• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 19 ۔کشتی نوح ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


رسالہ کشتی نوح

ترجمہ ۔ہمیں کوئی مصیبت ہرگز نہیں پہنچ سکتی بجز اس مصیبت کے جو خدا نے ہمارے لئے لکھ دی ہے وہی ہمارا کارساز اور مولیٰ ہے اور مومنوں کو چاہئے کہ بس اسی پر بھروسہ رکھیں۔

شکر کا مقام ہے کہ گورنمنٹ عالیہ انگریزی نے اپنی رعایا پر رحم کر کے دوبارہ طاعون سے بچانے کے لئے ٹیکا کی تجویز کی اور بندگان خدا کی بہبودی کے لئے کئی لاکھ روپیہ کا بوجھ اپنے سر پر ڈال لیا درحقیقت یہ وہ کام ہے جس کا شکر گذاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہے اور سخت نادان اور اپنے نفس کا وہ شخص دشمن ہے کہ جو ٹیکا کے بارے میں بدظنی کرے کیونکہ یہ بارہا تجربہ میں آچکا ہے کہ یہ محتاط گورنمنٹ کسی خطرناک علاج پر عملدرآمد کرانا نہیں چاہتی بلکہ بہت سے تجارب کے بعد ایسے امور میں جو تدبیرفی الحقیقت مفید ثابت ہوتی ہے اُسی کو پیش کرتی ہے سو یہ بات اہلیت اور انسانیت سے بعید ہے کہ جس سچی خیر خواہی کے لئے لکھوکھہا روپیہ گورنمنٹ خرچ کرتی ہے اور کر چکی ہے اُس کی یہ داد دی جائے کہ گویا گورنمنٹ کو اس سر دردی اور صَرف زر سے اپنا کوئی خاص مطلب ہے وہ رعایا بدقسمت ہے کہ بدظنی میں اس درجہ تک پہنچ جائے کچھ شک نہیں کہ اس وقت تک جو تدبیر اس عالم اسباب میں اس گورنمنٹ عالیہ کے ہاتھ آئی وہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ یہ تدبیرہے کہ ٹیکا کرایا جائے اس سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ تدبیر مفید پائی گئی ہے اور بپابندی رعائت اسباب تمام رعایا کا فرض ہے کہ اس پر کار بند ہو کر وہ غم جو گورنمنٹ کو ان کی جانوں کے لئے ہے اس سے اُس کو سبکدوش کریں۔ لیکن ہم بڑے ادب سے اس محسن گورنمنٹ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے لئے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہم ٹیکا کراتے اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لئے ایکؔ آسمانی رحمت کا نشان دکھا وے سواُس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہوگا اور وہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کے لئے مت دلگیر ہو یہ حکم الٰہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لئے اور ان سب کے لئے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ جیسا میں ابھی بیان کر چکا ہوں آج سے ایک مدت پہلے وہ خدا جو زمین وآسمان کا خدا ہے جس کے علم اور تصرف سے کوئی چیز باہر نہیں اُس نے مجھ پر وحی نازل کی ہے کہ میں ہر یک ایسے شخص کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو اس گھر کی چار دیوار میں ہوگا بشرطیکہ وہ اپنے تمام مخالفانہ ارادوں سے دستکش ہو کر پورے اخلاص اور اطاعت اور انکسار سے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور خدا کے احکام اور اس کے مامور کے سامنے کسی طور سے متکبر اور سر کش اور مغرور اور غافل اور خود سر اور خود پسند نہ ہو اور عملی حالت موافق تعلیم رکھتا ہو اور اُس نے مجھے مخاطب کر کے یہ بھی فرما دیا کہ عموماً قادیان میں سخت بربادی افگن طاعون نہیں آئے گی جس سے لوگ کتوں کی طرح مریں اور مارے غم اور سرگردانی کے دیوانہ ہو جائیں اور عموماً تمام لوگ اس جماعت کے گو وہ کتنے ہی ہوں مخالفوں کی نسبت طاعون سے محفوظ رہیں گے مگر ایسے لوگ ان میں سے جو اپنے عہد پر پورے طور پر قائم نہیں یا ان کی نسبت اور کوئی وجہ مخفی ہو جو خدا کے علم میں ہو اُن پر طاعون وارد ہو سکتی ہے مگر انجام کا ر لوگ تعجب کی نظر سے اقرار کریں گے کہ نسبتاً و مقابلۃًخدا کی حمایت اس قوم کے ساتھ ہے اور اس نے خاص رحمت سے ان لوگوں کو ایسا بچایا ہے جس کی نظیر نہیں۔ اس بات پر بعض نادان چونک پڑیں گے اور بعض ہنسیں گے اور بعض مجھے دیوانہ قرار دیں گے اور بعض حیرت میں آئیں گے کہ کیا ایسا خدا موجود ہے جو بغیر رعایت اسباب کے بھی رحمت نازل کر سکتا ہے اس کا جواب یہی ہے کہ ہاں بلاشبہ ایسا قادر خدا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہ ہوتا تو اس سے تعلق رکھنے والے زندہ ہی مر جاتے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


وہ عجیب قادر ہے اور اُس کی پا ک قدرتیں عجیب ہیں۔ ایک طرف نادان مخالفوں کو اپنے دوستوں پر کتوں کی طرح مُسلّط کر دیتا ہے اور ایک طرف فرشتوں کو حکم کرتا ہے کہ اُن کی خدمت کریں ایسا ہی جب دنیاؔ پر اُس کا غضب مستولی ہوتا ہے اور اُس کا قہر ظالموں پر جوش مارتا ہے تو اُس کی آنکھ اُس کے خاص لوگوں کی حفاظت کرتی ہے اگر ایسانہ ہوتا تو اہل حق کا کارخانہ درہم برہم ہو جاتا اور کوئی ان کو شناخت نہ کر سکتا۔ اُس کی قدرتیں بے انتہا ہیں مگر بقدر یقین لوگوں پر ظاہر ہوتی ہیں جن کو یقین اور محبت اور اُس کی طرف انقطاع عطا کیا گیا ہے اور نفسانی عادتوں سے باہر کئے گئے ہیں انہیں کے لئے خارق عادت قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر خارق عادت قدرتوں کے دکھلانے کا اُنہیں کے لئے ارادہ کرتا ہے جو خدا کے لئے اپنی عادتوں کو پھاڑتے ہیں۔ اس زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو اس کو جانتے ہیں اور اس کی عجائب قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ ایسے لوگ بہت ہیں جن کو ہرگز اس قادر خدا پر ایمان نہیں جس کی آواز کو ہر یک چیز سنتی ہے جس کے آگے کوئی بات اَنْ ہونی نہیں۔ اس جگہ یادر ہے کہ اگرچہ طاعون وغیرہ امراض میں علاج کرنا گناہ نہیں ہے بلکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ کوئی ایسی مرض نہیں جس کے لئے خدا نے دوا پیدا نہیں کی۔ لیکن میں اس بات کو معصیت جانتا ہوں کہ خدا کے اُس نشان کو ٹیکا کے ذریعہ سے مشتبہ کر دوں جس نشان کو وہ ہمارے لئے زمین پر صفائی سے ظاہر کرنا چاہتا ہے اور میں اس کے سچے نشان اور سچے وعدہ کی ہتک عزت کر کے ٹیکا کی طرف رجوع کرنا نہیں چاہتا اور اگر میں ایسا کروں تو یہ گناہ میرا قابل مواخذہ ہوگا کہ میں خدا کے اس وعدہ پر ایمان نہ لایا جو مجھ سے کیا گیا اور اگر ایسا ہو تو پھر تو مجھے شکر گزار اُس طبیب کا ہونا چاہئے جس نے یہ نسخہ ٹیکا کا نکالا نہ خدا کا شکر گزار جس نے مجھے وعدہ دیا کہ ہر یک جو اس چار دیوار کے اندرہے میں اُسے بچاؤں گا۔

میں بصیرت کی راہ سے کہتا ہوں کہ اُس قادر خدا کے وعدے سچے ہیں اور میں آنے والے دنوں کو ایسا دیکھتا ہوں کہ گویا وہ آچکے ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ عالیہ کا اصل مقصدیہ ہے کہ کسی طرح طاعون سے لوگ نجات پاویں اور اگر گورنمنٹ کو آئندہ کسی وقت طاعون سے نجات پانے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کے لئے ٹیکا سے بہتر کوئی تدبیر مل جائے تو وہ خوشی سے اسی کو قبول کرے گی اس صورت میں ظاہر ہے کہ یہ طریق جس پر خدا نے مجھے چلایا ہے اس گورنمنٹ عالیہ کے مقاصد کے بر خلاف نہیں ہے اور آج سے بیس۲۰ برس پہلے اس بَلائے عظیم طاعون کی نسبت میری کتاب براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی یہ خبر موجود ہے اور اس سلسلہ کے لئے خاص برکات کا وعدہ بھی موجود ہے۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہؔ ۵۱۸ و صفحہ ۵۱۹۔ پھر ماسوا اس کے یہ بڑے زور سے خداتعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی ہے کہ خدا میرے گھر کے احاطہ کے اندر مخلص لوگوں کو جو خدا کے سامنے اور اس کے مامور کے سامنے تکبر نہیں کرتے بلائے طاعون سے نجات دے گا اور نسبتاً و مقابلۃً اس سلسلہ پر اُس کا خاص فضل رہے گا گو کسی کی ایمانی قوت کے ضعف یا نقصان عمل یا اجل مقدر یا کسی اور وجہ سے جو خدا کے علم میں ہو کوئی شاذو نادر کے طور پر اس جماعت میں بھی کیس ہو جائے سو شاذونادر حکم معدوم کا رکھتا ہے ہمیشہ مقابلہ کے وقت کثرت دیکھی جاتی ہے جیسا کہ گورنمنٹ نے خود تجربہ کر کے معلوم کر لیا ہے کہ ٹیکا طاعون کا لگانے والے بہ نسبت دوسروں کے بہت ہی کم مرتے ہیں۔ پس جیسا کہ شاذونادر کی موت ٹیکا کے قدر کو کم نہیں کر سکتی اسی طرح اس نشان میں اگر مقابلۃً بہت ہی کم درجہ پر قادیان میں طاعون کی وارداتیں ہوں یا شاذو نادر کے طور پر اس جماعت میں سے کوئی شخص اس مرض سے گزر جائے تو اس نشان کا مرتبہ کم نہیں ہو گا وہ الفاظ جو خدا کی پاک کلام سے ظاہر ہوتے ہیں اُن کی پابندی سے یہ پیشگوئی لکھی گئی ہے عقلمند کا کام نہیں ہے کہ پہلے سے آسمانی باتوں پر ہنسی کرے یہ خدا کا کلام ہے نہ کسی منجم کی باتیں۔ یہ روشنی کی چشم سے ہے نہ تاریکی کی اٹکل سے یہ اس کا کلام ہے جس نے طاعون نازل کی اور جو اُس کو دور کر سکتاہے ۔ہماری گورنمنٹ بلاشبہ اُس وقت اس پیشگوئی کا قدر کرے گی جبکہ دیکھے گی کہ یہ حیرت انگیزکیا کام ہوا کہ ٹیکا لگانے والوں کی نسبت یہ لوگ عافیت اور صحت میں رہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اس پیشگوئی کے مطابق کہ دراصل برابر بیس۲۰ بائیس۲۲ برس سے شہرت پا رہی ہے ظہور میں نہ آیا تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں میرے منجانب اللہ ہونے کا یہ نشان ہوگا کہ میرے گھر کے چار دیوار کے اندر رہنے والے مخلص لوگ اس بیماری کی موت سے محفوظ رہیں گے اور میرا تمام سلسلہ نسبتاً و مقابلۃً



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


طاعون کے حملہ سے بچا رہے گا اور وہ سلامتی جو ان میں پائی جائے گی اُس کی نظیر کسی گروہ میں قائم نہیں ہوگی اور قادیان میں طاعون کی خوفناک آفت جو تباہ کر دے نہیں آئے گی اِلاَّ کم اور شاذو نادر کاش اگر یہ لوگ دلوں کے سیدھے ہوتے اور خدا سے ڈرتے تو بالکل بچائے جاتے۔ کیونکہ مذہب کے اختلاف کی وجہ سے دنیا میں عذاب کسی پر نازل نہیں ہوتا اُس کا مواخذہ قیامت کو ہوگا۔ دنیا میں محض شرارتوں اور شوخیوں اور کثرتِ گناہوں کی وجہ سے عذاب آتا ہے اور یہ ؔ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ توریت کے بعض صحیفوں*میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں یہ خبر دی ہے اور ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیشگویاں ٹل جائیں اور نیز یہ بھی یاد رہے کہ ہمیں اس الٰہی وعدہ کے مقابل اس لئے انسانی تدبیروں سے پرہیز کرنا لازم ہے تانشان الٰہی کو کوئی دشمن دوسری طرف منسوب نہ کرے لیکن اگر ساتھ اس کے خدا تعالیٰ اپنی کلام کے ذریعہ سے خود کوئی تدبیر سمجھاوے یا کوئی دوا بتلاوے تو ایسی تدبیر یا دوا اس نشان میں کچھ حارج نہیں ہوگی کیونکہ وہ اس خدا کی طرف سے ہے جس کی طرف سے وہ نشان ہے۔ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ اگر شاذونادر کے طور پر ہماری جماعت میں سے بذریعہ طاعون کوئی فوت ہو جائے تو نشان کے قدر و مرتبہ میں کوئی خلل آئے گا کیونکہ پہلے زمانوں میں موسیٰ اور یشوع اور آخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا تھا کہ جن لوگوں نے تلوار اُٹھائی اور صدہا انسانوں کے خون کئے ان کو تلوار سے ہی قتل کیا جائے اور یہ نبیوں کی طرف سے ایک نشان تھا جس کے بعد فتح عظیم ہوئی۔ حالانکہ بمقابل مجرمین کے اہل حق بھی ان کی تلوار سے قتل ہوتے تھے مگر بہت کم اور اس قدر نقصان سے نشان میں کچھ فرق نہیں آتا تھا پس ایسا ہی اگر شاذو نادر کے طور پر ہماری جماعت میں سے بعض کو بباعث اسباب مذکورہ طاعون ہو جائے تو ایسی طاعون نشان الٰہی میں کچھ بھی حرج انداز نہیں ہوگی۔ کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کو ایسے طور سے ظاہر کرے گا کہ ہر ایک طالب حق کو کوئی شک نہیں رہے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ معجزہ کے طور پر خدا نے اس جماعت سے معاملہ کیا ہے بلکہ بطور

* مسیح موعودکے وقت میں طاعون کا پڑنا بائبل کی ذیل کی کتابوں میں موجود ہے۔ذکریا3، انجیل متی3، مکاشفات 3۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نشان الٰہی کے نتیجہ یہ ہوگا کہ طاعون کے ذریعہ سے یہ جماعت بہت بڑھے گی اور خارق عادت ترقی کرے گی اور ان کی یہ ترقی تعجب سے دیکھی جائے گی اور مخالف جو ہر ایک موقعہ پر شکست پاتے رہے ہیں جیسا کہ کتاب نزول المسیح میں میں نے لکھا ہے اگر اس پیشگوئی کے مطابق خدا نے اس جماعت اور دوسری جماعتوں میں کچھ فرق نہ دکھلایا تو ان کا حق ہوگا کہ میری تکذیب کریں اب تک جو انہوں نے تکذیب کی ہے اس میں تو صرف ایک *** کو خریدا ہے مثلاً بار بار شور مچایا کہ آتھم پندرہ مہینہ کے اندر نہیں مرا۔ حالانکہ پیشگوئی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوعؔ کرے گا تو پندرہ مہینہ میں نہیں مرے گا سو اس نے عین جلسہ مباحثہ پر ستّر ۷۰ معزز آدمیوں کے روبرو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دجّالکہنے سے رجوع کیا اور نہ صرف یہی بلکہ اس نے پندرہ مہینہ تک اپنی خاموشی اور خوف سے اپنا رجوع ثابت کر دیا۔ اور پیشگوئی کی بناء یہی تھی کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دجال کہا تھا لہٰذا اس نے رجوع سے صرف اس قدر فائدہ اُٹھایا کہ پندرہ مہینے کے بعد مرا مگر مر گیا یہ اس لئے ہوا کہ پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں سے جو شخص اپنے عقیدہ کے رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو وہ مجھ سے پہلے مر گیا اسی طرح وہ غیب کی باتیں جو خدا نے مجھے بتلائی ہیں اور پھر اپنے وقت پر پوری ہوئیں وہ دس ہزار سے کم نہیں مگر کتاب نزول المسیح میں جو چھپ رہی ہے نمونہ کے طور پر صرف ڈیڑھ سو ان میں سے مع ثبوت اور گواہوں کے لکھی گئی ہیں۔ اور کوئی ایسی پیشگوئی میری نہیں ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئی یا اُس کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا نہیں ہو چکا۔ اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مر بھی جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جس کی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی گئی مگر بے شرمی سے یا بے خبری سے جو چاہے کہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزارہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہو گئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں ان کی نظیر اگر گذشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی اور جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی اگر میرے مخالف اسی طریق سے فیصلہ کرتے تو کبھی سے اُن کی آنکھیں کھل جاتیں اور میں ان کو ایک کثیر انعام دینے کو تیار تھا اگر وہ دنیا میں کوئی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


نظیر ان پیشگوئیوں کی پیش کرسکتے محض شرارت سے یا حماقت سے یہ کہنا کہ فلاں پیشگوئی پوری نہ ہوئی ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ ایسے اقوال کو خباثت اور بدظنی کی طرف منسوب کریں اگر کسی مجمع میں اسی تحقیق کے لئے گفتگو کرتے تو ان کو اپنے قول سے رجوع کرنا پڑتا یابے حیا کہلانا پڑتا۔ ہزار ہا پیشگویوں کا ہو بہو پورا ہو جانا اور اُن کے پورا ہونے پر ہزارہا گواہ زندہ پائے جانا یہ کچھ تھوڑی بات نہیں ہے گویا خدائے عزوجل کو دکھلا دینا ہے۔ کیا کسی زمانہ میں باستثنائے زمانہ نبوی کے کبھی کسی نے مشاہدہ کیا کہ ہزارہا پیشگوئیاں بیان کی گئیں اور وہ سب کی سب روز روشن کی طرح پوری ہوگئیں اور ہزارہا لوگوں نے ان کے پورے ہونے پر گواہی دی۔ میں یقیناًجانتا ہوں کہ اس زمانہ میں جس طرح خدا تعالیٰ قریب ہو کر ظاہر ہو رہا ہے اور ؔ صدہا امور غیب اپنے بندہ پر کھول رہا ہے اس زمانہ کی گذشتہ زمانوں میں بہت ہی کم مثال ملے گی۔ لوگ عنقریب دیکھ لیں گے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا چہرہ ظاہر ہوگا گویا وہ آسمان سے اُترے گا اُس نے بہت مدت تک اپنے تئیں چھپائے رکھا اور انکار کیا گیا اور چپ رہالیکن وہ اب نہیں چھپائے گا اور دنیا اُس کی قدرت کے وہ نمونے دیکھے گی کہ کبھی اُن کے باپ دادوں نے نہیں دیکھے تھے یہ اس لئے ہوگا کہ زمین بگڑ گئی اور آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے پر لوگوں کا ایمان نہیں رہا ہونٹوں پر اس کا ذکر ہے لیکن دل اس سے پھر گئے ہیں اس لئے خدا نے کہا کہ اب میں نیا آسمان اور نئی زمین بناؤں گا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ زمین مر گئی یعنی زمینی لوگوں کے دل سخت ہوگئے گویا مَر گئے کیونکہ خدا کا چہرہ اُن سے چھپ گیا اور گذشتہ آسمانی نشان سب بطور قصوں کے ہوگئے سو خدا نے ارادہ کیا کہ وہ نئی زمین اور نیا آسمان بناوے۔ وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا اُن سے ظاہر ہوگا۔ اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اُسی کے اِذن سے ظاہر ہو رہے ہیں لیکن افسوس کہ دنیا نے خدا کی اس نئی تجلّی سے دشمنی کی۔ ان کے ہاتھ میں بجز قصّوں کے اور کچھ نہیں اور ان کا خدا ان کے اپنے ہی تصورات ہیں دل ٹیڑھے ہیں اور ہمتیں تھکی ہوئی ہیں اور آنکھوں پر پردے ہیں ۔دوسری قومیں تو خود حقیقی خدا کو



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 8

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/8/mode/1up


کھو بیٹھی ہیں ان کا کیا ذکر ہے جنہوں نے انسانوں کے بچوں کو خدا بنا لیا۔ مسلمانوں کا حال دیکھو کہ وہ کس قدر اس سے دور ہوگئے ہیں۔ سچائی کے پکّے دشمن ہیں راہ راست کے جانی دشمن کی طرح مخالف ہیں مثلاً ندوۃ العلماء نے اسلام کے لئے جو کچھ دعویٰ کیا ہے اور یا انجمن حمایت اسلام لاہور جو اسلام کے نام پر مسلمانوں کا مال لیتی ہے کیا یہ لوگ خیر خواہ اسلام ہیں؟ کیا یہ لوگ صراط مستقیم کی حمایت کر رہے ہیں؟ کیا ان کو یاد ہے کہ اسلام کن مصیبتوں کے نیچے کچلا گیا اور دوبارہ تازہ کرنے کے لئے خدا کی عادت کیا ہے ۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان کے اسلامی حمایت کے دعوے کسی قدر قابلِ قبول ہو سکتے لیکن اب یہ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں کہ حمایت کا دعویٰ کر کے جب آسمان سے ستارہ نکلا تو سب سے پہلے منکر ہوگئے۔

ابؔ وہ اُس خدا کو کیا جواب دیں گے جس نے عین وقت پر مجھے بھیجا ہے مگر ان کو تو کچھ پروا نہیں۔ آفتاب دوپہر کے نزدیک آ گیا ابھی اُن کے نزدیک رات ہے۔ خدا کا چشمہ پھوٹ پڑا مگر ابھی وہ بیابان میں رو رہے ہیں۔ اُس کے آسمانی علوم کا ایک دریا چل رہا ہے لیکن ان لوگوں کو کچھ بھی خبر نہیں۔ اس کے نشان ظاہر ہو رہے ہیں لیکن یہ لوگ بالکل غافل ہیں اور نہ صرف غافل بلکہ خدا کے سلسلہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ پس یہی حمایت اسلام اور ترویج اسلام اور تعلیم اسلام ہے جو ان کے ہاتھوں سے ہو رہی ہے۔ مگر کیا یہ لوگ اپنی روگردانی سے خدا کے سچے ارادہ کو روک دیں گے جو ابتدا سے تمام نبی اس پر گواہی دیتے آئے ہیں۔ نہیں بلکہ خدا کی یہ پیشگوئی عنقریب سچی ہونے والی ہے کہ 3 ۱؂خدا نے جیسا کہ آج سے دس برس پہلے اپنے بندہ کی تصدیق کیلئے آسمان پر رمضان میں خسوف کسوف کیا اور نیّر النہار اور نیّراللیل کو میرے لئے گواہ بنا کر دو نشان ظاہر فرمائے۔ ایسا ہی اُس نے نبیوں کی پیشگوئی کے موافق زمین پر بھی دو نشان ظاہر کئے۔ ایک۱ وہ نشان جس کو تم قرآن شریف میں پڑھتے ہو 3۲؂اور حدیث میں پڑہتے ہو ولیترکن القلاص فلا یسعی علیھا جس کی تکمیل کیلئے ارض حجاز میں یعنی مدینہ اور مکہ کی راہ میں ریل بھی طیار ہو رہی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 9

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/9/mode/1up


دوسر۲ انشان۔ طاعون کا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔3 3 ۱؂سو خدا نے ملک میں ریل بھی جاری کر دی اور طاعون بھی بھیج دی تا زمین بھی گواہ ہو اور آسمان بھی۔ سو خدا سے مت لڑو خدا سے لڑنا بیوقوفی ہے۔ اِس سے پہلے خدا نے جب آدم کو خلیفہ بنانا چاہا تو فرشتوں نے روکا۔ مگر کیا خدا ان کے قول سے رُک گیا۔ اب خدا نے دوسرا آدم پیدا کرنے کے وقت فرمایا۔ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ یعنی میں نے ارادہ کیا جو خلیفہ بناؤں پس میں نے اس آدم کو پیدا کیا اب بتلاؤ کہ کیا تم خدا کے ارادہ کو روک سکتے ہو۔ پس کیوں تم ظنی باتوں کا خس و خاشاک پیش کرتے ہو اور یقین کی راہ اختیار نہیں کرتے۔ امتحان میں نہ پڑو یقیناًیاد رکھو کہ خدا کے ارادہ کو روکنے والا کوئی نہیں اس قسم کی لڑائیاں تقویٰ کا طریق نہیں البتہ اگر شک ہے تو یہ طریق ہو سکتا ہے کہ جیسا کہ میں ؔ نے خدا سے الہام پا کر ایک گروہ انسانوں کے لئے جو میرے قول پر چلنے والے ہیں عذاب طاعون سے بچنے کے لئے خوشخبری پائی ہے اور اس کو شائع کر دیا ہے ایسا ہی اگر اپنی قوم کی بھلائی آپ لوگوں کے دل میں ہے تو آپ لوگ بھی اپنے ہم مذہبوں کے لئے خدا تعالیٰ سے نجات کی بشارت حاصل کریں کہ وہ طاعون سے محفوظ رہیں گے اور اس بشارت کو میری طرح بذریعہ چھپے ہوئے اشتہاروں کے شائع کریں تا لوگ سمجھ لیں کہ خدا آپ کے ساتھ ہے بلکہ یہ موقعہ عیسائیوں کے لئے بھی بہت ہی خوب ہے وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ نجات مسیح سے ہے۔ پس اب ان کا بھی فرض ہے کہ ان مصیبت کے دنوں میں عیسائیوں کو طاعون سے نجات دلاویں اِن تمام فرقوں سے جس کی زیادہ سُنی گئی وہی مقبول ہے۔ اب خدا نے ہر ایک کو موقعہ دیا ہے کہ خواہ مخواہ زمین پر مباحثات نہ کریں اپنی قبولیت بڑھ کر دکھلاویں تا طاعون سے بھی بچیں اور ان کی سچائی بھی کھل جائے بالخصوص پادری صاحبان جو دنیا اور آخرت میں مسیح ابن مریم کو ہی منجی قرار دے چکے ہیں وہ اگر دل سے ابن مریم کو دنیا و آخرت کا مالک سمجھتے ہیں تو اب عیسائیوں کا حق ہے کہ اِن کے کفّارہ سے نمونہ نجات دیکھ لیں اس طرح پر گورنمنٹ عالیہ کو بھی بہت آسانی ہو سکتی ہے کہ برٹش انڈیا کے مختلف فرقے جو اپنے اپنے مذہب کی سچائی پر بھروسہ رکھتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 10

