• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 22 ۔ حقیقۃ الوحی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 22. Page: 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


اِس کتاب کا اثر کیا ہے؟

یاد رہے کہ یہ کتاب کہ جو جامع جمیع دلائل و حقایق ہے اس کا اثر صرف اس حد تک ہی محدود نہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا اس میں دلائل بیّنہسے ثابت کیا گیا ہے بلکہ اس کا یہ بھی اثر ہے کہ اس میں اسلام کا زندہ اور سچا مذہب ہونا ثابت کر دیا ہے اگرچہ ہر ایک قوم اپنے مُنہ سے کہہ سکتی ہے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو واحد لاشریک سمجھتے ہیں جیسا کہ برہمو یہی دعویٰ کرتے ہیں اور ایسا ہی آریہ بھی باوجود اس کے کہ قدامت میں ذرّہ ذرّہ کو خدا تعالیٰ کا شریک اور انادی بنا رکھا ہے توحید کے مدعی ہیں لیکن یہ تمام قومیں زندہ خدا کی ہستی کا کوئی یقینی ثبوت نہیں دے سکتیں اور خدا کے وجود پر اُن کے دل تسلّی پذیر نہیں ہیں۔* اس لئے اُن کے یہ دعوے کہ ہم خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک سمجھتے ہیں صرف دعوے ہی دعوے ہیں لہٰذا اُن کے ایسے اقرار حقیقی توحید کا رنگ اُن کے دلوں پر نہیں چڑھا سکتے اور خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک ماننا تو کیا دراصل ان لوگوں کو اس قدر بھی نصیب نہیں کہ یقینی طور پر خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان رکھتے ہوں بلکہ اُن کے دل تاریکی میں پڑے ہیں۔

یاد رہے کہ انسان اس خدائے غیب الغیب کو ہر گز اپنی قوت سے شناخت نہیں کر سکتا جب تک وہ خود اپنے تئیں اپنے نشانوں سے شناخت نہ کرا وے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ تعلق خاص خدا تعالیٰ کے ذریعہ سے پیدا نہ ہو اور نفسانی آلائشیں ہر گز نفس میں سے نکل نہیں سکتیں جب تک خدائے قادر کی طرف سے ایک روشنی دل میں داخل نہ ہو اور دیکھو کہ مَیں اس شہادت رویت کو پیش کرتا ہوں کہ وہ تعلق محض قرآن کریم کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے دوسری کتابوں میں اب کوئی زندگی کی روح نہیں اور آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔

اور میرے پر جو میری قوم طرح طرح کے اعتراض پیش کرتی ہے مجھے ان کے اعتراضوں کی کچھ بھی پروا نہیں اور سخت بے ایمانی ہوگی اگر مَیں ان سے ڈر کر سچائی کی راہ کو چھوڑ دوں۔ اور خود اُن کو سوچنا چاہئے کہ ایک شخص کو خدا نے اپنی طرف سے بصیرت عنایت فرمائی ہے اور آپ اُس کو راہ دکھلا دی ہے اور اُس کو اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرمایا ہے اور ہزارہا نشان اس کی تصدیق کیلئے دکھلائے ہیں کیونکر ایک مخالف کی ظنیات کو کچھ چیز سمجھ کر اُس آفتاب صداقت سے مُنہ پھیر سکتا ہے۔ اور مجھے اس بات کی بھی پروا نہیں کہ اندرونی اور بیرونی مخالف میری عیب جوئی میں مشغول ہیں کیونکہ اس سے بھی میری کرامت ہی ثابت ہوتی ہے وجہ یہ کہ اگر مَیں ہر قسم کا عیب اپنے اندر رکھتا ہوں اور بقول ان کے مَیں عہد شکن اور کذّاب اور دجّال اور مفتری اور خائن ہوں اور حرام خورہوں اور قوم میں پھوٹ ڈالنے والا اور فتنہ انگیز ہوں اور فاسق اور فاجر ہوں اور خدا پر قریباً تیس ۳۰برس سے افترا کرنے والا ہوں اور نیکوں اور استبازوں کو گالیاں دینے والا ہوں اور میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے اور کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے مَیں نے یہ ایک دوکان بنائی ہے اور نعوذباللہ بقول اُن کے میرا خدا پر بھی ایمان نہیں اور دنیا کا کوئی عیب نہیں جو مجھ میں نہیں مگر باوجود اِن باتوں کے جو تمام دنیا کے عیب مجھ میں موجود ہیں اور ہر ایک قسم کا ظلم میرے نفس میں بھرا ہوا ہے اور بہتوں کے میں نے بیجا طور پر مال کھالئے اور بہتوں کو میں نے( جو فرشتوں کی طرح پاک تھے) گالیاں دی ہیں اور ہر ایک بدی اور ٹھگ بازی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تو پھر اس میں کیا بھید ہے کہ بد اور بدکار اور خائن اور کذّاب تو مَیں تھا مگر میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا جس نے میرے پر بد دعا کی وہ بد دعا اُسی پر پڑی۔ جس نے میرے پر کوئی مقدمہ عدالت میں دائر کیا اُسی نے شکست کھائی۔ چنانچہ بطور نمونہ اسی کتاب میں ان باتوں کا ثبوت مشاہدہ کر و گے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے مقابلہ کے وقت میں ہی ہلاک ہوتا میرے پر ہی بجلی پڑتی بلکہ کسی کے مقابل پر کھڑے ہونے کی بھی ضروت نہ تھی کیونکہ مجرم کا خود خدا دشمن ہے۔ پس برائے خدا سوچو کہ یہ اُلٹا اثر کیوں ظاہر ہوا کیوں میرے مقابل پر نیک مارے گئے اور ہر ایک مقابلہ میں خدا نے مجھے بچا یا کیا اس سے میری کرامت ثابت نہیں ہوتی؟ پس یہ شکر کا مقام ہے کہ جو بدیاں میری طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ بھی میری کرامت ہی ثابت کرتی ہیں۔

