• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 2 ۔ سرمہ چشمہ آریہ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 2۔ سرمہ چشمہ آریہ ۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 2. Page: 47
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 47
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔
اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ سَلَاسِلَ وَّ اَغْلَالًا وَّ سَعِیْرًا۔
بحمد اللہ کہ ایں کحل الجواہر شد از کوہ صواب و صدق ظاہر
متاب ازسرمہ روگر روشنی چشم مے بائد کہ عاقل از دل و جان و دست دار و چشم بینارا
ُسرمہ چشم آریہ
فیہ شفاء للناس
از تالیفات مرزا غلام احمد صاحب مؤلف براہین احمدیہ دربارہ
ردّ اصول ویدؔ و اثبات حقیّت اصول قرآن شریف بوعدۂ انعام پانسو روپیہ
اس ہندو یا آریہ کے لئے جو اس رسالہ کا رد لکھ کر دکھلاوے
ماہ ستمبر ۱۸۸۶ ؁ء بمطابق بماہ ذوالحجہ ۱۳۰۳ ؁ھ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 48
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 48
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اشتھار واجب الاظھار
یہ رسالہ کحل الجواہر سرمہ چشم آریہ نہایت صفائی سے چھپ کر ایک 3روپیہ بارہ۱۲؍ آنہ اس کی قیمت عام لوگوں کے لئے قرار پائی ہے اور خواص اور ذی استطاعت لوگ جو کچھ بطور امداد دیں ان کے لئے موجب ثواب ہے کیونکہ سراج منیر اور براہین کے لئے اسی قیمت سے سرمایہ جمع ہو گا اور اس کے بعدرسالہ سراج منیر انشاء اللہ االقدیر چھپے گا پھر اس کے بعد پنجم حصہ کتاب براہین احمدیہ چھپنا شروع ہو گا جو بعض لوگ توقف طبع کتاب براہین سے مضطرب ہو رہے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اس زمانہ توقف میں کیا کیا کارروائیاں بطور تمہید کتاب کے لئے عمل میں آئی ہیں ۴۳ ہزار کے قریب اشتہار تقسیم کیا گیا اور صدہا جگہ ایشیا و یورپ و امریکہ میں خطوط دعوتِ اسلام اردو انگریزی میں چھپوا کر اور رجسٹری کراکر بھیجے گئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ پنجم حصہ میں آئے گا ۔ و انما الاعمال بالنیّات۔ باایں ہمہ اگر بعض صاحب اس توقف سے ناراض ہوں تو ہم ان کو فسخ بیع کی اجازت دیتے ہیں وہ ہم کو اپنی خاص تحریر سے اطلاع دیں تو ہم بدیں شرط کہ جس وقت ہم کو ان کی قیمت مرسلہ میسر آوے اس وقت باخذ کتاب واپس کر دیں گے بلکہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ایسے صاحبوں کی ایک فہرست طیار کی جائے اور ایک ہی دفعہ سب کا فیصلہ کیا جائے اور یہ بھی ہم اپنے گذشتہ اشتہار میں لکھ چکے ہیں اور اب بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ تالیف کتاب بوجہ الہامات الٰہیہ دوسرارنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی ایسی شرط نہیں کہ کتاب تین سو جُز تک ضرور پہنچے بلکہ جس طور سے خدائے تعالیٰ مناسب سمجھے گا کم یا زیادہ بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا کہ یہ سب کام اسی کے ہاتھ میں اور اسی کے امر سے ہے۔ واجب تھا ظاہر کیا گیا۔ و السلام علی من اتبع الھدی۔ المشتھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان
ضلع گورداسپور پنجاب
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 49
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 49
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سرمہ چشم آریہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ‏
اے دلبر و دلستا و دلدار
لرزاں زِتجلیّت دل و جا
در ذاتِ تو جُز تحیرّے یست
در غیبی و قدرتت ہویدا
دوری و قریب تر زِجان ہم
آں کیست کہ منتہائے تو یافت
کردی دو جہاں عیاں زِ قُدرت
و اے جانِ جہان و نورِ انوار
حیران زِرخت قلوب و ابصار
ہنگامِ نظر نصیب افکار
پنہانی و کارِ تو نمودار
نوری و نہاں تر از شبِ تار
و آں کو کہ شود محیطِ اسرار
بے مادہ و بے نیازِ انصار
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 50
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 50
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
و اؔ یں طرفہ کہ ہیچ کم نہ گردد
با آنکہ عطائے تُست بسیار
حُسنِ تو غنی کند زِہر حُسن
مہر تو بخود کشد زِہر یار
حسنِ نمکینت ار نہ بُودی
از حُسن نہُ بودی، ہیچ آثار
شوخی زِ تو یافت روئے خوبان
رنگ از تو گرفت گُل بہُ گلزار
سیمین ذقنان کہ سیب دارند
آمد ز ہمان بلند اشجار
ایں ہر دو ازان دیار آیند
گیسوئے بُتان و مشکِ تاتار
از بہر نمائش جمالت
بینم ہمہ چیز آئینہ دار
ہر برگ صحیفۂ ہدایت
ہر جوہر و عرض شمع بردار
ہر نفس بتو رہے نماید
ہر جان بدہد صلائے این کار
ہر ذرّہ فشاند از توُ نورے
ہر قطرہ براند از تو انہار
ہر سو زِ عجائب تو شورے
ہر جا زِ غرائب تو اذکار
از یادِ تو نورہا بہ بینم
در حلقۂ عاشقانِ خون بار
آنکس کہ بہ بند عشقت اُفتاد
دیگر نہ شنید پندِ اغیار
اے مونسِ جان چہ دلستانی
کز خود بربودیم بہ یکبار
ازیاد تو ایں دلے بغم غرق
دارد گُہرے نہاں صدف وار
چشم و سرِما فدائے رُویت
جان و دلِ ما بتو گرفتار
عشقِ تو بہ نقد جان خریدیم
تا دم نہ زند دگر خریدار
غیر از تو کہ سرزدے زِ جیبم
در برجِ دلم نماند دَیّار
عمریست کہ ترکِ خویش و پیوند
کردیم و دمے جز از تو دشوار
ہزار ہزار شکر اُس قادرِ مطلق کا جس نے انسان کی رُوح اور ہر یک مخلوق اور ہر ذرّہ کو محض اپنے ارادہ کی طاقت سے پیدا کرکے وہ استعدادیں اور قوتیں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 51
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 51
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اورؔ خاصیتیں اُن میں رکھیں جن پر غور کرنے سے ایک عجیب عالم عظمت اورقُدرتِ الٰہی کا نظر آتا ہے اور جن کے دیکھنے اور سوچنے سے معرفت الٰہی کا کامل دروازہ کھلتا ہے۔ اُسی قادرِ توانا کی مدح اور حمد میں محو رہنا چاہیئے جس کی ایجاد کے بغیر کوئی ایک چیز بھی موجود نہیں ہوئی وہی ایک ذات عجیب الحکمت و عظیم القدرت ہے جس کے فقط حکمی طاقت سے جو کچھ وجود رکھتا ہے پیدا ہوگیا۔ ہر ایک ذرہ اَنْتَ رَبِّی اَنت رَبِّی کی آوازسے زبان کشا ہے۔ ہر ایک جان انت مالکی انت مالکی کی شہادت سے نغمہ سرا ہے۔ وہی حکیمِ مطلق ہے جس نے انسانی روحوں کو ایک ایسا پُر منفعت جسم بخشا کہ جو اِس جہان میں کمالات حاصل کرنے اور اُس جہان میں اُن کا پورا پورا حظ اُٹھانے کے لئے بڑا بھارایار و مددگار ہے۔ روح اور جسم دونوں مل کر اس کے وجود کو ثابت کر رہے ہیں۔ اور ظاہری باطنی دونوں قوتیں اُس کی شہادت دے رہی ہیں۔ وہی محسنِ حقیقی ہے جس نے وفاداری سے ایمان لانے والوں کو ہمیشہ کی رستگاری کی خوشخبری دی اور اپنے صادق عارفوں اور سچے محبوں کے لئے اس جنتِ دائمی کا وعدہ دیا جو بدرجۂ اکمل و اتم مظہر العجائب ہے جس کی نہریں اسی دنیوی حیات میں جوش مارنا شروع کرتی ہیں۔ جس کے درخت اسی جگہ کی آبپاشی سے نشوونما پاتے جاتے ہیں۔ اُسکی قدرت و حکمت ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے اور اُس کی حفاظت جو ہر یک چیز کے شامل حال ہے اُسکی عام خالقیت پر گواہ ہے۔ اس کی حکیمانہ طاقتیں بے انتہا ہیں کون ہے جو اُنکی تہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اُس کی قادرانہ حکمتیں عمیق در عمیق ہیں۔ کون ہے جو اُن پر احاطہ کرسکتا ہے۔ ہریک چیز کے اندر اُسکے وجود کی گواہی چھپی ہوئی ہے۔ ہر یک مصنوع اُس صانع کامل کی راہ دکھلارہا ہے۔ موجود بوجود حقیقی وہی ایک رب العالمین ہے اور باقی سب اُس سے پیدا اور اُس کے سہارے سے قائم
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 52
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 52
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اورؔ اُس کی قدرتوں کے نقشِ قدم ہیں۔
کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہوگیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا
اُس بہار حُسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے تُرک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا
چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا
تونے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اس سے ہے شورِ محبت عاشقان زار کا
کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر اُن اسرار کا
تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
کس سے کھل سکتا ہے پیچ اس عقدۂ دشوار کا
خوبرویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی
ہر گُل و گلشن میں ہے رنگ اُس تری گلزار کا
چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہوگئے سو سو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا
تیرے ملنے کیلئے ہم مل گئے ہیں خاک میں
تا مگر درماں ہو کچھ اِس ہجر کے آزار کا
ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا
جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا
شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا
بعد اس کے اور بعد صلوٰۃ و سلام بر نبی کریم خیرالانام محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم المرسلین رحمۃ للعالمین اور اُس کی آل و اصحاب مطہرین و مہذبین رضی اللہ تعالےٰ عنہم اجمعین یہ عاجز مؤلف کتاب براہین احمدیہ خدمت میں طالبین حق کے گذارش کرتا ہے کہ مارچ ۱۸۸۶ ؁ء کے مہینے میں جب کہ یہ عاجز بمقام ہوشیار پور مقیم تھا۔ لالہ مُرلیدھر صاحب ڈرائنگ ماسٹر سے جو آریہ سماج ہوشیار پور کے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 53
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 53
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ایکؔ اعلیٰ درجہ کے رُکن اور مدار المہام ہیں مباحثہ مذہبی کا اتفاق ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ ماسٹر صاحب موصوف نے خود آکر درخواست کی کہ تعلیمِ اسلام پرمیرے چند سوالات ہیں اور چاہتا ہوں کہ پیش کروں۔ چونکہ یہ عاجز ایک زمانۂ دراز کی تحقیق اور تدقیق کے رُو سے خوب جانتا ہے کہ عقائد حقہ اسلام پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا اور جس کسی بات کو کوئی کوتہ اندیش مخالف اعتراض کی صورت میں دیکھتا ہے وہ در حقیقت ایک بھاری درجہ کی صداقت اور ایک عالی مرتبہ کی حکمت ہوتی ہے جو اس کی نظر بیمار سے چھپی رہتی ہے اسلئے باوجود شدت کم فرصتی میں نے مناسب سمجھا کہ ماسٹر صاحب کو اُن کے اعتراضات کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے مدد دوں اور بطور نمونہ ان کو دکھلاؤں کہ وید اور قرآن شریف میں سے کونسی کتاب اللہ تعالےٰ کی عظمت اور قدرت اور شوکت اور شان کے مطابق ہے اور کس کتاب پر سچے اور واقعی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ سو اس غرض سے ماسٹر صاحب کو کہا گیا کہ اگر آپ کو مذہبی بحث کا کچھ شوق ہے تو ہمیں بسروچشم منظور ہے لیکن مناسب ہے کہ دونوں فریق کے اصول کی حقیقت کھولنے کی غرض سے ہر دو فریق کی طرف سے سوالا ت پیش ہوں تا کوئی شخص جو اُن سوالات و جوابات کو پڑھے اس کو دونوں مذہبوں کے جانچنے اور پرکھنے کے لئے موقعہ مل سکے چنانچہ بمنظوری جانبین اسی التزام سے بحث شروع ہوئی۔ اول گیاراں مارچ ۱۸۸۶ ؁ء کی رات میں اس عاجز کے مکان فرودگاہ پر ماسٹر صاحب کی طرف سے ایک تحریری اعتراض شق القمر کے بارہ میں پیش ہوا اور پھر چودھویں مارچ ۱۸۸۶ ؁ء کے دن میں اس عاجز کی طرف سے آریہ صاحبوں کے اس اصول پر اعتراض پیش ہوا کہ پرمیشر نے کوئی رُوح پیدا نہیں کی اور نہ وہ کسی روح کو خواہ کوئی کیسا ہی راست باز اور وفادار اور سچا پرستار ہوہمیشہ کے لئے جنم مرن
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 54
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 54
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کےؔ عذاب سے نجات بخشے گا۔ ان دونوں بحثوں کے وقت یہ بات طے ہوچُکی تھی کہ جواب الجواب کے جواب تک بحث ختم ہو۔ اُس سے پہلے نہ ہو۔ لیکن ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب نے شرائط قرار یافتہ کو کچھ ملحوظ نہ رکھا۔ پہلے جلسہ میں جو گیاراں مارچؔ ۱۸۸۶ء ؁ کو بوقت شب ہؤا تھا اُن کی طرف سے یہ ناانصافی ہوئی کہ جب جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا جس کی تحریر کے لئے وہ آپ ہی فرماچکے تھے تو ماسٹر صاحب نے رات بڑی چلے جانے کا عُذر پیش کیا۔ ہر چند اس عاجز اور اکثر حاضرین نے سمجھایا کہ اے ماسٹر صاحب ابھی رات کچھ ایسی بڑی نہیں گئی ہم سب پر رات کا برابر اثر ہے مگر اقرار کے برخلاف کرنا بھی اچھی بات نہیں جواب ضرور تحریر ہونا چاہئیے لیکن وہ کچھ بھی ملتفت نہ ہوئے آخر بمواجہ تمام حاضرین کہا گیا کہ یہ جواب تحریر ہونے سے رہ نہیں سکتا۔ اگر آپ اس وقت اس کو ٹالنا چاہتے ہیں تو بالضرور اپنے طور پر رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے طوعاً و کرہاً بطور خود لکھا جانا تسلیم کیا پر اسی جلسہ میں وہ تحریر ہو کر پیش ہونا اُن کو بہت ناگوار معلوم ہؤا جس کی وجہ سے وہ بلا توقف اُٹھ کر چلے گئے بات یہ تھی کہ ماسٹر صاحب کو یہ فکر پڑی کہ اگر اسی وقت جواب الجواب کا جواب پیش ہؤا تو خدا جانے مجھے کیا کیا ندامتیں اُٹھانی پڑیں گی غرض یہ جلسہ تو اس طور پر ختم ہوا اور اس کے تمام واقعات جو اِس مضمون میں مندرج ہیں اُن کی شہادت حاضرین جلسہ جن کے نام حاشیہ میں درج ہیں دے سکتے ہیں* اب دوسرا جلسہ جو چودھویں مارچ ۸۶ء ؁
حاضرین جلسہ بحث گیاراں مارچؔ کے نام یہ ہیں۔ میان شتروگن صاحب پسر کلاں راجہ رودرسین صاحب والی ریاست سوکیت حال وارد ہوشیار پور۔ میاں شترنجی صاحب پسر خورد راجہ صاحب موصوف۔ میاں جنمی جی صاحب پسر خورد راجہ صاحب۔ بابو
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 55
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 55
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
میںؔ دن کے وقت شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور کے مکان پر ہوا اُس کی بھی کیفیت سُنیے۔ اوّل حسب قرارداد اِس عاجز کی طرف سے ایک تحریری اعتراض پیش ہؤا جس کا مطلب یہ تھا کہ خدا ئے تعالےٰ کی خالقیت سے انکار کرنا اور پھر اُسی التزام سے جاودانی نجات سے منکر رہنا جو آریہ سماج والوں کا اُصول ہے اِس سے خدائے تعالےٰ کی توحید و رحمت دونوں دُور ہوتی ہیں۔ جب یہ اعتراض جلسۂ عام میں سُنایا گیا تو ماسٹر صاحب پر ایک عجیب حالت طاری ہوئی جس کی کیفیت کو ماسٹر صاحب ہی کا جی جانتا ہوگا اور نیز وہ سب لوگ جو فہیم اور زیرک حاضر جلسہ تھے معلوم کرگئے ہوں گے۔ ماسٹر صاحب کو اس وقت کچھ بھی سوجھتا نہیں تھا کہ اس کا کیا جواب دیں۔ سو ناچار حیلہ جوئی کی غرض سے گھنٹہ سوا گھنٹہ کے عرصہ تک یہی عذر پیش کرتے رہے کہ یہ سوال ایک نہیں ہے بلکہ دو ہیں تو اس کے جواب میں عرض کردیا گیا کہ حقیقت میں سوال ایک ہی ہے یعنی خدائے تعالےٰ کی خالقیت سے انکار کرنا اور مکتی میعادی اُسی خراب اْصول کا ایک بد اثر ہے جو اُس سے الگ نہیں ہوسکتا۔ اِس جہت سے دونوں ٹکڑے سوال کے حقیقت میں ایک ہی ہیں کیونکہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی خالقیت سے منکر ہوگا اُس کے لئے ممکن نہیں کہ ہمیشہ کی نجات کا اقرار کرسکے سو انکارِ خالقیت
مولرؔ اج صاحب نقل نویس۔ لالہ رام لچھمن صاحب ہیڈ ماسٹر لودھیانہ۔ بابو ہرکشن داس صاحب سیکنڈ ماسٹر ہوشیار پور۔ اِس جگہ مکرر لکھا جاتا ہے کہ میاں شتروگہن صاحب نے کئی بار ماسٹر صاحب کی خدمت میں التجا کی کہ آپ جواب الجواب کا جواب لکھنے دیں ہم لوگ بخوشی بیٹھیں گے۔ ہمیں کسی نوع سے تکلیف نہیں بلکہ ہمیں جواب سُننے کا شوق ہے ایسا ہی کئی ہندو صاحبوں نے یہ منشا ظاہر کیا مگر ماسٹر صاحب نے کچھ ایسی مصلحت سوچی کہ کسی کی بات کو نہ مانا اور اُٹھ کر چلے گئے۔ مؤلف
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 56
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 56
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اورؔ انکارِ نجات جاودانی باہم لازم ملزوم ہے اور ایک دوسرے سے پیدا ہوتا ہے۔ سو درحقیقت جو شخص یہ بات ثابت کرنا چاہے کہ خدائے تعالیٰ کے رب العٰلمین اور خالق نہ ہونے میں کچھ حرج نہیں اُس کو یہ ثابت کرنا بھی لازم آجائیگا کہ خدا ئے تعالیٰ کے کامل بندوں کا ہمیشہ جنم مرن کے عذاب میں مُبتلا رہنا اورکبھی دائمی نجات نہ پانا یہ بھی کچھ مضائقہ کی بات نہیں غرض بعد بہت سے سمجھانے کے پھر ماسٹر صاحب کچھ سمجھے اور جواب لکھنا شروع کیا اور تین گھنٹہ تک بہت سے وقت اور غم و غصہ کے بعد ایک ٹکڑۂ سوال کا جواب قلم بند کرکے سُنایا اور دوسرے ٹکڑہ کی بابت جوُمکتی کے بارہ میں تھا یہ جواب دیا کہ اِس کا جواب ہم اپنے مکان پر جاکر لکھ کر بھیج دیں گے۔ چنانچہ اِس طرف سے ایسا جواب لینے سے انکار ہوا اور عرض کردیا گیا کہ آپ نے جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے رو برو تحریر کریں اگر گھر میں بیٹھ کر لکھنا تھا تو پھر اس جلسہبحث کی ضرورت ہی کیا تھی مگر ماسٹر صاحب نے نہ مانا اور کیونکر مانتے اُنکی تو اُس وقت حالت ہی اور ہو رہی تھی۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ جب کسی طور سے ماسٹر صاحب نے لکھنا منظور نہ کیا تو ناچار پھر یہ کہا گیا کہ جس قدر آپ نے لکھا ہے وہی ہم کو دیں تا اُس کا ہم جواب الجواب لکھیں تو اِس کے جواب میں اُنہوں نے بیان کیا کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے اب ہم بیٹھ نہیں سکتے ناچار جب وہ جانے کے لئے مستعد ہوئے تو اُن کو کہا گیا کہ آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ جو کچھ باہم عہد ہوچکا تھا اس کو توڑ دیانہ آپ پورا جواب لکھا اور نہ ہمیں اب جواب الجواب لکھنے دیتے ہیں۔ خیر بدرجۂ ناچاری یہ جواب الجواب بھی بطورِ خود تحریر کرکے رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائیگا چنانچہ یہ بات سُنتے ہی ماسٹر صاحب معہ اپنے رفیقوں کے اُٹھ کر چلے گئے اور حاضرین جلسہ جن کے نام حاشیہ میں درج ہیں بخوبی معلوم کرگئے کہ ماسٹر صاحب کی یہ تمام کارروائی گریز اور کنارہ کشی کے لئے ایک بہانہ تھی۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 57
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 57
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
* اب ہم قبل اس کے کہ ماسٹر صاحب کا پہلا سوال جو شق القمر کے بارہ میں ہے
نام حاضرین جلسہ جو ماسٹر صاحب کی بیجا کارروائی کے گواہ ہیں۔ شیخ مہرؔ علی صاحب رئیسِ اعظم ہوشیار پور۔ مولوی الٰہی ؔ بخش صاحب وکیل ہوشیار پور۔ ڈاکٹر مصطفٰےؔ علی صاحب۔ بابو احمد حسینؔ صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ہوشیار پور۔ میاں عبد اللہ صاحب حکیم۔ میاں شہابؔ الدین صاحب دفعدار۔ لالہ نرائن داس صاحب وکیل۔ پنڈت جگنؔ ناتھ صاحب وکیل۔ لالہ رام لچھمنؔ صاحب ہیڈماسٹر لودہیانہ۔ بابو ہرکشنؔ داس صاحب سیکنڈ ماسٹر۔ لالہ گنیش ؔ داس صاحب وکیل۔ لالہ سیتاؔ رام صاحب مہاجن۔ میاں شتروگہن صاحب پسرِ کلاں راجہ صاحب سوکیتؔ ۔ میاں شترنؔ جی صاحب پسر خورد راجہ صاحب موصوف۔ منشی گلابؔ سنگھ صاحب سرشتہ دار۔ مولوی غلام رسول صاحب مدرس۔ مولوی فتحؔ الدین صاحب مدرس۔ ان تمام حاضرین کے رُو برو لالہ مُرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر نے ہر ایک بات میں ناانصافی کی۔ اِس عاجز نے اپنا اعتراض ایک گھنٹہ کے قریب سُنا دیا تھا مگر انہوں نے تین گھنٹہ تک وقت لیا اور پھر بھی اعتراض کا ایک ٹکڑہ چھوڑ گئے اصلی منشا اُنکا یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی طرح دن گذر جائے اور اس بلا سے نجات پائیں مگر دن اُنکا دشمن ابھی تیسرے حصہ کے قریب سر پر کھڑا تھا اور واضح رہے کہ ماسٹر صاحب کا یہ عذر کہ اب ہماری سماج کا وقت آگیا ہے بالکل عبث اور کچا بہانہ تھا۔ اول تو ماسٹر صاحب نے پہلے کوئی ایسی شرط نہیں کی تھی کہ جب سماج کا وقت ہوگا تو بحث کو درمیان چھوڑ کر چلے جائیں گے ماسوائے اس کے یہ تو دین کا کام تھا اور جن لوگوں نے سماج میں حاضر ہونا تھا وہ تو سب موجود تھے بلکہ بہت سے ہندو اورمسلمان اپنا اپنا کام چھوڑ کر اسی غرض سے حاضر تھے اور تمام صحن مکان کا حاضرین سے بھرا ہؤا تھا سو اگر ماسٹر صاحب کی نیّت میں فرق نہ ہوتا تو اسی جلسہ عظیمہ کو جو صدہا آدمیوں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 58
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 58
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تحرؔ یر کریں صفائی بیان کے لئے ایک مقدمہ لکھتے ہیں یہ مقدمہ درحقیقت اُسی مضمون کا
کا ؔ مجمع تھا سماج سمجھا ہوتا علت غائی سماجوں کی لیکچر وغیرہ ہی ہؤا کرتی تھی سو وہ تو اُس جگہ ایسی میسر تھی کہ جو سماج میں کبھی میسر نہیں آئی ہوگی۔ ماسوا اس کے جب ماسٹر صاحب نے بہت سا حصہ وقت کا صرف باتوں میں ہی ضائع کرکے پھر بہت سی سستی اور آہستگی سے جواب لکھنا شروع کیا تو اسی وقت ہم سمجھ گئے تھے کہ آپکی نیت میں خیر نہیں ہے اِسی خیال سے اُنکو کہا گیا کہ بہتر یوں ہے کہ جو جو ورق آپ لکھتے جائیں وہ مجھے دیتے جائیں تا میں اُسکا جواب الجواب بھی لکھتا جاؤں اِس انتظام سے دونوں فریق جلد تر فراغت کرلیں گے مگر اُنکا تو مطلب ہی اور تھا وہ کیونکر ایسے انصاف کی باتوں کو قبول کرتے سو انہوں نے انکار کیا اور لالہ رام لچھمن صاحب اُنکے رفیق نے مجھے کہا کہ مَیں آپکی غرض کو سمجھ گیا۔ لیکن ماسٹر صاحب ایسا کرنا نہیں چاہتے چنانچہ وُہی بات ہوئی اور اخیر پر ناتمام کام چھوڑ کر سماج کا عذر پیش ہوگیا اگر کوئی دُنیا کا مقدمہ یا کام ہوتا تو ماسٹر صاحب ہزار دفعہ سماج کے وقت کو چھوڑ دیتے پر سچ تو یہ ہے کہ سماج کا عذر تو ایک بہانہ ہی تھا اصل موجب تو وہ گھبراہٹ تھی جو اعتراض کی عظمت اور بزرگی کی و جہ سے ماسٹر صاحب کے دل پر ایک عجیب کام کر رہی تھی۔ اسی باعث سے پہلے ماسٹر صاحب نے باتوں میں وقت کھویا اور اعتراض کو سُنتے ہوئے ایسے گھبرائے اور کچھ ایسے مبہوت سے ہو گئے کہ چہرہ پر پریشانی کے آثار ظاہر تھے اور ناکارہ عذرات پیش کرکے یہ چاہا کہ بغیر تحریر جواب اُٹھ کر چلے جائیں اسی وجہ سے لوگ تحریر جواب سے نااُمید ہوکر متفرق ہوگئے اور بعض یہ کہتے ہوئے اُٹھ گئے کہ اب کیا بیٹھیں اب تو بحث ختم ہوگئی آخر ماسٹر صاحب نے طوعاً و کرہاً حاضرین کی شرم سے کچھ لکھا جس کا آدھا دھڑ تو ماسٹر صاحب کے کاغذ پر اور آدھا اُن کے دل میں ہی رہا بہرحال وہ اپنے جواب کو اِسی جان کندن میں چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ماسٹر صاحب کو اُٹھتے وقت میں نے یہ بھی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 59
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 59
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/59/mode/1up
ایکؔ حصہ ہے جس کو ہم نے جلسہ بحث گیارہویں مارچ ۱۸۸۶ء میں ماسٹر صاحب کے جواب الجواب کے ردّ میں لکھنا چاہا تھا مگر بوجہ عہد شکنی ماسٹر صاحب اور چلے جانے ان کے اور برخاست ہوجانے جلسہ بحث کے لکھ نہ سکے ناچار حسبِ وعدہ اب لکھنا پڑا۔ سو کچھ اس میں سے اس جگہ اور کچھ جیسا کہ مناسب محل و ترتیب ہوگا بعد میں لکھیں گے۔ وما توفیقی اِلّاباللّٰہ ھونعم المولٰی ونعم النصیر۔
مُقدّمہ
ماسٹر صاحب نے اسلامؔ کے عقیدہ پر شق القمر کا اعتراض پیش کیا ہے اور اس اعتراض سے ان کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آج کل کے نو تعلیم یافتہ لوگ انگریزی فلسفہ کے پھیلنے کی وجہ سے ان سب عجائبات سماوی و ارضی کو قانونِ قدرت کے برخلاف سمجھتے ہیں جن پر ان کی عقل محیط نہیں ہوسکتی اور جن کو انہوں نے نہ بچشم خود دیکھا اور نہ اپنے فلسفہ کی کتابوں میں اس کا اثر یا نشان پایا اس لئے ماسٹر صاحب نے یہ اعتراض پیش کردیا تا فلسفی طبع لوگ جن کے دل ودماغ پر خیالات فلسفہ غالب آرہے ہیں۔ خواہ نخواہ شق القمر کے محال ہونے میں ان کے ساتھ ہاں کے ساتھ ملائیں اور گو ان کی بات کیسی ہی ادھوری اور بودی ہو مگر پنچایت کے اتفاق سے کچھ آب ورنگ لے آوے۔ سو
کہاؔ کہ اگر آپ اس وقت کسی نوع سے ٹھہرنا مصلحت نہیں سمجھتے تو میں دوروز اور اس جگہ ہوں اور اپنا دن رات اسی خدمت میں صرف کرسکتا ہوں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ فرصت نہیں۔ اخیر پر ہم یہ بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب جو کچھ گھر پر جاکر لکھیں گے ہمیں کچھ اطلاع نہیں اس لئے ہم اس کی نسبت کچھ تحریر کرنے سے معذور ہیں منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 60
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 60
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/60/mode/1up
اوّلؔ ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ شق القمر کا معجزہ اہل اسلام کی نظر میں ایسا امر نہیں ہے کہ جو مدار ثبوت اسلام اور دلیل اعظم حقانیت کلام اللہ کا ٹھہرایا گیا ہو بلکہ ہزارہا شواہد اندرونی و بیرونی وصدہا معجزات و نشانوں میں سے یہ بھی ایک قدرتی نشان ہے جو تاریخی طور پر کافی ثبوت اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کا ذکر آئندہ عنقریب آئے گا۔ سو اگر تمام کھلے کھلے ثبوتوں سے چشم پوشی کرکے فرض بھی کرلیں کہ یہ معجزہ ثابت نہیں ہے اور آیت کے اس طور پر معنے قرار دیں جس طور پر حال کے عیسائی و نیچری یا دوسرے منکرین خوارق کرتے ہیں تو اس صورت میں بھی اگر کچھ حرج ہے تو شاید ایسا ہے کہ جیسے بیس کروڑ روپیہ کی جائداد میں سے ایک پیسے کا نقصان ہوجائے۔ پس اس تقریر سے ظاہر ہے کہ اگر بفرض محال اہلِ اِسلام تاریخی طور پر اس معجزہ کو ثابت نہ کرسکیں تو اس عدم ثبوت کا اسلام پر کوئی بداثر نہیں پہنچ سکتا۔* سچ تو یہ ہے کہ کلام الٰہی نے مسلمانوں کو دوسرے معجزات سے بکلّی بے نیاز کردیا ہے وہ نہ صرف اعجاز بلکہ اپنی برکات و تنویرات کے رو سے اعجاز آفرینؔ بھی ہے۔ فی الحقیقت قرآن شریف اپنی ذات میں ایسی صفات کمالیہ رکھتا ہے جو اس کو خارجیہ معجزات کی کچھ بھی حاجت نہیں۔ خارجیہ معجزات کے ہونے سے اس میں کچھ زیادتی نہیں ہوتی اور نہ ہونے سے کوئی نقص عائد حال نہیں ہوتا۔ اس کا بازار حسن معجزات خارجیہ کے زیور سے رونق پذیر نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں آپ ہی ہزارہا معجزات عجیبہ و غریبہ کا جامع ہے جن کو ہریک زمانہ کے لوگ دیکھ سکتے ہیں نہ یہ کہ صرف گزشتہ کا حوالہ دیا جائے۔ وہ ایسا ملیح الحسن محبوب ہے کہ ہریک چیز اس سے مل کر آرائش پکڑتی ہے اور وہ اپنی آرائش میں کسی کی آمیزش کا محتاج نہیں۔
معجزات اور خوارق قرآنی چار قسم پر ہیں۔ (۱) معجزات عقلیہ (۲) معجزات علمیہ (۳) معجزات برکات روحانیہ (۴) معجزات تصرفات خارجیہ۔ نمبر اول دو و تین کے معجزات خواص ذاتیہ قرآن شریف میں سے ہیں اور نہایت عالی شان اور بدیہی الثبوت ہیں جن کو ہریک زمانہ میں ہریک شخص تازہ بتازہ طور پر چشم دید ماجرا کی طرح دریافت کرسکتا ہے لیکن نمبر چار کے معجزات یعنے تصرفات خارجیہ یہ بیرونی خوارق ہیں جن کو قرآن شریف سے کچھ ذاتی تعلق نہیں انہیں میں سے معجزہ شق القمر بھی ہے۔ اصل خوبی اور حسن و جمال قرآن شریف کا پہلے تینوں قسم کے معجزات سے وابستہ ہے بلکہ ہر ایک کلام الٰہی کا یہی نشان اعظم ہے کہ یہ تینوں قسم کے معجزات کسی قدر اس میں پائے جائیں اور قرآن شریف میں تو یہ ہر سہ قسم کے اعجاز اعلیٰ و اکمل و اتم طور پر پائے جاتے ہیں اور انہیں کو قرآنِ شریف اپنی بے مثل و مانند ہونے کے اثبات میں بار بار پیش کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔ قُلْ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 61
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 61
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/61/mode/1up
اوّلؔ ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ شق القمر کا معجزہ اہل اسلام کی نظر میں ایسا امر نہیں ہے کہ جو مدار ثبوت اسلام اور دلیل اعظم حقانیت کلام اللہ کا ٹھہرایا گیا ہو بلکہ ہزارہا شواہد اندرونی و بیرونی وصدہا معجزات و نشانوں میں سے یہ بھی ایک قدرتی نشان ہے جو تاریخی طور پر کافی ثبوت اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کا ذکر آئندہ عنقریب آئے گا۔ سو اگر تمام کھلے کھلے ثبوتوں سے چشم پوشی کرکے فرض بھی کرلیں کہ یہ معجزہ ثابت نہیں ہے اور آیت کے اس طور پر معنے قرار دیں جس طور پر حال کے عیسائی و نیچری یا دوسرے منکرین خوارق کرتے ہیں تو اس صورت میں بھی اگر کچھ حرج ہے تو شاید ایسا ہے کہ جیسے بیس کروڑ روپیہ کی جائداد میں سے ایک پیسے کا نقصان ہوجائے۔ پس اس تقریر سے ظاہر ہے کہ اگر بفرض محال اہلِ اِسلام تاریخی طور پر اس معجزہ کو ثابت نہ کرسکیں تو اس عدم ثبوت کا اسلام پر کوئی بداثر نہیں پہنچ سکتا۔* سچ تو یہ ہے کہ کلام الٰہی نے مسلمانوں کو دوسرے معجزات سے بکلّی بے نیاز کردیا ہے وہ نہ صرف اعجاز بلکہ اپنی برکات و تنویرات کے رو سے اعجاز آفرینؔ بھی ہے۔ فی الحقیقت قرآن شریف اپنی ذات میں ایسی صفات کمالیہ رکھتا ہے جو اس کو خارجیہ معجزات کی کچھ بھی حاجت نہیں۔ خارجیہ معجزات کے ہونے سے اس میں کچھ زیادتی نہیں ہوتی اور نہ ہونے سے کوئی نقص عائد حال نہیں ہوتا۔ اس کا بازار حسن معجزات خارجیہ کے زیور سے رونق پذیر نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں آپ ہی ہزارہا معجزات عجیبہ و غریبہ کا جامع ہے جن کو ہریک زمانہ کے لوگ دیکھ سکتے ہیں نہ یہ کہ صرف گزشتہ کا حوالہ دیا جائے۔ وہ ایسا ملیح الحسن محبوب ہے کہ ہریک چیز اس سے مل کر آرائش پکڑتی ہے اور وہ اپنی آرائش میں کسی کی آمیزش کا محتاج نہیں۔
ہمہ خوبان عالم را بزیورہا بیا رایند
تو سیمیں تن چناں خوبی کہ زیورہا بیا رائی
پھر ماسوا اس کے سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ شق القمر کے معجزہ پر حملہ کرتے ہیں ان کے پاس صرف یہی ایک ہتھیار ہے اور وہ بھی ٹوٹا پھوٹا کہ شقؔ القمر قوانین قدرتیہ کے برخلاف ہے اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اول ہم ان کے قانونِ قدرت کی کچھ تفتیش کرکے پھر وہ ثبوت تاریخی پیش کریں جو اس واقعہ کی صحت پر
لَّٮِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا‏
۱؂ یعنی ان منکرین کو کہہ دے کہ اگر تمام جن وانس یعنے تمام مخلوقات اس بات پر متفق ہوجائے کہ اس قرآن کی کوئی مثل بنانی چاہیئے تو وہ ہرگز اس بات پر قادر نہیں ہوں گے کہ ایسی ہی کتاب انہیں ظاہری و باطنی خوبیوں کی جامع بناسکیں اگرچہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے۔
مَا فَرَّطْنَا فِىْ الْـكِتٰبِ مِنْ شَىْءٍ‌
یعنے اس کتاب (قرآن شریف) سے کوئی دینی حقیقت باہر نہیں رہی بلکہ یہ جمیع حقائق و معارف دینیہ پر مشتمل ہے۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے۔
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْـكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّـكُلِّ شَىْءٍ
یعنی ہم نے یہ کتاب (قرآن شریف) تمام علوم ضروریہ پر مشتمل نازل فرمائی ہے۔ اور پھر فرماتا ہے
يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًۙ فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌؕ‏
یعنی یہ قرآن شریف وہ پاک اوراق ہیں جن میں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 62
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 62
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/62/mode/1up
دلالتؔ کرتے ہیں سو جاننا چاہئے کہ نیچر کے ماننے والے یعنی قانون قدرت کے پیرو کہلانے والے اس خیال پر زور دیتے ہیں کہ یہ بات بدیہی ہے کہ جہاں تک انسان اپنی عقلی قوتوں سے جان سکتا ہے وہ بجز قدرت اور قانون قدرت کے کچھ نہیں یعنی مصنوعات و موجودات مشہودہ موجودہ پر نظر کرنے سے چاروں طرف یہی نظر آتا ہے کہ ہریک چیز مادی یا غیر مادی جو ہم میں اور ہمارے اردگرد یا فوق وتحت میں موجود ہے وہ اپنے وجود اور قیام اور ترتب آثار میں ایک عجیب سلسلہ انتظام سے وابستہ ہے جو ہمیشہ اس کی ذات میں پایا جاتا ہے اور کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا۔ قدرت نے جس طرح پر جس کا ہونا بنادیا بغیر خطاکے اسی طرح ہوتا ہے اور اُسی طرح پر ہوگا پس وہی سچ ہے اور اصول بھی وہی سچے ہیں جو اس کے مطابق ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ یہ سب سچ مگر کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قدرت الٰہی کے طریقے اور اس کے قانون اسی حد تک ہیں جو ہمارے تجربہ اور مشاہدہ میں آچکے ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ جس حالت میں الٰہی قدرتوں کو غیر محدود ماننا ایک ایسا ضروری مسئلہ ہے جو اسی سے نظامِ کارخانۂ
تمامؔ آسمانی کتابوں کا مغز اور لب لباب بھرا ہوا ہے اور پھر فرماتا ہے۔
وَاِنْ کُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوْا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ
۱؂ یعنے اے منکرین اگر تم اس کلام کے بارہ میں جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کیا ہے کچھ شک میں ہو یعنے اگر تم اس کو خدا کا کلام نہیں سمجھتے اور ایسا کلام بنانا انسانی طاقت کے اندر خیال کرتے ہو تو تم بھی ایک سورت جو انہیں ظاہری باطنی کمالات پر مشتمل ہو بناکر پیش کرو۔ اور اگر تم نہ بناسکو اور یاد رکھو کہ ہرگز بنا نہیں سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن پتھر ( ُ بت) اور آدمی ہیں یعنی ُ بت اور مشرک اور نا،فرمان لوگ ہی اس آگ کے بھڑکنے کا موجب ہورہے ہیں اگر دنیا میں ُ بت پرستی و شرک و بے ایمانی و نافرمانی نہ ہوتی تو وہ آگ بھی افروختہ نہ ہوتی تو گویا اس کا ایندھن یہی چیزیں ہیں جو علت موجبہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 63
