• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 14 ۔نجم الہدیٰ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 14۔ نجم الہدیٰ ۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 14. Page: 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نجمؔ الھدیٰ
الحمد للّٰہ الذی خلق الأشیاء کلہا فأودع من جمال خلقہا، وبرء نفوس الناس لنفسہ فسوّاہا وعالج بوجہہ قلقہا۔ وأتقن کل ما صنع وحسّن وأبدع وأحکم، وأضاء الشمس وأنار القمر وأنعم علی الإنسان وأعزّہ وأَکرم۔ والصّلٰوۃ والسّلام علی رسولہ النبیّ الأمّی محمد أحمد نالذی کان إسماہ ہذان أول أسماء عُرضت علٰی آدم بما کانا علّۃ غائیۃ للنشأۃ الاولٰی
نجم اؔ لھدیٰ (اردو)
اُس خدا کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس نے تمام چیزوں کو پید ا کیا ۔ اور ہر ایک چیز میں ایک قسم کی خوبصورتی رکھی۔ اس نے انسانوں کے نفسوں کو اپنے لئے بنایا۔ اور اپنی ذات کے ساتھ ان کی بے آرامی کو دور کیا۔ اور جو کچھ بنایا نہایت استوار اور خوب اور نئی طرز کا اور محکم بنایا۔ اور سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمکایا اور انسان کو عزت اور شرف اور مرتبہ بخشا۔اور اس کے رسول اُمّی پر دروداور سلام ہو جس کا نام محمد اور احمد ہے۔یہ دونوں نام اس کے وہ ہیں کہ جب حضرت آدم کے سامنے تمام چیزوں کے نام پیش کئے گئے تھے تو سب سے اوّل یہی دو نام پیش ہوئے تھے کیونکہ اس دنیا کی پیدائش
نجم الہدیٰ فارسی جملہ ستایشہامر خدا راست کہ ہمہ چیز ہارابیا فرید۔ ودران گونہء خوبی و آرایش سپرد۔ وروان آدمیان را محض خاطر خود از نیستی بہ ہستی کشید۔ و رنج و آزار آنہار ا با ذات خویش از ہم بپا شید۔وہرچہ را ساخت چنانچہ شاید خوب واستوارش بپر داخت نیّرگیتی افروز را چہرہ ہمان پالود۔وماہ رابزم آرائے شب ہماں نمود۔ وانسان را بزرگی ومزیت کرامت فرمود ۔ و درود بر نبی اُمّی وے کہ نامِ گرامی اش محمد و احمد واین دو نام اول نامہائے است کہ بر آدم عرض شد۔ زیرا کہ علّت غائی آفرینش ہمیں دو نام ودر نزد خدا بیشی و پیشی ہمیں دو نام راست۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وکانا فی علم اللّٰہ أشرف وأقدم۔ فہو أوّل النبیین درجۃ لھذین الاسمین وآخرہم بما ختم اللّٰہ علیہ کل ما علّم النبیین وفہّم، وأکمل کل ما أوحی إلیہ وألہم۔ وبما أعطاہ اللّٰہ آخر المعارف وجمع فیہ ما أخّر وقدّم، وأرسلہ إلی کل أسود وأبیض، واختارہ لإصلاح کل أعمٰی وأصمّ وأبکم وضمّخہ بعطر نعمہ أزید مما ضمّخ أحدا من الأنبیاء ، وعلّمہ من لدنہ، وفہّمہ من لدنہ، وعرّفہ من لدنہ،
میں وہی دو نام علّت غائی ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے علم میں وہی اشرف اور اقدم ہیں۔پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بوجہ ان دونوں ناموں کے تمام انبیاء علیہم السلام سے اول درجہ پر ہیں اور بباعث اس کے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر تمام نبوت کے علم ختم ہو گئے اور آپ پر کامل اور جامع طور پر وحی نازل کی گئی اور آخری معارف اور وہ سب کچھ جو پہلوں اور پچھلوں کو دیا گیا تھا آپ کو عطاہوا۔ ان تمام وجوہ سے آپ خاتم الانبیاء ٹھہرے اور ہر ایک سفید اور سیاہ کی طرف آپ کو بھیجااور ہر ایک اندھے اور بہرے اور گونگے کی اصلاح کیلئے آپ کو پسند فرمایا اور خدا تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے عطر سے اس قدر آنجناب کو معطّر کیا کہ اس سے پہلے کوئی نبی اور رسول نہیں کیا گیا ۔ خدانے اپنے پاس سے آپ کو علم دیا اور اپنے پاس سے فہم عطاکیا۔ اور اپنے پاس سے معرفت بخشی۔
پس او از جہت این دو نام بر جمیع انبیاء درجہء اولیٰ داردو وحی کامل و جامع براو نازل شد و دانشہائے پسین و ہمۂ آنچہ بہ پیشینیان و پسینیان دادہ شدہ بوئے ارزانی داشتند۔ و خدا او را بہ ہمۂ سپید و سیاہ فرستاد۔ و برائے رہنمائی ہر نابینا وکر وگنگ بر گزید و اورابہ عطر نعمت ہائے خود آنچنان خوشبو گرد انید کہ پیش از وے کسے از انبیا ء بایں مثابت نرسید۔ از قبل خود ش آموخت واز خودش بفہما نید۔ واز خودش معرفت بخشید واز خود ش پاک ساخت واز خودش آداب
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 5
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 5
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وطہّرہ من لدنہ، وادّبہ من لدنہ، وغسلہ من لدنہ بماء الاصطفاء، فوجب علیہ حمد ہذا الرب الذی کفل کل أمرہ بالاستیفاء، وادخلہ تحت رداء الایواء، وأصلح کل شأنہ بنفسہ من غیر منّۃ الاساتذ* والآباء والأمراء، وأتمّ علیہ من لدنہ جمیع أنواع الآلاء والنعماء۔ فحمدہ روح النبیّ بحمد لا یبلغ فکر إلی أسرارہ، ولا تدرک ناظرۃ حدود أنوارہ، وبالغ فی الحمد
حتی غاب وفنا فی أذکارہ۔ وأمّا سبب ہذا الحمد الکثیر و
اور اپنے پاس سے پاک کیا اور اپنے پاس سے ادب سکھلایااور برگزیدگی کے پانی سے اپنے پاس سے نہلایا۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس خدا کی تعریف کرنا واجب ہو گیا جو اس کے ہرایک کام کا آپ متکفل ہوا۔ اور اپنی پناہ کی چادر کے نیچے جگہ دی اور ہر ایک کام آنحضرت کا اپنی توجہ خاص سے بغیر توسط استادوں اور باپوں اور امیروں کے بنایا اور اپنے پاس سے اُ س پر ہر ایک قسم کی نعمت پوری کی۔پس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی روح نے خدائے تعالیٰ کی وہ تعریف کی جو کوئی فکر اس کے بھیدوں تک نہیں پہنچ سکتا اور کوئی آنکھ اس کے نوروں کی حدود کو پا نہیں سکتی اور اس نے خدا کی تعریف کو کمال تک پہنچایا یہاں تک کہ اس کے ذکروں میں گم اور فنا ہوگیا۔ اور اس کے اس قدر تعریف کرنے اور خداتعالیٰ کو
تعلیم داد۔ و خودش از آب بر گزیدگی و بر چیدگی شت و شور فرمود۔ لہٰذا واجب آمد بر آنجناب ستایش پرور دگار یکہ سازگاروکفیل کل امر او شد و در زیر چادر پناہ خودش جائے بداد۔و جملۂ کار دیرا بذات خویش بے میانجی گری استادان و پدران و تونگران درست کرد۔ و تمام نعمتہا را بروی از قبل خود اتمام فرمود۔ لہٰذا روح نبی صلعم آن حمد خدا وندی را بجاآور د کہ ہیچ فکر و اندیشہ بدامان کنہ وے نیارد برسد۔ و ہیچ دیدہ نتواند حدود نورش رادریابد۔ و آنجناب ستایش خداوندی را بمثابۂ رسانید کہ دریادش از خود برمید و سر بہ صحرائے گم گشتگی و فنا بکشید و سبب
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 6
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 6
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سرّ إحمادہ، فہو بحار فضل اللّٰہ وموالات امدادہ، وعنایۃ اللّٰہ التی ما وکلتہ طرفۃ عین إلی سعیہ واجتہادہ، حتی شغفہ وجہ اللّٰہ حُبًّا وأوحدہ فی ودادہ، ففار قلبہ لتحمید ہذا المحسن حتی صار الحمد عین مرادہ۔ وہذہ مرتبۃ ما أعطاہا اللّٰہ لغیرہ من الرسل والأنبیاء والأبدال والأولیاء ، فإنہم وجدوا بعض معارفہم
وعلومہم ونعمہم بوساطۃ العلماء والآباء والمحسنین وذوی الآلاء ، وأما نبینا صلی اﷲ علیہ وسلم فوجد کل ما وجد من حضرۃ الکبریاء
صاحب تعریف ٹھہرانے کا سرّ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے متواتر اور پیاپے اس پر اپنے فضل نازل کئے اور وہ عنایت اس کے شامل حال کی جس نے ایک طرفۃالعین بھی اس کو اپنی کوشش اور سعی کا محتاج نہ کیا۔ یہاں تک کہ وجہ اللّٰہ نے اس کے دل کو چیر کر اپنا دخل اس میں کیا اور اپنی محبت میں اس کو یگانہ بنایا۔ پس اس محسن کی تعریف کے لئے اس کے دل نے جوش مارا اور خدا تعالیٰ کی تعریف اس کی دلی مراد ہو گئی ۔ اور یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز اس کے کسی کو رسولوں اور نبیوں اور ابدالوں اور ولیوں میں سے عطا نہیں ہوا کیونکہ اُن لوگوں نے اپنے بعض معارف اور علوم اور نعمتیں بتوسط عالموں اور باپوں اور احسان کرنے والوں کے پائی تھیں۔مگر ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کچھ پایا جناب الٰہی سے پایا ۔ اور جو کچھ ان کو ملا
آنکہ ستایش خداوندی را بدین غایت ادا ساخت آن کہ خدا وند تعالیٰ شانہ پیاپے مہر بانیہائے خود را بروی فرود آورد۔ و عنایتے وکرمے در کاروی کرد کہ برائے چشم زدن ہم ویرا نشد نیاز و احتیاج بکوشش و محنت خود بیارد تا آنکہ وجہ اللّٰہ اندرونش رابشگافت و خودش در درون در شدو اور ادر مہر و حب خود یگانہ گردانید۔ لہٰذادل آنجناب درنیایش و ستایش ہمچو کارساز نیکی کن بجوش آمد۔ و ستایش خداوندی کام جان وے گردید۔ واین مرتبہ ایست کہ غیر آنجناب را از انبیا ء و اولیا ء و ابدال و رسل دست بہم نداد زیر ا کہ اوشان بعضی علوم و معارف را از واسطۂ آموز گاران و پدران و تربیت کنند گان بدست آور دند۔ ولی نبی ما (صلی اللہ علیہ وسلم )
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 7
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 7
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ونال ما نال من منبع الفضل والإعطاء ، فما فارت قلوب الآخرین للحَمد کما فار قلب نبیّنا لحمد مُنعم تولّی أمرہ
وحدہ من جمیع الأنحاء فلأجل ذالک ما سُمّی أحدٌ منہم باسم أحمد، فإنہ ما أثنی علی اللّٰہ أحدٌ منہم کمحمّدؐ وما وحّد، وکان فی نعمہم مزج أیدی الإنسان، وما علّمہم اللّٰہ کعلمہ وما تولّی کل أمورہم و ما أیّد۔ فلا مہدی إلَّا محمد ولا أحمد إلَّا
محمد علی وجہ الکمال، وہذا
اسی چشمۂ فضل اور عطاسے ملا۔پس دوسروں کے دل حمدِ الٰہی کے لئے ایسے جوش میں نہ آسکے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا دل جوش میں آیا کیونکہ ان کے ہر ایک کام کا خدا ہی متولّی تھا۔ پس اسی وجہ سے کوئی نبی یا رسول پہلے نبیوں اور رسولوں میں سے احمد کے نام سے موسوم نہیں ہوا کیونکہ ان میں سے کسی نے خدا کی توحید اور ثنا ایسی نہیں کی جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور ان کی نعمتوں میں انسان کے ہاتھ کی ملونی تھی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرح ان کو تمام علوم بے واسطہ نہیں دیئے گئے اور ان کے تمام امور کا بلاواسطہ خدا متولّی نہیں ہوا اور نہ تما م امور میں بے واسطہ ان کی تائید کی گئی۔ پس کامل طور پر بجز آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کوئی مہدی نہیں اور نہ کامل طور پر بجز آنجناب کے کوئی
آنچہ را یافت ازخدا یافت و آنچہ را درد امان وے ریختند از ہمان چشمۂ جود و عطابریختند۔ لذانشد دلہائے دیگران از بہر ستایش الہٰی آ ن گرمی و جوش بہم رسانند کہ نبی مارا در تحمید الہٰی میسر آمد۔ زیرا کہ کارسازہر کار او خود خدا وند بزرگ بود۔ و از ینجا است کہ غیر او از انبیا ء و رسل بنام احمد نامزد نشد۔ چہ نعمت ہائے کہ اوشان یافتند آمیزش دست انسانی داشت و چون نبی ما او شان جملۂ علوم بے واسطہ ادراک نہ کردند وتمام کا ر ہائے اوشان را خدا بے واسطہ متولی نشدہ درہمۂ آنچہ بادشان پیش آمد بے توسطے تائید شان نکرد۔ لہٰذا از جہت کمال غیر آنجناب نبوت انتساب مہدی و احمد نبودہ۔ واین سرّے است کہ ابدال بکنہ آن توانندپئے ببرند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 8
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 8
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سرٌّ لا یفہمہ إلَّا قلوب الأبدال۔
ثم إذا کان حمدہ بإیثار وجہ اللّٰہ والإقبال علیہ بنفی أہواء النفس والحفد إلیہ بإخلاص وصدق وتوحید، فرجع اللّٰہ الیہ صلۃ منہ
ما أرسل إلی ربّہ من تحمید، وکذالک جرت سُنّتہ بکل
صدیق وحید، فحُمِّد مُحمّدُنا
فی الأرض والسماء بأمر ربّ مجید۔ وفی ہذا تذکرۃ للعابدین، وبشری لقوم حامدین۔ فإن اللّٰہ
یردّ الحمد إلی الحامد ویجعلہ
من المحمودین، فیُحمد
فی العالمین، ویوضع
احمد ہے۔ اور یہ وہ بھید ہے جس کو محض ابدال کے دل سمجھتے ہیں اورکوئی دوسرا سمجھ نہیں سکتا۔ اورؔ پھر جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریفیں اس وجہ سے تھیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو اختیار کر لیا تھا اور ہوا ء نفس سے الگ ہو کر خدا کی طرف متوجہ ہو گئے تھے اور اخلاص اور صدق اور توحید سے اس کی طرف دوڑے تھے۔ سو خدا نے وہ تعریفیں بطور انعام کے ان کی طرف واپس کر دیں اور تمام یگانہ صدیقوں سے اس کی یہی عادت ہے کہ وہ حامد کو محمود بنا دیتا ہے۔ پس ہمارا نبی محمدصلی اﷲ علیہ وسلم زمین و آسمان میں تعریف کیا گیا اور اس قصے میں پرستاروں کے لئے یا د رکھنے کی بات ہے اور خدا کے ثنا خوانوں کو اس میں بشارت ہے کیونکہ خدا تعریف کرنے والے کی تعریف کو اسی کی طرف ردّ کر دیتا ہے اور اس کو قابل تعریف ٹھہرا دیتا ہے۔ پس وہ دنیا میں تعریف کیا جاتا ہے اور اس کی
و دیگرے را نرسددر گرد این کوئے بگردد۔ وچون ستایش آنجناب ازاین جہت بود کہ خدا را برگزیدہ واز آزو ہوائے خود بکلی دامن کشیدہ۔ وہمہ تن محضاً رو بخدا گردیدہ و از اخلاص و توحید و صدق بسوئے او دیدہ بود لہٰذا خد اتشکر اً و انعاماً آن ہمہ ستایش ہارا بو ے باز گردانید و عادۂ خدا باکل صدیقان یگانہ بر ہمین نہج جاری بودہ است کہ حامد را محمود سازد۔ پس نبی ما محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )در زمین و زمان ستودہ شد۔ این قصہ نمونہ و تذکرہ ایست از برائے پر ستاران خدا و مثر دہ ایست از پَے ستایش کنند گان وے چہ خدا را عادۃ است کہ ستایشِ ستایش کنند گان را بد یشان بازمیگرداند و اوشان را سز ا وار ستایش خلق میسازد
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 9
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 9
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
لہ القبولیۃ فی الأرض فیثنی علیہ
کل من کان من الصالحین۔وہذا ہو کمال حقیقۃ العبودیۃ، ومآل أمر النفوس المطہرۃ، ولا یعرفہا إلَّا الذی أُعطی حظًّا من المعرفۃ۔وہذا ہو غایۃ نوع الإنسان، وکمالہ المطلوب فی تعبّد الرحمٰن۔وہذا ہو الذی تنتہی إلیہ آمال الأولیاء ، ویختتم علیہ سلوک الطلباء ، وتستکمل بہا العنایۃ نفوس الأصفیاء۔ وہذا ہو لُبُّ أعباء الشریعۃ، ونتیجۃ المجاہدات
فی الملّۃ، وسرّ ما نزل بہ
الناموس من الحضرۃ علی قلب خیرالبریّۃ، علیہ أنواع السلام والصلاۃ
قبولیت زمین پر پھیلائی جاتی ہے۔ پس ہر ایک جو نیک طینت ہے ا س کی تعریف کرتا ہے اور یہی عبودیت کی حقیقت کا کمال اور پاک نفسوں کا انجام کار ہے اور اس مقام کو کوئی شخص بجز صاحب معرفت کے نہیں پہچانتا اور یہی نوعِ انسان کی غایت اور عبادتوں کا کمال مطلوب ہے۔ یہی وہ امر ہے جو اولیاء کی امیدوں کا منتہٰی اور طالبوں کے سلوک کے ختم ہونے کی جگہ ہے اور اسی کے ساتھ عنایت الٰہی برگزیدوں کے نفوس کو مکمل کرتی ہے اور یہی شریعت کے بوجھوں کا مغز اور مجاہداتِ دینی کا نتیجہ ہے اور یہ ان امور کا بھید ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف لائے۔ پس اس نبی پر سلام
مثل ایں کس در گیتی ستودہ ؔ ؔ و قبولی برائے او در دلہا ریختہ شود۔ پس ہر نیک نہاد اور امی ستاید۔ کمال حقیقۂ بند گی و سر انجام کار پاک نفسان ہمین است۔ و غیر اہل معرفت ایں مقام رانمی شناسد و ہمین غایت نوع انسان و کمال مطلوب عبادات ہمین است۔ و انجام امید ہائے اولیا ء ہمین و آخرین مقامے است کہ سلوک جو یند گان حق بد انجا منتہی بشود۔ و بہمیں عنایت الٰہی تکمیل نفوس بر گزیدہ ہارا نماید۔ و مغز و راز تکلیفاتِ شرعیہ ہمین و نتیجۂ مجاہدات دینیہ ہمین است و ہمیں سر آن ہمہ امور است کہ حضرتِ ناموسِ اکبر از حضرتِ الوہیت در پیش بر گزیدۂ آفرینش (صلی اللہ علیہ وسلم ) آورد
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 10
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 10
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
والبرکات والتحیّۃ۔ یرغب فیہ المجاہدون، وإلی اللّٰہ متبتّلون، الذین فی خیام حبّہ یسکنون، وبہ یحیون، ولہ یموتون، وعلیہ یتوکلون، ولحکمہ بصدق القلب یُطیعون، ولأمرہ بہمل العین یتّبعون، وفی مرضاتہ یفنون، وفی أحزانہ یذوبون، وبأنسہ یبقون۔ ولہ
تتجافی جنوبہم من المضاجع ویتحنّثون، ویبیتون سُجّدًا وقیامًا
ولا یغفلون، و یأخذہم القلق فیذکرون حِبَّہم ویبکون، وتفیض أعینہم من الدمع وفی
اور برکتیں اور درود اور تحیّت ہوں ۔ اسی امر مذکور کیلئے مجاہدہ کرنے والے کوشش کرتے ہیں اور نیز وہ جو خدا کی طرف منقطع ہوتے اور اس کی محبت کے خیموں میں رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ زندہ اور اسی کے لئے مرتے ہیں اور اس پر توکل کرتے اور دل کی سچائی سے اس کی اطاعت اختیار کرتے ہیں اور رواں آنسوؤں کے ساتھ اس کے حکم کی پیروی کرتے اوراس کی رضا مندی کی راہوں میں فنا ہوتے ہیں اور اس کے غموں میں گداز ہوتے اور اس کے انس کے ساتھ بقا پاتے ہیں اور اس کے لئے رات کو خوابگاہوں سے علیحدہ ہوتے اور اس کی بندگی کرتے ہیں اور قیام اور سجود میں رات کاٹتے ہیں اور غفلت نہیں کرتے اور بے آرامی ان کو پکڑتی ہے۔ پس اپنے دوست کو یا د کرکے روتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور رات کے
کو شندگان جہت آن می کوشند و وہم آنہا ئیکہ از ہمہ بسوئے او بپر داز ند ودر خیمہ ہائے محبت وے قرا ر گیرند و با او بزیند و برائے او بمیرند۔ وبر او توکل بکنند و از صدق دل پیروئ فرمودہ وے بنما یند۔و بادیدہ گریان غاشیۂ اطاعت وے بردوش جان بردارند۔ و خود را در راہِ رضائے او گم بکنند۔ و چوں موم در کورۂ غم وے بگدازند۔ و بقائے خود در انس وے بینند۔ و شب ہارا برائے اواز خوابگاہ بر کناربشوند و در سجود و قیام شب را بروز آرند۔ از غفلت دور باشند۔ قلق و کرب بر اوشان واردآید
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 11
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 11
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
آناء اللیل یصرخون ویتأوّہون، ولا یعلم أحد إلی أی جہۃ یُجذبون ویُقلّبون۔ یُصبّ علیہم مصائب فبصدقہم یتحمّلون، ویُدخلون فی نیران فیُقال: سلام فیُحفظون ویُعصمون۔ أولئک ہم الحامدون حقّا وأولئک ہم المقدسون والنجیّون، فطوبی لہم ولمن صحبہم فإنہم المنفردون، والشافعون المشفّعون۔ وہذہ مرتبۃ لا تُعطی إلَّا لمحبوبی الحضرۃ، وإنما جاء الإسلام لتبیین تلک المنزلۃ لیُخرج الناس من وہاد المنقصۃ، ویوصلہم إلی حظیرۃ القدس ویہدی إلی مقام السعادۃ، و
وقتوں میں فریاد کرتے اور آہیں مارتے ہیں ۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس طرف کھنچے جاتے اور پھیرے جاتے ہیں ۔ ان پر مصیبتیں پڑتی ہیں اور وہ برداشت کرتے ہیں ۔ آگ میں داخل کئے جاتے ہیں ۔ پس کہا جاتا ہے کہ سلام پس بچالئے جاتے ہیں ۔ وہی سچے ثناخوان اور خدا کے مقرب اور ہمراز ہیں۔ اور ان کو خوشخبری ہو اور ان کے ہم صحبتوں کو کیونکہ وہ شفاعت کرنے والے اور شفاعت قبول کئے گئے ہیں۔ اور یہ وہ مرتبہ ہے جو بجزدرگاہ کے پیاروں کے اور کسی کو نہیں ملتا۔اور اسی کے بیان کے لئے اسلام آیا ہے تاکہ نقصان کے گڑھے سے لوگوں کو نکالے اور تقدس کے احاطے میں پہنچاوے اور سعادت کے مقام تک رہبری کرے اور غافلوں
پس محبوب خود را یاد آورند۔ و از چشم سر اشک روان سازند۔ ودر پردۂ شب نالہاکشند و آہ زنند۔ کسی بر سر وقت شاں آگاہ نہ کہ بکدام طرف کشیدہ شوند۔ مصیبتہا بر سر اوشاں فرو ریز د وبرمی تابند۔ در آتش انداختہ شوند پس گفتہ شود سلام در زمان رستگار و ایمن گردند۔ حقیقۃً اوشان ثناگویان خدا و نزدیک و ہمراز دیند۔ و ایں مرتبہ ایست کہ غیر محبوبان الٰہی را دست بہم ند ہد۔ اسلام جہت کشودن ہمیں راز آمدہ کہ از مغاک ریان مردم را بیرون کشد و در ساحت تقدس رساندو تا بمقامِ سعادت کشاند۔ و غافلان را از راہ ایں سر زنش کوفت و آزارے رساند
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 12
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 12
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یُنذر الغافلین ویصدم قلوبہم بوعید مُدی القطعیّۃ، وما تعلم ما الحمد والتحمید، ولِمَ علی مقامہ الربّ الوحید۔وکفی لک من عظمتہ أن اللّٰہ ابتدأ بہ کتابہ الکریم، لیُبیّن للناس عظمۃ الحمد ومقامہ العظیم۔ وأنّہ لا یفور من قلبٍ إلَّا بعد المحویّۃ والذوبان، ولا یتحقق إلَّا بعد الانسلاخ ودوس أہواء النفس الثعبان، ولا یجری علی لسان إلَّا بعد اضطرام نار المحبۃ فی الجنان بل لا یتحقق إلَّا بعد زوال أثر الغیر من الموہوم والموجود، ولا یتولّد
کو اس دھمکی سے کوفتہ کرے کہ قطع تعلق کی کاردیں تیار ہیں ۔ اور تجھے کیا خبر ہے کہ حمد کہتے کس کو ہیں اور کیوں اس کا بلند پایہ ہے اور اُس کی عظمت سمجھنے کے لئے تجھے یہ کافی ہے کہ خدا نے قرآن شریف کی تعلیم کو حمد سے ہی شروع کیا ہے تا لوگوں کو حمد کے مقام کی بلندی سمجھاوے جو کسی دل میں سے بجز گدازش اور محویت کے جوش نہیں مار سکتی۔اور اُسی وقت متحقق ہوتی ہے جب کہ مار نفسِ امّارہ کچلا جائے اور نفسانی چولہ اتار لیاجائے اور یہ حمد کسی زبان پر جاری نہیں ہوسکتی بجز اس کے کہ پہلے دل میں محبت کی آگ بھڑکے ۔ بلکہ یہ وجود پذیر ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ غیر کا نام و نشان بکلّی زائل نہ ہو جائے اور پیدا نہیں ہو سکتی
کہ نزدیک است کار و قطع تعلق پارہ پارہ شان سازد۔ توچہ دانی حمد چیست و از چہ رو ایں پایۂ بلندی وے را حاصل است۔ بزرگئ وے را از ینجا تواں دریافت کہ خدائے تعالیٰ تعلیم قرآن را آغاز از حمد کرد تا مردم بر مقام بلندش آگا ہ شوند و فوارۂ حمد از دل احدے جوش نزند تا محویت و گدازش میسر نیاید۔ ودر وقتے سربر زند و متحقق شود کہ ما ر نفسِ امّارہ پامال و بکلی بدر آمدن از پوست انانیت و نفسانیت دست دہد۔ و ایں ستایش ابدا نمی شود بر زبانی رواں شود تا وقتیکہ زبانۂ محبت در دلی سر برنزند بل ممکن نیست صورت وجود بپزیرد تا اسم و رسم غیر بالمرّہ ناپید نشود۔ و ہرگز
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 13
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 13
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
إلَّا بعد الاحتراق فی نار محبّۃ المعبود۔فمن ألقی نفسہ فی ہذہ النار، فہو یحمد اللّٰہ بقلب موجع وسرمحو فی الحبیب المختار۔وہو الذی یُدعی فی السماء باسم أحمد ویُقرّب ویُدخَل فی بیت العزّۃ وقصارۃ الدار، وہی دار العظمۃ والجلال یُقال استعارۃ أن اللّٰہ بناہا لذاتہ القہار، ثم یُعطیہ لحمّاد وجہہ فیکون لہ کالبیت المستعار، فیُحمد ہذا الرجل فی السماء والأرض
بأمر اللّٰہ الغفّار، ویُدعیٰ باسم
مُحمّد فی الأفلا ک والبلاد
جب تک کہ ایک شخص آتشِ محبتِ معبود حقیقی میں جل نہ جائے اور جو شخص اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال دے پس وہی اپنے درد مند دل اور اس سر سے جوخدا میں محو ہے خدا کی تعریف کرے گا۔ اور وہ وہی شخص ہے جس کو آسمان میں احمد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور قریب کیا جاتا ہے اور عزت کے گھر اور قصارۃ الدار میں داخل کیا جاتا ہے اور وہ عظمت اور جلال کا گھر ہے جو بطور استعارہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے اس کو اپنی ذات کیلئے بنایا پھر اس گھر کو بطور مستعار اُس کو دے دیتا ہے جو اس کی ذات کا ثناخوان ہو۔ پس یہ شخص زمین اور آسمان میں خداتعالیٰ کے حکم کے ساتھ تعریفؔ کیا جاتا ہے۔ اور آسمانوں اور زمین میں محمد کے نام سے پکارا
لباس ہستی نمی پو شد تاخر من بو دکسے از آتشِ محبت معبودحقیقی پاک نسو زد۔ ہر کہ برسوختن درایں آتش تن دردہد او تواند بادل درد مندو با سرّے کہ محوحبیب مختار شدہ ترانہ ریز حمد بشود۔ ہماں کس است کہ بر آسمان اورا احمد گویند۔ او نزدیک کردہ شودو دربارگاہ عزت وایوان مقصود بار یابد و آن مکانِ عزّت و جلال است کہ از روئے استعارہ تواں گفت خدا آنرا
جہت ذاتِ خویش بنا ساختہ و باز خدا آن خانہ را بطور مستعار بکسے مسترد کند کہ ثنا خوان اوست۔ پس آں کس با ذنِ الٰہی در آسمان و زمین ستودہ ودر آسمان و زمین بنام محمد یاد کردہ شود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 14
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 14
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
والدیار، ومعناہ أنہ حُمّد حمدًا کثیرًا واتفق علیہ الأخیار من غیر الإنکار۔ وإن ہذین الاسمین قد وُضعا لنبیّنا من یوم بناء ہذہ الدار، ثم یُعطیان للذی صار لہ کالاظلال والآثار، ومن أُعطی من ہذین الاسمین بقبس فقد أُنیر قلبہ بأنواع الأنوار، وقد جری علی شفتی الرسول المختار۔ أن اللّٰہ یرزق منہما عبدا لہ فی آخر الزمان کما جاء فی الأخبار، فاقرؤا
ثم فکّروا یا أولی الأبصار۔
فالغرض أن الأحمدیۃ والمحمدیۃ أمر جامع دُعِیَ الموحّدون إلیہ
جاتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا ۔اور یہ دونوں اسم ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے ابتداءِ دنیا سے وضع کئے گئے ہیں۔ پھر بعد اس کے اس شخص کو بطور مستعا ر دیئے جاتے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے بطور اظلال و آثار ہو۔ اور جس شخص کو ان دونوں ناموں سے ایک چنگاری دی گئی تو اس کا دل کئی قسم کے نوروں سے روشن کیا گیا۔ اور رسول مختار کے لبِ مُبارک پر جاری ہو اتھا کہ خدا تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اپنے بندے میں یہ دونوں صفتیں جمع کر دے گا جیسا کہ حدیثوں میں وارد ہے۔ پس اے دانش مندو ! اِن حدیثوں کو پڑھو اور سوچو۔
اب غرض یہ ہے کہ احمدیت اور محمدیت ایک ایسا امر جامع ہے کہ تمام موحّد اس کی طرف بلائے گئے ہیں
ومعنی این کلمہ است بسیار ستودہ شد ہ۔ ایں ہر دو نام برائے نبی ما ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ازآغاز آفرینش موضوع شدہ وباز مستعارً اایں ہردونام بکسے ہم کرامت می شود کہ از آن نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) بمنزلہ ظل واثر باشد۔ و ہر کہ او را از این دونام اخگری درکار کردندد ل اوبگو ناگون نور ہاروشنی یافت۔ وبر زبان وحی ترجمان آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رفتہ کہ خد اتعالیٰ شانہٗ در زمانہ پسین بندۂ را از بندگان خود بہ تحلیہ ایں دو نام و تزیین این دو صفت ممتاز و مفتخرخواہد کرد پس ای دانشمندان احادیث بخو انید و نیکو اندیشہ بفرمائید۔
خلاصہ احمدیت و محمدیت امر جامعی می باشد کہ ہمہ موحّدین بسوی آں خواندہ شدہ۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 15
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 15
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/15/mode/1up
ولا یتم توحید نفس إلَّا بعد أن یری فی وجودہ تحقق جنبیہ۔ ولا تصیر نفس مطمئنۃ، ولا تتنزل علی قلب سکینۃ، إلَّا أن یکون سابحا فی ہذہ اللجّۃ، ولا ینجو أحدٌ من مکائد الأمّارۃ۔ إلَّا أن یحصل لہ حظٌ من ہذہ المرتبۃ۔ والذین بعدوا منہا وما أخذوا منہا حصّۃ ترہقہم ذلّۃ فی ہذہ ویوم القیامۃ۔ ہم الذین یمشون علی الأرض کغثاء علی السیل، کأنّما أُغشیت وجوہہم قطعًا من اللّیل، یتولدون محجوبین ویعیشون محجوبین ویموتون محجوبین۔ أولئک الذین أعرضت قلوبہم
اور کسی نفس میں کامل طور پر توحید پیدا نہیں ہوتی جب تک کہ یہ دونوں پہلو اس میں متحقق نہ ہوں اور کوئی نفس مطمئن نہیں ہو سکتا اور کسی دل پر سکینت نازل نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اس دریا میں تیرنے والا نہ ہو۔ اور کوئی شخص نفس امارہ کی مکاریوں سے نجات نہیں پا سکتا جب تک کہ اس کو یہ مرتبہ حاصل نہ ہو۔ اورجو لوگ اس مرتبہ سے دور رہے اور کوئی حصہ اس میں سے نہ لیاان کو اس دنیا اور قیامت میں ذلت پہنچے گی۔ وہ وہی ہیں جو سیلاب کے خس و خاشاک کی طرح زمین پر چلتے ہیں۔ اور ایسے بد رَو ہیں کہ گویا ایک ٹکڑا رات کا اُن کے منہ پر ہے ۔ وہ پردوں میں پیدا ہوتے ہیں اور پردوں ہی میں جیتے ہیں اور پردوں میں ہی مرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے دل خد اتعالیٰ کی
و ہیچ نفسے از نفوس را نرسددم از توحید کامل بزند تا وقتیکہ ایں ہر دو شق در وے متحقق نگرد د و احدے اطمینان نیابد و سکینت بروے فرود نیاید تا قدرت بر شنا کردن در ایں دریا دستش ندہد۔ و نمی شود کسی ایمن از مکار ی ہائے نفس ا مّا رہ بنشیند تا بایں مرتبہ فائز نشود۔ و انہائیکہ ازیں مرتبت حرمان نصیب بماندند و بہرۂ ازاں نگر فتند درد نیا وعقبیٰ ہمدوش مذلت و ہمکنار فضیحت خواہند بود۔ امثالؔ ایں ناکسان در رنگ خس و خاشاک در راہ سیل رفتار کنندو در زشت روئی بمثابۂ می باشند کہ گوئی پارہ ہائے شب تار برقع دار بر رُخ نازیبائے انہا پو شانیدہ شدہ است۔ محجوب زیندو محجوب میرند۔ اینہاکسانے می باشند کہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 16
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 16
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/16/mode/1up
عن حمد ربہم وضیّعوا أعمارہم
فی حمد أشیاء أخری أو رجال آخرین۔ فبُشری لنا معشر الإسلام
قد بُعث لنا نبیّ بہذہ الصفۃؔ ۔ وہذا الکمال التام، وسُمّی أحمد ومحمد من اللّٰہ العلَّام، لیکون ہذان الاسمان بلاغا للأمۃ وتذکیرا لہذا المقام۔ الذی ہو مقام الفناء والانقطاع والانعدام، لترغب الأمّۃ فی ہذہ الصفات وتتبع اسمی خیر الأنام۔
وقد نُدب علیہما إذ قیل حکایۃً عن الرسول: 3، ۱؂
فاہتزّت أرواحنا عند وعد ہذا الجزاء والإنعام، وقلوبنا مُلئت
تعریف سے کنارہ کرتے رہے اور دوسروں کی تعریفوں میں انہوں نے اپنی عمریں ضا ئع کیں۔پس ہم جو اسلام کا گروہ ہیں ہمیں خوشخبری ہو کہ ہمیں احمدیت اور محمدیت کی صفت والا نبی ملا اور اس کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے احمد اور محمدہوا تاکہ اس کے دونوں نام اُمت کے لئے ایک تبلیغ ہو۔ اور اس مقام کے لئے یہ ایک یاد دہانی ہو۔ وہ مقام جو فنا اور غیر اللہ سے منقطع ہونے اور معدوم ہونے کا مقام ہے تاکہ اُمت اِن صفتوں میں رغبت کرے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ان دونوں ناموں کی پیروی کرے اور پیروی کے لئے قرآن شریف میں بُلایا گیا ہے جبکہ رسول کی زبان سے کہا گیا کہ آؤ میری پیروی کرو تا خدا تم سے پیا ر کرے۔ پس یہ سن کر کہ یہ انعام ملے گا ہماری روحیں جنبش میں آئیں اور ہمارے دل شوق سے بھر گئے
دلہا شان پشت بر حمد رب خویش کردہ رو بحمد چیز ہائے دیگر آوردہ عمر گرامی را در ایں بطالت برباد فنادادند۔ گروہ ما اہالی اسلام را مژدہ باد کہ از برائے مانبی موصوف بہ صفت احمدیت و محمدیت مبعوث شدہ و این دو نام از قبل خدائے بزرگ بجہت آن برو گزاشتہ شد کہ از پئے امت تبلیغ و برائے این مقام تذکیر و یاددہانیدنی باشد۔ مقامے کہ بجز از فنا و بریدن از ما سوائے خدا حاصل نشود تا امت را تشویق و ترغیب برائے حصول ایں مقام در دل خیز د وا رادۂ پیروی ایں دو نا م مبارک در طبیعت شان طرح ظہور ریزد۔ وقرآن بسوئے پیروی این دو نام میخواند چوں از زبان رسول ایں قول میرا ندکہ در پس من بیاید تا خدا شمارا دوست دارد۔ و چوں این ندا بگوش ما ر سید کہ ہمچو انعام مارا ارزانی خواہند د اشت جنبشے در
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 17
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 17
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/17/mode/1up
شوقا وصارت أشکالہا ککؤوس المدام، وما أعظم شأن رسول ما خلا اسمہ من وصیّۃ للامّۃ، بل ملاء من تعلیم الطریقۃ، ویہدی إلی طرق المعرفۃ، وأُشیر فی اسمیہ إلٰی مُنتہی مراحل سُبُل حضرۃ العزّۃ، واومی إلی نقطۃ ختم علیہا سلوک أہل المعرفۃ۔ اللّٰہم فصلّ علیہ وسلم، وآلہ المطہرین الطیبین، وأصحابہ الذین ہم أسود مواطن النہار و رہبان اللیالی ونجوم الدین،
رضی اللّٰہ عنہم أجمعین.
