• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 19 ۔تحفۃ الندوہ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



اَلتَّبْلِیْغ

یَااھل دارالندوۃ تعالوا الٰی کلمۃٍ سواءٍ بَیننا وَبَینکُم اَنْ لَّا نُحَکِّمَ اِلَّا القرآن۔ وَلَا نقبل الا ماوافق قول الرحمٰن۔ وھٰذا ھو الدین القَیّم ایّھا المتقاعسون۔ وان القراٰن کتاب خُتم بہ الھُدیٰ۔ وفیہ کتبٌ قیمّۃ وخبر ما یأتی وما مضٰی فَبِاَيِّ حدیث بعدہ تؤمنون۔ اعلموا ان الخیر کلّہ فی القراٰن وشرّ الاحادیث مَا خالفہ فاحذروھا ایھا المتقون۔ وکلما خالف ھدی القراٰن وقصصہ فاعلموا انہ سقط ولا یقبلہ الّا الفٰسقون۔ وَاِنّی انا المسیح وبالحق اَمشی واَسیح ولِلّٰہ اُنادی واصیح وَاُذَکِّرُکُمْ ایّام اللہ فھل انتم تتذّکرون۔ وانّی جئتکم ببیّنۃ من ربّی وعُلِّمتُ مالم تُعلّموا واَبصرت مالا تُبصرون۔ اتکذبوننی ولا تجیؤننی ولا تسئلون ان عیسٰی مات و لا یُحٰیی باحیاء کم فلا تکذّبوا القراٰن ایّھا المجترء ون۔ وَاِن کانَ نازلًا قبل یوم القیامۃ کما تزعمون۔ فَلِمَ انکر لما سئل عن ضلالۃ النصاریٰ۔ واعتذربعدم العلم کما انتم تدرسون۔ ولم یقل انی اعلم ما احدثوابعدی بمارُدِدْتُ الی الدنیا ورئیتُ ما کانوا یعملون۔ وکان الحق ان یقول ربّ انّی رجعتُ الی الدنیا باذنک ولبثتُ فیہم الی اربعین سنۃ فوجدتہم یعبدوننی واُمِّیَ وعلیہ یُصِرُّون۔ فکسرتُ صلبانھم واَصلحتُ زمانہم وقتلت کثیرا منہم فدخلوا فی دین اللّٰہ وھم یتضرّعون۔ فاسئلوا عیسٰی کُمْ لِمَ یکذب یوم القیامۃ ویُخفی شھادۃ کانت عندہ کأنہ من الذین لایعلمون۔ وانی اقسم باللہ انی منہ فعظموا حلف اللّٰہ ان کنتم تتقون۔ وانی اعطیت کثیرا من الاٰیات وسدّ القراٰن طریقًا اٰخرمن دونی فاین تفرّون۔ وقد جئت علٰی رأس الماءۃ کما انتم تعلمون۔ وخُسفَ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


القمروالشمس فی رمضان۔ لیکونا آیتین لی من ربّی الرّحمٰن ثم انزل الطاعون لعلّ الناس یتفکرون۔ فمالکم لا تنظرون الی آي اللّٰہ او تعاف عیونکم ما تنظرون۔ ایھا الناس عندی شھادات من اللّٰہ فھل انتم تؤمنون۔ ایھا الناس عندی شھادات من اللّٰہ فھل انتم تسلمون۔ وَاِنْ تَعُدُّوا شھادات ربّی لا تحصوھا فاتقوا اللہ ایھا المستعجلون۔ اَ فَکُلَّمَا جاء کم رسول بما لا تھوی انفسکم ففریقا کذّبتم و فریقا تقتلون انا نُصِرنا من ربّنا و لَا تُنْصَرُون من اللّٰہ ایھا الخائنون۔ اَ قتلتمونی بفتاوی القتل او دعاوٍی رفعتموھا الی الحکّام ثم لا تتندمون۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا و رسلی ولن تُعجزوا اللّٰہ ایّھاالمحاربون۔ وَوَاللّٰہِ انّی صادق ولست من الذین یختلفون۔ اَ تُنکروننی و قد تمت علیکم الحجّۃ الا تردون الی اللّٰہ او انتم کمسیحکم خالدون۔ الا تتدبرون سورۃ النور و التحریم والفاتحۃ اَو تَکْرَھُون قراء تھا او علی انفسکم تُحرّمون۔ وھذہ رسالۃ منّی اھدیتُ لکم یا اھل الندوۃ لعلّکم تفتحون عیونکم اوتتمّ علیکم حجۃ اللّٰہ فلا تعتذرون بعدھا ولا تختصمون۔ وانی سمیتھا

تُحْفَۃ النَّدْوَۃ

وانّی اُرْسل اِلیکم رُسلی وانظرکیف یرجعون

وانّی اَدعو اللّٰہ ان یَّجعلھا مبارکۃ لقوم لا یستکبرون۔ ربّ اشھد انّی بلَّغْتُ

مَااَمَرْتَ فاکتبنی فِی الّذین یُبَلّغون رسالاتک ولا یخافون۔ آمین ثُمَّ آمین


مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باھتمام حاجی حکیم فضل دین صاحب طبع ہوا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نظم میر ناصر نواب صاحب دہلوی


