• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

دلائل صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دلائل صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

(حصہ اوّل )

پہلی دلیل

(یونس:۱۷)کہ میں نے تم میں دعویٰ نبوت سے قبل ایک لمبی عمر گزاری ہے ۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔ اگر میں پہلے جھوٹ بولتا تھا تو اب بھی بولتا ہوں لیکن اگر میری چالیس سالہ زندگی پاک اور بے عیب ہے تو یقینا آج میرا دعویٰ الہام و نبوت بھی حق ہے ۔ ؂

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است

حضر ت قطب الاولیاء ابو اسحق ابراہیم بن شہریار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :۔

’’جوشخص جوانی میں اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوگا وہ بڑھاپے میں بھی اﷲ ہی کاتابعدار رہے گا۔ ‘‘

(تذکرۃ الاولیاء مصنفہ حضرت شیخ فرید الدین عطار ؒ باب ۷۶ حالات ابو اسحق ابراہیم بن شہریار مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز لاہو ر۔ و ظہیر الاصفیاء ترجمہ اردو تذکرۃ الاولیاء شائع کردہ حاجی چراغ الدین سراج الدین صفحہ ۴۲۷)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جو صاحبانِ حق کے پیشرو اور امام ہوئے اور محبانِ خدا کے پیشوا ۔ جب تک برہانِ حق اور رسالت نے ان پر ظہور نہ پایا اور وحی نازل نہ ہوتی تب تک نیک نام رہے اور جب دوستی کی خلعت نے سرِ مبارک پر زیب دیا تو خلقت نے ملامت سے ان پر زبان درازی کیبعض نے کاہن کہہ دیا اور بعض نے شاعر اور بعض نے دیوانہ اور بعض نے جھوٹ کا الزام دیا ۔ ایسی ہی اور گستاخی جائز رکھی ۔‘‘

(کشف المحجوب باب چہارم ’’ملامت کے بیان میں‘‘ مترجم اردو شائع کردہ شیخ الٰہی بخش جلال دین لاہوری ۱۳۲۲ء صفحہ۶۵، ۶۶)

چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو اس سے قبل ابو لہب اور دوسرے کافر یہی کہتے تھے مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا (بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء و انذر عشیرتک الاقربین)کہ ہم نے آپ سے سوائے سچ کے اور کبھی کچھ تجربہ نہیں کیا مگر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا دعویٰ بیان فرمایا۔ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ کہ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہوں اور یہ کہ ایک خطرناک عذاب آنے والا ہے ۔ تو انہی مصدقین نے انکار کیا اور ابو لہب نے تو تَبًّا لَکَبھی کہہ دیا کہ آپ کو ہلاکت ہو ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہی لوگ جو پہلے مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًاکہا کرتے تھے بعد از دعویٰ نبوت جھوٹا کہنے لگ گئے۔ (ص:۵)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہ صرف جادو گرہیں بلکہ نعوذ باﷲ کذاب بھی ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ نبی کی قبل از دعویٰ زندگی دوست و دشمن کے تجربہ کے رو سے پاک ہوتی ہے۔ گو پاک تو اس کی دعویٰ نبوت کے بعد کی زندگی بھی ہوتی ہے مگر چونکہ دعویٰ نبوت کی وجہ سے لوگ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس لئے وہ اس پر طرح طرح کے اعتراض ’’دشمن بات کرے انہونی‘‘ کے مطابق کیا کرتے ہیں ۔ پس اگر کسی مدعی نبوت کی صداقت پرکھنی ہو توا س کی دعویٰ سے قبل کی زندگی پر نظر ڈالنی چاہیے۔

حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

’’اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۴)

اس چیلنج کو شائع ہوئے ۵۲ سال گزر گئیمگر آج تک کسی شخص کو اس کے قبول کرنے کی جرأتنہیں ہوئی۔ ہاں مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن کے زمانہ سے جانتا تھا۔ یہ شہادت دی۔

’’ مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے(جب ہم قطبی و شرح ملّا پڑھتے تھے )ہمارے ہم مکتب ۔‘‘( اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر ۶از مولوی محمد حسین بٹالوی)

’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار و صداقت شعار ہیں۔‘‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ نمبر ۹)

’’اب ہم اس(براہین احمدیہ ) پر اپنی رائے نہایت مختصر اور بے مبالغہ الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی……اور اس کا مؤلف (حضرت مسیح موعودؑ) بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۶)

اعتراض:۔مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ حیاتِ مسیح کا عقیدہ مشرکانہ عقیدہ ہے اور خود بارہ سال حیات مسیح کے قائل رہے۔

جواب(۱)حد ہمیشہ اتمام حجت کے بعد لگتی ہے جب تک نبی ایک بات کو ممنوع قرار نہیں دے دیتا اس وقت تک اس کی خلاف ورزی کرنے والا کسی فتویٰ کے ماتحت نہیں آتا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قَدْ اَفْلَحَ وَ اَبِیْہِ اِنْ صَدَقَ(مسلم کتاب الایمان باب بیان الصلوات التی ھی احد ارکان الاسلام) کہ اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچ بولا ہے تو وہ کامیاب ہو گیا۔ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’باپ‘‘ کی قسم وَاَبِیْہِ کے الفاط میں کھائی ہے مگر دوسری جگہ فرمایا:۔

(۲)مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِاللّٰہِ فَقَدْ اَشْرَکَ (ترمذی ابواب الایمان والنذور باب ما جاء فی عن من حلف بغیراﷲ و مشکوٰۃ کتاب الایمان والنذور باب الایمان و النذور)

جو خدا کے سوا کسی کی قسم کھائے وہ مشرک ہو جاتا ہے۔

چنانچہ مشکوٰۃ مجتبائی کتاب الاطعمہ باب اکل المضطرصفحہ ۳۷۰ میں ابو داؤد کی یہ روایت درج ہے :۔

’’قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاکَ وَ اَبِیْ الجُوْعُ‘‘ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے باپ کی قسم یہ بھوک ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے باپ کی قسم کھائی ہے اور اس کے متعلق حضرت ملّا علی قاری فرماتے ہیں:۔ ’’و قولہ و ابی الجوع قِیْلَ لَعَلَّ ھٰذَا الْحَلْفَ قَبْلَ النَّھْیِ عَنِ الْقَسْمِ بِالْاٰبَاءِ‘‘(مرقاۃ برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی صفحہ ۳۷۰) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ’’میرے باپ کی قسم‘‘ کہا گیا ہے کہ شاید باپوں کی قسم کی ممانعت سے قبل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ قسم اٹھائی ہے یا عادۃً آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے نکل گئی ہے۔

(۳) فَقَدْ لَبِثْتُ والی آیت میں تو چالیس سالہ قبل از دعویٰ زندگی میں جھوٹ اور فسق و فجور سے پا کیزگی کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے ۔ورنہ عقائد تو انبیاء کو خدا تعالیٰ کی وحی ہی آکر مکمل طور پر بتاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بھی اپنے چیلنج میں فرمایا :۔

’’ تم کوئی عیب، افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ ‘‘

(۴) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا۔ مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذِبَ(بخاری کتا ب التفسیر تفسیر سورۃ النساء با ب قولہ اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا الخ ) کہ جو کہے کہ میں یونس بن متی سے بڑا ہوں وہ جھوٹ بولتا ہے

پھر فرمایا ’’لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی ‘‘(صحیح بخاری کتاب الانبیاء کتاب خصومات باب مایذکر فی الاشخاص) کہ مجھ کو موسیٰ ؑ سے افضل نہ کہو۔ مگر بعد میں فرمایا۔’’اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ لَا فَخْرَ‘‘ کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ بطور فخر نہیں بلکہ اظہار واقعہ ہے ۔ پھر فرمایا ’’اَنَا اِمَامُ النَّبِیِّیْنَ وَاَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘کہ میں تمام نبیوں کا امام اور رہبر ہوں۔ نیز دیکھو مسلم جلد ۲ صفحہ ۳۰۷ جہاں لکھا ہے کہ کسی شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا۔ یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ! تو آپ نے فرمایا۔ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کہ میں تمام انسانوں سے افضل نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سب انسانوں سے افضل ہیں ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
(۵)آج اگر کوئی مسلما ن بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تو اس پر یہودی اور کافر ہونے کا فتوی لگ جائے مگر خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نبوت کے بعد ۱۴سال اور ۷مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب التوجہ نحو القبلہ)

’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی نَحْوَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ سِتَّۃَ عَشَرَ شَھْرًا‘‘

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمبیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ سولہ یا سترہ مہینے (ہجرت کے بعد)اس تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو خدا تعالیٰ نے سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ کہہ کر بیوقوف قرار دیا ہے۔

نوٹ:۔ بعض مخالف مولوی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعض اس قسم کی عبارات پیش کر دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ میں دعویٰ سے قبل گمنام تھا۔ مجھے کوئی نہ جانتا تھا وغیرہ وغیرہ اور ان عبارات سے یہ دھوکا دیتے ہیں کہ جب آپ کو ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا پھر آپ کی پہلی زندگی پر اعترا ض کون کرے؟ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کر نی چاہیے:۔

’’اور میں اپنے باپ کی موت کے بعد محروموں کی طرح ہوگیا۔ اور میرے پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ بجز چند گاؤں کے لوگوں کے اور کوئی مجھ کو نہیں جانتا تھا۔ یا کچھ ارد گرد کے دیہات کے لوگ تھے کہ روشناس تھے اور میری یہ حالت تھی کہ اگر میں کبھی سفر سے اپنے گاؤں میں آتا تو کوئی مجھے نہ پوچھتا کہ تو کہاں سے آیا ہے اور اگر میں کسی مکان میں اترتا تو کوئی سوال نہ کرتا کہ تو کہاں اترا ہے اور میں ا س گمنامی اور اس حال کو بہت اچھا جانتا تھا اور شہرت اور عزت اور اقبال سے پرہیز کرتا تھا……پھر میرے رب نے مجھے عزت اور برگزیدگی کے گھر کی طر ف کھینچا اور مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ مجھے مسیح موعود بنائے گا اور اپنے عہد مجھ میں پورے کرے گا اور میں اس بات کو دوست رکھتا تھا کہ گمنامی کے گو شہ میں چھوڑا جاؤں ‘‘ (ریویو اردو فروری ۱۹۰۳ء جلد ۲ نمبر ۲ صفحہ۵۷، ۵۸)

۲۔اگر معترض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل از دعویٰ زندگی کو نہیں جانتا تو مولوی محمد حسین بٹالوی تو جانتا تھا جس نے لکھا کہ:۔

’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات اور خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین میں سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل کے (جب ہم قطبی وشرح ملّا پڑھا کرتے تھے ) ہمارے ہم مکتب بھی ‘‘ ( اشاعۃ السنہ جلد ۷ نمبر ۶)

۳۔پھر اسی طرح مولوی سراج الدین صاحب (جو مولوی ظفر علی صاحب آف ’’ زمیندار ‘‘ کے والد تھے ) نے شہادت دی کہ:۔

’’ مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء و ۱۸۶۱ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۲ ،۲۳ سال کی ہو گی۔ ہم چشم دید شہادت سے کہتیہیں کہ جوانی میں نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ ‘‘ (زمیندار ۸؍ جون ۱۹۰۸ء)

۴۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل آریوں کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو وہ بھی یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کی قبل از دعویٰ زندگی کو نہیں جانتے اس پر اعتراض کیا کریں؟ تو اس کا بھی یہی جواب ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو ابو جہل اور ابو لہب تو جانتے تھے۔ ہم جب ان کی گواہی سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا بے عیب اور پاک ہونا ثابت کر سکتے ہیں تو صداقت واضح ہے۔

بعینہٖ اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت ا ٓ پ کی قبل از دعویٰ زندگی کو دیکھنے والوں کی شہادت سے ثابت ہوتی ہے۔

نوٹ:۔ بعض مولوی جب کوئی جواب نہیں دے سکتے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبل از دعویٰ زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ قبل از دعویٰ زندگی کا پاک ہونا دلیل صداقت نہیں کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبو ت نہیں ہو سکتا۔ شاید درپردہ کوئی اور اعمال ہوں ۔

الجواب:۔(۱) یاد رکھناچاہیے کہ یہ محض دھوکہ ہے اور اس کا ازالہ خود آیت (یونس:۱۷)میں موجود ہے ۔ یعنی یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص درحقیقت پاک نہ ہو ’’بلکہ در پردہ کوئی اور اعمال ہوں ‘‘ اور کچھ عرصہ تک وہ لوگوں کی نظر میں پاک باز بنا رہے۔ جیسا کہ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی ٔ نبوت ہو اور در حقیقت اس کی زندگی ناپاک ہو اور وہ ایک لمبے عرصہ تک جو چالیس برس تک ممتد ہو پاک باز بنا رہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی آیت میں یوں نہیں فرمایا کہ ’’ ‘‘کہ میں تم میں رہاہوں۔بلکہ فرمایا یعنی میں تم میں ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں۔ پس لمبے عرصہ () تک اس کا پاک باز ہونا یقینا حقیقی راست بازی کی دلیل ہے۔

(۲)ہم نے یہ نہیں کہا کہ محض عمدہ چال چلن حقیقی پاکیزگی پر گواہ ہے ۔اور نہ ہم نے یہ کہا کہ ظاہری راست بازی کے لئے صرف یہ دعویٰ کافی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام پرچلتاہے۔بلکہ ہماری بحث تو ایک’’ مدعی الہام ‘‘ کی قبل از دعویٰ زندگی کی پاکیزگی کے متعلق ہے۔ہم نے یہ دلیل نہیں دی کہ جس شخص کو عام لوگ راست باز کہیں وہ ضرور حقیقی طور پر سچا ہوتا ہے۔ بلکہ ہم نے تو یہ کہا ہے کہ مدعی ٔ نبوت کی دعویٰ سے پہلی زندگی پر دشمن سے دشمن کو بھی کوئی صحیح اعتراض کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ چنانچہ یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاہے کہ آپ کے مخالفین کو بھی حضورؑ کے دعویٰ سے پہلی زندگی پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ پس سوال عام راستباز کا نہیں بلکہ مدعی ٔ وحی و الہام کی قبل از دعویٰ پاکیزہ زندگی کا ہے۔

۳۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقی راستباز کے متعلق وہ عبارت تحریر نہیں فرمائی بلکہ ’’ظاہری راستباز‘‘ کے متعلق تحریر فرمائی ہے جیسا کہ اس کا پہلا ہی جملہ یہ ہے۔’’ ایک ظاہری راستباز کے لئے۔‘‘

(۴) اگر بغرض بحث اس عبارت کو مدعی ٔ نبوت کے متعلق بھی تسلیم کر لیا جائے تو حضور ؑ نے تحریر فرمایا ہے کہ محض دعویٰ پا کیزگی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کوئی امتیازی نشان بھی ہونا چاہیے سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کے ثبوت میں ہم محض حضرت اقدس کا دعویٰ ہی پیش نہیں کرتے بلکہ آپ کے اشد ترین دشمنوں کی شہادت کے علاوہ آسمانی نشان بھی حضورؑ کے اس دعویٰ کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً پاکیزہ زندگی بسر کرنے میں تو خود انسان کا بھی دخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی زندگی کے بڑھانے یا گھٹانے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا۔پس’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘ والے معیار کے مطابق ( جس کو ہم نے دوسری دلیل کے ضمن میں تفصیل سے بیان کیاہے)حضرت اقدس علیہ السلام کا بعد از دعویٰ وحی و الہام ۲۳ برس سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہنا ایک یقیناامتیازی نشان ہے۔ نیز اس کے علاوہ وہ لاکھوں نشانات بھی جو حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ پراﷲ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہماری تائید میں ہیں۔ پس حضرت اقدسؑ کے نزدیک حضورؑکی قبل از دعویٰ زندگی کا پاکیزہ ہونا یقینا دلیل صداقت ہے۔ چنانچہ حضور خود تحریر فرماتے ہیں:۔

’’یہ پاک زندگی جو ہم کو ملی ہے یہ صرف ہمارے منہ کی لاف و گزاف نہیں اس پر آسمانی گواہیاں ہیں۔‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ۳۴۲)

پس ؂

صوفیاء اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ آسماں سے آگئی میری شہادت باربار

( المسیح الموعود)

دوسری دلیل

(الحاقہ: ۴۵ تا ۴۷)کہ اگر یہ کوئی جھوٹا الہام بنا کر میری طرف منسوب کرتا (اور کہتا کہ یہ الہام مجھے خدا کی طرف سے ہوا ہے ) تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑکر اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔

گویا اگر کوئی شخص جھوٹا الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے تو وہ قتل ہو جاتا اور چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمجو صداقت کی کسوٹی ہیں۔ آپ ۲۳ سال دعویٰ وحی و الہام کے بعد زندہ رہے اس لیے کوئی جھوٹا مدعی ٔ الہام و وحی نبوت اتنا عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔جتنا عرصہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رہے ۔

۱۔ قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کے ماتحت بدلیل استقراء ہمارا دعویٰ ہے کہ آج تک جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی جھوٹے مدعی ٔ نبوت و الہام کو دعویٰ کے بعد ۲۳ سال کی مہلت نہیں ملی۔چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اربعین میں ۵۰۰ روپیہ انعام کا وعدہ بھی کیا ہے مگر آج تک کسی کو جرأت نہیں ہوئی۔توریت میں بھی یہی لکھا ہے کہ ’’ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا ‘‘ (دیکھو مضمون صداقت حضرت مسیح موعودؑ از روئے بائبل)

۲۔شرح عقائدنسفی میں بھی (جو اہل سنت و الجماعت کی معتبر کتابوں میں سے ہے) لکھا ہے:۔

فَاِنَّ الْعَقْلَ یَجْزِمُ بِاِمْتِنَاعِ اِجْتِمَاعِ ھٰذِہِ الْاُمُوْرِفِیْ غَیْرِالْاَنْبِیَآءِ وَاَنْ یَّجْمَعَ اللّٰہُ تَعَالٰی ھٰذِہِ الْکَمَالَاتِ فِیْ حَقِّ مَنْ یَّعْلَمُ اَنَّہٗ یَفْتَرِیْ عَلَیْہِ ثُمَّ یُمْہِلُہٗ ثَلَاثًا وَّعِشْرِیْنَ سَنَۃً(شرح عقائد نسفی بالنبراس ازعلامہ عبدالعزیزپرہاروی مطبوعہ میرٹھ مبحث النبوات صفحہ۱۰۰)کہ عقل اس بات کو ناممکن قرار دیتی ہے کہ یہ باتیں ایک غیر نبی میں جمع ہو جائیں۔ اس شخص کے حق میں جس کے متعلق خداتعالیٰ جانتا ہے کہ وہ خدا پر افتراء کرتا ہے پھراس کو ۲۳ سال کی مہلت دے ۔

۳۔ پھر شرح عقائد نسفی کی شرح نبراس میں لکھا ہے:۔

فَاِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ بُعِثَ وَعُمْرُہٗ اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً وَتُوُفِّیْ وَ عُمْرُہٗ ثَلَاثَۃَ وَ سِتُّوْنَ سَنَۃً (شرح عقائد نسفی شرح نبراس ازعلامہ عبدالعزیزپرہاروی مطبوعہ میرٹھ صفحہ ۴۴۴)۲۳ سال کی میعاد ہم نے اس لیے بیان کی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمچالیس کی عمر میں نبی ہوئے اور ۶۳ سال کی عمر میں حضورؐ نے وفات پائی۔

۴۔ نبراس میں علامہ عبدالعزیز پرہاروی فرماتے ہیں:۔

’’ وَقَدْ اِدَّعٰی بَعْضُ الْکَذّٰبِیْنَ النُّبُوَّۃَ کَمُسَیْلَمَۃِ الْیَمَامِیْ وَالْاَسْوَدِ الْعَنْسِیْ وَ سَجَّاحِ الْکَاھِنَۃِ فَقُتِلَ بَعْضُھُمْ وَتَابَ بَعْضُھُمْ وَبِالْجُمْلَۃِ لَمْ یَنْتَظِمْ اَمْرُالْکَاذِبِ فِی النُّبُوَّۃِ اِلَّا اَیَّامًا مَعْدُوْدَاتٍ۔‘‘ (شرح عقائد نسفی شرح نبراس ازعلامہ عبدالعزیزپرہاروی نبراس صفحہ ۴۴۴ مطبوعہ میرٹھ)

کہ بعض جھوٹوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ جیسا کہ مسیلمہ یمامی، اسود عنسی وغیرہ نے۔ پس ان میں سے بعض قتل ہو گئے اور باقیوں نے توبہ کر لی اور نتیجہ یہ ہے کہ جھوٹے مدعی ٔ نبوت کا کام چند دن سے زیادہ نہیں چلتا۔

۵۔امام ابن قیم ایک عیسائی سے مناظرہ کے دوران میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں:۔

وَھُوَ مُسْتَمِرٌّ فِی الْاِفْتِرَاءِ عَلَیْہِ ثَلَاثَۃً وَ عِشْرِیْنَ سَنَۃً وَھُوَ مَعَ ذَالِکَ یُؤَیِّدُہٗ (زاد المعاد جلد۱ صفحہ ۵۰۰ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مدعی خدا پر ۲۳ سال سے افتراء کرتا ہے اور پھر بھی خدااس کو ہلاک نہیں کرتا بلکہ ا س کی تائید کرتا ہے۔ وہ پھر کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۶۔ پھر فرماتے ہیں:۔ نَحْنُ لَا نُنْکِرُ اَنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْکٰذِبِیْنَ قَامَ فِی الْوُجُوْدِ وَ ظَھَرَتْ لَہٗ شَوْکَتُہٗ وَلٰکِنْ لَّمْ یَتِمْ لَہٗ اَمْرُہٗ وَلَمْ تَطُلْ مُدَّتُہٗ بَلْ سَلَّطَ عَلَیْہِ رُسُلَہٗ……فَمَحَقُوْا اَثَرَہٗ وَقَطَعُوْا دَابِرَہٗ وَاسْتَاْصَلُوْا شَافَتَہٗ ھٰذِہٖ سُنَّتَہٗ فِیْ عِبَادِہٖ مُنْذُ قَامَتِ الدُّنْیَا وَاِلٰی اَنْ یَّرِثَ الْاَرْضُ وَمَنْ عَلَیْھَا۔(زاد المعاد جلد ۱ صفحہ ۵۰۰زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)

’’کہ ہم اس امر کا انکار نہیں کرتے کہ بہت سے جھوٹے مدعیان نبوت کھڑے ہوئے اور ان کی شان و شوکت بھی ظاہر ہوئی مگر ان کا مقصد کبھی پورا نہ ہوا۔ اور نہ ان کو لمبا عرصہ مہلت ملی۔ بلکہ خدا نے اپنے فرشتے ان پر مسلط کر دیئے جنہوں نے ان کے آثار مٹا دیئے اور ان کی جڑیں اکھاڑ دیں اور بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا۔ یہی خداکی اپنے بندوں میں جب سے دنیا بنی اورجب تک دنیا موجود رہے گی سنت ہے۔

۷۔ مفسرین:۔ علامہ فخرالدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:۔

ہٰذَا ذِکْرُہٗ عَلٰی سَبِیْلِ التَّمْثِیْلِ بِمَا یَفْعَلُہٗ الْمُلُوْکُ بِمَنْ یَتَکَذَّبُ عَلَیْہِمْ فَاِنَّہُمْ لَا یُمْھِلُوْنَہٗ بَلْ یَضْرِبُوْنَ رُقْبَتَہٗ فِی الْحَالِ۔‘‘ ( جلد ۸ صفحہ ۲۹۱زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)