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 63
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/63/mode/1up
الوؔ ہیت وابستہ اور اسی سے ترقیات علمیہ کا ہمیشہ کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے تو پھر کس قدر غلطی کی بات ہے کہ ہم یہ ناکارہ حجت پیش کریں کہ جو امر ہماری سمجھ اور مشاہدہ سے باہر ہے وہ قانون قدرت سے بھی باہر ہے بلکہ جس حالت میں ہم اپنے مونہہ سے اقرار کرچکے کہ قوانین قدرتیہ غیر متناہی اور غیر محدود ہیں تو پھر ہمارا یہ اصول ہونا چاہئے کہ ہریک نئی بات جو ظہور میں آوے پہلے ہی اپنی عقل سے بالاتر دیکھ کر اس کو رد نہ کریں بلکہ خوب متوجہ ہوکر اس کے ثبوت یا عدم ثبوت کا حال جانچ لیں اگر وہ ثابت ہو تو اپنے قانون قدرت کی فہرست میں اس کو بھی داخل کرلیں اور اگر وہ ثابت نہ ہو تو صرف اتنا کہہ دیں کہ ثابت نہیں مگر اس بات کے کہنے کے ہم ہرگز مجاز نہیں ہوں گے کہ وہ امر قانون قدرت سے باہر ہے بلکہ قانون قدرت سے باہر کسی چیز کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے ُ پرضرور ہے کہ ہم ایک دائرہ کی طرح خدائے تعالیٰ کے تمام قوانین ازلی و ابدی پر محیط ہوجائیں اور بخوبی ہمارا فکر اس بات پر احاطۂ تام کرلے کہ خدائے تعالیٰ نے روز اول سے آج تک کیا کیا قدرتیں ظاہر کیں اور آئندہ اپنے ابدی زمانہ
اُسؔ کے افروختہ ہونے کی ہیں اور پھر ایک جگہ فرمایا ہے
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ‌ؕ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ‏
یعنے یہ قرآن جو تم پر اتارا گیا اگر کسی پہاڑ پر اتارا جاتا تو وہ خشوع اور خوف الٰہی سے ٹکڑہ ٹکڑہ ہوجاتا اور یہ مثالیں ہم اس لئے بیان کرتے ہیں کہ تا لوگ کلام الٰہی کی عظمت معلوم کرنے کے لئے غور اور فکر کریں۔ یہ تو قرآن شریف میں ان اعجازی کمالات کا ذکر ہے جو خود اس کے نفس نفیس میں پائے جاتے ہیں لیکن بایں ہمہ تصرفات خارجیہ کے اعجاز بھی قرآن شریف میں بکثرت درج ہیں اور اس قسم کے معجزات جمال قرآنی کے لئے بطور اس زیور کے ہیں جو خوبوں کو پہنایا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ نفس خوبصورتی زیور کے محتاج نہیں گو اس سے حسن کی آب و تاب کسی قدر اور بڑھ جاتی ہے۔ اس جگہ واضح رہے کہ تصرفات خارجیہ کے معجزات قرآن شریف میں کئی نوع پر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 64
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 64
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/64/mode/1up
میںؔ کیا کیا قدرتیں ظاہر کرے گا۔ کیا وہ جدید درجدید قدرتوں کے ظاہر کرنے پر قادر ہوگا یا کوہلو کے بیل کی طرح انہیں چند قدرتوں میں مقیّد اور محصور رہے گا جن کو ہم دیکھ چکے ہیں اور جن پر ہمارا بخوبی احاطہ ہے اور اگر انہیں میں مقیّد اور محصور رہے گا تو باوجود اس کے غیر محدود الوہیت اور قدرت اور طاقت کے یہ مقید اور محصور رہنا کس وجہ سے ہوگا کیا وہ آپ ہی وسیع قدرتوں کے دکھلانے سے عاجز آئے گا یا کسی دوسرے قاسر نے اس پر جبر کیا ہوگا یا اس کی خدائی کو انہیں چند قسم کی قدرتوں سے قوت پہنچتی ہے اور دوسری قدرتوں کے ظاہر کرنے سے اس پر زوال آتا ہے بہرحال اگر ہم خدائے تعالیٰ کی قدرتوں کو غیرمحدود مانتے ہیں تو یہ جنون اور دیوانگی ہے کہ اس کی قدرتوں پر احاطہ کرنے کی امید رکھیں کیونکہ اگر وہ ہمارے مشاہدہ کے پیمانہ میں محدود ہوسکیں تو پھر غیر محدود اور غیر متناہی کیونکر رہیں اور اس صورت میں نہ صرف یہ نقص پیش آتا ہے کہ ہمارا فانی اور ناقص تجربہ خدائے ازلی و ابدی کی تمام قدرتوں کا حد بست کرنے والا ہوگا بلکہ ایک بڑا بھاری نقص یہ بھی ہے کہ اس کی
مندرج ؔ ہیں۔ ایک نوع تو یہی کہ جو دعائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائے تعالیٰ نے آسمان پر اپنا قادرانہ تصرف دکھلایا اور چاند کو د۲و ٹکڑے کردیا۔ دوسرے وہ تصرف جو خدائے تعالیٰ نے جناب ممدوح کی دعا سے زمین پر کیا اور ایک سخت قحط سات برس تک ڈالا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ہڈیوں کو پیس کر کھایا۔ تیسرے وہ تصرف اعجازی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شرِ کفار سے محفوظ رکھنے کے لئے بروز ہجرت کیا گیا یعنے کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہٗ نے اپنے اس پاک نبی کو اس بدارادہ کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا اور پھر بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی بدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سختی گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناگہانی طور پر اپنے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 65
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 65
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/65/mode/1up
قدرتوؔ ں کے محدود ہونے سے وہ خود بھی محدود ہوجائے گا اور پھر یہ کہنا پڑے گا کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ کی حقیقت اورُ کنہ ہے ہم نے سب معلوم کرلی ہے اور اس کے گہراؤ اور تہ تک ہم پہنچ گئے ہیں اور اس کلمہ میں جس قدر کفر اور بے ادبی اور بے ایمانی بھری ہوئی ہے وہ ظاہر ہے حاجت بیان نہیں سو ایک محدود زمانہ کے محدود در محدود تجارب کو پورا پورا قانونِ قدرت خیال کرلینا اور اس پر غیر متناہی سلسلۂ قدرت کو ختم کردینا اور آئندہ کے نئے اسرار کھلنے سے ناامید ہوجانا ان پست نظروں کا نتیجہ ہے جنہوں نے خدائے ذوالجلال کو جیسا کہ چاہئے شناخت نہیں کیا اور جو اپنی فطرت میں نہایت منقبض واقعہ ہوئے ہیں یہاں تک کہ ایک کنوئیں کی مینڈک ہوکر یہ خیال کررہے ہیں کہ گویا ایک سمندر ناپیدا کنار
قدیمیؔ شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیرلیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا۔ جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے مونہہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر قتل کرنے کے لئے ٹھہرے رہیں۔
کس بہر کسے سرندہدجان نفشاند
عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند
سو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس وفادار اور جان نثار عزیز کو اپنی جگہ چھوڑ کر چلے گئے تو آخر تفتیش کے بعد ان نالائق بدباطن لوگوں نے تعاقب کیا اور چاہا کہ راہ میں کسی جگہ پاکر قتل کرڈالیں اس وقت اور اس مصیبت کے سفر میں بجز ایک بااخلاص اور یکرنگ اور دلی دوست کے اور کوئی انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہ تھا۔ ہاں ہروقت اور نیز اس پرخطر سفر میں وہ مولیٰ کریم ساتھ تھا جس نے اپنے اس کامل وفادار بندہ کو ایک عظیم الشان اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا تھا سو اس نے اپنے اس پیارے بندہ کو محفوظ رکھنے کے لئے بڑے بڑے عجائب تصرفات اس راہ میں دکھلائے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 66
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 66
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/66/mode/1up
پر انؔ کو عبور ہوگیا ہے’’ تمام خوشیاں عارفوں کی اور تمام راحتیں غمزدوں کی اسی میں ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی قدرتوں کا کنارہ لا یدرک ہے میں یہ نہیں کہتا کہ بے تحقیق اور بے ثبوت عقلی یا آزمائشی یا تاریخی کسی نئی بات کو مان لو کیونکہ اس عادت سے بہت سے رطب ویابس کا ذخیرہ اکٹھا ہوجائے گا بلکہ میں
جو اؔ جمالی طور پر قرآن شریف میں درج ہیں منجملہ ان کے ایک یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے وقت کسی مخالف نے نہیں دیکھا حالانکہ صبح کا وقت تھا اور تمام مخالفین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کررہے تھے سو خدائے تعالیٰ نے جیسا کہ سورۂیٰسین میں اس کا ذکر کیا ہے ان سب اشقیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آنحضرت ان کے سروں پر خاک ڈال کر چلے گئے۔ ازاں جملہ ایک یہ کہ اللہ جل شانہٗ نے اپنے نبی معصوم کے محفوظ رکھنے کے لئے یہ امر خارق عادت دکھلایا کہ باوجود یکہ مخالفین اس غار تک پہنچ گئے تھے۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنے رفیق کے مخفی تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے کیونکہ خدائے تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بنادیا اور انڈے بھی دے دیئے اور اسی طرح اذن الٰہی سے عنکبوت نے اس غار پر اپنا گھر بنا دیا جس سے مخالف لوگ دھوکا میں پڑکر ناکام واپس چلے گئے۔ ازانجملہ ایک یہ کہ ایک مخالف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پکڑنے کے لئے مدینہ کی راہ پر گھوڑا دوڑائے چلا جاتا تھا جب وہ اتفاقاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو جناب ممدوح کی بددعا سے اس کے گھوڑے کے چاروں ُ سم زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگ کر اور عفو تقصیر کرا کر واپس لوٹ آیا ۔چوتھی وہ تصرف اعجازی کہ جب دشمنوں نے اپنی ناکامی سے منفعل ہوکر لشکر کثیر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کی تا مسلمانوں کو جو ابھی تھوڑے سے آدمی تھے نابود کردیں اور دینِ اسلام کا نام و نشان مٹا دیں تب اللہ جل شانہٗ نے جناب موصوف کے ایک مٹھی کنکریوں کے چلانے سے مقام بدر میں دشمنوں میں ایک تہلکہ ڈال دیا اور ان کے لشکر کو شکست فاش ہوئی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 67
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 67
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/67/mode/1up
یہ ؔ کہتا ہوں کہ خدائے ذوالجلال کی تعظیم کرکے اس کے نئے کاموں کی نسبت (جو تمہاری محدود نظروں میں نئے دکھائی دیتے ہیں) بے جا ضد بھی مت کرو کیونکہ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں خدائے تعالیٰ کی عجائب قدرتوں اور دقائق حکمتوں اور پیچ در پیچ اسراروں کے ابھی تک انسان نے بکلی حد بست نہیں کی
اور ؔ خدائے تعالیٰ نے ان چند کنکریوں سے مخالفین کے بڑے بڑے سرداروں کو سراسیمہ اور اندھا اور پریشان کرکے وہیں رکھا اور ان کی لاشیں انہیں مقامات میں گرائیں جن کے پہلے ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ نشان بتلا رکھے تھے۔ ایسا ہی اور کئی عجیب طور کے تائیدات و تصرفات الٰہیہ کا (جو خارق عادت ہیں) قرآن شریف میں ذکر ہے جن کا ماحصل یہ ہے کہ کیونکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مسکینی اور غریبی اور یتیمی اور تنہائی اور بے کسی کی حالت میں مبعوث کرکے پھر ایک نہایت قلیل عرصہ میں جو تیس برس سے بھی کم تھا ایک عالم پر فتح یاب کیا اور شہنشاہِ قسطنطنیہ و بادشاہان دیار شامؔ و مصرؔ و ممالک مابین دجلہؔ و فراتؔ وغیرہ پر غلبہ بخشا اور اس تھوڑے ہی عرصہ میں فتوحات کو جزیرہ نما عرب ؔ سے لے کر دریائے جیحونؔ تک پھیلایا اور ان ممالک کے اسلامؔ قبول کرنے کی بطور پیشگوئی قرآن شریف میں خبردی اس حالتِ بے سامانی اور پھر ایسی عجیب و غریب فتحوں پر نظر ڈال کر بڑے بڑے دانشمند اور فاضل انگریزوں نے بھی شہادت دی ہے کہ جس جلدی سے اسلامی سلطنت اور اسلام دنیا میں پھیلا ہے اس کی نظیر صفحۂ تواریخ دنیا میں کسی جگہ نہیں پائی جاتی اور ظاہر ہے کہ جس امر کی کوئی نظیر نہ پائی جائے اسی کو دوسرے لفظوں میں خارق عادت بھی کہتے ہیں۔ غرض قرآنؔ شریف میں تصرفات خارجیہ کا ذکر بھی بطور خارق عادت بہت جگہ آیا ہے بلکہ ذرا نظر کھول کر دیکھو تو اس پاک کلام کا ہریک مقام تائیدات الٰہیہ کا نقارہ بجارہا ہے اور ایک تصویر کھینچ کر دکھلا رہا ہے کہ کیونکر اسلامؔ اپنی اول حالت میں ایک خورد تر بیج کی طرح دنیا میں بویا گیا اور پھر وہ تھوڑے ہی عرصہ میں جو خارق عادت ہے کیسا بزرگ و عظیم القدر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 68
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 68
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/68/mode/1up
اور نہ آگے کو اس کی لیاقت و طاقت ایسی نظر آتی ہے کہ اس مالک الملک کے وراء الوراء بھیدوں کے ایک چھوٹے سے رقبۂ زمین کی طرح پیمائش کرسکے یا کسی ایک چیز کے جمیع خواص پر احاطہ کرنے کا دم مارسکے مجھے ان صاف باطن لوگوں کے آگے منطقی دلائل کی حاجت نہیں جو اپنے اس پیارے
ہوؔ کر اکثر حصہ دنیا میں پھیل گیا اور ہریک موقعہ پر کیا کیا عجیب تائیدات الٰہیہ اس کی حمایت میں ظہور میں آتی رہیں۔ اب ہم بیرونی معجزات کا بیان (جو اعجازی تصرفات ہیں) اسی قدر کافی سمجھ کر ان معجزات کی تشریح کچھ زیادہ کرنا چاہتے ہیں جو قرآن شریف کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کی بطنی اور نفسی خاصیتیں ہیں کیونکہ اس قسم کے معجزات بباعث دائمی شہود اور وجود کے قوی الاثر ہیں جن کو ہر ایک طالب صادق اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے اور ہریک منصف کی نظر میں بالضرورت قابل یقین ٹھہرسکتے ہیں۔ سو اوّل جاننا چاہئے کہ معجزہ عادات الٰہیہ میں سے ایک ایسی عادت یا یوں کہو کہ اس قادر مطلق کے افعال میں سے ایک ایسا فعل ہے جس کو اضافی طور پر خارق عادت کہنا چاہئے پس امر خارقِ عادت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ جب پاک نفس لوگ عام طریق و طرز انسانی سے ترقی کرکے اور معمولی عادات کو پھاڑ کر قرب الٰہی کے میدانوں میں آگے قدم رکھتے ہیں تو خدائے تعالیٰ حسب حالت ان کے ایک ایسا عجیب معاملہ ان سے کرتا ہے کہ وہ عام حالاتِ انسانی پر خیال کرنے کے بعد ایک امر خارقِ عادت دکھائی دیتا ہے اور جس قدر انسان اپنی بشریت کے وطن کو چھوڑ کر اور اپنے نفس کے حجابوں کو پھاڑ کر عرصاتِ عشق و محبت میں دور تر چلا جاتا ہے اسی قدر یہ خوارق نہایت صاف اور شفاف اور روشن و تابان ظہور میں آتے ہیں۔ جب تزکیہ نفس انسانی کمال تام کی حالت پر پہنچتا ہے اور اس کا دل غیر اللہ سے بالکل خالی ہوجاتا ہے اور محبت الٰہی سے بھر جاتا ہے تو اس کے تمام اقوال و افعال و اعمال و حرکات و سکنات و عبادات
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 69
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 69
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/69/mode/1up
مالکؔ سے دلی محبت رکھتے ہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خود ان کو وہی ان کی سچی محبت یہ طریقِ ادب سکھادے گی کہ ذات جامع الکمالات حضرت احدیت کے علم کے ساتھ اپنے محدود علم کو برابر جاننا اور اس کی ازلی ابدی قدرتوں کو اپنے مشاہدات یا معلومات سے زیادہ نہ سمجھنا بہت برا
و معاؔ ملات و اخلاق جو انتہائی درجہ پر اس سے صادر ہوتے ہیں وہ سب خارق عادت ہی ہوجاتے ہیں سو بمقابل اس کے ایسا ہی معاملہ باری تعالیٰ کا بھی اس مبدّل تام سے بطور خارق عادت ہی ہوتا ہے سو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبدّل تام اور سیّد المبدلین اور امام المطہرین تھے جن کو قادر مطلق نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا تھا اس لئے تمام سراپا وجود ان کے کا حقیقت میں معجزہ ہی تھا اور ضرور تھا کہ ایسے عالی شان نبی پر جو کلام نازل ہوا تھا وہ بباعث تبدل تام اس کے غایت درجہ کا خارق عادت ہوتا جس سے تمام اولین آخرین کی نظریں خیرہ رہ جاتیں کیونکہ اگرچہ کلام الٰہی فی ذاتہٖ کلام انسانی سے ایسا ہی ممیز ہے جیسا خدا انسان سے تمیز تام رکھتا ہے لیکن باوجود اس کے فیضان وحی حسب استعداد و حالتِ صفوت و اخلاق فاضلہ و ملکات صالحہ وحی یاب ہوا کرتا ہے اور اسی کی طرف ایک روحانی اشارہ ہے جو قرآن شریف میں پایا جاتا ہے یعنی یہ کہ وہ پاک کلام بہت سے فرشتوں کی حفاظت کے ساتھ اترا ہے۔ سو ظاہری فرشتے تو معلوم ہی ہیں مگر پاک اخلاق اور پاکیزہ حالتیں اور شوق و ذوق سے بھری ہوئی وارداتیں اور درد دل اور جوش محبت اور صدق و صفا و تبتل و وفاو توکل و رضا و نیستی وفنا اور شورش ہائے عشقِ مولیٰ ایک قسم کے فرشتے ہی ہیں جو قادر مطلق نے اپنے اس محبوب افضل الرسل کے وجود میں اکمل و اتم طور پر پیدا کئے تھے اور پھر اسی کے اتباع سے ہریک مومن کامل کے دل میں بھی باذنہٖ تعالیٰ پیدا ہوجاتے ہیں اور اگرچہ عام مومنوں میں بھی جو ابھی حالتِ کمالیہ تک نہیں پہنچے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 70
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 70
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/70/mode/1up
اور ؔ نالائق خیال ہے جو ادب اور تعظیم اور عجز اور عبودیت کی حقیقت سے نہایت دور پڑا ہوا ہے لیکن میں ان خشک فلسفیوں کو جو عشق الٰہی اور اس کی بزرگ ذات کی قدر شناسی سے غافل ہیں جہاں تک مجھے طاقت عقلی دی گئی ہے بدلائلِ شافیہ راہ راست کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کیونکہ
ان کاتخم ؔ پایا جاتا ہے لیکن وہ تخم اس چھپی ہوئی آگ کی طرح ہے جو افروختہ آگ کا کام نہیں دے سکتی جیسے ظاہر ہے کہ انڈا مرغ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا اور نہ بیج درخت کا حکم رکھتا ہے اور اگرچہ ہریک زمین کے نیچے پانی ہے لیکن بجز بہت سی جان کنی اور محنت اور مدت تک زمین کھودنے کے وہ پانی نکل نہیں سکتا اسی طرح آتش شوق الٰہی جب تک اپنے کمال اشتعال کی حالت میں نہ آئے تب تک اس کے فوائد مترتب نہیں ہوسکتے لیکن جب وہ کامل طور پر افروختہ ہوجاتی ہے اور چاروں طرف سے بھڑک اٹھتی ہے تب وہ دخل شیطان سے محفوظ رکھنے کے لئے فرشتوں کا کام دیتی ہے اور ملائک حفاظت میں شمار کی جاتی ہے۔ پاک اعمال اور پاک حالتیں اور پاک وارداتیں اور پاک جوش اور پاک درد اور پاک حزن اور پاک اخلاقی ظہور جب اپنے اشتعال اور کمال کی حالت میں ہوں تو ان نیک اور ہوشیار چوکیداروں کی طرح ہیں جو اپنے مالک کے محل کے دروازوں پر چاروں طرف دن رات پہرہ کے لئے کھڑے رہتے ہیں سو ہر چند اس محل کے سارے دروازے کھلے ہیں (یعنی ہر ایک قسم کی قوتیں اور استعدادیں) مگر بباعث تقید محافظین بجز سرد ہوا اور محبوب چیزوں کے کوئی نابکار چیز اندر نہیں جاسکتی اور اگر کتا یا چور اندر جانے کا ارادہ کرتا ہے تو پکڑا جاتا ہے اور مار کھاتا ہے لیکن وہ محل جس کے دروازے تو کھلے ہیں مگر دروازوں پر کوئی نیک و ہوشیار چوکیدار نہیں گو اس میں ٹھنڈی ہوا اور اچھی اچھی چیزیں بھی داخل ہوتی ہیں مگر ایسے گھر کو اکثر چور لگے رہتے ہیں اور کتے اس کی چیزوں کو پلید کرتے رہتے ہیں۔ سو یہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 71
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 71
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/71/mode/1up
میںؔ دیکھتا ہوں کہ ان کی روحا نی زندگی بہت ہی کمزور ہوگئی ہے اور ان کی بے جا آزادی اور ضعفِ ایمان نے بہت ہی برا اثر ان کے ارادت باطنی اور ان کی دینی اولوالعزمی اور ان کی اندرونی حالت پر ڈالا ہے اور عجیب طور پر انہوں نے ضلالت کو صداقت کے ساتھ ملا دیا ہے مذہب وہ چیز ہے جس کی برکات کی اصل جڑھ ایمان و اعتبار و حسن
گھر ؔ خرابی کی حالت میں رہتا ہے پس جس جگہ صفوت و عصمت و تبتل و محبت کامل و تام وحزن و درد و شوق و خوف ہے اس جگہ انوار وحی کے کامل تجلیات بغیر آمیزش کسی نوع کی ظلمت کے وارد ہوتے رہتے ہیں اور آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے رہتے ہیں اور جس جگہ یہ مرتبہ کمالِ تام کا نہیں اس جگہ وحی بھی اس عالی مرتبہ سے متنزل ہوتی ہے۔ غرض وحی الٰہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا وصدق و صفا وتوکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلٰی و اصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہٗ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتم ہوکر صفات الٰہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو۔ سو یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف ایسے کمالات عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاعوں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہورہی ہے کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی سے اس میں درج نہ ہو۔ کوئی فکر ایسے برہان عقلی پیش نہیں کرسکتا جو پہلے ہی سے اس نے پیش نہ کی ہو۔ کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 72
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 72
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/72/mode/1up
اعتقاؔ د و حسن ظن و اطاعت و اتباع مخبر صادق و کلام الٰہی ہے لیکن وہ لوگ اپنے غلط فلسفہ کی و جہ سے مذہب کی حقیقت کچھ اور ہی سمجھ رہے ہیں سو انہیں لازم ہے کہ تعصب اور خود پسندی کے شور وغوغا سے اپنے تئیں الگ کرکے سیدھی نظر اور سیدھے خیال سے اس سوال پر غور کریں کہ ایمان کیا شے ہے اور اس پر
پر ؔ برکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے۔ وہ بلاشبہ صفات کمالیہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصفا آئینہ ہے جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارجِ عالیہ معرفت تک پہنچنے کے لئے درکار ہے۔
اور جیسا کہ ہم عنوان اس حاشیہ پر لکھ چکے ہیں معرفت حقانی کے عطا کرنے کے لئے تین دروازے قرآن شریف میں کھلے ہوئے ہیں ایک عقلی یعنے خدائے تعالیٰ کی ہستی اور خالقیت اور اس کی توحید اور قدرت اور رحم اور قیومی اور مجازات وغیرہ صفات کی شناخت کے لئے جہاں تک علوم عقلیہ کا تعلق ہے استدلالی طریق کو کامل طور پر استعمال کیا ہے اور اس استدلال کے ضمن میں صناعت منطق و علم بلاغت و فصاحت و علوم طبعی و طبابت و ہیئت و ہندسہ و دقائق فلسفیہ و طریق جدل و مناظرہ وغیرہ تمام علوم کو نہایت لطیف و موزوں طور پر بیان کیا ہے جس سے اکثر دقیق مسائل کا پیچ کھلتا ہے۔ پس یہ طرز بیان جو فوق العادت ہے ازقسم اعجاز عقلی ہے کیونکہ بڑے بڑے فیلسوف جنہوں نے منطق کو ایجاد کیا اور فلاسفی کے قواعد مرتب کئے اور بہت کچھ طبعی اور ہیئت میں کوشش مغززنی کی وہ بباعث نقصان عقل اپنے ان علوم سے اپنے دین کو مدد نہیں دے سکے اور نہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرسکے اور نہ اوروں کو فائدہ دینی پہنچا سکے بلکہ اکثر ان کے دہریہ اور ملحد اور ضعیف الایمان رہے اور جو بعض ان میں سے کسی قدر خدائے تعالیٰ پر ایمان لائے انہوں نے ضلالت کو صداقت کے ساتھ ملا کر اور خبیث کو طیب کے ساتھ مخلوط
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 73
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 73
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/73/mode/1up
ثوابؔ مترتب ہونے کی کیوں امید کی جاتی ہے سو جاننا چاہیئے کہ ایمان اس اقرار لسانی و تصدیق قلبی سے مراد ہے جو تبلیغ وپیغام کسی نبی کی نسبت محض تقویٰ اور دوراندیشی کے لحاظ سے صرف نیک ظنی کی بنیاد پر یعنے بعض وجوہ کو معتبر سمجھ کر اور اس طرف غلبہ اور رجحان پاکر بغیر انتظار کامل اور قطعی اور
کرؔ کے راہ راست کو چھوڑ دیا۔ پس یہ الٰہی عقل از قبیل خارق عادت ہے جس کے استدلال میں کوئی غلطی نہیں اور جس نے علوم مذکورہ سے ایک ایسی شائستہ خدمت لی ہے جو کبھی کسی انسان نے نہیں لی اور اس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ دلائل وجود باری عزاسمہٗ اور اس کی توحید و خالقیت وغیرہ صفات کمالیہ کے اثبات میں بیان قرآن شریف کا ایسا محیط و حاوی ہے جس سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان کوئی جدید برہان پیش کرسکے اگر کسی کو شک ہو تو وہ چند دلائل عقلی متعلق اثبات ہستی باری عزاسمہٗ یا اس کی توحید یا اس کی خالقیت یا کسی دوسری الٰہی صفت کے متعلق بطور امتحان پیش کرے تا بالمقابل قرآن شریف میں سے وہی دلائل یا ان سے بڑھ کر اس کو دکھلائے جائیں جس کے دکھلانے کے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں غرض یہ دعویٰ اور یہ تعریف قرآنی لاف و گذاف نہیں بلکہ حقیقت میں حق ہے اور کوئی شخص عقائد حقہ کے اثبات میں کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکتا جس کے پیش کرنے سے قرآن شریف غافل رہا ہو۔ قرآن شریف بآواز بلند بیسیوں جگہ اپنے احاطہ تامہ کا دعویٰ پیش کرتا ہے چنانچہ بعض آیات ان میں سے ہم اس حاشیہ میں درج بھی کرچکے ہیں سو اگر کوئی طالب حق آزمائش کا شائق ہو تو ہم اس کی تسلی کامل کرنے کے لئے مستعد اور تیار اور ذمہ وار ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ اس پرغفلت اور لاپروائی اور بے قدری کے زمانہ میں ایسے لوگ بہت ہی تھوڑے ہیں جو صدق دلی سے طالب حق ہوکر اس خاصیتِ عظمیٰ و معجزہ کبریٰ کی آزمائش چاہیں بلکہ وہ اسی میں اپنی سرخروئی سمجھ لیتے ہیں کہ بات کو
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 74
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 74
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/74/mode/1up
واشگاؔ ف ثبوت کے دلی انشراح سے قبولیت و تسلیم ظاہر کی جائے لیکن جب ایک خبر کی صحت پر وجوہ کاملہ قیاسیہ اور دلائل کافیہ عقلیہ مل جائیں تو اس بات کا نام ایقان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں علم الیقین بھی کہتے ہیں اور جب خدائے تعالیٰ خود اپنے خاص جذبہ اور موہبت سے خارق عادت
سنتےؔ ہی انکار کردیں لیکن ظاہر ہے کہ صرف اس بات کے کہنے سے کہ ہم نہیں مانتے یا ہم اس کو خلاف عقل یا خلاف قانون قدرت سمجھتے ہیں امر متنازعہ فیہ انفصال نہیں پاتا اور صداقت پسندوں کا یہ طریق ہرگز نہیں۔ ایک شخص کو ایک امر متنازعہ فیہ کے اثبات کے لئے میدان میں کھڑے دیکھ کر اور آواز پر آواز مارتے سن کر پھر اس کی طرف رخ نہ کریں اسے آزما کر نہ دیکھ لیں اور دور بیٹھے یونہی کہتے رہیں کہ اس کی یہ باتیں جھوٹ اور بے اصل ہیں کیا یہ شیوہ کسی واقعی راست باز کا ہوسکتا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ دوسرا دروازہ معرفت الٰہی کا جو قرآن شریف میں نہایت وسیع طور پر کھلا ہوا ہے دقائق علمیہ ہیں جس کو بوجہ خارق عادت ہونے کے علمی اعجاز کہنا چاہئے وہ علوم کئی قسم کے ہیں اول علم معارف دین یعنے جس قدر معارف عالیہ دین اور اس کی پاک صداقتیں ہیں اور جس قدر نکات و لطائف علم الٰہی ہیں جن کی اس دنیا میں تکمیل نفس کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی جس قدر نفس امارہ کی بیماریاں اور اس کے جذبات اور اس کی دوری یا دائمی آفات ہیں یا جو کچھ ان کا علاج اور اصلاح کی تدبیریں ہیں اور جس قدر تزکیہ و تصفیہ نفس کے طریق ہیں اور جس قدر اخلاق فاضلہ کے انتہائی ظہور کی علامات و خواص و لوازم ہیں یہ سب کچھ باستیفائے تام فرقان مجید میں بھرا ہوا ہے اور کوئی شخص ایسی صداقت یا ایسا نکتہ الٰہیہ یا ایسا طریق وصول الی اللہ یا کوئی ایسا نادر یا پاک طور مجاہدہ و پرستش الٰہی کا نکال نہیں سکتا جو اس پاک کلام میں درج نہ ہو۔ دوسرے علم خواص روح و علم نفس ہے جو ایسے احاطہ تام سے اس
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 75
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 75
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/75/mode/1up
کےؔ طور پر انوار ہدایت کھولے اور اپنے آلاء و نعماء سے آشنا کرے اور لدُنی طور پر عقل اور علم عطا فرماوے اور ساتھ اس کے ابواب کشف اور الہام بھی منکشف کرکے عجائبات الوہیت کا سیر کراوے اور اپنے محبوبانہ حسن و جمال پر اطلاع بخشے تو اس مرتبہ کا نام عرفان ہے جس کو دوسرے
کلام ؔ معجز نظام میں اندراج پایا ہے کہ جس سے غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بجز قادرِ مطلق کے یہ کسی کا کام نہیں۔ تیسرے علم مبدء و معاد و دیگر امور غیبیہ جو عالم الغیب کے کلام کا ایک لازمی خاصہ ہے جس سے دلوں کو تسلی و تشفی ملتی ہے اور غیب دانی خدائے قادر مطلق کی مشہودی طور پر ثابت و متحقق ہوتی ہے یہ علم اس تفصیل اور کثرت سے قرآن شریف میں پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی دوسری کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ پھر علاوہ اس کے قرآنِ شریف نے تائید دین میں اور اور علوم سے بھی اعجازی طور پر خدمت لی ہے اور منطق اور طبعی اور فلسفہ اور ہیئت اور علم نفس اور طبابت اور علم ہندسہ اور علم بلاغت وفصاحت وغیرہ علوم کے وسائل سے علم دین کا سمجھانا اور ذہن نشین کرنا یا اس کا تفہیم درجہ بدرجہ آسان کردینا یا اس پر کوئی برہان قائم کرنا یا اس سے کسی نادان کا اعتراض اٹھانا مدنظر رکھا ہے غرض طفیلی طور پر یہ سب علوم خدمت دین کے لئے بطور خارق عادت قرآن شریف میں اس عجیب طرز سے بھرے ہوئے ہیں جن سے ہریک درجہ کا ذہن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگرچہ دلی جوش اس عاجز کا اس بات کی طرف دامن دل کھینچ رہا ہے کہ ان سب علوم میں سے دو دو تین تین مسائل علمی جو قرآن شریف میں درج ہیں نمونہ کے طور پر اس جگہ لکھے جائیں اور کچھ براہین عقلیہ بھی جو اس پاک کلام میں اثبات اصول دین کے لئے اندراج پائے ہیں تحریر ہوں لیکن چونکہ یہ سب بیانات طوالت طلب ہیں اور رسالہ ہذا بوجہ قلیل الحجم ہونے کے ان کی برداشت نہیں کرسکتا اور کتاب براہین احمدیہ خود ان سب باتوں کی متکفل ہے اس لئے خوفِ اطناب سے ترک کردیا گیا۔ طالبین حق انشاء اللہ تعالیٰ براہین احمدیہ میں ان
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 76
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 76
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/76/mode/1up
لفظوؔ ں میں عین الیقین اور ہدایت اور بصیرت کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ اور جب ان تمام مراتب کی شدت اثر سے عارف کے دل میں ایک ایسی کیفیت حالی عشق اور محبت کے باِذنہ ٖ تعالیٰ پیدا ہوجائے کہ تمام وجود عارف کا اس کی لذت سے بھر جائے اور آسمانی انوار اس کے
سب ؔ مقاصد کو پالیں گے مگر اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگرچہ یہ علوم کسبی طور پر بھی لوگ حاصل کرتے ہیں لیکن ایک اُمی محض جو سخت تاریکی اور جہالت کے زمانہ میں ایک جنگلی ملک میں پیدا ہوا جس نے مکتب میں ایک حرف نہ پڑھا اور فلاسفہ سے کبھی مخالطت نہ ہوئی اور منطق اور طبعی اور ہیئت اور علم نفس وغیرہ کا اپنی پرجہالت ملک میں نام بھی نہ سنا اس سے یہ چشمۂ فیض کامل اور صحیح طور پر جوش مارنا ایسا کہ کوئی فلسفی اس پر سبقت نہ لے جاسکے بہ بداہت عقل خارق عادت ہے۔ جو شخص بالکل ان پڑھ ہوکر ایسے بے مثل طور پر حقائق عالیہ فلسفہ و طبعی و ہیئت و علم خواص روح و معارف دین بغیر کسی کے سکھائے اور پڑھائے کے بیان کرے تو اس کے معجزہ ہونے میں کسی دانا اور منصف مزاج کو تامل نہیں ہوسکتا۔ تیسرا دروازہ معرفت الٰہی کا جو قرآن شریف میں اللہ جل شانہٗ نے اپنی عنایت خاص سے کھول رکھا ہے برکات روحانیہ ہیں جس کو اعجاز تاثیری کہنا چاہئے۔ یہ بات کسی سمجھدار پر مخفی نہیں ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زادبوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشۂتنہائی میں پڑا رہا ہے۔ اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خوری اور قماربازی وغیرہ فسق کے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 77
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 77
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/77/mode/1up
دلؔ پر بکلی احاطہ کرکے ہریک ظلمت و قبض و تنگی کو درمیان سے اٹھاویں یہاں تک کہ بوجۂ کمال رابطہ عشق و محبت و بباعث انتہائی جوش صدق و صفا کی بلا اور مصیبت بھی محسوس اللذت و مدرک الحلاوت ہو تو اس درجہ کا نام اطمینان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں حق الیقین اور فلاح اور
طرؔ یقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا اور چوری اور قزاقی اور خون ریزی اور دختر کشی اور یتیموں کا مال کھا جانے اور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہریک طرح کی ُ بری حالت اور ہریک نوع کا اندھیرا اور ہرقسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہور ہ ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو اس سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر یہ امر بھی ہریک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا وہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہوگئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصوم ؐ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدل کردیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہوگئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں اپنے مالوں اپنے عزیزوں اپنی عزتوں اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہٗ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پُرآب ہوجاتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جو ان کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی وہ دو ہی باتیں تھیں ایک یہ کہ وہ نبی معصومؐ اپنی قوتِ قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور
نہ ہوگا۔ دوسری خدائے قادر مطلق حیّ قیوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 78