کشتیء نوح و دعوت الایمان

ہے عجب اِک کتاب عالی شان

تازہ ہوتا ہے اس کو پڑھ کر دیں

اس سے بڑھتی ہے رونق ایمان

ہے یہ آبِ حیات سے بہتر

مُردہ روحوں کو بخشتی ہے جان

اس کی تعریف سے ہوں مَیں عاجز

وصف سے اس کے لال میری زبان

گُمرہوں کی ہے رہنما یہ کتاب

ہے ہدایت کا ان کے یہ سامان

بیکسوں کی ہے تکیہ گاہ یہی

لاعلاجوں کا اس میں ہے درمان

ہیں مضامین اس کے لاثانی

ہے خدا کے رسول کا یہ نشان

اس سے کھلتے ہیں دین کے عقدے

غور سے گر اسے پڑھے انسان

علم آتا ہے جہل جاتا ہے

دور ہوتے ہیں اس سے وہم و گمان

باغ دنیا نہیں یہ جنت ہے

جس میں پھرتے ہیں حور اور غلمان

اس میں ہیں شِیر و شہد کی نہریں

جا بجا اس میں قصر عالی شان

کشتیء بے نظیر ہے یہ مفت

کوئی اُجرت کا یاں نہیں خواہان

جس نے ہم کو عطا یہ کشتی کی

ایسے ملّاح پر ہیں ہم قربان

یا الٰہی تو ہم کو دے توفیق

کیونکہ تو ہے رحیم اور رحمان

دور ہوں ہم سے نفس کے جذبات

ہم سے بھاگے پرے پرے شیطان

تیرے حکموں پہ ہم چلیں دن رات

دل سے ہم مان لیں ترے فرمان

ہم سے تو خوش ہو تجھ سے ہم راضی

جسم سے جب ہمارے نکلے جان

تیرا بندہ ہے ناصرؔ عاجز

چاہتا ہے یہ تجھ سے تیری امان

تیری رحمت کا تجھ سے خواہاں ہے

فضل کا تیرے تجھ سے ہے جویان

دور کر اس کے بوجھ اے مولیٰ

راستہ اپنا اس پہ کر آسان

اتقیا میں اسے بھی شامل کر

رحم کر رحم اس پہ اے سُبحان

ڈھانک دے اسکے عیب اے ستّار

کہ یہ رکھتا ہے تجھ پہ نیک گمان

بطفیل محمد و احمد

درد کا اِس کے جلد کر درمان

دِل سے اپنے یہ ہے غلامِ امام

کرمدد اِس کی ظاہر و پنہان



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


بہر دمم مددے از خدا ہمی آید

کجاست اہل بصیرت کہ چشم بکشاید

آج ۲؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ایک اشتہار مجھے ملا جو حافظ محمد یوسف پنشنر کی طرف سے میرے نام پر شائع ہوا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ زبانی اِس بات کا اقرار کر چکا ہوں کہ جن لوگوں نے نبی یا رسول یا اورکوئی مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ لوگ ایسے افترا کے ساتھ جس سے لوگوں کو گمراہ کرنا مقصود تھا تئیس۲۳ برس تک (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایاّم بعثت کا کامل زمانہ ہے) زندہ رہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور پھر حافظ صاحب اسی اشتہار میں لکھتے ہیں کہ ان کے اس قول کی تائید میں ان کے ایک دوست ابو اسحاق محمد دین نام نے قطع الوتین نام ایک رسالہ بھی لکھا تھا جس میں مدعیان کاذب کے نام معہ مدّتِ دعویٰ تاریخی کتابوں کے حوالہ سے درج ہیں۔ ماحصل اِس تمام تقریر کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کو قرآن شریف کی آیت لو تقوّل پر ایمان نہیں ہے اور نہ لانا چاہتے ہیں اور نہ آیت 33 ۱؂ پر اُن کا عقیدہ ہے اور نہ ایسا عقیدہ رکھنا چاہتے ہیں بلکہ رسالہ قطع الوتین قرآن شریف کی ان آیتوں کو ردّ کر چکا ہے اور ان کے نزدیک گویایہ تمام آیتیں جیسا کہ 3۲؂ ا ور جیسا کہ آیت3333 ۔۳؂ اور جیسا کہ آیت 33َ333۴؂ یہ سب منسوخ شدہ ہیں جواب واجب العمل نہیں اور پھر اُن آیتوں میں سے وہ بھی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ نبی بعض باتیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/93/mode/1up


میری طرف بناوٹ سے منسوب کر دیتا تو میں اُسے پکڑتا اور اُس کی رگِ جان قطع کر دیتا۔ گویا یہ تمام آیات رسالہ قطع الوتین سے ردّ ہوگئیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گویا یہ تمام وعید خداتعالیٰ کےؔ جو اُوپر کی تمام آیتوں میں مفتریوں کے متعلق ہیں یہ بالکل خلاف واقع باتیں تھیں اور یہ انبیاء علیہم السلام اگر نعوذ باللہ افترا کرنے والے ہوتے تب بھی بقول حافظ صاحب ہلاک نہ کئے جاتے تو گویا خدا کی گورنمنٹ میں مفتریوں کے لئے کوئی ا نتظام نہیں اور وہاں ہر ایک فریب چل جاتا ہے* اوریہ امکان باقی رہتا ہے کہ اگر خدا پر کوئی نبی افترا بھی کرتا تو دنیا کی زندگی میں اس کے لئے کوئی عذاب نہ تھا گویا خدا کے قانون سے انسانی گورنمنٹ کے قانون بڑھ کر ہیں کہ ان میں جھوٹی دستاویز بنانے والے دست بدست پکڑے جاتے اور سزا پاتے ہیں اس جگہ یہ مسئلہ بھی حل ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی تکمیل تک جو تیئیس برس کی مدّت تھی مہلت ملنا اور مخالفانہ کوششوں سے جو ہلاک کرنے کے لئے تھیں محفوظ رہنا اور زندگی پوری کر کے خدا کے حکم کے ساتھ جانا جیسا کہ میرے لئے بھی اسّی ۸۰برس کی زندگی کی پیشگوئی ہے جب تک مَیں سب کچھ پورا کرلوں یہ باتیں حافظ صاحب کی نظر میں معجزہ کے رنگ میں نہیں ہیں اور نہ ایسی پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے کوئی شخص صادق سمجھا جاتا ہے۔ غرض کیا مَیں اور کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حافظ صاحب کے مذہب کی رُو سے اس حفاظت اور عصمت الٰہی کو اپنی سچائی کی دلیل نہیں ٹھہرا سکتے بلکہ کاذب بھی اس میں شریک ہو سکتا ہے مگر اِس طرح پر تو قرآن شریف کا تمام بیان غلط ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک مفتری پکڑا جائے گا۔ ذلیل ہوگا۔ ہلاک ہوگا۔