کہ یہ جو فرمایا کہ اگر یہ جھوٹا الہام بناتا تو ہم اس کی رگ جان کاٹ دیتے یہ بطور مثال ذکر کیا ہے جس طرح بادشاہ اس شخص کو جو جھوٹ موٹ اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرے مہلت نہیں دیتے۔

۸۔ پھر فرماتے ہیں:۔ ھٰذَا ھُوَالْوَاجِبُ فِیْ حِکْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی لِئَلَّا یَشْتَبِہَ الصَّادِقُ بِالْکَاذِبِ۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۸ صفحہ ۲۹۱زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹)

کہ خدا کی حکمت کے لئے یہی ضروری ہے (کہ جھوٹے کو جلدی برباد کر دیا جائے )تاکہ صادق کے ساتھ کاذب بھی نہ مل جائے۔(مشتبہ نہ ہوجائے)

۹۔امام جعفر طبری تفسیر ابن جریر زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر۴۴تا ۴۹ میں لکھتے ہیں:۔

’’اِنَّہٗ کَانَ یُعَاجِلُہٗ بِالْعُقُوْبَۃِ وَلَا یُؤَخِّرُہٗ بِھَا۔‘‘

کہ خدا تعالیٰ جھوٹے مدعی ٔ نبوت و الہام کو فوراً سزا دیتا ہے اور قطعاً تاخیر نہیں کرتا۔

۱۰۔مولوی ثنا ء اﷲ :۔الف۔’’نظام عالم میں جہاں اور قوانین الٰہی ہیں وہاں یہ بھی ہیکہ کاذب مدعی ٔ نبوت کو سر سبزینہیں ہوتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔‘‘(مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ۱۷)

ب۔ واقعات گذشتہ سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ خدا نے کبھی کسی جھوٹے نبی کو سرسبزی نہیں دکھائی۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں باوجود غیر متناہی مذاہب ہونے کے جھوٹے نبی کی امت کا ثبوتمخالف بھی نہیں بتلاسکتے۔……مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے…… دعویٰ نبوت کئے اور خدا پر کیسے کیسے جھوٹ باندھے، لیکن آخر کار خدا کے زبردست قانون کے نیچے آکر کچلے گئے ……تھوڑے دنوں میں بہت کچھ ترقی کر چکے تھے۔ مگر تابکے۔‘‘ ( مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ۱۷)

ج۔’’دعویٰ نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے۔ جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا۔‘‘ ( ایضاً حاشیہ صفحہ۱۷)

۱۱۔ تفسیر روح البیان جلد۴ صفحہ ۶۲ ۴ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا۴۸ پر ہے:۔

’’فِی الْاٰیَۃِ تَنْبِیْہٌ اَنَّ النَّبِیَّ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَوْ قَالَ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہٖ شَیْئًا اَوْ زَادَ اَوْ نَقَصَ حَرْفًا وَاحِدًا عَلٰی مَا اُوْحِیَ اِلَیْہِ لَعَاقَبَہُ اللّٰہُ وَھُوَ اَکْرَمُ النَّاسِ عَلَیْہِ فَمَا ظَنُّکَ بِغَیْرِہٖ‘‘

کہ اس آیت میں تنبیہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے پاس سے کوئی الہام بنا لیتے یا جو وحی خدا کی طرف سے ناز ل ہوئی اس میں ایک حرف بھی بڑھاتے یا کم کر دیتے تو خدا تعالیٰ آپ کو سزا دیتا۔حالانکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خدا کی نظر میں سب دنیا سے معززہیں۔ پھر اگر کوئی دوسرا ( اس طرح پر) افتراء کرے تو اس کا کیا حال ہو ؟

۱۲۔ یہی مضمون تفسیر کشاف زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۸و ابن کثیر جلد ۱۰ صفحہ ا۷ بر حاشیہ فتح البیان و فتح البیان جلد۱۰ صفحہ ۲۷ و جلالین مجتبائی صفحہ ۴۷۰ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹و شہاب علیٰ البیضاوی جلد ۸ صفحہ ۲۴۱ زیرآیت ……الخ سورۃ الحاقۃ آیت نمبر ۴۴تا ۴۹ و السراج المنیرمصنفہ علامہ الخطیب البغدادی جلد ۴ صفحہ۶۳۶ پر بھی ہے۔

نوٹ نمبر ۱:۔بعضغیر احمدی مولوی ہمارے استدلال سے تنگ آکر کہا کرتے ہیں ’’ لَوْ‘‘ حرف شرط جبکسی جملہ میں مستعمل ہو تو اس کی جزا فوراًاسی وقت محقق ہو جایا کرتی ہے پس ’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘والی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ نبی کوئی جھوٹا الہام بناتاتو فوراًاسی وقت قتل کر دیا جاتا۔ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قاعدہ ’’ لَوْ‘‘ کے متعلق بالکل من گھڑتہے۔ کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ نیز قرآن مجید میں ہے۔ (الکہف: ۱۱۰) کہ اگر تما م سمندر خدا تعالیٰ کے کلمات کو لکھنے کے لئے سیاہی بن جائیں تو و ہ سمندر ختم ہو جائیں مگر خدا کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سمندر لکھنا شروع کرنے کے ساتھ ہی یکدم ختم ہو جاتے یا یہ کہ باری باری کر کے آہستہ آہستہ سب ختم ہو جاتے۔ جوں جوں خدا کے کلمات احاطہ ٔ تحریر میں لائے جاتے توں توں سیاہی بھی ختم ہو جاتی۔

نوٹ نمبر۲:۔بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید کئے گئے تھے۔ ان کو ۲۳ برس کی مہلت بعد از دعویٰ نہ ملی تھی۔

جواب:۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہیدکئے گئے تھے اور یہی جماعت احمدیہ کا مذہب ہے، لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بھی تو تحریر فرمایا ہے:۔

(۱)’’عادت اﷲ اِس طرح پر ہے کہ اوّل اپنے نبیوں اور مُرسلوں کو اس قدر مہلت دیتا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصہ میں اُنکا نام پھیل جاتا ہے اور اُن کے دعوےٰ سے لوگ مطلع ہو جاتے ہیں اور پھر آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ لوگوں پر اتمام حُجت کر دیتا ہے‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۷۰)

پس یہ تو درست ہے کہ یحییٰ علیہ السلام شہید ہوئے، لیکنحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہاں تحریر فرمایا ہیکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دعویٰ کے بعد ۲۳ برس گزرنے سے پہلے ہی شہید کئے گئے تھے؟ پس جبتک کوئی صریح حوالہ حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب سے پیش نہ کرو اس وقت تک ۲۳ سالہ معیار کے جواب میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا نام نہ لو۔

(۲) اگر ایسا کوئی حوالہ ہو بھی (جس کا ہونا یقینا ناممکن ہے۔ مگر بغرض بحث) تو بھی ہماری دلیل پر کوئی اثر نہیں۔کیونکہ ہمارا دعویٰ تو یہ ہے کہ جھوٹا مدعی ٔ نبوت بعد از دعویٰ الہام و وحی ۲۳ برس کی مہلت نہیں پاسکتا۔ اور اگر کوئی مدعی ٔ نبوت بعد از دعویٰ الہام و وحی۲۳ برس تک زندہ رہے تو یقینا وہ سچا ہے لیکن اس کا عکس کلیّہ نہیں۔

اس اعتراض کا مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نیخوب جواب دیا ہے۔

’’ کاذب مدعی ٔ نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔‘‘

اس پر مولوی صاحب حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔

’’اس سے یہ نہ کوئی سمجھے کہ جو نبی قتل ہوا وہ جھوٹا ہے بلکہ ان میں عموم و خصوص مطلق ہے۔ یعنی یہ ایسا مطلب ہے جیسا کوئی کہے کہ جو شخص زہر کھاتا ہے مر جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ہر مرنے والے نے زہر ہی کھائی ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جو کوئی زہر کھائے گا وہ ضرور مرے گا۔اور اگر اس کے سوا بھی کوئی مرے تو ہو سکتا ہے گو اس نے زہر نہ کھائی ہو۔ یہی تمثیل ہے کہ دعویٰ نبوتِ کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہو گا اگر اس کے سوا بھی کوئی ہلاک ہو تو ممکن ہے۔ ہاں یہ نہ ہو گا کہ زہر کھانے والا بچ رہے۔‘‘

(مقدمہ تفسیر ثنائی صفحہ ۱۷ حا شیہ)

سچ ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

واہ رے جو ش جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ

جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار

ایک وہم اوراس کا ازالہ

بعض لوگ اس کے جواب میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت (یونس :۷۰،۷۱)سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتری کو دنیا میں فائدہ ملتا ہے یعنی اس کو لمبی مہلت ملتی ہے۔( تلخیص از محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۳۰۳،۳۰۴ طبع۱۹۵۰ء ایڈیشن دوم)

جواب:۔ سے مراد لمبی مہلت نہیں بلکہ تھوڑی مہلت ہے۔ چنانچہ خود تم نے اگلے ہی صفحے پر قرآن مجید کی ایک دوسری آیت اس مقصد کے لئے نقل کر کے خود ہی اس کا ترجمہ کرکے اسے واضح کر دیا ہے:۔

( النحل: ۱۱۷،۱۱۸)

تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے۔انہیں نفع تھوڑا ہے اور عذاب درد ناک۔‘‘

غرضیکہ قرآن مجید نے مفتری کے لئے لمبی مہلت کہیں بھی تسلیم نہیں کی جو ۲۳ سال تک دراز ہو جائے ہاں تھوڑی مہلت خواہ وہ ایک سال ہو یا دو یا پانچ سال یعنی ہماری بیان کردہ انتہائی مہلت سے کم ہو تو اس سے ہمیں انکار نہیں۔ اگر مفتری کو اتنی لمبی مہلت ملے جتنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ملی تو آیت ’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘ کی دلیل باطل ہو جاتی ہے کیونکہ مخالف بآسانی کہہ سکے گا کہ فلاں مدعی ٔ نبوت بھی باوجود جھوٹا ہونے کے ’’تَقَوَّلَ‘‘ کرتا رہا اور ۲۳ سال تک خدا تعالیٰ نے اس کی قطع و تین نہ کی ۔تو حضو رؑکا ۲۳ سال تک زندہ رہنا کس طرح سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اور ’’عدم تقول‘‘ پر دلیل ہو سکتا ہے؟

یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے یہ آیت خاص ہے یعنی اگر باوجود اتنی بڑی نعمت کے آپ جھوٹا الہام بناتے تو ہلاک کئے جاتے۔ یہ توقابل قبول نہیں۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کا کوئی نبی بھی(خواہ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہزاروں حصہ کم انعام الٰہی ہوا ہو ) اور خواہ وہ کتنے ہی کم درجہ کا ہو۔ وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کر سکے۔ یعنی اپنے پاس سے الہام گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر سکے۔ چہ جائیکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق اس کا امکان تسلیم کیا جائے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پس جب یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا کا کوئی سچا نبی جھوٹا الہام بنا ئے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگر فلاں سچا نبی جھوٹا الہام بنائے تو ہم اسے ہلاک کر دیں اور پھر اس کو اس امر کی دلیل کے طور پر پیشکر لیا کہ یہ سچا ہے۔

اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا ابتداء سے یہ قانون ہے کہ وہ جھوٹا دعویٰ نبوت کرنے والوں یا اپنے پاس سے جھوٹا الہام و وحی گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کرنے والوں کو۲۳ سالسے کم عرصہ میں ہی تباہ و برباد کر دیا کرتا ہے اور اس مسئلہ پر تورات، انجیل اور قرآن مجید متفق ہیں۔

پس خدا تعالیٰ نے یہی دلیل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کی دی ہے کہ دیکھو جب ہمارا قانون جاری و ساری ہے اور تم کو بھی مسلّم ہے کہ جھوٹا نبی تباہ و برباد و ہلاک کیا جاتاہے تو پھر اگر یہ نبی جھوٹا ہوتا اور الہام جھوٹا بنا کر میری طرف منسوب کرتا تو یقینا ہلاک ہو جاتا۔

پس اس کا۲۳ سال کی مہلت پانا اور اس عرصہ میں اس کا ہلاک نہ کیا جانا صریح طور پر اس کی صداقت کو ثابت کرتاہے۔

باقی رہا سورۃ الانعام:۹۴ کی آیت الخ پیش کرکے یہ ثابتکرنا چاہتے ہیں کہ افتراء علی اﷲ کرنے والوں کو اس جہان میں سزانہیں ملے گی ۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمہاری عربی زبان سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ عربی میں لفظ ’’موت‘‘ میں ’’قتل‘‘ اور’’ توفی‘‘ دونوں شامل ہوتے ہیں اور موت کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ مفتری قتل نہیں ہو سکتا یا اس کا قتل ہونا یا ہلاک ہونا ضروری نہیں۔ باطلہے۔

ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری تائید اور بھی واضح الفاظ میں فرما دی ہے۔ …… (بنی اسرائیل: ۷۴ تا ۷۶)یعنی کافر تجھے اس وحی سے جو ہم نے تجھ پر نازل کی برگشتہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ تو ہم پر افتراء کر کے کوئی اور وحی بنا لے۔ اور اگر تُو ایسا کرے تو وہ تجھ کو اپنا دوست بنا لیں۔ اگر ہم نے تجھ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو تُو ان کے داؤ میں آ جاتا، لیکن اس صورت میں ہم تجھے دنیا و آخرت میں دُگنا عذاب چکھاتے اور کوئی شخص بھی تجھے ہم سے نہ بچاسکتا ۔

(ترجمہ کا آخری حصہ تو مؤلف محمدیہ پاکٹ بُک کو بھی مسلم ہے دیکھو صفحہ ۳۰۲ ایڈیشن دوم طبع۱۹۵۰ء)

دیکھو اس آیت میں بھی صاف الفاظ میں بتا دیا کہ اگر نبی اپنے پا س سے کوئی وحی بناتا تو اسی دنیا میں عذابِ الٰہی میں مبتلاکیا جاتا علاوہ اگلے جہان کے عذا ب کے۔ یہ کہناکہ یہ آیت بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے۔ خوش فہمی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی دوسرا نبی کفار کے کہنے پر لگ کر اپنے پاس سے وحی بنا لیتا اور افتراء علی اﷲ کرتا تو خدا اسے کوئی عذاب نہ دیتا۔ لیکن نعوذ باﷲ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسا کرتے تو ان پر عذاب نازل کرتا ؂

گر ہمیں مکتب است و ایں ملّاں کارِ طفلاں تمام خواہد شد!

ایک اعتراض اور اس کا جواب

بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ’’لَوْ تَقَوَّلَ‘‘ والی آیت تو مدعیان نبوت کے لئے ہے۔ مگر مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت ۱۹۰۱ ء میں کیا ہے ۔

الجواب:۔ یہ غلط ہے کہ یہ آیت صرف مدعیان نبوت کے لئے ہے۔ اگر چہ مدعیان نبوت بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ آیت کے الفاظ ہیں :۔ کہ اگر یہ قول (الہام، وحی) اپنے پاس سے بنا کر ہماری طرف منسوب کرے تو وہ ہلاک کیا جاتا ہے لَوْ تَنَبَّئَا کا لفظ نہیں۔ کہ اگر یہ نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے ۔

پس اس آیت میں ہرایسے مفتری علی اﷲ کا ذکر ہے جو اپنے پاس سے جان بوجھ کر جھو ٹا الہام و وحی بنا کر خدا کی طرف منسوب کرے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا مفتری علی اﷲ مدعی ٔ نبوت بھی ہو۔

۲۔ اگر بغرض بحث یہ مان بھی لیا جائے کہ یہاں صرف ’’مدعی نبوت‘‘ ہی مراد ہے تو پھر بھی تمہارا اعتراض باطل ہے۔ کیونکہ حضرت اقدس ؑ کا الہام ’’ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی‘‘ براہین احمدیہ میں موجود ہے جس میں حضور علیہ السلام کو ’’رسول‘‘ کرکے پکارا گیا ہے اور حضورؑ نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب فرمایا ۔

اگر خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو رسول نہیں کہا تھا تو پھر آیت زیر بحث کے مطابق ان کی ’’قطع و تین‘‘ ہونی چاہیے تھی مگر حضرت مرزا صاحبؑ براہین کے بعد تقریباً ۳۰ سال تک زندہ رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ مذہب نہیں کہ حضرت مرزا صاحب براہین کی تالیف کے زمانہ میں نبی نہ تھے بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضور علیہ السلام براہین کے زمانہ میں بھی نبی تھے ہاں لفظ نبی کی تعریف میں جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی جو یہ تھی کہ ’’نبی‘‘ کے لئے شریعت لانا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے نہ حضرت مرزا صاحب ۱۹۰۱ ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں۔کیونکہ آپ کوئی شریعت نہ لائے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تابع بھی تھے۔پس چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریعی نبی نہ تھے اس لئے اوائل میں حضورعلیہ السلام اس تعریف نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے جس سے مراد صرف اس قدر تھی کہ میں صاحبِ شریعت براہ راست نبینہیں ہوں، لیکن بعد میں جب حضور علیہ السلام نے ’’نبی‘‘ کی تعریف سب مخالفین پر واضح فرماکر اس کو خوب شائع فرمایا کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا تابع نہ ہو بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا نام نبوت ہے۔ تو اس تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسو ل کہا۔ اب ظاہر ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تعریف نبوت کے رو سے حضرت صاحب علیہ السلام کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضرت صاحب ؑ بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء مثلاً حضرت ہارون ؑ، سلیمان ؑ ،یحییٰ ؑ، زکریاؑ ، اسحاقؑ، یعقوبؑ، یوسف ؑ وغیرہ علیہم السلام بھی نبی ثابت نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے، لیکن ۱۹۰۱ ء کے بعد کی تشریح کے رو سے ( جو ہم نے اوپر بیان کی ہے) ۱۹۰۱ء سے پہلے بھی حضورؑ نبی تھے۔

غرضیکہ حضرت صاحب ؑ کی نبوت یا اس کے دعویٰ کے زمانہ کے بارہ میں کوئی اختلاف یا شبہ نہیں بلکہ بحث صرف ’’تعریفنبوت‘‘ کے متعلق ہے۔ ورنہ حضرت صاحب کا دعویٰ ابتداء سے آخر تک یکساں چلا آتاہے۔ جس میں کوئی فرق نہیں۔ آپ کے الہامات میں لفظ نبی اور رسول براہین کے زمانہ سے لے کر وفات تک ایک جیسا آیا ہے۔حضرت اقدس علیہ السلام نے جس چیز کو ۱۹۰۱ ء کے بعد نبوت قرار دیا ہے اس کا اپنے وجود میں موجود ہونا حضورؑ نے براہین کے زمانہ سے تسلیم فرمایا ہے ۔

پس حضور علیہ السلام کو دعویٰ نبوت و الہام و وحی کے بعد تیس برس کے قریب مہلت ملی جو آپ کی صداقت کی بیّن دلیل ہے۔

حق بر زبان جاری

چنانچہ خود مصنف محمدیہ پاکٹ بک کو بھی (جس نے یہ اعتراض کیا ہے ) ایک دوسری جگہ اقرار کرنا پڑا ہے جیسا کہ لکھتا ہے :۔

’’مرزا صاحب بقو ل خود براہین احمدیہ کے زمانہ میں ’’نبی اﷲ‘‘ تھے۔‘‘

(تلخیص از محمدیہ پاکٹ بک مطبوعہ ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۵۸)

ع لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کا بد انجام

شرائط:۔ جھوٹے مدعیانِ نبوت کے لئے جو اس آیت کے ماتحت قابلِ سزا ہیں مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے:۔

۱۔ وہ مجنون نہ ہو۔ تَقَوَّلَ باب تَفَعُّلْ سے ہے جس میں بناوٹ پائی جاتی ہے

۲۔ وہ لفظی الہام کا قائل ہو۔ یعنی یہ نہ کہتا ہو کہ جو دل میں آئے وہ الہام ہے۔ کیونکہ آیت میں بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ کا لفظ موجود ہے۔

۳۔ وہ اپنے دعویٰ کا اعلان بھی لوگوں کے سامنے کرے۔ خودد خاموش نہ ہو۔ کیونکہ آیت میں ’’ تَقَوَّلَ‘‘ کا فاعل خود مدعی ہے کوئی دوسرا نہیں۔ یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مدعی خود تو نہ کوئی دعوی کرے۔ نہ الہام پیش کرے۔ بلکہ اس کی بجائے کوئی اور شخص اپنے آپ سے بنا کر دعاوی اس کی طرف منسوب کر دے۔

نیز ( الحاقۃ: ۴۸) کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ موجود ہونے چاہئیں جن کے متعلق یہ خیال ہو سکے کہ یہ ہر مشکل میں ا س مدعی کے ممد و معاون ہوں گے۔

۴۔ وہ مدعی ٔ الُوہیت نہ ہو۔ گویا خدا کو اپنے وجود سے الگ ہستی خیال کرنے والا ہو۔ آیت زیر بحث میں لفظ عَلَیْنَا اس مضمون کو بیان کرتا ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں خدائی کے دعویٰ کرنے والے کا علیحدہ طور پر ذکر موجود ہے۔ ( الانبیاء :۳۰)

کہ جو شخص کہے کہ میں خدا ہوں اﷲ کے سوا تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیتے ہیں۔ ایسے ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔پس ثابت ہواکہ مدعی ٔ الوہیت کے لئے ضروری نہیں کہ اسے اس دنیا میں سزا دی جائے بلکہ یہ کاذب مدعی ٔ نبوت ہی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے لازمی اور ضروری قرار دیا ہے کہ اسے اسی دنیا میں سزا دی جائے کیونکہ کوئی انسان خدا نہیں ہو سکتا۔ پس مدعی ٔالوہیت کا دعویٰ عقلمندوں کو دھوکے میں نہیں ڈال سکتا مگر نبی چونکہ انسان ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے جھوٹے مدعی نبوت سے لوگوں کو دھوکہ لگنے کا امکان ہے۔ اسی لئے خدا اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے۔

چنانچہ علامہ ابو محمد ظاہری نے بھی اپنی کتاب الفصل فی المال والا ھواء والنحل جلد ۱ صفحہ۱۰۹ میں لکھا ہے :۔

’’وَ مُدَّعِیُّ الرَّبُوْبِیَّۃِ فِیْ نَفْسِ قَوْلِہٖ بَیَانُ کَذِبِہٖ قَالُوْا فَظُھُوْرُالْاٰیَۃِ عَلَیْہِ لَیْسَ مُوْجِبًا بِضَلَالِ مَنْ لَہٗ عَقْلٌ۔ وَاَمَّا مُدَّعِیُّ النُّبُوَّۃِ فَلَا سَبِیْلَ اِلٰی ظُھُوْرِ الْاٰیَاتِ عَلَیْہِ لِاَنَّہٗ کَانَ یَکُوْنُ مُضِلًّا لِکُلِّ ذِیْ عَقْلٍ۔‘‘

کہ مدعی الوہیت کا دعویٰ ہی خود اس کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے لہٰذا اس سے کسی نشان کا ظہور کسی صاحب عقل کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ مگر کاذب مدعی ٔ نبوت سے نشان ظاہر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ ہر صاحب عقل کو گمراہ کرنے کا باعث ہو گا۔

