• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

دلائل فضلیت مسیح بمقابلہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دلائل فضلیت مسیح بمقابلہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب

عیسائی پادری غیر احمدیوں کے عیسائیت نواز عقائد کو پیش کر کے مسلمانوں کو حلقۂ عیسائیت میں پھنساتے چلے جاتے ہیں اور اسی غرض سے ایک رسالہ بنام ’’حقا ئق قرآن‘‘ بھی انہوں نے شائع کر رکھا ہے۔ غیراحمدیوں کے عقائد پر تو بے شک اس رسالہ کے مندرجہ اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں مگر خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے سامنے ان مزعومہ دلائل کی کچھ حقیقت نہیں ۔ چند چیدہ اعتراضات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں ۔

دلیل نمبرا:۔ حضر ت مسیح کا معجزانہ طور پر پیدا ہونا

الجواب نمبرا:۔ بے شک قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور ہمارا س پر ایمان ہے مگر بغیر باپ کے پیدا ہونے والے کو باپ کے پیدا ہونے والے پر فضیلت دینا غلطی ہے۔ قرآن مجید نے خود اس کا جواب دیا ہے۔ (آل عمران:۶۰)

کہ عیسیٰ کی مثال آدمؑ کی ہے۔ اب آدمؑ تو بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے عیسائی بھی آپ کو مانتے ہیں۔پس اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا فضیلت ہے تو بے ماں و باپ کے پیدا ہونا تو اس سے بھی بڑھ کر درجۂ فضیلت ہونا چاہیے۔ پھر عیسائی صاحبان کیوں آدمؑ کو حضرت عیسیٰ سے افضل نہیں مانتے ؟ اسی طرح انجیل میں لکھا ہے ۔’’ملک صدق……بے باپ، بے ماں، بے نسب نامہ ہے……بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا۔‘‘ (عبرانیوں ۱تا۷/۳ )

کیا عیسائی صاحبان ملک صدق کو حضرت عیسیٰ ؑسے افضل مانتے ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ بے باپ پیدا ہونا و جہ فضیلت نہیں ۔ لہٰذا اس و جہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو افضل قراردینا غلطی ہے ۔

جواب نمبر ۲:۔ اگر بے باپ پیدا ہونا وجہ فضیلت ہے تو کیا ہم ان تمام کیڑوں مکوڑوں کو جو برسات کے دنوں میں ہزاروں لاکھوں کی تعدا د میں بے ماں اور بے باپ پیدا ہوتے ہیں تمام انسانوں سے افضل قرار دے سکتے ہیں؟

جواب نمبر۳:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بے باپ ہونا کس طرح موجب فضیلت ہو سکتا ہے جبکہ ان کی ولادت سے لے کر آج تک ساڑھے انیس سو سال گزر جانے تک ان پر اور ان کی والدہ صدیقہ پر پے بہ پے کفار نا ہنجار ناجائز ولادت کا الزام لگا تے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام عمر اس اعتراض کا جواب دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بریت (البقرۃ: ۸۸ و ۲۵۴) کے الفاظ سے کرنی پڑی ۔ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے متعلق کبھی کسی نے کوئی اعتراض کیا ؟ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو طعنہ زنی کا نشانہ بننا پڑا۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بے باپ پیدا نہ ہونا بذاتِ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آپ کی فضیلت کو ثابت کرتا ہے ۔


وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا مُوسَى ٱلۡكِتَـٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۢ بَعۡدِهِۦ بِٱلرُّسُلِ‌ۖ وَءَاتَيۡنَا عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ ٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَيَّدۡنَـٰهُ بِرُوحِ ٱلۡقُدُسِ‌ۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُولُۢ بِمَا لَا تَہۡوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسۡتَكۡبَرۡتُمۡ فَفَرِيقً۬ا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيقً۬ا تَقۡتُلُونَ (٨٧) (البقرۃ: ۸۸)

وَقَـٰتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۬ (٢٤٤) (البقرۃ: ۸۸ و ۲۵۴)

جواب نمبر۴:۔ قرآن مجید کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے باپ پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی۔ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا (البقرۃ:۱۲۵) کہ اے ابراہیم! تجھے لوگوں کا مقتداء اور راہنما(نبی)بناتا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے خدا!میری نسل میں بھی (نبوت رکھ)تو خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ ہاں تیری نسل میں جو ظالم ہوں گے وہ اس نعمت سے محروم کر دئے جائیں گے ۔ دوسری جگہ فرمایا (العنکبوت:۲۸)کہ ہم نے حضرت ابراہیم ؑ کی نسل میں نبوت میں رکھی۔ اب حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کی دو شاخیں تھیں۔ بطریق ذیل:۔

وَإِذِ ٱبۡتَلَىٰٓ إِبۡرَٲهِـۧمَ رَبُّهُ ۥ بِكَلِمَـٰتٍ۬ فَأَتَمَّهُنَّ‌ۖ قَالَ إِنِّى جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامً۬ا‌ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِى‌ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهۡدِى ٱلظَّـٰلِمِينَ (١٢٤) (البقرۃ:۱۲۵)

وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَلِقَآٮِٕهِۦۤ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ يَٮِٕسُواْ مِن رَّحۡمَتِى وَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ۬ (٢٣) (العنکبوت:۲۸)

حضرت ابراہیم ؑ

حضرت اسمعیل۔ بنی اسماعیل(عرب) حضرت اسحاق ۔یعقوب۔ اسرائیل ۔ بنی اسرائیل

چناچہ حضرت اسحق ؑکی نسل سے (بنی اسرائیل میں ) پے در پے نبی ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑ داؤد و سلیمان، یحییٰ، زکریا علیہم السلام سب انبیاء بنی اسرائیل سے ہوئے لیکن بالآخر بنی اسرائیل ظالم ہوگئے اور اس وعدہ کے مستحق نہ رہے جو خدا تعالی نے ابراہیم ؑ سے کیا تھا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کر کے بتا دیا کہ اب حضرت اسحق کی نسل میں نبوت کا خاتمہ ہے۔ اب چونکہ بنی اسرائیل ظالم ہو گئے ہیں اس لئے خدا کے وعدہ کے مطابق نبوت بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دی جائے گی ۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے ان کے بعد نبوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا ہوئی جو بنی اسرائیل سے نہ تھے۔ نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے محض اپنی قدرت مجردہ سے بغیر باپ کے پیدا کر کے یہودیوں کو ایک نمونہ سے سمجھایا کہ تم اس پا ک مولود کو جس کی والدہ ہر طرح سے بدکاری کی آلائش سے پاک ہے ولد الزنا قرار دیتے ہو اور حالت یہ ہے کہ تم میں سے ہزاروں بچے بد کاری کے نتیجہ میں ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے باپوں کا پتہ نہیں اور ہم نے تمہاری عملی حالت کے اظہار کے لئے عملی نمونہ قائم کیا ہے۔ گو خدا تعالیٰ نے اس بچہ کو محض روح القدس کے وسیلہ سے بغیر باپ کے پیدا کیا مگر تم میں اب کوئی نہیں جو نبی کا باپ بن سکے۔ لہٰذا تم اس قابل نہیں رہے کہ تم کو اس عہد کے مطابق جو خداتعالیٰ نے ابراہیم کے ساتھ کیا تھا نبوت کی نعمت سے مشرف کیا جائے ۔ اس لئے اب وہ عظیم الشان نبی جو دس ہزار قدوسیوں کی جمعیت کے ساتھ اپنے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت لے کر آنے والا تھا مکہ کی بستی میں بنی اسمٰعیل کے گھرانے میں پیدا ہوگا اور تم سے نبوت چھین کر ان کو عنایت کی جائے گی تاکہ مسیح علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ ’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا ۔یہ خدواند کی طرف سے ہوا اور تمہاری نظروں میں عجیب ہے۔‘‘ (متی ۲۱/۴۲)