أمّا بعد۔ فہذہ رسالۃ فیہا بیان
ما استبضعت متاعًا من ربّی
اور ان کی شکلیں یوں ہو گئیں جیسا کہ شراب سے بھرے ہوئے کوزے ہوتے ہیں اور اس رسول کی کیا ہی بلند شان ہے جس کا نام بھی وصیّت سے خالی نہیں ۔ بلکہ خدا جوئی کے طریقہ کی اس سے تعلیم ملتی ہے اور معرفت کی راہوں کی طرف وہ ہدایت کرتا ہے۔ اور اس میں اس نقطہ کی طرف اشارہ ہے جس پر اہل معرفت کے سلوک ختم ہوتے ہیں اور نیز خدا شناسی کے آخری مقام کی طرف اشارہ ہے۔ پس اے خدا ! اس نبی پر سلام اور درود بھیج اور اس کے آل پر جو مطّہر اور طیب ہیں اور اس کے اصحاب پر جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں اور دین کے ستارے ہیں۔ خدا کی خوشنودی ان سب کے شامل حال ہے ۔
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ ایک رسالہ ہے جس میں بیان اس متاع کا ہے جو بطور تجارتی مال کے میرے رب سے
روانہائے ما پدید آمد ودلہا از شوق لبریز و شکل انہا بطوری شد کہ گوئے جامہائے پُر از آب آتشین می باشند۔فرخندہ رسولی وحبّذا شان بلندوی کہ نام پاکش ہم مشتمل بر وصیت و نصیحت امہ میبا شد۔ نہ تنہا ہمین قدر بلکہ آن نام مبارک تعلیم طریق ہائے حق جوئی و خدا پثروہی و ایمائی بآں نقطہ کند کہ سلوک اہل معرفت بد انجا بآ خر رسد و مقام آخری خدا شناسی آں باشد۔ پس اے خدا برآں نبئکریم سلام و درود بفرست و بر آل او کہ پاکیزہ اندو بر اصحاب او کہ درمیدان روز شیران بیشۂ دغاو در پس پردۂ شب تاریک بیدار دلان رہبان نماد نجوم بزم افروز ملّت بیضا بودند۔ خدائے رحیم افسر خوشنودی بر فرق ہمگنان پوشانید۔
پوشیدہ نماند کہ ایں رسالہ بیان آن بضاعت را کند کہ بطور مالِ تجارۃ از خد ا برمن ارزانی شدہ و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 18
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 18
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/18/mode/1up
وما نبع فی زمان ملامح السراب من عین فی سربی، بإذن مولیً مُربّی۔ وشرعتہا یوم الخمیس وختمتہا بکرۃ عروبۃ من غیر أن أکابد الصعوبۃ۔ وإنی ألّفت ہذہ الرسالۃ إتماما للحجّۃ، وبادرت إلیہا شفقۃ علی الغافلین من ہذہ الأمّۃ، ومثلتُ تحنّنًا علی الضعفاء من ہذہ العصبۃ، وإنی أری فی دعوتی صلاح الرجال منہم والنسوۃ، ولو کانت رابعۃ بنسکہا والعفّۃ۔ وعوّضتہا عما أشاع المخالفون فی ہذہ الأیام، وأودعتہا من نکات المعارف ودقائق
مجھ کو ملی ہے ۔ اور بیان اس چشمہ کا ہے جو سراب کی چمک کے زمانہ میں میرے پروردگار کے اذن سے میرے دل میں سے پھوٹا اور میں نے اس کو جمعرات کے دن شروع کر کے جمعہ کی صبح پورا کر دیا بغیر اس کے جو مجھ کو کوئی تکلیف پہنچی اور میں نے اس رسالہ کو حجت کے پوری کرنے کیلئے تالیف کیا ہے۔ اور اس اُمت کے غافلوں کی ہمدردی کے لئے میں نے جلدی سے یہ کام کیا اور میں خادموں کی طرح اس کام کیلئے اسلامی جماعت کے کمزوروں کے لئے کھڑا ہوا۔ کیونکہ میری دعوت کے قبول کرنے میں ان کے زن و مرد کی بھلائی ہے۔ اگرچہ اپنی عباد ت اور زہد کے ساتھ رابعہ وقت ہوں ۔ اور یہ ان تحریروں کا بدل ہے جو ان دنوں میں مخالفوں کی طرف سے نکلیں۔ اور اس میں مَیں نے عمدہ عمدہ ملّت اسلامی کے نکتے اور باریک باتیں
صحبت ازان چشمہ دارد کہ در زمان سراب نشان باذن پروردگار جہان وجہا نیان از تگ دل من در جوش آمدہ وروز پنجشنبہ شروع دران کردم۔ و پگاہ روز آدینہ بانجام رسانیدم۔ و درایں کا رہیچ گونہ زحمتی پیش من نیامد۔ وایں رسالہ را جہت اتمام ُ حجۃ تالیف دادم و شفقت و رحمت بر ناداناں ایں امت رگ جانم را بحرکت آورد تا درایں امر باگام زودی رفتا ر نمودم۔از کمال رافت چون شاگردان و نوکران جہت ہمدردی نا توانانِ ملّت برپا استادم چہ بہبود مردان و زنان البتہ بستہ بہ قبول دعوت من است اگرچہ کسی از قرار زہد و عبادت رابعۂ وقت ہم باشد۔ و ایں رسالہ درازائی آن نوشتہ ہامی باشد کہ مخالفان امروز رو زیر روئے کار آوردہ اند۔ من در دُرج این رسالہ دُر ہائے شاہو ار نکات اسلام ولآلی مکنونہ معارف و دقائق
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 19
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 19
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/19/mode/1up
ملّۃ الإسلام۔ وہذہ لہم کغواث فی لسانین منی ومن فور محبّتی، وزاد الإنجلیزیّۃ والفارسیۃ علیہا بعض أحبّتی، وما وہنوا وما استقالوا بل حفدوا إلی إسعاف مُنیتی، وکلّ ہذا من ربّی کافل خُطّتی۔ لا رادّ لإرادتہ، ولا صادّ لمشیتہ، ولا مانع لفضلہ، ولا کافئ لنصلہ۔ ولقد کادت أنوار الإسلام تغرب، وأنواء ہ تعزب، لولا أن اللّٰہ تدارک الأمّۃ علی رأس ہذہ الماءۃ، وتلافی المحل بمزنۃ الرحمۃ والعاطفۃ، فاشکروا ہذا المولی المحسن إن کنتم مؤمنین
درج کی ہیں اور یہ رسالہ مخالفوں کے لئے ایک فریاد رس ہے جس کو میں نے جوش محبت سے دو زبانوں میں لکھا ہے۔ اور میرے بعض دوستوں نے فارسی انگریزی زبان کو ان پر زیادہ کیا ۔ اور وہ نہ سُست ہوئے اور نہ اس کام سے معافی چاہی بلکہ میری آرزو کے پورا کرنے کے لئے دوڑے ۔ اور یہ سب کچھ میرے خدا کے فضل سے ہے ۔ اس کے ارادے کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا اور اس کی مشیت کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ اس کے فضل کو کوئی منع کرنیوالا نہیں ۔ اس کی تلوار کو کوئی پیچھے ہٹانے والا نہیں اور اگر وہ اس امت کا صدی کے سر پر تدارؔ ک نہ کرتا اور قحط کے دنوں کی اپنی رحمت اور مہربانی سے تلافی نہ فرماتا تو اسلام کے تمام نور ڈوب چکے تھے اور دینی بارشوں کے ستارے دور چلے گئے تھے۔ سو اگر تم مومن ہو تو اس محسن آقا کا شکر کرو
درج کردم۔ فی الحقیقت این رسالہ مخالفان را بمنزلہ فریاد رسی است کہ از فرط جوش محبت در دو لسان عربی واردو ترقیم کردم و بعضے از دوستا نم لسان انگلیسی و پارسی را بر آں افزودند و کسل و جبن را بخود راہ ندادند ونہ از قبول این فرمایش پوزش نمودند بل از برائے بر آوردن کام من باپا ئے سر بشتا فتند۔ وایں ہمہ از محض فضلِ پروردگا رمن است کسی را زہرۂ آن نہ کہ سنگے در راہ ارادہ اش گذارد و یارائی آن نہ کہ مشیت وی را دست ممانعہ در پیش آرد۔ فضل وی راکسے منع کند خیال محال است و تیغ بران وی را احدے سپرد فع پیش کند کرا مجال۔ واگر او بر سر صد ایں امت را در نیا فتی ودر آوانِ قحط از رحمت و فضل تدارک مافات نہ فرمودی البتہ کشتئ اسلام در چار موجۂ فنا فرو رفتہ و تاریکی جائے نورش را گرفتہ و ستارہ ہائے باران دین بعید شدہ بود۔ پس اگر بوئے از ایمان دارید باید بہزار جان تشکر آن مولا ئے محسن بجا آرید۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 20
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 20
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/20/mode/1up
وإنّ رسالتی ہذہ قد خُصّت بقومی الذین أبوا دعوتی، وقالوا أفیکۃ أفّاک وحسبوہا فریتی، وظنوا أنہا عضیہۃ وہتکوا بسوء الظن عرضی وحرمتی، فألجأنی وجدی المتہالک إلی النصیحۃ والمواساۃ، واللّٰہ یعلم ما فی صدور عبادہ وہو علیم بالنّیات، ومُطّلعٌ علی المخفیّات، وخبیر بما فی العالمین۔ وإنی لا أری حاجۃ فی ہذہ الرسالۃ إلی أن
اکتب دلائل الملّۃ الإسلامیۃ، أو أُنمّق نبذًا من فضائل خیر البریۃ، علیہ معظمات السلام والتحیۃ
اور یہ میرا رسالہ میری قوم سے خاص ہے جنہوں نے میری دعوت سے انکار کیا اور یہ کہا کہ یہ ایک کذاب کا جھوٹ ہے اور میری بات کو دروغ سمجھا اور گمان کیا کہ یہ ایک بہتان ہے اور بدظنّی سے میری ہتک عزت کی پس میرے غم اوراندوہ نے جو کمال تک پہنچا ہو ا ہے نصیحت اور غم خواری کی طرف مجھے تحریک کی اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی نیتوں کو جانتا اور ان کے پوشیدہ بھیدوں پر اطلاع رکھتا ہے اور وہ تما م دنیا کے حالات سے آگاہ ہے اورمیں اس رسالہ میں اس بات کی طرف کچھ حاجت نہیں پاتا کہ مذہب اسلام کی حقیّت کے دلائل لکھوں یا کچھ فضائل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیان کروں۔ کیونکہ اسلام وہ دین بزرگ اور سیدھا
و ایں رسالہ مخصوصاً جہت قوم من است اعنی بجہت انہائے کہ دعوت مرا دست ردّ برسینہ زدند و گفتند کہ ایں دروغ و غل سازی است و گمانید ند کہ آن را از قبل نفس خود ترا شیدم۔ و تا رو پود لاف و گزافی چند را برہم بافیدم و از شدۂ ظن بد در پوستینم افتادندو ہر طور ممکن بودواو تحقیر و ہتک آبروئی من در دادند۔ لاجرم اندوہ و غم من کہ پایانی ندارد مرا بر غمگساری و ہمدردی انہا آمادہ کرد۔ دانائی نہان و آشکار آگاہ بر آہنگ و پسیج بندہ ہائے خود می باشد وہم چنین احوال ہمہ جہان بروےؔ پوشیدہ نیست۔ آنچہ من می بینم احتیاج ندارد۔ در این رسالہ دلائل حقیت اسلام بر نگارم یا اندکے از فضائل و مز اہائے حضرت سرور کائنات را ( صلی اللہ علیہ وسلم )
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 21
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 21
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/21/mode/1up
فإن الإسلام دین عظیم وقویم أُودع عجائب الآیات، ونبیّنا نبی کریم ضُمّخ بطیب عمیم من البرکات، وصیغ من نور رب الکائنات، وجاء نا عند شیوع الضلالات، وسفر عن مرأی وسیم، وأرج نسیم للإ!فاضات۔ وشنّ علی سرب الباؔ طل من الغارات، وترائی فی صدقہ کأجلی البدیہیات۔ وإنّہ ہدی قومًا کانوا لا یرجون لقاء الرحمن، وکانوا کأموات ما بقی فیہم روح الإیمان والعمل والعرفان، وکانوا یعیشون یائسین۔ فہداہم وہذّبہم ورفعہم و
ہے جو عجائب نشانوں سے بھرا ہوا ہے اور ہمارا نبی وہ نبی کریم ہے جو ایسی خوشبو سے معطّر کیا گیا ہے جو تمام مستعد طبیعتوں تک پہنچنے والی اور اپنی برکات کے ساتھ اُن پر احاطہ کرنے والی ہے۔ وہ نبی خدا کے نور سے بنایا گیا اور ہمارے پاس گمراہیوں کے پھیلنے کے وقت آیا اور اپنا خوبصورت چہرہ ہم پر ظاہر کیا اور ہمیں فیض پہنچانے کے لئے اپنی خوشبو کو پھیلایا اور اس نے باطل پر دھاوا کیا اور اپنے تاراج سے اس کو غارت کر دیا اور اپنی سچائی میں اجلی ۱ بدیہیات کی طرح نمودار ہوا۔ اس نے اس قوم کو ہدایت فرمائی جو خدا کے وصال کی اُمید نہیں رکھتے تھے۔ اور مُردوں کی طرح تھے جن میں ایمان اور نیک عملی اور معرفت کی روح نہ تھی اور نو میدی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اور ان کو ہدایت کی اور مہذب بنایااور معرفت کے
بر شمارمی چہ اسلام آں دیانۂ بزرگ ور است است کہ جہان جہاں نشان شگرف ہمراہ دارد۔ و نبئ ما آں نبی کریم وسیم و معطر بہ عطر ی است کہ بمشام جان ہر فطرۂ سلیمہ مستعدہ رسد۔ و آں نبی کریم پیرایۂ وجود از نور پر وردگار پوشیدہ و در وقتے درمیانۂ ما ظہور فرمودہ کہ شب ضلالت دامان سیاہ بر عالم فروہشتہ بود وروئے زیبائی خود را بر ما جلوہ بداد وبوئے خوش خود را مہر از حقہ بکشاد تا فیض ہا گیریم و فائدہ ہا برداریم۔ وبیکبار بر سپا ہ باطل بر یخت و تارو پودش را ازاں حملہ از ہم بگسیخت و صدق و ّ حقیت او بلند تراز ستیزد آویز منازع و منازعات است زیرا کہ پر واضح و از اجلی ۱ بدیہیات است۔ آں ہادی کامل قومی را راہ حق نمود کہ نومید از لقائی حق و مردہ وار بسرمی بردند۔ و چون کالبدبے جان تہی از روح معرفت و کردار نیک بودہ چشم امید برہم بستہ بودند۔ و بدیشان راہ نمود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 22
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 22
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/22/mode/1up
اوصلھم إلی أعلی مدارج المعرفۃ، وکانوا من قبل یشرکون ویعبدون تماثیل من الحجارۃ، ولا یؤمنون باللّٰہ الأحد الصمد ولا بیوم الآخرۃ وکانوا یعکفون علی الأصنام، ویعزون إلیہا کل ما ہو قدر اللّٰہ الحکیم العلَّام، حتی عزوا إلیہا إنزال المطر من الغمام، وإخراج الثمار من الأکمام، وخلق الأجنّۃ فی الأرحام، وکل أمر الحیاۃ والحمام۔وکان یعتقد کل منہم وثنہ معوانا، وعند النوائب مستعانا، وعند الأعمال دیّانا۔ وکانَ کل منہم یُہرع إلی تلک الحجارۃ حریصًا، ویحفد إلیہا
اعلیٰ درجوں تک پہنچایا۔ اور اس سے پہلے وہ شرک کرتے اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے اور خدائے واحد اور قیامت پر ان کو ایمان نہ تھا اور وہ بتوں پر گرے ہوئے تھے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو بتو ں کی طرف منسوب کرتے تھے۔ یہا ں تک کہ مینہ کا برسانا اور پھلوں کا نکالنا اور بچوں کو رحموں میں پیدا کرنا اور ہر ایک امر جو موت اور زندگی کے متعلق تھا تمام یہ امور بتوں کی طرف منسوب کر رکھے تھے اور ہر ایک ان میں سے اعتقاد رکھتا تھا کہ اس کا ایک بڑا بھارا مددگار بت ہی ہے جس کی وہ پوجا کرتا اور وہی بت مصیبتوں کے وقت اس کی مدد کرتا ہے اور عملوں کے وقت اس کو جزا دیتا ہے اور ہر ایک اُن میں سے اُن ہی پتھروں کی طرف دوڑتا تھا اور
و از تہذیب بر کمال مدارج معرفت رسانید۔ و پیش ازان وقت مشرک بودند۔ و بُت ہارامی پرستیدند و با خدائے یگانۂ بے نیاز و روز پسین ایمان ندا شتند۔ و بر پر ستش بُت ہانگون افتادہ
بودند و قدرت ہائے یزدان را نسبت بہ بُتان میدادند۔ چنانچہ فرود آوردن باران و برون دادن برد بار را از آستین شاخہاو آفریدن بچہ ہارا در شکم و ہر امر مرگ و زیست را منسوب بہ بُت ہا می کردند۔ و ہر تنے ازا نہابت خود را یارو در ہنگام بلا ہا یاورو سا زگار و پاداش دہندہ کار گمان می برد۔ نادانان بجان و دل بسوئے بتان مے دوید ند و روئے فریاد و نیاز با نہامی آوردند۔ غرض ہمچنین از
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 23
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 23
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/23/mode/1up
مستغیثا۔ وکذالک ترکوا ضوء النہار واتخذوا اللیل مقامًا، وأدلج کلّ فیہ وأحبّوا ظلامًا۔ وکانوا یہتزّون بہا ہزّۃ من فاز بالمرام، أو کمن أکثبہ قنص فأخذہ من غیر رمی السہام، وکانوا قد علق بقلبہم أنہم یُعطَوْن کلّ مرادہم من
الأصنام، وحسبوا أن اللّٰہ منزّہ عن تلک الاہتمام، وزعموا أنہ أعطی لآلہتہم قوۃ وقدرۃ فی عالم الأرواح والأجسام، وکساہم رداء أُلوہیّتہٖ
اُن ہی کے آگے فریاد کرتا تھا ۔ اور اسی طرح انہوں نے روشنی کو چھوڑا رات کو اپنا قیام گاہ بنایا اور اندھیرے سے پیار کرکے رات میں داخل ہوئے اور بتوں کے ساتھ وہ لوگ ایسے خوش ہوتے تھے جیسا کہ کوئی ایک مراد پا کر خوش ہوتا ہے یا جیسا کہ وہ شخص خوش ہوتا ہے جس کے قابو میں آسانی سے جنگلی شکار چڑھ جاتا ہے اور بغیر تیر مارنے کے پکڑا جاتا ہے۔ اور ان کے دل میں یہ ذہن نشین تھا کہ ان کے بت تمام مُرادیں ان کی دے سکتے ہیں اور وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ خداتعالیٰ ان تکالیف سے کہ کسی کو مراد دیوے اور کسی کو پکڑے پاک اور منزّہ ہے اور اس نے یہ تمام قوتیں اور قدرتیں جو عالم ارواح اور اجسام کے متعلق ہیں اُن کے بتوں کو دے رکھی ہیں اور عزت بخشی کے ساتھ الوہیّت کی چادر
ساحت روز روشن برون رفتند و در کنج تنگ و تارشب جا گر فتند۔ و با بتان آنچنان خرم و شاد می زیستند کہ شخصے کہ کام جانش در کنار آمد یا مانند کسے کہ نخچیرے آسان د رچنبراوافتاد و بے انداختن تیرے بر ا و دست یافت۔ یقین انہابود کہ بت ہا توانائے ہر چہ تمامتر بر بر آوردن ہر گونہ کام دارند و خدا را از این چپقلش و دار وگیر کہ کسے را کام روا کند و کسے را بگیرد بر تر و بلندی می پندا شتند۔ وگمان دا شتند کہ خدا ہمہ قدرت و قوت کہ تعلق بعالم اجسام و ارواح دارد بت ہارا سپردہ و از راہ آبرو افزائی و بندہ پروری دیہیم و افسر الوہیت بر فرق انہانہادہ۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 24
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 24
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/24/mode/1up
بالإعزاز والإکرام، وہو مستریح علی عرشہ وفارغ من ہذہ المہام۔ وہم یشفعون عبدتہم ویُنجّون من الآلام، ویُقرّبون إلی اللّٰہ زُلفَی ویُعطون مقصد المستہام۔ وکانوا مع تلک العقائد یعملون السیئات وبہا یتفاخرون، ویزنون ویسرقون، ویأکلون أموال الیتامی من غیر الحق ویظلمون، ویسفکون الدماء وینہبون، ویقتلون نفوسا زکیّۃ ولا یخافون۔ وما کان جریمۃ إلَّا فعلوہا، وما من آلہۃ باطلۃ إلَّا عبدوہا۔ أضاعوا آداب الإنسانیۃ، و
اُن کو پہنا دی ہے اور خد ا عرش پر آرام کر رہا ہے اور اِن بکھیڑوں سے الگ ہے اور اُن کے بُت اُن کی شفاعت کرتے اور دردوں سے نجات دیتے ہیں اور خدا کا قرب اُن کے ذریعہ سے میسر آتا ہے اور سرگرداں لوگوں کو اُن کے مقاصد تک پہنچاتے ہیں اور باوجود اِن عقیدوں کے پھر بد کاریاں کرتے تھے اور ان کے ساتھ فخر کرتے تھے اور زنا کرتے اور چوری کرتے اور یتیموں کا ناحق مال کھاتے اور ظلم کرتے اور خون کرتے اور لوگوں کو لوٹتے اور بچّوں کو قتل کرتے اور ذرہ نہ ڈرتے اور کوئی گناہ نہ تھا جو انہوں نے نہ کیا اور کوئی جھوٹا معبود نہ تھا جس کی پوجا نہ کی۔ انسانیت کے ادبوں کو ضائع کیا اور
و خودش آرام و بیکار دست برزنخ بالائے عرش قرار گرفتہ د امن بر این ہمہ درد سر ہا بر افشاند ہ۔ بت ہا ہر چہ خواہند کنند شفیع می شوند و از ہر رنج و الم رستگاری می بخشند۔ نزدیک خدا می سازند و آشفتہ حالان نامراد را بر مراد می رسانند۔ و با ایں معتقدات ہر نوع کا ر بدمے کردند و ناز بران داشتند۔ زنا می کردند۔ دزدی می کردند و بیدادمی کردند وبنا حق مال یتیمان می خوردند و خون ناحق می ریختند و راہ ہا می بریدند و بچہ ہارامی کشتند و ہیچ باک و ہراس نداشتند۔ گناہی نہ کہ در کردن آں بر کمال نہ رسیدند و معبودی باطل نہ کہ آنرانہ پرستیدند۔ آداب انسانی از دست دادہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 25
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 25
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/25/mode/1up
زایلوا طرق أخلاق الإنسیّۃ، وصاروا کالوحوش البریّۃ، حتی أکلوا لحم الأبناء والإخوان، وخضموا کل جیفۃ وشربوا الدماء کالألبان، وجاوزوا الحد فی المنکرات وأنواع الشقا، وفعلوا ما شاء وا کاوابد الفلا، ولم یزل شعراؤہم یلو!کون أعراض النساء ، وأمراء ہم یداومون علی الخمر والقمار والجفاء۔ وکانوا إذا بخلوا یتلفون حقوق الإخوان والیتامٰی والضعفاء ، وإذا أنفقوا فینفقون أموالہم فی البطر والإسراف والریاء واستیفاء الأہواء۔ وکانوا
انسانی خُلقوں سے دور جا پڑے اور وحشی جانوروں کی طرح ہو گئے یہاں تک کہ بیٹوں اور بھائیوں کے گوشت کھائے اور ہر ایک مُردار کو بتمامتر حرص کھایا ۔ اور خون کو یوں پیا جیسا کہ دودھ پیا جاتا ہے اور بدکاریوں اور خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں میں حد سے گزر گئے اور جنگلی حیوانوں کی طرح جو کچھ چاہا کیا اور ہمیشہ اُن کے شاعر دریدہ د ہنیسے عورتوں کی بے عزتی کرتے اور اُن کے امراء کا شغل قمار بازی اور شراب اور بدی تھی اور جب بخل کرتے تھے تو بھائیوں اور یتیموں اور غریبوں کا حق تلف کر دیتے تھے اور جب مالوں کو خرچ کرتے تھے تو عیاشی اور فضول خرچی اور زنا کاری اور نفسانی ہوا اورہوس کے پوری کرنے میں خرچ کرتے اور نفس پرستی
و از اخلاق نیک بمراحل دور افتادہ۔ سراپا چوں دد ودام گرویدہ و گوشت برادران و پسران را گوارا و نوش جان دیدہ۔ ہر گونہ مردارے را بآز بسیار میخوردند و خون را چون شیرمی آشا میدند۔ در بدکرداریہا و سیاہ کاریہا پااز پایان برون کشیدہ بودند۔ و چوں دوان بیشہ ہر چہ خواستند کردند۔ و شاعران انہا از ہرزہ سرائی و دریدہ دہنی در پوستین زنان می افتادند۔ و توانگران و دارندگان بر قمار بازی ومے خواری و بدی ستیزہ کاری سر فرود آوردہ بودند۔ اگر بخل ور زیدندتلف ساختن حقوق برادران و یتیمان و کمزوران رابموی نہ گرفتند۔ و چوں بر صرف مال دست کشادند داد تن پروری و کامرانی واسراف و ریا ء در دادند۔ وبچہ ہا را
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 26
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 26
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/26/mode/1up
یقتلون أولادہم خوفا من الإملاق والخصاصۃ، ویقتلون بناتہم عارًا من أن یکون لہم ختن من شرکاء القبیلۃ۔ وکذلک کانوا یجمعون فی أنفسہم أخلاقا ردیّۃ،وخصالا رذیلۃ مہلکۃ، حتی کثر فیہم حزب المقرفین الزنیمین، وعاہرات متخذات أخدانا والزانین۔ والذین کانوا یُخالفون آثار مہیعہم فکانوا یخافون عند نصحہم علی عرضہم ونفسہم وأہل مربعہم۔ فالحاصل أن العرب کان قوم لم یواجہوا فی مدۃ عمرہم تلقاء الواعظین، وکانوا لایدرون
کو انتہا تک پہنچاتے تھے۔ اور وہ لوگ اپنی اولاد کو درویشی اور تنگ دستی کے خوف سے قتل کر دیا کرتے تھے اور بیٹیوں کو اس عار سے قتل کرتے تھے کہؔ تاشرکاء میں سے ان کا کوئی داماد نہ ہو اور اسی طرح انہو ں نے اپنے اندر اخلاق ردیہ
اور رذیل خصلتیں جمع کر رکھی تھیں۔یہاں تک کہ اُن میں ایک جماعت بداصلوں اور ولدالحراموں کی ہو گئی تھی اور عورتیں زانیہ آشناؤں سے تعلق رکھنے والیں اور مرد زانی پیدا ہو گئے تھے اور جو لوگ اُن کی راہ کے مخالف ہوتے تھے وہ نصیحت دینے کے وقت اپنی عزت اور جان اور گھر کی نسبت خوف کرتے تھے۔ غرض عرب کے لوگ ایک ایسی قوم تھی جن کو کبھی واعظوں کے وعظ سننے کا اتفاق نہ ہوا اور نہیں جانتے تھے کہ پرہیز گاری اور پرہیز گاروں کی
از بیم گر سنگی و نا داری می کشتند۔ ودختران را از ننگ آں کہ نبا ید از دود مان کسے بدامادی سر بلندی بکند بر خاک ہلاک می نشاند ند۔ و ہمچنین رو شہائے نا پسندیدہ وخوہائے نکوہیدہ در خود گرد آوردہ بودند۔ تا اینکہ در انہا گروہے بسیار از حرام زادہ ہائے بد نژ ادو زنان لولی نہاد کہ در نہان بآشنایان در مے آمیختند پدیدار گشتند۔ و آنانکہ خلاف راہ آن بد سرشتان رفتارمے کردند ہموار ہ وقت اندرزوپند بر جان و مال و اہل و آبرو می لرزیدند۔ خلاصہ عرب گروہے بودند کہؔ ہرگز اتفاق نیفتادہ بود پند اندرز گوئی را گوش بکنند۔ و بکلی بے خبر
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 27
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 27
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/27/mode/1up
ما التقی وما خصال المتقین، وماؔ کان فیہم من کان صادقا فی الکلام غیر جافٍ عند فصل الخصام۔ فبینما ہم فی تلک الأحوال وأنواع الضلال والفساد فی الأقوال والأعمال والأفعال۔ اذ بُعث فیہم رسولٌ مّن أنفسہم فی بطن مکۃ، وکانوا لا یعلمون الرسالۃ والنبوۃ وما بلغہم رس من أخبارہا وما دروا ہٰذہ الحقیقۃ، فأبوا وعصوا وکانوا علی کفرہم وفسقہم مصرّین۔ وحمل رسول اللّٰہ صلّی اﷲ علیہ وسلم کل جفاۂم وصبر علی إیذاۂم، ودفع السیئات بالحسنۃ، والبغض بالمحبۃ، ووافاہم کالمحبّین
خصلتیں کیا چیز ہیں۔ اور اُن میں کوئی ایسا نہ تھا کہ جو کلام میں صادق اور فیصلہ مقدمات میں متّصف ہو۔ پس اسی زمانہ میں جب کہ وہ لوگ ان حالات اور ان فسادوں میں مبتلا تھے اور ان کا تمام قول اور فعل فساد سے بھرا ہوا تھا۔ خداتعالیٰ نے مکہ میں سے اُن کیلئے رسول پید ا کیا اور وہ نہیں جانتے تھے کہ رسالت اور نبوت کیا چیز ہے اور اس حقیقت کی کچھ بھی خبر نہ تھی پس انکار اور نافرمانی کی اور اپنے کفر اور فسق پر اصرار کیا اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے ہر ایک جفا کی برداشت کی اور ایذا پر صبر کیا اور بدی کو نیکی کے ساتھ اور بغض کو محبت کے ساتھ ٹال دیا اور غمخواروں اورمحبوں کی طرح اُن کے
ازین کہ پرہیز گار ی وخوہائے پرہیز گاران کدام چیزے می باشد۔ درمیانۂ اُنہاکسے
راست گفتار و در وقت بر پاشدن قضیہ ہا نصفت کا ر ونیک کردار نبود۔ در اثنائے این حال کہ
در بد گفتاری و بدکرداری و کجرہ روی نوبت انہا بدینجا رسیدہ بود کہ پیغمبری ازیشاں در
مکۂ مکرمہ ظہور فرمود و ایشان قبل ازان از رسالت و نبوت آگاہ وگاہے پئ بہ کنہ آن
نبردہ بودند۔ پس نتیجہ آں بود کہ گردن کشیدند و بر کفر و بدکاری اصرار ور زیدند۔ و
رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہر گونہ آزار ر ا ز اُنہا برداشت و ہرگز نا شکیبائی را بخود راہ
نداد و بدی را بانیکی ودشمنی را بادوستی پاداش میفرمود وچون یاران غمگسار باانہارفتارمی نمود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 28
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 28
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/28/mode/1up
المواسین۔ وطالما سلک فی سِکک مکۃ کوحید طرید، وتصدّی بقوۃ النبوۃ لکل عذاب شدید، وکان یُقبل علی اللّٰہ کل لیلۃ، ویسأل اللّٰہ انفتاح عیونہم ونزول فضل ورحمۃ، حتی استجیب الدعوات، وضاع مسکہا وتوالی النفحات۔ ونزل أمر مقلّب القلوب، وأوتوا قوۃ من مُعطی الحب وزارع الحبوب، فبُدّلت الأرض غیرالأرض بحکم حضرۃ الکبریاء وجُذبت النفوس إلی الدّاعی المبارک وسمع نداء ہ قلوب السعداء ، وأفضی إلی مقتلہ کل رشید
پا س آیا اور ایک مدت تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اکیلے اور ردّ شدہ انسان کی طرح مکہ کی گلیوں میں پھرتے رہے اور قوت نبوّت سے ہر ایک عذاب کا مقابلہ کیا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ رات کو اٹھ کر خد اتعالیٰ کی طرف توجہ کرتے اور خدا تعالیٰ سے ان کی بینائی اور فضل اور رحمت چاہتے ۔ یہاں تک کہ دعائیں قبول کی گئیں اور ان کی کستوری کی خوشبو پھیلی اور خوشبوئیں پے در پے پھیلنی شروع ہوئیں اور دلوں کے بدلنے والے کا حکم نازل ہوا اور اُس ذات سے اُن کو قوت عطا ہوئی جو محبت کو عطا کرتا اور دانوں کو اگاتا ہے ۔ سو حکم الٰہی سے زمین بدلائی گئی اور آواز دینے والے بابرکت کی طرف دل کھینچے گئے اور ہر ایک رشید اپنے قتل گاہ کی طرف صدق اور وفا سے
و تا زمانی دراز در کوچہ ہائے مکہ چون شخصے بے یارو یاوری راندہ شدہ گردش می کرد و باتاب و توان نبوت ہر رنجے سخت را بر خود آسان میگرفت۔ و شب را رو بخدا می آورد وازوی بزاری و گریہ میخواست کہ دیدۂ انہارابکشاید ودر فضل و رحمت بر روئے اُنہا باز نماید۔ تا آنکہ نیا زو گدازش پذیرفتہ شد و بوئی مشک آسایش و میدن و بمغز جانہا پیاپیَ رسیدن گرفت۔ و از طرف گرد انندۂ دلہا فرمان نازل شدو بخشندۂ مہر و محبت و نشانندہ دانہ ہا توانائی باوشان بخشید۔ پس باذن الہٰی انقلاب شگر فی پیدا و آن زمین بز مینے دیگر عوض شد۔ دلہا بسوئے آواز دہندۂ فرخندہ پے کشیدہ شد۔ و ہمہ نیک نہادان فرخ نزاد از صدق و وفا بسوئے
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 29
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 29
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/29/mode/1up
من الصدق والوفاء ۔وجاہدوا بأموالہم وأنفسہم لابتغاء مرضاۃ اللّٰہ الرحمٰن، وقضوا نحبہم للّٰہ الرحمٰن، وذُبحوا لہ ککبش القربان۔
وشہدوا بإہراق دماۂم أنہم قوم صادقون، وأثبتوا بأعمالہم أنہم للّٰہ مخلصون۔ وکانوا فی زمن کفرہم أساریٰ فی سجن الظلام، فنُوِّروا
بعد إجابۃ دعوۃ الإسلام، وبدّل اللّٰہ سیئاتہم بالحسنات، وشرورہم بالخیرات، فبدّل غبوقہم بصلاۃ
آناء اللیل والتضرّعات، وصبوحہم بصلٰوۃ الصبح والتسبیحات
نکل آیا اور انہوں نے مالوں اور جانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے کوششیں کیں اور اپنی جان فشانی کی نذروں کو پورا کیا اور اس کے لئے یوں ذبح کئے گئے جیسا کہ قربانی کا بکرا ذبح کیا جاتا ہے۔ اور انہوں نے اپنے خونوں سے گواہی دیدی کہ وہ ایک سچی قوم ہے اور اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ لوگ خدا کی راہ میں مخلص ہیں اور زمانہ کفر میں وہ لوگ تاریکی کے زنداں میں قید تھے سو اسلام کے قبول کرنے نے اُن کو منّور کر دیا اور ان کی بدیوں کو نیکی کے ساتھ اور اُن کی شرارتوں کو بھلائی کے ساتھ بدل دیا اور اُن کی شراب شب اَنگاہی کو رات کی نماز اور رات کے تضرّعات کے ساتھ بدل ڈالا اور اُن کی بامدادی شراب کو صبح کی نماز اور تسبیح اور
کشتن گا ہ خویش بدویدند و برائے خوشنودئ یزدان ہر چہ از مال و جان در دست داشتند بکو شیدند۔ جان را در راہ خدا دادند و چوں گو سپند قربان سر بر کارد جفا نہادند۔ و از ریختن خون خود و باکردار ہائی پسندیدہ گواہی بر صدق و سدا د ادا ساختند و مہری بر وفاد وداد کردند۔ حال آنکہ در ہنگام کفر در زندان تاریکی گرفتار بودند۔ولے پس از گرویدن باسلام بیک نا گاہ ہمہ نور گردیدند۔ خدائے رحیم بدی شان را بہ نیکی و شررا بہ خیر بدل کرد۔ و مئے شب انگاہی شان بہ نماز شب و صبوح ایشان را بہ نماز صبح و استغفار
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 30
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 30
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/30/mode/1up
والاستغفارات، وبذلوا أموالہم وأنفسہم بسبل الرحمٰن بطیب الجنان، عندما ثبت لہم صدق الرسول بکمال الإیقان۔ فإذا رأوا الحق فأتموا جہدہم فی استبراء زند الإیمان، وبلوا أنفسہم لاستشفاف فَرِند الاستیقان۔ فہذا ہو الأمر الذی شجّعہم وحدّ مداہم، ثم أشاد لہم ذکریٰ ہم وأحسن عقباہم۔ وہذا ہو السمح الذی حبّب إلی الخلا ئق خلا!ئقہم، وأری کنشر المسک المفتوت حقائقہم۔ وہذا
ہو سبب اجتراء جنانہم
استغفارکے ساتھ مبدّل کر دیا اور انہوں نے یقین کامل کے بعد اپنے مالوں اور جانوں کو خدا تعالیٰ کی راہوں میں بخوشی خاطر خرچ کیا اور جب انہوں نے حق کو دیکھ لیا پس اپنی کوششوں کو ایمان کے چقماق میں سے آگ نکالنے میں کمال تک پہنچایا۔ اور اپنی جانوں کو اس لئے کہ تا یقین کی تلوار کے جوہر کو خوب غور اور تامل کے ساتھ دیکھیں آزمائش میں ڈالا ۔ پس یہی وہ امر ہے جس نے اُن کو بہادر کر دیا اور اُن کی کاردوں کو تیز کیا پھر اُن کے ذکر کو بلند کیا اور اُن کا انجام بخیر کیا۔اور یہ وہی جوانمردی ہے جس نے لوگوں کے دلوں میں اُن کی فطرت کو محبوب بنایا اور اس کستوری کی خوشبو کی طرح جو پیسی جائے ان کی باطنی حقیقتوں کو دکھلایا اور یہی سبب اُن کے دل کی دلیری اور
عوض فرمود۔ و چون حق را دیدند کوشش ہر چہ تمامتر بجا آوردند تا آتش از چقماق ایمان بیروں آرند۔ و روان خود را در کورۂ بلا ہا انداختند تا جو ہر تیغ یقین را چنانچہ باید و شاید ملاحظہ نمایند۔ ہمیں امریست کہ اوشان را دلیر وکارد شان را تیز گردانید ویاد و نام شان را بر اوج چرخ برین رسانید و امر اوشان را بحسن خاتمت کشانید۔ و از ہمیں مردمی است کہ طبیعت ہاشان محبوب مردم شد و مانند بوئے مشک سودہ حقیقت ہا شاں را بر عالم منتشر فرمود۔ جراء ت دل و روانئ زبان
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 31
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 31
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/31/mode/1up
وانصلات لسانہم، وقوۃ ایمانہم، وعلو عرفانہم، ولأجل ذلک
أہرقوا نفوسہم محبّۃً وودادًا، حتّٰی عاد جمرہا رمادًا، واتقدوا بحب اللّٰہ اتقادًا، واعدّوا النفوس بسبلہ إعدادًا۔ وصارت المصائب علیہم کالبرد والسلام، ونسوا تکالیف الحرّ والضرام۔ ومن نظر فی أنہم کیف ترکوا مرا تعہم الأولی،
وکیف جابوا بِید الأہواء ووصلوا المولَی، وکیف بُدّلوا وغُیّروا، وطُہّروا ومُحّصوا، علم بالیقین
أنہ ما کان إلَّا أثر القوۃ القدسیۃ المحمّدیۃ۔ وبہ اصطفاہم اللّٰہ
زبان کی روانگی اور ایمان کی قوت اور بلندی معرفت کا ہے اور اسی لئے انہوں نے اپنی جانوں کو محبت میں جلایا یہاں تک کہ اُن کا کوئلہ راکھ کی طرح ہو گیا اور خدا تعالیٰ کی محبت میں افروختہ ہو گیا اور اُس کی راہوں کے لئے خوب تیاری کی اور مصیبتیں اُن کے لئے سلامتی اور ٹھنڈک ہو گئیں اور گرمی اور آگ کی تیزی کو انہوں نے بھلا دیا۔ اور جو شخص اِ س بات کو غور کی نظر سے دیکھے کہ انہوں نے اپنی پہلی چراگاہوں کو کیونکر چھوڑ دیا اور کیونکر وہ ہوا و ہوس کے جنگل کو کاٹ کر اپنے مولا کو جا ملے تو ایسا شخص یقین سے جان لے گاکہ وہ تمام قوتِ قدسیہ محمدیہ کا اثر تھا۔ وہ رسول جس کو خدا نے برگزیدہ کیا
و بلندئ معرفت و قوۃ ایمان را موجب ہمین است کہ جان خود را از آتشِ محبت سو ختند تا آنکہ زغالش خاکستر گردید وبہ حبّ الٰہی بر افروختندودرراہ خدا جان شان را بخوبی ساز داد ند۔ نارمصائب بر ایشان خنک و سلامت گردید۔ و زبانۂ آتش و گرمی اش را فراموش ساختند۔ ہر کہ نگاہ کند کہ چگونہ اوشان چراگاہ ہائے مالوفۂ خود را ترک گفتند۔ و چہ بیا بانہائی ہو ا وآز را
پے سپار کردہ بآقائے خود ر سیدند۔ وچہ قسم تبدل و تغیر و پاکیزگی و طہارت در ایشان راہ یافت۔ اوبہ یقین بداند کہ این ہمہ از اثر قوۂ قدسیہ محمدیہ بودہ است آن رسول کہ خدا اورا برگزید
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 32
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 32
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/32/mode/1up
وأقبل علیہم بالتفضلات الأزلیّۃ۔ وإن الصحابۃ أُخِذوا بہذا الأثر من تحت الثری ورُفِعوا إلی سمک السماء ، ونُقِلوا درجۃ بعد درجۃ
إلی مقام الاجتباء والاصطفاء۔وقد وجدہم النبی کعجماوات لایعلمون شیئا من تہذیب وتقاۃولا یُفرّقون
بین صلاح وہنات، فعلّمہم أوّلا آداب الإنسانیۃ باؔ لاستیفاء
اور عنایا ت ازلیہ کے ساتھ اُس کی طرف توجّہ کی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کو سوچ کہ صحابہ زمین کے نیچے سے لئے گئے اور آسمان کی بلندی تک پہنچائے گئے اور درجہ بدرجہ برگزیدگی کے مقام تک منتقل کئے گئے۔ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو چارپا یوں کی مانند پایا کہ وہ توحید اور پرہیز گاری میں سے کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور نیکی بدی میں تمیز نہیں کر سکتے تھے ۔ پس رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو انسانیت کے آداب سکھلائے۔ اورؔ تمدن اور بودوباش کی راہوں پر مفصل مطلع کیا اور اُن کے لئے پاکیزگی کے طریقوں اور دانتوں کو صاف کرنا اورمسواک کرنا اور خلال بعد طعام چاشت و طعام شب کرنا اور بول کرکے جلدی سے نہ اٹھنا بلکہ بقیہ قطرات
و باران رحمت و فضل بے اندازہ بر سرش بارید۔ اثر آں قوۂ قدسیہ را بدقت نظربہ بیں کہ صحابہ ر ا از زیر طبقاتِ زمین بکشید و براوج فلک رسانید۔ وبآ خر تدریجاًخلعتِ بر گزیدگی براوشاں پوشانید۔ آن نبی کریم اوشان راچون مواشی دید کہ ازراہ توحید و پر ہیز گاری ہیچ آگاہی ندا شتندو نیک را از بد نمی شناختند۔ لہٰذا اولاًبایشان آداب انسانیت چنانچہ شاید بیاموخت و طریق تمدن و معاشرت مفصلاتعلیم فرمود از قبیل طہارت و پاک کردن دندان و مسواک کردن و بعد طعام چا شت و شب خلال کردن ۔ و پس از بول زود بر پانشدن بل بگذاشتن تا بقیہ قطرہ ہا نجوشد و با صفائی ہر چہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 33
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 33
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/33/mode/1up
وفصّل لہم طرق التمدّن والثواء والطہارۃ والاستنان والسواک والخلالۃ بعد الضحاء والعشاء، والاستنتار عند البول والاستبراء
عند الاستنجاء ، وقوانین المعاشرۃ والمدنیّۃ والأکل والشرب والکسوۃ والمداواۃ والاحتماء ، وأصول رعایۃ الصحۃ والاتقاء من أسباب الوباء، وہداہم إلی الاعتدال فی جمیع الأحوال والأنجاء۔ ثم إذا مرنوا علیہا فنقلہم من التطہیرات الجسمانیۃ إلی التحلّی بالأخلاق الفاضلۃ الروحانیۃ، والخصال المرضیۃ المحمودۃ الإیمانیۃ۔ ثم إذا رأی أنہم رسخوا فی محاسن الخصال، وکانت لہم ملکۃ فی إصدار الأخلاق المرضیۃ علی وجہ الکمال، فدعاہم إلی سرادق القرب والوصال
کو نکالنا تا کپڑا نا پاک نہ ہو اور تمام تر صفائی سے استنجا کرنا اور معاشرت اور تمدن ا ور کھانے پینے اورلباس اور علاج اور پرہیز اور اصول رعایت صحت اور اسباب وبا سے پرہیز کے قوانین ظاہر فرمائے اور تمام صورتوں میں اعتدال کی وصیت فرمائی ۔ پھر جب جسمانی آداب سے خوپذیر ہو گئے تو جسمانی پاکیوں سے منتقل کرکے اخلاق فاضلہ رُوحانیہ اور خصال ایمانیہ کی طرف کھینچا تا ان کے ذریعہ سے روحانی پاکیزگی حاصل ہو۔ پھر جب دیکھا کہ وہ لوگ نیک خصلتوں میں پختہ ہو گئے اور اچھے خلقوں کے صادر کرنے کا اُن کو ملکہ ہو گیا پس ان کو قرب اور وصال کے سرادق کی طرف بُلایا
تمام تر استنجاکردن۔ خلاصہ ہمہ قوانین معاشرت و تمدن را مثل خوردن و نوشیدن و چارہ و پرہیز و اصول حفظ صِحہ و اسباب صیانت از وبا ہا تشریح و تفصیل فرمود۔ و در ہمہ چیز ہا امر بہ میانہ روی کرد۔ وچون دید کہ اوشان مشق رعایت آداب جسمانی ؔ بہم رسانید ند ۔ باز اوشان را بسوئے اخلاق فاضلہ و خصال ایمانیہ رہبری کرد۔ و چون دیدکہ اوشان را در خصال نیک گامے استوار و سوادے تمام دست بداد باز اوشاں را بسوئے سر ا پردہ ہائے قرب و وصال بخواند
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 34
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 34
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/34/mode/1up
وعلّمہم المعارف الإلہیۃ، ووقم أعنّتہم إلی حضرۃ العزّۃ والجلال، لیترعوا* من حدائق القرب لعاع الحب ویکون لہم عند اللّٰہ زلفٰی وصدق الحال۔
فالغرض أن تعلیم کتاب اللّٰہ الأحکم ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان منقسما علی ثلا ثۃ أقسام۔ الأوّل أن یجعل الوحوش أناسًا، ویعلّمہم آداب الإنسانیۃ ویہب
لہم مدارک وحواسًا۔ والثانی أن یجعلہم بعد الإنسانیۃ أکمل الناس فی محاسن الأخلاق۔ والثالث
أن یرفعہم من مقام الأخلاق
إلی ذریٰ مرتبۃ حُبّ الخلَّاق
اور معارف الہٰیہ ان کو سکھلائے اور حضرت عزت اور جلال کی طرف اُن کی باگیں پھیریں تا وہ قرب کے سبزہ گاہوں سے محبت کا سبزہ چگیں اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک اُن کو مقام قرب اور صدق حال میسر آوے۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایت تین قسم پر منقسم تھی ۔ پہلی یہ کہ وحشیوں کو انسان بنایا جائے اور انسانی آداب اور حواس اُن کو عطا کئے جائیں اور دوسری یہ کہ انسانیت سے ترقی دے کر اخلاق کاملہ کے درجے تک اُن کو پہنچایا جائے اور تیسری یہ کہ اخلاق کے مقام سے اُن کو اُٹھا کر محبت الٰہی کے مرتبہ تک پہنچایا جائے
ومعارف الہٰیہ بد یشان بیا مو خت و زما م شان رابہ حضرت عزت وجلال بکشید۔تا اوشاں ازمرغزارہا ئے قرب سبزۂ محبت را بچر ند و در نزدیکی خدامقام قرب وصدق حال شاں میسرآمد ۔
خلا صہ تعلیم قرآن حکیم وہدایت رسول کریم سہ نوع بودہ است۔ اولاً آنکہ و حوش و انعام را انسان بسازد و جمیع آداب انسانیت بیاموزد و حواس کاملۂ آدمیت
عطابفرماید۔ ثانیاً آنکہ بعد انسانیت اوشاں را از رُوئی محاسن اخلاق کامل ترین
مردم نماید۔ و ثالثاً آنکہ از مقام اخلاق برگرفتہ تا کنگرۂ حبِ خلاق برساند و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 35
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 35
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/35/mode/1up
ویوصل إلی منزل القرب والرضاء والمعیۃ والفناء والذوبان والمحویّۃ، أعنی إلی مقام ینعدم فیہ أثر الوجود والاختیار، ویبقی اللّٰہ وحدہ کما ہو یبقی بعد فناء ہذا العالم بذاتہ القہّار۔ فہذہ آخر المقامات للسالکین والسالکات، وإلیہ تنتہی مطایا الریاضات، وفیہ یختتم سلوک الولایات۔ وہو المراد من الاستقامۃ فی دعاء سورۃ الفا تحۃ، وکل ما یتضرم من أہواء النفس الأمّارۃ فتذوب فی ہذا المقام بحکم اللّٰہ ذی الجبروت والعزّۃ، فتفتح البلدۃ کلہا
اور یہ کہ قرب اور رضا اور معیت اور فنا اور محویت کے مقام اُن کو عطاہوں یعنی وہ مقام جس میں وجود اور اختیار کا نشان باقی نہیں رہتا اور خدا اکیلا باقی رہ جاتا ہے جیسا کہ وہ اس عالم کے فنا کے بعد اپنی ذات قہّار کے ساتھ باقی رہے گا۔ پس یہ سالکوں کے لئے کیا مرد اور کیا عورت آخری مقام ہے اور ریاضتوں کے تمام مَرکب اِسی پر جا کر ٹھہر جاتے ہیں اور اِسی میں اولیا ء کے ولایتوں کے سلوک ختم ہوتے ہیں۔ اور وہ استقامت جس کا ذکر سورۃ فاتحہ کی دعا میں ہے اس سے مراد یہی مرتبہ سلوک ہے۔ اور نفس امّارہ کی جس قدر ہوا و ہوس بھڑکتی ہے وہ اسی مقام میں خدائے ذوالجبروت والعزّت کے حکم سے گداز ہوتی ہے۔ پس تمام شہر
در منزل قرب و رضا و معیت و فنا و گدازش و محویت باربہ بخشد و آن مقامے است کہ آنجا از وجود و اختیار نامے نماند و آن خدائے یگانہ باقی می باشد ہمچنان کہ او بعد از فنائے این عالم باذات بر تر خویش باقی باشد۔ ایں مقام برائے سالکان از مرد و زن مقام آخرین است ومرکبہائے ریاضات ہمیں جا بآخر رسد و سلوک ولایت جملہ اولیا تا بد ینجا منتہی شود و ہمین است غرض از استقامتے کہ در سورۂ فاتحہ مذکور و مطلوب است۔ و ہر چہ از آتش ہوائے نفسِ امّارہ سر بالا کشد ہمیں جا بحکم خدائے بزرگ و بر تر کشتہ و برباد فنا رود۔ پس شہر بکلی مفتوح شود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 36
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 36
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/36/mode/1up
ولا تبقی الضوضاۃ لعامۃ الأہواء۔ ویُقال لمن الملک الیوم۔ للّٰہ ذی المجد والکبریاء۔ وأمّا مرتبۃ الأخلاق الفاضلۃ والخصال الحسنۃ المحمودۃ، فلا أمن فیہا من الأعداء عند الغفلۃ، فإن لأہل الأخلاق تبقیٰ حصون یتعذّر علیہم فتحہا، ویُخاف علیہم صول الأمّارۃ إذا ضرم لتحہا، ولا تصفوا أیام أہلہا من النقع الثائر، ولا یُؤمّنون من السہم العائر.
