• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 17 ۔تحفہ گولڑویہ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 17. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

35

الحمدلِلّٰہ والمنہّ

کہ یہ رسالہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور ان کے مریدوں اور ہمخیال لوگوں پرا تمام حجت کے لئے محض نصیحتًا للہ شائع کیا گیا ہے اور بغرض اس کے کہ عام لوگوں پر حق واضح ہو جائے اس رسالہ کے ساتھ پچاس۵۰ روپیہ کے انعام کا اشتہار بھی دیا گیا ہے جو اسی ٹائیٹل پیج کے دوسرے صفحہ پر مندرج ہے اور یہ رسالہ موسم بہ

تحفۂ گولڑویہّ

ہوکر

مطبع ضیاء الاسلام قادیان ضلع گورداسپور میں باہتمام

حکیم حافظ فضل الدین صاحب بھیروی مالک مطبع چھپکر یکم ستمبر ۱۹۰۲ء ؁ کو شائع ہوا

قیمت۱۰ محصول ۲؍ جلد۷۰۰ وی پی ۱ کل۱۳؍



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

36

اشتہار انعامی پچاس روپیہ

چونکہ میں اپنی کتاب انجام آتھم کے اخیر میں وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ کے ساتھ زبانی بحث نہیں کروں گا اس لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی درخواست زبانی بحث کی جو میرے پاس پہنچی میں کسی طرح اس کو منظور نہیں کر سکتا۔ افسوس کہ انہوں نے محض دھوکا دہی کے طور پر باوجود اس علم کے کہ میں ایسی زبانی بحثوں سے برکنار رہنے کے لئے جن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں ایسے مباحثات سے دور رہوں گا پھر بھی مجھ سے بحث کرنے کی درخواست کردی ۔ میں یقیناًجانتا ہوں کہ یہ ان کی درخواست محض اس ندامت سے بچنے کے لئے ہے کہ وہ اس اعجازی مقابلہ کے وقت جو عربی میں تفسیر لکھنے کا مقابلہ تھا اپنی نسبت یقین رکھتے تھے۔ گویا عوام کے خیالات کو اور طرف الٹا کر سُرخرو ہو گئے اور پردہ بنا رہا۔

ہر ایک دل خدا کے سامنے ہے اور ہر ایک سینہ اپنے گنہ کو محسوس کر لیتا ہے لیکن میں حق کی حمایت کی وجہ سے ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ جھوٹی سُرخروئی بھی اُن کے پاس رہ سکے اس لئے مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعًا کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اسی وجہ سے توٹال دیا لیکن ساتھ ہی ان کو یہ خیال بھی گذرے گا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہوں گے تبھی تو درخواست پیش کر دی اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے رد میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے ہی اس عہد ترک بحث نے اُن کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے۔ لہذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کرکے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کرکے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو وہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے پیر صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچا3س روپیہ انعام بطور فتح یابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دوں گا اور اگر پیر صاحب تحریر فرماویں تو میںیہ مبلغ پچاس روپیہ پہلے سے مولوی محمد حسین صاحب کے پاس جمع کرادوں گا۔ مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کرکے باضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالا طریق کی پابندی سے قسم کھا کران کو اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میرے اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر دیں۔ قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوگی صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے۔ پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے ردّ کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے۔ کیونکہ اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں ہیں۔

المشتہر مرزا غلام احمدؐ از قادیاں۔ یکم ستمبر ۱۹۰۲ء ؁



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

37

ضمیمہؔ تحفہ گولڑویہ

3

نحمدہ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم


3

آمِیْن

اشتہار انعامی پانسو روپیہ

بنام حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر۔ اور ایسا ہی اس اشتہار میں

یہ تمام لوگ بھی مخاطب ہیں جن کے نام ذیل میں درج ہیں۔

مولوی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی۔ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی۔ مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی۔ مولوی حافظ محمد یوسف صاحب بھوپالوی۔ مولوی تلطف حسین صاحب دہلوی۔ مولوی عبدالحق صاحب دہلوی صاحب تفسیر حقّانی۔ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی۔ مولوی محمدصدیق صاحب دیوبندی حال مدرس بچھرایوں ضلع مراد آباد۔ شیخ خلیل الرحمن صاحب جمالی سرساوہ ضلع سہارنپور۔ مولوی عبدالعزیز صاحب لدھیانہ۔ مولوی محمد حسن صاحب لدھیانہ۔ مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری۔ مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی ثم امرتسری۔ مولوی غلام رسول صاحب عرف رسل بابا۔ مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور۔ مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی لاہور۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

38

ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹرنہر لاہوری۔ منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ لاہور۔ منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ پنشنر۔ مولوی محمد حسن صاحب ابو الفیض ساکن بھین۔ مولوی سید عمر صاحب واعظ حیدرآباد۔ علماء ندوۃ الاسلام معرفت مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری ندوۃ العلماء۔ مولوی سلطان الدین صاحب جے پور ۔مولوی مسیح الزمان صاحب استاد نظام حیدرآباد دکن۔ مولوی عبدالواحد خان صاحب شاہجہانپور۔ مولوی اعزاز حسین خان صاحب شاہجہانپور۔ مولوی ریاست علی خانصاب شاہجہانپور۔ سید صوفی جان شاہ صاحب میرٹھ۔ مولوی اسحاق صاحب پٹیالہ۔ جمیع علماء کلکتہ و بمبئی و مدراس۔ جمیع سجادہ نشینان و مشائخ ہندوستان۔ جمیع اہل عقل و انصاف و تقویٰ و ایمان از قوم مسلمان۔

واضح ہو کہ حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہرنے اپنے نافہم اور غلط کارمولویوں کی تعلیم سے ایک مجلس میں بمقام لاہور جس میں مرزا خدا بخش صاحب مصاحب نواب محمد علی خاں صاحب اور میاں معراج الدین صاحب لاہوؔ ری اور مفتی محمد صادق صاحب اور صوفی محمد علی کلرک اور میاں چٹو صاحب لاہوری اور خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہوری اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم اور حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حکیم محمد حسین صاحب تاجر مرہم عیسیٰ اور میاں چراغ الدین صاحب کلرک اور مولوی یار محمد صاحب موجود تھے بڑے اصرار سے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے اور اس طرح پر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ ایسے افترا کے ساتھ تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔ یعنی افترا علی اللہ کے بعد اس قدر عمر پانا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہو سکتی اور بیان کیا کہ ایسے کئی لوگوں کا نام میں نظیراً پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا اور تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سناتے رہے کہ خداتعالیٰ کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کاذب تھے۔ غرض حافظ صاحب نے محض اپنے مشاہدہ کا حوالہ دے کر مذکورہ بالا دعویٰ پر زور دیا جس سے لازم آتا تھا کہ قرآن شریف کا وہ استدلال جو آیات مندرجہ ذیل میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے منجانب اللہ ہونے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

39

کے بارے میں ہے صحیح نہیں ہے اور گویا خدا تعالیٰ نے سراسر خلاف واقعہ اس حجت کو نصاریٰ اور یہودیوں اور مشرکین کے سامنے پیش کیا ہے اور گویا ائمہ اور مفسرین نے بھی محض نادانی سے اس دلیل کو مخالفین کے سامنے پیش کیا یہاں تک کہ شرح عقائد نسفی میں بھی کہ جو اہل سنت کے عقیدوں کے بارے میں ایک کتاب ہے عقیدہ کے رنگ میں اس دلیل کو لکھا ہے اور علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ استخفافِ قرآن یا دلیل قرآن کلمۂ کفر ہے۔ مگر نہ معلوم کہ حافظ صاحب کو کس تعصب نے اس بات پر آمادہ کر دیا کہ باوجود دعویٰ حفظ قرآن مفصلہ ذیل آیات کو بھول گئے اور وہ یہ ہیں۔ ۱؂۔ دیکھو سورۃ الحاقہ الجزو نمبر ۲۹ اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن کلام رسول کا ہے یعنی وحی کے ذریعہ سے اُس کو پہنچا ہے۔ اور یہ شاعر کا کلام نہیں مگر

چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں اور یہ کاہن کا کلام نہیںیعنی اس کا کلام نہیں جو جنّات سے کچھ تعلق رکھتا ہو۔ مگر تمہیں تدبر اور تذکر کا بہت کم حصہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو۔ تم نہیں سوچتے کہ کاہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے۔ جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوں کا ربّ ہے یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے ایسا ہی وہ تمہاری رُوحوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور اِسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اُس نے اس رسول کو بھیجا ہے۔ اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدانے میرے پروحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچانہ سکتا ۔یعنی اگر وہ ہم پر افتراء کرتا تو اس کی سزا موت تھی کیونکہ وہ اس صورت میں اپنے جھوٹے دعوے سے افترا اور کفر کی طرف بلا کر ضلالت کی موت سے ہلاک کرنا چاہتا تو اس کامرنا اس حادثہ سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

40

بہتر ہے کہ تمام دنیا اس کی مفتریانہ تعلیم سے ہلاک ہواس لئے قدیم سے ہماری یہی سنت ہے کہ ہم اُسی کو ہلاک کر دیتے ہیں جو دنیا کےؔ لئے ہلاکت کی راہیں پیش کرتا ہے اور جھوٹی تعلیم اور جھوٹے عقائد پیش کرکے مخلوق خدا کی روحانی موت چاہتا ہے اور خدا پر افتراکرکے گستاخی کرتا ہے۔

اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ہماری طرف سے نہ ہوتا تو ہم اس کو ہلاک کردیتے اور وہ ہر گز زندہ نہ رہ سکتا گو تم لوگ اس کے بچانے کے لئے کوشش بھی کرتے لیکن حافظ صاحب اِس دلیل کو نہیں مانتے اور فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تمام و کمال مدّت تیئیس برس کی تھی اور میں اس سے زیادہ مدت تک کے لوگ دکھا سکتا ہوں جنہوں نے جھوٹے دعوے نبوت اور رسالت کے کئے تھے اور باوجود جھوٹ بولنے اور خدا پر افترا کرنے کے وہ تیئیس برس سے زیادہ مدت تک زندہ رہے۔ لہٰذا حافظ صاحب کے نزدیک قرآن شریف کی یہ دلیل باطل اور ہیچ ہے اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی۔ مگر تعجب کہ جبکہ مولوی رحمت اللہ صاحب مرحوم اور مولوی سید آل حسن صاحب مرحوم نے اپنی کتاب ازالہ اوہام اور استفسار میں پادری فنڈل کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی تو پادری فنڈل صاحب کو اس کا جواب نہیں آیا تھا اور باوجود یکہ تواریخ کی ورق گردانی میں یہ لوگ بہت کچھ مہارت رکھتے ہیں مگر وہ اس دلیل کے توڑنے کے لئے کوئی نظیر پیش نہ کر سکا*اور

* پادری فنڈل صاحب نے اپنے میزان الحق میں صرف یہ جواب دیا تھا کہ مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں کئی کروڑ بت پرست موجود ہیں۔ لیکن یہ نہایت فضول جواب ہے کیونکہ بُت پرست لوگ بت پرستی میں اپنے وحی من اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ یہ نہیں کہتے کہ خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بت پرستی کو دنیا میں پھیلاؤ۔ وہ لوگ گمراہ ہیں نہ مفتری علی اللہ۔ یہ جواب امرمتنازعہ فیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ بحث تو دعویٰ نبوت اور افترا علی اللہ میں ہے نہ فقط ضلالت میں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

41

لاجواب رہ گیا۔ اور آج حافظ محمد یوسف صاحب مسلمانوں کے فرزند کہلا کر اس قرآنی دلیل سے انکار کرتے ہیں۔ اور یہ معاملہ صرف زبانی ہی نہیں رہا بلکہ ایک ایسی تحریر اس بارے میں ہمارے پاس موجود ہے جس پر حافظ صاحب کے دستخط ہیں جو انہوں نے محبی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کو اس عہد اقرار کے ساتھ دی ہے کہ ہم ایسے مفتریوں کا ثبوت دیں گے جنہوں نے خدا کے مامور یا نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر وہ اس دعویٰ کے بعد تیئیس برس سے زیادہ جیتے رہے۔ یادرہے کہ یہ صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے گروہ میں سے ہیں اور بڑے موَحد مشہور ہیں اور ان لوگوں کے عقائد کا بطور نمونہ یہ حال ہے جو ہم نے لکھا اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ قرآن کے دلائل پیش کردہ کی تکذیب قرآن کی تکذیب ہے۔ اور اگر قرآن شریف کی ایک دلیل کو ردّ کیا جائے تو امان اٹھ جائے گا اور اس سے لازم آئے گا کہ قرآن کے تمام دلائل جو توحید اور رسالت کے اثبات میں ہیں سب کے سب باطل اور ہیچ ہوں اور آج تو حافظ صاحب نے اس ردّ کے لئے یہ بیڑہ اٹھایا کہ میں ثابت کر تا ہوں کہ لوگوں نے تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ نبوت یا رسالت کے جھوٹے دعوے کئے اور پھر زندہ رہے اور کل شاید حافظ صاحب یہ بھی کہہ دیں کہ قرآن کی یہ دلیل بھی کہ 3 ۱؂ باطل ہے اور دعویٰ کریں کہ میں دکھلا سکتا ہوں کہ خدا کے سوا اور بھی چند ؔ خدا ہیں جو سچے ہیں مگر زمین و آسمان پھر بھی اب تک موجود ہیں۔ پس ایسے بہادر حافظ صاحب سے سب کچھ اُمید ہے لیکن ایک ایماندار کے بدن پر لرزہ شروع ہو جاتا ہے جب کوئی یہ بات زبان پر لاوے کہ فلاں بات جو قرآن میں ہے وہ خلاف واقعہ ہے یا فلاں دلیل قرآن کی باطل ہے بلکہ جس امر میں قرآن اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم پر زدّ پڑتی ہو ایمان دار کا کام نہیں کہ اس پلید پہلو کو اختیار کرے اور حافظ صاحب کی نوبت اس درجہ تک محض اس لئے پہنچ گئی کہ انہوں نے اپنے چند قدیم رفیقوں کی رفاقت کی وجہ سے میرے منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کا انکار مناسب سمجھا اور چونکہ دروغ گوکو خدا تعالیٰ اِسی جہان میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

42

ملزم اور شرمسار کر دیتا ہے اس لئے حافظ صاحب بھی اور منکروں کی طرح خدا کے الزام کے نیچے آگئے اور ایسا اتفاق ہوا کہ ایک مجلس میں جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں میری جماعت کے بعض لوگوں نے حافظ صاحب کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمشیر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگِ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا۔تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالماتِ الٰہیہ کا قریبًاتیس برس سے ہے اور اکیس برس سے براہین احمدیہ شائع ہے۔ پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ جبکہ خداتعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے مدعی رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور 33 ۱؂ کے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اسی طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود کاذب ہونے کے مہلت دے دی ہومگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کاذب ہونا محال ہے۔ پس جو مستلزم محال ہو وہ بھی محال۔ اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کے لئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیونکہ اس طرح پر اُس کی بادشاہت میں گڑبڑ پڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اُٹھ جاتی ہے۔ غرض جب میرے دعویٰ کی تائید میں یہ دلیل پیش کی گئی تو حافظ صاحب نے اِس دلیل سے سخت انکار کرکے اِس بات پر زور دیا کہ کاذب کا تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہنا جائز ہے اور کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے کاذبوں کی میں نظیر پیش کروں گا جو رسالت کا جھوٹا دعویٰ کرکے تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ رہے ہوں مگر اب تک کوئی نظیر پیش نہیں کی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

43

اور جن لوگوں کو اسلام کی کتابوں پر نظر ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آج تک علماء امت میں سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تیئیس۲۳ برس تک زندہ رہ سکتا ہے بلکہ یہ تو صریح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ اور کمال بے ادبی ہے اور خدا تعالیٰ کی پیش کردہ دلیل سے استخفاف ہے۔ ہاں اُن کا یہ حق تھا کہ مجھ سے اس کا ثبوت مانگتے کہ میرے دعویٰ مامورمن اللہ ہونے کی مدت تیئیس برس یا اس سے زیادہ اب تک ہو چکی ہے یا نہیں۔ مگرؔ حافظ صاحب نے مجھ سے یہ ثبوت نہیں مانگا کیونکہ حافظ صاحب بلکہ تمام علماءِ اسلام اور ہندو اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعویٰ ہے اور جس میں بہت سے مکالمات الٰہیہ درج ہیں اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گذر چکے ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً تیس برس سے یہ دعویٰ مکالماتِ الٰہیہ شائع کیا گیا ہے اور نیز الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جو میرے والد صاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیا تھا اور امرتسر میں ایک مہرکن سے کھدوایا گیا تھا وہ انگشتری اب تک موجود ہے اور وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے طیار کروائی اور براہین احمدیہ موجود ہے جس میں یہ الہام الیس اللّٰہ بکاف عبدہ لکھا گیا ہے اور جیسا کہ انگشتری سے ثابت ہوتا ہے یہ بھی چھبیس برس کا زمانہ ہے۔ غرض چونکہ یہ تیس سال تک کی مدت براہین احمدیہ سے ثابت ہوتی ہے اور کسی طرح مجال انکار نہیں۔ اور اسی براہین کا مولوی محمد حسین نے ریویو بھی لکھا تھا لہٰذا حافظ صاحب کی یہ مجال تو نہ ہوئی کہ اس امرکا انکا رکریں جو اکیس سال سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے ناچار قرآن شریف کی دلیل پر حملہ کر دیا کہ مثل مشہور ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا۔ سو ہم اس اشتہار میں حافظ محمد یوسف صاحب سے وہ نظیر طلب کرتے ہیں جس کے پیش کرنے کا انہوں نے اپنی دستخطی تحریر میں وعدہ کیا ہے۔ ہم یقیناًجانتے ہیں کہ قرآنی دلیل کبھی ٹوٹ نہیں سکتی۔ یہ خدا کی پیش کردہ دلیل ہے نہ کسی انسان کی۔ کئی کم بخت بد قسمت دُنیا میں آئے اور انہوں نے قرآن کی اس دلیل کو توڑنا چاہامگر آخر آپ ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

44

مگر یہ دلیل ٹوٹ نہ سکی۔ حافظ صاحب علم سے بے بہرہ ہیں اُن کو خبر نہیں کہ ہزار ہا نامی علماء اور اولیاء ہمیشہ اسی دلیل کو کفار کے سامنے پیش کرتے رہے اور کسی عیسائی یا یہودی کو طاقت نہ ہوئی کہ کسی ایسے شخص کا نشان دے جس نے افترا کے طور پر مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرکے زندگی کے تیئیس برس پورے کئے ہوں۔ پھر حافظ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایہ ہے کہ اِس دلیل کو توڑ سکیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی وجہ سے بعض جاہل اور نافہم مولوی میری ہلاکت کے لئے طرح طرح کے حیلے سوچتے رہے ہیں تا یہ مدت پوری نہ ہونی پاوے جیسا کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مسیح کو رفع سے بے نصیب ٹھہرانے کے لئے صلیب کا حیلہ سوچا تھا تا اس سے دلیل پکڑیں کہ عیسیٰ بن مریم اُن صادقوں میں سے نہیں ہے جن کا رفع الی اللہ ہوتا رہا ہے مگر خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے صلیب سے بچاؤں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا جیسا کہ ابراہیم اور دوسرے پاک نبیوں کا رفع ہوا۔ سو اس طرح ان لوگوں کے منصوبوں کے برخلاف خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں اسی۸۰ برس یا دو تین برس کم یا زیادہ تیری عمر کروں گا تا لوگ کمی عمر سے کاذب ہونے کا نتیجہ نہ نکال سکیں جیسا کہ یہودی صلیب سے نتیجہ عدم رفع کا نکالنا چاہتے تھے۔ اور خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں تمام خبیث مرضوں سے بھی تجھے بچاؤں گا جیسا کہ اندھا ہونا تا اس سے بھی کوئی بد نتیجہ نہ نکالیں۔* اور خدا نے مجھے اطلاع دی کہ بعض ان میں سے تیرے پر بد دُعائیں بھی کرتے رہیں گے مگر ان کی بد دعائیں میں انہی پر ڈالوں گا۔ اور درحقیقت لوگوں نے اس خیال سے کہ کسی طرح لو تقول کے نیچے مجھے لے آئیں منصوبہ بازیؔ میں کچھ کمی نہیں کی۔ بعض مولویوں نے قتل کے فتوے دیئے ۔بعض مولویوں نے جھوٹے قتل کے مقدمات بنانے کے لئے میرے پر گواہیاں دیں۔ بعض مولوی

* الہام الٰہی آنکھ کے بارے میں یہ ہے تنزل الرحمۃ علٰی ثلٰث الْعَیْنُ وعلی الاخریین۔ یعنی تیرے تین عضووں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی۔ ایک آنکھیں اور باقی دو اَور۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

45

میری موت کی جھوٹی پیشگوئیاں کرتے رہے۔ بعض مسجدوں میں میرے مرنے کے لئے ناک رگڑتے رہے بعض نے جیسا کہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسمٰعیل علیگڈہ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ اگر وہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گاکیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح پر اُن کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا۔ مگر پھر بھی یہ لوگ عبرت نہیں پکڑتے۔ پس کیا یہ ایک عظیم الشان معجزہ نہیں ہے کہ محی الدین لکھو کے والے نے میرے نسبت موت کا الہام شائع کیا وہ مر گیا ۔ مولوی اسمٰعیل نے شائع کیا وہ مر گیا۔ مولوی غلام دستگیر نے ایک کتاب تالیف کرکے اپنے مرنے سے میرا پہلے مرنا بڑے زور شور سے شائع کیا وہ مر گیا۔ پادری حمید اللہ پشاوری نے میری موت کی نسبت دس مہینہ کی میعاد رکھ کر پیشگوئی شائع کی وہ مر گیا۔ لیکھرام نے میری موت کی نسبت تین سال کی میعاد کی پیشگوئی کی وہ مر گیا۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا خدا تعالیٰ ہر طرح سے اپنے نشانوں کو مکمل کرے۔

میری نسبت جو کچھ ہمدردی قوم نے کی ہے وہ ظاہر ہے اور غیر قوموں کا بغض ایک طبعی امر ہے۔ ان لوگوں نے کونسا پہلو میرے تباہ کرنے کا اُٹھا رکھاکونسا ایذا کا منصوبہ ہے جو انتہا تک نہیں پہنچایا۔ کیا بد دعاؤں میں کچھ کسر رہی یا قتل کے فتوے نامکمل رہے یا ایذا اور توہین کے منصوبے کَمَا حَقّہٗ ظہور میں نہ آئے پھر وہ کونسا ہاتھ ہے جو مجھے بچاتا ہے۔ اگر میں کاذب ہوتا تو چاہئے تو یہ تھا کہ خدا خود میرے ہلاک کرنے کے لئے اسباب پیدا کرتا نہ یہ کہ وقتاً فوقتاً لوگ اسباب پیدا کریں اور خدا اُن اسباب کو معدوم کرتا رہے۔* کیا

* دیکھو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے میرے نابود کرنے کے لئے کیا کچھ ہاتھ پیر مارے اور محض فضول گوئی سے خدا سے لڑااور دعویٰ کیا کہ میں نے ہی اونچا کیا اور میں ہی گراؤں گا مگر وہ خود جانتا ہے کہ اس فضول گوئی کا انجام کیا ہوا افسوس کہ اُس نے اپنے اس کلمہ میں ایک صریح جھوٹ توزمانہ ماضی کی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

46

یہی کاذب کی نشانیاں ہوا کرتی ہیں کہ قرآن بھی اس کی گواہی دے اور آسمانی نشان بھی اسی کی تائید میں نازل ہوں۔ اور عقل بھی اُسی ؔ کی مؤید ہواور جو اس کی موت کے شائق ہوں وہی مرتے جائیں۔ میں ہر گز یقین نہیں کرتا کہ زمانہ نبوی کے بعد کسی اہل اللہ اور اہل حق کے مقابل پر کبھی کسی مخالف کو ایسی صاف اور صریح شکست اور ذلت پہنچی ہو جیسا کہ میرے دشمنوں کو میرے مقابل پر پہنچی ہے۔ اگر انہوں نے میری عزت پر حملہ کیا تو آخر آپ ہی بے عزت ہوئے اور اگر میری جان پر حملہ کرکے یہ کہا کہ اس شخص کے صدق اور کذب کا معیار یہ ہے کہ وہ ہم سے پہلے مرے گا تو پھر آپ ہی مر گئے۔ مولوی غلام دستگیر کی کتاب تو دور نہیں مدّت سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ دیکھو وہ کس دلیری سے لکھتا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا اور پھر آپ ہی مر گیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ میری موت کے شائق تھے اور انہوں نے خدا سے دعائیں کیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے آخر وہ مر گئے نہ ایک نہ دو بلکہ پانچ آدمی نے ایسا ہی کہا اور اِس دنیا کو چھوڑ گئے

نسبت بولا اور ایک آئندہ کی نسبت جھوٹی پیشگوئی کی۔ وہ کون تھا اور کیا چیز تھا جو مجھے اونچا کرتایہ خدا کا میرے پر احسان ہے اور اس کے بعد کسی کا بھی احسان نہیں۔ اوّل اُس نے مجھے ایک بڑے شریف خاندان میں پیدا کیا اور حسب نسب کے ہر ایک داغ سے بچایا پھر بعد میں میری حمایت میں آپ کھڑا ہوا افسوس ان لوگوں کی کہاں تک حالت پہنچ گئی ہے کہ ایسی خلاف واقعہ باتیں مُنہ پر لاتے ہیں جن کی کچھ بھی اصلیت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بدقسمت نے ہر ایک طور سے مجھ پر حملے کئے اور نامراد رہا لوگوں کو بیعت سے روکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزار ہا لوگ میری بیعت میں داخل ہو گئے۔ اقدام قتل کے جھوٹے مقدمہ میں پادریوں کا گواہ بن کر میری عزت پر حملہ کیامگر اسی وقت کرسی مانگنے کی تقریب سے اپنی نیت کا پھل پالیا ۔ میرے پرائیویٹ امور میں گندے اشتہار دئیے ان کا جواب خدانے پہلے سے دے رکھا ہے۔ میرے بیان کی حاجت نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/47/mode/1up

47

اس کا نتیجہ موجودہ مولویوں کے لئے جو محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی ثم امرتسری اور عبد الحق غزنوی ثم امرتسری اور مولوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور رشید احمد گنگوہی اور نذیر حسین دہلوی اور رسل بابا امرتسری اور منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر وغیر ہم کے لئے یہ تو نہ ہوا کہ اس اعجاز صریح سے یہ لوگ فائدہ اُٹھاتے اور خدا سے ڈرتے اور توبہ کرتے۔ ہاں ان لوگوں کی ان چند نمونوں کے بعد کمریں ٹوٹ گئیں اور اس قسم کی تحریروں سے ڈر گئے فلن یکتبوا بمثل ھٰذا بما تقدمت الامثال۔ یہ معجزہ کچھ تھوڑا نہیں تھا کہ جن لوگوں نے مدارفیصلہ جھوٹے کی موت رکھی تھی وہ میرے مرنے سے پہلے قبروں میں جا سوئے۔ اور میں نے ڈپٹی آتھم کے مباحثہ میں قریبًا ساٹھ آدمی کے روبرو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ سو آتھم بھی اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا۔ مجھے ان لوگوں کی حالتوں پر رحم آتا ہے کہ بخل کی وجہ سے کہاں تک اِن لوگوں کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ اگر کوئی نشان بھی طلب کریں تو کہتے ہیں کہ یہ دعا کرو کہ ہم سات دن میں مر جائیں۔ نہیں جانتے کہ خود تراشیدہ میعادوں کی خدا پیروی نہیں کرتا اُس نے فرمادیا ہے کہ 3 ۱؂۔ اور اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ 3۲؂۔ سو جبکہ سیدنا محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کی میعاد اپنی طرف سے پیش نہیں کر سکتے تومیں سات دن کا کیونکر دعویٰ کروں۔ ان نادان ظالموں سے مولوی غلام دستگیر اچھا رہا کہ اُس نے اپنے رسالہ میں کوئی میعاد نہیں لگائی۔ یہی دعا کی کہ یا الٰہی اگر میں مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب میں حق پر نہیں تو مجھے پہلے موت دے۔ اور اگر مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعویٰ میں حق پر نہیں تو اُسے مجھ سے پہلے موت دے۔ بعد اس کے بہت جلد خدا نے اس کو موت دے دی۔ دیکھو کیسا صفائی سے فیصلہ ہو گیا۔ اگر کسی کو اس فیصلہ کے ماننے میں تردّد ہو تو اس کو اختیار ہے کہ آپ خدا کے فیصلہ کو آزمائے لیکن ایسی شرارتیں چھوڑ دے جو آیت3



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/48/mode/1up

48

3 ۱؂ سے مخالف پڑی ہیں۔ شرارت کی حجت بازی سے صریح بے ایمانی کی بُو آتی ہے۔ ایسا ہی مولوی محمد اسمٰعیل نے صفائی سے خدا تعالیٰ کے روبرو یہ درخواست کی کہ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹا ہے وہ مر جائے۔ سو خدا نے اُس کو بھی جلد تر اس جہان سے رخصت کر دیا اور ان وفات یافتہ مولویوں کا ایسی دعاؤں کے بعد مرجانا ایک خدا ترس مسلمان کے لئے توکافی ہے مگر ایکؔ پلید دل سیاہ دل دنیا پرست کے لئے ہرگز کافی نہیں۔ بھلا علیگڑہ تو بہت دُور ہے اور شاید پنجاب کے کئی لوگ مولوی اسمٰعیل کے نام سے بھی ناواقف ہوں گے مگر قصور ضلع لاہور تو دُور نہیں اور ہزاروں اہل لاہور مولوی غلام دستگیر قصوری کو جانتے ہوں گے اور اُس کی یہ کتاب بھی انہوں نے پڑھی ہوگی تو کیوں خدا سے نہیں ڈرتے۔ کیا مرنا نہیں؟ کیا غلام دستگیر کی موت میں بھی لیکھرام کی موت کی طرح سازش کا الزام لگائیں گے۔ خدا کے جھوٹوں پر نہ ایک دم کے لئے *** ہے بلکہ قیامت تک *** ہے۔ کیا دُنیا کے کیڑے محض سازش اور منصوبہ سے خدا کے مقدس مامورین کی طرح کوئی قطعی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ ایک چور جو چوری کے لئے جاتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ وہ چوری میں کامیاب ہو یا ماخوذ ہو کر جیل خانہ میں جائے۔ پھر وہ اپنی کامیابی کی زور شور سے تمام دنیا کے سامنے دشمنوں کے سامنے کیا پیشگوئی کرے گا۔ مثلاً دیکھو کہ ایسی پُر زور پیشگوئی جو لیکھرام کے قتل کئے جانے کے بارے میں تھی جس کے ساتھ دن تاریخ وقت بیان کیا گیا تھاکیا کسی شریر بد چلن خونی کا کام ہے۔ غرض اِن مولویوں کی سمجھ پر کچھ ایسے پتھر پڑ گئے ہیں کہ کسی نشان سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ براہین احمدیہ میں قریب سولہ برس پہلے بیان کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ میری تائید میں خسوف کسوف کا نشان ظاہرکرے گالیکن جب وہ نشان ظاہر ہو گیا اور حدیث کی کتابوں سے بھی کُھل گیا کہ یہ ایک پیشگوئی تھی کہ مہدی کی شہادت کے لئے اس کے ظہورکے وقت میں رمضان میں خسوف کسوف ہوگا تو اِن مولویوں نے اس نشان کو بھی گاؤ خورد کر دیا اور حدیث سے مُنہ پھیر لیا۔ یہ بھی احادیث



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/49/mode/1up

49

میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں اونٹ ترک کئے جائیں گے اور قرآن شریف میں بھی وارد تھا کہ 3 ۱؂۔ اب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بڑی سرگرمی سے ریل طیّار ہو رہی ہے اور اونٹوں کے الوداع کا وقت آگیا ۔پھر اس نشان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں ستارہ ذو السنین نکلے گا۔ اب انگریزوں سے پوچھ لیجئے کہ مدت ہوئی کہ وہ ستارہ نکل چکا ۔اور یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح کے وقت میں طاعون پڑے گی حج روکا جائے گا۔ سو یہ تمام نشان ظہور میں آگئے۔ اب اگر مثلاً میرے لئے آسمان پر خسوف کسوف نہیں ہوا تو کسی اور مہدی کو پیدا کریں جو خدا کے الہام سے دعویٰ کرتا ہو کہ میرے لئے ہوا ہے۔ افسوس ان لوگوں کی حالتوں پر۔ ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی اور صدی پر بھی سترہ برس گذر گئے مگر ان کا مجدد اب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے۔ مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں۔ اگر خدا نہ چاہتا تو میں نہ آتا۔ بعض دفعہ میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ میں درخواست کروں کہ خدا مجھے اس عہدہ سے علیحدہ کرے اور میری جگہ کسی اور کو اس خدمت سے ممتاز فرمائے پر ساتھ ہی میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ اس سے زیادہ اور کوئی سخت گناہ نہیں کہ میں خدمت سپرد کردہ میں بُزدلی ظاہر کروں۔ جس قدر میں پیچھے ہٹنا چاہتا ہوں اُسی قدر خدا تعالیٰ مجھے کھینچ کر آگے لے آتا ہے۔ میرے پر ایسی رات کوئی کم گذرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں اگر چہ جو لوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اُسی کے مُنہ کی قسم ہے کہ میں اب بھی اُس کو دیکھ رہا ہوں۔ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے۔ اورسراؔ سربد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کانتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہود ااسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے۔ میں ہر روز اِس بات کے لئے چشم پُرآب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے۔ پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے۔ مگر میدان میں نکلنا کسی مخنّث کا کام نہیں۔ ہاں غلام دستگیر ہمارے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/50/mode/1up

50

ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا۔ اب اِن لوگوں میں سے اس کے مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے۔ اے لوگو! تم یقیناًسمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔ میں اس زندگی پر *** بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے۔ وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں سُستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں۔ انسان کیا ہے محض ایک کیڑا۔ اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ۔ پس کیونکر میں حیّ و قیّوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لئے ٹال دوں۔ جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اِسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔ خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم۔ پس یقیناًسمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو۔

اب اس اشتہار سے میرا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اور نشانوں میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/51/mode/1up

51

مخالفین پر حجت پوری کی ہے*۔ اِسی طرح مَیں چاہتا ہوں کہ آیت لو تقوّل کے متعلق بھی حجت پوری ہو جائے۔ اِسی جہت سے مَیں نے اِس اشتہار کو پانسو روپیہ کے انعام کے ساتھ شائع کیا ہے اور اگر تسلی نہ ہو تو میں یہ روپیہ کسی سرؔ کاری بنک میں جمع کرا سکتاہوں ۔اگر حافظ محمد یوسف صاحب اور اُن کے دوسرے ہم مشرب جن کے نام میں نے اس اشتہار میں لکھے ہیں اپنے اس دعویٰ میں صادق ہیں یعنی اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرکے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سُنا کر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تیئیس برس تک جو زمانۂ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے زندہ رہا ہے تو میں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے کہ مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسو روپیہ نقددے دوں گا۔ اور اگر ایسے لوگ کئی ہوں تو ان کا اختیار ہوگا کہ وہ روپیہ باہم تقسیم کر لیں۔ اس اشتہار کے نکلنے کی تاریخ سے پندرہ روز تک اُن کو مہلت ہے کہ دنیا میں تلاش کرکے ایسی

* اس زمانہ کے بعض نادان کئی دفعہ شکست کھا کر پھر مجھ سے حدیثوں کی رو سے بحث کرنا چاہتے ہیں یا بحث کرانے کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر افسوس کہ نہیں جانتے کہ جس حالت میں وہ اپنی چند ایسی حدیثوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح اور مخدوش ہیں اور نیز مخالف اُن کے اور حدیثیں بھی ہیں اور قرآن بھی ان حدیثوں کو جھوٹی ٹھہراتا ہے تو پھر میں ایسے روشن ثبوت کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں جس کی ایک طرف قرآن شریفؔ تائید کرتا ہے اور ایک طرف اس کی سچائی کی احادیث صحیحہ گواہ ہیں اور ایک طرف خدا کا وہ کلام گواہ ہے جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اور ایک طرف پہلی کتابیں گواہ ہیں اور ایک طرف عقل گواہ ہے۔ اور ایک طرف وہ صدہانشان گواہ ہیں جو میرے ہاتھ سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ پس حدیثوں کی بحث طریق تصفیہ نہیں ہے۔ خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں۔ اور جو شخص حَکم ہو کر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر ردّ کرے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/52/mode/1up

52

نظیر پیش کریں۔ افسوس کا مقام ہے کہ میرے دعویٰ کی نسبت جب میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا مخالفوں نے نہ آسمانی نشانوں سے فائدہ اٹھایا اور نہ زمینی نشانوں سے کچھ ہدایت حاصل کی۔ خدا نے ہر ایک پہلو سے نشان ظاہر فرمائے پر دنیا کے فرزندوں نے ان کو قبول نہ کیا۔ اب خدا کی اور ان لوگوں کی ایک کُشتی ہے یعنی خدا چاہتا ہے کہ اپنے بندہ کی جس کو اُس نے بھیجا ہے روشن دلائل اور نشانوں کے ساتھ سچائی ظاہر کرے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ تباہ ہو اس کا انجام بد ہو اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو اور اس کی جماعت متفرق اور نابود ہو تب یہ لوگ ہنسیں اور خوش ہوں اور ان لوگوں کو تمسخرسے دیکھیں جو اس سلسلہ کی حمایت میں تھے اور اپنے دل کو کہیں کہ تجھے مبارک ہو کہ آج تُونے اپنے دشمن کو ہلاک ہوتے دیکھا اور اس کی جماعت کو تتّر بتّر ہوتے مشاہدہ کر لیا۔ مگر کیا اُن کی مرادیں پوری ہو جائیں گی اور کیا ایسا خوشی کا دن اُن پر آئے گا؟ اس کا یہی جواب ہے کہ اگر اُن کے امثال پر آیا تھا تو ان پر بھی آئے گا۔ ابو جہل نے جب بدر کی لڑائی میں یہ دُعا کی تھی کہ اللّھم من کان منا کاذبا فاحنہ فی ھٰذا الموطن۔ یعنی اے خدا ہم دونوں میں سے جو محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور مَیں ہوں جو شخص تیری نظر میں جھوٹا ہے اُس کو اسی موقع قتال میں ہلاک کر۔ تو کیا اِس دُعا کے وقت اُس کو گمان تھا کہ مَیں جھوٹا ہوں؟ اور جب لیکھرام نے کہا کہ میری بھی مرزا غلام احمد کی موت کی نسبت ایسی ہی پیشگوئی ہے جیسا کہ اِس کی ۔اور میری پیشگوئی پہلے پوری ہو جائے گی اور وہ مرے گا۔* تو کیا اُس کو اس وقت اپنی نسبت گمان

* ایسا ہی جب مولوی غلام دستگیر قصوری نے کتاب تالیف کرکے تمام پنجاب میں مشہور کر دیا تھا کہ مَیں نے یہ طریق فیصلہ قرار دے دیا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرجائے گا تو کیا اُس کو خبر تھی کہ یہی فیصلہ اس کے لئے *** کا نشانہ ہو جائے گا۔ اور وہ پہلے مر کر دوسرے ہم مشربوں کا بھی منہ کالا کرے گا اور آئندہ ایسے مقابلات میں اُن کے مُنہ پر مہر لگا دے گا اور بُزدل بنا دے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/53/mode/1up

53

تھا کہ میں جھوٹا ہوں؟ پس منکر تو دنیا میں ہوتے ہیںؔ پر بڑا بد بخت وہ منکر ہے جو مرنے سے پہلے معلوم نہ کر سکے کہ میں جھوٹا ہوں۔ پس کیا خدا پہلے منکروں کے وقت میں قادر تھا اور اب نہیں؟ نعوذ باللہ ہرگز ایسا نہیں بلکہ ہرایک جو زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا کہ آخر خدا غالب ہوگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ وہ خدا جس کا قوی ہاتھ زمینوں اور آسمانوں اور اُن سب چیزوں کو جو اُن میں ہیں تھامے ہوئے ہے وہ کب انسان کے ارادوں سے مغلوب ہو سکتا ہے۔ اور آخر ایک دن آتا ہے جو وہ فیصلہ کرتا ہے۔ پس صادقوں کی یہی نشانی ہے کہ انجام انہی کا ہوتا ہے۔ خدا اپنی تجلیات کے ساتھ اُن کے دل پر نزول کرتا ہے پس کیونکر وہ عمارت منہدم ہو سکے جس میں وہ حقیقی بادشاہ فروکش ہے۔ ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں اور مکر سوچو جس قدر چاہو۔ پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اس کا ہاتھ غالب ہے۔ نادان کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے غالب ہو جاؤں گا مگر خدا کہتا ہے کہ اے *** دیکھ میں تیرے سارے منصوبے خاک میں ملا دوں گا۔ اگر خدا چاہتا تو ان مخالف مولویوں اور ان کے پیروؤں کو آنکھیں بخشتا۔ اور وہ ان وقتوں اور موسموں کو پہچان لیتے جن میں خدا کے مسیح کا آنا ضروری تھا۔ لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے گا وہ اُس کو کافر قرار دیں گے اور اُس کے قتل کے لئے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دیں کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔ سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔ افسوس یہ لوگ سوچتے نہیں کہ اگر یہ دعویٰ خدا کے امر اور ارادہ سے نہیں تھاتو کیوں اس مدعی میں پاک اور صادق نبیوں کی طرح بہت سے سچائی کے دلائل جمع ہو گئے۔ کیا وہ رات ان کے لئے ماتم کی رات نہیں تھی جس میں میرے دعویٰ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/54/mode/1up

54

کے وقت رمضان میں خسوف کسوف عین پیشگوئی کی تاریخوں میں وقوع میں آیا۔ کیا وہ دن اُن پر مصیبت کا دن نہیں تھا جس میں لیکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی۔ خدانے بارش کی طرح نشان بر سائے مگر ان لوگوں نے آنکھیں بند کر لیں تا ایسا نہ ہو کہ دیکھیں اور ایمان لائیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ یہ دعویٰ غیر وقت پر نہیں بلکہ عین صدی کے سر پر اور عین ضرورت کے دنوں میں ظہور میں آیا اور یہ امر قدیم سے اور جب سے کہ بنی آدم پیدا ہوئے سنت اللہ میں داخل ہے کہ عظیم الشان مصلح صدی کے سر پر اور عین ضرورت کے وقت میں آیا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد ساتویں صدی کے سر پر جبکہ تمام دنیا تاریکی میں پڑی تھی ظہور فرما ہوئے اور جب سات کو دگنا کیا جائے تو چودہ ہوتے ہیں لہٰذا چودھویں صدی کا سر مسیح موعود کے لئے مقدر تھا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جس قدر قوموں میں فساد اور بگاڑ حضرت مسیح کے زمانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پیدا ہو گیا تھا اس فساد سے وہ فساد دو چند ہے جو مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگا۔ اور جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں خدا تعالیٰ نے ایک بڑا اصول جو قرآن شریف میں قائم کیا تھا اور اسی کے ساتھ نصاریٰ اور یہودیوں پر حجت قائم کی تھی یہ تھا کہ خدا تعالیٰ اس کاذب کو جو نبوت یا رسالت اور مامور من اللہ ہونے کا جھوؔ ٹا دعویٰ کرے مہلت نہیں دیتا اور ہلاک کرتا ہے۔ پس ہمارے مخالف مولویوں کی یہ کیسی ایمانداری ہے کہ مُنہ سے تو قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں مگر اس کے پیش کردہ دلائل کو ردّ کرتے ہیں۔ اگر وہ قرآن شریف پر ایمان لاکر اسی اصول کو میرے صادق یا کاذب ہونے کا معیار ٹھہراتے تو جلد تر حق کو پالیتے۔ لیکن میری مخالفت کے لئے اب وہ قرآن شریف کے اس اصول کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے کہ میں خدا کا نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہوں جس سے خدا ہم کلام ہو کر اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے وقتاًفوقتاً راہِ راست کی حقیقتیں اس پر ظاہر کرتا ہے۔ اور اس دعوے پر تیئیس یا پچیس برس گذر جائیں یعنی وہ میعاد گذر جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/55/mode/1up

55

میعاد تھی۔ اور وہ شخص اس مدت تک فوت نہ ہو اور نہ قتل کیا جائے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ شخص سچا نبی یا سچارسول یا خدا کی طرف سے سچا مصلح اور مجدد ہے اور حقیقت میں خدا اس سے ہم کلام ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ کلمہ کفر ہے کیونکہ اس سے خدا کے کلام کی تکذیب و توہین لازم آتی ہے۔ ہر ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالتِ حقّہ کے ثابت کرنے کے لئے اسی استدلال کو پکڑا ہے کہ اگر یہ شخص خدا تعالیٰ پر افترا کرتا تو میں اس کو ہلاک کر دیتا اور تمام علماء جانتے ہیں کہ خدا کی دلیل پیش کردہ سے استخفاف کرنا بالا تفاق کفر ہے کیونکہ اس دلیل پر ٹھٹھا مارنا جو خدا نے قرآن اور رسول کی حقیت پر پیش کی ہے مستلزم تکذیب کتاب اللہ و رسول اللہ ہے اور وہ صریح کفر ہے۔ مگر ان لوگوں پر کیا افسوس کیا جائے۔ شائد ان لوگوں کے نزدیک خدا تعالیٰ پر افتراکرنا جائز ہے اور ایک بدظن کہہ سکتا ہے کہ شائد یہ تمام اصرار حافظ محمد یوسف صاحب کا اور ان کا ہر مجلس میں بار بار یہ کہنا کہ ایک انسان تیئیس برس تک خدا تعالیٰ پر افترا کر کے ہلاک نہیں ہوتا اس کا یہی باعث ہو کہ انہوں نے نعوذباللہ چند افترا خداتعالیٰ پر کئے ہوں اور کہا ہو کہ مجھے یہ خواب آئی یا مجھے یہ الہام ہوا اور پھر اب تک ہلاک نہ ہوئے تو دل میں یہ سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا اپنے رسول کریم کی نسبت یہ فرمانا کہ اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو ہم اس کی رگِ جان کاٹ دیتے یہ بھی صحیح نہیں ہے*۔ اور خیال کیا کہ ہماری رگِ جان خدا نے کیوں نہ کاٹ دی اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت رسولوں اور نبیوں اور مامورین کی نسبت ہے جو کروڑہا انسانوں کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں اور جن کے افترا سے دنیا تباہ ہوتی ہے لیکن ایک ایسا شخص جو اپنے تئیں مامور من اللہ

* ہمیں حافظ صاحب کی ذات پر ہرگز یہ امید نہیں کہ نعوذ باللہ کبھی انہوں نے خدا پر افترا کیا ہو اور پھر کوئی سزا نہ پانے کی وجہ سے یہ عقیدہ ہو گیا ہو۔ ہمارا ایمان ہے کہ خدا پر افترا کرنا پلید طبع لوگوں کا کام ہے اور آخروہ ہلاک کئے جاتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/56/mode/1up

56

ہونے کا دعویٰ کرکے قوم کا مصلح قرار نہیں دیتا اور نہ نبوت اور رسالت کا مدعی بنتا ہے اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتلانے کے لئے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اور جھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔ ایسا خبیث اس لائق نہیں کہ خدا اس کو یہ عزت دے کہ تُونے اگر میرے پر افترا کیا تو میں تجھے ہلاک کر دوں گا بلکہ وہ بوجہ اپنی نہایت درجہ کی ذلّت کے قابل التفات نہیں کوئی شخص اُس کی پیروی نہیں ؔ کرتا کوئی اُس کو نبی یا رسول یا مامور من اللہ نہیں سمجھتا۔ ماسوا اس کے یہ بھی ثابت کرنا چاہئے کہ اِس مفتریانہ عادت پر برابر تیئیس برس گذر گئے۔ ہمیں حافظ محمد یوسف صاحب کی بہت کچھ واقفیت نہیں مگر یہ بھی امید نہیں۔ خدا اُن کے اندرونی اعمال بہتر جانتا ہے۔ اُن کے دو قول تو ہمیں یاد ہیں اور سُنا ہے کہ اب ان سے وہ انکار کرتے ہیں (۱)ایک یہ کہ چند سال کا عرصہ گذرا ہے کہ بڑے بڑے جلسوں میں انہوں نے بیان کیا تھا کہ مولوی عبداللہ غزنوی نے میرے پاس بیان کیا کہ آسمان سے ایک نور قادیاں پر گرا اور میری اولاد اس سے بے نصیب رہ گئی۔ (۲) دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانی تمثل کے طور پر ظاہر ہو کر اُن کو کہا کہ مرزا غلام احمد حق پر ہے کیوں لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ اگر حافظ صاحب ان دو واقعات سے اب انکار کرتے ہیں جن کو بار بار بہت سے لوگوں کے پاس بیان کر چکے ہیں تو نعوذ باللہ بے شک انہوں نے خدا تعالیٰ پر افترا کیاہے*۔ کیونکہ جو شخص سچ کہتا ہے اگر وہ مر بھی جائے تب بھی انکار نہیں کر سکتا

* میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ حافظ صاحب ان ہر دو واقعات سے انکار کرتے ہیں۔ ان واقعات کا گواہ نہ صرف میں ہوں بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت گواہ ہے اور کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں ان کی زبانی مولوی عبداللہ صاحب کا کشف درج ہو چکا ہے۔ میں تو یقیناًجانتا ہوں کہ حافظ صاحب ایسا کذب صریح ہر گز زبان پر نہیں لائیں گے گو قوم کی طرف سے ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں۔ اُن کے بھائی محمد یعقوب نے تو انکار نہیں کیا تو وہ کیونکر کریں گے۔ جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/57/mode/1up

57

جیسا کہ اُن کے بھائی محمد یعقوب نے اب بھی صاف گواہی دیدی ہے کہ ایک خواب کی تعبیر میں مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے فرمایا تھا کہ وہ نور جو دنیا کو روشن کرے گا وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ حافظ صاحب بھی بار بار ان دونوں قصوں کو بیان کرتے تھے اور ہنوز وہ ایسے پیر فرتوت نہیں ہوئے تا یہ خیال کیا جائے کہ پیرانہ سالی کے تقاضا سے قوتِ حافظہ جاتی رہی اور آٹھ سال سے زیادہ مدت ہو گئی جب میں حافظ صاحب کی زبانی مولوی عبد اللہ صاحب کے مذکورہ بالا کشف کو ازالہ اوہام میں شائع کر چکا ہوں۔ کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ میں ایک جھوٹی بات اپنی طرف سے لکھ دیتا اور حافظ صاحب اس کتاب کو پڑھ کر پھر خاموش رہتے ۔کچھ عقل و فکر میں نہیں آتا کہ حافظ صاحب کو کیا ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مصلحت سے عمدًا گواہی کو چھپاتے ہیں اور نیک نیتی سے ارادہ رکھتے ہیں کہ کسی اور موقع پر اس گواہی کو ظاہر کر دوں گا مگر زندگی کتنے روز ہے؟ اب بھی اظہار کا وقت ہے۔ انسان کو اس سے کیا فائدہ کہ اپنی جسمانی زندگی کے لئے اپنی رُوحانی زندگی پر چُھری پھیر دے۔ میں نے بہت دفعہ حافظ صاحب سے یہ بات سُنی تھی کہ وہ میرے مصدقین میں سے ہیں اور مکذّب کے ساتھ مبا ہلہ کرنے کو تیار ہیں اور اسی میں بہت سا حصہ اُن کی عمر کا گذر گیا اور اس کی تائید میں وہ اپنی خوابیں سُناتے رہے اور بعض مخالفوں سے انہوں نے مباہلہ بھی کیا۔ مگر کیوں پھر دنیا کی طرف جھک گئے لیکن ہم اب تک اس بات سے نومید نہیں ہیں کہ خدا ان کی آنکھیں کھولے اور یہ امید باقی ہے جب تک کہ وہ اسی حالت میں فوت نہ ہو جائیں۔

اورؔ یاد رہے کہ خاص موجب اس اشتہار کے شائع کرنے کا وہی ہیں کیونکہ ان دنوں میں سب سے پہلے انہی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن کی یہ دلیل کہ ’’اگر یہ نبی جھوٹے طور پر وحی کا دعویٰ کرتا تو میں اس کو ہلاک کر دیتا‘‘ یہ کچھ چیز نہیں ہے بلکہ بہتیرے ایسے مفتری دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے تیئیس برس سے بھی زیادہ مدت تک نبوت یا رسالت یا مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرکے خدا پر افتراکیا اور اب تک زندہ موجود



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/58/mode/1up

58

ہیں۔ حافظ صاحب کا یہ قول ایسا ہے کہ کوئی مومن اس کی برداشت نہیں کرے گا مگر وہی جس کے دل پر خدا کی *** ہو۔ کیا خدا کا کلام جھوٹا ہے؟ و من اظلم من الذی کذب کتاب اللّٰہ الا ان قول اللّٰہ حق والا ان لعنۃ اللّٰہ علی المکذّبین۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ اُس نے منجملہ اور نشانوں کے یہ نشان بھی میرے لئے دکھلایا کہ میرے وحی اللہ پانے کے دن سیدنا محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے دنوں سے برابر کئے جب سے کہ دنیا شروع ہوئی ایک انسان بھی بطور نظیر نہیں ملے گا جس نے ہمارے سید و سردار نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی طرح تیئیس برس پائے ہوں اور پھر وحی اللہ کے دعوے میں جھوٹا ہو یہ خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص عزت دی ہے جو اُن کے زمانہ نبوت کو بھی سچائی کا معیار ٹھہرا دیا ہے۔ پس اے مومنو! اگر تم ایک ایسے شخص کو پاؤ جو مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور تم پر ثابت ہو جائے کہ وحی اللہ پانے کے دعوے پر تیئیس برس کا عرصہ گذر گیا اور وہ متواتر اس عرصہ تک وحی اللہ پانے کا دعویٰ کرتا رہا اور وہ دعویٰ اس کی شائع کردہ تحریروں سے ثابت ہوتا رہا تو یقیناًسمجھ لو کہ وہ خدا کی طرف سے (ہے)۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ ہمارے سیدو مولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اللہ پانے کی مدّت اُس شخص کو مل سکے جس شخص کو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے۔ ہاں اس بات کا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ درحقیقت اس شخص نے وحی اللہ پانے کے دعویٰ میں تیئیس برس کی مدّت حاصل کرلی اور اِس مدّت میں اخیر تک کبھی خاموش نہیں رہا اور نہ اس دعویٰ سے دست بردار ہوا۔ سو اس اُمت میں وہ ایک شخص میں ہی ہوں جس کو اپنے نبی کریم کے نمونہ پر وحی اللہ پانے میں تیئیس برس کی مدّت دی گئی اور تیئیس برس تک برابر یہ سلسلہ وحی کا جاری رکھا گیا۔ اِس کے ثبوت کے لئے اوّل میں براہین احمدیہ کے وہ مکالمات الٰہیہ لکھتا ہوں جو اکیس برس سے براہین احمدیہ میں چھپ کر شائع ہوئے اور سات آٹھ برس پہلے زبانی طور پر شائع ہوتے رہے جن کی گواہی خود براہین احمدیہ سے ثابت ہے اور پھر اس کے بعد چند وہ مکالماتِ الٰہیہ لکھوں گا جو براہین احمدیہ کے بعد



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/59/mode/1up

59

وقتاً فوقتاً دوسری کتابوں کے ذریعہ سے شائع ہوتے رہے۔ سو براہین احمدیہ میں یہ کلمات اللہ درج ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوئے اور میں صرف نمونہ کے طور پر اختصار کرکے لکھتا ہوں۔ مفصل دیکھنے کے لئے براہین موجود ہے۔

وہ مکالماتِ الٰہیہ جن سے مجھے مشرف کیا گیا

اور براہین احمدیہ میں درج ہیں

بشریٰ لک احمد*ی۔ انت مرادی ومعی۔ غرست لک قدرتی بیدی۔ سرّک سرّی۔ انت وجیہ فی حضرتی۔ اخترتک لنفسی۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و ؔ تعر ف بین الناس۔ یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک۔ بورکت یا احمد وکان مابارک اللّٰہ فیک حقًّافیک۔ الرحمٰن علم القراٰن لتنذر قومًاما انذر آباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین۔ قل انی امرت وانا اوّل المؤمنین۔ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔ ویمکرون ویمکراللّٰہ واللّٰہ خیرالماکرین۔ و ماکان اللّٰہ لیترکک حتی یمیز الخبیث من الطیب۔ وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین۔ وانک الیوم لدینا مکین امین۔ وانک من المنصورین۔ وانت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین۔ یا احمد اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ ھٰذا من رحمۃ ربک لیکون اٰیۃ للمؤمنین۔ اردت ان استخلف فخلقت آدم لیقیم الشریعۃ ویحی الدین۔ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء۔ وجیہ فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین۔ کنت کنزًا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ ولنجعلہ آیۃ للناس ورحمۃ منّا وکان امرًا مقضیّا۔ یا عیسٰی انی متوفیک ورافعک الیّ ومطھرک من الذین کفروا۔ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو الٰی یوم القیامۃ ثلۃ من الاوّلین وثلۃ من الآخرین۔ یخوفونک من دونہ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ

* بشرٰی لک احمدی کا الہام اس مقام کے علاوہ روحانی خزائن جلد نمبر۱۷ کے صفحہ ۴۱۰ پر بھی ہے۔ جبکہ روحانی خزائن جلد نمبر۱ کے صفحہ ۶۰۹۔ روحانی خزائن جلدنمبر۷ صفحہ۲۳ اور روحانی خزائن جلدنمبر۲۲ صفحہ ۸۲ پر بشرٰی لک یااحمدی درج ہے۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/60/mode/1up

60

ولولم یعصمک الناس۔ وکان ربک قدیرا۔ یحمدک اللّٰہ من عرشہٖ نحمدک ونصلی۔ و اناکفیناک المستھزئین۔ وقالوا ان ھوالا افک انفترٰی۔ وما سمعنا بھٰذا فی اٰبائنا الاولین۔ ولقد کرمنا بنی اٰدم وفضّلنا بعضھم علی بعض کذالک لتکون اٰیۃ للمؤمنین۔ وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون۔ وقالوا انّٰی لک ھٰذا۔ ان ھٰذا الاسحریؤثر۔ وان یروا آیۃ یعرضوا ویقولوا سحرمستمر۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی۔ واللّٰہ غالب علٰی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون۔ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ لامبدل لکلمات اللّٰہ۔ والذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔ وان یتخذونک الا ھزوا۔ اھٰذا الذی بعث اللّٰہ وینظرون الیک وھم لا یبصرون۔ واذ یمکربک الذی کفّر۔ اوقدلی یاھامان لعلی اطلع علی الٰہ موسٰی وانی لاظنّہ من الکاذبین۔ تبّت یدا ابی لھب وتبّ۔ ما کان لہ ان یدخل فیھا الاخائفًا۔ وما اصابک فمن اللّٰہ۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم۔ الاانھافتنۃ من اللّہ لیحبّ حبّا جمّا۔ حبّا من اللّٰہ العزیز الاکرم۔ عطاءً ا غیر مجذوذ۔ وَفِی اللّٰہِ اجرک ویرضی عنک ربک ویتمّ اسمک۔ وعسٰی ان تحبّوا شیئا وھو شرّلکم وعسٰی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم واللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون۔*

ترجمہ۔اے میرے احمد! تجھے بشارت ہو تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔

* اس قدر الہامات ہم نے براہین احمدیہ سے بطور اختصار لکھے ہیں۔ اور چونکہ کئی دفعہ کئی ترتیبوں کے رنگ میں یہ الہامات ہو چکے ہیں اس لئے فقرات جوڑنے میں ایک خاص ترتیب کا لحاظ نہیں ہر ایک ترتیب فہم ملہم کے مطابق الہامی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/61/mode/1up

61

میں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا۔ تیرا بھید میرا بھید ہے اور تو میری درگاہ میں وجیہ ہے۔ میں نے اپنے لئے تجھے چناؔ ۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وقت آگیا ہے کہ تو مدد دیا جائے اور لوگوں میں تیرے نام کی شہرت دی جائے۔ اے احمد! تیرے لبوں میں نعمت یعنی حقائق اور معارف جاری ہیں اے احمد! تو برکت دیا گیا اور یہ برکت تیرا ہی حق تھا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی قرآن کے اُن معنوں پر اطلاع دی جن کو لوگ بھول گئے تھے تاکہ تو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے بے خبر گذر گئے اور تاکہ مجرموں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے۔ ان کو کہدے کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی وحی اور حکم سے یہ سب باتیں کہتا ہوں اور میں اس زمانہ میں تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔*

* یہ مقام ہماری جماعت کیلئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس میں خداوند قدیر فرماتا ہے کہ خدا کی محبت اِسی سے وابستہ ہے کہ تم کامل طور پر پیرو ہو جاؤ اور تم میں ایک ذرہ مخالفت باقی نہ رہے اور اس جگہ جو میری نسبت کلام الٰہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے کیونکہ جو شخص خدا سے براہ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طور پر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا اس پر رسول یا نبی کا لفظ بولنا غیر موزوں نہیں ہے بلکہ یہ نہایت فصیح استعارہ ہے۔ اِسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں بھی جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا ہے اور بعض نبیوں کی کتابوں میں میری نسبت بطور استعارہ فرشتہ کا لفظ آگیاہے۔ اور دانی ایل نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنے میکائیل کے ہیں خدا کی مانند۔ یہ گویا اس الہام کے مطابق ہے جو براہین احمدیہ میں ہے۔ انت منّی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی فحان ان تعان وتعرف بین الناس۔ یعنی تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفریدکو سوجیسا کہ میں اپنی توحیدکی شہرت چاہتا ہوں ایسا ہی تجھے دنیا میں مشہور کروں گا۔ اور ہر ایک جگہ جو میرا نام جائے گاتیرا نام بھی ساتھ ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/62/mode/1up

62

اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں کرے گا کہ وہ تجھے چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے۔ اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے اور تو آج ہماری نظر میں صاحب مرتبہ ہے اور اُن میں سے ہے جن کو مدد دی جاتی ہے۔ اور مجھ سے تو وہ مقام اور مرتبہ رکھتا ہے جس کو دنیا نہیں جانتی اور ہم نے دنیا پر رحمت کرنے کے لئے تجھے بھیجا ہے۔ اے احمد! اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو۔ اے آدم! اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو یعنی ہر ایک جو تجھ سے تعلق رکھنے والا ہے گو وہ تیری بیوی ہے یا تیرا دوست ہے نجات پائے گا۔ اور اس کو بہشتی زندگی ملے گی اور آخر بہشت میں داخل ہوگا۔ اور پھر فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ زمین پر اپنا جانشین پیدا کروں سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا۔ یہ آدم شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کر دے گا اور یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے لباس میں۔ دنیا اور آخرت میں وجیہ اور خدا کے مقربوں میںؔ سے۔ میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اور ہم اس اپنے بندہ کو اپنا ایک نشان بنائیں گے اور اپنی رحمت کا ایک نمونہ کریں گے اور ابتدا سے یہی مقدر تھا۔ اے عیسیٰ! میں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گا۔ یعنی تیرے مخالف تیرے قتل پر قادر نہیں ہو سکیں گے اور میں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ یعنی دلائل واضحہ سے اور کھلے کھلے نشانوں سے ثابت کر دوں گا کہ تُو میرے مقربوں میں سے ہے اور اُن تمام الزاموں سے تجھے پاک کروں گاجو تیرے پر منکر لوگ لگاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے تیرے پیرو ہوں گے میں اُن کو اُن دوسرے گروہ پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دوں گا جو تیرے مخالف ہوں گے ۔ تیرے تابعین کا ایک گروہ پہلوں میں سے ہوگا اور ایک گروہ پچھلوں میں سے۔ لوگ تجھے اپنی شرارتوں سے ڈرائیں گے پر خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا گو لوگ نہ بچاویں اور تیرا خدا قادر ہے۔ وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے یعنی لوگ جو گالیاں نکالتے ہیں ان کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے۔ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں اُن کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں اور وہ لوگ کہتے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/63/mode/1up

63

ہیں کہ یہ تو جھوٹا افتراہے جو اس شخص نے کیا ۔ ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سُنا۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی کو کوئی مرتبہ دینا خدا پر مشکل نہیں۔ ہم نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ پس اسی طرح اس شخص کو یہ مرتبہ عطا فرمایا تاکہ مومنوں کیلئے نشان ہو۔ مگر خدا کے نشانوں سے ان لوگوں نے انکار کیا۔ دل تو مان گئے مگر یہ انکار تکبر اور ظلم کی وجہ سے تھا۔ ان کوکہہ دے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے پس کیا تم مانتے نہیں۔ پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے۔ پس کیا تم قبول نہیں کرتے۔ اور جب نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو ایک معمولی امر ہے جو قدیم سے چلا آتا ہے۔ (واضح ہو کہ آخری فقرہ اس الہام کا وہ آیت ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جب کفار نے شق القمر دیکھا تھا تو یہی عذر پیش کیا تھا کہ یہ ایک کسوف کی قسم ہے۔ ہمیشہ ہوا کرتا ہے کوئی نشان نہیں۔ اب اس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے اس کسوف خسوف کی طرف اشارہ فرمایا جو اس پیشگوئی سے کئی سال بعد میں وقوع میں آیا جو کہ مہدی معہود کے لئے قرآن شریف اور حدیث دارقطنی میں بطور نشان مندرج تھا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اس کسوف خسوف کو دیکھ کر منکر لوگ یہی کہیں گے کہ یہ کچھ نشان نہیں۔ یہ ایک معمولی بات ہے۔ یاد رہے کہ قرآن شریف میں اس کسوف خسوف کی طرف آیت 3 ۱؂ میں اشارہ ہے اور حدیث میں اس کسوف خسوف کے بارے میں امام باقر کی روایت ہے۔ جس کے یہ لفظ ہیں کہ انّ لمھدینا اٰیتین۔ اور عجیب تر بات یہ کہ براہین احمدیہ میں واقعہ کسوف خسوف سے قریباً پندرہ برس پہلے اس واقعہ کی خبر دی گئی اور یہ بھی بتلایا گیا کہ اس کے ظہور کے وقت ظالم لوگ اس نشان کو قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہمیشہ ہوا کرتا ہے حالانکہ ایسی صورت جب سے کہ دنیا ہوئی کبھی پیش نہیں آئی کہ کوئی مہدی کا دعویٰ کرنے والا ہو اور اس کے زمانہ میں کسوف خسوف ایک ہی مہینہ میں یعنی رمضان میں ہو۔ اور یہ فقرہ جو دو مرتبہ فرمایا گیا کہ قل عندی شہادۃ منؔ اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔وقل عندی شھادۃ من اللّٰہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/64/mode/1up

64

فھل انتم مسلمون۔ اس میں ایک شہادت سے مراد کسوف شمس ہے اور دوسری شہادت سے مراد خسوف قمر ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے۔ یعنی گو کسی قسم کا مقابلہ آپڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں وہ مغلوب نہیں ہوں گے اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ خدا وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو بدل دے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے آلودہ نہیں کیا ان کو ہر ایک بلا سے امن ہے اور وہی ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کر وہ تو ایک غرق شدہ قوم ہے اور تجھے ان لوگوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنارکھا ہے اور کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو خدا نے مبعوث فرمایا اور تیری طرف دیکھتے ہیں اور تُو انہیں نظر نہیں آتا۔ اور یاد کروہ وقت جب تیرے پر ایک شخص

* اِس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یادرکھو کہ جیسا خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفّر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہواسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم یعنی جب مسیح نازل ہوگا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بلکہ ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا پس تم ایسا ہی کرو ۔کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو ۔جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہر ایک حال میں مجھے حَکَم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/65/mode/1up

65

سراسر مکر سے تکفیر کا فتویٰ دے گا۔(یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں ایک بد قسمت مولوی کی نسبت خبر دی گئی ہے کہ ایک زمانہ آتا ہے جب کہ وہ مسیح موعود کی نسب تکفیر کا کاغذ طیّار کرے گا) اور پھر فرمایا کہ وہ اپنے بزرگ ہامان کو کہے گا کہ اس تکفیر کی بنیاد تو ڈال کہ تیرا اثر لوگوں پر بہت ہے اور تو اپنے فتویٰ سے سب کو افروختہ کر سکتا ہے۔ سو تو سب سے پہلے اس کفرنامہ پر مہر لگاتا سب علماء بھڑک اٹھیں اور تیری مہر کو دیکھ کر وہ بھی مہریں لگادیں اور تاکہ میں دیکھوں کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ میں اُس کو جھوٹا سمجھتا ہوں (تب اُس نے مہر لگا دی) ابو لہب ہلاک ہو گیا اور اُس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوؔ گئے (ایک وہ ہاتھ جس کے ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا اور دوسرا وہ ہاتھ جس کے ساتھ مہر لگائی یا تکفیر نامہ لکھا) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے اور جو تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے جب وہ ہامان تکفیرنامہ پرمہر لگادے گا تو بڑا فتنہ برپا ہوگا۔ پس تو صبرکر جیسا کہ اولو العزم نبیوں نے صبر کیا (یہ اشارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے کہ اُن پر بھی یہود کے پلید طبع مولویوں نے کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ یہ تکفیر اس لئے ہوگی کہ تا اس امر میں بھی حضرت عیسیٰ سے مشابہت پیدا ہو جائے۔ اور اِس الہام میں خدا تعالیٰ نے استفتاء لکھنے والے کا نام فرعون رکھا اور فتویٰ دینے والے کا نام جس نے اوّل فتویٰ دیا ہامان۔ پس تعجب نہیں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ ہامان اپنے کفر پر مرے گا لیکن فرعون کسی وقت جب خدا کا ارادہ ہو کہے گا آمنت بالّذی آمنت بہ بنواسرائیل) اور پھر فرمایا کہ یہ فتنہ خدا کی طرف سے فتنہ ہوگا تا وہ تجھ سے بہت محبت کرے جو دائمی محبت ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی اور خدا میں تیرا اجر ہے خدا تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کرے گا۔ بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم چاہتے ہو مگر وہ تمہارے لئے اچھی نہیں۔ اور بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تکفیر ضروری تھی اور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/66/mode/1up

66

اِس میں خدا کی حکمت تھی مگر افسوس اُن پر جن کے ذریعہ سے یہ حکمت اور مصلحت الٰہی پوری ہوئی اگر وہ پیدا نہ ہوتے تو اچھا تھا۔

اِس قدر الہام تو ہم نے بطور نمونہ کے براہین احمدیہ میں سے لکھے ہیں۔ لیکن اس اکیس برس کے عرصہ میں براہین احمدیہ سے لے کر آج تک میں نے چالیس۴۰ کتابیں تالیف کی ہیں اور ساٹھ ہزار کے قریب اپنے دعوے کے ثبوت کے متعلق اشتہارات شائع کئے ہیں اور وہ سب میری طرف سے بطور چھوٹے چھوٹے رسالوں کے ہیں اور ان سب میں میری مسلسل طور پر یہ عادت رہی ہے کہ اپنے جدید الہامات ساتھ ساتھ شائع کرتا رہاہوں۔ اس صورت میں ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ یہ ایک مدّت دراز کا زمانہ ابتدائے دعویٰ مامور من اللہ ہونے سے آج تک کیسی شباروزی سرگرمی سے گذرا ہے اور خدا نے نہ صرف اس وقت تک مجھے زندگی بخشی بلکہ ان تالیفات کے لئے صحت بخشی مال عطا کیا وقت عنایت فرمایا۔ اور الہامات میں خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت نہیں کہ صرف معمولی مکالمہ الٰہیہ ہو بلکہ اکثر الہامات میرے پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور دشمنوں کے بد ارادوں کا اُن میں جواب ہے۔ مثلاً چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے تا یہ نتیجہ نکالیں کہ جھوٹا تھا تبھی جلد مر گیا اِس لئے پہلے ہی سے اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا۔ ثمانین حولًااوقریبًامن ذالک اوتزید علیہ سنینًا و ترٰی نسلًا بعیدًا یعنی تیری عمر اسی۸۰ برس کی ہوگی یا دو چار کم یاچند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا اور یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہو چکا ہے اور لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا۔ ایسا ہی چونکہ خداتعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن یہ بھی تمنا کریں گے کہ یہ شخص جھوٹوں کی طرح مہجور اور مخذول رہے اور زمین پر اُس کی قبولیتؔ پیدا نہ ہوتا یہ نتیجہ نکال سکیں کہ وہ قبولیت جو صادقین کے لئے شرط ہے اور اُن کے لئے آسمان سے نازل ہوتی ہے اِس شخص کو نہیں دی گئی لہٰذا اس نے پہلے سے براہین احمدیہ میں فرما دیا۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء۔ یاتون من



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/67/mode/1up

67

کلّ فجٍ عمیق۔ والملوک یتبرکون بثیابک۔ اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح وانتھی امر الزمان الینا اَلیس ھٰذا بالحق۔ یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں پر میں آسمان سے وحی نازل کروں گا۔ وہ دُور دُور کی راہوں سے تیرے پاس آئیں گے اور بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ جب ہماری مدد اور فتح آجائے گی تب مخالفین کو کہا جائے گا کہ کیا یہ انسان کا افترا تھا یا خدا کا کاروبار*۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ دشمن یہ بھی تمنا کریں گے کہ یہ شخص منقطع النسل رہ کرنا بود ہو جائے تانادانوں کی نظر میں یہ بھی ایک نشان ہو۔ لہٰذا اس نے پہلے سے براہین احمدیہ میں خبر دے دی کہ ینقطع آباء ک ویبدء منک یعنی تیرے بزرگوں کی پہلی نسلیں منقطع ہو جائیں گی اور اُن کے ذکر کا نام و نشان نہ رہے گا اور خدا تجھ سے ایک نئی بنیاد ڈالے گا۔ اسی بنیاد کی مانند جو ابراہیم سے ڈالی گئی۔ اِسی

* ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامن گیر ہو جائے جیسا کہ جذام اور جنون اور اندھا ہونا اور مرگی تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الٰہی ہو گیااس لئے پہلے سے اُس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہر ایک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کروں گااور بعد اس کے آنکھوں کی نسبت خاص کر یہ بھی الہام ہوا۔ تنزل الرحمۃ علٰی ثلٰث العین وعلٰی الاخریین۔ یعنی رحمت تین عضووں پر نازل ہوگی ایک آنکھیں کہ پیرانہ سالی ان کو صدمہ نہیں پہنچائے گی اور نزول الماء وغیرہ سے جس سے نور بصارت جاتا رہے محفوظ رہیں گی اور دو عضو اور ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے تصریح نہیں کی اُن پر بھی یہی رحمت نازل ہوگی اور اُن کی قوتوں اور طاقتوں میں فتور نہیں آئے گا۔ اب بولو تم نے دنیا میں کس کذاب کو دیکھا کہ اپنی عمر بتلاتا ہے اپنی صحت بصری اور دوسرے دو اعضا کی صحت کا اخیر عمر تک دعویٰ کرتا ہے۔ ایسا ہی چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ لوگ قتل کے منصوبے کریں گے اُس نے پہلے سے براہین میں خبر دے دی یعصمک اللّٰہ ولو لم یعصمک الناس۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/68/mode/1up

68

مناسبت سے خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام ابراہیم رکھا جیسا کہ فرمایا سلام علٰی ابراھیم صافیناہ ونجّیناہ من الغمّ واتّخذوا من مقام ابراھیم مصلّی۔ قل ربّ لا تذرنی فردًا وانت خیر الوارثین۔ یعنی سلام ہے ابراہیم پر (یعنی اس عاجزپر) ہم نے اس سے خالص دوستی کی اور ہرایک غم سے اس کو نجات دے دی اور تم جو پیروی کرتے ہو تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ۔ اور پھر فرمایا کہہ اے میرے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہتر وارث ہے۔ اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ خدا اکیلا نہیں چھوڑے گا اور ابراہیم کی طرح کثرتِ نسل کرے گا اور بہتیرے اُس نسل سے برکت پائیں گے اور یہ جو فرمایا کہ 3 ۱؂۔ یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ ابراہیم جوؔ بھیجا گیا تم اپنی عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجا لاؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ اور جیسا کہ آیت 3 ۲؂ میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہوگا * جس کا

* یاد رہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی و جمالی ہیں اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جلّ شانہٗ کے مظہر اتم ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے۔ جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے 3 3 ۳ ؂ یعنی ہم نے تمام دنیا پر رحمت کرکے تجھے بھیجا ہے اور جلالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے 3۴؂ ۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ دونوں صفتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اپنے وقتوں میں ظہور پذیر ہوں اس لئے خدا تعالیٰ نے صفت جلالی کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا اور صفت جمالی کو مسیح موعود اور اس کے گروہ کے ذریعہ سے کمال تک پہنچایا۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔33 3 ۵؂۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/69/mode/1up

69

نام آسمان پر احمد ہوگا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا ایسا ہی یہ آیت3 ۱؂ اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب اُمت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہوگا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہوگا۔

اب ہم بطور نمونہ چند الہامات دوسری کتابوں میں سے لکھتے ہیں۔ چنانچہ ازالہ اوہام میں صفحہ۶۳۴ سے اخیر تک اور نیز دوسری کتابوں میں یہ الہام ہیں جعلناک المسیح ابن مریم۔ ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا۔ یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا ۔سو تو ان کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور پھر ایک اور الہام ہے اور وہ یہ ہے الحمدللّٰہ الذی جعلک المسیح ابن مریم۔ انت الشیخ المسیح الذی لایُضاع وقتہ۔ کمثلک درّ لا یُضاع۔ یعنی خدا کی سب حمد ہے جس نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جاوے گا۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا اور پھر فرمایا لنحیینک حیٰوۃ طیّبۃ ثمانین حولًا اوقریبًا من ذالک۔ وترٰی نسلًا بعیدًا مظھرالحق والعلا کانّ اللّٰہ نزل من السماء۔ یعنی ہم تجھے ایک پاک اور آرام کی زندگی عنایت کریں گے۔ اسی۸۰ برس یا اس کے قریب قریب یعنی دو چار برس کم یا زیادہ اور توایک دُور کی نسل دیکھے گابلندی اور غلبہ کا مظہر گویا خدا آسمان سے نازل ہوا۔ اور پھر فرمایا یأتی قمرالانبیاء وامرک یتاتّٰی ماانت ان تترک الشیطان قبل ان تغلبہ۔ الفوق معک والتحت مع اعدائک۔ یعنی نبیوں کا چاند چڑھے گا اور تو کامیاب ہو جائے گا تو ایسا نہیں کہ شیطان کو چھوڑ دے قبل اس کے کہ اس پر غالب ہو اور اوپر رہنا تیرے حصہ میں ہے اور نیچے رہنا تیرے دشمنوں کے حصے میں اور پھر فرمایا انّی مھین من اراد اھانتک۔ وما کان اللّٰہ لیترکک حتّی یمیز الخبیثؔ من الطیّب۔ سبحان اللّٰہ انت وقارہ۔ فکیف



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/70/mode/1up

70

یترکک۔ انّی انااللّٰہ فاخترنی۔ قل ربّ انی اخترتک علی کلّ شء۔ ترجمہ۔ میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے اور میں اس کو مدد دوں گا جو تیری مدد کرتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے۔ خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے اورتو اس کا وقار ہے پس وہ تجھے کیونکر چھوڑ دے۔ میں ہی خدا ہوں تو سراسر میرے لئے ہو جا۔ تو کہہ اے میرے رب میں نے تجھے ہر چیز پر اختیار کیا۔ اور پھر فرمایا۔ سیقول العدولست مرسلا۔ سناخذہ من مارن او خر۔طوم۔ وانّا من الظالمین منتقمون۔ انی مع الافواج اٰتیک بغتۃً۔ یوم یعضّ الظالم علٰی یدیہ یالیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا۔ وقالوا سیقلب الامر وما کانوا علی الغیب مطّلعین۔ انا انزلناک وکان اللّٰہ قدیرا۔ یعنی دشمن کہے گا کہ تو خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ ہم اس کو ناک سے پکڑیں گے یعنی دلائل قاطعہ سے اُس کا دم بند کردیں گے اور ہم جزا کے دن ظالموں سے بدلہ لیں گے۔ میں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے پاس ناگہانی طور پر آؤں گایعنی جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی اس گھڑی کا تجھے علم نہیں۔ اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا کہ کاش میں اس خداکے بھیجے ہوئے سے مخالفت نہ کرتا اور اُس کے ساتھ رہتا۔ اور کہتے ہیں کہ یہ جماعت متفرق ہو جائے گی اور بات بگڑ جائے گی حالانکہ اُن کو غیب کا علم نہیں دیا گیا۔ تو ہماری طرف سے ایک بُرہان ہے اور خدا قادر تھا کہ ضرورت کے وقت میں اپنی بُرہان ظاہر کرتا اور پھر فرمایا انا ارسلنا احمد الی قومہ فاعرضوا وقالواکذّاب اشر۔ وجعلوا یشھدون علیہ ویسیلون کماء منھمر۔ ان حِبّی قریب مستتر۔ یأتیک نصرتی انّی اناالرحمٰن۔ انت قابل یأتیک وابل۔ انّی حاشر کل قوم یأتونک جنبا۔ وانی انرت مکانک۔ تنزیل من اللّٰہ العزیز الرحیم بلجت آیاتی۔ ولن یجعل اللّٰہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا۔ انت مدینۃ العلم۔ طیب مقبول الرحمٰن۔ وانت اسمی الاعلٰی۔ بشریٰ لک فی ھٰذہ الایام۔ انت منّی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/71/mode/1up

71

یا ابراھیم۔ انت القائم علٰی نفسہ مظھر الحیّ۔ وانت منّی مبدء الامر۔ انت من مائنا وھم من فشل۔ ام یقولون نحن جمیع منتصر۔ سیھزم الجمع ویولّون الدّبر۔ الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھر والنسب۔ انذرقومک وقل انی نذیر مبین۔ انا اخرجنا لک زروعًا یا ابراھیم۔ قالوا لَنھلکنّک۔ قال لاخوف علیکم لاغلبن انا و رسلی۔ وانّی مع الافواج اٰتیک بغتۃ۔ وانّی اموج موج البحر۔ ان فضل اللّٰہ لاٰت۔ ولیس لاحد ان یرد ما اتٰی۔ قل ای وربّی انہ لحق لا یتبدّل ولا یخفٰی۔ وینزل ما تعجب منہ وحی من ربّ السماوات العلٰی۔ لا الٰہ الّا ھو یعلم کل شئ و یریٰ۔ ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم یحسنون الحسنٰی تُفَتَّحُ لھم ابواب السّماء ولھم بشریٰ فی الحیٰوۃ الدنیا۔ انت تربی فی حجر النبی* وانت تسکن قنن الجبال۔ وانّی معک فی کل حال۔ ترجمہ ۔ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرفؔ بھیجا۔ تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذّاب ہے اور انہوں نے اس پر گواہیاں دیں اور سیلاب کی طرح اس پر گرے۔ اس نے کہا کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ تجھے میری مدد آئے گی۔ میں رحمن ہوں۔ تو قابلیت رکھتا ہے اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا۔ میں ہر ایک

* بعض ؔ نادان کہتے ہیں کہ عربی میں کیوں الہام ہوتا ہے اِس کا یہی جواب ہے کہ شاخ اپنی جڑ سے علیحدہ نہیں ہو سکتی۔ جس حالت میں یہ عاجز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنار عاطفت میں پرورش پاتا ہے جیسا کہ برا ؔ ہین احمدیہ کا یہ الہام بھی اس پر گواہ ہے کہ تبارک الّذی من علّم وتعلّم۔ بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے اس کو فیض روحانی سے مستفیض کیا۔ یعنی سیدنا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم۔ اور دوسرا بہت برکت والا یہ انسان ہے جس نے اس سے تعلیم پائی۔ تو پھر جب معلم اپنی زبان عربی رکھتا ہے ایسا ہی تعلیم پانے والے کا الہام بھی عربی میں چاہئے تا مناسبت ضائع نہ ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/72/mode/1up

72

قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا۔ میں نے تیرے مکان کو روشن کیا۔ یہ اُس خداکا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے۔ اور اگر کوئی کہے کہ کیونکر ہم جانیں کہ یہ خدا کا کلام ہے تو ان کے لئے یہ علامت ہے کہ یہ کلام نشانوں کے ساتھ اُترا ہے اور خدا ہر گز کافروں کو یہ موقع نہیں دے گا کہ مومنوں پرکوئی واقعی اعتراض کر سکیں۔ تو علم کا شہر ہے طیب اور خدا کا مقبول اور تو میرا سب سے بڑا نام ہے۔ تجھے ان دنوں میں خوشخبری ہو۔ اے ابراہیم تو مجھ سے ہے تو خدا کے نفس پر قائم ہے۔ زندہ خدا کا مظہر اورتُو مجھ سے امر مقصود کا مبدء ہے اور تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ فشل سے۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں انتقام لینے والی۔ یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھرلیں گے۔ وہ خدا قابل تعریف ہے جس نے تجھے دامادی اور آبائی عزت بخشی ۔ اپنی قوم کو ڈرا اور کہہ کہ میں خدا کی طرف سے ڈرانے والا ہوں۔ ہم نے کئی کھیت تیرے لئے طیّار کر رکھے ہیں اے ابراہیم۔ اور لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ہلاک کریں گے مگر خدا نے اپنے بندہ کو کہا کی کچھ خوف کہ جگہ نہیں میں اور میرے رسول غالب ہوں گے۔ اور میں اپنی فوجوں کے ساتھ عنقریب آؤں گا۔ میں سمندر کی طرح موج زنی کروں گا۔ خدا کا فضل آنے والا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو ردّ کر سکے اور کہہ خدا کی قسم یہ بات سچ ہے اِس میں تبدیلی نہیں ہوگی اور نہ وہ چھپی رہے گی اور وہ امر نازل ہوگا جس سے تو تعجب کرے گا۔ یہ خدا کی وحی ہے جو اونچے آسمانوں کا بنانے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے اور وہ خدا اُن کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور نیکی کو نیک طور پرادا کرتے ہیں اور اپنے نیک عملوں کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور دنیا کی زندگی میں بھی ان کو بشارتیں ہیں۔ تُو نبی کی کنارِ عاطفت میں پرورش پارہا ہے۔ اور میں ہر حال میں تیرے ساتھ ہوں اور پھر فرمایا وقالوا ان ھٰذا الا اختلاق۔ ان ھٰذا الرجل یجوح الدین۔ قل جاء الحق وزھق الباطل۔ قل لو کان الامرمن عند غیر اللّٰہ لوجدتم فیہ اختلافًا کثیرًا۔ ھو الذی ارسل



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/73/mode/1up

73

رسولہ بالھدٰی و دین الحق وتھذیب الاخلاق۔ قل ان افتریتہٗ فعلیّ اجرامی۔ ومن اظلم ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذبًا۔ تنزیل من اللّٰہ العزیز الرحیم۔ لتنذر قومًا ماانذر اٰباءھم ولتدعو قومًا اٰخرین۔ عسی اللّٰہ ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتم مودۃ۔ یخرّون علی الاذقان سجّدا ربنا اغفرلنا اناکنّا خاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم یغفراللّٰہ لکم وھو ارحم الراحمین۔انّیؔ انا اللّٰہ فاعبدنی ولا تنسنی واجتھد ان تصلنی واسئل ربک وکن سؤلا۔ اللّٰہ ولیّ حنّان۔ علّم القران۔ فبِاَیّ حدیث بعدہ تحکمون۔ نزّلنا علٰی ھٰذا العبد رحمۃ۔ وما ینطق عن الھوٰی ان ھوالّا وحی یوحٰی۔ دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی۔ ذرنی والمکذبین۔ انّی مع الرسول اقوم۔ ان یومی لفصل عظیم۔ وانک علی صراط مستقیم۔ وانّا نرینک بعض الذی نعدھم اونتوفّینک۔ وانی رافعک الیّ ویأتیک نصرتی۔ انی انا اللّٰہ ذوالسلطان۔ ترجمہ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ بناوٹ ہے اور یہ شخص دین کی بیخ کنی کرتا ہے۔ کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ کہہ اگر یہ امر خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو تم اس میں بہت سا اختلاف پاتے یعنی خدا تعالیٰ کی کلام سے اس کے لئے کوئی تائید نہ ملتی۔ اور قرآن جو راہ بیان فرماتا ہے یہ راہ اس کے مخالف ہوتی اور قرآن سے اس کی تصدیق نہ ملتی اور دلائل حقّہ میں سے کوئی دلیل اس پر قائم نہ ہو سکتی اور اس میں ایک نظام اور ترتیب اور علمی سلسلہ اور دلائل کا ذخیرہ جو پایا جاتا ہے یہ ہرگز نہ ہوتا اور آسمان اور زمین میں سے جوکچھ اس کے ساتھ نشان جمع ہو رہے ہیں اِن میں سے کچھ بھی نہ ہوتا اور پھر فرمایا خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا۔ ان کو کہہ دے کہ اگر میں نے افترا کیا ہے تو میرے پر اس کا جرم ہے یعنی میں ہلاک ہو جاؤں گا اور اس شخص سے زیادہ تر ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے۔ یہ کلام خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحیم ہے تا تو ان لوگوں کو ڈرا وے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا دوسری قوموں کو دعوتِ دین



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/74/mode/1up

74

کرے۔ عنقریب ہے کہ خدا تم میں اور تمہارے دشمنوں میں دوستی کردے گا*۔ اور تیرا خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اُس روز وہ لوگ سجدہ میں گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے۔ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں خدا معاف کرے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ میں خدا ہوں میری پرستش کر۔ اور میرے تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا رہ۔ اپنے خدا سے مانگتا رہ اور بہت مانگنے والا ہو۔ خدا دوست اور مہربان ہے۔ اُس نے قرآن سکھلایا۔ پس تم قرآن کو چھوڑ کر کس حدیث پر چلو گے۔ ہم نے اس بندہ پر رحمت نازل کی ہے اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خداکی وحی ہے۔ یہ خدا کے قریب ہوا یعنی اوپر کی طرف گیا اور پھر نیچے کی طرف تبلیغ حق کے لئے جھکا۔ اس لئے یہ دو قوسوں کے وسط میں آگیا۔ اُوپر خدا اور نیچے مخلوق۔ مکذبین کے لئے مجھ کو چھوڑ دے۔ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے اور تو سیدھی راہ پر ہے اورجو کچھ ہم اُن کے لئے وعدہ کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ تیری زندگی میں تجھ کو دکھلادیں اور یا تجھ کو وفات دیدیں اور بعد میں وہ وعدے پورے کریں۔ اور میں تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا۔ یعنی تیرا رفع الی اللہ دنیا پر ثابت کر دوں گا۔ اور میری مدد تجھے پہنچے گی۔ میں ہوں وہ خداؔ جس کے نشان دلوں پر تسلّط کرتے ہیں اور ان کو قبضہ میں لے آتے ہیں۔

اِن الہامات کے سلسلہ میں بعض اردوالہام بھی ہیں جن میں سے کسی قدر ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔

ایک عزت کا خطاب۔ ایک عزت کا خطاب۔ لک خطاب العزۃ۔ایک



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/75/mode/1up

75

بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا۔ (عزت کے خطاب سے مراد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے کہ اکثر لوگ پہچان لیں گے اور عزت کا خطاب دیں گے اور یہ تب ہوگا جب ایک نشان ظاہر ہوگا) اور پھر فرمایا خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اٹھاؤں گا۔ آسمان سے کئی تخت اُترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا۔ دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت فرشتوں نے تیری مدد کی۔ آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا۔ اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے۔ آسمان پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا۔ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو* خذواالرفق الرفق فانّ الرفق رأس الخیرات نرمی کرو نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا سر نرمی ہے۔ (اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدر زبانی سختی کا برتاؤ کیا تھا اس پر حکم ہوا کہ اِس قدر سخت گوئی نہیں چاہئے۔

حتّی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی اور حسن اخلاق ہے اور بعض اوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا کے جائز ہے۔ اما بحکم ضرورت و بقدر ضرورت۔ نہ یہ کہ

* اِس الہام میں تمام جماعت کیلئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں وہ اُن کی کنیز کیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کروکہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی کرو۔ اور حدیث میں ہے خیرکم خیرکم لاھلہ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اورجسمانی طورپر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ اُن کے لئے دُعاکرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/76/mode/1up

76

سخت گوئی طبیعت پر غالب آجائے) خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اُس سے برکات کم نہیں ہیں۔ اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔ (یہ فقرہ بطور حکایت میری طرف سے خداتعالیٰ نے بیان فرمایا ہے) اور پھر فرمایا۔ لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے شیر خدا نے اُن کو پکڑا شیر خدا نے فتح پائی۔ اور پھر فرمایا ’’بخرام کہ ؔ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یان برمنار بلندترمحکم* اُفتاد۔ پاک محمدمصطفٰے نبیوں کا سردار۔ و روشن شد نشانہائے من۔ بڑا مبارک وہ دن ہوگا ۔دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ آمین

اِس فقرہ سے مراد کہ محمدیوں کا پیر اونچے منار پر جاپڑا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں جو آخر الزمان کے مسیح موعود کے لئے تھیں جس کی نسبت یہود کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہو گا اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا۔مگر وہ مسلمانوں میں سے پیدا ہوا۔ اس لئے بلند مینار عزت کا محمدیوں کے حصہ میں آیا اور اس جگہ محمدی کہا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اب تک صرف ظاہری قوت اور شوکت اسلام دیکھ رہے تھے جس کا اسم محمد مظہر ہے اب وہ لوگ بکثرت آسمانی نشان پائیں گے جو اسم احمدکے مظہر کو لازم حال ہے۔ کیونکہ اسم احمد انکسار اور فروتنی اور کمال درجہ کی محویت کو چاہتا ہے جو لازم حال حقیقت احمدیت اور حامدیت اور عاشقیت اور مُحِبّیّت ہے اور حامدیت اور عاشقیت کے لازم حال صدور آیات تائید یہ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/77/mode/1up

77

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

دینی جہاد کی ممانعت کا فتویٰ

مسیح موعود کی طرف سے

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال


دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

اب آگیا مسیح جو دیں کا امام* ہے


دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے

اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے


اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے

* نوٹ:۔ (ایک زبردست الہام اور کشف) آج ۲؍ جون ۱۹۰۰ء ؁ کو بروز شنبہ بعد دوپہر دو ۲ بجے کے وقت مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ ایک ورق جو نہایت سفید تھا دکھلایا گیا۔ اس کی آخری سطر میں لکھا تھا اقبال۔ میں خیال کرتا ہوں کہؔ آخر سطر میں یہ لفظ لکھنے سے انجام کی طرف اشارہ تھا یعنی انجام باقبال ہے۔ پھر ساتھ ہی یہ الہام ہوا:۔ ’’قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے۔ کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے۔‘‘ اِس کے یہ معنے مجھے سمجھائے گئے کہ عنقریب کچھ ایسے زبردست نشان ظاہر ہو جائیں گے جس سے کافر کہنے والے جو مجھے کافر کہتے تھے الزام میں پھنس جائیں گے اور خوب پکڑے جائیں گے اور کوئی گریز کی جگہ اُن کے لئے باقی نہیں رہے گی۔ یہ پیشگوئی ہے۔ ہر ایک پڑھنے والا اس کو یادرکھے۔ اس کے بعد ۳؍جون ۱۹۰۰ء ؁ کو بوقت ساڑھے گیارہ بجے یہ الہام ہوا:۔ کافر جو کہتے تھے وہ نگو نسار ہو گئے ۔جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہو گئے۔‘‘ یعنی کافر کہنے والوں پر خدا کی حجت ایسی پوری ہو گئی کہ اُن کے لئے کوئی عذر کی جگہ نہ رہی۔ یہ آئندہ زمانہ کی خبر ہے کہ عنقریب ایسا ہوگا اور کوئی ایسی چمکتی ہوئی دلیل ظاہر ہو جائے گی کہ فیصلہ کر دے گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/78/mode/1up

