• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 10 ۔اسلامی اصولوں کی فلاسفی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 10۔ اسلامی اصولوں کی فلاسفی ۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 10. Page: 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اسلامی اصول کی فلاسفی
از قلم
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
بانی جماعت احمدیہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اسلام
مضمون عالیجناب حضرت مرزا غلام احمدصاحب رئیس قادیان جس کو مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے
بمقام لاہور جلسہ اعظم مذاہب دھرم مہوتسو میں ۷۲؍دسمبر ۶۹۸۱ ء کو کھڑے ہو کر سنایا۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعویٰ اور دلیل الہامی
کتاب سے ہونا ضروری ہے
آج اس جلسہ مبارک میں جس کی غرض یہ ہے کہ ہر ایک صاحب جو بلائے گئے ہیں سوالات مشتہرہ کی پابندی سے اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان فرماویں۔ میں اسلام
کی خوبیاں بیان کروں گا۔ اور اس سے پہلے کہ میں اپنے مطلب کو شروع کروں اس قدر ظاہر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ جو کچھ بیان کروں‘ خدائے تعالیٰ کے
پاک کلام قرآن شریف سے بیان کروں کیونکہ میرے نزدیک یہ بہت ضروری ہے کہ ہر ایک شخص جو کسی کتاب کا پابند ہو۔ اور اس کتاب کو ربانی کتاب سمجھتا ہو وہ ہر ایک بات میں اسی کتاب کے حوالہ
سے جواب دے اور اپنی وکالت کے اختیارات کو ایسا وسیع نہ کرے کہ گویا وہ ایک نئی کتاب بنا رہا ہے۔ سو چونکہ آج ہمیں قرآن شریف کی خوبیوں کو ثابت کرنا ہے اور اس کے کمالات کو دکھلانا ہے
اسلئے مناسب ہے کہ ہم کسی بات میں اس کے اپنے بیان سے باہر نہ جائیں اور اسی کے اشارہ یا تصریح کے موافق اور اسی کی آیات کے حوالہ سے ہر ایک مقصد کو تحریر کریںؔ ۔ تا ناظرین کو
موازنہ اور مقابلہ کرنے کیلئے آسانی ہو۔ اور چونکہ ہر ایک صاحب جو پابند کتاب ہیں اپنی اپنی الہامی کتاب کے بیان کے پابند رہیں گے اور اسی کتاب کے اقوال پیش کریں گے اسلئے ہم نے اس جگہ
احادیث کے بیان کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ تمام صحیح
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
حدیثیں قرآن شریف سے ہی لی گئی ہیں اور وہ کامل کتاب ہے جس پر تمام کتابوں کا خاتمہ ہے۔ غرض آج قرآن کی شان ظاہر
ہونے کا دن ہے اور ہم خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ اس کام میں ہمارا مددگار ہو۔ آمین
سوال اول کا جواب
معزز ناظرین کو خیال رہے کہ اس مضمون کے ابتدائی صفحوں میں بعض تمہیدی
عبارتیں ہیں جو بظاہر غیر متعلق معلوم دیتی ہیں مگر اصل جوابات کے سمجھنے کے لئے پہلے ان کا سمجھنا نہایت ضروری ہے اس لئے صفائی بیان کے لئے قبل از شروع مطلب ان عبارتوں کو لکھا
گیاکہ تا اصل مطلب سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
اقسام حالات ثلاثہ انسانی
اب واضح ہو۔ کہ پہلا سوال انسان کی طبعی اور اخلاقی اور روحانی حالتوں کے بارے میں ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ خدائے
تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف نے ان تین حالتوں کی اس طرح پر تقسیم کی ہے کہ ان تینوں کے علیحدہ علیحدہ تین مبداء ٹھہرائے ہیں یا یوں کہو کہ تین سرچشمے قرار دئیے ہیں جن میں سے جدا جدا
یہ حالتیں نکلتی ہیں۔
(۱) نفس امّارہ
پہلا سرچشمہ جو تمام طبعی حالتوں کا مورَد اور مصدَر ہے اس کا نام قرآن شریف نے نفس ا ّ مارہ رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
۱؂
یعنی نفس ا ّ
مارہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جو اس کے کمال کے مخالف اور اس
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کی اخلاقی حالتوں کے برعکس ہے جھکاتا ہے اور ناپسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے۔ غرض بے اعتدالیوں اور بدیوں کی
طرف جانا انسان کی ایک حالت ہے جو اخلاقی حالت سے پہلے اس پر طبعاً غالب ہوتی ہے۔ اور یہ حالت اس وقت تک طبعی حالت کہلاتی ہے جب تک کہ انسان عقل اور معرفت کے زیر سایہ نہیں چلتا۔
بلکہ چارپایوں کی طرح کھانے پینے، سونے جاگنے یا غصہ اور جوش دکھلانے وغیرہ امور میں طبعی جذبات کا پیرو رہتا ہے۔ اور جب انسان عقل اور معرفت کے مشورہ سے طبعی حالتوں میں تصرّف
کرتا اور اعتدال مطلوب کی رعایت رکھتا ہے۔ اس وقت ان تینوں حالتوں کا نام طبعی حالتیں نہیں رہتا بلکہ اس وقت یہ حالتیں اخلاقی حالتیں کہلاتی ہیںؔ ۔ جیسا کہ آگے بھی کچھ ذکر اس کا آئے
گا۔
(۲) نفس لوّ امہ
اور اخلاقی حالتوں کے دوسرے سرچشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوّ امہ ہے جیسا کہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
۱؂
یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو
بدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے۔ یہ نفس لوّ امہ انسانی حالتوں کا دوسرا سرچشمہ ہے۔ جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی
مشابہت سے نجات پاتا ہے۔ اور اس جگہ نفس لوّ امہ کی قسم کھانا اس کو عزت دینے کے لئے ہے گویا وہ نفس امّارہ سے نفس لوّ امہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الٰہی میں عزت پانے کے لائق
ہوگیا۔ اور اس کا نام لوّ امہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں ُ شتر بے مہار کی طرح چلے اور چارپایوں کی زندگی
بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی کے تمام لوازم میں کوئی بے اعتدالی ظہور میں نہ آوے اور
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
طبعی جذبات
اور طبعی خواہشیں عقل کے مشورہ سے ظہور پذیر ہوں۔ پس چونکہ وہ بری حرکت پر ملامت کرتا ہے۔ اس
لئے اس کا نام نفس لوّ امہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا۔ اور نفسلوّ امہ اگرچہ طبعی جذبات پسند نہیں کرتا بلکہ اپنے تئیں ملامت کرتا رہتا ہے لیکن نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور سے قادر بھی
نہیں ہو سکتا اور کبھی نہ کبھی طبعی جذبات اس پر غلبہ کر جاتے ہیں۔ تب گر جاتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے۔ گویا وہ ایک کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے۔ جو گرنا نہیں چاہتا ہے۔ مگر کمزوری کی وجہ
سے گرتا ہے۔ پھر اپنی کمزوری پر نادم ہوتا ہے۔ غرض یہ نفس کی وہ اخلاقی حالت ہے۔ جب نفس اخلاقِ فاضلہ کو اپنے اندر جمع کرتا ہے اور سرکشی سے بیزار ہوتا ہے مگر پورے طور پر غالب
نہیں آ سکتا۔
(۳) نفس مطمئنہ
پھر ایک تیسرا سرچشمہ ہے جس کو روحانی حالتوں کا مبداء کہنا چاہئے۔ اس سرچشمہ کا نام قرآن شریف نے نفس مطمئنہ رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
۱؂
یعنی اے نفس آرام یافتہ جو خدا سے آرام پاگیا اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آجا۔ یہ وہ مرتبہ
ہے جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پاکر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے ایسا پیوند کر لیتا ہے کہ بغیر اس کے جی بھی نہیں سکتا۔ اور جس طرح پانی اوپر سے نیچے کی
طرف بہتا اور بسبب اپنی کثرت اور نیز روکوں کے دور ہونے سے بڑے زور سے چلتا ہے اسی طرح وہ خدا کی طرف بہتا چلا جاتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتاؔ ہے کہ اے وہ
نفس جو خدا سے آرام پا گیا اس کی طرف واپس چلا آ۔ پس وہ اسی زندگی میں نہ موت کے بعد ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرتا ہے اور اسی دنیا میں نہ دوسری جگہ ایک بہشت
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 322
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 322
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کا خمیر نطفہ میں موجود ہوتا ہے۔ بے شک وہ آسمانی خدا کے ارادہ سے اور اس کے اذن اور اس کی مشیت سے ایک مجہول
الکنہ علاقہ کے ساتھ نطفہ سے تعلق رکھتا ہے اور نطفہ کا وہ ایک روشن اور نورانی جوہر ہے۔ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نطفہ کی ایسی جز ہے جیسا کہ جسم جسم کی جز ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی نہیں کہہ
سکتے کہ وہ باہر سے آتا ہے یا زمین پر گر کر نطفہ کے مادہ سے آمیزش پاتا ہے بلکہ وہ ایسا نطفہ میں مخفی ہوتا ہے جیسا کہ آگ پتھر کے اندر ہوتی ہے۔ خدا کی کتاب کا یہ منشا نہیں ہے کہ روح الگ
طور پر آسمان سے نازل ہوتی ہے یا فضا سے زمین پر گرتی ہے اور پھر کسی اتفاق سے نطفہ کے ساتھ مل کر رحم کے اندر چلی جاتی ہے۔ بلکہ یہ خیال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہرسکتا۔ اگر ہم ایسا
خیال کریں تو قانون قدرت ہمیں باطل پر ٹھہراتا ہے۔ ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ گندے اور باسی کھانوں میں اور گندے زخموں میں ہزارہا کیڑے پڑجاتے ہیں۔ میلے کپڑوں میں صدہا جوئیں پڑجاتی ہیں-
انسان کے پیٹ کے اندر بھی کدو دانے وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ اب کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ باہر سے آتے ہیں یا آسمان سے اترتے کسی کو دکھائی دیتے ہیں۔ سو صحیح بات یہ ہے کہ روح جسم میں
سے ہی نکلتی ہے اور اسی دلیل سے اس کا مخلوق ہونا بھی ثابت ہوتا ہے-
روح کی دوسری پیدائش
اب اس وقت ہمارا مطلب اس بیان سے یہ ہے کہ جس قادر مطلق نے روح کو قدرت کاملہ کے
ساتھ جسم میں سے ہی نکالا ہے اس کا یہی ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ روح کی دوسری پیدائش کو بھی جسم کے ذریعہ سے ہی ظہور میں لاوے۔ روح کی حرکتیں ہمارے جسم کی حرکتوں پر موقوف ہیں۔
جس طرف ہم جسم کو کھینچتے ہیں روح بھی بالضرور پیچھے پیچھےِ کھنچی چلی آتی ہے اس لئے انسان کی طبعی حالتوں کی طرف متوجہ ہونا خدا تعالیٰ کی سچی کتاب کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
قرآن شریف نے انسان کی طبعی حالتوں کی اصلاح کیلئے بہت توجہ فرمائی ہے۔ اور انسان کا ہنسنا، رونا، کھانا، پینا، پہننا، سونا، بولنا، چپ ہونا، بیوی کرنا، مجرد رہنا، چلنا، ٹھہرنا اور ظاہری پاکیزگی
غسلؔ وغیرہ کی شرائط بجالانا اور بیماری کی حالت اور صحت کی حالت میں خاص خاص امور کا پابند ہونا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 324
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 324
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ان سب باتوں پر ہدایتیں لکھی ہیں اور انسان کی جسمانی حالتوں کو روحانی حالتوں پر بہت ہی مؤثر قرار دیا ہے۔ اگر ان ہدایتوں
کو تفصیل سے لکھا جائے تو میں خیال نہیں کر سکتا کہ اس مضمون کے سنانے کیلئے کوئی وقت کافی مل سکے۔
انسان کی تدریجی ترقی
میں جب خدا کے پاک کلام پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں
کہ کیونکر اس نے اپنی تعلیموں میں انسان کو اس کی طبعی حالتوں کی اصلاح کے قواعد عطا فرما کر پھر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف کھینچا ہے اور اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت تک پہنچانا چاہا ہے تو
مجھے یہ ُ پرمعرفت قاعدہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اول خدا نے یہ چاہا ہے کہ انسان کو نشست برخاست اور کھانے پینے اور بات چیت اور تمام اقسام معاشرت کے طریق سکھلا کر اس کو وحشیانہ
طریقوں سے نجات دیوے اور حیوانات کی مشابہت سے تمیز کلی بخش کر ایک ادنیٰ درجہ کی اخلاقی حالت جس کو ادب اور شائستگی کے نام سے موسوم کر سکتے ہیں سکھلاوے۔ پھر انسان کی نیچرل
عادات کو جن کو دوسرے لفظوں میں اخلاق رذیلہ کہہ سکتے ہیں اعتدال پر لاوے تا وہ اعتدال پاکر اخلاق فاضلہ کے رنگ میں آجائیں۔ مگر یہ دونوں طریقے دراصل ایک ہی ہیں کیونکہ طبعی حالتوں کی
اصلاح کے متعلق ہیں صرف ادنیٰ اور اعلیٰ درجہ کے فرق نے ان کو دو قسم بنا دیا ہے۔ اور اس حکیم مطلق نے اخلاق کے نظام کو ایسے طور سے پیش کیا ہے کہ جس سے انسان ادنیٰ خلق سے اعلیٰ
خلق تک ترقی کر سکے۔
اسلام کی حقیقت
اور پھر تیسرا مرحلہ ترقیات کا یہ رکھا ہے کہ انسان اپنے خالق حقیقی کی محبت اور رضا میں محو ہو جائے اور سب وجود اس کا خدا کیلئے ہو جائے۔
یہ وہ مرتبہ ہے جس کو یاد دلانے کیلئے مسلمانوں کے دین کا نام اسلام رکھاگیا ہے۔ کیونکہ اسلام اس بات کو کہتے ہیں کہ بکلی خدا کیلئے ہو جانا اور اپنا کچھ باقی نہ رکھنا۔ جیسا کہ اللہ جل جلالہ
فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 325
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 325
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ترجمہ۔ یعنی نجات یافتہ وہ شخص ہے جو اپنے وجود کو خدا کیلئے اور خدا کی راہ میں قربانیؔ کی طرح رکھ دے اور نہ
صرف نیت سے بلکہ نیک کاموں سے اپنے صدق کو دکھلاوے۔ جو شخص ایسا کرے اس کا بدلہ خدا کے نزدیک مقرر ہو چکا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ کہہ میری
نماز اور میری قربانی اور میر ازندہ رہنا اور میرا مرنا اس خدا کیلئے ہے جس کی ربوبیت تمام چیزوں پر محیط ہے کوئی چیز اور کوئی شخص اس کا شریک نہیں اور مخلوق کو کسی قسم کی شراکت اس
کے ساتھ نہیں۔ مجھے یہی حکم ہے کہ میں ایسا کروں اور اسلام کے مفہوم پر قائم ہونے والا یعنی خدا کی راہ میں اپنے وجود کی قربانی دینے والا سب سے اول میں ہوں۔ یہ میری راہ ہے سو آؤ میری
راہ اختیار کرو اور اس کے مخالف کوئی راہ اختیار نہ کرو کہ خدا سے دور جا پڑو گے۔ ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہولو۔ اور میری راہ پر چلو تا خدا بھی تم سے
پیار کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو بخشندہ اورغفور‘ رحیم ہے۔
طبعی حالتوں اور اخلاق میں مابہ الامتیاز
اب ہم انسان کے ان تین مرحلوں کا جدا جدا بیان کریں گے۔ لیکن اول یہ یاد
دلانا ضروری ہے کہ طبعی حالتیں جن کا سرچشمہ اور مبداء نفس امّارہ ہے خدا تعالیٰ کے پاک کلام کے اشارات کے موافق اخلاقی حالتوں سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ کیونکہ خدا کے پاک کلام نے تمام
نیچرل قویٰ اور جسمانی خواہشوں اور تقاضوں کو طبعی حالات کی مد میں رکھا ہے اور وہی طبعی حالتیں ہیں جو بالارادہ تربیت اور تعدیل اور موقع بینی اور محل پر استعمال کرنے کے بعد اخلاق
کا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 326
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 326
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
رنگ پکڑ لیتی ہیں۔ ایسا ہی اخلاقی حالتیں روحانی حالتوں سے کوئی الگ باتیں نہیں ہیں بلکہ وہی اخلاقی حالتیں ہیں جو پورے فنا
فی اللہ اور تزکیہ نفس اور پورے انقطاع الی اللہ اور پوری محبت اور پوری محویت اور پوری سکینت اور اطمینان اور پوری موافقت باللہ سے روحانیت کا رنگ پکڑ لیتی ہیں۔ طبعی حالتیں جب تک اخلاقی
رنگ میں نہ آئیں کسی طرح انسان کو قابل تعریف نہیں بناتیں۔ کیونکہ وہ دوسرے حیوانات بلکہ جمادات میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ایسا ہی مجرد اخلاق کا حاصل کرنا بھی انسان کو روحانی زندگی نہیں
بخشتا۔ بلکہ ایک شخص خدا تعالیٰ کے وجود سے بھی منکر رہ کر اچھے اخلاق دکھلا سکتا ہے۔ دل کا غریب ہونا یا دل کا حلیم ہونا یا صلح کار ہونا یا ترک شر کرنا اور شریر کے مقابلہ پر نہ آنا یہ تمام
طبعی حالتیں ہیں اور ایسی باتیں ہیں جو ایک نا اہل کو بھی حاصل ہو سکتی ہیں جو اصل سرچشمہ نجات سے بے نصیب اور نا آشنا محض ہے اور بہت سے چارپائے غریب بھی ہوتے ہیں اور پلنے اور
خو پذیر ہونے سے صلح کاری بھی دکھلاتے ہیں۔ سوٹے پر سونٹا مارنے سے کوئی مقابلہ نہیں کرتے مگر پھر بھی ان کو انسان نہیں کہہ سکتے۔ چہ جائیکہ ان خصلتوںؔ سے وہ اعلیٰ درجہ کے
انسان بن سکیں۔ ایسا ہی بد سے بد عقیدہ والا بلکہ بعض بدکاریوں کا مرتکب ان باتوں کا پابند ہو سکتا ہے۔
جیوہتیا کا ردّ
ممکن ہے کہ انسان رحم میں اس حد تک پہنچ جائے کہ اگر اس کے اپنے ہی
زخم میں کیڑے پڑیں ان کو بھی قتل کرنا روا نہ رکھے اور جانداروں کی پاسداری اس قدر کرے کہ جوئیں جو سر میں پڑتی ہیں۔ یا وہ کیڑے جو پیٹ اور انتڑیوں میں اور دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کو
بھی آزار دینا نہ چاہے بلکہ میں قبول کر سکتا ہوں کہ کسی کا رحم اس حد تک پہنچے کہ وہ شہد کھانا ترک کر دے کیونکہ وہ بہت سی جانوں کے تلف ہونے اور غریب مکھیوں کو ان کے استھان سے
پراگندہ کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور میں مانتا ہوں کہ کوئی مشک سے بھی پرہیز کرے کیونکہ وہ غریب ہرن کا خون ہے اور اس غریب کو قتل کرنے اور بچوں سے جدا کرنے کے بعد میسر آ سکتا
ہے۔ ایسا ہی مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ کوئی موتیوں کے استعمال کو بھی چھوڑ دے اور ابریشم کو پہننا بھی ترک کرے۔ کیونکہ یہ دونوں غریب کیڑوں کے ہلاک کرنے سے ملتے ہیں بلکہ میں
یہاں
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 327
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 327
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/327/mode/1up
تک مانتا ہوں کہ کوئی شخص دکھ کے وقت جونکوں کے لگانے سے بھی پرہیز کرے اور آپ دکھ اٹھالے اور غریب جونک کی
موت کا خواہاں نہ ہو۔ بالآخر اگر کوئی مانے یا نہ مانے مگر میں مانتا ہوں کہ کوئی شخص اس قدر رحم کو کمال کے نقطہ تک پہنچادے کہ پانی پینا چھوڑ دے اور اس طرح پانی کے کیڑوں کے بچانے
کیلئے اپنے تئیں ہلاک کرے۔ میں یہ سب کچھ قبول کرتا ہوں لیکن میں ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ یہ تمام طبعی حالتیں اخلاق کہلا سکتی ہیں یا صرف انہیں سے وہ اندرونی گند دھوئے جا سکتے ہیں جن کا
وجود خدا کے ملنے کی روک ہے۔ میں کبھی باور نہیں کروں گا کہ اس طرح کا غریب اور بے آزار بننا جس میں بعض چارپایوں اور پرندوں کا کچھ نمبر زیادہہے۔ اعلیٰ انسانیت کے حصول کا موجب ہو
سکتا ہے بلکہ میرے نزدیک یہ قانون قدرت سے لڑائی ہے۔ اور رضا کے بھاریُ خلق کے برخلاف اور اس نعمت کو رد کرنا ہے جو قدرت نے ہم کو عطا کی ہے بلکہ وہ روحانیت ہر ایکُ خلق کو محل اور
موقعہ پر استعمال کرنے کے بعد اور پھر خدا کی راہوں میں وفاداری کے ساتھ قدم مارنے سے اور اسی کا ہو جانے سے ملتی ہے۔ جو اس کا ہو جاتا ہے اس کی یہی نشانی ہے کہ وہ اس کے بغیر جی ہی
نہیں سکتا۔ عارف ایک مچھلی ہے جو خدا کے ہاتھ سے ذبح کی گئی اور اس کا پانی خدا کی محبت ہے۔
اصلاح کے تین طریق
اب میں پہلے کلام کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ میں ابھی ذکر کر چکا
ہوں کہ انسانی حالتوںؔ کے سرچشمے تین ہیںیعنی نفس ا مّارہ۔ نفس لوّ امہ۔ نفس مطمئنہ اور طریق اصلاح کے بھی تین ہیں۔
اوّل یہ کہ بے تمیز وحشیوں کو اس ادنیٰ ُ خلق پر قائم کیا جائے کہ وہ
کھانے پینے اور شادی وغیرہ تمدنی امور میں انسانیت کے طریقے پر چلیں۔ نہ ننگے پھریں اور نہ کتوں کی طرح مردار خور ہوں اور نہ کوئی اور بے تمیزی ظاہر کریں۔ یہ طبعی حالتوں کی اصلاحوں
میں سے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 328
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 328
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/328/mode/1up
ادنیٰ درجہ کی اصلاح ہے۔ یہ اس قسم کی اصلاح ہے کہ اگر مثلاً پورٹ بلیر کے جنگلی آدمیوں میں سے کسی آدمی کو انسانیت
کے لوازم سکھلانا ہو تو پہلے ادنیٰ ادنیٰ اخلاق انسانیت اور طریق ادب کی ان کو تعلیم دی جائے گی۔
دوسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جب کوئی ظاہری آداب انسانیت کے حاصل کرلیوے تو اس کو
بڑے بڑے اخلاق انسانیت کے سکھلائے جائیں اور انسانی قویٰ میں جو کچھ بھرا پڑا ہے۔ ان سب کو محل اور موقعہ پر استعمال کرنے کی تعلیم دی جائے۔
تیسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جو لوگ
اخلاق فاضلہ سے متّصف ہوگئے ہیں ایسے خشک زاہدوں کو شربت محبت اور وصل کا مزا چکھایا جائے۔ یہ تین اصلاحیں ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں۔
اصلاح کی کامل ضرورت کے وقت
آنحضرت ﷺ کی بعثت
اور ہماے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے۔ جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
پ۲۱ ۱؂
یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں وہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی
بگڑ گئے ہیں۔ پس قرآن شریف کا کام دراصل ُ مردوں کو زندہ کرنا تھا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
۲؂
یعنی یہ بات جان لو کہ اب اللہ تعالیٰ نئے سرے سے زمین کو بعد اس کے مرنے کے زندہ کرنے
لگا ہے۔ اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا اور کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے۔ ایک ایک
شخص صدہا بیویاں کرلیتا تھا۔ حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا۔ ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے۔ اسی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 329
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 329
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/329/mode/1up
واسطے اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا۔ کہ
۱؂
یعنی آج مائیں تمہاری تم پر حرام ہوگئیں۔ ایسا ہی وہ مردار کھاتے تھے۔ آدم
خور بھی تھے۔ دنیا کا کوئی بھی گناہ نہیں جو نہیں کرتے تھے۔ اکثر معاد سے منکر تھے۔ بہت سے ان میں سے خدا کے وجود کے بھی قائل نہ تھے۔ لڑکیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کرتے تھے۔ یتیموں کو
ہلاک کر کے ان کا مال کھاتے تھے۔ بظاہر تو انسان تھے مگر عقلیں مسلوب تھیں۔ نہ حیا تھی نہ شرم تھی نہ غیرت تھی۔ شراب کو پانی کی طرح پیتے تھے۔ جسؔ کا زناکاری میں اول نمبر ہوتا تھا۔ وہی
قوم کا رئیس کہلاتا تھا۔ بے علمی اس قدر تھی کہ اردگرد کی تمام قوموں نے ان کا نام اُ ّ می رکھ دیا تھا۔ ایسے وقت میں اور ایسی قوموں کی اصلاح کیلئے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم
شہر مکہ میں ظہور فرما ہوئے۔ پس وہ تین قسم کی اصلاحیں جن کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں۔ ان کا درحقیقت یہی زمانہ تھا۔ پس اسی وجہ سے قرآن شریف دنیا کی تمام ہدایتوں کی نسبت اَکمل اور اَتم
ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دنیا کی اور کتابوں کو ان تین قسم کی اصلاحوں کا موقعہ نہیں ملا اور قرآن شریف کو ملا۔ اور قرآن شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بناوے اور انسان سے با
اخلاق انسان بناوے اور بااخلاق انسان سے با خدا انسان بناوے۔ اسی واسطے ان تین امور پر قرآن شریف مشتمل ہے۔
قرآنی تعلیم کا اصل منشاء اصلاحات ثلاثہ ہیں
اور قبل اس کے جو ہم اصلاحات
ثلاثہ کا مفصل بیان کریں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو زبردستی ماننی پڑے بلکہ تمام قرآن کا مقصد صرف اصلاحات ثلاثہ ہیں اور اس کی تمام
تعلیموں کا لب لباب یہی تین اصلاحیں ہیں۔ اور باقی تمام احکام ان اصلاحوں کیلئے بطور وسائل کے ہیں اور جس طرح بعض وقت ڈاکٹر کو بھی صحت کے پیدا کرنے کے لئے کبھی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 330
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 330
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/330/mode/1up
چیرنے کبھی مرہم لگانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسا ہی قرآنی تعلیم نے بھی انسانی ہمدردی کیلئے ان لوازم کو اپنے محل پر
استعمال کیا ہے اور اس کے تمام معارف یعنی گیان کی باتیں اور وصایا اور وسائل کا اصل مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو ان کی طبعی حالتوں سے جو وحشیانہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں اخلاقی حالتوں تک
پہنچائے۔ اور پھر اخلاقی حالتوں سے روحانیت کے ناپیداکنار دریا تک پہنچائے۔
طبعی حالتیں تعدیل سے اخلاق بن جاتی ہیں
اور پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ طبعی حالات اخلاقی حالات سے کچھ
الگ چیز نہیں بلکہ وہی حالات ہیں جو تعدیل اور موقعہ اور محل پر استعمال کرنے سے اور عقل کی تجویز اور مشورہ سے کام میں لانے سے اخلاقی حالات کا رنگ پکڑ لیتے ہیں اور قبل اس کے کہ وہ
عقل اور معرفت کی اصلاح اور مشورہ سے صادر ہوں گو وہ کیسے ہی اخلاق سے مشابہ ہوں درحقیقت اخلاق نہیں ہوتے۔ بلکہ طبیعت کی ایک بے اختیار رفتار ہوتی ہے۔ جیسا کہ اگر ایک کتے یا ایک
بکری سے اپنے مالک کے ساتھ محبت اور انکسار ظاہر ہو تو اس کتے کو خلیق نہیں کہیں گے اور نہ اس بکری کا نام مہذب الاخلاق رکھیں گے۔ اسی طرح ہم ایک بھیڑئیے یا شیر کو ان کی درندگی کی
وجہ سے بدخلق نہیں کہیں گے بلکہؔ جیسا کہ ذکر کیا گیا، اخلاقی حالت محل اور سوچ اور وقت شناسی کے بعد شروع ہوتی ہے اور ایک ایسا انسان جو عقل اور تدبّر سے کام نہیں لیتا وہ ان شیر
خوار بچوں کی طرح ہے جن کے دل اور دماغ پر ہنوز قوت عقلیہ کا سایہ نہیں پڑا۔ یا ان دیوانوں کی طرح جو جوہر عقل اور دانش کو کھو بیٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص بچہ شیر خوار اور دیوانہ
ہو وہ ایسی حرکات بعض اوقات ظاہر کرتا ہے کہ جو اخلاق کے ساتھ مشابہ ہوتی ہیں مگر کوئی عقلمند ان کا نام اخلاق نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہ حرکتیں تمیز اور موقع بینی کے چشمے سے نہیں نکلتیں
بلکہ وہ طبعی طور پر تحریکوں کے پیش آنے کے وقت صادر ہوتی جاتی ہیں۔ جیسا کہ انسان کا بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف رخ کرتا ہے اور ایک مرغ کا بچہ پیدا ہوتے ہی دانہ چگنے
کیلئے دوڑتا ہے۔ جوک کا بچہ جوک کی عادتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور سانپ کا بچہ سانپ کی عادتیں ظاہر کرتا ہے۔ اور شیر کا بچہ شیر کی عادتیں دکھلاتا ہے۔ بالخصوص انسان کے بچہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 331
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 331
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/331/mode/1up
کو غور سے دیکھنا چاہئے کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہی انسانی عادتیں دکھلانا شروع کر دیتا ہے اور پھر جب برس ڈیڑھ برس کا
ہوا۔ تو وہ عادات طبعیہ بہت نمایاں ہو جاتی ہیں۔ مثلاً پہلے جس طور سے روتا تھا اب رونا بہ نسبت پہلے کے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے- ایسا ہی ہنسنا قہقہہ کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ اور آنکھوں میں
بھی عمداً دیکھنے کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور اس عمر میں یہ ایک اور امر طبعی پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی رضامندی یا نارضامندی حرکات سے ظاہر کرتا ہے اور کسی کو مارتا اور کسی کو کچھ دینا
چاہتا ہے۔ مگر یہ تمام حرکات دراصل طبعی ہوتی ہیں۔ پس ایسے بچہ کی مانند ایک وحشی آدمی بھی جس کو انسانی تمیز سے بہت ہی کم حصہ ملا ہے۔ وہ بھی اپنے ہرایک قول اور فعل اور حرکت اور
سکون میں طبعی حرکات ہی دکھلاتا ہے اور اپنی طبیعت کے جذبات کا تابع رہتا ہے۔ کوئی بات اس کے اندرونی قویٰ کے تدبر اور تفکر سے نہیں نکلتی بلکہ جو کچھ طبعی طور پر اس کے اندر پیدا ہوا
ہے۔ وہ خارجی تحریکوں کے مناسب حال نکلتا چلا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس کے طبعی جذبات جو اس کے اندر سے کسی تحریک سے باہر آتے ہیں وہ سب کے سب برے نہ ہوں بلکہ بعض ان کے
نیک اخلاق سے مشابہ ہوں۔ لیکن عاقلانہ تدبر اور موشگافی کو ان میں دخل نہیں ہوتا اور اگر کسی قدر ہو بھی تو وہ بوجہ غلبہ جذبات طبعی کے قابل اعتبار نہیں ہوتا بلکہ جس طرف کثرت ہے اسی طرف
کو معتبر سمجھا جائے گا۔
حقیقی اخلاق
غرضؔ ایسے شخص کی طرف حقیقی اخلاق منسوب نہیں کر سکتے جس پرجذبات طبعیہ حیوانوں اور بچوں اور دیوانوں کی طرح غالب ہیں اور جو اپنی
زندگی کو قریب قریب وحشیوں کے بسر کرتا ہے بلکہ حقیقی طور پر نیک یا بد اخلاق کا زمانہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب انسان کی عقل خداداد پختہ ہو کر اس کے ذریعہ سے نیکی اور بدی یا
دو بدیوں یا دو نیکیوں کے درجہ میں فرق کرسکے۔ پھر اچھے راہ کے ترک کرنے سے اپنے دل میں ایک حسرت پاوے اور برے کام کے ارتکاب سے اپنے تئیں نادم۱؂ اور پشیمان دیکھے۔ یہ انسان کی
زندگی کا دوسرا زمانہ ہے۔ جس کو خدا کے پاک کلام قرآن شریف میں نفس لوّ امہ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ مگر یاد رہے کہ ایک وحشی کو نفس
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 332
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 332
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/332/mode/1up
لوّ امہ کی حالت تک پہنچانے کیلئے صرف سرسری نصائح کافی نہیں ہوتیں بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کو خداشناسی کا اس
قدر حصہ ملے جس سے وہ اپنی پیدائش بیہودہ اور عبث۱؂ خیال نہ کرے تا معرفت الٰہی سے سچے اخلاق اس میں پیدا ہوں۔ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ساتھ ساتھ سچے خدا کی معرفت کیلئے توجہ
دلائی ہے اور یقین دلایا ہے کہ ہر ایک عمل اورُ خلق ایک نتیجہ رکھتا ہے جو اس زندگی میں روحانی راحت یا روحانی عذاب کا موجب ہوتا ہے اور دوسری ز ندگی میں کھلے کھلے طور پر اپنا اثر
دکھائے گا۔ غرض نفس لوّ امہ کے درجہ پر انسان کو عقل اور معرفت اور پاک کانشنس سے اس قدر حصہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ برے کام پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے اور نیک کام کا خواہشمند اور
حریص رہتا ہے۔ یہ وہی درجہ ہے کہ جس میں انسان اخلاق فاضلہ حاصل کرتا ہے۔
َ خلق اورُ خلق
اس جگہ بہتر ہوگا کہ میںُ خلق کے لفظ کی بھی کسی قدر تعریف کردوں۔ سو جاننا چاہئے کہ
خَلق خا کی فتح سے ظاہری پیدائش کا نام ہے اورُ خلق خا کے ضمہ سے باطنی پیدائش کا نام ہے۔ اور چونکہ باطنی پیدائش اخلاق سے ہی کمال کو پہنچتی ہے نہ صرف طبعی جذبات سے۔ اس لئے اخلاق
پر ہی یہ لفظ بولا گیا ہے طبعی جذبات پر نہیں بولا گیا۔ اور پھر یہ بات بھی بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جیسا کہ عوام الناس خیال کرتے ہیں کہُ خلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسارہی کا نام ہے یہ
ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نامُ خلق ہے۔ مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک
قوت رقّت ہے وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہو تو وہ ایکُ خلق ہے۔ ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو
شجاعتؔ کہتے ہیں۔ جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھیُ خلق ہے۔ اور ایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے
بچانا چاہتا ہے یا ناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یا کسی اور طرح سے بنی نوع
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 333
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 333
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/333/mode/1up
کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو رحم بولتے ہیں اور کبھی انسان اپنے ہاتھوں
کے ذریعہ سے ظالم کو سزا دیتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر ایک قوت ہے جس کو انتقام کہتے ہیں اور کبھی انسان حملہ کے مقابل پر حملہ کرنا نہیں چاہتا اور ظالم کے ظلم سے درگزر کرتا ہے
اور اس حرکت کے مقابل پر دل۱؂ میں ایک قوت ہے جس کوعفو اور صبر کہتے ہیں اور کبھی انسان بنی نوع کو فائدہ پہنچانے کیلئے اپنے ہاتھوں سے کام لیتا ہے یا پیروں سے یا دل اور دماغ سے اور
ان کی بہبودی کیلئے اپنا سرمایہ خرچ کرتا ہے تو اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو سخاوت کہتے ہیں۔ پس جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہے
تو اس وقت ان کا نامُ خلق رکھا جاتا ہے۔ اللہ جلشانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔
۳؍۲۹ ۲؂