جبکہ حافظ صاحب کے نزدیک جھوٹے پیغمبروں کی بھی اس قدر تائید ہو سکتی ہے کہ باوجود دشمنوں کی جان توڑ کوششوں کے وہ اُس وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں کہ اپنے دین کو زمین پر جمادیں تو اس اصول سے سچّے نبی سب خاک میں مل گئے اور جھوٹ اور سچ میں سخت گڑ بڑ پڑ گیا اور ظاہر ہے کہ ہزاروں دشمنوں کے صدہا بدارادوں اور فریبوں اور کوششوں کے مخالف ایک مامور کو زندہ رکھنا اور دین کو زمین پر جما دینا یہ خدا تعالیٰ کا بڑا معجزہ ہے جو سچے اور کامل نبیوں کو دیا جاتا ہے۔ پس جبکہ اس معجزہ میں جھوٹے پیغمبر بھی شریک ہیں تو اِس صورت میں معجزہ بھی قابل اعتبار نہ رہا اور سچے نبی کی سچائی پر کوئی علامت قاطعہ باقی نہ رہی واہ! حافظ صاحب آپ نے اسلام کا ہی خاتمہ کیا۔ حافظ ہوں تو ایسے ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/94/mode/1up


اور فلاح نہیں پائے گا اور انسانی عقل بھی یہی قبول کرتی ہے کہ کذاب جو خدا کے سلسلہ کو عمداً تباہ کرنا چاہتا ہے ہلاک ہونا چاہئے۔ یہی بیان جابجا خدا کی پہلی کتابوں میں بھی ہے مگر حافظ صاحب کا مقولہ ہے کہ بہتوں نے جھوٹی وحی اور جھوٹی نبوت کے دعوے کئے اور ان دعووں کا سلسلہ تیس تیس برس تک جاری رکھا اور اپنی نبوتوں پر اصراری رہے اور اپنا سلسلہ جھوٹی وحی پیش کرنے کا اخیر دم تک نہ چھوڑا یہاں تک کہ اسی کفر پر مرگئے اور خدا نے اُن کی عمر اور کام میں برکت دی اور کوئی عذاب نہ کیا اور نہ ثابت ہو سکا کہ کبھی اُنہوں نے توبہ کی اور کبھی اُن کی توبہ ملک میں شائع ہو کر لوگوں کو اُن کے دوبارہ مسلمان ہونے کی خبر ہوئی اور حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ ان باتوں کا ثبوت رسالہ قطع الوتین میں بخوبی لکھا گیا ہے اور حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں انعام کا پا3نسو روپیہ لینا نہیں چاہتا اس کے عوض یہ چاہتا ہوں کہ ندوۃ العلماء کے سالانہ جلسہ میں جوابتداء ۹؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ؁ سے بمقام امرتسرمنعقدہوگا جس میں ہندوستان کے مشاہیر علماء شریک ہوں گے مرزا صاحب یعنی یہ عاجز یہ اقرار لکھ دیں کہ جو نظائر پیش کیؔ گئی ہیں (یعنی رسالہ قطع الوتین میں) اگر مقرر کردہ حَکم کے نزدیک یعنی ندوہ کے علماء کے نزدیک محک امتحان پر پوری اُتریں یعنی ندوہ نے قبول کر لیا ہو کہ جس عمر کو ابتدا وحی سے مَیں نے پایا ہے اور جس انکشاف سے اور پورے زور اور یقین سے خدا کی وحی پر میرا دعویٰ ہے اور مَیں نے جس طرح ہزارہا کلمات خدا تعالیٰ کی وحی کے اپنی نسبت لکھے ہیں اور دنیا میں مشہور کئے ہیں ایسا ہی ان لوگوں نے مشہور کئے تھے اور خدا پر افترا کیا تھا پھر وہ ہلاک نہ ہوئے بلکہ میرے جیسی اُن کی بھی جماعت ہوگئی تو ایسی صورت میں مجھے اس مجلس میں توبہ کرنی چاہئے، مَیں قبول کرتا ہوں کہ ندوہ کے علماء اگر ان کو خدا نے بصیرت دی ہے اور تقویٰ اور انصاف بھی ہے اور پورے غور کرنے کے لئے وقت بھی ہے تو ضرور وہ میرے بیان اور حافظ صاحب کی قطع الوتین کو دیکھ کر سچا فتویٰ دے سکتے ہیں۔ مگر مَیں ندوہ کے پاس امرتسر میں آنہیں سکتا کیونکہ میرا ان لوگوں پر حسن ظن نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مَیں نہ تو ان لوگوں کو متّقی سمجھتا ہوں (آئندہ اگر خدا کسی کو متقی کردے تو اُس کا فضل ہے) اور نہ عارف حقائقِ قرآن



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/95/mode/1up


خیال کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ امر 3 ۱؂ پر موقوف ہے پھر مَیں اُن کا حَکم ہونا کس وجہ سے منظور کروں ہاں اگر چند منتخب مولوی ان میں سے بطور طالبِ حق قادیان میں آجاویں تو مَیں زبانی ان کو تبلیغ کر سکتا ہوں ورنہ خدا کا کام چل رہا ہے کوئی مخالف اِس کو روک نہیں سکتا مخالف سے فتویٰ لینا کیا معنے رکھتا ہے ہاں البتہ ہم حافظ صاحب کے اس اشتہار سے ندوہ کے لئے ایک موقع تبلیغ کا نکالتے ہیں حافظ صاحب یاد رکھیں کہ جوکچھ رسالہ قطع الوتین میں جھوٹے مدعیان نبوّت کی نسبت بے سروپا حکایتیں لکھی گئی ہیں وہ حکایتیں اُس وقت تک ایک ذرہ قابلِ اعتبار نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ مفتری لوگوں نے اپنے اس دعویٰ پر اصرار کیا اور توبہ نہ کی اور یہ اصرار کیونکر ثابت ہو سکتا ہے جب تک اُسی زمانہ کی کسی تحریر کے ذریعہ سے یہ امر ثابت نہ ہو کہ وہ لوگ اسی افترا اور جھوٹے دعویٰ نبوّت پر مرے اور اُن کا کسی اُس وقت کے مولوی نے جنازہ نہ پڑھا اور نہ وہ قبرستان مسلمانوں میں دفن کئے گئے اور ایسا ہی یہ حکایتیں ہرگز ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ ان کی تمام عمر کے مفتریات جن کو انہوں نے بطور افترا خدا کا کلام قرار دیا تھا وہ اب کہاں ہیں اور ایسی کتاب ان کی وحی کی کس کس کے پاس ہے تا اس کتاب کو دیکھا جائے کہ کیا کبھی اُنہوں نے کسی قطعی یقینی وحی کا دعویٰ کیا اور اس بناء پر اپنے تئیں ظلّی طور پر یا اصلی طور پر نبی اللہ ٹھہرایا ہے اَور اپنی وحی کو دوسرے انبیاء علیہم السلام کی وحی کے مقابل پر منجانب اللہ ہونے میں برابر سمجھا ہے تا تَقَوَّلَکے معنے اس پر صادق آویں۔حافظ صاحب کو معلوم نہیں کہ تَقَوَّلَ کا حکم قطع اور یقین کے متعلق ؔ ہے پس جیسا کہ مَیں نے بار بار بیان کر دیا ہے کہ یہ کلام جو مَیں سُناتا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیسا کہ قرآن اور توریت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے اورہرایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حَکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابلِ مواخذہ ہے کیونکہ جس امر کو اُس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا اُس کو ردّ کر دیا مَیں صرف



