• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 19 ۔اعجاز احمدی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا سچا فیصلہ کر اور تُو ہی ہے جو سب سے بہتر

فیصلہ کرنے والا ہے۔

ایّہا النّاظِرُوْن ارشد کم اللہ آپ صاحبوں پر واضح ہو کہ اِس مضمون کے لکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ موضع مدّضلع امرتسر میں باصرار منشی محمد یوسف صاحب کے میرے دو مخلص دوست ایک مباحثہ میں گئے۔ ہماری طرف سے مولوی محمد سرور صاحب مقرر ہوئے اور فریق ثانی نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو امرتسر سے طلب کر لیا۔ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب اس بحث میں خیانت اور جھوٹ سے کام نہ لیتے تو اِس مضمون کے لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ لیکن چونکہ مولوی صاحب موصوف نے میری پیشگوئیوں کی تکذیب میں دروغگوئی کو اپنا ایک فرض سمجھ لیا اس لئے خدا نے مجھے اس مضمون کے لکھنے کی طرف توجہ دلائی۔’’ تاسیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد‘‘۔ اے منصفین ہماری کتاب نزول المسیح کے پڑھنے والوں پر جس میں ڈیڑھ سو نشان آسمانی صدہا گواہوں کی شہادت کے ساتھ لکھا گیا ہے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ میری تائید میں خدا کے کامل اور پاک نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں اور اگر ان پیشگوئیوں کے ُ پورا ہونے کے تمام گواہ اکٹھے کئے جائیں تو مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ ساٹھ لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے مگر افسوس کہ تعصّب اور دنیا پرستی ایک ایسا *** روگ ہے جس سے انسان دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتا اور سُنتے


* چونکہ بٹالہ میں ۷؍ نومبر ۱۹۰۲ء ؁ کو ایک گواہی کے لئے جانا پڑا اِس لئے اس مضمون کے لکھنے میں تاخیر ہوئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہوئےؔ نہیں سنتا اور سمجھتے ہوئے نہیں سمجھتا۔ مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نشان جو میرے لئے ظاہر کئے گئے اور میری تائید میں ظہور میںآئے۔ اگر اُن کے گواہ ایک جگہ کھڑے کئے جائیں تو دنیا میں کوئی بادشاہ ایسا نہ ہوگا جو اُس کی فوج ان گواہوں سے زیادہ ہو۔ تاہم اِس زمین پر کیسے کیسے گناہ ہورہے ہیں کہ ان نشانوں کی بھی لوگ تکذیب کررہے ہیں۔

آسمان نے بھی میرے لئے گواہی دی اور زمین نے بھی۔ مگر دنیا کے اکثر لوگوں نے مجھے قبول نہ کیا۔ مَیں وہی ہوں جس کے وقت میں اُونٹ بیکار ہوگئے اور پیشگوئی آیت کریمہ 3 ۱؂ پوری ہوئی۔ اور پیشگوئی حدیث ولیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھا نے اپنی پوری پوری چمک دکھلادی۔ یہاں تک کہ عرب اور عجم کے اڈیٹران اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پرچوں میں بول اُٹھے کہ مدینہ اور مکّہ کے درمیان جوریل طیّار ہورہی ہے یہی اُس پیشگوئی کا ظہور ہے جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے۔ ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں میں خبردی گئی تھی کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پھیلے گی اور حج روکا جائے گا اور ذوالسنین ستارہ نکلے گا۔ اور ساتویں ہزار کے سر پر وہ موعود ظاہر ہوگاجو مقدّر ہے جو دمشق کے شرقی سمت میں اس کا ظہور ہو اور نیز وہ صدی کے سر پراپنے تئیں ظاہر کرے گا جبکہ صلیب کا بہت غلبہ ہوگا۔ سو آج وہ سب باتیں پوری ہوگئیں اور میری تائید میں میرے ہاتھ پر خدا نے بڑے بڑے نشان دکھلائے۔ آتھم کی موت ایک بڑا نشان تھا جو پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آیا۔ بارا۱۲ ں برس پہلے براہین احمدیہ میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور ایک حدیث بھی اس واقعہ کی خبردے رہی تھی مگر شریر لوگوں نے اس پر ٹھٹھا کیا اور قبول نہ کیا اور اس پیشگوئی کی میعاد شرطی تھی اور پیشگوئی اس لئے نہیں کی گئی تھی کہ وہ عیسائی ہے بلکہ جیسا کہ اس مباحثہ کے رسالہ میں جس کا نام عیسائیوں نے جنگِ مقدس رکھا ہے لکھا ہے سبب اس پیشگوئی کرنے کا یہی تھا کہ اُس نے اپنی کتاب ’’اندرونہ بائبل‘‘ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال رکھا تھا۔ سو اُس کو پیشگوئی کرنے کے وقت قریباً ستّر۷۰ آدمیوں کے رُو برو سُنا دیا گیا تھا کہ سبب اس پیشگوئی کا یہی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہے کہ تم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کہا تھا سو تم اگر اس لفظ سے رجُوع نہیں کروگے تو پندرہ مہینہ ؔ میں ہلاک کئے جاؤگے۔سو آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کیا اور کہا کہ معاذ اللہ مَیں نے آنجناب کی شان میں ایسا لفظ کوئی نہیں کہااور دونوں ہاتھ اُٹھائے اور زبان منہ سے نکالی اور لرزتے ہوئے زبان سے انکار کیا۔ جس کے نہ صرف مسلمان گواہ بلکہ چالیس۴۰ سے زیادہ عیسائی بھی گواہ ہوں گے۔ پس کیا یہ رجوع نہ تھا! اَورکیا اُس کا ڈرنا اور میعاد پیشگوئی میں اُس بحث کو بکّلی ترک کر دینا جو ہمیشہ میرے ساتھ کرتا تھا اور نیز شیخ غلام حسن صاحب مرحوم رئیس اعظم امرتسر کے ساتھ بھی اور میاں غلام نبی صاحب برادر میاں اسد اللہ صاحب مرحوم وکیل امرتسر کے ساتھ بھی کیا کرتا تھا۔ کیا یہ دلیل اِس بات کی نہیں ہے کہ وہ ضرور ڈرا۔اور کیا اس کا امرتسر کو چھوڑنا اور غربت میں خاموش زندگی بسر کرنا اور اکثرروتے رہنا اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اُس کا دِل ترسان اور لرزان ہوا۔ اور کیا اُس کا باوجود چار ہزار روپیہ دینے کے قَسم نہ کھانا حالانکہ ثابت کر دیا گیا تھا کہ عیسائی مذہب میں جواز قسم ہے اور خود مسیح نے بھی قَسم کھائی اور پولوس نے بھی۔ اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ ڈر گیا؟ پس کیا اب تک دجّال کہنے کے قول سے اُس کا رجوع ثابت نہیں ہوا؟ اور کون ثابت کر سکتا ہے کہ بعد اس کے اُس نے پیشگوئی کی میعاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کر کے پُکارا۔ اور پھرباوجود اِس کے جیسا کہ میری پیشگوئی میں تھا کہ کاذب صادق کی زندگی میں مر جائے گا۔ کیا وہ میری زندگی میں نہیں مرا۔ اگر پیشگوئی سچی نہیں نکلی تو مجھے دکھلاؤ کہ آتھم کہاں ہے۔ اس کی عمر تو میری عمرکے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے۔ اگر شک ہو تو اس کی پینشن کے کاغذات دفتر سرکاری میں دیکھ لو کہ کب اور کس عمر میں اُس نے پینشن پائی۔ پس اگر پیشگوئی صحیح نہیں تھی تو وہ کیوں میرے پہلے مرگیا۔ خدا کی *** اُن لوگوں پر جو جھوٹ بولتے ہیں۔ جب انسان حیا کو چھوڑ دیتا ہے تو جو چاہے بکے۔ کون اُس کو روکتا ہے۔

دیکھو لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی اس میں صاف بتلایا گیا تھا کہ وہ چھ برس کے اندر قتل کے ذریعہ سے ہلاک کیا جائے گا اور عید کے دن سے وہ دن ملا ہوا ہوگا۔ وہ کیسی صفائی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


سے پوری ہوئی یہاں تک کہ فتح علی شاہ ڈپٹی کلکٹر وغیرہ معزز لوگوں نے جو چار ہزار کے قریب تھے ایک محضرنامہ تیار کرکے لکھ دیا کہ کمال صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی حالانکہ یہؔ لوگ مخالف جماعت میں سے تھے۔ مگر پھر بھی یہ ناخداترس نام کے مولوی مانتے نہیں۔ انہیں کے معزز بھائیوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی شہادتیں موجود ہیں بلکہ اس محضرنامہ میں بہت سے ہندو بھی ہیں مگر تاہم تعصّب ایک ایسی چیز ہے کہ انسانوں کو اندھا کر دیتی ہے۔ یہ پیشگوئیاں ایسی ہیں کہ ایک را ستباز کے ان کو سن کر آنسو جاری ہو جائیں گے۔ مگر پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ آخر ہم نے بھی ایک دن مرنا ہے۔ وہ نشان جو ان کو دکھلائے گئے اگر نوح کی قوم کو دکھلائے جاتے تو وہ غرق نہ ہوتی۔ اور اگر لوط کی قوم ان سے اطلاع پاتی تو اُن پر پتھّر نہ برستے۔ مگر یہ لوگ سورج کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رات ہے یہ تو یہود سے بھی بڑھ گئے۔ خدا کے نشانوں کی تکذیب سہل نہیں اور کسی زمانہ میں اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ تو اب کیا اچھا ہو جائے گا۔ مگر اس زمانہ میں دہریّت پھیل گئی اور دل سخت ہوگئے اور نہیں ڈرتے۔ مَیں ان لوگوں کو کس سے تشبیہ دوں۔ یہ لوگ اُس اندھے سے مشابہ ہیں جو آفتاب کے وجود سے انکار کرتا ہے۔ اور اپنے اندھا پن سے متنبہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اُن یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح ہیں جو صدہا خدا کی تائیدیں اور معجزات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے نہیں دیکھتے اور اُحد کی لڑائی اور حدیبیہ کے قصّہ کو پیش کرتے ہیں اور حضرت عیسیٰ کی نسبت بھی یہودیوں کا یہی حال ہے۔

حال میں ایک یہودی کی تالیف شائع ہوئی ہے جو میرے پاس اس وقت موجود ہے گویا وہ محمد حسین یا ثناء اللہ کی تالیف ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اس شخص یعنی عیسیٰ سے ایک معجزہ بھی ظہور میں نہیں آیا اور نہ کوئی پیشگوئی اس کی سچی نکلی۔ وہ کہتا تھا کہ داؤدکا تخت مجھے ملے گا۔ کہاں ملا۔ وہ کہتا تھا کہ بارہ حواری بہشت میں بارہ تخت پائیں گے کہاں بارہ کو وہ تخت ملے۔ یہودا اسکریوطی تیس روپیہ لے کر اس سے برگشتہ ہوگیا اور حواریوں میں سے کاٹا گیا۔ اور پطرس نے تین مرتبہ اُس پر *** بھیجی کیا وہ تخت کے لائق رہا۔ اور نیز کہتا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ہنوز نہیں مریں گے کہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


مَیں واپس آجاؤں گا ۔کہاں واپس آیا۔ اور پھریہ یہودی لکھتا ہے کہ اس شخص کے جھوٹا ہونے پر یہی کافی ہے کہ ملا کی نبی کے صحیفہ میں ہمیں خبر دی گئی تھی کہ سچا مسیح جو یہودیوں میں آنے والا تھا وہ ہرگز نہیں آئے گا جب تک الیا س نبی دوبارہ دنیا میں نہ آجائے۔ پس کہاں الیاس آسمان سے نازل ہوا۔ اور پھر اس جگہ بہتؔ شور مچاتا ہے اور لوگوں کے سامنے اپیل کرتاہے کہ دیکھو ملا کی نبی کی کتاب میں پیشگوئی تو یہ تھی کہ خود الیاس دنیا میں دوبارہ آجائے گا اور یہ شخص یوحنا کو (جو مسلمانوں میں یحییٰ کے نام سے مشہور ہے) الیا س بتاتا ہے۔ گویا اس کا مثیل قرار دیتا ہے۔ مگر خدا نے تو ہمیں مثیل کی خبر نہیں دی۔اُس نے تو صاف فرمایا تھا کہ خود الیاس دوبارہ آجائے گا اور ہم قیامت کو اگر پوچھے بھی جائیں تو یہی کتاب خدا کے سامنے پیش کردیں گے کہ تُو نے کہاں لکھا تھا کہ مثیل الیاس قبل مسیح موعود بھیجا جائے گا۔ اور ان تحریرات کے بعد حضرت مسیح کی نسبت سخت بدزبانی کرتا ہے۔ کتاب موجود ہے جو چاہے دیکھ لے۔

اب بتلاؤ کہ اِس یہودی اور مولوی محمد حسین اور میاں ثناء اللہ کا دِل باہم متشابہ ہیں یا نہیں۔ میری کسی پیشگوئی کے خلاف ہونے کی نسبت کس قدر جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ ایک بھی پیشگوئی جھوٹی نہیں نکلی بلکہ تمام پیشگوئیاں صفائی سے پوری ہوگئیں شرطی پیشگوئیاں شرط کے موافق پوری ہوئیں اور ہوں گی۔ اور جو پیشگوئیاں بغیر شرط کے تھیں جیسا کہ لیکھرام کی نسبت پیشگوئی وہ اسی طرح پوری ہوگئیں۔ یہ تو میری پیشگوئیوں کی واقعی حقیقت ہے۔ مگر جو اُس یہودی فاضل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیوں پر اعتراض کئے ہیں وہ نہایت سخت اعتراض ہیں بلکہ وہ ایسے سخت ہیں کہ اُن کا تو ہمیں بھی جواب نہیں آتا۔ اور اگر مولوی ثناء اللہ یا مولوی محمد حسین یا کوئی پادری صاحبوں میں سے ان اعتراضات کا جواب دے سکے تو ہم ایک سو روپیہ نقد بطور انعام اُس کے حوالہ کریں گے خدا کہلا کر پیشگوئیوں کا یہ حال اِس سے تو ہمیں بھی تعجب ہے ایسی پیشگوئیوں پر تو نسخ بھی جاری نہیں ہوسکتا تا یہ خیال کیا جائے کہ وہ منسوخ ہوگئی تھیں ہاں وعید کی پیشگوئیاں جیسا کہ آتھم کی پیشگوئی یا احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی ایسی پیشگوئیاں ہیں جن کی قرآن اور توریت کے رُو سے تاخیر بھی ہو سکتی ہے اور ان کا التوا ان کے کذب کو مستلزم نہیں کیونکہ خدا اپنے وعید کے روکنے پر اختیار رکھتا ہے جیسا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا یہی عقیدہ ہے کیونکہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یونس نبی کی پیشگوئی جو عذاب کے لئے تھی اس کے ساتھ کوئی شرط توبہ وغیرہ کی نہیں تھی تب بھی عذاب ٹل گیا اور کوئی مسلمان یا عیسائی نہیں کہہ سکتا کہ یونس جھوٹا تھا۔ دیکھو کتاب یونہ نبی ۔اور دُرِّ منثور۔

اب کس قدر تعجب کی جگہ ہے کہ میرے مخالف میرے پر وہ اعتراض کرتے ہیں جس کی رُو سے اُن کو اِسلام ہی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اگر اُن کے دِل میں تقویٰ ہوتی تو ایسے اعتراض کبھی نہ کرتے جن میں دوسرے نبی ؔ شریک غالب ہیں اور پھر تعجب یہ کہ ہزار ہا پیشگوئیوں پر جو عین صفائی سے پوری ہوگئیں نظر نہیں ڈالتے۔ اور اگر کوئی ایک پیشگوئی اپنی حماقت سے سمجھ میں نہ آوے تو بار بار اس کو پیش کرتے ہیں کیا یہ ایمانداری ہے اگر ان کو طلب حق ہوتی تو اُن کے لئے طریقہ تصفیہ آسان تھا کہ وہ خود قادیان میں آتے اور مَیں اُن کی آمد و رفت کا خرچ بھی دے دیتا اور بطور مہمانوں کے اُن کو رکھتا تب وہ دِل کھول کر اپنی تسلی کر لیتے۔ دُور بیٹھے بغیر دریافت پوری حقیقت کے اعتراض کرنا بجُز حماقت یا تعصب کے اور کیا اس کا سبب ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کے بیوقوف ایک مرتبہ پانسو کے قریب حضرت مسیح سے مُرتد ہوگئے تھے کہ اس شخص کی پیشگوئیاں صحیح نہیں نکلیں اور دراصل یہودا اسکر یوطی کے مُرتد ہونے کا بھی یہی سبب تھا کہ علانیہ ہتھیار بھی خریدے گئے تھے۔ مگر بات سب کچی رہی اور داؤد کے تخت والی پیشگوئی پوری نہ ہوئی آخر یہودا بیزار ہو کر مُرتد ہوگیا۔ مسیح کو یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ یہ بے ایمان ہو جائیگا اور خواہ نخواہ اس کے لئے بھی بہشتی تخت کا وعدہ کیا۔ ایسا ہی بعض مخالفوں نے حدیبیہ کے سفر پر اعتراض کیا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور سفر طول طویل دلالت کرتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کا رجحان اسی طرف تھا کہ ان کو کعبہ کے طواف کے لئے اجازت دی جائیگی جیسا کہ پیشگوئی تھی اس پر بعض بدبخت مُرتد ہوگئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ چند روز ابتلامیں رہے اور آخر اِس لغزش کی معافی کے لئے کئی اعمال نیک بجا لائے جیسا کہ اُن کے قول سے ظاہر ہے۔ یہ نمونے بدبختوں کے لئے موجود ہیں مگر پھر بھی اس وقت کے نادان مخالف بدبختی کی طرف ہی دوڑتے ہیں اور شقاوت سر پرسوار ہے باز نہیں آتے کیا کیا اعتراض بنا رکھے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے سے پہلے براہین احمدیہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا اقرار موجود ہے۔ اے نادانو! اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہو۔ اس اقرار میں کہاں لکھا ہے کہ یہ خدا کی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


وحی سے بیان کرتا ہوں اور مجھے کب اِس بات کا دعویٰ ہے کہ مَیں عالم الغیب ہوں جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تُو مسیح موعود ہے اور عیسیٰ فوت ہوگیا ہے تب تک مَیں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ ہے۔ اِسی وجہ سے کمال سادگی سے مَیں نے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں لکھا ہے۔ جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو مَیں اس عقیدہ سے باز آگیا۔ مَیں نے بجز کمال یقین کے جو میرے دِل پر محیط ہوگیا اور مجھے نُور سے بھر دیا اُس رسمیؔ عقیدہ کو نہ چھوڑا حالانکہ اسی براہین میں میرانام عیسیٰ رکھا گیا تھا اور مجھے خاتم الخلفاء ٹھہرایا گیا تھا اور میری نسبت کہا گیا تھا کہ تُو ہی کسر صلیب کرے گا۔ اور مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اِس آیت کا مصداق ہے کہ 3 3 ۱؂ تا ہم یہ الہام جو براہین احمدیہ میں کھلے کھلے طور پر درج تھا خدا کی حکمت عملی نے میری نظر سے پوشیدہ رکھا اور اسی وجہ سے باوجودیکہ مَیں براہین احمدیہ میں صاف اور روشن طور پر مسیح موعود ٹھہرایا گیا تھا مگر پھر بھی مَیں نے بوجہ اس ذہول کے جو میرے دل پر ڈالا گیا حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ پس میری کمال سادگی اور ذہول پر یہ دلیل ہے کہ وحی الٰہی مندرجہ براہین احمدیہ تو مجھے مسیح موعود بناتی تھی مگر مَیں نے اس رسمی عقیدہ کو براہین میں لکھ دیا۔ مَیں خود تعجب کرتا ہوں کہ مَیں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی کیونکر اسی کتاب میں رسمی عقیدہ لکھ دیا۔

پھر مَیں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بیخبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدّو مدّ سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور مَیں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اِس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے۔

پس جب اِس بارہ میں انتہا تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا کہ فاصدع بما تؤمر یعنی جو تجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سُنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روزِ روشن



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کی طرح یقین بٹھا دیا گیاتب مَیں نے یہ پیغام لوگوں کو سُنا دیا یہ خدا کی حکمت عملی میری سچائی کی ایک دلیل تھی اور میری سادگی اور عدم بناوٹ پر ایک نشان تھا۔ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جَڑ ہوتی تو مَیں براہین احمدیہ کے وقت میں ہی یہ دعویٰ کرتا کہ مَیں مسیح موعود ہوں مگر خدا نے میری نظر کو پھیر دیا۔ مَیں براہین کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر ایک عظیم الشان دلیل تھی ورنہ میرے مخالف مجھے بتلاویں کہ مَیں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا تھا بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا۔کیایہ ؔ امر قابلِ غورنہیں جو ظہور میں آیا۔ کیا یہ طریق بے ایمانی نہیں کہ براہین احمدیہ کی اس عبارت کو تو پیش کرتے ہیں جہاں مَیں نے معمولی اور رسمی عقیدہ کی رُو سے مسیح کی آمد ثانی کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ پیش نہیں کرتے کہ اسی براہین احمدیہ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی موجود ہے۔ یہ ایک لطیف استدلال ہے جو خدا نے میرے لئے براہین احمدیہ میں پہلے سے تیار کر رکھا ہے۔ ایک دشمن بھی گواہی دے سکتا ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت میں مَیں اس سے بیخبر تھا کہ مَیں مسیح موعود ہوں تبھی تو مَیں نے اس وقت یہ دعویٰ نہ کیا۔ پس وہ الہامات جو میری بیخبری کے زمانہ میں مجھے مسیح موعود قرار دیتے ہیں ان کی نسبت کیونکر شک ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کا افترا ہیں کیونکہ اگر وہ میرا افترا ہوتے تو مَیں اسی براہین میں اُن سے فائدہ اُٹھاتا اور اپنا دعویٰ پیش کرتا اور کیونکر ممکن تھا کہ مَیں اسی براہین میں یہ بھی لکھ دیتا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ ان دونوں متناقض مضمونوں کا ایک ہی کتاب میں جمع ہونا اور میرا اُس وقت مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہ کرنا ایک منصف جج کو اس رائے کے ظاہر کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے کہ درحقیقت میرے دِل کو اس وحی الٰہی کی طرف سے غفلت رہی جو میرے مسیح موعود ہونے کے بارے میں براہین احمدیہ میں موجود تھی اِس لئے مَیں نے ان متناقض باتوں کو براہین میں جمع کردیا۔

اگر براہین احمدیہ میں فقط یہ ذکر ہوتا کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ اور میرے مسیح موعود ہونے کی نسبت کچھ ذکر نہ ہوتا تو البتہ ایک جلد باز کسی قدر اس کلام سے فائدہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اُٹھا سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ براہین احمدیہ سے بارہ برس بعد کیوں اس پہلے عقیدہ کو چھوڑ دیا گیا۔ گو ایسا کہنا بھی فضول تھا کیونکہ انبیاء اورملہمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام تاہم عوام کے آگے یہ دھوکا پیش جا سکتا تھا مگر اب تو ایسے پوچ اعتراض کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ اُسی براہین احمدیہ میں اظہار دعویٰ سے بارہ برس پہلے جا بجا مجھے مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور عقلمند کے آگے میری سچائی کے لئے یہ نہایت صاف دلیل ہے۔

غرض براہین احمدیہ میں حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کا ذکر ایک نادان کو اُس وقت دھوکا دےؔ سکتاتھا جبکہ براہین احمدیہ میں میرے مسیح موعود ہونے کی نسبت کچھ ذکر نہ ہوتا مگر وہ ذکر تو ایسا صاف تھا کہ لدہیانہ کے مولویوں محمد اور عبدالعزیزاور عبداللہ نے اسی زمانہ میں اعتراض کیا تھا کہ یہ شخص اپنا نام عیسیٰ رکھتا ہے اور عیسیٰ کی نسبت جس قدر پیشگوئیاں ہیں وہ سب اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور ان کا جواب مولوی محمد حسین نے اپنے ریویو میں دیا تھا کہ یہ اعتراض فضول ہے کیونکہ اسی براہین میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا اقرار بھی تو موجود ہے۔

پس مَیں خدا کی حکمت عملیوں پر قربان ہوں کہ کیسے لطیف طور سے پہلے سے میری بریّت کا سامان براہین میں تیار کر رکھا۔ اگر براہین احمدیہ میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا کچھ بھی ذکر نہ ہوتا اور صرف میرے مسیح موعود ہونے کا ذکر ہوتا تو وہ شور جو سالہا سال بعد پڑا اور تکفیر کے فتوے تیار ہوئے یہ شور اُسی وقت پڑ جاتا۔ اور اگر براہین میں صرف حضرت مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہوتا اور میرے مسیح موعود ہونے کے الہامات اس میں مذکور نہ ہوتے تو جاہلوں کے ہاتھ میں ایک حجت آجاتی کہ براہین میں تو حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا اقرار تھا اور پھر بارہ برس بعد اُس آمد سے انکار کیوں کیا گیا مگر ایک طرف وحی الٰہی کا براہین میں مجھے مسیح موعود قرار دینا اور ایک طرف اس کے برخلاف میرے قلم سے رسمی عقیدہ کے طور پر آمد ثانی مسیح کا ذکر ہونا یہ ایسا امر ہے کہ عقلمند اس سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ خاص خدا کی حکمت عملی ہے۔ غرض خدا کی حکمت عملی نے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


مجھے اس غلطی کا مرتکب کر کے کہ مَیں نے عیسیٰ کی آمدثانی کا اسی کتاب میں ذکر کر دیا جہاں میرے مسیح موعود ہونے کا ذکر تھا میری سادگی اور عدم افترا کو ظاہر کر دیا۔ ورنہ کیا شک تھا کہ وہ سب الہامات جو براہین احمدیہ میں مندرج ہیں جو مجھے مسیح موعود بناتے ہیں وہ تمام افترا پر محمول ہوتے اور یہ بات تو کوئی عقل سلیم قبول نہیں کرے گی کہ جو دعویٰ مسیح موعود ہونے کا براہین احمدیہ سے بارہ سال بعد پیش کیا گیا اس کا منصوبہ اتنی مدّت پہلے بنا رکھا تھا۔ غرض اسی کتاب میں جس میں میرے مسیح موعود ہونے کا ذکر ہے حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بھی ذکر ہونا یہی میری سادگی اور عدم افتراپر ایک زندہ گواہ ہے۔

افسوس کہ ہمارے مخالفوں کی کچھ ایسی عقل ماری گئی ہے کہ وہ ہر ایک بات کی ایک ٹانگ لے لیتے ہیں اور دوسری چھوڑ دیتے ہیں۔ آتھم عیسائی کے ذکر کے وقت شرط کا نام نہیں لیتے اور اس کا پیشگوئی کے مطابق مَر جانا اور داخل قبر ہو جانا جو پہلے سے بیان کیا گیا تھا زبان پر نہیں لاتے اورؔ جن واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ آتھم نے آنحضرت صلعم کو دجّال کہنے سے رجوع کیا اُن واقعات کا نام نہیں لیتے۔ کیا مجال کہ اُن واقعات کی طرف اشارہ بھی کریں سب کھا جاتے ہیں اور جب احمد بیگ کے داماد کا ذکر کرتے ہیں تو ہرگز لوگوں کو نہیں بتلاتے کہ ایک حصّہ اس پیشگوئی کا میعاد کے اندر پورا ہو چکا ہے یعنی احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا اور دوسرا حصّہ قابلِ انتظار ہے اور یہ بھی نہیں بتلاتے کہ پیشگوئی وعید کے متعلق اورنیز شرطی تھی جیسا کہ الہام توبی توبی فان البلاء علٰی عقبک سے ظاہر ہوتا ہے جو کئی دفعہ شائع ہو چکا تھا اور ظاہر ہے کہ ایسی موت کے بعد جو احمد بیگ کی موت تھی خوف دامنگیرہونا ایک طبعی امر تھا۔ پس اُسی خوف سے دوسرے حصہ کے پورے ہونے میں تاخیر ہوگئی جیسا کہ وعید کی پیشگوئیوں میں عادت اللہ ہے۔ مگر یہ بد اندیش مخالف ان امور کا کبھی ذکر بھی نہیں کرتے۔ اور یہودیوں کی طرح اصل صورتِ حال کو مسخ کر کے ایسے طور سے تقریر کرتے ہیں جس سے جاہلوں کے دِلوں میں شبہات ڈال دیں بلکہ ان لوگوں نے تو یہودیوں کے بھی کان کاٹے کیونکہ یہ لوگ تو



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


بات بات میں افترا سے کام لیتے ہیں جیسا کہ مولوی ثناء اللہ نے موضع مُدّ کی بحث میں یہی کارروائی کی اور دھوکا دیکر کہا کہ دیکھو اس شخص نے اپنی ایک پیشگوئی میں لکھا تھا کہ لڑکا پیدا ہوگا مگر لڑکی پیدا ہوئی اور بعد میں لڑکا پیدا ہو کر مر گیا اور پیشگوئی جھوٹی نکلی۔

اب ان بھلے مانسوں سے کوئی پوچھے کہ اگر تمہارے بیان میں کوئی بے ایمانی اور جھوٹ نہیں تو تم وہ الہام شائع کردہ پیش کرو جس میں خدا خبر دیتا ہو کہ ضرور اب کے دفعہ لڑکا پیدا ہوگا یا یہ خبر دیتا ہو کہ لڑکی کے بعد پیدا ہونے والا وہی موعود لڑکا ہے نہ اور کوئی۔ اگر ہم نے یہ خیال بھی کیا ہو کہ شاید یہ لڑکا وہی ہے تو ہمارا خیال کیا چیز ہے جب تک کھلی کھلی وحی الٰہی نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے خیال سے یہ گمان کیا تھا کہ یمامہ کی طرف میری ہجرت ہوگی مگر وہ خیال صحیح نہ نکلا اور آخر مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی۔ اور اگر پیشگوئی میں یہ ضرور تھا کہ پہلے حمل سے ہی وہ لڑکا پیدا ہوگا تو وحی الٰہی میں یہ الفاظ ہونے چاہئے تھے مگر کیا کوئی دکھلا سکتا ہے کہ وحی میں کوئی ایسا لفظ تھا۔ دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بنی اسرائیل کے کئی نبیوں نے پیشگوئیاں کی تھیں کہ وہ پیدا ہوگا مگر بہت سے نبیوں کے آنے کے بعد سب کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ اب کیا کوئی اعتراض کر سکتا ہے کہ ؔ ان نبیوں کی پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ کے بعد پورے دو ہزار برس گزرنے کے بعد پیدا ہوئے حالانکہ توریت کی پیشگوئی کی رُو سے یہودی خیال کرتے تھے کہ وہ نبی جلد پیدا ہو جائے گا۔ اور ایسا نہ ہوا بلکہ درمیان میں کئی نبی آئے۔ پس ایسے اعتراض یا تو دیوانہ کرتا ہے اور یا نہایت درجہ کا خبیث انسان جس کو خدا کا خوف نہیں۔

یہی باتیں مولوی ثناء اللہ نے مقام مُد کے مباحثہ میں پیش کی تھیں۔ اِن باتوں سے ہر ایک خدا ترس سمجھ سکتا ہے کہ کہاں تک ان مولوی صاحبوں کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ وہ جوشِ تعصّب سے منہاجِ نبوت کو اور اُس معیار کو جو نبیوں کی شناخت کے لئے مقرر ہے پیشِ نظر نہیں رکھتے اور ہر ایک اعتراض ان کا سراسر جھوٹ اور شیطانی منصوبہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچے ہیں تو قادیان میں آکر کسی پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 118

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/118/mode/1up


کو جھوٹی تو ثابت کریں اور ہر ایک پیشگوئی کے لئے ایک ایک سوروپیہ انعام دیا جائے گا اور آمدورفت کا کرایہ علیحدہ۔ لیکن اس تفتیش کے وقت منہاج نبوت کو معیار صدق و کذب کے لئے ٹھہراویں۔ میں یقیناًکہتا ہوں کہ اگر میرے معجزات اور پیشگوئیاں اُن کے نزدیک صحیح نہیں تو اُن کو تمام انبیاء علیہم السلام سے انکار کرنا پڑے گا۔ اور آخر ان کی موت کفر پر ہوگی۔

افسوس کہ یہ لوگ خدا سے نہیں ڈرتے۔ انبار در انبار اُن کے دامن میں جھوٹ کی نجاست ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی پَیروی کرتے ہیں۔ عیسائی کہا کرتے تھے کہ اگر آنحضرتؐ کے لئے قرآن شریف میں فتح کی پیشگوئی کی گئی تھی تو آپ نے جنگیں کیوں کیں اور دشمنوں کو حیلوں تدبیروں سے قتل کیوں کیا۔ آج اِسی قسم کے اعتراض یہ لوگ پیش کررہے ہیں۔مثلاً کہتے ہیں کہ احمد بیگ کی لڑکی کے لئے ان کے تالیف قلوب کے لئے حیلوں سے کیوں کوشش کی گئی اور کیوں احمدبیگ کی طرف ایسے خط لکھے گئے مگر افسوس کہ یہ دونوں یعنی عیسائی اور یہ نئے یہود یہ نہیں سمجھتے کہ پیشگوئیوں میں جائز کوشش کو حرام نہیں کہا گیا۔ جس شخص کو خدا یہ خبر دے کہ فلاں بیمار اچھا ہو جائیگا اُس کو منع نہیں ہے کہ وہ دَوا بھی کرے کیونکہ شاید دوا کے ذریعہ سے اچھا ہونا مقدر ہو۔ غرض ایسی کوشش کرنا نہ عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک ممنوع ہے نہ اسلام میں۔ مولوی ثناء اللہ نے اِسی مُدّ کے مباحثہ میں یہ اعتراض بھی پیش کیا ہے کہ جو ذلّت کی پیشگوئی محمد حسین اور جعفرز ٹلی اور ان کے دوسرے رفیق کی نسبت کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ اگر یہ لوگ ایسے اعتراض نہ کرتے تو پھر یہود سے مشابہت کیونکر ہوتی۔ میرے نزدیک ضروری تھا کہ ایسے اعتراض ہوتے۔ اے بھلے مانس جسؔ حالت میں اسی مقدمہ کے اثنا میں مولوی محمد حسین کی وہ تحریر پکڑی گئی جو فتویٰ تکفیر کے مخالف ہے۔ تو کیا ایک عالمانہ حیثیت کی نظر سے اس کی ذلّت اور رُسوائی نہیں ہوئی یعنی میرے مقابل پر تو اُس نے اشاعۃ السُّنّہ میں مہدی موعود کا انکار کفر قرار دیا اور شور مچایا کہ یہ شخص اسلام کے عقیدہ مسلّمہ کے مخالف ہے۔ اور حق یہی ہے کہ مہدی موعود ظاہر ہوگا اور مسیح آسمان سے نازل ہوگا اور پھر گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے مہدی کا انکار کردیا وہ رسالہ اُس کا پکڑا گیا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 119

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/119/mode/1up


اور اُس پر اُسی کے بھائیوں کا کُفر کا فتویٰ بھی لگایا گیا۔ اب کہو کہ اس منافقانہ کارروائی سے اُس کی عزّت ہوئی یا ذلّت۔ ذلّت صرف اسی کا نام نہیں کہ برسرِ بازار کسی کے سر پر جوتے پڑیں بلکہ جو شخص مولوی اور متّقی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُس کا منافقانہ چلن اگر ثابت ہو جائے تو اُس سے بڑھ کر اُس کی کوئی ذلّت نہیں۔ منافق سے ذلیل تر اور کوئی نہیں ہوتا۔ 3 3 ۱؂۔ یہ کس قدر سیاہی کا ٹیکا ہے کہ لوگوں کے سامنے بیان کرنا کہ مہدی کا آنا حق ہے اور انکار کفر ہے اور خوب لڑائیاں ہوں گی اور گورنمنٹ کو خوش کرنے کے لئے یہ کہنا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ اگر اب بھی ذلّت نہیں ہوئی تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گاکہ آپ لوگوں کی عزتیں ایک ریختہ کی عمارت سے بھی زیادہ پکّی ہیں کہ کسی بدچلنی سے اُن میں فرق نہیں آتا۔ رہی عزت جعفرز ٹلی کی پس ان لوگوں کا کوئی مستقل وجود نہیں۔ یہ سب مولوی محمد حسین کے سایہ ہیں وہ ان کا ایڈوکیٹ جو ہوا جبکہ اُن کے ایڈوکیٹ کی ذلّت ثابت ہوگئی تو کیا اُن کی ذلّت پیچھے رہ گئی۔ سایہ اصل کا ہمیشہ تابع ہوتا ہے جبکہ اصل درخت ہی گِر پڑا تو سایہ کیونکر کھڑا رہ سکتا ہے۔ اب بھی اگر کسی کو شک ہو تو دونوں بیان مولوی محمد حسین کے میرے پاس موجود ہیں۔ ایک بیان تو قوم کے خوش کرنے کے لئے اور دوسرا بیان گورنمنٹ کے خوش کرنے کے لئے وہ دونوں بچشم خود دیکھ لے اور پھر آپ انصاف کرے کہ مولوی کہلا کر اور موحّدوں کا ایڈووکیٹ بن کر یہ منافقانہ کارروائی۔ کیا یہ موجب عزت ہے یا ذلت۔

ہم نے تو اس زمانہ میں یہود دیکھ لئے اور ہم ایمان لائے کہ آیت 33۲؂ اِسی بات کی طرف اشارہ کرتی تھی کہ اس قوم میں بھی مغضوب علیہم یہودی ضرور پیدا ہوں گے سو ہوگئے اور پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہوگئی۔ مگر کیا یہ امت کچھ ایسی ہی بدقسمت ہے کہ ان کی تقدیر میں یہود بننا ہی لکھا تھا۔ اِس فعل کو ہم خدائے کریم کی طرف کبھی منسوب نہیں کر سکتے کہ یہود مردود بننے کے لئے تو یہ اُمّت اور مسیح بنی اسرائیل سے آوے ایسی کارروائی سے تو اِس اُمّت کی ناک کٹتی ہے اور اس خطاب کے لائق نہیں رہتی کہ اِس کو اُمّت مرحومہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 120

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/120/mode/1up


کہا جاوے۔ پس اِس اُمّت کا یہود بننا جیسا کہ آیت 3 ۱؂سےؔ سمجھا جاتا ہے اِس بات کو چاہتا ہے کہ جو یہود مغضوب علیہم کے مقابل مسیح آیا تھا اس کا مثیل بھی اس اُمّت میں سے آوے۔ اِسی کی طرف تو اِس آیت کا اشارہ ہے۔33َ 3 ۲؂ افسوس کہ وہ حدیث بھی اِسی زمانہ میں پوری ہوئی جس میں لکھا تھا کہ مسیح کے زمانہ کے علماء ان سب لوگوں سے بدتر ہوں گے جو زمین پر رہتے ہوں گے اور پہلے یہودیوں پر ہم کیا افسوس کریں وہ تو اعتراض کے وقت کتاب اللہ کو پیش کرتے تھے گو معنے نہیں سمجھتے تھے۔ مگر یہ لوگ صرف مَن گھڑت باتیں پیش کرتے ہیں۔ اور یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور اُن کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کا جواب دینے میں حیران ہیں بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ ضرور عیسیٰ نبی ہے کیونکہ قرآن نے اس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل ان کی نبوت پر قائم نہیں ہو سکتی بلکہ ابطال نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں۔ یہ احسان قرآن کا اُن پر ہے کہ اُن کو بھی نبیوں کے دفتر میں لکھ دیا۔ اِسی وجہ سے ہم اُن پر ایمان لائے کہ وہ سچے نبی ہیں اور برگزیدہ ہیں۔ اور اُن تہمتوں سے معصوم ہیں جو اُن پر اور اُن کی ماں پر لگائی گئی ہیں۔ قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑی تہمتیں اُن پر دو تھیں۔

(۱) ایک یہ کہ اُن کی پیدائش نعوذ باللہ *** ہے یعنی وہ ناجائز طور پر پیدا ہوئے۔

(۲) دوسری یہ کہ اُن کی موت بھی *** ہے کیونکہ وہ صلیب کے ذریعہ سے مرے ہیں اور توریت میں لکھا تھا کہ جو ولد الزنا ہو وہ ملعون ہے وہ ہرگز بہشت میں داخل نہیں ہوگا اور اُس کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوگا۔ اور ایسا ہی یہ بھی لکھا تھا کہ جو لکڑی پر لٹکایا جائے یعنی جس کی صلیب کے ذریعہ سے موت ہو وہ بھی *** ہے اور اُس کا بھی خدا کی طرف رفع نہیں ہوگا یہ دونوں اعتراض بڑے سخت تھے۔ خدا نے قرآن شریف میں اِن دونوں اعتراضات کا ایک ہی جگہ جواب دیا ہے اور وہ یہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/121/mode/1up


3 ۱؂ (الجزو ۶ سورہ نساء) اس آیت میں دونوں جملوں کا جواب ہے اور خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ نہ تو عیسیٰ کی ناجائز ولادت ہے اور نہ وہ صلیب پر مرا بلکہ دھوکے سے سمجھ لیا گیا کہ مر گیاہے۔ اِس لئے وہ مقبول ہے اور اس کا اور نبیوں کی طرح خدا کی طرف رفع ہوگیا ہے۔ اب کہاں ہیں وہ مولوی جو آسمان پر حضرت عیسیٰ کا جسم پہنچاتے ہیں یہاں تو سب جھگڑا اُن کی رُوح کے متعلق تھا جسم سے اس کو کچھ علاقہ نہیں۔

غرض قرآن شریف نے حضرت مسیح کو سچا قرار دیا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی پیشگوئیوں پر یہود کے سخت اعتراض ہیں ؔ جو ہم کسی طرح اُن کو دفع نہیں کر سکتے۔ صرف قرآن کے سہارے سے ہم نے مان لیا ہے اور سچے دِل سے قبول کیا ہے اور بجز اِس کے ان کی نبوت پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں۔ عیسائی تو ان کی خدائی کو روتے ہیں مگر یہاں نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں ہو سکتی۔ ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشگوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں اور آج کون زمین پر ہے جو اِس عُقدہ کو حل کر سکے ان لوگوں پر واویلا ہے جو میرے معاملہ میں سچ کو جھوٹ بنارہے ہیں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا نہایت فضل ہے کبھی وہ شخص لوگوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہوگا جو اس نبی مقبول کا سچا تابع ہے۔ مَیں اُن نادانوں کو کیا کہوں اور کیونکر اُن کے دِل میں سچائی کی محبت ڈال دوں جو نقالوں کی طرح پھرتے ہیں اور ٹھٹھا اور ہنسی اُن کا کام ہے اور مسخری اُن کا شیوا ہے۔ صدہا نشان آفتاب کی طرح چمک رہے ہیں مگر اُن کے نزدیک اب تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ مَیں نے سُنا ہے بلکہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی دستخطی تحریر مَیں نے دیکھی ہے جس میں وہ یہ درخواست کرتا ہے کہ مَیں اِس طور کے فیصلہ کے لئے بدل خواہشمند ہوں کہ فریقین یعنی مَیں اور وہ یہ دُعا کریں کہ جو شخص ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی مَر جائے اور نیز یہ بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اعجاز المسیح کی مانند کتاب تیار کرے جو ایسی ہی فصیح بلیغ ہو اور انہیں مقاصد پر مشتمل ہو۔ سو اگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/122/mode/1up


یہ خواہشیں دل سے ظاہر کی ہیں نفاق کے طور پر نہیں تو اس سے بہتر کیا ہے اور وہ اس اُمّت پر اِس تفرقہ کے زمانہ میں بہت ہی احسان کریں گے کہ مردِ میدان بن کر ان دونوں ذریعوں سے حق و باطل کا فیصلہ کرلیں گے۔ یہ تو انہوں نے اچھی تجویز نکالی اب اس پر قائم رہیں تو بات ہے۔

اگر ایک کذّاب دنیا سے کوچ کر جائے اور باقی لوگوں کو ہدایت ہو جائے تو ایسے مقابلہ والا نبی کا اجر پائے گا۔ لیکن ہم موت کے مباہلہ میں اپنی طرف سے کوئی چیلنج نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت کا معاہدہ ایسے چیلنج سے ہمیں مانع ہے۔ ہاں مولوی ثناء اللہ صاحب اور دوسرے مخالفوں کو منع نہیں کہ ایسے چیلنج سے ہمیں جواب دینے کے لئے مجبور کریں خواہ وہ مولوی ثناء اللہ ہوں یا اور کوئی ایسا مولوی ہو جو مشاہیر میں سے اور اپنی جماعت میں عزّت رکھتا ہو جس کے بارے میں کم سے کم پچاس معزز آدمی اس کے اشتہار پر تصدیقی شہادت ثبت کردیں۔ اور چونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب اپنی تحریر کے رُو سے ایسے چیلنج کے لئے طیار بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ پس ہمیں اس سے کوئی انکار نہیں کہ وہ ایسا چیلنج دیں بلکہ ہماری طرف سے اُن کو اجازت ہے کیونکہ اُن کا چیلنج ہی فیصلہ کے لئے کافی ہے۔ مگر شرط یہ ہوگی کہ کوئی موت قتل کے رُو سے واقع نہ ہو بلکہ محض بیماری کے ذریعہ سے ہو۔ مثلاً طاعون سے یا ہیضہ سے یا اور کسی بیماری سے تا ایسی کارروائی حکّام کے لئے تشوؔ یش کاموجب نہ ٹھہرے۔ اور ہم یہ بھی دُعاکرتے رہیں گے کہ ایسی موتوں سے فریقین محفوظ رہیں۔ صرف وہ موت کاذب کو آوے جو بیماری کی موت ہوتی ہے اور یہی مسلک فریق ثانی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اور یاد رہے کہ ہماری قتل کی پیشگوئی ایک خاص پیشگوئی تھی۔ جو لیکھرام کے متعلق تھی۔ اس میں خدا نے یہی ظاہر کیا تھا کہ وہ قتل کے ذریعہ سے مرے گا اور ایسا ہی شائع کیا گیا۔ اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ اُس کے قتل کئے جانے کا بھید یہ تھا کہ اُس نے سخت زبان درازی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام نبیوں کی نسبت اختیار کی۔ اور خدا نے دیکھا کہ اُس کی زبان درازی انتہا تک پہنچ گئی ہے اور اُس نے گالیاں دینے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/123/mode/1up