غرض یہ حکمت تھی جس کی بناء پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے بے باپ پیدا کیا تاکہ یہودیوں کی عملی حالت پر گواہ رہے۔ پس اس کو وجۂ فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی قرینِ قیاس نہیں ہو سکتا ۔ بنی اسرائیل کی زنا کاری کے ـثبوت کے لئے ملاحظہ ہو:۔ (حزقیل۱۶/۶۲ و حزقیل۱تا۲۳/۵ و۱۷،۲۳/۲۰ و یرمیاہ ۳/۶

دلیل نمبر ۲ حضرت مسیح کی والدہ کا تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہونا

الجواب ۔ قرآن مجید میں حضرت مریم کے متعلق (آل عمران:۴۳) تو بے شک آتا ہے مگر اس جگہ سے مراد دنیا میں قیامت تک پیدا ہونے والی عورتیں مراد لینا درست نہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو قرآن مجید کے شارح اوّل بلکہ معلّمِ اعظم اور (البقرۃ:۱۳۰) کے مصداق ہیں۔ اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے ۔چنانچہ تفسیر بیضاوی میں یہ روایت درج ہے ۔ فَقَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکِ شَبِیْھَۃَ سَیِّدۃِ نِسَآءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔( بیضاوی تفسیر سورۃ آلِ عمران ع ۴۔ زیر آیت اِنََّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت مریمؑ بنی اسرائیل کی عورتوں کی سردار تھیں۔ اب جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مریم صدیقہ کو سَیِّدَۃُ نِسَآءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ قرار دیا ہے ۔ ان کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ پر فضیلت کیسے ثابت ہوئی؟

ہاں اتنا ضرور ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو سَیِّدَۃُ نِسَآءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب فاطمہ جلد ۲ صفحہ ۱۹۱ مطبع الٰہیہ مصر) سب جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا ہے۔ اب حضرت مریم ؓ یقینا نِسَآءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ میں سے ہیں۔ پس فاطمہ ؓ ان سے افضل ٹھہریں ۔اس سے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوئی۔ کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ اپنے زمانہ کی عورتوں میں سب سے افضل تھیں تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کمال کا کیا دخل ؟ ہاں یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا کمال تھا ۔کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بے نظیر تربیت کے نتیجہ میں آپ کی بیٹی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر سبقت لے گئیں ۔

قرآن مجید میں جہاں حضرت مریم ؑکے متعلق زیر بحث الفاظ آئے ہیں وہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بطور خبر یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت مریم ؑکو خدا تعالیٰ نے تمام جہاں کی عورتو ں میں سے چن لیا ہے تا یہ نتیجہ نکل سکے کہ گویا حضرت مریم ؑزمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عورتوں سے بھی افضل ہیں بلکہ قرآن مجید میں ذکر یہ ہے کہ فرشتے نے جب وہ حضرت مریم ؑ کو ولادت مسیح کی خوشخبر ی دینے آیا اس وقت ان سے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے دنیا کی سب عورتوں میں آپ کو چنا ہے۔ پس اس آیت سے اتنا ہی ثابت ہو سکتا ہے کہ اس وقت جب فرشتے نے یہ کہا کہ جس قدر عورتیں موجود تھیں ان میں سے حضرت مریم ؑ کو ایک نبی کی ماں بننے کے لئے خدا تعالیٰ نے چنا۔ بعد میں پیدا ہونے والی عورتوں کا نہ وہاں ذکر ہے اور نہ یہ مناسب تھا۔ نیز حضرت مریم ؑ کے متعلق قرآ ن میں جو تعریفی الفاظ آئے ہیں وہ یہودیوں کے بہتانات کی تردید کی غرض سے ہیں جیساکہ قرآن مجید میں ہے:۔(النساء:۱۵۷) کیاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ مطہرہ پر بھی کوئی الزام لگا؟ تا اس سے بریت کی ضرورت ہوتی۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دلیل نمبر ۳ مسیح کی پیدائش کے وقت خارق عادت امور وقوع میں آئے مثلاً نخل خشک ہرا بھرا ہو کر پھل لایا۔ چشمہ جاری ہو گیا ۔ مریم ؑ کی تسکین کے لئے فرشتے نازل ہوئے۔

الجواب: ۔ مسیح کی پیدائش کے وقت کسی خارق العادت امر کے وقوع کا قرآن مجید میں ذکر نہیں۔ قرآن مجید میں کہیں نہیں لکھا کہ نخل خشک ہرا بھرا ہو گیا۔ بلکہ قرآن مجید سے توثابت ہے کہ وہ کھجور کا درخت پہلے ہی ہرا بھرا تھا ۔ چشمہ کا جاری ہونا کوئی خارق عادت امر نہیں ہے ۔ ہزاروں چشمے دنیا میں جاری ہوتے ہیں۔ خارق عادت کے معنی تو یہ ہیں کہ ایسا واقعہ ظہور میں آئے جو کبھی دیکھا نہ گیا ہوگا ۔ نیز حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ یعنی ہاجرہ ؓ زوجہ ابراہیم علیہ السلام کی سخت گھبراہٹ کے وقت چشمۂ زمزم جاری ہوا جس کا ذکر (بخاری کتاب الانبیاء باب یَزِفُّوْنَ النَّسَلَانِ فِی الْمَشْی جلد ۲ صفحہ ۱۶۰ مصری ) میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضر ت ہاجرہ کو عرب میں چھوڑ جانا یہ سب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت کا ہی پیش خیمہ تھا ۔ نیز قرآن مجید کی آیت (مریم:۲۴) یعنی حضرت مریم کو درد زہ کھجور کے تنا کے پاس لے گئی اور حضر ت مریم نے شدت درد سے چلا کر کہا کہ اے کاش! میں اس سے پہلے ہی مر چکی ہوتی اور دنیا سے بے نام ہو چکی ہوتی۔ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ حضرت مسیح کی ولادت کے وقت کوئی خارق عادت امر واقع نہیں ہوا ۔ خارق عادت امر تو جب ہوتا اگر حضرت مریم کو اس تکلیف اور شدت سے درد و کرب نہ ہوتا ۔

فَأَجَآءَهَا ٱلۡمَخَاضُ إِلَىٰ جِذۡعِ ٱلنَّخۡلَةِ قَالَتۡ يَـٰلَيۡتَنِى مِتُّ قَبۡلَ هَـٰذَا وَڪُنتُ نَسۡيً۬ا مَّنسِيًّ۬ا (٢٣) (مریم:۲۴)

نیز ایک بچہ جننے والی عورت کو (مریم:۲۶)کہنا کہ خود کھجور کا تنا ہلا اور جو کھجوریں نیچے گریں ان کو کھالے، جہاں اس کی قابل رحم حالت کا نقشہ کھینچ دیتا ہے وہاں اس با ت کی مزید تائید بھی کرتا ہے کہ کوئی خارق عادت امر اس موقع پر ظہور میں نہیں آیا ۔ بھلا جو فرشتہ تسکین دینے آیا تھا و ہ کھجور کے درخت سے کھجور یں اتار کربھی دے سکتا تھا ۔ پس حضرت مریم کو زچگی کی حالت میں کھجور کے تنے کو ہلانے کی تکلیف دہی کی کیا ضرورت تھی ؟

وَهُزِّىٓ إِلَيۡكِ بِجِذۡعِ ٱلنَّخۡلَةِ تُسَـٰقِطۡ عَلَيۡكِ رُطَبً۬ا جَنِيًّ۬ا (٢٥) (مریم:۲۶)

