخصوصہ کو دھوڈالیں اور پھر وضوء کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مگر بخاری صاحب احتیاط اسی میں پاتے ہیں کہ غسل کرلیا جاوے۔
کتاب الغسل میں مندرجہ ذیل مسائل کا استنباط ہوتا ہے :
۱ جنبی آدمی صرف وضوء کرکے سوسکتا ہے اور وضوء سے پہلے اپنی شرمگاہ کو دھولینا چاہئے(باب ۲۵،۲۶)
۲ جنبی گھر سے نکلا براہر جاسکتا ہے اور جنبی سے مصافحہ ہوسکتا ہے کیونکہ مومن نجس نہیں ہوتا( باب ۲۳،۲۴)
۳ احتلام کی حالت میں بھی غسل واجب ہے خواہ عورت ہو یا مرد۔ سو کر اٹھے اور کپڑوں پر منی کی تری پائے خواہ اسے احتلام کی حالت یاد ہو یا نہ ہو(باب ۲۲)
۴ کھلے میدان اور آبادی میں ننگا نہانا منع ہے غسل پردہ میں کرنا چاہئے (باب ۲۰)
تنہائی میں بھی پردہ کرنا افضل ہے گو تنہائی میں برہنہ نہانا بھی درست ہے (باب ۲۰)
ضمنا حجر وموسیٰ کا واقعہ : باب ۲۰ کے نیچے حدیث نمبر ۳۰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے گسل کا واقعہ درج ہے کہ بنی اسرائیل میں ننگے نہانے کی رسم تھی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی کیس امنے غسل نہیں کیا کرتے تھے ۔ اس پر بنی اسرائیل نے انکے قوائے تناسلہ کے متعلق کوئی عیب رکھا اور ایک موقع پر جبکہ وہ نہارہے تھے تو قدرت نے ایسے اسباب پیدا کردئیے کہ بنی اسرائیل نے انکو برہنہ دیکھ لیا۔ اسی واقعہ کے متعلق حدیث میں جو الفاظ آئیء ہیں انمیں ثوبی یا حجر ثوبی یا حجر کے الفاظ نے لوگوں میں بحث اور موشگافی کا میدان کھول دیا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ فی الحقیقت وہ ایک پتھر تھا۔ مگر اس صورت میں مکالفین اسلام اسی حدیث پر نہیں کرتے ہیں کہ پتھر کپڑے اٹھا کر کیسے بھاگا؟ حضرت امیر المؤمنین نورالدین نے بتایا ہے کہ یہ غلط ہے کہ وہ پتھر تھا بلکہ حجر اسکا نام تھا۔ وہ موسیٰ علیہ السلام کا کوئی غلام تھا اور اس قسم کے نام ہوتے ہیں۔ خود بخاری کے ایک مشہور شارح حجر عسقلانی مشہور ہیں جس طرح پر جبل وغیرہ نام ہوتے ہیں اسی طرح حجر آدمی کا نام ہے اس صورت میں کوئی ا عتراض اس حدیث پر نہیں رہ سکتا۔ وللہ الحمد
۵ جنبی آدمی کو مسجد میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر غلطی سے ہوجاوے تو معلوم ہونے پر فورا نکل جاوے (باب ۱۷)
۶ جنبی اگر اسکے ہاتھوں پر کوئی نجاست نہ ہو محض جنبی ہونے کی وجہ سے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے نہیں روک سکتا ہے اسے اجازت ہے کہ ہاتھ پانی میں ڈالدے (باب۹)
۷ ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے بلکہ اس سے پانی لیکر الگ غسل کرے۔
۸ مرد اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی برتن میں غسل کرسکتا ہے۔(باب ۲)
۹ جماع کے بعد غسل کرکے دوبارہ جماع کرنا مناسب ہے لیکن بدوں غسل بھی دوبارہ جماع کرنا جائز ہے اور اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو سب کیس اتھ جماع کرکے بھی غسل کرسکتا ہے۔(باب ۱۲) اگر وہ جماعوں کے درمیان غسل نہ کرسکے تو وضوء ضرور کرلے۔
۱۰ عورت کو گصل جنابت میں بالوں کی مینڈھیاں کھولنے کی ضرورت ہیں صرف تین لپیں پانی کی ڈال کر پہلے دائیں طرف کے دائیں حصہ کو دائیں ہاتھ سے اور بائیں کو دوسرے ہاتھ سے ملنا چاہئے (باب ۱۹)
غسل کا طریق : غسل کے طریق کو باب ۱ میں بیان کردیا ہے پھر اسکے متعلق کسی قدر تفاصیل اور ضمنی مسائل دوسرے ابواب میں آئے ہیں۔
الف : غسل میں بدن پر ازالہ نجاست اور وضوء کے بعد ایک مرتبہ پانی بہالینا بھی کافی ہے(باب ۵) اور تین مرتبہ بھی(باب ۴)
ب : غسل کے وضوء اور عام وضوء میں نبی کریم ﷺ تفرقہ کرتے تھے غسل کے جنابت کیلئے جب ازالہ نجاست کے بعد وضوء کرتے تو پاؤں نہیں دھویا کرتے تھے۔ا ور ازالہ نجاست کے بعد ہاتھ کومٹی سے ضرور دھوتے تھے۔(باب ۷،۸ ، باب ۱۰،۱۱ ، باب ۱۶ ، باب ۱۸)

ج : جنبی کو سونے سے پہلے وضوء کرلینا چاہئے(باب ۳۷)
د : اگر انسان کثیر المذی ہوتو اسکو صرف کپڑے اور جسم سے دھو ڈالنا کافی ہے اور اسکے سبب سے وضوء کرلے ۔(باب ۱۳)
ہ : ایک صاع یا اسکے قریب پانی کی مقدار سے غسل ہوسکتا ہے۔(باب ۳)
و : غسل میں خوشبو کا سوال غسل جنابت کرتے وقت خوشبو لگانا غسل کرنا جائز ہے(باب ۶،۱۴)
ز : غسل میں بالوں کا خلال کرنا ضروری ہے(باب ۱۵،۱)
ازالہ وہم : باب اول میں جو دوسری حدیث غسل کے متعلق بیان فرمائی ہے۔ جسکی روایت حضرت میمونہ نے فرمائی ہے اسمیں پہلے وضوء کا ذکر کیا۔ پھر شرمگاہ دھونے کا۔ ھالانکہ دوسری حدیثوں میں جو حضرت میمونہ سے ہی مردی ہیں پہلے شرمگاہ کے دھونے اور نجاست وغیرہ دور کرنے کا ذکر ہے۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں ایک اجمالی امر ذکر کیا ہے اور اسمیں تقدیم تاخیر ہوگئی دوسری احادیث میں جو صڑاحت ہے طریق غسل دی ہے۔
فرق : ایک پیمانہ ہوتا ہے جو بقول بعض دو صاع کا ہوتا ہے مقدار پانی کی بحث پر کتاب الوضوء میں بحث کردی ہے۔
حدیث جابر : جابر والی حدیث (جسمیں وہ ابوجعفر یعنی حضرت امام باقر کو حسن بن محمد بن حنفیہ کے غسل جنابت کے سوال کا جواب دیتے ہیں) میں بھی غسل کے ان مراتب کا ذکر ضروری نہیں سمجھا جو الایش کے دھونے کے بعد مٹی سے ہاتھ دھونے اور وضوء بدوں پاؤں کے دھونے کے کرنے کے متعلق ہیں کیونکہ وہ عام باتیں ہیں۔
حدیث عائشہ : ابوسلمہ نے جو کیفیت غسل کی حضرت عائشہ سے پوچھی یہ آپ کے رضاعی بھانجے تھے اور محرم تھے۔
طیب اور حلاب : حلاب اور طیب کے متعلق بھی ایک بحث ہوئی ہے کہ حلاب کسی قسم کی خوشبو ہے یا کوئی برتن۔ حلاب کے معنی تو وہ برتن ہے جسمیں دودھ دھویا جاتا ہے۔ جن لوگوں نیا س سے مراد برتن ہی رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اسجگہ مطلب یہ ہے کہ خواہ پہلے غسل کرے یا خوشبو لگائے اور اسکی تصریح باب ۱۴ میں ہے شاہ ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ حلاب بعض بیجوں کا شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے مگر ہماری سمجھ میں برتن صاف بات ہے اور اس سے کوئی نقص نہیں آتا۔ علاوہ بریں بعض برتنوں میں تیل وغیرہ بھی رکھ لیتے تھے۔
غسل کے عبد بدن کو کپڑے سے صاف کرنا : نبی کریم ﷺ نے غسل کرکے کپڑے سے اپنے بدن کو بعد غسل خشک نہیں کیا بلکہ ہاتھ سے ہی پانی کو نچوڑ ڈالا ۔ اس پر بھی طبع آزمائیاں کی گئیں ہیں اور بعض نے تولیہ وغیرہ سے بدن خشک کرنے مکروہ قرار دیا ہے مگر ایسی بحث کرنے کی ممانعت نہیں کی جب پیش کیا گیا تھا تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تولیہ سے بدن خشک کرنا نہیں چاہئے بلکہ آپ نے اپنے عمل سے یہ دکھایا ہے کہ حالات وقت اور ضرورت وقت کے متعلق ایسے کام ہوتے ہیں محض تکلف کو اپنی ضروریات زندگی کا جزو نہیں بنانا چاہئے میسر آئے تو کچھ حرج نہیں بدن کو خشک کرے اور اگر بدن کی تری پسند آئے جیسا کہ گرمیوں میں معلوم ہوتی ہے یا کپڑے میسر نہ آوے تو صرف ہاتھوں سے پانی نچو ڑ دینا بھی کافی ہے پس یہ سوال بھی وقتی اور مقامی حالات اور ضروریات کے نیچے ہے نہ کچھ اور۔
فی الساعۃ الواحدۃ : یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک ساعۃ میں اپنی بی بیوں پر دورہ فرماتے تو اس سے مراد ساعۃ 60منٹ کا گھنٹہ نہیں بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہایک وقت میں وہ بدوں غسل کئے تمام بیبیوں فرماتے۔ اور ایک ہی غسل کرتے۔ صرف ایک غسل کا جو از ظاہر کرنا مقصود نہیں۔ اسمیں یقینا وقت مدنظر نہیں یہ بھی نبی کریم ﷺ کی جوانمردی کی ایک ہے ۔ بعض نابکار لوگوں نے اسی حدیث کو لیکر آنحضرت ﷺ کی پاک زندگی پر حملہ کیا ہے کہ نعوذ باللہ آپ شہوت پرست تھے۔ ان بدذاتوں کو معلوم نہیں کہ شہوانی قویٰ کے ہیجان کا زمانہ وہ ہے جسکو وہ اپنے کے انتہائی سال (۲۵ سال کی عمر) میں بتاتے ہیں۔ اس زمانہ میں آپؐ نے نہایت عفت کی زندگی بسر کی اور قوم میں عفیف مشہور تھے پھر جب شادی کی تو ایک بڑھیا سے جو آپؐ سے عمر میں قریبا دو چند تھی اور ۲۷ سال تک کا زمانہ انکے ساتھ گزارا یا جو زندگی کا بہترین زمانہ کہا جاسکتا ہتھا۔ اس کے بعد بعض مصالح دینیہ کے ماتحت آپ نے اور شادیان کی ہیں اور اس عمر میں آپکے قویٰ کا ایسا عمدہ مضبوط ہوتا کہ ایک ہی وقت آپ تمام بیویوں کے ہاں ہو آتے ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی عمر اول نہایت ہی متقیانہ تھی۔ اسکے ثبوت خارجی کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کردئیے جو آج بھی ایک سلیم الفطرت اور صحیح الولادت انسان کیلئے دل میں نبی کریم ﷺ کی عظمت کو پیدا کرسکتے ہیں خواہ وہ مسلمان بھی نہ ہو۔ مگر بدفطرت کا بکواس اسکی اپنی کجی کا ثبوت ہے۔