راقم میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود ۔قادیانی


* عیسائیوں کے ذکر کی اس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ اُن کا خدا مثل اُن کی دوسری کلوں اور مشینوں کے خود اپنا ایجاد کردہ ہے جس کا صحیفہ فطرت میں کچھ پتہ نہیں ملتا اور نہ اُس کی طرف سے انا الموجود کی آواز آتی ہے اور نہ اس نے کوئی خدائی کام دکھلائے جو دوسرے نبی دکھلا نہ سکے اور اُس کی قربانی کے اثر سے ایک مرغ کی قربانی کا اثر زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کے گوشت کی یخنی سے فی الفور ایک کمزور ناتوان قوت پکڑ سکتا ہے۔ پس افسوس ہے ایسی قربانی پر جو ایک مرغ کی قربانی سے تاثیر میں کم تر ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی خَیْرِ رُسُلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ

وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔

بعد ھٰذا واضح ہو کہ مجھے اس رسالہ کے لکھنے کے لئے یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ اس زمانہ میں جس طرح اور صدہا طرح کے فتنے اور بدعتیں پیدا ہو گئی ہیں اسی طرح یہ بھی ایک بزرگ فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ اکثر لوگ اِس بات سے بے خبر ہیں کہ کس درجہ اور کس حالت میں کوئی خواب یا الہام قابل اعتبار ہو سکتا ہے اور کن حالتوں میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ شیطان کا کلام ہو نہ خدا کا۔ اور حدیث النفس ہو نہ حدیث الربّ۔* یادرکھنا چاہئے کہ شیطان انسان کا سخت دشمن ہے وہ طرح طرح کی راہوں سے انسان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک خواب سچی بھی ہو اَور پھر بھی وہ شیطان کی طرف سے ہو اورممکن ہے کہ ایک الہام سچا ہو اور پھر بھی وہ شیطان کی طرف سے ہو کیونکہ اگرچہ شیطان بڑا جھوٹا ہے لیکن کبھی سچی بات بتلا کر دھوکا دیتا ہے تا ایمان چھین لے ہاں وہ لوگ جو اپنے صدق اور وفا اور عشق الٰہی میں کمال


