• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 19 ۔ ریویو مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



فریقین کی تحریرات سے معلوم ہوا کہ مباحثہ مندرجہ عنوان کے پیش آنے کی وجہ یہ تھی کہ مولوی عبداللہ صاحب احادیث نبویہ کو محض ردّی کی طرح خیال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ منہ پر لاتے ہیں جن کا ذکر کرنا بھی سُوءِ ادب میں داخل ہے اور مولوی محمد حسین صاحب نے اُن کے مقابل پر یہ حجت پیش کی تھی کہ اگر احادیث ایسی ہی ردّ ی اور لغو اور ناقابل اعتبار ہیں تو اِس سے اکثر حصّے عبادات اور مسائل فقہ کے باطل ہو جائیں گے کیونکہ احکام قرآن کی تفاصیل کا پتہ حدیث کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے ورنہ اگر صرف قرآن کو ہی کافی سمجھا جائے تو پھر محض قرآن کے رُو سے اِس پر کیا دلیل ہے کہ فریضہ صبح کی دو رکعت اور مغرب کی تین رکعت اور باقی تین نمازیں چار چار رکعت ہیں۔ یہ اعتراض ایک زبردست پیرایہ میں ہے گو اپنے اندر ایک غلطی رکھتا ہے یہی وجہ تھی کہ اس اعتراض کا مولوی عبداللہ صاحب نے کوئی شافی جواب نہیں دیا۔ محض فضول باتیں ہیں جو لکھنے کے بھی لائق نہیں۔ ہاں اس اعتراض کا نتیجہ آخرکار یہ ہوا کہ مولوی عبداللہ صاحب کو ایک نئی نماز بنانی پڑی جس کا جمیع اسلام کے فرقوں میں نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اُنہوں نے التّحیات اور درود اور دیگر تمام ادعیہ ماثورہ جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں درمیان سے اُڑا دیں اور اُن کی جگہ صرف قرآنی آیتیں رکھ دیں۔ ایسا ہی اور بہت کچھ نماز میں



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


تبدیلی کی جس کے ذکر کی اِس جگہ ضرورت نہیں اور شاید مسائل حج و زکوٰۃوغیرہ میں بھی تبدیلی کی ہوگی لیکن کیا یہ سچ ہے کہ حدیثیں ایسی ہی ردّی اور لغو ہیں جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے سمجھا ہے معاذ اللہ ہرگز نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ ان ہر دو فریق میں سے ایک فریق نے افراط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور دوسرے نے تفریطؔ کی۔ فریق اوّل یعنی مولوی محمد حسین صاحب اگرچہ اس بات میں سچ پر ہیں کہ احادیث نبویّہ مرفوعہ متصلہ ایسی چیز نہیں ہیں کہ اُن کو ردّی اور لغو سمجھا جائے لیکن وہ حفظ مراتب کے قاعدہ کو فراموش کر کے احادیث کے مرتبہ کو اس بلند مینار پر چڑھاتے ہیں جس سے قرآن شریف کی ہتک لازم آتی ہے اور اس سے انکار کرناپڑتا ہے اور کتاب اللہ کی مخالفت اور معارضت کی وہ کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے اور حدیث کے قصّہ کو اُن قصّوں پر ترجیح دیتے ہیں جو کتاب اللہ میں بتصریح موجود ہیں اور حدیث کے بیان کو کلام اللہ کے بیان پر ہر ایک حالت میں مقدم سمجھتے ہیں اور یہ صریح غلطی اور جادۂ انصاف سے تجاوز ہے۔ اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔3َ ۱؂۔ یعنی خدا اور اُس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔ اِس جگہ حدیث کے لفظ کی تنکیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلارہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو۔ اُس کو ردّ کردو۔ اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور اشارۃ النص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آیۃ ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس اُمّت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراداس امّت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہوں گے۔ غرض یہ فرقہ اہلِ حدیث اس بات میں افراط کی راہ پر قدم ماررہا ہے کہ قرآنی شہادت پر حدیث کے بیان کو مقدّم سمجھتے ہیں اور اگر وہ انصاف اور خدا ترسی سے کام لیتے تو ایسی حدیثوں کی تطبیق قرآن شریف سے کر سکتے تھے مگر وہ اِس بات پر راضی ہوگئے کہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