میں کسی نبی کو باقی نہ چھوڑا۔ پس آخر وہی زبان کی چُھری متمثل ہو کر اُس پر پڑی اور یہ عظیم الشان نشان تھا اور زمین پر یہ بڑا گناہ کیا گیا کہ ایسی چمکدار پیشگوئیوں سے دنیا کے لوگوں نے انکار کر دیا۔

پس اگر مولوی ثناء اللہ صاحب ایسے چیلنج کے لئے مستعد ہوں تو صرف تحریری خط کافی نہ ہوگا بلکہ اُن کو چاہئے کہ ایک چھپا ہوا اشتہار اس مضمون کا شائع کریں* کہ اس شخص کو (اور اِس جگہ میرا نام بتصریح لکھیں) مَیں کذّاب اور دجّال اور کافر سمجھتا ہوں اور جو کچھ یہ شخص مسیح موعود ہونے اور صاحب الہام اور وحی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس دعویٰ کا مَیں جھوٹا ہونا یقین رکھتا ہوں اور اے خدا مَیں تیری جناب میں دُعا کرتا ہوں کہ اگر یہ میرا عقیدہ صحیح نہیں ہے اور اگر یہ شخص فی الواقع مسیح موعود ہے اور فی الواقع عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں تو مجھے اِس شخص کی موت سے پہلے موت دے۔ اور اگر مَیں اِس عقیدہ میں صادق ہوں اور یہ شخص درحقیقت دجّال بے ایمان کافر مُرتد ہے اور حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود ہیں جو کسی نامعلوم وقت میں پھر آئیں گے تو اِس شخص کو ہلاک کر۔ تافتنہ اور تفرقہ دُور ہو۔ اور اِسلام کو ایک دجّال اور مغوی اور مضل سے ضرر نہ پہنچے۔ آمین ثم آمین

پہلے اِس سے اِسی قسم کا مبا ہلہ کتاب فتح رحمانی کے صفحہ ۲۷ میں مولوی غلام دستگیر قصوری بھی کر چکے ہیں اور اس کے بعد تھوڑے دنوں میں ہی میری زندگی میں ہی قبر میں داخل ہوگئے اور میری سچائی کو اپنے مرنے سے ثابت کر گئے مگر مولوی ثناء اللہ اگر چاہیں تو بذاتِ خود آزما لیں ان کو غلام دستگیر سے کیا کام کیونکہ وہ خود ہی اِس کے لئے مستعدی بھی ظاہر کرتے ہیں۔

یہ چیلنج جو درحقیقت ایک مباہلہ کا مضمون ہے اس کو لفظ بلفظ جو نمونہ مذکورہ کے مطابق ہو لکھنا ہو گاؔ جو اُوپر مَیں نے لکھ دیا ہے ایک لفظ کم یا زیادہ نہ کرنا ہوگا اور اگر کوئی خاص تبدیلی


* یہ بھی لکھ دیں کہ اِس مقابلہ کے لئے مَیں پیش دستی کرتا ہوں اور میری طرف سے باصرار تمام یہ چیلنج ہے ورنہ صرف بیہودہ اور گول بیان پر توجہ نہ ہوگی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/124/mode/1up


منظور ہو تو پرائیویٹ خطوط کے ذریعہ سے اس کا تصفیہ کرنا ہوگا اور پھر ایسے اشتہار مباہلہ پر کم سے کم پچاس معزز آدمیوں کے دستخط ثبت ہونے چاہئیں اور کم سے کم اس مضمون کا سات سو اشتہار ملک میں شائع ہونا چاہئے اور بیس اشتہار بذریعہ رجسٹری مجھے بھی بھیج دیں۔

مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ مَیں اُنہیں مباہلہ کے لئے چیلنج کروں یا اُن کے بالمقابل مباہلہ کروں۔ اُن کا اپنا مباہلہ جس کے لئے اُنہوں نے مستعدی ظاہر کی ہے میری صداقت کے لئے کافی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ کے زمانہ سے جس کی تالیف پر تخمیناً تئیس۲۳ سال گزر چکے ہیں میرے لئے یہ نشان قائم کر رکھا ہے۔ مَیں اقرار کرتا ہوں کہ اگر مَیں اِس مقابلہ میں مغلوب رہا تو میری جماعت کو چاہئے جو ایک لاکھ سے بھی اب زیادہ ہے کہ سب مجھ سے بیزار ہو کر الگ ہوجائیں کیونکہ جب خدا نے مجھے جھوٹا قرار دے کر ہلاک کیا تو مَیں جھوٹے ہونے کی حالت میں کسی پیشوائی اور امامت کو نہیں چاہتا بلکہ اس حالت میں ایک یہودی سے بھی بدتر ہوں گااور ہر ایک کے لئے جائے عار وننگ۔

اور جو شخص ایسے چیلنج سے فتنہ کو فرو کرے گا بشرطیکہ وہ صادق نکلے گا صفحہ روزگار میں بڑی عزت کے ساتھ اس کا نام منقوش رہے گا۔ اور جو شخص دجّال بے ایمان مفتری ہوگا اُس کی ہلاکت سے مقولہ مشہورہ کی رُو سے کہ’’ خس کم جہاں پاک‘‘ دنیا کو راحت حاصل ہوگی اِس سے زیادہ مَیں کیا لکھ سکتا ہوں اور اگر کوئی ضروری امر مجھ سے رہ گیا ہے جس کو انصاف چاہتا ہے تو مجھے اطلاع دی جائے مَیں خوشی سے اس کو قبول کروں گا بشرطیکہ بیہودہ نہ ہو اور حیلہ و بہانہ کی اُس سے بدبو نہ آوے اور تقویٰ کی بناپر ہو نہ دنیاداروں کی چالبازی کے رنگ میں۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں چاہتا ہوں کہ کسی طرح حق کھل جاوے۔ اگرچہ مَیں خدا کے نشانوں کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسا کہ کوئی آفتاب کو دیکھتا ہے۔ اور مَیں خدا کی اس وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر۔ مگر مَیں ہر ایک پہلو سے منکر پر اتمام حجت چاہتا ہوں۔ یا الٰہی تُو جو ہمارے کاروبار کو دیکھ رہا ہے اور ہمارے دلوں پر تیری نظر ہے اور تیری عمیق نگاہوں سے ہمارے اسرار پوشیدہ نہیں تو ہم میں اور مخالفوں میں فیصلہ کردے اور وہ جو تیری نظر میں صادق ہے اُس کو ضائع مت کر کہ صادق کے ضائع ہونے سے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/125/mode/1up


ایکؔ جہان ضائع ہوگا۔ اے میرے قادر خدا تو نزدیک آجا اور اپنی عدالت کی کُرسی پر بیٹھ اور یہ روز کے جھگڑے قطع کر۔ ہماری زبانیں لوگوں کے سامنے ہیں اور ہمارے دِلوں کی حقیقت تیرے آگے منکشف ہے۔ مَیں کیونکر کہوں اور کیونکر میرا دِل قبول کرے کہ تو صادق کو ذلّت کے ساتھ قبر میں اُتارے گا۔ اوباشانہ زندگی والے کیونکر فتح پائیں گے۔ تیری ذات کی مجھے قسم ہے کہ تُو ہرگز ایسا نہیں کریگا۔ اور جس قدر مولوی ثناء اللہ صاحب نے خلاف واقعہ اعتراضات اور جھوٹی قسموں سے موضع مُدّ کے جلسہ میں میری توہین کی ہے وہ تمام میرے شکوے خدا تعالیٰ کے سامنے ہیں اور مجھے اِس تکذیب کا کچھ رنج بھی نہیں کیونکہ جبکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی کذّاب قرار دیتے ہیں تو اگر مجھے بھی کذّاب کہیں تو ان پر کیا افسوس کرنا چاہئے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے اِس سوال پر کہ کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کرو عیسیٰ نے جھوٹ بولا یعنی ایسا جواب دیا کہ سراسر جھوٹ تھا کیونکہ اُنہوں نے کہا کہ جب تک مَیں اپنی اُمّت میں تھا تو اُن پر گواہ تھا اور جب تُو نے وفات دے دی تو پھر تو اُن کا رقیب تھا مجھے کیا معلوم کہ میرے پیچھے کیا ہوا۔ اور ظاہر ہے کہ اُس شخص سے زیادہ کون کذّاب ہو سکتا ہے جو قیامت کے دن جب عدالت کے تخت پر خدا بیٹھے گا اُس کے سامنے جھوٹ بولے گا۔ کیا اِس سے بدتر کوئی اور جھوٹ ہوگا کہ وہ شخص جو قیامت سے دوبارہ پہلے دنیا میں آئے گا۔ اور چالیس برس دنیا میں رہے گا اور نصاریٰ کے ساتھ لڑائیاں کرے گا اور صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا۔ اور تمام نصاریٰ کو مسلمان کر دے گا۔ وہی قیامت کو ان تمام واقعات سے انکار کر کے کہے گا کہ مجھے خبر نہیں کہ میرے بعد کیا ہوا۔ اور اس طرح پر خدا کے سامنے جھوٹ بولے گا اور ظاہر کرے گا کہ مجھے اس وقت سے نصارٰی کی حالت اور اُن کے مذہب کی کچھ بھی خبر نہیں جب سے تُو نے مجھے وفات دے دی۔ دیکھو یہ کیسا گندہ جھوٹ ہے اور پھر خدا کے سامنے اس طور سے حضرت مسیح کذّاب ٹھہرتے ہیں یا نہیں۔ قرآن شریف کھولو اَور آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کو آخر تک پڑھ جاؤ اَور پھر کہو کہ کیا تم نے عیسٰی علیہ السلام کو کذّاب قرار دیا یا نہیں۔

مگر اس پر کیا افسوس کریں کیونکہ آپ لوگوں کے نزدیک تو خدا بھی کاذب ہے خدا تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/126/mode/1up


عیسیٰ علیہ السلام کی وفات آیت 3۱؂ میں صاف طور پر بیان کردی اور بتصریح حضرت عیسیٰکا یہؔ عذر پیش کر دیا کہ میری وفات کے بعد یہ لوگ بگڑے ہیں۔پس خدا سمجھا رہا ہے کہ اگر حضرت عیسٰی فوت نہیں ہوئے تو عیسائی بھی اب تک نہیں بگڑے کیونکہ عیسائیوں کا راہِ راست پر رہنا صرف اُن کی حیات تک ہی وابستہ رکھا گیا تھا۔ اور عیسائیوں کی ضلالت کی علامت حضرت عیسٰی ؑ کی وفات پر ٹھہرائی گئی تھی۔ اب کہو اِس صورت میں آپ کے نزدیک خدا کیونکرسچا ٹھہر سکتا ہے جس کا بیان باور نہیں کیا گیا۔

اَور ایسا ہی آیت 33۲؂ میں سب نبیوں کی وفات ایک مُشترک لفظ میں جو خَلَتْ ہے خدا نے ظاہر کی تھی اور حضرت عیسیٰ کے لئے کوئی خاص لفظ استعمال نہیں فرمایا تھا۔ یہ بھی نعوذ باللہ آپ لوگوں کے نزدیک خدا کا ایک جھوٹ ہے۔ یہ وہی آیت ہے جس کے پڑھنے سے حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت کی تھی۔ ابوبکر کی بھی یہ منطق خوب تھی کہ باوجودیکہ عیسیٰ آسمان پر زندہ بیٹھا ہے پھر وہ لوگوں کے سامنے یہ آیت پڑھتا ہے یہ کس قسم کی تسلّی دیتا ہے۔ کیا اس کو معلوم نہیں کہ عیسیٰ تو زندہ آسمان پر بیٹھا ہے اور پھر دوبارہ آئے گا اور چالیس برس رہے گا۔ عیسیٰ کی وہ عمر اور افضل الرسل کی یہ عمر 3 ۳؂ ۔

اور صحابہ بھی خوب سمجھ کے آدمی تھے جو اس آیت کے سننے سے ساکت ہوگئے اور کسی نے ابوبکر کو جواب نہ دیا کہ حضرت آپ یہ کیسی آیت پڑھ رہے ہیں جو اور بھی ہمیں حسرت دلاتی ہے عیسیٰ تو آسمان پر زندہ اور پھر آنے والا اور ہمارا پیارا نبی ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا۔ اگر عیسیٰ اِس قانون قدرت سے باہر اور ہزارہا برس کی عمر پانے والا اور پھر آنے والا ہے تو ہمارے نبی کو یہ نعمت کیوں عطا نہ ہوئی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ نے جو اُس وقت تمام حاضر تھے اُن میں سے ایک بھی غائب نہ تھا۔ اِس آیت کے یہی معنے سمجھے تھے کہ تمام انبیاء فوت ہوچکے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایک دو کم سمجھ صحابہ کو



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 127

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 127

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/127/mode/1up


جن کی درایت عمدہ نہیں تھی۔عیسائیوں کے اقوال سُن کر جو اردگرد رہتے تھے پہلے کچھ یہ خیال تھا کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہے جیسا کہ ابوہریرہ جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے جن کو خدا نے علم قرآن عطا کیا تھا یہ آیت پڑھی تو سب صحابہ پر موت جمیع انبیاء ثابت ہوگئی اور وہ اِس آیت سے بہت خوش ہوئے اور اُن کا وہ صدمہ جو اُن کے پیارے نبی کی موت کا اُن کے دِل پر تھاجاتاؔ رہا اور مدینہ کی گلیوں، کوچوں میں یہ آیت پڑھتے پھرے۔ اسی تقریب پر حسّان بن ثابت نے مرثیہ کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں یہ شعر بھی بنائے۔ شعر

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِی عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

یعنی تُو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری آنکھوں کی پُتلی تھا۔ مَیں تو تیری جُدائی سے اندھا ہوگیا۔ اب جو چاہے مرے عیسیٰ ہو یا موسیٰ۔ مجھے تو تیری ہی موت کا دھڑکا تھا۔ یعنی تیرے مرنے کے ساتھ ہم نے یقین کر لیا کہ دوسرے تمام نبی مر گئے ہمیں اُن کی کچھ پَروا نہیں۔ مصرعہ

عجب تھا عشق اس دل میں محبت ہو تو ایسی ہو

پھر آپ لوگ خدا تعالیٰ کو اِس طرح پر جھوٹا قرار دیتے ہیں کہ خدا تو کہتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد عیسیٰ اور اُس کی ماں کو ہم نے ایک ٹیلہ پر جگہ دی جس میں صاف پانی بہتا تھا یعنی چشمے جاری تھے بہت آرام کی جگہ تھی اور جنت نظیر تھی جیسا کہ فرماتا ہے333 ۱؂ یعنی ہم نے واقعہ صلیب کے بعد جو ایک بڑی مصیبت تھی عیسیٰ اور اُس کی ماں کو ایک بڑے ٹیلہ پر جگہ دی جو بڑے آرام کی جگہ اور پانی خوشگوار تھا یعنی خطہء کشمیر۔ اب اگر آپ لوگوں کو عربی سے کچھ بھی مس ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اٰوی کا لفظ اُسی موقعہ پر آتا ہے کہ جب کسی مصیبت پیش آمدہ سے بچا کر پناہ دی جاتی ہے یہی محاورہ تمام قرآن شریف میں اور تمام اقوال عرب میں اور احادیث میں موجود ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام سے ثابت ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 128

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 128

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/128/mode/1up


حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی تمام عمر میں صرف صلیب کی ہی مصیبت پیش آئی تھی۔ اور حدیث سے ثابت ہے کہ مریم کو تمام عمر میں اسی واقعہ سے سخت غم پہنچا تھا۔ پس یہ آیت بلند آواز سے پکاررہی ہے کہ اس واقعہ صلیب کے بعد خدا تعالیٰ نے اس آفت سے حضرت عیسیٰ کو نجات دے کراس موذی ملک سے کسی دوسرے ملک میں پہنچا دیا تھا جہاں پانی صاف کے چشمے بہتے تھے اور اونچا ٹیلہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آسمان پر بھی کوئی چشمہ دار ٹیلہ ہے جس پر خدا تعالیٰ نے واقعہ صلیب کے بعد حضرت مسیح کو جا بٹھایا اور ماں کو بھی۔ اور حضرت مسیح کے سوانح میں غور کر کے کوئی نظیر تو پیش کرو کہ کسی مصیبت کے بعد اُنہیں ایسے ملک میں جگہ دی گئی ہو جو آرام گاہ اور جنت نظیر ہو اوربڑاؔ ٹیلہ ہو تمام دنیا سے بلند۔ اور چشمے جاری ہوں۔ پس آپ کے خیال کے رُو سے خدا تعالیٰ نعوذ باللہ صریح جھوٹا ٹھہرتاہے کہ وہ تو صلیب کے بعد ٹیلہ کا ذکر کرتا ہے جس میں عیسیٰ اور اُس کی ماں کو جگہ دی گئی اور آپ لوگ خواہ مخواہ اُس کو آسمان پر بٹھاتے ہیں اور محض بیکار۔ بھلا بتلاؤ تو سہی کہ نبی ہو کر اتنی مُدّت کیوں بیکار بیٹھ رہا ہے اور پھر آپ لوگ اور مولوی ثناء اللہ جو اِس آیت سے انکار کر کے دوسرے آسمان پر اُس کو پہنچاتے ہیں اِس بات کا کچھ جواب نہیں دے سکتے کہ زندہ مُردوں کی رُوحوں میں کیوں جا بیٹھا۔ وہ لوگ تو اِس دنیا سے باہر ہوگئے ہیں اور دوسرے جہاں میں پہنچ گئے۔ کیا وہ بھی دوسرے جہان میں پہنچ گیا ہے۔

اور خدا پر یہ بھی جھوٹ ہے کہ گویا خدا نے یہودیوں کا مطلب نہیں سمجھا اور سوال دیگر جواب دیگر کی مثل اپنے پرصادق کی۔ یہودی توکہتے تھے کہ مسیح کی رُوح کا خدا کی طرف رفع نہیں ہوا اور خدا ان کا یہ جواب دیتا ہے کہ مَیں نے اس کو زندہ مع جسم دوسرے آسمان پر اُٹھالیا اور پھر کسی وقت ماروں گا۔ بھلا یہ کیا جواب ہوا۔ سوال تو یہ تھاکہ مَرنے کے بعد عیسیٰ کا رفع نہیں ہوااور نعوذ باللہ وہ ملعون ہے اِس سوال کا جواب تو یہ تھا کہ ابھی تو عیسیٰ نہیں مَرا۔ جب مرے گا تو مَیں اپنی طرف



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 129

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 129

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/129/mode/1up


اُس کی رُوح* اُٹھا لوں گا۔ یہ اُلٹا جواب جو دیا گیا۔ یہ تو امر متنازعہ فیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ اِسی طرح آنحضرت صلعم کی نسبت آپ لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اُنہوں نے جھوٹ بولا کہ یہ کہا کہ مَیں عیسیٰ کو مُردوں کی رُوحوں میں دیکھ آیا ہوں جو اِس جہان سے باہر ہوگئے ہیں۔ ایک جسم دار شخص رُوحوں میں کیونکر بیٹھ گیا اور بغیر قبض روح دوسرے جہان میں کیونکر پہنچ گیا۔ یہ عجیب ایمان ہے کہ خدا نے تو اپنے قول سے گواہی دی کہ عیسیٰ مر گیا وہ گواہی قبول نہیں کی۔ اور پھر رسولؐ نے اپنے فعل سے یعنی رویت سے گواہی دی کہ مَیں مُردہ رُوحوں میں اُس کو دیکھ آیا ہوں، وہ گواہی بھی ردّ کی جاتی ہے اور پھر اسلام کا دعویٰ اور اہل حدیث ہونے کی شیخی۔ عیسیٰ سے تو معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ باتیں بھی نہ ہوئیں، موسیٰ سے باتیں ہوئیں۔ اور قرآن شریف میں ہے کہ موسیٰ کی ملاقات میں شک نہ کر۔ پس یہ کیسا جھوٹ ہے جو خدا اور رسول دونوں پر باندھا ہے۔

پھر کہتے ہیں کہ عیسیٰ کی نسبت ہے 3 ۱؂ جن لوگوں کی یہ قرآن دانی ہے انؔ سے ڈرنا چاہئے کہ نیم مُلّا خطرہ ایمان۔ اے بھلے مانسو۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ نہیں ہیں جو فرماتے ہیں کہ بُعِثْتُ اَنَا وَ السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3۲؂یہ کیسی بدبودار نادانی ہے جو اِس جگہ لفظ سَاعَۃ سے قیامت سمجھتے ہیں۔ اب مجھ سے سمجھو کہ ساعۃ سے مُراد اِس جگہ وہ عذاب ہے جو حضرت عیسٰی ؑ کے بعد طیطوس رُومی کے ہاتھ سے یہودیوں پر نازل ہوا تھااور خود خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں سورۂ بنی اسرائیل میں اس ساعت کی خبر دی ہے۔ اسی آیت کی تشریح اِس آیت میں ہے کہ 3َ ۳؂ یعنی عیسیٰ کے وقت سخت عذاب سے قیامت کا


* یہود حضرت مسیح کی غشی کی حالت سے بے خبر تھے یہی شبہ تھا جو اُن پر ڈالا گیا۔ پس چونکہ وہ خیال

کرتے تھے کہ عیسیٰ صلیب پر مر گیا اِس لئے وہ اس کی رفع رُوحانی کے قائل نہ تھے اور اب تک قائل نہیں۔ اُن کے مقابل پر امر تنقیح طلب صرف رفع روحانی ہے کیونکہ جسمانی رفع اُن کے نزدیک مدارِ نجات نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 130

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 130

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/130/mode/1up


نمونہ یہودیوں کو دیا گیا اور اُن کے لئے وہ ساعت ہوگئی۔ قرآنی محاورہ کی رُو سے ساعۃ عذاب ہی کو کہتے ہیں۔ سو خبر دی گئی تھی کہ یہ ساعۃ حضرت عیسیٰ کے انکار سے یہودیوں پر نازل ہوگی۔ پس وہ نشان ظہور میں آگیا اور وہ ساعۃ یہودیوں پر نازل ہوگئی۔ اور نیز اُس زمانہ میں طاعون بھی ان پر سخت پڑی اور درحقیقت اُن کے لئے وہ واقعہ قیامت تھا۔ جس کے وقت لاکھوں یہودی نیست و نابود ہوگئے اور ہزارہا طاعون سے مَرگئے۔ اور باقی ماندہ بہت ذلّت کے ساتھ متفرق ہوگئے۔ قیامت کُبریٰ تو تمام لوگوں کے لئے قیامت ہوگی مگر یہ خاص یہودیوں کے لئے قیامت تھی، اِس پر ایک اور قرینہ قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ3 ۱؂ یعنی اے یہودیو!عیسیٰ کے ساتھ تمہیں پتہ لگ جائے گاکہ قیامت کیا چیز ہے۔ اُس کے مثل تمہیں دی جائے گی۔ یعنی 3َ 33 ۲؂ وہ قیامت تمہارے پر آئے گی اِس میں شک نہ کرو۔صاف ظاہر ہے کہ قیامت حقیقی جو اب تک نہیں آئی اُس کی نسبت غیر موزوں تھا کہ خدا کہتا کہ اس قیامت میں شک نہ کرو اور تم اُس کو دیکھو گے۔ اُس زمانہ کے یہودی تو سب مَر گئے اور آنے والی قیامت اُنہوں نے نہیں دیکھی۔ کیا خدا نے جھوٹ بولا۔ ہاں طیطوس رُومی والی قیامت دیکھی۔ سو قیامت سے مُراد وہی قیامت ہے جو حضرت مسیح کے زمانہ میں طیطوس رومی کے ہاتھ سے یہودیوں کو دیکھنی پڑی اور پھر طاعون کے ذریعہ سے اُس کو دیکھ لیا۔ یہ خدا کی کتابوں میں پُرانا وعدہ عذاب کا چلا آتا تھا جس کا بائبل میں جا بجاذِ کر پایا جاتا ہے۔ قرآن شریف میں اس کے لئے خاص ؔ آیت نازل ہوئی۔ یہی وعدہ قرآن شریف میں اور پہلی کتابوں میں موجود ہے اور اسی سے یہودیوں کو تنبیہ ہوئی۔ ورنہ دُور کی قیامت سے کون ڈرتا ہے۔ کیا اِس وقت کے مولوی اُس قیامت سے ڈرتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اور جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ یہ لفظ ساعۃ کا کچھ قیامت سے خاص نہیں اور نہ قرآن نے اِس کو قیامت سے خاص رکھا ہے۔ افسوس کہ نیم مُلّا جن کی عاقبت خراب ہے اپنی جہالت سے ایسے ایسے معنے کر لیتے ہیں جن سے اصل مطلب فوت ہو جاتا ہے۔ آخری قیامت سے یہودیوں کو کیا خوف تھا۔ مگر قریب کے عذاب کی پیشگوئی بیشک اُن کے دِلوں پر اثر ڈالتی تھی۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 131

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 131

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/131/mode/1up


افسوس کہ سادہ لوح حجرہ نشین مولویوں کی نظر محدودہے ان کو معلوم نہیں کہ پہلی کتابوں میں اسی ساعت کا وعدہ تھا جو طیطوس کے وقت یہودیوں پر وارد ہوئی اور قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ عیسیٰ کی زبان پر اُن پر *** پڑی اور عذاب عظیم کے واقعہ کو ساعۃکے لفظ سے بیان کرنا نہ صرف قرآن شریف کا محاورہ ہے بلکہ یہی محاوہ پہلی آسمانی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور بکثرت پایا جاتا ہے۔ پس نہ معلوم ان سادہ لوح مولویوں نے کہاں سے اور کس سے سُن لیا کہ ساعۃ کا لفظ ہمیشہ قیامت پر ہی بولا جاتا ہے۔ افسوس یہ لوگ حیوانات کی طرح ہوگئے۔ قدم قدم پر اپنی غلطیوں سے ذلّت اُٹھاتے ہیں پھر غلطیوں کو نہیں چھوڑتے کیا غلطیوں کی کوئی حد بھی ہے۔ قرآن کے منشاکو ہرگز یہ لوگ نہیں سمجھتے۔ آسمان پر تو حضرت عیسیٰ کو مع جسم چڑھا دیا مگر جو الزام یہودیوں کا تھا اُس کا کچھ جواب نہ دیا۔ خدا جو فرماتا ہے کہ یہود کہتے تھے33 ۱؂ اور جواب دیتا ہے کہ نہیں بلکہ ہم نے اُس کو اُٹھا لیا یہ کس بات کا ردّ ہے کیا صرف قتل کا۔

سو سنو کہ یہودیوں کا بار بار یہ شور مچانا کہ ہم نے عیسیٰ کو صلیب کے ذریعہ سے مار دیا۔ اُن کا اِس سے یہ مطلب تھا کہ وہ ملعون ہے اَور اُس کی رُوح موسیٰ ؑ اور آدم کی طرح خدا کی طرف نہیں اُٹھائی گئی۔ پس خدا کا جواب یہ چاہئے تھا کہ نہیں درحقیقت اُس کی رُوح کا رفع ہوا ۔جسم کا آسمان پر اُٹھانا یا نہ اُٹھانا متنازعہ فیہ امر نہ تھا۔ پس نعوذ باللہ خدا کی یہ خوب سمجھ ہے کہ اِنکار تو رُوح کے رفع سے ہے جو خدا کی طرف ہوتا ہے۔ مگر خدا اِس اعتراض کا یہ جواب دیتا ہے کہ مَیں نے عیسیٰ کو زندہ بجسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھا دیا۔ خوب جواب ہے اور ابھی مَرنا اور قبض رُوح ہونا باقی ہے۔ خدا جانے بعد اِس کے رفع رُوحانی ہویاؔ نہ ہو۔ جو اصل جھگڑے کی بات ہے۔

ایسا ہی یہ لوگ عقل کے پورے میری بعض پیشگوئیوں کا جھوٹا نکلنا اپنے ہی دِل سے فرض کر کے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جب بعض پیشگوئیاں جھوٹی ہیں یا اجتہادی غلطی ہے تو پھر مسیحیت کے دعویٰ کا کیا اعتبار شاید وہ بھی غلط ہو۔ اِس کا اوّل جواب تو یہی ہے کہلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ اور مولوی ثناء اللہ نے موضع مُدّ میں بحث کے وقت یہی کہا تھا کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں اس لئے ہم اُن کو



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 132

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 132

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/132/mode/1up


مدعو کرتے ہیں اور خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ اِس تحقیق کے لئے قادیان میں آویں اور تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کریں اور ہم قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہر ایک پیشگوئی کی نسبت جو منہاج نبوت کی رُو سے جھوٹی ثابت ہو ایک ایک سَو روپیہ اُن کی نذر کریں گے۔ ورنہ ایک خاص تمغہ *** کا اُن کے گلے میں رہے گا۔ اور ہم آمد و رفت کا خرچ بھی دیں گے۔ اور کُل پیشگوئیوں کی پڑتال کرنی ہوگی تا آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہ جاوے۔ اور اسی شرط سے روپیہ ملے گا اور ثبوت ہمارے ذمہ ہوگا۔

یاد رہے کہ رسالہ نزول المسیح میں ڈیڑھ ۱۵۰سو پیشگوئی مَیں نے لکھی ہے تو گویا جھوٹ ہونے کی حالت میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اللہ صاحب لے جائیں گے اور دربدر گدائی کرنے سے نجات ہوگی بلکہ ہم اور پیشگوئیاں بھی معہ ثبوت ان کے سامنے پیش کردیں گے اور اسی وعدہ کے موافق فی پیشگوئی سو روپیہ دیتے جائیں گے۔ اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے۔ پس اگر مَیں مولوی صاحب موصوف کے لئے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے لوں گا تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا وہ سب اُن کی نذر ہوگا جس حالت میں دو دو آنہ کے لئے وہ دربدر خراب ہوتے پھرتے ہیں اور خدا کا قہر نازل ہے اور مُردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر گزارہ ہے ایک لاکھ روپیہ حاصل ہو جانا اُن کے لئے ایک بہشت ہے لیکن اگر میرے اِس بیان کی طرف توجہ نہ کریں اور اس تحقیق کے لئے بپابندی شرائط مذکورہ جس میں بشرط ثبوت تصدیق ورنہ تکذیب دونوں شرط ہیں۔ قادیان میں نہ آئیں تو پھر *** ہے اُس لاف و گذاف پر جواُنہوں نے موضع مُدّ میں مباحثہ کے وقت کی اور سخت بے حیائی سے جھوٹ بولا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂ مگر اُنہوں نے بغیر علم اور پوری تحقیق کے عام لوگوں کے سامنے تکذیب کی کیا یہی ایمانداری ہے۔ وہ انسان کتوں سے بدتر ہوتا ہے کہ جو بے وجہ بھونکتا ہے اور ؔ وہ زندگی *** ہے جو بے شرمی سے گزرتی ہے۔

اور بعض کا یہ خیال ہے کہ اگر کسی الہام کے سمجھنے میں غلطی ہو جائے تو امان اُٹھ جاتا ہے اور شک پڑ جاتا ہے کہ شاید اُس نبی یا رسول یا محدّث نے اپنے دعویٰ میں بھی دھوکا کھایا ہو۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 133

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 133

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/133/mode/1up


یہ خیال سراسر سفسطہ ہے اور جو لوگ نیم سودائی ہوتے ہیں وہ ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں اور اگر اُن کا یہی اعتقاد ہے تو تمام نبیوں کی نبوت سے اُن کو ہاتھ دھو بیٹھنا چاہئے کیونکہ کوئی نبی نہیں جس نے کبھی نہ کبھی اپنے اجتہاد میں غلطی نہ کھائی ہو۔ مثلاً حضرت مسیحؑ جو خدا بنائے گئے اُن کی اکثر پیشگوئیاں غلطی سے پُر ہیں۔ مثلاً یہ دعویٰ کہ مجھے داؤد کا تخت ملے گا بجُز اِس کے ایسے دعویٰ کے کیا معنے تھے کہ کسی مجمل الہام پر بھروسہ کر کے اُن کو یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں بادشاہ بن جاؤں گا داؤد کی اولاد سے تو تھے ہی اور بگفتن شہزادہ۔ اِس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تخت اور بادشاہت کی بہت خواہش تھی اور اس طرف یہود بھی منتظر تھے کہ کوئی اُن میں سے پیدا ہو کہ تا اُن کی دوبارہ بادشاہت قائم کرے اور رُومیوں کی اطاعت سے اُن کو چھڑا وے۔

سو درحقیقت ایسا دعویٰ کہ داؤد کا تخت پھر قائم ہوگا یہودیوں کی عین مُراد تھی اور ابتدا میں اِس بات سے خوش ہو کر بہت سے یہودی آپ کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ مگر بعد اس کے کچھ ایسے اتفاق پیش آئے کہ یہودیوں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص اس بخت اور قسمت کاآدمی نہیں اس لئے ان سے علیحدہ ہوگئے اور بعض شریر آدمیوں نے گورنمنٹ رُومی کے گورنر کے پاس بھی یہ خبر پہنچادی کہ یہ شخص داؤد کے تخت کا دعویدار ہے۔ تب حضرت مسیح نے فی الفور پہلو بدل لیا اور فرمایا کہ میری بادشاہت آسمانی ہے زمین کی نہیں۔ مگر یہودی اب تک اعتراض کرتے ہیں کہ اگر آسمانی بادشاہت تھی تو آپ نے حواریوں کو یہ حکم کیوں دیا تھا کہ کپڑے بیچ کر ہتھیار خرید لو۔ پس اِس میں شک نہیں کہ حضرت مسیح کے اجتہاد میں غلطی تھی اور ممکن ہے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہو جس کے بعد آپ نے رجوع کر لیا کیونکہ انبیاء غلطی پر قائم نہیں رکھے جاتے۔ اور مَیں نے شیطانی وسوسہ محض انجیل کی تحریر سے کہا ہے کیونکہ انجیل سے ثابت ہے کہ کبھی کبھی آپ کو شیطانی الہام بھی ہوتے تھے* مگر آپ اُن الہامات کو ردّ کردیتے تھے اور خدا تعالیٰ مس شیطان سے آپ کو بچا لیتا تھا جیسا کہ اسلام کی حدیثوں میں آپ کی یہ صفات لکھی ہیں اور آپ ہمیشہ محفوظ رہے۔ کبھی آپ نے شیطان کی پَیروی نہیں کی۔

* نوٹ۔ جرمن کے تین پادریوں نے شیطان کے مکالمہ کے جس کا انجیل میں ذکر ہے یہی معنے کئے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 134

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 134

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/134/mode/1up


ایکؔ شریر یہودی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بیگانہ عورت پر آپ عاشق ہوگئے تھے۔ لیکن جو بات دشمن کے مُنہ سے نکلے وہ قابلِ اعتبار نہیں* ۔ آپ خدا کے مقبول اور پیارے تھے۔ خبیث ہیں وہ لوگ جو آپ پر یہ تہمتیں لگاتے ہیں۔ ہاں آپ نے اجتہادی غلطی سے داؤد کے تخت کی تمنّا کی تھی مگر وہ تمنّا پوری نہ ہوئی اور مطابق مثل مشہور کہ بن مانگے موتی ملیں مانگے ملے نہ بھیک۔ آپ تو داؤد کے تخت سے محروم رہے۔ مگر وہ برگزیدۂ خدا سیّد الرسل جس نے دنیا کی بادشاہت سے منہ پھیر کر کہا تھا کہ اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ یعنی فقر میرا فخر ہے اُس کو خدا نے بادشاہت دے دی۔ اُس نے کہا تھا کہ مَیں ایک دن فاقہ چاہتا ہوں اور ایک دن روٹی۔ مگر خدا نے اُس کو فقر و فاقہ سے بچایا۔ یہ خاص فضل ہے۔

حضرت مسیح کے اجتہاد جو اکثر غلط نکلے اِس کا سبب شاید یہ ہوگا کہ اوائل میں جو آپ کے ارادے تھے وہ پورے نہ ہو سکے۔ غرض ان باتوں سے نبوت میں کچھ خلل نہیں آیا۔ نبی کے ساتھ صدہا انوار ہوتے ہیں جن سے وہ شناخت کیا جاتا ہے۔ اور جن سے اُس کے دعویٰ کی سچائی کھلتی ہے۔ پس اگر کوئی اجتہاد غلط ہو تو اصل دعویٰ میں کچھ فرق نہیں آتامثلاً آنکھ اگر دُور کے فاصلہ سے انسان کو بیل تصور کرے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آنکھ کا وجود بے فائدہ ہے یا اُس کی رویت قابلِ اعتبار نہیں۔ پس نبی کے لئے اُس کے دعویٰ اور تعلیم کی ایسی مثال ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں کو دیکھتی ہے اور اُن میں غلطی نہیں کرتی۔ اور بعض اجتہادی امور میں غلطی کی ایسی مثال ہے جیسے دُور دراز کی چیزوں کو آنکھ دیکھتی ہے تو کبھی ان کی تشخیص میں غلطی کر جاتی ہے۔ اِسی بناپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ کو جو یہودیوں کی بھلائی کے لئے اپنی بادشاہت کا خیال تھا۔ اس لئے بموجب آیت کریمہ

شیطان نے آپ کو دھوکا دیا اور داؤد کے تخت کا لالچ دِل میں ڈال دیا۔


* نوٹ۔ عیسائی بھی ایسی بکواس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا کرتے ہیں اور حضرت موسٰیؑ پر بھی ایک مرتبہ ایسا ہی الزام لگایا گیا تھا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 135

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 135

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/135/mode/1up


مگر چونکہ مقرب اور خدا کے پیارے تھے اِس لئے وہ شیطانی وسوسے قائم نہ رہ سکے۔ اور جلد آپ نے سمجھ لیا کہ میری آسمان کی بادشاہت ہے نہ زمین کی۔

غرض حضرت مسیح کا یہ اجتہاد غلط نکلا۔ اصل وحی صحیح ہوگی مگر سمجھنے میں غلطی کھائی۔ افسوس ہے کہ جس قدر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اجتہادات میں غلطیاں ہیں اُس کی نظیر کسی نبی میں بھی پائی نہیں جاتی۔ شاید خدائی کے لئے یہ بھی ایک شرط ہوگی۔ مگر کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بہت سے غلطؔ اجتہادوں اور غلط پیشگوئیوں کی وجہ سے اُن کی پیغمبری مشتبہ ہوگئی ہے۔ ہرگز نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اُس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اُٹھتے ہیں اور اس قدر تو اتر سے جمع ہوتے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے۔ اور پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہاد کی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی جیسا کہ جو چیزیں انسان کے نزدیک لائی جائیں اور آنکھوں کے قریب کی جائیں تو انسان کی آنکھ اُن کے پہچاننے میں غلطی نہیں کھاتی۔ اور قطعاً حکم دیتی ہے کہ یہ فلاں چیز ہے اور اس مقدار کی ہے اور وہ حکم صحیح ہوتا ہے اور ایسی رویت کی شہادت کو عدالتیں قبول کرتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی چیز قریب نہ لائی جائے اور مثلاً نصف میل یاپاؤمیل سے کسی انسان کو پوچھا جائے کہ وہ سفید شے کیا چیز ہے تو ممکن ہے کہ ایک سفید کپڑے والے انسان کو ایک سفید گھوڑا خیال کرے یا ایک سفید گھوڑے کو انسان سمجھ لے۔ پس ایسا ہی نبیوں اور رسولوں کو اُن کے دعویٰ کے متعلق اور اُن کی تعلیموں کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے، جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا۔ لیکن بعض جُزوی امور جو اہم مقاصد میں سے نہیں ہوتے اُن کونظر کشفی دُور سے دیکھتی ہے اور اُن میں کچھ تواتر نہیں ہوتا۔ اِس لئے کبھی اُن کی تشخیص میں دھوکا بھی کھا لیتی ہے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو اپنی پیشگوئیوں میں دھوکے کھائے وہ اِسی رنگ میں کھائے تھے۔ مگر نبوت کے دعوے میں اُنہوں نے دھوکانہیں کھایا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 136

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 136

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/136/mode/1up


کیونکہ وہ حقیقتِ نبوت قریب سے اُن کو دکھائی گئی اور بار بار دکھائی گئی۔

مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ بھی ایک دھوکا لگا ہوا ہے کہ وہ متناقض حدیثوں کو ہر ایک کے سامنے پیش کردیتے ہیں یہی دھوکا اُن کے بزرگ مولوی محمد حسین صاحب کو لگا ہوا ہے۔ اور ہر ایک مقام میں جب حیات ممات حضرت عیسیٰ کے متعلق کوئی ذکر آوے توجھٹ حدیثوں کا ایک ڈھیر پیش کردیتے ہیں کہ دیکھو صحیح بخاری۔ صحیح مسلم۔جامع ترمذی۔ سُنن ابن ماجہ۔ سُنن ابی داؤد۔ سُنن نسائی۔ مسندامام احمد۔ طبرانی۔ معجم کبیر۔ نعیم ابن حماد۔ مستدرک حاکم۔ صحیح ابن خزیمہ۔ نوادرالاصول ترمذی۔ ابوداؤد طیالسی۔ احمد۔ مسندالفردوس۔ ابن عساکر۔ کتاؔ ب الو فا ابن جوزی۔ شرح السنہ بغوی۔ابن جریر۔ بیہقی۔ اخبارالمہدی۔ مسندابی یعلٰی وغیرہ کتب حدیث۔ ا ن میں یہی لکھا ہے کہ عیسیٰ نازل ہوگا گو بیت المقدس میں یاد مشق میں یا افیق میں یا مسلمانوں کے لشکر میں اِس کا کوئی فیصلہ نہیں اور یہ ہوّا ہے جو آج کل پیش کیا جاتا ہے۔ اور عجیب تر یہ کہ بعض ان کتابوں میں سے ایسی نایاب ہیں کہ ان حضرات کے باپ نے بھی نہیں دیکھی ہوں گی مگر ان کے نام سنا دیتے ہیں تاکم سے کم یہی سمجھا جائے کہ بڑے مولوی صاحب ہیں جو اتنی کتابیں جانتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ خیانت پیشہ ہیں ہم تو اب یہود کا نام لینے سے بھی شرمندہ ہیں کیونکہ اسلام میں ہی ایسے یہودی موجود ہیں۔

ابھی تھوڑے دن گزرے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب نے سرکار انگریزی کو مہدی کے بارے میں ایک کتاب پیش کر کے خوش کر دیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مہدی کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں ہوئی اور زمین کا انعام بھی پایا ہے۔ معلوم نہیں کہ کس صلہ میں۔ مگر خدمت تو یہی ہے کہ مہدی کے وجود پر قلم نسخ پھیر دیا ہے۔ اب بتلاؤ آسمان سے مسیح کس کے لشکر میں اُترے گا جبکہ مہدی ندارد ہے۔ اس قدر کتابیں جن کا مَیں نے ابھی ذکر کیا ہے وہ تو اسی غرض سے پیش کی جاتی ہیں کہ مہدی کی مدد کے لئے مسیح آئے گا۔ اب جب مہدی کا ہی وجود نہیں تو کیوں آئے گا۔ خلیفہ تو قریش میں سے ہونا چاہئیے سو وہ تو نہ رہا۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 137

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 137

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/137/mode/1up


دیکھو ہم انصاف سے کہتے ہیں کہ متذکرہ بالا کتابوں میں جو حدیثیں ہیں ان کی دو ٹانگیں تھیں ایک ٹانگ مہدی والی سو وہ مولوی محمد حسین صاحب نے توڑ دی۔ اب دوسری ٹانگ مسیح کے آسمان سے اُترنے کی ہم توڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ دو جُزوں میں سے جب ایک جُز باطل ہو جائے تو وہ اِس بات کی مستلزم ہوئی کہ دوسرا جُزبھی باطل ہے۔ عیسیٰ کے لئے تو خلافت مسلّم نہیں کیونکہ وہ قریش میں سے نہیں۔ اور مہدی کا تو خود مولوی صاحب نے خاتمہ کر دیا۔ تو پھر عیسیٰ کو دوبارہ زمین پر آنے کی کیوں تکلیف دی جائے۔ اُن کو دوہزار برس سے بیکار رہنے کی عادت ہے اور طبیعت آرام طلب۔ اب خواہ مخواہ پھر تکلیف دینا نا مناسب ہے۔