78

دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد


منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد

کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو


جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو

کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر


کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر

فرما چکا ہے سید کونین مصطفٰے


عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا

جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا


جنگوں کے سِلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا

پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر اور گوسپند


کھیلیں گے بچے سانپوں سے بے خوف وبے گزند

یعنی وہ وقت امن کا ہوگا نہ جنگ کا


بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیر و تفنگ کا

یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا


وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا

اِک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے


کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے نشاں


کردے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں

ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں


اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں

اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی


وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی

وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی


وہ عزمِ مقبلانہ وہ ہمت نہیں رہی

وہ علم وہ صلاح وہ عفت نہیں رہی


وہ نور اور وہ چاند سی طلعت نہیں رہی

وہ ؔ درد وہ گداز وہ رقت نہیں رہی


خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت نہیں رہی

دل میں تمہارے یار کی اُلفت نہیں رہی


حالت تمہاری جاذب نصرت نہیں رہی

حمق آگیا ہے سر میں وہ فطنت نہیں رہی


کسل آگیا ہے دل میں جلادت نہیں رہی

وہ علم و معرفت وہ فراست نہیں رہی


وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت نہیں رہی

دُنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی


اب تم کو غیر قوموں پہ سبقت نہیں رہی

وہ اُنس و شوق و وجد وہ طاعت نہیں رہی


ظلمت کی کچھ بھی حدّو نہایت نہیں رہی

ہر وقت جھوٹ۔ سچ کی تو عادت نہیں رہی


نورِ خدا کی کچھ بھی علامت نہیں رہی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/79/mode/1up

79

سو سو ہے گند دل میں طہارت نہیں رہی


نیکی کے کام کرنے کی رغبت نہیں رہی

خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت نہیں رہی


دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت نہیں رہی

مولیٰ سے اپنے کچھ بھی محبت نہیں رہی


دل مر گئے ہیں نیکی کی قدرت نہیں رہی

سب پر یہ اِک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی


اِک پُھوٹ پڑ رہی ہے مودّت نہیں رہی

تم مر گئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی


صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی

اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی


بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی

اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم سے


کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ اور صوم سے

ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں کی راہ کو


عادت میں اپنے کر لیا فسق و گناہ کو

اب زندگی تمہاری تو سب فاسقانہ ہے


مومن نہیں ہو تم کہ قدم کافرانہ ہے

اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں


روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ اثر نہیں

کیونکر ہو وہ نظر کہ تمہارے وہ دل نہیں


شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے وہ دل نہیں

تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہو گئے


جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہو گئے

کچھؔ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے


باقی جو تھے وہ ظالم و سفّاک ہو گئے

اب تم تو خود ہی موردِ خشمِ خدا ہوئے


اُس یار سے بشامتِ عصیاں جُدا ہوئے

اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے


تم خود ہی غیر بن کے محلِ سزا ہوئے

سچ سچ کہو کہ تم میں امانت ہے اب کہاں


وہ صدق اور وہ دین و دیانت ہے اب کہاں

پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ ایماں نہیں رہا


وہ نور مومنانہ وہ عرفاں نہیں رہا

پھر اپنے کفر کی خبر اے قوم لیجئے


آیت علیکم انفسکم یاد کیجئے

ایسا گماں کہ مہدئ خونی بھی آئے گا


اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا

اے غافلو! یہ باتیں سراسر دروغ ہیں


بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں

یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا


یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/80/mode/1up

80

اب سال سترہ۱۷ بھی صدی سے گذر گئے

تم میں سے ہائے سوچنے والے کِدھر گئے

تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے گئے تمہیں

کیا پاک راز تھے جو بتائے گئے تمہیں

پر تم نے اُن سے کچھ بھی اُٹھایا نہ فائدہ

مُنہ پھیر کر ہٹا دیا تم نے یہ مائدہ

بخلوں سے یارو باز بھی آؤگے یا نہیں

خو اپنی پاک صاف بناؤ گے یا نہیں

باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے یا نہیں

حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے یا نہیں

اب عذر کیا ہے کچھ بھی بتاؤگے یا نہیں

مخفی جو دل میں ہے وہ سُناؤ گے یا نہیں

آخر خدا کے پاس بھی جاؤ گے یا نہیں

اُس وقت اُس کو مُنہ بھی دکھاؤ گے یا نہیں

تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار

اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے اُستوار

لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے

اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے

ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا

اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خُدا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/81/mode/1up

81

عربی ؔ زبان میں ایک خط

اہلِ اسلام پنجاب اور ہندوستان اور عرب اور فارس وغیرہ ممالک کی طرف جہاد کی ممانعت کے بارے میں

3

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اعلموا ایھا المسلمون رحمکم اللّٰہ ان اللّٰہ الذی تولی الاسلام۔ وکَفلَ امورہ العظام۔ جعل دینہ ھٰذا وصلۃ الی حکمہ وعلومہ۔ ووضع المعارف فی ظاھرہ ومکتومہ۔ فمن الحکم التی اودع ھٰذا الدین لیزید ھدی المھتدین۔ ھوالجھاد الذی امربہ فی صدر زمن الاسلام۔ ثم نھٰی عنہ فی ھٰذہ الایام۔ والسرّفیہ انہ تعالٰی اذن للذین یقاتلون فی اوّل زمان الملّۃ دفعًا لصول الکفرۃ۔ وحفظا للدین ونفوس الصحبۃ ثم انقلب امرالزمان عند عھد الدولۃ البرطانیۃ۔ وحصل الامن* للمسلمین وما بقی حاجۃ السیوف والاسنۃ۔ فعند ذالک اثم المخالفون المجاھدین۔ وسلکوھم مسلک الظالمین السفاکین۔ ولبس اللّٰہ علیھم سرّالغزاۃ والغازین۔ فنظروا الٰی محاربات الدین کلھا بنظر الزرایۃ۔ ونسبوا کل من غزاالی الجبر و الطغیان والغوایۃ۔

* نوٹ:۔ لا شک انا نعیش تحت ھٰذا السلطنۃ البرطانیۃ بالحریۃ التامۃ وحفظت اموالنا ونفوسنا وملّتنا واعراضنا من ایدی الظالمین بعنایۃ ھٰذہ الدولۃ۔ فوجب علینا شکرمن عمّر۱؂نا بنوالہ۔ وسقاناکأس الراحۃ بمآثرخصالہٖ ووجب ان نری اعداء ہ صقال العضب ونوقد لہ لا علیہ نار الغضب۔ منہ

۱؂ ایڈیشن اول کے مطابق ہے جو غالباً سہو کتابت ہے۔ روحانی خزائن میں اسے غمرنا لکھا ہے جو درست معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب ناشر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/82/mode/1up

82

فاقتضت مصالح اللّٰہ ان یضع الحرب والجھاد ویرحم العباد وقد مضت سنتہ ھٰذہ فی شیع الاولین۔ فان بنی اسرائیل قد طعن فیھم لجھادھم من قبل فبعث اللّٰہ المسیح فی اٰخر ز من موسٰی وارٰی ان الزارین کانوا خاطئین۔ ثم بعثنی ربّی فی اٰخرزمن نبینا المصطفٰی وجعل مقدار ھٰذا الزمن کمقدار زمن کان بین موسٰی وعیسٰی و ان فی ذالک لاٰیۃ لقوم متفکرین۔ والمقصود من بعثی وبعث عیسٰی واحد وھو اصلاح الاخلاق ومنع الجھاد۔ واراء ۃ الاٰیات لتقویۃ ایمان العباد۔ ولا شک ان وجوہ الجھاد معدومۃ فی ھٰذا الزمن وھذہ البلاد۔ فالیوم حرام علی المسلمین ان یحاربوا للدین۔ وان یقتلوا من کفر بالشرع المتین۔ فان اللّٰہ صرح حرمۃ الجھاد عند زمان الامن والعافیۃ۔ وندّد الرسول الکریم بانہ من المناھی عند نزول المسیح فی الامّۃ۔ ولا یخفٰی انّ الزمان قد بدّل احوالہ تبدیلا صریحًا وترک طورًا قبیحًا ولا یوجد فی ھٰذا الزمان ملک یظلم مسلمًا لاسلامہ۔ ولا حاکم یجور لدینہ فی احکامہ۔ فلاجلِ ذالک بدل اللّٰہ حکمہ فی ھٰذا الاوان۔ ومنع ان یحارب للدین اوتقتل نفس لاختلاف الادیان۔ وامران یتم المسلمون حججھم علی الکفار۔ ویضعوا البراھین موضع السیف البتار۔ ویتورّدوا موارد البراہین البالغۃ و یعلوا قنن البراھین العالیۃ حتی تطأ اقدامھم۔ کل اساس یقوم علیہ البرھان۔ ولا یفوتھم حجۃ تسبق الیہ الاذھان۔ ولا سلطان یرغب فیہ الزمان۔ ولا یبقی شبھۃ یولّدھا الشیطان۔ وان یکونوا فی اتمام الحجج مستشفّین۔ و اراد ان یتصیّد شوارد الطبائع المنتفرۃ من مسئلۃ الجھاد۔ وینزل ماء الاٰی علی القلوب المجدؔ بۃ کالعھاد۔ ویغسل وسخ الشبھات ودرن الوساوس وسوء الاعتقاد۔ فَقَدّر للاسلام وقتًا کابّان الربیع وھو وقت المسیح النازل من الرقیع۔ لیجری فیہ ماء الاٰیات کالینابیع۔ ویظھر صدق الاسلام۔ ویبیّن ان المترزّین کانوا کاذبین۔ وکان ذالک واجبًا


Ruhani Khazain Volume 17. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/83/mode/1up

83

فی علم اللّٰہ ربّ العالمین۔ لیعلم الناس ان تضوّع الاسلام وشیعوعتہ کان من اللّٰہ لا من المحاربین۔ وانّی اناالمسیح النازل من السماء۔ و انّ وقتی وقت ازالۃ الظنون واراء ۃ الاسلام کالشمس فی الضیاء۔ ففکروا ان کنتم عاقلین۔ وترون ان الاسلام قد وقعت حذتہ ادیان کاذبۃ یسعٰی لتصدیقھا۔ واعین کلیلۃ یجاھد لتبریقھا۔ وان اھلھا اخذوا طریق الرفق والحلم فی دعواتھم وأروا التواضع والذل عند ملاقاتھم۔ وقالوا ان الاسلام اولغ فی الابدان المدیٰ۔ لیبلغ القوۃ والعلٰی۔ وانا ندعوا الخلق متواضعین۔ فرأی اللّہ کیدھم من السماء۔ وما ارید من البھتان والازدراء والافتراء۔ فجلّی مطلع ھٰذا الدین بنور البرھان۔ واری الخلق انہ ھو القائم والشایع بنورربّہ لا بالسیف والسنان۔ ومنع ان یقاتل فی ھذا الحین۔ وھو حکیم یعلّمنا ارتضاع کأس الحکمۃ والعرفان۔ ولا یفعل فعلا لیس من مصالح الوقت والاٰوان۔ ویرحم عبادہ ویحفظ القلوب من الصداء والطبائع من الطغیان۔ فانزل مسیحہ الموعود والمھدی المعھود۔ لیعصم قلوب الناس من وساوس الشیطان وتجارتھم من الخسران۔ ولیجعل المسلمین کرجل ھیمن مااصطفاہ۔ واصاب مااصباہ۔ فثبت ان الا سلام لا یستعمل السیف والسھام عند الدعوۃ۔ولا یضرب الصعدۃ ولٰکن یأتی بدلائل تحکی الصعدۃ فی اعدام الفریۃ۔ وکانت الحاجۃ قد اشتدت فی زمننا لرفع الالتباس۔ لیعلم الناس حقیقۃ الامر ویعرفوا السرّ کالاِکیاس۔ والاسلام مشرب قد احتویٰ کل نوع حفاوۃ۔ والقراٰن کتاب جمع کل حلاوۃ وطلاوۃ۔ ولٰکن الاعداء لا یرون من الظلم والضیم۔ ویتسابون انسیاب الایم۔ مع ان الا سلام دین خصّہ اللّٰہ بھٰذہ الاٰثرۃ۔ وفیہ برکات لا یبلغھا احد من الملۃ۔ وکان الاسلام فی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/84/mode/1up

84

ھٰذا الزمان کمثل معصوم اُثّم وظُلم بانواع البھتان۔ وطالت الالسنۃ علیہ و صالوا علٰی حریمہ۔ وقالوا مذھب کان قتل النّاس خلاصۃ تعلیمہ۔ فَبُعِثت لیجد الناس ما فقدوا من سعادۃ الجد۔ ولیخلصوا من الخصم الالدّ۔ و انی ظھرت برث فی الارض وحلل بارقۃ فی السماء۔ فقیر فی الغبراء وسلطان فی الخضراء۔ فطوبٰی للذی عرفنی اوعرف من عرفنی من الاصدقاء وجئتُ اھل الدنیا ضعیفًا نحیفًا کنحافۃ الصب۔ وغرض القذف والشتم والسبّ۔ ولٰکنی کمیّ قوی فی العالم الاعلٰی۔ ولی عضب مذرب فی الافلاک وملک لا یبلٰی۔ وحسام یضاھی البرق صقالہ۔ ویمذّق الکذب قتالہ۔ و لی صورۃ فی السماء لا یراھا الانسان۔ ولا تدرکھا العینان۔ واننی من اعاجیب الزمان۔ وانی طُھّرت وبُدّلت وبُعّدت من العصیان۔ وکذالک یطھّر ویبدّل من احبّنی وجاء بصدق الجنان۔ وان انفاسی ھٰذہ تریاق سم الخطیّات وسدّ مانع من سوق الخطرات الٰی سوق الشبھات۔ ولا یمتنع من الفسق عبدٌ ابدًا الّاالّذی احبّ حبیب الرحمان۔ اوذھب منہ الاطیبان۔ وعطف الشیب شطاطہ بعد ما کان کقضیب البان۔ ومن عرف اللّٰہ اوعرف عبدہ فلا یبقی فیہ شی ءٌ من الحدّ والسنان۔ وینکسر جناحہ ولا یبقی بطش فی الکف والبنان۔ ومن خواص اھل النظر انھم یجعلون الحجرکالعقیان۔ فانھم قوم لا یشقٰی جلیسھم ولا یرجع رفیقھم بالحرمان۔ فالحمدللّٰہ علٰی مننہ انہ ھو المنّان۔ ذوالفضل والاحسان۔ واعلموا انی انا المسیح۔ وفی برکات اسیح۔ وکل یوم یزید البرکات ویزداد الاٰیات۔ والنور یبرق علٰی بابی۔ و یأتی زمان یتبرک الملوک فیہ اثوابی۔ وذالک الزؔ مان زمان قریب۔ ولیس من القادر بعجیب۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/85/mode/1up

85

الاختبار اللطیف لمن کان یعدل اویحیف

ایّھاالناس ان کنتم فی شک من امری۔ وممّا اوحی الیّ من ربّی۔ فناضلونی فی انباء الغیب من حضرۃ الکبریاء۔ وان لم تقبلوا ففی استجابۃ الدعاء۔ و ان لم تقبلوا ففی تفسیر القراٰن فی اللسان العربیۃ۔ مع کمال الفصاحۃ ورعایۃ الملح الادبیۃ۔ فمن غلب منکم بعد ماساق ھٰذا المساق۔ فھو خیر منّی ولا مِراء ولا شقاق۔ ثم ان کنتم تُعرضون عن الامرین الاوّلین۔ و تعتذرون وتقولون انا مااعطینا عین رؤیۃ الغیب ولا من قدرۃ علٰی اجراء تلک العین۔ فصارعونی فی فصاحۃ البیان مع التزام بیان معارف القراٰن واختاروا مسحب نظم الکلام۔ ولتسحبوا ولا ترھبوا ان کنتم من الادباء الکرام۔ وبعد ذالک ینظر الناظرون فی تفاضل الانشاء۔ ویحمدون من یستحق الاحماد والابراد و یلعنون من لعن من السماء۔ فھل فیکم فارس ھٰذا المیدان۔ و مالک ذالک البستان۔ وان کنتم لا تقدرون علی البیان۔ ولا تکفون حصائد اللسان۔ فلستم علی شیءٍ من الصدق والسداد۔ ولیس فیکم الامادۃ الفساد۔ اتحمون وطیس الجدال۔ مع ھٰذہ البرودۃ والجمود والجھل والکلال۔ موتوا فی غدیر او بارزونی کقدیر۔ و ارونی عینکم ولا تمشوا کضریر۔ واتقوا عذاب ملک خبیر۔ واذکروا اخذ علیم وبصیر۔ وان لم تنتھوا فیاتی زمان تحضرون عند جلیل کبیر۔ ثم تذوقون ما یذوق المجرمون فی حصیر۔ وان کنتم تدّعون المھارۃ فی طرق الاشرار۔ ومکائد الکفار۔ فکیدوا کلّ کیدٍ الٰی قوۃ الاظفار۔ و قَلّبوا امری ان کان عندکم ذرّۃ من الاقتدار۔ واحکموا تدبیرکموعاقبوا دبیرکم۔ واجمعوا کبیرکم۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/86/mode/1up

86

وصغیرکم واستعملوا دقاریرکم۔ وادعوا لھذاالامرمشاھیرکم۔ وکل من کان من المحتالین۔ واسجدوا علٰی عتبۃ کل قریع زمن وجابرزمن لیمدّکم بالمال والعقیان ثم انھضوا بذالک المال وھدّمونی من البنیان ان کنتم علٰی ھدّ ھیکل اللّٰہ قادرین۔ واعلموا ان اللّٰہ یخزیکم عند قصد الشرّ۔ ویحفظنی من الضرّ۔ ویتم امرہ وینصر عبدہ ولا تضرونہ شیءًا ولا تموتون حتی یریکم ما اریٰ من قبلکم کل من عادا اولیاء ہ من النبیین والمرسلین والمامورین واٰخرامرنا نصر من اللّٰہ وفتح مبین۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔

المشتھر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیان

***



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 87

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/87/mode/1up

87

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ

بجواب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی

3۱؂

3۲؂

ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے اشتہار مؤرخہ ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء ؁ میں پیر مہر علی صاحب گولڑوی کی اس بنا پر ایک اعجازی مقابلہ کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ دوسرے علماء پنجاب اور ہندوستان کی طرح میرے دعویٰ کے مکذب ہیں اور میری وہ تیس ۳۰ سے زیادہ کتابیں جو میں نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں تالیف کرکے ملک میں شائع کی ہیں وہ ثبوت اُن کے لئے کافی نہیں ہے اور نیز وہ تمام مناظرات اور مباحثات جو اُن کے ہم عقیدہ علماء سے آج تک ہوتے رہے وہ بھی اُن کے نزدیک نظری ہیں تو اب آخری فیصلہ یہ ہے کہ وہ سنّتِ قدیمہ اکابر اسلام کے رُو سے اس طرح پر ایک مباہلہ کی صورت* پر مجھ سے مقابلہ کر لیں کہ قرآن شریف کی چالیس آیتیں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے نکال کر اور یہ دُعا کرکے کہ جو شخص حق پر ہے اُس کو اِس

* اس قسم کا مقابلہ گو حقیقی طور پر مبا ہلہ نہیں کیونکہ اس میں *** نہیں اور کسی کے لئے عذاب کی درخواست نہیں اِسی لئے ہم نے اس کا نام اعجازی مقابلہ رکھا تا ہم مباہلہ کے اغراض نرم طور پر اس میں موجود ہیں جو خدا کے فیصلہ کے لئے کافی ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 88

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/88/mode/1up

88

مقابلہ میں فوری عزت حاصل ہو اور جونا حق پر ہے اس کو فوری خذلان نصیب ہو اور پھر آمین کہہ کر دونوں فریق یعنی میں اور پیر مہر علی شاہ صاحب زبان عربی فصیح اور بلیغ میں اُن چالیس آیات کی تفسیر لکھیں جو بیس ورق سے کم نہ ہو اور جو شخص ہم دونوں میں سے فصاحتِ زبان عربی اور معارف قرآنی کے رُو سے غالب رہے وہی حق پر سمجھا جائے۔ اور اگر پیر صاحب موصوف اس مقابلہ سے کنارہ کش ہوں تو دوسرے مولوی صاحبان مقابلہ کریں بشرطیکہ چالیس سے کم نہ ہوں تا عام لوگوں پر اُن کے مغلوب ہونے کا کچھ اثر پڑ سکے اور اُن کی وقعت گھٹا نے کی گنجائش کم ہو جائے لیکن افسوس بلکہ ہزارؔ افسوس کہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے میری اس دعوت کو جس سے مسنون طور پر حق کھلتا تھا اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے فیصلہ ہو جاتا تھا ایسے صریح ظلم سے ٹال دیا ہے جس کو بجز ہٹ دھرمی کچھ نہیں کہہ سکتے اور ایک اشتہار شائع کیا کہ ہم اوّل نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے رو سے بحث کرنے کے لئے حاضر ہیں اِس میں اگر تم مغلوب ہو تو ہماری بیعت کر لواور پھر بعد اس کے ہمیں وہ اعجازی مقابلہ بھی منظور ہے۔ اب ناظرین سوچ لیں کہ اس جگہ کس قدر جھوٹ اور فریب سے کام لیا گیا ہے کیونکہ جبکہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے رُو سے مغلوب ہونے کی حالت میں میرے لئے بیعت کرنے کا حکم لگایا گیا ہے تو پھر مجھے اعجازی مقابلہ کے لئے کونسا موقع دیا گیا اور ظاہر ہے کہ غالب ہونے کی حالت میں تو مجھے خود ضرورت اعجازی مقابلہ کی باقی نہیں رہے گی اور مغلوب ہونے کی حالت میں بیعت کرنے کا حکم میری نسبت صادر کیا گیا۔ اب ناظرین بتلاویں کہ جس مقابلہ اعجازی کے لئے میں نے بلایا تھا اس کا موقع کونسا رہا۔ پس یہ کس قدر فریب ہے کہ پیر جی صاحب نے پیر کہلا کر اپنی جان بچا نے کے لئے اس کو استعمال کیا ہے۔ پھر اِس پر ایک اور جھوٹ یہ ہے کہ آپ اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ ہم نے آپ کی دعوت کو منظور کر لیا ہے۔ ناظرین انصاف کریں کہ کیا یہی طریق منظوری ہے جو انہوں نے پیش کیا ہے؟ منظوری تو اس حالت میں ہوتی کہ وہ بغیر کسی حیلہ بازی کے میری درخواست کو منظور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 89

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/89/mode/1up

89

کر لیتے مگر جبکہ آپ نے ایک اور درخواست پیش کر دی اور یہ لکھ دیا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے رُو سے مباحثہ ہو اور اگر منصف لوگ جو اُنہی کی جماعت میں سے ہوں گے یہ رائے ظاہر کریں کہ پیر صاحب اس مباحثہ میں غالب رہے تو پھر بیعت کر لو۔ اب بتلاؤ کہ جب منقولی مباحثہ پر ہی بیعت تک نوبت پہنچ گئی تو میری درخواست کے منظور کرنے کے کیا معنے ہوئے وہ تو بات ہی معرض التوا میں رہی کیا اسی کو منظوری کہتے ہیں؟ کیا میں پیر صاحب کا مرید بن کر پھر تفسیر لکھنے میں ان کا مقابلہ بھی کروں گا یا غالب ہونے کی حالت میں میرا حق نہیں ہوگا کہ میں اُن سے بیعت لوں اور میرے لئے پھر اعجازی مقابلہ کی ضرورت رہے گی مگر اُن کے لئے نہیں۔ اور پھر قابل شرم دھوکا جو اس اشتہار میں دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بیان نہیں کیا گیا کہ ہماری اس دعوت سے اصل غرض کیا تھی۔ ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ اصل غرض اس اشتہار سے یہ تھی کہ جب کہ نقلی مباحثات سے مخالف علماء راہ راست پر نہیں آئے اور ان مباحثات کو ہوتے ہوئے بھی دس سال سے کچھ زیادہ گذر گئے اور اس عرصہ میں میں نے چھتیس کتابیں تالیف کرکے قوم میں شائع کیں اور ایک سو سے زیادہ اشتہار شائع کیا اور ان تمام تحریروں کی پچاس ہزار سے زیادہ کاپی ملک میں پھیلائی گئی اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے اعلیٰ درجہ کا ثبوت دیا گیا لیکن ان تمام دلائل اور مباحثات سے انہوں نے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا تو آخر خدا تعالیٰ سے امر پاکر سنت انبیاء علیہم السلام پر علاج اس میں دیکھا کہ ایک فوری مباہلہ کے رنگ میں اعجازی مقابلہ کیا جائے لیکن اب پیر صاحب مجھے اسی پہلے مقام کی طرف کھینچتے ہیں اور اسی سوراخ میں پھر میرا ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں جس میں بجز سانپوں کے میں نے کچھ نہیں پایا اور جس کی نسبت میں اپنی کتاب انجام آتھم میں مولویوں کی سخت دلی کو دیکھ کر تحریری وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم ان کے ساتھ مباحثات مذکورہ نہیں کریں گے پیر صاحب نے کسی جگہ ہاتھؔ پڑتا نہ دیکھ کر اس غریق کی طرح جو گھاس پات پر ہاتھ مارتا ہے مباحثہ کا بہانہ پیش کر دیا یہ خیال میری نسبت کرکے کہ اگر وہ مباحثہ نہیں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 90

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/90/mode/1up

90

کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا نقارہ بجائیں گے۔ اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ د یں گے کہ اس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کرکے پھر توڑا۔ ہم پیر صاحب سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ اپنے نفس کے لئے یہ جائز رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کرکے پھر توڑ دیں؟ پھر ہم سے آپ نے کیونکر توقع رکھی؟ اور اب منقولی مباحثات کی حاجت ہی کیا تھی؟ خدا تعالیٰ کی کلام سے حضرت مسیح کافوت ہونا ثابت ہو گیا۔ ایماندار کے لئے صرف ایک آیت 33 ۱؂ اس بات پر دلیل کافی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے تیئیس مقامات میں لفظ توفّی کو قبض رُوح کے موقعہ پر استعمال کیا۔ اوّل سے آخر تک قرآن شریف میں کسی جگہ لفظ توفّی کا ایسا نہیں جس کے بجز قبض روح اور مارنے کے اور معنے ہوں۔ اور پھر ثبوت پر ثبوت یہ کہ صحیح بخاری میں ابن عباس سے متوفّیک کے معنے ممیتک لکھے ہیں۔ ایسا ہی تفسیر فوز الکبیر میں بھی یہی معنے مندرج ہیں اور کتاب عینی تفسیر بخاری میں اس قول کا اسناد بیان کیا ہے۔ اب اس نص قطعی سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے ضرور مر چکے ہیں اوراحادیث میں جہاں کہیں توفّی کا لفظ کسی صیغہ میں آیا ہے اس کے معنے مارنا ہی آیا ہے جیسا کہ محدثین پر پوشیدہ نہیں ۔اور علم لغت میں یہ مُسلّم اور مقبول اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہے وہاں بجز مارنے کے اور کوئی معنے توفّی کے نہیں آتے۔ تمام دوا وین عرب اس پر گواہ ہیں۔ اب اس سے زیادہ ترک انصاف کیا ہوگا کہ قرآن بلند آواز سے فرما رہا ہے کوئی نہیں سنتا۔ حدیث گواہی دے رہی ہے کوئی پروا نہیں کرتا۔ علمِ لغت عرب شہادت ادا کر رہا ہے کوئی اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ دواوین عرب اس لفظ کے محاورات بتلا رہے ہیں کسی کے کان کھڑے نہیں ہوتے۔ پھر قرآن شریف میں صرف یہی آیت تو نہیں کہ حضرت مسیح کی موت پر دلالت کرتی ہے۔ تیس۳۰ آیتیں جن کا ذکر ازالہ اوہام میں موجود ہے یہی گواہی دیتی ہیں جیسا کہ آیت 33 ۲؂ یعنی زمین پر ہی تم زندگی بسر کرو گے۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 91

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/91/mode/1up

91

اب دیکھو اگر کوئی آسمان پر جاکر بھی کچھ حصہ زندگی کا بسر کر سکتا ہے تو اس سے اس آیت کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اِسی کی مؤید ہے یہی دوسری آیت کہ3 ۱؂ یعنی تمہارا قرار گاہ زمین ہی رہے گی۔ اب اِس سے زیادہ خدا تعالیٰ کیا بیان فرماتا؟ پھر ایک اور آیت حضرت عیسیٰ کی موت پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 3 ۲؂ یعنی حضرت مسیح اور حضرت مریم جب زندہ تھے تو روٹی کھایا کرتے تھے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر ترکِ طعام کی دو وجہیں ہوتیں تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر علیحدہ علیحدہ کر دیتا کہ مریم تو بوجہ فوت ہونے کے طعام سے مہجور ہو گئی اور عیسیٰ کسی اور وجہ سے کھانا چھوڑ بیٹھا بلکہ دونوں کو ایک ہی آیت میں شامل کرنا اتحاد امر واقعہ پر دلیل ہے تامعلوم ہو کہ دونوں مر گئے۔ پھر ایک اور آیت حضرت عیسیٰ کی موت پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ 3 3۳؂ یعنی خدانے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں نماز پڑھتا رہوں اور زکوٰۃ دوں۔ اب بتلاؤ کہ آسمان پر وہ زکوٰۃ کس کو دیتے ہیں؟ اور پھر ایک اور آیت ہے ؔ جو بڑی صراحت سے حضرت عیسیٰ کی موت پر دلالت کر رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ 3۴؂ یعنی جس قدر باطل معبودوں کی لوگ زمانۂ حال میں پرستش کر رہے ہیں وہ سب مر چکے ہیں اُن میں (سے) کوئی زندہ باقی نہیں۔ اب بتلاؤ کیا اب بھی کچھ خدا کا خوف پیدا ہوا یا نہیں؟ یا نعوذ باللہ خدا نے غلطی کی جو سب باطل معبودوں کو مُردہ قرار دیا۔ اور پھر ان سب کے بعد وہ عظیم الشان آیت ہے جس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوا اور ایک لاکھ سے زیادہ صحابی نے اس بات کو مان لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور کل گذشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں اور وہ یہ آیت ہے۔ 333333۵؂۔اس جگہ خلت کے معنے خدا تعالیٰ نے آپ فرما دیئے کہ موت یا قتل۔ پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے محلِّ استدلال میں جمیع انبیاءِ گذشتہ کی موت پر اس آیت کو پیش کرکے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 92

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/92/mode/1up

92

او ر صحابہ نے ترک مقابلہ اور تسلیم کا طریق اختیار کرکے ثابت کر دیا کہ یہ آیت موت مسیح اور تمام گذشتہ انبیاء علیہم السلام پر قطعی دلیل ہے اور اس پر تمام اصحاب رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا ایک فرد بھی باہر نہ رہا جیسا کہ میں نے اس بات کو مفصّل طور پر رسالہ تحفہ غزنویہ میں لکھ دیا ہے پھر اس کے بعد تیرہ سو برس تک کبھی کسی مجتہد اور مقبول امام پیشوائے انام نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں بلکہ امام مالک نے صاف شہادت دی کہ فوت ہو گئے ہیں اور امام ابن حزم نے صاف شہادت دی کہ فوت ہو گئے ہیں۔ اور تمام کامل مکمل ملہمین میں سے کبھی کسی نے یہ الہام نہ سُنایا کہ خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا ہے کہ عیسیٰ بن مریم بر خلاف تمام نبیوں کے زندہ آسمان پر موجود ہے۔ الغرض جبکہ میں نے نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ اور اقوال ائمہ اربعہ اور وحی اولیاءِ اُمت محمدیہ اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم میں بجز موت مسیح کے اور کچھ نہ پایا تو بنظرِ تکمیل لوازم تقویٰ انبیاءِ سابقین علیہم السلام کے قصص کی طرف دیکھا کہ کیا قرون گذشتہ میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود ہے کہ کوئی آسمان پر چلا گیا ہو اور دوبارہ واپس آیا ہوتو معلوم ہوا کہ حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی نظیر نہیں جیسا کہ قرآن شریف بھی آیت 33 ۱؂ میں اسی کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔ یعنی جب کفار بد بخت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اقتراحی معجزہ مانگا کہ ہم تب تجھے قبول کریں گے کہ جب ہمارے دیکھتے دیکھتے آسمان پر چڑھ جائے اور دیکھتے دیکھتے اُتر آوے تو آپ کو حکم آیا کہ 3 ۲؂ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس بات سے پاک ہے کہ اپنی سنّتِ قدیمہ اور دائمی قانونِ قدرت کے برخلاف کوئی بات کرے میں تو صرف رسول اور انسان ہوں اور جس قدر رسول دنیا میں آئے ہیں اُن میں سے کسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہوئی کہ اس کو بجسم عنصری آسمان پر لے گیا ہو اور پھر آسمان سے اتارا ہواور اگر عادت ہے تو تم خود ہی اس کا ثبوت دو کہ فلاں نبی بجسم عنصری آسمان پر اٹھایا گیا تھا اور پھر اتاراگیا۔ تب میں بھی آسمان پر جاؤں گا اور تمہارے روبرو اُتروں گا۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/93/mode/1up

93

اور اگر کوئی نظیر تمہارے پاس نہیں تو پھرکیوں ایسے امرکی نسبت مجھ سے تقاضا کرتے ہو جو رسولوں کے ساتھ سنّت اللہ نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ سکھلایا ہوا ہوتا کہ حضرت مسیح زندہ بجسمہ العنصری آسماؔ ن پر چلے گئے ہیں تو ضرور وہ اس وقت اعتراض کرتے اور کہتے کہ یا حضرت آپ کیوں آسمان پر کسی رسول کا بجسم عنصری جانا سنت اللہ کے بر خلاف بیان فرماتے ہیں حالانکہ آپ ہی نے تو ہمیں بتلایا تھا کہ حضرت مسیح آسمان پر زندہ بجسمہ العنصری چلے گئے ہیں۔ ایسا ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر کسی نے اعتراض نہ کیا کہ قرآن میں کیوں تحریف کرتے ہو تمام گذشتہ انبیاء کہاں فوت ہوئے ہیں اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اُس وقت عذر کرتے کہ نہیں صاحب میرا منشاء تمام انبیاء کا فوت ہونا تو نہیں ہے میں تو بدل اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بجسمہ العنصری آسمان پر چڑھ گئے ہیں اور کسی وقت اُتریں گے تو صحابہ جواب دیتے کہ اگر آپ کا یہی اعتقاد ہے تو پھر آپ نے اِس آیت کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خیالات کا ردّ کیا کیا؟ کیا آپ کے کان بہرے ہیں کیا آپ سُنتے نہیں کہ عمر بلند آوازسے کیا کہہ رہا ہے؟ حضرت وہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم مرے نہیں زندہ ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے اور منافقوں کو قتل کریں گے اور وہ آسمان کی طرف ایسا ہی زندہ اٹھائے گئے ہیں جیسے کہ عیسیٰ بن مریم اٹھایا گیا تھاآپ نے آیت تو پڑھ لی مگر اس آیت میں اِس خیال کا ردّ کہاں ہے۔ لیکن صحابہ جو عقلمند اور زیرک اور پاک نبی کے ہاتھ سے صاف کئے گئے تھے اور عربی تو اُن کی مادری زبان تھی اور کوئی تعصب درمیان نہ تھا۔ اس لئے انہوں نے آیت موصوفہ بالا کے سُنتے ہی سمجھ لیا کہ خلت کے معنے موت ہیں جیسا کہ خود خدا تعالیٰ نے فقرہ 33 ۱؂ میں تشریح کر دی ہے اس لئے انہوں نے بلا توقف اپنے خیالات سے رجوع کر لیااور ذوق میں آکر اور آنحضرت کے فراق کے درد سے بھر کر بعض نے اس مضمون کو ادا کرنے کے لئے شعر بھی بنائے جیسا کہ حسّان بن ثابت نے بطور مرثیہ یہ دو بیت کہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/94/mode/1up

94

کنت السواد لناظری۔ فعمی علیک الناظر

من شاء بعدک فلیمت۔ فعلیک کنت احاذر


یعنی اے میرے پیارے نبی! تُو تو میری آنکھوں کی پتلی تھی اور میرے دیدوں کا نور تھا۔ پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کیا غم کروں عیسیٰ مرے یا موسیٰ مرے۔ کوئی مرے مجھے تو تیرا ہی غم تھا۔ دیکھو عشق محبت اسے کہتے ہیں جب صحابہ کو معلوم ہو گیا کہ وہ نبی افضل الانبیاء جن کی زندگی کی اشد ضرورت تھی عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہو گئے تو وہ اس کلمہ سے سخت بیزار ہو گئے کہ آنحضرت تو مر جائیں مگر کسی دوسرے کو زندہ رسول کہا جائے۔ افسوس ہے آج کل کے مسلمانوں پر کہ پادریوں کے ہاتھ سے اس بحث میں سخت ذلیل بھی ہوتے ہیں اور لاجواب اور کھسیانے ہو کر بحث کو ترک بھی کر دیتے ہیں مگر اس عقیدہ سے باز نہیں آتے کہ زندہ رسول فقط عیسیٰ علیہ السلام ہے جو آسمان کے تخت پر بیٹھا ہوا دوبارہ آنے سے محمدی ختم نبوت کو داغ لگانا چاہتا ہے۔ افسوس کہ یہ علماء اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ حضرت سید الرسل و سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مردہ رسول قرار دینا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک زندہ رسول ماننا اِس میں جناب خاتم الابنیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی بڑی ہتک ہے اور یہی وہ جھوٹا عقیدہ ہے جس کی شامت کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمان اس زمانہ میں مرتد ہو چکے ہیں اور اصطباغ لئے ہوئے گرجاؤں میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر پھر بھی یہ لوگ اس باطل عقیدہ سے باز نہیں آتے بلکہ میری مخالفت کی وجہ سے اور بھی اِس میں اصرار کرتے اور حد سے بڑھتے جاتے ہیں۔ بلکہ بعض نابکار مولوی یہ بھی کہتے ہیں کہ ؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسیٰ مسیح سے نسبت ہی کیا ہے وہ تواز قسم ملائکہ تھا نہ انسان۔ اور صاف اور صریح اور روشن دلائل حضرت مسیح کی موت پر پیش کئے گئے ان کو میرے بغض سے مانتے نہیں اور اُن کی اُس ہندو کی مثال ہے کہ ایک ایسے موقع پر جہاں صرف مسلمان رہتے تھے سخت بھوکا اور قریب الموت ہو گیا مگر مسلمانوں کے کھانے جو نہایت نفیس اور لذیذ موجود تھے جن کو اُس ہندو کے کبھی باپ دادے نے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/95/mode/1up

95

بھی نہیں دیکھا تھا ان میں سے کچھ نہ کھایا یہاں تک کہ بھوک سے مر گیا اور اس لئے نہ کھایا کہ مسلمانوں کے ہاتھ اُن کھانوں سے چُھو گئے تھے۔ اسی طرح اِن لوگوں کا حال ہے کہ جن دلائل قاطعہ کو اُن کے خیال میں میرے ہاتھوں نے چھوا اُن سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ مگر میں بار بار کہتا ہوں کہ ہندو مت بنو یہ دلائل میرے نہیں ہیں اور نہ میرے ہاتھ ان کو چھوئے ہیں بلکہ یہ تو سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں شوق سے ان کو استعمال کرو۔ دیکھو کس قدر نصوص قرآنیہ حضرت مسیح کی وفات پر گواہی دے رہی ہیں۔ نصوص حدیثیہ گواہی دے رہی ہیں صحابہ کا اجماع گواہی دے رہا ہے۔ ائمہ اربعہ کی شہادت گواہی دے رہی ہے۔ سنتِ قدیمہ جو مؤید بآیت3 ۱؂ ہے گواہی دے رہی ہے پھر بھی اگر نہ مانو تو سخت بد نصیبی ہے۔ قرآن اور حدیث اور اجماع صحابہ اور نظیر سنتِ قدیمہ کے بعد کونسا شک باقی ہے۔ افسوس یہ بھی نہیں سوچتے کہ دوبارہ نزول کا مقدمہ حضرت مسیح کی عدالت سے پہلے فیصلہ پا چکا ہے اور ڈگری ہماری تائید میں ہوئی ہے۔ اور حضرت مسیح نے یہودیوں کے اس خیال کو کہ ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا ردّ کر دیا ہے اور مجاز اور استعارہ کے طور پر اس پیشگوئی کو قرار دے دیا ہے اور مصداق ایلیا کا حضرت یوحنا یعنی یحیٰی کو ٹھہرایا ہے۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فیصلہ کس قدر تمہارے مسئلہ متنازعہ فیہ کو صاف کر رہا ہے سچ کی یہی نشانی ہے کہ اس کی کوئی نظیر بھی ہوتی ہے اور جھوٹ کی یہ نشانی ہے کہ اُس کی نظیر کوئی نہیں ہوتی۔ بھلا بتلاؤ کہ مثلاً دو فریق میں ایک امر متنازعہ فیہ ہے اور منجملہ ان کے ایک فریق نے اپنی تائید میں ایک نبی معصوم کے فیصلہ کی نظیر پیش کر دی ہے اور دوسرا نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اب ان دونوں میں سے احقّ بالا من کون ہے؟ بیّنوا توجروا۔ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ بجز خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء کے افعال اور صفات نظیر رکھتے ہیں تا کسی نبی کی کوئی خصوصیت منجر بہ شرک نہ ہو جائے۔ اب بتلاؤ کہ ایک طرف تو نصاریٰ حضرت مسیح کی اس قدر لمبی زندگی کو اُن کی خدائی پر دلیل ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب دنیا میں بجز اُن کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/96/mode/1up

96

کوئی بھی زندہ نبی موجود نہیں اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مردہ سمجھتے ہیں مگر مسیح کو ایسا زندہ کہ خدا تعالیٰ کے پاس بیٹھا ہوا خیال کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ لوگ بھی حضرت عیسیٰ کو زندہ کہہ کر اور قرآن اور حدیث اور اجماع صحابہ کو خاک میں پھینک کر نصاریٰ سے ہاں میں ہاں ملا رہے ہو۔ اب سوچ لو کہ اس حالت میں اُمت محمدیہ پر کیا اثر پڑے گا؟ تم نے تو اپنے مُنہ سے اپنے تئیں لاجواب کر دیا اور کچے عذر تو اور بھی مخالف کی بات کو قوت دیتے ہیں۔ غرض تمہارے لاجواب ہو جانے سے ہزاروں انسان مر گئے اور مسجدیں خالی ہو گئیں اور نصاریٰ کے گر جا بھر گئے۔ اے رحم کے لائق مولویو! کبھی تو مسجدوں کے حجروں سے نکل کر اس انقلاب پر نظر ڈالو جو اسلام پر آگیا۔ خود غرضی کو دُور کیجئے۔ برائے خدا ایک نظر دیکھئے کہ اسلام کی کیا حالت ہے خدانے جو مجھے بھیجا اور یہ امور مجھے سکھلائے یہی آسمانی حربہ ہے جس کے بغیرؔ باطل کا دفع کرنا ممکن ہی نہیں۔ اب ہر ایک مرتد کا گناہ آپ لوگوں کی گردن پر ہے۔ جب آپ لوگ ہی قبول کریں کہ حضرت مسیح زندہ رسول اور حضرت خاتم الانبیاء مردہ رسول ہیں تو پھر لوگ مرتد ہوں یا نہ ہوں؟ پھر فرض کے طور پر اگر یہ واقعہ دوبارہ دنیا میں آنے کا صحیح تھا تو کیا وجہ کہ آپ لوگ اِس کی کوئی نظیر نہیں پیش کر سکتے۔ بغیر نظیر کے تو ایسی خصوصیت سے شرک کو قوت ملتی ہے اور ہر گز خدا تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے ظاہر ہے کہ نصاریٰ کو ملزم کرنے کے لئے صرف ایلیا نبی کے آسمان پر جانے اور دوبارہ آنے کی نظیر ہو سکتی تھی اور بے شک اس نظیر سے کچھ کام بن سکتا تھا۔ لیکن ان معنوں کو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آ پ ہی ردّ کردیا اور فرمایا کہ ایلیا سے مُراد یوحنّا نبی ہے جو اس کی خو اور طبیعت پر آیا ہے۔ اب تک یہودی شور مچا رہے ہیں کہ ملا کی نبی کی کتاب میں ایلیا کے دوبارہ آنے کی صاف اور صریح لفظوں میں خبر دی گئی تھی کہ وہ مسیح سے پہلے آئے گا مگر حضرت مسیح نے ناحق اپنے تئیں سچا مسیح بنانے کے لئے اِس کھلے کھلے نص کی تاویل کر دی اور اس تاویل میں وہ متفرد ہیں کسی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/97/mode/1up

97

اور نبی یا ولی یا فقیہ نے ہر گز یہ تاویل نہیں کی۔ اور ایلیا سے یحیٰی نبی مراد نہیں لیا بلکہ ظاہر آیت کو مانتے چلے آئے اور حضرت ایلیا کے دوبارہ آسمان سے نازل ہونے کے منتظر رہے۔ سو یہ ایک جھوٹ ہے جو عیسیٰ نے محض خود غرضی سے بولا۔ اب بتلاؤ یہودی اس الزام میں سچے ہیں یا جھوٹے؟ وہ تو اپنے تئیں سچے کہتے ہیں۔ ان کی یہ حجت ہے کہ خدا کی کتاب میں کسی مثیل ایلیا کے آنے کی ہمیں خبر نہیں دی گئی۔ خبر یہی دی گئی کہ خود ایلیا ہی دوبارہ دنیا میں آ جائے گا۔ مگر حضرت مسیح کا یہ عذر ہے کہ میں حَکَم ہو کر آیا ہوں اور خدا سے علم رکھتا ہوں نہ اپنی طرف سے اس لئے میرے معنے صحیح ہیں۔ اور واقعی امریہ ہے کہ اگر یہ قبول نہ کیا جائے کہ حضرت مسیح خدا کی طرف سے علم پاکر کہتے ہیں تو منطوق آیت بلا شبہ یہودیوں کے ساتھ ہے*۔ اسی وجہ سے وہ لوگ اب تک روتے چیختے اور حضرت مسیح کو سخت گالیاں دیتے ہیں کہ اپنے تئیں مسیح موعود قرار دینے کے لئے تحریف سے کام لیا۔ چنانچہ ایک فاضل یہودی کی ایک کتاب اسی پیشگوئی کے بارے میں میرے پاس موجود ہے جس کا خلاصہ اس جگہ لکھا گیا جو چاہے دیکھ لے میں دکھا سکتا ہوں۔ اس کتاب کا مؤلف نہایت درجہ کے دعوے سے تمام لوگوں کے سامنے اپیل کرتاہے کہ دیکھو عیسیٰ کیسا عمداًاپنے تئیں مسیح موعود قرار دینے کے لئے جھوٹ اور افترا سے کام لے رہا ہے اور پھر یہ مؤلف کہتا ہے کہ خدا کے سامنے ہمارے لئے یہ عذر کافی ہے کہ ملا کی کی کتاب میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود سے پہلے ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا مگر یہ شخص جو عیسیٰ بن مریم ہے یہ نص کتاب اللہ کے ظاہر الفاظ سے انحراف کرکے ایلیا سے مثیلِ ایلیا مراد لیتا ہے اِس لئے کاذب ہے اور چونکہ ایلیا

* فقرہ 3 ۱؂ اور3۲؂ کے یہ معنے کیوں کئے جاتے ہیں کہ حضرت مسیح آسمان کی طرف اٹھائے گئے ان لفظوں کے تو یہ معنے نہیں اور اگر کسی حدیث نے یہ تشریح کی ہے تو وہ حدیث تو پیش کرنی چاہئے۔ ورنہ یہودیوں کی طرح ایک تحریف ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/98/mode/1up

98

اب تک آسمان سے نہیں اُترا تو یہ کیونکر مسیح بن کر آگیا اور ممکن نہیں جو الہامی کتابیں جھوٹ ہوں۔ اب بتلاؤ کہ آپ لوگ حضرت عیسیٰ سے تواتنی محبت رکھتے ہیںؔ کہ آپ لوگوں کی نظر میں نعوذ باللہ سید الاصفیاء واصفی الاصفیاء حضرت خاتم الابنیاء تو مردہ رسول مگر مسیح زندہ رسول اور باوصف اس قدر اطراء حضرت مسیح کے یہودیوں کا پہلو آپ لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے۔ بھلا بتلاؤ کہ آپ لوگوں کے بیان میں جو آخری مسیح موعود کے بارے میں ہے اور یہودیوں کے بیان میں جوان کے اس زمانہ کے مسیح موعود کے بارے میں ہے فرق کیا ہے۔ کیا یہ دونوں عقیدے ایک ہی صورت کے نہیں ہیں؟ اور کیا میرا جواب اور حضرت عیسیٰ کا جواب ایک ہی طرز کا نہیں ہے؟ پھر اگر تقویٰ ہے تو اس قدر ہنگامہ محشر کیوں برپا کر رکھا ہے اور یہودیوں کی وکالت کیوں اختیار کرلی؟ کیا یہ بھی ضروری تھا کہ جب میں نے اپنے آپ کو مسیح کے رنگ میں ظاہر کیا تو اس طرف سے آپ لوگوں نے جواب دینے کے وقت فی الفور یہودیوں کا رنگ اختیار کرلیا۔ بھلا اگر بقول حضرت مسیح ایلیا کے دوبارہ نزول کے یہ معنے ہوئے کہ ایک اور شخص بروزی طور پر اُس کی خو اور طبیعت پر آئے گاتو پھر آپ کا کیا حق ہے کہ اس نبوی فیصلہ کو نظر انداز کرکے آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اب خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی آجائے گا۔ گویا خداتعالیٰ کو ایلیا نبی کے دوبارہ بھیجنے میں تو کوئی کمزوری پیش آگئی تھی مگر مسیح کے بھیجنے میں پھر خدائی قوت اس میں عود کر آئی۔ کیا اس کی کوئی نظیر بھی موجود ہے کہ بعض آدمی آسمان پر بجسمہِ العنصری جاکر پھر دنیا میں آتے رہے ہیں کیونکہ حقیقتیں نظیروں کے ساتھ ہی کھلتی ہیں۔ چنانچہ جب لوگوں کو حضرت عیسیٰ کے بے پدر ہونے پر اشتباہ ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کو مطمئن کرنے کے لئے حضرت آدم کی نظیر پیش کر دی مگر حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کے لئے کوئی نظیر پیش نہ کی* نہ حدیث میں نہ قرآن میں حالانکہ نظیر کا پیش کرنا دو وجہ سے ضروری

* بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ بھی تو عقیدہ اہل اسلام کا ہے کہ الیاس اور خضر زمین پر زندہ موجود ہیں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/99/mode/1up

99

تھا ایک اس غرض سے کہ تا حضرت عیسیٰ کا زندہ آسمان کی طرف اُٹھائے جانا اُن کی ایک خصوصیت ٹھہرکر منجرالی الشرک نہ ہو جائے اور دوسرے اس لئے کہ تا اس بارے میں سنت اللہ معلوم ہو کر ثبوت اس امر کا پایۂ کمال کو پہنچ جائے۔ سو جہاں تک ہمیں علم ہے خدا اور رسول نے اس کی نظیر پیش نہیں کی۔ اگر گولڑوی صاحب کو کشف کے ذریعہ سے اس کی نظیر معلوم ہو گئی ہے تو پھر اس کو پیش کرنا چاہئے۔ غرض حضرت مسیح علیہ السلام کی موت قرآن اور حدیث اور اجماع صحابہ اور اکابر ائمہ اربعہ اور اہل کشوف کے کشوف سے ثابت ہے اور اس کے سوا اور بھی دلائل ہیں۔ جیسا کہ مرہم عیسیٰ جو ہزار طبیب سے زیادہ اس کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آئے ہیں جن کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مرہم جو زخموں اور خون جاری کے لئے نہایت مفید ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے تیار کی گئی تھی اور واقعات سے ثابت ہے کہ نبوت کے زمانہ میں صرف ایک ہی صلیب کا حادثہ اُن کو پیش آیا تھا کسی اور سقطہ یا ضربہ کا واقعہ نہیں ہوا پس بلاشبہ وہ مرہم انہی زخموں کے لئے تھی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے زندہ بچ گئے اور مرہم کے استعمال سے شفاپائی اور پھر اس جگہ وہ حدیث جو کنزالعمال میں لکھی ہے حقیقت کو اور بھی ظاہر کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کو اس ابتلا کے زمانہ میں جو صلیب کا ابتلا تھا حکم ہوا کہ کسی اور ملک

اور ادریس آسمان پر مگر ان کو معلوم نہیں کہ علماء محققین ان کو زندہ نہیں سمجھتے کیونکہ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ آج سے ایک سو۱۰۰ برس کے گذرنے پر زمین پر کوئی زندہ نہیں رہے گا پس جو شخص خضر اور الیاس کو زندہ جانتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کا مکذب ہے اورا دریس کو اگر آسمان پر زندہ مانیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ آسمان پر ہی مریں گے کیونکہ اُن کا دوبارہ زمین پر آنا نصوص سے ثابت نہیں اور آسمان پر مرنا آیت 3 ۱؂ کے منافی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/100/mode/1up

100


کی طرف چلا جا کہ یہ شریر یہودی تیری نسبت بد ارادے رکھتے ہیں اور فرمایا کہ ایسا کر جو ان ملکوں سے دُور نکل جاتا تجھ کو شناخت کرکے یہ لوگ دُکھؔ نہ دیں۔ اب دیکھو کہ اس حدیث اور مرہم عیسیٰ کا نسخہ اور کشمیر کے قبر کے واقعہ کو باہم ملا کر کیسی صاف اصلیت اس مقولہ کی ظاہر ہو جاتی ہے۔ کتاب سوانح یوز آسف جس کی تالیف کو ہزار سال سے زیادہ ہو گیا ہے اس میں صاف لکھا ہے کہ ایک نبی یوز آسف کے نام سے مشہور تھا اور اس کی کتاب کا نام انجیل تھا اور پھر اُسی کتاب میں اُس نبی کی تعلیم لکھی ہے اور وہ تعلیم مسئلۂ تثلیت کو الگ رکھ کر بعینہٖ انجیل کی تعلیم ہے۔ انجیل کی مثالیں اور بہت سی عبارتیں اُس میں بعینہٖ درج ہیں چنانچہ پڑھنے والے کو کچھ بھی اس میں شک نہیں رہ سکتا کہ انجیل اور اس کتاب کا مؤلف ایک ہی ہے اور طرفہ تر یہ کہ اس کتاب کا نام بھی انجیل ہی ہے۔ اور استعارہ کے رنگ میں یہودیوں کو ایک ظالم باپ قرار دے کر ایک لطیف قصہ بیان کیا ہے جو عمدہ نصائح سے پُر ہے اور مدّت ہوئی کہ یہ کتاب یورپ کی تمام زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور یورپ کے ایک حصہ میں یوز آسف کے نام پر ایک گرجا بھی طیار کیا گیا ہے اور جب میں نے اس قصہ کی تصدیق کے لئے ایک معتبر مرید اپنا جو خلیفہ نور الدین کے نام سے مشہور ہیں کشمیر سری نگر میں بھیجا تو انہوں نے کئی مہینے رہ کر بڑی آہستگی اور تدبر سے تحقیقات کی۔ آخر ثابت ہو گیا کہ فی الواقع صاحب قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جو یوز آسف کے نام سے مشہور ہوئے۔ یوز کا لفظ یسوع کا بگڑا ہوا یا اس کا مخفف ہے اور آسف حضرت مسیح کا نام تھا جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہے جس کے معنے ہیں یہودیوں کے متفرق فرقوں کو تلاش کرنے والا یا اکٹھے کرنے والا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کشمیر کے بعض باشندے اس قبر کا نام عیسیٰ صاحب کی قبر بھی کہتے ہیں۔ اور اُن کی پُرانی تاریخوں میں لکھا ہے کہ یہ ایک نبی شہزادہ ہے جو بلادِ شام کی طرف سے آیا تھا۔ جس کو قریباً اُنیس۱۹۰۰ سو برس آئے ہوئے گذر گئے اور ساتھ اس کے بعض شاگرد تھے اور وہ کوہ سلیمان پر عبادت کرتا رہا اور اُس کی عبادت گاہ پر ایک کتبہ تھا جس کے یہ لفظ تھے کہ یہ ایک شہزادہ نبی ہے جو بلادِ شام



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/101/mode/1up

101

کی طرف سے آیا تھا۔ نام اس کا یوزہے۔ پھر وہ کتبہ سکھوں کے عہد میں محض تعصب اور عناد سے مٹایا گیا اب وہ الفاظ اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے۔ اور وہ قبر بنی اسرائیل کی قبروں کی طرح ہے اور بیت المقدس کی طرف مُنہ ہے اور قریبًا سرینگر کے پانسو آدمی نے اس محضرنامہ پر بدیں مضمون دستخط اور مہریں لگائیں کہ کشمیر کی پُرانی تاریخ سے ثابت ہے کہ صاحب قبر ایک اسرائیلی نبی تھا اور شہزادہ کہلاتا تھا کسی بادشاہ کے ظلم کی وجہ سے کشمیر میں آگیا تھا اور بہت بڈھا ہو کر فوت ہوا اور اُس کو عیسیٰ صاحب بھی کہتے ہیں اور شہزادہ نبی بھی اور یوز آسف بھی۔ اب بتلاؤ کہ اس قدر تحقیقات کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے میں کسر کیا رہ گئی اور اگر باوجود اس بات کے کہ اتنی شہادتیں قرآن اور حدیث اور اجماع اور تاریخ اور نسخہ مرہم عیسیٰ اور وجود قبرسرینگر میں اور معراج میں بزمرۂ اموات دیکھے جانا اور عمر ایک سو بیس سال مقرر ہونا اور حدیث سے ثابت ہونا کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ کسی اور ملک کی طرف چلے گئے تھے اور اسی سیاحت کی وجہ سے اُن کا نام نبی سیاح مشہور تھا۔ یہ تمام شہادتیں اگر ان کے مرنے کو ثابت نہیں کرتیں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی نبی بھی فوت نہیں ہوا۔ سب بجسم عنصری آسمان پر جا بیٹھے ہیں کیونکہ اس قدر شہادتیں اُن کی موت پر ہمارے پاس موجود نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کی موت خود مشتبہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ اُن کی زندگی پر یہ آیت قرآؔ نی گواہ ہے یعنی یہ کہ3 ۱؂۔ اور ایک حدیث بھی گواہ ہے کہ موسیٰ ہر سال دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ خانہ کعبہ کے حج کرنے کو آتا ہے۔ اے بزرگو! اب اس ماتم سے کچھ فائدہ نہیں۔ اب تو حضرت مسیح پر اِنَّالِلّٰہِ پڑھو وہ تو بیشک فوت ہو گئے وہ حدیث صحیح نکلی کہ مسیح کی عمر ایک سوبیس برس ہوگی نہ ہزاروں برس اب خدا سے ڈرنے کا وقت ہے کج بحثی کا وقت نہیں کیونکہ ثبوت انتہا تک پہنچ گیا ہے اور یہ خیال کہ قرآن شریف میں اُن کی نسبت 3۲؂ آیا ہے اور بَلْ دلالت کرتا ہے کہ وہ مع جسم آسمان پر اُٹھائے گئے۔ یہ خیال نہایت ذلیل خیال اور بچوں کا ساخیال ہے۔ اس قسم کا رفع تو بلعم کی نسبت بھی مذکور ہے یعنی لکھا ہے کہ ہم نے ارادہ کیا تھا کہ بلعم کا رفع کریں مگر وہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/102/mode/1up

102

زمین کی طرف جُھک گیا۔ ظاہر ہے کہ مسیح کیلئے جو لفظ رفع میں استعمال کئے گئے وہی لفظ بلعم کی نسبت استعمال کئے گئے۔ مگر کیا خدا کا ارادہ تھا کہ بلعم کو مع جسم آسمان پر پہنچا دے بلکہ صرف اُس کی رُوح کا رفع مراد تھا۔ اے حضرات! خدا سے خوف کرو۔ رفع جسمانی تو یہودیوں کے الزام میں معرض بحث میں ہی نہیں تمام جھگڑا تو رفع روحانی کے متعلق ہے کیونکہ یہود نے حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچ کر بموجب نص توریت کے یہ خیال کر لیا تھا کہ اب اس کا رفع روحانی نہیں ہوگا اور وہ نعوذ باللہ خدا کی طرف نہیں جائے گا بلکہ ملعون ہو کر شیطان کی طرف جائیگایہ ایک اصطلاحی لفظ ہے کہ جو شخص خدا کی طرف بلایا جاتا ہے اس کو مرفوع کہتے ہیں اور جو شیطان کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے اس کو ملعون کہتے ہیں سو یہی وہ یہودیوں کی غلطی تھی جس کا قرآن شریف نے بحیثیت حَکَمْ ہونے کے فیصلہ کیا اور فرمایا کہ مسیح صلیب پر قتل نہیں کیا گیا اور فعل صلیب پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچا اس لئے مسیح رفع روحانی سے محروم نہیں ہو سکتا۔ علاوہ اِس کے صاف ظاہر ہے کہ علم طبعی کی رو سے جس کے مسائل مشہودہ محسوسہ ہیں ہمیشہ جسم معرضِ تحلیل وتبدیل میں ہے ہر آن اور ہر سیکنڈ میں ذرّاتِ جسم بدلتے رہتے ہیں جو اس وقت ہیں وہ ایک منٹ کے بعد نہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ جس جسم کے رفع کا آیت 3 میں وعدہ ہوا تھا وہی جسم زمانہ آیت33تک موجود تھا۔ پس لازم آیا کہ جو وعدہ 3 3میں ایک خاص جسم کی نسبت دیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا کیونکہ ایفاءِ وعدہ کے وقت تو اَور جسم تھا اور پہلا جسم تحلیل پا چکا تھا۔ اور خود یہ خیال غلط ہے کہ جب کسی کو مخاطب کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ یا ابراہیم اور یا عیسیٰ اور یا موسیٰ اور یا محمد (علیہم السلام) تو اس کے ساتھ معیّت جسم شرط ہوتی ہے اور کچھ حصہ خطاب کا جسم کے ساتھ بھی متعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ صحیح ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اگر مثلاً ایک نبی کا ہاتھ کٹ جائے پا پیر کٹ جائے تو پھر اس لائق نہ رہے کہ یا عیسیٰ یا یا موسیٰ اس کو کہا جائے کیونکہ ایک حصہ جسم کا جس کو خطاب کیا گیا ہے اُس کے ساتھ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مُردہ انبیاء کا قرآن شریف میں ذکر اسی طرح کیا ہے جیسے اس حالت میں ذکر کیا تھا جبکہ وہ جسم کے ساتھ زندہ تھے پس اگر ایسے خطاب کے لئے جسم کی شرط ہے تو مثلاً یہ کہنا کیونکر جائز ہے کہ 3 ۱؂۔ غرض حضرت مسیح علیہ السلام کی موت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/103/mode/1up

103

کا بخوبی فیصلہ ہو چکا ہے اور اب ایسے ایسے بے ہودہ عذر کرنا اُس غرق ہونے والے کی مانند ہے جو موت سے بچنے کے لئے گھاس پات کو ہاتھ مارتا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ نیک نیتی سے سیدھی راہ کو نہیں سوچتے۔ اس بحث میں سبؔ سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح کچھ انوکھے رسول نہیں تھے اُن کے قتل کے بارے میں اس قدر جھگڑا کیوں برپا کیا گیا اور کیوں بار بار اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے بلکہ خدا نے ان کو اپنی طرف اُٹھا لیا نہ شیطان کی طرف اگر اس جھگڑے سے صرف اس قدر غرض تھی کہ یہودیوں پر ظاہر کیا جائے کہ وہ قتل نہیں ہوئے تو یہ تو ایک بیہودہ اور سراسر لغو غرض ہے اس غرض کو اس رفع اعتراض سے کیا تعلق کہ خدا نے مسیح کو اپنی طرف جو مقامِ اعزاز ہے اُٹھا لیا شیطان کی طرف ردّ نہیں کیا جو مقامِ ذلّت ہے۔ ظاہر ہے کہ محض قتل ہونے سے نبی کی شان میں کچھ فرق نہیں آتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا میں یہ بات داخل ہے کہ مَیں دوست رکھتا ہوں کہ خدا کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں تو پھر یہ بات قبول کے لائق ہے کہ قتل ہونے میں کوئی ہتک عزت نہیں ۔ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے یہ دُعا نہ کرتے تو پھر اس قدر حضرت مسیح کی نسبت الزام قتل کا دفع اور ذَبّ اور یہ کہنا کہ وہ قتل نہیں ہوا اور ہرگز صلیب سے قتل نہیں ہوا بلکہ ہم نے اپنی طرف اُٹھا لیا اس سے مطلب کیا نکلا اگر مسیح قتل نہیں ہوا تو کیا یحییٰ نبی بھی قتل نہیں ہوا اُس کو خدا نے کیوں اپنی طرف مع جسم عنصری نہ اٹھایا۔ کیا وجہ کہ اِس جگہ غیرت الٰہی نے جوش نہ مارا اور اُس جگہ جوش مارا اور اگر خدا نے کسی کو جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھانا ہے تو اُس کے لئے تو یہ الفاظ چاہئیں کہ جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھایا گیا نہ یہ کہ خدا کی طرف اُٹھایا گیا۔ یاد رہے کہ قرآن شریف بلکہ تمام آسمانی کتابوں نے دو۲ طرفیں مقرر کی ہیں ایک خدا کی طرف اور اس کی نسبت یہ محاورہ ہے کہ فلاں شخص خدا کی طرف اُٹھایا گیا۔ اور دوسری طرف بمقابل خدا کی طرف کے شیطان کی طرف ہے۔ اس کی نسبت قرآن میں 3 ۱؂ کا محاورہ ہے۔ یہ کس قدر ظلم ہے کہ رفع الی اللّٰہ جو ایک روحانی امر اخلاد الی الشیطان کے مقابل پر تھا اس سے آسمان پر مع جسم جانا سمجھا گیا اور خیال کیا گیا کہ خدا نے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/104/mode/1up

104

مسیح کو مع جسم کے آسمان پر اُٹھالیابھلا اس کارروائی سے حاصل کیا ہوا اور اس سے کونسا الزام یہودیوں پر آیا اور آسمان پر مع جسم کیوں پہنچایا گیا۔ کس ضرورت نے حکیم مطلق سے یہ فعل کرایا؟ اگر قتل سے بچانا تھا تو خدا تعالیٰ زمین پر بھی بچا سکتا تھا۔* جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غارِ ثور میں کفار کے قتل سے بچا لیا۔ اب اگر آہستگی اور تحمل سے سنو تو ہم بتلاتے ہیں کہ اس تمام جھگڑے کی اصلیت کیا ہے؟ بزرگو! خدا تم پر رحم کرے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کو غور سے دیکھنے اور اُن کے تاریخی واقعات پر نظر ڈالنے سے جو تواترکے اعلیٰ درجہ پر پہنچے ہوئے ہیں جن سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا یہ حال معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اوائل حال میں تو بے شک یہودی ایک مسیح کے منتظر تھے تا وہ ان کو غیر قوموں کی حکومت سے نجات بخشے اور جیسا کہ ان کی کتابوں کی پیشگوئیوں کے ظاہر الفاظ سے سمجھا جاتا ہے داؤد کے تخت کو اپنی بادشاہی سے پھر قائم کرے چنانچہ اس انتظار کے زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے دعویٰ کیا

* اگر آسمان پر پہنچانے سے یہ غرض تھی کہ وہ بہشت میں پہنچ جائیں اور لذّات اُخروی سے حظ اُٹھاویں تو وہ غرض بھی تو پوری نہیں ہوئی کیونکہ اُخروی لذّات سے حظّ اٹھانے کے لئے اول مرنا ضروری ہے تو گویا اس جہان کے اغراض سے بھی جس کے لئے بھیجے گئے تھے ناکام رہے۔ اور وہ اصلاح جو اصل مقصود تھی وہ نہ کر سکے اور قوم ضلالت سے بھر گئی اور آسمان پر جاکر بھی کچھ لذّت اور راحت نہ اٹھائی۔ آپ آسمان پر بے فائدہ بیٹھے ہیں نہ اُس مقام پر ڈیرہ لگانے سے اپنے نفس کو کچھ فائدہ اور نہ امت کو کچھ نفع۔ کیا انبیاء علیہم السلام کی طرف جو دنیا کی اصلاح کرکے پھر خدا کو جا ملتے ہیں ایسے امور منسوب ہو سکتے ہیں؟ اوّل یہ تو سوچنا چاہئے کہ رفع الی اللّٰہ جو جامع لذاتِ اُخروی ہے بغیر موت کے کب ممکن ہے۔ یہ تخلف وعدہ کیسا ہوا؟ کہ رفع الی للّٰہ کا وعدہ کیا گیا اور پھر بٹھایا گیا دوسرے آسمان پر۔ کیا خدا دوسرے آسمان پر ہے؟ اور کیا حضرت ابراہیم اور موسیٰ خدا سے اوپر رہتے ہیں؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 105

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/105/mode/1up

105

کہ وہ مسیح میں ہوں اور میں ہی داؤد کے تخت کو دوبارہ قائم کروں گا۔ سو یہودی اس کلمہ سے اوائل حال میں بہت خوش ہوئے اور صدہا عوام الناس بادشاہت کی اُمید سے آپ کے معتقد ہو گئے اور بڑے بڑے تاجر اور رئیس بیعت میں داخل ہوئے لیکن کچھ تھوڑے دنوں کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ظاہر کر دیا کہ ؔ میری بادشاہت اِس دنیا کی نہیں ہے اور میری بادشاہت آسمان کی ہے۔ تب اُن کی وہ سب اُمیدیں خا ک میں مل گئیں اور ان کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص دوبارہ تخت داؤد کو قائم نہیں کرے گابلکہ وہ کوئی اور ہوگا۔ پس اسی دن سے بغض اور کینہ ترقی ہونا شروع ہوا اور ایک جماعت کثیر مرتد ہو گئی پس ایک تویہی وجہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھی کہ یہ شخص نبیوں کی پیشگوئی کے موافق بادشاہ ہو کر نہیں آیا۔ پھر کتابوں پر غور کرنے سے ایک اور وجہ یہ بھی پیدا ہوئی کہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا تھا کہ مسیح بادشاہ جس کی یہودیوں کو انتظا ر تھی وہ نہیں آئے گا جب تک ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں نہ آئے چنانچہ انہوں نے یہ عذر حضرت مسیح کے سامنے پیش بھی کیا لیکن آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس جگہ ایلیا سے مراد مثیل ایلیا ہے یعنی یحییٰ۔ افسوس کہ اگر جیسا کہ اُن کی نسبت احیاءِ موتٰی کا گمان باطل کیا جاتا ہے وہ حضرت ایلیا کو زندہ کرکے دکھلا دیتے تو اس قدر جھگڑا نہ پڑتا اور نص کے ظاہری الفاظ کی رُو سے حجت پوری ہو جاتی۔ غرض یہودی اُن کے بادشاہ نہ ہونے کی وجہ سے اُن کی نسبت شک میں پڑ گئے تھے اور ملا کی نبی کی کتاب کی رو سے یہ دوسرا شک پیدا ہوا پھر کیا تھا سب کے سب تکفیر اور گالیوں پر آگئے اور یہودیوں کے علماء نے اُن کے لئے ایک کُفر کا فتویٰ طیّار کیا اور ملک کے تمام علماءِ کرام اور صوفیہ عظام نے اس فتوے پر اتفاق کر لیا اور مہریں لگادیں مگر پھر بھی بعض عوام الناس میں سے جو تھوڑے ہی آدمی تھے حضرت مسیح کے ساتھ رہ گئے۔ اُن میں سے بھی یہودیوں نے ایک کو کچھ رشوت دے کر اپنی طرف پھیر لیا اور دن رات یہ مشورے ہونے لگے کہ توریت کے نصوصِ صریحہ سے اس شخص کو کافر ٹھہرانا چاہئے تا عوام بھی یکدفعہ بیزار ہو جائیں اور اس کے بعض نشانوں کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاویں۔ چنانچہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 106

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/106/mode/1up

106

یہ بات قرار پائی کہ کسی طرح اس کو صلیب دی جائے پھر کام بن جائے گا۔ کیونکہ توریت میں لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ *** ہے یعنی وہ شیطان کی طرف جاتا ہے نہ خدا کی طرف۔ سو یہودی لوگ اس تدبیر میں لگے رہے اور جو شخص اس ملک کا حاکم قیصر روم کی طرف سے تھا اور بادشاہ کی طرح قائم مقام قیصر تھا اس کے حضور میں جھوٹی مخبریاں کرتے رہے کہ یہ شخص درپر دہ گورنمنٹ کا بد خواہ ہے۔ آخر گورنمنٹ نے مذہبی فتنہ اندازی کے بہانہ سے پکڑ ہی لیا مگر چاہا کہ کچھ تنبیہ کرکے چھوڑ دیں مگر یہود صرف اس قدر پر کب راضی تھے۔ انہوں نے شور مچایا کہ اِس نے سخت کفر بکا ہے قوم میں بلواہو جائے گا مفسدہ کا اندیشہ ہے اس کو ضرور صلیب ملنی چاہئے۔ سو رومی گورنمنٹ نے یہودیوں کے بلوہ سے اندیشہ کرکے اور کچھ مصلحت ملکی کو سوچ کر حضرت مسیح کو اُن کے حوالہ کر دیا کہ اپنے مذہب کے رو سے جو چاہو کرو اور پیلا طوس گورنر قیصر جس کے ہاتھ میں یہ سب کارروائی تھی اس کی بیوی کو خواب آئی کہ اگر یہ شخص مر گیا تو پھر اس میں تمہاری تباہی ہے۔ اِس لئے اس نے اندرونی طور پر پوشیدہ کوشش کرکے مسیح کو صلیبی موت سے بچا لیا مگر یہود اپنی حماقت سے یہی سمجھتے رہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا۔ حالانکہ حضرت مسیح خدا تعالیٰ کا حکم پا کر جیسا کہ کنز العمال کی حدیث میں ہے اس ملک سے نکل گئے اور وہ تاریخی ثبوت جو ہمیں ملے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ نصیبین سے ہوتے ہوئے پشاور کی راہ سے پنجاب میں پہنچے اور چونکہ سرد ملک کے باشندے تھے اس لئے اس ملک کی شدّت گرمی کا تحمل نہ کر سکے لہٰذا کشمیر میں پہنچ گئے اور سری نگر کوؔ اپنے وجود باجود سے شرف بخشا اور کیا تعجب کہ انہی کے زمانہ میں یہ شہر آباد بھی ہوا ہو۔ بہر حال سری نگرکی زمین مسیح کے قدم رکھنے کی جگہ ہے۔ غرض حضرت مسیح تو سیاحت کرتے کرتے کشمیر پہنچ گئے ۔* لیکن یہودی اسی زعم باطل میں گرفتار رہے کہ گویا حضرت مسیح بذریعہ صلیب

ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے اور مسیح نے بھی اپنی ہجرت کی طرف انجیل میں اشارہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 107

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/107/mode/1up

107

قتل کئے گئے کیونکہ جس طرز سے حضرت مسیح صلیب سے بچائے گئے تھے اور پھر مرہم عیسیٰ سے زخم اچھے کئے گئے تھے اور پھر پوشیدہ طور پر سفر کیا گیا تھا یہ تمام امور یہودیوں کی نظر سے پوشیدہ تھے۔ ہاں حواریوں کو اس راز کی خبر تھی اور گلیل کی راہ میں حواری حضرت مسیح سے ایک گاؤں میں اکٹھے ہی رات رہے تھے اور مچھلی بھی کھائی تھی باایں ہمہ جیسا کہ انجیل سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے حواریوں کو حضرت مسیح نے تاکید سے منع کر دیا تھا کہ میرے اس سفر کا حال کسی کے پاس مت کہو سو حضرت مسیح کی یہی وصیت تھی کہ اس راز کو پوشیدہ رکھنا اور کیا مجال تھی کہ وہ اس خبر کو افشا کرکے نبی کے راز اور امانت میں خیانت کرتے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت مسیح کا نام سیاحت کرنے والا نبی رکھا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح نے اکثر حصہ دنیا کا سیر کیا ہے اور یہ حدیث کتاب کنزالعمال میں موجود ہے اور اسی بنا پر لُغتِ عرب کی کتابوں میں مسیح کی وجہ تسمیہ بہت سیاحت کرنے والا بھی لکھا ہے۔* غرض یہ قولِ نبوی

* دیکھو لسان العرب مسح کے لفظ میں۔ منہ

فرمایا ہے اور کہا کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں مگر افسوس کہ ہمارے مخالفین اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ حضرت مسیح نے کب اور کس ملک کی طرف ہجرت کی بلکہ زیادہ تر تعجب اِس بات سے ہے کہ وہ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ مسیح نے مختلف ملکوں کی بہت سیاحت کی ہے بلکہ ایک وجہ تسمیہ اسم مسیح کی یہ بھی لکھتے ہیں لیکن جب کہا جائے کہ وہ کشمیر میں بھی گئے تھے تو اس سے انکار کرتے ہیں حا لانکہ جس حالت میں انہوں نے مان لیا کہ حضرت مسیح نے اپنے نبوت کے ہی زمانہ میں بہت سے ملکوں کی سیاحت بھی کی تو کیا وجہ کہ کشمیر جانا اُن پر حرام تھا؟ کیا ممکن نہیں کہ کشمیر میں بھی گئے ہوں اور وہیں وفات پائی ہو اور پھر جب صلیبی واقعہ کے بعد ہمیشہ زمین پر سیاحت کرتے رہے تو آسمان پر کب گئے؟ اس کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 108

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/108/mode/1up

108

کہ مسیح سیاح نبی ہے تمام سربستہ راز کی کُنجی تھی اور اسی ایک لفظ سے آسمان پر جانا اور اب تک زندہ ہونا سب باطل ہوتا تھا مگر اس پر غور نہیں کی گئی۔ اور اس بات پر غور کرنے سے واضح ہوگا کہ جبکہ عیسیٰ مسیح نے زمانۂ نبوت میں یہودیوں کے ملک سے ہجرت کرکے ایک زمانہ دراز اپنی عمر کا سیاحت میں گذارا تو آسمان پر کس زمانہ میں اُٹھائے گئے اور پھر اتنی مدت کے بعد ضرورت کیا پیش آئی تھی؟ عجیب بات ہے یہ لوگ کیسے پیچ میں پھنس گئے ایک طرف یہ اعتقاد ہے کہ صلیبی فتنہ کے وقت کوئی اور شخص سولی مل گیا اور حضرت مسیح بلا توقف دوسرے آسمان پر جا بیٹھے اور دوسری طرف یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں کہ صلیبی حادثہ کے بعد وہ اسی دنیا میں سیاحت کرتے رہے اور بہت سا حصہ عمر کا سیاحت میں گذارا۔ عجب اندھیر ہے کوئی سوؔ چتا نہیں کہ پیلاطوس کے ملک میں رہنے کا زمانہ تو بالا تفاق ساڑھے تین برس تھا ۔اور دُور دراز ملکوں کے یہودیوں کو بھی دعوت کرنا مسیح کا ایک فرض تھا۔ پھر وہ اس فرض کو چھوڑ کر آسمان پر کیوں چلے گئے کیوں ہجرت کرکے بطور سیاحت اس فرض کو پورا نہ کیا؟ عجیب ترامر یہ ہے کہ حدیثوں میں جو کنزالعمال میں ہیں اسی بات کی تصریح موجود ہے کہ یہ سیرو سیاحت اکثر ملکوں کا حضرت مسیح نے صلیبی فتنہ کے بعد ہی کیا ہے اور یہی معقول بھی ہے کیونکہ ہجرت انبیاء علیہم السلام میں سنّت الٰہی یہی ہے کہ وہ جب تک نکالے نہ جائیں ہر گز نہیں نکلتے اور بالاتفاق مانا گیا ہے کہ نکا لنے یا قتل کرنے کا وقت صرف فتنۂ صلیب کا وقت تھا۔ غرض یہودیوں نے بوجہ صلیبی موت کے جو اُن کے خیال میں تھی حضرت مسیح کی نسبت یہ نتیجہ نکالا کہ وہ نعوذ باللہ ملعون ہو کر شیطان کی طرف گئے نہ خدا کی طرف۔ اور اُن کا رفع خدا کی طرف نہیں ہوا بلکہ شیطان کی طرف ہبوط ہوا۔ کیونکہ شریعت نے دو طرفوں کو مانا ہے۔ ایک خدا کی طرف اور وہ اونچی ہے جس کا مقامِ انتہائے عرش ہے اور دوسری شیطان کی اور وہ بہت نیچی ہے اور اس کا انتہا زمین کا پاتال ہے۔ غرض یہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مومن مرکر خدا کی طرف جاتا ہے۔ اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں جیسا کہ آیت 33 ۱؂ اس کی شاہدہے اور کافر نیچے کی طرف جو شیطان کی طرف ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 109

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/109/mode/1up

109

جاتا ہے۔ جیسا کہ آیت 33 ۱؂ اس کی گواہ ہے۔ خدا کی طرف جانے کا نام رفع ہے اور شیطان کی طرف جانے کا نام *** ۔ اِن دونوں لفظوں میں تقابل اضداد ہے۔ نادان لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھے۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر رفع کے معنے مع جسم اٹھانا ہے تو اس کے مقابل کا لفظ کیا ہوا۔ جیسا کہ رفع رُوحانی کے مقابل پر *** ہے۔ یہود نے خوب سمجھا تھا مگربوجہ صلیب حضرت مسیح کے ملعون ہونے کے قائل ہو گئے اور نصاریٰ نے بھی *** کو مان لیا مگر یہ تاویل کی کہ ہمارے گناہوں کے لئے مسیح پر *** پڑی اور معلوم ہوتا ہے کہ نصاریٰ نے *** کے مفہوم پر توجہ نہیں کی کہ کیسا ناپاک مفہوم ہے جو رفع کے مقابل پر پڑا ہے جس سے انسان کی رُوح پلید ہو کر شیطان کی طرف جاتی ہے اور خدا کی طرف نہیں جاسکتی۔ اِسی غلطی سے انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے ہیں۔ اور کفارہ کے پہلو کو اپنی طرف سے تراش کر یہ پہلو اُن کی نظر سے چُھپ گیا کہ یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ نبی کا دل ملعون ہو کر خدا کو ردّ کر دے اور شیطان کو اختیار کرے۔ مگر حواریوں کے وقت میں یہ غلطی نہیں ہوئی بلکہ اُن کے بعد عیسائیت کے بگڑنے کی یہ پہلی اینٹ تھی۔ اور چونکہ حواریوں کو تاکیدًا یہ وصیت کی گئی تھی کہ میرے سفر کا حال ہرگز بیان مت کرو اس لئے وہ اصل حقیقت کو ظاہر نہ کر سکے اور ممکن ہے کہ توریہ کے طور پر انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہو کہ وہ تو آسمان پر چلے گئے تا یہودیوں کا خیال دوسری طرف پھیر دیں۔ غرض انہی وجوہ سے حواریوں کے بعد نصاریٰ صلیبی اعتقاد سے سخت غلطی میں مبتلا ہو گئے مگر ایک گروہ اُن میں سے اِس بات کا مخالف بھی رہا اور قرائن سے انہوں نے معلوم کر لیا کہ مسیح کسی اور ملک میں چلا گیا صلیب پر نہیں مرا اور نہ آسمان پر گیا۔* بہر حال جبکہ یہ مسئلہ نصاریٰ پر مشتبہ ہو گیا اور یہودیوں نے صلیبی موت کی عام شہرت دے دی تو عیسائیوں کو چونکہ اصل حقیقت سے بے خبر تھے وہ بھی اس اعتقاد میں یہودیوں کے

* اِس گروہ کا ایک فرقہ اب تک نصاریٰ میں پایا جاتا ہے جو حضرت مسیح کے آسمان پر جانے سے منکر ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 110

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/110/mode/1up

110

پیرو ہو گئے مگر قدر قلیل، اِس لئے اُن کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت ہو گئے تھے اور اس عقیدہ کی حمایت میں بعض فقرے انجیلوں میں بڑھائے گئے جن کی وجہ سے انجیلوؔ ں کے بیانات میں باہم تناقض پیدا ہو گیاچنانچہ انجیلوں کے بعض فقروں سے تو صاف سمجھا جاتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا اور بعض میں لکھا ہے کہ مر گیا۔ اِسی سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے یہ فقرے پیچھے سے ملا دیئے گئے ہیں۔ اب قصّہ کو تاہ یہ کہ یہودیوں نے صلیب کی وجہ سے اس بات پر اصرار شروع کیا کہ عیسیٰ ابن مریم ایماندار اور صادق آدمی نہیں تھا اور نہ نبی تھا اور نہ ایمان داروں کی طرح اس کا خدا کی طرف رفع ہوا بلکہ شیطان کی طرف گیا اور اس پر یہ دلیل پیش کی کہ وہ صلیبی موت سے مرا ہے اس لئے ملعون ہے یعنی اس کا رفع نہیں ہوا۔ اِس کے بعد رفتہ رفتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آگیا اور چھ سو برس اِس قصّہ کو گذر گیا اور چونکہ عیسائیوں میں علم نہیں تھا اور کفّارہ کا ایک منصوبہ بنانے کا شوق بھی اُن کو محرک ہوا لہٰذا وہ بھی *** اور عدم رفع کے قائل ہو گئے اور خیال نہ کیا کہ *** کے مفہوم کو یہ بات لازمی ہے کہ انسان خدا کی درگاہ سے بالکل راندہ ہو جائے اور پلید دل ہو کر شیطان کی طرف چلا جائے اور محبت اور وفا کے تمام تعلق ٹوٹ جائیں اور دل پلید اور سیاہ اور خدا کا دشمن ہو جائے جیسا کہ شیطان کا دل ہے۔ اسی لئے لعین شیطان کا نام ہے۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ خدا کا ایسا مقبول بندہ جیسا کہ مسیح ہے اُس کا دل *** کی کیفیت کے نیچے آسکے اور نعوذ باللہ شیطانی مناسبت سے شیطان کی طرف کھینچا جائے۔ غرض یہ دونوں قومیں بُھول گئیں۔ یہودیوں نے ایک پاک نبی کو ملعون کہہ کر خدا کے غضب کی راہ اختیار کی۔* اور عیسائیوں نے اپنے پاک نبی اور مرشد اور ہادی کے دل کو بوجہ *** کے مفہوم کے

اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ سورۃ فاتحہ میں جو آیا ہے کہ 3 ۱؂ وہ اسی معرکہ کی طرف اشارہ ہے یعنی یہود نے خدا کے پاک اور مقدس نبی کو عمدًا محض شرارت سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 111

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/111/mode/1up

111

ناپاک اور خدا سے پھرا ہوا قرار دے کر ضلالت کی راہ اختیار کی اس لئے ضروری ہوا کہ قرآن بحیثیت حَکَمْ* ہو ؔ نے کے اس امر کا فیصلہ کرے۔ پس یہ آیات بطور فیصلہ ہیں کہ 33 ۱؂۔ 3۲؂۔ یعنی یہ سرے سے بات غلط ہے کہ یہودیوں نے بذریعہ صلیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے اس لئے اس کا نتیجہ بھی غلط ہے کہ حضرت مسیح کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا اورنعوذ باللہ شیطان کی طرف گیا ہے بلکہ خدا نے اپنی طرف اُس کا رفع کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہود اور نصاریٰ میں رفع جسمانی کا کوئی جھگڑا نہ تھا

* حَکَم اور حاکم میں یہ فرق ہے کہ حَکَم کا فیصلہ ناطق ہوتا ہے۔ اس کے بعد کو ئی اپیل نہیں مگر مجرد لفظ حاکم اس مضمون پر حاوی نہیں۔منہ

*** ٹھہرا کر خدا تعالیٰ کا غضب اپنے پر نازل کیا اور مغضوب علیھم ٹھہرے حالانکہ اُن کو پتہ بھی لگ گیا تھا کہ حضرت مسیح قبر میں نہیں رہے اور وہ پیشگوئی اُن کی پوری ہوئی کہ یونس کی طرح میرا حال ہوگا یعنی زندہ ہی قبر میں جاؤں گا اور زندہ ہی نکلوں گا۔ اور نصاریٰ گو حضرت مسیح سے محبت کرتے تھے مگر محض اپنی جہالت سے انہوں نے بھی *** کا داغ حضرت مسیح کے دل کی نسبت قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھا کہ *** کا مفہوم دل کی ناپاکی سے تعلق رکھتا ہے اور نبی کا دل کسی حالت میں ناپاک اور خدا کا دشمن اور اس سے بیزار نہیں ہو سکتا۔ پس اس سورۃ میں بطور اشارت مسلمانوں کو یہ سکھلایا گیا ہے کہ یہود کی طرح آنے والے مسیح موعود کی تکذیب میں جلدی نہ کریں اور حیلہ بازی کے فتوے طیار نہ کریں اور اس کا نام *** نہ رکھیں۔ ورنہ وہی *** اُلٹ کر اُن پر پڑے گی۔ ایسا ہی عیسائیوں کی طرح نادان دوست نہ بنیں اورناجائز صفات اپنے پیشوا کی طرف منسوب نہ کریں پس بلا شبہ اس سورۃ میں مخفی طور پر میرا ذکر ہے اور ایک لطیف پیرایہ میں میری نسبت یہ ایک پیشگوئی ہے اور دُعا کے رنگ میں مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ایسا زمانہ تم پر بھی آئے گا اور تم بھی حیلہ جوئی سے مسیح موعود کو *** ٹھہراؤ گے کیونکہ یہ بھی حدیث ہے کہ اگریہودی سو سمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو مسلمان بھی داخل ہوں گے۔ یہ عجیب خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ قرآن شریف کی پہلی سورۃ میں ہی جس کو پنج وقت مسلمان پڑھتے ہیں میرے آنے کی نسبت پیشگوئی کردی۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 112

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/112/mode/1up

112


اور نہ یہود کا یہ اعتقاد تھا کہ جس کا رفع جسمانی نہ ہو وہ مومن نہیں ہوتا اور ملعون ہوتا ہے اور خدا کی طرف نہیں جاتا بلکہ شیطان کی طرف جاتا ہے۔ خود یہود قائل ہیں کہ حضرت موسیٰ کا رفع جسمانی نہیں ہواحالانکہ وہ حضرت موسیٰ کو تمام اسرائیلی نبیوں سے افضل اور صاحب الشریعت سمجھتے ہیں اب تک یہود زندہ موجود ہیں اُن کو پوچھ کر دیکھ لو کہ انہوں نے حضرت مسیح کے مصلوب ہونے سے کیا نتیجہ نکالا تھا؟ کیا یہ کہ اُن کا رفع جسمانی نہیں ہوا یا یہ کہ اُن کا رفع روحانی نہیں ہوا اور وہ نعوذ باللہ اوپر کو خدا کی طرف نہیں گئے بلکہ نیچے کو شیطان کی طرف گئے۔ بڑی حماقت انسان کی یہ ہے کہ وہ ایسی بحث شروع کر دے جس کو اصل تنازع سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ بمبئی کلکتہ میں صدہا یہودی رہتے ہیں بعض اہل علم اور اپنے مذہب کے فاضل ہیں اُن سے بذریعہ خط دریافت کرکے پوچھ لو کہ انہوں نے حضرت مسیح پر کیا الزام لگایا تھا اور صلیبی موت کا کیا نتیجہ نکالا تھاکیا عدم رفع جسمانی یا عدم رفع روحانی ۔غرض حضرت مسیح کے رفع کا مسئلہ بھی قرآن شریف میں بے فائدہ اور بغیر کسی محرک کے بیان نہیں کیا گیا بلکہ اِس میں یہود کے اُن خیالات کا ذَبّ اور دفع مقصود ہے جن میں وہ حضرت مسیح کے رفع روحانی کے منکر ہیں۔ بھلا اگر تنزل کے طور پر ہم مان بھی لیں کہ یہ لغو حرکت نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے اپنے لئے پسند کی کہ مسیح کو مع جسم اپنی طرف کھینچ لیا اور اپنے نفس پر جسم اور جسمانی ہونے کا اعتراض بھی وارد کر لیا کیونکہ جسم جسم کی طرف کھینچا جاتا ہے پھر بھی طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ قرآن شریف یہود اور نصاریٰ کی غلطیوں کی اصلاح کرنے آیا ہے اور یہود نے یہ ایک بڑی غلطی اختیار کی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ ملعون قرار دیا اور اُن کے رُوحانی رفع سے انکار کیا ۔اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مرکر خدا کی طرف نہیں گیاہے بلکہ شیطان کی طرف گیا تو اس الزام کا دَفع اور ذَبّ قرآن میں کہاں ہے جو اصل منصب قرآن کا تھا کیونکہ جس حالت میں آیت 3اور آیت 3جسمانی رفع کیلئے خاص ہو گئیں تو رُوحانی رفع کا بیان کسی اور آیت میں ہونا چاہئے اور یہود اور نصاریٰ کی غلطی دُور کرنے کے لئے کہ جو عقیدہ *** کے متعلق ہے ایسی آیت کی ضرورت ہے کیونکہ جسمانی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 113

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/113/mode/1up

113

رفع *** کے مقابل پر نہیں بلکہ جیسا کہ *** بھی ایک روحانی امر ہے ایسا ہی رفع بھی ایک امر رُوحانی ہونا چاہئے۔ پس وہی مقصود بالذّات امر تھا۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ جو امر تصفیہ کے متعلق تھا وہ اعتراض تو بدستور گلے پڑا رہا اور خدا نے خواہ نخواہ ایک غیر متعلق بات جو یہود کے عقیدہ اور باطل استنباط سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتی یعنی رفع جسمانی اِس کا قصہ بار بار قرآن شریف میں لکھ مارا۔ گویا سوال دیگر اور جواب دگر۔ ظاہر ہے کہ رفع جسمانی یہود اور نصاریٰ اور اہلِ اسلام تینوں فرقوں کے عقائد کے رو سے مدار نجات نہیں۔* بلکہ کچھ بھی نجات اِس پر موقوف نہیں تو پھر کیوں خدا نے اس کو بار بار ذکر کرنا ؔ شروع کر دیا۔ یہود کا یہ کب مذہب ہے کہ بغیر جسمانی رفع کے نجات نہیں ہو سکتی اور نہ سچا نبی ٹھہر سکتا ہے پھر اس لغو ذکر سے فائدہ کیا ہوا؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جو تصفیہ کے لائق امر تھا جس کے عدم تصفیہ سے ایک سچا نبی جھوٹا ٹھہرتا ہے بلکہ نعوذ باللہ کافر بنتا ہے اور *** کہلاتا ہے اس کا تو قرآن نے کچھ ذکر نہ کیا اور ایک بے ہودہ قصہ رفع جسمانی کا جس سے کچھ بھی فائدہ نہیں شروع کر دیا۔خ غرض حضرت مسیح

* یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اُس رفع سے منکر تھے جو ہریک مومن کے لئے مدارِ نجات ہے کیونکہ مسلمانوں کی طرح اُن کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ جان نکلنے کے بعد ہریک مومن کی رُوح کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں مگر کافر پر آسمان کے دروازے بند ہوتے ہیں اس لئے اس کی رُوح نیچے شیطان کی طرف پھینک دی جاتی ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں بھی شیطان کی طرف ہی جاتا تھا لیکن مومن اپنی زندگی میں اوپر کی طرف جاتا ہے اس لئے مرنے کے بعد بھی خدا کی طرف اس کا رفع ہوتا ہے اور 33 کی آواز آتی ہے۔ منہ

رفع جسمانی کا خیال اُس وقت نصاریٰ کے دل میں پیدا ہوا جبکہ اُن کا ارادہ ہوا کہ حضرت مسیح کو خدا بناویں اور دنیا کا مُنجّی قرار دیں ورنہ نصاریٰ بھی خود اس بات کے قائل ہیں کہ نجات کے لئے تو صرف روحانی رفع کافی ہے۔ پس افسوس کہ جس امر کو نصاریٰ حضرت مسیح کی خدائی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ان کی ایک خصوصیت ٹھہراتے ہیں وہی امر مسلمانوں نے بھی اپنے عقیدہ میں داخل کر لیا ہے اگر مسلمان یہ جواب دیں کہ ہم تو ادریس کو بھی مسیح کی طرح آسمان پر ......۱؂........ عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ دوسرا جھوٹ ہے کیونکہ جیسا کہ تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے کہ اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ ادریس آسمان پر زندہ بجسم عنصری نہیں ورنہ ماننا پڑے گا کہ وہ بھی کسی دن زمین پر مرنے کے لئے آئے گا تو اب خواہ نخواہ رفع جسمانی میں مسیح کی خصوصیت ماننی پڑی اور قبول کرنا پڑا کہ اس کا جسم غیر فانی ہے اور خدا کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور یہ صریح باطل ہے۔ منہ