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/10/mode/1up


اپنے گروہ کے چھڑانے کے لئے اور طاعون سے نجات دلانے کے لئے یہ انتظام کریں کہ اپنے اس خدا سے جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں یا اپنے کسی اور معبود سے جس کو انہوں نے بجائے خدا سمجھ لیا ہے ان مصیبت زدوں کی شفاعت کریں اور اس سے کوئی پختہ وعدہ لے کر اشتہارات کے ذریعہ سے شائع کر دیں جیسا کہ ہم نے یہ اشتہار شائع کر دیا ہے۔ اس میں تو سراسرمخلوق کی بھلائی اور اپنے مذہب کی سچائی کا ثبوت ہے اور نیز گورنمنٹ کی مدد ہے۔ گورنمنٹ بجز اس کے کیا چاہتی ہے کہ اس کی رعایا طاعون کی بلا سے بچ جائے گو کسی طرح بچ جائے۔ بالآخر یاد رہے کہ ہم اِس اشتہار میں اپنی جماعت کو جو مختلف حصوں پنجاب اور ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے ٹیکا لگوانے سے منع نہیں کرتے جن لوگوں کی نسبت گورنمنٹ کا قطعی حکم ہو ان کو ضرور ٹیکا کرانا چاہئے اور گورنمنٹ کے حکم کی اطاعت کرنی چاہئے اور جن کو اپنی رضامندی پر چھوڑا گیا ہے اگر وہ اس تعلیم پر پورے قائم نہیں ہیں جو ان کو دی گئی ہے تو ان کو بھی ٹیکا کرانا مناسب ہے تا وہ ٹھوکر نہ کھاویں اور تا وہ اپنی خراب حالت کی وجہ سے خدا کے وعدہ کی نسبت لوگوں کو دھوکا نہ دیں اور اگر یہ ؔ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے جس کی پوری پابندی طاعون کے حملہ سے بچا سکتی ہے تو میں بطور مختصر چند سطریں نیچے لکھ دیتا ہوں۔

تعلیم

واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بودوباش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں پیروی کرنے کے لئے یہ باتیں ہیں کہ وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے۔ نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا وہ دکھ اُٹھانے اور صلیب پر



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 11

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/11/mode/1up


چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے۔ وہ ایسا ہے کہ باوجود دور ہونے کے نزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دور ہے اور باوجود ایک ہونے کے اس کی تجلیات الگ الگ ہیں انسان کی طرف سے جب ایک نئے رنگ کی تبدیلی ظہور میں آوے تو اس کے لئے وہ ایک نیا خدا بن جاتا ہے اور ایک نئی تجلی کے ساتھ اس سے معاملہ کرتا ہے اور انسان بقدر اپنی تبدیلی کے خدا میں بھی تبدیلی دیکھتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا میں کچھ تغیر آ جاتا ہے بلکہ وہ ازل سے غیر متغیرّ اور کمال تام رکھتا ہے لیکن انسانی تغیر۔ّ ات کے وقت جب نیکی کی طرف انسان کے تغیر ہوتے ہیں تو خدا بھی ایک نئی تجلّی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے اور ہر ایک ترقی یافتہ حالت کے وقت جو انسان سے ظہور میں آتی ہے خدا تعالیٰ کی قادرانہ تجلی بھی ایک ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے وہ خارق عادت قدرت اُسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ خوارق اور معجزات کی یہی جڑ ہے یہ خدا ہے جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اُس کے کل تعلقات پر اُس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلاؤ دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدم نہیں رکھتی مگر تم اُس کو مقدم رکھو تا تم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ۔ رحمت کے نشان دکھلانا قدیم سے خدا کی عادت ہے۔ مگر ؔ تم اُس حالت میں اِس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے اور تمہاری مرضی اس کی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی میں اُس کے آستانہ پر پڑا رہے تا جو چاہے سو کرے اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہوگا جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کاطالب ہو جائے اور اس کی قضاء وقدر پر ناراض نہ ہو سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے اور اُس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اُس کے بندوں پررحم کرواور ان پر زبان یا ہاتھ یاکسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کیلئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 12

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/12/mode/1up


بھیڑیئے ہیں بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو نہ خود پسندی سے اُن پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اُسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو اور اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو کیونکہ وہ پاک ہے چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی *** سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی۔ اور ؔ اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں تم اگر چاہتے ہو کہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/13/mode/1up


آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں۔ خدا کی *** سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا خائن اُس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا ِ گدّوں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دورہے ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا۔ وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے۔ تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اُس کے ہو جاؤ۔ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے۔ دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارو تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔ تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر اُن پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہوگا جو خدا کا ارادہ ہوگا اگر کوئی طاقت رکھے تو توکّل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے اورؔ تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/14/mode/1up


تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ33 ۱؂ موسیٰ نے وہ متاع پائی جس کو قرون اُولیٰ کھو چکے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائی جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگر شان میں ہزارہا درجہ بڑھ کر مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر۔ اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودہویں صدی میں ظاہر ہوا *جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا۔ بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا جب کہ مسلمانوں کا وہی حال تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے نادان ہے وہ جو اُس سے لڑے اور جاہل ہے وہ جو اس کے مقابل پر یہ اعتراض کرے کہ یوں نہیں بلکہ یوں چاہئے تھا۔ اور اُس نے مجھے چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ بھیجا ہے جو دس۱۰ ہزار سےؔ بھی زیادہ ہیں ازانجملہ ایک طاعون بھی نشان ہے پس جو شخص مجھ سے سچی بیعت کرتا ہے اور سچے دل سے میرا پیرو بنتا ہے اور میری اطاعت میں محو ہو کر اپنے تمام ارادوں کو چھوڑتا ہے وہی ہے جو اِن

یہودی اپنی تاریخ کی رو سے بالاتفاق یہی مانتے ہیں کہ موسیٰ سے چودہو۱۴۰۰یں صدی کے سر پر عیسیٰ ظاہر ہوا تھا ۔دیکھو یہودیوں کی تاریخ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/15/mode/1up


آفتوں کے دنوں میں میری رُوح اُس کی شفاعت کرے گی۔ سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو ۔ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو یقیناًیاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا ضرور ہے کہ انواع رنج و مصیبت سے تمہارا امتحان بھی ہو جیسا کہ پہلے مومنوں کے امتحان ہوئے سو خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاؤ زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے۔ اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ۔ سو اِن صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو ۔تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ عمل نیک دکھلاؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو۔ ہر ایک جو تم میں سست ہوجائے گا وہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا دیکھو مَیں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا درحقیقت موجود ہے اگرچہ سب اُسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اُس شخص کو چن لیتا ہے جو اُس کو چنتا ہے وہ اُس کے پاس آ جاتا ہے جو اُس کے پاس جاتا ہے جو اُس کو عزت دیتا ہے وہ اس کو بھی عزت دیتا ہے۔

تم اپنے دلوں کو سیدھے کر کے اور زبانوں اور آنکھوں اور کانوں کو پاک کر کے اس کی طرف آجاؤکہؔ وہ تمہیں قبول کرے گا عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اُس کا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/16/mode/1up


نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمد ّ یت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم د۲و نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔ سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا یہی بھید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہو گا یعنی وہ میں ہی ہوں اور اس میں دو رنگی نہیں آئی اور تم یقیناًسمجھو کہ عیسیٰ بن مریم فوت ہو گیا ہے اور کشمیر سرینگر محلہ خانیار* میں اس کی قبر ہے خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اس کے مر جانے کی خبر دی ہے اور اگر اس آیت کے اور معنی ہیں تو عیسیٰ بن مریم کی موت کی قرآن میں کہاں خبر ہے۔ مرنے کے متعلق جو آیتیں ہیں اگر وہ اور معنی رکھتی ہیں جیسا کہ ہمارے مخالف سمجھتے ہیں تو گویا قرآن نے اس کے مرنے کا کہیں ذکر نہیں کیا کہ وہ کسی وقت مرے گابھی۔ خدا نے ہمارے نبی کے مرنے کی خبر دی مگر سارے قرآن میں عیسیٰ کے مرنے کی خبر نہ دی۔ اس میں کیا راز ہے اور اگر کہو کہ عیسیٰ کے مرنے کی اس آیت میں خبر ہے کہ 33 ۱؂ ژسو یہ آیت تو صاف دلالت کرتی ہے کہ وہ عیسایوں کے بگڑنے سے پہلے مر چکے ہیں غرض اگر آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کے یہ معنی ہیں کہ مع جسم زندہ عیسیٰ کو آسمان پر اُٹھا لیا تو کیوں خدا نے ایسے شخص کی موت کا سارے قرآن میں ذکر نہیں کیا جس کی زندگی

نوٹ : عیسائی محققوں نے اسی رائے کو ظاہر کیا ہے دیکھو کتاب سوپر نیچرل ریلیجن صفحہ۵۲۲۔ اگر تفصیل چاہتے ہو تو ہماری کتاب تحفہ گولڑویہ کا صفحہ ۱۳۹ دیکھ لو۔ منہ

اسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھر دنیا میں نہیں آئیں گے کیونکہ اگر وہ دنیا میں آنے والے ہوتے تو اس صورت میں یہ جواب حضرت عیسیٰ کا محض جھوٹ ٹھہرتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں جو شخص دوبارہ دنیا میں آیا اور چالیس۴۰ برس رہا اور کروڑہا عیسائیوں کو دیکھا جو اس کو خدا جانتے تھے اور صلیب توڑا اور تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا وہ کیونکر قیامت کو جناب الٰہی میں یہ عذر کر سکتا ہے کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/17/mode/1up


کے خیال نے لاکھوں کو ہلاک کر دیا گویا خدا نے اس کو ہمیشہ کے لئے اس لئے زندہ رہنے دیا کہ تا لوگ مشرک اور بے دین ہو جائیں اور گویا یہ لوگوں کی غلطی نہیں بلکہ خدا نے یہ سب کچھ خود کیا تا لوگوں کو گمراہ کرے خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی سو اس سے فائدہ کیا کہ برخلاف تعلیم قرآن اس کو زندہ سمجھا جائے اس کو مرنے دو تا یہ دین زندہ ہو۔ خدا نے اپنے قول سے مسیح کی موت ظاہر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اُس کو مُردوں میں دیکھ لیا اب بھی تم ماننے میں نہیں آتے۔ یہ کیسا ایمان ہے کیا انسانوں کی روایتوں کو خدا کی کلام پر مقدم رکھتے ہویہؔ کیا دین ہے* اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف گواہی دی کہ میں نے مُردہ روحوں میں عیسیٰ کو دیکھا بلکہ خود مر کر یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اس سے پہلے کوئی زندہ نہیں رہا۔ پس ہمارے مخالف جیسا کہ قرآن کو چھوڑتے ہیں ویسا ہی سنّت کو بھی چھوڑتے ہیں کیونکہ مرنا ہمارے نبی کی سنّت ہے اگر عیسیٰ زندہ تھا تو مرنے میں ہمارے رسول کی بے عزتی تھی سو تم نہ اہلسنّت ہو نہ اہل قرآن جب تک عیسیٰ کی موت کے قائل نہ ہو۔ اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کا منکر نہیں گو خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے لیکن تاہم میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہوں جیساکہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا موسیٰ کے سلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سلسلہ میں مَیں مسیح موعود ہوں سو میں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے

نوٹ۔قرآن شریف میں ایک آیت میں صریح کشمیر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسیح اور اس کی والدہ صلیب کے واقعہ کے بعد کشمیر کی طرف چلے گئے جیسا کہ فرماتا ہے۔3 ۱؂ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اس کی والدہ کو ایک ایسے ٹیلے پر جگہ دی جو آرام کی جگہ تھی اور پانی صاف یعنی چشموں کا پانی وہاں تھا سو اس میں خدا تعالیٰ نے کشمیر کا نقشہ کھینچ دیا ہے اور اٰوٰی کا لفظ لغت عرب میں کسی مصیبت یا تکلیف سے پناہ دینے کے لئے آتا ہے اور صلیب سے پہلے عیسیٰ اور اُس کی والدہ پر کوئی زمانہ مصیبت کا نہیں گزرا جس سے پناہ دی جاتی پس متعین ہوا کہ خدا تعالیٰ نے عیسیٰ اور اُس کی والدہ کو واقعہ صلیب کے بعد اُس ٹیلے پر پہنچایا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/18/mode/1up


وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا بلکہ مسیح تو مسیح مَیں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں* کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہائت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم توریت عین حمل میں کیونکر نکاح کیا گیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی کے ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابلِ اعتراض۔

انؔ سب باتوں کے بعد پھر میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اُسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا۔ دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اُس کو مت کھاؤ۔ خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجزوعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بدعملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے

حاشیہ : یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھی چار بھائیوں کے نام یہ ہیں۔ یہود۱ا، یعقو۲ب، شمعو۳ن، یوز۴س اور دو بہنوں کے نام یہ تھے۔ آ ۱سیا، لید۲یا۔ دیکھو کتاب اپاسٹولک ریکارڈس مصنفہ پادری جان ایلن گایلز مطبوعہ لندن ۱۸۸۶ء صفحہ۵۹ ۱ و ۱۶۶ ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/19/mode/1up


اور خیانت سے رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرّف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص پنجگانہ نماز کا التزام نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا جو اس پر بد اثر ڈالتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہّد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اپنی اہلیہ اور اُس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص نہیں چاہتا کہ اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور کینہ پرور آدمی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص اُس عہد کو جو اُس نے بیعت کے وقت کیا تھا کسی پہلو سے توڑتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص اموؔ ر معروفہ میں میری اطاعت کرنے کے لئے طیار نہیں ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے اور جو شخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ ہر ایک زانی،فاسق، شرابی، خونی، چور، قمار باز، خائن، مرتشی، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعل ساز اور ان کا ہم نشین اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے توبہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ ہر ایک جو پیچ در پیچ طبیعت رکھتا ہے اور خدا کے ساتھ صاف نہیں ہے وہ اُس برکت کو ہرگز نہیں پاسکتا جو صاف دلوں کو ملتی ہے کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/20/mode/1up


دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدااُن کا وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔ احمق ہے وہ دشمن جواُن کا قصد کرے کیونکہ وہ خدا کی گود میں ہیں اور خدا ان کی حمایت میں کون خدا پر ایمان لایا؟ صرف وہی جو ایسے ہیں۔ ایسا ہی وہ شخص بھی احمق ہے جو ایک بے باک گنہ گار اور بد باطن اور شریر النفس کے فکر میں ہے کیونکہ وہ خود ہلاک ہوگا جب سے خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا کبھی ایسا اتفاق نہ ہوا کہ اس نے نیکوں کو تباہ اور ہلاک اور نیست ونابود کر دیا ہو بلکہ وہ اُن کے لئے بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے اور اب بھی دکھلائے گا وہ خدا نہائت وفادار خدا ہے اور وفاداروں کے لئے اُس کے عجیب کام ظاہر ہوتے ہیں دنیا چاہتی ہے کہ ان کو کھا جائے اور ہر ایک دشمن ان پر دانت پیستا ہے مگر وہ جو ان کا دوست ہے ہر ایک ہلاکت کی جگہ سے ان کو بچاتا ہے اور ہر ایک میدان میں ان کو فتح بخشتا ہے کیا ہی نیک طالع وہ شخص ہے جو اُس خدا کا دامن نہ چھوڑے۔ ہم اُس پر ایمان لائے ہم نے اُس کو شناخت کیا۔ تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے جس نے مجھے اس زمانہ کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا اس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں جوؔ شخص اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے۔ ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن وحی پائی ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا۔ کیا ہی زبردست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات اَنْہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی وہ اندھے ہیں نہ سوجاکھے وہ مُردے ہیں نہ زندے خدا کے سامنے اپنا تراشیدہ قانون



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/21/mode/1up


پیش کرتے ہیں اور اُس کی بے انتہا قدرتوں کی حد بست ٹھہراتے ہیں اور اُس کو کمزور سمجھتے ہیں سو ان سے ایسا ہی معاملہ کیا جائے گا جیسا کہ ان کی حالت ہے لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رویت سے ہے نہ بطور قصّہ کے۔ اُس شخص کی دعا کیونکر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اُس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا۔ مگر اے سعید انسان تو ایسا مَتْ کر تیرا خدا وہ ہے جس نے بیشمار ستاروں کو بغیر ستون کے لٹکا دیا اورجس نے زمین وآسمان کو محض عدم سے پیدا کیا ۔کیا تو اُس پر بدظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آجائے گا *بلکہ تیری ہی بدظنی تجھے محروم رکھے گی ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں وہ غیروں پر جو اس کی قدرتوں پر یقین نہیں رکھتے اور اُس کے صادق وفادارنہیں ہیں وہ عجائبات ظاہر نہیں کرتا۔ کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لایق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو

خدا کسی کام میں عاجز نہیں آتا۔ ہاں خدا کی کتاب نے دعا کے بارہ میں یہ قانون پیش کیا ہے کہ وہ نہایت رحم سے نیک انسان کے ساتھ دوستوں کی طرح معاملہ کرتا ہے یعنی کبھی تو اپنی مرضی کو چھوڑ کر اس کی دعا سنتا ہے جیسا کہ خود فرمایا 3 ۱؂ اور کبھی کبھی اپنی مرضی ہی منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرمایا 3 ۲؂ ایسا اس لئے کیا کہ تا کبھی انسان کی دعا کے موافق اس سے معاملہ کر کے یقین اور معرفت میں اس کو ترقی دے اور کبھی اپنی مرضی کے موافق کر کے اپنی رضا کی اس کو خلعت بخشے اور اس کا مرتبہ بڑھا وے اور اس سے محبت کر کے ہدایت کی راہوں میں اس کو ترقی دیوے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/22/mode/1up


کہؔ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَفْ سے میں باز اروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سُننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں۔

اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو یقیناًسمجھو کہ خداتمہارا ہی ہے تم سوئے ہوئے ہوگے اور خدا تعالیٰ تمہارے لئے جاگے گا تم دشمن سے غافل ہوگے اور خدا اُسے دیکھے گا اور اس کے منصوبے کو توڑے گا تم ابھی تک نہیں جانتے کہ تمہارے خدا میں کیا کیا قدرتیں ہیں۔ اور اگر تم جانتے تو تم پر کوئی ایسا دن نہ آتاکہ تم دنیا کے لئے سخت غمگین ہو جاتے ایک شخص جو ایک خزانہ اپنے پاس رکھتا ہے کیا وہ ایک پیسہ کے ضائع ہونے سے روتا ہے اور چیخیں مارتا ہے اور ہلاک ہونے لگتا ہے پھر اگر تم کو اس خزانہ کی اطلاع ہوتی کہ خدا تمہارا ہر ایک حاجت کے وقت کام آنے والا ہے تو تم دنیا کے لئے ایسے بے خود کیوں ہوتے خدا ایک پیارا خزانہ ہے اُس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارامددگار ہے تم بغیر اُس کے کچھ بھی نہیں اور نہ تمہارے اسباب اور تدبیریں کچھ چیز ہیں۔ غیرقوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلّی اسباب پر گرگئی ہیں اور جیسے سانپ مٹی کھاتا ہے انہوں نے سفلی اسباب کی مٹی کھائی۔ اور جیسے گِدْ اور کتیّ مُردار کھاتے ہیں انہوں نے مُردار پر دانت مارے وہ خدا سے بہت دُور جا پڑے انسانوں کی پرستش کی اور خنزیرکھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے سے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح اُن میں سے ایسی نکل گئی جیسا کہ ایک گھونسلے سے کبوتر پرواز کر جاتا ہے ان کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نے ان کے تمام اندرونی اعضا کاٹ دئیے ہیں پس تم اُس جذام سے ڈرو۔ میں تمہیں حداعتدال تک رعایت اسباب سے منع نہیں کرتا بلکہ اس سے منع کرتا ہوں کہ تم غیرقوموں کی طرح نرے اسباب کے بندے ہو جاؤ اور اُس خدا کو فراموش کر دو جو اسباب کو بھی وہی مہیا کرتا ہے اگر تمہیں آنکھ ہو تو تمہیں نظر آجائے کہ خدا ہی خدا ہے اور سب ہیچ ہے۔ تم نہ ہاتھ لمبا کر سکتے ہو اور نہ اکٹھا کر سکتے ہو مگر اُس کے اِذن سے۔ ایک مُردہ اس پر ہنسی کر ے گا مگر کاش اگر وہ مر جاتا تو اس ہنسی سے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/23/mode/1up


اس کے لئے بہتر تھا۔ خبردار!!!تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی ریس مت کرو کہ انہوں نے دنیا کے منصوؔ بوں میں بہت ترقی کر لی ہے آؤ ہم بھی اُنہیں کے قدم پر چلیں۔ سنو اور سمجھو کہ وہ اس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے ان کا خدا کیا چیز ہے صرف ایک عاجز انسان اس لئے وہ غفلت میں چھوڑے گئے۔ میں تمہیں دنیا کے کسب اور حرفت سے نہیں روکتا مگر تم اُن لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راست باز اُس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہو جاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما تب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی۔ اپنی جانوں پر رحم کرو اور جو لوگ خدا سے بکلّی علاقہ توڑ چکے ہیں اور ہمہ تن اسباب پر گر گئے ہیں یہاں تک کہ طاقت مانگنے کے لئے وہ منہ سے انشاء اللہ بھی نہیں نکالتے اُن کے پیرو مت بن جاؤ۔ خدا تمہاری آنکھیں کھولے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے اگر شہتیر گر جائے تو کیا کڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں۔ نہیں بلکہ یکدفعہ گریں گی۔ اوراحتمال ہے کہ اُن سے کئی خون بھی ہو جائیں۔ اسی طرح تمہاری تدابیر بغیر خدا کی مدد کے قائم نہیں رہ سکتیں اگر تم اس سے مدد نہیں مانگو گے اور اس سے طاقت مانگنا اپنا اصول نہیں ٹھہراؤ گے تو تمہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ آخر بڑی حسرت سے مرو گے ۔یہ مت خیال کرو کہ پھر دوسری قومیں کیونکر کامیاب ہو رہی ہیں حالانکہ وہ اُس خدا کو جانتی بھی نہیں جو تمہارا کامل اور قادر خدا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ وہ خدا کو چھوڑنے کی وجہ سے دنیا کے امتحان میں ڈالی گئی ہیں خدا کا امتحان کبھی اس رنگ میں ہوتا ہے کہ جو شخص اُسے چھوڑتا ہے اور دنیا کی مستیوں اور لذتوں سے دل لگاتا ہے اور دنیا کی دولتوں کا خواہشمند ہوتا ہے تو دنیا کے دروازے اس پر کھولے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/24/mode/1up


جاتے ہیں اور دین کے رو سے وہ نرامفلس اور ننگا ہوتا ہے اور آخر دنیا کے خیالات میں ہی مرتا اور ابدی جہنم میں ڈالا جاتا ہے اور کبھی اس رنگ میں بھی امتحان ہوتا ہے کہ دنیا سے بھیؔ نامُراد رکھا جاتا ہے مگر مؤخرالذکر امتحان ایسا خطرناک نہیں جیسا کہ پہلا کیونکہ پہلے امتحان والا زیادہ مغرور ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں فریق مغضوب علیھم ہیں۔ سچی خوش حالی کا سر چشمہ خدا ہے پس جبکہ اس حیّ وقیّوم خدا سے یہ لوگ بے خبر ہیں بلکہ لاپروا ہیں اور اس سے ُ منہ پھیر رہے ہیں تو سچی خوشحالی اُن کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے مبارکی ہو اُس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے اس راز کو نہیں سمجھا۔ اسی طرح تمہیں چاہئے کہ اس دنیا کے فلسفیوں کی پیروی مت کرو اور ان کو عزت کی نگہ سے مت دیکھو کہ یہ سب نادانیاں ہیں سچا فلسفہ وہ ہے جو خدا نے تمہیں اپنی کلام میں سکھلایا ہے ہلاک ہوگئے وہ لوگ جو اس دنیوی فلسفہ کے عاشق ہیں اور کامیاب ہیں وہ لوگ جنہوں نے سچے علم اور فلسفہ کو خدا کی کتاب میں ڈھونڈا۔ نادانی کی راہیں کیوں اختیار کرتے ہو کیا تم خدا کو وہ باتیں سکھلاؤ گے جو اُسے معلوم نہیں ۔کیا تم اندھوں کے پیچھے دوڑتے ہو کہ وہ تمہیں راہ دکھلاویں۔ اے نادانو! وہ جو خود اندھا ہے وہ تمہیں کیا راہ دکھائے گابلکہ سچا فلسفہ روح القدس سے حاصل ہوتا ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے تم روح کے وسیلہ سے ان پاک علوم تک پہنچائے جاؤ گے جن تک غیروں کی رسائی نہیں اگر صدق سے مانگو تو آخر تم اُسے پاؤ گے۔ تب سمجھو گے کہ یہی علم ہے جو دل کو تازگی اور زندگی بخشتا ہے اور یقین کے مینار تک پہنچا دیتا ہے وہ جو خود مُردار خوار ہے وہ کہاں سے تمہارے لئے پاک غذالائے گا۔ وہ جو خوداندھا ہے وہ کیونکر تمہیں دکھاوے گا ۔ہر ایک پاک حکمت آسمان سے آتی ہے پس تم زمینی لوگوں سے کیا ڈھونڈتے ہو جن کی روحیں آسمان کی طرف جاتی ہیں وہی حکمت کے وارث ہیں جن کو خود تسلی نہیں وہ کیونکر تمہیں تسلی دے سکتے ہیں مگر پہلے دلی پاکیزگی ضروری ہے پہلے صدق و صفا ضروری ہے پھر بعد اس کے یہ سب کچھ تمہیں ملے گا۔یہ خیال مت کرو کہ خدا کی وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے* اور

قرآن شریف پر شریعت ختم ہوگئی مگر وحی ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ سچے دین کی جان ہے جس دین میں وحی الٰہی کا سلسلہ جاری نہیں وہ دین مُردہ ہے اور خدا اُس کے ساتھ نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/25/mode/1up


روح القدس اب اُتر نہیں سکتا بلکہ پہلے زمانوں میں ہی اُتر چکا۔ اور میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اُترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ ان میں داخل ہو تم اُس آفتاب سے خود اپنے تئیں دُور ڈالتے ہو جبکہ اُس شعاع کے داخل ہونے کی کھڑکی کو بند کرتے ہو ۔ اے نادان اٹھ اور اس کھڑکی کو کھول دے تبؔ آفتاب خودبخود تیرے اندر داخل ہو جائے گا جبکہ خدا نے دنیا کے فیضوں کی راہیں اس زمانہ میں تم پر بند نہیں کیں بلکہ زیادہ کیں تو کیا تمہارا ظن ہے کہ آسمان کے فیوض کی راہیں جن کی اس وقت تمہیں بہت ضرورت تھی وہ تم پر اُس نے بند کر دی ہیں ہرگز نہیں بلکہ بہت صفائی سے وہ دروازہ کھولا گیا ہے۔ اب جب کہ خدا نے اپنی تعلیم کے موافق جو سورہ فاتحہ میں سکھلائی گئی گذشتہ تمام نعمتوں کا تم پر دروازہ کھول دیا ہے تو تم کیوں ان کے لینے سے انکار کرتے ہو اس چشمہ کے پیاسے بنو کہ پانی خود بخود آجائے گا اس دو دھ کے لئے تم بچہ کی طرح رونا شروع کرو کہ دودھ پستان سے خود بخود اُتر آئے گا۔ رحم کے لایق بنوتا تم پر رحم کیا جائے اضطراب دکھلاؤ تا تسلی پاؤ بار بار چلّاؤتا ایک ہاتھ تمہیں پکڑ لے کیا ہی دشوار گزار وہ راہ ہے جو خدا کی راہ ہے ۔ پراُن کے لئے آسان کی جاتی ہے جو مرنے کی نیت سے اس اتھاہ گڑھے میں پڑتے ہیں وہ اپنے دلوں میں فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہمیں آگ منظور ہے ہم اس میں اپنے محبوب کے لئے جلیں گے پھر وہ آگ میں اپنے تئیں ڈال دیتے ہیں پس کیا دیکھتے ہیں کہ وہ بہشت ہے ،یہی ہے جو خدانے فرمایا 33 ۱؂ الخیعنی اے بُرو اور اے نیکو تم میں سے کوئی بھی نہیں جو جہنم کی آگ پر گذر نہ کرے مگر وہ جو خدا کے لئے اُس آگ میں پڑتے ہیں وہ نجات دئے جائیں گے لیکن وہ جو اپنے نفس امارہ کے لئے آگ پر چلتا ہے وہ آگ اُسے کھا جائے گی۔ پس مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بدبخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اس سے موافقت نہیں کرتے جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہرگز داخل نہیں ہوگا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/26/mode/1up


ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تاتم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرہ بدی کا بھی قابل پاداش ہے وقت تھوڑا ہے اور کار عمر ناپیدا تیز قدم اُٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیان کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو۔

میں نے سنا ہے کہ بعض تم سے حدیث کو بکلّی نہیں مانتے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو سخت غلطی کرتے ؔ ہیں میں نے یہ تعلیم نہیں دی کہ ایسا کرو بلکہ میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔ سب سے اوّل قرآن ہے* جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے۔ جیسا کہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسیٰ بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ *** ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا اسی طرح قرآن میں منع کیا گیاہے کہ بجز خدا کے تم کسی چیز کی عبادت کرو نہ انسان کی نہ حیوان کی نہ سورج کی نہ چاند کی اور نہ کسی اور ستارہ کی اور نہ اسباب کی اور نہ اپنے نفس کی۔ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات ۷۰۰ سَو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دردازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے سو تم قرآن کو تد ّ بر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے

دوسرا ذریعہ ہدایت کا سنت ہے یعنی وہ پاک نمونے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل اور عمل سے دکھلائے مثلاً نماز پڑھ کے دکھلائی کہ یوں نماز چاہئے اور روزہ رکھ کر دکھلایا کہ یوں روزہ چاہئے اس کا نام سنت ہے یعنی روش نبوی جو خدا کے قول کو فعل کے رنگ میں دکھلاتے رہے سنت اِسی کا نام ہے۔ تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے جو آپ کے بعد آپ کے اقوال جمع کئے گئے اور حدیث کا رُتبہ قرآن اور سنت سے کمتر ہے کیونکہ اکثر حدیثیں ظنی ہیں لیکن اگر ساتھ سنت ہو تو وہ اس کو یقینی کر دے گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/27/mode/1up


مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی تمہارے ایمان کا ُ مصدق یا مکذب قیامت کے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ انجیل کے لانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایکؔ ضعیف اور کمزور جانور ہے جس کو بلّی بھی پکڑ سکتی ہے اسی لئے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور روحانیت ان میں باقی نہ رہی۔ کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا مگر قرآن کا روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سما کو بھر دیا تھا۔ پس کجا وہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔ بجز قرآن کس کتاب نے اپنی ابتدا میں ہی اپنے پڑھنے والوں کو یہ دعا سکھلائی اور یہ امید دی کہ 33 3ْ ۱؂ یعنی ہمیں اپنی اُن نعمتوں کی راہ دکھلا جو پہلوں کو دکھلائی گئی۔ جو نبی اور رسول اور صدیق اور شہید اور صالح تھے پس اپنی ہمتیں بلند کر لو اور قرآن کی دعوت کو ردّ مت کرو کہ وہ تمہیں وہ نعمتیں دینا چاہتا ہے جو پہلوں کو دی تھیں۔ کیا اُس نے بنی اسرائیل کا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/28/mode/1up


ملک اور بنی اسرائیل کا بیت مقدس تمہیں عطا نہیں کیا جو آج تک تمہارے قبضہ میں ہے پس اے سست اعتقادو اور کمزور ہمتو کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ تمہارے خدا نے جسمانی طور پر تو بنی اسرائیل کے تمام املاک کا تمہیں قائم مقام کر دیا۔ مگر روحانی طور پر تمہیں قائم مقام نہ کر سکا بلکہ خدا کا تمہاری نسبت اِن سے زیادہ فیض رسانی کا ارادہ ہے خدا نے اُن کے روحانی جسمانی متاع و مال کا تمہیں وارث بنایا مگر تمہارا وارث کوئی دوسرا نہ ہوگا جب تک کہ قیامت آ جاوے خدا تمہیں نعمت وحی اور الہام اور مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ سے ہرگز محروم نہیں رکھے گا وہ تم پر وہ سب نعمتیں پوری کرے گا جو پہلوں کو دی گئیں لیکن جو شخص گستاخی کی راہ سے خدا پر جھوٹ باندھے گا اور کہے گا کہ خدا کی وحی میرے پر نازل ہوئی حالانکہ نہیں نازل ہوئی اور یا کہے گا کہ مجھے شرف مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کا نصیب ہوا حالانکہ نہیں نصیب ہوا تو میں خدا اور اس کے ملائکہ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ ہلاک کیا جائے گا کیونکہ اُس نے اپنے خالق پر جھوٹ باندھا اور فریب کیا اور سخت بیباکی اور شوخی ظاہر کی سو تم اِس مقام میں ڈرو *** ہے ان لوگوں پر جو جھوٹی خواؔ بیں بناتے ہیں اور جھوٹے مکالمات اور مخاطبات کا دعویٰ کرتے ہیں گویا وہ دل میں خیال کرتے ہیں کہ خدا نہیں ،پر خدا کا عقاب ان کو سخت پکڑے گا اور اُن کا بُرا دن اُن سے ٹل نہیں سکتا۔ سو تم صدق اور راستی اور تقویٰ اور محبت ذاتیہ الٰہیہ میں ترقی کرو اور اپنا کام یہی سمجھو جب تک زندگی ہے پھر خدا تم میں سے جس کی نسبت چاہے گا اس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے بھی مشرف کرے گا تمہیں ایسی تمنّا بھی نہیں چاہئے تا نفسانی تمنّا کی وجہ سے سلسلہ شیطانیہ شروع نہ ہو جائے جس سے کئی لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں پس تم خدمت اور عبادت میں لگے رہو تمہاری تمام کوشش اسی میں مصروف ہونی چاہئے کہ تم خدا کے تمام احکام کے پابند ہو جاؤ اور یقین میں ترقی چاہو نجات کے لئے نہ الہام نمائی کے لئے قرآن شریف نے تمہارے لئے بہت پاک احکام لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ تم شرک سے بکلی پرہیز کرو کہ مشرک سرچشمہءِ نجات سے بے نصیب ہے۔ تم جھوٹ نہ بولو کہ جھوٹ بھی ایک حصہ شرک ہے۔ قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ صرف بدنظری اور



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/29/mode/1up


شہوت کے خیال سے نامحرم عورتوں کو مت دیکھ اور بجز اس کے دیکھنا حلال۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ ہرگز نہ دیکھ نہ بدنظری سے اور نہ نیک نظری سے کہ یہ سب تمہارے لئے ٹھوکر کی جگہ ہے بلکہ چاہئے کہ نامحرم کے مقابلہ کے وقت تیری آنکھ خوابیدہ رہے تجھے اس کی صورت کی کچھ بھی خبر نہ ہو مگر اُسی قدر جیسا کہ ایک دُھندلی نظر سے ابتدا نزول الماء میں انسان دیکھتا ہے۔ قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اتنی شراب مت پیؤ کہ مست ہو جاؤ بلکہ وہ کہتا ہے کہ ہرگز نہ پی ورنہ تجھے خدا کی راہ نہیں ملے گی اور خدا تجھ سے ہمکلام نہیں ہوگا اور نہ پلیدیوں سے پاک کرے گا اور وہ کہتا ہے کہ یہ شیطان کی ایجاد ہے تم اس سے بچو۔ قرآن تمہیں انجیل کی طرح فقط یہ نہیں کہتا کہ اپنے بھائی پر بے سبب غصہ مت ہو بلکہ وہ کہتا ہے کہ نہ صرف اپنے ہی غصہ کو تھام بلکہ3 ۱؂ پر عمل بھی کر اور دوسروں کو بھی کہتا رہ کہ ایسا کریں اور نہ صرف خود رحم کر بلکہ رحم کے لئے اپنے تمام بھائیوں کو وصیت بھی کر۔ اور قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ بجز زنا کے اپنی بیوی کی ہر یک ناپاکی پر صبر کرو اور طلاق مت دو بلکہ وہ کہتا ہے3 ۲؂ قرآن کا یہ منشا ہے کہ ناپاؔ ک پاک کے ساتھ رہ نہیں سکتا۔ پس اگر تیری بیوی زنا تو نہیں کرتی مگر شہوت کی نظر سے غیر لوگوں کو دیکھتی ہے اور اُن سے بغل گیر ہوتی ہے اور زنا کے مقدمات اُس سے صادر ہوتے ہیں گو ابھی تکمیل نہیں ہوئی اور غیر کو اپنی برہنگی دکھلا دیتی ہے اور مشرکہ اور مفسدہ ہے اور جس پاک خدا پر تو ایمان رکھتا ہے اُس سے وہ بیزار ہے تو اگر وہ باز نہ آوے تو تو اُسے طلاق دے سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے اعمال میں تجھ سے علیحدہ ہوگئی اب تیرے جسم کا ٹکڑہ نہیں رہی۔ پس تیرے لئے اب جائز نہیں ہے کہ تو د ّ یوثی سے اس کے ساتھ بسر کرے کیونکہ اب وہ تیرے جسم کا ٹکڑہ نہیں ایک گندہ اور متعفن عضو ہے جو کاٹنے کے لائق ہے ایسا نہ ہو کہ وہ باقی عضو کو بھی گندہ کر دے اور تو مر جاوے۔ اور قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھا بلکہ بیہودہ قسموں سے تمہیں روکتا ہے کیونکہ بعض صورتوں میں قسم فیصلہ کے لئے ایک ذریعہ ہے اور خدا کسی ذریعہ ثبوت کو ضائع کرنا نہیں چاہتا کیونکہ اس سے اُس کی حکمت تلف ہوتی ہے یہ طبعی امر ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/30/mode/1up


جب کوئی انسان ایک متنازعہ فیہ امر میں گواہی نہ دے تب فیصلہ کے لئے خدائی گواہی کی ضرورت ہے اور قسم خدا کو گواہ ٹھہرانا ہے۔ اور قرآنتمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہر ایک جگہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ وہ کہتا ہے 333 ۱؂ یعنی بدی کا بدلہ اُسی قدر بدی ہے جو کی گئی لیکن جو شخص عفو کرے اور گناہ بخش دے اور اس عفو سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو نہ کوئی خرابی تو خدا اس سے راضی ہے اور اُسے اُس کا بدلہ دے گا۔ پس قرآن کے رو سے نہ ہریک جگہ انتقام محمود ہے اور نہ ہر یک جگہ عفو قابل تعریف ہے بلکہ محل شناسی کرنی چاہئے اور چاہئے کہ انتقام اور عفو کی سیرت بپابندی محل اور مصلحت ہو نہ بے قیدی کے رنگ میں یہی قرآن کا مطلب ہے اور قرآن انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو بلکہ وہ کہتا ہے کہ چاہئیے کہ نفسانی رنگ میں تیرا کوئی بھی دشمن نہ ہو اور تیری ہمدردی ہر ایک کے لئے عام ہو مگر جو تیرے خدا کا دشمن تیرے رسول کا دشمن اور کتاب اللہ کا دشمن ہے وہی تیرا دشمن ہوگا سو تو ایسوں کو بھی دعوت اور دعا سے محروم نہ رکھ اور چاہئے کہ تو اُن کے اعمال سے دشمنی رکھے نہ ان کی ذات سے اور کوشش کرے کہ وہ درست ہو جائیں اور اس بارے میں فرماؔ تا ہے۔ 33۲؂ یعنی خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم اُن کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خودنمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے خدا سے عدل یہ ہے کہ اس کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اس کی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/31/mode/1up


اس کو دیکھ رہا ہے اور خدا سے اِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰییہ ہے کہ اُس کی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے۔ بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔ اور انجیل میں لکھا گیا ہے کہ جو لوگ تم پر *** کریں اُن کے لئے برکت چاہو مگر قرآن کہتا ہے کہ تم اپنی خودی سے کچھ بھی نہ کرو۔ تم اپنے دل سے جو خدا کی تجلیات کا گھر ہے فتویٰ پوچھو کہ ایسے شخص کے ساتھ کیا معاملہ چاہئے پس اگر خدا تمہارے دل میں ڈالے کہ یہ *** کرنے والا قابل رحم ہے اور آسمان میں اُس پر *** نہیں تو تم بھی *** نہ کرو تا خدا کے مخالف نہ ٹھہرو۔ لیکن اگر تمہارا کانشنس اس کو معذور نہیں ٹھہراتا اور تمہارے دل میں ڈالا گیا ہے کہ آسمان پر اس شخص پر *** ہے تو تم اس کے لئے برکت نہ چاہو جیسا کہ شیطان کے لئے کسی نبی نے برکت نہیں چاہی اور کسی نبی نے اس کو *** سے آزاد نہیں کیا۔ مگر کسی کی نسبت *** میں جلدی نہ کرو کہ بہتیری بدظنیاں جھوٹیاں ہیں اور بہتیری لعنتیں اپنے ہی پر پڑتی ہیں سنبھل کر قدم رکھو اور خوب پڑتال کر کے کوئی کام کرو اور خدا سے مدد مانگو کیونکہ تم اندھے ہو ایسا نہ ہو کہ عادل کو ظالم ٹھہراؤ ۔اور صادق کو کاذب خیال کرو۔ اس طرح تم اپنے خدا کو ناراض کر دو اور تمہارے سب نیک اعمال حبط ہو جاویں۔

ایسا ؔ ہی انجیل میں کہا گیا ہے کہ تم اپنے نیک کاموں کو لوگوں کے سامنے دکھلانے کے لئے نہ کرو مگر قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپاؤ بلکہ تم حسبِ مصلحت بعض اپنے نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجا لاؤ جب کہ تم دیکھو کہ پوشیدہ کرنا تمہارے نفس کے لئے بہتر ہے اور بعض اعمال دکھلاکر بھی کرو جب کہ تم دیکھو کہ دکھلانے میں عام لوگوں کی بھلائی ہے تا تمہیں دو بدلے ملیں اور تا کمزور لوگ کہ جو ایک نیکی کے کام پر جرأت نہیں کر سکتے وہ بھی تمہاری پیروی سے اُس نیک کام کو کر لیں۔ غرض خدا نے جو اپنے کلام میں فرمایا۔ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یعنی پوشیدہ بھی خیرات کرو اور دکھلا دکھلا کر بھی۔ ان احکام کی حکمت اُس نے خود فرما دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف قول سے لوگوں کو سمجھاؤ بلکہ فعل سے بھی تحریک کرو کیونکہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/32/mode/1up


ہر ایک جگہ قول اثر نہیں کرتا بلکہ اکثر جگہ نمونہ کا بہت اثر ہوتا ہے۔

ایسا ہی انجیل میں ہے کہ جب تو دعا مانگے تو اپنی کوٹھری میں جا۔ مگر قرآن سکھاتا ہے کہ اپنی دعا کو ہریک موقعہ پر پوشیدہ مت کرو بلکہ تم لوگوں کے روبرو اپنے بھائیوں کے مجمع کے ساتھ بھی کھلے کھلے طور پر دعا کیا کرو تا اگر کوئی دعا منظور ہو تو اس مجمع کے لئے ایمان کی ترقی کا موجب ہو اور تا دوسرے لوگ بھی دعا میں رغبت کریں۔

ایسا ہی انجیل میں ہے کہ تم اس طرح دعا کرو کہ اے ہمارے باپ کہ جو آسمان پر ہے تیرے نام کی تقدیس ہو۔ تیری بادشاہت آوے تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر آوے ہماری روزانہ روٹی آج ہمیں بخش۔ اور جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو بخشتے ہیں تو اپنے قرض کو ہمیں بخش دے اور ہمیں آزمائش میں نہ ڈال بلکہ بُرائی سے بچا کیونکہ بادشاہت اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرے ہی ہیں۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ یہ نہیں کہ زمین تقدیس سے خالی ہے بلکہ زمین پر بھی خدا کی تقدیس ہو رہی ہے نہ صرف آسمان پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے3 3 ۱؂۔ 3۲؂۔ یعنی ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور تقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ ان میں ہے وہ تحمید اور تقدیس میں مشغول ہے پہاڑ اُس کے ذکر میں مشغول ہیں دریا اُس کے ذکر میں مشغول ہیں درخت اُس کے ذکر میں مشغول ہیں اور بہت سے را ستبازاُسؔ کے ذکر میں مشغول ہیں اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا اس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا و قدر الٰہی فروتنی کرا رہی ہے اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت درجہ اطاعت کر رہے ہیںیہی تعریف زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اُس کی اطاعت کر رہی ہے ایک پتہ بھی بجز اُس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بجز اس کے حکم کے نہ کوئی دوا شفاء دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہو سکتی ہے اور ہر ایک چیز غایت درجہ کی تذلل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اُس کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/33/mode/1up


پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر ایک جز اُن کا اور انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا 33 ۱؂ یعنی جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے زمین پر بھی ہر ایک چیز اُس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے۔ پس کیا زمین پر خدا کی تحمید و تقدیس نہیں ہوتی ایسا کلمہ ایک کامل عارف کے منہ سے نہیں نکل سکتا بلکہ زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز تو شریعت کے احکام کی اطاعت کر رہی ہے اور کوئی چیز قضاو قدر کے احکام کے تابع ہے اور کوئی دونوں کی اطاعت میں کمر بستہ ہے کیا بادل کیا ہوا کیا آگ کیا زمین سب خدا کی اطاعت اور تقدیس میں محو ہیں اگر کوئی انسان الٰہی شریعت کے احکام کا سرکش ہے تو الٰہی قضاوقدر کے حکم کا تابع ہے۔ ان دونوں حکومتوں سے باہر کوئی نہیں کسی نہ کسی آسمانی حکومت کا ُ جوَ ا ہر ایک کی گردن پر ہے۔ ہاں البتہ انسانی دلوں کی صلاح اور فساد کے لحاظ سے غفلت اور ذکر الٰہی نوبت بہ نوبت زمین پر اپنا غلبہ کرتے ہیں مگر بغیر خدا کی حکمت اور مصلحت کے یہ مدّوجزر خودبخود نہیں خدا نے چاہا کہ زمین میں ایسا ہو سو ہوگیا سو ہدایت اور ضلالت کا دور بھی دن رات کے دور کی طرح خدا کے قانون اور اذن کے موافق چل رہا ہے نہ خود بخود باوجود اس کے ہر ایک چیز اس کی آواز سنتی ہے اور اس کی پاکی یاد کرتی ہے مگر انجیل کہتی ہے کہ زمین خدا کی تقدیس سے خالی ہےؔ ؟ اس کا سبب اس انجیلی دعا کے اگلے فقرہ میں بطور اشارہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ابھی اُس میں خدا کی بادشاہت نہیں آئی اس لئے حکومت نہ ہونے کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے خدا کی مرضی ایسے طور سے زمین پر نافذ نہیں ہو سکی جیسا کہ آسمان پر نافذ ہے مگر قرآن کی تعلیم سراسر اس کے بر خلاف ہے وہ تو صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ کوئی چور، خونی ،زانی ،کافر، فاسق، سرکش، جرائم پیشہ، کسی قسم کی بدی زمین پر نہیں کر سکتا جب تک کہ آسمان پر سے اُس کو اختیار نہ دیا جائے۔ پس کیونکر کہا جائے کہ آسمانی بادشاہت زمین پر نہیں کیا کوئی مخالف



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/34/mode/1up


قبضہ زمین پر خدا کے احکام کے جاری ہونے سے مزاحم ہے سبحان اللّٰہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ خدا نے خود آسمان پر فرشتوں کے لئے جدا قانون بنایا اور زمین پر انسانوں کے لئے جدا اور خدا نے اپنی آسمانی بادشاہت میں فرشتوں کو کوئی اختیار نہیں دیا بلکہ اُن کی فطرت میں ہی اطاعت کا مادہ رکھ دیا ہے وہ مخالفت کر ہی نہیں سکتے اور سہوونسیان اُن پر وارد نہیں ہو سکتا لیکن انسانی فطرت کو قبول عدم قبول کا اختیار دیا گیا ہے اور چونکہ یہ اختیار اوپر سے دیا گیا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ فاسق انسان کے وجود سے خدا کی بادشاہت زمین سے جاتی رہی بلکہ ہر رنگ میں خدا کی ہی بادشاہت ہے ہاں صرف قانون دو ہیں۔ ایک آسمانی فرشتوں کے لئے قضاو قدر کا قانون ہے کہ وہ بدی کر ہی نہیں سکتے اور ایک زمین پر انسانوں کے لئے خدا کے قضاء وقدر کے متعلق ہے اور وہ یہ کہ آسمان سے اُن کو بدی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے مگر جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں جیسا کہ خدا کے نبی اور رسول بچتے ہیں اور اگر ایسے لوگ ہیں کہ گنہگار ہو چکے ہیں تو استغفار اُن کو یہ فائدہ پہنچاتا ہے کہ گناہ کے نتائج سے یعنی عذاب سے بچائے جاتے ہیں کیونکہ نور کے آنے سے ظلمت باقی نہیں رہ سکتی۔ اور جرائم پیشہ جو استغفار نہیں کرتے یعنی خدا سے طاقت نہیں مانگتے وہ اپنے جرائم کی سزاپاتے رہتے ہیں۔ دیکھو آجکل طاعون بھی بطور سزا کے زمین پر اُتری ہے اور خدا کے سرکش اس سے ہلاک ہوتے جاتےؔ ہیں پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں یہ خیال مت کرو کہ اگر زمین پر خدا کی بادشاہت ہے تو پھر لوگوں سے جرائم کیوں ظہور میں آتے ہیں کیونکہ جرائم بھی خدا کے قانون قضاء وقدر کے نیچے ہیں سو اگر چہ وہ لوگ قانون شریعت سے باہر ہو جاتے ہیں مگر قانون تکوین یعنی قضاء و قدر سے وہ باہر نہیں ہو سکتے پس کیونکر کہا جائے کہ جرائم پیشہ لوگ الٰہی سلطنت کا جوااپنے گردن پر نہیں رکھتے دیکھو اس ملک برٹش انڈیا میں چوریاں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 35

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/35/mode/1up


بھی ہوتی ہیں خون بھی ہوتے ہیں زنا کار اور خائن اور مرتشی وغیرہ ہر یک قسم کے جرائم پیشہ بھی پائے جاتے ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس ملک میں سرکار انگریزی کا راج نہیں۔ کیونکہ راج تو ہے مگر گورنمنٹ نے عمداً ایسے سخت قانون کو مناسب نہیں سمجھا جس کی دہشت سے لوگوں پر زندگی مشکل ہو جائے ورنہ اگر گورنمنٹ تمام جرائم پیشہ کو ایک تکلیف دہ زندان میں رکھ کر ان کو جرائم سے روکنا چاہے تو بہت آسانی سے وہ رُک سکتے ہیں یا اگر قانون میں سخت سزائیں رکھی جائیں تو ان جرائم کا انسداد ہوسکتا ہے پس تم سمجھ سکتے ہو کہ جس قدراس ملک میں شراب پی جاتی ہے فاحشہ عورتیں بڑھتی جاتی ہیں چوری اور خون کی وارداتیں ہوتی ہیں یہ اس لئے نہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہاں راج نہیں بلکہ گورنمنٹ کے قانون کی نرمی نے جرائم میں کثرت پیدا کر دی ہے نہ یہ کہ گورنمنٹ انگریزی اس جگہ سے اُٹھ گئی ہے بلکہ سلطنت کا اختیار ہے کہ قانون کو سخت کر کے اور سنگین سزائیں مقرر کر کے ارتکاب جرائم سے روک دے جبکہ انسانی سلطنت کا یہ حال ہے کہ جو الٰہی سلطنت کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں تو الٰہی سلطنت کس قدر اقتدار اور اختیار رکھتی ہے اگر خدا کا قانون ابھی سخت ہو جائے اور ہر یک زنا کرنے والے پر بجلی پڑے اور ہر یک چور کو یہ بیماری پیدا ہو کہ ہاتھ گل سٹر کر گر جائیں اور ہر یک سر کش خدا کا منکر اس کے دین کا منکر طاعون سے مرے تو ایک ہفتہ گذرنے سے پہلے ہی تما م دنیا را ستبازی اور نیک بختی کی چادر پہن سکتی ہے۔ پس خدا کی زمین پر بادشاہت تو ہے لیکن آسمانی قانون کی نرمی نے اس قدر آزادی دے رکھی ہے کہ جرائم پیشہ جلدی نہیں پکڑے جاتے ہاں سزائیں بھیؔ ملتی رہتی ہیں۔زلزلے آتے ہیں۔ بجلیاں پڑتی ہیں۔ کوہ آتش فشاں آتش بازی کی طرح مشتعل ہو کر ہزاروں جانوں کا نقصان کرتے جاتے ہیں جہاز غرق ہوتے ہیں ریل گاڑیوں کے ذریعہ سے صدہا جانیں تلف ہوتی ہیں۔طوفان آتے ہیں مکانات گرتے ہیں سانپ کاٹتے ہیں درندے پھاڑتے ہیں وبائیں پڑتی ہیں اور فنا کرنے کا نہ ایک دروازہ بلکہ ہزارہا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 36