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/96/mode/1up


یہ نہیں کہتا کہ مَیں اگر جھوٹا ہوتا تو ہلاک کیا جاتا بلکہ مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد اور آنحضرت صلعم کی طرح مَیں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئے خدا نے دس۱۰ ہزار سے بھی زیادہ نشان دکھلائے ہیں۔ قرآن نے میری گواہی دی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گواہی دی ہے۔ پہلے نبیوں نے میرے آنے کا زمانہ متعین کر دیا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور قرآن بھی میرے آنے کا زمانہ متعین کرتا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی اور کوئی نبی نہیں جو میرے لئے گواہی نہیں دے چکا اور یہ جو مَیں نے کہا کہ میرے دس۱۰ ہزار نشان ہیں یہ بطور کفایت لکھاگیا ورنہ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ایک سفید کتاب ہزار ُ جز کی بھی کتاب ہو اور اس میں مَیں اپنے دلائل صدق لکھنا چاہوں تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ کتاب ختم ہو جائے گی اور وہ دلائل ختم نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے 33 33ْ3 3 ۱؂ یعنی اگر یہ جھوٹا ہوگا تو تمہارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو جائے گا اور اس کا جھوٹ ہی اس کو ہلاک کر دے گا لیکن اگر سچا ہے تو پھر بعض تم میں سے اس کی پیشگوئیوں کا نشانہ بنیں گے اور اس کے دیکھتے دیکھتے اس دارالفنا سے کوچ کریں گے۔ اب اِس معیار کے رُو سے جو خدا کے کلام میں ہے مجھے آزماؤ اور میرے دعوے کو پرکھو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان مولوی صاحبوں نے میرے تباہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا کُفرنامہ تیار کرتے کرتے ان کے پَیر گھِس گئے۔ گالیوں کے اشتہار شائع کرتے کرتے شیعوں کو بھی پیچھے ڈال دیا میرے پر خون کے مقدمات بنائے گئے اور کئی دفعہ فوجداری الزاموں کے نیچے رکھ کر مجھے عدالت تک پہنچایا گیا۔ میری طرف آنے والوں پر وہ سختی کی گئی کہ بجز صحابہ کی اُس زندگی کے جب مکّہ میں تھے دنیا میں اِس توہین اور تحقیر اور ایذا کی نظیر نہیں پائی جاتی بعض میرے متعلقین غیر ممالک کے انہیں ممالک میں قتل کئے گئے۔ غرض اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ میرے معدوم کرؔ نے کے لئے اور لوگوں کو میری طرف آنے سے منع کرنے کے لئے ناخنوں تک زور لگایا گیا اور کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا بہت سے بے حیائی کے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/97/mode/1up


کام بھی انہیں مولویوں میں سے بعض سے ظہور میں آئے میرے پر جھوٹی مخبریاں بھی کی گئیں اور خواہ نخواہ گورنمنٹ کو خلاف واقعہ باتوں کے ساتھ اُکسایا گیا مگر کچھ خبر ہے کہ اس کا نتیجہ آخر کار کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ میں ترقی کرتا گیا جب یہ لوگ میری تکفیر اور تکذیب کے لئے کھڑے ہوئے اور خود بخود پیشگوئیاں کیں کہ جلد ترہم اِس شخص کو نابود کر دیں گے۔ اُس وقت میرے ساتھ کوئی بڑی جماعت نہ تھی بلکہ صرف چند آدمی تھے جن کو اُنگلیوں پر گِن سکتے تھے بلکہ براہین احمدیہ کے زمانہ میں جب براہین احمدیہ چَھپ رہی تھی مَیں صرف اکیلا تھا کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُس وقت میرے ساتھ کوئی ایک بھی تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ جبکہ خداتعالیٰ نے پچاس سے زیادہ پیشگوئیوں میں مجھے خبر دی تھی کہ اگرچہُ تو اِس وقت اکیلا ہے مگر وہ وقت آتا ہے جو تیرے ساتھ ایک دنیا ہوگی اور پھر وہ وقت آتا ہے جو تیرا اِس قدر عروج ہوگا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کیونکہ تُو برکت دیا جائے گا۔ خدا پاک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ تیرے سلسلہ کو اور تیری جماعت کو زمین پر پھیلائے گا اَور انہیں برکت دے گا اور بڑھائے گا اور اُن کی عزّت زمین پر قائم کرے گا جب تک کہ وہ اس کے عہد پر قائم ہوں گے۔ اب دیکھو کہ براہین احمدیہ کی ان پیشگوئیوں کا جن کا ترجمہ لکھا گیا وہ زمانہ تھا جبکہ میرے ساتھ دنیا میں ایک بھی نہیں تھا جبکہ خدا نے مجھے یہ دُعا سکھلائی کہ 333 ۱؂ یعنی اے خدا مجھے اکیلامت چھوڑاَور تُو سب سے بہتر وارث ہے۔ یہ دُعا الہامی براہین میں درج ہے غرض اس وقت کے لئے تو براہین احمدیہ خود گواہی دے رہی ہے کہ مَیں اُس وقت ایک گمنام آدمی تھا مگر آج باوجود مخالفانہ کوششوں کے ایک لاکھ سے بھی زیادہ میری جماعت مختلف مقامات میں موجود ہے پس کیا یہ معجزہ ہے یا نہیں کہ میری مخالفت اور میرے گِرانے میں ہر قسم کے فریب خرچ کئے منصوبے کئے مگر یہ سب مولوی اور اُن کے رفیق چھوٹے بڑے سب کے سب نامُراد رہے۔ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر معجزہ کی تعریف ندوہ کے جُبّہ پوش خود ہی کریں کہ کس چیز کا نام ہے ۔اگر مَیں صاحبِ معجزہ نہیں تو جھوٹا ہوں ۔اگر قرآن سے ابن مریم کی وفات ثابت نہیں تو مَیں جھوٹا ہوں۔ اگر حدیث معراج نے ابن مریم کو مُردہ روحوں میں نہیں بٹھا دیا تو مَیں جھوٹا ہوں ۔اگر قرآن نے سورہ نور میں نہیں کہا کہ اِس اُمّت کے خلیفے اِسی اُمّت میں سے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/98/mode/1up