۱؂ معلوم ہوتا ہے کہ کاتب کی غلطی سے یہاں کچھ لفظ رہ گئے ہیں جو غالبًا ’’رہنے کا ‘‘کے الفاظ ہیں۔ (شمس)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 114

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/114/mode/1up

114

کی موت اور رفع *جسمانی پر یہ دلائل ہیں جو ہم نے بہت بسط سے اپنی کتابوں میں بیان کئے ہیں اور اب تک ہمارے مخالف عدم جواب کی وجہ سے ہمارے مدیون ہیں۔ پھر اس میں اب ہم پیر مہر علی شاہ یا کسی اور پیرصاحب یامولوی صاحب سے کیا بحث کریں۔ ہم تو باطل کو ذبح کر چکے اب ذبح کے بعد کیوں اپنے ذبیحہ پر بے فائدہ چھری پھیریں۔ اے حضرات! ان اُمور میں اب بحثوں کا وقت نہیں۔ اب تو ہمارے مخالفوں کے لئے ڈرنے اور توبہ کرنے کا وقت ہے کیونکہ جہاں تک اس دنیا میں ثبوت ممکن ہے اور جہاں تک حقائق اور دعاوی کو ثابت کیا جاتا ہے اسی طرح ہم نے حضرت مسیح کی موت اور اُن کے رفع روحانی کو ثابت کر دیا ہے۔ 333 ۔۱؂

اب موتِ مسیح کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ مسیح موعود کا اِسی اُمت میں سے آنا کن نصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ اور دیگر قرائن سے ثابت ہے۔ سو وہ دلائل ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں۔ غور سے سُنو شائد خدائے رحیم ہدایت کرے۔

منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والا مسیح جس کا اِس اُمت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ایک شخص ہوگا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں امامکم منکم اور امّکم منکم لکھا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا۔ چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسیٰ کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اِس حدیث میں حَکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ بھی اسی کے حق میں ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ منکم کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے اور وہی مخاطب تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اُن میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے منکم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائم مقام صحابہ ہے اور وہ وہی ہے جس کو اِس آیت مفصّلہ ذیل میں قائم مقام صحابہ کیا گیا ہے یعنی یہ کہ3۲؂ کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ

* سہو کاتب معلوم ہوتا ہے لفظ ’’رفع روحانی‘‘ چاہئے۔ (مصحح) ۱؂ یونس:۳۳ ۲؂ الجمعۃ:



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 115

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/115/mode/1up

115

رسول کریم کی رُوحانیت سے تربیت یافتہ ہے اور اسی معنے کے رُو سے صحابہ میں داخل ہے اور اِس آیت کی تشریح میںیہ حدیث ہے لوکان الایمان معلقًا بالثریا لنالہ رجل من فارس اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پُر کرنا۔ لہٰذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں اور جس طرح کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سو برس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ کے الہام سے علم پاکر یہ دعویٰ نہیں ؔ کیا کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں اور پیشگوئی اپنے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ یہ شخص آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ لوگوں کے ایمانوں میں بہت ضعف آجائے گا اور فارسی الاصل ہوگا اور اس کے ذریعہ سے زمین پر دوبارہ ایمان قائم کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ صلیبی زمانہ سے زیادہ تر ایمان کو صدمہ پہنچانے والا اور کوئی زمانہ نہیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایمان زمین پر سے اُٹھ گیا جیسا کہ اِس وقت لوگوں کی عملی حالتیں اور انقلاب عظیم جو بدی کی طرف ہوا ہے اور قیامت کے علاماتِ صغریٰ جو مدت سے ظہور میں آچکی ہیں صاف بتلا رہی ہیں اور نیز آیت3 میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسے صحابہ کے زمانہ میں زمین پر شرک پھیلا ہوا تھا ایسا ہی اُس زمانہ میں بھی ہوگا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس حدیث اور اس آیت کو باہم ملانے سے یقینی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی مہدی آخر الزمان اور مسیح آخر الزمان کی نسبت ہے کیونکہ مہدی کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اور مسیح آخرالزمان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوبارہ ایمان اور امن کو دنیا میں قائم کر دے گا اور شرک کو محو کر ے گا اورملل باطلہ کو ہلاک کر دے گا۔ پس اِن حدیثوں کا مآل بھی یہی ہے کہ مہدی اور مسیح کے زمانہ میں وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا اور ثُریا تک پہنچ گیا تھا پھر دوبارہ قائم کیا جائے گا اور ضرور ہے کہ اوّل زمین ظلم سے پُر ہو جائے اور ایمان اُٹھ جائے کیونکہ جبکہ لکھا ہے کہ تمام زمین ظلم سے بھر جائے گی تو ظاہر ہے کہ ظلم اور ایمان



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 116

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/116/mode/1up

116

ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ناچار ایمان اپنے اصلی مقر کی طرف جو آسمان ہے چلا جائے گا۔ غرض تمام زمین کا ظلم سے بھرنا اور ایمان کا زمین پر سے اُٹھ جانا اس قسم کی مصیبتوں کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں اور احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے رجل فارسی کا زمانہ۔ مہدی کا زمانہ۔ مسیح کا زمانہ۔ اور اکثر لوگوں نے قلت تدبر سے اِن تین ناموں کی وجہ سے تین علیحدہ علیحدہ شخص سمجھ لئے ہیں اور تین قومیں اُن کے لئے مقرر کی ہیں۔ ایک فارسیوں کی قوم۔ دوسری بنی اسرائیل کی قوم، تیسری بنی فاطمہ کی قوم۔ مگر یہ تمام غلطیاں ہیں۔ حقیقت میں یہ تینوں ایک ہی شخص ہے جو تھوڑے تھوڑے تعلق کی وجہ سے کسی قوم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث سے جو کنز العمال میں موجود ہے سمجھا جاتا ہے کہ اہل فارس یعنی بنی فارس بنی اسحاق میں سے ہیں۔ پس اس طرح پر وہ آنے والا مسیح اسرائیلی ہوا اور بنی فاطمہ کے ساتھ امہاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے جیسا کہ مجھے حاصل ہے فاطمی بھی ہوا پس گویا وہ نصف اسرائیلی ہوا اور نصف فاطمی ہوا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے۔ ہاں میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں لیکن یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب اس دعویٰ کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے خذوا التوحید التوحید یا ابناء الفارس یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو! اور پھر دوسری جگہ یہ الہام ہے۔ ان الذین صدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ۔ یعنی جو لوگ خدا کی راہ سے روکتے تھے ایک شخص فارسی اصل نے اُن کا ردّ لکھا۔ خدا نے اُس کی کوشش کا شکریہ کیا۔ ایسا ہی ایکؔ اور جگہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے لو* کان الایمان معلّقًا بالثریّا لنالہ رجل من فارس

* چونکہ تیرہ سو برس تک خدا کے الہام کے امر سے اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا کسی نے دعویٰ نہیں کیا اور ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی جھوٹی ہو اس لئے جس شخص نے یہ دعویٰ کیا اور دعویٰ بھی قبل اعتراض پیش آمدہ اس کا ردّ کرنا گویا پیشگوئی کی تکذیب ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 117

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/117/mode/1up

117

یعنی اگر ایمان ثریا پر اٹھایا جاتا اور زمین سراسر بے ایمانی سے بھر جاتی تب بھی یہ آدمی جو فارسی الاصل ہے اس کو آسمان پر سے لے آتا۔ اور بنی فاطمہ ہونے میں یہ الہام ہے۔ الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھر* والنسب۔ اشکرنعمتی رئیت خدیجتی۔ یعنی تمام حمد اور تعریف اُس خدا کے لئے جس نے تمہیں فخرد امادی سادات اور فخر علو نسب جو دونوں مماثل و مشابہ ہیں عطا فرمایا یعنی تمہیں سادات کا داماد ہونے کی فضیلت عطا کی اور نیز بنی فاطمہ اُ ّ مہات میں سے پیدا کرکے تمہارے نسب کو عزت بخشی اور میری نعمت کا شکر کر کہ تونے میری خدیجہ کوخ پایا یعنی بنی اسحاق کی وجہ سے ایک تو آبائی عزت تھی اور دوسری بنی فاطمہ ہونے کی عزت اس کے ساتھ ملحق ہوئی اور سادات کی دامادی کی طرف اس عاجز کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو سیّدہ

* الہام الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھر والنسب سے ایک لطیف استدلال میرے بنی فاطمہ ہونے پر پیدا ہوتا ہے کیونکہ صہر اور نسب اس الہام میں ایک ہی جعل کے نیچے رکھے گئے ہیں اور اِن دونوں کو قریباً ایک ہی درجہ کا امر قابلِ حمد ٹھہرایا گیا ہے۔ اور یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ جس طرح صہر یعنی دامادی کو بنی فاطمہ سے تعلق ہے اسی طرح نسب میں بھی فاطمیت کی آمیزش والدات کی طرف سے ہے اور صہر کو نسب پر مقدم رکھنا اسی فرق کے دکھلانے کیلئے ہے کہ صہر میں خالص فاطمیت ہے اور نسب میں اس کی آمیزش۔ منہ

یہ الہام براہین میں درج ہے اس میں بطور پیشگوئی اشارۃً یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ تمہاری شادی جو سادات میں مقدر ہے ضروری طور پر ہونے والی ہے اور خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اولاد کو خدیجہ کے نام سے یاد کیا۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ ایک بڑے خاندان کی ماں ہو جائے گی۔ اس جگہ یہ عجیب لطیفہ ہے کہ خدا نے ابتدائے سلسلہ سادات میں سادات کی ماں ایک فارسی عورت مقرر کی جس کانام شہر بانو تھا اور دوسری مرتبہ ایک فارسی خاندان کی بنیاد ڈالنے کے لئے ایک سیدہ عورت مقرر کی جس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے گویا فارسیوں کے ساتھ یہ عوض معاوضہ کیا کہ پہلے ایک بیوی فارسی الاصل سید کے گھر میں آئی اور پھر آخری زمانہ میں ایک بیوی سیّدہ فارسی مرد کے ساتھ بیاہی گئی اور عجیب تریہ کہ دونوں کے نام بھی باہم ملتے ہیں۔ اور جس طرح سادات کا خاندان پھیلا نے کے لئے وعدہ الٰہی تھا اس جگہ بھی براہین احمدیہ کے الہام میں اس خاندان کے پھیلانے کا وعدہ ہے اور وہ یہ ہے:۔ ’’سبحان اللّٰہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک ینقطع اٰبائک ویبدء منک‘‘۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 118

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/118/mode/1up

118

سندی سادات دہلی میں سے ہیں میردرد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے۔ اسی فاطمی تعلق کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے جو آج سے تیس برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیا گیا جس میں دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمۃ الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس خاکسار کا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور عالم خاموشی میں ایک غمگین صورت بنا کر بیٹھے رہے۔ اُسی روز سے مجھ کو اس خونی آمیزش کے تعلق پر یقین کلّی ہوا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

غرض میرے وجود میں ایک حصہ اسرائیلی ہے اور ایک حصہ فاطمی۔ اور میں دونوں مبارک پیوندوں سے مرکب ہوں اور احادیث اور آثار کو دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آنے والے مہدی آخر الزمان کی نسبت یہی لکھا ہے کہ وہ مرکب الوجود ہوگا۔ ایک حصہ بدن کا اسرائیلی اور ایک حصہ محمدی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جیسا کہ آنے والے مسیح کے منصبی کاموں میں بیرونی اور اندرونی اصلاح کی ترکیب ہے یعنی یہ کہ وہ کچھ مسیحی رنگ میں ہے اور کچھ محمدی رنگ میں کام کرے گا ایساؔ ہی اس کی سرشت میں بھی ترکیب ہے۔ غرض اس حدیث امامکم منکم سے ثابت ہے کہ آنے والا مسیح ہرگز اسرائیلی نبی نہیں ہے بلکہ اسی امت میں سے ہے جیسا کہ ظاہر نص یعنی امامکم منکم اسی پر دلالت کرتا ہے او راس تکلف اور تاویل کے لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آکر اُمتی بن جائیں گے اورنبی نہیں رہیں گے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ اور عبارت کا حق ہے کہ قبل وجود قرینہ اس کو ظاہر پر حمل کیا جائے ورنہ یہودیوں کی طرح ایک تحریف ہوگی۔ غرض یہ کہنا کہ حضرت عیسٰی بنی اسرائیلی دنیا میں آکر مسلمانوں کا جامہ پہن لے گا اور امتی کہلائے گا یہ ایک غیر معقول تاویل ہے جو قوی دلائل چاہتی ہے۔ تمام نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ کا یہ حق ہے کہ اُن کے معنے ظاہر عبارت کے رُو سے کئے جائیں اور ظاہر پر حکم کیا جائے جب تک کہ کوئی قرینہ صارفہ پیدا نہ ہو اور بغیر قرینہ قویہ صارفہ ہرگز خلاف ظاہر معنے نہ کئے جائیں اور امامکم منکم کے ظاہری معنی یہی ہیں جو وہ امام اسی امت محمدیہ میں پیدا ہوگا۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 119

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/119/mode/1up

119

اب اس کے بر خلاف اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیلی جس پر انجیل نازل ہوئی تھی وہی دنیا میں دوبارہ آکر امتی بن جائیں گے تو یہ ایک نیا دعویٰ ہے جو ظاہر نص کے برخلاف ہے اس لئے قوی ثبوت کو چاہتا ہے کیونکہ دعویٰ بغیر دلیل کے قابل پذیرائی نہیں اور ایک دوسرا قرینہ اس پر یہ ہے کہ صحیح بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہلاتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حُلیہ سُرخ رنگ لکھا ہے جیسا کہ عام طور پر شامی لوگوں کا ہوتا ہے ایسا ہی اُن کے بال بھی خمدار لکھے ہیں۔ مگر آنے والے مسیح کا رنگ ہر ایک حدیث میں گندم گوں لکھا ہے اور بال سیدھے لکھے ہیں اور تمام کتاب میں یہی التزام کیا ہے کہ جہاں کہیں حضرت عیسیٰ نبی علیہ السلام کے حلیہ لکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو ضرور بالالتزام اُسکو احمر یعنی سُرخ رنگ لکھا ہے اور اس احمر کے لفظ کو کسی جگہ چھوڑا نہیں۔ اور جہاں کہیں آنے والے مسیح کا حلیہ لکھنا پڑا ہے تو ہر ایک جگہ بالالتزام اس کو آدم یعنی گندم گوں لکھا ہے یعنی امام بخاری نے جو لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھے ہیں جس میں ان دونوں مسیحوں کا ذکر ہے وہ ہمیشہ اس قاعدہ پر قائم رہے ہیں جو حضرت عیسیٰ بنی اسرائیلی کے لئے احمر کا لفظ اختیار کیا ہے اور آنے والے مسیح کی نسبت آدم یعنی گندم گوں کا لفظ اختیار کیا ہے۔ پس اس التزام سے جس کو کسی جگہ صحیح بخاری کی حدیثوں میں ترک نہیں کیا گیا بجز اس کے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عیسیٰ ابن مریم بنی اسرائیلی اور تھا۔ اور آنے والا مسیح جو اسی امت میں سے ہوگا اور ہے ورنہ اس بات کا کیا جواب ہے کہ تفریق حُلیتین کا پورا التزام کیوں کیا گیا۔ ہم اس بات کے ذمہ وار نہیں ہیں اگر کسی اور محدث نے اپنی ناواقفی کی وجہ سے احمر کی جگہ آدم اور آدم کی جگہ احمر لکھ دیا ہو مگر امام بخاری جو حا فظِ حدیث اور اول درجہ کا نقّاد ہے اُس نے اِس بارے میں کوئی ایسی حدیث نہیں لی جس میں مسیح بنی اسرائیلی کو آدم لکھا گیا ہو یا آنے والے مسیح کو احمر لکھا گیا ہو۔ بلکہ امام بخاری نے نقل حدیث کے وقت اِس شرط کو عمدًا لیا ہے اور برابر اوّل سے آخر تک اس کو ملحوظ رکھا ہے۔ پس جو حدیث امام بخاری کی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 120

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/120/mode/1up

120

شرط کے مخالف ہو وہ قبول کے لائق نہیں۔

اور منجملہ ان دلائل کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا قرآن شریف کی ؔ یہ آیت ہے۔ 3 ۱؂۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم بہترین امت ہو جو اس لئے نکالی گئی ہو کہ تا تم تمام دجّالوں اور دجال معہود کا فتنہ فرو کرکے اور اُن کے شر کو دفع کرکے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچاؤ۔ واضح رہے کہ قرآن شریف میں النّاس کا لفظ بمعنی دجال معہود بھی آتا ہے اور جس جگہ ان معنوں کو قرینہ قویہ متعین کرے تو پھر اور معنے کرنا معصیت ہے چنانچہ قرآن شریف کے ایک اور مقام میں الناس کے معنے دجّال ہی لکھا ہے اور وہ یہ ہے۔33۲؂۔ یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اسرار اور عجائبات پُر ہیں دجّال معہود کی طبائع کی بناوٹ اس کے برابر نہیں۔ یعنی گو وہ لوگ اسرار زمین و آسمان کے معلوم کرنے میں کتنی ہی جانکاہی کریں اور کیسی ہی طبع وقّاد لاویں پھر بھی ان کی طبیعتیں ان اسرار کے انتہا تک پہنچ نہیں سکتیں۔ یاد رہے کہ اس جگہ بھی مفسرین نے الناس سے مراد دجال معہود ہی لیا ہے دیکھو تفسیر معالم وغیرہ اور قرینہ قویہ اِس پر یہ ہے کہ لکھا ہے کہ دجال معہود اپنی ایجادوں اور صنعتوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں پر ہاتھ ڈالے گا اور اس طرح پر خُدائی کا دعویٰ کرے گا اور اس بات کا سخت حریص ہوگا کہ خدائی باتیں جیسے بارش برسانا اور پھل لگانا اور انسان وغیرہ حیوانات کی نسل جاری رکھنا اور سفر اور حضر اور صحت کے سامان فوق العادت طور پر انسان کے لئے مہیا کرنا اِن تمام باتوں میں قادرِ مطلق کی طرح کارروائیاں کرے اور سب کچھ اس کے قبضۂ قدرت میں ہو جائے اور کوئی بات اس کے آگے انہونی نہ رہے اور اِسی کی طرف اِس آیت میں اشارہ ہے اور خلاصہ مطلب آیت یہ ہے کہ زمین آسمان میں جس قدر اسرار رکھے گئے ہیں جن کو دجّال بذریعہ علم طبعی اپنی قدرت میں کرنا چاہتا ہے وہ اسرار اُس کے اندازۂ جودت طبع اور مبلغِ علم سے بڑھ کر ہیں۔ اور جیسا کہ آیت ممدوحہ میں النّاس کے لفظ سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/121/mode/1up

121

دجال مراد ہے۔ ایسا ہی آیت اخرجت للنّاس میں بھی الناس کے لفظ سے دجال ہی مراد ہے۔ کیونکہ تقابل کے قرینہ سے اس آیت کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ کنتم خیر الناس اخرجت لشرّ الناس۔ اور شرّ الناس سے بلا شبہ گروہ دجال مراد ہے کیونکہ حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ آدم سے قیامت تک شرانگیزی میں دجال کی مانند نہ کوئی ہوا اور نہ ہوگا اور یہ ایک ایسی محکم اور قطعی دلیل ہے کہ جس کے دونوں حصے یقینی اور قطعی اور عقائد مسلمہ میں سے ہیں۔ یعنی جیسا کہ کسی مسلمان کو اس بات سے انکار نہیں کہ یہ اُمت خیرالامم ہے اسی طرح اِس بات سے بھی انکار نہیں کہ گروہ دجال شرّ الناس ہے اور اس تقسیم پر یہ دو آیتیں بھی دلالت کرتی ہیں جو سورۃ لم یکن میں ہیں اور وہ یہ ہیں 3333333 ۔۱؂ دیکھو اس آیت کے رو سے ایک ایسے گروہ کو شرّ البریہ کہا گیا ہے جس میں سے گروہ دجال ہے اور ایسے گروہ کو خیرالبریہ کہا گیا ہے جو امتِ محمدیہ ہے۔ بہر حال آیت خیرامّۃٍ کا لفظ الناس کے ساتھ مقابلہ ہو کر قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ الناس سے مراد دجّال ہے اور یہی ثابت کرنا تھا۔ اور اس مقصد پر ایک یہ بھی بزرگ قرینہ ہے کہ خدا کی عادت حکیمانہ یہی چاہتی ہے کہ جس نبی کے عہدِ نبوت میں دجال پیدا ہو۔اُسی نبی کی امّت کے بعض افراد اس فتنہ کے فرو کرنے والے ہوں نہ یہ کہ فتنہ تو پیدا ہووے عہد نبوتِ محمدیہ میں اور کوئی گذشتہ نبی اِس کے فرو کرنے کے لئے نازل ہوؔ اور یہی قدیم سے اور جب سے کہ شریعتوں کی بنیاد پڑی سنت اللہ ہے کہ جس کسی نبی کے عہد نبوت میں کوئی مفسد فرقہ پیداہوا اُسی نبی کے بعض جلیل الشان وارثوں کو اس فساد کے فرو کرنے کے لئے حکم دیا گیا ہاں اگر یہ فتنہ دجال کا حضرت مسیح کے عہد نبوت میں ہوتا تو اُن کا حق تھا کہ خود وہ یا کوئی اُن کے حواریوں اور خلیفوں میں سے اس فتنہ کو فرو کرتا مگر یہ کیا اندھیر کی بات ہے کہ یہ اُمت کہلا وے تو خیر الامم مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں اس قدر نالائق



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/122/mode/1up

122

اور نکمی ہو کہ جب کسی فتنہ کے دور کرنے کا موقع آوے تو اس کے دُور کرنے کے لئے کوئی شخص باہر سے مامور ہو اور اس اُمت میں کوئی ایسا لائق نہ ہو کہ اس فتنہ کو دور کر سکے۔ گویا اس امت کی اس صورت میں وہ مثال ہوگی کہ مثلاً کوئی گورنمنٹ ایک نیا ملک فتح کرے جس کے باشندے جاہل اور نیم وحشی ہوں تو آخر اس گورنمنٹ کو مجبوری سے یہ کرنا پڑے کہ اس ملک کے مالی اور دیوانی اور فوجداری کے انتظام کے لئے باہر سے لائق آدمی طلب کرکے معزز عہدوں پر ممتاز کرے۔ سو ہر گز عقل سلیم قبول نہیں کر سکتی کہ جس امت کے ربّانی علماء کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علماء اسرائیلی پیغمبروں کی طرح ہیں اخیر پر ان کی یہ ذلّت ظاہر کرے کہ دجّال جو خدائے عظیم القدرت کی نظر میں کچھ بھی چیز نہیں اس کے فتنہ کے فرو کرنے کے لئے اُن میں مادۂ لیاقت نہ پایا جائے۔ اس لئے ہم اسی طرح پر جیسا کہ آفتاب کو دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ آفتاب ہے اس آیت 33 ۱؂ کو پہچانتے ہیں اور اس کے یہی معنے کرتے ہیں کہ کنتم خیر امۃٍ اخرجت لشرالناس الذی ھوالدجال المعھود۔ یاد رہے کہ ہر ایک اُمت سے ایک خدمت دینی لی جاتی ہے اور ایک قسم کے دشمن کے ساتھ اس کا مقابلہ پڑتا ہے سو مقدر تھا کہ اس اُمت کا دجّال کے ساتھ مقابلہ پڑے گا جیسا کہ حدیث نافع بن عتبہ سے مسلم میں صاف لکھا ہے کہ تم دجّال کے ساتھ لڑو گے اور فتح پاؤ گے۔ اگرچہ صحابہ دجّال کے ساتھ نہیں لڑے مگر حسب منطوق اٰخرین منھم مسیح موعود اور اس کے گروہ کو صحابہ قرار دیا۔* اب دیکھو اس حدیث میں بھی لڑنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/123/mode/1up

123

اپنے صحابہ کو جو امت ہیں قرار دیا۔ اور یہ نہ کہا کہ مسیح بنی اسرائیلی لڑے گا اور نزول کا لفظ محض اجلال اور اکرام کے لئے ہے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ اس پُر فساد زمانہ میں ایمان ثُریا پر چلا جائے گا اور تمام پیری مریدی اور شاگردی استادی اور افادہ استفادہ معرضِ زوال میں آجائے گا اِس لئے آسمان کا خدا ایک شخص کو اپنے ہاتھ سے تربیت دے کر بغیر توسط زمینی سلسلوں کے زمین پر بھیجے گا جیسے کہ بارش آسمان سے بغیر توسط انسانی ہاتھوں کے نازل ہوتی ہے۔

اور منجملہ دلائل قویہ قطعیہ کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو مسیح موعود اسی اُمتِ محمدیہ میں سے ہوؔ گاقرآن شریف کی یہ آیت ہے۔ 333 ۱؂ الخ یعنی خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو ایماندار ہیں اور نیک کام کرتے ہیں وعدہ فرمایا ہے جو ان کو زمین پر اُنہی خلیفوں کی مانند جو اُن سے پہلے گذر چکے ہیں خلیفے مقرر فرمائے گا اِس آیت میں پہلے خلیفوں سے مُراد حضرت موسیٰ کی امت میں سے خلیفے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی شریعت کو قائم کرنے کے لئے پے در پے بھیجا تھا اور خاص کر کسی صدی کو ایسے خلیفوں سے جو دینِ موسوی کے مجدد تھے خالی نہیں جانے دیا تھااور قرآن شریف نے ایسے خلیفوں کا شمار کرکے ظاہر فرمایا ہے کہ وہ باراں۱۲ ہیں اور تیرھواں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو موسوی شریعت کا مسیح موعود ہے۔ اور اس مماثلت کے لحاظ سے جو آیت ممدوحہ میں کَمَا کے لفظ سے مستنبط ہوتی ہے ضروری تھا کہ محمدی خلیفوں کو موسوی خلیفوں سے مشابہت و مماثلت ہو۔ سواسی مشابہت کے ثابت اور متحقق کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بارہ موسوی خلیفوں کا ذکر فرمایا جن میں سے ہر ایک حضرت موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور تیرھواں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا جو موسیٰ کی قوم کا خاتم الانبیاء تھا مگر درحقیقت موسیٰ کی قوم میں سے نہیں تھا اور پھر خدا نے محمدی سلسلہ کے خلیفوں کو موسوی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/124/mode/1up

124

سِلسلہ کے خلیفوں سے مشابہت دے کر صاف طور پر سمجھا دیا کہ اس سلسلہ کے آخر میں بھی ایک مسیح ہے اور درمیان میں باراں خلیفے ہیں تا موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس جگہ بھی چوداں کا عدد پورا ہو ایسا ہی سلسلہ محمدی خلافت کے مسیح موعود کو چودھویں صدی کے سر پر پیدا کیا کیونکہ موسی سلسلہ کا مسیح موعود بھی ظاہر نہیں ہوا تھا جب تک کہ سن موسوی کے حساب سے چودھویں صدی نے ظہور نہیں کیا تھا ایسا کیا گیا تا دونوں مسیحوں کا مبدء سلسلہ سے فاصلہ باہم مشابہ ہو اور سلسلہ کے آخری خلیفہ مجدد کو چودھویں صدی کے سر پر ظاہر کرنا تکمیل نور کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مسیح موعود اسلام کے قمر کا متمّم نور ہے اس لئے اس کی تجدید چاند کی چودھویں رات سے مشابہت رکھتی ہے اسی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ3۱؂ کیونکہ اظہار تام اور اتمام نور ایک ہی چیز ہے۔ اور یہ قول کہ لیظھرہٗ علی الادیان کل الاظھار مساوی اس قول سے ہے کہ لیتم نورہ کل الاتمام اور پھر دوسری آیت میں اس کی اور بھی تصریح ہے اور وہ یہ ہے۔ 333۲؂ اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں پیدا ہوگا۔ کیونکہ اتمام نور کے لئے چودھویں رات مقرر ہے ۔غرض جیسا کہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ بن مریم کے درمیان باراں خلیفوں کا ذکر فرمایا گیا اور اُن کا عدد بارہ ظاہر کیا گیا اور یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ تمام بارہ کے بارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھے مگر تیرھواں خلیفہ جو اخیری خلیفہ ہے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے باپ کے رُو سے اس قوم میں سے نہیں تھا کیونکہ اس کا کوئی باپ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ سے اپنی شاخ ملا سکتا۔ یہی تمام باتیں سلسلہ خلافت محمدیہ میں پائی جاتی ہیں یعنی حدیث متفق علیہ سے ثابت ہے کہ اس سلسلہ میں بھی درمیانی خلیفے باراں ہیں اور تیرھواں جو خاتمِ ولایت محمدیہ ہے وہ محمدی قوم میں سے نہیں ہے یعنی قریش میں سے نہیں اور یہی چاہئے تھا کہ باراں خلیفے تو حضرت محمد مصطفٰے صلے اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/125/mode/1up

125

وتے اور آخرؔ ی خلیفہ اپنے آباء واجداد کے رُو سے اس قوم میں سے نہ ہوتا تاتحقّق مشابہت اکمل اور اتم طور پر ہو جاتا۔ سو الحمدللّٰہ والمنّۃ کہ ایسا ہی ظہور میں آیا کیونکہ بخاری اور مسلم میں یہ حدیث متفق علیہ ہے جو جابر بن سمرہ سے ہے اور وہ یہ ہے۔ لا یزال الاسلام عزیزًا الٰی اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش۔ یعنی بارہ خلیفوں کے ہوتے تک اسلام خوب قوت اور زور میں رہے گا مگر تیرھواں خلیفہ جو مسیح موعود ہے اُس وقت آئے گا جبکہ اسلام غلبۂ صلیب اور غلبہ دجالیت سے کمزور ہو جائے گا اور وہ بارہ خلیفے جو غلبۂ اسلام کے وقت آتے رہیں گے وہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں سے ہوں گے۔* مگر مسیح موعود جو اسلام کے ضعف کے وقت آئے گا وہ قریش کی

* الفاظ حدیث یہ ہیں۔ عن جابربن سمرۃ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یزال الاسلام عزیزا الٰی اثنیٰ عشر خلیفۃ کلھم من قریش متفق علیہ مشکوٰۃ شریف باب مناقب قریش۔ یعنی اسلام باراں خلیفوں کے ظہور تک غالب رہے گا اور وہ تمام خلیفے قریش میں سے ہوں گے۔ اس جگہ یہ دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ مسیح موعود بھی انہی باراں میں داخل ہے کیونکہ متفق علیہ یہ امر ہے کہ مسیح موعود اسلام کی قوت کے وقت نہیں آئے گابلکہ اس وقت آئے گا جبکہ زمین پر نصرانیت کا غلبہ ہوگا جیسا کہ یکسر الصلیب کے فقرہ سے مستنبط ہوتا ہے۔ پس ضرور ہے کہ مسیح کے ظہور سے پہلے اسلام کی قوت جاتی رہے اور مسلمانوں کی حالت پر ضعف طاری ہو جائے اور اکثر ان کے دوسری طاقتوں کے نیچے اسی طرح محکوم ہوں جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے وقت یہودیوں کی حالت ہو رہی تھی۔ چونکہ حدیثوں میں مسیح موعود کا خاص طور پر تذکرہ تھا اس لئے باراں خلیفوں سے اس کو الگ رکھا گیا کیونکہ مقدر ہے کہ وہ نزول شدائد و مصائب کے بعد آوے اور اس وقت آوے جبکہ اسلام کی حالت میں ایک صریح انقلاب پیدا ہو جائے اور اِسی طرز سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تھے یعنی ایسے وقت میں جبکہ یہودیوں میں ایک صریح زوال کی علامت پیدا ہو گئی تھی پس اس طریق سے حضرت موسیٰ کے خلیفے بھی تیرہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفے بھی تیرہ اور جیسا کہ حضرت موسیٰ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چودھویں جگہ تھے ایسا ہی ضرور تھا کہ اسلام کا مسیح موعود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چودھویں جگہ پر ہو اِسی مشابہت سے مسیح موعود کا چودھویں صدی میں ظاہر ہونا ضروری تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/126/mode/1up

126

قوم میں سے نہیں ہوگا کیونکہ ضرور تھا کہ جیسا کہ موسوی سلسلہ کا خاتم الانبیاء اپنے باپ کے رو سے حضرت موسیٰ کی قوم میں سے نہیں ہے ایسا ہی محمدی سلسلہ کا خاتم الاولیاء قریش میں سے نہ ہو اور اسی جگہ سے قطعی طور پر اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ اسلام کا مسیح موعود اِسی امت میں سے آنا چاہئے کیونکہ جبکہ نص قطعی قرآنی یعنی کَمَا کے لفظ سے ثابت ہو گیا کہ سلسلہ استخلاف محمدی کا سلسلہ استخلاف موسوی سے مماثلت رکھتا ہے جیسا کہ اُسی کَمَا کے لفظ سے ان دو نبیوں یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت ثابت ہے جو آیت 33 ۱؂ سے سمجھی جاتی ہے تو یہ مماثلت اسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے جبکہ محمدی سلسلہ کے آنے والے خلیفے گزشتہ خلیفوں کا عین نہ ہوں بلکہ غیر ہوں۔* وجہ یہ کہ مشابہت اور مماثلت میں من وجہٍ مغائرت ضرؔ وری ہے اور کوئی چیز اپنے نفس کے مشابہہ نہیں کہلا سکتی۔ پس اگر فرض کر لیں کہ آخری خلیفہ سلسلہ محمدیہ کا جو تقابل کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر واقع ہوا ہے جس کی

جبکہ بوجہ کَمَا کے لفظ کے جو آیت 33 ۲؂ میں موجود ہے محمدی سلسلہ کے خلیفوں کی نسبت وجوباً وقطعاً مان لیا گیا ہے کہ وہ وہی خلیفے نہیں ہیں جو موسوی سلسلہ کے خلیفے تھے ہاں اُن خلیفوں سے مشابہ ہیں اور نیز ساتھ اس کے واقعات نے بھی ظاہر کر دیا ہے کہ وہ لوگ پہلے خلیفوں کے عین نہیں ہیں بلکہ غیر ہیں۔ تو پھر آخری خلیفہ اس سلسلہ محمدیہ کی نسبت جو مسیح موعود ہے کیوں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ پہلے مسیح کا عین ہے؟ کیا وہ کَمَا کے لفظ کے نیچے نہیں ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ حسب منشاء کَمَا کے لفظ کے محمدی سلسلہ کا مسیح اسرائیلی مسیح کا غیر ہونا چاہئے نہ عین۔ عین سمجھنا تو قرآن کے منطوق نص پر صریح حملہ ہے بلکہ قرآن شریف کی صریح تکذیب ہے اور نیز ایک بے جا تحکم کہ باراں خلیفوں کو تو حسب منشاء کَمَا کے لفظ کے اسرائیلی خلیفوں کا غیر سمجھنا اور پھر مسیح موعود کو جو سلسلہ موسویہ کے مقابل پر سلسلہ محمدیہ کا آخری خلیفہ ہے پہلے مسیح کا عین قرار دے دینا۔ وھٰذہ نکتۃ مبتکرۃ وحجّۃ باھرۃ ودرّۃ من دُررٍ تفردت بھا فخذوھا بقوۃ واشکروا اللّٰہ بانابۃٍ ولا تکونوا من المحرومین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 127

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 127

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/127/mode/1up

127

نسبت یہ ماننا ضروری ہے کہ وہ اس اُمت کا خاتم الاولیاء ہے۔* جیسا کہ سلسلہ موسویہ کے خلیفوں میں حضرت عیسیٰ خاتم الانبیاء ہے۔ اگر درحقیقت وہی عیسیٰ علیہ السلام ہے جو دو بارہ آنے والا ہے تو اس سے قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ قرآن جیسا کہ کَمَا کے لفظ سے مستنبط ہوتا ہے دونوں سلسلوں کے تمام خلیفوں کو من وجہ مغائر قرار دیتا ہے اور یہ ایک نص قطعی ہے کہ اگر ایک دنیا اس کے مخالف اکٹھی ہو جائے تب بھی وہ اس نص واضح کو ردّ نہیں کر سکتی کیونکہ جب پہلے سلسلہ کا عین ہی نازل ہو گیا تو وہ مغائرت فوت ہو گئی اور لفظ کَمَا کا مفہوم باطل ہوگیا۔ پس اس صورت میں تکذیب قرآن شریف لازم ہوئی۔ وھٰذا باطل وکلّما یستلزم الباطل فھو باطل۔ یاد رہے کہ قرآن شریف نے آیت 33 ۱؂ میں وہی کَمَا استعمال کیا ہے جو آیت 333۲؂ میں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگرکوئی شخص یہ دعویٰ کرے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہو کر نہیں آئے بلکہ یہ خود موسیٰ بطور تناسخ آگیا ہے یا یہ دعویٰ کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے کہ توریت کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں بلکہ اس پیشگوئی کے معنے یہ ہیں کہ خود موسیٰ ہی آجائے گا جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہے تو کیا اس فضول دعویٰ کا یہ جواب نہیں دیا جائے گا کہ قرآن شریف میں ہرگز بیان نہیں فرمایا گیا کہ خود موسیٰ آئے گا بلکہ کَمَاکے لفظ سے مثیل موسیٰ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پس یہی جواب ہماری طرف سے ہے کہ اس جگہ بھی سلسلہ خلفاء محمدی کے لئے کَمَا کا لفظ موجود ہے۔

* شیخ محی الدین ابن عربی اپنی کتاب فصوص میں مہدی خاتم الاولیاء کی ایک علامت لکھتے ہیں کہ اس کا خاندان چینی حدود میں سے ہوگا اور اس کی پیدائش میں یہ ندرت ہوگی کہ اس کے ساتھ ایک لڑکی بطور توام پیدا ہوگی۔ یعنی اس طرح پر خدا اناث کا مادہ اس سے الگ کر دے گا۔ سو اسی کشف کے مطابق اس عاجز کی ولادت ہوئی ہے اور اسی کشف کے مطابق میرے بزرگ چینی حدود سے پنجاب میں پہنچے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 128

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 128

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/128/mode/1up

128

اور یہ نص قطعی کلام الٰہی کی آفتاب کی طرح چمک کر ہمیں بتلا رہی ہے کہ سلسلہ خلافتِ محمدی کے تمام خلیفے خلفاء موسوی کے مثیل ہیں۔ اِسی طرح آخری خلیفہ جو خاتم ولایت محمدیہ ہے جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے وہ حضرت عیسیٰ سے جو خاتم سلسلۂ نبوت موسویہ ہے مماثلت اور مشابہت رکھتا ہے۔ مثلاً دیکھو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یوشع بن نون سے کیسی مشابہت ہے کہ انہوں نے ایسا ایک ناتمام کام لشکر اسامہ اور انبیاء کا ذبین کے مقابلہ کا پورا کیا جیسا کہ حضرت یوشع بن نون نے پورا کیا۔ اور آخری خلیفہ سلسلہ موسوی کا یعنی حضرت عیسیٰ جیسا کہ اُس وقت آیا جبکہ گلیل اور پیلا طوس کے علاقہ سے سلطنت یہود کی جاتی رہی تھی ایسا ہی سلسلہ محمدیہ کا مسیح ایسے وقت میں آیا کہ جب ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکی۔

تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ آیا یہ امر ثابت ہے یا نہیں کہ آنے والا مسیح موعود اسی زمانہ میں آنا چاہیئے جس میں ہم ہیں۔ سو دلائل مفصلہ ذیل سے صاف طور پر کُھل گیا ہے کہ ضرور ہے کہ وہ اسی زمانہ میں آوے:۔

(۱) اوّل دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہلاتی ہے لکھا ہے کہ مسیح موعود کسر صلیب کے لئے آئے گا۔ اور ایسے وقت میں آئے گا کہ جب ملک میں ہر ایک پہلو سے بے اعتدالیاں قول اور فعل میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ سو اب اِس نتیجہ تک پہنچنے کے لئے غور سے دیکھنے کی بھی حاجت نہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ عیسائیت کا اثر لاکھوں انسانوں کے دلوں پر پڑ گیا ہے۔ اور ملک اباحت کی تعلیموں سے متاؔ ثر ہوتا جاتا ہے۔ صدہا آدمی ہر ایک خاندان میں سے نہ صرف دین اسلام سے ہی مرتد ہو گئے ہیں بلکہ جناب سیدنا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن بھی ہو گئے ہیں اور اب تک صدہا کتابیں دین اسلام کے ردّ میں تالیف بھی ہو چکی ہیں اور اکثر وہ کتابیں توہین اور گالیوں سے پُر ہیں اور اس مصیبت کے وقت جب ہم گزشتہ زمانہ کی طرف



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 129

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 129

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/129/mode/1up

129

دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک قطعی فیصلہ کے طور پر یہ رائے ظاہر کرنی پڑتی ہے کہ تیرہ سوبرس کی بارہ صدیوں میں سے کوئی بھی ایسی صدی اسلام کے مضرّ نہیں گذری کہ جیسے تیرھویں صدی گذری ہے اور یا جو اب گذر رہی ہے ۔ لہٰذا عقل سلیم اس بات کی ضرورت کو مانتی ہے کہ ایسے پُر خطر زمانہ کے لئے جس میں عام طور پر زمین میں بہت جوش مخالفت کا پھوٹ پڑا ہے اور مسلمانوں کی اندرونی زندگی بھی ناگفتہ بہ حالت تک پہنچ گئی ہے کوئی مصلح صلیبی فتنوں کا فرو کرنے والا اور اندرونی حالت کو پاک کرنے والا پیدا ہو۔ اور تیرھویں صدی کے پورے سو برس کے تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ اِن زہریلی ہواؤں کی اصلاح جو بڑے زور شور سے چل رہی ہیں اور عام و با کی طرح ہر ایک شہر اور گاؤں سے کچھ کچھ اپنے قبضہ میں لارہی ہیں ہر ایک معمولی طاقت کا کام نہیں کیونکہ یہ مخالفانہ تاثیرات اور ذخیرہ اعتراضات خود ایک معمولی طاقت نہیں بلکہ زمین نے اپنے وقت پر ایک جوش مارا ہے اور اپنے تمام زہروں کو بڑی قوت کے ساتھ اُگلا ہے اس لئے اس زہر کی مدافعت کے لئے آسمانی طاقت کی ضرورت ہے کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ سو اس دلیل سے روشن ہو گیا کہ یہی زمانہ مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہے۔ یہ بات بڑی سریع الفہم ہے جس کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس حالت میں علت غائی مسیح کے آنے کی کسر صلیب ہے اور آج کل مذہب صلیب اُس جوانی کے جوشوں میں ہے جس سے بڑھ کر اُس کی قوتوں کا نشو ونما اور اس کے حملوں کا طریق ہیبت نما ہونا ممکن نہیں* تو پھر اگر

* اس وجہ سے اس سے زیادہ سختی ممکن نہیں کہ جس قدر اسلام پر ابتلا آنا تھا آگیا اب اس سے زیادہ اس اُمت مرحومہ پر ابتلا نہیں آسکتا کیونکہ اگر اس سے زیادہ مخالفت کی کامیابی ہو جائے تو قرائن قویہ صاف گواہی دے رہے ہیں کہ اسلام کا بکلی استیصال ہو جائے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اس درجہ کے ابتلا پر مسیح کا سرالصلیب آجاتا اور اس سے زیادہ اسلام کو خفّت نہ اٹھانی پڑتی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 130

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 130

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/130/mode/1up

130

اِس وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدافعت نہ ہوتی تو پھر اس کے بعد کس وقت کی انتظار تھی؟ اور نیز جبکہ مسیح موعود کا صدی کے سر پر ہی آنا ضروری ہے اور چودھویں صدی میں سے سترہ برس گذر گئے تو اس صورت میں اگر اب تک مسیح نہیں آیا تو ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی مرضی ہے کہ اور سو برس تک یا اس سے بھی زیادہ اسلام کو نشانۂ توہین و تحقیر رکھے۔ لیکن اس کسر صلیب سے میری مراد وہ طریق جہاد اور کشت و خون نہیں جو حال کے اکثر علماء کا مد نظر ہے۔ کیونکہ وہ لوگ تمام خوبیوں کو جہاد اور لڑائی پر ہی ختم کر بیٹھے ہیں۔ اور میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ مسیح یا اور کوئی دین کے لئے لڑائیاں کرے۔*

(۲) دوسری دلیل وہ بعض احادیث او رکشوف اولیاءِ کرام وعلماءِ عظام ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی معہود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا۔ چنانچہ حدیث اَلاٰیات بعد المأتین کی تشریح بہت سے متقدمین اور متاء خرین نے یہی کی ہے جو ماتین کے لفظ سے وہ مأتین مراد ہیں جو الف کے بعد ہیں یعنی ہزار کے بعد اس طرح پر معنے اس حدیث کے یہ ہوئے کہ مہدی اور مسیح کی پیدائش جو آیاتِ کبریٰ میں سے ہے تیرھویں صدی میں ہوگی اور چودھویں صدی میں اس کا ظہور ہوگا۔ یہی معنے محققین علماء نے کئے ہیں اور انہی قرائن سے انہوں نے حکم کیا ہے کہ مہدی معہود کا تیرھویں صدی میں پیدا ہوجانا ضروری ہے تا چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو سکے۔ چنانچہ اسی بنا پر اور

* اگر کسی کمزور یا نابینا کے کپڑے پر کوئی پلیدی لگ جائے یا وہ شخص خود کیچڑ میں پھنس جائے تو ہماری انسانی ہمدردی کا یہ تقاضا نہیں ہو سکتا کہ ان مکروہ اسباب کی وجہ سے اس کمزور یانابینا کو قتل کر دیں بلکہ ہمارے رحم کا یہ تقاضا ہونا چاہئے کہ ہم خود اُٹھ کر محبت کی راہ سے اُس کیچڑ سے اس عاجز کے پیر باہر نکالیں اور کپڑے کو دھودیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 131

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 131

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/131/mode/1up

131

نیز کئی اور قرائن کے رُو سے بھی مولوی نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم اپنی کتاؔ ب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں کہ میں بلحاظ قرائن قویہ گمان کرتا ہوں کہ چودھویں صدی کے سر پر مہدی معہود کا ظہور ہوگا۔ اور ان قرائن میں سے ایک یہ ہے کہ تیرھویں صدی میں بہت سے دجّالی فتنے ظہور میں آگئے ہیں۔ اب دیکھو کہ اس نامی مولوی نے جو بہت سی کتابوں کا مؤلف بھی ہے کیسی صاف گواہی دے دی کہ چودھویں صدی ہی مہدی اور مسیح کے ظاہر ہونے کا وقت ہے اور صرف اِسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنی کتاب میں اپنی اولاد کو وصیت بھی کرتا ہے کہ اگر میں مسیح موعود کا زمانہ نہ پاؤں تو تم میری طرف سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا السلام علیکم مسیح موعود کو پہنچا دو۔* مگر افسوس کہ یہ تمام باتیں صرف زبان سے تھیں اور دل انکار سے خالی نہ تھا اگر وہ میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کا زمانہ پاتے تو ظاہر قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنے دوسرے بھائیوں علماء سے لعن وطعن اور تکفیرو تکذیب اور تفسیق میں شریک ہو جاتے۔ کیا اِن مولویوں نے چودھویں صدی کے آنے پر کچھ غور بھی کی؟ کچھ خوف خدا اور تقویٰ سے بھی کام لیا؟ کونسا حملہ ہے جو نہیں کیا اور کونسی تکذیب اور توہین ہے جو ان سے ظہور میں نہیں آئی اور کونسی گالی ہے جس سے زبان کو رو کے رکھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک کسی دل کو خدانہ کھولے کُھل نہیں سکتا۔ اور جب تک وہ قادر کریم خود اپنے فضل سے بصیرت

* آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسیح موعود کو السلام علیکم پہنچایا یہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک پیشگوئی ہے نہ عوام کی طرح معمولی سلام۔ اور پیشگوئی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بشارت دیتے ہیں کہ جس قدر مخالفین کی طرف سے فتنے اُٹھیں گے اور کافر اور دجّال کہیں گے اور عزّت اور جان کا ارادہ کریں گے اور قتل کیلئے فتوے لکھیں گے خدا ان سب باتوں میں ان کو نامراد رکھے گا اور تمہارے شامل حال سلامتی رہے گی۔ اور ہمیشہ کے لئے عزت اور بزرگی اور قبولیت اور ہر یک ناکامی سے سلامتی صفحۂ دنیا میں محفوظ رہے گی جیسا کہ السلام علیکم کا مفہوم ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 132

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 132

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/132/mode/1up

132

عنایت نہ کرے تب تک کوئی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔ اور پھر ایک ثبوت چودھویں صدی کے متعلق یہ ہے کہ ایک بزرگ نے مدّت دراز سے ایک شعر اپنے کشف کے متعلق شائع کیا ہوا ہے جس کو لاکھوں انسان جانتے ہیں۔ اس کشف میں بھی یہی لکھا ہے کہ مہدئ معہود یعنی مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا۔ اور وہ شعر یہ ہے ؂

درسن غاشی ہجری دو قراں خواہد بود


از پئے مہدی و دجّال نشاں خواہد بود

اِس شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ جب چودھویں صدی میں سے گیارہ برس گذریں گے تو آسمان پر خسوف کسوف چاند اور سورج کا ہوگا اور وہ مہدی اور دجال کے ظاہر ہوجانے کا نشان ہوگا۔ اِس شعر میں مؤلف نے دجال کے مقابل پر مسیح نہیں لکھا بلکہ مہدی لکھا۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ مہدی اور مسیح دونوں ایک ہی ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی کیسی صفائی سے پوری ہو گئی اور میرے دعویٰ کے وقت رمضان کے مہینہ میں اسی صدی میں یعنی چودھویں صدی ۱۳۱۱ھ ؁ میں خسوف کسوف ہو گیا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ ایسا ہی دارقطنی کی ایک حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مہدی معہود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا۔ وہ حدیث یہ ہے کہ انّ لمھد ینا اٰیتین الخ۔ ترجمہ تمام حدیث کا یہ ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں جب سے زمین و آسمان کی بنیاد ڈالی گئی وہ نشان کسی مامور اور مرسل اور نبی کے لئے ظہور میں نہیں آئے اور وہ نشان یہ ہیں کہ چاند کا اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں ا ور سورج کا اپنے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں رمضان کے مہینہ میں گرہن ہوگا۔ یعنی انہی دنوں میں جبکہ مہدی اپنا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور دنیا اُس کو قبول نہیں کر ے گی آسمان پر اس کی تصدیق کے لئے ایک نشان ظاہر ہوگا۔ اور وہ یہ کہ مقررہ تاریخوں میں جیسا کہ حدیث مذکورہ میں درج ہیں سورج چاند کا رمضان کے مہینہ میں جو نزول کلام الٰہی کا مہینہ ہے گرہن ہوگا اور ظلمت کے دکھلانے سے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ اشارہ ہوگا کہ زمین پر ظلم کیا گیا اور جو خدا کی طرف سے تھا اس کو مفتری سمجھا گیا۔ اب



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 133

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 133

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/133/mode/1up

133

اس حدیث سے صافؔ طور پر چودھویں صدی متعین ہوتی ہے کیونکہ کسوف خسوف جو مہدی کا زمانہ بتلاتا ہے اور مکذبین کے سامنے نشان پیش کرتا ہے وہ چودھویں صدی میں ہی ہوا ہے۔ اب اس سے زیادہ صاف اور صریح دلیل کونسی ہوگی کہ کسوف خسوف کے زمانہ کو مہدئ معہود کا زمانہ حدیث نے مقرر کیا ہے اور یہ امر مشہود محسوس ہے کہ یہ کسوف خسوف چودھویں صدی ہجری میں ہی ہوا اور اسی صدی میں مہدی ہونے کے مدعی کی سخت تکذیب ہوئی۔ پس ان قطعی اور یقینی مقدمات سے یہ قطعی اور یقینی نتیجہ نکلا کہ مہدئ معہود کا زمانہ چودھویں صدی ہے اور اس سے انکار کرنا امور مشہودہ محسوسہ بدیہیہ کا انکار ہے۔ ہمارے مخالف اِس بات کو تو مانتے ہیں کہ چاند اور سورج کا گرہن رمضان میں واقع ہو گیا اور چودھویں صدی میں واقع ہوا مگر نہایت ظلم اور حق پوشی کی راہ سے تین عذر پیش کرتے ہیں۔ ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا یہ عذر صحیح ہیں؟

(۱) اوّل یہ عذر ہے کہ بعض راوی اس حدیث کے ثقاۃ میں سے نہیں ہیں اِس کایہ جواب ہے کہ اگر درحقیقت بعض راوی مرتبۂ اعتبار سے گِرے ہوئے تھے تو یہ اعتراض دار قطنی پر ہوگا کہ اُس نے ایسی حدیث کو لکھ کر مسلمانوں کو کیوں دھوکا دیا؟ یعنی یہ حدیث اگر قابلِ اعتبار نہیں تھی تو دار قطنی نے اپنی صحیح میں کیوں اس کو درج کیا؟ حالانکہ وہ اِس مرتبہ کا آدمی ہے جو صحیح بخاری پر بھی تعاقب کرتا ہے اور اس کی تنقید میں کسی کو کلام نہیں اور اس کی تالیف کو ہزار سال سے زیادہ گذر گیا مگر اب تک کسی عالم نے اس حدیث کو زیر بحث لاکر اس کو موضوع قرار نہیں دیا نہ یہ کہا کہ اِس کے ثبوت کی تائید میں کسی دوسرے طریق سے مدد نہیں ملی بلکہ اس وقت سے جو یہ کتاب ممالک اسلامیہ میں شائع ہوئی تمام علماء و فضلاء متقدمین و متاخرین میں سے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آئے ۔بھلا اگر کسی نے اکابر محدثین میں سے اس حدیث کو موضوع ٹھہرایا ہے تو اُن میں سے کسی محدّث کا فعل یا قول پیش تو کرو جس نے لکھا ہو کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اگر کسی جلیل الشان



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 134

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 134

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/134/mode/1up

134

محدّث کی کتاب سے اس حدیث کاموضوع ہونا ثابت کر سکو تو ہم فی الفور ایک سو روپیہ بطور انعام تمہاری نذر کریں گے جس جگہ چاہو امانتًا پہلے جمع کرالو ورنہ خدا سے ڈرو جو میرے بغض کے لئے صحیح حدیثوں کو جو علمائے ربّانی نے لکھی ہیں موضوع ٹھہراتے ہو حالانکہ امام بخاری نے تو بعض روافض اور خوارج سے بھی روایت لی ہے ان تمام حدیثوں کو کیوں صحیح جانتے ہو؟ غرض ناظرین کے لئے یہ فیصلہ کُھلا کُھلا ہے کہ اگر کوئی شخص اس حدیث کو موضوع قرار دیتا ہے تو وہ اکابر محدثین کی شہادت سے ثبوت پیش کرے۔ ہم حتمی وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس کو ایک سو روپیہ بطور انعام دے دیں گے۔ خواہ یہ روپیہ بھی مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کے پاس اپنی تسلی کے لئے بشرائط مذکورہ بالا جمع کرا لو اور اگر یہ حدیث موضوع نہیں اور افترا کی تہمت سے اس کا دامن پاک ہے تو تقویٰ اور ایمانداری کا یہی تقاضا ہونا چاہئے کہ اس کو قبول کر لو۔ محدثین کا ہر گز یہ قاعدہ نہیں ہے کہ کسی راوی کی نسبت ادنیٰ جرح سے ہی فی الفور حدیث کو موضوع قرار دیا جائے۔ بھلا جن حدیثوں کی رُو سے مہدی خونی کو مانا جاتا ہے وہ کس مرتبہ کی ہیں؟ آیا اُن کے تمام راوی جرح سے خالی ہیں؟ بلکہ جیسا کہ ابن خلدون نے لکھا ہے تمام اہل حدیث جانتے ہیں کہ مہدی کی حدیثوں میں سے ایک حدیث بھی جرح سے خالی نہیں۔ پھرؔ ان مہدی کی حدیثوں کو ایسا قبول کر لینا کہ گویا اُن کا انکار کفر ہے حالانکہ وہ سب کی سب جرح سے بھری ہوئی ہیں۔ اور ایک ایسی حدیث سے انکار کرنا جو اور طریقوں سے بھی ثابت ہے اور جو خود قرآن آیت 3 ۱؂ میں اس کے مضمون کا مصدّق ہے کیا یہی ایمانداری ہے؟ حدیثوں کے جمع کرنے والے ہرایک جرح سے حدیث کو نہیں پھینک دیتے تھے ورنہ ان کے لئے مشکل ہو جاتا کہ اس التزام سے تمام اخبار و آثار کو اکٹھا کر سکتے۔ یہ باتیں سب کو معلوم ہیں مگر اب بخل جوش مار رہا ہے۔ ماسوا اس کے جبکہ مضمون اس حدیث کا جو غیب کی خبر پر مشتمل ہے پورا ہو گیا تو بموجب آیت کریمہ 333



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 135

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 135

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/135/mode/1up

135

قطعی اور یقینی طور پر ماننا پڑا کہ یہ حدیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اِس کا راوی بھی عظیم الشان ائمہ میں سے ہے یعنی امام محمد باقر رضی اللہ عنہ۔ تو اب بعد شہادت قرآن شریف کے جو آیت 3 ۱؂سے اس حدیث کے منجانب رسول ہونے پر مل گئی ہے پھر بھی اس کو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ سمجھنا کیا یہ دیانت کا طریق ہے؟ اور کیا آپ لوگوں کے نزدیک اس اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی پر بجز خدا کے رسولوں کے کوئی اور بھی قادر ہو سکتا ہے؟ اور اگر نہیں ہو سکتا تو کیوں اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ قرآنی شہادت کے رُو سے یہ حدیث رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔* اور اگر آپ لوگوں کے نزدیک ایسی پیشگوئی پر کوئی دوسرا بھی قادر ہو سکتا ہے تو پھر آپ اس کی نظیر پیش کریں جس سے ثابت ہو کہ کسی مفتری یا رسول کے سوا کسی اور نے کبھی یہ پیشگوئی کی ہو کہ ایک زمانہ آتا ہے جس میں فلاں مہینے میں چاند اور سورج کا خسوف کسوف ہوگا اور فلاں فلاں تاریخوں میں ہوگا اور یہ نشان کسی مامور من اللہ کی تصدیق کے لئے ہوگا جس کی تکذیب

* یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف کی گواہی صحت حدیث کسوف خسوف کی نسبت صرف ایک گواہی نہیں ہے بلکہ دو گواہیاں ہیں ایک تو یہ آیت کہ 3 ۲؂ جو پیشگوئی کے طور پر بتلا رہی ہے کہ قیامت کے قریب جو مہدی آخر الزمان کے ظہور کا وقت ہے چاند اور سورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا۔ دوسری گواہی اس حدیث کی صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت 3 33 ۳؂ میں ہے کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ ان لمھدینا کی حدیث بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 136

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 136

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/136/mode/1up

136

کی گئی ہوگی اور اس صورت کا نشان اوّل سے آخر تک کبھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوا ہوگااور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ ہر گز اس کی نظیر پیش نہیں کر سکیں گے۔ درحقیقت آدم سے لے کر اس وقت تک کبھی اس قسم کی پیشگوئی کسی نے نہیں کی اور یہ پیشگوئی چار پہلو رکھتی ہے۔ (۱) یعنی چاند کا گرہن اس کی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں ہونا (۲) سورج کا گرہن اس کے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہونا (۳) تیسرے یہ کہ رمضان کا مہینہ ہونا (۴) چوتھے مدعی کا موجود ہونا جس کی تکذیب کی گئی ہو۔ پس اگر اس پیشگوئی کی عظمت کا انکار ہے تو دنیا کی تاریخ میں سے اس کی نظیر پیش کرو اور جب تک نظیر نہ مل سکے تب تک یہ پیشگوئی ان تمام پیشگوئیوں سے اول درجہ پر ہے جن کی نسبت آیت33 33 ۱؂ کا مضمون صادق آسکتا ہے کیونکہ اِس میں بیان کیا گیا ہے کہ آدم سے اخیر تک اس کی نظیر نہیں۔ پھر جبکہ ایک حدیث دوسری حدیث سے قوت پاکر پایۂ یقین کوپہنچ جاتی ہے تو جس حدیث نے خدا تعالیٰ کے کلام سے قوت پائی ہے اُس کی نسبت یہ زبان پر لانا کہ وہ موضوع اور مردود ہے اُنہی لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہے اگرچہ بباعث کثرت اور کمال شہرت کے اس حدیث کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک رفع نہیں کیا گیا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی مگر خدا نے اپنی دو گواہیوں سے یعنی آیت3 الخ اور آیت 3۱؂ سے خود اس حدیث کو مرفوع متصل بنادیا۔ سو بلاشبہ قرآنی شہادت سے اب یہ حدیث مرفوع متصلؔ ہے۔ کیونکہ قرآن ایسی تمام پیشگوئیوں کا جو کمال صفائی سے پوری ہو جائیں اس تہمت سے تبریہ کرتا ہے کہ بجز خدا کے رسول کے کوئی اور شخص ان کا بیان کرنے والا ہے۔ نعوذ باللہ یہ خدا کے کلام کی تکذب ہے کہ وہ تو صاف لفظوں میں بیان فرماوے کہ میں صریح اور صاف پیشگوئیوں کے کہنے پر بجز اپنے رسول کے کسی کو قدرت نہیں دیتا لیکن اس کے بر خلاف کوئی اور یہ دعویٰ کرے کہ ایسی پیشگوئیاں کوئی اور بھی کر سکتا ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 137

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 137

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/137/mode/1up

137

جس پر خدا کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوئی اور اس طریق سے آیت 333 ۱؂ کی تکذیب کر دیوے۔ غرض جبکہ ان تمام طریقوں سے اِس حدیث کی صحت ثابت ہو گئی اور نیز اس کی پیشگوئی اپنے پورے پیرایہ میں وقوع میں بھی آگئی تو اے خدا سے ڈرنے والو! اب مجھے کہنے دو کہ ایسی حدیث سے انکار کرنا جو گیارہ سو برس سے علماء اور خواص اور عوام میں شائع ہو رہی ہے اور امام محمد باقر اس کے راوی ہیں اور تیرہ۱۳۰۰ سو برس سے یعنی ابتدا سے آج تک کسی نے اس کو موضوع قرار نہیں دیا۔ اور نہ دارقطنی نے اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا اور قرآن آیت 3 ۲؂ میں اس کا مصدق ہے یعنی اسی گرہن سورج اور چاند کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے اور نیز قرآن کے صاف اور صریح لفظوں میں فرماتا ہے کہ کسی پیشگوئی پر جو صاف اور صریح اور فوق العادت طور پر پوری ہو گئی ہو بجز خدا کے رسول کے اورکوئی شخص قادر نہیں ہو سکتا۔ ایسا انکار جو عناداً کیا جائے ہر گز کسی ایماندار کاکام نہیں۔

دوسرا اعتراض مخالفین کا یہ ہے کہ یہ پیشگوئی اپنے الفاظ کے مفہوم کے مطابق پوری نہیں ہوئی کیونکہ چاند کا گرہن رمضان کی پہلی رات میں نہیں ہوا بلکہ تیرھویں رات میں ہوا اور نیز سورج کا گرہن رمضان کی پندرھویں تاریخ نہیں ہوا بلکہ ۲۸ تاریخ کو ہوا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گرہن کے لئے کوئی نیا قاعدہ اپنی طرف سے نہیں تراشا بلکہ اُسی قانونِ قدرت کے اندر اندر گرہن کی تاریخوں سے خبر دی ہے جو خدا نے ابتداسے سورج اور چاند کے لئے مقرر کر رکھا ہے اور صاف لفظوں میں فرمادیا ہے کہ سورج کا کسوف اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا اور قمر کا خسوف اس کی پہلی رات میں ہوگا یعنی اُن تین راتوں میں سے جو خدا نے قمر کے گرہن کے لئے مقرر فرمائی ہیں پہلی رات میں خسوف ہوگا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 138

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 138

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/138/mode/1up

138

سوایسا ہی وقوع میںآیا کیونکہ چاند کی تیرھویں رات میں جو قمر کی خسوفی راتوں میں سے پہلی رات ہے خسوف واقع ہو گیا اور حدیث کے مطابق واقع ہوا ورنہ مہینہ کی پہلی رات میں قمر کا گرہن ہونا ایسا ہی بد یہی محال ہے جس میں کسی کو کلام نہیں وجہ یہ کہ عرب کی زبان میں چاند کو اسی حالت میں قمر کہہ سکتے ہیں جبکہ چاند تین دن سے زیادہ کا ہو اور تین دن تک اس کا نام ہلال ہے نہ قمر اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال ہی کہتے ہیں۔ چنانچہ قمر کے لفظ میں لسان العرب وغیرہ میں یہ عبارت ہے۔ ھوبعد ثلٰث لیال الٰی اٰخر الشھر یعنی چاند کا* قمر کے لفظ پر اطلاق تین رات کے بعد ہوتا ہے۔ پھر جبکہ پہلی رات میں جو چاند نکلتا ہے وہ قمر نہیں ہے اور نہ قمر کی وجہ تسمیہ یعنی شدّت سپیدی و روشنی اس میں موجود ہے تو پھر کیونکر یہ معنے صحیح ہوں گے کہ پہلی رات میں قمر کو گرہن لگے گا۔ یہ تو ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں جواں عورت پہلی رات میں ؔ ہی حاملہ ہو جائے گی اور اس پر کوئی مولوی صاحب ضد کرکے یہ معنے بتلاویں کہ پہلی رات سے مراد وہ رات ہے جس رات وہ لڑکی پیدا ہوئی تھی تو کیا یہ معنے صحیح ہوں گے؟ اور کیا اُن کی خدمت میں کوئی عرض نہیں کرے گا کہ حضرت پہلی رات میں تو وہ جوان عورت نہیں کہلاتی بلکہ اس کو صبیّہ یا بچہ کہیں گے پھر اس کی طرف حمل منسوب کرنا کیا معنے رکھتا ہے؟ اور اس جگہ ہر ایک عقلمند یہی سمجھے گا کہ پہلی رات سے مراد زفاف کی رات ہے جبکہ اوّل دفعہ ہی کوئی عورت اپنے خاوند کے پاس جائے۔ اب بتلاؤ کہ اس فقرے میں اگر کوئی اس طرح کے معنے کرے تو کیا وہ معنے آپ کے نزدیک صحیح ہیں؟ اس بنیاد پرکہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور کیا آپ ایسا خیال کر لیں گے کہ وہ جوان عورت پیدا ہوتے ہی اپنی پیدائش کی پہلی رات میں ہی حاملہ ہو جائے گی۔ اے حضرات!

* ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے۔ درست عبارت یوں ہو گی ’’چاند پر قمر کے لفظ کا اطلاق تین رات کے بعد ہوتا ہے ‘‘ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 139

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 139

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/139/mode/1up

139

خدا سے ڈرو جبکہ حدیث میں قمر کا لفظ موجود ہے اور بالا تفاق قمر اُس کو کہتے ہیں جو تین دن کے بعد یا سات دن کے بعد کا چاند ہوتا ہے تو اب ہلال کو کیونکر قمر کہا جائے۔ ظلم کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے پھر ظاہر ہے کہ جبکہ قمر کے گرہن کے لئے تین راتیں خدا کے قانونِ قدرت میں موجود ہیں اور پہلی رات چاند کے خسوف کی تین راتوں میں سے مہینہ کی تیرھویں رات ہے اور ایسا ہی سورج کے گرہن کے لئے خدا کے قانون قدرت میں تین دن ہیں اور بیچ کا دن سورج کے کسوف کے دنوں میں سے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ ہے تو یہ معنے کیسے صاف اور سیدھے اور سریع الفہم اور قانونِ قدر ت پر مبنی ہیں کہ مہدی کے ظہور کی یہ نشانی ہوگی کہ چاند کو اپنے گرہن کی مقررہ راتوں میں سے جو اس کے لئے خدا نے ابتدا سے مقرر کر رکھی ہیں پہلی رات میں گرہن لگ جائے گا یعنی مہینہ کی تیرھویں رات جو گرہن کی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات ہے۔ ایسا ہی سورج کو اپنے گرہن کے مقررہ دنوں میں سے بیچ کے دن میں گرہن لگے گایعنی مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو جو سورج کے گرہن کا ہمیشہ بیچ کا دن ہے کیونکہ خدا کے قانونِ قدرت کے رُو سے ہمیشہ چاند کا گرہن تین راتوں میں سے کسی رات میں ہوتا ہے یعنی ۱۳و۱۴و ۱۵۔ ایسا ہی سورج کا گرہن اُس کے تین مقررہ دنوں میں سے کبھی باہر نہیں جاتا یعنی مہینہ کا ۲۷و ۲۸و ۲۹۔ پس چاند کے گرہن کا پہلا دن ہمیشہ تیرھویں تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ اور سورج کے گرہن کا بیچ کا دن ہمیشہ مہینہ کی ۲۸ تاریخ۔ عقلمند جانتا ہے۔ اب ایسی صاف پیشگوئی میں بحث کرنا اور یہ کہنا کہ قمر کا گرہن مہینہ کی پہلی رات میں ہونا چاہئے تھا یعنی جبکہ کنارۂ آسمان پر ہلال نمودار ہوتاہے یہ کس قدر ظلم ہے۔ کہاں ہیں رونے والے جو اِس قسم کی عقلوں کو روویں یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ پہلی تاریخ کا چاند جس کو ہلال



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 140

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 140

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/140/mode/1up

140

کہتے ہیں وہ تو خود ہی مشکل سے نظر آتا ہے۔ اِسی وجہ سے ہمیشہ عیدوں پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ پس اس غریب بیچارہ کا گرہن کیا ہوگا۔ کیا پدّی کیا پدّی کا شوربا۔*

تیسرا اعتراض اس نشان کو مٹانے کے لئے یہ پیش کیا گیا ہے کہ کیا ممکن نہیں کہ کسوف خسوف تو اب رمضان میں ہو گیا ہو مگر مہدی جس کی تائید اور شناخت کے لئے خسوف کسوف ہوا ہے وہ پندرھویں صدی میں پیدا ہو یا سولھویں صدی میں یا اس کے بعد کسی اور صدی میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اے بزرگو! خداؔ ہی تم پر رحم کرے جبکہ آپ لوگوں کی فہم کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے تو میرے اختیار میں نہیں کہ میں کچھ سمجھا سکوں۔ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے نشان اس کے رسولوں اور ماموروں کی تصدیق اور شناخت کے لئے ہوتے ہیں اور ایسے وقت میں ہوتے ہیں جبکہ اُن کی سخت تکذیب کی جاتی ہے اور ان کو مفتری اور کافر اور فاسق قرار دیا جاتا ہے تب خدا کی غیرت اُن کے لئے جوش مارتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے نشانوں سے صادق کو صادق کرکے دکھلاوے۔ غرض ہمیشہ آسمانی نشانوں کے لئے ایک محرک کی ضرورت ہوتی ہے اور جو لوگ بار بار

* یاد رہے کہ کسی حدیث کی سچائی پر اس سے زیادہ کوئی یقینی اور قطعی گواہی نہیں ہو سکتی کہ وہ حدیث اگر کسی پیشگوئی پر مشتمل ہے تو وہ پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جائے کیونکہ اور سب طریق اثبات صحت حدیث کے ظنی ہیں مگر یہ حدیث کا ایک چمکتا ہوا زیور ہے کہ اس کی سچائی کی روشنی پیشگوئی کے پورے ہونے سے ظاہر ہو جائے کیونکہ کسی حدیث کی پیشگوئی کا پورا ہو جانا اس حدیث کو مرتبۂ ظن سے یقین کے اعلیٰ درجہ تک پہنچا دیتا ہے اور ایسی حدیث کے ہم رتبہ اور یقینی مرتبہ میں ہم پلّہ کوئی حدیث نہیں ہو سکتی گو بخاری کی ہو یا مسلم کی۔ اور ایسی حدیث کے سلسلۂ اسناد میں گو بفرض محال ہزار کذّاب اور مفتری ہو اس کی قوت صحت اور مرتبہ یقین کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وسائل محسوسہ مشہودہ بدیہہ سے اُس کی صحت کھل جاتی ہے اور ایسی کتاب کا یہ امر فخر ہو جاتا ہے اور اس کی صحت پر ایک دلیل قائم ہو جاتی ہے جس میں ایسی حدیث ہو پس دارقطنی کا فخر ہے جس کی حدیث ایسی صفائی سے پوری ہو گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 141

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 141

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/141/mode/1up

141

تکذیب کرتے ہیں وہی محرک ہوتے ہیں۔ نشانوں کی یہی فلاسفی ہے اور یہ کبھی نہیں ہوتا کہ نشان تو آج ظاہر ہو اور جس کی تصدیق اور اس کے مخالفوں کے ذَب اور دفع کے لئے وہ نشان ہے وہ کہیں سو یا دو سو یا تین سو یا ہزار برس کے بعد پیدا ہو اور خود ظاہر ہے کہ ایسے نشانوں سے اس کے دعوے کو کیا مدد پہنچے گی بلکہ ممکن ہے کہ اس عرصہ تک اس نشان پر نظر رکھ کر کئی مدعی پیدا ہو جائیں تو اب کون فیصلہ کرے گا کہ کس مدعی کی تائید میں یہ نشان ظاہر ہوا تھا ۔تعجب ہے کہ مدعی کا تو ابھی وجود بھی نہیں اور نہ اس کے دعوے کا وجود ہے اور نہ خدا کی نظر میں کوئی محرک تکذیب کرنے والا موجود ہے بلکہ سو دو سو یا ہزا برس کے بعد انتظار ہے تو قبل از وقت نشان کیا فائدہ دے گا اور کس قوم کیلئے ہوگا کیونکہ موجودہ زمانہ کے لوگ تو ایسے نشان سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے جس کے ساتھ مدعی نہیں ہے اور جبکہ نشان کے دیکھنے والے بھی سب خاک میں مل جائیں گے اور کوئی زمین پر زندہ نہیں ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ میں نے چاند اور سورج کو بچشم خود گرہن ہوتے دیکھا تو ایسے نشان سے کیا فائدہ مرتب ہوگا۔ جو زندہ مدعی کے زمانہ کے وقت صرف ایک مردہ قصّہ کے طور پر پیش کیا جائے گا اور خدا کو کیا ایسی جلدی پڑی تھی کہ کئی سو برس پہلے نشان ظاہر کر دیا اور ابھی مدعی کا نام و نشان نہیں۔ نہ اس کے باپ دادے کا کچھ نام و نشان۔ یہ بھی یاد رکھو کہ یہ عقیدہ اہل سنت اور شیعہ کا مسلّم ہے کہ مہدی جب ظاہر ہوگا تو صدی کے سر پر ہی ظاہر ہوگا۔ پس جبکہ مہدی کے ظہور کے لئے صدی کے سر کی شرط ہے تو اس صدی میں تو مہدی کے پیدا ہونے سے ہاتھ دھو رکھنا چاہئے کیونکہ صدی کا سر گذر گیا اور اب بات دوسری صدی پر جا پڑی اور اس کی نسبت بھی کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیونکہ جب کہ چودھویں صدی جو حدیث نبوی کا مصداق تھی اور نیز اہل کشف کے کشفوں سے لدی ہوئی تھی خالی گذر گئی تو پندرھویں صدی پر کیا اعتبار رہا۔ پھر جبکہ آنے والے مہدی کے ظہور کے کوئی لچھن نظر نہیں آتے اور کم سے کم سو برس پر بات جا پڑی تو اس بیہودہ نشان خسوف کسوف سے فائدہ کیا ہوا۔ جب اس صدی کے سب لوگ مر جائیں گے اور کوئی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 142

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 142

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/142/mode/1up

142

خسوف کسوف کا دیکھنے والا زندہ نہ رہے گا تو اس وقت تو یہ کسوف خسوف کا نشان محض ایک قصہ کے رنگ میں ہو جائے گا اور ممکن ہے کہ اس وقت علماءِ کرام اس کو ایک موضوع حدیث کے طور پر سمجھ کر داخل دفتر کر دیں۔ غرض اگر مہدی اور اس کے نشان میں جدائی ڈال دی جائے تو یہ ایک مکروہ بد فالی ہے جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر گز ارادہ ہی نہیں ہے کہ اس کی مہدویّت کو آسمانی نشانوں سے ثابت کرے۔ پھر جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ نشان اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جبکہ خدا کے رسولوں کی تکذیب ہوتی ہے اورؔ ان کو مفتری خیال کیا جاتا ہے تو یہ عجیب بات ہے کہ مدعی تو ابھی ظاہر نہیں ہوا اور نہ اس کی تکذیب ہوئی مگر نشان پہلے ہی سے ظاہر ہو گیا اور جب دو تین سو برس کے بعد کوئی پیدا ہوگا اور تکذیب ہوگی تب یہ باسی قصّہ کس کام آسکتا ہے کیونکہ خبر معائنہ کے برابر نہیں ہو سکتی اور نہ ایسے مدعی کی نسبت قطع کر سکتے ہیں کہ درحقیقت فلاں صدی میں خسوف کسوف اُسی کی تصدیق میں ہوا تھا۔ خدا کی ہر گز یہ عادت نہیں کہ مدعی اور اس کے تائیدی نشانوں میں اس قدر لمبا فاصلہ ڈال دے جس سے امر مشتبہ ہو جائے۔ کیا یہ چند لفظ ثبوت کا کام دے سکتے ہیں کہ فلاں صدی میں جو خسوف کسوف ہوا تھا وہ اسی مدعی کی تائید میں ہوا تھا۔ یہ خوب ثبوت ہے جو خود ایک دوسرے ثبوت کو چاہتا ہے۔ غرض یہ دارقطنی کی حدیث مسلمانوں کے لئے نہایت مفید ہے اس نے ایک تو قطعی طور پر مہدئ معہود کے لئے چودھویں صدی زمانہ مقرر کر دیا ہے اور دوسرے اس مہدی کی تائید میں اس نے ایسا آسمانی نشان پیش کیا ہے جس کے تیرہ سو برس سے کل اہل اسلام منتظر تھے۔ سچ کہو کہ کیا آپ لوگوں کی طبیعتیں چاہتی تھیں کہ میرے مہدویت کے دعویٰ کے وقت آسمان پر رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف ہو جائے۔ اِن تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کے لئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا۔ بادشاہوں کو بھی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 143

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 143

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/143/mode/1up

143

جن کو مہدی بننے کا شوق تھا یہ طاقت نہ ہوئی کہ کسی حیلہ سے اپنے لئے رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف کرا لیتے۔ بیشک وہ لوگ کروڑہا روپیہ دینے کو تیار تھے اگر کسی کی طاقت میں بجز خدا تعالیٰ کے ہوتا کہ اُن کے دعوے کے ایام میں رمضان میں خسوف کسوف کر دیتا۔ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے اور اُس وقت ظاہر کیا ہے جبکہ مولویوں نے میرا نام دجّال اور کذّاب اور کافر بلکہ اکفر رکھا تھا۔ یہ وہی نشان ہے جس کی نسبت آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو مانو گے یا نہیں۔پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کروگے یا نہیں۔ یاد رہے کہ اگرچہ میری تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت گواہیاں ہیں اور ایک سو سے زیادہ وہ پیشگوئی ہے جو پوری ہو چکی جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں۔ مگر اس الہام میں اس پیشگوئی کا ذکر محض تخصیص کے لئے ہے۔ یعنی مجھے ایسا نشان دیا گیا ہے جو آدم سے لے کر اس وقت تک کسی کو نہیں دیا گیا۔ غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لئے ہے نہ کسی ایسے شخص کی تصدیق کیلئے جس کی ابھی تکذیب نہیں ہوئی اور جس پر یہ شور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق نہیں پڑا اور ایسا ہی میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفًا کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جبکہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کے لئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کے ظہور کے لئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی۔ کیونکہ جس صدی کے سر ؔ پریہ پیشگوئی پوری ہوئی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 144

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 144

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/144/mode/1up

144

وہی صدی مہدی کے ظہور کے لئے ماننی پڑی تا دعویٰ اور دلیل میں تفریق اور بُعد پیدا نہ ہو۔ اور پھر اس بات پر ایک اور دلیل ہے جس سے صاف طور پر سمجھا جاتا ہے کہ علماء اسلام کا یقینی طور پر یہی عقیدہ تھا کہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا اور وہ یہ ہے کہ انواع حافظ بر خوردارسکنہ موضع چیٹی شیخاں ضلع سیالکوٹ میں جس کی پنجاب میں بڑی قبولیت ہے ایک ہندی شعر ہے جس میں صاف اور صریح طور پر اس بات کا بیان ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا۔ اور وہ یہ ہے ؂

پچھے اک ہزاردے گزرے تری سے سال


عیسٰی ظاہر ہوسیا کر سی عدل کمال

اِس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب سن ہجری سے تیرہ سو برس گذر جائیں گے تو چودھویں صدی کے سر پر عیسٰے ظاہرہو جائے گا جو کامل عدالت کرے گا۔ یعنی دکھا دے گا کہ صراطِ مستقیم یہ ہے۔ اب دیکھو کہ حافظ صاحب مرحوم نے جو عالم حدیث اور فقہ ہیں اور تمام پنجاب میں بڑی شہرت رکھتے ہیں اور پنجاب میں اپنے زمانہ میں اوّل درجہ کے فقیہ مانے گئے ہیں اور لوگ اُن کو اہل اللہ میں سے شمار کرتے ہیں اور متقی اور راست گو سمجھتے ہیں بلکہ علماء میں وہ ایک خاص عزّت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں کیسے انہوں نے صاف طور پر فرما دیا کہ چودھویں صدی کے سر پر عیسٰی ظاہر ہوگا اور منصفین کیلئے کافی ثبوت اِس بات کا دے دیا ہے کہ حدیث اور اقوالِ علماء سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے ظاہر ہونے کا وقت چودھویں صدی کا سر ہے۔ دیکھو یہ کیسی صاف گواہیاں ہیں جن کو آپ لوگ قبول نہیں کرتے۔ کیا ممکن تھا کہ حافظ بر خوردار صاحب باوجود اس قدر وقعت اور شان اپنی کے جھوٹ بولتے؟ اور اگر جھوٹ بولتے اور اس قول کا کوئی حدیث ماخذ ثابت نہ کرتے تو کیوں علمائے امت اُن کا پیچھا چھوڑ دیتے۔ پھر ایک اور مشہور بزرگ جو اِسی زمانہ میں گذرے ہیں جو کوٹھہ والے کرکے مشہور ہیں۔ اُن کے بعض مرید اب تک زندہ موجود ہیں انہوں نے عام طور پر بیان کیا ہے کہ میاں صاحب کوٹھہ والے نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ مہدی پیدا ہو گیا ہے۔ اور اب اس کا زمانہ ہے اور ہمارا زمانہ جاتا رہا اور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 145

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 145

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/145/mode/1up

145

یہ بھی فرمایا کہ اُس کی زبان پنجابی ہے۔ تب عرض کیا گیا کہ آپ نام بتلاویں جس نام سے وہ شخص مشہور ہے اور جگہ سے مطلع فرماویں۔ جواب دیا کہ میں نام نہیں بتلاؤں گا۔* اَب جس قدر

اِن راویوں میں سے ایک صاحب مرزا صاحب کرکے مشہور ہیں جن کا نام محمد اسمٰعیل ہے اور پشاور محلہ گل بادشاہ صاحب کے رہنے والے ہیں سابق انسپکٹر مدارس تھے۔ ایک معزز اور ثقہ آدمی ہیں مجھ سے کوئی تعلق بیعت نہیں ہے۔ ایک مدت دراز تک میاں صاحب کوٹھہ والے کی صحبت میں رہے ہیں انہوں نے مولوی سیّدسرور شاہ صاحب کے پاس بیان کیا کہ میں نے حضرت کوٹھہ والے صاحب سے سُنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ مہدئ آخر الزمان پیدا ہو گیا ہے ابھی اس کا ظہور نہیں ہوا اور جب پُوچھا گیا کہ نام کیا ہے تو فرمایا کہ نام نہیں بتلاؤں گا مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے۔

دوسرے صاحب جو وہ اپنا بلا واسطہ سُننابیان کرتے ہیں۔ وہ ایک بزرگ معمر حضرت کوٹھہ والے صاحب کے بیعتؔ کرنے والوں میں سے اور اُن کے خاص رفیقوں میں سے ہیں جن کا نام حافظ نور محمد ہے اور وہ متوطن موضع گڑھی امازئ ہیں۔ اور ان دنوں میں کوٹھہ میں رہا کرتے ہیں۔

اور تیسرے صاحب جو اپنا سُننا بلا واسطہ بیان کرتے ہیں ایک اور بزرگ معمر سفید ریش ہیں جن کا نام گلزار خاں ہے یہ بھی حضرت کوٹھہ والے صاحب سے بیعت کرنے والے اور متقی پرہیزگار خدا ترس نرم دل اور مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے پیر بھائی ہیں ان دونوں بزرگوں کی چشم دید روایت بذریعہ محبی مولوی حکیم محمد یحییٰ صاحب دیپگرانی مجھے پہنچی ہے۔ مولوی صاحب موصوف ایک ثقہ اور متقی آدمی ہیں اور حضرت کوٹھہ والے صاحب کے خلیفہ کے خلف الرشید ہیں۔ انہوں نے ۲۳؍جنوری ۱۹۰۰ء ؁ کو میری طرف ایک خط لکھا تھا جس میں ان دونوں بزرگوں کے بیانات اپنے کانوں سے سُن کر مجھے اس سے اطلاع دی ہے خدا تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے آمین۔ اور وہ خط یہ ہے بخدمت شریف حضرت امام الزمان بعد ازا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ معروض کہ مَیں موضع کوٹھہ علاقہ یوسف زئی کوگیا تھا اور چونکہ سُنا ہوا تھا کہ حضرت صاحب مرحوم



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 146

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 146

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/146/mode/1up

146

میں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے وہ ؔ بدیہی طور پر اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ مسیح موعود

کوٹھہ والے فرماتے تھے کہ مہدی آخر الزمان پیدا ہو گیا ہے مگر ظہور ابھی نہیں ہوا تو اس بات کا مجھ کو بہت خیال تھا کہ اس امر میں تحقیق کروں کہ فی الواقع کس طرح ہے ۔ جب میں اس دفعہ کوٹھہ کو گیا تو ان کے مریدوں میں سے جو کوئی باقی ماندہ ہیں ہر ایک سے میں نے استفسار کیا ہر ایک یہی کہتا تھا کہ یہ بات مشہور ہے ہم نے فلاں سے سنا فلاں آدمی نے یوں کہا کہ حضرت صاحب یوں فرماتے تھے مگر دو آدمی ثقہ متدین نے اس طرح کہا کہ ہم نے خود اپنے کانوں سے حضرت کی زبان مبارک سے سنا ہے اور ہم کو خوب یاد ہے۔ ایک حرف بھی نہیں بھولا۔ اب میں ہر ایک کا بیان بعینہٖ عرض خدمت کرتا ہوں۔(ا) ایک صاحب حافظ قرآن نور محمد نام اصل متوطن گڑھی امازئی حال مقیم کوٹھہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت (کوٹھہ والے) ایک دن وضو کرتے تھے اور میں رو برو بیٹھا تھا۔ فرمانے لگے کہ ’’ہم اب کسی اور کے زمانہ میں ہیں۔‘‘ میں اس بات کو نہ سمجھا اور عرض کیا کہ کیوں حضرت اس قدر معمر ہو گئے ہیں کہ اب آپ کا زمانہ چلا گیا۔ ابھی آپ کے ہم عمر لوگ بہت تندرست ہیں اپنے دنیوی کام کرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ تُو میری بات کو نہ سمجھا۔ میرا مطلب تو کچھ اور ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ جو خدا کی طرف سے ایک بندہ تجدید دین کے لئے مبعوث ہوا کرتا ہے وہ پیدا ہو گیا ہے ہماری باری چلی گئی۔ میں اس لئے کہتا ہوں کہ ہم کسی غیر کے زمانہ میں ہیں۔ پھر فرمانے لگے کہ وہ ایسا ہوگا کہ مجھ کو تو کچھ تعلق مخلوق سے بھی ہے اُس کو کسی کے ساتھ تعلق نہ ہوگا اور اُس پر اس قدر شدائد مصائب آئیں گے جن کی نظیر زمانہ گذشتہ میں نہ ہوگی مگر اس کو کچھ پروا نہ ہوگی اور سب طرح کے تکالیف اور فساد اس وقت ہوں گے اُس کو پروا نہ ہوگی۔ زمین آسمان مل جائیں گے اور اُلٹ پلٹ ہو جائیں گے اُس کو پروا نہ ہوگی۔ پھر میں نے عرض کی کہ نام و نشان یا جگہ بتاؤ۔ فرمانے لگے نہیں بتاؤں گا۔ فقطؔ ۔ یہ اس کا بیان ہے۔ اِس میں مَیں نے ایک حرف زیر بالا نہیں کیا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 147

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 147

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/147/mode/1up

147

کا ظہور چودھویں صدی کے سر پر ہونا ضروری تھا۔

ہاں اُس کی تقریر افغانی ہے یہ اس کا ترجمہ ہے۔ دوسرے صاحب جن کا نام گلزار خاں ہے جو ساکن موضع بڈابیر علاقہ پشاور ہیں اور حال میں ایک موضع میں کوٹھہ شریف کے قریب رہتے ہیں اور اس موضع کا نام ٹوپی ہے یہ بزرگ بہت مدت تک حضرت صاحب کی خدمت میں رہے ہیں انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ ایک دن حضرت صاحب عام مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور طبیعت اس وقت بہت خوش و خرم تھی۔ فرمانے لگے کہ میرے بعض آشنا مہدئ آخر الزمان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے (اشارہ یہ تھا کہ اسی ملک کے قریب مہدی ہوگا جس کو دیکھ سکیں گے) اور پھر فرمایا کہ اُس کی باتیں اپنے کانوں سے سُنیں گے۔ فقط۔ اُس بزرگ کو جب کہ میں نے اس راز سے مطلع کیا کہ آپ کے حضرت کی یہ پیشگوئی سچی نکلی اور ایسا ہی وقوع میں آگیا ہے (یعنی پیشگوئی کے منشاء کے موافق مہدی پنجاب میں پیدا ہو گیا ہے) تو وہ بزرگ بہت رویا اور کہنے لگا کہ کہاں ہیں مجھ کو کسی طرح اُن کے قدموں تک پہنچاؤ اور میں بہ سبب ضعف بصارت کے جا نہیں سکتا کیا کروں۔ پھر کہنے لگا کہ میرا سلام اُن کو پہنچانا اور دُعا کرانی۔ پھر میں نے اُس سے وعدہ کیا کہ ضرور تمہارا سلام پہنچا دوں گا۔ اور دعا کاسوال بھی کروں گا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ضرور اُس کے واسطے دعا کی جائے گی۔ والسلام خیر ختام واللّٰہ ثم تاللّٰہ کہ ان دونوں شخصوں نے اِسی طرح گواہی دی ہے۔ محمد یحییٰ از دیپگراں

ایسا ہی ایک اور خط مولوی حمید اللہ صاحب ملّا سوات کی طرف سے مجھے پہنچا ہے جس میں یہی گواہی بزبان فارسی ہے جس کا ترجمہ ذیل میں لکھتا ہوں:۔

بخدمت شریف کاشف رموز نہانی واقف علوم ربّانی جناب مرزا صاحب۔ عرضداشت یہ ہے کہ فضیلت پناہ جناب مولوی محمد یحییٰ صاحب اخوان زادہ جو آپ کی خدمت میں ہو گئے ہیں اُن سے کئی دفعہ آپ کا ذکر جمیل درمیان آیا آخر ایک روز باتیں کرتے کرتے مہدی اور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 148

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 148

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/148/mode/1up

148

چو ؔ تھا امر اس بات کا ثابت کرنا ہے کہ وہ مسیح موعود جس کا آنا چودھویں صدی کے

عیسیٰ اور مجدد کا ذکر درمیان آگیا۔ تب میں نے اُسی تقریب پر ذکر کیا کہ ایک روز ہمارے مرشد حضرت صاحب کوٹھہ والے فرماتے تھے کہ مہدی معہود پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ اِس بات کو سن کر فضیلت پناہ مولوی محمد یحییٰ اخوان زادہ اس بات پر مصر ہوئے کہ اس بیان کو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر تحریر کر دیں پس میں بحکم آیت333 ۱؂ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت صاحب کوٹھہ والے ایک دو سال اپنی وفات سے پہلے یعنی ۱۲۹۲ھ یا ۱۲۹۳ھ میں اپنے چند خواص میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہر ایک باب سے معارف اور اسرار میں گفتگو شروع تھی ناگاہ مہدی معہود کا تذکرہ درمیان آگیا فرمانے لگے کہ مہدی معہود پیدا ہو گیا ہے مگر ابھی ظاہر نہیں ہوا ہے اور قسم بخدا کہ یہی اُن کے کلمات تھے۔ اور میں نے سچ سچ بیان کیا ہے نہ ہوائے نفس سے اور بجز اظہار حق اور کوئی غرض درمیان نہیں۔ اُن کے مُنہ سے یہ الفاظ افغانی زبان میں نکلے تھے: ۔’’چہ مہدی پیدا شوے دے او وقت وظہور ندے‘‘ یعنی مہدی موعود پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ بعد اس کے حضرت موصوف نے سلخ ذی الحجہ ۱۲۹۴ہجری میں وفات پائی۔

ایساؔ ہی ایک اور بزرگ گلاب شاہ نامی موضع جمال پور ضلع لودیانہ میں گذرے ہیں جن کے خوارق اس طرف بہت مشہور ہیں۔ انہوں نے چند لوگوں کے پاس اپنا یہ کشف بیان کیا جن میں سے ایک بزرگ کریم بخش نامی (خدا ان کو غریق رحمت کرے) پرہیز گار موحد معمر سفید ریش کو میں نے دیکھا ہے۔* اور انہوں نے نہایت رقت سے چشم پُر آب ہو کر کئی جلسوں میں میرے رو برو اُس زمانہ

* میاں کریم بخش ساکن جمال پور ضلع لدھیانہ نے میاں گلاب شاہ مجذوب کی اس پیشگوئی کو بڑے بڑے مسلمانوں کے جلسہ میں بیان کیا تھا چنانچہ ایک دفعہ قریباً سات۷۰۰ سو آدمی کے جلسہ میں قادیاں میں بیان کیا اور میرے خیال میں انہوں نے لدھیانہ میں کم سے کم دس ہزار آدمی کو اس سے اطلاع دی ہوگی مجھے کئی مہینوں تک لدھیانہ میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ میاں کریم بخش موضع جمال پور سے چند روز کے بعد ضرور آتے تھے اور بسا اوقات پچاس۵۰ پچاس۵۰ آدمی کے رو برو رو کر یہ پیشگوئی بیان کرتے تھے اور یہ لازمی امر تھا کہ بیان کرنے کے وقت بات کے کسی نہ کسی محل پر اُن کے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ مولوی محمد احسن صاحب رئیس لدھیانہ نے بھی یہ پیشگوئی اُن کے مُنہ سے سُنی تھی۔ لدھیانہ میں یہ پیشگوئی بہت شہرت یافتہ ہے اور ہزاروں انسان گواہ ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 149

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 149

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/149/mode/1up

149

سر پر مقدؔ ر تھا وہ میں ہی ہوں۔ سو اس امر کا ثبوت یہ ہے کہ میرے ہی دعوے کے وقت میں آسمان پر خسوف کسوف ہوا ہے اور میرے ہی دعوے کے وقت میں صلیبی فتنے پیدا ہوئے ہیں اور میرے ہی ہاتھ پر خدا نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ مسیح موعود اِس امت میں سے ہونا چاہئے اور مجھے خدا نے اپنی طرف سے قوت دی ہے کہ میرے مقابل پر مباحثہ کے وقت کوئی پادری ٹھہر نہیں سکتا اور میرا رُعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ اُن کو طاقت نہیں رہی کہ میرے مقابلہ پر آسکیں۔ چونکہ