پس ان آیات سے کہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔ بھلا حضرت مریم ؑبیچاری تو اپنے مخصوص حالات کی بناء پر جب قوم کی طرف سے مقطوع ہو جانے پر مجبور ہو چکی تھیں اور کوئی انسان ان کی تسکین کے لئے وہاں موجود نہ تھا ۔ نہ کوئی دائی تھی نہ عورت۔ ایسے موقع پر اگر خداتعالیٰ نے ا س پاک عورت کو آواز دیکر کھجور کا تنا ہلا کرکھجوریں کھانے کی ہدایت فرمائی تو ایک لا بدی امر کیا۔

مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولاد ت ایسے حالا ت میں نہ ہوئی تھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے لئے کوئی امر اپنی قوم کی نظروں میں استحقار سے دیکھے جانے کے قابل ہو۔ ہاں آپ کی جدّہ حضرت ہاجرہؓ جب کہ وہ بے کس و بے بس تھیں اورکوئی انسان ان کی تسکین کے لئے وہاں موجود نہ تھا، وہاں بھی فرشتہ نازل ہوا۔( بخاری کتاب الانبیاء باب یزفون النسلان فی المشی جلد ۲ صفحہ ۱۶۰ مصری) مزید برآں حضرت مریم ؑ کے متعلق جس قدر قرآن مجید میں الفاظ ہیں بطور ’’ذب‘‘ کے ہیں نہ کہ بطور مدح کے ۔ لہٰذا ان کی فضیلت ثابت نہیں ہوسکتی ۔

دلیل نمبر ۴ مسیح کا تکلم فی المہد و ایتاء کتاب و نبوت بزمانہ ٔ شیر خوارگی

الجواب :۔ قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نام نہ صرف تکلم فی المہدبلکہ تکلم فی الکہل بھی مذکور ہے۔ یعنی فرشتے نے حضر ت مریم کو کہا کہ تیرا بیٹا مہد (چھوٹی عمر) میں بھی کلا م کرے گا او ر کہل (چالیس سال کی عمر) میں بھی۔ اب اگر مہد کے معنی گہوارہ لے کر اس کو معجزہ قرا دیا جائے تو کہل (تیس چالیس سال کی عمر)میں کیا سب لوگ باتیں نہیں کرتے ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کی کیا خصوصیت ہوئی؟

اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملتی ہے۔ باتیں چالیس سال کی عمرمیں سب انسان ہی کرتے ہیں مگر نبی چالیس سال کی عمر میں نبوت کی باتیں کرتا ہے ۔ جو اس کو دوسرے لوگوں سے ممیز کرتی ہیں ۔ پس تکلم فی المہد ( بچپن کی عمر میں باتیں کرنے کا )مطلب یہ ہوگا کہ بچپن میں باتیں تو سب بچے کرتے ہیں مگر خدا کینبی بچپن ہی سے عقل کی باتیں کرتے ہیں ۔

ع ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات

چنانچہ حضر ت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق اسی سورۃ مریم میں ہے (مریم:۱۳)

يَـٰيَحۡيَىٰ خُذِ ٱلۡڪِتَـٰبَ بِقُوَّةٍ۬‌ۖ وَءَاتَيۡنَـٰهُ ٱلۡحُكۡمَ صَبِيًّ۬ا (١٢) (مریم:۱۳)

کہ ہم نے اس کو بچپن ہی کی عمر میں دانائی دی یعنی وہ بچپن میں ہی دانائی کی باتیں کرتے تھے ۔ چنانچہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق ان لوگوں کی جنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بچپن کا زمانہ دیکھا شہادت ہے کہ حضور رعلیہ الصلوٰۃ والسلام بچپن ہی میں عام بچوں سے بہت ممیز تھے اور لغویات میں حصہ نہ لیتے تھے اور لغو کھیل کود کی طرف خیال نہ تھا ۔جیسا کہ عام بچوں کا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ ورقہ بن نوفل نے آپ کی دانائی کی باتوں سے معلوم کر لیا کہ آپ بڑے ہو کر انبیاء کے سردار بنیں گے ۔ (بخاری باب کیف بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

باقی رہا یہ کہنا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن ہی میں نبوت اور کتاب مل گئی تھی یہ قرآن سے ثابت نہیں ۔ سورۃ آل عمران نکال کر دیکھئے وہاں فرشتہ حضرت مریم ؑ کے پاس آکر خوشخبری دے رہا ہے کہ تیرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا اور یہ امر خدا کی قدرت کاملہ کے آگے نا ممکن نہیں (آل عمران:۴۹،۵۰)کہ وہ بچہ جو پیدا ہو گا ا س کو اﷲ تعالیٰ کتاب سکھائے گا پھر تورات کا سبق پھر اس کے بعد انجیل اور وہ ہوگا بنی اسرائیل کی طرف رسول ۔ یہ کہ میں آیا ہوں خدا کی طرف سے نشان لے کر۔ یعنی حضرت مسیح کا اپنا کلام شروع ہو جاتا ہے ۔ فرشتہ نے قبل از وقت ولادت کی پیشین گوئی کو بیان کرتے کرتے بغیر کسی وقفہ کا ذکر کرنے کے اس پیدا ہونے والے کا اپنا کلام ذکر فرمادیا ہے ۔ پیدائش کا ذکر بھی نہیں کیا ۔تو معلوم ہوا کہ قرآن مجید صرف ضروری باتوں کا ذکر ضروری جگہ پر فرما دیتا ہے ۔چنانچہ اتنے بڑے وقفہ کا ذکر نہیں کیا اور اسلوب بیان اور بیان پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ کلام ا س زمانہ کا ہے جب آپ نبوت کی عمر کو پہنچ کر نبی بن چکے تھے اور معجزات دکھاتے تھے بچپن کا آیات مذکور ہ میں کہیں ذکر نہیں۔

وَيُعَلِّمُهُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِڪۡمَةَ وَٱلتَّوۡرَٮٰةَ وَٱلۡإِنجِيلَ (٤٨)وَرَسُولاً إِلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنِّى قَدۡ جِئۡتُكُم بِـَٔايَةٍ۬ مِّن رَّبِّڪُمۡ‌ۖ أَنِّىٓ أَخۡلُقُ لَڪُم مِّنَ ٱلطِّينِ كَهَيۡـٴَـةِِ ٱلطَّيۡرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيۡرَۢا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُبۡرِئُ ٱلۡأَڪۡمَهَ وَٱلۡأَبۡرَصَ وَأُحۡىِ ٱلۡمَوۡتَىٰ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأۡكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِى بُيُوتِڪُمۡ‌ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً۬ لَّكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (٤٩)
(آل عمران:۴۹،۵۰)

سور ۃ مریم میں (مریم:۳۰)کا مطلب یہ ہے کہ جو ابھی کل کا بچہ ہے اس کے ساتھ ہم کیسے گفتگو کریں۔ یہ تو ہمارے ہاتھوں میں پلا ہے ۔

فَأَشَارَتۡ إِلَيۡهِ‌ۖ قَالُواْ كَيۡفَ نُكَلِّمُ مَن كَانَ فِى ٱلۡمَهۡدِ صَبِيًّ۬ا (٢٩) (مریم:۳۰)

جیسا کہ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا (الشعراء:۱۹)کیا تو بچپن کی حالت میں میرے ہاتھو ں میں نہیں پلا؟ آج تُو مجھے ہی نصیحتیں کرنے آگیا ہے ۔

قَالَ أَلَمۡ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدً۬ا وَلَبِثۡتَ فِينَا مِنۡ عُمُرِكَ سِنِينَ (١٨) (الشعراء:۱۹)