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 78
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/78/mode/1up
نجاتؔ سے بھی تعبیر کرتے ہیں مگر یہ سب مراتب ایمانی مرتبہ کے بعد ملتے ہیں اور اس پر مترتّب ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنے ایمان میں قوی ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ ان سب مراتب کو پالیتا ہے لیکن جو شخص ایمانی طریق کو اختیار نہیں کرتا اور ہریک صداقت کے قبول کرنے سے اوّل قطعی اور یقینی
تاثیرؔ یں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں بلاشبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی ۔کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی وید تو خود تہیدست ہے اور ایک شخص بھی ثابت نہیں ہوسکتا کہ جو کبھی اور کسی زمانہ میں بذریعہ تاثیرات وید کمالات باطنی تک پہنچا ہو اور اس قدر تو وید کے پیرو خود اقرار کرتے ہیں کہ صرف وید کے چار رشی کمال تک پہنچے ہیں وبس مگر چار کا کامل ہونا بھی بے ثبوت ہے سچ تو یہ ہے کہ وید کے ماننے والوں کوکبھی اس قدر بھی نصیب نہیں ہوا کہ خدائے تعالیٰ کو واحد لاشریک مان کر مبدء جمیع فیوض کا سمجھیں اور اسی کے کامل القدرت ہاتھ کو ہریک وجود کا موجد قرار دیں اور اس کے بھائی بند نہ بن بیٹھیں اگر کوئی شخص اس بات کو برا مانیں تو اسی کی گردن پر ہے کہ تاثیرات طیبہ وید کو ثابت کرکے دکھلا دے اور ان الزاموں کو اس کے سر پر سے اٹھادے۔ جن سے ہندوؤں کے پرمیشر کی کچھ بھی عزت باقی نہ رہی ہمیں وید سے کوئی بے وجہ عناد نہیں مگر ہم سچ سچ کہتے ہیں اور ہم اپنے خدائے قادر مطلق کو گواہ رکھ کر بیان کرتے ہیں کہ ہمارا اور کسی خدا ترس کا دلی انصاف اس بات کوہرگز قبول نہیں کرسکتا کہ جس کامل ذات کے برکت* وجود سے ذرہ ذرہ قائم ہے اور جو تمام دنیا کا مالک کہلاتا ہے اس کی بادشاہی صرف دوسروں کے سہارے سے چلی آتی ہے نہ اپنی قدرت خاصہ سے اور تمام روحیں اور اجسام یونہی اتفاق اور قسمت سے اس کو مل گئے ہیں نہ آپ پیدا کرنے سے اور اس کی خدائی اتفاقی ہے نہ حقیقی۔ اب وید سے مونہہ پھیر کر قرآن شریف کی طرف دیکھنا چاہئے کہ کیسی پاک تاثیریں رکھتا ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 79
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 79
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/79/mode/1up
اورؔ نہایت واشگاف ثبوت مانگتا ہے اس کی طبیعت کو اس راہ سے کچھ مناسبت نہیں اور وہ اس لائق ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اس قادر غنی بے نیاز کے فیوض حاصل کرے۔ عادت اللہ قدیم سے اسی طرح پر جاری ہے اور یہ اس فن علم الٰہی کا نہایت باریک نکتہ ہے جس پر سعادت مندوں کو
لاکھوؔ ں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الٰہی دل پر نازل ہوتی ہیں اور ایک عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہوجاتا ہے خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے مونہہ سے نکلتے ہی ایک قوی توکل ا ن کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الٰہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے اگر ان کے وجودوں کو ہاون مصائب میں پیسا جائے اور سخت شکنجوں میں دے کر نچوڑا جائے تو ان کا عرق بجز ُ حب الٰہی کے اور کچھ نہیں۔ دنیا ان سے ناواقف اور وہ دنیا سے دور تر و بلند تر ہیں۔ خدا کے معاملات ان سے خارق عادت ہیں انہیں پر ثابت ہوا ہے کہ خدا ہے۔ انہیں پر کھلا ہے کہ ایک ہے جب وہ دعا کرتے ہیں تو وہ ان کی سنتا ہے۔ جب وہ پکارتے ہیں تو وہ انہیں جواب دیتا ہے جب وہ پناہ چاہتے ہیں تو وہ ان کی طرف دوڑتا ہے وہ باپوں سے زیادہ ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی درودیوار پر برکتوں کی بارش برساتا ہے پس وہ اس کی ظاہری و باطنی و روحانی و جسمانی تائیدوں سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ ہریک میدان میں ان کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے اور وہ ان کا ہے۔ یہ باتیں بلا ثبوت نہیں اور ہم عنقریب رسالہ سراج منیر میں انشاء اللہ القدیر ایک کھلا کھلا ثبوت اس کا دکھلائیں گے۔ لیکن ہم اس جگہ یہ ظاہر کرنا چاہئے۱؂ کہ کسی دوسرے دین میں یہ برکتیں ہرگز نہیں۔ وید نے اگر آریوں کے دلوں پر کچھ اثر ڈالا ہے تو وہ صرف گالیاں اور دشنام دہی ہے تمام مقدسوں کو فریبی کہنا سب پاک
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 80
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 80
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/80/mode/1up
غور ؔ کرنی چاہئے کہ ہمیشہ ثواب اور فیضان سماوی ایمان پر ہی مترتّب ہوتا ہے۔ اس راہ کا سچا فلسفہ یہی ہے کہ انسان دین قبول کرنے کی ابتدائی حالت میں اس بے نیاز مطلق اور اس کی قدرت اور اس کے وعد وو عید اور اس کے اخبار و اسرار کے ماننے میں لنبے لنبے انکاروں سے مجتنب رہے کیونکہ ایمانی صورت کے قائم رکھنے کے لئے (جس پر تمام ثواب وابستہ ہے) ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ امور ایمانیہ کو ایسا منکشف نہ کرتا کہ وہ دوسرے بدیہات کی طرح ہریک عام اور خاص کی نظر میں مسلّم الوجود ہوجاتی۔ یہ تو سچ ہے کہ انسان مکلف بوجہ عقل ہے نامعقول باتوں کو مان نہیں سکتا اور نہ در حالت انکار قابل الزام ٹھہرتا ہے لیکن خدا تمہیں ہدایت کرے تم خوب سوچ لو کہ خدائے تعالیٰ بھی کسی نامعقول بات پر (جو عندالعقل اس کی قدرت اور طاقت سے بعید ہے) ایمان لانے کے لئے تمہیں مجبور نہیں کرتا۔ اور ہمارے کسی لفظ سے یہ نہیں نکلتا کہ تم کسی ایسی بات پر ایمان لاؤ جو فی الحقیقت دوربین نظروں میں نامعقول ہے بلکہ ہماری تقریر کا مدعا اور لب لباب یہ ہے کہ ایمانی امور ایسے ہونے چاہئے کہ جو من وجہ ظاہر اور من وجہ مخفی ہوں اور امکانی طور پر عقل ان کا وجود باور تو کرسکے۔ مگر دوسرے مشہودات
نبیوؔ ں کا نام مکار رکھنا دنیا کے برگزیدوں کو بجز اپنے تین یا چار وید کے رشیوں نامعلوم الوجود کو جھوٹا اور دغاباز اور ٹھگ قرار دینا انہیں لوگوں کا کام ہے کیا ان لوگوں کے مونہہ سے بجز بدظنیوں اور بدزبانیوں کے کبھی کچھ معارف الٰہی کے نکات بھی نکلے ہیں۔ کیا بجز گندی باتوں اور نابکار خیالات یا تحقیر اور توہین اور ٹھٹھے اور ہنسی اور پرشرارت اور بدبودار لفظوں کے کبھی کوئی دقیق بھید معرفت الٰہی کا بھی ان کی زبان سے سنا گیا ہے۔ کیا ان برتنوں سے کبھی کوئی صفا دلی کا قطرہ بھی مترشح ہوا ہے یا انہوں نے باطنی پاکیزگی میں کچھ ترقی کی ہے ہرگز نہیں سو جو کچھ ویدؔ کا اثر ہے سو ظاہر ہے حاجت بیان نہیں۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 81
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 81
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/81/mode/1up
ومرؔ ئیات بدیہہ کی طرح ہاتھ پکڑ کر دکھلا نہ سکے یعنے انسان اور گدھے وغیرہ محسوس چیزوں کی طرح ان کا وجود نہ ہو جن کو ٹٹول کر معلوم کرسکیں یا بچشم خود دیکھ سکیں یا دکھا سکیں یا اشکال ہندسی اور اعمال حسابی کی طرح ایسے منکشف نہ ہوں جن میں دس دس برس کے بچے بھی اختلاف نہ کرسکیں۔ غرض وہ کیفیت ان میں محفوظ ہو جو ایمان کا مفہوم قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اور پھر باایں ہمہ بالغ نظروں اور حقیقت شناسوں کی نگاہوں میں نامعقول اور بعیداز عقل بھی نہ ہوں۔
نہ چنداں بخور کز دہائت براید
نہ چنداں کہ از ضعف جانت براید
اب خلاصہ و ماحصل اس تقریر کا یہ ہے کہ کسی مذہب کے قبول کرنے سے غرض یہ ہے کہ وہ طریق اختیار کیا جائے جس سے خدائے غنی مطلق جو مخلوق اور مخلوق کی عبادت سے بکلی بے نیاز ہے راضی ہوجائے اور اس کے فیوض رحمت اترنے شروع ہوجائیں جن سے اندرونی آلائشیں دور ہوکر صحن سینہ یقین اور معرفت سے پرہوجائے سو یہ تدبیر اپنی فکر سے پیدا کرنا انسان کا کام نہیں تھا۔ اس لئے اللہ جل شانہ نے اپنے وجود اور اپنے عجائبات قدرت خالقیت یعنے ارواح و اجسام و ملائک و دوزخ و بہشت و بعث و حشر و رسالت و دیگر تمام اسرار مبدء و معاد کو یکساں طور پر پردہ غیب میں رکھ کر اور کچھ کچھ قیاسی یا امکانی طور پر عقل کو اس کوچہ میں گزر بھی دے کر غرض کچھ دکھلا کر اور کچھ چھپا کر بندوں کو ان سب باتوں پر ایمان لانے کے لئے مامور کیا اور یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ جب بندہ باوجود کش مکش مخالفانہ خیالات کے خدائے تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لائے گا اور سب عجائبات اخروی و وجود دوزخ و بہشت و ملائک وغیرہ کو اس کی قدرت میں سمجھ کر دیکھنے سے پہلے ہی قبول کرلے گا تو یہ قبول کرنا اس کے حق میں صدق شمار کیا جائے گا کیونکہ ہنوز یہ چیزیں در پردہ غیب ہیں اور مرئی اور مشہود طور پر نمایاں اور ظاہر نہیں ہیں سو یہ صدق خدائے تعالیٰ کی توجہ رحمت کے لئے ایک موجب ہوجائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ بوجہ اپنی استغنا ذاتی کے انہیں لوگوں پر توجہ رحمت کرتا ہے جن کا صدق ظاہر ہوتا ہے۔ یوں تو انسان کی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 82
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 82
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/82/mode/1up
فطرؔ تی عادت ہے کہ جو چیز کھلے کھلے طور پر مضر یا مفید ہو اس سے بہ نفرت بھاگتا یا اس کے لینے کو بصد رغبت دوڑتا ہے یعنی جیسی صورت ہو لیکن وہ اپنی اس عادت سے کسی ثواب کا مستحق نہیں ٹھہرسکتا اگر کوئی شخص بجلی سے ڈر کر اپنے کوٹھے میں چھپ جائے یا شیر سے خوف کھاکر اپنے شہر کی طرف بھاگے تو وہ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ اے بجلی یا شیر میں نے تم سے خوف کیا تم مجھ سے راضی ہوجاؤ۔ سو ظاہر ہے کہ جو ڈرنا یا امید کرنا ضروری طور پر لازم آتا ہے وہ کسی تحسین یا آفرین کا موجب نہیں ٹھہرسکتا۔ اسی وجہ سے لازم ہے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ اور اس کے عجائبات آخر کو مان کر رضامندی الٰہی کا خواہشمند ہے وہ ان سب چیزوں کے ماننے میں بے جا اڑوں سے پرہیز کرے اور جہاں تک ممکن ہو مطالبہ دلائل میں نرمی اختیار کرکے فقط اتنا کرے کہ ایک راہ کو دوسری راہوں پر ترجیح دیکھ لے اور ایسے یقینی ثبوت کے لئے کہ جیسے چار کانصف دو ہے اپنی نابالغ عقل کو آوارہ اور سرگرداں نہ ہونے دے بلکہ تمام تر سعادت تو اس میں ہے کہ غیب ہی کی صورت میں قبول کرے اور ظاہری حواس کی خواہ نخواہ شہادت طلب کرنے سے اور فلسفہ کے طول طویل اور لاطائل جھگڑوں سے حتی الوسع اپنے تئیں بچاوے کیونکہ اگر خدا کو دیکھ کر ہی یا انتہائی تحقیقات سے ہی قبول کرنا ہے اور جزا سزا کو تجربہ کرکے ہی ماننا ہے تو پھر ایسے ماننے میں کون سی خاص فضیلت یا صدق پایا جاتا ہے اس طرح پر کون ہے جو قبول نہیں کرتا۔ دنیا میں ایسی طبیعت کا کوئی بھی آدمی نہیں کہ اگر اس کو پورا پورا ثبوت خدا کی ہستی یا عالم مجازات یا عجائبات قدرت کامل جائے تو پھر وہ منکر ہی رہے مثلاً اگر خدائے تعالیٰ ہریک انسان کو نظر آجائے اور سب کو اپنی خدائی قدرتیں دکھلا دے یا اگر مثلاً ایسا ہو کہ دس بیس ہزار آدمی ہریک قوم اور ہریک ملک کی قبروں سے اٹھ کر اپنی اپنی قوم اور قبیلہ میں آجائیں اور اپنے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو خدا اور اس کی سزا وجزا کی ساری حقیقت سنادیں تو پھر ممکن نہیں کہ پھر بھی کوئی شخص کافر اور بے دین رہ جائے۔ اب اس جگہ بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس حالت میں خدائے تعالیٰ ان باتوں کے کرنے پر قادر تھا اور اس پختہ ثبوت سے کفر اور بے دینی کی جڑھ کاٹی جاتی تھی تھے تو پھر اس نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ بلاشبہ اگر وہ ایسا کرتا تو پھر حق اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 83
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 83
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/83/mode/1up
باطل کا بکمال صفائی فیصلہ ہوجاتا اور فلسفہ کی نکمی اور بودی اور ظنی اور وہمی دلائل کی کچھ حاجت نہ رہتی تو اس کا جواب یہی ہے کہ جو اوپر گزر چکا یعنے بے شبہ خدائے تعالیٰ ایسا کرسکتا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسا جلوۂ دیدار دکھا سکتا تھا کہ ایک ہی تجلی سے سب گردنیں جھک جاتیں اور ایک ہی دفعہ تمام دنیا کی دینی نزاعوں کا تصفیہ ہوجاتا لیکن ایسا کرنے میں وہ بات جس سے ثواب ملتا ہے اور صادقوں کو مراتب عالیہ اور قرب اور وجاہت عطا کی جاتی ہے وہ باقی نہ رہتی یعنی ایمان بالغیب جس کی وجہ سے درجات اخروی ملتے ہیں وہ اپنی صورت میں محفوظ نہ رہتا۔ سو یہ بڑے بھاری درجہ کی صداقت ہے جو سوال مذکورہ بالا پر غور کرنے سے ہر یک اعلیٰ و ادنیٰ کو سمجھ آسکتی ہے۔ غرض ایمان پر ثواب اور اجر ملنے کا یہی بھید ہے کہ جن چیزوں پر ایمان لایا جاتا ہے وہ اگرچہ غور اور نظر کرنے سے صحیح اور راست ہیں۔ لیکن ان کا ثبوت ایسا کھلا کھلا ثبوت نہیں ہے جیسے اور مشہودات اور محسوسات کا ہوا کرتا ہے بلکہ ایمان بالغیب کی حد میں ہیں سو صادق آدمی جب خدا اور اس کی سزا وجزا وغیرہ امور غیبیہ پر ایمان لاتا ہے تو اس ایمان میں بوجہ انواع اقسام کے اوہام اور نفس امارہ کی چار طرفہ کشاکش کی سخت آزمائش میں پڑتا ہے۔ آخر چونکہ وہ صادق ہوتا ہے اس لئے سب راہیں چھوڑ کر اور سب خیالات پر غالب آکر اسی رب رحیم کی راہ اختیار کرلیتا ہے اور اس صدق کی برکت سے کہ وہ اپنے علم سے زیادہ رجوع اور اپنی واقفیت سے زیادہ وفا اور اپنے تجربہ سے زیادہ استحکام اختیار کرتا ہے۔ جناب الٰہی میں قبول کیا جاتا ہے۔ اور پھر اسی صدق و صفا کی برکت سے عرفانی آنکھیں اس کو عنایت ہوتی ہیں اور ربانی لذت اور محبت اس کو عطا کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس مرتبہ تک جا پہنچتا ہے جہاں تک انسانی کمالات ختم ہوجاتے ہیں مگر یہ سب کچھ کامل طور پر پیچھے سے ملتا ہے پہلے نہیں۔ یہ تو معرفت صحیحہ تک پہنچنے کے لئے سنت اللہ یا یوں کہو کہ قانون قدرت ہے لیکن اس زمانہ کے خشک فلسفیوں نے اس صداقت پر ایک ذرّہ اطلاع نہیں پائی* اور وہ بالکل اس بات سے بے خبر ہیں کہ کیونکر انسان
* حاشیہ جاننا ؔ چاہئے کہ خدائے تعالیٰ اور عالم مجازات اور دیگر امور مبدء اور معاد کے ماننے میں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 84
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 84
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/84/mode/1up
ایمانؔ کے محکم اور استوار زینہ سے عرفان کے بلند مینار تک پہنچتا ہے اور اسی بے خبری کی وجہ سے ان میں اپنے قدم اول میں ہی تعجیل اور جلدی بھری ہوئی ہے اور نہایت شتاب کاری سے علم دین کو ایک ادنیٰ سا کام اور ایک ناکارہ ہنر سمجھ کریہ ارادہ کررہے ہیں کہ مذہب کے تمام اصول و فروع کو اپنی ابتدائی حالت میں ہی بغیر انتظار دوسرے حالات مترقّبۂ کمالات فطرت کے اس طرح پر دریافت کرلیں جیسے کوئی ہندسہ یا حساب کا مسئلہ دریافت کیا جاتا ہے اور اگر کوئی دقیقۂ دینی اس حد کے انکشاف تک نہ پہنچ سکے تو اس کی نسبت صاف حکم صادر کردیں کہ یہ سراسر باطل اور پیرایہ صداقت سے خالی ہے مگر جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں یہ ایمانی حکمت کا طریق نہیں ہے۔
فلسفیوؔ ں کا طریقہ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ سے بہت مختلف ہے نبیوں کے طریق کا اصلِ اعظم یہ ہے کہ ایمان کا ثواب تب مترتب اور بارور ہوگا کہ جب غیب کی باتوں کو غیب ہی کی صورت میں قبول کیا جائے اور ظاہری حواس کی کھلی کھلی شہادتیں یا دلائل ہندسیہ کے یقینی اور قطعی ثبوت طلب نہ کئے جائیں کیونکہ تمام و کمال مدار ثواب اور استحقاقِ قرب وتوصل الٰہی کا تقویٰ پر ہے اور تقویٰ کی حقیقت وہی شخص اپنے اندر رکھتا ہے جو افراط آمیز تفتیشوں اور لمبے چوڑے انکاروں اور ہرہر جزئی کی موشگافی سے اپنے تئیں بچاتا ہے اور صرف دور اندیشی کے طور سے ایک راہ کی سچائی کا دوسری راہوں پر غلبہ اور رحجان دیکھ کر بحسن ظن قبول کرلیتا ہے۔ اسی بات کا نام ایمان ہے اور اسی ایمان پر فیوض الٰہی کا دروازہ کھلتا ہے اور دنیا و آخرت میں سعادتیں حاصل ہوتی ہیں جب کوئی نیک بندہ ایمان پر محکم قدم مارتا ہے اور پھر دعا اور نماز اور فکر اور نظر سے اپنی حالت علمی میں ترقی چاہتا ہے تو خدائے تعالیٰ خود اس کا متولی ہوکر اور آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر درجہ ایمان سے درجۂ عین الیقین تک اس کو پہنچا دیتا ہے۔ مگر یہ سب کچھ بعد استقامت و مجاہدات و
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 85
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 85
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/85/mode/1up
بلکہؔ انسانی ظلمت یا شیطانی رعونت کی ایک تاریکی ہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا اور مذہب کے تمام اجزاء اور جو کچھ اس میں بھرا ہوا ہے پہلے ہی سے اظہر من الشمس اور بدیہی اور بیّن الانکشاف ہوتے یا اشکال ہندسی اور حساب کے اعمال کی طرح قطعی الثبوت دکھائی دیتے تو پھر اس حالت میں ایمان ایمان نہ رہتا اور جو ایمان لانے پر ثواب اور سعادتیں اور برکتیں مترتب ہوتی ہیں ان کو انسان ہرگز نہ پاسکتا کیونکہ ظاہر ہے کہ بیّن الحقیقت اور ظاہر الوجود باتوں کو مان لینا ایمان نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں اس بات پر ایمان لایا کہ پانی سرد اور آگ گرم ہے اور ہر ایک انسان آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا اور مونہہ سے کھاتا اور پاؤں سے چلتا ہے اور میں اس
ریاؔ ضات و تزکیہ و تصفیہ نفس ملتا ہے پہلے نہیں اور جو شخص پہلے ہی تمام جزئیات کی بکلی صفائی کرنا چاہتا ہے اور قبل از صفائی اپنے بدعقائد اور بداعمال کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا وہ اس ثواب اور اس راہ کے پانے سے محروم ہے کیونکہ ایمان اسی حد تک ایمان ہے جب تک وہ امور جن کو مانا گیا ہے کسی قدر پردۂ غیب میں ہیں یعنی ایسی حالت پر واقعہ ہیں جو ابھی تک عقلی ثبوت نے ان پر احاطہ تام نہیں کیا اور نہ کسی کشفی طور پر وہ نظر آئی بلکہ ان کا ثبوت صرف غلبۂ ظن تک پہنچا ہے وبس۔
یہ تو انبیا کا سچا فلسفہ ہے جس پر قدم مارنے سے کروڑہا بندگان خدا آسمانی برکتیں پاچکے ہیں اور جس پر ٹھیک ٹھیک چلنے سے بے شمار خلق اللہ معرفت تامہ کے درجہ تک پہنچ چکی ہیں اور ہمیشہ پہنچتی ہیں اور جن اعلیٰ درجہ کے تعینیوں کو شوخی اور جلدی سے فلسفی لوگوں نے ڈھونڈہا اور نہ پایا وہ سب مراتب ان ایماندار بندوں کو بڑی آسانی سے مل گئے اور اس سے بھی بڑھ کر اس میں معرفت تامہ کے درجہ تک پہنچ گئے کہ جو کسی فلسفی کے کانوں نے اس کو نہیں سنا۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 86
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 86
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/86/mode/1up
باتؔ پر ایمان لایا کہ آفتاب اور قمر موجود ہیں اور زمین پر بہت سے جمادات اور نباتات اور حیوانات پائے جاتے ہیں تو ایسا ایمان لانا ایک ہنسی کی بات ہے نہ کہ ایمان اور اسی وجہ سے بدیہی اور کھلی کھلی باتوں کو ماننا عنداللہ و عندالعقلاء ثواب پانے کا موجب نہیں ٹھہرسکتا بلکہ ایمان وہ شے ہے کہ جن باتوں کو عقل قبو ل تو کرتی ہے مگر بوجہ در پردہ غیب ہونے کے جیسا کہ چاہئے ان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی ان باتوں میں اپنی فراست فطرتی سے کچھ ترجیح یعنے آثارِ صداقت دیکھ کر اور کسی قدر دلائل عقلیہ کا غلبہ اس طرف پاکر اور پھر خدا کے کلام کو اس پر شاہد ناطق و صادق معلوم کرکے ان باتوں کو مان لیا جائے یہی ایمان ہے جو ذریعہ خوشنودی خداوند کریم
اورؔ نہ اس کی آنکھ نے دیکھا اور نہ کبھی اس کے دل میں گزرا۔ لیکن اس کے مقابلہ پر خشک فلاسفروں کا جھوٹا اور مغشوش فلسفہ جس پر آج کل کے نو تعلیم یافتہ لوگ فریفتہ ہورہے ہیں اور جس کے بدنتائج کی بے خبری نے بہت سے سادہ لوحوں کو برباد کردیا ہے۔ یہ ہے کہ جب تک کسی اصل یا فرع کا قطعی طور پر فیصلہ نہ ہوجائے اور بکلی اس کا انکشاف نہ ہوجائے تب تک اس کو ہرگز ماننا نہیں چاہئے گو خدا ہو یا کوئی اور چیز ہو ۔ان میں سے اعلیٰ درجہ کے اور کامل فلاسفر جنہوں نے ان اصولوں کی سخت پابندی اختیار کی تھی انہوں نے اپنا نام محققین رکھا جن کا دوسرا نام دہریہ بھی ہے۔ ان کامل فلاسفروں کا بہ پابندی اپنے اصول قدیمہ کے یہ مذہب رہا ہے کہ چونکہ خدائے تعالیٰ کا وجود قطعی طور پر بذریعہعقل ثابت نہیں ہوسکتا اور نہ ہم نے اس کو بچشم خود دیکھا اس لئے ایسے خدا کا ماننا ایک امر مظنون اور مشتبہ کا مان لینا ہے جو اصول متقررہ فلسفہ سے بکلی بعید ہے سو انہوں نے پہلے ہی خدائے تعالیٰ کو درمیان سے اڑایا۔ پھر فرشتوں کا یوں فیصلہ کیا کہ یہ بھی خدائے تعالیٰ کی طرح نظر نہیں آتے چلو یہ بھی درمیان سے اٹھاؤ۔ پھر روحوں کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ رائے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 87
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 87
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/87/mode/1up
جلّؔ شَانہٗ ہوجاتا ہے اور بعد اس کے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں مرتبہ ایقان ہے اور پھر اس کے بعد مرتبہ عرفان کا ہے یعنے جبکہ بندہ ایسی باتوں کو مان لیتا ہے جن کو اس کی عقل امکان یا جواز یا وجوب کی صورت میں قبول توکرلیتی ہے مگر انکشاف کلّی کے طور پر ان پر احاطہ نہیں کرسکتے تو خدائے تعالیٰ کی نظر میں وہ شخص صادق ٹھہر جاتا ہے اور حضرت خداوند کریم عزّ اسمہٗ بہ برکت اس ایمان کے عرفان کا مرتبہ اس کو عطا کردیتا ہے یعنی اپنی طرف سے علم و معرفت و سکینت اس پر نازل کرتا ہے اور کشفی اور الہامی نوروں سے وہ بقیّہ ظلمت بھی اٹھا دیتا ہے جس کے اٹھانے سے عقل دود آمیز عاجز رہ گئی تھی اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے جیسے انسان کی فطرت میں مبادی امور کے کسی قدر سمجھنے
ظاہرؔ کی کہ ہم کوئی ثبوت قابل اطمینان اس بات پر نہیں دیکھتے کہ بعد مرنے کے روح باقی رہ جاتی ہے نہ کوئی روح نظر آتی ہے اور نہ واپس آکر کچھ اپنا قصہ سناتی ہے بلکہ سب روحیں مفارقت بدن کے بعد خدا اور فرشتوں کی طرح بے اثر و بے نشان ہیں سو ان کا بھی وجود ماننا خلاف دلیل و برہان ہے۔ ان سب فیصلوں کے بعد ان کی نظر عمیق نے تکالیف شرعیہ کی مشقت اور حلال حرام کا فرق اصول فلسفہ کا سخت مخالف سمجھا۔ اس لئے انہوں نے صاف صاف اپنی رائے ظاہر کردی کہ ماں اور بہن اور جورو میں فرق کرنا یا اور چیزوں میں سے بلاثبوت ضرر طبی بعض چیزوں کو حرام سمجھ لینا یہ سب بناوٹی باتیں ہیں جن پر کوئی فلسفی دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ ننگا رہنے میں کوئی شناعت عقلی ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس میں طبی قواعد کے رو سے فوائد ہیں۔ اسی طرح ان فلاسفروں کے اور بھی مسائل ہیں۔ اور خلاصہ ان کے مذہب کا یہی ہے کہ وہ بجز دلائل قطعیہ عقلیہ کے کسی چیز کو نہیں مانتے اور ان کی فلسفیانہ نگاہ میں گو کیسی کوئی بدعملی ہو جب تک براہین قطعیہ فلسفیہ سے اس کا بدہونا ثابت نہ ہولے یعنے جب تک اس میں کوئی طبی ضرر یا دنیوی بدانتظامی متصور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 88
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 88
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/88/mode/1up
کے ؔ لئے ایک عقلی قوت رکھی ہے اسی طرح انسان میں کشف اور الہام کے پانے کی بھی ایک قوت مخفی ہے جب عقلِ انسانی اپنی حدِّ مقررہ تک چل کر آگے قدم رکھنے سے رہ جاتی ہے تو اس جگہ خدائے تعالیٰ اپنے صادق اور وفادار بندوں کو کمال عرفان اور یقین تک پہنچانے کی غرض سے الہام اور کشف سے دستگیری فرماتا ہے اور جو منزلیں بذریعہ عقل طے کرنے سے رہ گئی تھیں اب وہ بذریعہ کشف اور الہام طے ہوجاتی ہیں اور سالکین مرتبہ عین الیقین بلکہ حقّ الیقین تک پہنچ جاتے ہیں یہی سنت اللہ اور عادت اللہ ہے جس کی رہنمائی کے لئے تمام پاک نبی دنیا میں آئے ہیں اور جس پر چلنے کے بغیر کوئی شخص سچی اور کامل معرفت تک نہیں پہنچا مگر کم بخت خشک فلسفی کو کچھ ایسی جلدی ہوتی ہے کہ وہ یہیؔ
نہ ؔ ہو تب تک اس کا ترک کرنا بے جا ہے مگر جو دوسرے درجہ کے فلاسفر ہیں انہوں نے لوگوں کے لعن طعن سے اندیشہ کرکے اپنے فلاسفری اصولوں کو کچھ نرم کردیا ہے اور قوم کے خوف اور ہم جنسوں کی شرم سے خدا اور عالم جزا اور دوسری کئی باتوں کو ظنی طور پر تسلیم کر بیٹھے ہیں لیکن یہ اعلیٰ درجہ کے فلاسفر ان کو سخت نالائق اور بدفہم اور غبی الطبع اور بزدل اور اپنی سوسائیٹی کے بدنام کنندہ خیال کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے فلاسفر ہونے کا دعویٰ تو کیا لیکن اصول فلسفہ پر جیسا کہ حق چلنے کا تھا نہیں چلے۔ اس لئے اول درجہ کے فلاسفر اس بات سے عار رکھتے ہیں کہ ان ناقصوں کو فلاسفر کے باعزت لفظ سے مخاطب یا موسوم کیا جائے کیونکہ انہوں نے کچھ کچھ تو فلسفہ کے طریقہ پر قدم مارا اور کچھ عام لوگوں کی ملامت *** سے ڈر کر نبیوں کے عقائد میں بھی (جو فلسفیوں کے منشاء کے موافق قطعی اور یقینی دلائل سے ثابت نہیں ہوسکتے) ٹانگ اڑادی اس لئے یہ لوگ ان کی نظر میں نیم حکیم ہیں حقیقی فلاسفر نہیں ہاں ممکن بلکہ قرین قیاس ہے اور امید کی جاتی ہے کہ جیسے جیسے ایک سخت جوش قطعی اور یقینی اور نہایت واشگاف ثبوت عقلی طلب کرنے کا انکے مستعد اور ہونہار لوگوں کے دلوں میں آتا جائے گا۔ ویسی ویسی وہ کسریں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 89
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 89
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/89/mode/1up
چاہتاہے کہ جو کچھ کھلنا ہے وہ عقلی مرتبہ پر ہی کھل جائے اور نہیں جانتا کہ عقل انسانی اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور نہ طاقت سے آگے قدم رکھ سکتی ہے اور نہ اس بات کی طرف فکر دوڑاتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کو اس کے کمالات مطلوبہ تک پہنچانے کے لئے صرف جوہرِ عقل ہی عطا نہیں کیا بلکہ کشف اور الہام پانے کی قوّت بھی اس کی فطرت میں رکھی ہے سو جو کچھ خدائے تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے وسائل خداشناسی انسان کی سرشت کو عطا کئے ہیں۔ ان وسائل میں سے صرف ایک ابتدائی اور ادنیٰ درجہ کے وسیلہ کو استعمال میں لانا اور باقی وسائل خداشناسی سے بکلّی بے خبر رہنا بڑی بھاری بدنصیبی ہے اور ان قوتوں کو ہمیشہ بیکار رکھ کر ضائع کردینا اور ان سے فائدہ نہ اٹھانا پرلے درجہ کی بے سمجھی ہے سو ایسا شخص سچا فلسفی ہرگز نہیں ہوسکتا کہ جو کشف اور الہام پانے کی قوت کو معطل اور بیکار چھوڑتا ہے بلکہ اس سے انکار کرتا ہے حالانکہ ہزاروں مقدسوں کی شہادت سے کشف اور الہام کا پایا جانا بہ پایہ ثبوت پہنچ چکا ہے اور تمام سچے عارف اسی طریق سے معرفت کاملہ تک
جوؔ باقی رہ گئے ہیں ان کے خیالات سے وہ سب نکل جائیں گے اور عقائد اور اعمال میں پوری پوری مطابقت اپنے بڑے بھائیوں سے کرلیں گے تب وہ شیطانی اور ظلمانی دو کالے پانی دنیا کے برباد کرنے کے لئے ایک ہی ہوکر بہیں گے اور اگر آئندہ ذرّیت میں فلسفہ نے ترقی کی تو وہ بجائے اس کے کہ حال کے فلسفیوں کی طرح یہ سوال کریں کہ اگر ملائک یا شیاطین کچھ چیز ہیں تو ہمیں دکھلاؤ یہ اعلیٰ درجہ کے سوالات کریں گے کہ اگرخدا اور اس کی قدرتیں کچھ چیز ہیں تو ہمیں ظاہر ظاہر بلاواسطہ اسباب دکھاؤ اور اگر روحیں بعد مفارقت بدن باقی رہ جاتی ہیں اور ان کا وجود بھی کچھ چیز ہے تو وہ بھی ہمیں دکھلاؤ غرض جیسے جیسے ان نوآموزوں کے فلسفہ میں صیقل ہوتا جائے گا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ سوال ان کے دلوں میں پیدا ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ اول درجہ کے فلاسفروں سے ہاتھ جا ملائیں گے۔ ابھی تو حال کچا اور خیال بھی کچا ہے۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 90
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 90
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/90/mode/1up
پہنچےؔ ہیں۔ آریہ مت والے جن کا دھرم دلی روشنی سے علاقہ نہیں رکھتا وہ کشف اور ایسے الہام سے تو قطعاً منکر ہیں جو امور غیبیہ اور خوارق اعجازیہ پر مشتمل ہو بقول ان کے وید پیشگوئیوں سے بکلّی خالی اور قدرتی نشانوں سے بکلّی تہیدست ہے مگر باایں ہمہ پھر بھی الہاؔ می کتاب ویدؔ ہی کو مانتے ہیں۔ غرض جیسا کہ خدائے تعالیٰ کا کلام اس کی صفات کمالیہ کا آئینہ ہونا چاہئے یہ انوار الٰہی وید میں ثابت نہیں کرسکتے بلکہ اپنے ہی مونہہ سے اقرار کرتے ہیں کہ ان کا وید اؔ خبارِ غیب اور اسرارِ قدرت سے بکلّی عاری اور عاجز ہے لیکن ان سب خرابیوں کے ساتھ اس بات پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ الہام الٰہی وید ہی پر ختم ہے وہ ہمیشہ کے کشف اور الہامؔ سے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف چار آدمیوں کو جن پر وید اترا یہ قوت الہامی بوجہ ان کے نیک اعمال کے قدرت نے عطا کی تھی مگر بعد ان کے کسی کو نہیں ملی گویا وہ چار آدمی ایک انوکھی پیدائش کے تھے جن سے باقی جمیع بنی آدم کو ان کی فطرت یا عمل کےُ رو سے کچھ مناسبت نہیں سو یہ قوم روحانی اندھا ہونے پر راضی ہے ہاں آج کل عقل عقل تو پکارتے ہیں اور قانون قدرت بھی کسی کے مونہہ سے سن لیا ہے تب ہی تو لالہ مرلیدھر صاحب نے اعتراض کیا ہے کہ شقّ القمر قانون قدرت کے برخلاف ہے مگر ہمیں لالہ صاحب موصوف کے اس تقلیدی اعتراض پر نظر کرکے بڑا ہی افسوس آتا ہے کاش انہوں نے کہیں سے یہ بھی سنا ہوتا کہ خدائے تعالیٰ کی خدائی اور الوہیّت اس کی قدرت غیر محدودہ اور اسرار نامعدودہ سے وابستہ ہے جس کو قانون کے طور پر کسی حد کے اندر گھیرلینا انسان کا کام نہیں ہے خداشناسی کے لئے یہ بڑا بھاری بنیادی مسئلہ ہے کہ خدائے ذوالجلال کی قدرتیں اور حکمتیں بے انتہا ہیں اس مسئلہ کی حقیقت سمجھنے اور اس پر عمیق غور کرنے سے سب الجھاؤ اور پیچ خیالات کا رفع ہوجاتا ہے اور سیدھا راہ حق شناسی اور حق پرستی کا نظر آنے لگتا ہے۔ ہم اس جگہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ خدائے تعالیٰ ہمیشہ اپنی ازلی ابدی صفات کے موافق کام کرتا ہے اور اگر ہم دوسرے لفظوں میں انہیں ازلی ابدی صفات پر چلنے کا نام قانون الٰہی رکھیں تو بے جا نہیں مگر ہمارا کلام اور بحث اس میں ہے کہ وہ آثار صفات ازلی ابدی یا یوں کہو کہ وہ قانون قدیم الٰہی محدود یا معدود کیوں مانا جائے ہاں بے شک یہ تو ہم مانتے ہیں اور مان لینا چاہئے کہ جو کچھ صفتیں جناب الٰہی کی ذات میں موجود ہیں انہیں صفات
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 91
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 91
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/91/mode/1up
غیرؔ محدود کے آثار اپنے اپنے وقتوں میں ظہور میں آتے ہیں نہ کوئی امر ان کا غیر اور وہ صفات ہریک مخلوق ارضی و سماوی پر مؤثر ہورہی ہیں اور انہیں آثار الصّفات کا نام سنت اللہ یا قانون قدرت ہے مگر چونکہ خدائے تعالیٰ معہ اپنی صفات کاملہ کے غیر محدود اور غیر متناہی ہے اس لئے ہماری بڑی نادانی ہوگی اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ اس کے آثار الصّفات یعنی قوانین قدرت باندازہ ہمارے تجربہ یا فہم یا مشاہدہ کے ہیں اس سے بڑھ کر نہیں۔ آج کل کے فلسفی الطبع لوگوں کی یہ بڑی بھاری غلطی ہے کہ اول وہ قانون قدرت کو ایسا سمجھ بیٹھے ہیں جس کی من کل الوجوہ حدبست ہوچکی ہے۔ اور پھر بعد اس کے جو امر نیا پیش آئے اس کو ہرگز نہیں مانتے اور ظاہر ہے کہ اس خیال کی بنا راستی پر نہیں ہے اور اگر یہی سچ ہوتا تو پھر کسی نئی بات کے ماننے کے لئے کوئی سبیل باقی نہ رہتا اور امور جدیدہ کا دریافت کرنا غیرممکن ہوجاتا کیونکہ اس صورت میں ہریک نیا فعل بصورت نقص قوانین طبعی نظر آئے گا اور اس کے ترک کرنے سے ناحق ایک جدید صداقت کو ترک کرنا پڑے گا یہی وجہ ہے کہ یہ منحوس اصول آج تک دکھانے کے ہی دانت رہے ہیں نہ کھانے کے اور امور جدیدہ کا قوی ظہور اس قاعدہ کی تار وپود کو ہمیشہ توڑتا رہا ہے جب کسی زمانہ میں کوئی جدید خاصہ متعلق علم طبعی یا ہیئت وغیرہ علوم کے متعلق ظہور پکڑتا رہا ہے تو ایک مرتبہ فلسفہ کے شیش محل پر ایک سخت بھونچال کا موجب ہوا ہے جس سے متکبر فلسفیوں کا شورشرارہ کچھ عرصہ کے واسطے فرو ہوتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے خیالات ہمیشہ پلٹے کھاتے رہے ہیں اور کبھی ایک ہی صورت یا ایک ہی نقشہ پر ہرگز قائم نہیں رہے اگر کوئی صفحات تاریخ زمانہ میں واقعات سوانح عمری حکماء پر غور کرے تو اس کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے خیالات کی ٹرین کتنی مختلف سڑکوں یا یہ کہ کس قدر متناقض چالوں پر چلی ہے اور کیسے داغ خجالت اور ندامت کے ساتھ ایک رائے کو دوسری رائے سے تبدیل کرتے آئے ہیں اور کیونکر انہوں نے ایک مدت دراز تک کسی بات کا انکار کرکے اور قانون قدرت سے اس کو باہر سمجھ کر آخر نہایت متندمانہ حالت میں اسی بات کو قبول کرلیا ہے سو اس تبدیل آراء کا کیا سبب تھا یہی تو تھا کہ جو کچھ انہوں نے سمجھ رکھا تھا وہ ایک ظنی بات تھی جس کی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 92
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 92