ب۔ یہی فرق نبرا س شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ ۴۴۴ ’’بحث الخوارق‘‘ میں مذکور ہے نیز تفسیر کبیر امام رازی جلد ۸ صفحہ ۲۹۱۔ حوالہ مندرجہ پاکٹ بک ہذا صفحہ۳۲۶۔

۱۔ ابو منصور

جواب۱ : وہ مدعی ٔ نبوت نہ تھا ۔چنانچہ ’’منہاج السنّہ‘‘ میں بھی جس کا حوالہ غیر احمدی دیا کرتے ہیں، اس کا دعوی نبوت مذکور نہیں ۔

۲۔ علامہ ابو منصور البغدادی لکھتے ہیں:۔

وَ اِدَّعٰی ھٰذَا الْعَجْلِیُّ اَنَّہٗ خَلِیْفَۃَ الْبَاقِرِ……وَقَفَ یُوْسُفُ بْنُ عُمَرَالثَّقْفِیُ وَاَتَی الْعِرَاقَ……فَاَخَذَ اَبَا مَنْصُوْرَ الْعَجَلِیْ وَصَلَبَہٗ۔

(الفرق بین الفرق الفصل الخامس صفحہ ۱۴۹ میرمحمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)

کہ ابو منصور عجلی نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ باقرؓ کا خلیفہ ہے۔ پس جب یوسف ابن عمر الثقفی کو اس بات کا علم ہوا تو وہ عراق آیا اور ابو منصور کو پکڑ کر صلیب دے دی۔

۳۔ اس کا ۲۷ سال بعد دعویٰ زندہ رہنا شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں (جس کا غیر احمدی حوالہ دیا کرتے ہیں ) قطعاً نہیں لکھا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۔ غیر احمدی اس کا سن قتل ۳۶۸ھ بتایا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا اس کا قاتل یوسف بن عمر الثقفی ہے اور وہ خود ۱۲۷ھ میں مرا جیساکہ علامہ ابن خلکان کی کتاب ’’وفیات الاعیان ‘‘جلد ۲ ذکر یوسف بن عمر الثقفی مطبوعہ دار صادر بیروت پر لکھا ہے:۔

وَذَالِکَ فِیْ سَنَۃَ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ وَمِائَۃٌ کہ یوسف بن عمر الثقفی کی موت ۱۲۷ھ میں ہوئی جبکہ وہ ۶۵ سال کی عمر کا تھا۔

اب قاتل تو ۱۲۷ھ میں مر گیا اور مقتول بقول غیر احمدیان ۳۶۸ ھ میں مرا ۔ العجب۔

۲۔محمد بن تومرت

جواب: ۱۔ اس کا دعویٰ نبوت کہیں بھی مذکور نہیں۔

۲۔ ہاں اس نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت ضرور کی اور ۱۴ ھ میں شاہ مراکش نے اسے دارالسلطنت سے نکال دیا۔ اور وہ حیل سوس میں جا کر بغاوت کرتا رہا۔

۳۔اس نے خود دعویٰ مہدویت بھی نہیں کیا۔ فَقَامَ لَہٗ عَشْرَۃُ رِجَالٍ اَحَدُھُمْ عَبْدُالْمُؤْمِنِ فَقَالُوْا لَایُوْجَدُ اِلَّا فِیْکَ فَاَنْتَ الْمَھْدِیُّ(کامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد۱۰ صفحہ۵۷۱ مطبوعہ دار بیروت للطباعۃ والنشر۱۹۶۶ء) کہ اس کے دس ساتھی ہو گئے جن میں سے ایک عبدالمومن تھا۔ انہوں نے اسے کہا کہ تیرے سوا مہدی کی صفات اور کسی میں پائی نہیں جاتیں لہٰذا تو ہی مہدی ہے۔

۴۔اگر اس کا دعویٰ مہدویت ثابت بھی ہو جائے تب بھی وہ لَوْ تَقَوَّلَ والی آیت کے نیچے نہیں آسکتا جب تک کہ جھوٹے الہام یا وحی کا مدعی نہ ہو۔

۳۔عبدالمومن

جواب:۔ یہ محمد بن تومرت کا خلیفہ تھا۔ یہ بھی اس کے ماتحت آ جاتا ہے۔

۴۔صالح بن طریف

جواب:۔۱۔ اس نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا۔ لہٰذا تقوّل نہ ہوا۔

۲۔ اس نے خیال کیا تھا کہ وہ خود مہدی ہے۔ ثُمَّ زَعَمَ اَنَّہٗ الْمَہْدِیُّ الَّذِیْ یَخْرُجُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون جلد ۶ صفحہ ۲۰۷) یعنی اس نے خیال کیا کہ وہ مہدی جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ میں ہوں۔ مگرا س نے کبھی کوئی الہام پیش نہیں کیا۔

۳۔اس نے اپنے دعویٰ مہدویت کا بھی اعلان کبھی نہیں کیا۔ وَاَوْصٰی بِدِیْنِہٖ اِلٰی اِبْنِہٖ اِلْیَاسَ وَعَہِدَ اِلَیْہِ بِمَوَالَاۃِ صَاحِبِ الْاُنْدُلُسِ مِنْ بَنِیْ اُمَیَّۃِ وَ بِاِظْھَارِ دِیْنِہٖ اِذَا قَوٰی اَمْرُھُمْ وَقَامَ بِاَمْرِہٖ بَعْدَہٗ اِبْنُہٗ اِلْیَاسُ وَلَمْ یَزَلْ مُظْھِرًا لِلْاِسْلَامِ مُسِرًّا لِمَا اَوْصَاہُ بِہٖ اَبُوْہُ(ابن خلدون جلد ۶ صفحہ ۲۰۷)کہ اس نے اپنے بیٹے الیاس کو وصیت کی کہ وہ اس کے مذہب پر قائم رہے اور اس سے عہد لیا کہ وہ حاکم اندلس کے ساتھ دوستی رکھے گا اور اپنے مذہب کا اظہار صرف اس وقت کرے گا جب وہ طاقتور ہو جائے۔ پس وہ اپنے باپ کے حکم پر قائم رہا اور یہی ظاہر کرتا رہا کہ وہ مسلمان ہے اور اپنا مذہب چھپاتا رہا جیسا کہ اس کے باپ نے اسے وصیت کی تھی۔

۵۔ عبیداﷲ بن مہدی

جواب :۔۱۔ اس نے نبوت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔

۲۔ اس نے اپنا کوئی الہام پیش نہیں کیا۔

۳۔ ابن خلکان نے وفیات الاعیانجلد نمبر۷ ذکر المہدی عبیداللّٰہ پر ایک روایت درج کی ہے کہ عبیداﷲ ابو محمد الملقب بالمہدی کو دوسرے یا تیسرے سال الیسع نے جو سجلماستہ کا حاکم تھا قید خانہ میں قتل کر دیا تھا اور پھر ایک شیعہ نے بعد میں جھوٹ موٹ ایک دوسرے آدمی کو عبیداﷲ قرار دے دیا۔

۶۔بیان بن سمعان

جواب :۔یہ نہ مدعی وحی، نہ مدعی ٔ نبوت، نہ مدعی الہام۔ ہاں اس کے بعض واہیا ت عقائد تھے مگر وہ تَقَوَّلَ کی آیت کے ماتحت کسی طرح نہیں آسکتا ۔ سوال توصرف تقوّل علی اللّٰہ کا ہے نہ کہ غلط عقائد رکھنے کا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ میں لکھتے ہیں:۔

بَیَانُ بْنُ سَمْعَانِ التَّیْمِیُّ الَّذِیْ تُنْسَبُ اِلَیْہِ الْبَیَانِیَۃُ مِنْ غَالِیَۃِ الشِّیْعَۃِ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْاِنْسَانِ وَاِنَّہٗ یَھْلِکُ کُلَّہٗ اِلَّا وَجْھَہٗ وَادَّعٰی بَیَانُ اَنَّہٗ یَدْعُوا الزُّھْرَۃَ فَتُجِیْبُہُ وَاَنَّہٗ یَفْعَلُ ذَالِکَ بِالْاِسْمِ الْاَعْظَمِ فَقَتَلَہٗ خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ الْقَسْرِیُّ۔

(منہاج السنۃ جلد ۱ صفحہ ۲۳۸)

کہ بیان بن سمعان تیمی وہ تھا جس کی طرف غالی شیعوں کافر قہ بیانیہ منسوب ہوتا ہے اور وہ کہا کرتا تھا کہ خداتعالیٰ انسان کی شکل کا ہے سارا خدا بھی آخرکار ہلاک ہو گا۔مگر اس کا چہرہ بچ رہے گا اور یہ کہ وہ زہرہ (ستارے) کو بلاتا ہے اور وہ اس کو جواب دیتی ہے اور یہ بات وہ صرف اسم اعظم کی برکت سے کرتا ہے ۔ پس خالد بن عبد اﷲ قسری نے اسے قتل کیا۔

۷۔مُقَنَّْع ْ

جواب:۔ وہ ۱۵۹ھ میں ظاہر ہوا۔ اور ۱۶۲ھ میں یعنی ۴ سال بعد اس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی اور اس کا سر قلم کیا گیا۔ (تاریخ کامل ابن اثیر جلد۶ صفحہ ۹۱)

۸۔ابوالخطاب الاسدی

جواب :۔ وہ مدعی ٔالہام یا نبوت نہیں بلکہ مدعی ٔ الوہیت تھا ۔

۲۔ وہ قتل ہو ا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ منہاج السنۃ جلد ۱ صفحہ۲۳۹ پر فرماتے ہیں :۔

’’وَعَبَدُوْا اَبَا الْخَطَّابِ وَ زَعَمُوْا اَنَّہٗ اِلٰہٌ وَخَرَجَ اَبُوالْخَطَّابَ عَلٰی اَبِیْ جَعْفَرَ الْمَنْصُوْرِ فَقَتَلَہٗ عِیْسَی ابْنُ مُوْسٰی فِیْ سِجْنَۃِ الْکُوْفَۃِ ۔‘‘کہ لو گ ابو الخطاب کو خدا کر کے پوجنے لگے اور یہ خیال کیا کہ وہ خدا ہے ۔ پھر ابوالخطاب نے ابو جعفر منصور پر حملہ کیا۔پس عیسیٰ بن موسیٰ نے کو فہ میں اسے قتل کر دیا ۔ نیز دیکھو (کتاب الفصل فی الملل و النحل از امام ابن حزم جلد ۲ صفحہ ۱۱۴)

۹۔احمد بن کیال

جواب:۔۱۔ اس نے نہ دعویٰ نبوت کی نہ دعویٰ وحی و الہام ۔

۲۔ وہ سخت ناکام و نا مراد ہوا ۔’’لَمَّا وَقَفُوْا عَلٰی بِدْعَتِہٖ تَبَرَّءُ وْا مِنْہُ وَلَعَنُوْہُ ۔‘‘ (الملل والنحل جلد ۲ صفحہ ۱۷ بر حاشیہ الملل والنحل از امام ابن حزم)کہ اس کے متبعین کو جب اس کی بدعت کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے براء ت کا اظہار کیا اور اس پر *** بھیجی ۔

۱۰۔مغیرہ بن سعد عجلی

جواب ۔ اس کے متعلق کہیں بھی نہیں لکھا کہ اس نے وحی یا الہام یا نبوت کا دعویٰ کیا ہو ۔ پس اس کوپیش کرنا جہالت ہے ۔

لَوْ تَقَوَّلَ والی آیت کے تحت وہی آئے گا جو مدعی ٔوحی و الہام ہوا اور اپنا الہام یا وحی کو لفظاً پیش کرے ۔

تیسری دلیل

(البقرۃ: ۱۴۷) کہ نبی کو اس طرح سے پہچا نتے ہیں جس طرح باپ اپنے بیٹے کو ۔

گویا جس طرح بیوی کی پاکیزگی خاوند کے لئے اس امر کی دلیل ہوتی ہے کہ پیدا ہونے والا اس کا ہی بچہ ہے ۔ اسی طرح مدعی نبوت کی قبل از دعویٰ پاکیزگی اس کے دعویٰ کی صداقت پر دلیل ہوتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاچیلنج اور محمد حسین بٹالوی کی شہاد ت دیکھو دلیل نمبر ۱ میں۔

چوتھی دلیل

’’ ‘‘ کہ جب صالح علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان کی قوم نے کہا کہ اے صالح ؑ ! آج سے پہلے تیرے ساتھ ہماری بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ تجھ کو کیا ہو گیا کہ تُو نبی بن بیٹھا ۔ (ہود:۶۳)

گویا جب نبی ابھی دعویٰ نہیں کرتا تو قوم اس کی مداح ہوتی ہے مگر جب دعویٰ کر دیتا ہے تو (القمر:۲۶)کہنے لگ جاتے ہیں ۔ کہ یہ اوّل درجہ کا جھوٹا اور شریر ہے ۔

ایک شُبہ کا ازالہ

بعض غیر احمد ی کہا کرتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثنا ء اﷲ صاحب نے حسنِ ظن کا اظہار کیا تو وہ بھی اسی طرح غلط تھا ۔ جس طرح خود مرزاصاحب کا خوا جہ کمال الدین اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ کے متعلق اندازہ ان کی بعد کی زندگی سے غلط ہو گیا۔

الجواب: ۔ یہ قیاس مع الفارق ہے ۔

ہماری دلیل تو یہ ہے کہ جو مدعی ٔ نبوت ہو اس کی پہلی زندگی کا پاکیزہ ہونا ضروری ہے ۔ نیز یہ کہ مخالفین کی بھی اس سے امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔ ہم نے کب کہا ہے کہ جس کی زندگی کے متعلق کسی کو حسن ظن ہو وہ ضرور نبی ہوتا ہے ۔ خواہ وہ نبوت کا دعویٰ کرے یا نہ کرے ۔

حیرت ہے کہ مخالفین کی عقلیں حق کی مخالفت کے باعث اس قدر مسخ ہو چکی ہیں کہ وہ اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ کیا خوا جہ کمال الدین یا مولوی محمد علی صاحبان نے نبوت کا دعویٰ کیا؟ اگر نہیں تو پھر ان کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلام کے اظہار خیال کو پیش کرنا بے معنی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خواجہ صا حب اور مولوی محمد علی صاحب کی تعریف کی ہے تو وہ بالکل ویسی ہی ہے جیسی کہ بیعت رضوان والوں کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :۔ ’’شما بہترین از روئے زمین اند‘‘ کہ تم دنیا کے بہترین انسان ہو ۔ مگر ان میں سے اجد بن قیس بعد میں مرتد ہو گیا تھا ۔

لیکن اجد بن قیس نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ان لوگوں نے یہاں نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ جن کا نام تم لیتے ہو ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پانچویں دلیل

۔ (ہود:۱۴،۱۵) کہ کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں بلکہ اس نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے ۔ ان سے کہہ دے کہ پھر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا لاؤ ۔ اور سوا خدا کے جس کو چاہو بطور مدد گار بلا لو ۔ پس اگر تم اور تمہارے مددگار بنانے پر کامیاب نہ ہوں ۔ تو پھر جان لو کہ یہ انسانی علم کا نتیجہ نہیں بلکہ علم الٰہی سے ہے ۔

قرآن مجید کا یہ چیلنج اس کے کلام الٰہی ہونے پر زبردست دلیل ہے اور پچھلی تیرہ صدیاں قرآن مجید کے اس دعویٰ کی صداقت پر گواہ ہیں مگر چودہویں صدی میں جو قلم کا زمانہ ہے اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات ہونے شروع ہوگئے ۔ مخالفین نے اپنی بد باطنی کا اظہار یہ کہہ کر کر نا شروع کیا کہ قرآن کا یہ چیلنج بدؤں اور جاہل عربوں کو دیا گیا تھا اور ایسیزمانہ میں دیا گیا تھا جبکہ چاروں طرف جہالت کا دور دورہ تھا ۔ پس ان لوگوں کا قرآن شریف کی مثل لانے پر قادر نہ ہوسکنا قرآن کی صداقت کی دلیل نہیں ہوسکتا ۔ ہاں اگر ہمارے زمانہ میں جبکہ علوم و فنون کی ترقی سے انسانی دماغ ارتقاء کی انتہائی منازل طے کر چکا ہے کوئی شخص اس قسم کا چیلنج دے تو ایک نہیں ہزاروں انسان اس کا جواب لکھنے پرآمادہ ہو جائیں۔ ا س اعتراض کو غلط ثابت کرنے اور مخا لفین اسلام کا ایک دفعہ پھر منہ بند کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا اور آپ نے تمام دنیا کے سامنے بضرب دہل اعلان فرمایا کہ خداتعالیٰ نے مجھ کو اپنے خاص مکالمہ مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور مجھ کو وہ علوم اور معارف عطا فرمائے ہیں کہ دنیا کا کوئی انسان ان میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’اعجاز احمدی‘‘ اور ’’اعجاز المسیح‘‘ وغیرہ کتابیں لکھیں اور کہا کہ اگر اعجاز احمدی کا جواب وقت مقررہ کے اند ر لکھو تو دس ہزار روپیہ انعام لو۔ اور فرمایا :۔

’’خداتعالیٰ اُن کی قلموں کو توڑ دے گا اور اُن کے دِلوں کو غبی کردے گا۔‘‘ (اعجاز احمدی۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۴۸) پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۱۹۰۲ء کی دسویں کے دن کی شام تک ختم ہو جائے گی انہوں نے اس قصیدہ اور اردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تویوں سمجھو کہ میں نیست و نابود ہوگیا اورمیرا سلسلہ باطل ہو گیا ۔ اس صورت میں میری جماعت کو چاہیے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں ۔

(اعجاز احمدی ۔روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۱۴۷)

اعجاز المسیح کے متعلق پانچ سو روپیہ انعام کا اشتہار دیا اور لکھا :۔

’’فَاِنَّہٗ کِتَابٌ لَیْسَ لَہٗ جَوَابٌ وَمَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ فَسَوْفَ یَرٰی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَ تَدَمَّرَ ۔‘‘ (ٹائٹل پیج اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ )

کہ یہ وہ کتا ب ہے جس کا کوئی جواب نہیں اور جو شخص اس کے جواب کے لئے کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ وہ کس طرح نادم اور شرمندہ کیا جائیگا ۔ پھر فرمایا :۔

’’وَإنِ اجْتَمَعَ آبَاءُ ُہُمْ وَأَبْنَاءُ ہُمْ۔ وَأَ کْفَاءُ ہُمْ وَعُلَمَاءُ ہُمْ۔ وَحُکَمَاءُ ہُمْ وَفُقَہَاءُ ہُمْ۔ عَلَی أَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا التَّفْسِیْرِ۔ فِیْ ہٰذَا الْمُدَی الْقَلِیْلِ الْحَقِیْرِ۔ لَا یَأْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ کَالظَّہِیْرِ۔‘‘ (اعجاز المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۵۶،۵۷)

اگر ان کے باپ اور ان کے بیٹے اوران کے ہمسر اور ان کے علماء اور ان کے حکماء او ران کے فقہاء (غرضیکہ چھوٹے بڑے )سب مل کر اس مدت میں جس میں مَیں نے اس کو لکھا ہے اس جیسی کتاب لکھنا چاہیں تو کبھی بھی نہ لکھ سکیں گے۔

چنانچہ جب مولوی محمد حسین فیض ساکن بھیں ضلع جہلم نے اس کا جواب لکھنا چاہا تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہام ہو ا۔ مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِنَ السَّمَآءِ‘‘ کہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان سے اسے جواب لکھنے سے روک دیا ہے ۔ چنانچہ وہ ابھی نوٹ ہی تیار کر رہا تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر مر گیا اور پیر گو لڑوی نے اس کے لکھے ہوئے نوٹوں کو میعاد مقررہ گز ر جانے کے بعد سرقہ کر کے اپنے نا م سے شائع کردیا اور اس کا نام سیف چشتیائی رکھا۔ (تفصیل دیکھو نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۵۲تا۴۵۴)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی اعجازی کتب کے لئے میعاد اس لئے مقر ر کی کہ

(۱)یہ اعتراض نہ ہو سکے کہ قرآن کا مقابلہ کیا ہے اور اس طرح سے قرآن کے معجزہ میں کسی قسم کا شبہ نہ پڑسکے ۔ کیونکہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ مجھے جو اعجازی کلام کا معجزہ دیا گیا ہے ۔ وہ قرآن کے ماتحت اور اس کے ظِلّ کے طور پر ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :۔

’’ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں۔‘‘

(نزول المسیح ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۳۷)

ب۔کُلَّمَا قُلْتُ مِنْ کَمَالِ بَلَاغَتِیْ فِی الْبَیَانِ۔فَہُوَ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ

الْقُرْآنُ۔ (لجۃ النور۔ روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۴۶۴ حاشیہ)

یعنی میں نے اپنے کمال فصاحت اور بلاغت کے متعلق جو کچھ کہا وہ سب قرآن مجید کے ماتحت ہے ۔

ج۔ ضرورۃ الامام ۔صفحہ۲۲ پر فرمایا :۔

’’ قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔‘‘ (ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۴۹۶)

۲۔میعاد کامقرر کرنا معجزہ کی شان کو کم نہیں کرتا جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں:۔

’’لَوْ قَالَ نَبِیٌّ اٰیَۃُ صِدْقِیْ اَنِّیْ فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ اُحَرِّکُ اِصْبَعِیْ وَلَا یَقْدِرُ اَحَدٌ مِنَ الْبَشَرِ عَلٰی مُعَارِضَتِیْ فَلَمْ یُعَارِضْہُ اَحَدٌ فِیْ ذَالِکَ الْیَوْمِ ثَبَتَ صِدْقُہٗ‘‘(الاقتصاد فی الاعتقادصفحہ۹۴)یعنی اگر مدعی نبوت یہ کہے کہ میری صداقت کا یہ نشان ہے کہ آج میں اپنی انگلی کو حرکت دیتا ہوں مگر انسانوں میں سے کوئی میرے مقابلہ پر ہرگز ایسا نہیں کر سکے گا۔پس اگر فی الواقعہ اس دن کوئی شخص اس کے مقابلہ میں انگلی نہ ہلا سکے تو اس مدعی کی صداقت ثابت ہوگئی۔

۲۔ چونکہ آپ نے اعجازی کلام کے جواب کے لئے انعام مقرر کیا تھا اس لئے اس کے واسطے کوئی میعاد مقرر ہونی چاہییتھی تا کہ انعام کا فیصلہ ہو سکے۔ کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔

اعجاز احمدی کی مزعومہ غلطیاں

باقی رہا یہ اعتراض کہ اعجاز احمدی میں غلطیاں ہیں ایسا ہی ہے جیسے عیسائیوں کا اعتراض قرآن مجید کی عربی پر ہے۔

اِنَّ فِیْہِ لَحْنًا نَحْوَ اِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ عَلٰی قِرَاءَ ۃِ اَنَّ الْمُشَدَّۃِ(نبراس شرح الشرح العقائد نسفی صفحہ۴۳۹)طَعْنُ الْمُلَاھِدَۃِ فِیْ اِعْجَازِالْقُرْاٰنِ(نبراس صفحہ۴۳۸)کہ ملحدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن میں غلطیاں ہیں جیسا کہ اِنْ ھٰذَانِ لَسَاحِرَانِ والی آیت میں جو قراء ۃ انّ مشدہ والی ہے اس میں اِنَّ ھٰذَیْنِ چاہیے۔

