• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 20 ۔ لیکچر لدھیانہ ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 20. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


حضور علیہ السلام نے ۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں دیا


اوّل مَیں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے یہ موقع دیا کہ مَیں پھر اس شہر میں تبلیغ کرنے کے لئے آؤں۔ مَیں اسی شہر میں ۱۴ برس کے بعد آیا ہوں۔ اور مَیں ایسے وقت اِس شہر سے گیا تھا جبکہ میرے ساتھ چند آدمی تھے اور تکفیر تکذیب اور دجّال کہنے کا بازار گرم تھا۔ اور مَیں لوگوں کی نظرمیں اس انسان کی طرح تھا جو مطرود اور مخذول ہوتا ہے۔ اور ان لوگوں کے خیال میں تھا کہ تھوڑے ہی دنوں میں یہ جماعت مردود ہو کر منتشر ہو جائے گی اور اس سلسلہ کا نام نشان مٹ جائے گا چنانچہ اس غرض کیلئے بڑی بڑی کوششیں اور منصوبے کئے گئے اور ایک بڑی بھاری سازش میرے خلاف یہ کی گئی کہ مجھ اور میری جماعت پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور سارے ہندوستان میں اس فتویٰ کو پھرایا گیا۔ مَیں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ سب سے اوّل مجھ پر کفر کا فتویٰ اسی شہر کے چند مولویوں نے دیا مگر مَیں دیکھتا ہوں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کافر کہنے والے موجود نہیں اور خدا تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


مجھے اب تک زندہ رکھا اور میری جماعت کو بڑھایا۔ میرا خیال ہے کہ وہ فتویٰ کفر جو دوبارہ میرے خلاف تجویز ہوا اسے ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں پھرایا گیا۔ اور دو سو کے قریب مولویوں اور مشائخوں کی گواہیاں اورمہریں اس پر کرائی گئیں اس میں ظاہر کیا گیا کہ یہ شخص بے ایمان ہے کافر ہے دجال ہے مفتری ہے کافر ہے بلکہ اَکْفَر ہے۔ غرض جوجو کچھ کسی سے ہو سکا میری نسبت اس نے کہا اور ان لوگوں نے اپنے خیال میں سمجھ لیا کہ بس یہ ہتھیار اب سلسلہ کو ختم کردے گا۔اور فی الحقیقت اگر یہ سلسلہ انسانی منصوبہ اور افترا ہوتاتو اس کے ہلاک کرنے کیلئے یہ فتویٰ کا ہتھیار بہت ہی زبردست تھا لیکن اس کو خدانے قائم کیا تھا۔ پھروہ مخالفوں کی مخالفت اور عداوت سے کیونکر مر سکتا تھا۔ جس قدر مخالفت میں شدّت ہوتی گئی اسی قدر اس سلسلہ کی عظمت اور عزّت دلوں میں جڑ پکڑتی گئی۔ اور آج مَیں خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ یا تو وہ زمانہ تھا کہ جب میں اس شہر میں آیا اور یہاں سے گیا تو صرف چند آدمی میرے ساتھ تھے۔ اور میری جماعت کی تعداد نہایت ہی قلیل تھی اور یا اب وہ وقت ہے کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک کثیر جماعت میرے ساتھ ہے اور جماعت کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور دن بدن ترقی ہورہی ہے اور یقیناًکروڑوں تک پہنچے گی۔

پس اس انقلابِ عظیم کو دیکھو کہ کیا یہ انسانی ہاتھ کا کام ہو سکتا ہے؟ دنیا کے لوگوں نے تو چاہا کہ اس سلسلہ کا نام و نشان مٹا دیں اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ کبھی کا اس کو مٹا چکے ہوتے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے وہ جن باتوں کا ارادہ فرماتا ہے دنیا ان کو روک نہیں سکتی اور جن باتوں کا دنیا ارادہ کرے مگر خدا تعالیٰ ان کا ارادہ نہ کرے وہ کبھی ہو نہیں سکتی ہیں۔ غور کرو! میرے معاملہ میں کل علماء اور پیر زادے اور گدی نشین مخالف ہوئے اور دوسرے مذہب کے لوگوں کو بھی میری مخالفت کیلئے اپنے ساتھ ملایا۔ پھر میری نسبت ہر طرح کی کوشش کی مسلمانوں کوبدظن کرنے کے لئے مجھ پر کفر کا فتویٰ دیا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اور پھر جب اس تجویز میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو پھرمقدمات شروع کئے۔ خون کے مقدمے میں مجھے پھنسایا اور ہر طرح کی کوششیں کیں کہ مَیں سزا پا جاؤں۔ ایک پادری کے قتل کا الزام مجھ پر لگایا گیا۔ اس مقدمے میں مولوی محمد حسین نے بھی میرے خلاف بڑی کوشش کی اور خود شہادت دینے کے واسطے گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں پھنس جاؤں اور مجھے سزا ملے۔ مولوی محمد حسین کی یہ کوشش ظاہر کرتی تھی کہ وہ دلائل اور براہین سے عاجز ہے اس لئے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب دشمن دلائل سے عاجز ہو جاتا ہے اور براہین سے ملزم نہیں کرسکتا تو ایذا قتل کی تجویزیں کرتا ہے اور وطن سے نکال دینے کا ارادہ کرتا ہے۔ اوراس کے خلاف مختلف قسم کے منصوبے اور سازشیں کرتا ہے۔جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جب کفّار مکہ عاجز آگئے اور ہر طرح سے ساکت ہوگئے تو آخر انہوں نے بھی اس قسم کے حیلے سوچے کہ آپ کو قتل کر دیں یا قید کریں یا آپ کووطن سے نکال دیا جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ایذائیں دیں مگر آخر وہ سب کے سب اپنے ارادوں اور منصوبوں میں نامراد اور ناکام رہے۔ اب وہی سنّت اور طریق میرے ساتھ ہورہا ہے مگر یہ دنیا بغیر خالق اور ربّ العالمین کے ہستی نہیں رکھتی۔ وہی ہے جو جھوٹے اور سچے میں امتیاز کرتا ہے اور آخر سچے کی حمایت کرتا اور اُسے غالب کر کے دکھادیتا ہے۔ اب اس زمانہ میں جب خدا تعالیٰ نے پھر اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا ہے۔ مَیں اس کی تائیدوں کا ایک زندہ نشان ہوں اور اس وقت تم سب کے سب دیکھتے ہو کہ مَیں وہی ہوں جس کو قوم نے ردّ کیا اور مَیں مقبولوں کی طرح کھڑا ہوں۔ تم قیاس کرو کہ اس وقت آج سے چود۱۴ہ برس پیشتر جب مَیں یہاں آیا تھا تو کون چاہتا تھا۔۔۔کہ ایک آدمی بھی میرے ساتھ ہو۔ علماء۔ فقراء اور ہر قسم کے معظم مکرم لوگ یہ چاہتے تھے کہ مَیں ہلاک ہو جاؤں اور اس سلسلہ کا نام و نشان مٹ جاوے وہ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ ترقیات نصیب ہوں مگر وہ خدا جو ہمیشہ اپنے بندوں کی حمایت کرتا ہے اور جس نے راستبازوں کو غالب کر کے دکھایا ہے اُس نے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


میری حمایت کی اور میرے مخالفوں کے خلاف ان کی اُمیدوں اورمنصوبوں کے بالکل برعکس اُس نے مجھے وہ قبولیت بخشی کہ ایکَ خلق کو میری طرف متوجہ کیا جو ان مخالفتوں اور مشکلات کے پردوں اور روکوں کو چیرتی ہوئی میری طرف آئی اور آرہی ہے۔ اب غور کا مقام ہے کہ کیا انسانی تجویزوں اور منصوبوں سے یہ کامیابی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے بار سوخ لوگ ایک شخص کی ہلاکت کی فکر میں ہوں اور اس کے خلاف ہر قسم کے منصوبے کئے جاویں اس کے لئے خطرناک آگ جلائی جاوے مگر وہ ان سب آفتوں سے صاف نکل جاوے؟ ہرگز نہیں! یہ خدا کے کام ہیں جو ہمیشہ اس نے دکھائے ہیں۔ پھر اسی امر پر زبردست دلیل یہ ہے کہ آج سے ۲۵ برس پیشتر جبکہ کوئی بھی میرے نام سے واقف نہ تھا اور نہ کوئی شخص قادیان میں میرے پاس آتاتھا یا خط و کتابت رکھتا تھا اس گمنامی کی حالت میں ان کس مپرسی کے ا ّ یام میں اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا:۔

یأتون من کلّ فجٍ عمیق۔ یأتیک من کلّ فَجٍّ عمیق۔ لا تصعّر لخلق اللّٰہِ ولا تسئم من النّاس۔ ربّ لا تذرنی فردًا وانت خیرالوارثین۔

یہ وہ زبردست پیشگوئی ہے جو ان ایّام میں کی گئی اور چھپ کر شائع ہوگئی۔ اور ہر مذہب و ملّت کے لوگوں نے اسے پڑھا۔ ایسی حالت اور ایسے وقت میں کہ مَیں گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا اور کوئی شخص مجھے نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے پاس دور دراز ملکوں سے لوگ آئیں گے اور کثرت سے آئیں گے اور اُن کیلئے مہمانداری کے ہر قسم کے سامان اور لوازمات بھی آئیں گے۔ چونکہ ایک شخص ہزاروں لاکھوں انسانوں کی مہمانداری کے جمیع لوازمات مہیّا نہیں کر سکتا اور نہ اس قدر اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے اس لئے خود ہی فرمایا یأتیک من کلّ فجٍّ عمیق اُن کے سامان بھی ساتھ ہی آئیں گے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اور پھر انسان کثرت مخلوقات سے گھبرا جاتا ہے اور ان سے کج خلقی کر بیٹھتا ہے۔ اس لئے اِس سے منع کیا کہ ان سے کج خلقی نہ کرنا۔ اور پھر یہ بھی فرمایا کہ لوگوں کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جانا۔

اب آپ غور کریں کہ کیا یہ امر انسانی طاقت کے اندر ہے کہ پچیس تیس برس پہلے ایک واقعہ کی اطلاع دے۔ اور وہ بھی اسی کے متعلق اور پھر اسی طرح پر وقوع بھی ہو جاوے۔ انسانی ہستی اور زندگی کا تو ایک منٹ کا بھی اعتبار نہیں اور نہیں کہہ سکتے کہ دوسرا سانس آئے گا یا نہیں پھر ایسی خبر دینا یہ کیونکر اس کی طاقت اور قیاس میں آسکتا ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مَیں بالکل اکیلا تھا اور لوگوں سے ملنے سے بھی مجھے نفرت تھی اور چونکہ ایک وقت آنے والا تھا کہ لاکھوں انسان میری طرف رجوع کریں اس لئے اس نصیحت کی ضرورت پڑی لا تصعّرلخلق اللّٰہ ولا تسئم من النّاس۔

اور پھر انہیں دنوں میں یہ بھی فرمایا۔ انت منّی بمنزلۃ توحیدی۔ فحان ان تعان و تعرف بین الناس۔ یعنی وہ وہ وقت آتا ہے کہ تیری مدد کی جاوے گی اور تو لوگوں کے درمیان شناخت کیا جاوے گا۔ اسی طرح پرفارسی۔ عربی اور انگریزی میں کثرت سے ایسے الہامات ہیں جو اس مضمون کو ظاہر کرتے ہیں۔

اب سوچنے کا مقام ہے ان لوگوں کیلئے جو خدا کا خوف رکھتے ہیں کہ اس قدر عرصہ دراز پیشتر ایک پیشگوئی کی گئی اور وہ کتاب میں چھپ کر شائع ہوئی۔ براہین احمدیہ ایسی کتاب ہے جس کو دوست دشمن سب نے پڑھا۔ گورنمنٹ میں بھی اس کی کاپی بھیجی گئی۔ عیسائیوں ہندوؤں نے اسے پڑھا۔ اس شہر میں بھی بہتوں کے پاس یہ کتاب ہوگی وہ دیکھیں کہ اس میں درج ہے یا نہیں؟ پھر وہ مولوی (جو محض عداوت کی راہ سے مجھے دجّال اور کذّاب کہتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی) شرم کریں اور بتائیں کہ اگر یہ پیشگوئی نہیں تو پھر اور پیشگوئی کس کو کہتے ہیں؟ یہ وہ کتاب ہے جس کا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ریویو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے کیا ہے۔ چونکہ وہ میرے ہم سبق تھے اس لئے اکثر قادیان آیا کرتے تھے وہ خوب جانتے ہیں۔ اور ایسا ہی قادیان۔ بٹالہ۔ امرتسر اور گردونواح کے لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ اس وقت میں بالکل اکیلا تھا اور کوئی مجھے جانتا نہ تھا۔ اور اس وقت کی حالت سے عند العقل دور ا ز قیاس معلوم ہوتا تھا کہ میرے جیسے گمنام آدمی پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لاکھوں آدمی اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ مَیں اس وقت کچھ بھی نہ تھا۔ تنہا و بے کس تھا۔ خود اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں مجھے یہ دعا سکھاتا ہے۔ ربّ لا تذرنی فردًا وانت خیر الوارثین۔ یہ دُعا اِس نے سکھائی کہ وہ پیار رکھتا ہے اُن لوگوں سے جو دُعا کرتے ہیں۔ کیونکہ دُعا عبادت ہے اور اس نے فرمایاہے۔ 3 ۱؂۔ دُعا کرو۔ مَیں قبول کروں گا ۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مغز اور مُخ عبادت کا دُعا ہی ہے۔ اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کے پیرایہ میں سکھانا چاہتا ہے کہ تو اکیلا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تو اکیلا نہ رہے گا۔ اور مَیں پکار کر کہتا ہوں کہ جیسا یہ دن روشن ہے اِسی طرح یہ پیشگوئی روشن ہے اور یہ امر واقعی ہے کہ مَیں اس وقت اکیلا تھا۔ کون کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ تیرے ساتھ جماعت تھی۔ مگر اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے موافق اور اس پیشگوئی کے موافق جو اس نے ایک زمانہ پہلے خبر دی۔ ایک کثیر جماعت میرے ساتھ کردی*۔ ایسی حالت اور صورت میں اس عظیم الشان پیشگوئی کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ پھر جبکہ اسی کتاب میں یہ پیشگوئی بھی موجود ہے کہ لوگ خطرناک طور پر مخالفت کریں گے اور اس جماعت کو روکنے کے لئے ہر قسم کی کوششیں کریں گے مگر میں ان سب کو نامراد کروں گا۔

پھر براہین احمدیہ میںیہ بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب تک پاک پلید میں فرق نہ کرلوں گا نہیں چھوڑوں گا۔ میں ان واقعات کو پیش کر کے ان لوگوں کو مخاطب نہیں کرتا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


جن کے دلوں میں خداکا خوف نہیں اور جو گویا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مرنا ہی نہیں۔ وہ خداتعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں بلکہ مَیں ان لوگوں کو مخاطب کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ مرنا ہے اور موت کے دروازے قریب ہورہے ہیں اس لئے کہ خدا سے ڈرنے والا ایسا گستاخ نہیں ہو سکتا۔ وہ غور کریں کہ کیا ۲۵ برس پیشتر ایسی پیشگوئی کرنا انسانی طاقت اور قیاس کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ پھر ایسی حالت میں کہ کوئی اسے جانتا بھی نہ ہو اور ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی ہو کہ لوگ مخالفت کریں گے مگر وہ نامراد رہیں گے مخالفوں کے نامراد رہنے اور اپنے بامراد ہو جانے کی پیشگوئی کرنا ایک خارق عادت امر ہے اگر اس کے ماننے میں کوئی شک ہے تو پھر نظیر پیش کرو۔

مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک کے کسی مفتری کی نظیر دو جس نے ۲۵ برس پیشتر اپنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئیاں کی ہوں اور وہ یوں روزروشن کی طرح پوری ہو گئی ہوں۔اگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش کردے تو یقیناًیاد رکھو کہ یہ سارا سلسلہ اور کاروبار باطل ہو جائے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کے کاربار کو کون باطل کر سکتا ہے؟ یوں تکذیب کرنا اور بلاوجہ معقول انکار اور استہزا یہ حرام زادے کا کام ہے کوئی حلال زادہ ایسی جرأت نہیں کر سکتا۔ مَیں اپنی سچائی کو اسی پر حصر کر سکتا ہوں اگر تم میں کوئی سلیم دل رکھتا ہو۔ خوب یاد رکھو کہ یہ پیشگوئی کبھی ردّ نہیں ہو سکتی جب تک اس کی نظیر پیش نہ کی جاوے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں موجود ہے جس کا ریویو مولوی ابوسعید نے لکھا ہے۔ اسی شہر میں مولوی محمد حسن اور منشی محمد عمر وغیرہ کے پاس ہوگی۔ اس کا نسخہ مکّہ۔ مدینہ۔ بخارا تک پہنچا۔ گورنمنٹ کے پاس اس کی کاپی بھیجی گئی۔ ہندوؤں‘ مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ برہموؤں نے اسے پڑھا اور وہ کوئی گمنام کتاب نہیں بلکہ وہ شہرت یافتہ کتاب ہے کوئی پڑھا لکھا آدمی جو مذہبی مذاق رکھتا ہو اس سے بے خبر نہیں ہے۔ پھر اس کتاب میں یہ پیشگوئی لکھی ہوئی موجود ہے کہ ایک دنیا تیرے ساتھ ہو جائے گی ۔دنیا میں تجھے شہرت دوں گا۔ تیرے مخالفوں کو نامراد رکھوں گا۔ اب بتاؤ کیا یہ کام کسی مفتری کا ہو سکتا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ہے؟ اگر تم یہی فیصلہ دیتے ہو کہ ہاں یہ مفتری کا کام ہو سکتا ہے تو پھر اس کیلئے نظیر پیش کرو۔ اگر نظیر دکھادو۔ تو مَیں تسلیم کرلوں گا کہ مَیں جھوٹا ہوں مگر کوئی نہیں جو اس کی نظیر دکھا سکے۔ اور اگر تم اس کی نظیر نہ پیش کر سکو اور یقیناًنہیں کرسکو گے تو پھر مَیں تمہیںیہی کہتا ہوں کہ خدا سے ڈرو اور تکذیب سے باز آؤ۔

یاد رکھو خدا تعالیٰ کے نشانات کو بدوں کسی سند کے ردّ کرنا دانشمندی نہیں اور نہ اس کا انجام کبھی بابرکت ہوا ہے۔ مَیں تو کسی کی تکذیب یا تکفیر کی پروا نہیں کرتا اور نہ ان حملوں سے ڈرتا ہوں جو مجھ پر کئے جاتے ہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے آپ ہی مجھے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ تکذیب اور تکفیر ہوگی اور خطرناک مخالفت یہ لوگ کریں گے مگر کچھ بگاڑنہ سکیں گے۔ کیا مجھ سے پیشتر راستبازوں اور خدا تعالیٰ کے ماموروں کو ردّ نہیں کیا گیا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فرعون اور فرعونیوں نے۔ حضرت مسیح علیہ السلام پر فقیہو ں نے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مشرکین مکّہ نے کیا کیا حملے نہیں کئے؟ مگر ان حملوں کا انجام کیا ہوا؟ ان مخالفوں نے ان نشانات کے مقابلہ میں کبھی کوئی نظیر پیش کی؟ کبھی نہیں۔ نظیر پیش کرنے سے تو ہمیشہ عاجز رہے۔ ہاں زبانیں چلتی تھیں اس لئے وہ کذّاب کہتے رہے۔ اسی طرح پر یہاں بھی جب عاجز آگئے تو اَور تو کچھ نہ پیش گئی دجّال کذّاب کہہ دیا۔مگر ان منہ کی پھونکوں سے کیا یہ خدا تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں گے؟ کبھی نہیں بجھا سکتے۔ 3۔۱؂

دوسرے خوارق اور نشانات کو وہ لوگ جو بدظنّی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں کہہ دیتے ہیں کہ شاید دست بازی ہو مگر پیشگوئی میں انہیں کوئی عذر اور باقی نہیں رہتا اِس لئے نشانات نبوت میں عظیم الشان نشان اور معجزہ پیشگوئیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ امر تو ریت سے بھی ثابت ہے اور قرآن مجید سے بھی۔ پیشگوئیوں کے برابر کوئی معجزہ نہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ کے ماموروں کو ان کی پیشگوئیوں سے شناخت کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یہ نشان مقرر کر دیا ہے 33 ۱؂ یعنی اللہ تعالیٰ کے غیب کا کسی پر ظہور نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسولوں پر ہوتا ہے۔

پھر یہ بھی یاد رہے کہ بعض پیشگوئیاں باریک اسرار اپنے اندر رکھتی ہیں اور دقیق امور کی وجہ سے ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہیں جو دُور بین آنکھیں نہیں رکھتے اور موٹی موٹی باتوں کو صرف سمجھ سکتے ہیں۔ ایسی ہی پیشگوئیوں پر عموماًتکذیب ہوتی ہے اور جلد باز اور شتاب کار کہہ اُٹھتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3 ۲؂۔ ان پیشگوئیوں میں لوگ شبہات پیدا کرتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت وہ پیشگوئیاں خدا تعالیٰ کی سُنن کے ماتحت پوری ہو جاتی ہیں۔ تا ہم اگر وہ سمجھ میں نہ بھی آئیں تو مومن اور خدا ترس انسان کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ ان پیشگوئیوں پر نظر کرے جن میں دقائق نہیں۔ یعنی جو موٹی موٹی پیشگوئیاں ہیں۔ پھر دیکھے کہ وہ کس قدر تعداد میں پوری ہو چکی ہیں۔ یونہی منہ سے انکار کر دینا تقویٰ کے خلاف ہے۔ دیانت اور خدا ترسی سے ان پیشگوئیوں کو دیکھنا چاہئے جو پوری ہو چکی ہیں۔ مگر جلد بازوں کا منہ کون بند کرے؟

اس قسم کے امور مجھے ہی پیش نہیں آئے حضرت موسیٰ۔ حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئے۔ پھر اگر یہ امر مجھے بھی پیش آوے تو تعجب نہیں۔ بلکہ ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کیونکہ سنّت اللہ یہی تھی۔ مَیں کہتا ہوں کہ مومن کیلئے تو ایک شہادت بھی کافی ہے۔ اسی سے اس کا دل کانپ جاتا ہے۔ مگر یہاں تو ایک نہیں صدہا نشان موجود ہیں بلکہ مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قدر ہیں کہ مَیں انہیں گِن نہیں سکتا۔ یہ شہادت تھوڑی نہیں کہ دلوں کو فتح کرلے گا۔ مکذبوں کو موافق بنا لے گا۔ اگر کوئی خدا تعالیٰ کا خوف کرے اور دل میں دیانت اور دُور اندیشی سے سوچے تو اُسے بے اختیار ہو کر ماننا پڑے گا کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔

پھر یہ بھی ظاہر بات ہے کہ مخالف جب تک ردّ نہ کرے اور اس کی نظیر پیش نہ کرے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


خدا کی حجت غالب ہے۔

اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ مَیں اسی خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے مجھے بھیجا ہے اور باوجود اِس شر اور طوفان کے جو مجھ پر اٹھا اور جس کی جڑ اور ابتدا اسی شہر سے اٹھی اور پھر دلّی تک پہنچی مگر اس نے تمام طوفانوں اور ابتلاؤں میں مجھے صحیح سالم اور کامیاب نکالا۔ اور مجھے ایسی حالت میں اس شہر میں لایا کہ تین لاکھ سے زیادہ زن ومرد میرے مبایعین میں داخل ہیں اور کوئی مہینہ نہیں گزرتا جس میں دو ہزار چار ہزار اور بعض اوقات پانچ پانچ ہزار اس سلسلہ میں داخل نہ ہوتے ہوں۔

پھر اس خدا نے ایسے وقت میں میری دستگیری کی کہ جب قوم ہی دشمن ہوگئی جب کسی شخص کی دشمن اس کی قوم ہی ہو جاوے تو وہ بڑا بے کس اور بڑا بے دست و پا ہوتا ہے۔ کیونکہ قوم ہی تو دست و پا اور جوارح ہوتی ہے۔ وہی اس کی مدد کرتی ہے۔ دوسرے لوگ تو دشمن ہوتے ہی ہیں کہ ہمارے مذہب پر حملہ کرتا ہے لیکن جب اپنی قوم بھی دشمن ہو تو پھر بچ جانا اور کامیاب ہو جانا معمولی بات نہیں بلکہ یہ ایک زبردست نشان ہے۔

مَیں نہایت افسوس اور درد دل سے یہ بات کہتا ہوں کہ قوم نے میری مخالفت میں نہ صرف جلدی کی بلکہ بہت بے دردی بھی کی۔ صرف ایک مسئلہ وفاتِ مسیح کا اختلاف تھا جس کو میں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت۔ صحابہ کے اجماع اور عقلی دلائل اور کتب سابقہ سے ثابت کرتا تھا اور کرتا ہوں۔ اور حنفی مذہب کے موافق نص۔ حدیث۔ قیاس دلائل شرعیہ میرے ساتھ تھیں مگر ان لوگوں نے قبل اس کے کہ وہ پورے طور پر مجھ سے پوچھ لیتے اور میرے دلائل کو سُن لیتے اِس مسئلہ کی مخالفت میں یہاں تک غلو کیا کہ مجھے کافر ٹھہرایا گیا۔ اور اس کے ساتھ اَور بھی جو چاہا کہا اور میرے ذمّہ لگایا۔ دیانت نکو کاری اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔ اگر مَیں قال اللہ اور قال الرسول سے تجاوز کرتا تو پھر بے شک انہیں اختیار اورحق تھا کہ وہ مجھے جو چاہتے کہتے دجّال کذّاب وغیرہ۔ لیکن



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


جبکہ میں ابتدا سے بیان کرتا آیا ہوں کہ مَیں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ذرا اِدھر اُدھر ہونا بے ایمانی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ یہی ہے کہ جو اس کو ذرا بھی چھوڑے گا وہ جہنمی ہے۔ پھر اس عقیدہ کو نہ صرف تقریروں میں بلکہ ساٹھ کے قریب اپنی تصنیفات میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے اور دن رات مجھے یہی فکر اور خیال رہتا ہے۔ پھر اگر یہ مخالف خدا سے ڈرتے تو کیا ان کا فرض نہ تھاجو مجھ سے پوچھتے کہ فلاں بات خارج از اسلام کی ہے اس کی کیا وجہ ہے یا اس کا تم کیا جواب دیتے ہو؟ مگر نہیں۔ اِس کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ سُنا اور کافر کہہ دیا۔ مَیں نہایت تعجب سے ان کی اس حرکت کو دیکھتا ہوں۔ کیونکہ اوّل تو حیات وفات مسیح کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو اسلام میں داخل ہونے کے لئے شرط ہو۔یہاں بھی ہندو یا عیسائی مسلمان ہوتے ہیں مگر بتاؤ کہ کیا اُس سے یہ اقرار بھی لیتے ہو؟ بجز اس کے کہ اٰمنت باللّٰہ وملائکتہٖ و کتبہٖ ورسلہٖ والقدر خیرہٖ وشرّہٖ من اللّٰہ تعالٰی والبعث بعد الموت۔ جبکہ یہ مسئلہ اسلام کی جزو نہیں تو پھر مجھ پر وفات مسیح کے اعلان سے اِس قدر تشدّد کیوں کیا گیا کہ یہ کافر ہیں دجّال ہیں ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جاوے۔ اِن کے مال لُوٹ لینے جائز ہیں اور ان کی عورتوں کو بغیر نکاح گھر میں رکھ لینا درست ہے۔ ان کو قتل کر دینا ثواب کا کام ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک تو وہ زمانہ تھا کہ یہی مولوی شور مچاتے تھے کہ اگر ۹۹ وجوہ کفر کے ہوں اور ایک وجہ اسلام کی ہو تب بھی کفر کا فتویٰ نہ دینا چاہئے اس کو مسلمان ہی کہو۔ مگر اب کیا ہوگیا۔ کیا مَیں اس سے بھی گیا گزرا ہوگیا؟ کیا مَیں اور میری جماعت اشھد ان لا الٰہ الّا اللّٰہ واشھد ان محمّدًا عبدہٗ ورسولہٗ نہیں پڑھتی؟ کیا میں نمازیں نہیں پڑھتا یا میرے مرید نہیں پڑھتے؟ کیا ہم رمضان کے روزے نہیں رکھتے؟ اور کیا ہم اُن تمام عقائد کے پابند نہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی صورت میں تلقین کئے ہیں؟



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں اور میری جماعت مسلمان ہے۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر اُسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے۔ مَیں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تقرب الی اللہ پا سکتا ہے وہ صرف صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ آپ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ مَیں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ مسیح علیہ السلام اِسی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر گئے ہوں۔ اور اب تک زندہ قائم ہوں۔ اس لئے کہ اِس مسئلہ کو مان کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین اور بے حرمتی ہوتی ہے۔ مَیں ایک لحظہ کیلئے اس ہجو کو گوارا نہیں کر سکتا۔ سب کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی اور مدینہ طیّبہ میں آپ کا روضہ موجود ہے۔ ہر سال وہاں ہزاروں لاکھوں حاجی بھی جاتے ہیں۔ اب اگر مسیح علیہ السلام کی نسبت موت کا یقین کرنا یا موت کو ان کی طرف منسوب کرنا بے ادبی ہے تو پھر مَیں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ گستاخی اور بے ادبی کیوں یقین کرلی جاتی ہے؟ مگر تم بڑی خوشی سے کہہ دیتے ہو کہ آپ نے وفات پائی۔ مولود خواں بڑی خوش الحانی سے واقعات وفات کو ذکر کرتے ہیں۔ اور کفار کے مقابلہ میں بھی تم بڑی کشادہ پیشانی سے تسلیم کر لیتے ہو کہ آپ نے وفات پائی۔ پھر مَیں نہیں سمجھتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر کیا پتھر پڑتا ہے کہ نیلی پیلی آنکھیں کر لیتے ہو؟ ہمیں بھی رنج نہ ہوتا کہ اگر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وفات کا لفظ سُن کرایسے آنسو بہاتے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ خاتم النبیین اور سرورِ عالم کی نسبت تو تم بڑی خوشی سے موت تسلیم کر لو۔ اور اُس شخص کی نسبت جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی کا تسمہ کھولنے کے بھی قابل نہیں بتاتا زندہ یقین کرتے ہو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اور اس کی نسبت موت کا لفظ منہ سے نکالا اورتمہیں غضب آجاتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اب تک زندہ رہتے تو ہرج نہ تھا۔ اس لئے کہ آپ وہ عظیم الشان ہدایت لے کر آئے تھے جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی۔ اور آپؐ نے وہ عملی حالتیں دکھائیں کہ آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی ان کا نمونہ اور نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ مَیں تم کو سچ سچ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی ضرورت دنیا اور مسلمانوں کو تھی اس قدر ضرورت مسیح کے وجود کی نہیں تھی۔ پھر آپ کا وجود باوجود وہ مبارک وجود ہے کہ جب آپ نے وفات پائی تو صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ دیوانے ہوگئے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تلوار میان سے نکال لی اور کہا کہ اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مُردہ کہے گا تو مَیں اُس کا سر جُدا کردوں گا۔ اس جوش کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ایک خاص نور اور فراست عطا کی۔ انہوں نے سب کو اکٹھا کیا اور خطبہ پڑھا۔ 3 3 ۱؂۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک رسول ہیں اور آپ سے پیشتر جس قدر رسول آئے وہ سب وفات پا چکے۔ اب آپ غور کریں اور سو چ کر بتائیں کہ حضرت ابوبکرصدیق نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ آیت کیوں پڑھی تھی؟ اور اس سے آپ کا کیا مقصد اور منشاء تھا؟ اور پھر ایسی حالت میں کہُ کل صحابہ موجود تھے۔ مَیں یقیناًکہتا ہوں اور آپ انکار نہیں کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی وجہ سے صحابہ کے دل پرسخت صدمہ تھا اور اس کو بے وقت اور قبل از وقت سمجھتے تھے۔ وہ پسند نہیں کر سکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سُنیں ایسی حالت اور صورت میں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا جلیل القدر صحابی اس جوش کی حالت میں ہو اُن کا غصہ فرو نہیں ہو سکتا (تھا)بجز اس کے کہ یہ آیت ان کی تسلّی کا موجب ہوتی۔ اگر انہیں یہ معلوم ہوتا یا یہ یقین ہوتا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ تو زندہ ہی مر جاتے۔ وہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشّاق تھے اور آپ کی حیات کے سوا کسی اور کی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/262/mode/1up