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/92/mode/1up
مشاؔ ہدات جدیدہ نے تکذیب کی سوجن شکلوں اور حالتوں میں وہ مشاہدات جدیدہ جلوہ گر ہوئے انہیں کے موافق ان کی راؤں کی پٹری بدلتی اور الٹتی پلٹتی رہی اور جدھر تجارب جدیدہ کا رخ پلٹتا رہا ادھر ہی ان کے خیالات کی ہوائیں پلٹا کھاتی رہیں غرض فلسفیوں کے خیالات کی لگام ہمیشہ امور جدید الظہور کے ہاتھ میں رہی ہے اور اب بھی بہت کچھ ان کی نظروں سے چھپا ہوا ہے جس کی نسبت امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ ٹھوکریں کھا کھا کر اور طرح طرح کی رسوائیاں اٹھا اٹھا کر کسی نہ کسی وقت قبول کریں گے کیونکہ قوانینِ قدرت انسانی عقل کے دفتر میں ابھی تک ایسے منضبط نہیں اور نہ ہوسکتے ہیں جن پر نظر کرکے نئی تحقیقاتوں سے نوامیدی ہو۔ کیا کوئی عقلمند خیال کرسکتا ہے کہ انسان دنیا کے مکتب خانہ میں باوجود اپنی اس قدر عمر قلیل کے تحصیل اسرارِ ازلی ابدی سے بکلّی فراغت پاچکا ہے اور اب اس کا تجربہ عجائبات الٰہیہ پر ایسا محیط ہوگیا ہے کہ جو کچھ اس کے تجربہ سے باہر ہو وہ فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہے میں جانتا ہوں کہ ایسا خیال بجز ایک بے شرم اور ابلہ آدمی کے کوئی دانشمند نہیں کرسکتا۔ فلاسفروں میں سے جو واقعی نیک دانا اور سچے روحانی آدمی گزرے ہیں انہوں نے خود تسلیم کرلیا کہ ہمارے خیالات جو محدود اور منقبض ہیں خدا اور اس کے بے انتہا بھیدوں اور حکمتوں کی شناخت کا ذریعہ نہیں ہوسکتے بارہا فلاسفروں نے اپنی راؤں میں ندامتیں اٹھائیں اور صدہا خواص قاعدہ طبعی کے برخلاف اور قوانین طبعیہ کے نقیض ہوکر پھر مشاہدہ کے رو سے ثابت ہوگئے تو آخر وہ ماننے ہی پڑے اور علوم طبعی یا ہئیت کی وہاں کچھ پیش نہ گئی۔ ہاں بعض سوانح عجیبہ جو تاریخی طور پر ثابت کی جاتی ہیں جیسے یہی معجزہ شق القمر جو لالہ مرلیدھر صاحب کی نظر میں پرمیشر کے ازلی ابدی قانون قدرت کے برخلاف ہے ایسے سوانحہ پر یقین لانا یا نہ لانا اپنے علم وسیع یا محدود پر موقوف ہے یہ حجت ہرگز نہیں ہوسکتی کہ یہ واقعہ علوم طبعی یا ہیئت کے برخلاف ہے کیونکہ قدرتِ قدیمہ کاملہ کے موافق یا مخالف ہونا بعد احاطۂ قدرت کے معلوم ہوسکتا ہے اس لئے یہ علوم ناقصہ ہیئت و طبعی جو ہمارے دفتروں میں منضبط ہیں وہ اس تعریف کے ہرگز لائق نہیں جو انہوں نے کوئی دقیقہ اور کوئی امر تہہ میں چھپا ہوا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 93
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 93
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/93/mode/1up
نہیںؔ چھوڑا اور نہ ایسا بھروسہ ان پر کرنا عقلمندی ہے۔ خواص جدید الظہور کا ایک عجیب کرشمہ ہے جو ہمیشہ قیاسی علوم کی بربادی اور بے عزتی کرتا رہا ہے اور کرے گا اور جس طرح ہمارے زمانہ نے ایسے علوم جدید ہ پائے جن سے پہلے لوگ بے خبری میں گزر گئے یا باطل کو حق کہتے سو گئے ایسا ہی ممکن بلکہ قرین قیاس ہے کہ آنے والی ذریت اس زمانہ کی غلطیاں نکالے اور وہ باتیں ان پر ظاہر ہوں جو اس زمانہ پر ظاہر نہیں ہوئیں آسمان تو آسمان ہے زمین کے خواص جاننے سے ابھی کب فراغت ہوچکی ہے۔
تو کارِ زمین رانکو ساختی
کہ با آسمان نیز پرداختی
غرض علوم جدیدہ کا سلسلہ منقطع ہونا نظرنہیں آتا شق القمر کے ایک تاریخی واقعہ سے کیوں اتنا نفرت یا تعجب کرو۔ گزشتہ دنوں میں تو جس کو کچھ تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے ایک یورپین فلاسفر کو سورج کے ٹوٹنے کی ہی فکر پڑگئی تھی پھر شاید شگاف ہوکر مل گیا۔ فلاسفروں کو ابھی بہت کچھ سمجھنا اور معلوم کرنا باقی ہے۔ کے آمدی کے پیر شدی۔ ابھی تو نام خدا ہے غنچہ صبا تو چھو بھی نہیں گئی ہے یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہریک چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی غیرمتناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہوسکتے گو ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں اگر ایک دانہ خشخاش کے خواص تحقیق کرنے کے لئے تمام فلاسفر اولین و آخرین قیامت تک اپنی دماغی قوتیں خرچ کریں تو کوئی عقلمند ہرگز باور نہیں کرسکتا کہ وہ ان خواص پر احاطہ تام کرلیں سو یہ خیال کہ اجرام علوی یا اجسام سفلی کے خواص جس قدر بذریعہ علم ہیئت یا طبعی دریافت ہوچکے ہیں اسی قدر پر ختم ہیں اس سے زیادہ کوئی بے سمجھی کی بات نہیں۔
اب خلاصہ اس تمام مقدمہ کا یہ ہے کہ قانون قدرت کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ ایک حقیقت ثابت شدہ کے آگے ٹھہرسکے کیونکہ قانون قدرت خدائے تعالیٰ کے ان افعال سے مراد ہے جو قدرتی طور پر ظہور میں آئے یا آئندہ آئیں گے لیکن چونکہ ابھی خدائے تعالیٰ اپنی قدرتوں کے دکھلانے سے تھک نہیں گیا ہے اور نہ یہ کہ اب قدرت نمائی سے بے زور ہوگیا ہے یا سو گیا ہے یا کسی طرف کو
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 94
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 94
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/94/mode/1up
کھسکؔ گیا ہے یا کسی خارجی قاسر سے مجبور کیا گیا ہے اور مجبوراً آئندہ کے عجائب کاموں سے دستکش ہوگیا ہے اور ہمارے لئے وہی چند صدیوں کی کار گزاری (یا اس سے کچھ زیادہ سمجھ لو) چھوڑ گیا ہے اس لئے ساری عقلمندی اور حکمت اور فلسفیت اور ادب اور تعلیم اسی میں ہے کہ ہم چند موجودہ مشہودہ قدرتوں کو جنہیں ابھی صدہا طور کا اجمال باقی ہے مجموعہ قوانین قدرت خیال نہ کر بیٹھیں اور اس پر نادان لوگوں کی طرح ضد نہ کریں کہ ہمارے مشاہدات سے خدائے تعالیٰ کا فعل ہرگز تجاوز نہیں کرسکتا کیونکہ یہ صرف احمقانہ دعویٰ ہے جو ہرگز ثابت نہیں کیا گیا اور نہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے مانا کہ مذہب نیچر کا نقیض نہیں ہے۔ مگر یہ آپ کیونکر ہم سے تسلیم کراتے ہیں کہ سب خواص نیچریہ پر انسان محیط ہوچکا ہے کیا اس پر کوئی دلیل بھی ہے یا نرا تحکم ہی سے مونہہ بند کرنا چاہتے ہیں یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر تجارب و مشاہدات جو آج تک قلمبند ہوچکے ہیں صحیح اور کامل ہوتے تو علوم جدیدہ کو قدم رکھنے کی جگہ نہ رہتی حالانکہ آپ لوگ بھی کہا کرتے ہیں کہ علوم جدیدہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے میں سوچ میں ہوں کہ کیونکر ایسی چیزیں کامل اور قطعی طور پر مقیاس الصّداقت یا میزان الحق ٹھہر سکتی ہیں جن کے اپنے ہی پورے طور کے انکشاف میں ابھی بہت سی منازل باقی ہیں اور اس پیچ در پیچ معمّانے یہاں تک حکما ء کو حیران اور سرگردان کر رکھا ہے کہ بعض ان میں سے حقائقِ اشیاء کے منکر ہی ہوگئے (منکرین حقائق کا وہی گروہ ہے جس کو سوفسطائی کہتے ہیں) اور بعض ان میں سے یہ بھی کہہ گئے کہ اگرچہ خواص اشیاء ثابت ہیں تاہم دائمی طور پر ان کا ثبوت نہیں پایا جاتا۔ پانی آگ کو بجھا دیتا ہے مگر ممکن ہے کہ کسی ارضی یا سماوی تاثیر سے کوئی چشمہ پانی کا اس خاصیت سے باہر آجائے آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے مگر ممکن ہے کہ ایک آگ بعض موجبات اندرونی یا بیرونی سے اس خاصیت کو ظاہر نہ کرسکے کیونکہ ایسی عجائب باتیں ہمیشہ ظہور میں آتی رہتی ہیں۔ حکماء کا یہ بھی قول ہے کہ بعض تاثیرات ارضی یا سماوی ہزاروں بلکہ لاکھوں برسوں کے بعد ظہور میں آتی ہیں جو ناواقف اور بے خبر لوگوں کو بطور خارقِ عادت معلوم دیتی ہیں اور کبھی کبھی کسی کسی زمانہ میں ایسا کچھ ہوتا رہتا ہے کہ کچھ عجائبات
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 95
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 95
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/95/mode/1up
آسمانؔ میں یا زمین میں ظاہر ہوتے ہیں جو بڑے بڑے فیلسوفوں کو حیرت میں ڈالتے ہیں اور پھر فلسفی لوگ ان کے قطعی ثبوت اور مشاہدہ سے خیرہ اور متندم ہوکر کچھ نہ کچھ تکلّفات کرکے طبعی یا ہیئت میں ان کو گھسیڑ دیتے ہیں تا ان کے قانون قدرت میں کچھ فرق نہ آجائے ایسا ہی یہ لوگ اِدھر کی اُدھر لگا کر اور نئی باتوں کو کسی علمی قاعدہ میں جبراً دھنسا کر گزارہ کرلیتے ہیں جب تک پردار مچھلی نہیں دیکھی گئی تھی تب تک کوئی فلسفی اس کا قائل نہ تھا اور جب تک متواتر دم کے کٹنے سے دم کٹے کتے پیدا نہ ہونے لگے تب تک اس خاصیت کا کوئی فلاسفر اقراری نہ ہوا اور جب تک بعض زمینوں میں کسی سخت زلزلہ کی وجہ سے کوئی ایسی آگ نہ نکلی کہ وہ پتھروں کو پگھلا دیتی تھی مگر لکڑی کو جلا نہیں سکتی تھی تب تک فلسفی لوگ ایسی خاصیت کا آگ میں ہونا خلاف قانون قدرت سمجھتے رہے جب تک اسپی ریٹر کا آلہ نہیں نکلا تھا کس فلسفی کو معلوم تھا کہ عمل ٹرینس فیوژن آف بلڈ (یعنے ایک انسان کا خون دوسرے انسان میں داخل کرنا) قانون فطرت میں داخل ہے۔ بھلا اس فلاسفر کا نام لینا چاہئے جو الیکٹرک مشین یعنی بجلی کی کل نکلنے سے پہلے اس بجلی لگانے کے عمل کا قائل تھا۔
فلسفی را چشم حق بین سخت نابینا بود
گرچہ بیکن باشد ویا بو علی سینا بود
یہ ثابت ہوچکا ہے اور ہمیشہ مشاہدہ میں آتا ہے کہ جو لوگ خواہ نخواہ قانونِ قدرت کے پابند کہلاتے ہیں وہ اپنی رائے میں بہت کچے ہوتے ہیں اگر دس بیس معتبر اور پختہ عقلمند اور ان کے ہم رتبہ آدمی کوئی عجیب بات ہنسی کے طور پر بھی بیان کردیں مثلاً یہ کہہ دیں کہ ہم ایک پردار آدمی کو بچشم خود دیکھ آئے ہیں یا ایک پتھر میں سے شہد مترشح ہوتا ہم نے دیکھا کیا بلکہ کھایا ہے یا آسمان سے ہم نے پھول برستے دیکھے اور پھولوں میں سے سونا نکلا یا شاید کوئی واقعہ صحیحہ ہی پیش آوے جیسے آج کل کے بعض اخباروں میں شائع کیا گیا ہے کہ یورپ کے ایک ملک میں ایک پتھر تیس من وزنی برسا جس میں ہڈیاں بھی ملی ہوئی ہیں شاید ان کی ہڈیاں ہیں جو چاند کے کمرہ میں رہنے والے ہیں تو فی الفور فلاسفر صاحب کے دل میں ایک دھڑکا سا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 96
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 96
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/96/mode/1up
شروؔ ع ہوجائے گا تو یہ دھڑکا اور اضطراب اس کم بخت کا اس کے نقصان عقل اور فہم پر صریح شہادت دیتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکثر سرمایہ اس کا ظن ہے کیونکہ کسی قطعی ثبوت میں انسان کبھی تردّد نہیں کرسکتا مثلاً اگر کسی زندہ آدمی کو دس بیس آدمی مل کر یہ کہیں کہ تو زندہ نہیں بلکہ مرا ہوا ہے تو اس قدر کیا وہ دس ہزار آدمی کی شہادت سے بھی اپنی زندگی سے شک میں نہیں پڑے گا بلکہ بے شمار اشخاص کا مجمع بھی اپنے حلفی گواہوں سے اس کو اضطراب میں نہیں ڈالے گا کیونکہ اس کو اپنی زندگی پر پورا پورا یقین ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ فلسفہ میں جو واقعی دانا ہیں وہ تجارب فلسفیہ پر بہت ہی کم یقین رکھتے ہیں کیونکہ ان کے معلومات وسیع ہیں اور ان کو اپنے فلسفہ کی اندرونی حقیقت معلوم ہے۔
علامہ شارح قانون جو طبیب حاذق اور بڑا بھاری فلسفی ہے ایک جگہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے جو یونانیوں میں یہ قصے بہت مشہور ہیں جو بعض عورتوں کو جو اپنے وقت میں عفیفہ اور صالحہ تھیں بغیر صحبت مرد کے حمل ہوکر اولاد ہوئی ہے۔ پھر علامہ موصوف بطور رائے کے لکھتا ہے کہ یہ سب قصے افترا پر محمول نہیں ہوسکتے کیونکہ بغیر کسی اصل صحیح کے مختلف افراد اور مہذب قوموں میں ایسے دعاوی ہرگز فروغ نہیں پاسکتے ہیں اور نہ عورتوں کو جُرأت ہوسکتی ہے کہ وہ زانیہ ہونے کی حالت میں اپنے حمل کی ایسی وجہ پیش کریں جس سے اور بھی ہنسی کرائیں اور ہمیں اس بات سے پرہیز کرنا چاہئے کہ خواہ نخواہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگائیں جو مختلف ملکوں اور قوموں اور زمانوں میں مستور الحال گزر چکی ہیں کیونکہ طبی قواعد کے رو سے ایسا ہونا ممکن ہے وجہ یہ کہ بعض عورتیں جو بہت ہی نادر الوجود ہیں بباعثِ غلبۂ رجولیت اس لائق ہوتی ہیں کہ ان کی منی دونوں طور قوت فاعلی و انفعالی رکھتی ہو اور کسی سخت تحریک خیال شہوت سے جنبش میں آکر خودبخود حمل ٹھہرنے کا موجب ہوجائے۔ میں کہتا ہوں کہ ایسے قصے ہندوؤں میں بھی مشہور ہیں سورج بنسی اور چندر بنسی خاندان کی انہیں قصوں پر بنیاد پائی جاتی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 97
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 97
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/97/mode/1up
غرض ؔ یہ خیال ہندوؤں میں بھی پرانا چلا آتا ہے یہاں تک کہ رگ وید میں لکھا ہے کہ ایک نیک بخت رشی کی لڑکی کو فقط اندر دیوتا کی ہی توجہ سے حمل ہوگیا تھا اور ایسا ہی شمس و قمر سے بھی شرفا آریہ کی پاکدامن لڑکیوں کو حمل ہوتا رہا ہے۔ اب ان قصوں اور کہانیوں کو جو بہ کثرت مختلف قوموں میں پائی جاتی ہیں یکمرتبہ مردود اور باطل سمجھ کر پایۂ اعتبار سے ساقط کردینا حکیمانہ طریق نہیں ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ اگر ان قصوں کو ان کے زوائد سے الگ کرکے دیکھا جائے تو ان کے نیچے وہی ایک دقیق خاصہ علم طبعی کا چھپا ہوا نظر آتا ہے جس کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے اور اس بات پر ضد نہیں کرنی چاہئے کہ اگر یہ بات کچھ حقیقت رکھتی ہے تو پھر عام طور پر کیوں وقوع میں نہیں آتی کیونکہ اول تو یہ سوانح ایسے نادر الوقوع نہیں ہیں جیسے آج کل کے نئے فلسفی ان کو خیال کررہے ہیں بلکہ مختلف قوموں میں اس کے آثار سلسلہ وار چلے آئے ہیں۔ اگرچہ عبرانیوں میں تو صرف حضرت مسیح اس طرز کی پیدائش میں بیان کئے گئے ہیں لیکن یونانیوں اور آریوں کی کتابوں میں اس کی نظیریں بہت پائی جاتی ہیں اور حال کے زمانہ اور اس کے قریب قریب بھی بعض ممالک کی عورتیں حمل دار ہوکر ایسا کچھ بیان کرتی رہی ہیں اب ان سب قصوں کی نسبت گو کسی منکر کی کیسی ہی رائے ہو مگر صرف ان کے نادر الوقوع ہونے کی وجہ سے وہ سب کی سب رد نہیں کی جاسکتیں اور ان کے ابطال پر کوئی دلیل فلسفی قائم نہیں ہوسکتی بلکہ اکثر یونانی فلسفی (آسمانوں کے ماننے والے) اور انہیں میں سے افلاطوؔ ن اور ارسطوؔ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ حادث چیزوں کی مبادی آسمانوں کی حرکتیں اور ان کے مختلف دورے ہیں۔ اسی جہت سے علوی اور سفلی چیزوں کے حکم اور حال مختلف ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان کے مذہب کے رو سے ممکن ہے کہ ایک دور میں ایسی عجائب چیزیں یا عجائب شکلوں کے جانور پیدا ہوں کہ نہ تو دور سابق میں اور نہ دور لاحق میں ان کی نظیر پائی جائے غرض نادر الظہور اشیاء کا سلسلہ اس وضع عالم کو لازمی پڑا ہوا ہے۔ اور علامہ موصوف نے اس مقام میں ایک تقریر بہت ہی عمدہ لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ سب انسان ایک نوع میں ہونے کی وجہ سے باہم مناسب الطبع واقعہ ہیں مگر پھر بھی ان
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 98
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 98
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/98/mode/1up
میںؔ سے بعض کو نادر طور پر کبھی کبھی کسی کسی زمانہ میں خاص خاص طاقتیں یا کسی اعلیٰ درجہ کی قوتیں عطا ہوتی ہیں جو عام طور پر دوسروں میں نہیں پائی جاتیں جیسے مشاہدہ سے ثابت ہوا ہے کہ بعض نے حال کے زمانہ میں تین سو برس سے زیادہ عمر پائی ہے جو بطور خارق عادت ہے اور بعض کی قوت حافظہ یا قوت نظر ایسے کمال درجہ کو پہنچی ہے جو اس کی نظیر نہیں پائی گئی اور اس قسم کے لوگ بہت نادر الوجود ہوتے ہیں جو صدہا یا ہزاروں برسوں کے بعد کوئی فرد ان میں سے ظہور میں آتا ہے اور چونکہ عوام الناس کی نظر اکثر امور کثیر الوقوع اور متواتر الظہور پر ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ عام لوگوں کی نگاہ میں جو باتیں کثیر الوقوع اور متواتر الظہور ہوں وہ بطور قاعدہ یا قانون قدرت کے مانی جاتی ہیں اور انہیں کی سچائی پر انہیں اعتماد ہوتا ہے اس لئے دوسرے امور جو نادر الوقوع ہوتے ہیں وہ بمقابل امور کثیر الوقوع کے نہایت مضمحل اور مشتبہ بلکہ باطل کے رنگ میں دکھائی دیتے ہیں اسی وجہ سے عوام کیا بلکہ خواص کو بھی ان کے وجود میں شکوک اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ سو بڑی غلطی جو حکما کو پیش آتی ہے اور بڑی بھاری ٹھوکر جو ان کو آگے قدم رکھنے سے روکتی ہے یہ ہے کہ وہ امور کثیر الوقوع کے لحاظ سے نادر الوقوع کی تحقیق کے درپے نہیں ہوتے اور جو کچھ ان کے آثار چلے آتے ہیں ان کو صرف قصے اور کہانیاں خیال کرکے اپنے سر پر سے ٹال دیتے ہیں حالانکہ یہ قدیم سے عادت اللہ ہے جو امور کثیر الوقوع کے ساتھ نادر الوقوع عجائبات بھی کبھی کبھی ظہور میں آتے رہتے ہیں اس کی نظیریں بہت ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے اور حکیم بقراط نے اپنی ایک طبی کتاب میں چند چشم دید بیماروں کا بھی حال لکھا ہے۔ جو قواعدِ طبی اور تجربہ اطباء کے رو سے وہ ہرگز قابل علاج نہیں تھے مگر ان بیماروں نے عجیب طور پر شفا پائی جس کی نسبت ان کا خیال ہے کہ یہ شفا بعض نادر تاثیرات ارضی یا سماوی سے ہے۔ اس جگہ ہم اس قدر اور لکھنا چاہتے ہیں کہ یہ بات صرف نوع انسان میں محدود نہیں کہ کثیر الوقوع اور نادر الوقوع خواص کا اس میں سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اگر غور کرکے دیکھیں تو یہ دوہرا سلسلہ ہریک نوع میں پایا جاتا ہے مثلاً نباتات میں سے آک کے درخت کو دیکھو کہ کیسا تلخ اور زہرناک
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 99
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 99
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/99/mode/1up
ہوتا ؔ ہے مگر کبھی مدتوں اور برسوں کے بعد ایک قسم کی نبات اس میں پیدا ہوجاتی ہے جو نہایت شیریں اور لذیذ ہوتی ہے اب جس شخص نے اس نبات کو کبھی نہ دیکھا ہو اور معمولی قدیمی تلخی کو دیکھتا آیا ہو بے شک وہ اس نبات کو ایک امر طبعی کی نقیض سمجھے گا ایسا ہی بعض دوسری نوع کی چیزوں میں بھی دور دراز عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی خاصہ نادر ظہور میں آجاتا ہے کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ مظفر ؔ گڈھ میں ایک ایسا بکرا پیدا ہوا کہ جو بکریوں کی طرح دودھ دیتا تھا۔ جب اس کا شہر میں بہت چرچا پھیلا تو میکالف صاحب ڈپٹی کمشنر مظفر گڈھ کو بھی اطلاع ہوئی تو انہوں نے یہ ایک عجیب امر قانون قدرت کے برخلاف سمجھ کر وہ بکرا اپنے روبرو منگوایا چنانچہ وہ بکرا جب ان کے روبرو دوہا گیا تو شاید قریب ڈیڑھ سیر دودھ کے اس نے دیا اور پھر وہ بکرا بحکم صاحب ڈپٹی کمشنر عجائب خانہ لاہور میں بھیجا گیا۔ تب ایک شاعر نے اس پر ایک شعر بھی بنایا اور وہ یہ ہے۔
مظفر گڈھ جہاں پر ہے مکالف صاحب عالی یہاں تک فضل باری ہے کہ بکرا دودھ دیتا ہے
اس کے بعد تین معتبر اور ثقہ اور معزز آدمی نے میرے پاس بیان کیا کہ ہم نے بچشم خود چند مردوںں کو عورتوں کی طرح دودھ دیتے دیکھا ہے بلکہ ایک نے ان میں سے کہا کہ امیر علی نام ایک سید کا لڑکا ہمارے گاؤں میں اپنے باپ کے دودھ ہی سے پرورش پایا تھا کیونکہ اس کی ماں مرگئی تھی۔ ایسا ہی بعض لوگوں کا تجربہ ہے کہ کبھی ریشم کے کیڑے کی مادہ بے نر کے انڈے دے دیتی ہے اور ان میں سے بچے نکلتے ہیں۔ بعض نے یہ بھی دیکھا کہ چوہا مٹی خشک سے پیدا ہوا جس کا آدھا دھڑ تو مٹی تھی اور آدھا چوہا بن گیا۔ حکیم فاضل قرشی یا شاید علامہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک بیمار ہم نے دیکھا جس کا کان ماؤف ہوکر بہرہ ہوگیا تھا پھر کان کے نیچے ایک ناسور سا پیدا ہوگیا جو آخر وہ سوراخ سے ہوگئے اس سوراخ کی راہ سے وہ برابر سن لیتا تھا گویا خدا نے اس کے لئے دوسرا کان عطا کیا۔ ان دونوں طبیبوں میں سے ایک نے اور غالباً قرشی نے خود اپنی اڈّی میں سوراخ ہوکر اور پھر اس راہ سے مدت تک براز یعنے پاخانہ آتے رہنا تحریر کیا ہے۔ جالینوس سے سوال کیا گیا کہ کیا انسان آنکھوں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 100
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 100
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/100/mode/1up
کی ؔ راہ سے سن سکتا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ ہنوز تجربہ شہادت نہیں دیتا لیکن ممکن ہے کہ کوئی ایسی مشارکت کانوں اور آنکھوں کی مخفی ہو جو کسی ہاتھ کے عمل سے یا کسی سماوی موجب سے ظہور پذیر ہوکر اس خاصیت کے ظہور کا موجب ہوجائے کیونکہ ابھی علمِ استدراک خواص مختتم نہیں۔ ڈاکٹر برنی آر نے اپنے سفرنامہ کشمیر میں پیر پنجال کی چڑھائی کی تقریب بیان پر بطور ایک عجیب حکایت کے لکھا ہے جو ترجمہ کتاب مذکور کے صفحہ ۸۰ میں درج ہے کہ ایک جگہ پتھروں کے ہلانے جلانے سے ہم کو ایک بڑا سیاہ بچھو نظر پڑا جس کو ایک نوجوان مغل نے جو میری جان پہچان والوں میں سے تھا اٹھا کر اپنی مٹھی میں دبالیا اور پھر میرے نوکر کے اور میرے ہاتھ میں دے دیا مگر اس نے ہم میں سے کسی کو بھی نہ کاٹا۔ اس نوجوان سوار نے اس کا باعث یہ بیان کیا کہ میں نے اس پر قرآن کی ایک آیت پڑھ کر پھونک دی ہے اور اسی عمل سے اکثر بچھوؤں کو پکڑلیتا ہوں۔ اور صاحب کتاب فتوحات و فصوص جو ایک بڑا بھارا نامی فاضل اور علوم فلسفہ وتصوف میں بڑا ماہر ہے وہ اپنی کتاب فتوحات میں لکھتا ہے کہ ہمارے مکان پر ایک فلسفی اور کسی دوسرے کی خاصیت احراق آگ میں کچھ بحث ہوکر اس دوسرے شخص نے یہ عجیب بات دکھلائی کہ فلسفی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کوئلوں کی آگ میں جو ہمارے سامنے مجمر میں پڑی ہوئی تھی ڈال دیا اور کچھ عرصہ اپنا اور فلسفی کا ہاتھ آگ پر رہنے دیا۔ مگر آگ نے ان دونوں ہاتھوں میں سے کسی پر ایک ذرا بھی اثر نہ کیا۔ اور راقم اس رسالہ نے ایک درویش کو دیکھا کہ وہ سخت گرمی کے موسم میں یہ آیت قرآنی پڑھ کر وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ‌ۚ‏
۱؂ زنبور کو پکڑلیتا تھا اور اس کی نیش زنی سے بکلّی محفوظ رہتا تھا۔ اور خود اس راقم کے تجربہ میں بعض تاثیرات عجیبہ آیت قرآنی کی آچکی ہیں جن سے عجائبات قدرت حضرت باری جل شانہٗ معلوم ہوتے ہیں۔ غرض یہ عجائب خانہ دنیا کا بے شمار عجائبات سے بھرا ہوا ہے جو دانا اور شریف حکیم گزرے ہیں انہوں نے اپنے چند معدود معلومات پر ہرگز ناز نہیں کیا اور وہ اس بات کو بہت بے شرمی اور گستاخی سمجھتے رہے ہیں کہ اپنے محدود تجربہ کا نام
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 101
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 101
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/101/mode/1up
خداؔ ئے تعالیٰ کا قانون قدرت رکھیں مگر ان کے مقلد بباعث اپنی خامی اور ناتمامی کے سخت درجہ پر قانونِ قدرت کے قائل بلکہ غلام پائے جاتے ہیں سو یہ اسی مثل کا مصداق ہے کہ در پدر شیرینی بسیاراست لیکن پسر گرمی داراست۔ بالخصوص اس زمانہ کے نوآموز لڑکوں میں قانونِ قدرت کا خیال واجبی حد سے بڑھ گیا ہے اکثر نامقید اور آوارہ طبع اور ملحدانہ طبیعت کے آدمی ان کم فہم لڑکوں کو بگاڑتے جاتے ہیں جن کی نادانی اور سادہ لوحی رحم کے لائق ہے۔ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر خواص قدرتیہ کا خاتمہ ہوچکا ہے تو اس کا یہ لازمی نتیجہ ہونا چاہئے کہ آئندہ خواص جدیدہ ظہور میں نہ آویں۔ اور اگر ابھی خاتمہ نہیں ہوا اور نئے انکشافات اور تازہ معلومات کے کھلنے کی امید ہے تو پھر کیوں ایک نئی بات کو سنتے ہی بکری کی طرح انکار میں گردن ہلادیں خدا نے ان کو یہ سمجھ نہیں دی کہ عجائبات الٰہی کا میدان جو رنگا رنگ اور بے انتہا چشموں اور کہولوں اور آبشاروں سے آبپاشی پودہ نفس ناطقہ انسان کے لئے ُ پر ہے وہ کیونکر تجارب محدودہ کی ظرف تنگ میں سماسکتا ہے اور اگر ایسا فرض بھی کرلیا جائے کہ خدائے تعالیٰ کی قدرتیں اسی حد تک ختم اور خرچ ہوچکی ہیں جو ہمیں معلوم ہے تو پھر اس سے کیونکر خدائے تعالیٰ کا اپنی ذات اور اپنی قدرتوں اور اپنی حکمتوں میں بے انتہا ہونا قائم رہ سکتا ہے اس کی غیر محدود حکمتوں اور قدرتوں کو سمجھنے کے لئے یہی ایک تو راہ ہے کہ ایک ذرّہ کے موافق بھی اگر کوئی چیز ہو تو اس پر اگر تمام انسانی عقلیں قیامت تک غور کریں تو اس کے عجائبات کی تہ تک نہیں پہنچ سکتیں کیا جس نے یہ پُر بہار آسمان جو مہر و ماہ اور ستاروں کے چراغوں سے سج رہا ہے اور یہ رشک گلزار زمین جو رنگا رنگ مخلوقات سے آباد ہورہی ہے بغیر ایک ذرّہ مشقت اٹھانے کے صرف اپنے ارادہ سے پیدا کردیا اس کی قدرتوں کا کوئی انتہا پاسکتا ہے۔ اور یہ بات نہایت ظاہروبدیہی ہے کہ جب تک علوم و خواص جدیدۃ الظہور کی اس عالم بے ثبات کے ساتھ دُم لگی ہوئی ہے تب تک کوئی دانا اپنے معلومات محدودہ و معدودہ کو قانونِ قدرت کے نام سے موسوم نہیں کرسکتا اور خود ہمیں اپنی اس غیر مستقل اور اوباشانہ عادت سے شرمندہ ہونا چاہئے کہ اول ہم کسی بات کے عدم امکان پر ایسا سخت اصرار کریں کہ گویا خدائے تعالیٰ کو اس کی خدائی کے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 102
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 102
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/102/mode/1up
کاموؔ ں سے ہی جواب دے دیں اور پھر اسی بات کا وقوع اور ظہور اور ثبوت دیکھ کر اسی مونہہ سے یہ کہنا شروع کردیں کہ ہاں یہ قانونِ قدرت میں ہی داخل ہے ایسے لوگ جن میں فطرتی طور پر مادہ حیا کا کم پایا جاتا ہے وہ اگر یہ سیرت اختیار رکھیں تو انہیں کچھ مضائقہ نہیں لیکن اگر ایک باعزت اور باتہذیب و بامرتبت جنٹلمین یہ طریقہ متزلزلہ اختیار کرے جو اسے بیسیوں مرتبہ سخت انکاروں کے بعد اقرار کرنا پڑے تو البتہ یہ افسوس کا مقام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے مجربات و مشاہدات کا اعتبار نہ کریں تو پھر سب علوم ضائع ہوجائیں گے مگر میں اس کے جواب میں بجز اس دعا کے کہ اے خدائے قادر مطلق ان کو حقیقت شناسی کی سمجھ بخش اور کیا کہہ سکتا ہوں کیا خواص جدیدہ کے پیدا ہونے سے پہلے علوم ضائع ہوجایا کرتے ہیں مثلاً آگ بالخاصیت محرق ہے جس کی اس خاصیت کو بارہا ہم تم آزما چکے ہیں بلکہ یہ خاصیت ہمارے مجربات و مشاہدات متواترہ میں سے ہے مگر باایں ہمہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسی دوا یا روغن پیدا ہو کہ جب وہ کسی عضو یا کسی اور چیز پر لگایا جائے تو آگ اپنی خاصیت احراق اس پر ظاہر نہ کرسکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود آگ میں ہی باذنہ ٖ تعالیٰ کسی اندرونی یا بیرونی حوادث سے یہ صورت پیدا ہوجائے ایسا ہی یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ کوئی اس قسم کی آگ زمین سے یا آسمان سے پیدا ہو جو اپنے خواص میں اس آگ سے اختلاف رکھتی ہو جیسی نار حجاز جس کے نکلنے کی خبر چھ سو باون برس پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دی تھی جو صحیح بخاریؔ اور مسلمؔ میں پانسو برس پہلے ظہور سے مندرج اور شائع ہوچکی تھی۔ غرض صدہا ایسی صورتیں تأثیرات ارضی یا سماوی اور موجبات اندرونی یا بیرونی سے ظہور میں آسکتی ہیں کہ جو ایک چیز کی خاصیت موجودہ مجر بہ میں خلل انداز ہوسکیں اور علوم جدیدہ کا دروازہ جو نہایت وسیع اور غیر متناہی طور پر کھلا ہوا ہے وہ اسی بنا پر تو ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم بے سمجھے سوچے میری بات کو اپنی رائے کی بنیاد قرار دو۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم خوب جانچو اور پرکھو اور کھوٹے کھرے میں تمیز کرو اور جو کچھ زمانہ تمہیں دکھلا رہا ہے اسے اچھی طرح آنکھیں کھول کر دیکھو پھر اگر یہی رائے غالب اور فائق نظر آئے (تو اے ہمارے ملک کے نوجوانوں) اسے قبول کرو۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 103
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 103
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/103/mode/1up
نصیحتؔ گوش کن جانان کہ ازجان دوست تردارند
جوانان سعادت مند پند پیر دانا را
میری رائے میں فلسفیوں سے بڑھ کر اور کسی قوم کی دلی حالت خراب نہ ہوگی۔ خدا میں اور بندہ میں وہ چیز جو بہت جلد جدائی ڈالتی ہے وہ شوخی اور خودبینی اور متکبری ہے سو وہ اس قوم کے اصول کو ایسی لازم پڑی ہوئی ہے کہ گویا انہیں کے حصہ میں آگئی ہے یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی قدرتوں پر حاکمانہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور جس کے مونہہ سے اس کے برخلاف کچھ سنتے ہیں اس کو نہایت تحقیر اور تذلیل کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ نوخیزوں کے عام خیالات اسی طرف بڑھتے جاتے ہیں یہ کسی قوی دلیل کا اثر نہیں بلکہ ہمارے ملک کے لوگوں میں بھیڑ یا چال چلنے کا بہت سا مادہ موجود ہے جس سے تعلیم یافتہ جماعت بھی مستثنیٰ نہیں سو اس فطرت اور عادت کے جو لوگ ہیں وہ ایک بڑی ڈھاری والے کو گڑھے میں پڑا ہوا دیکھ کر فی الفور اس میں کود پڑتے ہیں اور اس سے بڑھ کر ان کے ہاتھ میں اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ یہ فلاں عقلمند کا قول ہے۔ غرض زہرناک ہوا کے چلنے سے کمزور لوگ بہت جلد ہلاک ہوتے ہیں لیکن ایک روشن دل آدمی جس کی فطرت میں خدائے تعالیٰ نے وسعت علمی کی استعداد رکھی ہوئی ہے وہ ایسے خیالات کو کہ خدائے تعالیٰ کے اسرار پر احاطہ کرنا کسی انسان کا کام ہے بغائت درجہ عقل و ایمان سے دور سمجھتا ہے۔ واقعی جتنا انسان عجائبات غیر متناہیہ حضرت باری جل شانہ ٗپر اطلاع پاتا ہے۔ اتنا ہی غرور اور گھمنڈ اس کا ٹوٹ جاتا ہے اور نئے طالب علموں کی شوخیاں اور بے راہیاں اس کے دل و دماغ سے جاتی رہتی ہیں اور مدت دراز تک ٹھوکریں کھانے کی وجہ سے ابتدائی حالت کے تہ و بالا ہوئے ہوئے خیالات کچھ کچھ روبراہ ہوتے جاتے ہیں جیسے ایک بڑے فلاسفر کا قول ہے کہ میں نے علم اور تجربہ میں ترقیات کیں یہاں تک کہ آخری علم اور تجربہ یہ تھا کہ مجھ میں کچھ علم اور تجربہ نہیں سچ ہے دریائے غیرمتناہی علم و قدرت باری جل شانہٗ کے آگے ذرّہ ناچیز انسان کی کیا حقیقت ہے کہ دم مارے۔ اور اس کا علم اور تجربہ کیا شے ہے تا اس پر نازل کرے سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ
۱؂ کیا عمدہ اور صاف اور پاک اور خدائے تعالیٰ کی عظمت اور بزرگی کے موافق یہعقیدہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 104
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 104
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/104/mode/1up
ہے کہؔ جو کچھ اس سے ہونا ثابت ہے وہ قبول کیا جائے اور جو کچھ آئندہ ثابت ہو اس کے قبول کرنے کے لئے آمادہ رہیں اور بجز امور منافی صفات کمالیہ حضرت باری عزاسمہٗ سب کاموں پر اس کو قادر سمجھا جائے اور امکانی طور پر سب ممکناتِ قدرت پر ایمان لایا جائے یہی طریق اہل حق ہے جس سے خدائے تعالیٰ کی عظمت و کبریائی قبول کی جاتی ہے اور ایمانی صورت بھی محفوظ رہتی ہے جس پر ثواب پانے کا تمام مدار ہے نہ یہ کہ چند محدود باتیں اس غیر محدود کے گلے کا ہار بنائی جائیں اور یہ خیال کیا جائے کہ گویا اس نے اپنے ازلی ابدی زمانہ میں ہمیشہ اسی قدر قدرتوں میں اپنی جمیع طاقتوں کو محدود کررکھا ہے یا اسی حد پر کسی قاسر سے مجبور ہورہا ہے اگر خدائے تعالیٰ ایسا ہی محدود القدرت ہوتا تو اس کے بندوں کے لئے بڑے ماتم اور مصیبت کی جگہ تھی وہ عظیم الشان قدرتوں والا اپنی ذات و صفات میں لایدرک ولا انتہا ہے کون جانتا ہے کہ اس نے پہلے کیا کیا کام کیا اور آئندہ کیا کیا کرے گا تَعَالَی اللّٰہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی بھی گمراہی نہیں کہ انسان اپنی عقل کے پیمانہ سے باری عزّا سمہٗ کے ملک کو ناپنا چاہے یہ بیانات بہت صاف ہیں جن کے سمجھنے میں کوئی دقّت نہیں لیکن بڑی مشکل کی یہ بات ہے کہ دنیا پرست آدمی جس کی نظر دنیا کی مدح وذم پر لگی ہوئی ہے وہ جب ایک رائے اپنی قائم کرکے مشہور کردیتا ہے تو پھر اس رائے کا چھوڑنا (خواہ کیسی ہی وجوہات بینہ مخالف رائے نکل آویں) اس پر بہت مشکل ہوجاتا ہے اور پھر جب ایسے غلط خیالات میں چند نامی عقلاء مبتلا ہوجائیں تو ادنیٰ استعداد کے آدمی ان خیالات کی تقلید کرنا اور بے سوچے سمجھے اس پر قدم مارنا اپنی عقلمندی ثابت کرنے کے لئے ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں فلسفی تقلید ہمیشہ اسی طرح پھیلتی رہی ہے کم استعداد لوگ جو بچوں کی سی کمزوری رکھتے ہیں وہ بڑے بابا کا مونہہ دیکھ کر وہی باتیں کہنے لگتے ہیں جو اس بزرگ کے مونہہ سے نکلیں گو وہ واقعی ہوں یا غیر واقعی۔ اور صحیح ہوں یا غیر صحیح۔ ان کو اپنی سمجھ تو ہوتی ہی نہیں ناچار وہ کسی نامی صیاد کے دام میں پھنس جاتے ہیں واقعی جتنا انسان تقلید سے نفرت کرکے بھاگتا ہے اُتنا ہی تقلید میں بار بار پڑتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 105
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 105
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/105/mode/1up