علاوہ اِس کے ان حدیثوں کے درمیان اس قدر تناقض ہے کہ اگر ایک حدیث کے برخلاف دُوسرؔ ی حدیث تلاش کرو تو فی الفور مل جائے گی۔ پس اِس سے قرآن شریف کے بیّنات کو چھوڑنا اور ایسی متناقض حدیثوں کے لئے ایمان ضائع کرنا کسی ابلہ کا کام ہے نہ عقلمند کا۔

پھر یہ بھی سوچو کہ اگر قرآن کے مخالف ہو کر حدیثیں کچھ چیز ہیں تو نماز کی حدیثوں کو تو سب سے زیادہ وقعت ہونی چاہئے تھی اور تواتر کے رنگ میں وہ ہونی چاہئے تھیں مگر وہ بھی آپ لوگوں کے تنازع اور تفرقہ سے خالی نہیں ہیں۔ یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں اور رفع یدین اور عدم رفع اور فاتحہ خلف امام اور آمین بِالجہر وغیرہ کے جھگڑے بھی اب تک ختم ہونے میں نہیں آئے اور بعض بعض کی حدیثوں کو ردّ کررہے ہیں۔ اگر ایک وہابی حنفیوں کی مسجد میں جاکر رفع یدین کرے اور امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے اور سینہ پر ہاتھ باندھے اور آمین بِالجہر کرے تو گو اس عمل کی تائید میں چار سو صحیح حدیث سناوے تب بھی وہ ضرور مار کھا کر آئے گا۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتداسے ہی حدیثوں کو بہت عظمت نہیں دی گئی اورامام اعظم جو امام بخاری سے پہلے گزرچکے ہیں بخاری کی حدیثوں کی کچھ پروا نہیں کرتے اور اُن کا زمانہ اقرب تھا چاہئے تھا کہ وہ حدیثیں اُن کو پہنچتیں اِس لئے مناسب ہے کہ حدیث کے لئے قرآن کو نہ چھوڑا جائے۔ ورنہ ایمان ہاتھ سے جائے گا۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 138

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 138

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/138/mode/1up


َ ۱؂ پھر اگر حَکَم کا فیصلہ بھی نہ ماناجائے تو پھر وہ حَکَم کس چیز کا۔ ماسوا اِس کے اگر نہایت ہی نرمی کریں تو ان حدیثوں کو ظنّ کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور یہی محدثین کا مذہب ہے۔ اور ظنّ وہ ہے جس کے ساتھ کذب کا احتمال لگا ہوا ہے۔ پھر ایمان کی بنیاد محض ظنّ پر رکھنا اور خدا کے قطعی یقینی کلام کو پسِ پُشت ڈال دینا کونسی عقلمندی اور ایمانداری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو ردّی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اُن میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ۔ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ عیسیٰ ؑ کی عمر دو ہزار برس یا تین ہزار برس ہوگی۔ بلکہ ایک سو بیس برس کی عمر لکھی ہے اب بتلاؤ کیا ایک سو بیس برس اب تک ختم ہوئے یا نہیں۔ کسی حدیث مرفوع متصل میں یہ کہاں لکھا ہے کہ حضرت عیسٰی چھت پھاڑ کر آسمان پر چڑھ گئے تھے اور *** بنانے کے لئے انؔ کا کوئی حواری یا کوئی دشمن مقرر کیا گیا تھا اگر حواری تھاتو بوجہ صلیب توریت کی رُو سے ایک ایماندار کو ملعون بنایا گیا کیا یہ فعل شنیع خدا کی طرف منسوب ہو سکتا ہے ۔اور اگر کوئی اور یہودی تھا تو وہ صلیب کے وقت چُپ کیوں رہا اور کیا اُس کی بیوی اور دوسرے رشتہ دار مر گئے تھے اور کیا وہ گونگا تھا جو اپنی بریّت کے لئے تسلّی نہ کر سکا۔ ماسوا اِس کے مولوی محمد حسین صاحب جو موحدین کے ایڈوکیٹ کہلاتے ہیں اپنے اشاعۃ السُنّہ میں جس میں اُنہوں نے براہین احمدیہ کا ریویو لکھا ہے تحریر فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو بذریعہ کشف کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہوتی ہے وہ محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہو سکتے بعض حدیثیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں وہ اپنے کشف کے رُو سے اُن کو موضوع قرار دیتے ہیں اور بعض حدیثیں جو محدثین کے نزدیک موضوع ہیں وہ اُن کی نسبت اپنے کشف کی شہادت سے صحت کا یقین رکھتے ہیں۔ پس جبکہ یہ بات ہے تو پھر وہ جو مسیح موعود اور حَکَم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیوں مولوی صاحب اس پر اس قدر ناراض ہیں کہ اُس کا کشف دوسروں کے کشف کے برابر بھی نہیں مانتے حالانکہ وہ قرآن کے مطابق ہے۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 139

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 139

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/139/mode/1up


جب قرآن اور کشف کا تظاہر ہوگیا بلکہ بعض حدیثوں نے بھی اِس کی تائید کی تو پھر تو اس کے قول کو قبول کرنا چاہئے ورنہ مسیح موعود کا نام حَکَم رکھنا کیا فائدہ۔

بعض چالاک مولوی کہتے ہیں کہ اگر کوئی آسمان سے بھی اُترے اور یہ کہے کہ فلاں فلاں حدیث جو تم مانتے ہو صحیح نہیں ہے تو ہم کبھی قبول نہ کریں گے اور اُس کے منہ پر طمانچہ ماریں گے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ ہاں حضرات آپ کے وجود پر یہی اُمید ہے۔ مگر ہم بادب عرض کرتے ہیں کہ پھر وہ حَکَم کا لفظ جو مسیح موعود کی نسبت صحیح بخاری میں آیا ہے اُس کے ذرہ معنی تو کریں ہم تو اب تک یہی سمجھتے تھے کہ حَکَم اُس کو کہتے ہیں کہ اختلاف رفع کرنے کے لئے اُس کا حکم قبول کیا جائے اور اُس کا فیصلہ گو وہ ہزار حدیث کو بھی موضوع قرار دے ناطق سمجھا جائے جو شخص خدا کی طرف سے آئے گا وہ آپ کے طمانچے کھانے کو تو نہیں آئے گا خدا تعالیٰ اُس کے لئے خود راہ نکال دے گا۔ جس شخص کو خدا نے کشف اور الہام عطا کیا اور بڑے بڑے نشان اُس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائے اور قرآن کے ؔ مطابق ایک راہ اُس کو دکھلادی تو پھر وہ بعض ظنّی حدیثوں کے لئے اس روشن اور یقینی راہ کو کیوں چھوڑے گا اور کیا اُس پر واجب نہیں ہے کہ جو کچھ خدا نے اُس کو دیا ہے اُس پر عمل کرے اور اگر خدا کی پاک وحی سے حدیثوں کا کوئی مضمون مخالف پاوے اور اپنی وحی کو قرآن سے مطابق پاوے اور بعض حدیثوں کو بھی اُس کی مؤیّد دیکھے تو ایسی حدیثوں کو چھوڑ دے اور اُن حدیثوں کو قبول کرے جو قرآن کے مطابق ہیں اور اُس کی وحی کے مخالف نہیں۔

مجھے حیرت ہے کہ ایڈوکیٹ صاحب کس قسم کی طبیعت رکھتے ہیں کہ یہ تو آپ مانتے ہیں کہ پہلے اولیاء ایسے گزرے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری سے صحیح حدیث کو غلط ٹھہراتے اور غلط کو صحیح ٹھہراتے تھے مگر آپ کو شرم آتی ہے کہ یہ مرتبہ مسیح موعود کو بھی جو حَکَم ہے عنایت کریں۔ اور تعجب کہ آپ کے پیرو کس قسم کے ہیں کہ اُن کو یہ نہیں پوچھتے کہ دوسرے اولیاء کے تو یہ اختیارات ہیں پھر حَکَم کو ان اختلافات کی وجہ سے کیوں کافر ٹھہراتے ہو اور کیوں خدا سے نہیں ڈرتے۔ مَیں تعجب کرتا ہوں کہ پیرانہ سالی کی وجہ سے مولوی محمد حسین صاحب کے حافظہ پر کیسے پتھر پڑگئے یاد نہ رہا کہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 140

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 140

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/140/mode/1up


اشاعۃ السُنّہ میں کیا لکھا ہے اور اب کیا کہتے ہیں۔ صاحبِ مَن اقرار کے بعد کوئی قاضی انکار نہیں سُن سکتا۔ آپ تو اقرار کر چکے ہیں کہ اہل کشف اور مکالمات کا مقام بلند ہے اُن کے لئے ضروری نہیں ہے کہ خواہ مخواہ محدّثین کی تنقید کی اطاعت کریں بلکہ محدّثین نے تو مُردوں سے روایت کی ہے اور اہل کشف زندہ حیّ و قیّوم سے سنتے ہیں۔پس آپ کا اُس شخص کی نسبت کیا گمان ہے جس کا نام حکم رکھا گیا ہے۔ کیا یہ مرتبہ اُس کو حاصل نہیں جو آپ دوسروں کے لئے تجویز کرتے ہیں۔

پھر مولوی ثناء اللہ صاحب کہتے ہیں کہ آپ کو مسیح موعود کی پیشگوئی کا خیال کیوں دل میں آیا آخر وہ حدیثوں سے ہی لیا گیا پھر حدیثوں کی اورعلامات کیوں قبول نہیں کی جاتیں یہ سادہ لوح یا تو افتراسے ایسا کہتے ہیں اور یا محض حماقت سے اور ہم اِس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اِس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں۔ اور دوسری حدیثوں کو ہم ردّی کی طرح پھینک ؔ دیتے ہیں۔ اگر حدیثوں کا دنیا میں وجودبھی نہ ہوتا تب بھی میرے اِس دعویٰ کو کچھ حرج نہ پہنچتا تھا۔ ہاں خدا نے میری وحی میں جابجا قرآن کریم کو پیش کیا ہے چنانچہ تم براہین احمدیہ میں دیکھو گے کہ اِس دعویٰ کے متعلق کوئی حدیث بیان نہیں کی گئی۔ جابجا خدا تعالیٰ نے میری وحی میں قرآن کو پیش کیا ہے۔

مَیں اب خیال کرتا ہوں کہ جو کچھ مولوی ثناء اللہ صاحب نے مباحثہ موضع مُدّ میں فریب دہی کے طور پر اعتراض پیش کئے تھے سب کا کافی جواب ہو چکا ہے۔ ہاں یاد آیا ایک یہ بھی خیال اُنہوں نے پیش کیا تھا کہ جو کسوف خسوف کی حدیث مہدی کے ظہور کی علامت ہے جو دارقطنی اور کتاب اکمال الدین میں موجود ہے۔ اس میں قمر کا خسوف تیرہ تاریخ سے پہلے کسی ایسی تاریخ میں ہوگا جس میں چاند کو قمر کہہ سکتے ہوں۔ پس یاد رہے کہ یہ بھی یہودیوں کی مانند تحریف ہے۔ خدا نے قمر کے خسوف کے لئے اپنی سنّت کے موافق تین راتیں مقرر کر رکھی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 141

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 141

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/141/mode/1up


ہیں۔ اور ایسا ہی شمس کے لئے تین دن مقرر ہیں اور حدیث میں صریح ذکر ہے کہ اُس زمانہ میں جب مہدی پیدا ہوگا قمر کا خسوف اُس کی پہلی رات میں ہوگا جو قانون قُدرت میں اُس کے خسوف کے لئے مقرر ہے۔ اور سورج کا خسوف اُس کے بیچ کے دِن میں ہوگا جو اُس کے خسوف کے لئے سُنّت اللہ میں مقرر ہے۔ اِس سیدھے معنے کو چھوڑنا اور دوسری طرف بہکے پھرنا اگر بدبختی نہیں تو اور کیا ہے۔

علاوہ اِس کے عرب کے نزدیک وہ رات جس میں ہلال کو قمر کہا جاتا ہے کوئی مخصوص رات نہیں جس میں اختلاف نہ ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک رات ہلال رہتاہے۔ دوسری رات قمر شروع ہو جاتا ہے۔ بعض تیسری رات کے چاند کو قمر کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک سات رات تک ہلال ہی ہے۔ پس اِس صورت میں پیشگوئی کے ظہور کے لئے کوئی خاص رات معیّن نہیں رہتی۔

اورؔ یہ کہناکہ سُنّت اللہ کے موافق کسوف خسوف ہونا کوئی خارق عادت امر نہیں یہ دوسری حماقت ہے۔ اصل غرض اِس پیشگوئی سے یہ نہیں ہے کہ کسی خارق عادت عجوبہ کا وعدہ کیا جائے بلکہ غرض اصلی ایک علامت کو بیان کرنا ہے جس میں دوسرا شریک نہ ہو۔

پس حدیث میں یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ جب وہ سچا مہدی دعویٰ کرے گا تو اُس زمانہ میں قمر رمضان کے مہینہ میں اپنے خسوف کی پہلی رات میں منخسف ہوگا اور ایسا واقعہ پہلے کبھی پیش نہ آیا ہوگا اَور کسی جھوٹے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 142

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 142

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/142/mode/1up


مہدی کے وقت رمضان کے مہینہ میں اور ان تاریخوں میں کبھی خسوف کسوف نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے تو اس کو پیش کرو ورنہ جبکہ یہ صورت اپنی ہیئت مجموعی کے لحاظ سے خود خارق عادت ہے تو کیا حاجت کہ سنّت اللہ کے برخلاف کوئی اور معنے کئے جائیں۔ غرض تو ایک علامت کا بتلانا تھا سو وہ متحقق ہوگئی اگر متحقق نہیں تو اِس واقعہ کی صفحۂ تاریخ میں کوئی نظیر تو پیش کرو اور یاد رہے کہ ہرگز پیش نہ کر سکوگے۔

اُردو نظم

کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال

دِل میں آتا ہے مِرے سَو سَو اُبال

آنکھ تر ہے دِل میں میرے درد ہے

کیوں دِلوں پر اِس قدر یہ گرد ہے

دِل ہوا جاتا ہے ہردم بے قرار

کِس بیاباں میں نکالوں یہ بخار

ہوگئے ہم درد سے زیر و زبر

مَر گئے ہم پر نہیں تم کو خبر

آسماں پر غافلو اِک جوش ہے

کچھ تو دیکھو گر تمہیں کچھ ہوش ہے

ہوگیا دیں کفر کے حملوں سے چُور

چُپ رہے کب تک خداوندِ غیور

اِس صدی کا بیسواں اب سال ہے

شرک و بدعت سے جہاں پامال ہے

بدگماں کیوں ہو خدا کچھ یاد ہے

افترا کی کب تلک بنیاد ہے

وہ خدا میرا جو ہے جوہر شناس

اِک جہاں کو لارہا ہے میرے پاس

*** ہوتا ہے مَردِ مُفتری

*** کو کب ملے یہ سروری



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 143

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 143

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/143/mode/1up


ایکؔ اور بات رہ گئی جس کا بیان کرنا لازم ہے اور وہ یہ کہ مُدّ کے مباحثہ میں جب ہمارے مخلص دوست سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے اعجاز المسیح کو جو میری عربی کتاب ہے بطور نشان کے پیش کیا کہ یہ ایک معجزہ ہے اور اس کی نظیر پر مخالف قادر نہیں ہوئے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے مولوی محمد حسین بٹالوی کا حوالہ دے کر کہا کہ اُنہوں نے اعجاز المسیح کی غلطیوں کے بارے میں ایک لمبی فہرست تیار کی ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ تیار کی ہوگی۔ مگر وہ ایسی ہی فہرست ہوگی جیسا کہ پہلے مولوی صاحب موصوف نے میرے ایک فقرے پر اعتراض کیا تھا۔ کہ عجب کا لام صلہ نہیں آتا۔ اور اس پر بہت زور دیا تھا اور جب اُن کو کئی قدیم استادوں اور جاہلیت کے شاعروں کے شعر بلکہ بعض حدیثیں دکھلائی گئیں جن میں لام صلہ آیا تھاتو پھر مولوی صاحب چاہِ ندامت میں ایسے غرق ہوگئے کہ کوئی ان کا ادیب رفیق بھی اِس کنوئیں سے اُن کو نکال نہ سکا۔ یہ اُنہیں دِنوں کی بات ہے جب مولوی صاحب کی ذِلّت کے لئے پیشگوئی کی گئی تھی اور اشتہار میں لکھا گیا تھا کہ وہ پیشگوئی دو طور سے پوری ہوئی۔

اوّل یہ کہ مولوی صاحب کی منافقانہ عادت ثابت ہوگئی کہ گورنمنٹ کو تو یہ تسلّی دیتے ہیں کہ مہدی کچھ چیز نہیں تمام حدیثیں مجروح ہیں قابل اعتبار نہیں کیسا مہدی اور کیسا وہ مسیح جو آسمان سے اُس کی مدد کے لئے آئے گا۔ سب باتیں بے اصل ہیں اور ان باتوں کو پیش کر کے بڑے انعام کے خواہشمند معلوم ہوتے ہیں اور اگر وہ دِل سے ایسے مہدی اور ایسے مجاہد عیسیٰ کا انکار کرتے تو ہم بھی ان پر بہت خوش ہوتے کیونکہ سچ بولنے والا عزّت کے لائق ہوتا ہے اور اِس صورت میں اگر گورنمنٹ نہ صرف لائلپور میں کچھ زمین بلکہ بٹالہ اس کو جاگیر میں دے دیتی تو بھی ان کا حق تھا۔ لیکن ہم اس پر راضی نہیں ہیں اور ہرگز نہیں ہو سکتے کہ ایک شخص محض نفاق کے طور پر گورنمنٹ کے آگے مہدی کی ضعیف اور مجروح حدیثوں کی ایک فہرست پیش کر کے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مسلمان ایسے مہدی اور ایسے عیسیٰ کے منتظر نہیں ہیں جو عیسائیوں کے ساتھ لڑے گا اور یہ یقین دلاتا ہے کہ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ کوئی ایسا مہدی نہیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 144

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 144

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/144/mode/1up


آئے گا جو خونریزی سے قیامت برپا کر دے گا۔ اور نہ ایسا کوئی مسیح جوآسمان سے اُتر کر اُس کا ہاتھ بٹائے گا۔ اور پھر پوشیدہ طورپر اپنیؔ قوم کو یہ کہتا ہے کہ ایسے مہدی سے انکار کرنا کفر ہے۔ اور عجیب تر یہ کہ ان کارروائیوں سے اُس کی عزّت میں کچھ فرق نہیں آیا اور نہ اُس کے پَیروؤں کی کچھ عزت بگڑی۔

غرض یہی ذلّت تھی جو مولوی محمد حسین صاحب کے نصیب ہوئی جس میں جعفرز ٹلی وغیرہ اُن کے پَیرو حصّہ دار ہیں چاہے بے حیائی سے محسوس کریں یا نہ کریں۔ اور دوسری ذلّت علمی رنگ میں اُن کو نصیب ہوئی کہ ناحق لوگوں میں شور مچایا کہ عجب کاصلہ ہرگز لام نہیں آتا بڑی غلطی کی ہے۔ لیکن مولوی ثناء اللہ کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا ذلّتیں ہیں کوئی اور ذلّت ہونی چاہئیے تھی اور کہتے ہیں کہ اُن کو تو زمین مل گئی حالانکہ یہی زمین تو اُن کی ذلّت کی گواہ ہے اور دو رنگی پرشاہد ناطق جب تک وہ زمین اُن کے ہاتھ میں ہے یہ دو رنگی بھی اُس زمین کا ایک پھل متصور ہوگا۔ یا یوں سمجھ لو کہ زمین اُس کا پھل ہے اور تم تحقیق کر لو کہ یہ تمام کامیابی ایک منافقانہ کارروائی کا نتیجہ ہے ان لوگوں کے مخفی اعتقاد اگر دیکھنے ہوں تو صدیق حسن کی کتابیں دیکھنی چاہئیں جن میں وہ نعوذ باللہ ملکہ معظمہ کوبھی مہدی کے سامنے پیش کرتا ہے اور نہایت بُرے اور گستاخی کے الفاظ سے یاد کرتا ہے جن کو ہم کسی طرح اس جگہ نقل نہیں کرسکتے جو چاہے ان کتابوں کو دیکھ لے یہ وہی صدیق حسن ہے جس کو محمد حسین نے مجدّد بنایا ہوا تھا۔ بھلا کیونکر اور کس طور سے اپنے مجدّد کی رائے سے اُن کی رائے الگ ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ بات تو بہت اچھی ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کی مدد کی جائے اور جہاد کے خراب مسئلہ کے خیال کو دِلوں سے مٹا دیا جائے اور ایسے خونریز مہدی اور خونریز مسیح سے انکار کیا جائے۔ لیکن کاش اگر دِل کی سچائی سے مولوی محمد حسین صاحب یہ باتیں گورنمنٹ کے سامنے پیش کرتے تو بلا شبہ ہماری نظر میں بھی قابلِ تحسین ٹھہرتے۔ مگر اب اُن کی متناقض کتابیں جو گورنمنٹ کے سامنے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 145

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 145

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/145/mode/1up


کچھ بیان ہیں اور اپنے بھائیوں کے ساتھ اندرون حُجرے کچھ بیان یہ اُن کے منافقانہ طریق کو ثابت کررہی ہیں اور منافق خدا کے نزدیک بھی ذلیل ہوتا ہے اور مخلوق کے نزدیک بھی۔ یہ لوگ درحقیقت مشکلات میں ہیں ان کے توکئی عقیدے گورنمنٹ کے مصالح کے برخلاف ہیں۔اب اگر منافقانہ طریق اختیار نہ کریں تو کیا کریں۔

غرض مولوی محمد حسین صاحب کی عربی دانی کے ہم آج سے قائل نہیں بلکہ اُسی وقت سےؔ ہم قائل ہیں جب اُنہوں نے فرمایا تھا کہ عجب کاصلہ ہرگز لام نہیں آتا ایسے متبحر فاضل نے اگر اعجاز المسیح کی غلطیوں کی ایک لمبی فہرست تیار کی ہو تو ہمیں اس سے کب انکار ہے ضرورتیار کی ہوگی۔ مولوی ثناء اللہ صاحب کو معلوم ہوگا کہ پہلا نشانہ عربی کے مقابلہ کا یہی فاضل صاحب ہیں جن کو مَیں نے لکھا تھا کہ فی غلطی ہم آپ کو پانچ روپیہ انعام دے سکتے ہیں بشرطیکہ اوّل آپ اپنا عربی دان ہونا ثابت کردیں اور وہ اِس طرح پر کہ میرے زانو بزانو بیٹھ کر کسی آیت کی تفسیر ایک جزویا دو جزو تک عربی فصیح میں لکھیں پھر بعد اس کے آپ کی طرف سے کوئی آواز نہیں آئی۔ ہر ایک انسان سمجھ سکتا ہے کہ غلطی نکالنا اُس شخص کا حق ہے جو اوّل لیاقت اپنی ثابت کرے ورنہ صرف بکواس ہے۔ اگر مثلاً کوئی شخص فن عمارت سے جاہل محض ہو اور یہ کہتا پھرے کہ اس ملک کے معمار اپنے کام میں غلطی کرتے ہیں تو کیا وہ اِس لائق نہیں ہوگا کہ اُس کو کہا جائے کہ اے نادان تُو تو ایک اینٹ بھی موزون طور پرلگا نہیں سکتا تو ان معماروں پر کیوں اعتراض کرتا ہے جن کے ہاتھ سے بہت سی عمارتیں طیار موجود ہیں۔

اب یاد رہے کہ اگرچہ مَیں اب تک عربی میں ستر۱۷ہ کے قریب بے مثل کتابیں شائع کر چکا ہوں جن کے مقابل میں اِس دس برس کے عرصہ میں ایک کتاب بھی مخالفوں نے شائع نہیں کی۔ مگر آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ وہ کتابیں صرف عربی فصیح بلیغ میں ہی نہیں بلکہ ان میں بہت سے قرآنی حقائق معارف ہیں اِس لئے ممکن ہے کہ وہ لوگ یہ جواب دیں کہ ہم حقائق معارف سے ناآشنا ہیں اگر صرف عربی فصیح میں نظم ہوتی جیسے عام قصائد ہوتے ہیں تو ہم بلاشبہ اس کی نظیر بنا سکتے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 146

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 146

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/146/mode/1up


اور نیز یہ بھی خیال آیا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب سے اگر صرف کتاب اعجاز المسیح کی نظیر طلب کی جائے تو وہ اس میں ضرور کہیں گے کہ کیونکر ثابت ہو کہ ستر۷۰ دِن کے اندر یہ کتاب تالیف کی گئی ہے اور اگر وہ یہ حجت پیش کریں کہ یہ کتاب دو برس میں بنائی گئی ہے اور ہمیں بھی دو برس کی مُہلت ملے تو مشکل ہوگا کہ ہم صفائی سے ان کو ستر دن کا ثبوت دے سکیں۔ ان وجوہات سے مناسب سمجھا گیا کہ خدا تعالیٰ سے یہ درخواست کی جائے کہ ایک سادہ قصیدہ بنانے کے لئے روح القدس سے مجھے تائید فرماوے جس میں مباحثہ مُدّکا ذکر ہو۔تا اِس بات کے سمجھنے کے لئے دقّت نہ ہو کہ وہ قصیدہ کتنے دنؔ میں طیار کیا گیا ہے۔ سو مَیں نے دُعا کی کہ اے خدائے قدیر مجھے نشان کے طور پر توفیق دے کہ ایسا قصیدہ بناؤں۔ اور وہ دُعا میری منظور ہوگئی اور روح القدس سے ایک خارق عادت مجھے تائید ملی اور وہ قصیدہ پانچ دن میں ہی مَیں نے ختم کرلیا۔ کاش اگر کوئی اور شغل مجبور نہ کرتا تو وہ قصیدہ ایک دن میں ہی ختم ہو جاتا۔ کاش اگر چھپنے میں کسی قدردیر* نہ لگتی تو نو۹ نومبر ۱۹۰۲ء تک وہ قصیدہ شائع ہو سکتا تھا۔

یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جس کے گواہ خود مولوی ثناء اللہ صاحب ہیں کیونکہ قصیدہ سے خود ثابت ہے کہ یہ اُن کے مباحثہ کے بعد بنایا گیا ہے اور مباحثہ ۲۹؍ اور ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ہوا تھا اور ہمارے دوستوں کے واپس آنے پر ۸؍ نومبر ۱۹۰۲ء کو اِس قصیدہ کا بنانا شروع کیا گیا اور ۱۲؍نومبر ۱۹۰۲ء کو معہ اِس اُردو عبارت کے ختم ہو چکا تھا۔ چونکہ مَیں یقین دِل سے جانتا ہوں کہ خدا کی تائیدکا یہ ایک بڑا نشان ہے تا وہ مخالف کو شرمندہ اور لاجواب کرے۔ اِس لئے مَیں اِس نشان کو دس ہزار۱۰۰۰۰ روپیہ کے انعام کے ساتھ مولوی ثناء اللہ اور اُس کے مددگاروں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ اگر وہ اسی میعاد میں یعنی پانچ دن میں ایسا قصیدہ معہ اِسی قدر اُردو مضمون کے جواب کے جو وہ بھی ایک نشان ہے بنا کر شائع کردیں تو مَیں بلا توقف


* دیر کا ایک یہ بھی باعث ہوا کہ مجھے منصف صاحب کی عدالت میں تاریخ۷؍نومبر ۱۹۰۲ء ؁ کو بٹالہ

جانا پڑا اصل تالیف کا زمانہ تو محض تین دن تھے اور دو دِن باعث حرج اور زائد ہوگئے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 147

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 147

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/147/mode/1up


دس ہزار روپیہ اُن کو دے دوں گا۔ چھپوانے کے لئے ایک ہفتہ کی اُن کو اور مہلت دیتا ہوں یہ کُل بار۱۲اں دن ہیں اور دو دن ڈاک کے لئے بھی اُن کا حق ہے۔ پس اگر اس تاریخ سے کہ یہ قصیدہ اور اُردو عبارت اُن کے پاس پہنچے چود۱۴ اں دن تک اسی قدر اشعار بلیغ فصیح جو اس مقدار اور تعداد سے کم نہ ہوں شائع کردیں تو مَیں دس ہزار روپیہ اُن کو انعام دے دوں گا۔ اُن کو اختیار ہوگا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے مددلیں یا کسی اور صاحب سے مدد لے لیں۔ اور نیز اِس وجہ سے بھی اُن کو کوشش کرنی چاہئے کہ میرے ایک اشتہار میں پیشگوئی کے طور پر خبر دی گئی ہے کہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء تک کوئی خارق عادت نشان ظاہر ہوگا۔ اور گو وہ نشان اور صورتوں میں بھی ظاہر ہو گیا ہے لیکن اگر مولوی ثناء اللہ اور دوسرے مخاطبین نے اس میعاد کے اندر اس قصیدہ اور اس اُردو مضمون کا جواب نہ لکھا یا نہ لکھوایا تو یہ نشان اُن کے ذریعہ سے پورا ہو جائیگا۔ سو انہیں لازم ہے کہ اگر وہ میرے کاروبارکو ؔ انسان کا منصوبہ خیال کرتے ہیں* تو مقابلہ کر کے اِس نشان کو کسی طرح روک دیں۔ اور دیکھو مَیں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اکیلے یا دوسروں کی مدد سے میعاد معیّنہ کے اندر میرے قصیدہ اور اُردو عبارت کے مطابق اور ان کی تعداد کے مطابق قصیدہ چھپوا کر شائع کریں گے اور تاریخ وصولی سے بارہ دن کے اندر بذریعہ ڈاک میرے پاس بھیج دیں گے تو صرف مَیں یہی نہیں کروں گا کہ دس ہزار روپیہ اُن کو انعام دونگا بلکہ اِس غلبہ سے میرا جھوٹا ہونا ثابت ہوگا۔ اِس صورت میں


* چونکہ گالیاں اور تکذیب انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ جن کے کاغذات میرے پاس ایک بڑے تھیلہ میں محفوظ ہیں اور یہ لوگ اپنے اشتہارات میں بار بار گذشتہ نشانوں کی تکذیب کرتے اور آئندہ نشان مانگتے ہیں اس لئے ہم یہ نشان ان کو دیتے ہیں ایسا ہی عیسائیوں نے بھی مجھے مخاطب کر کے بار بار لکھا ہے کہ انجیل میں ہے کہ جھوٹے مسیح آئیں گے۔ اور اس طرح پر انہوں نے مجھے جھوٹا مسیح قرار دیا ہے حالانکہ خود ان دنوں میں خاص لندن میں عیسائیوں میں سے جھوٹا مسیح پگٹ نام موجود ہے جو خدائی اور مسیحیت کا دعویٰ کرتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی کو پورا کررہا ہے۔ لیکن آئندہ اگر کوئی مجھے جھوٹا قرار دینا چاہے تو اُسے لازم ہے کہ میرے نشانوں کا مقابلہ کرے۔ عیسائیوں میں بھی بہت سے مُرتد مولوی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر پادری صاحبان اِس تکذیب میں سچے ہیں تو وہ ایسا قصیدہ اُن مولویوں سے پانچ دن تک بنوا کر دس۱۰ ہزار روپیہ مجھ سے لیں اور مشن کے کاموں میں خرچ کریں۔ مگر جو شخص تاریخ مقررہ کے بعد کچھ بکواس کرے گا یا کوئی تحریر دکھلائے گا اُس کی تحریر کسی گندی نالی میں پھینکنے کے لائق ہوگی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 148

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 148

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/148/mode/1up


مولوی ثناء اللہ صاحب اور اُن کے رفیقوں کو ناحق کے افتراؤں کی حاجت نہیں رہے گی اور مفت میں اُن کی فتح ہو جائے گی ورنہ اُن کا حق نہیں ہوگا کہ پھر کبھی مجھے جھوٹا کہیں یا میرے نشانوں کی تکذیب کریں۔ دیکھو مَیں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے اس نشان پر حصر رکھتا ہوں۔ اگر مَیں صادق ہوں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں صادق ہوں تو کبھی ممکن نہیں ہوگا کہ مولوی ثناء اللہ اور اُن کے تمام مولوی پانچ دِن میں ایسا قصیدہ بنا سکیں اور اُردو مضمون کا ردّ لکھ سکیں کیونکہ خداتعالیٰ اُن کی قلموں کو توڑ دے گا اور اُن کے دِلوں کو غبی کردے گا۔ اور مولوی ثناء اللہ کو اس بدگمانی کی طرف راہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ قصیدہ پہلے سے بنا رکھا تھا کیونکہ وہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھے کہ مباحثہ مُد کا اِس میں ذکر ہے۔ پس اگر مَیں نے پہلے بنایا تھا تب تو اُنہیں ماننا چاہئے کہ مَیں عالم الغیب ہوں۔ بہر صورت یہ بھی ایک نشان ہوا اِس لئے اب ان کو کسی طرف فرار کی راہ نہیں اور آج وہ الہام پورا ہوا جو خدا نے فرمایا تھا۔

’’قادر کے کاروبار نمودار ہوگئے

کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے‘‘

اور واضح رہے کہ مولوی ثناء اللہ کے ذریعہ سے عنقریب تین نشان میرے ظاہر ہوں گے (۱)وہ قادیان میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے اور سچی پیشگوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق کرنا اُن کے لئے موت ہوگی (۲)اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریں گے (۳) اور سب سے پہلے اس اُردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر اُن کی رُو سیاہی ثابت ہو جائے گی۔

اور ؔ چونکہ ان دنوں میں مولوی محمد حسین نے سائیں مہر علی گولڑی کی علمیت کی اپنے اشاعۃ السنّہ میں بہت ہی تعریف کی ہے اور علی حائری صاحب شیعہ اپنی تعریف میں پھول رہے ہیں اس لئے مَیں اُن کو بھی اِس مقابلہ کے لئے بلاتا ہوں۔ گالیاں دینے اور ٹھٹھا کرنے میں ان لوگوں کی زبان چالاک ہے لیکن اب مَیں دیکھوں گا کہ خدا سے ان کو کس قدر مدد مل سکتی ہے۔ مَیں نے ان لوگوں کی نسبت بھی اس قصیدہ میں کچھ لکھا ہے تا ان کی غیرت کو حرکت دوں یہ ایک آخری فیصلہ ہے شیعہ حسین سے مدد لیں اور گولڑی صاحب کسی اپنے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 149

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 149

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/149/mode/1up


مُرشد سے اور مولوی ثناء اللہ اور اُن کے رفیق تو خود اپنے تئیں مولوی کہلاتے ہیں ناخنوں تک زور لگالیں۔

مَیں نے اِس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ یہ انسانی کارروائی نہیں۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور را ستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے را ستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور وعید مَنْ عَادَا وَلِیًّالِی دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مُبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔ اور میری طرف سے صرف دس۱۰ ہزار کے انعام کا وعدہ نہیں بلکہ وہ شریر جو گالیاں دینے سے باز نہیں آتا اورٹھٹھا کرنے سے نہیں رُکتا اور توہین کی عادت کو نہیں چھوڑتا اور ہر ایک مجلس میں میرے نشانوں سے انکار کرتا ہے اُس کو چاہیئے کہ میعاد مقررہ میں اِس نشان کی نظیر پیش کرے ورنہ ہمیشہ کے لئے اور دنیا کے انقطاع تک مفصلہ ذیل لعنتیں اُس پر آسمان سے پڑتی رہیں گی۔ بالخصوص مولوی ثناء اللہ صاحب جو خود انہوں نے میری نسبت دعویٰ کیا ہے کہ اِس شخص کا کلام معجزہ نہیں ہے اُن کو ڈرنا چاہئے کہ خاموش رہ کر ان لعنتوں کے نیچے کچلے نہ جائیں اور وہ لعنتیں یہ ہیں۔

وتلک عشرۃ کاملۃ

اب مَیں اپنے خدائے قدیر و کریم و قدوس و غیوّر پر توکل کر کے قصیدہ کو لکھتا ہوں اور اپنے مؤید اور محسن سے مدد چاہتا ہوں اے میرے پیارے قادر اور دِلوں کے اسرار کے گواہ میری مدد کر اور ایسا کر کہ یہ تیرا نشان دنیا میں چمکے اور کوئی مخالف میعاد مقرر ہ میں اس کی نظیربنانے میں قادر نہ ہو اے میرے پیارے ایسا ہی کر اور بہتوں کو اِس نشان اور اس تمام مضمون سے ہدایت دے۔ آمین ثم آمین



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 150

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 150

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/150/mode/1up


ابؔ مَیں اپنے خدائے قدیر و کریم و قدّوس و غیور پر توکل کر کے قصیدہ کو لکھتا ہوں اور اپنے مؤید اور محسن سے مدد چاہتا ہوں اے میرے پیارے قادر اور دِلوں کے اسرار کے گواہ میری مدد کر اور ایسا کر کہ یہ تیرا نشان دنیا میں چمکے اور کوئی مخالف میعاد مقرر ہ میں اس کی نظیربنانے میں قادر نہ ہو اے میرے پیارے ایسا ہی کر اور بہتوں کو اِس نشان اور اس تمام مضمون سے ہدایت دے۔ آمین ثم آمین

اور وہ قصیدہ یہ ہے۔

اَلْقَصِیْدَۃُ الْاِعْجَازِیَّۃُ


اَ یَا اَرْضَ مُدٍّ* قَدْ دَفَائکِ مُدَمَّرُ

وَاَرْدَاکِ ضِلِّیْلٌ وَّ أَغْرَاکِ مُوْغِرُ



اے مُدّکی زمین! ایک ہلاک شدہ نے تیری خستگی کی حالت میں تجھے ہلاک کیا۔ اور سخت گمراہ کرنے والے نے تجھے مارا اور ایک غصّہ دلانے والے نے تجھے برانگیختہ کیا



دَعَوْتِ کَذُوْبًا مُّفْسِدًا صَیْدِیَ الَّذِیْ


کَحُوْتِ غَدِیْرٍاَخْذُہُ لَا یُعَذَّرُ



تو نے ایک جھوٹے مفسد‘ میرے شکار کو بُلا لیا۔ جس کا پکڑنا ڈھاب کی مچھلی کی طرح بڑا کام نہیں



وَجَاءَ کِ صَحْبِیْ نَاصِحِیْنَ کَاِخْوَۃٍ


یَقُوْلُوْنَ لَاتَبْغُوْا ھَوًی وَ تَصَبَّرُوْا



اور میرے دوست تیرے پاس آئے جو بھائیوں کی طرح نصیحت کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ہواؤ ہوس کی طرف مَیل مت کرو اور صبر کرو



فَظَلَّ أُسَارٰی کُمْ اُسَارٰ ی تَعَصُّبٍ


یُرِیْدُوْنَ مَنْ یَّعْوِیْ کَذِءْبٍ وَّ یَخْتِرُ



پس تم میں سے وہ لوگ جو تعصّب کے قیدی تھے۔ انہوں نے چاہا کہ ایسا شخص تلاش کریں جو بھیڑیئے کی طرح چیخے اور فریب کرے


* مُدّ عربی عَلَم ہے عجمی نہیں ۔ مسلمان جن جن ملکوں میں گئے اور جو جو انہوں نے نام رکھے وہ اکثر عربی تھے۔ منہ

ء دفو کے معنی ہیں خستہ کو کشتہ کرنا۔ سو مُدّ کے لوگ اپنے اوہام کی وجہ سے پہلے ہی خستہ تھے ثناء اللہ نے جاکر اور جھوٹ بول کر ان کو کشتہ کر دیا اور وہ خود مدمّر تھا یعنی ہمارے آگے ہلاک شدہ تھا۔ سو ہلاک شدہ نے ان نادانوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ منہ


۱؂ ایڈیشن اول میں اس قصیدہ پر اعراب نہیں دئے گئے سوائے چند ایک مقامات کے اب قارئین کی سہولت کے لئے یہ اعراب دیئے جا رہے ہیں۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 151

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 151

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/151/mode/1up



فَجَاءُ وْا بِذِءْبٍ بَعْدَ جُھْدٍ اَذَابَہُمْ


وَ نَعْنِیْ ثَنَاءَ اﷲِ مِنْہُ وَ نُظْھِِرُ



پھر بہت کوشش کے بعد ایک بھیڑیئے کو لائے۔ اور مراد ہماری اس سے ثناء اﷲ ہے اور ہم ظاہر کرتے ہیں



فَلَمَّا اَ تَاھُمْ سَرَّھُمْ مِّنْ تَصَلُّفٍ


وَقَالَ افْرَحُوْا اِنِّیْ کَمِیٌّ مُّظَفَّرُ



پس جب اُن کے پاس آیا تو لاف زنی سے اُن کو خوش کر دیا۔ اور کہا تم خوش ہو جاؤ میں بہادر فتحیاب ہوں



وَ ؔ قَالَ اسْتُرُوْا اَمْرِیْ وَاِنِّیْ اَرُوْدُھُمْ


اَخَافُ عَلَیْھِمْ اَنْ یَّفِرُّوْا وَ یُدْبِرُوْا



اور کہا کہ میرے آنے کی بات پوشیدہ رکھو کہ میں اُن کو تلاش کر رہا ہوں۔ اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ بھاگ نہ جائیں



وَاَرْضَی اللِّءَامَ اِذَا دَنَا مِنْ اَرْضِھِمْ


عَلَی النَّارِ مَشَّاھُمْ وَ قَدْ کَانَ یَبْطَرُ



اور لوگوں کو خوش کیا جب ان کی زمین سے نزدیک ہوا۔ ان لوگوں کو آگ پر چلایا اور بہت خوش ہوا



تَکَلَّمَ کَالْاَجْلَافِ مِنْ غَیْرِ فِطْنَۃٍ


وَیَأْ تِیْکَ بِالْاَخْبَارِ مَنْ کَانَ یَنْظُرُ



اُس نے کمینوں کی طرح بغیر دانائی کے کلام کیا۔ اور دیکھنے والوں سے تُو خود سُن لے گا



وَ اِنْ کُنْتَ فِی شَکٍّ فَسَلْ یَا مُکَذِّبِیْ


دَھَاقِیْنَ مُدٍّ وَّالْحَقِیْقَۃُ اَظْھَرُ



اور اگر تجھے شک ہے تو مُدّ کے زمینداروں سے پوچھ لے*



فَلَمَّا الْتَقَی الْجَمْعَاِن لِلْبَحْثِ وَالْوَغَا


وَنُوْدِیَ بَیْنَ النَّاسِ وَالْخَلْقُ اُحْضِرُوْا



پس جب دونوں فریق بحث کیلئے جمع ہو گئے اور لوگوں میں منا دی کرائی گئی اور لوگ حاضر ہو گئے



وَاَوْجَسَ خِیْفَۃْ شَرِّہِ بَعْضُ رُفْقَتِیْ


لِمَا عَرَفُوْا مِنْ خُبْثِ قَوْمٍ تَنَمَّرُوْا



اور پوشیدہ طور پر میرے بعض رفیقوں کے دلوں میں خوف ہوا ۔ کیونکہ قوم کی درندگی انہوں نے معلوم کر لی تھی



فَاُنْزِِلَ مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ سَکِیْنَۃٌ


عَلٰی صُحْبَتِیْ وَاﷲُ قَدْ کَانَ یَنْصُرُ



پس میرے اصحاب پر آسمان سے تسلّی نازل کی گئی۔ اور خدا مدد کر رہا تھا



وَاَعْطَاھُمُ الرَّحْمٰنُ مِنْ قُوََّّۃِ الْوَغٰی


وَ اَیَّدَھُمْ رُوْحٌ اَمِیْنٌ فَاَبْشَرُوْا



اور خدا نے ان کو قوّت لڑائی کی دے دی۔ اور رُوح القدس نے ان کو مدد دی پس وہ خوش ہو گئے



وَکَانَ جِدَالٌ یَطْرُدُ الْقَوْمَ بِالضُّحٰی


اِلٰی خِطَّۃٍ اَوْمٰی اِلَیْھَا الْمَعْشَرُ



اور لوگ قریب آٹھ بجے کے بحث دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔ اُس تکیہ کی طرف جس کی طرف گروہ نے اشارہ کیا تھا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 152

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 152

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/152/mode/1up



تَحَرَّوْا لِھٰذَا الْبَحْثِ اَرْضًا شَجِیْرَۃً


اِلَی الْجَانِبِ الْغَرْبِیِّ وَالْجُنْدُ جُمِّرُوْا



اور بحث کیلئے ایک زمین اختیار کی گئی جس میں کئی ایک* درخت تھے۔ اور وہ جگہ گاؤں سے باہر غربی طرف تھی اور ہمارے دوست وہاں ٹھہرائے گئے



فَکَانَ ثَنَاءُ اﷲِ مَقْبُوْلَ قَوْمِہِ


وَمِنَّا تَصَدّٰی لِلتَّخَاصُمِ سَرْوَرُ



اور ثناء اﷲ اس کی قوم کی طرف سے مقبول تھا۔ اور ہماری طرف سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ پیش ہوئے



کَاَنَّ مَقَامَ الْبَحْثِ کَانَ کَاَجْمَۃٍ


بِہِ الذِّءْبُ یَعْوِی وَالغَضَنْفَرُ یَزْءَ رُ



گویا مقامِ بحث ایک ایسے بَن کی طرح تھا۔ جس میں ایک طرف بھیڑیا چیختا تھا اور ایک طرف شیرغرّاتا تھا