جبکہ چودھویں صدی میں سے ابھی آٹھ برس گذرے تھے یہ گواہی دی کہ مجذوب گلاب شاہ صاحب نے آج سے تیس برس پہلے یعنی اُس زمانہ میں جبکہ یہ عاجز قریباً بیس سال کی عمر کا تھا خبر دی تھی کہ عیسیٰ جو آنے والا تھا وہ پیدا ہو گیا ہے اور وہ قادیان میں ہے میاں کریم بخش صاحب کا بیان ہے کہ میں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ تو آسمان سے اُتریں گے وہ کہاں پیدا ہو گیا؟ تب اُس نے جواب دیا کہ جو آسمان پر بلائے جاتے ہیں وہ واپس نہیں آیا کرتے اُن کو آسمانی بادشاہت مل جاتی ہے وہ اس کو چھوڑ کر واپس نہیں آتے بلکہ آنے والا عیسیٰ قادیاں میں پیدا ہوا ہے۔ جب وہ ظاہر ہوگا تب وہ قرآن کی غلطیاں نکالے گا۔ میں دل میں ناراض ہوا اور کہا کہ کیا قرآن میں غلطیاں ہیں تب اُس نے کہا کہ تو میری بات نہیں سمجھا قرآن کے ساتھ جھوٹے حاشیے ملائے گئے ہیں وہ دُور کر دے گا۔ یعنی جب وہ ظاہر ہو گا جھوٹی تفسیریں جو قرآن کی کی گئی ہیں اُن کا جھوٹ ثابت کردے گا۔ تب اس عیسیٰ پر بڑا شور ہوگا اور تو دیکھے گا کہ مولوی کیسا شور مچائیں گے۔ یاد رکھ کہ تو دیکھے گا کہ مولوی کیسا شور مچائیں گے۔ تب میں نے کہا کہ قادیاں تو ہمارے گاؤں کے قریب دو۲ تین میل کے فاصلہ پر ہے اُس میں عیسیٰ کہاں ہے اس کا اُس نے جواب نہ دیا (وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُس کو اس سے زیادہ علم نہیں دیا گیا تھا کہ عیسیٰ قادیاں میں پیدا ہوگا اور اس کو خبر نہیں تھی کہ ایک قادیان ضلع گورداسپور میں بھی ہے اس لئے اُس نے اس اعتراض میں دخل نہ ؔ دیا یا فقیرانہ کبریائی سے اس کی طرف التفات نہ کی) پھر کریم بخش صاحب مرحوم کہتے ہیں کہ ایک دوسرے وقت میں پھر اُس نے یہی ذکر کیا اور کہا کہ اُس عیسیٰ کا نام غلام احمد ہے اور وہ قادیاں میں ہے۔ اب دیکھو کس قدر اہل کشف ایک زبان ہو کر چودھویں صدی میں عیسیٰ کے ظاہر ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 150

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 150

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/150/mode/1up

150


خدا نے مجھے رُوح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اس لئے کوئی پادری میرے مقابل پر آہی نہیں سکتا یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں ہوا کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی اور اب بُلائے جاتے ہیں پر نہیں آتے اس کا یہی سبب ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اورکچھ نہیں۔ دیکھو ایسے وقت میں کہ جب حضرت مسیح کے خدا بنانے پر سخت غلوّ کیا جاتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رُوح القدس کی تائید سے خالی خیال کرتے تھے اور معجزات اور پیشگوئیوں سے انکار تھا۔ ایسے وقت میں پادریوں کے مقابل پر کون کھڑا ہوا؟ کس کی تائید میں خدا نے بڑے بڑے معجزے دکھلائے کتاب تریاق القلوب کو پڑھو اور پھر انصاف سے کہو کہ اگرچہ صدہا با ؔ تیں قصوں کے رنگ میں بیان کی جاتی ہیں مگر یہ نشان اور پیشگوئیاں جو رؤیت کی شہادت سے ثابت ہیں جن کے بچشم خود دیکھنے والے اب تک لاکھوں انسان دنیا میں موجود ہیں یہ کس سے ظہور میں آئے؟ کون ہے جو ہر ایک نئی صبح کو مخالفین کو ملزم کر رہا ہے کہ آؤ اگر تم میں رُوح القدس سے کچھ قوت ہے تو میرا مقابلہ کرو؟ عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں میں سے کون ہے جو ان وقت میرے سامنے کہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا؟ سو یہ خدا کی حجت ہے جو پوری ہوئی۔ سچائی سے انکار کرنا طریق دیانت اور ایمان نہیں ہے۔ بلا شبہ ہر ایک قوم پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی ہے آسمان کے نیچے اب کوئی نہیں کہ جو رُوح القدس کی تائید میں میرا مقابلہ کر سکے۔ میں انکار کرنے والوں کو کس سے مشابہت دوں وہ اس نادان سے مشابہت رکھتے ہیں جس کے سامنے ایک ڈبہ جواہرات کا پیش کیا گیا جس میں کچھ بڑے دانے اور کچھ چھوٹے تھے۔ اور بہت سے اُن میں سے صفا کئے گئے تھے مگر ایک دو دانے اعلیٰ قسم کے تو تھے مگر ابھی جو ہری نے نادانوں کے امتحان کے لئے ان کو جلا نہیں دی تھی۔ تب



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 151

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 151

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/151/mode/1up

151

یہ نادان غصہ میں آیا اور تمام پاک اور چمکیلے جواہرات دامن سے پھینک دیئے اِس خیال سے کہ ایک دو دانے اُن جواہرات میں سے اُس کے نزدیک بہت روشن نہیں ہیں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ باوجود یکہ خدا تعالیٰ کی اکثر پیشگوئیاں کمال صفائی سے پوری ہو گئیں اُن سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے جو سوسے بھی کچھ زیادہ ہیں۔ لیکن ایک دو ایسی پیشگوئیاں جن کی حقیقت کم بصیرتی سے ان کو سمجھ نہیں آئی اُن کا بار بار ذکر کر رہے ہیں ہر ایک مجلس میں اُن کو پیش کرتے ہیں۔ اے مسلمانوں کی ذرّیت! تمہیں راستی سے بغض کرنا کس نے سکھایا جبکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے خُدا نے وہ عجیب کام بکثرت دکھلائے جن کا دکھلانا انسان کی قدرت میں نہیں اور جو تمہارے باپ دادوں نے نہیں دیکھے تھے تو کیا ان نشانوں کو بھلا دینا اور دو تین پیشگوئیوں کی نسبت بیہودہ نکتہ چینیاں کرنا جائز تھا؟ کیا تمہیں معلوم نہیں جو میری تصدیق کے لئے کیسا عظیم الشان نشان آسمان پر ظاہر ہوا۔ اور تیرہ سو برس کی انتظار کے بعد میرے ہی زمانہ میں میرے ہی دعوے کے عہد میں میری ہی تکذیب کے وقت خدا نے اپنے دو روشن نیرّوں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے میں بے نور کر دیا۔ یہ موجودہ علماء کے سلبِ نور اور ظلم پر ایک ماتمی نشان تھا اور مقرر تھا کہ وہ مہدی کی تکذیب کے وقت ظاہر ہوگا ۔خدا کے پاک نبی ابتدا سے خبر دیتے آئے تھے کہ مہدی کے انکار کی وجہ سے یہ ماتمی نشان آسمان پر ظاہر ہوگااور رمضان میں اس لئے کہ دین میں ظلمت اور ظلم روا رکھا گیا جیسا کہ آثار میں بھی آچکا ہے کہ مہدی پر کفر کا فتویٰ لکھا جائے گا۔ اور اس کا نام وقت کے علماء دجّال اور کذّاب اور مفتری اور بے ایمان رکھیں گے اور اُس کے قتل کے منصوبے ہوں گے۔ تب خدا جو آسمان کا خدا ہے جس کا قوی ہاتھ اُس کے گروہ کو ہمیشہ بچاتا ہے آسمان پر مہدی کی تائید کے ؔ لئے یہ نشان ظاہر کرے گا اور قرآن



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 152

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 152

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/152/mode/1up

152

اس کی گواہی دے گا۔* مگر چونکہ نشانوں کے نیچے ہمیشہ ایک اشارہ ہوتا ہے گویا ان کے اندر ایک تصویری تفہیم منقوش ہوتی ہے اس لئے خدا نے اس کسوف خسوف کے نشان میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا کہ علمائے محمدی جو چاند اور سورج کے مشابہ ہونے چاہئیے تھے اس وقت اُن کا نور فراست جاتا رہے گا۔ اور مہدی کوشناخت نہیں کریں گے اور تعصب کے گرہن نے ان کے دل کو سیاہ کر دیا ہوگا۔ اس لئے اس امر کے اظہار کے لئے ماتمی نشان آسمان پر ظاہر ہوگا۔ پھر اسی نشان پر خدا نے بس نہیں کی بڑی بڑی فوق العادت پیشگوئیاں ظہور میں آئیں جیسا کہ لیکھرام والی پیشگوئی جس کی ساری برٹش انڈیا گواہ ہے کیسے شان اور شوکت سے ظہور میں آگئی اور باوجود ہزاروں طرح کی حفاظتوں اور ہشیاریوں کے کس طرح خدا کے ارادہ نے روز روشن میں اپنا کام کردیا۔ ایسا ہی رسالہ انجام آتھم کی یہ پیشگوئی کہ عبد الحق غزنوی نہیں مرے گا جب تک کہ اِس عاجز کا پسر چہارم پیدا نہ ہولے کس صفائی اور روشنی سے عبدالحق کی زندگی میں پوری ہو گئی اور ایسا ہی یہ پیشگوئی کہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوگا بعد ان لڑکوں کے جو سب مر گئے اور اس لڑکے کا تمام بدن پھوڑوں سے بھرا ہوا ہوگا چنانچہ ان پیشگوئیوں میں ایسا ہی ظہور میں آیا۔ جس طور سے

* حججؔ الکرامہ میں لکھا ہے کہ مسیح اپنے دعاوی اور معارف کو قرآن سے استنباط کرے گا یعنی قرآن اس کی سچائی کی گواہی دے گا اور علماءِ وقت بعض حدیثوں کو پیش نظر رکھ کر اُس کی تکذیب کریں گے۔ اور مکتوبات امام ربّانی میں لکھا ہے کہ مسیح موعود جب دنیا میں آئے گا تو علماءِ وقت بمقابلہ اس کے آمادۂ مخالفت ہو جائیں گے کیونکہ جو باتیں بذریعہ اپنے استنباط اور اجتہاد کے وہ بیان کرے گا وہ اکثر دقیق اور غامض ہوں گی اور بوجہ دقّت اور غموض ماخذ کے ان سب مولویوں کی نگاہ میں کتاب اور سنّت کے برخلاف نظر آئیں گی حالانکہ حقیقت میں برخلاف نہیں ہوں گی۔ دیکھو صفحہ۱۰۷ مکتوبات امام ربّانی مطبع احمدی دہلی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 153

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 153

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/153/mode/1up

153

اور جس تاریخ میں لیکھرام کا قتل ہونا بیان کیا گیا تھا اسی طرح سے لیکھرام قتل ہوا اور کئی سو لوگوں نے گواہی دی کہ وہ پیشگوئی بہت صفائی سے پوری ہو گئی چنانچہ اب تک وہ محضرنامہ میرے پاس موجود ہے جس پر ہندوؤں کی گواہیاں بھی ثبت ہیں۔ ایسا ہی پیشگوئی کے مطابق میرے گھر میں چار لڑکے پیدا ہوئے اور پسر چہارم کی پیدائش تک پیشگوئی کے مطابق عبدالحق غزنوی زندہ رہا اِس میں کیسی قدرت الٰہی پائی جاتی ہے۔ ایسا ہی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مکرمی اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا بدن پھوڑوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ پھوڑے ایک سال سے بھی کچھ زیادہ دنوں تک اس لڑکے کے بدن پر رہے جو بڑے بڑے اور خطرناک اور بد نما اور موٹے اور ناقابلِ علاج معلوم ہوتے تھے جن کے اب تک داغ موجود ہیں۔کیا یہ طاقتیں بجز خدا کے کسی اور میں بھی پائی جاتی ہیں؟ پھر یہ پیشگوئیاں کچھ ایک دو پیشگوئیاں نہیں بلکہ اِسی قسم کی سو سے زیادہ پیشگوئیاں ہیں جو کتاب تریاق القلوب میں درج ہیں۔ پھر ان سب کا کچھ بھی ذکر نہ کرنا اور بار بار احمد بیگ کے داماد یا آتھم کا ذکر کرتے رہنا کس قدر مخلوق کو دھو کہ دینا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ؔ مثلاً کوئی شریر النفس اُن تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے اور حدیبیہ کی پیشگوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کردہ پر پوری نہیں ہوئی یا مثلاً حضرت مسیح کی صاف اور صریح پیشگوئیوں کا کبھی کسی کے پاس نام تک نہ لے اور بار بار ہنسی ٹھٹھے کے طور پر لوگوں کو یہ کہے کہ کیوں صا حب کیا وہ وعدہ پوراہو گیا جو حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ ابھی تم میں سے کئی لوگ زندہ ہوں گے جو میں پھر واپس آؤں گا۔ یا مثلاً شرارت کے طور پر داؤد کا تخت دوبارہ قائم کرنے کی پیشگوئی کو بیان کرکے پھر ٹھٹھے سے کہے کہ کیوں صاحب کیا یہ سچ ہے کہ حضرت مسیح بادشاہ بھی ہو گئے تھے اور داؤد کا تخت اُن کو مل گیا تھا۔ شیخ سعدی بخیل کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 154

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 154

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/154/mode/1up

154

سچ فرماتے ہیں ؂

ندارد بصد نکتۂ نغز گوش


چو ز حفے بہ بیند بر آرد خروش

یہ نادان نہیں جانتے کہ پیشگوئی ایک علم ہے اور خدا کی وحی ہے اس میں بعض وقت متشابہات بھی ہوتے ہیں اور بعض وقت ملہم تعبیر کرنے میں خطا کرتا ہے جیسا کہ حدیث ذھب وہلی اس پر شاہد ہے پھر احمد بیگ کے داماد کا اعتراض کرنا اور احمد بیگ کی وفات کو بھول جانا کیا یہی ایمان داری ہے۔ اس جگہ تو پیشگوئی کی دو ٹانگ میں سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی اور ایک حصہ پیشگوئی کا یعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہو جانا حسب منشاءِ پیشگوئی صفائی سے پورا ہو گیا اور دوسرے کی انتظار ہے مگر یونس نبی کی قطعی پیشگوئی میں سے کونسا حصہ پورا ہو گیا؟ اگر شرم ہے تو اس کا کچھ جواب دو۔ آپ لوگ اگر بہت ہی کم فرصت ہوں اور اُن تمام نشانوں کو جو سو سے زیادہ ہیں غور سے نہ دیکھ سکیں تو نمونہ کے طور پر ایک نشان آسمان کا لے لیں یعنی مہینہ رمضان کا خسوف کسوف اور ایک نشان زمین کا یعنی لیکھرام کا پیشگوئی کے مطابق مارا جانا۔ اور پھر سوچ لیں کہ نشان نمائی میں درحقیقت یہ دو گواہیاں طالب صادق کے لئے کافی ہیں ہاں اگر طالب صادق نہیں تو اس کے لئے تو ہزار معجزہ بھی کافی نہیں ہوگا۔ دیکھنا چاہئے کہ چاند اور سورج کا رمضان شریف میں گرہن ہونا کس قدر ایک مشہور پیشگوئی تھی یہاں تک کہ جب ہندوستان میں یہ نشان ظاہر ہوا تو مکہ معظمہ کی ہر ایک گلی اور کوچہ میں اس کا تذکرہ تھا کہ مہدی موعود پیدا ہو گیا۔ ایک دوست نے جو اُن دنوں میں مکہ میں تھا خط میں لکھا کہ جب مکہ والوں کو سورج اور چاند گرہن کی خبر ہوئی کہ رمضان میں حدیث کے الفاظ کے مطابق گرہن ہو گیا تو وہ سب خوشی سے اُچھلنے لگے کہ اب اسلام کی ترقی کا وقت آگیا اور مہدی پیدا ہو گیا اور بعض نے قدیم جہادی غلطیوں کی وجہ سے اپنے ہتھیارصاف کرنے شروع کر دیئے کہ اب کافروں سے لڑائیاں ہوں گی۔ غرض متواتر سُنا گیا ہے کہ نہ صرف مکہ میں بلکہ تمام بلادِ اسلام



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 155

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 155

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/155/mode/1up

155

میں اس کسوف خسوف کی خبر پاکر بڑا شور اٹھا تھا اور بڑی خوشیاں ہوئی تھیں اور منجمین نے یہ بھی گواہی دی ہے کہ اس کسوف خسوف میں ایک خاص ندرت تھی یعنی ایک بے مثل اعجوبہ جس کی نظیر نہیں دیکھی گئی اور اسی ندرت کے دیکھنے کے لئے ہمارے اس ملک کے ایک حصہ میں انگریزی فلا سفروں کی طرف سے ایک رصدگاہ بنایا گیا تھا اور امریکہ اور یورپ کے دُور دُور کے ملکوں سے انگریزی منجم کسوف خسوف کی اس طرز عجیب کے دیکھنے کے لئے آئے تھے جیسا کہ اس خسوف کسوف کے ندرت کے حالات ان دنوں میں پرچہ سول ملٹری گزٹ اور ایسا ہی اور کئی انگریزی اخباروں میں اور نیز بعض اردو اخباروں میں بھی مفصل چھپے تھے۔ اور لیکھرام کے مارے جانے کا نشان بھی ایک ہیبت ناک نشان تھا جس میں پانچ برس پہلے اس واقعہ کی خبر دی گئی تھی اور پیشگوئی میں ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ عید کے دوسرے دن مارا جائے گا۔ اور اس طرح پر قتل کا دن بھی متعین ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ کسی قسم کی شرط نہ تھی اور ہزار سے ؔ زیادہ لوگ بول اُٹھے تھے کہ یہ پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہو گئی۔ غرض ان دونوں نشانوں کی عظمت نے دلوں کو ہلا دیا تھا۔ نہ معلوم منکر خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے جنہوں نے اِن چمکتے ہوئے نشانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ناحق ظلم سے اپنے پیروں کے نیچے کچل دیا۔3 3 ۱؂ ہائے یہ لوگ کیوں نہیں دیکھتے کہ کیسے متواتر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی تائیدیں کیسی نازل ہو رہی ہیں اور ایک خدائی قوت زمین پر کام کر رہی ہے۔ ہائے! یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو اس قدر نقلی اور عقلی اور کشفی طور پر ثبوت کے مواد ہر گز اس میں جمع نہ ہو سکتے۔

آسماں بارد نشاں اَلوَقت می گوید زمیں


باز بغض و کینہ و انکار ایناں را بہ بیں

اے ملامت گر خدارا برزماں کن یک نظر


چوں خدا خاموش ماندے درچنیں وقتِ خطر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 156

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 156

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/156/mode/1up

156

خستگانِ دیں مرا از آسماں طلبیدہ اند


آمدم وقتے کہ دلہا خوں زغم گردیدہ اند

دعوئے مارا فروغ از صد نشانہا دادہ اند


مہر ومہ ہم از پئے تصدیق ما استادہ اند

کچھ ایسے عقل پر پردے پڑ گئے ہیں کہ بار بار یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ حدیثوں کے مطابق اس شخص کا دعویٰ نہیں۔ اے قابلِ رحم قوم! میں کب تک تمہیں سمجھاؤں گا۔ خدا تمہیں ضائع ہونے سے بچاوے آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے اور میں کیونکر دلوں کو چاک کرکے سچائی کا نور اُن میں ڈال دوں۔ کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح حَکَمْ ہو کر آتا۔ اور کیا مسیح پر یہ فرض تھا کہ باوجود اس کے کہ خدا نے اُس کو صحیح علم دیا پھر بھی وہ تمہاری ساری حدیثوں کو مان لیتاکیا اس کو ادنیٰ سے ادنیٰ محدث کا درجہ بھی نہیں دیا گیا اور اس کی تنقید جو علمِ لدنی پر مبنی ہے اس کا کچھ بھی اعتبار نہیں اور کیا اس پر واجب ہے کہ پہلے ناقدین حدیث کی شہادت کو ہر جگہ اور ہر مقام اور ہر موقعہ اور ہر تاویل میں قبول کرلے اور ایک ذرہ ان کے قدم گاہ سے انحراف نہ کرے۔ اگر ایسا ہی ہونا چاہئے تھا تو پھر اس کا نام حَکَم کیوں رکھا گیا؟ وہ تو تلمیذ المحدثین ہوا۔ اور ان کی رہنمائی کا محتاج۔ اور جبکہ بہرحال محدثین کی لکیر پر ہی اُس نے چلنا ہے تو یہ ایک بڑا دھوکہ ہے کہ اُس کا نام یہ رکھا گیا کہ قومی تنازع کا فیصلہ کرنے والا۔ بلکہ اس صورت میں وہ نہ عدل رہا نہ حَکَم رہا۔ صرف بخاری اور مسلم اور ابن ماجہ اور ابن* داؤد وغیرہ کا ایک مقلد ہوا ۔گویا محمد حسین بٹالوی اور نذیر حسین دہلوی اور رشید احمد گنگوہی وغیرہ کا ایک چھوٹا بھائی ہوا۔ بس یہی ایک غلطی ہے جس نے آسمانی دولت سے ان لوگوں کو محروم رکھا ہے۔ کیا یہ اندھیر کی بات نہیں کہ محدثین کی تنقید اور توثیق اور تصحیح کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جائے گویا ان کا سب لکھا ہوا نوشتہ تقدیر ہے لیکن وہ جس کا خدا نے فیصلہ کرنے والا نام رکھا اور امت کے اندرونی نزاعوں کے تصفیہ کرنے کیلئے حَکَمْ ٹھہرایا وہ ایسا بے دست وپا آیا کہ کسی حدیث کے ردّ یا قبول کا اس کو اختیار نہیں گویا اس سے وہ لوگ بھی اچھے ٹھہرے جن کی نسبت اہل سنّت قبول

* سہو کاتب ہے۔ لفظ ’’ابو داؤد‘‘ ہونا چاہئے۔ (مصحح



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 157

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 157

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/157/mode/1up

157

کرتے ہیں کہ وہ تصحیح حدیث بطور کشف براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے اور اس ذریعہ سے کبھی صحیح حدیث کو موضوع کہہ دیتے تھے اور کبھی موضوع کا نام صحیح رکھتے تھے۔ پس سوچو اور سمجھو کہ جس شخص کے ذمہ اسلام کے ۷۳ فرقوں کی نزاعوں کا فیصلہ کرنا ہے کیا وہ محض مقلد کے طور پر دنیا میں آسکتا ہے۔ پس یقیناًسمجھو کہ یہ ضروری تھا کہ وہ ایسے طور سے آتا کہ بعضؔ نادان اس کو یہ سمجھتے کہ گویا وہ اُن کی بعض حدیثوں کو زیرو زبر کر رہا ہے یا بعض کو نہیں مانتا اِسی لئے تو آثار میں پہلے سے آچکا ہے کہ وہ کافر ٹھہرایا جائے گا اور علماءِ اسلام اُس کو دائرۂ اسلام سے خارج کریں گے اور اس کی نسبت قتل کے فتوے جاری ہو ں گے۔ کیا تمہارا مسیح بھی میری طرح کافر اور دجّال ہی کہلائے گا؟ اور کیا علماء میں اُس کی یہی عزّت ہوگی؟ خدا سے خوف کرکے بتلاؤ کہ ابھی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ جبکہ مسیح اور مہدی کی تکفیر تک نوبت پہنچے گی اور علمائے کرام اور صوفیائے عظام اُن کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان اور دائرۂ اسلام سے خارج رکھیں گے تو کیا کسی ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف پر یہ شور قیامت برپا ہو گا یہاں تک کہ بجز چند افراد کے تمام علماءِ اسلام جو زمین پر رہتے ہیں سب اتفاق کر لیں گے کہ یہ شخص کافر ہے یہ پیشگوئی بڑے غور کے لائق ہے کیونکہ بڑے زور سے آپ لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اُس کو پورا کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ شبہات کہ کیوں صحاح سِتّہ کی وہ تمام حدیثیں جو مہدی اور مسیح موعود کے بارے میں لکھی ہیں اس جگہ صادق نہیں آتیں اس سوال سے حل ہو جاتی ہیں کہ کیوں اخبار و آثار میں یہاں تک کہ مکتوبات مجدّد صاحب سرہندی اور فتوحات مکیہ اور حجج الکرامہ میں لکھا ہے کہ مہدی اور مسیح کی علمائے وقت سخت مخالفت کریں گے اور ان کا نام گمراہ اور ملحد اور کافر اور دجّال رکھیں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے دین کو بگاڑ دیا اور احادیث کو چھوڑ دیا اِس لئے وہ واجب القتل ہیں کیونکہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ آنے والے مسیح اور مہدی بعض حدیثوں کو جو علماء کے نزدیک صحیح ہیں چھوڑ دیں گے بلکہ اکثر کو چھوڑیں گے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 158

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 158

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/158/mode/1up

158

تبھی تو یہ شورِ قیامت برپا ہوگا اور کافر کہلائیں گے۔ غرض اِن احادیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ مہدی اور مسیح علماءِ وقت کی امیدوں کے برخلاف ظاہر ہوں گے اور جس طور سے انہوں نے حدیثوں میں پٹڑی جما رکھی ہے اُس پٹڑی کے برخلاف ان کا قول اور فعل ہوگا۔* اِسی وجہ سے اُن کو کافر کہا جائے گا۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ علماءِ مخالفین کا میری نسبت درحقیقت اور کوئی بھی عذر نہیں بجز اس بیہودہ عذر کے کہ جو ایک ذخیرہ رطب یا بس حدیثوں کا انہوں نے جمع کر رکھا ہے اُن کے ساتھ مجھے ناپنا چاہتے ہیں حالانکہ اُن حدیثوں کو میرے ساتھ ناپنا چاہئے تھا۔ یہ ایک ابتلاء ہے جو کم عقل اور بدقسمت لوگوں کے لئے مقدر تھا اور اس ابتلا میں نادان لوگ پھنس جاتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے دلوں میں پہلے ہی ٹھہرالیتے ہیں کہ جو کچھ مہدی اور مسیح کی نسبت حدیثیں لکھی ہیں اور جس طرح اُن کے معنے کئے گئے ہیں وہ سب صحیح اور واجب الاعتقاد ہیں اس لئے جب وہ لوگ اس فرضی نقشہ سے جو قرآن شریف سے بھی مخالف ہے مجھے مطابق نہیں پاتے تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ کاذب ہے۔ مثلاً وہ خیال کرتے ہیں کہ مسیح موعود ایک ایسی قوم یا جوج ماجوج کے وقت آنا چاہئے جن کے لمبے درختوں کی طرح قد ہوں گے اور اس قدر لمبے کان ہوں گے کہ اُن کو بستر کی طرح بچھا کر اُن پر سو رہیں گے۔ اور نیز مسیح آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اُترنا چاہئے بیت المقدس کے منارہ کے پاس مشرقی طرف اور دجّال عجیب الخلقت اس سے پہلے موجود چاہئے جس کے قبضۂ قدرت میں سب خدائی کی باتیں ہو ؔ ں۔ مینہ برسانے اور کھیتیاں اُگانے اور مُردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہو ایک آنکھ سے کانا ہو۔ اور اس کے گدھے کا سر اتنا بڑا موٹا ہو کہ دونوں کانوں کا

* مہدی کو کافر اور گمراہ اور دجّال اور ملحد ٹھہرانے کے بارے میں دیکھو حجج الکرامہ نواب مولوی صدیق حسن خاں اور در اسات اللبیب اور فتوحاتِ مکیہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 159

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 159

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/159/mode/1up

159

فاصلہ تین سو ہاتھ کے قریب ہو اور دجّال کی پیشانی پر کافر لکھا ہوا ہو۔ اور مہدی ایسا چاہئیے جس کی تصدیق کے لئے آسمان سے زور زور سے آواز آوے کہ یہ خلیفۃ اللہ مہدی ہے اور وہ آواز تمام مشرق و مغرب تک پہنچ جائے اور مکہ سے اس کے لئے ایک خزانہ نکلے اور وہ عیسائیوں سے لڑے اور عیسائی بادشاہ اُس کے پاس پکڑے آویں اور تمام زمین کو کفّار کے خون سے پُر کر دیوے اور اُن کی تمام دولت لوٹ لے اور اس قدر قاتل اور خونریز ہو کہ جب سے دنیا کی بنیاد پڑی ہے ایسا خونی آدمی کوئی نہ گذراہو۔ اور اس قدر اپنے تابعوں میں مال تقسیم کرے کہ لوگوں کو مال رکھنے کے لئے جگہ نہ رہے۔ اور پھر اِتنی خونریزیوں کے بعد چالیس برس تک موت کا حکم دنیا پر سے قطعًا موقوف کر دیا جائے اور تمام ایشیا اور یورپ اور امریکہ میں بجائے اس کے کہ ایک طرفۃ العین میں لاکھ آدمی مرتا تھا چالیس برس تک کوئی کیڑا بھی نہ مرے نہ وہ بچہ جو پیٹ میں ہے اور نہ وہ بڈھا جو ایک سو برس کا ہے۔ اور شیر اور بھیڑیے اور چرگ اور باز گوشت کھانا چھوڑ دیں یعنی چالیس برس تک درندے بھی اپنے شکار کو مارنا چھوڑ دیں۔ یہاں تک کہ وہ جُوئیں جو بالوں میں پڑتی ہیں اور وہ کیڑے جو پانی میں ہوتے ہیں کسی کو موت نہ آوے۔ اور لوگ اگرچہ روپیہ بہت پاویں مگر چالیس برس تک صرف دال پر ہی گذارہ کریں۔ اور جَین مت کے مذہب کی طرح کوئی شخص کوئی جانور نہ مارے عید کی قربانیاں اور حج کے ذبیحے سب بند ہو جائیں۔* لوگ

* یہ تمام امور اُن پیشگوئیوں سے لازم آتے ہیں جن کے ظاہر الفاظ پر علماءِ حال زور دے رہے ہیں کیونکہ جبکہ یہ حکم صادر ہو گیا کہ چالیس برس تک کوئی زندہ نہیں مرے گا اور اِسی بنا پر شیر نے بکری کے ساتھ ایک گھاٹ میں پانی پیا اور اپنا شکار پاکر پھر بھی اس کو نہ مارا اور بھیڑیئے نے بھی گوشت خواری سے توبہ کی اور باز بھی چڑیوں کے مارنے سے باز آیا اور سب نے بھوک سے اذیّت اٹھانا قبول کیا مگر کسی جاندار پر حملہ نہ کیا یہاں تک کہ بلی نے بھی چوہے کی جان بخشی کی اور سب درندوں نے جانوں کی حفاظت کے لئے اپنی موت کو قبول کر لیا تو پھر کیا انسان ہی نالائق اور نافرمان رہے گا کہ ایسے امن کے زمانہ میں اپنے پیٹ کے لئے خون کرکے درندوں سے بھی بد تر ہو جائے گا؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 160

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 160

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/160/mode/1up

160

سانپوں کو نہ ماریں اور نہ سانپ لوگوں کو ڈسیں۔ پس اگر کسی مہدویت کے مدعی کے وقت یہ سب باتیں ہوں تب اس کو سچا مہدی مانا جائے ورنہ نہیں تو اب بتلاؤ کہ اِن علامتوں اور نشانوں کے ساتھ جو لوگ سچے مہدی اور سچے مسیح کو پرکھنا چاہتے ہیں وہ مجھ کو کیونکر قبول کر لیں۔ لیکن اس جگہ تعجب یہ ہے کہ آثار میں لکھا ہے کہ وہ مسیح موعود جو ان کے زعم میں آسمان پر سے اُترے گا اور وہ مہدی جس کے لئے آسمان پر سے آواز آئے گی اُس کو بھی میری طرح کافر اور دجّال کہا جائے گا۔ اب اس جگہ طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ مسیح حدیثوں کے مطابق آسمان سے اُترے گا اور اس مہدی کے لئے سچ مچ آسمان سے آواز آئے گی جو یہ خلیفۃ اللہ ہے تو اتنے بڑے معجزات دیکھنے کے بعد یہاں تک کہ آسمانی فرشتے اُترتے دیکھ کر پھر کیا وجہ کہ اُن کو کافر ٹھہرائیں گے۔ بالخصوص جبکہ وہ آسمان سے اُتر کر ان لوگوں کی تمام حدیثیں قبول کر لیں گے تو پھر تو کوئی وجہ تکفیرؔ کی نہیں معلوم ہوتی۔ اِس سے ضروری طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ میری نسبت بہت زیادہ ان لوگوں کی حدیثوں کا انکار کریں گے ورنہ کیا وجہ کہ باوجود اتنے معجزات دیکھنے کے پھر بھی اُن کو کافر کہا جائے گا پس ماننا پڑا کہ سچے مسیح اور مہدی کی نشانی ہی یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کی بہت سی حدیثوں سے منکر ہو۔ ورنہ یوں تو علماء کا سر پھرا ہوا نہ ہوگا کہ بے وجہ کافر کہہ دیں گے اور ان کی نسبت کفر کا فتویٰ دیں گے۔ اب اس سوال کا جواب دینا ان مولوی صاحبوں کا حق ہے کہ جبکہ مہدی اور مسیح اُن کے قرار دادہ نشانوں کے موافق آئیں گے یعنی ایک تو دیکھتے دیکھتے آسمان سے مع فرشتوں کے اُترے گا اور دوسرے کے لئے آسمان سے آواز آئے گی کہ یہ خلیفۃ اللہ مہدی ہے اور ایک دم میں مشرق مغرب میں وہ آواز پھر جائے گی گویا دونوں آسمان ہی سے اُترے تو پھر اس قدر بڑا معجزہ دیکھنے کے بعد جو گویا سیدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ظہور میں نہیں آیا کیوں ان دونوں معجزنما بزرگوں کو کافر کہیں گے۔ حالانکہ وہ آتے ہی علماء کرام کے سامنے اطاعت کے ساتھ جُھک جائیں گے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 161

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 161

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/161/mode/1up

161

اور چوں نہیں کریں گے اور بخاری اور مسلم اور ابن ماجہ اور ابو داؤد اور نسائی اور موء طّا غرض تمام ذخیرہ حدیثوں کو جس طرح پر حضرات موحّدین مانتے ہیں سر جُھکا کر سب کو مان لیں گے اور اگر کوئی عرض کرے گا کہ حضرت آپ تو حَکَم ہو کر آئے ہیں کچھ تو ان علماء سے اختلاف کیجیئے تو نہایت عاجزی اور مسکینی سے کہیں گے کہ حَکَم کیسے۔ ہماری کیا مجال کہ ہم صحاح سِتّہ کی کچھ مخالفت کریں یا حضرت مولانا شیخ الکل نذیر حسین اور حضرت مولانا مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی اور یا حضرت مولانا امام المقلدین رشید احمد گنگوہی کے اجتہادات اور اُن کے اکابر کی تشریحات کی مخالفت کریں۔ یہ حضرات جو کچھ فرما چکے سب ٹھیک اور بجا ہے ہم کیااور ہمارا وجود کیا۔ ظاہر ہے کہ جبکہ مہدی اس طرح پر تسلیم محض ہو کر آئیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ علماء اُن کو کافر کہیں یا اُن کا نام دجّال رکھیں۔ اکثر یہ لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں عوام کا لانعام کے آگے محض دھوکا دہی کے طور پر یہ بیان کیا کرتے ہیں کہ دیکھو مسلم میںیہ کیسی واضح حدیث ہے کہ مسیح موعود دمشق کے شرقی منارہ کے نزدیک آسمان پر سے اُترے گا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھے گا اور اس پیشگوئی کے ظاہر الفاظ میں دمشق اور اس کے شرقی طرف ایک منارہ کا بیان ہے جس کے نزدیک مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا ضروری ہے۔ پس اگر ان تمام الفاظ کی تاویل کی جائے گی تو پھر پیشگوئی توکچھ بھی نہ رہے گی بلکہ مخالف کے نزدیک ایک باعث تمسخر ہوگاکیونکہ پیشگوئی کی تمام شوکت اور اس کا اثر اپنے ظاہر الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے اور پیشگوئی کرنے والے کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ اِن علامتوں کو یاد رکھیں اور اُنہی کو مدعی صادق کا معیار ٹھہرائیں مگر تاویل میں تو وہ سارے نشان مقرر کردہ گم ہو جاتے ہیں اور یہ امر مقبول اور مسلم ہے کہ نصوص کو ہمیشہ اُن کے ظاہر پر حمل کرنا چاہئے اور ہر ایک لفظ کی تاویل مخالف کو تسکین نہیں دے سکتی کیونکہ اس طرح تو کوئی مقدمہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکتا بلکہ اگر ایک شخص تاویل کے طورپر اپنے مطلب کے موافق کسی حدیث کے معنے کر لیتا ہے اور الفاظ کے معنے کو تاویل کے طورپر اپنے مطلب



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 162

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 162

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/162/mode/1up

162

کی طرف پھیر لیتاہے تو اس طرح پر تو مخالف کا بھی حق ہے کہ وہ بھی تاویل سے کام لے تو پھر فیصلہ قیامت تک غیر ممکن۔ یہ اعتراض ہے جو ہمارے مخالف کرتے ہیں اور نیز اپنے نادان چیلوں کو سکھاتے ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ وہ خود اس اعترؔ اض کے نیچے ہیں۔ ہم تو کسی حدیث کے ظاہر الفاظ کو نہیں چھوڑتے جب تک قرآن اپنے نصوص صریحہ سے مع دوسری حدیثوں کے اس کو نہ چھڑائے اور تاویل کے لئے مجبور نہ کرے۔ چنانچہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر یہ لوگ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے کچھ سوچتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ درحقیقت یہ اعتراض تو انہی پر ہوتا ہے کیونکہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کے بارے میں صاف لفظوں میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ 33 ۱؂ یعنی اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور وفات کے بعد اپنی طرف اُٹھانے والا لیکن ہمارے مخالفوں نے اس نص کے ظاہر الفاظ پر عمل نہیں کیا اور نہایت مکروہ اور پُر تکلف تاویل سے کام لیا یعنی رافعک کے فقرہ کو متوفّیک کے فقرہ پر مقدّم کیا اور ایک صریح تحریف کو اختیار کر لیا اور یا بعض نے توفّی کے لفظ کے معنے بھر لینا کیا جو نہ قرآن سے نہ حدیث سے نہ علم لغت سے ثابت ہوتا ہے اور جسم کے ساتھ اٹھائے جانا اپنی طرف سے ملا لیا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متوفّیک کے معنے صریح ممیتک بخاری میں موجود ہیں۔ اُن سے مُنہ پھیر لیا اور علم نحو میں صریح یہ قاعدہ مانا گیا ہے کہ توفّی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو ہمیشہ اُس جگہ توفّی کے معنے مارنے اور رُوح قبض کرنے کے آتے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے اس قاعدہ کی کچھ بھی پروا نہیں رکھی اور خدا کی تمام کتابوں میں کسی جگہ رفع الی اللّٰہ کے معنے یہ نہیں کئے گئے کہ کوئی جسم کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اُٹھایا جائے لیکن ان لوگوں نے زبردستی سے بغیر وجود کسی نظیر کے رفع الی اللّٰہ کے اس جگہ یہ معنے کئے کہ جسم کے ساتھ اٹھایا گیا۔ ایسا ہی توفی کے اُلٹے معنے کرنے کے وقت کوئی نظیر پیش نہ کی اور بھر لینا معنے لے لئے۔ اب بتلاؤ کہ کس نے نصوص کے ظاہر پر عمل کرنا چھوڑ دیا؟ یا یوں سمجھ لو کہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 163

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 163

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/163/mode/1up

163

اس جگہ دو پیشگوئیاں متناقض ہیں یعنی ایک پیشگوئی دوسرے کی ضد واقع ہے اس طرح پر کہ مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی جو صحیح مسلم میں موجود ہے اس کے یہ معنے محض اپنی طرف سے ہمارے مخالف کر رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھاہوا ہے ابھی تک فوت نہیں ہوا اور آخری زمانہ میں دمشقی منارہ کی شرقی طرف اُترے گا اور ایسے ایسے کام کرے گا غرض یہ پیشگوئی تو صحیح مسلم کی کتاب میں سے ہے جو بگاڑ کر بیان کی جاتی ہے اور اِس کے مقابل پراور اس کی ضد ایک پیشگوئی قرآن شریف میں موجود ہے جو پہلی صدی میں ہی کروڑہا مسلمانوں میں شہرت پا چکی تھی اور یہ شہرت قرآنی پیشگوئی کی مسلم والی پیشگوئی کے وجود سے پہلے تھی یعنی اس زمانہ سے پہلے جبکہ مسلم نے کسی راوی سے سُن کر اس مخالفانہ پیشگوئی کو قریباً پونے دو سو برس بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی کتاب میں لکھا تھا اور مسلم کی پیشگوئی میں صرف یہی نقص نہیں کہ وہ قریبًا پونے دو سو برس بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کی گئی بلکہ ایک یہ بھی نقص ہے کہ مسلم نے اُس اصل راوی کو بھی نہیں دیکھا جس نے یہ حدیث بیان کی تھی اور نہ اس شخص کو دیکھا جس کے پاس یہ روایت بیان کی بلکہ بہت سی زبانوں میں گھومتی ہوئی اور ایسے لوگوں کو چُھوتی ہوئی جن کو ہم معصوم نہیں کہہ سکتے مسلم تک پہنچی اور ہمارے پاس کوئی دلیل اس بات پر نہیں کہ کیوں ایسی پیشگوئی کی نسبت جو غیر معصوم زبانوں سے کئی وسائط سے سُنی گئی یہ حکم جاری کریں کہ وہ قرآن کی پیشگوئی کے درجہ پر ہے۔ غرض ایسی پیشگوئی جس کا سارا تانا بانا ہی ظنی ہے جب قرآن کی پیشگوئی کے نقیض اور ضد ہو تو اس کو اس کے ظاہر الفاظ کے رو سے مانناؔ گویا قرآن شریف سے دست بردار ہونا ہے۔ ہاں اگر کسی تاویل سے مطابق آجائے اور تناقض جاتا رہے تو پھر بسر و چشم منظور۔ یاد رہے کہ کوئی فولادی قلعہ بھی ایسا پختہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ قرآن شریف میں حضرت مسیح کی موت کی آیت ہے پھر آسمان سے زندہ مع جسم اُترنے کی پیشگوئی کس قدر موت کی پیشگوئی کی نقیض ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 164

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 164

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/164/mode/1up

164

ذرہ سوچ لواور قرآن نے توفّی اور رفع کے لفظ کو کئی جگہ ایک ہی معنوں موت اور رفع روحانی کے محل پر ذکر کرکے صاف سمجھا دیا ہے کہ توفّی کے معنے مارنا اور رفع الی اللّٰہ کے معنے رُوح کو خدا کی طرف اٹھانا ہے اور پھر توفّی کے لفظ کے معنے حدیث کے رُو سے بھی خوب صاف ہو گئے ہیں کیونکہ بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ متوفّیک ممیتک یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لفظ متوفّیک کے یہی معنے کئے ہیں کہ میں تجھے مارنے والا ہوں۔ اور اس بات پر صحابہ کا اجماع بھی ہو چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور گذشتہ روحوں میں جا ملے۔ اب بتلاؤ اور خود ہی انصاف کرو کہ دو پیشگوئیاں متناقض ایک ہی مضمون میں جھگڑا کر رہی ہیں۔ ایک قرآنی پیشگوئی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے موت کا وعدہ ہونا اور پھر بموجب آیت فلمّا توفّیتنی کے اس وعدۂ موت کا پورا ہوجانا صاف طور پر اس پیشگوئی سے معلوم ہو رہا ہے اور سارا قرآن اس پیشگوئی کے معنے یہی کر رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور اُن کی رُوح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائی گئی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کے اتفاق کے ساتھ جو لاکھ سے بھی کچھ زیادہ تھے اس بات پر اجماع ظاہر کر رہے ہیں کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور امام مالک بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ضرور مر گئے اور امام اعظم اور امام احمد اور امام شافعی ان کے قول کو سُن کر اور خاموشی اختیار کرکے اِسی قول کی تصدیق کر رہے ہیں اور امام ابن حزم بھی حضرت عیسیٰ کی موت کی گواہی دے رہے ہیں اور مسلمانوں میں سے فرقہ معتزلہ بھی ان کی موت کا قائل اور ایک صوفیوں کا فرقہ اسی بات کا قائل کہ مسیح فوت ہو گیا ہے اور آنے والا مسیح موعود اِسی امّت میں سے ہوگا اور ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی جو حجج الکرامہ میں بھی لکھی گئی ہے حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو بیس برس متعین کر رہی ہے اور کنزالعمال کی ایک حدیث فتنہ صلیب کے بعد کے زمانہ کی نسبت بیان کر رہی ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر نہیں گئے بلکہ خدا تعالیٰ سے حکم پاکر اپنے وطن سے برطبق سنت جمیع انبیاء علیہم السلام ہجرت کر گئے اور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 165

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 165

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/165/mode/1up

165

اُن ملکوں کی طرف چلے گئے جن میں دوسرے یہودی رہتے تھے جیسے کشمیر جس میں یہودی آکر بخت نصر کے تفرقہ کے وقت آباد ہو گئے تھے اور معراج کی رات میں وفات یافتہ نبیوں کی روحوں میں اُن کی رُوح دیکھی گئی۔ یہ تو قرآنی پیشگوئی ہے جو حضرت مسیح کی وفات بیان فرما رہی ہے جس کے ساتھ ایک لشکر دلائل کا ہے اور علاوہ ادلّہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے نسخہ مرہم عیسیٰ اور قبر سری نگر جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام مدفون ہیں اس پر شاہد ہیں۔ اور اس کے مقابل پر وہی مسلم کی ظنی حدیث پیش کی جاتی ہے جس پر صدہا شبہات چیونٹیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور جو ظاہری الفاظ کے رُو سے صریح قرآن شریف کے متنا قض اور اُس کی ضد پڑی ہوئی ہے اور طرفہ تریہ کہ مسلم میں کوئی آسمان کا لفظ موجود نہیں مگر پھر بھی خواہ نخواہ اس حدیث کے یہی معنے کئے جاتے ہیں کہ آسمان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے۔* حالانکہ قرآن بضرب دہل فرما رہا ہے کہ عیسیٰ بن مریم رسول اللہ زمین میں دفن کیا گیا ہے آسمان پر ؔ ان کے جسم کا نام و نشان نہیں۔ اب بتلاؤ کہ ہم ان دونوں متنا قض پیشگوئیوں میں سے کس کو قبول کر یں کیا مسلم کی روایت کے لئے قرآن کو چھوڑ دیں اور ایک ذخیرہ دلائل کو

* مسلم کی حدیث کا یہ لفظ کہ مسیح دمشق کے شرقی منارہ کی طرف اُترے گا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ وہ مسیح موعود کا سکونت گاہ ہوگا بلکہ غایت درجہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت اس کی کارروائی دمشق تک پہنچے گی اور یہ بھی اس صورت میں کہ دمشق کے لفظ سے حقیقت میں دمشق ہی مراد ہو اور اگر ایسا سمجھا بھی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اب تو دمشق سے مکّہ معظمہ تک ریل بھی تیار ہو رہی ہے۔ اور ہر ایک انسان بیس دن تک دمشق میں پہنچ سکتا ہے۔ اور عربی میں نزیل مسافر کو کہتے ہیں لیکن یہ فیصلہ شدہ امر ہے کہ اس حدیث کے یہی معنے ہیں کہ مسیح موعود آنے والا دمشق کے شرقی طرف ظاہر ہوگا اور قادیاں دمشق سے شرقی طرف ہے۔ حدیث کا منشا ء یہ ہے کہ جیسے دجال مشرق میں ظاہر ہوگا ایسا ہی مسیح موعود بھی مشرق میں ہی ظاہر ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 166

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 166

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/166/mode/1up

166

اپنے ہاتھ سے پھینک دیں کیا کریں۔ یہ بھی ہمارا مسلم پر احسان ہے کہ ہم نے تاویل سے کام لے کر حدیث کو مان لیا ورنہ رفع تناقض کے لئے ہمارا حق تو یہ تھا کہ اس حدیث کو موضوع ٹھہراتے۔ لیکن خوب غور سے سوچنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دراصل حدیث موضوع نہیں ہے ہاں استعارات سے پُر ہے اور پیشگوئی میں جہاں کوئی امتحان منظور ہوتا ہے استعارات ہوا کرتے ہیں ہر ایک پیشگوئی کے ظاہر لفظ کے موافق معنی کرنا شرط نہیں اس کی حدیثوں اور کتاب اللہ میں صدہا نظیریں ہیں یوسف علیہ السلام کے خواب کی پیشگوئی دیکھو کب وہ ظاہری طور پر پوری ہوئی اور کب سورج اور چاند اور ستاروں نے اُن کو سجدہ کیا اور دمشق کے شرقی منارہ سے ضروری نہیں کہ وہ حصہ شرقی منارہ دمشق کا جزہو چنانچہ اس بات کو تو تمام علماء مانتے آئے ہیں اور یاد رہے کہ قادیان ٹھیک ٹھیک دمشق سے شرقی طرف واقع ہے اور دمشق کے ذکر کی وجہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ ایک اور نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔ یعنی یہ کہ جو مسلم کی حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ مسیح موعود دمشق کے منارہ شرقی کے قریب نازل ہوگا اس لفظ کی تشریح ایک دوسری مسلم کی حدیث سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اس شرقی طرف سے مراد کوئی حصہ دمشق کا نہیں ہے۔ حدیث یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجّال کا پتہ دینے کے لئے مشرق کی طرف اشارہ کیا تھا لفظ حدیث کے یہ ہیں کہ اَوْمَأَ الی المشرق۔ پس اس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ دمشق کسی صورت سے مسیح کے ظہور کی جگہ نہیں کیونکہ وہ مکہ اور مدینہ سے مشرق کی طرف نہیں ہے بلکہ شمال کی طرف ہے اور مسیح کے ظہور کی جگہ وہی مشرق ہے جو دجّال کے ظہور کی جگہ حسب منشاءِ حدیث اَوْمَأَالی المشرق ہے یعنی حدیث سے ثابت ہے کہ دجّال کا ظہور مشرق سے ہوگا اور نواب مولوی صدیق حسن خاں صاحب حجج الکرامہ میں منظور کر چکے ہیں کہ فتنہ دجّالیہ کے لئے جو مشرق مقرر کیا گیا ہے وہ ہندوستان ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 167

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 167

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/167/mode/1up

167

اس لئے ماننا پڑا کہ انوارِ مسیحیہ کے ظہور کا مشرق بھی ہندوستان ہی ہے کیونکہ جہاں بیمار ہو وہیں طبیب آنا چاہئے اور بموجب حدیث لو کان الایمان عند الثریّا لنالہ رجال او رجل من ھٰؤلاء (ای من فارس) دیکھو بخاری صفحہ۷۲۷خ۔ رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہی مشرق ہے۔* اور ہم ثابت کر چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لئے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور دجّال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔

اب اس سوال کا میں جواب دیتاہوں کہ اکثر مخالف جوش میں آکر مجھ سے پوچھا کرتے ہیں کہ تمہارے مسیح موعود ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ کیا کِسی قرآن شریف کی آیت سے تمہارا مسیح موعود ہونا ثابت ہوتا ہے؟ اور پھر آپ ہی یہ حجّت پیش کرتے ہیں کہ اگر صرف کسی سچی خواب یا کسی سچے کشف سے کوئی مسیح موعود یا مہدی بن سکتا ہے تو دنیا میں ایسے ہزار ہا لوگ موجود ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور کشف بھی ہوتے ہیں اور ہم بھی انہی میں سے ہیں تو کیا وجہ کہ ہم مسیح موعود نہ کہلاویں؟

اما الجواب واضح ہو کہ یہ اعتراض صرف میرے پر نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام پر ہے۔ اور مَیں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ سچی خوابیں اکثر لوگوں کو آجاتی ہیں اور کشف بھی ہو جاتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات بعضؔ فاسق اور فاجر اور تارک صلوٰۃ بلکہ بدکار اور حرام کار بلکہ کافر اور اللہ اور اس کے رسول سے سخت بغض رکھنے والے اور سخت توہین کرنے والے اور سچ مچ اخوان الشیاطین شاذ و نادر طور پر سچی خوابیں دیکھ

ایسا ہی ایک حدیث میں لکھا ہے کہ اصفہان سے ایک لشکر آئے گا جن کی جھنڈیاں کالی ہوں گی اور ایک فرشتہ آواز دے گا کہ ان میں خلیفۃ اللہ المہدی ہے۔ اور اصفہان بھی حجاز سے مشرق کی طرف ہے اس لئے ثابت ہوا کہ مہدی مشرق میں ہی پیدا ہوگا یا یہ کہ فارسی الاصل ہوگا۔ منہ

خ بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 168

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 168

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/168/mode/1up

168

لیتے ہیں اور بعض کشفی نظارے بھی ایک سرعت برق کی طرح عمر بھر میں کبھی اُن کو دکھائے جاتے ہیں۔* پس درحقیقت ایک سر سری نظر سے اس قسم کے مشاہدات سے ایک نادان کے دل میں تمام انبیاء علیہم السلام کی نسبت اعتراض پیدا ہوگا کہ جبکہ ان کی مانند دوسرے لوگوں پر بھی بعض امور غیب کے کھولے جاتے ہیں تو انبیاء کی اس میں کونسی فضیلت ہوئی؟خ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک نیک بخت نیک چلن تو کسی امر میں کوئی پیچیدہ خواب دیکھتا ہے یا نہیں دیکھتا مگر اسی رات ایک فاسق بد معاش نجاست خوار کو صاف اور کھلی کھلی خواب دکھائی دیتی ہے اور وہ سچی بھی نکلتی ہے اور اس راز سر بستہ کاحل کرنا عام لوگوں کی طبیعتوں پر مشکل ہو جاتا ہے۔ اور بہتیرے اس سے ٹھوکر کھاتے ہیں سو متوجہ ہو کر سُننا چاہیئے کہ

* یہ عجیب حیرت نما امر ہے کہ بعض طوائف یعنی کنجریاں بھی جو سخت ناپاک فرقہ دنیا میں ہیں سچی خوابیں دیکھا کرتی ہیں اور بعض پلید اور فاسق اور حرا م خور اور کنجروں سے بد تر اور بد دین اور ملحد جو اباحتیوں کے رنگ میں زندگی بسر کرتے ہیں اپنی خوابیں بیان کیا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کہاکرتے ہیں کہ بھائی میری طبیعت تو کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میری خواب کبھی خطا ہی نہیں جاتی ۔اور اس راقم کو اس بات کا تجربہ ہے کہ اکثر پلید طبع اور سخت گندے اور ناپاک اور بے شرم اور خدا سے نہ ڈرنے والے اور حرام کھانے والے فاسق بھی سچی خوابیں دیکھ لیتے ہیں اور یہ امر کوتہ بینوں کو سخت حیرت اور پریشانی میں ڈالتا ہے اور اس کا وہی جواب ہے جو میں نے متن اور حاشیہ میں لکھا ہے۔منہ

چونکہ ہر یک انسان کے اندر بموجب حدیث کل مولودٍ یو لد علٰی فطرۃ الاسلام ایک کشفی روشنی بھی مخفی ہے تا اگر ایمان یا اعلیٰ مرتبہ ایمان مقدر ہے تو اُس وقت وہ روشنی کرامت کے طورپر ایمانی آثار دکھا وے۔ اس لئے کبھی اتفاق ہو جاتا ہے کہ کفر اور فسق کے زمانہ میں بھی بجلی کی چمک کی طرح کوئی ذرّہ اس روشنی کا ظاہر ہو جاتا ہے کیونکہ وہ فطرت میں بوجہ نشاء انسانیت کی امانت ہے اور ایک جاہل خیال کرتا ہے کہ گویا مرتبہ ابدال و اقطاب مجھے حاصل ہے اس لئے ہلاک ہو جاتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 169

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 169

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/169/mode/1up

169

خواص کے علوم اور کشوف اور عوام کی خوابوں اور کشفی نظاروں میں فرق یہ ہے کہ خواص کا دل تو مظہر تجلیات الٰہیہ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ آفتاب روشنی سے بھرا ہوا ہے وہ علوم اور اسرار غیبیہ سے بھر جاتے ہیں اور جس طرح سمندر اپنے پانیوں کی کثرت کی وجہ سے ناپید اکنار ہے اسی طرح وہ بھی ناپیدا کنار ہوتے ہیں اور جس طرح جائز نہیں کہ ایک گندے سڑے ہوئے چھپڑ کو محض تھوڑے سے پانی کے اجتماع کی وجہ سے سمندر کے نام سے موسوم کر دیں اِسی طرح وہ لوگ جو شاذو نادر کے طور پر کوئی سچی خواب دیکھ لیتے ہیں اُن کی نسبت نہیں کہہ سکتے کہ وہ نعوذ باللہ ان بحار علوم ربّانی سے کچھ نسبت رکھتے ہیں اور ایسا خیال کرنا اسی قسم کا لغو اور بیہودہ ہے کہ جیسے کوئی شخص صرف مُنہ اور آنکھ اور ناک اور دانت دیکھ کر سؤر کو انسان سمجھ لے یا بندر کو بنی آدم کی طرح شمار کرے تمام مدار کثرتِ علوم غیب اور استجابت دُعا اور باہمی محبت و وفا اور قبولیت اور محبوبیت پر ہے ورنہ کثرت قلت کا فرق درمیان سے اُٹھا کر ایک کِرم شب تاب کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی سورج کے برابر ہے کیونکہ روشنی اُس میں بھی ہے۔ دنیا کی جتنی چیزیں ہیں وہ کسی قدر آپس میں مشابہت ضرور رکھتی ہیں۔ بعض سفید پتھر تبت کے پہاڑوں کی طرف سے ملتے ہیں اور غزنی کے حدود کی طرف سے بھی لاتے ہیں چنانچہ میں نے بھی ایسے پتھر دیکھے ہیں وہ ہیرے سے سخت مشابہت رکھتے اور اسی طرح چمکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ ایک شخص کابل کی طرف کا رہنے والا چند ٹکڑے پتھر کے قادیان میں ؔ لایا اور ظاہر کیا کہ وہ ہیرے کے ٹکڑے ہیں کیونکہ وہ پتھر بہت چمکیلے اور آبدار تھے اور ان دنوں میں مدراس سے ایک مخلص دوست جو نہایت درجہ اخلاص رکھتے ہیں یعنی اخویم سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مدراس قادیاں میں میرے پاس تھے ان کو وہ پسند آگئے اور اُن کی قیمت میں پانسو روپیہ دینے کو تیار ہو گئے اور پچیس روپیہ یا کچھ کم و بیش اُن کو دے بھی دیئے اور پھر اتفاقاً مجھ سے مشورہ طلب کیا کہ میں نے یہ سودا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 170

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 170

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/170/mode/1up

170

کیا ہے آپ کی کیا رائے ہے؟ میں اگرچہ اُن ہیروں کی اصلیت اور شناخت سے ناواقف تھا لیکن رُوحانی ہیرے جو دنیا میں کمیاب ہوتے ہیں یعنی پاک حالت کے اہل اللہ جن کے نام پر کئی جھوٹے پتھر یعنی مُزوّر لوگ اپنی چمک دمک دکھلا کر لوگوں کو تباہ کرتے ہیں اِس جوہر شناسی میں مجھے دخل تھا اِس لئے میں نے اس ہنر کو اس جگہ برتا اور اس دوست کو کہا کہ جو کچھ آپ نے دیا وہ تو واپس لینا مشکل ہے لیکن میری رائے یہ ہے کہ قبل دینے پانسو روپیہ کے کسی اچھے جوہری کو یہ پتھر دکھلا لیں اگر درحقیقت ہیرے ہوئے تو یہ روپیہ دے دیں۔ چنانچہ وہ پتھر مدراس میں ایک جوہری کے شناخت کرنے کے لئے بھیجے گئے اور دریافت کیا گیا کہ ان کی قیمت کیا ہے۔ پھر شائد دو ہفتہ کے اندر ہی وہاں سے جواب آگیا کہ اِن کی قیمت ہے چند پیسے۔ یعنی یہ پتھر ہیں ہیرے نہیں ہیں۔ غرض جس طرح اس ظاہری دنیا میں ایک ادنیٰ کو کسی جزئی امر میں اعلیٰ سے مشابہت ہوتی ہے ایسا ہی رُوحانی اُمور میں بھی ہو جایا کرتا ہے اور رُوحانی جوہری ہوں یا ظاہری جوہری وہ جھوٹے پتھروں کو اِس طرح پرشناخت کر لیتے ہیں کہ جو سچے جواہرات کی بہت سی صفات ہیں ان کے رُو سے ان پتھروں کا امتحان کرتے ہیں آخر جھوٹ کھل جاتا ہے اور سچ ظاہر ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سچے ہیروں میں صرف ایک چمک ہی تو صفت نہیں ہے اور بھی تو بہت سی صفات ہوتی ہیں۔ پس جب ایک جوہری وہ کل صفات پیش نظر رکھ کر جھوٹے پتھروں کا امتحان کرتا ہے تو فی الفور اُن کو ہاتھ سے پھینک دیتا ہے اِسی طرح مردانِ خدا جو خدا تعالیٰ سے محبت اور مودّت کا تعلق رکھتے ہیں وہ صرف پیشگوئیوں تک اپنے کمالات کو محدود نہیں رکھتے ان پر حقائق اورمعارف کھلتے ہیں اور دقائق و اسرار شریعت اور دلائل لطیفہ حقّانیت ملّت ان کو عطا ہوتے ہیں اور اعجازی طور پر ان کے دل پر دقیق در دقیق علومِ قرآنی اور لطائف کتاب ربّانی اتارے جاتے ہیں اور وہ ان فوق العادت اسرار اور سماوی علوم کے وارث کئے جاتے ہیں جو بلا واسطہ موہبت کے طور پر محبوبین کو ملتے ہیں اور خاص محبت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 171

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 171

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/171/mode/1up

171

ان کو عطا کی جاتی ہے اور ابراہیمی صدق و صفا اُن کو دیا جاتا ہے اور رُوح القدس کا سایہ اُن کے دلوں پر ہوتا ہے۔ وہ خدا کے ہو جاتے ہیں اور خدا اُن کا ہو جاتا ہے۔ ان کی دُعائیں خارق عادت طور پر آثار دکھاتی ہیں۔ اُن کے لئے خدا غیرت رکھتا ہے وہ ہر میدان میں اپنے مخالفوں پر فتح پاتے ہیں۔ اُن کے چہروں پر محبت الٰہی کا نُور چمکتا ہے۔ اُن کے درو دیوار پر خُدا کی رحمت برستی ہوئی معلوم ہوتی ہے وہ پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں ہوتے ہیں۔ خدا اُن کیلئے اس شیرِ مادہ سے زیادہ غصّہ ظاہر کرتا ہے جس کے بچے کو کوئی لینے کا ارادہ کرے۔ وہ گناہ۱ سے معصوم۔ وہ دشمنوں۲ کے حملوں سے معصوم۔ وہ تعلیم ۳ کی غلطیوں سے بھی معصوم ہوتے ہیں۔ وہ آسمان کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ خدا عجیب طور پر اُن کی دعائیں سُنتا ہے اور عجیب طور پر اُن کی قبولیت ظاہر کرتا ہے یہاں تک کہ وقت کے بادشاہ اُن کے دروازوں پر آتے ہیں۔ ذو الجلال کا خیمہ اُن کے دلوں میں ہوتا ہے اور ایک رُعب خدائی اُن کو عطا کیا جاتا ہے اور شاہانہ استغنا اُن کے چہروں سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ دنیا اور اہلِ دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑؔ ے سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔ فقط ایک کو جانتے ہیں اور اُس ایک کے خوف کے نیچے ہر دم گداز ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا اُن کے قدموں پر گِری جاتی ہے گویا خدا انسان کا جامہ پہن کر ظاہر ہوتا ہے وہ دنیا کا نُور اور اس ناپائیدار عالم کا ستون ہوتے ہیں وہی سچا امن قائم کرنے کے شہزادے اور ظلمتوں کے دُور کرنے کے آفتاب ہوتے ہیں۔ وہ نہاں در نہاں اور غیب الغیب ہوتے ہیں کوئی ان کو پہچانتا نہیں مگر خدا۔ اور کوئی خدا کو پہچانتا نہیں مگر وہ۔ وہ خدا نہیں ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ خدا سے الگ ہیں۔ وہ ابدی نہیں ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ کبھی مرتے ہیں۔ پس کیا ایک ناپاک اور خبیث آدمی جس کا دل گندہ خیالات گندے زندگی گندی ہے اُن سے مشابہت پیدا کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ مگر وہی مشابہت جو کبھی ایک چمکیلے پتھر کو ہیرے کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ مراد ان خدا جب دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں تو اُن کی عام برکات کی وجہ سے آسمان سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 172

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 172

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/172/mode/1up

172

ایک قسم کا انتشار روحانیت ہوتا ہے اور طبائع میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے اور جن کے دِل اور دماغ سچی خوابوں سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اُن کوسچی خوابیں آنی شروع ہو جاتی ہیں لیکن درپردہ یہ تمام انہی کے وجود باجود کی تاثیر ہوتی ہے جیسا کہ مثلاً جب برسات کے دنوں میں پانی برستا ہے تو کنوؤں کا پانی بھی بڑھ جاتا ہے اور ہر ایک قسم کا سبزہ نکلتا ہے لیکن اگر آسمان کا پانی چند سال تک نہ بَرسے تو کنوؤں کا پانی بھی خشک ہو جاتا ہے۔ سو وہ لوگ درحقیقت آسمان کا پانی ہوتے ہیں اور اُن کے آنے سے زمین کے پانی بھی اپنا سیلاب دکھلاتے ہیں اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اِن زمین کے پانیوں کو نابود کر دیتا لیکن اِس امر میں کہ کیوں دوسرے لوگوں کو بھی اُن کے وقت میں خوابیں سچی آتی ہیں یا کبھی کشفی نظارے ہوتے ہیں۔ بھید یہ ہے کہ اگر عام لوگوں کو باطنی کشوف سے کچھ بھی حصہ نہ ہوتا اور پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کو دنیا میں بھیجتا اور وہ بڑے بڑے پوشیدہ واقعات اور عالمِ مجازات اور غیب کی خبریں دیتے تو لوگوں کے دل میں یہ گمان گذر سکتا تھا کہ شائد وہ جھوٹے ہیں یا بعض امور میں نجوم وغیرہ سے مدد لیتے ہیں یا درمیان کوئی اور فریب ہے۔ پس خدا نے اِن شبہات کے دُور کرنے کے لئے عام لوگوں میں رسولوں اور نبیوں کی جنس کا ایک مادہ رکھ دیا ہے اور نبوت کی بہت چیزوں اور بہت سی صفاتِ لازمہ میں سے ایک صفت میں ان کو ایک حد تک شریک کر دیا ہے تا وہ لوگ خدا کے نبیوں اور مامورین اور ملہمین کی تصدیق کے لئے قریب ہو جائیں اور دلوں میں سمجھ لیں کہ یہ امور جائز اور ممکن ہیں تبھی تو ہم بھی کسی حد تک شریک ہیں اور اگر خدا تعالیٰ اِس قدر بھی ان کو مادہ عطا نہ فرماتا تو عام لوگوں پر نبوت کا مسئلہ سمجھنا مشکل ہو جاتا اور اُن کی طبائع بہ نسبت اقرار کے انکار سے زیادہ قریب ہوتیں لیکن اب تمام عام لوگوں میں یہاں تک کہ فاسقوں اور فاجروں میں بھی علم غیب کا ایک مادہ ہے اس لئے اگر وہ تعصّب کو کام میں نہ لائیں تو نبوت کی حقیقت کو بہت جلدسمجھ سکتے ہیں اور اس بات میں خطرہ بہت کم ہے کہ اگر کوئی ایسا خیال



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 173

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 173

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/173/mode/1up

173

کرے کہ میری فلاں خواب بھی سچی نکلی اور فلاں موقع پر مجھے کشفی نظارہ ہواوجہ یہ کہ انسان جب جمیع کمالاتِ نبوت اور محدثیت اور اُن کے مقام محبوبیت پر بخوبی اطلاع پائے گا تو بہت آسانی سے اپنی اس غلطی پر متنبہ ہو جائے گا جیسا کہ وہ شخص جس نے کبھی سمندر نہیں دیکھا اور اپنے گاؤں کے ایک تھوڑے سے پانی کو سمندر کے برابر اور اس کے عجائبات سےؔ ہم وزن خیال کرتا ہے جب اُس کا گذر سمندر پر ہوگا اور اس کی حقیقت سے اطلاع پائے گا تو بغیر نصیحت کسی ناصح کے خود بخود سمجھ جائے گا کہ میں ایک بڑی غلطی کے گرداب میں مبتلا تھا لیکن اگر خدا نخواستہ انسانوں کی یہ صورت ہوتی کہ فیضان امورِ غیبیہ کا کچھ بھی مادہ اُن میں امانت نہ رکھا جاتا اور نہ یہ علم ہوتا کہ کبھی خدا کی طرف سے غیبی علوم اور اخبار کا فیضان بھی ہوا کرتا ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہوتے جو مادر زاد اندھا اور بہرہ ہو۔ پس اِس صورت میں تمام انبیاء کو تبلیغ میں ناکامی ہوتی۔ مثلاً جس اندھے نے کبھی روشنی نہیں دیکھی اس کو کس طرح سمجھا سکتے ہیں کہ روشنی کیا چیز ہے۔ فتدبر ولا تکن من العمین واسئل رحم اللّٰہ لیفتح عینک وھو ارحم الراحمین۔

ہم تصریح سے لکھ آئے ہیں کہ یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں کیونکہ اس کا ثبوت نہ تو قرآن شریف سے ملتا ہے اور نہ حدیث سے اور نہ عقل اس کو باور کر سکتی ہے۔ بلکہ قرآن اور حدیث اور عقل تینوں اس کے مکذب ہیں کیونکہ قرآن شریف نے کھول کر بیان فرمادیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور معراج کی حدیث نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ وہ فوت شدہ انبیاء علیہم السلام کی رُوحوں میں جاملے ہیں اور اس عالم سے بکلی انقطاع کر گئے اور عقل ہمیں بتلا رہی ہے کہ اس جسم فانی کے لئے یہ سنّت اللہ نہیں کہ آسمان پر چلا جائے اور باوجود زندہ مع الجسم ہونے کے کھانے پینے اور تمام لوازم حیات سے الگ ہو کر اُن روحوں میں جا ملے جو موت کا پیالہ پی کر دوسرے جہان میں پہنچ گئے ہیں۔ عقل کے پاس اِس کا کوئی نمونہ نہیں۔ پھر ماسوا اس کے جیسا کہ یہ عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 174

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 174

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/174/mode/1up

174

چڑھنے کا قرآن شریف کے بیان سے مخالف ہے ایسا ہی اُن کے آسمان سے اُترنے کا عقیدہ بھی قرآن کے بیان سے منافات کلی رکھتا ہے کیونکہ قرآن شریف جیسا کہ آیت33 ۱؂ اور آیت33 ۲؂ میں حضرت عیسٰی کو مار چکا ہے۔ ایسا ہی آیت 3۳؂ اور آیت 3۴؂ میں صریح نبوت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر چکا ہے اور صریح لفظوں میں فرما چکا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الابنیاء ہیں جیسا کہ فرمایا ہے 3 3۔ لیکن وہ لوگ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ دنیا میں واپس لاتے ہیں اُن کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ بد ستور اپنی نبوت کے ساتھ دنیا میں آئیں گے اور برابر پینتالیس برس تک اُن پر جبرئیل علیہ السلام وحی نبوت لے کر نازل ہوتا رہے گا۔ اب بتلاؤ کہ اُن کے عقیدہ کے موافق ختم نبوت اور ختم وحی نبوت کہاں باقی رہا بلکہ ماننا پڑا کہ خاتم الانبیاء حضرت عیسیٰ ہیں۔ چنانچہ نواب مولوی صدیق حسن خاں صاحب نے اپنی کتاب حجج الکرامہ کے ۴۳۲ صفحہ میں یہی لکھا ہے کہ یہ عقیدہ باطل ہے کہ گویا حضرت عیسیٰ امتی بن کر آئیں گے بلکہ وہ بدستورنبی ہوں گے اور اُن پر وحی نبوت نازل ہوگی اور ظاہر ہے کہ جبکہ وہ اپنی نبوت پر قائم رہے اور وحی نبوت بھی پینتالیس برس تک نازل ہوتی رہی تو پھر بخاری کی یہ حدیث کہ امامکم منکم کیونکر اُن پر صادق آئے گی اور یہ خیال کہ امام سے مراد اس جگہ مہدی ہے اوّل تو سیاق سباق کلام کا اس کے بر خلاف ہے کیونکہ وہ حدیث مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسی کی اِس حدیث کے سر پر تعریف ہے۔ ماسوا اس کے بقول علماءِ مخالفین مہدی تو صرف چند سال رہ کر مر جائے گا اور پھر عیسیٰ پینتاؔ لیس سال برا بر دنیا میں رہے گا حالانکہ وہ نہ اُمتی ہے اور نہ قرآنی وحی کا پیرو ہے بلکہ اُس پر آپ وحی نبوت نازل ہوتی ہے۔ سو سوچو اور فکر کروکہ ایسا عقیدہ رکھنا دین میں کچھ تھوڑا فساد نہیں ڈالتا بلکہ تمام اسلام کو زیر و زبر کرتا ہے اور کس قدر ظلم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خود بخود آسمان پر چڑھانا اور خود بخود آسمان سے اُتارنا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 175

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 175

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/175/mode/1up

175

حالانکہ قرآن نہ اُن کے آسمان پر چڑھنے کا مصدق ہے اور نہ اُن کے اُترنے کو جائز رکھنے والا کیونکہ قرآن تو عیسیٰ کو مار کر زمین میں دفن کرتا ہے۔ پھر حضرت مسیح کا زندہ بجسمہ العنصری آسمان پر چڑھا نا قرآن سے کیونکر ثابت ہو سکے ۔کیا مُردے آسمان پر چڑھیں گے۔ پس قرآن کے بر خلاف حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھانا یہ صریح قرآن شریف کی تکذیب ہے۔ ایسا ہی پھر ان کو نبوت اور وحی نبوت کے ساتھ زمین پر اُتارنا یہ بھی صریح منطوق کلام الٰہی کے مخالف ہے۔ کیونکہ موجب ابطال ختم وحی نبوت ہے تو پھر افسوس ہزار افسوس کہ اس لغو حرکت سے کیا فائدہ ہوا کہ محض اپنی حکومت سے حضرت مسیح کو آسمان پر چڑھایا اور پھر اپنے ہی خیال سے کسی وقت اُترنا بھی مان لیا۔ اگر حضرت مسیح سچ مچ زمین پر اُتریں گے اور پینتالیس برس تک جبرئیل وحی نبوت لے کر اُن پر نازل ہوتا رہے گا تو کیا ایسے عقیدہ سے دین اسلام باقی رہ جائے گا؟ اور آنحضرت کی ختم نبوت اور قرآن کی ختم وحی پر کوئی داغ نہیں لگے گا؟ بعض مسلمانوں میں سے تنگ آکر اور ہر ایک پہلو سے لاجواب ہو کر یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی مسیح کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے یہ سب بیہودہ لافیں ہیں قرآن نے کہاں لکھا ہے کہ کوئی مسیح بھی دنیا میں آئے گا اور پھر کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ نری فضولی اور تکبر سے بھرا ہوا ہے۔ حدیثوں کی صدہا باتیں سچی نہیں ہوئیں تو پھر کیونکر یقین کریں کہ کسی مسیح کا آنا کوئی حق بات ہے بلکہ ایسا دعویٰ کرنے والے ایک ادنیٰ سی بات ہاتھ میں لے کر اپنی طرف لوگوں کو رجوع دینا چاہتے ہیں حالانکہ اُن کی زندگی اچھی نہیں ہے۔ مکر، فریب، جھوٹ، دغابازی، تکبر، بدزبانی، شہوت پرستی، حرام خوری، عہد شکنی، خودستائی، ریاکاری، فاسقانہ زندگی اُن کا طریق ہے ا ور پھر کہتے ہیں کہ ہم مسیح ہیں ایسے مسیحوں سے فلاں فلاں شخص ہزار درجہ بہتر ہیں جن کی زندگی پاک اور جن کا کام مکر اور فریب اور جھوٹ اور ریا اور حرام خوری نہیں دل اور زبان اور معاملہ کے صاف ہیں کوئی متکبرانہ دعویٰ نہیں کرتے حالانکہ وہ ایسے شخص سے بدر جہا بہتر اور صحیح طور پر خدا کا الہام پاتے ہیں کئی پیشگوئیاں اُن کی ہم نے بچشم خود پوری ہوتے دیکھیں مگر اس شخص کی ایک بھی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 176

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 176

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/176/mode/1up

176

پیشگوئی سچی نہیں نکلی وہ لوگ بڑے راستباز ہیں کوئی دعویٰ نہیں کرتے لیکن یہ شخص تو مکار کذاب جھوٹا مفتری ناحق کا مدعی عہد شکن مال حرام کھانے والا لوگوں کا ناحق روپیہ دبانے والا سخت درجہ کا بے ایمان ہے اور ان راستباز ملہموں پر خدا نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے ظاہر کر دیا ہے کہ درحقیقت یہ شخص کافر ہے بلکہ سخت کافر۔ فرعون اور ہامان سے بھی بدتر اور بعض پاک باطن ملہمین کو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ مفتری کذّاب دجّال ہے اور واجب القتل اور میں اس کا دشمن ہوں اور جلد تباہ کر دوں گا اور ایک بزرگ اپنے ایک واجب التعظیم مرشد کی ایک خواب جس کو اس زمانہ کا قطب الاقطاب و امام الابدال خیال کرتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور گردا گردتمام علماءِ پنجاب اور ہندوستان گویا بڑی تعظیم کے ساتھ کرسیوں پر بٹھائے گئے تھے اور تب یہ شخص جو مسیح موعود کہلاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکھڑا ہوا جو نہایت کریہہ شکل اور میلے کچیلے کپڑوں میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کون ہے تب ایک عالم ربّانی اٹھا (شائد محمود شاہ واعظ یا محمد علی بوپڑی) اور اُس نے عرض کی کہ یا حضرت یہی شخص مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ تو دجّال ہے۔ تب آپ کے فرمانے سے اُسی وقت اُس کے سر پر جُوتے لگنے شروع ہوئے جن کا کچھ حساب اور اندازہ نہ رہا اور آپ نے ان تمام علماءِ پنجاب اور ہندوستان کی بہت تعریف کی جنہوں نے اس شخص کو کافر اور دجّال ٹھہرایا اور آپ بار بار پیار کرتے اور کہتے تھے کہ یہ میرے علماءِ ربّانی ہیں جن کے وجود سے مجھے فخر ہے۔ اس جگہ کُرسی نشینی کی ترتیب کا کچھ ذکر نہیں کیا۔* مگر میں گمان کرتا ہوں

* یہ تمام لوگ وہ ہیں جنہوں نے مجھے گالیاں دینا اپنے پر فرض کر رکھا ہے اور اب بعض اُن میں سے میری توہین کے ارادہ سے جھوٹی خوابیں اپنی طرف سے بناتے اور پھر ان کو شائع کرتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 177

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 177

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/177/mode/1up

177

کہ اُس کی ترتیب شائد یہ ہوگی کہ وہ غیر مرئی نورانی وجود جس نے اپنے تئیں اپنی قدیم طاقت کی وجہ سے خواب میں ظاہر کیا تھا کہ مَیں محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہوں جو ایک سونے کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا اُس کے اِس سونے کے تخت کے قریب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کی کرسی ہوگی ساتھ ہی میاں عبدالحق غزنوی کی اور اس کے پہلو پر مولوی عبدالجبار صاحب کی کُرسی اور اس کُرسی سے ملی ہوئی ایک اور کُرسی جس پر زینت بخش مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی تھے اور کچھ فاصلہ سے مولوی رُسل بابا امرتسری کی کُرسی تھی۔ اور ان دونوں کرسیوں کے درمیان ایک اور کُرسی تھی جس کا اندر سے کچھ اَور رنگ تھا اور باہر سے کچھ اَور تھوڑی سی تحریک کے ساتھ بھی ہل جاتی تھی اور کچھ ٹوٹی ہوئی بھی تھی یہ کرسی مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری کی تھی اس کُرسی کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی بنچ پر میاں چٹو لاہوری بیٹھے ہوئے تھے جو اُس دربار کے شریک تھے۔ اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی کُرسی کے پاس ایک اور کرسی تھی جس پر ایک بڈھا نود سالہ بیٹھا ہوا تھا جس کو لوگ نذیر حسین کہتے تھے اُس کی کُرسی نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو ایک بچہ کی طرح اپنی گود میں لیا ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد مولوی محمد اور مولوی عبدالعزیز لدھیانوی کی کُرسیاں تھیں جن کے اندر سے بڑے زور کے ساتھ آواز آرہی تھی کہ یہ پنجاب کے تمام مولویوں میں سے تکفیر میں بڑے بہادر ہیں اور پیغمبر صاحب اِس آواز سے بڑے خوش ہو رہے تھے اور بار بار پیار سے اُن کے ہاتھ اور نیز مولوی محمد حسین کے ہاتھ چوم کر کہہ رہے تھے کہ یہ ہاتھ مجھے پیارے معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے ابھی تھوڑے دنوں میں میری اُمت میں سے تیس ہزار آدمی کا نام کافر اور دجّال رکھا اور فرماتے تھے کہ یہ سخت غلطی تھی کہ لوگوں نے ایسا سمجھا ہوا تھا کہ اگر سو ۱۰۰ میں سے ننانوے کفر کے آثار پائے جائیں اور ایک ایمان کا نشان پایا جائے تو پھر اس کو مومن سمجھو بلکہ حق بات یہ ہے کہ جس شخص میں ننانوے نشان ایمان کے پائے جائیں اور ایک نشان کفر کا خیال کیا جائے یا ظنّ کیا جائے یا بے تحقیق شہرت دی جائے تو اُس کو بلا شبہ کافر سمجھنا چاہئے یہ فرمایا اور پھر مولوی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 178

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 178

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/178/mode/1up

178

محمد حسین صاحب کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا یہ عالمِ ربّانی ہے جس نے میرے اس منشا ء کو سمجھا تب مولوی محمد علی بوپڑی کھڑا ہوا اور کہا کہ میں تو سب سے زیادہ مسجدوں اور گلیوں اور کوچوں اور لوگوں کے گھروں میں اس شخص کو جو کہتا ہے کہ میں مسیح ہوں گالیاں دیا کرتا ہوں اور *** بھیجا کرتا ہوں اور ہر ایک وقت میرا کام ہے کہ ہر مجلس میں لوگوں کو اس شخص کی توہین و تحقیر ولعن و طعن کرنے کے لئے کہتا رہتا ہوں اور ہمیشہ انہی کاموں کے لئے سفر بھی کرکے ترغیب دیتا رہتا ہوں اور کوئی گالی نہیں کہ میں نے اُٹھا نہیں رکھی اور کوئی توہین نہیںؔ جو میں نے نہیں کی۔ پس میرا کیا اجر ہے۔ تب اس پیغمبر صاحب نے بہت پیار کے جوش سے اُٹھ کر بوپڑی کو اپنے گلے لگا لیا اور کہا کہ تُو میرا پیارا بیٹا ہے تونے میرا منشاء سمجھا۔ غرض جیسا کہ حضرت خواب بین صاحب بیان فرماتے ہیں پنجاب کے تمام مولویوں کی کُرسیاں اس دربار میں موجود تھیں اور ہر ایک فاخرہ لباس پہنے ہوئے نوابوں کی طرح بیٹھا تھا اور وہ پیغمبر صاحب ہر وقت اُن کا ہاتھ چومتے تھے کہ یہ ہیں میرے پیارے علماءِ ربّانی خیر الناس علٰی ظھر الارض اور پھر آگے چل کر ایک اور کُرسی تھی اُس پر ایک اور مولوی صاحب کرسی پر کچھ چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے اور آواز آرہی تھی کہ یہی ہیں خلیفہ شیخ بٹالوی محمد حسن لدھیانوی۔ اور ساتھ اُن کے ایک اور کرسی تھی اور لوگ کہتے تھے کہ یہ مولوی واعظ محمود شاہ کی کرسی ہے جو کسی مناسبت سے مولوی محمد حسن کے ساتھ بچھائی گئی۔ اور سب سے پیچھے ایک نابینا وزیر آبادی تھا جس کو عبدالمنان کہتے تھے اور اس کی کرسی سے انا المکفّر کی زور کے ساتھ آواز آرہی تھی۔ غرض یہ خواب ہے جس میں ان تمام کرسی نشین مولوی صاحبوں کا ذکر ہے۔ مگر یہ کرسیوں کی ترتیب میری طرف سے ہے جو اس خواب کے مناسب حال کی گئی لیکن خواب میں یہ حصہ داخل ہے کہ علماءِ پنجاب اس پیغمبر صاحب کے دربار میں بڑی تعظیم کے ساتھ کرسیوں پر بٹھائے گئے تھے اور تمام عالم امرتسری بٹالوی لاہوری لدھیانوی دہلوی وزیر آبادی بو پڑی گولڑوی وغیرہ اس دربار میں کرسیوں پر زینت بخش تھے۔ اور پیغمبر صاحب نے میری تکفیر اور ایذا اور توہین کی وجہ سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 179

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 179

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/179/mode/1up

179

بڑا پیار اُن سے ظاہر کیا تھا اور بڑی محبت اور تعظیم سے پیش آئے تھے گویا اُن پر فدا ہوتے جاتے تھے۔ یہ خواب کا مضمون ہے جو خط میں میری طرف لکھا گیا تھا جس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ اِس خواب کا دیکھنے والا ایک بڑا بزرگ پاک باطن ہے جس کو دکھلایا کہ یہ سب مولوی پنجاب اور ہندوستان کے اقطاب اور ابدال کے درجہ پر ہیں۔ چونکہ یہ خط اتفاق سے گم ہو گیا ہے اور اِس وقت مجھے نہیں مِلا اِس لئے میں صاحب راقم کی خدمت میں عذر کرتا ہوں کہ اگر کوئی حصّہ اُن کے خواب کا جو پنجاب کے مولویوں کی بزرگ شان میں ہے یا جو اس دربار میں مجھے سزا دی گئی میرے لکھنے سے رہ گیا ہو تو معاف فرمائیں اور میں نے حتّی المقدور اس خواب کے کسی حصّہ کو ترک نہیں کیا۔ یہ تمام ایک اعتراض ہے جو میرے پر کیا گیا ہے اور مجھے کذّاب دجّال کافر مفتری فاسق فریبی حرام خور ریا کار متکبّر بد گو بدزبان ٹھہراکر پھر گویا اُس بزرگ کی اس خواب کے ساتھ ان تمام الزاموں کا ثبوت دے کر اثبات دعویٰ سے سبکدوشی حاصل کرلی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف یہ کشف اور رؤیا ہی تمہارے کافر ہونے پر دلیل نہیں ہے بلکہ اُمت کا اجماع بھی تو ہو گیا۔ اور اجماع کے یہ معنے کئے گئے ہیں کہ گولڑہ سے دِلّی تک جس قدر مولوی اور سجّادہ نشین تھے سب نے کفر کی گواہی دے دی اب شک کیا رہا بلکہ اب تو کافر کہنا اور *** بھیجنا موجب درجات ہے اور بعض نفلی عبادتوں سے بہتر۔ اعتراض مذکورہ بالا میں جس قدر میری ذاتیات کی نسبت نکتہ چینی کی گئی ہے میں اس سے ناراض نہیں ہوں کیونکہ کوئی رسول اور نبی اور مامور من اللہ نہیں گذرا جس کی نسبت ایسی نکتہ چینیاں نہیں ہوئیں۔ ابھی ایک رسالہ آریہ صاحبوں نے شائع کیا ہے جس میں نعوذ باللہ حضرت موسیٰ کو گویا تمام مخلوقات سے بد تر ٹھہرایا گیا ہے اور جس قدر میرے پر اعتراض کوتہ بینی اور تعصّب سے کئے جاتے ہیں وہ سب اُن پر کئے گئے ہیں یہاں تک کہؔ نعوذباللہ ان کو عہد شکن دروغ گو اور ظلم سے بیگانہ کا مال حرام کھانے والا اور فریب کرنے والا اور دھوکا دینے والا قرار دیا ہے اور بعض الزام مجھ سے زیادہ لگائے گئے ہیں جیسے یہ کہ موسیٰ نے کئی لاکھ شیر خوار بچے قتل کرائے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 180

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 180

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/180/mode/1up

180

اب دیکھو کہ جومیرے پر اعتراض کرتے ہیں اُن کے ہاتھ میں تو کچھ ثبوت بھی نہیں محض بدظنّی سے جھوٹ کی نجاست ہے۔ مگر جنہوں نے حضرت موسیٰ پر اعتراض کئے وہ تو اپنے الزامات کے ثبوت میں توریت کی آیتیں پیش کرتے ہیں۔ ایسا ہی بہت سے اعتراض یہودیوں نے حضرت مسیح کی زندگی پر بھی کئے ہیں جو نہایت گندے اور ناقابل ذکر ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ذاتی حالات پر جو جو اعتراضات میزان الحق اور عماد الدین کی کتابوں اور امّہات المومنین وغیرہ میں کئے ہیں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں۔ پس اگر اِن اعتراضات سے کچھ نتیجہ نکلتا ہے تو بس یہی کہ ہمیشہ ناپاک خیال لوگ ایسے ہی اعتراضات کرتے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بھی منظور تھا کہ ان کا امتحان کر ے اِس لئے اپنے مقدس لوگوں کے بعض افعال اور معاملات کی حقیقت اُن پر پوشیدہ کردی تا اُن کا خبث ظاہر کرے۔ اور جو میری پیشگوئیوں کی نسبت اعتراض کیا ہے میں اس کا جواب پہلے دے چکا ہوں کہ یہ اعتراض بھی سنّت اللہ کے موافق میرے پر کیا گیا ہے یعنی کوئی نبی نہیں گذرا جس کی بعض پیشگوئیوں کی نسبت اعتراض نہیں ہوا۔ یہ کس قسم کی بد بختی اور بد قسمتی ہے کہ ہمیشہ سے اندھے لوگ خدا کے روشن نشانوں سے فائدہ نہیں اُٹھاتے رہے اور اگر اُن میں کوئی نظری طور پر دقیق پیشگوئی اسی طور پر ظہور میں آئی جس کو موٹی عقلیں سمجھ نہ سکیں تو وہی محل اعتراض بنا لیا جیسا کہ کتاب تریاق القلوب کے پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ آج تک میرے ہاتھ پر سو سے زیادہ خداتعالیٰ کا نشان ظاہر ہوا جن کے دنیا میں کئی لاکھ انسان گواہ ہیں مگر کورچشم معترضوں نے ان کی طرف کچھ بھی توجہ نہیں کی اور نہ اُن سے کچھ فائدہ اُٹھایا اور جب ایک دو نشان کوتہ اندیشی یا بخل یا فطرتی کورباطنی کی وجہ سے ان کو سمجھ نہ آئے تو بغیر اِس کے کہ کچھ سوچتے اور تامل کرتے یا مجھ سے پوچھتے شور مچا دیا۔ اِسی طرح ابو جہل وغیرہ مخالف انبیاء علیہم السلام شور مچاتے رہے ہیں۔ نہ معلوم اس ظلم کا خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔ ان لوگوں کا بجز اِس کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 181

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 181

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/181/mode/1up

181

اَور کچھ منشاء نہیں کہ چاہتے ہیں کہ نور الٰہی کو اپنے مُنہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر وہ بجھ نہیں سکتا۔ کیونکہ خدا کے ہاتھ نے اس کو روشن کیا ہے۔ نہ معلوم کہ میری تکذیب کے لئے اِس قدر کیوں مصیبتیں اٹھا رہے ہیں اگر آسمان کے نیچے میری طرح کوئی اور بھی تائید یافتہ ہے اور میرے اس دعویٰ مسیح موعود ہونے کا مکذّب ہے تو کیوں وہ میرے مقابل پر میدان میں نہیں آتا؟ عورتوں کی طرح باتیں بنانا یہ طریق کس کو نہیں آتا۔ ہمیشہ بے شرم منکر ایسا ہی کرتے رہے ہیں لیکن جبکہ میں میدان میں کھڑا ہوں اور تیس ہزار کے قریب عقلاء اور علماء اور فقراء اور فہیم انسانوں کی جماعت میرے ساتھ ہے اور بارش کی طرح آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں تو کیا صرف مُنہ کی پُھونکوں سے یہ الٰہی سِلسلہ برباد ہو سکتا ہے؟ کبھی برباد نہیں ہوگا۔ وہی برباد ہوں گے جو خدا کے انتظام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔ (۱) خدا نے مجھے قرآنی معارف بخشے ہیں۔ (۲) خدا نے مجھے قرآن کی زبان میں اعجاز عطا فرمایا ہے (۳) خدا نے میری دُعاؤں میں سب سے بڑھ کر قبولیت رکھی ہے (۴) خدا نے مجھے آسمان سے نشان دیئے ہیں (۵) خدا نے مجھے زمین سے نشان دیئے ہیں (۶) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقاؔ بلہ کرنے والا مغلوب ہوگا (۷) خدا نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرے پَیرو ہمیشہ اپنے دلائل صدق میں غالب رہیں گے اور دنیا میں اکثر وہ اور اُن کی نسل بڑی بڑی عزّتیں پائیں گے تا اُن پر ثابت ہو کہ جو خدا کی طرف آتا ہے وہ کچھ نقصان نہیں اٹھاتا (۸) خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ قیامت تک اور جب تک کہ دنیا کا سلسلہ منقطع ہو جائے میں تیری برکات ظاہر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ (۹) خدا نے آج سے بیس برس پہلے مجھے بشارت دی ہے کہ تیرا انکار کیا جائے گا اور لوگ تجھے قبول نہیں کریں گے پر میں تجھے قبول کروں گا اور بڑے زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کر دوں گا۔ (۱۰)اور خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 182

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 182

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/182/mode/1up

182

کیا جائے گا جس میں مَیں رُوح القدس کی برکات پُھونکوں گا۔ وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہوگا اور مظھر الحق والعلا ہوگا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا۔ وتلک عشرۃ کاملۃ۔ دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اِس سلسلہ کی دُنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا اور یہ سِلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا۔ یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں یہ اُس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں۔

اب میں مختصر طور پر اپنے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کے دلائل ایک جگہ اکٹھے کرکے لکھ دیتا ہوں شائد کسی طالب حق کو کام آئیں یاکوئی سینہ حق کے قبول کرنے کے لئے کھل جائے۔ رب فاجعل فیھا من عندک برکۃ وتاثیرًا وھدایۃ وتنویرًا واجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھا فانّک علٰی کلّ شیءٍ قدیر و بالاجابۃ جدیر۔ ربّنا اغفرلنا ذنوبنا وادفع بلایانا وکروبنا ونجّ من کلّ ھمٍّ قلوبنا و کفّل خطوبنا وکن معنا حیثما کنا یا محبوبنا واسترعورا تنا واٰمن روعا تنا۔ انّا توکّلنا علیک وفوّضنا الامرالیک انت مولانا فی الدنیا والاٰخرۃ وانت ارحم الرّاحمین۔ اٰمین۔ یاربّ العالمین۔

(۱) پہلی دلیل اس بات پر کہ میں ہی مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں یہ ہے کہ میرا یہ دعویٰ مہدی اور مسیح ہونے کا قرآن شریف سے ثابت ہوتاہے۔ یعنی قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفوں کے خاتم الانبیاء ہیں اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہوگا تا کہ وہ اِسی طرح محمدی سلسلۂ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو۔ اور مجدّدانہ حیثیت اور لوازم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانند ہو اور اسی پر سلسلہ خلافتِ محمدیہ ختم ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلۂ خلافتِ موسویہ ختم ہو گیا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 183

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 183

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/183/mode/1up

183

تفصیل اِس دلیل کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل ٹھہرایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو مسیح موعود تک سلسلۂ خلافت ہے اس سلسلہ کو خلافتِ موسویہ کے سلسلہ سے مشابہ قرار دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 333333 ۱؂۔ یعنی ہم نے یہ پیغمبر اُسی پیغمبر کی مانند تمہاری طرف بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ تم کیسی ایک سرکش اور متکبر قوم ہو جیسے کہ فرعون متکبّراور سرکش تھا۔ یہ تو وہ آیت ہے جسؔ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ثابت ہوتی ہے لیکن جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلہ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلۂ نبوتِ محمدیہ کے خلیفے سلسلۂ نبوت موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں وہ یہ آیت ہے۔ 333333۲؂ الخ یعنی خدا نے اُن ایمانداروں سے جو نیک کام بجا لاتے ہیں وعدہ کیا ہے جو اُن میں سے زمین پر خلیفے مقرر کرے گا انہی خلیفوں کی مانند جو اُن سے پہلے کئے تھے۔ اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے جو ان دونوں سِلسلوں کے خلیفوں میں مماثلث ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خا تم خلفاءِ محمدیہ ہے جو سلسلہ خلا فت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے ۔ سب سے پہلا خلیفہ جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے وہ حضرت یوشع بن نون کے مقابل اور اُن کا مثیل ہے جس کو خدا نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے اختیار کیا اور سب سے زیادہ فراست کی رُوح اُس میں پھونکی یہاں تک کہ وہ مشکلات جو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 184