اسی طرح یہاں بھی یہودی عمائد حضرت مریم ؑ کو جواب دیتے ہیں۔’’‘‘ ہمارے معنوں کی تائید کرتا ہے (مریم:۲۸) کی ’’ف‘‘ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ ولادت کے معاً بعد کا واقعہ ہے درست نہیں۔ عربی زبان میں ’’فا‘‘ نتیجہ کہ لئے بھی آتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ جو (آل عمران:۵۰) ہونے والا تھا۔ جب بڑا ہو گیا تو ان کی ماں ان کو ساتھ لے کر بنی اسرائیل کی طرف آئیں تاکہ وہ ان کو تبلیغ حق کریں جو ان کی پیدائش کا مقصد تھا۔ چنانچہ اسی رکوع میں ہے (مریم:۲۳)پس حضرت مریم حاملہ ہوگئیں اور ایک دور کے مکان میں چلی گئیں۔ پس دردِ زہ ان کو کھجور کے تنے کی طرف لے گئی۔اب حمل کے بعد ہی دردِ زہ کا ذکر ہے اور پر’’ ف‘‘ استعمال ہوئی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حمل ہوتے ہی دردِ زِہ شروع ہوگیا ؟ پس ’’ ف‘‘ سے معاً بعد لینا درست نہیں۔

فَأَتَتۡ بِهِۦ قَوۡمَهَا تَحۡمِلُهُ ۥ‌ۖ قَالُواْ يَـٰمَرۡيَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَيۡـًٔ۬ا فَرِيًّ۬ا (٢٧) (مریم:۲۸)

وَرَسُولاً إِلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنِّى قَدۡ جِئۡتُكُم بِـَٔايَةٍ۬ مِّن رَّبِّڪُمۡ‌ۖ أَنِّىٓ أَخۡلُقُ لَڪُم مِّنَ ٱلطِّينِ كَهَيۡـٴَـةِِ ٱلطَّيۡرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيۡرَۢا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُبۡرِئُ ٱلۡأَڪۡمَهَ وَٱلۡأَبۡرَصَ وَأُحۡىِ ٱلۡمَوۡتَىٰ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأۡكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِى بُيُوتِڪُمۡ‌ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً۬ لَّكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (٤٩) (آل عمران:۵۰)

فَحَمَلَتۡهُ فَٱنتَبَذَتۡ بِهِۦ مَكَانً۬ا قَصِيًّ۬ا (٢٢) (مریم:۲۳)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۔ قرآن مجیدسورۃ آل عمران کی آیت اوپر نقل کر آیا ہوں کہ فرشتہ نے آکر مریم ؑکو بتایا کہ حضرت مسیحؑ کو پہلے علم کتاب عطا ہوگا پھر علم حکمت، پھر علم تورات اور اس کے بعد ان کو پنی کتاب (انجیل) عطا ہوگی۔ اور یہی اﷲ تعالیٰ کا باقی سب انبیاء کے ساتھ دستور ہے۔ یعنی پہلے ان کو فہم کتاب عطا ہوتا ہے پھر انہیں کتاب ملتی ہے۔

پھر قرآن مجید میں ہے۔ (النساء:۱۶۴)

إِنَّآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ كَمَآ أَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰ نُوحٍ۬ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ مِنۢ بَعۡدِهِۦ‌ۚ وَأَوۡحَيۡنَآ إِلَىٰٓ إِبۡرَٲهِيمَ وَإِسۡمَـٰعِيلَ وَإِسۡحَـٰقَ وَيَعۡقُوبَ وَٱلۡأَسۡبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَـٰرُونَ وَسُلَيۡمَـٰنَ‌ۚ وَءَاتَيۡنَا دَاوُ ۥدَ زَبُورً۬ا (١٦٣) (النساء:۱۶۴)

یعنی اے نبی(صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم)!ہم نے آپ پر اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح علیہ السلام اور دیگر انبیاء حضرت عیسیٰ و ایوب و غیرھم علیہم السلام پر نازل کی تھی۔ اب قرآن مجید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی اسی طرح وحی کا نزول بیان فرماتا ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہوا اور اس میں کسی قسم کا فرق قرار نہیں دیتا ۔نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی خصوصیت بیان فرماتا ہے۔ بلکہ باقی انبیاء کے ساتھ ان کا بھی ذکر کر دیتا ہے۔ اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کو تو چالیس برس کے قریب ( الاحقاف:۱۶)کے ماتحت نبوت عطا ہوئی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ انجیل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ۳۱ برس کی عمر میں منادی شروع کی۔ جب یسوع خود تعلیم دینے لگا تو برس تیس ایک کا تھا۔‘‘ ( لوقا باب ۳/۲۳)

دلیل نمبر ۵ از روئے قرآن عیاں ہے کہ جس وقت مسیح کے دشمنوں نے آپ کو پکڑنا چاہا تو آسمان سے فرشتے نازل ہوئے اور اسے آسمان پر اٹھا لے گئے لیکن حضرت محمدؐ صاحب کو بچانے کے لئے کوئی فرشتہ نازل نہیں ہوا؟

الجواب:۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت مسیحؑ کو خدا کا کوئی فرشتہ آسمان پر اٹھا کر لے گیا۔ قرآن کی تیس آیات سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں کی آیت بے شک موجود ہے مگر رفع کا ترجمہ آسمان پر اٹھا لینا قطعاً غلط ہے قرآنمجید میں ہے (المجادلۃ:۱۲)کہ خداتعالیٰ رفع کرتا ہے تمام ایمان والوں کا اور ان لوگو ں کا جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم عطا ہوا ہو ۔ کن معنوں میں ؟ فرمایا یعنی مقاما ت اور درجا ت بلند کرنے کے معنوں میں۔اس سے آسمان پر ا ٹھانا مراد نہیں ہوتا۔


إِنَّمَا ٱلنَّجۡوَىٰ مِنَ ٱلشَّيۡطَـٰنِ لِيَحۡزُنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَيۡسَ بِضَآرِّهِمۡ شَيۡـًٔا إِلَّا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ (١٠) (المجادلۃ:۱۲)

اسی طرح حدیث میں بھی ہے۔اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَی السَّمَآءِ السَّابِعَۃِ(کنزالعمال جلد۳ کتاب الاخلاق قسم الاقوال۔ ۵۷۱۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے آگے گر جائے اور انکساری اختیار کرے تو خداتعالیٰ اس کا ساتویں آسمان پر رفع کرتا ہے۔ اب اس حدیث میں ساتویں آسمان کا بھی لفظ ہے مگر پھر بھی اس کے معنے آسمان پر اٹھانے کے نہیں بلکہ درجا ت کے بلند ہونے کے لئے جاتے ہیں۔ مگر قرآن مجید میں جو لفظ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق آئے ہیں (النساء:۱۵۹) ان میں تو آسمان کا نام بھی نہیں۔

اسی طرح قرآن مجید میں ہے ( مریم:۵۷، ۵۸) کہ حضرت ادریس ؑ سچے نبی تھے اور ہم نے ان کا بلند مکان پر رفع کیا۔ اب حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق بھی رفع کا لفظ استعما ل ہو اہے اور بھی۔ کیا وہ بھی آسمان پر زندہ ہیں ؟

وَٱذۡكُرۡ فِى ٱلۡكِتَـٰبِ إِدۡرِيسَ‌ۚ إِنَّهُ ۥ كَانَ صِدِّيقً۬ا نَّبِيًّ۬ا (٥٦) وَرَفَعۡنَـٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (٥٧) ( مریم:۵۷، ۵۸)

۲۔ قرآن مجید میں لکھا ہے(آل عمران:۵۶) خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ اے عیسیٰ! پہلے تجھ کو وفات دوں گا پھر تیرا رفع کروں گا۔ نے بتایا کہ ان کا رفع ہو چکا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ان کی وفات بھی ہو چکی ہے۔ کیونکہ رفع سے پہلے وفات کا وعدہ ہے اور کے معنے وفات دینے ہی کے ہیں جیسا کہ بخاری میں لکھا۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ۔ (بخاری کتاب التفسیر۔ باب ما جعل اللّٰہ من بحیرۃ و لاسائبۃ و لا وصیلۃ و لا حام مصری)کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ کے معنی موت دینے ہی کے ہیں۔