ام ہانیا ور نبی کریم ؐ کا غسل : ام ہانی والی حدیث میں آیا ہے کہ آپ غسل فرمارہے تھے اور حضڑت فاطمہؓ نے آپ پر پردہ کیا ہوا تھا۔ چونکہ آپ نے ام ہانی کو نہیں پہچانا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ پردہ اتنا موٹا ہوگا کہ اس میں سے دوسری طرف کی کوئی شکل نظر نہ آتی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ غسل کیلئے اتنا پردہ ہو کہ دسری طرف نظر نہ آسکے۔
جنبی سونے سے پہلے وضوء کرے : اس باب کے نیچے حضرت عائشہؓ جو حدیث بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سونے سے پہلے اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالتے اور نماز کا سا وضوء کرلیتے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اسی وضوء سے نماز ہوجاتی بلکہ یہ کہ پورا وضوء کرتے کیونکہ جنبی بدون غسل تو نماز پڑھ ہی نہیں سکتا۔


کتاب الحیض
حیض کے مسائل کی کتاب اور اللہ تعالیٰ کا قول ویسئلونک عن المحیض الآیۃ
باب ۱ حیض کی ابتداء کیونکر ہوئیا ور نبی ﷺ کا ارشاد کہ یہ ایک چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر رکھدی ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ سب سے پہلے حیض بنی اسرائیل پر بھیجاگیا اور ابوعبداللہ کہتا ہے کہ نبی ﷺ کی حدیث کا بڑا مرتبہ ہے۔
حدیث نمبر ۱
عائشہ کہتی ہیں کہ ہم لوگ مدینہ سے صرف حج کا خیال کرکے نکلے تھے پھر جب مقام(سرف) میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا۔ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رورہی تھی تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے کیا تمہیں حیض آگیا میں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھدی ہے جو افعال حج کرنے والا کرتا ہے تم بھی کروہاں کعبہ کا طواف نہ کرو۔ عائشہ کہتی ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی بی بیوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔
باب ۲ حائضہ عورت کا اپنے شوہر کے سر کو دھونا اور اسمیں کنگی کردینا جائز ہے۔
حدیث نمبر ۲
عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں بحالت حیض رسول اللہ ﷺ کے سر میں کنگی کردیا کرتی تھی۔
حدیث نمبر ۳
عروہ سے پوچھا گیا کہ حائضہ عورت میری خدمت کرسکتی ہے یا عورت بحالت جنابت میرے پاس آسکتی ہے تو عروہ نے کہا کہ میرے نزدیک یہ سب آسان ہے اور یہ سب عورتیں میری خدمت کرتی ہیں اور (میری کیا تخصیص) اسبات میں کسی کیلئے بھی کچھ حرج نہیں ہے۔ مجھے ام المؤمنین عائشہؓ نے خبر دی ہے کہ میں بحالت حیض رسولا للہ ﷺ کے سر میںکنگی دیتی تھی۔ اور رسول اللہ ﷺ اسقوت مسجد میں معتکف ہوتے تھے ۔ آپ اپنا سر عائشہ کے قریب کردیتے تھے اور عائشہ اپنے حجرہ میں ہوتی تھیں پس وہ بحالت حیض آپ کے کنگی کردیت تھیں۔
باب ۳ مرد کا اپنی حائضہ بی بی کی گود میں سر رکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور اپنی خادمہ کو بحالت حیض ابوذر میں کے پاس بھیجدیتے تھے۔ اور وہ انہیں قرآن مجید دے دیتی تھیں اور وہ قرآن مجید کے جزو ان کے کو پکڑ کے لاتی تھیں۔
حدیث نمبر ۴
عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی ﷺ میری گو د میں تکیہ لگالیتے تھے حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔ پھر آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔
باب۴ جو کوئی حیض کو نفاس کہدے(تو کوئی حرج نہیں)
حدیث نمبر ۵
ام مسلمہ کہتی ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ ایک ہی چادر میں لپٹی ہوئی تھی تو یکایک مجھے حیض آگیا اور میں چلی گئی اور میں نے حیض کے کپڑے پہن لئے تو ااپ۰ نے فرمایا کیا تمہیں نفاس آگیا میں نے کہا ہاں پھر آپ نے مجھے بلوایا اور میں اسی ایک چادر میں آپ کے ہمرا لیٹ رہی۔
باب ۵ حائضہ عورت سے اختلاط درست ہے۔
حدیث نمبر ۶
عائشہ کہتی ہیں میں اور نبی ﷺ ایک برتن سے غسل کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے تھے۔ اور حالت حیض میں آپ مجھے حکم دیتے تھے تو میں از در پہن لیتی تھی تو پھر آپ مجھ سے اختلاط کرتے تھے اور آپ بحالت اعتکاف اپنا سر میری طرف نکال دیتے تھے اور میں اسکو دھودیتی تھی۔ بحالیکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔
حدیث نمبر ۷
عائشہ کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی بی بی حائضہ ہوتی تھی اور رسول اللہ ﷺ اس سے اختلاط کرنا چاہتے تھے تو اسے حکم دیتے تھے کہ اپنے حیض کے غلبہ کی صورت میں از در پہن لو تو پھر آپ اس سے احتلاط کرتے تھے عائشہ کہتی ہیں کہ تم میں سے اپنی حاجت پر کون اس قدر قابو رکھتا ہے جسقدر نبی و اپنی خواہش پر قابو رکھتے تھے۔
حدیث نمبر ۸
میمونہ کہتی ہیں کہ رسول خدا ﷺ جب اپنی بیبیوں میں سے کسی کے ساتھ اختلاط کرنا چاہتے تو اسے حکم دیتے کہ وہ حالت حیض میں از در پہن لے ۔
باب ۶ حائضہ کا روزے کو چھوڑ دینا ضرور ہے۔
حدیث نمبر ۹
ابوسعید خودی کہتے ہیں کہ رسولا للہ ﷺ عیدالضحیٰ یا عید الفطر میں نکلے اور عید گاہ میں عورتوں کی جماعت پر گزرے تو آپ نے فرمایا کہ اے عورتو! صدقہ دو۔ اسلئے کہ میں نے تمہیں زیادہ دوزخ میں دیکھا ہے وہ بولیں کہ یارسول اللہ یہ کیوں آپ نے فرمایا تم لعن کی کثرت کرتی ہو۔ اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ اس میں نے تم سے زیادہ سکی کو باوجود ناقص العقل والدین ہونے کے پ]ختہ رائے مرد کی عقل کالے جانے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے کہا یارسول اللہ ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان ہے آپ نے فرمایا کہ کیا عورت کی شہادت(شرعا) مرد کی شہادت کے نصف کے برابر نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ہاں آپؐ نے فرمایا کہ یہی اسکی عقل کا نقصان ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے نہ نماز پڑھتی ہے نہ روزہ رکھتی ہے انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا بس یہی اسکے میں کا نقصان ہے۔
باب ۷ حائضہ حج کے تمام مناسک ادا کرے سوا کعبہ کے طواف کے اور ابراہیم نے کہا ہے کہ حائضہ کو آیت قرانیہ کا پڑھنہ کچھ حرج نہیں۔ اور ابن عباس نے جنبی کیلئے تلاوت کرنے میں کچھ حرج نہین سمجھا اور نبی ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ کی یاد کیا کرتے تھے اور ام عطیہ کہتی ہیں کہ ہمیں عید کے عند حکم دیا جاتا تھا کہ ہم حائضہ عورتوں کو بھی باہر لائیں تاکہ وہ بھی مردوں کیس اتھ تکبیر کہیں اور دعا کریں اور ابن عباس کہتے ہیں کہ مجھے ابوسفیان کے خبر دی کہ ہر قل نے نبی کریم ﷺ کا خط جو اسکے نام گیا تھا منگایا اور اسے پڑھا تو اسمیں یہ لکھا تھا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا اھل الکتاب تعالواالی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا تعبدوا الااللہ ولانشرک بہ شیئا الی قولہ مسلمون اور عطار نے جابر سے نقل کیا ہے کہ عائشہ کو حیض آیااور انہوں نے تمام مناسک ادا کئے بجز کعبہ کے طواف کے اور نماز نہ پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا ہے کہ میں حالت جنابت میں ذبح کردیتا ہوں اور چونکہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ اس چیز کو نہ دکھاؤ جسپر بوقت ذبح اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ بسم اللہ ضرور پڑھتا ہوں۔
حدیث نمبر ۱۰
عائشہ کہتی ہیں کہ ہم رسول خدا ﷺ کے ہمراہ نکلے ہم صرف حج کا ارادہ رکھتے تھے پھر جب مقام سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا پس نبی ؐ میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی آپ نے پوچھا کیوں رورہی ہیو۔ میں نے عرض کیا کہ کاش اس سال میں نے حج کا ارادہ نہ کیا ہوتا آپؐ نے فرمایا شاید تمہیں نفاس آگیا ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ نے فرمایا یہ تو ایک چیز ہے جو اللہ نے آدم کی تمام بیٹیوں کیلئے لکھدی ہے(اسمیں رونا کیا) جو افعال حج کرنے والا کرتا ہے تم بھی کرو۔ بجز اسکے کہ تم کعبہ کا طواف نہ کرو جب تک پا ک نہ ہو جاؤ۔
حاشیہ کتاب الحیض پر :