* جس طرح جب ایک تو آفتاب پر بادل محیط ہو اور دوسرے ساتھ اُس کے گرد و غبار بھی اُٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں آفتاب کی روشنی صاف طور سے زمین پر نہیں پڑ سکتی اسی طرح جب نفس پر اپنی ذاتی تاریکی اور شیطان کا غلبہ ہو تو روحانی آفتاب کی روشنی صاف طور پر سے اُس پر نہیں پڑے گی۔ اور جیسے جیسے وہ گرد و غبار اور ابر کم ہوتا جائے گا روشنی بھی صاف ہوتی جائے گی۔ پس یہی فلاسفی وحی الٰہی کی ہے۔ مصفّا وحی وہی لوگ پاتے ہیں جن کے دل صاف ہیں اور جن میں اور خدا میں کوئی روک نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ وہ الہام جس کے شامل حال نصرت الٰہی ہو اور اکرام اور اعزاز کی اُس میں صریح علامتیں پائی جائیں اور قبولیت کے آثار اُس میں نمودار ہوں وہ بغیر مقبولانِ الٰہی کے کسی کو نہیں ہو سکتا اور شیطان کے اقتدار سے یہ باہر ہے کہ کسی جھوٹے مدعی کی تائید اور حمایت میں کوئی قدرت نمائی کا الہام اُس کو کرے اور اُس کو عزّت دینے کے لئے کوئی خارق عادت اور مصفّاغیب اُس پر ظاہر کرے تا اُس کے دعوے پر گواہ ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 4

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/4/mode/1up


کے درجہ پر پہنچ جاتے ہیں اُن پر شیطان تسلّط نہیں پا سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33 ۱؂۔ سو اُن کی یہ نشانی ہے کہ خدا کے فضل کی بارشیں اُن پر ہوتی ہیں اور خدا کی قبولیت کی ہزاروں علامتیں اور نمونے اُن میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہم اس رسالہ میں انشاء اللہ ذکر کریں گے۔ لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ ابھی شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہیں مگر پھر بھی اپنی خوابوں اور الہاموں پر بھروسہ کرکے اپنے ناراست اعتقادوں اور ناپاک مذہبوں کو اُن خوابوں اور الہاموں سے فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ بطور شہادت ایسی خوابوں اور الہاموں کو پیش کرتے ہیں اور یا یہ نیت رکھتے ہیں کہ ایسی خوابوں اور الہاموں کو پیش کرکے سچے مذہب کی اُن سے تحقیر کریں یا لوؔ گوں کی نظر میں خدا کے پاک نبیوں کو معمولی انسانوں کی طرح دکھاویں اور یا یہ دکھاویں کہ اگر خوابوں اور الہاموں کے ذریعہ سے کسی مذہب کی سچائی ثابت ہو سکتی ہے تو پھر ہمارے مذہب اور طریق کو سچا مان لیا جائے۔ اور بعض ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنی خوابوں اور الہاموں کو اپنے مذہب کی سچائی کیلئے پیش نہیں کرتے۔ اور اُن کا ایسی خوابوں اور الہاموں کے بیان کرنے سے صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ خواب اور الہام کسی سچے مذہب یا سچے انسان کی شناخت کے لئے معیار نہیں ہیں اور بعض محض فضولی اور فخر کے طور پر اپنی خوابیں سناتے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں کہ چند خوابیں یا الہام اُن کے جو اُن کے نزدیک سچے ہو گئے ہیں ان کی بنا پر وہ اپنے تئیں اماموں یا پیشواؤں یا رسولوں کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ خرابیاں ہیں جو اس مُلک میں بہت بڑھ گئی ہیں اور ایسے لوگوں میں بجائے دینداری اورر استبازی کے بیجا تکبّر اور غرور پیدا ہو گیا ہے۔ اِس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ رسالہ لکھوں کیونکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ بعض کم فہم لوگ ایسے لوگوں کی وجہ سے ابتلا میں پڑتے ہیں خصوصًا جب وہ دیکھتے ہیں کہ مثلاً زید اپنی خواب اور الہام پر بھروسہ کرکے بکر کو جو اس کے مقابل پر ایک دوسرا ملہم ہے کافر ٹھہراتا ہے اور خالد جو ایک تیسرا ملہم ہے دونوں پر کُفر کا فتویٰ لگاتا ہے اور عجب تر یہ کہ تینوں اپنی خوابوں اور الہاموں کے سچا ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اپنی بعض پیشگوئیوں کی نسبت یہ شہادتیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 5