حیات کو گوارا ہی نہ کر سکتے تھے۔ پھر کیونکر اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو وفات یافتہ دیکھتے اور مسیح کو زندہ یقین کرتے۔ یعنی جب حضرت ابوبکر نے خطبہ پڑھا تو اُن کا جوش فرو ہوگیا اس وقت صحابہ مدینہ کی گلیوں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ گویا یہ آیت آج ہی اُتری ہے۔ اُس وقت حسّان بن ثابت نے ایک مرثیہ لکھا جس میں انہوں نے کہا


کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیکَ النَّاظِرٗ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ


چونکہ مذکورہ بالا آیت نے بتا دیا تھا کہ سب مر گئے اس لئے حسّان نے بھی کہہ دیا کہ اب کسی کی موت کی پروا نہیں۔ یقیناًسمجھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی زندگی صحابہ پر سخت شاق تھی اور وہ اس کو گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ پہلا اجماع تھا جو دنیا میں ہوا اور اس میں حضرت مسیح کی وفات کا بھی کُلّی فیصلہ ہو چکا تھا۔

مَیں بار بار اس امرمیں اس لئے زور دیتا ہوں کہ یہ دلیل بڑی ہی زبردست دلیل ہے جس سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علی وسلم کی وفات کوئی معمولی اور چھوٹا امر نہ تھا جس کا صدمہ صحابہ کو نہ ہوا ہو۔ ایک گاؤں کا نمبردار یا محلہ دار یا گھر کا کوئی عمدہ آدمی مر جاوے تو گھر والوں‘ محلہ والوں یا دیہات والوں کو صدمہ ہوتا ہے پھر وہ نبی جو کل دنیا کیلئے آیا تھا اور رحمۃ للعالمین ہو کر آیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے 3 ۱؂ اور پھر دوسری جگہ فرمایا۔ 3 33 ۲؂۔ پھر وہ نبی جس نے صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا اور وہ کمالات دکھائے کہ جن کی نظیر نظر نہیں آتی وہ فوت ہو جاوے اور اس کے ان جان نثار متبعین پر اثر نہ پڑے جنہوں نے اس کی خاطر جانیں دے دینے سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/263/mode/1up


دریغ نہ کیا۔ جنہوں نے وطن چھوڑا۔ خویش و اقارب چھوڑے اور اس کیلئے ہر قسم کی تکلیفوں اور مشکلات کو اپنے لئے راحت جان سمجھا۔ ایک ذرا سے فکرا ور توجہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس قدر بھی دکھ اور تکلیف انہیں اس خیال کے تصور سے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اور قیاس ہم نہیں کر سکتے ان کی تسلّی اور تسکین کا موجب یہی آیت تھی کہ حضرت ابوبکرؓ نے پڑھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایسے نازک وقت میں صحابہ کو سنبھالا۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض نادان اپنی جلد بازی اور شتاب کاری کی وجہ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ آیت تو بیشک حضرت ابوبکرؓ نے پڑھی لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس سے باہر رہ جاتے ہیں۔ مَیں نہیں جانتا کہ ایسے نادانوں کو مَیں کیا کہوں۔ وہ باوجود مولوی کہلانے کے ایسی بیہودہ باتیں پیش کر دیتے ہیں۔ وہ نہیں بتاتے کہ اس آیت میں وہ کونسا لفظ ہے جو حضرت عیسیٰ کو الگ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تو کوئی امر قابلِ بحث اس میں چھوڑا ہی نہیں۔ قد خلت کے معنے خود ہی کر دیئے3۱؂۔ اگر کوئی تیسری شق بھی اس کے سوا ہوتی تو کیوں نہ کہہ دیتا اَو رفع بجسدہ العنصری الی السّماء۔ کیا خدا تعالیٰ اس کو بھول گیا تھا جو یہ یاد دلاتے ہیں؟ نعوذ باللّٰہ من ذالک

اگر صرف یہی آیت ہوتی تب بھی کافی تھی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو انہیں ایسی محبوب اور پیاری تھی کہ اب تک آپ کی وفات کا ذکر کر کے یہ لوگ بھی روتے ہیں۔ پھر صحابہ کیلئے تو اور بھی درد اور رقّت اس وقت پیدا ہوگئی تھی۔ میرے نزدیک مومن وہی ہوتا ہے جو آپ کی اتباع کرتا ہے اور وہی کسی مقام پر پہنچتا ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے۔33۲؂۔ یعنی کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کو محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تاکہ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنالے۔ اب محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کے فعل کے ساتھ خاص موانست ہو۔ اور مرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ نے مرکر دکھا دیا۔ پھر کون ہے جو زندہ رہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/264/mode/1up


یا زندہ رہنے کی آرزو کرے یا کسی اَور کیلئے تجویز کرے کہ وہ زندہ رہے؟ محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ کی اتباع میں ایسا گم ہو کہ اپنے جذبات نفس کو تھام لے اور یہ سوچ لے کہ مَیں کسی کی اُمت ہوں۔ ایسی صورت میں جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اب تک زندہ ہیں وہ کیونکر آپ کی محبت اور اتباع کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اس لئے کہ آپ کی نسبت وہ گوارا کرتا ہے کہ مسیح کو افضل قرار دیا جاوے اور آپ کو مُردہ کہا جاوے مگر اُس کے لئے وہ پسند کرتا ہے کہ زندہ یقین کیا جاوے*۔

مَیں سچ سچ کہتا ہوں اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہتے تو ایک فرد بھی کافر نہ رہتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی نے کیا نتیجہ دکھایا؟ بجز اس کے کہ چالیس کروڑ عیسائی ہیں۔ غور کر کے دیکھو کہ کیا تم نے اس زندگی کے اعتقاد کو آزما نہیں لیا؟ اور نتیجہ خطرناک نہیں ہوا؟ مسلمانوں کی کسی ایک قوم کا نام لو جس میں سے کوئی عیسائی نہ ہوا ہو مگر مَیں یقیناًکہہ سکتا ہوں اور یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر طبقہ کے مسلمان عیسائی ہو چکے ہیں۔ اور ایک لاکھ سے بھی ان کی تعداد زیادہ ہوگی۔ عیسائیوں کے ہاتھ میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے واسطے ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ یہی زندگی کا مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیت کسی دوسرے میں ثابت کرو۔ اگر وہ خدا نہیں تو پھر کیوں اسے یہ خصوصیت دی گئی؟ وہ حیّ و قیّوم ہے (نعوذ باللّٰہ من ذالک) اس حیات کے مسئلہ نے ان کو دلیر کر دیا اور انہوں نے مسلمانوں پر وہ حملہ کیا جس کا نتیجہ مَیں بتا چکا ہوں۔ اب اس کے مقابل پر اگر تم پادریوں پر یہ ثابت کردو کہ مسیح مر گیا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ مَیں نے بڑے بڑے پادریوں سے پوچھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح مر گیا ہے تو ہمارا مذہب زندہ نہیں رہ سکتا۔

ایک اور غور طلب بات ہے کہ مسیح کی زندگی کے اعتقاد کا تو آپ لوگوں نے تجربہ کیا۔ اب ذرا اس کی موت کا بھی تجربہ کرو اور دیکھو کہ عیسائی مذہب پر اس اعتقاد سے کیا زد پڑتی ہے۔ جہاں کوئی میرا مرید عیسائیوں سے اس مضمون پر گفتگو کرنے کو کھڑا ہوتا ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/265/mode/1up


وہ فوراً انکار کر دیتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس راہ سے ان کی ہلاکت قریب ہے۔ موت کے مسئلہ سے نہ ان کا کفارہ ثابت ہو سکتا ہے اور نہ ان کی الوہیت اور ابنیت۔ پس اس مسئلہ کا تھوڑے دنوں تک تجربہ کرو۔ پھر خود حقیقت کھل جاوے گی۔

سنو! قرآن شریف اور احادیث میں یہ وعدہ تھا کہ اسلام پھیل جاوے گا۔ اور وہ دوسرے ادیان پر غالب آجائے گا۔ اور کسرِ صلیب ہوگا۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا تو جائے اسباب ہے۔ ایک شخص بیمار ہو تو اس میں تو شک نہیں کہ شفا تو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے لیکن اس کیلئے ادویات میں خواص بھی اُسی نے رکھ دیئے ہیں۔جب کوئی دوا دی جاتی ہے تو وہ فائدہ کرتی ہے۔ پیاس لگتی ہے تو اُس کے بجھانے والا تو خدا ہے مگر اس کیلئے پانی بھی اُسی نے مقرر کیا ہے۔ اِسی طرح پر بھوک لگتی ہے تو اس کو دُور کرنے والا تو وہی ہے مگر غذا بھی اُسی نے مقرر کی ہے۔ اسی طرح پر غلبہ اسلام اور کسرِ صلیب تو ہوگا جو اس نے مقدّر کیا ہے لیکن اس کیلئے اس نے اسباب مقرر کئے ہیں اور ایک قانون مقرر کیا ہے۔ چنانچہ بالاتفاق یہ امر قرآن مجید اور احادیث کی بنا پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب عیسائیت کا غلبہ ہوگا اس وقت مسیح موعود کے ہاتھ پر اسلام کا غلبہ ہوگا اور وہُ کل ادیان اور ملّتوں پر اسلام کو غالب کر کے دکھادے گا اور دجّال کو قتل کرے گا۔ اور صلیب کو توڑ دے گا۔ اور وہ زمانہ آخری زمانہ ہوگا۔ نواب صدیق حسن خان اور دوسرے بزرگوں نے جنہوں نے آخر ی زمانہ کے متعلق کتابیں لکھی ہیں انہوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے۔ اب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کیلئے بھی تو کوئی سبب اور ذریعہ ہوگا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ وہ اسباب سے کام لیتا ہے۔ دواؤں سے شفا دیتا ہے اور اغذیہ اور پانی سے بھوک پیاس کودُور کرتا ہے۔ اسی طرح پر اب جبکہ عیسائی مذہب کا غلبہ ہوگیا ہے اور ہر طبقہ کے مسلمان اس گروہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اسلام کو اپنے وعدہ کے ۔۔۔موافق غالب کرے اس کے لئے بہرحال کوئی ذریعہ اور سبب ہوگا اور وہ یہی موتِ مسیح کا حربہ ہے۔ اِس حربہ سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/266/mode/1up


صلیبی مذہب پر موت وارد ہوگی اور ان کی کمریں ٹوٹ جاویں گی۔ مَیں سچ کہتا ہوں ۔۔۔ کہ اب عیسائی غلطیوں کے دُور کرنے کیلئے اس سے بڑھ کر کیا سبب ہو سکتا ہے کہ مسیح کی وفات ثابت کی جاوے۔ اپنے گھروں میں اس امر پر غور کریں اور تنہائی میں بستروں پر لیٹ کر سوچیں۔ مخالفت کی حالت میں تو جوش آتا ہے۔ سعید الفطرت آدمی پھر سوچ لیتا ہے۔ دہلی میں جب مَیں نے تقریر کی تھی تو سعید الفطرت انسانوں نے تسلیم کر لیا اور وہیں بول اُٹھے کہ بے شک حضرت عیسیٰ کی پرستش کا ستون ان کی زندگی ہے جب تک یہ نہ ٹوٹے اسلام کے لئے دروازہ نہیں کھلتا بلکہ عیسائیت کو اس سے مدد ملتی ہے۔جو ان کی زندگی سے پیار کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ دو گواہوں کے ذریعہ سے پھانسی مل جاتی ہے مگر یہاں اس قدر شواہد موجود ہیں اور وہ بدستور انکار کرتے جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے۔3 ۱؂۔ اور پھرحضرت مسیح کا اپنا اقرار اسی قرآن مجید میں موجود ہے 3 3 ۲؂ اور توفّی کے معنے موت بھی قرآن مجید ہی سے ثابت ہے۔ کیونکہ یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آیا ہے جیسا کہ فرمایا 3 3 ۳؂۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلمّا توفّیتنی کہا ہے۔ جس کے معنی موت ہی ہیں۔اور ایسا ہی حضرت یوسف اور دوسرے لوگوں کیلئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔ پھر ایسی صورت میں اس کے کوئی اور معنے کیونکر ہو سکتے ہیں؟ یہ بڑی زبردست شہادت مسیح کی وفات پر ہے۔ اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو مُردوں میں دیکھا۔ حدیث معراج کا تو کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اسے کھول کر دیکھ لو کہ کیا اس میں حضرت عیسیٰ کا ذکر مُردوں کے ساتھ آیا ہے یا کسی اور رنگ میں۔ جیسے آپ نے حضرت ابراہیم اور موسیٰ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیکھا اُسی طرح حضرت عیسیٰ کو دیکھا۔ اُن میں کوئی خصوصیت اور امتیاز نہ تھا۔ اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت موسیٰ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/267/mode/1up


اور ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں۔ اور قابض الارواح نے ان کو دوسرے عالم میں پہنچا دیا ہے۔ پھران میں ایک شخص زندہ بجسدہ العنصریکیسے چلا گیا؟ یہ شہادتیں تھوڑی نہیں ہیں ایک سچے مسلمان کیلئے کافی ہیں۔

پھر دوسری احادیث میں حضرت عیسیٰ کی عمر ۱۲۰ یا ۱۲۵ برس کی قرار دی ہے۔ ان سب امور پر ایک جائی نظر کرنے کے بعد یہ امر تقویٰ کے خلاف تھا کہ جھٹ پٹ یہ فیصلہ کر دیا جاتا کہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور پھر اس کی کوئی نظیر بھی نہیں۔ عقل بھی یہی تجویز کرتی تھی مگر افسوس ان لوگوں نے ذرا بھی خیال نہ کیا۔ اور خدا ترسی سے کام نہ لے کر فوراً مجھے دجّال کہہ دیا۔ خیال کرنے کی بات ہے کہ کیا یہ تھوڑی سی بات تھی؟ افسوس!