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/36/mode/1up


دروازے کھلے ہیں جو مجرمین کی پاداش کے لئے خدا کے قانون قدرت نے مقرر کر رکھے ہیں پھر کیونکر کہا جائے کہ خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں۔ سچ یہی ہے کہ بادشاہت تو ہے ہرایک مجرم کے ہاتھ میں ہتکڑیاں پڑی ہیں اور پاؤں میں زنجیر ہیں مگر حکمت الٰہی نے اس قدر اپنے قانون کو نرم کر دیا ہے کہ وہ ہتکڑیاں اور وہ زنجیریں فی الفور اپنا اثر نہیں دکھاتی ہیں اور آخر اگر انسان باز نہ آوے تو دائمی جہنم تک پہنچاتی ہیں اور اُس عذاب میں ڈالتی ہیں جس سے ایک مجرم نہ زندہ رہے اور نہ مرے۔ غرض قانون دو ۲ ہیں ایک وہ قانون جو فرشتوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ وہ محض اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ان کی اطاعت محض فطرت روشن کا ایک خاصہ ہے وہ گناہ نہیں کر سکتے مگر نیکی میں ترقی بھی نہیں کر سکتے (۲)دوسرا قانون وہ ہے جو انسانوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ انسانوں کی فطرت میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ گناہ کر سکتے ہیں مگر نیکی میں ترقی بھی کر سکتے ہیں یہ دونوں فطرتی قانون غیر متبدل ہیں اور جیسا کہ فرشتہ انسان نہیں بن سکتا ہے ایسا ہی انسان بھی فرشتہ نہیں ہوسکتا ہے یہ دونوں قانون بدل نہیں سکتے ازلی اور اٹل ہیں اس لئے آسمان کا قانون زمین پر نہیں آسکتا اور نہ زمین کا قانون فرشتوں کے متعلق ہو سکتا ہے۔ انسانی خطاکاریاں اگر توبہ کے ساتھ ختم ہوں تو وہ انسان کو فرشتوں سے بہت اچھا بنا سکتی ہیں کیونکہ فرشتوں میں ترقی کا مادہ نہیں انسان کے گناہ توبہ سے بخشے جاتے ہیں اور حکمت الٰہی نے بعض افراد میں سلسلہ خطا کاریوں کا باقی رکھا ہے تا وہ گناہ کر کے اپنی کمزوری پر اطلاع پاویں اور پھر توبہ کر کے بخشے جاویں یہی قانون ہے جو انسان کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اسی کو انسانوں کی فطرت چاہتی ہے سہوونسیان انسانی فطرت کا خاصہ ہے فرشتہ کا خاصہ نہیں پھر وہ قانون جو فرشتوں کے متعلقؔ ہے انسانوں میں کیونکر نافذ ہو سکے۔ یہ خطا کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کمزوری منسوب کی جاوے صرف قانون کے نتائج ہیں جو زمین پر جاری ہو رہے ہیں نعوذ باللہ کیا خدا ایسا کمزور ہے جس کی بادشاہت اور قدرت اور جلال صرف آسمان تک ہی محدود ہے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 37

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/37/mode/1up


یا زمین کا کوئی اور خدا ہے جو زمین پر مخالفانہ قبضہ رکھتا ہے اور عیسائیوں کو اس بات پر زور دینا اچھا نہیں کہ صرف آسمان میں ہی خدا کی بادشاہت ہے جو ابھی زمین پر نہیں آئی کیونکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ آسمان کچھ چیز نہیں اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان کچھ چیز نہیں جس پر خدا کی بادشاہت ہو اور زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت آئی نہیں تو گویا خدا کی بادشاہت کسی جگہ بھی نہیں۔ ماسوا اس کے ہم خدا کی زمینی بادشاہت کو بچشم خود دیکھ رہے ہیں اُس کے قانون کے موافق ہماری عمریں ختم ہو جاتی ہیں اور ہماری حالتیں بدلتی رہتی ہیں اور صدہا رنگ کے راحت اور رنج ہم دیکھتے ہیں ہزار ہا لوگ خدا کے حکم سے مرتے ہیں اور ہزارہا پیدا ہوتے ہیں دعائیں قبول ہوتی ہیں نشان ظاہر ہوتے ہیں زمین ہزارہا قسم کے نباتات اور پھل اور پھول اس کے حکم سے پیدا کرتی ہے تو کیا یہ سب کچھ خدا کی بادشاہت کے بغیر ہو رہا ہے بلکہ آسمانی اجرام تو ایک ہی صورت اور منوال پر چلے آتے ہیں اور اُن میں تغییر تبدیل جس سے ایک مغیر مبدل کا پتہ ملتا ہو کچھ محسوس نہیں ہوتی مگر زمین ہزارہا تغیرات اور انقلابات اور تبدلات کا نشانہ ہو رہی ہے ہر روز کروڑ ہا انسان دنیا سے گزرتے ہیں اور کروڑ ہا پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک پہلو اور ہر ایک طور سے ایک مقتدر صانع کا تصرف محسوس ہو رہا ہے تو کیا ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں اور انجیل نے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ کیوں ابھی تک خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں آئی۔ البتہ مسیح کا باغ میں اپنے بچ جانے کے لئے ساری رات دعا کرنا اور دعا قبول بھی ہو جانا جیسا کہ عبرانیاں ۵۔آیت ۷ میں لکھا ہے مگر پھر بھی خدا کا اُس کے چھڑانے پر قادر نہ ہونا یہ بزعم عیسائیاں ایک دلیل ہو سکتی ہے کہ اُس زمانہ میں خدا کی بادشاہت زمین پر نہیں تھی مگر ہم نے اس سے بڑھ کر ابتلادیکھے ہیں اور اُن سے نجات پائی ہے ہم کیونکر خدا کی بادشاہت کا انکار کر سکتے ہیں کیا وہ خون کا مقدمہ جو میرے قتل کرنے کے لئے مارٹن کلارک کی طرف سےؔ عدالت کپتان ڈگلس میں پیش ہوا تھا وہ اُس مقدمہ سے کچھ خفیف تھا جو محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہ کسی خون کے اتہام سے یہودیوں کی طرف سے عدالت



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 38

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/38/mode/1up


پیلاطوس میں دائر کیا گیا تھا مگر چونکہ خدا زمین کا بھی بادشاہ ہے جیسا کہ آسمان کا اس لئے اُس نے اس مقدمہ کی پہلے سے مجھے خبر دے دی کہ یہ ابتلا آنے والا ہے اور پھر خبر دے دی کہ میں تم کو بَری کروں گا اور وہ خبر صدہا انسانوں کو قبل ازوقت سنائی گئی اور آخر مجھے بَری کیا گیا پس یہ خدا کی بادشاہت تھی جس نے اس مقدمہ سے مجھے بچا لیا جو مسلمانوں اور ہندوؤں اور عیسائیوں کے اتفاق سے مجھ پر کھڑا کیا گیا تھا ایسا ہی نہ ایک دفعہ بلکہ بیسیوں دفعہ میں نے خدا کی بادشاہت کو زمین پر دیکھا اور مجھے خدا کی اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ3 3 ۱؂ یعنی زمین پر بھی خدا کی بادشاہت ہے اور آسمان پر بھی۔ اور پھر اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ 3۲؂ یعنی تمام زمین و آسمان اُس کی اطاعت کر رہی ہے جب ایک کام کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو فی الفور وہ کام ہو جاتا ہے اور پھر فرماتا ہے33۳؂ یعنی خدا اپنے ارادہ پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خداکے قہر اور جبروت سے بے خبر ہیں غرض یہ تو انجیل کی دعا ہے جو انسانوں کو خدا کی رحمت سے نو مید کرتی ہے اور اس کی ربوبیت اور افاضہ اور جزا سزا سے عیسائیوں کو بے باک کرتی ہے اور اس کو زمین پر مدد دینے کے قابل نہیں جانتی جب تک اس کی بادشاہت زمین پر نہ آوے لیکن اس کے مقابل پر جو دعا خدا نے مسلمانوں کو قرآن میں سکھلائی ہے وہ اس بات کو پیش کرتی ہے کہ زمین پر خدا مسلوب السلطنت لوگوں کی طرح بے کار نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مجازات زمین پر جاری ہے اور وہ اپنے عابدوں کو مدد دینے کی طاقت رکھتا ہے اور مجرموں کو اپنے غضب سے ہلاک کر سکتا ہے وہ دعا یہ ہے 3۔ 3۔ 3 3۔ 3۔ 3۔ 3 33۔آمین۔

ترجمہ- وہؔ خدا ہی ہے جو تمام تعریفوں کا مستحق ہے یعنی اس کی بادشاہت میں کوئی نقص نہیں اور



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 39

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/39/mode/1up


اس کی خوبیوں کے لئے کوئی ایسی حالت منتظرہ باقی نہیں جوآج نہیں مگر کل حاصل ہوگی اور اس کی بادشاہت کے لوازم میں سے کوئی چیز بے کار نہیں تمام عالموں کی پرورش کر رہا ہے بغیر عوض اعمال کے رحمت کرتا ہے اور نیز بعوض اعمال رحمت کرتا ہے جزا سزا وقت مقرر پر دیتا ہے اُسی کی ہم عبادت کرتے ہیں اور اُسی سے ہم مدد چاہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ہمیں تمام نعمتوں کی راہیں دکھلا اور غضب کی راہوں اور ضلالت کی راہوں سے دور رکھ۔

یہ دعا جو سورۃ فاتحہ میں ہے انجیل کی دعا سے بالکل نقیض ہے کیونکہ انجیل میں زمین پر خدا کی موجودہ بادشاہت ہونے سے انکار کیا گیا ہے پس انجیل کے رو سے نہ زمین پر خدا کی ربوبیت کچھ کام کر رہی ہے نہ رحمانیت نہ رحیمیت نہ قدرت جزا سزا کیونکہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آئی۔ مگر سورۃ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت موجود ہے اسی لئے سورۃ فاتحہ میں تمام لوازم بادشاہت کے بیان کئے گئے ہیں ظاہر ہے کہ بادشاہ میں یہ صفات ہونی چاہئیں کہ وہ لوگوں کی پرورش پر قدرت رکھتا ہو سو سورۃفاتحہ میں ربُّ العالمین کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا گیا ہے۔ پھر دوسری صفت بادشاہ کی یہ چاہئے کہ جو کچھ اُس کی رعایا کو اپنی آبادی کے لئے ضروری سامان کی حاجت ہے وہ بغیر عوض ان کی خدمات کے خود رحم خسروانہ سے بجالاوے سو الرحمٰن کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کر دیا ہے۔ تیسری صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جن کاموں کو اپنی کوشش سے رعایا انجام تک نہ پہنچا سکے ان کے انجام کے لئے مناسب طور پر مدد دے۔ سوالرحیم کے لفظ سے اس صفت کو ثابت کیا ہے چوتھی صفت بادشاہ میں یہ چاہئے کہ جزا و سزا پر قادر ہو تاسیاست مدنی کے کام میں خلل نہ پڑے سو مالک یوم الدین کے لفظ سے اس صفت کو ظاہر کر دیا ہے۔ خلاصہ کام یہ کہ سورۃ موصوفہ بالا نے تمام وہ لوازم بادشاہت پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت اور بادشاہی تصرفات موجود ہیں چنانچہ اُس کی ربوبیت بھی موجود اور رحمانیت بھی موجود اور رحیمیت بھی موجود اور سلسلہ امداد بھی موجود اور سلسلہ سزا بھی موجود غرض جوکچھ بادشاہت کے لوازم میں سے ہوتا ہے زمین پر سب کچھ خدا کا موجود ہے اور ایک ذرہ بھی اُس کے حکم سے باہر نہیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 40

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/40/mode/1up


ہر اؔ یک جزا اس کے ہاتھ میں ہے ہر ایک رحمت اُس کے ہاتھ میں ہے مگر انجیل یہ دعا سکھلاتی ہے کہ ابھی خدا کی بادشاہت تم میں نہیں آئی اُس کے آنے کے لئے خدا سے دعا مانگا کرو تا وہ آجائے یعنی ابھی تک ان کا خدا زمین کا مالک اور بادشاہ نہیں اس لئے ایسے خدا سے کیا امید ہو سکتی ہے سنو اور سمجھو کہ بڑی معرفت یہی ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ بھی ایسا ہی خدا کے قبضہ اقتدار میں ہے جیسا کہ آسمان کا ذرہ ذرہ خدا کی بادشاہت میں ہے اور جیسا کہ آسمان پر ایک عظیم الشان تجلّی ہے زمین پر بھی ایک عظیم الشان تجلّی ہے بلکہ آسمان کی تجلّی تو ایک ایمانی امر ہے عام انسان نہ آسمان پر گئے نہ اُس کا مشاہدہ کیا مگر زمین پر جو خدا کی بادشاہت کی تجلّی ہے وہ تو صریح ہر ایک شخص کو آنکھوں سے نظر آرہی ہے* ۔ہر ایک انسان خواہ کیسا ہی دولتمند ہو اپنی خواہش کے مخالف موت کا پیالہ پیتا ہے پس دیکھو اس شاہ حقیقی کے حکم کی کیسی زمین پر تجلّی ہے کہ جب حکم آجاتا ہے تو کوئی اپنی موت کو ایک سیکنڈ بھی روک نہیں سکتا۔ ہر ایک خبیث اور ناقابل علاج مرض جب دامن گیر ہوتی ہے تو کوئی طبیب ڈاکٹر اس کو دور نہیں کر سکتا۔ پس غور کرو یہ کیسی خدا کی بادشاہت کی زمین پر تجلی ہے جو اُس کے حکم ردّ نہیں ہو سکتے۔ پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ آئندہ کسی زمانہ میں آئے گی دیکھو اسی زمانہ میں خدا کے آسمانی حکم نے طاعون کے ساتھ زمین کو ہلادیا تا اس کے مسیح موعود کے لئے ایک نشان ہو پس کون ہے جو اس کی مرضی کے سوا اس کو دور کر سکے پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں۔ ہاں ایک بدکار قیدیوں کی طرح اس کی زمین میں زندگی بسر کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کبھی نہ مرے لیکن خدا کی سچی بادشاہت اس کو ہلاک کر دیتی ہے اور وہ آخر پنجہ ملک الموت میں گرفتار ہو جاتا ہے پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ

آیت 3 ۱؂ بھی دلالت کر رہی ہے کہ خدا کا حقیقی مطیع انسان ہی ہے جو اپنی اطاعت کو محبت اور عشق تک پہنچاتا ہے اور خدا کی بادشاہت کو ہزار ہا بلاؤں کو سر پر لے کر زمین پر ثابت کرتا ہے پس یہ طاعت جو دردِ دل سے ملی ہوئی ہے فرشتے اس کو کب بجا لاسکتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 41

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/41/mode/1up


ابھی تک خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں۔ دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں اور کروڑہا اُس کے ارادہ سے پیدا ہوجاتے ہیں اور کروڑہا اُس کی مرضی سے فقیر سے امیر اور امیر سے فقیر ہو جاتے ہیں پھر کیونکر کہہ سکتے ہیں کہؔ ابھی تک زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں آسمانوں پر تو صرف فرشتے رہتے ہیں مگر زمین پر آدمی بھی ہیں اور فرشتے بھی جو خدا کے کارکن اور اس کی سلطنت کے خادم ہیں جو انسانوں کے مختلف کاموں کے محافظ چھوڑے گئے ہیں اور وہ ہر وقت خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اپنی رپورٹیں بھیجتے رہتے ہیں پس کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ خدا سب سے زیادہ اپنی زمینی بادشاہت سے ہی پہچانا گیا ہے کیونکہ ہر ایک شخص خیال کرتا ہے کہ آسمان کا راز مخفی اور غیر مشہود ہے بلکہ حال کے زمانہ میں قریباً تمام عیسائی اور اُن کے فلاسفر آسمانوں کے وجود کے ہی قائل نہیں جن پر خدا کی بادشاہت کا انجیلوں میں سارا مدار رکھا گیا ہے مگر زمین تو فی الواقع ایک کُرّہ ہمارے پاؤں کے نیچے ہے اور ہزارہا قضاوقدر کے امور اس پر ایسے ظاہر ہورہے ہیں جو خودسمجھ آتا ہے کہ یہ سب کچھ تغیروتبدل اور حدوث اور فنا کسی خاص مالک کے حکم سے ہو رہا ہے پھر کیونکر کہا جائے کہ زمین پر ابھی خدا کی بادشاہت نہیں بلکہ ایسی تعلیم ایسے زمانہ میں جب کہ عیسائیوں میں آسمانوں کا بڑے زور سے انکار کیا گیا ہے نہایت نامناسب ہے کیونکہ انجیل کی اس دعا میں تو قبول کرلیا گیا ہے کہ ابھی زمین پر خدا کی بادشاہت نہیں اور دوسری طرف تمام محققین عیسائیوں نے سچے دل سے یہ بات مان لی ہے یعنی اپنی تحقیقات جدیدہ سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ آسمان کچھ چیز ہی نہیں اُن کا کچھ وجود ہی نہیں پس ماحصل یہ ہوا کہ خدا کی بادشاہت نہ زمین میں ہے نہ آسمان میں۔ آسمانوں سے تو عیسائیوں نے انکار کیا اور زمین کی بادشاہت سے ان کی انجیل نے خدا کو جواب دیا تو اب بقول ان کے خدا کے پاس نہ زمین کی بادشاہت رہی نہ آسمان کی مگر ہمارے خدائے عزّوجلّ نے سورۃ فاتحہ میں نہ آسمان کا نام لیا نہ زمین کا نام اور یہ کہہ کر حقیقت سے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 42

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/42/mode/1up


ہمیں خبر دے دی کہ وہ ربّ العالمین ہے یعنی جہاں تک آبادیاں * ہیں اور جہاں تک کسی قسم کی مخلوق کا وجود موجود ہے خواہ اجسام خواہ ارواح اُن سب کا پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا خدا ہے جو ہر وقت ان کی پرورش کرتا ہے اور ان کے مناسب حال ان کا انتظام کر رہا ہے۔اورؔ تمام عالموں پر ہر وقت ہر دم اس کا سلسلہ ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیّت اور جزاسزا کا جاری ہے اور یاد رہے کہ سورہ فاتحہ میں فقرہ مالک یوم الدین سے صرف یہ مراد نہیں ہے کہ قیامت کو جزا سزا ہوگی بلکہ قرآن شریف میں بار بار اور صاف صاف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت تو مجازات کُبریٰ کا وقت ہے مگر ایک قسم کی مجازات اسی دنیا میں شروع ہے جس کی طرف آیت 3 ۱؂ اشارہ کرتی ہے۔ اب یہ بات بھی سنو کہ انجیل کی دعا میں تو ہر روزہ روٹی مانگی گئی ہے جیسا کہ کہا کہ ’’ ہماری روزانہ روٹی آج ہمیں بخش‘‘ مگر تعجب کہ جس کی ابھی تک زمین پر بادشاہت نہیں آئی وہ کیونکر روٹی دے سکتا ہے ابھی تک تو تمام کھیت اور تمام پھل نہ اُس کے حکم سے بلکہ خود بخود پکتے ہیں اور خود بخود بارشیں ہوتی ہیں اُس کا کیا اختیار ہے کہ کسی کو روٹی دے جب بادشاہت زمین پر آجائے گی تب اُس سے روٹی مانگنی چاہئے ابھی تو وہ ہر ایک زمینی چیز سے بے دخل ہے جب اس جائداد پر پورا قبضہ پائے گا تب کسی کو روٹی دے سکتا ہے اور اس وقت اس سے مانگنا بھی نا زیبا ہے اور پھر اس کے بعد یہ قول کہ جس طرح ہم اپنے قرض داروں کو بخشتے ہیں تو اپنے قرض کو ہمیں بخش دے اس صورت میں یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ زمین کی بادشاہت ابھی اُس کو حاصل نہیں اور ابھی عیسائیوں نے کچھ اس کے ہاتھ سے لے کر کھا یانہیں تو پھر قرضہ کونسا ہوا۔ پس ایسے تہی دست خدا سے قرضہ بخشوانے کی کچھ ضرورت نہیں اور نہ اس سے کچھ خوف ہے کیونکہ زمین

پرابھی اس کی بادشاہت نہیں اور نہ اُس کی حکومت کا تازیانہ کوئی رعب بٹھلا سکتا ہے۔

دیکھو یہ لفظ ربّ العالمین کیسا جامع کلمہ ہے اگر ثابت ہو کہ اجرام فلکی میں آبادیاں ہیں تب بھی وہ آبادیاں اس کلمہ کے نیچے آئیں گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 43

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/43/mode/1up


کیا مجال کہ وہ کسی مجرم کو سزا دے سکے یا موسٰیؑ کے زمانہ کی نافرمان قوم کی طرح طاعون سے ہلاک کر سکے یا قوم لوط کی طرح ان پر پتھر برسا سکے یا زلزلہ یا بجلی یا کسی اور عذاب سے نافرمانوں کو نابود کر سکے کیونکہ ابھی خدا کی زمین پر بادشاہت نہیں پس چونکہ عیسائیوں کا خدا ایسا ہی کمزور ہے جیسا کہ اس کا بیٹا کمزور تھا اور ایسا ہی بے دخل ہے جیسا اس کا بیٹا بے دخل تھا تو پھر اُس سے ایسی دعائیں مانگنا لا حاصل ہیں کہ ہمیں قرض بخش دے اُس نے کب قرض دیا تھا جو بخش دے کیونکہ ابھی تک تو اس کی زمین کی بادشاہت نہیں جب کہ اس کی زمین پر بادشاہت ہیؔ نہیں تو زمین کی روئیدگی اُس کے حکم سے نہیں اور زمینی چیزیں اس کی نہیں بلکہ خود بخودہی ہیں کیونکہ اُس کا زمین پر حکم نافذ نہیں اور جبکہ زمین پر وہ فرمانروا اور بادشاہ نہیں اور کوئی زمینی آسائش اُس کے شاہانہ حکم سے نہیں تو اُس کو سزا کا نہ اختیار ہے نہ حق حاصل۔ لہٰذا ایسا کمزور اپنا خدا بنانا اور اس سے زمین پر رہ کر کسی کارروائی کی امید رکھنا حماقت ہے کیونکہ ابھی اُس کی زمین پر بادشاہی نہیں۔ لیکن سورۃ فاتحہ کی دعا ہمیں سکھلاتی ہے کہ خدا کو زمین پر ہر وقت وہی اقتدار حاصل ہے جیسا کہ اور عالموں پر اقتدار حاصل ہے اور سورۃ فاتحہ کے سر پر خدا کے اُن کا مل اقتداری صفات کا ذکر ہے جو دنیا میں کسی دوسری کتاب نے ایسی صفائی سے ذکر نہیں کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ رحمانہے وہ رحیم ہے وہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے پھر اس سے دعا مانگنے کی تعلیم کی ہے اور دعا جو مانگی گئی ہے وہ مسیح کی تعلیم کردہ دعا کی طرح صرف ہر روزہ روٹی کی درخواست نہیں بلکہ جو جو انسانی فطرت کو ازل سے استعداد بخشی گئی ہے اور اس کو پیاس لگا دی گئی ہے وہ دعا سکھلائی گئی ہے اور وہ یہ ہے 3 3 ۱؂ یعنی اے ان کامل صفتوں کے مالک اور ایسے فیاض کہ ذرّہ ذرّہ تجھ سے پرورش پاتا ہے اور تیری رحمانیت اور رحیمیت اور قدرت جزا سزا سے تمتّع اٹھاتا ہے تو ہمیں گزشتہ راست بازوں کا وارث بنا اور ہر ایک نعمت جو ان کو دی ہے ہمیں بھی دے اور ہمیں بچا کہ ہم نافرمان ہو کر موردغضب نہ ہو جائیں اور ہمیں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 44

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/44/mode/1up


بچا کہ ہم تیری مدد سے بے نصیب رہ کر گمراہ نہ ہو جاویں۔آمین

اب اس تمام تحقیقات سے انجیل کی دعا اور قرآن کی دعا میں فرق ظاہر ہوگیا کہ انجیل تو خدا کی بادشاہت آنے کا ایک وعدہ کرتی ہے مگر قرآن بتلاتا ہے کہ خدا کی بادشاہت تم میں موجود ہے نہ صرف موجود بلکہ عملی طور پر تم پر فیض بھی جاری ہیں غرض انجیل میں تو صرف ایک وعدہ ہی ہے مگر قرآن نہ محض وعدہ بلکہ قائم شدہ بادشاہت اور اس کے فیوض کو دکھلارہا ہے اب قرآن کی فضیلت اس سے ظاہر ہے کہ وہ اُس خدا کو پیش کرتا ہے جو اسی زندگی دنیا میں راست بازوں کا منجی اور آرام دہ ہے اور کوئی نفس اُس کے فیض سے خالی نہیں بلکہ ہر ایک نفس پر حسب اسؔ کی ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت کا فیض جاری ہے مگر انجیل اس خدا کو پیش کرتی ہے جو ابھی اس کی بادشاہت دنیا میں نہیں آئی صرف وعدہ ہے اب سوچ لو کہ عقل کس کو قابل پیروی سمجھتی ہے حافظ شیرازی نے سچ کہا ہے ؂

مرید پیر مغانم زمن مرنج اے شیخ

چراکہ وعدہ تو کر دی و اوبجا آورد

اور انجیلوں میں حلیموں، غریبوں، مسکینوں کی تعریف کی گئی ہے اور نیز اُن کی تعریف جوستائے جاتے ہیں اور مقابلہ نہیں کرتے مگر قرآن صرف یہی نہیں کہتا کہ تم ہر وقت مسکین بنے رہو اور شر کا مقابلہ نہ کرو بلکہ کہتا ہے کہ حلم اور مسکینی اور غربت اور ترک مقابلہ اچھا ہے مگر اگر بے محل استعمال کیا جائے تو بُرا ہے پس تم محل اور موقع کو دیکھ کر ہر ایک نیکی کرو کیونکہ وہ نیکی بدی ہے جو محل اور موقع کے برخلاف ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ مینہ کس قدر عمدہ اور ضروری چیز ہے لیکن اگر وہ بے موقع ہو تو وہی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے تم دیکھتے ہو کہ ایک ہی سرد غذا یا گرم غذا کی مداومت سے تمہاری صحت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ صحت تبھی قائم رہے گی کہ جب موقع اور محل کے موافق تمہارے کھانے اور پینے کی چیزوں میں تبدیلی ہوتی رہے پس درشتی اور نرمی اور عفو اور انتقام اور دعا اوربددعا اور دوسرے اخلاق میں جو تمہارے لئے مصلحت وقت ہے وہ بھی اسی تبدیلی کو چاہتی ہے اعلیٰ درجہ کے حلیم اور خلیق بنو لیکن



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 45

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/45/mode/1up


نہ بے محل اور بے موقع اور ساتھ اس کے یہ بھی یادرکھو کہ حقیقی اخلاق فاضلہ جن کے ساتھ نفسانی اغراض کی کوئی زہریلی آمیزش نہیں وہ اوپر سے بذریعہ روح القدس آتے ہیں سو تم ان اخلاق فاضلہ کو محض اپنی کوششوں سے حاصل نہیں کر سکتے جب تک تم کو اوپر سے وہ اخلاق عنایت نہ کئے جائیں اور ہر ایک جو آسمانی فیض سے بذریعہ روح القدس اخلاق کا حصہ نہیں پاتا وہ اخلاق کے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور اس کے پانی کے نیچے بہت سا کیچڑ ہے اور بہت سا گوبر ہے جو نفسانی جوشوں کے وقت ظاہر ہوتا ہے سو تم خدا سے ہر وقت قوت مانگو جو اُس کیچڑ اور اُس گوبر سے تم نجات پاؤ اور روح القدس تم میں سچی طہارت اور لطافت پیدا کرے یاد رکھو کہ سچے اور پاک اخلاق را ستبازوں کا معجزہ ہے جن میں کوئی غیر شریک نہیں کیونکہ وہ جو خدا میںؔ محو نہیں ہوتے وہ اوپر سے قوت نہیں پاتے اس لئے اُن کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاک اخلاق حاصل کر سکیں سو تم اپنے خدا سے صاف ربط پیدا کرو ۔ٹھٹھا،ہنسی، کینہ وری، گندہ زبانی، لالچ، جھوٹ، بد کاری، بد نظری، بد خیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی، شرارت، کج بحثی، سب چھوڑ دو۔ پھر یہ سب کچھ تمہیں آسمان سے ملے گا۔ جب تک وہ طاقت بالا جو تمہیں اوپر کی طرف کھینچ کر لے جائے تمہارے شامل حال نہ ہو اور روح القدس جو زندگی بخشتا ہے تم میں داخل نہ ہو تب تک تم بہت ہی کمزور اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہو بلکہ ایک مُردہ ہو جس میں جان نہیں اس حالت میں نہ تو تم کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہو نہ اقبال اور دولت مندی کی حالت میں کبر اور غرور سے بچ سکتے ہو اور ہر ایک پہلو سے تم شیطان اور نفس کے مغلوب ہو سو تمہارا علاج تو درحقیقت ایک ہی ہے کہ روح القدس جو خاص خدا کے ہاتھ سے اُترتی ہے تمہارا منہ نیکی اور را ستبازی کی طرف پھیر دے تم ابناء السّماء بنو نہ ابناء الارض اور روشنی کے وارث بنو نہ تاریکی کے عاشق تا تم شیطان کی گذرگاہوں سے امن میں آجاؤ کیونکہ شیطان کوہمیشہ رات سے غرض ہے دن سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ پُرا نا چور ہے جو تاریکی میں قدم رکھتا ہے۔