اسی طرح قرآن مجید میں آتا ہے کہ (الاعراف:۱۵۰) اس کی ترکیب کے متعلق روح المعانی میں لکھا ہے:۔ ذَکَرَ بَعْضُھُمْ اِنَّ ھٰذَا التَّرْکِیْبُ لَمْ یُسْمَعْ قَبْلَ نُزُوْلِ الْقُرْاٰنِ وَلَمْ تَعْرِفُہُ الْعَرَبُ وَلَمْ یُوْجَدُ فِیْ اَشْعَارِھِمْ وَکَلَامِھِمْ(روح المعانی زیر آیت ۔(الاعراف:۱۵۰) کہ بعض نے کہا ہے کہ یہ ترکیب نزول القرآن سے قبل نہیں سنی گئی اور نہ اس کو عرب جانتے تھے اور نہ اہل عرب کے اشعار اور کلام میں یہ ترکیب پائی جاتی ہے۔

پس غلطیاں نکالنا تو آسان ہے۔ صرف اس کی مثل بنانا ہی مشکل ہے جس طرح اہل عرب کا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَا کہنا کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن جیسی کتاب بنا سکتے ہیں۔ نیز اعجاز احمدی کی غلطیاں نکال کر جن لوگوں نے اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے ان کی آنکھوں کو روشنی پہنچانے کے لئے حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب ہلال پوری مرحوم مولوی فاضل و منشی فاضل قادیان نے ایک کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کے نام سے شائع فرما دی ہوئی ہے جس میں مزعومہ اغلاط کی حقیقت کو آشکارا کیا گیا ہے۔

غیر احمدی:۔مولوی غنیمت حسین مونگھیری اور قاضی ظفر الدین نے جواب میں قصیدے لکھے۔

الجواب:۔کیا ان لوگوں نے میعاد کے اندر یہ جواب لکھے؟ نہیں! بلکہ میعاد گزرنے کے سالہا سال بعد۔ پس ع

مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید برکلمہ خودباید زد

غیر احمدی:۔بیس دن کی میعاد بہت تھوڑی تھی۔

الجواب:۔(۱)حضرت امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ صفحہ۹۴ کا حوالہ اوپر درج ہو چکا ہے کہ اگر نبی یہ کہے کہ میں اپنی انگلی کو آج حرکت دیتا ہوں اور کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی کہ آج …… وہ اپنی انگلی کو میرے بالمقابل حرکت دے سکے تو گو اس میں میعاد ایک دن کی ہو صداقت کی دلیل ہے۔

(۲) محمدیہ پاکٹ بک کے مؤلف کا یہ لکھنا کہ بیس دن میں ایسی کتاب کا لکھنا قطعی طور پر ناممکن ہے اور یہ کہنا کہ بڑے سے بڑا زود نویس مصنف بھی صرف پانچ صفحہ روزانہ کا مضمون لکھ سکتا ہے محض ایک بہانہ سازی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کی تصنیف ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ جس میں مسئلہ نبوت پر فیصلہ کن بحث ہے اور مولوی محمد علی صاحب امیر اہل پیغام کے تمام دلائل کا مکمل رد ہے یہ کتاب تقریباً تین صد (۲۹۷) صفحات کی ہے مگر یہ بیس روز کے اندر اندر تصنیف اور طبع ہو کر شائع بھی ہوگئی۔ مضمون نویس نے مضمون لکھا۔ کاتب نے کتابت بھی کی۔ پریس میں بھی گئی۔ پروف بھی دیکھے گئے مگر تین سو صفحات کی معرکۃ الآراء تصنیف بیس یوم کے اندر تصنیف ہونے کے علاوہ شائع بھی ہو گئی۔ مگر ’’اعجاز احمدی‘‘ تو کُل نوّے صفحات کا رسالہ ہے۔ یعنی ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ سے تیسرے حصے سے بھی کم ہے۔ مگر عجیب بات ہے اور یہ بھی خدا کا ایک نشان ہے کہ بڑے بڑے مخالف جُبّہ دار مولوی اس کے جواب سے عاجز آگئے اور اب سوائے بہانہ سازی اور حیلہ جوئی کے ان کو کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ کی تصنیف ’’القول الفصل‘‘ جو خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ ’’اندرونی اختلافاتِ سلسلہ احمدیہ کے اسباب‘‘ کا مکمل رد ہے اور مبسوط جواب ہے۔ یہ رسالہ ۷۸ صفحات پر مشتمل ہے اور بلحاظ مضمون کے ’’اعجاز احمدی‘‘ سے اس کا مضمون زیادہ ہے لیکن یہ رسالہ صرف ایک دن میں لکھا گیا۔ علاوہ ازیں اور بھی سینکڑوں مثالیں مل سکتی ہیں۔ ’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ اور ’’القول الفصل‘‘ کی میعاد معینہ کی اصالت اور صحت میں کوئی کلام نہیں کیونکہ میعاد ہذا بطور معجزہ یا نشان کے بیان نہیں کی گئی بلکہ محض سرسری طور پر ایک واقعہ کا اظہار کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ معجزہ نہیں ہے کیونکہ اس کے ساتھ دعویٰ اور تحدی نہیں ہے لیکن باوجود اس کے کہ ’’اعجاز احمدی‘‘ کا مضمون ان دونوں کتابوں سے کم ہے اور میعاد بہت زیادہ۔ نیز حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے دس ہزاری انعام اور تحدی بھی ہے کہ ’’خدا ان کے قلموں کو توڑ دے گا‘‘ مگر کوئی بھی جواب نہ لکھ سکا۔ عقل کے اندھو! حیلہ سازی سے کیا بنتا ہے تمہیں دس ہزار روپیہ جو دیا جا رہا تھا تو اسی لئے کہ ۸۰،۹۰ ملاں مل کر ہی بیٹھ جائیں۔ اعجاز احمدی کا ایک ایک صفحہ آپس میں تقسیم کرکے اس کا جواب دو چار گھنٹہ میں لکھ دیں۔ اسی طرح ۱۵،۲۰ کاتب لگا کر ایک ہی دن میں اس کی کتابت کروالیں اور مختلف پریسوں میں اس کو چھپوا کر دوسرے ہی دن اس کا جواب شائع کر دیں۔ اے دنیا کے کیڑو! دس ہزار روپیہ میں ایک ۸۰ صفحہ کی کتاب کا جواب بیس یوم میں (تم لاکھوں مولویوں کا لکھنا) کونسی بڑی بات تھی۔ اور اگر تمہیں مال کا طمع نہ تھا تو کم از کم آرام طلبی چھوڑ کر لوگوں کی ’’ہدایت‘‘ ہی کے لئے کچھ محنت کرتے۔ مگر اس وقت خدا نے اپنے اعجازی ہاتھ سے تمہارے قلموں کو توڑ دیا اور تمہارے دلوں کو غبی کر دیا تھا۔ اس لئے اس وقت تو تم مبہوت ہو کر رہ گئے لیکن اب جبکہ تیر ہاتھ سے نکل چکا ہے تم لاجواب ہونے کی صورت میں بھی مقولہ ’’ملاں آں باشد کہ چپ نہ شود‘‘ کے مطابق قابل شرم اور مضحکہ خیز حیلہ سازیوں سے وقت گذارتے ہو ؂

کچھ تو خوف خدا کرو لوگو

کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
چھٹی دلیل

(الجمعۃ:۷،۸)

یعنی یہودی کہتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں۔ اور یہ کہ خدا ہم سے پیار کرتا ہے۔ () فرمایا۔ ان سے کہہ دو کہ اے یہودیو! اگر تم اپنے آپ کو خدا کے دوست سمجھتے ہو تو اپنے لئے بد دعا کرو، موت کی تمنا کرو۔ مگر یاد رکھو کہ یہ لوگ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی بداعمالیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اور خدا ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ برے اعمال کرنے والے ظالم لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا کے دوست ہیں وہ موت کی تمنا نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ؂

اے قدیر و خالقِ ارض و سما

5اے رحیم و مہربان و راہ نما

9اے کہ مے داری تو بر دلہا نظر

7اے کہ از تو نیست چیزے مستتر

=گر تو مے بینی مرا پُر فسق و شر

9گر تو دیداستی کہ ہستم بد گہر

1پارہ پارہ کن من بدکار را

3شاد کن این زمرۂ اغیار را

5آتش افشاں بر در و دیوار من

7دشمنم باش و تباہ کن کارِ من

yمگر اس کے باوجود آپ کی جماعت نے ترقی کی۔ آپ کو خدا نے لمبی عمر عطا فرمائی اور اپنے دعویٰ کی تبلیغ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اولاد بڑھی۔ اور ہر قسم کے روحانی جسمانی فوائد حضور کو حاصل ہوئے۔

غیر احمدی:۔ ابوجہل نے بھی کی بد دعا کی تھی۔ (الانفال:۳۳)

جواب: سورۃ الجمعہ کی آیت میں تو یہ مذکور ہے کہ وہ شخص بد دعا نہیں کرتا جو خود اپنی ذات کے متعلق کوئی دعویٰ رکھتا ہو۔ مثلًا یہ کہتا ہو کہ خدا تعالیٰ میرا دوست ہے یا مجھ سے محبت کرتا ہے۔ یا اس نے مجھے مامور کیا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ اے خدا! اگر قرآن سچا ہے تو مجھ پر عذاب آئے۔ یہ ایسی ہی بد دعا تھی جس طرح ایک بچہ اپنی نادانی سے آگ کے کوئلے پر ہاتھ رکھ دیتا ہے مگر خدا تعالیٰ سزا ہمیشہ اتمامِ حجت کے بعد ہی مقرر فرمایا ہے۔

۲۔ یہ بد دعا ابوجہل نے کی تھی۔ جیسا کہ بخاری کتاب التفسیر باب و اذ قالوا اللھم ان کان ھٰذا ھوالحق میں مذکور ہے اور ابوجہل جنگ بدر میں مقتول ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس جنگ کے متعلق کا ارشاد فرمایا ہے۔ گویا کفار اُن آسمانی پتھروں کے ساتھ ہلاک کئے گئے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ ابوجہل بھی انہیں کافروں میں سے تھا۔ اس نے ڈبل بد دعا کی تھی۔ (۱) (۲)۔ پہلی بد دعا کے مطابق وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ سے نکلے ہوئے آسمانی پتھروں کا نشانہ بنا اور ہلاک ہوا۔ اور دوسری بد دعا کے مطابق وہ مقتول ہوا۔ اور قرآن مجید نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جانے کو عذاب قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ (التوبۃ:۱۴)کہ کافروں کو قتل کرو۔ خدا چاہتا ہے کہ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے پس ابوجہل کی بد دعا کے مطابق خدا نے اس کو ڈبل ہی سزا دی۔ گویا آسمانی پتھر بھی اس پر پڑے اور عذاب الیم بھی آیا۔ یاد رہے کہ آیت (الانفال:۳۴) میں یہ صرف وعدہ تھا کہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ میں ہیں ان پر عذاب نہیں آئے گا، لیکن جب حضورؑ بعد از ہجرت مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو اس کے بعد ابوجہل اور اس کے ساتھیوں پر عذاب آیا۔ سے مراد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا مکہ میں موجود ہونا ہے۔

ساتویں دلیل

(العنکبوت:۱۶)

کہ ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اور آپ کے ساتھ کشتی میں بیٹھنے والوں کو بچا لیا۔ اور اس بچنے کو تمام جہان کے لئے بطور صداقتِ نوح علیہ السلام نشان مقرر کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہند میں سخت طاعون پڑی اور پنجاب میں بھی بشدّت آئی۔ مگر حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے۔ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ وَ اُحَافِظُکَ خَاصَۃً (الہام ۱۹۰۲ء نزول المسیح روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۰۱) کہ میں ان تمام لوگوں کو جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوں گے طاعون سے محفوظ رکھوں گا۔ خاص کر تیری ذات کو۔ چنانچہ آج تک حضور علیہ السلام کے گھر کے اندر کبھی کوئی چوہا بھی نہیں مرا۔ لہٰذا آپ کی صداقت ثابت ہے اور حضور علیہ السلام خود بھی طاعون سے اس تحدی کے باوجود محفوظ رہے۔

قادیان میں طاعون پڑنے کے متعلق تفصیل دوسری جگہ ’’پیشگوئیوں پر غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جواب‘‘ میں درج ہے۔ اس جگہ صرف اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ حضرت اقدسؑ نے کہیں بھی نہیں لکھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی۔ بلکہ ’’دافع البلاء‘‘ میں تو صاف لکھا ہے کہ قادیان میں طاعون تو آئے گی مگر طاعون جارف یعنی بربادی بخش نہیں آئے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

نوٹ:۔ بے شک ایمان کامل والوں کو بھی اس وعدہ میں شامل کیا گیا ہے، لیکن کامل اور ناقص ایمان والوں میں امتیاز مشکل ہے۔ مگر ظاہری مکان کی چار دیواری میں رہنے والوں کے لئے کامل ایمان کی شرط نہیں۔ لہٰذا اسی کو اس جگہ دلیل صداقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جس کا تمہارے پاس سوائے بہانہ سازی کے کوئی جواب نہیں۔

آٹھویں دلیل

خدا تعالیٰ یہاں اپنے سچے انبیاء اور ان کی جماعتوں کو عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ الْاَعْدَاءِ ترقیات اور پے بہ پے فتوحات عطا فرماتا ہے وہاں جھوٹے مدعیان نبوت کو ہرگز ترقی اور کامیابی نہیں ہوتی اور خسران اور شکست کا طوق ان کے گلے کا ہار ہو کر رہ جاتا ہے۔

قرآن مجید نے اس زبردست معیار صداقت کا ذکر متعدد مقامات پر فرمایا ہے:۔

۱۔ فرمایا: (المائدۃ:۵۷) یاد رکھو کہ خدا ہی کی جماعت ہمیشہ غالب اور کامیاب ہوتی ہے۔

۲۔ اور اس کے بالمقابل کذابوں کی جماعت کا ذکر اس طرح فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:۲۰) یاد رکھو کہ شیطانی گروہ ہمیشہ ناکام و نامراد ہوتا ہے اور گھاٹے اور خسارے میں رہتا ہے۔

اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح معلوم ہو کہ ’’غالب‘‘ گروہ کون سا ہے۔ کیونکہ ہر ایک جماعت یہی دعویٰ کرتی ہے کہ وہ غالب ہے۔

۳۔ اس اہم سوال کو خدائے تعالیٰ نے نہایت وضاحت کے ساتھ حل فرمایا ہے۔ فرمایا: (الانبیاء:۴۵) کہ یہ لوگ جو مدعیٔ نبوت کے منکر ہیں۔ ایک زمین کے ٹکڑے کی طرح ہیں۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم اس زمین کو آہستہ آہستہ چاروں طرف سے کم کرتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا اب بھی وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہی ’’غالب‘‘ ہیں یعنی سچے نبی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کی جماعت تدریجًا بڑھتی ہے اور اس کے مقابل اس کے مخالفین کی جماعت بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ مدعیٔ نبوت کی تدریجی ترقی اور اس کے بالمقابل اس کے مخالفین کا تدریجی تنزل اس مدعی کے صادق اور منجانب اﷲ ہونے پر قطعی اور یقینی دلیل ہے۔

۴۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ (المومن:۵۲) کہ ہم اپنے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی اسی دنیا میں مدد کرتے ہیں اور پھر قیامت کے دن بھی ہم ہی ان کے مددگار ہوں گے۔ گویا خدا تعالیٰ کا یہ ازلی اور ابدی قانون ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی دشمنوں کے مقابلہ میں مدد اور نصرت فرماتا ہے اور ان کے مخالفین کی معاندانہ اور مخاصمانہ سرگرمیوں کو (جو انبیاء کی تباہی اور بربادی کے لئے کی جاتی ہیں) کبھی کامیاب ہونے نہیں دیتا۔

۵۔ چنانچہ ایک اور جگہ کھلے الفاظ میں اپنے اس اٹل قانون کا ذکر فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:۲۲) کہ خدا نے روزِ ازل سے یہ لکھ چھوڑا اور مقرر کر دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہی ہمیشہ ’’غالب‘‘ رہیں گے۔ گویا ممکن نہیں کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت ہو اور پھر اس کی جماعت دن بدن بڑھتی چلی جائے۔ یہ خدا تعالیٰ کا غیر متغیر اور غیر متزلزل قانون ہے جو جھوٹے اور سچے مدعیان نبوت کے درمیان ایک واضح اور روشن فیصلہ کرتا ہے۔ تاریخ کے اوراق اس اصول کی صداقت پر معتبر گواہ ہیں۔ آج دنیا میں موسیٰؑ اور ابراہیمؑ اور محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام لیوا تو موجود ہیں مگر فرعون، نمرود، مسیلمہ کذاب وغیرھم کی طرف منسوب ہونے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔

۶۔ خدا تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے۔ (النحل:۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جھوٹے مدعیان وحی و الہام کی ناکامی کا باعث یہ ہے کہ ایسے جھوٹے مدعیوں کے دعویٰ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت اور نصرت نہیں ہوتی جو خدا کے سچے نبیوں اور رسولوں کے شامل حال ہوتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو دوسرے مقام پر بیان فرمایا ہے۔

۷۔ (اٰل عمران:۶۲) (ھود:۱۹) کہ کذابوں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنانے والے ظالموں پر خدا کی *** ہوتی ہے۔

۸۔ خدا کی *** کا خوفناک نتیجہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ (النساء:۵۳) کہ جس پر خدا *** کرے اس کا کوئی مددگار اور ممد و معاون نہیں رہتا۔

پس صاف طور پر ثابت ہوا کہ وہ لوگ جو جھوٹے طور پر نبوت اور رسالت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خدا کی *** کے نیچے ہوتے ہیں اور آخر کار وہ بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا۔ اور جلد سے جلد خدا تعالیٰ ان کو جڑھ سے اکھاڑ دیتا ہے۔

۹۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ (طٰہٰ:۶۲) کہ وہ شخص جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔ ناکام و نامراد رہتا ہے۔

۱۰۔ اسی طرح سورۃ اعراف:۱۵۳ میں بھی خدا تعالیٰ پر افتریٰ کرنے والوں کے متعلق اپنا قانون بیان فرمایا دیا ہے کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے اور وہ اسی دنیا میں ذلیل و رسوا اور خائب و خاسر رہتے ہیں۔ ()

تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ

نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مندرجہ بالا دس آیات میں اﷲ تعالیٰ نے جس معیار کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صادق مدعی نبوت تدریجًا آہستہ آہستہ ترقی پاتا چلا جاتا ہے۔ اس کی ترقی یکدم اور فوری نہیں ہوتی۔ تا کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ وہ اتفاقی طور پر کامیاب ہو گیا۔ اور یہ کہ ہمیں اس کے استیصال اور مقابلہ کے لئے پورا موقع نہیں ملا۔ ورنہ ہم اگر ذرا زیادہ زور لگاتے تو اس کو مٹا سکتے تھے اور اس طرح سے یہ امر دنیا پر مشتبہ ہو جاتا کہ مدعی کی ترقی اتفاقی تھی یا خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت اس کے شامل حال تھی۔ پس خدا تعالیٰ ان کے مخالفین کو کھلا کھلا موقع دیتا ہے تا وہ انفرادی طور پر بھی اس کو مٹانے کے منصوبے کر لیں اور پھر اپنی تمام طاقتیں مجتمع کر کے بھی زور لگالیں۔ ایک بار کوشش کر لیں۔ پھر کر لیں۔ پھر کر لیں۔ تا کسی کو اس میں شبہ نہ رہ جائے کہ مخالفین کی ناکامی اور مدعی کی کامیابی میں خدا کا زبردست ہاتھ کام کر رہا تھا۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب کے گو دو سال کے عرصہ میں دو لاکھ کے قریب پیرو ہو گئے مگر اسی عرصہ میں وہ انتہائی بے بسی کے ساتھ قتل ہوا۔ جس سرعت اور تیزی کے ساتھ وہ اٹھا تھا اسی کے ساتھ وہ گرا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے کھڑے ہوئے اور خدا نے آپ کو بتایا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍکہ تیرے پاس اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ سٹرک میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ ’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مسیلمہ کذاب کی جماعت ایک دو سال کے عرصہ میں یکدم کچھ بڑھ گئی مگر وہ اور اس کی جماعت فورًا تباہ کر دیئے گئے۔ سچ کی نشانی یہی ہے کہ اس کی ترقی تدریجًا ہوتی ہے۔ جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہوئی اور ہو رہی ہے اور آئندہ ہو گی انشاء اﷲ تعالیٰ۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نویں دلیل

۱۔ (الروم:۴۲)

۲۔ (الجمعۃ:۳)

کہ نبی اس وقت آتا ہے جب دنیا پر کفر و ضلالت کی گھنگھور گھٹائیں چھا جاتی ہیں۔ اختلافات پھیل جاتے ہیں۔ روحانیت مر جاتی ہے فسق و فجور عام ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ زمانہ کی حالت کے متعلق شہادتیں ملاحظہ ہوں:۔

۱۔ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے۔ فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر واﷲ دل سے معمولی اور بہت معمولی اور بے کار کتاب جانتے ہیں۔‘‘

(اہلحدیث ۱۴؍ جون ۱۹۱۲ء)

۲۔ ’’اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لٰکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں علماء اس اُمت کے بدتر ان کے ہیں۔‘‘

(اقتراب الساعۃ از نواب نور الحسن خان صفحہ ۱۲)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے:۔

’’نہ صرف یہ کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانہ نے مجھے بلایا ہے۔‘‘

(پیغام صلح۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۸۷)

جہاں میں چار سو گمراہیاں ہیں زمانہ خود ہی ہے طالب نبی کا

(خادم)

دسویں دلیل

(الانعام:۲۲) کہ اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے یا خدا کی آیات کا انکار کرے اور خدا ان ظالموں کو کامیاب نہیں کرتا۔ (نیز دیکھو یونس:۷۰ و النحل:۱۱۷)

ع کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے مقصد میں کامیاب ہونا آپ کی صداقت کی زبردست دلیل ہے۔

گیارہویں دلیل

(الجن: ۲۸-۲۷) کہ خدا عالم الغیب ہے۔ وہ اپنے غیب پر اپنے رسولوں کے سوا اور کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا (یعنی اس پر غیب ظاہر نہیں کرتا)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لاکھوں پیشگوئیاں بیان کیں جو پوری ہوئیں اور اس کا انکار مخالف بھی نہیں کر سکتے۔ مثلاً

سعد اﷲ لدھیانوی اور اس کے بیٹے کے ابتر ہونے کی پیشگوئی (تفصیل کے لئے دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۲ و تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۶،۷، ۱۳، ۱۸) چند اور پیشگوئیاں بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔ تفصیلاً حقیقۃ الوحی میں دیکھو۔

۱۔ کرم دین جہلمی والے مقدمہ سے بریت اور اس کا مفصل حال پہلے سے شائع کیا۔

(مواہب الرحمن۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۳۵۰)