پھر جب کوئی عذر نہیں بن سکتا تو کہتے ہیں درمیانی زمانہ میں اجماع ہو چکا۔ مَیں کہتا ہوں کب؟ اصل اجماع تو صحابہ کا اجماع تھا۔ اگر اس کے بعد اجماع ہوا ہے تو اب ان مختلف فرقوں کو تواکٹھا کر کے دکھاؤ۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ مسیح کی زندگی پر کبھی اجماع نہیں ہوا۔ انہوں نے کتابوں کو نہیں پڑھا ورنہ انہیں معلوم ہوجاتا کہ صوفی موت کے قائل ہیں اور وہ ان کی دوبارہ آمد بروزی رنگ میں مانتے ہیں۔

غرض جیسے مَیں نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی ہے ویسے ہی مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں کہ آپ ہی کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور آپ ہی کے فیضان اور برکات کا نتیجہ ہے جو یہ نصرتیں ہورہی ہیں۔ مَیں کھول کر کہتا ہوں اور یہی میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور نقش قدم پر چلنے کے بغیر انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کرسکتا۔

پھر اس کے ساتھ ہی ایک اور امر قابل ذکر ہے۔ اگر مَیں اس کا بیان نہ کروں تو ناشکری ہوگی۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسی سلطنت اور حکومت میں پیدا کیا ہے جو ہر طرح سے امن دیتی ہے اور جس نے ہم کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/268/mode/1up


پوری آزادی دی ہے۔ اور ہر قسم کے سامان اس مبارک عہد میں ہمیں میسّر ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا آزادی ہوگی کہ ہم عیسائی مذہب کی تردید زور شور سے کرتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتا مگر اس سے پہلے ایک زمانہ تھا اُس زمانہ کے دیکھنے والے بھی اب تک موجود ہیں۔ اُس وقت یہ حالت تھی کہ کوئی مسلمان اپنی مسجدوں میں اذان تک نہیں کہہ سکتا تھا اور باتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ اورحلال چیزوں کے کھانے سے روکا جاتا تھا۔ کوئی باقاعدہ تحقیقات نہ ہوتی تھی مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ ہم ایک ایسی سلطنت کے نیچے ہیں جو ان تمام عیوب سے پاک ہے یعنی سلطنت انگریزی جو امن پسند ہے جس کو مذاہب کے اختلاف سے کوئی اعتراض نہیں۔ جس کا قانون ہے کہ ہر اہل مذہب آزادی سے اپنے مذہبی فرض ادا کرے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہماری تبلیغ ہر جگہ پہنچ جاوے اس لئے اُس نے ہم کو اس سلطنت میں پیدا کیا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نوشیرواں کے عہد سلطنت پرفخر کرتے تھے اسی طرح پر ہم کو اس سلطنت پر فخر ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ مامور چونکہ عدل اور راستی لاتا ہے اس لئے اس سے پہلے کہ وہ مامور ہو کر آئے عدل اور راستی کااجرا ہونے لگتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس رومی سلطنت سے جو مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں تھی یہ سلطنت بمراتب اَولیٰ اور افضل ہے اگرچہ اِس کا اور اُس کا قانون ملتا جُلتا ہے لیکن انصاف یہی ہے کہ اس سلطنت کے قوانین کسی سے دبے ہوئے نہیں ہیں اور مقابلہ سے دیکھا جاوے تو معلوم ہوگا کہ رومی سلطنت میں وحشیانہ حصہ ضرور پایا جاوے گا یہ لیکن بزدلی تھی کہ یہودیوں کے خوف سے خدا کے پاک اور برگزیدہ بندے مسیح کو حوالات دیا گیا۔ اس قسم کا مقدمہ مجھ پر بھی ہوا تھا۔ مسیح علیہ السلام کے خلاف تو یہودیوں نے مقدمہ کیا تھا مگر اس سلطنت میں میرے خلاف جس نے مقدمہ کیا وہ معزز پادری تھا اور ڈاکٹر بھی تھا یعنی ڈاکٹر مارٹن کلارک تھا جس نے مجھ پر اقدام قتل کا مقدمہ بنایا اور اس نے شہادت پوری بہم پہنچائی۔ یہاں تک کہ مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی بھی جو اس سلسلہ کا سخت



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/269/mode/1up


دشمن ہے شہادت دینے کے واسطے عدالت میں آیا۔ اور جہاں تک اُس سے ہو سکا اس نے میرے خلاف شہادت دی اور پورے طور پر مقدمہ میرے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ مقدمہ کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے اجلاس میں تھا جو شاید اب شملہ میں ہیں*۔ اُن کے روبرو مقدمہ پورے طور پر مرتب ہوگیا اور تمام شہادتیں میرے خلاف بڑے زور شور سے دی گئیں۔ ایسی حالت اور صورت میں کوئی قانون دان اہل الرائے بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ مَیں بَری ہو سکتا ہوں۔ تقاضائے وقت اور صورتیں ایسی واقع ہوچکی تھیں کہ مجھے سیشن سپرد کر دیا جاتا اور وہاں سے پھانسی کا حکم ملتا یا عبور دریائے شور کی سزا دی جاتی مگر خداتعالیٰ نے جیسے مقدمہ سے پہلے مجھے اطلاع دی تھی اسی طرح یہ بھی قبل از وقت ظاہر کر دیا تھا کہ مَیں اِس میں بَری ہوں گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی میری جماعت کے ایک گروہ کثیر کو معلوم تھی۔ غرض جب مقدمہ اس مرحلہ پر پہنچا اور دشمنوں اور مخالفوں کا یہ خیال ہوگیا کہ اب مجھے مجسٹریٹ سیشن سپرد کرے گا۔ اس موقعہ پر اس نے کپتان پولیس سے کہا کہ میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے۔ میرا دل اس کو نہیں مانتا کہ فی الواقعہ ایسی کوشش کی گئی ہو۔ اور انہوں نے ڈاکٹر کلارک کے قتل کیلئے آدمی بھیجا ہو۔ آپ اس کی پھر تفتیش کریں۔ یہ وہ وقت تھا کہ میرے مخالف میرے خلاف ہر قسم کے منصوبوں ہی میں نہ لگے ہوئے تھے بلکہ وہ لوگ جن کو قبولیت دُعا کے دعوے تھے وہ دُعاؤں میں لگے ہوئے تھے اور رو رو کر دُعائیں کرتے تھے کہ مَیں سزایاب ہو جاؤں مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کپتان ڈگلس صاحب کے پاس بعض سپارشیں بھی آئیں مگر وہ ایک انصاف پسند مجسٹریٹ تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم سے ایسی بدذاتی نہیں ہو سکتی۔

غرض جب یہ مقدمہ دوبارہ تفتیش کے لئے کپتان لیمارچنڈ کے سپرد کیا گیا تو کپتان صاحب نے عبدالحمید کو بلایا اور اُس کو کہا کہ تو سچ سچ بیان کر۔ عبدالحمید نے اس پر بھی وہی قصہ جو اس نے صاحب ڈپٹی کمشنر کے رو برو بیان کیا تھا دوہرایا۔ اُس کو پہلے سے یہ کہا گیا تھا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/270/mode/1up


کہ اگر ذرا بھی خلاف بیانی ہوگی تو تُو پکڑا جاوے گا اِس لئے وہ وہی کہتا گیا۔ مگر کپتان صاحب نے اس کو کہا کہ تُو تو پہلے یہی بیان کر چکا ہے۔ صاحب اس سے تسلّی نہیں پاتے کیونکہ تو سچ سچ بیان نہیں کرتا۔ جب دوبارہ کپتان لیمارچنڈ نے اس کو کہا تو وہ روتا ہوا اُن کے پاؤں پر گِر پڑا۔ اور کہنے لگا کہ مجھے بچا لو۔ کپتان صاحب نے اس کو تسلّی دی۔ اور کہا کہ ہاں بیان کرو۔ اس پر اُس نے اصلیّت کھول دی اور صاف اقرار کیا کہ مجھے دھمکا کر یہ بیان کرایا گیا تھا۔ مجھے ہرگز ہرگز مرزا صاحب نے قتل کے لئے نہیں بھیجا۔ کپتان اس بیان کوسُن کر بہت خوش ہوا اور اُس نے ڈپٹی کمشنر کو تار دیا کہ ہم نے مقدمہ نکال لیا ہے چنانچہ پھر گورداسپور کے مقام پر یہ مقدمہ پیش ہوا۔ اور وہاں کپتان لیمارچنڈ کو حلف دیا گیا اور اس نے اپنا حلفی بیان لکھوایا۔ مَیں دیکھتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اصلیت کے کھل جانے سے بڑا خوش تھا۔ اور اُن عیسائیوں پر اُسے سخت غصّہ تھا جنہوں نے میرے خلاف جھوٹی گواہیاں دی تھیں۔ اُس نے مجھے کہا کہ آپ ان عیسائیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں۔ مگر چونکہ میں مقدمہ بازی سے متنفر ہوں مَیں نے یہی کہا کہ مَیں مقدمہ نہیں کرنا چاہتا۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔اس پر اُسی وقت ڈگلس صاحب نے فیصلہ لکھا۔ ایک مجمع کثیر اُس دن جمع ہوگیا ہوا تھا اُس نے فیصلہ سُناتے وقت مجھے کہا کہ آپ کو مبارک ہو۔ آپ بَری ہوئے۔

اَب بتاؤ یہ کیسی خوبی اس سلطنت کی ہے کہ عدل اور انصاف کے لئے نہ اپنے مذہب کے ایک سرگروہ کی پروا کی اور نہ کسی اور بات کی۔ مَیں دیکھتا تھا کہ اس وقت میری دشمن توایک دنیا تھی۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب دنیا دکھ دینے پر آتی ہے تو درو دیوار نیش زنی کرتے ہیں۔ خدا ہی ہوتا ہے جو اپنے صادق بندوں کو بچا لیتا ہے۔

پھر مسٹر ڈوئی کے سامنے ایک مقدمہ ہوا۔ پھر ٹیکس کا مقدمہ مجھ پر بنایا گیا مگر ان تمام مقدمات میں خدا نے مجھے بَری ٹھہرایا۔ پھر آخر کرم دین کا مقدمہ ہوا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/271/mode/1up


اس مقدمہ میں میری مخالفت میں سارا زور لگایا گیا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ بس اب سلسلہ کا خاتمہ ہے۔ اور حقیقت میں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا اور وہی اس کی تائید اور نصرت کیلئے کھڑا نہ ہوتا تو اس کے مٹنے میں کوئی شک و شبہ ہی نہ رہا تھا۔ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرم دین کی حمایت کی گئی۔ اور ہر طرح سے اس کو مدد دی گئی۔ یہاں تک کہ اس مقدمہ میں بعض نے مولوی کہلا کر میرے خلاف وہ گواہیاں دیں جو سراسر خلاف تھیں۔ اور یہاں تک بیان کیا کہ زانی ہو۔ فاسق ہو۔ فاجر ہو پھر بھی وہ متقی ہوتا ہے۔ یہ مقدمہ ایک لمبے عرصہ تک ہوتا رہا۔ اس اثنا میں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے۔ آخر مجسٹریٹ نے جو ہندو تھا مجھ پر پانچسو 3روپیہ جرمانہ کر دیا۔ مگر خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ اطلاع دی ہوئی تھی۔

’’عدا لتِ عالیہ نے اس کو بَری کر دیا۔‘‘

اس لئے جب وہ اپیل ڈویژنل جج کے سامنے پیش ہوا‘ تو خدا داد فراست سے انہوں نے فوراً ہی مقدمہ کی حقیقت کو سمجھ لیا اور قرار دیا کہ کرم دین کے حق میں مَیں نے جو کچھ لکھا تھا وہ بالکل درست تھا یعنی مجھے اس کے لکھنے کا حق حاصل تھا۔ چنانچہ اس نے جو فیصلہ لکھا ہے وہ شائع ہو چکا ہے۔ آخر اس نے مجھے بَری ٹھہرایا اور جرمانہ واپس کیا اور ابتدائی عدالت کو بھی مناسب تنبیہ کی کہ کیوں اتنی دیر تک یہ مقدمہ رکھا گیا۔

غرض جب کوئی موقع میرے مخالفوں کو ملا ہے انہوں نے میرے کچل دینے اور ہلاک کر دینے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا اور کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے ہر آگ سے بچایا اُسی طرح جس طرح پر وہ اپنے رسولوں کو بچاتا آیا ہے۔ مَیں ان واقعات کو مدّ نظر رکھ کر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ یہ گورنمنٹ بمراتب اس رومی گورنمنٹ سے بہتر ہے جس کے زمانہ میں مسیحؑ کو دُکھ دیا گیا۔ پیلاطوس گورنر جس کے روبرو پہلے مقدمہ پیش ہوا وہ دراصل مسیح کا مرید تھا اور اس کی بیوی بھی مرید تھی۔اسی وجہ سے اس نے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/272/mode/1up


مسیح کے خون سے ہاتھ دھوئے مگر باوجود اس کے کہ وہ مرید تھا اور گورنر تھا اُس نے اِس جرأت سے کام نہیں لیا جو کپتان ڈگلس نے دکھائی۔ وہاں بھی مسیح بے گناہ تھا اور یہاں بھی مَیں بے گناہ تھا۔مَیں سچ کہتا ہوں اور تجربہ سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو حق کے لئے ایک جرأت دی ہے۔ پس مَیں اس جگہ پر تمام مسلمانوں کو نصیحت کرتاہوں کہ ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل سے گورنمنٹ کی اطاعت کریں۔یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا شکر بھی نہیں کر سکتا۔ جس قدر آسائش اور آرام اس زمانہ میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ریل۔تار۔ ڈاکخانہ۔ پولیس وغیرہ کے انتظام دیکھو کہ کس قدر فوائد ان سے پہنچتے ہیں۔ آج سے ساٹھ ستّر برس پہلے بتاؤ کیا ایسا آرام اور آسانی تھی؟ پھر خود ہی انصاف کرو جب ہم پر ہزاروں احسان ہیں توہم کیونکر شکر نہ کریں۔ اکثر مسلمان مجھ پر حملہ کرتے ہیں کہ تمہارے سلسلہ میں یہ عیب ہے کہ تم جہاد کو موقوف کرتے ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ نادان اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں۔ وہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی اشاعت مذہب کیلئے تلوار نہیں اُٹھائی۔ جب آپ پر اور آپ کی جماعت پر مخالفوں کے ظلم انتہا تک پہنچ گئے اور آپ کے مخلص خدّام میں سے مَردوں اور عورتوں کو شہید کر دیا گیا اور پھر مدینہ تک آپ کا تعاقب کیا گیا اُس وقت مقابلہ کا حکم ملا۔ آپؐ نے تلوار نہیں اُٹھائی مگر دشمنوں نے تلوار اُٹھائی بعض اوقات آپؐ کو ظالم طبع کفار نے سر سے پاؤں تک خون آلود کر دیا تھا مگر آپؐ نے مقابلہ نہیں کیا۔ خوب یاد رکھو کہ اگر تلوار اسلام کا فرض ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ میں اُٹھاتے مگر نہیں وہ تلوار جس کا ذکر ہے وہ اُس وقت اٹھی جب موذی کفار نے مدینہ تک تعاقب کیا۔ اس وقت مخالفین کے ہاتھ میں تلوار تھی مگر اب تلوار نہیں اور



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 273

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 273

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/273/mode/1up


میرے خلاف جھوٹی مخبریوں اور فتووں سے کام لیا جاتا ہے۔ اور اسلام کے خلاف صرف قلم سے کام لیا جاتا ہے۔ پھر قلم کا جواب تلوار سے دینے والا احمق اور ظالم ہوگا یا کچھ اور؟