یعنی تو ایک بزرگُ خلق پر قائم ہے۔ سو اسی تشریح کے مطابق اس
کے معنے ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت، عدل، رحم، احسان، صدق، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں۔ غرض جس قدر انسان کے دل میں قوتیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب، حیا،
دیانت، مروت، غیرت، استقامت، عفت، زہادت، اعتدال، مؤاسات یعنی ہمدردی۔ ایسا ہی شجاعت، سخاوت، عفو، صبر، احسان، صدق، وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تد ّ بر کے مشورہ سے
اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا ۔اور یہ تمام اخلاق درحقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں
کہ جب محل اور موقعہ کے لحاظ سے بالارادہ ان کو استعمال کیا جائے۔ چونکہ انسان کے طبعی خواص میں سے ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ ترقی پذیر جاندار ہے اس لئے وہ سچے مذہب کی پیروی
اور نیک صحبتوں اور نیک تعلیموں سے ایسے طبعی جذبات کو اخلاق کے رنگ میں لے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 334
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 334
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/334/mode/1up
آتا ہے۔ اور یہ امر کسی اور جاندار کیلئے نصیب نہیں۔
اصلاح اول یعنی طبعی حالتیں
اب ہم منجملہ قرآن شریف کی
اصلاحات ثلاثہ کے پہلی اصلاح کو جو ادنیٰ درجہ کی طبعیؔ حالتوں کے متعلق ہے ذکر کرتے ہیں اور یہ اصلاح اخلاق کے شعبوں میں سے وہ شعبہ ہے جو ادب کے نام سے موسوم ہے۔ یعنی وہ
ادب جس کی پابندی وحشیوں کو ان کی طبعی حالتوں کھانے پینے اور شادی کرنے وغیرہ تمدنی امور میں مرکز اعتدال پر لاتی ہے اور اُس زندگی سے نجات بخشتی ہے۔ جو وحشیانہ اور چوپایوں یا
درندوں کی طرح ہو۔ جیسا کہ ان تمام آداب کے بارے میں اللہ جلشانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 335
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 335
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/335/mode/1up
ترجمہ۔ یعنی تم پر تمہاری مائیں حرام کی گئیں اور ایسا ہی تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری
خالائیں اور تمہاری بھتیجیاں اور تمہاری بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری رضاعی بہنیںؔ اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 336
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 336
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/336/mode/1up
بیویوں کے پہلے خاوند سے لڑکیاں جن سے تم ہم صحبت ہو چکے ہو اور اگر تم اُ ن سے ہم صحبت نہیں ہوئے تو کوئی گناہ
نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی عورتیں اور ایسے ہی دو بہنیں ایک وقت میں۔ یہ سب کام جو پہلے ہوتے تھے آج تم پر حرام کئے گئے۔ یہ بھی تمہارے لئے جائز نہ ہوگا کہ جبراً عورتوں کے وارث
بن جاؤ۔ یہ بھی جائز نہیں کہ تم ان عورتوں کو نکاح میں لاؤ جو تمہارے باپوں کی بیویاں تھیں جو پہلے ہو چکا سو ہوچکا۔ پاکدامن عورتیں تم میں سے یا پہلے اہل کتاب میں سے تمہارے لئے حلال ہیں
کہ ان سے شادی کرو۔ لیکن جب مہر قرار پاکر نکاح ہو جائے بدکاری جائز نہیں اور نہ چھپا ہوا یارانہ۔ عرب کے جاہلوں میں جس شخص کے اولاد نہ ہوتی تھی بعض میں یہ رسم تھی کہ ان کی بیوی
اولاد کیلئے دوسرے سے آشنائی کرتی قرآن شریف نے اس صورت کو حرام کر دیا۔ مسافحت اسی بد رسم کا نام ہے۔
پھر فرمایا کہ تم خودکشی نہ کرو۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اور دوسرے گھروں
میں وحشیوں کی طرح خودبخود بے اجازت نہ چلے جاؤ۔ اجازت لینا شرط ہے اور جب تم دوسروں کے گھروں میں جاؤ تو داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہو اور اگر ان گھروں میں کوئی نہ ہو تو جب تک
کوئی مالک خانہ تمہیں اجازت نہ دے ان گھروں میں مت جاؤ اور اگر مالک خانہ یہ کہے کہ واپس چلے جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ۔ اور گھروں میں دیواروں پر سے کود کر نہ جایا کرو بلکہ گھروں میں
ان گھروں کے دروازہ میں سے جاؤ اور اگر تمہیں کوئی سلام کہے تو اس سے بہتر اور نیک تر اس کو سلام کہو اور شراب اور قماربازی اور بت پرستی ا ور شگون لینا یہ سب پلید اور شیطانی کام ہیں
ان سے بچو۔ مردار مت کھاؤ۔ خنزیر کا گوشت مت کھاؤ۔ بتوں کے چڑھاوے مت کھاؤ۔ لاٹھی سے مارا ہوا مت کھاؤ ۔ گِر کے مرا ہوا مت کھاؤ۔ ۱؂سینگ لگنے سے مرا ہوا مت کھاؤ۔ درندہ کا پھاڑا ہوا
مت کھاؤ۔ بت پر چڑھایا ہوا مت کھاؤ کیونکہ یہ سب مردار کا حکم رکھتے ہیں اور اگر یہ لوگ پوچھیں کہ پھر کھائیں کیا؟ تو جواب یہ دے کہ دنیا کی تمام پاک چیزیں کھاؤ۔ صرف مردار اور مردار کے
مشابہ اور پلید چیزیں مت کھاؤ۔
اگر مجلسوں میں تمہیں کہا جائے کہ کشادہ ہو کر بیٹھو یعنی دوسروں کو جگہ دو تو جلد جگہ کشادہ کردو تا دوسرے بیٹھیں۔ اور اگر کہا جائے کہ تم اٹھ جاؤ تو پھر
بغیر چون و چرا کے اٹھ جاؤ۔ گوشت دال
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 337
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 337
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/337/mode/1up
وغیرہ سب چیزیں جو پاک ہوں بیشک کھاؤ۔ مگر ایک طرف کی کثرت مت کرو اور اسراف اور زیادہ خوری سے اپنے تئیں بچاؤ۔
لغو باتیں مت کیا کرو۔ محل اور موقعہ کی بات کیا کرو۔ اپنے کپڑے صاف رکھو۔ بدن کو اور گھر کو اور کوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ
یعنی غسل کرتے رہو اور گھروں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو۔ نہ بہت اونچا بولا کرو نہ بہت نیچا ۔ درمیان کو نگاہ رکھو یعنی باستثناء وقت ضرورت کے۔چلنے میں بھی نہ بہت تیز چلو اور نہ ؔ
بہت آہستہ درمیان کو نگاہ رکھو۔جب سفر کرو تو ہر ایک طور پر سفر کا انتظام کرلیا کرو اور کافی زاد راہ لے لیا کرو تا گداگری سے بچو۔ جنابت کی حالت میں غسل کرلیا کرو۔ جب روٹی کھاؤ تو سائل
کو بھی دو اور کتے کو بھی ڈال دیا کرو اور دوسرے پرند وغیرہ کو بھی۔ اگر موقع ہو یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں شاید
تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرو اور اگر اعتدال نہ ہو تو
پھر ایک ہی پر کفایت کرو گو ضرورت پیش آوے۔ چار کی جو حد لگا دی گئی ہے وہ اس مصلحت سے ہے کہ تا تم پرانی عادت کے تقاضے سے افراط نہ کرو یعنی صد ہا تک نوبت نہ پہنچاؤ یا یہ کہ
حرامکاری کی طرف جھک نہ جاؤ اور اپنی عورتوں کو مہر دو۔
غرض یہ قرآن شریف کی پہلی اصلاح ہے جس میں انسان کی طبعی حالتوں کو وحشیانہ طریقوں سے کھینچ کر انسانیت کے لوازم اور
تہذیب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس تعلیم میں ابھی اعلیٰ اخلاق کا کچھ ذکر نہیں۔ صرف انسانیت کے آداب ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ اس تعلیم کی یہ ضرورت پیش آئی تھی کہ ہمارے نبی صلی
اللہ علیہ و سلم جس قوم کی اصلاح کیلئے آئے تھے وہ وحشیانہ حالت میں سب قوموں سے بڑھی ہوئی تھی۔ کسی پہلو میں انسانیت کا طریق ان میں قائم نہیں رہا تھا۔ پس ضرور تھا کہ سب سے پہلے
انسانیت کے ظاہری ادب ان کو سکھائے جاتے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 338
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 338
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/338/mode/1up
حرمت خنزیر
ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے۔ خدا نے ابتدا
سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیونکہ خنزیر کا لفظ خنز اور ار سے مرکب ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں اس کو بہت فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ خنزکے معنے بہت فاسد
اور ار کے معنے دیکھتا ہوں۔ پس اس جانور کا نام جو ابتداء سے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور
کہتے ہیں۔ یہ لفظ بھی سوء اور ار سے مرکب ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوں اور اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ سوء کا لفظ عربی کیونکر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ہم نے
اپنی کتاب منن الرحمٰن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں۔ سو سوء عربی لفظ ہے۔ اسی لئے ہندی میں سوء
کا ترجمہ بد ہے۔ پس اس جانور کو بد بھی کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بھی شک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ تمامؔ دنیا کی زبان عربی تھی۔ اس ملک میں یہ نام اس جانور کا عربی میں مشہور
تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے پھر اب تک یادگار باقی رہ گیا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہو۔ مگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی
وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے۔ جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں۔ یعنی بہت فاسد۔ اس کی تشریح کی حاجت نہیں۔ اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا
نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر بھی پلید ہی ہو
کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیاشک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے
ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے اور مردار کا کھانا بھی اسی لئے اس شریعت میں منع ہے کہ مردار
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 339
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 339
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/339/mode/1up
بھی کھانے والے کو اپنے رنگ میں لاتا ہے اور نیز ظاہری صحت کیلئے بھی مضر ہے۔ اور جن جانوروں کا خون اندر ہی رہتا
ہے جیسے گلا گھونٹا ہوا یا لاٹھی سے مارا ہوا۔ یہ تمام جانور درحقیقت مردار کے حکم میں ہی ہیں۔ کیا مردہ کا خون اندر رہنے سے اپنی حالت پر رہ سکتا ہے؟ نہیں بلکہ وہ بوجہ مرطوب ہونے کے
بہت جلد گندہ ہوگا اور اپنی عفونت سے تمام گوشت کو خراب کرے گا اور نیز خون کے کیڑے جو حال کی تحقیقات سے بھی ثابت ہوئے ہیں۔ مر کر ایک زہر ناک عفونت بدن میں پھیلا دیں گے۔
انسان
کی اخلاقی حالتیں
دوسرا حصہ قرآنی اصلاح کا یہ ہے کہ طبعی حالتوں کو شرائط مناسبہ کے ساتھ مشروط کر کے اخلاق فاضلہ تک پہنچایا جائے۔ سو واضح ہو کہ یہ حصہ بہت بڑا ہے۔ اگر ہم اس
حصہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں یعنی تمام وہ اخلاق اس جگہ لکھنا چاہیں جو قرآن شریف نے بیان کئے تو یہ مضمون اس قدر لمبا ہو جائے گا کہ وقت اس کے دسویں حصہ تک کو بھی کفایت نہیں
کرے گا۔ اس لئے چند اخلاق فاضلہ نمونے کے طور پر بیان کئے جاتے ہیں۔
اب جاننا چاہئے کہ اخلاق دو قسم کے ہیں۔ اول وہ اخلاق جن کے ذریعہ سے انسان ترکِ شر پر قادر ہوتا ہے۔ دوسرے وہ
اخلاق جن کے ذریعہ سے انسان ایصالِ خیر پر قادر ؔ ہوتا ہے اور ترکِ شر کے مفہوم میں وہ اخلاق داخل ہیں۔ جن کے ذریعہ سے انسان کوشش کرتا ہے کہ تا اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنی آنکھ یا اپنے
کسی اور عضو سے دوسرے کے مال یا عزت یا جان کو نقصان نہ پہنچاوے یا نقصان رسانی اور کسر شان کا ارادہ نہ کرے اور ایصالِ خیر کے مفہوم میں تمام وہ اخلاق داخل ہیں جن کے ذریعہ سے
انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی زبان یا اپنے ہاتھ یا اپنے مال یا اپنے علم یا کسی اور ذریعہ سے دوسرے کے مال یا عزت کو فائدہ پہنچا سکے۔ یا اس کے جلال یا عزت ظاہر کرنے کا ارداہ کر سکے۔ یا
اگر کسی نے اس پر کوئی ظلم کیا تھا تو جس سزا کا وہ ظالم مستحق تھا اس سے درگذر کرسکے اور اس طرح اس کو دکھ اور عذابِ بدنی اور تاوانِ مالی سے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 340
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 340
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/340/mode/1up
محفوظ رہنے کا فائدہ پہنچا سکے یا اس کو ایسی سزا دے سکے جو حقیقت میں اس کیلئے سراسر رحمت ہے۔
اخلاق متعلق
ترکِ شر
اب واضح ہو کہ وہ اخلاق جو ترک شر کیلئے صانع حقیقی نے مقرر فرمائے ہیں وہ زبان عربی میں جو تمام انسانی خیالات اور اوضاع اور اخلاق کے اظہار کیلئے ایک ایک مفرد لفظ اپنے
اندر رکھتی ہے۔ چار ناموں سے موسوم ہیں۔ چنانچہ
پہلاُ خلق احصان کے نام سے موسوم ہے اور اس لفظ سے مراد خاص وہ پاک دامنی ہے جو مرد اور عورت کی قوت تناسل سے علاقہ رکھتی ہے
اور محصن یا محصنہ اس مرد یا اس عورت کو کہا جائے گاکہ جو حرام کاری یا اس کے مقدمات سے مجتنب رہ کر اس ناپاک بدکاری سے اپنے تئیں روکیں جس کا نتیجہ دونوں کیلئے اس عالم میں ذلت
اور *** اور دوسرے جہان میں عذاب آخرت اور متعلقین کیلئے علاوہ بے آبروئی نقصان شدید ہے۔ مثلاً جو شخص کسی کی بیوی سے ناجائز حرکت کا مرتکب ہو یا مثلاً زنا تو نہیں مگر اس کے
مقدمات مرد اور عورت دونوں سے ظہور میں آویں تو کچھ شک نہیں کہ اس غیرت مند مظلوم کی ایسی بیوی کو جو زنا کرانے پر راضی ہوگئی تھی یا زنا بھی واقع ہو چکا تھا۔ طلاق دینی پڑے گی اور
بچوں پر بھی اگر اس عورت کے پیٹ سے ہوں گے بڑا تفرقہ پڑے گا اور مالک خانہ یہ تمام نقصان اس بدذات کی وجہ سے اٹھائے گا۔
اس جگہ یاد رہے کہ یہُ خلق جس کا نام احصان یا عفت ہے
یعنی پاکدامنی۔ یہ اسی حالت میںُ خلق کہلائے گا جبکہ ایسا شخص جو بدنظری یا بدکاری کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے یعنی قدرت نے وہ قویٰ اس کو دے رکھے ہیں جن کے ذریعہ سے اس جرم کا
ارتکاب ہو سکتا ہے۔ اس فعل شنیع سے اپنے تئیں بچائے اور اگر بباعث بچہ ہونے یا نامرد ہونے یا خوجہ ہونے یا پیر فرتوت ہونے کے یہ قوت اس میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں ہم اس کو اسُ خلق
سے جس کا نام احصان یا عفت ہے موصوف نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عفت اورؔ احصان کی اس میں ایک طبعی حالت ہے۔ مگر ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ طبعی حالتیں خلق کے نام سے
موسوم نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ اس وقت
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 341
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 341
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/341/mode/1up
خلق کی مد میں داخل کی جائیں گی جبکہ عقل کے زیر سایہ ہوکر اپنے محل پر صادر ہوں یا صادر ہونے کی قابلیت پیدا کرلیں۔
لہذا جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ بچے اور نامرد اور ایسے لوگ جو کسی تدبیر سے اپنے تئیں نامرد کرلیں اس خلق کا مصداق نہیں ٹھہر سکتے گو بظاہر عفت اور احصان کے رنگ میں اپنی زندگی بسر
کریں بلکہ تمام صورتوں میں ان کی عفت اور احصان کا نام طبعی حالت ہوگا نہ اور کچھ۔ اور چونکہ یہ ناپاک حرکت اور اس کے مقدمات جیسے مرد سے صادر ہو سکتے ہیں۔ ویسے ہی عورت سے بھی
صادر ہو سکتے ہیں لہذا خدا کی پاک کتاب میں دونوں مرد اور عورت کیلئے یہ تعلیم فرمائی گئی ہے۔
یعنی ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے
رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہوں اور ایسے موقعہ پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی
کانوں کو نا محرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنیں۔ ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کیلئے عمدہ طریق ہے۔
ایسا ہی ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 342
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 342
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/342/mode/1up
سے بچائیں یعنی ان کی ُ پرشہوت آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں ۔اور اپنی زینت کے اعضاء کو
کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہوکر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو
زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے۔
اور دوسرا طریق بچنے کیلئے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس سے دعا کریں
تا ٹھوکر سے بچاوے اور لغزشوں سے نجات دے۔ زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ
کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زناؔ کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ زنا کی راہ بہت بری راہ ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کیلئے سخت خطرناک ہے۔ اور جس
کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے۔ مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے اور اور لوگوں نے یہ بھی طریق نکالے ہیں کہ وہ ہمیشہ
عمداً نکاح سے دست بردار رہیں یا خوجے بنیں اور کسی طریق سے رہبانیت اختیار کریں۔ مگر ہم نے انسان پر یہ حکم فرض نہیں کئے اس لئے وہ ان بدعتوں کو پورے طور پر نبھا نہ سکے۔ خدا کا یہ
فرمانا کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خوجے بنیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اگر خدا کا حکم ہوتا تو سب لوگ اس حکم پر عمل کرنے کے مجاز بنتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل
ہوکر کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو جاتا۔ اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنی ہو کہ عضو مردمی کو کاٹ دیں تو یہ درپردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے وہ عضو بنایا اور نیز جبکہ ثواب کا تمام
مدار اس بات پرہے کہ ایک قوت موجود ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کا خوف کر کے اس قوت کے خراب جذبات کا مقابلہ کرتا رہے۔ اور اس کے منافع سے فائدہ اٹھا کر دو طور کا ثواب حاصل کرے۔ پس
ظاہر ہے کہ ایسے عضو کے ضائع کر دینے میں دونوں ثوابوں سے محروم رہا۔ ثواب تو جذبہ مخالفانہ کے وجود اور پھر اس کے مقابلہ سے ملتا ہے۔ مگر جس میں بچہ کی طرح وہ قوت ہی نہیں رہی
اس کو کیا ثواب ملے گا۔ کیا بچہ کو اپنی عفت کا ثواب
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 343
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 343
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/343/mode/1up
مل سکتا ہے؟
پاکدامن رہنے کیلئے پانچ علاج
ان آیات میں خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے
کیلئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کیلئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ (۱)اپنی آ نکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا(۲) کانوں کو نامحرموں کی
آواز سننے سے بچانا۔ (۳)نامحرموں کے قصے نہ سننا(۴) اور دوسری تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اپنے تئیں بچانا(۵) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا
وغیرہ۔
اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام سے ہی خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے
لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذباتِ شہوت محل اور موقع پاکر جوش
مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلفؔ دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام ز ینتوں پر
نظر ڈال لیں۔ اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا
کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور
ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ
بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں
کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 344
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 344
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/344/mode/1up
بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم
اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔
اسلامی
پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں
کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ
نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے
اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کیلئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے
جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا ۔یہی وہ خلق ہے۔ جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں۔
دوسری قسم
ترک شر کے اقسام میں سے وہ خلق ہے جس کو امانت و دیانت کہتے ہیں۔ یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بدنیتی سے قبضہ کر کے اس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہؔ ہونا۔ سو واضح ہو کہ دیانت
اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے۔ اسی واسطے ایک بچہ شیرخوار بھی جو بوجہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے اور نیز بباعث صغر سنی ابھی بری عادتوں کا عادی
نہیں ہوتا‘ اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے۔ اگر بے ہوشی کے زمانہ میں کوئی اور دایہ مقرر نہ ہوتو ہوش کے زمانہ میں اس کو دوسرے کا
دودھ پلانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے اور اپنی جان پر بہت تکلیف اٹھاتا ہے اور ممکن ہے کہ اس تکلیف سے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 345
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 345
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/345/mode/1up
مرنے کے قریب ہو جائے۔ مگر دوسری عورت کے دودھ سے طبعاً بیزار ہوتا ہے۔ اس قدر نفرت کا کیا بھید ہے؟ بس یہی کہ
وہ والدہ کو چھوڑ کر غیر کی چیز کی طرف رجوع کرنے سے طبعاً متنفر ہے۔ اب ہم جب ایک گہری نظر سے بچہ کی اس عادت کو دیکھتے اور اس پر غور کرتے ہیں اور فکر کرتے کرتے اس کی اس
عادت کی تہ تک چلے جاتے ہیں تو ہم پر صاف کھل جاتا ہے کہ یہ عادت جو غیر کی چیز سے اس قدر نفرت کرتا کہ اپنے اوپر مصیبت ڈال لیتا ہے۔ یہی جڑھ دیانت اور امانت کی ہے اور دیانت کے خلق
میں کوئی شخص راستباز نہیں ٹھہر سکتا جب تک بچہ کی طرح غیر کے مال کے بارے میں بھی سچی نفرت اور کراہت اس کے دل میں پیدا نہ ہو جائے لیکن بچہ اس عادت کو اپنے محل پر استعمال
نہیں کرتا اور اپنی بیوقوفی کے سبب سے بہت کچھ تکلیفیں اٹھا لیتا ہے۔ لہٰذا اس کی یہ عادت صرف ایک حالت طبعی ہے جس کو وہ بے اختیار ظاہر کرتا ہے اس لئے وہ حرکت اس کے خلق میں داخل
نہیں ہو سکتی گو انسانی سرشت میں اصل جڑھ خلق دیانت اور امانت کی وہی ہے جیسا کہ بچہ اس غیر معقول حرکت سے متد ّ ین اور امین نہیں کہلا سکتا۔ ایسا ہی وہ شخص بھی اس خلق سے ّ متصف
نہیں ہو سکتا جو اس طبعی حالت کو محل پر استعمال نہیں کرتا۔ امین اور دیانت دار بننا بہت نازک امر ہے۔ جب تک انسان اس کے تمام پہلو بجا نہ لاوے۔ امین اور دیانت دار نہیں ہو سکتا۔ اس میں اللہ
تعالیٰ نے نمونہ کے طور پر آیات مفصلہ ذیل میں امانت کا طریق سمجھایا ہے اور وہ طریق امانت یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 346
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 346
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/346/mode/1up
ترجمہؔ ۔ یعنی اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نابالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے
اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم (بطور کورٹ آف وارڈس۳؂ کے) وہ تمام مال اس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان
بیوقوفوں کے حوالہ مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت ان کے کھانے اور پہننے کے لئے دے دیا کرو اور ان کو اچھی باتیں قول معروف کی کہتے رہو۔ یعنی ایسی باتیں جن سے ان کی عقل
اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے ان کے مناسب حال ان کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں۔ اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے ان کو سکھلاؤ اور اگر کوئی اور پیشہ
رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسب حال ان کو پختہ کر دو۔ غرض ساتھ ساتھ ان کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتاً فوقتاً امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے
یا نہیں۔ پھر جب نکاح کے لائق ہو جائیں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ ان میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہوگئی ہے تو ان کا مال ان کے حوالہ کرو اور فضول خرچی
کے طور پر ان کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے‘ ان کے مال کا نقصان کرو۔ جو شخص دولتمند ہو اس کو نہیں چاہئے کہ ان
کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے۔ لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے۔
عرب میں مالی محافظوں کے لئے یہ طریق معروف تھا کہ اگر یتیموں کے کارپرداز ان کے مال میں سے لینا
چاہتے تو حتی الوسع یہ قاعدہ جاری رکھتے کہ جو کچھ یتیم کے مال کو تجارت سے فائدہ ہوتا اس میں سے آپ بھی لیتے۔ راس المال کو تباہ نہ کرتے۔ سو اسی عادت کی طرف اشارہ ہے کہ تم
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 347
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 347
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/347/mode/1up
بھی ایسا کرو اور پھر فرمایا کہ جب تم یتیموں کو مال واپس کرنے لگو تو گواہوں کے روبرو ان کو ان کا مال دو اور جو شخص
فوت ہونے لگے اور بچے اس کے ضعیف اور صغیر السِنّ ہوں تو اس کو نہیں چاہئے کہ کوئی ایسی وصیت کرے کہ جس میں بچوں کی حق تلفی ہو۔ جو لوگ ایسے طور سے یتیم کا مال کھاتے ہیں جس
سے یتیم پر ظلم ہو جائے تو وہ مال نہیں بلکہ آگ کھاتے ہیں اور آخر جلانے والی آگ میں ڈالے جائیں گے۔
اب دیکھو خدا تعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتلائے۔ سو حقیقی دیانت اور
امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقلمندی کو دخل دے کر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمراہ
رکھے گی۔ اور پھر دوسری جگہ فرمایا۔
یعنی آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناجائز طور پر مت کھایا کرو اور نہ اپنے مال کو رشوت کے طور پر حکام تک پہنچایا کرو۔ تا اس طرح پر حکام کی
اعانت سے دوسرے کے مالوں کو دبالو۔ امانتوں کو انکے حقداروں کو واپس دے دیا کرو۔ خدا خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ جب تم ماپو تو پورا ماپو ۔جب تم وزن کرو تو پوری اور بے خلل
ترازو سے وزن کرو اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا
کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں اور پھر فرمایا کہ تم
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 348
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 348
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/348/mode/1up
اچھی چیزوں کے عوض میں خبیث اور ردّی چیزیں نہ دیا کرو یعنی جس طرح دوسروں کا مال دبا لینا ناجائز ہے اسی طرح
خراب چیزیں بیچنا یا اچھی کے عوض بری دینا بھی ناجائز ہے۔
ان تمام آیات میں خدا تعالیٰ نے تمام طریقے بددیانتی کے بیان فرما دئیے۔ اور ایسا کلام کلّی کے طور پر فرمایا جس میں کسی بددیانتی کا
ذکر باہر نہ رہ جائے۔ صرف یہ نہیں کہا کہ تو چوری نہ کر تا ایک نادان یہ نہ سمجھ لے کہ چوری تو میرے لئے حرام ہے مگر دوسرے ناجائز طریقے سب حلال ہیں۔ اس کلمہ جامع کے ساتھ تمام
ناجائز طریقوں کو حرام ٹھہرانا یہی حکمت بیانی ہے۔ غرض اگر کوئی اس بصیرت سے دیانت اور امانت کا ُ خلق اپنے اندر نہیں رکھتا اور ایسے تمام پہلوؤں کی رعایت نہیں کرتا وہ اگر دیانت و امانت
کو بعض امور میں دکھلائے بھی تو یہ حرکت اس کی ُ خلق دیانت میں داخل نہیں سمجھی جائے گی بلکہ ایک طبعی حالت ہوگی جو عقلی تمیز اور بصیرت سے خالی ہے۔
تیسری قسم ترک شر کی اخلاق
میں سے وہ قسم ہے کہ جس کو عربی میں ھُدنہ اور ھَون کہتے ہیں یعنی دوسرے کو ظلم کی راہ سے بدنی آزار نہ پہنچانا اور بے شر انسان ہونا اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔ پس بلاشبہ
صلحکاری اعلیٰ درجہ کا ایک خلق ہے اور انسانیت کے لئے ازبس ضروری۔ اور اس خلق کے مناسب حال طبعی قوت جو بچہ میں ہوتی ہے جس کی تعدیل سے یہُ خلق بنتا ہے الفت یعنی خوگرفتگی ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ انسان صرف طبعی حالت میں یعنی اس حالت میں کہ جب انسان عقل سے بے بہرہ ہو صلح ؔ کے مضمون کو سمجھ نہیں سکتا اور نہ جنگ جوئی کے مضمون کو سمجھ سکتا ہے۔ پس
اس وقت جو ایک عادت موافقت کی اس میں پائی جاتی ہے وہی صلحکاری کی عادت کی ایک جڑھ ہے لیکن چونکہ وہ عقل اور تدّ بر اور خاص ارادہ سے اختیار نہیں کی جاتی اس لئے خلق میں داخل نہیں
بلکہ خلق میں تب داخل ہوگی کہ جب انسان بالارادہ اپنے تئیں بے شر بنا کر صلح کاری کے خلق کو اپنے محل پر استعمال کرے اور بے محل استعمال کرنے سے مجتنب رہے۔ اس میں اللہ جلّ
شانہٗیہ تعلیم
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 349
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 349
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/349/mode/1up
فرماتا ہے۔
یعنی آپس میں صلح کاری اختیار کرو۔ صلح میں خیر ہے۔ جب وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ۔ خدا
کے نیک بندے صلح کاری کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور اگر کوئی لغو بات کسی سے سنیں۔ جو جنگ کا مقدمہ اور لڑائی کی ایک تمہید ہو تو بزرگانہ طور پر طرح دے کر چلے جاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ
بات پر لڑنا شروع نہیں کر دیتے۔ یعنی جب تک کوئی زیادہ تکلیف نہ پہنچے اس وقت تک ہنگامہ پردازی کو اچھا نہیں سمجھتے اور صلح کاری کے محل شناسی کا یہی اصول ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو
خیال میں نہ لاویں اور معاف فرماویں اور لَغوکا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے سو واضح ہو کہ عربی زبان میں لغو اس حرکت کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص شرارت سے ایسی بکواس کرے یا بہ نیت ایذا
ایسا فعل ا س سے صادر ہو کہ دراصل اس سے کچھ ایسا حرج اور نقصان نہیں پہنچتا۔ سو صلح کاری کی یہ علامت ہے کہ ایسی بیہودہ ایذا سے چشم پوشی فرماویں اور بزرگانہ سیرت عمل میں لاویں
لیکن اگر ایذا صرف لغوکی مد میں داخل نہ ہو بلکہ اس سے واقعی طور پر جان یا مال یا عزت کو ضرر پہنچے تو صلح کاری کے خلق کو اس سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ اگر ایسے گناہ کو بخشا جائے تو
اس خلق کا نام عفوہے۔ جس کا انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد بیان ہوگا اور پھر فرمایا کہ جو شخص شرارت سے کچھ یاوہ گوئی کرے تو تم نیک طریق سے صلح کاری کا اس کو جواب دو۔ تب اس خصلت
سے دشمن بھی دوست ہو جائے گا۔ غرض صلح کاری کے طریق سے چشم پوشی کا محل صرف اس درجہ کی بدی ہے جس سے کوئی واقعی نقصان نہ پہنچا ہو۔ صرف دشمن کی بیہودہ گوئی
ہو۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 350
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 350
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/350/mode/1up
چوتھی قسم ترک شر کی اخلاق میں سے رفق اور قول حسن ہے اور یہ خلق جس حالت طبعی سے پیدا ہوتا ہے اس کا نام طلاقت
یعنی کشادہ روئی ہے۔ بچہ جب تک کلام کرنے پر قادرؔ نہیں ہوتا۔ بجائے رفق اور قول حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے۔ یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑھ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے۔
طلاقت ایک قوت ہے اور رِفق ایک خلق ہے جو اس قوت کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے۔
ترجمہ۔ یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک
ہوں۔ ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں۔ بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھا نہ کریں ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیاہے وہی اچھی
ہوں اور عیب مت لگاؤ۔ اپنے لوگوں کے برے برے نام مت رکھو۔ بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو ۔ایک دوسرے کا گلہ مت کرو۔ کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ
جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں اور یاد رکھو کہ ہریک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان، آنکھ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 351
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 351
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/351/mode/1up
ایصالِ خیر کے اقسام
اب ترکِ شر کے اقسام ختم ہو چکے۔ اور اب ہم ایصالِ خیر کے اقسام بیان کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان
اخلاق کی جو ایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں۔
پہلا خلق ان میں سے عفوہے۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق
ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے۔ سزا دلائی جائے۔ قید کرایا جائے۔ جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا ‘مناسب ہو تو اس کے حق میں
ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔
یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر
بدی ہے جو کی گئی ہو۔ لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔ نہ غیر محل پر تو اس کا
وہ بدلہ پائے گا۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروؔ ں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے۔ بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا
چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کاہے۔ پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے۔ بعض وقت ایک
مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہے۔* اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو۔ بلکہ
غور سے دیکھ لیا کرو۔ کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 352
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 352
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/352/mode/1up
آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔ افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر
ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پردادوں کے کینوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگذر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا
اوقات اس عادت کے افراط سے دیوثی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور درگذر ان سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک
چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگذر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔ انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا
دی ہے اور ایسے خلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو۔
یاد رہے کہ مجرد عفو کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ایک طبعی قوت ہے جو بچوں میں بھی پائی جاتی ہے ۔بچہ کو جس کے ہاتھ
سے چوٹ لگ جائے خواہ شرارت سے ہی لگے تھوڑی دیر کے بعد وہ اس قصہ کو بھلا دیتا ہے اور پھر اس کے پاس محبت سے جاتا ہے اور اگر ایسے شخص نے اس کے قتل کا بھی ارادہ کیا ہو تب
بھی صرف میٹھی بات پر خوش ہو جاتا ہے۔ پس ایسا عفو کسی طرح خلق میں داخل نہیں ہوگا۔ خلق میں اسی صورت میں داخل ہوگا جب ہم اس کو محل اور موقع پر استعمال کریں گے ورنہ صرف ایک
طبعی قوت ہوگی۔ دنیا میں بہت تھوڑے ایسے لوگ ہیں جو طبعی قوت اور خلق میں فرق کر سکتے ہیں۔ ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ حقیقی خلق اور طبعی حالتوں میں یہ فرق ہے کہ خلق ہمیشہ محل اور
موقع کی پابندی اپنے ساتھ رکھتا ہے اور طبعی قوت بے محل بھی ظاہر ہو جاتی ہے۔ یوں تو چارپایوں میں گائے بھی بے شر ہے اور بکری بھی دل کی غریب ہے مگر ہم ان کو اسی سبب سے ان خلقوں
سے متصف نہیں کہہ سکتے کہ ان کو محل اور موقع کی عقل نہیں دی گئی۔ خدا کی حکمت اور خدا کی سچی اور کامل کتاب نے ہر ایک خلق کے ساتھ محل اور موقعہ کی شرط لگا دی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 353
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 353
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/353/mode/1up
دوسرا خلق اخلاق ایصال خیر میں سے عدل ہے اور تیسرا احسان اور چوتھا ایتاء ذی القربیٰ۔ جیسا کہ اللہ جلّ شانُہٗ فرماتا
ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کرو۔ اور اگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقعہ اور محل ہو تو وہاں احسان کرو اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبیوں کی طرح طبعی جوش
سے نیکی کرنے کا محل ہو تو وہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو۔ اور اس سے خدا تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ یا احسان کے بارے میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس
سے عقل انکار کرے یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کر ویا بر محل احسان کرنے سے دریغ کرو۔ یا یہ کہ تم محل پر ایتاء ذی القربیٰ کے خلق میں کچھ کمی اختیار کرو یا حد سے زیادہ رحم کی بارش
کرو۔ اس آیت کریمہ میں ایصال خیر کے تین درجوں کا بیان ہے۔
اوّل یہ درجہ کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کی جائے۔ یہ تو کم درجہ ہے اور ادنیٰ درجہ کا بھلامانس آدمی بھی یہ خلق حاصل کر سکتا
ہے کہ اپنے نیکی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتا رہے۔
دوسرا درجہ اس سے مشکل ہے اور وہ یہ کہ ابتداًء آپ ہی نیکی کرنا اور بغیر کسی کے حق کے احسان کے طور پر اس کو فائدہ پہنچانا اور
یہ خلق اوسط درجہ کا ہے۔ اکثر لوگ غریبوں پر احسان کرتے ہیں اور احسان میں یہ ایک مخفی عیب ہے کہ احسان کرنے والا خیال کرتا ہے کہ میں نے احسان کیا ہے اور کم سے کم وہ اپنے احسان کے
عوض میں شکریہ یا دعا چاہتا ہے اور اگر کوئی ممنون منت اس کا مخالف ہو جائے تو اس کا نام احسان فراموش رکھتا ہے۔ بعض وقت اپنے احسان کی وجہ سے اس پر فوق الطاقت بوجھ ڈال دیتا ہے اور
اپنا احسان اس کو یاد دلاتا ہے جیسا کہ احسان کرنے والوں کو خدا تعالیٰ متنبہ کرنے کے لئے فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 354
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 354
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/354/mode/1up
یعنی اے احسان کرنے والو! اپنے صدقات کو جن کی صدق پر بنا چاہئے۔ احسان یاد دلانے اور دکھ دینے کے ساتھ برباد مت
کرو ۔یعنی صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک
خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلادیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔
تیسرا درجہ ایصال خیر کا خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بالکل احسان
کا خیال نہ ہو اور نہ شکر گذاری پر نظر ہو بلکہ ایک ایسی ہمدردی کے جوش سے نیکی صادر ہو جیسا کہ ایک نہایت قریبی مثلاً والدہ محض ہمدردی کے جوش سے اپنے بیٹے سے نیکی کرتی ہے۔ یہ وہ
آخری درجہ ایصال خیر کا ہے جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ نے ان تمام ایصال خیر کی قسموں کو محل اور موقعہ سے وابستہ کر دیا ہے اور آیت موصوفہ میں صاف فرما دیا ہے
کہ اگر یہ نیکیاں اپنےؔ اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھر یہ بدیاں ہو جائیں گی۔ بجائے عدل فحشاء بن جائے گا ۔یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ ناپاک صورت ہو جائے۔ اور ایسا ہی بجائے
احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے اور بجائے ایتاء ذی القربیٰ کے بغی بن جائے گا۔ یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بری صورت
پیدا کرے گا۔ اصل میں بغی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کردے اورحق واجب میں کمی رکھنے کو بغیکہتے ہیں۔ اور یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی
بغی۔ہے غرض ان تینوں میں سے جو محل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی۔ اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگا دی ہے۔ اس جگہ یاد رہے کہ مجرد عدل یا احسان یا
ہمدردیء ذی القربیٰ کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اور طبعی قوتیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں۔ مگر خلق کے لئے عقل شرط ہے اور نیز
یہ شرط ہے کہ ہر ایک طبعی قوت محل اور موقعہ پر استعمال ہو۔
اور پھر احسان کے بارے میں اور بھی ضروری ہدایتیں قرآن شریف میں ہیں اور سب
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 355
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 355
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/355/mode/1up
الف لام کے ساتھ جو خاص کرنے کے لئے آتا ہے استعمال فرما کر موقع اور محل کی رعایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ جیسا
کہ وہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 356
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 356
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/356/mode/1up
ترجمہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تم ان مالوں میں سے لوگوں کو بطریق سخاوت یا احسان یا صدقہ وغیرہ دو جو تمہاری پاک
کمائی ہے۔ یعنی جس میں چوری یا رشوت یا خیانت یا غبن کامال یا ظلم کے روپیہ کی آمیزش نہیں۔ اور یہ قصد تمہارے دل سے دور رہے کہ ناپاک مال لوگوں کو دو اور دوسری یہ بات ہے کہ اپنی
خیرات اور مروت کو احسان رکھنے اور دکھ دینے کے ساتھ باطل مت کرو یعنی اپنے ممنون منت کو کبھی یہ نہ جتلاؤ کہ ہم نے تجھے یہ دیا تھا اور نہ اس کو دکھ دو کیونکہ اس طرح تمہارا احسان
باطل ہوگا اور نہ ایسا طریق پکڑو کہ تم اپنے مالوں کو ریاکاری کے ساتھ خرچ کرو۔ خدا کی مخلوق سے احسان کرو کہ خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ جو لوگ حقیقی نیکی کرنے والے ہیں
ان کو وہ جام پلائے جائیں گے جن کی ملونی کافور کی ہوگی یعنی دنیا کی سوزشیں اور حسرتیں اور ناپاک خواہشیں ان کے دل سے دور کر دی جائیں گی۔ کافور کَفَرَ سے مشتق ہے اور کفر لغت عرب میں
دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان کے جذبات ناجائز دبا ئے جائیں گے اوروہ پاک باطن ہو جائیں گے اور معرفت کی خنکی ان کو پہنچے گی۔
پھر فرماتا ہے کہ وہ لوگ قیامت کو اس
چشمہ کا پانی پئیں گے جس کو وہ آج اپنے ہاتھ سے چیر رہے ہیں۔ اس جگہ بہشت کی فلاسفی کا ایک گہرا راز بتلایا ہے جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 357
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 357
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/357/mode/1up
اور پھر فرمایا ہے کہ حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند
کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اس کے منہ کے
لئے یہ خدمت ہے۔ ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایصال خیر کی تیسری قسم جو محض ہمدردی کے جوش
سے ہے وہ طریق بجا لاتے ہیں۔ سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوں کو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہّد اور ان کی
پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور مسکینوں کو فقر و فاقہ سے بچاتے ہیں اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں اور ان مالوں کو غلاموں کے آزاد کرانے کے لئے اور قرض
داروں کو سبکدوش کرنے کے لئے بھی دیتے ہیں اور اپنے خرچوں میں نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ تنگ دلی کی عادت رکھتے ہیں اور میانہ روش چلتے ہیں۔ پیوند کرنے کی جگہ پیوند کرتے ہیں اور خدا
سے ڈرتے ہیں اور ان کے مالوں میں سوالیوں اور بے زبانوں کا حق بھی ہے۔ بے زبانوں سے مراد کتے، بلیاں، چڑیاں، بیل، گدھے، بکریاں اور دوسری چیزیں ہیں۔ وہ تکلیفوں اور کم آمدنی کی حالت میں
اور قحط کے دنوں میں سخاوت سے دل تنگ نہیں ہو جاتے بلکہ تنگی کی حالت میں بھی اپنے مقدور کے موافق سخاوت کرتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی پوشیدہ خیرات کرتے ہیں اور کبھی ظاہر۔ پوشیدہ اس لئے
کہ تاریا کاری سے بچیں اور ظاہر اس لئے کہ تا دوسروںؔ کو ترغیب دیں۔خیرات اور صدقات وغیرہ پر جو مال دیا جائے اس میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ پہلے جس قدر محتاج ہیں ان کو دیا جائے۔ ہاں
جو خیرات کے مال کا تعہد کریںیا اس کے لئے انتظام و اہتمام کریں ان کو خیرات کے مال سے کچھ مال مل سکتا ہے اور نیز کسی کو بدی سے بچانے کے لئے بھی اس مال میں سے دے سکتے
ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 358
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 358
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/358/mode/1up
ایسا ہی وہ مال غلاموں کے آزاد کرنے کے لئے اور محتاج اور قرض داروں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کے لئے بھی اور
دوسری راہوں میں جو محض خدا کے لئے ہوں وہ مال خرچ ہوگا۔ تم حقیقی نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ بنی نوع کی ہمدردی میں وہ مال خرچ نہ کرو جو تمہارا پیارا مال ہے۔ غریبوں کا حق
ادا کرو۔ مسکینوں کو دو۔ مسافروں کی خدمت کرو۔ اور فضولیوں سے اپنے تئیں بچاؤ یعنی بیاہوں شادیوں میں اور طرح طرح کی عیاشی کی جگہوں میں اور لڑکا پیدا ہونے کی رسوم میں جو اسراف سے
مال خرچ کیا جاتا ہے اس سے اپنے تئیں بچاؤ۔ تم ماں باپ سے نیکی کرو۔ اور قریبیوں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور ہمسایہ سے جو تمہارا قریبی ہے اور ہمسایہ سے جو بیگانہ ہے اور
مسافر سے اور نوکر اور غلام اور گھوڑے اور بکری اور بیل اور گائے سے اور حیوانات سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں‘ کیونکہ خدا کو جو تمہارا خدا ہے یہی عادتیں پسند ہیں۔ وہ لاپرواہوں اور
خود غرضوں سے محبت نہیں کرتا اور ایسے لوگوں کو نہیں چاہتا جو بخیل ہیں اور لوگوں کو بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے مال کو چھپاتے ہیں یعنی محتاجوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ
نہیں۔
حقیقی شجاعت
اور منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے وہ حالت ہے جو شجاعت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ شیرخوار بچہ بھی اسی قوت کی وجہ سے کبھی آگ میں ہاتھ ڈالنے لگتا ہے۔
کیونکہ انسان کا بچہ بباعث فطرتی َ جوہر غلبہ انسانیت کے ڈرانے والے نمونوں سے پہلے کسی چیز سے بھی نہیں ڈرتا۔ اس حالت میں انسان نہایت بے باکی سے شیروں اور دوسرے جنگلی درندوں کا
بھی مقابلہ کرتا ہے اور تن تنہا مقابلہ کے لئے کئی آدمیوں سے لڑنے کے لئے نکلتا ہے۔ اور لوگ جانتے ہیں کہ بڑا بہادر ہے لیکن یہ صرف ایک طبعی حالت ہے کہ جس طرح اور درندوں میں پیدا ہوتی
ہے بلکہ کتوں میں بھی پائی جاتی ہے ایسا ہی انسانوں میں پائی جاتی ہے ۱؂ اور حقیقی شجاعت جو محل اور موقع کے ساتھ خاص ہے اور جو اخلاق فاضلہ میں سے ایکُ خلق ہے وہ ان محل اور موقع
کے امور کا نام ہے جن کا ذکرخدا تعالیٰ کے پاک کلام میں اس طرح پر آیا ہے:
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 359
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 359
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/359/mode/1up
یعنی بہادر وہ ہیں کہ جب لڑائی کا موقعہ آ پڑے یا ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو بھاگتے نہیں۔ ان کا صبر لڑائی اور سختیوں
کے وقت میں خدا کی رضامندی کے لئے ہوتا ہے اور اس کے چہرہ کے طالب ہوتے ہیں نہ کہ بہادری دکھلانے کے۔ ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں سزا دینے کے لئے اتفاق کر گئے ہیں۔ سو تم
لوگوں سے ڈرو۔ پسؔ ڈرانے سے اور بھی ان کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہمیں کافی ہے یعنی ان کی شجاعت کتوں اور درندوں کی طرح نہیں ہوتی جو صرف طبعی جوش پر مبنی ہو جس
کا ایک ہی پہلو پرَ میل ہو بلکہ ان کی شجاعت دو پہلو رکھتی ہے کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر غالب آتے ہیں اور کبھی جب دیکھتے ہیں کہ
دشمن کا مقابلہ قرین مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں مگر نہ اپنے نفس کا بھروسہ کر کے بلکہ خدا پر بھروسہ کر کے بہادری دکھاتے
ہیں اور ان کی شجاعت میں ریاء کاری اور خودبینی نہیں ہوتی اور نہ نفس کی پیروی بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے۔
ان آیات میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ حقیقی شجاعت کی جڑھ
صبر اور ثابت قدمی ہے اور ہر ایک جذبہ نفسانی یا بلا جو دشمنوں کی طرح حملہ کرے اس کے مقابلہ پر ثابت قدم رہنا اور بزدل ہوکر بھاگ نہ جانا یہی شجاعت ہے۔ سو انسان اور درندہ کی شجاعت میں
بڑا فرق ہے۔ درندہ ایک ہی پہلو پرجوش اور غضب سے کام لیتا ہے اور انسان جو حقیقی شجاعت رکھتا ہے وہ مقابلہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 360
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 360
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/360/mode/1up
اور ترک مقابلہ میں جو کچھ قرین مصلحت ہو وہ اختیار کرلیتا ہے۔
سچائی
اور منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو
اس کی فطرت کا خاصہ ہے۔ سچائی ہے۔ انسان جب تک کوئی غرض نفسانی اس کی محرک نہ ہو جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور جھوٹ کے اختیار کرنے میں ایک طرح کی نفرت اور قبض اپنے دل میں پاتا
ہے۔ اسی وجہ سے جس شخص کا صریح جھوٹ ثابت ہو جائے اس سے ناخوش ہوتا ہے اور اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن صرف یہی طبعی حالت اخلاق میں داخل نہیں ہو سکتی بلکہ بچے
اور دیوانے بھی اس کے پابند رہ سکتے ہیں۔ سو اصل حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان ان نفسانی اغراض سے علیحدہ نہ ہو جو راست گوئی سے روک دیتے ہیں تب تک حقیقی طور پر راست گو نہیں ٹھہر
سکتا۔ کیونکہ اگر انسان صرف ایسی باتوں میں سچ بولے جن میں اس کا چنداں حرج نہیں اور اپنی عزت یا مال یا جان کے نقصان کے وقت جھوٹ بول جائے اور سچ بولنے سے خاموش رہے تو اس کو
دیوانوں اور بچوں پر کیا فوقیت ہے۔ کیا پاگل اور نابالغ لڑکے بھی ایسا سچ نہیں بولتے؟ دنیا میں ایسا کوئی بھی نہیں ہوگا کہ جو بغیر کسی تحریک کے خواہ نخواہ جھوٹ بولے۔ پس ایسا سچ جو کسی
نقصان کے وقت چھوڑا جائے حقیقی اخلاق میں ہرگز داخل نہیں ہوگا۔ سچ کے بولنے کا بڑا بھاری محل اور موقع وہی ہے جس میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا اندیشہ ہو۔ اس میں خدا کی یہ تعلیم
ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 361
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 361
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/361/mode/1up
ترجمہ۔ بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا
بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم سچی گواہی کے لئے بلائے جاؤ تو جانے سے انکار مت کرو۔ اور سچی گواہی کو مت چھپاؤ اور جو
چھپائے گا اُس کا دل گنہگار ہے۔ اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے۔ اگرچہ تم اپنے کسی قریبی پر گواہی دو۔ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر
ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے یا اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیرہ کو۔ اور
چاہئے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں سچی گواہی سے نہ روکے۔ سچے مرد اور سچی عورتیں بڑے بڑے اجر پائیں گے۔ ان کی عادت ہے کہ اوروں کو بھی سچ کی نصیحت دیتے ہیں۔ اور جھوٹوں کی
مجلسوں میں نہیں بیٹھتے۔
صبر
منجملہ انسان کے طبعی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت
سے سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی پاک کتاب کے رُو سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرورتاً
ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کی طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے روتا چیختا سر پیٹتا ہے۔ آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور
انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ پس یہ دونوں حرکتیں طبعی حالتیں ہیں ان کو خلق سے کچھ تعلق نہیں۔ بلکہ اس کے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 362
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 362
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/362/mode/1up
متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ
پرنہ لاوے۔ اور یہ کہے کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اُس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں۔ اس خلق کے متعلق خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے۔
یعنی اے مومنو! ہم تمہیں
اس طرح پر آزماتے رہیں گے کہ کبھی کوئی خوفناک حالت تم پر طاری ہوگی اور کبھی فقر و فاقہ تمہارے شامل حال ہوگا اور کبھی تمہارا مالی نقصان ہوگا اور کبھی جانوں پر آفت آئے گی اور کبھی
اپنی محنتوں میں ناکام رہو گے اور حسب المراد نتیجے کوششوں کے نہیں نکلیں گے اور کبھی تمہاری پیاری اولاد مرے گی۔ پس ان لوگوں کو خوشخبری ہو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ
کہتے ہیں کہ ہم خدا کی چیزیں اور اس کی امانتیں اور اس کے مملوک ہیں۔ پس حق یہی ہے کہ جس کی امانت ہے اس کی طرف رجوع کرے۔ یہی لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہیں جو
خدا کی راہ کو پاگئے۔
غرض اس خلق کا نام صبر اور رضا بر رضائے الٰہی ہے۔ اور ایک طور سے اس خلق کا نام عدل بھی ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ انسانؔ کی تمام زندگی میں اس کی مرضی
کے موافق کام کرتا ہے اور نیز ہزار ہا باتیں اس کی مرضی کے موافق ظہور میں لاتا ہے اور انسان کی خواہش کے مطابق اس قدر نعمتیں اس کو دے رکھی ہیں کہ انسان شمار نہیں کر سکتا تو پھر یہ
شرط انصاف نہیں کہ اگر وہ کبھی اپنی مرضی بھی منوانا چاہے۔ تو انسان منحرف ہو۔ اور اس کی رضا کے ساتھ راضی نہ ہو۔ اور چون و چرا کرے یا بے دین اور بے راہ ہو جائے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 363
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 363
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/363/mode/1up
ہمدردئ خلق
اور منجملہ انسان کے طبعی امور کے جو اس کی طبیعت کے لازم حال ہیں۔ ہمدردی خلق کا ایک جوش ہے۔
قومی حمایت کا جوش بالطبع ہر ایک مذہب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور اکثر لوگ طبعی جوش سے اپنی قوم کی ہمدردی کے لئے دوسروں پر ظلم کر دیتے ہیں۔ گویا انہیں انسان نہیں سمجھتے۔ سو اس
حالت کو خلق نہیں کہہ سکتے۔ یہ فقط ایک طبعی جوش ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حالت طبعی کوّ وں وغیرہ پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ ایک کوّ ے کے مرنے پر ہزارہا کوّ ے جمع ہو
جاتے ہیں۔ لیکن یہ عادت انسانی اخلاق میں اُس وقت داخل ہوگی جب کہ یہ ہمدردی انصاف اور عدل کی رعایت سے محل اور موقع پر ہو۔ اُس وقت یہ ایک عظیم الشان خلق ہوگا جس کا نام عربی میں
مواسات اور فارسی میں ہمدردی ہے۔ اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے۔
یعنی اپنی قوم کی ہمدردی اور اعانت فقط نیکی کے کاموں میں کرنی چاہئے اور ظلم اور زیادتی
کے کاموں میں ان کی اعانت ہرگز نہیں کرنی چاہئے۔ اور قوم کی ہمدردی میں سرگرم رہو۔ تھکو مت اور خیانت کرنے والوں کی طرف سے مت جھگڑو جو خیانت کرنے سے باز نہیں آتے۔ خدا تعالیٰ
خیانت پیشہ لوگوں کو دوست نہیں رکھتا۔
ایک برتر ہستی کی تلاش
منجملہ انسان کی طبعی حالتوں کے جو اس کی فطرت کو لازم پڑی ہوئی ہیں ایک برتر
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 364
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 364
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/364/mode/1up
ہستی کی تلاش ہے جس کے لئے اندر ہی اندر انسان کے دل میں ایک کشش موجود ہے۔ اور اس تلاش کا اثر اسی وقت سے
محسوس ۱؂ہونے لگتا ہے جبکہ بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے کیونکہ بچہ پیدا ہوتے ہی پہلے روحانی خاصیت اپنی جو دکھاتا ہے وہ یہی ہے کہ ماں کی طرف جھکا جاتا ہے اور طبعاً اپنی ماں کی
محبت رکھتا ہے۔ اور پھر جیسے جیسے حواس اس کے کھلتے جاتے ہیں اور شگوفہ فطرت اس کا کھلتا جاتا ہے یہ کشش محبت جو اس کے اندر چھپی ہوئی تھی اپنا رنگ روپ نمایاں طور پر دکھاتی چلی
جاتی ہے۔ پھر تو یہ ہوتا ہے کہ بجز اپنی ماں کی گود کے کسی جگہ آرام نہیں پاتا۔ اور پورا آرام اس کا اسی کے کنار عاطفت میں ہوتا ہے اور اگر ماں سے علیحدہ کر دیا جائے اور دور ڈال دیا جاوے تو
تمام عیش اس کا تلخ ہو جاتا ہے اور اگرچہ اس کے آگے نعمتوں کا ایک ڈھیر ڈال دیا جاوے تب بھی وہ اپنی سچی خوشحالی ماں کی گود میں ہی دیکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی طرح آرام نہیں پاتا۔ سو
وہ کشش محبت جو اس کو اپنی ماں کی طرف پیدا ہوتی ہے۔ وہ کیا چیز ہے؟
درحقیقت یہ وہی کشش ہے جو معبود حقیقی کے لئے بچہ کی فطرت میں رکھی گئی ہے بلکہ ہر ایک جگہ جو انسان
تعلقؔ محبت پیدا کرتا ہے درحقیقت وہی کشش کام کر رہی ہے اور ہر ایک جگہ جو یہ عاشقانہ جوش دکھلاتا ہے درحقیقت اسی محبت کا وہ ایک عکس ہے گویا دوسری چیزوں کو اُٹھا اُٹھا کر ایک گم
شدہ چیز کی تلاش کر رہا ہے جس کا اب نام بھول گیا ہے۔ سو انسان کا مال یا اولاد یا بیوی سے محبت کرنا یا کسی خوش آواز کے گیت کی طرف اس کی روح کا کھینچے جانا درحقیقت اُسی گمشدہ
محبوب کی تلاش ہے اور چونکہ انسان اس دقیق در دقیق ہستی کو جو آگ کی طرح ہر ایک میں مخفی اور سب پر پوشیدہ ہے اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا اور نہ اپنی نا تمام عقل سے اس کو پا
سکتا ہے۔ اس لئے اس کی معرفت کے بارے میں انسان کو بڑی بڑی غلطیاں لگی ہیں۔ اور سہو کاریوں سے اس کا حق دوسرے کو دیا گیا ہے۔ خدا نے قرآن شریف میں یہ خوب مثال دی ہے کہ دنیا ایک
ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرش نہایت مصفّٰی شیشوں سے کیا گیا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 365
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 365
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/365/mode/1up
ہے اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی چھوڑا گیا جو نہایت تیزی سے چل رہا ہے۔ اب ہر ایک نظر جو شیشوں پر پڑتی ہے وہ
اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسا کہ پانی سے ڈرنا چاہئے۔ حالانکہ وہ درحقیقت شیشے ہیں مگر صاف شفاف۔ سو یہ بڑے
بڑے اجرام جو نظر آتے ہیں جیسے آفتاب و ماہتاب وغیرہ۔ یہ وہی صاف شیشے ہیں جن کی غلطی سے پرستش کی گئی اور ان کے نیچے ایک اعلیٰ طاقت کام کر رہی ہے جو اُن شیشوں کے پردہ میں پانی
کی طرح بڑی تیزی سے چل رہی ہے اور مخلوق پرستوں کی نظر کی یہ غلطی ہے کہ انہیں شیشوں کی طرف اس کام کو منسوب کر رہے ہیں جو ان کے نیچے کی طاقت دکھلا رہی ہے۔ یہی تفسیر اس
آیت کریمہ کی ہے۔
غرض چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات باوجود نہایت روشن ہونے کے پھر بھی نہایت مخفی ہوتی ہے۔ اس لئے اس کی شناخت کے لئے صرف یہ نظام جسمانی جو ہماری نظروں کے
سامنے ہے کافی نہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ ایسے نظام پر مدار رکھنے والے باوجودیکہ اس ترتیب ابلغ اور محکم کو جو صدہا عجائبات پر مشتمل ہے نہایت غور کی نظر سے دیکھتے رہے بلکہ ہیئت
اور طبعی اور فلسفہ میں وہ مہارتیں پیدا کیں کہ گویا زمین و آسمان کے اندر دھنس گئے مگر پھر بھی شکوک و شبہات کی تاریکی سے نجات نہ پا سکے اور اکثر ان کے طرح طرح کی خطاؤں میں مبتلا
ہوگئے اور بیہودہ اوہام میں پڑ کر کہیں کے کہیں چلے گئے اور اگر ان کو اس صانع کے وجود کی طرف کچھ خیال بھی آیا تو بس اسی قدر کہ اس اعلیٰ اور عمدہ نظام کو دیکھ کر یہ ان کے دل میں پڑا
کہ اس عظیم الشان سلسلہ کا جو ُ پرحکمت نظام اپنے ساتھ رکھتا ہے کوئی پیدا کرنے والا ضرور چاہئے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ خیال نا تمام اور یہ معرفت ناقص ہے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ اس سلسلہ کے
لئے ایک خدا کی ضرورت ہے اس دوسرے کلام سے ہرگز مساوی نہیں کہ وہ خدا درحقیقت ہے بھی۔ غرض یہ ان کی صرف قیاسی معرفت تھی جو دل کو اطمینان اور سکینت نہیں بخش سکتی اور نہ
شکوک
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 366
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 366
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/366/mode/1up
کو بکلی دل پر سے اٹھا سکتی ہے اور نہ یہ ایسا پیالہ ہے جس سے وہ پیاس معرفتِ تا ّ مہ کی بجھ سکے جو انسان کی فطرت
کو لگائی گئی ہے بلکہ ایسی معرفت ناقصہ نہایت پرخطرؔ ہوتی ہے۔ کیونکہ بہت شور ڈالنے کے بعد پھر آخر ہیچ اور نتیجہ ندارد ہے۔
غرض جب تک خود خدائے تعالیٰ اپنے موجود ہونے کو اپنے
کلام سے ظاہر نہ کرے جیسا کہ اس نے اپنے کام سے ظاہر کیا تب تک صرف کام کا ملاحظہ تسلی بخش نہیں ہے۔ مثلاً اگر ہم ایک ایسی کوٹھڑی کو دیکھیں جس میں یہ بات عجیب ہو کہ اندر سے کنڈیاں
لگائی گئی ہیں تو اس فعل سے ہم ضرور اول یہ خیال کریں گے کہ کوئی انسان اندر ہے جس نے اندر سے زنجیر کو لگایا ہے کیونکہ باہر سے اندر کی زنجیروں کو لگانا غیر ممکن ہے۔ لیکن جب ایک مدت
تک بلکہ برسوں تک باوجود بار بار آواز دینے کے اس انسان کی طرف سے کوئی آواز نہ آوے تو آخر یہ رائے ہماری کہ کوئی اندر ہے بدل جائے گی۔ اور یہ خیال کریں گے کہ اندر کوئی نہیں بلکہ کسی
حکمت عملی سے اندر کی کنڈیاں لگائی گئی ہیں۔ یہی حال ان فلاسفروں کا ہے جنہوں نے صرف فعل کے مشاہدہ پر اپنی معرفت کو ختم کر دیا ہے۔ یہ بڑی غلطی ہے جو خدا کو ایک مردہ کی طرح سمجھا
جائے جس کو قبر سے نکالنا صرف انسان کا کام ہے۔ اگر خدا ایسا ہے جو صرف انسانی کوشش نے اس کا پتہ لگایا ہے تو ایسے خدا کی نسبت ہماری سب امیدیں عبث ہیں۔ بلکہ خدا تو وہی ہے جو ہمیشہ
سے اور قدیم سے آپ انا الموجودکہہ کر لوگوں کو اپنی طرف بلاتا رہا ہے۔ یہ بڑی گستاخی ہوگی کہ ہم ایسا خیال کریں کہ اس کی معرفت میں انسان کا احسان اس پر ہے اور اگر فلاسفر نہ ہوتے تو گویا
وہ گم کا گم ہی رہتا اور یہ کہنا کہ خدا کیونکر بول سکتا ہے کیا اُس کی زبان ہے؟ یہ بھی ایک بڑی بے باکی ہے۔ کیا اس نے جسمانی ہاتھوں کے بغیر تمام آسمانی اجرام اور زمین کو نہیں بنایا۔ کیا وہ
جسمانی آنکھوں کے بغیر تمام دنیا کو نہیں دیکھتا۔ کیا وہ جسمانی کانوں کے بغیر ہماری آوازیں نہیں سنتا۔ پس کیا یہ ضروری نہ تھا کہ اسی طرح وہ کلام بھی کرے۔ یہ بات بھی ہرگز صحیح نہیں ہے کہ
خدا کا کلام کرنا آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم اس کے کلام اور مخاطبات پر کسی زمانہ تک مہر نہیں لگاتے۔ بیشک وہ اب بھی ڈھونڈنے والوں کو الہامی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 367
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 367
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/367/mode/1up
چشمہ سے مالا مال کرنے کو تیار ہے جیسا کہ پہلے تھا اور اب بھی اس کے فیضان کے ایسے دروازے کھلے ہیں جیسے کہ
پہلے تھے۔ ہاں ضرورتوں کے ختم ہونے پر شریعتیں اور حدود ختم ہوگئے اور تمام رسالتیں اور نبوتیں اپنے آخری نقطہ پر آکر جو ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا۔ کمال کو پہنچ
