• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 18 ۔الھدیٰ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 18. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہر قسم کی حمد اُس خدا کے لئے ہے جس نے اپنے دوستوں کو وہ راہ بتائی کہ مُرغ سنگ خوار بھی اس میں بھٹک جاتا ہے اور اُن کے لئے ایسا دن چڑھایا کہ اس میں چمگادڑ کو کچھ نظر نہیں آتا۔اور ایسی راہوں پر انہیں چلایا کہ آنکھوں کی اُونٹنیاں اُن میں کبھی چلی نہیں۔ اور ایسے چشمے ان کے لئے جاری کئے کہ فکروں کے پرندے ان کی طرف راہ نہیں پاسکے۔

اور صلوٰۃ اور سلام خاتم رسل پر جس کی نبوت کے ختم نے چاہا کہ آپ کی اُمت سے نبیوں کی مانند لوگ پیدا ہوں۔اور آپ کے درخت زمانہ کے آخر تک پھلتے پھولتے رہیں اور نہ آپ کے نشان مٹائے جائیں۔ اور نہ آپ کی یاد دنیا سے بھول جائے۔ اسی لئے خدا کی عادت ہیکہ وہ ایسے بندوں کو بھیجا کرتا ہے جنہیں اس دین کی تجدید کے لئے پسند

فرما لیتا ہے۔ اور انہیں اپنے حضور سے قرآن کے اسرار عطا کرتا اور حق الیقین

تک پہنچاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ لوگوں پر حق کے معارف کو

الحمد للّٰہ الذی أری أولیاء ہ صراطا یضلّ فیہ

الغطاط۔ وجلّی لہم نہارا لا یُبصر فیہ الوطواط۔ وأسلکہم

مسالک لم یَرُضْہا مطایا الأبْصار۔ وفجّر لہم ینابیع

ما اہتدت إلیہا طیور الأفکار۔ والصلٰوۃ والسلام علی

خاتم الرسل الذی اقتضی ختم نبوّتہ۔ أن تُبعث مثل الأنبیاء

من أمّتہ۔ وأن تُنَوّر وتُثمر إلی انقطاع ہذا العالم أشجارہ۔

ولا تُعفّی آثارہ۔ و لا تُغیّب تذکارہ۔ فلأجل ذالک جرت

عادۃ اللّٰہ أنہ یُرسل عبادًا من الذین استطابہم لتجدید

ہذا الدین۔ ویعطیہم من عندہ علم أسرار القرآن

ویُبلّغہم إلی حق الیقین۔ لیُظہروا معارف الحق



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


پوری قوت اور غلبہ اور چمک کے رنگ میں ظاہر کریں۔اور ان معارف کی حقیقت اور کیفیت اور راہوں اور ان کی شناخت کے نشانوں کو بیان کریں۔اور لوگوں کو بدعتوں اور بدکرداریوں سے اور ان کے طوفان و طغیان سے چھڑائیں۔ اور شریعت کو قائم کریں اور اس کی بساط کو بچھائیں اور افراط و تفریط کو جو اس میں داخل کی گئی ہے دور کریں۔ اور جب خدا اہل زمین کے لئے چاہتا ہے کہ ان کے دین کو سنوارے اور ان کے برہانوں کو روشن کرے اور ہول اور مصیبت کے پیش آنے پر ان کو مدد دے۔تب ان بزرگوں میں سے کسی کو ان میں کھڑا کردیتا ہے اور نشانوں اور قاطع حجتوں سے اس کی تائید کرتا اور نیک بختوں کے سینوں کو اس کے قبول کرنے کے لئے کھول دیتا ہے اور تقویٰ اختیار نہ کرنے والوں پر پلیدی اور ناپاکی پھینکتا ہے۔پھر یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تو اس پر ایمان لاتے اور تصدیق کرتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے اور تکذیب کرتے ہیں۔اور اس کی راہ میں روک بن جاتے اور دکھ دیتے ہیں اور کسی کو اس کے پاس آنے نہیں دیتے۔آخر کار خدا کی غیرت ان کے نابود کرنے لئے جوش مارتی ہے اس لئے کہ اپنے بندہ کو ان کے حملہ سے چھڑائے۔سو

علی الخلق بسلطانہا۔ وقوّتہا ولمعانہا۔ ویُبیّنوا حقیقتہا وہویّتہا۔ وسُبلہا وآثار عرفانہا۔ ویُخلّصوا الناس من البدعات والسیئات وطوفانہا وطغیانہا۔ ولیُقیموا الشریعۃ ویفرشوا بساطہا۔ ویبسطوا أنماطہا۔ ویُزیلوا تفریطہا وإفراطہا۔ وإذا أراد اللّٰہ لأہل الأرض أن یُصلح دینہم۔ ویُنیر براہینہم۔ أو ینصرہم عند حلول الأہوال والمصائب والآفات۔ أقام بینہم أحدًا من ہذہ السّادات۔ ویُؤیّدہ بالحجج القاطعۃ والآیات۔ ویشرح صدور الأتقیاء لقبولہ ویجعل الرجس علی الذین لا یتّقون۔ ففریق من الناس یؤمنون بہ ویُصدّقون۔ وفریق آخر یکفرون بہ ویُکذّبون۔ ویقعدون بکل صراطٍ ویؤذون۔ ویمنعون کل من دخل علیہ ولا یُخلّصون۔ فتہیج غیرۃ اللّٰہ لإعدامہم۔ لیُنجّی عبدہ من اجلِخمامہم۔ فما زال



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


خدا کافروں کے پیچھے پڑا رہتا کسی کو ہلاک کرتا اور کسی کو دفع کرتاہے یہاں تک کہ زمین ان سانپوں اور بچھوؤں سے خالی ہو جاتی ہے اوربرگزیدوں کو امن مل جاتا اور ملت ایسے چیدہ لوگوں سے بھر جاتی ہے جو تاریکی میں چمکدار روشن ستارے ہوتے ہیں اوریہ بڑی بھاری علامت ہے ان لوگوں کی جو خدا کی طرف سے آتے ہیں اور اس جہان میں نازل ہوتے ہیں اس لئے کہ خلقت کو خدا کی طرف کھینچ لے جائیں۔اور خدا ان کے ذریعہ سے تاریکیوں کو پاش پاش کرتا ہے اس لئے کہ ناپاک اور پاک کو آزمائے اور کامیاب اور نامراد کو ظاہر کردے۔سو کوئی سعید بنتا اور اور کوئی شقی بنتا ہے۔ اور کسی کو زندگی بخشی جاتی اور کوئی فنا کر دیا جاتا ہے اور مامور کو نصرت اور مہلت دی جاتی ہے جب تک کہ وہ دشمنوں کی تلوار کی دھار کو کند کردیتا اور اندھیرااُٹھ جاتا اور ہدایت کا آفتاب چڑھ آتا ہے۔غرض خدا کے دوست جھوٹوں کی مانند ہلاک نہیں کیے جاتے اور ان کا انجام مفتریوں کاسا انجام نہیں ہوتا۔بلکہ انہیں بچایا جاتااور قبول کیا جاتا اور نصرت دی جاتی اور کل جہان پر ایثار کیا جاتاہے۔وہ نہ تو ضائع کئے جاتے ہیں اور نہ ان کی

بالکافرین یُہلک ہذا ویدفع ذاک حتی تصیر الأرض خالیۃ من تلک الہوام۔ ویحصل الأمن للأبرار الکرام۔ وتحتفل الملّۃ من نخب الإسلام۔ کنجوم منیرۃٍ مُشرقۃ فی الظلام۔ وہذا من أکبر علامات الذین یأتون من حضرۃ العزۃ والجبروت۔ وینزلون إلی الناسوت لیجذبوا خلق اللّٰہ إلی عالم الملکوت واللاہوت۔ وإنّ اللّٰہ یجلو بہم الغیاہب۔ لیبتلی الخبیثین والأطایب۔ ویُرِی الفائز والخائب۔ فتُسعد نفسٌ وأخری تشقی۔ ویُحیٰی أخ وأخ آخر یُفنَی۔ ویُنصر المأمور فی الأرض ویُمہل حتی یفل شبا العدا۔ ویزول الظلام وتطلع شمس الہدی۔فالحاصل أن أولیاء اللّٰہ لا یُہلکون کالکاذبین۔ ولا یکون مآلہم کالمفترین۔ بل یُعصَمون ویُقبلون ویُنصرن ویُؤثرون علی العالمین۔ ولا یُضاعون ولا یُجاحون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


بیخ کنی کی جاتی ہے بلکہ وہ اپنے پروردگار کے سامنے بامراد زندگی بسر کرتے ہیں اور وہ زمین پر حجۃ اللہ اوراہلِ زمین کے حق میں خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ اور دنیا میں ماموروں کے انکار جیسی کوئی شقاوت نہیں اور ان مقبولوں کے مان لینے جیسی کوئی سعادت نہیں۔ اور وہ امن وامان کے قلعہ کی چابی اور داخل ہونے والوں کی پناہ ہیں۔تو پھر کیا حال ہو گا اُس کا جس نے اِس چابی کو کھو دیا اور قلعہ میں داخل نہ ہوا اور باہر نکالے ہوئے لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھ رہا۔ اور فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بدبخت ہیں اور انس و جن میں سے اُن سا کوئی بھی بد طالع نہیں۔ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایااور

انکار کیا اور اکڑ بیٹھا اوراس کی بے ادبی کی اور حیا کی راہ کو چھوڑ دیا اور خدا اور اس کے موعود اہل کا ادب اور پاس نہ کیا اور توہین کو انتہا تک پہنچادیا۔ اگر ایسا نالائق پیدا ہی نہ ہوتا تو اس

کے حق میں انجام بد اور خدا کے ناراض کرنے سے بہتر تھا۔ وہ ان گالیوں اور تحقیر کا

مزا چکھے گا۔اور وہ گھڑی ضرور آنے والی ہے پر مُہر زدہ دل باز نہیں آتے۔

ویعیشون أمام أعین ربہم فائزین۔ وإنہم حجّۃ اللّٰہ علی الأرض ورحمۃ الحق لأہل الأرضین۔ ولیست شقوۃ فی الدنیا کإنکار المأمورین۔ ولا سعادۃ کقبول ہؤلاء المقبولین۔وإنہم مفتاح حصن الأمن والأمان وحرز الداخلین۔ فما بال الذی فقد ہذا المفتاح وما دخل الحصن وقعد مع المخرجین۔وإن أشقی الناس رجلان۔۔ ولا یبلغ شقاوتہما أحدٌ من الإنس والجان۔ رجلٌ کفر بخاتم الأنبیاء ۔ ورجل آخر ما آمن بخاتم الخلفاء ۔ وأبی واستکبر وأساء الأدب علیہ وترک طریق الحیاء۔ وما تأدّب مع اللّٰہ وأہلہ الموعود وبلّغ التوہین إلی الانتہاء۔ ولو لم یتولّد لکان خیرًا لہ من سوء العاقبۃ وسخط حضرۃ الکبریاء۔ ولسوف یذوق ذواق السب والشتم والازدراء ۔ وإن الساعۃ آتیۃ لا ریب فیہا ثم الذین خُتمت علی قلوبہم لا ینتہون۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اور جب انہیں کہا جائے کہ ایمان لاؤ اور اصلاح کرو اور فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ تم ہی مفسد ہو۔ اور گمراہی کوہدایت اور فساد کو صلاح سمجھتے ہیں اس لئے رجوع نہیں کرتے۔سو اس دن کیا حال ہوگا جب کہ ان کی جانیں نکلیں گی اور ان کی چھپائی ہوئی باتیں ظاہر کی جائیں گی۔اور جب انہیں کہا جائے کہ کیا صدی کا سر نہیں آگیا تو کہتے ہیں ہاں۔تو تُو ان سے کہہ کیا تم ڈرتے نہیں۔ مومنوں اور مکذبوں کی مثال زندہ اور مُردہ کی مثال ہے کیا دونوں مثال میں برابر ہیں۔سو خوشخبری ان کے لئے جنہیں توفیق دی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ تو مرسل نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس بات کی تکذیب کرتے ہیں جس کا ان کو علم نہیں سو ان کو پتہ لگ جائے گا۔تصدیق کرنے والے ضرور منصور ہوں گے اور ذلت اور رسوائی کی گرد اُن کے چہروں پر نہ پڑے گی اور نہ انہیں کوئی گھبراہٹ ہوگی۔افسوس کفر کرنے والوں کو نہ خسوف وکسوف نے فائدہ پہنچایا اور نہ دوسرے نشانوں نے بلکہ وہ ٹھٹھا ہی کرتے ہیں۔ پہچانتے ہیں پھر بھی خدا کے دیئے پر بخل کرتے ہیں۔اور ہدایت ان پر واضح ہو گئی پھر بھی راہ نہیں پاتے۔اور تعصب کی رات ان پر پڑی ہوئی ہے اسی میں شام گذارتے ہیں اور اسی میں صبح۔اپنی آنکھوں سے خدا کے

وإذا قیل لہم آمنوا وأصلحوا ولا تُفسدوا قالوا بل أنتم مفسدون۔ وحسبوا الغیّ رشدًا والفساد صلاحًا فہم لا یرجعون۔ فکیف إذا زہقت نفوسہم وأُظہِرَ ما کانوا یکتمون؟ وإذا قیل لہم أما جاء رأس الماءۃ قالوا بلی فقل أفلا تتّقون؟ إن مثل المؤمنین والمکذّبین کمثل حیّ ومیّت ہل یستویان مثلا؟ فبشری للذین یُوفّقون۔ وقالوا لستَ مُرسلا بل کذّبوا بما لم یحیطوا بعلمہ فسوف یعلمون۔ إن الذین صدقوا أولئک ہم المنصورون۔ ولا یرہق وجوہہم قتر ولا ذلّۃ ولا ہم یُفزعون۔ إن الذین کفروا ما نفعہم خسوف ولا کسوف ولا آیات أخری بل ہم یستہزء ون۔ یعرفون ثم یبخلون بما آتاہم اللّٰہ من العلم وانکشف علیہم الہدی ثم لا یہتدون۔ وجنّ علیہم

لیلٌ من التعصّب فہم فیہ یُمسون ویصبحون۔ یرون آیات



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نشانوں کو دیکھتے ہیں پھر انکار کرتے ہیں۔ ان معاملوں میں مَیں اکیلا نہیں بلکہ کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس سے لوگوں نے ٹھٹھا نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ اورمیں مدتوں سے ان شریروں کا ظلم اِس ملک میں سہتا ہوں۔اور ان کی زیادتی انکار اور تحقیر میں دیکھتا ہوں۔ اور میں تجربہ کر چکا ہوں کہ ان کے دلوں کی سیرت خصومت اور تکبر اور لڑائی ہے اور ان کی فطرتوں کی عادت تکذیب اور اتہام ہے۔ غرض جب مَیں ان سے نا امید ہوا تب میرا دل اور ملکوں کی طرف متوجہ ہوا کہ کہیں مددگار مجھے مل جائیں اور شاید کوئی تقویٰ شعار دل میرے ہاتھ آجائے۔ اتنے میں شام کے علماء اور بزرگ مجھے یاد آگئے اور ارادہ کیا کہ ان کی طرف سے گواہی لینے کے لئے خط بھیجوں اس لئے کہ وہ راستی اور سچائی سے جواب دیں اور حق کو پستی کے گڑھے سے نکال کر اوج پر پہنچا دیں۔ سو مجھے پتہ لگا کہ ان کو دینی مناظرات کی اجازت نہیں اور وہ ان مباحثات سے قانوناً روک دیے گئے ہیں۔ پھر میرے دل میں آیا کہ مصر کے ملک سے اور اس کے دانشمند لوگوں سے جو علوم کی بارش سے سرسبز اور برخوردار ہو رہے

اللّٰہ بأعینہم ثم یُنکرون۔ وما کنتُ متفرّدًا فی ہذا بل ما أتی الناس من رسول إلا کانوا بہ یستہزء ون۔ وہلمّ جرّا إلی ما تشاہدون۔

وإنی رأیتُ دہرًا ظلم ہؤلاء الأشرار فی ہذہ الدیار۔ وآنست غلوّہم فی الانکار والاحتقار۔ وجرّبتُ أن لہم قلوبا سیرتہا اللّد والاحرنجام۔ وفطرۃً شیمتہا التکذیب والاتہام۔ فلما یئست منہم انصرف قلبی إلی بلادٍ أخری۔ لعلّی أری الأنصار أو أجد فیہم قلبًا أتقی۔ فذکرت علماء الشام۔ ومن بہا من الکرام۔ وأردت أن أرسل إلیہم للاستشہاد۔ لیُجیبوا بالصدق والسداد۔ وینقلوا الحق من الوہاد إلی النجاد۔ فأُخبِرتُ أن المناظرات فیہم ممنوعۃ۔ والقوانین

لمنعہا موضوعۃ۔ فذہب وہلی بعد ذالک أن المراد یحصل

من أرض مصر وأہلہا المتفرّسین۔ والمخصبین بعہاد



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہیں وہ مراد ضرور پوری ہو گی اور مَیں سمجھا کہ ان میں محقق اور اعلیٰ درجہ کے ادیب ہیں اور مَیں نے خیال کیا کہ وہ سوچنے والے ہیں اور شتاب کار اور بیدادگر نہیں ہیں۔ اس گمان کی بنا پر مَیں نے المنار کے ایڈیٹر اور اس کے ساتھیوں کو اپنی کتاب اعجاز المسیح بھیجی۔ اور غرض یہ تھی کہ اس پر مناسب اور حسب موقعہ تقریظ لکھیں۔ اور مَیں نے شام اور روم اور حرمین کے علماء کو چھوڑ کر انہیں چنا کہ شاید انہی کی وجہ سے میرے فکر اور غم دور ہو جائیں اور دکھ درد کی آگ انہی سے بجھ جائے اور یہی لوگ نیکی اور تقویٰ پر میرے مددگار ہوجائیں۔پھر جب صاحب منار کو میری کتاب پہنچی اور اس کے ساتھ اسے کچھ خط استفسار کے لئے ملے اس نے اس کلام کے پھلوں سے ایک پھل بھی نہ لیااور اس کے عظیم الشان معارف میں سے کسی معرفت سے بھی نفع حاصل نہ کیا اور جیسے کہ اکڑباز حاسدوں کی عادت ہوا کرتی ہے قلم سے زخمی کرنے

اور ایذا دینے کی طرف جھک پڑااور تحقیر کرنے لگا اور ایذا دینے لگااور اس تحقیر

اور جوش دکھلانے میں ذرا بھی کوتاہی نہ کی اور جیسے کہ بزرگوں کی عادت ہے کرم و اکرام

العلم والمثمرین۔ وزعمت أن فیہم قوما یُعدّون من المحققین۔ ومن الأدباء المفصحین۔ وخلتُ أنہم من المتدبّرین۔ ولیسوا من المستعجلین والجائرین۔ فقادنی ہذا الظنّ إلی أن أرسل إلی مدیر ’’المنار‘‘ ورفقتہ کتابی ’’الإعجاز‘‘۔ لیُقرّظوا ویکتبوا علیہ ما لاق وجاز۔ وآثرتہم علی علماء الحرمین والشام والروم۔ لعلّی أسرو بہم غواشی الأفکار والہموم۔ ولاُطفأ بہم ما بی من جمرۃ الأذی۔ ولیُعینونی علی البرّ والتقوی۔ثم لما بلغ کتابی صاحب المنار۔ وبلغہ معہ بعض المکاتیب للاستفسار۔ ما اجتنٰی ثمرۃ من ثمار ذالک الکلام۔ وما انتفع بمعرفۃٍ من معارفہ العظام۔ ومال إلی الکلْمِ والإیذاء بالأقلام۔ کما ہو عادۃ الحاسدین والمستکبرین من الأنام۔ وطفق یؤذی ویُزری غیر وانٍ فی الازراء والالتطام۔ ولا لاوٍ إلی الکرم والإکرام۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کی طرف رخ نہ کیااور قصد کیا کہ عوام کی نگاہ میں مجھے رنج پہنچائے اور بدنام کرے۔ پس وہ بلند منار سے گرا اور اپنے آپ کو دکھوں میں ڈالا۔اور مجھے سنگریزوں کی طرح پاؤں کے نیچے روندا اور فتنوں کی آگ کو بجھ جانے کے بعد پھر بھڑکایا اور کہا جو کہا اور دانشمندوں کی طرح غور نہیں کی۔ اور زمین کی طرف جھک پڑااور متقیوں کی طرح اوپر کو نہ چڑھا اور اونچا ہونے کے بعد گرا۔اور گرنا تو خود بڑی خوفناک بات ہے۔ پھر اس شخص کا کیا حال جو منار سے گرا۔اور گمراہی کو خریدا اور ہدایت نہ پائی۔ آیا فصاحت و بلاغت میں اسے بڑا کمال حاصل ہے؟عنقریب وہ گریز کر جائے گا اور پھر نظر نہ آئے گا۔یہ پیشگوئی ہے خدا کی طرف سے جو نہاں درنہاں کو جاننے والا ہے۔ وہ متقیوں اور نیکوکاروں کا ساتھ دیتا ہے۔وہ میدانوں میں ان کی مدد کرتا ہے پھر ان ہی کی بات غالب رہتی ہے۔اور ساری بولیاں خدا کی ہیں جسے چاہتا ہے ان سے کافی حصہ عطا کرتا ہے اور اس کے منقطع بندے اس کی روح کی مدد سے بولتے ہیں اور یہ راہِ حق دوسروں کو نہیں دی جاتی۔ اور ہر ایک نور آسمان سے اترتا ہے پھر اے جاہلو تمہارے ہاتھ میں کیاہے۔کیا تم اپنی بولی پر

کما ہو سیرۃ الکرام۔ وعَمَدَ إلی أن یُؤلمنی ویفضحنی فی أعین العوام کالأنعام۔ فسقط من المنار المنیع وألقی وجودہ فی الآلام۔ ووطئنی کالحصَی۔ واستوقد نار الفتن وحضَی۔ وقال ما قال وما أمعن کأولی النہٰی۔ وأخلد إلی الأرض وما استشرف کأہل التقی۔ وخرّ بعد ما علا۔ وإن الخرور شیء عظیم فما بال الذی من المنار ہوٰی۔ واشتری الضلالۃ وما اہتدی۔ أم لہ فی البراعۃ یدٌ طُولٰی؟ سیُہزَم فلا یُرَی۔ نبأٌ من اللّٰہ الذی یعلم السرّ وأخفی۔ إنہ مع قوم یتّقونہ ویُحسنون الحسنٰی۔ ینصرہم فی مواطن فتکون کلمتہم ہی العلیا۔ وإن الألسنۃ کلہا للّٰہ فیجعل حظّا منہا لمن شاء وقضٰی۔ وإن عبادہ المنقطعین ینطقون بروحہ ولا یُعطَی لغیرہم ہذا الہُدی۔ وکل نور ینزل من السماء فما بیدکم أیہا النّوکَی؟ أتغترّون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


فریفتہ ہو حال آنکہ اس پر تو بڑی بڑی آندھیاں چل چکی ہیں اور آج تم

عجمیوں سے بڑھ کر نہیں۔ سو گذشتہ پر فخر نہ کرو۔ اور تمہاری بولیاں تو بالکل بدل

گئیں۔اب تم اتنی دور سے کہاں ایک چیز کو پکڑ سکتے ہو۔کیا تمہیں اپنی

بول چال یاد نہیں یا احمقوں کو دھوکا دیتے ہو۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

تمہارے ملک کو عرب میں شامل نہیں فرمایا۔ پھر خدا اور رسول پر افترا نہ کرو اور

مفتری ہمیشہ نامراد رہتا ہے۔ سو اے شیخی باز مجھے تجھ سے کیا کام چل اپنی راہ لے۔

مجھے تو تجھ سے نصرت کی امیدتھی تو الٹا میرے ہی خوار کرنے کو اٹھ کھڑا

ہوا۔ اور مجھے تیری طرف سے تکبیر تصدیق اور تقدیس سننے کی توقع تھی تو نے مجھے

ناقوسوں کی آوازیں سنادیں اور مَیں نے تیری زمین کو پناہ کے لئے بہت

عمدہ جگہ سمجھا تھا مگر تونے مجھے مشت زن یا لکد زن کی طرح زخمی کر دیا اور

تو نے اس درندہ طبعی سے فرعونی خصلتوں کا زمانہ مجھے یاد دِلا دیا۔اور

بلسانکم وقد ہبّت علیہ صراصر عُظمٰی؟ والیوم لستم إلا کعجمیّ فلا تفخروا بما مضٰی۔ وبُدّلت ألسنکم کل التبدیل فأنی التناوش من مکان أقصٰی؟ أتنسون محاوراتکم أو تخدعون الحمقٰی؟ وإن رسول اللّٰہ وسید الورٰی۔ ما سمّٰی أرضکم ہذہ ارض العرب فلا تفتروا علی اللّٰہ ورسولہ وقد خاب من افتریٰ۔ فدعنی أیہا الفخور من ہذا وامض علی وجہک والسلام علی من اتّبع الہدی۔

وکنتُ رجوتُ أن أجد عندک نصرتی۔ فقمتَ لتندّد بہوانی

وذلتی۔ وتوقعتُ أن یصلنی منک تکبیر التصدیق والتقدیس فأسمعتنی أصوات النواقیس۔ وظننتُ أن أرضک للتحصّن

أحسن المراکز۔ فجرّحتنی کاللاکز والواکز۔ وذکّرتنی

بالنوش والنہش والسبعیۃ۔ نبذًا من أیام الخصائل الفرعونیۃ۔ و



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


میں اس بات میں پشیمان نہیں اس لئے کہ فضیلت پہل کرنے والے کو ہے۔ اورمجھے گمان

تھا کہ تمہاری دوستی سے میرا غم دور ہو جائے گااور تمہارے لشکر کی مدد سے میرے اندوہ و غم کا لشکر شکست کھا جائے گا مگر افسوس کہ فراست نے خطا کی اور دانش درست نہ اتری

اور تمہاراسارا معاملہ بالکل الٹا نظر آیا۔ یہ توآپ کی فضیلتوں کا تھوڑا سانمونہ ہے۔ اس سے

مجھے پتہ مل گیا کہ مصر کی سر زمین سے آتش اشتعال کبھی الگ نہیں ہوئی۔اور اب تک اُس

سے کبر اور تعلّی کی آگ جوش زن ہے۔خدا موسیٰ پر رحم کرے کیوں اس نے اسے چھوڑدیا اور

اس کا نام و نشان نہ مٹا دیا۔غرض تمہارا دعویٰ ہے کہ میری کتاب سہو و خطا

سے بھری ہوئی ہے اور نحویوں اور ادیبوں سے کوئی دلیل تم اس پر نہیں لائے۔

اب مَیں تمہارے جور اور افترا سے خدا کے پاس فریاد کرتا ہوں اس لئے کہ تم نے

بے سبب اور بے کسی پہلے بغض و عداوت کی وجہ کے یہ ظلم زیادتی کی۔ کیا تم اپنی

اس بولی کو صحت کا معیار ٹھہراتے ہو جس سے تم اپنی بیٹیوں اور جوروؤں سے

لستُ فی ہذا القول کالمتندّم۔ فإن الفضل للمتقدّم۔ وکنتُ أتوقع أن یتسرّی بمؤاخاتک ہمّی۔ ویرفض بجندک کتیبۃ غمّی۔ فالأسف کل الأسف أن الفراسۃ أخطأت۔ والرویّۃ ما تحقّقت۔ ووجدتُ بالمعنی المنعکس ریّاک۔ فہذہ نموذج بعض مزایاک۔ وعلمتُ بہ أن تلک الأرض ارض لا یُفارقہا اللظی۔ وتفور منہا إلی ہذا الوقت نار الکبر والعُلَی۔ فعفی اللّٰہ عن موسٰی۔ لم ترکہا وما عَفّی۔ فحاصل الکلام إنک زعمتَ أن کتابی مملوء من السہو والخطاء ۔ وما أتیتَ بدلیل من النحویین أو الأدباء ۔ فأشکو إلی

اللّٰہ من جورک ہذا والافتراء ۔ فإنّک شمستَ لی من

غیر سبب ومن غیر أسباب البغض والشحناء ۔ أو جعلتَ معیار الصحّۃ لسانک الذی تکلّم بہ عشیرتک من البنات



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کلام کرتے ہو اور تم نے میری کتاب کو اچھی طرح نہیں پڑھا اور نہ ہی اس کے

مفردات اور ترکیبوں اور انداز کلام کو غلط ثابت کرکے دکھایا اور تم نے اپنے خدا کو ناراض

کیا اور اس کی سزا سے نہیں ڈرے۔اور جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکے میں ڈالا۔

اور شیطان کے پیچھے دوڑ پڑے۔اور کہہ دیا کہ اعجازالمسیح سخت غلطیوں سے بھری ہوئی ہے

اور اس کے سجع میں بناوٹ ہے اور لطیف کلام نہیں ہے اور اس کا کلام عرب کے محاورہ

کے خلاف ہے۔ آہ میں نے تو تجھے ایسا دوست سمجھا تھا جو مجھے نسیم سحر کی طرح راحت پہنچاتا

مگر تو سلاح پوش دشمن نظر آیا اور مجھے خیال تھا کہ تو کبوتر کی طرح پیاری مژدہ رسان

آواز میں بولے گا مگر تو نے موت کاسابھیانک چہرہ دکھایا۔ مجھے تمہاری اس

بے تحقیق تیز زبانی پر تعجب آیا اس لئے میری وہ حالت ہوئی جو اکیلے سرگرداں مسافر

کی رستہ بھول کر ہوا کرتی ہے لیکن میں نے پھربھی اس بات کو دل میں رکھا اور سمجھا

کہ شاید تحریر میں کوئی تبدیلی واقع ہوگئی ہو اور توہین اور تحقیر کا کوئی ارادہ نہ ہو۔

والنساء ۔ وما تصفّحت کتابی وغلّطتَ مفرداتہ وتراکیبہ۔ وخطّأت أفانینہ وأسالیبہ۔ وأسخطت حسیبک وما خشیت تعذیبہ۔ وکذّبتَ وأغلطت الناس۔ وخببتَ واتّبعت الخناس۔ وقلتَ کتاب مملوّ من الأغلاط المنکرۃ۔ وفی سجعہ تکلّف وضعف ولیس من الکلم المحبّرۃ۔ والْمُلَح المبتکرۃ۔ ویوجد فیہ رکاکۃ العُجمۃ۔ وحسبتُک حبیبا یُریحنی کنسیم الصباح۔ فتراء یتَ کعدوّ

شاکی السلاح۔ وخلتُ أنک تہدّر بصوت مبشر کالحمام۔

فأریتَ وجہک المنکر کالحمام۔ وأعجبنی حِدّتک وشدّتک

من غیر التحقیق۔ فأخذنی ما یأخذ الوحید الحائر

عند فقد الطریق۔ لکنی أسررتُ الأمر وقلتُ فی نفسی لعلّہ

تصحیف فی التحریر۔ وما عمد إلی التوہین والتحقیر۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 258

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/258/mode/1up


اور اس شخص نے کیونکر شر کا قصد کیا جس کا سیاہ داغ کسی عذر و بہانہ سے مٹ نہیں سکتا اور کیونکر ممکن کہ ایسا عالم لائق آدمی کھلی کھلی بری باتیں منہ سے نکالے اور جب خوب ثابت ہوا کہ یہ سب تمہاری کرتوت ہے تومیں نے بھی جنگ کے لئے سازوسامان درست کرلیا اور کہا کہ اپنی جگہ پر کھڑارہ اے سفلہ دشمن کہ میرے مقابل آنا تلواروں سے کٹ جانااور کانٹوں میں پھنس جانا ہے اور مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ باتیں تم نے حسد سے کی تھیں واقعات کے اظہار کے لئے نہیں کہیں اس لئے میں تمہاری طرف متوجہ ہوا کہ کہیں تمہاری ان شرارتوں سے لوگ دھوکا نہ کھا جائیں۔ اس لئے کہ ہمارے ملک کے علماء تو میری تحقیر کے لئے بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں سو جو کچھ تو نے میری تحقیر میں کہا ہے اس سے ان کی جرأت اور بھی بڑھ جائے گی۔اور اگر فساد کا خوف نہ ہوتا تو میں اس معاملہ میں بالکل خاموش رہتا۔ لیکن اب لوگوں کے بگڑ جانے اور شیطان کی وسوسہ اندازی کاڈر ہے اور یہ پختہ بات ہے کہ بعض شہادتیں ضرب میں تلوار سے بھی زیادہ سخت ہوتی ہیں۔اب مجھے خوف ہے کہ منار کی باتوں سے اشتعال بڑھ جائے اور

وکیف قصد شرّا لا یزول سوادہ بالمعاذیر۔ وکیف یمکن الجہر بالسوء من مثل ہذا الفاضل النحریر۔ ولما تحقق أنہ منک تقلّدتُ أسلحتی للجہاد۔ وقلتُ مکانک یا ابن العناد۔ فدونی شرط الحداد وخرط القتاد۔ وعلمتُ أنک ما تکلّمتَ بہذہ الکلمات۔ إلا حسدًا من عند نفسک لا لإظہار الواقعات۔ فابتدرتُ قصدَک۔ لئلا یُصدّق الناسُ حسدَک۔ فإن علماء دیارنا ہذہ یستقرون حیلۃ للإزراء ۔ فیستفزّہم ویُجرء ہم علیّ کلما قلتَ للازدراء ۔ ولولا خوف فسادہم لسکتُّ۔ وما تفوّہتُ فی ہذا الأمر وما

تجلّدتُ۔ ولکن الآن أخافُ علی الناس۔ وأخشی

وسوسۃ الخنّاس۔ وإن بعض الشہادات أبلغ فی الضرب من المرہفات۔ فأخاف أن یتجدّد الاشتعال من کلمات المنار۔ و



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 259

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/259/mode/1up


اس کا میم گِر کر نری نار کی شکل رہ جائے۔ اور ہم تو مدت سے دشمنوں کو بھگا کر لڑائی جھگڑے سے فارغ ہو بیٹھے تھے اور ہمیں ہرایک جنگ میں غلبہ میسر آیا اور ہر ایک جنگ کرنے والا اپنی پوری طاقت ہمارے مقابلہ میں خرچ کر چکا تھا۔ یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ ترکش خالی ہوگئے تھے اور بالکل آرام چین ہوگیا تھا۔سب جھگڑے ٹھنڈے پڑ گئے اور جھگڑنے والے ہٹ ہٹا گئے تھے اور سب جھگڑنے والوں کو خدا نے بھگا دیااور مار ڈالاتھا۔ اب وہ سفلے پھر موت کے بعد جلائے گئے اور منارنے اپنی نکمی باتوں سے انہیں دلیر اور پکا کر دیا۔اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ پھر لاف گزاف مارنے لگے اور لڑائی کو تازہ کرنا چاہتے ہیں اور اب لڑائی چاہتے ہیں اور جاہلوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ پھر اپنے شر کی طرف لوٹ چلے ہیں اور منار کی اس ناپاک بات اور کجروی کی وجہ سے ضد میں بڑھ چلے ہیں۔ چنانچہ کچھ اندھوں کو منار کی باتیں بھلی لگیں ہیں اور پہلوں کی طرح کلام کے پرکھنے والے اور جاننے والے کہاں بلکہ یہ لوگ تو جو کچھ حاسدوں مفسدوں سے سن پاتے ہیں اسی کے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ان میں اعلیٰ درجہ عبارتوں کے سمجھنے کا ذوق کہاں۔ اور عمدہ

یسقط میمہ ویبقی علی صورۃ النار۔ وکنا ہزمنا العدا۔ وفرغنا من الوغی۔ ونابلنا فکان لنا العُلی۔ وبذل الجہد کل من رمَی۔ حتی نثلت الکنائن۔ وفاء ت السکائن۔ ورکدت الزعازع۔ وکف المتنازع۔ وجعل اللّٰہ الہزیمۃ علی کل من بارٰی۔ وأہلک من مارٰی۔ فالآن أُحْیِیَ اللئامُ بعد الممات۔ وشد المنار عضدہم بالخزعبیلات۔ فأری أنہم یتصلّفون ویستأنفون القتال۔ ویبغون النضال۔ ویخدعون الجہّال۔ ورجعوا إلی شرّہم و زادوا

ضدّا۔ بما جاء المنار شیئا إدًّا۔ وجاز عن القصد جدّا۔ فأکبر

کلمہ حزبٌ من العمین۔ وأین جہابذۃ الکلام کالسابقین۔

بل یتّبعون کل ما یسمعون من الحاسدین المفسدین۔ ولیس فیہم ذواق العبارات المہذّبۃ۔ ولا الأعناق للوصول إلی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 260

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/260/mode/1up


اورسر سبز مرغزاروں تک ان کی رسائی کہاں۔یہ لوگ نمکین سجعوں کا لطف اور آراستہ کلموں کی لطافت کو کیا جانیں۔ مُنہ سے کہتے ہیں کہ ہم علماء ہیں مگر علم اور زیرکی ان کے نزدیک نہیں آئی۔

اور اصل میں مجھے اس قصہ کے بیان کرنے اور اپنے رنج کے اظہار کی کوئی ضرورت نہ

تھی اس لئے کہ منار کا ایڈیٹرہی تو کوئی اکیلا نیا بدگو نہیں بلکہ تمام دشمن ایسی ہی توہین کے

عادی ہو رہے ہیں اور ان کی غرض یہ ہے کہ لوگوں کو ہدایت یافتوں کی راہ سے روک کر

حد سے نکل جانے والوں میں شامل کردیں۔اس قسم کے بہت سے لوگ ان جھگڑوں

میں ہیں اور اُن کا نشان یہ ہے کہ دشمنی کے مادہ کے جوش سے اُن کے مُنہ سیاہ اور مسخ

ہوئے ہوئے ہیں اس سے تم ان کو پہچان لوگے۔وہ لوگ میری ایسی ہی تحقیر و تشنیع کرتے

ہیں جیسی منارنے کی۔مگر مَیں ان کی باتوں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا اور یہ کہتا ہوں کہ

جاہل ہیں۔ سر پر کاری ضرب لگی ہے چلائیں نہیں تو کیا کریں اور جب انہیں گمراہی پر اتنا اصرار ہے تو ان سے نیکی کی امید کیا کی جائے۔لیکن میں نے دیکھا کہ ان شریروں کی

المراعی المستعذبۃ۔ لا یعلمون لطف الأساجیع المستملحۃ۔ ولا لطافۃ الکلم الموَشّحۃ۔ یقولون نحن العلماء ۔ ولا یشعرون ما العلم وما الدہاء ۔ وما کان لی حاجۃ إلی ذکر ہذہ القصّۃ۔ وإظہار

ہذہ الغصّۃ۔ لما لم یکن مدیر المنار وحدہ بدعًا من

المزدرین والمحقّرین۔ بل تعوّد العدا کلہم بالتوہین۔

لیصدّوا الناس عن سبیل المہتدین۔ ویُلحقوہم بالمعتدین۔

وتری کثیرا منہم یوجدون فی ہذہ البلاد۔ وتعرفہم بقتر

رہقت وجوہہم من ثور مواد العناد۔ یذکروننی کمثل ما

ذکر۔ ویزدروننی کمثل ما احتقر۔ فلا ألتفت إلیہم ولا إلی

أقوالہم۔ وأعرض عنہم وأقول جہّال یصرخون بما ضُرِبَ علی قذالہم۔ وأی خیر یُرجَی منہم مع إصرارہم علی ضلالہم۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 261

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/261/mode/1up


آنکھ میں منار کے ایڈیٹر کی بزرگی ہے۔ اور بعض آگ کے لادو ٹٹوؤں نے تو اس کی شہادت کو بڑی وقعت دی ہے اور رات دن اسی کاذکر کرتے ہیں۔سو مجھے بھی ان کی پوشیدہ باتیں پہنچ گئیں۔اور ان کی سازشوں اور مشورتوں کی اطلاع ملی۔اور معلوم ہوا کہ وہ مجھے۱؂ ہنستے اور اس میں ہر روز ترقی کررہے ہیں۔پس جب میں نے دیکھا کہ وہ جنگل کے سراب پر اور زمین کے سفید سنگریزوں پر دھوکا کھا گئے ہیں اور دشمنی اور بگاڑ میں بڑھ گئے ہیں اور ڈر پیدا ہوا کہ ان کا فتنہ ان شہروں میں پھیل جائے گا۔اور میں نے دیکھاکہ وہ میری طرف حقارت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں اور مجھے ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ اور ہنسی کھیل کے لئے مجھے محبوس کرتے ہیں اورمنار کے کلام کو حیلہ بناتے ہیں میرے جاہل بنانے اور خطاکار ٹھہرانے

اور حقیر جاننے میں تو پھر مَیں نے بھی ایک پورے مجاہد کی طرح کمر کس لی جو کلہاڑا مارتا

ہے اُس شخص کے سرمیں جو دشمنی سے اس پر پتھر پھینکے۔قسم اُس کی جس کی رحمت

اُس کے غضب پر بڑھ گئی ہے۔ اور جس کی مہربانی نے اُس کی تلوار کُند

ولکن رأیت أن صاحب المنار۔ عُظّم فی أعین ہذہ الأشرار۔ و

أکبر شہادتہ بعض زاملۃ النار۔ وکانوا یذکرونہا بالعشی و

الأسحار۔ فبلغنی ما یتخافتون۔ وعثرتُ علی ما یُسرّون و

یأتمرون۔ وأُخبرتُ أنھم یضحکون علیّ وفی کل یوم یزیدون۔

فلما رأیتُ أنہم اغترّوا بلامع القاع۔ ویرامع البقاع۔و زادوا

فی العناد والفساد۔ وخیف أن یعم فتنہم ہذہ البلاد۔ ورأیت

أنہم یروننی بشزر عینیہم۔ ویصفقون بیدیہم۔ ویأخذوننی کالتلعابۃ۔ ویُجعجعون بی للدعابۃ۔ ویجعلون کلام المنار کحیلۃ

للتجہیل والتخطیۃ والاحتقار۔ شمّرت تشمیر من لا

یألو جہادًا۔ ویضع فأسا فی رأس من رمی الجندل عنادًا۔ و

بالذی سبقت رحمتہ غضبہ۔ وفَلّت رأفتہ عضبہ۔ ما کنتُ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/262/mode/1up