خدا کے قطعی اور یقینی کلام کو بطور متروک اور مہجور کے قرار دے دیں اور اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ ایسی حدیثوں کوجن کے بیانات کتاب اللہ سے مخالف ہیں یا تو چھوڑ دیں اور یا اُن کی کتاب اللہ سے تطبیق کریں پس یہ وہ افراط کی راہ ہے جو مولوی محمد حسین نے اختیار کر رکھی ہے۔

اور ان کے مخالف مولوی عبداللہ صاحب نے تفریط کی راہ پر قدم مارا ہے جو سرے سے احادیث سے انکار کر دیا ہے اور احادیث سے انکار ایک طور سے قرآن شریف کا بھی انکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ 33 ۱؂ پس جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے وابستہ ہے اور آنجناب کے عملی نمونوں کے دریافت کیلئے جن پر اتباع موقوف ہے حدیث بھی ایک ذریعہ ہے۔ پس جو شخص حدیث کو چھوڑتا ہے وہ طریق اتباع کو بھی چھوڑتا ہے اور مولوی عبداللہ صاحب کا یہ قول کہ تمام حدیثیں محض شکوک اور ظنون کا ذخیرہ ہے۔ یہ قلّت تدبّر کی ؔ وجہ سے خیال پیدا ہوا ہے اور اِس خیال کی اصل جڑ محدّثین کی ایک غلط اور نامکمل تقسیم ہے جس نے بہت سے لوگوں کو دھوکا دیا ہے کیونکہ وہ یوں تقسیم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں ایک تو کتاب اللہ ہے اور دوسری حدیث۔ اور حدیث کتاب اللہ پر قاضی ہے گویا احادیث ایک قاضی یا جج کی طرح کُرسی پر بیٹھی ہیں اور قرآن اُن کے سامنے ایک مستغیث کی طرح کھڑا ہے اور حدیث کے حکم کے تابع ہے۔ ایسی تقریر سے بیشک ہر ایک کو دھوکا لگے گا کہ جبکہ حدیثیں سَو ڈیڑھ سو برس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جمع کی گئی ہیں اور انسانی ہاتھوں کے مس سے وہ خالی نہیں ہیں اور با ایں ہمہ وہ اَحاد کا ذخیرہ اور ظنّی ہیں اور اُن میں قسم متواترات شاذو نادر جو حکم معدوم کا رکھتی ہیں اور پھر وہی قرآن شریف پر قاضی بھی ہیں تو اِس سے لازم آتا ہے کہ تمام دین اسلام ظنّیات کا ایک تودہ اور انبار ہے اور ظاہر ہے کہ ظنّ کوئی چیز نہیں ہے اور جو شخص محض ظنّ کو پنجہ مارتا ہے وہ مقام بلند حق سے بہت نیچے گِرا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33۲؂ یعنی محض ظنّ حق الیقین کے مقابلہ پر کچھ چیز نہیں۔ پس قرآن شریف تو



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یوں ہاتھ سے گیا کہ وہ بغیر قاضی صاحب کے فتووں کے واجب العمل نہیں اور متروک اور مہجور ہے اور قاضی صاحب یعنی احادیث صرف ظن کے میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھتے ہیں جن سے احتمال کذب کسی طرح مرتفع نہیں۔ کیونکہ ظن کی تعریف یہی ہے کہ وہ دروغ کے احتمال سے خالی نہیں ہوتا۔ پس اس صورت میں نہ تو قرآن ہمارے ہاتھ میں رہا اور نہ حدیث اس لائق کہ اس پر بھروسہ ہو سکے۔ گویا دونوں ہاتھ سے گئے یہ غلطی ہے جس نے اکثر لوگوں کو ہلاک کیا *۔