گئیں۔
آنحضرت ﷺکے عرب سے ظاہر ہونے میں حکمت
اس آخری نور کا عرب سے ظاہر ہونا بھی خالی حکمت سے نہ تھا۔ عرب وہ بنی اسماعیل کی قوم تھی جو اسرائیل سے منقطع ہو کر حکمت
الٰہی سے بیابانِ فاران میں ڈال دی گئی تھی اور فاران کے معنی ہیں دو فرار کرنے والے یعنی بھاگنے والے۔ پس جن کو خود حضرت ابراہیمؑ نے بنی اسرائیل سے علیحدہ کر دیا تھا اُن کا توریت کی
شریعت میں کچھ حصہ نہیں رہا تھا۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ وہ اسحاقؑ کے ساتھ حصہ نہیں پائیں گے۔ پس تعلق والوں نے انہیں چھوڑ دیا اور کسی دوسرے سے ان کا تعلق اور رشتہ نہ تھا۔ اور دوسرے
تمام ملکوں میں کچھ کچھ رسوم عبادات اور احکام کی پائی جاتی تھیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ کسی وقت ان کو نبیوں کی تعلیم پہنچی تھی۔ مگر صرف عرب کا ملک ہی ایک ایسا ملک تھا جو ان تعلیموں سے
محض ناواقف تھا اور تمام جہان سے پیچھے رہا ہوا تھا۔ اس لئے آخر میں اُس کی نوبت آئی اور اس کی نبوت عام ٹھہری تا تماؔ م ملکوں کو دوبارہ برکات کا حصہ دیوے اور جو غلطی پڑ گئی تھی اس
کو نکال دے۔ پس ایسی کامل کتاب کے بعد کس کتاب کا انتظار کریں جس نے سارا کام انسانی اصلاح کا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پہلی کتابوں کی طرح صرف ایک قوم سے واسطہ نہیں رکھا۔ بلکہ تمام
قوموں کی اصلاح چاہی اور انسانی تربیت کے تمام مراتب بیان فرمائے۔ وحشیوں کو انسانیت کے آداب سکھائے۔ پھر انسانی صورت بنانے کے بعد اخلاق فاضلہ کا سبق دیا۔
قرآن کریم کا دنیا پر
احسان
یہ قرآن نے ہی دنیا پر احسان کیا کہ طبعی حالتوں اور اخلاق فاضلہ میں فرق کر کے دکھلایا۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 368
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 368
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/368/mode/1up
اور جب طبعی حالتوں سے نکال کر اخلاق فاضلہ کے محل عالی تک پہنچایا تو فقط اسی پر کفایت نہ کی بلکہ اور مرحلہ جو
باقی تھا یعنی روحانی حالتوں کا مقام۔ اس تک پہنچنے کے لئے پاک معرفت کے دروازے کھول دئیے اور نہ صرف کھول دئیے بلکہ لاکھوں انسانوں کو اس تک پہنچا بھی دیا۔ اور اس طرح پر تینوں قسم کی
تعلیم جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کمال خوبی سے بیان فرمائی۔ پس چونکہ وہ تمام تعلیموں کا جن پر دینی تربیت کی ضرورتوں کا مدار ہے کامل طور پر جامع ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ اس نے کیا کہ
میں نے دائرہ دینی تعلیم کو کمال تک پہنچایا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
یعنی آج میں نے دین تمہارا کامل کیا۔ اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور میں تمہارا دین اسلام ٹھہرا کر خوش ہوا۔ یعنی دین کا
انتہائی مرتبہ وہ امر ہے جو اسلام کے مفہوم میں پایا جاتا ہے یعنی یہ کہ محض خدا کے لئے ہو جانا اور اپنی نجات اپنے وجود کی قربانی سے چاہنا نہ اور طریق سے اور اس نیت اور اس ارادہ کو
عملی طور پر دکھلا دینا۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر تمام کمالات ختم ہوتے ہیں۔ پس جس خدا کو حکیموں نے شناخت نہ کیا قرآن نے اُس سچے خدا کا پتہ بتایا۔ قرآن نے خدا کی معرفت عطا کرنے کے لئے دو
طریق رکھے ہیں۔ اول وہ طریق جس کی رو سے انسانی عقل عقلی دلائل پیدا کرنے میں بہت قوی اور روشن ہو جاتی ہے اور غلطی کرنے سے بچ جاتی ہے۲؂ اور دوسرا روحانی طریق جس کو ہم
تیسرے سوال کے جواب میں عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ بیان کریں گے۔
دلائل ہستی باری تعالیٰ
اب دیکھو کہ عقلی طور پر قرآن شریف نے خدا کی ہستی پر کیا کیا عمدہ اور بے مثل دلائل دئیے ہیں۔
جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 369
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 369
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/369/mode/1up
یعنی خدا وہ خدا ہے کہ جس نے ہر ایک شے کے مناسب حال اس کو پیدائش بخشی۔ پھر اس شیکو اپنے کمالات مطلوبہ حاصل
کرنے کے لئے راہ دکھلا دی۔ اب اگر اس آیت کے مفہوم پر نظر رکھ کر انسان سے لے کر تمام بحری اور برّی جانوروں اور پرندوں کی بناوٹ تک دیکھا جائے تو خدا کی قدرت یاد آتی ہے کہ ہر ایک چیز
کی بناوٹ اس کے مناسب حال معلوم ہوتی ہے۔ پڑھنے والے خود سوچ لیں کیونکہ یہ مضمون بہت وسیع ہے۔
دوسری دلیل خدا تعالیٰ کی ہستی پر قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کا علت العلل ہونا قرار دیا
ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
یعنی تمام سلسلہ علل و معلولات کا تیرے رب پر ختم ہو جاتا ہے۔ تفصیل اس دلیل کی یہ ہے کہ نظر تعمّق سے معلوم ہوگا کہ یہ تمام موجودات علل و معلول کے سلسلہ
سے مربوط ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں طرح ؔ طرح کے علوم پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ کوئی حصہ مخلوقات کا نظام سے باہر نہیں۔ بعض بعض کے لئے بطور اصول اور بعض بطور فروع کے ہیں اور یہ
تو ظاہر ہے کہ علّت یا تو خود اپنی ذات سے قائم ہوگی یا اس کا وجود کسی دوسری علّت کے وجود پر منحصر ہوگا۔ اور پھر یہ دوسری علّت کسی اور علت پر، وعلیٰ ہذا القیاس۔ اور یہ تو جائز نہیں کہ
اس محدود دنیا میں علل و معلول کا سلسلہ کہیں جاکر ختم نہ ہو اور غیر متناہی ہو۔ تو بالضرورت ماننا پڑا کہ یہ سلسلہ ضرور کسی اخیر علت پر جاکر ختم ہو جاتا ہے۔ پس جس پر اس تمام سلسلہ کا
انتہاء ہے وہی خدا ہے۔ آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ آیت 3 اپنے مختصر لفظوں میں کس طرح اس دلیل مذکورہ بالا کو بیان فرما رہی ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ انتہاء تمام سلسلہ کی تیرے رب تک
ہے۔
پھر ایک اور دلیل اپنی ہستی پر یہ دی جیسا کہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 370
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 370
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/370/mode/1up
یعنی آفتاب چاند کو پکڑ نہیں سکتا اور نہ رات جو مظہر ماہتاب ہے دن پر جو مظہر آفتاب ہے کچھ تسلط کر سکتی ہے۔ یعنی
کوئی ان میں سے اپنی حدود مقررہ سے باہر نہیں جاتا۔ اگر ان کا کوئی مد ّ بر درپردہ نہ ہو تو یہ تمام سلسلہ درہم برہم ہو جائے۔ یہ دلیل ہیئت پر غور کرنے والوں کے لئے نہایت فائدہ بخش ہے کیونکہ
اجرام فلکی کے اتنے بڑے عظیم الشان اور بے شمار گولے ہیں جن کے تھوڑے سے بگاڑ سے تمام دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ یہ کیسی قدرت حق ہے کہ وہ آپس میں نہ ٹکراتے ہیں نہ بال بھر رفتار بدلتے اور
نہ اتنی مدت تک کام دینے سے کچھ گھسے اور نہ ان کی کلوں ُ پرزوں میں کچھ فرق آیا۔ اگر سر پر کوئی محافظ نہیں تو کیونکر اتنا بڑا کارخانہ بے شمار برسوں سے خودبخود چل رہا ہے۔ انہیں حکمتوں
کی طرف اشارہ کر کے خدا تعالیٰ دوسرے مقام میں فرماتا ہے۔
یعنی کیا خدا کے وجود میں شک ہو سکتا ہے جس نے ایسے آسمان اور ایسی زمین بنائی۔ پھر ایک اور لطیف دلیل اپنی ہستی پر فرماتا ہے
اور وہ یہ ہے۔
یعنی ہر ایک چیزَ معرضِ زوال میں ہے اور جو باقی رہنے والا ہے وہ خدا ہے جو جلال والا اور بزرگی والا ہے۔ اب دیکھو کہ اگر ہم فرض کرلیں کہ ایسا ہو کہ زمین ذرہ ذرہ ہو جائے
اور اجرام فلکی بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور ان پر معدوم کرنے والی ایک ایسی ہوا چلے جو تمام نشان ان چیزوں کے مٹادے۔ مگر پھر بھی عقل اس بات کو مانتی اور قبول کرتی ہے۔ بلکہ صحیح
کانشنس اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ اس تمام نیستی کے بعد بھی ایک چیز باقی رہ جائے جس پر
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 371
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 371
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/371/mode/1up
فناطاری نہ ہو اور تبدل اور تغیر کو قبول نہ کرے اور اپنی پہلی حالت پر باقی رہے۔ پس وہ وہی خدا ہے جو تمام فانی صورتوں
کو ظہور میں لایا اور خود فنا کی دست برد سے محفوظ رہا۔
پھر ایک اور دلیل اپنی ہستی پر قرآن شریف میں پیش کرتا ہے۔
یعنی میں نے روحوں کو کہا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انہوں نے کہا
کیوں نہیں۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ قصہ کے رنگ میں روحوں کی اس خاصیت کو بیان فرماتا ہے جو ان کی فطرت میں اُس نے رکھی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوؔ ئی روح فطرت کی رو سے خدا تعالیٰ
کا انکار نہیں کر سکتی۔ صرف منکروں کو اپنے خیال میں دلیل نہ ملنے کی وجہ سے انکار ہے مگر باوجود اس انکار کے وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ہر ایک حادث کے واسطے ضرور ایک محدث ہے۔
دنیا میں ایسا کوئی نادان نہیں کہ اگر مثلاً بدن میں کوئی بیماری ظاہر ہو تو وہ اس بات پر اصرار کرے کہ درپردہ اس بیماری کے ظہور کی کوئی علّت نہیں۔ اگر یہ سلسلہ دنیا کا علل اور معلول سے
مربوط نہ ہوتا تو قبل از وقت یہ بتا دینا کہ فلاں تاریخ طوفان آئے گایا آندھی آئے گی یا خسوف ہوگا یا کسوف ہوگا یا فلاں وقت بیمار مر جائے گا یا فلاں وقت تک ایک بیماری کے ساتھ فلاں بیماری لاحق ہو
جائے گی۔ یہ تمام باتیں غیر ممکن ہو جاتیں۔ پس ایسا محقق اگرچہ خدا کے وجود کا اقرار نہیں کرتا مگر ایک طور سے تو اس نے اقرار کر ہی دیا کہ وہ بھی ہماری طرح معلولات کے لئے علل کی تلاش
میں ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا اقرار ہے اگرچہ کامل اقرار نہیں۔ ماسوا اس کے اگر کسی ترکیب سے ایک منکر وجود باری کو ایسے طور سے بے ہوش کیا جائے کہ وہ اس سفلی زندگی کے خیالات سے
بالکل الگ ہوکر اور تمام ارادو ں سے معطل رہ کر اعلیٰ ہستی کے قبضہ میں ہو جائے تو وہ اس صورت میں خدا کے وجود کا اقرار کرے گا۔ انکار نہیں کرے گا۔ جیسا کہ اس پر بڑے بڑے ُ مجرّ بین کا
تجربہ شاہدہے۔ سو ایسی حالت کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے اور مطلب آیت یہ ہے کہ انکار وجود باری صرف سفلی زندگی تک ہے ورنہ اصل فطرت میں اقرار بھرا ہوا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 372
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 372
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/372/mode/1up
صفات باری تعالیٰ
یہ دلائل وجود باری پر ہیں جوہم نے بطور نمونہ کے لکھ دیئے ۔ بعد اسکے یہ بھی جاننا چاہئے کہ جس
خداکی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اسکی اس نے یہ صفات لکھی ہیں۔
یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ
اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آجائے۔ اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی۔ اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ
مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کاملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے
عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا۔ وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے۔ پھر فرمایا کہ عالم الغیب
ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 373
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 373
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/373/mode/1up
اس کی ذات پر کوؔ ئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سراپا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سراپا
دیکھنے سے قاصر ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے۔ یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو۔ وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر
اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا۔ اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا؟ سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں
کو جانتا ہے۔ پھر فرمایا ھُوَ الرَّحْمٰن یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میسر
کرتا ہے۔ جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا۔ اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے۔ اور اس کام کے
لحاظ سے خدائے تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ اَلرَّحِیْم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے۔ اور
یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ اور پھر فرمایا مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اس کا کوئی ایسا کارپرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت
سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو۔ وہی کارپرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو۔ اور پھر فرمایا اَلْمَلِکُ القُدُّوْسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں۔
یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں۔ اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو
پھر خراج شاہی کہاں سے آئے اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے۔ پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے۔ وہ ایک
دم میں تمام ملک کو فنا کرکے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 374
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 374
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/374/mode/1up
اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجز ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی۔ کیونکہ وہ
دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا۔ کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا؟ تو اس
صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں۔ بات بات میں بگڑتے ہیں اور اپنی خودغرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ
ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں۔ مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر
خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے۔ پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تووہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی
الوادع کہتا۔ بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ سچے انصاف پر چلؔ رہا ہے۔ پھر فرمایا السَّلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے۔ اس
کے معنے بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو پھراس بد نمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں
ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 375
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 375
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/375/mode/1up
چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔ بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں
طاقت نہیں ہوگی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں۔ ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں۔ کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا
اور سب پر غالب آنے والا ہے۔ نہ اُس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے۔ ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے اور پھر فرمایا کہ خدا
امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا اور نہ خدا کے سامنے
شرمندہ ہوگا کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں۔ لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے۔ وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ
ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ اَلْمُیھمن العزیز الجبّار المتکبر یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کاموں کا بنانے والا ہے۔ اور اس کی ذات
نہایت ہی مستغنی ہے۔ اور فرمایا۔ 33۔ یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا بھی پید اکرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا۔ رِحم میں تصویر کھینچنے والا ہے۔ تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ
سکیں سب اُسی کے نام ہیں۔ اور پھر فرمایا۔۔یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی۔ اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ
بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں۔ اور پھر فرمایا عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ یعنی خدا بڑا قادر ہے۔ یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے۔ کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا امید رکھیں۔ اور
پھر فرمایا۔ ربّ العالمین۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 376
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 376
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/376/mode/1up
الرحمن الرحیم۔ مالک یوم الدین۔ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا۔ رحمن رحیم
اور جزا کے دن کا آپ مالک ہے۔ اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا۔ اور پھر فرمایا۔ الحیُّ القیّوم
یعنی ہمیشہ رہنےؔ والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا۔ یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو تو اس کی زندگی کے بارے میں بھی دھڑکا رہے گا کہ شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو
جائے۔ اور پھر فرمایا کہ وہ خدا اکیلا خدا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا۔ اور نہ کوئی اس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس۔
اور یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو صحیح طور پر
ماننا اور اس میں زیادت یا کمی نہ کرنا۔ یہ وہ عدل ہے جو انسان اپنے مالک حقیقی کے حق میں بجا لاتا ہے۔ یہ تمام حصہ اخلاقی تعلیم کا ہے جو قرآن شریف کی تعلیم میں سے درج ہواہے۔ اس میں اصول
یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام اخلاق کو افراط اور تفریط سے بچایا ہے۔ اور ہر ایک خلق کو اس حالت میں خلق کے نام سے موسوم کیا ہے کہ جب اپنی واقعی اور واجب حد سے کم و بیش نہ ہو۔ یہ تو
ظاہر ہے کہ نیکی حقیقی وہی چیز ہے جو دو حدوں کے وسط میں ہوتی ہے یعنی زیادتی اور کمی یا افراط اور تفریط کے درمیان ہوتی ہے۔ ہر ایک عادت جو وسط کی طرف کھینچے اور وسط پر قائم کرے
وہی خلق فاضل کو پیدا کرتی ہے۔ محل اور موقعہ کا پہچاننا ایک وسط ہے۔ مثلاً اگر زمیندار اپنا تخم وقت سے پہلے بودے یا وقت کے بعد۔ دونوں صورتوں میں وہ وسط کو چھوڑتا ہے۔ نیکی اور حق اور
حکمت سب وسط میں ہے اور وسط موقع بینی میں۔ یا یوں سمجھ لو کہ حق وہ چیز ہے کہ ہمیشہ دو متقابل باطلوں کے وسط میں ہوتا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ عین موقع کا التزام ہمیشہ انسان کو
وسط میں رکھتا ہے اور خدا شناسی کے بارے میں وسط کی شناخت یہ ہے کہ خدا کی صفات بیان کرنے میں نہ تو نفی صفات کے پہلو کی طرف جھک جائے اور نہ خدا کو جسمانی چیزوں کا مشابہ قرار
دے۔ یہی طریق قرآن شریف
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 377
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 377
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/377/mode/1up
نے صفات باری تعالیٰ میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ خدا دیکھتا، سنتا، جانتا، بولتا، کلام کرتا ہے۔ اور پھر
مخلوق کی مشابہت سے بچانے کیلئے یہ بھی فرماتا ہے۔
یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس کے لئے مخلوق سے مثالیں مت دو۔ سو خدا کی ذات کو تشبیہ اور تنزیہکے َ
بین َ بین رکھنا یہی وسط ہے۔ غرض اسلام کی تعلیم تمام میانہ روی کی تعلیم ہے۔ سورہ فاتحہ بھی میانہ روی کی ہدایت فرماتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3۔ مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں
جو خداتعالیٰ کے مقابل پر قوت غضبی کو استعمال کر کے قویٰ سبعیہ کی پیروی کرتے ہیں اور ضالین سے وہ مراد ہیں جو قوی بہیمیہ کی پیروی کرتے ہیں۔ اور میانہ طریق وہ ہے جس کو لفظ 3 3
سے یاد فرمایا ہے۔ غرض اس مبارک امت کے لئے قرآن شریف میں وسط کی ہدایت ہے۔ توریت میں خدائے تعالیٰ نے انتقامی امور پر زور دیا تھا اور انجیل میں عفو اور درگذر پر زور دیا تھا اور اس امت
کو موقعہ شناسی اور وسط کی تعلیم ملی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی ہم نے تم کو وسط پر عمل کرنے والے بنایا اور وسط کی تعلیم تمہیں دی۔ سو مبارک وہ جو وسط پر چلتے ہیں۔ خیر الامور
اوسطھا۔
روحانی حالتیں
تیسرؔ ا حصہ یعنی یہ کہ روحانی حالتیں کیا ہیں؟ واضح رہے کہ ہم پہلے اس سے بیان کر چکے ہیں کہ بموجب ہدایت قرآن شریف کے روحانی حالتوں کا منبع اور
سرچشمہ نفس مطمئنہ ہے جو انسان کو با اخلاق ہونے کے مرتبہ سے باخدا ہونے کے مرتبہ تک پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 378
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 378
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/378/mode/1up
یعنی اے نفس خدا کے ساتھ آرام یافتہ۔ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی۔ پس میرے
بندوں میں داخل ہو جا اور میری بہشت کے اندر آجا۔
اس جگہ بہتر ہے کہ ہم روحانی حالتوں کے بیان کرنے کے لئے اس آیت کریمہ کی تفسیر کسی قدر توضیح سے بیان کریں۔ پس یاد رکھنا چاہئے
کہ اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت انسان کی اس دنیوی زندگی میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ آرام پا جائے۔ اور تمام اطمینان اور سرور اور لذت اس کی خدا میں ہی ہو جائے یہی وہ حالت ہے جس کو
دوسرے لفظوں میں بہشتی زندگی کہا جاتا ہے۔ اس حالت میں انسان اپنے کامل صدق اور صفا اور وفا کے بدلہ میں ایک نقد بہشت پا لیتا ہے اور دوسرے لوگوں کی بہشت موعود پر نظر ہوتی ہے اور یہ
بہشت موجود میں داخل ہوتا ہے۔ اسی درجہ پر پہنچ کر انسان سمجھتا ہے کہ وہ عبادت جس کا بوجھ اس کے سر پر ڈالا گیا ہے درحقیقت وہی ایک ایسی غذا ہے جس سے اس کی روح نشوونما پاتی ہے
اور جس پر اس کی روحانی زندگی کا بڑا بھاری مدار ہے اور اس کے نتیجہ کا حصول کسی دوسرے جہان پر موقوف نہیں ہے۔ اسی مقام پر یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ وہ ساری ملامتیں جو نفس لوّ امہ
انسان کا اس کی ناپاک زندگی پر کرتا ہے اور پھر بھی نیک خواہشوں کو اچھی طرح ابھار نہیں سکتا اور بری خواہشوں سے حقیقی نفرت نہیں دلا سکتا۔ اور نہ نیکی پر ٹھہرنے کی پوری قوت بخش سکتا
ہے اس پاک تحریک سے بدل جاتی ہیں جو نفس مطمئنہ کے نشوونما کا آغاز ہوتی ہے۔ اور اس درجہ پر پہنچ کر وقت آ جاتا ہے کہ انسان پوری فلاح حاصل کرے اور اب تمام نفسانی جذبات خودبخود
افسردہ ہونے لگتے ہیں۔ اور روح پر ایک ایسی طاقت افزا ہوا چلنے لگتی ہے جس سے انسان پہلی کمزوریوں کو ندامت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس وقت انسانی سرشت پر ایک بھاری انقلاب آتا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 379
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 379
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/379/mode/1up
ہے۔ اور عادت میں ایک تبدّل عظیم پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی پہلی حالتوں سے بہت ہی دور جا پڑتا ہے، دھویا جاتا ہے اور
صاف کیا جاتا ہے اور خدا نیکی کی محبت کو اپنے ہاتھ سے اس کے دل میں لکھ دیتا ہے اور بدی کا گند اپنے ہاتھ سے اس کے دل سے باہر پھینک دیتا ہے۔ سچائی کی فوج سب کی سب دل کے شہرستان
میں آجاتی ہے۔ اور فطرت کے تمام برجوں پر راستبازی کا قبضہ ہو جاتا ہے اور حق کی فتح ہوتی ہے اور باطل بھاگ جاتا ہے اور اپنے ہتھیار پھینک دیتا ہے۔ اس شخص کے دل پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور
ہر ایک قدم خدا کے زیر سایہ چلتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ آیات ذیل میں انہی امور کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔
یعنی خدا نے مومنوں کے دل میں ایمان کو اپنے ہاتھ سے لکھ دیا ہے اور روح القدس کے
ساتھ ان کی مدد کی۔ اس نے اے مومنو! ایمان کو تمہارا محبوب بنا دیا اور اس کا حسن و جمال تمہارے دل میں بٹھا دیا اور کفر اور بدکاری اور معصیت سے تمہارے دل کو نفرت دے دی۔ اور بُری
راہوں کا مکروہ ہونا تمہارے دل میں جما دیا۔ یہ سب کچھ خدا کے فضل اور رحمت سے ہوا۔ حق آیا۔ اور باطل بھاگ گیا اور باطل کب حق کے مقابل ٹھہر سکتا تھا۔
غرض یہ تمام اشارات اس روحانی
حالت کی طرف ہیں جو تیسرے درجہ پر انسان کو حاصل ہوتی ہے اور سچی بینائی انسان کو کبھی نہیں مل سکتی جب تک یہ حالت اس کو حاصل نہ ہو۔ اور یہ جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایمان
ان کے دل میں اپنے ہاتھ سے لکھا اور روح القدس سے ان کی مدد کی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو سچی طہارت اور پاکیزگی کبھی حاصل
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 380
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 380
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/380/mode/1up
نہیں ہو سکتی جب تک آسمانی مدد اس کے شامل حال نہ ہو۔ نفس لوامہ کے مرتبہ پر انسان کا یہ حال ہوتا ہے کہ بار بار توبہ
کرتا اور بار بار گرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنی صلاحیت سے نا امید ہو جاتا ہے اور اپنے مرض کو ناقابل علاج سمجھ لیتا ہے اور ایک مدت تک ایسا ہی رہتا ہے اور پھر جب وقت مقدر پورا ہو جاتا ہے تو
رات یا دن کو یک دفعہ ایک نور اس پر نازل ہوتا ہے اور اس نور میں الٰہی قوت ہوتی ہے۔ اس نور کے نازل ہونے کے ساتھ ہی ایک عجیب تبدیلی اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اور غیبی ہاتھ کا ایک قوی
تصرّف محسوس ہوتا ہے اور ایک عجیب عالم سامنے آ جاتا ہے۔ اس وقت انسان کو پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے اور آنکھوں میں وہ نور آ جاتا ہے جو پہلے نہیں تھا۔ لیکن اس راہ کو کیونکر حاصل کریں اور
اس روشنی کو کیونکر پاویں۔ سو جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں جو دارالاسباب ہے ہر ایک معلول کے لئے ایک علت ہے اور ہر ایک حرکت کے لئے ایک محرک ہے اور ہر ایک علم حاصل کرنے کے لئے ایک
راہ ہے جس کو صراط مستقیم کہتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو بغیر پابندی ان قواعد کے مل سکے جو قدرت نے ابتدا سے اس کے لئے مقرر کر رکھے ہیں۔ قانون قدرت بتلا رہا ہے کہ ہر
ایک چیز کے حصول کے لئے ایک صراط مستقیم ہے اور اس کا حصول اسی پر قدرتاً موقوف ہے۔ مثلاً اگر ہم ایک اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھے ہوں اور آفتاب کی روشنی کی ضرورت ہو تو ہمارے لئے یہ
صراط مستقیم ہے کہ ہم اس کھڑکی کو کھول دیں جو آفتاب کی طرف ہے۔ تب یک دفعہ آفتاب کی روشنی اندر آکر ہمیں منور کر دے گی۔ سو ظاہر ہے کہ اسی طرح خدا کے سچے اور واقعی فیوض پانے
کے لئے بھی کوئی کھڑکی اور پاک روحانیت کے حاصل کرنے کے لئے کوئی خاص طریق ہوگا۔ اور وہ یہ ہے کہ روحانی امور کے لئے صراط مستقیم کی تلاش کریں جیسا کہ ہم اپنی زندگی کے تمام
امور میں اپنی کامیابیوں کے لئے صراط مستقیم کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مگر کیا وہ یہ طریق ہے کہ ہم صرف اپنی ہی عقل کے زور سے اور اپنی ہی خود تراشیدہ باتوں سے خدا کے وصال کو ڈھونڈیں۔
کیا محض ہماری ہی اپنی منطق اور فلسفہ سے اس کے وہ دروازے ہم پر کھلتے ہیں جن کا کھلنا اس کے قوی ہاتھ پر موقوف ہے۔ یقیناً سمجھو
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 381
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 381
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/381/mode/1up
کہ یہ بالکل صحیح نہیں ۔ ہم اس حیّ و قیّوم کو محض اپنی ہی تدبیروں سے ہرگز نہیں پاسکتے۔ بلکہ اس راہ میں صراط مستقیم
صرفؔ یہ ہے کہ پہلے ہم اپنی زندگی مع اپنی تمام قوتوں کے خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے پھر خدا کے وصال کے لئے دعا میں لگے رہیں تا خدا کو خدا ہی کے ذریعہ سے پاویں۔
ایک پیاری
دعا
اور سب سے زیادہ پیاری دعا جو عین محل اور موقع سوال کا ہمیں سکھاتی ہے اور فطرت کے روحانی جوش کا نقشہ ہمارے سامنے رکھتی ہے وہ دعا ہے جو خدائے کریم نے اپنی پاک کتاب قرآن
شریف میں یعنی سورہ فاتحہ میں ہمیں سکھائی ہے اور وہ یہ ہے۔ تمام پاک تعریفیں جو ہو سکتی ہیں۔ اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا اور قائم رکھنے والا ہے۔۔وہی خدا جو ہمارے
اعمال سے پہلے ہمارے لئے رحمت کا سامان میسر کرنے والا ہے اور ہمارے اعمال کے بعد رحمت کے ساتھ جزا دینے والا ہے۔ 3 وہ خدا جو جزاء کے دن کا وہی ایک مالک ہے۔ کسی اور کو وہ دن
نہیں سونپا گیا۔ اے وہ جو ان تعریفوں کا جامع ہے ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں۔ اور ہم ہر ایک کام میں توفیق تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ اس جگہ ہم کے لفظ سے پرستش کا اقرار کرنا اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ ہمارے تمام قویٰ تیری پرستش میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے آستانہ پر جھکے ہوئے ہیں کیونکہ انسان باعتبار اپنے اندرونی قویٰ کے ایک جماعت اور ایک امت ہے اور اس طرح پر تمام قویٰ
کا خدا کو سجدہ کرنا یہی وہ حالت ہے جس کو اسلام کہتے ہیں۔ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اور اس پر ثابت قدم کر کے ان لوگوں کی راہ دکھلا جن پر تیرا انعام و اکرام ہے۔ اور تیرے مورد فضل و کرم
ہوگئے ہیں ۱؂ اور ہمیں
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 382
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 382
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/382/mode/1up
ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن پر تیرا غضب ہے اور جو تجھ تک نہیں پہنچ سکے اور راہ کو بھول گئے۔ آمین۔ اے خدا!
ایسا ہی کر۔
یہ آیات سمجھا رہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے انعامات جو دوسرے لفظوں میں فیوض کہلاتے ہیں انہی پر نازل ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی خدا کی راہ میں قربانی دے کر اور اپنا تمام وجود
اس کی راہ میں وقف کر کے اور اس کی رضا میں محو ہو کر پھر اس وجہ سے دعا میں لگے رہتے ہیں کہ تاجو کچھ انسان کو روحانی نعمتوں اور خدا کے قرب اور وصال اور اس کے مکالمات اور
مخاطبات میں سے مل سکتا ہے وہ سب ان کو ملے اور اس دعا کے ساتھ اپنے تمام قویٰ سے عبادت بجا لاتے ہیں اور گناہ سے پرہیز کرتے اور آستانہ الٰہی پر پڑے رہتے ہیں اور جہاں تک ان کے لئے
ممکن ہے اپنے تئیں بدی سے بچاتے ہیں اور غضب الٰہی کی راہوں سے دور رہتے ہیں۔ سو چونکہ وہ ایک اعلیٰ ہمت اور صدق کے ساتھ خدا کو ڈھونڈتے ہیں۔ اس لئے اس کو پالیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی
پاک معرفت کے پیالوں سے سیراب کئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں جو استقامت کا ذکر فرمایا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچا اور کامل فیض جو روحانی عالم تک پہنچاتا ہے‘ کامل استقامت سے
وابستہ ہے اور کامل استقامت سے مراد ایک ایسی حالت صدق و وفا ہے جس کو کوئی امتحان ضرر نہ پہنچا سکے۔ یعنی ایسا پیوند ہو جس کو نہ تلوار کاٹ سکے نہ آگ جلا سکے اور ؔ نہ کوئی دوسری
آفت نقصان پہنچا سکے۔ عزیزوں کی موتیں اس سے علیحدہ نہ کر سکیں۔ پیاروں کی جدائی اس میں خلل انداز نہ ہو سکے۔ بے آبروئی کا خوف کچھ رعب نہ ڈال سکے۔ ہولناک دکھوں سے مارا جانا ایک
ذرہ دل کو نہ ڈرا سکے۔ سو یہ دروازہ نہایت تنگ ہے۔ اور یہ راہ نہایت۱؂ دشوار گذار ہے۔ کس قدر مشکل ہے۔ آہ! صد آہ!!