ہوں گے تو مَیں جھوٹا ہوں اگر قرآن نے میرا نام ابنِ مریم نہیں رکھا تو مَیں جھوٹا ہوں اے فانی انسانو! ہشیار ہو جاؤ اور سوچو کہ بجُز اِس کے معجزہ کیا ہوتا ہے کہ اِس قدر مخالفوں کے جنگ وجدل کے بعد آخر براہین احمدیہ کی وہ پیشگوؔ ئیاں سچی نکلیں جو آج سے بائیس برس پہلے کی گئی تھیں تم ثابت نہیں کر سکتے کہ اس زمانہ میں ایک فرد انسان بھی میرے ساتھ تھا مگر اِس وقت اگر میری جماعت کے لوگ ایک جگہ آباد کئے جاویں تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ شہر امرتسر سے بھی کچھ زیادہ ہوگا۔ حالانکہ براہین کے زمانہ میں جب یہ پیشگوئی کی گئی مَیں صرف اکیلا تھا پھر اگر مولویوں کی مزاحمت درمیان نہ ہوتی تو براہین احمدیہ کی پیشگوئی پر دوہرا رنگ نہ چڑھتا لیکن اب تو مولویوں اور اُن کے تابعداروں کی مخالفانہ کوششوں نے اِس اعجاز پر دوہرا رنگ چڑھا دیا اور بجائے اس کے کہ حسب مضمون 33 ۱؂ مجھے صرف صادق ہونے کی وجہ سے اِس آیت کی مقرر کردہ علامت سے بریّت مل جاتی۔ اب تو اِس کے علاوہ براہین احمدیہ کی عظیم الشان پیشگوئیاں جو اِس زمانہ سے بیس بائیس برس پہلے دنیا میں شائع ہو چکی ہیں وہ پوری ہوگئیں اور ہزارہا اہلِ فضل و کمال میرے ساتھ ہوگئے۔ اب دوسرا جُز اِس آیت کا دیکھو 3 ۲؂ یہ معیار بھی کیسا اعجازی رنگ میں پورا ہوا خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ انّی مھین من اراد اھانتک ہر ایک شخص جو تیری اہانت کرے گاوہ نہیں مرے گا جب تک وہ اپنی اہانت نہ دیکھ لے۔ اب مولویوں سے پوچھ لو کہ اُنہوں نے میرے مقابل پر خدا کے حکم سے کوئی ذلت بھی دیکھی ہے یا نہیں۔ اب کون میری توہین کرنے والا بول سکتا ہے کہ قرآن کی یہ پیشگوئی جو 33 ۲؂ ہے میری تائید کے لئے ظہور میں نہیں آئی بلکہ قرآن شریف نے بعض کے لفظ سے جتلا دیا کہ وعید کی پیشگوئی کے لئے بعض کا نمونہ کافی ہے اور اِس جگہ نمونے تھوڑے نہیں۔ کیا مخالفوں کی اِس میں کچھ تھوڑی ذلت ہے کہ غلام دستگیر اپنی کتاب فتح رحمانی میں یعنی صفحہ ۲۷ میں میرے پر عام لفظوں میں بددُعا کر کے یعنی فریقین میں سے کاذب پر بد دُعا کر کے خود ہی چند روز کے بعد مر گیا*۔محمدحسن


* دیکھو کہ کیا یہ معجزہ نہیں کہ جس مولوی نے مکّہ کے بعض نادان ملانوں سے میرے پر فتویٰ کفر کا لکھوا یا تھا۔ وہ مباہلہ کر کے خود ہی مر گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/99/mode/1up


بھیں نے اپنی تحریر میں *** اللّہ علی الکاذبین کا لفظ میرے مقابل پر بولا وہ کتاب پوری نہ کرنے پایا کہ سخت عذاب سے مر گیا۔ پیر مہر علی شاہ نے اپنی کتاب میں میرے مقابل پر *** اللّٰہ علی الکاذبین کہا وہ معًا جُرم سرقہ میں اِس طرح گرفتار ہوا کہ اُس *نے ساری کتاب محمد حسن مُردہ کی چُرا لی اور کہا کہ مَیں نے بنائی ہے اور جھوٹ بولا اور اس کا نام سیف چشتیائی رکھا اور پھر تیسری مصیبت یہ کہ محمد حسن مُردہ نے جس قدر میری کتاب اعجاز المسیح پر جرح خیال کیا تھا وہ جرح بھی سارا غلط ثابت ہوا اُس نے ابھی نظر ثانی نہیں کی تھی کہ وہ مَر گیا اس نادان نے جو عربی سے بے بہرہ ہے اس تمام جرح کو سچ سمجھ لیا ۔اب بتلاؤ کہ یہ بھی ایک قسم کی موت ہے یا نہیں کہ کتاب کا مسودہ چُرایا اور وہ چوری پکڑی گئی اور پھر گدی نشین ہو کر صریح جھوٹ بولا کہ یہ کتاب مَیں نے بنائی ہے اور پھر جو کچھ چُرایا وہ ایسی غلطیاں تھیں کہ گویاؔ نجاست تھی۔ کیا اِس عذاب سے عذابِ جہنّم زیادہ ہے خ پھر حافظ صاحب کی خدمت میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرے توبہ کرنے کے لئے صرف اتنا کافی نہ ہوگا کہ بفرضِ محال کوئی کتاب الہامی مدعی نبوت کی نکل آوے جس کو وہ قرآن شریف کی طرح (جیسا کہ میرا دعویٰ ہے) خدا کی ایسی وحی کہتا ہو جس کی صفت میں لاریب فیہ ہے۔ جیسا کہ میں کہتا ہوں اور پھر یہ بھی ثابت ہو جائے کہ وہ بغیرتوبہ کے مَرا اور مسلمانوں نے اپنے