کتاب الحیض میں ان مسائل کا تذکرہ ہے جو حائضہ عورتوں کے متعلق ہیں اور ان کے شوہروں کو جن امور کا لحاظ کرنا چاہئے انکی ہدایت ہے۔ اس امر کو بحضور دل یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام ایک آسان دین ہے اور قرآن کریم اور نبی رؤف رحیم علیہ والتسلیم نے کوئی ایسی شریعت یا قانون نہیں دیا جو انسانی طاقت سے بڑھکر ہو۔ قرآن مجید کو صاف فرمایا ہے کہ لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا۔ اور الدین یسر نبی کریم ؐ کا ارشا د ہے۔ پس کتاب الحیض میں بھی ان تمام سہولتوں اور آسانیوں کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ مختلف قوموں میں حائضہ عورتوں سے حد درجہ کی نفرت اور پرہیز کیا جاتا تھا اب تک بھی ہندوستان میں ایسی قومیں موجود ہیں جو حائضہ عورتوں کو قریب تک نہیں آنے دیتیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان تمام توہمات اور اغلال کے بوجھ کو دور کردیا ہے۔
کتاب الحیض کی ابتداء :
باب:۱۶ حیض کا غسل کرتے وقت عورت کا اپنے بال کھول ڈالنا
حدیث:۲۲ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کو نکلتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو عمرے کا احرام باندھتا تم میں سے جس کا جی چاہے کہ عمرے کا احرام باندھے وہ عمرے کا احرام باندھ لے پس بعض نے تو عمرہ کا احرام باندھ لیا اور بعض نے حج کا اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا پس عرفہ کا دن آ گیا اور میں حائضہ تھی تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی آپ نے فرمایا اپنے عمرے کو چھوڑ دے اور اپنا سر کھول ڈالو اور کنگی کرو اور حج کا احرام باندھ لو (چنانچہ میں نے یہی کیا) یہاں تک کہ ھبہ کی رات آئی تو آپ نے عبدالرحمان میرے بھائی کو میرے ہمراہ کر دیا اور میں تنعیم تک گئی اور میں نے اپنے عمرہ کے بدلہ دوسرے عمرہ کا احرام باندھا ہشام کہتے ہیں کہ ان سب باتوں میں نہ قربانی لازم ہو نہ روزہ نہ صدقہ۔
باب ۱۷ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مخلقۃ وغیر مخلقۃ
حدیث نمبر ۲۳
انس بن مالک نبی کریم ﷺ سیروایت کرتے ہیں کہاآپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے(عورت کے) رحم پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ اے رب نطفہ۔اے رب علقہ۔ اے رب مضغہ پس جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہا پنی اس پیدائش کو پورا کردے تو وہفرشتہ کہتا ہے کہ مرد بنے یا عورت شقی ہو یا سعید پھر رزق کس قدر ہو اور عمر کتنی ہو۔ آپ فرماتے ہیں کہ پھر وہ فرشتہ سب کچھ پوچھ کر اسکی ماں کے پیٹ ہی میں لکھدیا جاتا ہے۔
باب ۱۸ حائضہ عورت حج اور عمرہ کا احرام کس طرح باندھے۔
حدیث نمبر ۲۴
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہم میں سے بعض وہ لوگ تھے جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ا ور بعض نے حج کا۔ مگر جب ہم مکہ میں پہنچے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے عمرہ کا احرام باندھا وہا اور وہ قربانی ساتھ نہ لایا ہو وہ احرام کھول ڈالے۔ اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہوا اور قربانی ساتھ لایا ہو تو جبتک قربانی نہ کرے احرام نہ کھولے اور جن سے حج کا احرام باندھا ہو وہ اپنا حج پورا کرے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیںکہ میں حائضہ ہوگئی ہوگئی اور برابر حیض آتا رہا۔ یہانتک کہ عرفہ کا دن آگیا اور میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا تو نبی ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اپنا سر کھول ڈالو۔ اور بالوں میں کنگی کرلو۔ اور نیا احرام حج کا باندھ لو۔ اور عمرہ کو(بالفعل) چھوڑ دوں چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا یہانتک کہ اپنے حج کو پورا کرلیا اس وقت آپ نے عبدالرحمان بن ابوبکر میرے بھائی کو میرے ساتھ کرکے حکم دیا کہ میں اپنے عمرہ کے بدلے تنعیم سے دوسرے عمرہ کا احرام باندھو۔
باب ۱۹ حیض کے شروع اور ختم ہونے کا بیان اور عورتیں حضرت عائشہؓ کے پاس ڈبیا پر روئی رکھکر بھیجتی تھیں جسپر زردی ہوتی تھی تو حضرت عائشہ کہ دیتیں کہ جلدی نہ کرو۔ یہانتک کہ صاف شفاف پانی نہ دیکھ لو۔ مراد انکی اس سے حیض سے پاکی ہے۔ اور زید بن ثابت کی لڑکی کو یہ خبر پہنچی کہ عورتیں رات کیوقت چراغ منگو ا کر طہر کو دیکھتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ(نبی کریم ﷺ کے) تو عورتیں ایسا نہیں کرتی تھیں اور ان پر طعنہ زنی کی۔
حدیث نمبر ۲۶
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ ہوا۔ تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا آپہ نے فرمایا یہ تو ایک لگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے پس جب حیض کا زمانہ آگے آئے تو نماز چھوڑ دو۔ اور جب گزر جاوے تو غسل کرکے نماز پڑھ لے۔
باب ۲۰ حائضہ عوت نماز کی قضاء نہ کرے اور جابر بن عبداللہ اور ابوسعید خدری نے نبی کریم ﷺ سینقل کیا ہے کہ حائضہ عورت نماز چھوڑ دے۔
حدیث نمبر ۲۷
حضرت معاذہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ سے کہا کہ کیا ہم میں سے کسی کو اسکی نماز جبکہ وہ طاہر رہے کافی ہے؟(یعنی کیا وہ ایام حیض کی قضا پڑھے) تو حضرت عائشہ نے کہا کہ کیا تو حروریہ ہے یقینا ہم نبی ﷺ کے ہمراہ حائضہ ہوتی تھیں مگر آپ ہمیں(قضا) نماز کا حکم نہ دیتے تھے۔( یا عائشہ نے یہ کہا کہ ہم قضا نہ پڑھتے تھے)
باب ۲۱ حائضہ عورت کے ہمراہ اس حالت میں سونا کہ وہ حیض کے لباس میں ہو (درست ہے)
حدیث نمبر ۲۸
حضرت ام ملسمہ کہتی ہیں کہ مجھے اسی حالت میں حیض آگیا کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ چادر میں لیٹی ہوئی تھی۔ پس میں آہستہ سے نکل گئی اور چادر سے باہر ہوگئی پھر میں نے اپنے حیض کے کپڑے پہن لئے تو مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہیں نفاس آگیا میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ نے مجھے بلا لیا۔ اور اپنے پاس چادر کے اندر داخل کرلیا۔ زینب کہتی ہے کہ مجھے ام سلمہ نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی ﷺ میرے بوسے لیتے تھے اور آپ روزو دار ہوتے تھے اورمیں اور نبی ﷺ ایک برتن سے غسل جنابت کرتے تھے۔
باب ۲۲ جس نے طہارت کے سوا حیض کا لباس الگ بنالیا۔ (بہتر ہے)
حدیث نمبر ۲۹
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ اسی حالت میں کہ میں نبی ﷺ کے ہمراہ چادر میں لیٹی ہوئی تھی۔ حائضہ ہوگئی تو میں آہستہ سے نکل گئی تو میں آہستہ سے نکل گئی وار میں نے اپنے حیض کا لباس پہن لیلا۔ تو آپ نے فرمایا کیا تمہیں نفاس آگیا میں نے عرض کیا ہاں پھر آپ نے مجھے بلایا اور میں آپ کے ہمراہ چادر میں لیٹ رہی۔

باب ۲۳ حائضہ عورت کا عیدی میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہونا جائز ہے ہاں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
حدیث نمبر ۲۶
حضرت حفصہ کہتی ہیں کہ ہم اپنی جوان عورتوں کنواریوں کو عیدین میں جانے سے منع کیا کرتے تھے تو ایک عورت آئی اور تو اس نے اپنی بہن سے نقل کیا اور کہا(کہ میرے بہنوئی نے نبی ﷺ کے ہمراہ ۱۲ جہاد کئے اور چھ میں میری بہن ان کے ہمراہ تھی) تو انہو ںے کہا کہ ہم زخمیوں کو دوا کیا کرتے تھے اور م مریضو ں کی تیمارداری کرتے تھے۔ تو میری بہن نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا جب ہم میں سے کسی کے پاس برقعہ نہ ہو تو اسکو باہر جانے میں کچھ حرج ہے آپ نے فرمایا کہ اسکے ساتھ والی کو چاہئے کہ وہ اپنا برقعہ اسے اڑھالے اور اسے چاہئے مجلس خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں ھاضر ہو۔ پس جب ام عطیہ آئیں تو میں نے ان سے کہا کہ کیا تم نے نبی ﷺ سے اس بارے میں کچھ سنا ہے تو انہوں نے کہا بابی نعم(جب وہ نبی ﷺ کا ذکر کرتیں تھینت و وہ بابی ضرور کہتیں تھیں) میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جوان عورتیں اور پردہ نشین اور حائضہ عورتیں باہر نکلیں اور مجالس خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں اور حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ ہیں۔ حفصہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں وہ بولیں کہ کیا حائضہ عورتیں عرفہ میں اور فلاں فلاں کام میں حاضر نہیں ہوتیں۔