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 184

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/184/mode/1up

184

عقیدۂ باطلہ حیاتِ مسیح کے مقابلہ میں خاتم الخلفاء کو پیش آنی چاہئیے تھی ان تمام شبہات کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کمال صفائی سے حل کر دیا اور تمام صحابہ میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہا جس کا گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی موت پر اعتقاد نہ ہو گیا ہو بلکہ تمام اُمور میں تمام صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایسی ہی اطاعت اختیار کر لی جیسا کہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یشوع بن نون کی اطاعت کی تھی اور خدا بھی موسیٰ اور یشوع بن نون کے نمونہ پر جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور آپ کا حامی اور مؤید تھا ۔ ایسا ہی ابو بکر صدیق کا حامی اور مؤید ہو گیا۔ درحقیقت خدا نے یشوع بن نون کی طرح اس کو ایسا مبارک کیا جو کوئی دشمن اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور اسامہ کے لشکر کا نا تمام کام جو حضرت موسیٰ کے ناتمام کام سے مشابہت رکھتا تھا حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر پورا کیا۔ اور حضرت ابوبکر کی حضرت یشوع بن نون کے ساتھ ایک اور عجیب مناسبت یہ ہے جو حضرت موسیٰ کی موت کی اطلاع سب سے پہلے حضرت یوشع کو ہوئی اور خدا نے بلا توقف اُن کے دل میں وحی نازل کی جو موسیٰ مر گیا تا یہود حضرت موسیٰ کی موت کے بارے میں کسی غلطی یا اختلاف میں نہ پڑ جائیں جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اوّل سے ظاہر ہے اِسی طرح سب سے پہلے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی موت پر حضرت ابو بکر نے یقین کامل ظاہر کیا اور آپ کے جسدِ مبارک پر بوسہ دے کر کہا کہ تو زندہ بھی پاک تھا اور موت کے بعد بھی پاک ہے اور پھر وہ خیالات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہو گئے تھے ایک عام جلسہ میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر اُن تمام خیالات کو دُور کر دیا اور ساتھ ہی اس غلط خیال کی بھی بیخ کنی کر دی جو حضرت مسیح کی حیات کی نسبت احادیث نبویہ میں پوری غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض کے دلوں میں پایا جاتا تھا اور جس طرح حضرت یشوع بن نون نے دینؔ کے سخت دشمنوں اور مفتریوں اور مفسدوں کو ہلاک کیا تھا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 185

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 185

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/185/mode/1up

185

اِسی طرح بہت سے مفسد اور جھوٹے پیغمبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارے گئے اور جس طرح حضرت موسیٰ راہ میں ایسے نازک وقت میں فوت ہو گئے تھے کہ جب ابھی بنی اسرائیل نے کنعانی دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کی تھی اور بہت سے مقاصد باقی تھے اور ارد گرد دشمنوں کا شور تھا جو حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد اور بھی خطرناک زمانہ پیدا ہو گیا تھا ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خطرناک زمانہ پیدا ہوگیا تھا۔ کئی فرقے عرب کے مرتد ہو گئے تھے بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور کئی جھوٹے پیغمبر کھڑے ہو گئے تھے اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قوی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر کئے گئے اور ان کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ بباعث چند در چند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ صلعم مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہو جاتا اور زمین سے ہموار ہو جاتا۔ مگر چونکہ خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اوردل قوی ہونے کی رُوح اس میں پھونکی جاتی ہے جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اول آیت ۶ میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضبوط ہو اور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اَب تو مضبوط ہو جا۔* یہی حکم قضا و قدر

* خدا تعالیٰ کے حکم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک شرعی جیسا یہ کہ تو خون نہ کر چوری نہ کر جھوٹی گواہی مت دے دوسری قسم حکم کی قضاو قدر کے حکم ہیں جیسا کہ یہ حکم کہ 33 ۱؂ شرعی حکم میں محکوم کا تخلف حکم سے جائز ہے جیسا کہ بہتیرے باوجود حکم شرعی پانے کے خون بھی کرتے ہیں چوری بھی کرتے ہیں جھوٹی گواہی بھی دیتے ہیں مگر قضا و قدر کے حکم میں ہر گز تخلف جائز نہیں۔ انسان تو انسان قدری حکم سے جمادات بھی تخلف نہیں کر سکتے کیونکہ جبروتی کشش اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ سو حضرت یشوع کو خدا کا یہ حکم کہ مضبوط دل ہو جا قدری حکم تھا یعنی قضاء و قدر کا حکم وہی حکم حضرت ابو بکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 186

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 186

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/186/mode/1up

186

کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابو بکر کے دل پر بھی نازل ہوا تھا تناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابو بکر بن قحافہ اور یشوع بن نون ایک ہی شخص ہے۔ استخلافی مماثلت نے اِس جگہ کَس کر اپنی مشابہت دکھلائی ہے یہ اس لئے کہ کسی دو لمبے سلسلوں میں باہم مشابہت کو دیکھنے والے طبعًا یہ عادت رکھتے ہیں کہ یا اوّل کو دیکھا کرتے ہیں اور یا آخر کو مگر دو سلسلوں کی درمیانی مماثلت کو جس کی تحقیق و تفتیش زیادہ وقت چاہتی ہے دیکھنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اوّل اور آخر پر قیاس کر لیا کرتے ہیں اس لئے خُدا نے اس مشابہت کو جو یشوع بن نون اور حضرت ابو بکر میں ہے جو دونوں خلافتوں کے اوّل سلسلہ میں ہیں اور نیزؔ اس مشابہت کو جو حضرت عیسیٰ بن مریم اور اِس اُمت کے مسیح موعود میں ہے جو دونوں خلافتوں کے آخر سلسلہ میں ہیں اجلی بدیہیات کرکے دکھلا دیا۔ مثلاً یشوع اور ابو بکر میں وہ مشابہت درمیان رکھ دی کہ گویا وہ دونوں ایک ہی وجود ہے یا ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں اور جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی باتوں کے شنوا ہو گئے اور کوئی اختلاف نہ کیا اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابو بکر کی خلافت کو قبول کیا۔ غرض ہر ایک پہلو سے حضرت ابو بکر صدیق کی مشابہت حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ثابت ہوئی۔ خدا نے جس طرح حضرت یشوع بن نون کو اپنی وہ تائیدیں دکھلائیں کہ جو حضرت موسیٰ کو دکھلایا کرتا تھا ایسا ہی خدا نے تمام صحابہ کے سامنے حضرت ابو بکر کے کاموں میں برکت دی اور نبیوں کی طرح اس کا اقبال چمکا۔ اُس نے مفسدوں اور جھوٹے نبیوں کو خدا سے قدرت اور جلال پا کر قتل کیا تاکہ اصحاب رضی اللہ عنہم جانیں کہ جس طرح خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس کے بھی ساتھ ہے۔ ایک اور عجیب مناسبت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 187

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 187

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/187/mode/1up

187

یشوع بن نون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک ہولناک دریا سے جس کا نام یردن ہے عبور مع لشکر کرنا پیش آیا تھا اور یردن میں ایک طوفان تھا اور عبور غیر ممکن تھا اور اگر اس طوفان سے عبور نہ ہوتا تو بنی اسرائیل کی دشمنوں کے ہاتھ سے تباہی متصور تھی اور یہ وہ پہلا امر ہولناک تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو اپنے خلافت کے زمانہ میں پیش آیا اس وقت خدا تعالیٰ نے اس طوفان سے اعجازی طور پر یوشع بن نون اور اس کے لشکر کو بچا لیا اور یردن میں خشکی پیدا کر دی جس سے وہ بآسانی گذر گیا وہ خشکی بطور جوار بھاٹا تھی یا محض ایک فوق العادت اعجاز تھا۔ بہر حال اس طرح خدا نے ان کو طوفان اور دشمن کے صدمہ سے بچایا اسی طوفان کی مانند بلکہ اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفۃ الحق کو مع تمام جماعت صحابہ کے جو ایک لاکھ سے زیادہ تھے پیش آیا یعنی ملک میں سخت بغاوت پھیل گئی۔ اور وہ عرب کے بادیہ نشین جن کو خدا نے فرمایا تھا 33333 ۱؂ (سورۃ حجرات) ضرور تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ بگڑتے تا یہ پیشگوئی پوری ہوتی۔ پس ایسا ہی ہوا اور وہ سب لوگ مُرتد ہو گئے اور بعض نے زکوٰۃ سے انکار کیا اور چند شریر لوگوں نے پیغمبری کا دعویٰ کر دیا جن کے ساتھ کئی لاکھ بد بخت انسانوں کی جمعیت ہو گئی اور دشمنوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ صحابہ کی جماعت اُن کے آگے کچھ بھی چیز نہ تھی اور ایک سخت طوفان ملک میں برپا ہوا یہ طوفان اُس خوفناک پانی سے بہت بڑھ کر تھا جس کا سامنا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو پیش آیا تھا اور جیسا کہ یوشع بن نون حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد ناگہانی طور پر اس سخت ابتلامیں مبتلا ہو گئے تھے کہ دریا سخت طوفان میں تھا اور کوئی جہاز نہ تھا اور ہر ایک طرف سے دشمن کا خوف تھا۔ یہی ابتلا حضرت ابو بکر کو پیش آیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور ارتداد عرب کا ایک طوفان برپا ہو ؔ گیا اور جھوٹے پیغمبروں کا ایک



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 188

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 188

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/188/mode/1up

188

دوسرا طوفان اس کو قوت دینے والا ہو گیا۔ یہ طوفان یوشع کے طوفان سے کچھ کم نہ تھا بلکہ بہت زیادہ تھا اور پھر جیسا کہ خدا کی کلام نے حضرت یوشع کو قوت دی اور فرمایا کہ جہاں جہاں تو جاتا ہے میں تیرے ساتھ ہوں تو مضبوط ہو اور دلاور بن جا اور بے دل مت ہو۔ تب یشوع میں بڑی قوت اور استقلال اور وہ ایمان پیدا ہو گیا جو خدا کی تسلّی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہی حضرت ابو بکر کو بغاوت کے طوفان کے وقت خدا تعالیٰ سے قوت ملی۔ جس شخص کو اس زمانہ کی اسلامی تاریخ پر اطلاع ہے وہ گواہی دے سکتا ہے کہ وہ طوفان ایسا سخت طوفان تھا کہ اگر خدا کا ہاتھ ابو بکر کے ساتھ نہ ہوتا اور اگر درحقیقت اسلام خدا کی طرف سے نہ ہوتا اور اگر درحقیقت ابوبکر خلیفۂ حق نہ ہوتا تو اس دن اسلام کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ مگر یشوع نبی کی طرح خدا کے پاک کلام سے ابو بکر صدیق کو قوت ملی کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس ابتلا کی پہلے سے خبر دے رکھی تھی۔ چنانچہ جو شخص اس آیت مندرجہ ذیل کو غور سے پڑھے گا وہ یقین کرلے گا کہ بلاشبہ اس ابتلا کی خبر قرآن شریف میں پہلے سے دی گئی تھی اور وہ خبر یہ ہے کہ333333333 ۔۱؂ یعنی خدانے مومنوں کو جو نیکو کار ہیں وعدہ دے رکھا ہے جو ان کو خلیفے بنائے گا انہی خلیفوں کی مانند جو پہلے بنائے تھے اور اُسی سلسلہ خلافت کی مانند سلسلہ قائم کرے گا جو حضرت موسیٰ کے بعد قائم کیا تھا اور اُن کے دین کو یعنی اسلام کو جس پر وہ راضی ہوا زمین پر جمادے گا اور اُس کی جڑ لگا دے گا اور خوف کی حالت کو امن کی حالت کے ساتھ بدل دے گا۔ وہ میری پرستش کریں گے کوئی دوسرا میرے ساتھ نہیں ملائیں گے۔ دیکھو اس آیت میں صاف طور پر فرما دیا ہے کہ خوف کا زمانہ بھی آئے گا اور امن جاتا رہے گا مگر خدا اُس خوف کے زمانہ کو پھر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 189

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 189

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/189/mode/1up

189

امن کے ساتھ بدل دے گا۔ سو یہی خوف یشوع بن نون کو بھی پیش آیا تھا اور جیسا کہ اس کو خدا کے کلام سے تسلّی دی گئی ایسا ہی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی خدا کے کلام سے تسلّی دی گئی اور چونکہ ہر ایک سلسلہ میں خدا کا یہ قانون قدرت ہے کہ اس کا کمال تب ظاہر ہوتا ہے کہ جب آخر حصّہ سلسلہ کا پہلے حصہ سے مشابہ ہو جائے اس لئے ضروری ہوا کہ موسوی اور محمدی سلسلہ کا پہلا خلیفہ موسوی اور محمدی سلسلہ کے آخری خلیفہ سے مشابہ ہوکیونکہ کمال ہر ایک چیز کا استدارت* کو چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام بسائط گول شکل پر پیدا کئے گئے ہیں تا خدا کے ہاتھ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ناقص نہ ہوں۔ اِسی بنا پر

* استدارت کے لفظ سے میری مراد یہ ہے کہ جب ایک دائرہ پورے طورپر کامل ہو جاتا ہے تو جس نقطہ سے شروع ہوا تھا اسی نقطہ سے جا ملتا ہے اور جب تک اس نقطہ کو نہ ملے تب تک اُس کو دائرۂ کاملہ نہیں کہہ سکتے۔ پس آخری نقطہ کا پہلے نقطہ سے جا ملنا وہی امر ہے جس کو دوسرے لفظوں میں مشابہت تامّہ کہا کرتے ہیں۔ پسؔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یشوع بن نون سے مشابہت تھی یہاں تک کہ نام میں بھی تشابہ تھا ایسا ہی حضرت ابو بکر اور مسیح موعود کو بعض واقعات کے رُو سے بشدّت مشابہت ہے اور وہ یہ کہ ابو بکر کو خدا نے سخت فتنہ اور بغاوت اور مفتریوں اور مفسدوں کے عہد میں خلافت کے لئے مقرر کیا تھا ایسا ہی مسیح موعود اس وقت ظاہر ہوا کہ جبکہ تمام علامات صغریٰ کا طوفان ظہور میں آچکا تھا اور کچھ کبریٰ میں سے بھی۔ اور دوسری مشابہت یہ ہے کہ جیسا کہ خدا نے حضرت ابو بکر کے وقت میں خوف کے بعد امن پیدا کر دیا اور برخلاف دشمنوں کی خواہشوں کے دین کو جمادیا ایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں بھی ہوگا کہ اس طوفانِ تکذیب اور تکفیر اور تفسیق کے بعد یکدفعہ لوگوں کو محبت اور ارادت کی طرف میلان دیا جائے گا اور جب بہت سے نور نازل ہوں گے اور ان کی آنکھیں کھلیں گی تو وہ معلوم کریں گے کہ ہمارے اعتراض کچھ چیز نہ تھے اور ہم نے اپنے اعتراضوں میں بجز



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 190

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 190

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/190/mode/1up

190

ماننا پڑتا ہے کہ زمین کی شکل بھی گول ہے۔ کیونکہ دوسری تمام شکلیں کمالِ تام کے مخالف ہیں اور جو چیز خدا کے ہاتھ سے بلا واسطہ نکلیؔ ہے اس میں مناسب حال مخلوقیت کے کمال تام ضرور چاہئے تا اس کا نقص خالق کے نقص کی طرف عائدؔ نہ ہو۔ اور نیز اس لئے بسائط کا گول رکھنا خدا تعالیٰ نے پسند کیا کہ گول میں کوئی جہت نہیں ہوتی۔ اور یہ امرتوحید کے بہت مناسب حال ہے۔ غرض صنعت کا کمال مدوّر شکل سے ہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس میں انتہائی نقطہ اس قدر اپنے کمال کو دکھلاتا ہے کہ پھر اپنے مبدء کو جا ملتا ہے۔

اب ہم پھر اپنے اصل مدعا کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ ہمارے مذکورہ بالا بیان سے یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو حضرت سیدنا

اس کے اور کچھ نہ دکھلایا جو اپنے سطحی خیال اور موٹی عقل اور حسد اور تعصب کے زہر کو لوگوں پر ظاہر کر دیا۔ اور پھر اس کے بعد ابو بکر اور مسیح موعود میں یہ مشابہت ظاہر کر دی جائے گی کہ اس دین کو جس کی مخالف بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں زمین پر خوب جما دیا جائے گا اور ایسا مستحکم کیا جائے گا کہ پھر قیامت تک اس میں تزلزل نہیں ہوگا۔ اور پھر تیسری مشابہت یہ ہوگی کہ جو شرک کی ملونی مسلمانوں کے عقیدوں میں مل گئی تھی وہ بکلی اُن کے دلوں میں سے نکال دی جائے گی۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ شرک کا ایک بڑا حصہ جو مسلمانوں کے عقائد میں داخل ہو گیا تھا یہاں تک کہ دجال کو بھی خدا کی صفتیں دی گئی تھیں اور حضرت مسیح کو ایک حصہء مخلوق کا خالق سمجھا گیا تھایہ ہر ایک قسم کا شرک دُور کیا جائے گا جیسا کہ آیت 3 ۱؂ سے مستنبط ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس پیشگوئی سے جو مسیح موعود اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میں مشترک ہے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح شیعہ لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے ہیں اور اُن کے مرتبہ اور بزرگی سے منکر ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی تکفیر بھی کی جائے گی اور ان کے مخالف ان کے مرتبہ ولایت سے انکار کریں گے کیونکہ اس پیشگوئی کے اخیر میںیہ آیت ہے 3333 ۲؂۔ اور اس آیت کے معنے جیسا کہ روافض کی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 191

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 191

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/191/mode/1up

191

محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے پہلے خلیفہ تھے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے پہلے خلیفہ ہیں اشد مشابہت ہے تو پھر اس سے لازم آیا کہ جیسا کہ سلسلہ محمدیہ کی خلافت کا پہلا خلیفہ سلسلہ موسویہ کی خلافت کے پہلے خلیفہ سے مشابہت رکھتا ہے ایسا ہی سلسلہ محمدیہ کی خلافت کا آخری خلیفہ جو مسیح موعود سے موسوم ہے سلسلۂ موسویہ کے آخری خلیفہ سے جو حضرت عیسیٰ بن مریم ہے مشابہت رکھے تا دونوں سلسلوں کی مشابہت تامہ میں جو نص قرآنی سے ثابت ہوتی ہے کچھ نقص نہ رہے کیونکہ جب تک دونوں سلسلے یعنی سلسلہ موسویہ وسلسلہ محمدیہ اوّل سے آخر تک باہم مشابہت نہ دکھلائیں تب تک وہ مماثلت جو آیت

عملی حالت سے کھلے ہیں یہی ہیں کہ بعض گمراہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مقامِ بلندسے منکر ہو جائیں گے اور ان کی تکفیر کریں گے پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے جو خلافت کے پہلے نقطہ سے ملا ہوا ہے۔ یہ بات بہت ضروری اوریاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر ایک دائرہ کا عام قاعدہ یہی ہے کہ اُس کا آخری نقطہ پہلے نقطہ سے اتصال رکھتا ہے لہٰذا اس عام قاعدہ کے موافق خلافت محمدیہ کے دائرہ میں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے یعنی یہ لازمی امر ہے کہ آخری نقطہ اُس دائرہ کا جس سے مراد مسیح موعود ہے جو سلسلۂ خلافتِ محمدیہ کا خاتم ہے وہ اس دائرہ کے پہلے نقطہ سے جو خلافت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نقطہ ہے جو سلسلہ خلاؔ فت محمدیہ کے دائرہ کا پہلا نقطہ جو ابو بکر ہے وہ اِس دائرہ کے انتہائی نقطہ سے جو مسیح موعود ہے اتّصالِ تام رکھتا ہے جیسا کہ مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ آخر نقطہ ہر ایک دائرہ کا اس کے پہلے نقطہ سے جا ملتا ہے ۔اب جبکہ اوّل اور آخر کے دونوں نقطوں کا اتصال ماننا پڑا تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو قرآنی پیشگوئیاں خلافت کے پہلے نقطہ کے حق میں ہیں یعنی حضرت ابو بکر کے حق میں وہی خلافت کے آخری نقطہ کے حق میں بھی ہیں یعنی مسیح موعود کے حق میں اور یہی ثابت کرنا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 192

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 192

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/192/mode/1up

192


3 3میں3 کے لفظ سے مستنبط ہوتی ہے ثابت نہیں ہو سکتی۔ اور پھر چونکہ ہم ابھی حاشیہ میں اکمل اور اتم طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مسیح موعود سے مشابہت رکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت ابو بکر حضرت یوشع بن نون سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اور حضرت یوشع بن نون اس قاعدہ کے رو سے جو دائرہ کا اوّل نقطہ دائرہ کے آخر نقطہ سے اتحاد رکھتا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے حاشیہ میں لکھا ہے حضرت عیسیٰ بن مریم سے مشابہت رکھتے ہیں تو اس سلسلۂ مساوات سے لازم آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسلام کے مسیح موعود سے جو شریعت اسلامیہ کا آخری خلیفہ ہے مشابہت رکھتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ حضرت یشوع بن نون سے مشابہ ہیں اور حضرت یشوع بن نون حضرت ابو بکر سے مشابہ۔ اور پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت ابو بکر اسلام کے آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود سے مشابہ ہیں تو اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ اسلام کے آخری خلیفہ سے جو مسیح موعود ہے مشابہ ہیں۔ کیونکہ مشابہ کا مشابہ مشابہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر خط د خط ن سے مساوی ہے اور خط ن خط ل سے مساوی تو مانناپڑے گا کہ خط د خط ل سے مساوی ہے اور یہی مدعا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ مشابہت من وجہ مغائرت کو چاہتی ہے اِس لئے قبول کرنا پڑا کہ اسلام کا مسیح موعود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ اس کا غیر ہے ۔اور عوام جو باریک باتوں کو سمجھ نہیں سکتے اُن کے لئے اِسی قدر کافی ہے ؔ کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے دو رسول ظاہر کرکے اُن کو دو مستقل شریعتیں عطا فرمائی ہیں۔ ایک۱ شریعت موسویہ۔ دوسر۲ ی شریعت محمدیہ اور ان دونوں سلسلوں میں تیرہ تیرہ خلیفے مقرر کئے ہیں اور درمیانی بارا۱۲ ں خلیفے جو ان دونوں شریعتوں میں پائے جاتے ہیں وہ ہر دو نبی صاحب الشریعت کی قوم میں سے ہیں۔ یعنی موسوی خلیفے اسرائیلی ہیں اور محمدی خلیفے قریشی ہیں مگر آخری دو خلیفے ان دونوں سلسلوں کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 193

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 193

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/193/mode/1up

193

وہ ان ہر دو نبی صاحب الشریعت کی قوم میں سے نہیں ہیں۔ حضرت عیسٰی اس لئے کہ ان کا کوئی باپ نہیں اور اسلام کے مسیح موعود کی نسبت جو آخری خلیفہ ہے خود علماءِ اسلام مان چکے ہیں کہ وہ قریش میں سے نہیں ہے اور نیز قرآن شریف فرماتا ہے کہ یہ دونوں مسیح ایک دوسرے کا عین نہیں ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اسلام کے مسیح موعود کو موسوی مسیح موعود کا مثیل ٹھہراتا ہے نہ عین۔ پس محمدی مسیح موعود کو موسوی مسیح کا عین قرار دینا قرآن شریف کی تکذیب ہے۔ اور تفصیل اس استدلال کی یہ ہے کہ 3 کا لفظ جو آیت 33 میں ہے جس سے تمام محمدی سلسلہ کے خلیفوں کی موسوی سلسلہ کے خلیفوں کے ساتھ مشابہت ثابت ہوتی ہے ہمیشہ مماثلت کے لئے آتا ہے اور مماثلت ہمیشہ من وجہٍ مغایرت کو چاہتی ہے یہ ممکن نہیں کہ ایک چیز اپنے نفس کی مثیل کہلائے بلکہ مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ مغایرت ضروری ہے اور عین کسی وجہ سے اپنے نفس کا مغایر نہیں ہو سکتا۔ پس جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ کے مثیل ہو کر اُن کے عین نہیں ہو سکتے ایسا ہی تمام محمدی خلیفے جن میں سے آخری خلیفہ مسیح موعود ہے وہ موسوی خلیفوں کے جن میں سے آخری خلیفہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں کسی طرح عین نہیں ہو سکتے اس سے قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے کیونکہ3 کا لفظ جیسا کہ حضرت موسیٰ اور آنحضرت کی مشابہت کے لئے قرآن نے استعمال کیا ہے وہی 3 کا لفظ آیت 3 میں وارد ہے جو اسی قسم کی مغائرت چاہتا ہے جو حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔ یاد رہے کہ اسلام کا بارھواں خلیفہ جو تیرھویں صدی کے سر پر ہونا چاہئے وہ یحییٰ نبی کے مقابل پر ہے جس کا ایک پلید قوم کے لئے سرکاٹا گیا (سمجھنے والا سمجھ لے) اس لئے ضروری ہے کہ بارھواں خلیفہ قریشی ہو جیسا کہ حضرت یحییٰ اسرائیلی ہیں۔ لیکن اسلام کا تیرھواں خلیفہ جو چودھویں صدی کے سرپر ہونا چاہئے جس کا نام مسیح موعود ہے اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ قریش میں سے نہ ہو جیسا کہ حضرت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 194

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 194

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/194/mode/1up

194

عیسیٰ اسرائیلی نہیں ہیں۔ سید احمد صاحب بریلوی سلسلہ خلافتِ محمدیہ کے بارھویں خلیفہ ہیں جو حضرت یحییٰ کے مثیل ہیں اور سید ہیں۔

(۲) اور منجملہ ان دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے وہ دو نشان ہیں جو دنیا کو کبھی نہیں بھولیں گے یعنی ایک وہ نشان جو آسمان میں ظاہر ہوا اور دوسرا وہ نشان جو زمین نے ظاہر کیا۔ آسمان کا نشان خسوف کسوف ہے جو ٹھیک ٹھیک مطابق آیت کریمہ 3 ۱؂ ا ور نیز دارقطنی کی حدیث کے موافق رمضان میں واقع ہوا۔* اور زمین کا نشان وہ ہے جس ؔ کی طرف یہ آیت کریمہ قرآن شریف کی یعنی 3۲؂ اشارہ کرتی ہے جس کی تصدیق میں مسلم میں یہ حدیث موجود ہے ویترک القلاص فلا یسعٰی علیھا۔ خسوف کسوف کا نشان تو کئی سال ہوئے جو دو مرتبہ ظہور میں آگیا۔ اور اونٹوں کے چھوڑے جانے

* شو کانی اپنی کتاب توضیح میں لکھتا ہے کہ آثار واردہ جو مسیح اور مہدی کے بارے میں ہیں وہ رفع کے حکم میں ہیں کیونکہ پیشگوئیوں میں اجتہاد کو راہ نہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ بہت سی پیشگوئیاں مہدی اور مسیح کے بارے میں ایسی ہیں جو باہم تناقض رکھتی ہیں یا قرآن شریف کے مخالف ہیں یا سنت اللہ کی ضد ہیں اس صورؔ ت میں اگر ان کا رفع بھی ہوتا تا ہم بعض اُن میں سے ہر گز قبول کے لائق نہ تھیں۔ ہاں حسب اقرار شوکانی صاحب کسوف خسوف کی پیشگوئی بلا شبہ رفع کے حکم میں ہے بلکہ یہ پیشگوئی مرفوع متصل حدیث سے بھی صدہا درجہ قوی تر ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے وقوع سے اپنی سچائی آپ ظاہر کر دی اور قرآن شریف نے اس کے مضمون کی تصدیق کی اور نیز قرآن شریف نے اس کے مقابل کی ایک اور پیشگوئی بیان فرمائی یعنی اونٹوں کے بیکار ہونے کی پیشگوئی۔ اِس زمینی نشان کا ذکر آسمانی نشان یعنی کسوف خسوف کا مصدق ہے۔ کیونکہ یہ دونوں نشان ایک دوسرے کے مقابل پڑے ہیں اور ایسا ہی توریت کے بعض صحیفوں میں اس کی تصدیق موجود ہے اور یہ مرتبہ ثبوت کا کسی دوسری حدیث مرفوع متصل کو جس کے ساتھ یہ لوازم نہ ہوں حاصل نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 195

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 195

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/195/mode/1up

195

اور نئی سواری کا استعمال اگرچہ بلاداسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل طیار ہونے سے پوری ہو جائے گی کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہو کر مدینہ میںآئے گی وہی مکّہ معظمہ میںآئے گی اور اُمید ہے کہ بہت جلد اور صرف چند سال تک یہ کام تمام ہو جائے گا۔ تب وہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے یکدفعہ بے کار ہو جائیں گے اور ایک انقلاب عظیم عرب اور بلا د شام کے سفروں میں آجائے گا۔ چنانچہ یہ کام بڑی سرعت سے ہو رہا ہے اور تعجب نہیں کہ تین سال کے اندر اندر یہ ٹکڑا مکّہ اور مدینہ کی راہ کا طیار ہو جائے اور حاجی لوگ بجائے بدوؤں کے پتھر کھانے کے طرح طرح کے میوے کھاتے ہوئے مدینہ منورہ میں پہنچا کریں۔ بلکہ غالباً معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تھوڑی ہی مدّت میں اونٹ کی سواری تمام دنیا میں سے اُٹھ جائے گی۔ اور یہ پیشگوئی ایک چمکتی ہوئی بجلی کی طرح تمام دنیا کو اپنا نظّارہ دکھائے گی اور تمام دنیا اس کو بچشم خود دیکھے گی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مکّہ اور مدینہ کی ریل کا طیار ہو جانا گویا تمام اسلامی دنیا میں ریل کا پھر جاناہے۔* کیونکہ اسلام کا مرکز مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہے۔

چونکہ ریل کا وجود اور اونٹوں کا بیکار ہونا مسیح موعود کے زمانہ کی نشانی ہے اور مسیح کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ بہت سیاحت کرنے والاتو گویا خدا نے مسیح کیلئے اور اس کے نام کے معنے متحقق کرنے کیلئے اور نیز اس کی جماعت کیلئے جو اُسی کے حکم میں ہیں ریل کو ایک سیاحت کا وسیلہ پیدا کیا ہے تا وہ سیاحتیں جو پہلے مسیح نے ایک سو بیس برس تک بصد محنت پوری کی تھیں اس مسیح کے لئے صرف چند ماہ میں وہ تمام سیرو سیاحت میسّر آجائے اوریہ یقینی امر ہے کہ جیسے اس زمانہ کا ایک مامور من اللہ ریل کی سواری کے ذریعہ سے خوشی اور آرام سے ایک بڑے حصّہ دنیا کا چکّر لگا کر اور سیاحت کرکے اپنے وطن میں آسکتا ہے یہ سامان پہلے نبیوں کے لئے میسّر نہیں تھا اس لئے مسیح کا مفہوم جیسے اس زمانہ میں جلد پورا ہو سکتا ہے کسی دوسرے زمانہ میں اس کی نظیر نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 196

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 196

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/196/mode/1up

196


اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اپنی کیفیت کی رُو سے خسوف کسوف کی پیشگوئی اور اونٹوں کے متروک ہونے کی پیشگوئی ایک ہی درجہ پر معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ خسوف کسوف کا نظارہ کروڑہا انسانوں کو اپنا گواہ بنا گیا ہے ایسا ہی اونٹوں کے متروک ہونے کا نظّارہ بھی ہے بلکہ یہ نظارہ کسوف خسوف سے بڑھ کر ہے کیونکہ خسوف کسوف صرف دو مرتبہ ہو کر اور صرف چند گھنٹہؔ تک رہ کر دُنیا سے گذر گیا۔ مگر اس نئی سواری کا نظارہ جس کا نام ریل ہے ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ پہلے اونٹ ہوا کرتے تھے۔ ذرا س وقت کو سوچو کہ جب مکّہ معظمہ سے کئی لاکھ آدمی ریل کی سواری میں ایک ہیئت مجموعی میں مدینہ کی طرف جائے گا یا مدینہ سے مکّہ کی طرف آئے گا تو اس نئی طرز کے قافلہ میں عین اس حالت میں جس وقت کوئی اہل عرب یہ آیت پڑھے گا کہ 3 ۱؂ یعنی یاد کروہ زمانہ جب کہ اونٹنیاں بیکار کی جائیں گی اور ایک حمل دار اونٹنی کا بھی قدر نہ رہے گا جو اہل عرب کے نزدیک بڑی قیمتی تھی اور یا جب کوئی حاجی ریل پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف جاتا ہوا یہ حدیث پڑھے گا کہ ویترک القلاص فلا یُسعٰی علیھا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور اُن پر کوئی سوار نہیں ہوگا تو سُننے والے اس پیشگوئی کو سُن کر کِس قدر وجد میں آئیں گے اور کس قدر ان کا ایمان قوی ہوگا۔ جس شخص کو عرب کی پُرانی تاریخ سے کچھ واقفیت ہے وہ خوب جانتا ہے کہ اونٹ اہل عرب کا بہت پُرانا رفیق ہے اور عربی زبان میں ہزار کے قریب اونٹ کا نام ہے اور اونٹ سے اس قدر قدیم تعلقات اہل عرب کے پائے جاتے ہیں کہ میرے خیال میں بیس ہزار کے قریب عربی زبان میں ایسا شعر ہوگا جس میں اونٹ کا ذکر ہے اور خدا تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ کسی پیشگوئی میں اونٹوں کے ایسے انقلابِ عظیم کا ذکر کرنا اس سے بڑھ کر اہل عرب کے دلوں پر اثر ڈالنے کے لئے اور پیشگوئی کی عظمت اُن کی طبیعتوں میں بٹھانے کے لئے اور کوئی راہ نہیں۔ اِسی وجہ سے یہ عظیم الشان پیشگوئی قرآن شریف میں ذکر کی گئی ہے جس سے ہر ایک مومن کو خوشی سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 197

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 197

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/197/mode/1up

197

اُچھلنا چاہئے کہ خدا نے قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت جو مسیح موعود اور یا جوج ماجوج اور دجّال کا زمانہ ہے یہ خبر دی ہے کہ اُس زمانہ میں یہ رفیق قدیم عرب کا یعنی اونٹ جس پر وہ مکّہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے اور بلادِ شام کی طرف تجارت کرتے تھے ہمیشہ کے لئے اُن سے الگ ہو جائے گا۔ سبحان اللہ! کس قدر روشن پیشگوئی ہے یہاں تک کہ دل چاہتا ہے کہ خوشی سے نعرے ماریں کیونکہ ہماری پیاری کتاب اللہ قرآن شریف کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ ایک ایسا نشان دنیا میں ظاہر ہو گیا ہے کہ نہ توریت میں ایسی بزرگ اور کھلی کھلی پیشگوئی پائی جاتی ہے اور نہ انجیل میں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب میں۔ ہندؤوں کے ایک پنڈت دیانند نام نے ناحق فضولی کے طور پر کہا تھا کہ وید میں ریل کا ذکر ہے۔ یعنی پہلے زمانہ میں آریہ ورت (ملک ہند) میں ریل جاری تھی مگر جب ثبوت مانگا گیا تو بجز بیہودہ باتوں کے اور کچھ جواب نہ تھا۔ اور دیانند کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وید میں پیشگوئی کے طور پر ریل کا ذکر ہے کیونکہ دیانند اس بات کا معترف ہے کہ وید میں کوئی پیشگوئی نہیں بلکہ اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ ہندؤوں کے عہد سلطنت میں بھی یورپ کے فلاسفروں کی طرح ایسے کاریگر موجود تھے اور اُس زمانہ میں بھی ریل موجود تھی یعنی ہمارے بزرگ بھی انگریزوں کی طرح کئی صنعتیں ایجاد کرتے تھے لیکن قرآن شریف یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی زمانہ میں ملک عرب میں ریل موجود تھی بلکہ آخری زمانہ کے لئے ایک عظیم الشان پیشگوئی کرتا ہے کہ اُن دنوں میں ایک بڑا انقلاب ظہور میں آئے گا اور اونٹوں کی سواری بیکار ہو جائے گی اور ایک نئی سواری دنیا میں پیدا ہو جائیگی جو اونٹوں سے مستغنی کر دے گی۔ یہ پیشگوئی جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث مسلم میں بھیؔ موجود ہے جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامت بیان کی گئی ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی کو قرآن شریف کی اِس آیت سے ہی استنباط کیا یعنی3 ۱؂ سے۔ یاد رہے کہ قرآن شریف میں دو قسم کی پیشگوئیاں ہیں ایک قیامت کی اور ایک زمانۂ آخری کی۔ مثلاً جیسے یاجوج ماجوج



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 198

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 198

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/198/mode/1up

198

کا پیدا ہونا اور اُن کا تمام ریاستوں پر فائق ہونا۔ یہ پیشگوئی آخری زمانہ کے متعلق ہے۔ اور حدیث مسلم نے پیشگوئی یترک القلاص میں صاف تشریح کر دی ہے اور کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مسیح کے وقت میں اونٹ کی سواری ترک کر دی جائے گی۔

(۳) تیسری دلیل جو دلائل گذشتہ مذکورہ کی طرح وہ بھی قرآن شریف سے ہی مستنبط ہے سورۂ فاتحہ کی اس آیت کی بنا پر ہے کہ3333 ۱؂۔ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں وہ سیدھی راہ عنایت کر جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور بچا ہم کو ان لوگوں کی راہ سے جن پر تیرا غضب ہے اور جو راہ کو بھول گئے ہیں۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ اسلام کے تمام اکابر اورائمہ کے اتفاق سے مغضوب علیھم سے مراد یہودی لوگ ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ ہیں اور قرآن شریف کی آیت یا عیسٰی انّی متوفّیک الخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کے مغضوب علیھم ہونے کی بڑی وجہ جس کی سزا ان کو قیامت تک دی گئی اور دائمی ذلّت اور محکومیت میں گرفتار کئے گئے یہی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ کے نشان بھی دیکھ کر پھر بھی پورے عناد اور شرارت اور جوش سے اُن کی تکفیر اور توہین اور تفسیق اور تکذیب کی اور اُن پر اور اُن کی والدہ صدیقہ پر جھوٹے الزام لگائے جیسا کہ آیت 33۲؂ سے صریح سمجھا جاتا ہے کیونکہ ہمیشہ کی محکومیت جیسی اور کوئی ذلّت نہیں۔ اور دائمی ذلّت کے ساتھ دائمی عذاب لازم پڑا ہوا ہے۔ اور اِسی آیت کی تائید ایک دوسری آیت کرتی ہے جو جزونمبر۹ سورہ اعراف میں ہے اور وہ یہ ہے 333۳؂۔ یعنی خدا نے یہود کے لئے ہمیشہ کے لئے یہ وعدہ کیا ہے کہ ایسے بادشاہ اُن پر مقرر کرتا رہے گا جو انواع واقسام کے عذاب ان کو دیتے رہیں گے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑی وجہ یہود کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 199

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 199

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/199/mode/1up

199

مغضوب علیھم ہونے کی یہی ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سخت ایذادی اُن کی تکفیر کی اُن کی تفسیق کی اُن کی توہین کی۔ اُن کو مصلوب قرار دیا تا وہ نعوذ باللہ *** قرار دیئے جائیں۔ اور ان کو اس حد تک دُکھ دیا کہ حسب منطوق آیت 33۱؂ ۔ * اُن کی ماں پر بھی سخت بہتان لگایا۔ غرض جس قدر ایذا کی قسمیں ہو سکتی ہیں کہ تکذیب کرنا۔ گالیاں دینا اور افترا کے طور پر کئی تہمتیں لگانا اور کفر کا فتویٰ دینا اور ان کی جماعت کو متفرق کرنے کے لئے کوشش کرنا اور حکام کے حضور میں ان کی نسبت جھوٹی مخبریاں کرنا اور کوئی دقیقہ توہین کا نہ چھوڑنا اور بالآخر قتل کیلئے آمادہ ہونا یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہود بد قسمت سے ظہور میں آیا۔ اور آیت 33۲؂ کو غور سے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آیت 333 ۳؂ کی سزا بھی حضرت مسیح کی ایذا کی وجہ سے ہی یہود کو دی گئی ہے۔ کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں یہود کے لئے یہ دائمی وعید ہے کہ وہ ہمیشہ محکومیت میں جو ہر ایک عذاب اور ذلّت کیؔ جڑ ہے زندگی بسر کریں گے جیسا کہ اب بھی یہود کی ذلّت کے حالات کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب تک خدا تعالیٰ کا وہ غصّہ نہیں اُترا جو اُس وقت

جیسا کہ شریر مخالفوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں پر بہتان لگایا اسی طرح میری بیوی کی نسبت شیخ محمد حسین اور اس کے دلی دوست جعفر زٹلی نے محض شرارت سے گندی خوابیں بنا کر سراسر بے حیائی کی راہ سے شائع کیں۔ اور میری دشمنی سے اس جگہ وہ لحاظ اور ادب بھی نہ رہا جو اہل بیت آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک دامن خواتین سے رکھنا چاہئے۔ مولوی کہلانا اور یہ بے حیائی کی حرکات افسوس ہزار افسوس! یہی وہ بے جا حرکت تھی جس پر مسٹر جے.ایم. ڈوئی صاحب بہادر آئی.سی .ایس سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور نے مولوی محمد حسین کو چشم نمائی کی تھی۔ اور آئندہ ایسی حرکات سے روکا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 200

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 200

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/200/mode/1up

200

بھڑکا تھا جبکہ اُس وجیہ نبی کو گرفتار کرا کر مصلوب کرنے کے لئے کھوپری کے مقام پر لے گئے تھے۔ اور جہاں تک بس چلا تھا ہر ایک قسم کی ذلّت پہنچائی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ وہ مصلوب ہو کر توریت کی نصوص صریحہ کے رُو سے ملعون سمجھا جائے اور اُس کا نام اُن میں لکھا جائے جو مرنے کے بعد تحت الثریٰ کی طرف جاتے ہیں اور خدا کی طرف اُن کا رفع نہیں ہوتا۔ غرض جبکہ یہ مقدمہ قرآن شریف کے نصوص صریحہ سے ثابت ہو گیا کہ مغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مُراد نصاریٰ۔ اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ مغضوب علیھم کا پُرغضب خطاب جو یہودیوں کو دیا گیا یہ اُن یہودیوں کو خطاب ملا تھا جنہوں نے شرارت اور بے ایمانی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور اُن پر کفر کا فتویٰ لکھا اور ہر ایک طرح سے اُن کی توہین کی اور اُن کو اپنے خیال میں قتل کر دیا اور اُن کے رفع سے انکار کیا بلکہ ان کا نام *** رکھا تو اب اس جگہ طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کیوں مسلمانوں کو یہ دُعا سکھلائی؟ بلکہ قرآن شریف کا افتتاح بھی اِسی دُعا سے کیا اور اس دعا کو مسلمانوں کے لئے ایک ایسا ورد لازمی اورو ظیفۂ دائمی کر دیاکہ پانچ وقت قریباً نوّے* کروڑ مسلمان مختلف دیار اور بلاد میںیہی دُعا اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں اور باوجود بہت سے اختلافات کے جو اُن میں اور اُن کے نما زکے طریق میں پائے جاتے ہیں کوئی فرقہ مسلمانوں کا ایسا نہیں ہے کہ جو اپنی نماز میں یہ دُعا نہ پڑھتا ہو۔ اس سوال کا جواب خود قرآن شریف نے اپنے دوسرے مقامات میں دے دیا ہے مثلاً جیسا کہ آیت33

* تحقیقات کے رو سے یہی صحیح تعداد مسلمانوں کی ہے یعنی نوے کروڑ مسلمانوں کی مردم شماری صحت کو پہنچی ہے۔ انگریزوں کے مؤرخ عرب کے مختلف حصوں کی مردم شماری اور ایسا ہی بلاد شام اور بلاد روم کی مردم شماری کی تعداد صحت سے دریافت نہیں کر سکے اور افریقہ اور چین کی اسلامی آبادیاں شائد نظر انداز ہی رہیں لہٰذا جو کچھ عیسائی مردم شماری میں اہل اسلام کی میزان دکھائی گئی ہے یہ صحیح نہیں ہے ہر گز صحیح نہیں ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 201

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/201/mode/1up

201

۱؂ سے صریح اور صاف طور پر سمجھا جاتا ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے یعنی جبکہ مماثلت کی ضرورت کی وجہ سے واجب تھا کہ اس اُمت کے خلیفوں کا سلسلہ ایک ایسے خلیفہ پر ختم ہو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہو تو منجملہ وجوہ مماثلت کے ایک یہ وجہ بھی ضروری الوقوع تھی کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے فقیہ اور مولوی اُن کے دشمن ہو گئے تھے اور اُن پر کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور ان کو سخت سخت گالیاں دیتے اور اُن کی اور اُن کی پردہ نشین عورتوں کی توہین کرتے اور اُن کے ذاتی نقص نکالتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ اُن کو *** ثابت کریں ایسا ہی اسلام کے مسیح موعود پر اس زمانہ کے مولوی کفر کا فتویٰ لکھیں اور اس کی توہین کریں اور اس کو بے ایمان اور *** قرار دیں اور گالیاں دیں اور اس کے پرائیویٹ امور میں دخل دیں اور طرح طرح کے اس پر افترا کریں اور قتل کا فتویٰ دیں پس چونکہ یہ امت مرحومہ ہے اور خدا نہیں چاہتا کہ ہلاک ہوں۔ اِس لئے اُس نے یہ دُعا 3 کی سکھلا دی اور اس کو قرآن میں نازل کیا اور قرآن اسی سے شروع ہوا اور یہ دُعا مسلمانوں کی نمازوں میں داخل کر دی تا وہ کسی وقت سوچیں اور سمجھیں کہ کیوں ان کو یہود کی اس سیرت سے ڈرایا گیا جس سیرت کو یہود نے نہایت بُرے طور سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ظاہر کیا تھا۔یہ بات صاف طور پر سمجھ آتی ہے کہ اس دُعا میں جو سورۃ فاتحہ میں مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے فرقہ 3سے مسلمانوں کا بظاہر کچھ بھی تعلق نہ تھا کیونکہ جبکہ قرآؔ ن شریف اور احادیث اور اتفاق علماءِ اسلام سے ثابت ہو گیا ہے کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور یہود بھی وہ جنہوں نے حضرت مسیح کو بہت ستایااور دُکھ دیا تھا اور ان کا نام کافر اور *** رکھا تھا اور اُن کے قتل کرنے میں کچھ فرق نہیں کیا تھا اور توہین کو اُن کی مستورات تک پہنچا دیا تھا تو پھر مسلمانوں کو اِس دُعا سے کیا تعلق تھا اور کیوں یہ دُعا ان کو سکھلائی گئی۔ اب معلوم ہواکہ یہ تعلق تھا کہ اس جگہ بھی پہلے مسیح کی مانند ایک مسیح آنے والا تھا اور مقدر تھا کہ اُس کی بھی ویسی ہی توہین اور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 202

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/202/mode/1up

202

تکفیر ہولہٰذا یہ دُعا سکھلائی گئی جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ہمیں اس گناہ سے محفوظ رکھ کہ ہم تیرے مسیح موعود کو دُکھ دیں اور اُس پرکفر کا فتویٰ لکھیں اور اس کو سزا دلانے کیلئے عدالتوں کی طرف کھینچیں اور اس کی پاکدامن اہل بیت کی توہین کریں اور اُس پر طرح طرح کے بہتان لگائیں اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیں۔ غرض صاف ظاہر ہے کہ یہ دُعا اِسی لئے سکھلائی گئی کہ تا قوم کو اس یادداشت کے پرچہ کی طرح جس کو ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے ہیں یا اپنی نشست گاہ کی دیوار پر لگاتے ہیں اس طرف توجہ دی جائے کہ تم میں بھی ایک مسیح موعود آنے والا ہے اور تم میں بھی وہ مادہ موجود ہے جو یہودیوں میں تھا۔ غرض اس آیت پر ایک محققانہ نظر کے ساتھ غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کے رنگ میں فرمائی گئی چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھاکہ حسب وعدہ 3 ۱؂ آخری خلیفہ اس امت کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رنگ میں آئے گا۔* اورضرور ہے کہ

* ہم اپنی کتابوں میں بہت جگہ بیان کر چکے ہیں کہ یہ عاجز جو حضرت عیسیٰ بن مریم کے رنگ میں بھیجا گیا ہے بہت سے اُمور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت رکھتا ہے یہاں تک کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش میں ایک ندرت تھی اس عاجز کی پیدائش میں بھی ایک ندرت ہے اور وہ یہ کہ میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی اور یہ امر انسانی پیدائش میں نادرات سے ہے کیونکہ اکثر ایک ہی بچہ پیدا ہواکرتا ہے۔ اور ندرت کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ حضرت مسیح کا بغیر باپ پیدا ہونا بھی امور نادرہ میں سے ہے۔ خلاف قانون قدرت نہیں ہے کیونکہ یونانی ،مصری، ہندی، طبیبوں نے اس امر کی بہت سی نظیریں لکھی ہیں کہ کبھی بغیر باپ کے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ بحکم قادرِ مطلق اُن میں دونوں قوتیں عاقدہ اور منعقدہ پائی جاتی ہیں اسلئے دونوں خاصیتیں ذَکر اور اُنثیٰ کی اُن کے تخم میں موجود ہوتی ہیں۔ یونانیوں نے بھی ایسی پیدائشوں کی نظیریں دی ہیں اور ہندؤوں نے بھی نظیریں دی ہیں اور ابھی حال میں مصر میں جو طبی کتابیں تالیف ہوئی ہیں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 203

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/203/mode/1up

203

وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح قوم کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھائے اورؔ اس پر کفر کا فتویٰ لکھا جاوے اور اس کے قتل کے ارادے کئے جائیں اس لئے ترحم کے طور پر تمام مسلمانوں کو

ان میں بھی بڑی تحقیق کے ساتھ نظیروں کو پیش کیا ہے۔ ہندؤوں کی کتابوں کے لفظ چندر بنسی اور سورج بنسی درحقیقت انہی امور کی طرف اشارات ہیں۔ پس اس قسم کی پیدائش صرف اپنے اندر ایک ندرت رکھتی ہے۔ جیسے توام میں ایک ندرت ہے اس سے زیادہ نہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بغیر باپ پیدا ہونا ایک ایسا امر فوق العادت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خصوصیت رکھتا ہے۔ اگر یہ امر فوق العادت ہوتا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہی مخصوص ہوتا تو خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اس کی نظیر جو اس سے بڑھ کر تھی کیوں پیش کرتا اور کیوں فرماتا 3333 ۱؂ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسی ہے جیسے آدم کی مثال کہ خدا نے اس کو مٹی سے جو تمام انسانوں کی ماں ہے پیدا کیا اورپھر اس کو کہا کہ ہو جا تو وہ ہو گیا۔ یعنی جیتا جاگتا ہو گیاؔ ۔ اب ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بے نظیر نہیں کہلا سکتا۔ اور جس شخص کے کسی عارضۂ ذاتی کی کوئی نظیر مل جائے تو پھر وہ شخص نہیں کہہ سکتا کہ یہ صفت مجھ سے مخصوص ہے۔ اسی مضمون کے لکھنے کے وقت خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ یَلَاشْ خدا کا ہی نام ہے۔ یہ ایک نیا الہامی لفظ ہے کہ اب تک میں نے اسکو اس صورت پر قرآن اور حدیث میں نہیں پایا اور نہ کسی لغت کی کتاب میں دیکھا۔ اس کے معنے میرے پر یہ کھولے گئے کہ یا لا شریک۔ اس نام کے الہام سے یہ غرض ہے کہ کوئی انسان کسی ایسی قابل تعریف صفت یا اسم یا کسی فعل سے مخصوص نہیں ہے جو وہ صفت یا اسم یا فعل کسی دوسرے میں نہیں پایا جاتا۔ یہی سرّ ہے جس کی وجہ سے ہر ایک نبی کی صفات اور معجزات اظلال کے رنگ میں اس کی اُمت کے خاص لوگوں میں ظاہر ہوتی ہیں جو اس کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 204

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/204/mode/1up

204

یہ دُعا سکھلائی کہ تم خدا سے پناہ چاہو کہ تم اُن یہودیوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسوی سلسلہ کے مسیح موعود کو کافر ٹھہرایا تھا اور اس کی توہین کرتے تھے اور اُن کو گالیاں دیتے تھے اور اس دُعا میں صاف اشارہ ہے کہ تم پر بھی یہ وؔ قت آنے والا ہے

جوہر سے مناسبت تامہ رکھتے ہیں تا کسی خصوصیت کے دھوکا میں جہلاء اُمت کے کسی نبی کو لاشریک نہ ٹھہرائیں یہ سخت کفر ہے جو کسی نبی کو یلاش کا نام دیاجائے۔ کسی نبی کا کوئی معجزہ یا اور کوئی خارق عادت امر ایسا نہیں ہے جس میں ہزار ہا اور لوگ شریک نہ ہوں۔ خدا کو سب سے زیادہ اپنی توحید پیاری ہے۔ توحید کے لئے تو یہ سلسلہ انبیاء علیہم السلام کا خدائے عزّو جلّ نے زمین پر قائم کیا۔ پس اگر خدا کا یہ منشاء تھا کہ بعض صفات ربوبیت سے بعض انسانوں کو مخصوص کیا جائے تو پھر کیوں اس نے کلمہ طیبہ لَآ الہَ الا اللّٰہ کی تعلیم کی جس کے لئے عرب کے میدانوں میں ہزارہا مخلوق پرستوں کے خون بہائے گئے۔ پس اے دوستو! اگر تم چاہتے ہو کہ ایمان کو شیطان کے ہاتھ سے بچا کر آخری سفر کرو تو کسی انسان کو فوق العادت خصوصیت سے مخصوص مت کرو کہ یہی وہ گندہ چشمہ ہے جس سے شرک کی نجاستیں جوش مارکر نکلتی ہیں اورانسانوں کو ہلاک کرتی ہیں۔ پس تم اس سے اپنے آپ کو اور اپنی ذریت کو بچاؤ کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔ اے عقلمندو ذرا سوچو کہ اگر مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام انیس سو برس سے دوسرے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور باوجود یکہ فوت شدہ روحوں کو جا ملے اور حضرت یحییٰ کے زانو بزانو ہم نشین ہو گئے پھر بھی اسی جہان میں ہیں اور کسی آخری زمانہ میں جو گویا اس امت کی ہلاکت کے بعد آئیگا آسمان پر سے اُتریں گے تو شرک سے بچنے کے لئے ایسی فوق العادت صفت کی کوئی نظیر تو پیش کرو یعنی کسی ایسے انسان کا نام لو جو قریباً دو ہزار برس سے آسمان پر چڑھا بیٹھا ہے اور نہ کھاتا نہ پیتا نہ سوتا اورنہ کوئی اور جسمانی خاصہ ظاہر کرتا اور پھر مجسم ہے اور رُوحوں کے ساتھ بھی ایسا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 205

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/205/mode/1up

205

اور تم میں سے بھی بہتوں میں یہ مادہ موجود ہے۔ پس خبر دار رہو اور دُعا میں مشغول رہو ؔ تا ٹھوکر نہ کھاؤ۔ اور اس آیت کا دوسرا فقرہ جو الضالین ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں اے ہمارؔ ے پروردگار اس بات سے بھی بچا کہ ہم عیسائی بن جائیں یہ اس بات کی طرف اشارہ

ملا ہوا ہے کہ گویا اُن رُوحوں میں ایک رُوح ہے اور پھر دنیوی زندگی میں بھی کچھ فتور نہیں۔ اِس جہان میں بھی ہے اور اُس جہان میں بھی گویا دونوں طرف اپنے دو پیر پھیلا رکھے ہیں* ایک پیر دنیا میں اور دوسرا پیر فوت شدہ رُوحوں میں۔ اور دنیوی زندگی بھی عجیب کہ باوجود اس قدر امتداد مدت کے کھانے پینے کی محتاج نہیں اور نیند سے بھی فارغ ہے اور پھر آخری زمانہ میں بڑے کرو فر اور جلالی فرشتوں کے ساتھ آسمان پرؔ سے اُترے گا۔ اور گو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کی رات میں نہ چڑھنا دیکھا گیا اور نہ اترنا مگر حضرت مسیح کا اُترنا دیکھا جائے گا۔ تمام مولویوں کے روبرو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اُترے گا۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ مسیح نے وہ کام دکھلائے جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم باوجود اصرار مخالفوں کے دکھلانہ سکے۔ بار بار قرآنی اعجاز کا ہی حوالہ دیا۔ بقول تمہارے مسیح سچ مچ مُردوں کو زندہ کرتا رہا۔ شہر کے لاکھوں انسان ہزاروں برسوں کے مرے ہوئے زندہ کر ڈالے۔ ایک دفعہ شہر کا شہر زندہ کر دیا مگر

ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حضرت مسیح کو اِتنی بڑی خصوصیت آسمان پر زندہ چڑھنے اور اتنی مدت تک زندہ رہنے اور پھر دوبارہ اُترنے کی جو دی گئی ہے اس کے ہریک پہلو سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کا ایک بڑا تعلق جس کا کچھ حدو حساب نہیں حضرت مسیح سے ہی ثابت ہوتا ہے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سو۱۰۰ برس تک بھی عمر نہ پہنچی مگر حضرت مسیح اب قریباً دو ہزار برس سے زندہ موجود ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی مگر حضرت مسیح کو آسمان پر جو بہشت کی جگہ اور فرشتوں کی ہمسائیگی کا مکان ہے بلا لیا۔ اب بتلاؤ محبت کس سے زیادہ کی؟ عزت کس کی زیادہ کی؟ قرب کا مکان کس کو دیا اور پھر دوبارہ آنے کا شرف کس کو بخشا؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 206

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/206/mode/1up

206

ہے کہ اُس زمانہ میں جب کہ مسیح موعود ظاہر ہوگا عیسائیوں کا بہت زور ہوگا اور عیسائیت

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک مکھی بھی زندہ نہ کی۔ اور پھرمسیح نے بقول تمہارے ہزارہا پرندے بھی پیدا کئے اور اب تک کچھ خدا کی مخلوقات اور کچھ اس کی مخلوقات دنیا میں موجود ہے اور ان تمام فوق العادت کاموں میں وہ وحدہٗ لا شریک ہے بلکہ بعض امور میں خدا سے بڑھا ہوا ہے* اور اس کی پیدائش کے وقت میں شیطان نے بھی اُس کو مس نہیں کیا مگر دوسرے تمام پیغمبروں کو مس کیا۔ وہ قیامت کو بھی اپنا کوئی گناہ نہیں بتلائے گا مگر دوسرے تمام نبی گناہوں میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں کہہ سکیں گے کہ میں معصوم ہوں۔ اب بتلاؤ کہ اس قدر خصوصیتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں جمع کرکے کیا اِن مولویوں نے حضرت عیسیٰ کو خدائی کے مرتبہ تک نہیں پہنچا یا۔ اور کیا کسی حد تک پادریوں کے دوش بدوش نہیں چلے؟ اور کیا اِن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کو وحدہٗ لا شریک کا مرتبہ دینے میں کچھ فرق کیا ہے؟ مگر مجھے خدا نے اس تجدید کے لئے بھیجا ہے کہ میں لوگوں پر ظاہر کروں کہ ایسا خیال کرنا


خدا سے بڑھا ہوا اس طرح پر کہ خدا تونو مہینے میں انسان کا بچہ پیدا کرتا ہے اور ہر ایک حیوان کی پیدائش کچھ نہ کچھ مہلت چاہتی ہے مگر مسیح کی یہ عجیب خالقیت کئی درجہ خدا کی خالقیت سے بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسیح کا یہ کام تھا کہ فی الفور ایک مٹی کا جانور بنایا اور پھونک مارتے ہی وہ زندہ ہو کر اُڑنے لگا اور خدا کے پرندوں میں جا ملا۔ میں نے ایک دفعہ ایک غیر مقلّدسے جو اہل حدیث کہلاتے ہیں پوچھا کہ جبکہ بقول تمہارے حضرت مسیح نے ہزارہا پرندے بنائے تو کیا تم ان دو قسم کے پرندوں میں کچھ فرق کر سکتے ہو کہ مسیح کے کونسے ہیں اور خدا کے کونسے۔ اُس نے جواب دیا کہ آپس میں مل گئے۔ اب کیونکر فرق ہو سکتا ہے۔ اس اعتقاد سے نعوذ باللہ خدا تعالیٰ بھی دھوکہ باز ٹھہرتا ہے کہ اپنے بندوں کو تو حکم دیا کہ میرا کوئی شریک نہ بناؤ اور پھر آپ حضرت مسیح کو ایسا بڑا شریک اور حصّہ دار بنا دیا کہ کچھ تو خدا کی مخلوقات اور کچھ حضرت مسیح کی مخلوقات ہے بلکہ مسیح خدا کے بعث بعد الموت میں بھی شریک اور علم غیب میں بھی شریک کیا اب بھی نہ کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 207

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/207/mode/1up

207

کی ضلالت ایک سیلاب کی طرح زمین پر پھیلے گی۔ اور اِس قدر طوفانِ ضلالت جوش مارے گا

کفراور صریح کفر اور سخت کفر ہے۔ بلکہ اگر واقعی طور پر حضرت مسیح نے کوئی معجزہ دکھلایا ہے یااگر کوئی اعجازی صفت حضرت موصوف کے کسی قول یا فعل یا دُعا یا توجہ میں پائی جاتی ہے تو بلا شبہ وہ صفت کروڑہا اور انسانوں میں بھی پائی جاتی ہے ومن انکر بِہٖ فقد کفر و اغضب ربّہ اللّٰہ اکبر۔ واللّٰہ تفرّد بتوحیدہ لا الٰہ الّا ھو۔ ولیس کمثلہ احد من نوع البشر۔ والعباد یشابہ بعضھم بَعْضًا فلا تجعل احدًا منھم وحیدًا واتّق اللّٰہ و احذر۔

سخت تعجب ان لوگوں کی فہم پر ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث اور غیر مقلّد ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم توحید کی راہوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو حنفیوں کو یہ الزام دیتے ہیں کہ تم بعض اولیاء کو صفاتِ الٰہیہ میں شریک کر دیتے ہو اور ان سے حاجتیں مانگتے ہو۔ اور ابھی ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں بہت سی خدائی صفات قائم کرتے ہیں اور اُن کو خالق اور محی الاموات اور عالم الغیب قرار دیتے ہیں۔ اور اُن کے لئے وہ صفتیں قائم کرتے ہیں جو کسی انسان میں اُن کی نظیر پایا جانا عقیدہ نہیں رکھتے حالانکہ توحید الٰہی کی جڑ یہی ہے کہ وہ وحدہٗ لا شریک اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں اور اپنے کاموں میں ہے اور کوئی دوسرا مخلوق اس کی مانند واحدہٗ لا شریک نہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ان کرامات پر اعتراض کیا کرتے تھے جو حضرت سید شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور دوسرے اولیاءِ کرام سے ظہور میں آئیں۔ یہ وہی موحّد کہلانے والے ہیں جو اس بات پر ہنستے تھے کہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک کشتیؔ بارہ برس کے بعد دریا میں سے نکلی اور جس قدر لوگ غرق ہوئے تھے سب اس میں زندہ موجود ہوں۔ اب یہ لوگ دجّال میں وہ صفاتِ اعجاز قائم کرتے ہیں جو کبھی کسی ولی کی نسبت روا نہیں رکھتے تھے۔ یہ لوگ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 208

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/208/mode/1up

208

کہ بجز دُعا کے اور کوئی چارہ نہ ہوگا اور تثلیث کے واعظ اس قدر مکر کا جال پھیلائیں گے

کہا کرتے تھے کہ یا شیخ عبد القادر شیءًا للّٰہ، کہنا کفر ہے اور اب اس کفر کو جو اس سے بڑھ کر ہے مسیح کی نسبت جائز سمجھتے ہیں۔* اور اُن کو بعض صفات خارق عادت میں خدا تعالیٰ کی طرح وحدہٗ لا شریک ٹھہراتے ہیں۔ اور یاد رہے کہ خدا نے بے باپ پیدا ہونے میں حضرت آدم سے حضرت مسیح کو مشابہت دی ہے اور یہ بات کہ کسی دوسرے انسان سے کیوں مشابہت نہیں دی یہ محض اس غرض سے ہے کہ تا ایک مشہور متعارف نظیر پیش کی جائے کیونکہ عیسائیوں کو یہ دعویٰ تھا کہ بے باپ پیدا ہونا حضرت مسیح کا خاصہ ہے اور یہ خدائی کی دلیل ہے۔ پس خدا نے اس حجت کے توڑنے کے لئے وہ نظیر پیش کی جو عیسائیوں کے نزدیک مسلّم اور مقبول ہے۔ اگر خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کوئی اور نظیر پیش کرتا تو وہ اس نظیر کی طرح بدیہی اور مسلّم الثبوت نہ ہوتی اور ایک نظری امر ہوتا۔ ورنہ دنیا میں ہزارہا افراد ایسے ہیں جو بے باپ پیدا ہوئے ہیں اور غایت کار یہ امر امور نادرہ میں سے ہے نہ یہ کہ خلافِ قانون قدرت اور عادت اللہ سے باہر ہے پس یہ ندرت اسی قسم کی ہے جیسے توام میں ندرت ہے جو فطرتِ الہٰی نے اِس راقم کے حصے میں رکھی تھی تا تشابہ فی الندرت ہو جائے اور نیز خدا تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں حضرت مسیح کو آدم سے مشابہت دی ہے اور پھر براہین احمدیہ میں جس کو شائع ہوئے بیس برس گذر گئے میرا نام آدم رکھا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت آدم سے مشابہت ہے ایسا ہی مجھ سے

* ان لوگوں کے عقائد باطلہ محرّقہ* پر یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ اسلام حقیقی کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر یک مذہب پر غالب آئے گا۔ لیکن یہ لوگ عیسائی مذہب جیسے قابلِ شرم عقائد کے سامنے ایک منٹ بھی اپنے اِن اصولوں کے ساتھ ٹھہر نہیں سکتے اور سخت شکست کھا کر بھاگتے ہیں۔ منہ

* یہ سہو کتابت ہے درست لفظ ’’محرّفہ‘‘ ہے۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 209

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/209/mode/1up

209

کہ قریب ہوگا کہ را ستبازوں کو بھی گمراہ کریں لہٰذا اِس دُعا کو بھی پہلی دُعا کے ساتھ

بھی مشابہت ہے۔ ایک۱ تو یہی مشابہت جو ندرت فی الخلقت میں ہے۔ دوسری۲ مشابہت اس بات میں کہ وہ اسرائیلی خلیفوں میں سے آخری خلیفہ ہیں مگر اسرائیل کے خاندان میں سے نہیں حالانکہ زبور میں وعدہ تھا کہ تمام خلیفے اس سلسلہ کے اسرائیلی خاندان میں سے ہوں گے پس گویا ماں کا اسرائیلی ہونا اس وعدہ کے ملحوظ رکھنے کے لئے کافی سمجھا گیا ایسا ہی میں بھی محمدی سلسلہ کے خلیفوں میں سے آخری خلیفہ ہوں مگر باپ کے رو سے قریش میں سے نہیں ہوں گو بعض دادیاں سادات میں ہونے کی وجہ سے قریش میں سے ہوں۔ تیسری۳ مشابہت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے میری یہ ہے کہ وہ ظاہر نہیں ہوئے جب تک حضرت موسیٰ کی وفات پر چودھویں صدی کا ظہور نہیں ہوا ایسا ہی میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے چودھویں صدی کے سر پر مبعوث ہوا ہوں۔ چونکہ خدا تعالیٰ کو یہ پسند آیا ہے کہ رُوحانی قانون قدرت کو ظاہری قانون قدرت سے مطابق کرکے دکھلائے اس لئے اُس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر پیدا کیا کیونکہ سلسلۂ خلافت سے اصل مقصود یہ تھا کہ یہ سلسلہ ترقی کرتا کرتا کمال تام کے نقطہ پر ختم ہو یعنی اسی نقطہ پر جہاں اسلامی معارف اور اسلامی انوار اور اسلامی دلائل اور حجج پورے طور پر جلوہ گر ہوں اور چونکہ چاند چودھویں رات میں اپنے نور میں کمال تک ؔ پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ سو مسیح موعود کو چودھویں صدی کے سر پر پیدا کرنا اس طرف اشارہ تھا کہ اس کے وقت میں اسلامی معارف اور برکات کمال تک پہنچ جائیں گی۔ جیسا کہ آیت3 ۱؂ میں اِسی کمال تام کی طرف اشارہ ہے۔ اور نیز چونکہ چاند اپنے کمال تام کی رات میں یعنی چودھویں رات میں مشرق کی طرف سے ہی طلوع کرتا ہے۔ اس لئے یہ مناسبت بھی جو خدا کے ظاہری اور رُوحانی قانون میں ہونی چاہئے یہی چاہتی تھی جو مسیح موعود جو اسلام کے کمال تام کو ظاہر کرنے والا ہے ممالک مشرقیہ میں سے ہی پیدا ہو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 210

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/210/mode/1up

210

شامل کر دیا گیا۔ اور اِسی ضلالت کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے جو حدیث میں آیا

چوتھی۴ مشابہت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مجھے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوئے تھے کہ جب کہ انکے ملک زاد بوم اور اس کے گرد و نواح سے بکلی بنی اسرائیل کی حکومت جاتی رہی تھی اور ایسے ہی زمانہ میں مجھے خدا نے مبعوث فرمایا۔ پانچویں۵ مشابہت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مجھے یہ ہے کہ وہ رومی سلطنت کے وقت یعنی قیصر روم کے زمانہ میں مامور ہوئے تھے۔ پس ایسا ہی میں بھی رومی سلطنت اور قیصر ہند کے ایام دولت میں مبعوث کیا گیا ہوں اور عیسائی سلطنت کو میں نے اِس لئے رومی سلطنت کے نام سے یاد کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس عیسائی سلطنت کا نام جو مسیح موعود کے وقت میں ہوگی روم ہی رکھا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ظاہر ہے۔ چھٹی۶ مشابہت مجھے حضرت مسیح سے یہ ہے کہ جیسے اُن کو کافر بنایا گیا گالیاں دی گئیں اُن کی والدہ کی توہین کی گئی۔ ایسا ہی میرے پر کفر کا فتویٰ لگا اور گالیاں دی گئیں اور میرے اہل بیت کی توہین کی گئی۔ ساتویں۷ مشابہت مجھے حضرت مسیح سے یہ ہے کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کے گرفتار کرنے کے لئے جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور جھوٹی مخبریاں کی گئیں اور یہود کے مولویوں نے اُن پر جاکر عدالت میں گواہیاں دیں ایسا ہی میرے پر بھی جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ اور ان جھوٹے مقدمات کی تائید میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے میرے پھانسی دلانے کے لئے عدالت میں بحضور کپتان ڈگلس صاحب پادریوں کی حمایت میں گواہی دی۔ آخر عدالت نے ثابت کیا کہ مقدمہ الزام قتل جھوٹا ہے۔ پس خود سوچ لو کہ اس مولوی کی گواہی کس قسم کی تھی۔ آٹھویں۸ مشابہت مجھے حضرت مسیح سے یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش ایسے ظالم بادشاہ یعنی ہیروڈیس کے وقت میں ہوئی تھی جو اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ایسا ہی میری پیدائش بھی سکھوں کے زمانہ کے آخری حصہ میں ہوئی تھی جو مسلمانوں کے لئے ہیروڈیس سے کم نہ تھے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 211

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/211/mode/1up

211

ہے کہ جب تم دجّال کو دیکھو تو سورۂ کہف کی پہلی آیتیں پڑھو اور وہ یہ ہیں:۔333۔33۔۔۔۔۔۔۔۔333333 ۔۱؂

اِن آیتوں سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجّال سے کس گروہ کو مراد رکھا ہے۔* اور عِوَج کے لفظ سے اس جگہ مخلوق کو شریک الباری ٹھہرانے سے مراد ہے جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ٹھہرایا ہے۔ اور اِسی لفظ سے فیج اعوج مشتق ہے۔ اور فیج اعوج سے وہ درمیانی زمانہ مُراد ہے جس میں مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح حضرت مسیح کو بعض صفات میں شریک الباری ٹھہرا دیا۔ اس جگہ ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر دجّال کا بھی کوئی علیحدہ وجود ہوتا تو سورۃ فاتحہ میں اُس کے فتنہ کا بھی ذکر ضرور ہوتا اور اُس کے فتنہ سے بچنے کے لئے بھی کوئی علیحدہ دُعا ہوتی۔ مگر ظاہر ہے کہ اس جگہ یعنی سورۃ فاتحہ میں صرف مسیح موعود کو ایذا دینے سے بچنے کے لئے اور نصاریٰ کے فتنے سے محفوظ رہنے کیلئے دُعا کی گئی ہے ۔حالانکہ بموجب خیالات حال کے مسلمانوں کا دجّال ایک اور شخص ہے

* نسائی نے ابی ہریرہ سے دجّال کی صفت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث لکھی ہے:۔ یخرج فی اٰخر الزمان دجّال یختلون الدنیا بالدین۔ یلبسون للناس جلود الضأن۔۔۔۔ السنتھم احلی من العسل وقلوبھم قلوب الذیاب یقول اللّٰہ عزّوجلّ أَبِیْ یغترّون ام علیّ یجترء ون۔ النح یعنی آخری زمانہ میں ایک گروہ دجّال نکلے گا۔ وہ دنیا کے طالبوں کو دین کے ساتھ فریب دیں گے یعنی اپنے مذہب کی اشاعت میں بہت سا مال خرچ کریں گے۔ بھیڑوں کا لباس پہن کر آئیں گے ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور دل بھیڑیوں کے ہوں گے۔ خدا کہے گا کہ کیا تم میرے حلم کے ساتھ مغرور ہو گئے اور کیا تم میرے کلمات میں تحریف کرنے لگے۔ جلد۷ صفحہ۱۷۴ کنزالعمال ظ۔ منہ

الکھف: ۲ تا ۶ ظ کنز العمال کے موجودہ ایڈیشنوں میں تبدیلی کی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر نظر

کنزالعمال مطبوعہ حیدرآباد دکن کا ۱۳۱۲ھ کا مطبوعہ ایڈیشن تھا۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 212

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/212/mode/1up

212

اور اس کا فتنہ تمام فتنوں سے بڑھ کر ہے تو گویا نعوذ باللہ خدا بھول گیا کہ ایک بڑے فتنہ کا ذکر بھی نہ کیا اور صرف دو فتنوں کا ذکر کیا ایک اندرونی یعنی مسیح موعود کو یہودیوں کی طرح ایذا دینا دوسرے عیسائی مذہب اختیار کرنا۔ یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سورۃ فاتحہ میں صرف دو فتنوں سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی ہے (۱) اوّل یہ فتنہ کہ اسلام کے مسیح موعود کو کافر قرار دینا۔ اُس کی توہین کرنا۔ اُس کی ذاتیات میں نقص نکالنے کی کوشش کرنا۔ اُس کے قتل کا فتویٰ دینا۔ جیسا کہ آیت غیر المغضوب علیھم میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے (۲) دوسرے نصاریٰ کے فتنے سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی اور سورۃ کو اسی کے ذکر پر ختم کرکے اشارہ کیا گیا ہے کہ فتنۂ نصاریٰ ایک سیلِ عظیم کی طرح ہوگا اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں۔ غرض اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس عاجز کی نسبت قرآن شریف نے اپنی پہلی سورۃ میں ہی گواہی دے دی ورنہ ثابت کرنا چاہئے کہ کن مغضوب علیھم سے اِس سورۃ میں ڈرایا گیا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ حدیث اور قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض علماء کو یہود سے نسبت دی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ مغضوب علیھم سے مرادوہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ اور مسیح موعود تھے کافر ٹھہرایا تھا اور اُن کی سخت توہین کی تھی اور اُن کے پرائیویٹ امور میں افترائی طور پر نقص ظاہر کئے تھے۔ پس جبکہ یہی لفظ مغضوب علیھم کا اُن یہودیوں کے مثیلوں پر بولا گیا جن کا نام بوجہ تکفیر و توہین حضرت مسیح مغضوب علیھم رکھا گیا تھا۔ پس اس جگہ مغضوب علیھم کے پورے مفہوم کو پیش نظر رکھ کر جب سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ آنے والے مسیح موعود کی نسبت صاف اور صریح پیشگوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے پہلے مسیح کی طرح ایذااُٹھائے گا۔ اور یہ دُعا کہ یا الہٰی ہمیں مغضوب علیھم ہونے سے بچا۔ اس کے قطعی اور یقینی یہی معنے ہیں کہ ہمیں اس سے بچا کہ ہم تیرے مسیح موعود کو جو پہلے مسیح کا مثیل ہے ایذا نہ دیں اُس کو کافر نہ ٹھہرائیں۔ اِن معنوں کے لئے یہ قرینہ کافی ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 213

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/213/mode/1up

213

کہ مغضوب علیھم صرف اُن یہودیوں کا نام ہے جنہوں نے حضرت مسیح کو ایذا دی تھی اور حدیثوں میں آخری زمانہ کے علماء کا نام یہود رکھا گیا ہے یعنی وہ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکفیر و توہین کی تھی۔* اور اس دُعا میں ہے کہ یا الہٰی ہمیں وہ فرقہ مت بنا جن کا نام مغضوب علیہم ہے۔ پس دُعا کے رنگ میں یہ ایک پیشگوئی ہے جو دو خبر پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ اس اُمت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہوگا۔ اور دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ بعض لوگ اسؔ امت میں سے اُس کی بھی تکفیر اور توہین کریں گے اور وہ لوگ مورد غضبِ الٰہی ہوں گے اور اس وقت کا نشان یہ ہے کہ فتنہ نصاریٰ بھی اُن دنوں میں حد سے بڑھا ہوا ہوگا۔ جن کا نام ضالین ہے اور ضالین پر بھی یعنی عیسائیوں پر بھی اگرچہ خدا تعالیٰ کا غضب ہے کہ وہ خدا کے حکم کے شنوا نہیں ہوئے مگر اس غضب کے آثار قیامت کو ظاہر ہوں گے۔ اور اس جگہ مغضوب علیھم سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر بوجہ تکفیر و توہین و ایذا وارادۂ قتل مسیح موعود کے دنیا میں ہی غضب الٰہی نازل ہوگا۔ یہ میرے جانی دشمنوں کیلئے قرآن کی پیشگوئی ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اگرچہ جو شخص راہ راست کو چھوڑتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کا اپنے مجرموں سے دوقسم کا معاملہ ہے ۔اور مجرم دو قسم کے ہیں(۱) ایک وہ مجرم ہیں جو حد سے زیادہ نہیں بڑھتے اور گو نہایت درجہ کے تعصّب سے ضلالت کو نہیں چھوڑتے مگر وہ ظلم اور ایذا کے طریقوں میں ایک معمولی درجہ تک رہتے ہیں اپنے جو روستم اور بے باکی کو انتہا تک نہیں پہنچاتے۔ پس وہ تو اپنی سزا قیامت کو پائیں گے اور خدائے حلیم اُن کو اِس جگہ نہیں پکڑتا کیونکہ ان کی روش میں حد سے زیادہ سختی نہیں۔ لہٰذا ایسے گناہوں کی سزا کے لئے صرف ایک ہی

* حدیثوں میں صاف طور پر یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی۔ اور علماءِ وقت اُس کو کافر ٹھہرائیں گے اور کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے اِس نے تو ہمارے دین کی بیخ کنی کر دی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/214/mode/1up

214

دن مقرر ہے جو یوم المجازات اور یوم الدین اور یوم الفصل کہلاتا ہے (۲) دوسری قسم کے وہ مجرم ہیں جو ظلم اور ستم اور شوخی اور بیباکی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کے ماموروں اور رسولوں اور را ستبازوں کو درندوں کی طرح پھاڑ ڈالیں اور دنیا پر سے ان کا نام ونشان مٹا دیں اور ان کو آگ کی طرح بھسم کر ڈالیں۔ ایسے مجرموں کے لئے جن کا غضب انتہا تک پہنچ جاتا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب اُن پر بھڑکتا ہے اور اِسی دنیا میں وہ سزا پاتے ہیں علاوہ اس سزا کے جو قیامت کو ملے گی۔ اس لئے قرآنی اصطلاح میں اُن کا نام مغضوب علیہم ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں حقیقی مصداق اس نام کا ان یہودیوں کو ٹھہرایا ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نابود کرنا چاہا تھا۔ پس ان کے دائمی غضب کے مقابل پر خدا نے بھی ان کو دائمی غضب کے وعید سے پامال کیا جیسا کہ آیت 3 ۱؂ سے سمجھا جاتا ہے اس قسم کا غضب جو قیامت تک منقطع نہ ہو اس کی نظیر قرآن شریف میں بجز حضرت مسیح کے دشمنوں کے یا آنے والے مسیح موعود کے دشمنوں کے اور کسی قوم کے لئے پائی نہیں جاتی۔* اور مغضوب علیہم کے لفظ میں دنیا کے غضب کی وعید ہے جو دونوں مسیحوں کے دشمنوں کے متعلق ہے۔ یہ ایسی نص صریح ہے کہ اِس سے انکار قرآن سے انکار ہے۔

اور یہ معنے جو ابھی میں نے سورۃ فاتحہ کی دُعا 3۲؂ کے متعلق بیان کئے ہیں انہی کی طرف قرآن شریف کی آخری چار سورتوں میں اشارہ ہے جیسا کہ سورۃ تبّت کی پہلی آیت یعنی3۳؂ اُس مُوذی کی طرف

* اگرچہ بد قسمت یہود ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم سے بھی دشمنی رکھتے تھے مگر اس مظفّر و منصور نبی کے مقابل پر جس کے تیر دشمنوں کو خوب تیزی دکھلاتے تھے یہود نا مسعود کی کچھ چالاکی پیش نہیں گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/215/mode/1up

215

اشارہ کرتی ہے جو مظہر جمال احمدی یعنی احمد مہدی کا مکفّر اور مکذّب اور مہین ہوگا۔ چنانچہ آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ کے صفحہ۵۱۰ میں یہی آیت بطور الہام اس عاجز کے حق میں موجود ہے اور وہ الہام جو صفحہ مذکورہ کی ۱۹ اور ۲۲ سطر میں ہے یہ ہے:۔ اذ یمکربک الذی کفّر۔ اوقد لی یا ھامان۔ لعلّی اطّلع علی الٰہ موسٰی۔ وانی لاظنّہ من الکاذبین۔ تبّت یدا ابی لھب وتب۔ ماکان لہ ان یدخل فیھا الّا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ۔ یعنی یاد کر وہ زمانہ جبکہ ایک مولوی تجھ پر کفر کا فتویٰ لگائے گا اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکے کہے گاکہ میرے لئےؔ اِس فتنہ کی آگ بھڑکا یعنی ایساکر اور اس قسم کا فتویٰ دے دے کہ تمام لوگ اس شخص کو کافر سمجھ لیں تا میں دیکھوں کہ اس کا خدا سے کیا تعلق ہے۔ یعنی یہ جو موسیٰ کی طرح اپنا کلیم اللہ ہونا ظاہر کرتا ہے کیا خدا اس کا حامی ہے یا نہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے ( جب کہ اُس نے یہ فتویٰ لکھا) اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا اُس کو نہیں چاہئیے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈر ڈر کر اور جو رنج تجھے پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ پیشگوئی قریباً فتویٰ تکفیر سے بارہ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکی ہے یعنی جبکہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فتویٰ تکفیر لکھا اور میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کو کہا کہ سب سے پہلے اِس پر مُہر لگاوے اور میرے کفر کی نسبت فتویٰ دیدے اور تمام مسلمانوں میں میرا کافر ہونا شائع کر دے۔ سو اس فتویٰ اور میاں صاحب مذکور کے مُہر سے بارہ برس پہلے یہ کتاب تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہو چکی تھی اور مولوی محمدحسین جو بارہ برس کے بعد اوّل المکفّرین بنے بانی تکفیر کے وہی تھے اور اس آگ کو اپنی شہرت کی وجہ سے تمام ملک میں سلگا نے والے میاں نذیر حسین صاحب دہلوی تھے۔ اس جگہ سے خدا کا علم غیب ثابت ہوتا ہے کہ ابھی اِس فتویٰ کا نام و نشان نہ تھا بلکہ مولوی محمد حسین صاحب میری نسبت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/216/mode/1up

216

خادموں کی طرح اپنے تئیں سمجھتے تھے اُس وقت خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی۔ جس کو کچھ بھی حصہ عقل اور فہم سے ہے وہ سوچے اور سمجھے کہ کیا انسانی طاقتوں میں یہ بات داخل ہو سکتی ہے کہ جو طوفان بارہ برس کے بعد آنے والا تھا جس کا پُر زور سیلاب مولوی محمد حسین جیسے مدعی اخلاص کو درجۂ ضلالت کی طرف کھینچ لے گیا اور نذیر حسین جیسے مخلص کو جو کہتا تھا کہ براہین احمدیہ جیسی اسلام میں کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی اس سیلاب نے دبا لیااِس طوفان کی پہلے مجھے یا کسی اور کو محض عقلی قرائن سے خبر ہوتی۔ سو یہ خالص علم الٰہی ہے جس کو معجزہ کہتے ہیں۔ غرض براہین احمدیہ کے اس الہام میں سورۃ تبّت کی پہلی آیت کا مصداق اس شخص کو ٹھہرایا ہے جس نے سب سے پہلے خدا کے مسیح موعود پر تکفیر اور توہین کے ساتھ حملہ کیا اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ قرآن شریف نے بھی اِسی سورۃ میں ابو لہب کے ذکر میں علاوہ دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح موعود کے دشمن کو بھی مراد لیا ہے۔* اور یہ تفسیر اس الہام کے ذریعہ سے کھلی ہے جو آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں درج ہو کر کروڑ ہا انسانوں یعنی عیسائیوں اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں شائع ہو چکا تھا۔ اس لئے یہ تفسیر سراسر حقّانی ہے اور تکلّف اور تصنّع سے پاک ہے اور ہر ایک صاحب عقل و انصاف کو اس بات میں شبہ نہ ہوگا کہ جبکہ خدا کے الہام نے آج سے بیس برس پہلے ایک عظیم الشان پیشگوئی میں جو براہین احمدیہ کے صفحہ۵۱۰ میں درج ہے اور کمال صفائی سے پوری ہو چکی ہے یہی معنے کئے ہیں تو

* ابن سعدنے اپنی کتاب طبقات میں اور ابو نعیم نے اپنی کتاب حِلیہ میں ابی قلابہ سے روایت کی ہے کہ ابوالدرداء نے کہا ہے کہ انّک لا تفقہ کلّ الفقہ حتّٰی ترٰی للقراٰن وجوھا یعنی تجھ کو قرآن کا پورا فہم کبھی عطا نہیں ہوگا جب تک تجھ پر یہ نہ کھلے کہ قرآن کئی وجوہ پراپنے معنے رکھتا ہے۔ ایسا ہی مشکوٰۃ میں یہ مشہور حدیث ہے کہ قرآن کے لئے ظَہر اور بَطن ہے اور وہ علم اوّلین اور آخرین پر مشتمل ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 217

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/217/mode/1up

217

یہ معنے اجتہادی نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہو کر یقینی اور قطعی ہیں اور اس الہامی پیشگوئی کے وثوق پر مبنی ہیں جس نے بکمال صفائی اپنی سچائی ظاہر کر دی ہے۔ غرض آیت33 ۱؂ جو قرآن شریف کے آخری سپارہ میں چار آخری سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے جس طرح آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے موذی دشمنوں پر دلالت کرتی ہے ایسا ہی بطور اشارۃ النص اسلام کے مسیح موعود کے ایذا دہندہ دشمنوں پر اس کی دلالت ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً آیت 3333 ۲؂ آنحضرؔ ت صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے اور پھر یہی آیت مسیح موعود کے حق میں بھی ہے جیسا کہ تمام مفسّر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پس یہ بات کوئی غیر معمولی امر نہیں ہے کہ ایک آیت کا مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور پھر مسیح موعود بھی اسی آیت کا مصداق ہو۔ بلکہ قرآن شریف جو ذوالوجوہ ہے اُس کا محاورہ اسی طرز پر واقع ہو گیا ہے کہ ایک آیت میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مُراد اور مصدق* ہوتے ہیں اور اسی آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے جیسا کہ آیت3 سے ظاہر ہے۔ اور رسول سے مراد اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور مسیح بھی مراد ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آیت 3 جو قرآن شریف کے آخر میں ہے آیت مغضوب علیھم کی ایک شرح ہے جو قرآن شریف کے اوّل میں ہے کیونکہ قرآن شریف کے بعض حصے بعض کی تشریح ہیں، پھر اُس کے بعد جو سورۃ فاتحہ میں ولاالضالین ہے اس کے مقابل پر اور اس کی تشریح میں سورہ تَبَّت کے بعد سورۃ اخلاص ہے۔میں بیان کرچکاہوں کہ سورۃ فاتحہ میں تین دعائیں سکھلائی گئی ہیں(۱) ایک یہ دعا کہ خداتعالیٰ اُس جماعت میں داخل رکھے جو صحابہ کی جماعت ہے اور پھر اس کے بعد

* صحیح لفظ مصداق ہے۔ (مصحح)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 218

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/218/mode/1up

218

اس جماعت میں داخل رکھے جو مسیح موعود کی جماعت ہے جن کی نسبت قرآن شریف فرماتا ہے 3 ۱؂ ۔ غرض اسلام میں یہی دو جماعتیں منعم علیھم کی جماعتیں ہیں اور انہیں کی طرف اشارہ ہے آیت 3 ۲؂ میں کیونکہ تمام قرآن پڑھ کر دیکھو جماعتیں دو ہی ہیں۔ ایک۱ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت۔ دوسر۲ ی و اٰخرین منھم کی جماعت جو صحابہ کے رنگ میں ہے اور وہ مسیح موعود کی جماعت ہے۔ پس جب تم نماز میں یا خارج نماز کے یہ دُعا پڑھو کہ333۳ ۳؂ تو دل میں یہی ملحوظ رکھو کہ میں صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت کی راہ طلب کرتا ہوں یہ تو سورۃ فاتحہ کی پہلی دعا ہے (۲) دوسری دُعا3 ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دُکھ دیں گے اور اس دُعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ33ہے (۳) تیسری دُعا 3 ہے اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورہ اخلاص ہے یعنی 333333 ۴؂ اور اس کے بعد دو اور سورتیں جو ہیں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورۃ تبّت اور سورۃ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جبکہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی۔ پس سورہ فاتحہ میں اُن تینوں دعاؤں کی تعلیم بطور براعت الاستہلال ہے یعنی وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورہ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورہ تبت اور سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ النّاس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے پس افتتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دُعاؤں سے ہوا اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا۔



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 219

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/219/mode/1up

219

اور یاد رہے کہ ان دونوں فتنوں کا قرآن شریف میں مفصّل بیان ہے اور سورہ فاتحہ اور آخری سورتوں میں اجمالاً ذکر ہے۔ مثلاً سورہ فاتحہ میںؔ دُعا ولا الضّالین میں صرف دو لفظ میں سمجھا یا گیا ہے کہ عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لئے دُعا مانگتے رہو جس سے سمجھا جاتا ہے کہ کوئی فتنہ عظیم الشان درپیش ہے جس کے لئے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ نماز کے پنج وقت میں یہ دُعا شامل کر دی گئی اور یہاں تک تاکید کی گئی کہ اس کے بغیر نماز ہو نہیں سکتی جیسا کہ حدیث لا صلٰوۃ الّا بالفاتحۃ سے ظاہر ہوتا ہے۔* ظاہر ہے کہ دنیا میں ہزارہا مذہب پھیلے ہوئے ہیں جیسا کہ پارسی یعنی مجوسی اور براہمہ یعنی ہندو مذہب اور بُدھ مذہب جو ایک بڑے حصہ دنیا پر قبضہ رکھتا ہے اور چینی مذہب جس میں کروڑہا لوگ داخل ہیں اور ایسا ہی تمام بُت پرست جو تعداد میں سب مذہبوں سے زیادہ ہیں اور یہ تمام مذہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑے زور و جوش سے پھیلے ہوئے تھے اور عیسائی مذہب ان کے نزدیک ایسا تھا جیسا کہ ایک پہاڑ کے مقابل پر ایک تِنکا۔ پھر کیا وجہ کہ سورۃ فاتحہ میں یہ دُعا نہیں سکھلائی کہ مثلاً خدا چینی مذہب کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا مجوسیوں کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا بدھ مذہب کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا آریہ مذہب کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے یا دوسرے بُت پرستوں کی ضلالتوں سے پناہ میں رکھے بلکہ یہ فرمایا گیا کہ تم دُعا کرتے رہو کہ عیسائی مذہب کی ضلالتوں سے محفوظ رہو۔ اس میں کیا بھید ہے؟ اور عیسائی مذہب میں کونسا عظیم الشان فتنہ آئندہ کسی زمانہ میں پیدا ہونے والا تھا جس سے بچنے کے لئے زمین کے تمام مسلمانوں کو تاکیدکی گئی۔ پس سمجھو اور یاد رکھو کہ یہ دُعا خدا کے اُس

اس جگہ ان لوگوں پر سخت افسوس آتا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث ہیں اور سورہ فاتحہ پر ہمیشہ زور دیتے ہیں کہ اس کے بغیر نماز پوری نہیں ہوتی حالانکہ سورہ فاتحہ کا مغز مسیح موعود کی تابعداری ہے جیساکہ متن میں ثابت کیا گیا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 220

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/220/mode/1up

220

علم کے مطابق ہے کہ جو اُس کو آخری زمانہ کی نسبت تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ تمام مذہب بُت پرستوں اور چینیوں اور پارسیوں اور ہندوؤں وغیرہ کے تنزل پر ہیں اور اُن کے لئے کوئی ایسا جوش نہیں دکھلایا جائے گا جو اسلام کو خطرہ میں ڈالے مگر عیسائیت کے لئے وہ زمانہ آتا جاتا ہے کہ اُس کی حمایت میں بڑے بڑے جوش دکھلائے جائیں گے اور کروڑہا روپیہ سے اور ہر ایک تدبیر اور ہر ایک مکر اور حیلہ سے اُس کی ترقی کے لئے قدم اٹھایا جائے گا اور یہ تمنّا کی جائے گی کہ تمام دنیا مسیح پرست ہو جائے تب وہ دن اسلام کے لئے سخت دن ہوں گے اور بڑے ابتلاکے دن ہوں گے۔ سواب یہ وہی فتنہ کا زمانہ ہے جس میں تم آج ہو۔ تیرہ سو برس کی پیشگوئی جو سورۃ فاتحہ میں تھی آج تم میں اور تمہارے ملک میں پوری ہوئی اور اس فتنہ کی جڑ مشرق ہی نکلا۔ اور جیسا کہ اس فتنہ کا ذکر قرآن کے ابتدا میں فرمایا گیا ایسا ہی قرآن شریف کے انتہا میں بھی ذکر فرما دیا تا یہ امر مؤکّد ہو کر دلوں میں بیٹھ جائے۔ ابتدائی ذکر جو سورۃ فاتحہ میں ہے وہ تو تم بار بار سُن چکے ہواور انتہائی ذکر یعنی جو قرآن شریف کے آخر میں اس فتنۂ عظیمہ کا ذکر ہے اس کی ہم کچھ اور تفصیل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ سورتیں یہ ہیں:۔

(۱۔سورۃ) 3۔3۔33۔33 ۔۱؂

(۲۔سورۃ) 3۔3۔33 ۔3 ۔۲؂

(۳۔سورۃ) 3۔ 3۔3۔ 333 ۔3۔3 ۳؂

ترجمہ:۔ تم اے مسلمانو! نصاریٰ سے کہو کہ وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔ اور تم جو نصاریٰ کا فتنہ دیکھو گے اور مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنوگے یوں دعا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 221