* مہرعلی نے محمد حسن مُردہ کی نکتہ چینی پر بھروسہ کر کے یہ جاہلانہ الزام میرے پر لگایا کہ عرب کی بعض مشہور مثالیں یا فقرے جو مقامات حریری وغیرہ نے بھی نقل کئے ہیں وہ بطور اقتباس میری کتاب میں بھی پائے جاتے ہیں جو دو ۲ تین۳ سطر سے زیادہ نہیں گویا اس نادان کی نظر میں یہ چوری ہوئی۔ سو اس وقت ضرور تھا کہ وہ پیشگوئی اپنا چہرہ دکھلاتی کہ انّی مھین من اراد اھانتک لہٰذا وہ ایک ساری کی ساری کتاب کا چور ثابت ہوا اور جھوٹ بولا اور غلط نکتہ چینی کی پیروی کی اور متنبہ نہ ہو سکا کہ یہ غلط ہے اس طرح وہ تین سنگین جُرموں میں پکڑا گیا۔ کیا یہ معجزہ نہیں۔ منہ


خ مہر علی کی یہ چوری اور پھر جہالت سے غلطیوں پر بھروسہ کرنا اور نادانی سے ابن مریم کو زندہ قرار دینا وغیرہ امور

جو سراسر جہل اور نادانی کے تقاضا سے اس سے صادر ہوئے اس کے بارے میں میری طرف سے ایک زبردست کتاب تالیف ہورہی ہے جس کا نام نزول المسیح ہے جس سے تنبور چشتیائی پاش پاش ہو کر اس میں صرف گردو غبار رہ جائے گی کہ جو مہرعلی کی آنکھوں میں پڑے گی اور اس کی زندگی کو تلخ کردے گی۔ یہ کتاب گیارہ جُز تک چھپ چکی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/100/mode/1up


قبرستان میں اس کو دفن نہ کیا اور کسی عذاب سے ہلاک نہ ہوا تو صرف اسی قدر سے کوئی کاذب مدعی نبوت میرے برابر نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ میری تائید میں معجزات بھی ہیں اور باایں ہمہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حافظ صاحب کوشش کرتے کرتے دنیا سے رخصت بھی ہو جائیں یا کسی اور ابواسحاق محمد دین سے ایک اور ہزار رسالہ قطع الوتین کا تصنیف بھی کرالیں اور گو ایسا شخص اپنے لئے خود کشی پسند کر کے قطع الوتین ہی کر لے مگر پھر بھی حافظ صاحب کے نصیب نہ ہوگا کہ جس طرح مَیں تقریباً تئیس۲۳ برس سے اپنی وحی برابر آج کے دن تک شائع کرتا رہا ہوں اسی طرح اُس کی مسلسل تئیس برس کی وحی کامجموعہ پیش کر سکیں جس پر اُس نے میری طرح قسم کھا کر بیان کیا ہو کہ یہ وحی یقینی اورقطعی طور پر خدا کا کلام ہے اگر مَیں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی *** ہو جیسا کہ مَیں اپنی کتابوں میں یہی الفاظ اپنی نسبت لکھ چکا ہوں۔ یہ تو ایک ادنیٰ درجہ کی بات ہے کہ جھوٹوں کے ساتھ میرا موازنہ کیا جائے مگر مَیں تو اِس سے بڑھ کر اپنا ثبوت رکھتا ہوں کہ ہزارہا معجزات اب تک ظاہر ہو چکے ہیں جن کے ہزار ہا گواہ ہیں اور قرآن شریف میرا مصدّق ہے۔ کیا یہ میرا حق نہیں ہے کہ مقابلہ کے وقت ان ثبوتوں کو کسی کاذب پیش کردہ کی نسبت آپ سے طلب کروں۔ بھلا بتلائیں کہ میرے بغیر کس کے لئے بموجب حدیث دار قطنی کے کسوف خسوف ہوا کس کے لئے بموجب احادیث صحیحہ کے طاعون پڑی۔ کس کے لئے ستارہ ذوالسنین نکلا۔ کس کے لئے لیکھرام وغیرہ کے نشان ظاہر ہوئے۔ لیکن ندوۃ العلماء اگر اپنے تئیں اسم بامسمّٰی کرنا چاہے تو اب اس کی اپنی ذاتی ہدایت کے لئے خواہ حافظ صاحب اس سے کچھ حصہ لیں یا نہ لیں اس قدر بھی کافی ہو سکتا ہے کہ حافظ صاحب سے تو ایسے مدعیان نبوت کا حلفًا ثبوت مانگے جن کی وحی کاذب کا قرآن شریف کی طرح تئیس۲۳ برس تک برابر سلسلہ جاری رہا اور اُن سے ثبوت مانگے کہ کہاں انہوں نے قسم کے ساتھ بیان کیا کہ ہم درحقیقت نبی ہیں اور ہماری وحی قرآن کی طرح قطعی یقینی ہے اور یہ بھی ثبوت مانگے کہ کیا وہ لوگ اس زمانہ کے مولویوں کے فتوے سے کافر ٹھہرائے گئے تھے یا نہیں اور اگر نہیں ٹھہرائے گئے تو اِس کی کیا وجہ۔ کیا ایسے مولوی فاسق فاجر تھے یا نہیں جنہوں نے دین میں ایسی لاپروائی ظاہر کی اور یہ بھی ثبوت مانگے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/101/mode/1up