کردی ہے۔مجھے صاحب منار کی نسبت نیک گمان تھا۔ اورمیرا خیال تھا کہ اس نے کسی مصلحت سے ایسا کہانہ ضرر دینے کے ارادے سے۔لیکن پیچھے پتا لگا کہ اس نے زبان کو نہیں روکا جیسے کہ بزرگوں کی عادت اور سعید طبیعتوں کا خاصہ ہوتا ہے بلکہ اس نے اپنے

اخبار میں تحقیر پر اصرار کیا۔ پس حاسدوں نے اُس کے منہ کے اُگلے ہوئے زہر کو لذیذ

کھانے کی طرح کھایا اور اُس کی بات کو قبول کیا اور ختم ہو جانے کے بعد نئے سرے جھگڑا

شروع کر دیا جیسے کہ کودن اجڈ طبیعتوں کی عادت ہوتی ہے۔اور انہوں نے منار کی باتوں

کو تیز ہتھیار سمجھااور ہندوستان کے اخباروں میں انہیں شائع کیا۔ اور ایسی باتیں لکھیں

جن کا سننا پاک اوربَری ہمتوں کو سخت ناگوار ہوتا ہے اور میرے دل کودُکھایاجیسے

کہ عادت کمینوں اور نادانوں کی اورسیرت سفلہ دشمنوں کی ہوتی ہے۔اور وہ بڑے گھمنڈسے اتراکراوراکڑکر چلتے تھے گویا انہیں بڑے اعلیٰ درجہ کی خوبصورت پوشاکیں پہنائی

گئی ہیں یا بڑے بڑے شہر ان کے قبضہ میں دیے گئے ہیں یا ان کے مَرے ہوئے

أظن فی صاحب المنار إلا ظنّ الخیر۔ وکنتُ أخال أنہ قال ما قال من مصلحۃ لا من إرادۃ الضیر۔ ولکن ظہر علیّ بعد ذالک أنہ ما کفّ اللسان کما ہو من سیر الکرام والطبائع السعیدۃ۔ بل أصرّ

علی الازدراء فی الجریدۃ۔ فأکل الحاسدون حصیدۃ

لسانہ کالعصیدۃ۔ وتلقّفوا قولہ وجدّدوا الخصومۃ بعد ما

قطعوہا کما ہو من شیم القرائح البلیدۃ۔ وحسبوا کلمہ کالأسلحۃ الحدیدۃ۔ وأشاعوہا فی الأخبار والجوائب الہندیۃ۔ وکتبوا

کل ما یشق سماعہا علی الہمم البریءۃ المبرّء ۃ۔ وآذوا قلبی کما ہی عادۃ الرذل والسفہاء ۔ وسیرۃ الأراذل من الأعداء ۔ وکانوا یمشون مرحا بالخیلاء والامتطاء ۔ کأنہم أُلبِسُوا من حلل الحبر والوشاء ۔ أو فُتِحَت علیہم مدائن أو رُدّ أحیاء ہم المیّتون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/263/mode/1up


دوست پھر اپنے اپنے قبیلہ میں واپس کئے گئے ہیں اور میں نے محسوس کیا کہ ان کا فتنہ عام لوگوں کو دکھوکے میں ڈال کر سخت ضرر دے گا اور ان باتوں کو وہ بڑی پکی گواہی سمجھیں گے۔ اور بعض جاہلوں کے فریب دینے کو اور بعض کم عقل سادہ لوگوں کے دھوکا دینے کو بس ہے۔پس میں نے اس کا جواب دینا اپنے اُوپر حق واجب سمجھا جس کا بوجھ ادا کئے بغیر اتر نہیں سکتااور لازم قرض یقین کیا جس میں سے ایک حبہ بھی ادا کرنے کے سوا ذمہ سے نہیں اتر سکتا۔

اس لئے کہ عام کے وہموں کو دور کرنا واجبات وقت اور امامت کے فرائض سے ہے۔پھر میں آسمان کی طرف منہ کر کے دیکھنے لگا اور دعا اور زاری سے خدا سے مدد مانگنے لگااس لئے کہ مجھے حجت کو پورا کرنے اور حق کو حق کر دکھانے اور باطل کو نابود کرنے اور رستہ کے واضح کرنے کی راہ بتائے۔ پس میرے دل میں ڈالا گیا کہ مَیں اس غرض کے لئے ایک کتاب بناؤں پھر اُس کی مثل مانگوں اِس ایڈیٹرسے اور ہر ایسے شخص سے جو اُن شہروں سے دشمنی کی غرض سے اٹھے۔اور مَیں خدا کی طرف پورا پورا متوجہ تھا اور زاری اور فریاد کے میدانوں میں دوڑرہا تھا۔

إلی الاحیاء۔وأَحْسَسْتُ أن فتنتہم ہذہ تضر العامۃ کالأغلوطات۔ ویُعدّون ہذہ الأقوال من الشہادات القاطعات۔ وکفی ہذا القدر لخدع بعض الجہلاء ۔ وإغلاط بعض البلہ قلیل الدہاء ۔ فرأیتُ جوابہ علی نفسی حقًّاواجبًا لا یوضع وزرہ بدون القضاء ۔ ودینا لازما

لا یسقط حبۃ منہ بغیر الأداء ۔ فإن دفع أوہام العامۃ من

واجبات الوقت وفرائض الإمامۃ۔ فقلّبتُ وجہی فی السماء ۔ وطلبتُ عون اللّٰہ بالبکاء والدعاء ۔ لیہدینی إلٰی طریق إتمام

الحجّۃ۔ وإحقاق الحق وإبطال الباطل وإیضاح المحجّۃ۔ فأُلقیَ

فی روعی أن أُؤلّف کتابا لہذا المراد۔ ثم أطلب مثلہ من

ہذا المدیر ومن کل من نہض بالعناد من تلک البلاد۔ وکنتُ

أقبل علی اللّٰہ کل الاقبال۔ وأسعی فی میادین التضرّع



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/264/mode/1up


آخر کار قبول کے نشان ظاہر ہوئے اور شک شبہ کا پردہ پھٹ گیا

اور مجھے اِس کتاب کی تالیف کی توفیق بخشی گئی۔ سو میں بعد چھپ جانے اور اس کے بابوں کی تکمیل کے اس کی طرف بھیجوں گا۔پھر اگر منار نے اس کا جواب خوب دیا اور عمدہ ردّکیا تومَیں اپنی کتابیں جلا دوں گا اور اس کے پاؤں چوم لوں گا اور اس کے دامن سے لٹک جاؤں گااور پھر لوگوں کو اس کے پیمانہ سے ناپوں گا۔اور لو میں پروردگار جہان کی قسم کھاتا ہوں اوراس قسم سے عہد کوپختہ کرتاہوں۔اور شریفوں کا زخمی کرنا کلام سے زخم میں سخت تر ہوتا ہے تیروں کے زخم سے۔بلکہ نیزہ اور تلوار کے ساتھ قتل کرنے سے بڑھ کر ان پر گراں ہوتاہے۔اور یہ پختہ بات ہے کہ نیزوں کے زخم تو مل جاتے ہیں پر کلام کے زخم نہیں ملتے۔لیکن جو اس نے معارف اور فصاحت کادعویٰ کیا ہے جیسا کہ ظاہراً اس کے کلام سے سمجھا جاتا ہے۔یہ اس کا نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے اور ہم اسے مان نہیں سکتے جب تک وہ اپنی بزرگی کا ثبوت نہ دے اور

میرے تو خیال میں بھی نہیں آسکتا کہ منار میری کتاب جیسے معارف لکھ سکے۔ اور میری تلوار

والابتہال۔ حتی بانت أمارۃ الاستجابۃ۔ وانجابت غشاوۃ الاسترابۃ۔ ووُفّقتُ لتألیف ذالک الکتاب۔ فسأرسلہ إلیہ بعد الطبع و

تکمیل الأبواب۔ فإن أتٰی بالجواب الحسن وأحسن الردّ

علیہ۔ فأحرق کتبی وأقبّل قدمیہ۔ وأعلق بذیلہ۔ وأکیل الناس

بکیلہ۔ وہا أنا أقسم بربّ البریّۃ۔ أؤکد العہد لہذہ الألّیۃ۔ و

إن کَلْمَ الأحرار بکلام۔ أشدّ جرحًا من جرح سہام۔ بل ہو

أشق علیہم من قتلہم بلہذم وحسام۔ وإن جراحات السنان

لہا التیام۔ ولا یلتام ما جرح کلامٌ۔ وأمّا ما ادّعی

من المعارف والفصاحۃ۔ کما یُفہم من قولہ بالبداہۃ۔ فہی

مقالۃ ہو قائلہا ولا نقبلہ إلا بعد ثبوت النباہۃ۔ وما اتظنّی

أن یکتب المنار من معارف کمعارف کتابی۔ ویُری



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/265/mode/1up


جیسی چمک اور آب دکھا سکے۔اور اس پر بھی میرے دل میں کبھی کبھی آتا ہے کہ ممکن ہے کہ

منار کا ایڈیٹر ان الزاموں سے بری ہو اور ممکن ہے کہ

اس نے حقارت کا اور چارپایوں کی طرح سینگ سے مارنے کا ارادہ نہ کیا ہو بلکہ

یہ چاہا کہ ہو خدا کی کلام کو مشابہت اور مماثلت کی ذلت سے بچائے اور اعمال موقوف ہیں نیتوں پر۔پس اگر یہ سچ ہے تو بے شک اس نے ان باتوں سے اپنے لئے بہت سے

درجے اکٹھے کر لئے اس لئے کہ کلام اللہ کی محبت جنت میں لے جاتی ہے اور ڈھال کی طرح بچانے والی ہوتی ہے۔اور اس شخص کا گناہ ہی کیا جس نے مجھے گالی دی فرقان کی حمایت کے لئے

بریقا کبریق ما فی قرابی۔ ثم مع ذالک تُناجینی نفسی فی بعض الأوقات۔ان من الممکن أن یکون مدیر المنار بریئا من ہذہ الإلزامات۔ ویمکن أنہ ما عمد إلی الاحتقار والنطح کالعجماوات۔ بل أراد أن یعصم کلام اللّٰہ من صغار المضاہات*۔ و إنما الأعمال بالنیّات۔ فإن کان ہذا ہو الحق فلا شکّ أنہ ادّخر لنفسہ بہذہ المقالات۔ کثیرا من الدرجات۔ فإن حُبّ کلام اللّٰہ یُدخل فی الجنّۃ۔ ویکون عاصما کالجُنّۃ۔ وأی ذنب علی الذی سبّنی لحمایۃ الفرقان۔

* الحاشیۃ:واظن انہ استشاط من منع الجھاد۔ووضع الحرب والسیوف الحداد۔وان الوقت وقت اراء ۃ الاٰیات۔لازمان سل المرھفات۔ولاسیف الاسیف الحجج والبینات۔فلاشکّ ان الحرب لاعلاء الدین فی ھٰذہ الاوقات۔من اشنع الجھلات۔ولا اکراہ فی الدین کما لا یخفی علی ذوی الحصات۔منہ۔

ترجمہ حاشیۃ:مجھے تو یقین ہے کہ وہ غضب میں آیا ہے جہاد کے روکنے اور تیزتلواروں اور لڑائی کے دور کردینے سے۔اور اب نشانوں کے دکھانے کا وقت ہے،تلواروں کے کھینچنے کا وقت نہیں اور حجتوں اور بیّن دلیلوں کی تلوارکے سوا کوئی تلوار نہیں۔اس میں شک نہیں کہ ان دنوں میں دین کے لئے لڑائی کرناسخت نادانی ہے اوردین میں کوئی اکراہ نہیں جیسا کہ یہ بات دانشمندوں پر پوشیدہ نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/266/mode/1up


نہ حقارت اور کسرشان کے ارادہ سے اور اس سے اس کا قصد دین کی نصرت

ہوتحقیر اور توہین کا اشتعال نہ ہو۔ ایسا شخص تو اسلام کا حامی اور کلام اللہ کی

عزت کی طرف جو سب کلاموں کا بادشاہ ہے بلانے والا ہے اور خدا ہر شخص

کے باطن اور راز کو جانتا ہے اور جس کی جو نیت ہو گی وہی پھل اسے ملے گا۔لیکن

میں بھی ویسا ہی عذر کرتا ہوں جیسا اس نے کیا اس لئے کہ اس کے اقوال اور اخبار سے فتنے پھیل گئے ہیں۔ سو ضرور ہوا کہ عوض لینے کو آستینیں چڑھا لوں۔اور اب مجھے اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس کے راز کی مُہر توڑدوں اور خدا جانتا ہے اس کی نیت کی حقیقت کو اور اس کی نیکی اور بریت کی کیفیت کو۔ پس اگر اپنی باتوں میں اُس نے نیکی کی نیت کی ہوگی تو ضرور عذر خواہی کرے گا اور جنگ و مقابلہ نہ چاہے گا۔اور اگر توہین وتحقیر کا ارادہ کیا ہے توخدا اس میں اور مجھ میں جلد فیصلہ کردے گااور ظالم ہلاک ہوگا۔اور منار کے ایڈیٹر کو کتاب بھیجوں گا یا تو وہ پھر طیش اور اشتعال میں آیا یا عذر معذرت کر دی اور اظہارِ حق

لا للاحتقار وکسر الشان۔ ونحا بہ منحٰی نُصرۃ الدین۔ لا لظی التحقیر والتوہین۔ وہل ہو فی ذالک إلا بمنزلۃ حُماۃ

الإسلام۔ والدّاعین إلی عزّۃ کلام اللّٰہ العلّام۔ الذی

ہو ملک الکلام؟ واللّٰہ یعلم السرّ وما أخفی۔ ولکل امرءٍ

ما نوی۔ولکنی مُعتذر کمثل اعتذارہ۔ فإن الفتن قد انتشرت

من أقوالہ وأخبارہ۔ فوجب أن اشمر عن ذراعی لثارہ۔ ولم

یکن لی بد من أن أفضّ ختم سرّہ۔ واللّٰہ یعلم حقیقۃ نیتہ وکیفیۃ بریّتہ وبرّہ۔ فان کان نوی الخیر فیما قال۔ فسیعتذر ولا یبتغی النضال۔ وإن کان قصد التوہین والاحتقار۔ فسیقضی اللّٰہ بینی وبینہ ومن ظلم فقد بار۔ وإنی سأرسل کتابا إلی مدیر المنار۔ لیُفکّر فیہ حق الافکار۔ فإمّا اکفہرار بعد وإمّا اعتذار۔ وإنّما ہو



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/267/mode/1up


کے لئے وہ معیار ہوگی۔پس اگر منار اپنی بکواس سے باز آگیا اور اپنی باتوں پر

پشیمان ہوا تو ہمیں کیا ضرور ہے کہ اس کی لغزش پر گرفت کریں اور اگر اس نے اپنے مقابلہ کے حریف کو فراست سے نہ پہچانا اور میرے خوبصورت لباسوں پر اور اپنی پھٹی پرانی گدڑیوں پر آگاہ نہ ہوا تو اس پر فرض ہے کہ میرے طرز و طریق کی کتاب لکھے تو کہ خدا ہم میں خبروں اور رازوں کے ظاہر ہونے کے بعد فیصلہ کرے۔اور مجھے خداسے امید ہے کہ وہ ایسے بینااور

فاضل شخص پیدا کردے گا جو میرے اور منار کے معاملہ میں سچا فیصلہ کریں گے

اور میری اور اُس کی کلام کو پورے غور سے سوچیں گے اور کلام کے موتیوں کو خوب پرکھیں گے اور اندھیرے اور روشنی میں فرق کریں گے۔اور میں مانتا ہوں کہ بعض اخبار نویسوں کو کسی قدر فصاحت اور ملاحت دی گئی ہے۔مگر وہ خدا کی باتوں کے اونچا کرنے کے لئے نہیں بلکہ دنیا کا مال اور سود حاصل کرنے کے لئے خرچ ہوتی ہے اس لئے کہ جھوٹ اور بے حیائی سے روپیہ پیدا کریں۔پس ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ وہ فریب میں بڑے

لإظہار الحق معیار۔ فإن تنصّل المنار من ہفوتہ۔ وتندّم علی فوہتہ۔ فما لنا أن نأخذہ علی عثرتہ۔ وإن لم یتوسم قرن نضالہ۔ ولم

یطلع علی حللی وعلی أسمالہ۔ فعلیہ أن یکتب کتابا کمثل

کتابی وعلی منوالہ۔ لیحکم اللّٰہ بیننا بعد بث الأسرار۔

ونث الأخبار۔ وأرجو من اللّٰہ أن یبعث بعض أولی الأبصار۔

وفضلاء الدیار۔ لیفتحوا بالحق بینی وبین من یرقص علی المنار۔ ولیتدبّروا کلامی وکلامہ بالغور التام۔ ولیستشفوا جوہر الکلام۔ ویُمیّزوا النور من الظلام۔ وأعترف أن بعض أہل الجرائد أُعْطوا نُبَذًا من الفصاحۃ۔ ورُزِقُوا طُرُزًا من الملاحۃ۔ ولکن لا لإعلاء

کلمۃ اللّٰہ بل للاستماحۃ۔ لیحرزوا العین ولو بالکذب

والوقاحۃ۔ فلا ننکر حذقہم بزرقہم وتمحل رزقہم طورا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/268/mode/1up


دانشمندہیں اور کبھی جھوٹی تعریفوں سے روزی کما کھاتے ہیں اور کبھی کسی کی ہجو اور ذم سے۔ اس لئے کہ اپنے لئے روپیہ جمع کرلیں اور مصیبتوں سے چھوٹ جائیں۔ سو اس میں شک نہیں کہ ان کی زبانیں شیطانی ولایت سے ہیں اور ربّانی کرامت سے نہیں اورمال اور روپیہ جمع کرنے کے حیلے بہانے ہیں عجیب اعجاز کی قسم سے نہیں۔ اور میری بلاغت وہ شے ہے کہ ذہنوں کے زنگ اس سے دور ہوتے ہیں اور حق کے مطلع کو نور برہان سے روشن کرتی ہے اور مَیں رحمان کے بلائے بولتا ہوں۔پس کیونکر میرے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے جس کی نگہ دنیا تک محدود ہے اور بالمقابل اس کی طرف جھک پڑا ہے اور عورتوں کی طرح اس کی زینت پر راضی ہوگیا ہے۔ کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اہلِ زبان ہیں۔عنقریب شکست کھائیں گے اور میدان سے دُم دبا کر بھاگیں گے۔ان کی مثال اس لنگڑی اونٹنی کی سی ہے جو پورے مضبوط گھوڑے کی غایت کو پا لینا چاہتی ہے سو ایک ہی قدم چل کر گردن کے بل گر پڑتی ہے یا اس تنہا پیادہ کی سی ہے جو چلتا ہے ایسی رات میں جس کے گیسو سفید ہو رہے ہیں اور اس کی آفتیں پے در پے آرہی ہیں اور اس کا اندھیرا سخت ہو رہا ہے۔

بالاطراء ۔ والأخری بالازدراء ۔ لینثالوا علی أنفسہم الدراہم ولیتخلصوا من اللأواء ۔ فلا شک أن لسنہم من الولایۃ

الشیطانیۃ۔ لا من الکرامۃ الربّانیۃ۔ ومن حِیَل الاقتناء والاحتیاز۔

لا من بدائع الإعجاز۔ وإن بلاغتی شیء یُجلی بہ صداء

الأذہان۔ ویجلی مطلع الحق بنور البرہان۔ وما أنطقُ إلا

بإنطاق الرحمان۔ فکیف یقوم حذتی من قیّد لحظہ بالدنیا و

مال إلیہا کل المیلان۔ ورضی بزینتہا کالنسوان۔ أم یزعمون

أنہم من أہل اللسان؟ سیہزمون ویولّون الدبر عن المیدان۔

ومثلہم کمثل ظالع یرید لیدرک شأو الضلیع فلا یمشی

إلا قدمًا ویسقط علی الدسیع۔ أو کرجل راجل وحید یسری

فی لیلۃٍ شابت ذوائبہا۔ وانتابت شوائبہا۔ واشتدّ ظلامہا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/269/mode/1up


اور اس کے کیڑے مکوڑے بہت ہو گئے ہیں۔ اور وہ ایک وادی سے دوسری میں مارا مارا پھرتا ہے اور نہ اس کے پاس چراغ ہے اور نہ کسی رہنماکی آواز سنتا ہے اور نہ اس کا کوئی ساتھی ہے اور نہ سفر خرچ ہی پاس ہے۔ اور نہ کوئی بدرقہ ملتا اور نہ کوئی مژدہ رسان نظر آتا ہے اور نہ روشن چراغ۔اور ایک اور شخص ہے جس نے سفر کرنا چاہا ہے سواروں اور پیادوں کے ساتھ۔پس وہ آہووش گھوڑے پر سوارہوا اور آفتاب کے چڑھتے ہی شہر سے نکل کھڑا ہوا اپنے چند رفیقوں کے ساتھ جو ہالہ کی طرح تھے اور بھٹکنے سے بچانے والے تھے۔کیا دانشمندوں کے نزدیک یہ دونوں شخص برابر ہیں۔اس مثال میں ڈرنے والے کے لئے عبرت ہے۔سو سچ یہی ہے اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ کے لوگوں کو بندوں کے پروردگار سے روزی ملتی ہے اور درستی کی راہ کی طرف انہیں چلایا جاتا ہے۔اور کامیابی کے سارے لوازم ان کے لئے بہم پہنچائے جاتے ہیں اور انہیں سازوسامان کے لئے جتنی قوت درکار ہوتی ہے اور صیدگاہ پر چڑھنے کے لئے کافی ہوتی ہے بخشی جاتی ہے۔سو دنیا داروں کے برتے میں نہیں ہوتا کہ ان سے آگے نکل جائیں اور ان کا سادِل گردہ لائیں۔خواہ گھوڑوں کی طرح دوڑیں۔اور

وکثر ہوامہا۔ وہو ینقل تاۂا من واد إلی واد۔ ولیس معہ سراج ولا یسمع صوت ہاد۔ وما رافقہ من رفیق وما تزوّد من زاد۔ ولا

یجد خفیرا۔ ولا یریٰ بشیرا۔ ولا مصباحا منیرا۔ ورجل آخر

أراد سفرًا بالخیل والرجالۃ۔ فتدثر فرسا کالغزالۃ۔ وخرج

من البلدۃ إذا ذرّ قرن الغزالۃ۔ مع رفقۃ کالہالۃ۔ عاصمین

من الضلالۃ۔ ہل یستوی ذالک وہذا عند أولی النُہٰی۔

وإن فی ذالک لعبرۃ لمن یخشٰی۔ فالحق والحق أقول إن أہل اللّٰہ یُرزقون من ربّ العباد۔ ویُہدَون إلی طریق السداد۔ ویُہیَّأُ لہم جمیع لوازم الرشاد۔ ویُعطی لہم کل قوّۃ وجبت للعتاد۔ وکفت للارتقاء علی المصاد۔ فما کان لأہل الدنیا أن یُسابقوہم ویأتوا

بأکباد مثل تلک الأکباد۔ ولو استنّوا استنان الجیاد۔ وکیف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/270/mode/1up


یہ ہو کیونکر سکتاہے اس لئے کہ اہل دنیا کے دِل ٹڈیوں کی طرح پراگندہ ہوتے ہیں۔ان کی زبانیں تو بیشک اونچی زمین پرہوتی ہیں پر روحیں گڑھوں میں۔کہتے ہیں ہم عرب ہیں اور ہمیں ہماری ماؤں نے ادب کا دودھ پلایا ہے اور ہم گویائی کے ملک کے سردار ہیں اور پسران گفتارہیں۔ سویہ لوگ سرکش نفسوں سے گردنیں اکڑارہے ہیں۔اوراپنے تئیں بڑی مضبوط بارگاہ میں جگہ دیتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ ہر ایک عظیم الشان آدمی کو ہرا سکتے ہیں اور نادانی کی وجہ سے نہیں سمجھ سکتے کہ خدا کے دوستوں کو وہ حسن بیان اور معارف دیئے جاتے ہیں جو اہلِ زبان کو نہیں ملتے۔اور دوسرے لوگ خواہ کتنی ہی زحمت اٹھائیں اور وقت خرچ کریں ان کے کمال کو پانہیں سکتے اور سحبان کی بلاغت بھی انہیں مل جائے جب بھی انہیں اس شان سے کہاں حصہ مل سکتا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے ایمان کے آئینہ کو تو کبھی جلا دی ہی نہیں۔اور عرفان کا مزا کبھی چکھا ہی نہیں۔پھر اس کے علاوہ حماقت اور محرومی دوباتیں

ان کی حصہ میں آئی ہیں اور وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرسکتے بلکہ اخبار نویسی کا شغل ان کی

وإن قلوبہم منتشرۃ کانتشار الجراد۔ وإن السنہم علی النجاد۔ وأرواحہم فی الوہاد۔ یقولون إنّا نحن من العرب۔ وغُذّینا من أمّہاتِنا درّ الأدب۔ وإنّا فی مُلْکِ النطق کاقیال۔ وأبناء أقوال۔ فقد استکبروا بنفوسہم الأبیّۃ۔ وألسنتہم العربیّۃ۔ وأوطنوا أنفسہم امنع جنابٍ۔ وزعموا أنہم یفلّون حدّ کل ناب۔ وما عرفوا من غباوۃ الجنان۔ أن أولیاء الرحمان۔ یُعطَون ما لا یُعطَی لأہل اللسان۔ من المعارف وحسن البیان۔ ولا یُدرک براعتہم غیرہم مع جہدٍ مُعنتٍ وصرف الزمان۔ وأنّی لہم نصیب من ہذا الشان۔ ولو أوتوا

بلاغۃ سحبان۔ فإنہم ما صقلوا مرآۃ الإیمان۔ وما ذاقوا طعم العرفان۔ ثم جمعوا بین الحمق والحرمان۔ وما

استطاعوا أن یرجعوا إلی الرحمٰن۔ بل صار شغل جرائدہم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/271/mode/1up


راہ میں بڑی بھاری چٹان بن گیا ہے۔سو وہ اس شغل میں فریضۂ نماز کی طرح لگے رہتے ہیں۔

اور اخباروں کو انعامات اور صلات کے حاصل کرنے اور روپیہ پیسہ کمانے کے لئے شائع کرتے ہیں۔بجز قدرے قلیل متقیوں کے۔ اوراکثر تو نفسانی خواہشوں کی ہواؤں میں اڑتے ہیں اور آسمان کی طرف پرواز کرنے سے ان کے پر و بال کاٹے گئے ہیں۔گھٹاٹوپ اندھیرے میں چلتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ دنیا کی خاطر بے چین رہتے ہیں اور ان کی قلمیں اسی فانی دنیا کی ضیافتوں کے لئے چیختی چلاتی ہیں۔وہ ڈھونڈتے ہیں بہت دودھ دینے والی کم ضرر اونٹنی کو۔ڈھونڈنتے ہیں شکار کو ساحل پر اور جال اور رسیوں کو کاندھے پر۔ہر بادرخت اور بے درخت جنگل میں خاک چھانتے پھرتے ہیں اور اس کی خاطر دشت وبیابان طے کرتے ہیں۔تم ایک کو بھی ان سے نہ دیکھو گے خنک چشم سواروپیہ پیسہ کے حاصل کرنے کے۔اور ان کی ساری رات گذرتی ہے ان ہی خیالوں میں۔اوردن سارا کٹتا ہے عبارتوں کی تراش خراش میں۔سو انہیں روحانیوں اور ربّانی بندوں سے کیا نسبت۔جنہیں دی جاتی ہے زبان کی شیرینی اور

فی سُبُلہم کالصلات۔ فہم یُحافظون علیہ کفریضۃ الصلاۃ۔ یشیعون الجرائد لقبض الصِلات۔ واستنضاض الإحالات۔ إلا

قلیل من أہل التقات۔ وأکثرہم لا یطیرون إلا فی الأہواء ۔

وقُصّ جناحہم من الطیران إلی السماء ۔ یمشون فی

الظلام المسبل۔ وتراہم لدنیاہم فی التململ۔ وتصرخ أقلامہم للقَری المعجّل۔ یطلبون لقوحًا غزیرۃ الدرّ۔ قلیلۃ الضرّ۔ یستقرون الصید إلی السواحل۔ والأحبولۃ علی الکاہل۔ ویقترون کل

شجراء ۔ ومرداء ۔ ویجوبون لہا البیداء والصحراء ۔ وما

ترٰی أحدا منہم قریر العین۔ إلا بإحراز العین۔ وتمضی لیلتہم جمعاء فی ہذہ الخیالات۔ والنہار أجمع فی نحت العبارات۔ فما لہم وللروحانیّین۔ والعباد الربّانیّین۔ الذین یُعطَون عذوبۃ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/272/mode/1up


روانی چشمہ کی طرح اور انہیں دل کی بینائی اور نور دیدہ دونوں بخشی جاتی ہیں اور وہ پاتے ہیں اپنے رب سے دو حصے اور لوٹتے ہیں دوہری لوٹ لے کر۔ اور وہ وہ لوگ ہیں جو اُتر پڑے ہیں ہوائے نفس کی سواری کی پیٹھ پر سے اور اُترے ہیں فنا کے آنگن میں۔ان کی نیتیں اورمقاصد بڑے ہیں اور غفلت ان میں نہیں۔اللہ کی راہ میں کوئی ایسا نشان نہیں دیکھتے جس کی پیروی نہ کریں اور کوئی ایسی دیوار نہیں دیکھتے جس پر چڑھ نہ جائیں اور نہ کوئی ایسی وادی جسے طے نہ کریں اور نہ کوئی ایسا ہادی جس سے راہ کی خبر نہ پوچھ لیں۔وہ رحمان کے عاشق اور اس کی راہ میں سرمست اور متوالے ہوتے ہیں۔ وہ ہے کون جو اُن کی توہین وتحقیر کرے یااُن جیسی صفات پیدا کر دکھائے جو شخص ان کے مقابل مخالف بن کر آیا وہ روسیاہ ہوا۔وہ لوگ مشکلات کے وقت خدا کی طرف دوڑتے ہیں ایسے آنسوؤں کے ساتھ جو گرم دیگچی سے بھی زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ وہ اس درخت کی مانند ہوتے ہیں جس کی شاخیں گھنی ہوں اور اس کی ٹہنیوں پر خوب پتیاں ہوں اور بہشتی پھل اُسے لگے ہوں اور جواس کے پاس آوے تربترمیوے اُس پر گرائے سوبھوکے کو خوشخبری ہو۔وہ وہ

اللسان وطلاقۃ کالعین۔ ویُرزقون بصیرۃ القلب مع نور العین ویقوزون* من ربّہم بالسہمین۔ ویرجعون بالغُنْمَین وإنّہم قوم

نزلوا عن متن رکوبۃ الأہواء ۔ وحلّوا فِناء الفَناء۔ جلّت نیتہم۔ و

قلّت غفلتہم۔ لا یرون فی سبیل اللّٰہ أثرا إلا یقْفونہ۔ ولا جدارًا

إلا یعلونہ۔ ولا وادیا إلاّ یجزعونہ۔ ولا ہادیا إلا یستطلعونہ۔

عُشّاق الرحمان۔ وفی سبیلہ کالنشوان۔ من ذا الذی

یقرع صَفاتہم۔ أو یُضاہی صِفاتہم۔ ومن جاء ہم کدبیر۔ فقد

لُفح ولا کلفح ہجیر۔ إنّہم یسعون إلی الحضرۃ عند المشکلات۔ بدمع أحرّ من دمع المقلات۔ وإنّ مثلہم کمثل سرحۃ

کثیفۃ الأغصان۔ وریقۃ الأفنان۔ مثمرۃ بثمار الجنان۔ و

من أتاہا تُساقط علیہ رُطَبًا جنیًّا فطوبٰی للجَوعان۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 273

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 273

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/273/mode/1up


لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اندر باہر دونوں کوپاک کیاہوتا ہے اور اپنے نفس سے نکل چکے اور اپنے نشیمن کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔وہ اپنے بیدادگر اور ہمسائے سے پیار کرتے ہیں اور انہوں نے نفسوں کی آگ بجھادی ہوئی ہوتی اور اپنے نوروں کوکامل کیاہوا ہوتا ہے۔مگر دنیاداروں کے نفس اس دن کی مانند ہوتے ہیں جس کی فضا میں خطرناک سردی اور اس کے بادل سخت گھنے اور تاریک ہوں۔یہ لوگ تقویٰ کے لباسوں سے برہنہ اور بدکاریوں کے غلبہ کے سبب سے محض ننگے ہوتے ہیں۔انہوں نے گھمنڈ اور خودبینی کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔سو ایسے حال میں خداکی طرف سے انہیں کیونکر تائید ملے۔ان کے پیچھے ان کے بال بچے اور عیال پڑے رہتے ہیں جو انہیں شیطان کی طرف بلاتے ہیں۔وہ روتے ہیں کہ فقر فاقہ اور افلاس سے ہلاک ہوگئے اور لاغری اور تنگ گذرانی نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ذرہ بھر بھی آرام اور چین انہیں نہیں۔پھر بھی کہے جاتے ہیں کہ ہم ادب کی انجمنوں کے سردار اور زبان عرب کے

حامی کار ہیں۔جھوٹے ہیں بلکہ ان کی ہوا ٹھہر گئی ہوئی ہے اوران کے چراغ گُل ہوچکے ہیں

إنہم قوم زکّوا دثارہم وشعارہم۔ وخرجوا من أنفسہم۔ وزایلوا وجارہم۔ ورحموا من جار علیہم وَجارَہم۔ وأطفأوا نار

النفس وکمّلوا أنوارہم۔ وأمّا نفوس أہل الدنیا فتشابہ

یومًا جوّہ مزمہر۔ ودجنہ مُکفہرّ۔ وتراہم عاری الجلدۃ

من حُلل الاتّقاء ۔ وبادی الجردۃ من غلبۃ الفحشاء ۔ قد

اعتمّوا بریطۃ الاستکبار۔ واستثفروا بفویطۃ الخیلاء

والفخار۔ فکیف یؤیّدون من رب العالمین؟ بل وراء ہم

ضفف وکرش یدعونہم إلی الشیاطین۔ یبکون أنہم أہلکوا

من الشظف وصفر الراحۃ۔ وحصّہم جنف وقشف فما بقی

معہم ذرّۃ من الراحۃ۔ ثم یقولون نحن سُراۃ أندیۃ الأدب۔

وحُماۃ لسن العرب۔ کلا بل رکدت ریحہم۔ وخَبَت مصابیحہم۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 274

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 274

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/274/mode/1up


اور ان کی زمین خشک سالی کی ماری ہوئی ہے اور خیروبرکت ان سے بالکل جاتی رہی ہے۔

اُن کی خوشحالی اور بزرگی کبھی واپس نہ آئے گی جب تک خدا کی طرف رجوع

نہیں لائیں گے اور ان کا برا حال نہیں بدلے گا جب تک اپنی نیتوں کو پاک

صاف نہیں کریں گے۔اور اگر تمام روئے زمین کے باشندے اُن کے مددگار بن جائیں

خدا کے مرسلوں پر کبھی غالب نہ آسکیں گے۔خواہ متقیوں کے سوا اگلے پچھلے لوگوں

کوبھی لیتے آئیں۔وہ گذرے ہوئے لوگوں کے حال میں غور نہیں کرتے۔ کیا

وہ خدا کے رسولوں پر غالب آگئے تھے یا مغلوب ہوئے تھے۔سنوساری قلمیں خدا کے قبضے میں اور وہ کتاب مبین کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہیں۔پھر وہی قلمیں

آنحضرت (ﷺ) کی پیروی کی قدر پر مقربوں کو عطا ہوتی ہیں اس لئے کہ معجزات چاہتے ہیں کرامات کو تو کہ اُن کا نشان قیامت تک باقی رہے اوراپنے نبی علیہ السلام کے وارثوں کو بطور ظلیت کے آپ کی نعمتیں مرحمت ہوتی ہیں۔اور اگر یہ قاعدہ جاری نہ رہتا تو نبوت کے فیض بالکل باطل

وأجدبت بقعتہم۔ وتخلی بعد الإخلاء منتجعہم ونُجعتہم۔ ولن

یُردّ إلیہم جلالۃ شأنہم حتی یردّوا أنفسہم إلی الحضرۃ۔ ولن

یُغیّر ما بہم حتی یُغیّروا ما فی الطویّۃ۔ ولو أن ما فی الأرض

أنصارا لہم ما کان لہم أن یُعجزوا المرسلین۔ ولوأ توا

بالأوّلین والآخرین۔ من دون المتّقین۔ ألا ینظرون إلی الذین

خلوا من قبلہم ہل ہم غلبوا وأعجزوا رسل اللّٰہ؟ أو کانوا

من المغلوبین۔ألا إن الأقلام کلہا للّٰہ وہی معجزۃ من

معجزات کتاب مبین۔ ثم یتلقّاہا المقرّبون علی قدر

اتّباع خیر المرسلین۔ فإن المعجزات تقتضی الکرامات

لیبقی أثرہا إلی یوم الدین۔ وإن الذین ورثوا نبیّہم یُعطَون

من نِعَمہ علی الطریقۃ الظلّیۃ۔ ولولا ذالک لبطلت فیوض النبوّۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 275

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 275

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/275/mode/1up


ہوجاتے۔ اس لئے کہ یہ وارث نقش ہوتے ہیں اُس اصل کے جوگزرچکی ہوتی ہے اور گویا عکس ہوتے ہیں ایک صورت کے جو شیشہ میں نظر آتا ہے۔ان لوگوں نے فناکی سلائیوں سے سرمہ آنکھ میں ڈالا ہوتا اور ریاکاری کے آنگن سے کوچ کرچکے ہوتے ہیں۔اس طرح پران کا اپنا تو کچھ بھی رہا نہیں ہوتا اور خاتم الانبیاء کی صورت ہی نمودار ہوجاتی ہے۔سو ان لوگوں سے جوکچھ خارق عادت افعال یا اقوال پاک نوشتوں سے مشابہ تم دیکھتے ہووہ ان کی طرف سے نہیں بلکہ وہ حضرت سید المرسلین(ﷺ)کی طرف سے ہوتے ہیں۔ہاں وہ ظلیت کے لباسوں میں ہوتے ہیں۔اور تمہیں اولیاء الرحمان کی نسبت ایسی بزرگی اور شان میں شک ہے تو پڑھ لو آیت صراط الذین انعمت علیھم کو غوراور فکر سے۔کیا تم تعجب کرتے ہو اور شکرگزار نہیں ہوتے۔اور تم آئینوں میں اپنی صورتیں دیکھتے ہو پھر بھی نہیں سوچتے۔سنوخدا کی *** ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لاسکتے ہیں۔قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس و جن نہیں لاسکتااور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کرسکتا۔

فإنہم کأثر لعین انقضی۔ وکعکس لصورۃ فی المرآۃ یُرَی۔ وإنہم اکتحلوا بمرود الفناء ۔ وارتحلوا من فناء الریاء ۔ فما بقی

شیء من أنفسہم وظہرت صورۃ خاتم الأنبیاء ۔ فکل ما ترون

منہم من أفعال خارقۃ للعادۃ۔ أو أقوال مشابہۃ بالصحف

المطہّرۃ۔ فلیست ہی منہم بل من سیّدنا خیر البریّۃ۔ لکن فی

الحلل الظلّیۃ۔ وإن کنتم فی ریب من ہذا الشان۔ لأولیاء

الرحمان۔ فاقرء وا آیۃ ’’3‘‘

بالإمعان۔ أتعجبون ولا تشکرون؟ وترون صورکم فی

المرایا ثم لا تُفکّرون۔ألا إن لعنۃ اللّٰہ علی الذین یقولون إنّا

نأتی بمثل القرآن۔ إنہ معجزۃ لا یأتی بمثلہ أحدٌ من الإنس والجان۔ وإنہ جمع معارف ومحاسن لا یجمعہا علم الإنسان۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 276

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 276

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/276/mode/1up


بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی بھی نہیں اگرچہ رحمان کی طرف سے اس

کے بعداور کوئی وحی بھی ہو۔اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور

یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ایسی کسی پر نہ پہلے

ہوئی اور نہ کبھی پیچھے ہوگی۔اور جو شان قرآن کی وحی کی ہے وہ اولیاء کی وحی

کی شان نہیں۔اگرچہ قرآن کے کلمات کی مانند کوئی کلمہ انہیں وحی کیا جائے۔اس لئے کہ قرآن کے معارف کا دائرہ سب دائروں سے بڑا ہے۔اور اس میں سارے علوم اور

ہر طرح کی عجیب اور پوشیدہ باتیں جمع ہیں اور اس کی دقیق باتیں بڑے اعلیٰ

درجہ کے گہرے مقام تک پہنچی ہوئی ہیں۔اور وہ بیان اور برہان میں سب سے بڑھ کر اور اُس میں سب سے زیادہ عرفان ہے اور وہ خدا کا معجز کلام ہے جس کی مثل کانوں نے نہیں سنااور اس کی شان کو جِن وانس کا کلام نہیں پہنچ سکتا۔سو قرآن اور دوسرے کلام کی مثال اس رویا کی ہے جو دیکھی ایک بادشاہ عادل بلند ہمت اور پورے دانا نے۔

بل إنہ وحیٌ لیس کمثلہ غیرہ وإن کان بعدہ وحیا آخر

من الرحمان۔ فإن للّٰہ تجلّیات فی إیحاۂ۔ وإنہ ما تجلّی

من قبل ولا یتجلّی من بعد کمثل تجلّیہ لخاتم أنبیاۂ۔

ولیس شأن وحی الأولیاء کمثل شأن وحی الفرقان۔

وإن أُوحِی إلیہم کلمۃ کمثل کلمات القرآن۔ فإن دائرۃ

معارف القرآن أکبر الدوائر۔ وإنہا أحاطت العلوم کلہا

وجمعت فی نفسہا أنواع السرائر۔ وبلغت دقائقہا إلی المقام

العمیق الغائر۔ وسبق الکل بیانا وبرہانا وزاد عرفانا۔ و

إنہ کلام اللّٰہ المعجز ما قرع مثلہ آذانا۔ ولا یبلغہ قول

الجنّ والإنس شأنا۔ فمثل القرآن وغیر القرآن کمثل

رؤیا رآہا ملک عادل رفیع الہمّۃ کامل الفہم والقیاس۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 277

