• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 15 ۔مسیح ہندوستان میں ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن

Ruhani Khazain Volume 15. Page: 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


Ruhani Khazain Volume 15. Page: 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


Ruhani Khazain Volume 15. Page: 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
03
3
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
3
اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے

دیباچہ
اس کتاب کو میں اس مراد سے لکھتا ہوں کہ تاواقعات صحیحہ اور نہایت کامل اور ثابت شدہ تاریخی شہادتوں اور غیر قوموں کی قدیم تحریروں سے اُن غلط اورخطرناک خیالات کو دور کروں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثر فرقوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پہلی اور آخری زندگی کی نسبت پھیلے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ خیالات جن کے خوفناک نتیجے نہ صرف توحید باری تعالیٰ کے رہزن اور غارت گر ہیں بلکہ اس ملک کے مسلمانوں کی اخلاقی حالت پر بھی ان کا نہایت بد اور زہریلہ اثر متواتر مشاہدہ میں آرہا ہے اور ایسی بے اصل کہانیوں اور قصوں پر اعتقاد رکھنے سے بداخلاقی اور بداندیشی اور سخت دلی اور بے مہری کی رُوحانی بیماریاں اکثر اسلامی فرقوں میں پھیلتی جاتی ہیں اور ان کی صفت انسانی ہمدردی اور رحم اور انصاف اور انکسار اور تواضع کی پاک صفات اس قدر روز بروز کم ہوتی جاتی ہیں کہ گویا وہ اب جلد تر الوداع کہنے کو طیّار ہیں۔ اس سخت دلی اور بد اخلاقی
نوٹ:۔ کتاب ’’ مسیح ہندوستان میں ‘‘ کے متن میں جن انگریزی کتب اور ان کے مصنفین کے نام دیئے گئے ہیں ۔ صحت تلفظ کے لئے انہیں حاشیہ میں انگریزی میں دیا گیا ہے -ناشر


Ruhani Khazain Volume 15. Page: 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 4
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/4/mode/1up
04
کیؔ وجہ سے بہتیرے مسلمان ایسے دیکھے جاتے ہیں کہ ان میں اور درندوں میں شاید کچھ تھوڑا ہی سا فرق ہوگا۔ اور ایک جین مت کا انسان اور یا بُدھ مذہب کا ایک پابند ایک مچھر یا پسّوکے مارنے سے بھی پرہیز کرتا اور ڈرتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم مسلمانوں میں سے اکثر ایسے ہیں کہ وہ ایک ناحق کا خون کرنے اور ایک بے گناہ انسان کی جان ضائع کرنے کے وقت بھی اُس قادر خدا کے مواخذہ سے نہیں ڈرتے جس نے زمین کے تمام جانوروں کی نسبت انسان کی جان کو بہت زیادہ قابلِ قدر قرار دیا ہے۔اس قدر سخت دلی اور بے رحمی اور بے مہری کا کیا سبب ہے؟ یہی سبب ہے کہ بچپن سے ایسی کہانیاں اور قصّے اور بے جا طور پر جہاد کے مسئلے ان کے کانوں میں ڈالے جاتے اور اُن کے دل میں بٹھائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے رفتہ رفتہ ان کی اخلاقی حالت مردہ ہوجاتی ہے اور ان کے دل ان نفرتی کاموں کی بدی کو محسوس نہیں کر سکتے۔ بلکہ جو شخص ایک غافل انسان کو قتل کر کے اس کے اہل و عیال کو تباہی میں ڈالتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ گویا اُس نے بڑا ہی ثواب کا کام بلکہ قوم میں ایک فخر پیدا کرنے کا موقعہ حاصل کیا ہے۔ اور چونکہ ہمارے اس ملک میں اس قسم کی بدیوں کے روکنے کے لئے وعظ نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو نفاق سے ۔اس لئے عوام الناس کے خیالات کثرت سے ان فتنہ انگیز باتوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں چنانچہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ اپنی قوم کے حال پر رحم کر کے اردو اور فارسی اور عربی میں ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں یہ ظاہر کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کا مسئلہ اور کسی خونی امام کے آنے کے انتظار کا مسئلہ اور دوسری قوموں سے بُغض رکھنے کا مسئلہ یہ سب بعض کوتہ اندیش علماء کی غلطیاں ہیں ورنہ اسلام میں بجز دفاعی طور کی جنگ یا ان جنگوں کے سوا جو بغرض سزائے ظالم یا آزادی قائم کرنے کی نیت سے ہوں اور کسی صورت میں دین کے لئے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں اور دفاعی طور کی جنگ سے مراد وہ لڑائیاں ہیں جن کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کہ مخالفوں کے بلوہ سے اندیشہ جان ہو یہ تین قسم کے شرعی جہاد ہیں بجز ان تین صورتوں کی جنگ کے اور کوئی صورت جو دین کے پھیلانے کے
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 15. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

05

لئے ہو اسلاؔ م میں جائز نہیں۔غرض اس مضمون کی کتابیں میں نے بہت سا روپیہ خرچ کر کے اس ملک اور نیز عرب اور شام اور خراسان وغیرہ ممالک میں تقسیم کی ہیں لیکن اب مجھے خدائے تعالیٰ کے فضل سے ایسے باطل اور بے اصل عقائد کو دلوں میں سے نکالنے کے لئے وہ دلائلِ قویہ اور کھلے کھلے ثبوت اور قرائن یقینیّہ اور تاریخی شہادتیں ملی ہیں جن کی سچائی کی کرنیں مجھے بشارت دے رہی ہیں کہ عنقریب اُن کی اشاعت کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں اِن عقائد کے مخالف ایک تعجب انگیز تبدیلی پیدا ہونے والی ہے اور نہایت یقین سے امید کی جاتی ہے کہ ان سچائیوں کے سمجھنے کے بعد اسلام کے سعادت مند فرزندوں کے دلوں میں سے حلم اور انکسار اور رحم دلی کے خوشنما اور شیریں چشمے جاری ہوں گے اور اُن کی رُوحانی تبدیلی ہو کر ملک پر ایک نہایت نیک اور بابرکت اثر پڑے گا۔ ایسا ہی مجھے یقین ہے کہ عیسائی مذہب کے محقق اور دوسرے تمام سچائی کے بھوکے اور پیاسے بھی اس میری کتاب سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اور یہ جو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ اس کتاب کا اصل مدعا مسلمانوں اور عیسائیوں کی اُس غلطی کی اصلاح ہے جو ان کے بعض اعتقادات میں دخل پاگئی ہے یہ بیان کسی قدر تفصیل کا محتاج ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں۔

واضح ہو کہ اکثر مسلمانوں اور عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں۔ اور یہ دونوں فرقے ایک مدت سے یہی گمان کرتے چلے آئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور کسی وقت آخری زمانہ میں پھر زمین پر نازل ہوں گے۔ اور ان دونوں فریق یعنی اہلِ اسلام اور مسیحیوں کے بیان میں فرق صرف اتنا ہے کہ عیسائی تو اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر جان دی اور پھر زندہ ہو کر آسمان پر مع جسمِ عنصری چڑھ گئے اور اپنے باپ کے دائیں ہاتھ جا بیٹھے اور پھرآخری زمانہ میں دنیا کی عدالت کے لئے زمین پر آئیں گے اور کہتے ہیں کہ دنیا کا خدا اور خالق اور مالک وہی یسوع مسیح ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ وہی ہے جو



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

06

دنیا ؔ کے اخیر میں سزا جزا دینے کے لئے جلالی طور پر نازل ہوگا تب ہر ایک آدمی جس نے اس کو یا اس کی ماں کو بھی خدا کر کے نہیں مانا پکڑا جائے گا اور جہنم میں ڈالا جائے گا جہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔ مگر مسلمانوں کے مذکورہ بالا فرقے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ صلیب پر مرے بلکہ اس وقت جبکہ یہودیوں نے ان کو مصلوب کرنے کے لئے گرفتار کیا خدا کا فرشتہ ان کو مع جسم عنصری آسمان پر لے گیا اور اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مقام ان کا دوسرا آسمان ہے جہاں حضرت یحیٰی نبی یعنی یوحنّا ہیں۔ اور نیز مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کا بزرگ نبی ہے مگر نہ خدا ہے اور نہ خدا کا بیٹا اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے منارہ کے قریب یا کسی اور جگہ اتریں گے اور امام محمد مہدی کے ساتھ مل کر جو پہلے سے بنی فاطمہ میں سے دنیا میں آیا ہوا ہوگا دنیا کی تمام غیر قوموں کو قتل کر ڈالیں گے اور بجز ایسے شخص کے جو بلا توقف مسلمان ہوجائے اور کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ غرض مسلمانوں کا وہ فرقہ جو اپنے تئیں اہلِ سنّت یا اہلِ حدیث کہتے ہیں جن کو عوام وہابی کے نام سے پکارتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ زمین پر نازل ہونے سے اصل مقصد یہ قرار دیتے ہیں کہ تا وہ ہندوؤں کے مہادیو کی طرح تمام دنیا کو فنا کر ڈالیں۔ اول یہ دھمکی دیں کہ مسلمان ہو جائیں اور اگر پھر بھی لوگ کفر پر قائم رہیں تو سب کو تہ تیغ کردیں۔ اور کہتے ہیں کہ اسی غرض سے وہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ رکھے گئے ہیں کہ تا ایسے زمانہ میں جبکہ اسلامی سلاطین کی طاقتیں کمزور ہوجائیں آسمان سے اتر کر غیر قوموں کو ماریں اور جبر سے مسلمان کریں یا بصورت انکار قتل کردیں۔ بالخصوص عیسائیوں کی نسبت بڑے زور سے فرقہ مذکورہ کے عالم یہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے تو وہ دنیا کی تمام صلیبوں کو توڑ دیں گے اور تلوار کے ساتھ سخت بے رحمی کی کارروائیاں کریں گے اور دنیا کو خون میں غرق کر دیں گے۔ اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے یہ لوگ یعنی مسلمانوں میں سے اہلِ حدیث وغیرہ بڑے جوش سے یہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

07

اعتقاؔ د ظاہر کرتے ہیں کہ مسیح کے اترنے سے کچھ عرصہ پہلے بنی فاطمہ میں سے ایک امام پیدا ہوگا جس کا نام محمد مہدی ہوگا اور دراصل خلیفۂ وقت اور بادشاہ وہی ہوگا کیونکہ وہ قریش میں سے ہوگا۔ اور چونکہ اصل غرض اس کی یہ ہوگی کہ تمام غیر قوموں کو جو اسلام سے منکر ہیں قتل کر دیا جائے بجز ایسے شخص کے کہ جو جلدی سے کلمہ پڑھ لے اس لئے اُس کی مدد اور ہاتھ بٹانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور گو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بجائے خود ایک مہدی ہیں بلکہ بڑے مہدی وہی ہیں لیکن اس سبب سے کہ خلیفۂ وقت قریش میں سے ہونا چاہئیے اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام خلیفۂ وقت نہیں ہوں گے بلکہ خلیفۂ وقت وہی محمد مہدی ہوگا۔ اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر زمین کو انسانوں کے خون سے بھر دیں گے اور اس قدر خونریزی کریں گے جس کی نظیر ابتداء دنیا سے اخیر تک کسی جگہ نہیں پائی جائے گی اور آتے ہی خونریزی ہی شروع کر دیں گے اور کوئی وعظ وغیرہ نہیں کریں گے اور نہ کوئی نشان دکھائیں گے اور کہتے ہیں کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام محمد مہدی کے لئے بطور مشیر یا وزیر کے ہوں گے اور عنانِ حکومت صرف مہدی کے ہاتھ میں ہوگی لیکن حضرت مسیح تمام دنیا کے قتل کرنے کے لئے حضرت امام محمد مہدی کو ہر وقت اکسائیں گے۔ اور تیز مشورے دیتے رہیں گے۔ گویا اُس اخلاقی زمانہ کی کسر نکالیں گے جبکہ آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ کسی شر کا مقابلہ مت کرو اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دو۔

یہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت عقیدے ہیں اور اگرچہ عیسائیوں کی یہ ایک بڑی غلطی ہے کہ وہ ایک عاجز انسان کو خدا کہتے ہیں لیکن بعض اہلِ اسلام جن میں سے اہلِ حدیث کا وہ فرقہ بھی ہے جن کو وہابی بھی کہتے ہیں ان کے یہ عقائد کہ جو خونی مہدی اور خونی مسیح موعود کی نسبت ان کے دلوں میں ہیں ان کی اخلاقی حالتوں پر نہایت بد اثر ڈال رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس بد اثر کی وجہ سے نہ کسی دوسری قوم سے نیک نیتی اور صلح کاری اور دیانت کے ساتھ رہ سکتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

08

اور ؔ نہ کسی دوسری گورنمنٹ کے نیچے سچی اور کامل اطاعت اور وفاداری سے بسر کر سکتے ہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا عقیدہ سخت اعتراض کی جگہ ہے کہ غیر قوموں پر اس قدر جبر کیا جائے کہ یا تو بلاتوقف مسلمان ہوجائیں اور یا قتل کئے جائیں۔ اور ہر ایک کانشنس بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قبل اس کے کہ کوئی شخص کسی دین کی سچائی کو سمجھ لے اور اس کی نیک تعلیم اور خوبیوں سے مطلع ہو جائے یونہی جبر اور اکراہ اور قتل کی دھمکی سے اس کو اپنے دین میں داخل کرنا سخت ناپسندیدہ طریقہ ہے اور ایسے طریقہ سے دین کی ترقی توکیا ہوگی بلکہ برعکس اس کے ہر ایک مخالف کو اعتراض کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اور ایسے اصولوں کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ نوع انسان کی ہمدردی بکلّی دل سے اٹھ جائے اور رحم اور انصاف جو انسانیت کا ایک بھاری خلق ہے ناپدید ہوجائے اور بجائے اُس کے کینہ اور بد اندیشی بڑھتی جائے اور صرف درندگی باقی رہ جائے اور اخلاقِ فاضلہ کا نام و نشان نہ رہے۔ مگر ظاہر ہے کہ ایسے اصول اس خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتے جس کا ہر ایک مواخذہ اتمام حجت کے بعد ہے۔

سوچنا چاہئیے کہ اگر مثلاً ایک شخص ایک سچے مذہب کو اس وجہ سے قبول نہیں کرتا کہ وہ اس کی سچائی اور اس کی پاک تعلیم اور اس کی خوبیوں سے ہنوز ناواقف اور بے خبر ہے تو کیا ایسے شخص کے ساتھ یہ برتاؤ مناسب ہے کہ بلاتوقّف اس کو قتل کردیا جائے بلکہ ایسا شخص قابلِ رحم ہے اور اس لائق ہے کہ نرمی اور خلق سے اُس مذہب کی سچائی اور خوبی اور روحانی منفعت اُس پر ظاہر کی جائے نہ یہ کہ اس کے انکار کا تلوار یا بندوق سے جواب دیا جائے۔ لہٰذا اس زمانہ کے ان اسلامی فرقوں کا مسئلہ جہاد اور پھر اُس کے ساتھ یہ تعلیم کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک خونی مہدی پیدا ہوگا جس کا نام امام محمد ہوگا اور مسیح اس کی مدد کے لئے آسمان سے اترے گا اور وہ دونوں مل کر دنیا کی تمام غیر قوموں کو اسلام کے انکار پر قتل کردیں گے۔ نہایت درجہ اخلاقی مسئلہ کے مخالف ہے۔ کیا یہ وہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو انسانیت کے تمام پاک قویٰ کو معطل کرتا اور درندوں کی طرح جذبات پیدا کردیتا ہے اور ایسے عقائد والوں کو ہر ایک قوم



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

09

سے ؔ منافقانہ زندگی بسر کرنی پڑتی ہے یہاں تک کہ غیر قوم کے حکام کے ساتھ بھی سچی اطاعت کے ساتھ پیش آنا محال ہوجاتا ہے بلکہ دروغ گوئی کے ذریعہ سے ایک جھوٹی اطاعت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک برٹش انڈیا میں اہلِ حدیث کے بعض فرقے جن کی طرف ہم ابھی اشارہ کر آئے ہیں گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت دو رویہ طرزکی زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی پوشیدہ طور پر عوام کو وہی خونریزی کے زمانہ کی امیدیں دیتے ہیں اور خونی مہدی اور خونی مسیح کے انتظار میں ہیں اور اسی کے مطابق مسئلے سکھاتے ہیں اور پھر جب حکام کے سامنے جاتے ہیں تو ان کی خوشامدیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ایسے عقیدوں کے مخالف ہیں۔ لیکن اگر سچ مچ مخالف ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریرات کے ذریعہ سے اس کی عام اشاعت نہیں کرتے اور کیا وجہ کہ وہ آنے والے خونی مہدی اور مسیح کی ایسے طور سے انتظار کر رہے ہیں کہ گویا اس کے ساتھ شامل ہونے کے لئے دروازے پر کھڑے ہیں۔ غرض ایسے اعتقادات سے اس قسم کے مولویوں کی اخلاقی حالت میں بہت کچھ تنزل پیدا ہو گیا ہے اور وہ اس لائق نہیں رہے کہ نرمی اور صلح کاری کی تعلیم دے سکیں بلکہ دوسرے مذہب کے لوگوں کو خواہ نخواہ قتل کرنا دینداری کا ایک بڑا فرض سمجھا گیا ہے۔ ہم اس سے بہت خوش ہیں کہ کوئی فرقہ اہلِ حدیث میں سے ان غلط عقیدوں کا مخالف ہو۔ لیکن ہم اس بات کو افسوس کے ساتھ بیان کرنے سے رُک نہیں سکتے کہ اہل حدیث کے فرقوں میں سے وہ چھپے وہابی بھی ہیں جو خونی مہدی اور جہاد کے مسائل کو مانتے ہیں اور طریق صحیح کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں اور کسی موقع کے وقت میں دوسرے مذاہب کے تمام لوگوں کو قتل کردینا بڑے ثواب کا طریق خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ عقائد یعنی اسلام کے لئے قتل یا ایسی پیشگوئیوں پر عقیدہ رکھنا کہ گویا کوئی خونی مہدی یا خونی مسیح دنیا میں آئے گا اور خونریزی اور خونریزی کی دھمکیوں سے اسلام کو ترقی دینا چاہے گا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے بالکل مخالف ہیں۔ ہمارے

اہل حدیث میں سے بعض بڑی گستاخی اور ناحق شناسی سے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ عنقریب مہدی پیدا ہونے والا ہے اور وہ ہندوستان کے بادشاہ انگریزوں کو اپنا اسیر بنائے گا اور اس وقت عیسائی بادشاہ گرفتار ہو کر اس کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یہ کتابیں اب تک ان اہل حدیث کے گھروں میں موجود ہیں۔ منجملہ ان کے کتاب اقتراب الساعۃ ایک بڑے مشہور اہل حدیث کی تصنیف ہے جس کے صفحہ۶۴ میں یہی قصہ لکھا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

10


نبی ؔ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں اور پھر بعد اس کے بھی کفار کے ہاتھ سے دکھ اٹھایا اور بالخصوص مکہ کے تیرہ برس اس مصیبت اور طرح طرح کے ظلم اٹھانے میں گذرے کہ جس کے تصور سے بھی رونا آتا ہے لیکن آپ نے اس وقت تک دشمنوں کے مقابل پر تلوار نہ اٹھائی اور نہ ان کے سخت کلمات کا سخت جواب دیا جب تک کہ بہت سے صحابہ اور آپ کے عزیز دوست بڑی بے رحمی سے قتل کئے گئے اور طرح طرح سے آپ کو بھی جسمانی دکھ دیا گیا اور کئی دفعہ زہر بھی دی گئی۔ اور کئی قسم کی تجویزیں قتل کرنے کی کی گئیں جن میں مخالفوں کو ناکامی رہی جب خدا کے انتقام کا وقت آیا تو ایسا ہوا کہ مکہ کے تمام رئیسوں اور قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے اتفاق کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بہر حال اس شخص کو قتل کردینا چاہئیے۔ اس وقت خدا نے جو اپنے پیاروں اور صدیقوں اور راستبازوں کا حامی ہوتا ہے آپ کو خبر دے دی کہ اس شہر میں اب بجز بدی کے کچھ نہیں اور قتل پر کمربستہ ہیں یہاں سے جلد بھاگ جاؤ تب آپ بحکم الٰہی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ مگر پھر بھی مخالفوں نے پیچھا نہ چھوڑا بلکہ تعاقب کیا۔ اور بہرحال اسلام کو پامال کرنا چاہا۔ جب اس حد تک ان لوگوں کی شورہ پشتی بڑھ گئی اور کئی بے گناہوں کے قتل کرنے کے جرم نے بھی ان کو سزا کے لائق بنایا تب ان کے ساتھ لڑنے کے لئے بطور مدافعت اور حفاظت خود اختیاری اجازت دی گئی اور نیز وہ لوگ بہت سے بے گناہ مقتولوں کے عوض میں جن کو انہوں نے بغیر کسی معرکہ جنگ کے محض شرارت سے قتل کیا تھا اور ان کے مالوں پر قبضہ کیا تھا اس لائق ہو گئے تھے کہ اسی طرح ان کے ساتھ اور ان کے معاونوں کے ساتھ معاملہ کیا جاتا۔ مگر مکہ کی فتح کے وقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو بخش دیا لہٰذا یہ خیال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کبھی دین پھیلانے کے لئے لڑائی کی تھی یا کسی کو جبرًااسلام میں داخل کیا تھا سخت غلطی اور ظلم ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چونکہ اس زمانہ میں ہر ایک قوم کا اسلام کے ساتھ تعصب بڑھا ہوا تھا اور مخالف لوگ اس کو ایک فرقہ جدیدہ اور جماعت قلیلہ

سمجھ کر اس کے نیست و نابود کرنے کی تدبیروں میں لگے ہوئے تھے اور ہر ایک اس فکر میں تھا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

11

کہؔ کسی طرح یہلوگ جلد نابود ہوجائیں اور یا ایسے منتشر ہوں کہ ان کی ترقی کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے اس وجہ سے بات بات میں ان کی طرف سے مزاحمت تھی اور ہر ایک قوم میں سے جو شخص مسلمان ہوجاتا تھا وہ قوم کے ہاتھ سے یا تو فی الفور مارا جاتا اور یا اس کی زندگی سخت خطرہ میں رہتی تھی تو ایسے وقت میں خداتعالیٰ نے نومسلم لوگوں پر رحم کرکے ایسی متعصب طاقتوں پر یہ تعزیر لگا دی تھی کہ وہ اسلام کے خراج دہ ہوجائیں اور اس طرح اسلام کے لئے آزادی کے دروازے کھول دیں اور اس سے مطلب یہ تھا کہ تا ایمان لانے والوں کی راہ سے روکیں دور ہوجائیں اور یہ دنیا پر خدا کا رحم تھا اور اس میں کسی کا حرج نہ تھا۔ مگر ظاہر ہے کہ اس وقت کے غیر قوم کے بادشاہ اسلام کی مذہبی آزادی کو نہیں روکتے، اسلامی فرائض کو بند نہیں کرتے اور اپنی قوم کے مسلمان ہونے والوں کو قتل نہیں کرتے، ان کو قید خانوں میں نہیں ڈالتے ان کو طرح طرح کے دکھ نہیں دیتے تو پھر کیوں اسلام ان کے مقابل پر تلوار اٹھا وے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا۔ اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تدبر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت معلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلام نے دین کو جبرًا پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابلِ شرم الزام ہے اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصب سے الگ ہوکر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ان بہتانوں کی حقیقت پر مطلع ہوجائیں گے۔ کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ3 ۱؂ یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں۔ کیا ہم اس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو۔ ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گذر گئی اور دین اسلام کے مٹادینے کے لئے تمام قوموں نے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 12

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/12/mode/1up

12

کوشش ؔ کی تو اس وقت غیرتِ الٰہی نے تقاضا کیا کہ جو لوگ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں۔ ورنہ قرآن شریف نے ہرگز جبر کی تعلیم نہیں دی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتے کہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے۔ لیکن ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ کے صحابہ کی وفاداری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں۔ یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان سے صدق اور وفاداری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس وفادار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی وفاداری اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آسکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منور نہ ہو۔ غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں۔ اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں(۱)دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خوداختیاری۔ (۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون۔ (۳) بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔ پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے برخلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے۔ یہ بات ایسی نہ تھی کہ سمجھ نہ آسکتی یا اس کے سمجھنے میں کچھ مشکلات ہوتیں۔ لیکن نادان لوگوں کو نفسانی طمع نے اس عقیدہ کی طرف جھکایا ہے کیونکہ ہمارے اکثر مولویوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ مہدی کی لڑائیوں کے ذریعہ سے بہت سا مال ان کو ملے گا یہاں تک کہ وہ سنبھال نہیں سکیں گے اور چونکہ آج کل اس ملک کے اکثر مولوی بہت تنگ دست ہیں اس وجہ سے بھی وہ ایسے مہدی کے دن رات منتظر ہیں کہ تا شاید

اسی ذریعہ سے ان کی نفسانی حاجتیں پوری ہوں لہٰذا جو شخص ایسے مہدی کے آنے سے انکار کرے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/13/mode/1up

13

یہ لوؔ گ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اس کو فی الفور کافر ٹھہرایا جاتا اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ میں بھی انہی وجوہ سے ان لوگوں کی نظر میں کافر ہوں کیونکہ ایسے خونی مہدی اور خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں ہوں بلکہ ان بیہودہ عقیدوں کو سخت کراہت اور نفرت سے دیکھتا ہوں اور میرے کافر کہنے کی صرف یہی وجہ نہیں کہ میں نے ایسے فرضی مہدی اور فرضی مسیح کے آنے سے انکار کردیا ہے جس پر ان کا اعتقاد ہے بلکہ ایک یہ بھی وجہ ہے کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر اس بات کا عام طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ حقیقی اور واقعی مسیح موعود جو وہی درحقیقت مہدی بھی ہے جس کے آنے کی بشارت انجیل اور قرآن میں پائی جاتی ہے اور احادیث میں بھی اس کے آنے کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ میں ہی ہوں مگر بغیر تلواروں اور بندوقوں کے۔ اور خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ نرمی اور آہستگی اور حلم اور غربت کے ساتھ اس خدا کی طرف لوگوں کو توجہ دلاؤں جو سچا خدا اور قدیم اور غیر متغیر ہے اور کامل تقدّس اور کامل علم اور کامل رحم اور کامل انصاف رکھتا ہے۔

اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں۔ اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کردوں۔ اور مجھے اس نے حق کے طالبوں کی تسلّی پانے کے لئے آسمانی نشان بھی عطا فرمائے ہیں اور میری تائید میں اپنے عجیب کام دکھلائے ہیں اور غیب کی باتیں اور آئندہ کے بھید جو خدائے تعالیٰ کی پاک کتابوں کی رو سے صادق کی شناخت کے لئے اصل معیار ہے میرے پر کھولے ہیں اور پاک معارف اور علوم مجھے عطا فرمائے ہیں اس لئے ان روحوں نے مجھ سے دشمنی کی جو سچائی کو نہیں چاہتیں اور تاریکی سے خوش ہیں۔ مگر میں نے چاہا کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے نوع انسان کی ہمدردی کروں۔ سو اس زمانہ میں عیسائیوں کے ساتھ بڑی ہمدردی یہ ہے کہ ان کو اس سچے خدا کی طرف توجہ دی جائے جو پیدا ہونے اور مرنے اور درد دکھ وغیرہ نقصانوں سے پاک ہے۔ وہ خدا جس نے تمام ابتدائی اجسام و اجرام کو



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/14/mode/1up

14

کروؔ ی شکل پر پیدا کر کے اپنے قانون قدرت میں یہ ہدایت منقوش کی کہ اس کی ذات میں کرویت کی طرح وحدت اور یک جہتی ہے اس لئے بسیط چیزوں میں سے کوئی چیز سہ گوشہ پیدا نہیں کی گئی یعنی جو کچھ خدا کے ہاتھ سے پہلے پہلے نکلا جیسے زمین ، آسمان، سورج، چاند اور تما م ستارے اور عناصر وہ سب کروی ہیں جن کی کرویت توحید کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ سو عیسائیوں سے سچی ہمدردی اور سچی محبت اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں کہ اس خدا کی طرف ان کو رہبری کی جائے جس کے ہاتھ کی چیزیں اس کو تثلیث سے پاک ٹھہراتی ہیں۔

اور مسلمانوں کے ساتھ بڑی ہمدردی یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالتوں کو درست کیاجائے اور ان کی ان جھوٹی امیدوں کو کہ ایک خونی مہدی اور مسیح کا ظاہر ہونا اپنے دلوں میں جمائے بیٹھے ہیں جو اسلامی ہدایتوں کی سراسر مخالف ہیں زائل کیا جائے۔ اور میں ابھی لکھ چکا ہوں کہ حال کے بعض علماء کے یہ خیالات کہ مہدی خونی آئے گا اور تلوار سے اسلام کو پھیلائے گا یہ تمام خیالات قرآنی تعلیم کے مخالف اور صرف نفسانی آرزوئیں ہیں اور ایک نیک اور حق پسند مسلمان کے لئے ان خیالات سے باز آجانے کے لئے صرف اسی قدر کافی ہے کہ قرآنی ہدایتوں کو غور سے پڑھے اور ذرہ ٹھہر کر اور فکر اور سوچ سے کام لے کر نظر کرے کہ کیونکر خدائے تعالیٰ کا پاک کلام اس بات کا مخالف ہے کہ کسی کو دین میں داخل کرنے کے لئے قتل کی دھمکی دی جائے۔ غرض یہی ایک دلیل ایسے عقیدوں کے باطل ثابت کرنے کے لئے کافی ہے لیکن تاہم میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ تاریخی واقعات وغیرہ روشن ثبوتوں سے بھی مذکورہ بالا عقائد کا باطل ہونا ثابت کروں۔ سو میں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئیے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ ایک سو بیس برس کی عمر پاکر سرینگر کشمیر میں فوت ہوگئے اور سرینگر محلہ خان یار میں ان کی قبر ہے۔ اور میں نے صفائی بیان کے لئے اس تحقیق کو دس ۱۰ باب اور ایک خاتمہ پر منقسم کیا ہے۔ (۱) اول وہ شہادتیں جو اس بارے میں انجیل سے ہم کو ملی ہیں۔ (۲) دوم وہ شہادتیں جو اس بارے میں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/15/mode/1up

15

قرآؔ ن شریف اور حدیث سے ہم کو ملی ہیں۔ (۳) سوم وہ شہادتیں جو طبابت کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں۔ (۴) چہارم وہ شہادتیں جو تاریخی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں۔ (۵) پنجم وہ شہادتیں جو زبانی تواترات سے ہم کو ملی ہیں۔ (۶) ششم وہ شہادتیں جو قرائن متفرقہ سے ہم کو ملی ہیں۔ (۷) ہفتم وہ شہادتیں جومعقولی دلائل سے ہم کو ملی ہیں۔ (۸) ہشتم وہ شہادتیں جو خدا کے تازہ الہام سے ہم کو ملی ہیں۔ یہ آٹھ ۸ باب ہیں۔ (۹) نویں باب میں برعایت اختصار عیسائی مذہب اور اسلام کا تعلیم کی رو سے مقابلہ کر کے دکھلایا جائے گا اور اسلامی مذہب کے سچائی کے دلائل بیان کئے جائیں گے۔ (۱۰) دسویں باب میں کچھ زیادہ تفصیل ان امور کی کی جائے گی جن کے لئے خدانے مجھے مامور کیا ہے۔ اور یہ بیان ہوگا کہ میرے مسیح موعود اور منجانب اللہ ہونے کا ثبوت کیا ہے۔ اور اخیر پر ایک خاتمہ کتاب کا ہوگا جس میں بعض ضروری ہدایتیں درج ہوں گی۔

ناظرین سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور یونہی بدظنی سے ان سچائیوں کو ہاتھ سے پھینک نہ دیں اور یاد رکھیں کہ ہماری یہ تحقیق سرسری نہیں ہے بلکہ یہ ثبوت نہایت تحقیق اور تفتیش سے بہم پہنچایا گیا ہے۔ اور ہم خدائے تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اس کام میں ہماری مدد کرے اور اپنے خاص الہام اور القا سے سچائی کی پوری روشنی ہمیں عطا فرماوے کہ ہر ایک صحیح علم اور صاف معرفت اسی سے اترتی اور اسی کی توفیق سے دلوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ آمین ثم آمین۔

خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں

۲۵ ؍ اپریل ۱۸۹۹ ؁ء



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/16/mode/1up

16

پہلا باب

جاننا چاہئیے کہ اگرچہ عیسائیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہودا اسکریوطی کی شرارت سے گرفتار ہوکر مصلوب ہوگئے اور پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے۔ لیکن انجیل شریف پر غور کرنے سے یہ اعتقاد سراسر باطل ثابت ہوتا ہے۔ متی باب۱۲ آیت ۴۰ میں لکھا ہے کہ جیسا کہ یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔ اب ظاہر ہے کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا نہیں تھا۔ اور اگر زیادہ سے زیادہ کچھ ہوا تھا تو صرف بیہوشی اور غشی تھی۔ اور خدا کی پاک کتابیں یہ گواہی دیتی ہیں کہ یونس خدا کے فضل سے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور زندہ نکلا۔ اور آخر قوم نے اس کو قبول کیا۔ پھر اگر حضرت مسیح علیہ السلام مچھلی ۱؂ کے پیٹ میں مر گئے تھے تو مردہ کو زندہ سے کیا مشابہت اور زندہ کو مردہ سے کیا مناسبت؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح ایک نبی صادق تھا اور جانتا تھا کہ وہ خدا جس کا وہ پیارا تھا *** موت سے اس کو بچائے گا۔ اس لئے اس نے خدا سے الہام پاکر پیشگوئی کے طور پر یہ مثال بیان کی تھی اور اس مثال میں جتلا دیا تھا کہ وہ صلیب پر نہ مرے گا اور نہ *** کی لکڑی پر اس کی جان نکلے گی بلکہ یونس نبی کی طرح صرف غشی کی حالت ہوگی۔ اور مسیح نے اس مثال میں یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ وہ زمین کے پیٹ سے نکل کر پھر قوم سے ملے گا

کاتب کی غلطی سے پہلے ایڈیشن میں ’’مچھلی ‘‘ لکھا گیا۔ اصل میں ’’زمین‘‘ ہے۔ شمس



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/17/mode/1up

17

اور ؔ یونس کی طرح قوم میں عزت پائے گا۔ سو یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی۔ کیونکہ مسیح زمین کے پیٹ میں سے نکل کر اپنی ان قوموں کی طرف گیا جو کشمیر اور تبت وغیرہ مشرقی ممالک میں سکونت رکھتی تھیں یعنی بنی اسرائیل کے وہ دس ۱۰ فرقے جن کو شالمنذر شاہ اسور سامریہ سے مسیح سے سات سو ۷۲۱ اکیس برس*پیشتر اسیر کر کے لے گیاآخر وہ ہندوستان کی طرف آکر اس ملک کے متفرق مقامات میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ اور ضرور تھا کہ مسیح اس سفر کو اختیار کرتا۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی اس کی نبوت کی علت غائی تھی کہ وہ ان گمشدہ یہودیوں کو ملتا جو ہندوستان کے مختلف مقامات میں سکونت پذیر ہوگئے تھے وجہ یہ کہ درحقیقت وہی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں جنہوں نے ان ملکوں میں آکر اپنے باپ دادے کا مذہب بھی ترک کردیا تھا اور اکثر ان کے بُدھ مذہب میں داخل ہوگئے تھے۔ اور پھر رفتہ رفتہ بت پرستی تک نوبت پہنچی تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر برنیر نے بھی اپنی کتاب وقائع سیر و سیاحت میں کئی اہل علم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ کشمیر کے باشندے دراصل یہودی ہیں کہ جو تفرقہ شاہ اسور کے ایام میں اس ملک میں آگئے تھے۔خبہر حال حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان گمشدہ بھیڑوں کو تلاش کرتے جو اس ملک ہند میں آکر دوسری قوموں میں مخلوط ہوگئی تھیں۔ چنانچہ آگے چل کر ہم اس بات کا ثبوت دیں گے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فی الواقع اس ملک ہند میں آئے اور پھر منزل بمنزل کشمیر میں پہنچے۔ اور اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کا بدھ مذہب میں پتہ لگا لیا۔ اور انہوں نے آخر اس کو اسی طرح قبول کیا جیسا کہ یونس کی قوم نے یونس کو قبول کر لیا تھا۔اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ مسیح انجیل میں اپنی زبان سے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہے۔