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/5/mode/1up


بھی پیش کرتے ہیں کہ وہ سچی بھی ہو گئیں تو ایسے تناقض اور باہمی تکذیب اور انکار کو دیکھ کر وہ لوگ سخت ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ جب خدا ایک ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ زید کو ایک الہام کرے اور پھر بکر کو اُس کے مخالف کہے اور پھر خالد کو کچھ اور ہی سُنادے۔ اِس سے تو نادانوں کو خدا کے وجود میں ہی شک پڑتا ہے۔ غرض یہ امور عام لوگوں کے لئے گھبراہٹ کی جگہ ہیں اور اُن کی نظر میں سلسلۂ نبوت اِس سے مشتبہ ہو جاتا ہے اور اس مقام میں عام لوگوں کو حیرت میں ڈالنے والا ایک اور امر بھی ہے اور وہ یہ کہ بعض فاسق اور فاجر اور زانی اور ظالم اور غیر متدیّن اور چور اور حرام خور اور خدا کے احکام کے مخالف چلنے والے بھی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ اُن کو بھی کبھی کبھی سچی خوابیں آتی ہیںؔ ۔ اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض عورتیں جو قوم کی چوہڑی یعنی بھنگن تھیں جن کا پیشہ مردا رکھانا اور ارتکاب جرائم کام تھا انہوں نے ہمارے رُوبرو بعض خوابیں بیان کیں اور وہ سچی نکلیں۔ اِس سے بھی عجیب تر یہ کہ بعض زانیہ عورتیں اور قوم کے کنجر جن کا دِن رات زنا کاری کام تھا اُن کو دیکھا گیا کہ بعض خوابیں انہوں نے بیان کیں اور وہ پوری ہو گئیں۔ اور بعض ایسے ہندوؤں کو بھی دیکھا کہ جو نجاستِ شرک سے ملوّث اور اسلام کے سخت دشمن ہیں بعض خوابیں اُن کی جیسا کہ دیکھا تھا ظہور میں آ گئیں۔چنانچہ عین اس رسالہ کی تحریر کے وقت ایک قادیان کا ہندو میرے پاس آیا جو قوم کا کھتری تھا اُس نے بیان کیا کہ فلاں سب پوسٹ ماسٹر کو مَیں نے دیکھا تھا کہ تبدیلی اُس کی ہوکر پھر ملتوی رہ گئی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اُس ہندو نے مختلف وقتوں میں میرے پاس بیان کیا کہ کئی اور خوابیں بھی میری سچی ہو گئی ہیں مجھے معلوم نہیں کہ ایسے بیانات سے اُس کی کیا غرض تھی اور کیوں وہ بار بار اپنی خوابیں مجھے سناتا تھا کیونکہ وید کی رُو سے تو خوابوں اور الہاموں پر مُہر لگ گئی ہے ایسا ہی ایک بڑا بد ذات چور اور زانی بھی جو ہندو تھا اور قید میں ڈالا گیا تھا جیل سے رہائی پاکر کسی اتفاق سے مجھے ملا اور مجھے یاد ہے کہ کسی جُرم سرقہ وغیرہ میں اُس کو کئی سال کی قید ہوئی تھی۔ اُس کا بیان ہے کہ جس صبح کو عدالت سے قید کی سزا کا حکم مجھے دیا جانا تھا جس حکم کی بظاہر کچھ بھی اُمید نہ تھی رات کو خواب میں میرے پر ظاہر کیا گیا کہ مَیں قید کیا جاؤں گا سو ایسا ہی ظہور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 6