فالحاصل أن ہذہ تعالیم الفرقان، وبہا استدارت
دائرۃ تکمیل نوع الإنسان
فتح ہو جاتا ہے اور ہو ا وہوس کے عوام کا شور باقی نہیں رہتا اور کہا جاتا ہے کہ آج کس کاملک ہے اور یہ جواب ہوتا ہے کہ خدائے ذوالمجد والکبریا کا۔ مگر جو مرتبہ اخلاق فاضلہ اور نیک خصلتوں کا ہے اُس میں غفلت کے وقت دشمنوں سے امن نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کا سلوک اخلاق تک ہی محدود ہوتا ہے ان کیلئے ابھی ایسے قلعے باقی ہوتے ہیں جن کا فتح کرنا مشکل ہوتا ہے اور ان کی نسبت یہ اندیشہ دامنگیررہتا ہے کہ نفس امارہ اپنی بھوک کے بھڑکنے کے وقت حملہ نہ کرے اور جو شخص صرف اخلاق تک ہی اپنا کمال رکھتا ہے اس کی زندگی کے دن گرد وغبار سے پاک نہیں رہ سکتے اورایسے لوگ ہوائی تیروں سے امن میں نہیں رہ سکتے ۔
پس حاصل کلام یہ ہے کہ یہ جو ہم نے بیان کیا ہے یہ قرآن شریف کی تعلیمیں ہیں اور انہی تعلیموں کے ساتھ انسان کی تکمیل علمی اور عملی کا دائرہ اپنے کمال کو پہنچتا ہے
و عوام ہوا و ہوس را سر فتنہ و شورش کوفتہ گردد وآن وقت گفتہ شود کہ امروز ملک کر است جواب باشد خدائے بزرگ یگانۂ بے ہمتا ر است۔ اما آنچہ مرتبۂ اخلاق فاضلہ و خو ہائے نیک می باشد دران مرتبہ در ہنگام غفلت ایمنی از دشمنان نتو اند بود۔ چہ اہل اخلاق را ہنوز قلعہاست کہ فتح آن بر ایشاں خیلے دشوار است و اندیشۂ بسیاراست کہ نفس امارہ در وقت اشتعال بر ایشاں بتازد۔ بحقیقت ہر کہ تا بمنزل اخلاق رخت بیاند از و نمی شود۔ روز گار حیا تش از گرد و غبار پاک باشد و ہرگز نمی شود ہمچوں کسان از تیر ہوائی ایمن و مطمئن بگردند۔
خلاصہ این تعلیم فرقان است و ہمین است آنچہ دائرہ تکمیل علمی و عملی انسان را بکمال رساند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 37
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 37
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/37/mode/1up
وإنہا لمعارف ما کفلہا کتاب من الکتب السابقۃ، وما احتوتہا صحیفۃ من الصحف المتقدّمۃ، فہذا إعجاز نبیّنا من حیث الصورۃ العلمیۃ والعملیۃ، ومعجزۃ الفرقان الکریم لکافۃ البریّۃ۔ ولقد انقضت وانعدمت خوارق النبیین الذین کانوا فی الأزمنۃ السابقۃ، ویبقی ہذا إلی یوم القیامۃ۔ وأما ما قلنا أن القرآن معجزۃ علمیۃ وعملیۃ.۔ فلیس ہذا کحکایات واہیۃ، بل علیہ عندنا أدلّۃ قاطعۃ، وبراہین شافیۃ مسکّنۃ۔ فاعلم أن إعجازہ العلمی ثابت کالبدیہیات
اور یہ تعلیمیں ایسے معارف ہیں کہ پہلی کتابوں میں سے کوئی کتاب بھی اُن کی متکفل نہیں ہوئی اور نہ کبھی پہلے صحیفوں میں سے کوئی صحیفہ ان پر مشتمل ہوا ہے۔ پس ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ علمی اور عملی معجزہ ہے ۔ اور قرآن کریم کا تمام مخلوق کیلئے یہ ایک اعجاز ہے اور پہلے نبیوں کے معجزے منقضی اور معدوم ہو گئے مگر یہ قرآنی معجزہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اور یہ جو ہم نے کہا کہ قرآن علمی اور عملی معجزہ ہے سو یہ ایک بیہودہ اور بے اصل بات نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس اِس پر دلائل قاطعہ اور براہین شافیہ اور تسکین بخش ہیں ۔ پس تو جان کہ قرآن شریف کا علمی معجزہ بدیہیات کی طرح ثابت ہے۔
واین آن معارف است کہ ہیچ کتابے و صحیفۂ پیشیں مشتمل برآن ومتکفل آن نبودہ است۔ فی الحقیقت ایں معجزۂ نبی ماست ( صلی اللہ علیہ وسلم ) از حیثیت علمی و عملی و اعجاز قرآن کریم است برائے ہمۂ آفرینش ۔ معجزات انبیائے پیشین بکلی از میان رفتہ ولے این معجز ۂ قرآن تا بدامان قیامت از یاد و از جہان نرود۔ آنچہ قرآن را معجزہ علمی و عملی گفتیم این نہ از راہ لاف وگزاف است بلکہ ما بر این عالم عالم دلائل قاطعہ و براہین شافیہ تسکین بخش دردست داریم۔ نیکو بدانید کہ معجزہ علمی قرآن از آشکار ترین امور است
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 38
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 38
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/38/mode/1up
ولیس علیہؔ غبار من الشبہات۔ لأنہ کلام جامع وتعلیم کامل أحاط جمیع ضرورات الإنسان وسبیل الرحمٰن، وما غادر شیئا من دلائل الحق وإبطال الباطل ودقائق العرفان، مع بلاغۃ رائعۃ وعبارات مستعذبۃ وحسن البیان، وہذا أمر لیس فی قدرۃ الإنسان۔ وأما قولنا أنّہا معجزۃ عملیۃ فہی کشعبتہا الأولی واقعۃ بدیہیۃ، ولا یسع فیہا إنکار و
اور اس پر کسی قسم کے شبہات کے غبار نہیں کیونکہ وہ ایک ایسا کلام ہے جو ضروری تعلیموں اور ضروری وصایا اور معارف اور دلائل کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اور وہ ایک ایسی تعلیم کامل ہے جو تمام انسانی ضرورتوں کو جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کیلئے پیش آتی ہیں پور ی کرتی ہے اور جو حق کے ثبوت میں دلائل پیش کرنا چاہے یا جس طرح باطل کا ردلکھنا چاہے اور یا جس طور اور انداز سے معرفت کی باریک باتیں بیان کرنی چاہے انؔ میں سے ایک بات کو بھی اس نے نہیں چھوڑا اور اس پر زائد یہ امر ہے کہ ان تمام تعلیموں اور احکام اور حدود کو نہایت فصیح اور بلیغ اور
شیریں اور پسندیدہ پیرایہ میں بیان فرمایا ۔اور یہ ایک ایسا امر ہے جو انسان کی قدرت سے بالا تر ہے۔ اور ہمارا یہ قول کہ قرآن جیسا کہ علمی معجزہ ہے ایسا ہی وہ عملی معجزہ بھی ہے۔ سو یہ امر بھی اُس کی پہلی شاخ کی طرح ایک بدیہی واقعہ ہے اور انکار
کہ دامان وے از غبار شبہت پاک است زیرا کہ قرآن کلامے است کہ جمیع تعلیم ہائے ضروری و وصیتہائے ضروری و معارف ہائے لا بدی را کہ در راہ وصول بہ خدا چارہ ازاں نہ جامع می باشد۔ و از قبیلِ دلائل حق و دقائق عرفان و ابطال باطل چیزے فرو گذاشت نفرمودہ۔ و بعلاوۂ آن آن دلائل و براہین را با عبارات بلیغۂ فصیحہ و طرز شیریں و دلکش و پسندیدہ در معرض بیان آوردہ و ایں امر البتہ خارج از احاطۂ قدرتِ بشری است۔ واما آنچہ گفتیم قرآن معجزۂ عملی است این ہم واضح و روشن و انکار را درآن مدخل نیست۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 39
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 39
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/39/mode/1up
خصومۃ۔ فإن تعالیم القرآن قد حیّرت العقلاء بتأثیراتہا العجیبۃ، وتبدیلا تہا الغریبۃ، وتنویرا!تہ التی ہی خارقۃ للعادۃ ومزیلۃ للملکات الردیّۃ الراسخۃ، وقد تسورت أسوار الطبائع الشدیدۃ الزائغۃ، ودخلت بیوت القلوب القاسیۃ کالصخرۃ، ووصلت إلی الذین کانوا یسکنون وراء الخنادق العمیقۃ الممتنعۃ من القرائح السفلیۃ الرذیلۃ، وألان اللّٰہ بہا الشدید، وأدنی البعید، وأخرج الصدور من القبض إلی الانشراح، ومن الضیق إلی السعۃ، ورفع الحجاب، و
اور خصومت کی گنجائش نہیں کیونکہ قرآنی تعلیموں نے اپنی تاثیرات عجیبہ اور تبدیلات غریبہ اور ان روشنیوں کو دلوں پر ڈالنے سے جو خارق عادت ہیں اور ردّی اور مستحکم ملکوں کے دُور کرنے سے عقلمندوں کو حیران کر دیا ہے اور ٹیڑھی اور سخت طبیعتوں کی دیوار کے اوپر سے کودا ہے اور جو سخت دلوں کے گھر تھے اُن کے اندر داخل ہو گیا ہے اور ان لوگوں تک پہنچاہے جو بباعث سفلی طبیعتوں کے عمیق اور ناقابل گذر خندقوں کے پرے رہتے تھے اور خدا نے اس کے ساتھ سخت کو نرم اور دُور کو نزدیک کر دیا اور سینوں کو قبض سے انشراح کی طرف اور تنگی سے فراخی کی طرف پھیر دیا اور حجاب کو دُور کیا اور
چہ خردمندان از مشاہد ۂ تاثیرات عجیبۂ تعلیم قرآن و تبدیلیہائے غریبہ و نور افزائی و دیدہ کشائی ہائے فوق العادۂ آن کہ عادت ہائے استوار را از بیخ بر کند ید خیلے در شگفت فرو ماندہ اند و حیرانند کہ چہ طور تعلیم وے از بالائے دیوار طبایع سخت وکثر بر آمدہ در اندرون خانہ ہائے دلہائے سختی چوں سنگؔ در آمد۔ و تابآن مردم ہم برسید کہ بسبب طبیعت ہائے پست ودون آنسوئے خند قہائے ژرف و ناقابل گزشتن سکنی داشتند۔ وخدا بآن سخت را نرم و دور را نزدیک گرد انید و سینہ ہا را از تنگی بفراخی کشید و حجاب را دور
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 40
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 40
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/40/mode/1up
أَرَی الحق والصواب، حتی أوصل المؤمنین إلی الإلہامات الصریحۃ، والکشوف الصادقۃ الصحیحۃ، وزرع حب الکرامات المستمرۃ الدائمۃ فی قاع صدور الأمّۃ، فلأجل ذالک لا نفرّ عند طلب کرامۃ إلی زمن مضٰی، بل نرسوا علی مقامنا ونُرِی الْمُنْکِرَ ما حضر غضًّا طریًّا من آی المولٰی۔ ولیس فی أیدی عدانا إلَّا القصص الأولٰی، ولا یثبت دین بقصص ۔بل بأنوار لا تنقطع ولا تبلی.ثم اعلم أن ہذہ معجزۃ عظمت شعبتاہ، و
حق کو دکھلا دیا ۔ یہاں تک کہ مومنوں کو الہامات صریحہ اور مکاشفات صادقہ اور صحیحہ تک پہنچا دیا اور دائمی کرامتوں کا دانہ اُن کے سینوں کی ہموار زمین میں بو دیا ۔ اسی وجہ سے ہم لوگ کرامتوں کے طلب کے وقت پہلے زمانہ کی طرف نہیں بھاگتے بلکہ ہم اپنے مقام پر استوار رہتے ہیں اور منکرکو خدا کے تازہ بتازہ نشان دکھلاتے ہیں اور ہمارے مخا لفوں کے ہاتھ میں بجز قصّوں کے اور کچھ نہیں اور صرف قصوں کے ساتھ کبھی کوئی دین ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اُن نوروں سے ثابت ہوتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتے اور نہ کبھی پُرانے ہوتے ہیں ۔ بعد اس کے جان کہ یہ وہ معجزہ ہے جس کی دونوں شاخیں عظیم الشان ہیں اور
و حق را عیاں نمود تا اینکہ مومنان را بالہامات صریحہ و مکاشفات صادقہ صحیحہ رسانید۔ و دانۂکرا متہائے مستمرہ در زمین خوب سینۂ انہا نشانید۔ از ینجا است کہ ما اہالئے اسلام در وقت طلب کرامات و خوارق ہیچ احتیاج نداریم گریز بہ زمانۂ پیشین نمائیم بل بر جائے خود چون کو ہ استوارمی باشیم و در پیش دیدۂ منکران نشانہائے تازہ جلوہ مید ہیم ولے مخالفان ما غیر از افسانہ ہائے پاستانیان دردست نداشتہ اند و ہرگز نمی شود ہیچ دیانۂ بد ستیارئ افسانہ ہائے از کار رفتہ بر کرسئ درستی و راستی بنشیند۔ بل سرمایۂ اثبات آن نور ہائے است کہ ہرگز انقطاع نیابند وزنہار کہنہ نشوند۔ باز بدان کہ این معجزہ ایست کہ ہر دوشان آن بزرگ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 41
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 41
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/41/mode/1up
ضاعت ریّاہ، وقد جمعت لتصدیقہا طوائف الأنام، کما یجمعون لحجّۃ الإسلام۔ وإنّا نریٰ أن أحدًا من أجلّ الحکماء ۔ إن توجّہ إلی تقویم أود سفیہ من السفہاء ، او إلی إنابۃ فاسق أسیر فی الفسق والفحشاء ، فیشق علیہ قلع عادا!تہ، ولا یمکن لہ تبدیل خیالا!تہ۔ فما شأن رجل أصلح فی زمان یسیر ألوفًا من
العباد، ونقلہم إلی الصلاح من الفساد، حتی انحلّ ترکیب الکفر واجتمع شمل الصدق والسداد۔ وتلألأت فی نفوسہم أنوارالتقٰی
جس کی خو شبو پھیل رہی ہے اور اس کی تصدیق پر طوائف مخلوقات جمع ہیں جیسا کہ حج خانہ کعبہ پر جمع ہو تے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جلیل الشان حکیموں میں سے اس بات کی طرف توجہ کرے کہ کسی سفیہ نادان کی طبیعت کی کجی کو دور کردے یا کسی فاسق بدکاری کے عادی کو اُس کی اِس بد خصلت سے چھڑا دے ۔ پس ایسا کرنا اُس حکیم پر مشکل ہو جائے گا اور اُس فاسق کے خیالات کو بدلا دینا
اُس کیلئے غیر ممکن ہو گا ۔ اب دیکھو کہ اُس مرد کی کیسی بلند شان ہے جس نے تھوڑے سے عرصہ میں ہزاروں انسانوں کی اصلاح کی اور فساد سے صلاحیت کی طرف اُن کو منتقل کیا یہاں تک کہ اُن کا کفر پاش پاش ہو گیا اور صدق اور راستی کے تمام اجزا بہ ہیئت اجتماعی ان کے وجود میں جمع ہو گئے۔ اور اُن کے دلوں میں پرہیزگاری
وبوئے خوشش بعالم رسیدہ و بر تصدیق وے گروہ ہائے مردم جمع آمدہ اند چنانکہ برائے حج بیت اللہ گرد می آیند۔ می بینیم اگر کسے از دانایان بزرگ بخواہد کجی نادانے را درست بکند یا بد کارے بہ بد کاری خو کردہ را بخواہد ازاں خوئے بد رستگاری بہ بخشد البتہ بر او گراں و دشوار آید۔ پس چہ شان بزرگ آن مرد است کہ در اندک زمانے ہزاران تن را از ناراستی براستی و از بدی بہ نیکی بکشید تا آنکہ کفر شان از ہم بپا شید۔ و راستی و درستی در نہاد اوشان فراہم آمد۔ و در روان شان روشنی ہائے
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 42
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 42
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/42/mode/1up
ولمعت فی أساریرہم سرائرحب المولٰی، وعلت ہممہم للخدمات الدینیۃ، فشرّقوا وغرّبوا للدعوۃ الإسلامیۃ، وأیمنوا وأشأموا لإشاعۃ الملّۃ المحمدیۃ۔ وأنارت عقولہم فی العلوم الإلہیۃ، ودقت أحلامہم لفہم الأسرار الربّانیۃ۔ وحُبّب الیہم الصالحات، وکُرّہ المعاصی والسیّئات۔ وأُنزلوا خیام الرشد والسعادۃ بعد ما کانوا یعکفون
علی الأصنام للعبادۃ، وما آلوا
فی جہدہم وما ترکوا جدہم
کے نور چمک اٹھے اور اُن کے پیشانی کے نقشوں میں محبت مولیٰ کے بھید ایک چمکیلی صورت میں نمو دار ہو گئے اور اُن کی ہمتیں دینی خدمات کیلئے بلند ہو گئیں اور وہ دعوت اسلام کے لئے ممالکِ شرقیہ اور غربیہ تک پہنچے اور ملتِ محمدیہ کی اشاعت کیلئے بلاد جنوبیہ اور شمالیہ کی طرف انہوں نے سفر کیا اور ان کی عقلیں علومِ الہٰیہ میں منور ہوئیں اور اُن کے قوائے فکریہ اسرار ربّانیہ کے سمجھنے کیلئے باریک ہو گئیں اور نیک باتیں بالطبع ان کو پیاری لگنے لگیں اور بد باتوں اور گناہوں سے بالطبع ان کو نفر ت پیدا ہوئی اور رشد اور سعادت کے خیموں میں وہ اتارے گئے بعد اس کے جو بتوں پر پرستش کیلئے سر نگوں تھے اور انہوں نے اپنی کوششوں اور تگ و دو میں کوئی دقیقہ اسلام کے لئے
پرہیز گاری در خشید و از نقشہائے پیشانی شان راز محبت مولیٰ بخوبی آشکار گردید و ہمت شان برائے خدمت دین بلند شد۔ پس جہت دعوت اسلام شرق و غرب و جنوب و شمال ہمۂ اطراف راپے سپار کردند عقل شاں در فہم علومِ ا لہٰیہ روشن گردید و قوت فکری در شناخت راز خدائی باریک شد۔ نیکیہابایشان دوست د اشتہ و بدی ہاد ر نزد شان زشت وبدداشتہ شد۔ و درخیمہ ہائے رشد و سعادت فروکش کردہ شد ند بعد از انکہ بر پرستش بتان سر نگون افتادہ بودند۔ و برائے اسلام دقیقۂ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 43
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 43
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/43/mode/1up
للإسلام، حتی بلّغوا دین اللّٰہ إلٰی فارس والصین والروم والشام۔ ووصلوا إلی کُلِّ ما بسط الکفر جناحہ، ووافوا کُلَّ ما شہر الشرک سلاحہ، وما ردّوا وجوہہم عن مواجہۃ الرّدَی، وما تأخّروا شبرًا وإن قُطِّعوا بالمدیٰ۔ وکانوا عند الحرب لمواضعہم ملازمون، وإلی الموت للّٰہ حافدون۔ إنہم قوم ما تخلّفوا فی مواطن المبارات، وبدروا ضاربین فی الأرض إلی منتہی العمارات، وقد عُجم عود فراستہم، وبُلی عصا سیاستہم، فوُجِدوا فی
اٹھا نہ رکھا یہاں تک کہ دین کو فارس اور چین اور روم اور شام تک پہنچادیا اور جہاں جہاں کفر نے اپنابازو پھیلا رکھا تھا اور شرک نے اپنی تلوار کھینچ رکھی تھی وہیں پہنچے ۔ انہوں نے موت کے سامنے سے منہ نہ پھیرا اورایک بالشت بھی پیچھے نہ ہٹے اگرچہ کاردوں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ لوگ جنگ کے وقتوں میں اپنی قدم گاہوں پر استوار اور قائم رہتے تھے اور
خدا کیلئے موت کی طرف دوڑتے تھے۔ وہ ایک قوم ہے جنہوں نے کبھی جنگ کے میدانوں سے تخلّف نہ کیا اور زمین کی انتہائی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہنچے۔ اُن کی عقلیں آزمائی گئیں ۔ اور ملک داری کی لیاقتیں جانچی گئیں ۔ سو وہ ہر ایک امر میں
از کو ششہائے خود فرو نگذاشتند تا آنکہ اسلام را در بلاد فارس و چین و روم و شام برسانیدند۔ و ہر جا کفر پر وبال گستردہ و شرک تیغ آہیخہ بود برسید ند۔ در برابری مرگ ابداً پشت بر نہ گردانید ند ویک بالشت ہم پس نگردیدند اگرچہ بہ کارد ہا پارہ پارہ شد ند۔ در ہنگام جنگ بر پا ہا استوار می بودند و خدا را بسوئے مرگ میدویدند۔ مرد مانیکہ ہرگز در میدانِ جنگ پشت ندادند و تابہ پایان آباد انی زمین در راہ خدا پائے خاکی کردند۔ خرد وبینش شان در کورۂ امتحان انداختہ و دانش سیاست ملکی شان آزمودہ شد ولے از ہر باب
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 44
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 44
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/44/mode/1up
کل أمر فائقین، وفی العلم والعمل سابقین۔ وإن ہذا إلَّا معجزۃ خاتم النبیین، وإنّہ علی حقیّۃ الإسلام لدلیل مبین۔ وإن کنتم فیؔ شک فأرونی کمثلہم أحدا من أصحاب موسی أو من أنصار عیسی أو من صحبۃ رسل آخرین، وقد جاء تکم أنباؤہم، وسمعتم ما قال فیہم أنبیاء!ہم، وما أرجفت ألسنہم وما کانوا کاذبین، فإنہم نطقوا بإنطاق الروح وما تکلّموا کالمغضبین
فائق نکلے اور علم اور عمل میں سبقت کرنے والے ثابت ہوئے ۔ اور ؔ یہ معجزہ ہمارے رسول خاتم النبیّین صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے اور حقیقتِ اسلام پر ایک صریح دلیل ہے۔ اور اگر تمہیں شک ہے تو مجھے اِن کی مانند حضرت موسیٰ کے اصحاب میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے یا کسی اور نبی کے صحابہ میں سے ایک انسان بھی دکھلاؤ اور اُن کی خبریں تم سن چکے ہو اور جو کچھ اُن کے بارے میں ان کے نبیوں نے کہا تمہیں معلوم ہے اور اُن نبیوں کی زبانوں پر خلاف واقعہ باتیں جاری نہیں ہو سکتی تھیں اور نہ وہ جھوٹے تھے ۔ کیونکہ وہ روح القدس کے بلانے سے بولے تھے اور غضبناک انسانوں کی طرح اُن کا کلام نہ تھا۔
برتر بر آمدند ودر گفتار و کردار از ہمگنان گام فرا پیش نہادند۔بحقیقت این معجزۂ نبی ما (صلی اللہ علیہ وسلم ) و دلیل روشن بر حقیّت اسلام است۔ و اگر باور ندارید مثل ایشان از اصحاب موسیٰ یا حواریانِ عیسیٰ یا از پیروان انبیائے دیگر یک تنے را بمن باز نمائید ۔ خبر اوشاں بشما رسیدہ و آنچہ انبیائے
شان در بارۂ شان فرمودہ ازان آگاہ ا ستیدو آن انبیاء دروغ و خلاف واقعہ بیان نہ فرمودہ اند زیرا کہ او شان باشارۂ رُوح قدس زبان می جنبانیدند و چوں خشمگینان سخن نمے گفتند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 45
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 45
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/45/mode/1up
ومن دلائل نبوتہ صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ جاء فی وقت الضرورۃ، وما رحل من ہذہ الدنیا إلَّا بعد تکمیل أمر الملّۃ۔ وأما معجزاتہ الأخریٰ فواللّٰہ إنہا لا تُعَدّ ولا تُحصیٰ، والکتب من بعضہا مملوۃ وہی متظاہرۃ، وإنہا فی القوم مشہورۃ متواترۃ۔ ثم معجزاتہ صلی اﷲ علیہ وسلم کما ظہرت فی أوّل الزمان.کذلک تظہر فی ہذا الآوان، وہذا أمر ثابت لیست فیہا ثلمۃ، ولا فی صحتہا منقصۃ۔ وواللّٰہ إن نبوّتہ لمن أجلی البدیہیات
اور منجملہ دلائل نبوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک یہ ہے کہ وہ عین ضرورت کے وقت میں آئے اور اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین کے امر کو کمال تک نہ پہنچا د یا ۔ اور اگر دوسرے معجزات کا حال پوچھو تو بخدا کہ وہ اِس قدر ہیں کہ ہم گن نہیں سکتے اور اسلامی کتابیں اُن میں سے بہت سے معجزات سے بھری پڑی ہیں اور قوم میں مشہور اور متواتر ہیں ۔ پھر یہ بھی بات ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات جیساکہ اوّل زمانہ میں ظاہر ہوئے تھے۔ ایسا ہی وہ اس زمانہ میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں اور یہ امر ایک ایسا ثابت ہے جس میں کوئی رخنہ نہیں اور نہ اس کی صحت میں کچھ نقص ہے اور بخدا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت اجلی۱ بدیہیات ہے۔
و از دلائل نبوت آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آنکہ در وقت ضرورت تشریف آورد و از دنیا رحلت نکرد تا امر دین را بکمال مطلوب نر سانید۔ و معجزات دیگر کہ ازاں جناب نبوت انتساب بظہور آمدہ از حد شمار بیرون است۔ و بعضی ا زانہا در کتب مذکور و در قوم مشہور است۔ بعلاوہ معجزات آنحضرت چنانکہ درز مانہ اول بظہور آمد۔ ہمچنان در این زمانہ بظہور مے آید۔ و آنچہ گفتم راست و شک را دران مدخل نہ۔ بخدا نبوت آنحضرت از روشن ترین بدیہیات است و در
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 46
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 46
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/46/mode/1up
ولا یفارقہا فی زمن أنوار الآیات
ولا یُنکرہا إلَّا الذی رُبِّیَ فی شر جُحْرٍ، ونشأ فی أخبث نشاءٍ۔ وإنّہ جاء بدین لونزعنا عنہ کل برہان، ونری نفس تعلیمہ بعین إمعان، لنظرنا تلألأ الحق فی صورتہ الساذجۃ المنیرۃ، من غیر احتیاج إلی حُلل الحجج والأدلّۃ۔ وواللّٰہ ما منع الناس أن یقبلوا الإسلام إلَّا داء دخیل من الکبر والتعصّب والأود والفساد، وغلبۃ البخل والحقد وحب القوم والعناد۔ وما بعّدہم
اور کسی زمانہ میں نشانوں کے نور اُس سے علیٰحدہ نہیں ہوتے اور ان سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا بجز اُس شخص کے کہ جس نے بدی کی گود میں پرورش پائی ہو اور نہایت خبیث کیفیت کے نشوونما میں بڑھا ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسا دین لائے کہ اگر ہم تمام براہین اور دلائل اس سے الگ کر دیں اور اُس کی نفسِ تعلیم کو غور کی نظر سے دیکھیں تو اس کی سادہ اور روشن صورت میں سچائی کو چمکتے ہوئے دیکھیں گے بجز اس حاجت کے کہ دلائل اور براہین کا اس کو لباس پہناویں اور بخدا لوگوں کو اسلام کے قبول کرنے سے کسی چیز نے بجز اس کے منع نہیں کیا کہ ان کے اندر ایک چھپی ہوئی بیماری تکبر اور تعصب اور بخل اور قومی حب اور عناد کی تھی اور ہے جس کو وہ چھپاتے ہیں اور خدا کی اُن
ہیچ زمانے از نور نشانہا خالی نماندہ۔ و برؔ ایں امر انکار نتواندبیارو الاکسے کہ درکنار بدی پروردہ و در ناپاکی شگرف بالیدگی یافتہ باشد۔ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دینے آوردہ کہ صرف نظر از ہمۂ دلائل و بر اہین اگر نگاہی در نفس تعلیمش میکنیم در چہرۂ سادہ و رو شنش راستی را درخشان می بینیم و ہیچ حاجت ندا ریم روے دلآرام وی را از دلائل مشاطگی نمائیم۔ خدا آگاہ است کہ از قبول اسلام مردم را باز نداشتہ است الاّمرض تکبر و تعصب و عناد و حب قوم کہ در نہاد شان جا گرفتہ کہ آن را پنہان می کنند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 47
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 47
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/47/mode/1up
من نعمہ إلَّا فرطات ضیّقت صدورہم، وملئت من الظلمات قبورہم، فما کانوا مبصرین۔ ہذا ما أردنا شیئا من ذکر دلائل الإسلام، والآن نرجع إلی المرام فاسمعوا متوجہین۔
أیّہا الإخوان۔أقص علیکم نبذا من قصّتی، وما کتب من فضل اللّٰہ فی حصّتی، وأدخل فی دعوتی، فإنی أُمرت أن أُبلّغہا إلیکم یا معشر الطلباء، وأُؤدّیہا کدَیْنٍ لازمٍ لا یسقط بدون الأداء۔ فاعلموا أنی امرؤ من بیت العزّۃ والریاسۃ
نعمتوں سے وہ محض اس لئے دور ڈالے گئے کہ وہ حد سے زیادہ گناہوں کے مرتکب ہو چکے تھے جنہوں نے اُن کے سینوں کو تنگ کر دیا اور ان کی قبروں کو اندھیرے سے بھر دیا سووہ دیکھنے سے محروم رہ گئے۔ یہ تھوڑے سے دلائلِ اسلام کا ہم نے ذکر کیا ہے اور اب ہم اصل مقصود کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اے بھائیو ! میں اپنا کچھ قصہ آپ کے پاس بیان کرتا ہوں اور وہ جو خدا تعالیٰ کے فضل میں سے میرے حصے میں لکھا گیا اور میری دعوت میں داخل کیا گیا کسی قدر اس کو لکھتا ہوں کیونکہ میں حکم دیا گیا ہوں کہ وہ دعوت تم تک پہنچا ؤ ں اور قرض کی طرح اُس کو ادا کروں ۔ سو واضح ہو کہ میں خاندان عزت اور ریاست سے ایک آدمی ہوں
خدا از نعمت ہائے خود شان دور انداخت بہ سبب اینکہ در سیاہ کاری و نا ہنجاری پا از پایان برون گذاشتند از ینجا است کہ سینہ ہا شان تنگ و گورہا پُراز دود و تاریکی گردید لا جرم از بینائی محروم ماندند۔ ایں نبذے از دلائل اسلام است اکنون باصل مطلب مے گرائیم۔
برادراں ! اکنون مے خواہم پارہ از احوال خو د شرح بدہم و شمۂ ازان را در معر ض بیان بیاورم کہ از فضل خدا بر من ارزانی شدہ ودر دعوت من داخل است۔ چہ من مامورم بایں کہ آں دعوت را در پیش شما رسانم و چون دام ادا سازم۔ پوشیدہ نماند کہ من از دود مان عزت و امارت می باشم۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 48
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 48
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/48/mode/1up
وکانت آبائی من أولی الأمر والسیاسۃ، وأُخبرتُ أنہم نزلوا بہذہ الدیاردیار الہند من سمرقند، وقلّدہم ملک الوقت الحکومۃ والإمرۃ وأعطی لہم الفوج والفرند.فاتفق حین غلبت الخالصۃ فی ہذہ البلاد، وعتوا عتوًّا شدیدا وأفرطوا فی الفساد، أن غصبوا مُلکنا ومِلکنا وصفّدونا کالعباد، وأُخرجنا من دار ریاستنا بظلم منہم والعناد۔وکانت تلک أیام البرد، وأوان شدّۃ الصرد، فخرج آباؤنا لیلًا من البرد مقفقفین، ومن
اور میرے بزرگ امیر اور صاحب ملک تھے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ سمر قند سے اس ملک میں آئے تھے اور وقت کے بادشاہ نے اُن کو حکومت اور امارت کی خدمت سپرد کی تھی اور فوج اور تلوار ان کو دی گئی تھی ۔ پس جبکہ اس ملک پر سکھوں کا زور اور تسلط ہوا اور فساد انگیزی میں انہوں نے حد سے تجاوز کیا تو اُس وقت یہ اتفاق ہوا کہ سکھوں نے ہمارا ملک اور تمام املاک چھین لیں اور ہمیں قید کر دیا ۔ پھر ہم محض اُن کے ظلم کی وجہ سے اپنے دار الریاست سے نکالے گئے اور وہ دن سردی کے دن تھے اور سخت سردی پڑتی تھی ۔ پس ہمارے بزرگ رات کے وقت سردی سے کانپتے ہوئے اپنے دارالریاست سے نکلے اور
و پدرانم دارائی ریاست و تمول بودند و از قرار آنچہ بمن رسیدہ از سمر قند درین بلاد آمدند۔ و بادشاہِ وقت زمام حکومت و امارت در دست شان سپرد۔ وبا سپاہ و تیغ ممتاز شدند۔ خلاصہ ہر گاہ گروہِ سکھان بر این اطراف دست یا فتند و در شر و شور و بدکاری و ناہنجاری سر بالا کشید ند مُلک و مِلک ماراہم از زیر تصرف ماکشید ند۔ پدرانِ مارا اسیر کردندو از بے داد
وجور انہارا از دار ریاست اخراج دادند۔ آں ایام ایام سرمائے سخت بود۔ بزرگانِ ما
از شدۂ سردی چون بید لرزان و دندان برہم زنان از جائے مالوف بروں شدند و از
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 49
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 49
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/49/mode/1up
الہمّ کمحقوقفین۔ وألقوا عصا تسیارہم بدار ریاسۃٍ غمرتہم بنوال من غیر سؤال، ورحمت إذ رأت آثار خصاصۃ ولو بقُصاصۃ۔ ثم إذا جاء عہد الدولۃ البرطانیۃ ومضٰی وقت الغارات الشیطانیۃ، فأمنّا بہا ونُجّینا من الفتن الخالصۃ۔ و یمّ آباؤنا تربۃ وطنہم مع رفقۃ من المہاجرین، شاکرین للّٰہ ربّ العالمین، ورُدّ إلینا بعض أموالنا وقُرانا، والبخت الفارُّ أتانا۔ وحفّت
مارے غم کے ایسے تھے جیسا کہ کوئی گھٹنوں پر گِرا جاتا ہے ۔ تب انہوں نے ایک اور ریاست میں ایک عارضی رہائش اختیار کی اور اس ریاست نے کسی قدر نیک سلوک اُن کے ساتھ کیا اور بغیر کسی سوال کے اُن کی ہمدردی کی اور اُن کی تنگدستی کے کچھ نشان دیکھ کر اُن پر رحم کیا اگرچہ اُن کا سلوکؔ بہت کم اور ایک ناکافی سلوک تھا ۔ پھر جب زمانہ دولت برطانیہ کا آیا اور شیطانی غارتوں کا وقت گذر گیا تو ہم اُس سلطنت کے ذریعہ سے امن میں آگئے اور ہمارے بزرگوں نے پھر اپنے وطن کی طرف مع رفیقان سفر کے مراجعت کی اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے تھے اور بعض دیہات ہمارے اور بعض مال ہمارے ہمیں واپس دیئے گئے اور ہمارا بخت برگردیدہ پھر ہماری طرف آیا اور دو خوشیاں
غم و اندوہ چوں شخصے بود ند کہ نزدیک است بزانو بر زمین افتد۔آخر برائے چندے در ریا ستے دیگر رختِ اقامت بیاند اختند۔صاحب ریاست باوشان بانیکی پیش آمد وبے مسئلت بر راہ ہمدردی رفتار کرد و نشانِ تنگی و خواری بر پیشانی انہا خواندہ۔ بر حال زار شاں ترحم آورداگرچہ ہم سلوک ور فتارش فرا خور حال و شانِ شان نبود۔ و باز چون عہد میمنت مہد سلطنت برطانیہ سایۂ ہما پایہ گستردو روز گار تاخت و تاراج غولانِ ناہنجار سپری شد این دولۂ علیہ باعث بر امن و آرام شدہ پدران ما با رفیقان عودت بہ قرار گاہ خویش فرمودند و لب بہ سپاس ایزدی کشودند ۔بعضی از قریہ ہا و املاک بماباز پس گردید و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 50
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 50
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/50/mode/1up
بنا فرحتان کزہر البساتین: فرحۃ الأمن وفرحۃ الحُرّیّۃ فی الدین۔
وما کان لی حظ من ریاسۃ آبائی العبقرییین، فصرتُ بعد موت أبی کالمحرومین۔ وقد أتٰی علیَّ حین
من الدہر لم أکن شیئا مذکورًا، وکنت أعیش خفیًّا ومستورًا، لا یعرفنی أحد إلَّا قلیل من أہل القریۃ، أو نفر من القُری القریبۃ۔فکنت إن قدمت من سفر فما سألنی أحد من أین أقبلت، وإن نزلت بمکاؔ ن فما سأل سائل بأیّ مکان حللت۔
وکنت أحب ہذا الخمول وہذا الحال، وأجتنب الشہرۃ والعزّۃ
با غوں کے پھولوں کی طرح ہمارے وجود میں پھوٹ نکلیں۔ ایک امن کی خوشی اور دوسری دینی آزادی کی خوشی۔ اور مجھے اپنے معظم اور مکرم بزرگوں کی ریاست سے کچھ حصہ نہیں ملا اور میں اپنے باپ کی موت کے بعد محروموں کی طرح ہو گیا اور میرے پر ایک ایسا زمانہ گذرا ہے کہ بجز چند گاؤں کے لوگوں کے اور کوئی مجھ کو نہیں جانتا تھا یا کچھ ارد گرد کے دیہات کے لوگ تھے کہ روشناس تھے اور میری یہ حالت تھی کہ اگر میں کبھی سفر سے اپنے گاؤں میں آتا تو کوئی مجھے نہ پوچھتا کہ تو کہاں سے آیا ہے اور اگر میں کسی مکان میں اُترتا تو کوئی سوا ل نہ کرتا کہ تُو کہاں اُترا ہے اور میں اس گمنامی اور اس حال کو بہت اچھا جانتا تھا اور شہرت اور عزت اور اقبال سے
آب رفتہ در جو ئے ما با ز آمد ودوتا شادی و خورمی چوں شگفتن غنچہ ہا از نہاد ما سر برزد۔ یکے خورمئی امنِ جان و دیگر ے آزادی دین و ایمان۔ من از امارت بزرگان خود بہرۂ نیا فتم و بعد از مرگِ پدر چون محرومان گر دید م ۔ و روزگار ے برسر من گزشتہ کہ غیر از تنے چند از اہالئی دِہ یا متعدد ے از نواح مرا نہ می شناخت۔ و ہر گا ہ چنانچہ از سفر باز آمدن اتفاق مے افتادکسے از اہل دِہ نمی پُرسید از کُجا می آئی۔ و اگر جائے فرومی کشیدم کسے لب نمی کشود کُجا فر ود آمدی۔ امامن ایں گمنامی و کس مپرسی
را از جان دوست داشتم و نہاد من بہ طورے افتادہ بود کہ پوشیدگی و بریدن از مردم را
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 51
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 51
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/51/mode/1up
والإقبال، وکانت جبلّتی خُلقت
علی حبّ الاستتار، وکنت مَزُورًا
عن الزوّار، حتی یئس أبی منی وحسبنی کالطارق الممتار۔ وقال رجل ضری بالخلوۃ ولیس مخالط الناس رحب الدار۔ فکان یلومنی علیہ کمؤدّب مغضب مرہف الشفار، وکان یوصینی لدنیای
سِرًّا وجہرًا وفی اللیل والنہار،
وکان یجذبنی إلی زخارفہا وقلبی یُجذب إلی اللّٰہ القہّار۔ وکذالک تلقّانی أخی وکان یُضاہی أبی
فی ہذہ الأطوار، فتوفّٰہما اللّٰہ
پرہیز کرتا تھا اور میری طبیعت کچھ ایسی واقع تھی کہ میں پوشیدہ رہنے کو بہت چاہتا تھا اور میں ملنے والوں سے تنگ آجا تا تھا اور کوفتہ خاطر ہو تا تھا یہاں تک کہ میرا باپ مجھ سے نو مید ہو گیا اور سمجھا کہ یہ ہم میں ایک شب باش مہمان کی طرح ہے جو صرف روٹی کھانے کا شریک ہوتا ہے اور گمان کیا کہ یہ شخص خلوت کا عادی ہے اور لوگوں سے وسیع گھر کے ساتھ میل جول رکھنے والا نہیں ۔ سو وہ ہمیشہ مجھے اس عادت پر غضب سے اور تیز کاردوں سے ملامت کرتا اور مجھے دن رات اور ظاہر اور در پردہ دنیا کی ترقی کے لئے نصیحت کیا کرتا تھا اور دنیا کی
آرائشوں کی طرف رغبت دیتا تھااور میرا دل خدا کی طرف کھنچا جا رہا تھا۔ اور ایسا ہی میرا بھائی مجھے پیش آیا اور وہ ان باتوں میں میرے باپ سے مشابہ تھا۔ پس خدا نے اِن دونوں کو
از بس خواہان بودم ۔ و از بینندہ ہاخیلے ملالت می کشیدم تا آنکہ پدرم از من نومید شدومرا از طفیلیان مفت خور می پند اشت و دید کہ ایں کس خوگر فتہء تنہائی است و با مردم خانہ آمیز گاری ندارد۔ ناچار بر این و تیرہؔ ؔ مراچوں آموز گار خشم ناک نکوہش می فرمودو کارد زبان را بر من تیزمے کرد۔ و روز و شب و نہان و آشکاربرائے حصول دنیا پندد اندر زمی داد۔ و بسوئے آرائش و پیرائش دنیا مرا بزورمے کشید۔ ولے دلِ من بہ کشش تمام میل بسوئے خدا ئے یگانہ مے آورد۔ و ہمچنیں برادر بزرگ بامن رفتارمی نمود۔
داد در این شیوہ ہا برپئے پدر قدم مے زد۔ آخر خدا ہر دو را در جوار رحمت خود جائے بداد
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 52
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 52
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/52/mode/1up
ولم یترک کالمیخار۔ وقال کذالک لئلَّا یبقی منازع فیک ولا یضرّک إلحاح الأغیار۔ ثم اقتادنی إلی بیت العزّۃ والاختیار، وما کان لی علم بأنہ یجعلنی المسیح الموعود، ویتم فی نفسی العہود، وکنت أُحبّ أن أُترَکَ فی زاویۃ الخمول، وکانت لذّتی کلہا فی الاختفاء والأفول، لا أبغی شہرۃ الدنیا والدین۔ ولم أزل أنصّ عنسی إلی مکاتمۃ کالفانین۔ فغلب علیَّ أمر اللّٰہ العلَّام، ورفع مکانتی وأمرنی أن
وفات دی اور زیادہ دیر تک زندہ نہ رکھا اور اُس نے مجھے کہا کہ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا تا تجھ میں خصومت کرنے والے باقی نہ رہیں اور ان کا الحا ح تجھ کو ضرر نہ کرے ۔ پھر میرے رب نے مجھے عزت اور بر گزیدگی کے گھر کی طرف کھینچا اور مجھے اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ مجھے مسیح موعود بنا دے گا اور اپنے عہد مجھ میں پورے کرے گا اور میں اس بات کو دوست رکھتا تھا کہ گمنامی کے گوشہ میں چھوڑا جاؤں اور میری تمام لذت پوشیدہ اور گم رہنے میں تھی
میں دنیا اور دین کی شہرت کو نہیں چاہتا تھا اور میں ہمیشہ اپنی کوشش کی اونٹنی اسی طرف چلاتا گیا کہ میں فانیوں کی طرح پوشیدہ رہوں پس خدا کے حکم نے میرے پر غلبہ کیا اور میرے مرتبہ کو بلند کیا اور مجھے دعوتِ مخلوق
و تادیر باز زندہ شان نگذاشت۔ و فرمود ہمچنین می باید تا با تو نزاع کنندۂ نماند و خصومت شاں ترا آزارے نرساند۔ باز خدا مرا بسوئے خانہ عزت و بر گزیدگی بکشید و من ہرگز گمان ندا شتم کہ مرا مسیح موعود بگرداند و عہد خود را در نفس من بانجام بر ساند۔ و من کُنج گمنامی و تنہائی را بسیار دوست مید اشتم۔ و ازیں تنہائی و پنہانی لذتے می یافتم۔ شہرت دین و دنیا را ہرگز خواستاری نمیکردم و ہر چہ می تو انستم خود را چون فانیان پوشیدہ از مردم می داشتم۔ پس امرِ خدا بر من غالب آمد ومرتبۂ مرا بلند کرد و فر مود تا برائے دعوتِ خلق بر خیزم و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 53
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 53
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/53/mode/1up
اقوم لدعوۃ الأنام، وفعل ما شاء وہو أحکم الحاکمین۔ واللّٰہ یعلم ما فی قلبی ولا یعلم أحد من العالمین۔ ؂
حِبٌّ لَنَا فَبِحُبِّہ نَتَحَبَّبُ
وَعَنِ الْمَنَازِلِ والْمَرَاتِبِ نَرْغَبُ
إِنِّی أَرَی الدُّنْیَا وَبَلْدَۃَ أَہْلِہَا
جَدَبَتْ وَأَرْضُ وِدَادِنَا لاَ تَجْدَبُ
یَتَمَایَلُونَ عَلَی النَّعِیمِ وَإِنَّنَا
مِلْنَا إِلَی وَجْہٍ یَسُرُّ وَیُطْرِبُ
إِنَّا تَعَلَّقْنَا بِنُورِ حَبِیبِنَا
حَتَّی اسْتَنَارَ لَنَا الَّذِی لاَ یَخْشَبُ
إِنَّ الْعَدَا صَارُوا خَنَازِیرَ الْفَلَا
وَنِسَاءُ ہُمْ مِنْ دُونِہِنَّ الأَکْلَبُ
کے لئے حکم کیا اور جو چاہا کیا اور وہ احکم الحاکمین ہے ۔ ؂
ہمارا ایک دوست ہے اور ہم اُس کی محبت سے پُر ہیں ۔ اور مراتب اور منازل سے ہمیں بے رغبتی اور نفرت ہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیا اور اُس کے طالبوں کی زمین قحط زدہ ہو گئی یعنی جلدی تباہ ہو جائے گی اور ہماری محبت کی زمین کبھی قحط زدہ نہیں ہو گی ۔ لوگ دنیا کی نعمت پر جھکتے ہیں مگر ہم اُس مُنہ کی طرف جھک گئے ہیں جو خوشی پہنچانے والا اور طرب انگیز ہے۔ ہم اپنے پیارے کے دامن سے آویختہ ہیں ایسے کہ جو صاف اور شفاف نہیں ہو سکتا وہ بھی ہمارے لئے منور ہو گیا ۔ دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور اُن کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔
آنچہ را خواست کرد کہ او احکم الحاکمین است ۔و خدا می داند آنچہ دردل من است و غیر اوازاں آگا ہ نہ ۔
ترجمہ اشعار ۔مارا محبوبے است کہ از حب اوپر می باشیم۔و از مراتب و مناصب بکلی فراغ داریم۔
می بینیم دنیا و زمین طالبانش را قحط بر آں چیرہ شدہ ولے زمین دوستی ما ہموار ہ سر سبز خواہد بود۔
مردم بر نعمت ہائے دنیا سر فرود آوردہ اند و لیکن مامیل سوئے روئے آوردہ ایم کہ شادی و خورمی بخشد۔
مادست بدامان دوست خود زدہ ایم از ہمیں سبب است کہ آنچہ صاف بود نش دشوار بود جہت ما صاف ور وشن گردیدہ است۔
دشمنان ما خنز یر ہائے بیابان شدہ اندو زنان آنہاسگ مادہ ہارا در پس انداختہ اند۔*
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 54
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 54
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/54/mode/1up
سَبُّوا وَمَا أَدْرِی لاَیِّ جَرِیمَۃٍ
سَبُّوا أَنَعْصِی الْحِبَّ أَوْ نَتَجَنَّبُ
اَقْسَمْتُ أَنِّی لَنْ أُفَارِقَہٗ وَلَوْ
مَزَّقَتْ أُسُودٌ جُثَّتِی أَوْ أَذْءُ!بُ
ذَہَبَتْ رِیَاسَاتُ الاُناسِ بِمَوْتِہِمْ
وَلَنَا رِیَاسَۃُ خُلَّۃٍ لَا تَذْہَبُ
وکذالک کنت قد انقطعت من الناس، وعکفت علی اللّٰہ فارغًا من الصلح والعماس، وکنت أعلم وأنا حدَث أن اللّٰہ ما خلقنی إلَّا لأمر عظیم، وکانت قریحتی تبغی
الارتقاء وقرب ربٍّ کریم۔
وکان تبر جوہری یبرق فی عرق الثری، من غیر أن یستثار
انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں کیا ہم اُس دوست کی مخالفت کریں یا اُس سے کنارہ کریں ۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اس سے علیحدہ نہیں ہو ں گا اگرچہ شیر یا بھیڑیا مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔ لوگو ں کی ریاستیں ان کے مرنے کے ساتھ جاتی رہیں اور ہمارے لئے دوستی کی وہ ریاست ہے جو قابل زوال نہیں ۔
اور اسی طرح میں لوگوں سے منقطع ہو چکا تھا ۔ اور دنیوی صلح اور جنگ سے فارغ ہو کر خداتعالیٰ کی طرف جھک گیا تھا اور میں ابھی نوجوان تھا کہ اس بات کو جانتا تھا کہ خد اتعالیٰ
نے مجھے ایک امر عظیم کیلئے پیدا کیا ہے اور میری طبیعت ترقی اور قرب ربّ العالمین کو چاہتی تھی۔ اور میری طبیعت کا سونا خاک کی جڑ میں چمک رہا تھا بغیر اس کے کہ وہ کھود کر نکالا جائے
دشنام داد ند حیرانم کہ جرم من چیست آیا خلاف آں دوست بکنیم یا ازوے رو بگرد انیم۔
سوگند خوردہ ام نہ ہرگز از وے جدا نخوا ہم شد اگرچہ شیرو گرگ مرا پارہ پارہ بکنند۔
ریاست مردم بعد از مرگ فنا می پز یر دولے ریاست دوستی مارا ابداً زوال نیست۔
ہمچنین از مردم بریدہ و از آشتی واستیز کنا رجستہ ہمگی رو بخدا آوردہ بودم۔ وہنوز جوان بودم کہ مے فہمیدم خدا مرا برائے کارے بزرگ خلق فرمودہ است۔ نہاد من نزدیکی پرور دگا ر جہان و ترقی را آرزو داشت و زر جوہر من در تہہ خاک مے درخشید بغیر آنکہ کندیدہ و برون دادہ شود۔ و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 55
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 55
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/55/mode/1up
بالنبش ویُبدَی، وکان أبی متلاحق الأفکار فی أمری، ودائم الفکر من سیرۃ ہونی وعدم شمری، وکان یسعی لنرقی علی ذروۃ شاہق الإقبال، ونصل الدولۃ کآباء نا الأمراء والأجیال۔ فالحاصل أن قصد أبی کان أن نصل فی الدنیا إلی مراتب عظمی، وکان اللّٰہ أرادلی مرتبۃ أخری، فما ظہر إلَّا ما أراد ربّیَ الأعلٰی۔ فوہب لی نورا فی لیلۃ داجیۃ الظلُم، فاحمتہ اللمم، وأضاء قلبی لإضاءۃ القوم والأمم۔ ومنَّ علیَّ وجعلنی المسیح الموعود
اور ظاہر کیا جائے۔ اور میرا باپ میرے معاملہ میں ہمیشہ غمگین رہتا تھا اور میری آ ہستگی کی خصلت اور دنیا کے کاموں میں شوخ اور چالاک نہ ہونا اس کو فکر اور غم میں رکھتا اور وہ اس کوشش میں تھا کہ تاہم اقبال کے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں اور اپنے بزرگوں کی طرح دولت اور امیری کو پا لیں ۔ حاصل کلام یہ کہ میرے باپ کا ارادہ تھا کہ ہم دنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب پر پہنچ جاویں لیکن خدا نے میرے لئے ایک اور رتبہ کا ارادہ کر رکھا تھا ۔ پس جو خدا نے چاہا وہی ہوا۔ اور اُس نے مجھے سخت سیاہ رات میں جس کے سیاہ اور لمبے بال تھے نور عطا فرمایا اور میرے دل کو امتوں اور قوموں کے روشن کرنے کیلئے روشن کیا اور میرے پر احسان کیا اور مجھے مسیح موعود بنایا
پدر من ہموارہ از بابت من اندوہگین می بود و خوارداشتن من دنیا را و چست نبودن من در کا ر آں دائمااو را در اندیشہ داشت۔ و کوشش آن میکرد کہ ما بر قُلّہ کوہِ اقبال و جاہ بالا رویم۔ و بر روش بزرگان و پد رانِ خویش دولت و مکنت را در دست آریم۔ خلاصہ پدرم از بس میخواست کہ دریں دنیا بر مرتبہ ہائے بزرگ برسیم و لیکن خدا برائے من مرتبۂ دیگرا رادہ کردہ بود۔ بالآخر ہمان شد کہ پرور دگار من خواستہ بود ۔ پس اومرا درشب تار سیاہ کہ روکش زغال وزاغ بود روشنی بخشید۔ و مرا نوری دردست داد کہ قوم ہارا روشن سازم و از کمال منت بر حسب وعدۂ قدیم مرا مسیح موعود بگردانید
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 56
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 56
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/56/mode/1up
کما قدّم فی ہذا الأمر العہود۔ ثم أیّدنِی بتأییدات، وأظہر صدقی بآیات، وجعل من شہداء أمری کسوف الشمس والقمر، لیبرق محجۃ الدعوی ولا یکون کأراجیف السمر۔ ولمّا أَخبرتُ عمّا أُمِرتُ صَعُبَ ذالک علی العلماء ، وکفروا وکذّبوا وکادوا یقتلوننی لولا خوف الحکّام ومخافۃ سوء الجزاء۔ وکانوا یحتجّون بأنّ المسیح ینزل من السماء ، کما جاء فی الکتب واتفق علیہ الأکابر من الفضلاء ، وکانوا علیہ مصرّین۔ وأسمعناہم فما سمعوا، وفہّمناہم فما فہموا،
جیسا کہ قدیم سے اُس کا وعدہ تھا ۔ پھر طرح طرح کی مددوں کے ساتھ میری تائید کی اور اپنے نشان دکھلائے اور میرے لئے آسمان پر کسوف خسوف ظاہر کیا تاکہ دعوے کی راہ چمکے اور کہانیوں کی راہوں کی طرح نہ ہو۔ اور جب میں نے اپنے مسیح موعود ہونے کی لوگوں کو خبر کی تو یہ بات اس ملک کے لوگوں پر بہت شاق گذری اور مجھے انہوں نے کافر ٹھہرایا اور میری تکذیب کی اور قریب تھا کہ وہ مجھے قتل کرتے اگر حکام کا خوف نہ ہوتا اور وہ یہ حجت
پیش کرتے تھے کہ مسیح آسمان سے اترے گا جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہے اور اس پر اکابر فضلاء کا اتفاق ہے اور وہ اسی پر اصرار کرتے تھے اور ہم نے اُن کو سُنایا مگر انہوں نے نہ سنا اور ہم نے سمجھایا مگر انہوں نے نہ سمجھا
باز بگو نا گون تائیدہا دست مرا بگرفت و نشانہا از برائے راستئ من پدیدار کرد۔ و آفتاب و ماہتاب را برائے من بالائے آسمان لباس سیاہ در بر کرد تا طریق دعویٰ من آشکار و روشن گردد و آں دعویٰ مجرد افسانہ وارے نبا شد۔ و ہر گاہ ماموریت خود را بر مردم عرض دادم بر مولویان این دیار خیلے گران آمد ۔کمر بر تکفیر و تکذیب من چست بستند و نزدیک بود بر من میر یختند اگر ہر اس حاکمان وقت و بیم پاداش نبود۔ و مایۂ حجت انہا غیرآں کہ مسیح باید کہ از آسمان فرود آید بموجب آنچہ در کتب مذکور و درمیانۂ فضلاء مشہور است۔ و بر ایں عقیدہ اصرار ور زیدند۔ ہر چہ ممکن بود شنوانیدیم ولے نشنیدند و فہمانیدیم ولے نہ فہمیدند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 57
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 57
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/57/mode/1up
فأردنا أن نبلّغ ہذہ الدعوۃ إلی أقوام آخرین، ونجعلہم شہداء علی قوم أوّلین، ونتم الحجۃ مرۃ ثانیۃ علی المنکرین۔ واللّٰہ ہو المستعان وہو نعم المولٰی ونعم المعین
پس ہم نے ارادہ کیا کہ اس دعو ت کو دوسری قوموں تک پہنچا ویں اور اُن کو پہلوں پر گواہ بناویں اور منکروں پر دوبارہ حجت قائم کر دیں اور خدا سے ہم مدد چاہتے ہیں اور وہی بہتر آقا اور وہی بہتر مدد گار ہے۔
لہٰذا خواستیم این مائدہ الٰہی را در پیش قوم دیگر بگستریم و آں پسینیان را بر پیشینیان گواہ بسازیم ویک بار دیگر بر منکران اتمام حجت بکنیم۔ ودر ہر کار یاری از خدا میخواہیم کہ او یار خوبے ویاوری شگرفے است۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 58
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 58
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/58/mode/1up
یاؔ أرضُ اسمعی ما أقول
ویا سماء اشہدی
ہذا مکتوب إلی خواص الناس ونخب الأقوام، من عبد اللّٰہ أحمد* الذی نُصِّلَ لہ أسہم الملام، وأرجو أن لا یُعجَلَ بذمّ، ولا یُنبَذ عودی قبل عجم، بل یُسمع قولی بالوقار والتُؤدۃ، ثم یُتبع ما یُلقی اللّٰہ فی الأفئدۃ۔ وأدعو اللّٰہ أن یُلہم القلوب ما ہو أصوب وأولٰی، وہو نعم الہادی ونعم المولٰی
اےؔ زمین سن جو میں کہتا ہوں
اور اے آسمان گواہ رہ
یہ ایک خط ہے جو خواص لوگوں اور قوموں کے بر گزیدوں کی طرف لکھا گیا ہے اور یہ خدا کے بندے احمد کی طرف سے ہے جس کے لئے ملامت کے تیروں پر پیکان رکھے گئے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ بُرا کہنے کے لئے جلدی نہ کی جائے۔ اور میری لکڑی آزمانے سے پہلے پھینک نہ دی جائے بلکہ میری بات کو آہستگی سے سنا جائے پھر اس بات کی پیروی کی جائے کہ جو خدا تعالیٰ دلوں میں ڈالے۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ وہ امر دلوں میں ڈالے جو نہایت سیدھا اور بہتر ہے اور وہی اچھا ہادی اور اچھا آقا ہے ۔
زمین ؔ بشنو آنچہ می گویم
وآسمان گواہ باش
این نامہ ایست کہ بسوئ مردم چیدہ وکلانان ملتہا نوشتہ شدہ از قبل بندۂ خدا احمدآنکہ از برائے اوبر تیر ہا پیکان نکوہش در پیوستہ اند۔ امید دارم کہ در نکو ہیدن شتاب کاری رواند اشتہ و پیش از آزمودن سرگی و ناسرگی نقد مرا از دست انداختہ نشود۔ بلکہ مناسب است گفتار مرا بآہستگی و آرامی گوش کردہ باز پیروی آنچہ خدا در دل بریزد نمودہ شود۔ از خدا میخواہم دلہارا رہنمونی بفرماید بآنچہ راست و بہتر است۔
* انا شہیر باسم میرزا غلام احمد بن میرزا غلام مرتضیٰ القادیانی و القادیان قریۃ مشہورۃ من ملک الہند من فنجاب قریب من لاہور فی ضلع گورداسپور ھٰذا علامۃ تکفی لمن ارادان یکتب الیّ مکتوبًا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 59
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 59
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/59/mode/1up
أیہا الإخوان ۔إنی أُلہمت من حضرۃ العزّۃ، وأُعطیت عِلْمًا من علوم الولایۃ، ثم بُعِثتُ علی رأس الماءۃ، لأجدّد دین ہذہ الأمّۃ، ولأقضی کحَکَمٍ فیما اختلف فیہ من العقائد المتفرقۃ، ولأکسر الصلیب بآیات السماء، وأُبَدّل الأرض بقوۃ حضرۃ الکبریاء۔ واللّٰہُ سمّانی المسیح الموعود والمہدی الموعود بإلہام صریح، و وحی بیِّن صحیح، وما کنت من المخادعین۔ وما کنت أن افوہ بزور، وأدلّی بغرور، وتعلمون عواقب الکاذبین، بل ہو کلام من ربّ العالمین
اے بھائیو ! میں اللہ جلّ شانہٗ سے الہام دیا گیا ہوں اور علوم ولایت میں سے مجھے علم عطا ہوا ہے پھر میں صدی کے سر پر مبعوث کیاگیا تا اس امت کے دین کی تجدید کروں اور ایک حَکم بن کر اُن کے اختلافات کو درمیان سے اٹھاؤں اور صلیب کو آسمانی نشانوں کے ساتھ توڑوں اور قوتِ الٰہی سے زمین میں تبدیلی پیدا کروں اور اللہ تعالیٰ نے الہام صریح اور وحی صحیح سے مجھے مسیح موعود اور مہدی موعود کے نام سے پکارا اور میں فر یبیوں میں سے نہیں اور نہ میں ایسا ہوں کہ میری زبان پر جھوٹ جاری ہوتا اور میں لوگوں کو بدی میں ڈالتا اور جھوٹوں کے انجام کو آپ لوگ جانتے ہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہے۔
برادران من !از حضرت عزت ملہم استم ومرا از علوم ولایت بہرۂ وافی بخشیدہ بر سر صد بر انگیختہ اند کہ دین این ملت را تجدید کنم و بطور حَکم نصفت کیش ہمۂ اختلافات را از میانہ بردارم۔ و با نشانہائے آسمانی صلیب را بشکنم وبہ قوۂ الہٰیہ زمین را بر گردانم۔ و خدا مرا بنام مسیح موعود یاد فرمود ست بالہام صریح و وحی صحیح و من از فریب دہندگان نبودہ ام و ہرگز دروغ بر زبان من نرفتہ۔ وچنان نیم کہ مردم ر ا براہ کج رہنمونی بکنم و شما انجام دروغ زنان را نیکو می دانید۔ بل این الہام از طرف پروردگار جہان است۔ ومع این ہمہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 60
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 60
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/60/mode/1up
ومع ذالک کنتُ حرَّجتُ علی نفسی أن لا أتّبع إلہامًا أو کرر من اللّٰہ إعلاما ویوافق القرآن والحدیث مرامًا، وینطبق انطباقا تمامًا۔
ثم کان شرط منی لہذا الإیعاز أن لاأقبلہ من غیر أن أنظر إلی الاحیاز، ومن غیر أن أشاہد بدائع الإعجاز۔ فواللّٰہ رأیت فی إلہامی جمیع ہذہ الأشراط، ووجدتہ حدیقۃ الحق لا کالحماط۔ ثم کان ہذا بعد ما استطارت صدوع کبدی من
الحنین إلی ربّی وصمدی، ومُتُّ
میتۃ العشّاق، وأُحرِقتُ بأنواع الإحراق، وصُدمت بالأہوال،
اور باوجود اس کے میں نے اپنے نفس پر یہ تنگی کر رکھی تھی کہ میں کسی الہام کی پیروی نہ کروں مگر بعد اس کے کہ بار بار خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا اعلام ہو اور قرآن اور حدیث سے بکلی موافق ہو اور پوری پوری مطابقت ہو ۔ پھر اس کارروائی کیلئے ایک یہ شرط بھی میری طرف سے تھی کہ میں الہام کے بارے میں اس کے کناروں تک
نظر ڈالوں اور بغیر مشاہدہ خوارق کے قبول نہ کروں ۔ پس بخدا کہ میں نے اپنے الہام میں ان تمام شرطوں کو پایا اور میں نے اس کو سچائی کا باغ دیکھا نہ اس خشک گھاس کی طرح جس میں سانپ ہو ۔ پھر یہ الہام اس وقت مجھے ملا جبکہ میرے جگر کے ٹکڑے خدا تعالیٰ کے شوق میں اڑے اور عشّاق الٰہی کی موت میرے پر آئی اور کئی قسم کے جلانے سے میں جلایا گیا اور کئی قسم کے خوفوں سے میں کوٹا گیا
نفس خود را تنگ گرفتہ و پابند آن بودم کہ درپے ہیچ الہامے نروم تا آنکہ مکرراً از جانب خدا عزّاسمہ‘آگاہی دادہ شوم و باوجود آن با قرآن و حدیث موافقت کلی ومطابقت تامہ داشتہ باشد۔ وبعلاوہ بر خود لازم کردہ بودم کہ نگاہے دقیقے در ہمۂ اطراف الہام بیندازم و زنہا ر آنرا قبول نکنم تا آنکہ خوارق عجیبہ و اعجاز کامل ہمراہ آن نیابم۔ اکنوں سو گند بخدا ئے بزرگ یادمے کنم مے گویم کہ این شرائط را بتمامہا در الہام خود موجود می بینم و آنرا باغے سر سبزو آراستہ می بینم نہ چوں آں گیا ہے کہ مار در زیر آن پنہاں باشد۔ و قطع نظر ازین ہمہ این الہام وقتے نصیب من شد کہ از شوقِ الٰہی جگر من پارہ پارہ شد و موت عشاق بر من واردآمد و از گوناگون آتشہا بسو ختم۔ و از اقسام خوفہا کوفتہ گردیدم و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 61
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 61
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/61/mode/1up
وصُرم قلبی من الأہل والعیال، حتی تمّ فعل اللّٰہ وشرح صدری، وأودع أنوار بدری۔ ففزت منہ بسہمین: نور الإلہام ونور العینین۔ وہذا فضل اللّٰہ لا رادّ لفضلہ، وإنہ ذو فضل مستبین.