ماسوا اس کے صلیب کی موت سے نجات پانا اس کو اس لئے بھی ضروری تھا کہ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ جو کوئی کاٹھ پر لٹکایا گیا سو *** ہے۔ اور *** کا ایک ایسا مفہوم ہے کہ جو عیسیٰ مسیح جیسے برگزیدہ پر ایک دم کے لئے بھی تجویز کرنا سخت ظلم اور ناانصافی ہے۔ کیونکہ باتفاق تمام

اہل زبان *** کا مفہوم دل سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس حالت میں کسی کو ملعون کہا جائے گا

اور ان کے سوا اور یہودی بھی بابلی حوادث سے مشرقی بلاد کی طرف جلا وطن ہوئے۔ منہ

دیکھو جلد دوم واقعات سیر و سیاحت ڈاکٹر برنیر فرانسیسی۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/18/mode/1up

18

جبؔ کہ حقیقت میں اس کا دل خدا سے برگشتہ ہو کر سیاہ ہوجائے اور خدا کی رحمت سے بے نصیب اور خدا کی محبت سے بے بہرہ اور خدا کی معرفت سے بکلی تہی دست اور خالی اور شیطان کی طرح اندھا اور بے بہرہ ہوکر گمراہی کے زہر سے بھرا ہوا ہو اور خدا کی محبت اور معرفت کا نور ایک ذرہ اس میں باقی نہ رہے اور تمام تعلق مہر و وفا کا ٹوٹ جائے اور اس میں اور خدا میں باہم بغض اور نفرت اور کراہت اور عداوت پیدا ہوجائے۔ یہاں تک کہ خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہوجائے اور خدا اس سے بیزار اور وہ خدا سے بیزار ہوجائے۔ غرض ہر ایک صفت میں شیطان کا وارث ہوجائے اور اسی وجہ سے لعین شیطان کا نام ہے۔*اب ظاہر ہے کہ ملعون کا مفہوم ایسا پلید اور ناپاک ہے کہ کسی طرح کسی را ستباز پر جوکہ اپنے دل میں خدا کی محبت رکھتا ہے صادق نہیں آسکتا۔ افسوس کہ عیسائیوں نے اس اعتقاد کے ایجاد کرنے کے وقت *** کے مفہوم پر غور نہیں کی ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ لوگ ایسا خراب لفظ مسیح جیسے را ستباز کی نسبت استعمال کرسکتے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح پر کبھی ایسا زمانہ آیا تھا کہ اس کا دل درحقیقت خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا سے بیزار اور خدا کا دشمن ہوگیا تھا؟ کیا ہم گمان کر سکتے ہیں کہ مسیح کے دل نے کبھی یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اب خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اور کفر اور انکار کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے؟ پھر اگر مسیح کے دل پر کبھی ایسی حالت نہیں آئی بلکہ وہ ہمیشہ محبت اور معرفت کے نور سے بھرا رہا تو اے دانشمندو! یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیونکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسیح کے دل پر نہ ایک *** بلکہ ہزاروں خدا کی لعنتیں اپنی کیفیت کے ساتھ نازل ہوئی تھیں۔ معاذ اللہ ہرگز نہیں۔ تو پھر ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ نعوذ باللہ وہ *** ہوا؟ نہایت افسوس ہے کہ انسان جب ایک بات منہ سے نکال لیتا ہے یا ایک عقیدہ پر قائم ہوجاتا ہے تو پھر گو کیسی ہی خرابی اس عقیدہ کی کھل جائے کسی طرح اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا۔ نجات حاصل کرنے کی تمنا اگر کسی حقیقتِ حقہ پر بنیاد رکھتی ہو تو قابل تعریف امر ہے لیکن یہ کیسی نجات کی خواہش ہے جس سے ایک سچائی کا خون کیا جاتا اور

دیکھو کتب لغت۔ لسان العرب، صحاح جوہری، قاموس، محیط، تاج العروس وغیرہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/19/mode/1up

19

ایک ؔ پاک نبی اور کامل انسان کی نسبت یہ اعتقاد کیا جاتا ہے کہ گویا اس پر یہ حالت بھی آئی تھی کہ اس کا خدائے تعالیٰ سے رشتہ تعلق ٹوٹ گیا تھا۔ اور بجائے یک دِلی اور یک جہتی کے مغائرت اور مبائنت اور عداوت اور بیزاری پیدا ہوگئی تھی اور بجائے نور کے دل پر تاریکی چھا گئی تھی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایسا خیال صرف حضرت مسیح علیہ السلام کی شانِ نبوت اور مرتبہ رسالت کے ہی مخالف نہیں بلکہ ان کے اس دعویٰ کمال اور پاکیزگی اور محبت اور معرفت کے بھی مخالف ہے جو انہوں نے جابجا انجیل میں ظاہر کیا ہے۔ انجیل کو پڑھ کر دیکھو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاف دعویٰ کرتے ہیں کہ میں جہان کا نور ہوں ۔میں ہادی ہوں۔اور میں خدا سے اعلیٰ درجہ کی محبت کا تعلق رکھتا ہوں۔ اور میں نے اُس سے پاک پیدائش پائی ہے اور میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں۔ پھر باوجود ان غیر منفک اور پاک تعلقات کے *** کا ناپاک مفہوم کیونکر مسیح کے دل پر صادق آسکتا ہے ۔ہرگز نہیں پس بلا شبہ یہ بات ثابت ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا یعنی صلیب پر نہیں مرا کیونکہ اس کی ذات صلیب کے نتیجہ سے پاک ہے۔ اور جبکہ مصلوب نہیں ہوا تو *** کی ناپاک کیفیّت سے بیشک اس کے دل کو بچایا گیا۔ اور بلا شبہ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلا کہ وہ آسمان پر ہرگز نہیں گیا کیونکہ آسمان پر جانا اس منصوبہ کی ایک جز تھی اور مصلوب ہونے کی ایک فرع تھی۔ پس جبکہ ثابت ہوا کہ وہ نہ *** ہوا اور نہ تین دن کے لئے دوزخ میں گیا اور نہ مرا تو پھر یہ دوسری جز آسمان پر جانے کی بھی باطل ثابت ہوئی اور اس پر اور بھی دلائل ہیں جو انجیل سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ قول ہے جو مسیح کے منہ سے نکلا ’’لیکن میں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے آگے جلیل کو جاؤں گا‘‘ دیکھو متی باب ۲۶ آیت ۳۲۔ اِس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح قبر سے نکلنے کے بعد جلیل کی طرف گیا تھا نہ آسمان کی طرف۔ اور مسیح کا یہ کلمہ کہ ’’اپنے جی اٹھنے کے بعد‘‘ اس سے مرنے کے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/20/mode/1up

20

بعدؔ جینا مراد نہیں ہوسکتا۔ بلکہ چونکہ یہودیوں اور عام لوگوں کی نظر میں وہ صلیب پر مرچکا تھا اس لئے مسیح نے پہلے سے اُن کے آئندہ خیالات کے موافق یہ کلمہ استعمال کیا۔ اور درحقیقت جس شخص کو صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے پیروں اور ہاتھوں میں کیل ٹھوکے گئے یہاں تک کہ وہ اس تکلیف سے غشی میں ہوکر مردہ کی سی حالت میں ہوگیا۔ اگر وہ ایسے صدمہ سے نجات پاکر پھر ہوش کی حالت میں آجائے تو اس کا یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ میں پھر زندہ ہوگیا اور بلاشبہ اس صدمہ عظیمہ کے بعد مسیح کا بچ جانا ایک معجزہ تھا معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن یہ درست نہیں ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ مسیح کی جان نکل گئی تھی۔ سچ ہے کہ انجیلوں میں ایسے لفظ موجود ہیں لیکن یہ اسی قسم کی انجیل نویسوں کی غلطی ہے جیسا کہ اور بہت سے تاریخی واقعات کے لکھنے میں انہوں نے غلطی کھائی ہے۔ انجیلوں کے محقق شارحوں نے اس بات کو مان لیا ہے کہ انجیلوں میں دو حصے ہیں (۱) ایک دینی تعلیم ہے جو حواریوں کو حضرت مسیح علیہ السلام سے ملی تھی جو اصل روح انجیل کا ہے۔ (۲)اور دوسرے تاریخی واقعات ہیں جیسے حضرت عیسیٰ کا شجرہ نسب اور ان کا پکڑا جانا اور مارا جانا اور مسیح کے وقت میں ایک معجزہ نما تالاب کا ہونا وغیرہ یہ وہ امور ہیں جو لکھنے والوں نے اپنی طرف سے لکھے تھے۔ سو یہ باتیں الہامی نہیں ہیں بلکہ لکھنے والوں نے اپنے خیال کے موافق لکھی ہیں اور بعض جگہ مبالغہ بھی حد سے زیادہ کیا ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ لکھا ہے کہ جس قدر مسیح نے کام کئے یعنی معجزات دکھلائے اگر وہ کتابوں میں لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سما نہ سکتیں۔ یہ کس قدر مبالغہ ہے۔

ماسوا اس کے ایسے بڑے صدمہ کو جو مسیح پر وارد ہوا تھا موت کے ساتھ تعبیر کرنا خلاف محاورہ نہیں ہے۔ ہر ایک قوم میں قریباً یہ محاورہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص ایک مہلک صدمہ میں مبتلا ہوکر پھر آخر بچ جائے اس کو کہا جاتا ہے کہ نئے سرے زندہ ہوا اور کسی قوم اور ملک کے محاورہ میں ایسی بول چال میں کچھ بھی تکلف نہیں۔

ان سب امور کے بعد ایک اور بات ملحوظ رکھنے کے لائق ہے کہ برنباس کی انجیل



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/21/mode/1up

21

میںؔ جو غالباً لندن کے کتب خانہ میں بھی ہوگی یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا اور نہ صلیب پر جان دی۔ اب ہم اس جگہ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گو یہ کتاب انجیلوں میں داخل نہیں کی گئی اور بغیر کسی فیصلہ کے ردّ کر دی گئی ہے مگر اس میں کیا شک ہے کہ یہ ایک پرانی کتاب ہے اور اسی زمانہ کی ہے جب کہ دوسری انجیلیں لکھی گئیں۔ کیا ہمیں اختیار نہیں ہے کہ اس پرانی اور دیرینہ کتاب کو عہد قدیم کی ایک تاریخی کتاب سمجھ لیں اور تاریخی کتابوں کے مرتبہ پر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھاویں؟ اور کیا کم سے کم اس کتاب کے پڑھنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ مسیح علیہ السلام کے صلیب کے وقت تمام لوگ اس بات پر اتفاق نہیں رکھتے تھے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوگئے۔ پھر ماسوا اس کے جب کہ خود ان چار انجیلوں میں ایسے استعارات موجود ہیں کہ ایک مردہ کو کہہ دیا ہے کہ یہ سوتا ہے مرا نہیں تو اس حالت میں اگر غشی کی حالت میں مردہ کا لفظ بولا گیا تو کیا یہ بعید ہے۔ ہم لکھ چکے ہیں کہ نبی کے کلام میں جھوٹ جائز نہیں۔ مسیح نے اپنی قبر میں رہنے کے تین دن کو یونس کے تین دنوں سے مشابہت دی ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ یونس تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ایسا ہی مسیح بھی تین دن قبر میں زندہ رہا اور یہودیوں میں اس وقت کی قبریں اس زمانہ کی قبروں کے مشابہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک کوٹھے کی طرح اندر سے بہت فراخ ہوتی تھیں اور ایک طرف کھڑکی ہوتی تھی جس کو ایک بڑے پتھر سے ڈھانکا ہوا ہوتا تھا۔ اور عنقریب ہم اپنے موقعہ پر ثابت کریں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی قبر جو حال میں سری نگر کشمیر میں ثابت ہوئی ہے وہ بعینہٖ اسی طرز کی قبر ہے جیسا کہ یہ قبر تھی جس میں حضرت مسیح غشی کی حالت میں رکھے گئے۔

غرض یہ آیت جس کو ابھی ہم نے لکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح قبر سے نکل کر گلیل کی طرف گیا۔ اور مرقس کی انجیل میں لکھا ہے کہ وہ قبر سے نکل کر جلیل کی سڑک پر جاتا ہوا دکھائی دیا اور آخر ان گیاراں حواریوں کو ملا جب کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور اپنے ہاتھ اور پاؤں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/22/mode/1up

22

جو زؔ خمی تھے دکھائے اور انہوں نے گمان کیا کہ شاید یہ روح ہے۔ تب اس نے کہا کہ مجھے چھوؤ اور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو اور ان سے ایک بھونی ہوئی مچھلی کا ٹکڑا اور شہد کا ایک چھتا لیا اور ان کے سامنے کھایا۔ دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۱۴۔ اور لوقا باب ۲۴ آیت ۳۹ اور ۴۰ اور ۴۱ اور ۴۲۔ ان آیات سے یقیناًمعلوم ہوتا ہے کہ مسیح ہرگز آسمان پر نہیں گیا بلکہ قبر سے نکل کر جلیل کی طرف گیا اور معمولی جسم اور معمولی کپڑوں میں انسانوں کی طرح تھا۔ اگر وہ مرکر زندہ ہوتا تو کیونکر ممکن تھا کہ جلالی جسم میں صلیب کے زخم باقی رہ جاتے اور اس کو روٹی کھانے کی کیا حاجت تھی اور اگر تھی تو پھر اب بھی روٹی کھانے کا محتاج ہوگا۔

ناظرین کو اس دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئیے کہ یہودیوں کی صلیب اس زمانہ کی پھانسی کی طرح ہوگی جس سے نجات پانا قریباً محال ہے کیونکہ اس زمانہ کی صلیب میں کوئی رسّا گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا اور نہ تختہ پر سے گرا کر لٹکایا جاتا تھا بلکہ صرف صلیب پرکھینچ کر ہاتھوں اور پیروں میں کیل ٹھونکے جاتے تھے اور یہ بات ممکن ہوتی تھی کہ اگر صلیب پر کھینچنے اور کیل ٹھونکنے کے بعد ایک دودن تک کسی کی جان بخشی کا ارادہ ہو تو اسی قدر عذاب پر کفایت کر کے ہڈیاں توڑنے سے پہلے اس کو زندہ اتار لیا جائے ۔اور اگر مارنا ہی منظور ہوتا تھا تو کم سے کم تین دن تک صلیب پر کھنچا ہوا رہنے دیتے تھے اور پانی اور روٹی نزدیک نہ آنے دیتے تھے اور اسی طرح دھوپ میں تین دن یا اس سے زیادہ چھوڑ دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کی ہڈیاں توڑتے تھے اور پھر آخر ان تمام عذابوں کے بعد وہ مرجاتا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو اس درجہ کے عذاب سے بچا لیاجس سے زندگی کا خاتمہ ہوجاتا۔ انجیلوں کو ذرہ غور کی نظر سے پڑھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ تین دن تک صلیب پر رہے اور نہ تین دن کی بھوک اور پیاس اٹھائی اورنہ ان کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ قریباً دو گھنٹہ تک صلیب پر رہے اور خدا کے رحم اور فضل نے ان کے لئے یہ تقریب قائم کردی کہ دن کے اخیر حصے میں صلیب دینے کی تجویز ہوئی اور وہ جمعہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/23/mode/1up

23

کا دؔ ن تھا اور صرف تھوڑا سا دن باقی تھا اور اگلے دن سبت اور یہودیوں کی عید فسح تھی اور یہودیوں کے لئے یہ حرام اور قابل سزا جرم تھا کہ کسی کو سبت یا سبت کی رات میں صلیب پر رہنے دیں اور مسلمانوں کی طرح یہودی بھی قمری حساب رکھتے تھے اور رات دن پر مقدم سمجھی جاتی تھی۔ پس ایک طرف تو یہ تقریب تھی کہ جو زمینی اسباب سے پیدا ہوئی۔ اور دوسری طرف آسمانی اسباب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیدا ہوئے کہ جب چھٹا گھنٹہ ہوا تو ایک ایسی آندھی آئی کہ جس سے ساری زمین پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اندھیرا تین گھنٹے برابر رہا۔ دیکھو مرقس باب ۱۶ آیت ۳۳۔ یہ چھٹا گھنٹہ بارہ بجے کے بعد تھا۔ یعنی وہ وقت جو شام کے قریب ہوتا ہے۔ اب یہودیوں کو اس شدّت اندھیرے میں یہ فکر پڑی کہ مبادا سبت کی رات آجائے اور وہ سبت کے مجرم ہوکر تاوان کے لائق ٹھہریں۔ اس لئے انہوں نے جلدی سے مسیح کو اور اس کے ساتھ کے دو چوروں کو بھی صلیب پر سے اتار لیا۔ اور اس کے ساتھ ایک اور آسمانی سبب یہ پیدا ہوا کہ جب پلاطوس کچہری کی مسند پر بیٹھا تھا اس کی جورو نے اسے کہلا بھیجا کہ تو اس را ستباز سے کچھ کام نہ رکھ (یعنی اس کے قتل کرنے کے لئے سعی نہ کر) کیونکہ میں نے آج رات خواب میں اس کے سبب سے بہت تکلیف پائی دیکھو متی باب ۲۷ آیت ۱۹۔ سو یہ فرشتہ جو خواب میں پلاطس کی جورو کو دکھایا گیا۔ اس سے ہم اور ہر ایک منصف یقینی طور پر یہ سمجھے گا کہ خدا کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پر وفات پاوے۔ جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی آج تک یہ کبھی نہ ہوا کہ جس شخص کے بچانے کے لئے خدائے تعالیٰ رؤیا میں کسی کو ترغیب دے کہ ایسا کرنا چاہئیے تو وہ بات خطا جائے۔ مثلاً انجیل متی میں لکھا ہے کہ خداوند کے ایک فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کے کہا ’’اٹھ اس لڑکے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کرمصر کو بھاگ جا اور وہاں جب تک میں تجھے خبر نہ دوں ٹھہرا رہ کیونکہ ہیرودوس اس لڑکے کو ڈھونڈے گا کہ مار ڈالے‘‘۔ دیکھو انجیل متی باب ۲ آیت ۱۳۔ اب کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یسوع کا مصر میں پہنچ کر مارا جانا ممکن تھا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/24/mode/1up

24

اسیؔ طرح خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک تدبیر تھی کہ پلاطوس کی جورو کو مسیح کے لئے خواب آئی۔ اور ممکن نہ تھا کہ یہ تدبیر خطا جاتی اور جس طرح مصر کے قصہ میں مسیح کے مارے جانے کا اندیشہ ایک ایسا خیال ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک مقرر شدہ وعدہ کے برخلاف ہے۔ اسی طرح اس جگہ بھی یہ خلاف قیاس بات ہے کہ خدائے تعالیٰ کا فرشتہ پلاطوس کی جورو کو نظر آوے اور وہ اس ہدایت کی طرف اشارہ کرے کہ اگر مسیح صلیب پر فوت ہوگیا تو یہ تمہارے لئے اچھا نہ ہوگا تو پھر اس غرض سے فرشتہ کا ظاہر ہونا بے سود جاوے اور مسیح صلیب پر مارا جائے کیا اس کی دنیا میں کوئی نظیر ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہر ایک نیک دل انسان کا پاک کانشنس جب پلاطوس کی بیوی کے خواب پر اطلاع پائے گا تو بیشک وہ اپنے اندر اس شہادت کو محسوس کرے گا کہ درحقیقت اس خواب کا منشاء یہی تھا کہ مسیح کے چھڑانے کی ایک بنیاد ڈالی جائے۔ یوں تو دنیا میں ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنے عقیدہ کے تعصّب سے ایک کھلی کھلی سچائی کو ردّ کردے اور قبول نہ کرے۔ لیکن انصاف کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ پلاطوس کی بیوی کی خواب مسیح کے صلیب سے بچنے پر ایک بڑے وزن کی شہادت ہے۔ اور سب سے اول درجہ کی انجیل یعنی متی نے اس شہادت کو قلمبند کیا ہے۔ اگرچہ ایسی شہادتوں سے جو میں بڑے زور سے اس کتاب میں لکھوں گا مسیح کی خدائی اور مسئلہ کفّارہ یک لخت باطل ہوتا ہے لیکن ایمانداری اور حق پسندی کا ہمیشہ یہ تقاضا ہونا چاہئیے کہ ہم سچائی کے قبول کرنے میں قوم اور برادری اور عقائد رسمیّہ کی کچھ پرواہ نہ کریں۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے آج تک اس کی کوتہ اندیشیوں نے ہزاروں چیزوں کو خدا بنا ڈالا ہے۔ یہاں تک کہ بلیوں اور سانپوں کو بھی پوجا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی عقلمند لوگ خداداد توفیق سے اس قسم کے مشرکانہ عقیدوں سے نجات پاتے آئے ہیں۔

اور منجملہ اُن شہادتوں کے جو انجیل سے ہمیں مسیح ابن مریم کی صلیبی موت سے

محفوظ رہنے پر ملتی ہیں اس کا وہ سفر دور دراز ہے جو قبر سے نکل کر جلیل کی طرف اس نے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/25/mode/1up

25

کیاؔ ۔ چنانچہ اتوار کی صبح کو پہلے وہ مریم مگدلینی کو ملا۔ مریم نے فی الفور حواریوں کو خبر کی کہ مسیح تو جیتا ہے لیکن وہ یقین نہ لائے پھر وہ حواریوں میں سے دو کو جبکہ وہ دیہات کی طرف جاتے تھے دکھائی دیا آخر وہ گیارہوں کو جبکہ وہ کھانے بیٹھے تھے دکھائی دیا اور ان کی بے ایمانی اور سخت دلی پر ملامت کی۔ دیکھو انجیل مرقس باب ۱۶ آیت ۹ سے آیت ۱۴ تک۔ اور جب مسیح کے حواری سفر کرتے ہوئے اس بستی کی طرف جارہے تھے جس کا نام املوس *ہے جو یروشلم سے پونے چارکوس کے فاصلے پر ہے تب مسیح ان کو ملا۔ اور جب وہ اس بستی کے نزدیک پہنچے تو مسیح نے آگے بڑھ کر چاہا کہ ان سے الگ ہوجائے۔ تب انہوں نے اس کو جانے سے روک لیا کہ آج رات ہم اکٹھے رہیں گے اور اس نے ان کے ساتھ بیٹھ کر روٹی کھائی اور وہ سب مع مسیح کے املوس* نام ایک گاؤں میں رات رہے۔ دیکھو لوقا باب ۲۴ آیت ۱۳ سے ۳۱ تک۔ اب ظاہر ہے کہ ایک جلالی جسم کے ساتھ جو موت کے بعد خیال کیا گیا ہے مسیح سے فانی جسم کے عادات صادر ہونا اور کھانا اور پینا اور سونا اور جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کرنا جو یروشلم سے قریباً ستر۰ ۷ کوس کے فاصلے پر تھا بالکل غیر ممکن اور نامعقول بات ہے۔ اور باوجود اس کے کہ خیالات کے میلان کی وجہ سے انجیلوں کے ان قصوں میں بہت کچھ تغیر ہوگیا ہے تاہم جس قدر الفاظ پائے جاتے ہیں ان سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اُسی فانی اور معمولی جسم سے اپنے حواریوں کو ملا اور پیادہ پا جلیل کی طرف ایک لمبا سفر کیا اور حواریوں کو اپنے زخم دکھلائے اور رات ان کے پاس روٹی کھائی اور سویا۔ اور آگے چل کر ہم ثابت کریں گے کہ اس نے اپنے زخموں کا ایک مرہم کے استعمال سے علاج کیا۔

اب یہ مقام ایک سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ایک جلالی اور ابدی جسم پانے کے بعد یعنی اس غیر فانی جسم کے بعد جو اس لائق تھا کہ کھانے پینے سے پاک ہوکر ہمیشہ خدائے تعالیٰ کے دائیں ہاتھ بیٹھے اور ہر ایک داغ اور درد اور نقصان سے منزّہ ہو اور ازلی ابدی خدا کے جلال کا اپنے اندر رنگ رکھتا ہو ابھی اس میں یہ نقص باقی رہ گیا کہ اس پر صلیب اور کیلوں کے تازہ زخم موجود تھے

* ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے ۔درست اماؤس ہے(EMMAUS)



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/26/mode/1up

26

جن ؔ سے خون بہتا تھا اور درد اور تکلیف ان کے ساتھ تھی جن کے واسطے ایک مرہم بھی طیار کی گئی تھی۔ اور جلالی اور غیر فانی جسم کے بعد بھی جو ابد تک سلامت اور بے عیب اور کامل اور غیر متغیر چاہئیے تھا کئی قسم کے نقصانوں سے بھرا رہا اور خود مسیح نے حواریوں کو اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلائیں اور پھر اسی پر کفایت نہیں بلکہ اس فانی جسم کے لوازم میں سے بھوک اور پیاس کی درد بھی موجود تھی ورنہ اس لغو حرکت کی کیا ضرورت تھی کہ مسیح جلیل کے سفر میں کھانا کھاتا اور پانی پیتا اور آرام کرتا اور سوتا۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس عالم میں جسم فانی کے لئے بھوک اور پیاس بھی ایک درد ہے جس کے حد سے زیادہ ہونے سے انسان مر سکتا ہے۔ پس بلا شبہ یہ بات سچ ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور نہ کوئی نیا جلالی جسم پایا بلکہ ایک غشی کی حالت ہوگئی تھی جو مرنے سے مشابہ تھی۔ اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہوا کہ جس قبر میں وہ رکھا گیا وہ اس ملک کی قبروں کی طرح نہ تھی بلکہ ایک ہوا دار کوٹھہ تھا جس میں ایک کھڑکی تھی اور اس زمانہ میں یہودیوں میں یہ رسم تھی کہ قبر کو ایک ہوادار اور کشادہ کوٹھہ کی طرح بناتے تھے اور اس میں ایک کھڑکی رکھتے تھے اور ایسی قبریں پہلے سے موجود رہتی تھیں اور پھر وقت پر میّت اس میں رکھی جاتی تھی۔ چنانچہ یہ گواہی انجیلوں سے صاف طور پر ملتی ہے۔ انجیل لوقا میں یہ عبارت ہے ’’اور وے یعنی عورتیں اتوار کے دن بڑے تڑکے یعنی کچھ اندھیرے سے ہی ان خوشبوؤں کو جو طیار کی تھیں لے کر قبر پر آئیں اور ان کے ساتھ کئی اور بھی عورتیں تھیں۔ اور انہوں نے پتھر کو قبر پر سے ڈھلکا ہوا پایا۔ (اس مقام میں ذرہ غور کرو) اور اندر جا کے خداوند یسوع کی لاش نہ پائی‘‘ دیکھو لوقا باب ۲۴۔ آیت ۲و۳۔ اب اندر جانے کے لفظ کو ذرہ سوچو۔ ظاہر ہے کہ اسی قبر کے اندر انسان جا سکتا ہے کہ جو ایک کوٹھے کی طرح ہو اور اس میں کھڑکی ہو۔ اور ہم اپنے محل پر اسی کتاب میں بیان کریں گے کہ حال میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں پائی گئی ہے وہ بھی اس قبر کی طرح کھڑکی دار ہے۔ اور یہ ایک بڑے راز کی بات ہے جس پر توجہ کرنے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/27/mode/1up

27

سےؔ محققین کے دل ایک عظیم الشان نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں۔

اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں پلاطس کا وہ قول ہے جو انجیل مرقس میں لکھا ہے۔ اور وہ یہ ہے۔ ’’اور جبکہ شام ہوئی اس لئے کہ تیاری کا دن تھا جو سبت سے پہلے ہوتا۔ یوسف ارمتیا جو نامور مشیر اور وہ خود خدا کی بادشاہت کا منتظر تھا آیا اور دلیری سے پلاطس پاس جاکے یسوع کی لاش مانگی اور پلاطس نے متعجب ہو کر شبہ کیا کہ وہ یعنی مسیح ایسا جلد مرگیا‘‘۔ دیکھو مرقس باب *۱۶ آیت ۴۲ سے ۴۴ تک۔ اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عین صلیب کی گھڑی میں ہی یسوع کے مرنے پر شبہ ہوا۔ اور شبہ بھی ایسے شخص نے کیا جس کو اس بات کا تجربہ تھا کہ اس قدر مدت میں صلیب پر جان نکلتی ہے۔

اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں انجیل کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں۔ ’’پھر یہودیوں نے اس لحاظ سے کہ لاشیں سبت کے دن صلیب پر نہ رہ جائیں کیونکہ وہ دن طیاری کا تھا۔ بلکہ بڑا ہی سبت تھاپلاطوس سے عرض کی کہ ان کی ٹانگیں توڑی اور لاشیں اتاری جائیں۔ تب سپاہیوں نے آکر پہلے اور دوسرے کی ٹانگیں جو اس کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے توڑیں لیکن جب انہوں نے یسوع کی طرف آکے دیکھا کہ وہ مرچکا ہے تو اس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ پر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے لہو اور پانی نکلا‘‘۔ دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ سے آیت ۳۴ تک۔ ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کسی مصلوب کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ دستور تھا کہ جو صلیب پر کھینچا گیا ہو اس کو کئی دن صلیب پر رکھتے تھے اور پھر اس کی ہڈیاں توڑتے تھے لیکن مسیح کی ہڈیاں دانستہ نہیں توڑی گئیں اور وہ ضرور صلیب پر سے ان دو چوروں کی طرح زندہ اتارا گیا۔ اسی وجہ سے پسلی چھیدنے سے خون بھی نکلا۔ مردہ کا خون جم جاتا ہے۔ اور اس جگہ یہ بھی صریح معلوم ہوتا ہے کہ اندرونی طور پر یہ کچھ سازش کی بات تھی۔ پلاطوس ایک خداترس اور نیک دل آدمی تھا۔ کھلی کھلی رعایت سے قیصر سے ڈرتا تھا

* ایڈیشن اول میں سہو ہے ۔درست باب ۱۵ ہے ناشر



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/28/mode/1up

28

کیونکہ ؔ یہودی مسیح کو باغی ٹھہراتے تھے مگر وہ خوش قسمت تھا کہ اس نے مسیح کو دیکھا۔ لیکن قیصر نے اس نعمت کو نہ پایا۔ اس نے نہ صرف دیکھا بلکہ بہت رعایت کی اور اس کا ہرگز منشاء نہ تھا کہ مسیح صلیب پاوے۔ چنانچہ انجیلوں کے دیکھنے سے صاف طور پر پایا جاتا ہے کہ پلاطوس نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ مسیح کو چھوڑ دے۔ لیکن یہودیوں نے کہا کہ اگر تو اس مرد کو چھوڑ دیتا ہے تو تُو قیصر کا خیرخواہ نہیں اور یہ کہا کہ یہ باغی ہے اور خود بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ دیکھو یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۲۔ اور پلاطوس کی بیوی کی خواب اور بھی اس بات کی محرک ہوئی تھی کہ کسی طرح مسیح کو مصلوب ہونے سے بچایا جائے ورنہ ان کی اپنی تباہی ہے۔ مگر چونکہ یہودی ایک شریر قوم تھی اور پلاطوس پر قیصر کے حضورمیں مخبری کرنے کو بھی طیّار تھے۔ اس لئے پلاطوس نے مسیح کے چھڑانے میں حکمتِ عملی سے کام لیا۔ اول تو مسیح کا مصلوب ہونا ایسے دن پر ڈال دیا کہ وہ جمعہ کا دن تھا اور صرف چند گھنٹے دن سے باقی تھے۔ اور بڑے سبت کی رات قریب تھی اور پلاطوس خوب جانتا تھا کہ یہودی اپنی شریعت کے حکموں کے موافق صرف شام کے وقت تک ہی مسیح کو صلیب پر رکھ سکتے ہیں۔ اور پھر شام ہوتے ہی ان کا سبت ہے جس میں صلیب پر رکھنا روا نہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور مسیح شام سے پہلے صلیب پر سے اتارا گیا۔ اور یہ قریب قیاس نہیں کہ دونوں چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر کھینچے گئے تھے وہ زندہ رہے۔ مگر مسیح صرف دو گھنٹہ تک مرگیا بلکہ یہ صرف ایک بہانہ تھا جو مسیح کو ہڈیاں توڑنے سے بچانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ سمجھ دار آدمی کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ دونوں چور صلیب پر سے زندہ اتارے گئے اور ہمیشہ معمول تھا کہ صلیب پر سے لوگ زندہ اتارے جاتے تھے اور صرف اس حالت میں مرتے تھے کہ ہڈیاں توڑی جائیں اور یا بھوک اور پیاس کی حالت میں چند روز صلیب پر رہ کر جان نکلتی تھی۔ مگر ان باتوں میں سے کوئی بات بھی مسیح کو پیش نہ آئی نہ وہ کئی دن صلیب پر بھوکا پیاسا رکھا گیا اور نہ اس کی ہڈیاں توڑی گئیں اور یہ کہہ کر کہ مسیح مرچکا ہے یہودیوں کو اس کی طرف سے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/29/mode/1up

29

غافلؔ کردیا گیا۔ مگر چوروں کی ہڈیاں توڑ کر اسی وقت ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا گیا۔ بات تو تب تھی کہ ان دونوں چوروں میں سے بھی کسی کی نسبت کہا جاتا کہ یہ مرچکا ہے اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اور یوسف نام پلاطوس کا ایک معزز دوست تھا جو اس نواح کا رئیس تھا اور مسیح کے پوشیدہ شاگردوں میں داخل تھا وہ عین وقت پر پہنچ گیا۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی پلاطوس کے اشارہ سے بلایا گیا تھا۔ مسیح کو ایک لاش قرار دے کر اس کے سپرد کر دیا گیا کیونکہ وہ ایک بڑا آدمی تھا اور یہودی اس کے ساتھ کچھ پرخاش نہیں کر سکتے تھے۔ جب وہ پہنچا تو مسیح کو جو غشی میں تھا ایک لاش قرار دے کر اس نے لیا اور اسی جگہ ایک وسیع مکان تھا جو اس زمانہ کی رسم پر قبر کے طور پر بنایا گیا تھا اور اس میں ایک کھڑکی بھی تھی اور ایسے موقع پر تھا جو یہودیوں کے تعلق سے الگ تھا اسی جگہ پلاطوس کے اشارہ سے مسیح کو رکھا گیا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ حضرت موسیٰ کی وفات پر چودھویں صدی گذر رہی تھی اور اسرائیلی شریعت کے زندہ کرنے کے لئے مسیح چودھویں صدی کا مجدد تھا۔ اور اگرچہ یہودیوں کو اس چودھویں صدی میں مسیح موعود کا انتظار بھی تھا اور گذشتہ نبیوں کی پیشگوئیاں بھی اس وقت پر گواہی دیتی تھیں۔ لیکن افسوس کہ یہودیوں کے نالائق مولویوں نے اس وقت اور موسم کو شناخت نہ کیا اور مسیح موعود کو جھوٹا قرار دے دیا۔ نہ صرف یہی بلکہ اس کو کافر قرار دیا اس کا نام ملحد رکھا اور آخر اس کے قتل پر فتویٰ لکھا اور اس کو عدالت میں کھینچا۔ اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ خدا نے چودھویں صدی میں کچھ تاثیر ہی ایسی رکھی ہے جس میں قوم کے دل سخت اور مولوی دنیا پرست اور اندھے اور حق کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اس جگہ اگر موسیٰ کی چودھویں صدی اور موسیٰ کے مثیل کی چودھویں صدی کا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں باہم مقابلہ کیا جائے تو اول یہ نظر آئے گا کہ ان دونوں چودھویں صدیوں میں دو ایسے شخص ہیں جنہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ دعویٰ سچا تھا اور خدا کی طرف سے تھا۔ پھر اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوگا کہ قوم کے علماء