کہ ایسے لوگ کن قبروں میں دفن کئے گئے کیا مسلمانوں کی قبروں میں یا علیحدہ اور اسلامی سلطنت* میں قتل ہوئے یا امن سے عمر گزاری۔ حافظؔ صاحب سے تو یہ ثبوت طلب کیا جائے اور پھر میرے معجزات اور دیگر دلائل نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے طلبِ ثبوت کے لئے بعض منتخب علماء ندوہ کے قادیان میں آویں اور مجھ سے معجزات اور دلائل یعنی نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا ثبوت لیں پھر اگر سنّت انبیاء علیہم السلام کے مطابق مَیں نے پورا ثبوت نہ دیا تو مَیں راضی ہوں کہ میری کتابیں جلائی جائیں لیکن اس قدر محنت اُٹھانا بڑے باخدا کا کام ہے ندوہ کو کیا ضرورت جو اس قدر سردرد اُٹھاوے اور کونسا فکر آخرت ہے تا خدا سے ڈرے مگر ندوہ کے علماء ایک ایک کر کے یاد رکھیں کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں نہیں رہ سکتے موتیں پکاررہی ہیں اور جس لہو و لعب میں وہ مشغول ہورہے ہیں جس کا نام وہ دین رکھتے ہیں خدا آسمان پر دیکھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ وہ دین نہیں ہے وہ ایک چھلکے پر راضی ہیں اور مغز سے بے خبر ہیں یہ اسلام کی خیر خواہی نہیں بلکہ بدخواہی ہے۔ کاش اگر ان کی آنکھیں ہوتیں تو وہ سمجھتے کہ دنیا میں بڑا گناہ کیا گیا کہ خدا کے مسیح کو ردّ کر دیا گیا اِس بات کا ہر ایک کو مَرنے کے بعد پتہ لگے گا اور حافظ صاحب مجھے ڈراتے ہیں کہ تم اگر امرتسر میں نہ آئے تو اپنے دعوے میں تمام دنیا میں کاذب سمجھے جاؤگے۔ اے حافظ صاحب! دنیا کس کی ہے خدا کی یا آپ کی۔ آپ لوگ تو اب بھی مجھے کاذب ہی سمجھ رہے ہیں۔ اِس کے بعد اور کیا سمجھیں گے۔ آپ کی دنیا کی ہمیں کیا پرواہ۔ ہر ایک نفس میرے خدا کے قدموں کے نیچے ہے۔ اے بد اندیش حافظ سُن۔ تجھے کیا خبر کہ کس قدر خدا کی تائید میری ترقی کررہی ہے۔ حاسد اگر مر بھی جائے تو یہ ترقی رُک نہیں سکتی کیونکہ خدا کے ہاتھ سے اور خدا کے وعدہ کے موافق ہے نہ انسان کے ہاتھ سے۔ خدا نے میری جماعت سے پنجاب اور ہندوستان کے شہروں کو بھردیا۔ چند سال میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ اشخاص نے میری بیعت کی۔ کیا ابھی آپ نہیں سمجھتے کہ آسمان پر کس کی تائید ہورہی ہے۔ میرے خیال میں تو دس ہزار


* اسلام کی سلطنت میں ثبوت دینے میں یہ کافی نہیں کہ ایسا شخص جو مدعی نبوت تھا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور نہ اس کا جنازہ پڑھا گیا بلکہ کافی ثبوت کے لئے یہ ثابت کرنابھی ہوگا کہ وہ قتل بھی کیا گیا کیونکہ وہ مُرتد تھا لیکن حافظ صاحب اگر یہ ثبوت دیدیں تو گویا جس امر سے بھاگتے تھے اُسی کو قبول کرلیں گے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/102/mode/1up


کے قریب تو طاعون کے ذریعہ سے ہی میری جماعت میں داخل ہوئے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ تھوڑے دنوں میں میری جماعت سے زمین بھر جائے گی۔ اے حافظ صاحب !کیا آپ وہی حافظ صاحب نہیں جنہوں نے مجھ کو بلاواسطہ دیگرے کہا تھا کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کہتے تھے کہ قادیان پر ایک نور نازل ہوا جس سے میری اولاد محروم رہ گئی افسوس آپ نے قبر میں عبداللہ صاحب کو دُکھ دیا کیا ان کے قول کے مخالف یہ طریق خلاف آپ کو لازم تھا۔ پھر کیا میاں محمد یعقوب آپ کے حقیقی بھائی نہیں ہیں۔ اُن سے بھی تو ذرا پوچھ لیا ہوتا وہ تو قریباً د س۱۰ برس سے دوہائی دے رہے ہیں کہ ان کو بھی مولوی عبداللہ صاحب غزنوی نے قادیان کا ہی حوالہ دیا تھا کہ نور قادیان میں ہی نازل ہوگا اور وہ غلام احمد ہے اور انہوں نے خبر دی ہے کہ وہ اب تک اِس گواہی پر قائم ہیں اور اُن کا خط موجود۔ پھر آپ حافظ کہلا کر حقیقی حافظ پر توکّل نہیں رکھتے قوم کے ڈر سے جھوٹ بولتے ہیں۔ مَیں سوچ میں ہوں کہ عبداللہ صاحب کے یہ کیسے مکاشفات تھے۔ جو اُن کے ساتھ ہی خاک میں مل گئے۔ آپ جیسے اُن کے بڑے خلیفہ نے بھی اُن کا قدر نہ کیا۔ والسّلام علٰی من اتّبع الہدیٰ۔


المؤلّف مرزا غلام احمد قادیانی ۔ ۴؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ؁

تماؔ م مُسلمانوں اور تمام سچائی کے بھوکوں

اور

پیاسوں کے لئے ایک بڑی خوشخبری

حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی خارق عادت زندگی اور خلاف نصوص قرآنیہ مع جسم آسمان پر چلے جانا اور باوجود وفات یافتہ نہ ہونے کے پھر وفات یافتہ نبیوں کی روحوں میں جو ایک رنگ سے بہشت میں داخل ہو چکے داخل ہو جانا یہ تمام ایسی باتیں تھیں کہ درحقیقت سچے مذہب کے لئے ایک داغ تھا اور نیز مدت دراز سے مغربی مخلوق پرستوں کا مو ّ حدین اہلِ اسلام کے ذمہ ایک قرضہ چلا آتاتھا اور نادان مسلمانوں نے بھی اس قرضہ کا اقرار کر کے اپنے ذمہ ایک بڑی سودی رقم عیسائیوں کی بڑھا دی تھی جس کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمان اس ملک ہند میں ارتداد کا جامہ پہن کر عیسائیوں کے ہاتھ میں گرو پڑ گئے تھے اور