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 277

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/277/mode/1up


اور وہی رویا دیکھی ایک دوسرے عامی کم فہم

پست ہمت نے۔سو اس میں شک نہیں کہ بادشاہ کا

خواب اور اس عامی کا گو ظاہر میں ایک ہی ہیں۔ لیکن

دانشمند اور تعبیر جاننے والے کے نزدیک ایک نہیں۔بلکہ

عادل بادشاہ کی تعبیر بہت بلند اور عام

اور نفع رسان اور سب لوگوں کے حق میں خیر و

برکت اور بہت ہی درست اور صاف ہے۔ مگر عامی کی

رویا اکثر صورتوں میں آمیزش اور میل کچیل سے پاک نہیں

ہوتی۔اس کے علاوہ اس کا اثر بیٹوں اور باپوں یا تھوڑے سے دوستوں سے آگے نہیں جاتا۔اور اگر اغیار سوار بھی ہوں تو بھی بہت ہی نزدیک جگہ میں

ڈیرے ڈال دیتے ہیں اور پالانوں سے اتر کر آشیانوں میں گھس جاتے ہیں۔

ورأی ہذہ الرؤیا بعینہا رجل آخر قلیل الفہم قلیل الہمّۃ

ومن عامّۃ الناس۔ فلا شکّ أن رؤیا الملک ورؤیا ہذا

الرجل وإن کانت واحدۃ غیر ممیّزۃ فی ظاہر الحالات۔

ولٰکن لیست بواحدۃ عند عارف تعبیر الرؤیا وذی

الحصات۔ بل لرؤیا الملک العادل تعبیر أعلی

وأرفع وأعمّ وأنفع۔ وہی للناس کلہم خیر ومع ذالک

أصح وألمع۔ وأمّا رؤیا رجل ہو من أدنی الناس۔ فلا

یتخلّص فی أکثر صورہا من الالتباس، بل من الأدناس۔

ثم مع ذالک لا تجاوز أثرہا من الأبناء والآباء۔أو شرذمۃ

من الأحبّاء ۔ وإنّ رکْبَ ہؤلاء الأغیار۔ ینیخون بأدنی

الأرض مطایا التسیار۔ وینتقلون من الأکوار إلی الأوکار۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 278

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 278

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/278/mode/1up


مگر قرآن کریم کے سواروں کا یہ حال ہے کہ وہ آبادی کے ہر دائرہ کو قطع کرتے

ہیں۔قرآن کریم ایک کتاب ہے جس کے نیچے عرفان کے دریا بہتے ہیں۔اور کسی

گویائی کا پرندہ اس سے فوق اُڑ نہیں سکتا۔اور ہر پونجی والا اسی کے خزانوں اور

دفینوں سے کچھ لیتا ہے اور میرے نزدیک ہر متکلم اس قرضہ میں مبتلا ہونے کے

بغیر محض تہی دست ہے۔اور قرضدار سے سخت تقاضاکیا جاتا اور سخت کوشش کی جاتی ہے کہ قاضی تک پہنچا کر اس سے روپیہ وصول کیا جائے۔مگر قرآن کریم تنگ دستوں کو صدقات دیتا اور ساری تنگیاں دور کرتا بلکہ اخلاص والوں کو سونے

کی ڈلیاں دیتا ہے۔اور اپنے قرضداروں کو مہلت دینے کا احسان نہیں جتاتا

بلکہ ان کو سونا اکٹھے کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور کسی چور کو اگر وہ ڈرنے والا شخص

ہی ہو نہیں پکڑتا۔اور ہم تو اول کوزے بنے پھر قرآن کے دریا سے لبالب ہوئے۔

وأمّا خیل الفرقان فیجوبون کل دائرۃ العمران۔ وہو کتاب

تجری تحتہ بحار العرفان۔ ولا یطیر فوقہ طیر التبیان۔ و

ما تکلّم أحد إلا ادّان من خزائنہ۔ وأخرج من بعض دفائنہ۔ وأری

کل متکلّم صفر الیدین۔ من غیر التطوّق بہذا الدّیْن۔ و

کل غریم یجدّ فی التقاضی۔ ویلجّ فی الافتیاد إلی القاضی۔

وأمّا القرآن فیتصدّق علی أہل الاملاق۔ وینزع عن

الارہاق۔ بل یُعطی سبائک الخِلاص۔ لأہل الإخلاص۔

ولا یمن علی الغرماء بالإنظار۔ بل یُرغّبہم فی احتجان

النضار۔ ولا یأخذ سارقا۔ إن کان فارقًا*۔ وإنّا نحن

تلامیذ الفرقان۔ وأُترِعْنَا من بحرہ بعد ما صرنا کالکیزان۔

*الحاشیۃ:اعنی مَن اقتبس من القراٰن اٰیۃً بصحۃالنیّۃ۔خائفًامن الحضرۃ فلا اثم

علیہ عند عالم النیّات ذی الجود والمِنّۃِ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 279

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 279

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/279/mode/1up


سو اگر منار کا ایڈیٹر اس جہت سے مجھ سے بگڑا ہے تو میں اس کی غیرت کی وجہ سے اس کے لئے خدا سے دعا کرتا ہوں اوراگر مَیں اس کی جگہ ہوتا تو مَیں بھی وہی کہتا جو اس نے کہا۔میرے نزدیک خدا کی *** اس پر جو قرآن کے اعجاز کا انکار کرتا اور اپنے کلام اور نظام کو بجائے خود کوئی مستقل شے سمجھتا ہے۔اور خدا کی قسم ہم تو اسی چشمہ سے پیتے اور اس کی زینت سے آراستہ ہوتے ہیں۔اسی سبب سے تو ہمارے کلام میں نور اور صفا ہوتی۔اور ہماری گویائی میں روشنی اور شفا اور تازگی اور خوبصورتی چمکتی ہے۔اور مجھ پر قرآن کے سوا اورکسی کا احسان نہیں اور اس نے میری ایسی پرورش کی ہے کہ ویسی ماں باپ بھی تو نہیں کرتے۔اور خدا نے مجھے اُس سے خوشگوار پانی پلایا۔ اور ہم نے اُس کو روشن کرنے والا اور مددگار پایا۔پانی پلادیاہے کہ اب مجھے کوئی سوزش اور گرمی محسوس نہیں ہوتی اور ہم نے کافوری پیالہ پیا ہے۔اور یہ میرا کلام میری ناتوان بیمار قلم کی طرف سے نہیں بلکہ یہ تو حکیم علیم کی باتیں ہیں۔نبی کریم کے افاضہ کے وسیلہ سے۔

سو تم تکذیب پرہی کمر نہ باندھ لو بلکہ دانا اور زکی بن کر سوچو۔کیا

فإن کان مدیر المنار تزرّی علیّ لہذا الاعتذار۔ فندعو لہ لغیرتہ للّٰہ الغیور الغفار۔ ولو قمتُ علی مقامہ۔ لقلتُ کمثل کلامہ۔ ولعنۃ اللّٰہ علی من أنکر بإعجاز القرآن وجوہر حُسامہ۔ وتفرّد دُرّۃ کلمہ ونظامہ۔ وواللّٰہ إنّا نشرب من عینہ۔ ونتزین بزینہ۔ ولذالک یسعی علی کلامنا نور وصفاء ۔ وفی نطقنا یبہر لمعانٌ وضیاء۔ وبرکۃ وشفاء ۔ وطلاوۃ وبہاء ۔ ولیس علیّ منّۃ أحدٍ من غیر الفرقان۔ وإنّہ ربّانی بتربیۃ لا یُضاہیہا الأبوان۔ وسقانی اللّٰہ بہ مَعینًا۔ ووجدناہ منیرًا ومُعینًا۔ فلا نعرف التہابا ولا حرورا۔ وشربنا من کأس کان مزاجہا کافورا۔ وإن کلامی ہذا لیس من قلمی السقیم۔ بل کلام أفصحت من لدن حکیم علیم۔ بإفاضۃ النبی الرؤوف الرحیم۔ فلا تجعلوا رزقکم أن تکذّبوہا بل فکّروا کالزکیّ الفہیم۔ أم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 280

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 280

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/280/mode/1up


تمہیں گمان ہے کہ جو تم جانتے ہووہ خدا نہیں جانتا۔کیا وہ قادر نہیں اُن پر جن پر تم قادر ہو۔ایسا نہیں بلکہ تم اُسے اچھی طرح نہیں پہچانتے اور تکبر کرتے ہو۔اورخداتعالیٰ جسے چاہے علم میں وسعت اور فراخی عطا فرمائے کیا تم سوچتے نہیں۔اور تم سب گڑھے میں گرنے کے لئے طیارتھے۔پس خدا نے تم پر رحم کیا کیا تم شکر نہیں کرتے۔

مسلمانوں میں بگاڑ پیدا ہو گیاہے۔ اورنیک لوگ سرخ گندھک کی مانند ہوگئے ہیں۔ان میں نہ تو اخلاق اسلام رہے ہیں اور نہ بزرگوں کی سی ہمدردی رہ گئی ہے۔کسی سے براآنے سے باز نہیں آتے خواہ کوئی پیارایار کیوں نہ ہو۔لوگوں کو کھولتا ہوا پانی پلاتے ہیں۔خواہ کوئی خالص دوست ہی ہو۔ اور دسواں حصہ بھی بدلہ میں نہیں دیتے خواہ بھائی ہو یا باپ یا کوئی اور رشتہ دار ہو۔اورکسی دوست اور حقیقی بھائی سے بھی سچی محبت نہیں کرتے اور ہمدردوں کی بڑی بھاری ہمدردی کو بھی حقیر سمجھتے ہیں اور محسنوں سے نیکی نہیں کرتے۔

ظننتم أن اللّٰہ لا یعلم ما تعلمون؟ أو لا یقدر علی ما تقدرون۔

کلا بل لا تعرفونہ حق المعرفۃ وتستکبرون۔ واللّٰہ

یجعل لمن یشاء بسطۃ فی العلم أفلا تُفکّرون۔وقد

کنتم علی شفا حفرۃ فرحمکم اللّٰہ أفلا تشکرون۔

ظہر الفساد فی المسلمین۔ وصارت ککبریت أحمر زُمر الصالحین۔ ما تری فیہم أخلاق الإسلام۔ ولا مواساۃ الکرام۔ لا ینتہون من التخلیط ولو بالخلیط۔ ویُجرّعون الناس من الحمیم۔ ولو کان أحد کالولیّ الحمیم۔ ولا یُکافؤن بالعشیر۔ ولو کان أخ أو من العشیر۔لا یصافون شفیقا ولا شقیقا۔ ویستقِلّون جزیل المؤاسین۔ ولا یُحسنون إلی المحسنین۔

مَا بال المسلمین وَمَا العلاج

فی ہٰذا الحِین۔

اس وقت علاج کیا چاہیئے۔

مسلمانوں کا کیا حال ہے اور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 281

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 281

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/281/mode/1up


اور لوگوں پر مہربانی نہیں کرتے خواہ کیسے ہی جان پہچان کے آدمی ہوں اور اپنے رفیقوں کو بھی اپنی چیزیں دینے سے بخل کرتے ہیں بلکہ اگر تم دوڑاؤ اپنی آنکھ کو ان میں اور بار بار ان کے منہ کو دیکھو تو تم اس قوم کی ہر جماعت کو پاؤ گے کہ فسق اور بد دیانتی اور بے حیائی کا لباس پہنا ہوا ہے۔ اور ہم اس جگہ تھوڑا سا حال اپنے زمانہ کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کا لکھتے ہیں جو ہواپرست لوگ ہیں اورپھر ہم اُس علاج کو لکھیں گے جو خدا نے ان فسادوں کے دور کرنے کے لئے ارادہ کر رکھاہے اور نیز اسلام اور مسلمانوں کے تدارک کے لئے جو مقدر کر رکھا ہے۔

جان خدا تیرے پر رحم کرے کہ اکثر بادشاہ اس زمانہ کے اور امراء اس زمانہ کے جو بزرگان دین اور حامیان شرع متین سمجھے جاتے ہیں وہ سب کے سب اپنی ساری ہمت کے ساتھ زینت دنیا کی طرف جھک گئے ہیں۔اور شراب اور باجے اور نفسانی خواہشوں کے سوا انہیں اور کوئی کام ہی نہیں۔

ویُخَیّبون الناس من عوارف۔ ولو کانوا من معارف۔ ویبخلون بما عندہم مَرافقہم۔ ولو کان مُرافقہم۔ بل إذا أجلتَ فیہم بصرک۔ وکرّرتَ فی وجہہم نظرک۔ وجدت أکثر طوائف ہذہ الملّۃ۔ قد لبسوا ثیاب الفسق وترک الدیانۃ والعفّۃ۔ ۔ وإنّا نذکر ہہنا نبذًا من حالات ملوک زماننا وغیرہم من أہل الأہواء ۔ ثم نکتب بعدہ ما أراد اللّٰہ لدفع تلک المفاسد وتدارک الإسلام والمسلمین من السماء۔

اعلم رحمک اللّٰہ أن أکثر طوائف الملوک وأُولی الأمر والإمرۃ۔ الذین یُعدّون من کبراء ہذہ الملّۃ۔ قد مالوا إلی زینۃ الدنیا بکل المیل والہمّۃ۔ واستأنسوا بأنواع النعم واللّہنیۃ۔ وما بقی لہم

( فی حالات ملوک الإسلام فی ہذہ الأیام )

(بادشاہوں کے حالات)



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 282

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 282

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/282/mode/1up


وہ فانی لذتوں کے حاصل کرنے کے لئے خزانے خرچ کر ڈالتے

ہیں۔اور وہ شرابیں پیتے ہیں نہروں کے کناروں اور بہتے پانیوں اور بلند

درختوں اور پھل دار درختوں اور شگوفوں کے پاس اعلیٰ درجہ کے فرشوں

پر بیٹھ کر اور کوئی خبر نہیں کہ رعیت اور ملت پر کیا بلائیں ٹوٹ رہی ہیں۔ انہیں

امور سیاسی اور لوگوں کے مصالح کا کوئی علم نہیں اور ضبط امور اور عقل

اور قیاس سے انہیں کچھ بھی حصہ نہیں ملا۔اور جو لوگ بچپن میں ان کے

اتالیق بنائے جاتے ہیں وہی انہیں شراب اور باجوں اور پہاڑوں

پر مَے نوشی کی محفل آرائی کی ترغیب دیتے ہیں خصوصاً بارش اور نسیم صبا کے چلنے

کے وقت۔ اسی طرح حرمات اللہ کے نزدیک جاتے ہیں اور ان

سے بچتے نہیں۔ اور حکومت کے فرائض کو ادا نہیں کرتے اور

متقی نہیں بنتے۔ یہی وجہ ہے کہ شکست پر شکست دیکھتے ہیں۔

شغل من غیر الخمر والزمر والشہوات النفسانیۃ۔ یبذلون خزائن لاستیفاء اللذّات الفانیۃ۔ ویشربون الصہباء جہْرۃً علی شاطی الأنہار المصرّدۃ والمیاہ الجاریۃ۔ والأشجار الباسقۃ۔ والأثمار الیانعۃ۔ والأزہار المنوّرۃ۔ جالسین علی الأنماط المبسوطۃ۔ ولا یعلمون ما جری علی الرعیّۃ والملّۃ۔ لیس لہم معرفۃ

بالقانون السیاسی وتدبیر مصالح الناس۔ وما أُعطِیَ لہم

حظ من ضبط الأمور والعقل والقیاس۔ والذین یُتَخَیّرون لتَأدیبہم

فی عہد الصبا۔ فہم یُرغّبونہم فی الخمر والزمر وعلی منادمۃٍ

علی الرُبَی۔ سیّما فی أوقات المطر وعند ہزیز نسیم

الصبا۔ کذالک یقربون حرمات اللّٰہ ولا یجتنبون۔ ولا یُؤدّون فرائض الولایۃ ولا یتّقون۔ ولذالک یرون ہزیمۃ علی ہزیمۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 283

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 283

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/283/mode/1up


اور ہر روز تنزل اور کمی میں ہیں اس لئے کہ انہوں نے آسمان کے پروردگار کو ناراض کیا اور جوخدمت اُن کے سپرد ہوئی تھی اس کا کوئی حق ادانہیں کیا۔کیا تم دعویٰ کرتے ہو کہ وہ اسلام کے خلیفے ہیں۔ایسا نہیں بلکہ وہ زمین کی طرف جھک گئے ہیں اور پوری تقویٰ سے انہیں کہاں حصہ ملاہے۔اس لئے ہر ایک سے جو ان کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑا ہو شکست کھاتے ہیں اور باوجود کثرت لشکروں اور دولت اور شوکت کے بھاگ نکلتے ہیں۔اور یہ سب اثر ہے

اس *** کا جوآسمان سے اُن پر برستی ہے اس لئے کہ انہوں نے نفس کی خواہشوں

کو خدا پر مقدم کر لیا۔ اور ناچیز دنیا کی مصلحتوں کو اللہ پر اختیار کرلیا۔ اور

دنیا کی فانی لہو و لعب اور لذتوں میں سخت حریص ہوگئے اور ساتھ اس کے

خود بینی اور گھمنڈاور خود نمائی کے ناپاک عیب میں اسیر ہیں۔دین میں سُست اور

ہار کھائے ہوئے اور گندی خواہشوں میں چست چالاک ہیں۔سو ایک پست ہمت

کو بزرگی کیونکر دی جائے اور ایک 3 کو فضیلت اور مرتبہ کیونکر مرحمت ہو۔

وتراہم کل یوم فی تنزّل ومنقصۃ۔ فإنہم أسخطوا ربّ السماء ۔ وفُوِّضَ إلیہم خدمۃ فما أدّوہا حق الأداء ۔ أتزعمون أنہم

خلفاء الإسلام؟ کلا۔ بل ہم أخلدوا إلی الأرض وأنّی لہم

حظّ من التقوی التّام۔ولذالک ینہزمون من کل من نہض

للمخالفۃ۔ ویولّون الدّبر مع کثرۃ الجند والدولۃ والشوکۃ۔ وما ہذا إلا أثر سُخط الذی نزل علیہم من السماء ۔ بما آثروا شہوات النفس علی حضرۃ الکبریاء ۔ وبما قدّموا علی اللّٰہ مصالح الدنیا الدنیّۃ۔ وکانوا عظیم النہمۃ فی لذّاتہا وملاہیہا الفانیۃ۔ ومع

ذالک کانوا أُساری فی ذمیمۃ النخوۃ والعجب والریاء ۔ الکسالی فی الدین والفاتکین فی سبل الأہواء ۔ فکیف یُعطَی لسقط

جُلّی ومکرمۃ؟ وکیف یوہب لفُضلۃٍ فضیلۃ ومرتبۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 284

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 284

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/284/mode/1up


اس لئے کہ انہوں نے خواہشوں سے اُنس پکڑ لیا اور اپنی رعیت اور دین کو فراموش کردیا۔ اورپوری خبر گیری نہیں کرتے۔بیت المال کو باپ دادوں سے وراثت میں آیاہوا مال سمجھتے ہیں۔ اور رعایا پر اُسے خرچ نہیں کرتے جیسے کہ پرہیزگاری کی شرط ہے۔ اور گمان کرتے ہیں کہ ان سے پُرسش نہ ہوگی اور خدا کی طرف لوٹنا نہیں ہو گا سو ان کی دولت کا وقت خواب پریشان کی طرح گذرجاتا ہے۔یا اُس سایہ کی طرح جسے تاریکی دور کردیتی ہے۔اگر تم ان کے فعلوں پر اطلاع پاؤ تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور حیرت تم پر غالب آجائے۔سو غور کرو کیا یہ لوگ دین کو پختہ کرتے اور اس کے مددگار ہیں۔کیا یہ لوگ گمراہوں کو راہ بتاتے

اور اندھوں کا علاج کرتے ہیں۔نہیں نہیں بلکہ ان کے اغراض اور مقاصد اور

ہی ہیں جنہیں صبح اور شام پورے کرتے ہیں۔انہیں شریعت کے احکام سے نسبت

ہی کیا بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ اس کی قید سے نکل کر پوری بے قیدی سے زندگی بسر کریں۔

اور خلفائے صادقین کی سی قوت عزیمت ان میں کہاں اور صالح پرہیزگاروں کاسا

فإنہم بسأوا بالشہوات۔ ونسوا رعایاہم ودینہم وما أدّوا حق التکفّل والمراعات۔ یحسبون بیت المال کطارف أو تالد ورثوہ من الآباء ۔ ولا یُنفقون الأموال علی مصارفہا کما ہو شرط الاتّقاء۔ ویظنّون کأنہم لا یُسألون۔ وإلی اللّٰہ لا یرجعون۔ فیذہب وقت دولتہم کأضغاث الأحلام۔ والفیء المنتسخ من الظلام۔ ولو اطّلعتَ علی أفعالہم لاقشعرّت منک الجلدۃ۔ واستولت علیک الحیرۃ۔ ففکروا۔ أہؤلاء یشیّدون الدین ویقومون لہ کالناصرین؟ أہؤلاء یہدون الضالّین۔ ویعالجون العمین؟ کلابل لہم أغراض دون ذالک فہم یعملون بہا مصبحین وممسین۔ ما لہم و

لأحکام الشریعۃ۔ بل یریدون أن یخرجوا من ربقتہاویعیشوا بالحریّۃ۔ وأین لہم کالخلفاء الصادقین قوۃ العزیمۃ وکالأتقیاء



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 285

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 285

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/285/mode/1up


دل کہاں جس کاشیوہ حق اور عدالت ہو۔بلکہ آج خلافت کے تخت ان

صفات سے خالی ہیں۔اور ان پر جسم بلا روح بٹھائے گئے ہیں۔ بلکہ وہ مُردوں

سے بھی زیادہ ردّی ہیں۔اور ان کا وجود اسلام کے حق میں بہت بڑی مصیبت ہے

اور دین کے لئے اُن کے دن سخت ہی منحوس دن ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں اور خرابیوں کی طرف نہیں دیکھتے اور نہ کڑھتے ہیں اوردھیان نہیں کرتے کہ ملت کی ہوا ٹھہر گئی ہے۔

اور اس کے چراغ بجھ گئے ہیں اور اس کے رسول کی تکذیب ہو رہی ہے اور اس کے صحیح کو غلط کہا جا رہا ہے بلکہ ان میں سے بہتیرے خداکی منع کی ہوئی چیزوں پر اڑبیٹھے ہوئے ہیں۔اور سخت دلیری سے خواہشوں کو محرمات کے بازاروں میں لے جاتے ہیں۔ حرام کاریوں کی جگہوں میں جلد دوڑ کر جاتے ہیں۔خوبصورت عورتوں اور راگ رنگ اور ہر قسم کی جہالتوں پر جھکے ہوئے ہیں۔صبح اور شام ان کی خوش زندگی ہر طرح کی لذات میں بسر ہوتی ہے۔سو ایسے لوگوں کو

خدا سے کیونکر مدد ملے جبکہ ان کے ایسے پُر معصیت اور بُرے اعمال ہوں۔

الصالحین قلب متقلّب مع الحق والمعدلۃ؟ بل الیوم سُرُرُ الخلافۃ خالیۃ من ہذہ الصفات۔ وأُلقیَ علیہا أجساد لا أرواح فیہا بل ہی أردء من الأموات۔ وإن وجودہم أعظم المصائب علی الإسلام۔ وإن أیامہم للدین أنحس الأیام۔ یأکلون ویتمتّعون۔ ولا ینظرون إلی المفاسد ولا یحزنون۔ ولا یرون الملّۃ کیف رکدت ریحہا۔ وخبت مصابیحہا۔ وکُذّب رسولہا وغُلّط صحیحہا۔ بل تجد أکثرہم مُصرّین علی المنہیات۔ المُجترئین علی سَوْق الشہوات إلی سُوق المحرمات۔ المسارعین بنقل الخطوات إلی خطط الخطیات۔ المتمایلین علی الغید والأغارید وأنواع الجہلات۔

المصبحین فی خُضُلّۃ من العیش والممسین فی أنواع اللذّات۔ فکیف یُؤَیّدون من الحضرۃ مع ہذہ الأعمال الشنیعۃ والمعصیۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 286

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 286

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/286/mode/1up


بلکہ ان عیش پسند غافل بادشاہوں کا وجود مسلمانوں پر خدا تعالیٰ کا

بڑا بھاری غضب ہے۔ جو ناپاک کیڑوں کی طرح زمین سے لگ گئے ہیں

اور خدا کے بندوں کے لئے پوری طاقت خرچ نہیں کرتے اور لنگڑے اونٹ

کی طرح ہو گئے ہیں اور چُست چالاک گھوڑے کی طرح نہیں دوڑتے۔اسی سبب سے آسمان کی نصرت ان کا ساتھ نہیں دیتی اور نہ ہی کافروں کی آنکھ میں ان کا ڈر خوف رہا ہے جیسے کہ پرہیزگاربادشاہوں کی خاصیت ہے بلکہ یہ کافروں سے یوں بھاگتے ہیں جیسے شیر سے گدھے۔اور لڑائی کے میدان میں ان کے دو ہزار کے لئے دو کافر کافی ہیں۔سو اس بزدلی اور ادبار کا سبب بجز بدکاروں کی طرح عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے اور کچھ نہیں۔اور ایسی

خیانت اور گمراہی کے ہوتے انہیں کیونکر خدا سے مدد ملے۔اس لئے کہ

خدا اپنی دائمی سنت کو تبدیل نہیں کرتا اور اس کی سنت ہے کہ کافر کو تو

مدد دیتا ہے پر فاجر کو ہرگز نہیں دیتا۔یہی وجہ ہے کہ نصرانی بادشاہوں کو مدد مل رہی ہے اور

بل من أول أسباب غضب اللّٰہ علی المسلمین وجود ہذہ السلاطین الغافلین المترفین۔ الذین أخلدوا إلی الأرض کالخراطین۔ وما بذلوا لعباد اللّٰہ جہد المستطیع۔ وصاروا کظالع وما عدوا کالطِرْفِ الضلیع۔ ولأجل ذالک ما بقی معہم نصرۃ السماء ۔ ولا

رعبٌ فی عیون الکفرۃ کما ہو من خواص الملوک الأتقیاء۔

بل ہم یفرّون من الکفرۃ۔ کالحُمُر من القسورۃ۔ وکفی لألف

منہم اثنان فی موطن الملحمۃ۔ فما سبب ہذا الجبن وہذا

الادبار۔ إلا عیشۃ التنعّم والا تراف کالفجّار۔ وکیف یُعضّدون بالنصرۃ والإعانۃ۔ مع ہذہ الغوایۃ والخیانۃ؟ فإن اللّٰہ لا

یُبدّل سُنّتہ المستمرۃ۔ ومن سُنّتہ أنہ یؤیّد الکفرۃ ولا

یؤیّد الفجرۃ۔ ولذالک تری ملوک النصارٰی یؤیّدون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 287

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 287

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/287/mode/1up


اور وہ ان کی حدوں اور مملکتوں پر قابض ہورہے ہیں اور ہر ایک ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں۔خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس لئے نصرت نہیں دی کہ وہ ان پر رحیم ہے بلکہ اس لئے کہ اس کا غضب مسلمانوں پر بھڑکاہوا ہے کاش مسلمان جانتے۔اور اگر یہ متقی ہوتے تو کیونکر ممکن تھا کہ ان کے دشمن ان پر غالب کئے جاتے۔بلکہ جب انہوں نے دعا اور عبادت کو چھوڑ دیاتب خدانے بھی ان کی کچھ پروا نہ کی۔سو یہ اب اپنی کرتوتوں کے سبب سزاپارہے ہیں اور یقیناًخدا کے نزدیک سب جانداروں سے بدتر وہ لوگ ہیں جو ایمان کے بعد فاسق ہو جائیں اور بدکاریاں کریں اور نہ ڈریں۔ خدا کا عہد توڑنے اور قرآن کی حدود کی بے عزتی کرنے کے سبب سے خطرناک حادثے ان پر نازل ہو رہے ہیں۔اور بہت سے شہر ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ہیں۔ غفلت نے ان کو حقوق سے دور کر دیا ہے اور پرستاران صلیب کے خیمے ان کے ملکوں میں آلگے ہیں۔یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سزااور گرفت ہے۔ازبسکہ انہوں نے بدکاریاں کرکے خداکامقابلہ کیا۔اس کانتیجہ یہ ہواکہ کفارسے شکست کھاگئے۔دشمنوں نے انہیں

ویُنصَرون۔ ویأخذون ثغورہم ویتملّکون۔ ومن کل حدَبٍ

ینسلون۔ وما نصرہم اللّٰہ لرحمتہ علیہم بل نصرہم

لغضبہ علی المسلمین لو کانوا یعلمون۔ وکیف أُظْہِرَ

علیہم أعداء ہم إن کانوا یتّقون؟ بل لمّا ترکوا الدعاء و

التعبّد۔ ما عبأ بہم ربہم فہم بما کسبوا یُعَذّبون۔ وإن شرّ الدواب قوم فسقوا بعد إیمانہم ویعملون السیئات ولا یخافون۔ فبما

نکثوا عہد اللّٰہ ونقضوا حدود الفرقان۔ طوّحت بہم طوائح

الزمان۔ وخرج من أیدیہم کثیر من البلدان۔ وأنأتہم

غفلتہم عن حقوقہم وضُربت علیہم خیام أہل الصلبان۔

نکالا من اللّٰہ وأخذًا من الدیّان۔ إنّہم بارزوا اللّٰہ

بالمعصیۃ۔ فولّوا الدبر من الکفرۃ۔ وما أخزاہم عداہم ولکن



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 288

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 288

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/288/mode/1up


رسوا نہیں کیا بلکہ خدانے کیا۔اس لئے کہ خدا کی آنکھوں کے سامنے انہوں نے بے فرمانیاں کیں سو اس نے انہیں دکھایا جو دکھایا اور انہیں آفات میں چھوڑ دیا اور نہ بچایا اور ان کے وزیر بددیانت اور خائن ہیں۔انکا مال کھاتے ہیں اور مخلص نہیں اور انہیں اندھا بن جانے اور غلطی کی طرف میل کرجانے سے نہیں روکتے اور تغافل شعار زیرک کی طرح چشم پوشی کرتے ہیں۔اور مداہنہ کرنے والے بچ بچ کر چلنے والے کی طرح ان کی حمایت اور دفاع کرتے ہیں۔اور ان لوگوں کی دو قسمیں ہیں کچھ تو بچھوؤں کی مانند ہیں اور کچھ عورتوں کی مانندیا دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہتے ہیں کہ ایک حصہ تو وہ نادان جاہل ہیں جنہیں عرفان سے کچھ بھی بہرہ نہیں ملا۔اور ایک حصہ وہ ہیں جو جان بوجھ کر جاہل بنے ہوئے ہیں اور شیطان کی طرح اپنے بادشاہوں کی ہلاکت چاہتے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ ان کے بادشاہ خدا اور شرع کی حرام کردہ چیزوں کے نزدیک جاتے ہیں۔پھر بھی کہتے ہیں کہ یہ مباح چیزیں ہیں اور پرہیزگاری کے طریق کے مخالف نہیں۔اور بدکرداریوں کو ان کی آنکھوں میں سجاتے ہیں اور ان کو چارپائے یا پتھربنانا چاہتے ہیں

اللّٰہ أخزاہم۔ فإنہم عصوا أمام أعین اللّٰہ فأراہم ما أراہم۔ وترکہم فی آفات وما نجّاہم۔ووزراؤہم قوم مغشوشون۔ یأکلون

أموالہم ولا یخلصون۔ لا یمنعونہم من التعامی و

التصابی۔ ویُغمضون لہم کالفطن المتغابی۔ وینضحون

عنہم کالمداہن الْمُحابی۔ وإنہم قسمان۔قسم کالعقارب

وقسم کالنسوان۔ أو نقول بتبدیل البیان۔قسم کغُمر جاہل

ما أعطی لہم حظ من العرفان۔ وقسم کذی غمر متجاہل لا یریدون إلا ہلاک ملوکہم کالشیطان۔ یرون سلاطینہم یقربون حرمات اللّٰہ ومناہی الشرع۔ ثم یندّدون بأنہ من المباحات ولیس مما یخالف طریق الورع۔ ویُزیّنون فی أعینہم أمرا ہو أقبح السیئات۔ ویریدون أن یجعلوہم کالعجماوات بل الجمادات۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 289

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 289

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/289/mode/1up


اور کوئی حق اور سچ بات ان کے منہ سے نہیں نکلتی۔اور اپنے دلوں میں بجز ہلاکت

اور تباہی کے اور کچھ نہیں ڈھونڈتے۔بادشاہوں سے ان باتوں کا تذکرہ نہیں کرتے جو

اس دنیا میں اور آخرت میں ان کے کام آئیں بلکہ ان کو شکاری درندوں اور سانپوں کی طرح رہنے دیتے ہیں۔اور ہر گھڑی اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کے کان

خدا کے امر اور رسول خدا کی سنت کے سننے سے دور رہیں۔اور غفلت کے بدانجام

سے انہیں نہیں ڈراتے۔اور بدکاری کرتے وقت انہیں بدکار نہیں ٹھہراتے۔سو ایسی

خصلت اور چال چلن کے لوگ ان بادشاہوں کے حق میں ایسے ہیں جیسے گڑھا

لڑکھڑانے والے پاؤں کے حق میں۔یا جیسے ایندھن آگ کے لئے یا پردہ آنکھوں پر۔

ان کی پیاس کو نہیں بجھاتے۔بلکہ ان کی لغزشوں کی تعریف کرتے ہیں۔اسی وجہ سے ان کے

بادشاہ لوگوں کی زبانوں کے نشانہ بنے ہوئے ہیں۔اوریورپ کے اخبار انہیں سست اور

نالائق لکھتے ہیں۔بلکہ ان حالات کو دیکھ کر عیسائی اہل الرائے متفق ہوکر کہتے ہیں کہ

ولا یخرج من أفواہہم قول یقرب الصدق والصواب۔ ولا یبغون فی أنفسہم إلا الہلاک والتباب۔ لا یذاکرون ملوکہم بما ہو خیر

لہم فی ہذہ ویوم المکافات۔ بل یترکونہم کالسباع المفترسۃ والحیوات۔ ویسعون فی کل وقت من الأوقات۔ أن ینبأ سمعہم

عن أوامر اللّٰہ وسنن خیر الکائنات۔ ولا یُخوّفونہم

من عواقب الغفلۃ۔ ولا یؤثّمونہم عند ارتکاب المعصیۃ۔

فہل ہم بہذہ السیرۃ لہذہ الملوک إلا کحُفرۃ للرجلین المتخاذلین؟ أو کوقود لنار أو کغشاوۃ علی العینین۔ لا یُطفؤن أُوارہم۔ بل یحمدون عثارہم۔ ولذالک صارت ملوکہم غرضًا لحصائد الألسنۃ۔ وسُمّوا قومًا کُسالی فی الجرائد

المغربیۃ۔ بل أجمع أہل الرأی من النصاری نظرًا علی ہذہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 290

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 290

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/290/mode/1up


ان کے دن اب تھوڑے رہ گئے ہیں اور بہت جلد ان کا تانا بانا

ادھڑنے والا ہے۔اور جب مثلاً سلطان روم ہلاک ہوگیا تو

ان رائے زنوں کے نزدیک اس کے بعد کوئی اور سلطان نہیں۔اللہ تعالیٰ جانتا ہے

اسے جو مخفی رکھا ہے اور جو کچھ کرتا ہے۔ایک رائے زمین میں ہے اور ایک رائے آسمان میں۔ سواب کون اُن کو جگائے اورکون سونے والوں کو بیدار کرے اور اس بلا کی خبر دے۔

اس میں شک نہیں کہ اکثر بادشاہ سخت بے اعتدالی کرتے ہیں اور عیش و عشرت میں حد سے

نکل گئے ہیں اور فسق اور کسل اور معصیت میں مبتلا ہیں۔

خوبصورت عورتوں کی تلاش میں رہتے اور ان کے وصال کے حیلے سوچتے

رہتے ہیں خواہ ناجائز حیلے کیوں نہ ہوں اور بدرہ خرچ کرتے ہیں اگر بدر

آسمان سے اتر آوے۔بدکاری سے ان کی قوتیں فنا ہو گئیں ہیں اور حور وقصور کی فکر میں

زور و زر سب جاتا رہا ہے۔ بہتوں کی تھیلیاں خالی ہوگئیں اور

الحالات۔ علی أن أیامہم ایّام معدودۃ وسیزول أمرہم وإمرتہم فی أسرع الأوقات۔ وإذا ہلک سلطان الروم مثلا فلا سلطان بعدہ عند ہؤلاء الذین رموا أحجار الآراء۔ واللّٰہ یعلم ما کتمہ وما یفعلہ

رأیٌ فی الأرض ورأیٌ فی السماء ۔ فمن ذا الذی یُنبّہ ہؤلاء۔

ومن یوقظ النائمین ویُخبرہم من ہذا البلاء۔ولا شک أن

أکثر ہذہ الملوک أسرفوا علی أنفسہم وجاوزوا الحدّ فی

التنعم واللُّہنیّۃ۔ وجعلوا نفوسہم رہینۃ الفسق والکسل والمعصیۃ۔ لا یزالون یبغون غانیۃ من النساء ۔ ویستقرون حیلۃ

لوصالہا ولو بالفحشاء ۔ ویبذلون بدرۃ لو نزل البدر من السماء ۔ تفانت قواہم من الفسق والفجور۔ وذہبت نَضرتہم و

نُضارہم فی فکر النسوۃ والقصور۔ وترٰی کثیرًا منہم خلت



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 291

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 291

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/291/mode/1up


خوشی جاتی رہی اور عزت تباہ ہوگئی اور عورت کے پیچھے امیری خاک میں مل گئی۔

اور دولت اور ثروت کے بعد اب نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں اور مارے

غم کے آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور حسرت بڑھ گئی ہے۔اس پربھی وہ خود

خواہشوں کو نہیں چھوڑتے ہاں خواہشیں انہیں بیماریوں اورآفتوں کے وقت چھوڑ جاتی ہیں۔

اور جب بدکاروں کی طرح حظ نفس کو پورا کرنے پرآتے ہیں تو کوئی حدبست رہنے نہیں دیتے۔

آخر کار بدن کی طاقتوں اور صحت کا نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔اوریوں صحت و

قوت کے دوبارہ ملنے کی آرزو میں جان نکل جاتی ہے۔گویا ان لوگوں نے اپنے بدن اور

قوت کو بدکار عورتوں پر وقف کررکھا ہے اور ان کی محبت کو جان اور آبرو اور مال اور ملت

کے بچاؤ پر مقدم کر لیا ہے۔یہ لوگ شیطان کے ظل ہیں۔اور ان کے وجود میں کوئی خیر

نہیں۔ ان کی طبیعتوں کو تو دیکھتا ہے جیسی زمین نشیب فراز والی ناہموار صبح اور شام

نئے نئے رنگ نکالتی ہیں اور گھمنڈ اور خودبینی سے ان کے دل سیاہ ہوگئے ہیں۔

صرّتہم۔ وسرت مسرّتہم۔ وبُدّل بالخطر خطرتہم۔ وضاعت لامرأۃ إمرتہم۔ وظہر قتر الفقر بعد ما أودع سر الغنی أسرّتہم۔ وحسر بصرہم من الحزن ودامت حسرتہم۔ ومع ذالک لا یترکون الشہوات۔ والشہوات تترکہم بالشیب والأمراض والآفات۔ ولا یتّقون شططا وغلوًّا فی استیفاء الحظوظ کالفجرۃ۔ حتی ینجر الأمر إلی تلاشی الصحّۃ واختلال البنیۃ۔ وتزہق أنفسہم وہم یتمنّون أن تعود أیام الصحّۃ والقوّۃ۔ کأنہم وقفوا أبدانہم وقواہم علی البغایا وآثروا حبّہن علی عصمۃ النفس والعرض والملّۃ۔ إن ھٰؤلاء قوم صاروا للشیطان کفیء ۔ ولیسوا من الخیر فی شیء ۔ تری طبائعہم کأرض ذات کسور غیر المسحاء ۔ متلوّنۃ فی الصباح

والمساء ۔ وتری قلوبہم مظلمۃ من الکبر والخیلاء ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 292

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 292

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/292/mode/1up


گویا وہ سخت کالی رات کے ٹکڑے ہیں۔انہیں اس امر کی خوشی ہے کہ ان کے اصطبل اعلیٰ

درجہ کے گھوڑوں اور خچروں اور گایوں اور اونٹوں سے بھرپور ہوںیا خوبصورت عورتیں ان کے

پاس ہوں۔اپنے فرائض کا کچھ بھی دھیان نہیں رکھتے اور کوچ کے دن کا اور بازپرس اور گرفت

کی گھڑی کاکوئی ڈر نہیں۔کنگھی پٹی اور سرمہ لگانے میں سارادن خرچ کردیتے ہیں اور

مردوں کی خُوبُو اُن میں رہی ہی نہیں۔اگر تم انہیں دیکھو تو کراہت کرو اور

بازاری عورتیں سمجھو یا وہ غلام جو غلام کرنے کے بعد فروخت کے لئے سجائے

جاتے ہیں۔نماز کی پابندی نہیں کرتے۔اور خواہشیں ان کی راہ میں چٹان اور روک بن گئی ہیں۔ اور اگر نماز پڑھیں بھی تو عورتوں کی طرح گھر میں پڑھتے ہیں اور متقیوں

کی طرح مسجدوں میں حاضر نہیں ہوتے۔اور ہوں کیونکر جامِ مَے سے تو الگ نہیں ہوتے۔

اور ندیموں کی ناپاکیوں کو نہیں چھوڑتے۔اور وعظ کی کوئی بات سن نہیں سکتے۔

جھٹ کبر اور نخوت کی عزت انہیں جوش دلاتی ہے اور غضب اور غیرت میں نیلے پیلے

کَاَنّہا ہزیع من اللیلۃ اللیلاء ۔ یفرحون بمرابط مملوۃ من طرف وبغال وبقر وجمال۔ أو نساء ذات بہاء وحسن وجمال۔