اور صراط مستقیم جس کو ظاہر کرنے کیلئے مَیں نے اس مضمون کو لکھا ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کیلئے تین چیزیں ہیں (۱)قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کرہمارے ہا ؔ تھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے (۲) دوسری سُنّت اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں۔ یعنی ہم حدیث اور سُنّت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنّت الگ چیز۔ سُنّت سے مُراد ہماری صرف آنحضرتؐ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندرتواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور


* نوٹ: مَیں جب اشتہار کو ختم کر چکا شائد دو تین سطریں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا یہاں

تک کہ مَیں بمجبوری کاغذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا تو خواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے۔ مَیں نے ان دونوں کو مخاطب کر کے یہ کہا خسف القمر و الشمس فی رمضان۔ فبايّ ٰالآءِ ربّکما تکذّبٰنیعنی چاند اور سُورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کررہے ہو۔پھر مَیں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ ٰالآء سے مُراد اس جگہ مَیں ہوں۔ اور پھر مَیں نے ایک دالان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے گویا رات کا وقت ہے اور اُسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کررہے ہیں گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں وہ موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو مَیں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



ہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادۃ اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کیلئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں (۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مُراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصّوں کے رنگ میں آنحضرت ؐسے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں۔ پس سنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرؐت نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے۔ اور جس طرح آنحضرؐت قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنّت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتؐ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلعم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔ کچھ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے اُنہوں نے وہ سب حدیثیں جلادیں کہ یہ میرا سماع بلاواسطہ نہیں ہے خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس ؔ لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔ پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اِس زمانہ کے اہلحدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں اور نیز اگر اُن کے قصّے صریح قرآن کے بیانات سے مخالف پڑیں تو ایسا نہ کریں کہ حدیثوں کے قصّوں کو قرآن پر ترجیح دی جاوے اور قرآن کو چھوڑدیا جائے اور نہ حدیثوں کو مولوی عبداللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھہرایا جائے بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنّت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اور جو حدیث قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہوا اُس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراطِ مستقیم ہے۔ مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں۔ نہایت بد قسمت* اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے۔

ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور ؔ نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں۔ ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اُسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی

* نوٹ ۔آج رات مجھے رؤیامیں دکھایا گیا کہ ایک درخت باردار اور نہایت لطیف اور خوبصورت پھلوں سے لدا ہوا ہے اور کچھ جماعت تکلف اور زور سے ایک بوٹی کو اُس پر چڑھانا چاہتی ہے جس کی جڑ نہیں بلکہ چڑہا رکھی ہے وہ بوٹی افتیمون کی مانند ہے اور جیسے جیسے وہ بوٹی اُس درخت پر چڑھتی ہے اُس کے پھلوں کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس لطیف درخت میں ایک کھجواہٹ اور بدشکلی پیدا ہورہی ہے اور جن پھلوں کی اس درخت سے توقع کی جاتی ہے اُن کے ضائع ہونے کا سخت اندیشہ ہے بلکہ کچھ ضائع ہو چکے ہیں۔ تب میرا دِل اس بات کو دیکھ کر گھبرایا اور پگھل گیا اور مَیں نے ایک شخص کو جو ایک نیک اور پاک انسان کی صورت پر کھڑا تھا پوچھا کہ یہ درخت کیا ہے اور یہ بوٹی کیسی ہے جس نے ایسے لطیف درخت کو شکنجہ میں دبا رکھا ہے تب اُس نے جواب میں مجھے یہ کہا کہ یہ درخت قرآن خدا کا کلام ہے اور یہ بوٹی وہ احادیث اور اقوال وغیرہ ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں یا مخالف ٹھہرائی جاتی ہیں اور ان کی کثرت نے اِس درخت کو دبا لیا ہے اور اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تب میری آنکھ کھل گئی چنانچہ مَیں آنکھ کھلتے ہی اِس وقت جو رات ہے اِس مضمون کو لکھ رہا ہوں اور اب ختم کرتا ہوں اور یہ شنبہ کی رات ہے اور ۱۲ بجے کے بعد ۲۰ منٹ کم دو بجے کا وقت ہے۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ م۔غ۔ا