وَمِنْ آیَاتِیْ مَا أَنْبَأَنِی الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ، فِیْ أَمْرِ رَجُلٍ لَئِیْمٍ وَبُہْتَانِہِ الْعَظِیْمِ، وَأُوْحِیَ إِلَیَّ أَنَّہٗ یُرِیْدُ أَنْ یَتَخَطَّفَ عِرْضَکَ، ثُمَّ یَجْعَلُ نَفْسَہٗ غَرْضَکَ. وَأَرَانِیْ فِیْہِ رُؤْیًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَرَانِیْ أَنَّ الْعَدُوَّ أَعَدَّ لِذَالِکَ ثَلَاثَۃَ حُمّامًا لِتَوْہِیْنٍ وَإِعْنَاتٍ…… وَرَأَیْتُ أَنَّ آخِرَ أَمْرِیْ نِجَاۃٌ بِفَضْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ۔

اور یہ مقدمہ چندو لال اور آتما رام کی کچہری میں چلتا رہا۔ جس میں آخر کار حضرت اقدسؑ بری ہوئے۔

۲۔ ڈوئی کی موت کی پیشگوئی۔ کہ اگر مباہلہ کرے یا اگر نہ بھی کرے تب بھی اس کو اﷲ تعالیٰ ہلاک کر دے گا۔ سو وہ ایک لاکھ کی ملکیت سے بے دخل ہوا اور پھر اس کے بیوی بچے اس سے علیحدہ ہو گئے اور آخر فالج کے ذریعہ بہت خراب حالت میں مرا۔ (تفصیل دیکھو تتمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۱۲)

۴۔ عبدالرحیم ابن نواب محمد علی خان کے متعلق۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۹)

۵۔ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں چراغ دین جمونی کے طاعون سے ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ سو وہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے بمرض طاعون ہلاک ہوا۔ کیا یہ کم نشان ہے؟

۶۔ پیشگوئی ’’زلزلہ کا دھکا۔ عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَمُقَامُھَا۔‘‘ یہ چار اپریل ۱۹۰۵ء کو کانگڑہ والے زلزلہ کے نام سے واقع ہوا۔

۷۔ ’’آہ نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘

(الہام ۳؍ مئی ۱۹۰۵ء شائع شدہ اخبار بدر جلد ۱ نمبر۴ مورخہ ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ نمبر ۱۔ و تذکرہ صفحہ۴۶۱ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

اس الہام میں بتایا گیا تھا کہ (۱) کسی ملک میں ایسے ایسے عظیم الشان انقلابات وقوع پذیر ہونگے کہ ہر طرف سے نادر خان کو ’’المدد۔ المدد ‘‘کی پکار سے بلایا جائے گا اور جب لوگ اس کو ’’نادر خاں‘‘ کہہ رہے تھے خدا اس کو ’’نادر شاہ‘‘ کے نام سے پکارتا تھا۔ اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ ’’نادر خاں‘‘ تخت پر متمکن ہو کر ’’نادر شاہ ‘‘کے لقب سے حکومت کرے گا۔

۲۔ پھر اس الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آخر کار وہ ’’نادر شاہ‘‘ کسی ہیبت ناک اور فوری حادثہ کے باعث طرفۃ العین میں صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائیگا او ر اس کا یہ قتل ایسے وقت میں ہو گا جبکہ ملک کو اس کی خدمات کی اشد ضرورت ہوگی اور چاروں طرف سے آوازیں آئیں گی کہ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا۔‘‘ چنانچہ اس پیشگوئی کا پہلا حصہ ۱۹۲۹ء میں پورا ہوا۔ جبکہ افغانستان میں امان اﷲ کی حکومت کا تختہ الٹنے اور بچہ سقہ کے ہاتھ سے حکومت لے لینے کے لئے ’’نادر خاں‘‘ کو فرانس سے بلایا گیا۔ اور ’’نادر خاں‘‘ کابل میں آ کر ’’نادر شاہ‘‘ کے لقب سے سریر آرائے سلطنت ہوا۔

اسی وقت جماعت احمدیہ کی طرف سے جہاں اس الہام کے ایک پہلو کے پورا ہونے پر اظہار مسرت کیا گیا وہاں ساتھ ہی اس الہام کے دوسرے پہلو کی طرف بھی صاف طور پر اشارہ کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ نادر خاں کے قتل سے 3 ½سال پہلے لکھا گیا کہ:۔

’’دوسرے مفہوم میں ایک ایسا خیال جھلک رہا ہے کہ موسوم (نادر شاہ) کو کوئی خطرناک مصیبت پیش آئے گی اور اس کے نقصان پر بہت رنج و غم محسوس کیا جائیگا‘‘…… اوپر لکھا جا چکا ہے کہ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا‘‘ کا ایک اور مفہوم بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ الفاظ کسی اور موقع پر کسی اور طرح بھی پورے ہوں، لیکن ہم نادر شاہ کی بہتری کے لئے دعا کرتے ہیں۔‘‘

(الفضل ۳؍ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۱ کالم ۱ و ۳)

چنانچہ ۸؍ دسمبر ۱۹۳۳ء کو عین دن کے وقت نادر شاہِ افغانستان ایک شخص ’’عبد الخالق‘‘ نامی کے ہاتھوں سینکڑوں آدمیوں کی موجودگی میں قتل کر دیا گیا اور افغانستان نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلامی نے زبانِ حال سے پکارا۔ ’’آہ! نادر شاہ کہاں گیا‘‘

۸۔ مندرجہ بالا الہام کے بعد اگلا الہام یہ تھا:۔

’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی …… صَدَّقْنَا الرُّؤْیَاءَ اِنَّا کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ۔‘‘ یعنی (زلزلہ کی نسبت) تیرے رویاء کو سچا کر دکھایا اور اسی طرح ہم صدقہ دینے والوں کو اجر دیتے ہیں۔‘‘ (بدر جلد ۱نمبر ۷ مورخہ ۱۸؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۵ وتذکرہ صفحہ ۴۶۳ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

وہ رؤیا جس کی طرف مندرجہ بالا عبارت میں اشارہ ہے یہ ہے:۔

’’رؤیا میں دیکھا کہ بشیر احمد (ابن حضرت مسیح موعودؑ) کھڑا ہے۔ وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا۔‘‘ (بدر جلد ۶ نمبر ۱۸ صفحہ ۱ کالم ۱، و مکاشفات صفحہ ۵۹) مندرجہ بالا الہامات کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی:۔

اور آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہوگا مجھے خبر دی…… اور فرمایا: ’’ـ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ ‘‘…… لیکن راستباز اس سے امن میں ہیں۔‘‘

(الوصیت۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۰۳)

’’خدا کے نشان ابھی ختم نہیں ہوئے اُس پہلے زلزلہ کے نشان کے بعد جو ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء میں ظہور میں آیا جس کی ایک مدت پہلے خبر دی گئی تھی پھر خدا نے مجھے خبر دی کہ بہار کے زمانہ میں ایک اور سخت زلزلہ آنے والا ہے وہ بہار کے دن ہوں گے نہ معلوم کہ وہ ابتداء بہار کا ہوگا جب کہ درختوں میں پتّہ نکلتاہے یا درمیان اُس کا یا اخیر کے دن۔ جیسا کہ الفاظ وحی الٰہی یہ ہیں۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔ چونکہ پہلا زلزلہ بھی بہار کے ایام میں تھا اس لئے خدا نے خبر دی کہ وہ دوسرا زلزلہ بھی بہار میں ہی آئے گا اور چونکہ آخر جنوری میں بعض درختوں کا پتّہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے اس لئے اِسی مہینہ سے خوف کے دن شروع ہوں گے اور غالباً مئی کے اخیر تک وہ دن رہیں گے۔‘‘

(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴)

’’ایک سخت زلزلہ آئے گا اور زمین کو یعنی زمین کے بعض حصوں کو زیر و زبر کر دے گا جیسا کہ لوط ؑکے زمانہ میں ہوا۔ ‘‘ (الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۴)

مندرجہ بالا الہامات اور رؤیا اور عبارات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) کانگڑے والے زلزلے سے زیادہ شدید زلزلہ آئیگا (۲) زلزلہ ہندوستان کے شمال مشرق میں آئیگا (۳) وہ زلزلہ بہار کے دنوں میں جو جنوری سے شروع ہوتے ہیں آئیگا (۴) جنوری کے مہینہ میں خوف کے ایام شروع ہونگے (۵) وہ زلزلہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کی زندگی میں آئیگا (۶) صاحبزادہ صاحب موصوف سب سے پہلے شخص ہونگے جو ا س پیشگوئی کے پورا ہونے کی طرف متوجہ ہو کر دوسروں کو توجہ دلائیں گے (۷) وہ زلزلہ نادر شاہ کے قتل کے بعد جو پہلی بہار آئے گی اس میں آئیگا۔

چنانچہ جیسا کہ یہاں ہوا۔ ’’نادر شاہ‘‘ ۸؍ نومبر ۱۹۳۳ء کو قتل ہوا۔ اور اس کے بعد جو پہلی بہار آئی یعنی جنوری ۱۹۳۴ء میں شمال مشرقی ہندوستان میں قیامت خیز زلزلہ آیا جو ’’زلزلہ بہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زندگی میں آیا اور آپ ہی نے سب سے پہلے اس طرف توجہ دلائی اور ایک ٹریکٹ ’’ایک اور نشان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس پیشگوئی میں ایک لطیف امر قابلِ غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے متعلق الہام ہوا کہ رَبِّ لَا تَرِنِیْ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ رَبِّ لَا تَرِنِیْ مَوْتَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ کہ اے میرے رب! مجھ کو وہ قیامت خیز زلزلہ نہ دکھانا۔ اے میرے رب! مجھے میری جماعت میں سے ایک آدمی کی موت نہ دکھانا۔ چنانچہ یہ زلزلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں نہیں آیا۔ جیسا کہ حضرتؑ کا الہام تھا اَخَّرَہُ اللّٰہُ اِلٰی وَقْتٍ مُسَمًّی۔ اس میں تاخیر ڈال دی (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰۳ حاشیہ) اور پھر اس زلزلہ میں صرف ایک احمدی فوت ہوا۔

۹۔ پنڈت دیانند کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’انکی زندگی کا خا تمہ ہو گیا ہے۔‘‘ اس الہام کا گواہ لالہ شرم پت ساکن قادیان ہے جس کو حضرت اقدس ؑ نے قبل از وقوع یہ بات بتائی تھی۔ سو وہ اسی سال مر گیا۔

۱۰۔ اپنی کتاب انوار الاسلام میں سعد اﷲ لدھیانوی کے اعتراض کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہونے کی پیشگوئی کی جس کا حلیہ بھی بیان فرمایا۔ خصوصًا یہ کہ اس کے جسم پر پھوڑے ہیں۔ (دیکھو انوار الاسلام صفحہ۶۶ حاشیہ مطبوعہ ستمبر ۱۸۹۴ء) چنانچہ اس کے قریبًا پانچ سال بعد حضرت خلیفہ اوّل کے گھر عبد الحی پیدا ہوا جس کے جسم پر پھوڑے تھے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۱۔ لیکھرام کی موت کی پیشگوئی بہت ہی واضح طور پر بیان فرمائی ؂

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ بترس از تیغ برّانِ محمدؐ

اور پھر عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌ لَہٗ نَصَبٌ وَّ عَذَابٌ۔ اور پھر دن کی بھی تعیین فرمائی کہ

وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَ قَالَ مُبَشِّرًا سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَ الْعِیْدُ اَقْرَبُ

لیکھرام کے چھ سال کے اندر مرنے کی پیشگوئی کرامات الصادقین جو صفر ۱۳۱۱ھ میں مطبوع ہوئی اور پھر ۲۲؍ فروری ۱۸۹۳ء کے اشتہار میں جو آئینہ کمالاتِ اسلام میں ہے۔ اس کے ٹکڑے ہونے کے متعلق پیشگوئی کی تھی۔ پھر وہ ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہوا ۱؂ ۔

۱۳۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

(براہین احمدیہ حصہ سوم۔ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷ حاشیہ در حاشیہ)

۱۳۔ سر الخلافہ کے ۶۲ صفحہ پر مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے دعا کی۔ (نیز حمامۃ البشریٰ صفحہ ۱ مطبوعہ ۱۸۹۳ء میں) اس پر الہام ہو ا۔

’’اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویراں کر دی۔‘‘ ( تذکرہ صفحہ ۴۲۵الہام ۱۲؍ اپریل ۱۹۰۴ء مطبوعہ ۲۰۰۴ء) سو پھر طاعون ملک میں آئی اور ہزاروں دشمن ہلاک ہوئے۔نمونۃً دیکھئے:۔

رُسل بابا امرتسری، محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ، چراغ دین جمونی، نور احمد تحصیل حافظ آباد، زین العابدین مقرب مولوی فاضل انجمن حمایت الاسلام، حافظ سلطان سیالکوٹی، مرزا سردار بیگ سیالکوٹی۔

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۶)

۱۴۔ مباہلہ کے طور پر کہنے پر مندرجہ ذیل منکرین مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوئے۔ رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا۔ پھر سانپ کے ڈسنے سے مر گیا۔ مولوی عبد العزیز ، مولوی عبد اﷲ، مولوی محمد لدھیانوی، مولوی شاہ دین لدھیانوی دیوانہ ہو کر ہلاک ہوا۔ عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے بعد الہام ھٰذا ہلاک ہو گئے۔ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہو گیا۔

۱۵۔ مولوی غلام دستگیر قصوری بد دعا کے بعد ہلاک ہو گیا اور نمونہ برائے اخوان خود مولویان منکرینِ مسیح ہیں۔

۱۶۔ مواہب الرحمان صفحہ ۱۲۷، ۱۲۸ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۳۴۶، ۳۴۸ میں محمد حسین بھیں کے متعلق پیشگوئی تھی۔ سو وہ مطابق وعید ہلاک ہوا۔

۱۷۔ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ وَلَوْ لَمْ یَعْصِمُکَ النَّاسُ (براہین احمدیہ) حالانکہ بعد میں مارٹن کلارک وغیرہ نے مقدمہ بنایا۔ پھر بھی خدا نے بچایا۔

۱۸۔ اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃِ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیگا۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۳)

۱۹۔ دلیپ سنگھ والی پیشگوئی (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۴۸ )

۲۰۔ عبد الحق غزنوی نے حضرت مسیحؑ کو کافر کا فتویٰ دیا …… تو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے اصرارِ مباہلہ پر دعا کی۔ کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جاؤں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے۔ (صفحہ ۲۴۰ حقیقۃ الوحی) سو یہ پوری ہوئی۔

۲۱۔ کی دعا کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی متجاوز از پانچ لاکھ ہیں اور یہ آپ کی صداقت کا بیّن ثبوت ہے۔

۲۲۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کو بخار ہوا۔ اور ان کو ظن ہو گیا کہ یہ طاعون ہے چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتے تھے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے۔ پھر آپ نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا تو بخار اتر گیا۔

۲۳۔ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَکُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ صاحبزادہ سید عبد اللطیفؓ مرحوم اور شیخ عبدالرحمن ؓ مرحوم شہدائے کابل مراد ہیں۔

۲۴۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے مضمون متعلقہ جلسہ دھرم مہوتسو کے بارے میں فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ ’’مضمون بالا رہا۔‘‘ سول اینڈ ملٹری گزٹ اور بھی بہت سے اردو اخبارات نے اس کا اقرار کیا۔

۲۵۔ فروری ۱۹۰۴ء کو بنگال کی تقسیم کے متعلق پیشگوئی فرمائی پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہو گی۔ پھر ۱۹۱۱ء میں ملک معظم جارج پنجم اس کے پورا ہونے کا باعث بنے۔

بارہویں دلیل

(الجمعۃ:۴) کہ ’’‘‘ میں بھی جو ابھی تک صحابہ ؓ سے نہیں ملے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول کی بعثت مقدر ہے۔ سورۃ جمعہ کی اس آیت کو پہلی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو بعثتیں مقرر کی گئی ہیں۔ پہلی بعثت آپ کی اُمّیین میں ہوئی اور دوسری بعثت آخرین کی جماعت میں ہو گی۔ اس کی تفصیل خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے بتائی ہے۔

چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیَْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُوْرَۃُ الْجُمْعَۃِ قَالَ قُلْتُ مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! فَلَمْ یُرَاجِعْہُ حَتّٰی سَأَلَ ثَلَا ثًا وَ فِیْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہٗ عَلٰی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِنْ ھٰؤُلَآءِ۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ جمعہ باب قولہ ۔ و تجرید البخاری مکمل معہ عربی ترجمہ شائع کردہ لاہور فیروز الدین اینڈ سنز جلد ۲ صفحہ ۳۷۰۔ نیز مشکوٰۃ کتاب المناقب باب جامع المناقب الجمعۃ زیرآیت۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۃ جمعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی جس میں یہ آیت بھی تھی۔ حضور ؐ سے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اﷲ! یہ کون لوگ ہیں۔ جن کا اس آیت میں ذکر ہے یعنی سے کون لوگ مراد ہیں؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ حتیّٰ کہ حضور ؐ سے تین دفعہ پوچھا گیا۔ اسی مجلس میں حضرت سلمان فارسیؓ بھی بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت سلمانؓ پر رکھ کر فرمایا۔ کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہو گا۔ تو ان (اہلِ فارس) میں سے ایک شخص یا ایک سے زائد اشخاص اس کو پا لیں گے۔

اس حدیث نے قرآن مجید کی اس آیت کی بالکل صاف اور واضح تفسیر کر دی ہے۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ (۱) اس میں کسی شخص کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کی آمد گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی آمد تصور کی جائیگی۔ (۲) اس کے ماننے والے صحابہؓ کے رنگ میں رنگین ہو کر صحابی کہلانے کے مستحق ہونگے۔ (۳) وہ شخص فارسی الاصل ہو گا۔ (۴) وہ ایسے زمانہ میں مبعوث ہو گا۔ جبکہ اسلام دنیا سے اٹھ جائیگا اور قرآن کے الفاظ ہی الفاظ دنیا میں باقی رہ جائیں گے۔ (۵) اس کا کام کوئی نئی شریعت لانا نہ ہو گا بلکہ قرآن مجید کو ہی دوبارہ دنیا میں لا کر شائع کرے گا اور اسی کی طرف لوگوں کو بلائے گا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اس حدیث میں ہرگز یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ شخص حضرت سلمان فارسیؓ کی نسل میں سے ہو گا بلکہ بتایا یہ گیا ہے کہ ’’ھٰؤُلَآءِ‘‘ ان میں سے ہو گا۔ یعنی قوم فارس میں سے یعنی فارسی الاصل ہو گا۔ اگر یہ کہنا ہوتا کہ وہ سلمان فارسیؓ کی نسل میں سے ہو گا تو بجائے مِنْ ھٰؤُلَآئِکہنے کے مِنْ ھٰذَا فرماتے کہ ’’اس میں سے‘‘ ہو گا۔ چنانچہ اسی حدیث کی دوسری روایت میں جو فردوس الاخبار دیلمی میں ہے۔ اس موقع پر یہ الفاظ ہیں:۔ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ ھٰؤُلَآءِ الَّذِیْنَ ذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فَضَرَبَ عَلٰی فَخْذِ سَلْمَانَ فَقَالَ قَوْمُ ھٰذَا (دیلمی صفحہ ۱۶۲ نسخہ موجودہ کتب خانہ آصفیہ نظام دکن) صحابہؓ نے پوچھا۔ یا رسول اﷲ! وہ کون لوگ ہیں جن کا اﷲ تعالیٰ نے میں ذکر فرمایا ہے؟ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلمان فارسیؓ کی ران پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ’’اس کی قوم سے‘‘ پس مسیح موعودؑ کا فارسی الاصل ہونا ضروری ہے نہ کہ سلمان ؓ کی نسل سے ہونا۔

دوسری بات جو قابلِ غور ہے۔ وہ یہ ہے کہ حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسیح موعودؑ کی بعثت کا زمانہ بتا دیا ہے۔ ’’وَلَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا۔‘‘ گویا جب ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا یعنی عملی طور پر مسلمان زوال پذیر ہو رہے ہونگے۔

پس اس حدیث سے مراد ’’حضرت امام ابو حنیفہؒ ‘‘ ہرگز نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دوسری صدی کے قریب پیدا ہوئے۔ اور وہ زمانہ عروج اسلام کا زمانہ تھا، لیکن یہ اس زمانہ کے متعلق پیشگوئی ہے جس کے متعلق فرمایا کہ ایمان اٹھ جائیگا اور اس زمانہ کے متعلق نواب نور الحسن خاں صاحب لکھتے ہیں کہ:۔

’’اب اسلام کا فقط نام قرآن کا صرف نقش باقی رہ گیا ہے۔‘‘

(اقتراب الساعہ صفحہ ۱۲ مطبع مفید عام الکائنۃ فی الرواۃ ۱۳۰۱ھ)

نیز ’’سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے۔‘‘ (اہلحدیث امرتسر ۱۴؍ جون ۱۹۱۲ء)

غرضیکہ یہی وہ زمانہ ہے جو خود پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کسی مصلح ربانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس فارسی الاصل مرد، فتح نصیب جرنیل کو عین ضرورت کے وقت قادیان کی مقدس بستی میں کھڑا کیا جس نے ایمان اور قرآن کو دوبارہ دنیا میں لانے کی ڈیوٹی کو کما حقّہٗ سر انجام دیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمیں

ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار

(ب) ’’افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں۔ اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ میں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو۔ ‘‘

(ضمیمہ اربعین نمبر ۳،۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۶۹)

نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مغل ہیں اس لئے فارسی الاصل نہیں ہو سکتے؟ تو اس کے جواب میں شاہانِ اسلامیہ کی تاریخ کے متعلق مستند ترین کتاب میڈیول انڈیا مصنفہ مسٹر سٹینلے لین پول (جو تاریخ کی مشہور کتاب ہے)۔

(Mediaeval India under Mohammadan Rule)

میں لکھا ہے کہ شاہانِ مغلیہ کے زمانہ میں یہ عام طور پر قاعدہ تھا کہ جو شخص درّہ خیبر کے راستہ سے ہندوستان میں داخل ہوتا۔ خواہ وہ افغان ہو یا فارسی یا کسی اور قوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہو پھر بھی ’’مغل‘‘ ہی کہلاتا تھا۔ اس لئے کسی کا محض ’’مرزا‘‘ یا ’’مغل‘‘ کہلانا اسے فارسی الاصل ہونے سے محروم نہیں کرتا۔

"The term Mughal…… came to mean any fair man from central Asia or Afghanistan as distinguished from the darker native, foreign invaders or governing Muslim class, Turks, Afghans, Pathans and Mughals eventually because so mixed that were indifferently termed Mughals."