باب ۲۴ جب کوئی عورت ایک مہینے میں میں تین بار حائضہ ہو(تو کیا حکم ہے) اور یہ کہ حیض اور حمل کے بارے میں در صورتیکہ حیض ممکن ہو عورتوں کی تصدیق کی جاوے بدلیل قول اللہ عزوجل کے ولایحل لہن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامہن اور حضرت علیؓ اور شریح سے منقول ہے کہ اگر عورت کے خاص دیندار ار اندر ولاے عزیزوں میں سے کوئی گواہی دے کہ اسکو ایک مہینے مٰن تین بار حیض آیا ہے تو اسکی بات کو صحیح مانا جاوے اور عطا بن ابھی ریاح نے کہا ہے عدت سے پہلے جو اسکے حیض کے دن تھے ۔وہی ہونگے اور ابراہیم نحفی بھی اسی کے قائل ہیں اور عطا نے کہا ہے کہ حیض ایک دن سے لیکر ۱۰ دن تک ہوتا ہے اور معتمر نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انوہں نے محمد بن سیرین سے پوچھا کہ اگر عورت اپنے حیض کے پانچ دن بعد خون دیکھے تو انہو ںے کہا کہ عورتیں اس سے خوب واقف ہیں۔
حدیث نمبر ۳۱
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش نے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ میں مستحاضہ ہوتی ہوں پھر عرصہ تک پاک نہیں ہوتی کیا ہیں نماز چھوڑ دوں آپ نے فرمایا نہیں یہ تو ایک رگ کا خون ہے مگر ان دنوں کے اندازہ کے موافق جن میں تمہیں حیض آتا تھا نماز چھوڑ دو۔ اسکے بعد غسل کرو اور نماز پڑھو۔
باب ۲۵ حیض کے دنوں کے سوا زردی یا مٹیلے پن کا دیکھنا۔
حدیث نمبر ۳۲
حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ ہم مٹیلے پن کو اور زردی کو کچھ نہ سمجھتے تھے(حیض میں شمار کرتے تھے)
باب ۲۶ استحاضہ کی رگ کا بیان
حدیث نمبر ۳۳
حضرت عائشہ زوجہ نبی کریم ﷺ کہتی کہ حجرت ام حبیبہ کو سات برس استحاضہ کی شکایت رہی تو انہو نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا کہ یہ ایک رگ کا خون پس وہ نماز کیلئے غسل کیا رکتی تھیں۔
باب ۲۷ عورت کو طواف الافاضہ کے بعد حیض آجاوے(تو کیا حکم ہے)
حدیث نمبر ۳۴
حضرت عائشہ زوجہ نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ انوہں نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ یارسوللہ صفیہ بنت حی( نبی کریم کی بی بی) حائضہ ہوگئیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شاید وہ ہمیں روکیں گی کیا انہوں نے تم لوگوں کے ہمراہ طواف نہیں کیا تو لوگوں نے کہا ہاں کیا تھا تب آپ نے فرمایا پھر چلو۔
حدیث نمبر ۳۵
ابن عباس کہتے ہیں کہ عورت کو طواف الافاضہ کے بعد جب حیض آجاوے تو اسے اپنے گھر لوٹ جانے کی اجازت دی گئی ہے اور ابن اعمر پہلے اپنے زمانہ میں کہا کرتے تھے کہ نہ لوٹے۔ پھر میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوٹ جاویں بے شک نبی کریم ﷺ نے انہیں رخصت دی ہے۔
باب ۲۸ جب مستحاضہ پاک ہوجائے ابن عباس کہتے ہیں کہ غسل کرکے نماز پڑھے اگرچہ ایک ہی گھڑی دن ہو اور اسکا شوہر اسکے پاس آئے جبکہ اس کے نماز پڑھ لی ہو نماز بڑی چیز ہے۔
حدیث نمبر ۳۶
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب حیض آجاوے تو نماز چھوڑ دو۔ اور جب وقت حیض کا گزر جاوے تو اپنے جسم سے خون کو دھوڈالو اور نماز پڑھو۔
باب ۲۹ نفاس والی عورت کے جنازہ کی نماز پڑھنا اور اسکا طریقہ
حدیث نمبر ۲۷
سمرہ بن جندب سے روایت کہ ایک عورت زچگی میں مرگئی تو نبی ﷺ نے اسکی نماز پڑھی اور اسکی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے۔
باب ۳۰
حدیث نمبر ۳۸
عبداللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خامہ میمونہ زوجہ نبی ﷺ سے سنا ہے کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں تو نماز نہ پڑھتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ کی سجدہ گاہ کے سامنے فرش بچھائے ہوئی بیٹھی ہوتی تھی اور آپ چھوٹی سی چٹائی پر نماز پڑھتے جب سجدہ کرتے تو آپکا کپڑا مجھ سے لگ جاتا تھا۔
حاشیہ باب الاستحاضہ پر
حیض کے معمولی اور عادی دنوں کے گزرنے کے بعد اگر خون جاری رہے تو وہ بیماری کا حکم رکھتا ہے اور اسکو استحاضہ کہتے ہیں۔ ایسی عورت معمولی ایام گزرنے کے بعد پاک کا حکم رکھتی ہے اور غسل کے بعد اسے نماز پڑھ لینی چاہئے۔ یہ نماز کیلئے غسل کرلیا کرتے تو اولیٰ تر ہے۔
استحاضہ والی عورت اعتکاف کرسکتی ہے۔ حدیث (۲۹۵،۲۹۶،۲۹۷)

کتاب التیمم
تیمم کی کتاب : اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ فلم تجدو ماء فتیمموا صعیدا طیبا فامسحوا بوجوھکم وایدیکم منہ (پس تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرلو اور اپنے منہ اور ہاتھوں پر اس سے مسح کرلو)
حدیث نمبر ۱
حضرت عائشہؓ زوجہ نبی کریم ﷺ فرماتی ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے جب ہم بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ رسولا للہ ؐ اس کی تلاش میں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپؐ ہی کے ساتھ ٹھہر گئے وہاں پانی دنہ تھا۔ اس پر لوگ ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے اور کہا کہ دیکھا؟ عائشہؓ نے کیا کیا۔ نبی کریم ؐ اور سب لوگوں کو ٹھہرالیا اور یہاں پانی بھی نہیں ہے۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ یہ سن کر ابوبکرؓ آئے اور آنحضرت ؐ میری ران پر منہ رکھ کر سوگئے تھے۔ ابوبکر ؓ نے کہا تو نے نبی کریم ؐ اور سب لوگوں کو ٹھہردیا اور یہاں پانی بھی نہیں اور نہ ان کے ساتھ کچھ پانی ہے۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ ابوبکر نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ نے چاہا کہ وہ کہیں انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کو کوکھ میں کونچہ مارنے لگے مگر میں نے محض اس وجہ سے حرکت نہ کی کہ نبی کریم ؐ کو سر میری ران پر تھا۔ جب صبح ہوئی تو نبی کریمؐ اٹھے اور پان نہ تھا پس اللہ تعالیٰ نے وہاں آیہ تیمم نازل فرمائی۔ پھر سب نے تیمم کیا اور سید بن خفیر نے کہا ابوبکر یہ تماری پہلی ہی برکت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جس اونٹ پر میں سوار تھی اس کے نیچے سے ہار بھی مل گیا۔
حدیث نمبر ۲
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی ملی ہیں کہ مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملی تھیں۔(اول) میرا رعب ایک ماہ کی منزل کے دشمنوں پر پڑتا ہے۔ ۲ زمین میرے لئے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے۔ پس میری امت کا ہر آدمی جہاں نماز کا وقت پائے نماز پڑھ لے۔ ۳ کفار کے بدلہ روپیہ لے لینا میرے لئے حلال کیا گیا ہے۔ جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھا۔ ۴ مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔ ۵ اور ہر نبی خالص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے اور میں تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
باب ۲ جبکہ نہ پانی ملے نہ مٹی ملے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر ۳
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انوہ ںے اپنی بہن اسماء کا ہار مانگ کرلیا تھا اور وہ(سفر میں) کھویا گیا تو نبی کریم ؐ نے کسی شخص کو اس کی تلاش کیلئے مقرر کیا وہ ہار اس کو مل گیا اور انس نماز کا وقت ہوگیا اور لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اس لئے انہوں نے (بے وضوئ) نماز پڑھ لی۔ اور رسول اللہ سے اس کی شکایت کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ تب اسید بن حفیر نے کہا کہ عائشہؓ اور آپ کو جزائے خیر دے تمہیں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جسکو تم ناگوار سمجھتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے اور تمام مسلمانوں کیلیے فائدہ کیا۔
باب ۳ حضر میں جب پانی نہ ملے اور نماز کے جاتے رہنے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے ۔ اور عطا بھی اس کے قائل ہیں اور حسن بصری نے اس مریض کے بارے مٰن جسکے پاس پانی تو ہو م گر دینے والا کوئی نہ ہو( اور نہ خود لے سکے) کہا کہ تیمم کرے۔ اور ابن عمر اپنی زمین سے جو جرف میں تھی آرہے تھے۔ مربد نعم میں عصر کا وقت ہوگیا انہو ںے تیمم سے نامز پڑھ لی پھر مدینہ میں ایسے وقت پہنچ گئے کہ آفتاب بلند تھا مگر انوہ نے نماز کااعادہ نہیں کیا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
صحیح بخاری پر نوٹس حصہ دوم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