وقد ذکرت أن إلہاماتی مملوۃ من أنباء الغیب، والغیب البحت قد خُصّ بذات اللّٰہ من غیر الشک والریب، ولا یمکن أن یُظہر اللّٰہ علی غیبہ رجلا فاسد الرویّۃ، وخاطِبَ الدنیا الدّنیّۃ۔ أیُحب اللّٰہُ
امرءًا بسط مکیدۃً شباک الردا، و
اور اہل وعیال سے میرا دل کا ٹا گیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا فعل پورا ہو گیا اور میرا راستہ کھولا گیا اور میرے چاند کا نور مجھ میں بھرا گیا۔ پس اس سے مجھے دو حصے ملے۔ الہام کا نور اور عقل کا نور۔ اور یہ خد اتعالیٰ کا فضل ہے اور کوئی اس کے فضل کو رد نہیں کر سکتا۔
پھر میرے الہام غیب کی پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور غیب اللہ جلّ شانہٗ کی ذات سے خاص ہے اور ممکن نہیں کہ
اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر اس شخص کو پورا غلبہ بخشے جو فاسد الخیال اور دنیا کا چاہنے والا ہے ۔ کیا خدا ایسے آدمی کو دوست پکڑ سکتا ہے جس نے ہلاکت کی دام محض فریب کی راہ سے بچھائی
از ہمہ عیال و اموال بیکبار ببریدم تا آنکہ فعل خدا از قوۃ بفعل آمد و سینۂ مرا کشادی و بدر مرا نور کامل در کا رکردند۔ پس دو بہرۂ ازاں بدست آورد م نور الہام۱ و نو ر عقل۲۔ و این ہمہ از فضل خدا ست و کس رایارائے آن نہ کہ فضل وے را منع بکند۔
و الہامات من ہمہ پُر از اخبار غیب مے باشد۔ و غیب بحت البتہ خاصۂ خدا است و نمے شود خدا بر غیب غلبۂ تامہ شخصے را کہ دارند ۂ خیالات بد و خواہندۂ دنیا باشد۔ آیا ممکن است خدا شخصے را دوست گیرد کہ دام ہلاک مردم از راہ مکروز در گستردہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 62
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 62
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/62/mode/1up
أضلّ الناس وما ہدیٰ، وأضرّ الملّۃ کالعدا، وما جلّی مطلعہا بنور صدقہ وما راح بہمّہا وما غدا، بل زاد بکذبہ صداء الأذہان، ونشر بمفتریاتہ ہباء الافتنان؟ کلا بل إنہ یخزی المفترین، ویقطع دابر الدجّالین، ویلحقہم بالملعونین السابقین.
ثم اعلموا أنی قد کنتُ أُلہمتُ من أمدٍ طویل، وعُلِّمْتُ ما عَلِمْتُ من ربٍّ جلیل، ولکنی استترت عن الخلق حینا، لا یعرفون لی عرینا، وما اخترت منہم نجیًّا وقرینا۔ فلما أُمِرتُ للإظہار، وقُطِعَت سلسلۃ
اور لوگوں کو گمراہ کیا اور ہدایت نہ کی اور دین اسلام کو دشمنوں کی طرح ضرر پہنچایا اور نور صدق سے اس کے مطلع کو روشن نہ کیا اور اُس کی غم خواری میں نہ کبھی صبح کی اور نہ شام اور اس کی اصلاح کیلئے کچھ تگ و دو نہ کی ۔ بلکہ اپنے جھوٹ کے ساتھ ذہنوں کا زنگ بڑھایا اور اپنے افترا کی باتوں کے ساتھ امت میں فتنہ کی گرد و غبار پیدا کر دی۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو تا بلکہ اللہ تعالیٰ مفتریوں کو رسوا کرتا اور اُن کی جڑ کاٹ کر ان کے ساتھ ان کو ملا دیتا ہے جو اُن سے پہلے *** کئے گئے ہیں۔
اور پھر یہ بات یاد رکھو کہ ایک مدت سے مجھے الہام ہو رہا تھا جس کو میں نے لوگوں سے ایک عرصہ تک چھپایا اور اپنے تئیں ظا ہر نہ کیا ۔ پھر میں ظاہر کرنے کیلئے مامور ہوا
تب میں نے حکم کی تعمیل کی اور تمہیں
ومر دم را درمغاک گمرہی سر نگون انداختہ و چون دشمنان در پئے آزار اسلام برآمدہ۔ و از صدق مطلع اش را روشن نسا ختہ با مداد و شامگاہان ہرگز از بہربہبود آں کوششے نکردہ و از پئے اصلاح مردم اندکے تگ و دوہم روانداشتہ ۔ بل مزیدے برآں از دروغ و جعل خویش زنگ بر ذہنہا افزودہ۔ و از افترائی خود درمیانۂ امت گرد و غبار فتنہ بر انگیختہ۔ نی نی بلکہ خدا مفتری را رسوا کند و بیخ د جالان را بر کندہ انہارا با ملعونان پیشین پیوندمی بخشد۔
پوشیدہ نماند کہ دیر باز است این الہام بمن شد ولے از مردم پوشیدہ داشتم۔ باز چوں امور بہ اظہار شدم
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 63
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 63
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/63/mode/1up
الاعتذار، فلبیت الصائت کطائعین۔ وقد بلغکم الأحادیث من المحدّثین، وسمعتم أن المسیح الموعود والمہدی الموعود یخرج عند غلبۃ الصلیب، ویتلافی ما سلف من الإضلال والتخریب، ویہدی قومًا مہتدین۔ والذین منعتہم الحمیّۃ والنفس الأبیۃ من القبول، فیصیرون بحربۃ الإؔ فحام کالمقتول۔ وأمّا نزولہ إلی الأعداء فأشیر فیہ إلی أنہ رجل من الفقراء ، لا یکون لہ دروع وأسلحۃ، ولا عساکر و مملکۃ، ولا تنبری لہ ملحمۃ، بل تکون لہ سلطنۃ فی السماء، وحربۃ من الدعاء۔ فقد رأیتم بأعینکم أن دین الصلیب قد علا۔
حدیثیں پہنچ چکی ہیں اور تم سن چکے ہو کہ مسیح موعود اور مہدی موعود صلیب کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو گا اور صلیبی خرابیوں اور گمراہیوں کی تلافی کرے گا اور مستعد لوگوں کو ہدایت دے گا اور جن کو ان کے نفسانی ننگ اور سر کشی قبو ل کرنے سے روکے گی وہ اتمام حجت کے حربہ سے مقتول کی طرح ہو جائیں گے۔ اور مسیح میں نزول کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا تاکہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ مسیح زرہؔ اور ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر نہیں ہو گا اور کوئی لڑائی اس کو پیش نہیں آئے گی بلکہ اس کی بادشاہت آسمان میں ہو گی اور اُس کا حربہ اس کی دعا ہو گی ۔ سو آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین صلیبی اونچا ہو گیا
و چارۂ از قبول آواز حق نداشتم لذا بر خلق عرضہ دادم و بر شما آشکار است چنانچہ مدعائے آثار و اخبار است کہ مسیح موعود در وقت غلبۂ صلیب بروز کند و جبر کسر فتنہ ہا و کجر اہی ہائے صلیب کار او باشد و دلہائی مستعد را ہدایت بخشد وانہائے کہ ننگ و عار شاں از قبول دعوتش باز دادہ البتہ با حربۂ اتمام حجت کشتہ وارے شوند۔ لفظ نزول برائے او اشارت بدان است کہ او شخصے فقیر و ناتوان و سلاح و زرہ و سلطنت و سپاہ و حشمت اور انباشد۔ و رؔ زم و پیکار اورا در پیش نیاید۔ بل بادشاہی او در آسمان و سلاح و زرہ او دعائی او باشد۔ اکنون شما بچشم سردیدیدکہ دیانۂ صلیبی بلند شدہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 64
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 64
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/64/mode/1up
وکل أحد من القسوس طعن فی دیننا وما ألا، وسبّ نبیّنا وشتم وقذف وقلا، وتجدونہم فی عقیدتہم متصلبین، ومن التعصب متلہبین، وعلی جہلا تہم متفقین، وقد صنّفوا فی أقرب مدّۃ کتبا زہاء ماءۃ ألف نسخۃ، وما تجدون فیہا إلَّا توہین الإسلام وبہتانًا وتہمۃ۔ ومُلئت کلہا من عذرۃ لا نستطیع أن ننظر إلیہا نظرۃ۔ وترون ان اکثرھم اناس مکائدہم کالہوجاء الشدیدۃ جاریۃ، وقلوبہم من کسوۃ الحیاء عاریۃ۔ وتشاہدون أنہم علی رؤوس العامۃ کداعی
اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اٹھا نہیں رکھا اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دشمنی کی اور تم دیکھتے ہو کہ وہ اپنے عقیدے میں کیسے سخت ہو گئے ہیں اور کیسے تعصب سے افروختہ ہیں اور اپنی باطل باتوں پر کیسے اتفاق کئے بیٹھے ہیں اور تھوڑی مدت سے ایک لاکھ کتاب انہوں نے ایسی تالیف کی ہے جس میں ہمارے دین اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت بجز گالیوں اور بہتان اور تہمت کے اور کچھ نہیں اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیں
پُر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی ان کو دیکھ نہیں سکتے اور تم دیکھتے ہو کہ اُن کے فریب ایک سخت آندھی کی طرح چل رہے ہیں اور ان کے دل
حیا سے خالی ہیں اور تم مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کا وجود تمام مسلمانوں پر ایک موت
و کشیشان زبان ملام و نکوہش بر دین ما دراز کردہ ہیچ دقیقہ از دقائق دشنام و بد گوئی نسبت بہ سید المعصومین خیر المرسلین فخر اولاد آدم ہادی امم سید و مو لائی ما محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وسلم )فر ونگذاشتہ اند۔ و پو شیدہ نیست کہ در ایں عقیدہ چقدر تصلّب پیدا کردہ و از آتش عصبیت سراپا ا فروختہ و بر ایں دروغ بے فروغ چساں سر فرودآوردہ اند۔ و قریب بہ یک لک کتاب نوشتہ اند کہ ہمہ اش پُر از ہتک عرض اسلام و دشنام حضرت خیر الانام می باشد۔ و آن کتاب ہا بطوری نجاست وبوئے بددراندرون داشتہ است کہ خیلے دشوار است مسلمے غیور نگاہے در آن تواند بکند۔ و شما می بینید فریب و دغائی اُنہا مانند گرد باد تند وزاں و دلہائے آنہا پُر از وقاحت و تہی از حیا و ایمان است۔ و وجود منحوس اُنہا برائے عامہ مسلمین
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 65
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 65
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/65/mode/1up
الثبور والویل، وتُدفع إلیہم زُمع الناس کغثاء السیل۔ وما أقول أنہم یُنصرون من السلطنۃ أو یُواسون من أیادی الدولۃ، بل الدولۃ البرطانیۃ سوّت رعایاہا فی الحرّیۃ، وما غادرت دقیقۃ من دقائق النصفۃ۔ وکل فرقۃ نالت غایۃ رجاۂا فی أمور الملّۃ، وما ضُیّق علی أحد کأیّام الخالصۃ۔ واسترحنا مذ علقنا بأہدابہا، فندعو لہا ولأرکانہا ولأربابہا۔ وأمّا القسوس فلا یأتیہم من ہذہ الدولۃ شیء یُعتدّ بہ من مال الإمدادات، بل اجتمع شملہم بما أنہم قبضوا من قومہم کثیرا من الصِّلاۃ ونصُّوا الإحالات، وما برحوا
کھڑی ہے اور کمینہ طبع آدمی خس وخا شاک کی طرح ان کی طرف کھینچے جا رہے ہیں ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سلطنت برطانیہ کی طرف سے ان کو مدد ملتی ہے یا یہ سلطنت مال کے ساتھ ان کی غم خواری کرتی ہے بلکہ دولت برطانیہ نے اپنی تمام رعیت کو آزادی میں برابر رکھا ہے اور کوئی دقیقہ انصاف کا اٹھا نہیں رکھا اور ہر ایک فرقہ امور مذہب میں اپنی انتہائی مراد کو پہنچ گیا ہے اور سکھوں کے ایام کی طرح کوئی تنگی نہیں اور ہم اس وقت سے کہ اس کا دامن پکڑا آرام میں ہیں اور اس کے لئے اور اس کے ارکان کے لئے دعا کرتے ہیں ۔ مگر پادری لوگ اس دولت سے کوئی خاص امداد نہیں پاتے اور ان کی مالی جمعیت کا سبب یہ ہے کہ قوم کے چندہ میں سے بہت سا روپیہ ان کے پاس جمع ہے اور ہر ایک وعدہ ایفا ہو کر نقدی ان کے پاس اکٹھی ہو تی
و بائی جان ستان است و سفیہان پست نثراد چوں خس وخاشاک بسوئے اُنہا کشان میروند۔ نمی گویم سلطنۂ برطانیہ پشت و پناہ انہا بودہ یا از عطائے مال و نوال چارۂ کار انہا رامی نماید۔حاشا و کلّا بل دولہ برطانیہ جمیع رعایا را از جہت حریت و آزادی بادیدۂ مساوات می بیندو در ایں باب کمال نصفت و داد گری را مرعی داشتہ است چنانچہ ہمۂ ملل در زیر ظل رافت وے بر منتہائے آرزوئے خویش رسیدہ اند و چون عہد نحوست مہد خالصہ سکھ ہیچ نفسے عرضۂ بلاء مزاحمت نیست۔ و از وقتے کہ دست بد امانش زدہ ایم بر احت بسرمی بریم و جہت وے و ارکان وے دعا می کنیم ۔ ام کشیشاں مخصوصاًاعانۂ از دولہ برطانیہ بایشان نرسد۔ وسبب فراہم آمدن این مبالغے گزاف آنکہ جمیع ملّت تو زیعات بدیشان مید ہند و ہر کسے ہر چہ وعدہ بانہا کند ایفائی آنرا بر خود لازم داند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 66
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 66
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/66/mode/1up
یجمعون القناطیر المقنطرۃ من عین الإعانات، وأموال الصدقات من النقود والغلَّات۔ فکل من دخل دینہم رتّبوا لہ وظائف وصِلا تًا، وزوّدوہ بتاتا وجمعوا لہ شتاتا۔ وکذالک قوَّی أمر قسیسین مالُہُم، وزاد منہ احتیالہم۔ واستحضروا کل آلات الاصطیاد والأسار، واستعملوا من المجانیق الصغار والکبار۔ وأُنہِضَ إلی کل بلدۃٍ جماعۃٌ من المتنصّرین، فعمّروا بیعا وسکنوا فیہا کالقاطنین، وجروا کالسیول فی سکک المسلمین۔ وجعلوا یُخادعون أہلہا بأنواع الافتراء ، ثم بإرسال النساء إلی
جاتی ہے اور لوگوں کی امداد سے ہمیشہ بے شمار روپیہ ان کے پاس آتا رہتا ہے ۔ پس ہر ایک شخص جو ان کے دین میں داخل ہو تا ہے اس کے لئے وظیفہ مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا تفرقہ اور پر اگندگی دور کی جاتی ہے اور پادریوں کے مال نے ان کی بات کو قوی کر دیا ہے اور ان کی حیلہ سازی اس سے بڑھ گئی ہے ۔ شکار کرنے اور قید کرنے کے تما م ہتھیار ان کو مل گئے ہیں اور چھوٹی بڑی فلاخنیں تما م استعمال میں لا رہے ہیں اور ہر ایک شہر کی طرف ایک جماعت نو عیسائیوں کی بھیجی گئی ہے اور انہوں نے ہر ایک شہر میں اپنے گرجے بنائے اور مقیموں کی طرح وہاں رہنے لگے اور سیلاب کی طرح مسلمانوں کے کوچوں میں بہنے لگے اور طرح طرح کے افتراؤں سے اس شہر کے باشندوں کو دھوکے دینے لگے ۔ پھر اپنی عو رتیں
لا جرم ہرسال مبلغے گران وبیشما ر دردست انہا جمع میشودولہٰذا ہر کہ ازا غیا ر د یا نہ عیسو یہ را بپز یردمدد معا ش بجہت اومعین دارندواز مذ لّت افلا س وننگ فقر وفاقہ اش بیر ون آرند،ایں مال ونو ال بازار کشیشان راروائے بخشیدہ حیلہ گر ی انہا را با لا کشیدہ ہر گو نہ آلات نخچیر افگنی و صیداندازی دردست انہاآمدہ۔ وہر نوع فلاخن ہائے کوچک وبزر گ درکارآوردہ اند۔درہربلدۂ پارۂ از متنصران را فرستادہ وکنشتی برپاکردہ وانہارادرقرب وجوارمسلمین سکنی دادہ۔وسیل فتنہ ہا و اغوا در کوچہ ہائی اہالئی اسلا م روان ساختہ اند ۔ ہر قدر ازافتراودروغ ممکن با شد مردم سادہ رااز جابر کنندوازراہ برندو مزیدے بران زنان خودرا درخانہ ہا ئے شر فامے فر ستند ۔خلا صہ این دجالان ہرچہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 67
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 67
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/67/mode/1up
بیوت الشرفاء۔ فالغرض أنہم زرعوا المکائد من جمیع الأنحاء ، وانتشروا کالجراد فی ہذہ الأکناف والأرجاء ، وقلوا کل من أحیا معالم الہُدیٰ، وجعلوا بلادنا دار البلاء والرَّدَی۔ ومِلّتہم الباطلۃ أحرقت مجالس دیارنا وأکلتہا، وما بقی دار إلَّا دخلتہا، ولم یجد أہلہا العوامّ للدفاع استطاعۃ، ولا للفرار حیلۃ، فصُبّت مصائب علی الإسلام
ما مضی مثلہا فی سابق الأیام۔
فنراہ کبلدۃ خاویۃ علی العروش، وفلاۃ مملوۃ من الوحوش، وإن بلادنا الآن بلاد انزعج أہلہا، و
اسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروں میں بھیجیں۔ پس حاصل کلام یہ کہ انہوں نے ہر ایک طور سے مکر کا بیج بویا اور ٹڈی کی طرح ان اطراف میں منتشر ہو گئے اور ہر ایک کو جو ہدایت کے نشانوں کو زندہ کرتا تھا دشمن پکڑا اور ہمارے ملک کو بلا اور موت کی جگہ بنا دیا اور ان کے مذہب باطل نے ہمارے ملک کی نیکیوں کو دور کر دیا اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں یہ مذہب باطل داخل نہ ہو اور اس ملک کے باشندے جو اکثر عوام میں ہیں مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور نہ گریز کے لئے کوئی حیلہ ملا پس اسلام پر وہ مصیبتیں پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ہے ۔ پس وہ ا س شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہو جائے اور اس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر جائے اور اب ہمارا ملک وہ ملک ہے جس کے باشندے جڑ سے اکھاڑے گئے
ازدانہائی مکیدت و خدیعت درخرمن دارند انپاشتہ اند وچوں موردملخ درہرچہارسوئے بلادماپراگندہ شدہ اند۔وخیلے دشمن دارندشخصے راکہ دین حق رازندہ کند۔وشہرہائے مارا ماوائی بلاوآفات ساختہ اند۔دیانۂ باطلہ انہا بنیاد ہر گونہ نیکی را از پادر آوردہ و خانہء نماندہ کہ این زور پر شرور درآں داخل نشدہ۔ اہالئی ایں بلاد کہ از عامہ ناس می باشند در خود ہا تاب و توان مقاومہ با انہا ندید ند ونہ راہ گزیر و خلاص فہمید ند۔لا جرم بر اسلام مصیبت ہا نزول آورد کہ زمانہ ہائے پیشین نظیرآن موجود نداشتہ اند۔ واسلام چون شہرے گردید کہ زیر و زبر و بکلی مسمار بشود یا چون صحرائے شدہ کہ مسکن دد و دام بگردد۔ اکنون ساکنانِ بلاد ما کسانے می باشند کہ از بیخ بر کندیدہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 68
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 68
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/68/mode/1up
تشتّت شملہا، فلیبک علیہا من کان من الباکین۔ ولقد کثر أسَفی علی الآثار الأولی کیف زالت، وعلی أیام الہُدیٰ کیف أحالت، والناس ترکوا المحجّۃ ومالوا إلی أودیۃ وشعاب۔ ومنافذ صعاب، ومضائق غیر رحاب۔ وکم من أناس کانوا یزجون الزمان ببؤس فی الإسلام، وینفدون العمر بالاکتیاب والاغتمام، ثم رأوا فی الملۃ النصرانیۃ مرتعا، ووجدوا فی أہلہا مطمعا، فألجأہم شوائب المجاعۃ إلی أن یلحقوا بتلک الجماعۃ۔ فرفضوا مذہب الإسلام، وتنصروا من برحاء
اور ان کی تما م جمعیت متفرق ہو گئی ۔ اب جس نے رونا ہو اس ملک پر رووے اور مجھے اسلام کے پہلے آثار پر بہت غم ہوا کہ وہ کیونکر دور ہو گئے اور نیز دنوں پر بھی افسوس ہوا کہ وہ کیسے بدل گئے اور لوگوں نے سیدھی راہ کو چھوڑ دیا اور وادیوں اور ٹیڑ ھی راہوں اور دشوار گذار اور تنگ طریقوں کی طرف جھک گئے۔ کئی ایسے آدمی تھے۔ کہ جو اسلام میں بڑی سختی سے اوقات بسری کرتے تھے اور غموں میں عمر کاٹتے تھے پھر عیسائی مذہب میں انہوں نے ایک چرا گاہ دیکھا اور عیسائیوں کو اپنی دنیوی لالچوں کا محل پایا۔ سو بھوک کی تکالیف نے ان کو اس بات کی طرف مضطر کیا کہ وہ عیسائیوں میں جا ملیں ۔ لہٰذا ا نہوں نے اسلام کو ترک کر کے سختی کی وجہ سے اور نیز عیاشی
شدہ و جمعیت اوشاں از ہم پاشیدہ است۔ اکنوں باید بر ایں بلاد سر شک خون بریزد ہر کہ گریستن می خواہد و من اندوہ ہامے خورم بر آثار اولین اسلام کہ چگو نہ ناپدید گردیدہ و آں روز ہائے راستی و روشنی بہ تاریکی و سیاہی عوض شدہ۔مردم راہ راست را گزاشتہ سر بہ واد یہائے جانفر سائے مردم آزما و راہ ہائے پیچاپیچ دادہ اند۔ بسا آدم کہ در اسلام بہ تنگی بسرے بردند و روزگار بہ اندوہ می گزرانیدند درد یانہ نصاریٰ چراگاہے دیدندو نصرانیان را محلِ ہوا و آز خود یافتند۔ لہٰذا زحمت گر سنگی انہار ا بر آن آورد کہ بانصاریٰ در آمیختند واز بیم سختی و تنگی و ہم آرزوے تن پروری
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 69
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 69
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/69/mode/1up
الوجد وبتاؔ ریج الشوق إلی الرفۃ وشرب المدام۔ ثم مع ذالک کانوا من السفہاء والجہلاء ، وما کان لہم نصیب من العلم والدہاء ، ولا حظ من العفّۃ والاتقاء۔ لا جرم أنہم آثروا أہواء النفس الأمّارۃ، وألْوَتْ بہم شقوتہم إلی الخسارۃ۔ وکذالک
کثیر من ذریۃ الأماثل والأفاضل والسادات، أجمعوا علی الجنوح إلیہم وسُقُوا کأس الضلالات، بما آنسوا النصرانیۃ تفتح علی المتنصرین أبواب إباحۃ، وتخرجہم من مضائق حرمۃ وعدم حلۃ، ثم یواسیہم القسوس فی مطرف أیامہم بمال ودولۃ،
اور شراب نوشی کےؔ شوق سے عیسائیت کو اختیار کیا اور پھر باوجود ان حاجتوں کے وہ لوگ سفیہ اور جاہل تھے اور نہ علم اور عقل سے کچھ حصہ تھا اور نہ پرہیز گاری اور عفت سے بہرہ ۔ اسی لئے انہوں نے نفس امارہ کی خوا ہشوں کو اختیار کیا اور ان کی بد بختی نے ہلاکت اور گمراہی کی طرف ان کا منہ پھیردیا ۔ اسی طرح بہت سے بزرگوں اور سادات اور شریفوں کی اولاد عیسائیوں کی طرف جھک گئی اور گمراہی کے پیالے پئے کیونکہ انہوں نے عیسائی مذہب کو دیکھا کہ عیسائی ہونے والوں پر اباحت کے دروازے کھولے ہوئے ہیں اور حرمت اور عَدمِ حِلّت کی تنگیوں سے اُن کو باہر نکال دیا ہے ۔ پھر پادری لوگ اُن کی ابتدائی زمانہ میں مال اور دولت سے ان کی مدد کرتے ہیں
و مے نوشی جامہ تنصر در بر کردند۔ بعلاوہ ہمچو کسان از نادانان و پست فطرتان و از زینت علم عاری واز لباسِ عفت و تقویٰ بکلی محروم بودند۔ از ہمیں سبب دنبال ہوائے نفسِ امّارہ افتادہ بودند۔ و شومئے بخت روئے توجہ انہار ا بسوئے زیاں کاری و تباہی بگر د انید۔ ہم چنیں بسیارے از اولاد بزرگان و شرفاء و سادات میل بہ عیسویت کردند۔ و کاسہ ہائے گمراہی را لبالب بنوشیدند زیرا کہ دیدندعیسویت بر متنصران در ہائے اباحت را کشادہ و از تمییز درمیانہ حرام و حلال انہارا بکلّی معاف داشتہ است۔ ومع این ہمہ کشیشان در آغاز حال بامال ومنال دست انہار ا میگیرند و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 70
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 70
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/70/mode/1up
ولا یُہددون ولا یتوعدون علی معصیۃ۔ ولا یُبالغون فی ملامۃ عند ارتکاب کبیرۃ، بما تفیّأوا ظل کَفَّارۃٍ مُطَہِّرۃ۔ فکذالک یُزیدونہم جرأۃ علی جرأۃ حتی تکون الإباحۃ لأکثرہم دربۃ، ویحسبون سہوکۃ ریّاہا طیبا وطیبۃ۔ ویتبرّؤن من الإسلام، ویسبّون نبینا خیر الأنام، ویقذفون معادین بعد ما کانوا مسلمین فی حین، إلَّا قلیلا من المستحیین۔ وکذالک یفعلون لیرضوا القسوس ویستوعبوا الفلوس ویکونوا من المتموّلین۔ فیحصل
اور کسی معصیت پر کچھ زجر اور تو بیخ نہیں کرتے اور کسی بڑے گناہ پر کچھ بہت ملامت نہیں کرتے کیونکہ نو عیسائی پاک کرنے والے کفارہ کے سایہ کے نیچے آجاتے ہیں ۔ اسی طرح نو عیسائیوں کی جرأت بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ ان میں سے اکثر کی اباحت عادت ہو جاتی ہے اور اس کی بدبو کو خوشبو اور پاک خیال کرتے ہیں اور اسلام سے سخت بیزار ہو جاتے ہیں اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں بعد اس کے جو کسی وقت مسلمان تھے اور تھوڑے ایسے بھی ہیں جو شرم رکھتے ہیں ۔ اور اسی طرح کرتے رہتے ہیں تاکہ پادریوں کو راضی کریں اور ان سے پیسہ اکٹھا کریں اور مالدار ہو جائیں ۔ سو اُن کو
بر ارتکاب ہیچ گونہ کار تباہ و امر منکر زبان ملام نمی کشایند۔ ہر چہ گناہے بزرگ سر برزند چندان مبالغہ در نکوہش نمی نمایند۔ بجہت اینکہ متنصّران در زیر سایہ کفارۂ پاک کنندہ جائے میگیرند۔ خلاصہ بر این نہج ہر روز جرأت و دلیری در انہامی افزا ید تا آنکہ باباحت خو گرفتہ شوند وبو ئے بدش را بوئے خوش پندارند و از اسلام بیزار و نبی کریم مارا (صلی اللہ علیہ وسلم) نا گفتنی ہا گویند بعد از انکہ وقتے مسلمان بودندو ہم چنیں رفتار دارندتا کشیشان را دردام آرند وازانہا وجہ نقدی بستانند و صاحب مال و دولت گردند۔ خلاصہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 71
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 71
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/71/mode/1up
لہم نضرۃ بنضارہم، وزہرۃ بإظہارہم، حتی یکونوا فی رفہہم کحدیقۃ أخذت زخرفہا وازّیّنت، وتنوعت أزاہیرہا وتلوّنت۔ وکذالک قسوسہم یحبونہم بتلک الخصائل والسب والہذیان، والمجادلات وہذر اللسان، ویظنون أنہم التفّوا بأہدابہم بخلوص الجنان۔ فیعتمدون علیہم فی کل مورد یرِدُونہ، ومعرّس یتوسدونہ، وتستہویہم خضرۃ دمنتہم للمنادمۃ، وخدعۃ سمتہم بالمناسمۃ، ویقبلون علیہم بالمنّ والإحسان، والجود و
پادریوں کے روپیہ سے تازگی حاصل ہو جاتی ہے اور ان کے پھولوں سے وہ تازہ حال رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی خوشحالی اور آسودگی میں ایسے ہو جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک باغ ہیں مزیّن اور آراستہ جس کے پھو ل گو ناگوں اور رنگا رنگ ہیں اور اسی طرح ان کے پادری ان خصلتوں اور بدگوئی اور بد زبانی اور کج بحثی اور بیہودگی کی وجہ سے ان سے پیار کرتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ وہ دلی خلوص سے ان کے دامن سے وابستہ ہو گئے ۔ پس ہر ایک جگہ جو وہ وارد ہوں اور ہر ایک فرود گاہ میں جو وہ اتریں ان پر اعتماد کرتے ہیں اور ان لوگوں کی ظاہری صفائی اور
نیک بختوں کا سا منہ بنایا ہوا پادریوں کو اس دھوکا میں ڈالتا ہے کہ وہ اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے اور ہمراز ہونے کیلئے ان لوگوں کو پسند کر لیتے ہیں اور احسان اور مروت کے ساتھ پیش آتے
مال کشیشان بر خور می و تازگی انہامی افز اید و گلہائی اسقفان حال انہار ا شاد ان می نماید۔ تا آنکہ ازین خوش بختی گوئی باغے ہستند از بس آراستہ و پیر استہ و گلہائی گوناگون و شگوفہائے بو قلموں بر آوردہ۔ و ہمچنین کشیشان آں سقط گفتن و زبان بہ نا واجب کشودن و کج بحثی و بے راہ روی انہارا بجان دوست دارند و پندارند کہ انہابا خلاص ہرچہ تمامتر خود را بد امن ایشان بستہ اند۔ لاجرم در ہر مقام و ہر موقع اعتماد بر انہاکنند صفائی ظاہر وروی پارسایانۂ انہا کشیشان را فریب دہد تا انہارا شریک نوالہ وپیالہ سازند و امبازودمساز راز نمایند وہر گونہ منت و احسان بر انہا کنند۔ پس این متنصّران
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 72
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 72
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/72/mode/1up
الامتنان۔ فیسحبون مطارف الثراء ، ویزینون معارف السراء، ثم یمرّون بصحب لہم کانوا بہم من قبل کأسنان المشط فی استواء العادات والمیل إلی السیئات، وکانوا یُکابدون أنواع الفقر والبؤس والحاجات، فیقصّون علیہم
قصص رخاۂم بعد بأساۂم وضرّاۂم، ویذکرون عندہم مبرۃ القسوس وجرایاتہم، وما أترعوا الکیس من الفلوس بعنایاتہم۔ وکذالک لم یزالوا یحثونہم
وفی الأموال یرغبونہم، وإلی
وسائل الشہوات یحرّکونہم
ہیں ۔ پس یہ لوگ دولتمندی کی چادریں ناز سے کھینچنے لگتے ہیں اور اپنے چہروں کو جو فراخی کی حالت میں ہوتے ہیں زینت دیتے ہیں ۔ پھر ان دوستوں کو ملتے ہیں جو شانہ کے دندانوں کی طرح ان سے بدی میں برابر اور ہم خیال تھے اور طرح طرح کے فقر و فاقہ کی سختی میں پڑے ہوئے تھے ۔ اور ان سے اپنے قصے بیان کرتے ہیں کہ وہ کیسی تنگی اور تکلیف سے فرا خی میں آ گئے اور ان کے پاس پادریوں کے نیک سلوک کا ذکر کرتے ہیں اور وہ سب کچھ بیان کرتے ہیں جو ان کے دائمی وظیفے ہوئے اور جو کچھ انہوں نے ما ل سے جیب پر کئے ۔ اسی طرح ان کو ہمیشہ رغبت دیتے رہتے ہیں اور مالوں اور طرح طرح کے وسائل شہوات کی طرف ان کو ترغیب دیتے ہیں۔
باحلہ تمول دامن کشان گزرندو چہرہ ہائے خود را کہ بہرہ منداز شاد کامی باشند زیب و زینت بخشند۔ باز بآن دوستان آمیز گاری کنند کہ مثل دندان شانہ در بد کرداری و نا ہنجاری باا نہا برابر و ہمنوا و چوں انہا بے برگ و بے نوا بودند۔ وبا انہا صحبت دارند و از فراخ حالی و شاد کامی کہ اکنون بانہا حاصل است و از حسنِ سلوک کشیشان ذکری درمیان آورند وہمۂ آنچہ بطور جامگی و مدد معاش از انہا گرفتہ و کیسہ ہارا از نقد پر کردہ اند مذکور سازند۔ خلاصہ ہمچنیں انہارا بر می انگیز ند و برائے ثروت و مال و اسباب شہوات انہارا تشویق دہند تا آنکہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 73
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 73
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/73/mode/1up
إلی أن یرین ہوی التنصر علی قلوبہم، ویسفی ہواء الطمع نور لبوبہم، فیُوَطِّنُون نفوسہم علی الارتداد ویضربون علیہ جروتہم لخبث المواد، ثم یرتدون قائلین بأنہم کانوا طلَّاب الحق والسداد۔ والأصل فی ذالک أن أکثر الناس فی ہذا الزمان قد تمایلوا علی الدنیا وقلّت معرفۃ اللّٰہ الدیَّان، وقلَّ خوفُہُ ولم تبق محبّتہ فی الجنان۔ فلما رأوا زخرف الدنیا فی أیدی القسوس مالوا إلیہم برغبۃ النفوس، فلأجل ذالک یدخلون فی ظلماتہم أفواجًا
یہاں تک کہ ان پر بھی نصرانیت کی خواہش غالب آجاتی ہے اور طمع کی ہوا ان کے دلوں کے نور کو اڑا کر لے جاتی ہے ۔ پس مرتد ہو نا دل میں ٹھان لیتے ہیں اور دل کو اس پر بوجہ خباثت مواد پختہ کر لیتے ہیں پھر یہ کہتے ہوئے مرتد ہو جاتے ہیں کہ وہ سچائی کے متلاشی تھے اور اس بد مذہبی کی گرم بازاری کا اصل سبب یہ ہے کہ اکثر لوگ اس زمانہ میں دنیا کی طرف جھک گئے ہیں اور خد اتعالیٰ کا خوف کم ہو گیا اور دل میں ا س کی محبت باقی نہ
رہی۔ پس جب کہ ان لوگوں نے دنیا کی زینت کو پادریوں کے ہاتھ میں دیکھا تو اپنے دلوں کی رغبت سے ان کی طرف مائل ہو گئے سو اسی لئے ہزار ہا لوگ ان کی تاریکی میں داخل ہو رہے ہیں
ہوائے تنصّر در دل انہا جاگیر دو بادآز نور خرد انہارا رباید۔ آخر برارتداد آمادہ شوند و بسبب خبث مادہ دل را براں نیّت استوار کنند و باز چون مرتد شوند۔ گویند ما طالبان راستی بودیم ۔ اصل این فساد آنکہ اکثرے در ایں زمانہ ہمہ تن روی بدنیا شدہ وخوف خدا و شناخت وے نماندہ و محبت وے از دلہا دُور شدہ ۔ پس ہر گاہ امثال ایں کساں زینت دنیا دردست کشیشاں دیدند با ہزار جان بسوئے انہا دویدند۔ ازیں جہت است کہ فوج فوج مردم در اندرون تاریکی انہا جائے مے جویند و پشت
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 74
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 74
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/74/mode/1up
ویترکون سراجًا وہَّاجًا۔ ولا تنفع المباحثۃ الخالیۃ عن الخوارق عند ہذہ الآفات، فإن الدنیا صارت لہم منتہی المآرب وملأ الفساد فی النیّات۔ فحینئذٍ اشتدّت الحاجۃ إلی تجدید الإیمان بالآیات۔ وطالما أیقظہم العالمون فتناعسوا
وجذبہم الواعظون فتقاعسوا
وما نفعتہم البراہین العقلیۃ
ولا النصوص النقلیۃ۔ وزادوا
طغیانا واعتسافا، وترکوا عدلا وانصافا۔ فالسرّ فیہ أن القلوب
قدؔ عمت، والعقول قد کدرت،
اور چراغ روشن کو چھوڑ تے جاتے ہیں ۔ سو ان آفتوں کے وقت میں صرف مباحثہ جو خوارق سے خالی ہو کچھ فائدہ نہیں دیتا کیونکہ ایسے لوگوں کا اصل مقصود دنیا ہے اور نیتوں میں فساد بھرا ہوا ہے اور اس وقت ایمان کے تازہ کرنے کے لئے نشانوں کی حاجت ہے اور بہت مدت تک عالموں نے ان کو جگایا پس وہ بتکلّف سوئے رہے اور وعظ کرنے والوں نے ان کو اپنی طرف کھینچا پس وہ پیچھے ہٹ گئے اور ان کو نہ براہین عقلیہ نے نفع دیا اور نہ نصوص نقلیہ نے اور تجاوز اور تعصب میں بڑھ گئے اور عدل اور انصاف کو چھوڑ دیا ۔ اور اس میں بھیدیہؔ ہے کہ دل اندھے ہو گئے اور عقلیں مکدر ہو گئیں
بر چراغ روشن مے کنند۔ درہنگام چنیں آفات مباحثاتے کہ از خوارق عادات و نشانہائے آسمانی مجرد باشد سودے نمی بخشد ۔ چہ اصل غرض ہمچو مردم دنیائے دنی و فساد دردل انہا مخفی است لہٰذا امروز برائے تجدیدایمان احتیاج بہ نشانہائے آسمانی است۔ علما ء تا زمانے دراز در پئے بیدار کردن انہا بودند ولی از خواب بر نیا مدند و واعظان بسوئے خود شاں کشید ند ولے پس نشستند۔براہین عقلیہ بانہا سودے نہ بخشید و نصوص نقلیہ پنبۂ غفلت از گوش انہا بیرون نہ کشید بل بر تعصب و اصرار و ضد و انکار انہا بیفزود۔ بسبب ایں کہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 75
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 75
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/75/mode/1up
والنفوس قد فارت، وأہواء الدنیا علیہا غلبت، وکثرت الحجُبُ وتوالت۔ فیرون ثم لا یرون، ویسمعون ثم یتناسون، فلیس علاج ہذا الداء إلَّا نور یتنزّل من السماء ، وآیات تتوالی من حضرۃ الکبریاء ، فإن الإیمان ضعف وکثرت وساوس الخنّاس، وبلغ الأمر إلی الیأس۔ وغلبت علی أکثر القلوب محبۃ
الدنیا الدنیّۃ، وأینما وجدوہا فیسعون إلی تلک الناحیۃ، وما بقی تعلق بالإیمان والملّۃ۔ فہٰہنا لیس رزءً واحدًا بل یوجد رزآن: رزء التنصّر
اور نفسوں نے جوش مارا اور دنیا کی خوا ہشیں غالب آ گئیں اور پردے بڑھ گئے ۔ سو وہ دیکھ کر پھر نہیں دیکھتے اور سنتے ہیں اور پھر بھلا دیتے ہیں ۔ پس اس بیماری کا بجز اس کے اور کوئی علاج نہیں کہ آسمان سے نور نازل ہو اور پے در پے نشان ظاہر ہوں کیونکہ ایمان ضعیف ہو گیا اور شیطانی وسوسے بڑھ گئے
ہیں اور نو میدی تک نوبت پہنچ گئی ہے اور اکثر دلوں پر دنیا کی محبت غالب آ گئی ہے اور جہاں دنیا کو پاویں پس اسی طرف دوڑتے ہیں اور ایمان اور ملّت سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔ پس اس جگہ ایک مصیبت نہیں ہے بلکہ دو مصیبتیں ہیں ۔ ایک مصیبت عیسائی ہونے
دلہا کور و دانشہا تاریک شد و آزو ہوا در جوش و حب دنیا در خروش آمد پردہ بر پردہ افزونے گرفت تا نور دیدہ تاریک شد۔می شنوند واز دل بروں کنند۔ لہٰذا چارۂ جہت این مرض نیست بجز اینکہ نورؔ ے از آسمان نازل شود و پیاپئے نشانہا پدیدار شوند چہ ایمان ناتوان گردیدہ و وسوسہ ہائے شیطانی روبہ ترقی و نوبت بہ یاس رسیدہ است و بسیارے از دلہا مغلوب حب دنیا شدہ ہرجا آنرا بیابنددر زمان بسوئے آں شتابند۔ میل خاطر بہ ایمان و دین نماندہ است۔ در حقیقت اینجا نہ یک مصیبت بلکہ دو تا مصیبت است یعنی مصیبت تنصّرو
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 76
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 76
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/76/mode/1up
ورزء ضعف الإیمان۔ وأری أکثر المسلمین کأنما أُخرج الإیمان من قلوبہم، وأحرقت العمل المبرور نار ذنوبہم، وہذا ہو سبب الارتداد۔ فإن اللّٰہ رآہم مفسدین مکّارین کالصیّاد، فقذف بہم إلی جموعٍ یحبون طرق الفساد، وہذا ہو سر کثرۃ المرتدین، وعلی الصلیب عاکفین، ومن اللّٰہ فارّین۔
ما ینفعہم وعظ الواعظین
ولا نصح الناصحین۔ ولم
کی اور دوسری مصیبت ضعف ایمان کی اور میں اکثر مسلمانوں کو دیکھتا ہوں کہ گویا ایمان ان کے دل میں سے نکالا گیا ہے اور گناہوں کی آگ نے ان کے نیک عمل کو جلا دیا ہے اور یہی مرتد ہونے کا سبب ہے کیونکہ خدا نے ان کو مفسد پایا اور شکاری کی طرح مکّار دیکھا اس لئے انہیں ان لوگوں کی طرف
پھینک دیا جو فساد کو دوست رکھتے ہیں اور مرتدوں کے زیادہ ہو نے کا یہی بھید ہے اور ان لوگوں کی کثرت کا یہی سبب ہے جو صلیب پر جھکتے اور خدا سے بھاگتے ہیں ۔ ان کو نہ کسی واعظ کا وعظ نفع دیتا ہے اور نہ کسی ناصح کی نصیحت کارگر ہوتی ہے اور
مصیبت ضعف ایمان۔ من بسیارے از مسلمان رامے بینم کہ گویا ایمان از دل انہا بالمرہ برون رفتہ و آتشِ گناہاں رخت کردار نیک را پاک سو ختہ است۔ و بحقیقت اصل سبب ارتدادہمین است چہ خدا انہارا بد کردار و مثل صیاد مکار و حیلہ گر دید۔ لہٰذا گروہے را بر اُنہا مسلط گرد انید کہ بد کرداری و بد روشی را دوست دارند۔وہمین است سبب کثرت مرتدان و ہم سبب کثرت انہائے کہ سر بر صلیب فرود آوردہ و از خد ا گریز را اختیار کردہ اند۔ و پند و اعظے و اندرز ناصحے گرہ از کارانہانمی کشاید۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 77
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 77
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/77/mode/1up
یکونوا منفکین حتی تأتیہم البیّنۃ، وتتجلّی الآیات المبصرۃ۔ فبعث اللّٰہ رجلا علی اسم المسیح فی الملّۃ تکرمۃً لہٰذہ الأمّۃ، بعد ما کمل الفساد، وکثر الارتداد، وعاثت الذیاب، ونبحت الکلاب، وألّفوا کتبا کثیرۃ محتویۃ علی السبّ والشتم والتوہین۔ وجلبوا علی المسلمین بخیلہم ورجلہم
وجاء وا بالإفک المبین۔ وزلزلت الأرض زلزالہا، وأری الضلالۃ کمالُہا، وطال الأمد علی الظالمین. وقد کان وعد اللّٰہ عزّو جلّ
وہ با ز آنے والے نہیں تھے جب تک کہ ان کے پاس کھلا کھلا نشان نہ آوے اور جب تک کہ روشن خوارق ظاہر نہ ہوں ۔ پس خد اتعالیٰ نے ایک انسان کو مسیح کے نام پر ملّت اسلام میں بھیجا تا اس امت کی بزرگی ظاہر ہو اور یہ بھیجنا اس وقت ہو ا کہ جب فساد کمال کو پہنچ گیا اور لوگ کثرت سے مرتد ہونے لگے اور ذیاب نے تباہی ڈالی اور کلاب نے آوازیں بلند کیں اور بہت سی کتابیں گا لیوں سے بھری ہو ئی تالیف کی گئیں اور جھوٹ کی فوجوں اور
ان کے سواروں اور پیادوں نے اسلام پر چڑھائی کی اور زمین پر ایک زلزلہ آیا اور
گمراہی کمال کو پہنچ گئی اور ظالموں کی کارروائی لمبی ہو گئی ۔ اور خد اتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ
ود شوار است کہ ایشان بر راہ راست بیایند تا بوقتے کہ نشانہائے واضح ظاہر نہ شوند و خوارق عجیبہ بظہور نیا یند۔ پس خدا شخصے را بنام مسیح در ایں ملت مبعوث گردانید تا بزرگی و فخر این امت عیاں شود۔و این بعثت در وقتے روئے کار آمد ہ است کہ فساد بحد کمال رسیدہ و ارتداد از پایان در گزشتہ۔ گرگان ور زیان و تباہی دویدن گرفتندو سگان عوعو کردن۔ و بسیارے از کتابہا پُر از دشنام و بہتان چاپ شدند۔و سوارہ و پیادۂ دروغ بر اسلام تاختند وزمین را تپ لرزہ گرفت و گمرہی بغایت رسید و کارروائی ستمگاران و درازی یافت و خدا وعدہ فرمودہ بود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 78
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 78
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/78/mode/1up
أنہ یکسر الصلیب بالمسیح الموعود* ویُتم ما سبق من العہود، وإن اللّٰہ لا یُخلف المیعاد
* قدجرت عادت اﷲ بانہ یستأنف للتجدید عزیمۃ جدیدۃ عند تطرق الفساد الٰی قلوب العباد۔ فلاجل ذالک تجلّٰی علیّ لینفخ الروح فی الاجساد و جعلنی مسیحا و مھدیا و ارشدنی بکمال الرشاد۔ ووصّانی بقول لیّن و ترک الشدّۃ والاتقاد۔ واما کسرالصلیب فقد استعمل ھٰذا اللفظ فی الاحادیث۔ والاٰثار۔ تجوزًا من اﷲ القھّار۔ وما یُعْنٰی بہ حرب و غزاۃ و کسر الصلبان فی الحقیقۃ۔ و من زعم کذالک فقد ضل و بعد من الطریقۃ۔بل المراد منہ اتمام الحجّۃ علی الملّۃ النصرانیۃ۔ وکسر شان الصلیب و تکذیب امرہ بالادلّۃ
کہ مسیح موعود* کے ساتھ صلیب کو توڑے گا اور اپنے عہدوں کو پورا کرے گا اور خدا تعالیٰ تخلف وعدہ نہیں کرتا۔
* خدا تعالیٰ کی عادت یوں جاری ہوئی ہے کہ وہ بروقت کسی فساد کے تجدید دین کے لئے از سرنو توجہ فرماتا ہے ۔ پس اسی لئے اس نے میرے پر تجلی کی تاکہ اجساد میں روح پھونکے اور مجھے مسیح اور مہدی بنایا اور تمام سامان رشد کا مجھے عطا فرمایا اور مجھے وصیت کی کہ میں نرم زبانی اختیا ر کروں اور سختی اور افروختہ ہو نے کو چھوڑدوں۔ مگر کسر صلیب کا لفظ جو حدیثوں میں آیا ہے وہ بطور مجاز کے استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد کوئی جنگ یا دینی لڑائی اور در حقیقت صلیب کا توڑنا نہیں ہے اور جس شخص نے ایسا خیال کیا اس نے خطا کی ہے بلکہ اس لفظ سے مراد عیسائی مذ ہب پر حجت پوری کرنا اور دلائل واضح کے ساتھ صلیب کی شان کو توڑنا ہے۔
کہ از واسطۂ مسیح موعود* صلیب را خواہد شکست و خدا ہرگز خلاف وعدۂ خود نکند۔
* عادہ الہٰیہ باین طور جاری است کہ در ہنگام فساد دلہا از سر نوروے بہ تجدید دین آرد۔ لہٰذا برمن تجلّی فرمود تا روح در کالبدہا بدمد۔ و مرا مسیح و مہدی کرد و ہمہ سا ز و برگ رشد بر من ارزانی د اشت و برائے گفتار نرم و ترک سختی و اشتعال امر نمود۔ و لفظ کسر صلیب در احادیث و آثار مجازاًاطلاق شدہ و مراد ازاں جنگ و پیکار دینی و حقیقتہً شکستن صلیب نیست ہر کہ حمل بر ظاہرش کند ازراہ راست دور است بلکہ مرادازان اتمام حجت بر ملّۂ نصارےٰ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 79
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 79
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/79/mode/1up
ویفعل ما أراد۔ فکان من مقتضی الوعد أن یُرسل مسیحہ لکسر صلیب علا، والکریم إذا وعد وفا۔
الواضحۃ والحجج البینۃ۔ وانااُمرنا ان نتم الحجۃ بالرفق والحلم والتؤَدۃ۔ ولاندفع السیءۃ بالسیءۃ الا اذا کثرسبّ رسول اﷲؐ و بلغ الامر الی القذف و کمال الاھانۃ فلا نسبّ احدًا من النصاریٰ۔ ولانتصدی لھم بالشتم والقذف وھتک الاعراض۔ وانما نقصد شطر الذین سبوا نبیّنا صلی اﷲ علیہ وسلم وبالغوافیہ بالتصریح اوالایماض۔ ونکرم قسوسا لایسبون ولایقذفون رسولنا کالارازل و العامۃ۔ و نعظم القلوب المنزھۃ عن ھذہ العذرۃ۔و نذکرھم بالاکرام و التکرمۃ۔ فلیس فی بیان منا حرف ولانقطۃ
اور جو کچھ چاہتا ہے ظہور میں لاتا ہے پس یہ وعدہ کا مقتضا تھا کہ وہ کسر صلیب کے لئے اپنے مسیح کو بھیجے ۔ اور کریم جب وعدہ کرتا ہے تو پورا کرتا ہے۔
اور ہمیں حکم ہے کہ ہم نرمی اور حلم کے ساتھ حجت کو پوری کریں ۔ اور بدی کے عوض میں بدی نہ کریں مگر اس صورت میں جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دینے اور اہانت کرنے اور فحش گوئی میں حد سے بڑھ جائے ۔ پس ہم عیسائیوں کو گالی نہیں دیتے۔ اور دشنام اور فحش گوئی اور ہتک عزت سے پیش نہیں آتے اور ہم صرف ان لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں۔ اور ہم ان پادری صاحبوں کی عزتؔ کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے اور ایسے دلوں کو جو اس پلیدی سے پاک ہیں ہم قابل تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم و تکریم کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں۔اور ہمارے کسی بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ
و ہر چہ خواہد بظہور آرد۔ و مقتضائے وعدہ آں بود کہ مسیحخو د را جہت شکستنِ صلیب بفرستد و کریم را عادت است
و کسر شاں صلیب و تکذیب امرش با دلائل روشن است۔ وما مامو ریم بایں کہ بانرمی و برد باری اتمام حجت بکنیم و در جائے بد بد روئے کارنیاریم بلے ہر گاہ کسے رسول کریم ما رابد بگوید البتہ اوراپاسخ درشت می دہیم۔ ما نصاریٰ را دشنام نمی دہیم و زنہا ر د رپو ستین شان درنمے افتیم و روئے ہمت ما مخصو صاًمتوجہ با نہااست کہ باشارہ و صراحت سید و آقائے مارا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دشنام دہند۔ ما کشیشانے را کہ عادت سقط گفتن ندارند بزرگ د اریم۔ ودلہائے را کہ از اینؔ گندگی و ناپاکی پاک انداحترام وا جب دا نیم و نام شان بہ نیکی برزبان آریم۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 80
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 80
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/80/mode/1up
وإنّ نقض العہود من سیر الکاذبین، فکیف یصدر ہذا من أصدق الصادقین؟ وہو ملکٌ قدّوسٌ نور السماوات والأرضین، لا یُعزی إلیہ کذب ولا تخلّف وعدٍ کالمخلوقین، وقد تنزّہ شأنہ عن صفات المزوّرین۔ انظر إلی وعدہ ثم انظر کیف
بلغت دعوۃ الصلیب ذُرَی کمالہا وقطعت الأ ؔ !طماع عن زوالہا،
وترون أن خیامہا کیف رست
یکسر شان ھٰذہ السادات
وانما نرد سبّ السابّین
علی وجوھھم جزآء
للمفتریات ۔ منہ
کیونکہ نقض عہد جھوٹوں کی خصلتوں میں ہے ۔ سو یہ امر اصدق الصادقین سے کیونکر صادر ہو سکے ۔ اور وہ قدوس آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ اس کی طرف جھوٹ اور تخلّفِ وعدہ مخلو ق کی طرح منسوب نہیں ہو سکتا اور اس کی شان دروغگو لوگوں کی صفات سے منزّہ ہے ۔ اس کے وعدہ کو دیکھ ۔ پھر دیکھ کہ صلیبی دعوت کس کمال تک پہنچ گئی ہے ۔ اور اس کے زوال کیؔ امید قطع ہو چکی ہے ۔ اور تم دیکھتے ہو کہ اس کے خیمے رسّوں کے ذریعہ
نہیں ہے جو ان بزرگوں کی کسر شان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی ان کے منہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا ان کے افتراکی پاداش ہو ۔ منہ
کہ ہر گاہ وعدہ کند ایفا کند۔ چہ شکستن عہد شیمۂ درو غ زنان است چہ جائے آنکہ از راست ترین راستاں سر بر زند۔ و آں پاک بر تر نور آسمان و زمین است و چوں آفرید ہ ہا دروغ و خلاف وعدہ باو منسوب نمی شود۔ و شان وے بالا تر از دروغِ زنان است۔ اوّلاً نظر بر وعدہ اش بکن باز نگاہے بینداز کہ دعوت صلیبی تا چہ پایاں رسیدہ و امید زوال آن بنو میدی بدلؔ شدہ۔ خیمہ اش باطنابہا
در بیان ما حرفے نخواہد بود کہ کسر شان ہمچو بزرگان ازآن پیدا شود کار ما جز این نہ کہ دشنام دشنام دہندگان رابر روئے شان باز۔ پس میزنیم تا انہابہ پاداش افترائے خود برسند۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 81
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 81
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/81/mode/1up
بحبالہا، واستحکم مریر إقبالہا، ودخل فی دینہم أفواج من المسلمین، وملئت دیارنا من المرتدّین۔ وأیّ شیء أشدّ مضاضۃ من ہذا علی المؤمنین الغیورین؟ وقد کذبوا وما نفعتہم الذکری وما کانوا منتہین۔ وکنا نرجوا أن نُدخل النصاری فی أجیالنا۔ والآن یُخلس من رأس مالنا، ویُطمَع فی إضلالنا۔ وقد فرّقوا الأبناء من الآباء، والأصادق من الأصدقاء والامھات من الاولاد ، والعجائز من فلذۃ الأکباد۔ فانظروا ألم یأن
کیسے مضبوط ہو گئے ہیں اور ان کا لمبا رسہ اقبال کا نہا یت پختہ ہو گیا ہے اور ان کے دین میں ایک فوج کثیر مسلمانوں کی داخل ہو چکی ہے اور ہماراملک مرتدوں سے بھر گیا ہے اور اس سے زیادہ مومنوں پر اور کونسی جان کاہ سختی ہو گی اور انہوں نے اسلام کی تکذیب کی اور نصیحت نے کچھ بھی فائدہ نہ دیا اور نہ باز آئے۔ اور ہم یہ امید رکھتے تھے کہ عیسائیوں کو اپنے گروہ میں شامل کر لیں گے اور اب ہمارا ہی رأس المال چھینا گیا اور ہمارے گمراہ کرنے کے پیچھے پڑے ہیں۔
اور انہوں نے بیٹوں کو باپوں سے اور دوستوں کو دوستوں سے اور ماؤں کو بچوں سے اور بوڑھی عو رتوں کو ان کے جگر گوشوں سے جدا کر دیا ہے۔اب دیکھو کہ کیا اسلام
چہ قد ر استوار گردیدہ درسن دراز اقبالش ہر چہ تمامتر محکم گشتہ۔ گروہے بسیار ے از ا ہالئے اسلام دردین انہا در آمدہ و ملک ما از مرتدان پُر شدہ۔ نزد مومن با غیرت بلائے جان کاہ تر ازین چہ خواہد بود کہ ہرسوز پے تکذیب اسلام بر آمدہ اند و از پند وا عظان طرفے بر نہ بستند۔ مادر بندآن بودیم کہ گروہ نصاریٰ را در گروہ خود درآریم ولے اکنون خود سرمایۂ ما از دست ما میرود۔ و از بہر گمراہ کردن ماکوشش ہامے کنند۔ پسران را از پدران و دوستان را از دوستان و مادران رااز فرزندان و پیر ہ زنان را از جگر گوشہ ہا جُدا کردہ اند۔ آیا ہنوز وقت آں
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 82
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 82
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/82/mode/1up
للإسلام الغریب أن یُنصر بکسر الصلیب*؟ أما حان أن تظہر مواعید الحضرۃ الأحدیّۃ، وقد دیس الدین تحت أقدام النصرانیۃ؟ وفکّروا ألم تقتض مصلحۃ حفظ الدین والملّۃ أن یبعث اللّٰہ مُجدّدًا علی رأس ہذہ الماءۃ بالآیات والأدلۃ لیکسرما بنا أہل الصُلبان، ویُظہر الدین علی سائر الملل والأدیان؟
* قدسبق منا البیان فی تأویل کسر الصلیب۔ فلیرجع الیہ القاری ولیعلم انّ المعنی المشہور فی العلماء من الاکاذیب۔منہ۔
غریب کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ کسرِ صلیب* کے لئے مدد دیا جائے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ خدا تعالیٰ کے وعدے پورے ہوں۔ حالانکہ دین اسلام نصرانیت کے قدموں کے نیچے کچلا گیا ہے۔ اور ذرا فکر کرو کہ آیا یہ مصلحت کہ دین کو بچایا جاوے تقاضا نہیں کرتی تھی کہ اس صدی کے سر پر کوئی مجدد نشانوں اور دلائل کے ساتھ مبعوث کیا جائے تاکہ وہ اس بنیاد کو توڑے کہ جو اہلِ صلیب نے بنائی اور تمام دینوں پر دین اسلا م کو غلبہ دیوے ۔
* ہم کسرِ صلیب کے معنی بیان کر چکے ہیں ۔ پس چاہیے کہ پڑھنے والا ان معنوں کی طرف رجوع کرے اور یاد رکھے کہ جو علما ء میں معنی مشہور ہیں وہ غلط ہیں۔
نر سیدہ کہ از پارہ پارہ کردن صلیب* دست گیری اسلام کردہ شود و جان تازہ در قالبش دمیدہ آید۔ و آیا ہنوز آن زمانے نیامدہ کہ وعدۂ حق تعالیٰ شانہ ایفا شود۔ حال آں کہ اسلام لکد کوب نصرانیت گردیدہ است۔ فکرے بکنید کہ آیا صیانت دین نمی خواہد کہ بر سرِ ایں صد مجدد ے بانشانہا و دلائل حقہ مبعوث شود تا بنائے اہل صلیب ر ا از پائے در آرد و ملّہ اسلام را بر ملل و دیانہ ہا سر بلندی بخشد۔
*سابقاً در بارہ تاویل کسر صلیب تشریح کردہ ایم خوانندگان آن را در خاطر بدارند و نیکو بدانند کہ آنچہ درمیانۂعلماء مشہور است از غلط کاری و کج فہمی انہا ست۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 83
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 83
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/83/mode/1up
أیہا الإخوان! قوموا فُرادیٰ فُرادیٰ، ثم فکّروا نِصفۃً ولا تکونوا کمن عادیٰ۔ أیفتی قلبکم أن تبلغ المصائب إلی ہذہ الحالات، وتضیق الأرض علی المسلمین والمسلمات، وتکثر الفتن حتی ترتعد منہا القلوب، وتزداد الکروب۔ ثم مع ذالک لا تنزل نصرۃ اللّٰہ من السماء ، ولا یتم الوعد الحق من حضرۃ الکبریاء ، وتمضی رأس الماءۃ کجہام، ولا یُری فیہ وجہ مجدّد وإمام، ولا تغلی مرجل غیرۃ علَّام مع توالی الفتن وإحاطتہا کغمام
اے بھائیو !اکیلے اکیلے ہو کر کھڑے ہو جاؤ اور پھر انصاف کے رو سے فکر کرو اور دشمنوں کی طرح مت ہو ۔ کیا تمہارا دل یہ فتویٰ دیتا ہے کہ مصیبتیں اس حد تک پہنچیں اور مسلمانوں پر زمین تنگ ہو جائے اور فتنے بکثرت پید اہو جائیں یہاں تک کہ ان سے دلوں پر لرزہ پڑے اور بے قراریاں بڑھ جائیں۔ پھر باوجود ان تمام آفتوں کے خداتعالیٰ کی مدد آسمان سے نازل نہ ہو اور خداتعالیٰ کا وعدہ پورا نہ ہو اور صدی کا سر ا س بادل کی طرح گذر جائے جس میں پانی نہ ہو اور کسی مجدد اور امام کا مُنہ اس میں ظاہر نہ ہو اور خداتعالیٰ کی غیرت کی دیگ جو ش میں نہ آوے باوجودیکہ فتنے اَبر کی طرح محیط ہو جائیں۔
برادران ! خدا را یکان یکان اندیشہ بفرمائید و از دشمنی بر کنا ر باشید۔ آیا دل شما روا دارد کہ مصیبت ہا بایں پایان برسد و زمین بر اہالئے اسلام تنگ بشود و فتنہ ہا افزونی یابد تا بحد ے کہ دلہا ازاں بلرزدو آب تپش ہا ا ز سر بگذرد ولے باایں ہمہ مدد خدا از آسمان نرسد و وعدہ اش بر روئے کارنیاید و سر صد چون ابر بے باران رائیگان سپری شود و امامے و مجددے برقع ا زرخ بر ندارد و باوجود آنکہ فتنہ ہا چوں بر جہان را فراگرفتہ اند۔ ہیچ غیرتِ الہٰیہ در حرکت نیا ید۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 84
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 84
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/84/mode/1up
أہذا أمر تقبلہ الفراسۃ الإیمانیۃ أو تشہد علیہ الصحف الربّانیۃ؟ ألیس ہذا وقت فتنۃ وبلاء ، وساعۃ حکم وقضاء ، وفصلٍ وإمضاء ، وزمان إزالۃ التہم وإبراء؟ أو ہذہ ثلمۃ ما أراد اللّٰہ أن یسد وقضاء ما شاء الرحمٰن أن یرد؟ کلَّا بل سبقت من اللّٰہ من قبل بشارۃ عند ہذہ الآفات، وملئت الکتب من التبشیرات،
فمن الغباوۃ أن تُنسی البشارات،
ولا یُرَی الآثار والإمارات۔ ألیس حقّا أن غلبۃ الصلیب وشیوع
کیا یہ وہ بات ہے جس کو ایمانی فراست قبول کر سکتی ہے یا جس پر ربّانی صحیفے گواہی دیتے ہیں ۔ کیا یہ فتنہ اور بلا کا وقت نہیں اور خد اکے حکم اور فیصلہ کی گھڑی نہیں اور کیا اسلام کو بَری کرنے اور تہمتوں کے دور کرنے کا زمانہ نہیں یا کیا یہ ایسا رخنہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ نہیں فرمایا کہ بند کیا جائے یا ایسی تقدیر ہے کہ اس رحمان نے نہیں چاہا کہ ردّ کی جائے ہرگز نہیں بلکہ اس سے پہلے قوم کو بشارتیں مل چکی ہیں اور بشارتوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں ۔پس یہ نا سمجھی اور غباوت ہے کہ ان بشارتوں کو بھلایا جائے اور نشانوں اور علامتوں کو نہ دیکھا جائے۔ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ صلیب کا غلبہ اور اس
آیا فراست ایمانی تو ۔۔۔ ایں را باور می کند یا ۔۔۔ نوشتہ ہائے ایزدی شہادت ایں امر می دہند۔ آیا این زمان زمان فتنہ و بلاو ۔۔۔ ساعت حکومت وفضل از قبل خدا نیست۔ و وقت آں نیست کہ چہرۂ اسلام را از آلایش افترا و بہتان پاک نمودہ شود۔ یا این رخنہ ایست کہ خدا نمی خواہد کہ آن را بر بندد یا تقدیر ے کہ آن رحمن نمی خواہد کہ رد بشود۔ نے نے بل قوم را پیش زیں در بارہ ہمچو ایام مثردہ ہا دادہ اند و کتابہا ازین بشارات لبریز اند۔ از کودنی و نادانی است کہ آں بشارات را از یاد بروں کردن و نظر بر آثار و علامات نینداختن۔۔۔۔ آیا راست نیست کہ غلبۂ صلیب و شایع شدن این
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 85
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 85
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/85/mode/1up
ہذا الدین القبیح من أوّل علامات ظہور المسیح؟ وعلیہا اتفق أہل السُنّۃ بالإقرار الصریح، ولم یبق فرد منہم مخالفا لہذا الحدیث الصحیح۔ ولا یقبل عقل سلیم وطبع مستقیم أن تظہر العلامات بہذہ الشوکۃ والشان، وتبلغ إلی حدّ الکمال طرق الدجل والافتنان، وتنقضی علی شدّتہا برہۃ من الزمان، ثم لا یظہر المسیح الموعود إلی ہٰذا الأوان۔ مع أن ظہورہ علی رأس المِأَۃ من المسلّمات، وقد مضت المِأَۃ قرؔ یبا من خمسہا وانتہی الأمر إلی الغایات
لایخفی ان المجدد لایاتی الَّا لاصلاح
بد دین کا پھیلنا ظہور مسیح کی پہلی علامت ہے اور اس پر اہل سنت نے اقرار صریح کے ساتھ اتفاق کیا ہے اور کوئی فرد ان میں سے اس حدیث صحیح کا مخالف نہیں ہے اور عقل سلیم اور طبعِ مستقیم قبول نہیں کر سکتی کہ علامتیں تو اس شوکت اور شان کے ساتھ ظاہر ہوں اور دجل اور فتنہ انگیزی کمال تک پہنچ جائے اور اس پر ایک زمانہ بھی گزر جائے اور مسیح موعود اب تک ظاہر نہ ہو باوجو د اس بات کے کہ صدی کے سر پر اس کا ظاہر ہو نا امور مسلّمہ دین میں سے ہے ۔ اور صدی بھی خمس کے قریب گزر گئی اور انتظار مجددؔ کا امر نہایت* تک پہنچ گیا ۔ اور
یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مجدد موجودہ فساد کی
ملّت قبیحہ ۔۔۔ او ل علامت ظہورِ مسیح موعود است۔ و اہل سنہ باقرا رصریح بر این اتفاق دارند و ہیچ نفسے از اوشاں خلاف این حدیث صیحح نر فتہ۔ عقل سلیم باور نکند کہ نشانہا بااین شان ظاہر بشوند و طریق فتنہ و فریب بسرحد پایان برسد و زمانے دراز از زمان براں بگذرد و ہنوز مسیح موعود بروز نکند با آنکہ ظہور ش بر سر صد از مسلّمات است و اکنون از صد قریب بہ پنجم حصہ آں گذشتہ وانتظارش
ظاہرؔ ا مجدد از پءَے اصلاح مفاسد موجودہ مے آید و روے بہ بر کندیدن
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 86
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 86
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/86/mode/1up
وحان أن یرحم اللّٰہ الضعفاء ویجبر ضیق أمورہم
ویخرجہم من قبورہم۔ وقد
المفاسد الموجودۃ۔ و لایتوجہ الَّا الٰی قلع ما کبر من السیئات الشایعۃ۔ ومن المعلوم ان الفساد العظیم فی ھذا الزمان ھو فتنۃ اھل الصُّلبان۔ وھو الذی اھلک کثیرًا من اھل البراری والبلدان۔ فوجب ان یأتی المجدّد علی رأس ھٰذہ الماءۃ لھذا الاصلاح۔ و یکسر الصلیب و یقتل خنازیر الطلاح۔ و من یکسر الصلیب فھوالمسیح الموعود۔ ففکّر ایّھا الزکی المسعود۔ منہ
وہ وقت آگیا کہ خدا تعالیٰ ضعیفوں پر رحم کرے اور ان کی تنگیوں اور تکالیف کا تدارک کرے اور ان کو قبروں میں سے نکالے اور
اصلاح کے لئے آتا ہے ۔ اور اس بدی کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہو تا ہے جو پھیلی ہوئی بدیوں میں سے بڑی بدی ہو اور یہ معلوم ہے کہ اس زمانہ میں فساد عظیم صلیبی کارر وائیوں کا فساد ہے ۔ اسی فساد نے بہت سے بیابانی اور شہری لوگوں کو ہلا ک کیا ہے ۔ پس یہ امر واجب ہے کہ مجدد اس صدی کا اس اصلاح کے لئے آوے
اور بموجب منشاء احادیث کے کسرِ صلیب اور قتل خنازیر کرے ۔اور جو شخص کسرِ صلیب کرے وہی مسیح موعود ہے ۔ پس اس امر کو اے سعید آدمی سوچ ۔ منہ
مردم ر انعل در آتش کردہؔ و وقت آںآمدہ کہ خدائے مہربان ناتوانان را در یابد و تنگی ایشاں بفراغے برگرداند۔ واز گورہاشاں بروں کند
بیخ آن بدی می آرد کہ بزرگ ترین بدی ہائے آں وقت باشد۔ پوشیدہ نیست کہ شر بزرگ در این زمان فتنۂ صلیب است کہ بسیارے را از اہل بیابان و شہر ہا بر خاک ہلاک نشاندہ۔ لہٰذا لازم آنکہ بر سر این صد مجددے برائے اصلاح این خرابیہا بیاید و صلیب را بشکند و خنزیران را بکشد و آن کہ کار او شکستن صلیب است ہماں مسیح موعود است ۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 87
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 87
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/87/mode/1up
تعنّی المنتظرون لأجل المسیح النازل، ودیسوا تحت النوازل وارمدّت عین المنتظرین. أیہا السادات والشرفاء ! رحمکم اللّٰہ وأتاکم منہ الضیاء۔ انظروا وکرّروا النظر وأمعنوا ألیس من وعد اللّٰہ أن ینزل المسیح عند الزلازل الصلیبیۃ، فیُقبل علی المسلمین إقبال الرحمۃ والنصرۃ، ویجزل لہم اللّٰہ طولہ ویتم قولہ بالفضل والمنّۃ؟ وتعلمون أن القسوس کیف غلبوا علی أمورہم، وقلّبوا الأرض بظہورہم۔ وطال علیہم الأمد، فأین ذھب ما وعد الصدوق الصمد؟
مسیح کی انتظار کرتے کرتے لوگو ں نے بہت رنج اٹھایا ہے اور حوادث کے نیچے کچلے گئے ہیں اور انتظا ر کرتے کرتے لوگو ں کی آنکھیں پک گئیں اے بزرگو ! اور شریفو ! خدا تم پر رحم کرے اور اپنے پاس سے تمہیں روشنی عطا فرماوے ۔ نظر کرو اور دوبارہ دیکھو اور خوب غور کرو۔ کیا یہ خدا تعا لیٰ کا وعدہ نہیں ہے کہ وہ مسیح موعود کو صلیبی زلزلوں کے وقت میں نازل کرے گا اور پھر وہ مسلما نوں پررحمت اور مدد کے ساتھ متوجہ ہو گا اور اپنی عطا ان پر پوری کرے گا اور اپنے قول کی سچائی ظاہر فرمائے گا اور آپ لوگ جانتے ہیں کہ پادری لوگ کیو نکر اپنے مقاصد پر کا میاب ہو گئے ہیں اور زمین کو اپنے ظہور کے ساتھ زیر و زبر کردیا ہے۔ اور ان کی کارروائی پر بڑی مدت گزر گئی ہے پس اس سچے خدا کا وعدہ کہاں گیا
مردم در انتظار مسیح زحمتہاکشیدہ ودر زیر بلا ہا پائمال گردیدہ و چشمہا در راہش سفید گشتہ اند۔بزرگان و کلانان خدا نظرے در شمابکندو نورے بہ شمابہ بخشد۔ اندیشہ بفرمائید و سگالشہادر کار بکنید آیا وعدہ الہٰی نبودہ کہ مسیح را در ہنگام قوہ صلیب فرود فرستدو رحم و فضلش یارو یاور مسلمانان بگردد و نعمت خود را بر ایشاں اتمام کند و راستی گفتار خود رابظہور بیارد۔ بر شما پوشیدہ نخواہد بود کہ کشیشان درکار خود کامیاب و شاد کام گردیدہ و زمین را بظہور خود زیر و زبر نمودہ اند۔ ومدتے دراز ابقابر کارروائی انہا شدہ۔ اکنون چہ شد وعدہ آں خدائے صادق ۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 88
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 88
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/88/mode/1up
وترون أن أفواجا من المسلمین ارتدت وخرجت من ہذہ الملّۃ، ففکروا ألیس ہذا رزئیۃ عظمی علی الشریعۃ المحمدیۃ؟ ثم مع ذالک سبّوا نبینا المصطفٰی، وطعنوا فی دیننا وبلّغوا الأمر إلی المنتہٰی۔ أمکّنہم اللّٰہ منّا وما مکّننا من العدا؟ تلک إذًا قسمۃ ضیزیٰ۔ وإن کنتم تنتظرون مصائب أخریٰ فإنّا للّٰہ علی ہذا الرأی والنہٰی۔ أتریدون أن ینعدم الإسلام کل الانعدام ولا یبقی اسمہ ولا اسم نبیّنا خیر الأنام؟ ثم یظہر المسیح بعد فناء الملّۃ واختلال
اور آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہزارہا مسلمان مرتد ہو کر دین اسلام کو چھوڑ گئے ہیں ۔ پس سوچ لو کہ کیا یہ نہا یت بڑی مصیبت ہمارے دین محمدی پر نہیں ہے اور پھر انہوں نے علاوہ بد مذہبی پھیلانے کے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں بھی دیں اور ہمارے دین اسلام پر اعتراض کئے اور ہجوکی اور بات کو انتہا تک پہنچا دیا۔ کیا خد ا نے ان کو ہمیں دکھ دینے کیلئے موقعہ دیا اور ہمیں نہ دیا ۔ پس یہ تقسیم تو ٹھیک ٹھیک نہ ہوئی۔ اور اگر آپ لوگ اور مصیبتوں کے منتظر ہیں پس بجز انّا للّٰہ کے اور کیا کہیں ۔ کیا آپ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسلام بکلّی معدوم ہو جائے اور اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا دنیا میں نام و نشان نہ رہے ۔ پھر مسیح موعود ملت اسلام کے فنا ہونے کے بعد اور نظام دین کے خلل پذیر ہونے
شمامی بینید ہزاراں مسلمانان جامۂ ارتداد در بر کردہ اند۔ انصافاً بگوئید بلائے بزر گتر از این بر دین محمدی چہ خواہد بود۔ ازین گزشتہ نبی کریم مارا (صلی اللہ علیہ وسلم ) را دشنام دہند۔ و دین متین مارا ہدف اعتراضات ساز ند و ذم و ہجا کنند و کار از حد گذرانید ند۔ آیا خد اریسان ایشاں را در از کردہ و بر سر ما مسلط گرد انید ہ کہ از دست انہا رنج و آزار یابیم ۔ بخدا ایں تقسیم کہ خوب نیست و اگر شما در انتظار مصیبت ہائے بزرگتر از ایں نشستہ اید ما بجز از استر جاع چہ گوئیم۔ آیا شما آرزو دارید اسلام بکلی از ہم بپاشد و اثر ے از اسلام و ازان ذات خیر الانام ( علیہ الصلوۃ والسلام ) درد نیا نماند۔ و مسیح بعد از افنائے ملّۂ اسلام
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 89
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 89
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/89/mode/1up
النظام، وأنتم تقرء ون أن الملّۃ لا تری یوم الزوال بالکلّیۃ، ولا تنفک منہا آثار القوۃ والشوکۃ۔ وبینما ہی کذالک فینزل المسیح المجدد علی رأس الماءۃ، وہو یأتی حکما و عدلا ویقضی بین الأمّۃ۔ فیجمع السعداء علی کلمۃ واحدۃ بعد افتراق المسلمین وآراء مختلفۃ۔ وأسماء ہذا المجدد ثلاثۃ وذکرہا فی الأحادیث الصحیحۃ صریح: حکم ومہدی ومسیح۔ أما الحکم فبما رُوِیَ أنہ یخرج فی زمن اختلاف الأمّۃ، فیحکم بینہم بقولہ الفصل والأدلۃ القاطعۃ۔
وعند زمن ظہورہ لا توجد
کے پیچھے ظاہر ہو اور آپ لوگ کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ ایسے زوال کا دن اسلام پر کبھی نہیں آئے گا اور شوکت اور قوت کے علامات کبھی اس سے علیحدہ نہیں ہو ں گے اور اسلام اسی حالت پر ہو گا کہ مسیح موعود صدی کے سر پر نازل ہو جائے گا اور وہ حَکم عدل ہو کر آئے گا اور امت کے اختلاف دور کرے گا اور سعید لوگوں کو بعد اختلافات کے ایک کلمہ پر جمع کر دے گا ۔ اور اس مجدد کے تین نام ہیں جو احادیث صحیحہ میں بتصریح مذکور ہیں ۔یعنی حَکم اور مہدی اور مسیح۔ ا ور جیسا کہ روایت کیا گیا ہے حَکم کے نام کی یہ وجہ ہے کہ مسیح موعود امت کے اختلافات کے وقت میں ظاہر ہو گا اور ان میں اپنے قولِ فیصل کے ساتھ وہ حُکم دے گا جو قریب انصاف ہو گا اور اس کے زمانہ کے وقت میں کوئی
وواشدن شیرازۂ دین جلوہ گر بشود۔ و شمادر کتب می خوانید کہ مثل ایں روز سیاہ ہر گز بہرۂ اسلام نخواہد بود و علامات شوکت و صلابت ابداً از وے منقطع نخواہد گشت۔ ہم درایں اثنا مسیح موعود بروز کند واو حکم عادل باشد و اختلافات را از میانہ امت رفع ساز د و فرخندہ بختان را بعد از پراگندگیہا بریک کلمہ جمع آردو آں مجدد راسہ نام است کہ در احادیث صحیحہ بہ تصریح مذکور است یعنی حکم و مہدی و مسیح۔ از قرار روایت حکم بجہت آن است کہ مسیح موعود در وقت خلاف امت نازل شود۔ وبا قول فصل درمیانۂ اختلافات حکمی کند کہ قرین انصاف باشد۔ در ایّامے کہ او ظہور فرما ید جملہ عقائد
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 90
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 90
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/90/mode/1up
عقیدۃ إلَّا وفیہا أقوال، فیختار القول الحق منہا ویترک ما ہو باطل وضلال۔ وأمّا المہدی فبما رُوِی أنہ لایأخذ العلم من العلماء ، ویُہدی من لدن ربہ کما کان سُنّۃ اللّٰہ بنبیّہ
محمد خیر الأنبیاء ، فإنہ ہُدِی
وعُلِّم من حضرۃ الکبریاء ، وما
کان لہ مُعلّم آخر من غیر اللّٰہ ذی العزّۃ والعلاء۔ وأمّا المسیح فبما رُوِی أنہ لا یستعمل* للدّین
* المراد من لفظ المسیح کما جاء فی الحدیث الصحیح مسیحان۔ مسیح قاسط خارج فی آخر الزمان۔ و مسیح مقسط فی ذالک الاوان۔ فالذی یزجّی امرہ بالاسباب الردیۃ الارضیۃ ویمسح کل عذرۃ الارض بالحیل
عقیدہ ایسا نہیں ہو گا جس میں کئی قول نہ ہوں ۔ پس وہ حق کو اختیار کرے گا اور باطل اور گمراہی کو چھوڑ دے گا اور مہدی کے نام کی وجہ جیسا کہ روایت کیا گیا ہے یہ ہے کہ وہ علم کو علما ء سے نہیں لے گا اور خدا تعالیٰ کے پاس سے ہدایت پائے گا جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے اپنے نبی محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کو اسی طریق سے ہدایت دی۔ اس نے محض خد ا سے علم اور ہدایت کو پایا۔اور مسیح*کے نام کی وجہ جیسا کہ روایتؔ کی گئی ہے یہ ہے کہ وہ دین کی اشاعت کے لئے تلوار
* مسیح کے لفظ سے مراد احا دیث کے رو سے دو مسیح ہیں۔ ایک مسیح ظالم آخری زمانہ میں آنے والا اور ایک مسیح عادل اسی زمانہ میں آنے والا ۔ پس وہ شخص جو ردی طریقوں سے کام چلاتا ہے اور زمین کی ہر ایک نا پاکی کو ذلیل حیلوں کے ساتھ چھوتا اور طرح طرح کیؔ تحریف
دست زدہ اقوال متعدد ہ خواہند بود۔لا جرم او حق را از میانہ اختیار و باطل وضلال را ترک بکند و بر حسب رو ایت مہدی بسبب آن است کہ علم را از علما ء نگیرد بل بلاتوسط احد ے از خدا ہدایت یا بد ہمچنانکہ نبی خود محمد مصطفےٰ را ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہدایت فرمود۔ واو از خدا مشرف بہ الہام و مکالمہ و تعلیم دادہ شود۔ و وجہؔ اسم مسیح* بر طبق روایت آنکہ او در اشاعت امر دین
ازقرؔ ارا حادیث لفظ مسیح بردوتن اطلاق یافتہ۔ مسیحے بیداد گر کہ در آخر زماں پیدا شود و دیگر مسیحے داد گر کہ ہمدراں زماں
ظہور فرماید۔ خلاصہ آنکہ از طریقہ ہائے بر کار بگیرد و ہر گونہ نا پاکی و گندگئ زمین را باحیلہ ہائے فرو مایہ دست کندو
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 91
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 91
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/91/mode/1up
سیوفا مُشہّرۃ ولا أسنّۃ مُذؔ رّبۃ۔بل یکون مدارہ علی مسح برکات السماء، وتکون حربتہ أنواع التضرّعات
الدّنیۃ۔ ویستعملؔ انواع التحریف والمکائد والتلبیس والخدعۃ ویؤید الباطل بسائر اقسام الدجل والدنس التمویہ والتعظیہ۔ فھو المسیح الدجال و امرہ التزویر و تزیین الباطل والاضلال۔ والذی یفوض کل امرہ الٰی حضرۃ الکبریاء ۔ ویقطع الاسباب ویبعد منھا ویعکف علی الدعاء۔ ویسعی من الاسباب الی المسبب حتی یمسح بتوکلہ اعنان السماء۔ فذالک ھو المسیح الصدیق۔ و امرہ تائید الحق وکَلِمًا ینجو بہ الغریق۔ والمسیح اسمٌ مشترک بینھما
اور نیزہ سے کام نہیں لے گا ۔ بلکہ تمام مدار اس کا آسمانی برکتوں کے چھونے پر ہو گا اور اس کا حربہ قسم قسم کی تضرع اور دعا
اور مکر اور تلبیس اور فریب سے کام لے گا ۔ اور تمام قسم کے دجل اور فسق سے باطل کی تائید کرے گا۔پس وہ مسیح دجال ہے اور کام اس کا تزویر اور گمراہ کرنا ہے ۔ مگر جو شخص اپنا ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے سپرد کرے گا اور قطع اسباب کر کے دُعا پر زور ڈالے گا ۔ اور اسباب سے مسبب کی طرف دوڑے گا یہاں تک کہ اپنے توکّل کے ساتھ آسمان کی سطح کو چھو لے گا یہ مسیح صدیق ہے ۔ اور اس کاکام حق کی مدد کرنا اور غریق کو بچانا ہے۔ اور مسیح کا لفظ دو چیزوں میں مشترک ہے۔
کار از سیف وسنان نگیر دبل جملۂ کارو بار اوبستہ بر مسح برکات آسمانی باشد و حربۂ او دعا ہائے گوناگون وے
ہر نوع تحریف و مکرؔ و تلبیس و فریب در کار آورد و ہر رنگ دجل و زور و دروغ و حقہ بازی از بہر رواج دادن ناراستی صرف نماید۔ آں مسیح دجال است و کار او فریبیدن واز راہ بردن و آراستن دروغ است۔ و لیکن شخصے کہ جملہ امر خویش بخدا بسپارد و از اسباب بریدہ ہمۂ ہمت بر دعا بگمارد و از اسباب ردّی بہ سبب سازبیارد حتی کہ از کمال توکل بر سطح آسمان
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 92
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 92
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/92/mode/1up
والدعاء۔ فاشکروا اللّٰہ أنہ موجود فی زمنکم وفی ہذہ البلدان، وأنہ ہو الذی یُکلمکم فی ہذا الأوان، وہذا یوم تنزل فیہ البرکات، وتظہر الآیات، ویعود الإیمان الغریب إلی موطنہ، ویخرج لؤلؤ العلم من معدنہ۔ ہذا ہو الیوم الذی توجّست منہ قلوب الکفار، وانبجست رقّۃً عیون عیون الأبرار، وہذا یوم تقیّظ* الغافلین، ورقۃ المتیقّظین۔ و
مسیح العلٰی۔ ومسیح تحت الثریٰ ۔ وسمّی المسیح الصدیق عیسیٰ۔ لما عیس من بطشۃ القوم کابن مریم امام الھدیٰ۔ وعیس من جور السلطنت مع الضعف والمسکنۃ وتھاویل اخریٰ۔ منہ
ہو گی ۔ پس خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ وہ تمہارے زمانہ اور تمہارے ملک میں موجود ہے اور وہی تو ہے جو اس وقت تم سے کلام کر رہا ہے اور یہ وہ دن ہے جس میں برکات نازل ہو رہے ہیں اور نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور ایمان کا مسافر اپنے وطن کی طرف رجوع کر رہا ہے اور اس کے معدن سے علم کے موتی نکل رہے ہیں ۔یہ وہ دن ہے جس سے کفار کے دلوں میں دھڑ کا بیٹھ گیا ہے اور غلبہ رقت کی وجہ سے ابرار کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ دن غافلوں کے جاگنے کا دن اور جاگنے والوں کی رقت قلب کا دن ہے۔
آسمان کا مسیح اور زمین کا مسیح۔ منہ
خواہد بود۔ خدا را شکر بجا آرید کہ او در ملک شما و درمیانہ شما موجود و ہمان است کہ باشما تکلم می کند و این روزیست کہ برکات در آں نزول می فرماید و نشانہا آشکار می شود و ایمان غریب بوطن خود باز پس می آید و کان وے دُرِّ علم بیرون می دہد۔ این روزے است کہ خفقانے ازان درد ل کفار راہ یافتہ و دیدۂ پاکان از کمال رقت چشمہ ہائے سر اشک روانہ ساختہ اند۔ امروز روز بیداری غافلان و رقت بیداران و روز قبول
دست بساید او مسیح صدیق وکار او تائید حق ورہانیدن غریق است۔ و لفظ مسح بر مسح آسمان و مسح زمین ہر دو اطلاق مے یابد۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 93
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 93
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/93/mode/1up
ہذا یوم القبول والردّ من رب العالمین۔ أمّا الذین قبلوا فتری وجوہہم متہلّلۃ مستبشرۃ عارفۃ، وأمّا الذین ردّوا فوجوہہم کالحۃ دمیمۃ مستنکرۃ، وکل یری ما کسب فی ہذہ والآخرۃ۔ فمن جاء الصادق مصدقا فقد صدّق الرسول مُجدّدا وجمع شملا مبدّدا، ومن أعرض عن الصادق فعصٰی نبی اللّٰہ وما بالی التہدّد۔ وما أقول من تلقاء نفسی بل ہذا ما قال ربی وأکّد القول وشدّد۔ ابتُلیَت ببعثتی جموع الزہّاد والعباد، ولا یعرفنی إلَّا
اور یہ دن قبول اور ردّ کا دن ہے ۔ اس میں قبول کرنے والوں کے منہ کشادہ اور خنداں اور پہچاننے والے ہیں اور رد کرنے والوں کے منہ ترش اور بد شکل اور نا شناس ہیں اور جس نے صادق کے پاس آکر اُس کی تصدیق کی اس نے نئے سرے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تصدیق کی اور اپنے امر متفرق کو جمع کرلیا اور جس نے اعراض اور انکار کر کے صادق کی تکذیب کی وہ شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نا فرمان ہو گیا اور کچھ نہ ڈرا۔ یہ میرا قول نہیں بلکہ یہی خدا تعالیٰ نے تا کید اً فرمایا ہے ۔ میرے مبعوث ہونے کے ساتھ تمام زاہد اور عابد آزمائے گئے اور مجھے وہی دل جانتے ہیں جو بدلائے
وردّ است ۔ آنا نکہ پذیر فتند روی ہائے شان در خشان و خندان و شناسا استند و روی ہائے سر باز زنان ترش و زشت و نا شناسا استند۔ ہر کہ در نزد صادق آمد و صد قش را پذیر فت او ازنو تصدیق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کرد و امور پریشان خود را فراہم آ ورد۔ و آنکہ از گردن کشی و انکار کمر بر تکذیب صادق بر بست او گردن از فرمان رسول کریم بہ پیچید و بیمے دردل نیاورد۔ ایں گفتار ہوائے من نیست بل گفتار تاکیدی پروردگار است۔ ہمہ زاہدان بہ سبب بعثت من آزمودہ شد ند۔ و مرا نمے شناسد مگر دلہائے
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 94
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 94
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/94/mode/1up
قلوب الأبدال والأوتاد، وأما