اِسؔ جگہ اس بات کا جواب دینا بھی مناسب ہے کہ اگر سب امور قوانین ازلیہ و ابدیہ میں داخل ہیں یعنے پہلے ہی سے بندھے ہوئے چلے آتے ہیں تو پھر معجزات کیا شے ہیں سو جاننا چاہئے کہ بے شک یہ تو سچ ہے کہ قوانین ازلیہ و ابدیہ سے یا یوں کہو کہ خدائے تعالیٰ کے ازلی ارادہ اور اس کے قضا وقدر سے کوئی چیز باہر نہیں گو ہم اس پر اطلاع پاویں یا نہ پاویں۔ جفّ القلم بما ھو کائن مگر اسی عادت الٰہیہ نے جو دوسرے لفظوں میں قانون قدرت سے موسوم ہوسکتی ہے بعض چیزوں کے ظہور کو بعض کے ساتھ مشروط کررکھا ہے پس جو امور ازلی ابدی ارادہ نے مقدسوں کی دعاؤں اور ان کی برکات انفاس اور ان کی توجہ اور ان کی عقد ہمت اور ان کے اقبال ایام سے وابستہ کررکھے ہیں اور ان کے تضرعات اور ابتہالات پر مترتب کی جاتی ہیں وہ امور جب انہیں شرائط اور انہیں وسائل سے ظہور میں آتے ہیں تب ان امور کو اس خاص حالت میں معجزہ یا کرامت یا نشان یا خارق عادت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس جگہ خارق عادت کے لفظ سے اس شبہ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ وہ کون سا امر ہے جو عادت الٰہیہ سے باہر ہے کیونکہ اس محل میں خارق عادت کے قول سے ایک مفہوم اضافی مراد ہے یعنے یوں تو عادات ازلیہ و ابدیہ خدائے کریم جل شانہٗ سے کوئی چیز باہر نہیں مگر اس کی عادات جو بنی آدم سے تعلق رکھتی ہیں دو طور کی ہیں ایک عادات عامہ جو روپوش اسباب ہوکر سب پر مؤثر ہوتی ہیں دوسری عادات خاصہ جو بتوسط اسباب اور بلاتوسطِ اسباب خاص ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جو اس کی محبت اور رضا میں کھوئی جاتی ہیں یعنے جب انسان بکلّی خدائے تعالیٰ کی طرف انقطاع کرکے اپنی عادات بشریہ کو استرضاءِ حق کے لئے تبدیل کردیتا ہے تو خدائے تعالیٰ اس کی اس حالت مبدلہ کے موافق اس کے ساتھ ایک خاص معاملہ کرتا ہے جو دوسروں سے نہیں کرتا یہ خاص معاملہ نسبتی طور پر گویا خارق عادت ہے جس کی حقیقت انہیں پر کھلتی ہے جو عنایت الٰہی سے اس طرف کھینچے جاتے ہیں۔ جب انسان اپنی بشری عادتوں کو جو اس میں اور اس کے ربّ میں حائل ہیں شوق توصل الٰہی میں توڑتا ہے تو خدائے تعالیٰ بھی اپنی عام عادتوں کو اس کے لئے توڑ دیتا ہے یہ توڑنا بھی عاداتِ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 106
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 106
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/106/mode/1up
ازلیہؔ میں سے ہے کوئی مستحدث نہیں ہے جو مورد اعتراض ہوسکے گویا قدیم قانون حضرت احدیت جل شانہٗ اسی طور پر چلا آتا ہے کہ جیسے جیسے انسان کا بھروسا خدائے تعالیٰ پر بڑھتا ہے ایسا ہی اس طرف سے الوہیت کی قدرتوں کی چمکار اور اس کی کرنیں زیادہ سے زیادہ اس پر پڑتی ہیں اور جیسے جیسے اس طرف سے ایک پاک اور کامل تعلق ہوتا جاتا ہے ایسا ہی اس طرف سے بھی کامل اور طیب برکتیں ظاہر و باطن پر اترتی ہیں اور جیسی جیسی محبت الٰہی کی موجیں عاشق صادق کے دل سے اٹھتی ہیں ایسا ہی اس طرف سے بھی ایک نہایت صاف اور شفاف دریائے محبت کا زورشور سے چھوٹتا ہے اور دائرہ کی طرح اس کو اپنے اندر گھیر لیتا ہے اور اپنے الٰہی زور سے کھینچ کر کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے اور جیسا یہ امر صاف صاف ہے ویسا ہی ہمارے نیچر کے مطابق بھی ہے ہم تم بھی جیسے جیسے دوستی اور محبت اور اخلاص میں بڑھتے ہیں تو اس دو طرفہ صفائی محبت کی یہی نشانی ہوا کرتی ہے کہ دونوں طرف سے آثار خلوص و اتحاد و یگانگت کے ظاہر ہوں نہ صرف ایک طرف سے ہو ہریک دوست اپنے دوست کے ساتھ عوام الناس کی نسبت معاملہ خارق عادت رکھتا ہے جب انسان اپنی پہلی زندگی کی نسبت ایک ایسی نئی زندگی حاصل کرتا ہے جس کو نسبتی طور پر خارق عادت کہہ سکتے ہیں تو اسی دم سے وہی قدیم خدا اپنی تجلیات نادرہ کے رو سے ایک نیا خدا اس کے لئے ہوجاتا ہے اور وہ عادتیں اس کے ساتھ ظہور میں لاتا ہے جو پہلی زندگی کی حالت میں کبھی خیال میں بھی نہیں آئی تھیں۔ خوارق کی کل جس سے عجائبات قدرتیہ حرکت میں آتی ہیں انسان کی تبدیل یافتہ روح ہے اور وہ سچی تبدیلی یہاں تک آثار نمایاں دکھاتی ہے کہ بعض اوقات ایک ایسے طور سے شور محبت دل پر استیلا پکڑتا ہے اور عشق الٰہی کے ُ پرزور جذبات اور صدق اور یقین کی سخت کششیں ایسے مقام پر انسان کو پہنچا دیتی ہیں کہ اس عجیب حالت میں اگر وہ آگ میں ڈالا جائے تو آگ اس پر کچھ اثر نہیں کرسکتی اگر وہ شیروں اور بھیڑیوں اور ریچھوں کے آگے پھینک دیا جائے تو وہ اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ اس وقت وہ صدق اور عشق کے کامل اور قوی تجلیات سے بشریت کے خواص کو پھاڑ کر کچھ اور ہوجاتا ہے اور جس طرح لوہے کے ظاہر و باطن پر آگ مستولی ہوکر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 107
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 107
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/107/mode/1up
اس ؔ کو اپنے رنگ میں لے آتی ہے اسی طرح یہ بھی آتشِ محبتِ الٰہی کے ایک سخت استیلا سے کچھ کچھ اس طاقت عظمیٰ کے خواص ظاہر کرنے لگتا ہے جو اس پر محیط ہوگئی ہے سو یہ کچھ تعجب کی بات نہیں کہ عبودیت پر ربوبیت کا کامل اثر پڑنے سے اس سے ایسے خوارق ظاہر ہوں۔ بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ایسے اثر کے بعد بھی عبودیت کی معمولی حالت میں کچھ فرق پیدا نہ ہو کیونکہ اگر لوہا آگ میں تپانے سے کسی قدر خاصہ آگ کا ظاہر کرنے لگے تو یہ امر سراسر مطابق قانونِ قدرت ہے لیکن اگر سخت تپانے کے بعد بھی اسی پہلی حالت پر رہے اور کوئی خاصیت جدید اس میں پیدا نہ ہو تو یہ عندالعقل صریح باطل ہے سو فلاسفی تجارب بھی ان خوارق کے ضروری ہونے پر شہادت دے رہے ہیں۔ یہ افسانہ نہیں اس پر عارفانہ روح لے کر غور کرو۔ کیا بدنصیب وہ شخص ہے جو اس کو افسانہ سمجھے اور غور نہ کرے اس حالت خارقہ کو عارف کا دل جو مبدل ہے خوب شناخت کرتا ہے۔ دنیا اس حالت سے غافل ہے اور انکار کرتی ہے پر وہ جو اس مرتبہ تک پہنچا ہے وہ اس یقینی صداقت کے تصور سے سرور میں ہے۔ یہ تجلیات الٰہیہ کا ایک دقیق بھید ہے اور اعلیٰ درجہ کا راز معرفت ہے اور انسانی روح کے تعلقات جو درپردہ وہ اپنے ربّ کریم سے نہایت نازک اور لایدرک طور پر واقعہ ہیں وہ اسی نقطہ پر آکر کھلتے ہیں اور اسی نقطہ پر ایک طرفۃ العین کے لئے بندہ کے ہاتھ خدا کے ہاتھ اور اس کی آنکھیں خدا کی آنکھیں اور اس کی زبان خدا کی زبان کہلاتی ہے اور ربوبیت کی چادر ذرّہ عبودیت پر پڑ کر اس کو اپنے انوار میں متواری اور اپنی پرزور موجوں کے نیچے گم کردیتی ہے۔ فلسفیوں کی پرغرور روحیں اس انتہائی مرتبہ کے دریافت کرنے سے بے نصیب گئیں اور خدائے عزوجل نے دل کے غریب اور سادہ لوگوں کو یہ حالتیں دکھا دیں اور ان پر وارد کردیں۔وَ 3 3 اب خلاصہ کلام یہ کہ خدائے تعالیٰ کی ذات میں بہت سی عجائب رحمتیں اور بہت سی نادر وفاداریاں ہیں مگر کھلے کھلے طور پر انہیں پر ظاہر ہوتی ہیں کہ جو لوگ اسی کے ہوجاتے ہیں اور اسی کے ہورہتے ہیں اور اس ایک کے پانے کے لئے بہتوں کی جدائی اختیار کرتے ہیں خاک میں گرتے ہیں تا وہ پکڑلے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 108
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 108
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/108/mode/1up
نامؔ وننگ سب کھوہ دیتے ہیں تا وہ راضی ہوجائے رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَ ادْخِلْنَا فِیْ عِبَادِکَ الْمُخْلَصِیْنَ۔ اٰمِیْن۔
جنس نام و ننگ و عزت را زِ دامان ریختم
یار آمیزد مگر باما بہ خاک آمیختم
دل بدادیم ازکف و جاں در رہے انداختیم
ازپئے وصلِ نگاری حیلہ ہا انگیختم
اب ہم وہ مباحثہ مذہبی جو مابین ہمارے اور لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر کے بالموا جہ وقوع میں آیا ذیل میں درج کرتے ہیں۔
وہ یہ ہے۔
اعتراض از طرف لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر
میں نے اس وقت چھ۶ سوال پوچھنے ہیں جن میں سے پہلا یہ ہے کہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ نبی معجزے دکھلاتے رہے ہیں چنانچہ حضرت محمد صاحب نے چاند کے دو ٹکڑے کرکے دونوں آستینوں سے نکال دیا۔ سو یہ امر قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ ایک شے ہزاروں میل لمبی چوڑی یا ہزاروں میل قطر والی چھہ انچہ یا ایک فٹ کے سوراخ سے نکل جاوے اور چاند جو ماہواری گردش زمین کے گرد کرتا ہے وہ اپنی گردش کو چھوڑ کر ادھر ادھر ہوجائے جس سے انتظام عالم میں ہی فرق آجائے۔ اور پھر علاوہ اس کے سوائے دو چار شخصوں کے کوئی نہ دیکھے۔ کیونکہ کسی ملک میں مثلاً ہندوستانؔ چینؔ برہماؔ وغیرہ کی تاریخوں میں اس کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا۔ اِس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ باتیں بالکل بناوٹی ہیں اگر اصلی ہیں تو ان کا کیا ثبوت ہے۔ مرلیدؔ ھر
جواب از مؤلفِ رسالہ ہذا
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
ماسٹرؔ صاحب نے جو معجزہ شق القمر پر اعتراض کیا ہے کہ شق القمر ہونا خلافِ عقل
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 109
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 109
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/109/mode/1up
ہےؔ اور دوسرے یہ کہ آستین میں سے چاند کے دو ٹکڑے ہوکر نکل جانا صریح عقل کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں واضح ہو کہ یہ اعتراض کہ کیونکر چاند دو ٹکڑے ہوکر آستین میں سے نکل گیا تھا یہ سراسر بے بنیاد اور باطل ہے کیونکہ ہم لوگوں کا ہرگز یہ اعتقاد نہیں ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی آستین میں سے نکلا تھا اور نہ یہ ذکر قرآن شریف میں یا حدیث صحیح میں ہے اور اگر کسی جگہ قرآن یا حدیث میں ایسا ذکر آیا ہے تو وہ پیش کرنا چاہیئے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی آریہ صاحبوں پر یہ اعتراض کرے کہ آپ کے یہاں لکھا ہے کہ مہان دیوجی کی لٹوں سے گنگا نکلی ہے۔ پس جس اعتراض کی ہمارے قرآن یا حدیث میں کچھ بھی اصلیت نہیں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ ماسٹر صاحب کو اصول اور کتب معتبرہ اسلام ؔ سے کچھ بھی واقفیت نہیں۔ بھلا اگر یہ اعتراض ماسٹر صاحب کا کسی اصل صحیح پر مبنی ہے تو لازم ہے کہ ماسٹرؔ صاحب اسی جلسہ میں وہ آیت قرآن شریف پیش کریں جس میں ایسا مضمون درج ہے یا اگر آیت قرآن نہ ہو تو کوئی حدیث صحیح ہی پیش کریں جس میں ایسا کچھ بیان کیا گیا ہو اور اگر بیان نہ کرسکیں تو ماسٹر صاحب کو ایسا اعتراض کرنے سے متندم ہونا چاہئے کیونکہ منصب بحث ایسے شخص کے لئے زیبا ہے جو فریق ثانی کے مذہب سے کچھ واقفیت رکھتا ہو باقی رہا یہ سوال کہ شق قمر ماسٹر صاحب کے زعم میں خلافِ عقل ہے جس سے انتظام ملکی میں خلل پڑتا ہے یہ ماسٹر صاحب کا خیال سراسر قلت تدبّر سے ناشی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ جل شانہٗ جو کام صرف قدرت نمائی کے طور پر کرتا ہے وہ کام سراسر قدرتِ کاملہ کی ہی وجہ سے ہوتا ہے نہ قدرتِ ناقصہ کی وجہ سے یعنے جس ذات قادر مطلق کو یہ اختیار اور قدرت حاصل ہے کہ چاند کو دو ٹکڑہ کرسکے اس کو یہ بھی تو قدرت حاصل ہے کہ ایسے ُ پرحکمت طور سے یہ فعل ظہور میں لاوے کہ اس کے انتظام میں بھی کوئی خلل عائد نہ ہو اسی وجہ سے تو وہ سرب شکتی مان اور قادرِ مطلق
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 110
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 110
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/110/mode/1up
کہلاتاؔ ہے اور اگر وہ قادر مطلق نہ ہوتا تو اس کا دنیا میں کوئی کام نہ چل سکتا۔ ہاں یہ شناعتِ عقلی آریوں کے اکثر عقائد میں جابجا پائی جاتی ہے جس سے ایک طرف تو ان کے اعتقادات سراسر خلاف عقل معلوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف خلاف قدرت و عظمتِ الٰہی بھی جیسے روحوں اور اجزاء صغار عالم کا غیر مخلوق اور قدیم اور انادی ہونا اصول آریہ سماج کا ہے۔ اور یہ اصول صریح خلاف عقل ہے اگر ایسا ہو تو پرمیشر کی طرح ہرایک چیز واجب الوجود ٹھہرجاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں رہتی بلکہ کاروبار دین کا سب کا سب ابتر اور خلل پذیر ہوجاتا ہے کیونکہ اگر ہم سب کے سب خدائے تعالیٰ کی طرح غیرمخلوق اور انادی ہی ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کا ہم پر کونسا حق ہے اور کیوں وہ ہم سے اپنی عبادت اور پرستش اور شکر گزاری چاہتا ہے اور کیوں گناہ کرنے سے ہم کو سزا دینے کو طیار ہوتا ہے اور جس حالت میں ہماری روحانی بینائی اور روحانی تمام قوتیں خودبخود قدیم سے ہیں تو پھر ہم کو فانی قوتوں کے پیدا ہونے کے لئے کیوں پرمیشر کی حاجت ٹھہری۔ غرض خلاف عقل بات اگر تلاش کرنی ہو تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں جو خدائے تعالیٰ کو اول اپنا خدا کہہ کر پھر اس کو خدائی کے کاموں سے الگ رکھا جائے لیکن جو کام خدائے تعالیٰ کا صرف قدرت سے متعلق ہے اس پر وہ شخص اعتراض کرسکتا ہے کہ اول خدائے تعالیٰ کی تمام قدرتوں پر اس نے احاطہ کرلیا ہو۔ اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ مسئلہ شق القمر ایک تاریخی واقعہ ہے جو قرآن شریف میں درج ہے اور ظاہر ہے کہ قرآنِ شریف ایک ایسی کتاب ہے جو آیت آیت اس کی بروقت نزول ہزاروں مسلمانوں اور منکروں کو سنائی جاتی تھی اور اسی کی تبلیغ ہوتی تھی اور صدہا اس کے حافظ تھے مسلمان لوگ نماز اور خارج نماز میں اس کو پڑھتے تھے پس جس حالت میں صریح قرآن شریف میں وارد ہوا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور جب کافروں نے یہ نشان دیکھا تو کہا کہ جادو ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَر وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ‏ ‏
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 111
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 111
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/111/mode/1up
تو اس صورت میں اس وقت کے منکرین پر لازم تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان پر جاتے اور کہتے کہ آپ نے کب اور کس وقت چاند کو دو ٹکڑے کیا اور کب اس کو ہم نے دیکھا لیکن جس حالت میں بعد مشہور اور شائع ہونے اس آیت کے سب مخالفین چپ رہے اور کسی نے دم بھی نہ مارا تو صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے ضرور دیکھا تھا تب ہی تو ان کو چون و چرا کرنے کی گنجائش نہ رہی غرض یہ بات بہت صاف اور ایک راست طبع محقق کے لئے بہت فائدہ مند ہے کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کوئی جھوٹا معجزہ بحوالہ اپنے مخالفوں کی گواہی کے لکھ نہیں سکتے تھے اور اگر کچھ جھوٹ لکھتے تو ان کے مخالف ہم عصر اور ہم شہر اس زمانہ کے اسے کب پیش جانے دیتے۔ علاوہ اس کے سوچنا چاہئے کہ وہ مسلمان لوگ جن کو یہ آیت سنائی گئی اور سنائی جاتی تھی وہ بھی تو ہزاروں آدمی تھے اور ہریک شخص اپنے دل سے یہ محکم گواہی پاتا ہے کہ اگر کسی پیر یا مرشد یا پیغمبر سے کوئی امر محض دروغ اور افترا ظہور میں آوے تو سارا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسا شخص ہر ایک شخص کی نظر میں برا معلوم ہونے لگتا ہے، اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھا اور افترا محض تھا تو چاہئے تھا کہ ہزارہا مسلمان جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے ایسے کذب صریح کو دیکھ کر یکلخت سارے کے سارے مرتد ہوجاتے لیکن ظاہر ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی ظہور میں نہیں آئی پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معجزہ شق القمر ضرور وقوع میں آیا تھا۔ ہریک منصف اپنے دل میں سوچ کر دیکھ لے کہ کیا تاریخی طور پر یہ ثبوت کافی نہیں ہے کہ معجزہ شق القمر اسی زمانہ میں بحوالہ شہادت مخالفین قرآن شریف میں لکھا گیا اور شائع کیا گیا اور پھر سب مخالف اس مضمون کو سن کر چپ رہے کسی نے تحریر یا تقریر سے اس کا ردّ نہ کیا اور ہزاروں مسلمان اس زمانہ کی رویت کی گواہی دیتے رہے اور یہ بات ہم مکرر لکھنا چاہتے ہیں کہ قدرت اللہ پر اعتراض کرنا خود ایک وجہ سے انکار خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 112
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 112
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/112/mode/1up
کی ؔ قدرت مطلقہ کو نہ مانا جائے اور حسب اصول تناسخ آریہ صاحبان یہ اعتقاد رکھا جائے کہ جب تک زید نہ مرے بکر ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس صورت میں تمام خدائی اس کی باطل ہوجاتی ہے بلکہ اعتقاد صحیح اور حق یہی ہے کہ پرمیشر کو سرب شکتی مان اور قادر مطلق تسلیم کیا جائے اور اپنے ناقص ذہن اور ناتمام تجربہ کو قدرت کے بے انتہا اسرار کا محک امتحان نہ بنایا جائے ورنہ ہمہ دانی کے دعویٰ پر اس قدر اعتراض وارد ہوں گے اور ایسی خجالتیں اٹھانی پڑیں گی کہ جن کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جو بات اپنی عقل سے بلند تر دیکھتا ہے اس کو خلاف عقل سمجھ لیتا ہے حالانکہ بلند تر از عقل ہونا شے دیگر ہے اور خلاف عقل ہونا شے دیگر۔ بھلا میں ماسٹر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس بات پر قادر رہتا یا نہیں کہ جس قدر اب جرم قمری مشہود ومحسوس ہے اس سے آدھے سے بھی کام لے سکتا اور اگر قادر نہیں تو اس پر عقلی دلیل جو عندالعقل تسلیم ہوسکے کون سی ہے اور کس کتاب میں لکھی ہے تو جس حالت میں معجزہ شق القمر میں یہ بات ماخوذ ہے کہ ایک ٹکڑا اپنی حالت معہودہ پر رہا اور ایک اس سے الگ ہوگیا وہ بھی ایک یا آدھ منٹ تک یا اس سے بھی کم۔ تو اس میں کون سا استبعاد عقلی ہے اور بفرض محال اگر استبعاد عقلی بھی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ عقل ناقص انسان کی ہریک کام ربانی تک کب پہنچ سکتی ہے بھلا آپ ہی بتلاویں کہ یہ مسئلہ جو آپ کے اصول کے رو سے ستیارتھ پرکاش میں پنڈت دیانند صاحب نے لکھا ہے کہ روح انسانی اَوس کی طرح کسی گھاس پات وغیرہ پر گرتی ہے پھر اس کو کوئی عورت کھالیتی ہے اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے یہ کس قدر عقل کے برخلاف اور تمام اطباء اور فلاسفہ کی تحقیق کے مخالف ہے۔* کیونکہ ظاہر ہے کہ بچہ صرف عورت ہی کی منی سے پیدا نہیں ہوتا
لالہ مرلیدھر صاحب ڈرائینگ ماسٹر نے چودھویں مارچ ۱۸۸۶ء کے جلسۂ بحث میں جس میں راقم رسالہ ہذا کا حق تھا کہ پہلے اپنا اعتراض پیش کرے وقت کو ناحق ضائع کرنے کے لئے گیاراں مارچ ۸۶ء ؁
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 113
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 113
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/113/mode/1up
بلکہؔ عورت اور مرد دونوں کی منی سے پیدا ہوتا ہے اور اس کے اخلاق روحانی بھی صرف ماں سے مشابہت نہیں رکھتے بلکہ ماں اور باپ دونوں سے مشابہت رکھتے ہیں تو پھر یہ اعتقاد کس قدر نامعقول اور خلاف عقل ہے کہ گویا ایک عورت کی غذا میں ہی وہ روح مخلوط ہوکر کھائی جاتی ہے اور مرد اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ پھر سوچنا چاہیئے کہ کیا روح کوئی جسم کی قسم ہے کہ جسم سے مخلوط ہوجاتی ہے دیکھو کس قدر یہ اصول بعید از عقل ہے۔ ماسوا اس کے زمین کے نیچے سے ہزاروں جانور زندہ نکلتے ہیں اور بہت سی چیزوں میں سینکڑوں برسوں کے بعد کیڑے پڑجاتے ہیں ان چیزوں میں کہاں سے اور کس راہ سے روح آجاتی ہے۔ غرض اگر آپ یہ دعویٰ نہ کرتے کہ جو امر بظاہر برتر از عقل معلوم ہو وہ خدائے تعالیٰ کی قدرت سے بعید ہے تو ہمیں کچھ ضرور نہ تھا کہ آپ پر
کےؔ بحث کے متعلق ایک فضول جھگڑا شروع کردیا اور چند سطریں مندرجہ ذیل لکھ کر اور ان پر اپنے دستخط کرکر جلسہ عام میں ایک بڑے جوش سے کھڑے ہوکر سنائیں اور وہ یہ ہیں۔
آج پہلے اس کے کہ میں کوئی نیا سوال پیش کروں مرزا صاحب کی پہلے روز کی تقریر میں سے وہ حصہ جو انہوں نے فرمایا ہے کہ ستیارتھ پرکاش میں لکھا ہے کہ روحیں اَوس وغیرہ پر پھیلتی ہیں اور عورتیں کھاتی ہیں تو آدمی پیدا ہوتے ہیں پیش کرتا ہوں یہ ستیارتھ پرکاش میں کسی جگہ نہیں اگر ہے تو ستیارتھ پرکاش َ میں دیتا ہوں اس میں سے نکال کر دکھلاویں تاکہ سچ اور جھوٹ کی نرتی لوگ کرلیں۔ ۱۴؍ مارچ ۱۸۸۶ء۔ مرلیدھر ڈرائینگ ماسٹر۔
اس کے جواب میں اول تو میں نے یہ کہا کہ پہلے روز کی تقریر اسی روز کے ساتھ ختم ہوئی۔ آپ پر لازم تھا کہ اسی روز جھگڑا شروع کرتے اب یہ کیونکر اس جلسہ بحث میں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 114
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 114
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/114/mode/1up
اعترؔ اض کرتے لیکن اب تو ماسٹر صاحب آپ پر فرض ہوگیا کہ اول اپنے گھر کی باتوں کو (جو صریح خلاف عقل معلوم ہوتی ہیں۔ )عقل کے رو سے ثابت کرلیں پھر کسی دوسرے پر اعتراض کریں بھلا جس حالت میں آپ کے نزدیک روح بھی ایک باریک جسم ہے جو اوس یعنے شبنم کی طرح ہوکر آسمان سے گرتی ہے تو آپ پر یہ بھی سوال وارد ہوگا کہ انڈے میں جب بچہ مرجاتا ہے تو وہ کس راہ سے نکل جاتی ہے۔ اور پھر جب اس لاش یا میت میں اندر ہی اندر کیڑے پڑجاتے ہیں تو وہ کس راہ سے آتے ہیں پانی کے کیڑے اور ہوا کے کیڑے اور پھلوں کے کیڑے کس اَوس سے پیدا ہوتے ہیں ہریک منصف سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کہنا کہ یہ امر خلافِ عقل ہے اس شخص کے لئے حق پہنچتا ہے کہ جس نے اوّل اپنے گھر کی صفائی کرلی ہو لیکن درحقیقت عقائد اسلام میں تو ایک بات بھی خلاف عقل
تحریک کے لائق نہیں بلکہ از قبیل 228مُشتے کہ بعد از جنگ یاد آمد۔ ہے اگر آپ کو چار روز کی بات اب جاکر سوجھی ہے تو آپ بروقت شائع کرنے اپنے مضمون کے بطور خود لکھ دیں کہ یہ حوالہ غلط ہے۔ پھر دیکھا جائے گا۔ اور میں اب بھی کتاب نکال کر دکھلا دیتا لیکن مجھے پتہ یاد نہیں اور نہ میں ناگری پڑھ سکتا ہوں یہ سب عذرات سن کر ماسٹر صاحب نے سراسر مکابرہ کی راہ سے اسی پر ضد کرنا شروع کیا کہ جب تک اس کا تصفیہ نہ ہولے دوسری گفتگو نہیں کرسکتے اس پر مولوی الٰہی بخش صاحب وکیل نے بھی انہیں بہت سمجھایا کہ اس موقعہ پر گزشتہ قصوں کو لے بیٹھنا بے جا ہے آج کے دن آج ہی کی بحث ہونی چاہیئے بھلا اتنی بڑی کتاب جس کا پتہ و مقام خاص یاد نہیں اگر کسی سے پڑھائی بھی جائے تو کیا دو چار روز سے کم میں ختم ہوسکتی ہے اس کے جواب میں لالہ صاحب نے ُ تند ہوکر ان کو فرمایا کہ کیا آپ عدالتوں میں ایسی ہی وکالتیں کیا کرتے ہیں یہ رعایت کی بات ہے غرض جب دیکھا گیا کہ خدا نے ماسٹر صاحب کی کچھ ایسی ہی سمجھ رکھی ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 115
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 115
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/115/mode/1up
پائیؔ نہیں جاتی۔ ہاں بعض امور دقیقہ برتر از عقول ناقصہ ہیں جو کمال معرفت کی حالت میں منکشف ہوجاتے ہیں مگر آپ کے مذہب میں تو ہزاروں باتیں خلاف عقل اور خلاف شان الوہیت پائی جاتی ہیں تو پھر آپ دوسروں پر کیونکر اعتراض کرسکتے ہیں۔ پس اسی قدر کافی ہے۔
ماسٹر صاحب کا جواب الجواب معہ اس کی ردّ کے
قولُہٗ مرزا صاحب میرے سے حدیث یا آیت مانگتے ہیں اور ساتھ ہی قرآن کی آیت تحریر فرما کر اقرار کرتے ہیں کہ قمر کے دو ٹکڑے حضرت نے کئے۔
اقول صاحب من میں نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے پر تو آپ سے کسی آیت یا حدیث
کہ ؔ وہ بہرحال اپنے الٹے کو سیدھا اور دوسرے کے سیدھے کو الٹا خیال کرتے ہیں تو قصہ کوتاہ کرنے کی غرض سے ان کو کہا گیا کہ جب ہم یہ بحث شائع کریں گے تو اس مقام پر ستیارتھ پرکاش کا حوالہ بھی ضرور لکھ دیں گے چنانچہ ماسٹر صاحب نے جب تک یہ اقرار تحریری نہ لکھا لیا تب تک صبر نہ آیا سو آج وہ روز ہے جو ہم اس وعدہ کو پورا کریں اور دیکھیں کہ ماسٹر صاحب کس قدر انسانی غیرت کو کام میں لاکر شرمندہ اور منفعل ہوتے ہیں۔
لیکن اوّل اس بات کا کھول دینا ازبس ضروری ہے کہ جس حالت میں ستیارتھ پرکاش میں وہ مضمون جس کا حوالہ دیا گیا تھا صاف درج تھا تو پھر کیوں ماسٹر صاحب نے اس کے اندراج سے صاف انکار کیا اور اس کے مطالبہ میں اس قدر بے جا ضد کی کہ بہت سے وقت کو کھویا جس سے ہمارا حق بالمقابل اعتراض کرنے کا بہت سا ضائع ہوا اس کا سبب تین میں سے ایک ہے یا تو یہ کہ ابھی ماسٹر صاحب کو اپنے مذہب کی کتابوں کی کچھ خبر ہی نہیں صرف دیکھا دیکھی بحث کرنے کا شوق ہوگیا ہے یا دوسرا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 116
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 116
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/116/mode/1up
کی ؔ سند نہیں مانگی بلکہ ایک ادنیٰ استعداد کا اردو خوان بھی میرے جواب کو پڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ میں نے تو آپ سے یہ ثبوت مانگا تھا کہ قرآن شریف یا حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ چاند دو ٹکڑے ہوکر زمین پر گر پڑا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی آستینوں میں سے اس کو نکال دیا سو آپ نے اس کا کچھ ثبوت نہ دیا۔
قولہ میرا سوال تھا کہ جو بات خلافِ قانون قدرت ہے (یعنے شق القمر) وہ کس طرح ہوسکتی۔
اقول بے شک اس قدر حصہ آپ کے سوال کا تو بہت صحیح اور درست ہے کہ خلاف قانون قدرت ازلی و ابدی کوئی بات ظہور میں نہیں آتی لیکن ساتھ اس کے یہ دعویٰ آپ کا کہ اس قانون ازلی و ابدی پر انسانی عقل نے احاطہ تام کرلیا ہے اور پھر اس خیال باطل
کہؔ خبر تو تھی لیکن خیانت کی راہ سے دوسروں کے بہکانے اور دھوکا دینے کے لئے ایک امر حق کو چھپانا چاہا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کے جھوٹے اور لغو مسائل کا حتی الوسع لوگوں کے روبرو ظاہر نہ کرنا پنڈت دیانند کی طرف سے بطور وصیت فہمائش ہے جس پر ان کے پیرو عمل کررہے ہیں اور یہ آخری سبب قرین قیاس ہے اور یہی وجہ تھی کہ ماسٹر صاحب نے اپنا تمام جوش اسی میں خرچ کیا کہ ایسا نالائق مضمون اور ایسا باطل خیال ستیارتھ پرکاش میں ہرگز نہیں ہے اور نہ پنڈت دیانند صاحب کی شان کے لائق ہے کہ ایسی احمقانہ باتیں ان کی قلم سے نکلیں مگر شکر ہے کہ آخر چور پکڑا گیا۔ اور اس جگہ ماسٹر صاحب کو بھی معلوم رہے کہ پنڈت صاحب کی یہ ایک نئی غلطی نہیں بلکہ ان کی اکثر تحریریں ایسی ہی ہیں کہ جن کو غلطستان کہنا چاہئے اُن کی فطرت ہی کچھ ایسی واقعہ تھی کہ باریک باتوں تک ان کی عقل نہیں پہنچ سکتی تھی اور خالص اور مغشوش دلائل میں فرق نہیں کرسکتے تھے ہاں بعض اوقات پیچھے سے وقت گزرنے کے بعد سمجھ بھی جاتے تھے کہ ہم سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 117
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 117
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/117/mode/1up
کےؔ رو سے شق القمر پر اعتراض کرنا یہ بالکل غلط اور سراسر سمجھ کا پھیر ہے عقلمندی یہ ہے کہ قانون قدرت جو ہنوز انسانی دفتروں میں غیر مکمل ہے اس کو ہمیشہ عجائبات جدید الظہور کا تابع رکھنا چاہیے نہ یہ کہ جو عجائبات خواص عالم نئے نئے کھلتے جائیں ان کو باوجود ثبوت کے اس وجہ سے رد کردیں کہ جو کچھ آج تک ہمیں معلوم ہے یہ اس سے زائد امر ہے۔ اس سے زیادہ تر کون سی فضول گوئی اور بے سمجھی ہوگی کہ اپنے چند روزہ اور محدود اور مشتبہ تجربہ کو خدائے تعالیٰ کا مکمل قانون قدرت خیال کر بیٹھیں اور پھر جو آئندہ اسرار کھلتے جائیں ان کو اس بنا پر خلاف قانون قدرت سمجھ لیں کہ وہ ہمارے معلومات سابقہ سے زیادہ ہیں مجھے یقین ہے کہ آپ نے اس رسالہ کے مقدمہ مذکورہ بالا کو پڑھ کر سمجھ لیا ہوگا کہ قانون قدرت کیا چیز ہے اور کس حالت میں کسی امر کو کہہ سکتے ہیں
غلطیؔ ہوئی مگر وہ سمجھنا کچھ اپنی لیاقت سے نہیں بلکہ لوگوں کے اعتراضات بارش کی طرح چاروں طرف سے برس کر متنبہ کرتے تھے اور اسی نقصان فہم کی وجہ سے پنڈت دیانند کا اپنی تمام زندگی میں یہ طریق رہا ہے کہ اول ایک بات کا دعویٰ کرنا کہ یہ مسئلہ وید کا ہے اور ہمارے ویدوں میں یوں ہی لکھا ہے اور پھر اس کو کسی رسالہ وغیرہ میں چھپوا دینا اور پھر جس وقت دانشمند لوگ اس پر اعتراض کرکے اس کا باطل ہونا کھول دیں اور لاجواب کردیں تو پھر اس مسئلہ سے گریز کرجانا اور یہ عذر پیش کردینا کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ہمارا قصور نہیں ہے بلکہ سہو کاتب ہے چنانچہ پہلے انہوں نے اپنے ستیارتھ پرکاش میں جو وید بھاش کے مشتہر کرنے سے پہلے لکھی گئی ہے صفحہ ۴۲ میں لکھا تھا کہ پتھروں میں سے جو کوئی جیتا ہو اس کا ترپن نہ کرے اور جتنے مر گئے ہوں ان کا تو ضرور کرے اور اس پر چند فوائد اور دلائل بھی بیان کئے تھے لیکن پھر مدت کے بعد انہوں نے اشتہار دیا کہ یہ سہو کاتب ہے۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 118
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 118
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/118/mode/1up
کہ ؔ یہ خلافِ قانون قدرت ہے اور اگر آپ نے اب تک اس مقدمہ کو غور کرکے نہیں دیکھا تو میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ آپ غور سے اس مفید مقام کو پڑھیں کیونکہ ان علمی نکات کے جانے بغیر آپ قانون قدرت کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے۔
قولہ شق القمر سے انتظام عالم میں فتور واقعہ ہوجاتا ہے۔
اقول اگر کسی کی خود اپنی ہی عقل میں فتور نہ ہو تو سمجھ سکتا ہے کہ کسی چیز کے ایک نئے خاصہ کا ظہور میں آنا اس کے پہلے خاصہ کے ابطال کے لئے ایک لازمی امر نہیں ہے سو اسی قاعدہ کے رو سے دانشمند لوگ جو خدائے تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں سے ہمیشہ ہیبت زدہ رہتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ حکیم مطلق جس کی حکمتوں کا انتہا نہیں اس کی طرف سے قمر و شمس میں ایسی خاصیت مخفی ہونا ممکن ہے کہ باوجود انشقاق کے ان کے فعل میں فرق
گویاؔ کاتب نے اپنی طرف سے ایک صفحہ معہ دلائل و فوائد لکھ مارا اور پنڈت صاحب سوئے رہے انہیں کچھ خبر نہیں۔
پھر شاید عرصہ باراں سال کا یا کچھ کم و بیش ہوا ہوگا کہ پنڈت صاحب نے ایک اشتہار اپنا دستخطی کاہنپور میں مشتہر کیا تھا کہ اکیس شاستر ایشرکرت یعنے خدا کا کلام ہے۔ پھر رفتہ رفتہ جیسے شاستروں کی خوبیاں پنڈت صاحب پر کھلتی گئیں ان کو انسان کا کلام سمجھتے گئے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصہ میں چار وید ایشرکرت رہ گئے اور باقی سب انسانی کتابیں ٹھہرائی گئیں پھر اس کے بعد ویدوں کا حصہ جس کو براہمن کہتے ہیں ان کی نظر میں صحیح ثابت نہیں ہوا تو آخر اس کو بھی ایشرکرت سے باہر کردیا اور صرف اس کے دوسرے حصہ سنگتا (منتر بہاگ) کو الہامی سمجھا گیا۔ کاش پنڈت صاحب ایک دو سال اور بھی جیتے تا ان نوخیال آریوں کو چاروں ویدوں سے بھی آزاد کرجاتے۔ اتھرون وید کا قصہ تو جلد پاک ہوجاتا کیونکہ اس کی نسبت تو پہلے ہی بعض ہندؤں کا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 119
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 119
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/119/mode/1up
نہ آؔ وے اسی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ‏
نزدیک آگئی وہ گھڑی اور پھٹ گیا چاند۔ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ روز ازل سے حکیم مطلق نے ایک خاصہ مخفی چاند میں رکھا ہوا تھا کہ ایک ساعت مقررہ پر اس کا انشقاق ہوگا اور یہ ظاہر ہے کہ نجوم اور شمس اور قمر کے خواص کا ظہور ساعات مقررہ سے وابستہ ہے اور ساعات کو حدوث عجائبات سماوی و ارضی میں بہت کچھ دخل ہے اور حقیقت میں قوانین قدرتیہ کا شیرازہ انہیں ساعات سے باندھا گیا ہے سو کیا عمدہ اور پرحکمت اور فلسفیانہ اشارہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آیت مندرجہ بالا میں فرمایا کہ چاند کے پھٹنے کی جو ساعت مقرر اور مقدر تھی وہ نزدیک آگئی اور چاند پھٹ گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے آگے بھی فرماتا ہے
وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْۤا اَهْوَآءَهُمْ‌ وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ‏
خیالؔ ہے کہ وہ براہمن پشتک ہے اور تین ویدوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ خیر یہ جھگڑا ہمارے اس وقت کے بحث سے متعلق نہیں صرف یہ ظاہر کرنا تھا کہ پنڈت دیانند قائم الرائے آدمی نہیں تھا اور فطرت سے ان کو ایک موٹی عقل ملی تھی جس کی وجہ سے وہ دوسروں کی باتوں کو تو کیا سمجھتے اپنی رائے کے آخری نتائج سے بھی اکثر بے خبر رہتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کے خیالات ایک ہی مرکز پر قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ اوائل میں ان کی یہ رائے تھی کہ تناسخ باطل ہے چنانچہ یہ رائے ان کی ایک مرتبہ وکیل ہند امرتسر میں بھی چھپی تھی پھر اسی اخبار میں لکھا تھا کہ اب پنڈت صاحب فرماتے ہیں کہ اب میں نے عقیدہ تناسخ کو اختیار کرلیا ہے گو پہلے نہیں تھا پھر چاندؔ اپور کے مباحثہ پر جو ان کی طرف سے ایک رسالہ نکلا تھا اس میں انہوں نے مکتی جاودانی کا صاف اقرارکیا تھا چنانچہ اب تک رسالہ موجود ہے اور جب سوال کیا گیا کہ اگر مکتی جاودانی ہے تو پھر روح کسی نہ کسی دن مکتی پاکر ختم ہوجائیں گے کیونکہ پرمیشر میں تو یہ قدرت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 120
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 120
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/120/mode/1up