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/221/mode/1up

221

مانگا کرو کہ میں تمام مخلوق کے شرّ سے جو اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے اور میں اس اندھیری رات کے شرّسے جو عیسائیت کے فتنہ اور انکار مسیح موعود کے فتنہ کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اُس وقت کے لئے یہ دُعا ہے جبکہ تاریکی اپنے کمال کو پہنچ جائے ا ور میں خدا کی پناہ اُن زن مزاج لوگوں کی شرارت سے مانگتا ہوں جو گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکتے ہیں یعنی جو عقدے شریعت محمدیہ میں قابلِ حل ہیں اور جو ایسے مشکلات اور معضلات ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ذریعہ تکذیب دین ٹھہراتے ہیں اُن پر اور بھی عناد کی وجہ سے پُھونکیں مارتے ہیں یعنی شریر لوگ اسلامی دقیق مسائل کو جو ایک عقدہ کی شکل پر ہیں دھوکہ دہی کے طور پر ایک پیچیدہ اعتراض کی صورت پر بنا دیتے ہیں تا لوگوں کو گمراہ کریں اُن نظری اُمور پر اپنی طرف سے کچھ حاشیے لگا دیتے ہیں اور یہ لوگ دو قسم کے ہیں ایک تو صریح مخالف اور دشمنِ دین ہیں جیسے پادری جو ایسی تراش خراش سے اعتراض بناتے رہتے ہیں اوردوسرے وہ علمائے اسلام ہیں جو اپنی غلطی کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور نفسانی پُھونکوں سے خدا کے فطری دین میں عقدے پیدا کر دیتے ہیں اور زنانہ خصلت رکھتے ہیں کہ کسی مردِ خدا کے سامنے میدان میں نہیں آسکتے صرف اپنے اعتراضات کو تحریف تبدیل کی پُھونکوں سے عقدہ لاینحل کرنا چاہتے ہیں اور اِس طرح پر زیادہ تر مشکلات خدا کے مصلح کی راہ میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ قرآن کے مکذّب ہیں کہ اس کی منشاء کے برخلاف اصرار کرتے ہیں اور اپنے ایسے افعال سے جو مخالف قرآن ہیں اور دشمنوں کے عقائد سے ہمرنگ ہیں دشمنوں کو مدد دیتے ہیں۔ پس اِس طرح اُن عقدوں میں پھونک مار کر ان کو لاینحل بنانا چاہتے ہیں پس ہم ان کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور نیز ہم ان لوگوں کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں جو حسد کرتے اور حسد کے طریقے سوچتے ہیں اور ہم اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسد کرنے لگیں۔ اور کہو کہ تم یوں دُعا مانگا کرو کہ ہم وسوسہ انداز



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 222

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/222/mode/1up

222

شیطان کے وسوسوں سے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور اُن کو دین سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے کبھی بطور خود اور کبھی کسی انسان میں ہوکرخدا کی پناہ مانگتے ہیں وہ خدا جو انسانوں کا پرورندہ ہے انسانوں کا بادشاہ ہے انسانوں کا خدا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جو اُس میں نہ ہمدردی انسانی رہے گی جو پرورش کی جڑ ہے اور نہ سچا انصاف رہے گا جو بادشاہت کی شرط ہے تب اُس زمانہ میں خدا ہی خدا ہوگا جو مصیبت زدوں کامرجع ہوگا۔ یہ تمام کلمات آخری زمانہ کی طرف اشارات ہیں جبکہ امان اور امانت دنیا سے اُٹھ جائے گی۔ غرض قرآن نے اپنے اوّل میں بھی مغضوب علیھم اور ضالّین کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے آخر میں بھی جیساکہ آیت لم یلد ولم یو لد بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے اور یہ تمام اہتمام تاکید کے لئے کیا گیا اور نیز اس لئے کہ تا مسیح موعود اور غلبۂ نصرانیت کی پیشگوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اُٹھے۔ یاد رہے کہ قرآن شریف کے ایک موقعہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح کو جو انسان ہے خدا کرکے مانناؔ یہ امر اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا گراں اور اُس کے غضب کا موجب ہے کہ قریب ہے کہ اِس سے آسمان پھٹ جائیں۔ پس یہ بھی مخفی طور پر اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ جب دنیا خاتمہ کے قریب آجائے گی تو یہی مذہب ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی زندگی کی صف لپیٹ دی جائے گی۔ اس آیت سے بھی یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ گو کیسا ہی اسلام غالب ہو اور گو تمام ملتیں ایک ہلاک شدہ جانور کی طرح ہو جائیں لیکن یہ مقدّر ہے کہ قیامت تک عیسائیت کی نسل منقطع نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی جائے گی اور ایسے لوگ بکثرت پائے جائیں گے کہ جو بہائم کی طرح بغیر سوچنے سمجھنے کے حضرت مسیح کو خدا جانتے رہیں گے یہاں تک کہ اُن پر قیامت برپا ہوجائے گی۔ یہ قرآن شریف کی آیت کا ترجمہ اور اس کا منشاء ہے۔ ہماری طرف سے نہیں۔پس ہمارے مخالف مسلمانوں کا یہ عقیدہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 223

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/223/mode/1up

223

کہ آخری زمانہ میں ایک خونی مہدی ظاہر ہوگا اور وہ تمام عیسائیوں کو ہلاک کر دے گا اور زمین کو خون سے بھر دے گا اور جہاد ختم نہیں ہوگا جب تک وہ ظاہر نہ ہواور اپنی تلوار سے ایک دنیا کو ہلاک نہ کرے۔ یہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو قرآن کے نص صریح 3333 ۱؂ سے مخالف اور منافی ہیں ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اِن باتوں پر ہرگز اعتقاد نہ رکھے بلکہ جہاد اب قطعاً حرام ہے اُسی وقت تک جہاد تھا کہ جب اسلام پر مذہب کے لئے تلواراُٹھائی جاتی تھی اب خود بخود ایک ایسی ہوا چلی ہے جو ہر ایک فریق اس کارروائی کو نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے جو مذہب کے لئے خون کیا جائے پہلے زمانوں میں صرف مسلمانوں میں ہی جہاد نہیں تھا بلکہ عیسائیوں میں بھی جہاد تھا اور انہوں نے بھی مذہب کے لئے ہزار ہا بندگان خدا کو اِس دنیا سے رخصت کر دیا تھا مگر اب وہ لوگ بھی ان بیجا کارروائیوں سے کنارہ کش ہو گئے ہیں اور عام طور پر تمام لوگوں میں عقل اور تہذیب اور شائستگی آگئی ہے اس لئے مناسب ہے کہ اب مسلمان بھی جہاد کی تلوار کو توڑ کر کلبہ رانی کے ہتھیار بنا لیں کیونکہ مسیح موعود آگیا اور اب تمام جنگوں کا خاتمہ زمین پر ہو گیا ہاں آسمانی جنگ ابھی باقی ہیں جو معجزات اور نشانوں کے ساتھ ہوں گے نہ تلوار اور بندوق کے ساتھ اور وہی حقیقی جنگ ہیں جن سے ایمان قوی ہوتے ہیں اور نورِ یقین بڑھتا ہے ورنہ تلوار کا جنگ ایسا جائے اعتراض ہے کہ اگر اسلام کے صدر اور ابتدائی حالت میں یہ عذر اہلِ اسلام کے ہاتھ میں نہ ہوتا کہ وہ مخالفوں کے بیجا حملوں سے پیسے گئے اور نابود ہونے تک پہنچ گئے تب تلوار اٹھائی گئی تو بغیر اس عذر کے اسلام پر جہاد کا ایک داغ ہوتا۔ خدا اُن بزرگوں اور را ستبازوں پر ہزاراں ہزار رحمت کی بارش کرے جنہوں نے موت کا پیالہ پینے کے بعد پھر اپنی ذرّیت اور اسلام کے بقا کے لئے وہی پیالہ دشمنوں کا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 224

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/224/mode/1up

224

اُن کو واپس کیا۔ مگر اب مسلمانوں پر کونسی مصیبت ہے اور کون اُن کو ہلاک کر رہا ہے کہ وہ بیجا طور پر تلوار اٹھاتے ہیں اور دلوں میں جہاد کی خواہش رکھتے ہیں انہی مخفی خواہشوں کی وجہ سے جو اکثر مولویوں کے دلوں میں ہیں آئے دن سرحد میں بے گناہ لوگوں کے خون ہوتے ہیں۔ یہ خون کس گروہ کی گردن پر ہیں؟ مَیں بے دھڑک کہوں گا کہ انہی مولویوں کی گردن پر جو اخلاص سے اس بد عت کے دُور کرنے کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے۔

اِس جگہ ایک بات کسی قدر زیادہ تفصیل کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ خدا تعاؔ لیٰ نے تمام مسلمانوں کو سورہ فاتحہ میں یہ دُعا سکھلائی ہے کہ وہ اس فریق کی راہ خدا تعالیٰ سے طلب کرتے رہیں جو منعم علیہم کافریق ہے اور منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیّت اور صفائی کیفیت اور نعماءِ حضرت احدیت از روئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسلِ یزدانی دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گروہ جماعت مسیح موعود کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے اجتہاد کے محتاج نہیں وجہ یہ کہ پہلے گروہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پاکر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں ڈالتے تھے اور ان کے لئے مربی بے واسطہ تھے۔ اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پاتا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہٰذا اس کی جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت3 ۱؂ سے سمجھا جاتا ہے۔ اور درمیانی گروہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج کے نام سے موسوم کیا ہے اور جن کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/225/mode/1up

225

فرمایا ہے لیسوا منّی ولستُ منھم۔* یعنی وہ لوگ مجھ میں سے نہیں ہیں۔ اور نہ مَیں اُن میں سے ہوں۔ یہ گروہ حقیقی طورپر منعم علیہم نہیں ہیں۔ اور اگرچہ زمانہ فیج اعوج میں بھی جماعت کثیر گمراہوں کے مقابل نیک اور اہل اللہ اور ہر صدی کے سرپر مجدّد بھی ہوتے رہے ہیں لیکن حسب منطوق آیت33 ۱؂ خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور توبہ نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اورد قائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے یہ اسلام میں صرف دو گروہ ہیں یعنی گروہ اوّلین و گروہ آخرین جو صحابہ اور مسیح موعود کی

* اس حدیث کا یہ فقرہ جو لیسوا منّی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ مجھ میں سے نہیں ہیں یہی لفظ یعنی مِنّی مہدئ معہود کیلئے اس حدیث میں بھی وارد ہے جس کو ابوداؤد اپنی کتاب میں لایا ہے اور وہ یہ ہے لولم یبق من الدُّنیا الایوم لطوّل اللّٰہ ذالک الیوم حتّٰی یبعث فیہ رجلًا منّی یعنی اگر دنیا میں سے صرف ایک دن باقی ہوگا تو خدا اس دن کو لمبا کر دے گا جب تک کہ ایک انسان یعنی مہدی کو ظاہر کرے جو مجھ میں سے ہوگا یعنی میرے صفات اور اخلاق لے کر آئے گا۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ مِنّی کے لفظ سے قریش ہونا مراد نہیں ورنہ یہ حدیث صرف مہدی کا قریش ہونا ظاہر کرتی اور کسی عالی مفہوم پر مشتمل نہ ہوتی لیکن جس طرز سے ہم نے لفظ مِنّی کے معنے مراد لئے ہیں یعنی آنحضرت کے اخلاق اور کمالات اور معجزات اور کلام معجزنظام کا ظلّی طور پر وارث ہونا اس سے صریح ثابت ہوتا ہے کہ مہدی افراد کا ملہ میں سے اور اپنے کمالات اخلاق میں ظلّ النبّی ہے اور یہی عظیم الشان اشارہ ہے جو مِنّی کے لفظ سے نکلتا ہے ورنہ جسمانی طور پر یعنی محض قریشی ہونے سے کچھ عظمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس صورت میں ایک بے دین اور بدعاقبت آدمی بھی اس لفظ کا مصداق ہو سکتا ہے غرض مِنّی کے لفظ سے قریش سمجھنا محض بیہودہ ہے ورنہ لازم آتا ہے کہ جو لوگ حدیث لیسوا منّی کے نیچے ہیں اُن سے تمام وہ لوگ مراد ہوں جو قریشی نہیں ہیں اور یہ معنے صریح فاسد ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/226/mode/1up

226

جماعت سے مراد ہے اور چونکہ حکم کثرت مقدار اور کمال صفائی انوار پر ہوتا ہے اس لئے اس سورۃ میں انعمت علیھم کے فقرہ سے مراد یہی دونوں گروہ ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنی جماعت کے اور مسیح موعود مع اپنی جماعت کے۔ خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتدا سے اس اُمت ؔ میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ہیں اور انہی کی طرف سورہ فاتحہ کے فقرہ انعمت علیھم میں اشارہ ہے (۱) ایک اوّلین جو جماعتِ نبوی ہے (۲) دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے اور افراد کاملہ جو درمیانی زمانہ میں ہیں جو فیج اعوج کے نام سے موسوم ہے جو بوجہ اپنی کمی مقدار اور کثرت اشرار و فجّار وہجوم افواج بد مذاہب و بدعقائد و بد اعمال شاذ ونادر کے حکم میں سمجھے گئے گو دوسرے فرقوں کی نسبت درمیانی زمانہ کے صلحاءِ اُمتِ محمدیہ بھی باوجود طوفانِ بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں۔ بہرحال خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا علم جس میں غلطی کو راہ نہیں یہی بتلاتا ہے کہ درمیانی زمانہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے بلکہ تمام خیرالقرون کے زمانہ سے بعد میں ہے اور مسیح موعود کے زمانہ سے پہلے ہے یہ زمانہ فیج اعوج کا زمانہ ہے یعنی ٹیڑھے گروہ کا زمانہ جس میں خیر نہیں مگر شاذونادر۔ یہی فیج اعوج کا زمانہ ہے جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے لیسوا مِنّی ولست منھم یعنی نہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں اور نہ میں ان میں سے ہوں یعنی مجھے اُن سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ یہی زمانہ ہے جس میں ہزارہا بدعات اور بے شمار ناپاک رسومات اور ہر ایک قسم کے شرک خدا کی ذات اور صفات اور افعال میں اور گروہ درگروہ پلید مذہب جو تہتر تک پہنچ گئے پیدا ہو گئے اور اسلام جو بہشتی زندگی کا نمونہ لے کر آیا تھا اس قدر ناپاکیوں سے بھر گیا جیسے ایک سڑی ہوئی اور پُر نجاست زمین ہوتی ہے۔ اِس فیج اعوج کی مذمت میں وہ الفاظ کافی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے اس کی تعریف میں نکلے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی دوسرا انسان



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/227/mode/1up

227

اِس فیج اعوج کے زمانہ کی بدی کیا بیان کرے گا۔ اسی زمانہ کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمین جور اور ظلم سے بھر جائے گی۔ لیکن مسیح موعود کا زمانہ جس سے مراد چودھویں صدی من اوّلہٖ الٰی آخرہٖ ہے اور نیز کچھ اور حصّہ زمانہ کا جو خیرالقرون سے برابر اور فیج اعوج کے زمانہ سے بالاتر ہے یہ ایک ایسا مبارک زمانہ ہے کہ فضل اور جود الٰہی نے مقدر کر رکھا ہے کہ یہ زمانہ پھر لوگوں کو صحابہ کے رنگ میں لائے گا اور آسمان سے کچھ ایسی ہوا چلے گی کہ یہ تہتر فرقے مسلمانوں کے جن میں سے بجز ایک کے سب عار اسلام اور بدنام کنندہ اس پاک چشمہ کے ہیں خود بخود کم ہوتے جائیں گے اور تمام ناپاک فرقے جو اسلام میں مگر اسلام کی حقیقت کے منافی ہیں صفحۂ زمین سے نابود ہو کر ایک ہی فرقہ رہ جائے گا جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے رنگ پر ہوگا۔ اب ہر ایک انسان سوچ سکتا ہے کہ اس وقت ٹھیک ٹھیک قرآن پر چلنے والے فرقے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے کس قدر کم ہیں۔ جو مسلمانوں کے تہتر گروہ میں سے صرف ایک گروہ ہے اور پھر اس میں سے بھی وہ لوگ جو درحقیقت تمام اقسام ہوا اور نفس اور خلق سے منقطع ہو کر محض خدا کے ہو گئے ہیں اور ان کے اعمال اور اقوال اور حرکات اور سکنات اور نیّات اور خطرات میں کوئی ملونی خباثت کی باقی نہیں ہے وہ کس قدر اس زمانہ میں کبریت احمر کے حکم میں ہیں۔ غرض تمام مفاسد کی تفصیلات کو زیر نظر رکھ کر بخوبی سمجھ آسکتا ہے کہ درحقیقت موجودہ حالت اسلام کی کسی خوشی کے لائق نہیں اور وہ بہت سے مفاسد کا مجموعہ ہو رہا ہے۔ اور اسلام کے ہر ایک فرقہ کو ہزارہا کیڑے بدعات اور افراط اور تفریط اور خطا اور بیبا کی اور شوخی کے چمٹ رہے ہیں اور اسلام میں بہت سے مذہب ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ جو اسلام کا دعویٰ کرکے پھر اسلام کے مقاصد توحید وتقویٰ و تہذیب اخلاق و اتباع نبیؔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن ہیں۔ غرض یہ وجوہ ہیں جن کے رو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33 ۱؂۔ یعنی ابرار اخیار کے بڑے گروہ جن کے ساتھ بد مذاہب کی آمیزش نہیں وہ دو ہی ہیں ایک پہلو ں کی جماعت یعنی صحابہ کی جماعت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/228/mode/1up

228

جو زیر تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسری پچھلوں کی جماعت جو بوجہ تربیت رُوحانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا کہ آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ سے سمجھا جاتا ہے صحابہ کے رنگ میں ہیں۔ یہی دو جماعتیں اسلام میں حقیقی طور پر منعم علیھم ہیں اور خدا تعالیٰ کا انعام اُن پر یہ ہے کہ اُن کو انواع اقسام کی غلطیوں اور بدعات سے نجات دی ہے اور ہر ایک قسم کے شرک سے ان کو پاک کیا ہے اور خالص اور روشن توحید ان کو عطا فرمائی ہے جس میں نہ دجّال کو خدا بنایا جاتا ہے اور نہ ابن مریم کو خدائی صفات کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے اور اپنے نشانوں سے اس جماعت کے ایمان کو قوی کیا ہے اور اپنے ہاتھ سے ان کو ایک پاک گروہ بنایا ہے ان میں سے جو لوگ خدا کا الہام پانے والے اور خدا کے خاص جذبہ سے اس کی طرف کھنچے ہوئے ہیں نبیوں کے رنگ میں ہیں اور جو لوگ اُن میں سے بذریعہ اپنے اعمال کے صدق اور اخلاص دکھلانے والے اور ذاتی محبت سے بغیر کسی غرض کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں وہ صدیقوں کے رنگ میں ہیں ۔اور جو لوگ اُن میں سے آخری نعمتوں کی امید پر دُکھ اُٹھانے والے اور جزا کے دن کا بچشم دل مشاہدہ کرکے جان کو ہتھیلی پر رکھنے والے ہیں وہ شہیدوں کے رنگ میں ہیں اور جو لوگ اُن میں سے ہر ایک فساد سے باز رہنے والے ہیں وہ صلحاء کے رنگ میں ہیں اور یہی سچے مسلمان کا مقصود بالذات ہے کہ اِن مقامات کو طلب کرے اور جب تک حاصل نہ ہوں تب تک طلب اور تلاش میں سُست نہ ہو اور وہ دو گروہ جو ان لوگوں کے مقابل پر بیان فرمائے گئے ہیں وہ مغضوب علیھم اور ضالین ہیں جن سے محفوظ رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے اِسی سورۃ فاتحہ میں دُعا مانگی گئی ہے۔ اور یہ دُعا جس وقت اکٹھی پڑھی جاتی ہے یعنی اس طرح پر کہا جاتا ہے کہ اے خدا ہمیں منعم علیہم میں داخل کر اور مغضوب علیھم اور ضالین سے بچا تو اُس وقت صاف سمجھ آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں منعم علیھم میں سے ایک وہ فریق ہے جو مغضوب علہیم اور ضالین کا ہم عصر ہے اور جبکہ مغضوب علیھم سے مراد



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/229/mode/1up

229

اس سورۃ میں بالیقین وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود سے انکار کرنے والے اور اس کی تکفیر اور تکذیب اور توہین کرنے والے ہیں تو بلاشبہ اُن کے مقابل پرمنعم علیھم سے وہی لوگ اس جگہ مراد رکھے گئے ہیں جو صدق دل سے مسیح موعود پر ایمان لانے والے اور اُس کی دل سے تعظیم کرنے والے اور اس کے انصار ہیں اور دُنیا کے سامنے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ رہے ضالین۔ پس جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت* اور تمام اکابر اسلام کی شہادت سے ضالین سے مراد عیسائی ہیں اور ضالین سے پناہ مانگنے کی دُعا بھی ایک پیشگوئی کے رنگ میں ہے کیونکہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا کچھ بھی زور نہ تھا بلکہ فارسیوں کی سلطنت بڑی قوت اور شوکت میں تھی۔ اور مذاہب میں سے تعداد کے لحاظ سے بدھ مذہب دنیاؔ میں تمام مذاہب سے زیادہ بڑھا ہوا تھا اور مجوسیوں کا مذہب بھی بہت زور وجوش میں تھا

* بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورہ ؔ فاتحہ میں المغضوب علیھم سے مراد یہود ۔اور الضالین سے مراد نصاریٰ ہیں۔ دیکھو کتاب درّمنثور صفحہ نمبر۹ اور عبدالرزاق اور احمد نے اپنی مسند میں اور عبد ابن حمید اور ابن جریر اور بغوی نے معجم الصحابہ میں اور ابن منذر اور ابوالشیخ نے عبد اللہ بن شقیق سے روایت کی ہے۔ قال اخبرنی من سمع النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو بوادی القریٰ علٰی فرس لہ و سألہ رجل من بنی العین فقال من المغضوب علیھم یا رسول اللّٰہ۔ قال الیھود۔ قال فمن الضالون۔ قال النصاریٰ۔ یعنی کہا کہ مجھے اس شخص نے خبر دی ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا تھا جبکہ آپ وادیء قریٰ میں گھوڑے پر سوار تھے کہ بنی عین میں سے ایک شخص نے آنحضرت سے سوال کیا کہ سورہ فاتحہ میں مغضوب علیھم سے کون مراد ہے فرمایا کہ یہود۔ پھر سوال کیا کہ ضالین سے کون مراد ہے فرمایا کہ نصاریٰ۔ درمنثور صفحہ نمبر۱۷۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/230/mode/1up

230

اور ہندو بھی علاوہ قومی اتفاق کے بڑی شوکت اور سلطنت اور جمعیت رکھتے تھے اور چینی بھی اپنی تمام طاقتوں میں بھرے ہوئے تھے تو پھر اس جگہ طبعاً یہ سوال ہوتا ہے کہ یہ تمام قدیم مذاہب جن کی بہت پُرانی اور زبردست سلطنتیں تھیں اور جن کی حالتیں قومی اتفاق اور دولت اور طاقت اور قدامت اور دوسرے اسباب کی رُو سے بہت ترقی پر تھیں اُن کے شر سے بچنے کے لئے کیوں دُعا نہیں سکھلائی؟ اور عیسائی قوم جو اُس وقت نسبتی طور پر ایک کمزور قوم تھی کیوں اُن کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے دُعا سکھلائی گئی؟ اس سوال کا یہی جواب ہے جو بخوبی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ مقدّر تھا کہ یہ قوم روز بروز ترقی کرتی جائے گی یہاں تک کہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی اور اپنے مذہب میں داخل کرنے کے لئے ہر ایک تدبیر سے زور لگائیں گے اور کیا علمی سِلسلہ کے رنگ میں اور کیا مالی ترغیبوں سے اور کیا اخلاق اور شیرینی کلام دکھلانے سے اور کیا دولت اور شوکت کی چمک سے اور کیا نفسانی شہوات اور اباحت اور بے قیدی کے ذرائع سے اور کیا نکتہ چینیوں اور اعتراضات کے ذریعہ سے اور کیا بیماروں اور ناداروں اور درماندوں اور یتیموں کا متکفل بننے سے ناخنوں تک یہ کوشش کریں گے کہ کسی بدقسمت نادان یا لالچی یا شہوت پرست یا جاہ طلب یا بیکس یا کسی بچہ بے پدرو مادر کو اپنے قبضہ میں لاکر اپنے مذہب میں داخل کریں سو اسلام کے لئے یہ ایک ایسا فتنہ تھا کہ کبھی اسلام کی آنکھ نے اس کی نظیر نہیں دیکھی اور اسلام کے لئے یہ ایک عظیم الشان ابتلا تھا جس سے لاکھوں انسانوں کے ہلاک ہو جانے کی امید تھی۔ اس لئے خدا نے سورہ فاتحہ میں جس سے قرآن کا افتتاح ہوتا ہے اس مہلک فتنہ سے بچنے کے لئے دُعا سکھلائی اور یاد رہے کہ قرآن شریف میں یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نظیر اور کوئی پیشگوئی نہیں کیونکہ اگرچہ قرآن شریف میں اور بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو اس ہمارے زمانہ میں پوری ہو گئی ہیں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/231/mode/1up

231

جیسے اجتماع کسوف قمر وشمس کی پیشگوئی جو آیت 3 ۱؂ سے معلوم ہوتی ہے۔اور اونٹوں کے بیکار ہونے اور مکّہ اور مدینہ میں ریل جاری ہونے کی پیشگوئی جو آیت 3 ۲؂ سے صاف طور پر سمجھی جاتی ہے لیکن اس پیشگوئی کے مشہور کرنے اور ہمیشہ امت کے پیش نظرر کھنے میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ نے اہتمام فرمایاہے کیونکہ اس سورۃ میں یعنی سورۃ فاتحہ میں بطور دُعا اسے تعلیم فرمایا ہے جسؔ کو پنجوقت کروڑہا مسلمان اپنے فرائض اور نمازوں میں پڑھتے ہیں۔ اور ممکن نہیں کہ زیرک مسلمانوں کے دلوں میں اس جگہ یہ خیال نہ گذرے کہ جس حالت میں اس زمانہ کے عام مسلمانوں کے خیال کے موافق اس اُمت کے لئے دجّال کا فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہے جس کی نظیر حضرت آدم سے دنیا کے اخیر تک کوئی نہیں تو خدا تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان دُعا میں جو بوجہ کثرت تکرار و دائمی مناجات اوقات متبرکہ اکثر احتمال قبولیت کا رکھتی ہے اِس بزرگ فتنہ کا ذکر کیوں چھوڑ دیا اس طرح پر سورہ فاتحہ میں دُعا کیوں نہ سکھلائی کہ غیر المغضوب علیھم ولاالدّجال۔ اس کا جواب یہی ہے کہ دجّال کوئی علیحدہ فرقہ نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا شخص ہے کہ جو عیسائیوں اور مسلمانوں کو پامال کرکے دنیا کا مالک ہو جائے ایسا خیال کرنا قرآن شریف کی تعلیم کے مخالف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔ 333 ۳؂ یعنی اے عیسیٰ خدا تیرے حقیقی تابعین کو جو مسلمان ہیں اور ادعائی تابعین کو جو عیسائی ہیں ادعائی طور پر قیامت تک ان لوگوں پر غالب رکھے گا جو تیرے دشمن اور منکر اور مکذّب ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے مخالف مولویوں کا دجّال مفروض بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا منکر ہوگا۔پس اگر عیسائیوں اور مسلمانوں پر اُس کو غالب کیا گیااور تمام زمین کی عنانِ سلطنت اور حکومت اُس کے ہاتھ میں دی گئی تو اس سے قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اور نہ صرف ایک پہلو سے بلکہ نعوذ باللہ دو پہلو سے خدا تعالیٰ کا کلام جھوٹا ٹھہرتا ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/232/mode/1up

232

(۱) ایک یہ کہ جن قوموں کے قیامت تک غالب اور حکمران رہنے کا وعدہ تھا وہ اِس صورت میں غالب اور حکمران نہیں رہیں گے (۲) دوسرے یہ کہ جن دوسری قوموں کے مغلوب ہونے کا وعدہ تھا وہ غالب ہو جائیں گے اور مغلوب نہ رہیں گے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اگرچہ ان قوموں کی سلطنت اور قوت اور دولت قیامت تک قائم رہے گی اور ہم اس کو قبول کرتے ہیں مگر دجّال بھی کسی چھوٹے سے راجہ یا رئیس کی طرح دس بیس یا سو پچاس گاؤں کا والی اور فرمانروا بن جائے گا تو یہ قول بھی ایسا ہی قرآن شریف کے مخالف ہے جیسا کہ پہلا قول مخالف ہے کیونکہ جب کہ دجّال تمام انبیاء علیھم السلام کا اس قدر دشمن ہے کہ ان کو مفتری سمجھتا ہے اور خود خدائی کا دعویٰ کرتا ہے تو بموجب منطوق آیت کے چاہئے تھا کہ ایک ساعت کے لئے بھی وہ خود سر حاکم نہ بنایا جاتا تا مضمون 33 میں کچھ حرج اور خلل عائد نہ ہوتا۔ ماسوا اِس کے جب کہ یہ مانا گیا ہے کہ بجز حرمین شریفین کے ہر ایک ملک میں دجّال کی سلطنت قائم ہو جائے گی تو پھر آیت 33 ۱؂ دجّال کی عام سلطنت کی صورت میں کیونکر سچی رہ سکتی ہے بلکہ دجّالی سلطنت کے قائم ہونے سے تو ماننا پڑتا ہے کہ جو حضرت مسیح کے تابعین کے لئے فوقیت اور غالبیت کا دائمی وعدہ تھا وہ چالیس برس تک دجّال کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ جو شخص قرآن شریف کو خدا کا کلام اور سچا مانتا ہے وہ تو اس بات کو صریح کفر سمجھے گا کہ ایسا عقیدہ رکھا جائے جس سے خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی تکذیب لازم آتی ہے۔ تم آپ ہی فکر کرو اور سوچو کہ جبکہ بموجب آیت 333 ۲؂ ہمارا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ قیامت تک دولت اور سلطنت مسلمانوں اور عیسائیوں میں قائم رہے گی اور وہ لوگ جو حضرت مسیح کے منکر ہیں وہ کبھی بلادِ اسلامیہ کے مالک اور بادشاہ نہیں بنیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی تو اس صورت میں دجّاؔ ل کی کہاں گنجائش ہے؟ قرآن کو چھوڑنا اور ایسی حدیث کو پکڑنا جو اس کے صریح منطوق کے مخالف ہے اور محض ایک ظنّی امر ہے کیا یہی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/233/mode/1up

233

اسلام ہے؟ اور اگر یہ سوال ہو کہ جب کہ دجّال کا بھی حدیثوں میں ذکر پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوگا اور پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر خدائی کا دعویدار بن جائے گا تو اس حدیث کی ہم کیا تاویل کریں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اب تمہاری تاویل کی کچھ ضرورت نہیں۔ واقعات کے ظہور نے خود اس حدیث کے معنے کھول دیئے ہیں۔ یعنی یہ حدیث ایک ایسی قوم کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اپنے افعال سے دکھلادیں گے کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہے اور خدائی کا دعویٰ بھی۔ نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں اپنی تحریف اور تبدیل اور انواع وا قسام کی بیجا دست اندازیوں سے جو نہایت جرأت اور بیباکی اور شوخی سے ہوں گی اس قدر دخل دیں گے اور اس قدر اپنی طرف سے تصرفات کریں گے اور ترجموں کو عمداً بگاڑیں گے کہ گویا وہ خود نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ پس یہ تو نبوت کا دعویٰ ہوا۔ اب خدائی کے دعوے کی بھی تشریح سُنیے اور وہ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ لوگ ایجاد اور صنعت اور خدائی کے کاموں کی کُنہ معلوم کرنے میں اور اس دُھن میں کہ الوہیت کے ہر ایک کام اور صنعت کی نقل اُتار لیں اس قدر حریص ہوں گے کہ گویا وہ خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔* وہ چاہیں گے کہ مثلاً کسی طرح بارش

* ربوبیت کی عظمت اور الوہیت کے جلال اور صفات باری کی وحدانیت کو ملحوظ رکھ کر انکسار اور ادب عبودیت کے ساتھ ایجاد اور صنعت کی طرف بقدر اعتدال مشغول ہونا یہ اور امر ہے مگر شوخی اور تکبر کو اپنے دماغ میں جگہ دے کر اور قضاء و قدر کے سلسلہ پر ٹھٹھا مار کر خدا کے پہلو میں اپنی انانیت کو کسی فعل ایجاد وغیرہ سے ظاہر کرنا یہی دجّالیت ہے اور دجّال کے لفظ سے ہماری وہ مراد نہیں ہے جو حال کے مولوی مراد لیتے ہیں اور اُس کو ایسا شخص سمجھتے ہیں جس سے وہ لڑائیاں کریں گے کیونکہ ہمارے نزدیک دجّال ہو یا کوئی ہو اُس سے دین کیلئے لڑائی کرنا منع ہے ہریک مخلوق سے سچی ہمدردی چاہئے اور لڑائی کے خیالات سب باطل ہیں اور دجّال سے مراد صرف وہ فرقہ ہے جو کلام الٰہی میں تحریف کرتے ہیں یا دہریہ کے رنگ میں خدا سے لاپروا ہیں۔ اور اس لفظ میں کوئی اور خطرناک مفہوم مخفی نہیں ہے بلکہ یہ لفظ محرّف کے لفظ یا دہریہ کے لفظ سے مترادف ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/234/mode/1up

234

کرنا اور بارش کو بندکر دینا اور پانی بکثرت پیدا کرنا اور پانی کو خشک کر دینا۔ اور ہوا کا چلانا اور ہوا کو بند کر دینا اور کانوں کے ہر ایک قسم کے جواہر کو اپنی دستکاری سے پیدا کر لینا غرض مخلوقات کے تمام افعال طبعیہ پر قبضہ کر لینا۔ یہاں تک کہ انسانی نطفہ کو کسی پچکاری کے ذریعہ سے جس رحم میں چاہیں ڈال دینا اور اس سے حمل ٹھہرانے کے لئے کامیاب ہو جانا اور کسی طور سے مُردوں کو زندہ کر دینا اور عمروں کو بڑھا دینا اور غیب کی باتیں معلوم کر لینا اور تمام نظام طبعی پر تصرفِ تام کر لینا اُن کے ہاتھ میں آجائے اور کوئی بات اُن کے آگے انہونی نہ ہو۔ پس جبکہ ادب ربوبیت اور عظمت الوہیت اُن کے دلوں پر سے بکلّی اُٹھ جائے گی اور خدائی تقدیروں کو ٹالنے کے لئے بالمقابل جنگ کرنے والے کی طرح تدابیر اور اسباب تلاش کرتے رہیں گے تو وہ آسمان پر ایسے ہی سمجھے جائیں گے کہ گویا وہ خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں اور مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی معنے حق ہیں۔ اور جو دجّال کی آنکھوں کی نسبت حدیثوں میں آیا ہے کہ ایک آنکھ اُس کی بالکل اندھی ہوگی اور ایک میں پھولا ہوگا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ گروہ جو دجّالی صفات سے موسوم ہوگا اُس کا یہ حال ہوگا کہ ایک آنکھ اُس کی توکم دیکھے گی اور حقائق کے چہرے اُس کو دھندلے نظر آئیں گے مگر دوسری آنکھ بالکل اندھی ہوگی وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکے گی جیسا کہ یہ قوم جو نظر کے سامنے ہے توریت پر تو کسی قدر ایمان لاتی ہے گو ناقص اور غلط طور پر مگر قرآن شریف کو ؔ دیکھ نہیں سکتے گویا اُن کی ایک آنکھ میں انگور کے دانے کی طرح ٹینٹ پڑا ہوا ہے مگر دوسری آنکھ جس سے قرآن شریف کو دیکھنا تھا بالکل اندھی ہے۔ یہ کشفی رنگ میں دجّال کی صورت ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی آخری کتاب کو بالکل شناخت نہیں کریں گے۔ اور ظاہر ہے کہ اِس تاویل کی رو سے جو بالکل معقول اور قرین قیاس ہے کسی نئے دجّال کی تلاش کی ضرورت نہیں بلکہ جس گروہ نے قرآ ن شریف کی تکذیب کی اور جن کو خدا نے کتاب دی اور پھر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/235/mode/1up

235

انہوں نے اِ س کتاب پر عمل نہ کیا اور اپنی طرف سے اِس قدر تحریف کی کہ گویا نئی کتاب نازل ہو رہی ہے اور نیز کارخانہ قضاء و قدر میں اس قدر دست اندازی کی کہ خدا کی عظمت دلوں پر سے بکلی اُٹھ گئی وہی لوگ دجّال ہیں۔ ایک پہلو سے نبوت کے مدعی اور دوسرے پہلو سے خدائی کے دعویدار۔ تمام حدیثوں کا منشاء یہی ہے اور یہی قرآن شریف سے مطابق ہے اور اسی سے وہ اعتراض دُور ہوتا ہے جو ولاالضالین کی دُعا پر عائد ہو سکتا تھا اور یہ وہ امر ہے کہ جس پر واقعات کے سلسلہ کی ایک زبردست شہادت پائی جاتی ہے اور ایک منصف انسان کو بجز ماننے کے بن نہیں پڑتا اور گو لفظ دجّال کے ایک غلط اور خطرناک معنے کرنے میں بہت سی تعداد مسلمانوں کی آلودہ ہے مگر جو امر قرآن کے نصوص صریحہ اور اُن احادیث کے نصوص واضحہ سے جو قرآن کے مطابق ہیں غلط ثابت ہو گیا اور عقلِ سلیم نے بھی اسی کی تصدیق کی تو ایسا امر ایک انسان یا کروڑ انسان کے غلط خیالات کی وجہ سے غلط نہیں ٹھہر سکتا ورنہ لازم آتا ہے کہ جس مذہب کا دنیا میں تعداد کثیر ہو وہی سچا ہو۔ غرض اب یہ ثبوت کمال کو پہنچ گیا ہے اور اگر اب بھی کوئی مُنہ زوری سے باز نہ آوے تو وہ حیا سے عاری اور قرآن شریف کی تکذیب پر دلیر ہے اور وہ احادیث واضحہ جو قرآن کی منشاء کے موافق دجال کی حقیقت ظاہرکرتی ہیں وہ اگرچہ بہت ہیں مگر ہم اس جگہ بطور نمونہ ایک اُن میں سے درج کرتے ہیں۔ وہ حدیث یہ ہے:۔ یخرج فی اٰخر الزمان دجال یختلون الدنیا بالدین۔ یلبسون للناس جلود الضّأن من الدین۔ السنتھم احلٰی من العسل و قلوبھم قلوب الذیاب یقول اللّٰہ عزّ وجلّ أبِی یغترون ام علیّ یجترء ون۔ حتّی حلفت لأبعثن علی اولٰٓئک منھم فتنۃ۔ الخ ۔کنزالعمال جلد نمبر۷ صفحہ ۱۷۴۔ یعنی آخری زمانہ میں دجّال ظاہر ہوگا وہ ایک مذہبی گروہ ہوگا جو زمین پر جابجا خروج کرے گا اور وہ لوگ دنیا کے طالبوں کو دین کے ساتھ فریب دیں گے یعنی ان کو اپنے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/236/mode/1up

236

دین میں داخل کرنے کے لئے بہت سا مال پیش کریں گے اور ہر قسم کے آرام اور لذّات دنیوی کی طمع دیں گے اور اس غرض سے کہ کوئی اُن کے دین میں داخل ہو جائے بھیڑوں کی پوستین پہن کر آئیں گے۔ اُن کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے اور خدائے عزّو جلّ فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ میرے حلم پر مغرور ہو رہے ہیں کہ میں اُن کو جلد تر نہیں پکڑتا اور کیا یہ لوگ میرے پر افترا کرنے میں دلیری کر رہے ہیں یعنی میری کتابوں کی تحریف کرنے میں کیوں اس قدر مشغول ہیں۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں انہی میں سے اور انہی کی قوم میں سے ان پر ایک فتنہ برپا کروں گا۔ دیکھو کنزالعمال جلد نمبر۷ صفحہ نمبر ۱۷۴۔ اب بتلاؤ کہ کیا اس حدیث سے دجّال ایک شخص معلوم ہوتا ہے اور کیا یہ تمام اوصاف جو دجّال کے لکھے گئے ہیں یہ آج کل کسی قوم پر صادق آرہے ہیں یا نہیں؟ اور ہم پہلے اس سے قرآن شریف سے بھی ثابت کر چکے ہیں کہ دجّال ایک گروہ کا نام ہے نہ یہ کہ کوئی ایک شخص اور اس حدیث مذکوؔ رہ بالا میں جو دجّال کے لئے جمع کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں جیسے یَختلّون اور یَلبسون اور یغترّون اور یَجترءُ ون اور اولٰئک اور منھم یہ بھی بآواز بلند پکار رہے ہیں کہ دجّال ایک جماعت ہے نہ ایک انسان۔ اور قرآن شریف میں جو یاجوج ماجوج کا ذکر ہے جن کو خدا کی پہلی کتابوں نے یورپ کی قومیں قرار دیا ہے اور قرآن نے اس بیان کی تکذیب نہیں کی یہ دجّال کے اُن معنوں پر جو ہم نے بیان کئے ہیں ایک بڑا ثبوت ہے بعض حدیثیں بھی توریت کے اس بیان کی مصدق ہیں اور لندن میں یاجوج ماجوج کی پتھر کی ہیکلیں کسی پُرانے زمانہ سے اب تک محفوظ ہیں۔ یہ تمام امور جب یکجائی نظر سے دیکھے جائیں توعین الیقین کے درجہ پر یہ ثبوت معلوم ہوتا ہے اور تمام دجّالی خیالات ایک ہی لمحہ میں منتشر ہو جاتے ہیں۔ اگر اب بھی یہ بات قبول نہ کی جائے کہ حقیقت حقّہ صرف اِسی قدر ہے جو سورۃ فاتحہ کے آخری فقرہ یعنی لاالضالین سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/237/mode/1up

237

سمجھی جاتی ہے تو گویا اس بات کا قبول کرنا ہوگا کہ قرآن کی تعلیم کو ماننا کچھ ضروری نہیں بلکہ اس کے مخالف قدم رکھنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ پس وہ لوگ جو ہماری اس مخالفت پر خون پینے کو طیار ہیں مناسب ہے کہ اس موقعہ پر ذرا خدا تعالیٰ سے خوف کرکے سوچیں کہ وہ کس قدر خدا تعالیٰ کی پاک کلام سے دشمنانہ لڑائی کر رہے ہیں گو فرض کے طورپر اُن کے پاس ایسی حدیثیں انبار در انبار ہوں جن سے دجّال معہود کا ایک خوفناک وجود ظاہر ہوتاہو جو اپنی جسامت کی وجہ سے ایک ایسی سواری کا محتاج ہے جس کے دونوں کانوں کا فاصلہ قریباً تین سو ہاتھ ہے اور زمین و آسمان اور چاند اور سورج اور دریا اور ہوائیں اور مینہ اس کے حکم میں ہیں۔ لیکن ایسا ہیبت ناک وجود پیش کرنے سے کوئی ثبوت پیدا نہیں ہوگا۔ اس عقل اور قیاس کے زمانہ میں ایسا خلاف قانون قدرت وجود ماننا اسلام پر ایک داغ ہوگا۔ اور غایت کار ہندوؤں کے مہادیو اور بشن اور برہما کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں بھی لوگوں کے ہنسانے کے لئے یہ ایک لغو کہانی ہوگی جو قرآن کی پیشگوئی لا الضالین کے بھی مخالف ہے اور نیز اس کی تعلیم توحید کے بھی سراسر مخالف۔ اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ایسے وجود کو ماننا جس کے ہاتھ میں گوتھوڑے عرصہ کے لئے تمام خدائی قوت اور خدائی انتظام ہوگا اس قسم کے شرک کو اختیار کرنا ہے جس کی نظیر ہندوؤں اور چینیوں اور پارسیوں میں بھی کوئی نہیں۔ افسوس کہ اہل حدیث جو موحّد کہلاتے ہیں۔ اس شرک کی قسم سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں جو چوہے سے بھی کمتر ہے اور اس شرک کو اپنے گھر میں داخل کرتے ہیں جوہاتھی سے بھی زیادہ ہے۔ ان لوگوں کی توحید بھی عجیب طور کی پختہ ہے کہ عیسٰی بن مریم کو خالقیت میں خدا کا قریباً نصف کا شریک مان کر پھر توحید میں کچھ خلل نہیں آیا۔ تعجب کہ یہ لوگ جو اسلام کی اصلاح اور توحید کا دم مارتے ہیں وہی اس قسم کے شرکوں پر زور مار رہے ہیں اور خدا کی طرح مسیح کو بلکہ دجّال کو بھی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/238/mode/1up

238

بے انت اور بے انتہا کمالاتِ الوہیت سے موصوف سمجھتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اُن کی نظر میں خدا کی سلطنت بھی ایسے ہمسر شریکوں سے پاک نہیں ہے اور پھر خاصے موحّد اور اہلِ حدیث ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مشرک ہیں اور گو عیسائی مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ لوگ درحقیقت مشنریوں پر بہت ہی احسان کر رہے ہیں کہ ایک مسلمان کو اگروہ اُن کے اِن عقیدوں کا پابند ہو جائے جن کو یہ مولوی مسیح اور دجّال کی نسبت سِکھلا رہے ہیں بہت آسانی سے عیسائی مذہب کے قریب لے آتے ہیں یہاںؔ تک کہ ایک پادری صرف چند منٹ میں ہی ہنسی خوشی میں ان کو مرتد کر سکتا ہے۔ یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ دجّال کو الوہیت کی صفات دینے سے عیسائیوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے گو مسیح میں ایسی صفات قائم کرنے سے توفائدہ پہنچتا ہے۔ کیونکہ جبکہ دجّال جیسے دشمنِ دین اور ناپاک طبع کی نسبت مان لیا گیا کہ وہ اپنے اختیار سے بارش برسانے اور مُردوں کے زندہ کرنے اور بارش کے روکنے اور دوسری صفاتِ الوہیت پر قادر ہوگا تو اس سے بہت صفائی کے ساتھ یہ راہ کھل جاتی ہے کہ جبکہ ایک خدا کا دشمن خدائی کے مرتبہ پر پہنچ سکتا ہے اور جبکہ خدائی کارخانہ میں ایسی بد انتظامی اور گڑبڑ پڑا ہوا ہے کہ دجّال بھی اپنی جھوٹی خدائی چالیس برس تک یا چالیس دن تک چلائے گا تو پھر حضرت عیسیٰ کی خدائی میں کونسا اشکال عائد حال ہو سکتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کے بپتسمہ پانے پر بڑی بڑی اُمیدیں پادری صاحبوں کو دلوں میں رکھنی چاہئیں۔ اور درحقیقت اگر خدا تعالیٰ آسمان سے اپنے اس سلسلہ کی بنیاد اس نازک وقت میں نہ ڈالتا تو اِن اعتقادوں کے طفیل سے ہزاروں مولویوں کی روحیں پادری عماد الدین کی رُوح سے مِل جاتیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی غیرت اور اس کا وہ وعدہ جو صدی کے سر سے متعلق تھا وہ پادری صاحبوں کی اِس کامیابی میں حائل ہو گیا مگر مولوی صاحبوں کی طرف سے کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ دانشمند



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/239/mode/1up

239

خوب جانتے ہیں کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے اور نیز پادریوں کے حملوں سے اسلام کو بچانے کے لئے یہ نہایت نیک فال ہے کہ وہ تمام باتیں جس سے مسیح کو زندہ آسمان پر چڑھایا گیا اور فقط اُسی کو زندہ رسول اور معصوم رسول مس شیطان سے پاک اور ہزاروں مُردوں کو زندہ کرنے والا اور بے شمار پرندوں کو پیدا کرنے والا اور قریباً نصف میں خدا کا شریک سمجھا گیا تھااور دوسرے تمام نبی مُردے اور عاجز اور مس شیطان سے آلودہ سمجھے گئے تھے جنہوں نے ایک مکھّی بھی پیدا نہ کی یہ تمام افترا اور جھوٹ کے طلسم خدا نے مجھے مبعوث فرما کر ایسے توڑ دیئے کہ جیسے ایک کاغذ کا تختہ لپیٹ دیا جائے اور خدا نے عیسیٰ بن مریم سے تمام زوائد کو الگ کرکے معمولی انسانی درجہ پر بٹھا دیا اور اُس کو دوسرے نبیوں کے افعال اور خوارق کی نسبت ایک ذرہ خصوصیت نہ رہی اور ہر ایک پہلو سے ہمارے سیّد و مولیٰ نبی الوریٰ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد عالیہ آفتاب کی طرح چمک اُٹھے۔ اے خدا! ہم تیرے احسانوں کا کیونکر شکر کریں کہ تُونے ایک تنگ وتاریک قبر سے اسلام اور مسلمانوں کو باہر نکالا اور عیسائیوں کے تمام فخر خاک میں ملا دیئے اور ہمارا قدم جو ہم محمدی گروہ ہیں ایک بلند اور نہایت اونچے منار پرر کھ دیا۔ ہم نے تیرے نشان جو محمدی رسالت پر روشن دلائل ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ہم نے آسمان پر رمضان میں اُس خسوف کسوف کا مشاہدہ کیا جس کی نسبت تیری کتاب قرآن اور تیرے نبی کی طرف سے تیرہ سو برس سے پیشگوئی تھی ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ تیری کتاب اور تیرے نبی کی پیشگوئی کے مطابق اونٹوں کی سواری ریل کے جاری ہونے سے موقوف ہو گئی اور عنقریب مکہ اور مدینہ کی راہ سے بھی یہ سواریاں موقوف ہونے والی ہیں۔ ہم نے تیری کتاب قرآن کی پیشگوئی لا الضالین کو بھی بڑے زور شور سے پورے ہوتے دیکھ لیا اور ہم نے یقین کر لیا کہ درحقیقت یہی وہ فتنہ ہے جس کی آدم سے لے کر قیامت تک اسلام کی ضرر رسانی میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/240/mode/1up

240

کوئی نظیر نہیں۔ اسلام کی مزاحمت کے لئے یہی ایک بھاری فتنہ تھا جو ظہور میں آگیا۔ اب اس کے بعد قیامت تک کوئی ایسا بڑا فتنہ نہیں۔ اے کریم! تو ایسا نہیں ہے کہ اپنےؔ مذہب اسلام پر دو موتیں جمع کرے ایک موت جو عظیم ابتلا تھا اور جو مسلمانوں اور اسلام کے لئے مقدّر تھا وہ ظہور میں آگیا۔ اب اے ہمارے رحیم خدا! ہماری رُوح گواہی دیتی ہے کہ جیسا کہ تُونے نوح کے دنوں میں کیا کہ بہت سے آدمیوں کو ہلاک کرکے پھر تجھے رحم آیا اور تونے توریت میں وعدہ کیا کہ مَیں پھر اس طرح انسانوں کو طوفان سے ہلاک نہیں کروں گا۔ پس دیکھ اے ہمارے خدا اس امت پر یہ طوفان نوح کے دنوں سے کچھ کم نہیں آیا۔ لاکھوں جانیں ہلاک ہو گئیں اور تیرے نبی کریم کی عزّت ایک ناپاک کیچڑ میں پھینک دی گئی۔ پس کیا اس طوفان کے بعد اس امت پر کوئی اور بھی طوفان ہے یا کوئی اور بھی دجال ہے* جس کے خوف سے ہماری جانیں گداز ہوتی رہیں۔ تیری رحمت بشارات دیتی ہے کہ ’’کوئی نہیں‘‘کیونکہ تو وہ نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں پر دو۲ موتیں جمع کرے مگر ایک موت جو واقع ہو چکی۔ اب اس ایک دفعہ کے قتل کے بعد اس خوبصورت جوان کے قتل پر کوئی دجّال قیامت تک قادر نہیں ہوگا۔ یاد رکھو اس پیشگوئی کو۔ اے لوگو! خوب یاد رکھو کہ یہ خوبصورت پہلوان کہ جو جوانی کی

* دجّال کے لفظ کی نسبت ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ اس سے وہ خونی شخص مراد نہیں ہے جس کی مسلمانوں کو انتظار ہے بلکہ اس سے صرف ایک فرقہ مراد ہے جو کتابوں کی تحریف اور تبدیل کرکے سچائی کو دفن کرتا ہے اور دجال کے قتل کرنے سے صرف یہ مراد ہے کہ ان کو دلائل کے ساتھ مغلوب کیا جائے اور مسیح ابن مریم جو خطرناک بیماروں کو جو بوجہ شدت غشی مُردوں کی طرح تھی زندہ کرتا تھا اِس زمانہ میں اس کے نمونہ پر مسیح موعود کا یہ کام ہے کہ اسلام کو زندہ کرے جیسا کہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے کہ یقیم الشریعۃ ویحی الدین ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/241/mode/1up

241

تمام قوتوں سے بھرا ہوا ہے یعنی اسلام یہ صرف ایک ہی دفعہ دجّال کے ہاتھ سے قتل ہونا تھا۔ سو جیسا کہ مقدّر تھا یہ مشرقی زمین میں قتل ہو گیا اور نہایت بے دردی سے اس کے جسم کو چاک کیا گیا اور پھر دجّال نے یعنی اس کی عمر کے خاتمہ نے چاہا کہ یہ جوان زندہ ہو چنانچہ اب وہ خدا کے مسیح کے ذریعہ سے زندہ ہو گیا اور اب سے اپنی تمام طاقتوں میں دوبارہ بھرتا جائے گا اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گا ولا تردعلیہ موتۃ الّاموتتہ الاولٰی۔ واذا ھلک الدجّال فلا دجّال بعدہ الٰی یوم القیامۃ امرمن لدن حکیم علیم ونبأ من عند ربّنا الکریم وبشارۃ من اللّٰہ الرء وف الرحیم۔ لایأتی بعد ھٰذا الا نصرمن اللّٰہ وفتح عظیم۔ اے قادر خدا! تیری شان کیا ہی بلند ہے تونے اپنے بندہ کے ہاتھ پر کیسے کیسے بزرگ نشان دکھلائے۔ جو کچھ تیرے ہاتھ نے جمالی رنگ میں آتھم کے ساتھ کیا اور پھر جلالی رنگ میں لیکھرام کے ساتھ کیا یہ چمکتے ہوئے نشان عیسائیوں میں کہاں ہیں اور کِس ملک میں ہیں کوئی دکھلاوے۔ اے قادر خدا! جیسا تُونے اپنے اس بندہ کو کہا کہ میں ہرمیدان میں تیرے ساتھ ہوں گا اور ہر ایک مقابلہ میں رُوح القدس سے میں تیری مدد کروں گا آج عیسائیوں میں ایسا شخص کون ہے جس پر اس طور سے غیب اور اعجاز کے دروازے کھولے گئے ہوں۔ اس لئے ہم جانتے ہیں اور بچشم خود دیکھتے ہیں کہ تیرا وہی رسول فضل اور سچائی لے کر آیا ہے جس کا نام محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم ہے۔ حضرت عیسیٰ کی نبوت کو بھی اسی کے وجود سے رنگ اور رونق ہے۔ ورنہ حضرت مسیح کی نبوت پر اگر گذشتہ قصوں کو الگ کرکے کوئی زندہ ثبوت مانگا جائے تو ایک ذرّہ کے برابر بھی ثبوت نہیں مل سکتا اور قصّے تو ہر ایک قوم کے پاس ہیں کیا ہندوؤں کے پا س نہیں ہیں؟

اور منجملہ اُن دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں وہ ذاتی نشانیاں ہیں جو مسیح موعود کی نسبت بیان فرمائی گئی ہیں اور ان میں سے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/242/mode/1up

242

مسیح موعود کے لئے ضروری ہے کہ وہ آخری زمانہ میں پیدا ہو جیسا کہ یہ حدیث ہے یکون فی اٰخرالزمان عند تظاھر من الفتن وانقطاع من الزمن۔ اور اس بات کے ثبوت کیلئے کہ درحقیقت یہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح ظاہر ہوجانا چاہئے دو طور کے دلائل موجود ہیں (۱) اول وہ آیاتِ قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اورؔ پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ خسوف کسوف کا ایک ہی مہینہ میں یعنی رمضان میں ہونا۔ جس کی تصریح آیت 3 ۱؂ میں کی گئی ہے۔ اور اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا جس کی تشریح آیت3 ۲؂ سے ظاہر ہے اور ملک میں نہروں کا بکثرت نکلنا جیسا کہ آیت3 ۳؂ سے ظاہر ہے اور ستاروں کا متواتر ٹوٹنا جیسا کہ آیت33 ۴؂ سے ظاہر ہے اور قحط پڑنا اور وبا پڑنا اور امساک باراں ہونا جیسا کہ آیت 3 ۵؂ سے منکشف ہے۔* اور سخت قسم کا کسوف شمس واقع ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت 3 ۶؂ سے ظاہر ہے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے اُٹھا دینا جیسا کہ آیت 3 ۷؂ سے سمجھا جاتاہے اور جو لوگ وحشی اور اراذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں ان کا اقبال چمک اٹھنا جیسا کہ آیت 3

* قرآن شریف میں سماء کا لفظ نہ صرف آسمان پر ہی بولا جاتا ہے جیسا کہ عوام کا خیال ہے بلکہ کئی معنوں پر سماء کا لفظ قرآن شریف میں آیا ہے چنانچہ مینہ کا نام بھی قرآن شریف میں سما ء ہے اور اہل عرب مینہ کو سما ء کہتے ہیں اور کتب تعبیر میں سما ء سے مُراد بادشاہ بھی ہوتا ہے۔ اورآسمان کے پھٹنے سے بدعتیں اور ضلالتیں اور ہر ایک قسم کا جور اور ظلم مراد لیا جاتاہے اور نیز ہر قسم کے فتنوں کا ظہور مراد لیا جاتا ہے۔ کتاب تعطیر الانام میں لکھا ہے:۔ فان رأی السماء انشقت دَلّ علی البدعۃ والضلالۃ دیکھو صفحہ۳۰۵ تعطیر الانام۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/243/mode/1up

243

سے مترشح ہو رہا ہے۔* اور تمام دنیا میں تعلقات اور ملاقاتوں کا سلسلہ گرم ہو جانا اور سفر کے ذریعہ سے ایک کا دوسرے کو ملنا سہل ہو جانا جیسا کہ بدیہی طور پر آیت 3۲؂ سے سمجھا جاتا ہے اور کتابوں اور رسالوں اور خطوط کا ملکوں میں شائع ہو جانا جیسا کہ آیت 3۳؂ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ اور علماء کی باطنی حالت کا جو نجوم اسلام ہیں مکدّر ہو جانا جیسا کہ 3۴؂ سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ اور بدعتوں اور ضلالتوں اور ہر قسم کے فسق و فجور کا پھیل جانا جیسا کہ آیت 33 ۵؂ سے مفہوم ہوتا ہے۔ یہ تمام علامتیں قرب قیامت کی ظاہر ہو چکی ہیں اور دنیا پر ایک انقلابِ عظیم آگیا ہے۔ اور جبکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے جیسا کہ آیت 3۶؂ سے سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ زمانہ جس پر تیرہ سو۱۳۰۰ برس اور گذر گیا اس کے آخری زمانہ ہونے میں کس کو کلام ہو سکتا ہے اور علاوہ نصوصِ صریحہ قرآؔ ن شریف اور احادیث کے تمام اکابر اہل کشوف کا اس پر

* ہم اس سے پہلے ابو الدرداء کی روایت سے لکھ چکے ہیں کہ قرآن ذوالوجوہ ہے اور جس شخص نے قرآن شریف کی آیات کو ایک ہی پہلو پر محدود کر دیا اُس نے قرآن کو نہیں سمجھا اور نہ اس کو کتاب اللہ کا تفقہ حاصل ہوا۔ اور اس سے بڑھ کر کوئی جاہل نہیں۔ ہاں ممکن ہے کہ ان آیات میں سے بعض قیامت سے بھی تعلق رکھتی ہوں مگر اوّل مصداق ان آیات کا یہی دنیا ہے کیونکہ یہ آخری زمانہ کی نشانیاں ہیں اور جب دنیا کا سلسلہ ہی لپیٹا گیا تو پھر کس بات کی یہ نشانیاں ہوں گی۔ غالباً اسلام میں ایسے جاہل بھی ہوں گے جو اس راز کو نہیں سمجھے ہوں گے۔ اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں جن سے ایمان قوی ہوتا ہے اُن کی نظر میں تمام وہ امور بعد الدنیا ہیں۔ یہ تمام قرآنی پیشگوئیاں پہلی

کتابوں میں مسیح موعود کے وقت کی نشانیاں ٹھہرائی گئی ہیں۔ دیکھو دانی ایل باب نمبر۱۲۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/244/mode/1up

244

اتفاق ہے کہ چودھویں صدی وہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح موعود ظاہر ہوگا ہزارہا اہل اللہ کے دل اسی طرف مائل رہے ہیں کہ مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ غایت کار چودھویں صدی ہے اِس سے بڑھ کر ہر گز نہیں چنانچہ نواب صدیق حسن خاں نے بھی اپنی کتاب حجج الکرامہ میں اِس بات کو لکھا ہے۔ اور پھر ماسوا اس کے سورہ مرسلات میں ایک آیت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت کی ایک بھاری علامت یہ ہے کہ ایسا شخص پیدا ہو جس سے رسولوں کی حد بست ہو جائے یعنی سلسلہ استخلاف محمدیہ کا آخری خلیفہ جس کا نام مسیح موعود اور مہدی معہود ہے ظاہر ہو جائے اور وہ آیت یہ ہے۔ 3 ۱؂۔ یعنی وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعیین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضاء و قدر کا اندازہ جو مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آجائے گا۔ یہ آیت بھی اس بات پر نص صریح ہے کہ مسیح موعود اِسی اُمّت میں سے ہوگا کیونکہ اگر بھلا* مسیح ہی دوبارہ آجائے تو وہ افادہ تعیین عدد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تو بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک رسول ہے جو فوت ہو چکا ہے اور اس جگہ خلفائے سلسلۂ محمدیہ کی تعیین مطلوب ہے اور اگر یہ سوال ہو کہ اقّتت کے یہ معنے یعنی معین کرنا اس عدد کا جوارادہ کیا گیا ہے کہاں سے معلوم ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتب لُغت لسان العرب وغیرہ میں لکھا ہے کہ قد یجیءُ التوقیت بمعنی تبیین الحد والعدد والمقدار کما جاء فی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ لم یقت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الخمر حدّا ای لم یقدّر ولم یحدّہ بِعَدَدٍ مخصوصٍ۔ یعنی لفظ توقیت جس سے اُقّتت نکلا ہے کبھی حد اور شمار اور مقدار کے بیان کرنے کے لئے آتا ہے جیسا کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہے

* یہ لفظ’’ پہلا ‘‘ہے۔ کاتب کی غلطی سے’’ بھلا ‘‘لکھا گیا ہے۔ مصحح



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 245

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/245/mode/1up

245

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمر کی کچھ توقیت نہیں کی۔ یعنی خمرکی حد کی کوئی تعداد اور مقدار بیان نہیں کی اور تعیین عدد بیان نہیں فرمائی۔ پس یہی معنے آیت3 ۱؂ کے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا او ریہ آیت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسولوں کی آخری میزان ظاہر کرنے والا مسیح موعود ہے اور یہ صاف بات ہے کہ جب ایک سلسلہ کا آخر ظاہر ہو جاتا ہے تو عند العقل اس سلسلہ کی پیمائش ہو جاتی ہے اور جب تک کہ کوئی خط ممتد کسی نقطہ پر ختم نہ ہو ایسے خط کی پیمائش ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی دوسری طرف غیرمعلوم اور غیرمعیّن ہے۔ پس اس آیت کریمہ کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود کے ظہور سے دونوں طرف سلسلہ خلافت محمدیہ کے معین اور مشخص ہو جائیں گے گویا یوں فرماتا ہے واذا الخلفاء بُیّن تعدادھم وحُدّد عددھم بخلیفۃ ھو اٰخر الخلفاء الذی ھو المسیح الموعود فان اٰخر کل شیءٍ یعین مقدار ذالک الشئ وتعدادہ فھٰذا ھو معنی واذا الرسل اُقّتت۔

اور دوسری دلیل زمانہ کے آخری ہونے پر یہ ہے کہ قرآن شریف کی سورۂ عصر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا یہ زمانہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہزار ششم پر واقع ہے۔ یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے یہ چھٹا ہزار جاتا ہے۔ اور ایسا ہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے۔* لہٰذا آخر ہزار ششم وہ

* حکیم ترمذی نے نوادرالاصولمیں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ عمر دنیاؔ سات ہزار سال ہے۔ اور انس بن مالک سے روایت ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک مسلمان کی حاجت براری کرے اس کے لئے عمر دنیا کے اندازہ پر دن کو روزہ رکھنا اور رات کو عبادت کرنا لکھا جاتا ہے اور عمر دنیا سات ہزار سال ہے۔ دیکھو تاریخ ابن عساکر اور نیز وہی مؤلف انس سے مرفوعاً روایت کرتا ہے کہ عمر دنیا آخرت کے دنوں میں سے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 246

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/246/mode/1up

246

آخری حصہ اِس دنیا کا ہوا جس سے ہر ایک جسمانی اور روحانی تکمیل وابستہ ہے۔ کیوؔ نکہ

سات دن یعنی حسب منطوق 33 ۱؂ سات ہزار سال ہے۔ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تمہارا ہزار سال خدا کا ایک دن ہے۔ ایسا ہی طبرانی نے اور نیز بیہقی نے دلائل میں اور شبلی نے رَوضِ اَنف میں عمر دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار سال روایت کی ہے۔ ایسا ہی بطریق صحیح ابن عباس سے منقول ہے کہ دنیا سات دن ہیں اور ہر ایک دن ہزارسال کا ہے اور بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہزار ہفتم میں ہے مگریہ حدیث دو پہلو سے موردِ اعتراض ہے جس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ اوّل یہ کہ اس حدیث کو بعض دوسری حدیثوں سے تناقض ہے کیونکہ دوسری احادیث میں یوں لکھا ہے کہ بعثت نبوی آخر ہزار ششم میں ہے اور اس حدیث میں ہے کہ ہزار ہفتم میں ہے پس یہ تناقض تطبیق کو چاہتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امر واقعی اور صحیح یہی ہے کہ بعثتِ نبوی ہزار ششم کے آخر میں ہے جیسا کہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ بالاتفاق گواہی دے رہی ہیں۔ لیکن چونکہ آخر صدی کا یا مثلاً آخر ہزار کا اُس صدی یا ہزار کا سر کہلاتا ہے جو اس کے بعد شروع ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ پیوستہ ہے اس لئے یہ محاورہ ہر ایک قوم کا ہے کہ مثلاً وہ کسی صدی کے آخری حصے کو جس پر گویا صدی ختم ہونے کے حکم میں ہے دوسری صدی پر جو اس کے بعد شروع ہونے والی ہے اطلاق کر دیتے ہیں مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ فلاں مجدد بارھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوا تھا گو وہ گیارھویں صدی کے اخیر پر ظاہر ہوا ہو یعنی گیارھویں صدی کے چند سال رہتے اس نے ظہور کیا ہو اور پھر بسااوقات بباعث تسامح کلام یا قصورِ فہم راویوں کی وجہ سے یا بوجہ عدم ضبط کلمات نبویہ اور ذہول کے جو لازم نشأ بشریت ہے کسی قدر اور بھی تغیر ہو جاتا ہے۔ سو اس قسم کا تعارض قابلِ التفات نہیں بلکہ در حقیقت یہ کچھ تعارض ہی نہیں یہ سب باتیں عادت اور محاورہ میں داخل ہیں کوئی عقلمند اس کو تعارض نہیں سمجھے گا۔

(۲) دوسرا پہلو جس کے رو سے اعتراض ہوتا ہے یہ ہے کہ بموجب اس حساب کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 247

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/247/mode/1up

247

خدائی کارخانہ قدرت میں چھٹے دن اور چھٹے ہزار کو الٰہی فعل کی تکمیل کے لئے قدیم سے مقرر

جو یہود اور نصاریٰ میں محفوظ اور متواتر چلا آتا ہے جس کی شہادت اعجازی طور پر کلام معجز نظام قرآن شریف میں بکمال لطافت بیان موجود ہے جیسا کہ ہم نے متن میں مفصّل بیان کر دیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کے رُو سے ۴۷۳۹ برس بعد میں مبعوث ہوئے ہیں اور شمسی حساب کے رُو سے ۴۵۹۸ برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبینا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے۔ پس اِس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم ہزار پنجم میں یعنی الف خامس میں ظہور فرما ہوئے نہ کہ ہزار ششم میں اور یہ حساب بہت صحیح ہے کیونکہ یہود اور نصاریٰ کے علماء کا تواتر اِسی پر ہے اور قرآن شریف اِس کا مصدق ہے اور کئی اور وجوہ اور دلائل عقلیہ جن کی تفصیل موجب تطویل ہے قطعی طور پر اس بات پر جزم کرتی ہیں کہ مابین سیدؔ نا محمد مصطفی اور آدم صفی اللہ میں یہی فاصلہ ہے اس سے زیادہ نہیں گو آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے کی تاریخ لاکھوں برس ہوں یا کروڑہا برس ہوں جس کا علم خدا تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ہمارے ابو النوع آدم صفی اللہ کی پیدائش کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت تک یہی مدت گذری تھی یعنی ۴۷۳۹ برس بحساب قمری اور ۴۵۹۸ بحساب شمسی اور جبکہ قرآن اور حدیث اور تواتر اہل کتاب سے یہی مدت ثابت ہوتی ہے تو یہ بات بدیہی البطلان ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار ششم کے آخر پر مبعوث ہوئے تھے کیونکہ اگروہ آخر ہزار ششم تھا تو اب تیرہ سو سترہ اور اس کے ساتھ ملاکر سات ہزار تین سو سترہ ہوں گے حالانکہ بالاتفاق تمام احادیث کے رو سے عمر دنیا کُل سات ہزار برس قرار پایا تھا تو گویا اب ہم دنیا کے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں اور گویا اب دنیا کو ختم ہوئے تین سو سترہ برس گذر گئے یہ کس قدر لغو اور بیہودہ خیال ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 248

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/248/mode/1up

248

فرمایاگیا ہے۔ مثلاًؔ حضرت آدم علیہ السلام چھٹے دن میں یعنی بروز جمعہ دن کے اخیر حصے میں

جس کی طرف ہمارے علماء نے کبھی توجہ نہیں کی ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ احادیث صحیحہ متواترہ کے رُو سے عمر دنیا یعنی حضرت آدم سے لے کر اخیر تک سات ہزار برس قرار پائی تھی اور قرآن شریف میں بھی آیت33 ۱؂ میں اِسی کی طرف اشارہ فرمایا اور اہل کتاب یہود اور نصاریٰ کا بھی یہی مذہب ہوا اور خدا تعالیٰ کا سات دن مقررکرنا اور اُن کے متعلق سات ستارے مقرر کرنا اور سات آسمان اور سات زمین کے طبقے جن کو ہفت اقلیم کہتے ہیں قرار دینا یہ سب اسی طرف اشارات ہیںؔ تو پھروہ کونسا حساب ہے جس کے رُوسے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو الف سادس یعنی ہزار ششم قرار دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو آج کی تاریخ تک تیرہ سو سترہ برس اور چھ مہینے اوپر گذر گئے تو پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ چھٹا ہزار تھا تو یہ ہمارا زمانہ کہ جو تیرہ سو برس بعد آیا دنیاکی عمر کے اندر کیونکر رہ سکتا ہے ذرہ چھ ہزار اور تیرہ سو برس کی میزان تو کرو۔ غرض یہ اعتراض ہے جو اس حدیث پر ہوتاہے جس میں لکھا ہے کہ عمر دنیا کی سات ہزار برس ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہزار ششم میں مبعوث ہوئے۔ اور اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک نبی کا ایک بعث ہے ۔مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ3۲؂ ہے۔ تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اور ہدایت پائیں گے پس جبکہ یہ امر نص صریح قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیاز اور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 249

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/249/mode/1up

249

پیدا ہوئے یعنی آپ کے وجود کا تمام وکمال پیرایہ چھٹے دن ظاہر ہوا گو خمیر آدم کا آہستہ

تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہوگا تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بعث ماننا پڑا جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا اور اس تقریر سے یہ بات بپایہء ثبوت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیا گیا تھا جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے ظہور سے پورا ہوا۔ غرض جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہوئے تو جوبعض حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار ششم کے اخیر میں مبعوث ہوئے تھے اس سے بعث دوم مراد ہے جو نص قطعی آیت کریمہ 33۱؂ سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ نادان مولوی جن کے ہاتھ میں صرف پوست ہی پوست ہے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی انتظار کر رہے ہیں۔ مگر قرآن شریف ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کی بشارت دیتا ہے کیونکہ افاضہ بغیر بعث غیر ممکن ہے اور بعث بغیر زندگی کے غیر ممکن ہے اور حاصل اس آیت کریمہ یعنی 3 33کا یہی ہے کہ دنیا میں زندہ رسول ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہزار ششم میں بھی مبعوث ہو کر ایسا ہی افاضہ کرے گا جیسا کہ وہ ہزار پنجم میں افاضہ کرتا تھا اور مبعوث ہونے کے اس جگہ یہی معنی ہیں کہ جب ہزار ششم آئے گا اور مہدی موعود اس کے آخر میں ظاہر ہوگا توگوبظاہر مہدئ موعود کے توسط سے دنیا کو ہدایت ہوگی لیکن دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نئے سرے اصلاح عالم کی طرف ایسی سرگرمی سے توجہ کرے گی کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مبعوث ہو کر دنیا میں آگئے ہیں۔ یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ 3۲؂ پس یہ خبر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم کے متعلق ہے جس کے ساتھ یہ ؔ شرط ہے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 250

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/250/mode/1up

250

آہستہ طیار ہو رہا تھا اور تمام جمادی نباتی حیوانی پیدائشوں کے ساتھ بھی شریک تھا لیکن کمال خلقت کا دن چھٹا دن تھا۔ اور قرآن شریف بھی گو آہستہ آہستہ پہلے سے نازل ہو رہا تھا مگر اس کاکامل وجود بھی چھٹے دن ہی بروز جمعہ اپنے کمال کو پہنچا اور آیت 3۱؂ نازل ہوئی اور انسانی نطفہ بھی اپنے تغیرات کے چھٹے مرتبہ ہی خلقتِ بشری سے پورا حصہ پاتا ہے جس کی طرف آیت 33 ۲؂ میں اشارہ ہے۔ اور مراتب ستہ یہ ہیں (۱) نطفہ (۲) علقہ (۳) مضغہ (۴) عظام (۵) لحم محیط العظام (۶) خلق آخر، اس قانون قدرت سے جو روز ششم اورمرتبہ ششم کی نسبت معلوم ہو چکا ہے ماننا پڑتا ہے کہ دنیا کی عمر کا ہزار ششم بھی یعنی اس کا

کہ وہ بعث ہزار ششم کے اخیر پر ہوگا۔ اسی حدیث سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود جو مظہر تجلّیاتِ محمدیہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعث دوم موقوف ہے وہ چودھویں صدی کے سر پر ظاہرہو کیونکہ یہی صدی ہزار ششم کے آخری حصہ میں پڑتی ہے اور بعض علماء کا اس جگہ یہ تاویل کرنا کہ عمردنیا سے مراد گذشتہ عمر ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ تمام حدیثیں بہ حیثیت پیشگوئی کرنے کے ہیں اور حدیث ہفت پایہء ممبر خواب میں دیکھنے کی بھی اسی کی مؤید ہے اور اس بارے میں جو عقیدہ مقبولۃ الاجماع یہود و نصاریٰ ہے وہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور گزشتہ نبیوں کے سلسلہ پر نظر کرنے سے یہی تخمینہ قیاسًاسمجھ میں آتا ہے ۔اور یہ کہنا کہ آئندہ کی تو خدا نے کسی کو خبر نہیں دی کہ کب قیامت آئے گی یہ بے شک صحیح ہے مگر عمر دنیا کی سات ہزار برس قرار دینے سے اس امر کے بارے میں کہ کس گھڑی قیامت برپا ہوگی کوئی دلیل قطعی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ سات ہزار کے لفظ سے یہ مستنبط نہیں ہوتا کہ ضرور سات ہزار برس پورا کرکے قیامت آجائے گی۔ وجہ یہ کہ اول تو یہ امر مشتبہ رہے گا کہ اس جگہ خدا تعالیٰ نے سات ہزار سے شمسی حساب کی مدت مراد لی ہے یا قمری



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 251

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/251/mode/1up

251

آخری حصّہ بھی جس میں ہم ہیں کسی آدم کے پیدا ہونے کا وقت اور کسی دینی تکمیل کے ظہور کا زمانہ ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کا یہ الہام کہ اردت ان استخلف فخلقتُ اٰدم اور یہ الہام کہ :۔لیظھرہ علی الدین کلّہ اس پر دلالت کر رہا ہے۔ اور یاد رہے کہ اگرچہ قرآن شریف کے ظاہر الفاظ میں عمر دنیا کی نسبت کچھ ذکر نہیں ۔لیکن قرآن میں بہت سے ایسے اشارات بھرے پڑے ہیں جن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عمر دنیایعنی دَور آدم کا زمانہ سات ہزار سال ہے۔ چنانچہ منجملہ ان اشارات قرآنی کے ایک یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

حساب کی اور شمسی حساب سے اگر سات ہزار سال ہو تو قمری حساب سے قریباً دو سو برس اور اوپر چاہئے اور ماسوا اس کے چونکہ عرب کی عادت میں یہ داخل ہے کہ وہ کسور کو حساب سے ساقط رکھتے ہیں اور مخلّ مطلب نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ سات ہزار سے اس قدر زیادہ بھی ہو جائے جو آٹھ ہزار تک نہ پہنچے۔ مثلاً دو تین سو برس اور زیادہ ہو جائیں تو اس صورت میں باوجود بیان اس مدت کے وہ خاص ساعت تو مخفی کی مخفی ہی رہی اور یہ مدت بطور ایک علامت کے ہوئی جیسا کہ انسان کی موت کی گھڑی جو قیامت صغریٰ ہے مخفی ہے مگر یہ علامت ظاہرہے کہ ایک سو بیس برس تک انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور پیرانہ سالی بھی اس کی موت کی ایک علامت ہے ایسا ہی امراض مہلکہ بھی علامت موت ہیں اور نیز اس میں کیا شک ہے کہ قرآن شریف میں قرب قیامت کی بہت سی علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں اور ایسا ہی احادیث میں بھی۔ پس منجملہ ان کے سات ہزار سال بھی ایک علامت ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ قیامت بھی کئی قسم پر منقسم ہے اور ممکن ہے کہ سات ہزار سال کے بعد کوئی قیامت صغریٰ ہو جس سے دنیا کی ایک بڑی تبدیلی مراد ہو نہ قیامت کبریٰ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 252

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/252/mode/1up

252

کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی تیئیس۲۳ برس کا تمام وکامل زمانہ یہ کل مدت گذشتہ زما ؔ نہکے ساتھ ملاکر ۴۷۳۹ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سےؔ ہیں۔* پس اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الف خامس میں جو مریخ کی طرف منسوب ہے مبعوث ہوئے ہیں اور شمسی حساب سے یہ مدت ۴۵۹۸ ہوتی ہے اور عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائبل کا رکھا گیا ہے ۴۶۳۶ برس ہیں۔ یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک ۴۶۳۶ برس ہوتے ہیں اس سے ظاہرہوا کہ قرآنی حساب جو سورۃ العصر کے اعداد سے معلوم ہوتا ہے اور عیسائیوں کی بائبل کے حساب میں جس کے رُو سے بائبل کے

اس حساب کے رُو سے میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے سو جیسا کہ آدم علیہ السلام اخیر حصہ میں پیدا ہوا ایسا ہی میری پیدائش ہوئی خدانے منکروں کے عذروں کو توڑنے کے لئے یہ خوب بندوبست کیا ہے کہ مسیح موعود کے لئے چار ضروری علامتیں رکھ دی ہیں (۱) ایک یہ کہ اس کی پیدائش حضرت آدم کی پیدائش کے رنگ میں آخر ہزار ششم میں ہو۔ (۲) دوسری یہ کہ اس کا ظہور و بروز صدی کے سر پر ہو (۳) تیسری یہ کہ اس کے دعویٰ کے وقت آسمان پر رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف ہو (۴) چوتھی یہ کہ اس کے دعوے کے وقت میں بجائے اونٹوں کے ایک اور سواری دنیا میں پیدا ہو جائے۔ اب ظاہر ہے کہ چاروں علامتیں ظہور میں آچکی ہیں۔ چنانچہ مدت ہوئی کہ ہزار ششم گذر گیا اور اب قریباً پچاسوا۵۰ ں سال اس پر زیادہ جا رہا ہے۔ اور اب دنیا ہزار ہفتم کو بسر کر رہی ہے اور صدی کے سر پر سے بھی سترہ ۱۷ برس گذر گئے اور خسوف کسوف پر بھی کئی سال گذر چکے اور اونٹوں کی جگہ ریل کی سواری بھی نکل آئی پس اب قیامت تک کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مَیں مسیح موعود ہوں کیونکہ اب مسیح موعود کی پیدائش اور اُس کے ظہور کا وقت گذر گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 253

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/253/mode/1up

253

حاشیہ پر جا بجا تاریخیں لکھتے ہیں صرف اٹھتیس۳۸ برس کافرق ہے ۔اور یہ قرآن شریف کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس پر تمام افرادِ امت محمدیہ میں سے خاص مجھ کو جو میں مہدئ آخر الزمان ہوں اطلاع دی گئی ہے تا قرآن کا یہ علمی معجزہ اور نیز اس سے اپنے دعوے کا ثبوت لوگوں پر ظاہر کروں۔ اور اِن دونوں حسابوں کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہؔ وسلم کا زمانہ جس کی خدا تعالیٰ نے سورۃ والعصر میں قسم کھائی الف خامس ہے یعنی ہزار پنجم جومریخ کے اثر کے ماتحت ہے۔ اور یہی سرّ ہے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو اُن مفسدین کے قتل اور خونریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا اور قتل کرنا چاہا اور اُن کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اوّل کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلّی تھا یعنی یہ بعث اوّل جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا مگر بعث دوم جس کی طرف آیت کریمہ 33 ۱؂ میں اشارہ ہے وہ مظہر تجلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی* ہے۔ جیسا کہ آیت33۲؂

* یہ باریک بھید یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم میں تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلی ہے کیونکہ بعث دوم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق ستارہ مُشتری کے ساتھ ہے جو کوکب ششم منجملہ خُنّس کُنّس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل اور دانش اورموادِ استدلال کو بڑھاتا ہے۔ اس لئے اگرچہ یہ بات حق ہے کہ اس بعث دوم میں بھی اسم محمدؐ کی تجلّی سے جو جلالی تجلی ہے اور جمالی تجلی کے ساتھ شامل ہے مگر وہ جلالی تجلی بھی رُوحانی طور پر ہو کر جمالی رنگ کے مشابہ ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر قہر سیفی نہیں بلکہ قہر استدلالی ہے۔ وجہ یہ کہ اس وقت کے مبعوث پر پَرتَو ستارہ مشتری ہے نہ پَر تَومریخ۔ اسی وجہ سے بار بار اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ہزار ششم فقط اسم احمد کا مظہراَتَم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 254

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/254/mode/1up

254

اِسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مہدی معہود جس کا نام آسمان پرمجازی طور پر احمد ہے جب مبعوث ہوگا تو اس وقت وہ نبی کریم جو حقیقی طور پر اس نام کا مصداق ہے اس مجازی احمد کے پیرایہ میں ہوکر اپنی جمالی تجلی ظاہر فرمائے گا۔ یہی وہ بات ہے جو اس سے پہلے میں نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھی تھی یعنی یہ کہ میں اسم احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک ہوں۔ اور اس پر نادان مولویوں نے جیسا کہ اُن کی ہمیشہ سے عادت ہے شور مچایا تھاحالانکہ اگر اس سے انکار کیا جائے تو تمام سلسلہ اس پیشگوئی کا زیر وزبر ہو جاتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تکذیب لازم آتی ہے جو نعوذ باللہ کفر تک نوبت پہنچاتی ہے لہٰذا جیسا کہ مومن کے لئے دوسرے احکام الہٰی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر بھی ایمان فرض ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں (۱) ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے 3333 ۱؂ (۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہے 333 ۲؂۔ اور چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو باعتبار اپنی ذات اور اپنے تمام سلسلۂ خلفاء کے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ظاہر اور کھلی کھلی مماثلت ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بلاواسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ کے رنگ پر مبعوث فرمایا۔ لیکن چونکہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسیٰ سے ایک مخفی اور باریک مماثلت تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے ایک بروز کے آئینہ میں اُس پوشیدہ مماثلت کا کامل طور پر رنگ دکھلادیا۔ پس درحقیقت مہدی اور مسیح ہونے کے دونوں جوہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجود تھے۔ خدا تعالیٰ سے کامل ہدایت پانے کی وجہ سے جس میں کسی اُستاد کا انسانوں میں سے احسان نہ تھا آنحضرت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 255

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/255/mode/1up

255

صلی اللہ علیہ وسلم کامل مہدی تھے اور آپ سے دوسرے درجہ پر موسیٰ مہدی تھا جس نے خدا سے علم پاکر بنی اسرائیل کے لئے شریعت کی بنیاد ڈالی اور نیز آنحضرت اس وجہ سے بھی مہدی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام کامیابیوں کی راہیں آپ پر کھول دیں اور جو لوگ مخالفوں میں سے سنگ راہ تھے ان کا استیصال کیااور ان معنوں کے رو سے بھی آپ سے دوسرے درجہ پر حضرت موسیٰ بھی مہدی تھے کیونکہ خدا نے موسیٰ کے ہاتھ پر بنی اسرائیل کی راہ کھول دی اور فرعون وغیرہ دشمنوں سے ان کو نجات دے کر منزل مقصود تک پہنچایا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ کے مہدی ہونے میں دونوں معنوؔ ں کے رُو سے مماثلت تھی یعنی ان دونوں پاک نبیوں کے لئے کامیابی کی راہ بھی دشمنوں کے استیصال سے کھولی گئی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت کی تمام راہیں سمجھائی گئیں اور قرونِ اولیٰ کو کالعدم کرکے دونوں شریعتوں کی نئی بنیاد ڈالی گئی اور نئے سرے تمام عمارت بنائی گئی لیکن کامل اور حقیقی مہدی دنیا میں صرف ایک ہی آیا ہے جس نے بغیر اپنے ربّ کے کسی اُستاد سے ایک حرف نہیں پڑھامگر بہر حال چونکہ قرون اولیٰ کے ہلاک کے بعد جن کا مفصّل علم ہمیں نہیں دیا گیا شریعت کی بنیاد ڈالنے والا اور خدا سے علم پاکر ہدایت یافتہ موسیٰ تھا جس نے حتی الوسع غیر معبودوں کا نقش مٹایا اور دین پر حملہ کرنے والوں کو ہلاک کیا اور اپنی قوم کو امن بخشا اس لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم گو موسیٰ کی نسبت ہر ایک پہلو سے مہدئ کامل ہے لیکن وہ موسیٰ کی زمانی سبقت کی وجہ سے موسیٰ کا مثیل کہلاتا ہے کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ نے مخالفین کو ہلاک کرکے اور خدا سے ہدایت پاکر ایک بھاری شریعت کی بنیاد ڈالی اور خدا نے موسیٰ کی راہ کو ایسا صاف کیا کہ کوئی اس کے مقابل ٹھہر نہ سکا اور نیز ایک لمبا سلسلہ خلفاء کا اس کو عطا کیا۔ یہی رنگ اور یہی صورت اور اسی سلسلہ کے مشابہ سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا۔ پس موسیٰ اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم میں ایک مماثلت عظمٰی ہے اور اس مماثلت میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 256

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/256/mode/1up

256

عجیب تریہ بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس وقت نئی شریعت ملی جبکہ پہلی شریعت یہود کی بباعث طرح طرح کی ملونی کے جو اُن کے عقائد میں داخل ہو گئی اور نیز بباعث تحریف تبدیل کے بکلّی تباہ ہو چکی تھی اور توحید اور خدا پرستی کی جگہ شرک اور دنیا پرستی نے لے لی تھی۔ غرض آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ سے کھلی کھلی مماثلت ہے اور دونوں نبی یعنی سیدنا محمد صلے اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ دونوں معنوں کے رو سے مہدی ہیں یعنی اس رو سے بھی مہدی کہ خدا سے ان کو نئی شریعت ملی اور نئی ہدایت عطا کی گئی اُس وقت میں جبکہ پہلی ہدایتیں اپنی اصلیت پر باقی نہیں رہی تھیں۔ اور اِس رُو سے بھی مہدی ہیں کہ خدا نے دشمنوں کا قلع قمع کرکے کامیابی کی راہوں کی ان کو ہدایت کی اور فتح اور اقبال کی راہیں اُن پر کھول دیں۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ سے بھی دو مشابہتیں رکھتے ہیں (۱) ایک یہ وہ مسیح کی طرح مکہ میں مخالفوں کے حملوں سے بچائے گئے اور مخالف قتل کے ارادہ میں ناکام رہے (۲) دوسرے یہ کہ آپ کی زندگی زاہدانہ تھی اور آپ بکلّی خدا کی طرف منقطع تھے اور آپ کی تمام خوشی اور قرۃ عین صلوٰۃ اور عبادت میں تھی اور ان دونوں صفات کی وجہ سے آپ کا نام احمدؐ تھا یعنی خدا کا سچا پرستار اور اس کے فضل اور رحم کا شکرگذار۔ اور یہ نام اپنی حقیقت کے رُو سے یسوع کے نام کا مترادف ہے اور اس کے یہی معنے ہیں کہ دشمنوں کے حملہ سے اور نیز نفس کے حملہ سے نجات دیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّی زندگی حضرت عیسیٰ سے مشابہت رکھتی ہے اور مدنی زندگی حضرت موسیٰ سے مشابہ ہے۔ اور چونکہ تکمیل ہدایت کے لئے آپ نے دو بروزوں میں ظہور فرمایا تھا ایک بروز موسوی اور دوسرے بروز عیسوی۔ اور اسی غرض کے لئے اِن دونوں ہدایتوں توریت اور انجیل کا قرآن شریف جامع نازل ہوا۔ اور ہر ایک ہدایت کی پابندی اس کے موقع اور محل پر واجب ٹھہرائی گئی اور اس طرح پر ہدایت الٰہی اپنے کمالِ تام کو پہنچی اس لئے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 257

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/257/mode/1up

257

تکمیل ہدایت کے بعد جو بلا واسطہ کسی بروز کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفسِ نفیس سے ظہور میں آئی تکمیل اشاعت ہدایت کی ؔ ضرورت تھی اور وہ ایک ایسے زمانہ پر موقوف تھی جس میں تمام وسائل اشاعت احسن اور اکمل طور پر میسر ہوں۔ لہٰذا تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبروزوں کی حاجت پڑی (۱) ایک بروز محمدی موسوی (۲) دوسرا بروز احمدی عیسوی۔ بروز محمدی موسوی کے لحاظ سے مظہر حقیقت محمدیہ کا نام مہدی رکھا گیا ۔اور اہلاک ملل باطلہ کے لئے بجائے سیف کے قلم سے کام لیا گیا کیونکہ جب انسانوں نے اپنے طریق کو بدلا اور تلوار کے ساتھ حق کا مقابلہ نہ کیا تو خدا نے بھی اپنا طریق بدلا۔ اور تلوار کا کام قلم سے لیا کیونکہ خدا اپنے مکافات میں انسان کے قدم بقدم چلتا ہے۔ 333 ۱؂ اور بروز احمدی عیسوی کے لحاظ سے مظہر حقیقتِ احمدیہ کا نام مسیح اور عیسیٰ رکھا گیا اور جیسا کہ مسیح نے اس صلیب پر فتح پائی تھی جس کو یہودیوں نے اس کے قتل کے لئے کھڑا کیا تھااس مسیح کایہ کام ہے کہ اس صلیب پر فتح پاوے کہ جو اس کے بنی نوع کے ہلاک کرنے کے لئے عیسائیوں نے کھڑی کی ہے۔ اور نیز ایک یہ بھی کام ہے کہ یہود سیرت لوگوں کے حملوں سے بچ کر ان کی اصلاح بھی کرے اور آخر دشمنوں کے تمام افتراؤں سے پاک ہو کر نیک نامی کے ساتھ خدا کی طرف اٹھایا جائے۔ جیسا کہ براہین میں میری نسبت یہ الہام ہے۔33333۔ اور یہ بعث محمدی جو تکمیل اشاعت کے لئے تھا جو بروز موسوی اور عیسوی کے پیرایہ میں تھا اس کے لئے بھی خدا کی حکمت نے یہی چاہا کہ چھٹے دن میں ظہور میں آوے جیسا کہ تکمیل ہدایت چھٹے دن میں ہوئی تھی سو اس کام کے لئے ہزار ششم لیا گیا جو خدا کا چھٹا دن ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 258

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/258/mode/1up

259

خاتم الانبیاء ہیں جیسا کہ آدم علیہ السلام خاتم المخلوقات ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جیسا کہ اُس نے حضور نبوی کی مشابہت حضرت آدم سے مکمل کرنے کیلئے تکمیل ہدایت قرآنی کا چھٹا دن مقرر کیا یعنی روز جمعہ۔ اور اسی دن یہ آیت نازل ہوئی کہ 3 3 ۱؂ ایسا ہی تکمیل اشاعتِ ہدایت کے لئے الف سادس یعنی چھٹا ہزار مقرر فرمایا جو حسب تصریح آیات قرآنی بمنزلہ روز ششم ہے۔

اب میں دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ تکمیل ہدایت کے دن میں تو خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اور وہ روز یعنی جمعہ کا دن جو دنوں میں سے چھٹا دن تھا مسلمانوں کے لئے بڑی خوشی کا دن تھا جب آیت33۲؂ ۲؂ نازل ہوئی اور قرآن جو تمام آسمانی کتابوں کا آدم اور جمیع معارف صحف سابقہ کا جامع تھا اور مظہر جمیع صفات الٰہیہ تھا اُس نے آدم کی طرح چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن اپنے وجود باجود کو اتم اور اکمل طور پر ظاہر فرمایا۔ یہ تو تکمیل ہدایت کا دن تھا مگر تکمیل اشاعت کا دن اس دن کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا تھاکیونکہ ابھی وہ وسائل پیدا نہیں ہوئے تھے جو تمام دنیا کے تعلقات کو باہم ملا دیتے اور برّی اور بحری سفروں کو مسافروں کے لئے سہل کر دیتے اور دینی کتابوں کی ایک کثیر مقدار قلمبند کرنے کے لئے جو تمام دنیا کے حصّہ میں آسکے آلات زود نویسی کے مہیا کر دیتے اور نہ مختلف زبانوں کا علم نوع انسان کو حاصل ہوا تھا اور نہ تمام مذاہب ایک دوسرے کے مقابل پر آشکارا طور پر ایک جگہ موجود تھے۔ اس لئے وہ حقیقی اشاعت جو اتمام حجت کے ساتھ ہر ایک قوم پر ہو سکتی ہے اور ہر ایک ملک تک پہنچ سکتی ہے نہ اسؔ کا وجود تھا اور نہ معمولی اشاعت کے وسائل موجود تھے۔ لہٰذا تکمیل اشاعت کے لئے ایک اور زمانہ علمِ الہٰی نے مقرر فرمایا۔ جس میں کامل تبلیغ کے لئے کامل وسائل موجود تھے اور ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تکمیل اشاعتِ ہدایت بھی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 259