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/30/mode/1up

30

نےؔ ان دونوں کو کافر قرار دیا اور ان دونوں کا نام ملحد اور دجال رکھا اور ان دونوں کی نسبت قتل کے فتوے لکھے گئے اور دونوں کو عدالتوں کی طرف کھینچا گیا جن میں سے ایک رومی عدالت تھی اور دوسری انگریزی۔آخر دونوں بچائے گئے اور دونوں قسم کے مولوی یہودی اور مسلمان ناکام رہے۔ اور خدا نے ارادہ کیا کہ دونوں مسیحوں کو ایک بڑی جماعت بناوے اور دونوں قسم کے دشمنوں کو نامراد رکھے۔ غرض موسیٰ کی چودھویں صدی اور ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چودھویں صدی اپنے اپنے مسیحوں کے لئے سخت بھی ہیں اور انجام کار مبارک بھی۔

اور منجملہ ان شہادتوں کے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے محفوظ رہنے کے بارے میں ہمیں انجیل سے ملتی ہیں وہ شہادت ہے جو انجیل متی باب ۲۶ میں یعنی آیت ۳۶ سے آیت ۴۶ تک مرقوم ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار کئے جانے کا الہام پاکر تمام رات جنابِ الٰہی میں رو رو کر اور سجدے کرتے ہوئے دعا کرتے رہے۔ اور ضرور تھا کہ ایسی تضرع کی دعا جس کے لئے مسیح کو بہت لمبا وقت دیا گیا تھا قبول کی جاتی کیونکہ مقبول کا سوال جو بے قراری کے وقت کا سوال ہو ہرگز ردّ نہیں ہوتا۔ پھر کیوں مسیح کی ساری رات کی دعا اور دردمند دل کی دعا اور مظلومانہ حالت کی دعا ردّ ہوگئی۔ حالانکہ مسیح دعویٰ کرتا ہے کہ باپ جو آسمان پر ہے میری سنتا ہے۔ پس کیونکر باور کیا جائے کہ خدا اس کی سنتا تھا جبکہ ایسی بے قراری کی دعا سنی نہ گئی۔ اور انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دلی یقین تھا کہ اس کی وہ دعا ضرور قبول ہوگئی اور اس دعا پر اس کو بہت بھروسہ تھا۔ اسی وجہ سے جب وہ پکڑا گیا اور صلیب پر کھینچا گیا اور ظاہری علامات کو اس نے اپنی امید کے موافق نہ پایا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ’’ایلی ایلی لما سبقتانی‘‘ اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کیوں مجھے چھوڑ دیا۔ یعنی مجھے یہ امید ہرگز نہیں تھی کہ میرا انجام یہ ہوگااور میں صلیب پر مروں گا۔ اور میں یقین رکھتا تھا کہ تو میری دعا سنے گا۔ پس



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/31/mode/1up

31

انؔ دونوں مقامات انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح کو خود دلی یقین تھا کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی اور میرا تمام رات کا رو رو کر دعا کرنا ضائع نہیں جائے گا اور خود اس نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اگر دعا کرو گے تو قبول کی جائے گی۔ بلکہ ایک مثال کے طور پر ایک قاضی کی کہانی بھی بیان کی تھی کہ جو نہ خلقت سے اور نہ خدا سے ڈرتا تھا۔ اور اس کہانی سے بھی مدعا یہ تھا کہ تا حواریوں کو یقین آجائے کہ بے شک خدائے تعالیٰ دعا سنتا ہے۔ اور اگرچہ مسیح کو اپنے پر ایک بڑی مصیبت کے آنے کا خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم تھا۔ مگر مسیح نے عارفوں کی طرح اس بنا پر دعا کی کہ خدائے تعالیٰ کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور ہر ایک محو و اثبات اس کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا یہ واقعہ کہ نعوذ باللہ مسیح کی خود دعا قبول نہ ہوئی یہ ایک ایسا امر ہے جو شاگردوں پر نہایت بداثر پیدا کرنے والا تھا۔ سو کیونکر ممکن تھا کہ ایسا نمونہ جو ایمان کو ضائع کرنے والا تھا حواریوں کو دیا جاتا جبکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ مسیح جیسے بزرگ نبی کی تمام رات کی پُرسوز دعا قبول نہ ہوسکی تو اس بد نمونہ سے ان کا ایمان ایک سخت امتحان میں پڑتا تھا۔ لہٰذا خدائے تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا یہی تھا کہ اس دعا کو قبول کرتا یقیناًسمجھو کہ وہ دعا جو گتسمینی نام مقام میں کی گئی تھی ضرور قبول ہوگئی تھی۔

ایک اور بات اس جگہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جیسا کہ مسیح کے قتل کے لئے مشورہ ہوا تھا اور اس غرض کے لئے قوم کے بزرگ اور معزز مولوی قیافا نامی سردار کاہن کے گھر میں اکٹھے ہوئے تھے کہ کسی طرح مسیح کو قتل کردیں یہی مشورہ حضرت موسیٰ کے قتل کرنے کے لئے ہوا تھا۔ اور یہی مشورہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کے لئے مکّہ میں دارالندوہ کے مقام میں ہوا تھا۔ مگر قادر خدا نے ان دونوں بزرگ نبیوں کو اس مشورہ کے بداثر سے بچا لیا۔ اور مسیح کے لئے جو مشورہ ہوا ان دونوں مشوروں کے درمیان میں ہے۔ پھر کیا وجہ کہ وہ بچایا نہ گیا حالانکہ اس نے ان دونوں بزرگ نبیوں سے بہت زیادہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/32/mode/1up

32

دعا ؔ کی۔ اور پھر جبکہ خدا پنے پیارے بندوں کی ضرور سنتا ہے اور شریروں کے مشورہ کو باطل کر کے دکھاتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ مسیح کی دعا نہیں سنی گئی۔ ہر ایک صادق کا تجربہ ہے کہ بیقراری اور مظلومانہ حالت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ بلکہ صادق کے لئے مصیبت کا وقت نشان ظاہر کرنے کا وقت ہوتا ہے چنانچہ میں خود اس میں صاحبِ تجربہ ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ دو برس کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھ پر ایک جھوٹا مقدمہ اقدامِ قتل کا ایک صاحب ڈاکٹر مارٹن کلارک عیسائی مقیم امرت سر پنجاب نے عدالت ضلع گورداسپور ہ میں دائر کیا اور یہ استغاثہ پیش کیا کہ گویا میں نے ایک شخص عبد الحمید نامی کو بھیج کر ڈاکٹر مذکور کو قتل کرنا چاہا تھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ اس مقدمہ میں تینوں قوم کے چند منصوبہ باز آدمی یعنی عیسائی اور ہندو اور مسلمان میرے مخالف متفق ہوگئے اور جہاں تک ان سے ہوسکتا تھا یہ کوشش کی کہ مجھ پر اقدامِ قتل کا الزام ثابت ہوجائے۔ عیسائی پادری مجھ سے اس وجہ سے ناراض تھے کہ میں اس کوشش میں تھا اور اب بھی ہوں کہ مسیح کی نسبت جو ان کا غلط خیال ہے اس سے خدا کے بندوں کو نجات دوں اور یہ اول نمونہ تھا جو میں نے ان لوگوں کا دیکھا۔ اور ہندو مجھ سے اس وجہ سے ناراض تھے کہ میں نے لیکھرام نامی ان کے ایک پنڈت کی نسبت اس کی رضامندی سے اس کے مرنے کی نسبت خدا کا الہام پاکر پیشگوئی کی تھی اور وہ پیشگوئی اپنی میعاد میں اپنے وقت پر پوری ہوگئی اور وہ خدا کا ایک ہیبت ناک نشان تھا اور ایسا ہی مسلمان مولوی بھی ناراض تھے کیونکہ میں ان کے خونی مہدی اور خونی مسیح کے آنے سے اور نیز ان کے جہاد کے مسئلہ کا مخالف تھا۔ لہٰذا ان تین قوموں کے بعض سربرآوردہ لوگوں نے یہ مشورہ کیا کہ کسی طرح قتل کا جرم میرے پر لگ جائے اور میں مارا جاؤں یا قید کیا جاؤں۔ اور ان خیالات میں وہ خداتعالیٰ کی نظر میں ظالم تھے۔ اور خدا نے مجھے اس گھڑی سے پہلے کہ ایسے منصوبے مخفی طور پر کئے جائیں اطلاع دے دی۔ اور پھر انجام کار بَری کرنے کی مجھے خوشخبری سنائی۔ اور یہ خدا کے پاک الہام صدہا لوگوں میں قبل از وقت مشہور کئے گئے اور جبکہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/33/mode/1up

33

میںؔ نے الہام کی خبر پاکر دعا کی کہ اے میرے مولیٰ اس بلا کو مجھ سے ردّ کر۔ تب مجھے الہام ہوا کہ میں ردّ کروں گا اور تجھے اس مقدمہ سے بری کردوں گا اور وہ الہام بہتوں کو سنایا گیا جو تین سو سے بھی زیادہ تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں۔ اور ایسا ہوا کہ میرے دشمنوں نے جھوٹے گواہ بنا کر اور عدالت میں گذران کر اس مقدمہ کو ثبوت تک پہنچا دیا اور تین قوموں کے لوگوں نے جن کا ذکر ہوچکا ہے میرے مخالف گواہی دی۔ تب ایسا ہوا کہ جس حاکم کے پاس وہ مقدمہ تھا جس کا نام کپتان ڈبلیو ڈگلس تھا جو ضلع گورداسپورہ کا ڈپٹی کمشنر تھا خدا نے طرح طرح کے اسباب سے تمام حقیقت اس مقدمہ کی اس پر کھول دی۔ اور اس پر کھل گیا کہ وہ مقدمہ جھوٹا ہے۔ تب اس کی انصاف پسندی اور عدل پروری نے یہ تقاضا کیا کہ اس ڈاکٹر کا جو پادری کا بھی کام کرتا تھا کچھ بھی لحاظ نہ کرکے اس مقدمہ کو خارج کیا۔ اور جیسا کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر موجودہ خوفناک صورتوں کے برخلاف عام جلسوں میں اور صدہا لوگوں میں اپنا انجام بری ہونا بتلایا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا اور بہت سے لوگوں کی قوت ایمان کا باعث ہوا۔ اور نہ صرف یہی بلکہ اور بھی اس قسم کی کئی تہمتیں اور مجرمانہ صورت کے الزام میرے پر مذکورہ بالا وجوہات کی وجہ سے لگائے گئے اور عدالت تک مقدمے پہنچائے گئے۔ مگر خدا نے مجھے قبل اس کے جو میں عدالت میں بلایا جاتا اپنے الہام سے اول اورآخر کی خبر دے دی۔ اور ہر ایک خوفناک مقدمہ میں مجھے بَری ہونے کی بشارت دی۔

اس تقریر سے مدعا یہ ہے کہ بلا شبہ خدائے تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے بالخصوص جبکہ اس پر بھروسہ کرنے والے مظلوم ہونے کی حالت میں اس کے آستانہ پر گرتے ہیں تو وہ ان کی فریاد کو پہنچتا ہے اور ایک عجیب طور پر ان کی مدد کرتا ہے اور ہم اس بات کے گواہ ہیں تو پھر کیا باعث اور کیا سبب کہ مسیح کی ایسی بے قراری کی دعا منظور نہ ہوئی؟ نہیں بلکہ منظور ہوئی اور خدا نے اس کو بچا لیا۔ خدا نے اس کے بچانے کے لئے زمین سے بھی اسباب پیدا کئے اور آسمان سے بھی۔ یوحنا یعنییحییٰ نبی کو خدا نے دعا کرنے کے لئے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/34/mode/1up

34

مہلت ؔ نہ دی کیونکہ اس کا وقت آچکا تھا۔ مگر مسیح کو دعا کرنے کے لئے تمام رات مہلت دی گئی اور وہ ساری رات سجدہ میں اور قیام میں خدا کے آگے کھڑا رہا۔ کیونکہ خدا نے چاہا کہ وہ بیقراری ظاہر کرے۔ اور اس خدا سے جس کے آگے کوئی بات اَن ہونی نہیں اپنی مخلصی چاہے ۔سو خدا نے اپنی قدیم سنت کے موافق اس کی دعا کو سنا۔ یہودی اس بات میں جھوٹے تھے جنہوں نے صلیب دے کر یہ طعنہ مارا کہ اس نے خدا پر توکل کیا تھا کیوں خدا نے اس کو نہ چھڑایا کیونکہ خدا نے یہودیوں کے تمام منصوبے باطل کئے اور اپنے پیارے مسیح کو صلیب اور اس کی *** سے بچالیا اور یہودی نامراد رہے۔

اور منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی وہ آیت ہے جو ذیل میں لکھتا ہوں۔ ’’ہابل راستباز کے خون سے برخیاہ کے بیٹے ذکریا کے خون تک جسے تم نے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا‘‘۔ دیکھو متی با*ب ۲۴ آیت ۳۵و۳۶۔ اب ان آیات پر اگر نظر غور کرو تو واضح ہوگا کہ ان میں حضرت مسیح علیہ السلام نے صاف طورپر کہہ دیا ہے کہ یہودیوں نے جس قدر نبیوں کے خون کئے ان کا سلسلہ ذکریا نبی تک ختم ہوگیا۔ اور بعد اس کے یہودی لوگ کسی نبی کے قتل کرنے کے لئے قدرت نہیں پائیں گے۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی ہے اور اس سے نہایت صفائی کے ساتھ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے بچ کر نکل گئے اور آخر طبعی موت سے فوت ہوئے۔ کیونکہ اگر یہ بات صحیح ہوتی کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی ذکریا کی طرح یہودیوں کے ہاتھ سے قتل ہونے والے تھے تو ان آیات میں حضرت مسیح علیہ السلام ضرور اپنے قتل کئے جانے کی طرف بھی اشارہ کرتے۔ اور اگر یہ کہو کہ گو حضرت مسیح علیہ السلام بھی یہودیوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ لیکن

ان کا مارا جانا یہودیوں کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں تھی کیونکہ وہ بطور کفّارہ کے

* ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے ۔درست باب ۲۳ ہے(ناشر)



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 35

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/35/mode/1up

35

مارےؔ گئے تو یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ یوحنّا باب۱۹ آیت ۱۱ میں مسیح نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ یہودی مسیح کے قتل کرنے کے ارادہ سے سخت گناہ گار ہیں۔ اور ایسا ہی اور کئی مقامات میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے۔ اور صاف لکھا ہے کہ اس جرم کی عوض میں جو مسیح کی نسبت ان سے ظہور میں آیا خداتعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہر گئے تھے۔ دیکھو انجیل متی باب ۲۶ آیت ۲۴۔

اور منجملہ ان انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی وہ عبارت ہے جو ذیل میں لکھی جاتی ہے۔ ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے‘‘۔ دیکھو انجیل متی باب ۱۶ آیت ۲۸۔ ایسا ہی انجیل یوحنّا کی یہ عبارت ہے۔یسوع نے اسے کہا کہ اگر میں چاہوں کہ جب تک میں آؤں وہ (یعنی یوحنّا حواری) یہیں ٹھہرے یعنی یروشلم میں۔ دیکھو یوحنا باب ۲۱ آیت ۲۲ یعنی اگر میں چاہوں تو یوحنّا نہ مرے جب تک میں دوبارہ آؤں۔ ان آیات سے بکمال صفائی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے وعدہ کیا تھا کہ بعض لوگ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک کہ وہ پھر واپس ہو اور ان زندہ رہنے والوں میں سے یوحنّاکو بھی قرار دیا تھا۔ سو ضرور تھا کہ یہ وعدہ پورا ہوتا۔ چنانچہ عیسائیوں نے بھی اس بات کو مان لیا ہے کہ یسوع کا اس زمانہ میں جبکہ بعض اہل زمانہ زندہ ہوں پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے آنا نہایت ضروری تھا تا وعدہ کے موافق پیشگوئی ظہور میں آوے۔ اسی بنا پر پادری صاحبوں کو اس بات کا اقرار ہے کہ یسوع اپنے وعدہ کے موافق یروشلم کی بربادی کے وقت آیا تھا اور یوحنا نے اس کو دیکھا کیونکہ وہ اس وقت تک زندہ تھا مگر یاد رہے کہ عیسائی اس بات کو نہیں مانتے کہ مسیح اس وقت حقیقی طور پر اپنے قرار داد نشانوں کے موافق آسمان سے نازل ہوا تھا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک کشفی رنگ میں یوحنا کو نظر آگیا تا اپنی اس پیشگوئی کو پورا کرے جو متی باب۱۶ آیت ۳۸ میں ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 36

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/36/mode/1up

36

اس ؔ قسم کے آنے سے پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی یہ تو نہایت ضعیف تاویل ہے۔ گویا نکتہ چینوں سے نہایت تکلّف کے ساتھ پیچھا چھڑانا ہے۔ اور یہ معنی اس قدر غلط اور بدیہی البطلان ہیں کہ اس کے رد کرنے کی بھی حاجت نہیں۔ کیونکہ اگر مسیح نے خواب یا کشف کے ذریعہ سے کسی پر ظاہر ہونا تھا تو پھر ایسی پیشگوئی گویا ایک ہنسی کی بات ہے۔* اس طرح تو ایک مدت اس سے پہلے حضرت مسیح پولوس پر بھی ظاہر ہوچکے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیشگوئی جو متی باب۱۶ آیت۲۸ میں ہے اس نے پادری صاحبوں کو نہایت گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اور وہ اپنے عقیدہ کے موافق کوئی معقول معنی اس کے نہیں کرسکے۔ کیونکہ یہ کہنا ان کے لئے مشکل تھا کہ مسیح یروشلم کی بربادی کے وقت اپنے جلال کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا تھا۔ اور جس طرح آسمان پر ہر ایک طرف چمکنے والی بجلی سب کو نظر آجاتی ہے سب نے اس کو دیکھا تھا۔ اور انجیل کے اس فقرہ کو بھی نظر انداز کرنا ان کے لئے آسان نہ تھا کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے۔ لہٰذا نہایت تکلف سے اس پیشگوئی کو کشفی رنگ میں مانا گیا مگر یہ نادرست ہی ہے کشفی طور پر تو ہمیشہ خدا کے برگزیدہ بندے خاص لوگوں کو نظر آجایا کرتے ہیں۔ اور کشفی طور میں خواب کی بھی شرط نہیں بلکہ بیداری میں ہی نظر آجاتے ہیں چنانچہ میں خود اس میں صاحبِ تجربہ ہوں۔ میں نے کئی دفعہ کشفی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کو دیکھا ہے۔ اوراور بعض نبیوں سے بھی میں نے عین بیداری میں ملاقات کی ہے۔ اور

میں نے بعض کتابوں میں دیکھا ہے کہ اس زمانہ کے مولوی عیسائیوں سے بھی زیادہ متی باب۲۶ آیت ۲۴ کے پُرتکلّف معنی کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مسیح نے اپنے آنے کے لئے یہ شرط لگا دی تھی کہ بعض شخص اس زمانہ کے ابھی زندہ ہوں گے اور ایک حواری بھی زندہ ہوگا جب مسیح آئے گا تو اس صورت میں ضروری ہے کہ وہ حواری اب تک زندہ ہو کیونکہ مسیح اب تک نہیں آیا اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ حواری کسی پہاڑ میں پوشیدہ طور پر مسیح کے انتظار میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 37

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/37/mode/1up

37

میں ؔ نے سید و مولیٰ اپنے امام نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی دفعہ عین بیداری میں دیکھا ہے اور باتیں کی ہیں۔اور ایسی صاف بیداری سے دیکھا ہے جس کے ساتھ خواب یا غفلت کا نام و نشان نہ تھا۔ اور میں نے بعض اور وفات یافتہ لوگوں سے بھی ان کی قبر پر یا اور موقعہ پر عین بیداری میں ملاقات کی ہے اور ان سے باتیں بھی کی ہیں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اس طرح پر عین بیداری میں گذشتہ لوگوں کی ملاقات ہوجاتی ہے اور نہ صرف ملاقات بلکہ گفتگو ہوتی ہے اور مصافحہ بھی ہوتا ہے اور اس بیداری اور روزمرہ کی بیداری میں لوازم حواس میں کچھ بھی فرق نہیں ہوتا۔ دیکھا جاتا ہے کہ ہم اسی عالم میں ہیں اور یہی کان ہیں اور یہی آنکھیں ہیں اور یہی زبان ہے۔ مگر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالم اور ہے۔ دنیا اس قسم کی بیداری کو نہیں جانتی کیونکہ دنیاغفلت کی زندگی میں پڑی ہے یہ بیداری آسمان سے ملتی ہے یہ ان کو دی جاتی ہے جن کو نئے حواس ملتے ہیں۔ یہ ایک صحیح بات ہے اور واقعات حقہ میں سے ہے پس اگر مسیح اسی طرح یروشلم کی بربادی کے وقت یوحنّا کو نظر آیا تھا تو گو وہ بیداری میں نظر آیا اور گو اس سے باتیں بھی کی ہوں اور مصافحہ کیا ہو تاہم وہ واقعہ اس پیشگوئی سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ یہ وہ امور ہیں جو ہمیشہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اور اب بھی اگر ہم توجہ کریں تو خدا کے فضل سے مسیح کو یا اور کسی مقدس نبی کو عین بیداری میں دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسی ملاقات سے متی باب۱۶ آیت ۲۸ کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوسکتی۔

سو اصل حقیقت یہ ہے کہ چونکہ مسیح جانتا تھا کہ میں صلیب سے بچ کر دوسرے ملک میں چلا جاؤں گا اور خدا نہ مجھے ہلاک کرے گا اور نہ دنیا سے اٹھائے گا جب تک کہ میں یہودیوں کی بربادی اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں اور جب تک کہ وہ بادشاہت جو برگزیدوں کے لئے آسمان میں مقرر ہوتی ہے اپنے نتائج نہ دکھلاوے میں ہرگز وفات نہیں پاؤں گا۔

اس لئے مسیح نے یہ پیشگوئی کی تا اپنے شاگردوں کو اطمینان دے کہ عنقریب تم میرا یہ نشان

دیکھو گے کہ جنہوں نے مجھ پر تلوار اٹھائی وہ میری زندگی اور میرے مشافہ میں تلواروں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 38

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/38/mode/1up

38

سےؔ ہی قتل کئے جائیں گے۔ سو اگر ثبوت کچھ چیز ہے تو اس سے بڑھ کر عیسائیوں کے لئے اور کوئی ثبوت نہیں کہ مسیح اپنے منہ سے پیشگوئی کرتا ہے کہ ابھی تم میں سے بعض زندہ ہوں گے کہ میں پھر آؤں گا۔

یاد رہے کہ انجیلوں میں دو قسم کی پیشگوئیاں ہیں جو حضرت مسیح کے آنے کے متعلق ہیں۔ (۱) ایک وہ جو آخری زمانہ میں آنے کا وعدہ ہے وہ وعدہ روحانی طور پر ہے اور وہ آنا اسی قسم کا آنا ہے جیسا کہ ایلیا نبی مسیح کے وقت دوبارہ آیا تھا۔ سو وہ ہمارے اس زمانہ میں ایلیا کی طرح آچکا ہے اور وہ یہی راقم ہے جو خادم نوع انسان ہے جو مسیح موعود ہو کر مسیح علیہ السلام کے نام پر آیا۔ اور مسیح نے میری نسبت انجیل میں خبر دی ہے۔ سو مبارک وہ جو مسیح کی تعظیم کے لئے میرے باب میں دیانت اور انصاف سے غور کرے۔ اور ٹھوکر نہ کھاوے۔ (۲) دوسری قسم کی پیشگوئیاں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے متعلق انجیلوں میں پائی جاتی ہیں وہ درحقیقت مسیح کی اس زندگی کے ثبوت کے لئے بیان کی گئی ہیں جو صلیب کے بعد خدائے تعالیٰ کے فضل سے قائم اور بحال رہی اور صلیبی موت سے خدا نے اپنے برگزیدہ کو بچا لیا جیسا کہ یہ پیشگوئی جو ابھی بیان کی گئی۔ عیسائیوں کی یہ غلطی ہے کہ ان دونوں مقاموں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے بڑی گھبراہٹ اور طرح طرح کے مشکلات ان کو پیش آتے ہیں۔ غرض مسیح کے صلیب سے بچ جانے کے لئے یہ آیت جو متی ۱۶ باب میں پائی جاتی ہے بڑا ثبوت ہے۔

اور منجملہ انجیلی شہادتوں کے جو ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی مندرجہ ذیل آیت ہے۔ ’’اور اس وقت انسان کے بیٹے کا نشان آسمان پر ظاہر ہوگا۔ اور اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی اور انسان کے بیٹے کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے‘‘۔ دیکھو متی باب ۲۴ آیت ۳۰۔ اس آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ حضرتعیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ جبکہ آسمان سے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 39

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/39/mode/1up

39

یعنیؔ محض خدا کی قدرت سے ایسے علوم اور دلائل اور شہادتیں پیدا ہو جائیں گی کہ جو آپ کی الوہیت یا صلیب پر فوت ہونے اور آسمان پر جانے اور دوبارہ آنے کے عقیدہ کا باطل ہونا ثابت کردیں گی۔ اور جو قومیں آپ کے نبی صادق ہونے کی منکر تھیں بلکہ صلیب دئیے جانے کی وجہ سے ان کو *** سمجھتی تھیں جیسا کہ یہود۔ ان کے جھوٹ پر بھی آسمان گواہی دے گا کیونکہ یہ حقیقت بخوبی کھل جائے گی کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے اس لئے *** بھی نہیں ہوئے تب زمین کی تمام قومیں جنہوں نے ان کے حق میں افراط یا تفریط کی تھی ماتم کریں گی اور اپنی غلطی کی وجہ سے سخت ندامت اور خجالت ان کے شامل حال ہوگی۔ اور اسی زمانہ میں جبکہ یہ حقیقت کھل جائے گی لوگ روحانی طور پر مسیح کو زمین پر نازل ہوتے دیکھیں گے۔ یعنی ان ہی دنوں میں مسیح موعود جو ان کی قوت اور طبیعت میں ہو کر آئے گا آسمانی تائید سے اور اس قدرت اور جلال سے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس کے شامل ہوگی اپنے چمکتے ہوئے ثبوت کے ساتھ ظاہر ہوگا اور پہچانا جائے گا۔ اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قضا و قدر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایسا وجود ہے اور ایسے واقعات ہیں جو بعض قوموں نے ان کی نسبت افراط کیا ہے اور بعض نے تفریط کی راہ لی ہے۔ یعنی ایک وہ قوم ہے کہ جو انسانی لوازم سے ان کو دور تر لے گئی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں کہ اب تک وہ فوت نہیں ہوئے اور آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر وہ قوم ہے جو کہتے ہیں کہ صلیب پر فوت ہوکر اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے ہیں اور خدائی کے تمام اختیار ان کو مل گئے ہیں بلکہ وہ خود خدا ہیں۔ اور دوسری قوم یہودی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ صلیب پر مارے گئے اس لئے نعوذ باللہ وہ ہمیشہ کے لئے *** ہوئے اور ہمیشہ کے لئے موردِ غضب۔ اور خدا اُن سے بیزار ہے اور بیزاری اور دشمنی کی نظر سے ان کو دیکھتا ہے

اور وہ کاذب اور مفتری اور نعوذ باللہ کافر اور ملحد ہیں اور خدا کی طرف سے نہیں ہیں۔ سو یہ

افراط اور تفریط ایسا ظلم سے بھرا ہوا طریق تھا کہ ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ اپنے سچے نبی کو ان



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 40

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/40/mode/1up

40

الزاؔ موں سے بری کرتا۔ سو انجیل کی آیت مذکورہ بالا کا اسی بات کی طرف اشارہ ہے اور یہ جو کہا کہ زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی۔ یہ اس بات کی طرف ایما کی گئی ہے کہ وہ تمام فرقے جن پر قوم کا لفظ اطلاق پاسکتا ہے اس روز چھاتی پیٹیں گی اور جزع فزع کریں گی اور ان کا ماتم سخت ہوگا۔ اس جگہ عیسائیوں کو ذرہ توجہ سے اس آیت کو پڑھنا چاہئیے اور سوچنا چاہئیے کہ جبکہ اس آیت میں کل قوموں کے چھاتی پیٹنے کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے تو اس صورت میں عیسائی اس ماتم سے کیونکر باہر رہ سکتے ہیں۔ کیا وہ قوم نہیں ہیں۔ اور جبکہ وہ بھی اس آیت کے رو سے چھاتی پیٹنے والوں میں داخل ہیں تو پھر وہ کیوں اپنی نجات کا فکر نہیں کرتے۔ اس آیت میں صاف طور پر بتلایا گیا ہے کہ جب مسیح کا نشان آسمان پر ظاہر ہوگا تو زمین پر جتنی قومیں ہیں وہ چھاتی پیٹیں گی۔ سو ایسا شخص مسیح کو جھٹلاتا ہے جو کہتا ہے کہ ہماری قوم چھاتی نہیں پیٹے گی۔ ہاں وہ لوگ چھاتی پیٹنے کی پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہر سکتے جن کی جماعت ابھی تھوڑی ہے اور اس لائق نہیں ہے جو اُس کو قوم کہا جائے۔ اور وہ ہمارا فرقہ ہے بلکہ یہی ایک فرقہ ہے جو پیشگوئی کے اثر اور دلالت سے باہر ہے کیونکہ اس فرقہ کے ابھی چند آدمی ہیں جو کسی طرح قوم کا لفظ ان پر صادق نہیں آسکتا۔ مسیح نے خدا سے الہام پاکر بتلایا کہ جب آسمان پر ایک نشان ظاہر ہوگا تو زمین کے کل وہ گروہ جو بباعث اپنی کثرت کے قوم کہلانے کے مستحق ہیں چھاتی پیٹیں گے اور کوئی ان میں سے باقی نہیں رہے گا مگر وہی کم تعداد لوگ جن پر قوم کا لفظ صادق نہیں آسکتا۔ اس پیشگوئی کے مصداق سے نہ عیسائی باہر رہ سکتے ہیں اور نہ اس زمانہ کے مسلمان اور نہ یہودی اور نہ کوئی اور مکذّب۔ صرف ہماری یہ جماعت باہر ہے کیونکہ ابھی خدا نے ان کو تخم کی طرح بویا ہے۔ نبی کا کلام کسی طور سے جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ جبکہ کلام میں صاف یہ اشارہ ہے کہ ہر ایک قوم جو زمین پر ہے چھاتی پیٹے گی تو ان قوموں میں سے کونسی قوم باہر رہ سکتی ہے۔ مسیح نے تو اس آیت میں کسی قوم کا استثنا نہیں کیا۔ ہاں وہ جماعت بہر صورت مستثنیٰ ہے جو ابھی قوم



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 41

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/41/mode/1up

41

کےؔ اندازہ تک نہیں پہنچی یعنی ہماری جماعت۔ اور یہ پیشگوئی اس زمانہ میں نہایت صفائی سے پوری ہوئی کیونکہ وہ سچائی جو حضرت مسیح کی نسبت اب پوری ہوئی ہے وہ بلاشبہ ان تمام قوموں کے ماتم کا موجب ہے کیونکہ اس سے سب کی غلطی ظاہر ہوتی ہے اور سب کی پردہ دری ظہور میں آتی ہے۔ عیسائیوں کے خدا بنانے کا شور و غوغا حسرت کی آہوں سے بدل جاتا ہے۔ مسلمانوں کا دن رات کا ضد کرنا کہ مسیح آسمان پر زندہ گیا ۔آسمان پر زندہ گیا رونے اور ماتم کے رنگ میں آجاتا ہے اور یہودیوں کا تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔

اور اس جگہ یہ بھی بیان کردینے کے لائق ہے کہ آیت مذکورہ بالا میں جو لکھا ہے کہ اس وقت زمین کی ساری قومیں چھاتی پیٹیں گی۔ اس جگہ زمین سے مراد بلادِ شام کی زمین ہے جس سے یہ تینوں قومیں تعلق رکھتی ہیں۔ یہودی اس لئے کہ وہی ان کا مبدء اور منبع ہے اور اسی جگہ اُن کا معبد ہے۔ عیسائی اس لئے کہ حضرت مسیح اسی جگہ ہوئے ہیں اور عیسائی مذہب کی پہلی قوم اسی ملک میں پیدا ہوئی ہے۔ مسلمان اس لئے کہ وہ اس زمین کے قیامت تک وارث ہیں اور اگر زمین کے لفظ کے معنی ہر یک زمین لی جائے تب بھی کچھ حرج نہیں کیونکہ حقیقت کھلنے پر ہر یک مکذّب نادم ہوگا۔

اور منجملہ ان شہادتوں کے جو انجیل سے ہم کو ملی ہیں انجیل متی کی وہ عبارت ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ ’’اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھیں اٹھیں اور اس کے اٹھنے کے بعد (یعنی مسیح کے اٹھنے کے بعد) قبروں میں سے نکل کر اور مقدس شہر میں جاکر بہتوں کو نظر آئیں‘‘۔ دیکھو انجیل متی باب۲۷ آیت۵۲۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ قصہ جو انجیل میں بیان کیا گیا ہے کہ مسیح کے اٹھنے کے بعد پاک لوگ قبروں میں سے باہر نکل آئے اور زندہ ہوکر بہتوں کو نظر آئے یہ کسی تاریخی واقعہ کا بیان نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر گویا اسی دنیا میں قیامت نمودار ہوجاتی اور وہ امر جو صدق اور ایمان دیکھنے کے لئے دنیا پر مخفی رکھا گیا تھا وہ سب پر کھل جاتا اور ایمان ایمان نہ رہتا اور ہر یک مومن اور کافر کی نظر میں آنے والے عالم کی حقیقت ایک بدیہی چیز ہو جاتی جیسا کہ چاند اور سورج اور دن اور رات کا وجود بدیہی ہے تب ایمان ایسی قیمتی اور قابل قدر چیز نہ ہوتی جس پر اجر پائیں *گے کچھ

*’’پائیں گے ‘‘ سہو کتابت ہے ۔درست ’’پانے کی‘‘ ہے بحوالہ روحانی خزائن ۔(ناشر)