یعنے ؔ کفار نے تو چاند پھٹنے کو سحر پر حمل کیا اور تکذیب کی مگر یہ سحر نہیں ہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی ان امور یعنے قوانین قدرتیہ میں سے ہے جو اپنے اپنے وقتوں میں قرار پکڑنے والے ہیں اور عقلمند انسان اس نشان قدرت سے کیوں تعجب کرے کیا اللہ تعالیٰ کے کارخانہ قدرت میں یہی ایک بات بالاتر از عقل ہے جو حکیموں اور فلسفیوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور باقی تمام اسرار قدرت انہوں نے سمجھ لئے ہیں اور کیا یہ ایک ہی عقدہ لاینحل ہے اور باقی سب عقدوں کے حل کرنے سے فراغت ہوچکی ہے اور کیا اللہ تعالیٰ کے عجائب کاموں میں سے یہی ایک عجیب کام ہے اور کوئی نہیں بلکہ اگر غور کرکے دیکھو تو اس قسم کے ہزارہا عجائب کام اللہ تعالیٰ کے دنیا میں پائے جاتے ہیں زمین پر سخت سخت زلازل آتے رہتے ہیں اور بسا اوقات کئی میل زمین تہ و بالا ہوگئی ہے مگر پھر بھی انتظام عالم میں فتور واقع نہیں ہوا حالانکہ جیسے چاند کو اس انتظام میں دخل ہے ویسا ہی زمین کو غرض یہ ملحدانہ شکوک انہیں لوگوں
ہی ؔ نہیں کہ کوئی روح پیدا کرسکے۔ اس کے جواب میں انہوں نے اپنے چیلوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ روح بے انت ہیں کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ پھر جب ہم نے اخبار وکیل ہند میں مشتہر کیا کہ کیا پرمیشر بھی جانتا ہے یا نہیں کہ اس قدر روح ہیں تو یہ جواب ملا کہ روحوں کی تعداد کی پرمیشر کو بھی خبر نہیں اس کی بے خبری سے ہی یہ سارا انتظام دنیا کا چلا جاتا ہے پھر جب لوگوں نے اس اعتقاد پر بہت ہنسی ٹھٹھا شروع کیا تب پنڈت صاحب تنگ اور لاچار آکر دوسری طرف الٹے اور فرمایا کہ ہاں روح تو بے انت نہیں ہیں مگر یہ بات سچ ہے کہ کسی کو اوتار ہو یا رشی ہو کوئی ہو ہمیشہ کی نجات نہیں ملے گی اور کیسا ہی کوئی اعلیٰ درجہ کا نیک اور عاشق الٰہی ہوجائے مگر تب بھی جونوں کی دائمی بلا سے اس کو مخلصی نہیں ہوگی پرمیشر تو رحیم ہی تھا مگر وہ بیچارہ کیا کرسکے ہمیشہ کی نجات دینا اس کی قدرت سے باہر ہے کیونکہ وہ کسی روح کو پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کی ساری بدنامیوں کی جڑھ یہی ہے غرض پنڈت
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 121
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 121
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/121/mode/1up
کےؔ دلوں میں اٹھتے ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کو اپنے جیسا ایک ضعیف اور کمزور اور محدود الطاقت خیال کرلیتے ہیں اگر خدائے تعالیٰ پر اس قسم کے اعتراضات وارد ہوسکتے ہیں تو پھر کسی طور سے عقل تسلی نہیں پکڑسکتی کہ یہ بڑے بڑے اجرام علوی و سفلی کیونکر اور کن ہتھیاروں سے اس نے بنا ڈالے۔
قولہ ممالک غیر اور اقوام غیر کی تاریخ میں ایسی بڑی بات کا ذکر (یعنی شق القمر کا ذکر) ضرور چاہئے۔
اقول میں کہتا ہوں کہ آپ اپنے اسی قول سے ملزم ٹھہرسکتے ہیں کیونکہ جس حالت میں چاند کے دو ٹکڑہ کرنے کا دعویٰ زور شور سے ہوچکا تھا یہاں تک کہ خاص قرآن شریف میں مخالفوں کو الزام دیا گیا کہ انہوں نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا اور اعراض کرکے کہا کہ یہ پکا جادو ہے۔ اور پھر یہ دعویٰ نہ صرف عرب میں بلکہ اسی زمانہ میں تمام ممالک روم و شام و مصر و فارس وغیرہ دور دراز ممالک میں پھیل گیا تھا تو اس صورت میں یہ بات کچھ تعجب کا محل نہ تھا کہ مختلف قومیں جو مخالف اسلام تھیں وہ دم بخود اور خاموش رہتیں اور بوجہ عناد
صاؔ حب کی کارروائیوں میں اس قسم کی خیانتیں بہت تھیں کہ ایک بات کو اپنے منہ سے نکالنا یا چھپوا دینا اور جب اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے تو فی الفور منکر ہوجانا اور پھر طبع شدہ کتاب کی ترمیم کرکے دوسری کتاب چھپوانا۔ اب ہم اصل مقصود کی طرف رجوع کرکے ستیارتھ پرکاش کا وہ مقام لکھتے ہیں جس کے لکھنے کا ماسٹر مرلیدھر صاحب کو وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے۔
ستیارتھ پرکاش ۱۸۷۵ ؁ء آٹھواں سمولاس صفحہ ۲۶۳۔
سوال جنم اور موت وغیرہ کس طرح سے ہوتے ہیں۔
جواب لنگ شریر یعنے جسم دقیق (روح) اور ستہول شریر جسم کثیف باہم مل کر جب ظاہر ہوتے ہیں تب اس کا نام جنم یعنے پیدائش ہوتا ہے۔ اور دونوں کی علیحدگی سے غائب ہوجانے کو موت کہتے ہیں۔
سو اس طرح سے ہوتا ہے کہ روح اپنے اعمال کے نتائج سے گردش کرتی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 122
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 122
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/122/mode/1up
وبغضؔ و حسد شق القمر کی گواہی دینے سے زبان بند رکھتیں کیونکہ منکر اور مخالف کا دل اپنے کفر اور مخالفت کی حالت میں کب چاہتا ہے کہ وہ مخالف مذہب کی تائید میں کتابیں لکھے یا اس کے معجزات کی گواہی دیوے۔ ابھی تازہ واقعہ ہے کہ لالہ شرمپت و ملاوامل آریہ ساکنان قادیان و چنددیگر آپ کے آریہ بھائیوں نے قریب ۷۰ کے الہامی پیشگوئیاں اس عاجز کی بچشم خود پوری ہوتی دیکھیں جن میں پنڈت دیانند کی وفات کی خبر بھی تھی۔ چنانچہ اب تک چند تحریری اقرار بعضوں کے ہمارے پاس موجود پڑے ہیں لیکن آخر قوم کے طعن ملامت سے اور نیز ان کی اس دھمکی سے کہ ان باتوں کی شہادت سے اسلام کو تائید پہنچے گی اور وہ امر ثابت ہوگا کہ جس میں پھر وید کی بھی خیر نہیں ڈر کر مونہہ بند کرلیا اور ناراستی سے پیار کرکے راستی کی شہادت سے کنارہ کش ہوگئے سو مخالف ہونے کی حالت میں اگر کوئی ادائے شہادت سے خاموش رہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اگر مخالف کی طرف سے ایک دعویٰ کا جھوٹا ہونا کھل جائے تو پھر جھوٹ کی اشاعت کے لئے قلم نہ اٹھائیں اور دروغگو کو اس کے گھر تک نہ پہنچائیں سو میں پوچھتا ہوں کہ اگر آنحضرت
اورؔ اپنے افعال کی تاثیر سے گھومتے ہوئے پانی یا کسی اناج یا ہوا میں ملتی ہے پھر جب وہ پانی یا کسی بوٹے وغیرہ کے ساتھ مل جاتی ہے تو جیسے جس کے افعال کا اثر یعنے جتنا جس کو سکھ یا دکھ ہونا ضروری ہے خدا کے حکم کی موافق ویسی جگہ اور ویسے ہی جسم میں مل کے شکم مادر میں داخل ہوجاتی ہے پھر جب حیوان یا انسان میں وہ غذا کے ساتھ اندر چلی جاتی ہے اس کے جسم کے حصہ کی کشش سے اس کا جسم بنتا ہے اسی طریقہ سے جو پرمیشر نے مقرر کررکھا ہے روح نکلنے کے بعد آفتاب کی کرنوں کے ساتھ اوپر کو کھینچی جاتی ہے اور پھر چاند کے نور کے ساتھ (اَوس کی طرح) زمین پر کسی بوٹی وغیرہ پر گرتی ہے۔ پھر بموجب طریقۂ مذکورہ بالا جسم اختیار کرتی ہے۔
یہ پنڈت صاحب کی عبارت ہے جو ہم نے ستیارتھ پرکاش سے نکال کر اس جگہ لکھی ہے اب ہم ماسٹر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ کیوں صاحب ابھی سچ اور جھوٹ کی نرتی ہوئی یا نہیں۔ اس وقت ذرا آپ فرمائیں تو سہی کہ آپ کے دل کا کیا حال ہے کیا وہ آپ کا قول سچ نکلا کہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 123
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 123
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/123/mode/1up
صلیؔ اللہ علیہ و سلم جنہوں نے عام اور علانیہ طور پر یہ دعویٰ مشہور کردیا تھا کہ میرے ہاتھ سے معجزہ شق القمر وقوع میں آگیا ہے اور کفار نے اس کو بچشم خود دیکھ بھی لیا ہے مگر اس کو جادو قرار دیا اپنے اس دعویٰ میں سچے نہیں تھے تو پھر کیوں مخالفین آنحضرت جو اسی زمانہ میں تھے جن کو یہ خبریں گویا نقارہ کی آواز سے پہنچ چکی تھیں چپ رہے اور کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مواخذہ نہ کیا کہ آپ نے کب چاند کو دو ٹکڑے کرکے دکھایا اور کب ہم نے اس کو جادو کہا اور اس کے قبول سے مونہہ پھیرا اور کیوں اپنے مرتے دم تک خاموشی اختیار کی اور مونہہ بند رکھا یاں تک کہ اس عالم سے گزر گئے کیا ان کی یہ خاموشی جو ان کی مخالفانہ حالت اور جوش مقابلہ کے بالکل برخلاف تھی اس بات کا یقین نہیں دلاتے کہ کوئی ایسی سخت روک تھی جس کی و جہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے مگر بجز ظہور سچائی کے اور کون سی روک تھی یہ معجزہ مکہ میں ظہور میں آیا تھا اور مسلمان ابھی بہت کمزور اور غریب اور عاجز تھے پھر تعجب یہ کہ ان کے بیٹوں یا پوتوں نے بھی انکار میں کچھ زبان کشائی نہ کی حالانکہ ان پر واجب و لازم تھا کہ اتنا بڑا دعویٰ اگر افترا محض تھا اور صدہا کوسوں میں مشہور ہوگیا تھا اس کی ردّ میں
مضمونؔ مذکورہ بالا ستیارتھ پرکاش میں کسی جگہ نہیں۔ افسوس اس روز ناحق آپ نے ہمارے اوقات کو ضائع کیا اور اپنی علمی حیثیت کا پردہ پھاڑا اور آج آپ ہی جھوٹے نکلے۔ ہر کہ باصادقاں آویخت آبروئے خودریخت۔
اب آپ سوچ لیں کہ آپ کے پنڈت صاحب ویددان نے کیسا ایک ناقص خیال خلاف عقل و خلاف تجارب طبعی و طبابت ظاہر کیا ہے تمام عقلا جانتے ہیں کہ روح کا تعلق صرف بچہ کی والدہ سے نہیں ہوتا بلکہ والد اور والدہ دونوں سے ہوتا ہے اور روحانی اخلاق کا افاضہ بچہ کے وجود پر والدین کی طرف سے ہوتا ہے نہ ان میں سے ایک کی طرف سے ۔ ہاں اگر پنڈت صاحب یہ کسی بوٹی وغیرہ پر گرتی ہے جس کو مرد اور عورت دونوں کھالیتے ہیں اور دونوں منیوں میں روح کا عرق مخلوط ہوجاتا ہے تب بھی کچھ بات تھی مگر اس جگہ یہ شبہ پیدا ہوگا کہ کیا رُوح آدھی آدھی ہوکر گرتی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر دو ٹکڑے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 124
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 124
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/124/mode/1up
کتابیںؔ لکھتے اور دنیا میں شائع اور مشہور کرتے اور جبکہ ان لاکھوں آدمیوں عیسائیوں، عربوں، یہودیوں، مجوسیوں وغیرہ میں سے ردّ لکھنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی اور جو لوگ مسلمان تھے وہ علانیہ ہزاروں آدمیوں کے روبرو چشم دید گواہی دیتے رہے جن کی شہادتیں آج تک اس زمانہ کی کتابوں میں مندرج پائی جاتی ہیں تو یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ مخالفین ضرور شق القمر مشاہدہ کرچکے تھے اور ردّ لکھنے کے لئے کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی اور یہی بات تھی جس نے ان کو منکرانہ شوروغوغا سے چپ رکھا تھا سو جبکہ اسی زمانہ میں کروڑہا مخلوقات میں شق القمر کا معجزہ شیوع پاگیا مگر ان لوگوں نے خجلت زدہ ہوکر اس کے مقابلہ پر دم بھی نہ مارا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے مخالفین اسلام کا چپ رہنا شق القمر کے ثبوت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے ابطال کی۔ کیونکہ اس بات کا جواب مخالفین اسلام کے پاس کوئی نہیں کہ جس دعویٰ کا رد انہیں ضرور لکھنا چاہئے تھا انہوں نے کیوں نہیں لکھاؔ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کوئی معمولی درویش یا گوشہ نشین نہیں تھے تا یہ عذر پیش کیا جائے کہ ایک فقیر صلح مشرب جس نے دوسرے مذاہب پر کچھ حملہ نہیں کیا چشم پوشی کے لائق تھا بلکہ آں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے عام مخالفین کا جہنمی ہونا بیان کرتے تھے اس صورت میں مطلق طور پر جوش پیدا ہونے کے موجبات موجود تھے۔ ماسوا اس کے یہ بھی کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ واقعہ شق القمر پر جو چند سیکنڈ سے کچھ زیادہ نہیں تھا ہر یک ولایت کے لوگ اطلاع پاجائیں کیونکہ مختلف ملکوں میں دن رات کا قدرتی تفاوت اور کسی جگہ مطلع ناصاف اور ُ پرغبار ہونا اور کسی جگہ ابر ہونا ایسا ہی کئی اور ایک موجبات عدم رویت ہوجاتے ہیں اور نیز بالطبع انسان کی طبیعت اور عادت اس کے برعکس واقع ہوئی ہے کہ ہر وقت آسمان کی طرف نظر لگائے رکھے بالخصوص رات کے
ہونےؔ کے بعد اس کا پیوند کیونکر ہوجاتا ہے۔ غرض پنڈت صاحب اپنے اس باطل اعتقاد سے عجب حیص بیص میں اپنے پس ماندگوں کو پھنسا گئے ہیں اور وید کے فلسفہ کا عجیب ایک نمونہ دکھا گئے۔
اور ہم اس جگہ یہ بھی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ پنڈت دیانند صاحب کا یہ اعتقاد کہ روح جسم ہے یہ بھی سراسر غلط اور فاسد ہے روح ہرگز جسم نہیں ہے جسم قسمت کو قبول کرتا ہے اور روح قابل انقسام نہیں اور اگر یہ کہو کہ وہ جز لایتجزی ہے یعنے پرمانو (پر کرتی )ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ کئی روحوں کو باہم جوڑ کر ایک بڑا جسم طیار ہوجائے جس کو دیکھ سکیں اور ٹٹول سکیں کیونکہ جز لایتجزی جس کو آریہ لوگ پرکرتی یا پرمانو کہتے ہیں یہی خاصیت رکھتی ہے جیسے پنڈت صاحب آپ ہی قائل ہیں کہ اجسام کثیف پرمانوں کے باہم ملنے سے طیار ہوتے ہیں مگر کیا پنڈت صاحب کا کوئی شاگرد ایسا جسم ہم کو دکھا سکتا ہے جو دو چار ہزار یا دو چار لاکھ یا کسی اور اندازہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 125
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 125
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/125/mode/1up
نے کیوں نہیں لکھاؔ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کوئی معمولی درویش یا گوشہ نشین نہیں تھے تا یہ عذر پیش کیا جائے کہ ایک فقیر صلح مشرب جس نے دوسرے مذاہب پر کچھ حملہ نہیں کیا چشم پوشی کے لائق تھا بلکہ آں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے عام مخالفین کا جہنمی ہونا بیان کرتے تھے اس صورت میں مطلق طور پر جوش پیدا ہونے کے موجبات موجود تھے۔ ماسوا اس کے یہ بھی کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ واقعہ شق القمر پر جو چند سیکنڈ سے کچھ زیادہ نہیں تھا ہر یک ولایت کے لوگ اطلاع پاجائیں کیونکہ مختلف ملکوں میں دن رات کا قدرتی تفاوت اور کسی جگہ مطلع ناصاف اور ُ پرغبار ہونا اور کسی جگہ ابر ہونا ایسا ہی کئی اور ایک موجبات عدم رویت ہوجاتے ہیں اور نیز بالطبع انسان کی طبیعت اور عادت اس کے برعکس واقع ہوئی ہے کہ ہر وقت آسمان کی طرف نظر لگائے رکھے بالخصوص رات کے
پرؔ روحوں کے باہم ملنے سے طیار ہوگیا ہو اور دیکھنے اور ٹٹولنے میں آسکتا ہو۔ سو یہ دیانند صاحب کا پوچ خیال ہے کہ روح بھی پرمانوہی ہے۔
ماسوا اس کے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جز لا یتجزی دلائل عقلیہ اور ہندسیہ سے باطل ہے اور اس کے ابطال پر ایک آسان دلیل یہ ہے کہ اگر جز لایتجزی یعنے پر مانو (پرکرتی) کو دو چیزوں کے درمیان رکھا جائے تو ضرور ہے کہ وہ دونوں چیزیں اطراف مخالف سے اس کو مس کریں گی اور یہ امر تقسیم کو ثابت کرنے والا ہے۔
دوسرے یہ کہ نقطہ بھی جز لا یتجزی ہے اور بموجب اُصول موضوعہ علمِ ہندسہ کے ہم کو اختیار ہے کہ ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ تک خط مستقیم کھینچ لیں مثلاً ہم مختار ہیں کہ نقاط ا اور ب میں ا۔۔۔۔ب ایک ایسا خط مستقیم کھینچ لیں جس کاُ کل مجموعہ گیاراں نقطے ہوں پھر بعد اس کے ہم یہ بھی اختیار رکھتے ہیں کہ بموجب شکل دہم مقالہ اولیٰ تحریر اقلیدس اس خط محدود کی تنصیف کریں۔ سو ظاہر ہے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 126
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 126
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/126/mode/1up
وقتؔ جو سونے اور آرام کرنے کا اور بعض موسموں میں اندر بیٹھنے کا وقت ہے ایسا التزام بہت بعید ہے۔
پھر ان سب باتوں کے بعد ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ شق القمر کے واقعہ پر ہندوؤں کی معتبر کتابوں میں بھی شہادت پائی جاتی ہے مہابھارتہہ کے دھرم پر ب میں بیاس جی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہوکر پھر مل گیا تھا۔ اور وہ اس شق قمر کو اپنے بے ثبوت خیال سے بسوامتر کا معجزہ قرار دیتے ہیں لیکن پنڈت دیانند صاحب کی شہادت اور یورپ کے محققوں کے بیان سے پایا جاتا ہے کہ مہابھارتہہ وغیرہ پُر ان کچھ قدیم اور پرانے نہیں ہیں بلکہ بعض پُرانوں کی تالیف کو تو صرف آٹھ سو یا نو سو برس ہوا ہے۔ اب قرین قیاس ہے کہ مہابھارتہہ یا اس کا واقعہ بعد مشاہدہ
کہ ؔ اس خط کے دو ٹکڑے برابر کرنے سے درمیانی نقطہ (جو پرمانو ہے) منقسم ہوجائے گا اور یہی مطلب تھا۔ ماسوا اس کے جو شخص علم نفس میں سے کچھ پڑھا ہوگا اور دلائل عدم تجسم روح اس نے دیکھے ہوں گے اس پر صاف کھل جائے گا کہ پنڈت دیانند نے اس اپنے اعتقاد میں ایسی ڈبل غلطی کھائی ہے جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہ بالکل علم روح سے بیگانہ اور ناآشنا ہے۔ کیا روح میں جسمانی لوازم و خواص بھی پائے جاتے ہیں؟ کیا وہ اپنے تعلق بالبدن میں تعلق جسمانی سے مشابہ ہے کیا وہ اپنے دخول اور خروج میں اجسام کی طرز اور طریق پر ہے پس جس حالت میں نہ جسم کو روح سے کچھ مشابہت ہے اور نہ روح کو جسم سے کچھ مماثلت تو کس قدر بے سمجھی ہے کہ روح کو جسم تسلیم کیا جائے اور پھر غذا کی طرح عورتوں اور دیگر مادہ حیوانات کو کھلایا جائے ۔ہم حیران ہیں کہ یہ کس قسم کی باتیں وید میں درج ہیں اور کیوں لوگوں نے ان فاش غلطیوں کو قبول کرلیا ہے۔ افسوس افسوس افسوس۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 127
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 127
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/127/mode/1up
واقعہؔ شق القمر جو معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تھا لکھا گیا اور بسوامتر کا نام صرف بے جا طور کی تعریف پر جیسا کہ قدیم سے ہندوؤں کے اپنے بزرگوں کی نسبت عادت ہے درج کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی شہرت ہندوؤں میں مؤلف تاریخ فرشتہ کے وقت میں بھی بہت کچھ پھیلی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے مقالہ یازدہم میں ہندوؤں سے یہ شہرت یافتہ نقل لے کر بیان کی ہے کہ شہر دہار کہ جو متصل دریائے پہنبل صوبہ مالوہ میں واقع ہے اب اس کو شاید دہارا نگری کہتے ہیں وہاں کا راجہ اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ایکبارگی اس نے دیکھا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور پھر مل گیا اور بعد تفتیش اس راجہ پر کھل گیا کہ یہ نبی عربی صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ہے تب وہ مسلمان ہوگیا۔ اس ملک کے لوگ اس کے اسلام کی وجہ یہی بیان کرتے تھے اور اس گرد نواح کے ہندوؤں میں یہ ایک واقعہ مشہور تھا جس بنا پر ایک محقق مؤلف نے اپنی کتاب میں لکھا۔ بہرحال جب آریہ دیس کے راجوں تک یہ خبر شہرت پاچکی ہے اور آریہ صاحبوں کے مہابہارتہہ میں درج بھی ہوگئے اور پنڈت دیانند صاحب ُ پرانوں کے زمانہ کو داخل زمانہ نبوی سمجھتے ہیں اور قانون قدرت کی حقیقت بھی کھل چکی تو اگر اب بھی لالہ مرلیدھر صاحب کو شق القمر میں کچھ تامل باقی ہو تو ان کی سمجھ پر ہمیں بڑے بڑے افسوس رہیں گے۔
قولہ قرآن میں لکھا جانا تاریخی ثبوت نہیں ورنہ دنیا میں جس قدر جدے جدے مذاہب والے اپنے اپنے دیوتاؤں وغیرہ کی نسبت عجائبات بیان کرتے ہیں وہ سب سچے ہوجائیں گے۔
اقول اے ماسٹر صاحب افسوس کہ تعصب کے جوش نے آپ کی کہاں تک نوبت پہنچا دی کہ آپ کی نظر میں قرآنی واقعات عام لوگوں کے مزخرفات کے برابر ہوگئے۔ ایسی باتیں جن کو لوگ بے ٹھکانہ اور بے بنیاد اپنے دیوتاؤں وغیرہ کی نسبت سینکڑوں یا ہزاروں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 128
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 128
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/128/mode/1up
برسوؔ ں کے بعد بنا دیتے ہیں جونہ ان دیوتاؤں کے زمانہ میں تحریر ہوکر شائع ہوتے ہیں اور نہ معزز اور معتبر دیکھنے والوں تک ان کا سلسلہ متواتر اور معتبر طور پر پہنچتا ہے بلکہ سراسر وہ مخلوق پرستوں کے مفتریات ہوتے ہیں جن کے ساتھ کوئی روشن دلیل نہیں ہوتی۔ ایسی بے اصل اور بے ثبوت مفتریات کو قرآنی واقعات سے آپ تشبیہہ دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ قرآن میں لکھا جانا تاریخی ثبوت نہیں تو پھر آپ ہی فرماویں کہ جس حالت میں ایسی کتاب کی تحریر تاریخی ثبوت نہیں ہوسکتی جو اپنے زمانہ کا ایک شہرت یافتہ واقعہ مخالفوں کی گواہی کے حوالہ سے بتلاتی ہے اور کتاب بھی ایک ایسے شخص کی کتاب ہے جو تمام دنیا میں عزت اور مرتبت کے ساتھ مشہور ہے تو پھر تاریخی ثبوت کسے کہتے ہیں۔ کیا تاریخوں کے تمام مجموعہ میں اس سے عمدہ تر کوئی ثبوت مل سکتا ہے کہ کوئی واقعہ ہم ایسی کتاب میں لکھا ہوا پاویں جو اسی زمانہ کا واقعہ ہو جس زمانہ کی وہ کتاب ہے اور اسی مصنف نے اس کو لکھا ہو جس نے اس کو دیکھا بھی ہو اور وہ مؤلف کتاب بھی اپنی شہرت اور عزت میں سرآمد روزگار ہو اور پھر باوجود ان سب باتوں کے مصنف نے مخالفوں کو بطور گواہِ واقعہ قرار دیا ہو۔ اور پھر وہ کتاب بھی ایسی محفوظ چلی آتی ہو کہ اسی زمانہ میں اکثر حصہ دنیا میں شہرت پاگئی ہو اور ہزارہا حافظ اس کی ابتدا سے ہوتے آئے ہوں یاں تک کہ لاکھوں حافظوں تک نوبت پہنچ گئی ہو اور اسی زمانہ کے اس کے قلمی نسخے اور بعض تفسیریں بھی موجود ہوں اور بے شمار بندگان خدا ابتدا سے اس کو اپنی پنجگانہ نمازوں میں پڑھتے اور تلاوت کرتے اور نیز پڑھاتے چلے آئے ہوں اگر کوئی تاریخی کتاب ان سب صفتوں کی جامع دنیا بھر میں بجز قرآن شریف کے آپ کی نظر میں گزری ہے تو آپ اس کو پیش کریں اور اگر پیش نہ کرسکیں تو آپ کی سزا وہی درد خجالت اور انفعال کافی ہے جو لاجواب رہنے کی حالت میں آپ کے عائد حال ہوگی۔ آپ کو خبر نہیں کہ دنیا میں جس قدر بڑے بڑے مخالف باعلم عیسائی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 129
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 129
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/129/mode/1up
یہودیؔ مجوسی وغیرہ ہیں وہ قرآنی شہادتوں سے یعنی ان واقعات سے جو قرآن شریف نے اپنے زمانہ کے متعلق لکھے ہیں انکار نہیں کرسکتے ہاں تعصب کی راہ سے بعض آیات کے معنے اور طور پرکرلیتے ہیں مثلاً شق القمر میں وہ آپ کی طرح یہ نہیں کہتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ امر خلاف واقعہ قرآن شریف میں لکھ دیا ہے۔ چنانچہ اس بات کی تو آپ بھی شہادت دے سکتے ہیں کہ آپ نے تمام عمر میں کوئی ایسی کتاب کسی فاضل انگریز یا یہودی کی نہیں دیکھی ہوگی جس میں انہوں نے آپ کی طرح یہ رائے ظاہر کی ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جھوٹا دعویٰ شق القمر کا قرآن میں لکھ دیا ہے کیونکہ جو فاضل قسیس اور باخبر انگریز ہیں وہ لوگ بباعث اپنی عام اور وسیع واقفیت کے خوب جانتے ہیں کہ جس طور اور التزام سے قرآن شریف نے اشاعت پائی ہے اور جس تشدد سے مخالفوں اور موافقوں کی نگرانی اس کی آیت آیت پر رہی ہے اور جس ُ سرعت اور جلدی سے اس کے ہریک مضمون کی تبلیغ لاکھوں آدمیوں کو ہوتی رہی ہے اور جس قلیل عرصہ میں جو بعد زمانۂ نبوی تیس برس سے بھی کم تھا وہ دنیا کے اکثر حصوں میں شہرت پاگیا ہے وہ ایسا طور اور طریق چاروں طرف سے محفوظ ہے کہ اس میں یہ گنجائش ہی نہیں کہ کوئی جھوٹا معجزہ یا کوئی جھوٹی پیش گوئی افترا کرکے قرآن شریف میں درج ہوسکتی جس کے افترا پر عیسائیوں یہودیوں عربوں مجوسیوں میں سے کسی کو بھی اطلاع نہ ہوتی۔ اسی وجہ سے اگرچہ آج تک صدہا فاضل انگریزوں نے بوجہ شدت عناد بہت کچھ مخالفانہ حملے اپنی کتابوں اور تفسیروں میں قرآن شریف پر کرنے چاہے ہیں جن میں وہ باطل پر ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکے مگر یہ رائے جو آپ نے بیان کی آج تک ان میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔ سو آپ کا ایسی کتاب کو مؤرخانہ وقعت سے باہر سمجھنا اور جوہر صافی اور خس و خاشاک برابر خیال کرلینا اور صاف صاف فرق دیکھ کر اپنی آنکھ پر پردہ ڈال لینا صرف نظر کا گھاٹا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 130
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 130
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/130/mode/1up
ہےؔ وبس۔
قولہ۔ اگر خلاف قانون قدرت پر اس وجہ سے یقین کیا جائے کہ پرمیشر سرب شکتی مان ہے تو پھر دنیا میں ہم کسی بات کو بھی جھوٹ نہیں کہہ سکتے اور فریبی اور دغاباز لوگ روزبروز بہکا سکتے ہیں۔
اقول اے صاحب میں نے آپ کو کب اور کس وقت کہا ہے کہ بے ثبوت اور تحقیق ہریک بات کو مان لیا کرو۔ میں تو آپ کو کھلا کھلا ثبوت دے رہا ہوں اور خود میرا یہی اصول ہے کہ بے تحقیق کسی تاریخی واقعہ کو نہیں ماننا چاہئے لیکن میں ساتھ اس کے آپ کو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر حقیقی دانائی سے کچھ بہرہ حاصل کرنے کا شوق ہے تو چند ناکارہ اور محدود تجارب کا نام قانون قدرت مت رکھو اور کنوئیں کے مینڈک کی طرح دنیا میں اسی قدر پانی مت سمجھو جو آپ کی نظر کے سامنے ہے۔ ایک تو آپ کے مذہب میں پہلے ہی سے یہ خرابی ہے کہ آپ لوگ اپنے تئیں واجب الوجود اور قدیم ہونے میں پرمیشر کے بھائی بند خیال کررہے ہیں پھر اگر یہ دوسرا اعتقاد فاسد بھی اس کے ساتھ مل گیا کہ پرمیشر کی طاقتیں اور قدرتیں بھی آپ کے معلومات سے زیادہ نہیں تو اس صورت میں آپ صرف بھائی بند نہ رہے بلکہ پرمیشر کے بزرگ بھی ٹھہر گئے کیونکہ بزرگوں اور باپوں کو یہ کہنا بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نسبت یہ دعویٰ کریں کہ ان کے معلومات ہمارے معلومات سے زیادہ نہیں۔
قولہ باقی سوالات جو مرزا صاحب نے اس غرض سے کئے ہیں کہ پہلے انسان اپنے گھر کو سوچ لے اگر اپنے میں نقص ہو تو دوسرے سے سوال نہ کرے تمام جہان کے نزدیک یہ مسئلہ غلط ہے۔
اقول ماسٹر صاحب آپ تمام جہان کو کیوں ناحق بدنام کرتے ہیں اپنے خیالات عجیبہ سے غرض رکھیں۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ بحث مباحثہ اظہار حق کی غرض سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 131
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 131
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/131/mode/1up
ہونا ؔ چاہئے یعنے اس نیت سے کہ اگر حق ظاہر ہو تو اسے قبول کرلیں مگر وہ شخص جو ایک بات کو اپنے لئے تو جائز رکھتا ہے لیکن اگر فریق مخالف کے کسی امر مسلم میں اس کے ہزار جز میں سے ایک جز بھی پائی جائے اور کیسی یہ خوبی سے پائی جائے تب بھی اس کو قبول نہیں کرتا ایسے شخص کی نیت ہرگز بخیر نہیں ہوتی اور جو وقت اس کے ساتھ بحث میں خرچ ہو وہ ناحق ضائع جاتا ہے پس کیا یہ ُ بری بات ہے کہ ایسے شخص کو سمجھایا جائے کہ بھائی جبکہ تو خود آپ ہی ایسی باتوں کو مانتا ہے کہ نہ صرف بالاتر از عقل بلکہ خلاف عقل بھی ہیں تو جو امور عقلِ محدود انسانی سے بالاتر ہیں اور ان کا ثبوت بھی تجھے دیا جاتا ہے۔ ان کے ماننے میں تجھے کیوں تامل ہے بلکہ تمام تر دینداری و پرہیزگاری تو اس میں ہے کہ اگر انسان ایک بات کو اپنی رائے میں صحیح سمجھتا ہے تو اسی نوع کی بات میں اپنے مخالف کے ساتھ منکرانہ جھگڑا نہ لے بیٹھے کہ یہ اوباشانہ طریق ہے جس میں فریقین کی تضیع اوقات ہے پھر پر ظاہر ہے کہ ایسا جھگڑا کس قدر برا اور خلاف طریق انصاف ہوگا کہ ایسی بات سے انکار کیا جائے کہ جو اپنے مسلّمات سے صدہا درجہ صاف اور پاک اور قدرت الٰہی میں داخل اور تاریخی طور پر ثبوت بھی اپنے ساتھ رکھتی ہو۔ بے شک ایسا نکما جھگڑا کرنے والا اپنا اور اپنے مخالف کا وقت عزیز کھونا چاہتا ہے جس کو الزامی جواب سے متنبہ کرنا اپنے حفظِ اوقات کے لئے فرض طریق مناظرہ ہے اور نیز چونکہ دنیا میں مختلف طبیعتوں کے آدمی ہیں بعض لوگ جو نادر الوجود ہیں وہ تحقیقی بات سن کر اپنی ضد چھوڑ دیتے ہیں اور اکثر عوام جو تحقیقی جواب سمجھنے کا مادہ ہی نہیں رکھتے یا بعض ان میں سے کچھ مادہ تو رکھتے ہیں مگر چاند پر خاک ڈالنا چاہتے ہیں اس لئے ان کا مونہہ الزامی جوابوں سے بند ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ الزامی طور پر چند مسلّمات آپ کے آپ کو سنائے گئے ورنہ اصل مدار جواب کا تو تحقیق پر ہی ہے۔ بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ ہر چند ویدوں میں بہت سی بے بنیاد کہانیاں بطور معجزات گزشتہ دیوتاؤں کے لکھے ہیں مثلاً رگوید اشتک اول میں لکھا ہے کہ اسونوں (دیوتاؤں) نے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 132
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 132
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/132/mode/1up
کسیؔ نامعلوم زمانہ میں ایک لولی کو لوہے کی ٹانگیں دے دی تھیں اور بانجھ کو دودھیلا کردیا تھا اور ایک اندھے کو سوجا کھا بنا دیا تھا اور ایک شخص جس کا سرکٹ گیا تھا بجائے اس سر کے گھوڑے کا سر اس پر لگا دیا تھا اور سیا وارشی کو جس کے تین ٹکڑے ہوگئے تھے ازسر نو زندہ کردیا تھا وغیرہ وغیرہ مگر ہم نے الزامی جوابوں میں ان کہانیوں کو پیش نہیں کیا کیونکہ گو ان بے اصل قصوں کو جن کا حوالہ کسی ایسے بے نشان زمانہ پر دیا گیا ہے جو وید کے وجود سے پہلے گزر چکا ہے تمام پُرانوں والے تو مانتے ہیں مگر حال کے چند آریہ سماج والے ان مقامات وید میں بڑی جان کنی سے بے سروپا و پُرتکلّف تاویلیں کرتے ہیں۔
تتمہ
آریوں کا اصول تناسخ قانونِ قدرت کے اصول سے منافی ہے
اے حضرات آریہ صاحبان اگر تمام جہان قانون قدرت کا قائل ہوجائے پھر بھی آپ لوگوں کو قائل ہونے کی کوئی سبیل نہیں کیونکہ قانون قدرت کے ماننے سے سب تار وپود آپ کے مذہب کا ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ لوگ تو تصرفات قدرتیہ جناب الٰہی کے قائل ہی نہیں اور نہ قائل ہوسکتے ہیں اور قانون قدرت کو ماننا تو آپ کا مذہب ہی نہیں اور نہ ہوسکتا ہے۔ وجہ یہ کہ آپ کا مسئلہ تناسخ تب قائم رہ سکتا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کو اس کے مختارانہ کاموں اور ارادی قدرتوں سے اور اختیاری تصرفات سے اور ذاتی طاقتوں اور ذاتی قوتوں سے ازل سے ابد تک معطل اور بیکار اور عاجز اور لاچار سمجھا جائے پس اس سے ظاہر ہے کہ آپ لوگوں کا اواگون خدائے تعالیٰ کے قانون قدرت کا ضد پڑا ہوا ہے اور ضد بھی ایسی ضد کہ ایک کے ماننے سے دوسرا قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ کے قادرانہ تصرفات کو تسلیم کیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ اس نے تمام اجرام علوی اور اجسام سفلی کو اپنی قدرت ربوبیت سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 133
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/133/mode/1up
پیدا ؔ کرکے اجزائے عالم کو باہم انضباط بخشا ہے اور محض اپنی قدرت کاملہ سے اور خاص اپنے ہی ارادہ اور مشیت سے تمام چیزوں مادی و غیر مادی کو ایک پرحکمت سلسلہ انتظام میں خود اپنی حکیمانہ مصلحت سے منسلک کیا ہے تو یہی مان لینا جس کا نام دوسرے لفظوں میں قانون قدرت ہے آپ کے اصول تناسخ کی بیخ کنی کرتا ہے وجہ یہ کہ آپ کا مسئلہ تناسخ اس بنا پر کھڑا کیا ہے کہ یہ ترتیب عالم جو بالفعل موجود ہے پرمیشر کے ارادہ اور قدرت سے نہیں اور نہ اس کی حکمت اور مصلحت سے بلکہ گنہگارو ں کے گناہ نے یہ مختلف صورتوں کی چیزیں پیدا کردی ہیں جس میں پرمیشر کا ذرا دخل نہیں مثلاً گائے جو دودھ دیتی ہے۔ یا گھوڑا جو سواری کے کام آتا ہے یا گدھا جو بوجھ اٹھاتا ہے۔ یا زمین جس پر ہم آباد ہیں۔ یا چاند اور سورج جو دو چمکتے ہوئے چراغ اپنی مختلف قوتوں اور خاصیتوں سے انواع اقسام کے فوائد دنیا کو پہنچاتے ہیں۔* یا گیہوں اور چنے اور چانول وغیرہ ماکولات جن کو ہم کھاتے ہیں
شاؔ ئد کسی ناواقف آریہ کو اس جگہ دھوکا لگے کہ آریہ سماج والے اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ روح بطور تناسخ چاند یا سورج یا زمین وغیرہ سے بھی تعلق پکڑلیتی ہے بلکہ وہ ان چیزوں کو جڑ یا بے جان سمجھتے ہیں تو اس کے جواب میں ماننا چاہئے کہ اول تو آریوں کا ایسا خیال کرنا کہ سورج و چاند و زمین و اگنی و وایو وغیرہ یہ سب بے روح چیزیں ہیں جن میں جان نہیں ہے سراسر غلط اور وید کی تعلیم سے بھی منافی ہے کیونکہ وید کے صدہا مقامات سے ثابت ہے کہ سورج چاند اور اگنی وغیرہ ارکان اولیہ عالم کے لئے ایک ایک روح ہے ان روحوں کے یونانی و مجوسی بھی قائل ہیں ایسا ہی دنیا کے تمام تناسخیہ فرقے ان ارواح کو مانتے ہیں۔ بلکہ ان کا بیان ہے کہ جب انسانی روح سورج و چاند و ستاروں وغیرہ سے تعلق پکڑتی ہے تو پھر وہ دیوتا بن کر قابل پرستش ہوجاتی ہے اسی وجہ سے تو قدیم سے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 134
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/134/mode/1up
یہ ؔ سب بقول آپ کے حقیقت میں انسانی روحیں ہیں جو کسی جنم گزشتہ کی شامت سے بطور تناسخ یہ صورتیں اختیار کرلی ہیں اور یہ سارا مجمع مختلف چیزوں کا جو زمین و آسمان میں نظر آتا ہے یہ سب حسب اصول آپ لوگوں کے اتفاقی ہے جس میں پرمیشر کے ارادہ اور قدرت کا سر مودخل نہیں اور نہ اس کو ان چیزوں کے زیادہ یا کم کرنے یا موجود یا معدوم کرنے میں ایک ذرا اختیار ہے اور آپ لوگوں کے خیال میں یہ جما ہوا ہے کہ اگر انسانی روحیں مرتکب گناہوں کے نہ ہوتیں تو یہ چندیں ہزار عالم مخلوقات جونظر آرہا ہے ان میں سے ایک بھی نہ ہوتا۔ گویا ہریک آرام دنیا کا بزعم آپ لوگوں کے بدکاریوں سے ہی میسر آتا ہے اور تمام دنیوی نعمتوں کے حاصل ہونے کا اصل موجب بدکاریاں ہی ہیں۔ کوئی شخص گناہ کرکے گائے کے جنم میں آئے تو آپ دودھ پئیں اور پھر کسی بدکاری سے گھوڑی کا جنم لے تو آپ کو سواری میسر ہو۔ اور پھر کسی معصیت سے گدھی یا خچر یا اونٹ کی جون میں
ہندؔ و لوگ سورج و آگ وغیرہ کی پرستش کرتے آئے ہیں اور اب بھی ان میں سے بہت سا گروہ اس پرستش پر قائم ہے یونانی بھی ان چیزوں کی پرستش کرتے رہے ہیں اور ان کا نام وہ ارباب الانواع رکھتے ہیں گبروں کا آتش پرستی کرنا تو سب سے بڑھ کر ہے۔