ابنِ مریم مر گیا حق کی قسم داخلِ جنت ہوا وہ محترم

مارتا ہے اس کو فرقاں سر بہ سر اس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر

(درّثمین اردو)

پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے۔ کیونکہ نہ صرف یہ کہ ان کی طبعی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ بلکہ ان کی تعلیم بھی مر گئی۔ ان کی تعلیم کے ثمرات مٹ گئے۔ مگر ہمارا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ ہے۔ اس کی تعلیم زندہ ہے۔ اس کے فیوض رو حانیہ کی نہر اب بھی جاری ہے اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری انسان کو اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچا سکتی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ اس زمانہ کے مامور حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام نے فرمایا ؂

قَدْ مَاتَ عِیْسٰی مُطْرِقًا وَّ نَبِیُّنَا حَیٌّ وَ رَبِّیْ اِنَّہٗ وَافَانِیْ

کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے لیکن ہمارا نبی زندہ ہے۔ خدا کی قسم میں نے اس کے فیوض کو خود تجربہ کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھو مضمون دربارہ وفات مسیح علیہ السلام صفحہ ۱۸۰)

دلیل نمبر ۶ مسیح کا مردوں کو زندہ کرنا اہلِ اسلام نے از روئے قرآن تسلیم کیا ہے؟

الجواب:۔ قرآن نے جن معنوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مردہ زندہ کرنے کا محاورہ بولا ہے انہی معنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بھی تو مردے زندہ کرنے کا ذکر فرما دیا ہے:۔ (الانفال:۲۵)

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسۡتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيڪُمۡ‌ۖ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَحُولُ بَيۡنَ ٱلۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهِۦ وَأَنَّهُ ۥۤ إِلَيۡهِ تُحۡشَرُونَ (٢٤) (الانفال:۲۵)

اے مومنو! اﷲ اور رسول کا کہا مانو۔ جب وہ تم کو بلائے تاکہ تم کو زندہ کرے۔ اب یہی لفظ اُحْیِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہی یُحْیِیْ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق۔ یہ ہمارے علماء کی بد قسمتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تو جسمانی مردے زندہ کرنا مراد لیں اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے روحانی مردے۔

۲۔ پھر قرآن میں موتٰی (یعنی مردوں) کا مفہوم بیان کر دیا ہے۔ فرمایا: (الروم:۵۳)کہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ اس کے متعلق حافظ نذیر احمد صاحب دہلوی اپنے ترجمہ قرآ ن میں لکھتے ہیں:۔ ’’غرض یہ ہے کہ کافر مردے اور بہرے ہیں ان میں سننے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں اور نہ سننا چاہتے ہیں ۔‘‘ (ترجمۃ القرآن از مولوی حافظ نذیر احمد صاحب مرحوم صفحہ ۴۹۴ تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی)

فَإِنَّكَ لَا تُسۡمِعُ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَلَا تُسۡمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوۡاْ مُدۡبِرِينَ (٥٢) (الروم:۵۳)

۳۔ ’’تلخیص المفتاح‘‘ صفحہ ۶۰ مطبع مجتبائی دہلی میں جو عربی بلاغت کی کتاب ہے لکھا ہے: ۔اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنَاہُ ضَالًّا فَھَدَیْنَاہُ(صفحہ۶۰) یعنی وہ شخص جو مردہ تھا ہم نے اسے زندہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گمراہ تھا ہم نے اسے ہدایت دی ۔

پس ثابت ہوا کہ بلغاء کے نزدیک احیائے موتیٰ کے معنے گمراہوں کو ہدایت دینا ہے اوریہی کام خدا کے انبیاء علیہم السلام کا ہے ۔

۴۔ انجیل میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوا ہے:۔

الف۔ ’’ اور اس (یسوع )نے تمہیں بھی زندہ کیا ہے جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب مردہ تھے۔‘‘ ( افسیوں۲/۱)

ب۔ ’’جب قصوروں کے سبب مردہ ہی تھے تو ہم کو مسیح کے ساتھ زندہ کیا ۔‘‘ ( افسیوں ۲/۵)

ج۔ پولوس رسول کہتا ہے:۔ ’’اے میرے بھائیو! مجھے اس فخر کی قسم جو ہمارے خدواوند یسوع مسیح میں تم پر ہے۔ میں ہر روز مرتا ہوں ۔‘‘ (۱کرنتھیوں ۱۵/۳۱)

ہاں ہم مانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے بارہ مردے زندہ کئے۔ یہود اہ اسکریوطی وغیرہ۔ مگر ان کی زندگی کیسی تھی ؟ اس کے لئے جس کو ضرورت ہو وہ انجیل کا مطالعہ کرے مگر ہمارے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسے مردہ زندہ کئے جن پر پھر موت نہیں آئی۔ ابو بکر و عمر و عثمان و علی رضی اﷲ عنہم وہ مردے تھے جن کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندہ کیا اور ایک وہ بھی جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت، فرمانبرداری کے طفیل نبوت کے مقام پر سرفراز کیا گیا ۔

 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دلیل نمبر ۷ صفتِ خلق حقیقی بھی خاصۂ ربّ العالمین اور یہ وصف بھی صرف حضرت مسیحؑ میں پایا جاتا تھا ۔

الجواب۔ یہ بالکل درست ہے کہ صفتِ خلقِ حقیقی خاصہ ربّ العالمین ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں صفت خالقیت نہ تھی۔ خدا کے انبیاء ایسے وقت میں آتے ہیں جبکہ لوگ زمین کی طرف جھک چکے ہوتے ہیں اور دنیا ہی دنیا ان کی نظروں میں ہوتی ہے۔ انبیاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو زمینی مٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہوتے ہیں بلندی کی طرف رفعت و منزلت کی طرف پرواز کرجانا چاہتے ہیں اور وہ ان میں روحانیت اور ﷲیت کی ایسی روح پھونک دیتے ہیں کہ وہی زمینی لوگ پرندوں کی طرح اڑ کر آسمانی انسان بن جاتے ہیں پھر وہ اس شعر کے مصداق ہو جاتے ہیں ۔ ؂

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیاکریں آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

یہی معنے ہیں اس آیت کے۔ (آل عمران:۵۰) کے معنے ’’پیدا کرتا ہوں‘‘ کرنا قطعاً درست نہیں۔

وَرَسُولاً إِلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنِّى قَدۡ جِئۡتُكُم بِـَٔايَةٍ۬ مِّن رَّبِّڪُمۡ‌ۖ أَنِّىٓ أَخۡلُقُ لَڪُم مِّنَ ٱلطِّينِ كَهَيۡـٴَـةِِ ٱلطَّيۡرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيۡرَۢا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُبۡرِئُ ٱلۡأَڪۡمَهَ وَٱلۡأَبۡرَصَ وَأُحۡىِ ٱلۡمَوۡتَىٰ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأۡكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِى بُيُوتِڪُمۡ‌ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً۬ لَّكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (٤٩) (آل عمران:۵۰)

کیونکہ خلق کے معنے پیدا کرنے، کسی چیز کی ابتداء کرنے اور تجویز کرنے کے بھی ہوتے ہیں مگر اول الذکر معنوں میں یعنی ’’پیدا کرنے کے‘‘ معنوں میں سوائے خداتعالیٰ کے یہ لفظ اور کسی کے لئے نہیں بولا جاتا۔ جیسا کہ مفرداتِ راغب جو عربی لغت کی معتبر کتاب ہے لکھا ہے۔ پس اس جگہ کے معنی ہوں گے میں تمہارے فائدہ کے لئے تجویز کرتا ہوں چنانچہ کتاب الشعراء و الشعرا ء لابن قتیبہ کے صفحہ ۲۹پر مشہور عربی شاعر کعب بن زہیر بن سلمیٰ کا یہ قول درج ہے :۔