(کتاب مذکور مطبوعہ ٹی فشران ون لمیٹڈ لندن پندرھواں ایڈیشن ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۹۷ حاشیہ)

یعنی لفظ ’’مغل‘‘ ہندوستان کے کالے باشندوں کو ایشیاء کے دوسرے باشندوں سے ممیز کرنے کیلئے بولا جاتا تھا۔ مختلف حملہ آور یا حکمران مسلمان، ترک، افغان، پٹھان اور مغل کچھ اسی طرح مل جل گئے کہ سب کو بلا امتیاز ’’مغل‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ہر گورے شریف آدمی کو ’’مغل‘‘ کہا جاتا تھا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ناقابل تردید ثبوت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی الاصل ہونے کا نا قابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ بندوبست مال ۱۸۶۵ء میں حضرت صاحب کے دعویٰ سے سالہا سال پہلے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد اور دوسرے بزرگ زندہ موجود تھے قادیان کے مالکان کے شجرۂ نسب کے ساتھ ’’فٹ نوٹ‘‘ میں بعنوان ’’قصبہ قادیان کی آبادی اور و جہ تسمیہ‘‘ لکھا ہے:۔

’’مورث اعلیٰ ہم مالکانِ دیہہ کا بعہد شاہانِ سلف (ملک فارس) سے بطریق نوکری …… آ کر …… اس جنگل افتادہ میں گاؤں آباد کیا۔‘‘

اور اس کے نیچے مرزا غلام مرتضیٰ صاحب و مرزا غلام جیلانی صاحب و مرزا غلام محی الدین وغیرھم کے دستخط ہیں۔ پس:۔

(ا) یہ سرکاری کاغذات کا اندراج حضرت صاحبؑ کے دعویٰ سے سالہا سال قبل کا حضرت صاحب کے فارسی الاصل ہونے کا یقینی ثبوت ہے۔

(ب) مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتا ہے:۔

’’مؤلّف براہینِ احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۷ صفحہ ۱۹۳)

(ج) ’’جناب مرزا صاحب یافث بن نوحؑ کی اولاد سے ہیں۔‘‘

(ٹریکٹ امر بھائی اور قرآنِ حکیم مصنفہ ایم۔ اے لطیف صفحہ ۱۶)

یافث بن نوحؑ کے متعلق ملاحظہ ہو غیاث اللغات فارسی:۔

’’شیخ ابن حجرؒ شارح صحیح بخاری گفتہ است کہ فارسی منسوب بفارس بن غامور بن یافث بن نوح علیہ السلام است۔‘‘

پس حضرت اقدس علیہ السلام کا فارسی الاصل ہونا ثابت ہے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:۔

ا۔’’اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا …… معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے انکو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدانے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۸۱ حاشیہ)

(ب) ’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے …… اب خدا کی کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا شکی اور ظنّی۔‘‘ (اربعین نمبر ۱،۲۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۵حاشیہ)

تیرھویں دلیل

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِ۔‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ) کہ مسیح و مہدی کے ظہو ر کی نشانیاں بارھویں صدی کے گزرنے پر ظاہر ہوں گی۔ چنانچہ ہم نے جو معنے کئے ہیں۔ حضرت ملا علی قاری نے بھی ان کی تائید کی ہے۔ وَیَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ اللَّامُ فِی الْمِأَتَیْنِ لِلْعَھْدِ اَیْ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِ بَعْدَ الْاَلْفِ وَھُوَ الْوَقْتُ لِظُھُوْرِ الْمَھْدِیِّ۔‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ۔نیز دیکھو حاشیہ ابن ماجہ جلد ۲ صفحہ ۲۶۱ مصری حاشیہ علامہ سندھی) کہ ممکن ہے اَلْمِأَتَیْنِ کا الف لام اس عہد کے لئے ہو جو ایک ہزار کے دو سو سال بعد کا ہے (یعنی ۱۲۰۰) اور وہی وقت ظہور مہدی کا ہے۔

چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی اپنی کتاب حجج الکرامہ صفحہ ۴۱ وصفحہ ۳۹۴ و صفحہ ۳۹۵ مطبع شاہجہانی بھوپال پر بہت سی روایات نقل کر کے یہی نتیجہ نکالا ہے۔ کہ مہدی تیرھویں صدی میں نازل ہونا چاہیے۔

نواب نور الحسن خاں لکھتے ہیں۔ ’’اس حساب سے ظہور مہدی کا شروع تیرھویں صدی پر ہونا چاہیے تھا مگر یہ صدی پوری گزر گئی مہدی نہ آئے۔ اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے۔ اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ شاید اﷲ تعالیٰ اپنا فضل و عدل رحم و کرم فرمائے۔ چار چھ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں۔‘‘

(اقتراب الساعہ از نواب نور الحسن خان صاحب صفحہ ۲۲۱ مطبع مفید عام الکائنۃ فی الرواۃ)

’’بَعْدَ الْمِأَتَیْنِ‘‘کے رو سے بارھویں صدی کے ختم ہونے پر تیرھویں صدی میں امام مہدی کا پیدا ہونا ضروری تھا۔ ایسے وقت میں کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر چالیس سال کا ہو کر دعویٰ کر سکے۔ یہ تو ممکن نہیں کہ مہدی بارہویں صدی میں پیدا ہو۔ کیونکہ بَعْدَ الْمِأَتَیْنِمیں لفظ بعد بتاتا ہے کہ وہ بارہویں صدی کے ختم ہونے سے پہلے پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اس و جہ سے کہ امام مہدی نے اپنی صدی کا مجدد ہونا تھا اسلئے اسے تیرھویں صدی میں ایسے وقت میں پیدا ہونا تھا کہ اگلی صدی کے سر پر اس کی عمر چالیس سال کی ہو۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جو ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ھ مطابق ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعہ پیدا ہوئے اور ۱۲۹۰ھ کو چودھویں صدی کے سر پر آپ عین چالیس برس کی عمر میں شرفِ مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو کر دعویٰ مہدویت کے ساتھ ظاہر ہوئے اور عین چودھویں صدی کے سر پر آپ نے دعویٰ کیا۔ گویا حدیث اور روایات کے عین مطابق آپؑ دنیا میں تشریف لائے۔ سچ ہے ؂

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت

میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا!

(مسیح موعود ؑ)

چودھویں دلیل

حدیث شریف میں ہے:۔

’’اِنَّ لِمَھْدِیِّنَا اٰیَتَیْنِ لَمْ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَنْکَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْکَسِفُ الشَّمْسُ فِی النِّصْفِ مِنْہُ۔‘‘

(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلوٰۃ الخسوف)

کہ ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں۔ اور یہ صداقت کے دونوں نشان کبھی کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان میں چاند کو (چاند گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات کو اور (سورج گرہن کے دنوں میں سے) درمیانے دن کو سورج کو گرہن لگے گا۔

چنانچہ یہ گرہن ۱۸۹۴ء میں لگا۔ یعنی چاند کی ۱۳۔۱۴۔۱۵ تاریخوں میں سے ۱۳ تاریخ کو رمضان کے مہینہ میں چاند (قمر) کو اور ۲۷۔۲۸۔۲۹ تاریخوں میں سے ۲۸ تاریخ کو ماہ رمضان میں سورج کو گرہن لگا۔

رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن لگنا حدیث شریف میں مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے لفظ ’’قمر‘‘ بولا ہے اور ’’قمر‘‘ پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند کو کہتے ہیں۔ پہلی رات کے چاند کو ہلال کہتے ہیں۔

یُسَمَّی الْقَمَرُ لِلَیْلَتَیْنِ مِنْ اَوَّلِ الشَّھْرِ ھِلَالًا…… قَالَ الْجَوْھَرِیُّ اَلْقَمَرُ بَعْدَ ثَلَاثٍ اِلٰی اٰخِرِ الشَّھْرِ…… قَالَ ابْنُ السَّیْدَۃِ…… وَ الْقَمْرُ یَکُوْنُ فِی لَیْلَۃِ الثَّالِثَۃِ مِنَ الشَّھْرِ۔‘‘

(لسان العرب زیر لفظ قمر)

کہ جوہری کہتا ہے کہ قمر وہ ہوتا ہے جو دوسری رات کے بعد کا چاند ہو۔ اور اسی طرح ابن سیدہ نے بھی کہا ہے کہ مہینہ کی تیسری رات کو چاند قمر ہو جاتا ہے۔

۲۔ ’’وَھُوَ قَمَرٌ بَعْدَ ثَلَاثِ لَیَالٍ اِلٰی اٰخِرِ الشَّھْرِ وَ اَمَّا قَبْلُ ذَالِکَ فَھُوَ ھِلَالٌ۔‘‘

( منجد زیر لفظ قمر)

کہ تین راتوں کے بعد چاند قمر ہو جاتا ہے اور اس سے پہلے جو چاند ہوتا ہے اس کو ہلال کہتے ہیں۔ پس حدیث میں اول اور درمیانے سے مراد وہی ہو سکتی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اس کا پورا ہونا خود اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے۔

۳۔ اس حدیث کو دار قطنی نے نقل کیا ہے جو خود ایک بڑا عالم اور علمِ حدیث میں یگانہ تھا۔ جیسا کہ ضمن نمبر ۱۲ میں نخبۃ الفکر کے حوالہ سے بتایا گیا ہے۔

(شرح نخبۃ الفکر للقاری۔ الموضوع جزء نمبر۱ صفحہ ۴۳۶)

نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیث کی صحت کے متعلق خوب مفصل بحث ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں تحریر فرما دی ہے۔ وہاں سے دیکھی جائے۔

چاند کو یہ گرہن ۲۱؍ مارچ ۱۸۹۴ء کو لگا۔ دیکھو اخبار آزاد ۴؍ مئی ۱۸۹۴ء۔ نیز سول اینڈ ملٹری گزٹ ۶؍ اپریل ۱۸۹۴ء۔

۳۔ یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں پائی جاتی ہے۔ جس سے اس کی صحت کا پتہ چلتا ہے۔

(۱) دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الصلٰوۃ الخسوف۔

(۲) فتاویٰ حدیثیہ حافظ ابن حجر مکیؒ۔ مصنفہ علامہ شیخ احمد شہاب الدین ابن حجر الہیتمی مطلب فی علامۃ خروج المہدی و ان القحطانی بعد المہدی ۔

(۳) احوال الآخرۃ حافظ محمد لکھوکے صفحہ ۲۳ مطبوعہ ۱۳۰۵ھ۔

(۴) آخری گت مصنفہ مولوی محمد رمضان حنفی۔ مجتبائی مطبوعہ ۱۲۷۸ھ

(۵) حجج الکرامہ صفحہ ۳۴۴۔ مؤلفہ نواب صدیق حسن خان صاحب۔مطبع شاہجہانی واقع بلاہ بھوپال

(۶) عقائد الاسلام مصنفہ مولانا عبد الحق صاحب محدث دہلوی صفحہ ۱۸۲،۱۸۳ مطبوعہ ۱۲۹۲ھ

(۷) قیامت نامہ فارسی و علاماتِ قیامت اردو مصنفہ شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی۔

(۸) اقتراب الساعۃ نواب نور الحسن خان صفحہ ۱۰۶ و ۱۰۷ مطبوعہ ۱۳۰۱ھ۔

(۹) مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی جلد ۲ صفحہ ۱۳۲ مکتوب نمبر ۶۷

(۱۰) اکمال الدین صفحہ ۳۶۹ از شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمۃ جلد دوم مطبوعہ کتاب فروشی تہران۔

(۱۱) حجج الکرامہ میں لکھا ہے کہ نعیم بن حماد، ابو الحسن خیری، حافظ ابو بکر بن احمد اور بیہقی اس کے راوی ہیں (صفحہ ۳۴۴)

(۱۲)علاوہ ازیں یہ حدیث دار قطنی کی ہے اور دار قطنی اس بلند پایہ کا محدث ہے کہ شرح نخبۃ الفکر میں لکھا ہے:۔ قَالَ الدَّارُ قُطْنِیْ یَا اَھْلَ بَغْدَادَ لَا تَظُنُّوْا اَنَّ اَحَدًا یَقْدِرُ اَنْ یَّکْذِبَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاَنَا حَیٌّ۔ (شرح نخبۃ الفکر للقاری ۔ الموضوع جزء نمبر ۱ صفحہ ۴۳۶)

کہ امام دار قطنی نے فرمایا کہ اے اہل بغداد! یہ خیال نہ کرو کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی حدیث منسوب کر سکتا ہے جبکہ میں زندہ ہوں۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
پندرہویں دلیل

حدیث شریف میں ہے:۔

’’عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔‘‘

(ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المأۃو مشکوٰۃ کتاب العلم )

کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس اُمت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث فرمایا کرے گا جو آ کر دین کی تجدید کرے گا۔

صحتِ حدیث

(ا) ’’وَقَدْ اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی تَصْحِیْحِ ھٰذَا الْحَدِیْثِ مِنْھُمُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرَکِ وَا لْبَیْھَقِیُّ فِی الْمُدْخَلِ وَ مِمَّنْ نَصَّ عَلٰی صِحَّتِہٖ مِنَ المُتَاََخِّرِیْنَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ۔(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۳ مطبع شاہجہانی بھوپال) کہ استادانِ حدیث کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔ ان میں سے حاکم نے مستدرک میں بیہقی نے مدخل میں اس کو لکھا ہے اور متاخرین میں سے جن لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ان میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ بھی ہیں۔

(ب) ’’ھٰذَا الْحَدِیْثُ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلَی الصَّحِیْحِ مِنْھُمُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرِکِ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ۔‘‘ (مرقاۃ الصعود شرح ابن داؤد زیر حدیث ھٰذا) یعنی استادان حدیث کا اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔ جن میں سے امام حاکم نے مستدرک میں اور بیہقی نے مدخل میں اس حدیث کی صحت کا اقرار کیا ہے۔

(ج) علامہ سیوطی اپنے رسالہ ’’تنبیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:۔

’’اِتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی صِحَّتِہٖ۔‘‘کہ تمام محدثین اس حدیث کی صحت پر متفق ہیں۔ نیز اپنی کتاب جامع الصغیر جلد۱ صفحہ ۷۴ باب الالف میں بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

(د) حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال میں لکھا ہے:۔ ’’چنانچہ در حدیث مشہور آمدہ است اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ الخ رَوَاہُ اَبُوْ دَاوٗدَ اَلْحَاکِمُ وَالْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَعْرِفَۃِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ بِاِسْنَادٍ صَحِیْحٍ‘‘۔ کہ مشہور حدیث میں ہے کہ ہر صدی کے سر پر اﷲ تعالیٰ مجدد مبعوث کیا کرے گا۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور امام حاکم اور بیہقی نے معرفہ میں ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(ھ) یہ حدیث ابو داؤد میں ہے جو صحاح ستہ میں سے ہے۔

ضروری نوٹ:۔ بعض غیر احمدی دوست جب عاجز آ جاتے ہیں تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ مجدد کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ اس صدی کا مجدد دنیا میں موجود ہو (رشید احمد گنگوہی وغیرہ) مگر اس نے دعویٰ نہ کیا ہو۔ کیا کسی پہلے مجدد نے بھی دعویٰ مجددیت کیا ہے؟

اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ:۔

۱۔ تمام گزشتہ مجددین کی جملہ تحریرات ہمارے پاس محفوظ نہیں ہیں تا کہ ہم ہر ایک کا دعویٰ ان کی اپنی زبانی دکھا سکیں۔ ہاں جن مجددین کی بعض تحریرات محفوظ ہیں ان میں سے تین کا دعویٰ درج کیا جاتا ہے۔

ا۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:۔

صاحب ایں علوم و معارف مجدد ایں الف است کَمَا لَا یَخْفٰی عَلَی النَّاظِرِیْنَ فِیْ عُلُوْمِہٖ وَ مَعَارِفِہٖ…… و بدانند کہ بر سر مائۃ مجددی گزشتہ است، اما مجدد مائۃ دیگر است و مجدد الف دیگر۔ چنانچہ درمیان مائۃ و الف فرق است، در مجددین اینہا نیز ہما نقدر فرق است بلکہ زیادہ ازاں۔

(مکتوبات امام ربانی جلد۲ صفحہ ۱۴،۱۵ مکتوب چہارم)

ب۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔

’’قَدْ اَلْبَسَنِیَ اللّٰہُ خِلْعَۃَ الْمُجَدَّدِیَّۃِ۔‘‘

(تفہیمات الہٰیہ بحوالہ حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۸ مطبع شاہجہانپوری بھوپال)

ج۔ حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔

’’اِنِّیَ الْمُجَدِّدُ۔‘‘ (حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۸ مطبع شاہجہانپوری بھوپال)

۲۔ اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ عام طور پر دعویٰ کرنا ضروری نہیں پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ چودھویں صدی کے مجدد کے لئے دعویٰ کرنا ضروری تھا۔ کیونکہ بقولِ شما ’’جھوٹا مجدد‘‘ (نعوذ باﷲ) میدان میں کھڑا للکار رہا تھا۔

’’ہائے! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے۔‘‘

(ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۶۹)

’’افسوس اِن لوگوں کی حالتوں پر۔ ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی اور صدی پر بھی سترہ برس گذر گئے مگر ان کا مجدد اب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے۔ ‘‘

(اربعین نمبر ۳۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۹۹)

پس اگر اس وقت کوئی ’’سچا مجدد‘‘ بھی بقولِ شما بقیدِ حیات موجود تھا (جس کو خدا تعالیٰ نے اُمتِ محمدؐیہ کو گمراہی سے بچانے کے لئے مبعوث کیا ہوا تھا) تو اس کا فرض تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بالمقابل دعوٰے کر کے اُمت محمدؐیہ کو گمراہی سے بچاتا۔ ان حالات میں اس کا خاموش رہنا تو ’’اَلسَّاکِتُ عَنِ الْحَقِّ شَیْطَانٌ اَخْرَسُ‘‘ (تذکرۃ الاولیاء صفحہ ۳۹۰ باب ۸۶) کے مطابق اس کو ’’گونگا شیطان‘‘ قرار دیتا ہے۔ چہ جائیکہ اس کو ’’مدعی مفقود اور گواہ موجود‘‘ کا مصداق بناتے ہوئے مضحکہ خیز طور پر ’’مجدد‘‘ قرار دیا جائے۔

فہرست مجددین اُمت محمدیہ

(۱) پہلی صدی:۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ۔

(۲) دوسری صدی:۔ حضرت امام شافعی ؒ (احمد بن حنبل)۔

(۳) تیسری صدی:۔ حضرت ابو شرحؒ و ابو الحسن الشعریؒ۔

(۴) چوتھی صدی:۔ حضرت ابو عبید اﷲ نیشاپوری و قاضی ابوبکر باقلانی رحمۃ اﷲ علیھم۔

(۵) پانچویں صدی:۔ حضرت امام غزالیؒ۔

(۶) چھٹی صدی:۔ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۷) ساتویں صدی:۔ حضرت امام ابن تیمیہ ؒ و حضرت خوا جہ معین الدین چشتی اجمیری۔

(۸) آٹھویں صدی:۔ حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ و حضرت صالح بن عمر رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۹) نویں صدی:۔ حضرت امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۱۰) دسویں صدی:۔ حضرت امام محمد طاہر گجراتی رحمۃ اﷲ علیہ۔ (حجج الکرامۃ صفحہ ۳۹۵،۳۹۶)

(۱۱) گیارہویں صدی:۔ حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ۔(حجج الکرامۃ صفحہ ۳۹۵،۳۹۶)

(۱۲) بارہویں صدی:۔ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۱۳) تیرہویں صدی:۔ حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ۔

(۱۴) چودہویں صدی:۔ ’’و بر سر مائۃ چہاردہم کہ دہ سال کامل آنرا باقی است۔ اگر ظہورِ مہدی علیہ السلام و نزولِ عیسیٰ ؑ صورت گرفت۔ پس ایشاں مجدد و مجتہد باشند‘‘۔

(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۱۳۵ تا ۱۳۹ مطبع شاہجہان پوری بھوپال)

کہ چودہویں صدی کے سر پر جس کو ابھی پورے دس سال باقی رہتے ہیں اگر مہدی اور مسیح موعود ؑ ظاہر ہو گئے تو وہی چودہویں صدی کے مجدد ہوں گے۔

ب۔ پس تواں گفت کہ دریں دہ سال کہ از مائۃِ ثالث عشر باقی است ظہور کند یا بر سرِ چہاردہم۔‘‘

(حجج الکرامہ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۴۱ مطبع شاہجہان پوری بھوپال)

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عین وقت (چودھویں صدی کے سر) پر ظاہر ہوئے پس اگر آپ مجدد نہیں ہیں تو کوئی اور مجدد بتاؤ۔ جو چودہویں صدی کے سر پر آیا ہو۔ اگر کوئی غیر مسلم تم سے پوچھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق چودہویں صدی کا مجدد کہاں ہے تو اسے کیا جواب دو گے؟

اب تو چودھویں صدی میں سے بھی ۷۲ برس گزر گئے۔ سچ تو یہی ہے کہ ؂

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت

میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

(مسیح موعود ؑ)

پس خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت پر تبر نہ چلاؤ اور مخالفین اسلام کو اسلام پر مزید اعتراضات کرنے کا موقع نہ دو۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سولھویں دلیل


(سورۃ الصف:۷)

اور جب عیسیٰ بن مریمؑ نے کہا۔ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ تصدیق کرتا ہوں اس کی جو میرے سامنے ہے یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔

ان آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے احمد رسول کی آمد کی بشارت دی ہے۔ اور صرف اس کا نام بتانے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کی بعض نہایت ضروری علامات بھی بیان فرما دی ہیں۔ اس پیشگوئی کے حقیقی مصداق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں بلکہ آپ کا غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہیں:۔

پہلی و جہ:۔ ان آیات کے ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:۔ (الصف:۸) کہ اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو سکتا ہے جو اﷲ پر جھوٹ باندھے (الہام کا جھوٹا دعویٰ کرے) اور وہ بلایا جائے گا اسلام کی طرف۔

اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جب احمد رسول اﷲ آئے گا تو لوگ اس کی مخالفت کریں گے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر احمد رسول اﷲ (نعوذ باﷲ) فی الواقعہ خدا کی طرف سے نہیں تو اندریں صورت وہ مفتری علی اﷲ ٹھہرتا ہے اور مفتری علی اﷲ سے بڑھ کر اور کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ اور جو ظالم ہو اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ (الانعام:۲۲) کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ نیز (النحل:۱۱۷) کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے ہیں اور اپنے پاس سے جھوٹے الہامات بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پس اگر احمد رسول فی الواقعہ اپنے دعویٰ میں سچا نہیں تو اندریں صورت اس کو اسلامی تعلیم کی رو سے ناکام و نامراد ہو جانا چاہیے مگر وہ اپنے تمام دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے اپنے تمام مقاصد میں کامیاب و کامران ہو گا اور اس کی کامیابی اور کامرانی قطعی طور پر ثابت کر دے گی کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق ہے اور اسلامی تعلیم کی رو سے وہ حق پر اور اس کے مخالفین ناحق پر ہیں۔ مگر باوجود اس واضح طریق فیصلہ کے پھر بھی اس کو اس کے مخالفین دعوت اسلام دیں گے اور کہیں گے کہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے۔ پس آ اور مسلمان ہو جا۔ اس طرح وہ احمد رسول جو اسلامی تعلیم کی رو سے مفتری علی اﷲ ثابت نہیں ہوا الٹا اسلام کی طرف دعوت دیا جائے گا۔ پس پہلی نشانی جو اس احمد رسول کی بتائی گئی ہے وہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف دعوت دیا جائے گا۔ اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:۔

ا۔ وہ احمد رسول ایسے زمانہ میں آئے گا جبکہ دنیا میں اسلام کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ پہلے سے موجود ہوں گے گویا وہ خود بانیٔ اسلام نہیں ہو گا۔

ب۔ اس کے مخالفین اس پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور خود کو حقیقی مسلمان قرار دیں گے۔

پس مندرجہ بالا علامات صاف طور پر بتا رہی ہیں کہ اس پیشگوئی کا حقیقی مصداق ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلام، احمدؑ کے متعلق ہے کیونکہ

۱۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے مخالف اپنے آپ کو اسلام کے مدعی قرار نہیں دیتے تھے۔

۲۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بانیٔ اسلام ہیں۔ آپؐ کے مخالفین نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان قرار نہیں دیا اور نہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو غیر مسلم قرار دے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسلام کی طرف دعوت دی۔

نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہیے کہ میں کی ضمیر کا مرجع خواہ ’’‘‘ اور ’’‘‘کو قرار دیا جائے اور خواہ ’’احمد‘‘ کو قرار دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں حقیقی مرجع ’’احمد‘‘ ہی بنتا ہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ میں جس شخص کی طرف اشارہ ہے۔ وہ وہی ہے جس پر ’’مفتری علی اﷲ‘‘ ہونے یعنی الہام کا جھوٹا دعویٰ کرنے کا الزام ہے اور جس کی اس الزام سے بریت مقصود ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ احمد رسول ہی ہے جس کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ (النمل:۱۴) کہ درحقیقت یہ خدا کا رسول نہیں بلکہ جادوگر ہے اور جادو کی مدد سے یہ نشانات دکھاتا ہے۔ پس میں احمد رسول کے منکروں کا ذکر نہیں بلکہ خود احمد رسول کی بریت کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس احمد رسول پر مفتری ہونے کا الزام لگاتے ہو حالانکہ مفتری سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوتا اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہے کہ یہ ’’ظالم‘‘ نہیں۔ کیونکہ اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران ہے۔ پس میں کی ضمیر کا مرجع بہرحال ’’احمد رسول‘‘ ہی ہے نہ کوئی اور۔

دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی نے جادوگر قرار نہیں دیا۔ سو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے دشمنوں نے ’’جادوگر‘‘۔ ’’ساحر‘‘۔ رمّال اور نجومی قرار دیا ہے۔ چند حوالہ جات درج ذیل ہیں:۔

۱۔ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اپنی سرقہ کردہ کتاب موسومہ ’’سیف چشتیائی‘‘ میں لکھتے ہیں:۔

’تمہارے تیس سال کے سحروں اور شعبدہ بازیوں کو دفعۃً ہی نگل گیا۔‘‘

(سیف چشتیائی از مہر علی گولڑوی صفحہ ۱۰۷)

۲۔ ’’معلوم ہوا کہ اب تک ساحر قادیانی کا گھر نحوستوں سے بھرا ہوا ہے۔‘‘

(تکذیب براہین احمدیہ مصنفہ لیکھرام جلد ۲ صفحہ ۲۹۸مطبع دھرم پرچارک جلندھر)

۳۔ ’’یہی ساحر قادیانی ہے۔‘‘ (ایضًا صفحہ ۳۰۰)

۴۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتا ہے:۔

’’اگرچہ یہ پیشگوئی (متعلقہ وفات احمد بیگ۔ خادم) تو پوری ہو گئی۔ مگر یہ الہام سے نہیں بلکہ علم رمل یا نجوم وغیرہ سے کی گئی تھی۔‘‘

(اشاعۃ السنہ بحوالہ اشتہار ۶؍ ستمبر ۱۸۹۴ء مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۹)

۵۔ ایک مخالف مولوی پنجابی شعر میں کہتا ہے ؂

جادوگر ہے ساحر بھارا، مسمریزم جانے

رمل نجوم تے ہور بہتیرے کسبی علم پچھانے

(بجلی آسمانی مصنفہ مولوی فیض محمد ؐ صفحہ ۱۲۳)

یعنی مرزا قادیانی (علیہ الصلوٰۃ والسلام) جادوگر اور ساحر ہیں اور مسمریزم اور رمل و نجوم وغیرہ علوم خوب جانتے پہچانتے ہیں۔

دوسری و جہ:۔ ’’۔‘‘(الصف:۹) کہ لوگ چاہیں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر خدا تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرے گا۔

اس آیت میں (جو والی آیت کے ساتھ ہی ملحق ہے) اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ احمد رسول کا زمانہ وہ ہو گا جس میں اسلا م کو تلوار کے زور سے مٹانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ بلکہ مزعومہ دلائل کے ساتھ اسلام کا مقابلہ کیا جائیگا۔ گویا منہ کی پھونکیں ماری جائینگی۔ سو یہ علامت بھی صاف طور پر بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی پیشگوئی کے مصداق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاص غلام۔ احمد رسول اﷲ ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ منہ کی پھونکوں کا نہ تھا بلکہ لوگ اسلام کو تلواروں کی طاقت سے مٹانا چاہتے تھے۔ لیکن آج دلائل مزعومہ کے زور یعنی منہ کی پھونکوں سے اسلام کو بجھایا جا رہا ہے۔ یہی و جہ ہے کہ حاسد سلسلہ رسوائے عالم اخبار ’’زمیندار‘‘ کے ٹائٹل پر بھی یہ شعر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ؂

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تیسری و جہ:۔ یہ ہے کہ اس سے اگلی آیت ہے:۔ ’’الخ‘‘کہ وہی اﷲ ہے جس نے احمد رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسلام کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دے۔

اس آیت کے متعلق تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے۔ کیونکہ اسلام کا یہ موعودہ غلبہ اسی کے زمانہ میں ہو گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:۔

ا۔ ’’وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِی زَمَنِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّاالْاِسْلَامَ‘‘

(ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج دجال قبل یوم القیامۃ)

کہ اﷲ تعالیٰ مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں تمام جھوٹے دینوں کو نیست و نابود کرکے صرف اسلام کو قائم کر ے گا۔

ب۔ ابن جریر میں ہے:۔

’’ ………… ذَالِکَ عِنْدَ خُرُوْجِ عِیْسٰی۔‘‘ (ابن جریر زیر آیت …… الخ الصّف:۹) کہ اس آیت میں جس غلبۂ اسلامی کا ذکر ہے وہ مسیح موعود ؑ کی بعثت کے بعد واقع ہو گا۔

نیز دیکھو تفسیر حسینی مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۵۳۸ سورۃ صف زیر آیت بالا۔

ج۔ نیز لکھا ہے:۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ قَوْلِہٖ الخ قَالَ حِیْنَ خُرُوْجِ عِیْسٰی۔‘‘

(ابن جریر زیر آیت …… الخ الصّف:۹)

کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے ظہور کے بعد ہو گا۔ پس ثابت ہے کہ یہ آیت ساری کی ساری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کی پیشگوئی ہے۔ نہ کسی اور کی۔

چوتھی و جہ:۔ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مثیل موسیٰؑ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیلِ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل کی پیشگوئی کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مثیل (مسیح موعودؑ) کی۔

پانچویں و جہ:۔ یہ کہ اس پیشگوئی کا قرآن مجید میں ذکر کرنے سے مقصود بخیال غیر احمدیاں صرف عیسائیوں پر اتمامِ حجت کرنا اور احمد رسول کی صداقت کی ایک دلیل دینا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا والدین نے جو نام رکھا وہ احمد نہیں بلکہ محمدؐ تھا۔ عیسائی تو ہرگز نہیں مانتے کہ آپؐ کا نام احمد تھا۔ کسی مدعی کا یہ کہنا کہ اﷲ نے میرا نام یہ رکھا ہے اس کے ماننے والوں کے لئے تو حجت ہو سکتا ہے لیکن اس کے منکروں پر ہرگز حجت نہیں ہو سکتا اور جو پہلے ہی مانتا ہے اس کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں اور جو نہیں مانتا اس کے لئے یہ دعویٰ دلیل نہیں بن سکتا۔ پس اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جائے تو یہ عیسائیوں کے لئے کوئی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔ لہٰذا اس کے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ پس اس پیشگوئی کا مصداق وہی ہے جس کے نام کا ضروری حصہ احمد ہے۔ صفاتی نام نہیں بلکہ ذاتی نام (عَلَم) ہے۔

بیشک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک صفاتی نام ’’احمد‘‘ بھی ہے مگر یہ آپ کا تعلق انسانوں سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے ہے جس کو کوئی انسان خودبخود نہیں دیکھ سکتا۔ کیونکہ ’’احمد‘‘ کے معنی ہیں ’’سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔‘‘ اور محمد کے معنی ہیں ’’سب سے زیادہ تعریف کیا گیا۔‘‘ گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خدا تعالیٰ کی سب سے زیادہ حمد اور تعریف کرنے والے ہیں۔ اس لئے آپ صفاتی طور پر احمد ہیں لیکن دنیا کے ساتھ آپ کا تعلق محمدؐیت کا ہے۔ پس ایک عیسائی کے لئے آپ کی شانِ احمدیت کو سمجھ کر اس پر ایمان لانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم انسانوں کے محمدؐ ہیں اور احمدؐ اﷲ تعالیٰ کے ہیں۔

نوٹ:۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام حضورؐ کے والدین نے یا حضورؐ کے داد ا نے بوقتِ پیدائش احمد رکھا تھا مگر ان تمام روایات کے متعلق یاد رکھنا چاہییکہ یہ سب ’’موضوع‘‘ روایات ہیں۔ ان میں سے اکثر ’’واقدی‘‘ کی ہیں۔ جو جھوٹی حدیثیں گھڑنے والوں کا استاد ہونے کی و جہ سے ’’رئیس الوضّاعین‘‘ کہلاتا ہے۔ چنانچہ ان روایات کے متعلق حضرت امام محمد شوکانی لکھتے ہیں:۔ وَمِنْھَا اَحَادِیْثُ الَّتِیْ تُرْوٰی فِیْ تَسْمِیَّۃِ اَحْمَدَ لَا یُثْبَتُ مِنْھَا شَیْءٌ۔

(فوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ للشوکانی صفحہ ۱۴۶/۱۰۸)

یعنی بعض وہ روایات ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ حضورؐ کا نام احمد رکھا گیا تھا، لیکن ان روایات سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
چھٹی و جہ:۔ یہ ہے کہ لفظ محمد کے معنے ہیں کہ ’’سب سے زیادہ تعریف کیا گیا۔‘‘ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ’’محمد‘‘ ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ کوئی شخص آپ کا ’’احمد‘‘ (سب سے زیادہ تعریف کرنے والا) ہو۔ گویا خود لفط ’’محمد‘‘ میں یہ پیشگوئی ہے کہ کوئی انسان دنیا میں احمد ہو کر آئے گا۔ جو اس نبی عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ تعریف کرے گا۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہم صفاتی طور پر ’’احمد‘‘ مانتے ہیں۔ لیکن یہ تعلق آپؐ کا خدا سے ہے، مگر یہ پیشگوئی (والی) عیسائیوں پر اتمام حجت کے لئے بیان کی گئی ہے۔ اور عیسائی اس تعلق کو جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا سے ہے جان یا مان نہیں سکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس پیشگوئی کا وہی مصداق ہو جو ظاہری طور پر احمد ہو یعنی جس کا عَلَم احمد ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام احمد تھا۔ ’’غلام احمد‘‘ کے لفظ میں لفظ ’’غلام‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے اکثر ناموں کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ غلام مرتضیٰ، غلام قادر، غلام مجتبیٰ وغیرہ اور ظاہر ہے کہ عَلَم وہی ہوتا ہے جو تمیز واقع ہو اور ’’غلام احمد‘‘ میں سے تمیز احمد ہے۔ پس وہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عَلَم ہے۔

چنانچہ اس کا دوسرا زبردست ثبوت یہ ہے کہ آپ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب بھی آپ کا نام احمد ہی سمجھتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کے نام پر جو دو گاؤں آباد کئے ان کے نام ’’قادر آباد‘‘ اور ’’احمد آباد‘‘ علیٰ الترتیب مرزا غلام قادر اور غلام احمد علیہ السلام کے نام پر رکھے۔

غیر احمدی:۔ میں لَمَّا ماضی پر آیا ہے اور جب ماضی پر لَمَّا داخل ہو تو اس کے معنی ہمیشہ ماضی ہی کے ہوتے ہیں۔ مستقبل کے نہیں ہو سکتے۔

احمدی:۔ یہ قاعدہ درست نہیں۔ قرآن مجید میں ہے۔ (الملک:۲۸) کہ جب وہ قیامت کو دیکھیں گے تو کافروں کے منہ خراب ہو جائیں گے۔

اس آیت میں ماضی ہے اور اس پر لَمَّا داخل ہوا ہے۔ مگر یہ مستقبل (یعنی قیامت) کے متعلق ہے۔ بعینہٖ اسی طرح بھی مستقبل کے متعلق ہے۔

نوٹ:۔ حدیث ’’اَنَا بَشَارَتُ عِیْسٰی‘‘ میں جس بشارت کا ذکر ہے وہ سورۃ صف والی بشارت نہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے درحقیقت دو نبیوں کی بشارت دی ہے۔ (۱) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی۔ (۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی۔ چنانچہ انجیل میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق جو بشارت ہے وہ ان الفاظ میں ہے۔ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے۔‘‘ (یوحنا ۳۰؍۱۴۔ و یوحنا۷۔۱۴؍۱۶) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بشارت کا اپنے آپ کو مصداق قرار دیا ہے۔ (تفصیل مضمون ’’آنحضرتؐ کی نسبت بائبل میں پیشگوئیاں‘‘ پاکٹ بک ھٰذا میں دیکھو۔)

سترھویں دلیل

خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔ ’’‘‘ (الواقعۃ:۸۰) کہ قرا ٓن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف انہی پر کھولے جاتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی ؒاپنے مکتوبات میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:۔

’’مساس نکنند اسرارِ مکنونۂِ قرآنی را مگر جماعۃ را کہ از لوثِ تعلقاتِ بشریہ پاک شدہ باشند۔ ہر گاہ نصیب پاکاں مساس اسرار قرآنی بود بدیگراں چہ رسد؟‘‘

(مکتوبات امام ربانی ؒجلد ۳ صفحہ ۱۱ مکتوب چہارم شروع)

پس قرآن مجید کے حقائق و معارف پر آگاہ ہونا صداقت کی ایک زبردست دلیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا کہ قرآن مجید کے علوم اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہیں۔ دنیا کا کوئی عالم میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے۔ مگر مولویوں نے اپنی خاموشی سے ثابت کر دیا کہ آسمانی علوم انہیں پر کھولے جاتے ہیں جو آسمان سے اپنے تعلقات وابستہ کر چکے ہوں۔ اور یہ کہ دنیا کے مولویوں اور عالموں کا کوئی بڑے سے بڑا استاد بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاگرد کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں علاوہ مختلف آیات کی تفسیر لکھنے کے قرآن مجید کی تفسیر کے نہایت قیمتی اصول بتائے اور خود ان اصول کے مطابق آیاتِ قرآنی کی تفسیر کر کے بتا دیا کہ آسمانی علوم آسمان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔ محض ضَرَبَ یَضْرِبُ ضَرْبًا کی گردان رٹ لینے اور عربی سیکھ لینے سے قرآن مجید نہیں آ جاتا۔ اگر قرآن مجید کے حقائق و معارف کے سمجھنے کا معیار محض عربی زبان کا جاننا ہی ہوتا تو ’’جرجی زیدان‘‘ یا اس جیسے عیسائی دہریہ اور یہودی جو عربی زبان کے مسلم استاد اور ادیب ہیں وہ قرآن مجید کے حقائق و معارف اور معانی و مطالب کے سب سے بڑے مفسر ہوتے۔ مگر خدا تعالیٰ نے فرما کر بتا دیا کہ قرآن مجید کے علوم کو وہی مس کر سکتے ہیں جو پاک اور مطہر ہوں۔ گویا جتنی جتنی طہارت و پاکیزگی زیادہ ہو گی، اتنا اتنا علوم قرآنی کا دروازہ کھلتا چلا جائے گا۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے علوم قرآنی کے مقابلہ میں تمام دنیا کے علماء و فضلاء و فصحاء و بلغاء کا صاف طور پر عاجز آ جانا آپ کے صادق اور راستباز ہونے پر نا قابل تردید گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔

’’پھر ایک اور پیشگوئی نشان الٰہی ہے جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں درج ہے۔ اور وہ یہ ہے (الرحمٰن:۲،۳) اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے علم قرآن کا وعدہ دیا تھا۔ سو اس وعدہ کو ایسے طور سے پورا کیا کہ اب کسی کو معارف قرآنی میں مقابلہ کی طاقت نہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورۃ کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رخ نہیں کیا۔ پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ان کے لئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں۔‘‘

(ضمیمہ انجام، روحانی خزائن جلد ۱۱ آتھم صفحہ ۲۹۱ تا ۲۹۳)

’’میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورۃ کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا۔ ‘‘ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۳۱)

’’ ابؔ کس قدر ظلم ہے کہ اس قدر نشانوں کو دیکھ کر پھر کہے جاتے ہیں کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا اور مولویوں کے لئے تو خود اُن کی بے علمی کا نشان اُن کے لئے کافی تھا کیونکہ ہزارہا روپے کے انعامی اشتہار دئے گئے کہ اگر وہ بالمقابل بیٹھ کر کسی سورۃ قرآنی کی تفسیر عربی فصیح بلیغ میں میرے مقابل پر لکھ سکیں تو وہ انعام پاویں۔ مگر وہ مقابلہ نہ کر سکے تو کیا یہ نشان نہیں تھا کہ خدا نے اُن کی ساری علمی طاقت سلب کر دی۔ باوجود اس کے کہ وہ ہزاروں تھے تب بھی کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ سیدھی نیّت سے میرے مقابل پر آوے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ اس مقابلہ میں کس کی تائید کرتا ہے۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۸-۴۰۷)

’’ نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو ؔطرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دُوسرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ (۲) دوسرے یہ کہ زبانِ قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کرکے بھی اِس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو ناکام اور نامراد رہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق و معارف و نکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں۔

اس الہام کے بعد میں نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی تفسیریں لکھیں اور نیز عربی زبان میں کئی کتابیں نہایت بلیغ و فصیح تالیف کیں اور مخالفوں کو ان کے مقابلہ کے لئے بلایا بلکہ بڑے بڑے انعام ان کے لئے مقرر کئے اگروہ مقابلہ کرسکیں اور ان میں سے جو نامی آدمی تھے جیسا کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السُّنہ ان لوگوں کو بار بار اس امر کی طرف دعوت کی گئی کہ اگر کچھ بھی ان کو علم قرآن میں دخل ہے یا زبان عربی میں مہارت ہے یا مجھے میرے دعویٰ مسیحیت میں کاذب سمجھتے ہیں تو ان حقائق و معارف پُر از بلاغت کی نظیر پیش کریں جو میں نے کتابوں میں اِس دعویٰ کے ساتھ لکھے ہیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بالاتر اور خدا تعالیٰ کے نشان ہیں مگر وہ لوگ مقابلہ سے عاجز آگئے ۔نہ تو وہ ان حقائق معارف کی نظیر پیش کرسکے جن کو میں نے بعض قرآنی آیات اور سورتوں کی تفسیر لکھتے وقت اپنی کتابوں میں تحریر کیا تھا اور نہ اُن بلیغ اور فصیح کتابوں کی طرح دو سطر بھی لکھ سکے جو میں نے عربی میں تالیف کرکے شائع کی تھیں۔ ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۳۲-۲۳۰)

’’خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے۔ اول۔ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے۔ دوم اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے۔ سوم۔ اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں۔ پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہوکر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالاتفاق منظور ہوکر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں۔‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۳ حاشیہ)

’’میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے۔ اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے۔ پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۴)

’’غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے۔ تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرسکے۔سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا۔‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۱)

’’ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں۔ بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں۔ ‘‘ (اربعین ضمیمہ نمبر ۴، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۸۴)

غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علومِ قرآن کے مقابلہ کے لئے تمام دنیا کے علماء کو للکارا مگر انہوں نے فرار اختیار کر کے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ خدا کا پیارا مسیح آسمانی علوم لے کر دنیا میں آیا تھا جس کے بالمقابل ان کے زمینی اور خشک علوم کی حیثیت جہالت سے بڑھ کر نہ تھی۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اٹھارہویں دلیل

خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ کہ اگر مخالفین باوجود زبردست دلائل اور عظیم الشان نشانات کے پھر بھی خدا کے فرستادہ پر ایمان نہ لائیں تو آخری طریقِ فیصلہ ’’مباہلہ‘‘ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین اپنے جھگڑے کو اس احکم الحاکمین خدا کی عدالت میں لے جائیں جو اپنے فیصلہ میں غلطی نہیں کرتا۔ چنانچہ فرماتا ہے۔

۔(اٰل عمران:۶۲)

کہ اگر یہ لوگ باوجود دلائل بیّنہ اور براہین قاطعہ کے پھر بھی نہیں مانتے تو ان سے کہہ دے کہ آؤ! ہم دونوں فریق اپنے اہل و عیال اور جماعت کو لے کر خدا کے سامنے دعائے مباہلہ کریں اور جھوٹے پر *** اﷲ کہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے منکرین نے بھی جب باوجود دلائلِ بیّنہ کے آپ کی مخالفت کو نہ چھوڑا تو آپ نے ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا لیکن حق کی کچھ ایسی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہوئی کہ بجز فرار کے ان کو کوئی چارہ کار نظر نہ آیا۔ اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ’’لَمَّا حَالَ الْحَوْلُ عَلَی النَّصَارٰی حَتّٰی یَھْلِکُوْا کُلُّھُمْ‘‘ (تفسیر کبیر از امام فخر الدین رازیؒ جلد ۲ صفحہ ۱۹۹ زیر آیت مذکور) کہ اگر وہ مباہلہ کرتے تو ایک سال کے اندر سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ پس مذہبی اختلافات کے لئے آخری فیصلہ ’’مباہلہ‘‘ ہے۔ فریقین احکم الحاکمین خدا کی عدالت سے صحیح اور سچے فیصلے کے لئے ملتجی ہوتے ہیں اور وہ ایک سال کے اندر جھوٹے کو برباد کر کے حق اور باطل میں ابدی فیصلہ صادر فرما دیتا ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے پیارے آقا و سردار محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس سنت پر عمل کیا اور جب دلائل عقلی و نقلی اور نشانات ارضی و سماوی غرضیکہ ہر طریق سے ان پر اتمامِ حجت ہو چکی تو آپ نے ان کو آخری طریق فیصلہ (مباہلہ) کی طرف بلایا اور تحریر فرمایا:۔

’’سو اب اٹھو اور مباہلہ کیلئے تیار ہو جاؤ۔ تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو باتوں پر مبنی تھا۔ اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر۔ دوسرے الہامات الٰہیہ پر۔ سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے۔ اب میرے بناء دعویٰ کا دوسرا شق باقی رہا۔ سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کرسکتا کہ اب اس دوسری بناء کے تصفیہ کیلئے مجھ سے مباہلہ کر لو۔‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۵)

اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گااور دعا کروں گا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میر اہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے۔ یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آ جائے۔ تامیری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں۔ اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے۔ لیکن اے خدائے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں۔ اور تیرے منہ کی باتیں ہیں۔ تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر۔ کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر۔ اور جب میں یہ دعا کرچکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین۔ ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہریک شخص جو مباہلہ کیلئے حاضر ہو جناب الٰہی میں یہ دعا کرے………… اور یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں ’’آمین‘‘۔ اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا۔ یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہو گیا جس میں جانبری کے آثار نہ پائے جائیں۔ تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے۔ اور میں ہمیشہ کی *** کے ساتھ ذکر کیا جاؤنگا۔ لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفاتِ بدنی سے بچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الٰہی کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہر ایک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہو گیا اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہو گئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا۔ اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا۔‘‘

آپ ؑ نے یہاں تک لکھا کہ:۔

’’میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہوجائیں۔ اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ ‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۷)