اگر صد سال گبر آتش فروزد
چویکدم اندراں افتد بسوزد
ماسوا اس کے یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ ہریک جسم میں جتنے ذرّات ہیں اسی قدر روحوں کا اس سے تعلق ہے اگر ایک قطرہ پانی کو خوردبین سے دیکھا جائے تو ہزاروں کیڑے اس میں نظر آتے ہیں ویسا ہی پھلوں میں اور بوٹیوں میں اور ہوا میں بھی کیڑے مشہود و محسوس ہیں۔ بہرحال ہریک جسم دار چیز کیڑوں سے بھری ہوئی ہے مگر کبھی وہ کیڑے مخفی ہوتے ہیں یا یوں کہو کہ بالقوہ پائے جاتے ہیں اور کبھی مکمن قوت سے حیز فعل میں آجاتے ہیں مثلاً جس اناج کو دیکھو تو بظاہر ایسا معلوم ہوگا کہ اس میں کوئی کیڑا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 135
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/135/mode/1up
پڑےؔ تو آپ کی باربرداری کا کام چلے پھر اگر کوئی ایسا بڑا کام کرے جس کی سزا میں اس کو عورت کی جون میں ڈالا جائے تو آپ لوگوں کو جورو نصیب ہو۔ اور اگر کوئی ایک شخص کسی شامت گناہ سے مرے تب وہی روح اس کی بیٹا یا بیٹی بن کر آپ کو صاحب اولاد بنائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ بموجب اصول آپ کے تمام سلسلہ خدائی کا گناہوں کے طفیل ہی چل رہا ہے۔ اور اگر گناہ ظہور میں نہ آتے تو پرمیشر تو کچھ چیز ہی نہیں تھا اور اس کی قدرتیں اور حکمتیں سب ہیچ اور بے حقیقت تھیں۔ پس آپ کو تو قانون قدرت کا نام ہی نہیں لینا چاہئے کیونکہ قانون قدرت کا تو یہ ضروری تقاضا ہے کہ تمام اجزائے عالم بحکم اس واضح قانون کے روزِ ازل سے باہم انضباط یافتہ ہیں یہ نہیں کہ کسی اتفاقی شامت سے یہ ہزاروں قسم کی مخلوقات پیدا ہوگئی ہے اور اگر وہ بلااتفاق نہ ہوتا تو پیدا ہونے سے رہ جاتے اور پرمیشر گو کیسا ہی ان چیزوں کے پیدا کرنے کے لئے ارادہ کرتا مگر کچھ بھی نہ ہوسکتا۔ غرض جب آپ کا ایمان
نہیںؔ اور پھر خودبخود اس کے اندر میں ہی سے کچھ تغیر پیدا ہوکر اس قدر کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں کہ گویا وہ سب جسم کیڑے ہی کیڑے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ ارواح کو اجسام سے ایک لازمی اور دائمی تعلق پڑا ہوا ہے اب جو شخص تناسخ یعنے اواگون کا قائل ہے ضرور اس کو کہنا پڑے گا کہ اجسام نباتی و معدنی و حیوانی و اجرام علوی کا ایک ایک ذرّہ کسی وقت انسان کا روح تھا کیونکہ جیسا کہ تجربہ ثابت کررہا ہے۔ ایک ایک ذرّہ جسم سے ایک ایک روح تعلق رکھتا ہے اور اجرام علوی میں روحوں کا ہونا شائد ناواقفوں کی نظر میں تعجب کا محل ہوگا لیکن حال کے فلسفیوں کی تحقیقاتوں نے کھول دیا ہے کہ کرۂ شمس و قمر وغیرہ جانداروں کی آبادی سے خالی نہیں چنانچہ پنڈت دیانند اور اس کے پیرو بھی اس بات کے قائل ہیں سو یہ بات تو ہریک کو معلوم ہے کہ جس کرہ میں کوئی جاندار چیز ہو وہ اسی کرہ کے مادّہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 136
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/136/mode/1up
اورؔ دھرم آپ کو ایسی ایسی تعلیمیں دے رہا ہے تو پھر اس جگہ پرمیشر کی قدرتوں کا کیا ذکر اور قانونِ قدرت کے نام لینے کا کونسا محل ہے کیونکہ قدرت یا قانونِ قدرت تو اسے کہتے ہیں کہ اول اس مالک کی خالقانہ طاقتوں اور قادرانہ تصرفات اور مختارانہ کاموں کو تسلیم کرکے پھر اس سلسلہ ظہور طاقتوں کو قانون قدرت سے ُ ملقب کیا جائے مگر اس جگہ تو وہ بات ہی نہیں رہی اور پرمیشر صرف نام کا پرمیشر رہ گیا ہے جس کو ایک ذرّہ کے پیدا کرنے کی بھی طاقت نہیں ہاں روحوں پر کسی مخفی وجہ کے سبب سے اس کو تسلط ہوگیا ہے شائد کسی اگلے جنم میں اس نے بہت اچھے کرم کئے ہوں گے جس سے وہ اس حکمرانی کے لائق ٹھہرگیا۔ غرض جب پرمیشر میں قدرت کا نشان نہیں مختارانہ تصرفات کی طاقت نہیں قادرانہ کاموں کی ہمت نہیں۔ ترتیب دنیا میں اس کو کچھ دخل ہی نہیں تو پھر ظاہر ہے کہ وہ اس لائق بھی نہیں کہ اس کا کوئی قانونِ قدرت ہو بلکہ وہی مثل صادق آئے گی کہ
سےؔ پیدا ہوتی ہے جیسے کرۂ زمین میں جو کچھ ہے وہ زمین سے ہی پیدا ہوا ہے اور پیدا ہوتا ہے پس جبکہ اجرام علوی میں جانداروں کا ہونا ثابت ہے جس کو آریہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ وہ تمام جاندار سورج و چاند وغیرہ اجرام سے بھی پیدا ہوئے ہوں گے اور اس پیدائش سے یہ ثابت ہوگیا کہ اجسام سفلی کی طرح اجرام علوی بھی کئی طور پر روحوں کی کانیں ہیں پس اس سے تناسخ والوں کو ماننا پڑا کہ کسی زمانہ میں سورج چاند وغیرہ اجرام انسانی روحیں تھیں اور پھر وہ کسی عمل کے نیک یا بداثر سے سورج چاند وغیرہ اجرام بن گئے اور یہ اعتقاد جس قدر قانون قدرت اور عقل کا دشمن ہے اس کے بیان کرنے کی بھی حاجت نہیں۔ فتدبر۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 137
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/137/mode/1up
جامہؔ ندارم دامن از کجا آرام۔ ہاں اپنے ہی گناہوں کا آپ کو شکرگزار ہونا چاہئے جنہوں نے آپ کو گوؤوں کا دودھ پلایا۔ گھوڑوں پر چڑھایا۔ غرض سب آپ کا کام بنایا اور سب کچھ کیا اور کرایا۔ حقیقت میں اس مسئلہ تناسخ نے آپ کو بہت کچھ فائدہ پہنچایا۔ اگر اس سے کچھ نقصان پہنچا تو بس یہی کہ ایک تو پرمیشر ہاتھ سے گیا اور دوسرا حلال حرام کا کچھ ٹھکانا نہ رہا۔ خیر پرمیشر کا تو آپ کو کیا افسوس ہوگا گزارہ تو چلا ہی جاتا ہے۔ مگر جو حلال حرام میں گڑبڑ پڑگیا یہ خرابی ایک دنیادار غیرت مند کی نظر میں بھی جس کو ایک ذرہ ننگ وناموس کا پاس ہو قابل برداشت نہیں کیونکہ اگر مسئلہ تناسخ صحیح ہے تو اس کے رو سے ممکن ہے کہ کسی شخص کی والدہ یا دختر یا حقیقی بہن یا دادی یا نانی مرنے کے بعد کسی عورت کی جون میں پڑکر پھر اسی شخص کے نکاح میں آجائے جس کی ماں یا لڑکی ہے اور دنیا جو ایک ظلمت گاہ اور بے تمیزی کی جگہ ہے اس میں کون آکر خبر دے سکتا ہے کہ اے بھلے مانس اس سے شادی مت کر یہ تو تیری ماں یا بہن یا دادی یا نانی ہے۔ سو سوچ کر دیکھ لینا چاہئے کہ اس اواگون کے مسئلہ نے صرف آپ کے پرمیشر کی عزت پر ہی ہاتھ نہ ڈالا بلکہ ایسے ایسے ضرر بھی اس میں موجود ہیں اور بلاشبہ جو شخص اس مسئلہ تناسخ کو روا اور جائز سمجھتا ہے اس کو اس کے بدنتائج بھی روا اور جائز کہنے پڑیں گے۔ مگر ہائے افسوس جو لوگ دنیا کے پرستار ہیں اور قومی تعصبوں کی زنجیر میں گرفتار وہ اپنے بدعقیدوں کو کسی ڈھب چھوڑنا نہیں چاہتے۔ قوم کا رعب ان کے دلوں پر ایسا غالب ہے کہ جو مخلوق پرستی کی حد تک پہنچ گیا ہے خدائے تعالیٰ کا ان کے دلوں میں اتنا بھی قدرنہیں جو ایک بوڑھی عورت کو اپنے گھر کی سوئی کا ہوتا ہے۔
دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں
نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں
زر سے پیار کرتے ہیں اور دل لگاتے ہیں
ہوتے ہیں زر کے ایسے کہ بس مر ہی جاتے ہیں
جب اپنے دلبروں کو نہ جلدی سے پاتے ہیں
کیا کیا نہ ان کے ہجر میں آنسو بہاتے ہیں
پر ان کو اس سجن کی طرف کچھ نظر نہیں
آنکھیں نہیں ہیں کان نہیں دل میں ڈر نہیں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 138
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/138/mode/1up
ان ؔ کے طریق و دھرم میں گو لاکھ ہو فساد
کیسا ہی ہو عیاں کہ وہ ہے جھوٹ اعتقاد
پر تب بھی مانتے ہیں اسی کو بہر سبب
کیا حال کردیا ہے تعصب نے ہے غضب
دل میں مگر یہی ہے کہ مرنا نہیں کبھی
ترک اس عیال و قوم کو کرنا نہیں کبھی
اے غافلاں و فانکند ایں سرائے خام
دنیائے دوں نماند و نماند بکس مدام
تَمّت المباحثہ الاُوْلٰی
وللّٰہ الحمد فی الاولیٰ والاخریٰ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 139
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/139/mode/1up
مباؔ حثہ ثانیہ
منعقدہ ۱۴؍ مارچ ۱۸۸۶ ؁ء
اعتراض از طرف مؤلفِ رسالہ ہذا
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
آریہ صاحبوں کا اعتقاد ہے کہ پرمیشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی بلکہ کل ارواح انادی اور قدیم اور غیر مخلوق ہیں ایسا ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مکتی یعنے نجات ہمیشہ کے لئے انسان کو نہیں مل سکتی بلکہ ایک مدت مقررہ تک مکتی خانہ میں رکھ کر پھر اس سے باہر نکالا جاتا ہے۔ اب ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہ دونوں اعتقاد ایسے ہیں کہ ایک کے قائم ہونے سے تو خدائے تعالیٰ کی توحید بلکہ اس کی خدائی ہی دور ہوتی ہے اور دوسرا اعتقاد ایسا ہے کہ بندۂ وفادار پرناحق کی سختی ہوتی ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر تمام ارواح کو اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام کو قدیم اور انادی مانا جائے تو اس میں کئی قباحتیں ہیں منجملہ ان کے ایک تو یہ کہ اس صورت میں خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ جس حالت میں بقول آریہ صاحبان ارواح یعنے جیو خودبخود موجود ہیں اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام بھی خودبخود ہیں تو پھر صرف جوڑنے جاڑنے کے لئے ضرورت صانع کی ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک دہریہ جو خدائے تعالیٰ کا منکر ہے عذر پیش کرسکتا ہے کہ جس حالت میں تم نے کل چیزوں کا وجود خودبخود بغیر ایجاد پرمیشر کے آپ ہی مان لیا ہے تو پھر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ ان چیزوں کے باہم جوڑنے جاڑنے کے لئے پرمیشر کی حاجت ہے؟ دوسری یہ قباحت کہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 140
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/140/mode/1up
ایسا ؔ اعتقاد خود خدائے تعالیٰ کو اس کی خدائی سے جواب دے رہا ہے کیونکہ جو لوگ علم نفس اور خواص ارواح سے واقف ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جس قدر ارواح میں عجائب وغرائب خواص بھرے ہوئے ہیں وہ صرف جوڑنے جاڑنے سے پیدا نہیں ہوسکتے مثلاً روحوں میں ایک قوت کشفی ہے جس سے وہ پوشیدہ باتوں کو بعد مجاہدات دریافت کرسکتے ہیں اور ایک قوت ان میں عقلی ہے جس سے وہ امور عقلیہ کو معلوم کرسکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک قوت محبت بھی ان میں پائی جاتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اگر ان تمام قوتوں کو خودبخود بغیر ایجاد کسی موجد کی مان لیا جائے تو پرمیشر کی اس میں بڑی ہتک عزت ہے گویا یہ کہنا پڑے گا کہ جو عمدہ اور اعلیٰ کام تھا وہ تو خودبخود ہے اور جو ادنیٰ اور ناقص کام تھا وہ پرمیشر کے ہاتھ سے ہوا ہے اور اس بات کا اقرار کرنا ہوگا کہ جو خودبخود عجائب حکمتیں پائی جاتی ہیں وہ پرمیشر کے کاموں سے کہیں بڑھ کر ہیں ایسا کہ پرمیشر بھی ان سے حیران ہے غرض اس اعتقاد سے آریہ صاحبوں کے خدا کی خدائی پر بڑا صدمہ پہنچے گا یاں تک کہ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوگا اور اس کے وجود پر کوئی عقلی دلیل قائم نہ ہوسکے گی اور نیز وہ مبدء کل فیوض کا نہیں ہوسکے گا بلکہ اس کا صرف ایک ناقص کام ہوگا اور جو اعلیٰ درجہ کے عجائب کام ہیں ان کی نسبت یہی کہنا پڑے گا کہ وہ سب خودبخود ہیں لیکن ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر فی الحقیقت ایسا ہی ہے تو اس سے اگر فرضی طور پر پرمیشر کا وجود مان بھی لیا جائے تب بھی وہ نہایت ضعیف اور نکما سا وجود ہوگا جس کا عدم وجود مساوی ہوگا یاں تک کہ اگر اس کا مرنا بھی فرض کیا جائے تو روحوں کا کچھ بھی حرج نہ ہوگا اور وہ اس لائق ہرگز نہیں ہوگا کہ کوئی روح اس کی بندگی کرنے کے لئے مجبور کی جائے کیونکہ ہریک روح اس کو جواب دے سکتی ہے کہ جس حالت میں تم نے مجھے پیدا ہی نہیں کیا اور نہ میری طاقتوں اور قوتوں اور استعدادوں کو تم نے بنایا تو پھر آپ کس استحقاق سے مجھ سے اپنی پرستش چاہتے ہیں اور نیز جبکہ پرمیشر روحوں کا خالق ہی نہیں تو ان پر محیط بھی نہیں ہوسکتا۔ اور جب احاطہ نہ ہوسکا تو پرمیشر اور روحوں
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 141
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/141/mode/1up
میں ؔ حجاب ہوگیا اور جب حجاب ہوا تو پرمیشر سرب گیانی نہ ہوسکا یعنے علم غیب پر قادر نہ ہوا۔ اور جب قادر نہ رہا تو اس کی سب خدائی درہم برہم ہوگئی تو گویا پرمیشر ہی ہاتھ سے گیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ علم کامل کسی شے کا اس کے بنانے پر قادر کردیتا ہے اس لئے حکماء کا مقولہ ہے کہ جب علم اپنے کمال تک پہنچ جائے تو وہ عین عمل ہوجاتا ہے اس حالت میں بالطبع سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا پرمیشر کو روحوں کی کیفیت اورُ کنہ کا پورا پورا علم بھی ہے یا نہیں اگر اس کو پورا پورا علم ہے تو پھر کیا وجہ کہ باوجود پورا پورا علم ہونے کے پھر ایسی ہی روح بنا نہیں سکتا سو اس سوال پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ پرمیشر روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں بلکہ ان کی نسبت پورا پورا علم بھی نہیں رکھتا۔ دوسرا ٹکڑہ ہمارے سوال کا حق العباد سے متعلق ہے یعنے یہ کہ آریہ صاحبان کے اعتقاد مذکورہ بالا کے رو سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پرمیشر اپنے بندوں سے بھی ناحق کا ایک بخل رکھتا ہے کیونکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مکتی اور نجات کی اصل حقیقت یہی ہے کہ انسان ماسوائے اللہ کے محبت سے مونہہ پھیر کر پرمیشر کی محبت میں ایسا محو ہوجائے کہ جس طرح عاشق اپنے محبوب کے دیکھنے سے لذت اٹھاتا ہے ایسا ہی اپنے محبوب حقیقی کے تصور سے لذت اٹھائے اور محبت بجز معرفت حاصل نہیں ہوسکتی اور قاعدہ کی بات ہے کہ موجب محبت کے دو ہی امر ہیں یا حُسن یا احسان پس جب انسان بہ باعث اپنی کامل معرفت کے خدائے تعالیٰ کے حُسن و احسان پر اطلاع کامل طور پر پاتا ہے تو لامحالہ اس سے کامل محبت پیدا ہوجاتی ہے اور کامل محبت سے لذت ملتی ہے پس اسی جہان سے بہشتی زندگی عارف کی شروع ہوجاتی ہے اور وہی معرفت اور محبت عالم آخرت میں سرور دائمی کا موجب ہوجاتی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں نجات سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ جب ایک شخص کو پورا پورا سامان نجات کا میسر آگیا اور پرمیشر کی کرپا اور فضل سے مکتی پاگیا تو پھر کیوں پرمیشر اس کو ناکردہ گناہ مکتی خانہ سے باہر نکالتا ہے کیا وہ اس بات سے چڑتا ہے کہ کوئی عاجز بندہ ہمیشہ کے لئے آرام پاسکے جس حالت میں ابدی بقا کے
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 142
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/142/mode/1up
روحوں ؔ میں قوت رکھی گئی ہے تو کیا پرمیشر اپنے بندوں کو ابدی سرور نہیں دے سکتا۔ بعض صاحب اس جگہ پر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ بندوں کے اعمال محدود ہیں اس لئے جزا بھی اس کی محدود ہی ملتی ہے میں کہتا ہوں کہ یہ خیال غلط ہے۔ کیونکہ عمل اعظم بندہ کا یہی ہے کہ وہ وفاداری سے ایمان لاتا ہے اور بے انتہا وفاداری کی نیت سے تکالیف مالی و جانی اٹھانے کے لئے ہر وقت مستعد رہتا ہے تو اس صورت میں عمل اس کا محدود نہ ہوا بلکہ غیرمحدود ہوا اگر پرمیشر اس کو زندہ چھوڑتا تو وہ کبھی بے وفائی نہ کرتا یہ نعوذ باللہ پرمیشر کا قصور ہوا کہ اس نے اس کو مہلت نہ دی ماسوا اس کے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے موجب نجات ومکتی کا ایک ایسا امر ہے کہ وہ پرمیشر کی صحبت میں رہ کر کم نہیں ہوسکتا بلکہ ترقی کرنا چاہئے کیونکہ کوئی عقلمند ہرگز خیال نہیں کرسکتا کہ پرمیشر کی صحبت سے گیان اور محبت میں کچھ فرق آجاتا ہے اور جس طرح ممکن نہیں کہ باوجود چراغ کے ہونے کے اندھیرا ہوجائے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ باوجود علل موجبہ مکتی کے پھر کوئی شخص مکتی خانہ سے باہر نکالا جائے۔ پرمیشر بمنزلہ خریدار کے نہیں ہے تا یہ کہا جائے کہ جس قدر اس نے کوئی چیز لی اسی قدر اس نے دام بھی دے دیئے بلکہ یہ معاملہ محبت و عشق کا ہے اور کوئی منصف مزاج معشوق اپنے وفادار عاشق سے ایسا بدمعاملہ ہرگز نہیں کرسکتا کہ اس کو ناحق خرابی میں ڈالے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ آیا پرمیشر اس بات پر قادر ہے یا نہیں کہ اپنے بندہ کو ہمیشہ کے لئے مکتی دے دے۔ اگر قادر ہے اور بندہ وفادار بھی اس کا مستحق ہے اور علل لازمہ موجبہ بھی دائمی مکتی کو چاہتے ہیں تو پھر کیوں پرمیشر ایسی سختی کرتا ہے کہ اول ایک بندہ کو ایک ایسا مقرب بنا کر کہ وہ اوتار ہوگیا یا اس پر وید نازل ہوگئے پھر ناحق اس کی عزت بگاڑ دیتا ہے اور رفتہ رفتہ مختلف جونوں میں ڈال کر اس کی کیڑوں مکوڑوں تک نوبت پہنچاتا ہے بعض صاحب یہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ کام پرمیشر نے ایک مصلحت سے اختیار کررکھا ہے اور وہ مصلحت یہ ہے کہ چونکہ پرمیشر روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ کل ارواح معدود اور محدود ہیں تو اس صورت میں اگر
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 143
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/143/mode/1up
پرمیشرؔ ان سب کو مکتی دے دے تو پھر ہمیشہ دنیا پیدا کرنے کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے کیونکہ جو روح مکتی پاکر مکتی خانہ میں گیا وہ تو گویا ہاتھ سے گیا اور بہ باعث نہ ہونے آمدن اور روزمرہ کے خرچ کی آخر سب روح ایک دن ختم ہوجائیں گے اور پھر پرمیشر دنیا پیدا کرنے سے قاصر اور عاجز رہے گا اور یہ امر خلاف اصول آریہ سماج ہے غرض آریہ صاحبوں کے اصول کے بموجب نہ پرمیشر کی توحید اور عظمت قائم رہتی ہے اور نہ مکتی یافتہ روح کبھی ناگہانی آفت سے نجات پاسکتے ہیں بلکہ اس شخص کی طرح جس کو ایک دورہ خاص پر مرگی کی بیماری پڑتی ہے ایسا ہی روحیں بھی ایک قسم کی بیماری میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے اور جیسے جیسے مکتی خانہ سے نکالنے کا وقت نزدیک آتا جائے گا ویسا ہی جزع فزع میں مبتلا ہوتے جائیں گے خداوند کریم جل شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ فَاِنَّ الْجَـنَّةَ هِىَ الْمَاْوٰىؕ‏
یعنی جو شخص اپنے پروردگار سے ڈر کر تزکیہ نفس کرے اور ماسوائے اللہ سے مونہہ پھیر کر خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع لے آئے تو وہ جنت میں ہے اور جنت اس کی جگہ ہے یعنے خود ایک روحانی جنت بباعث قوت ایمانی و حالت عرفانی اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے جو اس کے ساتھ رہتی ہے اور وہ اس میں رہتا ہے سو اس جگہ ماسٹر صاحب سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ بہ مقابل اس آیت قرآنی کے جو جاودانی اور لازوالی مکتی پر دلیل پیش کرتی ہے جو کچھ وید میں محدود مکتی کا فلسفہ بتلایا گیا ہے وہ شرتی بھی اس جگہ پیش کردیں۔ ۱۴؍ مارچ ۸۶ ؁ء
جواب لالہ مرلیدھر صاحب معہ جواب الجواب از طرف مؤ لفِ رسالہ ہذا
قولہ۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ آریہ سماج والوں کا اعتقاد یہ ہے کہ پرمیشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور کل ارواح انادی اور قدیم اور غیر مخلوق ہیں ایسا ہی ان کا یہہ بھی اعتقاد ہے کہ مکتی یعنے نجات ہمیشہ کے لئے کسی انسان کو نہیں مل سکتی بلکہ ایک مدّت مقررہ تک مکتی خانہ میں رکھ کر پھر اس سے نکالا جاتا ہے یہ بیان مرزا صاحب کا
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 144
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/144/mode/1up
بہتؔ کچھ فرق آریہ سماج کے اصولوں سے رکھتا ہے جو آگے ظاہر کیا جائے گا۔
اقول جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ اس بیان میں ذرّہ فرق نہیں بلاشبہ آریہ سماج والوں کے یہ دونوں اعتقاد ہیں جن پر تناسخ یعنے اواگون کی بنیاد ہے اگر کچھ فرق تھا تو آپ نے ظاہر کیا ہوتا۔ آپ نے وعدہ تو کیا کہ آگے جاکر اس فرق کو بیان کریں گے مگر کسی جگہ بیان نہ کیا کہ یہ فرق ہے بلکہ آگے جاکر تو بقول شخصے کہ دروغ گورا حافظہ نباشد۔ آپ نے صاف اقرار کردیا کہ ایسا ہی اعتقاد آریہ سماج والے رکھتے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کے دل بھی اس بات پر شہادت ہیں کہ یہ وید کے دونوں اصول سخت درجہ کے مخالف عظمت و قدرت و توحید و شان الٰہی ہیں اسی واسطے کبھی کبھی لوگوں کے شرم سے آپ لوگوں کی طبیعت اِخفا کی طرف رجوع کرجاتی ہے مگر ایسی باتوں کو آپ کیونکر چھپا سکتے ہیں جو پنڈت دیانند صاحب کے قلم سے مشتہر ہوچکی ہیں خویش و بیگانہ اس پر اطلاع پاچکے ہیں۔ ماسٹر صاحب؟ آپ ُ برا نہ مانیں آپ کے وید کی ایسی ایسی تعلیموں نے ناستک مت والوں (دہریوں) کو بہت کچھ مدد دی ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو آریہ صاحبوں کا وید ایک ایسا خدا بتا رہا ہے جس سے حق ُ جو آدمی ضرور ہے کہ نفرت کرے وہ اپنے پرمیشر کو اپنی بادشاہی کا خود موجب نہیں سمجھتے بلکہ ایسا خیال کرتے ہیں کہ وہ بادشاہت کسی بخت و اتفاق سے اس کو ملی ہے یعنی اس کی خوش قسمتی سے چند ارواح اور اجسام بنے بنائے اس کو مل گئے ہیں اور شاید ابھی ارواح اور اجسام کا کوئی اور دفینہ بھی کسی جگہ پوشیدہ ہو جس کی ہنوز پرمیشر کو اطلاع نہیں ہوئی مگر کیا یہ ایسا اعتقاد ہے جس کو عظمت و قدرت و شان کبریائی حضرت اللہ جل شانہٗ کے مطابق کہہ سکتے ہیں خدائے تعالیٰ وہ کامل ذات ہے جس کو تمام فیوض کا مبدء اور تمام انوار کا سرچشمہ اور تمام چیزوں کا قیوم اور تمام خوبیوں کا جامع اور تمام کمالات کا مستجمع اور عجز اور نقص اور احتیاج الی الغیر سے پاک ہے لیکن تم سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ ارواح اور اجسام کی غیر مخلوق اور خودبخود ماننے سے ان تمام صفاتِ کاملہ الٰہیہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 145
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 145
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/145/mode/1up
میںؔ سے کوئی بات بھی قائم نہیں رہ سکتی اور ایک ایسا سخت صدمہ اس کی شان خدائی پر پہنچتا ہے کہ اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
ایک ادنیٰ درجہ کی عقل بھی سمجھ سکتی ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ایک ہونے کے یہی معنے ہیں کہ درحقیقت وجود اسی کا وجود ہے اور باقی سب چیزیں اس سے نکلی ہیں اور اسی کے ساتھ قائم اور اسی کے رشحاتِ فیض سے اپنے کمالات مطلوبہ تک پہنچتی ہیں مگر افسوس کہ آریوں کا علم الٰہی اس کے برخلاف بتلا رہا ہے ان کی کتابیں انہیں واویلوں سے ُ پر ہیں کہ ہم بھی پرمیشر کی طرح قدیم اور غیر مخلوق اور انادی اور اس کی مشابہ اور اپنے اپنے وجود کے آپ خدا ہیں نہیں سوچتے کہ اگر وہ بھی قدیم الذّات اور قائم بذاتہ ٖ اور واجب الوجود ہیں تو پھر خدا جیسے ہوکر اس کی ماتحت کیوں ہوگئے اور کس نے درمیان میں ہوکر دونوں میں تعلق پیدا کردیا افسوس کہ ان لوگوں نے عقیدہ باطلہ وید سے ایسی محبت کی ہے کہ خدائے تعالیٰ کی عظمت اور کمالیت کے لئے ذرہ غیرت باقی نہیں رہی اور اس عقیدۂ مذکورہ بالا کے بدتر اثر نے ان کا کچھ باقی نہیں چھوڑا اور اسی بداعتقاد کا بداثر جاودانی نجات کا بھی رہزن ہوا ہے اور اسی کی نحوست سے آریہ مت کے دفتر میں ایک ہنگامہ مفاسد برپا ہورہا ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کو صحیح یا غلط طور پر جاننا ایک ایسا امر ہے کہ اس کا اثر (جیسا کہ ہو) تمام باقی اصولوں پر پڑتا ہے اگر اس میں صلاحیت ہو تو دوسرے اصول بھی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر اس میں فساد ہو تو وہ فساد دوسرے اصولوں میں بھی سرائت کرتا ہے اسی جہت سے اس اصل الاصول کے بگڑنے سے آریوں کے سب عقائد کی ستیاناس ہوئی ہے اور سب خیالات کو اس ایک ہی بگڑے ہوئے خیال نے تہ و بالا کردیا ہے اور اب جب تک اس کی اصلاح نہ ہو تب تک باقی خراب شدہ خیالات کسی نوع سے درستی پر نہیں آسکتے اب حقیقت میں آریوں کو بڑی مشکل پیش آگئی ہے اب ان دونوں وید اور پرمیشر سے ایک کو ضرور چھوڑنا پڑے گا۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 146
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 146
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/146/mode/1up
یہ باؔ ت ایک لڑکا بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر سب ارواح اور اجسام خودبخود پرمیشر کی طرح قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں۔ * تو پرمیشر اس دعویٰ کا ہرگز مجاز نہیں رہا کہ میں ان چیزوں کا ربّ اور پیدا کنندہ ہوں کیونکہ جب کہ ان چیزوں نے پرمیشر کے ہاتھ سے وجود ہی نہیں لیا تو پھر ایسا پرمیشر ان کا ربّ اور مالک کیونکر ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بچہ بنا بنایا آسمان سے گرے یا زمین کے خمیر سے خود پیدا ہوجائے تو کسی عورت کو یہ دعویٰ ہرگز نہیں پہنچتا کہ یہ میرا بچہ ہے بلکہ اس کا بچہ وہی ہوگا جو اس کے پیٹ سے نکلا ہے سو جو خدا کے ہاتھ سے نکلا ہے وہی خدا کا ہے اور جو اس کے ہاتھ سے نہیں نکلا وہ اس کا کسی طور سے نہیں ہوسکتا۔ کوئی صالح اور بھلا مانس ایسی چیزوں پر ہرگز قبضہ نہیں کرتا جو اس کی نہ ہوں تو پھر کیونکر آریوں کے پرمیشر نے ایسی چیزوں پر قبضہ کرلیا جن پر قبضہ کرنے کا اس کو کوئی استحقاق نہیں ۔سوسوچنا چاہئے کہ یہ بات کس قدر مکروہ اور دوراز حقا نیّت ہے کہ مالک الخلق اور رب العالمین کو اس کی مخلوقات سے جواب دیا جاتا ہے اور جو اصل حقیقت خدائی کی کی۱؂ اس سے اس کو الگ کیا جاتا ہے ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ اگر ہندوؤں کے وید میں کوئی اور غلطی نہ ہوتی تو اس کے مخالف حق ہونے کے لئے یہی ایک بڑی دلیل تھی کہ خدائے تعالیٰ کی صفات حقہ کے بیان کرنے میں اس نے ایسی رہزنی کی ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کی خدائی قائم ہونے کے لئے بہت ضروری امر تھا وہی اس نے جڑھ سے اکھیڑ دیا ہے۔
ایسا ہی ذرا سوچ کر معلوم کرلینا چاہئے کہ اگر یہ تمام روحیں جن کے پیدا کرنے کی پرمیشر کو طاقت نہیں ہمیشہ کے لئے مکتی پاجائیں تو پھر پرمیشر بجز اس کے کہ مجبوری کے طور پر خالی ہاتھ
خدا بمعنے خود آیندہ ہے اور خدائے تعالیٰ جل شانہٗ اسی وجہ سے خدا کہلاتا ہے کہ وہ کسی کے پیدا کرنے کے بغیر خودبخود ہے سو اگر ارواح و اجسام بھی خودبخود ہیں تو وہ سب خدا ہی ہوئے اور بموجب اصول آریہ کے ان کو بھی خدا کہنا جائز بلکہ واجب ہوا۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 147
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 147
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/147/mode/1up
بیٹھا ؔ رہے اور کیا کرسکتا ہے تو اس صورت میں وہ اصول آریہ سماج والوں کا جو دنیا کا سلسلہ ہمیشہ بنا رہتا ہے کیونکر قائم رہ سکتا ہے اب ظاہر ہے کہ آپ لوگوں کے اعتقاد کے رو سے پرمیشر کی بادشاہت صرف غیر مخلوق روحوں کے سہارے سے چل رہی ہے اور اگر یہ کہو کہ پرمیشر روحوں کو کبھی جاودانی مکتی نہیں دے گا تو پھر کیونکر سلسلہ دنیا کا منقطع ہوگا اور کیونکر پرمیشر مجبور ہوکر خالی بیٹھے گا۔ تو ہم کہتے ہیں کہ ایرا دِ اعتراض کے لئے محض فرض کرنا نجات ابدی کا جو امور ممکنہ میں داخل ہے کافی ہے کیونکہ فن فلسفہ میں امور جائز الوقوع میں صرف ان کے فرض وقوع پر بحث کی جاتی ہے نہ تحقق فی الخارج میں فلسفی کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ وہ امر وقوع میں آیا یانہ آیا بلکہ فلسفی قطع نظر وقوع لاوقوع سے صرف مادہ جواز پر برہان قائم کرتا ہے مثلاً فلسفی کہتا ہے کہ اگر زید ایک تولہ زہر کھالے تو بے شک مرے گا کیونکہ صدہا مرتبہ کا تجربہ صحیحہ و صادقہ اس بات پر شہادت دے رہا ہے پس اس کے جواب میں یہ معارضہ کہ زید نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں ہرگز زہر نہیں کھاؤں گا ۔ حجت کو اٹھا نہیں سکتا کیونکہ گو زید زہر کھانا نہیں چاہتا اور فرض کیا کہ اس نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں ہرگز زہر نہیں کھاؤں گالیکن عندالعقل اس کا زہر کھانا اور مرنا ممکن ہے اسی واسطے صناعت منطق میں قضیہ ضروریہ مطلقہ کو قضیہ دائمہ مطلقہ سے اخص مطلق قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً یہ قضیہ کہ ہریک انسان بالضرورت حیوان ہے یعنے حیوانیت ہریک انسان کے وجود کو صفت ضروری ہے کہ جو اس کے وجود سے مُنفِک نہیں ہوسکتی یہ قضیہ ضروریہ مطلقہ ہے اور یہ دوسرا قضیہ کہ زید جو وکیل ہے ہمیشہ مقدمہ میں فتح پاتا ہے دائمہ مطلقہ ہے پس یہ جو دائمہ مطلقہ ہے قضیہ ضروریہ مطلقہ سے اسی واسطے اس کا اخص سمجھا جاتا ہے کہ گو فتح پانا زید کا مثل مفہوم ضروریہ مطلقہ کے جمیع اوقات میں پایا جاتا ہے اور ہمیشہ زید مقدمہ کو جیتتا ہے لیکن اس کا جیتنا اور فتح پانا عندالعقل ضروری نہیں برخلاف قضیہ ضروریہ مطلقہ کے کہ اس میں دوام نسبت حیوانیت کا انسان سے جو موضوع قضیہ کا ہے ضروری ہے کیونکہ عقل ہارنا اور شکست کھانا زید کا تجویز کرسکتی ہے گو اب تک ایک ظاہری
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 148
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 148
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/148/mode/1up
اتفاق ؔ سے زید ہارا نہیں اور نہ کبھی شکست کھائی لیکن کوئی عقلِ سلیم سلب نسبت حیوانیت کا انسان سے تجویز نہیں کرسکتے غرض جو امر عندالعقل ممکن الوقوع ہے خارج میں اس کا واقع ہونا شرط نہیں اور نہ وقوع فی الخارج اور امکان فی نفس الامر میں کسی طرح کا تلازم ذہنی ہے پس اسی دلیل سے روحوں کا انادی ماننا نہ صرف خدائے تعالیٰ کے ازلی جلال اور اس کی صفت ربوبیت اور مبدء فیوض ہونے کو صدمہ پہنچاتا ہے بلکہ اس کی ابدی خدائی اور قدرت نمائی کا بھی جو مدار کاروبار الوہیت ہے بکلّی استیصال کرکے اس کے نام و نشان کو مٹانا چاہتا ہے۔غرض یہ اصول اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا دشمن ہے۔
ایسا ہی اس کا بدنتیجہ جو نجات محدود ہے ہر وقت یہ بات یاد دلاتا ہے کہ خدائے تعالیٰ بوجہ خالق نہ ہونے کے ناقص القدرت تھا اور بغیر مکتی محدود کے اس کی خدائی نہیں چل سکتی تھی اس لئے مجبوراً اس نے مکتی کو محدود رکھا گویا لوگوں کو اپنی بدقسمتی سے ایک ادھورا خدا ملا جو نجاتِ جاودانی دینے پر قادر ہی نہ تھا اس لئے اس کے بدقسمت بندے ہمیشہ کی نجات پانے سے رہ گئی اور اس جگہ پرمیشر کا خیر خواہ بن کر مکتی محدودہ کا یہ جواب دینا کہ انسان دائمی مکتی پانے کا حق نہیں رکھتا اس لئے پرمیشر اس کو دائمی مکتی نہیں دیتا ایک ہنسی کی بات ہے کیونکہ پرمیشر تو بوجہ اپنے ضعف اور عجز اور ناطاقتی کے کسی وجہ سے دائمی مکتی دے ہی نہیں سکتا اور نہ ایسی قدرت رکھتا ہے تو پھر اس صورت میں بندہ کے اعمال کا ذکر کرنا ہی فضول ہے کیا بندہ اپنے دائمی ایمان اور وفاداری کی وجہ سے دائمی جزا کا مستحق نہیں ٹھہرسکتا لیکن جب پرمیشر میں طاقت ہی نہیں تو دائمی مکتی کون دیوے۔ اور اگر پرمیشر دائمی نجات دینے کا ارادہ بھی کرے تو کرکیا سکتا ہے۔ اب دیکھو کس قدر آریہ صاحبان اپنے پرمیشر کی ہتک کررہے ہیں ہم کیونکر باور کریں کہ وہ اس قدر موٹی بات کو بھی سمجھتے نہیں یا کیونکر ہم تسلیم کرلیں کہ ان کی انسانی فطرت ایسی مسخ ہوگئی ہے کہ ایسی صاف صاف صداقتیں بھی ان کی ٹیڑھی نظر میں غلط دکھائی دیتی ہیں بلکہ سارا موجب قوم اور برادری کے پاس ہے جس کے باعث سے لاکھوں دنیا پرست خدا کو اور اس کی پاک راہوں کو چھوڑ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 149
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 149
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/149/mode/1up
دیتے ؔ ہیں۔
اے زِ تعلیم وید آوارہ
منکر از فیض بخش ہموارہ
آں قدیرے کہ نیست زُوچارہ
نزد تو عاجزست وناکارہ
بشنوی گر بود بحق روئے
شور قَالُوا بلٰی زِہر سوئے
آنکہ باذات او بقاؤ حیات
چوں نبا شد بدیع ماآں ذات
ناتوانی ست طور مخلوقات
کے خدا ایں چنیں بود ہیئات
کے پسندد خرد کہ ربّ قدیر
ناتواں باشد وضعیف وحقیر
نظرے کن بشانِ ربانی
داوری ہا کن بنادانی
یں چہ دین است و آئین ست
کہ خدا ناتوا ن و مسکین است
گربدیں دین و کیش ہستی شاد
مایۂ عمر را دہی برباد
قولہ۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ (آریہ سماج والوں کے اعتقاد کے رو سے) مکتی شدہ شخص مکتی خانہ سے نکالا جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آریہ سماج کے اصولوں کے موافق کوئی مکتی خانہ علیحدہ عمارت نہیں۔
اقول۔ سبحان اللہ کیا عمدہ جواب ہے۔ اعتراض تو یہ تھا کہ روحوں کو انادی اور قدیم اور پرمیشر کی طرح واجب الوجود اور غیر مخلوق ماننے سے پرمیشر ایسا کمزور اور مجبور ٹھہر جاتا ہے کہ وہ کسی طرح روحوں کو دائمی نجات دینے پر قادر نہیں ہوسکتا گو ارادہ بھی کرے۔ کیونکہ دائمی نجات دینے سے اس کی خدائی کا سلسلہ دور ہوتا ہے آپ اس کا جواب دیتے ہیں کہ مکتی خانہ کوئی علیحدہ عمارت نہیں جس سے نکالا جائے۔ ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ یہ کس قسم کا جواب ہے جس حالت میں آریوں کا بالاتفاق یہ اصول ہے کہ ہمیشہ کے لئے کسی کی مکتی نہیں ہوسکتی کوئی اوتار ہو یا رشی ہو یامنی ہو بلکہ کچھ مدت تک نجات دے کر پھر اس دارالنجات سے دارالتناسخ کی طرف بھیجے جاتے ہیں اور مختلف جونوں میں گردش کرتے کرتے کیڑے مکوڑوں تک نوبت پہنچتی ہے تو پھر کیا یہ اصول ماسٹر صاحب کو یاد نہیں یا دانستہ لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں اور اگر ماسٹر صاحب کو لفظی نزاع کے طور پر یہ اعتراض ہے کہ مکتی خانہ کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے۔ کیا کوئی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 150