اسی کی طرف اللہ جلشانہ، ان آیات میں اشارہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 383
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 383
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/383/mode/1up
یعنی ان کو کہدے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہاری برادری اور
تمہارے وہ مال جو تم نے محنت سے کمائے ہیں اور تمہاری سوداگری جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری حویلیاں جو تمہارے دل پسند ہیں۔ خدا سے اور اس کے رسول سے اور خدا کی
راہ میں اپنی جانوں کو لڑانے سے زیادہ پیارے ہیں تو تم اس وقت تک منتظر رہو کہ جب تک خدا اپنا حکم ظاہر کرے اور خدا بدکاروں کو کبھی اپنی راہ نہیں دکھائے گا۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے
کہ جو لوگ خدا کی مرضی کو چھوڑ کر اپنے عزیزوں اور اپنے مالوں سے پیار کرتے ہیں وہ خدا کی نظر میں بدکار ہیں وہ ضرور ہلاک ہوں گے کیونکہ انہوں نے غیر کو خدا پر مقدم رکھا۔ یہی وہ تیسرا
مرتبہ ہے جس میں وہ شخص باخدا بنتا ہے جو اس کے لئے ہزاروں بلائیں خریدے اور خدا کی طرف ایسے صدق اور اخلاص سے جھک جائے کہ خدا کے سوا کوئی اس کا نہ رہے گویا سب مرگئے۔ پس
سچ تو یہ ہے کہ جب تک ہم خود نہ مریں زندہ خدا نظر نہیں آ سکتا۔ خدا کے ظہور کا دن وہی ہوتا ہے کہ جب ہماری جسمانی زندگی پر موت آوے۔ ہم اندھے ہیں جب تک غیر کے دیکھنے سے اندھے نہ
ہو جائیں۔ ہم مردہ ہیں جب تک خدا کے ہاتھ میں مردہ کی طرح نہ ہو جائیں۔ جب ہمارا منہ ٹھیک ٹھیک اس کے محاذات میں پڑے گا‘ تب وہ واقعی استقامت جو تمام نفسانی جذبات پر غالب آتی ہے ہمیں
حاصل ہوگی اس سے پہلے نہیں اور یہی وہ استقامت ہے جس سے نفسانی زندگی پر موت آجاتی ہے۔ ہماری استقامت یہ ہے کہ جیسا وہ فرماتا ہے کہ۔
یعنی یہ کہ قربانی کی طرح میرے آگے گردن
رکھ دو۔ ایسا ہی ہم اس وقت
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 384
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 384
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/384/mode/1up
درجۂ استقامت حاصل کریں گے کہ جب ہمارے وجود کے تمام پرزے اور ہمارے نفس کی تمام قوتیں اسی کام میں لگ جائیں
اور ہماری موت اور ہماری زندگی اسی کے لئے ہو جائے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
یعنی کہہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے ہے اور جب انسان کی
محبت خدا کے ساتھ اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کا مرنا اور جینا اپنے لئے نہیں بلکہ خدا ہی کے لئے ہو جائے۔ تب وہ خدا جو ہمیشہ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ پیار کرتاؔ آیا ہے اپنی محبت
کو اس پر اتارتا ہے اور ان دونوں محبتوں کے ملنے سے انسان کے اندر ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو دنیا نہیں پہچانتی اور نہ سمجھ سکتی ہے اور ہزاروں صدیقوں اور برگزیدوں کا اسی لئے خون ہوا کہ
دنیا نے ان کو نہیں پہچانا۔ وہ اسی لئے مکار اور خود غرض کہلائے کہ دنیا ان کے نورانی چہرہ کو دیکھ نہ سکی۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔
یعنی وہ جو منکر ہیں تیری طرف دیکھتے تو ہیں مگرُ تو انہیں
نظر نہیں آتا۔
غرض جب وہ نور پیدا ہوتا ہے تو اس نور کی پیدائش کے دن سے ایک زمینی شخص آسمانی ہو جاتا ہے۔ وہ جو ہر ایک وجود کا مالک ہے اس کے اندر بولتا ہے اور اپنی الوہیت کی چمکیں
دکھلاتا ہے اور اس کے دل کو کہ جو پاک محبت سے بھرا ہوا ہے اپنا تخت گاہ بناتا ہے اور جب ہی سے کہ یہ شخص ایک نورانی تبدیلی پاکر ایک نیا آدمی ہو جاتا ہے۔ وہ اس کے لئے ایک نیا خدا ہو جاتا
ہے اور نئی عادتیں اور سنتیں ظہور میں لاتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ نیا خدا ہے یا عادتیں نئی ہیں۔ مگر خدا کی عام عادتوں سے وہ الگ عادتیں ہوتی ہیں جو دنیا کا فلسفہ ان سے آشنا نہیں اور یہ شخص جیسا
کہ اللہ جلّ شانہٗ نے فرمایا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 385
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 385
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/385/mode/1up
یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں۔ وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا
کی مرضی کو مول لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے۔
خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا
ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام
وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے اور پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں۔ ایسے ذوق و شوق و حضور دل سے بجا لاتا ہے کہ
گویا وہ اپنی فرماں برداری کے آئینہ میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے اور ارادہ اس کا خدائے تعالیٰ کے ارادہ سے ہمرنگ ہو جاتا ہے اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے اور
تمام اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذذ اور احظاظ کی کشش سے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ وہ نقد بہشت ہے جو روحانی انسان کو ملتا ہے۔ اور وہ بہشت جو آئندہ ملے گا۔ وہ درحقیقت اسی کے
اظلال و آثار ہیں جس کو دوسرے عالم میں قدرت خداوندی جسمانی طور پر متمثل کر کے دکھلائے گی۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 386
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 386
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/386/mode/1up
یعنیؔ جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت و جلال کے مرتبہ سے ہراساں ہے اس کے لئے دو بہشت
ہیں۔ ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت۔ اور ایسے لوگ جو خدا میں محو ہیں خدا نے ان کو وہ شربت پلایا ہے جس نے ان کے دل اور خیالات اور ارادات کو پاک کر دیا۔ نیک بندے وہ شربت پی رہے ہیں جس
کی ملونی کافور ہے۔ وہ اس چشمہ سے پیتے ہیں جس کو وہ آپ ہی چیرتے ہیں۔
کافوری اور زنجبیلی شربت کی حقیقت
اور میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت
میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ لغت عرب میں کَفَرَ دبانے کو اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے ایسے خلوص سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا پیالہ پیا ہے کہ
دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ تمام جذبات دل کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اور جب دل نالائق خیالات سے بہت ہی دور چلا جائے اور کچھ تعلقات ان سے باقی نہ رہیں
تو وہ جذبات بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ نابود ہو جاتے ہیں۔ سو اس جگہ خدا تعالیٰ کی یہی غرض ہے اور وہ اس آیت میں یہی سمجھاتا ہے کہ جو اس کی طرف کامل طور سے جھک
گئے وہ نفسانی جذبات سے بہت ہی دور نکل گئے ہیں اور ایسے خدا کی طرف جھک گئے ہیں کہ دنیا کی سرگرمیوں سے ان کے دل ٹھنڈے ہوگئے اور ان کے جذبات ایسے دب گئے جیسا کہ کافور
زہریلے مادوں کو دبا دیتا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کافوری پیالہ کے بعد وہ پیالے پیتے ہیں جن کی ملونی زنجبیل ہے۔ اب جاننا چاہئے کہ زنجبیل دو لفظوں سے مرکب ہے یعنی زنا اور جبل
سے۔اور زنا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 387
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 387
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/387/mode/1up
لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبلپہاڑ کو۔ اس کے ترکیبی معنی یہ ہیں کہ پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اب جاننا چاہئے
کہ انسان پر ایک زہریلی بیماری کے فرو ہونے کے بعد اعلیٰ درجہ کی صحت تک دو حالتیں آتی ہیں۔ ایک وہ حالت جبکہ زہریلے مواد کا جوش بکلی جاتا رہتا ہے اور خطرناک مادوں کا جوش رُو بہ اصلاح
ہو جاتا ہے اور سمّی کیفیات کا حملہ بخیر و عافیت گذر جاتا ہے اور ایک مہلک طوفان جو اٹھا تھا نیچے دب جاتا ہے لیکن ہنوز اعضاء میں کمزوری باقی ہوتی ہے۔ کوئی طاقت کا کام نہیں ہو سکتا۔ ابھی ُ
مردہ کی طرح افتاں و خیزاں چلتا ہے۔ اور دوسری وہ حالت ہے کہ جب اصلی صحت عود کر آتی اور بدن میں طاقت بھر جاتی ہے اور قوت کے بحال ہونے سے یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بلاتکلف
پہاڑ کے اوپر چڑھ جائے اور نشاط خاطر سے اونچی گھاٹیوں پر دوڑتا چلا جائے۔ سو سلوک کے تیسرے مرتبہ میں یہ حالت میسر آتی ہے ایسی حالت کی نسبت اللہ تعالیٰ آیت موصوفہ میں اشارہ فرماتا
ہے۔ کہ انتہائی درجہ کے باخدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں۔ جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہے یعنی وہ روحانی حالت کی پوری قوت پا کر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام ان کے ہاتھ سے
انجام پذیر ہوتے ہیں اور خدا کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں۔
زنجبیلکی تاثیر
اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ علم طب کی رو سے زنجبیل وہ دوا ہے جس کو ہندی میں سونٹھ کہتے
ہیں۔ وہ حرارت غریزی کو بہت قوت دیتی ہے اور دستوں کو بند کرتی ہے اور اس کا زنجبیل اسی واسطے نام رکھاؔ گیا ہے کہ گویا وہ کمزور کو ایسا قوی کرتی ہے اور ایسی گرمی پہنچاتی ہے جس
سے وہ پہاڑوں پر چڑھ سکے۔ ان متقابل آیتوں کے پیش کرنے سے جن میں ایک جگہ کافور کا ذکر ہے اور ایک جگہ زنجبیل کا۔ خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ تا اپنے بندوں کو سمجھائے کہ جب انسان
جذبات نفسانی سے نیکی کی طرف حرکت کرتا ہے تو پہلے پہل اس حرکت کے بعد یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ اس کے زہریلے مواد نیچے دبائے جاتے ہیں۔ اور نفسانی جذبات رو بکمی ہونے لگتے ہیں
جیسا کہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 388
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 388
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/388/mode/1up
کافور زہریلے مواد کو دبا لیتا ہے اسی لئے وہ ہیضہ اور محرقہ تپوں میں مفید ہے اور پھر جب زہریلے مواد کا جوش بالکل
جاتا رہے اور ایک کمزور صحت جو ضعف کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے حاصل ہو جائے تو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف بیمار زنجبیلکے شربت سے قوت پاتا ہے۔ اور زنجبیلی شربت خدا تعالیٰ
کے حسن و جمال کی تجلی ہے جو روح کی غذا ہے۔ جب اس تجلّی سے انسان قوت پکڑتا ہے تو پھر بلند اور اونچی گھاٹیوں پر چڑھنے کے لائق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی حیرت ناک
سختی کے کام دکھلاتا ہے کہ جب تک یہ عاشقانہ گرمی کسی کے دل میں نہ ہو ہرگز ایسے کام دکھلا نہیں سکتا۔ سو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ان دو حالتوں کے سمجھانے کے لئے عربی زبان کے دو۲
لفظوں سے کام لیا ہے۔ ایک کافورسے جو نیچے دبانے والے کو کہتے ہیں اور دوسرے زنجبیلسے جو اوپر چڑھنے والے کو کہتے ہیں۔ اور اس راہ میں بھی دو حالتیں سالکوں کے لئے واقع ہیں۔
باقی
حصہ آیت کا یہ ہے۔۔۱؂ یعنی ہم نے منکروں کے لئے جو سچائی کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔ زنجیریں تیار کر دی ہیں اور طوق گردن اور ایک افروختہ آگ کی سوزش۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ
سچے دل سے خدا تعالیٰ کو نہیں ڈھونڈتے۔ ان پر خدا کی طرف سے رجعت پڑتی ہے وہ دنیا کی گرفتاریوں میں ایسے مبتلا رہتے ہیں کہ گویا پا بزنجیر ہیں۔ اور زمینی کاموں میں ایسے نگونسار ہوتے ہیں
کہ گویا ان کی گردن میں ایک طوق ہے جو ان کو آسمان کی طرف سر نہیں اٹھانے دیتا اور ان کے دلوں میں حرص و ہوا کی ایک سوزش لگی ہوئی ہوتی ہے کہ یہ مال حاصل ہو جائے اور یہ جائیداد مل
جائے۔ اور فلاں ملک ہمارے قبضہ میں آجائے اور فلاں دشمن پر ہم فتح پاجائیں۔ اس قدر روپیہ ہو۔ اتنی دولت ہو۔ سو چونکہ خدائے تعالیٰ ان کو نالائق دیکھتا ہے۔ اور برے کاموں میں مشغول پاتا ہے اس
لئے یہ تینوں بلائیں ان کو لگا دیتا ہے۔ اور اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب انسان سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے تو اسی کے مطابق خدا بھی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 389
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 389
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/389/mode/1up
اپنی طرف سے ایک فعل صادر کرتا ہے مثلاً انسان جس وقت اپنی کوٹھڑی کے تمام دروازوں کو بند کر دے تو انسان کے اس
فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہوگا کہ وہ اس کوٹھڑی میں اندھیرا پیدا کر دے گا۔ کیونکہ جو امور خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں ہمارے کاموں کیلئے بطور ایک نتیجہ لازمی کے مقدر ہو چکے ہیں وہ
سب خدا تعالیٰ کے فعل ہیں۔ وجہ یہ کہ وہی علّتُ العلل ہے۔ ایسا ہی اگر مثلاً کوئی شخص زہر قاتل کھالے تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل صادر ہوگا کہ اسے ہلاک کر دے گا۔ ایسا ہی اگر
کوئی ایسا بیجا فعل کرے جو کسی متعدّ ی بیماری کا موجب ہو۔ تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہوگا کہ وہ متعدّ ی بیماری اس کو پکڑ لے گی۔ پس جس طرح ہماری دنیویؔ زندگی میں
صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا
ہے۔
یعنی جو لوگ اس فعل کو بجا لائے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کیلئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہوگا کہ ہم انکو اپنی راہ دکھاویں گے اور جن لوگوں
نے کجی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا فعل اسکی نسبت یہ ہوگا کہ ہم ان کے دلوں کو کج کر دیں گے اور پھر اس حالت کو زیادہ توضیح دینے کیلئے فرمایا۔
یعنی جو شخص اس
جہان میں اندھا رہا وہ آنے والے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ بلکہ اندھوں سے بدتر۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیک بندوں کو خدا کا دیدار اسی جہان میں ہو جاتا ہے۔ اور وہ اسی جگ میں اپنے
اس پیارے کا درشن پا لیتے ہیں جس کے لئے وہ سب
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 390
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 390
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/390/mode/1up
کھوتے ہیں۔ غرض مفہوم اس آیت کا یہی ہے کہ بہشتی زندگی کی بنیاد اسی جہان سے پڑتی ہے اور جہنمی نابینائی کی جڑھ
بھی اسی جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے اور پھر فرمایا۔
یعنی جو لوگ ایمان لاتے اور اچھے عمل بجا لاتے ہیں وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس آیت میں خدا
تعالیٰ نے ایمان کو باغ کے ساتھ مشابہت دی۔ جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
پس واضح رہے کہ اس جگہ ایک اعلیٰ درجہ کی فلاسفی کے رنگ میں بتلایا گیا ہے کہ جو رشتہ نہروں کا باغ کے ساتھ
ہے وہی رشتہ اعمال کا ایمان کے ساتھ ہے۔ پس جیسا کہ کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا ایسا ہی کوئی ایمان بغیر نیک کاموں کے زندہ ایمان نہیں کہلا سکتا اگر ایمان ہو اور اعمال نہ ہوں تو
وہ ایمان ہیچ ہے اور اگر اعمال ہوں اور ایمان نہ ہو تو وہ اعمال ریاکاری ہیں۔ اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظلّ ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکر
انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اسی کا ایمان اور اسی کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہے اور پوشیدہ طور
پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں۔ اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے۔ خدا کی پاک تعلیم ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ سچا اور پاک اور
مستحکم اور کامل ایمان جو خدا اور اس کی ذات اور ۲؂ اس کی صفات اور اس کے ارادوں کے متعلق ہو وہ بہشت خوش نما اور باروَر درخت ہے اور اعمال صالحہ اس بہشت کی نہریں ہیں۔ جیسا کہ
وہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 391
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 391
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/391/mode/1up
یعنی وہ ایمانی کلمہ جو ہرؔ ایک افراط تفریط اور نقص اور خلل اور کذب اور ہزل سے پاک اور من کل الوجوہ کامل ہو۔ اس
درخت کے ساتھ مشابہ ہے جو ہر ایک عیب سے پاک ہو۔ جس کی جڑھ زمین میں قائم اور شاخیں آسمان میں ہوں اور اپنے پھل کو ہمیشہ دیتا ہو۔ اور کوئی وقت اس پر نہیں آتا کہ اس کی شاخوں میں پھل نہ
ہوں۔ اس بیان میں خدائے تعالیٰ نے ایمانی کلمہ کو ہمیشہ پھل دار درخت سے مشابہت دے کر تین علامتیں اس کی بیان فرمائیں۔
(۱) اول یہ کہ جڑھ اس کی جو اصل مفہوم سے مراد ہے انسان کے
دل کی زمین میں ثابت ہو یعنی انسانی فطرت اور انسانی کانشنس نے اس کی حقانیت اور اصلیت کو قبول کرلیا ہو۔
(۲) دوسری علامت یہ کہ اس کلمہ کی شاخیں آسمان میں ہوں یعنی معقولیت اپنے
ساتھ رکھتا ہو اور آسمانی قانون قدرت جو خدا کا فعل ہے اس فعل کے مطابق ہو۔ مطلب یہ کہ اس کی صحت اور اصلیت کے دلائل قانون قدرت سے مستنبط ہو سکتے ہوں اور نیز یہ کہ وہ دلائل ایسے
اعلیٰ ہوں کہ گویا آسمان میں ہیں جن تک اعتراض کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔
(۳) تیسری علامت یہ ہے کہ وہ پھل جو کھانے کے لائق ہے دائمی اور غیر منقطع ہو۔ یعنی عملی مزاولت کے بعد اس کی
برکات و تاثیرات ہمیشہ اور ہر زمانہ میں مشہود اور محسوس ہوتی ہوں۔ یہ نہیں کہ کسی خاص زمانہ تک ظاہر ہو کر پھر آگے بند ہو جائیں۔
اور پھر فرمایا۔
یعنی پلید کلمہ اس درخت کے ساتھ
مشابہ ہے جو زمین میں سے اکھڑا ہوا ہو یعنی فطرت انسانی اس کو قبول نہیں کرتی اور کسی طور سے وہ قرار نہیں پکڑتا۔ نہ دلائل عقلیہ کی رو سے نہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 392
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 392
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/392/mode/1up
قانون قدرت کی رو سے اور نہ کانشنس کی رو سے۱؂۔ صرف قصہ اور کہانی کے رنگ میں ہوتا ہے اور جیسا کہ قرآن شریف
نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو انگور اور انار اور عمدہ عمدہ میووں سے مشابہت دی ہے اور بیان فرمایا ہے کہ اس روز وہ ان میووں کی صورت میں متمثل ہوں گے اور دکھائی دیں گے۔
ایسا ہی بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں زقوم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے:
یعنی تم بتلاؤ کہ بہشت کے باغ اچھے ہیں یا زقوم کا درخت۔ جو ظالموں کے لئے ایک بلا ہے۔ وہ ایک
درخت ہے جو جہنم کی جڑھ میں سے نکلتا ہے یعنی تکبر اور خودبینی سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی دوزخ کی جڑھ ہے اس کا شگوفہ ایسا ہے جیسا کہ شیطان کا سر۔ شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا۔ یہ
لفظ شیطسے نکلا ہے۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ اس کا کھانا ہلاک ہونا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ زقوم کا درخت ان دوزخیوں کا کھانا ہے جو عمداً گناہ کو اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ کھانا ایسا ہے جیسا کہ تانبا
گلا ہوا کھولتے ہوئے پانی کی طرؔ ح پیٹ میں جوش مارنے والا۔ پھر دوزخی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اس درخت کو چکھ ، ُ تو عزّ ت والا اور بزرگ ہے۔ یہ کلام نہایت غضب کا ہے۔ اس کا
ماحصل یہ ہے کہ اگر تو تکبر نہ کرتا اور اپنی بزرگی اور عزّ ت کا پاس کر کے حق سے منہ نہ پھیرتا تو آج یہ تلخیاں تجھے اٹھانی نہ پڑتیں۔ یہ آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ دراصل
یہ لفظ زقوم کا ذق اور ام سے مرکب ہے اور ام ۔3 ۔ کا ملخص ہے۔ جس میں ایک حرف پہلے کا اور ایک حرف آخر کا موجود ہے اور کثرت استعمال نے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 393
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/393/mode/1up
ذالؔ ‘ زاکے ساتھ بدل دیا ہے۔ اب حاصل کلام یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا کے ایمانی کلمات کو بہشت کے
ساتھ مشابہت دی ہے۔ ایسا ہی اسی دنیا کے بے ایمانی کے کلمات کو زقوم کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو دوزخ کا درخت ٹھہرایا اور ظاہر فرما دیا کہ بہشت اور دوزخ کی جڑھ اسی دنیا سے شروع
ہوتی ہے۔ جیسا کہ دوزخ کے باب میں ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
یعنی دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اس کا منبع ہے اور گناہ سے بھڑکتی ہے۔ اور پہلے دل پر غالب ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ اس آگ کی اصل جڑھ وہ غم اور حسرتیں اور درد ہیں جو دل کو پکڑتے ہیں۔ کیونکہ تمام روحانی عذاب پہلے دل سے ہی شروع ہوتے ہیں اور پھر تمام بدن پر محیط ہو جاتے ہیں اور پھر ایک
جگہ فرمایا۔
یعنی جہنم کی آگ کا ایندھن جس سے وہ آگ ہمیشہ افروختہ رہتی ہے۔ دو چیزیں ہیں ایک وہ انسان جو حقیقی خدا کو چھوڑ کر اَور اَور چیزوں کی پرستش کرتے ہیں یا ان کی مرضی سے ان
کی پرستش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔
یعنی تم اور تمہارے باطل معبود جو انسان ہو کر خدا کہلاتے رہے جہنم میں ڈالے جائیں گے (۲) دوسرا ایندھن جہنم کا بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان
چیزوں کا وجود نہ ہوتا تو جہنم بھی نہ ہوتا۔سو ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں بہشت اور دوزخ اس جسمانی دنیا کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا مبداء اور منبع روحانی
امور ہیں۔ ہاں وہ چیزیں دوسرے عالم میں جسمانی شکل پر نظر آئیں گی۔ مگر اس جسمانی عالم سے نہیں ہوں گی۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 394
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/394/mode/1up
اللہ تعالیٰ سے کامل روحانی تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ
اب ہم پھر اصل مطلب کی طرف عود کر کے کہتے ہیں کہ خدا کے
ساتھ روحانی اور کامل تعلق پیدا ہونے کا ذریعہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے اسلام اور دعائے فاتحہ ہے۔ یعنی اول اپنی تمام زندگی خدا کی راہ میں وقف کر دینا اور پھر اس دعا میں لگے رہنا جو
سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے۔ تمام اسلام کا مغز یہ دونوں چیزیں ہیں۔ اسلام اور دعائے فاتحہ دنیا میں خدا تک پہنچنے اور حقیقی نجات کا پانی پینے کے لئے یہی ایک اعلیٰ ذریعہ ہے
بلکہ یہی ایک ذریعہ ہے جو قانون قدرت نے انسان کی اعلیٰ ترقی اور وصال الٰہی کے لئے مقرر کیا ہے اور وہی خدا کو پاتے ہیں کہ جو اسلام کے مفہوم کی روحانی آگ میں داخل ہوں اور دعائے فاتحہ
میں لگے رہیں۔ اسلام کیا چیزہے۔ وہی جلتی ہوئی آگ جو ہماری سفلیؔ زندگی کو بھسم کر کے اور ہمارے باطل معبودوں کو جلا کر سچے اور پاک معبود کے آگے ہماری جان اور ہمارے مال اور ہماری
آبرو کی قربانی پیش کرتی ہے۔ ایسے چشمہ میں داخل ہوکر ہم ایک نئی زندگی کا پانی پیتے ہیں اور ہماری تمام روحانی قوتیں خدا سے یوں پیوند پکڑتی ہیں جیسا کہ ایک رشتہ دوسرے رشتہ سے پیوند کیا
جاتا ہے۔ بجلی کی آگ کی طرح ایک آگ ہمارے اندر سے نکلتی ہے اور ایک آگ اوپر سے ہم پر اترتی ہے ان دونوں شعلوں کے ملنے سے ہماری تمام ہوا و ہوس اور غیر اللہ کی محبت بھسم ہو جاتی ہے۔
اور ہم اپنی پہلی زندگی سے مر جاتے ہیں ۔اس حالت کا نام قرآن شریف کی رو سے اسلام ہے۔ اسلام سے ہمارے نفسانی جذبات کو موت آتی ہے۔ اور پھر دعا سے ہم اَزسرِ نو زندہ ہوتے ہیں۔ اس دوسری
زندگی کے لئے الہام الٰہی ہونا ضروری ہے۔ اسی مرتبہ پر پہنچنے کا نام لقاء الٰہی ہے یعنی خدا کا دیدار اور خدا کا درشن ۔ اس درجہ پر پہنچ کر انسان کو خدا سے وہ اتصال ہوتا ہے کہ گویا وہ اس کو
آنکھ سے دیکھتا ہے۔ اور اس کو قوت دی جاتی ہے اور اس کے تمام حواس اور تمام اندرونی قوتیں روشن کی جاتی ہیں اور پاک زندگی کی کشش بڑے زور سے شروع ہو جاتی ہے۔ اسی درجہ پر آکر خدا
انسان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 395
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/395/mode/1up
اور زبان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ بولتا ہے۔ اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ حملہ کرتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جس
کے ساتھ وہ سنتا ہے اور پیر ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
یہ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اور ایسا ہی فرماتا
ہے۔
یعنی جو تو نے چلایا تو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا۔ غرض اس درجہ پر خدا تعالیٰ کے ساتھ کمال اتحاد ہو جاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی پاک مرضی روح کے رگ و ریشہ میں سرایت کر جاتی ہے۔
اور اخلاقی طاقتیں جو کمزور تھیں اس درجہ میں محکم پہاڑوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ عقل اور فراست نہایت لطافت پر آ جاتی ہے۔ یہ معنے اس آیت کے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اس مرتبہ میں
محبت اور عشق کی نہریں ایسے طور سے جوش مارتی ہیں جو خدا کیلئے مرنا اور خدا کے لئے ہزاروں دکھ اٹھانا اور بے آبرو ہونا ایسا آسان ہو جاتا ہے کہ گویا ایک ہلکا سا تنکا توڑنا ہے۔ خدا تعالیٰ کی
طرف کھینچا چلا جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ کون کھینچ رہا ہے۔ ایک غیبی ہاتھ اس کو اٹھائے پھرتا ہے اور خدا کی مرضیوں کو پورا کرنا اس کی زندگی کا اصل الاصول ٹھہر جاتا ہے۔ اس مرتبہ میں خدا
بہت ہی قریب دکھائی دیتا ہے جیسا کہ اُس نے فرمایاہے ۔
یعنی ہم اس سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔ ایسی حالت میں اس مرتبہ کا آدمی ایسا ہوتا ہے کہ جس طرح پھل پختہ ہوکر
خودبخود درخت پر سے گر جاتا ہے۔ اسی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 396
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/396/mode/1up
طرح اس مرتبہ کے آدمی کے تمام تعلقات سفلی کالعدم ہو جاتے ہیں۔ اس کا اپنے خدا سے ایسا گہرا تعلقؔ ہو جاتا ہے اور
وہ مخلوق سے دور چلا جاتا اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات سے شرف پاتا ہے۔ اس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے اب بھی دروازے کھلے ہیں جیسے کہ پہلے کھلے ہوئے تھے اور اب بھی خدا
کا فضل یہ نعمت ڈھونڈنے والوں کو دیتا ہے جیسا کہ پہلے دیتا تھا۔ مگر یہ راہ محض زبان کی فضولیوں کے ساتھ حاصل نہیں ہوتی اور فقط بے حقیقت باتوں اور لافوں سے یہ دروازہ نہیں کھلتا۔ چاہنے
والے بہت ہیں مگر پانے والے کم۔ اس کا کیا سبب ہے۔ یہی کہ یہ مرتبہ سچی سرگرمی، سچی جانفشانی پر موقوف ہے۔ باتیں قیامت تک کیا کرو۔ کیا ہو سکتا ہے۔ صدق سے اس آگ پر قدم رکھنا جس کے
خوف سے اور لوگ بھاگتے ہیں۔ اس راہ کی پہلی شرط ہے۔ اگر عملی سرگرمی نہیں تو لاف زنی ہیچ ہے۔ اس بارے میں اللہ جلّ شانُہٗ فرماتا ہے۔۱؂
یعنی اگر میرے بندے میری نسبت سوال کریں
کہ وہ کہاں ہے؟ تو انکو کہہ کہ وہ تم سے بہت ہی قریب ہے۔ میں دعا کرنیوالے کی دعا سنتا ہوں۔ پس چاہئے کہ و ہ دعاؤں سے میرا وصل ڈھونڈیں اور مجھ پر ایمان لاویں تا کامیاب ہوں۔
دوسرا
سوال
موت کے بعد انسان کی کیا حالت ہوتی ہے؟
سواس سوال کے جواب میں یہ گذارش ہے کہ موت کے بعد جو کچھ انسان کی حالت ہوتی ہے درحقیقت وہ کوئی نئی حالت نہیں ہوتی بلکہ وہی
دنیا کی زندگی کی حالتیں زیادہ صفائی سے کھل جاتی ہیں۔ جو کچھ انسان کے عقائد اور اعمال کی کیفیت صالحہ یاغیر صالحہ ہوتی ہے۔ وہ اس
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 397
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/397/mode/1up
جہان میں مخفی طور پر اس کے اندر ہوتی ہے اور اس کا تریاق یا زہر ایک چھپی ہوئی تاثیر انسانی وجود پر ڈالتا ہے۔ مگر آنے
والے جہان میں ایسا نہیں رہے گا بلکہ وہ تمام کیفیات کھلا کھلا اپنا چہرہ دکھلائیں گی۔ اس کا نمونہ عالم خواب میں پایا جاتا ہے کہ انسان کے بدن پر جس قسم کے مواد غالب ہوتے ہیں عالم خواب میں
اسی قسم کی جسمانی حالتیں نظر آتی ہیں۔ جب کوئی تیز تپ چڑھنے کو ہوتا ہے تو خواب میں اکثر آگ اور آگ کے شعلے نظر آتے ہیں اور بلغمی تپوں اور ریزش اور زکام کے غلبہ میں انسان اپنے تئیں
پانی میں دیکھتا ہے۔ غرض جس طرح کی بیماریوں کیلئے بدن نے تیاری کی ہو وہ کیفیتیں تمثل کے طور پر خواب میں نظر آ جاتی ہیں۔ پس خواب کے سلسلہ پر غور کرنے سے ہر ایک انسان سمجھ سکتا
ہے کہ عالم ثانی میں بھی یہی سنت اللہ ہے۔ کیونکہ جس طرح خواب ہم میں ایک خاص تبدیلی پیدا کر کے روحانیات کو جسمانی طور پر تبدیل کر کے دکھلاتا ہے۔ اس عالم میں بھی یہی ہوگا۔ اور اس دن
ہمارے اعمال اور اعمال کے نتائج جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے۔ اور جو کچھ ہم اس عالم سے مخفی طور پر ساتھ لے جائیں گے وہ سب اس دن ہمارے چہرہ پر نمودار نظر آئے گا۔ اور جیسا کہ انسان
جو کچھ خواب میں طرح طرح کے تمثلات دیکھتا ؔ ہے اور کبھی گمان نہیں کرتا کہ یہ تمثلات ہیں بلکہ انہیں واقعی چیزیں یقین کرتا ہے ایسا ہی اُس عالم میں ہو گا بلکہ خدا تمثلات کے ذریعہ سے
اپنی نئی قدرت دکھائے گا۔ چونکہ وہ قدرت کامل ہے۔ پس اگر ہم تمثلات کا نام بھی نہ لیں اور یہ کہیں کہ وہ خدا کی قدرت سے ایک نئی پیدائش ہے تو یہ تقریر بہت درست اور واقعی اور صحیح ہے۔ خدا
فرماتا ہے۔
یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کے لئے مخفی ہیں۔ سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں۔ یہ تو
ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 398
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/398/mode/1up
اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے۔
پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا۔ اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا۔
اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ
و سلم فرماتے ہیں کہ بہشت اور اسکی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں۔ حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی
دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گزرتی ہیں۔ پس جبکہ خدا اور رسول اس کا ان چیزوں کو ایک نرالی چیزیں بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دور جا پڑتے ہیں۔ اگر یہ گمان
کریں کہ بہشت میں بھی دنیا کا ہی دودھ ہوگا جو گائیوں اور بھینسوں سے دوہا جاتا ہے۔ گویا دودھ دینے والے جانوروں کے وہاں ریوڑ کے ریوڑ موجود ہوں گے۔ اور درختوں پر شہد کی مکھیوں نے بہت
سے چھتے لگائے ہوئے ہونگے اور فرشتے تلاش کرکے وہ شہد نکالیں گے اور نہروں میں ڈالیں گے کیا ایسے خیالات اس تعلیم سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں جس میں یہ آیتیں موجود ہیں کہ دنیا نے ان
چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا اور وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت بڑھاتی ہیں اور روحانی غذائیں ہیں۔ گو ان غذاؤں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر ساتھ ساتھ بتایا
گیا ہے کہ انکا سرچشمہ روح اور راستی ہے۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے یہ پایا جاتا ہے کہ جو جو نعمتیں بہشت میں دی جائیں گی ان نعمتوں کو دیکھ کر بہشتی لوگ
انکو شناخت کرلیں گے کہ یہی نعمتیں ہمیں پہلے بھی ملی تھیں۔ جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 399
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/399/mode/1up
یعنی جو لوگ ایمان لانے والے اور اچھے کام کرنے والے ہیں جن میں ذرہ فساد نہیں۔ ان کو خوش خبری دے کہ وہ اس بہشت
کے وارث ہیں جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ جب وہ عالم آخرت میں ان درختوں کے ان پھلوں میں سے جو دنیا کی زندگی میں ہی ان کو مل چکے تھے پائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو وہ پھل ہیں جو
ہمیں پہلے ہی دئیے گئے تھے۔ کیونکہ وہ ان پھلوں کو ان پہلے پھلوں سے مشابہ پائیں گے۔ اب یہ گمان کہ پہلے پھلوں سے مراد دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں بالکل غلطی ہے اور آیت کے بدیہی معنے
اور اس کے منطوق کے بالکل برخلاف ہے۔ بلکہ اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا ہے جس کے درخت
ایمان اور جس کی نہریں اعمال صالحہ ہیں۔ اسی بہشت کا وہ آئندہ بھی پھل کھائیں گے اور وہ پھل زیادہ نمایاں اور شیریں ہوگا۔ اور چونکہ وہ روحانی طور پر اسی پھل کو دنیا میں کھا چکے ہوں گے اس
لئے دوسری دنیا میں اس پھل کو پہچان لیں گے اور کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں کہ جو پہلے ہمارے کھانے میں آ چکے ہیں اور اس پھل کو اس پہلی خوراک سے مشابہ پائیں گے۔ سو یہ