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/6/mode/1up


میں آیا اور اُسی دن مَیں جیل خانہ میں داخل کیا گیا۔ اِسی طرح امریکہ میں ایک شخص اِن دنوں میں موجود ہے جس کا نام ڈوئی ہے اور اُس کا ایک اخبار بھی نکلتا ہے اور وہ حضرت عیسٰیؑ کو خدا سمجھتا ہے اور الیاسؑ نبی کا اوتار اپنے تئیں خیال کرتا ہے اور ملہم یعنی الہامی ہونے کا مدعی ہے اور اپنی خوابیں اور الہام لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اِس دعوے سے کہ سچے نکلے ہیں۔ اور اعتقاد اُس کا جیسا کہ مَیں نے بیان کیا یہ ہے کہ وہ ایک عاجز انسان کو ربّ العالمین سمجھتا ہے اوراُس کے چال چلن کی نسبت یہ کہنا کافی ہے کہ اُس کی ماں ایک زانیہ عورت تھی اور اُس کو خود اقرار ہے کہ وہ ولد الزنا ہے اور قوم کا موچی ہے اور ایک بھائی اُس کا آسٹریلیا میں موچی کا کام کرتا ہے اور ؔ یہ باتیں صرف دعویٰ نہیں بلکہ وہ تمام اخبارات اور چٹھیات ہمارے پاس موجود ہیں جن سے اُس کی یہ خاندانی حالت ثابت ہوتی ہے۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ جبکہ ایسی خوابیں اور ایسے الہام مختلف قسم کے لوگوں کو ہوتے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھی سچے بھی ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے آدمی اس مُلک میں پچاس سے بھی زیادہ ہیں جو الہام اور وحی کے مُدعی ہیں اور ان لوگوں کا ایسا وسیع دائرہ ہے کہ کوئی شرط سچے مذہب اور نیک چلنی کی بھی نہیں تو اس صورت میں کوئی ایسا عقلمند نہ ہوگا کہ اس عقدہ کو حل کرنے کیلئے اپنے دل میں ضرورت محسوس نہ کرے کہ مابہ الامتیاز کیونکر قائم ہو بالخصوص جبکہ اِس بات کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ باوجود اختلاف مذہب اور عقیدہ کے ہر ایک فرقہ کے لوگوں کو خوابیں اور الہام ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنی خوابوں اور الہاموں کے ذریعہ سے جھوٹا بھی قرار دیتے ہیں اور بعض خوابیں ہر ایک فرقہ کی سچی بھی ہو جاتی ہیں تو اِس صورت میں ظاہر ہے کہ حق کے طالبوں کی راہ میں یہ ایک خطرناک پتھر ہے اور خاص کر ایسے لوگوں کیلئے یہ ایک زہر قاتل ہے جو خود مدعی الہام ہیں اور اپنے تئیں منجانب اللہ ملہم خیال کرتے ہیں اور در اصل خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں اور وہ اس دھوکے سے جو کوئی خواب اُن کی سچی ہو جاتی ہے اپنے تئیں کچھ چیز سمجھتے ہیں اور اِس طرح پر وہ سچائی کی طلب کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ سچائی کو تحقیر اور توہین کی نظر سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 7

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/7/mode/1up


دیکھتے ہیں۔ پس یہی وہ امر ہے جس نے مجھے اِس بات پر آمادہ کیا کہ میں اِس فرق کو حق کے طالبوں پر ظاہر کروں۔ سو مَیں اِس کتاب کو چار ۴ باب پر منقسم کرتا ہوں۔ باب اوّ۱ل اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض سچی خوابیں آتی ہیں یا بعض سچے الہام ہوتے ہیں لیکن اُن کو خدا تعالیٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ باب دوم۲ اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض اوقات سچی خوابیں آتی ہیں یا سچے الہام ہوتے ہیں اور اُن کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق تو ہے لیکن بڑا تعلق نہیں۔ باب سوم۳ اُن لوگوں کے بیان میں جو خدا تعالیٰ سے اکمل اور اصفٰی طور پر وحی پاتے ہیں اور کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ ان کو حاصل ہے اور خوابیں بھی اُن کو فلق الصبح کی طرح سچی آتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے اکمل اور اتم اور اصفٰی تعلق رکھتےؔ ہیں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے پسندیدہ نبیوں اور رسولوں کا تعلق ہوتا ہے۔ باب چہارم۴ اپنے حالات کے بیان میں یعنی اِس بیان میں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے مجھے اِن اقسام ثلاثہ میں سے کِس قسم میں داخل فرمایا ہے۔ اَب ہم اس مضمون کو ذیل کے ہر چہار باب میں لکھتے ہیں۔ وما توفیقی الّا باللّٰہ۔ ربّنا اھدنا صراطک المستقیم، وھب لنا من عندک فہم الدین القویم۔ وَعلّمنا من لدنک علمًا (آمین)

باب اوّل

اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض سچی خوابیں آتی ہیں یا بعض سچے الہام ہوتے ہیں لیکن اُن کو خدا تعالیٰ سے کچھ بھی تعلق نہیں اور اُس روشنی سے اُن کو ایک ذرّہ حصّہ نہیں ملتا جو اہل تعلق پاتے ہیں اور نفسانی قالب اُن کا تعلق نور سے ہزارہا کوس دور ہوتا ہے