اس بات کو کبھی مت بھولو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے حد سے گزرے ہوئے ظلم و ستم پر تلوار اُٹھائی اور وہ حفاظت خود اختیاری تھی جو ہر مہذب گورنمنٹ کے قانون میں بھی جرم نہیں۔ تعزیراتِ ہند میں بھی حفاظت خود اختیاری کو جائز رکھا ہے۔ اگر ایک چور گھر میں گھس آوے اور وہ حملہ کر کے مار ڈالنا چاہے اس وقت اس چور کو اپنے بچاؤ کے لئے مار ڈالنا جرم نہیں ہے۔*

پس جب حالت یہاں تک پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثار خدام شہید کر دےئے گئے اور مسلمان ضعیف عورتوں تک کو نہایت سنگدلی اور بے حیائی کے ساتھ شہید کیا گیا تو کیا حق نہ تھا کہ ان کو سزا دی جاتی۔ اس وقت اگر اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا کہ اسلام کا نام و نشان نہ رہے تو البتہ یہ ہو سکتا تھا کہ تلوار کا نام نہ آتا مگر وہ چاہتا تھا کہ اسلام دنیا میں پھیلے اور دنیا کی نجات کا ذریعہ ہو اِس لئے اُس وقت محض مدافعت کیلئے تلوار اُٹھائی گئی۔ مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اسلام کا اُس وقت تلوار اُٹھانا کسی قانون ‘ مذہب اور اخلاق کی رُو سے قابل اعتراض نہیں ٹھہرتا۔ وہ لوگ جو ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دیتے ہیں وہ بھی صبر نہیں کر سکتے۔ اور جن کے ہاں کیڑے کا مارنا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے وہ بھی نہیں کر سکتے۔ پھر اسلام پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟

مَیں یہ بھی کھول کر کہتا ہوں کہ جو جاہل مسلمان یہ لکھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے وہ نبیء معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افترا کرتے ہیں اور اسلام کی ہتک کرتے ہیں۔ خوب یاد رکھو کہ اسلام ہمیشہ اپنی پاک تعلیم اور ہدایت اور اس کے ثمرات انوار و برکات اور معجزات سے پھیلا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان نشانات‘ آپ کے اخلاق کی پاک تاثیرات نے اسے پھیلایا ہے۔ اور وہ نشانات اور تاثیرات ختم نہیں ہوگئی ہیں بلکہ ہمیشہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 274

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 274

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/274/mode/1up


اور ہرزمانہ میں تازہ بتازہ موجود رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے جو مَیں کہتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں۔

اس لئے کہ آپ کی تعلیمات اور ہدایات ہمیشہ اپنے ثمرات دیتی رہتی ہیں۔ اور آئندہ جب اسلام ترقی کرے گا تو اس کی یہی راہ ہوگی نہ کوئی اور۔ پس جب اسلام کی اشاعت کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی گئی تو اس وقت ایسا خیال بھی کرنا گناہ ہے۔ کیونکہ اب تو سب کے سب امن سے بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے کافی ذریعے اور سامان موجود ہیں۔

مجھے بڑے ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں اور دوسرے معترضین نے اسلام پر حملہ کرتے وقت ہرگز ہرگز اصلیت پر غور نہیں کیا۔ وہ دیکھتے کہ اُس وقت تمام مخالف اسلام اور مسلمانوں کے استیصال کے درپے تھے اور سب کے سب مل کر اس کے خلاف منصوبے کرتے اور مسلمانوں کو دکھ دیتے تھے۔ ان دُکھوں اور تکلیفوں کے مقابلہ میں اگر وہ اپنی جان نہ بچاتے تو کیا کرتے۔ قرآن شریف میںیہ آیت موجود ہے۔ 3 3 ۱؂ ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اُس وقت دیا گیا جبکہ مسلمانوں پر ظلم کی حد ہوگئی تو اُنہیں مقابلہ کا حکم دیا گیا۔ اُس وقت کی یہ اجازت تھی دوسرے وقت کیلئے یہ حکم نہ تھا۔ چنانچہ مسیح موعود کیلئے یہ نشان قرار دیا گیا۔ یضع الحرب۔ اب یہ تو اُس کی سچائی کا نشان ہے کہ وہ لڑائی نہ کرے گا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس زمانہ میں مخالفوں نے بھی مذہبی لڑائیاں چھوڑ دیں۔ ہاں اس مقابلہ نے ایک صورت اور رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ قلم سے کام لے کراسلام پر اعتراض کررہے ہیں۔ عیسائی ہیں کہ ان کا ایک ایک پرچہ پچاس پچاس ہزار نکلتا ہے اور ہر طرح کوشش کرتے ہیں کہ لوگ اسلام سے بیزار ہو جائیں۔ پس اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں قلم سے کام لینا چاہئے یا تیر چلانے چاہئیں؟ اس وقت تو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو اُس سے بڑھ کر احمق اور اسلام کا دشمن کون ہوگا؟ اس قسم کا نام لینا اسلام کو بدنام کرنا ہے یا کچھ اور؟ جب ہمارے مخالف اس قسم کی سعی نہیں کرتے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 275

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 275

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/275/mode/1up


حالانکہ وہ حق پر نہیں اور پھر کیسا تعجب اور افسوس ہوگا کہ اگر ہم حق پر ہو کر تلوار کا نام لیں۔ اس وقت تم کسی کو تلوار دکھا کر کہو کہ مسلمان ہو جا ورنہ قتل کردوں گا۔ پھر دیکھونتیجہ کیا ہوگا وہ پولیس میں گرفتار کراکے تلوار کا مزہ چکھا دے گا۔

یہ خیالات سراسر بیہودہ ہیں ان کو سروں سے نکال دینا چاہئے۔ اب وقت آیا ہے کہ اسلام کا روشن اور درخشاں چہرہ دکھایا جاوے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ تمام اعتراضوں کو دُور کردیا جاوے اور جو اسلام کے نورانی چہرہ پر داغ لگایا گیا ہے اُسے دور کر کے دکھایا جاوے۔ مَیں یہ بھی افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے جو موقعہ خدا تعالیٰ نے دیا ہے اور عیسائی مذہب کے اسلام میں داخل کرنے کے لئے جو راستہ کھولا گیا تھا اسے ہی بُری نظر سے دیکھا اور اس کا کفر کیا۔

مَیں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ پورے طور پر اس طریق کو پیش کیا ہے جو اسلام کو کامیاب اور دوسرے مذاہب پر غالب کرنے والا ہے۔ میرے رسائل امریکہ اور یورپ میں جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو جو فراست دی ہے۔ انہوں نے اس خداداد فراست سے اس امر کو سمجھ لیا ہے۔ لیکن جب ایک مسلمان کے سامنے مَیں اِسے پیش کرتا ہوں تو اس کے منہ میں جھاگ آجاتی ہے گویا وہ دیوانہ ہے یا قتل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ قرآن شریف کی تعلیم تو یہی تھی۔ 3 ۱؂۔ یہ تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ سُن لے۔ مَیں اللہ جلّ شانہٗکی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں۔وہ خوب جانتا ہے کہ مَیں مفتری نہیں کذّاب نہیں۔ اگر تم مجھے خدا تعالیٰ کی قسم پر بھی اور ان نشانات کو بھی جو اس نے میری تائید میں ظاہر کئے دیکھ کر مجھے کذّاب اور مفتری کہتے ہو تو پھر مَیں تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ کسی ایسے مفتری کی نظیر پیش کرو کہ باوجود اُس کے ہر روز افترا اور کذب کے جو وہ اللہ تعالیٰ پر کرے پھراللہ تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت کرتا جاوے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ اُسے ہلاک کرے مگر



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 276

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 276

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/276/mode/1up


یہاں اس کے برخلاف معاملہ ہے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں صادق ہوں اس کی طرف سے آیا ہوں مگر مجھے کذّاب اور مفتری کہا جاتا ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ ہر مقدمہ اور ہر بلا میں جو قوم میرے خلاف پیدا کرتی ہے مجھے نصرت دیتا ہے۔ اور اُس سے مجھے بچاتا ہے۔ اور پھر ایسی نصرت کی کہ لاکھوں انسانوں کے دل میں میری محبت ڈال دی۔ مَیں اس پر اپنی سچائی کو حصر کرتا ہوں۔ اگر تم کسی ایسے مفتری کا نشان دے دو کہ وہ کذّاب ہو اور اللہ پر اس نے افترا کیا ہو اور پھر خداتعالیٰ نے اس کی ایسی نصرتیں کی ہوں اور اس قدر عرصہ تک اسے زندہ رکھا ہو اور اس کی مُرادوں کو پورا کیا ہو۔ دکھاؤ۔

یقیناًسمجھو کہ خدا کے مُرسل ان نشانات اور تائیدات سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ جو خدا تعالیٰ ان کیلئے دکھاتا اور اُن کی نصرت کرتا ہے۔ مَیں اپنے قول میں سچا ہوں۔ اور خدا تعالیٰ جو دلوں کو دیکھتا ہے وہ میرے دل کے حالات سے واقف اور خبردارہے۔ کیا تم اتنا بھی نہیں کہہ سکتے جو آلِ فرعون کے ایک آدمی نے کہا تھا۔ 3 33 ۱؂۔ کیا تم یہ یقین نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں کا سب سے زیادہ دشمن ہے۔تم سب مل کر جو مجھ پر حملہ کرو۔ خدا تعالیٰ کا غضب اس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔ پھر اس کے غضب سے کون بچا سکتا ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے پڑھی ہے اس میں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں بعض پوری کردے گا۔ُ کل نہیں کہا۔ اس میں حکمت کیا ہے؟ حکمت یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں۔ وہ توبہ ‘ استغفار اور رجوع اِلی الحق سے ٹل بھی جایا کرتی ہیں۔

پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وعدہ کی۔ جیسے فرمایا 3 ۲؂ اہل سنّت مانتے ہیں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں میں تخلّف نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کریم ہے۔ لیکن وعید کی پیشگوئیوں میں وہ ڈرا کر بخش بھی دیتا ہے اس لئے کہ وہ رحیم ہے۔ بڑا نادان اور اسلام سے دُور پڑا ہوا ہے وہ شخص جو کہتا ہے وعید کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں۔ وہ



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 277

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 277

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/277/mode/1up


قرآن کریم کو چھوڑتا ہے۔ اس لئے کہ قرآن شریف تو کہتا ہے33 ۱؂۔

افسوس ہے بہت سے لوگ مولوی کہلاتے ہیں مگر انہیں نہ قرآن کی خبر ہے نہ حدیث کی نہ سنّت انبیاء کی۔ صرف بغض کی جھاگ ہوتی ہے۔ اس لئے وہ دھوکا دیتے ہیں۔ یاد رکھو الکریم اذا وعد وفٰی۔ رحیم کا تقاضا یہی ہے کہ قابل سزا ٹھہرا کر معاف کر دیتا ہے اور یہ تو انسان کی بھی فطرت میں ہے کہ وہ معاف کر دیتا ہے۔ ایک مرتبہ میرے سامنے ایک شخص نے بناوٹی شہادت دی۔ اس پر جرم ثابت تھا وہ مقدمہ ایک انگریز کے پاس تھا۔ اُسے اتفاقًا چٹھی آگئی کہ کسی دُور دراز جگہ پر اس کی تبدیلی ہوگئی ہے۔ وہ غمگین ہوا۔ جو مجرم تھا وہ بوڑھا آدمی تھا۔ منشی سے کہا کہ یہ تو قیدخانہ ہی میں مر جاوے گا۔ اُس نے بھی کہا کہ حضور بال بچہ دار ہے۔ اس پر وہ انگریز بولا کہ اب مثل مرتب ہو چکی ہے۔ اب ہوکیا سکتا ہے۔ پھر کہا کہ اچھا اس مثل کو چاک کردو۔ اب غور کرو کہ انگریز کو تو رحم آسکتا ہے خدا کو نہیں آتا؟

پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ صدقہ اور خیرات کیوں جاری ہے اور ہر قوم میں اس کا رواج ہے۔ فطرتاً انسان مصیبت اور بلا کے وقت صدقہ دینا چاہتا ہے اور خیرات کرتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ بکرے دو۔ کپڑے دو۔یہ دو وہ دو۔ اگر اس کے ذریعہ سے ردِّ بلا نہیں ہوتا تو پھر اضطرارًا انسان کیوں ایسا کرتاہے؟ نہیں ردِّ بلا ہوتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہے۔ اور مَیں یقیناًجانتا ہوں کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مذہب نہیں بلکہ یہودیوں۔عیسائیوں اور ہندوؤں کا بھی یہ مذہب ہے اور میری سمجھ میں روئے زمین پر کوئی اس امر کا منکر ہی نہیں جبکہ یہ بات ہے تو صاف کھل گیا کہ وہ ارادۂ الٰہی ٹل جاتا ہے۔

پیشگوئی اور ارادۂ الٰہی میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اطلاع نبی کو دی جاتی ہے۔ اور ارادۂ الٰہی پر کسی کو اطلاع نہیں ہوتی۔ اور وہ مخفی رہتا ہے۔ اگر وہی ارادۂ الٰہی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 278

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 278

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/278/mode/1up


نبی کی معرفت ظاہر کر دیا جاتا تو وہ پیشگوئی ہوتی۔ اگر پیشگوئی نہیں ٹل سکتی تو پھر ارادۂ الٰہی بھی صدقہ و خیرات سے نہیں ٹل سکتا۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ چونکہ وعید کی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں۔ اس لئے فرمایا 33 ۱؂۔ اب اللہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بھی ٹل گئیں۔ اگر میری کسی پیشگوئی پر ایسا اعتراض کیا جاتا ہے تو مجھے اس کا جواب دو۔ اگر اس امر میں میری تکذیب کروگے تو میری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرنے والے ٹھہروگے۔ مَیں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہُ کل اہل سنت جماعت اورُ کل دنیا کا مسلّم مسئلہ ہے کہ تضرع سے عذاب کا وعدہ ٹل جایا کرتا ہے۔ کیا حضرت یونس علیہ السلام کی نظیر بھی تمہیں بھول گئی ہے؟ حضرت یونس کی قوم سے جو عذاب ٹل گیا تھا اس کی وجہ کیا تھی؟ درمنثور وغیرہ کو دیکھو اور بائبل میں ُ یو َ نہ نبی کی کتاب موجود ہے۔ اس عذاب کا قطعی وعدہ تھا مگرحضرت یونسؑ کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا۔ خدا تعالیٰ نے اس کو بخش دیا اور عذاب ٹل گیا۔ اُدھر حضرت یونس یوم مقررہ پر عذاب کے منتظر تھے۔ لوگوں سے خبریں پوچھتے تھے۔ ایک زمیندار سے پوچھا کہ نینوہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا کہ اچھا حال ہے۔ تو حضرت یونسؑ پر بہت غم طاری ہوا۔ اور انہوں نے کہا۔ لن ارجع الی قومی کذّابًا۔ یعنی مَیں اپنی قوم کی طرف کذّاب کہلا کر نہیں جاؤں گا۔ اب اس نظیر کے ہوتے ہوئے اور قرآن شریف کی زبردست شہادت کی موجودگی میں میری کسی ایسی پیشگوئی پر جو پہلے ہی سے شرطی تھی اعتراض کرنا تقویٰ کے خلاف ہے۔ متقی کی یہ شان نہیں کہ بغیر سوچے سمجھے منہ سے بات نکال دے اور تکذیب کو آمادہ ہو جاوے۔