لَاَنْتَ تَفْرِیْ مَا خَلَقْتَ وَ بَعْضُ الْقَوْمِ یَخْلُقُ ثُمَّ لَا یَفْرِیْ

اور لَاَنْتَ تَفْرِیْ مَا خَلَقْتَ کا ترجمہ مَا قَدَرْتَ لکھاہے۔ اسی طرح تفسیر بیضاوی تفسیر سورۃ آل عمران زیر آیت الخ لکھا ہے اَخْلُقُ لَکُمْ۔ اَقْدِرُ لَکُمْ پس اس آیت کے وہی معنے درست ہیں جو ہم نے کئے ۔ قرآن مجید صاف لفظوں میں فرماتا ہے: ۔ (الحج:۷۴)

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ۬ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُ ۥۤ‌ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ لَن يَخۡلُقُواْ ذُبَابً۬ا وَلَوِ ٱجۡتَمَعُواْ لَهُ ۥ‌ۖ وَإِن يَسۡلُبۡہُمُ ٱلذُّبَابُ شَيۡـًٔ۬ا لَّا يَسۡتَنقِذُوهُ مِنۡهُ‌ۚ ضَعُفَ ٱلطَّالِبُ وَٱلۡمَطۡلُوبُ (٧٣) (الحج:۷۴)

جن لوگوں کو خدا کے سوا تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے خواہ وہ سب جمع ہو کر بھی بنانے کی کوشش کریں ۔ یہاں تک کہ اگر مکھی ان کی کوئی چیز اٹھا کر لے جائے تو وہ اس کو اس سے بھی نہ چھڑا سکیں ۔

حضر ت عیسیٰ علیہ السلام بھی انہی معبودانِ باطلہ میں سے ہیں جیسا کہ فرمایا۔ (المائدۃ:۱۸)

لَّقَدۡ ڪَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡمَسِيحُ ٱبۡنُ مَرۡيَمَ‌ۚ قُلۡ فَمَن يَمۡلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيۡـًٔا إِنۡ أَرَادَ أَن يُهۡلِكَ ٱلۡمَسِيحَ ٱبۡنَ مَرۡيَمَ وَأُمَّهُ ۥ وَمَن فِى ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعً۬ا‌ۗ وَلِلَّهِ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا‌ۚ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ‌ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬ (١٧) (المائدۃ:۱۸)

پس قرآن مجید تو یہ کہتا ہے کہ حضرت مسیح ایک مکھی بھی نہ بنا سکتے تھے چہ جائیکہ ان کے متعلق چمگادڑیں اور پرندے بنانے کا اِدّعا کیا جائے ۔ ایسا دعویٰ کرنے والوں کو قرآن مجید کی یہ آیت پڑھنی چاہیے (الرعد:۱۷)

قُلۡ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ قُلِ ٱللَّهُ‌ۚ قُلۡ أَفَٱتَّخَذۡتُم مِّن دُونِهِۦۤ أَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُونَ لِأَنفُسِهِمۡ نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّ۬ا‌ۚ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى ٱلۡأَعۡمَىٰ وَٱلۡبَصِيرُ أَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى ٱلظُّلُمَـٰتُ وَٱلنُّورُ‌ۗ أَمۡ جَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُواْ كَخَلۡقِهِۦ فَتَشَـٰبَهَ ٱلۡخَلۡقُ عَلَيۡہِمۡ‌ۚ قُلِ ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىۡءٍ۬ وَهُوَ ٱلۡوَٲحِدُ ٱلۡقَهَّـٰرُ (١٦) (الرعد:۱۷)

کہ ان لوگوں نے اﷲ کے شریک بنا رکھے ہیں (جن کے متعلق کہتے ہیں)کہ انہوں نے بھی اس کی طرح پیدا کیا اور پھر ان کی پیدائش کی ہوئی چیزیں خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کے ساتھ مل جل گئیں ۔ ان کو کہہ دو کہ صرف اﷲ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کے سوا اور کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے۔

پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ کہنا کہ۔ (آل عمران:۵۰) والی آیت میں لفظ خَلق انہی معنو ں میں استعما ل ہواہے جن معنوں میں خدا تعالیٰ کے لئے بالبداہت باطل ہے ۔

وَرَسُولاً إِلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنِّى قَدۡ جِئۡتُكُم بِـَٔايَةٍ۬ مِّن رَّبِّڪُمۡ‌ۖ أَنِّىٓ أَخۡلُقُ لَڪُم مِّنَ ٱلطِّينِ كَهَيۡـٴَـةِِ ٱلطَّيۡرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيۡرَۢا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُبۡرِئُ ٱلۡأَڪۡمَهَ وَٱلۡأَبۡرَصَ وَأُحۡىِ ٱلۡمَوۡتَىٰ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأۡكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِى بُيُوتِڪُمۡ‌ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً۬ لَّكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (٤٩) (آل عمران:۵۰)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودیوں کے پاس اس وقت آئے جبکہ وہ دنیا داری میں پھنس کر مٹی ہو چکے تھے۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے چاہا کہ وہ پرندوں کی طرح خدا کی طرف اڑنے لگ جائیں۔ پھر ان میں روحانیت کی روح پھونکی جس سے وہ خدا کی طرف اڑنے لگے۔ یہی معنی اس آیت کے ہیں (فاطر:۱۱)

مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلۡعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلۡعِزَّةُ جَمِيعًاۚ إِلَيۡهِ يَصۡعَدُ ٱلۡكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلۡعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرۡفَعُهُۚ ۥ وَٱلَّذِينَ يَمۡكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمۡ عَذَابٌ۬ شَدِيدٌ۬ۖ وَمَكۡرُ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُوَ يَبُورُ (١٠) (فاطر:۱۱)

کہ خدا ہی کی طرف اوپر چڑھتے ہیں پاک کلمات اور نیک کام۔ وہ ان کو بلند کرتا ہے۔ ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پطرس اوریہوداہ اسکریوطی جیسے پرندے بنائے جو اڑے اور اڑ کر پھر زمین پر گر پڑے مگر خدا کے برگزیدہ رسول محمد عربی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابو بکر، عمر، عثمان وعلی رضی اﷲ عنہم جیسے پرندے بنائے جنہوں نے فضائے روحانیت کی لا انتہا بلندیوں کی طرف پرواز کی۔ دنیوی نگاہوں نے اپنی پستی سے ان کی بلندی کو ناپنا چاہا مگر نگاہیں ناکام واپس آئیں۔ رسول عربی صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کابنا یا ہوا ایک پرندہ (مسیح موعود )اس بلندی پر پہنچا کہ خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق: اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَا یَعْلَمُھَا الْخَلْقُ (تذکرہ ایڈیشن سوم۔ الشرکۃ الاسلامیہ صفحہ ۱۰۷، الہام ۱۸۸۳ء) کا ارشاد فرمایا ۔

دلیل نمبر ۸ اندھوں کو بینائی بخشنا اور بہروں کو شنوائی عطا کرنا اور کوڑھی کو شفا بخشنا بھی قرآن نے مسیح کے اقتداری نشانات و معجزا ت تسلیم کئے ہیں۔ کیا آنحضرتؐ نے بھی کوئی ایسا معجزہ دکھایا ؟

الجواب: ۔ قرآن مجید میں (آل عمران:۵۰) آیا ہے جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے میں بری کرتا ہوں اندھے اور کو ڑھے کو۔ مضارع واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میں بری کرتا ہوں۔‘‘ اُشْفِیْ کا لفظ نہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہو کہ ’’میں شفا دیتا ہوں۔‘‘ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اندھوں اور کو ڑھوں پر کوئی قید تھی جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کو بری کیا ۔