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدل متنفّر اور بیزار ہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ برباد شدہ فرقہ ہے* اور چاہئے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح حدیث کے بارہ میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اِس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذہب سمجھ لیں یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلّی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے اُن حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دیدیں جن سے احادیث نبویہ بکلّی ضائع ہو جائیں۔ ایسا ہی چاہئے کہ نہ تو ختمِ نبوت آنحضرت صلعم کا انکار کریں اور نہ ختم نبوت کے یہ معنے سمجھ لیں جس سے اِس امّت پر مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کا دروازہ بند ہوجاوے۔ اور یاد رہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحبِ شریعت ہو یا بلاواسطہ متابعت آنحضرت صلعم وحی پا سکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمتِ وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں۔ وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوّت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے ولا سبیل الیھا الٰی یوم القیٰمۃ ومن قال انی لست من امۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وادعی انہ نبی صاحب الشریعۃ اومن دون الشریعۃ ولیس من الامّۃ فمثلہ کمثل رجل غمرہ السیلُ المنھمر فالقاہ وراء ہ ولم یغادر حتّی مات۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء ہیں اُسی جگہ یہ اشارہ بھی فرمادیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رُو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الٰہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے۔


* اسی رات میں ایک الہام ہوا بوقت ۳ بجے ۲ منٹ اوپر اور وہ یہ ہے مَن أَعرض عن ذکری نبتلیہ بذریّۃ فاسقۃٍ ملحدۃٍ یمیلون إِلی الدّنیا ولا یعبد وننی شیءًا۔جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا ہم اس کو ایک خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی۔ وہ دنیا پر گریں گے اور میری پرستش سے ان کو کچھ بھی حصہ نہ ہوگا یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہوگا اور توبہ اور تقویٰ نصیب نہیں ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/214/mode/1up


جیسا کہ وہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے3 3 ۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے۔ اب ظاہر ہے کہ لٰکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے۔ سو اِس آیت کے پہلے حصّہ میں جو امر فوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسیؔ مرد کا باپ ہونا تھا۔ سو لٰکن کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اِس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہِ راست فیوض نبوت منقطع ہوگئے۔ اور اب کمال نبوت صرف اُسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اِس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا۔ غرض اِس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت 3۲؂ میں ہے دُور کیا جائے۔ ماحصل اِس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو۔ اِس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہِ راست مقامِ نبوت حاصل کرسکے لیکن اِس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو اُمّتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوارِ محمدیہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اِس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ اُمّت کی نفی کی جائے تو اِس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں نہ جسمانی طورپر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھتا ہے۔

اب جبکہ یہ بات طے پا چکی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت مستقلہ جو



Ruhani Khazain Volume 19. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/215/mode/1up