علماء ہذہ البلاد فماتت قلوب أکثرہم وبعدوا من السداد،
وذہب اللّٰہ بنور ہدایتہم وضیاء درایتہم، وترکہم کالمخذولین۔ یُکفّرون ولا یعرفون من یُکفّرونہ ویعمہون، ویُعرضون عن الحق ولا یقبلون، و یرون آیات اللّٰہ ثم لا یہتدون۔ یسبّوننی و یشتموننی ویسعون لإجاحتی ویمکرون۔ ویسخرون منی ومن جماعتی وبسوء الألقاب ینبزون، وسیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون
گئے اور مستقیم کئے گئے ۔ مگر اس ملک کے اکثر علماء کا دل مر گیا اور خد ا نے اُن کا نورِ ہدایت اور زیرکی چھین لی ۔
مجھے اکثر کافر کہتے ہیں اور نہیں جانتے کہ کس کو کہہ رہے ہیں اور حق سے منہ پھیرتے ہیں اور قبول نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے نشان دیکھتے ہیں اور پھر ہدایت نہیں پاتے اور مجھے گالیاں دیتے ہیں اور میری بیخ کنی کے لئے کوشش کرتے اور منصوبے بناتے ہیں اور مجھ سے اور میری جماعت سے ٹھٹھا کرتے اور بڑے بڑے*نام رکھتے ہیں اور عنقریب ظالم لوگ جان لیں گے کہ کہاں پھیرے جاتے ہیں۔
کہ تبدیل و استقامت در انہا جا گرفتد۔ بسیارے از علمائے این بلاد دل شان مردہ و از راستی دُور افتادہ و خدا نور ہدایت و زیر کی را ازا نہا باز گرفتہ و از یاری و یاوری انہا دست باز کشیدہ۔ کافر می گویند و نمی دانند کر ا کافرمی گویند۔ و سر گردانیہامی کشند۔و از قبول حق گردن می کشندو نہ می پزیرند۔ خدا را نشانہا می بینند و دیدۂ وا زنمی کنند۔ دربارۂ من بدمے گویند و از پئے از پا در آوردنم تگاپو ہا کنند ۔وبرمن و گروہ من خندہ ہا زنند و بہ نامہائی بد یادآرند۔دور نیست کہ ستمگران بدانند کہ سر انجام کارایشاں چہ خواہد بود۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 95
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 95
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/95/mode/1up
ثم اعلموا یا جموع کرام أنی أُلہمت مذ أعوام، وأُمرت من ربّ علَّام أن أُظہر علی خواص وعوام، أن المسیح الصدیق الذی وُعِدَ
نزولہ لہذہ الأمّۃ عند شیوع فتن حماۃ الصلیب والکفارۃ، ہو ہٰذا العبد الذی بُعث علی رأس الماءۃ۔ وأُمِرَ أن یُتمّ حجّۃ اللّٰہ علی أہل الصلبان والفِدیۃ، ویکسر غلوّہم بالأدلۃ القاطعۃ، ویُقوّی بالآیات
أمر الملّۃ، ویقطع معاذیر الکفرۃ، ویأتی بمتاع جدید للمقوین۔
ویبشر للطالبین الذین یطلبون
مرضاۃ ربّہم ویحبّون خاتم النبیّین
پھر اے بزرگوں کے گروہ آپ لوگوں کو معلوم ہو کہ مجھے کئی سال سے الہام ہو رہا ہے۔ اور میں اس بات کو عام و خاص پر ظاہر کرنے کے لئے حکم کیا گیا ہوں کہ وہ مسیح صدیق جس کے اترنے کے لئے اس امت کو وعدہ دیا گیا ہے کہ وہ صلیبی فتنوں کے شائع ہونے کے وقت اترے گا وہ یہی بندہ ہے جو صدی کے سر پر مبعوث کیا گیا اور حَکَم کیا گیا ہے کہ تا خدا تعالیٰ کی حجت اہل صلیب پر پوری کرے اور دلائل قاطعہ کے ساتھ اُن کے غلو کو توڑے اور تمام کفار کا قطع عذر کرے اور جو لوگ بے توشہ ہو رہے ہیں ان کو متاع جدید عطا فرماوے اور خدا کے ڈھونڈنے والوں کو خوشخبری دے یعنی ان لوگوں کو جوخدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ اور جناب خاتم الانبیاء
جماعت بزرگاں بد انید کہ چندیں سال است من تشریف الہام یافتہ ام و مامورم باینکہ برخاص و عام اظہار آنرا بکنم کہ آں مسیح صدیق کہ نزولش برائے این امت در وقت فتنہ ہائے حامیان صلیب موعود است من بندہ ہستم کہ بر سر صد مبعوث شدہ ام و مامورم بایں کہ حجت خدا بر پرستاران صلیب اتمام بکنم و بنیاد غلوانہارا با دلائل قاطعہ از پادر آرم و امر ملت را بانشانہا استوار بنما یم وہر گونہ بہانہ ہائے کافران را ا ز سر ببرم و بے نوایان را برگ و ساز نو بہمر سانم و جویندگانے را مژدہ رسانم کہ راہ رضائے پرور دگار را جویند و خاتم النبیین را دوست دارند
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 96
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 96
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/96/mode/1up
علیہ صلوات اللّٰہ والملائکۃ وأخیار الناس أجمعین۔ وقد سبق البیان منی أن ہذا الوقت وقت ظہور المسیح الموعود، وقد تمت کلمۃ ربنا صدقا وحقا وأوفیٰ بالعہود۔ وکیف لم یعرف وقد طال أمد الانتظار، وظہر کلُّ ما ورد من الآثار، وقد مضت مدۃ علی صراصر الفتن الصلیبیۃ، وارتد فوج من الأمم المحمدیۃ، وما
بقی بیت إلَّا دخلت فیہ نصرانیۃ، وقلّت علی الأرض أنوار إیمانیۃ۔ فأرسلنی الرب الرحیم فی ہذہ الأیام وزاد معرفتی بتوالی الوحی والإلہام
صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اس نبی پر خدا اور اس کے فرشتوں اور تمام نیک بندوں کی طرف سے درود ہو۔ اور میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ یہ وقت مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہے اور ہمارے ربّ کی بات صدق اور سچائی سے پوری ہو گئی اور اُس نے اپنے عہد وں کو پورا کیا اور کس طرح پورا نہ کرتا اور اس کے وعدے کی مدت بہت گزر گئی تھی اور تمام نشانیاں پوری ہو چکی تھیں اور صلیبی فتنوں کی آندھیاں بھی ؔ بہت مدت سے چل رہی ہیں اور ایک فوج امت محمدیہ میں سے مرتد ہو چکی ہے اور کوئی گھر خالی نہیں رہا جس میں نصرانیت داخل نہیں ہو ئی اور ایمانی انوار زمین پر کم ہو گئے ہیں ۔ پس خدائے رحیم نے مجھے ان دنوں میں بھیجا اور وحی اور الہام کو متواتر نازل کر کے میری معرفت کو زیادہ کیا۔
(بروے از خدا وفرشتگان و کافہ مردم صلوات و تسلیم باد ) قبلا نگارش یافتہ کہ این وقت وقت ظہور مسیح موعود است و گفتار پروردگار ما بر استی و درستی سر انجام نیکو حاصل کردہ و وعدہ خود را ایفا فرمودہ و چگونہ ایفا نفرمودے در حالیکہ مدتے دیر باز بر وعدہ اش سپری شد۔ وہمہ نشانہا پدیدار گشتہ و تند بادہائے فتن صلیبیہ از زمانے دراز و زیدن گرفتہ و گروہے بسیار از امت محمدؔ یہ سر از دائرہ اسلام بیرون کشیدہ بود و خانۂ نماندہ کہ نصرانیت دراں سر زدہ داخل نشد و انوار ایمان بر زمین کم گردید۔ لہٰذا خدائے رحیم مرا در ہمچو روزہا فرستاد و از پیاپئے دادن وحی و الہام نور معرفت مرا بیفزود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 97
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 97
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/97/mode/1up
وقوّانی بخوارق وکُشُفٍ کالبدر التام۔ ووہب لی علم دقائق القرآن، وعلم أحادیث رسولہ وما بلّغ من أحکام الرحمٰن، وفہّمنی أنہ ما قدّم وما أخّر وعدہ من الآوان، بل أنزل أمرہ علی رأس الوقت والزمان۔ ومع ذالک کنت ما یسرنی قلیل من الآیات والعلامات، بل کنت استقل الکثیر لفرط اللّہج والرغبۃ فی البیّنات من الشہادات، وکنت ما أرضی من الاستیفاء باللفاء ، وما أقنع من شمس الہجر بأقل الضیاء۔بل کنت أجتنب منہلًا کدُر ماؤہ وما کمل صفاؤہ، فتوالت آیات ربی لتسلیتی حتی اطمأنت
اور خوارق اور کشف روشن کے ساتھ مجھے قوی کیا اور مجھے دقائق قرآن شریف کا علم عطا فرمایا اور ایسا ہی علم احادیث کا عطا کیا اور مجھے سمجھایا کہ اُس نے اپنے وعدہ کو مقدم یا مؤخر نہیں کیا بلکہ اپنے امر کو عین وقت پر نازل فرمایا۔ اور باوجود اس کے میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا تھا کہ تھوڑے سے نشانوں اور علامتوں پر صبر کروں بلکہ بباعث رغبت شہادتوں اور ثبوتوں کے بہت کو تھوڑا جانتا تھا اور تھوڑی چیز اور تھوڑی روشنی پر قناعت نہیں کرتا تھا بلکہ میں ایسے چشمے سے دور رہتا تھا جس کا پانی مکدر ہو اور صاف نہ ہو ۔ پس میری تسلی کے لئے خداتعالیٰ کے نشان متواتر نازل ہوئے یہاں تک کہ
و از خوارق روشن و کشف تقویت من بنمود و علم دقائق قرآن بر من ارزانی بفرمود۔ و ہمچنیں در علم احادیث برروئی من بکشود۔ و برمن آشکار کرد کہ تقدیم و تاخیر دروعدہ اش ہرگز راہ نیافتہ بل امر خود را درعین وقت نازل کردہ و بایں ہمہ نخواستم کہ قناعت بر نشانہائے قلیل و علاماتے چند بکنم بل از شدۃ رغبت در شہادات و ثبوتہا بسیار را اندک شمرام و بر چیز اندک و روشنی قلیل سر فرو د نیا وردم بلکہ من ازاں چشمہ دوری می جستم کہ آبش مکدر باشد۔ پس برائے تسلیت من نشانہائے الہٰی پیاپے نازل شد ند تا اینکہ روان من اطمینان کلّی بیافت
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 98
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 98
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/98/mode/1up
مہجتی ولمعت محجتی۔ وأُعطیتُ بصائر من اللّٰہ المنّان، وغُذّیتُ بلبان السکینۃ والاطمینان، ودُرِءَ عن نفسی کل شبہۃ، ونُوّرتُ من أیدی الحضرۃ بأشعۃ مومضۃ۔ ووضح لی بصدق العلامات، وتلالأ الآیات، وشہادۃ صحف رب السماوات، وخبر سید الکائنات أننی أنا المسیح الموعود، وأنہ تمت بی المواعید والعہود۔ وإنّ اللّٰہ فعل ما شاء ولہ التخیّر فی کل ما أحسن فی زعمکم أو أساء۔ یُلقی الروح علی من یشاء ، ولا یُسأل عما یفعل وہو مالک السماوات والأرضین
میری جان مطمئن ہو گئی اور میری راہ روشن ہوگئی اور کئی قسم کے روشن نشان مجھ کو دئیے گئے اور اطمینان اور سکینت کا دودھ مجھے پلایا گیا اور میرے نفس سے ہر ایک قسم کا شبہ دور کیا گیا اور میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے روشن شعاعوں کے ساتھ منور کیا گیا اور علامات صادقہ اور روشن نشانوں اور کتا ب اللہ اور حدیث سے میرے پر کھل گیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور یہ کہ میرے ظہور کے ساتھ عہد اور وعدے پورے ہو گئے اور خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ ہر ایک امر میں اس کا اختیار ہے ۔ جس پر چاہتا ہے روح ڈالتا ہے اور وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور زمین اور آسمان کا وہی مالک ہے ۔
وراہم آشکار گردید و چندیں نشانہائے روشن برمن ارزانی شد ند۔ و شیر سکینت مرا نو شا نیدہ شد و ہر گونہ شبہتے از روانم دور کردہ شد و خود دست خدا با شعاعہائے روشن مرا منور فرمود۔ و از علامات صادقہ و نشانہائے درخشاں و کتاب اللہ و حدیث برمن کشودند کہ من بلاشبہ مسیح موعود می ہستم و ظہور من موجب اتمام ہمہ عہد ہا ووعدہ ہا گشت۔ خدا ہر چہ خواہد کند واودر ہر امر اختیارکلی دارد گو آں امر بگمان شما بد باشد یا نیک۔ بر ہر کہ خواہد القائے رُوح کند۔ ہیچ کس را نمی رسد کہ اورابر کار ہائے او سبحانہ باز پرس کند کہ مالک زمین و آسمان ہمان است۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 99
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 99
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/99/mode/1up
وکنت أعلم أن العلماء یُکذّبوننی ویجعلوننی عرضًا
للسہام، ویقولون أنہ شقّ العصا وخرج من إجماع أئمۃ الإسلام، فواللّٰہ ما خشیتہم وما سترت أمرًا أُوحی إلیَّ من اللّٰہ العلاّم، وأی ذنب أکبر من ان یُکْتَم الحق من خوف الأنام، وما وردت ہذا المورد من غیر الأمر والإعلام، وما کان لی أن أستقیل من ہذا المقام۔ وما جِءْتُ کطارق إذا عری، بل جئت کبدرٍ طلع فی أُمِّ القریٰ، وعندی شہادات لمن یریٰ، وآیات لقلب وعیٰ۔ وقد
اور میں جانتا تھا کہ علماء میری تکذیب کریں گے اور مجھے اپنے تیروں کا نشانہ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اس نے اجماع کو توڑا اور عقیدہ اجماعی سے خارج ہو گیا ۔ پس بخدا میں ان سے نہیں ڈرا اور کسی امر کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہو ا پوشیدہ نہیں رکھا اور اس سے بڑھ کر اور کون سا گناہ ہو گا جو خلقت سے ڈر کر حق کو چھپایا جائے اور میں نے اس جگہ بغیر اعلامِ الٰہی کے قدم نہیں رکھااور میرا یہ بھی اختیار نہ تھا کہ میں اس مقام سے معافی چاہتا اور میں ایسا نہیں آیاجیسا کہ یونہی ایک ناخواندہ مہمان رات کو آجاتا ہے بلکہ میں اس چاند کی طرح نکلا جس نے مکہ معظمہ میں طلوع کیا اور میرے پاس دیکھنے والوں کے لئے گواہیاں ہیں اور اس دل کے لئے جو یاد رکھنے والا ہو نشان ہیں۔
من نیک می دانستم کہ علماء در د نبال تکذیب من بودہ۔ مرا ہدف تیر ہائے خود خواہند ساخت و خواہند گفت کہ این کس خلاف اجماع کرد و از عقیدۂ اجماعی خروج نمود۔ بخد اا زاناں نترسیدم وامرے را از امور ملہمات نپوشیدم و خود گناہے بزرگتر ازین چہ باشد کہ از بیم خلائق پردہ بر حق انداختہ شود۔ و من در اینجابے اجازہ خدا پا ننہا دہ ام۔ و مرا زیبا نبود کہ ازین مقام پوزش میکردم۔ من زنہار چوں مہمان ناخواندہ در ہنگام شب نیامدہ ام۔ من چوں بدرے آمدہ ام کہ در مکہ مکرمہ طلوع فرمود۔ جہت کسے کہ بہ بیند گواہی ہا دارم و برائے دلے کہ حق را ضائع نمے کند نشانہا در دست من است۔ زمانہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 100
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 100
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/100/mode/1up
شہد الزمان أن الأوان ہو ہذا الآوان، بما ظہرت الصلبان
وزادت الغوایۃ والطغیان، وتری القسوس* کیف ہوّلوا النفوس،
* انا ذکرنا غیر مرۃ کید القسوس وما نعلم کیف یکون اثرہ علی النفوس۔ فاعلموا انا لانرید بھٰذہ الکلمات۔ ان یدفع سیئاتھم بالسیئات۔ بل الواجب علی المؤمنین ان یصبروا علٰی ایذاءھم۔ ویدفعوا بالحسنۃ سیئاتھم۔ الذی نشأت من اھواءھم۔ ولاینظروا الٰی سبّھم وازدراءھم۔ فان اللّٰہ تبارک وتعالٰی اوصی لنا بالصبر فی القراٰن۔ و قال تسمعون اذی کثیرا منھم والصبر خیر فی ذالک الاٰوان۔ فمن لم یصبر فلیس لہ حظ من الایمان۔ فاصبروا علٰی ایذاء القسوس واتّقوا۔واذا شتموا فلا تشتموا۔
۱ور زمانہ نے اپنی حالت موجودہ کے ساتھ گواہی دے دی ہے کہ وقت یہی وقت ہے کیونکہ صلیب غالب ہو گیا اور گمراہی زیادہ ہو گئی اور تو پادریوں* کو دیکھتا ہے کہ کیونکر اُن کی سخت کوشش
* ہم نے بارہا پادریوں کے مکر کا ذکر کیا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ دلوں پر اس کا کیا ا ثر ہو گا ۔ پس یاد رکھو کہ ہمارا ان کلمات سے یہ مطلب نہیں کہ بدی کا بدلہ بدی کے ساتھ لیا جاوے بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کے ایذا پر صبر کریں اور بدی کا نیکی کے ساتھ معاوضہ دیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں صبر کے لئے حکم فرمایا ہے اور فرمایا کہ جب تم اہل کتاب سے دکھ دیئے جاؤ تو صبر کرو ۔ پس جو شخص صبر نہ کرے اس کو ایمان سے بہرہ نہیں ہے ۔ سو تم صبر کرو اور مقابلہ سے بچو ۔ جب گالیاں سنو تو گا لی مت دو
از حالت موجودہ گواہی دہد کہ وقت ہمیں وقت است چہ صلیب چیرہ گر دید و گمرہی ہر چہار سو را فر اگرفت۔ و می بینی کشیشان* را
* مکرراًدربارہ مکر کشیشان ذکرے درمیان آوردیم و نمی دانیم کہ دلہا از ایں چہ اثر بپذیر ند۔ آگاہ باشید کہ ما ہرگز ارادہ نداریم کہ پاداش بدی با بدی کردہ شود بلکہ مومنان را لازم است کہ برایذائے انہا صبر بور زند و بدی را کہ نتیجۂ ہوائے انہا ست با نیکی دفع بکنند و دشنایم و استحقار آنان را بچشم اغماض بہ بینند زیرا کہ خدا وند بزرگ مارا در قرآن کریم برائے صبر امر فرمودہ و گفتہ کہ از و شاں گفتار ہائے بد بسیار خواہید شنید وشکیبائی دراں روز گار بہتر خواہد بود۔ لہٰذا ہر کہ شکیب نگزیند او از اہل ایمان نیست۔ پس باید کہ بر ایذائے کشیشاں صبر بور زید و ا زہمچو مقابلہ بتر سید۔و چوں دشنام دہند دشنام مدہید۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 101
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 101
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/101/mode/1up
وذعر الناس نسلہم والرملان، وقذفوا خیر الرسل ورفع الأمان۔ فمن کان بعد ذالک لا یری ضرورۃ عبدٍ یکسر الصلیب، ویُری الآیات ویؤیّد الدین الغریب، وکان یحار فی أمری فہمہ، ویفرط وہمہ، حتی لا یُدرک ہذا السر غور عقلہ، ولا یحب بہذا الثمر لعاع حقلہ، بل یرتاب بعزوتی، ویأبی تصدیق دعوتی، ویضطر إلی طلب الآیات أو النصوص واؔ لبیّنات، لإزالۃ ما
وادعوا لاعدائکم واسترشدوا۔ واذکروا طول الدولۃ البرطانیۃ واشکروا و لا تکفروا۔ وارحموا ترحموا۔ منہ
اور مدبّرانہ روش نے لوگوں کو ڈرا دیااور رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو انہوں نے گالیاں دیں اور امان اٹھ گئی ۔ پھر اس کے بعد جو شخص ایسے بندے کی ضرورت نہ دیکھے جو کسر صلیب کرے اور نشان دکھلاوے اور دین غریب کی تائید کرے اور میرے مقابلہ میں اس کا فہم حیرت میں ہو اور اس کا وہم بڑھ جائے یہا ں تک کہ اس بھید کو اس کی عقل شناخت نہ کر سکے اور اس کے سبز کھیت میں یہ دانہ پیدا نہ ہو سکے بلکہ میری نسبت اس لقب کو خیال کر کے شک میں پڑے اور میرے دعوے کی تصد یق سے انکاؔ رکرے اور نشانوں کی طلب کے لئے یا نصوص اور حجج بیّنہ کے پانی کا محتاج ہوتا اپنے شبہات
اور ان کے لئے دعا کرو ۔ اور سلطنت برطانیہ کا احسان یاد کرو اور رحم کرو تا تم پر رحم کیاجائے ۔ منہ
کہ مردم از حیلہ ہاو ر فتار پر فریب انہادر ہراس اند رسول کریم را ( صلی اللہ علیہ وسلم) ناگفتنیہا گفتند و امان بر خاست۔ بااین ہمہ اگر کسے ہنوز ضرورت ہمچو شخصے را نہ بیند کہ صلیب را بشکند و نشان نماید و تائیدِ دین غریب بکند ودر امر من سراسیمہ و حیران باشدو خردش از دریافت این راز فروماند۔ و کشت عقل وے این دانہ ندہد۔ و بر نسبت من انگشت شک گزار د و بر تصدیق و دعویم انکار دارد۔ و برائے رفع شک و شبہت روی بہ نشان و نصوصؔ آرد۔
بقیہ حاشیہ و برائے دشمنان دست دعا بر فرازیدو برائے آنہارشد بخواہید و احسان ہائے سلطنۂ برطانیہ
یا د کنید۔ ناسپاسی نکنید و رحم کنید تا بر شما رحم کردہ شود۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 102
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 102
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/102/mode/1up
عراہ من الشبہات، فہا أنا قائم لمواساتہ کالإخوان، وأُلَبِّی دعوتہ تلبیۃ خائف علی ضجیج العطشان، وسأروی غلتہ بزلال البرہان وأصفی البیان۔ وأمّا النصیحۃ التی ہی منّی بمقتضی المحبۃ وإخلاص الطویّۃ، فہی أن لا ینہض أحد علی خلافی إلَّا بصحۃ النیّۃ، والذی یُبارینی طالبًا للنصوص والحجج والأدلۃ، أو مُصِرًّا علی طلب الآی والخوارق السماویّۃ، فعلیہ أن یرفق عند المسألۃ، ویُراعی دقائقالتقویٰ والہون والتؤدۃ، ولا یخرج من الأدب وحسن المخاطبۃ۔ فإنہ من عارض أہل الحق
دور کرے۔ سو میں اس کی غم خواری کے
لئے بھائیوں کی طرح کھڑا ہوں ۔ اور میں اس کی دعوت کو اس طرح قبول کرتا ہو ں جیسا کہ ایک شخص پیاسے کی فریاد سے ڈر کر جلد تر اس کو جواب دیتا ہے اور میں عنقر یب دلیل کے آبِ زُلال سے اس کی پیاس کو بجھاؤ ں گا اور بیان کے مصفّا پانی کے ساتھ اس کو سیراب کروں گا ۔ مگر میری طرف سے اخلاص دل کے ساتھ یہ نصیحت ہے کہ کوئی شخص بجز صحت نیت کے اس کا م کے لئے کھڑا نہ ہو اور جو شخص میرے مقابلہ پر اس غر ض سے آوے کہ تا مجھ سے نصوص اور دلائل طلب کرے یا آسمانی نشانوں کا مطالبہ کرے ۔ پس اس پر لازم ہے کہ نرمی کے ساتھ سوال کرے اور تقویٰ اور آہستگی کے دقائق کی رعایت رکھے اور ادب اور حسن مخاطبت سے باہر نہ جائے کیونکہ وہ شخص جو ان لوگوں کا مقابلہ کرتا ہے۔
اینک جہت غمگساریش چوں برادران ایستادہ ام۔ و بانگ ویرا چوں شخصے بگوش قبول می شنوم کہ تشنہ جان بلب رادیدہ و فر یادش شنیدہ بتما متر زودی جا نبش می رود ہمچنیں من نیز ہم تشنہ طلب حق را زلا ل راستی میدہم و با آ ب صافی بیان سیرابش می کنم و لیکن از روئے اخلاص نصیحت می کنم کہ ہیچ نفس را نمی باید کہ بغیر درستی نیت اقدام این امر بنماید و برابر من بایستدتا دربارہ نصوص و دلائل مسئلت بکند یا نشان آسمانی را باز بہ بیند بلکہ لازم کہ بر فق و لطف و صحت نیت بپر سد و آداب تقویٰ و تانی را نگہدارد و از حد ادب و گفتار نیکو بیروں نرود۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 103
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 103
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/103/mode/1up
واہل القدّوس القدیر، وخالف عبدًا أُ یّد من الربّ النصیر، فمثلہ کمثل رجل ولج غابۃ لیصطاد قسورۃ، وما أعدّ لہ عدّۃ، وإنّ صید الأسود ولو بالجنود أمر عسیر، فکیف اصطیاد آساد اللّٰہ فإن لہم شأن کبیر، لایباریہم إلّا شقی أو ضریر۔ ولا یفتری علی اللّٰہ إلَّا أشقی الناس، ولا یُکذّب الصدّیق إلَّا أخ الخنّاس، وقد ظہرت منی الآیات، وقامت الشہادات، ولٰکنی أری أکثر علماء ہذہ الدیار قد کبر علیہم الإقرار
بعد الإنکار، وقد جرت سُنّتہم أن أحدا منہم إذا غلط فی الإفتاء
جو حق پر اور اہل اللہ ہیں اور اس بندہ کی مخالفت اختیار کرتا ہے جو خدا سے تائید یافتہ ہے ۔ پس اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص ایک بیشہ میں اس غرض سے داخل ہو کہ تا ایک شیر کو شکار کرے حالانکہ شکار کرنے کے لئے کوئی طیاری اس نے نہیں کی اور نہ کوئی ایسا سازو سامان اس کے پا س ہے اور شیروں کا شکار کرنا مشکل ہے اگرچہ لشکروں کے ساتھ ہو اور خدا کے شیر کیونکر شکار کئے جائیں ان کی تو بڑی شان ہے اور کوئی ان کے مقابل پر بجز بد بخت یا اندھے کے نہیں آتا اور خدا پر وہ افترا باندھتا ہے جو بدبخت ترین خلائق ہو اور را ستباز کی وہ تکذیب کرتا ہے جو شیطا ن کا بھائی ہو اور بہ تحقیق مجھ سے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور گواہیاں قائم ہوئی ہیں مگر میں اس ملک کے اکثرمولویوں کو دیکھتا ہوں کہ انکار کے بعد اقرار کرنا ان پر بھاری ہو گیا ہے او ریہ ان کا طریق ہے کہ جب کوئی ان میں سے ایک مرتبہ غلطی کر بیٹھتا ہے
چہ آنکہ بااہل حق و مردان خدا پنجہ کند وبا یاوری یافتۂ پروردگار پیکار ورزد چوں شخصے می باشد کہ برائے نخچیر زدن شیر در بیشہ رود حال آنکہ ہیچ سازو برگے برائے مقابلہ شیراں مہیا نکرد ہ و نہ اسلحہ جنگ باخود داشتہ و ہر گا ہ کہ استعداد ے ہم جہت صید شیر مہیا نکردہ است ۔ پس چگو نہ جرأت میکند و صید شیران بیشہ با سپاہ و لشکر ہم کارے دشوار است۔ پس شیرانِ خدا را کہ شانے شگرف میدارند چگونہ افگندن شان آسان باشد۔ و ہیچ کس بجز سیاہ بختے نمی پسند د کہ بمقابل ایں چنیں شیران بایستد و دروغ بر خدا بستن را جز بد ترین مردم ہیچ کس روانمی دار د و غیر از برادر ا ہرمن تکذیب راستان نمی کند۔ ہر آئینہ از من نشانہا صادر شدہ و گوا ہیہا بروے کار آمدہ اما بسیارے از مولویان این بلاد اند کہ اقرار بعد از انکار بر انہا خیلے گران است۔ و شیوۂ شان آنکہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 104
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 104
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/104/mode/1up
وہوی فی وہدۃ الأخطاء ، فشق علیہ إلی آخر عمرہ أن یرجع إلی الصواب وینتہج مہجۃ أولی الألباب، أو یغنی عنہ الندم بعد ما زلّت القدم، فیا حسرۃ علیہم۔ إنہم لا یتقون اللّٰہ ویعلمون أنہم بمرآہ وتربۂم عیناہ، یرون آی اللّٰہ ثم لا ینظرون۔ ویُبلون کل عام مرۃ ثم لا یتوبون، وقد تمت حجّۃ اللّٰہ علیہم ثم لا یخافون۔ وإنّی أری أن أکتب فی رسالتی ہذہ بعض الأیات التی أظہرہا اللّٰہ لإزالۃ الشبہات، لعل اللّٰہ ینفع بہا بعض الصالحین والصالحات من المؤمنین۔
اور خطا کے گڑھے میں گر جا تا ہے تو یہ اس کوایک مشقت دکھائی دیتی ہے کہ پھر راہ راست کی طرف رجوع کرے اور عقل مندوں کی راہ اختیار کر لے یا اپنی لغزش پر کچھ ندامت پیدا ہو ۔ پس ان پر افسوس کہ وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اور جانتے ہیں کہ اس کی نظر کے نیچے ہیں اور خدا تعالیٰ کی آنکھ ان کی دید بانی کر رہی ہے خداتعالیٰ کے نشان دیکھ کر پھر ایسے ہوتے ہیں کہ گویا کچھ نہیں دیکھا اور ہر ایک برس آزمائے جاتے ہیں اور پھر توبہ نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کی
حجت ان پر پوری ہو گئی اور وہ نہیں ڈرتے اور میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اپنے اس رسالہ میں بعض وہ نشان لکھوں جن کو خدا تعالیٰ نے شبہات کے دور کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے تا شاید اس سے اہل ایمان نفع اٹھاویں۔
ہر گاہ از اناں یکے را خطائے سر بر زندود ر مغاک خطا بسردر افتدو باز برا و سخت دشوارمی گردد کہ میل براہ راست بیار د یا پئے خرد مندان رابگیرد یا اقلاًّبر لغزش خود کف پشیمانی بمالد۔ وائے بر انہا کہ باک از خدا ندارند و نیک مید انند کہ او می بیند و دیدہ اش دید بانی انہامی کند۔نشانہائے خدا را می بینند و باز چناں وا نمایند کہ چیزے ندیدہ اند۔ و ہر سال ابتلائے بر سر انہا دار دآید و باز نمی آیند۔ حجت خدا بر انہا تمام شد ولے نمی ترسند۔ ومن اکنون قرین مصلحت می بینم کہ دریں رسالہ بعض نشانہائے خود را ترقیم بکنم۔ شایدبعض طالبان حق را نفع بخشد۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 105
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 105
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/105/mode/1up
فمنہا أن اللّٰہ تعالٰی بعثنی علی رأس الماءۃ، وأرسلنی عند غلبۃ أہل الصلبان وشیوع سمر الکفّارۃ، وأمرنی عندما استعرت جمرہم وعلا أمرہم، وتقضّت قسوسہم علی العامۃ، وفتحوا أبواب الارتداد علی وجوہ الفجرۃ، وحرکوا صفائحھا بأہویۃ الإباحۃ، وترائت فتن مُہلکۃ وظہر ہول القیامۃ، ووہب لی لکسر الصلیب معرفۃ لا یوجد نظیرہا
فی أحدٍ من اھل الملّۃ، وإن کتبی شہادۃ قاطعۃ علی ہذہ الخصوصیۃ،
وقد أفحمت بہا حُماۃ النصرانیۃ،
سو ان نشانوں میں سے ایک نشان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے اور صلیبی مذہب کے غلبہ کے وقت مجھے بھیجا ہے اور مجھے اس وقت مامور کیا ہے جب کہ عیسائی مذہب کے حامیوں کے کوئلے بشدت بھڑک گئے اور ان کا کام او نچا ہو گیا اور ان کے پادری عامۃ الناس پر ٹوٹ پڑے اور بد فعل لوگوں پر مرتد ہو نے کے دروازے کھول دیئے اور ارتداد کے تختوں کو اباحت کی ہواؤں کے ساتھ ہلا دیا اور ہلاک کرنے والے فتنے ظاہر ہو گئے اور ہول قیامت برپا ہو ا ۔ اور خداتعالیٰ نے مجھے کسر صلیب کے لئے وہ
معرفت عطا فرمائی کہ اس کی نظیر دوسرے مسلمانوں میں پائی نہیں جاتی اور میری کتابیں اس خصوصیت پر شہادت قا طعہ ہیں اور ان سے میں نے نصرانیت کے حامیوں کا منہ بند کر دیا ہے۔
ازا ن جملہ نشانے است کہ خدا وند بزرگ مرا بر سر صدبرپا فرمود۔ ودر وقت غلبۂ صلیب مرا فرستاد و مرا در چنیں وقتے مامور کرد کہ زغال حامیان صلیب نیک برا فروخت و کار شاں بلندی گرفت و کشیشان انہا بر حامیان دین تا ختند و برروئے فسق منشان در ہائے ارتداد باز کشو دند و رسن بے قیدی و اباحت را خیلے دراز نمودند و فتنہ ہائے بہر جا نمودار شد ند و ہنگامہ رستخیز پد ید ارشد۔ و خدا وند عالمیان جہت شکستن صلیب مرا معرفتے کرامت فرمودہ کہ نظیر ش در غیر من محال است۔ در مخصوص ایں باب کُتب من شہادت قا طعہ می باشند۔ بواسطۂ آں کتب زبان و دہان نصرانیان۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 106
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 106
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/106/mode/1up
فما استطاعوا أن یأتوا بالمعاذیر المعقولۃ أو ینقضوا أحدًا من الأدلۃ۔ وکان وقتی ہذا وقت کانت العیون فیہا مُدّت إلی السماوات من شدّۃ الکربۃ، بما أضلّ الناس أھل الدّجل بکل ما أمکن لہم من الأطماع والاختضاع والخدیعۃ۔ ثم مع ذالک کثر التشاجر فی ہذا الزمان بین الأمّۃ، وما بقی عقیدۃ إلَّا وفیہ اختلاف ونزاع فی الفرق الإسلامیۃ، واقتضت الطبائع حَکَمًا لیحکم بالعدل والنصفۃ، فحکّمنی ربّی وأراد أن یرفع إلیَّ مشاجراتہم
پس وہ لوگ کوئی عذر معقول پیش نہیں کر سکتے اور نہ کسی دلیل کو توڑ سکتے ہیں اور میرا وقت ایک ایسا وقت تھا کہ نہایت بے قراری سے آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہو ئی تھیں ۔ کیونکہ اہل دجل نے جہاں تک ان کے لئے ممکن تھا طمع اور دھوکہ دینے سے لو گوں کو گمراہ کیا ہے۔ پھرباوجود اس کے اس زمانہ میں مسلمانوں میں نہایت درجہ کا اختلاف واقع ہے اور کوئی ایسا عقیدہ باقی نہیں رہا جس میں مسلمانوں
کے فرقوں میں اختلاف اور نزاع نہ ہو اور لوگوں کی طبیعتوں نے ایک حَکم چاہا جو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرے سوخدا تعالیٰ نے مجھے حَکم مقرر فرما دیا تاکہ ان کے اختلافات کے
را یکسر بر بستہ ام ودر قدرت انہا نماند ہ کہ عذرے معقول در پیش آرند یا حجتے را از حجت ہائے من بر شکنند۔ و این وقت وقتے بودہ کہ دیدہ ہا از بس بے تابی منتظرآن بودند۔۔۔ زیرا کہ اہل دجل و فریب ہر قدر ممکن بود از راہ فریب و آز فزائی مردم را از راہ بردند۔ علاوہ ازاں در ایں زمان خود درمیانۂ فرقہ ہائے اہل اسلام جنگ و جدل و داروگیر و پیکار از پایان در گزشتہ عقیدہ نماندہ کہ در نزد فرقہ از فرق اسلام اختلاف و نزاع دران نباشد۔ لا جرم طبیعت ہا بصد جان حَکَمے را آرزو کردند کہ بعدل و نصفت درمیانۂ ایں ہمہ اختلافات نور را از ظلمت ممتاز سازد لہٰذا خدا وند بزرگ مرا! حَکم مقرر فرمود تا مرافعہ ہمہ قضیہ ہائے اختلافات
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 107
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 107
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/107/mode/1up
وأقضی بینہم بالحق والمعدلۃ۔ إن فی ہذا لآیۃ لقوم متفکّرین بل ہی من أعظم آی اللّٰہ عند حزب متدبّری
ومن آیاتی أنہ تعالی وہب لی ملکۃ خارقۃ للعادۃ فی اللسان العربیۃ، لیکون آیۃ عند أہل الفکر والفطنۃ۔ والسبب فی ذالک
أنّی کنتؔ لا أعلم العربیۃ إلَّا
طفیفا لا تُسمّی العلمیۃ، فطفق العلماء یقعضون ویکسرون عود خبری ومخبرتی، ویتزرون علی علمی ومعرفتی، لیُبرّؤن العامۃ
منی ومن سلسلتی۔ وشھروا
مقدمات میری طرف رجوع کئے جائیں اور میں ان کا فیصلہ کروں ۔ اور اس میں فکر کرنے والوں کیلئے نشان ہے بلکہ تدبر کرنے والوں کے نزدیک یہ سب نشانوں سے بڑا نشان ہے۔
اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے عربی زبان میں ایک ملکہ خارق عادت مجھے عطا فرمایا ہے تاکہ فکرؔ کرنے والوں کے لئے وہ نشان ہو اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں بجز اندک اور حقیر شد بود کے جس کو علمیت نہیں کہہ سکتے عربی نہیں جانتا تھا ۔ پس علماء نے میرے علم کی لکڑی کوخم دینا اور توڑنا چاہا اور میرے علم کی عیب گیری اور نکتہ چینی شروع کی تاکہ عوام کو مجھ سے اور میرے سلسلہ سے بیزار کر دیں اور اپنی طرف سے یہ
شاں در پیش من بشود و من قول فیصل دربارہ آناں امضابکنم۔ در ایں نشانے است جہت آنا نکہ اندیشہ کنند بلکہ نزد کسانے کہ فکر ے کنند نشانے بزرگتر ازین نیست۔
و از جملہ نشانہااین است کہ خدا وند کریم مر امہارتے فوق العادہ در زبان عربی کرامت فرمودہ تا اہل فکر و زیرکی را نشانے بزرگ باشد۔اصل راز آنکہ من از لسان عرب جزا ز مایۂ اند کے کہؔ براں لفظ علم راست نمی آید دردست ندا شتم۔ و علمائے ایں بلاد دردنبال آں بر آمد ند کہ چوب علم مرا بخمانند و بشکند و علم مرا عرضہ خرد ہ گیری ساختن گرفتند بقصد آنکہ درد لہائے عامہ مردم از من و از طریق من بیزاری پیدا کنند و بآواز دہل نعرہ ہا زدند
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 108
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 108
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/108/mode/1up
من عندہم أن ہذا الرجل لا یعلم صیغۃ من ہذہ اللسان، ولا یملک قراضۃ من ہذا العقیان۔ فسألت اللّٰہ أن یُکمّلنی فی ہذہ اللّہجۃ، ویجعلنی واحد الدّہر فی مناہج البلاغۃ۔ وألحت علیہ بالابتہال والضراعۃ، وکثر إطراحی بین
یدی حضرۃ العزّۃ، وتوالی سؤالی
بجہد العزیمۃ وصدق الہمۃ، وإخلاص المہجۃ۔ فأُجیب الدعاء وأُوتیت ما کنت أشاء*، وفُتحت لی
* قد جاء فی الاٰثار و تواتر فی الاخباران المسیح الموعود والمھدی المعھود قد رُکّبت نسمتہ من الحقیقۃ العیسویۃ والھویۃ المحمدیۃ۔ شطر
شہرت دے دی کہ یہ شخص عربی کا ایک صیغہ بھی نہیں جانتا اور اس سونے میں سے ایک ریزہ کا بھی مالک نہیں ۔ پس میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے اس زبا ن میں کامل کرے اور اس کی بلاغت فصاحت میں مجھے بے نظیر بنادے اور میں نے نہا یت عاجزی اور تضرع سے اس دعا میں الحا ح کیا اور جناب الٰہی میں گرا اور گڑگڑایا اور صدق ہمت اور اخلاص جان اور کوشش بلیغ کے ساتھ اس سوال کو با ر بار جناب الٰہی میں کیا ۔ پس دعا قبول کی گئی۔ اور جو میں نے چاہا تھا وہ مجھے دیا گیا۔* اور عربیت کے
* آثار اور اخبار میں تواتر سے یہ بات آچکی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی معہود کا وجود حقیقت عیسویہ اور ماہیّت محمدیہ
سے مرکب ہے کوئی جز اس کا
کہ این کس از لسان عرب نابلد محض مے باشد و ازیں زر ریزۂ را ہم دردست ندارد۔ ناچار از جناب الٰہی درخواستم کہ مرا مہارتے در ایں لسان کرامت بفرماید۔ و در فصاحت و بلاغت مرا یگانۂ زمانہ بسازد۔ و در ایں دعا سوزو گداز و دردو نیاز رااز حد در گزر انیدم و بر خاک آستانہ اش برو فتادم۔و از صدق ہمت و عزم صمیم این مسئلت را پیاپے عرض کردم تا آنکہ دُعائے من بموقع قبول جا گرفت و آنچہ خواستم مرا دادند*۔ و دُر ہائے
* در آثار و اخبار تواتراً مذکور است کہ وجود مسیح موعود و مہدی معہود از حقیقت عیسویہ و ما ہیّتِ محمدیہ ترکیب و تخمیر یافتہ است۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 109
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 109
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/109/mode/1up
أبواب نوادر العربیۃ واللطائف الأدبیۃ، حتی أملیت فیہا
رسائل مبتکرۃ وکتبا محبّرۃ، ثم
من ذالک وشطر من ھٰذا۔ والبعض لبعض اٰخر حاذا۔و روحانیتھما ساریۃ فی وجودہ۔ بل انما ھی نار وقودہ۔ ظہر تافیہ علٰی طور البروز۔وھمابوجودہ کالسرالمرموز۔وکان من الشیون المحمدیۃ بلاغۃ الکلام۔ کما اشار الیہ اعجاز کلام اﷲ العلَّام۔ فاعطی من حظ للمسیح الموعود۔ لیدل علی الظلّیۃ واتحاد الوجود۔ لئلَّا یکون طبیعتہ فاقدۃ لھٰذا الکمال۔ فانّ الحرمان لایلیق بشان الظلال۔ فوجد غضا طریّا من ھٰذہ الشجرۃ الطیبۃ۔ وغمرہ ماء ظلیۃ النبوۃ کما
نوادر اور لطائف ادب کے دروازے میرے پر کھو لے گئے یہا ں تک کہ میں نے عربی میں کئی نو طرز رسالے اور بلاغت سے آراستہ کتابیں تالیف کیں۔ پھر
اور کوئی جز اس کا اس میں موجود ہے اور بعض بعض کے مقابل پر واقع ہیں اور دونوں کی روحانیت اس کے وجود میں سرایت کرنے والی ہے بلکہ وہ روحانیت اس کے ہیزم کی آگ ہے اور دونوں اس میں بطور بروز ظاہر ہوئی ہیں اور اس کے وجود کا وہ بھید ہیں اور محمدی نشانوں میں سے ایک بلاغت تھی جیسا کہ قرآن شریف اس کی طرف اشارہ فرما رہا ہے ۔ پس مسیح موعود کو ظلّی طور پر وہ نشان عطا کئے گئے تاکہ اس کی طبیعت اس کمال سے خالی نہ ہو کیونکہ محروم ہونا ظلّکی شان سے بعید ہے ۔ پس مسیح موعود نے اس پاک درخت سے تا زہ و تر میوہ پایا اور نبوت کی ظلّیت نے اس کو اپنے پانی میں ڈھانک لیا جیسا کہ امت کے کاملوں کی شان ہے اور اسی طرح اس نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے کمالات بطور ورثہ
لطائف عربیت و نوادرش بر روئے من باز کردند۔چنانچہ رسالہ ہائے چند بطرز نوو پُر از فصاحت در لسان تازی تالیف دادم
پارہ ازین و بہرہ ازان در وے موجود۔ پارہ با پارۂ در برابر ایستادہ و روحانیت ہر دو بوجود ش در گرفتہ بلکہ آں روحانیت ہیزم آتش اوست و آں ہر دو بروزاًدر وے ظاہر دراز نہان وجود اومی باشند۔ واز نشانہائے محمدی شان بلاغت ہم بودہ چنانچہ اعجاز قرآن کریم اشارہ بہ آن کردہ است۔پس
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 110
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 110
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/110/mode/1up
یا حزب الفضلاء والأدباء !