ولا یتعہّدون فرائضہم ولا یخافون یوم ارتحال۔ وساعۃ أخذٍ وسؤال۔ وینفدون یومہم فی الزینۃ والمشط والاکتحال۔ وما بقی فیہم سیرۃ من سیر الرجال۔ وإذا رأیتہم بذأتہم وحسبتَہم نساء الأسواق۔ أو عبیدًا زُیّنوا للبیع بعد الاسترقاق۔ لا یُداومون علی الصلاۃ۔ وصارت أہواء ہم فی سبلہم کالصلات۔ وإن صلّوا فیُصلّون فی البیوت کالنساء ۔ ولا یحضرون

المساجد کالأتقیاء ۔ وکیف وإنہم لا یُفارقون کأس الصہباء۔

ولا یترکون أدناس الندماء ۔ ولا یطیقون أن یسمعوا من الوعظ کلمۃ۔ فیأخذہم عزۃ کبرٍ أو نخوۃ۔ ویتوغّرون غضبا وغیرۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 293

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 293

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/293/mode/1up


ہوجاتے ہیں۔اور اُن کے نزدیک بڑا مکرم وہ ہوتا ہے جو ان کا حال انہیں خوبصورت کرکے دکھائے اور ان کی اور ان کے اعمال کی تعریف کرے۔غرض اس طرح شراب خواری سے ان کے اخلاق بگڑگئے ہیں اور انگور کے درخت نے ان کی بیخ کنی کردی ہے حالانکہ یہ لوگ بزرگوں کی اولاد تھے ان کی غرض و مقصد اب یہی رہ گیا کہ بڑی بلند حویلیاں ہوں۔لطیف غذا ہو

اور زبان کومارے تیزی کے کاٹنے والی شراب ہو۔کبھی نہیں سنا گیا کہ انہوں نے دشمن پر چڑھائی کی ہو۔ اسی وجہ سے ان پر وبال پڑااور بھیڑبکری کی طرح ان کی پشمیں کاٹی گئیں اور شاخوں کی طرح تراشے گئے اور چارپایوں کی طرح پکڑے گئے اور لکڑی کی طرح کاٹے گئے اور امارت اور دولت کی بلندی سے گر گئے جس طرح ناگہاں گٹھ سے کوئی کپڑا گر

جاتاہے۔ اور جب خدا نے ان کا فسق و فجور اور ظلم اور جھوٹ اور اِترانا

اور ناشکرگذاری دیکھی۔ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا جو اُن کی دیواروں کو پھاندتے اور

ہر بلند جگہ پر چڑھ جاتے ہیں اور ان کے باپ دادوں کی ملکیت پر قبضہ کرتے ہیں اور ہر

ویکون أکرم الناس عندہم من زیّن لہم حالہم۔ وحمدہم وأعمالہم۔ وکذالک فسدت أخلاقہم من مداومۃ المُدام۔ واستأصلتہم شجرۃ الکرم مع کونہم من أبناء الکرام۔ ما بقی ہممہم من غیر أن یکون لہم قصر منیف۔ وغذاء لطیف۔ وشراب حرّیف۔ وما سُمع منہم تطریف۔ ولذالک لحقہم وبالٌ وخسران۔ وجُزّوا کما یُجَزّ ضان۔ وقُضّبوا کما تُقضّب اغصان۔ وأخِذُوا کما یوخذ دابّۃ۔ وقطعوا کما یقطع قضابۃ۔ وسقطوا من ذرَی دولۃ وإمارۃ۔ کما یسقط ثوب من کارۃ بغرارۃ۔ ولما رأی اللّٰہ

فسقہم وفجورہم۔ وظلمہم وزورہم۔ وبطرہم وکفورہم۔

سلّط علیہم قوما یتسوّرون جدرانہم وکل ما علا

یتسلّقون۔ ومما ملکہ آباء ہم یتملّکون۔ ومن کل



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 294

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 294

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/294/mode/1up


ریاست کو دباتے چلے جاتے ہیں۔اوریہ سب کچھ ہونے والا تھا اور تم قرآن میں

یہ باتیں پڑھتے ہو اور سوچتے نہیں۔اور ان کے پیچھے پیچھے پادریوں کو بھیجا جو

لوگوں کو دھوکے دیتے اور گمراہ کرتے اور اپنے جھوٹے دین کی ترغیب دیتے ہیں۔مال

اور عورتوں کا لالچ دے کر۔ سو نادان لوگ خدا کے دین کو روٹیوں اور

عورتوں اور دوسری خواہشوں کی عوض بیچ ڈالتے ہیں اور یہ سارا گناہ بادشاہوں کی

گردن پر ہے۔جنہوں نے رعایا کے حال کی اصلاح نہ کی اور ان کی برائیوں کو گناہ اور برا

نہ سمجھااور کچھ بھی پرواہ نہ کی۔سو جبکہ انہوں نے دِلوں کا تقویٰ بدل دیا خدا نے ان کے امور دنیا کو بدل دیا۔ اور اس لئے بھی کہ وہ گناہوں پر دلیر تھے۔اور خدا تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتاجب تک وہ اپنی اندرونی حالت کو آپ نہ بدل لیں اور نہ ہی ان پر رحم کیا جاتا ہے۔بلکہ خدااُن گھروں پر *** کرتاہے اور ان شہروں پر جن میں لوگ بدکاری اورجرم کریں۔اور بدکاری کے گھروں پر فرشتے اتر کر کہتے ہیں اے گھر خداتجھے ویران کرے اور اے دیوار خدا تجھے ڈھا دے۔

حدَبٍ ینسلون۔ وکان ذالک أمرًا مفعولا وأنتم تقرء ونہ فی القرآن ولکن لا تُفکّرون۔ وقفّی علی آثارہم بقسوس فہم یُضلّون

الناس ویخدعون۔ ویرغّبونہم فی دینہم الباطل بمال ونساء

وبکل ما یُزیّنون۔ فیبیع السفہاء دین اللّٰہ برغفان ونسوان

وأمانی أخری کما أنتم تنظرون۔ والاثم کلہ علی الملوک

بما لم یصلحوا أمر رعایاہم وما رأوا مفاسدہم بوبلۃ و

کانوا لا یبالون۔ فقلبت أمور دنیاہم بما قلبوا تقوی القلوب۔ و

کانوا علی المعاصی یجترء ون۔ وإن اللّٰہ لا یغیّر ما بقوم حتی

یُغیِّروا ما بأنفسہم ولا ہم یُرحمون۔ بل اللّٰہ یلعن بیوتا یفسق

الناس فیہا وبلادا فیہا یجترمون۔ وتنزل الملائکۃ علی دار

الفسق والظلم ویقولون ما عمّرک اللّٰہ یا دار۔ وخرّبک یا جدار۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 295

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 295

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/295/mode/1up


اور خدا کا امر اترتا ہے سو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں اور خدا ان دیواروں اور شہروں کی بربادی کے لئے سبب پیدا کرتا ہے۔سو ایک قوم آتی ہے اور ان کو تباہ اور ویران کر دیتی ہے۔سو بادشاہان نصاریٰ کو مت کوسواور جو کچھ تمہیں ان کے ہاتھوں سے پہنچا ہے اسے مت یاد کرو اوبدکارو!خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔کیا تم میری باتیں سنتے ہو۔نہیں نہیں تم تومنہ بناتے اور گالیاں دیتے ہو۔اور تمہیں سننے والے کان اور سمجھنے والے دل تو ملے ہی نہیں اور تمہیں اتنی فرصت ہی کہاں کہ کھانے پینے سے عقل کی طرف آؤاور خُم مَے سے الگ ہو کر خدا کی طرف دھیان کرو اور تم میں سوچنے والے جوان ہی کہاں ہیں۔کیا تم دشمنوں کو کوستے ہو اور تمہیں جو کچھ پہنچاہے اپنی بدکرداریوں کی وجہ سے پہنچاہے۔سنو تم اگر نیکوکار ہوتے تو بادشاہ بھی تمہارے لئے صالح بنائے جاتے۔اس لئے کہ متقیوں کے لئے خدا تعالیٰ کی ایسی ہی سنت ہے۔اور

مسلمان بادشاہوں کی مدح سرائی سے باز آؤ اور اگر ان کے خیر خواہ ہو تو ان

کے لئے استغفار پڑھواور ان کے آگے ایسے کھا نے نہ لے جاؤ جن میں زہر ہے

وینزل أمر اللّٰہ فیہلکون۔ ویحدث اللّٰہ سببا لہدم تلک الحیطان وتخریب تلک البلدان۔ فیأتی قوم فیہدّونہا من أساسہا وکذالک یفعلون۔ فلا تسبّوا ملوک النصاری ولا تذکروا ما مسّکم من أیدیہم ولا تلوموا إلا أنفسکم أیہا المعتدون۔

أتسمعون ما أقول لکم؟ کلا۔ بل تعبسون وتشتمون۔ وانّٰی لکم آذان تسمع وقلوب تفہم وأین لکم الفراغ أن تنقلوا من الأکل إلی العقل۔ وإلی الدیّان من الدنان۔ وأین فیکم فتیان یتذکّرون؟ أتسبّون أعداء کم وما نالکم إلا جزاء ما کنتم تکسبون۔ واعلموا أنکم إن کنتم صالحین لأصلح الملوک لکم۔ وکذالک جرت سُنّۃ اللّٰہ لقوم یتّقون۔ وانتہوا من اطراء ملوک الاسلام واستغفروا لہم أن کنتم تنصحون۔ ولا تتقدّموا إلیہم بموائد فیہا سمٌّ فیأکلون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 296

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 296

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/296/mode/1up


جنہیں کھا کروہ ہلاک ہو جائیں۔تم ان کے وجود کے طفیل بڑے مزے میں گزران کرتے اور ان کے بچے کھچے کھاتے ہو۔سواگر انہیں ضرر پہنچا تو تمہارا ٹھکانہ کہاں۔اور وہ تمہاری گردنوں اور عزتوں اور مالوں کے مالک ہیں سو اپنے مالکوں کی سچی خیر خواہی کرو۔خدانے

انہیں تمہارے حق میں سازوسامان اور تمہیں ان کے آلات بنایاہے۔سواگر مخلص ہو

تو تقویٰ اور نیکی پر ایک دوسرے کے مددگار بن جاؤ۔اورانہیں ان کی بدکرداریوں

پر آگاہ کرواور لغویات پر انہیں اطلاع دو اگر تم منافق نہیں۔واللہ وہ اپنی رعیت کے حقوق ادا نہیں کرتے۔اور فرائض کی پوری خبرگیری بجا نہیں لاتے۔تم پہچان لو گے اس بات کو اُن کا منہ دیکھ کر جو اُن کے دل سے بھی زیادہ بھونڈا اور لباس سے جو ان کے حال سے زیادہ وحشت انگیزہے گویا ان کے باطن مسخ ہو گئے ہیں اور گویا انہوں نے کسی

اوپرے عالم میں پرورش پائی ہے۔قسم بخداان کے دل پہاڑوں کے پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں۔اور ان کی طبیعتیں سانپوں اور چیتوں سے بھی زیادہ افروختہ ہیں

ویموتون۔ وأنتم تعیشون معہم فی رخاء وتغترفون من

فُضالتہم فان مسّہم ضرٌّ فکیف تُعصمون۔ وإنہم ملکوا

رقابکم وأعراضکم وأموالکم فانصحوا للذین یملکون۔ وقد

جعلہم اللّٰہ لکم کمعدّات۔ وجعلکم لہم کآلاتٍ فتعاونوا

علی البر والتقوی ان کنتم تخلصون۔ ونبّہوہم علی

سیئاتہم واعثروہم علی ہفواتہم إن کنتم لا تنافقون۔

وواللّٰہ إنہم قوم لا یؤدّون حقوق عباد أُمِّروا علیہم ولا

یُحافظون الفرائض ولا یتعہّدون۔ وتعرفونہ بوجہ أکسف

من بالہم وزیّ أوحش من حالہم کأنّ بواطنہم مسخت و

کأنہم أُنشِؤا فی ما لا یعلمون۔ وتاللّٰہ إنّا نری أن قلوبہم قاسیۃ

بل أشد قسوۃ من أحجار الجبال۔ وإن طبائعہم متوقدۃ ولا کالنمور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 297

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 297

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/297/mode/1up


اور وہ کبھی خدا کے حضور گڑگڑاتے نہیں۔ان فعلوں اور عملوں سے ثابت

ہوگیا کہ انہوں نے خدا کو ناراض کرکے گمراہی کے طریق اختیار کئے ہیں

اور خود قاتل زہر کھا کر رعیت کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے سو ان کے لئے وبال سے دو

حصے ہیں۔وہ جہنم میں خود بھی پڑیں گے اور دوسروں کو اپنے ساتھ ڈالیں گے۔اسلام پر

جو کچھ نازل ہوا ان کی بدعملیوں سے ہوا۔سو اے متکلمو!تم میں کوئی ایسا ہے جو

انہیں ان عادات کے نتیجوں پر آگاہ کرے۔اس لئے کہ ان لوگوں نے ناپاک

خواہشوں کے پیچھے اپنا دین کھو دیا ہے اور تمام احوال میں احول بن

گئے ہیں بلکہ میرے نزدیک تو وہ بالکل اندھے ہیں میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان کی

اطاعت کو چھوڑ کر ان سے جنگ و جدال کرو۔ بلکہ خدا سے ان کی

بہتری مانگو تو کہ وہ باز آ جائیں۔ اور یہ تو ان سے امید

نہ رکھو کہ وہ اصلاح کرسکیں گے ان باتوں کی جنہیں دجال کے ہاتھوں نے بگاڑدیاہے یا وہ

وأفاعی الدحال۔ وإنہم قوم لا یتضرّعون۔ فثبت من ہذہ

الأفعال والأعمال۔ أنہم أسخطوا ربہم واختاروا طرق

الضلال۔ وأکلوا سمّا زعافا ثم أشرکوا فیہ رعایاہم فلہم

سہمان من الوبال۔ یرِدُون جہنم ویوردون۔وکل ما

نزل علی الإسلام فہو نزل من سوء أعمالہم وفساد الأفعال۔

فہل فیکم رجل یفہم نتائج ہذہ الخصال أیہا المتکلّمون۔

فإنہم قوم ضیّعوا دینہم للأہواء والأعمال۔ وصاروا کأحول فی جمیع الأحوال۔ بل أراہم عمیا لا یبصرون۔ ولا أقول

لکم أن تخرجوا من ربقتہم وتقصدوا سبیل البغاوۃ والقتال۔

بل اطلبوا صلاحہم من اللّٰہ ذی الجلال لعلہم ینتہون۔ ولا تتوقّعوا منہم أن یُصلحوا ما أفسدت أیدی الدجّال۔ أو یقیموا الملّۃ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 298

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 298

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/298/mode/1up


اس قدر تباہی اور پریشانی کے بعد ملت کی حالت کو درست کر لیں گے ۔اور تم جانتے ہو کہ ہر میدان کے لئے خاص خاص مرد ہوا کرتے ہیں اورکیا ممکن ہے کہ مُردہ دوسروں کو زندہ کر سکے یا گمراہ دوسروں کو ہدایت دے یا خشک بادل سے بارش اور اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا ممکن ہے تو پھر ان سے کیا اُمید رکھ سکتے ہو۔ہمیں تو امید نہیں کہ وہ سنورجائیں جب تک انہیں موت ہی آکر بیدار نہ کرے۔ہاں وعظ و پند کرنے کا ہمیں حکم ہے اور ہم تو انہیں ان پرندوں کی طرح سمجھتے ہیں جو ہوا میں اڑتے اورپکڑے نہیں جاتے یا عمر کی طرح جو واپس نہیں آتی یا ان چمگادڑوں کی طرح جن سے شہر ویران ہوگئے یا اس شہر کی طرح جس پر مینہ برسا ہو۔ یا اس بے برکت سایہ کی طرح جس کے نیچے لوگ آرام نہیں پاتے یا اس زہر کی طرح جس سے جگر پارہ پارہ ہو جاتے ہیں۔ان کی ٹھوکر کا صدمہ بڑا بھاری ہے اور کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو اِن گرتوں کو سنبھالے۔وہ خشک لکڑیاں ہیں پھلدار درخت نہیں۔اور ایندھن تو آگ کیلئے موزوں ہوتا ہے ان میں فراست کی قوت اور اصول مُلک داری کا علم نہیں۔انہوں نے چاہاکہ اپنے عیسائی

بعد تہافتہا وبعد ما ظہر من الاختلال۔ ولکل موطن رجال کما تعلمون۔ وہل یُرجی إحیاء الناس من المیّت أوالہدایۃ من الضال۔ أو المطر من الجہام أو الولوج فی سم الخیاط من الجمال۔

فکیف منہم تتوقعون۔ وتاللّٰہ إنّا لا نتوقّع صلاحہم حتی

یوقظہم الاحتضار۔ ولکن نُدِب إلینا الاذکار۔ وإنّا لا نحسبہم إلا کطیر محلّق لا یُصاد۔ أو کعمر لا یُستعاد۔ أو کخفافیش خربت

منہا البلاد۔ أو کبلدۃ ما أصابہا العہاد۔ أو کظل غیر ظلیل لا تأوی إلیہ العباد۔ أو کسم قُطّعت منہ الأکباد۔ عظمت صدمۃ

عثرتہم۔ وما أری من یُقلہم من صرعتہم۔ تراء وا

کحطب لا کأشجار ذات الثمار۔ والحطب لا یلیق إلا

للنار۔ فقدوا قوّۃ الفراسۃ۔ وأصول السیاسۃ۔ وأرادوا أن یتعلّموا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 299

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 299

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/299/mode/1up


پڑوسیوں کی مکاریوں کو سیکھیں لیکن باریک فریبوں اور بچاؤ کی تدبیروں میں ان تک

پہنچ نہ سکے۔سو وہ اس مرغ کی مانند ہیں جس نے پرواز میں کرگس بنناچاہا۔

پس اپنی جگہ سے تو اکھڑگیا اور کرگس کے مقام کو پہنچ نہ سکا آخر تھک کرگرا۔ پھر ایک چرغ نے میدان میں اسے آدبایا۔یہ ہے مثال مسلمان بادشاہوں کی۔ عیسائیوں کے

مقابل جو کچھ انہیں تقوی اللہ کے متعلق تعلیم ملی تھی اس سے تو منہ پھیر لیا۔اور اپنے مخالفوں کی طرح وہ چالاکیاں اور داؤبھی پورے نہ سیکھے اور مسلمان بادشاہوں کی نسبت خدا تعالیٰ

وعدہ کر چکا ہے کہ جب تک متقی نہ بنیں گے ان کی کبھی مدد نہ کرے گااور اس نے ایسا ہی چاہا ہے کہ نصاریٰ کو ان کے مکر میں کامیاب کردے جبکہ مومنوں نے اُسے ناراض کیاہے اور بدبختی سے ہم اس وقت مسلمان بادشاہوں کو خدا کی حدود پر قائم نہیں دیکھتے

بلکہ عیش و عشرت کی حرص کے سوا ان کے پیش نظر اور کچھ بھی نہیں۔

اور رعایا کے معاملات و مقدمات کے فیصلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔کیا تم ان کے تخت کو امن کی

مکائد جیرانہم من النصاری۔ فما بلغوہم فی دقائق الدساسۃ وحیل الحراسۃ۔ فمثلہم کمثل دِیکٍ أراد أن یُضاہی النسر فی الطیران۔ فزایل مرکزہ وما بلغ مقام النسر فخر لاغبا فلقفہ صقر فی المیدان۔ ہذا مثل ملوک الإسلام بمقابلۃ أہل الصلبان۔ أعرضوا عمّا عُلّموا من وصایا الاتّقاء۔ وما کُمّلوا فی المکائد کالأعداء ۔ فبقوا لا من ہؤلاء ولا من ہؤلاء۔ وقد کتب اللّٰہ لملوک دینہ أن لا ینصرہم أبدًا إلا بعد تقواہم۔ وأراد للنصارٰی أن یجعلہم فائزین بمکرہم إذ أسخط المؤمنون مولاہم۔ومن سوء القدر أنّا لا نری فی ہذہ الأیام ملوک الإسلام قائمین علی حدود اللّٰہ العلام۔ لا فی أنفسہم ولا فی الأحکام۔ بل ما بقی فیہم إلا نہمۃ عشرین لونا من القلایا۔

وسبعین حسناء من المحصنات أو البغایا۔ ولا یعلمون ما



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 300

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 300

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/300/mode/1up


محفوظ جگہ خیال کرتے ہو۔ حالانکہ وہ تو ایک ناپاک اور بیسود جگہ ہے۔

کیا تم خیال کرتے ہو کہ وہ اسلام کی حدوں کو کفار سے بچا سکیں گے۔

نہیں نہیں بلکہ وہ تو خود انہیں غفلت کے ہاتھوں سے بلاتے ہیں کہ ملت کے رہے سہے آثار پر

بھی قابض ہوجائیں۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ اسلام کی پناہ میں ہیں۔سبحان اللہ

بڑی بھاری غلطی ہے بلکہ وہ تو بدعتوں سے دین خیرالانام کی بیخ کنی کرتے ہیں۔

تمہارا اختیار ہے کہ تم ان کی نسبت نیک گمان کرو اور بدکرداریوں سے اُن کی بریت ثابت کرو۔ لیکن کن علامتوں سے تم ایسا دعویٰ کرو گے۔کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ حرمین شریفین کے خادم اور محافظ ہیں۔ایسا نہیں بلکہ حرم انہیں بچا رہا ہے اس لئے کہ وہ اسلام اور رسول خدا کی

محبت کے مدعی ہیں۔ اور اگر وہ سچی توبہ نہ کریں تو سزا سر پر کھڑی ہے۔

سو تم میں کوئی ہے جو انہیں بُرے دنوں سے ڈرائے۔

تم دیکھتے نہیں کہ اسلام بیدادگر زمانہ کے ہاتھوں سے

فصل القضایا۔ أتحسبون سریرہم حمی الأمن؟ وما بقی

ہو إلا کالدمن۔ أتظنون أنہم یحفظون ثغور الإسلام من الکفرۃ؟ کلا بل ہم یدعونہم بأیدی الغفلۃ۔ لیتملّکوا ما بقی من

أطلال الملّۃ۔ أتزعمون أنہم کہف الإسلام۔ یا سبحان اللّٰہ

ما أکبر ہذا الغلط۔ إنّما ہم یجیحون ببدعاتہم دین خیر

الأنام۔ ولکم أن تُحسنوا الظن فیہم وتنزّہوہم عن السیئات۔

ولکن بأی العلامات؟ أتخافون أنہم یحفظون حرم اللّٰہ و

حرم رسولہ کالخدّام؟ کلا۔ بل الحرم یحفظہم لادّعاء

الإسلام وادّعاء محبۃ خیر الأنام۔ وقد حقّت العقوبۃ لو لم

یتوبوا إلی اللّٰہ المقتدر العلام۔ فمن فیکم یُذکّرہم بأیام اللّٰہ ویُخوّفہم من سوء الأیام؟ ألا ترون أن الإسلام قد تکسّر من دہر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 301

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 301

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/301/mode/1up


چُور ہو گیا ہے اور موسلا دھار مینہ کی طرح فتنے اس پر برس رہے ہیں۔

اور دشمنوں کی فوجیں شکاری کی طرح اس کے پھانسنے کو آمادہ ہیں۔اور اب

ایسی کوئی بات نہیں جو دِلوں کو خوش کرے اور دُکھوں کو دور کرے۔اور مسلمان جنگل کے

پیاسے یا اُس مریض کی طرح ہیں جو سانس توڑ رہا ہو۔ذری سی

جان اُن میں رہ گئی ہے۔ اور

طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار ہیں۔ اور

ظاہر اور باطن بگڑ گیا۔ اور نادان اور دانا بودے ہو گئے۔ اور مسافر

اور مقیم اندھے بن گئے اور اچھے دن دُور ہوگئے اور بُرے دن آ گئے

اور دین تبدیل ہو کر تلف ہونے پر آگیا اور اس کا دریا خالی مٹکے کی طرح ہوگیا اور

لوگوں نے صدق پر جھوٹی نکمی باتوں کو اور حق کی عالی شان عمارت پر ٹٹّی کو

اختیار کرلیا۔اور گمراہ ہونے کے بعد دنیا بھی جاتی رہی اور مصیبتیں دیکھیں

ہاضٍ۔ وجور فاضٍ۔ وإن الفتن مطرت علیہ ولا کمطر الوابل۔

وقام لصیدہ أفواج العدا کالحابل۔ وما بقی شیء

تسر القلوب۔ وتدرأ الکروب۔ وظہر المسلمون کعُطاشی

فی فلوات۔ وکمثل مرضٰی عند سکرات۔ وما بقی

فیہم إلا رمق حیاۃ۔ أو قطرۃ من فرات۔ أو قشرۃ من ثمرات۔

وإنہم قد ابتلوا بأنواع أمراض۔ وأقسام أعراض۔ وفسد

ما ظہر وما بطن۔ ووہن من جہل ومن فطن۔ وتعامی من

تغرّب ومن قطن۔ وغابت الأیام الغُرّ۔ ونابت الأحداث الغبر۔

وغُیّر الدین وقرب إلی تلف۔ وصار بحرہ کجلف۔ وآثر الناس

علی الصدق الأراجیف۔ وعلی القصر المنیف من الحق

الکنیف۔ ولما ضلوا ما بقی معہم دنیاہم وآنسوا التکالیف۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 302

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 302

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/302/mode/1up


اور عدل اور انصاف کو چھوڑ کر سونے چاندی کو بھی کھو بیٹھے اور

یہ باتیں پوشیدہ نہیں ایسے پر جو زمانہ سے واقف اور اُس آگ کو جانتا ہے جو

خاص اور عام کو جلا رہی ہے۔سو آج مسلمانوں کی راتیں چاند کے ڈوبنے کی راتیں ہیں

اور مختلف مذاق کے لوگ نظارہ کر رہے ہیں۔بعض لوگ تو مسلمانوں پر ہنسی

اُڑاتے گزرجاتے ہیں اور بعضے روتے ہوئے ان کی طرف دیکھتے ہیں۔

اور تم دیکھتے ہو کہ دل سخت ہو گئے ہیں اورگناہ بڑھ گئے ہیں۔اور سینے تنگ

ہو گئے اور عقلیں تیرہ و تار ہوگئیں اور غفلت اور سُستی اور

عصیان کی ترقی اور جہالت اور گمراہی اور فساد کا غلبہ ہو گیا ہے اور

تقویٰ کانام و نشان نہیں رہا۔اور دِلوں میں وہ نور جس سے ایمان کو

قوت ہو نہیں رہا اور آنکھیں اور زبانیں اور کان پلید ہوگئے ہیں اور اعتقاد

بگڑ گئے اور سمجھیں چھینی گئیں اور نادانیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور

وودّعوا مع تودیع الصرف والعدل الذہب والصریف۔ وہذا أمر لا یخفی علی ابن الأیام۔ والمطّلع علی نار تضرّمت فی الخواص والعوام۔ فالیوم لیالی المسلمین محاق۔

وعلیہا من النظارۃ أطواق۔ ومن الزحام أطباق۔ فقوم یمرّون

علی المسلمین ضاحکین۔ وآخرون ینظرون

إلیہم باکین۔وترون أن القلوب قست۔ والذنوب کثرت۔ والصدور ضاقت۔ والعقول تکدّرت۔ وعمّت الغفلۃ

والکسل والعصیان۔ وغلبت الجہالۃ والضلالۃ و

الطغیان۔ وما بقی التقوی وخطفہ الشیطان۔ ولم یبق فی القلوب نور یقوی منہ الإیمان۔ ونجس الأبصار والألسن والآذان۔ وفسدت الاعتقادات۔ وسُلبت الدرایات۔ وظہرت الجہلات۔و



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 303

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 303

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/303/mode/1up


عبادت میں نمود اور زہد میں خود بینی داخل ہو گئی ہے۔ بدبختی نمودار ہوگئی

اور سعادت کے نشان مٹ گئے ہیں اور محبت اور اتفاق جاتا رہا اور بغض اور پھوٹ پیدا ہوگئی ہے اور کوئی گناہ اور جہالت نہیں جو مسلمانوں میں نہیں اور کوئی ظلم اور گمراہی نہیں جو ان کی عورتوں اور مردوں اور بچوں میں نہیں۔خصوصاً ان کے امیروں نے راہ حق کو چھوڑ دیا ہے یا بیٹھ گئے ہیں یا ایک لنگڑے کی طرح چلتے ہیں اور بعضے تو سب مُردوں اور زندوں سے زیادہ ستم گر ہیں اور خدا کا امر اُن کے آگے پیش کیا گیا اور وہ گونگوں کی طرح چپ ہوگئے اور سب سے پہلے حق کے منکر ہوئے۔اسی سبب سے خدا نے انسانوں پر طاعون بھیجی اور جانوروں اور چارپایوں پر خشک سالی۔ اور نشان ظاہر ہوئے پر انہوں نے قبول نہ کیا۔ سو خدا کا غضب اُترا۔اور جب انہوں نے عذاب دیکھا کہنے لگے کہ تیرے وجود کو ہم نجس سمجھتے ہیں اوریہ طاعون تیرے جھوٹ کی وجہ سے پھیلی ہے۔کہا گیا تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔کیا اگر تم کو یاد دلایا جائے

العمایات۔ ودخل الریاء فی العبادۃ۔ والخیلاء فی الزہادۃ۔

وظہرت الشقاوۃ وانتفت آثار السعادۃ۔ ولم یبق التحابب و

الاتّفاق۔ وظہر التباغض والشقاق۔ وما بقی ذنب ولا جہالۃ

إلا وہو موجود فی المسلمین۔ ولا ضیم ولا ضلالۃ الا

وہو یوجد فی نساۂم والرجال والبنین۔ سیّما أمراء ہم

ترکوا الصراط أو قعدوا أو مشوا کالذی عرَجَ۔ وتری

بعضہم أظلم ممّن دبّ ودَرَجَ۔ وعُرِضَ علیہم أمر اللّٰہ فسکتوا کأخرس۔ وصاروا أوّل من کفر بالحق وتدلّس۔ ولذالک أُخِذَ الناسُ بالطاعون والعجماوات بالموتان۔ وظہرت الآیات فما قبلوہا فنزل سخط الرحمان۔ ولما رأوا العذاب قالوا إنّا تطیّرنا بک وبکذبک جاء الطاعون۔ قیل طائرکم معکم أئن ذُکّرتم بل أنتم قوم مسرفون۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 304

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 304

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/304/mode/1up


بلکہ تم حد سے نکلنے والے لوگ ہو۔اور خدا نے کوئی رسول نہیں بھیجا جس کے ساتھ آسمان اور زمین سے عذاب نہ بھیجا گیا ہو اس لئے کہ وہ باز آئیں۔اسی طرح حضرت مسیح کے زمانہ میں بھی پھوڑا نکلتا تھا جو ایک موقت عذاب تھا اور اس میں غور کرنے والے کے لئے نشان ہے۔دیکھتے نہیں کہ کیسی حفاظت کی اللہ نے اس گاؤں کی اور اپنے وعدہ کو سچا کیا اور اس زمین کو امن والی کردیا۔او راس کے آس پاس کے لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔اس میں سوچنے والے کے لئے نشان ہے۔کیا نہیں دیکھتے کہ ہریک قسم کے طاعون نے دوسرے دیہات میں کیونکر اپنے دانت دکھلائے ہیں اور اس گاؤں کو خدا نے اپنے میں لے لیا تا کہ اس وعدہ کو پوراکرے جو اس سے پہلے شائع کیا گیا اور خدا سے زیادہ راست گواور کون ہے۔پس فکر کراگر تُوپرہیزگار انسان ہے ۔اور بخدا یہ بڑا نشان ہے سوجاکھوں کے لئے۔سو تم ان کو پوچھو جنہوں نے یہ نشان دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں اگر تمہیں علم نہیں اور تم اپنے شیطانوں کی پیروی مت کرو اے وے لوگوجو تکذیب کررہے ہو۔ کیا تم خبردار نہیں ہوتے اور بہ تحقیق خدا کی طرف رجوع کرو۔کیا تم متنبہ نہیں ہوتے اور تم پر اور تمہارے بادشاہوں

وما أرسل اللّٰہ من رسول إلا وأرسل معہ عذاب من السماء والأرض لعلہم یرجعون۔ وکذالک کان النغف فی زمن المسیح عذابا موقتا وإن فی ذالک لآیۃ لقوم یتدبّرون۔ ألا ینظرون کیف حفظ اللّٰہ ہذہ القریۃ وصدق وعدہ وجعلہا أرضا آمنۃ۔ ویؤخذ الناس من حولہا۔ إن فی ذالک لآیۃ لقوم یتفکّرون۔ ألا ینظرون کیف اری الطواعین نواجذہا فی قُرًی أخرٰی۔ وأوی اللّٰہ إلیہ ہذہ القریۃ لیتم

وعدًا أُشیع من قبل فی الورٰی۔ ومن أصدق من اللّٰہ قیلا۔

ففکّر إن کنتَ بالتقوی تتحلّی۔ وواللّٰہ إنہا آیۃ عظمٰی لأناس یُبصرون۔ فاسألوا الذین رأوہا ویرونہا إن کنتم لا تعلمون۔ولا

تتّبعوا شیاطینکم وتوبوا إلی اللّٰہ ایہا المُکذّبون۔ ألا تتنبّہون وقد صُبّت المصائب علیکم وعلٰی ملوککم أیہا المعتدون۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 305

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 305

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/305/mode/1up


اور امیروں پر مصیبتیں ٹوٹ پڑیں اور ادبار آگیااور پُرلطف زندگی اور زرنہیں رہا۔اور بہتیرے سخت مفلس ہو گئے ہیں اُس پانی کی طرح جو خشک ہو جاتایا اس آدمی کی طرح جس پر ڈاکہ پڑتا ہے۔اس کے علاوہ پادریوں کے گروہ نے منحوس دن میں اُن پر حملہ کیااور بہت سے لوگ عیسائی ہوگئے اور خدا اور رسول کریم کے دشمن ہوگئے۔سواب مجھے بتاؤ کہ تمہارے بادشاہوں سے کس بادشاہ نے اس طوفان کے وقت کشتی بنائی بلکہ وہ خود بھی ڈوبنے والوں کے ساتھ ڈوب گئے اور زمانہ کی قینچی نے ان کے ناخن قلم کر ڈالے اور ان کے منہ کو گردوغبار نے ڈھانک لیا اور زمانہ نے اُن کا پانی خشک کردیا اور اقبال ان سے الگ ہوگیا۔اور انہوں نے حیلے تو کئے پر اُن سے کچھ نفع نہ پایااور ایسے فتنے آشکار ہوئے کہ وہ اپنی کمیٹیوں اور پارلیمنٹوں کے ذریعہ اور دشمنوں کی سرحدوں پر فوجوں کی چھاؤنی ڈال دینے کے وسیلہ ان کی اصلاح نہ کرسکے۔بسا اوقات انہوں نے ہتھیار سجائے اور بڑے بڑے لشکر بھیجے مگر نتیجہ سوائے شکست اور بڑی ذلت کے کچھ نہ ہوا۔ان کے وجود سے شریعت

وظہر الادبار۔ وما بقی لہم العیش النضیر ولا النضار۔ و

تری أکثرہم بادی المترتبۃ* کماء یغور أو کرجل یغار۔ ثم

صالت علیہم طوائف القسوس فی الیوم المنحوس فدخل

کثیر من الناس فی الملّۃ النصرانیۃ۔ وصاروا أعداء اللّٰہ

وأعداء رسولہ خیر البریّۃ۔ فأرونی أی ملک من ملوککم صنع

فلکا عند ہذہ الطوفان۔بل أُغرقوا مع المغرقین۔ وقلّم أظفارہم مقراض الزمان۔ ورہق وجوہم القتر۔ وانتزف ماء ہم الدہر۔ وفارقہم الاقبال۔ واحتالوا فما نفعہم الاحتیال۔ وظہرت فتن ما کانوا أن یُصلحوہا بالشورٰی والمنتدٰی۔ ولا بتجمیر البعوث علی ثغور العدا۔ وربما تقلّدوا أسلحۃ۔ بعثوا جنودًا مُجنّدۃ۔ فما کان مآلہم إلا الخزی والہزیمۃ۔ والہوان والذلۃ العظیمۃ۔ وما



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 306

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 306

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/306/mode/1up


روشن حقہ کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا۔بلکہ اسلام لنگڑے مریل متعدی مرض والے اونٹ پر سوارہوکر ایسی زمین میں چلا جس میں نہ سبزہ ہے اور نہ پانی ہے اور سخت ناہموار ہے اس لئے کہ بادشاہ خواہشوں کے جیل میں بندہیں اور مجوسیوں کی طرح خواہشوں کی آگ کے پرستار ہیں۔اور جو شخص شیطانی بیشوں میں چرتا چُگتا ہو اسے رحمانی باغوں سے کیا سروکار۔میرے نزدیک اُن کے وقت میں دین کی مثال اس جسم کی طرح ہے جس پراندر سے تو چیچک اور پھوڑے اور پھنسیاں نکلے ہوں اور باہر سے چھریوں اور نیزوں اور تلواروں نے اُسے زخمی کیاہو۔اور اس کے سرسبز کھیتوں میں ردّی نکمی چیزیں اگتی ہوں۔اور اس کے اعلیٰ درجہ کے کھجور کے درخت جلا دئیے گئے ہوں۔اور کبھی وہ ایسا باغ تھا کہ آنکھیں اس کے سرسبز نونہالوں کو دیکھ دیکھ خوش ہوتیں۔اور اس کے ابروباراں کو دیکھ کر دلوں کو جلا اور تازگی ملتی تھی۔لیکن وہی آج اُس درخت کی مانند ہے جس کے سایہ میں چمگادڑوں نے گھونسلے بنائے ہیں اور اس چشمہ کی مانند ہے جس کے خوشگوار

پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں رہا۔اور اس دین کی ہر شوکت اور برکت کوچ پر آمادہ ہورہی ہے۔

نفع وجودہم الشریعۃ الغرّاء۔ بل تدثّر الإسلام ظالعا ذا عدواء۔ فی أرض متعادیۃ موات مرداء۔ بما کان الملوک فی سجن الأہواء۔ کالمحبوس۔وعبدۃ نار الشہوات کالمجوس۔ ومن کان راتعا فی الأجمۃ الشیطانیۃ۔ ما لہ وللریاض الرحمانیۃ؟ فأری الدین فی زمنہم کمثل جسم ثارت بہ من الداخل حصبۃ ودمامیل وأنواع البثرات۔ وجرحہ من الخارج کثیر من المدی والقنا والمرہفات۔ وأُجْبِئَ زرعہ المخصب۔ وأُحرِق عذیقہ المرجّب۔ وکان فی زمان

کحدیقۃ ترتع النواظر فی نواضرہا۔ ویصقل الخواطر

بشیم مواطرہا۔ وأمّا الیوم فہو کشجرۃ اتخذت الخفافیش

أوکارہا فی أظلالہا۔ وکعین ما بقیت قطرۃ من زلالہا۔ واشمعلت للرحل کل شوکۃ وبرکۃ کانت فی ہذا الدین۔ وما بقی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 307

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 307

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/307/mode/1up


اور نشانوں کی نسبت کتھا کہانیاں رہ گئی ہیں اور کتاب مبین سے نراپوست اور چھلکا رہ گیا ہے۔اور وہ اس گھر کی مانند ہے جس کا مالک مر گیا ہے اور بین کرنے والیاں اس پر نوحے کررہی ہیں اور اس کی دیواریں ڈھ گئیں اورعمارتیں کپکپائی گئیں۔اب بتاؤ اے طبیبو تمہارے نزدیک علاج کا کیا طریق ہے۔کیا تمہاری رائے میں یہ امراء اس بلا کو دفع کرسکتے ہیں۔اور کیا تم امید کرتے ہو کہ یہ بادشاہ ان کانٹوں سے دین کے باغ کو پاک کرسکیں گے۔یا تم خیال کرتے ہو کہ یہ بیماریاں اسلامی سلطنتوں اور ان کی معلوم کوشش سے اچھی ہو جائیں گی۔

نہیں نہیں یہ بات اس سے زیادہ دشوار ہے کہ تم تھوہر سے تازہ کھجوروں کی امید رکھو

اور ان سے کیا توقع کی جائے اور وہ تو بڑے پتھروں کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور

وہ کیونکر سر اٹھائیں اور وہ ہزاروں غموں کے نیچے آئے ہوئے ہیں۔مَیں

سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آفتوں کا دفع کرنا بادشاہوں اور امیروں کامقدور نہیں۔

کیا کبھی اندھا اندھے کو راہ بتا سکتا ہے۔اے دانشمندو۔علاوہ بریں اگرچہ یہ بادشاہ

إلا قصص من الآیات وقشرۃ من الکتاب المبین۔ وتراہ کدارٍ مات صاحبہا۔ وقامت نوادبہا۔ وہُدم جدرانہا۔ وزُلزل بنیانہا۔

فانظروا ماذا ترون طرق المداوات یا طوائف الأساۃ؟ أتجدون

ہٰؤلاء الأمراء۔ یدفعون تلک البلاء۔ أتتوقّعون من ہذہ الملوک أنہم یُطہّرون حدیقۃ الدین من تلک الشوک۔ أو تزعمون

أن ہذہ الأمراض تَبرأ من الدول الإسلامیۃ وبجہدہم

المعلوم۔ کلا بل ہو أمر أعسر من أن تتوقعوا الرطب الجنی

من الزقّوم۔ وکیف وہم فی غشیۃ الوجوم۔ وکیف یرفعون

رأسہم وہم تحت ألوف من الہموم۔ والحق والحق أقول ان ہذہ آفات لیس دفعہا فی وُسع الملوک والأمراء۔ أیہدی الأعمٰی أعمٰی آخر یا ذوی الدہاء ؟ ثم إن ہذہ الملوک وإن