براہِ راست ملتی ہے*۔اس کا دروازہ قیامت تک بند ہے اور جب تک کوئی اُمّتی ہونے کی حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اورحضرت محمدؐکی غلامی کی طرف منسوب نہیں تب تک وہ کسی طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اُتارنا اور پھر ان کی نسبت تجویز کرنا کہ وہ اُمّتی ہیں اور اُن کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چراغِ نبوّت محمدیہؐ سے مکتسب اور مستفاض ہے کس قدر بناوٹ اور تکلّف ہے۔ جو شخص پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے۔ اُس کی نسبت یہ کہنا کیونکر صحیح ٹھہرے گا کہ اس کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغِ نبوّت سے مستفاد ہے۔ اور اگر اس کی نبوّت چراغِ نبوت محمدیہ سے مستفاد نہیں ہے تو پھر وہ کن معنوں سے اُمّتی کہلائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اُمّت کے معنے کسی پر صادق نہیں آسکتے جب تک ہر ایک کمال اُس کا نبی متبوع کے ذریعہ سے اس کو حاصل نہ ہو۔ پھر جو شخص اتنا بڑا کمال نبی کہلانے کا خود بخود رکھتا ہے وہ اُمّتی کیونکر ہوا بلکہ وہ تو مستقل طور پر نبی ہوگا جس کے لئے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ اور اگر کہو کہ پہلی نبوت اُس کی جو براہِ راست تھی۔ دُور کی جائے گی اور اب از سرِ نو باتباع نبوی نئی نبوت اس کو ملے گی جیسا کہ منشاء آیت کا ہے۔ توپھر اِس صورت میں یہی اُمّت جو خیرالامم کہلاتی ہے حق رکھتی ہے کہ ان میں سے کوئی فرد بیمُنؔ اتباع نبویؐ اِس مرتبہ ممکنہ کو پہنچ جائے اور حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُتارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر اُمّتی کو بذریعہ انوار محمدی کمالات نبوت مل سکتے ہیں تو اِس صورت میں کسی کو آسمان سے اُتارنا اصل حقدار کا حق ضائع کرناہے اور کون مانع ہے جو کسی اُمّتی کو فیض پہنچایا جائے۔ تانمونہ فیض محمدی کسی پر مشتبہ نہ رہے کیونکہ نبی کو نبی بنانا کیا معنی رکھتا ہے۔مثلاً


*

* بعض نیم مُلّا میرے پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خوشخبری

دے رکھی ہے کہ تم میں تیس ۳۰ دجّال آئیں گے۔ اور ہر ایک اُن میں سے نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ اِس کا جواب یہی ہے کہ اے نادانو! بد نصیبو!! کیا تمہاری قسمت میں تیس ۳۰ دجّال ہی لکھے ہوئے تھے۔ چودھو۱۴ یں صدی کا خمس بھی گزرنے پر ہے اور خلافت کے چاند نے اپنے کمال کی چودہ منزلیں پوری کرلیں جس کی طرف آیت 3 ۱؂ بھی اشارہ کرتی ہے اور دنیا ختم ہونے لگی مگر تم لوگوں کے دجّال ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے شاید تمہاری موت تک تمہارے ساتھ رہیں گے۔ اے نادانو! وہ دجّال جو شیطان کہلاتا ہے وہ خود تمہارے اندر ہے۔ اس لئے تم وقت کو نہیں پہنچانتے۔آسمانی نشانوں کو نہیں دیکھتے۔ مگر تم پر کیا افسوس وہ جو میری طرح موسیٰ کے بعد چودھو۱۴ یں صدی میں ظاہر ہوا تھا اُس کا نام بھی خبیث یہودیوں نے دجّال ہی رکھا تھا۔ فالقلوب تشابہت اللّٰھُمَّ ارحم۔ منہ




Ruhani Khazain Volume 19. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- ریویو مباحثہ : صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/216/mode/1up