سورۃ فاتحہ نری تعلیم ہی نہیں بلکہ اس میں ایک بڑی پیشگوئی بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا نے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 46

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/46/mode/1up


اپنی چاروں صفات ربو۱بیت، رحما۲نیت، رحیمیت ۳ ، مالکیت۴ یوم الدین یعنی اقتدارجزا وسزا کا ذکر کر کے اور اپنی عام قدرت کا اظہار فرما کر پھر اس کے بعد کی آیتوں میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ خدا یا ایسا کر کہ گزشتہ راستباز نبیوں رسولوں کے ہم وارث ٹھہرائے جائیں ان کی راہ ہم پر کھولی جائے اُن کی نعمتیں ہم کو دی جائیں خدایا ہمیں اس سے بچا کہ ہم اس قوم میں سے ہو جائیں جن پر دنیا میں ہی تیرا عذاب نازل ہوا یعنی یہود جو حضرت عیسٰی مسیح کے وقت میں تھی جو طاعون سے ہلاک کی گئی۔ خدایا ہمیں اس سے بچاکہ ہم اُس قوم میں سے ہو جائیں جن کے شامل حال تیری رہنمائی نہ ہوئی اور وہ گمراہ ہوگئی یعنی نصاریٰ ۔اس دعا میں یہ پیشگوئی مخفی ہے کہ بعض مسلمانوں میں سے ایسے ہوں گے کہ وہ اپنے صدق و صفا کی وجہ سے پہلے نبیوؔ ں کے وارث ہو جائیں گے اور نبوت اور رسالت کی نعمتیں پائیں گے اور بعض ایسے ہوں گے کہ وہ یہودی صفت ہو جائیں گے جن پر دنیا میں ہی عذاب نازل ہو گا اور بعض ایسے ہوں گے کہ وہ عیسائیت کا جامہ پہن لیں گے۔ کیونکہ خدا کے کلام میں یہ سنّت مستمرہ ہے کہ جب ایک قوم کو ایک کام سے منع کیا جاتا ہے تو ضرور بعض ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ خدا کے علم میں اُس کام کے مرتکب ہونے والے ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نیکی اور سعادت کا حصہ لیتے ہیں ابتدائے دنیا سے اخیر تک جس قدر خدا نے کتابیں بھیجیں اُن تمام کتابوں میں خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سنّت ہے کہ جب وہ ایک قوم کو ایک کام سے منع کرتا ہے یا ایک کام کی رغبت دیتا ہے تو اس کے علم میں یہ مقدّر ہوتا ہے کہ بعض اُس کام کو کریں گے اور بعض نہیں۔ پس یہ سورۃ پیشگوئی کر رہی ہے کہ کوئی فرد اس اُمت میں سے کامل طور پر نبیوں کے رنگ میں ظاہر ہوگا تا وہ پیشگوئی جو آیت 3 3 ۱؂سے مستنبط ہوتی ہے وہ اکمل اور اتم طور پر پوری ہو جائے اور کوئی گروہ ان میں سے ان یہودیوں کے رنگ میں ظاہر ہوگا جن پر حضرت عیسیٰ نے *** کی تھی اور وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہوئے تھے تا وہ پیشگوئی جو آیت 3۲؂ سے مستنبط ہوتی ہے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/47/mode/1up


ظہور پذیر ہو۔ اور کوئی گروہ ان میں سے عیسائیوں کے رنگ میں ہو جائے گا عیسائی بن جائے گا جو خدا کی رہنمائی سے بوجہ اپنی شراب خواری اور اباحت اور فسق و فجور کے بے نصیب ہوگئے تا وہ پیشگوئی جو آیت وَلَا الضَّالِیْنَ سے مترشح ہو رہی ہے ظاہر ہو جائے۔ اور چونکہ یہ بات مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہے کہ آخری زمانہ میں ہزارہا مسلمان کہلانے والے یہودی صفت ہو جائیں گے اور قرآن شریف کے کئی ایک مقامات میں بھی یہ پیشگوئی موجود ہے اور صدہا مسلمانوں کا عیسائی ہو جانا یا عیسائیوں کی سی بے قید اور آزاد زندگی اختیار کرنا خود مشہود اور محسوس ہو رہا ہے بلکہ بہت سے لوگ مسلمان کہلانے والے ایسے ہیں کہ وہ عیسائیوں کی طرز معاشرت پسند کرتے ہیں اور مسلمان کہلا کر نماز روزہ اور حلال اور حرام کے احکام کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہ دونوں فرقے یہودی صفت اور ؔ عیسائی صفت اس ملک میں پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں سویہ دو پیشگوئیاں سورۃ فاتحہ کی تو تم پوری ہوتی دیکھ چکے ہو اور بچشم خود مشاہدہ کر چکے ہو کہ کس قدر مسلمان یہودی صفت اور کس قدر عیسائیوں کے لباس میں ہیں۔ تو اب تیسری پیشگوئی خود ماننے کے لائق ہے کہ جیسا کہ مسلمانوں نے یہودی عیسائی بننے سے یہود نصاریٰ کی بدی کا حصہ لیا ایسا ہی اُن کا حق تھا کہ بعض افراد ان کے اُن مقدس لوگوں کے مرتبہ اور مقام سے بھی حصہ لیں جو بنی اسرائیل میں گزر چکے ہیں یہ خدا ئے تعالیٰ پر بدظنی ہے کہ اُس نے مسلمانوں کو یہودو نصاریٰ کی بدی کا تو حصہ دار ٹھہرا دیا ہے یہاں تک کہ اُن کا نام یہود بھی رکھ دیا مگر اُن کے رسولوں اور نبیوں کے مراتب میں سے اس اُمت کو کوئی حصہ نہ دیا پھر یہ اُمت خیرالامم کس وجہ سے ہوئی؟ بلکہ شرّالامم ہوئی کہ ہر ایک نمونہ شر کا ان کو ملا مگر نیکی کا نمونہ نہ ملا۔ کیا ضرور نہیں کہ اِس اُمت میں بھی کوئی نبیوں اور رسولوں کے رنگ میں نظر آوے جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں کا وارث اور اُن کا ظل ہو؟کیونکہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ اس اُمت میں اس زمانہ میں ہزارہا یہودی صفت لوگ تو پیدا کرے اور ہزارہا عیسائی مذہب میں داخل کرے مگر ایک شخص بھی ایسا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/48/mode/1up


ظاہر نہ کرے جو انبیائے گزشتہ کا وارث اوران کی نعمت پانے والا ہوتا پیشگوئی جو آیت 33 ۱؂سے مستنبط ہوتی ہے وہ بھی ایسی ہی پوری ہو جائے جیسا کہ یہودی اور عیسائی ہونے کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور جس حالت میں اس اُمت کو ہزارہا بُرے نام دئے گئے ہیں اور قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہود ہو جانا بھی ان کے نصیب میں ہے تو اس صورت میں خدا کے فضل کا خود یہ مقتضا ہونا چاہئے تھاکہ جیسے گزشتہ نصاریٰ سے اِنہوں نے بُری چیزیں لیں اسی طرح وہ نیک چیز کے بھی وارث ہوں اسی لئے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں آیت 3 میں بشارت دی کہ اس اُمت کے بعض افراد انبیائے گزشتہ کی نعمت بھی پائیں گے نہ یہ کہ نرے یہود ہی بنیں یا عیسائی بنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیں مگر نیکی نہ لے سکیں۔ اسی کی طرف سورۃ تحریم میں بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض افراد اُمت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریمؔ صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے جس نے پارسائی اختیار کی تب اُس کے رحم میں عیسیٰ کی روح پھونکی گئی اور عیسیٰ اس سے پیدا ہوا ۔اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس اُمت میں ایک شخص ہوگا کہ پہلے مریم کا مرتبہ اُس کو ملے گا پھر اُس میں عیسیٰ کی روح پھونکی جاوے گی تب مریم میں سے عیسیٰ نکل آئے گا یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا گویا مریم ہونے کی صفت نے عیسیٰ ہونے کا بچہ دیا اور اس طرح پر وہ ابن مریم کہلائے گا جیسا کہ براہین احمدیہ میں اوّل میرا نام مریم رکھا گیا اور اسی کی طرف اشارہ ہے الہام صفحہ۲۴۱ میں اور وہ یہ ہے کہ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا یعنی اے مریم تو نے یہ نعمت کہاں سے پائی؟ اور اسی کی طرف اشارہ ہے صفحہ ۲۲۶میں یعنی اس الہام میں کہ ھز الیک بجذع النخلۃ یعنی اے مریم کھجور کے تنہ کو ہلا۔ اور پھر اُ س کے بعد صفحہ۴۹۶ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ نفخت فیک من لدنی

روح الصدق یعنی اے مریم تو مع اپنے دوستوں کے بہشت میں داخل ہو میں نے تجھ میں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/49/mode/1up


اپنے پاس سے صدق کی روح پھونک دی خدا نے اس آیت* میں میرا نام روح الصدق رکھا۔یہ اس آیت کے مقابل پر ہے کہ نَفَخْنَافِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا۔ پس اس جگہ گویا استعارہ کے رنگ میں مریم کے پیٹ میں عیسیٰ کی روح جا پڑی جس کا نام روح الصدق ہے پھر سب کے آخر صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں وہ عیسیٰ جو مریم کے پیٹ میں تھا اُس کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ الہام ہوا۔ یا عیسٰی انی متوفّیک ورافعک الیّ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامۃ اس جگہ میرا نام عیسیٰ رکھا گیا اور اس الہام نے ظاہر کیا کہ وہ عیسیٰ پیدا ہوگیا جس کے روح کا نفخ صفحہ ۴۹۶ میں ظاہر کیا گیا تھا۔ پس اس لحاظ سے میں عیسیٰ بن مریم کہلایا کیونکہ میری عیسوی حیثیت مریمی حیثیت سے خدا کے نفخ سے پیدا ہوئی دیکھو صفحہ ۴۹۶ اور صفحہ۵۵۶ براہین احمدیہ۔ اور اسی واقعہ کو سورۃ تحریم میں بطور پیشگوئی کمال تصریح سے بیان کیا گیا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم اس اُمت میں اس طرح پیدا ہوگا کہ پہلے کوئی فرد اس اُمّت کا مریم بنایا جائے گا اور پھر بعد اس کے اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی جائے گی پسؔ وہ مریمیّت کے رحم میں ایک مدت تک پرورش پا کر عیسیٰ کی روحانیت میں تولّد پائے گا اور اس طرح پر وہ عیسیٰ بن مریم کہلائے گا یہ وہ خبر محمدی ابن مریم کے بارے میں ہے جو قرآن شریف یعنی سورۃ تحریم میں اس زمانہ سے تیرہ سو۱۳۰۰ برس پہلے بیان کی گئی ہے اور پھر براہین احمدیہ میں سورۃ التحریم کی ان آیات کی خداتعالیٰ نے خود تفسیر فرمادی ہے۔ قرآن شریف موجود ہے ایک طرف قرآن شریف کو رکھو اور ایک طرف براہین احمدیہ کو اور پھر انصاف اور عقل اور تقویٰ سے سوچو کہ وہ پیشگوئی جو سورۃ تحریم میں تھی یعنی یہ کہ اس اُمت میں بھی کوئی فرد مریم کہلائے گا اور پھر مریم سے عیسیٰ بنایا جائے گا گویا اس میں سے پیدا ہوگا وہ کس رنگ میں براہین احمدیہ کے الہامات سے پوری ہوئی کیا یہ انسان کی قدرت ہے کیا یہ میرے اختیار میں تھا اور کیا میں اس وقت موجود تھا جبکہ قرآن شریف نازل ہو رہا تھا تا میں عرض کرتا کہ مجھے ابن مریم بنا نے کے لئے کوئی آیت اُتاری جائے اور اس اعتراض سے مجھے سبکدوش



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/50/mode/1up


کیا جائے کہ تمہیں کیوں ابن مریم کہا جائے اور کیا آج سے بیس ۲۰بائیس۲۲ برس پہلے بلکہ اس سے بھی زیادہ میری طرف سے یہ منصوبہ ہو سکتا تھا کہ میں اپنی طرف سے الہام تراش کر اول اپنا نام مریم رکھتا اور پھر آگے چل کر افترا کے طور پر یہ الہام بناتا کہ پہلے زمانہ کی مریم کی طرح مجھ میں بھی عیسیٰ کی روح پھونکی گئی اور پھر آخر کار صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں یہ لکھ دیتا کہ اب میں مریم میں سے عیسیٰ بن گیا۔ اے عزیزو! غور کرو اور خدا سے ڈرو ہرگز یہ انسان کا فعل نہیں یہ باریک اور دقیق حکمتیں انسان کے فہم اور قیاس سے بالا تر ہیں اگر براہین احمدیہ کی تالیف کے وقت جس پر ایک زمانہ گذر گیا مجھے اس منصوبہ کا خیال ہوتا تو میں اُسی براہین احمدیہ میں یہ کیوں لکھتا کہ عیسیٰ مسیح ابن مریم آسمان سے دوبارہ آئے گا سوچونکہ خدا جانتا تھا کہ اس نکتہ پر علم ہونے سے یہ دلیل ضعیف ہو جائے گی اس لئے گو اُس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو۲ برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشوونما پاتا رہا پھر جب اُس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین ا حمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ ۴۹۶ میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ ؔ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ ۵۵۶میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔ اور خدا نے براہین احمدیہ کے وقت میں اس سر خفی کی مجھے خبر نہ دی حالانکہ وہ سب خداکی وحی جو اس راز پر مشتمل تھی میرے پر نازل ہوئی اور براہین میں درج ہوئی مگر مجھے اُس کے معنوں اور اس ترتیب پر اطلاع نہ دی گئی اسی واسطے میں نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو وہ۔۔۔۔ لکھنا جو الہامی نہ تھا محض رسمی تھا مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخود غیب کا دعویٰ نہیں جب تک کہ خود خدا تعالیٰ مجھے نہ سمجھاوے۔ سو اس وقت تک حکمتِ الٰہی کا یہی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/51/mode/1up


تقاضا تھا کہ براہین احمدیہ کے بعض الہامی اسرار میری سمجھ میں نہ آتے مگر جب وقت آ گیا تو وہ اسرار مجھے سمجھائے گئے تب میں نے معلوم کیا کہ میرے اس دعویٰ مسیح موعود ہونے میں کوئی نئی بات نہیں یہ وہی دعویٰ ہے جو براہین احمدیہ میں بار بار بتصریح لکھا گیا ہے۔ اس جگہ ایک اور الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ صدہالوگوں کو میں نے سنایا تھا اور میری یادداشت کے الہامات میں موجود ہے اور وہ اُس زمانہ کاہے جب کہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ قالت یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا یعنی پھر مریم کو جو مراد اِس عاجز سے ہے دردِزِہ تنہ کھجور کی طرف لے آئی یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا جنہوں نے تکفیر و توہین کی اور گالیاں دیں اور ایک طوفان برپا کیا تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتی اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتدا میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا اور وہ اس دعویٰ کی برداشت نہ کر سکے اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا تبؔ اُس وقت جو کرب اور قلق ناسمجھوں کا شوروغوغا دیکھ کر میرے دل پر گذرا اُس کا اس جگہ خداتعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے جیسا لقد جئت شیئا فریا۔ ماکان ابوک امرء سوء وما کانت أمّک بغیااور پھر اس کے ساتھ کا الہام براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۱ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا۔ قول الحق الذی فیہ تمترون دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۶ سطر ۱۲ و ۱۳۔( ترجمہ) اور لوگوں نے کہا کہ اے مریم تو نے یہ کیا مکروہ اور قابلِ نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دور ہے تیرا باپ *اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے

نوٹ: اس الہام پر مجھے یاد آیا کہ بٹالہ میں فضل شاہ یا مہر شاہ نام ایک سید تھے جو میرے والد صاحب سے بہت



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/52/mode/1up


مگر خدا ان تہمتوں سے اپنے بندہ کو بَری کرے گا اور ہم اس کو لوگوں کے لئے ایک نشان بنا دیں گے اور یہ بات ابتدا سے مقدر تھی اور ایسا ہی ہونا تھا یہ عیسیٰ بن مریم ہے جس میں لوگ شک کر رہے ہیں یہی قول حق ہے۔ یہ سب براہین احمدیہ کی عبارت ہے اور یہ الہام اصل میں آیات قرآنی ہیں جو حضرت عیسیٰ اور ان کی ماں کے متعلق ہیں۔ ان آیتوں میں جس عیسیٰ کو لوگوں نے ناجائز پیدائش کا انسان قرار دیا ہے اُسی کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس کو اپنا نشان بنائیں گے اور یہی عیسیٰ ہے جس کی انتظار تھی اور الہامی عبارتوں میں مریم اور عیسیٰ سے میں ہی مراد ہوں۔ میری نسبت ہی کہا گیا کہ ہم اس کو نشان بنا دیں گے اور نیز کہا گیا کہ یہ وہی عیسیٰ بن مریم ہے جو آنے والا تھا جس میں لوگ شک کرتے ہیں یہی حق ہے اور آنے والا یہی ہے اور شک محض نافہمی سے ہے جو خدا کے اسرار کو نہیں سمجھتے اور صورت پرست ہیں حقیقت پر ان کی نظر نہیں۔

یہؔ بھی یاد رہے کہ سورۃ فاتحہ کے عظیم الشان مقاصد میں سے یہ دعا ہے کہ اِھْدِناَالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ۔ اور جس طرح انجیل کی دعا میں روٹی مانگی گئی ہے اس دعا میں خدا تعالیٰ سے وہ تمام نعمتیں مانگی گئی ہیں جو پہلے رسولوں اور نبیوں کو دی گئی تھیں یہ مقابلہ بھی قابل نظارہ ہے اور جس طرح حضرت مسیح کی دعا قبول ہو کر عیسائیوں کو روٹی کا سامان بہت کچھ مل گیا ہے اِسی طرح یہ قرآنی دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قبول ہو کر اخیار و ابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فرد انبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اس اُمت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گو مخفی طور پر بہت سے اخیار و ابرار نے انبیاء بنی اسرائیل کی

محبت رکھتے تھے اور بہت تعلق تھا جب میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی کسی نے ان کو خبر دی تو وہ بہت روئے اور کہا کہ ان کے والد صاحب بہت اچھے آدمی تھے یعنی یہ شخص کس پر پیدا ہوا ان کا باپ تو نیک مزاج اور افترا کے کاموں سے دور اور سیدھا اور صاف دل مسلمان تھا ایسا ہی بہتوں نے کہا کہ تم نے اپنے خاندان کو داغ لگایا کہ ایسا دعویٰ کیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/53/mode/1up


مماثلت کا حصہ لیا ہے مگر اس اُمت کا مسیح موعود کھلے کھلے طور پر خدا کے حکم اور اِذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل کھڑا کیا گیا ہے تا موسوی اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آ جائے اسی غرض سے اس مسیح کو ابن مریم سے ہریک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے یہاں تک کہ اِس ابن مریم پر ابتلا بھی اسرائیلی ابن مریم کی طرح آئے اوّل جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم محض خدا کے نفخ سے پیدا کیا گیا اِسی طرح یہ مسیح بھی سورۃ تحریم کے وعدہ کے موافق محض خدا کے نفخ سے مریم کے اندر سے پیدا کیا گیا اور جیسا کہ عیسیٰ ابن مریم کی پیدائش پر بہت شور اُٹھا اور اندھے مخالفوں نے مریم کو کہا 3 3 ۱؂ اسی طرح اِس جگہ بھی کہا گیا اور شور قیامت مچایا گیا اور جیسا کہ خدا نے اسرائیلی مریم کے وضع حمل کے وقت مخالفوں کو عیسیٰ کی نسبت یہ جواب دیا 333 ۲؂ یہی جواب خدا تعالیٰ نے میری نسبت براہین احمدیہ میں روحانی وضع حمل کے وقت جو استعارہ کے رنگ میں تھا مخالفوں کو دیا اور کہا کہ تم اپنے فریبوں سے اس کو نابود نہیں کر سکتے مَیں اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بناؤں گا اور ایسا ہونا ابتدا سے مقدر تھا۔ اور پھر جس طرح یہودیوں کے علماء نے حضرت عیسیٰ پر فتویٰ تکفیر کا لگایا اور ایک شریر فاضل یہودی نے وہ استفتاء طیار کیا اور دوسرے فاضلوں نے اس پر فتویٰ دیاؔ یہاں تک کہ بیت المقدس کے صدہا عالم فاضل جو اکثر اہلحدیث تھے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ پر تکفیر کی مہریں لگا دیں یہی*معاملہ مجھ سے ہوا اور پھر جیسا کہ اُس تکفیر کے بعد جو حضرت عیسیٰ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودی اگرچہ بہت فرقے تھے مگر جو حق پر سمجھے جاتے تھے وہ دو فرقے ہوگئے تھے (۱) ایک وہ جو توریت کے پابند تھے اُسی سے اجتہاد کے طور پر مسائل استنباط کرتے تھے (۲) دوسرا فرقہ اہلحدیث تھا جو توریت پر احادیث کو قاضی سمجھتے تھے یہ اہل حدیث اسرائیلی بلاد میں بہت پھیل گئے تھے اور ایسی ایسی حدیثوں پر عمل کرتے تھے جو اکثر توریت کی معارض اور نقیض تھیں اور ان کی یہ حجت تھی کہ بعض مسائل شرع مثلاً عبادات اور معاملات اور قانون مجازات کے مسائل توریت سے ملتے نہیں ہیں ان پر حدیثوں کی رو سے اطلاع



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/54/mode/1up


کی نسبت کی گئی تھی اُن کو بہت ستایا گیا سخت سخت گالیاں دی گئیں تھیں ہجو اور بدگوئی میں کتابیں لکھی گئی تھیں یہی صورت اس جگہ پیش آئی گویا اٹھارہ ۱۸۰۰ سو برس کے بعد وہی عیسیٰ پھر پیدا ہو گیا اور وہی یہودی پھر پیدا ہوگئے۔ آہ یہی معنی تو اس پیشگوئی کے تھے کہ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ جو خدا نے پہلے سے سمجھا دیا تھا مگر ان لوگوں نے صبر نہ کیا جب تک یہودیوں کی طرح مغضوب علیہم نہ بن گئے اِس مماثلت کی ایک اینٹ تو خدا نے اپنے ہاتھ سے لگا دی کہ مجھے عین چودہویں صدی کے سر پر جیسا کہ مسیح ابن مریم چودہویں صدی کے سر پر آیا تھا مسیح الاسلامکر کے بھیجا اور میرے لئے اپنے زبردست نشان دکھلا رہا ہے اور آسمان کے نیچے کسی مخالف مسلمان یا یہودی یا عیسائی وغیرہ کو طاقت نہیںؔ کہ اُن کا مقابلہ کرے اور خدا کا مقابلہ عاجز اور ذلیل انسان کیا کر سکے یہ تو وہ بنیادی اینٹ ہے جو خدا کی طرف سے ہے ہر ایک جو اس اینٹ کو توڑنا چاہے گا وہ توڑ نہیں سکے گا مگر یہ اینٹ جب اُس پر پڑے گی تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی کیونکہ اینٹ خدا کی اور ہاتھ خدا کا ہے اور دوسری اینٹ میرے مخالفوں نے طیار کر کے اس کے مقابل پر رکھ دی کہ میرے مقابل پر وہ کام کئے جو اس وقت کے یہودیوں نے کئے تھے یہاں تک کہ میرے ہلاک کرنے کے لئے

ہوتی ہے اور حدیث کی کتاب کا نام طالمود تھا اور اس میں ہر ایک نبی کے زمانہ کی حدیثیں تھیں یہ حدیثیں مدت تک زبانی رہیں اور مدت کے بعد قلمبند ہوئیں اِس لئے ان میں کچھ موضوعات کا حصہ بھی مل گیا تھا اور بباعث اس کے کہ اس وقت یہودیوں کے تہتر۷۳ فرقے ہوگئے تھے اور ہر ایک فرقہ اپنی اپنی حدیثیں جدا جدا رکھتا تھا اور محدثین نے توریت کی طرف توجہ چھوڑ دی تھی اکثر حدیثوں پر عمل تھا اور توریت گویا متروک اور مہجور کی طرح تھی اگر حدیث کے مطابق آئی تو اُس کو مانا ورنہ اس کو ردّ کیا۔ پس اس زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور اُن کے مخاطب خاص طور پر اہل حدیث ہی تھے جو توریت سے زیادہ حدیثوں کی عزت کرتے تھے اور نبیوں کے نوشتوں میں پہلے خبر دی گئی تھی کہ جب یہود کئی فرقوں پر منقسم ہو جائیں گے اور خدا کی کتاب کو چھوڑ کر اس کے برخلاف حدیثوں پر عمل کریں گے تب ان کو ایک حَکم عدل دیا جائے گا جو مسیح کہلائے گا اور اُس کو وہ قبول نہ کریں گے آخر سخت عذاب اُن پر نازل ہوگا اور وہ طاعون(کا) عذاب تھا نعوذ باللّٰہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/55/mode/1up