یہ دعوت مباہلہ تحریر فرما کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالف علماء کو نہایت غیرت دلانے والے الفاظ میں مخاطب فرمایا۔

’’گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی *** اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے ۔‘‘ (انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۶۷)

یہ وہ آخری طریق فیصلہ تھا جس کے لئے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ بالا پُرشوکت الفاظ میں اپنے مکفر علماء کو دعوت دی۔ رسالہ ’’انجام آتھم‘‘ ان کو بذریعہ رجسٹری بھیجا گیا۔ مگر ان میں سے ایک بھی میدان میں نہ آیا۔

انیسویں دلیل

حدیث میں ہے:۔ وَلَیُتْرَکُنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا(مسلم باب نزول عیسیٰؑ) کہ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں اونٹنیاں بیکار ہوجائیں گی اور ان پر تیز سفر نہیں کیا جائے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعودؑ ایسے زمانہ میں آئے گا جبکہ ایسی ایسی سواریاں ایجاد ہوں گی کہ جن کے باعث اونٹنیاں لمبے اور جلدی کے سفروں میں متروک ہوجائیں گی۔ باربرداری یا معمولی مسافت کا کام اگر انٹوں سے لیا جاتا رہے تو وہ خلافِ حدیث نہیں کیونکہ یہ امر عقلاً محال ہے کہ کسی وقت کلّی طور پر سب کی سب اونٹنیاں بیکار کردی جائیں۔ حدیث میں ’’فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا ‘‘ کے الفاظ واضح ہیں۔ اور قرآن مجید میں ’’‘‘ کا لفظ ہے جس کے معنی حاملہ اونٹنی کے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی ایسی اعلیٰ سواریاں نکل آئیں گی کہ ہر سفر کے لیے اونٹوں کا لابدی ہونا باقی نہ رہے گا۔ یعنی جیسا کہ زمانہ قدیم میں شدّتِ ضرورت کے ماتحت حاملہ اونٹنیوں کو بھی کام کاج اور مشقت سے مستثنیٰ نہیں کیا جاتا تھا اب اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں ایسا نہ ہوگا۔ نیز اس حدیث نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ قرآن مجید کی آیت ’’‘‘ بھی زمانۂ مسیح موعود کے متعلق ہے۔ کیونکہ َلَیُتْرَکُنَّ الْقِلَاصُوالی حدیث صریح طور پر مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق ہے۔

بیسویں دلیل

مولوی ثناء اﷲ مرحوم امرتسری جماعت احمدیہ کے مشہور معاندین میں سے تھے اور عام طور پر یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ جماعت احمدیہ کے لڑیچر سے خوب واقف ہیں۔ ہم اس جگہ اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کہ ان کا یہ ادعا کس حد تک درست تھا، لیکن ببانگ بلند کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اس دعویٰ کو بھی صداقت حضر ت مسیح موعود علیہ السلا م کا ایک روشن اور واضح نشان بنا یا ہے ۔

آج سے تیس سال قبل ۱۹۲۳ء میں جب وہ حیدر آباد دکن میں بغرض تردید احمدیت گئے ہوئے تھے سیٹھ عبد اﷲ الٰہ دین صاحب آف سکندر آباد نے (جو جماعت احمدیہ کے ایک ممتاز فرد ہیں ۔) ایک اشتہار انعامی دس ہزار سات صد روپیہ شائع کیا جس میں مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ فی الواقعہ حضرت مرزا صاحب کو اپنے دعاوی میں سچا نہیں سمجھتے تو وہ حلف اٹھا کراس امر کا اعلان کر دیں۔ اگر اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہ جائیں تو دس ہزار روپیہ ان کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔او رحلف اٹھانے کے وقت نقد پانسو روپیہ ان کی نذر ہوگا۔ علاوہ ازیں اس شخص کوبھی جو مولوی ثناء اﷲ صاحب کو اس حلف کے اٹھانے پر آمادہ کرے دو صد روپیہ انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد مولوی ثناء اﷲ تقریباً ۲۶ سال زندہ رہے مگر مولوی صاحب موصوف نے حلف مؤکد بعذاب اٹھانے کا نام نہ لیا اور ان کا اس سیدھے اور صاف طریق فیصلہ سے پہلو تہی کرنا قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ ان کو دل سے اس بات کا یقین تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے تھے۔ ہم ذیل میں جناب سیٹھ صاحب کا انعامی اشتہار نقل کرکے تما م اہل انصاف حضرات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کا یہ حیرت انگیز مگر دانشمندانہ گریز بتاتا ہے کہ وہ صداقت کی بنا پر احمدیت کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا اصل موجب دنیا طلبی کے سوا اور کچھ نہیں ۔

جیسا کہ حضرت محی الدین ابن عربی ؒ فرماتے ہیں :۔

اِذَا خَرَجَ ھٰذَا الْاِمَامُ الْمَھْدِیُّ فَلَیْسَ لَہٗ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ اِلَّا الْفُقَھَآءُ خَآصَّۃً فَاِنَّہٗ لَایَبْقٰی لَھُمْ تَمِیِیْزٌ عَنِ الْعَامَّۃِ(فتوحات مکیہ از امام محی الدین ابن عربی جز ثالث مطبوعہ داراحیاء التراث الاسلامی بیروت۔لبنان جلد ۳ صفحہ۳۳۸)کہ جب حضرت امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اس زمانہ کے مولوی خاص طور پر ان کے دشمن ہوں گے محض اس وجہ سے کہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان پر ایما ن لانے سے عوام پر اثر اور رسوخ قائم نہیں رہے گا۔

نقل اشتہار مؤرخہ ۲۲ فروری ۱۹۲۳ء
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
’’مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام ‘‘

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے مؤرخہ ۱۰ فروری ۱۹۲۳ء کو ایک خاص مجلس میں جس میں کہ ہمارے شہر کے ایک معزز محترم باوقار انسان یعنی عالی جناب مہارا جہ سرکرشن پرشاد بہادر بالقابہ بھی رونق افروز تھے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میرے حیدر آباد آنے کا اصل مقصود سیٹھ عبدا ﷲ الٰہ دین ہیں تاکہ ان کو ہدایت ہوجائے ۔اس لئے میں اپنے ذاتی اطمینان اور تسلی کے لئے بذاتِ خود یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب اس حلف کے مطابق جو میں اس اشتہار میں درج کرتا ہوں قسم کھا جائیں مگر قبل اس کے کہ مولوی صاحب حلف اٹھائیں ضرور ی ہوگا کہ ایک اشتہار کے ذریعہ صاف طور پر حیدر آباد و سکندر آباد میں شائع کردیں کہ میں اس حلف کو جناب مرز ا غلام احمد صاحب قادیانی اور اپنے عقائد کے درمیان حق وباطل کے تصفیہ کا فیصلہ کن معیار قرار دیتا ہوں اور یہ کہ اس حلف کے بعد سال کی میعاد کے اخیردن تک میں اپنے اس اقرار معیار فیصلہ کن کے خلاف کوئی تحریر یا تقریر شائع نہ کروں گا اور نہ بیان کروں گا ۔ہاں ویسے مولوی صاحب کو اختیار ہے کہ مرزا صاحب کی تردید بڑے زور سے کرتے رہیں مگر اس حلف کے فیصلہ کن معیار ہونے سے حلف کے بعد سال بھر تک انکا رنہ کریں ۔میری طرف سے یہ اقرار ہے کہ اس حلف کے بعد اگر مولوی صاحب ایک سال تک صحیح وسلامت رہے یا ان پر کوئی عبرتناک و غضبناک عذاب نہ آیا تو میں اہل حدیث ہوجاؤں گا ۔یا مولوی ثناء اﷲ صاحب کے حسبِ خواہش مبلغ دس ہزار روپیہ مولوی صاحب موصوف کو بطور انعام کے ادا کر دوں گا ۔

حلف کے الفاظ یہ ہیں :۔جو مولوی ثناء اﷲ صاحب جلسۂ عام میں تین مرتبہ دہرائیں گے اور ہر دفعہ خود بھی او رحاضرین بھی آمین کہیں گے ۔

’’میں ثناء اﷲ ایڈیٹر اہلحدیث خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات پر حلف کرتا ہوں کہ میں نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے تمام دعاوی ودلائل کو بغور دیکھا اور سنا اور سمجھا اور اکثر تصانیف ان کی میں نے مطالعہ کیں اور عبدا ﷲ الٰہ دین کا چیلنج انعامی دس ہزار روپیہ کا بھی پڑھا ۔مگر میں نہایت وثوق اور کامل ایمان اور یقین سے یہ کہتا ہوں کہ مرز ا صاحب کے تمام دعاوی والہامات جو چودہویں صدی کے مجدد وامامِ وقت ومسیح موعود و مہدی موعود اور اپنے نبی ہونے کے متعلق ہیں وہ سراسر جھوٹ وافتراء اور دھوکا وفریب اور غلط تاویلات کی بناء پر ہیں ۔بر خلاف اس کے عیسیٰ علیہ السلام وفات نہیں پائے بلکہ وہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور ہنوز اسی خاکی جسم کے ساتھ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور وہی مسیح موعود ہیں اور مہدی علیہ السلام کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا۔ جب ہوگا تو وہ اپنے منکروں کو تلوار کے ذریعہ قتل کرکے اسلام کو دنیا میں پھیلائیں گے۔ مرزا صاحب نہ مجدد وقت ہیں، نہ مہدی ہیں نہ مسیح موعود ہیں، نہ امتی نبی ہیں بلکہ ان تمام دعاوی کے سبب میں ان کو مفتری اور کافر اور خارج از اسلام سمجھتا ہوں ۔اگر میرے یہ عقائد خداتعالیٰ کے نزدیک جھوٹے اور قرآن شریف وصحیح احادیث کے خلاف ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی درحقیقت اپنے تمام دعاوی میں خداتعالیٰ کے نزدیک سچے ہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ اے قادر وذوالجلال خدا جو تمام زمین آسمان کا واحد مالک ہے اور ہر چیز کے ظاہر وباطن کا تجھے علم ہے ۔پس تمام قدرتیں تجھی کو حاصل ہیں۔ تو ہی قہار اور منتقم حقیقی ہے اور تو ہی علیم وخبیر وسمیع وبصیر ہے ۔اگر تیرے نزدیک مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعاوی والہامات میں صادق ہیں اور جھوٹے نہیں اور میں ان کے جھٹلانے اور تکذیب کرنے میں ناحق پر ہوں تو مجھ پر ان کی تکذیب اور ناحق مقابلہ کی و جہ سے ایک سال کے اندر موت وارد کر یا کسی دردناک اور عبرت ناک عذاب میں مبتلا کر کہ جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو۔تاکہ لوگوں پر صاف ظاہر ہوجائے کہ میں ناحق پر تھا اور حق وراستی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ جس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا مجھے ملی ہے۔ آمین! آمین!! آمین!! !‘‘

نوٹ:۔ اس عبارت حلف میں اگر کوئی ایسا عقیدہ درج ہو جسے مولوی ثناء اﷲ صاحب نہیں مانتے تو میرے نام ان کی دستخطی تحریر آنے پر اس عقیدہ کو اس حلف سے خارج کردوں گا ۔

خاکسار عبد اﷲ الٰہ دین سکندر آباد

۱۲ فروری ۱۹۲۳ء

نقل اشتہار مورخہ ۸ مارچ ۱۹۲۳ء

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری اور ان کے ہم خیالوں پر آخری اتمامِ حجت

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعاوی والہامات کے مخالف اپنے عقائد ظاہر کرتے ہیں اور جن کے متعلق سکند ر آباد وحیدر آباد میں انہوں نے بہت سے لیکچر دیئے ہیں اگر درحقیقت ان عقائد میں مولوی ثناء اﷲ کے نزدیک حضرت مرزا صاحب حق پر نہیں ہیں اور جو عقائد مولوی ثناء اﷲ صاحب بیان کرتے ہیں وہی سچے ہیں تو کیوں مولوی صاحب اپنے ان عقائد کو حلفاً بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔مولوی ثناء اﷲ صاحب خود اپنی تفسیر ثنائی جلد اول صفحہ۱۹۳ زیرآیت اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ آل عمران:۲۹ صفحہ ۱۹۳ اشاعت دسمبر ۲۰۰۲ء میں لکھتے ہیں کہ ’’گواہی نہ چھپاؤ۔جو کوئی اس کو چھپائے گا خواہ وہ کسی غرض سے چھپاوے تو جان لو کہ اس کا دل بگڑا ہوا ہے ۔‘‘ یہ قرآن شریف کی آیت شریفہ کا ترجمہ ہے اور حکم الٰہی ہے کہ شہادت کو نہ چھپاؤبلکہ ظاہر کرو۔توپھر مولوی ثناء اﷲ صاحب اس حکم کی تعمیل کیوں نہیں کرتے ۔یہ شہادت ایسی تھی کہ اس کے لئے مولوی صاحب کو محض ثواب کی خاطر بھی تیار ہوجانا چاہیے تھا مگر جب انہوں نے ۶ فروری ۱۹۲۳ء کے اشتہار میں دس ہزار روپیہ کا مجھ سے مطالبہ کیا تو وہ بھی میں نے دینا منظور کیا ۔اب میں آخری اتمام حجت کے طور پر یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب میرے اشتہار مورخہ ۱۲؍فروری ۱۹۲۳ء کے الفاظ وشرئط کے مطابق اب حلف اٹھانے کو تیار ہوجائیں (ہاں اس میں جوعقائد وہ نہ مانتے ہوں۔وہ ان کی دستخطی تحریر آنے پر نکال دیئے جاسکتے ہیں )تو میں ان کو فوراً مبلغ پانسوروپیہ نقد بھی دینے کے لئے تیار ہوں جس کا مولوی صاحب حلف کے وقت ہی مطالبہ کرتے ہیں اور اگر وہ ایک سال تک موت یاعبرتناک غضبناک عذاب سے جس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہ ہو۔بچ جائیں تو پھر دس ہزار روپیہ ان کو نقد دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ مولوی صاحب کے ہم خیالوں میں جو کوئی صاحب ان کو اس بات کے لئے آمادہ کریں گے دو صد روپیہ ان کو بھی انعام دیا جائے گا ۔اگر اب بھی مولوی ثناء اﷲ صاحب نے میرے اشتہار مؤرخہ ۱۲؍ فروری ۱۹۲۳ء کے مطابق حلف اٹھانے سے گریز کیا تو مولوی ثناء اﷲ صاحب اور ان کے ہم خیالوں پر ہماری طرف سے ہر طرح اتمام حجت سمجھی جائے گی اور آئندہ کے لیے ان کو کسی طرح کا حق حاصل نہ ہوگا کہ حضر ت مرزا صاحب یا آپ کی جماعت کے عقائد پر بے جا حملے کریں۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب کو اس حلف کے لئے میں نے ابتداء سے اس لئے منتخب کیا ہے کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی کتابوں کا کا فی مطالعہ کیا ہوا ہے اور بذریعہ کئی مباحثات کے ان پر حجت پوری ہوچکی ہے ۔فقط مؤرخہ ۱۹ رجب ۱۳۴۱ھ مطابق ۸ مارچ ۱۹۲۳ء

خاکسار عبد اﷲ الٰہ دین احمدی

مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری کو دس ہزار روپیہ انعام

پاکٹ بک کے سابق ایڈیشن کی اشاعت کے وقت جناب سیٹھ صاحب مذکور نے ہمیں اختیار دیا تھا کہ ہم اس انعامی اعلان کو پھر شائع کریں ۔’’یہ خاکسار ان کو وہی حلف اٹھانے کی دعوت دیتا ہے اور پھر ان کے لئے پہلے کی طرح ایک انعام پانصد روپیہ کا اور دوسرا دس ہزار روپیہ کا مقرر کرتا ہے۔ اور ہمارے غیر احمدی بھائیوں میں سے جو شخص بھی ان کو حلف اٹھانے کے لئے آمادہ کرے گا اس کے لئے بھی حسبِ سابق دو سو روپیہ انعام تیار ہے ۔اب بھی اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب نے حلف اٹھانے سے گریز کیا تو اے آسمان وزمین تم گواہ رہو کہ ہم نے ہر طرح سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مخالفین ومنکرین پر اتمام حجت کر دی ۔اب ان کے اور خدا کے درمیان معاملہ ہے۔‘‘

اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ ’’ہم اپنی بصیرت کی بناء پر کہتے ہیں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب اب بھی اپنی مخصوص حیلہ بازی کے ذریعہ لیت ولعل کرتے رہیں گے اور ہرگز حلف مؤکد بعذاب اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوں گے ۔چنانچہ ہماری بصیرت درست ثابت ہوئی ۔اس ایڈیشن کی اشاعت کے وقت وہ حسرت ناک موت مرچکے ہیں ۔کیا کوئی ہے جو جماعتِ احمدیہ کی صداقت کے اس واضح اور کھلے نشان سے فائدہ اٹھائے ’’اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْدٌ‘‘ سچ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :۔

’’سنت اﷲ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا ثابت کر دیتا ہے۔ تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے۔ اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے۔ بات سہل تھی۔ کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطورایک حَکم کے فعل کے مان لیتے مگر ان لوگوں کو تو اس قسم کے مقابلہ کا نام سُننے سے بھی موت آتی ہے۔ ‘‘ (اربعین نمبر ۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۴۵۱،۴۵۲)

نوٹ:۔سابق ایڈیشن محمدیہ پاکٹ بک میں مولوی ثناء اﷲ صاحب نے عذر کیا ہے کہ میں کئی کئی مرتبہ پہلے مطبوعہ حلف کھا چکا ہوں ۔سو یاد رہے کہ یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ مولوی صاحب نے آج تک کبھی مؤکد بعذاب حلف نہیں اٹھائی جس کا ان سے مطالبہ ہے۔ نیز ان کا یہ کہنا کہ میں اس شرط پر حلف اٹھاؤں گا کہ حضرت امیر المؤمنین مجھے یہ بات لکھ دیں محض دفع الوقتی ہے کیونکہ مطالبۂ حلف حضرت صاحب کی طرف سے نہیں جناب سیٹھ صاحب کا ذاتی مطالبہ ہے اور انعام بھی انہی کی طرف سے مقرر ہے ۔ خادمؔ

ضروری یادداشت

پاکٹ بک ہذا میں فردوس الاخبار دیلمی کے جس قد ر حوالے ہیں ان کا نمبر صفحہ اس نسخہ کے مطابق ہے جو کتب خانہ آصفیہ نظام حیدر آبا د دکن میں موجود ہے اور جس کا نمبر ’’۲۱۴ فن حدیث‘‘ ہے۔ اس کا ثبوت کہ حوالے درست ہیں وہ مصدقہ نقل ہے جس پر مہتمم صاحب کتب خانہ آصفیہ کے دستخط ہیں جو خاکسارخادم ؔ کے پاس محفوظ ہے اس کی نقل مطابق اصل درج ذیل ہے ۔

’’نقل عبارت فردوس الاخبار صحیح ہے مقابلہ کیا گیا۔ دستخط سید عباس حسین مہتمم کتب خانہ آصفیہ سرکارِعالی ۲۲جمادی الاوّل ۱۳۵۲ھ حیدر آباد دکن اصل تحریر جو چاہے مجھ سے دیکھ سکتا ہے ۔

۲۔یاد رکھنا چاہیے کہ کتاب کا اصل نام ’’دیلمی ‘‘دال کے ساتھ ہے۔

۳۔دیلمی ؔمشہور محدث گزرا ہے۔ وفات ۵۰۷ھ علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں اس کے متعلق ھُوَ حُسْنُ الْمَعْرِفَۃِ فِی الْحَدِیْثِ لکھا ہے۔ نیز کشف الظنون جلد ۱صفحہ۱۸۲پر بھی اس کا ذکر ہے اس سے مشکوٰۃ اور سیوطی وغیرہ نے روایت لی ہے ۔ خادمؔ
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یادداشت نمبر ۲:۔ میں نے ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات کے جوابات‘‘ کو چار ابواب پر تقسیم کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

باب اوّل:۔ ’’الہامات پر اعتراضات کے جوابات‘‘ اس باب میں الہامات پر تمام اعتراضات کے جوابات درج ہیں۔ اس حصہ کے آخر میں الہامات کے متعلق اعتراضات کے جوابات درج ہیں ۔مثلاً یہ کہ حضرت اقدس ؑ کو غیر زبان میں کیوں الہامات ہوئے ۔بعض الہامات کے معنی سمجھ نہ سکے ۔آپ کو شیطانی الہام ہوتے تھے۔آپ کو بعض دفعہ الہام بھول جاتا تھا ۔غرضیکہ الہامات کے متعلق اصولی اعتراضات کے جوابات بھی اس باب اوّل کے آخر میں درج ہیں ۔

باب دوم :۔’’پیشگوئیوں پر اعتراضات کے جوابات‘‘اس میں پیشگوئیوں پر بحث ہے۔ مثلاً محمدی بیگم، ثناء اﷲ ، عبدا لحکیم ،اپنی عمر کے متعلق، منظور محمد صاحب کے ہاں بیٹا ہونا، عبدا ﷲ آتھم، ایمان بٹالوی، قادیان میں طاعون، محمد حسین بٹالوی کی ذلت اور نافلۃ لک والی پیشگوئی۔

باب سوم :۔ حضرت صاحب کی تحریرات پر اعتراضات اور ان کے جوابات ۔اس باب میں تمام وہ اعتراضات درج ہیں جن کا تعلق حضرت صاحب کی تحریرات کے ساتھ ہے ۔مثلاً شعر کہنا۔ تحریرات میں صحت حوالجات ۔جھوٹ کا الزام ۔براہین احمدیہ کا روپیہ یا وعدہ خلافی۔ سخت کلامی وتناقضات۔ بعض ایسے امو ر کا آپ کی تحریرات میں ہونا جس کو مخالفین خلافِ قدرت و عقل قرار دیتے ہیں ۔مثلاً بکرے کا دودھ دینا وغیر ہ ۔سو اس باب میں تمام ایسے اعتراضات کا جواب ہے ۔خصوصاًغلط حوالوں، جھوٹ اور تناقضات،جہاد، انگریز کی خوشامد کے الزامات یا توہین فاطمہؓ و حسینؓ ومریم ؑ یا دعویٰ فضیلت بر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم وغیرہ الزامات کا جواب اسی باب میں ہے ۔

باب چہارم:۔ حضرت اقدس ؑ کی ذات پر اعتراضات کے جواب ۔اس باب میں ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جن کا تعلق حضرت اقدس ؑ کی ذات یاجسم کے ساتھ ہے ۔مثلاً آپ کا نام ابن مریم نہ ہونا ۔جائے نزول، آپ پر کفر کا فتویٰ لگنا ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر میں دفن نہ ہونا، بیمار ہونا،کسرِ صلیب، صاحب شریعت نہ ہونا،کسی کا شاگرد ہونا،حج نہ کرنا،الزام مراق، ملازمت، مخالفین کے لئے بد دعا کرنا،ادویہ کا استعمال۔ سو ان اعتراضات پر بحث اسی باب چہارم میں ہے اگر آپ اس تقسیم کو ذہن نشین کر لیں تو آپ کو عند الضرورت حسبِ خواہش مضمون تلاش کرنے میں بہت آسانی رہے گی ۔

خادمؔ


Ï ۱؂ خاکسار خادم کے والد حضرت ملک برکت علی اسی نشان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لائے۔ (خادم)
 
Top