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/259/mode/1up

259

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے منصبی کام تھے لیکن سنت اللہ کے لحاظ سے اس قدر خلود آپ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ اُس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خلود شرک کے پھیلنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خدمت منصبی کو ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جو اپنی خو اور روحانیت کے رُو سے گویا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا یا یوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلّی طور پر آپ کے نام کا شریک تھا اور ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ تکمیل ہدایت کا دن چھٹا دن تھا یعنی جمعہ۔ اس لئے رعایت تناسب کے لحاظ سے تکمیل اشاعت ہدایت کا دن بھی چھٹا دن ہی مقرر کیا گیا یعنی آخر الف ششم جو خدا کے نزدیک دنیا کا چھٹا دن ہے۔ جیسا کہ اس وعدہ کی طرف آیت3 ۱؂ اشارہ فرما رہی ہے اور اس چھٹے دن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خو اور رنگ پر ایک شخص جو مظہر تجلّیات احمدیہ اور محمدیہ تھا مبعوث فرمایا گیا تاتکمیل اشاعت ہدایت فرقانی اس مظہر تام کے ذریعہ سے ہو جائے۔ غرض خدا تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے اس بات کا التزام فرمایا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآنی چھٹے دن ہوئی تھی ایسا ہی تکمیل اشاعت ہدایت قرآنی کے لئے الف ششم مقرر کیا گیا جو بموجب نص قرآنی چھٹے دن کے حکم میں ہے اور جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآنی کا چھٹا دن جمعہ تھا ایسا ہی ہزار ششم میں بھی خداتعالیٰ کی طرف سے جمعہ کا مفہوم مخفی ہے یعنی جیسا کہ جمعہ کا دوسرا حصّہ تمام مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کرتا ہے اور متفرق ائمہ کو معطل کرکے ایک ہی امام کا تابع کر دیتا ہے اور تفرقہ کو درمیان سے اٹھاکر اجتماعی صورت مسلمانوں میں پیدا کر دیتا ہے یہی خاصیت الف ششم کے آخری حصہ میں ہے یعنی وہ بھی اجتماع کو چاہتا ہے۔ اسی لئے لکھا ہے کہ اس وقت اسم ھادی کا پر تو ایسے زور میں ہوگا کہ بہت دُور افتادہ دلوں کو بھی خدا کی طرف کھینچ لائے گا۔ اور اسی کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے کہ 33 ۲؂۔ پس یہ جمع کا لفظ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 260

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/260/mode/1up

260

اِسی رُوحانی جمعہ کی طرف اشارہ ہے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو بعث مقدر تھے۔ (۱) ایک بعث تکمیل ہدایت کے لئے (۲) دوسرا بعث تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے اور یہ دونوں قسم کی تکمیل روز ششم سے وابستہ تھی تا خاتم الانبیاء کی مشابہت خاتم المخلوقات سے اتم اور اکمل طور پر ہو جائے۔ اور تادائرہ خلقت اپنے استدارت کاملہ کو پہنچ جائے۔ سو ایک تو وہ روز ششم تھا جس میں آیت3۱؂ نازل ہوئی۔ اور دوسرے وہ روز ششم ہے جس کی نسبت آیت 3۲؂ میں وعدہ تھا یعنی آخری حصہ ہزار ششم۔ اور اسلام میں جو روز ششم کو عید کا دن مقرر کیا گیا یعنی جمعہ کو یہ بھی درحقیقت اسی کی طرف اشارہ ہے کہ روز ششم تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کا دن ہے۔ اس وقت کے تمام مخالف مولویوں کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور آپ کی شریعت تمام دنیا کے لئے عام تھی اور آپ کی نسبت فرمایا گیا تھا 33۳؂ اور نیز آپ کو یہ خطاب عطا ہوا تھا 333۴؂ سو اگرچہ آنحضرؔ ت صلے اللہ علیہ وسلم کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک تھیں قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت 33۵؂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہو سکا کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اسوقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے۔ بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دیئے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو ۱۲۵۷ ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کاملہ گویا کالعدم تھے اور اس زمانہ تک امریکہ کل



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 261

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/261/mode/1up

261

اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا بلکہ دُور دُور ملکوں کے گوشوں میں تو ایسی بے خبری تھی کہ گویا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھی ناواقف تھے غرض آیت موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! مَیں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیاکو ان دنوں سے پہلے ہر گز تبلیغ نہیں ہو سکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کر لیں اور یہ دونوں امر اس وقت غیر ممکن تھے لیکن قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ ومن بلغ یہ امید دلاتا تھا کہ ابھی اور بہت سے لوگ ہیں جو ابھی تبلیغِ قرآنی اُن تک نہیں پہنچی۔ ایسا ہی آیت3۱؂ ا س بات کو ظاہر کر رہی تھی کہ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہدایت کا ذخیرہ کامل ہو گیا مگر ابھی اشاعت ناقص ہے اور اس آیت میں جو منھم کا لفظ ہے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس زمانہ میں جو تکمیل اشاعت کے لئے موزون ہے مبعوث ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں ہوگا اور اس کے دوست مخلص صحابہ کے رنگ میں ہوں گے۔ غرض اس میں کسی کو متقدمین اور متاخرین میں سے کلام نہیں کہ اسلامی اقبال کے زمانہ کے دو حصے کئے گئے

* اس تقسیم کو خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دو۲ منصب قائم کرتا ہے (۱) ایک کامل کتاب کو پیش کرنے والا جیسا کہ فرمایا کہ 33۲؂ (۲) دوسری تمام دنیا میں اس کتاب کی اشاعت کرنے والا جیسا کہ فرماتا ہے 3۳؂ اور تکمیل ہدایت کے لئے خدا نے چھٹا۶ دن اختیار فرمایا۔ اس لئے یہ پہلی سنت اللہ ہمیں سمجھاتی ہے کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا دن بھی چھٹا۶ ہی ہے اور وہ ہزار ششم ہے اور علماءِ کرام اورتمام اکابر ملت اسلام قبول کرچکے ہیں کہ تکمیل اشاعت مسیح موعود کے ذریعہ سے ہوگی۔ اور اب ثابت ہوا کہ تکمیل اشاعت ہزار ششم میں ہوگی اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح موعود ہزار ششم میں مبعوث ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/262/mode/1up

262

(۱)ایک تکمیل ہدایت کا زمانہ جس کی طرف یہ آیت اشارہ فرماتی ہے 33 ۱؂(۲)دوسرے تکمیل اشاعت کا زمانہ جس کی طرف آیت 333 ۲؂ اشارہ فرما رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ یہ فرض تھا کہ بوجہ ختم نبوت تکمیل ہدایت کریں۔ ایسا ہی بوجہ عموم شریعت یہ بھی فرض تھا کہ تمام دنیا میں تکمیل اشاعت بھی کریں لیکن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگرچہ تکمیل ہدایت ہو گئی جیسا کہ آیت 3 ۳؂ اور نیز آیت 333 ۴؂ اس پر گواہ ہے لیکن اس وقت تکمیل اشاعت ہدایت غیر ممکن تھی اور غیر زبانوں تک دین کو پہنچانے کے لئے اور پھر اس کے دلائل سمجھانے کے لئے اور پھر ان لوگوں کی ملاقات کے لئے کوئی احسن انتظام نہ تھا اور تمام دیار بلاد کے تعلقات ایسے ایک دوسرے سے الگ تھے کہ گویا ہر ایک قوم یہی سمجھتی تھی کہ اُن کے ملک کے بغیر اور کوئی ملک نہیں جیسا کہ ہندو بھی خیال کرتے تھے کہ کوہ ہمالہ کے پار اور کوئی آبادی نہیں اور نیز سفر کے ذریعے بھی سہل اور آسان نہیں تھے اور جہاز کا چلنا بھی صرف بادشرط پر موقوف تھا اِس لئے خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیا جس میں قوموں کے ؔ باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور بّری اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھ کر سہولت سواری کی ممکن نہیں۔ اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیا جو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے۔ سو اس وقت حسب منطوق آیت 3۵؂ اور نیز حسب منطوق آیت 333 ۶؂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/263/mode/1up

263

کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کیلئے بدل وجان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجیئے کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کیلئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ اُن تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔ * مگر میں ملک ہند میں آؤں گا۔ کیونکہ جوش مذاہب و اجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل ونحل اور امن اور آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم علیہ السلام اسی جگہ نازل ہوا تھا۔ پس ختم دور زمانہ کے وقت بھی وہ جو آدم کے رنگ میں آتا ہے اسی ملک میں اس کو آنا چاہئے تا آخر اور اول کا ایک ہی جگہ اجتماع ہو کر دائرہ پورا ہو جائے۔ اور چونکہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا حسب آیت واٰخرین منھم دوبارہ تشریف لانا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تھا لیکن یہ امر کہ یہ دوسرا بعث کس زمانہ میں چاہئے تھا؟ اس کا یہ جواب ہے کہ چونکہ

* چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت33 ۱؂ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اس وعدہ کی ضرورت اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا یعنی تکمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہئے تھا اُس وقت بباعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا سو اس فرض کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کیلئے وسائل پیدا ہو گئے تھے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/264/mode/1up

264

خدا تعالیٰ کے کاموں میں تناسب واقع ہے اور وضع شیء فی محلّہٖ اس کی عادت ہے جیسا کہ اسم حکیم کے مفہوم کا مقتضاہونا چاہئے اور نیز وہ بوجہ واحد ہونے کے وحدت کو پسند کرتا ہے اس لئے اُس نے یہی چاہا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآن خلقتِ آدم کی طرح چھٹے دن کی گئی یعنی بروز جمعہ ایسا ہی تکمیل اشاعت کا زمانہ بھی وہی ہو جو چھٹے دن سے مشابہ ہولہٰذا اُس نے اس بعث دوم کے لئے ہزار ششم کو پسند فرمایا اور وسائل اشاعت بھی اِسی ہزار ششم میں وسیع کئے گئے اور ہر ایک اشاعت کی راہ کھولی گئی۔ ہر ایک ملک کی طرف سفر آسان کئے گئے جابجا مطبع جاری ہو گئے۔ ڈاک خانہ جات کا احسن انتظام ہو گیا اکثر لوگ ایک دوسرے کی زبان سے بھی واقف ہو گئے اور یہ امور ہزار پنجم میں ہرگز نہ تھے بلکہ اس ساٹھ سال سے پہلے جو اس عاجز کی گذشتہ عمر کے دن ہیں ان تمام اشاعت کے وسیلوں سے ملک خالی پڑا ہوا تھا اور جو کچھ ان میں سے موجود تھا وہ ناتمام اور کم قدر اور شاذو نادر کے حکم میں تھا۔

یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک شخص بشرطیکہ متقی ہو جس وقت اِن تمام دلائل میں غور کرے گا تو اس پر روز روشن کی ؔ طرح کھل جائے گا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ انصاف سے دیکھو کہ میرے دعویٰ کے وقت کس قدر میری سچائی پر گواہ جمع ہیں* (۱) زمین پر وہ مفاسد موجود ہیں جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی قریباً بیخ کنی کر دی ہے اسلام کی اندرونی حالت

* منجملہ گواہوں کے ایک یہ بھی زبردست گواہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ثبوت ہر یک پہلو سے اس زمانہ میں پیدا ہو گئے ہیں یہاں تک کہ یہ ثبوت بھی نہایت قوی اور روشن دلائل سے مل گیا کہ آپ کی قبرسری نگر علاقہ کشمیر خان یار کے محلہ میں ہے یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق وکذب آزمانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ درحقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں۔ اور اگر وہ درحقیقت قرآن کے رُو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں۔ اب قرآن درمیان میں ہے اس کو سوچو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/265/mode/1up

265

ایسی نازک ہو رہی ہے کہ دین مطہر ہزارہا بدعات کے نیچے دب گیا ہے۔ بارہ ۱۲۰۰ سوبرس میں تو صرف تہتّر فرقے اسلام کے ہو گئے تھے لیکن تیرھویں صدی نے اسلام میں وہ بدعات اور نئے فرقے پیدا کئے جو بارہ سو برس میں پیدا نہیں ہوئے تھے اور اسلام پر بیرونی حملے اس قدر زور شور سے ہو رہے ہیں کہ وہ لوگ جو صرف حالات موجودہ سے نتیجہ نکالتے ہیں اور آسمانی ارادوں سے ناواقف ہیں انہوں نے رائیں ظاہر کر دیں کہ اب اسلام کا خاتمہ ہے۔ ایسا عالی شان دین جس میں ایک شخص کے مرتد ہونے سے بھی شور قیامت قوم میں برپا ہوتا تھا اب لاکھوں انسان دین سے باہر ہوتے جاتے ہیں اور صدی کا سرجس کی نسبت یہ بشارت تھی کہ اس میں مفاسد موجودہ کی اصلاح کیلئے کوئی شخص امت میں سے مبعوث ہوتا رہے گا اب مفاسد تو موجود ہیں بلکہ نہایت ترقی پر مگر بقول ہمارے مخالفوں کے ایسا شخص کوئی مبعوث نہیں ہوا جو ان مفاسد کی اصلاح کرتا جو ایمان کو کھاتے جاتے ہیں اور صدی میں سے قریباً پانچواں حصّہ گذر بھی گیاگویا ایسی ضرورت کے وقت میں یہ پیشگوئی رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی خطا گئی حالانکہ یہی وہ صدی تھی جس میں اسلام غریب تھا اور سراسر آسمانی تائید کا محتاج تھا اور یہی وہ صدی تھی جس کے سرپر ایسا شخص مبعوث ہونا چاہئے تھا جو عیسائی حملوں کی مدافعت کرتا اور صلیب پر فتح پاتا یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ مسیح موعود ہو کر آتا اور کسر صلیب کرتا۔ سو خدا نے اس صدی پر یہ طوفانِ ضلالت دیکھ کر اور اس قدر رُوحانی موتوں کا مشاہدہ کرکے کیا انتظام کیا؟ کیا کوئی شخص اس صدی کے سر پر صلیبی مفاسد کے توڑنے کے لئے پیدا ہو؟ ۱؂ اس میں کیا شک ہے کہ مرکزِ ضلالت ہندوستان*تھا

* اگر کوئی اپنے گھر کی چار دیوار سے چند روز کے لئے باہر جاکر مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ اور بلادِ شام وغیرہ ممالک اسلامیہ کا سیر کرے تو وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ جس قدر مختلف مذاہب کا مجموعہ آج کل ہمارا یہ ملک ہو رہا ہے اور جس قدر ہریک مذہب کے لوگ دن رات ایک دوسرے پر حملہ کر رہے ہیں اس کی نظیر کسی ملک میں موجود نہیں۔ منہ

۱؂ یہاں کاتب کی غلطی سے الف رہ گیا ہے۔ ’’ہوا‘‘ چاہئے تھا( مصحح



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/266/mode/1up

266

کیونکہ اس ملک میں صدہا مذاہب فاسدہ اور ہزار ہا بدعات مہلکہ جن کی نظیر کسی ملک میں نہیں پیدا ہو گئے۔ اور آزادی نے جیسا کہ بدی کے لئے راہ کھولی ایسا ہی نیکی کے لئے بھی۔ لیکن چونکہ بدی کے مواد بہت جمع ہو رہے تھے اس لئے پہلے پہل بدی کو ہی اس آزادی نے قوت دی اور زمین میں اس قدر خارو خسک پیدا ہوا کہ قدم رکھنے کی جگہ نہ رہی ہر ایک عقل جو صاف اور پاک اور رُوح القدس سے مدد یافتہ ہے وہ سمجھ سکتی ہے کہ یہی زمانہ مسیح موعود کے پیدا ہونے کا تھا اور یہی صدی اس لائق تھی کہ اس میں وہ عیسٰی ابن مریم مبعوث ہوتا جو زمانۂ حال کی صلیب پر فتح پاتا جو عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ گذشتہ عیسٰی ابن مریم نے اس صلیب پر فتح پائی تھی جو یہودیوں کے ہاتھ میں تھا۔ احادیث نبویہ میں اِسی فتح کو کسر صلیب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ فتنۂ صلیبیہ جس مرتبہ تک پہنچ چکا ہے وہ ایک ایسا مرتبہ ہے کہ غیرت الٰہی نہیں چاہتی کہ اس سے بڑھ کر اس کی ترقی ہو اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ جس کمال سیلاب تک اس وقت یہ فتنہ موجود ہے اور جن انواع واقسام کے پہلوؤں سے اس فتنہ نے دین اسلام پر حملہ کیا ہے اور جس دلیری اور بیباکی کے ہاتھ سے عزّت جناب نبوی پر اِس فتنہ نے ہاتھ ڈالا ہے اور جن کامل تدبیروں سے اِطفاءِ نورِ اسلام کے لئے اس فتنہ نے کام لیا ہے اس کی نظیر زمانہ کی کسی تاریخ میں موجود نہیں۔ اور جن فتنوں کے وقت میں بنی اسرائیل میں نبی اور رسول آیا کرتے تھے یا اس امت میں مجدد ظاہر ہوتے تھے وہ تمامؔ فتنے اس فتنہ کے آگے کچھ بھی چیز نہیں۔ اور یہ امر اُن امورِ محسوسہ بدیہیہ میں سے ہے جن کا انکار نہیں ہو سکتا۔ اسلام کی تکذیب اور ردّ میں اس تیرھویں صدی میں بیس کروڑکے قریب کتاب اور رسالے تالیف ہو چکے ہیں۔ اور ہر ایک گھر میں نصرانیت داخل ہو گئی ہے۔ تو کیا اس سو سال کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/267/mode/1up

267

حملہ کے بعد خدا کے ایک حملہ کا وقت اب تک نہیں آیا۔* اور اگر آگیا تو اب تم آپ ہی بتلاؤ کہ صلیب پر فتح پانے کے لئے یا حسب اصطلاح قدیم صلیب کی کسر کے لئے جواس صدی پر مجدّد آتا اس کا نام کیا چاہئے تھا؟ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے کاسر الصلیب کا کیا نام رکھا ہے؟ کیا کاسر الصلیب کا نام مسیح موعود اور عیسیٰ بن مریم نہیں ہے؟ پھر کیونکر ممکن تھا کہ اس صدی کے سر پر بجز مسیح موعود کے کوئی اور مجدّد آسکتا ؟خ

* اس حملہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ اسلام تلوار اور بندوق سے حملہ کرے بلکہ سچی ہمدردی سب سے زیادہ تیز ہتھیار ہے عیسائیت کو دلائل سے پست کرو مگر نیک نیتی اور نوع انسان کی محبت سے اور اس وقت خدا کی غیرت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ خونریزیوں اور لڑائیوں کی بنیاد ڈالے بلکہ خدا اس وقت فقط یہ چاہتا ہے کہ انسان کی نسل پر رحم کرکے اپنے کُھلے کُھلے نشانوں کے ساتھ اور اپنے قوی دلائل اور اپنی قدرت نمائی کے زور بازو سے شرک اور مخلوق پرستی سے ان کو نجات دے۔ منہ

خ ہر یک صدی کے سر پر مجدّد تو آتا ہے اور اس میں ایک حدیث موجود ہے مگر مسیح موعود کے آنے کے لئے قرآن شریف بلند آواز سے وعدہ فرما رہا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی یہ دُعاخدا سے دُعا کرو کہ خدا تمہیں اُس وقت کے فتنہ سے بچاوے جبکہ خدا کے مسیح موعود کی تکفیر اور تکذیب ہوگی اور زمین پر عیسائیت کا غلبہ ہوگا صاف لفظوں میں اس موعود کی خبر دیتی ہے۔ ایسا ہی آیت33 ۱؂ صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہوگی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/268/mode/1up

268

خاتمہ کتاب

اِس خاتمہ میں ہم ناظرین کے توجہ دلانے کے لئے یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن شریف اور خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں کے رُو سے نہایت صفائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تین قسم کی مخلوق دنیا میں ظاہر ہو جائے تو سمجھو کہ مسیح موعود آگیا یا دروازے پر ہے۔

(۱) مسیح الدجّال جس کا ترجمہ ہے کہ خلیفۂ ابلیس کیونکہ دجّال ابلیس کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو اس کا اسم اعظم ہے جس کے معنے ہیں کہ حق کو چُھپانے والا اور جھوٹ کو رونق اور چمک دینے والا اور ہلاکت کی راہوں کو کھولنے والا اور زندگی کی راہوں پر پردہ ڈالنے والا اور یہی مقصود اعظم شیطان ہے اس لئے یہ اسم اس کا اسم اعظم ہے اور اس کے مقابل پر ہے مسیح اللّٰہ الحیّ القیّوم۔ جس کا ترجمہ ہے خدائے حیّ وقیّوم کا خلیفہ۔ اللّٰہ حیّ قیّوم بالاتفاق خدا کا اسم اعظم ہے جس کے معنے ہیں روحانی اور جسمانی طور پر زندہ کرنے والا اور ہر دو قسم کی زندگی کا دائمی سہارا اور قائم بالذات اور سب کو اپنی ذاتی کشش سے قائم رکھنے والا اور اللہ جس کا ترجمہ ہے وہ معبود۔ یعنی وہ ذات جو غیر مدرک اور فوق العقول اور وراء الوراء اور دقیق دردقیق ہے جس کی طرف ہر ایک چیز عابدانہ رنگ میں یعنی عشقی فنا کی حالت میں جو نظری فنا ہے یا حقیقی فنا کی حالت میں جو موت ہے رجوع کر رہی ہے جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ تمام نظام اپنے خواص کو نہیں چھوڑتا گویا ایک حکم کا پابند ہے۔ اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا اسم اعظم ہے یعنی اللّٰہ الحیّ القیّوم اس کے مقابل پر شیطان کا اسم اعظم الدجّال ہے اور خدا تعالیٰ نے چاہا کہ آخری زمانہ میں اس کے اسم اعظم اور شیطان کے اسم اعظم کی ایک کشتی ہو جیسا کہ پہلے بھی آدم کی پیدائش کے وقت میں ایک کشتی ہوئیؔ ہے۔ پس جیسا کہ ایک زمانہ میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/269/mode/1up

269

خدا نے شیطان کو ایوب پر مسلّط کر دیا ایسا ہی اُس نے اس کشتی کے وقت اسلام پر شیطان کو مسلّط کیا اور اس کو اجازت دے دی کہ اب تُو اپنے تمام سواروں اور پیادوں کے ساتھ اسلام پر بے شک حملہ کر۔ ’’تب شیطان* نے جیسا کہ اس کی عادت ہے ایک قوم کو

* یہ ؔ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجّال شیطان کا اسم اعظم ہے جو بمقابل خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کے ہے جو اللّہ الحیّ القیّوم ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ حقیقی طور پر دجّال یہود کو کہہ سکتے ہیں نہ نصاریٰ کے پادریوں کو اور نہ کسی اور قوم کو کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار نہیں دیا پس کسی طرح ان کا نام دجّال نہیں ہو سکتا۔ ہاں شیطان کے اس اسم کے لئے مظاہرہیں کہ جب سے دنیا شروع ہوئی اس وقت سے وہ مظاہر بھی چلے آتے ہیں اور پہلا مظہر قابیل تھا جو حضرت آدم کا پہلا بیٹا تھا جس نے اپنے بھائی ہابیل کی قبولیت پر حسد کیا اور اس حسد کی شامت سے ایک بے گناہ کے خون سے اپنا دامن آلودہ کر دیا اور آخری مظہر شیطان کے اسم دجّال کا جو مظہر اتم اور اکمل اور خاتم المظاہر ہے وہ قوم ہے جس کا قرآن کے اوّل میں بھی ذکر ہے اور قرآن کے آخر میں بھی یعنی وہ ضالین کا فرقہ جس کے ذکر پر سورۃ فاتحہ ختم ہوتی ہے۔* اور پھر قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں بھی

* ضالین سے مراد صرف گمراہ نہیں بلکہ وہ عیسائی مراد ہیں جو افراط محبت کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کی شان میں غلو کرتے ہیں۔ کیونکہ ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزّت کے ساتھ نام سُننے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ 3 ۱؂۔ اور33۲؂ سے وہ علماء یہودی مراد ہیں جنہوں نے شدت عداو ت کی وجہ سے حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ بھی روا نہ رکھا کہ ان کو مومن قرار دیا جائے بلکہ کافر کہا اور واجب القتل قرار دیا۔ اور مغضوب علیہ وہ شدید الغضب انسان ہوتا ہے جس کے غضب کے غلو پر دوسرے کو غضب آوے۔ اور یہ دونوں لفظ باہم مقابل واقع ہیں۔ یعنی ضالین وہ ہیں جنہوں نے افراط محبت سے حضرت عیسیٰ کو خدا بنایا اور المغضوب علیھم وہ یہودی ہیں جنہوں نے خدا کے مسیح کو افراط عداوت سے کافر قرار دیا اس لئے مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں ڈرایا گیا اور اشارہ کیا گیا کہ تمہیں یہ دونوں امتحان پیش آئیں گے۔ مسیح موعود آئے گا اور پہلے مسیح کی طرح اُس کی بھی تکفیر کی جائے گی اور ضالین یعنی عیسائیوں کا غلبہ بھی کمال کو پہنچ جائے گاجو حضرت عیسیٰ کو خدا کہتے ہیں تم ان دونوں فتنوں سے اپنے تئیں بچاؤ اور بچنے کیلئے نمازوں میں دعائیں کرتے ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/270/mode/1up

270

اپنا مظہر بنایا اور اسلام پر ایک سخت حملہ کیا اور خدا نے اپنے اسم اعظم کا ایک شخص کو

اس کا ذکر ہے یعنی سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ ناس میں صرف یہ فرق ہے کہ سورۃ اخلاص میں تو اس قوم کی اعتقادی حالت کا بیان ہے۔ جیسا کہ فرمایا 33333 ۱؂۔ یعنی خدا ایک ہے اور احد ہے یعنی اس میں کوئی ترکیب نہیں نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ پس اس سورۃ میں تو اس قوم کے عقائد بتلائے گئے۔ پھر اس کے بعد سورۃ فلق میں یہ اشارہ کیا گیا کہ یہ قوم اسلام کے لئے خطرناک ہے اور اس کے ذریعہ سے آخری زمانہ میں سخت تاریکی پھیلے گی اور اس زمانہ میں اسلام کو ایک بڑے شرکا سامنا ہوگا۔ اور یہ لوگ معضلات اورد قائق دین میں گرہ درگرہ دے کر مکار عورتوں کی طرح لوگوں کو دھوکا دیں گے اور یہ تمام کاروبار محض حسدکے باعث ہوگا جیسا کہ قابیل کا کاروبار حسد کے باعث تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ قابیل نے اپنے بھائی کا خون زمین پر گرایا مگر یہ لوگ بباعث جوش حسد سچائی کا خون کریں گے۔ غرض سورۃ 3 میں ان لوگوں کے عقائد کا بیان ہے اور سورۃ فلق میں ان لوگوں کے ان اعمال کی تشریح ہے جو قوت اور طاقت کے وقت ان سے ظاہر ہوں گے۔ چانچہ دونوں سورتوں کو بالمقابل رکھنے سے صاف سمجھ آتا ہے کہ پہلی سورۃ یعنی سورۃ اخلاص میں قوم نصاریٰ کے اعتقادی حالات کا بیان ہے اور دوسری سورۃ میں عملی حالات کا ذکر ہے۔ اور سخت تاریکی سے آخری زمانہ کی طرف اشارہ ہے جبکہ یہ لوگ اس رُوح کے مظہر اتم ہوں گے جو خدا کی طرف سے مضل ہے اور ان دونوں سورتوں کے بالمقابل لکھنے سے جلد تر ان لطیف اشارات کا علم ہو سکتا ہے۔ مثلاً مقابل پر رکھ کر یوں پڑھو:۔

33 ۱؂

کہہ وہ معبود حقیقی جس کی طرف سب چیزیں


3 ۲؂

کہہ میں پناہ مانگتا ہوں اُس رب کی جس نے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/271/mode/1up

271

مظہر بنایا اور اس کو ایک حالت فنا عطا کرکے اپنی طرف رجوع دیا تا حقیقی عبادت

عبودیت تامہ کی فنا کے بعد یا قہری فنا کے بعد رجوع کرتی ہیں ایک ہے باقی سب مخلوقات دو قسم فنا میں سے کسی فنا کے نیچے ہیں اور سب چیزیں اس کی محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔

33 ۱؂

وہ ایسا ہے کہ نہ تو اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے۔

3۳؂

اور ازل سے اس کا کوئی نظیر اور مثیل نہیں یعنی وہ اپنی ذات میں نظیر اور مثیل سے پاک اور منزّہ ہے۔

مخلوقات پیدا کی اس طرح پر کہ ایک کو پھاڑ کر اس میں سے دوسرا پیدا کیا یعنی بعض کو بعض کا محتاج بنایا اور جو تاریکی کے بعد صبح کو پیدا کرنے والا ہے۔

3 ۲؂

ہم خدا کی پناہ مانگے ہیں ایسی مخلوق کی شر سے جو تمام شریروں سے شر میں بڑھی ہوئی ہے اور شرارتوں میں اُس کی نظیر ابتداءِ دنیا سے اخیر تک اور کوئی نہیں جن کا عقیدہ امر حق لم یلد ولم یولد کے برخلاف ہے یعنی وہ خدا کے لئے ایک بیٹا تجویز کرتے ہیں۔

33333 ۴؂۔ اور ہم پناہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ کی اس زمانہ سے جبکہ تثلیت اور شرک کی تاریکی تمام دنیا پر پھیل جائے گی۔ اور نیز اُن لوگوں کے شر سے کہ جو پھونکیں مار کر گر ہیں دیں گے یعنی دھوکا دہی میں جادو کا کام دکھائیں گے اور راہ راست کی معرفت کو مشکلات میں ڈال دیں گے اور نیز اس بڑے حاسد کے حسد سے پناہ مانگتا ہوں جبکہ وہ گروہ سراسر حسد کی راہ سے حق پوشی کرے گا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/272/mode/1up

272

کےؔ رنگ میں المعبود کے ساتھ اس کا تعلق ہوا* اور اس کا نام احمد رکھا کیونکہ الطف

یہ تمام اشارات عیسائی پادریوں کی طرف ہیں کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جو وہ دنیا میں شر پھیلائیں گے اور دنیا کو تاریکی سے بھر دیں گے اور جادو کی طرح ان کا دھوکا ہوگا اور وہ سخت حاسد ہوں گے اور اسلام کو حسد کی راہ سے بنظر تحقیر دیکھیں گے اور لفظ ربّ الفلق اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس تاریکی کے بعد پھر صبح کا زمانہ بھی آئے گاجو مسیح مو عود کا زمانہ ہے۔

اس مقابلہ سے جو سورۃ اخلاص سے سورۃفلق کا کیا گیا ظاہر ہے کہ ان دونوں سورتوں میں ایک ہی فرقہ کا ذکر ہے صرف یہ فرق ہے کہ سورۃ اخلاص میں اس فرقہ کی اعتقادی حالت کا بیان ہے اور سورۃ الفلق میں اس فرقہ کی عملی حالت کا ذکر ہے اور اس فرقہ کا نام سورۃ الفلق میں شرّ ما خلق رکھاگیا ہے یعنی شرّ البریہ اور احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجّال معہود کا نام بھی شرّ البریہ ہے کیونکہ آدم کے وقت سے اخیر تک شر میں اُس کے برابر کوئی نہیں۔ پھر ان دونوں صورتوں کے بعد سورۃ الناس ہے۔ اور وہ یہ ہے۔3 3۔ 3۔ 3۔ 33333 ۱؂۔ یعنی وہ جو انسانوں کا پروردگار اور انسانوں کا بادشاہ اور انسانوں کا خدا ہے میں وسوسہ انداز خناس کے وسوسوں سے اس کی پناہ مانگتا ہوں۔ وہ خناس جو انسانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جو جنوں اور آدمیوں میں سے ہے۔ اِس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ اس خناس کی وسوسہ اندازی کا وہ زمانہ ہوگا کہ جب اسلام کے لئے نہ کوئی مربی اور عالم ربّانی زمین پر موجود ہوگا اور نہ اسلام میں کوئی حامئ دین بادشاہ ہوگا تب مسلمانوں کے لئے ہر ایک موقع پر خدا ہی پناہ ہوگا وہی خدا وہی مربی وہی بادشاہ و بس۔

* ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے درست لفظ ’’ہو‘‘ ہے۔( ناشر) ۱؂ الناس: ۲تا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 273

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 273

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/273/mode/1up

273

اور اعلیٰ اقسام عبادت کی حمد ہے جو صفات باری کی معرفتِ تامہ کو چاہتی ہے اور بغیر

اب واضح ہوکہ خناس شیطان کے ناموں میں سے ایک نام ہے یعنی جب شیطان سانپ کی سیرت پر قدم مارتا ہے اور کھلے کھلے اکراہ اور جبر سے کام نہیں لیتا اور سراسر مکر اور فریب اورو سوسہ اندازی سے کام لیتا ہے اور اپنی نیش زنی کے لئے نہایت پوشیدہ راہ اختیار کرتا ہے تب اُس کو خنّاس کہتے ہیں عبرانی میں اس کا نام نحاش ہے۔ چنانچہ توریت کے ابتداء میں لکھا ہے کہ نحاش نے حوا کو بہکا یا اور حوا نے اس کے بہکا نے سے وہ پھل کھایا جس کا کھانا منع کیا گیا تھا۔* تب

* یاد رہے کہ یہ حوا کا گناہ تھا کہ براہ راست شیطان کی بات کو مانا اور خدا کے حکم کو توڑا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حوّا کا نہ ایک گناہ بلکہ چار۴ گناہ تھے (۱) ایک یہ کہ خدا کے حکم کی بے عزّتی کی اور اُس کو جھوٹا سمجھا (۲) دوسرا یہ کہ خدا کے دشمن اور ابدی *** کے مستحق اور جھوٹ کے پتلے شیطان کو سچّا سمجھ لیا (۳) تیسرا یہ کہ اُس نافرمانی کو صرف عقیدہ تک محدود نہ رکھا بلکہ خدا کے حکم کو توڑ کر عملی طور پر ارتکاب معصیت کیا (۴) چوتھا یہ کہ حوّانے نہ صرف آپ ہی خدا کا حکم توڑا بلکہ شیطان کا قائم مقام بن کر آدم کو بھی دھوکا دیاتب آدم نے محض حوا کی دھوکا دہی سے وہ پھل کھایا جس کی ممانعت تھی اسی وجہ سے حوا خدا کے نزدیک سخت گنہگار ٹھہری مگر آدم معذور سمجھا گیا محض ایک خفیف خطا جیسا کہ آیت کریمہ 33۱؂ سے ظاہر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آدم نے عمدًا میرے حکم کو نہیں توڑا بلکہ اس کو یہ خیال گذرا کہ حوّا نے جو یہ پھل کھایا اور مجھے دیا شائد اُس کو خدا کی اجازت ہو گئی جو اس نے ایسا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں حوا کی بریّت ظاہر نہیں فرمائی مگر آدم کی بریت ظاہر کی یعنی اُسکی نسبت لم نجد لہ عزمًا فرمایا اور حوّا کو سزا سخت دی۔ مردکا محکوم بنایا اور اس کا دست نگر کر دیا اور حمل کی مصیبت اور بچے جننے کا دُکھ اس کو لگا دیا اور آدم چونکہ خدا کی صورت پر بنایا گیا تھا اس لئے شیطان اس کے سامنے نہ آسکا۔ اسی جگہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس شخص کی پیدائش میں نر کا حصّہ نہیں وہ کمزور ہے اور توریت کے رو سے اس کی نسبت کہنا مشکل ہے کہ وہ خدا کی صورت پر یا خدا کی مانند پیدا کیا گیا ہاں آدم بھی ضرور مر گیا لیکن یہ موت گناہ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ مرنا ابتدا سے انسانی بناوٹ کا خاصہ تھا اگر گناہ نہ کرتا تب بھی مرتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 274

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 274

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/274/mode/1up

274

معرفت تامہ کے حمد تام ہو ہی نہیں سکتی اور خدا تعالیٰ کے محامد دو قسم کےؔ ہیں (۱) ایک وہ جو اس کے ذاتی علو اور رفعت اور قدرت اور تنزہ تام کے متعلق ہیں (۲) دوسرے وہ جنؔ کا اثر از قسم آلاء و نعماء مخلوق پر نمایاں ہے اور جس کو آسمان سے احمد کا نام عطا کیا جاتا ہے اوّل اُس پر بمقتضائے اسم رحمانیت تواتر سے نزول آلاء اور نعماء ظاہری اور باطنی کا ہوتا ہے اور پھر بوجہ اس کے جو احسان موجب محبت محسن ہے اس شخص کے دل میں اس محسنِ حقیقی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ محبت نشوو نما پاتے پاتے ذاتی محبت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ذاتی محبت سے قرب حاصل ہوتا ہے اور پھر قرب سے انکشاف

آدم نے بھی کھایا۔ سو اس سورۃ الناس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی نحاشآخری زمانہ میں پھر ظاہر ہوگا اِسی نحاشکا دوسرا نام دجّال ہے۔ یہی تھا جو آج سے چھ ہزار برس پہلے حضرت آدم کے ٹھوکر کھانے کا موجب ہوا تھا اور اس وقت یہ اپنے اس فریب میں کامیاب ہو گیا تھا اور آدم مغلوب ہو گیا تھا لیکن خدا نے چاہا کہ اسی طرح چھٹے دن کے آخری حصّے میں آدم کو پھر پیدا کرکے یعنی آخر ہزار ششم میں جیسا کہ پہلے وہ چھٹے دن میں پیدا ہوا تھا نحّاش کے مقابل پر اس کو کھڑا کرے اور اب کی دفعہ نحّاش مغلوب ہو اور آدم غالب۔ سو خدا نے آدم کی مانند اس عاجز کو پیدا کیا اور اس عاجز کا نام آدم رکھا۔ جیسا کہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے اردت ان استخلف فخلقت آدم۔ اور نیز یہ الہام خلق آدم فاکرمہ اور نیزیہ الہام کہ یاآدم اسکن انت وزوجک الجنّۃ۔ اور آدم کی نسبت توریت کے پہلے باب میں یہ آیت ہے: تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں۔ دیکھو توریت باب اوّل آیت ۲۶۔ اور پھر کتاب دانی ایل باب نمبر ۱۲ میں لکھا ہے:۔ اور اُس وقت میکائیل (جس کا ترجمہ ہے خدا کی مانند) وہ بڑا سردار جو تیری قوم کے فرزندوں کی حمایت کے لئے کھڑا ہے اُٹھے گا۔ (یعنی مسیح موعود آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا) پس میکائیل یعنی خدا کی مانند۔ درحقیقت توریت میں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 275

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 275

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/275/mode/1up

275

تمام صفات جلالیہ جمالیہ حضرت باری عزّاسمہٗ ہو جاتا ہے پس جس طرح اللہ کا نام جامع صفات کاملہ ہے اِسی طرح احمد کا نام جامع تمام معارف بن جاتا ہے اور جس طرح اللہ کا نام خدا تعالیٰ کے لئے اسم اعظم ہے اسی طرح احمد کا نام نوع انسان میں سے اس انسان کا اسم اعظم ہے جس کو آسمان پر یہ نام عطا ہو اور اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی نام نہیں کیونکہ یہ خدا کی معرفت تامہ اور خدا کے فیوض تامہ کا مظہر ہے اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے زمین پر ایک تجلّی عظمٰی ہوتی ہے اور وہ اپنے صفاتِ کاملہ کے کنز مخفی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو زمین پر ایک انسان کا ظہور ہوتا ہے

آدم کا نام ہے اور حدیث نبوی میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود آدم کے رنگ پر ظاہر ہوگا اسی وجہ سے آخری ہزار ششم اس کیلئے خاص کیا گیا کیونکہ وہ بجائے روز ششم ہے یعنی جیسا کہ روز ششم کے آخری حصے میں آدم پیدا ہوا اسی طرح ہزار ششم کے آخری حصہ میں مسیح موعود کا پیدا ہونا مقدر کیا گیا۔ اور جیسا کہ آدم نحّاش کے ساتھ آزمایا گیا جس کو عربی میں خنّاس کہتے ہیں جس کا دوسرا نام دجّال ہے ایسا ہی اس آخری آدم کے مقابل پر نحّاش پیدا کیا گیا تا وہ زن مزاج لوگوں کو حیات ابدی کی طمع دے جیسا کہ حوّا کو اس سانپ نے دی تھی جس کا نام توریت میں نحّاش اور قرآن میں خنّاس ہے لیکن اب کی دفعہ مقدّر کیا گیا کہ یہ آدم اُس نحّاش پر غالب آئے گا۔ غرؔ ض اب چھ ہزار برس کے اخیر پر آدم اور نحّاش کا پھر مقابلہ آپڑا ہے اور اب وہ پُرانا سانپ کاٹنے پر قدرت نہیں پائے گا جیسا کہ اوّل اُس نے حوّا کو کاٹا اور پھر آدم نے اس زہر سے حصّہ لیا بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ اس سانپ سے بچے کھیلیں گے اور وہ ضرر رسانی پر قادر نہیں ہوگا۔ قرآن شریف میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اس نے سورۂ فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا اور قرآن کو خنّاس پر۔ تادانشمند انسان سمجھ سکے کہ حقیقت اور روحانیت میں یہ دونوں نام ایک ہی ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 276

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 276

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/276/mode/1up

276

جس کو احمد کے نام سے آسمان پر پکارتے ہیں غرض چونکہ احمد کا نام خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا کامل ظلّ ہے اس لئے احمد کے نام کو ہمیشہ شیطان کے مقابل پر فتحیابی ہوتی ہے اور ایسا ہی آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ ایک طرف شیطانی قویٰ کا کمال درجہ پر ظہور اور بروز ہو اورشیطان کا اسم اعظم زمین پر ظاہر ہو اور پھر اس کے مقابل پر وہ اسم ظاہر ہو جو خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا ظلّہے یعنی احمد اور اس آخری کشتی کی تاریخ ہزار ششم کا آخری حصہ مقرر کیا گیا اور جیسا کہ قرآن شریف میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ ہرایک چیز کو خدا نے چھ دن کے اندر پیدا کیا مگر اس انسان کو جس پر دائرہ مخلوق ختم ہوتاتھا چھٹے دن کے آخری حصے میں پیدا کیا اسی طرح اس آخری انسان کے لئے ہزار ششم کاآخری حصہ تجویز کیا گیا اور وہ اس وقت پیدا ہوا جبکہ قمری حساب کے رُو سے صرف چند سال ہی ہزار ششم کے پورا ہونے میں باقی رہتے تھے۔ اور اس کا وہ بلوغ جو مرسلین کے لئے مقرر کیا گیا ہے یعنی چالیس سال اُس وقت ہوا جبکہ چودھویں صدی کا سر آگیا اور اس آخری خلیفہ کے لئے یہ ضروری تھا کہ آخر حصہ ہزار ششم میں آدم کی طرح پیدا ہو اور سن چالیس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح مبعوث ہو اور نیز صدی کا سر ہو اور یہ تین شرطیں ایسی ہیں کہ اس میں کاذب اور مفتری کا دخل غیر ممکن ہے۔ اور پھر امر چہارم اُن کے ساتھ خسوف کسوف کا رمضان میں واقع ہونا ہے جو مسیح موعود کی نشانی ٹھہرائی گئی ہے۔

دوسری قسم کی مخلوق جو مسیح موعود کی نشانی ہے یاجوج ماجوج کا ظاہر ہونا ہے۔ توریت میں ممالک مغربیّہ کی بعضؔ قوموں کو یاجوج ماجوج قرار دیا ہے۔ اور ان کا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ٹھہرایا ہے۔ قرآن شریف نے اس قوم کے لئے ایک نشانی یہ لکھی ہے کہ333 ۱؂ یعنی ہرایک فوقیت ارضی اُن کو حاصل ہو جائے گی اور ہر ایک قوم پر وہ فتحیاب ہو جائیں گے۔ دوسرے اس نشانی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ آگ کے کاموں میں ماہر ہوں گے یعنی آگ کے ذریعہ سے اُن کی لڑائیاں ہوں گی اور آگ کے ذریعہ سے اُن کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 277

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 277

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/277/mode/1up

277

انجن چلیں گے اور آگ سے کام لینے میں وہ بڑی مہارت رکھیں گے اِسی وجہ سے اُن کا نام یاجوج ماجوج ہے کیونکہ اجیج آگ کے شعلہ کو کہتے ہیں اور شیطان کے وجود کی بناوٹ بھی آگ سے ہے جیسا کہ آیت 3 ۱؂ سے ظاہر ہے۔ اس لئے قوم یاجوج ماجوج سے اس کو ایک فطرتی مناسبت ہے اِسی وجہ سے یہی قوم اس کے اسم اعظم کی تجلّی کے لئے اور اس کا مظہر اتم بننے کے لئے موزوں ہے ۔لیکن خدا کے اسم اعظم کی تجلّی اعظم جس کا مظہر اتم اسم احمد ہے جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے ایسے وجود کو چاہتی تھی جو لڑائی اور خونریزی کا نام نہ لے اور آشتی اور محبت اور صلح کاری کو دنیا میں پھیلا وے۔ ایسا ہی ستارہ مشتری کی تاثیر کا بھی یہی تقاضا تھا کہ خونریزی کے لئے تلوار نہ پکڑی جائے ایسا ہی ہزار ششم کا آخری حصہ جو جمعیت کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور تمام تفرقوں اور نقصانوں کو درمیان سے اٹھا کر اس مجموعہ مخلوقات کومع ان کے امام کے دکھلاتا ہے جو نظیر گذشتہ کے لحاظ سے تمام و کمال آشتی اور صلح سے بھرا ہوا ہے یہی چاہتا تھا کہ تفرقہ اور مخالفت مع اپنے لوازم کے جو جنگ وجدل ہے درمیان سے اُٹھ جائے جیسا کہ کتاب اللہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں پیدا کرکے اور چھٹے دن* آدم کو خلعت وجود پہنا کر نظام عالم کو باہم تالیف دے دی اور آدم کو مشتری کے اثر عظیم کے نیچے

آیات مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم چھٹے دن پیدا ہوا اور وہ آیات یہ ہیں:۔3333333333333333333 ۔۲؂ سورۃ البقرہ الجزو نمبر۱۔ یعنی خدا تعالیٰ نے جو کچھ زمین میں ہے سب پیدا کرکے اور آسمان کو بھی سات طبقے بنا کر غرض اس عالم کی پیدائش سے بکلّی فراغت پاکر پھر چاہا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 278

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 278

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/278/mode/1up

278

پیدا کیا تا آشتی اور صلح کو دنیا میں لاوے۔

تیسری قسم مخلوق کی جو مسیح موعوؔ د کی نشانی ہے دابۃ الارض کا خروج ہے اور دابۃ الارض سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی زبانوں پر خدا ہے اور دل بھی عقلی طور پر اس کے ماننے

کہ آدم کو پیدا کرے۔ پس اُس نے اُس کو روز ششم یعنی جمعہ کے آخری حصہ میں پیدا کیا کیونکہ جو چیزیں از روئے نصّ قرآنی چھٹے دن پیدا ہوئی تھیں آدم اُن سب کے بعد میں پیدا کیا گیا۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ سورۃ حٰمّ السجدہ جزو چوبیس میں اس بات کی تصریح ہے کہ خدا نے جمعرات اور جمعہ کے دن سات آسمان بنائے اور ہر ایک آسمان کے ساکن کو جو اس آسمان میں رہتا تھا اس آسمان کے متعلق جو امر تھا وہ اس کو سمجھا دیا اور ورلے آسمان کو ستاروں کی قندیلیوں سے سجایا اور نیز اُن ستاروں کو اس لئے پیدا کیا کہ بہت سے امور حفاظت دنیا کے ان پر موقوف تھے۔ یہ اندازے اُس خدا کے باندھے ہوئے ہیں جو زبردست اور دانا ہے۔ جن آیات کا یہ ترجمہ ہم نے لکھا ہے وہ یہ ہیں۔33333333 ۱؂ دیکھو سورۃ حٰمّ السجدہ الجزو نمبر۲۴ اِن آیات سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کو سات بنانا اور ان کے درمیانی امور کا انتظام کرنا یہ تمام امور باقی ماندہ دو روز میں وقوع میں آئے یعنی جمعرات اور جمعہ میں۔ اور پہلی آیات جن کو ابھی ہم لکھ چکے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم کا پیدا کرنا آسمانوں کے سات طبقے بنانے کے بعد اور ہر ایک زمینی آسمانی انتظام کے بعد غرض کل مجموعہ عالم کی طیاری کے بعد ظہور میں آیا اور چونکہ یہ تمام کاروبار صرف جمعرات کو ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ حصہ جمعہ کا بھی اُس نے لیا جیسا کہ آیت 3 سے ظاہر ہے۔ یعنی خدا نے اس آیت میں فی یوم نہیں فرمایا بلکہ یومین فرمایا۔ اس سے یقینی طور پر سمجھا گیا کہ جمعہ کا پہلا حصّہ آسمانوں کے بنانے اور ان کے اندرونی انتظام میں صرف ہوا لہٰذا بنصّ صریح اس بات کا فیصلہ ہو گیا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 279

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 279

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/279/mode/1up

279

سے خوش ہوتے ہیں لیکن آسمان کی رُوح اُن کے اندر نہیں محض دنیا کے کیڑے ہیں وہ رُوح کےؔ بُلائے نہیں بولتے بلکہ کورانہ تقلید یا نفسانی اغراض اُن کی زبان کھولتے ہیں۔ خدا نے دابۃ الارض اُن کا نام اسی وجہ سے رکھا ہے کہ کوئی آسمانی مناسبت ان کے اندر نہیں

کہ آدم جمعہ کے آخری حصہ میں پیدا کیا گیا۔ اور اگر یہ شبہ دامنگیر ہو کہ ممکن ہے کہ آدم ساتویں دن پیدا کیا گیا ہو تو اس شبہ کو یہ آیت دُور فرماتی ہے جو سورۃ حدید کی چوتھی آیت ہے اور وہ یہ ہے۔ 333 ۱؂ دیکھو سورۃ الحدید الجزو نمبر۲۷۔ ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ خدا وہ ہے جس نے تمام زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر اُس نے استوا کیا۔ یعنی کل مخلوق کو چھ دن میں پیدا کرکے پھر صفاتِ عدل اور رحم کو ظہور میں لانے لگا۔ خدا کاالوہیت کے تخت پر بیٹھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخلوق کے بنانے کے بعد ہر ایک مخلوق سے بمقتضائے عدل اور رحم اور سیاست کارروائی شروع کی یہ محاورہ اس سے لیا گیا ہے کہ جب کل اہل مقدمہ اور ارکان دولت اور لشکر باشوکت حاضر ہو جاتے ہیں اورکچہری گرم ہو جاتی ہے اور ہر ایک حقدار اپنے حق کو عدل شاہی سے مانگتا ہے اور عظمت اور جبروت کے تمام سامان مہیا ہو جاتے ہیں تب بادشاہ سب کے بعد آتا ہے اور تخت عدالت کو اپنے وجود باجود سے زینت بخشتا ہے۔ غرض ان آیات سے ثابت ہوا کہ آدم جمعہ کے اخیر حصے میں پیدا کیا گیا کیونکہ ر وز ششم کے بعد سلسلہ پیدائش کا بند کیا گیا۔ وجہ یہ کہ روز ہفتم تخت شاہی پر بیٹھنے کا دن ہے نہ پیدائش کا۔ یہودیوں نے ساتویں دن کو آرام کا دن رکھا ہے مگر یہ اُن کی غلط فہمی ہے بلکہ یہ ایک محاورہ ہے کہ جب انسان ایک عظیم کام سے فراغت پا لیتا ہے تو پھر گویا اُس وقت اس کے آرام کا وقت ہوتا ہے سوایسی عبارتیں توریت میں بطور مجاز ہیں نہ یہ کہ درحقیقت خدا تعالیٰ تھک گیا اور بوجہ خستہ درماندہ ہونے کے اس کو آرام کرنا پڑا۔

اور ان آیات کے متعلق ایک یہ بھی امر ہے کہ فرشتوں کا جناب الٰہی میں عرض کرنا کہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 280

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 280

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/280/mode/1up

280

عجب تریہ کہ آخری زمانہ میں وہ سچے دین کے گواہ ؔ ہیں۔ خود مُردہ ہیں مگر زندہ کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ تین چیزیں ہیں یعنی دجال اور یاجوج ماجوج اور دابۃالارض جو مسیح موعود کے آنے کی علامتیں زمین پر ہیں اور ان کے سوا اور بھی زمینی علامتیں ہیں چنانچہ اونٹ کی

کیا تو ایک مفسد کو خلیفہ بنانے لگا ہے؟ اِس کے کیا معنے ہیں؟ پس واضح ہو کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے چھٹے دن آسمانوں کے سات طبقے بنائے اور ہر ایک آسمان کے قضاء وقدر کا انتظام فرمایا اور چھٹا دن جو ستارہ سعد اکبر کا دن ہے یعنی مشتری کا دن قریب الاختتام ہو گیا اور فرشتے جن کو حسب منطوق آیت 3 ۱؂ سعد ونحس کا علم دیا گیا تھا اور ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ سعد اکبر مشتری ہے اور انہوں نے دیکھا کہ ؔ بظاہر اس دن کا حصہ آدم کو نہیں ملا کیونکہ دن میں سے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے سو یہ خیال گذرا کہ اب پیدائش آدم کی زحل کے وقت میں ہوگی اس کی سرشت میں زُحلی تاثیریں جو قہر اور عذاب وغیرہ ہے رکھی جائیں گی اِس لئے اس کا وجود بڑے فتنوں کا موجب ہوگا سو بناء اعتراض کی ایک ظنّی امر تھا نہ یقینی۔ اس لئے ظنّی پیرایہ میں انہوں نے انکار کیا اور عرض کیا کہ کیا تُو ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو مفسد اور خونریز ہوگا اور خیال کیا کہ ہم زاہد اور عابد اور تقدیس کرنے والے اور ہر ایک بدی سے پاک ہیں اور نیز ہماری پیدائش مشتری کے وقت میں ہے جو سعد اکبر ہے تب ان کو جواب ملا کہ 3۲؂ یعنی تمہیں خبر نہیں کہ مَیں آدم کو کس وقت بناؤں گا۔ میں مشتری کے وقت کے اُس حصے میں اس کو بناؤں گا جو اُس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگرچہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے۔ سو آدم جمعہ کی اخیر گھڑی میں بنایا گیا۔ یعنی عصر کے وقت پیدا کیا گیا اسی وجہ سے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 281

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 281

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/281/mode/1up

281

سواری اور باربرداری کا اکثر حصہ زمین سے موقوف ہو جانا ایک خاص علامت مسیح کے آجانے کی ہے۔ حجج الکرامہ میں ابن واطیل سے روایت لکھی ہے کہ مسیح عصر کے وقت آسمان پر سے نازل ہوگا اور عصر سے ہزارؔ کا آخری حصہ مراد لیا ہے۔ دیکھو

دعا کرو کہ اس میں ایک گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ وہی گھڑی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی۔ اِس گھڑی میں جو پیدا ہو وہ آسمان پر آدم کہلاتا ہے اور ایک بڑے سلسلہ کی اس سے بنیاد پڑتی ہے۔ سو آدم اسی گھڑی میں پیداکیا گیا۔ اس لئے آدم ثانی یعنی اس عاجز کو یہی گھڑی عطا کی گئی۔ اِسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ ینقطع اٰبائک ویبدء منک دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۰ ۴۹۔ اور یہ اتفاقات عجیبہ میں سے ہے کہ یہ عاجز نہ صرف ہزار ششم کے آخری حصہ میں پیدا ہوا جو مشتری سے وہی تعلق رکھتا ہے جو آدم کاروز ششم یعنی اس کاآخری حصہ تعلق رکھتا تھا بلکہ یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ میں پیدا ہوا ہے۔ اس جگہ ایک اور بات بیان کرنے کے لائق ہے کہ اگر یہ سوال ہو کہ جمعہ کی آخری گھڑی جو عصر کے وقت کی ہے جس میں آدم پیدا کیا گیا کیوں ایسی مبارک ہے اور کیوں آدم کی پیدائش کے لئے وہ خاص کی گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیرِ کواکب کا نظام ایسا رکھا ہے کہ ایک ستارہ اپنے عمل کے آخری حصہ میں دوسرے ستارے کا کچھ اثر لے لیتا ہے جو اس حصے سے ملحق ہو اور اس کے بعد میں آنے والا ہو۔اب چونکہ عصر کے وقت سے جب آدم پیدا کیا گیا رات قریب تھی لہٰذا وہ وقت زُحل کی تاثیر سے بھی کچھ حصہ رکھتا تھا اور مشتری سے بھی فیضیاب تھا جو جمالی رنگ کی تاثیرات اپنے اندر رکھتا ہے۔ سو خدا نے آدم کو جمعہ کے دن عصر کے وقت بنایا کیونکہ اس کو منظور تھا کہ آدم کو جلال اور جمال کا جامع بناوے جیسا کہ اِسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ3 ۱؂ یعنی آدم کو مَیں نے اپنے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 282

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 282

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/282/mode/1up

282

حجج الکرامہ صفحہ ۴۲۸۔ اِس قول سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ہزار سے مراد ہزار ششم ہے اور ہزار ششم کے عصر کا وقت اس عاجز کی پیدائش کا زمانہ ہے جو حضرت آدم کی پیدائش کے زمانہ کے مقابل پر ہے۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ آخری زمانہ کا جوہزار ہے وہ آدم کے چھٹے دن کے مقابل پر ہزار ششم ہے

دونوں ہاتھ سے پیدا کیا ہے ظاہر ہے کہ خدا کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہیں۔ پس دونوں ہاتھ سے مراد جمالی اور جلالی تجلّی ہے۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو جلالی اور جمالی تجلّی کا جامع پیدا کیا گیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اُس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا۔ اور یہ ستار ے فقط زینتؔ کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ اِن میں تاثیرات ہیں۔ جیسا کہ آیت 333 ۱؂ سے ،یعنی حفظًاکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیساکہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔ یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اورتربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلّی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔ نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 283

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 283

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/283/mode/1up

283

جس میں مسیح موعود کا آنا ضروری ہے اور آخری حصّہ اس کا وقت عصر کہلاتا ہے پس ابن و اطیل کا اصل قول جو سر چشمہ نبوت سے لیا گیا ہے اِس طرح پر معلوم ہوتا ہے نزول عیسٰی یکون فی وقت صلٰوۃ العصر فی الیوم السادس من الایام المحمدیۃ حین تمضی ثلٰثۃ ارباعہ۔

چیز انسان کیلئے پیدا کی گئی ہے تواب بتلاؤ کہ سماء الدنیا کو لاکھوں ستاروں سے پُر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اور خدا کایہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدّن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے اور یہ ستارے جیسا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں آسمان دنیاپر ہی نہیں ہیں بلکہ بعض بعض سے بڑے بڑے بُعد پر واقع ہیں اسی آسمان مشتری نظر آتا ہے جو چھٹے آسمان پر ہے ایسا ہی زحل بھی دکھائی دیتاہے جو ہفتم آسمان پر ہے اور اِسی وجہ سے اس کا نام زُحل ہے جو اس کا بُعد تمام ستاروں سے زیادہ ہے کیونکہ لغت میں زُحل بہت دُور ہونے والے کو بھی کہتے ہیں۔ اور آسمان سے مراد وہ طبقات لطیفہ ہیں جو بعض بعض سے اپنے خواص کے ساتھ متمیز ہیں۔ یہ کہنا بھی جہالت ہے کہ آسمان کچھ چیز نہیں کیونکہ جہاں تک عالم بالا کی طرف سیر کی جائے محض خلاکا حصہ کسی جگہ نظرنہیںآئے گا۔ پس کامل استقراء جو مجہولات کی اصلیت دریافت کرنے کے لئے اوّل درجہ پر ہے صریح اور صاف طور پر سمجھاتاہے کہ محض خلاکسی جگہ نہیں ہے۔ اور جیسا کہ پہلا آدم جمالی اور جلالی رنگ میں مشتری اور زُحل کی دونوں تاثیریں لے کر پیدا ہوا اسی طرح وہ آدم جو ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوا وہ بھی یہ دونوں تاثیریں اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس کے پہلے قدم پر مُردوں کازندہ ہوناہے اور دوسرے قدم پر زندوں کامرنا ہے یعنی قیامت میں۔ خدا نے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 284

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 284

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/284/mode/1up

284

یعنی نزول عیسیٰ محمدی دن کے عصر کے وقت میں ہوگا جب تین حصے اُس دن کے گذر چکیں گے۔ یعنی ہزار ششم کا آخری حصہ کچھ باقی رہے گا اور باقی سب گذر چکے گا اس وقت عیسیٰ کی رُوح زمین پر آئے گی۔ یاد رہے کہ صوفیہ کی اِصطلاح میں یوم محمدی سے مراد ہزار سال ہے جو

ہوجا ئیں۔ آخری زمانہ کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ آفتاب اور ماہتاب ایک ہی وقت میں تاریک ہو جائیں گے زمین پر جابجا خسف واقع ہوگا۔ پہاڑ اڑائے جائیں گے۔ یہ سب قہری اور جلالی نشانیاں ہیں۔ عیسائیت کے ؔ غلبہ کے زمانہ کی نسبت بھی اسی قسم کے اشارات قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ اس دین کے غلبہ کے وقت آسمان پھٹ جائیں اور زمین میں بذریعہ خسف وغیرہ ہلاکتیں واقع ہوں۔ غرض وجود آدم ثانی بھی جامع جلال و جمال ہے اور اسی وجہ سے آخر ہزار ششم میں پیدا کیا گیا اور ہزار ششم کے حساب سے دنیا کے دنوں کا یہ جمعہ ہے اور جمعہ میں سے یہ عصر کا وقت ہے جس میں یہ آدم پیداہوا۔ اور سورۃ فاتحہ میں اس مقام کے متعلق ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے جس میں مبدء اور معاد کا ذکر ہے یعنی خدا کی ربوبیت سے لے کر یوم الدین تک سلسلہ صفاتِ الٰہیہ کو پہنچایا ہے اس مناسبت کے لحاظ سے حکیم ازلی نے اس سورۃ کو سات آیتوں پر تقسیم کیا ہے تا دنیا کی عمر میں سات ہزار کی طرف اشارہ ہو۔ اور چھٹی آیت اس سورۃ کی 3 ہے۔ گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک ہادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو۔ اور ضالین پر اس سورۃ کو ختم کیا ہے۔ یعنی ساتویں آیت پر جو ضالین کے لفظ پر ختم ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی۔ یہ سورۃ درحقیقت بڑے دقائق اور حقائق کی جامع ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 285

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 285

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/285/mode/1up

285

روز وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم اسی حساب سے سورۃ والعصر کے اعداد لکھ کر ثابت کر چکے ہیں کہ اس عاجز کی پیدائش اس وقت ہوئی تھی جبکہ یوم محمدی میں سے صرف گیارہ سال باقی رہتے تھے جو اس دن کا آخری حصہ ہے۔ یاد رہے

کر چکے ہیں۔ اور اس سورۃ کی یہ دعا کہ33333 ۱؂ یہ صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اس امت کے لئے ایک آنے والے گروہ مغضوب علیھم کے ظہور سے اور دوسرے گروہ ضالین کے غلبہ کے زمانہ میں ایک سخت ابتلادرپیش ہے جس سے بچنے کے لئے پانچ وقت دعا کرنی چاہئے۔ اور یہ دعا سورۃ فاتحہ کی اس طور پر سکھائی گئی کہ پہلے الحمدللّٰہ سے مالک یوم الدین تک خدا کے محامد اور صفات جمالیہ اور جلالیہ ظاہر فرمائے گئے تا دل بول اٹھے کہ وہی معبود ہے چنانچہ انسانی فطرت نے ان پاک صفات کا دلدادہ ہو کر ایّاک نعبد کا اقرار کیا اور پھر اپنی کمزوری کو دیکھا تو ایّاک نستعین کہنا پڑا۔ پھر خدا سے مدد پاکر یہ دعا کی جو جمیع اقسام شر سے بچنے کیلئے اور جمیع اقسام خیر کو جمع کرنے کیلئے کافی ووافی ہے۔ یعنی یہ دعا کہ 33333 ۲؂ آمین۔ یہ تو ظاہرہے کہ سعادت تامہ تبھی حاصل ہوتی ہے کہ انسان اُن تمام شرّوں اور بدیوں سے محفوظ رہے جن کا کوئی نمونہ قیامت تک ظاہر ہونے والا ہے اور نیز تمام نیکیاں حاصل ہوں جوقیامت تک ظاہر ہونے والی ہیں۔ سو ان دونوں پہلوؤں کی یہ دُعا جامع ہے۔ ایسا ہی قرآن کریم کے آخر کی تین سورتوں میں سے اول سورۃ اخلاص میں یہ سکھلایا گیا کہ 3 ۳؂ اور اس آیت میں وہ عقیدہ جو قبول کرنے کے لائق ہے پیش کیا گیا اور پھر 33 ۴؂ سکھا کر وہ عقیدہ جو ردّ کرنے کے لائق ہے وہ بیان کیا گیا۔ اور پھر سورۃ فلق میں یعنی آیت3۵؂ میں آنے والے ایک سخت تاریکی سے ڈرایا گیا اور فقرہ 3۶؂ میں آنے والی ایک صبح صادق کی بشارت دی گئی اور اس مطلب کے حصول کے لئے سورۃ النّاس میں صبر اور ثبات کے ساتھ وساوس سے بچنے کیلئے تاکید کی گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 286

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 286

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/286/mode/1up

286

کہ اکثر صوفی جو ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہیں اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے اس بات کی طرف گئے ہیں کہ مسیح موعود تیرھویں صدی میں یعنی ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب کا الہام ’’چراغ دین‘‘ جو مہدی معہود کی پیدائش کے بارے میں ہے صاف دلالت کرتا ہے کہ ظہور کا وقت ہزار ششم کا آخر ہے۔ اِسی طرح بہت سے اکابر امت نے پیدائش مسیح موعود کے لئے ہزار ششم کا آخر لیا ہے اور چودھویں صدی اس کے بعث اور ظہور کی تاریخ لکھی ہے اور چونکہ مومن کے لئے خدا تعالیٰ کی کتاب سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں اس لئے اس بات سے انکار کرنا کہ مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہزار ششم کا آخر ہے خدا تعالیٰ کی کتاب سے انکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ سے مشابہت دے کر خود ظاہر فرمادیا ہے کہ پیدائش مسیح موعود ہزار ششم کے آخر میں ہے۔ پھر ماسوا اس کے صورت عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزار ششم میں زمین پر ایک انقلاب عظیم آیا ہے۔ بالخصوص اس ساٹھ برس کی مدت میں کہ جو تخمیناً میری عمر کا اندازہ ہے اس قدر صریح تغیر صفحۂ ہستی پر ظہور پذیر ہے کہ گویا وہ دنیا ہی نہیں رہی نہ وہ سواریاں رہیں اور نہ وہ طریق تمدن رہا اور نہ بادشاہوں میں وہ وسعتِ اقدار حکومت رہی نہ وہ راہ رہی اور نہ وہ مرکب۔ اور یہاں تک ہر ایک بات میں جدّت ہوئی کہ انسان کی پہلی طرزیں تمدّن کی گویا تمام منسوخ ہو گئیں اور زمین اور اہل زمین نے ہر ایک پہلو میں گویا پیرایۂ جدید پہن لیا اور بُدّلت الارض غیر الارض کا نظّارہ آنکھوں کے سامنے آگیا اور ایک دوسرے رنگ میں بھی انقلاب نے اپنا نظّارہ دکھلایا یعنی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں پیشگوئی کے طور پر فرمایا تھا کہ ایک وہ نازک وقت آنے والا ہے کہ قریب ہے کہ تثلیث کے غلبہ کے وقت آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر جائیں۔ یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں اور اس قدر حد سے زیادہ عیسائیت کی دعوت اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں غلو کیا گیا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 287

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 287

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/287/mode/1up

287

کہ قریب ہے کہ وہ را ستباز جو اخلاص کی وجہ سے آسمانی کہلاتے ہیں گمراہ ہو جائیں اور زمین پھٹ جائے یعنی تمام زمینی آدمی بگڑ جائیں۔ اور وہ ثابت قدم لوگ جو جبال راسخہ کے مشابہ ہیں گر جائیں اور قرآن شریف کی وہ آیت جس میں یہ پیشگوئی ہے یہ ہے:۔ 333 ۔۱؂ ا ور آیت چونکہ ذو الوجہین ہے اس لئے دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ قیامت کبریٰ کے قریب عیسائیت کا زمین پر بہت غلبہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ آج کل ظاہر ہو رہا ہے اور اس آیت کریمہ کا منشاء یہ ہے کہ اگر اس فتنہ کے وقت خدا تعالیٰ اپنے مسیح کو بھیج کر اصلاح اس فتنہ کی نہ کرے تو فی الفور قیامت آجائے گی اور آسمان پھٹ جائیں گے۔ مگر چونکہ باجود اس قدر عیسائیت کے غلو کے اور اس قدر تکذیب کے جواب تک کروڑ ہا کتابیں اور رسالے اور دو ورقہ کاغذات ملک میں شائع ہو چکے ہیں قیامت نہیں آئی تو یہ دلیل اِس بات پر ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم کرکے اپنے مسیح کو بھیج دیا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا نکلے۔ اور گذشتہ تقریر کے رو سے جبکہ دنیا پر انقلاب عظیم آچکا ہے اور قریباً کل ایسی روحیں جو سچائی سے خدا کو طلب کر سکتیں ہلاک ہو گئیں اس لئے اس زمانہ میں روحانی زندگی دوبارہ قائم کرنے کے لئے ایک جدید آدم کی ضرورت پڑی اس آدم کی قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ وہ آدم ایمان جیسے جوہر کو دوبارہ دنیا میں لانے والا اور زمین کو پلیدی سے صاف کرنے والا ہے اور اس کی ضرورت اس سے ظاہر ہے کہ اب اسلام اپنے دونوں پہلوؤں اعتقادی اور عملی کے رُو سے غربت کی حالت میں ہے لہٰذا نبیوں کی تمام پیشگوئیوں کے ظہور کا اب یہ وقت ہے اور آسمانی برکتوں کا انتظار۔

اب ہم اس خاتمہ میں دانیال کی کتاب میں سے ایک پیشگوئی اور ایسا ہی یسعیا نبی کی کتاب میں سے بھی ایک پیشگوئی لکھتے ہیں کہ جو مسیح موعود کے ظہور کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 288

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 288

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/288/mode/1up

288

بارے میں ہے اور وہ یہ ہے:۔

دانیال باب۱۲


و باعِیُتْ ھَھِیا یعمود میکائیل ھَسَّار

اور اس وقت ہو گا مبعوث وہ جو خدا کی مانند ہے حاکم


ھَجّادُؤْل ھاعومئد عَل بَنْئ عمیک

اعلیٰ وہ مبعوث ہو گا تیری قوم کی حمایت میں


وھایِتَاہ عِئت ضارہ اَشئر

اور ہو گا زمانہ دشمنوں کا ایسا زمانہ


لُونْہِی تاہ مہیؤت گویْ عد ھاعت

کہ نہ ہوا ہو گا امت کے ابتدا سے لے کر


ھ ھیا و باعیت ھھیا یمالیط

اس وقت تک اور اس وقت ایسا ہو گا کہ نجات پائے گا


عَمِّئکا کول ھنمصا کاتوب بسیفر

تیری قوم میں سے ہر ایک کہ پایا جائے گا لکھا ہوا کتاب میں


و رَبّیم مِشینِی اَدَمت عافار

او ر بہت جو سست پڑے ہیں زمین کے اندر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 289

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 289

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/289/mode/1up

289


یا قیضو اِیلیہ لحیّے عُولام وایلیہ

جاگ اٹھیں گے یہ ہمیشہ کی زندگی کے


لحرافوت لدر اون عولام

واسطے اور یہ انکار اور ابدی *** کے واسطے۔


و ھَمَسْکِیلِیْم یَزْھِیْ رُوْ کزوھر

اور اہل دانش چمکیں گے مانند چمک


ھارقیعہ و مَصَدیقِیْ ھا رَبِّیم ککوکابیم

آسمان کی اور صادقوں سے بہت ہوں گے مانند ستاروں کے


لعولام و عاد واتاہ دانی ایل ستوم

ہمیشہ اور ہمیشہ اور تو اے دانیال پوشیدہ رکھ


ھَدِّ بارِیم و ختُومْ ھَسِّیفر عد عیت

ان باتوں کو اور سر بمہر رکھ اس کتاب کو وقت


قیص یش ططو رَبِّیم و تربیہ ھَدّاعت

آخرتک جبکہ لوگ زمین پر یشططو ہوں گے اور ادھر ادھر دوڑیں گے اور سیر کریں گے اور ملیں گے اورعلم بہت بڑھ جائے گا


و رائیَتِیْ انی دانی ایل و ھنّیہ شنے یم

اور نظر کی َ میں دانیال نے اور دیکھے دو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 290

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 290

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/290/mode/1up

290

اَحأْ رِیْم عُؤمدیم احاد ھیناہ لشؤفت

اور کھڑے ہوں گے ایک اس طرف دریا کے

ھیّور و احاد ھیناہ لشوفت ھیّور

اور دوسرا اُس طرف دریا کے دریا

و یُؤمِیر لا ایش لبُوش ھَبَدِّیم اشِئر

اور کہا اس آدمی کو جس کا لباس لمبے تاگوں کا تھا جو کہ

لمعَلْ لِمۂ مئے ھَیّور عَدْ ماتَیْ

اوپر دریا کے پانی کے تھا کب ہو گا

قِیْص ھَفْلا اُوْت و اَشْمع اِیَتْ ھا ایش

انجام مصائب کا اور میں نے سنا اس آدمی کو جو لمبے تاگوں والا

لبُؤش ھبدِّیم اشِیْر ممعل لمے مے

لباس پہنے تھا جو کہ اوپر پانیوں

ھیور و یارام یمینو و شمولو ال

دریا کے تھا اور اس نے بلند کیا اپنا دایاں اور بایاں آسمان

ھشامیم و یشّابع بحِْے ھا عولام کِیْ لموعِئدْ

کی طرف اور قسم کھائی ابدی زندہ خدا کی کہ اس زمانہ کی مدت ہے

۱؂ سہو کتابت واقع ہوا ہے۔ صحیح تلفظ ’’ممعل ‘‘ہے۔ اس کی تائید اگلی تیسری سطر سے بھی ہوتی ہے۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 291

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 291

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/291/mode/1up

291

مَوْعدِیم وحِئصِی و ککلوّت نَفِئص ید عم

دو زمانے ہیں اور ایک زمانہ کا حصہ اور یہ پورا ہو گا اور مقدس جماعت میں تفرقہ پڑے گا


قودیش تک لِئے ناہ کُول اِ أ لۂْ وانی شامعتی

اور ان کا زور ٹوٹ جائے گا اور یہ سب باتیں پوری ہوں گی اور میں نے سنا


و لو ابین واومراہ ادونی ماہ احریت

پر نہ جانا اور میں نے کہا اے خداوند کیا ہے انجام


ایلیہ و یومءِر لِیَک دانی ایل کِیْ ستُومیم

ان سب باتوں کا او ر کہا چلا جا دانیال کیونکہ پوشیدہ رہیں گی


و حتُومِیم ھَدِّ باریم عد عیت قیص یت باررو

اور سر بمہر رہیں گی یہ باتیں وقت آخرتک بہتوں کا اِبرا کیا جائے گا


و یت لبّ نو و یَصّارفو رَبّیْم و ھر شی عو رشاعیم

اور بہتو ں کو سفید کیا جائے گا اور بہتوں کی آزمائش میں ڈالا جائے گا اور شریر شرارت سے شوروغوغا


و لو یابی نو کول رشاعیم و ھمسکیلیم

مچائیں گے اور شریرو ں میں سے کوئی نہ سمجھے گا پر اہل دانش


یابی نو و مے عیت ھو سر ھتّامید و لاتیت

سمجھ لیں گے۔ اور اس وقت سے جبکہ دائمی قربانی موقوف ہو گی اور بتوں کو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 292

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 292

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/292/mode/1up

292

شقّوص شومیم یامیم ایلیف ماتیم

تباہ کیا جائے گا اس وقت تک بارہ سو۱۲۹۰ نوّے


و تش عیم اشْرِ ے ھمحکاہ و یجیع

دن ہوں گے مبارک ہے جو انتظار کیا جائے گا اور اپنا کام


لیامیم ایلیف شلوش مے اوت شلوشیم

محنت سے کرے گا تیرہ سو پینتیس روز تک


و حمی شاہ و اتاہ لِیَک لقیص و تانوح

۱۳۳۵* اور تو چلا جا آخر تک اے دانیال


و تعمُود لجورالک لقیص ھیامین

اور آرام کر اور اپنے حصے پر اخیر پر کھڑا ہو گا

* اس فقرہ میں دان ایل نبی بتلاتا ہے کہ اُس نبی آخرالزمان کے ظہور سے

(جو محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلم ہے) جب بارہ سو نوے ۱۲۹۰ برس گذریں گے تو وہ مسیح موعود ظاہر ہو گا اور تیرہ سو پینتیس ہجری تک اپنا کام چلائے گا یعنی چودھو۱۴یں صدی میں سے پینتیس۳۵ برس برابر کام کرتا رہے گا۔ اب دیکھو اس پیشگوئی میں کس قدر تصریح سے مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی قرار دی گئی۔ اب بتلاؤ کیا اس سے انکار کرنا ایمان داری ہے؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 293

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 293

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/293/mode/1up

293

ہحر یشو اے لَيْ ایّیم وُل اُومِیْم

خاموش ہو جاؤ میرے آگے اے جزیرو امت


وحلی فو کواح یج شو آز یَدَبِّیرو

ازسرنوسرسبز ہو گی اور قوت پکڑے گی وے قریب پہنچیں گے پھر سب ایک بات پر


یَحدَاْ لمشفاط نِقرِیبَاہ مِیْ ھی عیر

متفق ہوں گے ہم قضٰی (فیصلہ) کے قریب آئیں گے کس نے مبعوث کیا


مِمِزرَاح صدیق یِقراء ھو لرجلو یتّین

مشرق کی طرف سے صادق کو* اسے اپنے حضور میں بلایا دھردیا


لفانا یو گویم و ملاکیم یرئد یتین

اس کے منہ کے آگے قوموں کو اور بادشاہوں پر اسے حاکم کیا۔ اُس نے کر دیا


کعافار حَرْبُو کقاش نِدّاف قشتو

خاک کی مانند اس کی تلوار کو مانند بھوسے اڑتے ہوئے کی اس کی کمان کو

* اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود جو آخری زمانہ میں پیدا ہو گا وہ مشرق میں یعنی

ملک ہند میں ظاہر ہو گا اگرچہ اس آیت میں تصریح نہیں کہ آیا پنجاب میں مبعوث ہو گا یا ہندوستان میں مگر دوسرے مقامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پنجاب میں ہی مبعوث ہو گا۔ منہ

ظ یہ عبارت یسعیاہ ۱ باب۴۱ آیات اتا۴ کی ہے (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 294

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 294

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/294/mode/1up

294


یردفیم یعبور شالوم اورح برَجْلایو

اس نے ان کا تعاقب کیا اور گذر گیا سلامت ایسی راہ سے جس پر کہ وہ


لو یابو مِیِ فاعَلْ وعَاسَاہ

اپنے پاؤں پر نہیں چلا کس نے یہ کام کیا اوراسے انجام دیا


قوری ھدّوروت مے روش انی یہوواہ

وہ جس نے ساری پشتوں کو ابتدا سے پڑھ سنایا َ میں وہی پہلا خدا ہوں


رِیْ شؤن واِئتْ اَحَرونِیْم اَنِي ھُو

اور آخرین کے ساتھ ہوں



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 295

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 295

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/295/mode/1up

295

ضمیمہ تحفہ گولڑویہ

ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ اپنے دعویٰ کے متعلق جس قدر ثبوت ہیں اجمالی طور پر ان کو اس جگہ اکٹھا کر دیا جائے۔ سو اوّل تمہیدی طور پر اس بات کا لکھنا ضروری ہے کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیشگوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ ہمارے علماء کا یہ خیال ہے کہ وہی مسیح عیسیٰ ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی تھی آخری زمانہ میں آسمان پر سے نازل ہوگا۔ لیکن ظاہر ہے کہ قرآن شریف اِس خیال کے مخالف ہے اور آیت 3 3 ۱؂ اور آیت 3 ۲؂ اور آیت333۳؂ اور آیت 3 ۴؂ اور دوسری تمام آیتیں جن کا ہم اپنی کتابوں میں ذکر کر چکے ہیں اس امر پر قطعیۃ الدلالت ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی موت کا انکار قرآن سے انکار ہے اور پھر اس کے بعد اگرچہ اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم احادیث سے حضرت مسیح کی وفات کی دلیل ڈھونڈیں لیکن پھر بھی جب ہم حدیثوں پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کافی حصہ اس قسم کی حدیثوں کا موجود ہے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک سو بیس برس عمر لکھی ہے اور جن میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر عیسیٰ اور موسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے۔ اور جن میں لکھا گیا ہے کہ اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات یافتہ روحوں میں داخل ہیں۔ چنانچہ معراج کی تمام حدیثیں جو صحیح بخاری میں ہیں وہ اِس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام معراج کی رات میں وفات شدہ روحوں میں دیکھے گئے۔ اور سب سے بڑھ کر حدیثوں کے رو سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ تمام صحابہ کا اس پر اجماع ہو گیا تھا کہ گذشتہ تمام نبی جن میں حضرت عیسیٰ بھی داخل ہیں سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ اِس



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 296

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 296

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/296/mode/1up

296

اجماع کا ذکرصحیح بخاری میں موجود ہے جس سے ایک صحابی بھی باہر نہیں۔ اب اس طالب حق کے لئے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے حضرت مسیح کی وفات کے بارے میں زیادہ ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ماسوا اس کے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ میری آمد ثانی بروزی رنگ میں ہوگی نہ حقیقی رنگ میں اور وہ اقرار یہ ہے:۔ (۱۰) اور اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ پہلے الیاس کا آنا ضروری ہے (یعنی مسیح کے آنے سے پہلے الیاس کا آنا کتابوں کے رُو سے ضروری ہے) (۱۱) یسوع نے انہیں جواب دیا کہ الیاس البتہ پہلے آوے گا اور سب چیزوں کا بندوبست کرے گا (۱۲) پر مَیں تم سے کہتا ہوں کہ الیاس تو آچکا لیکن انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا۔* اِسی طرح ابن آدم بھی اُن سے (آمد ثانی کے وقت میں) دُکھ اُٹھائے گا۔ دیکھو انجیل متی بات ۱۷۔ آیتؔ ۱۰ و ۱۱ و ۱۲۔ اِن آیات میں مسیح نے صاف لفظوں میں فرمادیا کہ اس کا دوبارہ آنا بھی الیاس کے رنگ میں ہوگا۔ چونکہ مسیح اس سے پہلے کئی دفعہ اپنی آمد ثانی کا حواریوں کے سامنے ذکر کر چکا تھا جیسا کہ اِسی انجیل متی سے ظاہر ہے۔ اس لئے اُس نے چاہا کہ الیاس کی آمد ثانی کی بحث میں اپنی آمد ثانی کی حقیقت بھی ظاہر کر دے سو اُس نے بتلا دیا کہ میری آمد ثانی بھی الیاس کی آمد ثانی کی مانند ہوگی یعنی محض بروزی طور پر ہوگی۔ اب کس قدر ظلم ہے کہ مسیح تو اپنی آمدثانی کو بروزی طور پر بتلاتا ہے اور صاف کہتاہے کہ مَیں نہیں آؤں گا بلکہ میرے خلق اور خو پر کوئی اَور آئے گا

* کیا تعجب ہے کہ سید احمد بریلوی اس مسیح موعود کے لئے الیاس کے رنگ میں آیا ہو۔ کیونکہ اُس کے خون نے ایک ظالم سلطنت کا استیصال کرکے مسیح موعود کے لئے جو یہ راقم ہے راہ کو صاف کیا۔ اُسی کے خون کا اثر معلوم ہوتا ہے جس نے انگریزوں کو پنجاب میں بلایا اور اس قدر سخت مذہبی روکوں کو جو ایک آ ہنی تنور کی طرح تھیں دُور کرکے ایک آزاد سلطنت کے حوالہ پنجاب کو کر دیا اور تبلیغ اسلام کی بنیاد ڈال دی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 297

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 297

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/297/mode/1up

297

اور ہمارے مولوی اور بعض عیسائی یہ خیال کر رہے ہیں۔* کہ سچ مچ خود ہی وہ دوبارہ دنیا میں آجائے گا۔ اس جگہ ایک لطیفہ بیان کرنے کے لائق ہے جس سے ظاہر ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں ایک زمانہ مقدر تھا جس میں فوت شدہ رُوحیں بروزی طور پر آنے والی تھیں۔ اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یعنی سورۃ انبیاء جزو نمبر۱۷ میں ایک پیشگوئی کی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ ہلاک شدہ لوگ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں پھر دنیا میں رجوع کریں گے اور وہ یہ آیت ہے۔ 33۔333۔3 ۱؂ اور اس کے اوپر کی یہ آیتیں ہیں۔3333333۔ 333۔33333۔333۲؂۔ ترجمہ ان آیا ت کا یہ ہے کہ مریم نے جب اپنے اندامِ نہانی کو نامحرم سے محفوظ رکھا۔ یعنی غایت درجہ کی پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اُس کو یہ انعام دیا کہ وہ بچہ اس کو عنایت کیا کہ جو رُوح القدس کے نفخ سے پیدا ہوا تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا میں بچے دو قسم کے پیدا ہوتے ہیں (۱) ایک جن میں نفخ رُوح القدس کا اثر ہوتا ہے۔اور ایسے بچے وہ ہوتے ہیں جب عورتیں پاکدامن اور پاک خیال ہوں اور اِسی حالت میں استقرار نطفہ ہو وہ بچے پاک ہوتے ہیں

* ہم نے بعض کا لفظ اس واسطے لکھا ہے کہ کل عیسائی اس پر متفق نہیں ہیں کہ مسیح دوبارہ دنیا میں آجائے گا۔ بلکہ ایک گروہ عیسائیوں میں سے اس بات کا بھی قائل ہے کہ دوسرا مسیح کوئی اَور ہے جو مسیح ابن مریم کے رنگ اور خو پر آئے گا۔ اسی وجہ سے عیسائیوں میں بعض نے جھوٹے دعوے کئے کہ وہ مسیح ہم ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 298

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 298

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/298/mode/1up

298

اور شیطان کا اُن میں حصہ نہیں ہوتا۔ (۲) دوسری وہ عورتیں ہیں جن کے حالات اکثر گندے اور ناپاک رہتے ہیں۔ پس ان کی اولاد میں شیطان اپنا حصہ ڈالتا ہے جیسا کہ آیت 33۱؂ اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس میں شیطان کو خطاب ہے کہ ان کا مالوں اور بچوں میں حصّہ دار بن جا۔ یعنی وہ حرام کے مال اکٹھا کریں گی اور ناپاک اولاد جنیں گی۔ ایسا سمجھنا غلطی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو نفخ رُوح سے کچھ خصوصیت تھی جس میں دوسروں کو حصّہ نہیں۔ بلکہ نعوذ باللہ یہ خیال قریب قریب کفر کے جا پہنچتا ہے۔ اصل حقیقت صرف یہ ہے کہ قرآن شریف میں انسانوں کی پیدائش میں دو قسم کی شراکت بیان فرمائی گئی ہے (۱) ایک رُوح القدس کی شراکت جب والدین کے خیالات پر ناپاؔ کی اور خباثت غالب نہ ہو (۲) اور ایک شیطان کی شراکت جب اُن کے خیال پر ناپاکی او پلیدی غالب ہو ۔اِسی کی طرف اشارہ اس آیت میں بھی ہے کہ 3۔۲؂ پس بلا شبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُن لوگوں میں سے تھے جس مس شیطان اور نفخ ابلیس سے پیدا نہیں ہوئے اور بغیر باپ کے ان کا پیدا ہونا یہ امر دیگر تھا جس کو رُوح القدس سے کچھ تعلق نہیں۔ دنیا میں ہزاروں کیڑے مکوڑے برسات کے دنوں میں بغیر باپ کے بلکہ بغیر ماں اور باپ دونوں کے پیدا ہو جاتے ہیں تو کیا وہ رُوح القدس کے فرزند کہلاتے ہیں؟ رُوح القدس کے فرزند وہی ہیں جو عورتوں کی کامل پاکدامنی اور مردوں کے کامل پاک خیال کی حالت میں رحم مادر میں وجود پکڑتے ہیں۔ اور اُن کی ضد شیطان کے فرزند ہیں۔ خدا کی ساری کتابیں یہی گواہی دیتی آئی ہیں۔ اور پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے مریم اور اس کے بیٹے کو بنی اسرائیل کے لئے اور اُن سب کیلئے جو سمجھیں ایک نشان بنایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کرکے بنی اسرائیل کو سمجھا دیا کہ تمہاری بد اعمالی کے سبب سے نبوت بنی اسرائیل سے جاتی رہی کیونکہ عیسیٰ باپ کے رُو سے بنی اسرائیل میں سے نہیں ہے۔ اس مقام میں یہ بات بھی یاد رکھنے لائق ہے کہ اکثر پادری جو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 299

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 299

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/299/mode/1up

299

کہا کرتے ہیں کہ توریت میں جو مثیل موسیٰ کا وعدہ ہے اور لکھا ہے کہ تمہارے بھائیوں میں سے موسیٰ کی مانند ایک نبی قائم کیا جائے گا وہ نبی یسوع یعنی عیسیٰ بن مریم ہے یہ قول ان کا اسی جگہ سے غلط ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ جس حالت میں بنی اسرائیل میں سے حضرت عیسیٰ کا کوئی باپ نہیں ہے تو وہ بنی اسرائیل کا بھائی کیونکر بن سکتا ہے۔ پس بلا شبہ ماننا پڑا کہ لفظ ’’تمہارے بھائیوں میں سے‘‘ جو توریت میں موجود ہے اس سے مراد وہ نبی ہے جو بنی اسمٰعیل میں سے ظاہر ہوا یعنی محمد مصطفےٰ صلے اللہ علیہ وسلم۔ کیونکہ توریت میں جابجا بنی اسمٰعیل کو بنی اسرائیل کے بھائی لکھا ہے۔ لیکن ایسا شخص جو باقرار فریقین کسی اسرائیلی مرد کے نطفہ میں سے نہیں ہے اور نہ اسماعیلی مر د کے نطفہ سے وہ کسی طرح بنی اسرائیل کا بھائی نہیں کہلا سکتا اور نہ حسب ادعائے عیسائیاں وہ موسیٰ کی مانند ہے کیونکہ وہ تو اُن کے نزدیک خدا ہے اور موسیٰ تو خدا نہیں۔ اور ہمارے نزدیک بھی وہ موسیٰ کی مانند نہیں کیونکہ موسیٰ نے ظاہر ہو کر تین بڑے کھلے کھلے کام کئے جو دنیا پر روشن ہو گئے ایسے ہی کھلے کھلے تین کام جو دنیا پر بد یہی طور پر ظاہر ہو گئے ہوں جس نبی سے ظہور میں آئے ہوں وہی نبی مثیل موسیٰ ہوگا۔ اور وہ کام یہ ہیں (۱) اوّل یہ کہ موسیٰ نے اُس دشمن کو ہلاک کیا جو اُن کی اور اُن کی شریعت کی بیخ کنی کرنا چاہتا تھا (۲) دوسرے یہ کہ موسیٰ نے ایک نادان قوم کو جو خدا اور اس کی کتابوں سے ناواقف تھی اور وحشیوں کی طرح چار۴۰۰ سو برس سے زندگی بسر کرتے تھے کتاب اور خدا کی شریعت دی یعنی توریت عنایت کی اور ان میں شریعت کی بنیاد ڈالی (۳) تیسرے یہ کہ بعد اس کے کہ وہ لوگ ذلّت کی زندگی بسر کرتے تھے ان کوحکومت اور بادشاہت عنایت کی اور اُن میں سے بادشاہ بنائے۔ اِن تینوں انعامات کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔3333 ۱؂۔ دیکھو سورۃ الاعراف الجزو نمبر۹۔ اور پھر دوسری جگہ فرمایا۔ 33



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 300

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 300

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/300/mode/1up

300

3۱؂۔ دیکھو سورۃ النساء الجزو نمبر۵۔ اب سوچ کر دیکھ لو کہ اِن تینوں کاموں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک ذرّہ بھی مناسبت نہیں۔ نہ وہ پیدا ہو کر یہودیوں کے دشمنوں کو ہلاک کر سکے اور نہ وہ اُن کے لئے کوئی نئی شریعت لائے اور نہ انہوں نے بنی اسرائیل یا اُن کے بھائیوں کو بادشاہت بخشی۔ انجیل کیا تھی وہ صرف توریت کے چند احکام کا خلاصہ ہے جس سے پہلے یہود بے خبر نہیں تھے گو اس پر کاربند نہ تھے۔ یہود گو حضرت مسیح کے وقت میں اکثر بد کار تھے مگر پھر بھی اُن کے ہاتھ میں توریت تھی۔ پس انصاف ہمیں اس گواہی کے لئے مجبور کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کچھ مماثلت نہیں رکھتے۔ اور یہ کہنا کہ جس طرح حضرت موسیٰ نے اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دی یہ ایسا بیہودہ خیال ہے کہ کوئی شخص گو کیسا ہی اغماض کرنے والا ہو اس خیال پر اطلاع پاکر اپنے تئیں ہنسنے سے روک نہیں سکے گا۔ مخالف کے سامنے اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عیسیٰ نے ضرور اپنے پَیروؤں کو شیطان سے اسی طرح نجات دے دی جیسا کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی۔ موسیٰ کا بنی اسرائیل کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دینا ایک تاریخی امر ہے جس سے نہ کوئی یہودی منکر ہو سکتا ہے نہ عیسائی نہ مسلمان نہ گبرنہ ہندو کیونکہ وہ دنیا کے واقعات میں سے ایک واقعہ مشہورہ ہے مگر عیسیٰ کا اپنے تابعین کو شیطان کے ہاتھ سے نجات دنیا صرف اعتقادی امر ہے جو محض نصاریٰ کے خیالات میں ہے خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں جس کو دیکھ کر ہر ایک شخص بدیہی طور پر قائل ہو سکے کہ ہاں یہ لوگ درحقیقت شیطان اور ہر ایک بدکاری سے نجات پا گئے ہیں۔ اور ان کا گروہ ہر ایک بدی سے پاک ہے۔ نہ اُن میں زنا ہے نہ شراب خوری نہ قمار بازی اور نہ خونریزی بلکہ تمام مذاہب کے پیشوا اپنے اپنے خیال میں اپنی اپنی امتوں کو



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 301

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 301

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/301/mode/1up

301

شیطان کے ہاتھ سے نجات دیتے ہیں۔ اس نجات دہی کے دعوے سے کس پیشوا کو انکار ہے۔ اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ دوسروں نے اپنی امت کو نجات نہیں دی مگر مسیح نے دی۔ پیشگوئی میں تو کوئی کھلا کھلا تاریخی واقعہ ہونا چاہئے جو موسیٰ کے واقعہ سے مشابہ ہو نہ کہ اعتقادی امر کہ جو خود ثبوت طلب ہے۔ ظاہر ہے کہ پیشگوئی سے صرف یہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ دوسری کے لئے بطور دلیل کے کام آسکے لیکن جب ایک پیشگوئی خود دلیل کی محتاج ہے تو کس کام کی ہے مماثلت ایسے امور میں چاہئے کہ جو واقعات مشہورہ میں داخل ہوں نہ یہ کہ صرف اپنے اعتقادیات ہوں جو خود ثبوت طلب ہیں۔ بھلا انصافًا تم آپ ہی سوچو کہ موسیٰ نے تو فرعون کو مع اس کے لشکر کے ہلاک کرکے جہان کو دکھلا دیا کہ اس نے یہودیوں کو اس عذاب اور شکنجہ سے نجات دے دی جس میں وہ لوگ قریباً چار سو برس سے مبتلا چلے آتے تھے اور پھر ان کو بادشاہت بھی دے دی مگر حضرت مسیح نے اس نجات کے یہودیوں کو کیا آثار دکھلائے اور کو ن سا ملک ان کے حوالہ کیا۔ اور کب یہودی ان پر ایمان لائے اور کب انہوں نے مان لیا کہ اس شخص نے موسیٰ کی طرح ہمیں نجات دے دی اور داؤد کا تخت دوبارہ قائم کیا۔ اور بالفرض اگر وہ ایمان بھی لاتے تو آئندہ جہان کی نجات تو ایک مخفی امر ہے اور ایسا مخفی امر کب اس لائق ہے کہ پیشگوئی میں ایک بدیہی امر کی طرح اس کو دکھلایا جائے۔ جو شخص کسی مدعی نبوت پر ایمان لاتا ہے یہ ایمان تو خود ہنوز جائے بحث ہے کسی کو کیا خبر کہ وہ ایمان لانے سے نجات پاتا ہے یا انجام اس کا عذاب اور مواؔ خذۂ الٰہی ہے۔ پیشگوئی میں تو وہ امور پیش کرنے چاہئیں جن کو کھلے کھلے طورپر دنیا دیکھ سکے اور پہچان سکے۔ اس پیشگوئی کا تو یہ مطلب ہے کہ وہ نبی موسیٰ کی طرح بنی اسرائیل کو یا اُن کے بھائیوں کو ایک عذاب سے نجات دے گا اسی طرح جیسا کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو عذاب سے نجات دی تھی۔ اور نہ صرف نجات دے گا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 302