وَقَامَ ثَنَاءُ اﷲِ یُغْوِیْ جُنُْوْدَہُ


وَیُغْرِیْ عَلٰی صَحْبِیْ لِءَامًا وَّ یَہْذُرُ



اور کھڑا ہوا ثناء اﷲ اپنی جماعت کو اغوا کر رہا تھا۔ اور میرے دوستوں پر برانگیختہ کرتا تھا



وَکَانَ طَوَی کَشْحًا عَلٰی مُسْتَکِنَّۃٍ


وَ مَا رَادَ نَہْجَ الْحَقِّ بَلْ کَانَ یَہْجُرُ



اور اُس نے کینہ کو اپنے دل میں ٹھان لیا۔ اور حق جوئی نہ کی بلکہ بکواس کرتا رہا



سَعٰی سَعْیَ فَتَّانٍ لِتَکْذِیْبِ دَعْوَتِیْ


وَکَانَ یُدَسِّی مَا تَجَلَّی وَ یَمْکُرُ



اس نے فتنہ انگیز آدمی کی طرح میری دعوت کی تکذیب کی کوشش کی۔ اور وہ حق پوشی کر رہا تھا اور مکر کر رہا تھا



وَاَظْھَرَ مَکْرًا سَوَّلَتْ نَفْسُہُ لَہُ


وَلَمْ یَرْضَ طُوْلَ الْبَحْثِ فَالْقَوْمُ سُحِّرُوْا



اور ایک مکر اُس نے ظاہر کیا جو اُس کے دل میں پیدا ہوا۔ اور لمبی بحث سے انکار کیا اور قوم اُس کے فریب میں آ گئی



فَشَقَّ عَلٰی صَحْبِیْ طَرِیْقٌ اَرَادَہُ


وَقَدْظُنَّ اَنَّ الْحَقَّ یُخْفٰی وَیُسْتَرُ



پس میرے دوستوں پر وہ طریق گراں گذرا جس کا اُس نے ارادہ کیا۔ اور انہوں نے گمان کیا کہ اِس سے حق پوشیدہ رہ جائے گا


* اس میں سہو کتابت ہے اصل عبارت یوں ہو گی۔ ’’جس میں کئی ایک درخت تھے۔‘‘ کاتب سے جب سہواً ’’کئی‘‘ کا لفظ چھوٹ گیا تو تصحیح عبارت کے لئے ’’تھے ‘‘کو’’ تھا ‘‘بنا دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ شکایت کی گئی کہ بعض جگہ سہوِ کاتب سے غلطیاں رہ گئی ہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ’’ یہ کوئی غلطی نہیں ہوا کرتی۔ کیونکہ ساتھ ہی ترجمہ ہے اگر کوئی لفظ عربی ہے اور نقطہ وغیرہ کی غلطی ہے تو نیچے ترجمہ اس کی صحت کرتا ہے ۔ اور اگرترجمہ میں کوئی غلطی صحت سے رہ گئی ہے تو پھر اصل عبارت عربی موجود ہے۔ اس سے صحت ہو جاتی ہے۔‘‘ (البدر ۱۶؍ نومبر ۱۹۰۲ء)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 153

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 153

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/153/mode/1up


رَءَ وْا بُرْجَ بُہْتَانٍ تُشَادُ وَ تُعْمَرُ


فَقَالُوْا لَحَاکَ اﷲُ کَیْفَُ تزَوِّرُ



انہوں نے بہتان کا قلعہ دیکھا جو بنایا جاتا تھا۔ پس انہوں نے کہا خدا کی ملامت تجھ پر‘ تُو کیسا جھوٹ بول رہا ہے



اَقَلُّ زَمَانِ الْبَحْثِ مِقْدَارُ سَاعَۃٍ


فَلَمْ یَقْبَلِ الْحَمْقٰی وَصَحْبِیْ تَنَفَّرُوْا



کم سے کم بحث کا زمانہ ایک ساعت چاہیئے۔ پس احمقوں نے قبول نہ کیا اور میرے دوست اس مقدار سے متنفّر ہوئے



رَضُوْا بَعْدَ تَکْرَارٍ وَّ بَحْثٍ بِثُلْثِھَا


وَفِی الصَّدْرِ حُزَّازٌ وَفِی الْقَلْبِ خَنْجَرُ



آخر اس بات پر کسی قدر تکرار اور بحث کے بعد راضی ہو گئے کہ بیس بیس منٹ تک بحث ہو اور سینہ میں سوزشِ غضب تھی اور دل میں خنجر تھا



دَفَاھُمْ عَمَایَاتُ الْاُنَاسِ وَ حُمْقُھُمْ


رَأَوْا مُدَّ قَوْمٌ وَّالْمُدٰی قَدْ شَھَّرُُوْا



قوم کی جہالتوں نے اُن کو خستہ کر دیا۔ موضع مُدّ کو انہوں نے ایسی صورت میں دیکھا جو چُھریاں نکالی ہوئی ہیں



فَصَارُوْا بِمُدٍّ لِلرِّمَاحِ دَرِیَّۃً


وَیَعْلَمُھَا اَحْمَدْ عَلِیُّ الْمُدَبِّرُ



پس میرے دوست مُدّ میں نیزوں کے نشانے بن گئے اور اس بات کو احمد علی‘ جو میرِ مجلس تھا‘ خوب جانتا ہے



وَکَانَ ثَنَاءُ اﷲِ فِیْ کُلِّ سَاعَۃٍ


یُأَجِّجُ نِیْرَانَ الْفَسَادِ وَ یُسْعِرُ



اور ثناء اﷲ ہر ایک گھڑی۔ فساد کی آگ بھڑکا رہا تھا



أَرٰ ی مَنْطِقًا مَایَنْبَحُ الْکَلْبُ مِثْلَہُ


وَفِیْ قَلْبِہِ کَانَ الْھَوٰی یَتََََََزَخَّرُ



ایسی باتیں کیں کہ ایک کتّا اس طرح آواز نہیں نکالے گا۔ اور اُس کے دل میں ہواؤ ہوس جوش مار رہی تھی



وَ اِنَّ لِسَانَ الْمَرْءِ مَالَمْ یَکُنْ لَّہُ


اُصَاۃٌ عَلٰی عَوْرَاتِہِ ھُوَ مشعرُ



اور انسان کی زبان جب تک اس کے ساتھ عقل نہ ہو‘ اُس کے پوشیدہ عیبوں پر ایک دلیل ہے



یُکَلِّمُ حَتَّی یَعْلَمَ النَّاسُ کُلُّھُمْ


جَھُوْلٌ فَلَا یَدْرِیْ وَ لَا یَتَبَصَّرُ



ایساانسان کلام کرتا ہے یہاں تک کہ سب لوگ جان لیتے ہیں۔ کہ یہ جاہل آدمی ہے نہ عقل ہے نہ بصیرت



وَلَوْلَا ثَنَاءُ اﷲِ مَازَالَ جَاھِلٌ


یَشُکُّ وَلَا یَدْرِیْ مَقَامِیْ وَیَحْصُرُ



اوراگرثناء اﷲ نہ ہوتا تو ایک جاہل میرے بارے میں شک کرتا اور مجھے سوالوں سے تنگ کرتا



فَھٰذَا عَلَیْنَا مِنَّۃٌ مِّنْ اَبِی الْوََفَا


اَرٰی کُلَّ مَحْجُوْبٍ ضِیَاءِیْ فَنَشْکُرُ



پس یہ مولوی ثناء اﷲ کا ہم پر احسان ہے کہ ہر ایک غافل کو ہماری روشنی سے اطلاع دی۔ سو ہم اُس کا شکر کرتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 154

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 154

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/154/mode/1up


اَرَی الْمَوْتَ یَعْتَامُ الْمُکَفِّرَ بَعْدَہٗ


بِمَاظَھَرَتْ آیُ السَّمَاءِ وَتَظْھَرُ



اب کافر کہنے والا گویا مر جائے گا۔ کیونکہ ہمارے غلبہ سے خدا کا نشان ظاہر ہوا



وَلَمَّا اعْتَدَی الْاَمْرَتْسَرِیْ بِمَکَاءِدٍ


وَاَغْرٰ ی عَلٰی صَحْبِیْ لِءَامًا وَّکَفَّرُوْا



اور جب ثناء اﷲ اپنے فریبوں سے حد سے گذر گیا۔ اور لوگوں کو میرے دوستوں پر برانگیختہ کیا



فَقَالُوْا لِیُوْسُفْ مَانَرَی الْخَیْرَ ھٰھُنَا


وَلٰکِنَّہُ مِنْ قَوْمِہِ کَانَ یَحْذَرُ



پس اُنہوں نے منشی محمد یوسف کو کہا کہ اس قسم کی بحث اور بیس منٹ مقرر کرنے میں ہمیں خیر نظر نہیںآتی مگر وہ اپنی قوم سے ڈرتا تھا



ھُنَاکَ دَََعَوْا رَبًّا کَرِیْمًا مُّؤَیِّدًا


وَ قَالُوْا حَلَلْنَا اَرْضَ رُجْزٍ فَنَصْبِرُ



تب انہوں نے خدا کی جناب میں دُعائیں کیں اور کہا کہ ہم پلید زمین میں داخل ہو گئے‘ پس ہم صبر کرتے ہیں



فَمَا بَرِحُوْھَا وَالرِّمَاحُ تَنُوْشُھُمْ


وَلَا طَعْنَ رُمْحٍ مِثْلَ طَعْنٍ یُکَرَّرُ



پس وہ اس زمین سے الگ نہ ہوئے اور نیزے ان کو خستہ کر رہے تھے اور کوئی نیزہ اس طعنہ کی طرح نہیں جو بار بارکہا جاتا ہے



وَ قَامَ ثَنَاءُ اﷲِ فِی الْقَوْمِ وَاعِظًا


فَصَارُوْا بِوَعْظِ الْغُوْلِ قَوْمًا تَنَمَّرُوْا



اور ثناء اﷲ نے قوم میں وعظ کیا۔ پس ایک غول کے وعظ سے وہ پلنگ کی طرح ہو گئے



وَذَکَّرَھُمْ صَحْبِیْ مُکَافَاتَ کُفْرِھِمْ


وَ ھَلْ یَنْفَعَنْ اَھْلَ الْھَوٰی مَایُذَکَّرُ



اور میرے دوستوں نے پاداشِ انکار یاد دلایا۔ مگر بھلا ہَوا پرستوں کو کوئی وعظ فائدہ دے سکتا ہے؟



تَجَنَّی عَلَیَّ ا بُوالْوَفَاءِ ابْنُ الْھَوٰٓ ی


لِیُبْعِدَ حمْقٰی مِنْ جَنَایَ وَیَزْجُرُ



ثناء اﷲ نے ‘ میرے پر نکتہ چینی شروع کی‘ جو ہوا و ہوس کا بیٹا تھا۔ تا احمقوں کو میرے پھل سے محروم رکھے



وَخَاطَبَ مَنْ وَّافَاہُ فِیْ اَمْرِ دَعْوَتِیْ


وَقَالَ یَمِیْنُ اﷲِ مَکْرٌ تَخَیَّرُوْا



اور ہر ایک جو اس کے پاس آیا اس کو اس نے مخاطب کیا۔ اور کہا کہ خدا کی قسم ! یہ تو ایک مکر ہے جو اختیار کیا گیا



وَ اَقْسَمَ بِاﷲِ الْغَیُوْرِ مُکَذِّبًا


فَیَا عَجَبًا مِّنْ مُّفْسِدٍ کَیْفَ یَجْسُرُ



اور اُس نے خدائے غیور کی قسم کھائی۔ پس تعجب ہے مفسد سے۔ کیسی دلیری کر رہا ہے



فَطَاءِفَۃٌ قَدْ کَفَّرُوْنِیْ بِوَعْظِہِ


وَ طَاءِفَۃٌ قَالُوْا کَذُوْبٌ یُّزَوِّرُ



پس ایک گروہ نے اس کے وعظ سے مجھے کافر ٹھہرایا ۔ اور ایک گروہ نے کہا کہ یہ شخص جھوٹ بیان کر رہا ہے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 155

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 155

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/155/mode/1up


وَمَامَسَّہُ نُوْرٌ مِّنَ الْعِلْمِ وَالْھُدٰی


فَیَا عَجَبًا مِّنْ بَقَّۃٍ یَّسْتَنْسِرُ



حالانکہ ثناء اﷲ کو علم اور ہدایت سے ذرّہ مس نہیں۔ پس تعجب ہے اس مچھر پر کہ کر گس بننا چاہتا ہے



فَلَمَّا اعْتَدٰی وَاحَسَّ صَحْبِیْ اَنَّہُ


یُصِرُّ عَلٰی تَکْذِیْبِہِ لَا یُقَصِّرُ



پس جب وہ حد سے بڑھ گیا اور میرے دوستوں نے معلوم کیا۔ کہ وہ تکذیب پر اصرار کر رہا ہے اور باز نہیں آتا



دَعَوْہُ لِیَبْتَھْلَنْ لِمَوْتِ مُزَوِّرٍ*


مُضِلٍّ فَلَمْ یَسْکُتْ وَلَمْ یَتَحَسَّرُ



اُس کو بُلایا کہ جھوٹے کی موت کے لئے خدا کی جناب میں تضرّع کرے۔ وہ جھوٹا جو گمراہ کرتا ہے‘ پس ثناء اﷲ اپنے شور سے چپ نہ ہوا اور نہ تھکا



وَ کَذَّبَ اِعْجَازَ الْمَسِیْحِ وَ ٰا یَہُ


وَ غَلَّطَہُ کِذْبًا وَّ کَانَ یُزَوِّرُ



اور کتاب اعجاز المسیح جو میری کتاب ہے اس کی اُس نے تکذیب کی اور اس کے نشانِ فصاحت کی تکذیب کی اور جھوٹ کی راہ سے اُس کو غلط ٹھہرایا اور جھوٹ بولا



وَقِیْلَ لِاِمْلَاءِ الْکِتَابِ کَمِثْلِہِ


فَقَالََ کَاَھْلِ الْعُجْبِ اِنَّیْ سَاَسْطُرُ



پس اس کو کہا گیا کہ اعجاز المسیح کی طرح کوئی کتاب لکھ ۔ پس اس نے خود نمائی سے کہا کہ میں لکھوں گا



وَ اَنْکَرَ ٰایَاتِیْ وَاَنْکَرَ دَعْوَتِیْ


وَاَنْکَرَ اِلْھَامِیْ وَقَالَ مُزَوِّرُ



اور میرے نشانوں سے انکار کیا اور میری دعوت سے انکار کیا۔ اور میرے الہام سے انکار کیا اور کہا کہ ایک جھوٹا آدمی ہے



وَ کَذَّبَنِیْ بِالْبُخْلِ مِنْ کُلِّ صُوْرَۃٍ


وَ خَطَّأَنِیْ فِیْ کُلِّ وَعْظٍ اُذَکِّرُ



اور اُس نے ہر ایک صورت سے مجھے کاذب ٹھہرایا ۔ اور ہر ایک وعظ میں‘ جو میں نے کیا‘ مجھے خطا کی طرف منسوب کیا



فَاُفْرِدْتُّ اِفْرَادَ الْحُسَیْنِ بِکَرْبَلَا


وَ فِی الْحَیِّ صِرْنَا مِثْلَ مَنْ کَانَ یُقْبَرُ



پس اُس جگہ میں اکیلا رہ گیا جیسا کہ حسین ارضِ کربلا میں اور اس قوم میں ہم ایسے ہو گئے جیسا کہ مردہ دفن کیا جاتا ہے



تَصَدَّی لِاِنْکَارِیْ وَ اِنْکَارِٰایَتِیْ


وَ کَانَ لِحِقْدٍ کَالْعَقَارِبِ یَأْبُرُ



میرے انکار اور میرے نشانوں کے انکار کیلئے پیش آیا۔ اور وہ کینہ سے کژدم کی طرح نیش زنی کرتا تھا


* ایسا اس وقت کہا جب ثناء اللہ کو تکذیب میں انتہا تک دیکھا اور ایسی لاف زنی کرتے اس کو مشاہدہ بھی کر لیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 156

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 156

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/156/mode/1up


فَقَدْ سَرَّنِیْ فِیْ ھٰذِہِ الصُّوْرِ صُوْرَۃٌ


لِیَدْفَعَ رَبِّیْ کُلَّمَا کَانَ یَحْشُرَُ*



پس ان صورتوں میں مجھے ایک طریق اچھا معلوم ہوا۔ تا میرا خدا اس طوفان کو دور کر دے جو اُس نے اٹھایا ہے



فَاَلَّفْتُ ھٰذَا النَّظْمَ اَعْنِیْ قَصِیْدَتِیْ


لِیُخْزِیَ رَبِّی کُلَّ مَنْ کَانَ یَہْذِرُ



پس میں نے یہ نظم یعنی یہ قصیدہ اپنا تالیف کیا۔ تا میرا خدا اُن لوگوں کو رُسوا کرے جو بکواس کرتے ہیں



وَھٰذَا عَلٰی اِصْرَارِہِ فِیْ سُؤَالِہِ


فَکَیْفَ بِہٰذَا السُّءْلِ اُغْضِیْ وَاَنْہَرُ



اور یہ قصیدہ اس کے اصرارِ مقابلہ پر بنایا گیا ہے۔ پس مَیں باوجود اس قدر سوال کے کیونکر چشم پوشی کروں اور کیونکرسائل کو جھڑک دوں



وَلَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْجَوَابِ جَرِیْمَۃٌ


فَنَہْدِیْ لَہُ کَالْاَکْلِ مَا کَاَن یَبْذُرُ



اور اس جواب میں ہم پر کوئی گناہ نہیں۔ اور ہم اُس کو ہدیہ کے طور پر اس چیز کا پھل دیتے ہیں جو اُس نے بویا تھا



فَاِنْ اَ کُ کَذَّابًا فَیَأْتِیْ بِمِثْلِھَا


وَ اِنْ اَ کُ مِنْ رَّبِّیْ فَیُغْشٰی وَیُثْبَرُ



پس اگر میں جھوٹا ہوں تو ایسا قصیدہ بنا لائے گا اور اگر میں خدا کی طرف سے ہوں پس اس کی سمجھ پر پردہ ڈال دیا جائے گا اور روکا جائے گا



وَھٰذَا قَضَاءُ اﷲِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُمْ


لِیُظْھِرَ ٰا ٰیتِہْ وَمَا کَانَ یُخْبِرُ



اور یہ خدا کا فیصلہ ہے ہم میں اور اُن میں تا اپنے نشانوں کو ظاہر کرے اور اس نشان کو ظاہر کرے جو پہلے سے خبر دے رکھی تھی



قَطَعْنَا بِہٰذَا دَابِرَالْقَوْمِ کُلِّھِمْ


وَ غَادَرَھُمْ رَبِّیْ کَغُصْنٍ تُجَذَّرُ



ہم نے اس نشان سے سب کا فیصلہ کر دیا ہے اور میرے ربّ نے اُن کو اُن شاخوں کی طرح کر دیا جو کاٹ دی جاتی ہیں



اَرٰ ی اَرْضَ مُدٍّ قَدْ اُرِیْدَ تَبَارُھَا


وَغَادَرَھُمْ رَبِّیْ کَغُصْنٍ تُجَذَّرُ



میں مُدّ کی زمین دیکھتا ہوں کہ اُس کی تباہی نزدیک آ گئی ۔ اور میرے ربّ نے اُن کو کٹی ٹہنی کی طرح کر دیا



اَ یَامُحْسِنِیْ بِالْحُمْقِ وَالْجَھْلِ وَالرُّغَا


رُوَیْدَکَ لَا تُبْطِلْ صَنِیْعَکَ وَاحْذَرُ



اے میرے محسن! اپنے حمق اور جہالت اور اونٹ کی طرح بولنے سے باز آ جا اور اپنے احسان کو باطل نہ کر



اَتَشْتِمُ بَعْدَ العَوْنِ وَالْمَنِّ وَالنَّدٰی


اَتَنْسٰی نَدَی مُدٍّ وَّ مَاکُنْتَ تَنْصُرُ



کیا تُو مدد اور احسان اور بخشش کے بعد گالیاں دے گا۔ کیا تُو اُس بخشش کو بھُلا دے گا جو مُدّ کے مقام میں تُو نے کی اور بخشش کی



تَرَی کَیْفَ اَغْبَرْتِ السَّمَاءُ بِآیِہَا


اِذَا الْقَوْمُ آذَوْنِیْ وَ عَابُوْا وَ غَبَّرُوْا



تُو دیکھتا ہے کہ کس طرح آسمان نشانوں کی پُر زور بارش کرنے لگا۔ جب قوم نے مجھے دُکھ دیا اور عیب نکالے اور گرد اُٹھائی


* ھٰذَا الشِّعْرُ مِنْ وَحْیِ اﷲِ تعالٰی جَلَّ شَانُہٗ ۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 157

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 157

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/157/mode/1up



فَلَا تَتَخَیَّرْ سُبْلَ غَيٍّ وَّ شَقْوَۃٍ


وَلَا تَبْخَلَنْ بَعْدَ النَّوَالِ وَ فَکِّرُ



اور گمراہی اور شقاوت کی راہ اختیار مت کر۔ اور عطا کے بعد بخل مت کر اور سوچ لے



وَ لَا تَأْ کُلُوْا لَحْمِیْ بِسَبٍّ وَّ غِیْبَۃٍ


وَ لَحْمِیْ بِوَجْہِ الْحِبِّ سَمٌّ مُّدَمِّرُ



اور گالی اور غیبت کے ساتھ میرا گوشت مت کھاؤ۔ اور اُس دوست کے مُنہ کی قسم ! کہ میرا گوشت زہر ہلاک کرنے والا ہے



بِاَجْنِحَۃِ الْاَشْْوَاقِ جِءْنَا فِنَاءَ کُمْ


بِمَا قُدِّمَتْ مِنْکُمْ عَطَایَا فَنَحْضُرُ



ہم شوق کے بازوؤں کے ساتھ تمہارے گھر آئے ہیں۔ کیونکہ تمہارے احسان ہم پر ہیں اس لئے ہم حاضر ہوئے ہیں



وَ اِنْ کُنْتَ قَدْ سَاءَ تْکَ اَمْرُ خِلَافَتِیْ


فَسَلْ مُرْسِلِیْ مَاسَاءَ قَلْبَکَ وَاحْصُرُ



اور اگرتجھے میری خلافت بُری معلوم ہوئی ہے۔ تو پھر میرے بھیجنے والے کو بہت اصرار سے پوچھ کہ کیوں ایسا کیا؟



اَ تُنْکِرُنِیْ وَاﷲُ نَوَّرَ دَعْوَتِیْ


أَتَلْعَنُ مَنْ ھُوْ مِثْلَ بَدْرٍ مُّنَوَّرُ



کیا تو میرا انکار کرتا ہے اور خدا نے میری دعوت کو روشن کیا ہے۔ کیا تو ایسے شخص پر *** بھیجتا ہے کہ جو چاند کی طرح روشن ہے؟



یُصَدِّقُُ اَمْرِیْ کُلُّ مَنْ کَانَ فِی السَّمَا


فَمَا اَنْتَ یَا مِسْکِیْنُ اِنْ کُنْتَ تَکْفُرُ



میری تصدیق تو تمام آسمان والے کرتے ہیں۔ پس اے مسکین! تو کیا چیز ہے اگر انکار کرے



وَ اِنِّیْ قَتِِِِیْلُ الْحِبِّ فَاخْشَوْا قَتِیْلَہُ


وَلَا تَحْسَبُوْنِیْ مِثْلَ نَعْشٍ یُّنَکَّرُ



اور میں کشتۂ دوست ہوں۔ پس تم کشتۂ دوست سے ڈرو ۔ اور مجھے اس جنازہ کی طرح مت سمجھ لو جس کی ہیئت بدل دی گئی اور وہ شناخت نہ کیا جائے



اَطُوْفُ لِمَرْضَاۃِ الْحَبِیْبِ کَھَاءِمٍ


وَّ اَسْعٰی وَاِنَّیْ مُسْتَھَامٌ وَّ مُغْبِرُ



میں دوست کی رضا کیلئے ایک سرگشتہ کی طرح گھوم رہا ہوں۔ اور میں دوڑ رہا ہوں اور اس میں سرگردان ہوں اور بہت دوڑنے سے غبار آلودہ ہوں



اَذَابَتْ مَحَبَّتْہُ عِظَامِیْ جَمِیْعَھَا


وَ ھَبَّتْ عَلٰی نَفْسِیْ رِیَاحٌ تُکَسِّرُُُُُ



اُس کی محبت نے میری ہڈیوں کو گلا دیا۔ اور میرے نفس پر اُس کی تیز ہوا چلی جو توڑنے والی تھی



ذَرُوْا حِرْصَ تَفْتِیْشِیْ فَاِنِّیْ مُغَیَّبٌ


غُبَارٌعِظَامِیْ قَدْ سَفَتْھَا صَرَاصِرُ



میری حقیقت شناسی کا خیال چھوڑ دو کہ میں تمہاری نظروں سے غائب ہوں۔ اور میری ہڈیاں ایک ایسا غبار ہیں کہ جن کو تیز ہوائیں اڑا کرلے گئیں



اِذَا مَا انْقَضٰی وَقْتِیْ فَلَا وَقْتَ بَعْدَ ہٗ


لَدَیْنَا مَعِیْنٌ لَّا یُحَاکِیْہِ ٰاخَرُ



جب میرا وقت گذر جائے گا تو بعد اُس کے کوئی وقت نہیں۔ ہمارے پاس وہ صاف پانی ہے جو اُس کی نظیر نہیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 158

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 158

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/158/mode/1up


دُعَاءِیْ حُسَامٌ لاَّ یُؤَخَّرُوَقْعُہُ


وَصَوْلِیْ عَلٰی اَعْدَاءِ رَبِّیْ مُفَقِّرُ



میری دعا ایک تلوار ہے جو کوئی اُس کے وار کو روک نہیں سکتا۔ اور میرا حملہ میرے خدا کے دشمنوں پر ایک سخت تلوار ہے



وَ اِنِّیْ اُبَلِّغْ عَنْ مَّلِیْکِیْ رِسَالَۃً


وَاِنِّیْ عَلَی الْحَقِّ الْمُنِیْرِ وَ نَیِّرُ



اور میں اپنے بادشاہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اور روشن حق ہوں اور آفتاب ہوں



تَصَدَََّی لِنَصْرِ الدِّیْنِ فِیْ وَقْتِ عُسْرَۃٍ


نَذِیْرٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَالْاٰنَ یُنْذِرُ



دین کی مدد کے لئے خدا سے تنگی کے وقت ایک نذیر کھڑا ہوا‘ پس اب وہ ڈرا رہا ہے



مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ مُقْبِلٌ عِنْدَ رَبِّہِ


مُخَلِّصُ دِیْنِ الْحَقِّ مِمَّا یُحَسِّرُ



وہ خدا کے نزدیک مکینِ امین ہے۔ اور دینِ حق کو آفات کمزور کرنے والی سے خلاص کرنے والا ہے



وَمِنْ فِتَنٍ یُّخْشٰی عَلَی الدِّیْنِ شَرُّھَا


وَمِنْ مِّحَنٍ کَانَتْ کَصَخْرٍ تُکَسِّرُ



اور نیز ایسے فتنوں سے خلاصی بخشتا ہے جس کا خوف تھا۔ اور ایسی بلاؤں سے جو پتھر کی طرح توڑنے والی ہیں



اُرِيْ آیَۃً عُظْمٰی وَ جِءْتُ اَرُوْدُکُمْ


فَھَلْ فَاتِکٌ اَوْ ضَیْغَمٌ اَوْْ اَغْبَرُ



دیکھو! میں ایک عظیم نشان دکھلاتا ہوں ۔ اور تمہیں ڈھونڈرہاہوں۔ پس کیا کوئی دلیر ہے یا شیر ہے یا بھیڑیا ہے



وَ قَالَ ثَنَاءُ اﷲِ لِیْ اَنْتَ کَاذِبٌ


فَقُلْتُ لَکَ الْوَیْلَاتُ أَنْتَ سَتُحْسَرُ



اور مجھے مولوی ثناء اﷲ نے کہا کہ تُو جھوٹا ہے۔ میں نے کہا تیرے پرواویلا ہے تو عنقریب ننگا کیا جائے گا



تَعَالَوْا جَمِیْعًا وَّانْحِتُوْا اَقْلَامَکُمْ


وَ اَمْلُوْا کَمِثْلِیْ اَوْ ذَرُوْنِیْ وَخَیِّرُوْا



سب آ جاؤ اور قلمیں طیار کرو۔ میری مانند لکھو یا مجھے چھوڑو اور مجھے بااختیار سمجھ لو



وَ اَعْطَیْتُ آیََاتٍ فَلَا تَقْبَلُوْنَہَا


فَلَا تَلْطَخُوْا اَرْضِیْ وَ بِالْمَوْتِ طَھِّرُوْا



میں نے نشان دیئے اور تم ان کو قبول نہیں کرتے۔ پس میری زمین کو کسی نجاست سے آلودہ مت کرو اور مرنے سے پاک کر دو



وَ خَیْرُ خِصَالِ الْمَرْءِ خَوْفٌ وَّ تَوْبَۃٌ


فَتُوْبُوْا اِلَی اﷲِ الْکَرِیْمِ وَاَبْشِرُوْا



اور بہترین خصلت انسان کی خوف اور توبہ ہے۔ پس خدا کی طرف توبہ کرو اور خوش ہو جاؤ



سَءِمْنَا تَکَالِیْفَ التَّطَاوُلِ مِنْ عِدَا


تَمَادَتْ لَیَالِی الْجَوْرِ یَا رَبِّیَ انْصُرُ



ہم نے ظلم کی تکلیفیں دشمنوں سے اُٹھائیں۔ اور ظلم کی راتیں لمبی ہو گئیں۔ اے خدا ! مدد کر



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 159

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 159

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/159/mode/1up


وَجِءْنَاکَ کَالْمَوْتٰی فَاَحْيِ اُمُوْرَنَا


نَخِرُّ اَمَامَک کَالْمَسَاکِیْنِ فَاغْفِرُ



اور ہم مُردوں کی طرح تیرے پاس آئے ہیں پس ہمارے کاموں کو زندہ کر۔ ہم تیرے آگے مسکینوں کی طرح گرتے ہیں پس ہمیں بخش دے



اِلٰھیْ فَدَتْکَ النَّفْسُ اِنَّکَ جَنَّتِیْ


وَمَا اَنْ اَرٰی خُلْدًا کَمِثْلِکَ یُثْمِرُ



اے خدا! میری جان تیرے پر قربان‘ تُو میری بہشت ہے اور میں نے کوئی ایسی بہشت نہیں دیکھی کہ تیرے جیسا پھل لاوے



طُرِدْنَا لِوَجْھِکْ مِنْ مَّجَالِسِ قَوْمِنَا


فَاَنْتَ لَنَا حِبٌّ فَرِیْدٌ وَّ مُؤْثَرُ



اے میرے خدا ! تیرے منہ کے لئے ہم اپنی قوم کی مجلسوں سے ردّ کر دیئے گئے۔ پس تُو ہمارا یگانہ دوست ہے جو سب پر اختیار کیا گیا



اِلٰھِیْ بِوَجْھِکْ اَدْرِکِ الْعَبْدَ رَحْمَۃً


وَلَیْسَ لَنَا بَابٌ سِوَاکَ وَمَعْبَرُ



اے میرے خدا! اپنے منہ کے صدقہ اپنے بندہ کی خبر لے۔ اور ہمارے لئے تیرے سوا نہ کوئی دروازہ اور نہ کوئی جائے گذر ہے



اِلٰی اَيِّ بَابٍ یَا اِلٰھِیْ تَرُدُّنِیْ


وَمَنْ جِءْتُہُ بِالرِّفْقِ یَزْرِ وَیَصْعَرُ



اے میرے خدا! تُو کس کے دروازہ کی طرف مجھے ردّ کرے گا۔ اور میں جس کے پاس نرمی کے ساتھ جاؤں وہ بدگوئی کرتا اور منہ پھیر لیتا ہے



صَبَرْنَا عَلٰی جَوْرِ الْخَلَا ءِقِ کُلِّھِمْ


وَ لٰکِنْ عَلٰی ھَجْرٍ سَطَا لَا نَصْبِرُ



ہم نے تمام دنیا کا ظلم برداشت کر لیا۔ مگر تیری جُدائی کی ہمیں برداشت نہیں



تَعَالَ حَبِیْبِیْ اَنْتَ رَوْحِیْ وََرَاحَتِیْ


وَاِنْ کُنْتَ قَدْ ٰانَسْتَ ذَنْبِیْ فَسَتِّرُ



آ میرے دوست! تُو میری راحت اور میرا آرام ہے۔ اور اگر تُو نے میرا کوئی گناہ دیکھا ہے تو معاف کر



بِفَضْلِکَ اِنَّا قَدْ عُصِمْنَا مِنَ الْعِدَا


وَاِنَّ جَمَالَک قَّاتِلِیْ فَاْتِ وَانْظُرُ



تیرے فضل سے ہم دشمنوں سے بچائے گئے۔ مگر تیرے جمال نے ہمیں قتل کر دیا۔ پس آ اور دیکھ



وَ فَرِّجْ کُرُوْبِیْ یَا اِلٰھِیْ وَ نَجِّنِیْ


وَ مَزِّقْ خَصِیْمِیْ یَانَصِیْرِیْ وَ عَفِّرُ



اور میرے غم! اے میرے خدا! دور فرما۔ اور دشمن میرے کو اے میرے مددگار! پارہ پارہ کر اور خاک میں ملا



وَجَدْنَاکَ رَحْمَانًا فَمَا الْھَمُّ بَعْدَہُ


رَأَیْنَاکَ یَاحِبِّیْ بِعَیْنٍ تُنَوَّرُ



ہم نے تجھے رحمان پایا پس بعد اس کے کوئی غم نہ رہا دیکھا ہم نے تجھ کو اُس آنکھ سے جو روشن کی جاتی ہے



اَنَا الْمُنْذِرُ الْعُرْیَانُ یَا مَعْشَرَ الْوَرٰی


اُذَکِّرُکُمْ اَیَّامَ رَبِّیْ فَاَبْصِرُوْا



اے لوگو! میں ایک کُھلا نذیر آیا ہوں۔ خدا کے دن تمہیں یاد دلاتا ہوں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 160

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 160

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/160/mode/1up


بَلَاءٌ عَلَیْکُمْ وَالْعِلَاجُ اِنَابَۃٌ


وَبِالْحَقِّ اَنْذَرْنَا وَبِالْحَقِّ نُنْذِرُ



تم پر ایک بلا ہے اور اس کا علاج توبہ کرنا اور ہر ایک گناہ سے پرہیز کرنا ہے۔ ہم نے سچے طور پر متنبّہ کر دیا اور کر رہے ہیں



دَعُوْا حُبَّ دُنْیَاکُمْ وَحُبَّ تَعَصُّبٍ


وَمَنْ یَّشْرَبِ الصَّھْبَاءَ یُصْبِحْ مُسَکَّرُ



دنیا کی محبت اور تعصّب کی محبت چھوڑ دو۔ اور جو شخص رات کو شراب پیئے گا وہ صبح خمار کی تکلیف اُٹھائے گا



وَکَمْ مِّنْ ھُُمُوْمٍ قَدْ رَأَیْنَا لِاَجْلِکُمْ


وَ نَضْرَمُ فِیْ الْقَلْبِ اضْطِرَامًا وَّ نَضْجَرُ



اور بہت غم ہم نے تمہارے لئے اُٹھائے۔اور اب بھی ہمارے دل میں تمہارے لئے آگ ہے جس کو ہم پوشیدہ رکھتے ہیں



اَصِیْحُ وَقَدْ فَاضَتْ دُُمُوْعِیْ تَأَلُّمًا


وَ قَلْبِیْ لَکُمْ فِیْ کُلِّ اٰنٍ یُوَغَّرُ



میں آواز مارتا ہوں اور میرے آنسو درد سے جاری ہیں۔ اور میرا دل ہرایک دم تمہارے لئے گرم کیا جاتا ہے



فَسَلْ اَیُّہَا الْقَارِیْ اَخَاکَ اَبَا الْوَفَا


لِمَا یَخْْْْدَعُ الْحَمْقٰی وَقَدْ جَاءَ مُنْذِرُ



پس اے قاری! تُو اپنے بھائی ثناء اﷲ سے پوچھ ۔ کیوں احمقوں کو فریب دے رہا ہے اور ڈرانے والا آگیا



اَلَا رُبَّ خَصْمٍ قَدْ رَأَیْتُ جِدَالَہُ

َ

وَمَا إِنْ رَأَیْنَا مِثْلَہُ مَنْ یُّزَوِّرُ



خبردار ہو! میں نے بہت بحث کرنے والے دیکھے ہیں۔ مگر اُس جیسا فریبی میں نے کوئی نہیں دیکھا



عَجِبْتُ لِمَبْحَثْہِ اِلٰی ثُلْثِ سَاعَۃٍ


اَکَانَ مَحَلُّ الْبَحْثِ اَوْکَانَ مَیْسِرُ



مجھے تعجب آیا کہ اُس نے بحث کا زمانہ بیس منٹ مقرر کیا۔ کیا یہ بحث تھی یا کوئی قمار بازی تھی؟



اَمُکْفِرِ مَھْلًا کُلَّمَا کُنْتَ تَذْکُرُ


وَ اَمْلِ کَمِثْلِیْ ثُمَّ اَنْتَ مُظَفَّرُ



اے میرے کافر کہنے والے! گذشتہ سب باتیں چھوڑ دے۔ اور میری مانند قصیدہ لکھ‘ پھر تُو فتحیاب ہے



رَضِیْتُ بِاَنْ تَخْتَارَ فِی النَّمْقِ رُفْقَۃً


وَِ انَّا عَلٰی اِمْلَاءِ ھِمْ لَا نُعَیِّرُ



میں نے یہ بھی قبول کیا کہ اگر تُو مقابلہ سے گرے تو اپنے رفیق بنا لے۔ اور ہم اُن کے لکھنے میں کوئی سرزنش تجھے نہیں کریں گے



فَمَا الْخَوْفُ فِیْ ھٰذَا الْوَغَا یَا اَبَاالْوَفَا


لِیُمْلِ حُسَیْنٌ اَوْ ظَفَرْ اَوْ اَصْغَرُ



پس اے ثناء اﷲ ! اس لڑائی میں تجھے کیا خوف ہے۔ چاہیئے کہ محمد حسین اس کا جواب لکھے یا قاضی ظفر الدین یا اصغر علی



وَ اِنِّیْ اَرٰی فِیْ رَأْسِھِمْ دُوْدَ نَخْوَۃٍ


فَاِنْ شَاءَ رَبِّیْ یُخْرِجَنَّ وَ یَجْذُرُ



اور میں ان کے سر میں تکبّر کے کیڑے دیکھتا ہوں۔ اور اگر خدا چاہے تو وہ کیڑے نکال دے گا اور جڑ سے اکھاڑ دے گا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 161

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 161

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/161/mode/1up



وَ اِنْ کَانَ شَأْنُ الْاَمْرِاَرْفَعَ عِنْدَکُمْ


فَاَیْنَ بِہٰذَا الْوَقْتِ مَنْ شَانَ جَوْلَرُ



پس اگر یہ کام ان لوگوں کے ہاتھ سے تیرے نزدیک بڑھ کر ہے۔ پس اس وقت مہر علی شاہ کہاں ہے جس نے گولڑہ کو بدنام کیا



اَمَیْتٌ بِقَبْرِ الْغَیِّ لَایَنْبَرِیْ لَنَا


وَ مَنْ کَانَ لَیْثًا لَا مَحَالَۃَ یَزْءَ رُ



کیا وہ مُردہ ہے جو اب باہر نہیں نکلے گا۔ اور شیر تو ضرور نعرہ مارتا ہے



وَ اِنْ کَانَ لَایَسْطِیْعُ اِبْطَالَ اٰ یَتِیْ


فَقُلْ خُذْ مَزَامِیْرَ الضَّلَالَۃِ وَازْمُرُ



اور اگر وہ میرے اس نشان کو باطل نہیں کر سکتا۔ پس کہہ کہ طنبور وغیرہ بجایا کر تجھے علم سے کیا کام



اَغَلَّطَ اِعْجَازِیْ حُسَیْنٌ بِعِلْمِہِ


وَھَیْءَاتَ مَاحَوْلُ الْجَھُوْلِ أَتَسْخَرُ



کیا میری کتاب اعجاز المسیح کی محمد حسین نے غلطیاں نکالیں۔ اور یہ کہاں ہو سکتا ہے اور محمد حسین کی کیا طاقت ہے؟ کیا ہنسی کر رہا ہے؟



وَ اِنْ کَانَ فِیْ شَیْءٍ بِعِلْمٍ حُسَیْنُکُمْ


فَمَالَکَ لَا تَدْعُوْہُ وَالْخَصْمُ یَحْصُُرُ



اوراگر تمہارا محمد حسین کچھ چیز ہے۔ پس تو اُس کو کیوں نہیں ُ بلاتا اور دشمن سخت گرفت کر رہا ہے



وَ نَحْسَبُہ‘ کَالْحُوْتِ فَأْتِ بِنَظْمِہٖ


مَتٰی حَلَّ بَحْرًا نَقْتَنِصْہُ وَ نَأْسِرُ



اور ہم تو اس کو ایک مچھلی کی طرح سمجھتے ہیں۔ پس اس کی نظم پیش کر۔ جب وہ شعر کے بحروں میں سے کسی بحر میں داخل ہو گا تو ہم اس کو شکار کر لیں گے اور پکڑ لیں گے



وَ اِنْ یَّاْتِنِيْ اَصْبَحْہُ کَأْسًا مِنَ الْھُدٰی


فَاَحْضِرْہُ لِلْاِمْلَاءِ اِنْ کَانَ یَقْدِرُ



اگر وہ میرے پاس آئے گا تو اُسی صبح ہدایت کا پیالہ پلاؤں گا۔ پس اُس کو لکھنے کیلئے حاضر کر اگر وہ لکھنے کیلئے طاقت رکھتا ہے



اِذَا مَا ابْتَلَاہُ اﷲُ بِالْاَرْضِ سُخْطَۃً


بِلَا ءِلَ قَالُوْا مُکْرَمٌ وَّ مُعَزَّرُ



جب خدا نے بیزاری کے طور پر اُس کو زمین لائلپور میں دی۔ تو مخالفوں نے کہا کہ اُ س کی بڑی عزّت ہے



وَمَا الْعِزُّ اِلاَّ بِالتَّوَرُّعِ وَالتُّقٰی


وَ بُعْدٍ مِّنَ الدُّنْیَا وَ قَلْبٍ مُّطَھَّرُ



اور عزّت تو پرہیزگارو*ں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور دنیا سے علیحدہ ہونے اور دل پاک کرنے میں



وَ اِنَّ حَیَاۃَ الْغَافِلِیْنَ لَذِلَّۃٌ


فَسَلْ قَلْبُہُ زَادَ الصَّفَا اَوْ تَکَدَّرُ



اور غفلت کی زندگی ایک ذلت ہے۔ پس اُس سے پوچھ کہ کیا پہلے کی نسبت اُس کا دل صاف ہے یا دُنیا کی کدورت میں مشغول ہے


* ترجمہ میں سہوکاتب سے الفاظ کی کمی بیشی معلوم ہوتی ہے۔ لفظی ترجمہ یوں ہے اور عزت تو پرہیز گاری کے ساتھ ہوتی ہے۔ اور دنیا سے علیحدہ ہونے اور دل پاک کرنے میں۔ (شمسؔ )



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 162

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 162

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/162/mode/1up



اِذَا نَحْنُ بَارَزْنَا فَاَیْنَ حُسَیْنُکُمْ


وَ اِنْ کُنَْتَ تَحْمَدْہُ فَاَعْلِنْ وَاَخْبِرُ



جب ہم میدان میں آئے تو تمہارا حسین کہاں ہو گا۔ اور اگر تُو اس کی تعریف کرتا ہے پس اُس کو خبر دے دے



اَ تَحْسَبُہُُُُُُُ حَیًّا وَ تَاللّٰہِ اِنَّنِیْ


اَرَاہُ کَمَنْ یُّدْفٰی وَیُفْنٰی وَیُقْبَرُ



کیا تو اس کو زندہ سمجھتا ہے اور بخدا! میں دیکھتا ہوں اُس کو مثل اُس شخص کے جو کُشتہ ہے اور مر گیا اور قبر میں داخل ہو گیا



وَلَوْشَاءَ رَبِّیْ کَانَ یَبْغِیْ ہِدَایَتِیْ


وَلَوْ شَاءَ رَبِّیْ کَانَ مِمَّنْ یُبَصَّرُ



اور اگر میرا خدا چاہتا تو وہ ہدایت قبول کرتا۔ اور اگر میرا خدا چاہتا تو وہ مجھے پہچان لیتا



وَ مَا اِنْ قَنَطْنَا وَالرَّجَاءُ مُعَظَّمٌ


کَذٰلِکَ وَحْیُ اﷲِ یُدْرِیْ وَ یُخْبِرُ



اور ہم اُس کے ایمان سے ناامید نہیں ہوئے بلکہ اُمید بہت ہے۔ اسی طرح خدا کی وحی خبر دے رہی ہے