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 42

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/42/mode/1up

42

امید ہوسکتی۔ لوگؔ اور بنی اسرائیل کے گذشتہ نبی جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے سچ مچ واقعہ صلیب کے وقت زندہ ہو گئے تھے اور زندہ ہوکر شہر میں آگئے تھے اور حقیقت میں مسیح کی سچائی اور خدائی ثابت کرنے کے لئے یہ معجزہ دکھلایا گیا تھا جو صدہا نبیوں اور لاکھوں را ستبازوں کو ایک دم میں زندہ کردیا گیا تو اس صورت میں یہودیوں کویہ ایک عمدہ موقعہ ملا تھا کہ وہ زندہ شدہ نبیوں اور دوسرے راستبازوں اور اپنے فوت شدہ باپ دادوں سے مسیح کی نسبت دریافت کرتے کہ کیا یہ شخص جو خدائی کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت خدا ہے یا کہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹا ہے اور قرین قیاس ہے کہ اس موقعہ کو انہوں نے ہاتھ سے نہ دیا ہوگا اور ضرور دریافت کیا ہوگا کہ یہ شخص کیسا ہے کیونکہ یہودی ان باتوں کے بہت حریص تھے کہ اگر مردے دنیا میں دوبارہ آجائیں تو ان سے دریافت کریں تو پھر جس حالت میں لاکھوں مردے زندہ ہوکر شہر میں آگئے اور ہرایک محلہ میں ہزاروں مردے چلے گئے تو ایسے موقعہ کو یہودی کیونکر چھوڑ سکتے تھے ضرور انہوں نے نہ ایک نہ دو سے بلکہ ہزاروں سے پوچھا ہوگا اور جب یہ مردے اپنے اپنے گھروں میں داخل ہوئے ہوں گے۔ تو ان لاکھوں انسانوں کے دنیا میں دوبارہ آنے سے گھر گھر میں شور پڑ گیا ہوگا اور ہر ایک گھر میں یہی شغل اور یہی ذکر اور یہی تذکرہ شروع ہو گیا ہوگا کہ مردوں سے پوچھتے ہوں گے کہ کیا آپ لوگ اس شخص کو جو یسوع مسیح کہلاتا ہے حقیقت میں خدا جانتے ہیں۔ مگر چونکہ مُردوں کی اس گواہی کے بعد جیسا کہ امید تھی یہودی حضرت مسیح پر ایمان نہیں لائے اور نہ کچھ نرم دل ہوئے بلکہ اور بھی سخت دل ہوگئے تو غالباً معلوم ہوتا ہے کہ مردوں نے کوئی اچھی گواہی نہیں دی۔ بلکہ بلا توقف یہ جواب دیا ہوگا کہ یہ شخص اپنے اس دعویٰ خدائی میں بالکل جھوٹا ہے اور خدا پر بہتان باندھتا ہے۔ تبھی تو لاکھوں انسان بلکہ پیغمبروں اور رسولوں کے زندہ ہونے کے بعد بھی یہودی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور حضرت مسیح کو مار کر پھر دوسروں کے قتل کی طرف متوجہ ہوئے۔ بھلا یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ لاکھوں را ستباز کہ جو حضرت آدم سے لے کر حضرت یحیٰی تک اس زمین پاک کی قبروں میں سوئے ہوئے تھے وہ سب کے سب



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 43

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/43/mode/1up

43


زندہ ؔ ہوجائیں اور پھر وعظ کرنے کے لئے شہر میں آئیں اور ہر ایک کھڑا ہوکر ہزارہا انسانوں کے سامنے یہ گواہی دے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کا بیٹا بلکہ خود خدا ہے اسی کی پوجا کیا کرو اور پہلے خیالات کو چھوڑو ورنہ تمہارے لئے جہنم ہے جس کو خود ہم دیکھ کر آئے ہیں۔ اور پھر باوجود اس اعلیٰ درجہ کی گواہی اور شہادت رویت کے جو لاکھوں را ستباز مردوں کے منہ سے نکلی یہودی اپنے انکار سے باز نہ آئیں۔ ہمارا کانشنس تو اس بات کو نہیں مانتا۔ پس اگر فی الحقیقت لاکھوں را ستباز فوت شدہ پیغمبر اور رسول وغیرہ زندہ ہوکر گواہی کے لئے شہر میں آئے تھے تو کچھ شک نہیں کہ انہوں نے کچھ الٹی ہی گواہی دی ہوگی اور ہرگز حضرت مسیح کی خدائی کو تصدیق نہیں کیا ہوگا تبھی تو یہودی لوگ مردوں کی گواہیوں کو سن کر اپنے کفر پر پکے ہوگئے اور حضرت مسیح تو ان سے خدائی منوانا چاہتے تھے مگر وہ تو اس گواہی کے بعد نبوت سے بھی منکر ہو بیٹھے۔

غرض ایسے عقیدے نہایت مضر اور بد اثر ڈالنے والے ہیں کہ ایسا یقین کیا جائے کہ یہ لاکھوں مردے یا اس سے پہلے کوئی مردہ حضرت مسیح نے زندہ کیا تھا کیونکہ ان مردوں کے زندہ ہونے کے بعد کوئی نیک نتیجہ پیدا نہیں ہوا۔ یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ اگر مثلاً کوئی شخص کسی دور دراز ملک میں جاتا ہے اور چند برس کے بعد اپنے شہر میں واپس آتا ہے تو طبعاً اس کے دل میں یہ جوش ہوتا ہے کہ اس ملک کے عجائب غرائب لوگوں کے پاس بیان کرے اور اس ولایت کے عجیب در عجیب واقعات سے ان لوگوں کو اطلاع دے نہ یہ کہ اتنی مدت کی جدائی کے بعد جب اپنے لوگوں کو ملے تو زبان بند رکھے اور گونگوں کی طرح بیٹھا رہے بلکہ ایسے موقعہ میں دوسرے لوگوں میں بھی فطرتاً یہ جوش پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے پاس دوڑے آتے ہیں اور اُس ملک کے حالات اس سے پوچھتے ہیں اور اگر ایسا اتفاق ہو کہ ان لوگوں کے ملک میں کوئی غریب شکستہ حال وارد ہو جس کی ظاہری حیثیت غریبانہ ہو اور وہ دعویٰ کرتا ہو کہ میں اُس ملک کا بادشاہ ہوں جس کے پایہ تخت کا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 44

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/44/mode/1up

44

سیرؔ کر کے یہ لوگ آئے ہیں۔ اور میں فلاں فلاں بادشاہ سے بھی اپنے شاہانہ مرتبہ میں اوّل درجہ پر ہوں تو لوگ ایسے سیاحوں سے ضرور پوچھا کرتے ہیں کہ بھلا یہ تو بتلائیے کہ فلاں شخص جو ان دنوں میں ہمارے ملک میں اس ملک سے آیا ہوا ہے کیا سچ مچ یہ اس ملک کا بادشاہ ہے اور پھر وہ لوگ جیسا کہ واقعہ ہو بتلا دیا کرتے ہیں تو اس صورت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح کے ہاتھ سے مُردوں کا زندہ ہونا فقط اس حالت میں قابلِ پذیرائی ہوتا جبکہ وہ گواہی جو ان سے پوچھی گئی ہوگی جس کا پوچھا جانا ایک طبعی امر ہے کوئی مفید نتیجہ بخشتی لیکن اس جگہ ایسا نہیں ہے ۔پس ناچار اس بات کے فرض کرنے سے کہ مُردے زندہ ہوئے تھے اس بات کو بھی ساتھ ہی فرض کرنا پڑتا ہے کہ ان مردوں نے حضرت مسیح کے حق میں کوئی مفید گواہی نہیں دی ہوگی جس سے ان کی سچائی تسلیم کی جاتی بلکہ ایسی گواہی دی ہوگی جس سے اور بھی فتنہ بڑھ گیا ہوگا۔ کاش اگر انسانوں کی جگہ دوسرے چارپایوں کا زندہ کرنا بیان کیا جاتا تو اس میں بہت کچھ پردہ پوشی متصور تھی۔ مثلاً یہ کہا جاتا کہ حضرت مسیح نے کئی ہزار بیل زندہ کئے تھے تو یہ بات بہت معقول ہوتی اور کسی کے اعتراض کے وقت جبکہ مذکورہ بالا اعتراض کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ ان مردوں کی گواہی کا نتیجہ کیا ہوا تو ہم فی الفور کہہ سکتے کہ وہ تو بیل تھے ان کی زبان کہاں تھی جو بھلی یا بُری گواہی دیتے۔ بھلا وہ تو لاکھوں مردے تھے جو حضرت مسیح نے زندہ کئے آج مثلاً چند ہندوؤں کو اگر بلا کر پوچھو کہ اگر تمہارے فوت شدہ باپ دادے دس بیس زندہ ہوکر دنیا میں واپس آجائیں اور گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے تو کیا پھر بھی تم کو اس مذہب کی سچائی میں شک باقی رہ جائے گا۔ تو ہرگز نفی کا جواب نہیں دیں گے۔ پس یقیناًسمجھو کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں کہ اس قدر انکشاف کے بعد پھر بھی اپنے کفر اور انکار پر اڑا رہے۔ افسوس ہے کہ ایسی کہانیوں کی بندش میں ہمارے ملک کے سکھ خالصہ عیسائیوں سے اچھے رہے اور انہوں نے ایسی کہانیوں کے بنانے میں خوب ہوشیاری کی۔ کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے گورو باوا نانک نے ایک دفعہ ایک ہاتھی مردہ زندہ کیا تھا۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 45

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/45/mode/1up

45

اب ؔ یہ اس قسم کا معجزہ ہے کہ نتائج مذکورہ کا اعتراض اس پر وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ سکھ کہہ سکتے ہیں کہ کیا ہاتھی کی کوئی بولنے والی زبان ہے کہ تا باوا نانک کی تصدیق یا تکذیب کرتا۔ غرض عوام تو اپنی چھوٹی سی عقل کی وجہ سے ایسے معجزات پر بہت خوش ہوتے ہیں مگر عقلمند غیر قوموں کے اعتراضوں کا نشانہ بن کر کوفتہ خاطر ہوتے ہیں اور جس مجلس میں ایسی بیہودہ کہانیاں کی جائیں وہ بہت شرمندہ ہوتے ہیں۔ اب چونکہ ہم کو حضرت مسیح علیہ السلام سے ایسا ہی محبت اور اخلاص کا تعلق ہے جیسا کہ عیسائیوں کو تعلق ہے بلکہ ہم کو بہت بڑھ کر تعلق ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کس کی تعریف کرتے ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ ہم کس کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو دیکھا ہے لہٰذا اب ہم اس عقیدہ کی اصل حقیقت کو کھولتے ہیں کہ جو انجیلوں میں لکھا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے وقت تمام راستباز فوت شدہ زندہ ہوکر شہر میں آگئے تھے۔

پس واضح ہو کہ یہ ایک کشفی امر تھا جو صلیب کے واقعہ کے بعد بعض پاک دل لوگوں نے خواب کی طرح دیکھا تھا کہ گویا مقدس مردے زندہ ہوکر شہر میں آگئے ہیں۔ اور لوگوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور جیسا کہ خوابوں کی تعبیر خدا کی پاک کتابوں میں کی گئی ہے۔ مثلاً جیسا کہ حضرت یوسف کی خواب کی تعبیر کی گئی۔ ایسا ہی اس خواب کی بھی ایک تعبیر تھی۔ اور وہ یہ تعبیر تھی کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور خدا نے اس کو صلیب کی موت سے نجات دے دی۔ اور اگر ہم سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ تعبیر تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی تو اس کا یہ جواب ہے کہ فن تعبیر کے اماموں نے ایسا ہی لکھا ہے اور تمام معبرین نے اپنے تجربہ سے اس پر گواہی دی ہے۔ چنانچہ ہم قدیم زمانہ کے ایک امام فن تعبیر یعنی صاحب کتاب تعطیر الانام کی تعبیر کو اس کی اصل عبارت کے ساتھ ذیل میں لکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے من رأی أنّ الموتٰی وثبوا من قبورھم و رجعوا الٰی دورھم فانہ یطلق من فی السجن۔ دیکھو کتاب تعطیر الانام فی تعبیر المنام مصنفہ قطب الزمان شیخ عبد الغنی النابلسی صفحہ ۲۸۹۔ ترجمہ: اگر کوئی یہ خواب دیکھے یا کشفی طور پر مشاہدہ کرے کہ مردے قبروں میں سے نکل آئے اور اپنے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 46

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/46/mode/1up

46

گھروؔ ں کی طرف رجوع کیا تو اس کی یہ تعبیر ہے کہ ایک قیدی قید سے رہائی پائے گا اور ظالموں کے ہاتھ سے اس کو مَخلصی حاصل ہوگی۔ طرز بیان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قیدی ہوگا کہ ایک شان اور عظمت رکھتا ہوگا۔ اب دیکھو یہ تعبیر کیسی معقولی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام پر صادق آتی ہے اور فی الفور سمجھ آجاتا ہے کہ اسی اشارہ کے ظاہر کرنے کے لئے فوت شدہ را ستباز زندہ ہوکر شہر میں داخل ہوتے نظر آئے کہ تا اہلِ فراست معلوم کریں کہ حضرت مسیح صلیبی موت سے بچائے گئے۔

ایسا ہی اور بہت سے مقامات انجیلوں میں پائے جاتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کے ذریعہ سے نہیں مرے بلکہ مَخلصی پا کر کسی دوسرے ملک میں چلے گئے۔ لیکن میں خیال کرتا ہوں کہ جس قدر میں نے بیان کیا ہے وہ منصفوں کے سمجھنے کے لئے کافی ہے۔

ممکن ہے کہ بعض دلوں میں یہ اعتراض پیدا ہو کہ انجیلوں میں یہ بھی تو بار بار ذکر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت ہوگئے اور پھر زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے۔ ایسے اعتراضات کا جواب میں پہلے بطور اختصار دے چکا ہوں۔ اور اب بھی اس قدر بیان کردینا مناسب خیال کرتا ہوں کہ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیبی واقعہ کے بعد حواریوں کو ملے اور گلیل تک سفر کیا اور روٹی کھائی اور کباب کھائے اور اپنے زخم دکھلائے اور ایک رات بمقام امّاؤس حواریوں کے ساتھ رہے اور خفیہ طور پر پلاطوس کے علاقہ سے بھاگے اور نبیوں کی سنّت کے موافق اس ملک سے ہجرت کی اور ڈرتے ہوئے سفر کیا تو یہ تمام واقعات اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے اور فانی جسم کے تمام لوازم ان کے ساتھ تھے اور کوئی نئی تبدیلی ان میں پیدا نہیں ہوئی تھی اور آسمان پر چڑھنے کی کوئی عینی شہادت انجیل سے نہیں ملتی۔*اور اگر ایسی شہادت ہوتی بھی تب بھی لائق اعتبار نہ تھی۔ کیونکہ انجیل نویسوں کی

کوئی بیان نہیں کرتا کہ میں اس بات کا گواہ ہوں اور میری آنکھوں نے دیکھا ہے کہ وہ آسمان پر چڑھ گئے تھے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/47/mode/1up

47

یہ عاؔ دت معلوم ہوتی ہے کہ وہ بات کا بتونگڑا بنا لیتے ہیں اور ایک ذرہ سی بات پر حاشیے چڑھاتے چڑھاتے ایک پہاڑ اس کو کر دیتے ہیں۔مثلاً کسی انجیل نویس کے منہ سے نکل گیا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے۔ اب دوسرا انجیل نویس اس فکر میں پڑتا ہے کہ اس کو پورا خدا بنا وے اور تیسرا تمام زمین آسمان کے اختیار اس کو دیتا ہے اور چوتھا واشگاف کہہ دیتا ہے کہ وہی ہے جو کچھ ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں۔ غرض اس طرح پر کھینچتے کھینچتے کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں۔ دیکھو وہ رؤیا جس میں نظر آیا تھا کہ گویا مُردے قبروں میں سے اٹھ کر شہر میں چلے گئے۔ اب ظاہری معنوں پر زور دے کر یہ جتلایا گیا کہ حقیقت میں مُردے قبروں میں سے باہر نکل آئے تھے اور یروشلم شہر میں آکر اور لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس جگہ غور کرو کہ کیسے ایک پر کا کوّا بنایا گیا۔ پھر وہ ایک کوّا نہ رہا بلکہ لاکھوں کوّے اڑائے گئے۔ جس جگہ مبالغہ کا یہ حال ہو اس جگہ حقیقتوں کا کیونکر پتہ لگے۔ غور کے لائق ہے کہ ان انجیلوں میں جو خدا کی کتابیں کہلاتی ہیں ایسے ایسے مبالغات بھی لکھے گئے کہ مسیح نے وہ کام کئے کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جاتے تو وہ کتابیں جن میں وہ لکھے جاتے دنیا میں سما نہ سکتیں۔ کیا اتنا مبالغہ طریق دیانت و امانت ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر مسیح کے کام ایسے ہی غیر محدود اور حد بندی سے باہر تھے تو تین برس کی حد میں کیونکر آگئے۔ ان انجیلوں میں یہ بھی خرابی ہے کہ بعض پہلی کتابوں کے حوالے غلط بھی دئیے ہیں۔ شجرہ نسب مسیح کو بھی صحیح طور پر لکھ نہ سکے۔ انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بزرگوں کی عقل کچھ موٹی تھی یہاں تک کہ بعض حضرت مسیح کو بھوت سمجھ بیٹھے اور ان انجیلوں پر قدیم سے یہ بھی الزام چلا آتا ہے کہ وہ اپنی صحت پر باقی نہیں رہیں۔ اور خود جس حالت میں بہت سی اور بھی کتابیں انجیل کے نام سے تالیف کی گئیں۔ تو ہمارے پاس کوئی پختہ دلیل اس بات پر نہیں کہ کیوں ان دوسری کتابوں کے سب کے سب مضمون ردّ کئے جائیں اور کیوں اِن انجیلوں کا کُل لکھا ہوا مان لیا جائے۔ ہم خیال نہیں کرسکتے کہ کبھی دوسری انجیلوں میں اس قدر بے اصل مبالغات



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/48/mode/1up

48

لکھے ؔ گئے ہیں جیسا کہ ان چار انجیلوں میں ۔عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو ان کتابوں میں مسیح کا پاک اور بے داغ چال چلن مانا جاتا ہے اور دوسری طرف اس پر ایسے الزام لگائے جاتے ہیں جو کسی راستباز کی شان کے ہرگز مناسب نہیں ہیں۔ مثلاً اسرائیلی نبیوں نے یوں تو توریت کے منشاء کے موافق ایک ہی وقت میں صدہا بیویوں کو رکھا تا پاکوں کی نسل کثرت سے پیدا ہو۔ مگر آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کسی نبی نے اپنی بے قیدی کا یہ نمونہ دکھلایا کہ ایک ناپاک بدکردار عورت اور شہر کی مشہور فاسقہ اس کے بدن سے اپنے ہاتھ لگاوے اور اس کے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ملے اور اپنے بال اس کے پاؤں پر ملے۔ اور وہ یہ سب کچھ ایک جوان ناپاک خیال عورت سے ہونے دے اور منع نہ کرے۔ اس جگہ صرف نیک ظنی کی برکت سے انسان ان اوہام سے بچ سکتا ہے جو طبعاً ایسے نظارہ کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن بہر حال یہ نمونہ دوسروں کے لئے اچھا نہیں۔ غرض ان انجیلوں میں بہت سی باتیں ایسی بھری پڑی ہیں کہ وہ بتلا رہی ہیں کہ یہ انجیلیں اپنی اصلی حالت پر قائم نہیں رہیں یا ان کے بنانے والے کوئی اور ہیں حواری اور ان کے شاگرد نہیں ہیں۔ مثلاً انجیل متی کا یہ قول ’’اور یہ بات آج تک یہودیوں میں مشہور ہے‘‘۔ کیا اس کا لکھنے والا متی کو قرار دینا صحیح اور مناسب ہوسکتا ہے؟ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس انجیل متی کا لکھنے والا کوئی اور شخص ہے جو متی کی وفات کے بعد گذرا ہے۔ پھر اسی انجیل متی باب ۲۸ آیت ۱۲و ۱۳ میں ہے۔ ’’تب انہوں نے یعنی یہودیوں نے بزرگوں کے ساتھ اکٹھے ہوکر صلاح کی اور ان پہرہ والوں کو بہت روپے دئیے اور کہا تم کہو کہ رات کو جب ہم سوتے تھے اس کے شاگرد یعنی مسیح کے شاگرد آکر اسے چُرا کر لے گئے‘‘۔ دیکھو یہ کیسی کچی اور نامعقول باتیں ہیں۔ اگر اس سے مطلب یہ ہے کہ یہودی اس بات کو پوشیدہ کرنا چاہتے تھے کہ یسوع مُردوں میں سے جی اٹھا ہے اس لئے انہوں نے پہرہ والوں کو رشوت دی تھی کہ تا یہ عظیم الشان معجزہ ان کی قوم میں مشہور نہ ہو تو کیوں یسوع نے جس کا یہ فرض تھا کہ اپنے اس معجزہ کی یہودیوں میں اشاعت کرتا اس کو مخفی رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کے ظاہر کرنے سے منع کیا۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/49/mode/1up

49


اگر ؔ یہ کہو کہ اس کو پکڑے جانے کا خوف تھا تو میں کہتا ہوں کہ جب ایک دفعہ خدائے تعالیٰ کی تقدیر اس پر وارد ہو چکی اور وہ مر کر پھر جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہوچکا تو اب اس کو یہودیوں کا کیا خوف تھا۔ کیونکہ اب یہودی کسی طرح اس پر قدرت نہیں پاسکتے تھے۔ اب تو وہ فانی زندگی سے ترقی پاچکا تھا۔ افسوس کہ ایک طرف تو اس کا جلالی جسم سے زندہ ہونا اور حواریوں کو ملنا اور جلیل کی طرف جانا اور پھر آسمان پر اٹھائے جانا بیان کیا گیا ہے اور پھر بات بات میں اس جلالی جسم کے ساتھ بھی یہودیوں کا خوف ہے اس ملک سے پوشیدہ طور پر بھاگتا ہے کہ تا کوئی یہودی دیکھ نہ لے اور جان بچانے کے لئے ستر۷۰ کوس کا سفر جلیل کی طرف کرتا ہے۔ بار بار منع کرتا ہے کہ یہ واقعہ کسی کے پاس بیان نہ کرو۔ کیا یہ جلالی جسم کے لچھّن اور علامتیں ہیں؟ نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ کوئی جلالی اور نیا جسم نہ تھا وہی زخم آلودہ جسم تھا جو جان نکلنے سے بچایا گیا۔ اور چونکہ یہودیوں کا پھر بھی اندیشہ تھا اس لئے برعایت ظاہر اسباب مسیح نے اس ملک کو چھوڑ دیا۔اس کے مخالف جس قدر باتیں بیان کی جاتی ہیں وہ سب کی سب بیہودہ اور خام خیال ہیں کہ پہرہ داروں کو یہودیوں نے رشوت دی کہ تم یہ گواہی دو کہ حواری لاش کو چُرا کر لے گئے اور ہم سوتے تھے۔ اگر وہ سوتے تھے تو ان پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ تم کو سونے کی حالت میں کیونکرمعلوم ہوگیا کہ یسوع کی لاش کو چوری اٹھا لے گئے۔ اور کیا صرف اتنی بات سے کہ یسوع قبر میں نہیں کوئی عقلمند سمجھ سکتا تھا کہ وہ آسمان پر چلا گیا ہے۔ کیا دنیا میں اور اسباب نہیں جن سے قبریں خالی رہ جاتی ہیں؟ اس بات کا بارِ ثبوت تو مسیح کے ذمہ تھا کہ وہ آسمان پر جانے کے وقت دو تین سو یہودیوں کو ملتا اور پلاطوس سے بھی ملاقات کرتا ۔جلالی جسم کے ساتھ اس کو کس کا خوف تھا مگر اس نے یہ طریق اختیار نہیں کیا اور اپنے مخالفوں کو ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ خوفناک دل کے ساتھ جلیل کی طرف بھاگا۔ اس لئے ہم قطعی طور پر یقین رکھتے اور مانتے ہیں کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ وہ اس قبر میں سے نکل

گیا جو کوٹھے کی طرح کھڑکی دار تھی اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر حواریوں کو ملا مگر یہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/50/mode/1up

50

ہرگز ؔ سچ نہیں کہ اس نے کوئی نیا جلالی جسم پایا۔ وہی جسم تھا اور وہی زخم تھے اور وہی خوف دل میں تھا کہ مبادا بد بخت یہودی پھر پکڑ لیں۔ متی باب ۲۸ آیت ۷و۸و ۹و ۱۰ کو غور سے پڑھو۔ ان آیات میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ وہ عورتیں جن کو کسی نے یہ پتہ دیا تھا کہ مسیح جیتا ہے اور جلیل کی طرف جارہا ہے اور کہنے والے نے چپکے سے یہ بھی کہا تھا کہ شاگردوں کو جاکر یہ خبر کردو۔ وہ اس بات کو سن کر خوش تو ہوئیں مگر بڑی خوفناک حالت میں روانہ ہوئیں یعنی یہ اندیشہ تھا کہ اب بھی کوئی شریر یہودی مسیح کو پکڑ نہ لے۔ اور آیت ۹ میں ہے کہ جب وہ عورتیں شاگردوں کو خبر دینے جاتی تھیں تو یسوع انہیں ملا اور کہا سلام۔ اور آیت دس میں ہے کہ یسوع نے انہیں کہا مت ڈرو یعنی میرے پکڑے جانے کا اندیشہ نہ کرو پر میرے بھائیوں کو کہو کہ جلیل کو جائیں۔* وہاں مجھے دیکھیں گے۔ یعنی یہاں میں ٹھہر نہیں سکتا کہ دشمنوں کا اندیشہ ہے۔ غرض اگر فی الحقیقت مسیح مرنے کے بعد جلالی جسم کے ساتھ زندہ ہوا تھا تو یہ بارِ ثبوت اس پر تھا کہ وہ ایسی زندگی کا یہودیوں کو ثبوت دیتا۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ اس بار ثبوت سے سبکدوش نہیں ہوا۔ یہ ایک بدیہی بیہودگی ہے کہ ہم یہودیوں پر الزام لگاویں کہ انہوں نے مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت کو روک دیا بلکہ مسیح نے خود اپنے دوبارہ زندہ ہونے کا ایک ذرہ ثبوت نہیں دیا بلکہ بھاگنے اور چھپنے اور کھانے اور سونے اور زخم دکھلانے سے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ صلیب پر نہیں مرا۔

باب دوم

(ان شہادتوں کے بیان میں جو حضرت مسیح کے بچ جانے کی نسبت قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ہم کو ملی ہیں)

یہ دلائل جو اب ہم اس باب میں لکھنے لگے ہیں بظاہر ان کی نسبت ہر ایک کو خیال پیدا ہوگا کہ عیسائیوں کے مقابل پر ان وجوہات کو پیش کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ وہ لوگ قرآن شریف

نوٹ: اس جگہ مسیح نے عورتوں کو ان الفاظ سے تسلی نہیں دی کہ اب میں نئے اور جلالی جسم کے ساتھ اٹھا ہوں اب میرے پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا بلکہ عورتوں کو کمزور دیکھ کر معمولی تسلّی دی جو ہمیشہ مرد عورتوں کو دیا کرتے ہیں۔ غرض جلالی جسم کا کوئی ثبوت نہ دیا بلکہ اپنا گوشت اور ہڈیاں دکھلا کر معمولی جسم کا ثبوت دے دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/51/mode/1up

51

یا کسی حدیث کو اپنے لئے حجت نہیں سمجھتے۔ لیکن ہم نے محض اس غرض سے ان کو لکھا ہے کہ تا عیسائیوں کو قرآن شریف اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ معلوم ہو اور ان پر یہ حقیقت کھلے کہ کیونکر وہ سچائیاں جو صدہابرس کے بعد اب معلوم ہوئی ہیں وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے پہلے سے بیان کردی ہیں۔ چنانچہ اُن میں سے کسی قدر ذیل میں لکھتا ہوں۔


اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ 3 ۱؂ الآیۃ 3۲؂ الآیۃیعنی یہودیوں نے نہ حضرت مسیح کو درحقیقت قتل کیا اور نہ بذریعہ صلیب ہلاک کیا بلکہ ان کو محض ایک شبہ پیدا ہوا کہ گویا حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت ہوگئے ہیں اور ان کے پاس وہ دلائل نہیں ہیں جن کی وجہ سے ان کے دل اس بات پر مطمئن ہو سکیں کہ یقیناًحضرت مسیح علیہ السلام کی صلیب پر جان نکل گئی تھی۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور اس کے مارنے کا ارادہ کیا گیا مگر یہ محض ایک دھوکا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ایسا خیال کر لیا کہ درحقیقت حضرت مسیح علیہ السلام کی جان صلیب پر نکل گئی تھی بلکہ خدا نے ایسے اسباب پیدا کردئیے جن کی وجہ سے وہ صلیبی موت سے بچ رہا۔ اب انصاف کرنے کا مقام ہے کہ جو کچھ قرآن کریم نے یہود اور نصاریٰ کے برخلاف فرمایا تھا آخر کار وہی بات سچی نکلی۔ اور اس زمانہ کی اعلیٰ درجہ کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح درحقیقت صلیبی موت سے بچائے گئے تھے۔ کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ یہودی اس بات کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ کیونکر حضرت مسیح علیہ السلام کی جان بغیر ہڈیاں توڑنے کے صرف دو تین گھنٹہ میں نکل گئی۔ اسی وجہ سے بعض یہودیوں نے ایک اور بات بنائی ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/52/mode/1up

52

ہم ؔ نے مسیح کو تلوار سے قتل کردیا تھا۔ حالانکہ یہودیوں کی پرانی تاریخ کے رو سے مسیح کو تلوار کے ذریعہ سے قتل کرنا ثابت نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ مسیح کے بچانے کے لئے اندھیرا ہوا۔ بھونچال آیا۔ پلاطوس کی بیوی کو خواب آئی۔ سبت کے دن کی رات قریب آگئی جس میں مصلوبوں کو صلیب پر رکھنا روا نہ تھا۔ حاکم کا دل بوجہ ہولناک خواب کے مسیح کے چھڑانے کے لئے متوجہ ہوا۔ یہ تمام واقعات خدا نے اس لئے ایک ہی دفعہ پیدا کردئیے کہ تا مسیح کی جان بچ جائے۔ اس کے علاوہ مسیح کو غشی کی حالت میں کردیا کہ تا ہر ایک کو مُردہ معلوم ہو۔ اور یہودیوں پر اس وقت ایک ہیبت ناک نشان بھونچال وغیرہ کے دکھلا کر بزدلی اور خوف اور عذاب کا اندیشہ طاری کردیا۔ اور یہ دھڑکہ اس کے علاوہ تھا کہ سبت کی رات میں لاشیں صلیب پر نہ رہ جائیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ یہودیوں نے مسیح کو غشی میں دیکھ کر سمجھ لیا کہ فوت ہوگیا ہے۔ اندھیرے اور بھونچال اور گھبراہٹ کا وقت تھا۔ گھروں کا بھی ان کو فکر پڑا کہ شاید اس بھونچال اور اندھیرے سے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ اور یہ دہشت بھی دلوں پر غالب ہوئی کہ اگر یہ شخص کاذب اور کافر تھا جیسا کہ ہم نے دل میں سمجھا ہے تو اس کے اس دکھ دینے کے وقت ایسے ہولناک آثار کیوں ظاہر ہوئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ لہٰذا ان کے دل بے قرار ہو کر اس لائق نہ رہے کہ وہ مسیح کو اچھی طرح دیکھتے کہ آیا مر گیا یا کیا حال ہے۔ مگر درحقیقت یہ سب امور مسیح کے بچانے کے لئے خدائی تدبیریں تھیں۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے 3 یعنی یہود نے مسیح کو جان سے مارا نہیں ہے لیکن خدا نے ان کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا جان سے مار دیا ہے۔ اس سے راستبازوں کو خدائے تعالیٰ کے فضل پر بڑی امید بڑھتی ہے کہ جس طرح اپنے بندوں کو چاہے بچالے۔

اور قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت حضرت مسیح کے حق میں ہے۔3



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/53/mode/1up

53

3 ۱؂ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت اور مرتبہ اور عام لوگوں کی نظر میں عظمت اور بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی۔اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح نے ہیرودوس اور پلاطوس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی۔ اور یہ خیال کہ دنیا میں پھر آکرعزت اور بزرگی پائیں گے۔ یہ ایک بے اصل وہم ہے جو نہ صرف خدائے تعالیٰ کی کتابوں کے منشاء کے مخالف بلکہ اس کے قدیم قانونِ قدرت سے بھی مغائر اور مبائن اور پھر ایک بے ثبوت امر ہے مگر واقعی اور سچی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس بدبخت قوم کے ہاتھ سے نجات پاکر جب ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے فخر بخشا۔ تو اس ملک میں خدائے تعالیٰ نے ان کو بہت عزت دی اور بنی اسرائیل کی وہ دس قومیں جو گم تھیں اس جگہ آکر ان کو مل گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل اس ملک میں آکر اکثر ان میں سے بُدھ مذہب میں داخل ہوگئے تھے اور بعض ذلیل قسم کی بت پرستی میں پھنس گئے تھے۔ سو اکثر ان کے حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے سے راہ راست پر آگئے۔ اور چونکہ حضرت مسیح کی دعوت میں آنے والے نبی کے قبول کرنے کے لئے وصیّت تھی اس لئے وہ دس فرقے جو اس ملک میں آکر افغان اور کشمیری کہلائے۔ آخرکار سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ غرض اس ملک میں حضرت مسیح کو بڑی وجاہت پیدا ہوئی۔ اور حال میں ایک سکّہ ملا ہے جو اسی ملک پنجاب میں سے برآمد ہوا ہے اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام پالی تحریر میں درج ہے اور اُسی زمانہ کا سکّہ ہے جو حضرت مسیح کا زمانہ تھا۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آکر شاہانہ عزت پائی۔ اور غالباً یہ سکّہ ایسے بادشاہ کی طرف سے جاری ہوا ہے جو حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تھا۔ ایک اور سکّہ برآمد ہوا ہے اس پر ایک اسرائیلی مرد کی تصویر ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی تصویر ہے۔ قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/54/mode/1up

54

کہؔ مسیح کو خدا نے ایسی برکت دی ہے کہ جہاں جائے گا وہ مبارک ہوگا۔*سو ان سکوں سے ثابت ہے کہ اُس نے خدا سے بڑی برکت پائی اور وہ فوت نہ ہوا جب تک اس کو ایک شاہانہ عزت نہ دی گئی۔ اسی طرح قرآن شریف میں ایک یہ بھی آیت ہے 3 ۱؂ یعنی اے عیسیٰ میں ان الزاموں سے تجھے بَری کروں گا اور تیرا پاکدامن ہونا ثابت کردوں گا اور ان تہمتوں کو دور کردوں گا جو تیرے پر یہود اور نصاریٰ نے لگائیں۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی اوراس کا ماحصل یہی ہے کہ یہود نے یہ تہمت لگائی تھی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح مصلوب ہوکر ملعون ہوکر خدا کی محبت ان کے دل میں سے جاتی رہی اور جیسا کہ *** کے مفہوم کے لئے شرط ہے ان کا دل خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزار ہوگیا اور تاریکی کے بے انتہا طوفان میں پڑ گیا اور بدیوں سے محبت کرنے لگااور کل نیکیوں کا مخالف ہوگیا اور خدا سے تعلق توڑ کر شیطان کی بادشاہت کے ماتحت ہوگیا اور اس میں اور خدا میں حقیقی دشمنی پیدا ہوگئی۔ اور یہی تہمت ملعون ہونے کی نصاریٰ نے بھی لگائی تھی مگر نصاریٰ نے اپنی نادانی سے دو ضدوں کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک طرف تو حضرت مسیح کو خدا کا فرزند قرار دیا اور دوسری طرف ملعون بھی قرار دیا ہے اور خود مانتے ہیں کہ ملعون تاریکی اور شیطان کا فرزند ہوتا ہے یا خود شیطان ہوتا ہے سو حضرت مسیح پر یہ سخت ناپاک تہمتیں لگائی گئی تھیں۔ اور ’’مُطَھِّرُکَ‘‘ کی پیشگوئی میں یہ اشارہ ہے کہ ایک زمانہ وہ آتا ہے کہ خدائے تعالیٰ ان الزاموں سے حضرت مسیح کو پاک کرے گا۔ اور یہی وہ زمانہ ہے۔

اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تطہیر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی سے بھی عقلمندوں کی نظروں میں بخوبی ہوگئی کیونکہ آنجناب نے اور قرآن شریف نے

گواہی دی کہ وہ الزام سب جھوٹے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر لگائے گئے تھے۔

لیکن یہ گواہی عوام کی نظر میں نظری اور باریک تھی اس لئے اللہ تعالیٰ کے انصاف نے

* وَجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا اَیْنَمَاکُنْتُ ۱؂ آل عمران:



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/55/mode/1up

55

یہیؔ چاہا کہ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو مصلوب کرنا ایک مشہور امر تھا اور امور بدیہیہ مشہودہ محسوسہ میں سے تھا اسی طرح تطہیر اور بریّت بھی امور مشہودہ محسوسہ میں سے ہونی چاہئیے۔ سو اب اسی کے موافق ظہور میں آیا یعنی تطہیر بھی صرف نظری نہیں بلکہ محسوس طور پر ہوگئی اور لاکھوں انسانوں نے اس جسم کی آنکھ سے دیکھ لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے۔ اور جیسا کہ گلگتہ یعنی سری کے مکان پر حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچا گیا تھا ایسا ہی سری کے مکان پر یعنی سرینگر میں ان کی قبرکا ہونا ثابت ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ دونوں موقعوں میں سری کا لفظ موجود ہے۔ یعنی جہاں حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر کھینچے گئے اس مقام کا نام بھی گلگت یعنی سری ہے اور جہاں انیسویں صدی کے اخیر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر ثابت ہوئی اس مقام کا نام بھی گلگت یعنی سری ہے۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ گلگت کہ جو کشمیر کے علاقہ میں ہے یہ بھی سری کی طرف ایک اشارہ ہے۔ غالباً یہ شہر حضرت مسیح کے وقت میں بنایا گیا ہے اور واقعہ صلیب کی یادگار مقامی کے طور پر اس کا نام گلگت یعنی سری رکھا گیا۔ جیسا کہ لاسہ جس کے معنی ہیں معبود کا شہر۔ یہ عبرانی لفظ ہے اور یہ بھی حضرت مسیح کے وقت میں آباد ہوا ہے۔

اور احادیث میں معتبر روایتوں سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسیح کی عمر ایک سو پچیس ۱۲۵ برس کی ہوئی ہے۔ اور اس بات کو اسلام کے تمام فرقے مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں دو ایسی باتیں جمع ہوئی تھیں کہ کسی نبی میں وہ دونوں جمع نہیں ہوئیں۔ (۱) ایک یہ کہ انہوں نے کامل عمر پائی یعنی ایک سو پچیس ۱۲۵ برس زندہ رہے۔ (۲) دوم یہ کہ انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں کی سیاحت کی۔ اس لئے نبی سیاح کہلائے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر وہ صرف تینتیس۳۳ برس کی

عمر میں آسمان کی طرف اٹھائے جاتے تو اس صورت میں ایک سو پچیس ۱۲۵ برس کی روایت صحیح نہیں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/56/mode/1up

56

ٹھہر ؔ سکتی تھی اور نہ وہ اس چھوٹی سی عمر میں یعنی تینتیس برس میں سیاحت کر سکتے تھے۔ اور یہ روائتیں نہ صرف حدیث کی معتبر اور قدیم کتابوں میں لکھی ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے فرقوں میں اس تواتر سے مشہور ہیں کہ اس سے بڑھ کر متصور نہیں۔ کنز العمّال جو احادیث کی ایک جامع کتاب ہے اس کے صفحہ ۳۴* میں ابوہریرہ سے یہ حدیث لکھی ہے۔ اوحی اللّٰہ تعالٰی الٰی عیسٰی ان یاعیسٰی انتقل من مکان الٰی مکان لئلا تعرف فتؤذٰی یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے عیسیٰ ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرتا رہ یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جاتاکہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے۔ اور پھر اسی کتاب میں جابر سے روایت کر کے یہ حدیث لکھی ہے۔ کان عیسی ابن مریم یسیح فاذا امسٰی اکل بقل الصحراء و یشرب الماء القراح ؤ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سیرکرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے۔ اور پھر اسی کتاب میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے جس کے یہ لفظ ہیں۔ قال احب شیء الی اللّٰہ الغرباء قیل ای شیء الغرباء، قال الذین یفرّون بدینھم و یجتمعون الٰی عیسی ابن مریمخ۔یعنی فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں۔ پوچھا گیا کہ غریب کے کیا معنی ہیں کہا وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ مسیح کی طرح دین لے کر اپنے ملک سے بھاگتے ہیں۔

تیسرا باب

(ان شہادتوں کے بیان میں جو طبابت کی کتابوں میں سے لی گئی ہیں)

ایک اعلیٰ درجہ کی شہادت جو حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے پر ہم کو ملی ہے اور جو ایسی شہادت

* جلد دوم۲ ؤجلد دوم ۲ صفحہ۷۱ خ جلدچھ۶ صفحہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/57/mode/1up

57

ہےؔ کہ بجز ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا وہ ایک نسخہ ہے جس کا نام مرہم عیسیٰ ہے جو طب کی صدہا کتابوں میں لکھا ہوا پایا جاتا ہے۔ ان کتابوں میں سے بعض ایسی ہیں جو عیسائیوں کی تالیف ہیں اور بعض ایسی ہیں کہ جن کے مؤلّف مجوسی یا یہودی ہیں۔ اور بعض کے بنانے والے مسلمان ہیں۔ اور اکثر ان میں بہت قدیم زمانہ کی ہیں۔ تحقیق سے ایسا معلوم ہوا ہے کہ اول زبانی طورپر اس نسخہ کا لاکھوں انسانوں میں شہرہ ہوگیا اور پھر لوگوں نے اس نسخہ کو قلمبند کرلیا۔ پہلے رومی زبان میں حضرت مسیح کے زمانہ میں ہی کچھ تھوڑا عرصہ واقعہ صلیب کے بعد ایک قرابادین تالیف ہوئی جس میں یہ نسخہ تھا اور جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ نسخہ بنایا گیا تھا۔ پھر وہ قرابا دین کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی یہاں تک کہ مامون رشید کے زمانہ میں عربی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے طیار کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ ان چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی ضربہ یا سقطہ سے لگ جاتی ہیں اور چوٹوں سے جو خون رواں ہوتا ہے وہ فی الفور اس سے خشک ہوجاتا ہے اور چونکہ اس میں مُرّ بھی داخل ہے اس لئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ رہتاہے۔ اور یہ دوا طاعون کے لئے بھی مفید ہے۔ اور ہر قسم کے پھوڑے پھنسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے ۔یہ معلوم نہیں کہ یہ دوا صلیب کے زخموں کے بعد خود ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الہام کے ذریعہ سے تجویز فرمائی تھی یا

کسی طبیب کے مشورہ سے طیار کی گئی تھی۔ اس میں بعض دوائیں اکسیر کی طرح ہیں۔ خاص کر

مُرّ جس کا ذکر توریت میں بھی آیا ہے۔ بہرحال اس دواکے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/58/mode/1up

58

کےؔ زخم چند روز میں ہی اچھے ہوگئے۔ اور اس قدر طاقت آگئی کہ آپ تین روز میں یروشلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پا گئے۔ پس اس دوا کی تعریف میں اس قدر کافی ہے کہ مسیح تو اوروں کو اچھا کرتا تھا مگر اس دوا نے مسیح کو اچھا کیا۔ اور جن طب کی کتابوں میں یہ نسخہ لکھا گیا وہ ہزار کتاب سے بھی زیادہ ہیں۔ جن کی فہرست لکھنے سے بہت طول ہوگا اور چونکہ یہ نسخہ یونانی طبیبوں میں بہت مشہور ہے اس لئے میں کچھ ضرورت نہیں دیکھتا کہ تمام کتابوں کے نام اس جگہ لکھوں ۔محض چند کتابیں جو اس جگہ موجود ہیں ذیل میں لکھ دیتا ہوں۔

فہرست ان طبّی کتابوں کی جن میں مرہم عیسیٰ کا ذکر ہے اور

یہ بھی ذکر ہے کہ وہ مرہم حضرت عیسیٰ کے لئے یعنی ان کے

بدن کے زخموں کے لئے بنائی گئی تھی۔

قانون شیخ الرئیس بو علی سینا جلد ثالث صفحہ نمبر ۱۳۳۔ شرح قانون علامہ قطب الدین شیرازی جلد ثالث۔ کامل الصناعۃ تصنیف علی بن العباس المجوسی جلد دوم صفحہ ۶۰۲۔ کتاب مجموعہ بقائی مصنفہ محمود محمد اسماعیل مخاطب از خاقان بخطاب پدر محمد بقا خان جلد ۲ صفحہ ۴۹۷۔ کتاب تذکرۃاولو الالباب مصنفہ شیخ داؤد الضریر الانطاکی صفحہ ۳۰۳۔ قرابا دین رومی مصنفہ قریب زمانہ حضرت مسیح جس کا ترجمہ مامون رشید کے وقت میں عربی میں ہوا امراض جلد۔ کتاب عمدۃ المحتاج مصنفہ احمد بن حسن الرشیدی الحکیم اس کتاب میں مرہم عیسیٰ وغیرہ ادویہ سو کتاب میں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ کتابوں میں سے لکھی گئی ہیں۔ اور وہ تمام کتابیں فرنچ زبان میں تھیں۔ کتاب قرابا دین فارسی مصنفہ حکیم محمد اکبر ارزانی امراض جلد۔ کتاب شفاء الاسقام جلد دوم صفحہ ۲۳۰۔ کتاب مرأۃ الشفا مصنفہ حکیم نتھو شاہ نسخہ قلمی امراض جلد۔ ذخیرہ ء خوارزم شاہی امراض جلد۔ شرح قانون گیلانی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/59/mode/1up

59

جلدؔ ثالث۔ شرح قانون قرشی جلد ثالث۔ قرابا دین علوی خان امراض جلد۔ کتاب علاج الامراض مصنفہ حکیم محمد شریف خان صاحب صفحہ ۸۹۳۔ قرابا دین یونانی امراض جلد۔ تحفۃ المؤمنین بر حاشیہ مخزن الادویہ صفحہ ۷۱۳۔ کتاب محیط فی الطب صفحہ ۳۶۷۔ کتاب اکسیر اعظم جلد رابع مصنفہ حکیم محمد اعظم خان صاحب المخاطب بناظم جہاں صفحہ۳۳۱۔ کتاب قرابا دین معصومی لمعصوم بن کریم الدین الشوستری شیرازی۔ کتاب عجالہ نافعہ لمحمد شریف دہلوی صفحہ ۴۱۰۔ کتاب طب شبری مسمّی بلوامع شبریہ تالیف سید حسین شبر کاظمی صفحہ ۴۷۱۔ کتاب مخزن سلیمانی ترجمہ اکسیر عربی صفحہ ۵۹۹۔ مترجم محمد شمس الدین صاحب بہاولپوری۔ شفاء الامراض مترجم مولانا الحکیم محمد نور کریم صفحہ ۲۸۲۔ کتاب الطب داراشکوہی مؤلّفہ نورالدین محمد عبد الحکیم عین الملک الشیرازی ورق ۳۶۰۔ کتاب منہاج الدکان بدستور الاعیان فی اعمال و ترکیب النافعہ للابدان تالیف افلاطون زمانہ و رئیس اوانہ ابوالمنا ابن ابی نصر العطار الاسرائیلی الہار ونی (یعنی یہودی) صفحہ ۸۶۔ کتاب زبدۃ الطب لسید الامام ابو ابراہیم اسمٰعیل بن حسن الحسینی الجرجانی ورق ۱۸۲۔ طب اکبر مصنفہ محمد اکبر ارزانی صفحہ ۲۴۲۔ کتاب میزان الطب مصنفہ محمد اکبر ارزانی صفحہ ۱۵۲۔ سدیدی مصنفہ رئیس المتکلمین امام المحقّقین السدید الکاذرونی صفحہ ۲۸۳ جلد۲۔ کتاب حاوی کبیر ابن ذکریا امراض جلد۔ قرابا دین ابن تلمیذ امراض جلد۔ قرابا دین ابن ابی صادق امراض جلد۔

یہ وہ کتابیں ہیں جن کو میں نے بطور نمونہ اس جگہ لکھا ہے۔ اور یہ بات اہل علم اور خاص کر طبیبوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اکثر ان میں ایسی کتابیں ہیں جو پہلے زمانہ میں اسلام کے بڑے بڑے مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں اور یورپ کے طالب العلم بھی ان کو پڑھتے تھے۔ اور یہ کہنا بالکل سچ اور مبالغہ کی ایک ذرہ آمیزش سے بھی پاک



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/60/mode/1up

60

ہے ؔ کہ ہر ایک صدی میں قریباً کروڑہا انسان ان کتابوں کے نام سے واقف ہوتے چلے آئے ہیں اور لاکھوں انسانوں نے ان کو اول سے آخر تک پڑھا ہے اور ہم بڑے زور سے کہہ سکتے ہیں کہ یورپ اور ایشیا کے عالم لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ ان بعض عظیم الشان کتابوں کے نام سے ناواقف ہو جو اس فہرست میں درج ہیں۔ جس زمانہ میں ہسپانیہ اور کیسمنو اور ستلیرنم ۱؂ دارالعلم تھے اس زمانہ میں بو علی سینا کی کتاب قانون جو طب کی ایک بڑی کتاب ہے جس میں مرہم عیسیٰ کا نسخہ ہے اور دوسری کتابیں شفاء اور اشارات اور بشارات جو طبعی اور ہیئت اور فلسفہ وغیرہ میں ہیں بڑے شوق سے اہلِ یورپ سیکھتے تھے۔ اور ایسا ہی ابو نصر فارابی اور ابو ریحان اور اسرائیل اور ثابت بن قرہ اور حنین بن اسحاق اور اسحاق وغیرہ فاضلوں کی کتابیں اور ان کی یونانی سے ترجمہ شدہ کتابیں پڑھائی جاتی تھیں یقیناًان کتابوں کے ترجمے یورپ کے کسی حصہ میں اب تک موجود ہوں گے۔ اور چونکہ اسلام کے بادشاہ علم طب وغیرہ کو ترقی دینا بدل چاہتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے یونان کی عمدہ عمدہ کتابوں کا ترجمہ کرایا اور عرصہ دراز تک ایسے بادشاہوں میں خلافت رہی کہ وہ ملک کی توسیع کی نسبت علم کی توسیع زیادہ چاہتے تھے انہی وجوہ اور اسباب سے انہوں نے نہ صرف یونانی کتابوں کے ترجمے عربی میں کرائے بلکہ ملک ہند کے فاضل پنڈتوں کو بھی بڑی بڑی تنخواہوں پر طلب کر کے طب وغیرہ علوم کے بھی ترجمے کرائے پس ان کے احسانوں میں سے حق کے طالبوں پر یہ ایک بڑا احسان ہے جو انہوں نے ان رومی و یونانی وغیرہ طبی کتابوں کے ترجمے کرائے جن میں مرہم عیسیٰ موجود تھی اور جس پر کتبہ کی طرح یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے طیار کی گئی تھی۔ فاضل حکماء عہد اسلام نے جیسا کہ ثابت بن قرہ اور حنین بن اسحاق ہیں جن کو علاوہ علم طب و طبعی و فلسفہ وغیرہ کی یونانی زبان میں خوب مہارت تھی جب

ہسپانیہ یعنی اندلس، کیسمنو یعنی قسطمونیہ، ستلیرنم یعنی شنترین۔ منہ




Ruhani Khazain Volume 15. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/61/mode/1up

61

اس ؔ قرابا دین کا جس میں مرہم عیسیٰ تھی ترجمہ کیا تو عقلمندی سے شلیخا کے لفظ کو جو ایک یونانی لفظ ہے جو باراں کو کہتے ہیں بعینہٖ عربی میں لکھ دیا تا اس بات کا اشارہ کتابوں میں قائم رہے کہ یہ کتاب یونانی قرابا دین سے ترجمہ کی گئی۔ اسی وجہ سے اکثر ہر ایک کتاب میں شلیخا کا لفظ بھی لکھا ہوا پاؤ گے۔

اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگرچہ پرانے سکّے بڑی قابل قدر چیزیں ہیں اور ان کے ذریعہ سے بڑے بڑے تاریخی اسرار کھلتے ہیں لیکن ایسی پرانی کتابیں جو مسلسل طور پر ہر صدی میں کروڑہا انسانوں میں مشہور ہوتی چلی آئیں اور بڑے بڑے مدارس میں پڑھائی گئیں اور اب تک درسی کتابوں میں داخل ہیں ان کا مرتبہ اور عزت ان سکّوں اور کتبوں سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے۔ کیونکہ کتبوں اور سکّوں میں جعل سازی کی بھی گنجائشیں ہیں لیکن وہ علمی کتابیں جو اپنے ابتدائی زمانہ میں ہی کروڑہا انسانوں میں مشہور ہوتی چلی آئی ہیں اور ہر ایک قوم ان کی محافظ اور پاسبان ہوتی رہی ہے اور اب بھی ہے۔ ان کی تحریریں بلا شبہ ایسی اعلیٰ درجہ کی شہادتیں ہیں جو سکّوں اور کتبوں کو ان سے کچھ بھی نسبت نہیں۔ اگر ممکن ہو تو کسی سکّہ یا کتبہ کا نام تو لو جس نے ایسی شہرت پائی ہو جیسا کہ بو علی سینا کے قانون نے۔ غرض مرہم عیسیٰ حق کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان شہادت ہے۔ اگر اس شہادت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام تاریخی ثبوت اعتبار سے گر جاویں گے کیونکہ اگرچہ اب تک ایسی کتابیں جن میں اس مرہم کا ذکر ہے قریباً ایک ہزار ہیں یا کچھ زیادہ۔ لیکن کروڑہا انسانوں میں یہ کتابیں اور ان کے مؤلّف شہرت یافتہ ہیں۔ اب ایسا شخص علم تاریخ کا دشمن ہوگا جو اس بدیہی اور روشن اور پُرزور ثبوت کو قبول نہ کرے۔ اور کیا یہ تحکّم پیش کیا جاسکتا ہے کہ اس قدر عظیم الشان ثبوت کو ہم نظر انداز کر دیں اور کیا ہم ایسے بھاری ثبوت پر بدگمانی کر سکتے ہیں جو یورپ اور ایشیا پر دائرہ کی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/62/mode/1up

62

طرؔ ح محیط ہوگیاہے۔ اور جو یہودیوں اور عیسائیوں اور مجوسیوں اور مسلمانوں کے نامی فلاسفروں کی شہادتوں سے پیدا ہوا ہے۔ اب اے محققوں کی روحو! اس اعلیٰ ثبوت کی طرف دوڑو۔ اور اے منصف مزاجو! اس معاملہ میں ذرہ غور کرو۔ کیا ایسا چمکتا ہوا ثبوت اس لائق ہے کہ اس پر توجہ نہ کی جائے؟ کیا مناسب ہے کہ ہم اس آفتابِ صداقت سے روشنی حاصل نہ کریں؟ یہ وہم بالکل لغو اور بیہودہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت کے زمانہ سے پہلے چوٹیں لگی ہوں یا نبوت کے زمانہ کی ہی چوٹیں ہوں مگر وہ صلیب کی نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہاتھ اور پیر زخمی ہو گئے ہوں۔ مثلاً وہ کسی کوٹھے پر سے گر گئے ہوں اور اس صدمہ کے لئے یہ مرہم طیار کی گئی ہو۔ کیونکہ نبوت کے زمانہ سے پہلے حواری نہ تھے اور اس مرہم میں حواریوں کا ذکر ہے۔ شلیخا کا لفظ جو یونانی ہے جو باراں کو کہتے ہیں۔ ان کتابوں میں اب تک موجود ہے۔ اور نیز نبوت کے زمانہ سے پہلے حضرت مسیح کی کوئی عظمت تسلیم نہیں کی گئی تھی تا اس کی یادگار محفوظ رکھی جاتی اور نبوت کا زمانہ صرف ساڑھے تین برس تھا۔ اور اس مدت میں کوئی واقعہ ضربہ یا سقطہ کا بجز واقعہ صلیب کے حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت تاریخوں سے ثابت نہیں۔ اور اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ ممکن ہے کہ ایسی چوٹیں کسی اور سبب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لگی ہوں تو یہ ثبوت اس کے ذمہ ہے کیونکہ ہم جس واقعہ کو پیش کرتے ہیں وہ ایک ایسا ثابت شدہ اور مانا ہوا واقعہ ہے کہ نہ یہودیوں کو اس سے انکار ہے اور نہ عیسائیوں کو یعنی صلیب کا واقعہ۔ لیکن یہ خیال کہ کسی اور سبب سے کوئی چوٹ حضرت مسیح کو لگی ہوگی کسی قوم کی تاریخ سے ثابت نہیں۔اس لئے ایسا خیال کرنا عمداً سچائی کی راہ کو چھوڑنا ہے۔ یہ ثبوت ایسا نہیں ہے کہ اس قسم کے بیہودہ عذرات سے ردّ ہو سکے۔ اب تک بعض کتابیں بھی موجود ہیں جو مصنّفوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/63/mode/1up

63

چنانچہؔ ایک پرانا قلمی نسخہ قانون بو علی سینا کا اُسی زمانہ کا لکھا ہوا میرے پاس بھی موجود ہے۔ تو پھر یہ صریح ظلم اور سچائی کا خون کرنا ہے کہ ایسے روشن ثبوت کویونہی پھینک دیا جائے۔ بار بار اس بات میں غور کرو اور خوب غور کرو کہ کیونکر یہ کتابیں اب تک یہودیوں اور مجوسیوں اور عیسائیوں اور عربوں اور فارسیوں اور یونانیوں اور رومیوں اور اہل جرمن اور فرانسیسیوں اور دوسرے یورپ کے ملکوں اور ایشیا کے پرانے کتب خانوں میں موجود ہیں اور کیا یہ لائق ہے کہ ہم ایسے ثبوت سے جس کی روشنی سے انکار کی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں یونہی منہ پھیر لیں؟ اگر یہ کتابیں صرف اہل اسلام کی تالیف اور اہلِ اسلام کے ہی ہاتھ میں ہوتیں تو شاید کوئی جلد باز یہ خیال کرسکتا کہ مسلمانوں نے عیسائی عقیدہ پر حملہ کرنے کے لئے جعلی طور پر یہ باتیں اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں۔ مگر یہ خیال علاوہ ان وجوہ کے جو ہم بعد میں لکھتے ہیں اس وجہ سے بھی غلط تھا کہ ایسے جعل کے مسلمان کسی طور سے مرتکب نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد بلا توقف آسمان پر چلے گئے۔ اور مسلمان تو اس بات کے قائل بھی نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر کھینچا گیا یا صلیب پر سے ان کو زخم پہنچے پھر وہ عمداً ایسی جعل سازی کیونکر کر سکتے تھے جو ان کے عقیدہ کے بھی مخالف تھی۔ ما سوا اس کے ابھی اسلام کا دنیا میں وجود بھی نہیں تھا جبکہ رومی و یونانی وغیرہ زبانوں میں ایسی قرابا دینیں لکھی گئیں اور کروڑہا لوگوں میں مشہور کی گئیں جن میں مرہم عیسیٰ کا نسخہ موجود تھا اور ساتھ ہی یہ تشریح بھی موجود تھی کہ یہ مرہم حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بنائی تھی۔ اور یہ قومیں یعنی یہودی و عیسائی و اہل اسلام و مجوسی مذہبی طور پر ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پس ان سب کا اس مرہم کو اپنی کتابوں میں درج کرنا بلکہ درج کرنے کے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/64/mode/1up

64

وقتؔ اپنے مذہبی عقیدوں کی بھی پرواہ نہ رکھنا صاف اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مرہم ایسا واقعہ مشہورہ تھا کہ کوئی فرقہ اور کوئی قوم اس سے منکر نہ ہو سکی۔ ہاں جب تک وہ وقت نہ آیا جو مسیح موعود کے ظہور کا وقت تھا اس وقت تک ان تمام قوموں کے ذہن کو اس طرف التفات نہیں ہوئی کہ یہ نسخہ جو صدہا کتابوں میں درج اور مختلف قوموں کے کروڑہا انسانوں میں شہرت یاب ہوچکا ہے اس سے کوئی تاریخی فائدہ حاصل کریں۔ پس اس جگہ ہم بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خدا کا ارادہ تھا کہ وہ چمکتا ہوا حربہ اور وہ حقیقت نما برہان کہ جو صلیبی اعتقاد کا خاتمہ کرے اس کی نسبت ابتدا سے یہی مقدر تھا کہ مسیح موعود کے ذریعہ سے دنیا میں ظاہر ہو۔ کیونکہ خدا کے پاک نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ صلیبی مذہب نہ گھٹے گا اور نہ اس کی ترقی میں فتور آئے گا جب تک کہ مسیح موعود دنیا میں ظاہر نہ ہو۔ اور وہی ہے جو کسرِ صلیب اس کے ہاتھ پر ہوگی۔ اس پیشگوئی میں یہی اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں خدا کے ارادہ سے ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت کھل جائے گی۔ تب انجام ہوگا اور اس عقیدہ کی عمر پوری ہوجائے گی۔ لیکن نہ کسی جنگ اور لڑائی سے بلکہ محض آسمانی اسباب سے جو علمی اور استدلالی رنگ میں دنیا میں ظاہر ہوں گے۔ یہی مفہوم اس حدیث کا ہے جو صحیح بخاری اور دوسری کتابوں میں درج ہے۔ پس ضرور تھا کہ آسمان ان امور اور ان شہادتوں اور ان قطعی اور یقینی ثبوتوں کو ظاہر نہ کرتا جب تک کہ مسیح موعود دنیا میں نہ آتا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اور اب سے جو وہ موعود ظاہر ہوا ہر ایک کی آنکھ کھلے گی اور غور کرنے والے غور کریں گے کیونکہ خدا کا مسیح آگیا۔ اب ضرور ہے کہ دماغوں میں روشنی اور دلوں میں توجہ اور قلموں میں زور اور کمروں میں ہمت پیدا ہو۔ اور اب ہر ایک سعید کو فہم عطا کیا جائے گا اور ہر ایک رشید کو عقل دی جائے گی کیونکہ جو چیز آسمان میں چمکتی ہے وہ ضرور زمین کو بھی منور کرتی ہے۔ مبارک



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/65/mode/1up

65

وہ ؔ جو اس روشنی سے حصہ لے۔ اور کیا ہی سعادت مند وہ شخص ہے جو اس نور میں سے کچھ پاوے۔ جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ پھل اپنے وقت پر آتے ہیں ایسا ہی نور بھی اپنے وقت پر ہی اترتا ہے۔ اور قبل اس کے جو وہ خود اترے کوئی اس کو اتار نہیں سکتا۔ اور جبکہ وہ اترے تو کوئی اس کو بند نہیں کرسکتا۔مگر ضرور ہے کہ جھگڑے ہوں اور اختلاف ہو مگر آخر سچائی کی فتح ہے۔ کیونکہ یہ امر انسان سے نہیں ہے اور نہ کسی آدم زاد کے ہاتھوں سے بلکہ اس خدا کی طرف سے ہے جو موسموں کو بدلاتا اور وقتوں کو پھیرتا اور دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے۔ وہ تاریکی بھی پیدا کرتا ہے مگر چاہتا روشنی کو ہے۔ وہ شرک کو بھی پھیلنے دیتا ہے مگر پیار اس کا توحید سے ہی ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کا جلال دوسرے کو دیا جائے۔ جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے اس وقت تک کہ نابود ہوجائے خدا کا قانون قدرت یہی ہے کہ وہ توحید کی ہمیشہ حمایت کرتا ہے۔ جتنے نبی اس نے بھیجے سب اسی لئے آئے تھے کہ تا انسانوں اور دوسری مخلوقوں کی پرستش دور کر کے خدا کی پرستش دنیا میں قائم کریں اور ان کی خدمت یہی تھی کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا مضمون زمین پر چمکے جیسا کہ وہ آسمان پر چمکتا ہے۔ سو ان سب میں سے بڑا وہ ہے جس نے اس مضمون کو بہت چمکایا۔ جس نے پہلے باطل الہو ا ں کی کمزوری ثابت کی اور علم اور طاقت کے رو سے ان کا ہیچ ہونا ثابت کیا۔ اور جب سب کچھ ثابت کرچکا تو پھر اس فتح نمایاں کی ہمیشہ کے لئے یادگار یہ چھوڑی کہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ اس نے صرف بے ثبوت دعویٰ کے طور پرلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ نہیں کہا بلکہ اس نے پہلے ثبوت دے کر اور باطل کا بطلان دکھلا کر پھر لوگوں کو اس طرف توجہ دی کہ دیکھو اس خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں جس نے تمہاری تمام قوتیں توڑ دیں اور تمام شیخیاں نابود کردیں۔ سو اس ثابت شدہ بات کو یاد دلانے کے لئے ہمیشہ کے لئے یہ مبارک کلمہ سکھلایا کہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/66/mode/1up

66

بابؔ چہارم

(ان شہادتوں کے بیان میں جو تاریخی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں)

چونکہ اس باب میں مختلف قسم کی شہادتیں ہیں اس لئے

صفائی ترتیب کے لئے ہم اس کو کئی فصل پر منقسم کردیتے ہیں

اور وہ یہ ہیں۔

پہلی فصل

ان شہادتوں کے ذکر میں جو ان اسلامی کتابوں سے

لی گئی ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کی سیاحت

کو ثابت کرتی ہیں۔

کتاب روضۃ الصفا جو ایک مشہور تاریخی کتاب ہے اس کے صفحہ ۱۳۰۔ ۱۳۱۔ ۱۳۲۔ ۱۳۳۔ ۱۳۴۔ ۱۳۵ میں بزبان فارسی وہ عبارت لکھی ہے جس کا خلاصہ ترجمہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے:۔

’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام مسیح اس واسطے رکھا گیا کہ وہ سیاحت بہت کرتے تھے ایک پشمی طاقیہ ان کے سر پر ہوتا تھا اور ایک پشمی کرتہ پہنے رہتے تھے۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/67/mode/1up

67

اورؔ ایک عصا ہاتھ میں ہوتا تھا۔اور ہمیشہ ملک بہ ملک اور شہر بشہر پھرتے تھے اور جہاں رات پڑ جاتی وہیں رہ جاتے تھے۔ جنگل کی سبزی کھاتے تھے اور جنگل کا پانی پیتے اور پیادہ سیر کرتے تھے۔ ایک دفعہ سیاحت کے زمانہ میں ان کے رفیقوں نے ان کے لئے ایک گھوڑا خریدا اور ایک دن سواری کی مگر چونکہ گھوڑے کے آب و دانہ اور چارے کا بندو بست نہ ہوسکا اس لئے اس کو واپس کر دیا۔ وہ اپنے ملک سے سفر کر کے نصیبین میں پہنچے جو ان کے وطن سے کئی سو کوس کے فاصلہ پر تھا۔ اور آپ کے ساتھ چند حواری بھی تھے۔ آپ نے حواریوں کو تبلیغ کے لئے شہر میں بھیجا۔ مگر اس شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی نسبت غلط اور خلافِ واقعہ خبریں پہنچی ہوئی تھیں اس لئے اس شہر کے حاکم نے حواریوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بلایا۔ آپ نے اعجازی برکت سے بعض بیماروں کو اچھا کیا اوراور بھی کئی معجزات دکھلائے۔ اس لئے نصیبین کے ملک کا بادشاہ مع تمام لشکر اور باشندوں کے آپ پر ایمان لے آیا اور نزول مائدہ کا قصہ جو قرآن شریف میں ہے وہ واقعہ بھی ایام سیاحت کا ہے‘‘۔

یہ خلاصہ بیان تاریخ روضۃ الصفا ہے۔ اور اس جگہ مصنف کتاب نے بہت سے بیہودہ اور لغو اور دور از عقل معجزات بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کئے ہیں۔ جن کو ہم افسوس کے ساتھ چھوڑتے ہیں اور اپنی اس کتاب کو ان جھوٹ اور فضول اور مبالغہ آمیز باتوں سے پاک رکھ کرصرف اصل مطلب اس سے لیتے ہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سیر کرتے کرتے نصیبین تک پہنچ گئے تھے اور نصیبین موصل اور شام کے درمیان ایک شہر ہے جس کو انگریزی نقشوں میں نسی بس کے نام سے لکھا ہے۔ جب ہم ملک شام سے فارس کی طرف سفر کریں تو ہماری راہ میں نصیبین آئے گا اور وہ بیت المقدس سے قریباً ساڑھے چار سو کوس ہے اور پھر نصیبین سے قریباً ۴۸ میل موصل ہے جو بیت المقدس سے پانسو میل کے فاصلہ پر ہے اور موصل سے فارس کی حد صرف سو میل رہ جاتی ہے اس حساب سے نصیبین فارس کی حد سے ڈیڑھ سو میل پر ہے اور فارس کی مشرقی حد افغانستان کے شہر ہرات تک ختم ہوتی ہے یعنی فارس کی طرف ہرات افغانستان کی مغربی حد



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/68/mode/1up

68

پر وؔ اقع ہے اور فارس کی مغربی حد سے قریباً نو سو میل کے فاصلہ پر ہے اور ہرات سے درہ خیبر تک قریبًا پانسو میل کا فاصلہ ہے۔ دیکھو نقشہ ھٰذا۔

* یو۔سی۔بیئس۔اے عیسائی تاریخ یونانی جس کو ہین مرنامی ایک شخص لندن کے رہنے والے نے ۱۶۵۰ء میں انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اس کے پہلے باب چودھویں فصل میں ایک خط ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ ابگیرس نام نے دریائے فرات کے پار سے حضرت عیسیٰ کو اپنے پاس بلایاتھا۔ ابگیرس کا حضرت عیسٰی کی طرف خط اورحضرت عیسیٰ کا جواب بہت جھوٹ اور مبالغہ سے بھرا ہوا ہے۔ مگر اس قدر سچی بات معلوم ہوتی ہے کہ اس بادشاہ نے یہودیوں کا ظلم سن کر حضرت عیسیٰ کو اپنے پاس پناہ دینے کے لئے بلایا تھا اور بادشاہ کو خیال تھا کہ یہ سچا نبی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/69/mode/1up

69


یہ ؔ ان ملکوں اور شہروں کا نقشہ ہے جن سے حضرت مسیح علیہ السلام کا کشمیر کی طرف آتے ہوئے

گذر ہوا۔ اس سیر و سیاحت سے آپ کا یہ ارادہ تھا کہ تا اول ان بنی اسرائیل کو ملیں جن کو شاہ سلمنذر پکڑ کر ملک میدیا میں لے گیا تھا۔ اور یاد رہے کہ عیسائیوں کے شائع کردہ نقشہ میں میدیا بحیرہ خزر کے جنوب میں دکھایا گیا ہے جہاں آج کل فارس کا ملک واقع ہے۔ اس سے سمجھ سکتے ہیں کہ کم سے کم مید یا اس ملک کا ایک حصہ تھا جسے آج کل فارس کہتے ہیں اور فارس کی مشرقی حد افغانستان سے متصل ہے اور اس کے جنوب میں سمندر ہے۔ اور مغرب میں ملک روم۔ بہر حال اگر روضۃ الصفا کی روایت پر اعتبار کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نصیبین کی طرف سفر کرنا اس غرض سے تھا کہ تا فارس کی راہ سے افعانستان میں آویں اور ان گمشدہ یہودیوں کو جو آخر افغان کے نام سے مشہور ہوئے حق کی طرف دعوت کریں افغان کا نام عبرانی معلوم ہوتا ہے۔ یہ لفظ ترکیبی ہے جس کے معنی بہادر ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی فتح یابیوں کے وقت یہ خطاب بہادر کا اپنے لئے مقرر کیا۔ *