واضح ہو کہ چونکہ انسان اس مطلب کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو شناخت کرے اور اُس کی ذات اور صفات پر ایمان لانے کیلئے یقین کے درجہ تک پہنچ سکے اِس لئے خدا تعالیٰ نے انسانی دماغ کی بناوٹ کچھ ایسی رکھی ہے کہ ایک طرف تو معقولی طور پر ایسی قوتیں اس کو عطا کی گئی ہیں جن کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 8

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/8/mode/1up


ذریعہ سے انسان مصنوعات باری تعالیٰ پر نظر کرکے اور ذرّہ ذرّہ عالم میں جوجو حکمت کاملہ حضرت باری عزّاسمہٗ کے نقوش لطیفہ موجود ہیں اور جو کچھ ترکیب ابلغ اور محکم نظامِ عالم میں پائی جاتی ہے۔ اُس کی تہ تک پہنچ کر پوری بصیرت سے اِس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ زمین و آسمان کا بغیر صانع کے خود بخود موجود نہیں ہو سکتا بلکہ ضرور ہے کہ اس کا کوئی صانع ہو اور پھر دوسری طرف روحانی حواس اور روحانی قوتیں بھی اس کو عطا کی گئی ہیں تا وہ قصور اور کمی جو خدا تعالیٰ کی معرفت میں معقولی قوتوں سے رہ جاتی ہے روحانی قوتیں اس کو پورا کر دیں۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ محض معقولی قوتوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی شناخت کامل طور پر نہیں ہو سکتی وجہ یہ کہ معقولی قوتیں جوؔ انسان کو دی گئی ہیں اُن کا تو صرف اس حد تک کام ہے کہ زمین و آسمان کے فرد فرد یا ان کی ترتیب محکم اور ابلغ پر نظر کرکے یہ حکم دیں کہ اس عالم جامع الحقائق اور پُر حکمت کا کوئی صانع ہونا چاہئے۔ یہ تو اُن کا کام نہیں ہے کہ یہ حکم بھی دیں کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ بغیر اِس کے کہ انسان کی معرفت اس حد تک پہنچ جائے کہ درحقیقت وہ صانع موجود ہے۔ صرف ضرورتِ صانع کو محسوس کرنا کامل معرفت نہیں کہلا سکتی کیونکہ یہ قول کہ ان مصنوعات کا کوئی صانع ہونا چاہئے اس قول سے ہر گز برابر نہیں ہو سکتا کہ وہ صانع جس کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے فی الحقیقت موجود بھی ہے۔ لہٰذا حق کے طالبوں کو اپنا سلوک تمام کرنے کیلئے اور اُس فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کیلئے جو معرفت کاملہ کیلئے ان کی طبائع میں مرکوز ہے اِس بات کی ضرورت ہوئی کہ علاوہ معقولی قوتوں کے روحانی قویٰ بھی اُن کو عطا ہوں تا اگر ان روحانی قوتوں سے پورے طور پر کام لیا جائے اور درمیان میں کوئی حجاب نہ ہو تو وہ اُس محبوب حقیقی کا چہرہ ایسے صاف طور پر دکھلا سکیں جس طور سے صرف عقلی قوتیں اس چہرہ کو دکھلا نہیں سکتیں۔ پس وہ خدا جو کریم و رحیم ہے جیسا کہ اُس نے انسانی فطرت کو اپنی کامل معرفت کی بھوک اور پیاس لگا دی ہے ایسا ہی اُس نے اس معرفت کاملہ تک پہنچانے کے لئے انسانی فطرت کو دو۲ قسم کے قویٰ عنایت فرمائے ہیں ایک معقولی قوتیں جن کا منبع دماغ ہے اور ایک روحانی قوتیں جن کا منبع دل ہے اور جن کی صفائی دل کی صفائی پر موقوف ہے اور جن باتوں کو معقولی قوتیں کامل طور پر دریافت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 9