باب ۳
حضر میں جب پانی نہ ملے اور نماز کے جاتے رہنے کا خوف ہو تو تیمم جائز ہے۔ اور عطا بھی اس کے قائل ہیں اور حسن بصری نے اس مریض کے بارے میں جس کے پاس پانی تو ہو مگر دینے والا کوئی نہ ہو( اور نہ خود لے سکے) کہا کہ تیمم کر لے۔ اور ابن عمر اپنی زمین سے جو جرف میںتھی آرہے تھے۔ مربد نعم میں عصر کا وقت ہو گیا انہوں نے تیمم سے نماز پڑھ لی پھر مدینہ میں ایسے وقت پہنچ گئے کہ آفتاب بلند تھا مگر انہوں نے نماز کا اعادہ نہیں کیا۔
حدیث ۴
عمیر ابن عباس کے غلام سے سنا کہتے تھے کہ عطداللہ بن یسار جو حضرت میمونہ زوجہ نبی کریمؐ کے غلام تھے مل کر ابوق جہیم بن حارث بن صمہ انصاری کے پاس آئے پس اس نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ بئر جمل کی طرف سے آئے اور آپ کو ایک شخص مل گیا اور اس نے آپ کو سلام کیا تب نبی کریمؐ نے اس کو جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آپؐ ایک دیوار کے پاس آئے اور اس پر ہاتھ مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر کے اس کے سلام کا جواب دیا۔
باب۴
کیا یہ (جائز ہے) کہ اپنے ہاتھوں کو پھونک مار کر مٹی جھاڑ دے اس کے بعد کہ ان کو تیمم کے لئے زمین پر مارا ہو۔
حدیث۵
عبدالرحمن بن ابزی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمرؓ کے پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا۔ عمار بن یاسر نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم تم ایک سفر میں تھے اور ہم جنبی ہو گئے پھر آپ نے تو نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹ گیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر نبی کریمؐ کے حضور اس کو بیان کیاتو آپؐ نے فرمایا تجھے صرف اتنا ہی کافی تھا یہ کہہ کر آپؐ نے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان کو پھونک دیا پھر پھر ان سے منہ اور ہاتھوں کو مسح کر لیا۔
باب۵
تیمم صرف منہ اور ہاتھوں کے لئے ہے۔
حدیث ۶
سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ عمار نے یہ سب واقعہ بیان کے اور شعبہ جو اس کے راوی ہیں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کیا پھر اس سے اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا۔
حدیث۷
عبدالرحمٰن بن ابزی کے بیٹے اپنے باپ عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عمر کے پاس حاضر تھے اور ان سے عمار نے کہا کہ ہم ایک سریہ میں گئے تھے اور جنبی ہو گئے اور (اس روایت میں) نفخ فیھماکی جگہ تفل فیھما کہا (جس کے معنی ہیں بہت زور سے پھونک مارنا جس میں کچھ تھوک بھی نکل پڑے)
حدیث۸
عبدالرحمٰن بن ابزی کے بیٹے اپنے باپ عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں ہ عمار بن یاسر نے عمر سے کہا کہ میں (تیمم جنابت کے لئے) زمین پر لوٹا اور پھر آنحضرتؐ کے پاس آیاتو آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں منہ اور دونوں ہاتھوں کا مسح کر لینا کافی تھا۔
حدیث۹
عبدالرحمٰن بن ابزی کے بیٹے عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں کہ میں عمر کے پاس حاضر تھا تو ان سے عمار نے پوری حدیث بیان کی۔
حدیث۱۰
عبدالرحمٰن بن ابزی کے بیٹے نے اپنے باپ سے روایت کی کہ عمار نے کہا کہ پھر نبی کریمؐ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کو مسح کیا۔
باب۶
پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے پانی کے بدلہ وہ کافی ہے اور حسن بصری نے کہا کہ تیمم آدمی کو کفایت کرتا ہے جب تک حدث نہ کرے او ابن عباس نے تیمم کی حالت میں امامت کی اور یحي بن سعید نے کہا کہ شور زمین میں نماز پڑھنا اور اس سے تیمم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
حدیث ۱۱
عمران کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریمؐ کے ساتھ تھے اور ہم رات کو چلے یہاں تک کہ آخر حصہ رات میں ہم مقیم ہوئے اورذرا پڑ پر سو گئے اور مسافر کے لئے اس سے زیادہ کوء میتھی نیند نہیں ہوتی۔ پھر ہماری آنکھ اس وقت کھلی جب آفتاب کی گرمی پہنچی پس سب سے پہلے جو بیدار ہوا وہ فلاں تھا(ابوبکر) پھر فلاں شخص پھر فلاں شخص ابورجا ان سب کو نام بنام بیان کرتے گئے لیکن عوف بھول گئے۔ پھر عمر بن خطاب چوتھے درجہ پر جاگے۔ اور نبی کریمؐ جب سوتے تھے ہم میں سے کوئی ان کو بیدار نہ کرتا تھا۔یہاں تک کہ آپ کود بیدار نہ ہو جائیں کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ خواب میں آپؐ کے لئے کیا ہو رہا ہے۔ مگر جب عمر مجبور ہوئے تو انہوں نے وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی ہ بڑے صاحب حوصلہ تھے تو انہوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور برابر تکبیر کہتے رہے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے رہے یہانتک کہ ان کی آواز سے نبی کریمؐ بیدار ہوئے جب آپ بیدار ہوئے اور جو مصیبت کارواں پر پڑی تھی لوگ شکوہ کرنے لگے۔ آپؐ نے فرمایا کچھ حرج نہیں یا اس سے کچھ نقصان نہ ہو گاج۔ چلو پھر کوچ کرو۔ جب تھوڑی دور گئے تو آپؐ اتر پڑے اور وضو کا پانی منگوایا وضو کیا اور نماز کی اذان کہی گئی اور آپؐ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک شخص کو دیکھا کہ ایک طرف بیٹھا ہوا ہے اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپؐ نے فرمایا اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا۔ اس نے کہا کہ میں جنبی ہو گیا تھا اور پانی نہیں ہے آپؐ نے فرمایا مٹی سے تیمم کر لے وہ تیرے لئے کافی ہے پھر آنحضرتؐ چلے تو لوگوں نے آپؐ سے پیاس کی شکایت کی آپؐ اتر پڑے اور ایک شخص (عمران بن حصنین) کو بلایا ابورجا اس کا نام بیان کرتے تھے لیکن عوف بھول گئے اور حضرت علیؓ کو بلایا۔ دونوں سے کہا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ وہ دونوں گئے تو (راہ) میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو یا دو مشکوں کے درمیان اونٹ پر سوار جا رہی تھی ۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں کل اس وقت پانی پر تھی اور ہماری قوم کے مرد پیچھے ہیں اور انہوں نے اس عورت سے کہا خیر اب تو چل وہ بولی کہاں تک؟ انہوں نے کہا آنحضرت ﷺ کے پاس۔ اس نے کہا وہ تو نہیں جس کو لوگ صابی کہتے ہیں انہوں نے کہا ہاں انہیں کے پاس جن کو تو یہ سمجھتی ہے تو چل تو سہی۔ پس وہ دونوں اس کو آنحضرت ﷺ کے پاس لائے اور آپؐ سے ساری کیفیت بیان کی۔ عمران نے کہا کہ پھر میں نے اس کو اس کے اونٹ پر سے اتار لیا اور نبی کریمؐ نے ایک برتن منگوایا اور دونوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا مشکوں کے منہ کھول دئیے پھر ان کے منہ کو بند کر دیا اور پھر اس کے چھوٹے منہ (۔۔۔۔۔۔۔) کو کھول دیا ور لوگوں میں آواز دے دی گئی پانی پلاؤ اور پیو پس جس نے چاہا جانوروں کو پلایا اور جس نے چاہا خود پہ لیا آخرین ایک یہ تھا کہ جس شخص کو جنابت ہو گئی تھی اس کو ایک برتن پانی کا دیا گیا آپ نے فرمایا جا اپنے اوپر بہا لے۔ وہ عورت کڑھی ہوئی (یہ تماشا) دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور بخدا جب اس کی پکہال سے پانی لینا بند کر دیا گیا تو یہ ھالت تھی کہ اب وہ مشکیں اس سے زیادہ بھری ہوئی تھیں جیسے شروع میں تھیں پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کچھ اس کے لئے جمع کر دو لوگوں نے عجوہ۔ دقیق اور سویق (کھجور۔ آٹا۔ ستو) اکھٹا کرنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک اچھی مقدار کا کھانا ا س کے لئے جمع کر دیا گیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کرا دیا اور وہ کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا تب آپؐ نے اس عورت سے کہا سنو تو جانتی ہے کہ ہم نے تیرے پانی سے کچھ کم نہیں کیا لیکن اللہ ہی نے ہم کو پانی پلایا پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس گئی چونکہ راستہ میں ٹھہرائی گئی تھی انہوں نے پوچھا اری فلانی تجھے کس نے روک رکھا تھا اس نے کہا کہ ایک عجیب بات ہوئی دو آدمی مجھے راستہ میں ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس کو صابی کہتے ہیں اور اس نے ایسا ایسا کام کیا پس خدا کی قسم جتنے لوگ اس (زمین) اور اس(آسمان) کے درمیان ہیں ان سب میں بڑا جدوگر ہے۔ اور اس نے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا مراد اس کی زمین و آسمان تھے) یا وہ فی الحقیقت اللہ کا رسول ہے پس مسلمان بعد اس کے اس کے آس پاس کے مشرکوں کو غارت کرتے تھے اور ان لوگوں کو نہ چھوتے تھے جن میں کہ وہ عورت تھی تو اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ مسلمان جو تم کو چھوڑ دیتے ہیں کیا تم چاہتے ہو کہ مسلمان ہو جاؤ۔ اس کی قوم نے اس کی بات مان لی او۳ر مسلمان ہو گئے (امام بخاری کہتے ہیں کہ صابی صبا سے نکلا ہے صبا کے معنے اپنے دین چھوڑ کر دوسرے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا کہ صائبین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتا ہے اور اصب کے معنے ہیں قائل ہو گیا۔)