ایک خون کا مقدمہ بھی بنایا گیا جس کی میرے خدا نے مجھے پہلے خبر دے دی تھی وہ مقدمہ جو میرے پر بنایا گیا وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کے مقدمہ سے بہت سخت تھا کیونکہ حضرت عیسیٰ پر جو مقدمہ کیا گیا اس کی بنا محض ایک مذہبی اختلاف پر تھی جو حاکم کے نزدیک ایک خفیف بات تھی بلکہ کچھ بھی نہ تھی مگر میرے پر جو مقدمہ کھڑا کیا گیا وہ اقدام قتل کا دعویٰ تھا اور جیسا کہ مسیح کے مقدمہ میں یہودی مولویوں نے جا کر گواہی دی تھی ضرور تھا کہ اس مقدمہ میں بھی کوئی مولویوں میں سے گواہی دیتا اِس لئے اس کام کے لئے خدا نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو انتخاب کیا اور وہ ایک بڑا لمبا جُبّہ پہن کر گواہی کے لئے آیا اور جیسا کہ سردار کاہن مسیح کو صلیب دلانے کے لئے عدالت میں گواہی دینے کے لئے آیا تھا یہ بھی موجود ہوئے صرف فرق اس قدر تھا کہ سردار کاہن کو پیلاطوس کی عدالت میں کرسی ملی تھی کیونکہ یہودیوں کے معزز بزرگوں کو گورنمنٹ رومی میں کرسی ملتی تھی اور بعض ان میں سے آنریری مجسٹریٹ بھی تھے اِس لئے اس سردار کاہن نے عدالت کے قواعد کے لحاظ سے کرسی پائی اور مسیح ابن مریم ایک مجرم کی طرح عدالت کے سامنے کھڑا تھا۔ لیکن میرے مقدمہ میں اس کے برعکس ہوا یعنی یہ کہ برخلاف دشمنوں کی امیدوں کے کپتان ڈگلس نے جو پیلاطوس کی جگہ عدالت کی کرسی پر تھا مجھے کرسی دی اور یہ پیلاطوس مسیح ابن مریم کے پیلاطوس کی نسبت زیادہ بااخلاق ثابت ہوا کیونکہ عدالت کے امر میں وہ دلیری اور استقامت سے عدالت کا پابند رہا اور بالائی سفارشوں کی اُس نے کچھ بھی پروا نہ کی اور قومی اور مذہبی خیال نے بھی اس میں کچھ تغیر پیدا نہ کیا اور اس نے عدالت پر پورا قدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ ؔ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکّام کے لئے نمونہ سمجھا جائے تو بیجا نہ ہوگا عدالت ایک مشکل امر ہے جب تک انسان تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کر عدالت کی کرسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرض کو عمدہ طور پر ادا نہیں کر سکتا مگر ہم اس سچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اِس پیلاطوس نے اس فرض کو پورے طور پر ادا کیا۔ اگرچہ پہلا پیلاطوس جو رومی تھا اس فرض کو اچھے طور پر ادا نہیں کر سکا اور اس کی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/56/mode/1up


بُزدلی نے مسیح کو بڑی بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا یہ فرق ہماری جماعت میں ہمیشہ تذکرہ کے لائق ہے جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسی ویسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیّت حاکم کا تذکرہ رہے گا اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لئے اُسی کو چنا۔ ایک حاکم کے لئے کس قدر یہ امتحان کا موقعہ ہے کہ دو فریق اس کے پاس آویں کہ ایک ان میں سے اس کے مذہب کا مشنری ہے اور دوسرا فریق وہ ہے جو اس کے مذہب کا مخالف ہے اور اُس کے پاس بیان کیا گیا ہے کہ وہ اُس کے مذہب کا سخت مخالف ہے لیکن اس بہادر پیلاطوس نے اس امتحان کو بڑے استقلال سے برداشت کر لیا اور اس کو ان کتابوں کے مقام دکھلائے گئے جن میں کم فہمی سے عیسائی مذہب کی نسبت سخت الفاظ سمجھے گئے تھے اور ایک مخالفانہ تحریک کی گئی تھی مگر اس کے چہرہ پر کچھ تغیر پیدا نہ ہوا کیونکہ وہ اپنی روشن کانشنس کی وجہ سے حقیقت تک پہنچ گیا تھا اور چونکہ اُس نے مقدمہ کی اصلیت کو سچے دل سے تلاش کیا اس لئے خدا نے اس کی مدد کی اور اُس کے دل پر سچائی کا الہام کیا اور اس پر واقعی حقیقت کھولی گئی اور وہ اس سے بہت خوش ہوا کہ عدل کی راہ اُس کو نظر آگئی اُس نے مجھے محض عدل کے لحاظ سے مدعی کے مقابل پر کرسی دی اور جب مولوی محمد حسین جو سردار کاہن کی طرح مخالفانہ گواہی کے لئے آیا تھا مجھے کرسی پر بیٹھا ہوا پایا اور جس ذلت کو دیکھنے کے لئے میری نسبت اُس کی آنکھ شوق رکھتی تھی اُس ذلت کو اُس نے نہ دیکھا تب مساوات کو غنیمت سمجھ کر وہ بھی اُس پیلاطوس سے کرسی کا خواہشمند ہوا مگر اُس پیلاطوس نے اُسے ڈانٹا اور زور سے کہا کہ تجھے اور تیرے باپ کو کبھی کرسی نہیں ملی ہمارے دفتر میں تمہاری کرسی کے لئے کوئی ہدایت نہیں۔ اب یہ فرق بھی غور کے لائق ہے کہ پہلے پیلاطوس نےؔ یہودیوں سے ڈر کر ان کے بعض معزز گواہوں کو کرسی دے دی اور حضرت مسیح کو جو مجرم کے طور پر پیش کئے گئے تھے کھڑا رکھا حالانکہ وہ سچے دل سے مسیح کا خیر خواہ تھا بلکہ مریدوں کی طرح تھا اور اس کی بیوی مسیح کی خاص مرید تھی جو ولی اللہ کہلاتی ہے لیکن خوف نے اس سے یہاں تک حرکت صادر کرائی کہ ناحق



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/57/mode/1up


بے گناہ مسیح کو یہودیوں کے حوالہ کر دیا میری طرح کوئی خون کا الزام نہ تھا صرف معمولی طور پر مذہبی اختلاف تھا لیکن وہ رومی پیلاطوس دل کا قوی نہ تھا اس بات کو سن کر ڈر گیا کہ قیصر کے پاس اُس کی شکایت کی جائے گی۔ اور پھر ایک اور مماثلت پہلے پیلاطوس اور اس پیلاطوس میں یاد رکھنے کے لائق ہے کہ پہلے پیلاطوس نے اس وقت جو مسیح ابن مریم عدالت میں پیش کیا گیا یہودیوں کو کہا تھا کہ میں اس شخص میں کوئی گناہ نہیں دیکھتا ایسا ہی جب آخری مسیح اس آخری پیلاطوس کے روبرو پیش ہوا اور اس مسیح نے کہا کہ مجھے چند روز تک جواب کے لئے مہلت دینی چاہئے کہ مجھ پر خون کا الزام لگایا جاتا ہے تب اس آخری پیلاطوس نے کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا یہ دونوں قول دونوں پیلاطوسوں کے بالکل باہم مشابہ ہیں اگر فرق ہے تو صرف اس قدر ہے کہ پہلا پیلاطوس اپنے اس قول پر قائم نہ رہ سکا اور جب اس کو کہا گیا کہ قیصر کے پاس تیری شکایت کریں گے تو وہ ڈر گیا اور حضرت مسیح کو اس نے عمداً خونخوار یہودیوں کے حوالہ کر دیا گو وہ اس سپردگی سے غمگین تھا اور اس کی عورت بھی غمگین تھی۔ کیونکہ وہ دونوں مسیح کے سخت معتقد تھے لیکن یہودیوں کا سخت شوروغوغا دیکھ کر بزدلی اُس پر غالب آگئی ہاں البتہ پوشیدہ طور پر اس نے بہت سعی کی کہ مسیح کی جان کو صلیب سے بچایا جاوے اور اس سعی میں وہ کامیاب بھی ہو گیا مگر بعد اس کے کہ مسیح صلیب پر چڑھایا گیا اور شدت درد سے ایک ایسی سخت غشی میں آ گیا کہ گویا وہ موت ہی تھی۔ بہرحال پیلاطوس رومی کی کوشش سے مسیح ابن مریم کی جان بچ گئی اور جان بچنے کے لئے پہلے سے مسیح کی دعا منظور ہو چکی تھی۔ دیکھو عبرانیاں باب۵ آیت۷*۔ بعد اس کے مسیح اُس زمین سے پوشیدہ طور پر بھاگ کر کشمیر کی طرف آگیا اور وہیں

مسیح نے بطور پیشگوئی خود بھی کہا کہ بجز یونس کے نشان کے اور کوئی نشان دکھایا نہیں جائے گا پس مسیح نے اپنے اس قول میں یہ اشارہ کیا کہ جس طرح یونس زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا ایسا ہی میں بھی زندہ ہی قبر میں داخل ہوں گا اور زندہ ہی نکلوں گا سو یہ نشان بجز اس کے کیونکر پورا ہو سکتا تھا کہ مسیح زندہ صلیب سے اُتارا جاتا اور زندہ قبر میں داخل ہوتا اور یہ جو حضرت مسیح نے کہا کہ کوئی اور نشان نہیں دکھایا جائے گا اس فقرہ میں گویا مسیح ان لوگوں کا رد کرتا ہے کہ جو کہتے ہیں کہ مسیح نے یہ نشان بھی دکھلایا کہ آسمان پر چڑھ گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/58/mode/1up


فوت ہوا اور تم سن چکے ہو کہ سری نگر محلہ خان یار میںؔ اُس کی قبر ہے یہ سب پیلاطوس کی سعی کا نتیجہ تھا لیکن تا ہم اُس پہلے پیلاطوس کی کارروائی بزدلی کی رنگ آمیزی سے خالی نہ تھی اگر وہ اپنے اس قول کا پاس کر کے کہ میں اس شخص کا کوئی گناہ نہیں دیکھتا مسیح کو چھوڑ دیتا تو اس پر کچھ مشکل نہ تھا اور وہ چھوڑنے پر قادر تھا مگر وہ قیصر کی دوہائی سن کر ڈر گیا۔ لیکن یہ آخری پیلاطوس پادریوں کے ہجوم سے نہ ڈرا حالانکہ اس جگہ بھی قیصرہ کی بادشاہی تھی لیکن یہ قیصرہ اُس قیصر سے بدرجہ ہا بہتر تھی اس لئے کسی کے لئے ممکن نہ تھا کہ حاکم پر دباؤ ڈالنے کے لئے اور انصاف چھڑانے کے لئے قیصرہ سے ڈراوے بہرحال پہلے مسیح کی نسبت آخری مسیح پر بہت شور اور منصوبہ اُٹھایا گیا تھا اور میرے مخالف اور ساری قوموں کے سرگروہ جمع ہوگئے تھے مگر آخری پیلاطوس نے سچائی سے پیار کیا اور اپنے اس قول کو پورا کرکے دکھلایا کہ جو اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا تھا کہ میں تم پر خون کا الزام نہیں لگاتا سو اس نے مجھے بہت صفائی اور مردانگی سے بَری کیا اور پہلے پیلاطوس نے مسیح کو بچانے کے لئے حیلوں سے کام لیا مگر اس پیلاطوس نے جو کچھ عدالت کا تقاضا تھا اُس طور سے اس تقاضا کو پورا کیا جس میں بزدلی کا رنگ نہ تھا۔ جس دن میں بَری ہوا اُس دن اس عدالت میں مکتی فوج کا ایک چور بھی پیش ہوا یہ اس لئے وقوع میں آیا کہ پہلے مسیح کے ساتھ بھی ایک چور تھا لیکن اس آخری مسیح کے ساتھ کے چور کو جو پکڑا گیا اُس پہلے چور کی طرح جو پہلے مسیح کے ساتھ پکڑا گیا صلیب پر نہیں چڑھایا اور نہ اس کی ہڈیاں توڑی گئیں بلکہ صرف تین ماہ کی قید ہوئی۔

اب پھر ہم اپنے بیان کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ میں اِس قدر حقائق و دقایق و معارف جمع ہیں کہ اگر اُن سب کو لکھا جائے تو وہ باتیں ایک دفتر میں بھی

ختم نہیں ہو سکتیں اسی ایک حکیمانہ دعا کو دیکھئے کہ جو اس سورہ میں سکھائی گئی ہے یعنی

اِھْدِ نَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یہ دعا ایک ایسا مفہوم کلّی اپنے اندر رکھتی ہے جو تمام دین



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/59/mode/1up


اور دنیا کے مقاصد کی یہی ایک کنجی ہے ہم کسی چیز کی حقیقت پر اطلاع نہیں پا سکتے اور نہ اُس کے فوائد سے منتفع ہو سکتے ہیں جب تک کہ ہمیں اس کے پانے کے لئے ایک مستقیم راہ نہ ملے دنیا کے جس قدر مشکلؔ اور پیچیدہ امور ہیں خواہ وہ سلطنت اور وزارت کے ذمہ واریوں کے متعلق ہوں اور خواہ سپہ گری اور جنگ و جدال سے تعلق رکھتے ہوں اور خواہ طبعی اور ہیئت کے دقیق مسائل کے متعلق ہوں اور خواہ صناعت طِبّ کے طریق تشخیص اور علاج کے متعلق اور خواہ تجارت اور زراعت کے متعلق ان تمام امور میں کامیابی ہونا مشکل اور غیر ممکن ہے جب تک کہ ان کے بارہ میں ایک مستقیم راہ نہ ملے کہ کس طور سے اس کام کو شروع کرنا چاہئے اور ہر ایک عقلمند انسان مشکلات کے وقت میں یہی اپنا فرض سمجھتا ہے کہ اس مشکل سربستہ کے بارے میں ایک لمبے وقت تک رات کو اور دن کو سوچتا رہے تا ہو کہ اس مشکل کشائی کے لئے کوئی راہ نکل آوے اور ہر ایک صنعت اور ہر ایک ایجاد اور ہر ایک پیچیدہ اور الجھے ہوئے کام کو چلانا اس بات کو چاہتا ہے کہ اُس کام کے لئے راہ نکل آوے پس دنیا اور دین کی اغراض کے لئے اصل دعا راہ نکالنے کی دعا ہے جب سیدھی راہ کسی امر کے متعلق ہاتھ میں آ جائے تو یقیناًوہ امر بھی خدا کے فضل سے حاصل ہو جاتا ہے خدا کی قدرت اور حکمت نے ہر ایک مدعا کے حصول کے لئے ایک راہ رکھی ہے مثلاً کسی بیمار کاٹھیک ٹھیک علاج نہیں ہو سکتا جب تک اُس مرض کی حقیقت سمجھنے اور نسخہ کے تجویز کے لئے ایک ایسی راہ نہ نکل آوے کہ دل فتویٰ دے دے کہ اس راہ میں کامیابی ہوگی بلکہ کوئی انتظام دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس انتظام کے لئے ایک راہ پیدا نہ ہو پس راہ کا طلب کرنا طالب مقصد کا فرض ہوا اور جیسا کہ دنیا کی کامیابی کا صحیح سلسلہ ہاتھ میں لینے کے لئے پہلے ایک راہ کی ضرورت ہے جس پر قدم رکھا جائے ایسا ہی خدا کا دوست اور مورد محبت اور فضل بننے کے لئے قدیم سے ایک راہ کی ضرورت پائی گئی ہے اسی لئے دوسری سورۃ میں جو سورۃ البقر ہے جو اس سورۃ کے بعد ہے سورۃ کے شروع میں ہی فرمایا گیا ہے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ یعنی انعام پانے کی یہ راہ ہے جو ہم بیان کرتے ہیں*۔ پس یہ دعا یعنی دعا

سورۃ فاتحہ میں راہ راست کے لئے دعا کی گئی اور دوسری سورۃ میں گویا وہ دعا قبول ہو کر راہ راست بتلائی گئی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/60/mode/1up


3ایک جامع دعا ہے کہ جو انسان کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ مشکلات دینی اور دنیوی کے وقت میں اوّل جس چیز کی تلاش انسان کا فرض ہے وہ یہی ہے کہ اس امر کے حصول کے لئے وہ صراط مستقیم تلاش کرے یعنی کوئی ایسی صاف اور سیدھی راہؔ ڈھونڈے جس سے بآسانی اس مطلب تک پہنچ سکے۔ اور دل یقین سے بھر جائے شکوک سے نجات ہو لیکن انجیل کی ہدایت کے موافق روٹی مانگنے والا خدا جوئی کی راہ اختیارنہ کرے گا اُس کا مقصد تو روٹی ہے جب روٹی مل گئی تو پھر اس کو خدا سے کیا غرض یہی وجہ ہے کہ عیسائی صراط مستقیم سے گر گئے اور ایک نہایت قابل شرم عقیدہ جو انسان کو خدا بنانا ہے ان کے گلے پڑ گیا ہم نہیں سمجھ سکتے کہ مسیح ابن مریم میں دوسروں کی نسبت کیا زیادتی تھی جس سے اس کی خدائی کا خیال آیا معجزات میں پہلے اکثر نبی اِس سے بڑھ کر تھے جیسا کہ موسیٰ اور الیسع اور ایلیا نبی اور مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز دکھلانہ سکتا*اور خدا کا فضل اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا۔ جب کہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے اُس پاک رسولؐ کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا۔ ذالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ اِس جگہ کوئی حسد اور رشک پیش نہیں جاتا خدا جو چاہے کرے جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد میں نامراد ہی نہیں بلکہ مر کر جہنم کی راہ لیتا ہے ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو خدا بنایا۔ ہلاک ہو گئے

اس تصدیق کے لئے کتاب نزول المسیح کو عنقریب دیکھو گے جو چھپ رہی ہے اور دس۱۰ جزو تک چھپ چکی ہے اور عنقریب شائع ہونے والی ہے یہ کتاب پیر مہر علی گولڑی کی کتاب تنبور چشتیائی کے ردّ میں لکھی گئی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ پیر صاحب نے محمد حسن مُردہ کے مضمون کو چرا کر ایسی قابل شرم غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے کہ اب اطلاع پانے سے اُن پر زندگی تلخ ہو جائے گی وہ بدبخت تو ہماری پیشگوئی مندرجہ اعجاز المسیح کے موافق فوت ہو گیا اور یہ دوسرا بدبخت ناحق کتاب بنا کر پیشگوئی اِنِّیْ مُہِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کا نشانہ بن گیا فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/61/mode/1up


وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔

دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے خدا اور رسول کی ذمہ داری کاؔ فرض صرف دو امر تھے اوروہ یہ کہ خدا نے قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دی یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کی کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا یہ کہنا بیجا ہے کہ یہ حل کرنا حدیث پر موقوف تھا کیونکہ حدیث کے وجود سے پہلے اسلام زمین پر قائم ہو چکا تھا* کیا جب تک حدیثیں جمع نہ ہوئی تھیں لوگ نمازنہ پڑھتے تھے یا زکوٰۃ نہ دیتے تھے یا حج نہ کرتے تھے یا حلال و حرام سے واقف نہ تھے۔ ہاں تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سنّت کی خادم ہے جن لوگوں کو ادب قرآن

اہل حدیث فعل رسول اور قول رسول دونوں کا نام حدیث ہی رکھتے ہیں ہمیں ان کی اصطلاح سے کچھ غرض نہیں دراصل سنت الگ ہے جس کی اشاعت کا اہتمام خود آنحضرت نے بذات خود فرمایا اور حدیث الگ

ہے جو بعد میں جمع ہوئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/62/mode/1up


نہیں دیا گیا وہ اس موقعہ پر حدیث کو قاضی قرآن کہتے ہیں جیسا کہ یہودیوں نے اپنی حدیثوں کی نسبت کہا مگر ہم حدیث کو خادم قرآن اور خادم سنّت قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آقا کی شوکت خادموں کے ہونے سے بڑھتی ہے قرآن خدا کا قول ہے اور سنّت رسول اللہ کا فعل اور حدیث سنّت کے لئے ایک تائیدی گواہ ہے۔ نعوذ باللّٰہ یہ کہنا غلط ہے کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے اگر قرآن پر کوئی قاضی ہے تو وہ خود قرآن ہے۔ حدیث جو ایک ظنی مرتبہ پر ہے قرآن کی ہرگز قاضی نہیں ہو سکتی صرف ثبوت مؤیّد کے رنگ میں ہے قرآن اور سنّت نے اصل کام سب کر دکھایا ہے اور حدیث صرف تائیدی گواہ ہے حدیث قرآن پر کیسے قاضی ہو سکتی ہے قرآن اور سنّت اُس زمانہ میں ہدایت کر رہے تھے جب کہ اس مصنوعی قاضی کا نام و نشان نہ تھا یہ مت کہو کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے بلکہ یہ کہو کہ حدیث قرآن اور سنّت کے لئے تائیدی گواہ ہے البتہ سنّت ایک ایسی چیز ہے جو قرآن کا منشاء ظاہر کرتی ہے اور سنّت سے وہ راہ مراد ہے جس راہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر صحابہ کو ڈال دیا تھا سنّت اُن باتوں کا نام نہیں ہے جو سَو ڈیڑھ سَو برس بعد کتابوں میں لکھی گئیں بلکہ ان باتوں کا نام حدیث ہے اور سنّتؔ اس عملی نمونہ کا نام ہے جو نیک مسلمانوں کی عملی حالت میں ابتدا سے چلا آیا ہے جس پر ہزار ہا مسلمانوں کو لگایا گیا۔ ہاں حدیث بھی اگرچہ اکثر حصہ اُس کا ظن کے مرتبہ پر ہے مگر بشرط عدم تعارض قرآن و سنّت تمسک کے لائق ہے اور مؤیّد قرآن و سنّت ہے اور بہت سے اسلامی مسائل کا ذخیرہ اس کے اندر موجود ہے پس حدیث کا قدر نہ کرنا گویا ایک عضو اسلام کا کاٹ دینا ہے ہاں اگر ایک ایسی حدیث ہو جو قرآن اور سنّت کے نقیض ہو اور نیز ایسی حدیث کی نقیض ہو جو قرآن کے مطابق ہے یا مثلاً ایک ایسی حدیث ہو جو صحیح بخاری کے مخالف ہے تو وہ حدیث قبول کے لائق نہیں ہوگی کیونکہ اس کے قبول کرنے سے قرآن کو اور اُن تمام احادیث کو جو قرآن کے موافق ہیں ردّ کرنا پڑتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ کوئی پرہیز گار اس پر جرأت نہیں کرے گا کہ ایسی حدیث پر عقیدہ رکھے کہ وہ قرآن اور سنّت کے برخلاف اور ایسی حدیثوں کے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/63/mode/1up


مخالف ہے جو قرآن کے مطابق ہیں بہرحال احادیث کا قدر کرو اور اُن سے فائدہ اُٹھاؤ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں اور جب تک قرآن اور سنّت ان کی تکذیب نہ کرے تم بھی ان کی تکذیب نہ کرو بلکہ چاہئے کہ احادیث نبویہ پر ایسے کاربند ہو کہ کوئی حرکت نہ کرو اور نہ کوئی سکون اور نہ کوئی فعل کرو اور نہ ترک فعل۔ مگر اس کی تائید میں تمہارے پاس کوئی حدیث ہو لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہو جو قرآن شریف کے بیان کردہ قصص سے صریح مخالف ہے تو اس کی تطبیق کے لئے فکر کرو شائد وہ تعارض تمہاری ہی غلطی ہو اور اگر کسی طرح وہ تعارض دور نہ ہو تو ایسی حدیث کو پھینک دو کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں ہے اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو اس حدیث کو قبول کر لو کیونکہ قرآن اس کا مصدق ہے اور اگر کوئی ایسی حدیث ہے جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہے مگر محدثین کے نزدیک وہ ضعیف ہے اور تمہارے زمانہ میں یا پہلے اس سے اس حدیث کی پیشگوئی سچی نکلی ہے تو اس حدیث کو سچی سمجھو اور ایسے محدثوں اور راویوں کو مخطی اور کاذب خیال کرو جنہوں نے اس حدیث کو ضعیف اور موضوع قرار دیا ہو ایسی حدیثیں صدہا ہیں جن میں پیشگوئیاں ہیں اور اکثر ان میں سے محدثین کے نزدیک مجروح یا موضوع یا ضعیف ہیں پس اگر کوئی حدیث اُن میں سے پوری ہو جائے اور تم یہ کہہؔ کر ٹال دو کہ ہم اس کو نہیں مانتے کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے یا کوئی راوی اس کا متدّ ین نہیں ہے تو اس صورت میں تمہاری خود بے ایمانی ہوگی کہ ایسی حدیث کو رد کر دو جس کا سچا ہونا خدا نے ظاہر کر دیا۔ خیال کرو کہ اگر ایسی حدیث ہزار ہو اور محدثین کے نزدیک ضعیف ہو اور ہزارپیشگوئی اس کی سچی نکلے تو کیا تم ان حدیثوں کو ضعیف قرار دے کر اسلام کے ہزار ثبوت کو ضائع کر دو گے پس اس صورت میں تم اسلام کے دشمن ٹھہرو گے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3 ۱؂ پس سچی پیشگوئی بجز سچے رسول کے کس کی طرف منسوب ہوسکتی ہے کیا ایسے موقعہ پر یہ کہنا مناسب حالت ایمانداری نہیں ہے کہ صحیح حدیث کو ضعیف کہنے میں کسی محدث نے غلطی کھائی اور یا یہ کہنا مناسب ہے کہ جھوٹی حدیث کو سچی کر کے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/64/mode/1up


خدا نے غلطی کھائی۔ اور اگر ایک حدیث ضعیف درجہ کی بھی ہو بشرطیکہ وہ قرآن اور سنّت اور ایسی احادیث کے مخالف نہیں جو قرآن کے موافق ہیں تو اس حدیث پر عمل کرو لیکن بڑی احتیاط سے حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ بہت سی احادیث موضوعہ بھی ہیں جنہوں نے اسلام میں فتنہ ڈالا ہے ہر ایک فرقہ اپنے عقیدہ کے موافق حدیث رکھتا ہے یہاں تک کہ نماز جیسے یقینی اور متواتر فریضہ کو احادیث کے تفرقہ نے مختلف صورتوں میں کر دیا ہے کوئی آمین بالجہر کرتا ہے کوئی پوشیدہ کوئی خلف امام فاتحہ پڑھتا ہے کوئی اِس پڑھنے کو مفسد نماز جانتا ہے کوئی سینہ پر ہاتھ باندھتا ہے کوئی ناف پر اصل وجہ اس اختلاف کی احادیث ہی ہیں 3َ ۱؂ ورنہ سنّت نے ایک ہی طریق بتلایا تھا پھر روایات کے تداخل نے اس طریق کو جنبش دے دی۔ اِسی طرح احادیث کی غلط فہمی نے کئی لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ شیعہ بھی اسی سے ہلاک ہوئے اگر قرآن کو اپنا حَکَم ٹھہراتے تو ایک سورۃ نور ہی ان کو نور بخش سکتی تھی مگر حدیثوں نے ان کو ہلاک کیا اسی طرح حضرت مسیح کے وقت وہ یہودی ہلاک ہوگئے*جو اہلحدیث کہلاتے تھے کچھ مدت سے ان لوگوں نے توریت کو چھوڑ دیا تھا اور جیسا کہ آج تک اُن کا عقیدہ ہے اُن کا یہ مذہب تھا کہ حدیث توریت پر قاضی ہے۔ سو اُن میں ایسی حدیثیں بکثرت موجود تھیں کہ جب تک ایلیا دوبارہ آسمان سے اپنے عنصری وجوؔ د کے ساتھ نازل نہ ہو تب تک ان کا مسیح موعود نہیں آئے گا ان حدیثوں نے ان کو سخت ٹھوکر میں ڈال دیا اور وہ لوگ ان حدیثوں پر تکیہ کر کے حضرت مسیح کی اس تاویل کو قبول نہ کر سکے کہ الیاس سے مراد یوحنا یعنی یحییٰ نبی ہے جو الیاس کی خو اور طبیعت پر آیا اور بروزی

انجیل میں نہایت سخت مخالفت ان خیالات کی کی گئی تھی جو کہ طالمود کی حدیثوں اور روایتوں میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یہ حدیثیں سینہ بہ سینہ حضرت موسیٰ تک پہنچائی جاتی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ یہ حضرت موسیٰ کے الہامات ہیں۔ بالآخر یہ حال ہو گیا تھا کہ توریت کو چھوڑکر تمام وقت احادیث کے پڑھنے پر لگایا جاتا تھا۔ بعض امور میں طالمود توریت کے مخالف ہے تب بھی یہود طالمود کی بات پر عمل کرتے تھے۔ طالمود مؤلفہ یوسف بارکلے مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۸ء۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/65/mode/1up