آیت صریح بتا رہی ہے کہ جو لوگ دنیا میں خدا کی محبت اور پیار کی غذا کھاتے تھے۔ اب جسمانی شکل پر وہی غذا ان کو ملے گی اور چونکہ وہ پریت اور محبت کا مزہ چکھ چکے تھے اور اس کیفیت
سے آگاہ تھے۔ اس لئے ان کی روح کو وہ زمانہ یاد آ جائے گا کہ جب وہ گوشوں اور خلوتوں میں اور رات کے اندھیروں میں محبت کے ساتھ اپنے محبوب حقیقی کو یاد کرتے اور اس یاد سے لذت
اٹھاتے تھے۔
غرض اس جگہ جسمانی غذاؤں کا کچھ ذکر نہیں۔ اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ جبکہ روحانی طور پر عارفوں کو یہ غذا دنیا میں مل چکی تھی تو پھر یہ کہنا کیونکر
صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی نعمتیں ہیں کہ نہ دنیا میں کسی نے دیکھیں نہ سنیں اور نہ کسی کے دل میں گذریں۔ اور اس صورت میں ان دونوں آیتوں میں تناقض پایا جاتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ
تناقض اس صورت میں ہوتا کہ جب اس آیت میں دنیا کی نعمتیں مراد ہوتیں لیکن جب اس جگہ دنیا کی نعمتیں مراد نہیں ہیں۔ جو کچھ عارف کو معرفت کے رنگ میں ملتا ہے وہ درحقیقت دوسرے جہان کی
نعمت ہوتی ہے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 400
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 400
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/400/mode/1up
جس کا نمونہ شوق دلانے کے لئے پہلے ہی دیا جاتا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ با خدا آدمی دنیا میں سے نہیں ہوتا۔ اسی لئے
تو دنیا اس سے بغض رکھتی ہے بلکہ وہ آسمان سے ہوتا ہے اس لئے آسمانی نعمت اس کو ملتی ہے۔ دنیا کا آدمی دنیا کی نعمتیں پاتا ہے اور آسمان کا آسمانی نعمتیں حاصل کرتا ہے۔ سو یہ بالکل سچ ہے
کہ وہ نعمتیں دنیا کے کانوں اور دنیا کے دلوں اور دنیا کی آنکھوں سے چھپائی گئیں۔ لیکن جس کی دنیوی زندگی پر موت آجائے اور وہ پیالہ روحانی طورؔ پر اس کو پلایا جائے جو آگے جسمانی طور پر
پیا جائے گا اس کو یہ پینا اس وقت یاد آجائے گا جبکہ وہی پیالہ جسمانی طور پر اس کو دیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ اس نعمت سے دنیا کی آنکھ اور کان وغیرہ کو بے خبر سمجھے گا۔ چونکہ
وہ دنیا میں تھا اگرچہ دنیا میں سے نہیں تھا۔ اس لئے وہ بھی گواہی دے گا کہ دنیا کی نعمتوں سے وہ نعمت نہیں۔ نہ دنیا میں اس کی آنکھ نے ایسی نعمت دیکھی نہ کان نے سنی اور نہ دل میں گذری۔ لیکن
دوسری زندگی میں اس کے نمونے دیکھے جو دنیا میں سے نہیں تھے بلکہ وہ آنے والے جہاں کی ایک خبر تھی اور اُسی سے اُس کا رشتہ اور تعلق تھا۔ دنیا سے کچھ تعلق نہیں تھا۔
عالم معاد کے
متعلق تین۳ قرآنی معارف
اب قاعدہ کلی کے طور پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ موت کے بعد جو حالتیں پیش آتی ہیں۔ قرآن شریف نے انہیں تین قسم پر منقسم کیا ہے اور عالم معاد کے متعلق یہ
تین قرآنی معارف ہیں۔ جن کو ہم جدا جدا اس جگہ ذکر کرتے ہیں۔
پہلا دقیقہ معرفت
اوّل۔ یہ دقیقہ معرفت ہے کہ قرآن شریف باربار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ
اسکے تمام نظارے اسی دنیوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 401
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 401
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/401/mode/1up
یعنی ہم نے اسی دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہیں پوشیدہ اثروں کو ہم قیامت
کے دن ظاہر کردیں گے۔ اور ایک کھلے کھلے اعمال نامہ کی شکل پر دکھادیں گے۔ اس آیت میں جو طائرکا لفظ ہے تو واضح ہو کہ طائر اصل میں پرندہ کو کہتے ہیں پھر استعارہ کے طور پر اس سے
مراد عمل بھی لیا گیا ہے کیونکہ ہر ایک عمل نیک ہو یا بد ہو وہ وقوع کے بعد پرندہ کی طرح پرواز کر جاتا ہے اور مشقت یا لذت اس کی کالعدم ہو جاتی ہے اور دل پر اس کی کثافت یا لطافت باقی رہ جاتی
ہے۔
یہ قرآنی اصول ہے کہ ہر ایک عمل پوشیدہ طور پر اپنے نقوش جماتا رہتا ہے جس طور کا انسان کا فعل ہوتا ہے اس کے مناسب حال ایک خدا تعالیٰ کا فعل صادر ہوتا ہے اور وہ فعل اس گناہ کو یا
اس کی نیکی کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کے نقوش دل پر، منہ پر، آنکھوں پر کانوں پر، ہاتھوں پر، پیروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہی پوشیدہ طور پر ایک اعمالنامہ ہے جو دوسری زندگی میں کھلے
طور پر ظاہر ہو جائے گا۔
اور پھر ایک دوسری جگہ بہشتیوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
یعنی اس دن بھی ایمانی نور جو پوشیدہ طور پر مومنوں کو حاصل ہے۔ کھلے کھلے طور پر ان کے آگے اور
ان کے داہنے ہاتھ پر دوڑتا نظر آئے گا۔ پھر ایک اور جگہ بدکاروں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 402
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 402
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/402/mode/1up
یعنی دنیا کی کثرت حرص و ہوا نے تمہیں آخرت کی تلاش سے روک رکھا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا ؔ پڑے۔ دنیا سے دل مت
لگاؤ۔ تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا سے دل لگانا اچھا نہیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ عنقریب تم جان لو گے کہ دنیا سے دل لگانا اچھا نہیں۔ اگر تمہیں یقینی علم حاصل ہو تو تم دوزخ کو اسی دنیا میں دیکھ لو
گے۔ پھر برزخ کے عالم میں یقین کی آنکھوں کے ساتھ دیکھو گے۔ پھر عالم حشر اجساد میں پورے مواخذہ میں آجاؤ گے اور وہ عذاب تم پر کامل طور پر وارد ہو جائے گا۔ اور صرف قال سے نہیں بلکہ
حال سے تمہیں دوزخ کا علم حاصل ہو جائے گا۔
علم کی تین قسمیں
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ اسی جہان میں بدکاروں کے لئے جہنمی زندگی پوشیدہ طور پر ہوتی ہے۔ اور
اگر غور کریں تو اپنی دوزخ کو اسی دنیا میں دیکھ لیں گے اور اس جگہ اللہ تعالیٰ نے علم کو تین درجوں پر منقسم کیا ہے یعنی علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ اور عام کے سمجھنے کے لئے ان تینوں
علموں کی یہ مثالیں ہیں کہ اگر مثلاً ایک شخص دور سے کسی جگہ بہت سا دُھواں دیکھے اور دھویں سے ذہن منتقل ہو کر آگ کی طرف چلا جائے اور آگ کے وجود کا یقین کرے اور اس خیال سے کہ
دھوئیں اور آگ میں ایک تعلق لاینفک اور ملازمت تامّہ ہے۔ جہاں دھواں ہوگا ضرور ہے کہ آگ بھی ہو۔ پس اس علم کا نام علم الیقین ہے اور پھر جب آگ کے شعلے دیکھ لے تو اس علم کا نام عین الیقین ہے
اور جب اس آگ میں آپ ہی داخل ہو جائے تو اس علم کا نام حق الیقین ہے۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کے وجود کا علم الیقین تو اسی دنیا میں ہو سکتا ہے۔ پھر عالم برزخمیں عین الیقین حاصل ہوگا۔
اور عالم حشر اجساد میں وہی علم حق الیقین کے کامل مرتبہ تک پہنچے گا۔
تین عالم
اس جگہ واضح رہے کہ قرآنی تعلیم کی رو سے تین عالم ثابت ہوتے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 403
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 403
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/403/mode/1up
اول یہ کہ دنیا جس کا نام عالم کسب اور نشاء اولٰی ہے۔ اسی دنیا میں انسان اکتساب نیکی کا یا بدی کا کرتا ہے اور اگرچہ عالم
بعث میں نیکوں کے واسطے ترقیات ہیں مگر وہ بعض خدا کے فضل سے ہیں۔ انسان کے کسب کو ان میں دخل نہیں۔
(۲) اوردوسرے عالم کا نام برزخ ہے۔ اصل میں لفظ برزخ لغت عرب میں اس
چیز کو کہتے ہیں کہ جو دوچیزوں کے درمیان واقع ہو۔ سو چونکہ یہ زمانہ عالم بعث اور عالم نشاء اولیٰ میں واقع ہے۔ اس لئے اس کا نام برزخ ہے۔ لیکن یہ لفظ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا کی بناء
پڑی عالم درمیانی پر بولا گیا ہے۔ اس لئے اس لفظ میں عالم درمیانی کے وجود پر ایک عظیم الشان شہادت مخفی ہے۔ ہم اپنی کتاب۱؂ منن الرحمٰنمیں ثابت کر چکے ہیں کہ عربی کے الفاظ وہ الفاظ ہیں جو
خدا کے منہ سے نکلے ہیں اور دنیا میں فقط یہی ایک زبان ہے جو خدائے قدوس کی زبان اور قدیم اور تمام علوم کا سرچشمہ اور تمام زبانوں کی ماں اور خدا کی وحی کا پہلا اور پچھلا تخت گاہ ہے۔ خدا
کی وحی کا پہلا تخت گاہ اس لئے کہ تمام عربی خدا کا کلام تھا جو قدیم سے خدا کے ساتھ تھا۔ پھر وہی کلام دنیا میں اترا اور دنیا نے اس سے اپنی بولیاں بنائیں۔ اور آخری تخت گاہ خدا کا اس لئے لغت
عربی ٹھہری کہ آخری کتاب خدا تعالیٰ کی جو قرآن شریف ہے۔ عربی میں نازل ہوئی۔ سوبرؔ زخ عربی لفظ ہے جو مرکب ہے زَخَّ او ر بَرّ سے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ طریق کسب اعمال ختم ہوگیا
اور ایک مخفی حالت میں پڑ گیا۔ برزخ کی حالت وہ حالت ہے کہ جب یہ ناپائیدار ترکیب انسانی تفرق پذیر ہو جاتی ہے اور روح الگ اور جسم الگ ہو جاتا ہے۔ اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ جسم کسی
گڑھے میں ڈال دیا جاتاہے اور روح بھی ایک قسم کے گڑھے میں پڑ جاتی ہے۔ جس پر لفظ زخّ کا دلالت کرتا ہے کیونکہ وہ افعال کسب خیر یا شر پر قادر نہیں ہو سکتی کہ جو جسم کے تعلقات سے اس
سے صادر ہو سکتے تھے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہماری روح کی عمدہ صحت جسم پر موقوف ہے۔ دماغ کے ایک خاص حصہ پر چوٹ لگنے سے حافظہ جاتا رہتا ہے اور دوسرے حصہ پر آفت پہنچنے سے
قوت متفکرہ رخصت ہوتی ہے اور تمام ہوش و حواس رخصت
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 404
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 404
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/404/mode/1up
ہوجاتے ہیں اور دماغ میں جب کسی قسم کا تشنج ہو جائے یا ورم پیدا ہو۔ یا خون یا کوئی اور مادہ ٹھہر جائے اور کسی سدّہ تام
یا غیر تام کو پیدا کرے تو غشی یا مرگی یا سکتہ معاً لاحق حال ہو جاتا ہے۔ پس ہمارا قدیم کا تجربہ ہمیں یقینی طور پر سکھلاتا ہے کہ ہماری روح بغیر تعلق جسم کے بالکل نکمی ہے۔ سو یہ بات بالکل
باطل ہے کہ ہم ایسا خیال کریں کہ کسی وقت میں ہماری مجرد روح جس کے ساتھ جسم نہیں ہے کسی خوشحالی کو پا سکتی ہے۔ اگر ہم قصہ کے طور پر اس کو قبول کریں تو کریں لیکن معقولی طور پر
اس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ ہم بالکل سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ہماری روح جو جسم کے ادنیٰ ادنیٰ خلل کے وقت بیکار ہو کر بیٹھ جاتی ہے وہ اس روز کیونکر کامل حالت پر رہے گی جبکہ بالکل جسم
کے تعلقات سے محروم کی جائے گی۔ کیا ہر روز ہمیں تجربہ نہیں سمجھاتا کہ روح کی صحت کے لئے جسم کی صحت ضروری ہے۔ جب ایک شخص ہم میں سے پیرفرتوت ہو جاتا ہے تو ساتھ ہی اس
کی روح بھی بوڑھی ہو جاتی ہے۔ اس کا تمام علمی سرمایہ بڑھاپے کا چور چرا کر لے جاتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔
یعنی انسان بڈھا ہوکر ایسی حالت تک پہنچ جاتا ہے کہ پڑھ پڑھا کر
پھرجاہل بن جاتا ہے۔ پس ہمارا یہ مشاہدہ اس بات پر کافی دلیل ہے کہ روح بغیر جسم کے کچھ چیز نہیں۔ پھر یہ خیال بھی انسان کو حقیقی سچائی کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اگر روح بغیر جسم کے
کچھ چیز ہوتی تو خدائے تعالیٰ کا یہ کام لغو ٹھہرتا کہ اس کو خواہ نخواہ جسم فانی سے پیوند دے دیتا۔ اور پھر یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو غیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا
کیا ہے۔ پس جس حالت میں انسان اس مختصر زندگی کی ترقیات کو بغیر رفاقت جسم کے حاصل نہیں کر سکا تو کیونکر امید رکھیں کہ ان نامتناہی ترقیات کو جو ناپیدا کنار ہیں بغیر رفاقت جسم کے
خودبخود حاصل کرلے گا۔
سو ان تمام دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ روح کے افعال کاملہ صادرہونے کیلئے اسلامی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 405
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 405
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/405/mode/1up
اصول کے رو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے۔ گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے مگر عالم
برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے۔ وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا اؔ یک تاریکی سے جیسا کہ اعمال
کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے۔ گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں۔ ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار ذکر آیا ہے۔ اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلمانی قرار دئیے ہیں
جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے تیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں۔ انسان کامل اسی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کیفیت جسم کے علاوہ پا سکتا
ہے اور عالم مکاشفات میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اگرچہ ایسے شخص کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے جو صرف ایک موٹی عقل کی حد تک ٹھہرا ہوا ہے۔ لیکن جن کو عالم مکاشفات میں سے کچھ حصہ
ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے تیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے۔
غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے۔ یہی
عالم برزخ میں نیک و بد کی جزاء کا موجب ہو جاتا ہے۔ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں ۔مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بارہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔ اور میں نے بعض فاسقوں اور
گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے۔ غرض میں اس کوچہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا
ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے خواہ نورانی خواہ ظلمانی۔ انسان کی یہ غلطی ہوگی اگر وہ ان نہایت باریک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرنا چاہے۔ بلکہ
جاننا چاہئے کہ جیسا کہ آنکھ شیریں چیز کا مزہ نہیں بتلاسکتی اور نہ زبان کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے۔ ایسا ہی وہ علوم معاد جو پاک مکاشفات سے حاصل ہو سکتے ہیں صرف عقل کے ذریعہ سے ان
کا عقدہ حل نہیں ہو سکتا۔ خدا نے اس دنیا میں مجہولات کے جاننے کیلئے علیحدہ علیحدہ وسائل رکھے ہیں۔ پس ہر ایک
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 406
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 406
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/406/mode/1up
چیز کو اس کے وسیلہ کے ذریعہ سے ڈھونڈو تب اسے پالو گے۔
ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدا نے ان
لوگوں کو جو بدکاری اور گمراہی میں پڑ گئے اپنے کلام میں مردہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور نیکوکاروں کو زندہ قرار دیا ہے۔ اس میں بھید یہ ہے کہ جو لوگ خدا سے غافل ہوئے ان کی زندگی کے
اسباب جو کھانا پینا اور شہوتوں کی پیروی تھی منقطع ہوگئے اور روحانی غذا سے ان کو کچھ حصہ نہ تھا۔ پس وہ درحقیقت مرگئے اور وہ صرف عذاب اٹھانے کے لئے زندہ ہوں گے۔ اسی بھید کی
طرف اللہ جل شانہ نے اشارہ فرمایا ہے۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے۔
یعنی جو شخص مجرم بن کر خدا کے پاس آئے گا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے وہ اس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔ مگر جو لوگ
خدا کے محب ہیں وہ موت سے نہیں مرتے کیونکہ ان کا پانی اور ان کی روٹی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ پھر برزخ کے بعد وہ زمانہ ہے جس کا نام عالمِ بعث ہے۔ اس زمانہ میں ہر ایک روح نیک ہو یا بد،
صالح ہو یا فاسق ایک کھلا کھلا جسم حاصل کرے گی۔ اور یہ دن خدا کی ان پوری تجلیات کے ؔ لئے مقرر کیا گیا ہے جس میں ہر ایک انسان اپنے رب کی ہستی سے پورے طور پر واقف ہو جائے گا اور
ہر ایک شخص اپنی جزاء کے انتہائی نقطہ تک پہنچے گا۔ یہ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ خدا سے یہ کیونکر ہو سکے گا کیونکہ وہ ہر ایک قدرت کا مالک ہے جو چاہتاہے کرتا ہے۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا
ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 407
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 407
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/407/mode/1up
یعنی کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو ایک قطرہ پانی سے پیدا کیا جو رحم میں ڈالا گیا تھا پھر وہ ایک جھگڑنے والا
آدمی بن گیا۔ ہمارے لئے باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا اور کہنے لگا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ جب کہ ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں گی تو پھر انسان نئے سرے زندہ ہوگا۔ ایسی قدرت والا کون
ہے جو اس کو زندہ کرے گا۔ ان کو کہہ وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے اس کو پیدا کیا تھا اور وہ ہر ایک قسم سے اور ہر ایک راہ سے زندہ کرنا جانتا ہے۔ اس کے حکم کی یہ شان ہے کہ جب کسی چیز
کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف یہی کہتا ہے کہ ہو پس وہ چیز پیدا ہو جاتی ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جس کی ہر ایک چیز پر بادشاہی ہے اور تم سب اسی کی طرف رجوع کرو گے۔ سو ان آیات میں
اللہ جل شانہ نے فرما دیا ہے کہ خدا کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں جس نے ایک قطرہ حقیر سے انسان کو پیدا کیا۔ کیا وہ دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے عاجز ہے؟
اس جگہ ایک اور سوال ناواقفوں
کی طرف سے ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس حالت میں تیسرا عالم جو عالم بعث ہے مدت دراز کے بعد آئے گا۔ تو اس صورت میں ہر ایک نیک و بد کے لئے عالم برزخ صرف بطور حوالات کے ہوا
جو ایک امر عبث معلوم ہوتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا سمجھنا سراسر غلطی ہے جو محض ناواقفی سے پیدا ہوتی ہے بلکہ خدا کی کتاب میں نیک و بد کی جزا کے لئے دو مقام پائے جاتے ہیں۔ ایک
عالم برزخ جس میں مخفی طور پر ہر ایک شخص اپنی جزا پائے گا۔ برے لوگ مرنے کے بعد ہی جہنم میں داخل ہوں گے۔ نیک لوگ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 408
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 408
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/408/mode/1up
مرنے کے بعد ہی جنت میں آرام پائیں گے۔ چنانچہ اس قسم کی آیتیں قرآن شریف میں بکثرت ہیں کہ بمجرد موت کے ہر ایک
انسان اپنے اعمال کی جزا دیکھ لیتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ایک بہشتی کے بارے میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے۔
یعنی اس کو کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو اور ایسا ہی ایک دوزخی کی خبر دے کر
فرماتا ہے۔
یعنی ایک بہشتی کا ایک دوست دوزخی تھا۔ جب وہ دونوں مر گئے تو بہشتی حیران تھا کہ میرا دوست کہاں ہے۔ پس اس کو دکھلایا گیا کہ وہ جہنم کے درمیانؔ ہے۔ سو جزا سزا کی
کارروائی تو بلاتوقف شروع ہو جاتی ہے اور دوزخی دوزخ میں اور بہشتی بہشت میں جاتے ہیں۔ مگر اس کے بعد ایک اور تجلّی اعلیٰ کا دن ہے جو خدا کی بڑی حکمت نے اس دن کے ظاہر کرنے کا
تقاضا کیا ہے کیونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ اپنی خالقیت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر وہ سب کو ہلاک کرے گا تاکہ وہ اپنی قہاریت کے ساتھ شناخت کیاجائے اور پھر ایک دن سب کو
کامل زندگی بخش کر ایک میدان میں جمع کرے گا تاکہ وہ اپنی قادریت کے ساتھ پہچانا جائے۔ اب جاننا چاہئے کہ دقائق مذکورہ میں سے یہ پہلا دقیقہ معرفت تھا جس کا بیان ہوا۔
دوسرا دقیقہ
معرفت
دوسرا دقیقہ معرفت جس کو عالم معاد کے متعلق قرآن شریف نے ذکر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ عالم معاد میں وہ تمام امور جو دنیا میں روحانی تھے جسمانی طور پر متمثل ہوں گے خواہ عالم
معاد میں برزخ کا درجہ ہو یا عالم بعث کا درجہ۔ اس بارے میں جو کچھ خدا تعالیٰ نے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 409
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 409
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/409/mode/1up
فرمایا اس میں سے ایک یہ آیت ہے۔
یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہوگا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔ اس آیت
کا مقصد یہ ہے کہ اِس جہان کی روحانی نابینائی اُس جہان میں جسمانی طور پر مشہود اور محسوس ہوگی۔ ایسا ہی دوسری آیت میں فرماتا ہے۔
یعنی اس جہنمی کو پکڑو۔ اس کی گردن میں طوق ڈالو۔
پھر دوزخ میں اس کو جلاؤ۔ پھر ایسی زنجیر میں جو پیمائش میں ستر۷۰ گز ہے اس کو داخل کرو۔ جاننا چاہئے کہ ان آیات میں ظاہر فرمایاہے کہ دنیا کا روحانی عذاب عالم معاد میں جسمانی طور پر
نمودار ہوگا۔ چنانچہ طوق گردن دنیا کی خواہشوں کا جس نے انسان کے سر کو زمین کی طرف جھکا رکھا تھا۔ وہ عالم ثانی میں ظاہری صورت پر نظر آ جائے گا۔ اور ایسا ہی دنیا کی گرفتاریوں کی زنجیر
پیروں میں پڑی ہوئی دکھائی دے گی اور دنیا کی خواہشوں کی سوزشوں کی آگ ظاہر بھڑکی ہوئی نظر آئے گی۔
فاسق انسان دنیا کی زندگی میں ہوا و ہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے اور ناکامیوں
میں اس جہنم کی سوزشوں کا احساس کرتا ہے۔ پس جبکہ اپنی فانی شہوات سے دور ڈالا جائے گا اور ہمیشہ کی نا امیدی طاری ہوگی تو خدا تعالیٰ ان حسرتوں کو جسمانی آگ کے طور پر اس پر ظاہر
کرے گا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
یعنی ان میں اور ان کی خواہشوں کی چیزوں میں جدائی ڈالی جائے گی اور یہی عذاب کی جڑھ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 410
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 410
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/410/mode/1up
ہوگی۔ اور پھر جو فرمایا کہ ستر۷۰ گز کی زنجیر میں اس کو داخل کرو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک فاسق بسا
اوقات ستر برس کی عمر پالیتا ہے بلکہ کئی دفعہ اس دنیا میں اس کو ایسے ستر برس بھی ملتے ہیں کہ خورد سالی کی عمر اور پیر فرتوت ہونے کی عمر الگ کر کے پھر اس قدر صاف اور خالص حصہ
عمر کا اس کو ملتا ہے جو عقلمندی اور محنت اور کام کے لائق ہوتا ہے لیکن وہ بدبخت اپنی عمدہ زندگی کے ستر۷۰ برس دنیا کی گرفتاریوں میں گذارتا ہے اور اس زنجیر سے آزاد ہونا نہیں چاہتا۔ سو
خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ؔ ہے کہ وہی ستر برس جو اس نے گرفتاری دنیا میں گذارے تھے عالم معاد میں زنجیر کی طرح متمثل ہو جائیں گے جو سترگز کی ہوگی۔ ہر ایک گز بجائے ایک سال کے
ہے۔ اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے اپنے ہی برے کام اس کے آگے رکھ دیتا ہے۔پھر اسی اپنی سنت کے اظہار میں خدائے تعالیٰ
ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
یعنی اے بدکارو! گمراہو! سہ گوشہ سایہ کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں۔ جو سایہ کا کام نہیں دے سکتیں اور نہ گرمی سے بچا سکتی ہیں۔ اس آیت میں تین شاخوں
سے مراد قوت سبعی اور بہیمی اور وہمی ہے۔ جو لوگ ان تینوں قوتوں کو اخلاقی رنگ میں نہیں لاتے اور ان کی تعدیل نہیں کرتے۔ ان کی یہ قوتیں قیامت میں اس طرح پر نمودار کی جائیں گی کہ گویا تین
شاخیں بغیر پتوں کے کھڑی ہیں اور گرمی سے بچا نہیں سکتیں۔ اور وہ گرمی سے جلیں گے۔ پھر ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنی اسی سنت کے اظہار کے لئے بہشتیوں کے حق میں فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 411
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 411
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/411/mode/1up
یعنی اس روز تو دیکھے گا کہ مومنوں کا یہ نور جو دنیا میں پوشیدہ طور پر ہے۔ ظاہر ظاہر ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف
دوڑتا ہوگا۔
اور پھر ایک اور آیت میں فرماتا ہے۔
یعنی اس دن بعض منہ سیاہ ہو جائیں گے اور بعض سفید اور نورانی ہو جائیں گے اور پھر ایک اور آیت میں فرماتا ہے۔
یعنی وہ بہشت جو
پرہیزگاروں کو دی جائے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک باغ ہے۔ اس میں اس پانی کی نہریں ہیں جو کبھی متعفن نہیں ہوتا اور نیز اس میں اس دودھ کی نہریں ہیں جس کا کبھی مزہ نہیں بدلتا۔اور
نیز اس میں اس شراب کی نہریں ہیں جو سراسر سرور بخش ہے جس کے ساتھ خمار نہیں۔ اور نیز اس میں اس شہد کی نہریں ہیں جو نہایت صاف ہے جس کے ساتھ کوئی کثافت نہیں۔ اس جگہ صاف
طور پر فرمایا کہ اس بہشت کو مثالی طور پر یوں سمجھ لو کہ ان تمام چیزوں کی اس میں ناپیداکنار نہریں ہیں۔ وہ زندگی کا پانی جو عارف دنیا میں روحانی طور پر پیتا ہے۔ اس میں ظاہری طور پر
موجود ہے اور وہ روحانی دودھ جس سے وہ شیرخوار بچہ کی طرح روحانی طور پر دنیا میں پرورش پاتا ہے۔ بہشت میں ظاہر ظاہر دکھائی دے گا اور وہ خدا کی محبت کی شراب جس سے وہ دنیا میں
روحانی طور پر ہمیشہ مست رہتا تھا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 412
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 412
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/412/mode/1up
اب بہشت میں ظاہر ظاہر اس کی نہریں نظر آئیں گی۔ اور وہ حلاوت ایمانی کا شہد جو دنیا میں روحانی طور پر عارف کے منہ
میں ڈالا۱؂جاتا تھا وہ بہشت میں محسوس اور نمایاں نہروں کی طرح دکھائی دے گا اور ہر ایک بہشتی اپنی نہروں اور اپنے باغوں کے ساتھ اپنی روحانی حالت کا اندازہ برہنہ کر کے دکھلا دے گا اور
خدا بھی اس دن بہشتیوں کے لئے حجابوں سے باہر آ جائے گا۔ غرض روحانی حالتیں مخفی نہیں رہیں گی بلکہ جسمانی طور پر نظر آئیں گی۔
تیسرا دقیقہ معرفت
تیسرا دقیقہ معرفت کا یہ ہے کہ
عالم معاد میں ترقیات غیر متناہی ہوں گی۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی جو لوگ دنیا میں ایمان کا نور رکھتے ہیں ان کا نور قیامت کو ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہوگا، وہ ہمیشہ یہی
کہتے رہیں گے کہ اے خدا ہمارے نور کو کمال تک پہنچا اور اپنی مغفرت کے اندر ہمیں لے لے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو
کمال تک پہنچا۔ یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہوگا۔ پھر دوسرا کمال نظر آئے گا۔ اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے۔ پس کمال ثانی کے
حصول کے لئے التجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہوگا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہوگا۔ پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو ہیچ سمجھیں گے۔ اور اس کی خواہش کریں گے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 413
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/413/mode/1up
یہی ترقیات کی خواہش ہے جو اَتْمِمْ کے لفظ سے سمجھی جاتی ہے۔
غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا
جائے گا۔ تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے۔ بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے اور پیچھے نہ ہٹیں گے اور یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ اپنی مغفرت چاہیں گے۔ اس جگہ سوال یہ
ہے کہ جب بہشت میں داخل ہوگئے تو پھر مغفرت میں کیا کسر رہ گئی اور جب گناہ بخشے گئے تو پھر استغفار کی کون سی حاجت رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے اصل معنے یہ ہیں۔ ناملائم
اور ناقص حالت کو نیچے دبانا اور ڈھانکنا۔ سو بہشتی اس بات کی خواہش کریں گے کہ کمال تام حاصل کریں اور سراسر نور میں غرق ہو جائیں۔ وہ دوسری حالت کو دیکھ کر پہلی حالت کو ناقص پائیں
گے۔ پس چاہیں گے کہ پہلی حالت نیچے دبائی جائے۔ پھر تیسرے کمال کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوسرے کمال کی نسبت مغفرت ہو یعنی وہ حالت ناقصہ نیچے دبائی جاوے اور مخفی کی
جاوے۔ اسی طرح غیر متناہی مغفرت کے خواہشمند رہیں گے۔ یہ وہی لفظ مغفرت اور استغفار کا ہے جو بعض نادان بطور اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت پیش کیا کرتے ہیں۔ سو
ناظرین نے اس جگہ سے سمجھ لیا ہوگا کہ یہی خواہش استغفار فخر انسان ہے۔ جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفار اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ
انسان‘ اور اندھا ہے نہ سوجاکھا‘ اور ناپاک ہے نہ طیّب۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں۔ کوئی ایسی
نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے۔ یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے۔ ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل
نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں درحقیقت گندھک کے پتھر ہیں۔ بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے
انعکاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 414
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/414/mode/1up
تیسرا سوال
دنیا میں زندگی کے مدعا کیا ہیں
اور
ان کا حصول کس طرح ہوتا ہے ۱؂
اس ؔ سوال کا جواب یہ ہے
کہ اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے مختلف طور کے مدعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں مگر وہ
مدعا جو خدا تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے وہ یہ ہے ۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۔ ۲؂
یعنی میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس
آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو یہ تو مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے
اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ
قویٰ اس کو عنایت کئے۔ اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے۔ خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے۔ مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا کی
معرفت اور خدا میں فانی ہو جانا ہی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 415
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/415/mode/1up
یعنی وہ دین جس میں خدا کی معرفت صحیح اور اس کی پرستش احسن طور پر ہے۔ وہ اسلام ہے اور اسلام انسان کی فطرت
میں رکھا گیا ہے اور خدا نے انسان کو اسلام پر پیدا کیا اور اسلام کے لئے پیدا کیا ہے۔ یعنی یہ چاہا ہے کہ انسان اپنے تمام قویٰ کے ساتھ اس کی پرستش اور اطاعت اور محبت میں لگ جائے۔ اسی وجہ
سے اس قادر کریم نے انسان کو تمام قویٰ اسلام کے مناسب حال عطا کئے ہیں۔
ان آیتوں کی تفصیل بہت بڑی ہے اور ہم کسی قدر پہلے سوال کے تیسرے حصہ میں لکھ بھی چکے ہیں۔ لیکن اب ہم
مختصر طور پر صرف یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ اندرونی اور بیرونی اعضاء دئیے گئے ہیں یا جو کچھ قوتیں عنایت ہوئی ہیں، اصل مقصود ان سے خدا کی معرفت اور خدا کی پرستش
اور خدا کی محبت ہے۔ اسی وجہ سے انسان دنیا میں ہزاروں شغلوں کو اختیار کر کے پھر بھی بجز خداکے اپنی سچی خوشحالی کسی میں نہیں پاتا۔ بڑا دولتمند ہوکر، بڑا عہدہ پاکر، بڑا تاجر بن کر،
بڑی بادشاہی تک پہنچ کر، بڑا فلاسفر کہلا کر آخر ان دنیوی گرفتاریوں سے بڑی حسرتوں کے ساتھ جاتا ہے اور ہمیشہ دل اس کا دنیا کے استغراق سے اس کو ملزم کرتا رہتا ہے اور اس کے مکروں اور
فریبوں اور ناجائز کاموں میں کبھی اس کا کانشنس اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایک دانا انسان اس مسئلہ کو اس طرح بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس چیز کے قویٰ ایک اعلیٰ سے اعلیٰ کام کر سکتے ہیں اور پھر
آگے جاکر ٹھہر جاتے ہیں۔ وہی اعلیٰ کام اس کی پیدائش کی علت غائی سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً بیل کا کام اعلیٰ سے اعلیٰ قلبہ رانی یا آبپاشی یا بار برداری ہے۔ اس سے زیادہ اس کی قوتوں میں کچھ ثابت
نہیں ہوا۔ سو بیل کی زندگی کا مدعا یہی تین چیزیں ہیں۔ اس سے زیادہ کوئی
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 416
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/416/mode/1up
قوت اس میں پائی نہیں جاتی۔ مگر جب ہم انسان کی قوتوں کو ٹٹولتے ہیں کہ ان میں اعلیٰ سےؔ اعلیٰ کونسی قوت ہے تو یہی
ثابت ہوتا ہے کہ خدائے اعلیٰ برتر کی اس میں تلاش پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا کی محبت میں ایسا گداز اور محو ہو کہ اس کا اپنا کچھ بھی نہ رہے سب خدا کا ہو جائے۔ وہ کھانے
اور سونے وغیرہ طبعی امور میں دوسرے حیوانات کو اپنا شریک غالب رکھتا ہے۔ صنعت کاری میں بعض حیوانات اس سے بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ بلکہ شہد کی مکھیاں بھی ہر ایک پھول کا عطر نکال کر