باب۷
جب جنبی اپنے مریض ہو جانے یا مر جانے کا خوف کرے تو تیمم کر لے اور کہا جاتا ہے کہ عمرو بن عاص ایک سر رات میں جنبی ہو گئے تو انہوں نے تیمم کر لیا اور ولا تقتلوا انفسکیم ان اللہ کان بکم رحیما کی تلاوت کی۔ یہ واقعہ نبی کریمؐ سے بیان کیا گیا تو آپ نے ان کو کچھ ملامت نہیں کی۔
حدیث ۱۲
ابووایل سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ نے عبد اللہ بن مسعود سے کہا کہ اگر کسی کو پانی نہ ملے تو نماز نہ پڑھے عبداللہ نے کہا ہاں اگر ایک مہینے تک پانی نہ ملے تو نماز نہ پڑھے۔ میں اگر انہیں اس بارے میں اجازت دے دوں گا تو جب ان میں سے کوئی سردی دیکھے گا تو ایسی طمع کرے گا یعنی تیمم کر کے نماز پڑھ لیگا ابو موسیٰ نے کہا کہ پھر عمار نے جو روایت عمر سے روایت کی ہے وہ کہاں گئی۔ انہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا حضرت عمرؓ نے عمار کے قول پر قناعت کی ہو؟
حدیث ۱۳
شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے پاس تھا ابو موسیٰ نے عبداللہ سے کہا اے عبدالرحمان! جب کوئی جنبی ہو اور پانی نہ ملے وہ کیا کرے عبداللہ نے کہا کہ نماز نہ پڑھے جب تک پانی نہ پائے ابو موسیٰ نے کہا کہ تم عمار کے قول کا کیا کرو گے جبکہ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں(تیمم کر لینا) کافی تھا عبداللہ بولے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ عمر نے عمار کے قول پر قناعت نہیں کی ابوموسیٰ نے کہا اچھا عمار کے قول کو جانے دو تم اس آیت(آیت تیمم) کو کیا کرو گے پھر عبداللہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دیں تب انہوں نے یہ کہا کہ اگر ان لوگوں کو اسی بارہ میں اجازت دے دیں گے تو عنقریب جب پانی سے ان میں سے کسی کو سردی معلوم ہو گی اسے چھوڑ دے گا اور تیمم کر لے گا(سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے شقیق سے کہا کہ عبداللہ بن مسعود نے تیمم کو صرف اسی وجہ سے برا سمجھا انہوں نے کہا ہاں)
باب۸
تیمم میں ایک بار مارنا کافی ہے
حدیث۱۴
شقیق کہتے ہیں کہ میں ایک دن عبداللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کے پاس بیٹھا تھا تو عبداللہ سے ابو موسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی شخص جنبی ہو جائے اور ایک مہینے تک اسے پانی نہ ملے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز پڑھ لے شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ نے کہا کہ تیمم نہ کرے اگرچہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے پھر ان سے ابوموسیٰ نے کہا کہ تم سورۃ مائدہ کی اس آیت کو کیا کرو گے فلم تجدوا مآء فتیمموا صعیدا طیبا تو عبداللہ نے کہا کہ اگر لوگوں کو اس بارہ میں اجازت دے دی گئی تو عنقریب جب انہیں پانی سے سردی معلوم ہو گی تو مٹی سے تیمم کر لیں گے (سلیمان کہتے ہیں کہ میں شقیق سے کہا کہ تم نے تیمم کو صرف اس خیال سے برا جانا انہوں نے کہا کہ ہاں) پھر ابو موسیٰ نے کہا کہ کیا تم نے عمار کا عمر بن خطاب سے یہ کہنا نہیں سنا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا راہ میں میں جنبی ہو گیا اور اپنے پاس پانی نہ پایا تب تیمم کے لئے میں زمین میں لوٹ گیا جس طرح جانور لوٹتا ہے پھر میں نے نبی کریم ﷺ سے ان کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا اور آپ نے اپنی ہتھیلی سے ایک ضربہ زمین پر مارا پھر اسے جھاڑ دیا بعد اس کے اپنے ہاتھ کی پشت کو بائیں ہاتھ سے مسح فرمایا (یا یہ کہا کہ اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کو ہاتھ سے مسح فرمایا) پھر ان سے اپنے چہرہ کو مسح کر لیا پس عبداللہ نے کہا کیا تم نے نہیں دیکھا عمر نے عمار کے قول پر قناعت نہیں کی اور لیلیٰ نے اعمش سے اور انہوں نے شقیق سے اتنی روایت کی کہ شقیق نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابو موسیٰ کے ہمراہ تھا تو ابو موسیٰ نے عبداللہ سے کہا کہ کیا تم نے عمار کا کہنا عمر سے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور تمہیں کہیں باہر بھیجا تھا (ـــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) میں جنبی ہو گیا تو میں بغرض تیمم زمین پر لوٹ گیا پھر ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو خبر دی تو آپ نے فرمایا تمہیں صرف اس طرح کر لینا کافی تھا اور آپ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو ایک مرتبہ مسح فرمایا۔
باب ۹
حدیث۱۵
عمران بن حصین خزاعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی شخص کو گوشہ میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ اس نے لوگوں کے ہمراہ نماز نہیں ادا کی تو آپؐ نے فرمایا کہ اے فلاں تجھے لوگوں کے ہمراہ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا۔ اس نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے جنابت ہو گئی اور پانی نہیں ہے آپ نے فرمایا مٹی لے لے اور تیرے کئے کافی ہے(یعنی تیمم کر لے)
کتاب الصلوۃ
باب۱
نماز یں کس طرح فرض ہوئی اور ابن عباس نے کہا ہے کہ مجھ سے ابوسفیان بن حرب نے ہرقل کی حدیث بیان کی کہ وہ (آنحضرت ﷺ ) ہمیں نماز کا اور صدقہ کا اور ہر قسم کی بدیوں سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔
حدیث ۱
انس بن مالک کہتے ہیں کہ ابوذر غفاری بیان کیا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تیرے گھر کی چھت لیٹ گئی اور میں مکہ میں تھا پھر جبرئیل ؑ اترے اور انہوں نے میرے سینہ کو چاک کر دیا پھر اس کو آبِ زم زم سے دھویا پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا اور اس کو میرے سینہ میں انڈیل دیا پھر سینہ کو بند کر دیا پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھے پس جب میں دنیا کے آسمان پر پ]ہنچا تو جبرائیل ؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ کھول دو۔اس نے کہا کون ہے؟ اس نے پوچھا کیا کوئی تمہارے ساتھ ہے؟ جبرائیل نے کہا ہاں میرے ہمراہ محمد ؐ ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل نے کہا ہاں۔ پس جب دروازہ کھولدیا گیا تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے وہاں یکایک ایک ایسے شخص پر نظر پڑی جو بیٹھا ہوا تھا اس کے دائیں بائیں لوگوں کے گروہ تھے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو پڑتے پھر انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا مرحبا بالنبی الصالح الابن الصالح(خوش آمد فرزندنیک و نبی نیک)۔