وَاِنَّ قَضَا ءَ اﷲِ مَایُخْطِیءُ الْفَتٰی


لَہُ خَافِیَاتٌ لاَّ یَرَاھَا مُفَکِّرُ



اور خدا کا حکم مردِ راہ کو بھولتا نہیں۔ اُس کے لئے پوشیدہ راز ہیں کہ کوئی فکر کرنے والا اُن کو دیکھ نہیں سکتا



سَیُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمٰنُ مَقْسُوْمَ حِبِّکُمْ


سَعِیْدٌ فَلَا یُنْسِیْہِ یَوْمٌ مُّقَدَّرُ



تجھ پر خدا تعالیٰ تیرے دوست محمد حسین کا مقسوم ظاہر کر دے گا۔ سعید ہے پس روزِ مقدّر اُس کو فراموش نہیں کرے گا



وَ یُحْیٰی بِاَیْدِی اﷲِ وَاﷲُ قَادِرٌ


وَ یَأْتِیْ زَمَانُ الرُّشْدِ وَالذَّنْبُ یُغْفَرُ



اور خدا کے ہاتھوں سے زندہ کیا جائے گا اور خدا قادر ہے۔ اور رُشد کا زمانہ آئے گا اور گناہ بخش دیا جائے گا



فَیَسْقُوْنَہُ مَآءَ الطَّھَارَۃِ وَالتُّقٰی


نَسِیْمُ الصَّبَا تَأْتِیْ بِرَیَّا یُّعَطِّرُ



پس پاکیزگی اور طہارت کا پانی اسے پلائیں گے۔ اور نسیمِ صبا خوشبو لائے گی اور معطّر کر دے گی



وَ اِنَّ کَلَامِیْ صَادِقٌ قَوْلُ خَالِقِیْ


وَمَنْ عَاشَ مِنْکُمْ بُرْھَۃً فَسَیَنْظُرُ



اور میرا کلام سچا ہے اور میرے خدا کا قول ہے۔ اور جو شخص تم میں سے کچھ زمانہ زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا



اَ تَعْجَبُ مِنْ ھٰذَا فَلَا تَعْجَبَنْ لَّہُ


کَلَامٌ مِّنَ الْمَوْلٰی وَ وَحْیٌ مُّطَھَّرُ



کیا تو اس سے تعجب کرے گا پس کچھ تعجب نہ کر۔ یہ خدا کا کلام ہے اور پاک وحی ہے



وَمَا قُلْتُہُ مِنْ عِنْدِ نَفْسِیْ کَرَاجِمٍ


أُرِیْتُ وَمِنْ اَمْرِالْقَضَا اَتَحَیَّرُ



اور میں نے اپنے ہی دل سے اٹکل سے بات نہیں کی۔ بلکہ کشفی طور پر مجھے دکھلایا گیا اور میں اس سے حیران ہوں




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 163

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 163

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/163/mode/1up



اَقَلْبُ حُسََیْنٍ یَّہْتَدِیْ مَنْ یَّظُنُّہُ


عَجِیْبٌ وَّ عِنْدَ اﷲِ ھَیْنٌ وَّ اَیْسَرُ



کیا محمد حسین کا دل ہدایت پر آ جائے گا یہ کون گمان کر سکتا ہے؟۔ عجیب بات ہے اور خدا کے نزدیک سہل اور آسان ہے



ثَلٰثَۃُ اَشْخَاصٍ بِہٖ قَدْ رَاَیْتُھُمْ


وَ مِنْہُمْ اِلٰھِیْ بَخْشُ فَاسْمَعْ وَ ذَکِّرُ



تین آدمی اس کے ساتھ اور ہیں۔ ایک اُن میں سے الٰہی بخش اکونٹنٹ ملتانی ہے پس سُن اور سُنا دے



لَعَمْرُکَ ذُقْنَا دُوْنَ ذَنْبٍ رِمَاحَھُمْ


فَمَا سَرَّنَا اِلاَّ دُعَاءٌ یُّکَرَّرُ



تیری قسم! کہ ہم نے بغیر گناہ کے ان کے نیزوں کا مزہ چکّھا پس ہمیں یہی اچھا معلوم ہوا کہ اُن کے حق میں دعا کرتے ہیں



مَتٰی ذُکِّرُوْا یَغْتَمُّ قَلْبِیْ بِذِکْرِھِمْ


بِمَا کَانَ وَقْتٌ بِالْمُلَا قَاۃِ نُبْشِرُ



جب وہ ذکر کئے جاتے ہیں تو میرا دل غمناک ہو جاتا ہے کیونکہ یاد آتا ہے کہ ایک دن ہم ملاقات سے خوش ہوتے تھے



أَ اُرْضِعْتَ مِنْ غُوْلِ الْفَلَا یَا اَبَا الْوَفَا


فَمَالَکَ لَا تَخْشٰی وَلَا تَتَفَکَّرُ



کیا تجھے جھوٹ کادودھ پلایا گیا؟ اے ثناء اﷲ! پس تجھے کیا ہو گیا کہ نہ ڈرتا ہے نہ فکر کرتا ہے



تَرَکْتُمْ سَبِیْلَ الْحَقِّ وَالْخَوْفِ وَالْحَیَا


وَجُزْتُمْ حُدُوْدَ الْعَدْلِ وَاﷲُ یَنْظُرُ



تم نے حق کو چھوڑ دیا * اور عدل سے باہر ہو گئے اور اﷲ دیکھتا ہے



وَکَیْفَ تَرٰی نَفْسٌ حَقِیْقَۃَ وَحْیِنَا


یُصِرََُّ علٰی کِذْبٍ وَّ بِالسُّوْءِ یَجْھَرُ



ایسا آدمی ہماری وحی کی حقیقت کیا جانتا ہے جو جھو ٹ پر اصرار کرتا ہے اور کھلی بدگوئی کرتا ہے



وَ اِنْ کُنْتُ کَذَّابًا کَمَا ھُوَ زَعْمُکُمْ


فَکِیْدُوْا جَمِیْعًا لِّیْ وَلَا تَسْتَاْخِرُوْا



اور اگر میں تمہارے نزدیک جھوٹا ہوں۔ تو میری بربادی کیلئے تم سب کوشش کرو اور پیچھے مت ہٹو



وَ اِنَّ ضِیَاءِیْ یَبْلُغُ الْاَرْضَ کُلََّھَا


اَ تُنْکِرُھَا فَاسْمَعْ وَ اِنِّیْ مُذَکِّرُ



اور میری روشنی دُنیا میں پھیل جائے گی۔ کیا تُو انکار کرتا ہے ؟ پس سن رکھ اور میں یاد دلاتا ہوں



عَقَرْتَ بِمُدٍّ صُحْبَتِیْ یَا اَبَاالْوَفَا


بِسَبٍّ وَّ تَوْھِیْنٍ فَرَبِّیْ سَیَقْھَرُ



اے ثناء اﷲ ! تو نے مُدّ میں ہمارے دوستوں کو رنج پہنچایا۔ گالی سے اور توہین سے پس میرا خدا عنقریب غالب ہو جائے گا



جَلَا لَکَ رَبِّیْ اَبْتَغِیْ لَا جَلَا لَتِیْ


وَ اَنْتَ تَرَی قَلْبِیْ وَ عَزْمِیَْ و تُبْصِرُ



اے میرے خداوند! میں تیرا جلال چاہتا ہوں نہ اپنی بزرگی اور تو میرے دل کو اور میرے قصد کو دیکھ رہا ہے


* نشان شدہ مصرعہ میں سہو کتابت سے ترجمہ کا کچھ حصہ لکھنے سے رہ گیا ہے۔ پورا ترجمہ یوں ہو گا ’’تم نے حق اور خوف اور حیا کے راستے کو چھوڑ دیا‘‘ (ناشر)




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 164

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 164

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/164/mode/1up



اِلَیْکَ اَرُدُّ محَامِدِیْ رُدْتُّ کُلَّھَا


وَ مَا اَنَا اِلاَّ مِثْلُ ذَرْقٍ یُّعَفَّرُ



میں تیری طرف ان تمام تعریفوں کو ردّ کرتا ہوں جن کا میں قصد کرتا ہوں۔ اور میں نہیں ہوں مگر ایک سرگین کی طرح جو خاک میں ملایا جاتا ہے



وَ قَالُوْا عَلَی الْحَسْنَیْنِ فَضَّلَ نَفْسَہُ


اَقُوْلُ نَعَمْ وَاﷲُ رَبِّیْ سَیُظْھِرَُ



اور انہوں نے کہا کہ اس شخص نے امام حسن اور حسین سے اپنے تئیں اچھا سمجھا ۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں اور میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا



وَلَوْ کُنْتُ کَذَّابًا لَمَا کُنْتُ بَعْدَہُ


کَمِثْلِ یَہُوْدِیٍّ وَّ مَنْ یَّتَنَصَّرُ



اور اگر میں جھوٹا ہوتا تو پھر اس کے بعد۔ میں ایک یہودی اور مُرتد نصرانی کی مانند بھی نہ ہوتا



وَلٰکِنَّنِیْ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ خَلِیْفَۃٌ


مَسِیْحٌ سَمِعْتُمْ وَعْدَہُ فَتَفَکَّرُوْا



مگر میں اپنے خدا کے حکم سے خلیفہ۔ اور مسیح موعود ہوں۔ اب تم سوچ لو



فَمَا شَأْنُ مَوْعُوْدٍ وَّمَا فِیْہِ عِنْدَکُمْ


مِنَ الْقَوْلِ قَوْلِ نْبِیِّنَا فَتَدَبَّرُوْا



پس مسیح موعود کی کیا شان ہے اور تمہارے پاس اس کے باب میں۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا قول ہے؟



حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عِنْدَکُمْ تَقْرَءُ وْ نَہُ


فَلَا تَکْتُمُوْا مَا تَعْلَمُوْنَ وَاَظْھِرُوْا



تمہارے پاس ایک صحیح حدیث ہے جس کو تم پڑھتے ہو۔ پس جو کچھ تم جانتے ہو اس کو پوشیدہ مت کرو اور ظاہر کرو



وَمَنْ یَّکْتُمَنَّ شْھَادَۃً کَانَ عِنْدَہُ


فَسَوْفَ یَرٰ ی تَعْذِیْبَ نَارٍ تُسَعَّرُ



اور جو شخص اس گواہی کو پوشیدہ کرے گا جو اس کے پاس ہے۔ پس عنقریب وہ آگ کا عذاب دیکھے گا جو خوب بھڑکائی جائے گی



فَلَا تَجْعَلُوْا کِذْبًا عَلَیْکُمْ عُقُوْبَۃً


وَ دَعْ یَاثَنَاءَ اﷲِ قَوْلًا تُزَوِّرُ



پس تم جھوٹ کو اپنے لئے وبال کا ذریعہ مت ٹھہراؤ ۔ اور اے ثناء اﷲ ! تو جھوٹ بولنا چھوڑ دے



تَرَکْتَ طَرِیْقَ کْرَامِ قَوْمٍ وَّ خُلْقَھُمْ


ہَجَوْتَ بِمُدٍّ عَامِدًا لِّتُحَقِّرُ



تو نے شریفوں کے خُلق اور طریق کو چھوڑ دیا۔ اور تُو نے موضع مُدّ میں قصدًا ہماری ہجو کی تا تُو تحقیر کرے



وَ شَتَّانَ مَابَیْنَ الْکِرَاِم وَبَیْنَکُمْ


وَ اِنَّ الْفَتٰی یَخْشَی الْحَسِیْبَ وَیَحْذَرُ



اور کہاں شریف اور کہاں تم لوگ ۔ اور نیک انسان خدا سے ڈرتا ہے اور بدی سے پرہیز کرتا ہے



تَرَکْنَاکَ حَتّٰی قِیْلَ لَا یَعْرِفُُ الْقِلٰی


فَجِءْتَ خَصِیْمًا اَ یُّہَا الْمُسْتَکْبِرُ



ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا یہاں تک کہ تم لوگ کہتے تھے کہ اب کیوں کچھ لکھتے نہیں؟۔ پس تُو خود مقابلہ کے لئے آیا ہے اَے متکبر!




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 165

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 165

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/165/mode/1up



اَلَا اَ یُّہَا اللَّعَّانُ مَالَکَ تَہْجُرُ


وَ تَلْعَنُ مَنْ ھُوْمُرْسَلٌ وَّ مُوَقَّرُ



اے *** کرنے والے!تجھے کیا ہو گیا کہ بیہودہ بک رہا ہے۔ اور تُو اُس پر *** کر رہا ہے جو خدا کافر ستادہ اور خدا کی طرف سے عزّت یافتہ ہے



شَتَمْتَ وَمَا تَدْرِیْ حَقِیْقَۃَ بَاطِنِیْ


وَکُلُّ امْرِءٍ مِّنْ قَوْلِہِ یُسْتَفْسَرُ



تُونے مجھے گالیاں دیں اور میرا حال تجھے معلوم نہیں۔ اور ہر ایک انسان اپنے قول سے پوچھا جائے گا



صَبَرْنَاَ علٰیَ سبٍّ بِہِ آذَیْتَنَا


وَ لٰکِنْ عَلٰی مَا تَفْتَرِیْ لَا نَصْبِرُ



ہم نے ان گالیوں پر تو صبر کیا جن کے ساتھ تُو نے ہمارا دل دُکھایا لیکن وہ جو تُونے ہم پر افترا کیا اس پر ہم صبر نہیں کر سکتے



وَ وَاﷲِ اِنِّیْ صَادِقٌ لَسْتُ کَاذِبًا


فَلَا تَہْلِکُوْا مُُُسْتَعْجِلِیْنَ وَ فَکِّرُوْا



اور خدا کی قسم! کہ میں صادق ہوں کاذب نہیں ہوں۔ پس تم جلدی کر کے ہلاک مت ہو اور خوب سوچ لو



وَ لَوْکُنْتُ کَذَّابًا شَقِیًّا لَضَرَّنِیْ


عَدَ اوَۃُ قَوْمٍ کَذَّبُوْنِیْ وَ کَفَّرُوْا



اور اگر میں جھوٹا بدبخت ہوتا تو ضرور مجھے ان لوگوں سے نقصان پہنچتا جنہوں نے دشمنی سے مجھے جھٹلایا اور کافر قرار دیا



وَشَاھَدْتَّ اَنَّ الْقَوْمَ کَیْفَ تَدَاکَءُوْا


عَلَیَّ وَکَیْفَ رْمَوْا سِھَامًا وَّ جَمَّرُوْا



اور تُو نے دیکھ لیا کہ قوم نے کیسے میرے پر بلوے کئے اور کیسے انہوں نے تیر چلائے اور کیسے وہ لڑائی پر جمے



رَمَوْا کُلَّ صَخْرٍ کَانَ فِیْ اَذْیَالِھِمْ


بِغَیْظٍ فَلَمْ اَقْلَقْ وَلَمْ اَتَحَیَّرُ



جس قدر پتھر اُن کے دامن میں تھے سب پھینک دیئے۔ اور یہ کام غصّہ کے ساتھ کیا۔ پس میں نہ بیقرار ہوا اور نہ حیران ہوا



وَجُرِّحَ عِرْضِیْ مِنْ رِمَاحِ اِھَانَۃٍ


وَ اُلْقِیَ مِنْ سَبٍّ اِلَیَّ الْخَنْجَرُُُ



اورمیری آبرو اہانت کے نیزوں سے زخمی کی گئی اور دُشنام دہی سے میری طرف خنجر پھینکے گئے



وَ ؔ قَالُوْا کَذُوْبٌ مُّفْنِدٌ غَیْرُ صَادِقٍ


فَقُلْنَا اخْسَءُوْا اِنَّ الْخَفَایَا سَتَظْھَرُ



اور انہوں نے کہا یہ جھوٹا دروغ گو ہے‘ سچا نہیں۔ ہم نے کہا کہ تم سب دفع ہو آخر یہ مخفی حقیقت ظاہر ہو جائے گی



وَسَبُّوْا وَ ٰاذَوْنِیْ بِاَنْوَاعِ سَبِّھِمْ


وَ سَمَّوْْنِ دَجَّالًا وَّسَمَّوْنِ اَبْتَرُ



اور مجھے گالیاں دیں اور طرح طرح کی گالیوں سے دُکھ دیا۔ اور میرا نام دجّال رکھا اور میرا نام شرِّ محض رکھا جس میں کوئی خیر نہیں



وَ سَمَّوْنِ شَیْطَانًا وَّ سَمَّوْنِ مُلْحِدًا


وَ سَمَّوْنِ مَلْعُونًا وَّ قَالُوْا مُزَوِّرُ



اور میرا نام شیطان رکھا اور میرا نام مُلحِد رکھا ۔ اور میرا نام *** رکھا اور کہا کہ یہ ایک دروغ باف آدمی ہے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 166

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 166

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/166/mode/1up



فَصِرْتُ کَاَنِّیْ لِلرِّمَاحِ دَرِیَّۃٌ


وَ اُوْذِیْتُ حَتّٰی قِیْلَ عَبْدٌ مُّحَقَّرُ



پس میں ایسا ہو گیا گویاکہ میں تیروں کا نشانہ ہوں اور میں دُکھ دیا گیا یہاں تک کہ لوگوں نے کہا کہ یہ نہایت حقیر انسان ہے



وَمَا غَادَرُوْا کَیْدًا لِّدَوْسِیْ وَبَعْدَہٗ


عَلَیَّ حَضَوْا زَمْعَ الْاُنَاسِ وَثَوَّرُوْا



اور میرے کُچلنے کے لئے کسی مکر کو اُٹھا نہ رکھا اور بعد اس کے میرے پر کمینہ لوگوں کو مشتعل کیا اور برانگیختہ کیا



وَ لٰکِنْ مَاٰ لُ الْاَمْرِکَانَ ھَوَانُہُمْ


وَ اُُنْزِلَ لِیْ آيٌ تُنِیْرُ وَتَبْھَرُ



مگر انجام کار اُن کی رُسوائی ہوئی اور میرے لئے وہ نشان ظاہر کئے گئے جو روشن اور غالب تھے



فَاُوْصِیْکَ یَارِدْفَ الْحُسَیْنِ اَبَاالْوَفَا


اَنِبْ وَاتَّقِ اﷲَ الْمُحَاسِبَ وَاحْذَرُ



پس میں تجھے نصیحت کرتا ہوں اے محمد حسین کے پیچھے چلنے والے خدا کی طرف توبہ کر اور اُس مُحَاسِب سے ڈر



وَلَا تُلْھِکَ الدُّنْیَا عَنِ الدِّیْنِ وَالْھَوٰی


وَ اِنَّ عَذَابَ اﷲِ اَدْھٰی وَاَکْبَرُ



اور تجھے دنیا اور ہوا و ہوس دین سے نہ روکے اور خدا کا عذاب بہت سخت اور بڑا ہے



وَ لَا تَحْسَبِ الدُّنْیَا کَنَاطِفِ نَاطِفِیْ


اَ تَدْرِیْ بِلَیْلِ مْسَرَّۃٍ کَیْفَ تُصْبِحُ



اور دُنیا کو شیرینی کی طرح مت سمجھ جو شیرینی بنانے والا تیار کرتا ہے۔ کیا تُو خوشی کی رات کو جانتا ہے کہ کس طرح صبح کرے گا



اَلَا تَتَّقِی الرَّحْمٰنَ عِنْدَ تَصَنُّعٍ


وَمَنْ کَانَ اَتْقٰی لَا اَبَاَلَک یَحْذَرُ



کیا تُو خدا سے ڈرتا نہیں اور بناوٹ کرتا ہے اور جو شخص پرہیزگار ہو وہ ضرور ڈرتا ہے



اَ لَا لَیْتَ شِعْرِ یْ ھَلْ تُشَاھِدُ بَعْدَنَا


مَسِیْحًا یَحُطُّ مِنَ السَّمَآءِ وَ یُنْذِرُ



کاش تجھے سمجھ ہوتی ۔ کیا میرے بعد کوئی اور مسیح آسمان سے اُترے گا اور ڈرائے گا؟



وَلِلّٰہِ دَرُّ مذَکِّرٍ قَالَ اِنَّہُ


یَعَافُ الْھُدٰی شِکْسٌ زَنِیْمٌ مُّدَعْثَرُ



اور اُس ڈرانے والے نے کیا اچھا کہا ہے کہ ایک بدخُو ویران شدہ کمینہ ہدایت سے نفرت رکھتا ہے



ذَکَرْتَ بِمُدٍّ عِنْدَ بَحْثِکَ بِالْھَوٰی


اَحَادِیْثَ وَالْقُرْاٰ نَ تُلْغِیْ وَ تَہْجُرُ



تُو نے مقام مُدّ میں بحث کرنے کے وقت کہا تھا کہ ہمارے پاس یہ احادیث ہیں اور قرآن کو تو محض نکمّا اور باطل ٹھہرایاجاتا ہے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 167

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 167

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/167/mode/1up



نَبَذْتُمْ کَلَامَ اﷲِ خَلْفَ ظُھُوْرِکُمْ


تَرَکْتُمْ یَقِیْنًا لِلظُّنُوْنِ فَفَکِّرُوْا



تم لوگوں نے کلام اﷲ کو پسِ پشت ڈال دیا اور تم نے ظنّ کی خاطر یقین کو چھوڑ دیا اب سوچ لو۔



فَصَارَ کَآثَارٍ عَفَتْ وَ تَغَیَّبَتْ


مَدَارُ نَجَاۃِ النَّاسِ یَا مُتَکَبِّرُ



پس قرآن ایسا ہو گیا جیسا کہ آثار محوشدہ اور چُھپ گیا وہی تو مدارِ نجات تھا۔ اے متکبر!



وَاِنَّ شِفَاءَ النَّاسِ کَانَ بَیَانُہُ


فَھَلْ بَعْدَہُ نَحْوَالظُّنُوْنِ نُبَادِرُ



اور اُس کا بیان لوگوں کے لئے شفا تھی پس کیا ہم قرآن چھوڑ کر ظنّوں کی طرف دوڑیں؟



وَ فَاضَتْ دُمُوْعُ الْعَیْنِ مِنِّیْ تَأَلُّمًا


اِذَا مَا سَمِعْتُ الْبَحْثَ یَا مُتَھَوِّرُ



پس اِس خیال سے میرے آنسو جاری ہو گئے جب میں نے تیری بحث کو اے بیباک ! سُنا۔



کَذَبْتَ بِمَُدٍّ عَامِدًا فَتَمَایَلَتْ


عَلَیْکَ شَطَایِبْ جَاھِلِیْنَ وَثَوَّرُوْا



تُو نے موضع مُدّ میں قصدًا جھوٹ بولا پس جاہل لوگ تیری طرف جُھک گئے اور شور ڈالا۔



وَ وَاﷲِ فِی الْقُرْاٰنِ کُلُّ حَقِیْقَۃٍ


وَ آیَاتُہُ مَقْطُوْعَۃٌ لَّا تَغَیَّرُ



اور بخدا ! قرآن شریف میں ہر ایک حقیقت ہے اور اُس کی آیتیں قطعی ہیں جو بدلتی نہیں



مَعِیْنٌ مَّعِیْنُ الْخُلْدِ نُوْرُ مُعِیْنِنَا


ھُدَاہُ نَمِیْرُالْمَاءِ لَا یَتَکَدَّرُ



وہ صاف پانی ہے‘ بہشت کا پانی ‘ ہمارے خدا کا نور ہدایت اُس کی صاف زلال ہے مکدّر نہیں



اَرٰی آ یَہٗ کَالْغِیْدِ جَاءَ تْ مِنَ السَّمَا


وَفِیْھَا شِفَاءٌ لِّلَّذِیْ یَتَدَبَّرُُ



اُس کی آیتیں حسین ہیں جو آسمان سے اُتریں اور ان آیتوں میں فکر کرنے والوں کے لئے شفا ہے



وَیُصْبِی قُلُوْبَ النَّاسِ بِالنُّوْرِ وَالْھُدٰی


وَیُرْوِی الْعَطَاشٰی بِالْمَعِیْنِ وَیَظْءَرُ



اور لوگوں کے دل اپنے نور کے ساتھ کھینچ رہا ہے اور پیاسوں کو صاف پانی سے سیراب کر رہا ہے اور دائیوں کی طرح دُودھ پلاتا ہے



وَ قَدْ کَانَ صُحْفٌ قَبْلَہُ مِثْلَ خَادِجٍ


فَجَاءَ لِتَکْمِیْلِ الْوَرٰی لِیُغَزَّرُ



اور اس سے پہلی کتابیں اُس اُونٹنی کی طرح تھیں جو قبل از وقت بچہ دیتی ہے پس قرآن لوگوں کے کامل کرنے کیلئے آیا تا ایک بار ہی تمام دُودھ دوہا جائے



بِلَیْلٍ کَمَوْجِ البَحْرِاَرْخٰی سُدُوْلَہُ


تَجَلّٰی وَاَدْرٰی کُلَّ مَنْ کَانَ یُبْصِرُ



ایسی رات میں آیا جو سمندرکی موج کی طرح اپنی چادر پھیلا رکھے تھی سو اُس نے آکر زمانہ کو روشن کر دیا اور ہر ایک جو دیکھ سکتا تھا اُس کو دِکھا دیا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 168

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 168

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/168/mode/1up



اَیَا اَیُّہَا الْمُغْوِیْ اَتُنْکِرُُُ شَأْنَہُ


وَمَافِیْ یَدَیْنَا غَیْرُہُ یَا مُزَوِّرُ



اے گمراہ کرنے والے ! کیا تُو قرآن کی شان سے انکار کرتا ہے اور بجز قرآن ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟ ( اے جھوٹ گھڑنے والے!)



لِقَوْمٍ ھَذٰی لَا بَارَکَ اﷲُ مُدَّھُمْ


جَھُوْلٌ فَاَدّٰی حَقَّ کِذْبٍ فَاَبْشَرُوْا



اس شخص نے ایک قوم کی خاطر کے لئے بکواس کی۔ خدا اُن کے مُدّ کو برکت نہ دے۔ یہ شخص جاہل ہے اس نے درو غ گوئی کا حق ادا کر دیا اِس لئے وہ لوگ خوش ہو گئے



لَہُ جَسَدٌ لَّا رُوْحَ فِیْہِ وَلَا صَفَا


کَقِدْرٍ یَّجُوْشُ و لَیْسَ فِیْہِ تَدَبُّرُ



یہ صرف ایک جسم ہے جس میں جان نہیں اور نہ صفا اور ایک ہنڈیا کی طرح جوش مارتا ہے کچھ تدبّر نہیں کرتا



نَبَذْتُمْ ھُدَی الْمَوْلٰی وَرَآءَ ظُھُوْرِکُمْ


فَدَعْنِیْ اُبَیِّنْ کُلَّمَا کَانَ یُسْتَرُ



تم نے خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کو پسِ پُشت پھینک دیا۔ پس مجھے چھوڑ دے تا مَیں بیان کروں جو کچھ پوشیدہ کیا گیا ہے



وَ اِنِّیْ اَخَذْتُ الْعِلْمَ مِنْ مَّنْبَعِ الْھُدٰی


وَ اَجْرٰی عُیُوْنِیْ فَضْلُہُ الْمُتَکَثِّرُ



اور میں نے علم کو منبعِ ہدایت سے لیا ہے اور اُس کے فضل نے میرے چشمے جاری کر دیئے ہیں



وَ اُعْطِیْتُ مِنْ رَّبِّیْ عُلُوْمًا صَحِیْحَۃً


وَاَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ وَاُعْثَرُ



اور میں نے اپنے ربّ سے علومِ صحیحہ پائے ہیں۔ اور جو کچھ تم نہیں جانتے وہ مجھے سکھلایا جاتا اور اطلاع دیا جاتا ہے



وَکَأْسٍ سَقَانِیْ رُوْحُ رُوْحِیْ کَاَنَّہَا


رَحِیْقٌ کَنَجْمٍ نَاصِعِ اللَّوْنِ اَحْمَرُ



اور کئی پیالے میری جان کی جان نے مجھے ایسے پلائے ہیں کہ گویا ستارہ کی طرح ایک شراب ہے‘ خالص سُرخ رنگ



فَلَا تُبْشِرُوْا بِالنَّقْلِ یَا مَعْشَرَالْعِدَا


وَکَمْ مِّنْ نُّقُوْلٍ قَدْ فَرَاھَا مُسَحِّرُ



پس اے مخالفو ! محض نقلوں کے ساتھ خوش مت ہو جاؤ۔ اور بہتیری نقلیں اور حدیثیں ہیں جو دھوکا باز نے بنائی ہیں



ھَلِ النَّقْلُ شَیْءٌ بَعْدَ اِیْحَاءِ رَبِّنَا


فَاَیَّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ نَتَخَیَّرُ



اور خدا تعالیٰ کی وحی کے بعد نقل کی کیا حقیقت ہے۔پس ہم خدا تعالیٰ کی وحی کے بعد کس حدیث کو مان لیں



وَ قَدْ مُزِّقَ الْاَخْبَارُُ کُلَّ مُمَزَّقٍ


فَکُلٌّ بِمَا ھُوْ عِنْدَہُ یَسَتَبْشِرُ



اور حدیثیں تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں ۔ اور ہر ایک گروہ اپنی حدیثوں سے خوش ہو رہا ہے



اَعِنْدَکَ بُرْھَانٌ قَوِیٌّ مُّنَقَّحٌ


عََلٰی فَضْلِ شَیْخٍ عَابَ اَوْ اَنْتَ تَہْذِرُ



کیا تیرے پاس مولوی محمد حسین کی فضیلت کی کوئی دلیل ہے۔ جو میرے کلام کا عیب نکالتا ہے؟ یا توُ یوں ہی بکواس کر رہا ہے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 169

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 169

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/169/mode/1up



اَ تَحْسَبُ مِنْ حُمْقٍ حُسَیْنًامُّحَقِّقًا


وَفِیْ کَفِّہِ حَمْأٌوَّ مَاءٌ مُّکَدَّرُ



کیا تو حُمق سے محمد حسین کو عالم سمجھتا ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں مٹی سیاہ اور گندا پانی ہے



اَ تُخْبِرُنِیْ مِنْ نَّازِلٍ مَّا رَأَیْتَہُ


وَتَذْکُرُ اَخْبَارًا دَفَاھَا التَّغَیُّرُُ



کیا تُو میرے پاس اس اُترنے والے کا ذکر کرتا ہے جس کو تُو نے نہیں دیکھا ۔ اور ایسی حدیثیں پیش کرتا ہے جن کا تحریف نے ستیاناس کر دیا



وَ تَعْلَمُ اَنَّ الظَّنَّ لَیْسَ بِقَاطِعٍ


وَ اَنَّ الْیَقِیْنَ الْبَحْتَ یُرْوِیْ وَیُثْمِرُ



اور تُو جانتا ہے کہ ظنّ کوئی قطعی دلیل نہیں۔ اور یقین وہ چیز ہے کہ سیراب کرتا اورپھل لاتا ہے



وَلَسْتُ کَمِثْلِکْ فِی الظُّنُوْنِ مُقَیَّدًا


وَ اِنِّیْ اَرَی اﷲَ الْقَدِیْرَ وَ اُبْصِرُ



اور میں تیری طرح ظنّوں میں گرفتار نہیں۔ میں اپنے قادر خدا کو دیکھ رہا ہوں اور مشاہدہ کر رہا ہوں



اَخَذْنَا مِنَ الْحَیِّ الَّذِیْ لَیْسَ مِثْلُہُ


وَ اَنْتُمْ عَنِ الْمَوْتٰی رَوَیْتُمْ فَفَکِّرُوْا



ہم نے اُس سے لیا کہ وہ حیّ و قیّوم اور واحد لا شریک ہے۔ اور تم لوگ مُردوں سے روایت کرتے ہو



اُرَبّٰی بِفَضْلِ اﷲِ فِیْ حُجْرِ لَُطْفِہِ


وَفِیْ کُلِّ مَیْدَانٍ اُعَانُ وَاُنْصَرُ



میں خدا کی کنارِ عاطفت میں پرورش پا رہا ہوں۔ اور ہر ایک میدان میں مدد دیا جاتا ہوں



وَقَدْ خَصَّنِیْ رَبِّی بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ


وَ نَصْرٍ وَّ تَأْیِیْدٍ وَّ وَحْْيٍ یُّکَرَّرُ



اور میرے ربّ نے اپنے فضل اور رحمت سے مجھے خاص کر دیا۔ اور نیز تائید اور نصرت اور متواتر وحی سے مجھے مخصوص فرمایا ہے



سَقَانِیْ مِنَ الْاَسْرَارِ کَأْسًا رَوِیَّۃً


ھَدَانِیْ اِلٰی نَہْجٍ بِہِ الْحَقُّ یَبْھَرُ



مجھے وہ پیالہ پلایا جو سیراب کرنے والا ہے۔ اور اُس راہ کی مجھے ہدایت کی جس کے ساتھ حق چمکتا ہے



فَدَََََعْ اَیُّہَا الْمُغْوِیْ حُسَیْنًا وَّ ذِکْرَہُ


اَ تَذْکُرُُ لَیْلًا عِنْدَ شَمْسٍ تُنَوِّرُ



پس اے اغوا کرنے والے ! محمد حسین اور اُس کے ذکر کو چھوڑ دے۔ کیا تُو سورج کے مقابل پر ایک رات کا ذکر کرے گا



وَؔ نَحْنُ کُمَاۃُ اﷲِ جِءْنَا بِِِِاَمْرِہٖ


حَلَلْنَا بِلَادَالشِّرْکِ وَاﷲُ یَخْفُرُ



ہم خدا کے سوار ہیں۔ اُ س کے حکم سے آئے ہیں۔ اور شرک کے شہروں میں ہم داخل ہوئے ہیں اور خدا رہنمائی کر رہا ہے



اَقُوْلُ وَلَا اَخْشٰی فَاِنِّیْ مَسِیْحُہُ


وَلَوَْ عِنْدَ ھٰذَا الْقَوْلِ بِالسَّیْفِ اُنْحَرُ



میں بے دھڑک کہتا ہوں کہ میں خدا کا مسیح موعود ہوں۔ اگرچہ مَیں اِس قول پر تلوار سے قتل بھی کیا جاؤں




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 170

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 170

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/170/mode/1up



وَقَدْ جَاءَ فِی الْقُرْآنِ ذِکْرُ فَضَاءِلِیْ


وَ ذِکْرُ ظُھُوْرِیْ عِنْدَ فِتْنٍ تُثَوَّرُ



اور میرے فضائل کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ اور میرے ظہور کا ذکر بھی پُر آشوب زمانہ میں ہونا لکھا ہے



وَمَا اَنَا اِلاَّ مُرْسَلٌ عِنْدَ فِتْنَۃٍ


فَرُدَّ قَضَاءَ اﷲِ اِنْ کُنْتَ تَقْدِرُ



اور میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ پس خدا کے حکم کو تُو بدل دے اگر تجھے قُدرت ہے



تَخَیَّرَنِی الرَّحْمَانُ مِنْ بَیْنِ خَلْقِہِ


لَہُ الْحُکْمُ یَقْضِیْ مَایَشَاءُ وَ یَاْمُرُ



خدا نے مجھے اپنی مخلوقات میں سے چُن لیا ہے۔ حکم اسی کا حکم ہے جو چاہے کرے



وَ وَاﷲِ مَا اَفْرِیْ وَاِنِّیْ لَصَادِقٌ


وَ اِنَّ سَنَا صِدْقِیْ یَلُُُُوْحُ وَ یَبْھَرُ



اور بخدا مَیں مُفتری نہیں۔ مَیں سچا ہوں۔ اور میری سچائی کی روشنی چمک رہی ہے



تَرَاءَ تْ لَنَا کَالشَّمْسِ صَفْوَۃُ اَمْرِنَا


وَ اَرْوَتْ حَدَاءِقْنَاعُیُوْنٌ تُنَضِّرُُ



آفتاب کی طرح ہمارے امر کی صفائی ظاہر ہو گئی۔ اور ہمارے باغوں کو اُن چشموں نے سیراب کیا جو ترو تازہ کر دیتے ہیں



تَکَدَّرَ مَاءُ السَّابِقِیْنَ وَعَیْنُنَا


اِلٰی ٰاخِرِ الْاَیَّامِ لَا تَتَکَدَّرُ



دوسروں کے پانی‘ جو اُمّت میں سے تھے‘ خشک ہو گئے مگر ہمارا چشمہ آخری دِنوں تک کبھی خشک نہیں ہو گا



اِذَا مَا غَضِبْنَا یَغْضَبُ اﷲُ صَاءِلًا


عَلٰی مُعْتَدٍ یُّؤْذِیْ وَ بِالسُّوْءِ َ یجْھَرُ



جب ہم غضبناک ہوں تو خدا اس شخص پر غضب کرتا ہے۔ جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور کھلی کھلی بدی پر آمادہ ہوتا ہے



وَ یَاْتِیْ زَمَانٌ کَاسِرٌ کُلَّ ظَالِمٍ


وَھَلْ یُہْلَکَنَّ الْیَوْمَ اِلَّا الْمُدَمَّرُ



اور وہ زمانہ آ رہا ہے کہ ہر یک ظالم کو توڑے گا اور کوئی ہلاک نہ ہو گا مگر وہی جو پہلے سے ہلاک ہو چکا



وَ اِنِّیْ لَشَرُّ النَّاسِ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُمْ


جَزَاءَ اِھَانَتْھِمْ صَغَارٌ یُّصَغِّرُ



اور میں بدتر انسانوں کاہوں گا۔ اگر اہانت کرنے والے اپنی اہانت نہیں دیکھیں گے



وَ ؔ وَاﷲِ اِنِّیْ مَاادَّعَیْتُ تَعَلِّیًا


وَ اَبْغِیْ حَیَاۃً مَّا یَلِیْھَا التَّکَبُّرُ



اور بخدا! میں نے تعلّی کی راہ سے دعویٰ نہیں کیا اور میں ایسی زندگی چاہتا ہوں جس پر تکبّر کا سایہ ہی نہ ہو



وَقَدْ سَرَّنِیْ اَنْ لَّا یُشَارَ بِاِصْبَعٍ


اِلَیَّ وَاُلْقٰی مِثْلَ عَظْمٍ یُعَفَّرُ



اور میری یہ خوشی رہی کہ میری طرف انگلی کے ساتھ اشارہ نہ کیا جاوے اور میں ایسا پھینک دیا جاؤں جیسا کہ ایک ہڈی خاک آلودہ




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 171

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 171

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/171/mode/1up



فَلَمَّا اَجَزْنَا سَاحَۃَ الْکِبْرِ کُلَّھَا


اَ تَانِیْ مِنَ الرَّحْمٰنِ وَحْیٌ یُّکَبِّرُ



پس جبکہ ہم تکبّر کے میدان سے بہت دور نکل گئے اور سب میدان طے کر لیا۔ تب خدا کی وحی میرے پاس آئی جس نے مجھے بڑا بنا دیا



اِذَا قِیْلَ اِنَّکْ مُرْسَلٌ خِلْتُ اَ نَّنِیْ


دُعِیْتُ اِلٰی اَمْرٍ عَلَی الْخَلْقِ یَعْسُرُ



جب یہ کہا گیا کہ تُو خدا کی طرف سے بھیجا گیا۔ تو میں نے خیال کیا کہ میں ایسے امر کی طرف بُلایا گیا کہ جو لوگوں پر بھاری ہو گا



وَلَوْ اَنَّ قَوْمِیْ ٰا نَسُوْنِیْ کَطَالِبٍ


دَعَوْتُ لِیُعْطَوْا عَیَْنَ عَقْلٍ وَبُصِّرُوْا



اور اگر میرے پاس میری قوم طالب کی طرح آتی۔ تو میں دعا کرتا کہ ان کو عقل دی جائے اور بینائی بخشی جائے



وَ ٰلٰکِنَّہُمْ عَابُوْا وَ ٰاذَوْا وَ زَوَّرُوْا


وَ حَثُّوْا عَلَيَّ الْجَاھِلِیْنَ وَ ثَوَّرُوْا



مگر انہوں نے عیب جوئی کی اور دُکھ دیا اور دروغ آرائی کی۔ اور جاہلوں کو میرے پر برانگیختہ کیا



وَعَیَّرَنِی الْوَاشُوْنَ مِنْ غَیْرِ خُبْرَۃٍ


وَنَاشُوْا ثِیَابِیْ مِنْ جُنُوْنٍ وَّ اعْذَرُوْا



اور نکتہ چینوں نے بغیر آزمائش اور آگاہی کے مجھے سرزنش کی۔ اور جنون سے میرے کپڑے پکڑ لئے اور اس کام میں میرا* مبالغہ کیا



عَجِبْتُ لَھُمْ فِیْ حَرْبِنَا کَیْفَ خَالَطُوْا


وَلَمْ یَبْقَ ضِغْنٌ بَیْنَہُمْ وَتَنَمُّرُ



میں نے ان سے تعجب کیا کہ ہماری لڑائی میں وہ کیسے باہم مل گئے۔ اور ان کے درمیان باہم کوئی درندگی اور کینہ نہ رہا



وَ قَضَّوْا مَطَاعِنْ بَیْنَہُمْ ثُمَّ اَصْدَرُوْا


اِلَیْنَا الْاَسِنَّۃْ وَالْخَنَاجِرَ شَھَّرُوْا



ایک مُدّت تک تو ایک دوسرے پر طعن کرتے رہے۔ پھر ہماری طرف انہوں نے نیزے پھیر دیئے اور تلواریں کھینچیں



فَقُلْتُ لَھُمْ یَا اَ یُّہَا النَّاسُ مَالَکُمْ


اَثَرْتُمْ غُبَارًا مِّنْ کَلَامٍ یُّزَوَّرُ



پس میں نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا۔ تم نے ایک جھوٹی بات سے اس قدر غبار انگیزی کی



عَلَی الْحُمْقِ جَیَّاشُوْنَ مِنْ غَیْرِ فِطْنَۃٍ


کَمَا زَلَّتِ الصَّفْوَاءُ حِیْنَ تُکَوَّرُ



محض حماقت سے جوش کرنے والے بغیر دانائی کے۔ جیسا کہ ایک صاف پتھر نیچے پھینکنے سے جلد تر نیچے کو پھسل جاتا ہے



فَمَاؔ بَرِحَتْ اَقْدَامُنَا مَوْطِنَ الْوَغٰی


وَمَا ضَعُفَتْ حَتّٰی اَعَانَ الْمُظَفِّرُ



پس ہمارے قدم جنگ گاہ سے الگ نہ ہوئے اور نہ ہم تھکے یہاں تک کہ خدا نے ہمیں فتح دی


* سہو کاتب ہے۔ دراصل یہ لفظ ’’سراسر‘‘ ہے ۔ (شمسؔ )



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 172

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 172

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/172/mode/1up



وَکُنْتُ اَرَی الْاِ سْلَامَ مِثْلَ حَدِیْقَۃٍ


مُبَعَّدَۃٍ مِّنْ عَیْنِ مَاءٍ یَُّنَضِّرَُ



اور میں اسلام کو اس باغ کی طرح دیکھتا تھا جو اس چشمہ سے دو ر ہو جو ترو تازہ کرتا ہے



فَمَازِلْتَُ اَسْقِیْھَا وَ اَسْقِیْ بِلَادَھَا


مِنَ الْمُزْنِ حَتّٰی عَادَ حِبْرٌ مُّدَعْثَرُ



پس میں اس باغ کو پانی دیتا رہا اور اس کی زمینوں کو آسمانی بارش کا پانی دیا یہاں تک کہ اس کی خوبصورتی ویران شدہ عود کر آئی



وَجَاشَتْ اِلَیَّ النَّفْسُ مِنْ فِتْنَۃِ الْعِدَا


فَاَنْزَلَ رَبِّیْ حَرْبَۃً لَّا تُکَسَّرُ



اورمیرا دل دشمنوں کے فتنہ سے نکلنے لگا۔ پس نازل کیا میرے ربّ نے ایک حربہ جو توڑا نہیں جائے گا



فَاَصْبَحْتُ اَسْتَقْرِی الرِّجَالَ رِجَالَھُمْ


لِاُفْحِمَ قَوْمًا جَابِرِیْنَ وَ اُنْذِرُ



پس میں نے صبح کی اور اُن لوگوں کی تلاش میں لگ گیا۔ تا میں ظالموں پر اتمامِ حجت کروں



وَقَدْ کَانَ بَابُ اللُّدِّ مَرْکَزَ حَرْبِہِمْ


کَلَامٌ مُّضِلٌّ لَّاحُسَامٌ مُشَھَّرُ



اور ان کا طرز جنگ صرف زبانی خصومت تھی یعنی محض گمراہ کرنے والی باتوں کو پیش کرتے اور مذہب کے لئے تلوار کی لڑائی نہ تھی



فَوَافَیْتُ مَجْمَعْ لُدِّھِم وَقَتَلْتُھُمْ


بِضَرْبٍ وَّلَمْ اَکْسَلْ وَلَمْ اَتَحَسَّرُ



پس میں لڑنے والوں کے مجمع میں آیا اور ایک ہی ضرب سے انہیں قتل کر دیا اور نہ میں سُست ہوا اور نہ ماندہ ہوا



وَاِنِّیْ اَنَا الْمَوْعُوْدُ وَالْقَاءِمُ الَّذِیْ


بِہِ تُمْلَأَنَّ الْاَرْضُ عَدْلًا وَّ تُثْمِرُ



اور میں مسیح موعود اور وہ امامِ قائم ہوں جو زمین کو عدل سے بھرے گا اور ویران جنگلوں کو پھل دار کرے گا