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 308

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 308

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/308/mode/1up


مسلمان یا مخلص ہمدرد بھی ہوں۔لیکن پھر بھی ان کے نفوس پاک کاملوں کے نفوس

کی مانند نہیں ہیں۔اور مقدسوں کی طرح انہیں نور اورجذب نہیں دیا جاتا۔اس لئے کہ

نور آسمان سے اسی دل پر اترتا ہے جو فنا کی آگ سے جلایا جاتاہے۔

پھر اُسے سچی محبت دی جاتی ہے اور رضا کے چشمہ سے اُسے غسل دیا جاتا اور

بینائی اور سچائی اور صفائی کا سرمہ اس کی آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔پھر اسے برگزیدگی

کے لباس پہنائے جاتے ہیں۔اور پھر اسے بقا کا مقام بخشا جاتا ہے۔اور جو آپ ہی اندھیرے میں بیٹھا ہو وہ اندھیرے کو کیونکر دور کرسکتا ہے۔اور جو آپ ہی لذات کے تختوں پر سوتا ہو وہ کسی کو کیا جگا سکتا ہے۔اور حق بات یہ ہے کہ اس زمانہ

کے بادشاہوں کو روحانی امور سے کوئی مناسبت نہیں۔خدا نے

ان کی ساری توجہ جسمانی سیاستوں کی طرف پھیر دی ہے۔اورکسی مصلحت سے

انہیں اسلام کے پوست کی حمایت کے لئے مقرر کررکھا ہے۔سیاسی اُمور ہی ان کے پیشِ نظر

کانوا من المسلمین أو من المخلصین المواسین۔ ولکن

لیست نفوسہم کنفوس الکاملین المطہّرین۔ وما أُعطَی

لہم نورٌ وجذبٌ کالمقدّسین۔ فإن النور لا ینزل قط من السماء

إلّا علی قلب أُحرِق بنیران الفناء ۔ ثم أُعْطِی من حُبّ شغفہ و

غُسِلَ من عین الرضاء ۔ وکُحل بکحل البصیرۃ والصدق والصفاء ۔ ثم کُسِیَ من حُلل الاجتباء والاصطفاء ۔ ثم وُہِبَ لہ مقام

البقاء ۔ وکیف یُزیل الظلمۃ من ہو قاعد فی الظلمات؟ وکیف

یوقظ من ہو نائم علی أرائک اللذّات۔والحق إن ملوک

ہذا الزمان لیست لہم مناسبۃ بالأمور الروحانیۃ۔ وقد صرف

اللّٰہ ہممہم إلی السیاسات الجسمانیۃ۔ ونصبہم بمصلحۃ

من عندہ لحمایۃ قشرۃ الملّۃ۔ وقیّد لحظہم بالأمور السیاسیۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 309

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 309

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/309/mode/1up


رہتے ہیں۔پس انہیں مغز اور حقیقت سے کیا نسبت۔اُن کا فرض اس سے زیادہ نہیں کہ اسلام کی سرحدوں کی نگہداشت کا اچھا انتظام کریں۔اور ظاہر ملک کی خبر گیری کرکے دشمنوں کے پنجوں سے اسے بچائیں۔رہے لوگوں کے باطن اور ان کا پاک کرنامیل کچیل سے۔اور بچانا لوگوں کو شیطان سے۔اور نہ ان کی نگہبانی کرنا آفتوں سے دعاؤں کے ساتھ اور

عقد ہمت کے ساتھ سو یہ معاملہ بادشاہوں کی طاقت اور ہمت سے باہر اور

بالا تر ہے اور دانشمندوں پر یہ بات پوشیدہ نہیں۔اور بادشاہوں کو مُلک کی باگ

اس لئے سپرد کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی صورتوں کو شیاطین کی دستبرد سے

بچائیں۔اس لئے نہیں کہ وہ نفوس کو پاک صاف کریں اور آنکھوں کو نورانی بنائیں۔

اصل میں ان کی بڑی کوشش یہی ہے کہ ان کو طوعاً وکرہاً خراج دیا جاوے اور ان کے

ہاں ایسے دفتر مرتب ہوں جن میں زمینوں کی مقداریں ضبط رہیں۔اور دشمنوں

کی فوجوں کے مقابل فوجیں آمادہ اور آراستہ رہیں۔اور اندرونی سیاست اور امور انتظامیہ

فما لہم لللبّ والحقیقۃ۔ ولیست فرائضہم أزید من أن

یُحسنوا الانتظام لحفظ ثغور الإسلام۔ ویتعھدوا ظواہر

الملک ویعصموہ من براثن الأعداء اللئام۔ وأمّا بواطن

الناس۔ وتطہیرہا من الأدناس۔ وتنجیۃ الخلق من شر الوسواس الخنّاس۔ وحفظہم من الآفات بعقد الہمّۃ والدعوات۔ فہذا أمر أرفع من طاقۃ الملوک وہممہم کما لا یخفی علی ذوی الحصاۃ۔ وما فُوّضَ زمام الملک إلی أیدی السلاطین۔إلا لحفظ الصور الإسلامیۃ من بطش الشیاطین۔ لا لتزکیۃالنفوس وتنویر العمین۔ فما کان

مبلغ جہدہم إلا أن تدفع إلیہم الخراج بالجبر أو التراضی۔

ویرتب الدیوان الذی تُحصٰی فیہ مقادیر الأراضی۔ وان

تہیّأ جنود بحذۃ عساکر الأعداء ۔ وأن ینصب فوج للسیاسات



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 310

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 310

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/310/mode/1up


کے لئے ایک فوج مقرر کی جائے۔سو اگر تم ان سے نفسوں کی

اصلاح کی اور اخلاق کے آراستہ کرنے کی اور پادریوں کے

اوہام سے بچانے کی خدمت چاہو تو یہ کام ان کی ہمت اور دانش سے بالا تر ہے۔

اوریہ ایسا منار ہے جو اُن کی عمارت سے بہت رفیع الشان ہے۔بلکہ وہ لوگ مادی اور سیاسی اصلاح میں مشغول ہیں انہیں علمی اور عملی اصلاح سے کیا مناسبت اور کیا تعلق۔

بادشاہوں اور امیروں کو قدرت نہیں کہ بری خواہشوں کو دور کرسکیں۔اوروہ کیونکر

دوسروں کو راہ دکھائیں جبکہ وہ آپ ہی اندھی اونٹنی کی طرح چلتے ہیں۔ٹیڑھے دل سے کیا توقع

ہو سکے کہ وہ کسی بیمار جان کو سیدھا کرے گااور بدبختوں کو نیک بخت کرے گا اور لڑکھڑانے والے

کا ہاتھ پکڑے گا۔اور کمزوروں کی رہبری کرے گا۔اور اندھوں کی

آنکھیں کھولے گا اور محجوبوں کے پردے دور کرے گا بلکہ اسلام کے

بادشاہ آج کل متوالوں یا قیدیوں کی طرح ہیں یا گہنائے ہوئے چاند کی

الداخلیۃ وفصل الأحکام والقضاء والإمضاء ۔ فإن تطلبوا

منہم خدمۃ اصلاح النفوس۔ وتہذیب الأخلاق والتنجیۃ

من أوہام القسوس۔ فذالک أمر أرفع من ہممہم و

دہاۂم۔ ومنارٌ أسنی من بناۂم۔ بل ہم قوم مشتغلون بالإصلاح المادی والسیاسی۔ فما لہم وللإصلاح العلمی والعملی۔

فحاصل الکلام ان الملوک والأمراء لا یقدرون علی

أن یزیلوا الأہواء ۔ وکیف یہدون غیرہم وہم یمشون کناقۃ

عشواء ۔ وکیف یُتَوَقّع من قلب زایغ أن یُقوّم نفسًا ذات عدواء۔

وأن یُسعد الأشقیاء ؟ وأن یأخذ بید المتخاذلین۔ ویقود الضعفاء۔ وأن یفتح عیون العمین وأن یرفع حجب المحجوبین؟ بل ملوک الإسلام فی ہذہ الأیام کالسکاری أو الأساری۔ أو القمر



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 311

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 311

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/311/mode/1up


طرح ہیں ہالہ میں۔سو ان کے بازو سے جنگی بہادروں کا

کام کیونکر نکل سکے۔بلکہ وہ تو بیٹھے ہوئے ہیں گھروں میں جیسا کہ عذارٰی۔

اس کے علاوہ ان میں یہ عیب بھی ہے کہ وہ عربی زبان کی اشاعت نہیں کرتے

اور ترکی یا فارسی زبان کی اشاعت کرتے ہیں اور واجب تھا کہ اسلامی شہروں میں

عربی زبان پھیلائی جاتی۔اس لئے کہ وہ زبان ہے اللہ کی اور اس کے

رسول کی اور پاک نوشتوں کی۔ اور ہم تعظیم کی نگاہ سے اُن مسلمانوں کو

نہیں دیکھتے جو اس زبان کی تعظیم نہیں کرتے اور نہ ہی اسے اپنے شہرمیں پھیلاتے ہیں اس لئے

کہ شیطان کو پتھراؤ کریں اور یہ بڑا سبب ہے ان کی تباہی کا اور ان کے وبال کا

نشان ہے۔اس لئے کہ وہ ستھرے باغ کو چھوڑ کر گوبر کے دمنہ پر جھک پڑے ہیں۔اور

اپنے ہاتھوں سے اپنا مال پھینک دیا ہے۔اور اپنا تھیلا(جس میں مال اسباب رکھا جاتا ہے)

پارہ پارہ کردیا ہے اور ادنیٰ کو اعلیٰ کے بدلہ لے لیا ہے اور یہودیوں کی مانند ہوگئے ہیں۔اوراگر

المنخسف بین ہالۃ النصاری۔ فکیف یصدر من عضدہم

فعل من بارز وبارٰی؟ بل ہم قعدوا فی البیوت

کالعذارٰی۔ ثم من معائب ہذہ الملوک أنہم لا

یشیعون العربیۃ۔ ویشیعون الترکیۃ أو الفارسیۃ۔ وکان من

الواجب أن یُشاع ہذہ اللسان فی البلاد الإسلامیۃ۔ فإنہ

لسان اللّٰہ ولسان رسولہ ولسان الصحف المطہّرۃ۔ و

لا ننظر بنظر التعظیم إلی قوم لا یُکرمون ہذا اللسان۔ ولا

یشیعونہا فی بلادہم لیرجموا الشیطان۔ وہذا من أوّل أسباب اختلالہم۔ وأمارات وبالہم۔ فإنہم تمایلوا علی دمنۃ من حدیقۃ مطہّرۃ۔ ونبذوا من أیدیہم حریبتہم ومزّقوا عیبتہم۔ واستبدلوا

الذی ہو أدنی بالذی ہو أرفع وأعلٰی۔ وشابہوا قوم موسٰی۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 312

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 312

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/312/mode/1up


چاہتے تو عربی کو قومی زبان بناتے۔اس لئے کہ عربی زبان تمام

زبانوں کی ماں ہے۔ اور اُس میں قسم قسم کے

عجائبات اور قدرت کی امانتیں ہیں۔سو مثال اس شخص کی جو عربی زبان کو چھوڑتا اور

دوسری زبانوں کو اس پر ترجیح دیتا ہے۔اس پست ہمت کی مثال ہے جو اچھے ستھرے کھانے کو

چھوڑ کر خنزیر کی ہڈیوں کا گودا کھاتاہے۔اس میں شک نہیں کہ ترکی اور فارسی نے

ایک کیسہ بر کی طرح ان کے دین کو کم کردیا اور مال اڑا لیا ہے۔ یا بھیڑیے کی

طرح ان کے رئیسوں کو پھاڑ کھایااور ان کے اقبال کو چاک کردیاہے اور ان کی دنیا اور آخرت کو

نقصان پہنچایا ہے اور انہیں کُوٹ اور پیس کر سُرمہ اور آٹے کی طرح کر دیا

ہے۔سو جھوٹ بولا اس نے جس نے ان کا ذکر تعریف کے ساتھ کیا اور ان کو

زمین پر خدا کے خلیفے سمجھا اور اپنے دعوے کے منکر کو فاسق ٹھہرایا۔ایسا شخص تو

نقدی اور بخشش کا طالب ہے اُسے خلیفہ خلافت سے کیا تعلق۔وہ تو اس بات کا طالب ہے کہ

ولو أرادوا لجعلوا العربیۃ لسان القوم۔ ولو سلکوا ہذاالمسلک لعُصموا من اللوم۔ فإن العربیۃ أم الألسنۃ۔ وفیہا أصناف العجائب وودائع القدرۃ۔ فمثل رجل مسلم یترک العربیۃ ویُفضّل علیہا ألسنۃ أخری کمثل دنیء یتمشش الخنزیر ویترک طعاما ہو أطیب وأحلی۔ فلا شک أن الترکیّۃ والفارسیّۃ تصدت لہم کطرّار نقصت

دینہم وخلست ما لہم۔ أو کذئب افترست عنقہم ومزّقت

اقبالہم۔ وأضرّت دنیاہم ومآلہم۔ وجعلہم کالکحل

سحقا۔ وکالطحن دقّا۔ وما نقول إلا حقّا۔ فقد کذَبَ من

ذکرہم بحمد وفّاہ۔ وبنشرٍ ملأ بہ فاہ۔ وحسبہم خلفاء

اللّٰہ علی الأرض وفسّق من أنکر دعواہ۔ إنہ یرتاد جفنۃ الجواد۔ لا خلیفۃ البلاد۔ ویستقری أن یرشح لہ ویسح علیہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 313

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 313

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/313/mode/1up


دو باتیں کیں اور انعام خطاب لے لیااور اِس چشم پوشی سے اس کی غرض روپیہ کمانا ہے۔سو سچی بات یہ ہے کہ ان کو خلیفہ کہنا خلاف حق اور ظلم کی بات ہے۔اے نوجوانو یہ ہے حال بادشاہوں کا۔اب ہم زمانہ کے علماء کا حال بیان کرتے ہیں۔جن کی طرف

بزرگی اور معرفت کو منسوب کیا جاتا ہے۔اب اس سے آگے ترجمہ کی کوئی

ضرورت نہیں۔اِس لئے کہ وہ خود زبان دانی کے مدعی ہیں۔

بکلمتیہ۔ ویحرز العین بغض عینیہ۔ فالحق أن نسبۃ الخلافۃ

إلیہم خلاف۔ وکذب واعتساف۔ ہذا حال السلاطین*

أیہا الفتیان۔ ونذکر بعد ذالک علماء ہذا الزمان الذین یُعزَی

إلیہم الفضل والعرفان۔ واللّٰہ المستعان۔ ولا حاجۃ إلی

الترجمۃ والترجمان۔ فإنّہم یدّعون علم اللسان۔

فی ذکر عُلماء ھٰذاالزمان

لمّا ثبت ممّا سبق من البیان أن ملوک الإسلام فی ہذا الزمان لا

یطیقون أن یُصلحوا المفاسد التی تضرّمت کالنّیران۔ بقی لک حق

أن تقول ان ہذہ الفتن قد تولّدت من جہل الجہلاء۔ وستنعدم من

تعلیم العلماء۔ فإنہم ورثاء النبی وکماۃ ہذا المیدان۔ وإنہم مُنوّرون

بنور العلم فیُرجی منہم أن یُصلحوا ما لم یُصلحہ سلاطین البلدان۔

* لیس مرادنا ھھنامن ذکر ملوک الاسلام ان کلھم ظالمون۔اوکلھم مفسدون بل بعضھم صالحون۔لایظلمون الناس ویرحمون کماہوسلطان الروم ونثنی علیہ لبعض خلیفۃ المعلوم۔ بید ان امرالخلافۃ امرعسیرولایعطی الالبصیرلالضریر۔ومااعطی ھٰذاالسھم لکل کنانۃٍ۔وان کانوا ذا مرتبۃ ومکانۃٍ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 314

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 314

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/314/mode/1up


فاعلم أنی طالما حضرت مجالس ہذہ العلماء۔ وخلوت بہم کالأحبّاء۔ وربما جئت بعضہم بزیّ نکرتہ کالغرباء۔ أو الجہلاء۔ وجرّبتہم عند محبّتہم والشحناء۔ والبؤس والرخاء۔ وعلمت دخلۃ أمرہم ومبلغ ہممہم وما عندہم من الاتّقاء۔ فظہر علیّ أن أکثرہم للإسلام کالدّاء لا کالدواء۔ وللدین کالہجوم المظلم والہوجاء۔ لا کالسراج المنیر والضیاء۔ جمعوا کل عیب فی السیرۃ والمریرۃ۔ ولطّخوا أنفسہم بالمعایب الکثیرۃ۔ یجلبون أموال الناس إلی أنفسہم من کل مکیدۃ۔ بأی طریق اتفق وبأی حیلۃ۔ یقولون ولا یفعلون۔ ویعظون ولا یتعظون۔ ویتمنّون أن یحصدوا ولا یزرعون۔ قلوبہم قاسیۃ وألسنہم مفحشۃ۔ وصدورہم مظلمۃ وآراۂم ضعیفۃ۔ وقرائحہم جامدۃ۔وعقولہم ناقصۃ۔ وہممہم سافلۃ وأعمالہم فاسدۃ۔ ما تری نیتہم فیمن خالفوہ من غیر أن یُفیضوا فیہ بأی حیلۃ یُکفّرونہ أو یؤذونہ۔ وفی مالہ الذی یُرجی حصولہ بأی طریق یأخذونہ۔ ویتکبّرون بعلم قلیل یسیر۔ ولیسوا إلا کحمیر*۔ یأمرون الناس بترک الدنیا وزخرفہا ثم یطلبونہا أزید من العوام۔ ویسعون أن یتعاطوہا ولو

بطریق الحرام۔ ینتہزون مواضع صدقات الأمراء۔ فإذا أُخبِروا فوافوہم

فی الطمرین کالغرباء۔ ویسألون إلحافًا ولو لُکِموا لکمۃً۔ أو ثُنّیَ

علیہم بلطمۃ۔ یتبعون الجنائز ولکن لا للصلواۃ۔ بل للصدقات۔ لا

یقبلون الحق ولا یفہمونہ ولو کان بیان یُسمع الصم۔ ویُنزل العصم۔

الجبن من صفاتہم۔وطیر الأہواء فی وکناتہم۔ البخل فطرتہم و

*الحاشیۃ:لیس کلامنا ھٰذافی اخیارھم بل فی اشرارھم۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 315

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 315

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/315/mode/1up


الحسد ملّتہم۔ وتحریف الشریعۃ شرعتہم۔ ہم عند الغضب ذیاب۔ وفی وقت الأکل دواب۔ لیس سخطہم ولارضاھم إلا لنفوسہم الأمّارۃ۔ ولیس ذکرہم وتسبیحھم إلا للنظّارۃ۔ انظر إلیہم فی المجامع ولا تنظر إلیہم فی الخلوۃ۔لتری السبحۃ فی أیدیہم ولا تری فعلا آخر یفسد ظنّک فی ہذہ الفرقۃ۔ یُکرہون الناس لیدفعوا إلیہم مما ہو عندہم من الدرہم أو الکساء۔ وإن بلغہم المتربۃ إلی فِناء الفَناء۔ یحسبون أنفسہم مالک رقاب الناس۔ إن شاء وا یُسمُّوہم ملا ئکۃ وإن شاء وا یسموہم إخوان الخنّاس۔ إن کانت عندہم شہادۃ فلا یصدقون۔ وإن یُستفتوا فلطمع قلیل یکتمون الحق ویکذبون۔ یؤمّون الناس فی صلواتہم کالمستأجَرین۔ بل تری بعضہم یأکل أوقاف المساجد من غیر حق ویُتلف حقوق المساکین۔ ویأبی أن یؤمّ غیرہ ویقول ہذا مسجدی أؤمّ فیہ من الستین۔ وإن کان غیرہ أفضل منہ وأعلم ومن المتّقین۔ بل وإن کان الناس یکرہون إمامتہ ویعدّونہ من الفاسقین۔ ویُرافع الی الحکّام إن عُزِلَ من إمامۃ المسجد طمعا فیما وُقف علیہ من العسجد۔ وترٰی بعضہم لو اطّلعوا علی مال کسبتَہ أو کنز أصبتَہ۔ جمعوا علیک کاذبۃ۔ وجاء وک کأحبّۃ۔ ثم لا یبرحون فناء دارک۔ حتی یأکلوا من ثمارک۔ وتجد قلوب أکثرہم کالأرض التی أجدبت وکانت من أردء أقسام حرۃ۔ لا تنبت نباتا حسنا وما تری منہا من غیر مضرّۃ۔ لا یوجد فیہم أثر حلم بل سبقوا السباع بحدّۃ الأسنان۔ وأسلّۃ اللسان۔ یأتونکم فی جلود الضأن۔ وہم ذیاب مفترسۃ بأنواع البہتان۔ بشرط أن لا یعرض علیہم ترس العقیان۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 316

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 316

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/316/mode/1up


یخرجون علی الناس بدنیّۃ تقلّسوہا۔ وفوطۃ تطلّسوہا۔ وعمامۃ تعمّموہا۔ وجبّۃ جمّلوہا۔ وکتب حملوہا۔ وزُغُب شملوہا۔ ہذا ما یُظہرون۔ وذالک ما یعملون۔ خرجوا فی طلب الدنیا ونسوا الدار التی إلیہا یرجعون۔ وإذا قیل لہم أتأکلون رزقا فیہ شبہۃ قالوا لا بأس علینا إنّا لمضطرّون۔ ولیسوا بمضطرین وإن ہم إلا یکذبون۔ ترکوا دار الأمن من التقوی۔ وحلّوا بأرض فیہا یُغتال الناس ویُخطفون۔ یؤتون نض الإیمان للرغفان۔ ویتمایلون علی المجان۔ وتکتب أیدیہم فتاوی الزور والبہتان۔ ویجبح إیمانہم درہم أو درہمان۔ یمنعون الناس من الحق ویوسوسون کالشیطان۔ وإذا رأوا أوانی نظیفۃ فیہا ألوان أطعمۃ۔ سقطوا علیہا کأذبۃ۔ أو کأنسر علی جیفۃ۔ یستوکفون الأکف بالوعظ المخلوط بالبکاء۔ ویستقرون الصید بتقمّص لباس الفقہاء۔ ما بقی شغلہم إلا المکائد۔ وکمثلہم أین الصائد۔ ولذالک نُحِتَت کتب السمر لإراءۃ أعمالہم۔

وبُیِّنَ فی القصص الفرضیۃ حقیقۃ أحوالہم۔ فسماہم بعض السامر

بأبی الفتح الاسکندری۔ والآخر بأبی زیدن ا لسروجی۔ وما ہما إلا ہذہ العلماء۔ فاعتبروا یا أولی الدہاء۔وإن الذین نحتوا کمثل ہذہ القصص من عند

أنفسہم ما نحتوہا إلا بعد ما ارتعدت قلوبہم من رؤیۃ تلک

العالمین۔ واقشعرّت جلدتہم من مشاہدۃ مکائد ہؤلاء المکّارین۔و رأوا

أنہم قوم آمن بیانہم۔ وکفر جنانہم۔ فأنشأوا مقامات تنبیہا للغافلین۔ وعزوا نشأتہا وروایتہا إلی رجال آخرین۔ بما کانوا خائفین من الخبیثین۔ و

کذالک أدّوا شہادۃ کانت عندہم علی العلماء۔ ولو کانوا فی ہذا الزمن لأقرّوا بمکائدہم ولکن ما عدّوہم من الأدباء۔ فإن العلماء الذین خلوا من



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 317

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 317

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/317/mode/1up


قبل کان کلامہم لطیفًا۔ وإن کان دینہم رغیفًا۔ وأمّا المتصلّفون الذین تجدونہم فی زماننا فی کل بلدۃ کقطیع الغنم۔ فہم لیسوا إلا عبیدۃ الرغفان۔ لا من الأدباء ولا من أہل القلم۔ وما غُذّوا بلبان البیان۔ وما أُشرِبوا کأس الحجۃ والبرہان۔ یسکتون ألفًا وینطقون خلفًا۔ لیسوا متوغلین فی العلوم العربیۃ۔ ولا مُرتوین من العیون الأدبیۃ۔ کثر تکبّرہم۔ وقلّ تدبّرہم۔ لا یقدرون علی نطق یفید الناس۔ بل یزیدون بقولہم الشبہۃ والوسواس۔ إذا صمتوا فصمتہم ترک للواجب وصقع۔ وإذا نطقوا فنطقہم میت لیس لہ وقع۔ قصرت ہمّتہم۔ وفترت عزمتہم۔ لا یعلمون الا الأمانی کالیہود۔ ولیس صلواتہم من دون القیام والقعود۔ ما بقی لہم مسٌّ بمعضلات الشریعۃ۔ ولا دخلٌ فی دقائق الطریقۃ۔ ولو انتقدتہم لوجدت أکثرہم سقطًا وکالأنعام۔ وأیقنت أن وجودہم إحدی المصائب علی الإسلام۔ تجدہم کزمع الناس فی الإفحاش۔ وکالکلاب فی الہراش۔ یحسبون کأنہم یُترکون سُدَی۔ ولیس مع الیوم غدا۔ ما کان علی الحق الغشاء۔ ولکن تغلّب علیہم الشقاء۔ عندہم تکفیر الناس أمرٌ ہیّنٌ۔ والاعتقاد بموت عیسٰی لہ وجہ بیّنٌ۔ وتاللّٰہ إنہم ما یقصدون فتح الإسلام۔ بل یقصدون فتح القسوس کالأعداء اللئام۔ ویترکون الدین فی الظلام۔ وینصرون عقیدۃالنصاری بخزعبیلا تہم۔ وبہفوات آباء ہم وجہلا تہم۔ وقد أُمِروا أن یتّبعوا الحَکَمَ الذی ہو نازل من السماء۔ ولا یتصدّوا لہ بالمراء۔ فما أطاعوا أمر اللّٰہ الودود۔ بل إذا ظہر فیہم المسیح الموعود۔ فکفروا بہ کأنہم الیہود۔ وقد نزل

ذالک الموعود عند طوفان الصلیب۔ وعند تقلیب الإسلام کل التقلیب۔ فہل



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 318

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 318

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/318/mode/1up


اتّبع العلماء ہذا المسیح؟ کلا۔ بل اکفروہ وأظہروا الکفر القبیح۔ وأصرّوا علی الأباطیل وخدموا القسوس۔ فأخذہم القسوس وشجوا الرؤوس۔ وأذاقوہم ما یذیقون المحبوس۔ فرأوا الیوم المنحوس۔ سیقول السفہاء أن الدولۃ البرطانیۃ أعانت القسیسین۔ ونصرتہم بحِیلٍ تُشابہ الجبل الرکین۔ لیُنصّروا المسلمین فما جریمۃ العالمین۔ والأمر لیس کذالک والعلماء لیسوا بمعذورین۔ فإن الدولۃ ما نصر القسوس بأموالہا ولا بجنود مقاتلین۔ وما أعطتہم حریّۃ أزیَد منکم لیرتاب من کان من المرتابین۔ بل أشاعت قانونًا سواء بیننا وبینہم ولہا حق علیکم لوکنتم شاکرین۔ أتریدون أن تُسیؤا إلی قوم ہم أحسنوا إلیکم واللہ لا یُحب الکفّارین الغامطین۔ ومن ائحسانہم أنکم تعیشون بالأمن والأمان۔ وقد کنتم تُخطفون من قبل ہذہ الدولۃ فی ہذہ البلدان۔ وأمّا الیوم فلا یؤذیکم ذباب ولا بقّۃ ولا أحد من الجیران۔ وإن لیلکم أقرب إلی الأمن من نہار قوم خلت قبل ہذا الزمان۔ ومن الدولۃ حفظۃ علیکم لتُعصَموا من اللصوص وأہل العدوان۔ وہل جزاء الإحسان الا الإحسان۔إنّا رأینا

من قبلہا زمانا موجعا من دونہ الحطمۃ۔ والیوم بجُنّتہا عُرضت علینا

الجنّۃ نقطف من ثمارہا۔ ونأوی إلی أشجارہا۔ ولذالک قلتُ غیر مرّۃ

أن الجہاد ورفع السیف علیہم ذنب عظیم۔ وکیف یؤذی المحسن من

ہو کریم؟ ومن آذی محسنہ فہو لئیم۔ و إن کُفران خیرٍ أصابک من الإنسان أو الحیوان۔ ما ہو الا کُفران نعمۃ الرحمان۔ وإن أقسی القلوب عند اللّٰہ الکریم۔ قلبٌ ینسٰی إحسان المحسن الرحیم۔ ویؤذی رجلا أواہ إلیہ کالمحبوب۔ ونجّاہ من الکروب۔ ومن أساء إلی المحسن فہو قلب ملعون۔ أو کلب مجنون۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 319

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 319

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/319/mode/1up


ولذالک لیس من شأن المؤمنین۔ أن یقتلوا القسّیسین۔ فإنہم ما تقلّدوا أسلحۃ۔ وما قتلوا للدین مسلمًا أو مسلمۃ۔ فلیس من البرّ أن تسلّوا سیوفا بحذاۂم۔ أو تثقفوا أسنّۃ لإیذاۂم۔ بل أعدّوا کمثل ما أعدّوا۔ وذالک حکم القرآن فافہموا وجدّوا۔ ولا تعتدوا إن اللہ لا یحب المعتدین۔

سیصول علیّ شریر أو ضریر ویقول ویحک أتحرّم الجہاد۔ وإنّا ننتظر المہدی الذی یسفک الدماء ویفتح البلاد۔ ویأسر کل من أری الکفر والعناد۔ فالجواب أن ہذہ القصص ما ثبتت بالقرآن۔ بل یاتی المہدی بوقار وسکینۃ۔ لا کمجنون بالسیف والسنان۔ أیقبل عقل سلیم وفہم مستقیم أن یخرج المہدی بسیف مسلول ویقتل الغافلین؟ وما کان اللہ أن یُعذّب أمّۃ قبل أن یُفہّم بالآیات والبراہین۔ وإن ہذا أمر لا نجد نموذجہ فی سُنن المرسلین۔ ولا یصدر کمثل ہذا الفعل الا من المجانین۔ فعدّلوا میزان العقل۔ ولا تمیلوا کل المیل إلی سمر النقل۔ واتّقوا طعن العقلاء وانبذوا السیف الذربَ۔ ولا تؤثروا الطعن والضربَ۔ ولا تنسوا حدیث "یضع الحرب"۔ ما لکم لا تأخذون حظا من المقۃ۔ کإخوان الصدق والثقۃ؟ ألیس عندکم الا المرہفات۔ واللہذم والقناۃ۔ أو برأتم من سبل الحصاۃ۔

وإن المہدی قد أتی وعرفہ العارفون۔ وہو الذی یُکلّمکم أیہا النائمون۔ فوجدتم ثم فقدتم کأنّکم لا تعرفون۔ کفّرنی ہذہ العلماء من

التزویر والتلبیس۔ وکیف لا والشیخ المفتی إبلیس؟ وإن القسوس طربوا وشہقوا بوجود ہذہ العلماء۔ وآووہم إلی سررہم إعزازًا للرفقاء۔

فإنہم آثروا الکذب لإحیاء عیسٰی وزیّنوا دقاریر۔ ونسوا مضجع



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 320

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 320

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/320/mode/1up


ابن مریم بکشمیر۔ فلما رأی القسوس بعد التمرّس والتجربۃ۔ أنہم حُماتہم فی جعل عیسٰی من الآلہۃ۔ قالوا لنا عند المسلمین شہادۃ فی عظمۃ ربنا المسیح۔ فإنہم یُقرّون بصفاتہ الربانیۃ بالتصریح۔ وما کذبوا فی ہذا البیان۔ وإن کانوا کاذبین عند الرحمان۔ فإنّک تعلم أن ہذہ العلماء قد تفوّہوا بألفاظ فی شأن عیسٰی لیس معناہا من غیر أنہم جعلوہ للہ کالمتبنّی۔ ولن تعود دولۃ الإسلام إلی الإسلام۔ من غیر أن یتّقوا ویوحّدوا ویدوسوا ہذہ العقیدۃ تحت الأقدام۔ إنہم یُحطّون ویدَعّون کل یوم إلی تحت الثری۔ الا إذا اتّقوا وجعلوا عیسٰی من الموتٰی۔ وواللّٰہ إنی أری حیاۃ الإسلام فی موت ابن مریم۔ فطوبٰی للذی فہم ہذا السرّ وفہّم۔ ألا ترون القسیسین کیف یُصرّون علی حیاتہ؟ ویُثبتون ألوہیتہ من صفاتہ؟ فأین فیکم

رجل یردّ علیہم للہ ومرضاتہ؟ ویُثبت أنہ من الموتی ویسدد قولہ

من جمیع جہاتہ۔ ویقوّم سہمہ مع موالاتہ۔ ویھزم العدوّ بصایبہ ومصمیاتہ؟ کلا۔ بل أنتم تعاونونہم وتنصرون۔ وبأصوات النواقیس تفرحون۔

ولا تُسفرون عن أوجہکم۔ أأنتم القسوس أم المسلمون؟ أتحولون

حولہم لعلّکم تُرزقون؟ أوَتُوَقّرون بہم وتُعزّزون؟ وللہ العزّۃ جمیعا

ولہ خزائن السماوات والأرض وکل ما تطلبون۔فما لکم لا تؤمنون

باللّٰہ ولا تتوکّلون۔لیسوا سواء زمر العلماء۔فریق اتقوا وفریق یفسقون۔

إن الذین اتّقوا لا نذکرہم الا بالخیر وسیہدیہم اللہ فإذا ہم یُبصرون۔

وإذا قیل لہم کفّروا ہذا الرجل الذی یقول إنی أنا المسیح قالوا

ما لنا أن نتکلّم بغیر علم وإنّا خائفون۔وقد أخطأ کل من استعجل فی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 321

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 321

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/321/mode/1up


موسٰی وعیسٰی وفی نبیّنا المصطفٰی فلم تستعجلون؟ إن یک کاذبا فعلیہ کذبہ وإن یک صادقا فنخاف أن نعصی اللہ والذین یُرسلون۔ وقوم آخرون منہم آمنوا بالحق وأُوذوا فصبروا علیہ وأُخرِجوا من دورہم ومساجدہم وحُقّروا بعد ما کانوا یُعَظّمون۔ وإذا رأوا آیۃ من الآیات۔ والأنوار النازلۃ من السماوات۔ زاد إیمانہم۔ وأشرق عرفانہم۔ ورضوا بکل مصیبۃ بما عرفوا من الحق۔ وماتوا من ہذہ الدنیا وکل یوم إلی اللہ یُجذبون۔ تری أعینہم تفیض من الدمع۔ربنا إننا سمعنامنادیا ورأینا ہادیا فآمنّا بہ فاغفر لنا ربّنا وکفّر عنّا سیئاتنا ولا تمتنا الا ونحن علیہ ثابتون۔ أولئک الذین أرضوا ربّہم ولہ ترکوا صحبہم وصیل علی بعضہم فقضوا نحبہم أولئک علیہم صلوات اللہ وبرکاتہ وأولئک ہم المہتدون۔ إن الذین بَلَغَتْہُم بشارۃ بعث المسیح فما قبلوہا أولئک ہم المحرومون۔ یضاہؤن النصاری بعقائدہم و لا یشعرون۔ یقولون إن القسوس أقرب منکم إلی الحق أولئک الذین

لعنہم اللہ والملائکۃ والصلحاء أجمعون۔ وإن الذین شقوا ما والاہم

الا من ولّی۔ وما صافاہم الا القلب الذی صار کالکلب ومن النور

تخلّی۔ ونُشِأ فی الجہل وبالعلم ما تحلّی۔ فسیعلم إذا اللہ تجلّی۔ ألا یرون الطاعون؟ ألا یرون سہام أشرار۔ کأنہا شواظ من نار؟ وقدنزل

العدا بساحتہم وتشمّروا لإجاحتہم فما بارزوا الأعداء وما أعدّوا۔

وما فکّروا فی حیل أجاحوا الدین بہا و ردّوا۔ انظروا إلی ہذہ العلماء۔ إنہم ما دخلوا الدار من بابہا البیضاء۔ بل تسوّروا جدران الحق من الاجتراء۔ وإن المسیح قد وافاہم مع العلوم النخب۔ رُحْمًا من اللہ ذی العجب۔ وما



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 322

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 322

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/322/mode/1up


أنضوا إلیہ رکاب الطلب۔ بل اضطرمت نار الفتن فاقتضت ماء السماء۔ فنزل مسیح اللہ بعد ما نزلت علی الناس أنواع البلاء۔ وترون کیف صالت القسوس وشاعت الملّۃ النصرانیۃ۔ وقلّت الأنوار الإیمانیۃ۔ ودقّت المباحث الدینیۃ فی ہذا الزمان۔ وصارت معضلا تہا شیء لا تفتح أبوابہا من دون الرحمان۔ فالیوم إن کان زمام الدین فی أکفّ ہذہ العلماء۔ فلا شک فی خاتمۃ الشریعۃ الغرّاء۔ فإنہم إذا بارزوا فولّوا الدبر کالمبہوت المستہام۔ وکانوا سببا لاستخفاف الإسلام۔ وکیف یتصدّی رجل للحرب۔ قبل أن یُمرّن علی عمل الطعن والضرب؟ وواللہ إنہم قوم لا توجد فی کلامہم قوّۃ۔ ولا فی أقلامہم سطوۃ۔ ثم مع ذالک یوجد فی أقوالہم سمّ الریاء۔ ولا یتفوّہون من الإخلاص والاتّقاء۔ بل تشاہد فیہا أنواع العفونۃ۔ من الجہل والتعصّب والرعونۃ۔ ولا یُری فیہا صبغ من الروحانیۃ۔

ولا یُؤنس شیء من النفحات الإیمانیۃ۔ ولا یکون محصلہا الا

ذخیرۃ الشک والریب۔ ولا یُرْشَح علی قلوبہم علم من الغیب۔ ولذالک لا یقدرون علی تسلیۃ المرتابین۔ وتبکیت المعترضین۔ بل ہم فی شک

ومن المتذبذبین۔ وکثیر منہم نجد منہم ریح الدہریین۔ ولیس قولہم الا کالسرجین۔ أو کمیّت قُبر من غیر التکفین۔ ولیسوا الا عارا علی الإسلام وتبارا للمسلمین۔ لاسیما فی ہذا الحین۔ فإن الناس یتطلّبون فی ہذا الأوان۔ من یُخرجہم من ظلمات الشک إلی نور الإیقان۔ ویحتاجون إلی

نطق یُشفی النفس۔ وینفی اللبس۔ ویکشف عن الحقیقۃ الغمّٰی۔ و

یوضح المعمّٰی۔ فأین فی ہؤلاء رجل توجد فیہ ہذہ الصفات۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 323

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 323

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/323/mode/1up


وکیف من غیر حدید تُکسر الصفات؟ وأین فیہم رجل بلیغ یتمایل علیہ الجلاس؟ وأین فصیح یتفوّہ بکلم یستملحہا الناس؟ وأین فیہم مُزَکَّی یُحیی القلوب۔ ویہب السکینۃ ویدرأ الکروب؟ وأین کلام تحکی لآلی منضدۃ؟ وأین بیان یضاہی قطوفا مذلّلۃ؟ بل أخلدوا إلی الأرض بحرص شدید۔ فأنَّی لہم التناوش من مکان بعید؟ وما کان لأحد أن یکون قادرًا علی حُسن الجواب۔ وفصل الخطاب۔ ومستمکنًا من قول ہو أقرب إلی الصواب من غیر أن ینفخ فیہ من رب الأرباب۔ فانظروا أتجدون فیہم من یُبکّت المخالف فی کل مورد تورّدہ۔ ویُسکّت الزاری عند کل کلام أوردہ؟ أتجدون فیہم من کان سبّاق غایات فی مُلح الأدب وغُرر البیان۔ ولا یأخذہ خجالۃ فی أسالیب التبیان۔ ثم مع ذالک کان البیان فی معارف الفرقان۔ مع التزام الحق والصدق والاجتناب من الہذیان؟ أرأیتم فیہم

من یُخوّف قرنہ بالبلاغۃ الرائعۃ۔ ویذیب النفوس بالکلم الذائبۃ المائعۃ۔ أو یُرِی الکلام فی الصورۃ کالدرر المنثورۃ؟ ولن تری فیہ صرِّیعًا۔

ومن کان فی العلوم یَحْکِی بقیعًا۔ نعم تری فیہم أمواج تکبّر وخیلاء۔ من غیر فطنۃ ودہاء۔ ثم مع ھذا الجہل بلَغَتْ رؤوسہم إلی السماء۔ ولا

یمشون علی استحیاء۔ ولا ینتہون من تصلّف واستعلاء ورعونۃ وریاء۔ وتحقیر وازدراء۔وکأیّن من آیۃ أنزلہا اللہ ثم لا یُصغون۔ ویمرّون ضاحکین علی اللّہ ورسلہ ویستہزء ون۔ ولا یعبدون الا أہواء ہم ولا یتدبّرون۔ و

قالوا أرنا آیۃ من اللہ۔ وقد ظہرت الآیات من السماوات والأرض

لقوم یتّقون۔ وقیل إن کنتم فی شکّ من کلامی فأتوا بکلام من مثلہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 324

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 324

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/324/mode/1up


فما آتوا بمثلہ وما ترکوا الظن الذی بہ أنفسہم یُہلکون۔ وإن منصب العلماء خطب خطیر۔ وأمر کبیر۔ لا یلیق لہذہ الخدمۃ الا الذی فُتحت علیہ أبواب الحجّۃ البالغۃ۔ ورُزِق نظرًا مُنَقّحًا من حضرۃ الغیب۔ وعِلمًا مُنزّہا عن الشک والریب۔ ومع ذالک أُعطی عذوبۃ البیان۔ والْمُلَح الأدبیۃ والحلل المستحسنۃ لإراء ۃ ما فی الجنان۔ وعُصِم من معرّۃ الحصر واللکن۔ وأُسبِغ علیہ عطاء اللسن۔ ولکن ہؤلاء الذین یُسمّون أنفسہم علماء۔ ما أعطاہم قسمۃ اللہ الا الضوضاء۔ قرء وا القرآن۔ وما مس القرآن الا اللسان۔ وما رأی القرآن جنانہم وما رأی جنانہم الفرقان۔ وأروا أفعالا خجّلوا بہا الشیطان۔ تری عقدۃ علی لسانہم۔ وقبضًا فی جنانہم۔ ودَجْلا فی بیانہم۔ ما أُیِّد نطقہم بالحجۃ۔ وما سلک قولہم فی سلک البلاغۃ۔ تراہم کغبیّ