میں نے جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا آدم ہیں اور یہ لوگ جو ان کے دائیں بائیں ہیں یہ ان کی اولاد کی اروح ہیں۔ دائیں جانب والے بہشتی ہیں اور بائیں جانب والے دوزخی۔ اسی لئے جب وہ اپنی دائیں جانب دیکھتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب دیکھ کر رو دیتے ہیں۔ پھر مجھے دوسرے آسمان پر لے گئے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھول دو تو جبرائیل سے اس کے داروغے نے وہی گفتگو کی جیسی کہ پہلے نے کی تھی۔ پھر دروازہ کھولدیا گیا۔ انس کہتے ہیں کہ پھر ابوذر نے ذکر کیا کہ آپؐ نے آسمان میں آدم ؑ۔ ادریس ؑ۔ موسیٰ ؑ۔ عیسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ کو پایا۔ اور یہ بیان نہیں کیا کہ ان کے مدارج کس طرح سے ہیں۔ سوا اس کے کہ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ آدم ؑ کو آسمان دنیا میں اور ابراہیم ؑ کو چھٹے آسمان پر پایا۔ انس کہتے ہیں کہ پھر جب حضرت جبرائیل ؑ نبی کریمؐ کو لے کر ادریس کے پاس گزرے تو انہوں نے کہا مرحبا بالنبی الصالح والاخ الصالح) خوش آمدید نبی نیک و برادر نیک) میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل نے کہا کہ یہ ادریس ہیں۔ پھر میں موسی ؑکے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا مرحبا بالنبی الصالح والاخ الصالح میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل ؑنے کہا کہ یہ عیسی ؑہیں پھر میں ابراہیم ؑکے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا مرحبا بالنبی الصالح والابن الصالح میں نے پوچھا یہ کون ہیں جبرائیل نے کہا کہ یہ ابراہیم ؑہیں ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے ابن حزم نے خبر دی کہ ابن عباس اور ابوحبہ انصاری کہتے تھے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا پھر مجھے چڑھا لے گئے یہانتک کہ میں ایسے بلند مقام میں پہنچا جہاں میں فرشتوں کی۔۔۔۔۔سنتا تھا۔ ابن حزم اور انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ فرماتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں پس میں ان کے ساتھ لوٹا۔ یہاںتک کہ کہ موسیٰ کے پاس پہنچا موسیٰ نے پوچھا اللہ نے آپ کے لئے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے یہ سن کر کہا کہ اپنے رب کے حضور لوٹ جائے اس لئے آپؐ کی امت اس قدر عبادت کی طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ پھر میں موسیٰ کے پاس لوٹ کر آیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا ہے پھر حضرت موسیٰ نے کہا کہ اپنے رب کے پاس لوٹ جائے کیونکہ آپؐ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ اور معاف کر دیا پھر میں ان کے پاس واپس آیا پھر میں ان کے پاس واپس آیا تو وہ بولے کہ آپ اپنے رب کے حضور پھر جائیں کیونکہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی۔ چنانچہ میں نے پھر اللہ کے حضور رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا پانچ نمازیں رکھی جاتی ہیں اور یہ فی الحقیقت پچاس ہیں(برائے ثواب) میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ پھر میں موسیٰ کے پاس لوٹ کر آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے رب سے رجوع کیجئے میں نے کہا کہ اب مجھے بار بار اپنے رب سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ پھر مجھے روانہ کیا گیا۔ یہانتک کہ میں سدرۃالمنتھی تک پہنچایا گیا اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے میں نہ سمجھا کہ یہ کیا ہیں۔ پھر میں جنت میں داخل کیا گیا تو اس میں موتی کی لڑیاں ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔
حدیث۲
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو دو رکعت فرض کی تھیں حضرت میں بھی اور سفر میں بھی پھر سفر کی نماز اپنی اصلی حالت پر قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کر دی گئی۔
باب۲
نماز میں کپڑے پہننا واجب ہے اللہ جلشانہ کا ارشاد ہے خذوا زینتکم عند کل مسجد اس پر دلیل ہے کہ جو شخص ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھ لے تو درست ہے اور سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس کو ٹانک لے خواہ کانٹے ہی سے ہو۔ اور اس کی اسناد میں اعتراض ہے اور جس شخس نے اس لباس میں نماز پڑھی جس میں جماع کرتا ہے تاوقتیکہ اس میں آلودگی نہ ہو( تو حرج نہیں) اور نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ کوئی شخص برہنہ کعبہ کا طواف نہ کرے۔
حدیث۳
ام عطیہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپؐ نے حکم دیا تھا کہ ہم عید کے دن حائضہ عورتوں اور پردہ نشینوں کو باہر نکالیں تا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں اور ان کی دعا میںحاضر ہوں۔ اور حائضہ عورتیں اپنے مصلیٰ نے الگ رہیں ایک عورت نے کہا کہ یا رسول اللہؐ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی؟ آپؐ نے فرمایا کہ اس کی ساتھ والی کو چاہیئے کہ اپنی چادر اسے اوڑھا دے۔
(عبداللہ بن رجا کہتا ہے کہ ہم سے عمران نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن سیرین نے کہا ہم سے ام عطیہ نے کہا کہ میں نے نبی کریمؐ سے سنا اور یہی حدیث روایت کی)
باب۳
نماز میں چادر کو گڈی پر (برنگ گلتی) باندھ لینا اور ابوحاذم نے سہل بن سعد سے روایت کیا ہے کہ صحابہ نے نبی کریمؐ کے ہمراہ اپنی چادروں کو اپنے کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔
حدیث۵
محمد بن مکندر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جابر ے ایسے آزار میں جس کو انہوں نے اپنی پشت کی طرف باندھا تھا نماز پڑھی حالانکہ ان کے کپڑے مشحب(الگنی) پر رکھے ہوئے تھے۔ تو ان سے ایک کہتے والے نے کہا کہ آپ ایک چادر میں نماز پڑھتے ہیں انہوں نے جواباً کہا کہ میں نے یہ اس لئے کیا ہے کہ تیرے جیسا احمق مجھے دیکھے اور (تو اتنا ہی جانتا کہ) رسول اللہؐ کے زمانہ میں ہم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے تھے؟
حدیث۵ محمد بن مکندر کہتے ہیں کہ میں نے جابر کو ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اور انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریمؐ کو ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا۔
باب۴
ایک کپڑے میں اسی کو لپیٹ کر نماز پڑھنا درست ہے اور زہری نے اپنی حدیث بیان کی ہے کہ ملتحف کے معانی متوشح کے ہیں اور متوشح وہ شخص ہے جو چادر کے دونوں سرے اپنے دونوںشانوں پر ڈال لے اور یہی اشتمال علی منکبیہ کا مطلب ہے اور ام ہانی نے کہا کہ نبی کریمؐ نے اپنے ایک کپڑے سے التحاف کیا اور اس کے دونوں سرے دونوں شانوں پر ڈال لئے۔
حدیث۶
عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اور اس کے دونوں سروں کے درمیان تفریق کر دی تھی۔
حدیث۷
عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمؐ کو ام ہانی کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا آپؐ نے اس کے دونوں سرے دونوں شانوں پر ڈال لئے۔
حدیث۸
عمر بن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ کے گھر میں رسول اللہ ﷺ کو ایک کپرے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ اس کا ۔۔۔۔۔۔کئے ہوئے تھے آپ نے دونوں سرے دونوں شانوں پر ڈالے ہوئے تھے۔
حدیث۹
اما ہانی بنت ابو طالب کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس فتح مکہ کے سال گئی تو میں نے آپؐ کو غسل کرتے ہوئے پایا اور آپؐ کی بیٹی فاطمہ آپؐ پر پردہ کئے ہوئے تھیں ام ہانی کہتی ہیں میں نے سلام کیا تو آپؐ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں ام ہانی بنت ابوطالب ہوں آپؐ نے فرمایا مرحباً یٰام ہانی۔ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو گئے اور ایک کپڑے میں التحاف کر کے ۸ رکعت نماز پڑھی جب فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میری ماں کے بیٹے(علی مرتضیٰ) کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کو مار ڈالوں گا حالانکہ میں نے اسے پناہ دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔فلاں بیٹے کو تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ام ہانی جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی ام ہانی کہتی ہیں کہ یہ چاشت کی نماز تھی۔
حدیث۱۰
ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک سائل نے نبی کریمؐ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا پوچھا تو نبی کریمؐ نے فرمایا کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو دو کپڑے ہیں؟
باب۵
جب ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو چاہیئے کہ اس کا کچھ حصہ اپنے شانے پر ڈال لے۔
حدیث۱۱
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسے کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس میں اس کے شانے پر کچھ نہ ہو۔
حدیث۱۲
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی کریمؐ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہ کہ جو شخص ایک کپرے میں نماز پڑھے اسے چاہیئے کہ اس کے دونوں سروں کے درمیان تفریق کر دے۔
باب۶
جب کپڑا تنگ ہو (تو کیا کرے)
حدیث۱۳