ایسا شہد نفیس پیدا کرتی ہیں کہ اب تک اس صنعت میں انسان کو کامیابی نہیں ہوئی۔ پس ظاہر ہے کہ انسان کا اعلیٰ کمال خدا تعالیٰ کا وصال ہے۔ لہٰذا اس کی زندگی کا اصل مدعا یہی ہے کہ خدا کی
طرف اس کے دل کی کھڑکی کھلے۔
انسانی زندگی کے حصول کے وسائل
ہاں اگر یہ سوال ہو کہ یہ مدعا کیونکر اور کس طرح حاصل ہو سکتا ہے اور کن وسائل سے انسان اس کو پا سکتا ہے۔ پس
واضح ہو کہ سب سے پہلا وسیلہ۱؂ جو اس مدعا کے پانے کے لئے شرط ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو صحیح طور پر پہچانا جائے اور سچے خدا پر ایمان لایا جائے۔ کیونکہ اگر پہلا قدم ہی غلط ہے
اور کوئی شخص مثلاً پرند یا چرند یا عناصر یا انسان کے بچہ کو خدا سمجھ بیٹھا ہے تو پھر دوسرے قدموں میں اس کے راہ راست پر چلنے کی کیا امید ہے۔ سچا خدا اس کے ڈھونڈنے والوں کو مدد دیتا
ہے مگر مردہ مردہ کو کیونکر مدد دے سکتا ہے۔ اس میں اللہ جلّ شانہ نے خوب تمثیل فرمائی ہے۔ اور وہ یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 417
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/417/mode/1up
یعنی دعا کرنے کے لائق وہی سچا خدا ہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے اور جو لوگ اس کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں وہ کچھ
بھی ان کو جواب نہیں دے سکتے۔ ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلاوے کہ اے پانی میرے منہ میں آ جا تو کیا وہ اس کے منہ میں آجائے گا۔ ہرگز نہیں۔ سو جو لوگ سچے خدا
سے بے خبر ہیں ان کی تمام دعائیں باطل ہیں۔
دوسرا وسیلہ خدا تعالیٰ کے اس حسن و جمال پر اطلاع پانا ہے جو باعتبار کمال تام کے اس میں پایا جاتا ہے۔ کیونکہ حسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع
دل اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدہ سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے تو حسن باری تعالیٰ اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے یہ فرمایا
ہے۔
یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ سب اس کے حاجت مند ہیں۔ ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے۔ وہ کل چیزوں کے لئے مبداء فیض ہے اور آپ کسی
سے فیضیاب نہیں۔ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ اور کیونکر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں۔ قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمتیں دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے
کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کا مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت۔
تیسرا وسیلہ جو مقصود حقیقی تک پہنچنے کے لئے دوسرے درجہ کا زینہ ہے۔ خدا تعالیٰ کے احسان پر
اطلاع پانا ہے۔ کیونکہ محبت کی محرک دو ہی چیزیں ہیں حسن یا احسان اور
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 418
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/418/mode/1up
خداتعالیٰ کی احسانی صفات کا خلاصہ سورہ فاتحہ میں پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
کیونکہ ظاہر ہےؔ کہ احسان
کامل اس میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو محض نابود سے پیدا کرے اور پھر ہمیشہ اس کی ربوبیت ان کے شامل حال ہو اور وہی ہر ایک چیز کا آپ سہارا ہو اورپھر اس کی تمام قسم کی رحمتیں اس
کے بندوں کے لئے ظہور میں آئی ہوں اور اس کا احسان بے انتہا ہو۔ جس کا کوئی شمار نہ کر سکے۔ سو ایسے احسانوں کو خدا تعالیٰ نے بار بار جتلایا ہے۔ جیسا کہ ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
یعنی
اگر خداتعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہرگز گن نہ سکو گے۔
چوتھا وسیلہ خدا تعالیٰ نے اصل مقصود کو پانے کے لئے دعا کو ٹھہرایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
یعنی تم دعا کرو میں قبول کروں
گا۔ اور بار بار دعا کے لئے رغبت دلائی ہے تا انسان اپنی طاقت سے نہیں بلکہ خدا کی طاقت سے پاوے۔
پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے۔ یعنی اپنا
مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی
راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 419
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/419/mode/1up
یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ اور جو کچھ ہم نے
عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے۔ وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ۔ جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجا لاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں۔
چھٹا وسیلہ
اصل مقصود کے پانے کے لئے استقامت کو بیان فرمایا گیا ہے یعنی اس راہ میں درماندہ اور عاجز نہ ہو اور تھک نہ جائے اور امتحان سے ڈر نہ جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی وہ لوگ
جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہوگئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور
مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھرجاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہوگئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔ اس جگہ ان کلمات سے
یہ اشارہ فرمایا کہ استقامت سے خداتعالیٰ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 420
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/420/mode/1up
کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے۔ کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط
دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب
یا الہام کو بند کردے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے۔ اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں۔ اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں۔ صدق اور ثبات میں کوئی
رخنہ نہ ڈالیں۔ ذلت پر خوش ہو ؔ جائیں۔ موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے۔ نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے
اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہرچہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور
ہرگز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے۔ یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی
خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے۔ اسی کی طرف اللہ جلّ شانُہ ٗ اس دعا میں اشارہ فرماتا ہے۔
یعنی اے ہمارے خدا ! ہمیں استقامت کی راہ دکھلا۔ وہی راہ جس پر تیرا انعام و اکرام مترتب ہوتا
ہے اور تو راضی ہو جاتا ہے۔ اور اسی کی طرف اس دوسری آیت میں اشارہ فرمایا۔
اے خدا! اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آجائے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 421
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/421/mode/1up
اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو۔ جاننا چاہئے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل
پر ایک نور اتارتا ہے جس سے وہ قوت پاکر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوت ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں۔ جب با خدا
آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا۔ کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں
اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے۔ بلکہ سچا محب بلا کے اترنے سے اَور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو ناچیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع
کہکر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکلی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے۔ اسی کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔
یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض
میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورَد ہیں۔ غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی۔ جس کو سمجھنا ہو سمجھ
لے۔
ساتواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لئے راستبازوں کی صحبت اور ان کے کامل نمونوں کو دیکھنا ہے۔ پس جاننا چاہئے کہ انبیاء کی ضرورتوں میں سے ایک یہ بھی ضرورت ہے کہ انسان
طبعاً کامل نمونہ کا محتاج ہے اور کامل نمونہ شوق کو زیادہ کرتا ہے اور ہمت کو بڑھاتا ہے اور جو نمونہ کا پیرو نہیں وہ سست ہو جاتا ہے اور بہک جاتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 422
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/422/mode/1up
اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے۔
یعنی تم ان لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو راستباز ہیں۔ ان
لوگوں کی راہیں سیکھو جن پر تم سے پہلے فضل ہو چکا ہے۔
آٹھواں وسیلہ خداتعالیٰ کی طرف سے پاک کشف اور پاک الہام اور پاک خوابیں ہیں۔ چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سفر کرنا ایک نہایت دقیق در
دقیق راہ ہے اور اس کے ساتھ طرح طرح کے مصائب اور دکھ لگے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ انسان اس نادیدہ راہ میں بھوؔ ل جاوے یا نا امیدی طاری ہو اور آگے قدم بڑھانا چھوڑ دے۔ اس لئے خدا
تعالیٰ کی رحمت نے چاہا کہ اپنی طرف سے اس سفر میں ساتھ ساتھ اس کو تسلی دیتی رہے اور اس کی دلدہی کرتی رہے اور اس کی کمر ہمت باندھتی رہے اور اس کے شوق کو زیادہ کرے۔ سو اس کی
سنت اس راہ کے مسافروں کے ساتھ اس طرح پر واقع ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے کلام اور الہام سے ان کو تسلی دیتا اور ان پر ظاہر کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تب وہ قوت پاکر بڑے زور سے اس
سفر کو طے کرتے ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں وہ فرماتا ہے۔
اسی طرح اور بھی کئی وسائل ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں مگر افسوس ہم اندیشہ طول کی وجہ سے ان کو بیان نہیں کر
سکتے۔فقط ۴؂
چوتھا سوال یہ ہے کہ
زندگی میں اور زندگی کے بعد عملی شریعت کا فعل کیا ہے ؟۵؂
اس سوال کا جواب وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خدا کی سچی
اور
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 423
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/423/mode/1up
کامل شریعت کا فعل جو اس کی زندگی میں انسان کے دل پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کو وحشیانہ حالت سے انسان بناوے اور
پھر انسان سے بااخلاق انسان بناوے اور پھر با اخلاق انسان سے باخدا انسان بناوے اور نیز اس زندگی میں عملی شریعت کا ایک فعل یہ ہے کہ شریعت حقہ پر قائم ہو جانے سے ایسے شخص کا بنی نوع
پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ درجہ بدرجہ ان کے حقوق کو پہچانتا ہے اور عدل اور احسان اور ہمدردی کی قوتوں کو اپنے اپنے محل پر استعمال کرتا ہے اور جو کچھ خدا نے اس کو علم اور معرفت اور مال
اور آسائش میں سے حصہ دیا ہے سب لوگوں کو حسب مراتب ان نعمتوں میں شریک کر دیتا ہے۔ وہ تمام بنی نوع پر سورج کی طرح اپنی تمام روشنی ڈالتا ہے اور چاند کی طرح حضرت اعلیٰ سے نور
پاکر وہ نور دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ وہ دن کی طرح روشن ہو کر نیکی اور بھلائی کی راہیں لوگوں کو دکھاتا ہے۔ وہ رات کی طرح ہر ایک ضعیف کی پردہ پوشی کرتا ہے اور تھکوں اور ماندوں کو آرام
پہنچاتا ہے۔ وہ آسمان کی طرح ہر ایک حاجت مند کو اپنے سایہ کے نیچے جگہ دیتا ہے اور وقتوں پر اپنے فیض کی بارشیں برساتا ہے وہ زمین کی طرح کمال انکسار سے ہر ایک آدمی کی آسائش کے لئے
بطور فرش کے ہو جاتا ہے اور سب کو اپنی کنار عاطفت میں لے لیتا اور طرح طرح کے روحانی میوے ان کے لئے پیش کرتا ہے۔ سو یہی کامل شریعت کا اثر ہے کہ کامل شریعت پر قائم ہونے والا حق
اللہ اور حق العباد کو کمال کے نقطہ تک پہنچا دیتا ہے۔ خدا میں وہ محو ہو جاتا ہے اور مخلوق کا سچا خادم بن جاتا ہے۔ یہ تو عملی شریعت کا اس زندگی میں اس پر اثر ہے مگر زندگی کے بعد جو اثر
ہے وہ یہ ہے کہ خدا کا روحانی اتصال اس روز کھلے کھلے دیدار کے طور پر اس کو نظر آئے گا اور خلق اللہ کی خدمت جو اس نے خدا کی محبت میں ہو کر کی جس کا محرک ایمان اور اعمال صالحہ
کی خواہش تھی وہ بہشت کے درختوں اور نہروں کی طرح متمثل ہو کر دکھائی دے گی۔ اس میں خدائے تعالیٰ کا فرمان یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 424
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/424/mode/1up
یعنی قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی۔ اور قسم ہے چاند کی جب پیروی کرے سورج کی یعنی سورج سے نور حاصل
کرے اور پھر سورج کی طرح اس نور کو دوسروں تک پہنچا وے اور قسم ہے دن کی جب سورج کی صفائی دکھاوے اور راہوں کو نمایاں کرے اور قسم ہے رات کی جب اندھیرا کرے اور اپنے پردہ
تاریکی میں سب کو لے لے اور قسم ہے آسمان کی اور اس علت غائی کی جو آسمان کی اس بناء کا موجب ہوئی اور قسم ہے زمین کی اور اس علت غائی کی جو زمین کے اس قسم کے فرش کا موجب
ہوئی اور قسم ہے نفس کی اور نفس کے اس کمال کی جس نے ان سب چیزوں کے ساتھ اس کو برابر کر دیا۔ یعنی وہ کمالات جو متفرق طور پر ان چیزوں میں پائے جاتے ہیں کامل انسان کا نفس ان سب
کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اور جیسے یہ تمام چیزیں علیحدہ علیحدہ نوع انسان کی خدمت کر رہی ہیں۔ کامل انسان ان تمام خدمات کو اکیلا بجا لاتا ہے۔ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں ۔اور پھر فرماتا ہے
کہ وہ شخص
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 425
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/425/mode/1up
نجات پاگیا اور موت سے بچ گیا جس نے اس طرح پر نفس کو پاک کیا یعنی سورج اور چاند اور زمین وغیرہ کی طرح خدا میں
محو ہو کر خلق اللہ کا خادم بنا۔
یاد رہے کہ حیات سے مراد حیات جاودانی ہے جو آئندہ کامل انسان کو حاصل ہوگی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عملی شریعت کا پھل آئندہ زندگی میں حیات
جاودانی ہے جو خدا کے دیدار کی غذا سے ہمیشہ قائم رہے گی اور پھر فرمایا کہ وہ شخص ہلاک ہوگیا اور زندگی سے ناامید ہوگیا جس نے اپنے نفس کو خاک میں ملا دیا اور جن کمالات کی اس کو
استعدادیں دی گئی تھیں ان کمالات کو حاصل نہ کیا اور گندی زندگی بسر کر کے واپس گیا۔ اور پھر مثال کے طور پر فرمایا کہ ثمود کا قصہ اس بدبخت کے قصہ سے مشابہ ہے۔ انہوں نے اس اونٹنی کو
زخمی کیاجو خدا کی اونٹنی کہلاتی تھی اور اپنے چشمہ سے پانی پینے سے اس کو روکا۔ سو اس شخص نے درحقیقت خدا کی اونٹنی کو زخمی کیا اور اس کو اس چشمہ سے محروم رکھا۔ یہ اس بات
کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس خدا کی اونٹنی ہے جس پر وہ سوار ہوتا ہے یعنی انسان کا دل الٰہی تجلیات کی جگہ ہے اور اس اونٹنی کا پانی خدا کی محبت اور معرفت ہے جس سے وہ جیتی ہے
اور پھر فرمایا کہ ثمودنے جب اونٹنی کو زخمی کیا اور اس کو اس کے پانی سے روکا تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ اور خدا تعالیٰ نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے
بچوں اور بیواؤں کا کیا حال ہوگا۔ سو ایسا ہی جو شخص اس اونٹنی یعنی نفس کو زخمی کرتا ہے اورؔ اس کو کمال تک پہنچانا نہیں چاہتا اور پانی پینے سے روکتا ہے وہ بھی ہلاک ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کے
مختلف اشیاء کی قسم کھانے میں حکمت
اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ خدا کا سورج اور چاند وغیرہ کی قسم کھانا ایک نہایت دقیق حکمت پر مشتمل ہے جس سے ہمارے اکثر مخالف ناواقف ہونے کی
وجہ سے اعتراض کر بیٹھتے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 426
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/426/mode/1up
ہیں کہ خدا کو قسموں کی کیا ضرورت پڑی اور اس نے مخلوق کی کیوں قسمیں کھائیں۔ لیکن چونکہ ان کی سمجھ زمینی ہے نہ
آسمانی اس لئے وہ معارف حقہ کو سمجھ نہیں سکتے۔ سو واضح ہو کہ قسم کھانے سے اصل مدعا یہ ہوتا ہے کہ قسم کھانے والا اپنے دعوے کے لئے ایک گواہی پیش کرنا چاہتا ہے کیونکہ جس کے
دعوے پر اور کوئی گواہ نہیں ہوتا وہ بجائے گواہ کے خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے اس لئے کہ خدا عالم الغیب ہے اور ہر ایک مقدمہ ۱؂ میں وہ پہلا گواہ ہے۔ گویا وہ خدا کی گواہی اس طرح پیش کرتا ہے
کہ اگر خدا تعالیٰ اسَ قسم کے بعد خاموش رہا اور اس پر عذاب نازل نہ کیا تو گویا اس نے اس شخص کے بیان پر گواہوں کی طرح مہر لگا دی۔ اس لئے مخلوق کو نہیں چاہئے کہ دوسری مخلوق کی قسم
کھاوے۔ کیونکہ مخلوق عالم الغیب نہیں اور نہ جھوٹی قسم پر سزا دینے پر قادر ہے۔ مگر خدا کی قسم ان آیات میں ان معنوں سے نہیں جیسا کہ مخلوق کی قسم میں مراد لی جاتی ہے بلکہ اس میں یہ سنت
اللہ ہے کہ خدا کے دو قسم کے کام ہیں، ایک بدیہی جو سب کی سمجھ میں آ سکتے ہیں اور ان میں کسی کو اختلاف نہیں اور دوسرے وہ کام جو نظری ہیں جن میں دنیا غلطیاں کھاتی ہے اور باہم اختلاف
رکھتی ہے سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ بدیہی کاموں کی شہادت سے نظری کاموں کو لوگوں کی نظر میں ثابت کرے۔
پس یہ تو ظاہر ہے کہ سورج اور چاند اور دن اور رات اور آسمان اور زمین میں وہ
خواص درحقیقت پائے جاتے ہیں جن کو ہم ذکر کر چکے ہیں۔مگر جو اس قسم کے خواص انسان کے نفس ناطقہ میں موجود ہیں ان سے ہر ایک شخص آگاہ نہیں۔ سو خدا نے اپنے بدیہی کاموں کو نظری
کاموں کے کھولنے کے لئے بطور گواہ کے پیش کیا ہے۔ گویا وہ فرماتا ہے کہ اگر تم ان خواص سے شک میں ہو جو نفس ناطقہ انسانی میں پائے جاتے ہیں تو چاند اور سورج وغیرہ میں غور کرو کہ ان
میں بدیہی طور پر یہ خواص موجود ہیں اور تم جانتے ہو کہ انسان ایک عالم صغیر ہے جس کے نفس میں تمام عالم کا نقشہ اجمالی طور پر مرکوز ہے۔ پھر جب کہ یہ ثابت ہے کہ عالم کبیر کے بڑے
بڑے اجرام یہ خواص اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسی طرح پر مخلوقات
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/427/mode/1up
کو فیض پہنچا رہے ہیں تو انسان جو ان سب سے بڑا کہلاتا ہے اور بڑے درجہ کا پیدا کیا گیا ہے وہ کیونکر ان خواص سے
خالی اور بے نصیب ہوگا۔ نہیں بلکہ اس میں بھی سورج کی طرح ایک علمی اور عقلی روشنی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تمام دنیا کو منور کر سکتا ہے اور چاند کی طرح وہ حضرت اعلیٰ سے کشف اور
الہام اور وحی کا نور پاتا ہے اور دوسروں تک جنہوں نے انسانی کمال ابھی تک حاصل نہیں کیا اس نور کو پہنچاتا ہے۔ پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ نبوت باطل ہے اور تمام رسالتیں اور شریعتیں اور
کتابیں انسان کی مکاری اور خود غرضی ہے۔ یہ بھی دیکھتے ہو کہ کیونکر دن کے روشن ہونے سے تمام راہیں روشن ہو جاتی ہیں۔ تمام ؔ نشیب و فراز نظر آ جاتے ہیں۔ سو کامل انسان روحانی روشنی کا
دن ہے۔ اس کے چڑھنے سے ہر ایک راہ نمایاں ہو جاتی ہے، وہ سچی راہ کو دکھلا دیتا ہے کہ کہاں اور کدھر ہے کیونکہ راستی اور سچائی کا وہی روز روشن ہے۔ ایسا ہی یہ بھی مشاہدہ کر رہے ہو کہ
رات کیسی تھکوں ماندوں کو جگہ دیتی ہے۔ تمام دن کے شکستہ کوفتہ مزدور رات کے کنار عاطفت میں بخوشی سوتے ہیں اور محنتوں سے آرام پاتے ہیں اور رات ہر ایک کے لئے پردہ پوش بھی ہے۔
ایسا ہی خدا کے کامل بندے دنیا کو آرام دینے کے لئے آتے ہیں۔ خدا سے وحی اور الہام پانے والے تمام عقلمندوں کو جانکاہی سے آرام دیتے ہیں۔ ان کے طفیل سے بڑے بڑے معارف آسانی کے ساتھ حل
ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی خدا کی وحی انسانی عقل کی پردہ پوشی کرتی ہے جیسا کہ رات پردہ پوشی کرتی ہے۔ اس کی ناپاک خطاؤں کو دنیا پر ظاہر ہونے نہیں دیتی۔ کیونکہ عقلمند وحی کی روشنی کو پاکر
اندر ہی اندر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیتے ہیں اور خدا کے پاک الہام کی برکت سے اپنے تئیں پردہ دری سے بچا لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افلاطون کی طرح اسلام کے کسی فلاسفر نے کسی بت پر
مرغ کی قربانی نہ چڑھائی۔ چونکہ افلاطون الہام۱؂ کی روشنی سے بے نصیب تھا۔ اس لئے دھوکا کھا گیا اور ایسا فلاسفر کہلا کر یہ مکروہ اور احمقانہ حرکت اس سے صادر ہوئی۔ مگر اسلام کے
حکماء کو
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/428/mode/1up
ایسی ناپاک اور احمقانہ حرکتوں سے ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی نے بچا لیا۔ اب دیکھو کیسا
ثابت ہوا کہ الہام عقلمندوں کا رات کی طرح پردہ پوش ہے۔
یہ بھی آپ لوگ جانتے ہیں کہ خدا کے کامل بندے آسمان کی طرح ہر ایک درماندہ کو اپنے سایہ میں لے لیتے ہیں۔ خاص کر اس ذات پاک
کے انبیاء اور الہام پانے والے عام طور پر آسمان کی طرح فیض کی بارشیں برساتے ہیں۔ ایسا ہی زمین کی خاصیت بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ان کے نفس نفیس سے طرح طرح کے علوم عالیہ کے
درخت نکلتے ہیں۔ جن کے سایہ اور پھل اور پھول سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سو یہ کھلا کھلا قانون قدرت جو ہماری نظر کے سامنے ہے اسی چھپے ہوئے قانون کا ایک گواہ ہے۔ جس کی گواہی کو
قسموں۱؂ کے پیرایہ میں خدا تعالیٰ نے ان آیات میں پیش کیا ہے۔ سو دیکھو کہ یہ کس قدر ُ پر حکمت کلام ہے جو قرآن شریف میں پایا جاتا ہے۔ یہ اس کے منہ سے نکلا ہے جو ایک ا ّ می اور بیابان کا
رہنے والا تھا۔ اگر یہ خدا کا کلام نہ ہوتا تو اس طرح عام عقلیں اور وہ تمام لوگ جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں اس کے اس دقیق نکتہ معرفت سے عاجز آکر اعتراض کی صورت میں اس کو نہ دیکھتے۔ یہ
قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جب ایک بات کو کسی پہلو سے بھی اپنی مختصر عقل کے ساتھ نہیں سمجھ سکتا تب ایک حکمت کی بات کو جائے اعتراض ٹھہرا لیتا ہے اور اس کا اعتراض اس بات کا گواہ
ہو جاتا ہے کہ وہ دقیقہ حکمت عام عقلوں سے برتر و اعلیٰ تھا۔ تب ہی تو عقلمندوں نے عقلمند کہلا کر پھر بھی اس پر اعتراض کر دیا۔ مگر اب جو یہ راز کھل گیا تو اب اس کے بعد کوئی عقلمند اس پر
اعتراض نہیں کرے گا بلکہ اسؔ سے لذت اٹھائے گا۔
یاد رہے کہ قرآن شریف نے وحی اور الہام کی سنت قدیمہ پر قانون قدرت سے گواہی لانے کے لئے ایک اور مقام میں بھی اسی قسم کی قسم کھائی
ہے اور وہ یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/429/mode/1up
یعنی اس آسمان کی قسم ہے جس کی طرف سے بارش آتی ہے اور اس زمین کی قسم ہے جو بارش سے طرح طرح کی سبزیاں
نکالتی ہے کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے۔ اور اس کی وحی ہے اور وہ باطل اور حق میں فیصلہ کرنے والا ہے اور عبث اور بیہودہ نہیں۔ یعنی بے وقت نہیں آیا موسم کے مینہْ کی طرح آیا ہے۔اب خدا تعالیٰ
نے قرآن شریف کے ثبوت کے لئے جو اس کی وحی ہے ایک کھلے کھلے قانون قدرت کو قسم کے رنگ میں پیش کیا یعنی قانون قدرت میں ہمیشہ یہ بات مشہود اور مرئی ہے کہ ضرورتوں کے وقت آسمان
سے بارش ہوتی ہے اور تمام مدار زمین کی سرسبزی کا آسمان کی بارش پر ہے۔ اگر آسمان سے بارش نہ ہو تو رفتہ رفتہ کنویں بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ پس دراصل زمین کے پانی کا وجود بھی آسمان کی
بارش پر موقوف ہے۔ اسی وجہ سے جب کبھی آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین کے کنوؤں کا پانی چڑھ آتا ہے۔ کیوں چڑھ آتا ہے؟ اس کا یہی سبب ہے کہ آسمانی پانی زمین کے پانی کو اوپر کی طرف
کھینچتا ہے۔ یہی رشتہ وحی اللہ اور عقل میں ہے۔ وحی اللہ یعنی الہام الٰہی آسمانی پانی ہے اور عقل زمینی پانی ہے اور یہ پانی ہمیشہ آسمانی پانی سے جو الہام ہے تربیت پاتا ہے اور اگر آسمانی پانی
یعنی وحی ہونا بند ہو جائے تو یہ زمینی پانی بھی رفتہ رفتہ خشک ہو جاتا ہے۔ کیا اس کے واسطے یہ دلیل کافی نہیں کہ جب ایک زمانہ دراز گذر جاتا ہے اور کوئی الہام یافتہ زمین پر پیدا نہیں ہوتا تو
عقلمندوں کی عقلیں نہایت گندی اور خراب ہو جاتی ہیں۔ جیسے زمینی پانی خشک ہو جاتا اور سڑ جاتا ہے۔۲؂
اس کے سمجھنے کے لئے اس زمانہ پر ایک نظر ڈالنا کافی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ
علیہ و سلم کے تشریف لانے سے پہلے اپنا رنگ تمام دنیا میں دکھلا رہا تھا۔ چونکہ اس وقت حضرت مسیحؑ کے زمانہ کو چھ سو برس گذر گئے تھے اور اس عرصہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/430/mode/1up
میں کوئی الہام یافتہ پیدا نہیں ہوا تھا اس لئے تمام دنیا نے اپنی حالت کو خراب کر دیا تھا۔ ہر ایک ملک کی تاریخیں پکار پکار کر
کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں مگر آپ کے ظہور سے پہلے تمام دنیا میں خیالات فاسدہ پھیل گئے تھے۔ ایسا کیوں ہوا تھا اور اس کا کیا سبب تھا؟ یہی تو تھا کہ الہام کا
سلسلہ مدتوں تک بند ہوگیا تھا۔ آسمانی سلطنت صرف عقل کے ہاتھ میں تھی۔ پس اس ناقص عقل نے کن کن خرابیوں میں لوگوں کو ڈالا، کیا اس سے کوئی ناواقف بھی ہے۔ دیکھو الہام کا پانی جب مدت تک
نہ برسا تو تمام۱؂ عقلوں کا پانی کیسا خشک ہوگیا۔
سو ان قسموں میں یہی قانون قدرت اللہ تعالیٰ پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم غور کر کے دیکھو کہ کیا خدا کا یہ محکم۲؂ اور دائمی قانون قدرت
نہیں کہ زمین کی تمام سرسبزی کا مدار آسمان کا پانی ہے۔ سو اس پوشیدؔ ہ قانون قدرت کے لئے جو الہام الٰہی کا سلسلہ ہے۔ یہ کھلا کھلا قانون قدرت بطور گواہ کے ہے۔ سو اس گواہ سے فائدہ اٹھاؤ
اور صرف عقل کو اپنا رہبر مت بناؤ کہ وہ ایسا پانی نہیں جو آسمانی پانی کے سوا موجود رہ سکے۔ جس طرح آسمانی پانی کا یہ خاصہ ہے کہ خواہ کسی کنویں میں اس کا پانی پڑے یا نہ پڑے وہ اپنی
طبعی خاصیت سے تمام کنوؤں کے پانی کو اوپر چڑھا دیتا ہے۔ ایسا ہی جب خدا کا ایک الہام یافتہ دنیا میں ظہور فرماتا ہے خواہ کوئی عقلمند اس کی پیروی کرے یا نہ کرے۔ مگر اس الہام یافتہ کے
زمانہ میں خود عقلوں میں ایسی روشنی اور صفائی آ جاتی ہے کہ پہلے اس سے موجود نہ تھی۔ لوگ خواہ نخواہ حق کی تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور غیب سے ایک حرکت ان کی قوت متفکرہ میں
پیدا ہو جاتی ہے۔ سو یہ تمام عقلی ترقی اور دلی جوش اس الہام یافتہ کے قدم مبارک سے پیدا ہو جاتاہے اور بالخاصیت زمین کے پانیوں کو اوپر اٹھاتا ہے جب تم دیکھو کہ مذاہب کی جستجو میں ہر ایک
شخص کھڑا ہوگیا ہے اور زمینی پانی کو کچھ ابال آیا ہے تو اٹھو اور خبردار ہو جاؤ اور یقیناً سمجھو کہ آسمان سے زور کا مینہْ برسا ہے اور کسی دل پر الہامی بارش ہوگئی ہے۔فقط
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/431/mode/1up
پانچواں سوال
یہ ہے کہ
علم اورمعرفت کے ذریعے کیا کیا ہیں؟۱؂
اس سوال کے جواب میں واضح ہو کہ اس بارے
میں جس قدر قرآن شریف نے مبسوط طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اس کے ذکر کرنے کی تو اس جگہ کسی طرح گنجائش نہیں لیکن بطور نمونہ کسی قدر بیان کیا جاتا ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف نے
علم تین قسم پر قرار دیا ہے۔ (۱)علم الیقین(۲) عین ا لیقین(۳) حق الیقین۔ جیسا کہ ہم پہلے اس سے سورہ اَلْھَاکم التکاثر کی تفسیر میں ذکر کر چکے ہیں اور بیان کر چکے ہیں کہ علم الیقین وہ
ہے کہ شئے مقصود کا کسی واسطہ کے ذریعہ سے نہ بلا واسطہ پتہ لگایا جائے۔ جیسا کہ ہم دھوئیں سے آگ کے وجود پر استدلال کرتے ہیں ہم نے آگ کو دیکھا نہیں مگر دھوئیں کو دیکھا ہے کہ جس
سے ہمیں آگ کے وجود پر یقین آیا۔ سو یہ علم الیقین ہے اور اگر ہم نے آگ کو ہی دیکھ لیا ہے تو یہ بموجب بیان قرآن شریف یعنی سورہ اَلْھَاکم التکاثر کے علم کے مراتب میں سے عین الیقین کے نام سے
موسوم ہے۔ اور اگر ہم اس آگ میں داخل بھی ہوگئے ہیں تو اس علم کے مرتبہ کا نام قرآن شریف کے بیان کی رو سے حق الیقین ہے۔ سورہ اَلھٰکم التکاثر کے اب دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ناظرین
اس موقع سے اس تفسیر کو دیکھ لیں۔
اب جاننا چاہئے کہ پہلی قسم کا جو علم ہے یعنی علم الیقین۔ اس کا ذریعہ عقل اور منقولات ہیں۔ اللہ تعالیٰ دوزخیوں سے حکایت کر کے فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/432/mode/1up
یعنی دوزخی کہیں گے کہ اگر ہم عقلمند ہوتے اور مذہب اور عقیدہ کو معقول طریقوں سے آزماتے یا کامل عقلمندوں اور
محققوں کی تحریروں اور تقریروں کو توجہ سے سنتے تو آج دوزخ میں نہ پڑتے۔ یہ آیت اس دوسری آیت کے موافق ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی خدائے تعالیٰ انسانی نفوس کو ان کی وسعت
علمی سے زیادہ کسی بات کو قبول کرنے کے لئے تکلیف نہیں دیتا اور وہی عقیدے پیش کرتا ہے جن کا سمجھنا انسان کی حد استعداد میں داخل ہے۔ تا اس کے حکم تکلیف مالا یطاق میں داخل نہ ہوں اور
ان آیات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کانوں کے ذریعہ سے بھی علم الیقین حاصل کر سکتا ہے۔ مثلاً ہم نے لنڈن تو نہیں دیکھا، صرف دیکھنے والوں سے اس شہر کا وجود سنا ہے۔ مگر
کیا ہم شک کر سکتے ہیں کہ شاید ان سب نے جھوٹ بول دیا ہوگا۔ یا مثلاً ہم نے عالمگیر بادشاہ کا زمانہ نہیں پایا اور نہ عالمگیر کی شکل دیکھی ہے۔ مگر کیا ہمیں اس بات میں کچھ بھی شبہ ہے کہ
عالمگیر چغتائی بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ پس ایسا یقین کیوں حاصل ہوا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ صرف سماع کے تواتر سے۔ پس اس میں کچھ شک نہیں کہ سماع بھی علم الیقین کے مرتبہ تک
پہنچاتا ہے۔ نبیوں کی کتابیں اگر سلسلہ سماع میں کچھ خلل نہ رکھتی ہوں وہ بھی ایک سماعی علم کا ذریعہ ہیں۔ لیکن اگر ایک کتاب آسمانی کتاب کہلا کر پھر مثلاً پچاس ساٹھ نسخے اس کے پائے جائیں
اور بعض بعض کے مخالف ہوں تو گو کسی فریق نے یقین بھی کرلیا ہو کہ ان میں سے صرف دو چار صحیح ہیں اور باقی وضعی اور جعلی۔ لیکن محقق کے لئے ایسا یقین جوکسی کامل تحقیقات پر مبنی
نہیں بے ہودہ ہوگا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سب کتابیں اپنے تناقض کی وجہ سے ردّی اور ناقابل اعتبار قرار دی جائیں گی۔ اور ہرگز جائز
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/433/mode/1up
نہیں ہوگا کہ ایسے متناقض بیانات کو کسی علم کا ذریعہ ٹھہرایا جائے۔ کیونکہ علم کی یہ تعریف ہے کہ ایک یقینی معرفت
عطا کرے اور مجموعہ متناقضات میں یقینی معرفت کا پایا جانا ممکن نہیں۔
اس جگہ یاد رہے کہ قرآن شریف صرف سماع کی حد تک محدود نہیں ہے کیونکہ اس میں انسانوں کے سمجھانے کے لئے
بڑے بڑے معقول دلائل ہیں اور جس قدر عقائد اور اصول اور احکام اس نے پیش کئے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا امر نہیں جس میں زبردستی اور تحکم ہو جیسا کہ اس نے خود فرما دیا ہے کہ یہ سب
عقائد وغیرہ انسان کی فطرت میں پہلے سے منقوش ہیں اور قرآن شریف کا نام ذکر رکھا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ھذا ذکر مبارک یعنی یہ قرآن بابرکت کوئی نئی چیز نہیں لایا بلکہ جو کچھ انسان کی
فطرت اور صحیفہ قدرت میں بھرا پڑا ہے اس کو یاد دلاتا ہے اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔
یعنی یہ دین کوئی بات جبر سے منوانا نہیں چاہتا بلکہ ہر ایک بات کے دلائل پیش کرتا ہے۔ ماسوا اس کے
قرآن میں دلوں کو روشن کرنے کے لئے ایک روحانی خاصیت بھی ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
یعنی قرآن اپنی خاصیت سے تمام بیماریوں کو دور کرتا ہے۔ اس لئے اس کو منقولی کتاب نہیں کہہ
سکتے بلکہ وہ اعلیٰ درجہ کے معقول دلائل اپنے ساتھ رکھتا ہے اور ایک چمکتا ہوا نور اس میں پایا جاتا ہے۔
ایسا ہی عقلی دلائل جو صحیح مقدمات سے مستنبط ہوئے ہوں بلاشبہ علم الیقین تک
پہنچاتے ہیں۔ اسی کی طرف اللہ جل شانہ آیات مندرجہ ذیل میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ وہ کہتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/434/mode/1up
یعنی جب دانشمند اور اہل عقل انسان زمین اور آسمان کے اجرام کی بناوٹ میں غور کرتے اور رات اور دن کی کمی بیشی کے
موجبات اور علل کو نظر عمیق سے دیکھتے ہیں انہیں اس نظام پر نظر ڈالنے سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل ملتی ہے۔ پس وہ زیادہ انکشاف کے لئے خدا سے مدد چاہتے ہیں اور اس کو کھڑے ہوکر
اور بیٹھ کر اور کروٹ پر لیٹ کر یاد کرتے ہیں جس سے ان کی عقلیں بہت صاف ہو جاتی ہیں۔ پس جب وہ ان عقلوں کے ذریعہ سے اجرام فلکی اور زمینی کی بناوٹ احسن اور اولیٰ میں فکر کرتے ہیں۔
تو بے اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ایسا نظام ابلغ اور محکم ہرگز باطل اور بے سود نہیں بلکہ صانع حقیقی کا چہرہ دکھلا رہا ہے۔ پس وہ الوہیت صانع عالم کا اقرار کر کے یہ مناجات کرتے ہیں یا الٰہی تو