إنکم حسبتمونی أُمّیًّا ومن الجہلاء،
ھو شان الکمل من الامۃ۔ وکذالک وجد ارثا من کمالات ابن مریم علیہ سلام اللّٰہ و علی نبیّنا الذی جعلہ
اللّٰہ اشرف واکرم۔ ولما کانت
حقیقۃ المسیح الموعود معمورۃ فی الحقیقتین المذکورتین۔ ومضمحلۃ متلاشیۃ فیھما ومنعدم العین ومستتبعۃ لصفا تھما فی الدارین۔ غلب علیھا اسمھما ولم یبق منھا اسم و رسم فی الکونین۔ وانعدم المغلوب و بقی فیہ اسم الغالب و تقرر لہ فی السماء اسم ھٰذین المبارکین۔ ھٰذا ما اوقعہ اﷲ فی بالی۔ و تلقاہ حدسی و فراستی من لدن ربی لاکمالی۔ وامّا
میں نے اس ملک کے علما ء پر وہ کتابیں پیش کیں اور کہا کہ اے فاضلو اور ادیبو! تمہارا میری نسبت یہ گمان تھا کی میں اُ مّی اور جاہل ہوں
پائے ۔ ان پر اور ہمارے نبی پر سلام ہو۔ اور جبکہ مسیح موعود کی حقیقت ان دونوں مذکورہ حقیقتوں میں غرق تھی اور ان میں مضمحل اور متلاشی تھے اور ان کی صفتوں کے پیرو تھے اس لئے ان دونوں بر گزیدوں کا نام اس پر غالب ہوا اور اس کا اپنا نام و نشان کچھ نہ رہا اور مغلوب معدوم ہو گیا اور غالب کا نام رہ گیا ۔ اوراس کے لئے آسمانوں پر ان دونوں مبارکوں کے نام رہ گئے ۔ یہ وہ سرّ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا اور خداتعالیٰ کی طرف سے میری فراست نے اس کو قبول کیا ۔ مگر وہ امر جو مسلمانوں
و در پیش علماء ایں بلاد عرض نمودم و گفتم اے فضلاء و ادباشما ہا نسبت بمن گمان دا شتید کہ من مردجاہل و اُ مّی ہستم۔
مسیح موعود را ظلاًّ تشریف آن شان عطا فرمودندتا او۔۔۔۔۔ ازیں حلیہ و طبیعت عاری ماندہ ازین کمال محروم نماند۔ زیرا کہ حرمان شایاں شان اظلال نمی باشد۔ آخر مسیح موعود ازاں درخت۔۔۔ میوۂ تازہ و تر یافت و ظلّیت نبوت در آب خودش غوطہ بداد چنانچہ شان کا ملان امت بودہ است ۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 111
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 111
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/111/mode/1up
عرضتہا علی العلماء وقلت
والأمر کان کذالک لولا التأیید
من حضرۃ الکبریاء، فالآن أُیّدتّ
من الحضرۃ، وعلّمنی ربّی من لدنہ بالفضل والرحمۃ، فأصبحت أدیبًا ومن المتفرّدین۔ وألّفت رسائل فی حُلل البلاغۃ والفصاحۃ، وہٰذہ آیۃ من ربی لأولی الألباب والنصفۃ، وعلیکم حُجّۃ اللّٰہ ذی الجلال والعزّۃ۔
فإن کنتم من المرتابین فی صدقی وکمال لسانی، والمتشککین فی حسن بیانی وتبیانی، ولا تؤمنون بآیتی
العقیدۃ التی ھی مشہورۃ بین المسلمین وسمعتموھا ذات المرار من المحدثین۔ فانما ھی کلم کشفیۃ خرجت من فم خیر المرسلین۔و اخطأ فیھما بعض المؤلّین۔ و حملوھا علٰی ظواھرھا و کانوا فیہ خاطئین۔ والاٰن حصحص الحق و ترای الصراط لقوم طالبین۔ منہ
اور در حقیقت میں ایسا ہی تھا اگر خدا تعالیٰ کی تائید میرے شامل حال نہ ہوتی ۔ پس اب اللہجلّ شانُہٗ نے میری تائید کی اور خاص فضل اور رحمت سے اپنے پاس سے میر ی تعلیم فرمائی۔ سو اب میں ایک ادیب اور متفرد انسان ہو گیا اور میں نے کئی رسالے بلاغت اور فصاحت کا لباس پہنا کر تالیف کئے پس دانشمندوں اور منصفوں کے لئے میری طرف سے یہ ایک نشان ہے اور خداتعالیٰ کی تم پر یہ حجت ہے ۔ پس اگر تم میری سچائی اور میری کمال زبان دانی میں شک رکھتے ہو اور میرے بیان اور عمدہ طور پر اظہار مطالب میں تمہیں کچھ شبہ ہے اور میری اس شان پر
میں مشہور اور حدیثوں میں کئی مرتبہ اس کا ذکر آیا ہے وہ در حقیقت کشفی کلمے ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے تھے ۔ ان کی تاویل میں بعض لوگوں نے غلطی کھائی ہے اور ان کو ان کے ظاہر پر حمل کر بیٹھے اور اس میں خطا کی اور اب حق ظاہر ہو گیا اور طالبوں کے لئے راہ راست نمو دار ہو گیا ۔ منہ
و در حقیقت ہم چنین بودم اگر فضل و رحمت خد ادست مرا نمی گرفت۔ اینک اکنوں تائید ایزدی پشت مرا بکوفت و از محض فضل و کرم از خود مرا بیاموخت۔ چنانچہ اکنوں ادیبے یگانہ گردیدم و کتبے چند کہ از فصاحت وبلاغت مشحون اند تالیف و چاپ کردم۔ و ایں نشانے است سترگ از برائے خرد وران و دانشمندان وہم از خدا حجتے بر شمااست۔ و اگر نسبت بکمال ادب و راستی من ہنوز در پندار د گمان استید
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 112
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 112
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/112/mode/1up
ہذہ وتحسبونہا ہذیانی، وتزعمون أنی فی قولی ہذا من الکاذبین فأتوا بکتاب من مثلہا إن کنتم صادقین۔ وإن کان الحق عندکم کما أنّکم تزعمون، فسیُبدی اللّٰہ عزّتکم ولا تُغلبون ولا ترجعون کالخاسرین، فلا یُعاتبکم بعدہ مُعاتب، ولا یزدریکم مُخاطب، ویستیقن الناس أنّکم من الأمناء ومن الصالحین۔ وإن کنتم لا تقدرون علیہ لقلّۃ العلم والدّہاء، فانہضوا وادعوا مشہورین منکم بالتکلم والإملاء ، والمعروفین من الأدباء۔ وإنی عرضت علیکم أمرا فیہ عزۃ الصادق وذلّۃ الکاذب،
ایمان نہیں اور گمان کرتے ہو کہ میں کاذب ہوں۔ پس تم بھی کوئی ایسی کتاب بنا کر لاؤ اگر تم سچے ہو۔ اور اگر تم حق پر ہو گے جیسا کہ تمہارا گمان ہے ۔ پس خدا تعالیٰ ضرور تمہاری عزت ظاہر کرے گا اور غالب ہو گے اور تمہیں کچھ نقصان نہیں ہو گا ۔ پھر بعد اس کے کوئی عتاب کرنے والا تمہیں عتاب نہیں کرے گا اور کوئی مخاطب عیب گیری پر قادر نہیں ہو گا اور لوگ یقینؔ کر لیں گے کہ تم امین اور صالح ہو ۔
اور اگر تم بباعث قلت علم اور عقل کے مقابلہ کی قدرت نہیں رکھتے ۔پس اٹھو اور ان لوگوں کو بلا لو جو تحریر اور تقریر میں تم میں مشہور ہیں اور ادیب ہونے میں شہرت رکھتے ہیں اور میں نے ایسا امر تم پر پیش کیا ہے جس میں سچے کی عزّت اور جھوٹے کی ذلت ہے
و بیان و تبیان مرا بچشم انکار می بینید و بایں نشان من ایمان نمی آرید۔ و این را ہرزہ درائی و ژاژخائی برمی شمارید لازم کہ کتابے مثل آں بیار ید اگر بوئے از راستی دارید۔ و اگر شماراست استید بر وفق آنچہ می پندارید البتہ خدا دست شمارا بالاکندو بزرگی شماپدیدارگردد و زیانے بشمانہ رسد و پس ازان ہیچ نکوہندۂ شمار انفرین نکند و مخاطبے درپئے خوردہ گیرئی شمانشود۔و مردم خواہند دانست کہؔ شما در حقیقت امانت گزار و راست کار ہستید۔ و اگر شما بہ سبب قلتِ علم و عقل مرد میدان مقابلہ نیستید بر خیزید و آں مرد مان را جمع آرید کہ در تحریر و تقریر از میانہ شما سر بر آوردہ ونامی می باشند و بر ادب نازہا دارند۔ و من امرے در پیش شما اظہار کردم کہ باعث بر عزّتِ صادق وذلّت کاذب خواہد بود
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 113
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 113
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/113/mode/1up
وسینال الکاذبین خزیٌ ونصبٌ من العذاب اللازب، فاتقوا اللّٰہ إن کنتم مؤمنین۔ فما کان لہم أن یأتوا بمثل کلامی أو یتوبوا بعد إفحامی، وظہرت علی وجوہہم سواد وقحول، وضمر وذبول، وغشیہم حین وإحجام، وجہلوا کل ما صلفوا ولم یبق لہم کلام۔ وجاء نی حزبًا منہم تائبین، وکثیر حق علیہم ما قال خاتم النبیین علیہ الصلاۃ والتحیات من ربّ العالمین۔ ثم اعلموا یا حزب السامعین۔ إن ہذہ آیۃ استفدتہ من روحانیۃ خیر المرسلین بإذن اﷲ رب العالمین۔ وقال السفہاء من الناس إنہ دعوی
اور جو جھوٹے ہیں ان کو ذلت اور لازمی عذاب پہنچ رہے گا ۔ پس اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے ڈرو ۔مگر ان لوگوں نے نہ تو میری کلام کی نظیر پیش کی اور نہ اپنے انکار سے باز آئے۔ اور ان کے منہ پر سیاہی اور خشکی اور لاغری اور گدا زش ظاہر ہو گئی اور نامرادی اور پیچھے ہٹنا ان کے لاحق حال ہو گیا اور تمام لاف وگزاف کو بھول گئے اور کلام کرنے کی جگہ نہ رہی اور بہتوں نے توبہ کی اور بہتوں پر قول آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا صادق آیا ۔ پھر اے سننے والو یہ بھی یاد رکھو کہ میں نے اس نشان کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی روحا نیت سے لیا ہے اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ اور بعض نادانوں نے کہا کہ یہ دعویٰ قرآن کے
و کاذب زود رسوائی و رنج لازم خواہد دید۔اگر شمۂ از ایمان دارید از خد ابتر سید۔ ولے بااین ہمہ نہ نظیر ے در برابر کلام من آوردندو نہ از انکار و اصرار دست باز داشتند۔ و سیاہی و لاغری و گدازش بر روئے شاں آشکار شدو بد دلی و پس نشستن لاحق حال شاں گشت وہمہ لاف و گزاف از یاد رفت و جائے سخن نماند۔آخر بسیارے باز آمدند و بر بسیارے قول حضرت سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم ) صادق آمد۔ بر سامعین پوشیدہ نماند کہ من ایں نشان را از روحانیت حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) بدست آوردہ ام۔ و این ہمہ باذن اللہ بر روئے کار آمدہ۔ بعضے از نادان گفتند این چنیں دعویٰ مشابہت با دعویٰ قرآن دارد۔ لہٰذا از حسن ادب
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 114
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 114
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/114/mode/1up
یُضاہی دعوی القرآن، فہو بعید من حسن الأدب و الإیمان۔ وما ہو إلاَّ قول الذین ما عرفوا حقیقۃ الولایۃ، وأعتراہم ظلام العمایۃ والغوایۃ۔
وقد سبق البیان منّا أن الکرامات ظلال باقیۃ للمعجزات، وموجبۃ لزیادۃ البرکات، وتجد السُنّۃ والکتاب مُبیِّنَیْنِ لہذہ المسألۃ، وشاہدیْن علی ہذہ الواقعۃ۔
ولا تجد من یُخالفہا إلَّا غویّا من العامۃ، فإن أبصار العامّۃ لا تبلغ الحقائق ویعمأ علیہم دقائق الشریعۃ، فیحسبون فی کمالات الولایۃ
کسر شأن النبوّۃ، مع أن الأمر
دعویٰ سے مشابہ ہے۔ اس لئے یہ حسنِ ادب اور ایمان سے دور ہے ۔ مگر یہ ان لوگوں کا قول ہے جن کو ولایت کی حقیقت پر اطلاع نہیں اور نا بینائی کا اندھیرا ان کے طاری حال ہو رہا ہے اور ہم پہلے اس سے ذکر کر چکے ہیں کہ کرا مات معجزات کا دا ئمی سایہ ہیں اور برکاتِ نبوت کے زیادہ ہو نے کا موجب ہیں ۔ اور تو سنت اور قرآ ن کو اس مسئلہ کے بیان کرنے والے پائے گا اور اس واقعہ پر گواہ دیکھے گا۔ اور بجز ایک گمراہ اور عاصی آدمی کے اور کوئی شخص اس سے انکا ر نہیں کر سکتا کیونکہ عام لوگوں کی آنکھیں حقیقتوں تک نہیں پہنچتیں اور دقائق شریعت ان پر چھپے رہتے ہیں اس لئے وہ لوگ ولایت کے کمالات میں نبوت کی کسرِشان دیکھتے ہیں باوجودیکہ اہل معرفت
و طریق ایمان دور است۔ اما ایں گفتار نا بلدان کوچۂ معرفت و شبپران تاریک نہاد است۔ قبلًامذکور گردیدہ است کہ کرامات سایہ دائم غیر منفکہ معجزات و موجب از دیاد برکات نبوت بودہ اند۔و سنت و قرآن بیان شافی ایں مسئلہ را می کنند و گواہ عادل ایں واقعہ می باشند۔ و غیر از مرد عاصی و گمراہ ہیچ کس را مجال انکار برآں نہ چہ عوام بہرہ از ادراک حقائق نیافتہ اند و دقائق شریعت براوشاں مستورمی مانند۔ ازینجا است کہ انہادر کمالات ولایت کسر شان نبوت گمان مے برند حال آنکہ اصحاب معرفت و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 115
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 115
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/115/mode/1up
ومن آیاتی الخسوف والکسوف فی رمضان، وقد فصّلت فی رسالتی ’’نور الحق‘‘ ہذا البرہان۔ وکنت لم أزل ینتابنی نصر اللّٰہ الکریم إلی أن ظہرت ہذہ الآیۃ من ذالک المولی الرحیم۔ وکان مکتوبا فی الأحادیث النبویّۃ أن ہذہ للمہدی وظہورہ من الدلائل القطعیۃ، فالحمد للّٰہ الذی أجزل لنا طولہ وأنجز وعدہ وأتم قولہ، وأری آیات السماء ویَسَّرَ للطالبین طرق الاہتداء ، وأظہر سناہ لمن أمّ مسالک ہُداہ، وکشف الأمر لأولی النہی وأرَی الحقَّ لمن یریٰ،
اور تحقیق کے نزدیک اصل امر اس کے بر خلاف ہے ۔
اور میرے نشانوں میں سے وہ خسوف اور کسوف ہے جو رمضان میں ہوا تھا چنانچہ میں اپنے رسالہ نور الحق میں اس کا مفصّل بیان کر چکا ہوں اور مجھے ہمیشہ مسلسل طور پر خدا تعالیٰ کی مدد پہنچتی تھی یہاں تک کہ یہ نشان ظاہر ہوا ۔ اور احادیث نبویہ میں لکھا ہو اتھا کہ یہ نشا ن مہدی اور اس کے ظہور کے لئے قطعی دلائل میں سے ہے ۔ پس خدا تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اپنی بخشش کو ہم پر کمال تک پہنچایا اور اپنے وعدہ کو پورا کیا اور اپنے نشان دکھلائے اور طالبوں کے لئے ہدا یت پانے کی راہ کھول دی اور اپنی روشنی کو راہ چلنے والوں کے لئے ظاہر کیا اور عقلمندوں کے لئے حقیقت امر کو کھولا اور دیکھنے والوں کو حق دکھلایا۔
اہل تحقیق اصل امر را بر خلاف آں می بینند ۔
و از جملہ نشانہائے من خسوف و کسوف است کہ در شہر رمضان واقع شد۔و در رسالہ نور الحق مفصلًا ازاں ذکر کردیم۔ و متّصلًا مرا از پرور دگار یاری می رسیدہ است تا اینکہ ایں نشان از خدا بظہور آمد۔ و در احادیث آمدہ کہ ایں نشان از دلائل قطعیہ ظہور مہدی و۔۔۔۔ وجود او باشد۔ خدا را شکر است کہ نعمتہائے خود را بر ما با تما م وا کمال رسانید۔ و وعدہ را ایفا و نشان ہارا ظاہر کرد و راہ جو یان را طریق ہدایت باز فرمود و قاصدان راہ خود را چرا غے فراراہ بد اشت و جہت خرد مند ان پردہ از روئے کار بکشود و بینندہ ہارا
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 116
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 116
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/116/mode/1up
وجرّد آیہ کالعضب الجراز لیُفحم کل من نہض للبراز ولیتم حجتہ علی المنکرین۔ فإن ظن ظانّ أن ظہوری عند سطوۃ النصرانیۃ، وعند سیل الصلیب، وعلی رأس الماءۃ، لیس بدلیل قاطع علی أنّنی من الحضرۃ، وکذالک إن زعم زاعم أن إملا ئی فی اللسان العربیۃ وما حوت معرفتی من اللطائف الأدبیۃ، وکلّ ما أُرضعت ثدی الأدب فی ہذہ اللّہجۃ، لیس بثابت أنہا من آی اللّٰہ ذی الجلال والعزّۃ، بل یجوز أن یکون ثمرۃ المساعی المستورۃ المستترۃ، وأن الأرض لا تخلو من کید الکائدین
اور پنے نشانوں کو شمشیر تیز کی طرح ننگا کیا تا ہر ایک شخص جو مقابلہ کیلئے کھڑا ہو اس کو لا جواب کرے اور منکروں پر اپنی حجت پوری کرے ۔ اور اگر کوئی یہ گمان کرے کہ غلبہ نصرانیت کے وقت میں میرا ظاہر ہو نا اور صلیب کی طغیانی کے وقت میں اور نیز صدی کے سر پر میرا آنا اس بات پر قطعی دلیل نہیں کہ میں جناب الٰہی کی طرف سے ہوں اور اسی طرح اگر کوئی یہ گمان کرے کہ میرا عربی کتابوں کا لکھنا اور لطائف ادبیہ کا بیان کرنا یہ خدا کا نشان نہیں ہو سکتا اور جائز ہے کہ یہ اپنی پوشیدہ کوششوں کا ثمرہ ہو ۔ سو ایسا ظن کرنے والا خسوف و کسوف میں کیا گمان کرے گا۔ کیا یہ بھی انسانی مکر ہے یا خدا تعالیٰ
راستی وانمود و نشانہائے خود را چوں شمشیر تیز برہنہ کرد تا ہرکہ پادر مقابلہ اش بیفشرد زبانش را از کار بیند ازو و بر منکرین اتمام حجت بنماید۔ اگر کسے گمان کند کہ ظہور من در ہنگام استیلائے صلیب و غلبہ نصرانیت و ہم بروز من بر رأس صد دلیل قطعی بجہت آں نیست کہ من از قبل خداوند تعالیٰ شانہ می باشم و ہم چنیں اگر کسے بر زبان آرد کہ تالیف کتب عربیہ و بیان لطائف ادبیہ کہ از دست من سر انجام پذیر فتہ نشانے ازطرف خدا نمی باشد بلکہ احتمال دارد کہ ایں ہمہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 117
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 117
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/117/mode/1up
خلافہ عند أہل التحقیق والمعرفۃ
فما رأی ہذا الظان العسوف فی آیۃ الخسوف والکسوف۔ أتلک کید الإنسان أو شہادۃ من اللّٰہ الولیّ الرؤوف۔ وأما تفصیل ہذہ الآیۃ کما ورد فی کتب الحدیث من آل خیر المرسلین۔ فاعلموا یا حزب المؤمنین المتقین أن الدارقطنی قد روی عن محمد الباقر من* بن زین العابدین، وہو من بیت التطہیر والعصمۃ ومن قوم مطہّرین، قال قال رضی اللّٰہ عنہ وہو من الأمناء الصادقین انّ لمہدینا آیتین لم تکونا منذ خلق السماوات والأرضون، ینکسف القمر لأول لیلۃ من رمضان۔ یعنی فی أول لیلۃ من لیالی خسوفہ ولا یُجاوز ذالک
کی طرف سے ایک گواہی ہے ۔
مگر اس نشان کی تفصیل جیسا کہ کتب حدیث میں آلِ خیر المرسلین سے مذکور ہے ۔ یہ ہے کہ دار قطنی نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ
ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں کہ جب سے کہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے کبھی ظہور میں نہیں آئے یعنی یہ کہ قمرکی پہلی رات میں اس کی تین راتوں میں سے جو خسوف کیلئے مقرر ہیں خسوف ہو گا ۔ اور
ثمرہ مساعی مخفیہ بودہ باشد۔ در پاسخ این بد گمان مشکک می گوئیم کہ دربارۂ خسوف و کسوف چہ گمان می داری۔ آیا آں ہم از تدابیر مخفیۂ انسانی است یا از قبل خدا گواہ آسمانی۔ اماتفصیل این نشان از روئے کتب احادیث آنکہ دار قطنی از امام محمد باقر رضی اللہ عنہ روایت کند کہ برائے مہدئ ما دو نشان است کہ از آغاز آفرینش زمین و زمان ہرگز پدیدار نشدہ و آن این ست کہ قمر در شب اول از شب ہائے خسوف او کہ سہ شب می باشند منخسف گردد۔ و ایں خسوف در رمضان واقع بشود و آفتاب در روز وسط
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 118
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 118
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/118/mode/1up
الاوان، ویقع فی الشہر الذی أنزل اللّٰہ فیہ القرآن، وتنکسف الشمس فی النصف منہ۔ یعنی فی نصف من أیام کسوفہا المعلومۃ عند أہل العرفان، فی ذالک الشہر المُزان۔ وأخرج مثلہ البیہقی وغیرہ من المحدثین۔ وقال صاحب الرسالۃ الحشریۃ، وہو فی ہذہ الدیار من مشاہیر علماء ہذہ الملّۃ، أن القمر والشمس ینکسفان فی رمضان، وإذا انکسفا فیعرف المہدی بعدہ أہل مکۃ بفراسۃ یزید العرفان۔ وفی روایات أخری من بعض الصلحاء أن المہدی لا یُعرفُ إلَّا بعد آیات کثیرۃ تنزل من السماء ، وأما فی أوّل الأمر
سورج کے تین دنوں میں سے جو اس کے کسوف کے لئے مقرر ہیں ۔ بیچ کے دن میں کسوف ہو گا ۔ اور یہ بھی اسی رمضان میں ہو گا ۔
ایسا ؔ ہی بیہقی اور دوسرے محدثوں نے لکھا ہے اور صاحب رسالہ حشریہ نے بھی یہ بیان کیا ہے کہ یہ کسوف خسوف رمضان میں ہو گا اور اس کے بعد مہدی مکہ میں شناخت کیا جائے گا اور بعض صالحین سے ایک یہ بھی روایت ہے کہ مہدی اس وقت پہچانا جا ئے گا کہ جب بہت سے نشان آسمان سے ظاہر ہوں گے ۔
مگر اوائل امر میں اُس کی تکفیر اور
از روز ہائے کسوف او کہ سہ روز اند تیرہ گردد واین ہم در رمضانؔ اتفاق افتد۔ و ہم چنیں بیہقی و محدثین دیگر آوردہ اند وصاحب رسالہ حشریہ کہ از مشاہیر علمائے ایں دیار است گوید این خسوف و کسوف در رمضان بشود و بعد ازاں اہل مکہ مہدی را خواہند شناخت۔ و بعضے از صلحا بر آنند کہ مہدی بعد از ظہور کثرت نشانہا از آسمان شناختہ شود۔ ولے اولًا چارۂ ازایں نہ کہ نسبت بہ وے فتوی تکفیر د ہند و دجل و تلبیس بہ او منسوب کردہ شود و دربارۂ او آں ہمہ گفتہ شود آنچہ کفّار پیشیں نسبت بہ انبیاء گفتہ اند
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 119
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 119
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/119/mode/1up
والابتداء ، فیُکَفَّر ویُکذّب ویُعزی إلی الدجل والتلبیس والافتراء ، وتُکتب علیہ فتاوی الکفر والخروج من الشریعۃ الغرّاء ، ویُقال فیہ کل ما قال الکافرون فی الأنبیاء۔ثم توضع لہ القبولیۃ فی الأرض من حضرۃ الکبریاء فلا یوجد اثنان من المؤمنین إلَّا ویذکرونہ بالمدح والثناء۔ ثم اعلم أن آیۃ الخسوف والکسوف قد ذکرہا القرآن فی أنباء قرب القیامۃ، وإن شئت فاقرأ ہذہ الآیۃ وکررہا لإدراک ہذہ الحقیقۃ 3333 33 ۱؂ ثم تدبّر بالخشوع والخشیۃ، ولا یذہب فکرک إلی أنہ من وقائع القیامۃ،
تکذیب ہو گی ۔ اور دجل اور تلبیس اور افترا کی طرف منسوب کیا جائے گا اور اس پر کفر اور مرتد ہونے کے فتوے لکھے جائیں گے اور وہ سب کچھ اس کے حق میں کہا جائے گا جو کافروں نے نبیوں کے حق میں کہا ۔پھر اس کی قبولیت زمین پر پھیلائی جائے گی ۔ پس مومنوں میں سے دو آدمی ایسے نہ پائے جائیں گے کہ اس کو مدح اور ثنا کے ساتھ یا د نہ کرتے ہوں اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ قرآ ن شریف نے کسوف خسوف کے نشان کو قرب قیامت کے نشانوں میں سے لکھا ہے اور اگر تو چاہے تو اس آیت کو پڑھ کہ 333 3 3 333 اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ نشان قیامت کے واقعات میں سے ہے کیونکہ جس خسوف اور کسوف کا اس جگہ ذکر
و بعد زان برائے وے قبولیت در زمین نہاد ہ شود حتی کہ دو تن اگر در جائے فراہم آیند مدح و ثنائے او بر زبان بر انند ۔
مخفی نماند کہ قرآن کریم خسوف و کسوف را از نشانہائے قرب قیامت قرار دادہ چنانچہ گوید 3 3 33 و معنی اش آں نہ کہ ایں نشان از واقعات قیامت بودہ است زیرا کہ خسوف و کسوف کہ ایں جا مذکور است بستہ بہ وجود ایں عالم است۔ چہ آں ناشی از
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 120
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 120
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/120/mode/1up
وإیّاک وہذہ الخطأ الذی یُبعدک من المحجۃ۔ فإن الخسوف الذی ذُکر ہہنا ھُوَ موقوف علی وجود ہذہ النشأۃ الدنیویۃ، فإنہ ینشأ من أشکال نظامیۃ، وأوضاع مقررۃ منتظمۃ ویکون فی الأوقات المعینۃ والأیام المعلومۃ المشتہرۃ۔ ولا بد فیہ من رجوع النیرین إلی ہیئتہما السابقۃ بعد خروجہما من ہذہ الحالۃ۔ وأما الآیات التی تظہر عند وقوع واقعۃ الساعۃ فہی تقتضی فساد ہذا الکون بالکلیۃ،
فإنہا حالات لا تبقی الدنیا
بعدہا ولا أہل ہذہ الدار الدنیۃ
ہے وہ اس دنیوی پیدائش پر موقوف ہے ۔ وجہ یہ کہ خسوف کسوف اوضاع مقررہ منتظمہ سے پیدا ہو تا ہے اور اوقات معیّنہ اور ایّام معلومہ میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور خسوف کسوف میں یہ امر ضروری ہے کہ آفتاب اور قمر بعد اس کے کہ اس حالت سے باہر آویں اپنی پہلی حالت کی طرف رجوع کریں مگر وہ نشان جو قیامت کے قائم ہو نے کے وقت ظہور میں آئیں گے وہ اس وقت ظاہر ہوں گے جبکہ دنیا کا سلسلہ بکلّی درہم برہم ہو جائے گا کیونکہ وہ ایسی حالتیں ہیں کہ ان کے بعد دنیا نہیں رہے گی اور نہ اہل دنیا رہیں گے
اوضاع مقررۂ منتظمہ و در ایام معینہ و اوقات معلومہ ظہورش می باشد۔ و نیز درآں ضروری است کہ آفتاب و ماہتاب بعد از خروج ازاں تیرگی رجوع بحالت سابقہ خود نمایند۔ اماآن نشانہا کہ قرب قیامت پد یدار گردند آں وقتے باشد کہ ایں نظام سلسلہ عالم بالمرّہ از ہم بپاشد زیرا کہ از پس آں حالت ہا دنیا و اہل دنیا را نشانے و اثرے نخواہد بود۔ و خسوف
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 121
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 121
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/121/mode/1up
والخسوف والکسوف یتعلقان بنظام ہذہ النشأۃ، ویوجدان فیہ من بدو الفطرۃ، فثبت أن الخسوف الذی ذکرہ القرآن فی صحفہ المطہرۃ ہو من الآثار المتقدمۃ علی القیامۃ، ولقیام القیامۃ کالعلامۃ۔وإنی کتبت ہذہ المباحث مفصلۃ فی رسالتی نور الحق التی ألّفتہا فی العربیۃ، وأودعتہا عجائب آیۃ الخسوف والکسوف إتمامًا للحجۃ۔ وکنت کتبت فی تلک الرسالۃ التی ألّفتہا لبیان آیۃ الخسوف والکسوف أنی عُلّمتُ من ربّی الرحیم الرؤوف أن العذاب یحلّ علی قوم لا یتوبون بعد ہذہ الآیۃ،
اور کسوف خسوف اس دنیا کے نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور ابتدا سے اس میں بنائے گئے ہیں پس ثابت ہو اکہ وہ کسوف خسوف جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے وہ قیامت کے لئے آثار متقدمہ ہیں نہ یہ کہ قیامت کے قائم ہو جانے کی علامتیں ہیں اور میں نے ان بحثوں کو اپنے رسالہ نور الحق میں مفصّل طور پر لکھ دیا ہے اور اس رسالہ میں اس نشان کے متعلق کئی عجائبات ہیں جو میں نے اتمام حجت کی غرض سے اس میں درج کر دئیے ہیں اور میں نے رسالہ نو ر الحق میں یہ لکھا تھا کہ ان لوگوں پر عذاب نازل ہو گا کہ جو کسوف خسوف کا نشان دیکھنے کے بعد توبہ نہیں کریں گے۔
و کسوف تعلق بہ نظام ایں عالم دارد و از بدو آفرینش موجود است۔ از ایں آشکار شد کہ خسوف و کسوف کہ در قرآن مذکور است از آثار متقدمہ قیامت است نہ علامہ قیامِ قیامت۔ رسالۂ نور الحق متکفل تفصیل ایں مضمون و عجائبے دیگر ہم از باب ایں نشان درآن مذکور است کہ جہت اتمام حجت ترقیم شدہ۔
و ہم در رسالہ نور الحق نوشتہ بودم کہ عقاب خداوندی بر سر آں مردم
فرود آید کہ بعد از نشان خسوف و کسوف توبہ نکنند و دین را بر دنیا
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 122
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 122
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/122/mode/1up
ولا یُقدمون الدین علی الدنیا الدنیّۃ۔ وکذالک سُلّط الطاعون بعدہا علی أکثر غافلی ہذہ الدّیار، وأُحرق أُلوف من الناس بتلک النار، وأرسل علی کل غافل شواظ منہا، فماتوا بجمرہا وأُخرجوا من القریٰ والأمصار۔ وما انطفأ إلی ہذا الوقت ہذا الضرام، ویرعد علی الرؤوس الحمام، ونری الأمر کما تواتر فیہ
الإلہام۔ إن فی ذالک لآیۃ لقوم متقین.وکذالک کنت کتبت فی تلک الرسالۃ أن اللّٰہ سینصر أہل الحق بعد ہذہ الآیۃ، فیزید جماعتہم ویتقوی أمرہم من
اور دین کو دنیا پر مقدم نہیں کر لیں گے ۔ سو ایسا ہی ہوا کہ خسوف کسوف کے بعد اس ملک کے اکثر غافلوں پر طاعون بھیجی گئی اور ہزاروں انسان اس وبا سے مر گئے اور ہر ایک غافل پر ایک چنگاری پڑی جس سے وہ مرے اور دیہا ت اور شہروں سے نکالے گئے اور یہ آگ اب تک ٹھنڈی نہیں ہوئی اور موت سروں پر نعرے مار رہی ہے جیسا کہ اس بارے میں متواتر الہام سے پہلے ہی سے معلوم ہو ا تھا اور اس میں پرہیزگاروں کے لئے نشان ہیں ۔ اور ایسا ہی میں نے اس رسالہ میں لکھا تھا کہ خدا تعالیٰ اس نشان کے بعد اہل حق کو مدد دے گا ۔ پس ان کی جماعت زیادہ ہو جائے گی اور ان کا کام قوت
بر نگز ینند۔ آخر بر حسب وعید خدا وندی طاعون بر سر اکثر ے از غافلان این دیار وارد آمد و ہزار ان نفس طعمۂ این و بائے عالم سوز گردید ند و بسیارے از خفتگان را از آں اخگر خرمن جان پاک بسوخت۔ و از دہ ہاو قریہ ہا اخراج شدند و ہنوز ایں آتش سرد نشدہ و شیر مرگ ہنوز از غریدن باز نہ ایستادہ۔ چنانچہ الہامات متواترہ دریں معنی خبر دادہ بودند و دریں وا قعات برائے تر سند گان نشانے وا ضح است۔
وہم چنیں در آں ایمائے رفتہ بود کہ بعد ازاں نشان اہل حق را نصرت و تائید از خدا برسدوجماعت ما را افزونی دست بہم دہد۔و کارِ ایشاں
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 123
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 123
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/123/mode/1up
عنایات الحضرۃ، واللّٰہ ینزل آیاتہ ویشیع فی الناس دقائق المعرفۃ۔ فصدّق اللّٰہ ہذہ الأنباء کلہا بالفضل والرحمۃ، وأَرَی الآیات ونصر بالتأییدات لقطع الخصومۃ۔ وزاد جماعتی کما وعد وجعلہا لبیضۃ الإسلام کر!کن شدید والاسطوانۃ، وإنّا سنذکر بعضہا إظہارًا لہذہ الموہبۃ، فالحمد للّٰہ علی ہذہ الْمِنَّۃ، وإن فی ذالک لآیات لقوم متفرّسین.
ومن نوادر آیاتی التی ظہرت بعد وعد اللّٰہ فی آیۃ الکسوف والخسوف، وانتجعت فی ألوف من القلوب بإذن اللّٰہ الرؤوف، ہو واقعۃ ہلاک رجل
پکڑ جائے گا اور خدا تعالیٰ نشانوں کو ظاہر کرے گا اور معرفت کو لوگوں میں پھیلائے گا۔ پس خدا تعالیٰ نے ان تمام پیشگوئیوں کو اپنے فضل اور کرم سے پورا کیا اور نشان دکھلائے اور قطعؔ خصومت کے لئے تائید کی اور وعدہ کے موافق میری جماعت کو زیادہ کیا۔ چنانچہ ہم بعض نشانوں کا اس جگہ ذکر کرتے ہیں اور اس احسان پر خدا تعالیٰ کا شکر ہے اور اس میں فراست والوں کے لئے نشان ہیں۔
اور عجیب تر نشانوں میں سے جو خسوف کسوف کے بعد ظہور میں آیا جس نے دلوں پر بڑا اثر ڈالا وہ لیکھرام کی موت کا نشان ہے
قوت گیرد و خدا تعالیٰ نشانہاپدیدار نماید و قوۂ معرفت بمردم ارزانی دارد۔ پس خدا را شکر کہ ہمۂ این اخبار بالغیب کماہی ہی بو قوع آمدہ۔ و قطع خصومت اعدا کردہ و جہت تائید حق نصرتہا از خدا ظہور فرمودہ و بروفق وعدۂ الہٰی جماعت من افز ونی یافتہ اکنوں برائے شکر ایں نعمت بعضے از نشانہا را در معرض بیان می آریم۔ و ایں برائے اہل فراست نشانِ عظیم است۔
و ازؔ جملہ نشانہائے بزرگ کہ بعد از خسوف و کسوف بروز یافتہ و در دلہا جا کردہ نشان
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 124
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 124
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/124/mode/1up
کان اسمہ لیکہرام، وکان من قوم عبدۃ الأصنام، وکان شدید الحقد یعترض علی الإسلام، ویسبّ نبینا خیر الأنام علیہ ألف ألف سلام۔ وتفصیل ہذہ القصۃ أنہ سمع من بعض الإخوۃ أن رجلا فی القادیان یدّعی الإلہام والکرامات، ویقول إن الإسلام ہو الدین عند اللّٰہ ربّ السماوات، ومن خالفہٗ فہو من المبطلین۔ فمازال یُعجبہ ہذا الخبر حتی قصد القادیان ذات مرۃ وہو یومئذ ابن ثلا ثین سنۃ، أو قلیل منہ
کما علمنا من وجہہ فراسۃ۔ فجاء نی وسأل عن الآیات، وأظہر أنہ لایبرح الأرض أو یری بعض خرق العادات
اور یہ شخص بڑا کینہ ور تھا اور اسلام پر اعتراض کیا کرتا تھا اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا ۔ اس نبی پر خدا تعالیٰ کے ہزاروں سلام ہوں اور اس قصہ کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے بعض اپنے بھائیوں سے سنا کہ ایک آدمی قادیان میں ہے جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور نیز کرامات کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ سچا دین اسلام ہی ہے اور جو اس کا مخالف ہے وہ باطل پر ہے۔ سو وہ اس خبر سے ہمیشہ تعجب کرتاتھا یہاں تک کہ ایک
مرتبہ اس نے قادیان آنے کا ارادہ کیا اور وہ ان دنوں میں تیس برس کی عمر میں تھا یا کچھ کم جیسا کہ اس کے مُنہ کے دیکھنے سے ہمیں اندازاً معلوم ہو ا ۔سو وہ میرے پا س آیا اور نشانوں کے بارے میں مجھ سے سوا ل کیا اور ظاہر کیا کہ وہ کبھی قادیان سے نہیں جائے گا
مرگِ لیکھرام است۔ ایں شخصے بود کینہ توز بر اسلام حملہ ہامی کرد و نبی کریم مارا دشنام مے داد و ناگفتنیہامے گفت۔ تفصیل ایں مقال آنکہ آن عدو اسلام از ابنائے جنس خود بشنید کہ شخصے در قادیان است کہ دعویٰ الہام و اظہار خرق عادات می دارد۔ ومی گوید کہ دین حق اسلام است و ماسوا باطل۔ او از شنیدن این قصہ در شگفت می بود تا عزم آمدن در قادیان را تصمیم بداد و دران زمان جوان سی سالہ بود یا بقدر بیش و کم بر وفق آنچہ آں وقت از روئے اوہو یدا بود۔
خلاصہ آں برہمن در نزد من آمد و نشانے درخواست ۔۔۔ و گفت تا نشانے نہ بینم زنہار از
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 125
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 125
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/125/mode/1up
أو یأخذ منی إقرار العجز عند ھذہ السؤالات۔ وأصرّ علی أن یؤانس آی اللّٰہ أمام ارتحالہ، وکان جہولا غیر متأدّبٍ فی مقالہ۔ فطفق یبلطنی لرؤیۃ الآیۃ، ویخجأنی من العمایۃ، فإنہ کان جسدا لہ خوار، وما أعطی لہ روح فراسۃ ولا افتکار۔ وکان احتکاء فی جنانہ أن ہذا الرجل کاذب فی بیانہ، وکذالک انتقش فی قلبہ من خدع أعوانہ، وحمئت بہم بئر عرفانہ۔ ووافانی ذات المرار، فألحّ علیَّ وأبلط بکمال الإصرار، ونظر إلیَّ شزرًا بالاستکبار، وقال إنی لن أفارق
جب تک کہ بعض نشان نہ دیکھے اور یا جب تک کہ مجھ سے اقرار عجز نہ لے لیوے او راس نے اصرار کیا کہ اپنے جانے سے پہلے نشان دیکھے ۔ اور وہ ایک جاہل بے ادب تھا ۔ پس اس نے مجھے نشان کے لئے دِق کرنا شروع کیا اور نابینائی کی وجہ سے اصرار کرتا تھا کیونکہ وہ جسم بے جان تھا جس کو عقل کی روح نہیں دی گئی تھی اور اس کے دل میں یہ بیٹھ گیا تھا کہ یہ شخص اپنے بیان میں جھوٹا ہے اور یہ باتیں اس کے ہم صحبتوں نے اس کے دل میں بٹھائی تھیں جن سے اُس کی
شناخت کا کنواں مکدر ہو گیا تھا اور وہ ایک دن میرے پاس آیا اور نشان کے دیکھنے کے لئے بڑا اصرارکیا اور میری طرف تکبر
قا دیان بیروں نخواہم شد یا داغ اعتراف بعجز بر ناصیۂ شما خواہم گزاشت۔ و بر ایں اصرارو ر زید کہ لا بداست کہ قبل از رفتن از ایں جا نشانے مشاہدہ نماید۔ وآں شخصے بود از حلیہ ادب ۔۔۔ عاری۔ و از نہایت شوخی و خیرگی دست استبداد بد امن من زد۔ چہ او حقیقۃ کا لبدبے روان بود کہ رُوح خرد دروے ند میدہ بودند و گمان وے آں بود کہ من تار و پود دروغ بر بافتہ استم ۔و ایں اعتقاد نسبت بہ من بعضے از ہم مشر بانش خاطر نشاں کردند۔ لہٰذا چشمہ شناخت وے مکدر گردید۔ خلاصہ عادتا روزے پیش من آمد و جہت ر ویت نشانے اصرار از حد بگذر انید و در من باد یدۂ استکبار و استحقار
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 126
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 126
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/126/mode/1up
ہذہ القریۃ إلَّا وتُرینی الآیۃ أو تقر بکذبک وبما اخترت الفریۃ۔ وساء الحضار ما اختار من غلظ وشدّۃ، فبرّدتہم بوصیۃ صبر وتؤدۃ، وکانوا من الذین أخذوا مربعی منتجعہم، وداری محضرہم، وحسبوا إلہامی مرتعہم ومخبرہم۔ ثم قلت لہ یا ہذا إن الآیۃ لیست کشیء ملقاۃ تحت الأقدام لألقطہ لک وأعطیک کالخادم بالإکرام، بل الآیات عند اللّٰہ یُری إذا ما شاء ، ولا ینفع الوثب کثور الوحش فإیاک والمراء ، والصبر حقیق لمن طلب آی اللّٰہ وجاء یستقری الضیاء
سے دیکھا اور کہا کہ میں اس گاؤں سے کبھی
نہیں جا ؤں گا جب تک کہ تم نشان نہ دکھلاؤ اور یا اپنے جھوٹ کا اقرار نہ کرو اور حاضرین کو اُس کی سخت زبانی بُری معلوم ہوئی ۔پس میں نے ان کو صبر کی وصیت کے ساتھ ٹھنڈا کیا ۔ پھر میں نے اس کو کہا کہ اے شخص! نشان ایسی چیزتو نہیں جو
قدموں کے نیچے پڑی ہو اور فی ا لفور دکھلا دی جائے ۔ بلکہ نشان خدا کے پاس ہیں جب چاہتا ہے دکھاتا ہے ۔ اور گاؤد شتی کی طرح کودنا مناسب نہیں ۔ پس لڑائی سے پرہیز کر ۔ اور جو شخص نشانوں کو ڈھو نڈتا ہے اس کے لئے صبر کرنا بہتر ہے کیونکہ
نگر یست۔ و گفت ابداً ازین دہ نروم تا نشانے از شما نہ بینم یا شما سپر عجز بیفگنید۔ حاضران از گفتار تلخ و در شتش بر نجیدند۔ من از پند صبر آب بر آتش ایشان زدم و بآخر اورا گفتم اے فلان نشان چیزے نیست کہ پیش پا افتادہ باشد یا حقہ مشعبد نہ کہ دران اعجوبہ نمودہ شود بلکہ نشانہانزد خداست وقتے کہ می خواہد نشان مے دہد۔ و چوں گاؤ دشتی تپیدن روا نیست۔ از ستیز و آویز پرہیز کن۔ ہر کہ طالب نشان باشد او را صبر لازم است۔ چہ نشان از طرف خدا نازل مے گردد و
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 127
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 127
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/127/mode/1up
فإنہ أمر ینزل من حضرۃ العزّۃ ویحتاج ظھورہ إلی تضرّعات العبودیۃ۔ فاحبس نفسک عندنا إلی حَوْل۔ وہذا خیر لک من سبّ وصَوْل۔ لعل اللّٰہ یُریک آیۃ ویہب یقیناًوسکینۃ و کذالک نرجو من اللّٰہ المنّان، فاصبر معنا إلی ہذا الآوان إن کنت من الطالبین۔فما نجعت نصیحتی فی جنانہ، وما انتہی من ہذرہ وہذیانہ فقلت أیہا الرجل إن کنتَ لا تصبر وتعزم علی الرحیل، ولا تختار ما أریناک من السبیل، فلک أن تذہب وتنتظر الإلہام، فذہب مغاضبًا وترک
نشان ایک ایسی چیز ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں اور ان کا ظاہر ہونا تضرعات عبودیت پر موقوف ہے ۔ پس ایک برس تک میرے پاس توقف کر اور یہ تیرے لئے بہتر ہے تاکہ خدا تعالیٰ تجھے نشان دکھائے اور یقین اور سکینت بخشے اور اسی طرح ہم خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں۔ پس اگر تو طالب ہے تو اس وقت تک صبر کر ۔مگر میری نصیحت نے اس کے دل میں اثر نہ کیا اور بیہودہ گوئی سے باز نہ آیا ۔ تب میں نے کہا کہ اے شخص ! اگر تو صبر نہیں کر سکتا اور جانے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے اور ہماری تجویز کو پسند نہیں کرتا تو تیرا اختیار ہے کہؔ تو چلا جا اور ہمارے الہام کی انتظار کرتا رہ ۔ تب وہ غصہ کی حالت میں چلا گیا
ظہورآں موقوف بر تضرعاتِ عبودیت مے باشد۔ لہٰذا باید کہ یک سال تمام نزد من مکث بکنی کہ خدا ترا نشانے بنماید و سکینت و طمانیت بر تو فرود آید۔ہم چنین از خدا وند امید داریم کہ اگر طالب صادق استی تا آن زمان شکیبائی بگزیں مگر اندرزمن در وے نگرفت و ہر زہ گفتن آغاز کرد نا چار گفتم کہ اگر نمے توانی کہ بہ شکیبی و آمادہ بر رفتن استی و تجویز مرا قبول نکنی اختیار داری برو و الہام مرا منتظر باش و چشم در راہ بنشین۔ آخر او خشم آگین از پیش من برخاستؔ ۔ و ازاں بعد
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 128
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 128
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/128/mode/1up
الکلام۔ثم جعل یذکرنی فی محافل بتوہین وتحقیر، وأراد أن یجز أمری ویُریہ قومَہ کشیء حقیر ومتاع کقطمیر۔ فاستعمل الأکاذیب لتکمیل ہذہ الإرادۃ، واشتری الشقاوۃ وبعُد من السعادۃ۔ وکم من مفتریات افتری، وکم من بہتان أشاعہ
من حقد وہوی۔ وصار شغلہ
سبّ نبینا المصطفٰی، وتکذیب
کتابنا الذی ہو عین الہدیٰ۔
وکم من کُتُبٍ أطال المقول فیہا وہذیٰ، وطفق یہتک أعراض العلیّۃ وبدور العُلٰی، ونُخَب حضرۃ العزّۃ وأحبّۃ ربنا الأعلٰی، وما خشی
بعد اس کے کوئی کلام نہ کی ۔ پھر اس نے یہ کام شروع کیا کہ ہر ایک محفل میں مجھے تحقیر اور تو ہین سے یاد کرتا اور یہ دل میں ٹھانا کہ میرے کاروبار کو پراگندہ کرے اور قوم کی نظر میں مجھے ایک ذلیل انسان کی طرح دکھلاوے ۔سو اُس نے اِس ارادے کے پورا کرنے کے لئے جھوٹ اور افترا پر کمر باندھی اور بد بختی کو خریدا اور سعادت سے دور جا پڑا اور بہت سے افترا بنائے اور بہت سے بہتان گانٹھے اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیا اور قرآن شریف کی تکذیب کرنا اپنا پیشہ قرار دیا اور اپنی کتابوں میں
اس نے زبان درازی شروع کی اور بزرگوں اور آسمانی چاندوں کی ہتکِ عزّت اُس کا شیوہ ہو گئی اور خدا تعالیٰ کے پیاروں کو بُرا کہنا اس نے اپنا طریق بنا لیا ۔ مگر خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس کی
گفتگوئے درمیان نیاورد۔ بعد چندے ایں و تیرہ پیش گرفت کہ ہر جامے رفت در تذلیل و تحقیر من میکو شیدو ببدی یاد میکرد و بر اں شد کہ کاروبار مرا برہم زند و در دیدۂ مردم مرا ہیچکار ہ وا نماید۔ و جہت حصول ایں کام کمر بر افترا ہا و دروغ با فیہا بر بست و نبئ کریم مارا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سقط گفتن و دشنام دادن و اہانت و تکذیب قرآن حکیم پیشہ گرفت۔ و بر گزیدگان خدا و نجوم سما را در کتب خود نا سزا می گفت۔ خلاصہ ایں گونہ ناہنجاریہا وبے اندامی ہا شعار خود کرد۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 129
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 129
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/129/mode/1up
نکال الآخرۃ والأولی۔ وہاجتہ الحمیۃ والنفس الأبیّۃ علی قذف رسولنا خیر الوریٰ، فکان لا یخلو وقتہ من سبّ سیدنا المجتبٰی، وکان فی الشتم کسیل ہامر وماء غامر أو أشد فی الطغویٰ۔ وکانت ہذہ العذرۃ کل حین فی شفتیہ، وجنون الغیظ فی عینیہ، وما خاف وما انتہیٰ۔ فالحاصل أنہ کان یرید أن یُحقّر الإسلام فی أعین الناس وعامۃ الوریٰ، ویشیع بینہم تعلیم الخناس ویصرف عن الہدیٰ۔ وکان اللّٰہ یرید أن یجفأ قدرہ ویُری الناس قذرہ، ویُری الرّائین
آیتہ الکبریٰ۔ فلما تجلّی ربنا للمیقات، وجاء وقت الآیات، کتب إلیَّ علی عزم السخریۃ والاستہزاء، وقال أین آیتک ووعدک۔ ألم تظہر حقیقۃ الافتراء؟ وغلّظ علیَّ
ہانڈی کو پھوڑے اور اس کی پلیدی لوگوں پر ظاہر کرے اور ایک بڑا نشان دکھاوے
پس جبکہ خدا تعالیٰ کے وعدے اور نشان کا وقت قریب آیا تو اس شخص نے ٹھٹھے سے میری طرف ایک خط لکھا کہ تمہارے نشان کہاں گئے اور کیا اب تک تمہارا افترا ظاہر نہ ہوا اور
اما خدا خواست کہ طبلش ا ززیر گلیم برون آید و طشتش از بام بہ زیر افتد۔ و نجاستش را بر مردم اظہار دہد و نشانے وا نماید۔ چوں آں وقت وعدۂ خدا و نشان فراز آمد آں ہندو مرا خطے نوشت پُراز
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 130
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 130
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/130/mode/1up