سعد بن حارث کہتے ہیں کہ ہم نے جابر عبداللہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا حکم پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں گیا تو ایک رات آپؐ کے پاس اپنی کسی ضرورت سے آیا تو میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا اور میرے اوپر ایک ہی کپڑاتھا پس میں نے اسی سے اشتمال کیااور آپ کے پہلو میں میں نے نماز پڑھی جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا جابر!رات کو کیسے آنا ہوا؟ میں نے آپ کو اپنی ضرورت بتا دی پھر جب میں فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا یہ اشتمال جو میں نے دیکھا کیا تھا؟ میں نے کہا کپڑا تھا آپ نے فرمایا اگر کپڑا وسیع ہو تو اسی سے التحاف کر لیا کرو اور اگر تنگ ہو تو تہہ بند بناؤ۔
حدیث۱۴
سہل کہتے ہیں کہ کچھ لوگ آنحضرت ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے لڑکوں کی طرح اپنے تہہ بندوں کو اپنے شانوں پر باندھ کر اور عورتوں سے کہہ دیا جاتا ھا کہ جب تک مرد سیدھے نہ بیٹھ جاویں اپنے سروں کو نہ اٹھانا۔
باب۷
جبہ شامیہ میں نماز پڑھنا اور حسن بصری نے کہا ہے کہ ان کپڑوں میں جن کو مجوسی بنتے ہیں کچھ حرج نہیں سمجھا گیا اور میں نے کہا کہ میں زھری کو وہ کپڑا پہنتے دیکھا جو پیشاب میں رکھا گیا تھا اور علی بن ابوطالب نے کورے کپڑے میں نماز پڑھی۔
حدیث۱۵
مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیںکہ میں نبی کریمؐ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا تو آپ نے فرمایا مغیرہ پانی کا برتن اٹھا دو تومیں نے اٹھا دیا پھر آپؐ چلے یہاں تک کہ مجھ سے چھپ گئے اور آپ نے قضائے حاجت کی اور اس وقت آپ جبہ شامیہ پہنے ہوئے تھے پس آپ نے اپنا ہاتھ اس کی آستین میں سے نکالنا چاہا تو وہ تنگ تھا اس لئے آپ نے اپنا ہاتھ اس کے نیچے سے نکالاپھر میں نے آپؐ پر پانی ڈالا اور آپ نے وضو فرمایا۔ جس طرح نماز کے لئے آپ کا وضو تھا اور آپ نے موزوں پر مسح کیا پھر نماز پڑھی۔
باب۸
نماز یا غیر نماز میں ننگا ہونے کی کراہت
حدیث۱۶
جار بن عبداللہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی تعمیر کے لئے قریش کے ہمراہ پتھر اٹھاتے تھے اور آپ نے تہہ بند باندھا ہواتھاتب آپ سے آپ کے چچا عباس نے کہا کہ اے میرے بھتیجے کاش! تم اپنا تہہ بند اتار ڈالتے اور اسے اپنے شانوں پر پتھر کے نیچے رکھ لیتے۔ جابر کہتے ہیں کہ آپ نے ازار کھول ڈالی اور اسے اپنے شانوں پر رکھ لیا تو بیہوش ہو کر گر پڑے پھر اس کے بعد آپ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔
باب۹
قمیص،پاجامے اور چھوٹے غرارے اور قبا میں نماز پڑھنا۔
حدیث۱۷
ابوہریرۃ ؓکہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کھڑا ہوا اور اس نے آپ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا حکم پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو دو کپڑے ہیں؟ پھر ایک شخص نے یہی مسئلہ حضرت عمرؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں وسعت دے تو تم بھی وسعت کرو۔ ہر شخص اپنے کپڑے جمع رکھے کوئی ازاروچادر میں نماز پڑھے کوئی تہہ بن اور قمیص میں کوئی تہہ بند اور قبا میں کوئی پاجامے اور قمیص میں کوئی پاجامے اور قبا میں کوئی چھوٹے غرارہ اور قمیص میں(ابوہریرۃ ؓکہتے ہیں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ عمر نے یہ بھی کہا کہ کوئی چھوٹے غرارہ اور چادر میں)
حدیث۱۸
ابن عمر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ جس شخص نے احرام باندھا ہو وہ کیا پہنے؟آپ نے فرمایا نہ قمیص پہنے نہ پاجامہ اور نہ اورکوٹ اور نہ ایسا کپڑا جس میں زعفران لگ گیا اور اور نہ اس میں درس لگی ہو پھر جس کو جوتی نہ ملے وہ موزے پہن لے اور چاہیئے کہ ان کو کاٹ دے تا کہ ٹخنوں سے نیچے رہیں( اور نافع بن عمر سے انہوں نے نبی کریمؐ سے اس کی مثل روایت کی ہے)
باب۱۰
ستر کا بیان جس کو ڈھانپنا چاہیئے
حدیث۱۹
ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اشتمال حما سے اور اس بات سے کہ ایک کپڑے میں گوٹ مارے اور اس کی شرمگاہ ننگی ہو منع فرمایاہے۔
حدیث۲۰
ابوہریرۃ ؓکہتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے دو قسم کی بیع سے منع فرمایا ہے عاس اور نباز اور اس بات سے کہ کوئی اشتمال حما کرے اور اس بات سے کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں گوٹ مارے اور اس کی شرمگاہ ننگی ہو۔
حدیث۲۱
ابوہریرۃ ؓکہتے ہیں کہ مجھے ابوبکرؓ نے اس حج میں قربانی کے دن بھیجا تا کہ ہم منٰی میں یہ اعلان کر دیں کہ بعد اس سال کے کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرے حمید بن عبدالرحمان (جو ابوہریرۃ ؓسے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں) کہتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکرؓ کے پیچھے حضرت علیؓ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورۃ برأۃ کا اعلان کریں ابوہریرۃ ؓکہتے ہیں پس علیؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منٰی کے لوگوں میں اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف کرے۔
باب۱۱
بغیر چادر کے نماز پڑھنا۔
حدیث۲۲
محمد بن منکدر کہتے ہیں میں جابر بن عبداللہ کے پاس گیا اور وہ ایک کپڑے میں اس سے التحاف کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور ان کی چادر رکھی ہوئی تھی پس جب وہ فارغ ہوئے تو ہم نے کہا اے ابوعبداللہ آپ نماز پڑھتے ہیں اور آپ کی چادر رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا ہاں میں نے چاہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھیں میں نے نبی کریمؐ کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا۔
باب۱۲
ران کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے ابوعبداللہ کہتا ہے کہ ابن عباس اور جرھد اور محمد بن حجش کی روایت نبی کریمؐ سے ہے۔ کہ ران عورت ہے (ستر ہے) اور انس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ نے اپنی ران کو ۔۔۔۔۔تھی۔ ابوعبداللہ کہتا ہے انس کی حدیث قوی و سند ہے اور جرھد کی روایت میں احتیاط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ ہم اختلاف سے نکل جاتے ہیں ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ جب عثمان آئے تو نبی کریمؐ نے اپنے گھٹنے چھپا لئے اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ نے نبی کریمؐ پر وحی نازل فرمائی اور آپ کی ران میری ران پر تھی پس وہ مجھ پر بھاری ہو گئی یہاں تک کہ میں خوف کرنے لگا کہ میری ران کی ہڈی ٹوٹ جائیگی۔
حدیث۲۳
انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے خیبر پر چڑھائی کی تو ہم نے صبح کی نماز خیبر کے قریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھی پھر نبی کریمؐ سوار ہوئے اور ابو طلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ابو طلحہ کا ردیف تھا پس نبی کریمؐ نے خیبر کی جگہوں میں اپنا گھوڑا دوڑایا۔ اور میرا گھٹنا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے مَس کرتا تھا پھر آپؐ نے اپنی ران سے تہہ بند اٹھا دیا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھنے لگا۔ پھر جب آپ بستی کے اندر داخل ہو گئے تو آپ نے فرمایا
خربت خیبر انا اذانزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین
اسے تین بار فرمایا انس کہتے ہیں کہ بستی کے لوگ اپنے کاروبار کے لئے نکلے تو انہوں نے کہا محمدؐ آ گئے ہیں۔ عبدالعزیز کہتے ہیں ہمارے بعض دوستوں نے کہا ہے کہ (انہوں نے یہ بھی کہا) اور خمیس یعنی لشکر بھی آ گیا پس ہم نے خیبر کو بزور شمشیر فتح کر لیا۔ پھر قیدی جمع کئے گئے تو دحیہ آئے اور انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی دے دیجئے۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور کوئی لونڈی لے لو انہوں نے صفیہ بنت حي کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کے یا نبی اللہ آپ نے صفیہ بنت حي قریضہ اور نضیر کی سردار کو دحیہ کو دے دیا جو سوا آپ کے کسی اور کے قابل نہیں ہے۔ آپؐ نے حکم دیا کہ ان کو معہ صفیہ کے لے کر آؤ۔ پس جب نبی کریمؐ نے صفیہ کو دیکھا تو دحیہ کو کہا کہ (اچھا) ان کے علاوہ کوئی اور لونڈی لے لو۔ انس کہتے ہیں پھر نبی کریمؐ نے صفیہ کو آزاد کر دیا۔ اور ان سے نکاح کر لیا۔
 
Top