بِنَفْسِیْ تَجَلَّتْ طَلْعَۃُ اﷲِ لِلْوَرٰی


فَیَاطَالِبِیْ رُشْدٍ عَلٰی بَابِیَ احْضُرُُوْا



میرے ساتھ صورت خدا کی خلقت پر ظاہر ہو گی۔ پس اے ہدایت کے طالبو! میرے دروازے پر حاضر ہو جاؤ



خُذُوْا حَظَّکُمْ مِّنِّیْ فَاِنِّیْ اِمَامُکُمْ


اُذَکِّّرُکُمْ اَ یَّامَکُمْ وَاُبَشِّرُ



اپنا حصّہ مجھے سے لے لو کہ میں تمارا امام ہوں۔ تمہیں تمہارے دن یاد دلاتا ہوں اور بشارت دیتا ہوں



وَقَدْ جِءْتُکُمْ یَا قَوْمِ عِنْدَ ضَرُوْرَۃٍ


فَھَلْ مِنْ رَشِیْدٍ عَاقِلٍ یَّتَدَبَّرُ



اور اے میری قوم!میں ضرورت کے وقت تمہارے پاس آیا ہوں۔ پس کیا کوئی تم میں رشید اور عقلمند ہے جو اس بات کو سوچے



وَمَاؔ الْبِرُّ اِلَّا تَرْکُ بُخْلٍ مِّنَ التُّقٰی


وَمَا الْبُخْلُ اِلَّا رَدُّ مَنْ یَّتَبَقَّرُ



اور نیکی بجز اس کے کوئی چیز نہیں کہ تقویٰ کی راہ سے بخل کو دور کر دیا جاوے۔ اور بُخل بجز اس کے کچھ نہیں کہ جس کا علم وسیع اور کامل ہے اور اپنے سے بہتر ہے اس کو قبول نہ کیا جائے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 173

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 173

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/173/mode/1up



وَ قَالُوْا اِلَی الْمَوْعُوْدِ لَیْسَ بِحَاجَۃٍ


فَاِنَّ کِتَابَ اﷲِ یَہْدِیْ وَُ یخْبِرُ



اور انہوں نے کہا کہ مسیح موعود کی طرف کچھ حاجت نہیں۔کیونکہ اﷲ کی کتاب ہدایت دیتی اور خبر دیتی ہے



وَمَاھِیَ اِلَّا بِالْغَیُوْرِ دُعَابَۃٌ


فَیَاعَجَبًا مِّنْ فِطْرَۃٍ تَتَھَوَّرُ



اور یہ تو خدائے غیور کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا ہے۔ پس ایسی بیباک فطرتوں پر تعجب آتا ہے



وَقَدْ جَاءَ قَوْلُ اﷲِ بِالرُّسْلِ تَوْأَمًا


وَمِنْ دُوْنِہِمْ فَھْمُ الْھُدٰی مُتَعَسِّرُ



اور اصل حقیقت یہ ہے کہ خدا کا کلام اور رسول باہم تَوَام ہیں۔ اور اُن کے بغیر خدا کے کلام کا سمجھنا مشکل ہے



فَاِنَّ ظُبَی الْاَسْیَافِ تَحْتَاجُ دَاءِمًا


اِلٰی سَاعِدٍ یُّجْرِی الدِّمَاءَ وَ یُنْدِرُ



کیونکہ تلواروں کی دھار ہمیشہ ایسے بازو کی محتاج ہے جو خون کو جاری کرتا اور سر کو بدن سے الگ کر دیتا ہے



بِعَضْبٍ رَّقِیْقِ الشَّفْرَتَیْنِ ھَزِیْمَۃٌ


اِذَا نَاشَہُ طِفْلٌ ضَعِیْفٌ مُّحَقَّرُ



تلوار گوباریک دھاریں رکھتی ہو مگر تب بھی شکست ہو گی۔ جبکہ اس کو کمزور اور حقیر بچہ ہاتھ میں پکڑے گا



وَ اَ مَّا اِذَا اَخْذَ الْکَمِیُّ مُفَقِّرًا


کَفَی الْعَوْدَ مِنْہُ الْبَدْءُ ضَرْبًا وَّ یَنْحَرُ



لیکن جب ایک بہادر آدمی ایک سخت تلوار کو پکڑے تو اس کا پہلا وار دوسرے وار کی حاجت نہیں رکھے گا اور ذبح کر دے گا



اِذَا قَلَّ تَقْوَی الْمَرْءِ قَلَّ اقْتِبَاسُہُ


مِنَ الْوَحْیِ کَالسَّلْخِ الَّذِیْ لَا یُنَوِّرُ



جب انسان کی تقویٰ کم ہو جاتی ہے تو خدا کی کلام سے استنباط اور اقتباس اس کا بھی کم ہو جاتا ہے جیسا کہ مہینہ کی آخری رات میں کچھ روشنی نہیں رہتی



فَیَا اَسَفَا اَیْنَ التُّقَاۃُ وَاَرْضُھَا


وََاِنِّیْ اَرٰی فِسْقًا عَلَی الْفِسْقِ یَظْھَرُ



پس افسوس! کہاں ہے تقویٰ اور کہاں ہے زمین اس کی اور میں دیکھتا ہوں کہ فسق پر فسق ظاہر ہو رہا ہے



أَرَی ظُلُمَاتٍ لَّیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَھَا


وَ ذُ قْتُ کُءُوْسَ الْمَوْتِ اَوْکُنْتُ اُنْصَرُ



اور میں وہ تاریکیاں دیکھتا ہوں کہ کاش میں ان سے پہلے مر جاتا۔ اور موت کے پیالے چکھ لیتا اور یا مدد دیا جاتا



أَرَی کُلَّ مَحْجُوْبٍ لِدُنْیَاہُ بَاکِیًا


فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَبْکِیْ لِدِیْنٍ یُحَقَّرُ



میں ہر ایک محجوب کو دیکھتا ہوں جو اپنی دُنیا کے لئے رو رہا ہے۔ پس کون ہے جو ا س دین کے لئے روتا ہے جس کی تحقیر کی جاتی ہے



وَلِلدِّؔ یْنِ اَطْلَالٌ اَرَاھَا کَلَاھِفٍ


وَ دَمْعِیْ بِذِکْرِ قُصُوْرِہٖ یَتَحَدَّرُ



اور دین کے لئے شکستہ ریختہ نشان باقی ہیں جن کو میں حسرت کے ساتھ دیکھ رہا ہوں اور اُس کے محلّوں کو یاد کر کے میرے آنسو جاری ہیں




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 174

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 174

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/174/mode/1up



تَرَاءَ تْ غَوَایَاتٌ کَرِیْحٍ مُّجِیْحَۃٍ


وَاَرْخٰی سَدِیْلَ الْغَیِّ لَیْلٌ مُّکَدَّرُ



گمراہیاں ایک آندھی کی طرح ظاہر ہو گئیں ایسی آندھی جو درختوں کو جڑ سے اکھاڑتی ہے۔ اور ایک تاریک رات نے گمراہی کے پردے نیچے چھوڑ دیئے



تَہُبُّ رِیَاحٌ عَاصِفَاتٌ کَأَنَّہَا


سِبَاعٌ بِاَرْضِ الْھِنْدِ تَعْوِیْ وَتَزْءَ رُ



سخت آندھیاں چل رہی ہیں گویا کہ وہ درندے ہیں ملکِ ہند میں جو بھیڑیئے اور شیر کی آواز نکال رہے ہیں



اَرَی الْفَاسِقِیْنَ الْمُفْسِدِیْنَ وَزُمْرَھُمْ


وَقَلَّ صَلَاحُ النَّاسِ وَالْغَیُّ یَکْثُرُ



میں فاسقوں اور مفسدوں کی جماعتوں کی جماعتیں دیکھ رہا ہوں۔ اور نیکی کم ہو گئی اور گمراہی بڑھ گئی



أَرٰی عَیْنَ دِیْنِ اﷲِ مِنْہُمْ تَکَدَّرَتْ


بِہَا الْعِیْنُ وَ الْآرَامُ تَمْشِیْ وَتَعْبَُرُ



میں دین الٰہی کے چشمہ کو دیکھتا ہوں کہ مکدّر ہو گیا۔ اور اس میں وحشی چارپائے چل رہے اور عبور کر رہے ہیں



اَرَی الدِّیْنَ کَالْمَرْضٰی عَلَی الْاَرْضِ رَاغِمًا


وَکُلُّ جَھُوْلٍ فِی الْھَوٰی یَتَبَخْتَرُ



میں دین کو دیکھتا ہوں کہ زمین* پر پڑا ہوا ہے۔اور ہر ایک جاہل اپنی ہَوَا و ہوس کے جوش میں ناز کے ساتھ چل رہا ہے



وَمَا ھَمُّھُمْ اِلَّا لِحَظِّ نُفُوْسِھِمْ


وَمَا جُھْدُھُمْ اِلَّا لِحَظٍّ یَُّوَفَّرُ



اور ان کی ہمتیں اس سے زیادہ نہیں کہ وہ نفسانی حظوظ کے طالب ہیں۔ اور ان کی کوششیں اس سے بڑھ کر نہیں کہ و ہ حظِّ نفسانی کثرت سے چاہتے ہیں



نَسُوْا نَہْجَ دِیْنِ اﷲِ خُبْثًا وَّ غَفْلَۃً


وَ قَدْ سَرَّھُمْ سُکْرٌ وَّ فِسْقٌ وَّ مَیْسِرُ



(انہوں) نے دین کی راہ کوُ خبث اور غفلت کی وجہ سے بھُلا دیا۔ اور ان کو مستی اور بدکاری اور قمار بازی پسند آ گئی



أَرَی فِسْقَھُمْ قَدْْ صَارَ مِثْلَ طَبِیْعَۃٍ


وَمَا اِنْ أَرَی عَنْہُمْ شَقَاھُمْ یُقَشَّرُ



میں دیکھتا ہوں کہ ان کافسق طبیعت میں داخل ہو گیا۔ میرے نزدیک اب بظاہر غیر ممکن ہے کہ ان کی شقاوت ان سے الگ کر دی جائے



فَلَمَّا طَغَی الْفِسْقُ الْمُبِیْدُ بِسَیْلِہِ


تَمَنَّیْتُ لَوْکَانَ الْوَبَاءُ الْمُتَبِّرُ



پس جبکہ فسق ہلاک کنندہ ایک طوفان کی حد تک پہنچ گیا تو میں نے آرز و کی کہ مُلک میں طاعون پھیلے اور ہلاک کرے



فَاِنَّ ھَلَاکَ النَّاسِ عِنْدَ اُولِی النُّہٰی


اَحَبُّ وَاَوْلٰی مِنْ ضَلَالٍ یُّدَمِّرُ



کیونکہ لوگوں کا مر جانا عقلمندوں کے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ گمراہی کی موت اُن پر آوے


* سہو کاتب سے کالمرضٰی کا ترجمہ رہ گیا ہے۔ اصل ترجمہ یوں ہو گا۔ ’’مَیں دین کو دیکھتا ہوں کہ وہ بیمار کی طرح زمین پر پڑا ہوا ۔‘‘ (شمس)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 175

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 175

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/175/mode/1up



وَمَنْؔ ذَا الَّذِیْ مِنْہُمْ یَخَافُ حَسِیْبَہُ


وَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَبْغِی السَّدَادَ وَیُؤْثِرُ



اور ان میں سے کون ہے جو اپنے خدا سے ڈرتا ہے؟ اور ان میں سے کون ہے جو نیکی کی راہ اختیار کر رہا ہے؟



وَمَنْ ذَا الَّذِیْ لَا یَفْجُرُ اﷲَ عَامِدًا


وَمَنْ ذَا الََّذِیْ بَرٌّ عَفِیْفٌ مُّطَھَّرُ



اور کون ان میں ہے جو عمدًا خدا کا گناہ نہیں کرتا ۔ اور کون ان میں نیک ‘ پرہیز گار‘ پاک دل ہے؟



وَمَنْ ذَا الَّذِیْ مَاسَبَّنِیْ لِتُقَاتِہِ


وَقَالَ ذَرُوْنِیْ کَیْفَ اُوْذِیْ وَ اُ کْفِرُ



اور کون ان میں ہے جس نے بوجہ پرہیزگاری مجھ کو گالیاں نہ دیں؟ اور کہا مجھ کو چھوڑ دو‘ میں کیونکر دُکھ دوں اور کافر ٹھہراؤں



وَکَیْفَ وَاِنَّ اَ کابر الْقَوْمِ کُلَّھُُمْ


عَلَیَّ حِرَاصٌ وَّالْحُسَامُ مُشَھَّرُ



اور بد زبانی سے بچنا کیونکر ہو سکے۔ وہ تو میری جان لینے کے حریص ہیں اور تلوار کھینچی گئی ہے



وَ لٰکِنْ عَلَیْھِمْ رُعْبُ صِدْقِیْ مُعَظَّمٌ


فَکَیْفَ یُبَارِی اللَّیْثَ مَنْ ھُوَ جَوْذَرُ



لیکن میری شان کا رعب اُن پر عظیم ہے۔ پس کیونکر شیر کا مقابلہ کر سکتا ہے وہ جو گو سالہ ہے



فَلَیْسَ بِاََََیْدِی الْقَوْمِ اِلاَّ لِسَانُہُمْ


مَُنَجَّسَۃً بِالسَّبِّ وَاﷲُ یَنْظُرُ



پس قوم کے ہاتھ میں بجز زبان کے کچھ نہیں‘ وہ زبان۔ جو دشنام دہی کی نجاست سے آلودہ ہے اور خدا دیکھ رہا ہے



قَضَی اﷲُ اَنَّ الطَّعْنَ بِالطَّعْنِ بَیْنَنَا


فَذَالِکَ طَاعُوْنٌ اَ تَاھُمْ لِیُبْصِرُوْا



خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طعن کی سزا طعن ہے۔ پس وہ یہی طاعون ہے کہ ان کے ملک میں پہنچ گئی ہے تا ان کی آنکھیں کھلیں



وَلَیْسَ عِلَاجُ الْوَقْتِ اِلَّا اِطَاعَتِیْ


اَطِیْعُوْنِ فَالطَّاعُوْنُ یُفْنٰی وَیُدْحَرُ



علاجِ وقت میری اطاعت ہے۔ پس میری اطاعت کرو طاعون دور ہو جائے گی



وَ قَدْ ذَابَ قَلْبِیْ مِنْ مَّصَاءِبِ دِیْنِنَا


وَاَعْلَمُ مَالَا یَعْلَمُوْنَ وَاُبْصِرُ



اور میرا دل دینی مصیبتوں سے گداز ہو گیا ہے۔ اور مجھے وہ باتیں معلوم ہیں جو اُنہیں معلوم نہیں



وَبَثِّیْ وَحُزْنِیْ قَدْ تَجَاوَزَ حَدَّہُ


وَ لَوْلَا مِنَ الرَّحْمٰنِ فَضْلٌ اُ تَبَّرُ



اور میرا غم اور حُزن حد سے بڑھ گیا ہے۔ اور اگر خداکا فضل نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا



وَعِنْدِیْ دُمُوْعٌ قَدْ طَلَعْنَ الْمَآقِیَا


وَعِنْدِیْ صُرَاخٌ لَّایَرَاہُ الْمُکَفِّرُ



اور میرے پاس وہ آنسو ہیں جو گوشہ آنکھ کے اُوپر چڑھ رہے ہیں۔ اور میرے پاس وہ آہ ہے جو کافر کہنے والا اس کو نہیں دیکھتا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 176

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 176

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/176/mode/1up



وَ ؔ لِیْ دَعَوَاتٌ صَاعِدَاتٌ اِلَی السَّمَا


وَلِیْ کَلِمَاتٌ فِی الصَّلَایَۃِ تَقْعَرُ



اور میری وہ دُعائیں ہیں جو آسمان پرچڑھ رہی ہیں۔ اور میری وہ باتیں ہیں جو پتھر میں دھس جاتی ہیں



وَ اُعْطِیْتُ تَأْثِیْرًا مِّنَ اﷲِ خَالِقِیْ


وَ تَأْوِیْ اِلٰی قَوْلِیْ قُلُوْبٌ تُطَھَّرُ



اور مَیں خدا سے‘ جو میرا پیدا کرنے والا ہے‘ ایک تاثیر دیا گیا ہوں۔ اور میری طرف پاک دل میل کرتے ہیں



وَ اِنَّ جَنَانِیْ جَاذِبٌ بِصِفَاتِہِ


وَ اِنَّ بَیَانِیْ فِی الصُّخُوْرِ یُؤَثِّرُ



اور میرا دل اپنے صفات کے ساتھ کشش کر رہا ہے۔ اور میرا بیان پتھروں میں تاثیر کرتا ہے



حَفَرْتُ جِبَالَ النَّفْسِ مِنْ قُوَّۃِ الْعُلٰی


فَصَارَ فُؤَادِیْ مِثْلَ نَہْرٍ تُفَجَّرُ



میں نے نفس کے پہاڑوں کو آسمانی طاقت سے کھوددیا۔ پس میرا دل اس نہر کی طرح ہو گیا جو جاری کی جاتی ہے



وَ اُعْطِیْتُ مِنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ مِّنَ الْھُدٰی


فَکُلَّ بَیَانٍ فِی الْقُلُوْبِ اُصَوِّرُ



اور مجھے ایک نئی پیدائش ہدایت کی دی گئی۔ پس میں ہر ایک بیان دلوں میں نقش کر دیتا ہوں



فَرِیْقٌ مِّنَ الْاَحْرَارِ لَایُنْکِرُوْنَنِیْ


وَ حِزْبٌ مِّنَ الْاَشْرَارِ آذَوْا وَ اَنْکَرُُوْا



ایک گروہ منصف مزاجوں کا مجھ سے انکار نہیں کرتا۔ اور ایک گروہ شریروں کا دُکھ دے رہے ہیں اور انکار کرتے ہیں



وَ قَدْ زَاحَمُوْا فِیْ کُلِّ اَمْرٍاَرَدْتُّہُ


فَاَیَّدَنِیْ رَبِّیْ فَفَرُّوْا وَ اَدْبَرُوْا



اور ہر ایک امر جس کا میں نے ارادہ کیا اس کی انہوں نے مزاحمت کی۔ پس خدا نے میری مدد کی۔ پس بھاگ گئے اور مُنہ پھیر لیا



وَ کَیْفَ عَصَوْا وَاﷲِ لَمْ یُدْرَ سِرُّھَا


وَ کَانَ سَنَا بَرْقِیْ مِنَ الشَّمْسِ اَظْھَرُ



اور کیوں نافرمان ہو گئے؟ اس کا ‘ بخدا ! بھید کچھ معلوم نہ ہوا اور میری برق کی روشنی سورج سے بھی زیادہ ظاہر تھی



لَزِمْتُ اصْطِبَارًا عِنْدَ جَوْرِ لِءَامِھِمْ


وَ کَانَ الْاَقَارِبْ کَالْعَقَارِبِ تَأْبُرُ



میں نے ان کے ظلم کی برداشت کی اور اس پر صبر کیا اور اقارب عقارب کی طرح نیش زنی کرتے تھے



وَ یَعْلَمُ رَبِّیْ سِرَّقَلْبِیْ وَسِرَّھُمْ


وَکُلُّ خَفِیٍّ عِنْدَہُ مُتَحَضِّرُ



اور میرا ربّ میرے بھید اور اُن کے بھید کو جانتا ہے اور ہر ایک پوشیدہ اُس کے نزدیک حاضر ہے



وَ لَیْسَ لِعَضْبِ الْحَقِّ فِی الدَّھْرِ کَاسِرا


وَ مَنْ قَامَ لِلتَّکْسِیْرِ بَغْیًا فَیُکْسَرُ



اور خدا کی تلوار کو کوئی توڑنے والا نہیں اور جو توڑنا چاہے وہ خود ٹوٹ جائے گا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 177

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 177

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/177/mode/1up



وَ ؔ مَنْ ذَایُعَادِیْنِیْ وَاِنِّیْ حَبِیْبُہُ


وَمَنْ ذَا یُرَادِیْنِیْ اِذِ اﷲُ یَنْصُرُ



اور کون میرا دشمن ہو سکتا ہے جبکہ خدا مجھے دوست رکھتا ہے۔ اور کون سنگ اندازی کے ساتھ مجھ سے لڑائی کر سکتا ہے جبکہ خدا میرا مددگار ہے



وَلَوْکُنْتُ کَذَّابًا کَمَا ھُوَ زَعْمُھُمْ


لَقَدْ کُنْتُ مِنْ دَھْرٍ اَمُوْتُ وَاُقْبَرُ



اوراگر میں جھوٹا ہوتا جیسا کہ اُن کا گمان ہے۔ تو میں ایک مُدّت سے مرا ہوتا اور قبر میں داخل ہوتا



یَظُنُّوْنَ اَنِّیْ قَدْ تَقَوَّلْتُ عَامِدًا


بِمَکْرٍ وَّ بَعْضُ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ مُنْکَرُ



وہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ میں نے عمدً ا جھوٹ بنا لیا اور مکر سے جھوٹ بنایا اور بعض ظنّ ایسے گناہ ہیں جو شرع اور عقل کو ان کے قبول کرنے سے انکار ہے



وَ کَیْفَ وَاِنَّ اﷲَ اَبْدَی بَرَاءَ تِی


وَجَآءَ بِآیَاتٍ تَلُوْحُ وَتَبْھَرُ



اور یہ کیونکر * اور خدا نے تو میری بریّت ظاہر کر دی اور وہ نشان دکھلائے جو روشن اور واضح ہیں



وَ یَأْتِیْکَ وَعْدُ اﷲِ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَی


فَتَعْرِفُہٗ عَیْنٌ تُحَدُّ وَ تُبْصِرُ



اور خدا کا وعدہ اس طور سے تجھے پہنچے گا کہ تجھے خبر نہیں ہو گی۔ پس اس کو وہ آنکھ شناخت کرے گی جو اس دن تیز اور بینا ہو گی



اَمُکْفِرِ مَھْلًا بَعْضَ ھٰذَا التَّھَکُّمِ


وَخَفْ قَھْرَ رَبٍّ قَالَ لَا تَقْفُ ‘ فَاحْذَرُ



اے میرے کافر کہنے والے! اس غم و غصّہ کو کچھ کم کر اور اس خدا سے ڈر جس نے کہا ہے’’لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ‘‘



وَاِذْ قُلْتُ اِنِّیْ مُسْلِمٌ قُلْتَ کَافِرٌ


فَاَیْنَ التُّقٰی یَااَیُّہَا الْمُتَھَوِّرُ



اور جب میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ تُو نے کہا کہ کافر ہے پس تیری تقویٰ کہاں ہے اے دلیری کرنے والے!



وَاِنْ کُنْتَ لَا تَخْشٰی فَقَُلْ لَّسْتَ مُؤْمِنًا


وَّ یَأْتِیْ زَمَانٌ تُسْءَلَنَّ وَتُخْبَرُ



اور اگر تُو ڈرتا نہیں ہے پس کہہ دے کہ تُو مومن نہیں اور وہ زمانہ چلا آتا ہے کہ تُو پُوچھا جائے گا اور آگاہ کیا جائے گا



وَ اِنِّیْ تَرَکْتُ النَّفْسَ وَالْخَلْقَ وَالْھَوٰ ی


فَلَا السَّبُّ یُؤْذِیْنِیْ وَلَا الْمَدْحُ یُبْطِرُ



اور میں نے نفس اور مخلوق اور ہواؤ ہوس کو چھوڑ دیا ہے۔ پس اب مجھے نہ تو گالی دُکھ دیتی ہے اور نہ تعریف ناز اور خوشی پیدا کرتی ہے



وَ کَمْ مِّنْ عَدُوٍّ کَانَ مِنْ اَکْبَرِ الْعِدَا


فَلَمَّا اَتَانِیْ صَاغِرًا صِرْتُ اَصْغُرُ



اور بہت لوگ ہیں کہ جو میرے سخت دشمن تھے۔ پس جب ایسا دشمن کسرِ نفسی سے میرے پاس آیا تو میں نے اُس سے بڑھ کر کسرِ نفسی کی



وَ لَسْتُ بِذِیْ کُھْرُوْرَۃٍ غَیْرَاَنَّنِیْ


اِذَا زَادَ فُحْشًا ذُوْعِنَادٍ اُصَعِّرُ



اور میں کینہ ور آدمی نہیں ہوں۔ ہاں اس قدر ہے کہ جب کوئی گالی دینے میں حد سے بڑھ جائے تو میں اُس سے منہ پھیر لیتا ہوں


* سہو کتابت سے یہاں غالباً ’’درست ہو سکتا ہے‘‘ کے الفاظ لکھنے سے رہ گئے ہیں۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 178

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 178

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/178/mode/1up



وَ ؔ لَا غِلَّ فِیْ قَلْبِیْ وَلَا مِنْ جَبَانَۃٍ


وَ اُلْقِيْ حُسَامِیْ مُغْضِیًا وَّ اُشَھِّرُ



اورنہ میرے دل میں کچھ کینہ ہے اور نہ میں بُزدل ہوں۔ اور میں عفو کر کے اپنی تلوار پھینک دیا کرتا ہوں مگر مقابلہ میں کھینچ بھی لیتا ہوں



فَاِنْ تَبْغِنِیْ فِیْ حَلْقَۃِ السِّلْمِ تُلْفِنِیْ


وَ اِن تَطْلُبَنِّیْ فِی الْمَیَادِیْنِ اَحْضُرُ



پس اگر تو مجھے صلح کاری کے حلقہ میں طلب کرے تو وہیں پائے گا اور اگر تو مجھے جنگ کے میدان میں ڈھونڈے تو وہیں مجھے دیکھ لے گا



وَاَرْسَلَنِیْ رَبِّیْ لِاِصْلَاحِ خَلْقِہِ


فَیَاصَاحِ لَا تَنْطِقْ ھَوًی وَّ تَصَبَّرُ



اور خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تامیں مخلوق کی اصلاح کروں۔ پس اے میرے صاحب ! نفسانی طور پر بات مت کر اور صبر سے میرے کام میں فکر کر



وَ اِنْ اَ کُ کَذَّابًا فَکِذْبِیْ یُبِیْدُنِیْ


وَ اِنْ اَ کُ مِنْ رَّبِّیْ فَمَالَکَ تَہْجُرُ



اور اگر میں جھوٹا ہوں تو میرا جھوٹ مجھے ہلاک کر دے گا۔ اور اگر میں خدا کی طرف سے ہوں۔ پس کیوں تُو بیہودہ گوئی کرتا ہے؟



فَذَرْنِیْ وَ رَبِّیْ وَانْتَظِرْ سَیْفَ حُکْمِہِ


لِیَقْطَعَ رَأْسِیْ اَوْ قَفَا مَنْ یُّکَفِّرُ



پس مجھے میرے خدا کے ساتھ چھوڑ دے اور اس کے حکم کی تلوار کا منتظر رہ تا وہ میرا سر کاٹے یا اُس کا جو مجھے کافر کہتا ہے



تَحَامَ قِتَالِیْ وَاجْتَنِبْ مَاصَنَعْتَہُ


وَ اِنَّا اِذَا جُلْنَا فَاِنَّکَ مُدْبِرُ



میرے جنگ سے تُو پرہیز کر اور اپنے بد کاموں سے الگ ہو جا۔ اور جب ہم میدان میں آئے تو تُو بھاگ جائے گا



اَرَی الصَّالِحِیْنَ یُوَفَّقُوْنَ لِطَاعَتِیْ


وَ اَمَّا الْغَوِیُّ فَفِیالضَّلَالَۃِ یُقْبَرُ



میں نیک بختوں کو دیکھتا ہوں کہ میری فرمانبرداری کے لئے وہ توفیق دیئے جاتے ہیں۔ مگر جو ازلی گمراہ ہے وہ گمراہی میں قبر میں جائے گا



وَ ذَالِکَ خَتْمُ اﷲِ مِنْ بَدْوِ فِطْرَۃٍ


وَاِنَّ نُقُوْشَ اﷲِ لَا تَتَغَیَّرُ



اور یہ ابتدائے پیدائش سے خدا کی مُہر ہے۔ اور خدا کے نقش متغیّر نہیں ہو سکتے



کَذَالِکَ نُوْرُ الرُّشْدِ مَایُخْطِیءُ الْفَتٰی


وَکُلُّ نَخِیْلٍ لَّا مَحَالَۃَ تُثْمِرُ



اسی طرح جس فطرت میں رُشد کا نور ہے وہ اس مرد سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ اور ہر ایک کھجور انجام کار پھل لاتی ہے



وَ مَنْ یَّکُ ذَا فَضْلٍ فَیُدْرِکْ مَقَامَہُ


وَ لَوْ فِی شَبَابٍ اَوْ بِوَقْتٍ یُّعَمَّرُ



اور جس کے شاملِ حال فضل الٰہی ہے وہ اپنے مقام کو پا لے گا۔ اگرچہ جوانی میں یا اس وقت کہ جب بڈھا ہو جائے



وَ لَا یَہْلِکُ الْعَبْدُ السَّعِیْدُ جِبِلَّۃً


اِذَا مَاعَمِیْ یَوْمًا بِآخَرَیَنْظُرُ



اور جس کی فطرت میں سعادت ہے‘ وہ ہلاک نہیں ہو گا۔ اگر آج اندھا ہے تو کل دیکھنے لگے گا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 179

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 179

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/179/mode/1up



وَ ؔ لِلْغَیِّ آثَارٌ وَّ لِلرُّشْدِ مِثْلُھَا


فَقُوْمُوْا لِتَفْتِیْشِ الْعَلَامَاتِ وَانْظُرُوْا



اور گمراہی کے لئے نشان ہیں اور ایسا ہی رُشد کے لئے بھی۔ پس تم علامات کی تفتیش کرو اور خوب دیکھو



اَرَی الظُّلْمَ یَبْقٰی فِی الْخَرَاطِیْمِ وَسْمُہُ


وَ یُنْصَرُ مَظْلُوْمٌ ضَعِیْفٌ مُّخَسَّرُ



میں دیکھتا ہوں کہ انسان کی ناک میں ظلم کی علامتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ اور مظلوم کو‘ آخر مدد دی جاتی ہے‘ جو ضُعف اور نقصان والا ہوتا ہے



وَ قَدْ اَعْرَضُوْا عَنْ کُلِّ خَیْرٍ بِغَیْظِھِمْ


کَاَنِّیْ اَرَاھُمْ مِّثْلَ نَارٍتُسَعَّرُ



اورانہوں نے ہر ایک نیکی سے غصّہ سے منہ پھیر لیا جو میں نے پیش کی۔ گویا میں ایک بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح ان کو دیکھ رہا ہوں



وَ یُنْصَرُ مَظْلُوْمٌ بِآخِرِ اَمْرِہِ


وَلَا سِیَّمَا عَبْدٌ مِّنَ اﷲِ مُنْذِرُ



اور مظلوم آخر کار مدد دیا جاتا ہے۔ بالخصوص وہ بندہ جو خدا کی طرف سے ہے



اِذَامَا بَکَی الْمَعْصُوْمُ تَبْکِی الْمَلَا ءِکُ


فَکَمْ مِّنْ بِلَادٍ تُہْلَکَنَّ وَ تُجْذَرُ



جب معصوم روتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے روتے ہیں۔ پس بہت بستیاں ہلاک کی جاتی ہیں اور اجاڑی جاتی ہیں



اِذَا ذَرَفَتْ عَیْنَا تَقِیٍّ بِغُمَّۃٍ


یُفَرَّجُ کَرْبٌ مَّسَّہُ اَوْ یُبَشَّرُ



جب ایک پرہیزگار کی آنکھیں آنسو جاری کرتی ہیں ایک غم کی وجہ سے ۔ پس وہ بے قراری اُس سے دور کی جاتی ہے یا بشارت دی جاتی ہے



عَلَی الاَْرْضِ قَوْمٌ کَالسُّیُوْفِ دُعَاءُھُمْ


فَمَنْ مَّسَّ ھٰذَا السَّیْفَ بِالشَّرِّ یُبْتَرُ



زمین پر ایک قوم ہے کہ تلواروں کی طرح ان کی دعا ہے۔ پس جو شخص اُس تلوار کو چھو جاتا ہے وہ کاٹا جاتا ہے



تَرَی کَیْفَ نَرْقٰی وَالْحَوَادِثُ جُمَّۃٌُ


وَیُہْلَکُ مَنْ یَّبْغِیْ ھَلَاکِیْ وَ یَمْکُرُ



تو دیکھتا ہے کہ ہم کیونکر ترقی کر رہے ہیں حالانکہ حوادث چاروں طرف سے جمع ہیں اور جو شخص میری ہلاکت چاہتا ہے اور مکر کرتا ہے وہ ہلاک کیا جاتا ہے



لَنَا کُلَّ آنٍ مِّنْ مُّعِیْنٍ حِمَایَۃٌ


نُغَادِرُ صَرْعٰی مَاکِرِیْنَ وَ نَظْفَرُ



ہمارے لئے ایک مددگار کی طرف سے حمایت ہے۔ ہم مکر کرنے والوں کو گرا دیتے ہیں اور فتح پاتے ہیں



اََ یا شَاتِمًا لَّا شَاتِمَ الْیَوْمَ مِثْلَکُمْ


وَمَا اِنْ اَرَی فِیْ کَفِّکُمْ مَایُبْطِرُ



اے گالی دینے والے! آج تیرے جیسا دشنام دہندہ کوئی نہیں۔ اور میں تمہارے ہاتھ میں وہ چیز نہیں دیکھتا کہ تمہیں اس ناز پر آمادہ کرتی ہے



تَسُبُّ وَمَا اَدْرِیْ عَلٰی مَاتَسُبُّنِیْ


اَ آذَاکَ قَوْلِیْ فِیْ حُسَیْنٍ فَتُوْغَرُ



تُو مجھے گالی دیتا ہے اور میں نہیں جانتا کہ کیوں مجھے گالی دیتا ہے۔ کیا امام حسین کے سبب سے تجھے رنج پہنچا پس تُو برافروختہ ہوا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 180

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 180

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/180/mode/1up



اَ تَحْسَبُہُؔ اَتْقَی الرِّجَالِ وَ خَیْرَھُمْ


فَمَا نَالَکُمْ مِّنْ خَیْرِہِ یَا مُعْذِرُ



کیا تواس کو تمام دنیا سے زیادہ پرہیز گار سمجھتا ہے اور یہ تو بتلاؤ کہ اس سے تمہیں دینی فائدہ کیا پہنچا؟ اے مبالغہ کرنے والے!



اَرَاکُمْ کَذَاتِ الْحَیْضِ لَامِثْلَ طَاہِرٍ


تَطِیْبُ وَمِنْ مَّاءِ الْعَذَابَۃِ تَطْھَرُ



میں تمہیں حیض والی عورت کی طرح دیکھتا ہوں۔ نہ اس عورت کی طرح جو حیض سے پاک ہوتی ہے۔*



حَسِبْتُمْ حُسَیْنًا اَکْرَمَ النَّاسِ فِی الْوَرَی


وَاَفْضَلَ مَافَطْرَ الْقَدِیْرُ وَ یَفْطُرُ



تم نے حسین کو تمام مخلوق سے بہتر سمجھ لیا ہے۔ اور تمام ان لوگوں سے افضل سمجھا ہے جو خدا نے پیدا کئے



کَاَنَّ امْرَءً ا فِی النَّاسِ مَاکَانَ غَیْرُہٗ


وَ طَھَّرَہُ الرَّحْمَانُ وَالْغَیْرُ یَفْجُرُ



گویا لوگوں میں وہی ایک آدمی تھا۔ اور اس کو خدا نے پاک کیا اور غیر ناپاک ہیں



وَ ھٰذَا ھُوَ الْقَوْلُ الَّذِیْ فِی ابْنِ مَرْیَمٍ


یَقُوْلُ النَّصَارٰی اَیُّہَا الْمُتَنَصِّرُ



اور یہ تو وہی قول ہے جو حضرت عیسیٰ کی نسبت نصاریٰ کہا کرتے ہیں۔ اے نصاریٰ سے مشابہ!



فَیَاعَجَبًا کَیْفَ الْقُلُوْبُ تَشَابَہَتْ


فَکَادَ السَّمَا مِنْ قَوْلِکُمْ تَتَفَطَّرُ



پس تعجب ہے کہ کیونکر دل باہم مشابہ ہو گئے۔ پس نزدیک ہے کہ آسمان ان کی باتوں سے پھٹ جائیں



اَ تُطْرِءُ عَبْدًا مِّثْلَ عِیْسٰی وَتَنْحِتُ


لَہُُُُ رُتْبَۃً کَالْاَنْبِیَاءِ وَ تَہْذُرُ



کیا تو عیسیٰ کی طرح ایک بندہ کی حد سے زیادہ تعریف کرتا ہے۔ اور اس کے لئے انبیاء کا رتبہ قرار دیتا ہے



اَ لَا لَیْتَ شِعْرِیْ ھَلْ رَأَیْتَ مَقَامَہُ


کَمِثْلِ بَصِیْرٍ اَوْ عَلَی الظَّنِّ تَعْمُرُ



کاش تجھے سمجھ ہوتی۔ کیا تو نے اس کا مقام دیکھ لیا ہے۔ یا ساری عمارت ظنّ پر ہے



اَ تُعْلِیْہِ اِطْرَاءً وَّ کِذْبًا وَّ فِرْیَۃً


اَتَسْقِیْہِ کَأْسًا مَاسَقَاہُُ الْمُقَدِّرُ



کیا تو اس کو محض جھوٹ اور افترا کی راہ سے بلند کرنا چاہتا ہے کیا تو اس کو وہ پیالہ پلاتا ہے جو خدا نے اس کو نہیں پلایا


* دوسرے مصرع کے تحت جو عبارت ہے وہ پہلے مصرع ہی کا ترجمہ ہے۔ کاتب سے سہواً دوسرے مصرع کا ترجمہ رہ گیا ہے جو یہ ہے۔’’وہ خوشبو لگائے ہو اور حیض کے بعد اس کے رحم سے پانی آنا بھی ختم ہو کر اس سے بھی پاک ہو چکی ہو۔ (شمس)




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 181

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 181

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/181/mode/1up



تَکَادُ السَّمٰوَاتُ العُلٰی مِنْ کَلَامِکُمْ


تَفَطَّرْنَ لَوْلَا وَقْتُھَا مُتَقَرِّرُ



قریب ہے کہ آسمان تمہارے کلام سے پھٹ جائیں اگر ان کے پھٹنے کا وقت مقرر نہ ہو



اَکَانَ حُسَیْنٌ اَفْضَلَ الرُّسْلِ کُلِّھِمْ


اَکَانَ شَفِیْعَ الْاَنْبِیَاءِ وَ مُوْثَرُ



کیا حُسین تمام نبیوں سے بڑھ کر تھا۔ کیا وہی نبیوں کا شفیع اور سب سے برگزیدہ تھا



اَ لَاؔ لَعْنَۃُ اﷲِ الْغَیُوْرِ عَلَی الَّذِیْ


یَمِیْنُ بِاِطْرَاءٍ وَّ لَا یَتَبَصَّرُ



خبردار ہو کہ خدائے غیور کی *** اس شخص پر ہے جو مبالغہ آمیز باتوں سے جھوٹ بولتا ہے اور نہیں دیکھتا



وَاَمَّا مَقَامِیْ فَاعْلَمُوْا اَنَّ خَالِقِیْ


یُحَمِّدُنِیْ مِنْ عَرْشِہٖ وَ یُوَقِّرُ



اور میرا مقام یہ ہے کہ میرا خدا ۔ عرش پر سے میری تعریف کرتا ہے اور عزت دیتا ہے



لَنَا جَنَّۃٌ سُبْلُ الْھُدٰی اَزْھَارُھَا


نَسِیْمُ الصَّبَاِ مْن شَأْنِہَا تَتَحَیَّرُ



ہمارے لئے ایک بہشت ہے کہ ہدایت کی راہیں اس کے پھول ہیں۔ اور نسیمِ صبا اس کی شان سے حیران ہو رہی ہے



تَکَدَّرَ مَاءُ السَّابِقِیْنَ وَ عَیْنُنَا


اِلٰی آخِرِ الْاَیَّامِ لَا تَتَکَدَّرُ



پہلوں کا پانی مکدّر ہو گیا اور ہمارا پانی اخیر زمانہ تک مکدّ ر نہیں ہو گا



رَأَیْنَا وَاَنْتُمْ تَذْکُرُوْنَ رُوَاتَکُمْ


وَھَلْ مِنْ نُّقُوْلٍ عِنْدَ عَیْنٍ تُبَصَّرُ



ہم نے دیکھ لیا اور تم اپنے راو یوں کا ذکر کرتے ہو اور کیا قصے دیکھنے کے مقابل پر کچھ چیز ہیں؟



وَ شَتَّانَ مَابَیْنِیْ وَ بَیْنَ حُسَیْنِکُمْ


فَاِ نِّیْ اُؤَیَّدْ کُلَّ ٰانٍ وَّ اُنْصَرُ



اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے



وَاَمَّا حُسَیْنٌ فَاذْکُرُوْا دَشْتَ کَرْبَلَا


اِلٰی ھٰذِہِ الْاَیَّامِ تَبْکُوْنَ فَانْظُرُوْا



مگر حسین ‘ پس تم دشتِ کربلا کو یاد کر لو اب تک تم روتے ہو۔ پس سوچ لو



وَ اِنِّیْ بِفَضْلِ اﷲِ فِیْ حُجْرِ خَاِلِقِیْ


اُرَبّٰی وَ اُعْصَمْ مِنْ لِّیَامٍ تَنَمَّرُوْا



اور میں خدا کے فضل سے اس کے کنارِعاطفت میں پرورش پا رہا ہوں اور ہمیشہ لئیموں کے حملہ سے جو پلنگ صورت ہیں بچایا جاتا ہوں



وَاِنْ یَّأْتِنِی الْاَعْدَاءُ بِالسَّیْفِ وَالْقَنَا


فَوَاﷲِ اِنِّیْ اُحْفَظَنَّ وَ اَظْفَرُ



اور اگر دشمن تلواروں اور نیزوں کے ساتھ میرے پاس آویں پس بخدا میں بچایا جاؤں گا اور مجھے فتح ملے گی




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 182

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 182

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/182/mode/1up



وَ اِنْ یُّلْقِنِیْ خَصْمِیْ بِنَارٍ مُّذِیْبَۃٍٍ


تَجِدْنِيْ سَلِیْمًا وَّ الْعَدُوُّ یُدَمَّرُ



اور اگر میرا دشمن ایک گداز کرنے والی آگ میں مجھے ڈال دے۔ُ تو مجھے سلامت پائے گا اور دشمن ہلاک ہو گا



وَ اَوْعَدَنِیْ قَوْمٌ لِّقَتْلِیْ مِنَ الْعِدَا


فَاَدْ رَکَھُمْ قَھْرُ الْمَلِیْکِ وَخُسِّرُوْا



اور بعض دشمنوں نے مجھے قتل کرنے کے لئے وعدہ کیا۔ پس خدا کے قہر نے ان کو پکڑ لیا اور وہ زیاں کا رہو گئے



کَذَؔ الِکَ تَبْغِیْ قَھْرَ رَبٍّ مُّحََاسِِبٍ


وَمَا اِنْ أَرَی فِیْکَ الْکَلَامَ یُُؤَثِّرُ



اسی طرح تُو بھی خدائی حساب لینے والے سے قہر طلب کر رہا ہے اور میں نہیں دیکھتا کہ تجھ میں کلام اثر کرے



بُعِثْتُ مِنَ اﷲِ الرَّحِیْمِ لِخَلْقِہٖ


لِاُنْذِرَ قَوْمًاغَافِلِیْنَ وَاُخْبِرُ



میں خدائے رحیم کی طرف سے اس کی مخلوق کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ تاکہ میں غافلوں کو متنبّہ کروں اور ان کو خبر دوں



وَ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ الْکَرِیْمِ وَلُطْفِہٖ


عَلٰی کُلِّ مَنْ یَّبْغِی الْصَّلَاحَ وَیَشْکُرُ



اور میرا آنا خدائے کریم کا فضل ہے اور اس کا لُطف ان تمام لوگوں پر ہے جو صلاحیت کے طلب گار ہیں اور شکر کرتے ہیں



اَرَی النَّاسَ یَبْغُوْنَ الْجِنَانَ نَعِیْمَھَا


وَ اَحْلٰی اَطَاءِبْھَاالَّتِیْ لَا تُحْصَرُ



میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ بہشت اور اس کی نعمتوں کے طلب گار ہیں اور بہشت کی وہ لذّات طلب کرتے ہیں جو اعلیٰ اور بے حد و پایاں ہیں



وَ أَبْغِیْ مِنَ الْمَوْلٰی نَعِیْمًا یَّسُُُرُّنِیْ


وَمَا ھُوَ اِلَّا فِیْ صَلِیْبٍ یَُّکَسَّرُ



اور میری خواہش ایک مراد ہے جس پر میری خوشی موقوف ہے اور وہ خواہش یہ ہے کہ کسی طرح صلیب ٹوٹ جائے



وَ ذٰلِکَ فِرْدَوْسِیْ وَ خُلْدِیْ وَ جَنَّتِیْ


فَاَدْخِلْنِ رَبِّیْ جَنَّتِیْ اَنَا اَضْجَرُ



یہی میرا فردوس ہے‘ یہی میرا بہشت ہے‘ یہی میری جنت ہے۔ پس اے میرے خدا ! میرے بہشت میں مجھے داخل کر کہ میں بے قرار ہوں