غمر لیس لہ معرفۃ۔ ولا یُدرَی أقُفِل علی لسانہ أو لکنۃ۔ کأنہم حصروا

فی مکان ضیّق ولا یتراء ی سبیل۔ وأکل تمرہم دودۃ النفس وما

بقی الا فتیل۔ تمترس ألسنہم فی الخصومات۔ ولا یُعدّون للعدا ما

یُبکّتہم عند المباحثات۔ ولا یُظہرون جوہر الإسلام۔ بل یتکلمون

کمدلّس متزلزلۃ الأقدام۔ فیجعلون الإسلام غرضا للسہام۔

أولئک کالأنعام۔ وإن نطق الأنعام لیس بہ ہین۔ وندامۃ الخرس أشد

من الحین۔ یطلبون قنطارا من العین۔ ولا یطلبون بصارۃ العین۔

یُظہرون جہامہم وابلا۔ وسقطہم جوہرا قابلا۔ ولا یضاہؤن الا حابلا۔

ولا أقول حسدا من عند نفسی ولا من الابتدار والعجلۃ۔ وأعوذ باللہ من الحسد والکذب والتہمۃ۔ بل قلتُ کل ما قلتُ بعد التمرّس والتجربۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 325

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 325

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/325/mode/1up


الا الذین طابت طینتہم وصلحت نیّتہم۔ فأولئک مُنزّہون عن ہذہ الملامۃ۔ ولا أُفَسّق الا الذین فسّقوا ولا أُجَہّل الا الذین جہّلوا۔ وتلک الحبوب ہی الأکثر فی ہذہ العرمۃ۔ وإن کنتم فی شک فامعنوا النظر مرارًا۔ وسرحوا الطرف أطوارًا۔ وتدبّروا تؤدۃ ووقارًا۔ وانظروا۔ ہل تجدونہم من حماۃ الإٍسلام وخدّام الملّۃ؟ وہل تتوسّمون فیہم میسم الأبرار وذوی الفطنۃ؟ بل ہم یشابہون جہاما وخُلّبًا۔ ویُضاہؤن متصلّفًا قُلّبًا۔ لا تجد فیہم ریح الصادقین۔ ولا راح العارفین۔ ینقلبون فی قوالیب العلماء۔ ولا تجدہم الا کقالب من غیر قلب الأتقیاء۔ إن ہم الا کالأنعام۔ ما أُرضعوا ثدی العلم وما أُشرِبوا کأس الکرام۔ یخدعون الناس بحلل

العلماء۔ وسناعۃ المتاع وحسن الرواء۔ وإن ہم الا قبور مُبیّضۃ

عند العقلاء۔ ولیس عندہم من غیر لُحًی طُوّلت۔ وأنف شمخت۔ و

وجوہ عبست۔ وقلوب زاغت۔ وألسن سُلّطت۔ وکلم تعفّنت۔

یرمون البریئین۔ ویُکفّرون المسلمین۔ وکم من خصال فیہم

تحکی خصائل سباع۔ وکم من أعمال تشابہ عمل لکاع۔ وکم من لدغ سبق لدغ حَیَوَات الصحراء۔ وکم من طعن خجّل قنا الہیجاء۔ یدّعون

أنہم علی خلق إدریس۔ ثم یُظہرون خلیقۃ إبلیس۔ فالحاصل أنہم

لیسوا رجال ہذا المیدان۔ بل ہم قوم استولی علیہم الوہن والکسل کالنسوان۔ ورضوا بالدنیا الدنیّۃ واطمأنوا بہا فیخلدون کل یوم إلی وہاد العصیان۔ یُأثّمون الناس ویُفَسّقونہم بالألسنۃ المتطاولۃ۔ مع أن نفوسہم قد اتّسخت بدرن المعصیۃ۔یبادرون إلی مواضع الشح والنہمۃ۔ ویتقاعسون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 326

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 326

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/326/mode/1up


من میادین نصرۃ الملّۃ۔ یتمایلون علی عرض ہذا الأدنی۔ وخدعہم متاع قلیل أکدی۔ یعظون علی المنابر۔ ویتراء ون کالمتّقی الصابر۔ وإذا قضوا الصلاۃ۔ وازمعوا الانفلات۔ فنسوا ما وعظوا کرجل مات۔ فمن فیہم یوجد فیہ مواساۃ الدین۔ ومقاساۃ الشدۃ للشرع المتین؟ ومن ذا الذی ذاب لدین المصطفٰی۔ والوجدُ نفَی عنہ الکری۔ وبرَی اعظمہ لما انبرَی؟ ثم

مع ذالک کثر فیہم الکسل والغفلۃ۔ وقلت الفطنۃ۔ وأَ نّٰی فیہم

قوم یستقرون مجاہل۔ ویردون مناہل۔ ویستخرجون دُرر العرفان۔

من بحار اشتدّت إلیہا الحاجۃ للزمان؟ بل تراہم من جذبات

النفس کالسُکاری۔ وفی أہواۂا کالأساری۔ مالہم أن یکشفواعن وجہ المعضلات النقاب۔ ویجدّدوا ما دُرس وغاب۔ ویُنقّحواالأمور ویجمعوا ما صلح وتاب۔ ویجتنبوا الاحتطاب۔ ویُنفدوا الأعمار لتعرّف الحقائق۔

و یُذیبوا الأبدان لأخذ الدقائق۔ وأن لا یبرحوا فناء تحصیلہا۔ حتی یتیسّر سلوک سبیلہا۔ ویتضح معالم دلیلہا۔ ویرشح علی صدورہم خفایا الدین۔ ویُلقی فی قلوبہم علم الیقین۔ کلا۔۔ بل ضل سعیہم فی الحیاۃ الدنیا وہم یحسبون أنہم من المحسنین۔ وما تری فی کلمہم روحانیۃ وتراہم کالمحتطبین۔ واشتدّت حاجۃ الإسلام فی زمننا إلی اٰراء صائبۃ۔ وأفکار مستنبطۃ۔ وطبائع متوقّدۃ۔ وقلوب صافیۃ۔ وہمم منعقدۃ۔ وأدعیۃ مقبولۃ۔ وفیوض من اللّٰہ متوالیۃ۔ ومساعی للّٰہ جاریۃ۔ وقد ضاق وقت إصلاح الأمّۃ۔ وما بقی إلا کرمق المہجۃ۔ وما یُجدی طلاب الآثار۔ بعد ما فُقد العین



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 327

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 327

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/327/mode/1up


من الابصار۔انظروا إلی الأیام یا سراۃ الإسلام۔ وقد مضی خُمسٌ من رأس الماءۃ ومن ہذا الضیف البدر۔ فأرونا من جلس علی ہذا الصدر۔ وأرونا من قام لجبر سریر انکسر۔ ووجہ منیر استتر۔ واعلموا أن ہذا الباب لن یُفتح بأسلحۃ متقلّدۃ۔ بل یحتاج إلی دلائل قاطعۃ۔ وآیات ساطعۃ۔ وإلی العارفین الذین یتدبّرون بشرۃ الشریعۃ وخوافیہا۔ ویخدمون ظواہر الملّۃ وما فیہا۔ لتطمئن بہا القلوب۔ وتنکشف الغیوب۔ وینتفع المحجوب۔أیہا الکرام۔وسراۃ الإسلام قد جلّ ما عراکم من الداہیۃ۔ وعظم ما نزل من المصیبۃ۔ فأرونی ما ہیّأتم لدفاع ہذہ الجنود المجنّدۃ۔ أتعرضون علینا ہذہ العلماء۔ وہذہ المشائخ والفقراء۔ فانّا للّٰہ علی وقت جاء۔ ومصیبۃ حلّت شریعتنا الغرّاء۔ الآن یحتاج الإسلام إلی رجل آتتہ ید الغیب مالم یُعطَ لغیرہ۔ وأراہ اللّٰہ ما لم یرہ أحد فی سیرہ۔ وجعلہ اللّٰہ من الموفقین المنصورین۔ وورثاء النبیین۔ ومنَّ علیہ بالامتیاز بالعلم والبصیرۃ۔ والہمّۃ والمعرفۃ۔ والإصابۃ والإجادۃ۔ وقوّۃ الإرادۃ۔ ووہب لہ درایۃ تُعد من خرق العادۃ۔ ومتّعہ بکثیر من الثمار۔ وما ترکہ کحرباء یتعلق بالأشجار۔ لیُلفی الطلابُ عندہ حقائق نَووہا۔ ویجدوا نشر معارف طووہا۔ ولیأخذوا منہ العجائب۔ ولینالوا الغرائب۔ ولیُہرع الخلق إلیہ کذی مجاعۃ وبوسَی۔ ویأووا إلیہ کبنی إسرائیل إلی موسَی۔ ولیذوقوا بہ طعم الأسرار۔ ویسرحوا فی مسرح الأنوار۔ ومع ذالک من شرائط مصلح أہل الزمان۔أن یفوق

غیرہ فی التفقّہ وقوۃ البیان۔ وأن یقدر علی إتمام الحجۃ ولا کأہل



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 328

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 328

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/328/mode/1up


الصناعۃ۔ ویسرد الکلام علی أسلوب البراعۃ۔ ویعصم نفسہ من الخطأ فی الآراء۔ ویری الحق والباطل کالنہار واللیلۃ اللیلاء۔ لیحرز الناس بہ عین الأمور المنقّحۃ۔ ولیجمعوا دُرر المعارف فی صرّۃ قوّۃ الحافظۃ۔ومن شرائط المصلح أن یُنقّح الإنشاء۔ ویتصرّف فیہ کیف شاء۔ ویجتنب رکاکۃ البیان۔ ویؤکّد قولہ بالبرہان۔ وأنت ترٰی ان ہذہ الشرائط مفقودۃ فی ہذہ الفرقۃ۔ وما أُعطی لہم الا قلیل من الصور الإنسانیۃ۔ بل لا یستیقظون بمواعظ ولا ینتہجون مہجۃ الحزم والفطنۃ۔ وما أراہم إلا کجمادات أو کفرخ الدجاجۃ۔ وما مرّ علیہم الا لیلۃ علی الخروج من البیضۃ۔ فما ظنک أ یُبطل ہؤلاء ما صنع القسوس من أسلحۃ للإہلاک والإبادۃ؟ لا واللّٰہ بل ہم کصرعٰی لا رجال الجلادۃ۔ وما بقی فیہم حرکۃ ولا علامۃ من القصد والإرادۃ۔ قد استسنوا قیمۃ الدنیا ووزنہا۔ واستغزروا ماء ہا ومُزنہا۔ غرّوا باجمال عشرتہا۔ وتجمیل قشرتہا۔ وأحالت الأہواء صفاتہم الإنسانیۃ۔ حتی جہلوا الحقوق الرحمانیۃ۔ فکیف یُتَوقّع منہم نصرۃ الدین؟ وکیف یحی المیّت بعد التجہیز والتکفین؟ وإن نصرۃ الدین لیس بہیّن۔ وما تصل إلیہا الا بعد أن تصل إلی الحین۔ ولن یؤتَی ہذا الفتح لعُرْض الناس وعامّتہم۔ ولن تہزم العدا بعصیّہم وحربتہم۔ فمن الغباوۃ أن یفرح رجل بوجودہم۔ أو یتمنّی خیرا من دودہم۔ فتحسّسوا یوسف عند الامحال۔

ولو بالسفر البعید وشدّ الرحال۔ ولا تنظروا إلی حُلل ہذہ العلماء۔

فإنہ لیس فیہا من دون البخل والریاء۔ وسیر آخر لا تلیق بالصلحاء۔

وإنی دعوتہم حق الدعاء۔ فما زادوا الا فی الإباء۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 329

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 329

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/329/mode/1up


وکم من کتبٍ کتبتُ۔ ورسائل اقتضبتُ۔ وجرائد أشعتُ۔ وفرائد أضعتُ۔ فما نفعہم دُرّی ودَرّی۔ وتراہم أحرص الناس علی ضیری وضرّی۔ فلما رأی اللّہ اُلہوبہم۔ أزاغ قلوبہم۔ وغشّی لبوبہم۔ قوم زایغون لا یتوبون من أباطیلہم۔ ولا ینتہون من تسویلہم۔ یرون شِرب الإسلام کیف غاض۔ ویرمقون حصنہ کیف انہاض۔ ثم لا یستمطرون سحب السماء۔ ولا یریدون أن یُبعَث رجل من حضرۃ الکبریاء۔ کأنہم بسورۃ النور لا یؤمنون۔ وعند قراءۃ الفا تحۃ لا یُؤمّنون۔ وطبع اللہ علی قلوبہم فلا یہتدون۔ بل لا ینظرون إلی ناصح بعین عاطف۔ ولا یُخفضون لہ جناح ملاطف۔ ولیس فیہم أحد یرید أن یأسو جراحہم۔ ویریش جناحہم۔ ویُشفی قلوبہم۔ ویزیل کروبہم۔ وإذا قام فیہم رجل أُرسِلَ إلیہم قالوا مفتری کذّاب۔ وسیعلمون من الکذّاب۔ وتأتی أ یّام اللّٰہ وسیرجعون إلی مقتدر شدید العقاب۔

أیہا العلماء! فکّروا فی وعد اللہ واتّقوا المقتدر الذی إلیہ تُرجعون۔ إنہ جعل النبوّۃ والخلافۃ فی بنی إسرائیل ثم أہلکہم بما کانوا یعتدون۔ وبعث نبیّنا بعدہم وجعلہ مثیل موسٰی فاقرء وا سورۃ المزّمل إن کنتم ترتابون۔ ثم وعد الذین آمنوا وعد الاستخلاف۔ ففکروا فی سورۃ النور إن کنتم تشکّون۔ ہذان وعدان من اللہ فلا تُحرّفوا کلم اللّٰہ إن کنتم

تتّقون۔ ولذالک بُدِءَ سلسلۃ نبیّنا من مثیل موسٰی۔ وخُتِمَ علی مثیل عیسی۔ لیتم وعد اللہ صدقا وحقًّا۔ إنّ فی ذالک لآیۃ لقوم یتفکّرون۔ و

کان من الواجب أن یتساوی السلسلتان۔الأول کالأول والآخر کالآخر۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 330

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 330

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/330/mode/1up


ألا تقرء ون القرآن أو بہ تکفرون؟ فإن تمنّیتم أن ینزل عیسٰی بنفسہ فقد کذّبتم القرآن وما اقتبستم من سورۃ النور نورًا وبقیتم مع النور کقوم لا یُبصرون۔ أ تبغون عوجا بعد أن تساوی السلسلتان؟ اتّقوا اللہ وعدّلوا المیزان۔ ما لکم لا تتفقّہون؟ وکان وعد اللہ أنہ یستخلف منکم وما کان وعدہ أن یستخلف من بنی إسرائیل۔ فلا تتّبعوا فیْجًا أعوج وتعالوا إلی حَکَمِ ربّکم إن کنتم تسترشدون۔ أتریدون أن تُفضّلوا علی سلسلۃ نبیّکم سلسلۃ موسٰی؟ تلک إذًا قسمۃٌ ضِیزی! فلِمَ لا تنتہون؟ ألا تقرء ون سورۃ النور أو علی القلوب أقفالہا أو إلی اللہ لا تُردّون؟ وإن القرآن عدّل المیزان۔ وأعطی نبیّنا کل ما أعطی مُہْلِک فرعون وہامان۔ فما لکم لا تعدلون؟ وقد بلّغ القرآن أمرہ فمن کفر بعد ذالک فأولئک ہم الفاسقون۔ أتختارون أہواء کم علی کتاب اللہ أو بلغکم علم یُساوی القرآن فأخرجوہ

لنا إن کنتم تصدّقون۔کلا بل وجدوا کُبراء ہم علیہ فہم علی

آثارہم یُہرعون۔ وقد سوّی اللہ السلسلتین وہم یزیدون وینقصون۔

فمن أظلم ممن اتّخذ سبیلا غیر سبیل القرآن۔ ألا لعنۃ اللہ علی

الذین یظلمون۔ یا حسرۃ علیہم ألا یتدبّرون القرآن أو ہم قوم عمون؟

وإذا قیل لہم أتترکون کتاب اللہ قالوا وجدنا علیہ آباء نا، ولو کان آباء ھم لا یعلمون شیئا ولا یعقلون۔ أ تترکون کلام ربّکم لآبائکم؟ أفّ لکم

ولما تعملون۔وقالوا انّا رأینا فی الأحادیث۔ومافہموا قول رسول اللہ

وإن ہم الا یعمہون۔ یریدون أن یُفرّقوا بین کتاب اللہ وبین قول رسولہ

قومٌ مُفترون۔وقد صرّح اللہ حق التصریح فی الفرقان۔3



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 331

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 331

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/331/mode/1up


3 ۱؂ یؤثرون الشک علی الیقین۔ وہذا ہو من سیر قوم یہلکون۔أیہا الناس! إنّ ہذا کان وعدًا من اللہ فسوّی السلسلتین کما وعد فما لکم تُجوّزون الخلف علی اللہ ولا تخافون؟ أتعزون إلی اللّٰہ نکث العہد والوعد؟ سبحانہ وتعالی عما تزعمون أظننتم أن سلسلۃ المصطفی لا تُشابہ سلسلۃ موسی؟ وإن ہذا الا تکذیب القرآن إن کنتم تفہمون۔ ألا یُشابہ أولہا بأولہا وآخرہا بآخرہا؟ ساء ما تحکمون۔ أرفعتم موسٰی ووضعتم المصطفٰی؟ أفّ لکم ولما تصنعون۔ أتخسرون القسطاس بعد تعدیلہ ولا تعدلون کفّتیہ ولا تقسطون؟ وإن اللہ أری فضل ہذہ السلسلۃ بختم الأمر علیہا ثم تأتون بعیسٰی وأنتم تعلمون۔ ما لکم لا تُؤتون ذا فضل فضلہ وتظلمون؟ أتقطعون رِجلَ ہذہ السلسلۃ وتُبقون رأسہا وما ہذا الا فعل المجنون۔ أتُحرّفون کلام اللہ کما حرّفتم من قبل وقلتم ما قلتم فی آیۃ3۲؂ وما خفتم ربّکم الذی إلیہ تُساقون۔ وما جزاء المحرّفین الا النار فما لکم لا تتوبون؟ إن الذین یُحرّفون کلم اللّٰہ متعمّدین مأواہم جہنّم وھم فیہا یُحرقون۔ الا الذین أخطأوا من قبل زمانی ہذا ومن قبل أن یبلغہم أمر اللّٰہ وأمر حَکَمِہٖ أولئک قوم یُغفَر لہم بما کانوا لا یعلمون۔ والذین یُصرّون علیہ بعد ما نُبّہوا أولئک الذین عصوا ربّہم وأولئک ہم المعتدون۔ من حرّف کلام اللہ فقد سفک دماء العالمین فأولئک ہم الملعونون۔ إن ہؤلاء عُمیٌ ما أعطیت لہم أبصار۔ وبین الحق وبینہم جدار۔ وسقاہم شیطانہم شربۃ فیتحسّونہا۔ وفیہا سمّ فلا یرونہا۔ فلا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 332

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 332

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/332/mode/1up


تحسبہم أحیاءًا فإنہم أموات۔ وسیذکرون ما فعلوا بالأمس إذا رأوا یومًا لہ سطوات۔ جحدوا بالحق الذی حصحص۔ وتراہم کخفّاش أبغض النور وتدلّس۔ جاء ہم داع إلی اللہ فما رحّبوا۔ وتنفّس لہم الصبح فما استیقظوا۔ وفُتح لہم باب الرحمۃ فما دخلوا وتقاعسوا۔ یضحکون علی رجل لا یرقأ دمعہ رُحمًا علی حالہم۔ وتتحدّر عبراتہ حسرات علی مآلہم۔ رأوا آیات فلا یؤمنون۔ وحلفنا باللہ فلا یُصدّقون۔ وعرضنا القرآن علیہم فلا یلتفتون۔ فنشکو إلی اللہ ربّ البرایا۔ من أعضال ہذہ القضایا۔ فإنہا ما قُضِیَت لا بالشہود ولا بالألایا۔ وإنی دعوتہم مذ یفعتُ۔ وکم من وقت لہم أضعتُ۔ وکنتُ رجلا یتمطّی فی حُلل الشباب۔ ویحکی النُشّاب۔ والآن ترون ذالک الشاب قد شاب۔ وإن ہذا مقام تدبّر للمتدبّرین۔ وہل مثلی یتقوّل ویُمہل إلی الستین؟ لیس علی الحق غشاء أیہا الطالبون۔ بل طُبع علی قلوبہم بما کانوا یکسبون۔ إن الشمس قد طلعت ولکن لا تُفتح الاعین الذین ہم یتّقون۔ ویُجعل الرجسُ علی الذین یفسقون۔ ینظرون إلی آی اللّٰہ کیف أشرقت ثم لا یُبصرون۔ ویرون فتنًا کیف أحاطت ثم لا یُبالون۔

وإذا قیل لہم إن الآیات قد ظہرت من الأرض والسماوات قالوا

إنّا بکلٍ کافرون۔ أفینتظرون عذاب اللہ وقد جاء الطاعون؟ ألا

ینظرون إلی رأس الماءۃ وقد مضی قریبا من خمسہا ومُلئت الأرض

ظلما وجورًا أفلا یعلمون؟ أنسوا ما قال ربہم3 3۔ ۱؂ أأخلف اللہ ہذا الوعد وقد رأی أن الناس

من أیدی القسوس یہلکون؟ لہم عیون کلیلۃ۔ وقلوب علیلۃ۔وہممٌ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 333

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/333/mode/1up


مصروفۃ إلی فکر البطون۔ وإلی زغب محددۃ العیون۔ فلذالک أخلدوا إلی الأرض کل الإخلاد ویکذبون ویُکذّبون۔ ثم التعصب أحلّہم محلۃ السباع۔ ومنعہم من القبول بل من السماع۔ فمن منہم أن یقول صدق فوک۔ وللہ أنت وأبوک۔ بل ہم علی التکذیب یُصرّون۔ ویسبّون ویشتمون۔ وسیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون۔لیس دینہم الا الأہواء۔ والرغفان والدراہم البیضاء۔ أتزعمون أنہم یؤمنون۔ کلا بل ینافقون ویکذبون۔ وترکوا نبیّہم واتّخذوا أہل الدنیا صحبا۔ وحسبوا فناء ہم رحبا۔ یرون أن العدا یصولون علی المسلمین۔ کرثان متوالٍی إلی السنین۔ ولا رشاش منہم بحذاۂم لغیرۃ الدین۔ وارتدّ فوج من الإسلام۔ وما أری علی وجہہم أثرا من الاغتمام۔ اتّخذوا إبلیس ولیجۃ فیتّبعونہ۔ وقاسموہ التعبّد فما دونہ۔ لا یعرفون ما الدین وما الإیمان۔ وکفاہم لحم طریّ والرغفان۔ ینفد ون العمر ببطالۃ

وما أری فیہم بطل ہذا المیدان۔ بل لہم أفکار دون ذالک أُحْرضوا

فیہا من الأحزان۔ ترتعد فرائصہم برؤیۃ الحکّام۔ ولا یخافون اللہ

ذا الجلال والإکرام۔ یمشون فی اللیل البہیم۔ وبعدوا من النور

القدیم۔ وتہادی بعضہم بعضا غفلۃ۔ ولا ینتج اجتماعہم الا فتنۃ۔

وکم من کتب النصاری فشا ضرّہا بین القوم۔ وصار الإسلام

غرض الضحک واللوم۔ ولکنہم یعیشون کالمتجاہلین۔ أو

کالعمین۔ ویسمعون کلم النصاری ثم یقعدون کالمتقاعسین۔

ونسوا الوصایا التی أُکِّدَت لتأیید الإسلام۔ وقست قلوبہم واستبطأوا

حین الحمام۔ لا یأخذہم خوف بشیوع الضلال۔ ویشاہدون ظہور



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 334

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/334/mode/1up


الفتن وحلول الأہوال۔ ویعلمون أن القسوس أمَرّوا عیشنا بأکاذیب الکلام۔ وأرادوا أن یطمسوا آثار الإسلام۔ ومع ذالک أعرضوا عن شبہاتہم۔ کأنہم فرغوا من واجباتہم۔ وأدّوا فرائض خدماتہم۔ ومنہم قوم لم یُواجہوا فی مُدّۃ عمرہم تلقاء المخالفین۔ وأنفدوا أعمارہم فی تکفیر المؤمنین۔ وتکذیب الصادقین۔ وکنتُ أتحفّٰی بإکرام تلک العلماء۔ وأظن أنہم من الأتقیاء۔ ولکن لمّا لحظت إلی خصائص أسرارہم۔ وخبیّ ما فی دارہم۔ علمتُ أنہم من الخائنین لا من الصالحین المتدیّنین۔ وفی سبل اللہ من المنافقین لا من المخلِصین المخلَصین۔ ورأیتُ أنہم کل ما یعلمون ویعملون فہو منصبغ بالریاء۔ وصدورہم مظلمۃ کاللیلۃ اللیلاء۔ فرجعتُ مما ظننت مسترجعا۔ وبدّلتُ رأیی متوجّعا۔ وأیقنتُ أن فراستی أخطأت۔ وان القضیۃ انعکست۔ إنہم قوم آثروا الدنیا الدنیّۃ۔ وطلبوا الوجاہۃ واللہنیّۃ۔ یرون المفاسد فی الأمصار والموامی۔ ثم یغضّون الابصار کالمتعامی۔ وترامی الجرح إلی الفساد ولکن لا یرون الترامی۔ ما

أجابوا داعی اللہ مع دعوی العینین۔ ولأجابوا لودعوا إلی مرماتین۔

لا یُفکّرون فی أنفسہم أی شیء یفعلون للدین۔ أخُلقوا لأکل المطائب والتزیین؟ ولقد فسدت الأرض بفسادہم۔ وشاع الطاعون فی بلادہم۔

وإنہ بلاء ما ترک غورًا ولا نُشُزًا۔ وإذا قصد بلدۃ فجعلہ صعیدًا

جُرُزًا۔ والذین آووا إلی قریتی مخلصین وأطاعونِ۔ فأرجوا أن یعصمہم اللہ من الطاعون۔ إنّ ہذا وعدٌ من ربّ العزّۃ والقدرۃ۔ وإن أنکرتہ العیون التی ما أُعطَی لہا حظ من البصیرۃ۔ فالأسف کل الأسف علی العلماء۔ لا یرون ما



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 335

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/335/mode/1up


اراہم اللہ من السماء۔ وأکلوا رأس المأتہ کرأس الضان۔ وما فکّروا فی مواعید الرحمان۔ وانجلی الشمس والقمر بعد کسوف رمضان۔ وما انجلی قلبہم من ظلمۃ خجّلت الشیطان۔ أما رأوا ہاتین الآیتین من السماء ؟ مرّۃ فی أرضنا ہذہ ومرّۃ فی أہل الصلبان من الأعداء ؟ فما لہم لا ینتہون۔ وبآیات اللہ لا یؤمنون؟ أم أسألہم من أجرٍ فہم من مغرم مثقلون؟ فلیفرّوا من آیات اللہ فسوف یعلمون۔ ألا یرون أن المفاسد کثرت۔ والفتن علت وغلبت۔ والفسق قطع الإیمان وجذّم۔ وأکلت الناس نار تضاہی جہنّم۔ فمن ذا الذی یُصلح عند فساد غلب۔ وکیّادٍ خلب؟ وکیف یُظَنّ أنّ ہذہ المفاسد ما قرعت آذانہم۔ وما بلغت أخبارہا رجالہم ونسوانہم؟ فإن ہذہ داہیۃ مہیبۃ۔ ومصیبۃ مذیبۃ۔ وما من یوم یمضی ولا شہر ینقضی الا وتزداد ہذہ المحن۔ وتنتاب ہذہ الفتن۔ ثم مع ذالک اختار العلماء طورًا نکرًا۔ وأبقوا لہم فی المخزیات ذکرًا۔ وإن القسوس قد زرعوا زرعہم کسروۃ الجراد۔ وما ترکوا أثرًا من التقوٰی وجعلوا البلاد کألسنۃ الجماد۔ فانظروا ہل تجدون من أرضٍ محفوظۃ۔ أو بلدۃ غیر مدلوظۃ؟ أشاعوا أنواع الوسواس۔ وکادوا کیدا ہو أرفع من القیاس۔ وأضلوا صبیان المسلمین۔ والجہلاء المتعلّمین۔ وجذبوہم بأنواع الحِیَلِ والتّرغیب فی الأہواء۔ فارتدّوا وصاروا کحساسۃٍ أُخرِجَت من الماء۔ وکذالک احتلسوا

نیتہم وأظہروا خُضرتہم فی ہذہ البلاد۔ وکثروا فی کل طرف و

لا ککثرۃ الجراد۔ فاسأل ہذہ العلماء ما فعلوا عند ہذہ الآفات۔

أأرادوا أن یُموّنوا خطط الإسلام ویؤدّوا حق المواسات۔ ویقوموا للمداوات۔ أو تستّروا فی الحجرات۔ واکتسوا لفائف الأموات۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 336

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 336

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/336/mode/1up


وتصدّی للإسلام سنۃ حسوس۔ ویوم عبوس۔ وزمان منحوس۔ فمن ذا الذی یذوب قلبہ لہذہ الأحزان۔ وأیّ قلب یبکی لفساد أشاعہا أہل الصلبان؟ کلا۔ بل الذین یقولون نحن علماء الأمّۃ وورثاء دین الرحمان۔ ہم أرضوا بأعمالہم ذراری الشیطان۔ وما بقی لہم شغل من غیر الفسق والتفسیق والتکفیر۔ وإضلال الأمّۃ بالدقاریر۔ وأفتاہم خُبثہم بأن الفوز فی المکائد۔وان الکید منزل الموائد فیرصدون مواضعہ کالصائد۔ ولو بوساطۃ الحکّام والعمائد۔ شابہوا الیہود فی جمیع صفاتہم۔ وأتوا بجندل بحذاء صفاتہم۔ وزادوا جہلات علی جہلا تہم۔ یُحبّون أن یُحمَدُوا بما لم یفعلوا۔ ویغضبون إذا لم یُعَظّموا۔ یستکبرون کالسلاطین۔ وما ہم الا دود التراب کالخراطین۔ یریدون من الخلق الإطاعۃ۔ ولا عقل لہم ولا براعۃ۔ فمن خالفہم فکأنہ خرّ من حالق۔ أو تُرِک کطالق۔ یحجرون علی الناس نساء ہم۔ إذا لم یُوفّوا أہواء ہم۔ وإنْ من کذبٍ الا وہو یخرج من فیہم۔ وإنْ من شرٍّ الا وہو یوجد فیہم۔ وفریق منہم أصبی قلوبہم ہوی الجہاد۔ ویُغرون الجہلاء علی ضرب العناق بالمرہفات الحداد۔ فیغتالون کل غریب وعابر سبیل۔ ولا یرحمون ضعیفا ولا یصغون إلی صراخ وعویل۔ ولا یتّقون۔ فویل لہم ولما یعملون۔أیقتلون قومًا ہم یُحسنون؟ أیقتلون الذین لا یقتلون للدین الإنسان۔ ویفشون الإحسان۔ ویُنشؤن الاستحسان۔ ولا یستعملون للدین السیف والسنان؟ بل ہم منتجع الراجی۔ والکہف عند البلاء المفاجی۔ تنہل لُہاہم عند الطلب۔ ولا انہلال السحب۔ ینصرون من خاف ناب

النُوب۔ ویُحاربون من تصدّی للحرب۔ ویدفعون ما أسلمکم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 337

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 337

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/337/mode/1up


للکرب۔ ویہیّؤن لکم أسباب الطرب۔ أ تضربون أعناق ہذہ الحماۃ؟ ما أفہم سرّ ہذہ الغزاۃ۔ أ ہذا نصرۃ الدین أو الأہواء ؟ وما ہذا الجہاد الذی یأباہ الحیاء۔ ولا یقبلہ العقل السلیم والدہاء ؟ وما بال قوم أمّہم ہذہ العلماء؟ کلا۔ بل مثلہم کمثل ذئاب أو کنمر وکلاب۔ وواللہ إنہم لیسوا إلا خطباء الدنیا الدنیّۃ۔ ولو تراء وا بالعمامۃ أو الدنیۃ۔ ولیس ہذا الجہاد الا شَرَکُ الرّدا۔ فیضحکہم الیوم ویبکی غدا۔ أیذبحون المحسنین بالمُدَی؟ فأین ہذا الحکم وفی أیّ الہدی؟ أیجوّز ہذا الفعل العقل السلیم؟ ویستحسنہ الطبع المستقیم۔ بل لبسوا الصفاقۃ وخلعوا الصداقۃ۔ ونصروا الکفرۃ فی زرایۃ الإسلام۔ وأعانوہم علی نحت الاعتراضات ورمی السہام؟ ولن یلقی الإسلام فلجًا بوجود ہذہ المجاہدین۔ بل وجودہم عار

علی الإسلام والمسلمین۔ فالخیر کلہ فی موتہم أو أن یکونوا من

التائبین۔ أیقتلون الناس لإعراضہم عن حکم الرحمان؟ مع أن

الإعراض موجود فی أنفسہم لارتکاب الفحشاء والفسق والعصیان۔

فکیف یجوز أن یضربوا أعناق الکفار۔ وإنہم یستحقون أن یضرب

أعناقہم بالسیف البتّار۔ بما فسقوا واختاروا عیشۃ الفجّار۔ فإن الجہاد

لو کان من الضرورات الدینیۃ۔ فما معنی ترک ہذہ الفجرۃ؟ ولِمَ لا

یُقطع رؤوسہم بالمرہفات المذربۃ؟ ولِمَ لا یُمَزّق لحمہم

بالمُدَی المُشَرّحۃ؟ فإنہم فسقوا بعد الإیمان۔ فلیُفتِ المفتون أیُقتل

ہؤلاء بالسیف أو السنان؟ فإن أوّل غرض الجہاد۔ قوم فسقوا

بعد ما أسلموا وأظہروا آثار الارتداد۔ وخرجوا من حدود الأوامر الفرقانیۃ۔ ونقضوا عہدا عاہدوہ أمام الحضرۃ الربّانیۃ۔ ولا حاجۃ لربّ العالمین۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 338

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 338

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/338/mode/1up


أن یتّخذ عضدًا زمر المفسدین۔ وإنہ قادر علی أن یُنزل عذابًا من السماء إن کان یرید أن یُہلک الکافرین۔ وما للقدوس والفاجر۔ ولا حاجۃ لہ إلی جہاد الفاسقین۔ وقد جرت سُنّۃ اللہ أنہ ینصر الکافر ولا ینصر الفاجر الظالم۔ وکذالک اقتضت غیرۃ رب العالمین۔وواللہ من یُجرّب ہذہ العلماء یجد أکثرہم کقوم یصنعون الدراہم المغشوشۃ۔ ویغطّون علی ظاہرہا الفضۃ۔ ویُراء ون الناس کأنہا حرش خشن جیاد حدیثۃ السکۃ۔ ولیس فیہا غش بل ہی من السبیکۃ الخالصۃ۔ وکذالک تجد أکثر العالمین۔ یخافون الناس ولا یخافون ربہم وتجد أکثرہم کالعمین۔ ولو خافوا ربہم لفُتحت عیونہم ولصاروا من المبصرین۔ أہلکہم شح

ہالع۔ وجبن خالع۔ ما بقی العقل السلیم ولا الطبع المستقیم وصارواکالمجانین۔ یقولون ما نحن لک بمؤمنین۔ وقد افترقواإلی فرق ولیسوا بمتّفقین۔واللہ أرسل عبدًا لیُحکّموہ فیما شجر بینہم ولیجعلوہ من الفاتحین۔ ولیُسلّموا تسلیمًا ولا یجدوافی أنفسہم حرجًا ممّا قضٰی۔ وذالک ہو الحَکَمُ الذی أتی۔ فالذین اتّبعوہ فی ساعۃ الأذی۔ وجاء وہ بقلب أتقی۔ وسمعوا لعنۃ الخلق وخافوا لعنۃً تنزل من السماوات العُلٰی۔ أولئک ہم الصالحون حقا وأولئک من المغفورین۔

أیہا الناس۔ کنتم تنتظرون المسیح فأظہرہ اللہ کیف شاء۔ فأسلموا الوجوہ لربکم ولا تتّبعوا الأہواء۔ إنکم لا تُحلّون الصید وأنتم حُرُم۔ فکیف تُحلّون أراء کم وعندکم حَکَم*۔ وإن الحَکَم لرحمۃ نزلت للمؤمنین۔

*الحاشیۃ:ان الاٰراء المتفرقۃ تشابہ الطیر الطائرۃ فی الھواء۔ والحَکَم

یشابہ الحرم الاٰمن الذین یؤمن من الخطاء۔فکماان الصیدحرام فی الحرم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 339

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 339

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/339/mode/1up


ولولا الحَکَم لما زالوا مختلفین۔ ظہر المہدیّ عند غلبۃ الضالین۔ وسُمِع دعاء’’اِہْدِنَا‘‘ بعد مئین۔ وتمّ ما قال ربّکم فی الفاتحۃ والفرقان المبین۔ وقد أخذ اللہ میثاق المسلمین فی ہذہ السورۃ۔ وما حذّرہم الا من الیہود والنصاری إلی یوم القیامۃ۔ فأین ذکر الدجّال وأین ذکر فتنتہ الصمّاء ؟ أنسی اللہ ذکرہ عند تعلیم ہذا الدعاء ؟ ویعلم الراسخون فی العلم أن اسم الدجّال ما جاء فی الفرقان۔ والقرآن مملوء من ذکر فتنۃ أہل الصلبان۔

وہی الفتنۃ العظیمۃ عند اللہ وکاد أن یتفطرن منہا السماوات۔ وقد

عُمّروا ألف سنۃ بعد القرون الثلاثۃ یا ذوی الحصاۃ۔ وأُحسّ خروجہم

فی أوّل الأمر ککشکشۃ الأفعی۔ إذا تمدّد وتمطّی۔ ثم تزَیّد الإحساس۔ حتی ظہر الخناس۔ وکان ہو إلی ستّۃ آلافٍ۔ کالجنین فی غلاف۔

فتولّد ہذا الجنین بعد تسع مئین أعنی بعد القرون الثلاثۃ۔ فعدّ الزمان إن کنتَ من المرتابین۔ إنہم قوم ینفقون جبال الذہب لإشاعۃ الضلالات۔ فہل رأیتم مثلہم فی الاصرار علی الجہلات؟ ولہم فی أرضکم مستقرّ

مع صراصر السطوات۔ ویریدون أن ینزعوا عنکم لباس التقوی و یلطّخوکم بالسوء ات۔ فظہر ما کان ظاہرا من اللہ وتمت أنباء الفتن والآفاف۔*

فأیّ ظلمۃ بقیت بعد ہذہ الظلمات؟ ولیس دجّالکم الا فی

رؤوسکم کالتخیّلات۔ ما أری الزمان الا ہذہ الفتن

اکراما لارض اللہ المقدسۃ فکذالک اتباع الاٰراء المتفرقۃ

واخذ ھا من اوکار القوی الدماغیۃ۔حرام مع وجود الحکم الذی

ھومعصوم وبمنزلۃ الحرم من حضرۃ العزۃ بل یقتضی مقام الادب ان تعرض کل امرعلیہ۔ولا یوخذ شيءٌ الا من یدیہ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 340

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 340

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/340/mode/1up


وبلاء ہذہ السیئات۔ وہی الفتنۃ العظیمۃ عند اللہ وکاد أن یتفطّرن منہ السّماوات۔ وتہدّ الجبال الراسخات۔ وقد عُمّروا ألف سنۃ بعد القرون الثلاثۃ۔ وأُحسّ خروجہم فی أوّل الأمر کالکشکشۃ۔ أعنی ککشیش الأفعٰی۔ إذا تمدّد وتمطّٰی۔ ثم زاد الاحساس۔ حتی ظہر الخناس۔ وأشیعت الضلالۃ والوسواس۔ وکثرت الأوساخ والأدناس۔ وقد مضٰی علیہ تسع ماءۃ کتسعۃ أشہر وہو فی الرحم کالجنین۔ وما سُمعَ منہ رکزٌ ولا فحیحٌ ولا صوتٌ کالطنین۔ ولا أثر من الرد علی الإسلام والتألیف والتدوین۔ فتلک التسع ہی أیام حمل الدجّال۔ والتسع مخصوص بعدۃ الحمل کما ہی العادۃ فی أکثر الأحوال۔ وإن شئت فعدّ من ابتداء انقراض القرون الثلا ثۃ۔ إلی زمان یکمل عدّۃ التسعۃ۔ ثم تولّد الدجّال علی رأس الماءۃ العاشرۃ۔ أعنی علی رأس الماءۃ التی ہی عاشرۃ بعد القرون الثلاثۃ۔ وکان قبل ذالک کجنین فی البطن ما تفوّہ قط بکلمۃ۔ وما ردّ علی الملّۃ الإسلامیۃ بلفظ ولا بفقرۃ۔ ثم خرج وصار کسیل یأتی من ماء الجبال۔ ویتوجّہ إلی الغور والوہاد والدحال۔ وصار قویّا ببّا۔ وہیّج فتنًا لا توجد مثلہا من آدم إلی آخر الأیام۔ وقَلّب کل التقلیب أمور الإسلام۔ وأکل کثیرا من وُلْدِ المِلّۃ۔ کما أنتم تنظرون یا ذوی الفطنۃ۔ وعاث فی الأرض یمینًا وشمالًا۔ وأشاع فسادًا وضلا لًا۔ وبلغ دیننا إلی التہلکۃ۔ ثم ظہر المسیح علی رأس ألف