اب حاصل کلام یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام افعانستان سے ہوتے ہوئے پنجاب کی طرف آئے۔ اس ارادہ سے کہ پنجاب اور ہندوستان دیکھتے ہوئے پھر کشمیر کی طرف قدم اٹھاویں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ افغانستان اور کشمیر کی حد فاصل چترال کا علاقہ اور کچھ حصہ پنجاب کا ہے۔ اگر افعانستان سے کشمیر میں پنجاب کے رستے سے آویں تو قریبًا اسّی کوس یعنی ۱۳۰ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور چترال کی راہ سے سو کوس

توریت میں بنی اسرائیل کے لئے وعدہ تھا کہ اگر تم آخری نبی پر ایمان لاؤ گے تو آخری زمانہ میں بہت سی مصیبتوں کے بعد پھر حکومت اور بادشاہت تم کو ملے گی۔ چنانچہ وہ وعدہ اس طور پر پورا ہوا کہ بنی اسرائیل کی دس قوموں نے اسلام اختیار کر لیا۔ اسی وجہ سے افغانوں میں بڑے بڑے بادشاہ ہوئے اور نیز کشمیریوں میں بھی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/70/mode/1up

70

کافاؔ صلہ ہے۔ لیکن حضرت مسیح نے بڑی عقلمندی سے افغانستان کا راہ اختیار کیا تا اسرائیل کی کھوئی بھیڑیں جو افغان تھے فیضیاب ہوجائیں۔ اور کشمیر کی مشرقی حد ملک تبت سے متصل ہے اس لئے کشمیر میں آکر بآسانی تبت میں جا سکتے تھے۔ اور پنجاب میں داخل ہو کر ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ قبل اس کے جو کشمیر اور تبت کی طرف آویں ہندوستان کے مختلف مقامات کا سیر کریں۔ سو جیسا کہ اس ملک کی پرانی تاریخیں بتلاتی ہیں یہ بات بالکل قرینِ قیاس ہے کہ حضرت مسیح نے نیپال اور بنارس وغیرہ مقامات کا سیر کیا ہوگا اور پھر جموں سے یا راولپنڈی کی راہ سے کشمیر کی طرف گئے ہوں گے۔ چونکہ وہ ایک سرد ملک کے آدمی تھے۔ اس لئے یہ یقینی امر ہے کہ ان ملکوں میں غالبًا وہ صرف جاڑے تک ہی ٹھہرے ہوں گے اور اخیر مارچ یا اپریل کے ابتدا میں کشمیر کی طرف کوچ کیا ہوگا اور چونکہ وہ ملک بلاد شام سے بالکل مشابہ ہے اس لئے یہ بھی یقینی ہے کہ اس ملک میں سکونت مستقل اختیار کر لی ہوگی۔ اور ساتھ اس کے یہ بھی خیال ہے کہ کچھ حصہ اپنی عمر کا افغانستان میں بھی رہے ہوں گے اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں شادی بھی کی ہو۔ افغانوں میں ایک قوم عیسیٰ خیل کہلاتی ہے۔ کیا تعجب ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی ہی اولاد ہوں۔ مگر افسوس کہ افغانوں کی قوم کا تاریخی شیرازہ نہایت درہم برہم ہے اس لئے ان کے قومی تذکروں کے ذریعہ سے کوئی اصلیت پیدا کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ بہر حال اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ افغان بنی اسرائیل میں سے ہیں جیسا کہ کشمیری بھی بنی اسرائیل میں سے ہیں اور جن لوگوں نے اپنی تالیفات میں اس کے برخلاف لکھا ہے انہوں نے سخت دھوکا کھایا ہے اور فکر دقیق سے کام نہیں لیا۔ افغان اس بات کو مانتے ہیں کہ وہ قیس کی اولاد میں سے ہیں اور قیس بنی اسرائیل میں سے ہے۔ خیر اس جگہ اس بحث کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنی ایک کتاب میں اس بحث کو کامل طور پر لکھ چکے ہیں۔ اس جگہ صرف حضرت مسیح کی سیاحت کا ذکر ہے جو نصیبین کی راہ سے افعانستان میں ہو کر



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/71/mode/1up

71

اورؔ پنجاب میں گذر کر کشمیر اور تبت تک ہوئی۔ اس لمبے سفر کی وجہ سے آپ کا نام نبی سیاح بلکہ

سیاحوں کا سردار رکھا گیا۔ چنانچہ ایک اسلامی فاضل امام عالم علّامہ یعنی عارف باللہ ابی بکر محمد بن محمد ابن الولید الفہری الطرطوشی المالکی جو اپنی عظمت اور فضیلت میں شہرۂ آفاق ہیں اپنی کتاب سراج الملوک میں جو مطبع خیریہ مصر میں ۱۳۰۶ھ میں چھپی ہے یہ عبارت حضرت مسیح کے حق میں لکھتے ہیں جو صفحہ ۶ میں درج ہے۔ ’’این عیسٰی روح اللّٰہ و کلمتہ رأس الزاھدین و امام السائحین‘‘ یعنی کہاں ہے عیسیٰ روح اللہ و کلمۃ اللہ جو زاہدوں کا سردار اور سیاحوں کا امام تھا یعنی وہ وفات پاگیا اور ایسے ایسے انسان بھی دنیا میں نہ رہے ۔دیکھو اس جگہ اس فاضل نے حضرت عیسیٰ کو نہ صرف سیاح بلکہ سیاحوں کا امام لکھا ہے۔ ایسا ہی لسان العرب کے صفحہ ۴۳۱ میں لکھا ہے۔ ’’قیل سُمِّيَ عیسٰی بمسیح لانَّہٗ کان سائحًا فی الارض لا یستقرّ‘‘۔ یعنی عیسیٰ کا نام مسیح اس لئے رکھا گیا کہ وہ زمین میں سیر کرتا رہتا تھا اور کہیں اور کسی جگہ اس کو قرار نہ تھا۔ یہی مضمون تاج العروس شرح قاموس میں بھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح وہ ہوتا ہے جو خیر اور برکت کے ساتھ مسح کیا گیا ہو یعنی اس کی فطرت کو خیر و برکت دی گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کا چھونا بھی خیر وبرکت کو پیدا کرتا ہو اور یہ نام حضرت عیسیٰ کو دیا گیا اور جس کو چاہتا ہے اللہ تعالیٰ یہ نام دیتا ہے۔ اور اس کے مقابل پر ایک وہ بھی مسیح ہے جو شر اور *** کے ساتھ مسح کیا گیا یعنی اس کی فطرت شر اور *** پر پیدا کی گئی یہاں تک کہ اس کا چھونا بھی شر اور *** اور ضلالت پیدا کرتا ہے اور یہ نام مسیح دجال کو دیا گیا اور نیز ہر ایک کو جو اس کا ہم طبع ہو اور یہ دونوں نام یعنی مسیح سیاحت کرنے والا اور مسیح برکت دیا گیا یہ باہم ضد نہیں ہیں اور پہلے معنی دوسرے کو باطل نہیں کرسکتے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ ایک نام کسی کو عطا کرتا ہے اور کئی معنی اس سے مراد ہوتے ہیں اور سب اس پر صادق آتے ہیں۔ اب خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سیاح ہونا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/72/mode/1up

72

اس ؔ قدر اسلامی تواریخ سے ثابت ہے کہ اگر ان تمام کتابوں میں سے نقل کیا جائے تو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ مضمون اپنے طول کی وجہ سے ایک ضخیم کتاب ہو سکتی ہے۔ اس لئے اسی پر کفایت کی جاتی ہے۔

دوسری فصل

(اُن تاریخی کتابوں کی شہادت میں جو بُدھ مذہب کی کتابیں ہیں۔)

واضح ہو کہ بُدھ مذہب کی کتابوں میں سے انواع اقسام کی شہادتیں ہم کو دستیاب ہوئی ہیں جن کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ضرور اس ملک پنجاب و کشمیر وغیرہ میں آئے تھے۔ اُن شہادتوں کو ہم ذیل میں درج کرتے ہیں تا ہر ایک منصف ان کو اول غور سے پڑھے اور پھر ان کو اپنے دل میں ایک مسلسل صورت میں ترتیب دے کر خود ہی نتیجہ مذکورہ بالا تک پہنچ جائے۔ اور وہ یہ ہیں۔اول وہ خطاب جو بُدھ کو دئیے گئے مسیح کے خطابوں سے مشابہ ہیں اور ایسا ہی وہ واقعات جو بُدھ کو پیش آئے مسیح کی زندگی کے واقعات سے ملتے ہیں۔ مگر بُدھ مذہب سے مراد ان مقامات کا مذہب ہے جو تبت کی حدود یعنی لیہ اور لاسہ اور گلگت اور ہمس وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔ جن کی نسبت ثابت ہوا ہے کہ حضرت مسیح ان مقامات میں گئے تھے۔ خطابوں کی مشابہت میں یہ ثبوت کافی ہے کہ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی تعلیموں میں اپنا نام نور رکھا ہے ایسا ہی گوتم کا نام بُدھ رکھا گیا ہے جو سنسکرت میں نور کے معنوں پر آتا ہے اور انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام استاد بھی ہے ایسا ہی بُدھ کا نام ساستا یعنی استاد ہے۔ ایسا ہی حضرت مسیح کا نام انجیل میں مبارک رکھا گیا ہے۔ اسی طرح بُدھ کا نام بھی سُگت ہے یعنی مبارک ہے۔ ایسا ہی حضرت مسیح کا نام شاہزادہ رکھا گیا ہے اور بُدھ کا نام بھی شاہزادہ ہے۔ اور ایک نام مسیح کا انجیل میں یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آنے کے مدعا کو پورا کرنے والا ہے۔ ایسا ہی بُدھ کا نام بھی بُدھ کی کتابوں میں سدارتھا رکھا گیا ہے یعنی اپنے آنے کا مدعا پورا کرنے والا۔ اور انجیل میں حضرت مسیح کا ایک نام یہ بھی ہے کہ وہ تھکوں ماندوں کو



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/73/mode/1up

73

پناہؔ دینے والا ہے۔ ایسا ہی بُدھ کی کتابوں میں بُدھ کانام ہے اَسَرْن سَرْن یعنی بے پناہوں کو پناہ دینے والا۔ اور انجیل میں حضرت مسیح بادشاہ بھی کہلائے ہیں گو آسمان کی بادشاہت مراد لے لی ایسا ہی بُدھ بھی بادشاہ کہلایا ہے۔ اور واقعات کی مشابہت کا یہ ثبوت ہے کہ مثلاً جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے اور شیطان نے ان کو کہا کہ اگر تو مجھے سجدہ کرے تو تمام دنیا کی دولتیں اور بادشاہتیں تیرے لئے ہوں گی۔ یہی آزمائش بُدھ کی بھی کی گئی اور شیطان نے اس کو کہا کہ اگر تو میرایہ حکم مان لے کہ ان فقیری کے کاموں سے باز آجائے اور گھر کی طرف چلا جائے تو میں تجھ کو بادشاہت کی شان و شوکت عطا کروں گالیکن جیسا کہ مسیح نے شیطان کی اطاعت نہ کی ایسا ہی لکھا ہے کہ بُدھ نے بھی نہ کی۔ دیکھو کتاب ٹی ڈبلیو رائس ڈیوڈس۱؂ بُدھ ازم۔ اور کتاب مونیر ولیمس بُدھ از۲؂م۔ خ


اب اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ حضرت مسیح علیہ السلام انجیل میں کئی قسم کے خطاب اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہی خطاب بُدھ کی کتابوں میں جو اس سے بہت عرصہ پیچھے لکھی گئی ہیں بُدھ کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام شیطان سے آزمائے گئے ایسا ہی ان کتابوں میں بُدھ کی نسبت دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ بھی شیطان سے آزمایا گیا بلکہ ان کتابوں میں اس سے زیادہ بُدھ کی آزمائش کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ جب شیطان بُدھ کو دولت اور بادشاہت کی طمع دے چکا تب بُدھ کو خیال پیدا ہوا کہ کیوں اپنے گھر کی طرف واپس نہ جائے۔ لیکن اس نے اس خیال کی پیروی نہ کی اور پھر ایک خاص رات میں وہی شیطان اس کو پھر ملا اور اپنی تمام ذرّیات ساتھ لایا اور ہیبت ناک صورتیں بنا کر اس کو ڈرایا اور بُدھ کو وہ شیاطین سانپوں کی طرح نظر آئے جن کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے اور ان سانپوں نے زہر اور آگ اس کی طرف پھینکنی شروع کی لیکن زہر پھول بن جاتے تھے اور آگ بُدھ کے گرد ایک ہالہ بنا لیتی تھی۔ پھر جب اس طرح پر کامیابی نہ ہوئی تو شیطان نے

خنیز دیکھو۔ چائنیز ۳؂ بدھ ازم مصنفہ اڈکنس+ ُ بدھ ۴؂ مصنّفہ اولڈن برگ ترجمہ ڈبلیو ہوئی، لائف۵؂ آف بدھ۔ ترجمہ راک ہل۔ منہ

. Buddhism By T.W Rhys Davids 2. Buddhism By Monier Williams 3.Chinese Buddhism By Edkins 4.Buddha by Oldenberg Translated By W.Hoey 5.Life of Buddha Translated by Rickhill



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/74/mode/1up

74

اپنیؔ سولہ لڑکیوں کو بلایا اور اُن کو کہا کہ تم اپنی خوبصورتی بُدھ پر ظاہر کرو لیکن اس سے بھی بُدھ کے دل کو تزلزل نہ ہوا اور شیطان اپنے ارادوں میں نامراد رہا اور شیطان نے اوراور طریقے بھی اختیار کئے مگر بُدھ کے استقلال کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ گئی اور بُدھ اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب کو طے کرتا گیا اور آخر کار ایک لمبی رات کے بعد یعنی سخت آزمائشوں اور دیرپا امتحانوں کے پیچھے بُدھ نے اپنے دشمن یعنی شیطان کو مغلوب کیا اور سچے علم کی روشنی اس پر کھل گئی اور صبح ہوتے ہی یعنی امتحان سے فراغت پاتے ہی اس کو تمام باتوں کا علم ہوگیا اور جس صبح کو یہ بڑی جنگ ختم ہوئی وہ بُدھ مذہب کی پیدائش کا دن تھا۔ اُس وقت گوتم کی عمر پینتیس برس کی تھی اور اس وقت اس کو بُدھ یعنی نور اور روشنی کا خطاب ملا اور جس درخت کے نیچے وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا وہ درخت نور کے درخت کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اب انجیل کھول کر دیکھو کہ یہ شیطان کا امتحان جس سے بُدھ آزمایا گیا کس قدر حضرت مسیح کے امتحان سے مشابہ ہے یہاں تک کہ امتحان کے وقت میں جو حضرت مسیح کی عمر تھی قریباً وہی بُدھ کی عمر تھی اور جیسا کہ بُدھ کی کتابوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیطان درحقیقت انسان کی طرح مجسم ہوکر لوگوں کے دیکھتے ہوئے بُدھ کے پاس نہیں آیا بلکہ وہ ایک خاص نظارہ تھا جو بُدھ کی آنکھوں تک ہی محدود تھا اور شیطان کی گفتگو شیطانی الہام تھی یعنی شیطان اپنے نظارہ کے ساتھ بُدھ کے دل میں یہ القابھی کرتا تھاکہ یہ طریق چھوڑ دینا چاہئیے اور میرے حکم کی پیروی کرنی چاہئیے میں تجھے دنیا کی تمام دولتیں دے دوں گا۔ اسی طرح عیسائی محقق مانتے ہیں کہ شیطان جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا وہ بھی اس طرح نہیں آیا تھا کہ یہودیوں کے سامنے انسان کی طرح ان کی گلیوں کوچوں سے ہوکر اپنی مجسم حالت میں گذرتا ہوا حضرت مسیح کو آملا ہو اور انسانوں کی طرح ایسی گفتگو کی ہو کہ حاضرین نے بھی سنی ہو بلکہ یہ ملاقات بھی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/75/mode/1up

75

ایکؔ کشفی رنگ میں ملاقات تھی۔ جو حضرت مسیح کی آنکھوں تک محدود تھی اور باتیں بھی الہامی رنگ میں تھیں۔ یعنی شیطان نے جیسا کہ اس کا قدیم سے طریق ہے اپنے ارادوں کو وسوسوں کے رنگ میں حضرت مسیح کے دل میں ڈالا تھا۔ مگر ان شیطانی الہامات کو حضرت مسیح کے دل نے قبول نہ کیا بلکہ بُدھ کی طرح ان کو ردّ کیا۔

اب سوچنے کا مقام ہے کہ اس قدر مشابہت بُدھ میں اور حضرت مسیح میں کیوں پیدا ہوئی۔ اس مقام میں آریہ تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح نے اس سفر کے وقت جبکہ ہندوستان کی طرف انہوں نے سفر کیا تھا بُدھ مذہب کی باتوں کو سن کر اور بُدھ کے ایسے واقعات پر اطلاع پاکر اور پھر واپس اپنے وطن میں جاکر اسی کے موافق انجیل بنا لی تھی۔ اور بُدھ کے اخلاق میں سے چُرا کر اخلاقی تعلیم لکھی تھی اور جیسا کہ بُدھ نے اپنے تئیں نور کہا اور علم کہا اور دوسرے خطاب اپنے نفس کے لئے مقرر کئے وہی تمام خطاب مسیح نے اپنی طرف منسوب کر دئیے تھے۔ یہاں تک کہ وہ تمام قصہ بُدھ کا جس میں وہ شیطان سے آزمایا گیا اپنا قصہ قرار دے دیا۔ لیکن یہ آریوں کی غلطی اور خیانت ہے یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے پہلے ہندوستان کی طرف آئے تھے اور نہ اس وقت کوئی ضرورت اس سفر کی پیش آئی تھی بلکہ یہ ضرورت اس وقت پیش آئی جب کہ بلاد شام کے یہودیوں نے حضرت مسیح کو قبول نہ کیا اور ان کو اپنے زعم میں صلیب دے دیا جس سے خدائے تعالیٰ کی باریک حکمت عملی نے حضرت مسیح کو بچا لیا۔ تب وہ اس ملک کے یہودیوں کے ساتھ حق تبلیغ اور ہمدردی ختم کرچکے اور بباعث اس بدی کے ان یہودیوں کے دل ایسے سخت ہو گئے کہ وہ اس لائق نہ رہے کہ سچائی کو قبول کریں اس وقت حضرت مسیح نے خدائے تعالیٰ سے یہ اطلاع پاکر کہ یہودیوں کے دس گم شدہ فرقے ہندوستان کی طرف آگئے ہیں ان ملکوں کی طرف قصد کیا۔ اور چونکہ ایک گروہ یہودیوں کا بُدھ مذہب میں داخل ہوچکا تھا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/76/mode/1up

76

اس ؔ لئے ضرور تھا کہ وہ نبی صادق بُدھ مذہب کے لوگوں کی طرف توجہ کرتا۔ سو اس وقت بُدھ مذہب کے عالموں کو جو مسیحا بُدھ کے منتظر تھے یہ موقع ملا کہ انہوں نے حضرت مسیح کے خطابات اور ان کی بعض اخلاقی تعلیمیں جیسا کہ یہ کہ ’’اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور بدی کا مقابلہ نہ کرو‘‘۔ اور نیز حضرت مسیح کا بگوا یعنی گورا رنگ ہونا جیسا کہ گوتم بُدھ نے پیشگوئی میں بیان کیا تھا یہ سب علامتیں دیکھ کر ان کو بُدھ قرار دے دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح کے بعض واقعات اور خطابات اور تعلیمیں اسی زمانہ میں گوتم بُدھ کی طرف بھی عمداً یا سہواً منسوب کر دئیے گئے ہوں کیونکہ ہمیشہ ہندو تاریخ نویسی میں بہت کچے رہے ہیں۔ اور بُدھ کے واقعات حضرت مسیح کے زمانہ تک قلمبند نہیں ہوئے تھے اس لئے بُدھ کے عالموں کو بڑی گنجائش تھی کہ جو کچھ چاہیں بُدھ کی طرف منسوب کردیں سو یہ قرینِ قیاس ہے کہ جب انہوں نے حضرت مسیح کے واقعات اور اخلاقی تعلیم سے اطلاع پائی تو ان امور کو اپنی طرف سے اور کئی باتیں ملا کر بُدھ کی طرف منسوب کردیا ہوگا۔* چنانچہ آگے چل کر ہم اس بات کا ثبوت دیں گے کہ یہ اخلاقی تعلیم کا حصہ جو بُدھ مذہب کی کتابوں میں انجیل کے مطابق پایا جاتا ہے اور یہ خطابات نور وغیرہ جو مسیح کی طرح بُدھ کی نسبت لکھے ہوئے ثابت ہوتے ہیں اور ایسا ہی شیطان کا امتحان یہ سب امور اس وقت بُدھ مذہب کی پُستکوں میں لکھے گئے تھے جبکہ حضرت مسیح اس ملک میں صلیبی تفرقہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

اور پھر ایک اور مشابہت بُدھ کی حضرت مسیح سے پائی جاتی ہے کہ بُدھ ازم میں لکھا ہے کہ بُدھ ان ایام میں جو شیطان سے آزمایا گیا روزے رکھتا تھا اور اس نے چالیس روزے رکھے۔ اور انجیل پڑھنے والے جانتے ہیں کہ حضرت مسیح نے بھی چالیس روزے رکھے تھے۔

اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے بُدھ اور مسیح کی اخلاقی تعلیم میں اس قدر مشابہت اور مناسبت ہے کہ ہر ایک ایسا شخص تعجب کی نظر سے دیکھے گا جو دونوں تعلیموں پر اطلاع رکھتا ہو گا۔ مثلاً انجیلوں میں لکھا ہے کہ شر کا مقابلہ نہ کرو۔

ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ بدھ مذہب میں قدیم سے ایک بڑا حصہ اخلاقی تعلیم کا موجود ہے مگر ساتھ اس کے ہم یہ بھی کہتے ہیں اس میں سے وہ حصہ جو بعینہٖ انجیل کی تعلیم اور انجیل کی مثالیں اور انجیل کی عبارتیں ہیں یہ حصہ بلاشبہ اس وقت بدھ مذہب کی کتابوں میں ملایا گیا ہے جبکہ حضرت مسیح اس ملک میں پہنچے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/77/mode/1up

77

اور ؔ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور غربت سے زندگی بسر کرو اور تکبر اور جھوٹ اور لالچ سے پرہیز کرو اور یہی تعلیم بُدھ کی ہے۔ بلکہ اس میں اس سے زیادہ شدّ و مدّ ہے یہاں تک کہ ہر ایک جانور بلکہ کیڑوں مکوڑوں کے خون کو بھی گناہ میں داخل کیا ہے بُدھ کی تعلیم میں بڑی بات یہ بتلائی گئی ہے کہ تمام دنیا کی غم خواری اور ہمدردی کرواور تمام انسانوں اور حیوانوں کی بہتری چاہو اور باہم اتفاق اور محبت پیدا کرو۔ اور یہی تعلیم انجیل کی ہے۔ اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح نے مختلف ملکوں کی طرف اپنے شاگردوں کو روانہ کیا اور آپ بھی ایک ملک کی طرف سفر اختیار کیا۔ یہ باتیں بُدھ کے سوانح میں بھی پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بُدھ ازم مصنفہ سر مونیر ولیم۱؂ میں لکھا ہے کہ بُدھ نے اپنے شاگردوں کو دنیا میں تبلیغ کے لئے بھیجا اور ان کو اس طرح پر خطاب کیا۔ ’’باہر جاؤ اور ہرطرف پھر نکلو اور دنیا کی غمخواری اور دیوتاؤں اور آدمیوں کی بہتری کے لئے ایک ایک ہوکر مختلف صورتوں میں نکل جاؤ اور یہ منادی کرو کہ کامل پرہیز گار بنو۔ پاک دل بنو۔ برہم چاری یعنی تنہا اور مجرد رہنے کی خصلت اختیار کرو‘‘۔ اور کہا کہ ’’میں بھی اس مسئلہ کی منادی کے لئے جاتا ہوں‘‘۔ اور بُدھ بنارس کی طرف گیا اور اس طرف اس نے بہت معجزات دکھائے۔ اور اس نے ایک نہایت مؤثر وعظ ایک پہاڑی پر کیا۔ جیسا کہ مسیح نے پہاڑی پر وعظ کیا تھا۔ اور پھر اسی کتاب میں لکھا ہے کہ بُدھ اکثر مثالوں میں وعظ کیا کرتا تھا اور ظاہری چیزوں کو لے کر روحانی امور کو ان میں پیش کیا کرتا تھا۔

اب غور کرنا چاہئیے کہ یہ اخلاقی تعلیم اور یہ طریق وعظ یعنی مثالوں میں

بیان کرنا یہ تمام طرز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے ۔ جب ہم دوسرے قرائن کو

اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس طرز تعلیم اور اخلاقی تعلیم کو دیکھتے ہیں تو معاً ہمارے

.Buddhism by Sir Monier Williams



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/78/mode/1up

78

دلؔ میں گذرتا ہے کہ یہ سب باتیں حضرت مسیح کی تعلیم کی نقل ہیں جبکہ وہ اس ملک ہندوستان میں تشریف لائے اور جابجا انہوں نے وعظ بھی کئے تو ان دنوں میں بُدھ مذہب والوں نے ان سے ملاقات کر کے اور ان کو صاحبِ برکات پاکر اپنی کتابوں میں یہ باتیں درج کرلیں بلکہ ان کو بُدھ قرار دے دیا۔ کیونکہ یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ جہاں کہیں عمدہ بات پاتا ہے بہر طرح کوشش کرتا ہے کہ اس عمدہ بات کو لے لے یہاں تک کہ اگر کسی مجلس میں کوئی عمدہ نکتہ کسی کے منہ سے نکلتا ہے تو دوسرا اس کو یاد رکھتا ہے۔ تو پھر یہ بالکل قرینِ قیاس ہے کہ بُدھ مذہب والوں نے انجیلوں کا سارا نقشہ اپنی کتابوں میں کھینچ دیا ہے مثلاً یہاں تک کہ جیسے مسیح نے چالیس روزے رکھے ویسے ہی بُدھ نے بھی رکھے اور جیسا کہ مسیح شیطان سے آزمایا گیا ایسا ہی بُدھ بھی آزمایا گیا اور جیسا کہ مسیح بے پدر تھا ویسا ہی بُدھ بھی۔ اور جیسا کہ مسیح نے اخلاقی تعلیم بیان کی ویسا ہی بُدھ نے بھی کی۔ اور جیسا کہ مسیح نے کہا کہ میں نور ہوں ویسا ہی بُدھ نے بھی کہا۔ اور جیسا کہ مسیح نے اپنا نام استاد رکھا اور حواریوں کا نام شاگرد ایسا ہی بُدھ نے رکھا۔ اور جیسا کہ انجیل متی باب ۱۰ آیت ۸و۹ میں ہے کہ سونا اور روپا اور تانبا اپنے پاس مت رکھو یہی حکم بُدھ نے اپنے شاگردوں کو دیا۔ اور جیسا کہ انجیل میں مجردّ رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ایسا ہی بُدھ کی تعلیم میں ترغیب ہے۔ اور جیسا کہ مسیح کو صلیب پر کھینچنے کے بعد زلزلہ آیا ایسا ہی لکھا ہے کہ بُدھ کے مرنے کے بعد زلزلہ آیا۔*پس اس تمام مطابقت کا اصل باعث یہی ہے کہ بُدھ مذہب والوں کی خوش قسمتی سے مسیح ہندوستان میں آیا اور ایک زمانہ دراز تک بُدھ مذہب والوں میں رہا اور اس کے سوانح اور اس کی پاک تعلیم پر انہوں نے خوب اطلاع پائی۔ لہٰذا یہ ضروری امر تھاکہ بہت سا حصہ اس تعلیم اور رسوم کا ان میں جاری ہوجاتا کیونکہ ان کی نگاہ میں مسیح عزت کی نظر سے دیکھا گیا اور بُدھ قرار دیا گیا۔ اس لئے ان لوگوں نے اس کی باتوں کو اپنی کتابوں میں لکھا اور گوتم بُدھ کی طرف

نوٹ: جیسا کہ عیسائیوں میں عشاء ربانی ہے ایسا ہی بدھ مذہب والوں میں بھی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/79/mode/1up

79

منسوؔ ب کردیا۔ بُدھ کا بعینہٖ حضرت مسیح کی طرح مثالوں میں اپنے شاگردوں کو سمجھانا خاص کر وہ مثالیں جو انجیل میں آچکی ہیں نہایت حیرت انگیز واقعہ ہے۔ چنانچہ ایک مثال میں بُدھ کہتا ہے کہ ’’جیسا کہ کسان بیج بوتا ہے اور وہ نہیں کہہ سکتا کہ دانہ آج پھولے گا اور کل نکلے گا ایسا ہی مرید کا حال ہوتا ہے یعنی وہ کچھ بھی رائے ظاہر نہیں کر سکتا کہ اس کا نشو و نما اچھا ہوگا یا اس دانہ کی طرح ہوگا جو پتھریلی زمین میں ڈالا جائے اور خشک ہوجائے‘‘۔ دیکھو بعینہٖ یہ وہی مثال ہے جو انجیل میں اب تک موجود ہے۔ اور پھر بُدھ ایک اور مثال دیتا ہے کہ ایک ہرنوں کا گلہ جنگل میں خوشحال ہوتا ہے تب ایک آدمی آتا ہے اور فریب سے وہ راہ کھولتا ہے جو ان کی موت کا راہ ہے یعنی کوشش کرتا ہے کہ ایسی راہ چلیں جس سے آخر پھنس جائیں اور موت کا شکار ہوجائیں۔ اور دوسرا آدمی آتا ہے اور وہ اچھا راہ کھولتا ہے یعنی وہ کھیت بوتا ہے تا اس میں سے کھائیں۔وہ نہر لاتا ہے تا اس میں سے پیویں اور خوشحال ہو جائیں ایسا ہی آدمیوں کا حال ہے وہ خوشحالی میں ہوتے ہیں شیطان آتا ہے اور بدی کی آٹھ راہیں ان پر کھول دیتا ہے تا ہلاک ہوں۔ تب کامل انسان آتا ہے اور حق اور یقین اور سلامتی کی بھری ہوئی آٹھ راہیں ان پر کھول دیتا ہے تا وہ بچ جائیں‘‘۔ بُدھ کی تعلیم میں یہ بھی ہے کہ پرہیزگاری وہ محفوظ خزانہ ہے جس کو کوئی چرا نہیں سکتا۔ وہ ایسا خزانہ ہے کہ موت کے بعد بھی انسان کے ساتھ جاتا ہے۔ وہ ایسا خزانہ ہے جس کے سرمایہ سے تمام علوم اور تمام کمال پیدا ہوتے ہیں۔

اب دیکھو کہ بعینہٖ یہ انجیل کی تعلیم ہے اور یہ باتیں بدھ مذہب کی ان پرانی کتابوں

میں پائی جاتی ہیں جن کا زمانہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ سے کچھ زیادہ نہیں

ہے بلکہ وہی زمانہ ہے۔ پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۵ میں ہے کہ بدھ کہتا ہے کہ میں

ایسا ہوں کہ کوئی مجھ پر داغ نہیں لگا سکتا۔ یہ فقرہ بھی حضرت مسیح کے قول سے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/80/mode/1up

80

مشاؔ بہ ہے اور بُدھ ازم کی کتاب کے صفحہ ۴۵ میں لکھا ہے کہ ’’ بُدھ کی اخلاقی تعلیم اور عیسائیوں کی اخلاقی تعلیم میں بڑی بھاری مشابہت ہے‘‘۔ میں اس کو مانتا ہوں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ وہ دونوں ہمیں بتاتی ہیں کہ دنیا سے محبت نہ کرو۔ روپیہ سے محبت نہ کرو۔ دشمنوں سے دشمنی مت کرو۔ بُرے اور ناپاک کام مت کرو۔ بدی پر نیکی کے ذریعہ سے غالب آؤ۔ اور دوسروں سے وہ سلوک کرو جو تم چاہتے ہو کہ وے تم سے کریں۔ یہ اس قدر انجیلی تعلیم اور بُدھ کی تعلیم میں مشابہت ہے کہ تفصیل کی ضرورت نہیں۔

بُدھ مذہب کی کتابوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گوتم بُدھ نے ایک اور آنے والے بُدھ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جس کا نام متیّا بیان کیا تھا۔ یہ پیشگوئی بُدھ کی کتاب لگّاوتی سُتَتا میں ہے جس کا حوالہ کتاب اولڈن برگ صفحہ ۱۱۴۲؂ میں دیا گیا ہے۔ اس پیشگوئی کی عبارت یہ ہے ’’متیّا لاکھوں مریدوں کا پیشوا ہوگا جیسا کہ میں اب سینکڑوں کا ہوں‘‘۔ اس جگہ یاد رہے کہ جو لفظ عبرانی میں مشیحاہے وہی پالی زبان میں متیّا کر کے بولا گیا ہے۔ یہ تو ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میںآتا ہے تو اس میں کچھ تغیر ہوجاتا ہے چنانچہ انگریزی لفظ بھی دوسری زبان میں آکر تغیر پا جاتا ہے جیسا کہ نظیر کے طور پر میکسمولر۲؂ صاحب ایک فہرست میں جو کتاب سیکرڈ (بکس )آف دی ایسٹ جلدنمبر۳۱؂۱ کے ساتھ شامل کی گئی ہے صفحہ ۳۱۸ میں لکھتا ہے کہ ٹی ایچ انگریزی زبان کا جو تھ کی آواز رکھتا ہے فارسی اور عربی زبانوں میں ث ہوجاتا ہے یعنی پڑھنے میں ث یا س کی آواز دیتا ہے۔ سو ان تغیرات پر نظر رکھ کر ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ مسیحا کا لفظ پالی زبان میں آکر متیّا بن گیا۔ یعنی وہ آنے والا متیّا جس کی بُدھ نے پیشگوئی کی تھی وہ درحقیقت مسیح ہے اور کوئی نہیں۔ اس بات پر بڑا پختہ قرینہ یہ ہے کہ بُدھ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ جس مذہب کی اس نے بنیاد رکھی ہے وہ زمین پر پانچ سو برس سے زیادہ قائم