حضرت یونس کا قصہ نہایت ۔۔۔دردناک اور عبرت بخش ہے۔ اور وہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے اُسے غور سے پڑھو۔ یہاں تک کہ وہ دریا میں گرائے گئے۔ اور مچھلی کے پیٹ میں گئے۔ تب توبہ منظور ہوئی۔یہ سزا اور عتاب حضرت یونس پر کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انہوں نے خدا کو قادر نہ سمجھا کہ وہ وعید کو ٹال دیتا ہے۔ پھر تم لوگ کیوں میرے متعلق جلدی کرتے ہو؟ اور میری



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 279

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 279

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/279/mode/1up


تکذیب کے لئے ساری نبوتوں کو جھٹلاتے ہو؟

یاد رکھو خدا کا نام غفور ہے پھر کیوں وہ رجوع کرنے والوں کو معاف نہ کرے؟ اِس قسم کی غلطیاں ہیں جو قوم میں واقع ہوگئی ہیں۔ انہیں غلطیوں (میں) سے جہاد کی غلطی بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جب مَیں کہتا ہوں کہ جہاد حرام ہے تو کالی پیلی آنکھیں نکال لیتے ہیں۔ حالانکہ خود ہی مانتے ہیں کہ جو حدیثیں خونی مہدی کی ہیں وہ مخدوش ہیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں اور یہی مذہب میاں نذیر حسین دہلوی کا تھا۔ وہ ان کوقطعی صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر مجھے کیوں کاذب کہا جاتا ہے؟ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا۔ اور قلم۔ دُعا۔ توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔ اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں۔ دنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیونکر کر سکتے ہیں کہ اُن پر قرآنِ کریم کے معارف کھلیں۔ وہاں تو صاف لکھا ہے33 ۱؂۔

اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علّتِ غائی کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مَیں اس لئے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے۔ تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آسکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہوگیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجودہیں اور انہیں فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔اسلام کی حالت جو اس وقت ہے وہ پوشیدہ نہیں بالاتفاق مان لیا گیا ہے کہ ہر قسم کی کمزوریوں اور تنزل کا نشانہ مسلمان ہورہے ہیں ہر پہلو سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 280

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 280

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/280/mode/1up


وہ گِر رہے ہیں۔اُن کی زبان ساتھ ہے تو دل نہیں ہے اور اسلام یتیم ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میں خداتعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ مَیں اُس کی حمایت اور سرپرستی کروں۔ اور اپنے وعدہ کے موافق بھیجا ہے۔ کیونکہ اس نے فرمایا تھا۔3 ۱؂۔ اگر اس وقت حمایت اور نصرت اور حفاظت نہ کی جاتی تو وہ اور کونسا وقت آئے گا؟ اب اس چودھویں صدی میں وہی حالت ہورہی ہے جو بدر کے موقعہ پر ہوگئی تھی۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 ۲؂۔ اس آیت میں بھی دراصل ایک پیشگوئی مرکوز تھی یعنی جب چودھویں صدی میں اسلام ضعیف اور ناتوان ہو جائے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اس وعدہ حفاظت کے موافق اس کی نصرت کرے گا۔ پھر تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ اُس نے اسلام کی نصرت کی؟ مجھے اِس بات کا افسوس نہیں کہ میرا نام دجّال اور کذّاب رکھا جاتا ہے اور مجھ پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ ضرور تھا کہ میرے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو مجھ سے پہلے فرستادوں کے ساتھ ہوا تا میں بھی اس قدیم سنت سے حصّہ پاتا۔ مَیں نے تو ان مصائب اور شدائد کا کچھ بھی حصّہ نہیں پایا لیکن جو مصیبتیں اور مشکلات ہمارے سیّد ومولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں آئیں اُس کی نظیر انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں کسی کے لئے نہیں پائی جاتی۔ آپ نے اسلام کی خاطر وہ دُکھ اُٹھائے کہ قلم اُن کے لکھنے اور زبان اُن کے بیان سے عاجز ہے۔ اور اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے جلیل الشان اور اولو العزم نبی تھے۔ اگر خدا تعالیٰ کی تائید اورنصرت آپ کے ساتھ نہ ہوتی تو ان مشکلات کے پہاڑ کو اُٹھانا ناممکن ہو جاتا۔ اور اگر کوئی اور نبی ہوتا تو وہ بھی رہ جاتا۔ مگر جس اسلام کو ایسی مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ آپ نے پھیلایا تھا آج اس کا جو حال ہوگیا ہے وہ مَیں کیونکر کہوں؟

اسلام کے معنے تو یہ تھے کہ انسان خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جاوے اور جس طرح پر ایک بکری کی گردن قصاب کے آگے ہوتی ہے اس طرح پر مسلمان کی گردن خدا تعالیٰ کی اطاعت کے لئے رکھ دی جاوے۔ اور اس کا مقصد یہ تھا کہ خدا تعالیٰ ہی کو وحدہٗ لاشریک سمجھے۔



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 281

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 281

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/281/mode/1up


جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اس وقت یہ توحید گُم ہوگئی تھی اور یہ دیش آریہ ورت بھی بتوں سے بھرا ہوا تھا۔ جیسا کہ پنڈت دیانند سرستی نے بھی اِس کو تسلیم کیا ہے۔ ایسی حالت اور ایسے وقت میں ضرور تھا کہ آپ مبعوث ہوتے۔ اسی کا ہمرنگ یہ زمانہ بھی ہے جس میں بُت پرستی کے ساتھ انسان پرستی اور دہریت بھی پھیل گئی ہے اور اسلام کا اصل مقصد اور روح باقی نہیں رہا۔ اس کا مغز تو یہ تھا کہ خدا ہی کی محبت میں فنا ہو جانا اور اس کے سوا کسی کو معبود نہ سمجھنا اور مقصد یہ ہے کہ انسان رو بخدا ہو جاوے روبدنیا نہ رہے۔ اور اِس مقصد کے لئے اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصّے کئے ہیں۔ اوّل حقوق اللہ دوم حقوق العباد۔ حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہے اور مخالفت مذہب دوسری شَے۔ مسلمانوں کا وہ گروہ جو جہاد کی غلطی اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں انہوں نے یہ بھی جائز رکھا ہے کہ کفّار کا مال ناجائز طور پر لینا بھی درست ہے۔ خود میری نسبت بھی ان لوگوں نے فتویٰ دیا کہ ان کا مال لوٹ لو بلکہ یہاں تک بھی کہ ان کی بیویاں نکال لو حالانکہ اسلام میں اس قسم کی ناپاک تعلیمیں نہ تھیں۔ وہ تو ایک صاف اور مصفّٰی مذہب تھا۔ اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوقِ ابوت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشاء ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو۔*

نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 282

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 282

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/282/mode/1up


سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں۔ اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حقوق کے دو ہی حصے رکھے ہیں۔ ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد۔ اس پر بہت کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے333 ۱؂۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس جگہ دو رمز ہیں۔ ایک توذکر اللہ کو ذکر آباء سے مشابہت دی ہے۔ اس میں یہ ِ سرّہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطرتی محبت ہوتی ہے۔ دیکھو بچہ کو جب ماں مارتی ہے وہ اس وقت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کو ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے۔ اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہئے۔ یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہو جاوے۔ ایک اور مقام پر یوں فرمایا ہے 3 3۲؂۔ اِس آیت میں ان تین مدارج کاذکر کیاہے جو انسان کو حاصل کرنے چاہئیں پہلا مرتبہ عدل کا ہے۔ اور عدل یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی نیکی کرے بشرط معاوضہ۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایسی نیکی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں بلکہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عدل کرو۔ اور اگر اس پر ترقی کرو تو پھر وہ احسان کا درجہ ہے یعنی بِلا عوض سلوک کرو۔ لیکن یہ امر کہ جو بدی کرتا ہے اس سے نیکی کی جاوے۔ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے دوسری پھیر دی جاوے یہ صحیح نہیں یا یہ کہو کہ عام طور پر یہ تعلیم عمل درآمد میں نہیں آسکتی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 283

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 283

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/283/mode/1up


چنانچہ سعدی کہتا ہے۔

نکوئی بابداں کردن چنان است کہ بد کردن برائے نیک مرداں

اس لئے اسلام نے انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے۔33۱؂ الآیۃ۔یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو۔ اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی لیکن یہ نہیں کہ اس سے شر بڑھے۔

غرض عدل کے بعد دوسرا درجہ احسان کا ہے۔ یعنی بغیر کسی معاوضہ کے سلوک کیا جاوے۔ لیکن اس سلوک میں بھی ایک قسم کی خود غرضی ہوتی ہے کسی نہ کسی وقت انسان اس احسان یا نیکی کو جتا دیتا ہے۔ اس لئے اس سے بھی بڑھ کر ایک تعلیم دی اور وہ 3۲؂ کا درجہ ہے۔ ماں جو اپنے بچہ کے ساتھ سلوک کرتی ہے وہ اُس سے کسی معاوضہ اور انعام و اکرام کی خواہشمند نہیں ہوتی۔ وہ اس کے ساتھ جو نیکی کرتی ہے محض طبعی محبت سے کرتی ہے۔ اگر بادشاہ اس کو حکم دے کہ تُو اس کو دودھ مت دے اور اگر یہ تیری غفلت سے مر بھی جاوے تو تجھے کوئی سزا نہیں دی جاوے گی بلکہ انعام دیا جاوے گا۔ اس صور ت میں وہ بادشاہ کا حکم ماننے کو طیار نہ ہوگی بلکہ اس کو گالیاں دے گی کہ یہ میری اولاد کا دشمن ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ذاتی محبت سے کررہی ہے۔ اُس کی کوئی غرض درمیان نہیں۔ یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ اور یہ آیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے۔ حقوق اللہ کے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے۔ اور جو اطاعتِ الٰہی میں اس مقام سے ترقی کرے تو احسان کی پابندی سے اطاعت کر۔ کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسانات کو کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ اور چونکہ محسن کے شمائل اور خصائل کو مدّ نظر رکھنے سے اس کے احسان تازہ رہتے ہیں۔ اس لئے احسان کا مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ ایسے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 284

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 284

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/284/mode/1up


دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام تک انسان میں ایک حجاب رہتا ہے لیکن اس کے بعد جو تیسرا درجہ ہے3 ۱؂ کا یعنی اللہ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور حقوق العباد کے پہلو سے مَیں اس کے معنے پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اور یہ بھی مَیں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی۔ اور ایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کر سکتا۔ یعنی33 ۲؂ الآیۃ اِس میں عفو کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو۔ یہودیوں کے مذہب نے یہ کیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت (الی الآخر)*۔ اُن میں انتقامی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی اور یہاں تک یہ عادت اُن میں پختہ ہوگئی تھی کہ اگر باپ نے بدلہ نہیں لیا تو بیٹے اور اُس کے پوتے تک کے فرائض میںیہ امر ہوتا تھا کہ وہ بدلہ لے۔ اس وجہ سے اُن میں کینہ توزی کی عادت بڑھ گئی تھی۔ اور وہ بہت سنگدل اور بے درد ہو چکے تھے۔ عیسائیوں نے اس تعلیم کے مقابل یہ تعلیم دی کہ ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دو۔ ایک کوس بیگارلے جاوے تو دو کوس چلے جاؤ ۔وغیرہ۔ اس تعلیم میں جونقص ہے وہ ظاہر ہے کہ اس پر عملدرآمد ہی نہیں ہو سکتا۔ اور عیسائی گورنمنٹوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ یہ تعلیم ناقص ہے۔ کیا یہ کسی عیسائی کی جرأت ہو سکتی ہے کہ کوئی خبیث طمانچہ مار کر دانت نکال دے تو وہ دوسری گال پھیر دے کہ ہاں اب دوسرا دانت بھی نکال دو۔ وہ خبیث تو اور بھی دلیر ہو جاوے گا۔ اور اس سے امن عامہ میں خلل واقع ہوگا۔ پھر کیونکر ہم تسلیم کریں کہ یہ تعلیم عمدہ ہے یا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو سکتی ہے اگر اس پر عمل ہو تو کسی ملک کا بھی انتظام نہ ہو سکے ایک ملک ایک دشمن چھین لے تو دوسرا خود حوالہ کرنا پڑے۔ ایک افسر گرفتار ہو جاوے تو دس اور دے دیئے جاویں۔ یہ نقص ہیں جو اِن تعلیموں میں ہیں۔ اور یہ صحیح نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہ احکام بطور قانون مختص الزمان تھے۔ جب وہ زمانہ گزر گیا دوسرے لوگوں کے حسب حال وہ تعلیم نہ رہی۔ یہودیوں کا وہ زمانہ تھا کہ وہ چار سو برس تک غلامی میں رہے اور اس غلامی کی زندگی کی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 285

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 285

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/285/mode/1up


وجہ سے ان میں قساوتِ قلبی بڑھ گئی اور وہ کینہ کش ہوگئے۔ اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس بادشاہ کے زمانہ میں کوئی ہوتا ہے اُس کے اخلاق بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں۔ سکھوں کے زمانہ میں اکثر لوگ ڈاکو ہوگئے تھے۔ انگریزوں کے زمانہ میں تہذیب اور تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور ہرشخص اس طرف کوشش کررہا ہے۔ غرض بنی اسرائیل نے فرعون کی ماتحتی کی تھی اسی وجہ سے اُن میں ظلم بڑھ گیا تھا۔ اس لئے توریت کے زمانہ میں عدل کی ضرورت مقدم تھی کیونکہ وہ لوگ اس سے بے خبر تھے اور جابرانہ عادت رکھتے تھے۔ اور انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دانت کے بدلے دانت کا توڑناضروری ہے۔ اور یہ ہمارا فرض ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا کہ عدل تک ہی بات نہیں رہتی بلکہ احسان بھی ضروری ہے۔ اس سبب سے مسیح کے ذریعہ انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو۔ اور جب اسی پر سارا زور دیا گیا تو آخر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس تعلیم کو اصل نکتہ پر پہنچا دیا۔ اور وہ یہی تعلیم تھی کہ بدی کا بدلہ اُسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کردے اور معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور اجر ہے۔ عفو کی تعلیم دی ہے مگر ساتھ قید لگائی کہ اصلاح ہو بے محل عفو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس اس مقام پر غور کرنا چاہئے کہ جب توقع اصلاح کی ہو تو عفو ہی کرنا چاہئے۔ جیسے دو خدمتگار ہوں ایک بڑا شریف الاصل اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہو لیکن اتفاقاً اس سے کوئی غلطی ہو جاوے اس موقعہ پر اُس کو معاف کرنا ہی مناسب ہے۔ اگر سزا دی جاوے تو ٹھیک نہیں۔ لیکن ایک بدمعاش اور شریر ہے ہر روز نقصان کرتا ہے اور شرارتوں سے باز نہیں آتا اگر اُسے چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بھی بیباک ہو جائیگا۔ اُس کو سزا ہی دینی چاہئے۔ غرض اس طرح پر محل اور موقع شناسی سے کام لو۔ یہ تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے اور جو کامل تعلیم ہے اس کے بعد اور کوئی نئی تعلیم یا شریعت نہیں آسکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب۔ اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی۔ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا کرکے دکھایا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 286