ایک شخص سونا بنانے کا دعویٰ رکھتا ہے اور سونے پر ہی ایک بوٹی ڈال کر کہتا ہے کہ لو سونا ہوگیا۔ اِس سے کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ کیمیاگر ہے۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کا کمال تو اس میں تھا کہ اُمّتی کو وہ درجہ و رزش اتباع سے پیدا ہو جائے ورنہ ایک نبی کو جو پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے اُمّتی قرار دینا اور پھر یہ تصور کر لینا کہ جو اس کو مرتبہ نبوت حاصل ہے وہ بوجہ اُمّتی ہونے کے ہے نہ خود بخود یہ کس قدر دروغ بے فروغ ہے۔ بلکہ یہ دونوں حقیقتیں متناقض ہیں کیونکہ حضرت مسیح کی حقیقت نبوت یہ ہے کہ وہ براہِ راست بغیر اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کو حاصل ہے۔ اور پھر اگر حضرت عیسیٰ کو اُمّتی بنایا جاوے جیسا کہ حدیث امامکم منکم سے مترشح ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہر ایک کمال ان کا نبوت محمدیہ سے مستفاض ہے اور ابھی ہم فرض کرچکے تھے کہ کمال نبوت اُن کی کا چراغ نبوت محمدیہ سے مستفاض نہیں ہے اور یہی اجتماع نقیضین ہے جو بالبداہت باطل ہے اور اگر کہو کہ حضرت عیسٰی امتی تو کہلائیں گے مگر نبوت محمدیہ سے ان کو کچھ فیض نہ ہوگا تو اِس صورت میں امتی ہونے کی حقیقت اُن کے نفس میں سے مفقود ہوگی۔ کیونکہ ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اُمّتی ہونے کے بجُز اِس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمام کمال اپنا اتباع کے ذریعہ سے رکھتا ہو جیسا کہ قرآن شریف میں جابجا اس کی تصریح موجود ہے اور جبکہ ایک اُمّتی کیلئے یہ دروازہ کھلا ہے کہ اپنے نبی متبوع سے یہ فیض حاصل کرے توپھر ایک بناوٹ کی راہ اختیار کرنا اور اجتماع نقیضین جائز رکھنا کس قدر حمق ہے اور وہ شخص کیونکر اُمتی کہلا سکتا ہے جس کو کوئی کمال بذریعہ اتباع حاصل نہیں۔ اس جگہ بعض نادانوں کا یہ اعتراض بھی دفع ہو جاتا ہے کہ وحی الٰہی کے دعویٰ کو یہ امر مستلزم ہے کہ وہ وحی اپنی زبان میں ہو نہ عربی میں۔ کیونکہ اپنی مادری زبان اس شخص کیلئے لازم ہے جو مستقل طور پر بغیر استفادہ مشکوٰۃ نبوت محمدی کے دعویٰءِ نبوت کرتا ہے لیکن جو شخص بحیثیت ایک امتی ہونے کے فیض نبوت محمدیہ سے اکتساب انوار نبوت کرتا ہے وہ مکالمہ الٰہیہ میں اپنے متبوع کی زبان میں وحی پاتا ہے تا تابع اور متبوع میں ایک علامت ہو جو ان کے باہمی تعلّق پر دلالت کرے۔ افسوس حضرت عیسیٰ پر ہر ایک طور سے یہ لوگ ظلم کرتے ہیں۔ اوّل بغیر تصفیہ اعتراض *** کے ان کے جسم کو آسمان پر چڑہاتے ہیں جس سے اصل اعتراض یہودیوں کا ان کے سر پر قائم رہتا ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ قرآن میں ان کی موت کا کہیں ذکر نہیں۔ گویا ان کی خدائی کیلئے ایک وجہ پیدا کرتے ہیں۔ تیسری نامرادی کی حالت میں آسمان کی طرف ان کو کھینچتے ہیں۔ جس نبی کے ابھی بارا۱۲ ں حواری بھی زمین پر موجود نہیں اور کار تبلیغ ناتمام ہے اُس کو آسمان کی طرف کھینچنا اُس کیلئے ایک دوزخ ہے کیونکہ رُوح اس کی تکمیل تبلیغ کو چاہتی ہے اور اس کو برخلاف مرضی اس کی آسمان پر بٹھایا جاتا ہے۔ مَیں اپنے نفس کی نسبت دیکھتا ہوں کہ بغیر تکمیل اپنے کام کے اگر مَیں زندہ آسمان پر اُٹھایا جاؤں اور گو ساتویں آسمان تک پہنچایا جاؤں تو مَیں اِس میں خوش نہیں ہوں کیونکہ جب میرا کام ناقص رہا تو مجھے کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ ایسا ہی ان کو بھی آسمان پر جانے سے کوئی خوشی نہیں۔ مخفی طور پر ایک ہجرت تھی جس کو نادانوں نے آسمان قرار دے دیا خدا ہدایت کرے۔

والسّلا م علٰی من اتبع الہدٰی۔ المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۷؍ نومبر ۱۹۰۲ء ؁
 
Top