1.Buddha by Dr. Herman Oldenberg.pp.142 2. Max Muller

3. Sacred Books of the East



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/81/mode/1up

81

نہیں ؔ رہے گا۔ اور جس وقت ان تعلیموں اور اصولوں کا زوال ہوگا۔ تب متیّا اس ملک میں آکر دوبارہ ان اخلاقی تعلیموں کو دنیا میں قائم کرے گا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پانسو برس بعد بُدھ کے ہوئے ہیں اور جیسا کہ بُدھ نے اپنے مذہب کے زوال کی مدت مقرر کی تھی۔ ایسا ہی اس وقت بُدھ کا مذہب زوال کی حالت میں تھا۔ تب حضرت مسیح نے صلیب کے واقعہ سے نجات پاکر اس ملک کی طرف سفر کیا اور بُدھ مذہب والے اُن کو شناخت کر کے بڑی تعظیم سے پیش آئے۔ اور اس میں کوئی بھی شک نہیں کرسکتا کہ وہ اخلاقی تعلیمیں اور وہ روحانی طریقے جو بُدھ نے قائم کئے تھے حضرت مسیح کی تعلیم نے دوبارہ دنیا میں ان کو جنم دیا ہے۔ عیسائی مؤرخ اس بات کو مانتے ہیں کہ انجیل کی پہاڑی تعلیم اور دوسرے حصوں کی تعلیم جو اخلاقی امور پر مبنی ہے یہ تمام تعلیم وہی ہے جس کو گوتم بُدھ حضرت مسیح سے پانسو۵۰۰ برس پہلے دنیا میں رائج کرچکا تھا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بُدھ صرف اخلاقی تعلیموں کا سکھلانے والا نہیں تھا بلکہ وہ اور بھی بڑی بڑی سچائیوں کا سکھلانے والا تھا۔ اور ان کی رائے میں بُدھ کا نام جو ایشیا کا نور رکھا گیا وہ عین مناسب ہے۔ اب ۔۔۔بُدھ کی پیشگوئی کے موافق حضرت مسیح پانسو برس کے بعد ظاہر ہوئے اور حسبِ اقرار اکثر علماء عیسائیوں کے ان کی اخلاقی تعلیم بعینہٖ بُدھ کی تعلیم تھی تو اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ وہ بُدھ کے رنگ پر ظہور فرما ہوئے تھے۔ اور کتاب اولڈن برگ میں بحوالہ بُدھ کی کتاب لکاّوتی ستتا کے لکھا ہے کہ بُدھ کے معتقد آئندہ زمانہ کی امید پر ہمیشہ اپنے تئیں تسلی دیتے تھے کہ وہ متیّاکے شاگرد بن کر نجات کی خوشحالی حاصل کریں گے یعنی ان کو یقین تھا کہ متیّا ان میں آئے گا اور وہ اس کے ذریعہ سے نجات پائیں گے۔ کیونکہ جن لفظوں میں بُدھ نے ان کو متیّا کی امید دی تھی وہ لفظ صریح



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/82/mode/1up

82

دلالت ؔ کرتے تھے کہ اس کے شاگرد متیّا کو پائیں گے۔ اب کتاب مذکور کے اس بیان سے بخوبی یہ بات دلی یقین کو پیدا کرتی ہے کہ خدا نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دونوں طرف سے اسباب پیدا کردئیے تھے یعنی ایک طرف تو حضرت مسیح بوجہ اپنے اس نام کے جو پیدائش باب ۳ آیت ۱۰ سے سمجھا جاتا ہے۔ یعنی آسف جس کا ترجمہ ہے جماعت کو اکٹھا کرنے والا یہ ضروری تھا کہ اس ملک کی طرف آتے جس میں یہودی آکر آباد ہوئے تھے۔ اور دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ حسب منشاء بُدھ کی پیشگوئی کے بُدھ کے معتقد آپ کو دیکھتے اور آپ سے فیض اٹھاتے۔ سوان دونوں باتوں کو یکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے یقیناًسمجھ میں آتا ہے کہ ضرور حضرت مسیح علیہ السلام تبت کی طرف تشریف لے گئے تھے اور خود جس قدر تبت کے بُدھ مذہب میں عیسائی تعلیم اور رسوم دخل کر گئے ہیں اِس قدر گہرا دخل اس بات کو چاہتا ہے کہ حضرت مسیح ان لوگوں کو ملے ہوں اور بُدھ مذہب کے سرگرم مریدوں کا ان کی ملاقات کے لئے ہمیشہ منتظر ہونا جیسا کہ بُدھ کی کتابوں میں اب تک لکھا ہوا موجود ہے بلند آواز سے پکار رہا ہے کہ یہ انتظار شدید حضرت مسیح کے ان کے اس ملک میں آنے کے لئے پیش خیمہ تھا۔ اور دونوں امور متذکرہ بالا کے بعد کسی منصف مزاج کو اس بات کی حاجت نہیں رہتی کہ وہ بُدھ مذہب کی ایسی کتابوں کو تلاش کرے جن میں لکھا ہوا ہو کہ حضرت مسیح تبت کے ملک میں آئے تھے۔ کیونکہ جبکہ بُدھ کی پیشگوئی کے مطابق آنے کی انتظار شدید تھی تو وہ پیشگوئی اپنی کشش سے حضرت مسیح کو ضرور تبت کی طرف کھینچ لائی ہوگی۔ اور یاد رکھنا چاہئیے کہ متیّا کا نام جو بُدھ کی کتابوں میں جابجا مذکور ہے بلا شبہ وہ مسیحا ہے۔ کتاب تبت تاتار منگولیا بائی ایچ ٹی پرنسب ۱؂ کے صفحہ ۱۴ میں متیّا بُدھ کی نسبت جو دراصل مسیحا ہے یہ لکھا ہے کہ جو حالات ان پہلے مشنریوں (عیسائی واعظوں) نے تبت میں جاکر

. Tibet,Tatary and Mongolia by H.T.Prinsep



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/83/mode/1up

83

اپنی ؔ آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے۔ ان حالات پر غور کرنے سے وہ اس نتیجہ تک پہنچ گئے کہ لاموں کی قدیم کتب میں عیسائی مذہب کے آثار موجود ہیں۔ اور پھر اسی صفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ متقدمین یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کے حواری ابھی زندہ ہی تھے کہ جبکہ عیسائی دین کی تبلیغ اس جگہ پہنچ گئی تھی اور پھر ۱۷۱ صفحہ میں لکھا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وقت عام انتظار ایک بڑے منجّی کے پیدا ہونے کی لگ رہی تھی جس کا ذکر ٹے سے ٹس نے اس طرح پر کیا ہے کہ اس انتظار کا مدار نہ صرف یہودی تھے بلکہ خود بُدھ مذہب نے ہی اس انتظار کی بنیاد ڈالی تھی یعنی اس ملک میں متیّا کے آنے کی پیشگوئی کی تھی۔ اور پھر اس کتاب انگریزی پر مصنف نے ایک نوٹ لکھا ہے اس کی یہ عبارت ہے۔ کتاب پتاکتیان اور اتھا کتھا میں ایک اور بُدھ کے نزول کی پیشگوئی بڑی واضح طور پر درج ہے جس کا ظہور گوتم یا ساکھی مُنی سے ایک ہزار سال بعد لکھا گیا ہے۔ گوتما بیان کرتا ہے کہ میں پچیسواں بُدھ ہوں۔ اور بگوا متیّا نے ابھی آنا ہے یعنی میرے بعد اس ملک میں وہ آئے گا جس کا نام متیّا ہوگا اور وہ سفید رنگ ہوگا۔ پھر آگے وہ انگریز مصنف لکھتا ہے کہ متیّا کے نام کو مسیحا سے حیرت انگیز مشابہت ہے۔ غرض اس پیشگوئی میں گوتم بُدھ نے صاف طور پر اقرار کردیا ہے کہ اس کے ملک میں اور اس کی قوم میں اور اس پر ایمان لانے والوں میں مسیحا آنے والا ہے یہی وجہ تھی کہ اس کے مذہب کے لوگ ہمیشہ اس انتظار میں تھے کہ ان کے ملک میں مسیحا آئے گا۔ اور بُدھ نے اپنی پیشگوئی میں اس آنے والے بُدھ کا نام بگوا متیّا اس لئے رکھا کہ بگوا سنسکرت زبان میں سفید کو کہتے ہیں۔ اور حضرت مسیح چونکہ بلاد شام کے رہنے والے تھے اس لئے وہ بگوا یعنی سفید رنگ تھے۔ جس ملک میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی یعنی مَگَدھ کا ملک جہاں راجہ گریہا واقع تھا اس ملک کے لوگ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/84/mode/1up

84

سیاہؔ رنگ تھے اور گوتم بُدھ خود سیاہ رنگ تھا۔ اس لئے بُدھ نے آنے والے بُدھ کی قطعی علامت ظاہر کرنے کے لئے دو باتیں اپنے مریدوں کو بتلائی تھیں۔ ایک یہ کہ وہ بگوا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ وہ متیّا ہوگا یعنی سیر کرنے والا ہوگا اور باہر سے آئے گا۔ سو ہمیشہ وہ لوگ انہی علامتوں کے منتظر تھے جب تک کہ انہوں نے حضرت مسیح کو دیکھ لیا۔ یہ عقیدہ ضروری طور پر ہر ایک بُدھ مذہب والے کا ہونا چاہئیے کہ بُدھ سے پانسو۵۰۰برس بعدبگوا متیّا ان کے ملک میں ظاہر ہوا تھا۔* سو اس عقیدہ کی تائید میں کچھ تعجب نہیں ہے کہ بُدھ مذہب کی بعض کتابوں میں متیّا یعنی مسیحا کا ان کے ملک میں آنا اور اس طرح پر پیشگوئی کا پورا ہوجانا لکھا ہوا ہو۔ اور اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ لکھا ہوا نہیں ہے تب بھی جبکہ بُدھ نے خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر اپنے شاگردوں کو یہ امید دی تھی کہ بگوا متیّا ان کے ملک میں آئے گا۔ اس بنا پر کوئی بُدھ مت والا جو اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتا ہو اس واقعہ سے انکار نہیں کرسکتا کہ وہ بگوا متیّا جس کا دوسرا نام مسیحا ہے اس ملک میں آیا تھا کیونکہ پیشگوئی کا باطل ہونا مذہب کو باطل کرتا ہے۔ اور ایسی پیشگوئی جس کی میعاد بھی مقرر تھی اور گوتم بُدھ نے بار بار اس پیشگوئی کو اپنے مریدوں کے پاس بیان کیا تھا۔ اگر وہ اپنے وقت پر پوری نہ ہوتی تو بدھ کی جماعت گوتم بدھ کی سچائی کی نسبت شبہ میں پڑ جاتی اور کتابوں میں یہ بات لکھی جاتی کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہمیں ایک اور دلیل یہ ملتی ہے کہ تبت میں ساتویں صدی عیسوی کی وہ کتابیں دستیاب ہوئی ہیں جن میں مشیح کا لفظ موجود ہے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لکھا ہے اور اس لفظ کو مِیْ شِیْ ہُوْ کر کے ادا کیا ہے۔ اور وہ فہرست جس میں مِیْ شِیْ ہُوپایا گیا ہے اس کا مرتب کرنے والا ایک بُدھ مذہب کا آدمی ہے۔ دیکھو کتاب اے ریکارڈ آف دی بُدھسٹ ریلیجن مصنفہ آئی سنگ مترجم جی ٹکا کو سو۱؂ ۔ اور جی ٹکا کوسو

ایک ہزار و پانچ ہزارسال والی میعادیں غلط ہیں۔ منہ

1. A Record of the Buddhist Religion by I.Tsing Translated by Taka Kasu



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/85/mode/1up

85

ایکؔ جاپانی شخص ہے جس نے آئی سنگ کی کتاب کا ترجمہ کیا ہے۔ اور آئی سنگ ایک چینی سیاح ہے جس کی کتاب کے حاشیہ پر اور ضمیمہ میں ٹکاکوسو نے تحریر کیا ہے کہ ایک قدیم تالیف میں مِیْ شِیْ ہُوْ (مسیح) کا نام درج ہے اور یہ تالیف قریباً ساتویں صدی کی ہے۔۔۔ اور پھر اس کا ترجمہ حال میں ہی کلیرنڈن پریس آکسفورڈ میں جی ٹکاکوسو نام ایک جاپانی نے کیا ۔* غرض اس کتاب میں مشیح کا لفظ موجود ہے جس سے ہم بہ یقین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ لفظ بُدھ مذہب والوں کے پاس باہر سے نہیں آیا بلکہ بُدھ کی پیشگوئی سے یہ لفظ لیا گیا ہے جس کو کبھی انہوں نے مشیح کر کے لکھا اور کبھی بگوا متیّا کر کے۔

اور منجملہ ان شہادتوں کے جو بُدھ مذہب کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں ایک یہ ہے کہ بُدھ ایزم مصنفہ سر مونیر ولیم صفحہ ۱۵؂۴ میں لکھا ہے کہ چھٹا مُرید بُدھ کا ایک شخص تھا جس کا نام یسا تھا۔ یہ لفظ یسوع کے لفظ کا مخفّف معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام بُدھ کی وفات سے پانچسوبرس گذرنے کے بعد یعنی چھٹی صدی میں پیدا ہوئے تھے اس لئے چھٹا مرید کہلائے۔ یاد رہے کہ پروفیسر میکسمولر اپنے رسالہ نائن ٹینتھ سنچری۲ ؂ اکتوبر ۱۸۹۴ء صفحہ ۵۱۷ میں گذشتہ بالا مضمون کی ان الفاظ سے تائید کرتے ہیں کہ یہ خیال کئی دفعہ ہر دل عزیز مصنفوں نے پیش کیا ہے کہ مسیح پر بُدھ مذہب کے اصولوں نے اثر ڈالا تھا اور پھر لکھتے ہیں کہ آج تک اس دِقّت کے حل کرنے کے لئے کوشش ہو رہی ہے کہ کوئی ایسا سچا تاریخی راستہ معلوم ہو جائے جس کے ذریعہ سے بُدھ مذہب مسیح کے زمانہ میں فلسطین میں پہنچ سکا ہو‘‘ اب اس عبارت سے بُدھ مذہب کی ان کتابوں کی تصدیق ہوتی ہے جن میں لکھا ہے کہ یسا بُدھ کا مرید تھا۔ کیونکہ جبکہ ایسے بڑے درجہ کے عیسائیوں نے جیسا کہ پروفیسر میکسمولر ہیں اس بات کو مان لیا ہے کہ حضرت مسیح کے دل پر بُدھ مذہب کے اصولوں کا ضرور اثر پڑا تھا تو دوسرے لفظوں میں اسی کا نام مرید ہونا ہے۔ مگر ہم ایسے الفاظ کو حضرت مسیح

دیکھو صفحہ ۱۶۹و۲۲۳ کتاب ھٰذا۔ منہ

1. Buddhism by Sir Monier William 2. The Ninteenth Century October 1894 by Max Muller



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/86/mode/1up

86

علیہؔ السلام کی شان میں ایک گستاخی اور ترک ادب خیال کرتے ہیں۔ اور بُدھ مذہب کی کتابوں میں جو یہ لکھا گیا کہ یسوع بُدھ کا مرید یا شاگرد تھا تو یہ تحریر اس قوم کے علماء کی ایک پرانی عادت کے موافق ہے کہ وہ پیچھے آنے والے صاحب کمال کو گذشتہ صاحبِ کمال کا مرید خیال کر لیتے ہیں۔ علاوہ اس کے جبکہ حضرت مسیح کی تعلیم اور بُدھ کی تعلیم میں نہایت شدید مشابہت ہے جیسا کہ بیان ہو چکا تو پھر اس لحاظ سے کہ بُدھ حضرت مسیح سے پہلے گذر چکا ہے بُدھ اور حضرت مسیح میں پیری اور مریدی کا ربط دینا بیجا خیال نہیں ہے گو طریق ادب سے دور ہے۔ لیکن ہم یورپ کے محققوں کی اس طرز تحقیق کو ہرگز پسند نہیں کرسکتے کہ وہ اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ کسی طرح یہ پتہ لگ جائے کہ بُدھ مذہب مسیح کے زمانہ میں فلسطین میں پہنچ گیا تھا۔ مجھے افسوس آتا ہے کہ جس حالت میں بُدھ مذہب کی پرانی کتابوں میں حضرت مسیح کا نام اور ذکر موجود ہے تو کیوں یہ محقق ایسی ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں کہ فلسطین میں بُدھ مذہب کا نشان ڈھونڈتے ہیں اور کیوں وہ حضرت مسیح کے قدم مبارک کو نیپال اور تبت اور کشمیر کے پہاڑوں میں تلاش نہیں کرتے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ اتنی بڑی سچائی کو ہزاروں تاریک پردوں میں سے پیدا کرنا ان کا کام نہیں تھا بلکہ یہ اس خدا کا کام تھا جس نے آسمان سے دیکھا کہ مخلوق پرستی حد سے زیادہ زمین پر پھیل گئی اور صلیب پرستی اور انسان کے ایک فرضی خون کی پرستش نے کروڑہا دلوں کو سچے خدا سے دور کردیا۔ تب اس کی غیرت نے ان عقائد کے توڑنے کے لئے جو صلیب پر مبنی تھے ایک کو اپنے بندوں میں سے دنیا میں مسیح ناصری کے نام پر بھیجا۔ اور وہ جیسا کہ قدیم سے وعدہ تھا مسیح موعود ہو کر ظاہر ہوا۔ تب کسرِ صلیب کا وقت آگیا یعنی وہ وقت کہ صلیبی عقائد کی

غلطی کو ایسی صفائی سے ظاہر کردینا جیسا کہ ایک لکڑی کو دو ٹکڑے کر دیا جائے۔ سو اب

آسمان نے کسرِ صلیب کی ساری راہ کھول دی تا وہ شخص جو سچائی کا طالب ہے اب



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 87

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/87/mode/1up

87

اٹھے ؔ اور تلاش کرے۔ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا گو ایک غلطی تھی تب بھی اس میں ایک راز تھا اور وہ یہ کہ جو مسیحی سوانح کی حقیقت گم ہو گئی تھی اور ایسی نابود ہو گئی تھی جیسا کہ قبر میں مٹی ایک جسم کو کھا لیتی ہے وہ حقیقت آسمان پر ایک وجود رکھتی تھی اور ایک مجسم انسان کی طرح آسمان میں موجود تھی اور ضرور تھا کہ آخری زمانہ میں وہ حقیقت پھر نازل ہو۔ سو وہ حقیقت مسیحیہ ایک مجسم انسان کی طرح اب نازل ہوئی اور اس نے صلیب کو توڑا اور دروغگوئی اور ناحق پرستی کی بُری خصلتیں جن کو ہمارے پاک نبی نے صلیب کی حدیث میں خنزیر سے تشبیہ دی ہے صلیب کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ایسی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں جیسا کہ ایک خنزیر تلوار سے کاٹا جاتا ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی صحیح نہیں ہیں کہ مسیح موعود کافروں کو قتل کرے گا اور صلیبوں کو توڑے گابلکہ صلیب توڑنے سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں آسمان اور زمین کا خدا ایک ایسی پوشیدہ حقیقت ظاہر کردے گا کہ جس سے تمام صلیبی عمارت یکدفعہ ٹوٹ جائے گی۔ اور خنزیروں کے قتل کرنے سے نہ انسان مراد ہیں نہ خنزیر بلکہ خنزیروں کی عادتیں مراد ہیں یعنی جھوٹ پر ضد کرنا اور بار بار اس کو پیش کرنا جو ایک قسم کی نجاست خوری ہے پس جس طرح مرا ہوا خنزیر نجاست نہیں کھا سکتا اسی طرح وہ زمانہ آتا ہے بلکہ آگیا کہ بُری خصلتیں اس قسم کی نجاست خوری سے روکی جائیں گی۔ اسلام کے علماء نے اس نبوی پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اصل معنے صلیب توڑنے اور خنزیر قتل کرنے کے یہی ہیں جو ہم نے بیان کر دئیے ہیں۔ یہ بھی تو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور آسمان سے ایسی روشن سچائیاں ظاہر ہو جائیں گی کہ حق اور باطل میں ایک روشن تمیز دکھلا دیں گی۔ پس یہ خیال مت کرو کہ میں تلوار چلانے آیا ہوں۔ نہیں بلکہ تمام تلواروں کو میان میں کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ دنیا نے بہت کچھ اندھیرے میں کشتی کی۔ بہتوں نے اپنے سچے خیر خواہوں پر حربے چلائے اور اپنے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 88

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/88/mode/1up

88

دردؔ مند دوستوں کے دلوں کو دُکھایا اور عزیزوں کو زخمی کیا۔ مگر اب اندھیرا نہیں رہے گا۔ رات گذری،

دن چڑھا۔ اور مبارک وہ جو اب محروم نہ رہے۔!!

اور منجملہ ان شہادتوں کے جو بُدھ مذہب کی کتابوں سے ہم کو ملی ہیں وہ شہادت ہے جو کتاب بُدھ ایزم مصنفہ اولڈن برگ صفحہ ۴۱۹ میں درج ہے۔ اس کتاب میں بحوالہ کتاب مہاواگا صفحہ ۵۴ فصل نمبر ۱ کے لکھا ہے کہ بُدھ کا ایک جانشین راحولتا نام بھی گذرا ہے کہ جو اس کا جان نثار شاگرد بلکہ بیٹا تھا۔ اب اس جگہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ یہ راحولتا جو بُدھ مذہب کی کتابوں میں آیا ہے یہ روح اللہ کے نام کا بگاڑا ہوا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے۔ اور یہ قصہ کہ یہ راحولتا بُدھ کا بیٹا تھا جس کو وہ شیرخوارگی کی حالت میں چھوڑ کر پردیس میں چلا گیا تھا اور نیز اپنی بیوی کو سوتی ہوئی چھوڑ کر بغیر اس کی اطلاع اور ملاقات کے ہمیشہ کی جدائی کی نیت سے کسی اور ملک میں بھاگ گیا تھا یہ قصہ بالکل بیہودہ اور لغو اور بُدھ کی شان کے برخلاف معلوم ہوتا ہے۔ ایسا سخت دل اور ظالم طبع انسان جس نے اپنی عاجز عورت پر کچھ رحم نہ کیا اور اس کو سوتے ہوئے چھوڑ کر بغیر اس کے کہ اس کو کسی قسم کی تسلی دیتایونہی چوروں کی طرح بھاگ گیا اور زوجیت کے حقوق کو قطعاً فراموش کردیا نہ اسے طلاق دی اور نہ اس سے اس قدر ناپیدا کنار سفر کی اجازت لی اور یکدفعہ غائب ہوجانے سے اس کے دل کو سخت صدمہ پہنچایا اور سخت ایذا دی اور پھر ایک خط بھی اس کی طرف روانہ نہ کیا یہاں تک کہ بیٹا جوان ہوگیا اور نہ بیٹے کے ایام شیرخوارگی پر رحم کیا ایسا شخص کبھی راستباز نہیں ہوسکتا جس نے اپنی اس اخلاقی تعلیم کا بھی کچھ پاس نہ کیا جس کو وہ اپنے شاگردوں کو سکھلاتا تھا۔ ہمارا کانشنس اس کو ایسا ہی قبول نہیں کرسکتا جیسا کہ انجیلوں کے اس قصہ کو کہ مسیح نے ایک مرتبہ ماں کے آنے اور اس کے بلانے کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی تھی بلکہ ایسے الفاظ منہ پر لایا تھا جس میں ماں کی بے عزتی تھی۔ پس اگرچہ بیوی اور ماں کی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 89

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/89/mode/1up

89

دلؔ شکنی کرنے کے دونوں قصے بھی باہم ایک گونہ مشابہت رکھتے ہیں لیکن ہم ایسے قصے جو عام اخلاقی حالت سے بھی گرے ہوئے ہیں نہ مسیح کی طرف منسوب کر سکتے ہیں اور نہ گوتم بُدھ کی طرف۔ اگر بُدھ کو اپنی عورت سے محبت نہیں تھی تو کیا اس عاجز عورت اور شیرخوار بچہ پر رحم بھی نہیں تھا۔ یہ ایسی بد اخلاقی ہے کہ صدہا برس کے گذشتہ رفتہ قصے کو سن کر اب ہمیں درد پہنچ رہا ہے کہ کیوں اس نے ایسا کیا۔ انسان کی بدی کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنی عورت کی ہمدردی سے لاپروا ہو بجز اس صورت کے کہ وہ عورت نیک چلن اور تابع حکم نہ رہے اور یا بے دین اور بدخواہ اور دشمن جان ہوجائے۔ سو ہم ایسی گندی کارروائی بُدھ کی طرف منسوب نہیں کر سکتے جو خود اس کی نصیحتوں کے بھی برخلاف ہے۔ لہٰذا اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ غلط ہے۔ اور درحقیقت راحولتا سے مراد حضرت عیسیٰ ہیں جن کا نام روح اللہ ہے اورروح اللہ کا لفظ عبرانی زبان میں راحولتا سے بہت مشابہ ہوجاتا ہے اور راحولتا یعنی روح اللہ کو بُدھ کا شاگرد اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے جس کا ذکر ابھی ہم کر چکے ہیں۔ یعنی مسیح جو بعد میں آکر بُدھ کے مشابہ تعلیم لایا۔ اس لئے بُدھ مذہب کے لوگوں نے اس تعلیم کا اصل منبع بُدھ کو قرار دے کر مسیح کو اس کا شاگرد قرار دے دیا۔ اور کچھ تعجب نہیں کہ بُدھ نے خداتعالیٰ سے الہام پاکر حضرت مسیح کو اپنا بیٹا بھی قرار دیا ہو۔ اور ایک بڑا قرینہ اس جگہ یہ ہے کہ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ جب راحولتا کو اس کی والدہ سے علیحدہ کیا گیا تو ایک عورت جو بُدھ کی مرید تھی جس کا نام مگدالیانا تھا اس کام کے لئے درمیان میں ایلچی بنی تھی۔ اب دیکھو مگدالیانا کا نام درحقیقت مگدلینی سے بگاڑا ہوا ہے۔ اور مگدلینی ایک عورت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مرید تھی جس کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔

یہ تمام شہادتیں جن کو ہم نے مجملاً لکھا ہے ہر ایک منصف کو اس نتیجہ

تک پہنچاتی ہیں کہ ضرور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے تھے اور



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 90

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/90/mode/1up

90

قطع ؔ نظر ان تمام روشن شہادتوں کے بُدھ مذہب اور عیسائی مذہب میں تعلیم اور رسوم کے لحاظ سے جس قدر باہمی تعلقات ہیں بالخصوص تبت کے حصہ میں یہ امر ایسا نہیں ہے کہ ایک دانشمند سہل انگاری سے اس کو دیکھے۔ بلکہ یہ مشابہت یہاں تک حیرت انگیز ہے کہ اکثر محقق عیسائیوں کا یہ خیال ہے کہ بُدھ مذہب مشرق کا عیسائی مذہب ہے اور عیسائی مذہب کو مغرب کا بُدھ مذہب کہہ سکتے ہیں۔ دیکھو کس قدر عجیب بات ہے کہ جیسے مسیح نے کہا کہ میں نور ہوں میں راہ ہدایت ہوں یہی بُدھ نے بھی کہا ہے۔ اور انجیلوں میں مسیح کا نام نجات دہندہ ہے بُدھ نے بھی اپنا نام منجّی ظاہر کیا ہے۔ دیکھو للتاوسترااور انجیل میں مسیح کی پیدائش بغیر باپ کے بیان کی گئی ہے ایسا ہی بُدھ کے سوانح میں ہے کہ دراصل وہ بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا گو بظاہر حضرت مسیح کے باپ یوسف کی طرح اس کا بھی باپ تھا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ بُدھ کی پیدائش کے وقت ایک ستارہ نکلا تھا۔ اور سلیمان کا قصہ جو اس نے حکم دیا تھا کہ اس بچے کو آدھا آدھا کر کے ان دونوں عورتوں کو دو کہ لے لیں۔ یہ قصہ بُدھ کی جاتکا میں بھی پایا جاتا ہے اس سے سمجھ آتا ہے کہ علاوہ اس کے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک میں تشریف لائے اس ملک کے یہود جو اس ملک میں آگئے تھے ان کے تعلقات بھی بُدھ مذہب سے ہوگئے تھے اور بُدھ مذہب کی کتابوں میں جو طریق پیدائش دنیا لکھا ہے وہ بھی توریت کے بیان سے بہت ملتا ہے اور جیسا کہ توریت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت ہے ایسا ہی بُدھ مذہب کے رو سے ایک جوگی مرد ایک جوگی عورت سے درجہ میں زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ ہاں بُدھ تناسخ کا قائل ہے مگر اس کا تناسخ انجیل

کی تعلیم سے مخالف نہیں ہے۔ اس کے نزدیک تناسخ تین قسم پر ہے۔ (۱) اول یہ

کہ ایک مرنے والے شخص کی عقدِہمت اوراعمال کا نتیجہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک اور جسم

پیدا ہو۔ (۲)دوسری وہ قسم جس کو تبت والوں نے اپنے لاموں میں مانا ہے۔ یعنی یہ کہ کسی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 91

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/91/mode/1up

91

بُدھؔ یا بُدھ ستوا کی روح کا کوئی حصہ موجودہ لاموں میں حلول کر آتا ہے یعنی اس کی قوت اور طبیعت اور روحانی خاصیت موجودہ لامہ میں آجاتی ہے اور اس کی روح اس میں اثر کرنے لگتی ہے۔ (۳) تیسری قسم تناسخ کی یہ ہے کہ اسی زندگی میں طرح طرح کی پیدائشوں میں انسان گذرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ درحقیقت اپنے ذاتی خواص کے لحاظ سے انسان بن جاتا ہے۔ ایک زمانہ انسان پر وہ آتا ہے کہ گویا وہ بیل ہوتا ہے اور پھر زیادہ حرص اور کچھ شرارت بڑھتی ہے تو کتا بن جاتا ہے اور ایک ہستی پر موت آتی ہے اور دوسری ہستی پہلی ہستی کے اعمال کے موافق پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہ سب تغیرات اسی زندگی میں ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ عقیدہ بھی انجیل کی تعلیم کے مخالف نہیں ہے۔

اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ بُدھ شیطان کا بھی قائل ہے۔ ایسا ہی دوزخ اور بہشت اور ملائک اور قیامت کو بھی مانتا ہے اور یہ الزام جو بُدھ خدا کا منکر ہے یہ محض افترا ہے۔ بلکہ بُدھ ویدانت کا منکر ہے اور اُن جسمانی خداؤں کا منکر ہے جو ہندو مذہب میں بنائے گئے تھے۔ ہاں وہ وید پر بہت نکتہ چینی کرتا ہے اور موجودہ وید کو صحیح نہیں مانتا اور اس کو ایک بگڑی ہوئی اور محرف اور مبدل کتاب خیال کرتا ہے اور جس زمانہ میں وہ ہندو اور ویدکا تابع تھا اس زمانہ کی پیدائش کو ایک بُری پیدائش قرار دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اشارات کے طور پر کہتا ہے کہ میں ایک مدت تک بندر بھی رہا اور ایک زمانہ تک ہاتھی اور پھر میں ہرن بھی بنا اور کتا بھی اور چار دفعہ میں سانپ بنا۔ اور پھر چڑیا بھی بنا اور مینڈک بھی بنا اور دو دفعہ مچھلی بنا اور دس دفعہ شیر بنا اور چار دفعہ مرغا بنا اور دو دفعہ میں سوء ر بنا اور ایک دفعہ خرگوش بنا اور خرگوش بننے کے زمانہ میں بندروں اور گیدڑوں اور پانی کے کتوں کو تعلیم دیا کرتا تھا۔ اور پھر کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں بھوت بنا اور ایک دفعہ عورت بنا اور ایک دفعہ ناچنے والا



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 92

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/92/mode/1up

92

شیطاؔ ن بنا۔ یہ تمام اشارات اس اپنی تمام زندگی کی طرف کرتا ہے جو بزدلی اور زنانہ خصلت اور ناپاکی اور درندگی اور وحشیانہ حالت اور عیاشی اور شکم پرستی اور توہمات سے بھری ہوئی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ وہ وید کا پیروتھا کیونکہ وہ وید کے ترک کرنے کے بعد کبھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ پھر بھی کوئی حصہ گندی زندگی کا اس کے اندر رہا تھا بلکہ اس کے بعد اس نے بڑے بڑے دعوے کئے اور کہا کہ وہ خدا کا مظہر ہوگیا اور نروان کو پاگیا۔ بُدھ نے یہ بھی کہا ہے کہ جب انسان دوزخ کے اعمال لے کر دنیا سے جاتا ہے تو وہ دوزخ میں ڈالا جاتا ہے اور دوزخ کے سپاہی اس کو کھینچ کر دوزخ کے بادشاہ کی طرف اس کو لے جاتے ہیں اور اُس بادشاہ کا نام یمہ ہے اور پھر اس دوزخی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تو نے ان پانچ رسولوں کو نہیں دیکھا تھا جو تیرے آگاہ کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ اور وہ یہ ہیں۔ بچپن کا زمانہ۔ بڑھاپے کا زمانہ۔ بیماری۔ مجرم ہوکر دنیا میں سزا پالینا جو آخرت کی سزا پر ایک دلیل ہے۔ مردوں کی لاشیں جو دنیا کی بے ثباتی ظاہر کرتی ہیں۔ مجرم جواب دیتا ہے کہ جناب میں نے اپنی بیوقوفی کے سبب ان تمام باتوں پر کچھ بھی غور نہ کی۔ تب دوزخ کے موکل اس کو کھینچ کر عذاب کے مقام پر لے جائیں گے اور لوہے کی زنجیروں کے ساتھ جو آگ سے اس قدر گرم کئے ہوئے ہوں گے کہ آگ کی طرح سرخ ہوں گے باندھ دئیے جائیں گے اور نیز بُدھ کہتا ہے کہ دوزخ میں کئی طبقے ہیں جن میں مختلف قسم کے گنہ گار ڈالے جائیں گے۔ غرض یہ تمام تعلیمیں بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ بُدھ مذہب نے حضرت مسیح کے فیض صحبت سے کچھ حاصل کیا ہے۔ لیکن ہم اس جگہ اس سے زیادہ طول دینا پسند نہیں کرتے اور اس فصل کو اسی جگہ ختم کردیتے ہیں کیونکہ جبکہ بُدھ مذہب کی کتابوں میں صریح طور پر حضرت مسیح کے اس ملک میں آنے کے لئے پیشگوئی لکھی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/93/mode/1up

93

گئی ؔ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور پھر اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بُدھ مذہب کی اُن کتابوں میں جو حضرت مسیح کے زمانہ میں تالیف ہوئیں انجیل کی اخلاقی تعلیمیں اور مثالیں موجود ہیں تو ان دونوں باتوں کو باہم ملانے سے کچھ شک نہیں رہ سکتا کہ ضرور حضرت مسیح اس ملک میں آئے تھے۔ سو جس شہادت کو ہم بُدھ مذہب کی کتابوں میں سے ڈھونڈنا چاہتے تھے خدا کا شکر ہے کہ وہ شہادت کامل طور پر ہمیں دستیاب ہو گئی ہے۔

تیسری فصل

ان تاریخی کتابوں کی شہادت میں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ حضرت مسیح

علیہ السلام کا اس ملک پنجاب اور اس کی مضافات میں آنا ضرور تھا۔

چونکہ طبعاً یہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعہ صلیب سے نجات پا کر کیوں اس ملک میں آئے اور کس ضرورت نے ان کو اس دور دراز سفر کے لئے آمادہ کیا۔ اس لئے اس سوال کا تفصیل سے جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اور گو ہم پہلے بھی اس بارے میں کسی قدر لکھ آئے ہیں لیکن ہم مناسب دیکھتے ہیں کہ اس بحث کو مکمل طور پر درج کتاب کیا جائے۔

سو واضح ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے فرض رسالت کے رو سے ملک پنجاب اور اس کے نواح کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے دس فرقے جن کا نام انجیل میں اسرائیل کی گمشدہ بھیڑیں رکھا گیا ہے ان ملکوں میں آگئے تھے جن کے آنے سے کسی مؤرخ کو انکار نہیں ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اس ملک کی طرف سفر کرتے اور اُن گم شدہ بھیڑوں کا پتہ لگا کر خداتعالیٰ کا پیغام ان کو پہنچاتے اور جب تک وہ ایسا نہ کرتے تب تک ان کی رسالت کی غرض بے نتیجہ اور نامکمل تھی کیونکہ جس حالت میں وہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُن گمشدہ بھیڑؔ وں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/94/mode/1up