اس سے پاک ہے کہ کوئی تیرے وجود سے انکار کر کے نالائق صفتوں سے تجھے موصوف کرے۔ سو تو ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ یعنی تجھ سے انکار کرنا عین دوزخ ہے۔ اور تمام آرام اور راحت
تجھ میں اور تیری شناخت میں ہے۔ جو شخص کہ تیری سچی شناخت سے محروم رہا وہ درحقیقت اسی دنیا میں آگ میں ہے۔
انسانی فطرت کی حقیقت
ایسا ہی ایک علم کا ذریعہ انسانی کانشنس بھی
ہے جس کا نام خدا کی کتاب میں
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/435/mode/1up
انسانی فطرت رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی خدا کی فطرت جس پر لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔ اور وہ نقش
فطرت کیا ہے؟ یہی ہے کہ خدا کو واحد لا شریک، خالق الکل، مرنے اور پیدا ہونے سے پاک سمجھنا۔ اور ہم کانشنس کو علم الیقین کے مرتبہ پر اس لئے کہتے ہیں کہ گو بظاہر اس میں ایک علم سے
دوسرے علم کی طرف انتقال نہیں پایا جاتا جیسا کہ دھوئیں کے علم سے آگ کے علم کی طرف انتقال پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک قسم کے باریک انتقال سے یہ مرتبہ خالی نہیں ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک
چیز میں خدا نے ایک نامعلوم خاصیت رکھی ہے جو بیان اور تقریر میں نہیں آ سکتی۔ لیکن اس چیز پر نظر ڈالنے اور اس کا تصور کرنے سے بلا توقف اس خاصیت کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ غرض
وہ خاصیت اس وجود کو ایسی لازم پڑی ہوتی ہے جیسا کہ آگ کو دھواں لازم ہے۔ مثلاً جب ہم خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ کیسی ہونی چاہئے آیا خدا ایسا ہونا چاہئے کہ ہماری طرح
پیدا ہو اور ہماری طرح دکھ اٹھاوے اور ہماری طرح مرے تو معاً اس تصور سے ہمارا دل دکھتا اور کانشنس کانپتا ہے اور اس قدر جوش دکھلاتا ہے کہ گویا اس خیال کو دھکے دیتا ہے اور بول اٹھتا ہے
کہ وہ خدا جس کی طاقتوں پر تمام امیدوں کا مدار ہے۔ وہ تمام نقصانوں سے پاک اور کامل اور قوی چاہئے اور جب ہی کہ خدا کا خیال ہمارے دل میں آتا ہے معاً توحید اور خدا میں دھوئیں اور آگ کی طرح
بلکہ اس سے بہت زیادہ ملازمت تامہ کا احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا جو علم ہمیں ہمارے کانشنسؔ کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے وہ علم الیقین کے مرتبہ میں داخل ہے۔ لیکن اس پر ایک اور مرتبہ ہے جو
عین الیقین کہلاتا ہے اور اس مرتبہ سے اس طور کا علم مراد ہے کہ جب ہمارے یقین اور اس چیز میں
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/436/mode/1up
جس پر کسی نوع کا یقین کیا گیا ہے کوئی درمیانی واسطہ نہ ہو۔ مثلاً جب ہم قوت شامہ کے ذریعہ سے ایک خوشبو یا بدبو کو
معلوم کرتے ہیں اور یا ہم قوت ذائقہ کے ذریعہ سے شیریں یا نمکین پر اطلاع پاتے ہیں یا قوت حا ّ سہ کے ذریعہ سے گرم یا سرد کو معلوم کرتے ہیں تو یہ تمام معلومات ہمارے عین الیقین کی قسم میں
داخل ہیں۔ مگر عالم ثانی کے بارے میں ہمارا علم الٰہیات تب عین الیقین کی حد تک پہنچتا ہے کہ جب خود بلاواسطہ ہم الہام پاویں خدا کی آواز کو اپنے کانوں سے سنیں اور خدا کے صاف اور صحیح
کشفوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ہم بے شک کامل معرفت کے حاصل کرنے کے لئے بلا واسطہ الہام کے محتاج ہیں اور اس کامل معرفت کی ہم اپنے دل میں بھوک اور پیاس بھی پاتے ہیں۔ اگر خدا
تعالیٰ نے ہمارے لئے پہلے سے اس معرفت کا سامان میسر نہیں کیا تو یہ پیاس اور بھوک ہمیں کیوں لگا دی ہے۔ کیا ہم اس زندگی میں جو ہماری آخرت کے ذخیرہ کے لئے یہی ایک پیمانہ ہے اس بات پر
راضی ہو سکتے ہیں کہ ہم اس سچے اور کامل اور قادر اور زندہ خدا پر صرف قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ایمان لاویں یا محض عقلی معرفت پر کفایت کریں۔ جو اب تک ناقص اور ناتمام معرفت ہے۔
کیا خدا کے سچے عاشقوں اور حقیقی دلدادوں کا دل نہیں چاہتا کہ اس محبوب کے کلام سے لذت حاصل کریں؟ کیا جنہوں نے خدا کے لئے تمام دنیا کو برباد کیا، دل کو دیا، جان کو دیا‘ وہ اس بات پر
راضی ہو سکتے ہیں کہ صرف ایک دھندلی سی روشنی میں کھڑے رہ کر مرتے رہیں اور اس آفتاب صداقت کا مُنہ نہ دیکھیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اُس زندہ خدا کا اناالموجود کہنا وہ معرفت کامرتبہ عطا
کرتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام فلاسفروں کی خود تراشیدہ کتابیں ایک طرف رکھیں اور ایک طرف اناالموجود خدا کا کہنا تو اس کے مقابل وہ تمام دفتر ہیچ ہیں جو فلاسفر کہلا کر اندھے رہے۔ وہ ہمیں کیا
سکھائیں گے۔ غرض اگر خدا تعالیٰ نے حق کے طالبوں کو کامل معرفت دینے کا ارادہ فرمایا ہے تو ضرور اس نے اپنے مکالمہ اور مخاطبہ کا طریق کھلا رکھا ہے۔ اس بارے میں
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/437/mode/1up
اللہ جل شانہ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے۔
یعنی اے خدا ہمیں وہ استقامت کی راہ بتلا جو راہ ان لوگوں کی ہے جن پر تیرا
انعام ہوا ہے۔ اس جگہ انعام سے مراد الہام اور کشف وغیرہ آسمانی علوم ہیں جو انسان کو براہ راست ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے۔
یعنی جو لوگ خدا پر ایمان لا کر پوری پوری
استقامت اختیار کرتے ہیں۔ ان پر خدائے تعالیٰ کے فرشتے اترتے ہیں۔ اور یہ الہام ان کو کرتے ہیں کہ تم کچھ خوف اور غم نہ کرو۔ تمہارے لئے وہ بہشت ہے جس کے بارے میں تمہیں وعدہ دیا گیا
ہے۔ سو اس آیت میں بھی صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے غم اور خوف کے وقت خدا ؔ سے الہام پاتے ہیں اور فرشتے اتر کر ان کی تسلی کرتے ہیں اور پھر ایک اور آیت میں
فرمایا ہے۔
یعنی خدا کے دوستوں کو الہام اور خدا کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس دنیا میں خوشخبری ملتی ہے اور آئندہ زندگی میں بھی ملے گی۔
الہام سے کیا مراد ہے؟
لیکن اس جگہ یاد
رہے کہ الہام کے لفظ سے اس جگہ یہ مراد نہیں ہے کہ سوچ اور
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/438/mode/1up
فکر کی کوئی بات دل میں پڑ جائے جیسا کہ جب شاعر شعر کے بنانے میں کوشش کرتا ہے یا ایک مصرع بنا کر دوسرا سوچتا
رہتا ہے تو دوسرا مصرع دل میں پڑتا ہے۔ سو یہ دل میں پڑ جانا الہام نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے قانون قدرت کے موافق اپنی فکر اور سوچ کا ایک نتیجہ ہے۔ جو شخص اچھی باتیں سوچتا ہے یا بری باتوں
کے لئے فکر کرتا ہے اس کی تلاش کے موافق کوئی بات ضرور اس کے دل میں پڑ جاتی ہے۔ ایک شخص مثلاً نیک اور راستباز آدمی ہے جو سچائی کی حمایت میں چند شعر بناتا ہے اور دوسرا شخص جو
ایک گندہ اور پلید آدمی ہے اپنے شعروں میں جھوٹ کی حمایت کرتا ہے اور راستبازوں کو گالیاں نکالتا ہے تو بلاشبہ یہ دونوں کچھ نہ کچھ شعر بنالیں گے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ وہ راستبازوں کا دشمن
جو جھوٹ کی حمایت کرتا ہے بباعث دائمی مشق کے اس کا شعر عمدہ ہو۔ سو اگر صرف دل میں پڑ جانے کا نام الہام ہے تو پھر ایک بدمعاش شاعر جو راست بازی اور راست بازوں کا دشمن اور ہمیشہ
حق کی مخالفت کے لئے قلم اٹھاتا اور افتراؤں سے کام لیتا ہے‘ خدا کا ملہم کہلائے گا۔ دنیا میں ناولوں وغیرہ میں جادو بیانیاں پائی جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ اس طرح سراسر باطل مگر مسلسل
مضمون لوگوں کے دلوں میں پڑتے ہیں۔ پس کیا ہم ان کو الہام کہہ سکتے ہیں؟ بلکہ اگر الہام صرف دل میں بعض باتیں پڑ جانے کا نام ہے تو ایک چور بھی ملہم کہلا سکتا ہے کیونکہ وہ بسا اوقات فکر کر
کے اچھے اچھے طریق نقب زنی کے نکال لیتا ہے اور عمدہ عمدہ تدبیریں ڈاکہ مارنے اور خون ناحق کرنے کی اس کے دل میں گذر جاتی ہیں تو کیا لائق ہے کہ ہم ان تمام ناپاک طریقوں کا نام الہام رکھ
دیں؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ان لوگوں کا خیال ہے جن کو اب تک اس سچے خدا کی خبر نہیں جو آپ خاص مکالمہ سے دلوں کو تسلی دیتا اور ناواقفوں کو روحانی علوم سے معرفت بخشتا ہے۔
الہام کیا
چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے ایک زندہ اور باقدرت کلام کے ساتھ مکالمہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/439/mode/1up
اور مخاطبہ ہے۔ سو جب یہ مکالمہ اور مخاطبہ کافی اور تسلی بخش سلسلہ کے ساتھ شروع ہو جائے اور اس میں خیالات
فاسدہ کی تاریکی نہ ہو اور نہ غیر مکتفی اور چند بے سروپا لفظ ہوں اور کلام لذیذ اور ُ پرحکمت اور ُ پرشوکت ہو تو وہ خدا کا کلام ہے جس سے وہ اپنے بندے کو تسلی دینا چاہتا ہے اور اپنے تئیں اس پر
ظاہر کرتا ہے۔ ہاں کبھی ایک کلام محض امتحان کے طور پر ہوتا ہے اور پورا اور بابرکت سامان ساتھ نہیں رکھتا۔ اس میں خدا تعالیٰ کے بندہ کو اس کی ابتدائی حالت میں آزمایا جاتا ہے تا وہ ایک ذرہ
الہام کا مزہ چکھ کر پھر واقعی طور پر اپنا حال و قال سچے ملہموں کی طرح بناوے یا ٹھوکر کھاوے۔ پس اگر وہ حقیقی راستبازی صدیقوں کیؔ طرح اختیار نہیں کرتا تو اس نعمت کے کمال سے
محروم رہ جاتا ہے اور صرف بیہودہ لاف زنی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کروڑہا نیک بندوں کو الہام ہوتا رہا ہے مگر انکا مرتبہ خدا کے نزدیک ایک درجہ کا نہیں بلکہ خدا کے پاک نبی جو پہلے درجہ پر
کمال صفائی سے خدا کا الہام پانے والے ہیں وہ بھی مرتبہ میں برابر نہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی بعض نبیوں کو بعض نبیوں پر فضیلت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الہام محض فضل ہے اور
فضیلت کے وجود میں اس کو دخل نہیں بلکہ فضیلت اس صدق اور اخلاص اور وفاداری کی قدر پر ہے جس کو خدا جانتا ہے۔ ہاں الہام بھی اگر اپنی بابرکت شرائط کے ساتھ ہو تو وہ بھی ان کا ایک پھل
ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر اس رنگ میں الہام ہو کہ بندہ سوال کرتا ہے اور خدا اس کا جواب دیتا ہے۔ اسی طرح ایک ترتیب کے ساتھ سوال و جواب ہو اور الٰہی شوکت اور نور الہام میں پایا
جاوے اور علوم غیب یا معارف صحیحہ پر مشتمل ہو تو وہ خدا کا الہام ہے۔ خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/440/mode/1up
جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہم کلام ہوتا ہے۔ اسی طرح رب اور اس کے بندے میں ہم کلامی واقع ہو
اور جب کسی امر میں سوال کرے تو اس کے جواب میں ایک کلام لذیذ فصیح خدا تعالیٰ کی طرف سے سنے۔ جس میں اپنے نفس اور فکر اور غور کا کچھ بھی دخل نہ ہو اور وہ مکالمہ اور مخاطبہ اس
کے لئے موہبت ہو جائے تو وہ خدا کا کلام ہے اور ایسا بندہ خدا کی جناب میں عزیز ہے۔ مگر یہ درجہ جوالہام بطور موہبت ہو اور زندہ اور پاک الہام کا سلسلہ ایسے خدا سے بندہ کو حاصل ہو۱؂۔ اور
صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ ہو۔ یہ کسی کو نہیں ملتا۔ بجز ان لوگوں کے جو ایمان اور اخلاص اور اعمال صالحہ میں ترقی کریں اور نیز اس چیز میں جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے۔ سچا اور پاک الہام
الوہیت کے بڑے بڑے کرشمے دکھلاتا ہے۔ بارہا ایک نہایت چمکدار نور پیدا ہوتا ہے اور ساتھ اس کے پرشوکت اور ایک چمکدار الہام آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ ملہم اس ذات سے باتیں کرتا
ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔ دنیا میں خدا کا دیدار یہی ہے کہ خدا سے باتیں کرے۔ مگر اس ہمارے بیان میں انسان کی وہ حالت داخل نہیں ہے جو کسی کی زبان پر بے ٹھکانہ کوئی لفظ یا
فقرہ یا شعر جاری ہو اور ساتھ اس کے کوئی مکالمہ اور مخاطبہ نہ ہو بلکہ ایسا شخص خدا کے امتحان میں گرفتار ہے۔ کیونکہ خدا اس طریق سے بھی سست اور غافل بندوں کو آزماتا ہے کہ کبھی کوئی
فقرہ یا عبارت کسی کے دل پر یا زبان پر جاری کی جاتی ہے اور وہ شخص اندھے کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہیں جانتا کہ وہ عبارت کہاں سے آئی۔ خدا سے یا شیطان سے۔ سو ایسے فقرات سے استغفار
لازم ہے لیکن اگر ایک صالح اور نیک بندہ کو بے حجاب مکالمہ الٰہی شروع ہو جائے اور مخاطبہ اور مکالمہ کے طور پر ایک کلام روشن، لذیذ، ُ پرمعنی، پُرحکمت پوری شوکت کے ساتھ اس کو سنائی
دے اور کم سے کم بارہا اس کو ایسا اتفاق ہوا ہو کہ خدا میں اور اس میں عین بیداری میں دسؔ مرتبہ سوال و جواب ہوا ہو۔ اس
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/441/mode/1up
نے سوال کیا اور خدا نے جواب دیا۔ پھر اسی وقت عین بیداری میں اس نے کوئی اور عرض کی اور خدا نے اس کا بھی جواب
دیا۔ پھر گذارش عاجزانہ کی، خدا نے اس کا بھی جواب عطا فرمایا۔ ایسا ہی دس مرتبہ تک خدا میں اور اس میں باتیں ہوتی رہیں اور خدا نے بارہا ان مکالمات میں اس کی دعائیں منظور کی ہوں۔ عمدہ عمدہ
معارف پر اس کو اطلاع دی ہو۔ آنے والے واقعات کی اس کو خبر دی ہو اور اپنے برہنہ مکالمہ سے بار بار کے سوال و جواب میں اس کو مشرف کیا ہو تو ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کا بہت شکر کرنا
چاہئے اور سب سے زیادہ خدا کی راہ میں فدا ہونا چاہئے کیونکہ خدا نے محض اپنے کرم سے اپنے تمام بندوں میں سے اسے چن لیا اور ان صدیقوں کا اس کو وارث بنا دیا جو اس سے پہلے گذر چکے
ہیں۔ یہ نعمت نہایت ہی نادر الوقوع اور قسمت۱؂ کی بات ہے جس کو ملی۔ اس کے بعد جو کچھ ہے وہ ہیچ ہے۔
اسلام کی خصوصیت
اس مرتبہ اور اس مقام کے لوگ اسلام میں ہمیشہ ہوتے رہے
ہیں اور ایک اسلام ہی ہے جس میں خدا بندہ سے قریب ہو کر اس سے باتیں کرتااور اس کے اندر بولتا ہے۔وہ اس کے دل میں اپنا تخت بناتا اور اس کے اندر سے اسے آسمان کی طرف کھینچتا ہے اور اس
کو وہ سب نعمتیں عطا فرماتا ہے جو پہلوں کو دی گئیں۔ افسوس اندھی دنیا نہیں جانتی کہ انسان نزدیک ہوتا ہوتا کہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ آپ تو قدم نہیں اٹھاتے اور جو قدم اٹھائے یا تو اس کو کافر
ٹھہرایا جاتا ہے اور یا اس کو معبود ٹھہرا کر خدا کی جگہ دی جاتی ہے۔ یہ دونوں ظلم ہیں۔ ایک افراط سے اور ایک تفریط سے پیدا ہوا۔ مگر عقلمند کو چاہئے کہ وہ کم ہمت نہ ہو اور اس مقام اور اس
مرتبہ کا انکاری نہ رہے اور نہصاحب اس مرتبہ کی کسر شان کرے اور نہ اس کی پوجا شروع کردے۔ اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ وہ تعلقات اس بندہ سے ظاہر کرتا ہے کہ گویا اپنی الوہیت کی چادر اس پر
ڈال دیتا ہے اور ایسا شخص خدا کے دیکھنے کا آئینہ بن جاتا ہے۔ یہی بھید ہے جو ہمارے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/442/mode/1up
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھ لیا۔ غرض یہ بندوں کیلئے انتہائی تنبیہ ہے
اور اس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور پوری تسلی ملتی ہے۔
مقرر کا مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہونا
میں بنی نوع پر ظلم کروں گا اگر میں اس وقت ظاہر نہ کروں کہ وہ مقام جس کی
میں نے یہ تعریفیں کی ہیں اور وہ مرتبہ مکالمہ اور مخاطبہ کا جس کی میں نے اس وقت تفصیل بیان کی۔ وہ خدا کی عنایت نے مجھے عنایت فرمایا ہے تا میں اندھوں کو بینائی بخشوں اور ڈھونڈنے والوں
کو اس گم گشتہ کا پتہ دوں اور سچائی کو قبول کرنے والوں کو اس پاک چشمہ کی خوشخبری سناؤں جس کا تذکرہ بہتوں میں ہے اور پانے والے تھوڑے ہیں۔۱؂ میں سامعین کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا
جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے، وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہرگز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو
چھوڑ دیں اور حقیقت کی طرف دوڑیں۔ وہ کامل علم کا ذریعہ جس سے خدا نظر آتا ہے۔ وہ میل اتارنے والا پانی جس سے تمام شکوک دور ہو جاتے ہیںؔ ، وہ آئینہ جس سے اس برتر ہستی کا درشن ہو
جاتا ہے، خدا کا وہ مکالمہ اور مخاطبہ ہے جس کا میں ابھی ذکر کر چکا ہوں ۔جس کی روح میں سچائی کی طلب ہے وہ اٹھے اور تلاش کرے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر روحوں میں سچی تلاش پیدا ہو
اور دلوں میں سچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اس راہ کی تلاش میں لگیں۔ مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اٹھے گا۔ میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں
کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے۔ اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں۔ سو یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ
سے انسان ایک حیلہ پیدا کر لیتا ہے۲؂۔ اور یقیناً سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/443/mode/1up
بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں۔ میں جوان تھا۔ اب بوڑھا ہوا
مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔
کامل علم کا ذریعہ خدائے تعالیٰ کا الہام ہے
اے عزیزو۔ اے پیارو۔ کوئی انسان خدا کے ارادوں میں
اس سے لڑائی نہیں کر سکتا۔ یقیناً سمجھ لو کہ کامل علم کا ذریعہ خدا تعالیٰ کا الہام ہے جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو ملا۔ پھر بعد اس کے اس خدا نے جو دریائے فیض ہے یہ ہرگز نہ چاہا کہ آئندہ
اس الہام پرمہر لگا دے اور اس طرح پر دنیا کو تباہ کرے بلکہ اس کے الہام اور مکالمے اور مخاطبے کے ہمیشہ دروازے کھلے ہیں۔ ہاں ان کو ان کی راہوں سے ڈھونڈو۔ تب وہ آسانی سے تمہیں ملیں
گے۔ وہ زندگی کا پانی آسمان سے آیا اور اپنے مناسب مقام پر ٹھہرا۔ اب تمہیں کیا کرنا چاہئے تا تم اس پانی کو پی سکو۔ یہی کرنا چاہئے کہ افتاں و خیزاں اس چشمہ تک پہنچو، پھر اپنا منہ اس چشمہ
کے آگے رکھ دو تا اس زندگی کے پانی سے سیراب ہو جاؤ۔ انسان کی تمام سعادت اسی میں ہے کہ جہاں روشنی کا پتہ ملے اسی طرف دوڑے اور جہاں اس گم گشتہ دوست کا نشان پیدا ہو، اسی راہ کو
اختیار کرے۔ دیکھتے ہو کہ ہمیشہ آسمان سے روشنی اترتی اور زمین پر پڑتی ہے۔ اسی طرح ہدایت کا سچا نور آسمان سے ہی اترتا ہے۔ انسان کی اپنی ہی باتیں اور اپنی ہی اٹکلیں سچا گیان اس کو نہیں
بخش سکتیں۔ کیا تم خدا کو بغیر خدا کی تجلی کے پا سکتے ہو؟ کیا تم بغیر اس آسمانی روشنی کے اندھیرے میں دیکھ سکتے ہو؟ اگر دیکھ سکتے ہو تو شاید اس جگہ بھی دیکھ لو۔ مگر ہماری آنکھیں گو بینا
ہوں تا ہم آسمانی روشنی کی محتاج ہیں۔ اور ہمارے کان گو شنوا ہوں تاہم اس ہوا کے حاجتمند ہیں جو خدا کی طرف سے چلتی ہے۔ وہ خدا سچا خدا نہیں ہے جو خاموش ہے اور سارا مدار ہماری اٹکلوں پر
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/444/mode/1up
ہے۔ بلکہ کامل اور زندہ خدا وہ ہے جو اپنے وجود کا آپ پتہ دیتا رہا ہے اور اب بھی اس نے یہی چاہا ہے کہ آپ اپنے وجود
کا پتہ دیوے۔ آسمانی کھڑکیاں کھلنے کو ہیں۔ عنقریب صبح صادق ہونے والی ہے۔ مبارک وہ جو اٹھ بیٹھیں اور اب سچے خدا کو ڈھونڈیں۔ وہی خدا جس پر کوئی گردش اور مصیبت نہیں آتی۔ جس کے
جلال کی چمک پر کبھی حادثہ نہیں پڑتا۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
یعنی خدا ہی ہے جو ہر دم آسمان کا نور اور زمین کانورہے۔ اُسی سے ہر ایک جگہ روشنی پڑتی ہے۔ آفتاب کا وہی آفتاب
ہے۔ زمین کے تمام جانداروں کی وہی جان ہے۔ سچا زندہ خدا وہی ہے۔ مبارک وہ جو اس کو قبول کرے۔
تیسرا علم کا ذریعہ وہ امور ہیں جو حق الیقین کے مرتبہ پر ہیں۔ اور وہ تمام شدائد اور مصائب
اور تکالیف ہیں جو خدا کے نبیوں اور راستبازوں کو مخالفوں کے ہاتھ سے یا آسمانی قضا و قدر سے پہنچتے ہیں اور اس قسم کے دکھوں اور تکلیفوں سے وہ تمام شرعی ہدایتیں جو محض علمی طور پر
انسان کے دل میں تھیں اس پر وارد ہو کر عملی رنگ میں آ جاتی ہیں اور پھر عمل کی زمین سے نشوونما پاکر کمالِ تام تک پہنچ جاتی ہیں اور عمل کرنے والوں کااپنا ہی وجود ایک نسخہ مکمل خدا کی
ہدایتوں کا ہو جاتا ہے اور وہ تمام اخلاق عفو اور انتقام اور صبر اور رحم وغیرہ جو صرف دماغ اور دل میں بھرے ہوئے تھے اب تمام اعضاء کو عملی مزاولت کی برکت سے ان سے حصہ ملتا ہے اور
وہ تمام جسم پر وارد ہو کر اپنے نقش و نگار اس پر جما دیتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/445/mode/1up
یعنی ہم تمہیں خوف اور فاقہ اور مال کے نقصان اور جان کے نقصان اور کوشش ضائع جانے اور اولاد کے فوت ہو جانے سے
آزمائیں گے یعنی یہ تمام تکلیفیں قضاء و قدر کے طور پر یا دشمن کے ہاتھ سے تمہیں پہنچیں گی۔ سو ان لوگوں کو خوشخبری ہو جو مصیبت کے وقت صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں اور خدا کی
طرف رجوع کریں گے۔ ان لوگوں پر خدا کا درود اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے کمال تک پہنچ گئے ہیں۔ یعنی محض اس علم میں کچھ شرف اور بزرگی نہیں جو صرف دماغ اور دل
میں بھرا ہوا ہو بلکہ حقیقت میں علم وہ ہے کہ دماغ سے اتر کر تمام اعضاء اس سے متأدّب اور رنگین ہو جائیں اور حافظہ کی یادداشتیں عملی رنگ میں دکھائی دیں۔ سو علم کے مستحکم کرنے اور اس
کے ترقی دینے کا یہ بڑا ذریعہ ہے کہ عملی طور پر اس کے نقوش اپنے اعضاء میں جمالیں۔ کوئی ادنیٰ علم بھی عملی مزاولت کے بغیر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا۔ مثلاً مدت دراز سے ہمارے علم میں
یہ بات ہے کہ روٹی پکانا نہایت ہی سہل بات ہے اور اس میں کوئی زیادہ باریکی نہیں۔ صرف اتنا ہے کہ آٹا گوندھ کر اور بقدر ایک ایک روٹی کے اس آٹے کے پیڑے بناویں اور ان کو دونوں ہاتھوں کے
باہم ملانے سے چوڑے کر کے توے پر ڈال دیں اور ادھر ادھر پھیر کر اور آگ پر سینک کر رکھؔ لیں، روٹی پک جائے گی۔ یہ تو ہماری صرف علمی لاف و گزاف ہے لیکن جب ہم نا تجربہ کاری کی حالت
میں پکانے لگیں گے تو اول ہم پر یہی مصیبت
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/446/mode/1up
پڑے گی کہ آٹے کو اس کے مناسب قوام پر رکھ سکیں بلکہ یا تو پتھر سا رہے گا اور یا پتلا ہوکر گلگلوں کے لائق ہو جائے گا
اور اگر مر مر کر تھک تھک کر ۱؂ گوندھ بھی لیں تو روٹی کا یہ حال ہوگا کہ کچھ جلے گی اور کچھ کچی رہے گی۔ بیچ میں ٹکیہ رہے گی اور کئی طرف سے کان نکلے ہوئے ہوں گے حالانکہ پچاس برس
تک ہم پکتی ہوئی دیکھتے رہے۔ غرض مجرد علم کی شامت سے جو عملی مشق کے نیچے نہیں آیا‘ کئی سیر آٹے کا نقصان کریں گے۔ پھر جبکہ ادنیٰ ادنیٰ سی بات میں ہمارے علم کا یہ حال ہے تو
بڑے بڑے امور میں بجز عملی مزاولت اور مشق کے صرف علم پر کیونکر بھروسہ رکھیں۔ سو خدا تعالیٰ ان آیتوں میں یہ سکھاتا ہے کہ جو مصیبتیں میں تم پر ڈالتا ہوں وہ بھی علم اور تجربہ کا ذریعہ
ہیں۔ یعنی ان سے تمہارا علم کامل ہوتا ہے۔
اور پھر آگے فرماتا ہے کہ تم اپنے مالوں اور جانوں میں بھی آزمائے جاؤ گے۔ لوگ تمہارے مال لوٹیں گے، تمہیں قتل کریں گے اور تم یہودیوں اور
عیسائیوں اور مشرکوں کے ہاتھ سے بہت ہی ستائے جاؤ گے۔ وہ بہت کچھ ایذا کی باتیں تمہارے حق میں کہیں گے۔ پس اگر تم صبر کرو گے اور بیجا باتوں سے بچو گے تو یہ ہمت اور بہادری کا کام
ہوگا۔ ان تمام آیات کا مطلب یہ ہے کہ بابرکت علم وہی ہوتا ہے جو عمل کے مرتبہ میں اپنی چمک دکھاوے اور منحوس علم وہ ہے جو صرف علم کی حد تک رہے کبھی عمل تک نوبت نہ پہنچے۔
جاننا
چاہئے کہ جس طرح مال تجارت سے بڑھتا ہے اور پھولتا ہے۔ ایسا ہی علم عملی مزاولت سے اپنے روحانی کمال کو پہنچتا ہے۔ سو علم کو کمال تک پہنچانے کا بڑا ذریعہ عملی مزاولت ہے۔ مزاولت
سے علم میں نور آ جاتا ہے اور یہ بھی سمجھو کہ علم کا حق الیقین کے مرتبہ تک پہنچنا اور کیا ہوتا ہے۔ یہی تو ہے کہ عملی طور پر ہر ایک گوشہ اس کا آزمایا جاوے۔ چنانچہ اسلام میں ایسا ہی ہوا۔
جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن کے ذریعہ سے لوگوں کو سکھایا ان کو یہ موقع دیا کہ عملی طور پر اس تعلیم کو چمکاویں اور اس کے نور سے پر ہو جاویں۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/447/mode/1up
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے دو زمانے
اسی غرض سے خداتعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم
کے سوانح کو دو حصوں پر منقسم کردیا۔
ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتحیابی کا۔ تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے
ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے۔ سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد
ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہوگئے۔ چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا۔ اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت
واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اپنے کام
میں سست نہ ہونا اور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دئیے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائےؔ اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس
استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا۔
اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ، تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلیٰ
اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا۔ دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا۔
ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پاکر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور
حقیقتاً راستباز نہ ہو یہ اخلاق ہرگز دکھلا نہیں سکتا۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/448/mode/1up
یہی وجہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کے پرانے کینے یکلخت دور ہوگئے۔ آپ کا بڑا بھاری خلق جس کو آپ نے ثابت کر کے
دکھلا دیا وہ خلق تھا جو قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے۔
یعنی ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے یعنی اس کا جلال
ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تا میرے مرنے سے ان کو زندگی حاصل ہو۔ اس جگہ جو خدا کی راہ میں اور بندوں کی بھلائی کے لئے مرنے کا ذکر کیا گیا ہے
اس سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ آپ نے نعوذ باللہ جاہلوں یادیوانوں کی طرح درحقیقت خودکشی کا ارادہ کرلیا تھا۔ اس وہم سے کہ اپنے تئیں کسی آلہ سے قتل کے ذریعہ سے ہلاک کر دینا اوروں کو
فائدہ پہنچائے گا بلکہ آپ ان بیہودہ باتوں کے سخت مخالف تھے اور قرآن ایسی خودکشی کے مرتکب کو سخت مجرم اور قابل سزا ٹھہراتا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے۔
یعنی خودکشی نہ کرو اور اپنے
ہاتھوں سے اپنی موت کے باعث نہ ٹھہرو اور یہ ظاہر ہے کہ اگر مثلاً خالد کے پیٹ میں دردہو اور زید اس پر رحم کر کے اپنا سر پھوڑے تو زید نے خالد کے حق میں کوئی نیکی کا کام نہیں کیا بلکہ
اپنے سر کو احمقانہ حرکت سے ناحق پھوڑا۔ نیکی کا کام تب ہوتا کہ جب زید خالد کے خدمت میں مناسب اور مفید طریق کے ساتھ سرگرم رہتا۔ اور اس کے لئے عمدہ دوائیں میسر کرتا اور طبابت کے
قواعد کے موافق اس کا علاج کرتا۔ مگر اس کے سر کے پھوڑنے سے زید کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ ناحق اس نے اپنے وجود کے ایک شریف عضو کو دکھ پہنچایا۔ غرض اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے واقعی ہمدردی اور محنت اٹھانے سے بنی نوع کی رہائی کے لئے جان کو وقف کر دیا تھا اور دُعا
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/449/mode/1up
کا زمانہ نہ پاوے۔ اس کے اخلاق میں سے کچھ بھی ثابت نہ ہوگا۔ اور اگر کسی میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوا تو یہ بھی ثابت
نہ ہوگا کہ وہ دل کا بہادر تھا یا بزدل۔ اس کے اخلاق کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہم نہیں جانتے۔ ہمیں کیا معلوم ہے کہ اگر وہ اپنے دشمنوں پر قدرت پاتا تو ان سے کیا سلوک بجالاتا اور اگر
وہ دولت مند ہو جاتا تو اس دولت کو جمع کرتا یا لوگوں کو دیتا اور اگر وہ کسی میدان جنگ میں آتا تو دم دبا کر بھاگ جاتا یا بہادروں کی طرح ہاتھ دکھاتا۔ مگر خدا کی عنایت اور فضل نے ہمارے نبی صلی
اللہ علیہ و سلم کو ان اخلاق کے ظاہر کرنے کا موقعہ دیا۔ چنانچہ سخاوت اور شجاعت اور حلم اور عفو اور عدل اپنے اپنے موقعہ پر ایسے کمال سے ظہور میں آئے کہ صفحۂ دنیا میں اس کی نظیر
ڈھونڈنا لاحاصل ہے۔ اپنے دونوں زمانوں میں ضعف اور قدرت اور ناداری اور ثروت میں تمام جہان کو دکھلا دیا کہ وہ ذات پاک کیسی اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی جامع تھی اور کوئی انسانی خلق اخلاق
فاضلہ میں سے ایسا نہیں ہے جو اس کے ظاہر ہونے کے لئے آپ کو خدا تعالیٰ نے ایک موقعہ نہ دیا۔ شجاعت، سخاوت، استقلال، عفو، حلم وغیرہ وغیرہ تمام اخلاق فاضلہ ایسے طور پر ثابت ہوگئے کہ
دنیا میں اس کی نظیر کا تلاش کرنا طلب محال ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ جنہوں نے ظلم کو انتہا تک پہنچا دیا اور اسلام کو نابود کرنا چاہا خدا نے ان کو بھی بے سزا نہیں چھوڑا۔ کیونکہ ان کو بے سزا
چھوڑنا گویا راست بازوں کو ان کے پیروں کے نیچے ہلاک کرنا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جنگوں کی غرض
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لڑائیوں کی ہرگز یہ غرض نہ تھی
کہؔ خواہ نخواہ لوگوں کو قتل کیا جائے۔ وہ اپنے باپ دادا کے ملک سے نکالے گئے تھے اور بہت سے مسلمان مرد اور عورتیں بے گناہ شہید کئے گئے تھے۔ اور ابھی ظالم ظلم سے باز نہیں آتے تھے
اور اسلام کی تعلیم کو روکتے تھے۔ لہٰذا خدا کے قانون حفاظت نے یہ چاہا کہ مظلوموں کو بالکل نابود ہونے سے بچالے۔
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/450/mode/1up
سو جنہوں نے تلوار اٹھائی تھی انہیں کے ساتھ تلوار کا مقابلہ ہوا۔ غرض قتل کرنے والوں کا فتنہ فرو کرنے کے لئے بطور
مدافعت شر کے وہ لڑائیاں تھیں اور اس وقت ہوئیں جبکہ ظالم طبع لوگ اہل حق کو نابود کرنا چاہتے تھے۔ اس حالت میں اگر اسلام اس حفاظت خود اختیاری کو عمل میں نہ لاتا تو ہزاروں بچے اور
عورتیں بیگناہ قتل ہو کر آخر اسلام نابود ہو جاتا۔
یاد رہے کہ ہمارے مخالفین کی یہ بڑی زبردستی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ الہامی ہدایت ایسی ہونی چاہئے جس کے کسی مقام اور کسی محل میں
دشمنوں کے مقابلہ کی تعلیم نہ ہو اور ہمیشہ حلم اور نرمی کے پیرایہ میں اپنی محبت اور رحمت کو ظاہر کرے۔ ایسے لوگ اپنی دانست میں خدائے عزوجل کی بڑی تعظیم کر رہے ہیں کہ جو اس کی
تمام صفات کاملہ کو صرف نرمی اور ملائمت پر ہی ختم کرتے ہیں۔ لیکن اس معاملہ میں فکر اور غور کرنے والوں پر بآسانی کھل سکتا ہے کہ یہ لوگ بڑی موٹی اور فاش غلطی میں مبتلا ہیں۔ خدا کے
قانون قدرت پر نظر ڈالنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے لئے وہ رحمت محض تو ضرور ہے مگر وہ رحمت ہمیشہ اور ہر حال میں نرمی اور ملائمت کے رنگ میں ظہور پذیر نہیں ہوتی بلکہ وہ
سراسر رحمت کے تقاضا سے طبیب حاذق کی طرح کبھی شربت شیریں ہمیں پلاتا ہے اور کبھی دوائی تلخ دیتا ہے۔ اس کی رحمت نوع انسان پر اس طرح وارد ہوتی ہے جیسے ہم میں سے ایک شخص
اپنے تمام وجود پر رحمت رکھتا ہے۔ اس بات میں کسی کو شک نہیں ہو سکتا کہ ہر ایک فرد ہم میں سے اپنے سارے وجود سے پیار رکھتا ہے۔ اور اگر کوئی ہمارے ایک بال کو اکھاڑنا چاہے تو ہم اس پر
سخت ناراض ہوتے ہیں۔ لیکن باوصف اس کے کہ ہماری محبت جو ہم اپنے وجود سے رکھتے ہیں ہمارے تمام وجود میں بٹی ہوئی ہے اور تمام اعضاء ہمارے لئے پیارے ہیں۔ ہم کسی کا نقصان نہیں
چاہتے۔ مگر پھر بھی یہ بات ببداہت ثابت ہے کہ ہم اپنے اعضاء سے ایک ہی درجہ کی اور یکساں محبت نہیں رکھتے بلکہ اعضاء رئیسہ و شریفہ کی محبت جن
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/451/mode/1up
پر ہمارے مقاصد کا بہت کچھ مدار ہے۔ ہمارے دلوں پر غالب ہوتی ہے۔ ایسا ہی ہماری نظر میں ایک ہی عضو کی محبت کی
نسبت مجموعہ اعضاء کی محبت بہت بڑھ کر ہوتی ہے۔ پس جب کبھی ہمارے لئے کوئی ایسا موقع آ پڑتا ہے کہ ایک عضو کا بچاؤ ادنیٰ درجہ کے عضو کے زخمی کرنے یا کاٹنے یا توڑنے پر موقوف
ہوتا ہے تو ہم جان کے بچانے کے لئے بلاتامل اسی عضو کے زخمی کرنے یا کاٹنے پر مستعد ہو جاتے ہیں۔ اور گو اس وقت ہمارے دل میں یہ رنج بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے ایک پیارے عضو کو زخمی
کرتے یا کاٹتے ہیں۔ مگر اس خیال سے کہ اس عضو کا فساد کسی دوسرے شریف عضو کو بھی ساتھ ہی تباہ نہ کرے ہم کاٹنے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ پس اسی مثال سے سمجھ لینا چاہئے کہ خدا
بھی جب دیکھتا ہے کہ اس کے راستباز باطل پرستوں کے ہاتھ سے ہلاک ہوتے ہیں اور فساد پھیلتا ہے تو راستبازوں کی جان کے بچاؤ اور فساد کے فرو کرنے کے لئے مناسب تدبیر ظہور میں لاتا ہے۔
خواہ ؔ آسمان سے خواہ زمین سے اس لئے کہ وہ جیسا کہ رحیم ہے ویسا ہی حکیم بھی ہے۔ اَلحمد للّٰہ ربّ العالمین۔
ژژژ
ژ
Ruhani Khazain Volume 10. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۰- اسلامی اصول کی فلاسفی: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=10#page/452/mode/1up
 
Last edited:
Top