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/9/mode/1up


نہیں کر سکتیں روحانی قوتیں اُن کی حقیقت تک پہنچ جاتی ہیں اور روحانی قوتیں صرف انفعالی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں یعنی ایسی صفائی پیدا کرنا کہ مبدء فیض کے فیوض اُن میں منعکس ہو سکیں سو اُن کیلئے یہ لازمی شرط ہے کہ حصولِ فیض کے لئے مستعد ہوں اور حجاب اور روک درمیان نہ ہو، تا خدا تعالیٰ سے معرفت کاملہ کا فیض پاسکیں اور صرف اس حد تک ان کی شناخت محدود نہ ہو کہ اس عالم پُر حکمت کا کوئی صانع ہونا چاہئے بلکہ اس صانع سے شرف مکالمہ مخاطبہ کامل طور پر پاکر اور بلا واسطہ اُس کے بزرگ نشان دیکھ کر اُس کا چہرہ دیکھ لیں اور یقین کی آنکھ سے مشاہدہ کر لیں کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود ہے۔ لیکن چونکہ اکثر انسانی فطرتیں حجاب سے خالی نہیں اور دنیا کی محبت اورؔ دنیا کے لالچ اور تکبر اور نخوت اورُ عجب اور ریاکاری اور نفس پرستی اور دوسرے اخلاقی رذائل اور حقوق اللہ اور حقوق عباد کی بجا آوری میں عمدًا قصور اور تساہل اور شرائط صدق وثبات اور دقائق محبت اور وفا سے عمدًا انحراف اور خدا تعالیٰ سے عمدًا قطع تعلق اکثر طبائع میں پایا جاتا ہے اس لئے وہ طبیعتیں بباعث طرح طرح کے حجابوں اور پردوں اور روکوں کے اور نفسانی خواہشوں اور شہوات کے اِس لائق نہیں کہ قابل قدر فیضان مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا اُن پر نازل ہو جس میں قبولیت کے انوار کا کوئی حصّہ ہو۔* ہاں عنایتِ ازلی نے جو انسانی فطرت کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تخم ریزی کے طور پر اکثر انسانی افراد میں یہ عادت اپنی جاری کر رکھی ہے کہ کبھی کبھی سچی خوابیں یا سچے الہام ہو جاتے ہیں تا وہ معلوم کر سکیں کہ اُن کیلئے آگے قدم رکھنے کیلئے ایک راہ کھلی ہے۔ لیکن اُن کی خوابوں اور الہاموں


* یاد رہے کہ جسمانی خواہشیں اور شہوات انبیاءؑ اور رسل میں بھی ہوتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ وہ پاک لوگ پہلے خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے تمام خواہشوں اور جذبات نفسانیہ سے الگ ہو جاتے ہیں اور اپنے نفس کو خدا کے آگے ذبح کر دیتے ہیں اور پھر جو خدا کیلئے کھوتے ہیں فضل کے طور پر ان کو واپس دیا جاتا ہے اور سب کچھ اُن پر وارد ہوتا ہے اور وہ درماندہ نہیں ہوتے مگر جو لوگ خدا تعالیٰ کیلئے اپنا نفس ذبح نہیں کرتے اُن کے شہوات اُن کیلئے بطور پردہ کے ہو جاتے ہیں آخر نجاست کے کیڑے کی طرح گند میں مرتے ہیں پس ان کی اور خدا کے پاک لوگوں کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک ہی جیل خانہ میں داروغہ جیل بھی رہتا ہے اور قیدی بھی رہتے ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ داروغہ اُن قیدیوں کی طرح ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 10