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 286

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/286/mode/1up


اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اُس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس امت کیلئے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے۔ اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے سورہ فاتحہ ہی میں یہ دُعا سکھائی ہے33 3 ۱؂ ۔ اَنعمت عَلیھمکی راہ کیلئے جو دُعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کا اشارہ ہے اوریہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الٰہی ہی کا کمال تھا۔ اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی اسی کے تم بھی خواہاں رہو۔ پس اس نعمت کیلئے یہ خیال کرو کہ قرآن شریف اس دُعا کی تو ہدایت کرتا ہے مگر اس کا ثمرہ کچھ بھی نہیں یا اس اُمت کے کسی فرد کو بھی یہ شرف نہیں مل سکتا۔ اور قیامت تک یہ دروازہ بند ہوگیا ہے۔ بتاؤ اس سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ثابت ہوگی یا کوئی خوبی ثابت ہوگی؟ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے وہ اسلام کو بدنام کرتا ہے۔ اور اس نے مغز شریعت کو سمجھا ہی نہیں۔ اسلام کے مقاصد میں سے تو یہ امر تھا کہ انسان صرف زبان ہی سے وَحدہٗ لاشریک نہ کہے بلکہ درحقیقت سمجھ لے اور بہشت دوزخ پر خیالی ایمان نہ ہو بلکہ فی الحقیقت اسی زندگی میں وہ بہشتی کیفیات پر اطلاع پالے۔ اور ان گناہوں سے جن میں وحشی انسان مبتلا ہیں نجات پالے۔ یہ عظیم الشان مقصد اسلام کا تھا اور ہے۔ اور یہ ایسا پاک مطہر مقصد ہے کہ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر اپنے مذہب میں پیش نہیں کر سکتی اور نہ اس کا نمونہ دکھا سکتی ہے۔ کہنے کو تو ہر ایک کہہ سکتا ہے مگر وہ کون ہے جو دکھا سکتا ہو؟

مَیں نے آریوں سے عیسائیوں سے پوچھا ہے کہ وہ خدا جو تم مانتے ہو اس کا کوئی ثبوت پیش کرو۔ نری زبانی لاف و گزاف سے بڑھ کر وہ کچھ بھی نہیں دکھا سکتے۔ وہ سچا خدا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 287

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 287

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/287/mode/1up


جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اس سے یہ لوگ ناواقف ہیں۔ اس پر اطلاع پانے کے لئے یہی ایک ذریعہ مکالمات کا تھا جس کے سبب سے اسلام دوسرے مذاہب سے ممتاز تھا مگر افسوس ان مسلمانوں نے میری مخالفت کی وجہ سے اس سے بھی انکار کردیا۔

یقیناًیاد رکھو کہ گناہوں سے بچنے کی توفیق اس وقت مل سکتی ہے جب انسان پورے طور پر اللہ تعالیٰ پر ایمان لاوے۔ یہی بڑا مقصد انسانی زندگی کا ہے کہ گناہ کے پنجہ سے نجات پالے۔ دیکھو ایک سانپ جو خوشنما معلوم ہوتا ہے بچہ تو اس کو ہاتھ میں پکڑنے کی خواہش کرسکتا ہے اور ہاتھ بھی ڈال سکتا ہے لیکن ایک عقلمند جو جانتا ہے کہ سانپ کاٹ کھائے گا اور ہلاک کر دے گا وہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اس کی طرف لپکے بلکہ اگر معلوم ہو جاوے کہ کسی مکان میں سانپ ہے تو اس میں بھی داخل نہیں ہوگا۔ ایسا ہی زہر کو جو ہلاک کرنے والی چیز سمجھتا ہے تو اس کے کھانے پر وہ دلیر نہیں ہوگا۔ پس اسی طرح پر جب تک گناہ کو خطرناک زہر یقین نہ کرلے اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہ یقین معرفت کے بدوں پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ کیا بات ہے کہ انسان گناہوں پر اس قدر دلیر ہو جاتا ہے باوجودیکہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور گناہ کو گناہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کی وجہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ معرفت اور بصیرت نہیں رکھتا جو گناہ سوز فطرت پیدا کرتی ہے۔ اگر یہ بات پیدا نہیں ہوتی تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ معاذ اللہ اسلام اپنے اصلی مقصد سے خالی ہے لیکن مَیں کہتا ہوں کہ ایسا نہیں۔ یہ مقصد اسلام ہی کامل طور پر پورا کرتا ہے اور اس کا ایک ہی ذریعہ ہے مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کیونکہ اِسی سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا ہوتا ہے اور اِسی سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ گناہ سے بیزار ہے اور وہ سزا دیتا ہے۔ گناہ ایک زہر ہے جو اوّل صغیرہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر کبیرہ ہو جاتا ہے اور انجام کار کفر تک پہنچا دیتا ہے۔

میں جملہ معترضہ کے طور پر کہتا ہوں کہ اپنی اپنی جگہ پر قوم کو یہ فکر لگا ہوا ہے کہ ہم



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 288

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 288

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/288/mode/1up


گناہ سے پاک ہو جاویں۔ مثلاً آریہ صاحبان نے تو یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ بجز گناہ کی سزا کے اَور کوئی صورت پاک ہونے کی ہے ہی نہیں۔ ایک گناہ کے بدلے کئی لاکھ جونیں ہیں جب تک انسان ان جونوں کو نہ بھگت لے وہ پاک ہی نہیں ہو سکتا ۔ مگر اس میں بڑی مشکلات ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جبکہ تمام مخلوقات گناہگار ہی ہے تو اس سے نجات کب ہوگی؟ اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ ان کے ہاں یہ امر مسلّمہ ہے کہ نجات یافتہ بھی ایک عرصہ کے بعد مکتی خانہ سے نکال دیئے جاویں گے تو پھر اس نجات سے فائدہ ہی کیا ہوا؟ جب یہ سوال کیا جاوے کہ نجات پانے کے بعد کیوں نکالتے ہو تو بعض کہتے ہیں کہ نکالنے کے لئے ایک گناہ باقی رکھ لیا جاتا ہے۔ اب غور کر کے بتاؤ کہ کیا یہ قادر خدا کا کام ہو سکتا ہے؟ اور پھر جبکہ ہر نفس اپنے نفس کا خود خالق ہے خدا تعالیٰ اس کا خالق ہی نہیں (معاذ اللہ) تو اسے حاجت ہی کیا ہے کہ وہ اس کا ماتحت رہے۔

دوسرا پہلو عیسائیوں کا ہے۔ انہوں نے گناہ سے پاک ہونے کا ایک پہلو سوچا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا اور خدا کا بیٹا مان لو۔ اور پھر یقین کر لو کہ اُس نے ہمارے گناہ اُٹھالئے اور وہ صلیب کے ذریعہ *** ہوا۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک۔ اب غور کرو کہ حصولِ نجات کو اس طریق سے کیا تعلق؟ گناہوں سے بچانے کے لئے ایک اور بڑا گناہ تجویز کیا؟ کہ انسان کو خدا بنایا گیا۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور گناہ ہو سکتا ہے؟ پھر خدا بنا کر اُسے معًا ملعون بھی قرار دیا۔ اس سے بڑھ کر گستاخی اور بے ادبی اللہ تعالیٰ کی کیا ہوگی؟ ایک کھاتا پیتا حوائج کا محتاج خدا بنا لیا گیا حالانکہ توریت میں لکھا تھا کہ دوسرا خدا نہ ہو۔ نہ آسمان پر نہ زمین پر۔ پھر دروازوں اور چوکھٹوں پر یہ تعلیم لکھی گئی تھی۔ اُس کو چھوڑ کر یہ نیا خدا تراشا گیا۔ جس کا کچھ بھی پتہ توریت میں نہیں ملتا۔مَیں نے فاضل یہودیوں سے پوچھا ہے کہ کیا تمہارے ہاں ایسے خدا کا پتہ ہے جو مریم کے پیٹ سے نکلے اور وہ یہودیوں کے ہاتھوں سے ماریں کھاتا پھرے۔ اس پر یہودی علماء



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 289

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 289

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/289/mode/1up


نے مجھے یہی جواب دیا کہ یہ محض افترا ہے۔ توریت سے کسی ایسے خدا کاپتہ نہیں ملتا۔ ہمارا وہ خدا ہے جو قرآن شریف کا خدا ہے۔ یعنی جس طرح پر قرآن مجید نے خدا تعالیٰ کی وحدت کی اطلاع دی ہے اسی طرح پر ہم توریت کے رُو سے خدا تعالیٰ کو وَحدَہٗ َ لاشریک مانتے ہیں اور کسی انسان کو خدا نہیں مان سکتے۔ اور یہ تو موٹی بات ہے اگر یہودیوں کے ہاں کسی ایسے خدا کی خبر دی گئی ہوتی جو عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا تھا تو وہ حضرت مسیح کی ایسی سخت مخالفت ہی کیوں کرتے؟ یہاں تک کہ انہوں نے اس کو صلیب پر چڑھوادیا۔ اور ان پر کفر کہنے کا الزام لگاتے تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امر کو ماننے کیلئے قطعاً طیار نہ تھے۔ غرض عیسائیوں نے گناہ کے دُور کرنے کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ ایسا علاج ہے جو بجائے خود گناہ کو پیدا کرتا ہے اور اس کو گناہ سے نجات پانے کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔* انہوں نے گناہ کے دُور کرنے کا علاج گناہ تجویز کیا ہے جو کسی حالت اور صورت میں مناسب نہیں۔ یہ لوگ اپنے نادان دوست ہیں اور ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے اپنے آقا کا خون کر دیا تھا۔ اپنے بچاؤ کیلئے اور گناہوں سے نجات پانے کیلئے ایک ایسا گناہ تجویز کیا جو کسی صورت میں بخشا نہ جاوے۔ یعنی شرک کیا اور عاجز انسان کو خدا بنا لیا۔

مسلمانوں کیلئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ ان کا خدا ایسا خدا نہیں جس پر کوئی اعتراض یا حملہ ہو سکے۔ وہ اس کی طاقتوں اور قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی صفات پر یقین لاتے ہیں۔ مگر جنہوں نے انسان کو خدا بنایا یا جنہوں نے اس کی قدرتوں سے انکار کردیا اُن کیلئے خدا کا عدم و وجود برابر ہے۔ جیسے مثلاً آریوں کا مذہب ہے کہ ذرّہ ذرّہ اپنے وجود کا آپ ہی خدا ہے۔ اور اس لئے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ اب بتاؤ کہ جب ذرّات کے وجود کا خالق خدا نہیں توان کے قیام کیلئے خدا کی حاجت کیا ہے جبکہ طاقتیں خود بخود موجود ہیں اور ان میں اِ ّ تصال اور اِنفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو پھر انصاف سے بتاؤ کہ ان کیلئے خدا کے وجود کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس عقیدہ کو



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 290

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 290

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/290/mode/1up


رکھنے والے آریوں اور دہریوں میں ۱۹ اور ۲۰ کا فرق ہے۔ اب صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو کامل اور زندہ مذہب ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت۔ شوکت ظاہر ہو۔ اور اسی مقصد کو لے کرمَیں آیا ہوں۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ جو انوار و برکات اس وقت آسمان سے اُتر رہے ہیں وہ اُن کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر ان کی دستگیری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اس مصیبت کے وقت اُن کی نصرت فرمائی۔ لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کی کچھ پروا نہ کرے گا۔ وہ اپنا کام کرکے رہے گا مگر ان پر افسوس ہوگا۔

مَیں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے۔ اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے۔وہ 3 ہے۔ مسلمانو! یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دے دی ہے اور مَیں نے اپنا پیام پہنچا دیا ہے اب اس کو سننا نہ سننا تمہارے اختیار میں ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو موعود آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ اور یہ بھی پکّی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسٰی کے مرنے میں ہے۔

اگر اس مسئلہ پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہی مسئلہ ہے جو عیسائی مذہب کا خاتمہ کر دینے والا ہے۔ یہ عیسائی مذہب کا بہت بڑا شہتیر ہے اور اسی پر اس مذہب کی عمارت قائم کی گئی ہے اسے گرنے دو۔ یہ معاملہ بڑی صفائی سے طے ہو جاتا اگر میرے مخالف خدا ترسی اور تقویٰ سے کام لیتے۔ مگر ایک کا نام لو جو درندگی چھوڑ کر میرے پاس آیا ہو اور اُس نے اپنی تسلّی چاہی ہو۔ اُن کا تو یہ حال ہے کہ میرا نام لیتے ہی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 291

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 291

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/291/mode/1up


اُن کے منہ سے جھاگ گِرنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ گالیاں دینے لگتے ہیں۔ بھلا اس طرح پر بھی کوئی شخص حق کو پا سکتا ہے؟

مَیں تو قرآن شریف کے نصوص صریحہ کو پیش کرتا ہوں اور حدیث پیش کرتا ہوں اجماع صحابہ پیش کرتا ہوں مگر وہ ہیں کہ ان باتوں کو سنتے نہیں اور کافر کافر دجّال دجّال کہہ کر شور مچاتے ہیں۔ مَیں صاف طور پر کہتا ہوں کہ قرآن شریف سے تم ثابت کروکہ مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت کے خلاف کوئی امر پیش کرو۔ اور یا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرجو پہلا اجماع ہوا اس کا خلاف دکھاؤ تو جواب نہیں ملتا۔ پھر بعض لوگ شور مچاتے ہیں کہ اگر آنے والا وہی عیسیٰ ابن مریم اسرائیلی نبی نہ تھا تو آنے والے کا یہ نام کیوں رکھا ؟ مَیں کہتا ہوں کہ یہ اعتراض کیسی نادانی کا اعتراض ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اعتراض کرنے والے اپنے لڑکوں کا نام تو موسیٰ۔ عیسیٰ۔ داؤد۔ احمد۔ ابراہیم۔ اسماعیل رکھ لینے کے مجاز ہوں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کا نام عیسیٰ رکھ دے تو اس پر اعتراض!!! غور طلب بات تو اس مقام پر یہ تھی کہ آیا آنے والا اپنے ساتھ نشانات رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ ان نشانات کو پاتے تو انکار کے لئے جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے نشانات اور تائیدات کی تو پروا نہ کی اور دعویٰ سُنتے ہی کہہ دیا۔ اَنْتَ کَافِرٌ۔

یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا تعالیٰ کے مامورین کی شناخت کا ذریعہ ان کے معجزات اور نشانات ہوتے ہیں۔ جیسا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی شخص اگر حاکم مقرر کیا جاوے تواس کو نشان دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پر خداکے مامورین کی شناخت کے لئے بھی نشانات ہوتے ہیں۔ اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں نہ ایک نہ دو نہ دو سو بلکہ لاکھوں نشانات ظاہر کئے۔ اور وہ نشانات ایسے نہیں ہیں کہ کوئی انہیں جانتا نہیں بلکہ لاکھوں ان کے گواہ ہیں۔ اور مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اس جلسہ میں بھی صدہا ان کے گواہ موجود ہوں گے۔ آسمان سے میرے لئے نشانات ظاہر ہوئے ہیں۔ زمین سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 292