طور پر اُس کا وجود لیا ہے پس تمام ٹھوکر ان کی حدیثوں کے سبب سے تھی جو آخرکار ان کے بے ایمان ہونے کا موجب ہوگئی اور ممکن ہے کہ وہ لوگ ان حدیثوں کے معنوں میں بھی غلطی کرتے ہوں یا حدیثوں میں بعض انسانی الفاظ مل گئے ہوں۔ غرض شائد مسلمانوں کو اس واقعہ کی خبر نہیں ہوگی کہ یہودیوں میں حضرت مسیح کے منکر اہل حدیث ہی تھے انہوں نے ان پر شور مچایا اور تکفیر کا فتویٰ لکھا اور اُن کو کافر قرار دیا اور کہا کہ یہ شخص خدا کی کتابوں کو مانتا نہیں خدا نے الیاس کے دوبارہ آنے کی خبر دی اور یہ اس پیشگوئی کی تاویلیں کرتا اور بغیر کسی قرینہ صارفہ کے ان خبروں کو کسی اور طرف کھینچ کر لے جاتا ہے* اور حضرت مسیح کا نام انہوں نے صرف کافر ہی نہیں بلکہ ملحد بھی رکھا اور کہا کہ اگر یہ شخص سچا ہے تو پھر دین موسوی باطل ہے وہ ان کے لئے فیج اعوج کا زمانہ تھا جھوٹی حدیثوں نے اُن کو دھوکا دیا۔ غرض حدیثوں کے پڑھنے کے وقت یہ خیال کر لینا چاہئے کہ ایک قوم پہلے اِس سے حدیث کو توریت پر قاضی ٹھہرا کر اس حالت تک پہنچ چکی ہے کہ ایک سچے نبی کو انہوں نے کافر اور دجال کہا اور اُس سے انکار کر دیا۔ تا ہم مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اور مفید کتاب ہے یہ وہی کتاب ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے۔ ایسا ہی مسلم اور دوسری احادیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں اور اس احتیاط سے


جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اُس وقت وہ پولوس بھی مکفرین کی جماعت میں داخل تھا جس نے بعد میں اپنے تئیں رسول مسیح کے لفظ سے مشہور کیا یہ شخص حضرت مسیح کی زندگی میں آپ کا سخت دشمن تھا جس قدر حضرت مسیح کے نام پر انجیلیں لکھی گئیں ہیں ان میں سے ایک میں بھی یہ پیشگوئی نہیں ہے کہ میرے بعد پولوس توبہ کر کے رسول بن جائے گا اس شخص کے گزشتہ چال چلن کی نسبت لکھنا ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ عیسائی خوب جانتے ہیں افسوس ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سؤر کو جو توریت کے رو سے ابدی حرام تھا حلال کر دیا اور شراب کو بہت وسعت دے دی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان تمام بدعتوں سے یونانی بُت پرست خوش ہو جائیں۔ منہ




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/66/mode/1up


ان پر عمل واجب ہے کہ کوئی مضمون ایسا نہ ہو جو قرآن اور سنّت اور اُن احادیث سے مخالف ہو جو قرآن کے مطابق ہیں۔

اے خدا کے طالب بندو! کان کھولو اور سنو کہ یقین جیسی کوئی چیز نہیں یقین ہی ہے جو گناہ سے چھڑاتا ہے۔ یقین ہی ہے جو نیکی کرنے کی قوت دیتا ہے یقین ہی ہے جو خدا کا عاشق صادق بناتا ہے کیا تم گناہ کو بغیر یقین کے چھوڑ سکتے ہو۔ کیا تم جذبات نفس سے بغیرؔ یقینی تجلّی کے رُک سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی تسلی پا سکتے ہو۔ کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی تبدیلی پیدا کر سکتے ہو کیا تم بغیر یقین کے کوئی سچی خوشحالی حاصل کر سکتے ہو۔ کیا آسمان کے نیچے کوئی ایسا کفّارہ اور ایسا فدیہ ہے جو تم سے گناہ ترک کر اسکے کیا مریم کا بیٹا عیسیٰ ایسا ہے کہ اس کا مصنوعی خون گناہ سے چھڑائے گا۔ اے عیسائیو ایسا جھوٹ مت بولو۔ جس سے زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے یسوع خود اپنی نجات کے لئے یقین کا محتاج تھا اور اُس نے یقین کیا اور نجات پائی۔ افسوس ہے اُن عیسائیوں پر جو یہ کہہ کر مخلوق کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم نے مسیح کے خون سے گناہ سے نجات پائی ہے حالانکہ وہ سر سے پیر تک گناہ میں غرق ہیں وہ نہیں جانتے کہ اُن کا کون خدا ہے بلکہ زندگی تو غفلت آمیز ہے شراب کی مستی اُن کے دماغ میں ہے مگر وہ پاک مستی جو آسمان سے اُترتی ہے اُس سے وہ بے خبر ہیں اور جو زندگی خدا کے ساتھ ہوتی ہے اور جو پاک زندگی کے نتائج ہوتے ہیں وہ اُس سے بے نصیب ہیں پس تم یاد رکھو کہ بغیر یقین کے تم تاریک زندگی سے باہر نہیں آ سکتے اور نہ روح القدس تمہیں مل سکتا ہے۔ مبارک وہ جو یقین رکھتے ہیں کیونکہ وہی خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک وہ جو شبہات اور شکوک سے نجات پا گئے ہیں کیونکہ وہی گناہ سے نجات پائیں گے۔ مبارک تم جب کہ تمہیں یقین کی دولت دی جائے کہ اس کے بعد تمہارے گناہ کا خاتمہ ہوگا۔ گناہ اور یقین دونوں جمع نہیں ہو سکتے کیا تم ایسے سوراخ میں ہاتھ ڈال سکتے ہو جس میں تم ایک سخت زہریلے سانپ کو دیکھ رہے ہو کیا تم ایسی جگہ کھڑے رہ سکتے ہو جس جگہ کسی کوہ آتش افشاں سے پتھر برستے ہیں یا بجلی پڑتی ہے یا ایک خونخوار شیر کے حملہ کرنے کی جگہ ہے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/67/mode/1up


یا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ایک مہلک طاعون نسل انسان کو معدوم کر رہی ہے پھر اگر تمہیں خدا پر ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ سانپ پر یا بجلی پر یا شیر پر یا طاعون پر تو ممکن نہیں کہ اس کے مقابل پر تم نافرمانی کر کے سزا کی راہ اختیار کر سکو یا صدق و وفا کا اُس سے تعلق توڑ سکو۔

اے وے لوگو جو نیکی اور راستبازی کے لئے بلائے گئے ہو تم یقیناًسمجھو کہ خدا کی کشش اُس وقت تم میں پیدا ہوگی اور اُسی وقت تم گناہ کے مکروہ داغ سے پاک کئے جاؤ گے جبکہؔ تمہارے دل یقین سے بھر جائیں گے شائد تم کہو گے کہ ہمیں یقین حاصل ہے سو یاد رہے کہ یہ تمہیں دھوکا لگا ہوا ہے یقین تمہیں ہرگز حاصل نہیں کیونکہ اُس کے لوازم حاصل نہیں وجہ یہ کہ تم گناہ سے باز نہیں آتے تم ایسا قدم آگے نہیں اُٹھاتے جو اُٹھانا چاہئے تم ایسے طور سے نہیں ڈرتے جو ڈرنا چاہئے خود سوچ لو کہ جس کو یقین ہے کہ فلاں سوراخ میں سانپ ہے وہ اس سوراخ میں کب ہاتھ ڈالتا ہے اور جس کو یقین ہے کہ اس کے کھانے میں زہر ہے وہ اس کھانے کو کب کھاتا ہے اور جو یقینی طور پر دیکھ رہا ہے کہ اس فلاں بَن میں ایک ہزار خونخوار شیر ہے اُس کا قدم کیونکر بے احتیاطی اور غفلت سے اُس بَن کی طرف اُٹھ سکتا ہے۔ سو تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں اور تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں کیونکر گناہ پر دلیری کر سکتی ہیں اگر تمہیں خدا اور جزا سزا پر یقین ہے گناہ یقین پر غالب نہیں ہو سکتا اور جب کہ تم ایک بھسم کرنے اور کھا جانے والی آگ کو دیکھ رہے ہو تو کیونکر اُس آگ میں اپنے تئیں ڈال سکتے ہو اور یقین کی دیواریں آسمان تک ہیں شیطان اُن پر چڑھ نہیں سکتا ہر ایک جو پاک ہوا وہ یقین سے پاک ہوا۔ یقین دکھ اُٹھانے کی قوت دیتا ہے یہاں تک کہ ایک بادشاہ کو تخت سے اُتارتا ہے اور فقیری جامہ پہناتا ہے۔ یقین ہر ایک دکھ کو سہل کر دیتا ہے یقین خدا کو دکھاتا ہے ہر ایک کفّارہ جھوٹا ہے اور ہر ایک فدیہ باطل ہے۔ اور ہر ایک پاکیزگی یقین کی راہ سے آتی ہے وہ چیز جو گناہ سے چھڑاتی اور خدا تک پہنچاتی اور فرشتوں سے بھی صدق اور ثبات میں آگے بڑھا دیتی ہے وہ یقین ہے ہر ایک مذہب جو یقین کا سامان پیش نہیں کرتا وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جو یقینی وسائل سے خدا کو دکھا نہیں سکتا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/68/mode/1up


وہ جھوٹا ہے ہر ایک مذہب جس میں بجز پرانے قصوں کے اور کچھ نہیں وہ جھوٹا ہے۔ خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسی پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں اور اُس کا نشان دکھلانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو وہ مذہب ہلاک شدہ ہے جس کے معجزات صرف قصے ہیں جس کی پیشگوئیاں صرف قصے ہیں اور وہ جماعت ہلاک شدہ ہے جس پر خدا نازل نہیں ہوا اور جو یقین کے ذریعہ سے خدا کے ہاتھ سے پاک نہیں ہوئی۔ جس طرح انسان نفسانی لذّات کا سامان دیکھ کر اُن کی طرف کھینچا جاتاؔ ہے اِسی طرح انسان جب روحانی لذّات یقین کے ذریعہ سے حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کا حسن اس کو ایسا مست کر دیتا ہے کہ دوسری تمام چیزیں اُس کو سراسر ردّی دکھائی دیتی ہیں اور انسان اُسی وقت گناہ سے مَخلصی پاتا ہے جب کہ وہ خدا اور اس کے جبروت اور جزا سزا پر یقینی طور پر اطلاع پاتا ہے ہر ایک بیباکی کی جڑھ بے خبری ہے جو شخص خدا کی یقینی معرفت سے کوئی حصہ لیتا ہے وہ بیباک نہیں رہ سکتا۔ اگر گھر کا مالک جانتا ہے کہ ایک پُر زور سیلاب نے اس کے گھر کی طرف رخ کیا ہے اور یا اس کے گھر کے اِردگرد آگ لگ چکی ہے اور صرف ایک ذرہ سی جگہ باقی ہے تو وہ اس گھر میں ٹھہر نہیں سکتا۔ تو پھر تم خدا کی جزاسزا کے یقین کا دعویٰ کر کے کیونکر اپنی خطرناک حالتوں پر ٹھہر رہے ہو سو تم آنکھیں کھولو اور خدا کے اُس قانون کو دیکھو جو تمام دنیا میں پایا جاتا ہے چوہے مت بنو جو نیچے کی طرف جاتے ہیں بلکہ بلند پرواز کبوتر بنو جو آسمان کے فضا کو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ تم توبہ کی بیعت کر کے پھر گناہ پر قائم نہ رہو اور سانپ کی طرح مت بنو جو کھال اُتار کر پھر بھی سانپ ہی رہتا ہے موت کو یاد رکھو کہ وہ تمہارے نزدیک آتی جاتی ہے اور تم اُس سے بے خبر ہو۔ کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے مگر تم اس نعمت کو کیونکر پا سکو اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید تقدیس اور استغفار



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/69/mode/1up


اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو۔ پنجگانہ نمازیں کیا چیز ہیں وہ تمہارے مختلف حالات کا فوٹو ہے تمہاری زندگی کے لازم حال پانچ تغیر ہیں جو بلا کے وقت تم پر وارد ہوتے ہیں اور تمہاری فطرت کے لئے اُن کا وارد ہونا ضروری ہے۔ (ا) پہلے جب کہ تم مطّلع کئےؔ جاتے ہو کہ تم پر ایک بلا آنے والی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام عدالت سے ایک وارنٹ جاری ہوا یہ پہلی حالت ہے جس نے تمہاری تسلّی اور خوشحالی میں خلل ڈالا سو یہ حالت زوال کے وقت سے مشابہ ہے کیونکہ اس سے تمہاری خوشحالی میں زوال آنا شروع ہوا اس کے مقابل پر نماز ظہر متعین ہوئی جس کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے۔

(۲) دوسرا تغیر اُس وقت تم پر آتا ہے جب کہ تم بلا کے محل سے بہت نزدیک کئے جاتے ہومثلاً جب کہ تم بذریعہ وارنٹ گرفتار ہو کر حاکم کے سامنے پیش ہوتے ہو یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارا خوف سے خون خشک ہو جاتا ہے اور تسلی کا نور تم سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے سو یہ حالت تمہاری اُس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب سے نور کم ہو جاتا ہے اور نظر اُس پر جم سکتی ہے اور صریح نظر آتا ہے کہ اب اس کا غروب نزدیک ہے۔ اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عصر مقرر ہوئی۔

(۳) تیسرا تغیر تم پر اُس وقت آتا ہے جو اس بلا سے رہائی پانے کی بکلّی امید منقطع ہو جاتی ہے مثلاً جیسے تمہارے نام فرد قرار داد جرم لکھی جاتی ہے اور مخالفانہ گواہ تمہاری ہلاکت کے لئے گزر جاتے ہیں یہ وہ وقت ہے کہ جب تمہارے حواس خطا ہو جاتے ہیں اور تم اپنے تئیں ایک قیدی سمجھنے لگتے ہو۔ سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ آفتاب غروب ہو جاتا ہے اور تمام امیدیں دن کی روشنی کی ختم ہو جاتی ہیں اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز مغرب مقرر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/70/mode/1up


(۴) چوتھا تغیر اس وقت تم پر آتا ہے کہ جب بلا تم پر وارد ہی ہو جاتی ہے اور اس کی سخت تاریکی تم پر احاطہ کر لیتی ہے مثلاً جب کہ فرد قرار داد جرم اور شہادتوں کے بعد حکم سزا تم کو سنایا جاتا ہے اور قید کے لئے ایک پولس مین کے تم حوالہ کئے جاتے ہو سو یہ حالت اس وقت سے مشابہ ہے جب کہ رات پڑ جاتی ہے اور ایک سخت اندھیرا پڑ جاتا ہے اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز عشاء مقرر ہے۔

(۵) پھر جب کہ تم ایک مدت تک اس مصیبت کی تاریکی میں بسر کرتے ہو تو پھر آخر خدا کا رحم تم پر جوش مارتا ہے اور تمہیں اُس تاریکی سے نجات دیتا ہے مثلاً جیسے تاریکی کے بعد پھر آخر کار صبح نکلتی ہے اور پھر وہی روشنی دن کی اپنی چمک کے ساتھ ظاہر ہو جاتی ہے سو اس روحانی حالت کے مقابل پر نماز فجر مقرر ہے اور خدا نے تمہارے فطرتی تغیرات میں پانچ حالتیں دیکھ کر پانچؔ نمازیں تمہارے لئے مقرر کیں اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ نمازیں خاص تمہارے نفس کے فائدہ کے لئے ہیں پس اگر تم چاہتے ہو کہ ان بلاؤں سے بچے رہو تو تم پنجگانہ نمازوں کو ترک نہ کرو کہ وہ تمہاری اندرونی اور روحانی تغیرات کا ظلّ ہیں۔ نماز میں آنے والی بلاؤں کا علاج ہے تم نہیں جانتے کہ نیا دن چڑھنے والا کس قسم کے قضاء و قدر تمہارے لئے لائے گا پس قبل اس کے جو دن چڑھے تم اپنے مولیٰ کی جناب میں تضرع کرو کہ تمہارے لئے خیر و برکت کا دن چڑھے۔

اے امیرو اور بادشاہو! اور دولتمندو !! آپ لوگوں میں ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو خدا سے ڈرتے اور اس کی تمام راہوں میں راستباز ہیں۔ اکثر ایسے ہیں کہ دنیا کے ملک اور دنیا کے املاک سے دل لگاتے ہیں اور پھر اسی میں عمر بسر کر لیتے ہیں اور موت کو یاد نہیں رکھتے۔ ہر ایک امیر جو نماز نہیں پڑھتا اور خدا سے لاپروا ہے اُس کے تمام نوکروں چاکروں کا گناہ اس کی گردن پر ہے۔ ہر ایک امیر جو شراب پیتا ہے اُس کی گردن پر ان لوگوں کا بھی گناہ ہے جو اس کے ماتحت ہو کر شراب میں شریک ہیں۔ اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دوہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون، گانجا، چرس، بھنگ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/71/mode/1up


کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں* اور آخرت کاعذاب الگ ہے۔ پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ۔ حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا *** زندگی ہے۔ حد سے زیادہ بدخلق اور بے مہر ہونا *** زندگی ہے۔ حد سے زیادہ خدا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لاپروا ہونا *** زندگی ہے۔ ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ۔ پس کیا بدقسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلّی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے اور خدا کے حرام کو ایسیؔ بیباکی سے استعمال کرتا ہے کہ گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا۔ اے عزیزو تم تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزر چکی سو اپنے مولیٰ کو ناراض مت کرو ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بچ سکتے ہو اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا۔ اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا اور دشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابو نہیں پائے گا ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اَور آفات میں مبتلا ہو کر بیقراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم


یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے مگر اے مسلمانو! تمہارے نبی علیہ السلام تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے جیسا کہ وہ فی الحقیقت معصوم ہیں سو تم مسلمان کہلا کر کس کی پیروی کرتے ہو قرآن انجیل کی طرح شراب کو حلال نہیں ٹھہراتا پھر تم کس دستاویز سے شراب کو حلال ٹھہراتے ہو۔ کیا مرنا نہیں ہے؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/72/mode/1up


اور غصہ کے ساتھ گزریں گے خدا اُن لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اُس کے ساتھ ہو جاتے ہیں سو خدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اُس کی چھوڑ دو اور اُس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اُس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت* کرو اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے۔

اے علماء اسلام میری تکذیب میں جلدی مت کرو کہ بہت اسرار ایسے ہوتے ہیں کہ انسان جلدی سے سمجھ نہیں سکتا۔ بات کو سن کر اسی وقت رد کرنے کے لئے تیار مت ہو جاؤ کہ یہ تقویٰ کا طریق نہیں ہے اگر تم میں بعض غلطیاں نہ ہوتیں اور اگر تم نے بعض احادیث کے اُلٹے معنی نہ سمجھے ہوتے تو مسیح موعود کا جو حَکَم ہے آنا ہی لغو تھا تم سے پہلے یہ عبرت کی جگہ موجود ہے کہ جس بات پر تم نے زور مارا ہے اور جس جگہ تم نے قدم رکھا ہے اُسی جگہ یہودیوں نے رکھا تھا یعنی جیسا کہ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے منتظر ہو وہ بھی الیاس نبی کے دوبارہ آنے کے منتظر تھے اور کہتے تھے کہ مسیح تب آئے گا جب کہ پہلے الیاس نبی جو آسمان پر اُٹھایا گیا دوبارہ دنیا میں آ جائے گا اور جو شخص الیاس کے دوبارہ آنے سے پہلے مسیح ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور وہ نہ صرف احادیث کی رو سے ایسا خیال رکھتے تھے بلکہ خدا کی کتاب کو جو صحیفہ ملاکی نبی ہے


جو شخص بنی نوع پر قوت غضبی کو بڑھاتا ہے وہ غضب سے ہی ہلاک کیا جاتا ہے اس لئے خدا نے سورۃ فاتحہ میں یہود کا نام مغضوب علیہم رکھایہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ قیامت کو تو ہر ایک مجرم خدا کے غضب کا مزہ چکھے گا مگر جو ناحق دنیا میں غضب کرتا ہے وہ دنیا میں ہی الٰہی غضب کا مزہ چکھ لیتا ہے نصاریٰ سے یہودیوں کی نسبت دنیا میں غضب ظہور میں نہ آیا اس لئے سورۃ فاتحہ میں ان کا نام ضالین رکھا گیا ضالین کے لفظ کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ وہ گمراہ ہیں اور دوسرے معنی اس کے ہیں کہ کھوئے جائیں گے یہ میرے نزدیک ان کے لئے بشارت ہے کہ کسی وقت جھوٹے مذہب سے نجات پا کر اسلام میں کھوئے جائیں گے۔ اور رفتہ رفتہ مشرکانہ عقائد اور ناقص یا قابل شرم رسوم کو چھوڑتے چھوڑتے برنگ مسلمین موحدین ہو جائیں گے غرض الضالین کے لفظ میں جو سورۃ فاتحہ کے آخر میں ضلالت کے دوسرے معنوں کے لحاظ سے کہ ایک چیز کا دوسری چیز میں محو ہونا اور کھوئے جانا ہے عیسائیوں کی آئندہ مذہبی حالت کے لئے یہ ایک پیشگوئی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/73/mode/1up


اسؔ ثبوت میں پیش کرتے تھے لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی نسبت یہودیوں کے موعود مسیح ہونے کا دعویٰ کر دیااور الیاس آسمان سے نہ اُترا جو اُس دعویٰ کی شرط تھی تو یہ تمام عقیدے یہودیوں کے باطل ثابت ہوگئے اور وہ جو یہودیوں کے خیال میں تھا کہ ایلیا نبی بجسمہ العنصری آسمان سے نازل ہوگا اُس کے آخر کار یہ معنے کھلے کہ الیاس کی خواور طبیعت پر کوئی دوسرا شخص ظاہر ہو جائے گا اور یہ معنے حضرت عیسیٰ نے خود بیان فرمائے جن کو دوبارہ آسمان سے اُتار رہے ہو۔ پس تم کیوں ایسی جگہ ٹھوکر کھاتے ہو جس جگہ تم سے پہلے یہود ٹھوکر کھا چکے ہیں تمہارے ملک میں ہزار ہا یہودی موجود ہیں تم ان کو پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا یہود کا یہی اعتقاد نہیں جو اَب تم ظاہر کر رہے ہو پس وہ خدا جس نے عیسیٰ کی خاطر ایلیا نبی کو آسمان سے نہ اُتارا اور یہود کے سامنے اُس کو تاویلوں سے کام لینا پڑا وہ تمہاری خاطر کیونکر عیسیٰ کو اُتارے گا جس کو تم دوبارہ اُتارتے ہو اُسی کے فیصلہ سے تم منکر ہو اگر شک ہے تو کئی لاکھ عیسائی اس ملک میں موجود ہیں اور ان کی انجیل بھی موجود اُن سے دریافت کر لو کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہی کہا تھا کہ ایلیا جو دوبارہ آنے والا تھا وہ یوحنّاہی ہے یعنی یحییٰ۔ اور اتنی بات کہہ کر یہود کی پرانی امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ اگر اَب یہ ضروری ہے کہ عیسیٰ نبی ہی آسمان سے آوے تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ سچا نبی نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اگر آسمان سے واپس آنا سنّت اللہ میں داخل ہے تو الیاس نبی کیوں واپس نہ آیا اور کیوں اس جگہ یحییٰ کو الیاس ٹھہرا کر تاویل سے کام لیا گیا عقلمند کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے۔

اور نیز جس کام کے لئے آپ لوگوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لوگوں کو جبراً مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتا ہے قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے3 ۱؂ یعنی دین میں جبر نہیں ہے پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیونکر دیا جائے گا یہاں تک کہ بجز اسلام یا قتل کے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/74/mode/1up


جزیہ بھی قبول نہ کرے گا یہ تعلیم قرآن شریف کی کس مقام اور کس سیپارہ اور کس سورہ میں ہے* سارؔ ا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبراً شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطور سزا تھیں یعنی اُن لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے۔ اور یا وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبراً روکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی پھر یہ عیسیٰ مسیح اور مہدی صاحب کیسے ہوں گے جو آتے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ کسی اہل کتاب سے بھی جزیہ قبول نہیں کریں گے اور آیت 3 3 ۲؂ کو بھی منسوخ کر دیں گے یہ دین اسلام کے کیسے حامی ہوں گے کہ آتے ہی قرآن کی ان آیتوں کو بھی منسوخ کر دیں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں


اگر کہو کہ عربوں کے لئے بھی حکم تھاکہ جبراً مسلمان کئے جائیں یہ خیال قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ چونکہ تمام عرب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذا پہنچایا تھا اور بہت سے صحابہ مردوں اور عورتوں کو قتل کر دیا تھا اور بقیۃ السیف کو وطن سے نکال دیا تھا اس لئے وہ تمام لوگ جو مرتکب جرم قتل یا معین اس جرم کے تھے وہ سب خدا تعالیٰ کی نظر میں اپنی خونریزی کے عوض میں خونریزی کے لائق ہو چکے تھے ان کی نسبت بطور قصاص اصل حکم قتل کا تھا مگر ارحم الراحمین کی طرف سے یہ رعایت دی گئی کہ اگر کوئی ان میں سے مسلمان ہو جائے تو اُس کا گذشتہ جرم جس کی وجہ سے وہ قابل سزائے موت ہے بخش دیا جائے گا پس کہاں یہ صورت رحم اور کہاں جبر۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/75/mode/1up


بھی منسوخ نہیں ہوئیں اور اِس قدر انقلاب سے پھر بھی ختم نبوت میں حرج نہیں آئے گا۔ اس زمانہ میں جو تیرہ سَو برس عہد نبوت کو گزر گئے اور خود اسلام اندرونی طور پر تہتر فرقوں پر پھیل گیا۔ سچے مسیح کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ دلائل کے ساتھ دلوں پر فتح پاوے نہ تلوار کے ساتھ اور صلیبی عقیدہ کو واقعی اور سچے ثبوت کے ساتھ توڑ دے نہ یہ کہ اُن صلیبوں کو توڑتا پھرے جو چاندی یا سونے یا پیتل یا لکڑی سے بنائی جاتی ہیں اگر تم جبر کرو گے تو تمہارا جبر اس بات پر کافی دلیل ہے کہ تمہارے پاس اپنی سچائی پر کوئی دلیل نہیں* ہر یک نادان اور ظالم طبع جب دلیل سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر تلوار یا بندوق کی طرف ہاتھ لمبا کرتا ہے مگر ایسا مذہب ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی ؔ طرف سے نہیں ہو سکتا جو صرف تلوار کے سہارے سے پھیل سکتا ہے نہ کسی اور طریق سے اگر تم ایسے جہاد سے باز نہیں آ سکتے اور اس پر غصہ میں آکر راستبازوں کا نام بھی دجّال اور ملحد


بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا۔کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اِس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو! اے نادانوں مَیں اِس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی اور ان کا شکر کرنا ہمیں اس لئے لازم ہے کہ ؔ ہم اپنا کام مکہ اور مدینہ میں بھی نہیں کر سکتے تھے مگر ان کے ملک میں۔ یہ خدا کی طرف سے حکمت تھی کہ مجھے اس ملک میں پیدا کیا پس کیا میں خدا کی حکمت کی کسر شان کروں اور جیسا کہ قرآن شریف کی آیت3333 ۱؂ میں اللہ تعالیٰ یہ بات ہمیں سمجھاتا ہے کہ صلیب کے واقعہ کے بعد ہم نے عیسیٰ مسیح کو صلیبی بلا سے رہائی دے کر اس کو اور اس کی ماں کو ایک ایسے اونچے ٹیلے پر جگہ دی تھی کہ وہ آرام کی جگہ تھی اور اس میں چشمے جاری تھے یعنی سری نگر کشمیر۔ اسی طرح خدا نے مجھے اس گورنمنٹ کے اونچے ٹیلے پر جہاں مفسدین کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا جگہ دی جو آرام کی جگہ ہے اور اس ملک میں سچے علوم کے چشمے جاری ہیں اور مفسدوں کے حملوں سے امن اور قرار ہے پھر کیا واجب نہ تھا کہ ہم اس گورنمنٹ کے احسانات کا شکر کرتے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/76/mode/1up


رکھتے ہو تو ہم اِن دو فقروں پر اِس تقریر کو ختم کرتے ہیں۔ 3 3 ۱؂ اندرونی تفرقہ اور پھوٹ کے زمانہ میں تمہارا فرضی مسیح اور فرضی مہدی کس کس پر تلوار چلائے گا کیا سنیوں کے نزدیک شیعہ اس لائق نہیں کہ اُن پر تلوار اُٹھائی جائے اور شیعوں کے نزدیک سُنی اس لائق نہیں کہ ان سب کو تلوار سے نیست و نابود کیا جاوے پس جب کہ تمہارے اندرونی فرقے ہی تمہارے عقیدہ کی رو سے مستوجب سزا ہیں تو تم کس کس سے جہاد کرو گے۔ مگر یاد رکھو کہ خدا تلوار کا محتاج نہیں وہ اپنے دین کو آسمانی نشانوں کے ساتھ زمین پر پھیلائے گا اور کوئی اُس کو روک نہیں سکے گا اور یاد رکھو کہ اب عیسیٰ تو ہرگز نازل نہیں ہوگا کیونکہ جو اقرار اُس نے آیت 3 ۲؂کے رو سے قیامت کے دن کرنا ہے اس میں صفائی سے اُس کا اعتراف پایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور قیامت کو اس کا یہی عذر ہے کہ عیسائیوں کے بگڑنے کی مجھے خبر نہیں اور اگر وہ قیامت کے پہلے دنیا میں آتا تو کیا وہ یہی جواب دیتا کہ مجھے عیسائیوں کے بگڑنے کی کچھ خبر نہیں لہٰذا اس آیت میں اُس نے صاف اقرار کیا ہے کہ میں دوبارہ دنیا میں نہیں گیا اور اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آنے والا تھا اور برابر چالیس برس رہنے والا تب تو اُس نے خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولا کہ مجھے عیسائیوں کے حالات کی کچھ خبر نہیں اس کو تو کہنا چاہئے تھاکہ آمد ثانی کے وقت میں نے چالیس۴۰ کروڑ کے قریب دنیا میں عیسائی پایا اور اُن سب کو دیکھا اور مجھے ان کے بگڑنے کی خوب خبر ہے اور میں تو انعام کے لائق ہوں کہ تمام عیسائیوں کو مسلمان کیا اور صلیبوں کو توڑا یہ کیسا جھوٹ ہے کہ عیسیٰ کہے گا کہ مجھے خبر نہیں غرض اس آیت میں نہایت صفائی سے مسیح کا اقرار ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئے گا اور یہی سچ ہے کہ مسیح فوت ہوچکا اور سرینگر محلہ خانیار میں اُس کی قبرہے* ۔اب خدا خود نازل ہوگا اور ان لوگوں سے آپ لڑے گا جو سچائی سے لڑتے ہیں۔ خدا کا لڑنا قابل اعتراض نہیں کیونکہ وہ نشانوں کے رنگ میں ہے لیکن انسان کا لڑنا قابل اعتراض ہے کیونکہ وہ جبر کے رنگ میں ہے۔


ایک یہودی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ قبر واقعہ سری نگر یہودیوں کے انبیاء کی قبروں کی طرح بنی ہوئی ہے۔ دیکھو پرچہ علیحدہ حاشیہ ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/77/mode/1up



حاشیہؔ متعلق صفحہ۱۶۹؂

کریئر ڈلاسیرا جنوبی اٹلی کے سب سے مشہور اخبار نے مندرجہ ذیل عجیب خبر شائع کی ہے۔

’’۱۳؍ جولائی ۱۸۷۹ء کو یروشلم میں ایک بوڑھا راہب مسمی کور مراجو اپنی زندگی میں ایک ولی مشہور تھا اس کے پیچھے اس کی کچھ جائیداد رہی اور گورنر نے اس کے رشتہ داروں کو تلاش کر کے ان کے حوالہ دولاکھ فرینک (ایک لاکھ پونے انیس ہزار روپیہ) کئے جو مختلف ملکوں کے سکّوں میں تھے اور اس غار میں سے ملے جہاں وہ راہب بہت عرصے سے رہتا تھا۔ روپے کے ساتھ بعض کاغذات بھی ان رشتہ داروں کو ملے جن کو وہ پڑھ نہ سکتے تھے۔ چند عبرانی زبان کے فاضلوں کو ان کاغذات کے دیکھنے کا موقعہ ملا تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی کہ یہ کاغذات بہت ہی پرانی عبرانی زبان میں تھے جب ان کو پڑھا گیا تو ان میں یہ عبارت تھی۔

’’ پطرس ماہی گیر یسوع مریم کے بیٹے کا خادم اِس طرح پر لوگوں کو خدا تعالیٰ کے نام میں اور اس کی مرضی کے مطابق خطاب کرتا ہے‘‘ اور یہ خط اس طرح ختم ہوتا ہے۔

’’میں پطرس ماہی گیر نے یسوع کے نام میں اور اپنی عمر کے نو۹۰ے سال میں یہ محبت کے الفاظ اپنے آقا اور مولیٰ یسوع مسیح مریم کے بیٹے کی موت کے تین عید فسح بعد (یعنی تین سال بعد) خداوند کے مقدس گھر کے نزدیک بولیر کے مکان میں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔

ان فاضلوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نسخہ پطرس کے وقت کا چلا آتا ہے۔ لنڈن بائبل سوسائٹی کی بھی یہی رائے ہے اور ان کا اچھی طرح سے امتحان کرانے کے بعد بائبل سوسائٹی اب ان کے عوض چار لاکھ لیرا (دو لاکھ ساڑھے سینتیس ہزار روپیہ) مالکوں کو دے کر کاغذات کو لینا چاہتی ہے۔

یسوع ابن مریم کی دعا ان دونو پر سلام ہو۔ اس نے کہا۔

’’اے میرے خدا میں اس قابل نہیں کہ اس چیز پر غالب آسکوں جس کو میں برا سمجھتا ہوں نہ میں نے اس نیکی کو حاصل کیا ہے جس کی مجھے خواہش تھی مگر دوسرے لوگ اپنے اجر کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور میں نہیں۔ لیکن میری بڑائی میرے کام میں ہے۔ مجھ سے زیادہ بری حالت میں کوئی شخص نہیں ہے۔ اے خدا جو سب سے بلند تر ہے میرے گناہ معاف کر۔ اے خدا ایسا نہ کر کہ میں اپنے دشمنوں کے لئے الزام کا سبب ہوں نہ مجھے اپنے دوستوں کی نظر میں حقیر ٹھہرا اور ایسا نہ ہو کہ میرا تقویٰ مجھے مصائب میں ڈالے ایسا نہ کر کہ یہی دنیا میری بڑی خوشی کی جگہ یا میرا بڑا مقصد ہو اور ایسے شخص کو مجھ پر مسلّط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے اے خدا جو بڑے رحم والا ہے اپنے رحم کی خاطر ایسا ہی کر تو جو اُن سب پر رحم کرتا ہے جو تیرے رحم کے حاجت مند ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/78/mode/1up


شہد شاہد من بنی اسرائیل

(ایک اسرائیلی عالم توریت کی شہادت دربارہ قبر مسیح)


اشھد باللّٰہ ان ھذا الکتاب کتبہ سلمان ابن یوسف وانہ رجل من اکابر

بنی اسرائیل۔ دستخط: سید عبد اللّٰہ بغدادی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/79/mode/1up


اِن ؔ مولویوں پر افسوس اگر ان میں دیانت ہوتی تو وہ تقویٰ کی راہ سے اپنی تسلی ہر طرح سے کراتے اور خدا نے تو نیک روحوں کی تسلی کر دی مگر وہ لوگ جو ابوجہل کی مٹی سے بنے ہوئے ہیں وہ اُسی طریق کو اختیار کرتے ہیں جو ابوجہل نے اختیار کیا تھا ایک مولوی صاحب نے میرٹھ سے بذریعہ رجسٹری اطلاع دی ہے کہ امرت سر میں جلسہ ندوۃ العلماء ہے اِس جگہ آکر بحث کرنی چاہئے مگر واضح ہو کہ اگر ان مخالفین کی نیتیں نیک ہوتیں اور فتح و شکست کا خیال نہ ہوتا تو ان کو اپنی تسلی کرانے کے لئے ندوہ وغیرہ کی کیا ضرورت تھی ہم ندوہ کے علماء کو امرت سر کے علماء سے الگ نہیں سمجھتے ایک ہی عقیدہ۔ ایک ہی جنس ایک ہی مادہ ہے ہر ایک کو اختیار ہے کہ قادیان میں آوے مگر بحث کے لئے نہیں بلکہ صرف طلب حق کے لئے ہماری تقریر کو سنے اگر شک رہے تو غربت اور ادب کے طریق سے اپنے شکوک رفع کراوے اور وہ جب تک قادیان میں رہے گا بطور مہمان کے سمجھا جائے گا ہمیں ندوہ وغیرہ کی ضرورت نہیں اور نہ اُن کی طرف حاجت ہے یہ سب لوگ راستی کے دشمن ہیں مگر راستی دنیا میں پھیلتی جاتی ہے کیا یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان معجزہ نہیں کہ اُس نے آج سے بیس۲۰ برس پہلے براہین احمدیہ میں اپنے الہام سے ظاہر کر دیا تھا کہ لوگ تمہارے ناکام رہنے کے لئے بڑی کوشش کریں گے اور ناخنوں تک زور لگائیں گے مگر آخر میں تمہیں ایک بڑی جماعت بناؤں گا یہ اس وقت کی وحی الٰہی ہے جب کہ میرے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا پھر میرے دعویٰ کے شائع ہونے پر مخالفوں نے ناخنوں تک زور لگائے آخر حسب پیشگوئی مذکورہ بالا یہ سلسلہ پھیل گیا اور اب آج کی تاریخ تک برٹش انڈیا میں یہ جماعت ایک لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہے ندوۃ العلماء کو اگر مرنا یاد ہے تو براہین احمدیہ اور سرکاری کاغذات کو دیکھ کر بتلاوے کہ کیا یہ معجزہ ہے یا نہیں پھر جب کہ قرآن اور معجزہ دونوں پیش کئے گئے تو اب بحث کس غرض کے لئے؟

ایسا ہی اس ملک کے گدی نشین اور پیرزادے دین سے ایسے بے تعلق اور اپنی بدعات میں ایسے دن رات مشغول ہیں کہ اُن کو اسلام کی مشکلات اور آفات کی کچھ بھی خبر نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/80/mode/1up


انؔ کی مجالس میں اگر جاؤ تو بجائے قرآن شریف اور کتب حدیث کے طرح طرح کے تنبورے اور سارنگیاں اور ڈھولکیاں اور قوّال وغیرہ اسباب بدعات نظر آئیں گے اور پھر باوجود اس کے مسلمانوں کے پیشوا ہونے کا دعویٰ اور اتباع نبوی کی لاف زنی اور بعض ان میں سے عورتوں کا لباس پہنتے ہیں اور ہاتھوں میں مہندی لگاتے ہیں اور چوڑیاں پہنتے ہیں اور قرآن شریف کی نسبت اشعار پڑھنا اپنی مجلسوں میں پسند کرتے ہیں۔ یہ ایسے پرانے زنگار ہیں جو خیال میں نہیں آ سکتا کہ دور ہو سکیں تا ہم خدا ئے تعالیٰ اپنی قدرتیں دکھائے گا اور اسلام کا حامی ہوگا۔

عورتوں کو کچھ نصیحت

ہمارے اس زمانہ میں بعض خاص بدعات میں عورتیں بھی مبتلا ہیں وہ تعدّدنکاح کے مسئلہ کو نہایت بری نظر سے دیکھتی ہیں گویا اُس پر ایمان نہیں رکھتیں ان کو معلوم نہیں کہ خدا کی شریعت ہر ایک قسم کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے پس اگر اسلام میں تعدد نکاح کا مسئلہ نہ ہوتا تو ایسی صورتیں کہ جو مردوں کے لئے نکاح ثانی کے لئے پیش آ جاتی ہیں اس شریعت میں ان کا کوئی علاج نہ ہوتا۔ مثلاً اگر عورت دیوانہ ہو جائے یا مجذوم ہو جائے یا ہمیشہ کے لئے کسی ایسی بیماری میں گرفتار ہو جائے جو بیکار کر دیتی ہے یا اور کوئی ایسی صورت پیش آ جائے کہ عورت قابل رحم ہو مگر بیکار ہو جاوے اور مرد بھی قابل رحم کہ وہ تجردپر صبر نہ کر سکے تو ایسی صورت میں مرد کے قویٰ پر یہ ظلم ہے کہ اس کو نکاح ثانی کی اجازت نہ دی جاوے درحقیقت خدا کی شریعت نے انہیں امور پر نظر کر کے مردوں کے لئے یہ راہ کھلی رکھی ہے اور مجبوریوں کے وقت عورتوں کے لئے بھی راہ کھلی ہے کہ اگر مرد بیکار ہو جاوے تو حاکم کے ذریعہ سے خلع کرالیں جو طلاق کے قائم مقام ہے خدا کی شریعت دوا فروش کی دوکان کی مانند ہے پس اگر دوکان ایسی نہیں ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوا مل سکتی ہے تو وہ دوکان چل نہیں سکتی پس غور کرو کہ کیا یہ سچ نہیں کہ بعض مشکلات مردوں کے لئے ایسی پیش آ جاتی ہیں جن میں وہ نکاح ثانی کے لئے مضطر ہوتے ہیں۔ وہ شریعت کس کام کی جس میں کل مشکلات کا علاج نہ ہو۔ دیکھو انجیل میں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/81/mode/1up


طلاؔ ق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کر دیتے ہیں اُن کا کچھ ذکر نہ تھا اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کرسکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا سو اب سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی اور اے عورتو فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرّف کی محتاج نہیں اور اُس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں اگر عورت مرد کے تعدّد ازواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کرا سکتی ہے۔ خدا کا یہ فرض تھا کہ مختلف صورتیں جو مسلمانوں میں پیش آنے والی تھیں اپنی شریعت میں ان کا ذکر کر دیتا تا شریعت ناقص نہ رہتی سو تم اے عورتو اپنے خاوندوں کے ان ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلا سے محفوظ رکھے بیشک وہ مرد سخت ظالم اور قابل مواخذہ ہے جو دو جوروئیں کر کے انصاف نہیں کرتا مگر تم خود خدا کی نافرمانی کر کے مورد قہرِ الٰہی مت بنو ہر ایک اپنے کام سے پوچھا جائے گا۔ اگر تم خدا تعالیٰ کی نظر میں نیک بنو تو تمہارا خاوند بھی نیک کیا جاوے گا اگرچہ شریعت نے مختلف مصالح کی وجہ سے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے لیکن قضا و قدر کا قانون تمہارے لئے کھلا ہے اگر شریعت کا قانون تمہارے لئے قابل برداشت نہیں تو بذریعہ دعا قضا و قدر کے قانون سے فائدہ اُٹھاؤ کیونکہ قضا و قدر کا قانون شریعت کے قانون پر بھی غالب آجاتا ہے تقویٰ اختیار کرو دنیا سے اور اُس کی زینت سے بہت دل مت لگاؤ۔ قومی فخر مت کرو کسی عورت سے ٹھٹھا ہنسی مت کرو خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو خدا کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرو اور خاوندوں کے مالوں کو بیجا طور پر خرچ نہ کرو، خیانت نہ کرو، چوری نہ کرو، گلہ نہ کرو، ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے۔



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/82/mode/1up


خاتمہ

یہ تمام نصائح جو ہم لکھ چکے ہیں اِس غرض سے ہیں کہ تا ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے خوف میں ترقی کرے اور تا وہ اس لائق ہو جاویں کہ خدا کا غضب جو زمین پر بھڑک رہا ہے وہ ان تک نہ پہنچے اور تا ان طاعون کے دنوں میں وہ خاص طور پر بچائے جائیں سچی تقویٰ (آہ بہت ہی کم ہے سچی تقویٰ) خدا کو راضی کر دیتی ہے اور خدا نہ معمولی طور پر بلکہ نشان کے طور پر کامل متقی کو بلا سے بچاتا ہے ہر یک مکّار یا نادان متقی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر متقی وہ ہے جو خدا کے نشان سے متقی ثابت ہو۔ ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں خدا سے پیار کرتا ہوں۔ مگر خدا سے پیار وہ کرتا ہے جس کا پیار آسمانی گواہی سے ثابت ہو۔ اور ہر ایک کہتا ہے کہ میرا مذہب سچا ہے مگر سچا مذہب اس شخص کا ہے جس کو اسی دنیا میں نور ملتا ہے۔ اور ہر ایک کہتا ہے کہ مجھے نجات ملے گی مگر اس قول میں سچا وہ شخص ہے جو اسی دنیا میں نجات کے انوار دیکھتا ہے۔ سو تم کوشش کرو کہ خدا کے پیارے ہو جاؤ تا تم ہر ایک آفت سے بچائے جاؤ۔ کامل متقی طاعون سے بچایا جائے گا کیونکہ وہ خدا کی پناہ میں ہے سو تم کامل متقی بنو جو کچھ خدا نے طاعون کے بارے میں فرمایا تم سن چکے ہو وہ ایک غضب کی آگ ہے پس تم اپنے تئیں اُس آگ سے بچاؤ۔ جو شخص سچے طور پر میری پیروی کرتا ہے اور کوئی خیانت اُس کے اندر نہیں اور نہ کسل اور نہ غفلت ہے اور نہ نیکی کے ساتھ بدی کو جمع رکھتا ہے وہ بچا یا جائے گا لیکن وہ جو اس راہ میں سست قدم سے چلتا ہے اور تقویٰ کے راہوں میں پورے طور پر



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/83/mode/1up


قدم نہیں مارتا یا دنیا پر گرا ہوا ہے وہ اپنے تئیں امتحان میں ڈالتا ہے۔ ہرؔ ایک پہلو سے خدا کی اطاعت کرو اور ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے اُس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے۔ جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوار ادا کرے کیونکہ علاوہ لنگر خانہ کے اخراجات کے دینی کارروائیاں بھی بہت سے مصارف چاہتی ہیں۔ صدہامہمان آتے ہیں مگر ابھی تک بوجہ عدم گنجائش مہمانوں کے لئے آرام دہ مکان میسر نہیں جیسا کہ چاہئے۔ چارپائیوں کا انتظام نہیں۔ توسیع مسجد کی ضرورتیں بھی پیش ہیں تالیف اور اشاعت کا سلسلہ بمقابل مخالفوں کے نہایت کمزور ہے۔ عیسائیوں کی طرف سے جہاں پچاس ہزار رسالے اور مذہبی پرچے نکلتے ہیں ہماری طرف سے بالالتزام ایک ہزار بھی ماہ بماہ نکل نہیں سکتا۔ یہی امور ہیں جن کے لئے ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہئے تا خدا تعالیٰ بھی انہیں مدد دے۔ اگر بے ناغہ ماہ بماہ ان کی مدد پہنچتی رہے گو تھوڑی مدد ہو تو وہ اس مدد سے بہتر ہے جو مدت تک فراموشی اختیار کر کے پھر کسی وقت اپنے ہی خیال سے کی جاتی ہے۔ ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے۔ عزیزو! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا چاہئے کہ زکوٰۃ دینے والا اِسی جگہ اپنی زکوٰۃ بھیجے اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگاوے اور بہرحال صدق دکھاوے تا فضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام اُن لوگوں کے لئے تیار ہے جو اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو روح القدس کی تجلّی ہوئی تھی وہ ہر ایک تجلّی سے بڑھ کر ہے۔ روح القدس کبھی کسی نبی پر کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا اور



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/84/mode/1up


کبھی کسی نبی یا اَوتار پر گائے کی شکل پر ظاہر ہوا اور کسی پر کچھ یا مچھ کی شکل پر ظاہر ہوا اور انسان کی شکل کا وقت نہ آیا جب تک انسان کامل یعنی ہمارا نبیؔ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوگئے تو روح القدس بھی آپ پر بوجہ کامل انسان ہونے کے انسان کی شکل پر ہی ظاہر ہوا اور چونکہ روح القدس کی قوی تجلّی تھی جس نے زمین سے لے کر آسمان کا اُفق بھر دیا تھا اس لئے قرآنی تعلیم شرک سے محفوظ رہی لیکن چونکہ عیسائی مذہب کے پیشوا پر روح القدس نہایت کمزور شکل میں ظاہر ہوا تھا یعنی کبوتر کی شکل پر اس لئے ناپاک روح یعنی شیطان اس مذہب پر فتح یاب ہو گیا اور اس نے اپنی عظمت اور قوت اس قدر دکھلائی کہ ایک عظیم الشان اژدھا کی طرح حملہ آور ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے عیسائیت کی ضلالت کو دنیا کی سب ضلالتوں سے اوّل درجہ پر شمار کیا ہے اور فرمایا کہ قریب ہے کہ آسمان و زمین پھٹ جائیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں کہ زمین پر یہ ایک بڑا گناہ کیا گیا کہ انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا بنایا اور قرآن کے اوّل میں بھی عیسائیوں کا ردّ اور ان کا ذکر ہے جیسا کہ آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ اور وَلَاالضَّالِّیْنَ سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے آخر میں بھی عیسائیوں کا ردّ ہے جیسا کہ سورۃ 3ٌ33 ۱؂سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن کے درمیان بھی عیسائی مذہب کے فتنہ کا ذکر ہے جیسا کہ آیت3۲؂ سے سمجھا جاتا ہے اور قرآن سے ظاہر ہے کہ جب سے کہ دنیا ہوئی مخلوق پرستی اور دجل کے طریقوں پر ایسا زور کبھی نہیں دیا گیا اسی وجہ سے مباہلہ کے لئے بھی عیسائی ہی بلائے گئے تھے نہ کوئی اور مشرک۔ اور یہ جو روح القدس پہلے اس سے پرندوں یا حیوانوں کی شکل پر ظاہر ہوتا رہا اس میں کیا نکتہ تھا سمجھنے والا خود سمجھ لے اور اس قدر ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ہمارے نبی صلعم کی انسانیت اس قدر زبردست ہے کہ روح القدس کو بھی



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/85/mode/1up


انسانیت کی طرف کھینچ لائی پس تم ایسے برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں ہمت ہارتے ہو تم اپنے وہ نمونے دکھلاؤ جو فرشتے بھی آسمان پر تمہارے صدق و صفا سے حیران ہو جائیں اور تم پر درود بھیجیں۔ تم ایک موت اختیار کرو تا تمہیں زندگی ملے اور تم نفسانی جوشوؔ ں سے اپنے اندر کو خالی کرو تا خدا اس میں اُترے۔ ایک طرف سے پختہ طور پر قطع کرو اور ایک طرف سے کامل تعلق پیدا کرو خدا تمہاری مدد کرے۔

اب میں ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ تعلیم میری تمہارے لئے مفید ہو اور تمہارے اندر ایسی تبدیلی پیدا ہو کہ زمین کے تم ستارے بن جاؤ اور زمین اُس نور سے روشن ہو جو تمہارے رب سے تمہیں ملے۔ آمین ثم آمین۔

یَا عِبَادَاللّٰہِ اُذَکِّرُکُمْ اَیَّامَ اللّٰہِ وَاُذَکِّرُکُمْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔3 333 ۱؂ ۔ فَلَا تُخْلِدُوْا اِلٰی زِیْنَۃِ الدُّنْیَا وَ زُوْرِھَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ، 3۲؂۔3333 ۳؂ ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔

پیشگوئی متعلق طاعون در نظم


نشان اگرچہ نہ در اختیار کس بودست

مگر نشان بدہم از نشان زِ دا دارم

کہ آن سعید زِ طاعون نجات خواہد یافت

کہَ جست و جُست پناہے بچار دیوارم

مرا قسم بخداوند خویش و عظمت او

کہ ہست این ہمہ از وحی پاک گفتارم

چہ حاجت است بہ بحث دِگر ہمیں کافیست

برائے آنکہ سیہ شد دلش زِ انکارم

اگر دروغ براید ہرآنچہ وعدۂ من

رواست گر ہمہ خیزند بہر پیکارم



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/86/mode/1up


درخواست چندہ برائے توسیع مکان


چونکہ آئندہ اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ طاعون ملک میں پھیل جائے اورہمارے گھر میں جس میں بعض حصوں میں مرد بھی مہمان رہتے ہیں اور بعض حصوں میں عورتیں،سخت تنگی واقعہ ہے اور آپ لوگ سن چکے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ نے ان لوگوں کے لئے جو اس گھر کی چاردیوار کے اندر ہوں گے حفاظت خاص کا وعدہ فرمایا ہے اور اب وہ گھر جو غلام حیدر متوفّی کا تھا جس میں ہمارا حصہ ہے اس کی نسبت ہمارے شریک راضی ہوگئے ہیں کہ ہمارا حصہ دیں اور قیمت پر باقی حصہ بھی دے دیں۔ میری دانست میں یہ حویلی جو ہماری حویلی کا ایک جز ہو سکتی ہے دو ہزار تک تیار ہو سکتی ہے۔ چونکہ خطرہ ہے کہ طاعون کا زمانہ قریب ہے اور یہ گھر وحی الٰہی کی خوشخبری کی رو سے اس طوفان طاعون میں بطور کشتی کے ہوگا نہ معلوم کس کس کو اس کی بشارت کے وعدہ سے حصہ ملے گا اس لئے یہ کام بہت جلدی کا ہے۔ خدا پر بھروسہ کر کے جو خالق اور رازق ہے اور اعمال صالحہ کو دیکھتا ہے کوشش کرنی چاہئے۔ میں نے بھی دیکھا کہ یہ ہمارا گھر بطور کشتی کے تو ہے مگر آئندہ اس کشتی میں نہ کسی مرد کی گنجائش ہے نہ عورت کی اس لئے توسیع کی ضرورت پڑی۔ والسّلام علٰی من اتبع الہدٰی

المشتہر

مرزا غلام احمدقادیانی
 
Top