البدر ونزل من اللہ بالحربۃ۔ فجعل یستقریہ ویطلبہ کما یطلب الصید

فی الأجمۃ۔ وسیلقیہ علی باب اللد ویقطع کل لدد بواحد



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 341

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 341

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/341/mode/1up


من الضربۃ۔* فلا تہنوا ولا تحزنوا وإن اللہ معکم إن کنتم معہ بالصدق والطاعۃ۔ولقد نصرکم اللہ ببدر وأنتم أذلّۃ۔ والآن أُعیدَ إلیکم البدر فی المرّۃ الثانیۃ۔ وإنّ الفتح قریب ولکن لا بالسیف والملحمۃ۔ بل بالتضرّعات وعقد الہمّۃ والأدعیۃ۔ فلا تظنّوا ظنّ السوء واسعوا إلیّ کالصحابۃ۔ ولا تموتوا الا وأنتم مسلمون۔ وصلّوا علی محمد خیر البریّۃ۔ وإن ہذہ ماءۃ کلیلۃ البدر عدّۃ۔وکلیلۃ القدر مرتبۃ۔ فأبشروا ببدرکم وانتظروا أیام النصرۃ۔

فی ذکرأہل الجرائد والأخبار

لعلک تقول بعد ذالک أن أہل الجرائد والأخبار۔ یستحقون أن

یُصلحوا مفاسد البلدان والدیار۔ فأقول رحمک اللہ! إنہ خطأ فی

الأفکار۔ أتُبرَءُ من ہؤلاء أمراض النفوس۔ ووساوس القسوس۔

نعم۔لا شک أن ہذہ الصناعات تفید قومنا لو رعوہ حق المراعات۔

وتکون کہاد إلی مجاہل۔ وتقود إلی مناہل۔ وتکون کناصر للدینیات۔

وإن الجرائد مرآۃ تُری الغائب کالمشہود۔ والغابر کالموجود۔ وتکون الوصلۃ إلی بعض الخفایا۔ بل قد تُعین علی فصل القضایا۔ وتُری

*الحاشیۃ:اوّل بلدۃٍ بَاْیعنی الناسُ فیھا اسمھا لدھَیانہ۔ وھی اوّل ارضٍ قامت الاشرار فیھا للاھانۃ۔ فلماکانت بیعۃ المخلصین۔حربۃً لقتل الدجال اللعین۔ باشاعۃ الحق المبین۔ اشیر فی الحدیث ان المسیح یقتل الدجال علٰی باب اللُدّ بالضربۃ الواحدۃ۔ فاللُدّ ملخّصٌ من لفظ لدھیانہ کما لایخفٰی علی ذوی الفطنۃ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 342

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 342

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/342/mode/1up


الأمور القریبۃ والبعیدۃ کتقابل المرایا۔ وتُہیّء کل عبرۃ لأولی الألباب۔ وتخبر من طرق النجاۃ والتباب۔ وتُنبّئکم کل یوم کیف تتغیر الأیام۔ وکیف تقوی المجامع وتغور المنابع العظام۔ وکیف تخلو المرابط ویہوی الأمراء من امرتہم۔ بعد ما أودعت سرّ الغنی أسرتہم۔ وتخبر من أخبار المحاربین الغالبین منہم والمنہزمین۔ والفائزین منہم والخائبین۔ ولولا الأخبار لانقطعت الآثار۔ وجُہِل الدُوَلُ وما عُلِم الأبرار والأخیار۔ وتقطّعت سلسلۃ تلاحق الأفکار۔ وتکمیل الأنظار۔ ولضاعت کثیر من آراء۔ وتجارب أہل عقل ودہاء۔ وما بقی سبیل إلی تعرّف أہل السیاسات۔ ومعرفۃ أہل العقول والاجتہادات۔ ولولا التاریخ لصار الناس کالأنعام۔ ولضیّعوا سلسلۃ الأیام والأعوام۔ وقد سُلّمت ضرورتہ مذ سُلّت السیوف من أجفانہا۔ وبُرئَ

الأقلام لجولانہا۔ ولا نقدر علی موازنۃ الأوّلین والآخرین إلا

بإمداد المؤرّخین۔ وہو الذی یحمل آثار بنات المجد۔ ویشیع أذکار

أرباب الجدّ۔ وہو زینۃ للدین۔ وسنۃ اللہ فی کتبہ والفرقان المبین۔ والدین الذی لم یُحصّلہ تحت أسرہ۔ ولم یصاحبہ فی قصرہ۔ فلیس ہو الا کبیت بُنی فی موضع یُخاف علیہ من صدمات السیل۔ وربّما یذہب السیل

بمتاعہ ویغادرہ کغبار سنابک الخیل۔ ومن فقد عصا التاریخ یمشی کأقزل۔ ولا تتحرک رجلہ من غیر أن تتخاذل۔ فیُنہَب ذالک البیت من صول الجہل وسیلہ۔ ومن تبوّأہ یتلف دُررًا جمعہا فی ذیلہ۔ وربما یُنسیہ

الشیطان ما ہو کعمود الملّۃ۔ ویغادر بیتہ أنقی من الراحۃ۔ فیکون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 343

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 343

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/343/mode/1up


مآل ہذا الدین أنہ یُرمَی بالکساد۔ ویتلطّخ بأنواع الفساد۔ والدین الذی یؤیَّدُ بصحف التاریخ والجرائد وضبط الأخبار۔ لا تُعفّی آثارہ بل یُؤتَی کعذیق أُکُلُہ کل حین من أنواع الثمار۔ ویخرج کل وقت من معادن الصدق سبائک الفضۃ والنضار۔ وأخبارہ تُسکّن القلوب عند مساورۃ الہموم والکرب۔ وتقص قصص المصابین علی القلب المکتئب۔ وتشدد الہمم للاقتحام۔ فی الأمور العظام۔ وتُشجّع القلوب المزء ودۃ بنموذج الفتیان الکرام۔ فإن نموذج الفتیان والشجعان۔ یُقوّی القلوب ویزید جرأۃ الجنان۔ فوجب شکر الذین یعثرون علی سوانح زمن مضی أو علی سوانح أہل الزمان۔ ویخبرون عن ضعف الإسلام وقوّۃ أہل الصلبان۔ وکم من جہالۃ مسّت قومنا من قلّۃ التوجّہ إلی التواریخ وأخبار الأزمنۃ والدیار۔ و

عَرَض علیہم النصاری بعض القصص محرّفین مبدّلین کما ہو

عادۃ الأشرار۔ وأہلکوہم وبلّغوا أمرہم إلی البوار والتبار۔ وطمعوا فی إیمانہم بل جذبوا فوجا منہم إلی صلبانہم۔ وہذا أمر یزید بلبال

العاقلین۔ ویُہیّج الأسف علی عمل المفسدین۔ثم مع ہذہ الفضائل مال

أکثر أہل الجرائد فی زمننا ہذا إلی الرذائل۔ وجمعوا فی أنفسہم

عیوبا سفکت جمیع ما ہو من حسن الشمایل۔ ما بقی فیہم دیانۃ ولا صدق وأمانۃ۔ یسیل من أقلامہم سیل الأکاذیب۔ ویسفکون دم الحق عند الترغیب والترہیب۔یحمدون لأغراض۔ ویسبّون لأغراض۔ وجعلوا أہواء ہم قِبلتہم فی کل توجّہ وإعراض۔ وازدراءٍ وإغماض۔ یتقاعسون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 344

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 344

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/344/mode/1up


من مُبارز ویصولون علی احراض۔ یکذبون کثیرا وقَلّما یصدقون۔ وفی کل واد یہیمون۔ لیس فیہم من غیر خلابۃ العارضۃ۔ والہذر عند المعارضۃ۔ لا یقدرون علی عذوبۃ الإیراد۔ من غیر کذب وہزل وترک الاقتصاد۔ ولا یمسّون نفائس الکلمات۔ الا بمزج الأباطیل والجہلات۔ یبغون نزہۃ سوادہم بالہزلیات۔ ویستمیلونہم بالمضحکات والمبکیات۔ ویریدون اختلاب القلوب۔ ولو کان داعیا إلی الذنوب۔ ویقولون کل ما یقولون ریاءً ا و استمالۃ للأعوان۔ لینہل ندٰی أہل الثراء والثروۃ علیہم ولیرجعوا بالہیل والہیلمان۔ ولیتسنوا قیمتہم۔ ویستغزروا أدیمتہم۔ ولذالک یرقبون نادیہم ونداہم۔ وإن خُیّبوا فیلعنون مغداہم۔ وکثیر منہم یعیشون کالدہریین والطبیعیین۔ وینظرون الدین کالمستنکفین۔ بل أعینہم فی غطاء عند رؤیۃ جمال الملّۃ۔ وقلوبہم فی عیافۃ عند ہذہ الجلوۃ۔ لا یرون الکذب سُبّۃ۔ ویجعلون لَبنۃً قُبّۃ۔ ولن یُترکوا سُدًی۔ وإنّ مع الیوم غدًا۔

وأری أن أبخرۃ الکبر سدّت أنفاسہم۔ وہدّمت أساسہم۔ وتری أکثرہم کصدف بلا دُرّ۔ وکسُنبلۃ من غیر بُرّ۔ یقومون لتحقیر الشرفاء۔ لأدنی مخالفۃ فی الآراء۔ وتجد فیہم من اتخذ سیرتہ الجفاء۔ وإلی من أحسن إلیہ أساء۔ وإذا رأی فی مصیبۃ الجار۔ فآذی وجفا وجار۔ وما رحم وما أجار۔ فکیف ینصر الدین قوم رضوا بہذہ الخصائل۔ وکیف یُتَوَقّع فیہم خیر بتلک الرزائل؟ الا الذین صلحوا ومالوا إلی الصالحات۔ فیُرجی أن یأ تی

علیہم یوم یجعلہم من حفدۃ الدین۔ ومن الناصرین بالصدق والثبات۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 345

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 345

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/345/mode/1up


فی ذکر الفَلاسفۃ وَالمنطقیّین

لعلک تقول بعد ذالک أن الفلاسفۃ والمنطقیّین یقدرون علی أن یُصلحوا مفاسد ہذا الزمان۔ فإنہم یتکلّمون بالحجّۃ والبرہان۔ ویصلون إلی نتیجۃ صحیحۃ بعد ترتیب المقدّمات۔ ولا یبقی الإشکال بعد شہادۃ الاشکال فی المعضلات۔ فنقول إن ہذہ العلوم مفیدۃ بزعمک من غیر شک فی بعض الأوقات۔ وتُثبتُ خیانۃ من خان ومان وتُنجی من الشبہات۔ ومن تعلّمہا یصیر بیانہ مُوَجّہا وحُلو المذاقۃ۔ ویتراء ی یراعہ ملیح السیاقۃ۔ وإن أہلہا یزید رعبا علی الکافرین۔ ویطّلع علی خیانۃ المفسدین۔ وبہا یُزیّن الإنسان روایتہ۔ ویستشف کل أمر ویُنقّد درایتہ۔ ویُبکّت بالحجۃ کل من یعوی۔ ویشوّق الآذان إلی ما یروی۔ وینطق کدرر فرائد۔ ولا یُکابد فیہا شدائد۔ ولا یخاف عند النطق رعب مانع۔ ولا یأتی بنيٍّ غیر یانعٍ۔ ویقتحم سبل الاعتیاص۔ ویسعی لارتیاد المناص۔ وربما یفکر ویعکف نفسہ للاصطلاء۔ لیُنجّی نفوسًا من جہد البلاء۔ ہذا قولک وقول من یشابہ قلبہ قلبک۔ ولکن الحق أن ہؤلاء من الفلاسفۃ والحکماء۔ وأہل العقل والدہاء۔ لا یقدرون علی دفع ہذا البلاء۔ بل ہم کبلاء عظیم لأبناء الإسلام والطلباء۔ وکل ما زَقّوا صبیان المسلمین۔ فہو لیس إلا کالسّموم۔ وأخرجوہم من ریاح طیبۃ

وترکوہم فی السّموم۔ بئسما علّموا وبئسما تعلّموا۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 346

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 346

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/346/mode/1up


فی ذکر مشائخ ہذا الزمان

لعلک تقول أن مشایخ ہذا الزمان۔ الذین عُدّوا من أولیاء الرحمان۔ ہم قوم مصلحون۔ فلیحفد إلیہم المسلمون۔ فإنہم فانون فی حب حضرۃ الکبریاء۔ ولا یُضیّعون الوقت فی الزہو والخیلاء۔ بل یریدون أن ینتہج الناس مہجۃ الاہتداء۔ وینقلوا من فناء الأہواء۔ إلی مقام الفناء۔ وقد آثروا تلاوۃ القرآن علی اللہو بالأقران۔ تراہم جالسین فی الحجرات۔ منقطعین إلی رب الکائنات۔فاسمع منی۔ إنّا نؤمن بوجود طائفۃ من الصلحاء فی ہذہ الأمّۃ۔ ولو کان الناس یُکفّرونہم ویؤذونہم بأنواع الفریۃ والتہمۃ۔ ولکنّا نجد أکثر مشایخ ہذا الزمان۔ مُرائین متصلّفین مُتباعدین من سبل الرحمان۔ یظہرون أنفسہم فی المجالس کالکبش المضطمر۔ ولیسوا الا کالذئاب أو النمر۔ یحمدون أنفسہم متنافسین۔ ویقولون إنّا أہل اللہ ما أطعنا مُذ یَفعنا الا ربّ العالمین۔ وإن نفوسنا مُطہّرۃ۔ وکؤوسنا مترّعۃ۔ ونحن من الفقراء۔ والمتبتّلین إلی اللہ ذی العزّۃ والعلاء۔ ولم یبق فیہم کرامۃ من غیر ذرف الغروب۔ مع عدم رقّۃ القلوب۔ وما بقی بدعۃ الا ابتدعوہا۔ ولا مکیدۃ الا تقمّصوہا۔ ولا یوجد فی مجالسہم الا رقص یُمزّق بہ الأردیۃ۔ ویدمی الأقفیۃ۔ وبما وسعت الدنیا علیہم بُدّلت عرائکہم۔ وصار مصلی الحجرات أرائکہم۔ فہذا ہو سبب نقیصۃ رویتہم ودہاۂم۔ وطرق إباحتہم

وقلّۃ حیاء ہم۔ وإن اللّٰہ إذا سلب من نفس التقوی الذی ہو أشرف



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 347

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 347

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/347/mode/1up


النِّعم۔فجعل تلک النفس کالنَّعَم۔ وإذا ختم علی قلب نزع منہ نکات العرفان۔ وجعلہ کجبان وحیل بینہ وبین شجاعۃ الإیمان۔ فیصبحون کالنسوان لا کالفتیان۔ ولا یبقی فیہم من غیر حُلیّ النسوۃ۔ مع شیء من الخیلاء والنخوۃ۔ وینزع عنہم لباس الحِکَمِ البارعۃ۔ والکلم البلیغۃ الرائعۃ۔ ولا یُعطَی لہم حظ من مسک المعارف وریحہ الفاتحۃ۔ تکدّر سراج الإسلام من تکدُّر زیتہم۔ وما ہم الا کراویۃ لبیتہم۔ انقض ظہرہم أثقال العیال۔ فیحسبون ہمومہم کالجبال الثقال۔ ویحتالون لہم کل الاحتیال۔ فما لہم ولدین اللہ ذی الجلال۔ تعرف رویتہم برواء ہم۔ وخیالہم

بخیلا ۂم۔ وقد وضح بصدق العلامات۔ وتوالی المشاہدات۔ أن أکثر ہذہ الفقراء لیس لہم حظ من التقاۃ۔ ولا رائحۃ من الحصاۃ۔ یرون انہتاک حرمۃ الدین۔ ولا یخرجون من الحجرات۔ ولا تتوجّع قلوبہم کالحماۃ۔ بل سرّہم مشاغلہم بالأغانی والمغنیات۔ والمزامیر مع قراء ۃ الأبیات۔ ولا یعلمون ما جری علی أمّۃ خیر الکائنات۔ وما قرء وا من مشایخہم سبق المواسات۔ یجمعون کل ما یُعطی ولو کان مال الزکاۃ والصدقات۔ تحسبہم أحیاءً ا وہم کالأموات۔ الا قلیلا من عباد اللہ کذرّۃ فی الفلوات۔ وتجد أکثرہم غریق البدعات والسّیئات۔ فیا أسفا علیہم! ما یجیبون اللّٰہ بعد الممات؟ وکل ما کثر من اجتراء النصاری والمتنصّرین۔ فلا شک أن اثمہ علی ہؤلاء الغافلین۔ من المشایخ والعالمین۔ فإن الفتن کلہا ما حدثت

الا بتغافل العلماء والفقراء والأمراء۔ فیُسألون عنہا یوم الجزاء۔

قالوا نحن معشر العلماء والفقراء۔ ثم عملوا عملا غیر صالح



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 348

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 348

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/348/mode/1up


بالاجتراء۔ وطلبوا رزقہم بالمکائد والریاء۔ وتری بعض علماء ہم ترکوا شغل العلم وأخلدوا إلی الأرض وفکر الزراعۃ۔ وما حفظوا مقامہم وماطلبوا فضل اللہ بالضراعۃ۔ وحسبوا عزازۃ فی الفلاحۃ۔ ونسوا حدیث الذلۃ الذی ورد بالصراحۃ۔ فالحاصل أنہم اختاروا مشاغل أخری کالحارثین۔ فکیف یقلبون الطرف إلی الدین وینصرون الدین؟ وکیف یجتمع فی قلب واحد فکر العرمۃ وفکر الأمّۃ؟ ومن خرّ علی دویل لن یفتح علیہ باب الدولۃ۔ یسألون الناس کالنائحات والنادبات۔ وأضاعوا القائت فی فکر الأقوات۔ وتری بعضہم یرہنون قبور آباء ہم۔ عند غرماء ہم۔ لیتصرّفوا فیما وُقف علیہا ولیأکلوا ما عُرض علی أجداث کبراء ہم۔ وإن قلتَ یا عافاک اللہ أحسبت قبر أبیک شیءًا یُباع ویُشتری۔ یقول اسکت یا فضولی لا تعلم ما نعلم ونری۔ ویعدون إلی ألف من کرامات أسلافہم۔ وما یخرج دُرّ من خلفہم من غیر اخلافہم۔ یدورون برکوۃ اعتضدوہا۔ وعصا اعتمدوہا۔ وسبحۃ عدّوہا۔ ولحًی طوّلوہا ومدّوہا۔ وحُللٍ خضّروہا۔ وبَشرۃ نضّروہا۔ کأنہم أبدال أو أقطاب۔ ثم یظہر بعد برہۃ أنہم کلاب أو ذئاب۔ وغایۃ ہممہم جراب۔ تُملأ فیہ دراہم ۂو قسب وکناب۔ لا تجد فیہم علامۃ من فقرہم من غیر الذوائب المرسلۃ إلی تحت الآذان۔ کمثل العلماء الذین لا یعلمون من غیر رسم الإمامۃ والأذان۔ ولا تجد فی حجراتہم أثرا من برکات۔ بل تجد کل أحد أبا ابی زید فی کذب وہنات۔ یأکلون أموال الناس بادّعاء القطبیۃ والبدلیۃ۔ ولا یعلمون من غیر طواف القبور والبدعات الشیطانیۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 349

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 349

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/349/mode/1up


وبعضہم فی المجامع یتغنّون۔ وکمثل ولیدۃ المجالس یرقصون۔ وعلی رأس کل سنۃ لتجدید البدعات یجتمعون۔ تجد فیہم مکیدۃ السنور والفأرۃ۔ وسُمّ الحیّۃ والجرارۃ۔ لا یوجد فیہم من الدیانۃ الا اسمہا۔ ولا من الشریعۃ الا رسمہا۔ ترکوا أحکام اللہ ذی الجلال۔ وخرقوا شریعۃ أخرٰی کالمحتال۔ ونحتوا من عند أنفسہم أنواع الأوراد والأشغال۔ لا یوجد أثرہا فی کتاب اللہ ولا فی آثار سید النبیین وخیر الرجال۔ ثم یقولون إنّا نؤمن بخاتم النبیین۔ وقد خرجوا من الدین کإخوانہم من المبتدعین۔ أنزل علیہم وحی من السماء فنسخ بہ القرآن وسُنّۃ سید الأنبیاء ؟ کلا۔ بل اتّبعوا الشیاطین۔ وآثروا الإباحۃ وأہواء النفس علی ما أنزل أرحم الراحمین۔ وجاء وا بمحدثات خارجۃ من الدین۔ وأحدثوا بدعات بعد نبینا المکین الأمین۔ وبدّلوا حُللًا غیر حلل المسلمین۔ وقلّبوا الأمور أکثرہا

کأنہم لیسوا من المؤمنین۔ المزامیر أحب إلیہم من تلاوۃ القرآن۔ و

دقاقیر الشعراء أملح فی أعینہم من آیات اللہ الرحمان۔ خرجوا من

الدین کما یخرج السہم من القوس۔ وداسوا أوامر اللہ کل الدوس۔

ما تری فیہم ذرّۃ من اتّباع السُنّۃ۔ ولاکفتیل من السیرالنبویۃ۔ وکثیرمنہم

فتحوا أبواب الإباحۃ۔ وأووا إلی عقیدۃ وحدۃ الوجود لیکونواآلٰہۃ ولیستریحوا

من تکالیف العبادۃ۔ یقولون أن کثیرا من الناس رأوا من دعاء نا وجہ الاھواء لیظن ان الأمرکذالک وہم من الأولیاء۔ ولیسعی الناس إلیہم بد راہم کما یسعون إلی الصلحاء۔ وإذا قُرء علیہم کتاب اللّٰہ أو قول رسولہ لا یُطربہم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 350

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 350

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/350/mode/1up


شیء من ذالک۔ ثم إذا قُرء بیت من الأبیات فإذا ہم یرقصون۔ ومن لعنہ اللہ فمن یفتح عیونہ؟ فلیعملوا ما یعملون۔

فی ذِکر طوائف أخری مِن المُسْلمِین

قد سمعتم من قبل ذکر أعیان الإسلام۔ ورجالہم الکرام۔ فلعلکم تظنون أن عامتہم معصومون من السّیءَات۔ فاعلموا أنہم کمثل کبراۂم ما غادروا شیئا من ارتکاب المعاصی والمنہیات۔ وتراہم مسلوب الہمّۃ۔ کثیر النہمۃ۔ ہالکین من سم الغفلۃ۔ یأکل بعضہم بعضا کدود العذرۃ۔ ویترکون أوامر اللہ من غیر المعذرۃ۔ قد فشا الکذب بینہم والفسق والفحشاء۔ والبخل والغل والشحناء۔ یشربون کأسا دہاقا من الصہباء۔ ویُصبحون فی القمر والزمر بترک الحیاء۔ یقولون نحن المسلمون ثم لا یتوبون من نجاسۃ الدنان۔ کأنہم لا یؤمنون بالدیّان۔ یکذبون بأدنی طمع فی الشہادات۔ ویجاوزون حد العدل عند المعادات۔ نسوا شروط التقاۃ۔ وذہلوا حقوق المؤاخاۃ۔ ومرضوا بمرض لا ینفعہ أسیٌّ ولا فلسفیٌّ۔ وما استعصم منہ ألمعیٌّ ولا غبیٌّ۔ حتی عاد زمان الجاہلیۃ بعد ذہابہ۔ وفقد

الماء وختل کل امرء بسرابہ۔ وظہرت فی الأعین خیانتہ۔ وفی الألسن خیانتہ۔ وفی الزہادۃ خیانتہ۔ وفی العبادۃ خیانتہ۔ وما بقی جریمۃ الا

وہی توجد فی المسلمین۔ وجمعوا فی أعمالہم إتلاف حقوق اللّٰہ

وحقوق المخلوقین۔ یوجد فیہم السارقون۔ والسفاکون والمزورون۔ والکاذبون والزانون۔ والأساری فی عادات الفسق والفحشاء والخائنون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 351

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 351

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/351/mode/1up


الجائرون۔ وعبدۃ القبور والمشرکون۔ والعائشون فی حلل الإباحۃ والدہریون۔ ولا یوجد جریمۃ الا ولہم سہم فیہا کما أنتم تعلمون۔ وإن کنتَ تشک فاسأل حدّاد سجنٍ من السجون۔

فِی ذِکر الفِتن الخارجیَّۃ

إن أکبر الفتن فی ہذہ البلاد۔ فتنۃ الإلحاد والارتداد۔ وترون کثیرا من أہل الردّۃ یمشون فی بلادنا کالجراد المنتشرۃ۔ دیس المسلمون تحت أقدام القسوس۔ وقُلّبت قلوبہم وجُعلت طبائعہم کالثوب المعکوس۔ وشُغفوا بمکائد أہل الصلبان۔ ومسائل العصمۃ والکفارۃ والقربان۔ وترون أنہم یُرغّبونہم فی دینہم بکل ذریعۃ وأداۃ۔ ولو بفتاۃ۔ ویجذبون کل ذی مجاعۃ وبوسَی۔ إلی إلٰہٍ نُحت بعد موسٰی۔ فیجیۂم کل من ارتاد مُضیفًا۔ لیقتاد رغیفًا۔ ویسوق الجہلاء حادی السغب۔ إلی البِیَع التی ہی أصل البوار والشغب۔ ویُرغبونہم فی خفض عیش خضل۔ وکانوا من قبل کابن سبیل مرمل۔ وکان الطوی زاد جوی الحشا۔ فآثروا الرغفان علی الدین کما تری۔ وشربوا من کأسہم۔ وتلطّخوا من أدناسہم۔ وإنہم دخلوا دیارنا کطارق إذا عری۔ فنوّموا الأشقیاء ونفوا عن السعداء الکری۔ وضل کثیر من تعلیماتہم۔ ولُدِغوا من حَیَواتہم۔ حتی صُبّغوا بصبغتہم۔ ودخلوا فناء ملّتہم۔ وما کان فیہم رجل ینفی ما رابہم۔ ویستسلّ السہم الذی انتابہم۔ ووسّعوا الحریّۃ کل التوسیع۔ وفرّقوا بین الأمّ والرضیع۔ وارتدّ فوج من



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 352

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 352

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/352/mode/1up


المسلمین۔ وکذّبوا وشتموا سید المرسلین۔ وترون الآخرین قد قاموا لتودیع الإسلام۔ وتکذیب خیر الأنام۔ عُکمت الرحال۔ وأزف الترحال۔ وقد أظہروا شعار الملّۃ النصرانیۃ۔ ونضوا عنہم کل ما کان من الحلل الإیمانیۃ۔ والذین تنصّروا ما ترکوا دقیقۃ من التحقیر والتوہین۔ وأضلّوا خلق اللہ کالشیطان اللعین۔ فالذین کانوا من أبناء المسلمین وحفدتہم۔ صاروا من جنودہم وحفدتہم۔ وأکملوا أفانین الکید۔ لیتحاشوا لہم کل نوع الصید۔ ولا شک أنہم أفسدوااِفْسادًا عظیمًا۔ وجعلوا إلہًا عظیمًا رمیمًا۔ وخدعوا جہلاء الہند بطلاوۃ العلانیۃ۔ وخبثۃ النیّۃ۔ وضیّعوا دُرر الإسلام بروث مُفضّض۔ وکنف مُبیّض۔ وصرفوا الناس من الہدایۃ إلی الضلال۔ ومن الیمین إلی الشمال۔ یُصلّتون ألسنہم کالعضب الجراز۔ ویترکون متعمّدین طریق التعظیم والاعزاز۔ وبِیَعُہم مناخ للعیس۔ ومحطّ للتعریس۔ وما تری بلدۃ من البلاد الا وتجد فیہا فوجا من أہل الردّۃ والارتداد۔ وقد تنصّروا بسہم من المال لا بالسہام۔ وکذالک أُغِیرَ علی ثلث ملّۃ الإسلام۔ وسُلب منّا أحبابنا وعادا من واخا۔ ومُطرنا حتّی

صارت الأرض سُواخٰی۔ داخوا بلادنا۔ وأحرقوا أکبادنا۔ وأفسدوا أولادنا۔ وإنہم فرق ثلاث فی الفساد۔ وفی مراتب الارتداد۔ فرقۃ ترکوا

بالجہرۃ دین الأجداد۔ وقوم آخرون تری صورہم کالمسلمین و

قلوبہم مجذومۃ من الإلحاد۔ قرأوا العلوم الجدیدۃ۔ وأکلوا تلک العصیدۃ۔ وصاروا کالملحدین۔ لا یصومون ولا یُصلّون۔ بل تراہم

علی المتعبّدین الصائمین ضاحکین۔ فہم أقرب إلی الإلحاد



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 353

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 353

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/353/mode/1up


من الإیمان۔ وإلی الشیطان من الرحمان۔ لا یؤمنون بالحشر ولا بالجنۃ والنار۔ ولا بالملا ئکۃ ولا بوحی الذی ہو مدار شریعۃ نبیّنا سید الأخیار۔ دخلوا فی بطن فلاسفۃ النصرانیین۔ فما خرجوا منہ الا فی حُلل الملحدین۔ وثقوا بومیضہم وہو خُلّب۔ واغترّوا بصدقہم وہو قُلّب۔ اسودّت صدورہم کأنہا لیلۃ فتیۃ الشباب۔ غدافیۃ الإہاب۔ وما بقیت الآذان ولا العیون۔ وغشیہم کبر الفلسفۃ کما یغشی الجنون۔ ویقولون إنّا نشرب النُقاخ۔ والعامّۃ لا یتجرّعون الا الأوساخ۔ وقوم دونہم لبسوا لباس النصرانیین۔ ویقولون إنّا نحن من المسلمین۔ ومع ذالک فرغوا من الصلاۃ والصیام۔ وإن کانوا لا یضحکون علی الإسلام۔ لا تری شیئا معہم من حلل أہل الإیمان۔ بل تری شعارہم کشعار أہل الصلبان۔ لا یتزوّجون الا بناتہم۔ ولا یحمدون إلا حصاتہم۔ شروا بالدنیا الشرع والورع۔ کرجل أجبأ الزرع۔ واذا أمعنتَ النظر فی وسمہم۔ وسرحت الطرف فی میسمہم۔ ما تری علی وجوہہم آثار نور المؤمنین۔ ولا سمت الصالحین۔ فہؤلاء أحداث قومنا یُتّکأ علیہم فی الأیام المستقبلۃ۔ ویذکرون بالثناء والمحمدۃ۔ وترون الإسلام فی زماننا ہذا کأسیرٍ یُحبس۔ أو کدریّۃ تُدْعَس۔ والذین یقرء ون فی مدارس القسوس من الصبیان۔ تری أکثرہم

یُشابہون أہل الصلبان۔ ترکوا النظیف۔ وآثروا الجیف۔ وتقمّأوا روْث الضلالۃ۔ کما کانوا یتقمّأون عظام العلوم المروّجۃ۔ وما خرجوا من المدارس حتی خرجوا من الملّۃ۔ وعلی الخرء تداکؤا۔ وعلی

القذر تکأکأوا۔وإن الذین یدرسون من النصاری شرہم أکبر وتأثیرہم



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 354

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 354

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/354/mode/1up


أعظم من قسوس آخرین۔ وإن اکثر صبیان دیننا یقرء ون فی مدارس ہذہ المضلّین۔ فإنّا للہ علی حالۃ المسلمین۔ وتأتی نساؤہم المحررات فی بیوت أہل الإسلام۔ ویوسوسن فی صدورہن بأنواع الحِیَل والاہتمام۔ وقد یرتد أحد منہن فیخرجونہا کالسارقین۔ فیجری ما یجری علی قلوب المتعلقین۔ وقد یحصل لہم کثیر من یتامی ہذا الدین۔ فیُنصّرونہم وہم ألوف عندہم و یزیدون کل یوم من قوم مجدبین۔ ومن الذین ماتت اٰباء ھم من الطاعون أو حوادث أخری فقمشہم القسوس من الأرضین۔ فلبثوا کرہنۃ لدیہم حتی صاروا من المتنصّرین۔ وعُرِضَ علیہم الخنزیر فأکلوہ۔ وقیل لسبّ المصطفٰی فسبُّوہ وصاروا أوّل الکافرین۔

فی علاج ہذہ الفتن

قد ثبت مما سبق أن ہذہ الفرق کلہم لا یقدرون علی اصلاح الناس۔ ولا علی دفع الوسواس الخنّاس۔ ولا أُصطید بہم إلی ہذا الحین صید المراد۔ وما ارتقی الناس بہذہ الذرائع إلی ذُرَی الصدق والسداد۔ وما رأیتم أحدًا منہم أصلح المفسدین۔ أو احتکأ قولہ فی قلوب المجرمین۔ أو کفأ وعظہ من المنکرات۔ وجعل من التوابین والتوابات۔ وکیف یُرجی منہم

صلاح وإن قلوبہم فسدت۔ وصارت کقربۃ قضئت۔ فہل یہدی الأعمی الأعمٰی؟ أو یُداوی الوعک من لا یقلع عنہ الحمّی؟ وہل یوجد فیہم

رجل یُوصل إلی نور الیقین؟ وہل یُرِی سبیلا من ہو من العمین۔وہل



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 355

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 355

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/355/mode/1up


من الممکن أن یلج فی سم الخیاط الہرجاب۔ أو یرعی الغنم الذئاب؟ سلّمنا أن العلماء یعظون۔ ولکن لا نُسلّم أنہم یتعظون۔ وقبلنا أنہم یقولون۔ ولکن لا نقبل أنہم یفعلون۔ وہل عیبٌ أفحش من القول من غیر العمل؟ وہل یُتَوَقّع أن یکون خائبٌ مظہرًا للأمل؟ فا ترکوا کل أحد من ہذہ الفرق مع کیدہ وکدّہ۔ وتحسّسوا لعل اللہ یأتی أمرًا من عندہ۔ وواللہ إن ہذہ فتن لن تصلح بہذہ الذرائع ولا بشوری ومُنتَدی۔ ولا بتجمیر البعوث علی ثغور العدا۔ ولا بأساۃ آخرین۔ وإن ہم الا من المتصلّفین۔ وإن مثل جاہل یتصلّف بعلمہ وعرفانہ۔ کمثل جرو صأصأ قبل أوانہ۔ أو کذئاب یسابق البازی فی طیرانہ۔فاعلموا یا مواسی المسلمین۔ وأساۃ المتألّمین۔ أن علاج القوم فی السماء۔ لا فی أیدی العقلاء۔ اقرأوا قصص السابقین فی الکتاب المبین۔وما بُدّلت سُنن اللہ فی الآخِرین۔ أتطلبون علاج المرضی من ملوککم وعلمائکم ومشائخکم وعقلا ئکم؟ عفی اللّٰہ عنکم لا أفہم غرض آرائکم۔ یا سبحان اللہ أی طریق اخترتم؟ وإلی أی شعب مررتم؟ أوَ تظنّون أن الوقت لیس وقت الإمام۔ وہو بعید من ہذہ الأیام؟ وترون بأعینکم غلبۃ الضلالۃ۔ وطوفان الجہالۃ۔ فما لکم لا تعرفون الأوقات۔ ولا تتألّمون علی ما فات؟ وإن قیل لکم إن فلانا قد بلغ العشرین وشابہ البرزوغ۔ فتفہمون من غیر توقف أنہ ترعرع وناہز البلوغ۔ فما لکم لا تفہمون مواقیت نُصرۃ الدین۔ ولا تترکون الشک مع رؤیۃ أنوار الیقین؟ وترون میسم الإسلام۔ کمیسم مریض دیس تحت الآلام۔ وتشاہدون انکفاء کمال الملّۃ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 356

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 356

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/356/mode/1up


إلی اکمال الذلّۃ۔ وقد نسبت من المزایا إلی الخطایا۔ ثم لا یبرح لکم ما نزلت من البلایا۔ ما نری فیکم خدّام الدین عند طوفان ہذہ الضلالۃ۔ ولو طُلبوا علی الجعالۃ۔ بل کل نفس ذہبت إلی اہواء ہا۔ وزعمت أن الخیر فی استیفاء ہا۔ نسوا وصایا الرحمان۔ التی لُقّنوہا فی القرآن۔ وتبیّن أنہم استضعفوا سفارۃ الرسول المقبول۔ واستشعروا تکذیب کتاب اللہ وردّوا کل ما جاء ہم من المنقول۔ واتّخذوا الجدّ عبثًا۔ وحسبوا التبر خبثًا۔ وایم اللّٰہ لطالما فکّرتُ فی أحوالہم۔ وولجتُ أجمۃ خیالہم۔ فما وجدتُ

فیہا من غیر أوابد الشہوات۔ وسباع الظلم والظلمات۔ یجوبون

الموامی من غیر مصاحبۃ خفیر۔ ویُبارزون العدا من غیر استصحاب

جفیر۔ ولا ینفی کلمہم ما راب المرتابین۔ ولا یستسلّون سہم المعترضین۔ بل یُوافقون النصاری فی کثیر من الضلالات۔ ویرافقونہم

فی أکثر الحالات۔ بید أن النصاری جہروا بذات صدورہم۔ وبرح خفاؤہم وما فی خدورہم۔ وأمّا ہؤلاء فلا یُقرّون بما لزمہم من العقائد۔ وإن ہم الا کشَرَکٍ للصائد۔ یُقابلون القسوس بوجہ طلیق۔ کحبیب ورفیق۔

لا بلسان ذلیق۔ وقلب عتیق۔ وساء ہم أن یُستدلّ من القرآن۔ وسرّہم أن یُقال روی الفلان عن الفلان۔ یریدون الرطب بالخطب۔ لیُملؤا

بطون الزغب۔ یؤثرون الثرائد علی الفرائد۔ ولا یُبالون من عصی

دین اللہ بعد أکل العصائد۔ یبکون علی عیشہم المکدّر بالصبح والمساء۔ ولا یقلعون عن البکاء۔ ولا ینزعون إلی الاستحیاء۔ ولا ینتہجون



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 357

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 357

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/357/mode/1up


سُبل الہدی۔ ولا یذکرون وشک الرّدَی۔ وإذا دُعوا إلی القری۔ یریدون أن یأکلوا القُری۔ یقولون بألسنہم لا تتّخذونی کَلا۔ ولا تصنعوا لأجلی أکلا۔ والقلب یبغی الحلوی۔ واللوزینج وما ہو أحلی۔ وکل ما ہو أجری فی الحلوق۔ وأمضی فی العروق۔ واللحم الطری۔ والکباب الشامی۔ ومع ذالک ماءً یشعشع بالثلج لیقمع ہذہ الصارۃ۔ ویفثأ تلک اللقم الحارۃ۔ ثم مع ذالک یستشعرون أن لا یودّعوا الا بدینارین۔ أو یُدفع إلیہم ما فی البیت بغض العینین۔ وإذا قُدّم إلیہم طعامٌ فی مذاقہ کلام۔ فیلعنون من دعا إلی القری عشرۃ لعنۃ۔ ویذکرونہ فی کل ساعۃ ویسبّون کبرا ونخوۃ۔ بما لم یحصل أمنیّتہم ولم یرض طویّتہم۔ وکذالک کثرت مضرا تہم۔ وانتشرت معرّاتہم۔ فکیف یُرجی صلاح الدین من ہذہ الناس؟ وہل یُرجی سیرۃ الملائک من الخناس؟ بل ہم أعداءٌ للدین فی بردۃ صدّیق۔ الوجہ کموحّد والقلب کزندیق۔ یستقرون عیسی فی الأحیاء*۔ ویُنزّلونہ من السماء۔ ویعلمون أنہ قد مات ولحق الأموات۔ وخبر موتہ موجود فی الفرقان۔ فبأی شہادۃ یؤمنون بعد القرآن۔ویقولون إنہ ہو المعصوم من مسّ الشیطان۔ ونسوا ما قال ربّنا 3 ۱؂ لا نعلم ما ہذہ

الدناء ۃ۔ وہذہ الغفلۃ۔ ألیس سید الرسل من المعصومین؟ بلی۔وإن لعنۃ اللّٰہ

*الحاشیۃ:کذالک یقولون ان الطیرلیست من خلق اللہ فقط بل بعضھامن خلق اللہ وبعضھامن خلق عیسیٰ۔ففکرواماالفرق بینھم وبین النصاریٰ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 358

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 358

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/358/mode/1up


علی الکاذبین۔یا معشر الغافلین! إلامَ تنتظرون عیسی وقد قرُبَ یوم الدین؟ أتزعمون أنہ من الأحیاء بل ہو من المیّتین۔ وإنی عارف بقبرہ فلا تکونوا من الجاہلین۔ اجتمعوا إلیّ أہدکم إن کنتم طالبین۔ ولیس ذنب تحت السماء أکبر من القول بحیاۃ عیسٰی وکادت السّماوات أن یتفطّرن بہ بل ہو من الہالکین۔ واللہ إنہ ہو الحق وإنی أُنبِئتُ من القرآن ثم بوحی رب العالمین۔ ومن قال إنہ حیّ فقد افتری علی اللہ وخالف قول الکتاب المبین۔ وإنکم تنتظرون نزولہ من مدّۃ مدیدۃ۔ فأین فیکم قریحۃ سعیدۃ؟

انظروا أیہا المنتظرون الغالون۔ ہل وجدتم ما أردتم وما تطلبون؟ وہل أنتم علی ثقۃ من أمر تعتقدون؟ وہل اطمأنّت علیہ قلوبکم أیہا المعتدون؟ بل تنصرون النصاری وتؤیّدون۔ وارتدّ کثیر من الناس بأقوالکم فلا تترکون ہذہ الکلم ولا تنتہون۔ ثم أنتم تقولون إنّا نجہد کل الجہد للإسلام۔ فأی إسلام تریدونہ یا معشر الکرام؟ أتریدون إسلام الشیعۃ أو إسلام البیاضیۃ۔ الذین لا نجاۃ عندہم من دون وِرد اللعنۃ؟ أو تعنون من ہذا اللفظ الفرقۃ الوہابیۃ۔ أو المقلّدین أو المعتزلۃ۔ أو تعنون إسلام المبتدعین من الفقراء۔ والسالکین مسلک الاباحۃ والفحشاء اواسلام الطبیعیین الجاحدین بالملا ئکۃ والجنۃ والنار والبعث وخوارق الأنبیاء۔ واستجابۃ الدعاء والضاحکین علی الصوم والصلاۃ والمؤثرین طرق الأہواء۔ أو إسلام آخر فی قلبکم ما أعثرتم علیہ أحدًا من الأحبّاء والأعداء۔أیہا الأعزّۃ فکّروا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 359