وَ اِنِّیْ وَرِثْتُ الْمَالَ مَالَ مُحَمَّدٍ


فَمَا اَنَا اِلَّا آلُہُ الْمُتَخَیَّرُ



اور میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے مال کا وارث بنایا گیا ہوں۔ پس میں اس کی آل برگزیدہ ہوں جس کو ورثہ پہنچ گیا



وَکَیْفَ وَرِثْتُ و لَسْتُ مِنْ اَبْنَاءِ ہِ


فَفَکِّرْ وَھَلْ فِیْ حِزْبِکُمْ مُّتَفَکِّرُ



اور میں کیونکر اس کا وارث بنایا گیا جب کہ میں اس کی اولاد میں سے نہیں ہوں‘ پس اس جگہ فکرکر کیا تم میں کوئی بھی فکر کرنے والا نہیں؟




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 183

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 183

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/183/mode/1up



اَ تَزْعَمُ اَنَّ رْسُوْلَنَا سَیِّدَ الْوَرٰ ی


عَلٰی زَعْمِ شَانِیْہِ تُوُُفِّیَ اَبْتَرُ



کیا تو گمان کرتا ہے کہ ہمارے رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے بے اولاد ہونے کی حالت میں وفات پائی جیسا کہ دشمن بدگو کا خیال ہے



فَلَا وَالَّذِیْ خَلْقَ السَّمَاءَ لِأَجْلِہِ


لَہُ مِثْلُنَا وُلْدٌ اِلٰی یَوْمِ یُحْشَرُ



مجھے اس کی قسم جس نے آسمان بنایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کیلئے میری طرح اور بھی بیٹے ہیں اور قیامت تک ہوں گے



وَاِنَّا وَرِثْنَا مِثْلَ وُلْدٍ مَتَاعَہُ


فَاَیُّ ثُبُوْتٍ بَعْدَ ذٰلِکَ یُحْضَرُ



اور ہم نے اولاد کی طرح اس کی وراثت پائی۔ پس اس سے بڑھ کر اور کون سا ثبوت ہے‘ جو پیش کیا جائے؟



لَہٗ ؔ خَسَفَ الْقَمْرُ الْمُنِیْرُ وَاِنَّ لِیْ


غَسَا الْقَمَرَانِ الْمُشْرِقَانِ أَ تُنْکِرُ



اس کے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا۔ اب کیا تو انکار کرے گا؟



وَکَانَ کَلَامٌ مُعْجِزٌآیَۃً لَّہُ


کَذٰلِکَ لِیْ قَوْلِیْ عَلَی الْکُلِّ یَبْھَرُ



اور اس کے معجزات میں سے معجزانہ کلام بھی تھا۔ اسی طرح مجھے وہ کلام دیا گیا جو سب پر غالب ہے



اِذَا الْقَوْمُ قَالُوْا یَدَّعِی الْوَحْیَ عَامِدًا


عَجِبْتُ فَاِنِّیْ ظِلُّ بَدْرٍ یُنَوِّرُ



جب قوم نے کہا کہ یہ تو عمد اً وحی کا دعویٰ کرتا ہے۔ میں نے تعجب کیا کہ میں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کاظل ہوں



وَ اَنّٰی لِظِلٍّ اَنْ یُّخَالِفَ اَصْلَہُ


فَمَا فِیْہِ فِیْ وَجْھِیْ یَلُوْحُ وَیَزْھَرُ



اور سایہ کیونکر اپنے اصل سے مخالف ہو سکتا ہے۔ پس وہ روشنی جو اس میں ہے وہ مجھ میں چمک رہی ہے



وَاِنِّیْ لَذُوْنَسْبٍ کَاَصْلٍ اُطِیْعُہُ


وَمِنْ طِیْنِہِ الْمَعْصُوْمِ طِیْنِیْ مُعَطَّرُ



اور میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرح ذونسب ہوں۔ اور اس کی پاک مٹی کا مجھ میں خمیر ہے



کَفَی الْعَبْدَ تَقْوَی الْقَلْبِ عِنْدَ حَسِیْبِنَا


وَلَیْسَ لِنَسْبٍ ذُوْصَلَاحٍ مُعَیِّرُ



اور بندہ کو دل کا تقویٰ کافی ہے اور ایک صالح کو اس لئے سرزنش نہیں کر سکتے کہ اس کی نسب اعلیٰ نہیں



وَلٰکِنْ قَضٰی رَبُّ السَّمَا لِاَءِمَّۃٍ


لَھُمْ نَسَبٌ کَیْلَا یَہِیْجَ التَّنَفُّرُ



مگر خدا نے اماموں کے لئے چاہا کہ وہ ذونسب ہوں تاکہ لوگوں کو ان کی کمیء نسب کا تصور کر کے نفرت پیدا نہ ہو



وَمَنْ کَانَ ذَا نَسْبٍ کَرِیْمٍ وَلَمْ یَکُنْ


لَہُ حَسَبٌ فَھْوَ الدَّنِیُّ الْمُحَقَّرُ



اور جو شخص اچھی نسب رکھتا ہے مگر اس میں ذاتی صفات کچھ نہیں تو وہ کمینہ اور حقیر ہے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 184

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 184

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/184/mode/1up



وَلِلّٰہِ حَمْدٌ ثُمَّ حَمْدٌ فَاِنَّنَا


جَمَعْنَاھُمَا حَقًّا فَلِلّٰہِ نَشْکُرُ



اور خدا کو حمد ہے اور پھر حمد ہے کہ ہم نے اپنے اندر حسب اور نسب دونوں کو جمع کیا ہے پس ہم خدا کا شکر کرتے ہیں



کَذٰلِکَ سُنْنُ اﷲِ فِیْ أَ نْبِیَاءِہِ


جَرَتْ مِنْ قَدِ یْمِ الدَّ ھْرِ فَاخْشَوْا وَ اَبْصِرُوْا



اسی طرح خدا کی سنّت اس کے نبیوں میں ہے جو قدیم زمانہ سے جاری ہے۔ پس ڈرو اور دیکھو



وَاَمَّا الَّذِیْ مَاجَاءَ مِثْلَ أَءِمَّۃٍ


فَلَیْسَ لِذَالِکْ شَرْطُ نَسْبٍ فَاَبْشِرُوْا



مگر جو شخص اماموں میں سے نہیں ہے۔ اس کے لئے نسب کی ضرورت نہیں۔ پس خوشی کرو



وَمَاؔ جِءْتُ اِلَّا مِثْلَ مَطْرٍ وَّ دِیْمَۃٍ


دَرُوْرٍ وَّ اَرْوَیْتُ الْبِلَادَ وَاَعْمُرُ



اور میں مثل بارش کے آیا ہوں جو زور سے اور آہستگی سے برستی ہے۔ اور اس کا پانی جاری رہتا ہے اور میں نے شہروں کو سیراب کر دیا اور آباد کر رہا ہوں



وَکَمْ مِّنْ اُنَاسٍ بَایَعُوْنِیْ بِصِدْقِھِمْ


وَمَا خَالَفُوْا قَوْلِیْ وَمَا ھُمْ تَذَمَّرُُوْا



اور بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے مجھ سے بیعت کی۔ اور نہ انہوں نے میری بات کی مخالفت کی اور نہ وہ خبیث النفس ہو گئے



فَقَرَّبْتُ قُرْبَانًا یُّنَجِّیْ رِقَابَھُمْ


وَ یَعْلَمُ رَبِّیْ مَانَحَرْتُ وَاَنْحَرُ



پس میں نے ایسی قربانی کی جس سے ان کی گردنوں کو میں نے چھڑا دیا۔ اور میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے کیا قربانی کی اور کیا کر رہا ہوں



وَلِیْ عِزَّۃٌ فِیْ حَضْرَۃِ اﷲِ خَالِقِیْ


فَطُوْبٰی لِقَوْمٍ طَاوَعُوْنِیْ واٰثَرُوْا



اور مجھے جنابِ الٰہی میں‘ جو میرا خالق ہے‘ ایک عزّت ہے۔ پس خوشی ہو اس قوم کے لئے جنہوں نے میری اطاعت کی اور مجھے اختیار کیا



أَ تَی الْعِلْمُ بِالْمُتْقَدِّمِیْنَ وَبَعْدَھُمْ


تَلَافٰی جَمِیْعَ الْفَاءِتَاتِ مُؤَخَّرُ



علم متقدّمین کے ذریعہ سے آیا اور بعد ان کے جو کچھ‘ ان کے زمانوں میں رہ گیا تھا اس کے پیچھے آنے والے نے تلافی کی



وَمَا اَ نَا اِلَّا مِثْلَ مَالِ تِجَارَۃٍ


فَمَنْ رَدَّنِیْ کِبْرًا اُبِیْدُوْا وَ خُسِّرُوْا



اور میں ایک مال تجارت کے مانند ہوں۔ پس جن لوگوں نے مجھے ردّ کیا وہ تباہی اور خسارہ میں رہے



وَمَا ھَلَکَ الاَْشْرَارُ اِلَّا لِبُخْلِھِمْ


وَمَا فَھِمُوْا اَقْوَالَنَا وَتَنَمَّرُوْا



اور شریر لوگ تو محض اپنے بخل سے ہلاک ہوئے۔اور ہماری باتوں کو انہوں نے نہ سمجھا اور پلنگی ظاہر کی



قُلُوْبٌ تُضَاھِی اَجْمَۃً مَوْحُوْشَۃً


فَمِنْ شَکْلِ اِنْسٍ وَحْشُھَا تَتَنَفَّرُ



بعض دل ایسے ہیں کہُ اس بَن سے مشابہ ہیں جس میں جنگلی جانور رہتے ہیں۔ پس انسانوں کی شکل دیکھ کر اس کے وحشی متنفَّر ہوتے ہیں




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 185

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 185

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/185/mode/1up



کَبِیْرُأُنَاسٍ شَرُّھُمْ فِیْ زَمَانِنَا


وَاَعْقَلُھُمْ شَیْطَانُ قَوْمٍ وَاَمْکَرُ



بڑا بزرگ ہمارے زمانہ میں وہ ہے جو بڑا شریر ہے اور بڑا عقلمند وہ ہے جو تمام قوم میں سے ایک شیطان ہے اور سب سے بڑا مکر کرنے والا



فَمَنْ یَّتَّقِیْ مِنْہُمْ وَمَنْ کَانَ خَاءِفًا


اُقَلِّبُ طَرْفِیْ کُلَّ آنٍ وَّاَنْظُرُ



پس کون ان میں سے ڈرتا ہے اور کون خائف ہے۔ میں اپنی آنکھ ہر ایک طرف پھیر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں



وَمَنْ کَانَ فِیْھِمْ ذُوْصَلَاحٍ کَنَادِرٍ


فَکَانَ غَرِیْبًا بَیْنَھُمْ لَا یُوَقَّرُ



اور جو شخص ان میں کچھ صلاحیت رکھتا ہو گا۔ پس وہ ان میں ایک غریب ہو گا اس کی کوئی عزّت نہیں ہوتی



وَ ؔ جَاءَ کَرَھْطٍ حَوْلَھُمْ عَامَۃُ الْوَرٰی


شَطَاءِبُ شَتّٰی مِثْلَ عُمْیٍ فَاَنْکَرُوْا



اور عام لوگ ایک گروہ کی طرح ان کے پاس آ گئے۔ متفرق گروہ جو اندھوں کی طرح تھے۔ پس انکار کیا



اَنَاخُوْا بِوَادٍ مَا رَأَی وَجْہَ خُضْرَۃٍ


وَ ھَلْ عِنْدَ اَرْضٍ جَدْبَۃٍ مَّایُخَضِّرُ



ایسے جنگل میں فروکش ہوئے جس میں سبزی کا نام و نشان نہ تھا۔ اور کیا زمینِ بے نبات میں کوئی سبزہ پیدا ہو سکتا ہے؟



فَاَبْکِیْ عَلٰی تِلْکَ الثَّلٰثَۃِ بَعْدَھُمْ


عَلٰی زُمْرَۃٍ یَقْفُوْنَہُمْ اَ تَحَسَّرُ



پس میں ان تینوں یعنی ثناء اﷲ اور مہر علی اور علی حائری پر روتا ہوں۔ اور نیز اس گروہ پر‘ جو ان کے پیرو ہیں‘ حسرت کرتا ہوں



وَمَا اِنْ اَرٰی فِیْھِمْ مَّخَافَۃَ رَبِّہِمْ


شُعُوْبُ لِءَامٍ بِالْمَلَاھِیْ تَمَوَّرُوْا



اور میں ان میں ان کے ربّ کا کچھ خوف نہیں دیکھتا ۔ بدبخت گروہ لہو و لعب کے ساتھ ناز کر رہے ہیں



وَمَاقُمْتُ فِی ھٰذَا الْمَقَامِ بِمُنْیَتِیْ


وَیَعْلَمُ رَبِّیْ سِرَّ قَلْبِیْ وَیَشْعُرُ



اور مَیں اس مقام میں اپنی خواہش سے کھڑا نہیں ہوا۔ اور میرا خدا میرے دل کے بھید کو جانتا ہے



وَکُنْتُ امْرَءً ا اَبْغِیْ الْخُمُوْلَ مِنَ الصِّبَا


مَتٰی یَأْتِنِیْ مِنْ زَاءِرِیْنَ اُصَعِّرُ



اور میں ایک آدمی تھا کہ بچپن سے گوشہ گزینی کو دوست رکھتا تھا۔ جب کوئی ملنے والا میرے پاس آتا تو میں کنارہ کش ہو جاتا



فَاَخْرَجَنِیْ مِنْ حُجْرَتِیْ حُکْمُ مَالِکِیْ


فَقُمْتُ وَلَمْ اُعْرِضْ وَلَمْ اَ تَعَذَّرُ



پس مجھے حجرہ میں سے میرے مالک کے حکم نے نکالا۔ پس میں اٹھا اور نہ میں نے اعراض کیا اور نہ تاخیر کی



وَاِنِّیْ مِنَ الْمَوْلَی الْکَرِیْمِ وَاِنَّہُ


یُحَافِظُنِیْ فِیْ کُلِّ دَشْتٍ وَیَخْفِرُ



اور میں خدا کی طرف سے ہوں اور خدا ہر ایک جنگل میں میری محافظت اور رہنمائی کرتا ہے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 186

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 186

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/186/mode/1up



فَکِیْدُوْاجَمِیْعَ الْکَیْدِ یَااَیُّہَا الْعِدَا


فَیَعْصِمُنِیْ رَبِّیْ وَھٰذَا مُقَدَّرُ



پس ہر ایک قسم کا مکر مجھ سے کرو اے دشمنو! پس میرا خدا مجھے بچائے گا اور یہی مقدّر ہے



مَضٰی وَقْتُ ضَرْبِ الْمُرْھِفَاتِ وَ دَفْوُھَا


وَاِنَّا بِبُرْھَانٍ مِّنَ اﷲِ نَنْحَرُ



وہ وقت گذر گیا جب کہ تلواریں چلائی جاتی تھیں۔ اور ہم خدا کی برہان سے منکروں کو ذبح کرتے ہیں



وَلِلّٰہِ سُلْطَانٌ وَّحُکْمٌ وَّشَوْکَۃٌ


وَنَحْنُ کُمَاۃ ٌ بِالْاِشَارَۃِ نَحْضُرُ



اور خدا کے لئے تسلّط اور حکم اور شوکت ہے۔ اور ہم وہ سوار ہیں جو اشارہ پر حاضر ہوتے ہیں



اِذَاؔ مَا رَأَیْنَا حَاءِرًا اَجْھَلَ الْوَرَی


طَوَیْنَا کِتَابَ الْبَحْثِ وَالآیُ اَظْھَرُ



اور جب میں نے علی حائری جو سب سے جاہل تر ہے* دیکھانشان جو ہم پیش کرتے ہیں وہ ظاہر ہیں ‘پھر بحث کی کیا حاجت؟



وَمَا کُنْتُ بِالصَّمْتِ الْمُخَجِّلِ رَاضِیاً


وَلٰکِنْ رَّأَیْتُ الْقَوْمَ لَمْ یَتَبَصَّرُ



اور میں شرمندہ کرنے والی خاموشی پر راضی نہ تھا۔ مگر میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ کچھ سوچتے نہیں



اُخَاطِبُ جَھْرًا لَااَقُوْلُ کَخَافِتٍ


فَاِنِّیْ مِنَ الرَّحْمٰنِ اُوْحٰی وَاُخْبَرُ



میں کھلے کھلے مخاطب کرتا ہوں نہ پوشیدہ قول سے کیونکہ میں خدا کی طرف سے وحی پاتا اور خبر دیا جاتا ہوں



اَیَا عَابِدَ الْحَسْنَیْنِ اِیَّاکَ وَاللَّظٰی


وَمَالَکَ تَخْتَارُ السَّعِیْرَ وَ تَشْعُرُ



اے حُسین اور حَسن کی عبادت کرنے والے! دوزخ کی آگ سے پرہیز کر۔ تجھے کیا ہو گیا کہ دوزخ کو اختیار کرتا ہے اور جانتا ہے



وَاَنْتَ امْرَءٌ مِّنْ اَھْلِ سَبٍّ وَّاِنَّنَا


رِجَالٌ لِاِظْھَارِ الْحَقَاءِقِ نُؤْمَرُ



اور تُو وہ آدمی ہے کہ گالیاں دیتا ہے اور ہم لوگ وہ آدمی ہیں جو حقیقتوں کے ظاہر کرنے کے لئے حکم دیئے جاتے ہیں



سَبَبْتَ وَاِنَّ السَّبَّ مِنْ سُنْنِ دِیْنِکُمْ


لِکُلِّ أُنَاسٍ سُنَّۃٌ لَّا تُغَیَّرُ



تو نے گا لیاں دیں اور گالیاں دینا تمہارا طریق ہے اور ہر ایک آدمی کے لئے ایک طریق ہے جو نہیں بدلتا



تَرٰی سُُقْمَ نَفْسِیْ مَا تَرٰی آيَ رَبِّنَا


کَاَنَّکَ غُوْلٌ فَاقِدُ الْعَیْنِ اَعْوَرُ



تُو میرے نفس کا عیب دیکھتا ہے اور خدا کے نشان نہیں دیکھتا۔ گویا تو ایک دیو ہے‘ آنکھ کھوئی والا‘ یک چشم


* ترجمہ میں کچھ الفاظ سہو کاتب سے رہ گئے ہیں۔ اصل میں ترجمہ یوں ہو گا۔ ’’ اور جب میں نے علی حائری کو

جو سب سے جاہل تر ہے کو دیکھا تو (کہا کہ)۔ ‘‘ (شمس ؔ )




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 187

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 187

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/187/mode/1up



وَمَا اَفْلَحَ الْعُمْرَانِ مِنْ ضَرْبِ لَعْنِکُمْ


فَمِثْلِیْ لِھٰذَا اللَّعْنِ اَحْرٰ ی وَاَجْدَرُ



اور حضرت ابوبکر اور عمر رضی اﷲ عنہما نے تمہارے سےَ مخلصی نہیں پائی ۔ پس میرے جیسا آدمی اس *** کے لئے لائق تر ہے



رُوَیْدَکَ دَأْبَ اللَّعْنِ ھٰذَا وَصِیَّتِیْ


وَ بَعْضُ الْوَصَایَا مِنْ مَّنَایَا تُذَکَّرُ



*** کرنے کی عادت کو چھوڑ دے۔ یہ میری وصیّت ہے۔ اور بعض وصیّتیں موتوں کے وقت یاد آئیں گی



وَیَأْتِیْ زَمَانٌ یَسْتَبِیْنُ خِفَاءُ نَا


فَمَالَکَ لَا تَخْشٰی وَ لَا تَتَبَصَّرُ



اور وہ زمانہ آتا ہے کہ ہماری پوشیدگی ظاہر ہو جائے گی۔ پس تجھے کیا ہو گیا کہ نہ تو ڈرتا ہے اور نہ حق کو پہچانتا ہے



وَلَا تَذْکُرُوا الْاَخْبَارَ عِنْدِیْ فَاِنَّہَا


کَجَلْدَۃِ بَیْتِ الْعَنْکَبُوْتِ تُکَسَّرُ



اورمیرے پاس محض خبروں کا کچھ ذکر مت کرو کہ وہ عنکبوت کے گھر کی طرح توڑی جا سکتی ہیں



وَؔ اَنّٰی لِاَخْبَارٍ مُّقَامٌ وَّمَوْقِفٌ


لَدَیْ شَأْنِ فُرْقَانٍ عَظِیْمٍ مُعَزَّرُ



اور خبریں بمقابلہ اس کتاب کے کہاں ٹھہر سکتی ہیں جو خدا کا بزرگ کلام قرآن شریف ہے



فلَاَ تَقْفُ اَمْرًالَسْتَ تَعْرِفُ سِرَّہُ


فَتُسْأَلُ بَعْدَ الْمَوْتِ یَامُتَھَوِّرُ



پس ایسے امر کی پیروی مت کر جس کا بھید تجھے معلوم نہیں۔ پس موت کے بعد اے دلیری کرنے والے ! تو ضرور پوچھا جائے گا



وَلَسْتُ بِتَوَّاقٍ اِلٰی مَجْمَعِ الْعِدَا


وَلٰکِنْ مَتٰی یَسْتَحْضِرُ الْقَوْمُ اَحْضُرَُ



اور میں خواہ نخواہ دشمنوں کے مجمع کی طرف توج ۂ شوق نہیں رکھتا ۔ مگر جب مخالف لوگ مجھے بلاتے ہیں تو میں حاضر ہو جاتا ہوں



وَلِلّٰہِ فِیْ اَمْرِیْ عَجَاءِبُ لُطْفِہِ


اُشَاھِدُ ھَا فِیْ کُلِّ وَقْتٍ وَّاَنْظُرُ



اور خدا کو میرے کام میں اپنی مہربانی کے عجائبات ہیں۔ میں ان کو ہر ایک بات میں مشاہدہ کرتا ہوں



عَجِبْتُ لِخَتْمِ اﷲِ کَیْفَ اَضَلَّکُمْ


فَمَا اِنْ اَرٰی فِیْکُمْ رَشِیْدًا یُّفَکِّرُ



میں خدا کی ُ مہر پر تعجب کرتا ہوں کیوں کر تم کو گمراہ کر دیا۔ پس میں تم میں کوئی ایسا رشید نہیں دیکھتا جو فکر کرتا ہو



وَھَلْ مِنْ دَلِیْلٍ عِنْدَکُمْ تُؤْثِرُوْنَہُ


فَاِنْ کَانَ فَأْ تُوْنَا فَاِنَّا نُفَکِّرُ



اور کیا کوئی دلیل تمہارے پاس ہے جس کو تم نے اختیار کر رکھا ہے؟ ۔ پس اگر ہو تو پیش کرو کہ ہم اس میں سوچیں گے



سَیَجْزِی الْمُھَیْمِنْ کَاذِباً تَارِکَ الْھُدٰی


کِلَانَا اَمَامَ اﷲِ لَانَتَسَتَّرُ



خدا تعالیٰ جھوٹے کو سزا دے گا جو ہدایت کو چھوڑتا ہے۔ ہم دونوں گروہ خدا کے سامنے ہیں جو اس سے پوشیدہ نہیں ہو سکتے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 188

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 188

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/188/mode/1up



اَ تَعْصُوْنَ بَغْیًا مَّنْ اَتٰی مِنْ مَّلِیْکِکُمْ


وَ قَدْ تَمَّتِ الْاَخْبَارُ وَالْآیُ تَبْھَرُ



کیا تم محض بغاوت کے رُو سے اس شخص کی نافرمانی کرتے ہو جو تمہارے بادشاہ کی طرف سے آیا ہے اور خبریں پوری ہو گئیں اور نشان چمک اٹھے



وَقَدْ قِیْلَ مِنْکُمْ یَأْ تِیَنَّ اِمَامُکُمْ


وَذٰلِکَ فِی الْقُرْآنِ نَبْأٌ مُّکَرَّرُ



اور تم سن چکے ہو کہ تمہارا امام تم میں سے ہی آئے گا۔ اور یہ خبر تو قرآن میں کئی مرتبہ آ چکی ہے



اَتَانِیْ کِتَابٌ مِّنْ کَذُوْبٍ یُّزَوِّرُ


کِتَابٌ خَبِیْثٌ کَالْعَقَاِرِبِ یَأْبُرُ



مجھے ایک کتاب کذّاب کی طرف سے پہنچی ہے۔ وہ خبیث کتاب اور بچھو کی طرح نیش زن



فَقُلْتُ لَکِ الْوَیْلَاتُ یَااَرْضَ جَوْلَرَ


لُعِنْتِ بِمَلْعُُوٍْ ن فَاَنْتِ تُدَمَّرُ



پس میں نے کہا کہ اے گولرہ کی زمین! تجھ پر *** تو ملعون کے سبب سے ملعون ہو گئی۔ پس تو قیامت کو ہلاکت میں پڑے گی



تَکَلَّمَ ھٰذَا النِّکْسُ کَالزَّمْعِ شَاتِمًا


وَکُلُّ امْرِءٍ عِنْدَ التَّخَاصُمِ یُسْبَرُ



اس فرومایہ نے کمینہ لوگوں کی طرح گالی کے ساتھ بات کی ہے۔ اور ہر ایک آدمی خصومت کے وقت آزمایا جاتا ہے



اَ تَزْعَمُ یَاشَیْخَ الضَّلَالَۃِ اَنَّنِیْ


تَقَوَّلْتُ فَاعْلَمْ اَنَّ ذَیْلِیْ مُطَھَّرُ



کیا تو اے گمراہی کے شیخ! یہ گمان کرتا ہے کہ میں نے یہ جھوٹ بنا لیا ہے؟ پس جان کہ میرا دامن جھوٹ سے پاک ہے



اَ تُنْکِرُ حَقًّا جَآءَ مِنْ خَالِقِ السَّمَا


سَیُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمَانُ مَا أَنْتَ تُنْکِرُ



کیا تو اس حق سے انکار کرتا ہے جو آسمان سے آیا۔ خداعنقریب تیرے پر ظاہر کرے گا جس چیز کا تو نے انکار کیا ہے



اِذَا مَارَأَیْنَا اَنَّ قَلْبَکَ قَدْ غَسَا


فَفَاضَتْ دُمُوعُ الْعَیْنِ وَالْقَلْبُ یَضْجَرُ



جب ہم نے دیکھا کہ تیرا دل سیاہ ہو گیا۔ تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور دل بے قرار تھا



اَخَذْتُمْ طَرِیْقَ الشِّرْکِ مَرْکَزَ دِیْنِکُمْ


اَھٰذَا ھُوَ الْاِسْلَامُ یَامُتَکَبِّرُ



تم نے شرک کے طریق کو اپنے دین کا مرکز بنا لیا۔ کیا یہی اسلام ہے؟ اے متکبّر!



وَمَا اَنَا اِلَّا نَاءِبُ اﷲِ فِی الْوَرٰ ی


فَفِرُّوْا اِلَيَّ و جَانِبُوا الْبَغْیَ وَاحْذَرُوْا



اور میں مخلوق کے لئے خدا کا نائب ہوں۔ پس میری طرف بھاگو اور نافرمانی چھوڑ دو اور ڈرو



وَاِنَّ قَضَاءَ اﷲِ یَأْتِیْ مِنَ السَّمَا


وَمَا کَانَ اَنْ یُّطْوٰی وَیُلْغٰی وَیُحْجَرُُ



اور خدا کی تقدیر آسمان سے آئے گی۔ اور ممکن نہیں ہو گا کہ موقوف رکھی جائے گی اور باطل کی جائے گی اور روک دی جائے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 189

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 189

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/189/mode/1up



نَطَقْتَ بِکِذْبٍ اَیُّہَا الْغُوْلُ شَقْوَۃً


خَفِ اﷲَ یَاصَیْدَ الرَّدٰ ی کَیْفَ تَجْسُرُ



اے دیو! تو نے بدبختی کی وجہ سے جھوٹ بولا۔ اے موت کے شکار ! خدا سے ڈر کیوں دلیری کرتا ہے



اَ تَقْصِدُ عِرْضِیْ بِالْاَکَاذِیْبِ وَالْجَفَا


وَاَنْتَ مِنَ الدَّیَّانِ لَا تَتَسَتَّرُ



کیا جھوٹی باتوں کے ساتھ میری آبرو کا قصد کرتا ہے؟ اور تو سزا دینے والے سے پوشیدہ نہیں ہے



وَاِنْ تَضْرِبَن علی الصَّلَاتِ زُجَاجَۃً


فَلَا الصَّخْرُ بَلْ اِنَّ الزُّجَاجَۃَ تُکْسَرُ



اور اگر تو شیشہ کو پتھر پر مارے تو پتھر نہیں بلکہ شیشہ ہی ٹوٹے گا



تَعَالٰی مَقَامِیْ فَاخْتَفٰی مِنْ عُیُونِکُمْ


وَکُلُّ رَفِیْعٍ لَا مَحَالَۃَ یُسْتَرُ



میرا مقام بلند تھا پس تمہاری آنکھوں سے پوشیدہ ہو گیا۔ اور ہر ایک دُور اور بلند بِالضرور پوشیدہ ہو جاتا ہے



وَ ؔ فِیْ حِزْبِکُمْ اِنَّا نَرٰی بَعْضَ ٰایِنَا


فَاِنَّا دَعَوْنَا حِزْبَکُمْ فَتَأَخَّرُوْا



ہم نے تمہارے گروہ میں بعض نشان اپنے پائے۔ کیونکہ ہم نے تمہارے گروہ کو بلایا اور وہ پیچھے ہٹ گئے



تَبَصَّرْ خَصِیْمِیْ ھَلْ تَرٰی مِنْ مَّطَاعِنٍ


عَلَیَّّ خُصُوْصًا غَیْرَ قَوْمٍ تُطَھِّرُ



اے میرے دشمن! تو سوچ لے کہ کیا ایسے بھی اعتراض ہیں جو خاص مجھ پر وارد ہوتے ہیں۔ اور دو سرے نبیوں پر وارد نہیں ہوئے جن کو تو پاک سمجھتا ہے



وَاَرْسَلَنِیْ رَبِّیْ بِآیَاتِ فَضْلِہِ


لِاَعْمُرَ مَاھَدَّ اللِّءَامُ وَدَعْثَرُوْا



اور خدا نے اپنے نشانوں کے ساتھ مجھے بھیجاہے تاکہ میں اس عمارت کو بناؤں جو لئیموں نے اس کو توڑا اور ویران کیا



وَفِیْ الدِّیْنِ اَسْرَارٌ وَّسُبْلٌ خَفِیَّۃٌ


وَیُظْھِرُھَا رَبِّیْ لِعَبْدٍ یُخَیِّرُ



اور دین میں بھید ہیں اور پوشیدہ راہیں ہیں اور میرا ربّ وہ بھید اس بندہ پر ظاہر کرتا ہے جس کو چن لیتا ہے



وَکَمْ مِّنْ حَقَاءِقْ لَا یُرٰ ی کَیْفَ شَبْحُھَا


کَنَجْمٍ بَعِیْدٍ نُوْرُھَا یَتَسَتَّرُ



اور بہت سی حقیقتیں ہیں جو ان کی صورت نظر نہیں آتی۔ اس ستارہ کی طرح جو دور تر ہے۔ بباعث دوری ان حقائق کا نور چھپ جاتا ہے



فَیَأْتِیْ مِنَ اﷲِ الْعَلِیْمِ مُعَلِّمٌ


وَیَہْدِیْ اِلٰی اَسْرَارِھَا وَیُفَسِّرُ



پس خدا کی طرف سے ایک معلّم آتا ہے۔ اور اس کے بھید ظاہر کرتا ہے اور بیان فرماتا ہے



وَ اِنْ کُنْتَ قَدْ آلَیْتَ اَنَّکَ تُنْکِرُ


فَکِدِنِیْ لِمَا زَوَّرْتَ فَالْحَقُّ یَظْھَرُ



اور اگر تو نے قسم کھا لی ہے کہ تو انکار کرتا رہے گا۔ پس تو جس طرح چاہے اپنی دروغ بازی سے فریب کر اور حق ظاہر ہو کر رہے گا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 190

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 190

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/190/mode/1up



وَسَوْفَ تَرٰ ی اَنِّیْ صَدُوْقٌ مُؤَیَّدٌ


وَلَسْتُ بِفَضْلِ اﷲِ مَااَنْتَ تَسْطُرُ



اور عنقریب تُو دیکھے گا کہ میں سچا ہوں اور مدد کیا گیاہوں۔ اور میں خدا کے فضل سے ایسا نہیں جیسا کہ تو لکھتا ہے



وَیُبْدِیْ لَکَ الرَّحْمَانُ اَمْرِیْ فَیَنْجَلِیْ


اَ اِنِّیْ ظَلَامٌ اَوْ مِنَ اﷲِ نَیِّرُ



اور خدا میری حقیقت تیرے پر ظاہر کر ے گا پس کھل جائے گا کہ کیا میں تاریکی ہوں یا نور ہوں



اُرِیْکَ وَ غَدَّارَ الزَّمَانِ اَبَا الْوَفَا


یَدَاﷲِ فَالضَّوْضَاۃُ یُخْفٰی وَیُسْتَرُ



میں تجھے اور غدّارِ زمانہ ثناء اﷲ کو خدا کا ہاتھ دکھلاؤں گا پس شوروفریاد سب موقوف ہو جائے گی



وَیَعْلَمُ رَبِّیْ مَنْ تَصَلَّفَ وَافْتَرٰی


وَمَنْ ھُوَ عِنْدَاﷲِ بَرٌّمُّطَھَّرُ



اور خدا میرا جانتا ہے کہ شریر اور مفتری کون ہے اور کون وہ ہے جو اس کے نزدیک نیک اور پاک ہے



اَ تُطْفِئُ نُوْرًا قَدْ اُرِیْدَ ظُھُوْرُہُ


لَکَ الْبُھْرُ فِی الدَّارَیْنِ وَ النُّوْرُ یَبْھَرُ



کیا تو اس نور کو بجھانا چاہتا ہے جس کا ظاہر کرنا ارادہ کیا گیاہے۔ تجھے دونوں جہانوں میں بدبختی ہے اور نور ظاہر ہو کر رہے گا



اَ لَا اِنَّ وَقْتَ الدَّجْلِ وَالزُّوْرِقَدْ مَضٰی


وَجَاءَ زَمََانٌ یُحْرِقُ الْکِذْْبَ فَاصْبِرُوْا



خبر دار ہو۔ جھوٹ اور فریب کا وقت گذر گیا۔ اور وہ زمانہ آ گیا جو جھوٹے کو جلا دے گا پس صبر کر



وَاِنْ کُنْتَ قَدْ جَاوَزْتَ حَدَّ تَوَرُّعٍ


فَکَفِّرْ وَ کَذِّبْ اَ یُّہَا الْمُتَھَوِّرُ



اور اگر تو پرہیزگاری کی حد سے آگے گذر گیا ہے۔ پس مجھے کافر کہہ اور تکذیب کر۔ اے دلیر آدمی!



اَیَا اَ یُّہَا الْمُوْذِیْ خَفِ الْقَادِرَ الَّذِیْ


یَشُجُّ رُؤُوْسَ الْمُعْتَدِیْنَ وَیَقْھَرُ



اے دکھ دینے والے! اس قادر خدا سے خوف کر۔ جو تجاوز کرنے والوں کا سر توڑتا ہے اور ان پر قہر نازل کرتا ہے



اِذَامَا تَلَظّٰی قَھْرُہُ یُہْلِکُ الْوَرٰ ی


فَلَیْسَ بِوَاقٍ بَعْدَہُ یَا مُزَوِّرُ



جب اس کا قہر بھڑکتا ہے تو لوگوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد‘ اے مزوّر! کوئی بچانے والا نہیں ہوتا



وَلَسْتَ تُرَاعِیْ نَہْجَ رِفْقٍ وَلِیْنَۃٍ


کَدَأْبِ ثَنَاءِ اﷲِ تُؤْذِیْ وَتَأْبُرُ



اور تو نرمی کی راہ کی رعایت نہیں رکھتا۔ اور مولوی ثناء اﷲ کی طرح نیش زنی کرتا ہے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 191

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 191

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/191/mode/1up



اَ لَا اِنَّ حُسْنَ النَّاسِ فِیْ حُسْنِ خُلْقِھِمْ


وَمَنْ یَّقْصِدِ التَّحْقِیْرَ خُبْثًا یُحَقَّرُ



خبردار ہو کہ لوگوں کی خوبی ان کے خُلق کی خوبی میں ہے۔ اور جو شخص شرارت سے تحقیر کرتا ہے اس کی بھی تحقیر کی جاتی ہے



أَ آخَیْتَ ذِءْبًا عَایِثًا اَوْ اَبَاالْوَفَا


أَ وَافَیْتَ مُدًّا اَوْ رَأَیْتَ امْرَتْسَرُ



کیا تو نے کسی بھیڑیئے سے دوستی لگائی یا مولوی ثناء اﷲ سے۔ کیا تُو نے مُدّ میں اپنا قدم ڈالا یا امرت سر میں؟



اَلَا اِنَّ اَھْلَ السَّبِّ یُدْرَی بِلَطْمَۃٍ


وَ مُجْرِمُ لَطْمٍ بِالْھَرَاوٰ ی یُکَسَّرُ



خبردار ہو کہ گالی دینے والا طمانچہ سے متنبّہ کیا جاتا ہے۔ اور جو طمانچہ مارنے کا مجرم ہو اُس کو سونٹوں کے ساتھ کوٹا کرتے ہیں



فَاِیَّاکَ وَالتَّوْھِیْنَ وَالسَّبَّ وَالْقَلٰی


اذَامَارَمَیْتَ الْحَجْرَ بِالْحَجْرِ تُنْذَرُ



پس تو توہین اور گالی اور دشمنی سے پرہیز کر۔ جب تو نے پتھر چلایا تو پتھر سے ہی ڈرایا جائے گا



وَاَعْلَمُ اَنَّ اللَّعْنَ وَالسَّبَّ دَأْبُکُمْ


وَمَنْ اَکْثَرَ التَّکْفِیْرَ یَوْمًا سَیُکْفَرُ



اور میں جانتا ہوں کہ *** بازی اور گالی تمہاری عادت ہے اور جو شخص بار بار لوگوں کو کافر کہے گا ایک دن وہ بھی کافر ٹھہرا یاجائے گا



وَاِنَّاؔ وَاِیَّاکُمْ اَمَامَ مَلِیْکِنَا


فَیَقْضِیْ قَضَایَانَا کَمَا ھُوَ یَنْظُرُ



اور ہم اور تم خدا کی آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پس وہ ہمارے مقدمہ کو‘ جیسا کہ دیکھ رہا ہے‘ فیصلہ کردے گا



فَاِنْ کُنْتُ کَذَّابًا کَمَا اَنْتَ تَزْعَمُ


فَتُعْلٰی وَاِنِّیْ فِی الْاَنَامِ اُحَقَّرُ



پس اگر میں جھوٹا ہوں جیسا کہ تو گمان کرتا ہے۔ پس تو اونچا کیا جائے گا ا ور میں لوگوں میں حقیر کیا جاؤں گا



وَاِنْ کُنْتُ مِنْ قَوْمٍ اَتَوْامِنْ مَّلِیْکِھِمْ


فَتُجْزٰی جَزَاءَ الْمُفْسِدِیْنَ وَتُبْتَرُ



اور اگر مَیں اُن لوگوں میں سے ہوں جو اپنے بادشاہ کی طرف سے آئے۔ پس تجھے وہ سزا ملے گی جو مفسدوں کو ملا کرتی ہے



واَقْسَمْتُ بِاﷲِ الَّذِیْ جَلَّ شَأْنُہُ


سَیُکْرِمُنِیْ رَبِّیْ وَشَأْنِیْ یُکَبَّرُ



اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی شان بزرگ ہے کہ عنقریب خدا میرا مجھے بزرگی دے گا اور میری شان بلند کی جائے گی



شَعَرْنَا مَاٰ لَ الْمُفْسِدِیْنَ وَمَنْ یَّعِشْ


اِلٰی بُرْھَۃٍ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ یَشْعُرُ



ہمیں انجام کار مفسدوں کا معلوم ہوگیا ہے اور جو شخص کچھ مدت تک زندہ رہے گا اسے بھی معلوم ہو جائے گا



وَفِی الْاَرْضِ اَحْنَاشٌ وَسَبْعٌ وَشَرُّھُمْ


رِجَالٌ اَھَانُوْنِیْ وَسَبُّوْا وَ کَفَّرُوْا



اور زمین میں سانپ بھی ہیں اور درندے بھی مگر سب سے بدتروہ لوگ ہیں جو میری توہین کرتے اور گالیاں دیتے اور کافر کہتے ہیں




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 192

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 192

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/192/mode/1up



مَنَعْنَا مِنَ الْکِذْبِ الْکَثِیْرِ فَکَا ثَرُوْا


وَشَرُّخِِصَالِ الْمَرْءِ کِذْبٌ یُّکَرِّرُ



ہم نے بہت جھوٹ سے ان کو منع کیا پس انہوں نے جھوٹ کثرت کے ساتھ بولنا شروع کیا۔ اور انسان کی بدترین خصلت وہ جھوٹ ہے جو بار بار بیان کرتا ہے



کَتَبْتَ فَوَیْلٌ لِّلْاَنَامِلِ وَالْقَلْمِ


وَتَبَّتْ یَدٌ تُغْوِی الْاَنَامَ وَتَہْذُرُ



تو نے اپنی کتاب لکھی پس ان انگلیوں پر واویلا ہے۔ اور ہلاک ہو گیا وہ ہاتھ جو لوگوں کو گمراہ کرتا اور بکواس کرتا ہے



وَکَیْفَ الْفَرَاغَۃ لِلرِّسَالَۃِ حُصِّلَتْ


اَلَمْ یَکُ طَنْبُوْرٌ وَّمَا اَنْتَ تَزْمُرُ



اور کیونکر رسالہ تالیف کرنے کے لئے فراغت پیدا ہو گئی۔ کیا طنبور اور دوسرے مزامیر تیرے پاس موجود نہ تھے؟



اُوَانِسُ رِجْزَالْکِذْبِ فِیْھَا کَأَنَّہَا


کَنِیْفٌ وَقَدْ عَایَنْتُ وَالْعَیْنُ تَقْذُرُ



میں جھوٹ کی پلیدی اس رسالہ میں دیکھتا ہوں گویا وہ پاخانہ ہے اور میں نے دیکھا اور آنکھوں نے کراہت کی



زَمَانٌ یَسُحُّ الشَّرَّ عَنْ کُلِّ فِیْقَۃٍ


وَزَلْزَلَۃٌ اَرْدَی الْاُنَاسَ وَصَرْصَرُ



یہ وہ زمانہ ہے کہ وقتاً فوقتاً شر کے بادل سے پانی نکال رہا ہے اور ایک زلزلہ ہے جس نے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور ہوا سخت اور تیز چل رہی ہے



فَفِیْؔ ھٰذِہِ الْاَیَّاِم یُطْرَی ابْنُ مَرْیَمٍ


مَسِیْحٌ اَضَلَّ بْہِ النَّصَارٰ ی وَ خَسَّرُوْا



پس ان دنوں وہ مسیح تعریف کیا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ نصاریٰ نے مخلوق کو گمراہ کیا اور ہلاک کیا



کَذٰلِکَ فِی الْاِسْلَامِ عَاثَ تَشَیُّعٌ


اَبَادُوْا کَثِیْرًا کَاللُّصُوْصِ وَدَمَّرُوْا



اسی طرح اسلام میں شیعہ مذہب پھیل گیا ہے۔ چوروں کی طرح بہتوں کو ہلاک کر چکے ہیں



نَرٰی شِرْکَھُمْ مِثْلَ النَّصَاریٰ مُخَوِّفًا


نَرَی الْجَاھِلِیْنَ تَشَیَّعُوْا وَ تَنَصَّرُوْا



ہم ان کے شرک کو نصاریٰ کی طرح خوفناک دیکھتے ہیں۔ ہم جاہلوں کو دیکھتے ہیں کہ شیعہ ہوتے جاتے ہیں اور نصرانی بھی



فَتُبْ وَاتَّقِ الْقَھَّارَ رَبَّکَ یَاعَلِیْ


وَاِنْ کُنْتَ قَدْ اَزْمَعْتَ حَرْبِیْ فَاَحْضُرُ



پس اے علی حائری! تو خدا سے ڈر اور توبہ کر۔ اور اگر تو نے میرے مقابلہ کا قصد کر لیا ہے تو میں حاضر ہوں



عَکَفْتُمْ عَلٰی قَبْرِ الْحُسَیِنْ کَمُشْرِکٍ


فَلَا ھُوَ نَجَّاکُمْ وَ لَا ھُوَ یَنْصُرُ



تم نے مشرکوں کی طرح حسین کی قبر کا اعتکاف کیا۔ پس وہ تمہیں چھڑانہ سکا اور نہ مدد کر سکا



اَ لَا رُبَّ یَوْمٍ کَانَ شَاھِدَ عِجْزِکُمْ


وَلَا سِیَّمَایَوْمٌ اِذَا الصَّحْبُ خُیِّرُوْا



خبردار ہو کہ تمہارے عاجز رہنے کے لئے کئی دن گواہ ہیں۔ خصوصاً وہ دن جب کہ ابوبکر اور عمر اور عثمان خلیفے ہو گئے اور حضرت علی رہ گئے




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 193

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 193

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/193/mode/1up



وَیَوْمَ فَعَلْتُمْ مَّافَعَلْتُمْ بِغَدْرِکُمْ


بِاَخِّ الْحُسَیْنِ وَ وُلْدِہِ اِذْ اُحْصِرُوْا



اور جب کہ تم نے وہ کام کیا جو کیا حسین کے بھائی مسلم کے ساتھ اور اس کی اولاد کے ساتھ اور وہ قید کئے گئے



فَظَلَّ الْاُسآرٰی یَلْعَنُوْنَ وَفَاءَکُمْ


فَرَرْتُمْ وَاَھْلُ الْبَیْتِ اُوْذُوْا وَدُمِّرُوْا



پس وہ قیدی یعنی اہلِ بیت تمہاری وفا پر *** کرتے تھے تم بھاگ گئے اور اہلِ بیت دُکھ دیئے گئے اور قتل کئے گئے



ھُنَاکَ تَرَاءَ ی عِجْزُ مَنْ تَحْسَبُوْنَہُ


شَفِیْعَ النَّبِیِّ مْحَمَّدٍ فَتَفَکَّرُوْا



تب عجز اور ضُعف اس شخص کا یعنی حسین کا ظاہر ہو گیا جس کو تم کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھی قیامت کو وہی شفاعت کرے گا



زَعَمْتُمْ حُسَیْنًا اَ نَّہُ سَیِّدُ الْوَرٰ ی


وَکُلُّ نَبِیٍّ مِّنْہُ یَنْجُوْ وَ یُغْفَرُ



تم گمان کرتے ہو کہ حسین تمام مخلوق کا سردار ہے۔ اور ہر ایک نبی اسی کی شفاعت سے نجات پائے گا اور بخشا جائے گا



فَاِنْ کَانَ ھٰذَا الشِّرْکُ فِی الدِّیْنِ جَاِئزًا


فَبِاللَّغْوِ رُسْلُ اﷲِ فِی النَّاسِ بُعْثِرُوْا



پس اگر یہ شرک دین میں جائز ہوتا تو تمام پیغمبر محض لغو طور پر مبعوث شمار کئے جاتے



وَ ؔ ذٰلِکَ بُہْتَانٌ وَّ تَوْھِیْنُ شَأْنِہِمْ


لَکَ الْوَیْلُ یَاغُوْلُ الْفَلَا کَیْفَ تَجْسُرُ



اور یہ بہتان ہے اور انبیاء علیہم السلام کی کسرِ شان ہے۔ اے جنگلوں کے غول ! تجھ پر ویل! یہ تو کیا دلیری کر رہا ہے



طَلَبْتُمْ فَلَاحًا مِّنْ قَتِیْلٍ بِخَیْبَۃٍ


فَخَیَّبَکُمْ رَبٌّ غَیُوْرٌ مُّتَبِّرُ



تم نے اس کشتہ سے نجات چاہی کہ جو نومیدی سے مر گیا پس تم کو خدانے جو غیور ہے ہر ایک مراد سے نومید کیا۔ وہ خدا جو ہلاک کرنے والا ہے



وَوَاﷲِ لَیْسَتْ فِیْہِ مِنِّیْ زِیَادَۃٌ


وَعِنْدِیْ شَھَادَاتٌ مِّنَ اﷲِ فَانْظُرُوْا



اور بخدا اُسے مجھ سے کچھ زیادت نہیں ۔ اور میرے پاس خدا کی گواہیاں ہیں۔ پس تم دیکھ لو



وَاِنِّیْ قَتِیْلُ الحِبِّ لٰکِنْ حُسَیْنُکَُمْ


قَتِیْلُ الْعِدَا فَالْفَرْقُ اَجْلٰی وَاَظْھَرُ



اور میں خدا کا کُشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کُشتہ ہے۔ پس فرقُ کھلاُ کھلا اور ظاہر ہے



حَدَرْنَا سَفَاءِنْکُمْ اِلٰی اَسْفَلِ الثَّرٰی


وَاَوْثَانَکُمْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ نُکَسِّرُ



ہم نے تمہاری کشتیاں تحت الثَّرٰی کی طرف اتار دیں۔ اور تمہارے ُ بت ہر وقت توڑ رہے ہیں



وَوَاﷲِ اِنَّ الدَّھْرَ فِی کُلِّ وَقْتِہِ


نَصِیْحٌ لَکُمْ فِیْ نُصْحِہِ لَا یُقَصِّرُ



اور بخدا کہ زمانہ اپنے ہر ایک وقت میں تمہیں نصیحت کر رہا ہے اور نصیحت میں کچھ قصور نہیں کرتا




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 194

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 194

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/194/mode/1up



تَنَاھَی لِسَانُ النَّاسِ عَنْ دَاْبِ فُحْشِھِمْ


وَ مِقْوَلُکُمْ یَجْرِیْ وَلَا یَتَحَسَّرُ



تمام لوگوں نے بد زبانی کی عادت چھوڑ دی۔ اور تمہاری زبان اب تک *** بازی پر جاری ہو رہی ہے اور نہیں تھکتی



اَشَعْتُمْ طَرِیْقَ اللَّعْنِ فِیْ اَھْلِ سُنَّۃٍ


فَاَجْرَوْا طَرِیْقَتْکُمْ فَاِنْ شِءْتُمُ انْظُرُوْا



تم نے *** بازی کے طریقوں کو اہل سنت والجماعت میں شائع کر دیا۔ پس انہوں نے بھی یہ طریق جاری کر دیا۔ اگر چاہو تو دیکھ لو



فَیَالَیْتَ مِتُّمْ قَبْلَ تِلْکَ الطَّرَاءِقِ


وَلَمْ یَکُ دِیْنُ اﷲِ مِنْکُمْ یُخَسَّرُ



پس کاش ! تم ان تمام طریقوں سے پہلے ہی مر جاتے۔ اور خدا کا دین تمہارے سبب سے تباہ نہ ہوتا



جَعَلْتُمْ حُسَیْنًا اَفْضَلَ الرُّسْلِ کُلِّھِمْ


وَجُزْتُمْ حُدُوْدَ الصِّدْقِ وَاﷲُ یَنْظُرُ



تم نے حسین کو تمام انبیاء سے افضل ٹھہرا دیا۔ اور سچائی کی حدوں سے آگے گذر گئے (اور اﷲ دیکھ* رہا ہے)



وَعِنْدَ النَّوَاءِبِ وَالْاَذٰی تَذْکُرُوْنَہُ


کَأَنَّ حُسَیْنًا رَبُّکُمْ یَا مُزَوِّرُ



اور مصیبتوں اور دکھوں کے وقت تم اسی کو یاد کرتے ہو گویا حسین تمہارا ربّ ہے۔ اے بدبخت جھوٹ بولنے والے!