94

کی طرف بھیجے گئے تھے تو پھر بغیر اس کے کہ وہ اُن بھیڑوں کے پیچھے جاتے اور ان کو تلاش کرتے اور ان کو طریق نجات بتلاتے یونہی دنیا سے کوچ کر جانا ایسا تھا کہ جیسا کہ ایک شخص ایک بادشاہ کی طرف سے مامور ہو کہ فلاں بیابانی قوم میں جاکر ایک کنواں کھودے اور اس کنویں سے ان کو پانی پلاوے۔ لیکن یہ شخص کسی دوسرے مقام میں تین چار برس رہ کر واپس چلا جائے اور اس قوم کی تلاش میں ایک قدم بھی نہ اٹھائے تو کیا اس نے بادشاہ کے حکم کے موافق تعمیل کی؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس نے محض اپنی آرام طلبی کی وجہ سے اس قوم کی کچھ پرواہ

نہ کی۔

ہاں اگر یہ سوال ہو کہ کیونکر اور کس دلیل سے معلوم ہوا کہ اسرائیل کی دس قومیں اس ملک میں آگئی تھیں تو اس کے جواب میں ایسے بدیہی ثبوت موجود ہیں کہ ان میں ایک معمولی اور موٹی عقل بھی شبہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ نہایت مشہور واقعات ہیں کہ بعض قومیں مثلاً افغان اور کشمیر کے قدیم باشندے دراصل بنی اسرائیل ہیں مثلًا الائی کوہستان جو ضلع ہزارہ سے دو تین دن کے راستہ پر واقع ہے اس کے باشندے قدیم سے اپنے تئیں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ایسا ہی اس ملک میں ایک دوسرا پہاڑ ہے جس کو کالا ڈاکہ کہتے ہیں اس کے باشندے بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم بنی اسرائیل ہیں اور خاص ضلع ہزارہ میں بھی ایک قوم ہے جو اسرائیلی خاندان سے اپنے تئیں سمجھتے ہیں ایسا ہی چلاس اور کابل کے درمیان جو پہاڑ ہیں جنوب کی طرف شرقاً و غرباً ان کے باشندے بھی اپنے تئیں بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ اور کشمیر کے باشندوں کی نسبت وہ رائے نہایت صحیح ثابت ہوتی ہے جو ڈاکٹر برنیرنے اپنی کتاب سیر و سیاحت کشمیر۱؂ کے دوسرے حصے میں بعض محقق انگریزوں کے حوالہ سے لکھی ہے۔ یعنی یہ کہ بلاشبہ کشمیری لوگ بنی اسرائیل ہیں اور ان کے لباس اور چہرے اور بعض رسوم قطعی طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی خاندان میں سے ہیں۔ اور فارسٹر نامی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/95/mode/1up

95

ایک ؔ انگریز اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جب میں کشمیر میں تھا تو میں نے خیال کیا کہ میں ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہوں۔ اور کتاب دی ریسز آف افغانستان مصنفہ ایچ ڈبلیوبلیو سی ایس آئی مطبوعہ تھاکر سپنک اینڈ کو کلکتہ۱؂ میں لکھا ہے کہ افغان لوگ ملک سیریا سے آئے ہیں۔ بخت نصر نے انہیں قید کیا اور پرشیا اور میدیا کے علاقوں میں انہیں آباد کیا۔ ان مقامات سے کسی بعد کے زمانہ میں مشرق کی طرف نکل کر غور کے پہاڑی ملک میں جا بسے جہاں بنی اسرائیل کے نام سے مشہور تھے اس کے ثبوت میں ادریس نبی کی پیشگوئی ہے کہ دس قومیں اسرائیل کی جو قید میں ماخوذ ہوئی تھیں۔ قید سے بھاگ کر ملک ارسارۃمیں پناہ گزین ہوئیں۔ اور وہ اسی ملک کا نام معلوم ہوتا ہے جسے آج کل ہزارہ کہتے ہیں اور جو علاقہ غور میں واقع ہے۔ طبقات ناصری جس میں چنگیز خان کی فتوحات ملک افغانستان کا ذکر ہے اس میں لکھا ہے کہ شنبیسی خاندان کے عہد میں یہاں ایک قوم آباد تھی جس کو بنی اسرائیل کہتے تھے اور بعض ان میں بڑے بڑے تاجر تھے۔ یہ لوگ ۶۲۲ ؁ء میں جبکہ محمد یعنی اس زمانہ میں جبکہ سیدنا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کا اعلان کیا ہرات کے مشرقی علاقہ میں آباد تھے ایک قریش سردار خالد ابن ولید نامی اُن کے پاس رسالت کی خبر لے کر آیا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جھنڈے کے نیچے آئیں۔ پانچ چھ سردار منتخب ہو کر اس کے ساتھ ہوئے جن میں بڑا قیس تھا جس کا دوسرا نام کِش ہے۔ یہ لوگ مسلمان ہو کر اسلام کی راہ میں بڑی جان فشانی سے لڑے اور فتوحات حاصل کیں اور ان کی واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کو بہت تحفے دئیے اور ان پر برکت بھیجی اور پیشگوئی کی کہ اس قوم کو عروج حاصل ہوگا۔ اور بطور پیشگوئی فرمایا کہ ہمیشہ ان کے سردار مَلِکْ کے لقب سے مشہور ہوا کریں گے اور قیس کا نام عبد الرشید رکھ دیا اور پہطان کے لقب سے سرافراز

The races of Afganistan by, H.W.Bellows (Thacker&Spink&co.Calcutta.)



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/96/mode/1up

96

کیاؔ ۔ اور لفظ پہطان کی نسبت افغان مؤلّف یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ ایک سریانی لفظ ہے جس کے معنی جہاز کا سُکّان ہے اور چونکہ نو مسلم قیس اپنی قوم کی رہنمائی کے لئے جہاز کے سُکّان کی طرح تھا اس لئے پہطان کا خطاب اس کو ملا۔

اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ کس زمانہ میں غور کے افغان آگے بڑھے اور علاقہ قندھار میں جو آج کل ان کا وطن ہے آبا د ہوئے۔ غالباً اسلام کی پہلی صدی میں ایسا ظہور میں آیا ۔ افغانوں کا قول ہے کہ قیس نے خالد ابن ولید کی لڑکی سے نکاح کیا اور اس سے اس کے ہاں تین لڑکے پیدا ہوئے جن کا نام سرابان، پطان، اور گُرگشت ہیں۔ سرابان کے دو لڑکے تھے جن کا نام سچرج ُ ین اور کرش ُ ین ہیں۔ اور ان ہی کی اولاد افغان یعنی بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔ ایشیا کوچک کے لوگ اور مغربی اسلامی موء رخ افغانوں کو سلیمانی کہتے ہیں۔ اور کتاب سا ئیکلو پیڈیا آف انڈیا ایسٹرن اینڈ سدرن ایشیا مصنفہ ای بیلفور جلد سوم۱؂ میں لکھا ہے کہ قوم یہود ایشیا کے وسط جنوب اور مشرق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ پہلے زمانہ میں یہ لوگ ملک چین میں بکثرت آباد تھے اور مقام یہ چو(صدر مقام ضلع شو۲؂ ) ان کا معبد تھا۔ ڈاکٹر وولف ۳؂ جو بنی اسرائیل کے دس غائب شدہ فرقوں کی تلاش میں بہت مدت پھرتا رہا اس کی یہ رائے ہے کہ اگر افغان اولاد یعقوب میں سے ہیں تو وہ یہودا اور بن یمین قبیلوں میں سے ہیں۔ ایک اور روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی لوگ تاتار میں جلا وطن کر کے بھیجے گئے تھے اور بخارا۔ مرو اور خیوا کے متعلقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پرسٹر جان۴؂ شہنشاہ تاتار نے ایک خط میں جو بنام الکسیس کام نی نس شہنشاہ قسطنطنیہ ارسال کیا تھا اپنے ملک تاتار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دریا (آموں)کے پار بنی اسرائیل کے دس قبیلے ہیں جو اگرچہ اپنے بادشاہ کے ماتحت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت ہماری



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/97/mode/1up

97

رعیت ؔ اور غلام ہیں۔ ڈاکٹر مور۱؂ کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تاتاری قوم چوزن۲؂ یہودی الاصل ہیں۔ اور ان میں اب تک یہودی مذہب کے قدیم آثار پائے جاتے ہیں چنانچہ وہ ختنہ کی رسم ادا کرتے ہیں۔ افغانوں میں یہ روایت ہے کہ وہ دس گم شدہ بنی اسرائیلی قبائل ہیں۔ بادشاہ بخت نصر۳؂ نے یروشلم کی تباہی کے بعد گرفتار کر کے غور کے ملک میں بسایا جو بامیان کے نزدیک ہے اور وہ خالد بن ولید کے آنے سے پہلے برابر یہودی مذہب کے پابند رہے۔

افغان شکل و شباہت میں ہر طرح سے یہود نظر آتے ہیں اور ان ہی کی طرح چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بیوہ سے شادی کرتا ہے۔ ایک فرانسیسی سیّاح فرائر۴؂ نامی جب ہرات کے علاقہ میں سے گذر رہا تھا تو اس نے لکھا ہے کہ اس علاقہ میں بنی اسرائیل بکثرت ہیں اور اپنے یہودی مذہب کے ارکان کے ادا کرنے کی پوری آزادی انہیں حاصل ہے۔ ربی بن یمین ساکن شہر ٹولیڈو (سپین) بارھویں صدی عیسوی میں گم شدہ قبیلوں کی تلاش میں گھر سے نکلا۔ اس کا بیان ہے کہ یہ یہودی لوگ چین ایران اور تبت میں آباد ہیں۔ جوزی فس جس نے ۹۳ ء میں یہودیوں کی قدیم تاریخ لکھی ہے اپنی گیارھویں کتاب میں عزرا نبی کے ساتھ قید سے واپس جانے والے یہودیوں کے بیان کے ضمن میں بیان کرتا ہے کہ دس قبیلے دریائے فرات کے اس پار اب تک آباد ہیں اور ان کی تعداد شمار سے باہر ہے۔ (دریائے فرات سے اس پار سے مراد فارس اور مشرقی علاقے ہیں) اور سینٹ جروم جو پانچویں صدی عیسوی میں گذرا ہے ہو سیع نبی کا ذکر کرتے ہوئے اس معاملہ کے ثبوت میں حاشیہ پر لکھتا ہے کہ اس دن سے (بنی اسرائیل کے) دس فرقے شاہ پارتھیا یعنی پارس کے ماتحت ہیں اور اب تک قید سے رہا نہیں کئے گئے۔ اور اسی کتاب کی جلد اول میں لکھا ہے کہ کونٹ جورن سٹرنا۵؂ اپنی کتاب کے صفحہ ۲۳۳، ۲۳۴ میں تحریر کرتا ہے



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/98/mode/1up

98

کہؔ افغان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بخت نصر نے ہیکل یروشلم کی تباہی کے بعد بامیان کے علاقہ میں انہیں جلا وطن کر کے بھیج دیا۔ (بامیان کا علاقہ غور کے متصل اور افعانستان میں واقع ہے) اور کتاب اے نیرے ٹو آف اے وزٹ ٹو غزنی کابل افغانستان۔ مصنفہ جی ٹی ویگن ایف جی ایس۱؂ مطبوعہ ۱۸۴۰ ؁ء کے صفحہ ۱۶۶ میں لکھا ہے کہ کتاب مجمع الانساب سے ملا خدا داد نے پڑھ کر سنایا کہ یعقوب کا بڑا بیٹا یہودا تھا اس کا بیٹا اُسرک تھا۔ اُسرک کا بیٹا اکنور ۔ اکنور کا بیٹا معالب۔ معالب کا فرلائی۔ فرلائی کا بیٹا قیس تھا۔ قیس کا بیٹا طالوت۔ طالوت کا ارمیاہ۔ اور ارمیاہ کا بیٹا افغان تھا اس کی اولاد قوم افغان ہے اور اسی کے نام پر افغان کا نام مشہور ہوا۔ افغان بخت نصر کا ہم عصر تھا اور بنی اسرائیل کہلاتا تھا اور اُس کے چالیس بیٹے تھے۔ اس کی چونتیسویں پشت میں دو ہزار برس بعد وہ قیس ہوا جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانہ میں تھا۔ اس سے چونسٹھ نسلیں ہو لیں۔ سلم نامی افغان کا سب سے بڑا بیٹا اپنے وطن شام سے ہجرت کر کے غور مشکوہ کے علاقہ میں جو ہرات کے قریب ہے آباد ہوا۔ اس کی اولاد افغانستان میں پھیل گئی۔

اور کتاب اے سا ئیکلو پیڈیا آف جیوگرافی مرتبہ جیمز برائیس۲؂ ایف جی ایس مطبوعہ لندن ۱۸۵۶ ؁ء کے صفحہ۱۱ میں لکھا ہے کہ افغان لوگ اپنا سلسلہ نسب سال بادشاہ اسرائیل سے ملاتے ہیں اور اپنا نام بنی اسرائیل رکھتے ہیں۔ الگزنڈر ۳؂ برنس کا قول ہے کہ افغان یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ وہ یہودی الاصل ہیں۔ شاہ بابل نے انہیں قید کر کے غور کے علاقہ میں لا بسایا جو کابل سے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ لوگ ۶۲۲ ؁ء تک اپنے یہودی مذہب پر رہے۔ لیکن خالد بن عبد اللہ (غلطی سے ولید کی جگہ عبد اللہ لکھا ہوا ہے) نے اس قوم کے ایک سردار کی لڑکی سے بیاہ کر لیا اور اُن کو اس سال میں دین اسلام قبول کرایا۔



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/99/mode/1up

99

اورؔ کتاب ہسٹری آف افغانستان مصنفہ کرنیل جی بی میلسن۱؂ مطبوعہ لندن ۱۸۷۸ ؁ء صفحہ ۳۹ میں لکھا ہے کہ عبد اللہ خان ہراتی اور فرانسیسی سیّاح فرائر یانی سر ولیم جونز (جو ایک بڑا متبحّر عالم علوم شرقیہ گذرا ہے) اس بات پر متفق ہیں کہ افغان قوم بنی اسرائیلی الاصل ہیں اور دس گم شدہ فرقوں کی اولاد ہیں۔ اور کتاب ہسٹری آف دی افغانس مصنفہ جی پی فرائر۲؂ (فرانسیسی) مترجمہ کپتان ولیم جے سی مطبوعہ لندن ۱۸۵۸ ؁ء صفحہ ۱ میں لکھا ہے کہ شرقی مو ء رخوں کی کثرت رائے یہی ہے کہ افغان قوم بنی اسرائیل کے دس فرقوں کی اولاد سے ہیں اور یہی رائے افغانوں کی اپنی ہے۔ اور یہی موء رخ اس کتاب کے صفحہ۴ میں لکھتا ہے کہ افغانوں کے پاس اس بات کے ثبوت کے لئے ایک دلیل ہے جس کو وہ یوں پیش کرتے ہیں کہ جب نادر شاہ ہند کی فتح کے ارادہ سے پشاور پہنچا تو یوسف زئی قوم کے سرداروں نے اس کی خدمت میں ایک بائبل عبرانی زبان میں لکھی ہوئی پیش کی اور ایسا ہی کئی دوسری چیزیں پیش کیں جو ان کے خاندانوں میں اپنے قدیم مذہب کے رسوم ادا کرنے کے لئے محفوظ چلی آتی تھیں۔ اس کیمپ کے ساتھ یہودی بھی موجود تھے جب ان کو یہ چیزیں دکھلائی گئیں تو فوراً انہوں نے ان کو پہچان لیا اور پھر یہی مو ء رخ اپنی کتاب کے صفحہ چہارم کے بعد لکھتا ہے کہ عبداللہ خان ہراتی کی رائے میرے نزدیک بہت قابل اعتبار ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:۔ ملک طالوت (سال کے دو بیٹے تھے ایک کا نام افغان دوسرے کا نام جالوت۔ افغان اس قوم کا مورث اعلیٰ تھا۔ داؤد اور سلیمان کی حکومت کے بعد بنی اسرائیل میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور فرقے فرقے الگ الگ بن گئے۔ بخت نصر کے زمانہ تک یہی حالت رہی۔ بخت نصر نے چڑھائی کر کے ستر ہزار یہودی قتل کئے اور شہر تباہ کیا۔ اور باقی یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا۔ اس مصیبت کے بعد افغان کی اولاد خوف کے مارے جُودِیَاسے ملک عرب میں بھاگ کر جا بسے اور بہت عرصہ تک یہاں آباد رہے۔ لیکن چونکہ پانی اور زمین کی قلت تھی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/100/mode/1up

100

اور انسان اور حیوان کو تکلیف تھی اس لئے انہوں نے ہندوستان کی طرف چلے آنے کا ارادہ کیا۔ ابدالیوں کا ایک گروہ عرب میں پڑا رہا اور (حضرت) ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ان کے ایک سردار نے ان کا رشتہ خالد بن ولید سے قائم کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ایران اہل عرب کے قبضہ میں آیا تو یہ قوم عرب سے نکل کر ایران کے علاقوں فارس اور کرمان میں جا بسے۔ اور حملہ چنگیزخان تک یہیں بستے رہے۔ اس کے مظالم کی تاب نہ لاکر ابدالی فرقہ مکران سندھ اور ملتان کے راستے ہندوستان پہنچا۔ لیکن یہاں انہیں چین نصیب نہ ہوا (آخر کار) وہ کوہ سلیمان پر جا ٹھہرے۔ باقی ماندہ ابدالی فرقے کے لوگ بھی یہاں جمع ہو گئے۔ ان کے چوبیس فرقے تھے جو افغان کی اولاد میں سے تھے جس کے تین بیٹے تھے جن کے نام سرابند (سرابان) ارکش (گرگشت) کرلن (بطان) ان میں ہر ایک کے آٹھ فرزند ہوئے جن کے نام پر چوبیس قبیلے ہوئے۔ ان کے نام مع قبائل یہ ہیں:۔

سرابند کے بیٹے قبائل کے نام گرگشت(ارکش) کے بیٹے قبائل کے نام

ابدال ابدالی خلج خلجی غلزئی

یوسف یوسف زئی کاکر کاکری

بابور بابوری جمورین جمورینی

وزیر وزیری ستوریان ستوریانی

لوہان لوہانی پین پینی

برچ برچی کس کسی

خوگیان خوگیانی تکان تکانی

شران شرانی نصر نصری



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/101/mode/1up

101

کرلن کے بیٹے قبائل کرلن کے بیٹے قبائل

خٹکؔ خٹکی زاز زازی

سور سوری باب بابی

آفرید آفریدی بنگنیش بنگنیشی

طور طوری لنڈیپور لنڈیپوری

تَمَّ کَلامُہٗ


اور کتاب مخزن افغانی تالیف خواجہ نعمت اللہ ہراتی بعہد جہانگیر شاہ تالیف شدہ ۱۰۱۸ ؁ ہجری جس کو پروفیسر برنہارڈ ڈورن (خارکو یونیورسٹی) نے بمقام لندن ترجمہ کر کے ۱۸۳۶ ؁ء میں شائع کیا ہے اس کے مفصلہ ذیل ابواب میں یہ بیان ہے۔

باب اول میں بیان ’’تاریخ یعقوب اسرائیل ہے جس سے اس (افغان) قوم کا شجرہ نسب شروع ہوتا ہے۔

باب دوم میں مضمون تاریخ شاہ طالوت ہے۔ یعنی افغانوں کا شجرہ نسب طالوت سے ملایا گیا ہے۔

صفحہ ۲۲ و۲۳ میں لکھا ہے کہ طالوت کے دو بیٹے تھے۔ برخیاہ اور ارمیاہ۔ برخیاہ کا بیٹا آصف تھا اور ارمیاہ کا افغان۔ اور صفحہ ۲۴ میں لکھا ہے کہ افغان کے ۲۴ بیٹے تھے اور افغان کی اولاد کے برابر کوئی اور اسرائیلی قبیلہ میں نہ تھا۔ اور صفحہ ۶۵ میں لکھا ہے کہ بخت نصر نے تمام شام پر قبضہ کر لیا اور اقوام بنی اسرائیل کو جلا وطن کر کے غور، غزنی، کابل، قندہار اور کوہ فیروز کے کوہستانی علاقوں میں لا بسایا جہاں خاص کر آصف اور افغان کی اولاد رہ پڑی۔

معتبر تواریخ مثلًا تاریخ طبری، مجمع الانساب، گزیدہ جہاں کشائی، مطلع الانوار، معدن اکبر سے خلاصہ کر کے یہ کتاب بنائی گئی ہے۔ (دیکھو صفحہ۳ دیباچہ از مصنف)



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/102/mode/1up

102

بابؔ سوم میں یہ بیان ہے کہ بخت نصر نے جب بنی اسرائیل کو شام سے نکال دیا تو آصف اور افغان کی نسل کے چند قبائل عرب میں جاگزین ہوئے۔ اور عرب ان کو بنی اسرائیل اور بنی افغان کے ناموں سے نامزد کرتے تھے۔

اور اس کتاب کے صفحہ ۳۷و ۳۸ مصنف مجمع الانساب اور مستوفی مصنف تاریخ گزیدہ کے حوالہ سے تفصیلاً بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں خالد بن ولید نے ان افغانوں کی طرف دعوت اسلام کا پیغام بھیجا جو بخت نصر کے واقعہ کے بعد غور کے علاقہ ہی میں رہ پڑے تھے۔ افغان سردار بسر براہی قیس جو ۳۷ پشتوں کے بعد طالوت کی اولاد تھا حاضر خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔ قیس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرشید رکھا۔ (اس جگہ عبد الرشید قیس کا شجرہ نسب طالوت (سال) تک دیا ہے)۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرداروں کا نام پٹھان رکھا جس کے معنی سُکّان جہاز کے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد سردار واپس اپنے ملک میں آئے اور اسلام کی تبلیغ کی۔

اور اسی کتاب مخزن افغانی کے صفحہ ۶۳ میں لکھا ہے کہ بنی افغنہ یا بنی افغان ناموں کی نسبت فرید الدین احمد اپنی کتاب رسالہ انساب افغانیہ میں مفصلہ ذیل عبارت لکھتا ہے:۔ ’’بخت نصر مجوسی جب بنی اسرائیل اور شام کے علاقوں پر مستولی ہوا اور یروشلم کو تباہ کیا تو بنی اسرائیل کو قیدی اور غلام بنا کر جلا وطن کردیا اور اس قوم کے کئی قبیلے جو موسوی شریعت کے پابند تھے اپنے ساتھ لے گیا اور حکم دیا کہ وہ آبائی مذہب چھوڑ کر خدا کی بجائے اس کی پرستش کریں۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ بنا بریں بخت نصر نے نہایت عاقل اور فہیم لوگوں میں سے دو ہزار کو مار ڈالا اور باقیوں کے لئے حکم دیا کہ اس کے مقبوضات اور شام سے کہیں باہر چلے جائیں ۔ان کا ایک حصہ ایک سردار کے ماتحت بخت نصر کے مقبوضات سے نکل کر کوہستان



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/103/mode/1up

103

غورؔ میں چلا گیا اور یہاں ان کی اولاد رہ پڑی۔ دن بدن ان کی تعداد بڑھتی گئی اور لوگوں نے ان کو بنی اسرائیل بنی آصف اور بنی افغان کے ناموں سے موسوم کیا۔

صفحہ ۶۴ میں مصنف مذکور کا قول ہے کہ معتبر کتب مثلاً تاریخ افغانی، تاریخ غوری وغیرہ میں یہ دعویٰ درج ہے’’ افغان بہت زیادہ حصہ تو بنی اسرائیل ہیں اور کچھ حصہ قبطی‘‘۔ نیز ابوالفضل کا بیان ہے کہ بعض افغان اپنے آپ کو مصری الاصل سمجھتے ہیں اور یہ وجہ پیش کرتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل یروشلم سے مصر واپس گئے۔ اس فرقہ (یعنی افغان) نے ہندوستان کو نقل مقام کیا۔ اور صفحہ ۶۴ میں فرید الدین احمد افغان کے نام کی بابت یہ لکھتا ہے :۔ افغان نام کی نسبت بعض نے یہ لکھا ہے کہ (شام سے) جلا وطنی کے بعد جب وہ ہروقت اپنے وطن مالوف کا دل میں خیال لاتے تھے تو آہ و فغان کرتے تھے لہٰذا ان کا نام افغان ہوا اور یہی رائے سر جان ملکم کی ہے دیکھو ہسٹری آف پرشیا جلد۱ صفحہ ۱۰۱۔

اور صفحہ ۶۳ میں مہابت خان کا بیان ہے کہ ’’چوں ایشاں از توابع و لواحق سلیمان علیہ السلام اند بنا براں ایشاں را مردم عرب سلیمانی گویند‘‘۔

اور صفحہ ۶۵ میں لکھا ہے تقریباً تمام مشرقی موء رخوں کی یہی تحقیقات ہے کہ افغان قوم کا اپنا یہی اعتقاد ہے کہ وہ یہودی الاصل ہیں۔ اور اس رائے کو زمانہ حال کے بعض موء رخوں نے بھی اختیار کیا ہے یا غالباً صحیح سمجھا ہے.............اوریہ رواج کہ

افغان یہودیوں کے نام اپنے نام رکھتے ہیں بیشک افغانوں کے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے ہے (لیکن مترجم برنہارڈ دورن کا یہ خیال کوئی ثبوت نہیں رکھتا۔ پنجاب کے شمال و مغربی حصہ میں اکثر ایسی قومیں ہندی الاصل آباد ہیں جو آباد ہو گئی ہیں لیکن ان کے نام یہودی ناموں کی طرز پر ہرگز نہیں۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ہو جانے سے ایک قوم میں یہودی نام داخل نہیں ہوجاتے) ’’افغان کے خط و خال یہودیوں



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/104/mode/1up

104

سےؔ حیرت انگیز طور پر مشابہت رکھتے ہیں اور اس بات کو ان محققوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے جو افغانوں کے دعوائے یہودی الاصل ہونے پر کچھ التفات نہیں کرتے۔ اور یہی ایک ثبوت ہے جو اُن کے یہودی الاصل ہونے کے بارے میں مل سکتا ہے۔ سرجان ملکم کے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں:۔ ’’اگرچہ افغانوں کا (یہودیوں کی) معزز نسل سے ہونے کا دعویٰ بہت مشتبہ ہے۔ لیکن ان کی شکل و ظاہری خط و خال اور ان کے اکثر رسوم سے یہ امر صاف ظاہر ہے کہ وہ (افغان) فارسیوں، تاتاریوں اور ہندیوں سے ایک جدا قوم ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی بات اس بیان کو معتبر ٹھہراتی ہے جس کی مخالفت بہت سے قوی واقعات کرتے ہیں اور جس کا کوئی صاف ثبوت نہیں ملتا۔ اگر ایک قوم کی دوسری قوم کے ساتھ شکل و وضع میں مشابہت رکھنے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو کشمیری اپنے یہودیوں والے خط و خال کی وجہ سے یقیناً یقیناً یہودی الاصل ثابت ہوں گے اور اس بات کا صرف برنیر نے ہی نہیں بلکہ فارسٹر اور شاید دیگر محققوں نے ذکر کیا ہے‘‘۔ ............اگرچہ فارسٹر برنیر کی رائے کو تسلیم نہیں کرتا تاہم وہ اقرار کرتا ہے کہ جب وہ کشمیریوں میں تھا تو اس نے خیال کیا کہ وہ ایک یہودیوں کی قوم کے درمیان رہتا ہے۔

اور کتاب ڈکشنری آف جیوگرافی مرتبہ اے کے جانسٹن کے صفحہ ۲۵۰ میں کشمیر کے لفظ کے بیان میں یہ عبارت ہے:۔ یہاں کے باشندے دراز قد، قوی ہیکل، مردانہ شباہت والے، عورتیں مکمل اندام والیں، خوبصورت، بلندخمداربینی والے ،شکل و وضع میں بالکل یہودیوں کے

مشابہ ہیں۔

اور سول اینڈ ملٹری گزٹ (مطبوعہ ۲۳؍ نومبر۱۸۹۸ ؁ء صفحہ۴)میں بعنوان مضمون سواتی اور آفریدی (اقوام) لکھا ہے کہ ہمیں ایک اعلیٰ درجہ کا قیمتی اور دلچسپ مضمون ملا ہے جو برٹش ایسوسی ایشن کے ایک حال کے جلسہ میں ایسوسی ایشن مذکورہ کی شاخ متعلقہ تاریخ طبعی نوع انسان میں پیش کیا گیا ہے اور جو کمیٹی تحقیقات تاریخ



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 105

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/105/mode/1up

105

طبعیؔ انسان کے موسم سرما کے جلسہ میں ابھی سنایا جانا ہے۔ ہم وہ مکمل مضمون ذیل میں درج کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کی مغربی سرحد کے پٹھان یا پکٹان باشندوں کا حال قدیمی تاریخوں میں موجود ہے اور بہت سے فرقوں کا ذکر ہیرو ڈوٹس نے اور سکندر اعظم کے تاریخ نویسوں نے کیا ہے ۔وسطی زمانہ میں اس پہاڑ کا غیر آباد اور ویرانہ کا نام روہ تھا۔ اور اس علاقہ کے باشندوں کا نام رہیلہ تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہ رہیلے یا پٹھان قوم افغانان کے نام و نشان سے پہلے ان علاقوں میں آباد تھے۔ اب سارے افغان پٹھانوں میں شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ پٹھانی زبان یعنی پشتو بولتے ہیں۔ لیکن وہ ان سے کسی رشتہ کا اقرار نہیں کرتے۔ اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہم بنی اسرائیل ہیں یعنی ان فرقوں کی اولاد ہیں جن کو بخت نصر قید کر کے بابل لے گیا تھا۔ مگر سب نے پشتو زبان کو اختیار کر لیا ہے۔ اور سب اسی مجموعہ قوانین ملکی کو مانتے ہیں جس کا نام پکتان والی ہے اور جس کے بہت سے قواعد پرانی موسوی شریعت سے عجیب طور پر مشابہت رکھتے ہیں اور بعض اقوام راجپوت کے پرانے رسم و رواج سے بھی ملتے جلتے ہیں۔

۔۔۔ اگر ہم اسرائیلی آثار کو زیر نظر رکھ کر دیکھیں تو ظاہر ہوگا کہ پٹھانوں کی قومیں دو بڑے حصوں میں منقسم ہو سکتی ہیں۔ ۔۔۔ یعنی اول وہ فرقے ہندی الاصل ہیں جیسے وزیری، آفریدی، اورک زئی وغیرہ۔ دوسرے افغان جو سامی (SEMITIC ) ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور سرحد پر زیادہ آبادی انہی کی ہے۔ اور کم سے کم یہ ممکن ہے کہ پکٹان والی جو ایک غیر مکتوب ضابطہ قواعد ملکی ہے۔ سب کا مل کرتیار ہوا ہے اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ موسوی احکام راجپوتی رسوم سے ملے ہوئے ہیں جن کی ترمیم اسلامی رسوم نے کی ہے۔ وہ افغان جو اپنے تئیں درّانی کہلاتے ہیں اور جب سے کہ درّانی سلطنت کی بنیاد پڑی ہے یعنی ۱۵۰ سال سے اپنے تئیں درّانی ہی نامزد کرتے آئے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اصلاً اسرائیلی فرقوں کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل کش (قیس)



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 106

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/106/mode/1up

106

سے ؔ جاری ہوتی ہے جس کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پٹھان کے نام سے موسوم کیا۔ جس کے معنی سریانی زبان میں سُکّان کے ہیں کیونکہ اس نے لوگوں کو اسلام کی لہروں میں (کشتی کی طرح) چلانا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم قوم افغان کا قوم اسرائیل سے کوئی قدیمی رشتہ نہ مانیں تو ان اسرائیلی ناموں کی کوئی وجہ بیان کرنا ہمارے لئے مشکل ہوجاتا ہے جو عام طور پر رائج ہیں۔ اور بعض رسوم مثلاً عید فصح کے تہوارکے رائج ہونے کی وجہ بیان کرنا اور بھی ہمارے لئے دشوار ہوجاتا ہے۔ اور قوم افغان کی یوسف زئی شاخ اگر عید فصح کی حقیقت کو سمجھ کر نہیں مناتے تو کم سے کم ان کا تہوار عید فصح کی نہایت عجیب اور عمدہ نقل ہے۔ ایسا ہی اسرائیلی رشتہ نہ ماننے کی حالت میں ہم اس اصرار کی بھی کوئی وجہ نہیں بتلا سکتے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ افغانوں کو اس روایت کے بیان کرنے اور اس پر قائم رہنے میں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی صداقت کی کوئی اصلی بنیاد ضرور ہوگی۔ بلیو( BELLEW )کی رائے ہے کہ اسرائیلی رشتہ کا درحقیقت سچا ہونا ممکن ہے مگر وہ بیان کرتا ہے کہ افغانوں کی تین بڑی شاخوں میں سے جو اپنے تئیں قیس کی اولاد بیان کرتے ہیں کم سے کم ایک شاخ سارابورکے نام سے موسوم ہے اور یہ لفظ پشتو زبان میں اس نام کا ترجمہ ہے جو پرانے زمانے میں سورج بنسی راجپوتوں کا نام تھا جن کی نسبت یہ معلوم ہے کہ ان کی بستیاں مہا بھارت کی لڑائی میں چندر بنسی خاندان سے شکست کھا کر افغانستان میں آبسی تھیں۔ اس طرح معلوم ہوا کہ ممکن ہے کہ افغان بنی اسرائیل ہوں جو قدیمی راجپوتوں میں مل گئے ہوں اور ہمیشہ سے میری نظر میں افغانوں کے اصل و نسل کے مسئلہ کا صحیح حل نہایت ہی اغلب طور پر یہی معلوم ہوتا رہا ہے ۔ بہرنمط آج کل کے افغان روایت و تامل کی بنا پر اپنے تئیں برگزیدہ قوم یعنی ابراہیم کی اولاد میں سے شمار کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان تمام تحریرات کو جو نامی مؤلفوں کی کتابوں میں سے ہم نے لکھی ہیں یکجائی



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 107

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/107/mode/1up

107

طور ؔ پر تصور میں لانے سے ایک صادق کو یقین کامل ہو سکتا ہے کہ یہ قومیں جو افغان اور کشمیری اس ملک ہندوستان اور اس کے حدود اور نواح میں پائی جاتی ہیں دراصل بنی اسرائیل ہیں۔ اور ہم اس کتاب کے دوسرے حصہ میں انشاء اللہ زیادہ تر تفصیل سے اس بات کو ثابت کریں گے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے اس سفر دور دراز یعنی ہندوستان کے سفر کی علّت غائی یہی تھی کہ تا وہ اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں جو تمام اسرائیلی قوموں کو تبلیغ کا فرض ان کے ذمہ تھا جیسا کہ وہ انجیل میں اس بات کی طرف اشارہ بھی کرچکے ہیں۔پس اس حالت میں یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ ہندوستان اور کشمیر میں آئے ہوں۔ بلکہ تعجب اس بات میں ہے کہ بغیر ادا کرنے اپنے فرض منصبی کے وہ آسمان پر جا بیٹھے ہوں۔ اب ہم اس حصہ کو ختم کرتے ہیں۔

وَالسّلام علٰی مَنِ اتَّبع الھُدیٰ

المؤلف

خاکسار

میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود

از قادیان ضلع گورداسپور



Ruhani Khazain Volume 15. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۵- مسِیح ہندوستان میں: صفحہ 108

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=15#page/108/mode/1up
 
Top