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 359

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/359/mode/1up


فی أنفسکم ما حالۃ الزمان۔ وقد افترق الأمۃ إلی فِرَقٍ لا یُرجی اتحادہم الا من ید الرحمٰن۔ یُکفّر بعضہم بعضًا۔ وربما انجرّ الأمر من الجدال إلی القتال۔ ففکّروا أتستطیعون أن تُصلحوا ذات بینہم وتجمعوہم فی براز واحد بعد إزالۃ ہذہ الجبال؟ کلا۔بل ہی أقوال لا تقتدرون علیہا۔أ تقدرون علی فعل ہو فعل اللہ ذی الجلال؟ ولن یجمع اللہ ہؤلاء الا بعد نفخ الصور من السماء۔ وإذا نُفخ فی الصور فجُمعوا جمعًا۔ فلیسمع من یستطیع سمعا۔ ولا نعنی بالصور ہہنا ما ہو مرکوز فی متخیّلۃ العامّۃ۔ بل نعنی بہ المسیح الموعود الذی قام لہذہ الدعوۃ۔ ولیس صور أعز وأعظم من قلوب المرسلین من الحضرۃ۔ بل الصور الحقیقی قلوبہم تنفخ فیہا لیجمعوا الناس علی کلمۃ واحدۃ من غیر التفرقۃ۔ وکذالک جرت سُنّۃ اللہ أنہ یبعث أحدًا من الأمّۃ لإصلاح الأمّۃ۔ ولیجذب الناس بہ إلی سبلہ المرضیۃ ولا یترک الحق کالأمر الغمّۃ۔لکن مع ذالک آفۃ أخری۔ وداہیۃ عظمی۔ وہو أن العلاج الذی أرادہ اللہ لإصلاح ہذہ الآفات۔ ودفع تلک البلیّات۔ ہو أمر لا یرضی بہ القوم وعلماء ھم۔ وتنظر إلیہ بنظر الکراہۃ عوامہم وکبراء ہم۔ فإن اللّٰہ بعث مسیحہ الموعود عند ہذہ الفتن الصلیبیۃ۔ کما بعث عیسی ابن مریم عند اختلال السلسلۃ الموسویۃ۔ وکان حقّا

علیہ تطبیق السلسلتین۔ لئلا یکون فضل لسلسۃ أولی ولیتطابقا

کتطابق النعلین۔ فبعث نبیّنا وسیّدنا محمدًاصلی اللہ علیہ وسلم۔و

جعلہ مثیل موسی وکلّمہ وعلّمہ ما علّم۔ ثم لمّا انقضت مدۃ علی ہجرۃ

ہذا النبی الکریم۔ کمثل مدۃ کانت بین عیسی والکلیم۔ وافترقت الأمّۃ

إلی فِرَقٍ وصبت علی الإسلام مصائب وبؤسی۔ کما افترقت



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 360

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 360

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/360/mode/1up


الیہود وضلّوا فی زمن عیسٰی بعد موسٰی۔ بعث اللہ مثیل ابن مریم فی ہذا الزمان۔ لیتطابق السلسلتان۔ الأول کالأول والآخر کالآخر فی جمیع الصفات والألوان۔ فکان ہذا مقام الشکر لا مقام الانکار والکفران۔ وکان من الواجب أن یتلقی المسلمون ہذا النبأ بإقبال عظیم کالعطشان۔ ویحسبوہ من أجلّ منن الرحمن۔ ولکن القوم اتّبعوا أقوال الناس وکفروا بالقرآن۔ وما آمنوا بمثیل عیسی کما لم تؤمن الیہود بعیسی من قبل بل کذّبوا کما کُذّب فی سابق الزمان۔ فالیوم ہم علی مکان واحد فی العصیان فرقتان مکذّبتان۔ وقریحتان متشابہتان۔ کذالک۔ لیتم ما قال فیہم خیر الإنس والجان۔ ولا یسرّہم الا أن ینزل عیسی ابن مریم من السماء الثانیۃ۔ واضعًا کفّیہ علی أجنحۃ الملا ئکۃ۔ وأن ینزل فی المھرودتین۔ والبُردین المزعفرین۔ ویسوء ہم أن یبعث اللہ مسیحہ الموعود من ہذہ الأمّۃ۔ کما وعد فی سورۃ النور والتحریم والفاتحۃ۔ ومن أصدق من اللہ قیلا یا ذوی الفطنۃ۔یقولون إن اللہ یحطّ عیسی من مقامہ۔ ویُکدّر صفو أیّامہ۔ ویُعیدہ إلی دار المحن من غیر اجترامہ۔ وما ہذا الا بہتان۔ وما عندہم علیہا من برہان۔ بل توفّاہ اللہ وأدخلہ فی الجِنان۔ کما ذکرہ فی القرآن۔ وقبرہ قریب من ہذہ البلدان۔ وإن طلبتم المزید من البیان۔ فتعالوا أقص علیکم قِصّتہ الثابتۃ عند المسلمین وأہل الصلبان۔ ولیس ہی من مُسلّمات فرقۃ دون الأخری۔ بل أمرٌ اتفق علیہ کل من کان من أولی النہی۔ وما کان حدیثًا یُفتری۔ وإنّا رأیناہا بنظر أقصٰی۔ وما زاغ البصر وما طغٰی۔ وثبت بثبوت قطعیّ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 361

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 361

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/361/mode/1up


أن عیسٰی ہاجر إلی مُلک کشمیر۔ بعد ما نجاہ اللّٰہ من الصلیب بفضل کبیر*۔ ولبث فیہ إلی مدّۃ طویلۃ حتی مات۔ ولحق الأموات۔ وقبرہ موجود إلی الآن فی بلدۃ ’’سِرِیْ نَگرْ‘‘ التی ہی من أعظم أمصار ہذہ الخطّۃ۔ وانعقد علیہ إجماع سکان تلک الناحیۃ۔ وتواتر علی لسان أہلہا أنہ قبر نبی کان ابن ملکٍ وکان من بنی إسرائیل۔ وکان اسمہ’’یوزآسف‘‘ فلیسألہم من یطلب الدلیل۔ واشتہر بین عامّتہم أن اسمہ الأصلی’’عیسی صاحب‘‘ وکان من الأنبیاء۔ وہاجر إلی کشمیر فی زمان مضی علیہ من نحو ۱۹۰۰ سنۃ۔ واتفقوا علی ہذہ الأنباء بل عندہم کتب قدیمۃ توجد فیہا ہذہ القصص فی العربیۃ والفارسیۃ۔ ومنہا کتاب سُمّی ’’إکمال الدین‘‘ وکتب أخری کثیرۃ الشہرۃ۔ وقد رأیت فی کتب المسیحیین أنہم یزعمون أن یوزآسف کان تلمیذا من تلامذۃ المسیح۔ وقد کتبوا ہذا الأمر بالتصریح۔ ولایوجد قوم من اقوامھم الّا وھم ترجموا ھذہ القصۃ فی لسانھم وعمّروا بیعۃ علی اسمہ فی بعض بلدانہم۔ ولا شکّ أن زعم

کونہ تلمیذًا باطل بالبداہۃ۔ فإن أحدًا من تلامذۃ عیسی ما کان

قَدْرَئینَاقَرِیْبًامن الف مجلدات من الکتب الطبیّۃ فوجدنافیھا نسخۃ مبارکۃً یُسَمّٰی مرھم عیسٰی عند ھٰذہ الفرقۃ۔وثبت بشھادات اطباء الرومیّین والیونانیین والیھود والنصاریٰ وغیرھم من الحاذقین ان ھذہ النسخۃ من ترکیب الحواریین۔وکتب کلھم فی کتبھم انھاصنعت لجراحات عیسٰی۔وکذالک کتب فی قانون الشیخ ابی علی سینا۔ فانظروا یا اولی النھٰی۔ھذا ھوالذی رُفِع الی السّمٰوات العُلٰی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 362

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 362

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/362/mode/1up


ابن ملک وما سمع منہم دعوی النبوّۃ۔ ثم مع ذالک کان یوزآسف سَمّی کتابہ الإنجیل۔ وما کان صاحب الإنجیل الا عیسی۔ فخذ ما حصحص من الحق واترک الأقاویل۔ وإن کنتَ تطلب التفصیل۔ فاقرأ کتابا سُمّی بإکمال الدین تجد فیہ کل ما تسکن الغلیل۔ ثم ہو من مؤیّدات ہذا القول أن کثیرا من مدائن کشمیر سُمّی بأسماء المدن القدیمۃ۔ أعنی مُدُنًا کانت فی أرض بعث المسیح وما لحقہا من القری القریبۃ۔ کحمص۔ وجلجات۔ واسکردو۔ وغیرہا التی ترکناہا خوف الإطالۃ۔ وہذا المقام لیس کمقام تمرّ علیہ کغافلین۔ بل ہو المنبع للحقیقۃ المخفیّۃ التی سُمّیت النصاری لہا 3۔ولقد سمّاہم اللہ بہذا الاسم فی سورۃ الفاتحۃ۔ لیشیر إلی ہذہ الضلالۃ۔ ولیشیر إلی ان عقیدۃ حیاۃ المسیح أمّ ضلالا تہم کمثل أمّ الکتاب من الصحف المطہّرۃ۔ فإنہم لو لم یرفعوہ إلی السماء بجسمہ العنصری لما جعلوہ من الآلہۃ۔ وما کان لہم أن یرجعوا لی التوحید من غیر أن یرجعوا

من ہذہ العقیدۃ۔ فکشف اللہ ہذہ العقدۃ رُحمًا علی ہذہ الأمّۃ۔

وأثبت بثبوت بیّن واضح أن عیسی ما صُلب۔ وما رُفع إلی السماء۔ و

ما کان رفعہ أمرًا جدیدا مخصوصا بہ بل کان رفع الروح فقط کمثل رفع اخوانہ من الأنبیاء۔وأمّا ذکر رفعہ بالخصوصیۃ فی القرآن۔ فکان لذبّ ما زعم الیہود وأہل الصلبان۔ فإنہم ظنوا أنہ صُلب ولُعن بحکم التوراۃ۔ واللعن یُنافی الرفع بل ہو ضدّہ کما لا یخفَی علی ذوی الحصاۃ۔ فردّ

اللہ علی ہاتین الطائفتین بقولہ 3 ۱؂ والمقصود



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 363

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 363

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/363/mode/1up


منہ أنہ لیس بملعون بل من الذین یُرفعون ویُکرمون أمام عینیہ۔ وما کان انکار الیہود الا من الرفع الروحانی الذی لا یستحقّہ المصلوب۔ ولیس عندہم رفع الجسم مدار النجاۃ فالبحث عنہ لغو لا یلزم منہ اللعن والذنوب۔ فإن إبراہیم وإسحاق ویعقوب وموسٰی۔ ما رُفع أحدٌ منہم إلی السماء بجسمہ العنصری کما لا یخفَی۔ ولا شک أنہم بعدوا من اللعنۃ وجُعلوا من المقرّبین۔ ونجوا بفضل اللہ بل کانوا سادۃ الناجین۔ فلو کان رفع الجسم إلی السماء من شرائط النجاۃ۔ لکان عقیدۃ الیہود فی أنبیاۂم أنہم رُفعوا مع الجسم إلی السماوات۔فالحاصل أن رفع الجسم ما کان عند الیہود من علامات أہل الإیمان۔ وما کان إنکارہم الا من رفع روح عیسی وکذٰلک یقولون إلی ہذا الزمان۔ فإن فرضنا أن قولہ تعالٰی3 ۱؂ کان لبیان رفع جسم عیسی إلی السماء۔ فأین ذکر رفع روحہ الذی فیہ تطہیرہ من اللعنۃ وشہادۃ الإبراء۔ مع أن ذکرہ کان واجبا لرد ما زعم الیہود والنصاری من الخطاء۔ وکفاک ہذا إن کنت من أہل الرشد والدہاء۔ أتظن أن اللہ ترک بیان رفع الروح الذی یُنجّی عیسی مما أُفتِیَ علیہ فی الشریعۃ الموسویۃ۔ وتصدّی لذکر رفع الجسم الذی لا یتعلّق بأمر یستلزم اللعنۃ عند ہذہ الفرقۃ؟ بل امر لغو اشتھر بین زُمع النصاریٰ والعامۃ۔ ولیس تحتہ شیء من الحقیقۃ۔ وما حمل النصاری علی ذالک الا طعن الیہود بالإصرار۔ وقولہم أن عیسی ملعون بما صُلب کالأشرار۔ والمصلوب ملعون بحکم التوراۃ ولیس ہہنا سعۃ الفرار۔ فضاقت الأرض بہذا الطعن علی النصاری۔ وصاروا



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 364

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 364

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/364/mode/1up


فی أیدی الیہود کالأساری۔ فنحتوا من عند أنفسہم حیلۃ صعود عیسٰی إلی السماء۔ لعلّہم یُطہّروہ من اللعنۃ بہذا الافتراء۔ وما کان مفرّ من تلک الحادثۃ الشہیرۃ التی اشتہرت بین الخواص والعوام۔ فإن الصلیب کان موجبا لللعنۃ باتّفاق جمیع فرق الیہود وعلماۂم العظام۔ فلذالک نُحِتت قصۃ صعود المسیح مع الجسم حیلۃ للابراء۔ فما قُبِلت لعدم الشہداء۔ فرجعوا مضطرّین إلی قبول إلزام اللعنۃ۔ وقالوا حملہا المسیح تنجیۃً للأمّۃ۔ وما کانت ہذہ المعاذیر الا کخبط عشواء۔ ثم بعد مدّۃ اتّبعوا الأہواء۔ وجعلوا متعمّدین ابن مریم للہ کشرکاء۔ وصار صعود المسیح وحملہ اللعنۃ عقیدۃ بعد ثلاث ماءۃ سنۃ عند المسیحیین۔ ثم تبع بعض خیالاتہم بعد القرون الثلا ثۃ الفیج الأعوج من المسلمین۔واعلم أرشدک اللہ أن رسولناصلعم ما رأی عیسی لیلۃ المعراج الا فی أرواح الأموات۔ وإنّ فی ذالک لآیۃ لذوی الحصاۃ۔ وکل مؤمن یُرفع روحہ بعد الموت وتُفتح لہ أبواب السماوات۔ فکیف وصل المسیح إلی الموتی ومقاماتہم مع

أنہ کان فی ربقۃ الحیاۃ؟ فاعلم أنہ زور لا صدق فیہ۔ وقد نُسج عند

استہزاء الیہود ولعنہم بنص التوراۃ۔ لا یُقال أن عیسی لقی الموتی

کما لقیہم نبیّنا لیلۃ المعراج۔ فإن المعراج علی المذہب الصحیح

کان کشفا لطیفا مع الیقظۃ الروحانیۃ کما لا یخفَی علی العقل الوہّاج۔ وماصعد إلی السماء الا روح سیدنا ونبیّنا مع جسم نورانی الذی ہو غیر الجسم العنصری الذی ما خُلق من التُربۃ۔ وما کان لجسمٍ أرضیّ أن یُرفع إلی السماء۔ وعدٌ مناللہ ذی الجبروت والعزّۃ وإن کنتَ فی ریب فاقرأ

33 ۱؂ ۔ فانظرأ تُکذّب القرآن لابن مریم و



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 365

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 365

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/365/mode/1up


اتّق اللہ تُقاتا۔ وانظر فی قولہ3۔ ولا تؤذ ربک کما آذیتنی۔ وقد سأل المشرکون سیدنا صلی اللہ علیہ وسلم أن یرقی فی السماء إن کان صادقا مقبولا۔ فقیل3 ۱؂ فما ظنّک ألیس ابن مریم بشرا کمثل خیر المرسلین؟ أو تفتری علی اللہ وتُقدّمہ علی أفضل النبیین؟ ألا إنہ ما صعد إلی السماء۔ ألا ان لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ وشہد اللہ أنہ قد مات ومن أصدق من اللّٰہ رب العالمین؟ ألا تُفکّر فی قولہ عز اسمہ3 ۲؂ أو علی قلبک القُفل؟ وقد انعقد الإجماع علیہ قبل کل إجماع من الصحابۃ۔ ورجع الفاروق من قولہ بعد سماع ہذہ الآیۃ۔ فما لک لا ترجع من قولک وقد قرأنا علیک کثیرا من الآیات؟ أ تکفر بالقرآن أو نسیت یوم المجازات؟ وقد قال اللہ3۔۳؂ فکیف عاش عیسی إلی الألفین فی السماء۔ما لکم لا تُفکّرون؟فالحق والحق أقول۔ إن عیسی مات۔ ورُفع روحہ ولحِق الأموات۔ وأمّا المسیح الموعود فہو منکم کما وعد اللہ فی سورۃ النور۔ وہو أمر واضح ولیس کالسرّ المستور۔ وإنّہ ’’إمامُکم منکم‘‘ کما جاء فی حدیث البخاری والمسلم۔ ومن کفر بشہادۃ القرآن وشہادۃ الحدیث فہو لیس بمسلم۔وقد أخبرنا التاریخ الصحیح الثابت أن عیسی ما مات علی الصلیب۔ وہذا أمر قد وُجِد مثلہ قبلہ

ولیس من الأعاجیب۔ وشہدت الأناجیل کلہا أن الحواریین رأوہ

بعد ما خرج من القبر وقصد الوطن والإخوان۔ ومشوا معہ إلی سبعین فرسخ وباتوا معہ وأکلوا معہ اللحم والرغفان۔ فیا حسرۃ علیک إن کنتَ

بعد ذالک تطلب البرہان۔أتظن أن سلّم السماء ما کان الا علی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 366

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 366

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/366/mode/1up


سبعین میل*من مقام الصلیب؟ فاضطر عیسی إلی أن یفرّ ویبلّغ نفسہ إلی سلمہا العجیب؟ بل فرّ مہاجرا علی سُنّۃ الأنبیاء۔ خوفا من الأعداء۔ وکان یخاف استقصاء خبرہ۔ واستبانۃ سرّہ۔ فلذالک اختار طریقا منکرًا مجہولا عسیر المعرفۃ۔ الذی کان بین القری السامریۃ۔ فإن الیہود کانوا یُعافونہا ولا یمشون علیہا من العیافۃ والنفرۃ۔ فانظر فی صورۃ سبل موامی اقتحمہا علی قدم الخیفۃ۔ وإنّا سنرسم صورتہا ہہنا لتزداد فی البصیرۃ۔ ولتعلم أن صعود عیسی إلی السماء تُہمۃ علیہ ومن أشنع الفریۃ۔ أکان فی السماء قبیلۃ من بنی إسرائیل فدلف إلیہم لإتمام الحجّۃ؟ ولما لم یکن الأمر کذالک فأی ضرورۃ نقل أقدامہ إلی السماء ؟ وما العذر عندہ إنہ لِمَ لم یُبلّغ دعوتہ إلی قومہ المنتشرین فی البلاد والمحتاجین إلی الاہتداء ؟

والعجب کل العجب أن الناس یُسمّونہ نبیّا سیّاحًا وقالوا إنہ سلک فی سیرہ مسالک لم یرضہا السیرُ ولا اہتدت إلیہ الطیرُ۔ وطوی کل الأرض أو أکثرہا ووطأ حمی الأمن وغیر الأمن۔ ورأی کل ما کان موجودًا فی الزمن۔ ومع ذالک یقولون أنہ رُفع عند واقعۃ الصلیب من غیر توقّفٍ إلی السماء۔ وما برح أرض وطنہ حتی دُعِیَ إلی حضرۃ الکبریاء۔ فما ہذہ التناقض أتفہمون؟ وما ہذہ الاختلاف أ توفّقون؟ فالحق والحق أقول۔ إن القول الآخر صحیح۔ وأمّا القول بالرفع فہو مردود قبیح۔ فإن الصعود إلی السماء قبل تکمیل الدعوۃ إلی القبائل کلہم کانت معصیۃ صریحۃ۔ وجریمۃ قبیحۃ۔ ومن المعلوم أن بنی إسرائیل فی عہد عیسی علیہ السلام کانوا متفرّقین منتشرین فی بلاد الہند وفارس وکشمیر۔ فکان فرضہ أن یُدرکہم ویُلاقیہم ویہدیہم إلی صراط الرب القدیر۔ وترک الفرض



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 367

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 367

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/367/mode/1up


معصیۃ۔ والإعراض عن قوم منتظرین ضالین جریمۃ کبیرۃ۔ تعالی شأن الأنبیاء المعصومین من ہذہ الجرائم۔ التی ہی أشنع الذمائم۔ ثم بعد ذالک نکتب صورۃ سبیل اختارہا المسیح عند ہجرتہ وہی ہذہ۔



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 368

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 368

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/368/mode/1up


فحاصل الکلام إنہ لا شک ولا شُبہۃ ولا ریب أن عیسی لمّا منّ

اللّٰہ علیہ بتخلیصہ من بلیّۃ الصلیب۔ ہاجر مع أمّہ وبعض صحابتہ

إلی کشمیر وربوتہ التی کانت ذات قرار ومعین ومجمع الأعاجیب۔

وإلیہ أشار ربنا ناصر النبیین۔ ومعین المستضعفین۔ فی قولہ:3 3۔۱؂ ولا شک أن

الإیواء لا یکون الا بعد مصیبۃ۔ وتعب وکربۃ۔ ولا یُستعمل ہذا اللفظ الا بہذا المعنی۔ وہذا ہو الحق من غیر شک وشُبہَۃ۔* ولا یتحقق

ہذہ الحالۃ المُقَلقِلۃ فی سوانح المسیح الا عند واقعۃ الصلیب۔

ولیستربوۃ فی الارتفاع فی جمیع الدنیا من البعید والقریب۔ کمثل ارتفاع جبال کشمیر وکمثل ما یتعلّق بشعبہا عند العلیم الأریب۔

اعلم ان لفظ الایواء باحدٍ من مشتقاتہ قدجاء فی کثیرٍمن مواضع القراٰن۔ وکلھاذکرفی محل العصم من البلاء بطریق الامتنان۔کماقال اللہ تعالٰی 3۔ ۲؂ وما اراد منہ الا الاراحۃ بعد الاذی۔وقال فی مقام اٰخر:33333۔ ۳؂ فانظروا کیف صرح حقیقۃ الایواء و بھا داواکم۔ وقال حکایۃ عن ابن نوح: 3۔ ۴؂ فماکان قصدہ جبلا رفیعا الا بعد رؤیۃ البلاء۔فبینوا لنا ایّ بلاءٍ نزل علی ابن مریم ومعہ علی امّہ اشد من بلاء الصلیب۔ثم ایّ مکان اٰواھما اللّٰہ الیہ من دون ربوۃ کشمیر بعد ذالک الیوم العصیب۔أ تکفرون بما اظھرہ اللّٰہ وان یوم الحساب قریب۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 369

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 369

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/369/mode/1up


ولا یسع لک تخطءۃ ہذا الکلام من غیر التصویب۔وأمّا لفظ "القرار" فی الآیۃ فیدل علی الاستقرار فی تلک الخطۃ بالأمن والعافیۃ۔ من غیر مزاحمۃ الکفرۃ الفجرۃ۔ ولا شک أن عیسی علیہ السلام ما کان لہ قرار فی

أرض الشام۔ وکان یخرجہ من أرض إلی أرض الیہود الذین کانوا

من الأشقیاء واللئام۔ فما رأی قرارًا الا فی خطّۃ کشمیر۔ وإلیہ أشار

فی ہذہ الآیۃ ربنا الخبیر۔ وأمّا الماء المعین فہی إشارۃ إلی عیون

صافیۃ وینابیع منفجرۃ توجد فی ہذہ الخطّۃ۔ ولذالک شبّہ الناس

تلک الأرض بالجنّۃ۔ ولا یوجد لفظ صعود المسیح إلی السماء

فی إنجیل متی ولا فی إنجیل یوحنّا۔ ویوجد سَفَرہ إلی جلیل بعد الصلیب

وہذا ہو الحق وبہ آمنّا۔ وقد أخفَی الحواریون ہذا السفر خوفا

من تعاقب الیہود۔ وأظہروا أنّہ رُفع إلی السماء لیکون جوابا لفتوی اللعنۃ ولیصرف خیال العدوّ الحسود۔ ثم خلف من بعدہم خلف کثیر الإطراء قلیل الدہاء۔ وحسبوا ہذہ التوریۃ حقیقۃ کما ہی سیرۃ الجہلاء۔ وجعلوا ابن مریم إلہًا بل أجلسوہ علی عرش حضرۃ الکبریاء۔ وما کان الأمر الا من حِیَل الإخفاء۔ وما کان معہ مقدار شبر من الارتقاء۔ وقد سمعتَ أنہ مات فی أرض کشمیر۔ وقبرہ معروف عند صغیر وکبیر۔ فلا تجعلوا الموتٰی إلہًا واستغفروا لہم ووحّدوا ربکم الجلیل القدیر۔ تکاد السّماوات تتفطّرن



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 370

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 370

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/370/mode/1up


من ہذا الزور۔ وواللّٰہ إنّہ میّت فا تّقوا اللّٰہ ویوم النشور۔ وصلّوا علی

محمّدِانِلذی جاء کم بالنور۔ وکان علی النور ومن النور۔وقد

ذکرنا أن المسلمین یقولون أن القبر المذکور قبر عیسی۔ وإن النصاری یقولون إن ہذا القبر قبر أحد من تلامیذہ فالأمر محصور فی الشقین کما تری۔ ولا سبیل إلی الشق الثانی۔ ولیس ہو الا کالأہواء والأمانی۔ فإن الحواریین ما کانوا الا تلامذۃ المسیح ومن صحابتہ المخصوصین۔ ومن أنصارہ المنتخبین۔ وما سُمّیَ أحد منہم ابن ملک ولا نبیّا وما کانوا الا خُدّام المسیح۔ فتقرر أنہ قبر نبی اللہ عیسی وأی دلیل تطلب بعد

ہذا الثبوت الصریح؟ فاسأل قومًا رفعوہ إلی السماء

وینتظرون رجوعہ کالحمقی۔ والموت خیر للفتی من جہالۃ ہی أظہر وأجلی۔ فالیوم ظہر صدق قول اللہ عزّ وجل3۔۱؂ وبطل ما

کانوا یفترون۔ فسبحان الذی أحق الحق وأبطل الباطل وأظہر ما کانوا یکتمون۔ توبوا إلی اللّٰہ أیہا المعتدون۔ وبأیّ حدیث بعد ذالک تتمسّکون؟ولستُ أرید أن أطوّل ہذا البحث فی ہذہ الرسالۃ الموجزۃ۔ وقد کتبنا لک بقدر الکفایۃ۔ فإن شئتَ فاقرأ کتبی المطوّلۃ فی العربیۃ۔ ولکنی أری أن أُزید علمک فی معنی اسم یوزآسف الذی ہو اسم ثانی لصاحب القبر عند سکان ہذہ الخطّۃ۔ وعند النصاری کلہم من غیر الاختلاف والتفرقۃ۔ فاعلم أنہا کلمۃ عبرانیۃ مرکّبۃ من لفظ یسوع ولفظ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 371

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 371

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/371/mode/1up


آسف۔ ومعنی یسوع النجاۃ*۔ ویستعمل فی الذی نجا من الحوادث والعواصف۔ وأمّا لفظ "آسف" فمعناہ جامع الفرق المنتشرۃ۔ وہو اسم المسیح فی الإنجیل۔ کما لا یخفی علی ذوی العلم والخبرۃ۔ وکذالک جاء فی بعض صحف أنبیاء بنی إسرائیل۔ وہذا أمر مُسَلّمٌ عند النصاری۔ فلا حاجۃ إلی أن نذکر الأقاویل۔ فثبت من ہذا المقام أن عیسی لم یمت مصلوبًا۔ بل نجّاہ اللہ من الصلیب وما ترکہ معتوبًا۔ ثم ہاجر عیسی لیستقریَ ویجمع شتات قبائل من بنی إسرائیل وشعوبًا۔ فبلغ کشمیر وألقی عصا التسیار فی تلک الخطّۃ۔ إلی أن مات ودُفن فی محلّۃ خان یار مع بعض الأحبّۃ۔ وإنْ تُحقق أن رسم الکتبۃ لتعریف القبور کان فی زمن المسیح۔ ولا أخال الا کذالک بالعلم الصحیح۔ لافتَی العقل أن قبرہ علیہ السلام لا یخلو من ہذہ الآثار۔ وإنْ کُشِفَ لظہر کثیر من الشواہد وبیّنات من الأسرار۔ فندعو اللہ أن یجعل کذالک ویقطع دابر الکفّار۔ وإنّا أخذنا عکس قبر المسیح فکان ہکذا ومن رآہ فکأنہ رأی قبر عیسی۔

کان من عادۃ الیھود انھم یسمون اطفالھم یسوع اعنی النجاۃ علی سبیل التفاول وطلب العصمۃ۔من امراض الجدری وخروج الاسنان والحصبۃ۔خوفًا من موت الاطفال بھذہ الامراض المخوفۃ۔فکذالک سمّت مریم ابنہ یسوع اعنی عیسٰی۔وتمنّت ان یعیش ولایموت بالجدری وامراض اُخْری۔والذین یقولون ان معنی یسوع المنجّی فھم کذّابون دجّالون۔یکتمون الحق ویفترون۔ویضلون

الناس ویخدعون۔فاسئل اھل اللسان ان کنت من الذین یرتابون۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 372

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 372

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/372/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 373

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 373

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/373/mode/1up


ثم بعد ذالک نکتب أسماء رجال ثقاۃ من سُکّان تلک البلدۃ۔ الذین شہدوا أنہ قبر نبی اللہ عیسی یوزآسف من غیر الشک والشبہۃ۔ وہم ہؤلاء۔*

۱

مولوی واعظ رسول صاحب میر واعظ کشمیر ابن محمد یحیی صاحب مرحوم۔

۱۶

میرزا محمد بیگ صاحب ٹہیکہ دار امامیہ ساکن محلہ مدینہ صاحب۔

۲

مولوی أحمد اللہ واعظ برادر واعظ رسول میر واعظ کشمیر۔

۱۷

۱۸

أحمد کلہ۔مندی بل ضلع نوشہرہ امامیہ۔

حکیم علی نقی صاحب امامیہ۔

۳

واعظ محمد سعد الدین عتیق عفی عنہ برادر میر واعظ۔

۱۹

۲۰

حکیم عبد الرحیم صاحب امامیہ تحصیلدار۔

مولوی حیدر علی صاحب ابن مصطفٰی صاحب

۴

عزیز اللہ شاہ محلہ کاچ گری۔


امامیہ۔سندیافتہ کربلاء معلّٰی مجتہد فرقہ امامیہ۔

۵

۶

۷

حاجی نور الدین وکیل عرف عیدگاہی۔

عزیز میر نمبر دار قصبہ پانپور۔ ذیلدار۔

مہر منشی عبد الصمد وکیل عدالت ساکن فتح کدل۔

۲۱


۲۲

مہر مفتی مولوی شریف الدین صاحب۔ ابن مولوی مفتی عزیز الدین مرحوم۔

مہر مفتی مولوی ضیاء الدین صاحب۔

۸

مہر حاجی غلام رسول تاجر ساکن محلہ ملک پورہ ضلع زینہ کدل۔

۲۳

مولوی صدر الدین مدرس مدرسہ ہمدانیہ امام مسجد وازہ پورہ۔

۹

مہر عبد الجبّار۔ خانیار۔

۲۴

مہر عبد الغنی کلاشپوری إمام مسجد۔

۱۰

۱۱

مہر أحمد خان تاجر۔ إسلام أباد۔

مہر محمد سلطان میررجوری کدل۔

۲۵

۲۶

حبیب اللہ جلد ساز متصل جامع مسجد۔

عبد الخالق کہانڈی پورہ تحصیل ہری پور۔

۱۲

ممہ جیوصراف کدل۔

۲۷

مہری عبد اللہ شیخ محلّہ وڈی کدل اصل

۱۳

حکیم مہدی صاحب أمامیہ ساکن

باغبان پورہ ضلع سنگین دروازہ۔


۲۸

ترکہ وان گامی۔

حبیب بیگ نمبردار میوہ فروشان حبہ کدل

۱۴

حکیم جعفر صاحب أمامیہ - أیضا۔


سری نکر۔

۱۵

محمد عظیم صاحب أمامیہ - أیضا۔

*کانت ھذہ الشھداء الوفًاولکناقنعنابھذاالقدروکلھم عمائدالقوم ومشاھیرھم وصلحاء ھم۔منہ



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 374

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 374

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/374/mode/1up


۲۹

أحمد جیو زینہ کدل - کشمیر۔

۵۱

مہر مجید شاہ پیراندرواری۔

۳۰

مہر غلام محی الدین زرکر محلہ کچہ بل قلعہ خانیار۔

۵۲

مہر پیر مجید بابا أندرواری۔

۳۱

عبداللہ جیوتاجرمیوہ جات باغات سرکاری سرینگر۔

۵۳

اسمعال جیودُوبی أیضا۔

۳۲

محمد خضر ساکن عالی کدل۔سرینگر۔

۵۴

سیف اللہ شاہ خادم درگاہ اندرواری۔

۳۳

عبد الغفار بن موسٰی جیوہنڈو - نرورہ۔

۵۵

قادر دوبی أیضا۔

۳۴

مہر عبلی وانی ولد صدیق وانی - بوٹہ کدل۔

۵۶

مہر مولوی غلام محی الدین کیموہ تحصیل ہری پور۔

۳۵

مہر غلام نبی شاہ حسینی۔

۵۷

محمد صدّیق پاپوش فروش محلہ شمس واری۔

۳۶

مہر عبد الرحیم إمام مسجد کہنموہ تحصیل ترال۔

۵۸

۵۹

محمد اسکندر أیضا۔

محمد عمر أیضا۔

۳۷

مہر أحمد شاہ سری نگر۔

۶۰

لسہ بٹ أیضا۔

۳۸

یوسف شاہ نرورہ۔ سرینگر۔

۶۱

مولوی عبد اللہ شاہ أیضا۔

۳۹

مہر أمیر بابا - گرگری محلہ سرینگر۔

۶۲

حاجی محمد - کلال دوری۔

۴۰

عبد العلی واعظ چمر دوری سرینگر۔

۶۳

محمد اسماعیل میر مسگر محلہ دری بل۔

۴۱

میر راج محمد - کرناہ وزارت پہاڑ۔

۶۴

عبد القادر کیموہ- تحصیل ہری پور۔

۴۲

لسہ جیو حافظ ٹینکی پورہ سرینگر۔

۶۵

أحمد جیو چیٹ گر- محلہ کلال دوری۔

۴۳

خضر جیوتار فروش۔

۶۶

محمد جیو زرگر ولد رسول جیو - فتح کدل۔

۴۴

مہر عبد اللہ جیوفرزند أکبر صاحب درویش خواجہ بازار۔

۶۷

۶۸

عبد العزیز مسگر ولد عبد الغنی محلہ اندرواری۔

احمد جیو مسگر ولد رمضان جیو- دری بل۔

۴۵

محمد شاہ ولد عمر شاہ محلہ ڈیڈی کدل۔

۶۹

محمد جیو میر۔محلہ دری بل۔

۴۶

نبہ شاہ إمام مسجد گاؤکدل۔

۷۰

اسد جیو میر- محلہ زینہ کدل۔

۴۷

مہدی خالق شاہ خادم درگاہ حضرت شیخ نور الدین نورانی چرار شریف۔

۷۱


پیرنور الدین قریشی محلہ بٹہ مالو صاحب إمام مسجد۔

۴۸

غلام محمد حکیم متصل ڈل حسن محلہ۔

۷۲

مہر غلام حسن بن نور الدین مرجان پوری

۴۹

۵۰

عبد الغنی ناید کدل۔

مہر قمر الدین دوکاندار زینہ کدل۔


صفا کدل۔

المؤلف میرزا غلام احمدالقادیانی



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 375

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 375

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/375/mode/1up


ولما ثبت موت عیسی وثبت ضرورۃ مسیح یکسر الصلیب فی ہذا الزمان۔ فما رأیکم یافتیان؟ أیُہلک اللہ ہذہ الأمّۃ فی أیدی أہل الصلبان۔ أو یبعث رجلا یُجدّد الدین ویحفظ الجدران؟ فواللّٰہ إنی أنا ذالک المسیح الموعود

فضلا من اللہ المنان الودود۔ وأنا صاحب الفصوص۔ والحارس عند غارات اللصوص۔ وترس الدین من الرحمان۔ عند طعن الأدیان۔ ألا تفکّرون فی السلسلتین۔سلسلۃ موسی وسلسلۃ سید الکونین؟ وقد أقررتم أنہ صلی اللہ علیہ وسلم جُعل فی مبدأ السلسلۃ مثیل موسی۔ فما لکم لا ترون فی آخر السلسلۃ مثیل عیسی؟ واعلموا أنکم تعلمون ضرورۃ مرسل من اللہ ثم تتجاہلون۔ وترون مفاسد الزمان ثم تتعامون۔ وتشاہدون ما صُبّ علی الإسلام ثم تنامون۔ ودُعیتم لتکونوا أنصار الإسلام ثم أنتم للنصاری تحاجّون۔ أتحاربون اللہ لتعجزونہ؟ واللہ غالب علی أمرہ ولکن لا تعلمون۔ وقد قرب أجلکم المقدّر فما لکم لا تتّقون؟ أتظنون أنی افتریتُ علی اللہ وتعلمون مآل قوم کانوا یفترون۔ ألا لعنۃ اللہ علی الذین یفترون علی اللہ وکذالک لعنۃ اللہ علی الذین یُکذّبون الحق لمّا جاء ہم ویُعرضون۔ ألا تنظرون إلی الزمان أو علی القلوب أقفال من الطغیان؟ أتطمعون أن تصلحوا بأیدیکم ما فسد من العمل والإیمان؟ ولا یہدی الأعمٰی أعمٰی آخر وقد مضت سُنّۃ الرحمان۔ فاعلموا أن السکینۃ التی تطہّر من الذنوب۔ وتنزل فی القلوب۔ وتنقل إلی دیار المحبوب۔ وتُخرِجُ من الظلمات۔ وتُنَجّی من الجہلات۔لا تتولّد ہذہ السکینۃ الا بتوسیط قوم یُرسلون من السماء۔ ویُبعَثون من حضرۃ الکبریاء۔ وکذالک جرت سُنّۃ اللہ لإصلاح أہل الأہواء۔ فیُکَذّبُ ہؤلاء السادات فی أوّل أمرہم والابتداء۔ ویؤذَوْنَ من أیدی الأشقیاء۔ ویُقال فیہم ما یؤذیہم من البہتان والتہمۃ والافتراء۔

ثم یُرَدّ الکرّۃُ لہم فیُلقَی فی قلوبہم أن یرجعوا إلی ربّہم بالتضرّع

والابتہال والدعاء۔ فیُقبِلون علی اللہ ویستفتحون۔ ویبتہلون و

یتضرّعون۔ فینظر اللہ إلیہم بنظرٍ ینظر إلی أحبّاۂ ویُنصَرون۔ فیخیب



Ruhani Khazain Volume 18. Page: 376

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- الھُدٰی: صفحہ 376

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=18#page/376/mode/1up


کل جبّار عنید معتدٍ فی الظنون۔ ویجعل اللہ خاتمۃ الأمر لأولیاۂ الذین کانوا یُضحَکُ علیہم ویُستضعفون۔ ویقضی الأمر ویُعلَی شأنہم ویُہلک قوم کانوا یُفسدون۔ کذالک جرت سُنن اللہ لقوم یطیعون أمرہ ولا یفترون۔ ولا یبتغون الا عزّۃ اللہ وجلالہ وہم من أنفسہم فانون۔ فینصرہم اللہ الذی یری ما فی صدورہم ولا یُترکون۔ وإنہم أمناء اللہ علی الأرض ورحمۃ اللہ من السماء وغیث الفضل علی البریّۃ۔ لا ینطقون إلا بإنطاق الروح ولا یتکلمون الا بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ۔ یأتون بتریاق لا یتیسر لأحد من المنطق ولا من الفلسفۃ۔ ولا بکلمات علماء الظاہر المحرومین من الروحانیۃ۔ ولا بحیلۃ من الحیل العقلیۃ۔ بل لا یحیٰی أحدٌ الا بتوسیط ہذہ الأحیاء من ید الحضرۃ۔ وکذالک اقتضت عادۃ اللہ ذی الجلال والعزّۃ۔ ولا یُفتح ما قفّلہ اللہ الا بہذہ المقالید۔ ولا ینزل أمرہ الا بتوسط ہذہ الصنادید۔ وإن الأرض ما صلحت قط وما أنبتت الا بماء من السماء۔ والماء وحی اللہ الذی ینزل فی حلل سحب الأنبیاء۔ وکفاک ہذا إن کنتَ من ذوی الدہاء۔وإن کنتَ لا تقبل الحق ولا تطلبہ فاطلب النور من الخفافیش۔ والثمرات من الحشیش۔ وقد نبّہناک فیما مضی۔ وأشرنا إلی عبد اختارہ اللہ لہذا الأمر واصطفٰی۔ ولا یراہ الا من ہداہ اللہ وأری۔ فادع اللہ لیفتح عینک لتوانس عینا جرت للوری۔ فإن القوم قد اشرفوا علی الہلاک فی بادیۃ الضلال۔ کإسماعیل من العطش فی أرض الغربۃ۔ فرحمہم اللہ علی رأس ہذہ الماءۃ۔ وفجّر ینبوعا لأہل التّقی۔ لیروی أکبادہم وأولادہم ویُنجّیہم من الردی۔ فہل فیکم من یطلب ماءًا أصفی؟

وہذا آخر ما قلنا فی ہذا الکتاب لمن اتّعظ ووعٰی۔ والسلام علی من اتّبع الہدیٰ۔

تمّت

ألّف ہذہ الرسالۃ إتماما للحجّۃ۔ وتبلیغًا لأمر حضرۃ العزّۃ المسیح الموعود والمہدی المعہود۔ والإمام المنتظر المؤیّد من اللّٰہ الصمد۔۔ میرزا غلام أحمدؐ القادیانی الہندی الفنجابی نصرہ اللہ وأیّد۔ وقد تمّت فی الشہر المبارک ربیع الأول سنۃ۱۳۲۰من الہجرۃ

النبویۃ۔ علی صاحبہاالسّلام والتحیّۃ۔ والصلاۃ المرضیّۃ۔
 
Top