وَخَرَّؔ تْ لَہُ اَحْبَارُکُمْ مِثْلَ سَاجِدٍ


فَمَا جُرْمُ قَوْمٍ اَشْرَکُوْا أَوْتَنَصَّرَُوْا



اور تمہارے علماء سجدہ کرنے والوں کی طرح اس کے آگے گر گئے۔ پس اب مشرکوں یا نصرانیوں کا کیا گناہ ہے



نَسِیْتُمْ جَلَالَ اﷲِ وَالْمَجْدَ وَالْعُلٰی


وَمَا وِرْدُکُمْ اِلَّا حُسَیْنٌ اَتُنْکِرُ



تم نے خدا کے جلال اور مَجد کو بھلا دیا۔ اور تمہارا وِرد صرف حسین ہے کیا تو انکار کرتا ہے؟



فَھٰذَا عَلَی الْاِسْلَامِ اِحْدَی الْمَصاءِبِ


لَدَیْ نَفَحَاتِ الْمِسْکِ قَذْرٌمُّقَنْطَرُ



پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے



وَاِنْ کَانَ ھٰذَا الشِّرْکُُ فِی الدِّیْنِ جَاءِزًا

ۃ

فَبِاللَّغْوِ رُسْلُ اﷲِ فِی النَّاسِ بُعْثِرُوْا



اوراگر شرک دین میں جائز ہے۔ پس خدا کے پیغمبر بیہودہ طور پر لوگوں میں بھیجے گئے



وَاَيُّ صَلَاحٍ سَاقَ جُنْدَ نَبِیِّنَا


اِلٰی حَرْبِ حِزْبِ الْمُشْرِکِیْنَ فَدَ مَّرُوْا



اور کیا غرض تھی کہ ہمارے نبیؐ کا لشکر مقابلہ کے لئے چلا گیا۔ مشرکوں کی لڑائی کے مقابل پر‘ پس ان کو ہلاک کیا


ۃ حاشیہ۔ اس شعر کا یہ مطلب ہے کہ جبکہ شرک جائز تھا اور کافروں نے صرف اپنے ان معبودوں کی حمایت میں جو حسین کی طرح غیراللہ تھے مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا جس پرآخر مسلمانوں کو اجازت ہوئی کہ اب تم بھی ان مشرکوں کا


* وَاللّٰہُ یَنْظُرُ کا ترجمہ ایڈیشن اول میں لکھنے سے رہ گیا ہے (ناشر)




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 195

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 195

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/195/mode/1up



وَشَنُّوْا عَلَیْھِمْ کُلَّ شَنٍّ بِمَوْطِنٍ


فَصَارَ مِنَ الْقَتْلٰی بَرَازٌ مُعَصْفَرُ



اور اپنی کوششوں سے خوب ان مشرکوں کو تباہ کیا لڑائی کے میدان میں۔ یہاں تک کہ اُن کُشتوں سے میدان جنگ سُرخ ہوگیا



وَکَمْ مِّنْ زِرَاعَاتٍ اُبِیْدَتْ وَمِثْلُھَا


بُیُوْتٌ مَبِیْتَاۃٌ وَّ طِرْفٌ مُّصَدِّرُ



اور بہت سی کھیتیاں تباہ کی گئیں اور گھر ویران کئے گئے اور وہ گھوڑے جو سب سے آگے نکل جاتے تھے مارے گئے



وَاُحْرِقَ مَالُ الْمُشْرِکِِیْنَ وَ حُصِّلَتْ


مَغَانِمُ شَتّٰی وَالْمَتَاعُ الْمُوَقَّرُ



اور مشرکوں کا گھر بار جلایا گیا۔ اور بہت سی غنیمتیں اور بہت متاع حاصل کئے گئے



بِبَدْرٍ وَّاُحْدٍ قَامَ نَوْعُ قِیَامَۃٍ


وَکَانَ الصَّحَابَۃْ کَالْاَفَانِیْنِ کُسِّرُوْا



بدر میں اور اُحد کی لڑائی میں ایک قیامت برپا تھی۔ اور اصحاب رضی اﷲ عنہم شاخوں کی طر ح توڑے گئے



ھَمَتْ مِثْلَ جَرْیَانِ الْعُُُیُوْنِ دِمَاءُ ھُمْ


تَسَوَّرَ دِعْصَ الرَّمْلِ مَا کَانَ یَقْطُرُ



اور چشموں کی طرح ان کے خون رواں ہو گئے۔ اور ان کا خون ریت کے تودہ کے اوپر چڑھ گیا



وَکَانَ بِحُرِّ الرَّمْلِ مَوْقِفُھُمْ فَھُمْ


عَلٰی رِسْلِھِمْ بَارَوْا عِدَاھُمْ وَجَمَّرُوْا



اور خالص ریت میں ان کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی پس انہوں نے بڑے وقار اور آرام سے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور لڑائی پر جمے رہے



وَ ؔ قَامُوْا لِبَذْلِ نْفُوْسِھِمْ مِنْ صِدْقِھِمْ


عَلٰی مَوْطِنٍ فِیْہِ الْمَنِیَّۃُ یَزْءَ رُ



اور اپنے صدق سے جان قربان کرنے کے لئے ایسی جگہ کھڑے ہو گئے۔ جس میں موت شیر کی طرح غرّاتی تھی



وَصُبَّتْ عَلٰی رَأْسِ النَّبِیِّ مُصِیْبَۃٌ


وَدَقُّوْا عَلَیْہِ مْنَ السُّیُوْفِ الْمِغْفَرُ



اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے سر پر ایک مصیبت نازل ہوئی۔ اور دشمنوں نے اس کے خَود کو تلواروں سے اس کے سر میں دھنسا دیا


مقابلہ کرو تو اس مقابلہ کی کیا ضرورت تھی بلکہ مشرکوں کو کہنا چاہئے تھا کہ تم اپنے شرک میں حق پر ہو اور کلمہ لا الہ الا اللہ غلط ہے اب تم مہربانی کر کے جنگ چھوڑ دو اور ہمیں دکھ نہ دو۔ ہم تم سے بمقابلہ تمہارے کوئی جنگ نہیں کرتے اور ہم مانتے ہیں کہ غیراللہ سے مرادیں مانگناسب سچ ہے اس پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 196

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 196

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/196/mode/1up



عَلٰی مِثْلِھَا لَمْ نَطَّلِعْ فِی مُکَلََّمٍ


وَاِنْ کَانَ عِیْسٰی اَوْ مِنَ الرُّسْلِ ٰاخَرُ



ان تمام مصیبتوں کے لئے دوسرے نبی میں نظیر نہیں پائی جاتی خواہ عیسیٰ ہو یا کوئی اور نبی ہو



فَفَکِّرْ أَھٰذَا کُلُّہُ کَانَ بَاطِلًا


وَمَا کَانَ شِرْکُ النَّاسِ شَیْءًا یُغَیَّرُ



پس سوچ کیا یہ تمام کارروائی باطل تھی؟ اور شرک کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کو بدلا یاجائے



اَ لَا لَاءِمِیْ عَارَ النِّسَاءِ اَبَالْوَفَا


اِ لَامَ کَفِتْیَانِ الْوَغٰی تَتَنَمَّرُ



اے عورتوں کے عار ثناء اﷲ ۔ کب تک مردانِ جنگ کی طرح پلنگی دکھلائے گا



أَرُدْتُّ الْھَوٰی مِنْ بَعْدِ سِتِّیْنَ حِجَّۃً؟


وَذٰلِکَ رَأْيٌ لَایَرَاہُ الْمُفَکِّرُ



کیا میں نے ساٹھ برس کی عمر کے بعد ہوَا پرستی کو اختیار کیا۔ یہ تو کسی عقلمند کی رائے نہ ہو گی



اَرَیْنَاکَ اٰیَاتٍ فَلَا عُذْرَ بَعْدَھَا


وَاِنْ خِلْتَھَا تُخْفٰی عَلَی النَّاسِ تُظْھَرُ



ہم تجھے( کئی)* ایک نشان دکھلاتے ہیں اور اس کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے گا اور اگرتو خیال کرے کہ وہ پوشیدہ رہے گا تو وہ ہرگز پوشیدہ نہ رہے گا



اَرَدْتَّ بِمُدٍّ ذِلَّتِیْ فَرَأََیْتَھَا


وَمَنْ لَّایُوَقِّرْ صَادِقًا لَّایُوَقَّرُ



تو نے مقامِ مُدّ میں میری ذلّت کو چاہا پس خود ذلّت اٹھائی۔ اور جو شخص صادق کی بے عزتی کرتا ہے وہ خود بے عزت ہو جائے گا



وَکَاْیِنْظ مِّنَ الٰایَاتِ قَدْ مَرَّ ذِکْرُھَا


رَأَیْتُمْ فَاَعْرَضْتُمْ وَقُلْتُمْ تُزَوِّرُ



اوربہت سے نشان ہیں جن کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔ تم نے وہ نشان دیکھے اور انکار کیا اور کہا کہ جھوٹ بولتا ہے



فَعَنَّ لَنَا بَعْدَ التَّجَارِبِ حِیْلَۃٌ


لِنَکْتُبَ اَشْعَارًا بِہَا الآيَ تَشْعُرُ



پس ہمارے لئے بہت تجارب کے بعد ایک حیلہ ظاہر ہوا تاہم یہ چند شعر لکھیں جن سے تمہیں یہ نشان معلوم ہو جائیں



فَھٰذَا ھُوَ التَّبْکِیْتُ مِنْ فَاطِرِالسَّمَا


وَھٰذَا ھُوَ الْاِفْحَامُ مِنِّیْ فَفَکِّرُوْا



پس اسی ذریعہ سے تمہارا منہ خدا بند کرنا چاہتا ہے۔ اور یہی میری طرف سے اتمامِ حجّت ہے


* سہوِ کاتب سے کئی کا لفظ چھوٹ گیا ہے۔ اصل ترجمہ یوں ہو گا۔ ’’ ہم تجھے کئی ایک نشان دکھلاتے ہیں۔‘‘ (شمس)

ظ یستعمل لفظ کَاْیِن کما یستعمل کَأَیِّن فی لسان العرب۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 197

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 197

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/197/mode/1up



اَثَاؔ رَتْ سَنَابِکْ طِرْفِنَا نَقْعَ فَوْجِکُمْ


فَھَلْ مِنْ کَمِيٍّ لِّلْوَغٰی یَتَبَخْتَرُ



ہمارے گھوڑوں کے سُموں نے تمہاری خاک اڑا دی۔ پس کیا تم میں کوئی سوار ہے جو میدان میں آوے؟



اَتُثْبِتُ عَظْمَۃْ آیَتِيْ بِتَقَاعُسٍ


وَقَدْ جِءْتَ مُدًّا سَاعِیًا لِّتُحَقِّرُ



کیااب تو پیچھے ہٹنے سے میرے نشان کو ثابت کر دے گا؟ ا ور تو مُدّ میں دوڑتا ہوا آیا تھا تا میری تحقیر کرے



فَاِنْ تُعْرِضَنَّ الْاٰنَ یَابْنَ تَصَلُّفٍ


فَھٰذَا عَلٰی بَطْنِ الْمُکَذِّبِ خَنْجَرُ



پس اگر اب تُو نے مقابلہ سے منہ پھیر لیا۔ پس یہ طَور تومکذّب کے پیٹ پر ایک تلوار ہے



وَاِنْ کُنْتَ تَخْتَارُ الْھَزِیْمَۃَعَامِدًا


وَتَہْوِیْ بِوَھْدِ الذُّلِّ عِجْزًا وَّ تَحْدُرُ



اور اگر تو عمداً شکست کو اختیار کرے گا اور ذلّت کے گڑھے میں عاجزی سے گر پڑے گا



فَفِیْھَا نَکَالُ الْعٰلَمِیْنَ وَلَعْنَۃٌ


وَفِیْھَا فَضِیْحَتْکُمْ اََ لَا تَتَذَکَّرُ



پس اس میں دین و دنیا کا وبال اور *** ہے۔ اور اس میں تمہاری رسوائی ہے۔ کیا تم خیال نہیں کرتے؟



وَمَالَکَ لَا تَسْطِیْعُ اِنْ کُنْتَ صَادِقًا


لِاَہْلِ صَلَاحٍ کُلُّ اَمْرٍمُیَسَّرُ



اور اگر تو سچا ہے تو کیوں اب تجھے مقابلہ کی قدرت نہیں ہوتی؟ اور صادق کے لئے ہر ایک کام آسان کیا جاتا ہے



وَکُنْتَ اِذَا خُیِّرْتَ لِلْبَحْثِ وَالْوَغَا


سَطَوْتَ عَلَیْنَا شَاتِمًا لِتُوَقَّرُ



اور جب تو مقام مُدّ میں بحث کے لئے انتخاب کیا گیا۔ تو نے ہم پر حملہ کیا تا اس طرح تیری عزت ہو



لَعَمْرِیْ لَقَدْ شَجَّتْ قَفَاکَ رِسَالَتِیْ


وَاِنْ مِتَّ لَایَأْتِیْکَ عَوْنٌ مُّعَزِّرُ



اور مجھے قسم ہے کہ میرے رسالہ نے تیرا سر توڑ دیا اور اب اگر تو مر بھی جائے تو تجھے وہ مدد نہیں پہنچنے کی جو تجھے عزت دے



وَکَیْفَ وَاَنْتُمْ قَدْ تَرَکْتُمْ مُعِیْنَکُمْ


وَلَیْسَ لَکُمْ مَوْلٰی وَمَنْ ھُوَیَنْصُرُ



اور تمہیں مدد کیونکر پہنچتی۔ تم تو خدا کو چھوڑ بیٹھے ۔ اور تمہارا اب کوئی مولا نہیں جو تمہیں مدد دے



اَفِیْکُمْ کَمِيٌّ ذُوْنِضَالٍ شَمَرْدَلٌ


فَاِنْ کَانَ فَلْیَحْضُرْ وَلَا یَتَأَخَّرُ



کیاتم میں کوئی سوار لڑنے والا بہادر موجود ہے ؟ پس اگر ہو تو چاہیے کہ حاضر ہو جائے اور توقّف نہ کرے



وَجِءْنَاَکَ یَاصَیْدَ الرَّدٰی بِہَدِیَّۃٍ


وَنُہْدِی اِلَیْکَ الْمُرْھِفَاتِ وَ نَعْقِرُ



اور اے وبال کے شکار! ہم تیرے پاس ایک ہدیہ لے کر آئے ہیں اور ہم تیز تلواروں کا یعنی لاجواب قصیدہ کا تجھے ہدیہ دیتے ہیں




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 198

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 198

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/198/mode/1up



فَاَؔ بْشِرْ وَبَشِّرْ کُلَّ غُوْلٍ یَسُبُّنِیْ


سَیَأْتِیْکَ مِنِّیْ بِالتَّحَاءِفِ سَرْوَرُ



پس خوش ہو اور ہر ایک غول جو مجھے گالی دیا کرتا تھا اس کو بشارت دے۔ عنقریب میری طرف سے سید محمد سرور تحفہ لے کر تیرے پاس آئیں گے



وَاِنِّیْ اَنَا الْبَازِی الْمُطِلُّ عَلَی الْعِدَا


وَاِنِّیْ مُعَانٌ مِّنْ مُّعِیْنٍ یُّکَبَّرُ



اور میں وہ باز ہوں جو دشمنوں پر جا پڑتا ہے اور میں خدا تعالیٰ سے مدد دیا گیا ہوں



اَ ثِرْ کُلَّ شَرْقِيِّ الْبِلَادِ وَغَرْبِہَا


وَکُلَّ اَدِیْبٍ کَانَ کَالْبَقِّ یَطْمِرُ



تو مشرق مغرب کو میرے مقابل پر برانگیختہ کر اور ہر ایک ادیب کو بلا لو جو مچھر کی طرح کودتا تھا



وَمَنْ کَانَ یَحْکِيْ نَاقَۃً مُشْمَعِلَّۃً


صَغَارٌ یَمُسُّ الْقَوْمَ فَاسْعَوْا وَدَبِّرُوْا



اور اس شخص کو بُلا لو جو تیز رَو اونٹنی کے مشابہ ہو۔ قوم کو بڑی خواری پیش آئی ہے۔ دوڑو اور کچھ تدبیر کرو



وَاِنِّیْ لَعَمْرِاﷲِ لَسْتُ بِجَاءِرٍ


وَاِنْ کُنْتَ تَأْتِی بِالصَّوَابِ فَاُدْبِرُ



اور میں ‘ بخدا‘ ظالم نہیں ہوں۔ اگر تمہارا جواب درست ہو گا تو میں پیچھے ہٹ جاؤں گا



وَاِنْ کُنْتَ لَا تُصْغِیْ اِلَیْنَا تَغَافُلًا

ً

تَہُدُّ وَتُلْْغِیْ کُلَّمَا کُنْتَ تَعْمُرُ



اور اگر تو نے ہمارے اس قول کی طرف توجہ نہ کی۔ تو تُو اس عمارت کو ڈھاوے گا اور بیکار کر دے گا جو تو نے بنائی تھی



اَلَسْتَ تَرٰی یَرْمِی الْقَنَا مَنْ عِنْدَکُمْ


جَھُوْلٌ وَلَا یَدْرِی الْعُلُوْمَ وَاَکْفَرُ



کیا تو نہیں دیکھتا کہ وہ شخص تم پر نیزے چلا رہا ہے کہ جو تمہارے نزدیک جاہل۔ بے علم *



فَاَیْنَ ضَرَتْ مِنْکُمْ عَلَامَۃُ صِدْقِکُمْ


وَاَیْنَ اخْتَفٰی عِلْمٌ بِہِ کُنْتَ تُکْفِرُ



پس کہاں کود کر تمہاری سچائی کی علامت چلی گئی۔ اور کہاں وہ علم چلا گیا جس کے ساتھ تُو کافر بناتا تھا



وَاَیْنَ التَّصَلُّفْ بِالْفَضَاءِلِ وَالنُّہٰی


وَاَیْنَ بِہٰذَا الْوَقْتِ قَوْمٌ وَّ مَعْشَرُ



اور کہاں وہ لاف زنی ‘ جو فضیلت اور عقل کی‘ کی جاتی تھی۔ اور کہاں ہے اس وقت تیری قوم اور تیرا گروہ؟



وَاَیْنَ عَفَتْ مِنْکُمْ طَلَاقَۃُ اَلْسُنٍ


سِلَاطٍ عَلَیْنَا مِثْلَ سَیْفٍ یُّشَھَّرُ



اور کہاں نابود ہو گئی زبانوں کی چالاکی۔ وہ زبانیں جو ہم پر تلوار کی طرح کھینچی گئی تھیں


* سہو کاتب سے واکفر کا ترجمہ رہ گیا ہے۔ مکمل ترجمہ یوں ہے۔’’جو تمہارے نزدیک جاہل ۔ بے علم اور کافر ہے۔‘‘ (شمس)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 199

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 199

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/199/mode/1up



وَفِیْ خَمْسَۃٍ قَدْ تَمَّ نَظْمُ قَصِیْدَتِیْ


بَلِ الْوَقْتُ خَالِصْۃً اَقَلُّ وَاَقْصَرُ



اور میرا قصیدہ پانچ دن میں ختم ہوا۔ بلکہ اصل وقت اس سے بھی کمتر ہے یعنی تین دن



فَفَکِّرْ بِجُھْدِکْ خَمْسَ عَشْرَۃَ لَیْْْلَۃً


وَنَادِ حُسَیْنًا اَوْ ظَفَرْ اَوْ اَصْغَرُ



پس تو پندرہ راتیں کوشش کرتا رہ۔ اور محمد حسین کو اور قاضی ظفر الدین اور اصغر علی کو بلا لے



وَھٰذَا مِنَ الاٰیٰتِ یَا اَکْبَرَ الْعِدَا


فَھَلْ اَنْتَ تَنْسِجْ مِثْلَھَا یَا مُخَسَّرُ



اور یہ خدا کا نشان ہے اے بڑے دشمن! پس کیا تو اس کی مانند بنا لے گا؟



عَلٰی مَوْطِنٍ یَّخْشَی الْجَبَانُ نُجَمِّرُ


فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَیْءٍ فَبَادِرْ وَ نَبْدِرُ



جہاں بزدل بھاگ جاتے ہیں ہم جم کر کھڑے ہیں۔ پس اگر تُو کچھ چیز ہے تو مقابلہ پر آ ‘ پھر ہم دیکھ لیں گے



اَتَسْتُرُ بَغْیًا بَرْقَ اٰیٰتِ رَبِّنَا


سَیُظْھِرُ رَبِّی کُلَّمَا کُنْتَ تَسْتُرُ



کیاتو بغاوت کر کے * نشانوں کی چمک کو پوشیدہ کرنا چاہتا ہے۔ پس میرا خدا وہ سب ظاہر کر دے گا جس کو تُو چھپاتا ہے



تُرِیْدُوْنَ ذِلَّتْنَا وَنَحْنُ ھَوَانَکُمْ


وَلِلّٰہِ حُکْمٌ نَافِذٌ فَسَیَأْمُرُ



تم ہماری ذلّت چاہتے ہو اور ہم تمہاری اور خدا کے لئے حکم نافذ ہے۔ وہ فیصلہ کر دے گا



تَرَکْتُمْ کَلَامَ اﷲِ مِنْ غَیْرِ حُجَّۃٍ


وَاِنَّ کَلَامَ ا ﷲِ اَھْدٰی وَاَظْھَرُ



تم نے خداکے کلام کو بے دلیل ترک کر دیا اور خدا کا کلام اصل ہدایت اور ظاہر تر ہے


وَ یَسَّرَہُ الْمَوْلٰی لِیَدَکَّرَ الْوَرٰ ی


فَلَاشَکَّ اَنَّ الذِّکْرَاَجْلٰی وَاَیْسَرُ


اور خدا نے اس کو سہل کیا تا لوگ یاد کریں۔ پس کچھ شک نہیں کہ قرآن روشن اور آسان تر ہے



وَفِیْہِ تَجَلَّتْ بَیِّنٰتٌ مِّنَ الْھُدٰی


وَسَمَّاہُ فُرْقَانًا عَلِیْمٌ مُقَدِّرُ



اور اس میں کھلی کھلی ہدایتیں موجود ہیں۔ اور خدا نے اس کا نام فرقان رکھا ہے


* اس مصرعہ میں ربّنا کا ترجمہ سہو کاتب سے نہیں لکھا گیا۔ ترجمہ یوں چاہئے تھا۔ ’’کیا تو بغاوت کر کے ہمارے ربّ کے نشانوں کی چمک کو پوشیدہ کرنا چاہتا ہے‘‘۔ (شمس)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 200

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 200

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/200/mode/1up



وَ سَمَّاہُ تِبْیَانًا وَّ قَوْلًا مُّفَصَّلًا


فَاَيَّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ نَتَخَیَّرُ



اور اس کا نام تِبیان اور قولِ مفصّل رکھا ۔پس کس حدیث کو ہم اس کے بعد اختیار کریں



فَدَعْ ذِکْرَ بَحْثٍ فِیْہِ ظُلْمٌ وَّفِرْیَۃٌ


وَفَکِّرْ بِنُوْرِ الْقَلْبِ فِیْمَا نُکَرِّرُ



پس ایسی بحث کو چھوڑ دے جس میں جھوٹ ہے۔ اور نورِ دل کے ساتھ ہماری باتوں میں غور کر



لَنَا الْفَضْلُ فِی الدُّنْیَا وَاَنْفُکَ رَاغِمٌ


وَکُلُّ صَدُُوْقٍ لَّا مَحَالَۃَ یُظْھَرُ



ہمیں دنیا میں بزرگی دی گئی اور تو ذلّت میں ہے۔ اور ہر ایک راستبا ز انجام کار غالب کیا جاتا ہے



عَلَوْؔ نَا بِسَیْفِ اﷲِ خَصْمًا اَبَاالْوَفَا


فَنُمْلِیْ ثَنَاءَ اﷲِ شُکْرًا وَّنَسْطُرُ



ہم نے * اپنے دشمن ابو الوفا کو مار لیا۔ پس ہم خدا کی تعریف از روئے شکر کے لکھتے ہیں



اَیَزْعَمُ اَنِّیْ قَدْ تَقَوَّلْتُ عَامِدًا


فَوَیْلٌ لَّہُ یُغْوِی الْأُنَاسَ وَیَہْذُرُ



وہ گمان کرتا ہے کہ میں نے عمداً جھوٹ بنا لیا۔ پس اس پر واویلا کہ لوگوں کو گمراہ اور بکواس کر رہا ہے



اَرٰی بَاطِلًا قَدْ ثَلَّمَ الْحَقُّ جُدْرَہُ


فَاَضْحَی الْھُدٰی مِثْلَ الضُّحٰی یُتَبَصَّرُ



میں دیکھتا ہوں کہ سچائی نے باطل کی دیواروں میں سوراخ کر دیا۔ پس ہدایت روزِ روشن کی طرح نمایاں ہو گئی



وَاِنَّیْ طَبَعْتُ الْیَوْمَ نَظْمَ قَصِیْدَتِیْ


وَکَانَ اِلٰی نِصْفٍ تَمَشَّی نُؤَمْبَرُ



اور آج میں نے اپنے اس قصیدہ کی نظم کو چھاپ دیا۔ اور نومبر کا مہینہ قریباً نصف گذر چکا تھا



کَذَالِکَ مِنْ شَعْبَانَ نِصْفٌ کَمِثْلِہِ


فَیَا رَبِّ بَارِکْھَا لِمَنْ یَّتَذَکَّرُ



اسی طرح شعبان کا بھی نصف تھا ۔ پس اے میرے ربّ ! ان کے لئے اس کو مبارک کر جو ہدایت پر آنا چاہے



رمَیْتُ لِاَغْتَالَنْ وَّمَاکُنْتُ رَامِیًا


وَلٰکِنْ رَّمَاہُ اﷲُ رَبِّی لِیُظْھِرُ



میں نے اس رسالہ کو تیرکی طرح چلایا تایک دفعہ دشمن کا کام تمام کروں۔ اور دراصل میں نے اس کو نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا تا مجھے غلبہ دے


* سہوِ کاتب سے بِسَیْفِ اللّٰہِ کا ترجمہ رہ گیا ہے۔ مکمل ترجمہ یوں ہے۔ ’’ہم نے خدا کی تلوار سے اپنے

دشمن ابوالوفا کو مار دیا‘‘۔ (شمس)



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 201

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/201/mode/1up



وَھٰذَا لِعَھْدٍ قَدْ تَّقَرَّرَبَیْنَنَا


بِمُدٍّ فَلَمْ نَنْکُثْ وَلَمْ نَتَغَیَّرُ



اور یہ قصیدہ ہم نے اس عہد کے لحاظ سے لکھا ہے جو موضع مُدّ میں کیا گیا تھا۔پس ہم نے عہد شکنی نہیں کی اور نہ ہم بدل گئے



نَرٰیَ برَکَاتٍ نَزَّلُوْھَا مِنَ السَّمَا


لَنَا کَاللَّوَاقِحْ وَالْکلَاَمُ یُنَضَّرُ



ہم ایک ایسی برکات دیکھ رہے ہیں جو آسمان سے ہمارے لئے اتری ہیں۔ ان اونٹنیوں کی طرح جو حمل دار ہوتی ہیں۔ اور کلام تازہ کی گئی ہے



وَوَ اﷲِ اِنَّ قْصِیْدَتِیْ مِنْ مُّؤَیِّدِيْ


فَنُثْنِیْ عَلٰی رَبٍّ کَرِیْمٍ وَ نَشْکُرُ



اور بخدا! میرا قصیدہ میرے اسی خدا کی طرف سے ہے* ۔ پس ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں




وَیَارَبِّ اِنْ اَرْسَلْتَنِیْ مِنْ عِنَایَۃٍ

اور اے میرے رب! اگر تو نے اپنی عنایت سے مجھے بھیجا ہے

فَاَیِّدْ وَ کَمِّلْ کُلَّ مَا قُلْتُ وَانْصُرُ

پس تائید کر اور ہر ایک طریق جو میں نے سوچا ہے اس کو کامل کر


* سہوِ کاتب سے مؤیّدی کا ترجمہ نہیں آیا۔ اصل میں ترجمہ یوں ہو گا۔

’’اور بخدا میرا قصیدہ میرے اسی خدا کی طرف سے ہے جو میری تائید کر رہا ہے۔‘‘



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 202

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/202/mode/1up


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیَْ علٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

شعر

قادر کے کاروبار نمودار ہوگئے


کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہوگئے

کافر جو کہتے تھے وہ نگو نسار ہوگئے


جتنے تھے سب کے سب ہی گرفتار ہوگئے

دس ہزار روپیہ کا اشتہار

یہ اشتہار خدا تعالیٰ کے اس نشان کے اظہار کیلئے شائع کیا جاتا ہے جو اور نشانوں کی طرح ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا یعنی یہ بھی وہ نشان ہے جس کی نسبت وعدہ تھا کہ وہ اخیر دسمبر ۱۹۰۲ء ؁ تک ظہور میں آجائے گا اور اس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار اِس بات کے لئے بطور گواہ کے ہے کہ اپنے دعویٰ کی سچائی کے لئے کس زور سے اور کس قدر صرفِ مال سے مخالفین کو متنبہ کیا گیا ہے۔ مولوی ثناء اللہ امرتسری نے موضع مُدّ میں بآواز بلند کہا تھا کہ ہم کتاب اعجاز المسیح کو معجزہ نہیں کہہ سکتے اور مَیں اِس طرح کی کتاب بنا سکتا ہوں اور یہ سچ بھی ہے کہ اگر مخالف مقابلہ کر سکیں اور اُسی مقرر مُدت میں اسی طرح کی کتاب بنا سکیں تو پھر وہ معجزہ کیسا ہوا اِس صورت میں تو ہم صاف جھوٹے ہوگئے لیکن جب ہمارے دوست مولوی سیّد محمد سرور صاحب و مولوی عبداللہ صاحب ۲؍ نومبر ۱۹۰۲ء ؁ کو قادیان میں پہنچ گئے تو چند روز کے بعد مجھے خیال آیا کہ اگر اعجاز المسیح کی نظیر طلب کی جائے تو جیسا کہ ہمیشہ سے یہ مخالف لوگ حیلہ بہانہ سے کام لیتے ہیں اِس میں بھی کہہ دیں گے کہ ہماری دانست میں کتاؔ ب اعجاز المسیح ستّر دِن میں طیار نہیں ہوئی جیسا کہ تقریر متعلقہ جلسہ مہوتسو کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 203

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/203/mode/1up


مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ یہ تقریر پہلے بنائی گئی ہے اور ایک مُدّت تک سوچ کر لکھی گئی ہے۔ پس اگر اب بھی کہہ دیں کہ یہ اعجاز المسیح ستّر دن میں نہیں بلکہ ستّر مہینے میں بنائی گئی ہے تو اب یہ امر عوام کی نظر میں مشتبہ ہو جائے گا اور مَیں چند روز اِسی فکر میں تھا کہ کیا کروں آخر ۶؍نومبر ۱۹۰۲ء ؁ کی شام کو میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایک قصیدہ مقام مُدّ کے مباحثہ کے متعلق بناؤں کیونکہ بہرحال قصیدہ بنانے کا زمانہ یقینی اور قطعی ہے کیونکہ اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ۲۹؍ اور ۳۰؍ اکتو بر ۱۹۰۲ء ؁ کو بمقام مُدّ بحث ہوئی تھی اور پھر دوسری نومبر کو ہمارے دوست قادیان پہنچے اور ۷ ؍ نومبر ۲ ء ؁ کو مَیں ایک گواہی کے لئے منشی نصیرالدّین صاحبمنصف عدالت بٹالہ کی کچہری میں گیا شاید مَیں نے ایک یا دو شعر راہ میں بنائے مگر ۸؍ نومبر ۲ ء ؁ کو قصیدہ پوری توجہ سے شروع کیا اور پانچ دن تک قصیدہ اور اُردو مضمون ختم کرلیا اس لئے یہ امر شک و شبہ سے پاک ہوگیا کہ کتنی مُدّت میں قصیدہ بنایا گیا کیونکہ اس قصیدہ میں اور نیز اُردو مضمون میں واقعات اُس بحث کے درج ہیں جو ۲۹؍ اور ۳۰؍ اکتوبر ۲ ء ؁ میں بمقام مُدّ ہوئی تھی پس اگر یہ قصیدہ اور اُردو مضمون اِس قلیل مُدت میں طیار نہیں ہوا اور پہلے اِس سے بنایا گیا تو پھر مجھے عالم الغیب ماننا چاہئے جس نے تمام واقعات کی پہلے سے خبر دی۔ غرض یہ ایک عظیم الشان نشان ہے اور نہایت سہل طریق فیصلہ کا۔ اور یاد رہے کہ جیسا میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ یہ تمام مدت قصیدہ پر ہی خرچ نہیں ہوئی بلکہ اُس اُردو مضمون پر بھی خرچ ہوئی ہے جو اِس قصیدہ کے ساتھ شامل ہے اور وہ دونوں بہیئت مجموعی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہیں اور مقابلہ کیلئے اور دس ہزار روپیہ انعام پانے کیلئے یہ شرط ضروری ہے کہ جو شخص بالمقابل لکھے وہ ساتھ ہی اِس اُردو کا ردّ بھی لکھے جو میری وجوہات کو توڑ سکے جس کی عبارت ہماری عبارت سے کم نہ ہو اور اگر کوئی ان دونوں میں سے کسی کو چھوڑے گا تو وہ اِس شرط کا توڑنے والا ہوگا مَیں اپنے مخالفوں پر کوئی ایسی مشقت



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 204

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/204/mode/1up


نہیں ڈالتا جس مشقت سے مَیں نے حصہ نہ لیا ہو ظاہر ہے کہ اُردو عبارت بھی اسی واقعہ بحث کے متعلق ہے اور اس میں مولوی ثناء اللہ صاحب کے اُن اعتراضات کا جواب ہے جو اُنہوں نے پیش کئے تھے۔ اِس صورت میں کون شک کر سکتا ہے کہ وہ اُردو عبارت پہلے سے بنا رکھی تھی۔ پس میرا حق ہے کہ جس قدر خارق عادت وقت میں یہ اُردو عبارت اور قصیدہ تیار ہوگئے ہیں مَیں اُسی وقت تک نظیر پیش کرنے کا انؔ لوگوں سے مطالبہ کروں کہ جو اِن تحریرات کو انسان کا افتراخیال کرتے ہیں اور معجزہ قرار نہیں دیتے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اتنی مدت تک جو مَیں نے اردو مضمون اور قصیدہ پر خرچ کی ہے اِسی قدر مضمون اُردو جس میں میری ہر ایک بات کا جواب ہو کوئی بات رہ نہ جائے اور اسی قدر قصیدہ جو اِسی تعداد کے اشعار میں واقعات کے بیان پر مشتمل ہو اور فصیح و بلیغ ہو اِسی مُدّت مقررہ میں چھاپ کر شائع کردیں تو مَیں ان کو دس ہزار روپیہ نقد دوں گا۔ میری طرف سے یہ اقرار صحیح شرعی ہے جس میں ہرگز تخلّف نہیں ہوگا اور جس کا وہ بذریعہ عدالت بھی ایفاء کرا سکتے ہیں اور اگر اب مولوی ثناء اللہ اور دوسرے میرے مخالف پہلو تہی کریں اور بدستور مجھے کافر اور دجّال کہتے رہیں تو یہ ان کا حق نہیں ہوگا کہ مغلوب اور لا جواب ہو کر ایسی چالاکی ظاہر کریں اور وہ پبلک کے نزدیک جھوٹے ٹھہریں گے اور پھر مَیں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ سب مل کر اُردو مضمون کا جواب اور قصیدہ مشتملہ برواقعات لکھ دیں مَیں کچھ عذر نہیں کروں گا۔ اگر انہوں نے قصیدہ اور جواب مضمون ملحقہ قصیدہ میعاد مقررہ میں چھاپ کر شائع کردیا تو مَیں بیشک جھوٹا ٹھہروں گا۔ مگر چاہئے کہ میرے قصیدہ کی طرح ہریک بیت کے نیچے اُردو ترجمہ لکھیں اور منجملہ شرائط کے اس کو بھی ایک شرط سمجھ لیں اِس مقابلہ سے تمام جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے گا اور انشاء اللہ ۱۶؍ نومبر ۲ ء ؁ کی صبح کو مَیں یہ رسالہ اعجاز احمدی مولوی ثناء اللہ کے پاس بھیج دوں گا جو مولوی سید محمد سرور صاحب لے کر جائیں گے اور اسی تاریخ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 205

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/205/mode/1up


یہ رسالہ اُن تمام صاحبوں کی خدمت میں جو اِس قصیدہ میں مخاطب ہیں بذریعہ رجسٹری روانہ کردوں گا۔ بالآخر مَیں اِس بات پر بھی راضی ہوگیا ہوں کہ ان تمام مخالفوں کو جواب مذکورہ بالا کے لکھنے اور شائع کرنے کے لئے پندرہ روز کی مہلت دوں کیونکہ اگر وہ زیادہ سے زیادہ بحث کریں تو انہیں اِس صورت میں کہ ۱۸ یا ۱۹؍ نومبر ۲ ء ؁ تک میرا قصیدہ اُن کے پاس پہنچ جائے گا۔ بہرحال ماننا پڑے گا کہ یکم نومبر ۲ ء ؁ سے نصف نومبر تک پندرہ دن ہوئے مگر تاہم مَیں نے اُن کی حالت پر رحم کر کے اتمام حجت کے طور پر پانچ دن اُن کے لئے اور زیادہ کر دےئے ہیں اور ڈاک کے دن ان دنوں سے باہر ہیں۔ پس ہم جھگڑے سے کنارہ کرنے کے لئے تین دن ڈاک کے فرض کر لیتے ہیں یعنی ۱۷۔۱۸۔۱۹؍ نومبر ۲ ء ؁ ۔ اِن دنوں تک بہرحال اُن کے پاس جابجا یہ قصیدہ پہنچ جائے گا۔ اب اُن کی میعاد ۲۰؍نومبر سے شروع ہوگی۔ پس اِس طرح پر دس دسمبر ۲ ء ؁ تک اِس میعاد کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۲ ء ؁ کی دسویں کے دِن کی شام تک ختم ہو جائے گی۔ اُنہوں نے اِس قصیدہ اور اُردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یُوں سمجھو کہ مَیں نیست و نابود ہوگیا اور میرا سلسلہ باطل ہوگیا۔ اِس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے عمداً کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے بلکہ دس لعنتیں اُن کا ازلی حصّہ ہوگا اور اِس انعام میں سے ثناء اللہ کو پانچ ہزار ملے گا۔ اور باقی پانچ کو اگر فتح یاب ہوگئے ایک ایک ہزار ملے گا۔

وَالسَّلام عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی

خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی
 
Top