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 292

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/292/mode/1up


بھی ظاہر ہوئے۔

وہ نشانات جو میرے دعویٰ کے ساتھ مخصوص تھے اور جن کی قبل از وقت اَور نبیوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خبر دی گئی تھی وہ بھی پورے ہوگئے۔ مثلاً اُن میں سے ایک کسوف خسوف کا ہی نشان ہے جو تم سب نے دیکھا۔ یہ صحیح حدیث میں خبر دی گئی تھی کہ مہدی اور مسیح کے وقت میں رمضان کے مہینے میں سورج اور چاند گرہن ہوگا۔ اب بتاؤ کہ کیا یہ نشان پورا ہوا ہے یا نہیں؟ کوئی ہے جو یہ کہے کہ اُس نے یہ نشان نہیں دیکھا؟ اورایسا ہی یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ اُس زمانہ میں طاعون پھیلے گی۔ یہاں تک شدید ہوگی کہ دس میں سے سات مر جاویں گے۔ اب بتاؤ کہ کیا طاعون کا نشان ظاہر ہوا یا نہیں؟ پھر یہ بھی لکھا تھا کہ اُس وقت ایک نئی سواری ظاہر ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہو جائیں گے۔ کیا ریل کے اجرا سے یہ نشان پورا نہیں ہوا؟ مَیں کہاں تک شمار کروں یہ بہت بڑا سلسلہ نشانات کا ہے۔ اب غور کرو کہ مَیں تو دعویٰ کرنے والا دجّال اور کاذب قرار دیا گیا پھر یہ کیا غضب ہوا کہ مجھ کاذب کے لئے ہی یہ سارے نشان پورے ہوگئے؟ اور پھر اگر کوئی آنے والا اور ہے تو اس کو کیا ملے گا؟ کچھ تو انصاف کروں اور خدا سے ڈرو۔ کیا خدا تعالیٰ کسی جھوٹے کی بھی ایسی تائید کیا کرتا ہے؟ عجیب بات ہے کہ جو میرے مقابلہ میں آیا وہ ناکام اور نامراد رہا اور مجھے جس آفت اور مصیبت میں مخالفین نے ڈالا مَیں اُس میں سے صحیح سلامت اور بامراد نکلا۔ پھر کوئی قسم کھا کر بتاوے کہ جھوٹوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کرتا ہے؟

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان مخالف الرائے علماء کو کیا ہوگیا۔ وہ غور سے کیوں قرآنِ شریف اور احادیث کو نہیں پڑھتے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جس قدر اکابر اُمت کے گزرے ہیں وہ سب کے سب مسیح موعود کی آمد چودھویں صدی میں بتاتے رہے ہیں۔ اور تمام اہل کشوف کے کشف یہاں آکر ٹھہر جاتے ہیں۔ حجج الکرامہمیں صاف لکھا ہے کہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جائے گا۔ یہی لوگ منبروں پر چڑھ چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی سے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 293

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 293

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/293/mode/1up


تو جانوروں نے بھی پناہ مانگی ہے اور چودھویں صدی مبارک ہوگی مگر یہ کیا ہوا کہ وہ چودھویں صدی جس پر ایک موعود امام آنے والا تھا اُس میں بجائے صادق کے کاذب آگیا۔ اور اُس کی تائید میں ہزاروں لاکھوں نشان بھی ظاہر ہوگئے اور خدا تعالیٰ نے ہر میدان اور ہرمقابلہ میں نصرت بھی اُسی کی کی۔ ان باتوں کا ذرا سوچ کر جواب دو۔ یونہی ُ منہ سے ایک بات نکال دینا آسان ہے مگر خدا کے خوف سے بات نکالنا مشکل ہے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مفتری اور کذّاب انسان کو اتنی لمبی مہلت نہیں دیتا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جاوے۔ میری عمر ۶۷ سال کی ہے اور مری بعثت کا زمانہ ۲۳ سال سے بڑھ گیا ہے۔ اگر مَیں ایسا ہی مفتری اور کذّاب تھا تو اللہ تعالیٰ اس معاملہ کو اتنا لمبا نہ ہونے دیتا۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تمہارے آنے سے کیا فائدہ ہوا؟

یاد رکھوکہ میرے آنے کی دو غرضیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو غلبہ اِس وقت اسلام پر دوسرے مذاہب کا ہوا ہے گویا وہ اسلام کو کھاتے جاتے ہیں اور اسلام نہایت کمزور اور یتیم بچے کی طرح ہوگیا ہے۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا مَیں ادیانِ باطلہ کے حملوں سے اسلام کو بچاؤں اور اسلام کے پُر زور دلائل اور صداقتوں کے ثبوت پیش کروں۔ اور وہ ثبوت علاوہ علمی دلائل کے انوار اور برکاتِ سماوی ہیں جو ہمیشہ سے اسلام کی تائید میں ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت اگر تم پادریوں کی رپورٹیں پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ اسلام کی مخالفت کیلئے کیا سامان کررہے ہیں۔ اور ان کا ایک ایک پرچہ کتنی تعداد میں شائع ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ اسلام کا بول بالا کیا جاتا۔ پس اِس غرض کیلئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔ اور مَیں یقیناًکہتا ہوں کہ اسلام کا غلبہ ہو کر رہے گا اور اس کے آثار ظاہر ہو چکے ہیں۔ ہاں یہ سچی بات ہے کہ اس غلبہ کیلئے کسی تلوار اور بندوق کی حاجت نہیں اور نہ خدا نے مجھے ہتھیاروں کے ساتھ بھیجا ہے۔ جو شخص اِس وقت یہ خیال کرے وہ اسلام کا نادان دوست ہوگا۔ مذہب کی غرض دلوں کو فتح کرنا



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 294

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 294

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/294/mode/1up


ہوتی ہے اور یہ غرض تلوار سے حاصل نہیں ہوتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تلوار اُٹھائی مَیں بہت مرتبہ ظاہر کر چکا ہوں کہ وہ تلوار محض حفاظت خود اختیاری اور دفاع کے طور پر تھی اور وہ بھی اس وقت جبکہ مخالفین اور منکرین کے مظالم حد سے گزر گئے اور بیکس مسلمانوں کے خون سے زمین سُرخ ہو چکی۔

غرض میرے آنے کی غرض تو یہ ہے کہ اسلام کا غلبہ دوسرے ادیان پر ہو۔ دوسرا کام یہ ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں یہ صرف زبانوں پر حساب ہے۔ اس کیلئے ضرورت ہے کہ وہ کیفیت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے جو اسلام کا مغز اور اصل ہے۔ مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر۔عمر۔عثمان۔ علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سارنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔ اب جو کچھ ہے وہ دنیا ہی کیلئے ہے۔ اور اس قدر استغراق دنیا میں ہورہا ہے کہ خداتعالیٰ کیلئے کوئی خانہ خالی نہیں رہنے دیا۔ تجارت ہے تو دنیا کیلئے۔ عمارت ہے تو دنیا کیلئے۔ بلکہ نماز روزہ اگر ہے تو وہ بھی دنیا کیلئے۔ دنیاداروں کے قرب کیلئے تو سب کچھ کیا جاتا ہے مگر دین کا پاس ذرہ بھی نہیں۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کیا اسلام کے اعتراف اور قبولیت کا اتنا ہی منشاء تھا جو سمجھ لیا گیا ہے یا وہ بلند غرض ہے۔ مَیں تویہ جانتا ہوں کہ مومن پاک کیا جاتا ہے اور اس میں فرشتوں کا رنگ ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کا قرب بڑھتا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا کلام سنتا اور اُس سے تسلّی پاتا ہے۔

اب تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دل میں سوچ لے کہ کیا یہ مقام اُسے حاصل ہے؟ مَیں سچ کہتا ہوں کہ تم صرف پوست اور چھلکے پر قانع ہوگئے ہو حالانکہ یہ کچھ چیز نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ مغز چاہتا ہے۔ پس جیسے میرا یہ کام ہے کہ اُن حملوں کو رو کا جاوے جو بیرونی طور پر اسلام پر ہوتے ہیں ویسے ہی مسلمانوں میں اسلام کی حقیقت اور رُوح



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 295

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 295

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/295/mode/1up


پیدا کی جاوے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بُت کو عظمت دی گئی ہے اُس کی اَمَانِی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات۔ صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کیلئے ہے۔ اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت اُن کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بتازہ پھل دے۔ اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کیلئے تو فرمایا۔3 333 3 ۱؂۔ یعنی کیا تُونے نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ وہ بات پاکیزہ‘ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے۔ 3 سے مراد یہ ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں۔ اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو۔ مگر بتاؤ کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجت ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا اور کیا ہوگا؟

اس وقت مسلمان اَسْلَمْنَا میں تو بے شک داخل ہیں مگر آمَنَّا کی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک نور ساتھ ہو۔غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کیلئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ اس لئے میرے معاملہ میں تکذیب کے لئے جلدی نہ کرو بلکہ خدا سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ توبہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے۔ طاعون کا نشان بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے اِس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا ہے وہ یہ ہے۔ 3 3 ۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر *** ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 296

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 296

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/296/mode/1up


خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی۔ پس خدا سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ۔ کوئی کسی کا ذمہ وار نہیں ہو سکتا۔ معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کر سکتے۔ پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو جس کی نسبت فرمایا۔3 ۱؂۔

مخالفوں کا تو یہ فرض تھا کہ وہ حسن ظنّی سے کام لیتے اور 33۲؂ پر عمل کرتے مگر انہوں نے جلد بازی سے کام لیا۔یاد رکھو پہلی قومیں اسی طرح ہلاک ہوئیں۔ عقلمند وہ ہے جو مخالفت کر کے بھی جب اُسے معلوم ہو کہ وہ غلطی پر تھا اُسے چھوڑ دے۔ مگر یہ بات تب نصیب ہوتی ہے کہ خدا ترسی ہو۔ دراصل مردوں کا کام یہی ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کریں۔ وہی پہلوان ہے اور اُسی کو خدا تعالیٰ پسند کرتا ہے۔

اِن ساری باتوں کے علاوہ مَیں اب قیاس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کہ اگرچہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ میرے ساتھ ہیں۔ اجماع صحابہ بھی میری تائید کرتا ہے۔ نشانات اور تائیداتِ الٰہیہ میری مؤید ہیں۔ ضرورتِ وقت میرا صادق ہونا ظاہر کرتی ہے۔ لیکن قیاس کے ذریعہ سے بھی حجت پوری ہو سکتی ہے۔ اِس لئے دیکھنا چاہئے کہ قیاس کیا کہتا ہے؟ انسان کبھی کسی ایسی چیز کے ماننے کو طیار نہیں ہو سکتا جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو۔ مثلاً اگر ایک شخص آکر کہے کہ تمہارے بچے کو ہوا اڑا کر آسمان پر لے گئی ہے یا بچہ کتا بن کر بھاگ گیا ہے۔ تو کیا تم اس کی بات کو بلاوجہ معقول اور بلا تحقیق مان لوگے؟ کبھی نہیں۔ اس لئے قرآن مجید نے فرمایا۔ 3۳؂۔ اب مسیح علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ پر اور ان کے آسمان پر اُڑ جانے کے متعلق غور کرو۔ قطع نظر اُن دلائل کے جو اُن کی وفات کے متعلق ہیں یہ پکّی بات ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح کامل اور افضل تھے ان کو چاہئے تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ جاتے مگر اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے کیاجواب دیا۔3۴؂۔اس کا مفہوم یہ ہے



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 297

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 297

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/297/mode/1up


کہ کہہ دو اللہ تعالیٰ اس امر سے پاک ہے کہ وہ خلاف وعدہ کرے جبکہ اُس نے بشر کیلئے آسمان پر مع جسم جانا حرام کر دیا ہے۔ اگر مَیں جاؤں تو جھوٹا ٹھہروں گا۔ اب اگر تمہارا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ مسیح آسمان پر چلا گیا ہے اور کوئی بالمقابل پادری یہ آیت پیش کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے تو تم اس کا کیا جواب دے سکتے ہو؟ پس ایسی باتوں کے ماننے سے کیا فائدہ جن کا کوئی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں۔ اس طرح پر تم اسلام کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے ٹھہروگے۔ پھر پہلی کتابوں میں بھی تو کوئی نظیر موجود نہیں۔ اور ان کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 ۱؂۔ اور پھر فرمایا 3۲؂۔ اور ایسا ہی فرمایا ۔ 3۳؂۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کیلئے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہوگیا۔

اب انہیں کتابوں میں ملا کی نبی کی ایک کتاب ہے جو بائیبل میں موجود ہے۔ اِس میں مسیح سے پہلے ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا گیا۔ آخر جب مسیح ابن مریم آئے تو حضرت مسیح سے الیاس کے دوبارہ آنے کا سوال ملاکی نبی کی اس پیشگوئی کے موافق کیا گیا مگر حضرت مسیح نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آنے والا یوحنّا کے رنگ میں آچکا۔

اب یہ فیصلہ حضرت عیسیٰ ہی کی عدالت سے ہو چکا ہے کہ دوبارہ آنے والے سے کیا مراد ہوتی ہے۔ وہاں یحییٰ۔ کا نام مثیل الیاس نہیں رکھا بلکہ انہیں ہی ایلیا قرار دیا گیا۔ اب یہ قیاس بھی میرے ساتھ ہے۔ مَیں تو نظیر پیش کرتا ہوں مگر میرے منکر کوئی نظیر پیش نہیں کرتے۔ بعض لوگ جو اس مقام پر عاجز آجاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتابیں محرّ ف مبدّل ہیں۔ مگر افسوس ہے یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اس سے سند لیتے رہے اور اکثر اکابر نے تحریف معنوی مراد کی ہے۔ بخاری نے بھی یہی



Ruhani Khazain Volume 20. Page: 298

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۰- لیکچر لدھیانہ: صفحہ 298

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=20#page/298/mode/1up


کہا ہے۔ علاوہ اس کے یہودیوں اور عیسائیوں کی جانی دشمنی ہے۔ کتابیں جُدا جُدا ہیں۔ وہ اب تک مانتے ہیں کہ الیاس دوبارہ آئے گا۔ اگر یہ سوال نہ ہوتا تو حضرت مسیح کو وہ مان نہ لیتے؟ ایک فاضل یہودی کی کتاب میرے پاس ہے وہ بڑے زور سے لکھتا ہے اور اپیل کرتا ہے کہ اگر مجھ سے یہ سوال ہوگا تو مَیں ملاکی نبی کی کتاب سامنے رکھ دوں گا کہ اس میں الیاس کے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اب غور کرو جبکہ باوجود ان عذرات کے لاکھوں یہودی جہنمی ہوئے اور سؤر بندر بنے تو کیا میرے مقابلہ میں یہ عذر صحیح ہوگا کہ وہاں مسیح ابن مریم کا ذکر ہے۔ یہودی تو معذور ہو سکتے تھے۔ ان میں نظیر نہ تھی۔ مگر اب تو کوئی عذر باقی نہیں۔ مسیح کی موت قرآنِ شریف سے ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت اس کی تصدیق کرتی ہے۔ اور پھر قرآن شریف اور حدیث میں مِنْکُم آیا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ نے مجھے خالی ہاتھ نہیں بھیجا ہزاروں لاکھوں نشان میری تصدیق میں ظاہر ہوئے اور اب بھی اگر کوئی چالیس دن میرے پاس رہے تو وہ نشان دیکھ لے گا۔ لیکھرام کا نشان عظیم الشان نشان ہے۔ احمق کہتے ہیں کہ مَیں نے قتل کرا دیا۔ اگر یہ اعتراض صحیح ہے تو پھر ایسے نشانات کا امان ہی اُٹھ جائے گا۔ کل کو کہہ دیا جائے گا کہ خسرو پرویز کو معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا ہوگا۔ ایسے اعتراض حق بین اور حق شناس لوگوں کا کام نہیں ہے۔

مَیں آخر میں پھر کہتا ہوں کہ میرے نشانات تھوڑے نہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ انسان میرے نشانوں پر گواہ ہیں اور زندہ ہیں۔ میرے انکار میں جلدی نہ کرو۔ ورنہ مرنے کے بعد کیا جواب دوگے؟ یقیناًیاد رکھو کہ خدا سر پر ہے اور وہ صادق کو صادق ٹھہراتا اور کاذب کو کاذب۔*
 
Top