کما ہی عادۃ السفہاء، وأخذنی بالعنف کالغرماء، وجرّأہ مشر!کو ہذہ القریۃ علی مطالبۃ الآیۃ، وکانوا یعللونہ بالقصص الباطلۃ لیزول منہ الرعب ویأخذہ نوم الغفلۃ۔ وکانوا ینفخون فی آذانہ أن ہذا الرجل کاذب مکّار، فلا یأخذک رعبہ ولا اسبطرار۔ فواللّٰہ ما أہراق دمہ إلا ہذہ الکذابون، فإنہم أغروہ علیَّ وکانوا یحلفون، وما أحسنوا إلیہ بزورہم بل کانوا یسیؤن۔ فقسٰی قلبہ بکلماتہم، وآمن بمفتریاتہم، وتلطّخ برجس الشیاطین، و
جیسا کہ کمینوں کی عادت ہوتی ہے اپنی تحریرمیں بہت کچھ سختی کی اور مجھے اپنا مدیون قرار دے کر ملامت شروع کی اور اس گاؤں کے ہندوؤ ں نے اس کو نشانوں کے طلب کے لئے دلیر کیا اور باطل کہانیاں پیش کر کے اس کا ڈھارس باندھا تاکہ اس رعب کو دور کریں جو اس پر پڑا ہوا تھا اور یہ قادیان کے لوگ اس کے کانوں میں پھونکتے رہے کہ یہ شخص تو جھوٹا اور مکّار ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ تو اس کے رعب کے نیچے آ جائے۔ اور مجھے خدا کی قسم ہے کہ اُس کے قتل کرنے والے یہی قادیان
کے لوگ ہیں کیونکہ ان لوگوں نے ہی میری دشمنی اور مقابلہ کے لئے اس کو دلیر کیا اور قسمیں کھا کھا کر اس کو تسلی دی ۔ مگر ان لوگوں نے ان باتوں کے ساتھ اُس سے نیکی نہیں کی بلکہ بدی کی ۔آخر نتیجہ یہ ہو اکہ ان لوگوں کی بہت سی باتیں سننے سے اس کا دل سخت ہو گیا اور وہ ان کے افتراؤں کو مان گیا اور ان کی پلیدی سے آلودہ ہو گیا
استہزا کہ نشانہائے شما چہ شدو آیا ہنوز پردہ از روئے دروغ و زور شما بر نخاستہ۔ و چوں پست نثراداں دراں نامہ دقیقہ ء از سفاہت و یا وہ گوئی فرو نگذاشت۔ و مرا مد یون خود قرار دادہ از ہیچ گونہ زجر و تو بیخ دریغ نفرمود۔ ہندو زادہ ہائے ایں دِہ برائے طلب نشان دلیرش ساختند و افسانہائے ہرزہ در گوشش انداختہ پشت وے را توانا کردند و بکو شید ند کہ آں بیم و ہراس کہ بروے دست یافتہ بود از درونش بدر رود ودر گوشش میدمیدند کہ ایں کس کاذب محض است زنہار از وے خوفے در دلت راہ مبادا۔ وبخدا قا تلانش اہالئے ایں دِہ بودہ اند۔ زیرا کہ ایں مردم اورا بر مقاومت من بد اشتند و سو گندہا یاد کردہ تقویت وے نمودند۔ اے دریغ ایں مردم در جائے خیر شر ے و ضررے باور سانیدند۔ آخر دلش
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 131
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 131
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/131/mode/1up
صار أشد خصومۃ فی الدّین۔ وکان فی أول أمرہ مال إلی صحبتی،
لعلہ یری أمارات حقیّتی، فبطّأ بہ ہؤلاء خوفًا من أثر الصحبۃ، وقالوا ما تطلب منہ وإنا نحن من أہل التجربۃ۔ وہو تبوّء القادیان إلی
شہر تام، وأخذ أنواع مفتریات من لئام، حتی أوقدوہ کنار الجحیم، وسوّدوا قلبہ ولا کسواد اللیل البہیم، ثم رحل بعد أخذ ہذہ التعالیم۔ وطفق یطالب منی آیۃ
من الآیات، وقد اضطرمت فی
قلبہ نار المعادات، وکان یُنکر فی
اور سخت جھگڑ ا شروع کر دیا ۔ اور وہ ابتدا میں میری صحبت کی طرف مائل ہو گیا تھا اور امید رکھتا تھا کہ میں نشان دیکھوں۔ پس یہ لوگ اس کے مزاحم ہو ئے اور اس ارادہ سے اُس کوہٹا دیا تا اثر صحبت سے متاثر نہ ہو جائے اور اس کو کہا کہ تو اِن کی صحبت میں رہ کر کیا کرے گا اور ہم تو اس کی نسبت اہل تجربہ ہیں ۔ اور وہ قادیان میں قریباً ایک مہینہ تک ٹھہرا اور بہت سے افترا اُس نے اپنے دل میں بٹھائے اور جہنم کی آگ کی طرح ان لوگوں نے اس کو افرو ختہ کیا اور
اس کے دل کو رات کی طرح سیاہ کر دیا ۔ اور پھر وہ ان تعلیموں کو پا کر چلا گیا اور مجھ سے نشانوں کا طلب کرنا شروع کیا اور اس کے دل میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی ۔ اور وہ خدا تعا لیٰ کے نشانوں سے اپنے دل میں انکاری
از کثرت گفت و شنید سخت شدو ہمہ دروغ زینہا و ہرزہ کا ریہائے آنان را راست دا نست وپیکار درشتی پیش گرفت۔ اماّاولاً رومائل بصحبت من بودہ متوقع آں بو دکہ نشانے از من بہ بیند۔ ولے ایں مردم مانع آمدہ ازاں ارادہ اش باز دا شتند کہ نباید از رفتار و گفتار من متاثر بشود و گفتند نشستنت پیش ایں کس چہ حاصل کہ ما ساکنان ایں دِہ و ہمسایگان و نسبت بایں کس صاحب تجربت و خبرت می باشیم۔ او یک ماہ در قادیان مکث نمود و انبار افترا ہا در نزد خود فراہم آورد۔ و اہالئے ایں دِہ چوں دوزخش بیفرو ختند و دل وے را چوں شب تار سیاہ گرد انیدند۔ آخر او ایں ہمہ آموختہ ازیں جا برفت و نشان از من طلب می کرد۔ و آتش عداوت سر اپائے وے را بگرفت۔ واو بر نشانہائے خدا
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 132
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 132
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/132/mode/1up
نفسہ من عجائب ربّ السماوات، وأصرّ علی الطلب لیکون لہ وقعٌ فی أعین المشرکین والمشرکات۔ ولما قصد الرحیل وختم القال والقیل۔ رأیت أنّی مقیم فی صحن مکان کالشجعان، وفی یدی رمح ذابل حدید السنان، کثیر البریق واللمعان، وأراہ أمام عینی میّتًا علی التراب، وأطعن رأسہ بنیّۃ الإنصاب، ویتلألأ سنانی عند کل طعنی ویبرق کالشہاب، ثم قال قائل ذہب وما یرجع قطّ إلی ہذہ الحداب۔ فواللّٰہ ما رجع حتی نعاہ إلینا بعض الأصحاب۔ وتفصیل ہذہ القصۃ
تھا ۔ اور مجھ سے اس لئے نشان طلب کرتا تھا کہ تا ہندوؤں کے دلوں میں اس کی عزت پیدا ہو ۔ اور جب وہ قادیان سے چلا گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک میدان میں مَیں کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک باریک نیزہ ہے جو بہت چمک رہا ہے اور میں نے اس کو ایک مُردہ پایا جو میرے آگے پڑا ہے اور میں اس نیزہ سے اس کے سر کو اِدھر اُدھر کرتا ہوں ۔ تب ایک بولنے
والے نے آواز دی کہ یہ چلا گیا اور پھر قادیان میں کبھی نہیں آئے گا ۔ سو در حقیقت وہ پھر واپس نہ آیا یہاں تک کہ ہم نے اُس کے مرنے کی خبر سنی اور اس قصہ کی تفصیل یوں ہے کہ
انکار تمام داشت واز من جہت آں طلب میکرد کہ وقعے دردل ہنود پیدا بکند۔ و چوں از قادیاں برفت در خواب می بینم در میدانے ایستادہ ام و نیزہ تیز درخشاں در دست من است ومے بینم لیکھرام را مردہ وارے در پیش من افتادہ است بانوک نیزہ سرش را تقلیب مے کنم۔ نا گہاں گویندۂ آواز بداد کہ ایں رفت است و دیگر بقادیاں باز نخواہد آمد۔ و بحقیقت ہم چنین پدیدار شد و ہر چہ بعد از رفتنش دیگر بقادیان آمد آن خبر ہلاکش بود۔ تفصیل ایں اجمال و کشف این مقال آنکہ چون ازیںؔ جا
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 133
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/133/mode/1up
أنہ لما فصل من ہذہ البقعۃ،ؔ جعل یصرّ علی تطلّب آی الرحمن، مع السبّ والشتم وکثیر من الہذیان۔ فخررت أمام الحضرۃ، وتبصبصت للّٰہ ذی العزّۃ، ودعوت اللّٰہ فی آناء اللیل بالتضرّع والابتہال، وأقبلت علی ربّی بذوبان المہجۃ وتکسر البال۔ فألہمنی ربّی أنہ سیُقتل بعذاب شدید، بحربۃ فی ست سنۃ فی یوم قرب یوم العید بإذن اللّٰہ الوحید۔ فأخبرتہ عن ہذا الإلہام،
فما خاف بل زاد فی السبّ وتوہین الإسلام، وکتب إلیَّ أنی أُلہمت
أ نّک تموت بالہیضۃ إلی ثلٰث سنۃٍ۔
جب وہؔ اس جگہ سے چلا گیا تو اُس نے نشانوں کو طلب کرنا شروع کیا اور نیز گالیاں دیتا اور بد گوئی کرتا تھا ۔ تب میں حضرت عزّت میں گرا اور قہری نشان کے لئے تضرع کیا ۔ سو خدا نے مجھے خبر دی کہ وہ
ایک عذاب شدید کے ساتھ چھ برس کے اندر قتل کیا جائے گا ۔اور اس کے قتل کا دن عید کے دن سے قریب ہو گا ۔ سواس الہام سے میں نے اُس کو خبر دے دی ۔ سو وہ اس الہام کو سن کر اور بھی بد گوئی میں بڑھا اور میری طرف لکھا کہ مجھے بھی الہام ہو اہے کہ تو تین برس تک ہیضہ سے مر جا ئے گا ۔
رفت و طلب نشان و آغاز دشنام کرد بر آستانہ حضرت عزت برو افتادم و برائے نشان قہری زبان ضراعت و ابتہال کشودم ۔
بنا براں خدا مرا خبر بداد کہ او در مدت شش سال باعذاب الیم کشتہ شود و یوم قتلش قریب از روزعید باشد۔ ازین الہام اعلامش کردم ولے بعد از شنیدن دربد گوئی بیفزود و پیش من خط فرستاد کہ مرا نیز خبردادہ اند کہ تو در مدت سہ سال از ہیضہ خواہی مُرد۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 134
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/134/mode/1up
وطبع ہذا النبأ وشہّرہ وأشاعہ فی أقوام مختلفۃ۔ وأرسل إلیَّ أوراقہ التی کانت کأضحو!کۃ، وکتبہ فی بعض کُتُبہ وذکرہ فی محافل غیر مرّۃ۔ فکتبت إلیہ أن الأمر فی أیدی الرحمٰن، فإن کنتَ صادقا فیَرَی صدقَک أہلُ الزمان۔ وإن کان الصدق فی قولی فسیظہرہ بالفضل والإحسان، إنہ مع الذین اتقوا والذین صدقوا فی القول والبیان، إنہ لا ینصر الکاذبین.فمضی زمان علی نبأہ الکاذب بخیر وعافیۃ، وما تغیر منّا جزء من شعرۃ واحدۃ۔ ولمّا قرُب میقات ربّی فی أمر حمامہ،
اور اس خبر کو اُ س نے لوگوں میں مشہور کر دیا اور مجھے اس پیشگوئی کے اشتہار بھیجے اور کئی مجلسوں میں اس کا ذکر کیا ۔ تب میں نے اس کی طرف لکھا کہ تمام بات خدا تعا لیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ سو اگر تو اپنی پیشگوئی میں سچا ہے تو تیری سچائی خدا تعالیٰ ظاہر کر دے گا۔ اور اگر میری بات سچ ہے تو اس کو اپنے فضل اور احسان سے ظاہر فرمائے گاکیونکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور سچ بولتے ہیں اور جھوٹوں کی وہ مدد نہیں کرتا ۔ سو اس کی جھوٹی پیشگوئی کا زمانہ بخیروعافیت گذرگیا اور ایک بال بھی ہمارا بیکا نہ ہوا۔ اور جب اس کی موت کے بارے میں میرے ربّ کا وعدہ نزدیک آیا
و ایں خبر را در اقوام مختلفہ اشاعت کرد و اشتہار مشتمل بر آں خبر غیب مرا فرستاد۔ او را نوشتم کہ سر رشتہ امور دردست رحمن است۔ اگر راستی بجانب تست قریب است کہ راستئ تو آشکار شود۔ و اگر من صادقم پس انشاء اللہ فضل و نصر ت او دست مرا خواہد گرفت زیرا کہ خدا باآں مردم مے باشد کہ از و بتر سند وراست بگویند واو گاہے حمایت کا ذبان نکردہ و نکند۔ آخر خبر دورغ وے چون گوز شتر برباد رفت و در مدت مقرر کردہ او وقت ما بسلامت گذشت و یک موز یانے نشد۔ اما چوں دربارۂ مرگ وے میعاد پرور دگار من فراز آمد۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 135
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/135/mode/1up
واتت علیہ السنۃ الخامسۃ من أیّامہ، وکان یضحک ویقیس إلہامی علی زور کلامہ۔ اتفق أنّہ دخل علیہ رجل من المسافرین، وأظہر أنہ کان من قومہ الآریین، ثم أدخلہ فی الإسلام بعض الخادعین، والآن جاء متندّما کالطالبین الخائفین، ویرید أن یرجع إلی دین آباۂ ویترک المسلمین۔ ومدحہ وقال أنت کذا وکذا وللقوم کالرأس، وأیقظت کثیرا من النعاس، وقد انتشر ذکرک وسمع کمالک فی الردّ علی الإسلام، فجئتک من أقصی البلاد لأستفیض من فیضک التام۔ والناس منعونی فما استقلت
اور پانچواں برس اس پیشگوئی کا گذرنے لگا تو یہ اتفاق پیش آیا کہ ایک مسافر اس کے ملنے کے لئے آیا اور ظاہر کیا کہ وہ ہندو اس کی قوم میں سے ہے اور کسی نے دھوکا دے کر اس کو مسلمان کر دیا تھا اور اب اُس کو اس حرکت سے ندامت پیدا ہوئی ہے اور اس لئے آیا ہے کہ تا پھر اپنے باپ دادا کے دین میں داخل ہو اور اسلام کو چھوڑ دے اور یہ کہہ کر پھر اس کی تعریف شروع کی کہ تو ایسا اور ایسا ہے اور بہتوں کو تُو نے خواب غفلت سے جگایا ہے اور تیرے نام کی بہت شہرت ہو ئی ہے اور معلوم ہواکہ اسلام کا ردّ لکھنے میں تجھے کمال ہے اس لئے میں دور سے تجھ سے فیض پانے کے لئے آیا ہوں ۔ اور لوگوں نے منع کیا مگر میں نے اپنے ارادے میں
وسال پنجم بر خبر غیب سپری شد۔ چناں اتفاق افتاد کہ غریبے برائے دیدنش رفت و و انمود کہ او ہندو نزاد و از اہل ملت وے می باشد۔ سالے چند است باغوائے بعضے نا کساں مسلمان شدد بود حالا بر فعل خود پیشمان و ازاں حرکت دست تاسف گزآن بخدمت والا حاضر آمدہ کہ بر دست میمون توبہ کند و دیگر مذہب آباء را بگزیند و پشت پا بر اسلام بزند۔ ایں بگفت و در مدح و تمجیدش ترانہ سنجیدن گرفت کہ توچنانی و چنیں کہ بسیارے را از خواب غفلت بیدار کردی و نام نامی تو شہرتے عجیب یافتہ۔ ترا در رد اسلام ید طولیٰ است۔ ازین جاست کہ جہت استفاضہ از راہ دُور
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 136
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/136/mode/1up
من الإرادۃ، ووصلت حضرتک للاستفادۃ، بید أنی اسیر فی بعض الشبہات، وأرجو أن تقیل لی عثاری وتکشف عقد المعضلات، ثم أدخل فی دین آبائی وأترک الإسلام، فہذا ہو الغرض وما أطول الکلام.فأمعن لیکرام نظرہ فی توسمہ و سرّح الطرف فی میسمہ، فلبس علیہ أمرہ قدرُ الرحمٰن، وظن أنہ من الصادقین ومن الإخوان۔ فتلقّاہ مُرحّبًا وقال رجعت إلی دار الفلاح، وامتزج بہ کالماء والراح، وأنزلہ فی کنف الاہتمام، و تصدّی لہ بالاعزاز والإکرام۔
سستی نہیں کی ۔ مگر یہ بات ہے کہ چند شبہے میرے دل میں ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ تو میری لغزش کو معاف کرے اور میرے یہ عقدے حل کر دے ۔ پھر میں اسلام کو چھوڑ کر اپنے باپ دادے کے دین میں داخل ہو جاؤں گا ۔
تب لیکھرام نے اس کو خوب غور سے دیکھا اور خدا تعا لیٰ نے اس مسافر کا دلی ارادہ اُس پر پوشیدہ کر دیا اور اس نے سمجھا کہ یہ سچا اور ہمارے بھائیوں میں سے ہے ۔ سو اس نے مرحبا کہہ کر اس کو قبول کر لیا اور اس کے ساتھ یوں ملا جیسا کہ پانی اور شراب ملتے ہیں اور اپنی غمخواری کی پناہ میں اُس کو لے لیا اور اعزاز اور اکرام کے ساتھ پیش آیا ۔
پیش تو آمدہ ام۔ ہر چند مردم بمنع مرا پیش آمدند۔ بازنیا مدم و آہنگ چست خود راست نہ نمودم۔ بلے شکوکے چند در دلم خلجانے دارد۔ امید دارم کہ از خطاء و زلت من در گذری وگرہ مرا بکشائی باز اسلام را ترک گفتہ کیش پدران را خواہم گزید۔ لیکھرام چوں ایں قصہ از وے بشنید سراپائے ویرا نیکو بدید۔ و خدا نیت آں غریب را بر وے مستور کرد و او را صادق گماں نمود۔ خلاصہ مسئلت ویرا پذیرفت و باوے چوں شکر با شیر بیامیخت و قوم خود را دربارۂ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 137
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/137/mode/1up
ثم جعل یُخبر قومہ کالفر!حین المبشرین، وینادی أنہ ارتدّ من دین المسلمین۔ وأکل معہ وتغدّی، وما دری أنہ سیتردّی، وکان ہو یُخفی مولدہ ومنبعہ، لکی یُجہل مربعہ۔ وکان یسیر فی المصر مواریًا عن الخلق عیانہ، ومخفیا مقرہ ومکانہ۔ حتی انتہی الأمر إلی یوم موعود، فدخل علیہ علی غرارتہ کمحب و ودود۔ وأمہلہ ریثما یصفوا الوقت من الحضار، ویذہب من جاء من الزُوّار۔ ثم سطا علیہ کرجل
فاتک کمیش الہیجاء ، وجنّبہ بسکین بلغ إلی الأحشاء ، و
پھر اپنی قوم کو خوش خوش خبر دیتا پھرا اور بتلا تا پھرا کہ یہ شخص مسلمان ہو گیا تھا پھر ہندودین قبول کرنے کے لئے آیا ہے ۔اور وہ شخص اس سے اپنا مولد چھپاتا رہا تا اس کے گھر کی اطلاع نہ ہو اور وہ شہر میں چھپا چھپا پھرتا تھا اور اس کا قرار گاہ کسی کو معلوم نہ تھا یہاں تک کہ لیکھرام کے اجل مقدر کا دن پہنچ گیا۔ اور یہ شخص اُس دن اُس کی عین غفلت کے وقت دوستوں کی طرح اُس کے پاس گیا اور اس کو اس قدر مہلت دی کہ جس میں حاضر باشوں سے فراغت ہو جائے اور جو ملنے کے لئے آئے ہیں وہ چلے جائیں ۔ جب اس
کے لئے فرصت کا وقت نکل آیا اور لیکھرام کو اس نے غفلت میں پایا تب یکدفعہ اُس پر ایک چابک دست انسان کی طرح حملہ کیا اور کارد
او مژدہ ہا بداد کہ ایں دین اسلام پذیر فتہ بود۔ حالیا آمدہ است کہ دیگر کیش ہنود را قبول نماید۔ و آں کس مولد خود را بروے پوشیدہ داشت و در شہر نہان و پوشیدہ میز یست۔ حتی احدے آگاہ از قرار گاہش نبود۔ تا ایں کہ لیکھرام را اجل مقدر فرارسید۔آں کس در زِ یّ دوستاں او روزے علی الغفلہ در پیش وے برفت و در انتظار آں نشست کہ مجلس از حاضراں بپردازد و عسل از غوغائے مگس مامون گردد۔ چوں وقت فرصت بدست آمد و لیکھرام را غافل یافت بیک ناگہ چوں شیر گرسنہ بروے بر جست و باکارد تیز شکمش را
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 138
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/138/mode/1up
أشرعہ إلی الأمعاء ، حتی قطعہا وترکہا فیؔ سیل الدم کالغثاء۔ وکان ہذا یومٌ بعد یوم العید* کما قُرّر من اللّٰہ فی المواعید۔ وإذا ظن القاتل أنہ أخرج نفسہ الخسیسۃ، فہرب وترک دارہ الخبیثۃ، ثم غاب عن أعین الناس کالملا!ئکۃ۔ وما رآہ أحد إلی ہذہ المدّۃ، فما أعلم أصعد إلی السماء أو سترہ اللّٰہ بالرّداء۔ وأمّا المقتول فدُقَّ بجروح، ولکن
کانت فیہ بقیۃ روح، وقال احملونی إلی دار الشفاء ، فحملوہ وما
وجدوا فیہ أحدًا من الأطباء ،
فقال یا أسفٰی علٰی قسمتی، قد
کےؔ ساتھ اس کی پسلی توڑ کر اس کا رد کو انتڑیوں تک پہنچا دیا اور پھر انتڑیوں کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے کیا کہ وہ خون کے اوپر ایسا تیرتی تھیں جیسے کہ سیلاب کے اوپر خس و خا شاک تیرتا ہے اور یہ دن عید کے دن سے دو سرا دن تھا جیسا کہ خدا تعالیٰ کے وعدہ میں مقرر تھا اور جب قاتل نے دیکھا کہ اس نے اس کا کام تمام کر دیا ۔ سو وہ اس کے گھر کو چھوڑ کر بھا گا پھر فرشتوں کی طرح آنکھوں سے غائب ہو گیا اور اس وقت تک کسی کو اس کا نشان نہ ملا ۔ نہ معلوم کہ وہ آسمان پر چلا گیا یا خدا نے اس کو اپنی چادر کے نیچے ڈھانک لیا اور مقتول زخموں سے کوفتہ کیا گیا مگر ابھی اس
میں جان باقی تھی ۔ تب اس نے کہا کہ مجھے ہسپتال میں لے چلو ۔ سو اس کو لے گئے اور وہاں ڈاکٹر کو نہ پایا ۔ تب مقتول نے کہا وائے میری قسمت میری بد بختی سے ڈاکٹر
چاک زد بمثابۂ کہ رودہ ہارا از ہم بُرید وآنؔ روز روز دوم از عید اضحی ۱؂بود بر حسب آنچہ در موا عید الٰہیہ قرار یافتہ بود۔ وقاتل چون از کارش بپر داخت آن خانہ را بگذاشت و چون فرشتہ از دیدۂ مردم پنہاں شد و تا کنوں از وے اثر ے و خبرے دردست نیست۔ خدا داند بہ آسمان بالا شد یا خدایش در زیر چادر خود بپوشید۔ خلاصہ مقتول اگرچہ از ریش و آسیب از بس کوفتہ و خستہ گردید ولے ہنوز روان در تنش ماندہ بود عزیزاں درر سیدند و در دارلشفاء بُردند۔ ڈاکٹر یعنی طبیب آں زمان در اینجا نبود۔ مقتول زار نالید و گفت آہ نگوں بختی من ڈاکٹر ہم این جا
قتل لیکھرام فی الیوم الثانی من عید الفطر۔ وکان یوم السبت۶مارچ ۱۸۹۷ء ، ۲ شوال ۱۳۱۴من الہجرۃ المقدسۃ۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 139
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/139/mode/1up
غاب الأطباء من شقوتی۔ ثم جاء ہ الطبیب بعد تمادی الأوقات۔ وما بقی فیہ إلَّا رمق الحیاۃ۔ فعمل أعمالًا وما زاد إلَّا نکالًا، وقال الموت شمیر والبرء عسیر، وانقطع الرجاء وزاد البرحاء۔ حتی إذا جثم لیلۃ ہذہ الواقعۃ، فجعل الحلیلۃ ثیّبا، وشرب کأس المنیّۃ، ووقع فی أحواض غُثَیم، ورأی جزاء ظلم وضیم، وکذالک یجزی اللّٰہ الظالمین۔ فارتفعت الأصوات من البکاء ، وبلغ الصراخ إلی السماء ،وسمعتُ أن عیناہ استعبرت فی آخر حینہ بما رأی آیۃ الحق بعین یقینہ۔ وأصبح قومہ قد طارت حواسہم، وضلّ قیاسہم، بما أباد اللّٰہ نجیّہم،
بھی حاضر نہیں ۔ پھر ایک مدت کے بعد ڈاکٹر آیااور اپنا عمل کیا مگر بے سود تھا اور ڈاکٹر نے اشارہ کر دیا کہ جانبری مشکل ہے۔ پھر جب آدھی رات گز رگئی تو لیکھرام نے موت کا پیالہ پی لیا ۔
اور میں نے سنا ہے کہ مرتے وقت اس کی آنکھیں پُر آب تھیں کیونکہ خدا کی پیشگوئی کا پورا ہو نا اس کو یاد آیا ۔ اور اس کی موت کے بعد اس کی قوم کے حواس اڑ گئے کیونکہ موت نے ان کے ایک منتخب آدمی کو لے لیا۔
موجود نہ مے باشد۔ بعد از زمانے دراز ڈاکٹر آمد و ہرچہ توانست چارۂ کار نمود۔ ولے چوں نیمۂ از شب سپری شد لیکھرام جام تلخ مرگ بنو شید۔ شنیدہ ام کہ وقت مرگ سراشک از دیدہ اش رواں شد۔ چہ صدق وقوع خبر غیب بخاطر وے خطور کرد۔ قوم بر مرگ وے از بس سرا سیمہ و آشفتہ شد ند
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 140
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/140/mode/1up
واستری الموت سریّہم، وکانوا یتیہون فی الأرض مقترین مستقرین، لعلہم یجدوا أثرا من قاتل أو یلاقوا بعض المخبرین۔ولمّا استیأسوا فقال بعضہم إن ہذا إلَّا سرّ ربّ العالمین، و لم یزل أسفہم یتزاید والأمر علیہم یتکائد وصاروا کالمجانین وکانوا لا یُفرّقون بین الدّجیٰ والضّحیٰ، وزال تدلّلہم من الشجیٰ بما تمت الحجۃ علیہم وفدحہم دیون المسلمین۔ وحسبوا موتہ نکبۃ عظیمۃ، ونائیۃ عمیمۃ، وأُرجف المسلمون وقیل إن الآریۃ سیقتلون أحدًا من سراۃ الإسلام لیأخذوا
اور وہ تلاش میں دِہ بدِہ اور شہر بشہر پھرنے لگے تاکہ قاتل کا ان کو سراغ ملے یا کسی مخبر کی ملاقات ہو ۔ اور جب نو مید ہو گئے تو بعض نے کہا کہ یہ تو خاص خد ا کا بھید ہے اور اُن کا غم بڑھتا گیا اور کام میں مشکلات بڑھتی گئیں۔ اور دیوانوں کی طرح ہو گئے اور مارے غم کے تاریکی اور روشنی میں فرق نہیں کر سکتے تھے اور اُن کا تمام نا ز غم سے جاتا رہا ۔ کیونکہ اُن پر حجت پوری ہو گئی اور وہ مسلمانوں کے قرض کے زیر بار ہو گئے اور اس کی موت کو انہوں نے بڑی مصیبت سمجھا اور ایک عام حادثہ خیال کیا ۔ اور لوگوں نے یہ خبریں بھی اڑائیں کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے معززین
زیرا کہ مرگ برگزیدہ ایشاں را ا ز میانۂ ایشاں درربود و در طلب قاتل دِہ بدِہ و قریہ بقریہ گردیدند۔ چوں یاس بر ایشاں چیرہ شد بعضے گمان کردند کہ ایں کارِ خداست۔ خلاصہ کوہ اندوہ بر سر شاں فرود آمد و دشواریہا وپیچیدگیہارو نمود وچوں دیوانگان گردیدند۔ حتی کہ از شدۃ غم و الم روز را از شب باز نہ می شناختند و ہمہ راحت و ناز شاں بسوز و گداز مبدّل شد زیرا کہ حجۃ اللہ بر ایشان تمام شد و دوش ایشاں از دام اہالئے اسلام گراں بار گردید۔ مرگ لیکھرام را داہیہ عظمیٰ پند اشتند وکودک وبر نادر سوگواری اش نشستند ہم درآں زماں در افواہ افتاد کہ ہنود می گویند کہ یکے را از اعزّہ اسلام خواہند کشت تا دیدہ را از گرفتن
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 141
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/141/mode/1up
ثأرہم ویشفوا صدورہم بالانتقام۔ فأمّن اللّٰہ المسلمین ممّا کانوا یُحَذّرون، وألقٰی علیہم الرعب فکفّوا الألسن وہُم یخافون، وجعل قلوبہم شتّی فطفقوا یتخاصمون، واللّٰہ غالب علی أمرہ ولو کانوا لا یعلمون۔ ولم تستقم لہم ما سوّلوا من المکائد، ثم استأنفوا مکیدۃ أخریٰ کالصائد، وأغروا الحکّام لیدخلوا داری مفتشین، ویطلبوا أثرًا من القاتلین، فخذّل اللّٰہ أولیاء الطاغوت، وردّ علیہم ما أحکموا من الکید المنحوت، فرجعوا خائبین کالمجنون المبہوت۔ ولمّا
میں سے کسی کو ہم بھی قتل کریں گے تا لیکھرا م کا بدلہ لیں اور دل میں ٹھنڈ پڑے۔ پس خدانے ان کے شر سے مسلمانوں کو امن میں رکھا اور ان پر رعب ڈال دیا سو انہوں نے زبانیں بند کر لیں۔ اور خد انے ان میں آپس میں پھوٹ ڈال دی ۔ اور خد اجوچاہتا ہے کرتا ہے اور اپنے فریبوں میں انہیں کا میابی نہ ہوئی۔
پھر نئے سرے ایک اور مکر سوچا اور حکام کو میری خانہ تلاشی کے لئے ترغیب دی مگر خدانے اس میں بھی انہیں نامراد رکھا اور ان ہی کو انجام کار شرمندگی اٹھانا پڑی ۔
خون لیکھرام خنک بسازند۔ ولے خدا مسلمانان را از شر شاں مصوں بداشت و شکوہ و رعب بر ایشاں مستولی شد۔ تا زبان ہا در کام در کشیدند۔ و خدا ایشان را در بلائے تشتیت کلمہ مبتلا گر دانید و در مکائد و فر یبہا چیزے از پیش نبردند۔
آخر مکیدۂ سگالیدند بایں معنی کہ حکام را بر تلاش خانۂ من آورد ند۔ ولے از ایں باب ہم زیان و نو میدی بہرۂ آناں شد و غرق خجالت باز گشتند۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 142
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/142/mode/1up
لم تضطرم نیرانہم، ولم تنصرہم أوثانہم، استطلعوا أکابرہم ما عندہم من الآراء ، وشاوروہم فی أمر الصلح والمراء۔ فقالوا لم تبق قوۃ وما یترقب من جہۃ نصرۃ، وقال اخیارہم إلی متٰی ہذہ التنازعات وقد اختلّ المعاملات۔ ومع ذالک خوّفہم ہول الطاعون وفجأۃ المنون، فاختاروا السلم فی ہذہ الأیام۔ فالحاصل أن ہذہ الآیۃ آیۃ عظیمۃ من اللّٰہ العلَّام، ہو اللّٰہ الذی یجیب المضطر إذا دعاہ، ولا یُخیّب من رجاہ، ولا یُضیع من استرعاہ، لہ الحمدؔ والجلال والعظمۃ۔ ولقد ملکتنا فی آیہ الحیرۃ واغرورقت العین بالدموع
پھر جبکہ ان کی آ گ بھڑک نہ سکی اور ان کے بتوں نے ان کی مدد نہ کی تو پھر وہ لوگ مسلمانوں کے سا تھ صلح کرنے کے لئے باہم مشورے کرنے لگے اور ان میں سے اچھے آدمیوں نے کہا کہ اب صلح بہتر ہے کیونکہ معاملات میں ابتری واقع ہو گئی ۔ اور علاوہ اس کے طاعون نے بھی ان کو ڈرایا ۔ سو ان دنوں میں انہوں نے صلح کر لی اور یہ ایک خدا تعالیٰ کی طرف سے نشان ہے ۔ وہ وہی قادر خدا ہے جو بے قراروں کی دعا سنتا ہے اور کبھی امید واروں کو نومید نہیں کرتا ۔ اور جو شخص اس کی پناہ چاہتا ہے اس کو ضائع نہیں کرتا اسی کو حمد اور جلال اور عظمت ہے اور اس کے نشانوں پر نظر ڈال کر حیرت دا من گیر ہوتی ہے اور آنکھیں چشم پُرآب ہو جاتی ہیں
خلاصہ چوں ایشا نرامیسر نیامد کہ آتش ایشان تواند زبانہ بالاکشد و بتہائے اوشاں از دستگیری فرو ماندند درمیانہ ئخود ہا مشورہ کردند کہ بامسلماناں از در آشتی در آیند چہ کلانان انہا دید ند کہ خللے ۔۔۔ درمعاملات رو دادہ و علاوہ ازاں طاعون ہم تہدیدو ترس افزود۔ آخر مصالحت درمیان دو قوم واقع شد۔ الغرض ایں نشانے بزرگ ست کہ خدا تعالیٰ بتائید بندہ خود بخود آں قادر خدائے کہ دُعائے مضطران رامی شنود و امیدواران را دست رو بر سینہ نمی زند وپناہ جو یندہ را ہلاک و تلف نمی سازد۔ حمد و جلال و عظمت مراد را سزا واراست۔ چوں بریں نشانہایش نظر کنیم حیرت و شگفت می آید و دیدہ پُر آب میگردد۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 143
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/143/mode/1up
فہل من رشید ینتفع بہذا المسموع؟ وما ہذا إلَّا إعجاز خاتم الأنبیاء ، وشہادۃ طریّۃ علٰی صدق نبوّتہ من حضرۃ الکبریاء ، فتدبّروہا یا معشر السعداء ، رحمکم اللّٰہ فی ہذہ وفی یوم الجزاء۔
ولی آیات أخریٰ قد ترکتہا اجتنابا من التطویل، وکفاک ہذہ
إن کنت خائفا من الرب الجلیل۔ واعلم أن الأصول المحکم فی
معرفۃ صدق المأمورین أن تنظر
إلی طرق تثبت بہا نبوّۃ النبیین۔ وما کان نبی إلَّا مکر فی أمرہ المکّارون، وسخر من آیہ المستنکرون
پسؔ کیا کوئی رشید ہے جو ان باتوں سے نفع حاصل کرے اور یہ نشان در حقیقت ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اور آپ کے صدق نبوت پر ایک تازہ گواہی ہے ۔ پس اس میں غور کرو خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے ۔اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نشان ہیں جن کو میں نے بخوف طوالت بیان نہیں کیا اور اگر تجھے کچھ خدا کا خوف ہو تو تیرے لئے یہی بہت ہے اور مامورین کے پہچاننے کا یہ اصول ہے کہ ان کو اس طریق سے پہچانا جائے جس طریق سے انبیا ء کی نبوت پہچانی جا تی ہے۔ اس لئے میری تکذیب کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا اور استہزا کیا گیا اور
آیا ؔ رشیدے ہست کہ از ایں پند ہا نفعے بردارد۔ بحقیقت ایں معجزۂ نبی کریم ماست (صلی اللہ علیہ وسلم ) و برصدق نبوت وے گواہی تازہ مے باشد۔ نیک اندیشہ بفرمائید تا رحم خدا دست شما را بگیرد۔
علاوہ ازیں خیلے نشانہائے دیگر ہم دارم کہ اینجا بنو شتن نیا وردم چرا کہ برائے ترسندہ از خدا ہمیں بسیار است۔ و اصل شناختن مامورین ہمان است کہ با آں نبوت
انبیاء علیہم السلام شناختہ می شود۔و تکذیب من چیزے شگرف نہ۔ چہ کہ احدے از انبیاء نیامدہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 144
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/144/mode/1up
وحقّروا شأنہا بل کانوا بہا یستہزؤن، وقالوا فلیأت بآیۃ کما أرسل الأولون۔ مع أنہم رأوا آیات، وشاہدوا تأییدات، فمن الواجب علی الأبرار أن یجتنبوا طرق ہذہ الکفار، ویستقروا سبل المؤمنین، وإن أعرضتم فلن تضرّوا اللّٰہ شیئا واللّٰہ غنی عن العالمین.
خاتمۃ الکتاب
اعلموا أن الروایات فی المہدی والمسیح کثیرۃ، وجمیعہا متخالفۃ و متعارضۃ، وما اطّلعنا علی مسانید أکثر تلک الآثار، وما علمنا طرق توثیق کثیر من الأخبار، والقدر
با وجود اس کے کہ مخالفوں نے نشان اور خدا تعالیٰ کی تائیدیں دیکھیں پھر بھی کہا کہ نشان دکھاؤ۔ پس نیکوں کو چاہیئے کہ ان کفّار کے طریقہ سے پرہیز کریں اور مومنوں کی چال چلیں اور اگر تم منہ پھیرو تو کچھ پرواہ نہیں ۔اللہ کا تم کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔
خاتمہ
جاننا چاہیئے کہ مہدی اور مسیح میں بہت سی روایتیں ہیں اور وہ سب کی سب متخالف اور متناقض ہیں ۔ اور اکثر روایات کی اسناد پر ہمیں اطلاع نہیں ہوئی اور ان کے پختہ سمجھنے کا ہمیں علم حاصل نہیں ہوا۔ اور قدر مشترک یعنی ظاہر ہونا
کہ تکذیب اونشدہ۔و باایں ہمہ کہ مکذبان نشانہائے آسمانی و تائیدات ربّانی می بینند باز از استہزاء طلب نشانہامی کنند۔ لہذا ابرار را باید کہ از طریقہ کفار اجتناب و رزند و راہِ مومنان بپویند۔و اگر رو بگردانید از جلال خدا چہ کاہد چراکہ او محتاج شمانیست۔
خاتمہء کتاب
پوشیدہ نخواہد بود کہ دربارہ مہدی و مسیح روایات مختلفہ آمدہ و ہمہ اش داغ تخالف و تناقض بر ناصیۂ حال داشتہ است۔
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 145
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 145
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/145/mode/1up
المشترک أعنی ظہور المسیح الحکم المہدی ثابت بدلائل قطعیۃ، ولیس فیہ من کلمات مشککۃ۔ وأمّا غیرہ من الروایات، ففیہا اختلافات وتناقضات حیّرت عقول المحدّثین، وأظلمت درایۃ المتقین، وجنّ لیل الاستہامۃ علی العالمین۔ وجمعوا تناقضات فی أقوالہم، وما نقّحوا قولا باستدلالہم، ووقعوا فی دُؤلول کالہائمین۔ فقیل إن المہدی من
بنی العباس، وقیل ہو من بنی الفاطمۃ التی ہی من أزکی الناس۔ وقیل ہو رجل من بنی الحسین، وقیل ہو من آل رسول الثقلین،
وقیل ہو رجل من أمّۃ سیّد الکونین
ایک شخص کا جس کا نام مسیح اور حَکَم اور مہدی ہے دلائل قطعیہ سے ثابت ہے اور اس میں کوئی شک ڈالنے والا نہیں اور باقی راویتوں میں اختلاف اور تنا قض ہے جس میں محدثوں کی عقل حیرا ن ہے اور فقیہوں کی درایت تاریک ہے ۔ اور عالموں کے دلوں پر سرگردانی کی رات محیط ہو رہی ہے اور انہوں نے بہت سے تناقض اپنے قولوں میں جمع کئے ہیں اور کسی قول کو دلیل کے ساتھ منقح کر کے بیان نہیں کیا اور گرداب حیرت میں پڑ ے ہو ئے ہیں ۔چنانچہ بعض کہتے ہیں کہ مہدی بنی عباس سے ہو گا اور بعض خیال کرتے ہیں کہ وہ بنی فاطمہ سے ہے اور بعض اس کو بنی حسین سے سمجھتے ہیں ۔ اور بعض صرف آل رسول خیا ل کرتے ہیں اور بعض اس کو امت میں سے ایک انسان قرار دیتے ہیں
ولے قدر مشترک یعنی ظہور مسیح حَکم کہ مہدی نیز ہست از دلائل قطعیہ بپایۂ ثبوت رسیدہ و غیرآن سائر روایات بمثابۂ ضد یک دیگر افتادہ کہ محدثین از کشودن گرہ سر بستگی آنہادست و پا گم کردہ اند و ہیچ قولے را از عیب تناقض رستگار نہ نمودہ و ہیچ بیانے را مدلل ومنقح نہ فرمودہ اند۔ چنانچہ بعضے بر آنند کہ مہدی از بنی عباس باشد۔ و بعضے از بنی فاطمہ پندارند۔ وبعضے از ولد بنی حسن گویند و بعضے از آل رسول اعتقاد دارند وبعضے او را فردے از افراد امت قرار دہند۔و بعضے را عقیدہ آنست کہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 146
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 146
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/146/mode/1up
وقیل لا مہدی إلَّا عیسی، وکذالک اختلف فی نزول عیسٰی، فالقرآن یشہد أنہ مات ولحق الموتٰی، وقیل أنہ ینزل من السماوات العلٰی، وأنہ حیّ وما مات وما فنا، وقال قوم أنہ مات کما بیّن الفرقان الحمید، ولا یُخالفہ إلَّا العنید۔ وقال ہؤلاء انہ لا ینزل إلَّا علی طور البروز، وذہب إلیہ کثیر من المعتزلۃ وکرام الصوفیہ من أہل الرموز۔ والذین اعتقدوا بنزولہ من السماء فہم اختلفوا فی محلّ النزول وتفرقوا فی الآراء ، فقیل إنہ ینزل بدمشق عند منارۃ، ویوافی أہلہ علی غرارۃ، وقیل ینزل ببعض معسکر الإسلام، وقیل بأرض وطأہا
اور بعض کہتے ہیں کہ کوئی دو سرا مہدی نہیں عیسیٰ ہی مہدی ہے اور وہی آئے گا اور کوئی نہیں ہو گا اور اسی طرح اور بھی قول ہیں اور اسی طرح مسیح کے نزول میں اختلاف ہے پس قرآن گواہی دیتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے اور وہ زندہ ہیں مرے نہیں اور ایک قوم نے یہ کہا ہے کہ وہ درحقیقت مر گیا ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے اور اس قو ل کی مخالفت وہی کرے گا جو حق کے مقابل پر نا حق جھگڑتا ہے اور جو لوگ اس کی موت کے قائل ہیں ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ مسیح کا نزول بطور بروز کے ہو گا اور معتزلہ اور اکابر صوفیوں کا یہی مذہب ہے ۔اور جو لوگ نزول آسمان کے قائل ہیں ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ وہ دمشق کے منارہ کے پاس نازل ہو گا اور بعض اس کی فرود گا ہ لشکر اسلام قرار دیتے ہیں اور بعض وہ جو دجّال کے ظہور کی جگہ ہے
ہیچ مہدی غیر عیسیٰ نخواہد بود۔ ہماں خواہدآمد و دیگرے غیر وے نیست۔ ہم چنین درباب نزول عیسیٰ اختلافات واقع است۔قرآن گواہی دہد کہ حضرت عیسیٰ فوت کرد۔ قول دیگر آنکہ او از آسمان نازل بشود و ہنوز زندہ است و نمردہ۔و قومے بر آنند کہ او بحقیقت مردہ است بر وفق آنچہ قول قرآن کریم است۔ وخلاف ایں قول کسی راہ رود کہ بمقابل حق ہرزہ ستیرہ کاری کند۔ از قائلین مرگ مسیح اکثر بر آنند کہ نزولش بطور بروز افتد۔ و معتزلہ و اکابر صوفیہ بر ہمیں مسلک رفتار کردہ اند۔ اماقائلان نزول از آسمان پس بعضے از ایشاں گویند کہ او در نزد منارۂ دمشق فرود آید۔ و بعضے گویند در لشکر اسلام نزول فرماید۔ و بعضے بر آنند کہ
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 147
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 147
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/147/mode/1up
الدجّال وعاث فی العوام، وقیل إنہ ینزل بمکۃ أمّ القری، وقیل ینزل بالمسجد الأقصی، وکذالک قیل أقوال أخریٰ۔ وزادت الاختلافات بزیادۃ الأقوال حتی صار الوصول إلی الحق کالأمر المحال۔ وقد ورد فی أخبار خیر الکائنات، علیہ أفضل الصلوۃ والتحیات، أن المسیح یرفع الاختلافات، ویجعلہ اللّٰہ حَکمًا فیحکم فیما شجر بین الأمۃ من اختلاف الآراء والاعتقادات۔ فالذین یُحکّمونہ فی تنازعاتہم ثم لا یجدوا فی أنفسہم حرجًا مما قضٰی لرفع اختلافاتہم، بل یقبلونہ لصفاء نیّاتہم، فأولٰئک ہم المؤمنون حقّا وأولئک من المفلحین۔ ویقول الذین أعرضوا حسبنا ما وجدنا
علیہ آباء نا ولو کان آباؤہم
اور بعض مکہ معظمہ اور بعض بیت المقدس
اور بعض اور اور جگہیں اس کے نزول کی قرار دیتے ہیں ۔
اور احا دیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ان اختلافات کو خود مسیح آکر دور فرمائے گا۔ اور خدا اس کو فیصلہ کے لئے حَکم مقرر کر دے گا ۔پس جو لوگ اس کو حَکممان لیں گے اور اس کے فیصلہ سے تنگ دل نہیں ہوں گے اور صفاءِ نیت سے قبول کریں گے وہی سچے مومن ہوں گے۔ اور جو لوگ قبول نہیں کریں گے وہ کہیں گے کہ جس عقیدہ پر ہم
نے اپنے بزرگوں کو پایا وہی
ظہور او مقام دجال باشد و بعضے مکہ معظمہ و بعضے بیت المقدّس و ہمچنین مقامات متفرقہ از بہر نزول او تخمین کنند۔ و در احادیث آمدہ کہ ایں نوع اختلافات را مسیح موعود خود رفع و فصل خواہد کرد۔ آناں کہ او را حَکَم بپذیرند و از قضاء وتحکیم وے تنگی و قبض دردل نیابند مومن آناں باشد ۔ و منکران گویند کہ ما را ہماں عقیدہ ہا بس است کہ پدران ما بآنہا
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 148
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 148
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/148/mode/1up
من الخاطئین۔ وعجبوا أن جاء ہم مأمور من ربہم وقالوا إن ہذا إلَّا من المفترین وقد کانوا من قبل علٰی رأس الماءۃ من المنتظرین۔ وإنہ جاء!ھم لإعزازہم، وجہّزہم بجہازہم، وآتاہم ما یُفحم قومًا مفسدین۔ أما عرفوا وقتہ أو جاء عندہم فی غیر حین؟ وإن أیام اللّٰہ
قد أتت، وقرب یوم الفصل فبشریٰ للذین یقبلونہ شاکرین۔ یریدون أن یطأوا ما أراد اللّٰہ أن یُعلیہ ویُجادلون بغیر علم وبرہان مبین۔ وکتب اللّٰہ أن یجعل عبادہ المرسلین غالبین، فلیحاربوا اللّٰہ إن کانوا قادرین،
وما کان الأمرمشتبہا
عقید ہ ہمارے لئے کا فی ہے ۔ اور ان کو اس بات سے تعجب ہے کہ کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مامور آگیا اور انہوں نے کہا یہ تو مفتری آدمی ہے۔ اور پہلے صدی کے سر پر انتظار کر رہے تھے۔ اور وہ ان کو عز ت دینے کے لئے آیا اور اس نے ان کا تمام سامان طیار کیا اور وہ و سائل ان کو دیئے جس سے مخالف لا جواب ہو جائیں کیا انہوں نے اس مامور کے وقت کو شناخت نہیں کیا یا وہ ان کے پاس بے وقت آیا ہے ۔ اور بہ تحقیق خدا تعالیٰ کے دن آ گئے اور فیصلے کا دن قریب ہو گیا ۔ پس انہیں بشارت ہو کہ جو شکر کے ساتھ قبول کریں۔کیا ان کا یہ ارادہ ہے کہ جس کو خدابلند کرنا چاہتا ہے اس کو پامال کر دیں اور ناحق بحث مباحثہ کرتے رہیں اور خدا نے تو یہ لکھ چھوڑا ہے کہ اس کے بھیجے ہو ئے بندے غالب ہوں گے ۔پس کیا وہ خد ا سے لڑ سکتے ہیں۔ اور بات مشتبہ نہیں تھی مگر
گرویدہ اند۔و ایشاں در شگفت بماندند کہ چگونہ از جانب خدا آمد و او را مفتری و دروغ باف گفتند و بر سر صد چشم در را ہش بودند۔ حال آنکہ او از بہر ہمیں آمدہ است کہ آبروئے شان را بیفزاید و سامانے و موادے دردست شاں بداد کہ تا بر اعدائے اسلام بحجت و برہان چیرہ و توانابشوند۔ آیا ایشان وقت ایں مامور را نہ شناختہ اند یا او نزد ایشاں در غیر وقت آمدہ است۔ ہمانا ایام اللہ آمدہ و یوم فصل قریب است۔مژدہ آنان را کہ از کمال منت پزیری او را قبول نمایند۔ آیا می خواہند کسے را کہ خدا میخواہد بر افرازو پائے بر سروے بگذارند و پیکا رہائے بیہودہ وپر خاشہائے لا طائل باوے بر پابدارند۔ وخدا مکتوب کرد است کہ البتہ فرستادہایش منصور
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 149
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 149
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/149/mode/1up
ولکن قست قلوبہم فصاروا کالعمین.أیہا الناس۔ لم تکفرون بآیات اللّٰہ وقد رأیتموہا بأعینکم۔ ألیس فیکم رشید أمین۔ وإنکم سخرتم من عبد اللّٰہ المأمور، وکدتم تقتلونہ بالسیف المشہور، ولکن اللّٰہ ألقٰی علیکم رعب السلطنۃ، ولولا ہذہ لسطوتم علی عباد اللّٰہ المرسلین، وقد تبین الحق فسوّلت لکم أنفسکم معاذیر وما أمعنتم کالخاشعین، فنفوّض أمرنا إلی اللّٰہ وہو أحکم الحاکمین
اُن کے دل سخت ہو گئے سو وہ اندھوں کی طرح ہو گئے۔
اے لوگو ! کیوں خد اتعالیٰ کے نشانوں سے انکا ر کرتے ہواور تم نے ان کو بچشم خود دیکھا ۔ کیا تم میں کوئی بھی رشید نہیں ۔ اور تم نے خدا کے بندۂ مامور سے ٹھٹھا کیا اور قریب تھا کہ تم اس کو تلوار سے قتل کر دیتے مگر خدا نے تم پر سلطنت کا رعب ڈالا۔ اور اگر یہ سلطنت نہ ہوتی تو تم خدا کے مرسلوں پر حملہ کرتے۔ اور حق کھل گیا اور تم نے ناحق عذر تراشے اور کچھ غور نہیں کی ۔ سو ہم خداتعالیٰ کی طرف اپنے کام کو سپر د کرتے ہیں اور وہ احکم الحاکمین ہے ۔ فقط
ومظفر خواہندبود۔ آیا ایشاں میخواہند کہ پنجہ باپنجۂ خدا بز نند۔ امر واضح و آشکار بودولے دلہا شاں سخت و دیدہ شاں کورشد مردمان چراانکار برنشانہائے خدا دارید۔ حال آنکہ بچشم سر مشاہدہ کر دید چہ نفسے درمیانۂ شما جامۂ رشد و صلاح در برندارد۔ برمامور خدا خندہا زدہ اید و نزدیک بود کہ بہ تیغش سر از تن جدا میکر دید اگر چنانچہ ۔۔۔ سطوت سلطنتِ برطانیہ نبودے۔ لاریب اگر سایۂ این دولت نمی بود دقیقے از دقائق حملہ کردن بر مر سلان الٰہی فرو نمی گذاشتیدحق آشکار شد ولے عذر ہائے باطل بر بافتیدو اندیشہ درکار نکردید۔ پس زمام کارہا دردست خدامی سپاریم و در جمیع امور رجوع باو می آریم و ہواحکم الحاکمین ۔تمت
راقم میرزا غلام احمد القادیانی ضلع گورد اسپور پنجاب
۲۰ ؍نومبر۱۸۹۸ ؁ء
Ruhani Khazain Volume 14. Page: 150
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۴- نجم الھُدٰے: صفحہ 150
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=14#page/150/mode/1up
 
Last edited:
Top