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 150
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/150/mode/1up
اینٹوںؔ یا پتھروں کی دان عمارت ہے جس کو خانہ کہنا چاہئے تو ہمیں صرف ماسٹر صاحب کے اعتقاد پر افسوس نہ ہوگا بلکہ ان کی علمیت و محاورہ دانی پر بھی سخت افسوس ہوگا۔ کیا ماسٹر صاحب نہیں جانتے کہ تمام الفاظ تحقیقی طور پر ہی مستعمل نہیں ہوا کرتے بلکہ مجازات و استعارات بھی استعمال میں آتے ہیں مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے ایک بوتل شربت کی پی لی یا ایک رکیبی چانولوں کی کھالی تو کیا ماسٹر صاحب اس سے یہ سمجھیں گے کہ اس نے بوتل اور رکیبی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے کھالیا ہے۔ اسی طرح خانہ (یادار) کا لفظ کئی محلوں اور موقعوں پر بولا جاتا ہے اور ہر جگہ اینٹوں یا پتھروں کی عمارات مراد نہیں ہوتیں۔ سو جس حالت میں آریوں کے نزدیک دنیا دارالتناسخ ہے تو کیا بے جا ہوا اگر بمقابل اس کے دوسرے جہان کا نام دارالنجات (مکتی خانہ) رکھا گیا۔ اگر اب بھی ماسٹر صاحب کے دل کو کوئی وہم پکڑتا ہو تو کسی اپنے زیرک بھائی بند کو پوچھ کر دیکھ لیویں۔
قولہ۔ مرزا صاحب اپنا اعتقاد یاد کریں کہ انہوں نے مانا ہوا ہے کہ انسان بعد مرنے کے نجات پاکر ایک مکان بہشت میں رہے گا جہاں عمدہ باغ خدا نے لگایا ہوا ہے اچھی اچھی عورتیں یا حوریں موجود ہیں نہریں شراب وغیرہ کی جاری ہیں غرض نجات کی حالت میں بھی دنیاوی سامان موجود ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ واں وہ باتیں بھی موجود ہوں گی جو یہاں ممنوع ہیں مثلاً شراب اور بہت سی عورتیں مگر ایسا نہیں بلکہ نجات شدہ لوگ بڑے انند اور خودمختاری کی حالت میں رہیں گے۔
اقول۔ اے ماسٹر صاحب آپ یہ بے اصل باتیں مونہہ سے نکالتے ہوئے کچھ شرم تو کریں اتنا جھوٹ کیونکر ہضم ہوگا۔ بھلا جب حسب اصول آپ کے نجات یافتہ لوگ ایک مدت مقررہ کے بعد مکتی خانہ سے کان پکڑ کر باہر نکال دیئے جائیں گے اور ان کے رونے چلانے پر کچھ رحم نہیں کیا جائے گا بلکہ بڑی سختی سے خلافِ مرضی ان کے حکم اخراج عمل میں آئے گا۔
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 151
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 151
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/151/mode/1up
اورؔ بڑی ذلت اور رسوائی سے بقول شخصے کہ (پابدست دگرے دست بدست دگرے) مکتی خانہ سے باہر پھینکے جائیں گے تو کیا اس وقت ان کے لئے وہ سُرگ نرگ کا نمونہ بلکہ اس سے بدتر نہیں ہوجائے گا تو پھر اس مجبورانہ مصیبت کے وقت خودمختاری کہاں رہے گی اور انند کیسا ہوگا آپ کہتے ہیں کہ نجات شدہ لوگ بڑی خوشی اور انند میں رہیں گے افسوس ہے آپ کی سمجھ پر۔ کیا ایسے مقام میں بھی کوئی کامل خوشی میسر آسکتی ہے جس میں نکالے جانے اور پھر دوہری مرتبہ کروڑہا برسوں کی مصیبتوں کا دغدغہ درپیش ہے اور ہردم یہی فکر جان کو کھارہا ہے کہ اب تھوڑے عرصہ کے بعد بے شمار ذلتوں اور رسوائیوں کا مونہہ دیکھنا ہوگا۔ پھر کیڑے مکوڑے کتے بلے بننا ہوگا۔ پھر ایک گناہ کے بدلے میں لاکھوں جونیں بھگتنی ہوں گی اور زمانہ دراز اور مدت غیر معین تک دکھوں دردوں کو اٹھانا ہوگا۔ کیا جس کو اس قدر یقینی اور قطعی طور پر غم درپیش ہے اور غم بھی کیسا غم کہ لاعلاج۔ وہ بھی خوش رہ سکتا ہے سو آپ کس مونہہ سے کہہ سکتے ہیں کہ جس مکتی خانہ کا وید نے ذکر کیا ہے وہ بڑی انند اور خودمختاری اور خوشی کی جگہ ہے آپ کے مکتی خانہ سے خدا کی پناہ اگر ایسا ہی پرمیشر اور ایسا ہی اس کا مکتی خانہ ہے تو پھر بدقسمت زاہدوں عابدوں کے لئے اِس جگہ بھی رونا اور اُس جگہ بھی رونا ہی ہوگا۔
رہا آپکا یہ اعتراض کہ مسلمانوں کی بہشت میں دنیوی نعمتیں بھی موجود ہوں گی تو یہ کچھ اعتراض کی بات نہیں بلکہ اس سے تو آپکو اور آپکے پرمیشر کو بہت شرمندہ ہونا چاہیئے کیونکہ مسلمانوں کے خداوند قادر اور غنی مطلق نے تو دائمی اور جاودانی طور پر سب کچھ اپنے بے انتہا خزانوں سے عالم آخرت میں قرآن شریف پر ایمان لانے والوں کو عطا کیا ہے اور روحانی اور جسمانی دونوں طور کی نعمتیں مرحمت فرمائیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے سچے پرستار اس دنیا میں صرف روح ہی سے اس کی بندگی اور اطاعت نہیں کرتے بلکہ روح اور جسم دونوں سے کرتے ہیں اور خلقت انسانی کا کمال
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 152
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 152
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/152/mode/1up
صرفؔ روح ہی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ روح اور جسم دونوں کے امتزاج و اختلاط سے پیدا ہوتا ہے سو اس نے فرمان برداروں کو سعادت تامہ تک پہنچانے کے لئے اور ان کو پورا پورا اجر دینے کے لئے نجات جاودانی کی لذات کو دو قسم پر مشتمل کیا۔ اپنے محبوبانہ دیدار کی لذتیں بھی دیں اور اپنی دوسری نعمتیں بھی بارش کی طرح ان پر برسائیں۔ غرض وہ کام کر دکھلایا جو اس قادر عظیم الشان کی قدرتوں اور عظمتوں اور بے انتہا رحمتوں کے لائق ہے لیکن آپ کا پرمیشر تو مفلس اور دیوالیہ ہی نکلا اور اپنی عاجزی اور درویشی اور مفلسی اور ناطاقتی اور بے اختیاری کے باعث سے آپ لوگوں کو کسی ٹھکانہ نہ لگا سکا اور نہ کوئی مستقل خوشی پہنچا سکا۔ غرض کچھ بھی نہ کرسکا نہ روحانی نعمتیں ہمیشہ کے لئے دے سکا۔ نہ جسمانی اور دونوں طور سے آپ کو ناکام اور نامراد اور محروم اور بے نصیب رکھا اور جس کے لئے مرتے تھے اور جان نثاری کرتے تھے وہ ایسا نامنصف اور بے سمجھ اور مورکھ اور بے خبر نکلا کہ اس نے تمہاری روحانی اور بدنی مشقتوں کا کچھ بھی قدر نہ کیا اور اپنی الٹی سمجھ سے عاشقانہ وفاداریوں اور جان نثاریوں کو چند روزہ مزدوری خیال کرلیا۔ کیا ایسے بخیل اور ناطاقت اور بے سمجھ پرمیشر سے محبتیں بڑھ سکتی ہیں اور صفائی کامل سے کوئی دل رجوع ہوسکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ اس کی قدرت اور سخاوت اور قدر شناسی کی حقیقت کھلنے سے جب تپ کرنے والوں کی روحیں بہت ہی افسوس ناک اور نادم ہوں گی کہ اگر یہی پرمیشر اور یہی اس کی مکتی تھی تو ہم خواہ مخواہ کی ٹکریں کیوں ماریں اور مکتی خانہ سے نکالے جانے کے وقت ضرور مضمون اس شعر کا رو رو کر پڑھتے ہوں گے۔
اب تو کچھ سمجھ کے جان تجھ پہ کریں گے قربان
ہم تو اس روز کو پچھتاتے ہیں جب دل ہی دیا
سو خدائی کے کام وہ ہیں نہ یہ اور چارہ سازی اور بندہ نوازی اس کو کہتے ہیں نہ اس کو۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تا بکجا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ویدؔ کے رو سے اس ناکارہ اور ناقص مکتی کا ملنا بھی آپ لوگوں کے لئے محال ہے اور آپ کے پرمیشر نے محض ٹالنے کی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 153
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 153
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/153/mode/1up
غرضؔ سے مکتی کے ملنے میں ایسی دشواریاں ڈال دیں ہیں جو ممکن ہی نہیں کہ آپ لوگ ان سے مخلصی پاسکیں بھلا جب ایک گناہ کے لئے ایک لاکھ اور کئی ہزار جون کی سزا ٹھہری اور ایک طرفۃ العین یعنے ایک پلکارہ بھی خدائے تعالیٰ سے غافل ہونا گناہ ٹھہرا تو پھر مکتی پانے کی کون سی راہ باقی رہی۔ سو اگر آپ لوگ حقیقت حال کو سوچیں تو اپنی نوامیدی کی حالت کو دیکھ کر ماتم کریں اور سوگ میں بیٹھیں کیونکہ پرمیشر نے تو ایک طرح سے مکتی دینے سے آپ لوگوں کو جواب دے دیا ہے کیونکہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ کیا اس زندگی موجودہ میں کوئی شخص آپ لوگوں میں سے دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں نے کبھی کسی قسم کا گناہ نہیں کیا نہ صغیرہ نہ کبیرہ اور نہ کبھی جھوٹ زبان پر آیا۔ اور نہ کبھی کسی کو زبان یا ہاتھ یا آنکھ وغیرہ سے ستایا اور نہ کبھی مال ناجائز کھایا اور نہ کبھی ایک سیکنڈ بھی اپنے پرمیشر کو بھلایا اور نہ کسی اور قسم کا گناہ یا بدخیال دل میں آیا۔ میں جانتا ہوں کہ ایسا دعویٰ کرنا ممکن ہی نہیں تو پھر کسی آئندہ جون کا بھی اسی پر قیاس کرلیجئے کیونکہ اس دارالغفلت دنیا میں گناہ انسان کی فطرت کو لگا ہوا ہے اور جیسے فطرتی خواص اس موجودہ زندگی میں آپ سے الگ نہیں ہوسکے ایسا ہی کسی آئندہ جون میں دنیا میں آکر ان فطرتی خواص کا بکلی دور ہوجانا ممتنع اور محال ہے۔ بعض موٹی سمجھ کے آدمی جن کو بہ باعث اپنی نادانی اور نقصان علمی کے گناہ کی فلاسفی معلوم نہیں وہ شاید بوجہ اپنے کمال درجہ کی سادہ لوحی کے ایسا خیال کرتے ہوں گے کہ گویا گناہ انہیں دوچار باتوں کا نام ہے کہ انسان ارتکاب زنا یا خون یا شہادت دروغی پر دلیری کرے یا کسی جگہ سیندہ لگاوے یا کسی کی گانٹھُ کترلے اور پھر جب ان چند معدود اور مشہور جرائم کو چھوڑ دے تو پھر گناہ سے بکلّی پاک اور صفا ہوگیا اور اپنے پرمیشر کو کہہ سکتا ہے کہ اب تیرے حقوق سب میں نے ادا کردیئے اور جو کچھ کرنا میرے پر واجب تھا سب کچھ میں کر گزرا۔ لیکن درحقیقت یہ خیال سراسر غلط بلکہ بھاری گناہ ہے جو انسان اپنے تئیں بے گناہ اور
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 154
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 154
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/154/mode/1up
خداؔ ئے تعالیٰ کے سارے حقوق کو ادا کرنے والا خیال کرلے اسی وجہ سے راست بازوں اور مقدسوں نے طریق تواضع اور فروتنی اور استغفار کو لازم پکڑا اور کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں بکلی نیک اور بے گناہ ہوں حضرت مسیح علیہ السلام کو کسی نے کہا کہ اے نیک استاد‘ تو آپ نے یہ پیارا اور دلکش جواب دیا کہ میں نیک نہیں ہوں یعنے ایک گنہگار آدمی ہوں مجھے تو کیوں نیک کہتا ہے۔ سبحان اللہ معرفت الٰہی انہیں پاک لوگوں کے حصہ میں آئی تھی جنہوں نے کیسے ہی تقدس کی حالت میں بھی اپنے تئیں بے گناہ اور نیک نہیں سمجھا اور حقیقت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں کہ اپنے تئیں بے گناہ خیال کیا جائے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ گناہ انسان کی سرشت کو ایک لازم غیر منفک ہے جس کا تدارک صرف رحمت اور مغفرت الٰہی کرسکتی ہے نہ کوئی اور چیز اور اگر خدائے تعالیٰ ہریک گناہ پر سزا دینے لگے اور استغفار اور توبہ قبول نہ ہو اور فضل شامل حال نہ ہو تو بندہ کبھی نجات نہیں پاسکتا مثلاً اگر یہ سزا ہندوؤں کے اصول کے طور پر دی جائے یعنے جونوں میں ڈالا جائے تو اگر ہندوؤں کا پرمیشر قطع نظر ایک لاکھ جون کے ایک گناہ کے عوض میں صرف ایک جون کی سزا پر ہی کفایت کرے تب بھی اس بے انتہا سلسلہ کا انقطاع محال ہے چہ جائیکہ ایک گناہ کے بدلے میں دو لاکھ کے قریب جون بھگتنی پڑے اور پھر اس گناہ سے فراغت ہوکر دوسرے گناہ کی سزا نئے سرے سے شروع ہو اور ایک طرف بندہ سزائیں پاتا جائے اور ایک طرف نئے گناہ جو اس کی فطرت کو لگے ہوئے ہیں اور ہردم اور ہرلحظہ اس سے صادر ہورہے ہیں انبار کے انبار جمع ہوتے جائیں۔ پس جبکہ حقیقت گناہ یہ ہے اور اس سے مخلصی پانا عندالعقل محال ہے تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ اگر مکتی پانا اسی بات پر موقوف ہے کہ کسی قسم کا گناہ باقی نہ رہے اور کسی نوع سے خطا صادر نہ ہوسکے تو آریوں کے مکتی پانے کے کوئی لچھن نظر نہیں آتے۔ اور فرض کے طور پر اگر مان بھی لیں کہ کوئی آریہ ان سب شرائط کو پورا کرکے کسی زمانہ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 155
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 155
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/155/mode/1up
میںؔ مکتی پاجائے گا تو پھر بھی مکتی پانا نہ پانا اس کا برابر ہوگا کیونکہ صرف تھوڑے عرصہ تک مکتی خانہ میں پتھر کی طرح پڑا رہے گا۔ اور پھر جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں پرمیشر اپنی تلون مزاجی سے اس پر ناحق ناراض ہوکر سخت ذلیل اور رسوا کرکے اس کو باہر نکال دے گا اور چوروں کی طرح ہاتھوں میں اس کے مجبوری کی ہتھکڑی ہوگی اور پاؤں میں روک کا زنجیر اور گردن میں پرمیشر کی خفگی کا ایک بڑا لمبا رسّا ہوگا اور پھر اس نیک بخت کو خواہ وہ اوتار ہو یا کوئی ایسا رشی ہو جس پر کوئی وید اترا ہے یا کوئی دوسرا رکھی منی یا بھگت غرض کوئی ہو اس کو کھینچتے کھینچتے دنیا کے اسی گڑھے میں الٹا کر پھینک دیں گے جس سے وہ بیچارہ کروڑوں برس بلکہ ہزاروں ارب تک جان مار کر اور روپیٹ کر اتفاقاً نکل آیا تھا یہ آپ لوگوں کا پرمیشر ہے اور یہ اس کی مکتی ہے اور یہ اس کا انعام و اکرام ہے اور یہ اس کا ابتدا و انجام ہے۔ سو ایسے پرمیشر کو دور سے ہی سلام ہے۔ ایسے پرمیشر کے یہ شعر مطابق حال ہے۔
بادوستاں چہ کردی کہ کنی بدیگراں ہم
حقا کہ واجب آمدزِ تو احتراز کردن
اور اگر ماسٹر صاحب کا اعتراض سے یہ مطلب ہے کہ اسلامی بہشت میں صرف دنیوی نعمتوں کا ذکر ہے وصال الٰہی اور روحانی لذّ ات کا کہیں ذکر نہیں تو ہم اس جھگڑے کے فیصلہ کرنے کے لئے یہ عمدہ طریق سمجھتے ہیں کہ ماسٹر صاحب کسی اخبار کے ذریعہ سے پختہ طور پر ہم کو یہ اطلاع دیں کہ ہاں میری یہی رائے ہے کہ قرآن شریف میں وصالِ الٰہی اور لذّاتِ روحانی کا کہیں ذکر نہیں مگر وید میں ایسا بہت کچھ ذکر ہے تو اس صورت میں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ صرف تین یا چار ہفتہ تک ایک مستقل رسالہ اسی بارہ میں بغرض مقابلہ وید و قرآن طیار کرکے جہاں تک ہوسکے بہت جلد چھپوا دیں گے اور سو روپیہ بطور انعام ایک نامی اور فاضل برہمو صاحب کے پاس جو آریوں کے بھائی بند ہے امانت رکھ دیں گے پھر اگر ماسٹر صاحب بپابندی اپنے چاروں ویدوں کی سنگتا کے جن کو وہ الہامی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 156
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 156
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/156/mode/1up
سمجھتےؔ ہیں روحانی لذات اور وصال ربانی کے بارے میں جو نجات یابوں کو حاصل ہوگا۔ قرآن شریف کا مقابلہ کرکے دکھلاویں اور وہ برہمو صاحب اس کی تائید اور تصدیق کریں تو وہ سو روپیہ ماسٹر صاحب کا ہوگا ورنہ بجائے اس سو روپیہ کے ہم ماسٹر صاحب سے کچھ نہیں مانگتے صرف یہی شرط کرتے ہیں کہ مغلوب ہونے کی حالت میں ایسے وید سے جو بار بار انہیں ندامت دلاتا ہے دست بردار ہوکر اسلام کی سچی راہ کو اختیار کرلیں۔ (یار غالب شو کہ تا غالب شوی) اور اگر ماسٹر صاحب اس رسالہ کی اشاعت کے بعد ایک ماہ تک خاموش رہے اور ایسا مضمون کسی اخبار میں اور نہ اپنے کسی رسالہ میں شائع کیا تو اے ناظرین آپ لوگ سمجھ جائیں کہ وہ بھاگ گئے۔
رہا یہ اعتراض کہ شراب جو دنیا میں بھی ممنوعات اور محرمات میں سے ہے وہ کیونکر بہشت میں روا ہوجائے گی۔ اس کا جواب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے کہ بہشتی شراب کو اس دنیا کی فساد انگیز شرابوں سے کچھ مناسبت نہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَسَقٰٮهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا‌ۚ‏
عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ يُفَجِّرُوْنَهَا تَفْجِيْرًا‏
یعنے جو لوگ بہشت میں داخل ہوں گے ان کا خدا ان کو ایک ایسی پاک شراب پلائے گا جو ان کو کامل طور پر پاک کردے گی۔ نیک لوگ وہ جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہے یعنے ان کے دل وہ شراب پی کر غیر کی محبت سے بکلّی ٹھنڈے ہوجاویں گے۔ وہ کافوری شراب ایک چشمہ ہے جس کو اسی دنیا میں خدا کے بندے پینا شروع کرتے ہیں۔ وہ اس چشمہ کو ایسا رواں کردیتے ہیں کہ نہایت آسانی سے بہنے لگتا ہے اور وسیع اور فراخ نہریں ہوجاتی ہیں۔ یعنے ریاضاتِ عشقیہ سے سب روکیں ان کی دور ہوجاتی ہیں اور نشیب و فراز بشریت کا صاف اور ہموار ہوجاتا ہے اور جناب الٰہی کی طرف انقطاع کلی میسر آکر معارف الٰہیہ میں وسعت تامہ پیدا ہوجاتی ہے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے
وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍۙ‏
لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُوْنَۙ‏
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 157
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 157
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/157/mode/1up
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًاۙ‏
اِلَّا قِيْلاً سَلٰمًا سَلٰمًا‏
وُجُوْهٌ يَّوْمَٮِٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ‏
اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ‌ۚ‏
وَمَنْ كَانَ فِىْ هٰذِهٖۤ اَعْمَىٰ فَهُوَ فِىْ الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلاً‏
ور شراب صافی کے پیالے جو آب زُلال کی طرح مصفی ہوں گے بہشتیوں کو دیئے جائیں گے۔ وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہوگی کہ دردسر پیدا کرے یا بیہوشی اور بدمستی اس سے طاری ہو۔ بہشت میں کوئی لغو اور بیہودہ بات سننے میں نہیں آئے گی اور نہ کوئی گناہ کی بات سنی جائے گی بلکہ ہر طرف سلام سلام جو رحمت اور محبت اور خوشی کی نشانی ہے سننے میں آئے گا۔ اس دن مومنوں کے مونہہ تروتازہ اور خوبصورت ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھیں گے اور جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بھی گیا گزرا۔ اب ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ وہ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنی تمام صفات میں ان شرابوں سے مبائن اور مخالف ہے اور کسی جگہ قرآن شریف میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ دنیوی شرابوں کی طرح انگور سے یا قندسیاہ اور کیکر کے چھلکوں سے یا ایسا ہی کسی اور دنیوی مادہ سے بنائی جائے گی بلکہ بار بار کلام الٰہی میں یہی بیان ہوا ہے کہ اصل تخم اس شراب کا محبت اور معرفت الٰہی ہے جس کو دنیا سے ہی بندہ مومن ساتھ لے جاتا ہے۔ اور یہ بات کہ وہ روحانی امر کیونکر شراب کے طور پر نظر آجائے گا۔ یہ خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں پر مکاشفات کے ذریعہ سے کھلتا ہے اور عقلمند لوگ دوسری علامات و آثار سے اس کی حقیقت تک پہنچتے ہیں۔ روحانی امور کا جسمانی طور پر متمثل ہوجانا کئی مقامات قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہ بھی لکھا ہے کہ تسبیح اور تقدیس الٰہی کی باتیں پھلدار درختوں کی طرح متمثل ہوں گی۔ اور نیک اعمال پاک اور صاف نہروں کی طرح دکھلائی دیں گے اسی کی طرف دوسرے مقام میں
اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے
كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِىْ السَّمَآءِۙ‏
تُؤْتِىْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 158
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 158
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/158/mode/1up
یعنے پاک کلمات پاک درختوں سے مشابہت رکھتے ہیں جن کی جڑھ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں اور ہمیشہ اور ہر وقت تروتازہ پھل دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مقام میں اللہ تعالیٰ نے امور ایمانیہ کو باغات سے تشبیہہ دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے جو اس باغ کے نیچے بہتی ہیں اور اس کی جڑوں کو پانی پہنچا کر اس کو تروتازہ رکھتی ہیں۔ اور ایک جگہ قرآن شریف میں یہ بھی ذکر آیا ہے کہ جب عارف لوگ بہشت میں کسی قسم کی لذت حسی طور پر پائیں گے تو ان کو یقین ہوگا کہ یہ لذات انہیں روحانی لذات سے مشابہ ہیں جن کو ہم دنیا میں عشق اور محبت الٰہی کی وجہ سے پاتے تھے ایسا ہی قرآن شریف میں بیسیوں مقامات میں اس بات کا ذکر پایا جاتا ہے کہ عالم آخرت میں جو جسمانی طور پر لذات بہشتیوں کو دی جائیں گی حقیقت میں وہ سب روحانی لذات کے اظلال و آثار ہوں گے اگر وہ سب مقامات قرآنی بحوالہ آیات اس جگہ لکھے جائیں تو اس رسالہ میں بہت سا طول ہوجائے گا۔ سو ہم جیسا کہ وعدہ کرچکے ہیں ماسٹر مرلیدھر صاحب کی درخواست سے یہ سب امور مفصل طور پر کسی الگ رسالہ میں تحریر کریں گے۔ اور واضح رہے کہ لذات روحانی کا جسمانی طور پر متمثل ہونا جو بہشت کی نسبت بیان کیا گیا ہے کوئی ایسا امر نہیں ہے جس کو جدید اور دوراز فہم خیال کیا جائے۔ دیکھنا چاہئے کہ عالم رویا یعنے عالم خواب میں بھی (جو اس دوسرے عالم سے بشدت مشابہ ہے گویا اس کی دوسری شاخ ہے) کیسے امور معقولہ محسوس طور پر مشہود ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر ایک عقلمند انسان اپنے ذاتی تجربہ سے عالم رویا میں معقولات کا محسوسات کے پیرایہ میں متمثل ہونا بخوبی جانتا ہوگا بارہا ہم تم اپنے سرور اور خوشی کی حالت میں جو ایک روحانی امر ہے عالم رؤیا میں ایک نہایت سرسبز باغ دیکھتے ہیں جس میں ہم سیر کررہے ہیں یا عمدہ میوؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کو ہم کھارہے ہیں سو حقیقت میں یہ وہی روحانی خوشی اور راحت ہوتی ہے جو جسمانی طور پر ہم کو نظر آجاتی ہے۔ ایسا ہی کبھی غم کی حالت سانپ یا بچھو یا صاعقہ یا کسی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 159
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 159
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/159/mode/1up
درندہؔ یا زلزلہ کی شکل میں دکھائی دیتی ہے یا ناقص اور مکروہ چیزوں کی صورت میں جیسے پیاز یا مولیاں یا مرچیں یا بدبودار چیزیں یا نجاست آمیز کیچڑ وغیرہ کے رنگ میں نمودار ہوتی ہیں غرض یہ بات محقّقین اور مجر بین کے مشاہدات کثیرہ متواترہ سے ثابت ہوچکی ہے جس سے فلسفیوں نے بھی اتفاق کرلیا ہے کہ عالم رویا اور عالم آخرت مرا یا متقابلہ کی طرح واقعہ ہیں جو کچھ فطرت اور قدرت الٰہی نے عالم خواب میں خواص عجیبہ رکھے ہیں اور جس عجیب طور سے روحانی امور محسوس و مشہود طور پر اس عالم میں دکھائی دیتے ہیں بعینہٖ یہی حال عالم آخرت کا ہے یا یوں کہو کہ عالم خواب عالم آخرت کے لئے اس عکسی آئینہ کی طرح ہے جو ہوبہو فوٹو گراف اتار دکھائے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ موت اور خواب دو حقیقی بہنیں ہیں جن کا حلیہ اور شکل اور لوازم اور خواص قریب قریب ہیں اور اگر ہم اسی زندگی دنیا میں عالم آخرت کے کچھ اسرار بغیر ذریعہ الہام اور وحی کے دریافت کرسکتے ہیں تو بس یہی ایک ذریعہ عالم رویا کا ہے سو دانشمندوں کو چاہئے کہ اگر اس عالم کی کیفیت کچھ دریافت کرنا چاہیں تو عالم رویا پر بہت غور اور توجہ کریں کیونکہ جن عجائبات سے یہہ عالم رویا بھرا ہوا ہے اسی قسم کے عجائبات عالم آخرت میں بھی ہیں اور جس طور کی ایک خاص تبدیل وقوع میں آکر عالم رویا پیدا ہوجاتا ہے اور پھر اس میں یہ عجائبات کھلتے ہیں عالمِ آخرت میں بھی اسی کے مشابہ تبدیل ہے سو جبکہ خدائے تعالیٰ کا قانون قدرت عالمِ رویا میں یہی ہے کہ وہ روحانیات کو جسمانیات سے متمثل کرتا ہے اور معقولات کو محسوسات کا لباس پہناتا ہے سو وہی قانون قدرت دوسرے عالم میں بھی سمجھنا چاہئے اور یہ خیال آریوں کا کہ عالم آخرت میں صرف روح اکیلی رہ جائے گی اور اس کے ساتھ جسم نہیں ہوگا اور لذتیں بھی صرف روحانی اور معقولی طور پر ہوں گی یہ سراسر تحکم ہے جس پر کوئی دلیل نہیں یہ بات نہایت صاف اور بدیہی الثبوت ہے کہ انسان ترقیات غیر متناہیہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور ذریعہ ان ترقیات کا اس کی وہ جسمی ترکیب ہے جس کو قادر مطلق
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 160
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 160
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/160/mode/1up
نے ؔ ایسی حکمت کاملہ سے صورت پذیر کیا کہ تکمیل نفس ناطقہ انسان کے لئے عجیب آثار اس سے مترتب ہوئے گویا حکیم مطلق نے روح انسان کو اپنے مراتب عالیہ تک پہنچنے کے لئے ایک ضروری سیڑھی عطا کردی سو جیسا کہ یہ ظاہر ہے کہ ان مراتب عالیہ کی کوئی انتہا نہیں ایسا ہی یہ بھی ظاہر ہے کہ اس سیڑھی کی بھی ہمیشہ کے لئے ضرورت ہے اور یہ کیونکر ہوسکے کہ وہ ذریعہ ترقیات جس کی ہمیشہ کے لئے روح کو ضرورت ہو اس سے الگ کیا جائے ماسوا اس کے ترقیات تو ایک طرف رہیں علوم حاصل کردہ بھی بغیر شمول جسم کے محفوظ نہیں رہ سکتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جسم کے ماؤف ہونے کے ساتھ ہی انسانیت کے افعال میں فتور پڑجاتا ہے۔ مثلاً اگر سر پر کوئی چوٹ لگ جائے تو جس مقام پر اس چوٹ کا صدمہ پہنچے اس مقام کی دماغی قوت ساتھ ہی خلل پذیر یا معطل ہوجاتی ہے اگر کسی کو شک ہو تو تجربہ کرکے دیکھ لے پس جبکہ صدور افعال انسانیت کے لئے جسم کی صحت و درستی نہایت ضروری ہے اور جسمی اختلال کو روحانی اختلال لازم پڑا ہوا ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ہماری روح بغیر شمول جسم کے انسانی لوازم اور کمالات اور حفظ کمالات کا مظہر و مصدر نہیں ہوسکتی ہم دنیا میں صریح دیکھتے ہیں کہ جسم کے آفت زدہ ہونے سے روحانی کاروبار میں ابتری واقع ہوجاتی ہے۔ مجانین یعنے سودائیوں اور پاگلوں کی جب جسمی حالت درست نہیں رہتی اور دماغی اعتدال میں کچھ فرق واقع ہوجاتا ہے تو مجرد روح کے ہونے سے افعال انسانیت ہرگز ان سے صادر نہیں ہوسکتے۔ بعض آدمیوں کو دماغی فتوروں سے اس قدر متاثر دیکھا گیا ہے کہ تمام علوم یک دفعہ ان کو بھول گئے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنا نام بھی یاد نہیں رہا اور بار بار دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ میرا نام کیا ہے۔ اب جبکہ ایک تھوڑے سے جسمی خلل سے انسانی افعال میں اس قدر آفتیں پیدا ہوجاتی ہیں تو ہم کس طور سے یقین کرلیں اور کون سی دلیل ہمارے ہاتھ میں ہے جس سے ہم اس بات کے باور کرنے کے لئے بکلی تیار ہوجائیں کہ جب روح جسم سے قطعی طور پر الگ ہوجائے گی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 161
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 161
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/161/mode/1up
تبؔ اس مفارقت تامہ سے کوئی ضرر انسانی کمالات کے عائد حال نہیں ہوگا ہم جانتے ہیں کہ ضرور ہوگا تجارب طبی ہمارے لئے دلیل کافی ہے یعنی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اختلال جسمانی اختلال روحانی کا موجب ہے اور جسمانی صحت یا مرض کو روحانی صلاح یا فساد پر ایک قوی اثر ہے اب جو شخص اس بدیہی دلیل کے برخلاف رائے رکھتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسانیت کاملہ کے خواص بلا ترکیب جسم جیسا کہ چاہیئے کہ مجرد روح سے صادر ہوسکتے ہیں تو بار ثبوت اسی کی گردن پر ہے جس سے وہ کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتا کیونکہ محققین کے تجارب اس بات کی تائید میں انتہا تک پہنچ گئے ہیں کہ صدور افعال کاملہ انسانیت کے لئے ترکّبِ جسم مع الروح ضروری ہے اور جب جسم آیا تو جسمانی لوازم بھی ساتھ آئیں گے۔ ہاں چونکہ وہ بہشتی جسم ایک لطیف اور نورانی بدن ہوگا اس لئے اس کے لوازم بھی لطیف اور نورانی ہی ہوں گے۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ قریب بقیاس اور قانون قدرت کے موافق اور دلائل طبعیہ اور طبیہ سے تائید یافتہ اور ثابت شدہ وہ بہشت ہے جس کو قرآن شریف نے نہایت پاکیزگی سے بیان کیا ہے اور براہین شافیہ سے اس کا ثبوت دیا ہے یا وہ وہمی اور خلاف قیاس اور منحوس مکتی خانہ جس کا وید میں ذکر ہے یعنے یہ کہ مجرد روحیں پتھر کی طرح پڑی رہیں گی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد مکتی خانہ سے باہر نکالی جائیں گی۔ کیا انسان کی انتہائی سعادت یہی ہے کہ وہ مجرد روح رہ کر ان بابرکت اور نہایت مفید حواس کو کھو بیٹھے جو اس کی غیر متناہی ترقیات کا موجب ہیں اور پھر اس پر بھی کفایت نہیں بلکہ مصیبت پر مصیبت یہ کہ انجام کار مکتی خانہ سے ذلیل کرکے نکالا جائے انصاف کرنا چاہیئے کہ کیا ایسی نامعقول مکتی پر کوئی فلسفی برہان قائم ہوسکتی ہے اور کیا اس جہان میں اور اس زندگی میں کوئی شافی دلیل ہم کو اس بات پر مل سکتی ہے کہ افعال کاملہ انسانیت جو قویٰ ظاہری و باطنی سے وابستہ اور دماغی حواسوں سے ظہور پذیر ہیں وہ مجرد روحوں سے صادر ہوسکتے ہیں اگر کسی آریہ کے نزدیک کوئی ایسی
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 162
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 162
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/162/mode/1up
دلیلؔ پائی جاتی ہے جس سے یہ ثبوت مل سکے تو کس وقت کے لئے مخفی رکھی ہے واجب و لازم ہے کہ پیش کریں۔ خاص کر ماسٹر مرلیدھر صاحب جو وید کے غایت درجہ کے ثنا خوان ہیں اور بقول شخصے کہ دیکھا نہ بھالا صدقے گئی خالہ۔ پہلے اس سے کہ ویدوں کی حقیقت معلوم کریں یوں ہی وید وید کررہے ہیں۔ ان پر تو فرض ہے کہ ضرور اس جگہ وید کا فلسفہ پیش کریں۔ تاوید کی ڈوبتی ہوئی کشتی کا کوئی گوشہ باقی رہ جائے۔
ندارد کسے باتو نا گفتہ کار
ولیکن چو گفتی دلیلش بیار
قولہ۔ مرزا صاحب اپنے اعتراض کی تفصیل اس طرح فرماتے ہیں کہ اگر تمام ارواح کو اور ایسا ہی اجزاء صغار اجسام کو قدیم اور انادی اور غیر مخلوق مانا جائے تو اس میں کئی قباحتیں ہیں منجملہ ان کے ایک تو یہ کہ خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ جس حالت میں ارواح یعنے جیو خودبخود موجود ہیں اور ایسا ہی اجزاء صغار بھی خودبخود ہیں تو پھر صرف جوڑنے جاڑنے سے ضرورت صانع کی ثابت نہیں ہوسکتی بلکہ ایک دہریہ بھی جو خدائے تعالیٰ کا منکر ہے عذر پیش کرسکتا ہے کہ جس حالت میں تم نے دو چیزوں کا خودبخود ہونا بغیر ایجاد پرمیشر کے آپ ہی مان لیا ہے تو پھر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ جوڑنے جاڑنے کے لئے پرمیشر کی حاجت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی باتیں وہ لوگ کہتے ہیں کہ جن کو نہ تو روح کی ہی کیفیت معلوم ہے کہ وہ کیا ہے اور نہ مادہ کی ہی کیفیت کہ وہ کیا چیز ہے۔
اقول۔ واہ کیا عمدہ جواب دیا ہے۔ اگر ماسٹر صاحب کسی عدالت کے جج ہوں تو خوب ہی ُ پربہار فیصلہ لکھیں ماسٹر صاحب کی عقل عجیب کے نزدیک جو لوگ خداوند ذوالجلال قادر مطلق کو جمیع عالم کا صانع سمجھتے ہیں اور ہریک فیض کا مبداء اور ہریک وجود کا موجد و قیوم اور ہریک سلسلہ کا منتہا اسی کو قرار دیتے ہیں اور بغیر اس کے ظاہر کرنے کے کسی چیز کا ظہور خودبخود نہیں مانتے اور بغیر اس کے پیدا کرنے کے کسی چیز کا اپنے آپ ہی پیدا ہوجانا تسلیم نہیں کرتے بلکہ سب چیزوں کا مبدء و مرجع اسی کو جانتے ہیں اور جمیع اجزاء
Ruhani Khazain Volume 2. Page: 163
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲- سرمہ چشم آ ریہ: صفحہ 163
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=2#page/163/mode/1up
عالمؔ کی نسبت یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اسی کی ایجاد سے موجود اور اسی کے سہارے سے قائم اور اسی کے رشحاتِ فیض سے پرورش یاب ہے اُن کو نہ روح کی کچھ کیفیت معلوم ہے نہ مادہ کی بلکہ بقول ماسٹر صاحب یہ معرفت روح اور مادہ کی انہیں لوگوں کے حصہ میں آگئی ہے کہ جو اپنی روحوں اور اپنے جسمی مادہ کو خدائے تعالیٰ کی طرح غیرمخلوق اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا خیال کرتے ہیں۔ اے لالہ صاحب؟ اگر آپ غیرمخلوق ہوکر اپنے پرمیشر سے مساوی ہیں تو پھر اپنی خدائی کچھ دکھلائیے یا اپنی روح کے غیر متناہی زمانوں کی کوئی کہانی ہی سنائیے ورنہ اگر نرا دعویٰ ہی دعویٰ ہے تو پھر اس فضول گوئی کا ثبوت کیا ہوا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ گیان آپ نے کہاں سے حاصل کیا ہے۔ اگر وید کی یہی تعلیم ہے تو پھر منادی کیوں نہیں کرادیتے کہ آریوں کا پرمیشر روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ افسوس آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ خدا ایسا چاہئے جو اپنی خدائی کے کام چلانے میں کسی غیر کے اتفاقی وجود کا محتاج نہ ہو بلکہ جن چیزوں پر وہ خدائی کرتا ہو وہ سب اسی کے ہاتھ سے نکلی ہوں۔ ہائے تم پر افسوس تم کیوں نہیں سمجھتے کہ جس کے مقابل پر کروڑہا وجود خودبخود چلے آتے ہیں وہ کاہے کا خدا ہے اور کون سی خدائی اس میں ہے۔ اے نادانوں اور سمجھ کے ناقصو خدا کی کامل اور پوری خوبی کس بات میں ہے آیا اس میں کہ وہ اپنی قدرت سے کچھ نہ کرسکے اور اس کی خدائی دوسروں کے سہارے سے چلتی ہو یا اس بات میں کہ وہ سب کچھ کرتا ہو اور اس کی خدائی اسی کی غیرمتناہی طاقتوں سے چلتی ہو۔ ذرا اکیلے بیٹھ کر سوچو؟ اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے ایک خالص فکر کو اس کے گہراؤ تک لے جاؤ؟ کہ خدا کی ضرورتیں کہاں سے اور کہاں تک ہیں؟ بعض آریہ سماج والے ارواح کے غیرمخلوق اور اپنے وجود کے آپ خدا ہونے کے بارے میں یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ اگر ارواح کسی وقت معدوم تھیں اور پھر خدائے تعالیٰ کے پیدا کرنے سے موجود ہوئیں تو گویا نیست سے ہست ہوگیا اور نیستی سے ہستی ہونا ایسی دوراز فہم بات ہے کہ کوئی عقلمند
 
Last edited:
Top