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 302

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/302/mode/1up

302

بلکہ ان کو ایّام ذلّت کے بعد سلطنت بھی عطا کرے گا جیسا کہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو چار سو برس کی ذلّت کے بعد نجات دی اور پھر سلطنت عطا کی اور پھر اس وحشی قوم کو موسیٰ کی طرح ایک نئی شریعت سے تہذیب یافتہ کرے گا۔ اور وہ قوم بنی اسرائیل کے بھائی ہوں گے۔ اب دیکھو کہ کیسی صفائی اور روشنی سے یہ پیشگوئی سیدنا محمد مصطفٰے صلے اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہو گئی ہے اور ایسی صفائی سے پوری ہو گئی ہے کہ اگر مثلاً ایک ہندو کے سامنے بھی جو عقل سلیم رکھتا ہو یہ دونوں تاریخی واقعات رکھے جائیں یعنی جس طرح موسیٰ نے اپنی قوم کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اور پھر سلطنت بخشی اور پھر ان وحشی لوگوں کو جو غلامی میں بسر کرر ہے تھے ایک شریعت بخشی۔ اور جس طرح سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غریبوں اور کمزوروں کو جو آپ پر ایمان لائے تھے عرب کے خونخوار درندوں سے نجات دی اور سلطنت عطا کی اور پھر اس وحشیانہ حالت کے بعد ان کو ایک شریعت عطا کی تو بلا شبہ وہ ہندو دونوں واقعات کو ایک ہی رنگ میں سمجھے گا اور ان کی مماثلت کی گوہی دے گا۔ اور خود ہم جبکہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو عرب کے خون ریز ظالموں کے ہاتھ سے بچا کر اپنے پروں کے نیچے لے لیا۔ اور پھر ان لوگوں کو جو صدہا سال سے وحشیانہ حالت میں بسر کرر ہے تھے ایک نئی شریعت عطا فرمائی اور بعد ایّام ذلّت اور غلامی کے سلطنت عطا فرمائی تو بلا تکلّف موسیٰ کے زمانہ کانقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ اور پھر ذرہ اور غور کرکے جب حضرت موسیٰ کے سلسلۂ خلفاء پر نظر ڈالتے ہیں جو چودہ سو برس تک دنیا میں قائم رہا تو اس کے مقابل پر سلسلہ محمدیہ بھی اسی مقدار پر ہمیں نظر آتا ہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کے سلسلۂ خلفاء کے آخر میں ایک مسیح ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہے ایسا ہی اس سلسلہ کے آخر میں بھی جومقدار اور مدت میں سلسلہ موسوی کی مانند ہے ایک مسیح دکھائی دیتا ہے اور دونوں سلسلے ایک دوسرے کے مقابل پر ایسے دکھائی دیتے ہیں کہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 303

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 303

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/303/mode/1up

303

جس طرح ایک انسان کی دوٹانگیں ایک دوسری کے مقابل پر ہوتی ہیں۔ پس اس سے بڑھ کر مماثلت کے کیا معنے ہیں۔ اور یہی حقیقت یہ آیت ظاہر فرماتی ہے کہ 3333 ۱؂۔ اور اسی مقام سے ظاہرہوتا ہے کہ اس امت کے آخری زمانہ میں مسیح کے مبعوث ہونے کی کیوں ضرورت تھی یعنی یہی ضرورت تھی کہ جبکہ خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل ٹھہرایا اور نیز سلسلہ خلافتِ محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل مقرر کیا تو جس طرح موسوی سلسلہ موسیٰ سے شروع ہوا اور مسیح پر ختم ہوا یہ سلسلہ بھی ایسا ہی چاہئے تھا۔ سو موسیٰ کی جگہ ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم مقرر کئے گئے اور پھر آخرسِلسلہ میں جو بالمقابل حساب کے رو سے چودھویں صدی تھی ایسا شخص مسیح کے نام سے ظاہر کیا گیا جو قریش میں سے نہیں تھا۔ جس طرح حضرت عیسیٰ بن مریم باپ کے رو سے بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا۔ غرض اس امت کے آخری زمانہ میں مسیح کے آنے کی ضرورت یہی ہے کہ تا دونوں سلسلوں کا اوّل اور آخر باہم مطابق آجائے اور جیسا کہ ایک سلسلہ چودہ سو ؔ برس کی مدّت تک موسیٰ سے لے کر عیسیٰ بن مریم تک ختم ہوا ایسا ہی دوسرا سِلسلہ جو خدا کی کلام میں اس کا مشابہ کھڑا کیا گیا ہے اسی چودہ سو برس کی مدت تک مثیل موسیٰ سے لے کرمثیل عیسیٰ بن مریم تک ختم ہوا۔ یہی خدا کا ارادہ تھا جس کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ ہے کہ جیسا کہ موسوی سِلسلہ کا عیسیٰ اُس صلیب پر فتح یاب ہوا تھا جو یہودیوں نے کھڑا کیا تھا ایسا ہی محمدی سِلسلہ کے عیسیٰ کے لئے یہ مقدّر تھا کہ وہ اس صلیب پر فتح یاب ہو جو نصاریٰ نے کھڑا کیا ہے۔ غرض اس اُمت میں بھی پورا مقابلہ دکھلانے کے لئے آخری خلیفہ خلفائے محمدیہ میں سے عیسیٰ کے نام پر آنا ضروری تھا جیسا کہ اوّل سِلسلہ میں موسیٰ کے نام پر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور جس طرح یہ اسلامی سِلسلہ مثیل موسیٰ سے شروع ہوا اسی طرح ضروری تھا کہ مثیل عیسیٰ پر اس کا خاتمہ ہوتا تا یہ دونوں سِلسلے یعنی سِلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 304

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 304

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/304/mode/1up

304

ایک دوسرے سے مطابق ہو جاتے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اسی حقیقت کے سمجھنے پر تمام نزاعوں کا فیصلہ موقوف ہے۔ جو بات خدا نے چاہی انسان اس کو ردّ نہیں کر سکتا۔ خدا نے دنیا کو اپنے عجائبات قدرت دکھانے کے لئے ابراہیم کی اولاد سے دو سِلسلے قائم کئے۔ اوّل موسوی سِلسلہ جو بنی اسرائیل میں قائم کیا گیا اور ایک ایسے شخص پر ختم کیا گیا جو بنی اسرائیل میں سے نہیں تھا یعنی عیسیٰ مسیح۔ اور عیسیٰ مسیح کے دو گروہ دشمن تھے ایک اندرونی گروہ یعنی وہ یہودی جنہوں نے اس کو صلیب دے کر مارنا چاہا جن کی طرف سورۃ فاتحہ میں یعنی آیت 3 3میں اشارہ ہے۔ دوسرے بیرونی دشمن یعنی وہ لوگ جو رومی قوم میں سے متعصب تھے جن کو خیال تھا کہ یہ شخص سلطنت کے مذہب اور اقبال کا دشمن ہے۔ ایسا ہی خدا نے آخری مسیح کے لئے دو دشمن قرار دیئے ایک وہی جن کی اُس نے یہودی کے نام سے موسوم کیا وہ اصل یہودی نہیں تھے۔ جس طرح یہ مسیح جو آسمان پر عیسیٰ بن مریم کہلاتا ہے دراصل عیسیٰ بن مریم نہیں بلکہ اُس کا مثیل ہے۔ دوسرے اس مسیح کے وہ دشمن ہیں جو صلیب پر غلو کرتے ہیں اور صلیب کی فتح چاہتے ہیں۔ مگر اس مسیح کی پہلے مسیح کی طرح آسمان پر بادشاہت ہے زمین کی حکومتوں سے کچھ تعلق نہیں۔ ہاں جس طرح رومی قوم میں آخر دین مسیحی داخل ہو گیا اِس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل میں یہ دعویٰ نہیں کہ مَیں موسیٰ کی مانند بھیجا گیا ہوں اور نہ ایسا دعویٰ وہ کر سکتے تھے کیونکہ وہ موسوی سِلسلہ کے تحت میں اس سِلسلہ کے آخری خلیفہ تھے لہٰذا وہ موسیٰ کے مثیل کیونکر ٹھہر سکتے تھے مثیل تو وہ تھا جس نے موسیٰ کی طرح امن بخشا اور سلطنت بخشی اور شریعت دی اور پھر موسیٰ کی طرح چودہ سو برس کا ایک سِلسلہ قائم کیا۔ اور آپ موسیٰ بن کر خلفاء اپنے کے اخیر سِلسلہ میں موسیٰ کی طرح ایک مسیح کی بشارت دی۔ اور جس طرح موسیٰ نے توریت میں لکھا کہ یہودا کی سلطنت جاتی نہیں رہے گی جب تک مسیح نہ آوے۔ اسی طرح مثیل موسیٰ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 305

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 305

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/305/mode/1up

305

محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے وقت میں سِلسلہ محمدیہ کا مسیح آئے گا جبکہ رومی طاقتوں کے ساتھ اسلامی سلطنت مقابلہ نہیں کر سکے گی اور کمزور اور پست اور مغلوب ہو جائے گی اور ایسی سلطنت زمین پر قائم ہوگی جس کے مقابل پر کوئی ہاتھ کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ اور مسیح نے تمام انجیل میں کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ مَیں موسیٰ کی مانند ہوں مگر قرآن آواز بلند سے فرماتا ہے کہ333333 ۱؂۔ یعنی ہم نے اِس رسول کو اے عرب کے خونخوار ظالمو! اُسیؔ رسول کی مانند بھیجا ہے جو تم سے پہلے فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر یہ پیشگوئی جو اس شدو مد سے قرآن شریف میں لکھی گئی ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس دعویٰ دروغ کے ساتھ جو اپنے تئیں موسیٰ کا مثیل ٹھہرا لیا کبھی اپنے مخالفوں پر فتحیاب نہ ہو سکتے مگر تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو وہ فتح عظیم اپنے مخالفوں پر حاصل ہوئی کہ بجز نبی صادق دوسرے کے لئے ہر گز میسّر نہیں آسکتی پس مماثلت اس کا نام ہے جس کی تائید میں دونوں طرف سے تاریخی واقعات اس زور شور سے گواہی دے رہے ہیں کہ وہ دونوں واقعات بدیہی طور پر نظر آتے ہیں۔ اور موسیٰ کے یہ تین کام کہ گروہِ مخالف کو جو مضرامن تھا ہلاک کرنا اور پھر اپنے گروہ کو حکومت اور دولت بخشنا اور ان کو شریعت عطا کرنا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے انہی تین کاموں کے ساتھ ایسے مشابہ ثابت ہو گئے کہ گویا وہ دونوں کام ایک ہی ہیں۔ یہ ایک ایسی مماثلت ہے جس سے ایمان قوی ہوتا ہے اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ دونوں کتابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اِس پیشگوئی سے خدا کے وجود کا پتہ لگتا ہے کہ وہ کیسا قادر اور زبردست خدا ہے کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں۔ اِسی جگہ سے طالبِ حق کے لئے حق الیقین کے درجہ تک یہ معرفت پہنچ جاتی ہے کہ آنے والا مسیح موعود امت محمدیہ میں سے ہے نہ کہ وہی عیسیٰ نبی اللہ دوبارہ دنیا میں آکر رسالت محمدیہ کی ختمیت کے مسئلہ کو مشتبہ کر دے گا اور نعوذ باللہ فلمّا توفّیتنی کا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 306

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 306

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/306/mode/1up

306

کذب ثابت کرے گا۔ جس شخص کے دل میں حق کی تلاش ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن شریف کے رُو سے کئی انسانوں کا بروزی طور پر آنا مقدّر تھا۔ (۱) اوّل مثیل موسیٰ کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ آیت33333 3 ۱؂ سے ثابت ہے (۲) دوم خلفاءِ موسیٰ کے مثیلوں کا جن میں مثیلِ مسیح بھی داخل ہے جیسا کہ آیت 33 ۲؂ سے ثابت ہے (۳) عام صحابہ کے مثیلوں کا جیسا کہ آیت3 ۳؂ سے ثابت ہے (۴) چہارم اُن یہودیوں کے مثیلوں کا جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا اور ان کو قتل کرنے کے لئے فتوے دیئے اور اُن کی ایذااور قتل کے لئے سعی کی جیسا کہ آیت 33 میں جو دُعا سکھائی گئی ہے اس سے صاف مترشح ہو رہا ہے (۵) پنجم یہودیوں کے بادشاہوں کے اُن مثیلوں کا جو اسلام میں پیدا ہوئے جیسا کہ ان دوبالمقابل آیتوں سے جن کے الفاظ باہم ملتے ہیں سمجھا جاتا ہے اور وہ یہ ہیں:۔

یہودیوں کے بادشاہوں کی نسبت

33 333 ۴؂

الجزونمبر۹ سورۃ الاعراف صفحہ۱۶۵؂ ۲

اسلام کے بادشاہوں کی نسبت

333۵؂

الجزو نمبر۱۱ سورۃ یونس صفحہ۱۳۳۵؂

یہ دو فقرے یعنی فینظر کیف تعملون جو یہودیوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے اور اُس کے مقابل پر دوسرا فقرہ یعنی لننظر کیف تعملون جو مسلمانوں کے بادشاہوں کے حق میں ہے صاف بتلا رہے ہیں کہ ان دونوں قوموں کے بادشاہوں کے واقعات بھی باہم متشابہ ہوں گے۔ سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور جس طرح یہودی بادشاہوں سے قابل ؔ شرم خانہ جنگیا ں ظہور



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 307

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 307

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/307/mode/1up

307

میں آئیں اور اکثر کے چال چلن بھی خراب ہو گئے یہاں تک کہ بعض اُن میں سے بدکاری شراب نوشی خونریزی اور سخت بے رحمی میں ضرب المثل ہو گئے۔ یہی طریق اکثر مسلمانوں کے بادشاہوں نے اختیار کئے۔ ہاں بعض یہودیوں کے نیک اور عادل بادشاہوں کی طرح نیک اور عادل بادشاہ بھی بنے جیسا کہ عمر بن عبد العزیز (۶) چھٹے اُن بادشاہوں کے مثیلوں کا قرآن شریف میں ذکر ہے جنہوں نے یہودیوں کے سلاطین کی بدچلنی کے وقت اُن کے ممالک پر قبضہ کیا جیسا کہ آیت 333 ۱؂ سے ظاہر ہوتا ہے۔ حدیثوں سے ثابت ہے کہ روم سے مراد نصاریٰ ہیں۔ اور وہ آخری زمانہ میں پھر اسلامی ممالک کے کچھ حصے دبالیں گے۔ اور اسلامی بادشاہوں کے ممالک اُن کی بدچلنیوں کے وقت میں اُسی طرح نصاریٰ کے قبضے میں آجائیں گے جیسا کہ اسرائیلی بادشاہوں کی بدچلنیوں کے وقت رومی سلطنت نے ان کا ملک دبا لیا تھا پس واضح ہو کہ یہ پیشگوئی ہمارے اس زمانہ میں پوری ہو گئی۔ مثلاً روس نے جو کچھ رومی سلطنت کو خدا کی ازلی مشیت سے نقصان پہنچایا وہ پوشیدہ نہیں۔ اور اس آیت میں جبکہ دوسرے طور پر معنے کئے جائیں غالب ہونے کے وقت میں روم سے مراد قیصر روم کا خاندان نہیں کیونکہ وہ خاندان اسلام کے ہاتھ سے تباہ ہو چکا بلکہ اس جگہ بروزی طور پر روم سے روس اور دوسری عیسائی سلطنتیں مراد ہیں جو عیسائی مذہب رکھتی ہیں۔ یہ آیت اوّل اس موقعہ پر نازل ہوئی تھی جبکہ کسریٰ شاہ ایران نے بعض حدود پر لڑائی کرکے قیصر شاہ روم کو مغلوب کر دیا تھا۔ پھر جب اس پیشگوئی کے مطاق بضع سنین میں قیصر روم شاہِ ایران پر غالب آگیا تو پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ 33 ۱؂ الخ جس کا مطلب یہ تھا کہ رومی سلطنت اب تو غالب آگئی مگر پھر بضع سنین میں اسلام کے ہاتھ سے مغلوب ہوں گے۔ مگر باوجود اس کے کہ دوسری قراء ت میں 3کا صیغہ ماضی معلوم تھا اور 3کا صیغہ مضارع مجہول تھامگر پھر بھی پہلی قراء ت جس میں 3



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 308

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 308

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/308/mode/1up

308

کا صیغہ ماضی مجہول تھا اور سیغلبون مضارع معلوم تھا منسوخ التلاوت نہیں ہوئی۔ بلکہ اِسی طرح جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف سُناتے رہے جس سے اس سنت اللہ کے موافق جو قرآن شریف کے نزول میں ہے یہ ثابت ہوا کہ ایک مرتبہ پھر مقدر ہے کہ عیسائی سلطنت روم کے بعض حدود کو پھر اپنے قبضہ میں کرلے گی۔ اِسی بناپر احادیث میں آیا ہے کہ مسیح کے وقت میں سب سے زیادہ دنیا میں روم ہوں گے یعنی نصاریٰ۔

اس تحریر سے ہماری غرض یہ ہے کہ قرآن اور احادیث میں روم کا لفظ بھی بروزی طور پر آیا ہے یعنی روم سے اصل روم مراد نہیں ہیں بلکہ نصاریٰ مراد ہیں۔ پس اس جگہ چھ۶ بروز ہیں جن کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ اب عقلمند سوچ سکتاہے کہ جبکہ سِلسلہ محمدیہ میں موسیٰ بھی بروزی طور پر نام رکھا گیا ہے اور محمد مہدی بھی بروزی طور پر اور مسلمانوں کا نام یہودی بھی بروزی طور پر اور عیسائی سلطنت کے لئے روم کا نام بھی بروزی طور پر تو پھر اِن تمام بروزوں میں مسیح موعود کا حقیقی طور پر عیسیٰ بن مریم ہی ہونا سراسر غیر موزوں ہے* اور

* صحیح بخاری میں جو یہ حدیث ہے کہ بغیر عیسیٰ بن مریم کے کوئی مَس شیطان سے محفوظ نہیں رہا اس جگہ فتح الباری میں اور نیز علّامہ زمخشری نے یہ لکھا ہے کہ اس جگہ تمام نبیوں میں سے صرف عیسیٰ کو ہی معصوم ٹھہرانا قرآن شریف کے نصوص صریحہ کے مخالف ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ کہہ کر کہ3 ۱؂ تمام نبیوں کو معصوم ٹھہرایا ہے پھر عیسیٰ بن مریم کی کیا خصوصیت ہے اِس لئے اس حدیث کے یہ معنے ہیں کہ تمام وہ لوگ جو بروزی طور پر عیسیٰ بن مریم کے رنگ میں ہیں یعنی رُوح القدس سے حصہ لینے والے اور خدا سے پاک تعلق رکھنے والے وہ سب معصوم ہیں اور سب عیسیٰ بن مریم ہی ہیں اور حضرت عیسیٰ کی معصومیت کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ یہودیوں کا یہ بھی اعتراض تھا کہ حضرت عیسیٰ کی ولادت مَس شیطان کے ساتھ ہے یعنی مریم کا حمل نعوذ باللہ حلال طور پر نہیں ہوا تھا جس سے حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے سو ضرور تھا کہ اس گندے الزام کو دفع کیا جاتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 309

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 309

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/309/mode/1up

309

خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بار بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر اسی لئے زور دیا ہے کہ تا آئندہ زمانہ میں ایسے لوگوں پر حجت ہو جائے جو ناحق اس دھوکہ میں مبتلا ہونے والے تھے کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور مسیح کی حیات پر کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور جو دلائل پیش کرتی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہےؔ کہ اُن پر سخت درجہ کی غباوت غالب آگئی ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ آیت33 ۱؂ حضرت مسیح کی زندگی پر دلالت کرتی ہے اور اُن کے مرنے سے پہلے تمام اہل کتاب اُن پر ایمان لے آئیں گے مگر افسوس کہ وہ اپنے خود تراشیدہ معنوں سے قرآن میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں جس حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔33 3 ۲؂۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک بغض اور دشمنی رہے گی تو اب بتلاؤ کہ جب تمام یہودی قیامت سے پہلے ہی حضرت مسیح پر ایمان لے آئیں گے تو پھر بغض اور دشمنی قیامت تک کون لوگ کریں گے۔ جب یہودی نہ رہے اور سب ایمان لے آئے تو پھر بُغض اور دشمنی کے لئے کون موقعہ اور محل رہا۔ اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33۳؂۔ اس کے بھی یہی معنے ہیں جو اوپر گذر چکے اور وہی اعتراض ہے جو اوپربیان ہو چکا۔ اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33۴؂۔ اِس جگہ کفروا سے مراد بھی یہود ہیں کیونکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام محض یہودیوں کے لئے آئے تھے اور اس آیت میں وعدہ ہے کہ حضرت مسیح کو ماننے والے یہود پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ اب بتلاؤ کہ جب ان معنوں کے رو سے جو ہمارے مخالف آیت 3 کے کرتے ہیں تمام یہودی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے تو پھر یہ آیتیں کیونکر صحیح ٹھہر سکتی ہیں کہ یہود اور نصاریٰ کی قیامت تک باہم دشمنی رہے گی اور نیز یہ کہ قیامت تک یہود ایسے فرقوں کے مغلوب رہیں گے جو حضرت مسیح کو صادق سمجھتے ہوں گے۔ ایسا ہی اگر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 310

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 310

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/310/mode/1up

310

مان لیا جاوے کہ حضرت مسیح زندہ بجسم عنصری آسمان پر تشریف لے گئے تو پھر آیت فلمّا توفّیتنی کیونکر صحیح ٹھہر سکتی ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ حضرت مسیح کی وفات کے بعد عیسائی بگڑ گئے جب تک کہ وہ زندہ تھے عیسائی نہیں بگڑے۔ اور پھر اس آیت کے کیا معنے ہو سکتے ہیں کہ 33 ۱؂ کہ زمین پر ہی تم زندگی بسر کروگے اور زمین پر ہی مروگے۔ کیا وہ شخص جو اٹھارہ سو برس سے آسمان پر بقول مخالفین زندگی بسر کر رہا ہے وہ انسانوں کی قسم میں سے نہیں ہے؟ اگر مسیح انسان ہے تو نعوذباللہ مسیح کے اس مدّت دراز تک آسمان پر ٹھہرنے سے یہ آیت جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اگر ہمارے مخالفوں کے نزدیک انسان نہیں ہے بلکہ خدا ہے تو ایسے عقیدہ سے وہ خود مسلمان نہیں ٹھہر سکتے۔ پھر یہ آیت قرآن شریف کی کہ 3۲؂ جس کے یہ معنے ہیں کہ جن لوگوں کی خدا کے سوا تم عبادت کرتے ہو وہ سب مر چکے ہیں اُن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں۔ صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اور پھر یہ آیت کہ 333۳؂ بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں۔ کیونکہ یہ آیت وہ عظیم الشان آیت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم نے اجماع کرکے اقرار کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں جیسا کہ ہم پہلے اس سے اسی کتاب میں مفصّل بیان کر چکے ہیں۔ پھر جب ہم احادیث کی طرف آتے ہیں تو ان سے بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات ہی ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً حدیث معراج کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں* حضرت مسیح کو فوت شدہ انبیاء میں دیکھا ہے۔ اگر وہ آسمان پر زندہ ہوتے تو فوت شدہؔ روحوں میں ہرگز دیکھے نہ جاتے۔ اگر کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس مشاہدہ کے وقت اس عالم میں نہیں تھے

* معراج کے لئے رات اس لئے مقرر کی گئی کہ معراج کشف کی قسم تھا۔ اور کشف اور خواب کے لئے رات موزوں ہے۔ اگر یہ بیداری کا معاملہ ہوتا تو دن موزوں ہوتا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 311

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 311

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/311/mode/1up

311

بلکہ جس طرح سویا ہوا آدمی دوسرے عالم میں چلا جاتا ہے اور اس حالت میں بسااوقات وفات یافتہ لوگوں سے بھی ملاقات کرتا ہے۔ اِسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کشفی حالت میں اِس دنیا سے وفات یافتہ کے حکم میں تھے۔ ایسا ہی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے ایک سو بیس۱۲۰ برس عمر پائی ہے۔ لیکن ہر ایک کو معلوم ہے کہ واقعہ صلیب اُس وقت حضرت عیسیٰ کو پیش آیا تھا جبکہ آپ کی عمر طرف تینتیس ۳۳ برس اور چھ مہینے کی تھی اوراگر یہ کہا جائے کہ باقی ماندہ عمر بعد نزول پوری کر لیں گے تو یہ دعویٰ حدیث کے الفاظ سے مخالف ہے ماسوا اس کے حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعوے کے بعد چالیس برس دنیا میں رہے گا تو اس طرح پر تینتیس۳۳ برس ملانے سے کل تہتّر۷۳ برس ہوئے نہ ایک سو بیس۱۲۰ برس۔ حالانکہ حدیث میں یہ ہے کہ ایک سو بیس برس اُن کی عمر ہوئی۔

اور اگر یہ کہو کہ ہماری طرح عیسائی بھی مسیح کی آمد ثانی کے منتظر ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا کہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں مسیح نے خود اپنی آمد ثانی کو الیاس نبی کی آمد ثانی سے مشابہت دی ہے۔ جیسا کہ انجیل متی ۱۷ باب آیت۱۰ و ۱۱ و۱۲ سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ ماسوا اس کے عیسائیوں میں سے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی الیاس نبی کی طرح بروزی طور پر ہے۔ چنانچہ نیولائف آف جیزس جلد اوّل صفحہ ۴۱۰ مصنفہ ڈی.ایف سڑاس میں یہ عبارت ہے:۔

(جرمن کے بعض عیسائی محققوں کی رائے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا)


Crucifiction they maintain, even if the feet as well as the hands are supposed to have been nailed occasions but very little loss of blood. It kills therefore only very slowly



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 312

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 312

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/312/mode/1up

312

by convulsions produced by the straining of the limbs or by gradual starvation. So if Jesus supposed indeed to be dead,had been taken down from the cross after about six hours, there is every probability of his supposed death having been only a death-like swoon from which after the descent from the cross Jesus recovered again in the cool cavern covered as he was with healing ointments and strongly scented spices. On this head it is usual to appeal to an account in Josephus, who says that on one occasion, when he was returning from a military recognizance, on which he had been sent, he found several Jewish prisoners who had been crucified. He saw among them three acquaintances whom he begged Titus to give to him. They were immediately taken down and carefully attended to, one was really saved, but two others could not be recovered.

(A new life of Jesus by D. F. Strauss. Vol I. page 410)



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 313

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 313

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/313/mode/1up

313

ترجمہ:۔ ’’وہ ؔ یہ دلائل دیتے ہیں کہ اگرچہ صلیب کے وقت ہاتھ اور پاؤں دونوں میں میخیں ماری جائیں پھربھی بہت تھوڑا خون انسان کے بدن سے نکلتا ہے۔ اس و اسطے صلیب پر لوگ رفتہ رفتہ اعضاء پر زور پڑنے کے سبب تشنج میں گرفتار ہو کر مر جاتے ہیں یا بھوک سے مر جاتے ہیں۔ پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ قریب ۶گھنٹہ صلیب پر رہنے کے بعد یسوع جب اتارا گیا تو وہ مرا ہوا تھا۔ تب بھی نہایت ہی اغلب بات یہ ہے کہ وہ صرف ایک موت کی سی بیہوشی تھی اور جب شفا دینے والی مرہمیں اور نہایت ہی خوشبودار دوائیاں مل کر اُسے غار کی ٹھنڈی جگہ میں رکھا گیا تو اُس کی بیہوشی دُور ہوئی۔ اس دعوے کی دلیل میں عموماً یوسفس کا واقعہ پیش کیا جاتا ہے جہاں یوسفس نے لکھا ہے کہ مَیں ایک دفعہ ایک فوجی کام سے واپس آرہا تھا تو راستہ میں مَیں نے دیکھا کہ کئی ایک یہودی قیدی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ ان میں سے مَیں نے پہچانا کہ تین میرے واقف تھے۔ پس مَیں نے ٹیٹس (حاکم وقت) سے اُن کے اُتار لینے کی اجازت حاصل کی اور اُن کو فوراً اتار کر اُن کی خبر گیری کی تو ایک بالآخر تندرست ہو گیا پر باقی دو مر گئے۔‘‘

اور کتاب ’’ماڈرن ڈاوٹ اینڈ کرسچن بیلیف* ‘‘ کے صفحہ ۴۵۵249 ۴۵۷249 ۳۴۷ میں یہ عبارت ہے:۔

The former of these hypotheses that of apparent death, was employed by the old Rationalists, and more recently by Schleiermacher in his life of Christ Schleiermacher's supposition. That Jesus afterwards lived for a time with the disciples and then retired into entire solitude for his second death.

ترجمہ:۔ شلیر میخر اور نیز قدیم محققین کا یہ مذہب تھا کہ یسوع صلیب پر نہیں مرا بلکہ ایک ظاہراًموت کی سی حالت ہو گئی تھی اور قبر سے نکلنے کے بعد

Modern doubt & chrishan belief P.347,455,45



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 314

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 314

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/314/mode/1up

314

کچھ مدت تک اپنے حواریوں کے ساتھ پھرتا رہا اور پھر دوسری یعنی اصلی موت کے واسطے کسی علیحدگی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب کی موت سے بچنے کے متعلق ایک پیشگوئی یسعیا باب ۵۳ میں اس طرح پر ہے:۔


و ایت دورد می یسوحیح کی نجزار

اور اس کے بقائے عمر کی جو بات ہے سوکون سفر کر کے جائے گا کیونکہ وہ


مے ایریض حییم ویثین ایت رشاعیم

علیحدہ کیا گیا ہے قبائل کی زمین سے اور کی گئی شریروں کے درمیان اس کی قبر


قبرو وایت عاسیر بمو تایو

پر وہ دولتمندوں کے ساتھ ہوا اپنے مرنے میں *


ام تاسیم آشام نفشو

جب کہ تو گناہ کے بدلے میں اس کی جان کو دے گا (تو وہ بچ جائے گا

* اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ صلیب سے اتار کر مسیح کو سزا یافتہ مردوں کی طرح قبر میں رکھا جاوے گا مگر چونکہ وہ حقیقی طور پر مُردہ نہیں ہوگا اس لئے اس قبر میں سے نکل آئے گا اور آخر عزیز اور صاحب شرف لوگوں میں اس کی قبر ہوگی اور یہی بات ظہور میں آئی کیونکہ سری نگر محلہ خان یار میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی اس موقعہ پر قبر ہے جہاں بعض سادات کرام اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 315

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 315

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/315/mode/1up

315

یرایہ زیرع یے اریک یا میم

اور صاحب اولاد ہو گا۔ اس کی عمر لمبی کی جائے گی

مے عمل نفشو یرایہ یسباع

وہ اپنی جان کی نہایت سخت تکلیف دیکھے گا(یعنی صلیب پر بیہوشی)پر وہ پوری عمر پائے گا۔

اب ؔ مختصر طور پر ہم اُن دلائل کو لکھتے ہیں جن کا ہم نے اس کتاب اور اپنی دوسری کتابوں میں اپنے دعویٰ مسیح موعود کے متعلق ذکر کیا ہے۔ اور وہ یہ ہیں:۔

(۱) اوّل اس دلیل سے میرا مسیح موعود ہونا ثابت ہوتا ہے کہ جیسا کہ ہم اپنی کتابوں میں ثابت کر چکے ہیں یاجوج ماجوج کے خروج اور اُن کی فتح اور اقبال کا زمانہ آگیا ہے اور قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کے تمام وعدے جن میں سے مسیح موعود کا دنیا میں ظاہر ہونا ہے یاجوج ماجوج کے ظہور اور اقبال کے بعد ظاہر ہو جائیں گے جیسا کہ یہ آیت مندرجہ ذیل اسی پر صریح دلالت کرتی ہے۔ ۱؂۔ یعنی جن لوگوں کو ہم نے ہلاک کیا ہے اُن کے لئے ہم نے حرام کر دیا ہے کہ دوبارہ دنیا میں آویں۔ یعنی بروزی طور پر بھی وہ دنیا میں نہیں آسکتے جب تک وہ دن نہ آویں کہ قوم یاجوج ماجوج زمین پر غالب آجائے اور ہر ایک طور سے ان کو غلبہ حاصل ہو جائے۔* کیونکہ انسان کے ارضی قویٰ کی کامل ترقیات یاجوج ماجوج پر

خدا تعالیٰ کے عجیب اسرار میں سے ایک بروز کا مسئلہ ہے جو خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے۔ خدا کی مقدس کتا بوں میں بعض گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 316

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 316

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/316/mode/1up

316

ختم ہوتی ہیں اور اس طرح پر انساؔ ن کے ارضی قویٰ کا نشو و نما جو ابتداسے ہوتا چلا آیا ہے وہ

یہ پیشگوئیاں ہیں کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ اور پھر وہ پیشگوئیاں اس طرح پر پوری ہوئیں کہ جب کوئی اور نبی دنیا میں آیا تو اس وقت کے پیغمبر نے خبر دی کہ یہ وہی نبی ہے جس کے دوبارہ آنے کا وعدہ تھا۔ عجیب تربات یہ ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ آنے والا اس پہلے نبی کا مثیل ہے۔ بلکہ یہی کہا گیا کہ وہی پہلا نبی جس کے دوبارہ آنے کی خبر دی گئی تھی دنیا میں آگیا ہے۔ مثلاً جیسا کہ الیاس نبی کے دوبارہ آنے کا وعدہ تھا اور ملاکی نبی نے اپنے صحیفہ میں خبر دی تھی کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ الیاس جس کے دوبارہ آنے کا وعدہ تھا وہ یوحنا یعنی یحییٰ ہے جیسا کہ انجیل متی ۱۷ باب آیت ۱۰ و۱۱و ۱۲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ الیاس دوبارہ دنیا میں آگیا لیکن لوگوں نے اُس کو نہیں پہچانا اور اس سے مراد حضرت مسیح نے یحییٰ نبی کو لیا یعنی وہی الیاس ہے۔ اب یہ پیشگوئی بہت باریک جاٹھہرتی ہے کہ یحییٰ نبی جس کا دوسرا نام یوحنا ہے الیاس کیونکر ہو گیا۔ اگر مثیل الیاس کہتے تب بھی ایک بات تھی مگر ملا کی کی کتاب میں مثیل کا آنا نہیں لکھا بلکہ خود الیاس نبی کا دوبارہ دنیا میں آنا لکھا ہے۔ اور حضرت مسیح نے بھی انجیل میں جب اعتراض کیا گیا کہ الیاس سے پہلے مسیح کیونکر آگیا تو مثیل کے لفظ کو استعمال نہیں کیا بلکہ انجیل متی ۱۷ باب میں یہی کہا ہے کہ الیاس تو آگیا مگر ان لوگوں نے اس کو نہیں پہچانا۔ اِسی طرح شیعہ میں بھی اقوال ہیں کہ علی اور حسن اور حسین دوبارہ دنیا میںآئیں گے اور ایسے ہی اقوال ہندوؤں میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گذشتہ اوتاروں کے ناموں پر آئندہ اوتاروں کی انتظار کرتے رہے ہیں۔ اور اب بھی آخری اوتار کو جس کو کلکی اوتار کے نام سے موسوم کرتے ہیں کرشن کا اوتار مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جیسا کہ کرشن کی صفات میں سے رودرگوپال ہے یعنی سوروں کو ہلاک کرنے والا اور گائیوں کو پالنے والا ایسا ہی کلکی اوتار ہوگا۔ یہ ایک



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 317

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 317

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/317/mode/1up

317

محض یاجوج ماجوج کے وجود سے کمال کو پہنچتا ہے لہٰذؔ ا یاجوج ماجوج کے ظہور کا زمانہ

کرشن کی صفات کی نسبت استعارہ ہےؔ کہ وہ درندوں کو ہلاک کرتا تھا یعنی سؤروں اور بھیڑیوں کو۔ اور گائیوں کو پالتا تھا یعنی نیک آدمیوں کو۔ اور عجیب بات ہے کہ مسلمان اور عیسائی بھی آنے والے مسیح کی نسبت یہی صفات رودر گوپال کے جو کلکی اوتار کی صفت ہے قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سؤروں کو قتل کرے گا اور بیل اس کے وقت میں قابل قدر ہوں گے۔ اس جگہ یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے سؤروں کو قتل کرے گا یا گائیوں کی حفاظت کرے گابلکہ یہ مراد ہے کہ زمانہ کادَور ہی ایسا آجائے گا اور آسمانی ہوا شریروں کو نابود کرتی جائے گی اور نیک بڑھیں گے اور پھُولیں گے اور زمین کو پُر کریں گے۔ تب اس مسیح پر رودر گوپال کا اسم صادق آجائے گا۔ اور مَیں جو وہی مسیح اور مظہر صفات مذکورہ ہوں اس لئے کشفی طور پر ایک مرتبہ مجھے ایک شخص دکھایا گیا گویا وہ سنسکرت کا ایک عالم آدمی ہے جو کرشن کا* نہایت درجہ معتقد ہے وہ میرے سامنے کھڑا ہوا اور مجھے مخاطب کرکے بولا کہ ’’ہے رُودر گوپال تیری ا ستت گیتا میں لکھی ہے‘‘ ۔اسی وقت مَیں نے سمجھا کہ تمام دنیا ایک رُودَّر گوپال کا انتظار کر رہی ہے کیا ہندو اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی۔ مگر اپنے اپنے لفظوں اور زبانوں میں۔

* واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے کشفی حالت میں بارہا مجھے اس بات پر اطلاع دی ہے کہ آریہ قوم میں کرشن نام ایک شخص جو گذرا ہے وہ خدا کے برگزیدوں اور اپنے وقت کے نبیوں میں سے تھا اور ہندووں میں اوتار کا لفظ درحقیقت نبی کے ہم معنے ہے اور ہندوؤں کی کتابوں میں ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ آخری زمانہ میں ایک اوتار آئے گا جو کرشن کے صفات پر ہوگا اور اس کا بروز ہوگا اور میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ مَیں ہوں۔ کرشن کی دو صفت ہیں ایک رُودّر یعنی درندوں اور سؤروں کو قتل کرنے والا یعنی دلائل اور نشانوں سے۔ دوسرے گوپالؔ یعنی گائیوں کو پالنے والا یعنی اپنے انفاس سے نیکوں کا مددگار۔ اوریہ دونوں صفتیں مسیح موعود کی صفتیں ہیں اور یہی دونوں صفتیں خدا تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 318

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 318

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/318/mode/1up

318

رَجعتِ بروزی کے زمانہ پر دلیل قاطع ہے کیونکہ یاجوج ماجوج کا ظہور استدارت زماؔ نہ پر


اور سب نے یہی وقت ٹھہرایا ہے اور اس کی یہ دونوں صفتیں قائم کی ہیں یعنی سؤروں کو مارنے والا اور گائیوں کی حفاظت کرنے والا۔ اور وہ مَیں ہوں جس کی نسبت ہندوؤں میں پیشگوئی کرنے والے قدیم سے زور دیتے آئے ہیں کہ وہ آریہ ورت میں یعنی اسی ملک ہند میں پیدا ہوگا اور انہوں نے اس کے مسکن کے نام بھی لکھے ہیں مگر وہ تمام نام استعارہ کے طور پر ہیں جن کے نیچے ایک اَور حقیقت ہے اور لکھتے ہیں کہ وہ برہمن کے گھر میں جنم لے گایعنی وہ جو برہم کو سچا اور واحد لاشریک سمجھتا ہے یعنی مسلمان۔ غرض کسی اوتار یا پیغمبر کے دوبارہ آنے کا عقیدہ جو رُودر گوپال کے صفات اپنے اندر رکھتا ہو اور ہجرت کی چودھویں صدی میں آنے والا ہو صرف عیسائیوں اور مسلمانوں کا عقیدہ نہیں بلکہ ہندوؤں اور تمام اہل مذاہب کا یہی عقیدہ ہے۔ یہاں تک کہ ژندوستا کے پیرو بھی اس زمانہ کی نسبت یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور بُدھ مذہب کی نسبت مجھے مفصل معلوم نہیں۔ مگر کہتے ہیں کہ وہ بھی ایک کامل بُدھ کے اس زمانہ میں منتظر ہیں۔ اور عجیب تریہ کہ سب فرقے رُودر گوپال کی صفت اُس منتظر میں قائم کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عام لوگو اس دوبارہ آنے کے عقیدہ کی فلاسفی سے اب تک بے خبر پائے جاتے ہیں اور عام تو عام جو لوگ اس زمانہ میں علماء کہلاتے ہیں وہ بھی اس فلاسفی سے بے خبر ہیں۔ یوں تو اسلام کے تمام صوفی رَجعت بروزی کے مسئلہ کے بڑے زور سے قائل ہیں اور بعض اولیاء کی نسبت مانتے ہیں کہ کسی پہلے ولی کی رُوح دوبارہ بروزی طور پر اُس میں آئی۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ قریباً سو برس کے بعد بایزید بسطامی کی رُوح دوبارہ بروزی طور پر ابوالحسن خرقانی میں آگئی۔ لیکن باوجود اس مقبول مسلّم عقیدہ کے پھر بھی بعض نادان مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت رَجعت بروزی کے قائل نہیں جو قدیم سے سنت اللہ میں داخل ہے۔ وہ لوگ دراصل



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 319

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 319

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/319/mode/1up

319

دلیل ہے اور استدارت زمانہ رَجعتِ بروزی کو چاہتا ہے۔ سو مسیح عیسیٰ بن مریم کی نسبت

رَجعت بروزی کی فلاسفی سے بے خبر ہیں۔ اور اس مسئلہ کی فلاسفی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو ایسی طرز سے بنایا ہے جو اس کی توحید پر دلالت کرے اور اسی وجہ سے خداوند حکیم نے تمام عناصر اور اجرام فلکی کو گول شکل پر پیدا کیا ہے کیونکہ گول چیز کی جہات اور پہلو نہیں اسؔ لئے وہ وحدت سے مناسبت رکھتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کی ذات میں تثلیث ہوتی تو تمام عناصر اور اجرام فلکی سہ گوشہ صورت پر پیدا ہوتے۔ لیکن ہر ایک بسیط میں جو مرکبات کا اصل ہے کُرو ّ یت یعنی گول ہونا مشاہدہ کروگے۔ پانی کا قطرہ بھی گول شکل پر ظاہر ہوتا ہے اور تمام ستارے جو نظر آتے ہیں اُن کی شکل گول ہے۔ اور ہوا کی شکل بھی گول ہے۔ جیسا کہ ہوائی گولے جن کو عربی میں اِعْصَارکہتے ہیں یعنی بگولے جو کسی تُند ہوا کے وقت مدوّر شکل میں زمین پر چکر کھاتے پھرتے ہیں ہواؤں کی کرویّت ثابت کرتے ہیں۔ پس جیسا کہ تمام بسائط جن کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا کروی الشکل ہیں ایسا ہی دائرہ خلقت عالم کا بھی کروی شکل ہے اسی لئے صوفی اس بات کی طرف گئے ہیں کہ خلقت بنی آدم اپنی وضع میں دَوری صورت پر واقع ہوئی ہے۔ یعنی نوع انسان کی رُوحیں بروزی طور پر پھر پھر کر دنیا میں آتی ہیں۔* اور جبکہ خلقت بنی آدم بھی دَوری صورت پر ہے تا وحدت

* رجعت بروزی کے اعلیٰ قسم صرف دو ہیں(ا) بروز الاشقیاء (۲) بروز السعداء۔ یہ دونوں بروز قیامت تک سنت اللہ میں داخل ہیں ہاں یاجوج ماجوج کے بعد ان کی کثرت ہے تا بنی آدم کے انجام پر ایک دلیل ہو اور تا اس سے دَور کا پورا ہونا سمجھا جائے۔ اور یہ خیال کرنا کہ کوئی ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ تمام لوگ اور طبائع مِلّت واحدہ پر ہو جائیں گی یہ غلط ہے۔ جس حالت میں اللہ تعالیٰ بنی آدم کی تقسیم یہ فرماتا ہے کہ 33 ۱ ؂ تو ممکن نہیں کہ کسی زمانہ میں صرف سعید رہ جائیں اور شقی تمام مارے جائیں۔ اور نیز یہ فرمایا ہے 3 3۲ ؂ یعنی اختلاف انسانوں کی فطرت میں رکھا گیا ہے۔ پس جبکہ انسانوں کی فطرت کثرت مذاہب کو چاہتی ہے تو پھر وہ ایک مذہب پر کیوں کرہو سکتے ہیں خدا نے ابتدامیں ہی قابیل ہابیل



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 320

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 320

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/320/mode/1up

320

رجعت کا جو عقیدؔ ہ ہے اُس عقیدہ کے موافق عیسیٰ مسیح کی آمد ثانی کا یہی زمانہ ہے۔ سو

خالق کائنات پر دلالت کرے تو اس سے لازم آیا کہ آخری نقاط خلقتِ بنی آدم کے نقاط اولیٰ سے یعنی جہاں سے نقطہ دائرہ پیدائش بنی آدم شروع ہوتا ہے قریب تر واقع ہوں اوراپنے ظہور اور بروز میں انہی کی طرف رجوع کریں۔ اور یہی وہ بات ہے جس کو دوسرے لفظوں میں رَجعتِ بروزی کہتے ہیں۔ جیسا کہ مثلاً یہ دائرہ ہے:۔

3

فرض کرو کہ اس دائرہ میں سے جو حصہ لام کی دائیں طرف ہے اس سے دائرہ خلقت بنی آدم کا شروع ہوا ہے۔ اور جو حصہ بائیں طرف ہے وہاں ختم ہوا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جو لام کے بائیں طرف کا حصہ ہے جو نقاط اس کے قریب آئیں گے وہ ابتدائی نقاط سے بہت ہی نزدیک آجائیں گے۔ پس اسی کا نام بروزی رجعت ہے جو ہر ایک دائرہ کے لئے ضروری ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ 333 ۔ 3

کو پیدا کرکے سمجھادیا کہ شقاوت و سعادت پہلے سے ہی فطرت انسان میں تقسیم کی گئی ہے اور نیز آیت 33 ۱؂ اور آیت 3333۲؂ اور آیت 333۳؂اورآیت3333۴؂۔ یہ تمام آیتیں بتلا رہی ہیں کہ قیامت تک اختلاف رہے گا۔ منعم علیھم بھی رہیں گے۔ مغضوب علیھم بھی رہیں گے۔ ہاں ملل باطلہ دلیل کے رو سے ہلاک ہوجائیں گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 321

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 321

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/321/mode/1up

321

وہ آمد ثانی بروزی طور پر ظہور میں آگئی (۲) دوسری دلیلؔ جو میرے مسیح موعود ہونے کی نسبت ہے

3۔3 ۱؂۔ یاجوج ماجوج سے وہ قوم مراد ہے جن کو پورے طور پر ارضی قویٰ ملیں گے اور ان پر ارضی قویٰ کی ترقیات کا دائرہ ختم ہو جائے گا۔ یاجوج ماجوج کا لفظ اجیج سے لیا گیا ہے جو شعلہ نار کو کہتے ہیں۔ پس یہ وجہ تسمیہ ایک تو بیرونی لوازم کے لحاظ سے ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ یاجوج ماجوج کے لئے آگ مسخر کی جائے گی اور وہ اپنے دنیوی تمدّن میں آگ سے بہت کام لیں گے۔ اُن کے برّی اور بحری سفر آگ کے ذریعہ سے ہوں گے۔ ان کی لڑائیاں بھی آگ کے ذریعہ سے ہوں گی۔ ان کے تمام کاروبار کے انجن آگ کی مدد سے چلیں گے۔ دوسری وجہ تسمیہ لفظ یاجوج ماجوج کے اندرونی خواص کے لحاظ سے ہے اور وہ یہ ہے کہ اُن کی سرشت میں آتشی مادہ زیادہ ہوگا۔ وہ قومیں بہت تکبّر کریں گی اور اپنی تیزی اورچستی اور چالاکی میں آتشی خواص دکھلائیں گی اور جس طرح مٹی جب اپنے کمال تام کو پہنچتی ہے تو وہ حصہ مٹی کا کافی جوہر بن جاتا ہے ؔ جس میں آتشی مادہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ جیسے سونا چاندی اور دیگر جواہرات۔ پس اس جگہ قرآنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کی سرشت میں ارضی جوہر کا کمال تام ہے جیسا کہ معدنی جواہرات میں اور فلذات میں کمال تام ہوتا ہے۔ اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ زمین نے اپنے انتہائی خواص ظاہر کر دیئے اور بموجب آیت 3۲؂ اپنے اعلیٰ سے اعلیٰ جوہر کو ظاہر کر دیا۔ اور یہ امر استدارت زمانہ پر ایک دلیل ہے۔ یعنی جب یاجوج ماجوج کی کثرت ہوگی تو سمجھا جائے گا کہ زمانہ نے اپنا پورا دائرہ دکھلا دیا اور پورے دائرہ کو رجعت بروزی لازم ہے۔ اور یاجوج ماجوج پر ارضی کمال کا ختم ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ گویا آدم کی خلقت الف سے شروع ہو کر جو آدم کے لفظ کے حرفوں میں سے پہلا حرف ہے اس یا کے حرف پر ختم ہو گئی کہ جو یاجوج کے لفظ کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 322

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 322

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/322/mode/1up

322

وہ یہ کہ نہ فقط قرآن شریف ہی مسیح موعود کے ظہور کا یہ زمانہ ٹھہراتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی


سر پر آتا ہے جو حروف کے سلسلہ کا آخری حرف ہے۔ گویا اس طرح پر یہ سلسلہ الف سے شروع ہو کر اور پھر حرف یا پر ختم ہو کر اپنے طبعی کمال کو پہنچ گیا۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیت ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بروزی رجوع جو استدارت دائرہ خلقت بنی آدم کے لئے ضروری ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور اور خروج اقویٰ اور اتم طور پر ہو جائے اور ان کے ساتھ کسی غیر کو طاقت مقابلہ نہ رہے کیونکہ دائرہ کے کمال کو یہ لازم ہے کہ 3 ۱؂ کا مفہوم کامل طور پر پورا ہوجائے اور تمام ارضی قوتوں کا ظہور اور بروز ہو جائے اور یاجوج ماجوج کا وجود اس بات پر دلیل کامل ہے کہ جو کچھ ارضی قوتیں اور طاقتیں انسان کے وجود میں ودیعت ہیں وہ سب ظہور میں آگئی ہیں کیونکہ اس قوم کی فطرتی اینٹ ارضی کمالات کے پژاوہ میں ایسے طور سے پختہ ہوئی ہے کہ اس میں کسی کو بھی کلام نہیں۔ اِسی سرّ کی وجہ سے خدا نے ان کا نام یاجوج ماجوج رکھا کیونکہ ان کی فطرت کی مٹی ترقی کرتے کرتے کانی جواہرات کی طرح آتشی مادہ کی پوری وارث ہو گئی اور ظاہر ہے کہ مٹی کی ترقیات آخر جواہرات اور فلذات معدنی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ تب معمولی مٹی کی نسبت اُن جواہرات اور فلذات میں بہت سا مادہ آگ کا آجاتا ہے گویا مٹی کا انتہائی کمال شے کمال یافتہ کو آگ کے قریب لے آتا ہے اور پھر جنسیت کی کشش کی وجہ سے دوسرے آتشی لوازم اور کمالات بھی اسی مخلوق کو دیئے جاتے ہیں۔ غرض بنی آدم کا یہ آخری کمال ہے کہ بہت سا آتشی حصہ اُن میں داخل ہو جائے اور یہ کمال یاجوج ماجوج میں پایا جاتا ہے۔ اور جو کچھ اس قوم کو دنیا اور دنیا کی تدابیر میں دخل ہے اور جس قدر اس قوم نے دنیوی زندگی کو رونق اور ترقی دی ہے اس سے بڑھ کر کسی کے قیاس میں متصور نہیں۔ پس اس میں شک نہیں ہو سکتا کہ انسان کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 323

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 323

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/323/mode/1up

323

پہلی کتابیں بھی مسیح موعود کے ظہور کا یہی زمانہ مقرر کرتی ہیں۔ چنانچہ دان ایل کی کتاب میں صاف


ارضی قُویٰ کا عطر ہے جو اب وہ یاجوج ماجو ج کے ذریعہ سے نکل رہا ہے۔ لہٰذا یاجوج ماجوج کا ظہور اور بروز اور اپنی تمام قوتوں میں کامل ہونا اس بات کا نشان ہے کہ انسانی وجود کی تمام ارضی طاقتیں ظہور میں آگئیں اور انسانی فطرت کا دائرہ اپنے کمال کو پہنچ گیا اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی۔ پس ایسے وقت کیلئے رجعت بروزی ایکؔ لازمی امر تھا۔ اس لئے اسلامی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا کہ یاجوج ماجوج کے ظہور اورا قبال اور فتح کے بعد گذشتہ زمانہ کے اکثر اخیار ابرار کی رجعت بروزی ہوگی اور جیسا کہ اس مسئلہ پر مسلمانوں میں سے اہل سنت زور دیتے ہیں ایسا ہی شیعہ کا بھی عقیدہ ہے مگر افسوس کہ یہ دونوں گروہ اس مسئلہ کی فلاسفی سے بے خبر ہیں۔ اصل بھید ضرورت رجعت کا تو یہ تھا کہ استدارت دائرہ خلقت بنی آدم کے وقت میں جو ہزار ششم کا آخر ہے نقاطِ خلقت کا اس سمت کی طرف آجانا ایک لازمی امر ہے جس سمت سے ابتدائے خلقت ہے۔ کیونکہ کوئی دائرہ جب تک اس نقطہ تک نہ پہنچے جس سے شروع ہوا تھا کامل نہیں ہو سکتا اور بالضرورت دائرہ کے آخری حصہ کو رجعت لازم پڑی ہوئی ہے لیکن اس بھید کو سطحی عقلیں دریافت نہیں کر سکیں اور ناحق کلام اللہ کے بر خلاف یہ عقیدہ بنا لیا کہ گویا تمام گذشتہ رُوحیں نیکوں اور بدوں کی واقعی طور پر پھر دوبارہ دنیا میں آجائیں گی۔ مگر اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ صرف رجعت بروزی ہوگی نہ حقیقی اور وہ اس طرح پر کہ وہی نحاش جس کا دوسرا نام خنّاس ہے جس کو دنیا کے خزانے دیئے گئے ہیں جو اوّل حَوّا کے پاس آیا تھا اور اپنی دجّالیّت سے حیات ابدی کی اُس کو طمع دی تھی پھر بروزی طور پر آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا اور زن مزاج اور ناقص العقل لوگوں کو اس وعدہ پر حیات ابدی کی طمع دے گاکہ وہ توحید کو چھوڑ دیں۔ لیکن خدا نے جیسا کہ آدم کو بہشت میں یہ نصیحت کی تھی کہ ہر ایک پھل تمہارے لئے حلال ہے بے شک کھاؤ لیکن اس درخت کے نزدیک مت جاؤ کہ یہ حرمت کا درخت ہے۔ اِسی طرح خدا نے قرآن میں فرمایا33 ۱؂ الخ یعنی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 324

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 324

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/324/mode/1up

324

اس بات کی تصریح ہے کہ اسی زمانہ میں مسیح موعود ظاہر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نصاریٰ کے

ہر ایک گناہ کی مغفرت ہوگی مگر شرک کو خدا نہیں بخشے گا۔ پس شرک کے نزدیک مت جاؤ اور اس کو حرمت کا درخت سمجھو۔ سو اب بروزی طور پر وہی نحاش جو حَوّا کے پاس آیا تھا اس زمانہ میں ظاہر ہوا اور کہا کہ اس حرمت کے درخت کو خوب کھاؤ کہ حیات ابدی اسی میں ہے۔ پس جس طرح گناہ ابتدا میں عورت سے آیا اسی طرح آخری زمانہ میں زن مزاج لوگوں نے نحاش کے وسوسہ کو قبول کیا سو تمام بروزوں سے پہلے یہی بروز ہے جو بروز نحاش ہے۔

پھر دوسرا بروز جو یاجوج ماجوج کے بعد ضروری تھا مسیح ابن مریم کا بروز ہے۔ کیونکہ وہ رُوح القدس کے تعلق کی وجہ سے نحاش کا دشمن ہے۔* وجہ یہ کہ سانپ شیطان سے مدد پاتا ہے

رُوح القدس کا تعلق تمام نبیوں اور پاک لوگوں سے ہوتا ہے پھر مسیح کی اس سے کیا خصوصیّت ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ کوئی خصوصیّت نہیں بلکہ اعظم اور اکبر حصہ روح القدس کی فطرت کا حضرت سیدنامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاصل ہے۔ لیکن چونکہ یہود شریر الطبع نے حضرت مسیح پر یہ بہتان لگایا تھا کہ ان کی ولادت رُوح القدس کی شراکت سے نہیں بلکہ شیطان کی شراکت سے ہے یعنی ناجائز طور پر اس لئے خدا نے اس بہتان کی ذبّ اور دفع کے لئے اس بات پر زور دیا کہ مسیح کی پیدائش رُوح القدس کی شراکت سے ہے اور وہ مسّ شیطان سے پاک ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا لعنتیوں کا کام ہے کہ دوسرے نبی مسّشیطان سے پاک نہیں ہیں بلکہ یہ کلام محض یہودیوں کے خیال باطل کے دفع کے لئے ہے کہ مسیح کی ولادت مسّشیطان سے ہے یعنی حرام کے طور پر۔ پھر چونکہ یہ بحث مسیح میں شروع ہوئی اس لئے رُوح القدس کی پیدائش میں ضرب المثل مسیح ہو گیا۔ ورنہ اس کو پاک پیدائش میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ذرہ ترجیح نہیں بلکہ دنیا میں معصوم کامل صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوا ہے اور بعض حدیثوں کے یہ الفاظ کہ مس شیطان سے پاک صرف ابن مریم اور اس کی ماں یعنی مریم ہے۔ یہ لفظ بھی یہودیوں کے مقابل پر مسیح کی پاکیزگی ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ گویا یہ فرماتا ہے کہ دنیا میں صرف دو گروہ ہیں ایک وہ جو آسمان پر ابن مریم کہلاتے ہیں اگر مرد ہیں۔ اور مریم کہلاتے ہیں اگر عورت ہیں۔ دوسرے وہ گروہ ہے جو آسمان پر یہود مغضوب علیھم کہلاتے ہیں۔ پہلا گروہ مسّ شیطان سے پاک ہے اور دوسرا گروہ شیطان کے فرزند ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 325

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 325

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/325/mode/1up

325

کل فرقے جو دنیا میں موجود ہیں انہی دنوں میں مسیح کے ظہور کا وقت بتلاتے ہیں۔ اور اس کے نزول کی انتظار کر رہے ہیں۔ بلکہ بعض کے نزدیک اس تاریخ پر جب مسیح دوبارہ آنا

اور عیسیٰ بن مریم روح القدس سے اور رُوح القدس شیطان کی ضد ہے۔ پس جب شیطان کا ظہور ہوا تو اس کا اثر مٹانے کے لئے رُوح القدس کا ظہور ضروری ہوا۔ جس طرح شیطان بدی کا باپ ہے رُوح القدس نیکی کا باپ ہے۔ انسان کی فطرت کو دو مختلف جذبے لگے ہوئے ہیں (۱) ایک جذبہ بدی کی طرف جس سے انسان کے دل میں بُرے خیالات کا اور بدکاری اور ظلم کے تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ جذبہ شیطان کی طرف سے ہے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کی فطرت کے لازم حال یہ جذبہ ہے۔ گو بعض قومیں شیطان کے وجود سے انکار بھی کریں لیکن اس جذبہ کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے۔ (۲) دوسرا جذبہ نیکی کی طرف ہے جس سے انسان کے دل میں نیک خیالات اور نیکی کرنے کی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ جذبہ رُوح القدس کی طرف سے ہے۔ اور اگرچہ قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوؔ ں قسم کے جذبے انسان میں موجود ہیں لیکن آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ پورے زور شور سے یہ دونوں قسم کے جذبے انسان میں ظاہر ہوں۔ اس لئے اِس زمانہ میں بروزی طور پر یہودی بھی پیدا ہوئے اور بروزی طور پر مسیح ابن مریم بھی پیدا ہوا۔ اور خدا نے ایک گروہ بدی کا محرک پیدا کر دیا جو وہی پہلا نحاش بروزی رنگ میں ہے۔ اور دوسرا گروہ نیکی کا محرک پیدا کر دیا جو مسیح موعود کا گروہ ہے۔ غرض پہلا بروز گروہ نحاش ہے اور دوسرا بروز مسیح اور اس کا گروہ اور تیسرا بروز ان یہودیوں کا گروہ ہے جن سے بچنے کے لئے سورہ فاتحہ میں دُعا 3 ۱؂ سکھائی گئی اور چوتھا بروز صحابہ رضی اللہ عنہم کا بروز ہے جو بموجب آیت 33۲؂ ضروری تھا اور اس حساب سے ان بروزوں کی لاکھوں تک نوبت پہنچتی ہے۔ اس لئے یہ زمانہ رجعت بروزی کا زمانہ کہلاتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 326

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 326

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/326/mode/1up

326


چاہئے تھا۔ دس سال کے قریب اور بعض کے نزدیک بیس سال کے قریب زیادہ گذر بھی گئے۔ اِس لئے وہ لوگ پیشگوئی کے غلط نکلنے کی وجہ سے بڑی حیرت میں پڑے آخر انہوں نے اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس طرف تو نظر نہیں کی کہ مسیح موعود پیدا ہوگیا جس کو انہوں نے نہیں پہچانا لیکن تاویل کے طور پر یہ بات بنالی کہ جو کام سرگرمی سے اب ان دنوں میں کلیسیا کر رہی ہے یعنی تثلیث کی طرف دعوت اور کفارہ مسیح کی اشاعت یہی مسیح کی روحانی طور پر آمد ثانی ہے۔ گویا مسیح نے ہی اُن کے دلوں پر نازل ہو کر اُن کو یہ جوش دیا کہ اُس کی خدائی کے مسئلہ کو دنیا میں پھیلا ویں۔ اگر تم یورپ کا سیر کرو تو اس خیال کے ہزارہا آدمی اُن میں پاؤ گے جنہوں نے زمانہ نزول مسیح کو گذرتا ہوا دیکھ کر یہ اعتقاد دلوں میں گھڑ لیا ہے۔ لیکن مسلمان پیشگوئی کے اِن معنوں کو پسند نہیں کرتے اور نہ ایسی تاویلوں سے اپنے دلوں کو تسلّی دینا چاہتے ہیں حالانکہ اُن پر بھی یہی مشکلات پڑ گئی ہیں۔ کیونکہ بہت سے اہل کشف مسلمانوں میں سے جن کا شمار ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہوگا اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے اور نیز خدا تعالیٰ کی کلام کے استنباط سے بالاتفاق یہ کہہ گئے ہیں کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی کے سر سے ہر گز ہر گز تجاوز نہ کرے گا اور ممکن نہیں کہ ایک گروہ کثیر اہل کشف کا کہ جو تمام اوّلین اور آخرین کا مجمع ہے وہ سب جھوٹے ہوں اور ان کے تمام استنباط بھی جھوٹے ہوں اس لئے اگر مسلمان اس وقت مجھے قبول نہ کریں جو قرآن اور حدیث اور پہلی کتابوں کے رُو سے اور تمام اہل کشف کی شہادت کی رُو سے چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوا ہوں تو آئندہ اُن کی ایمانی حالت کے لئے سخت اندیشہ ہے کیونکہ میرے انکار سے اب اُن کایہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ جس قدر قرآن شریف سے مسیح موعود کے لئے علماء کبار نے استنباط کئے تھے وہ سب جھوٹے تھے اور جس قدر اہل کشف نے زمانہ مسیح موعود کے لئے خبریں دی تھیں وہ خبریں بھی سب جھوٹی تھیں۔ اور جس قدر آسمانی اور زمینی نشان حدیث کے مطابق ظہور میں آئے جیسے رمضان میں عین تاریخوں کے مطابق خسوف کسوف ہوجانا۔ زمین پر



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 327

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 327

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/327/mode/1up

327

ریل کی سواری کا جاری ہونا اور ذوالسنین ستارہ کا نکلنا اور آفتاؔ ب کا تاریک ہوجانا یہ سب نعوذ باللہ جھوٹے تھے۔ ایسے خیال کا نتیجہ آخر یہ ہوگا کہ اس پیشگوئی کو ہی ایک جھوٹی پیشگوئی قرار دیدیں گے اور نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دروغ گو سمجھ لیں گے۔ اور اس طرح پر ایک وقت آتا ہے کہ یکدفعہ لاکھوں آدمی دین اسلام سے مرتد ہو جائیں گے۔ اب صدی پر بھی سترہ برس گذر گئے۔ ایسی ضرورت کے وقت میں بقول ان کے عیسائیت کے مفاسد دُور کرنے کے لئے جو وہی عظیم الشان مفاسد تھے کوئی مجدّد خدا کی طرف سے مبعوث نہ ہوا اور یقینی طور پر ماننا پڑا کہ اب کم سے کم اسّی۸۰ برس اور اسلام کا کچھ وجود باقی رہے گا اور اسلام کے نابود ہونے کے بعد اگر کوئی مسیح آسمان سے بھی اُترا تو کیا فائدہ دے گا بلکہ وہی مصداق ہوگا کہ ’’پس ازانکہ من نمانم بچہ کارخواہی آمد‘‘ اور آخر ایسی باطل پیشگوئیوں کی نسبت بد اعتقادی پھیل کر ایک عام ارتداد اور الحاد کا بازار گرم ہو جائے گا اور نعوذ باللہ اسلام کا خاتمہ ہوگا خدا تعالیٰ ہمارے مخالف علماء کے حال پر رحم فرماوے کہ وہ جو کارروائی کر رہے ہیں وہ دین کے لئے اچھی نہیں بلکہ نہایت خطرناک ہے۔ وہ زمانہ ان کو بھول گیا جب وہ منبروں پر چڑھ چڑھ کر تیرھویں صدی کی مذمت کرتے تھے کہ اس صدی میں اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے اور آیت 3 3 ۱؂ پڑھ کر اس سے استدلال کیا کرتے تھے کہ اِس عُسر کے مقابل پر چودھویں صدی یُسر کی آئے گی۔ لیکن جب انتظار کرتے کرتے چودھویں صدی آگئی اور عین صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص بد عوائے مسیح موعود پیدا ہو گیا اور نشان ظاہر ہوئے اور زمین و آسمان نے گواہی دی تب اوّل المنکرین یہی علماء ہو گئے۔ مگر ضروری تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بھی پہلے منکر یہودیوں کے مولوی تھے جنہوں نے اُن کے لئے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 328

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 328

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/328/mode/1up

328

دو۲ فتوے طیار کئے تھے ایک کفر کا فتویٰ اور دوسرے قتل کا فتویٰ۔ پس اگر یہ لوگ بھی کفر اور قتل کا فتویٰ نہ دیتے تو 3کی دعا جو سورۃ فاتحہ میں سکھائی گئی ہے جو پیشگوئی کے رنگ میں تھی کیونکر پوری ہوتی کیونکہ سورہ فاتحہ میں جو 3 کا فقرہ ہے اس سے مراد جیسا کہ فتح الباری اور در منثور وغیرہ میں لکھا ہے یہودی ہیں۔ اور یہودیوں کا بڑا واقعہ جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قریب تر زمانہ میں وقوع میں آیا وہ یہی واقعہ تھا جو انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر ٹھہرایا اور اس کو ملعون اور واجب القتل قرار دیا اور اس کی نسبت سخت درجہ پر غضب اور غصہ میں بھر گئے اس لئے وہ اپنے ہی غضب کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی نظر میں مغضوب علیھم ٹھہرائے گئے اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس واقعہ سے چھ سو برس بعد میں پیدا ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کی اُمت کو جو3کی دُعا سورہ فاتحہ میں سکھلائی گئی اور تاکید کی گئی کہ پانچ و قت کی نماز اور تہجد اور اشراق اور دونوں عیدوں میں یہی دُعا پڑھا کریں اس میں کیا بھید تھا جس حالت میں ان یہودیوں کا زمانہ اسلام کے زمانہ سے پہلے مدّت سے منقطع ہو چکا تھا تو یہ دُعا مسلمانوں کو کیوں سکھلائی گئی اور کیوں اس دُعا میں یہ تعلیم دی گئی کہ مسلمان لوگ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے پنجوقت پناہ مانگتے رہیں جو یہودیوں کا وہ فرقہ نہ بن جائیں جو مغضوب علیھم ہیں پس اِس دُعا سے صاف طور پر سمجھ آتا ہے کہ اس اُمت میں بھی ایک مسیح موعود پیدا ہونے والا ہے اور ایک فرقہ مسلمانوں کے علماء کا اسؔ کی تکفیر کرے گا اور اُس کے قتل کی نسبت فتویٰ دے گا۔ لہٰذا سورۃ فاتحہ میں3 3کی دعا کو تعلیم کرکے سب مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ سے دُعا کرتے رہیں کہ ان یہودیوں کی مثل نہ بن جائیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم پر کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور اُن پر قتل کا فتویٰ دیا تھا اور نیز ان کے پرائیویٹ اُمور میں دخل دے کر اُن کی ماں پر افترا کیا تھا اور خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں یہ سنّت اور عادت مستمرہ ہے کہ جب وہ ایک گروہ کو کسی



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 329

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 329

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/329/mode/1up

329

کام سے منع کرتا ہے یا اس کام سے بچنے کے لئے دعا سکھلاتا ہے تو اس کا اس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ بعض اُن میں سے ضرور اس جرم کا ارتکاب کریں گے لہٰذا اس اصول کے رو سے جو خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں پایا جاتا ہے صاف سمجھ آتا ہے جو 3 کی دعا سکھلانے سے یہ مطلب تھا کہ ایک فرقہ مسلمانوں میں سے پورے طور پر یہودیوں کی پیروی کرے گا اور خدا کے مسیح کی تکفیر کرکے اور اس کی نسبت قتل کا فتویٰ لکھ کر اللہ تعالیٰ کو غضب میں لائے گا۔ اور یہودیوں کی طرح مغضوب علیھم کا خطاب پائے گا۔ یہ ایسی صاف پیشگوئی ہے کہ جب تک انسان عمدًا بے ایمانی پر کمر بستہ نہ ہو اس سے انکار نہیں کر سکتا اور صرف قرآن نے ہی ایسے لوگوں کو یہودی نہیں بنایا بلکہ حدیث بھی یہی خطاب اُن کو دے رہی ہے اور صاف بتلا رہی ہے کہ یہودیوں کی طرح اس اُمت کے علماء بھی مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگائیں گے اور مسیح موعود کے سخت دشمن اس زمانہ کے مولوی ہوں گے کیونکہ اس سے ان کی عالمانہ عزّتیں جاتی رہیں گی۔ اور لوگوں کے رجوع میں فرق آجائے گا اور یہ حدیثیں اسلام میں بہت مشہور ہیںیہاں تک کہ فتو حات مکّی میں بھی اس کا ذکر ہے کہ مسیح موعود جب نازل ہوگا تو اس کی یہی عزّت کی جائے گی کہ اس کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے گا اور ایک مولوی صاحب اٹھیں گے اور کہیں گے انّ ھٰذا الرجل غیّر دیننا۔ یعنی یہ شخص کیسا مسیح موعود ہے اِس شخص نے تو ہمارے دین کو بگاڑ دیا۔ یعنی یہ ہماری حدیثوں کے اعتقاد کو نہیں مانتا اور ہمارے پُرانے عقیدوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اور بعض حدیثوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اس اُمّت کے بعض علماء یہودیوں کی سخت پیروی کریں گے یہاں تک کہ اگر کسی یہودی مولوی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہے تو وہ بھی اپنی ماں سے زنا کریں گے اور اگر کوئی یہودی فقیہ سو سمار کے سوراخ کے اندر گھسا ہے تو وہ بھی گھسیں گے یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ انجیل اور قرآن شریف میں جہاں یہودیوں کا کچھ خراب حال بیان کیا ہے وہاں دنیا داروں اور عوام کا تذکرہ نہیں بلکہ ان کے مولوی اورفقیہ اور سردار کا ہن مراد ہیں جن کے ہاتھ میں کفر کے



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 330

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 330

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/330/mode/1up

330

فتوے ہوتے ہیں اور جن کے وعظوں پر عوام افروختہ ہو جاتے ہیں۔ اسی واسطے قرآن شریف میں ایسے یہودیوں کی اس گدھے سے مثال دی ہے جو کتابوں سے لدا ہوا ہو۔ ظاہر ہے کہ عوام کو کتابوں سے کچھ سرورکار نہیں۔ کتابیں تو مولوی لوگ رکھا کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جہاں انجیل اور قرآن اور حدیث میں یہودیوں کا ذکر ہے وہاں ان کے مولوی اور علماء مراد ہیں۔ اور اسی طرح3 کے لفظ سے عام مسلمان مراد نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کے مولوی مراد ہیں۔

اور پھر ہم اصل ذکر کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں بکثرت یہ اشارات پائے جاتے ہیں کہ اسی ہجرت کی چودھویں صدی میں مسیح موعود کا ظہور ہوگا۔ اسی لئے بہتوں نے عیساؔ ئیوں میں سے حال کے زمانہ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے یہی دن ہیں چنانچہ اخبار فری تھنکر لنڈن ۷؍اکتوبر۱۹۰۰ء ؁ میں یہ خبر لکھی ہے کہ عام انتخاب ممبران پارلیمنٹ کے وقت ایک سینٹ سے جو مقام اسلنگٹن کا باشندہ تھا جب رائے لینے والے نے دریافت کیا تو اس نے انتخاب کے بارے میں کچھ رائے نہ دی اور اپنی رائے نہ دینے کی سنجیدگی سے یہ وجہ بیان کی کہ’’ اس سال کے ختم ہونے سے پہلے قیامت کا دن یعنی مسیح کی دوبارہ آمد کا دن آنے والا ہے اس لئے یہ تمام باتیں بے سود ہیں۔‘‘ ایسا ہی کتاب ھِز گلوریس ایپیئرنگ مطبوعہ لنڈن ساری کتاب اور رسالہ کرائسٹس سکینڈ کمنگ مطبوعہ لنڈن صفحہ نمبر۱۵ اور رسالہ دی کمنگ آف دی لارڈ مطبوعہ لنڈن صفحہ نمبر۱ میں مسیح موعود کی آمد ثانی کی نسبت یہ عبارتیں ہیں:۔

اب عنقریب دنیا میں ایک نہایت عظیم الشان واقعہ ہونے والا ہے۔ چاروں طرف سے اس کے واسطے نشان جمع ہو رہے ہیں۔ ایسے نشان

we stand on the eve of one of the greatest events the world has ever witnessed. Signs are multiplying on every side of us, compared with



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 331

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 331

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/331/mode/1up

331

کہ زمانہ نے اس قسم کے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ نہ دنیا کی تواریخ میں اس کی مثال ملتی ہے اور نہ کلیسیا کی تواریخ میں۔ اس واقعہ عظیمہ کے وقوع پر دنیا اور مذہب ہر دو میں ایک تغیر عظیم پیدا ہوگا۔ وہ واقعہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے دوبارہ آنے کا ہے۔ قوت اور جلال کا آنا۔

which there has been no parallel, either in the history of the church or the world. One of the greatest changes to both hangs upon this great event. It is the coming of the Lord Jesus Christ the second time in power and glory.

کیا کوئی عقل والا اس بات میں شک کر سکتا ہے کہ یہ نشانات بلاریب یقیناًاس بات کی خبر دیتے ہیں کہ اب انجام آیا کھڑا ہے۔

Can anyone reasonably doubt that these signs are not a sure and certain warning that the end draweth on space.

نشانات پورے ہو گئے ہیں۔ وہ پشت آگئی ہے۔ مسیح کا آنا بہت ہی قریب ہے۔ کیسا ہی شان و شوکت اور جلال کا وقت آتا ہے۔

The signs are fulfilled, that generation has come. Christ's coming is at hand, glorious anticipation! glorious future!.

کسی ؔ قدر یہ خیال بھی بعض لوگوں کے درمیان پھیلا ہوا ہے کہ جو لوگ مسیح کے جلد آنے کی تعلیم دیتے ہیں وہ لوگوں کو ڈراتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو خود بڑا اُستاد یسوع مسیح اس تعلیم

The impression prevails to some extent that he who teaches that Christ is soon coming is acting the role of alarmist.



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 332

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 332

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/332/mode/1up

332

کے دینے میں سب سے اوّل نمبر پر ہے اور ہم اس بات کو اوپر ثابت کرچکے ہیں۔

If so, we have seen that the great Teacher has placed himself at the head of the class.


ان عبارات مذکورہ بالا سے ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ عیسائیوں کو حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کا اس زمانہ میں کس قدر انتظار ہے۔ اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ وقت وہی وقت ہے جس میں حضرت مسیح کو آسمان پر سے نازل ہونا چاہئے مگر ساتھ اس کے اُن میں سے اکثر کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ درحقیقت فوت ہو گئے ہیں آسمان پر نہیں گئے اس لئے جو لوگ اُن میں سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر نہیں گئے اور نیز انجیل کے رو سے یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسی زمانہ یعنی ہجرت کی چودھویں صدی کے سر پر ان کا آنا ضروری ہے بلاشبہ اُن کو ماننا پڑتا ہے کہ مسیح کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آئے گی اور اُن میں سے بعض کا یہ قول بھی ہے کہ آج کل عیسائی کلیسیا جو کام کر رہی ہے یہی مسیح کی آمد ثانی ہے یہ تاویل آسمانی کتابوں کے موافق نہیں ہے اور نہ کسی نبی نے کبھی ایسی تاویل کی ہے۔ تعجب کہ جس حالت میں وہ اپنی انجیلوں کے کئی مقامات میں پڑھتے ہیں کہ ایلیا نبی کا دوبارہ آنا اس طرح ہوا تھا کہ یوحنا نبی اُن کے رنگ اور خو پر آگیا تھا تو کیوں وہ مسیح کے دوبارہ آنے کی تاویل کرنے کے وقت کلیسیا کی سرگرمی کو مسیح کی آمد کا قائم مقام سمجھ لیتے ہیں کیا مسیح نے ایلیا نبی کے دوبارہ آمد کی یہی تاویل کی ہے؟ پس جس پہلو کی تاویل حضرت مسیح کے مُنہ سے نکلی تھی کیوں اس کو تلاش نہیں کرتے؟ اور ناحق سرگردانی میں پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ملا کی نبی نے ایلیانبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی کی تھی۔ مسیح اس کی یہ بھی تاویل کر سکتا تھا کہ جس سرگرمی سے یہودیوں کے فقیہ اور فریسی کام کر رہے ہیں یہی ایلیا کا دوبارہ آنا ہے۔ اس تاویل سے یہودی بھی خوش ہو جاتے اور شائد مسیح کو قبول کر لیتے۔ لیکن انہوں نے اِس تاویل کو جو کلیسیا کی تاویل



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 333

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/333/mode/1up

333

سے بہت مشابہ تھی پیش نہ کیا ور یوحنا نبی کو جو خود یہودیوں کی نظر میں نعوذ باللہ کاذب اور مفتری تھا پیش کر دیا جس سے یہودیوں کا اَور بھی غصّہ بھڑکا اور انہوں نے خیال کیا کہ جب اِس شخص کا ہمارے اس سوال کے جواب میں کسی جگہ ہاتھ نہیں پڑا تو اپنے مرشد یعنی الیاس کو ایلیا ٹھہرا دیا اس خیال سے کہ وہ خواہ نخواہ تصدیق کر دے گا کہ میں ہی ایلیا ہوں مگر یہودیوں کی بدقسمتی سے حضرت یوحنا نے ایلیا ہونے سے انکار کیا اور صاف کہا کہ میں ایلیا نہیں ہوں۔ اس جگہ ان دونوں کلاموں میں فرق یہ تھا کہ حضرت مسیح نے حضرت یوحنا یعنی یحییٰ نبی کو مجازی طور پر یعنی بروزی طور پر ایلیا نبی قرار دیا مگر یوحنا نے حقیقی طور کو مدّ نظر رکھ کر ایلیا ہونے سے انکار کر دیا اور بد قسمت یہودیوں کو یہ بھی ایک ابتلا پیش آیا کہ شاگرد یعنی عیسیٰ کچھ کہتا ہے اور اُستاد یعنی یحییٰ کچھ کہتا ہے اور دونوں کے بیان باہم متنا قض ہیں۔ مگر اس جگہ ہمارا صرف یہ مقصود ہے کہ مسیح کے نزدیک دوبارہ آمدن کے وہی معنے ہیں جو مسیح نے ؔ خود بیان کر دیئے گویا یہ ایک تنقیح طلب مسئلہ تھا جو مسیح کی عدالت سے فیصلہ پا گیا اور مسیح نے انجیل متی باب۱۷ آیت ۱۰و۱۱و۱۲ میں خود اپنی آمد ثانی کو ایلیا نبی کی آمد ثانی سے مشابہت دے دی اور ایلیا نبی کی آمد ثانی کی نسبت صرف یہ فرمایا کہ یوحنا کو ہی ایلیا سمجھ لو گویا ایک بڑا اعجوبہ جو یہودیوں کی نظر میں تھا کہ اس عجیب طرح پر ایلیا آسمان سے اُترے گااس کو اپنے دو لفظوں سے خاک میں ملا دیا۔ اور اس قسم کے معنے قبول کرنے کے لئے عیسائیوں میں سے وہ فرقہ زیادہ استعداد رکھتا ہے جو آسمان پر جانے سے منکر ہیں چنانچہ ہم اُن محقق عیسائیوں کا ذیل میں ایک قول نقل کرتے ہیں تا مسلمانوں کو معلوم ہو کہ اُن کی طرف سے تو مسیح کے نزول کے بارے میں اس قدر شور انگیزی ہے کہ اس فضول خیال کی حمایت میں تیس ہزار مسلمان کو کافر ٹھہرا رہے ہیں مگر وہ لوگ جو مسیح کو خدا جانتے ہیں اُن میں سے یہ فرقہ بھی ہے جو بہت سے دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں کہ مسیح ہر گز



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 334

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/334/mode/1up

334

آسمان پر نہیں گیا بلکہ صلیب سے نجات پاکر کسی اور ملک کی طرف چلا گیا اور وہیں مر گیا۔ چنانچہ سوپرنیچرل ریلیجن صفحہ۵۲۲ میں اس بارے میں جو عبارت ہے اس کو ہم مع ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے:۔

پہلی تفسیر جو بعض لائق محققین نے کی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع دراصل صلیب پر نہیں مرا بلکہ صلیب سے زندہ اتار کر اس کا جسم اس کے دوستوں کے حوالہ کیا گیا اور وہ آخر بچ نکلا۔ اس عقیدہ کی تائید میں یہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ اناجیل کے بیان کے مطابق یسوع صلیب پر تین گھنٹے یا چھ گھنٹہ رہ کر فوت ہوا۔ لیکن صلیب پر ایسی جلدی کی موت کبھی پہلے واقع نہیں ہوئی تھی۔ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ صرف اس کے ہاتھوں پر میخیں ماری گئی تھیں۔ اور پاؤں پر میخیں نہیں لگائی گئی تھیں۔ چونکہ یہ عام قائدہ نہ تھا کہ ہر ایک مصلوب کی ٹانگ توڑی جائے اس واسطے تین انجیل نویسوں نے تو اس کا کچھ ذکر ہی نہیں کیا۔ اور چوتھے نے بھی صرف اپنے طرز بیان کی تکمیل کی خاطر اس امر کا بیان کیا اور جہاں ٹانگ توڑنے کا ذکر نہیں ہے تو ساتھ ہی

The first explanation adopted by some able critics is that Jesus did not really die on the cross but being taken down alive and his body being delivered to friends, he subsequently revived. In support of this theory it is argued that Jesus is represented by Gospels as expiring after having been but three or six hours upon the cross which would have been but unprecedentedly rapid death. It is affirmed that only the hands and not the feet were nailed to the cross. The crucifragian not usually accompanying crucifixion is dismissed as unknown to the three synoptits and only inserted

by the fourth evangelist for dogmatic reasons and of course the lance disappears with



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 335

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/335/mode/1up

335

برچھی کاوؔ اقعہ بھی کالعدم ہو جاتا ہے پس ظاہراًموت جو واقع ہوئی وہ ایک سخت بیہوشی تھی جو کہ چھ گھنٹہ کے جسمانی اور دماغی صدموں کے بعد اس کے جسم پر پڑی کیونکہ گذشتہ شب بھی متواتر تکلیف اور تھکاوٹ میں گذری تھی جب اُسے کافی صحت پھر حاصل ہو گئی۔ تو اپنے حواریوں کو پھر یقین دلانے کے واسطے کئی دفعہ ملا۔ لیکن یہودیوں کے سبب نہایت احتیاط کی جاتی تھی۔ حواریوں نے اس وقت یہ سمجھا کہ یہ مر کر زندہ ہوا ہے۔ اور چونکہ موت کی سی بیہوشی تک پہنچ کر وہ پھر بحال ہوا اس واسطے ممکن ہے کہ اُس نے آپ بھی دراصل یہی سمجھا ہو کہ میں مر کر پھر زندہ ہوا ہوں اب جب اُستاد نے دیکھا کہ اس موت نے میرے کام کی تکمیل کر دی ہے تو وہ پھر کسی ناقابل حصول اور نامعلوم تنہائی کی جگہ میں چلا گیا اور مفقود الخبر ہو گیا۔ گفروررجس نے شنٹود کے اس مسئلہ کی


the leg- breaking. Thus the apparent death was that profound faintness which might well fall upon an organization after some hours of physical and mental agony on the cross, following the continued strain and fatigue of the previous night. As soon as he had sufficiently recovered it is supposed that Jesus visited his disciples a few times to re-assure them, but with pre-caution on account of the Jews, and was by them believed to have risen from the dead, as indeed he himself may likewise have supposed, reviving as he had done from the faintness of death. Seeing however that his death had set the crown upon his work the master withdrew into impenetrable obscurity and was heard no more



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 336

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 336

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/336/mode/1up

336

نہایت قابلیت کے ساتھ تائید کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ یہود کے حکام کے درمیان یسوع کے مرید تھے جو کہ اس کو اگرچہ اس مخالفت سے بچا نہیں سکتے تھے تاہم ان کو اُمید تھی کہ ہم اس کو مرنے سے بچا لیں گے۔ یوسف ایک دولتمند آدمی تھا۔ اور اُسے مسیح کے بچانے کے وسائل مل گئے۔ نئی قبر بھی اس مقام صلیب کے قریب ہی اُس نے طیّار کرالی اور جسم بھی پلاطوس سے مانگ لیا۔ اور نکومیڈس جو بہتؔ ؔ سے مصالح خرید لایا تھا تو وہ صرف یہود کی توجہ ہٹانے کے واسطے تھے اور یسوع کو جلدی سے قبر میں رکھا گیا۔ اور ان لوگوں کی سعی سے وہ بچ گیا۔ گفروررنے یوحنا باب۲۰۔ آیت ۱۷ کی مشہور آیت کی عجیب تفسیر کی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ مسیح کا جو یہ فقرہ ہے کہ میں ابھی اپنے باپ کے پاس نہیں گیا اس فقرہ میں آسمان پرجانے سے مراد صرف مرنا ہے اور یسوع نے جو یہ کہا کہ مجھے نہ چھوؤ کیونکہ میں ابھی تک گوشت اور خون ہوں۔ اس میں

Gfrorer who maintains the theory of Scheintod with great


ability thinks that Jesus had believers amongst the rulers of the Jews who although they could not shield him from the opposition against him still hoped to save him from death. Joseph, a rich man, found the means of doing so. He prepared the new sepulchre close to the place of execution to be at hand, begged the body from Pilate - the immense quantity of spices bought by Nicomedus being merely to distract the attention of the Jesus being quickly carried to the sepulchre was restored to life by their efforts.

He interprets the famous verse John xx : 17 curiously,

The expression "I have not

yet ascended to my father." He takes as meaning simply the

act of dying "going to heaven"

and the reply of Jesus is



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 337

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 337

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/337/mode/1up

337

گوشت اور خون ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ میں ابھی مرا نہیں۔ یسوع اس واقعہ کے بعد پوشیدہ طور پر کئی دفعہ اپنے حواریوں کو ملا اور جب اُسے یقین ہو گیا کہ اس موت نے اُس کے کام کی صداقت پر آخری مہر لگادی ہے تو وہ پھر کسی ناقابل حصول تنہائی میں چلا گیا۔ دیکھو کتاب سوپرنیچرل ریلیجن صفحہ ۵۲۳۔



I am not yet dead, Jesus sees

his desciples only a few times mysteriously and believing that

he had set the final seal to the

truth of his work by his death

he then retires into impenetrable gloom Das Heiligthum and die Wabrhcit p 107 p 231

(Pp. 523 of the Supernatural religion)


اور یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے مسئلہ کو مسلمان عیسائیوں سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اُس کی موت کا بار بار ذکرہے۔ لیکن بعض نادانوں کو یہ دھوکا لگا ہوا ہے کہ اس آیت قرآن شریف میں یعنی 333 ۱؂ میں لفظ 3 سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی جگہ کسی اور کو سولی دیا گیا اور وہ خیال نہیں کرتے کہ ہر ایک شخص کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے پس اگر کوئی اور شخص حضرت عیسیٰ کی جگہ صلیب دیا جاتا تو صلیب دینے کے وقت ضرور وہ شور مچاتاکہ میں تو عیسیٰ نہیں ہوں۔ اور کئی دلائل اور کئی امتیازی اسرار پیش کرکے ضرور اپنے تئیں بچا لیتا نہ یہ کہ بار بار ایسے الفاظ مُنہ پر لاتا جن سے اس کا عیسیٰ ہونا ثابت ہوتا۔ رہا لفظ 3۔ سو اس کے وہ معنے نہیں ہیں جو سمجھے گئے ہیں اور نہ ان معنوں کی تائید میں قرآن اور احادیث نبویہ سے کچھ پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ موت کا وقوعہ یہودیوں پر مشتبہ کیا گیاوہ یہی سمجھ بیٹھے کہ ہم نے قتل کر دیا ہے حالانکہ مسیح قتل ہونے سے بچ گیا۔ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 338

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 338

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/338/mode/1up

338

اس آیت میں شبّہ لھم کے یہی معنے ہیں اور یہ سنت اللہ ہے۔ خدا جب اپنے محبوبوں کو بچانا چاہتا ہے تو ایسے ہی دھوکا میں مخالفین کو ڈال دیتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ثور میں پوشیدہ ہوئے تو وہاں بھی ایک قسم کے3سے خدا نے کام لیا یعنی مخالفین کو اس دھوکا میں ڈالؔ دیا کہ انہوں نے خیال کیا کہ اِس غار کے مُنہ پر عنکبوت نے اپنا جالا بُنا ہوا ہے اور کبوتری نے انڈے دے رکھے ہیں۔ پس کیونکرممکن ہے کہ اس میں آدمی داخل ہو سکے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں جو قبر کی مانند تھی تین۳ دن رہے جیسا کہ حضرت مسیح بھی اپنی شامی قبر میں جب غشی کی حالت میں داخل کئے گئے تین دن ہی رہے تھے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو یُونس پر بزرگی مت دو یہ بھی اشارہ اس مماثلت کی طرف تھا کیونکہ غار میں داخل ہونا اور مچھلی کے پیٹ میں داخل ہونا یہ دونوں واقعہ باہم ملتے ہیں۔ پس نفی تفصیل اس وجہ سے ہے نہ کہ ہر ایک پہلو سے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نہ صرف یُونس سے بلکہ ہر ایک نبی سے افضل ہیں۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنتوں اور عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب مخالف اُس کے نبیوں اور ماموروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو ان کے ہاتھ سے اس طرح بھی بچا لیتا ہے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو ہلاک کر دیا حالانکہ موت تک اُس کی نوبت نہیں پہنچتی۔ اور یا وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا حالانکہ وہیں چُھپا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے شر سے بچ جاتا ہے۔ پس 3 کے یہی معنے ہیں۔ اور یہ فقرہ 3 صرف حضرت مسیح سے خاص نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آگ میں ڈالے گئے تب بھی یہ عادت اللہ ظہور میں آئی۔ ابراہیم آگ سے جُدا نہیں کیا گیا



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 339

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 339

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/339/mode/1up

339

اور نہ آسمان پر چڑھایا گیا لیکن حسب منطوق آیت3 ۱؂ آگ اُس کو جلانہ سکی۔ اِسی طرح یوسف ؑ بھی جب کوئیں میں پھینکا گیا آسمان پر نہیں گیا بلکہ کنواں اس کو ہلاک نہ کر سکا۔ اور ابراہیمؑ کا پیارا فرزند اسماعیل بھی ذبح کے وقت آسمان پر نہیں رکھایا گیا تھا بلکہ چُھری اس کو ذبح نہ کر سکی۔ ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محاصرہ غار ثور کے وقت آسمان پر نہیں گئے بلکہ خونخوار دشمنوں کی آنکھیں ان کو دیکھ نہیں سکیں۔ اِسی طرح مسیح بھی صلیب کے وقت آسمان پر نہیں گیا بلکہ صلیب اُس کو قتل نہیں کر سکا۔ غرض ان تمام نبیوں میں سے کوئی بھی مصیبتوں کے وقت آسمان پر نہیں گیا۔ ہاں آسمانی فرشتے اُن کے پاس آئے اور انہوں نے مدد کی۔ یہ واقعات بہت صاف ہیں۔ اور صاف طور پر ان سے ثبوت ملتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر نہیں گئے اور اُن کا اُسی قسم کا رفع ہوا جیسا کہ ابراہیم اور تمام نبیوں کا ہوا تھا۔ اور وہ آخر وفات پا گئے اِس لئے آنے والا مسیح اِسی امت میں سے ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا تا دونوں سلسلہ یعنی سلسلہ موسویہ اور سِلسلہ محمدیہ اپنے اوّل اور آخر کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مطابق ہوں۔ پس ظاہر ہے کہ جس خدا نے اس دوسرے سِلسلہ میں مثیل موسیٰ سے ابتدا کیا اس سے صریح اس کا ارادہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سِلسلہ کو مثیل مسیح پر ختم کرے گا جبکہ اس نے فرمادیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہے اور یہ تمام سِلسلہ سلسلہ خلافتِ موسویہ کا مشابہ ہے تو اس میں کیا شک رہ گیا کہ اس سِلسلہ کا خاتمہ مثیل مسیح پر چاہئے تھا۔ مگر اب یہ لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں اپنے خیالات کو چھوڑ نہیں سکتے یہ اُس مسیح کے منتظر ہیں جو زمین کو خون سے پُر کر دے گا۔ اور ان لوگوں کو زمین کے بادشاہ بنا دے گا۔ یہی دھوکا یہودیوں کو لگا تھا جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کیا۔ جیسا کہ ہسٹری آوْ*دی کریسچن چرچ فارفرسٹ تھری سنچریز مصنفہ ریورنڈجے جے بلیٹ

الانبیاء:۷۰ *۔ History of the chritian church for first three centuries.



Ruhani Khazain Volume 17. Page: 340

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 340

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=17#page/340/mode/1up

340

ڈی ڈی صفحہ۱۱۷ میں یہ عبارت ہے۔

اِن سب واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو کس قدر مسیح کے آنے کا انتظار تھا وہ کس طرح مسیح کی جماعت میں داخل ہونے کے واسطے طیار تھے۔ لیکن اُن کو مسیح کی آمد کے متعلق ایک دھوکا لگا ہوا تھا۔ انبیاء کی پیشگوئیوں کے غلط معنے سمجھ کر وہ یہ خیال کرتے تھے کہ مسیح قوموں کو فتح کرنے والا اور گذشتہ زمانہ کے جنگی سپہ سالاروں کی طرح اپنی قوم کی خاطر لڑائی کرے گا اور ظالموں کے پنجہ سے اُن کو چُھڑائے گا جو کہ فلسفیوں کی طرح اُن پر حکمران تھے۔

المؤلف

میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ از قادیاں
 
Top