وَرَسُولاً إِلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنِّى قَدۡ جِئۡتُكُم بِـَٔايَةٍ۬ مِّن رَّبِّڪُمۡ‌ۖ أَنِّىٓ أَخۡلُقُ لَڪُم مِّنَ ٱلطِّينِ كَهَيۡـٴَـةِِ ٱلطَّيۡرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيۡرَۢا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُبۡرِئُ ٱلۡأَڪۡمَهَ وَٱلۡأَبۡرَصَ وَأُحۡىِ ٱلۡمَوۡتَىٰ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ‌ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأۡكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِى بُيُوتِڪُمۡ‌ۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً۬ لَّكُمۡ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (٤٩) (آل عمران:۵۰)

یا د رہے کہ تورات میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اندھے ،کوڑھے ، لنگڑے ہیکل میں داخل نہ ہوں کیونکہ و ہ ناپاک ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آکر ان کی اس قید کو ہٹا دیا ۔ ملاحظہ ہو تورات:۔

’’کیونکہ وہ مرد جس میں کچھ عیب ہے نزدیک نہ آئے جیسے اندھا یا لنگڑا……یا داد کھجلی بھرا……وہ عیب دار ہے……وہ اپنا کھائے مگر پردے کے اندر داخل نہ ہو۔میرے مقدس کو بے حرمت نہ کرے۔‘‘ (احبار۱۸تا۲۱/۲۴)
’’پھر خدا وند نے موسیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم کر کہ ہر ایک مبروص اور جریان والا جو مردہ کے سبب ناپا ک ہے ان کو خیمہ گا ہ سے باہر کر دیں۔ کیا مرد اور کیا عورت دونوں کو نکال دو کہ اپنی خیمہ گاہوں کو جن میں میں رہتا ہوں نا پاک نہ کریں ۔‘‘ (گنتی ۱تا۵/۳)

پس یہ وہ قید تھی جس سے مسیح نے ان کو بری کیا۔ ہاں خد اکے انبیاء روحانی اندھوں کو بصار ت و بصیرت عطا کرتے آئے ہیں۔ اندھا وہ ہے جو خدا کے انبیاء کی صداقت کو شناخت نہیں کرتا ۔ فرمایا (بنی اسرائیل:۷۳)کہ جو یہاں اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنی تمام آیات کو مُبْصِرَۃٌ (بینائی بخشنے والا)قرار دیا ہے۔

وَمَن كَانَ فِى هَـٰذِهِۦۤ أَعۡمَىٰ فَهُوَ فِى ٱلۡأَخِرَةِ أَعۡمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلاً۬ (٧٢) (بنی اسرائیل:۷۳)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بے شک پطرس ، یوحنا ، یہوداہ جیسے اندھوں اور کو ڑھوں کو بینائی دی اور کام کرنے کے قابل بنایا مگر ان کی یہ بینائی اور قوت عارضی تھی۔ مسیح کے گرفتار ہو تے ہی ان کی یہ سب طاقتیں مسلوب ہو گئیں مگر ہمارے نبی عربی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان اندھوں کو آنکھیں دیں اور کوڑھوں کو کام کرنے والا بنایا کہ جو شخص ان سے وابستہ ہوا، اس نے بھی بینائی پائی ۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دلیل نمبر ۹ قرآن میں بھی یہ لکھا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں جو کچھ کرتے اور کھاتے پیتے تھے حضرت مسیح ان کو وہ سب کچھ بتا دیتے تھے ۔

الجواب: ۔ قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ حضرت مسیح لوگوں کو یہ بتایا کرتے تھے آج تم گوشت کھا کر آئے ہو اور تم دال۔ بلکہ آیت یوں ہے:۔ (آل عمران:۵۰) کہ میں تم کو بتاتا ہوں (احکام )ان چیزوں کے متعلق جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ رکھتے ہو یعنی جمع و خرچ کے احکام بیان کرتا ہوں
جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی کہا (الاعراف:۳۲)

يَـٰبَنِىٓ ءَادَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمۡ عِندَ كُلِّ مَسۡجِدٍ۬ وَڪُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ وَلَا تُسۡرِفُوٓاْ‌ۚ إِنَّهُ ۥ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُسۡرِفِينَ (٣١) (الاعراف:۳۲)

کہ کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو۔ ورنہ یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ ؑیہ بتا دیا کرتے تھے کہ آج زید سبزی کھا کر آیا ہے اور بکر کدّو اور عمر نے اپنے گھر میں مکّی اور باجرہ جمع کر رکھا ہے مضحکہ خیز ہے ۔

دلیل نمبر ۱۰ قرآن میں تمام انبیاء کے گناہوں کا ذکر ہے۔ خصوصاً حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم ملتا ہے کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ ۔ ہم نے تجھے گمراہ پایا اور ہدایت کی ۔

الجواب:۔ سائل نے دو آیات پیش کی ہیں ۱۔ (محمد:۲۰) 2۔ (الضحٰی:۸)

فَٱعۡلَمۡ أَنَّهُ ۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ‌ۗ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَكُمۡ وَمَثۡوَٮٰكُمۡ (١٩) (محمد:۲۰)


وَوَجَدَكَ ضَآلاًّ۬ فَهَدَىٰ (٧) (الضحٰی:۸)

پہلی آیت کا جواب:۔ ذَنب کا لفظ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے قرآن میں پانچ مرتبہ آیا ہے اور پانچوں مرتبہ جنگ اور فتوحات کے ذکر کے بعد ہی آیا ہے ۔ چنانچہ ایک جگہ (النساء:۱۰۶) (سورۃ مومن:۸) میں پہلے نصرت کا ذکر ہے بعد میں استغفار کا ۔ سورۃ (محمد:۲۰) میں بھی جنگ کے ذکر کے ساتھ۔ اسی طرح سورۃ نصر میں بھی فتوحات کے ذکر کے ساتھ استغفار کا حکم ہے۔ سورۃ فتح میں بھی (الفتح:۲) کہ بعد استغفار کرنے کا حکم ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ استغفار اور ذنب کا فتوحات اورنصر تِ الٰہی کے ساتھ گہرا واسطہ ہے ۔ خدا تعالیٰ کی نصرت کبھی گنہگاروں اور بد کاروں کو نہیں ملا کرتی ۔

إِنَّآ أَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِتَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَٮٰكَ ٱللَّهُ‌ۚ وَلَا تَكُن لِّلۡخَآٮِٕنِينَ خَصِيمً۬ا (١٠٥) (النساء:۱۰۶)

ٱلَّذِينَ يَحۡمِلُونَ ٱلۡعَرۡشَ وَمَنۡ حَوۡلَهُ ۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَيُؤۡمِنُونَ بِهِۦ وَيَسۡتَغۡفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ رَبَّنَا وَسِعۡتَ ڪُلَّ شَىۡءٍ۬ رَّحۡمَةً۬ وَعِلۡمً۬ا فَٱغۡفِرۡ لِلَّذِينَ تَابُواْ وَٱتَّبَعُواْ سَبِيلَكَ وَقِهِمۡ عَذَابَ ٱلۡجَحِيمِ (٧) (سورۃ مومن:۸)
فَٱعۡلَمۡ أَنَّهُ ۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُؤۡمِنَـٰتِ‌ۗ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَكُمۡ وَمَثۡوَٮٰكُمۡ (١٩) (محمد:۲۰)


إِنَّا فَتَحۡنَا لَكَ فَتۡحً۬ا مُّبِينً۬ا (١) (الفتح:۲)


ع کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو
پھر ذنب کے ساتھ فتوحات اور نصرت کا کیا جوڑ ؟ نیز یہ کہنا کہ اے نبی! تو اپنے اور مومنوں کے لئے استغفار کر، صاف طور پر بتا رہا ہے کہ اس آیت میں ذنب کے معنی اِثْمٌ یعنی گناہ نہیں۔ بلکہ بشری کمزوری کے ہیں ۔ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے اثم کا لفظ نہیں بلکہ ذنب کا لفظ ہے جس کے معنی بشری کمزوری کے ہیں۔ قرآن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق لکھا ہے کہ حضورؐ پاک اور بے لوث انسان تھے ۔ (القلم:۵) کہ اے نبی! تو اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہے ۔

وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ۬ (٤) (القلم:۵)

پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے خدا اسمٰعیل ؑ کی نسل میں سے ایک ایسا عظیم الشان نبی پیدا کر جو (البقرۃ:۱۳۰) کا مصداق ہو یعنی ان کو پاک کرے ۔

رَبَّنَا وَٱبۡعَثۡ فِيهِمۡ رَسُولاً۬ مِّنۡہُمۡ يَتۡلُواْ عَلَيۡہِمۡ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَيُزَكِّيہِمۡ‌ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡحَكِيمُ (١٢٩) (البقرۃ:۱۳۰)

قرآن مجید آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو پاک بناتے ہیں۔ پھر فر مایاکہ (عبس:۱۷) کہ یہ مومن جن کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے قرآن دیا ہے نہایت ہی پاک لوگ ہیں ۔

كِرَامِۭ بَرَرَةٍ۬ (١٦) (عبس:۱۷)

گویا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو پاک بنابھی دیا پس ایسے عظیم الشان انسان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ خود گنہگار تھا سراسر بے انصافی ہے ۔ پس ذَنْب کے معنے یہی ہیں کہ چونکہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا اس لئے فتوحات اور لڑائیوں کے بعد بعض دفعہ محض بشریت کی و جہ سے بعض ایسے فیصلے سرزد ہو جاتے ہیں جن سے موجودہ لوگ تو مستفید ہو جائیں مگر بعد میں آنے والے لوگ جو بوقتِ فیصلہ موجود نہیں ہوتے نقصان اٹھا لیں۔ خداتعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی! تو ایسی بشری کمزوریوں کے غلط نتائج سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ سے استغفار کرلے ۔ یعنی یہ دعا کرے کہ اس کمی کو خدا تعالیٰ پورا کر دے ۔ کیونکہ وہ عالم الغیب ہے تاکہ نبوت کے عظیم الشان مقصد میں کوئی امر روک نہ ہو ۔

ذَنَبَ ذَنْبًاکے معنے لغت میں پیچھے آنے کے بھی ہیں ۔ اگر ان معنوں کو مد نظر رکھا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی! تو اپنے متبعین اور آئندہ آنے والے مومنین کے لئے مغفرت کی دعا کر و بس۔

دوسری آیت کا جواب :۔ ضَالّ بمعنی گمراہ نہیں بلکہ ضَالّ بمعنی متلاشی ہے ۔ جیسا کہ سورۃ یوسف کی آیت (یوسف:۹۶)میں۔

قَالُواْ تَٱللَّهِ إِنَّكَ لَفِى ضَلَـٰلِكَ ٱلۡقَدِيمِ (٩٥) (یوسف:۹۶)

آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تجھ کو دنیا کے لئے ہدایت کا متلاشی پایا اور تجھ کو ہدایت عطاکی ۔ دوسرا قرینہ اس (سورۃ الضّحٰی) کی ترتیب ہے اس میں (الضحٰی:۸)کے نتیجے میں اس کے بالمقابل (الضحٰی:۱۱)یعنی اے نبی! تو ضَالّ تھا ہم نے تجھ کو ہدایت عطا کی ۔ پس تو بھی کسی سائل کو مت ڈانٹ۔ اس آیت کی بناوٹ ہی بتا رہی ہے کہ یہاں کے معنے سائل اور متلاشی کے ہیں۔

وَوَجَدَكَ ضَآلاًّ۬ فَهَدَىٰ (٧) (الضحٰی:۸)

وَأَمَّا ٱلسَّآٮِٕلَ فَلَا تَنۡہَرۡ (١٠) (الضحٰی:۱۱)


ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق صاف طور پر قرآن میں آیا ہے (النجم:۳)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نہکبھی گمراہ ہوئے اور نہ راہِ راست سے بھٹکے ۔ باقی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے گناہ !ہم تو سب انبیاء کو گناہ سے پاک مانتے ہیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جن کے متعلق خداتعالیٰ نے (النجم:۹،۱۰)فرمایا۔

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمۡ وَمَا غَوَىٰ (٢) (النجم:۳)

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (٨) فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ (٩) (النجم:۹،۱۰)



دلیل نمبر ۱۱ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اورقربِ قیامت میں فتنۂ دجال کو فرو کرنے کے لئے آئیں گے ۔

الجواب:۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا زندہ آسمان پر ہونا قران اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت نہیں۔ جیسا کہ سوال نمبر ۵ کے جواب میں بیان ہوا۔ اور جس شخص کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ آخری زمانہ میں فتنۂ دجال کو فرو کرنے کے لئے مبعوث ہوگا اس نے اسی اُمتِ محمدیہ میں سے پیدا ہونا تھا ۔ چنانچہ بخاری جلد۱ صفحہ ۴۹۵ کتاب احادیث الانبیاء باب نزولِ عیسیٰ و مسند احمد جلد۲ صفحہ ۲۳۶ مطبوعہ مصر میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔ کہ مسیح موعود اُمتِ محمدیہ کا امام ہوگا جو اس امت ہی میں سے ہوگا۔ پھر بخاری میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو مسیح ناصری کا حلیہ بیان فرمایا ہے وہ سرخ رنگ اور گھنگھریالے بال ہے۔ مگر آنے والے مسیح کا حلیہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے گندمی رنگ اور سیدھے بال بیان فرمایا ہے ۔(بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۵۹ مطبع الٰہیہ مصر ) دو حلیے ایک آدمی کے نہیں ہوسکتے۔ پس اختلاف حلیتین بتاتاہے کہ پہلا مسیح فوت ہو چکا اور آنے والامسیح اسی دنیاسے پیدا ہونا تھا ۔

حضرت محی الدین ابن عربی ؒ نے بھی لکھا ہے۔’’وَجَبَ نُزُوْلُہٗ فِیْ اٰخِرَ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہٖ بِبَدَنٍ اٰخَرَ۔‘‘ (تفسیر عرائس البیان جلد ۱ صفحہ ۲۶۲ )کہ آخری زمانہ میں پہلا مسیح واپس نہیں آئے گا۔ بلکہ اب وہ ایک نئے وجود کی صورت میں ہی ظہور پذیر ہوگا ۔ پس یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا کمال ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی ایک انسان کو مسیح بنا سکتی ہے بلکہ اس سے بھی اگلے مقام پر لے جاسکتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر تھا کہ وہ دجالی فتنہ سے جو پہلے مسیح کی بگڑی ہوئی اُمت کی طرف سے کھڑاکیا جاناتھا۔ جس کی بنیادیں پہلے مسیح کی خدائی پر مستحکم اور استوار کی جانی تھیں اس کو مٹانے کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی قوتِ قدسی ایک محمدی مسیح کھڑا کر ے جو اس فتنہ کو عصائے محمدیؐ سے پاش پاش کر دے اور الوہیت باطلہ و تثلیث نادرہ کی دھجیاں فضا ئے آسمان میں بکھیر کر رکھ دے ۔ ؂

بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے

جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے

(درثمین اُردو)

چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی پیشگوئیوں کے عین مطابق وہ آنے والاقادیان کی سرزمین میں ظاہر ہوا اور اپنی باطل شکن صدا سے تثلیثِ باطلہ کے قصرِ عظیم المنظر میں اضمحلال پید اکر گیا ۔ ؂

وہ آیا جس کی آمد دیکھنے کو نگاہ شوق سوئے آسمان ہے

مسیح وقت آیا قادیاں میں جبھی تو قادیاں دارالاماں ہے

مبارک وہ جو اسے قبول کریں اور اس کے دامنِ اطاعت کے ساتھ وابستہ ہو کر افواجِ باطل کے ازہاق کا ہمت آفریں کام کریں ۔ (خادم )
 
Top