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/103/mode/1up


کوئی صورت ادائے قرضہ کی نظر نہ آتی تھی۔ جب عیسائی کہا کرتے تھے کہ ربّنا یسوع مسیح آسمان پر زندہ مع جسم چڑھ گیا بڑی طاقت دکھلائی خدا جو تھا مگر تمہارا نبی تو ہجرت کرنے کے بعد مدینہ تک بھی پرواز کر کے نہ جا سکا غارثور میں ہی تین دن تک چھپا رہا آخر بڑی مشکل سے مدینہ تک پہنچااور پھر بھی عمر نے وفا نہ کی دس برس کے بعد فوت ہوگیا اَور اب وہ قبر میں اور زیرِ زمین ہے مگر یسوع مسیح زندہ آسمان پر ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہی دوبارہ آسمان سے اُتر کر دنیا کا انصاف کرے گا۔ ہر ایک جو اس کو خدا نہیں جانتا وہ پکڑا جائے گا اور آگ میں ڈالا جائے گا۔

اس کا جواب مسلمانوں کو کچھ بھی نہیں آتا نہایت شرمندہ اور ذلیل ہوتے تھے اب یسوع مسیح کی خوب خدائی ظاہر ہوئی۔ آسمان پر چڑھنے کا سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔ اوّل تو ہزار نسخہ سے زیادہ ایسی طبی کتابیں جن کو پُرانے زمانہ میں رومیوںیونانیوں مجوسیوں عیسائیوں اور سب سے بعد مسلمانوں نے بھی ان کا ترجمہ کیا تھا پیدا ہوگئیں جن میں ایک نسخہ مرہم عیسیٰ کا لکھا ہے اوران کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ کے لئے یعنی اُن کے صلیبی زخموں کے لئے بنائی گئی تھی۔ ازاں بعد کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بھی پیدا ہوگئی۔ پھر اس کے بعد عربی اور فارسی میں پُرانی کتابیں پیدا ہوگئیں جو بعض ان میں سے ہزار برس کی تصنیف ہیں اورؔ حضرت عیسیٰ کی وفات کی گواہی دیتی اور قبر اُن کی کشمیر میں بتلاتی ہیں اور پھر سب کے بعد جو آج ہمیں خبر ملی یہ تو ایک ایسی خبر ہے کہ گویا آج اس نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن چڑھا دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حال میں بمقام یروشلم پطرس حواری کا دستخطی ایک کاغذ پُرانی عبرانی میں لکھا ہوا دستیاب ہوا ہے جس کو کتاب کشتی نوح کے ساتھ شامل کیا گیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح صلیب کے واقعہ سے تخمیناًپچاس برس بعد اسی زمین پر فوت ہوگئے تھے اور وہ کاغذ ایک عیسائی کمپنی نے اڑھائی لاکھ روپیہ دے کر خرید لیا ہے کیونکہ یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ وہ پطرس کی تحریر ہے اور ظاہر ہے کہ اِس قدر ثبوتوں کے جمع ہونے کے بعد جو زبردست شہادتیں ہیں پھر اِس بیہودہ اعتقاد سے جو عیسیٰ زندہ ہے باز نہ آنا ایک دیوانگی ہے امور محسوسہ مشہودہ سے انکار نہیں ہو سکتا سو مسلمانوں تمہیں مبارک ہو آج تمہارے لئے عید کا دِن ہے اُن پہلے جھوٹے عقائد کو دفع کرو اور اب قرآن کے مطابق اپنا عقیدہ بنالو۔ مکرریہ کہ یہ آخری شہادت



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- تُحفۃُ النَّدوَۃ: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/104/mode/1up


حضرت عیسیٰ کے سب سے بزرگ تر حواری کی شہادت ہے یہ وہ حواری ہے کہ اپنی تحریر میں جو برآمد ہوئی ہے خود اس شہادت کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ مَیں ابن مریم کا خادم ہوں اور اب مَیں نوے۹۰ سال کی عمر میں یہ خط لکھتا ہوں جبکہ مریم کے بیٹے کو مَرے ہوئے تین سال گزرچکے ہیں لیکن تاریخ سے یہ امر ثابت شدہ ہے اور بڑے بڑے مسیحی علماء اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ پطرس اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش قریب قریب وقت میں تھی اور واقعہ صلیب کے وقت حضرت عیسیٰ کی عمر قریباً 3سال اور حضرت پطرس کی عمر اُس وقت تیس چالیس سال کے درمیان تھی (دیکھو کتاب سمتھس ڈکشنری جلد ۳ صفحہ ۲۴۴۶ و موٹی ٹیولس نیو ٹسٹیمنٹ ہسٹری و دیگر کتب تاریخ) اور اس خط کے متعلق اکابر علماء مذہب عیسوی نے بہت تحقیقات کر کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ صحیح ہے اور اس کیلئے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں ایسی عزت سے یہ تحریر دیکھی گئی ہے کہ ایک رقم کثیر اس کے عوض میں وارثان اُس مقدس راہب کو دی گئی ہے جس کے کتب خانہ سے بعد وفات یہ کاغذ برآمد ہوا اور ہمارے نزدیک اس کاغذکی صحت پر ایک اور قوی دلیل ہے کہ ایسے شخص کے کتب خانہ سے یہ کاغذ نکلا ہے جو رومن کیتھولک عقیدہ رکھتا تھا اور نہ صرف حضرت عیسیٰ کی خدائی کا قائل تھا بلکہ حضرت مریم کی خدائی کا بھی قائل تھا یہ کاغذات اُس نے محض ایک پُرانے تبرکات میں رکھے ہوئے تھے اور چونکہ وہ پُرانی عبرانی تھی اور طرز تحریر بھی پُرانی تھی اس لئے وہ اس کے مضمون سے محض نا آشنا تھا۔ یہ ایک نشان ہے ماسوا اس نئی شہادت کے جو حضرت پطرس کے خط میں سے نکلی ہے۔ متقدمین میں بھی عیسائیوں کے بعض فرقے خود اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر سے ایک موت کی سی سخت بیہوشی میں اُتارے گئے تھے اور ایک غار کے اندر تین دن کے علاج معالجہ سے تندرست ہو کر کسی اور طرف چلے گئے جہاں مدّت تک زندہ رہے ان عقائد کا ذکر انگریزی کتابوں میں مفصل درج ہے جن میں سے کتاب نیو لائف آف جیزس مصنفہ سٹراس اور کتاب ماڈرن ڈوٹ اینڈ کرسچن بیلیف اور کتاب سوپر نیچرل ریلیجن کی بعض عبارتیں ہم نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں درج کی ہیں۔

المؤلف میرزا غلام احمد قادیانی ۔ ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء ؁
 
Top