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/10/mode/1up


میں خدا کی قبولیت اور محبت اور فضل کے کچھ آثار نہیں ہوتے اور نہ ایسے لوگ نفسانی نجاستوں سے پاک ہوتے ہیں اور خوابیں محض اس لئے آتی ہیں کہ تا اُن پر خدا کے پاک نبیوں پر ایمان لانے کے لئے ایک حجت ہو کیونکہ اگر وہ سچی خوابوں اور سچے الہامات کی حقیقت سمجھنے سے قطعاً محروم ہوں اور اس بارے میں کوئی ایسا علم جس کو علم الیقین کہنا چاہئے ان کو حاصل نہ ہو تو خدا تعالیٰ کے سامنے اُن کا عذر ہو سکتا ہے کہ وہ نبوت کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے تھے کیونکہ اِس کوچہ سے بکلی نا آشنا تھے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کی حقیقت سے ہم محض بے خبر تھے اور اس کے سمجھنے کے لئے ہماری فطرؔ ت کو کوئی نمونہ نہیں دیا گیا تھا۔ پس ہم اس مخفی حقیقت کو کیونکر سمجھ سکتے اس لئے سنّت اللہ قدیم سے اور جب سے دنیا کی بناڈالی گئی اس طرح پر جاری ہے کہ نمونہ کے طور پر عام لوگوں کو قطع نظر اس سے کہ وہ نیک ہوں یا بد ہوں اور صالح ہوں یا فاسق ہوں اور مذہب میں سچے ہوں یا جھوٹا مذہب رکھتے ہوں کسی قدر سچی خوابیں دکھلائی جاتی ہیں یا سچے الہام بھی دئیے جاتے ہیں تا اُن کا قیاس اور گمان جو محض نقل اور سماع سے حاصل ہے علم الیقین تک پہنچ جائے* اور تا روحانی ترقی کیلئے اُن کے ہاتھ میں کوئی نمونہ ہو۔ اور حکیم مطلق نے اس مُدعا کے پورا کرنے کیلئے انسانی دماغ کی بناوٹ ہی ایسی رکھی ہے اور ایسے روحانی قویٰ اسکو دئیے ہیں کہ وہ بعض سچی خوابیں دیکھ سکتا ہے اور بعض سچے الہام پا سکتا ہے۔ مگر وہ سچی خوابیں اور سچے الہام کسی وجاہت اور بزرگی پر دلالت نہیں کرتے بلکہ وہ محض نمونہ کے طور پر ترقی کیلئے ایک راہیں ہوتی ہیں۔ اور اگر ایسی خوابوں اور ایسے الہاموں کو کسی بات پر کچھ دلالت ہے تو صرف اِس بات پر کہ ایسے انسان کی فطرت صحیح ہے بشرطیکہ جذبات نفسانیہ کی وجہ سے انجام بدنہ ہو اور ایسی فطرت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر درمیان میں روکیں اور حجاب پیش نہ آجائیں تو وہ ترقی کر سکتا ہے جیسے مثلاً ایک زمین ہے جس کی نسبت بعض علامات سے ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ


* علم تین۳ قسم پر ہوتا ہے (۱) ایک علم الیقین جیسا کہ کوئی دور سے دھواں دیکھ کر یہ قیاس کرے کہ اس جگہ ضرور آگ ہوگی (۲) دوسرا عین الیقین جیسا کہ کوئی اُس آگ کو اپنی آنکھ سے دیکھ لے (۳) تیسرا حق الیقین جیسا کہ کوئی اُس آگ میں ہاتھ ڈال کر اُس کی گرمی محسوس کرلے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 11

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/11/mode/1up


اس کے نیچے پانی ہے مگر وہ پانی زمین کی کئی تہوں کے نیچے دبا ہوا ہے اور کئی قسم کا کیچڑ اس کے ساتھ ملا ہوا ہے اور جب تک ایک پوری مشقت سے کام نہ لیا جائے اور زمین کو بہت دنوں تک کھودا نہ جائے تب تک وہ پانی جو شفاف اور شیریں اور قابل استعمال ہے نکل نہیں سکتا پس یہ کمال شقوت اور نادانی اور بد بختی ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ انسانی کمال بس اسی پر ختم ہے کہ کسی کو کوئی سچی خواب آجائے یا سچا الہام ہو جائے بلکہ انسانی کمال کے لئے اور بہت سے لوازم اور شرائط ہیں اور جب تک وہ متحقق نہ ہوں تب تک یہ خوابیں اور الہام بھی مکر اللہ میں داخل ہیں خدا اُن کے شرّ سے ہر اؔ یک سالک کو محفوظ رکھے۔

اِس جگہ پر الہام کے فریفتہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وحی د۲و قسم کی ہے۔ وحی الابتلا اور وحی الاصطفاء، وحی الابتلا بعض اوقات موجبِ ہلاکت ہو جاتی ہے جیسا کہ بلعم اسی وجہ سے ہلاک ہوا۔ مگر صاحبِ وحی الاصطفاء کبھی ہلاک نہیں ہوتا۔ اور وحی الابتلا بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی بلکہ بعض انسانی طبیعتیں ایسی بھی ہیں کہ جیسے جسمانی طور پر بہت سے لوگ گونگے اور بہرے اور اندھے پیدا ہوتے ہیں ایسا ہی بعض کی روحانی قوتیں کالعدم ہوتی ہیں۔ اور جیسے اندھے دوسروں کی رہنمائی سے اپنا گذارہ کر سکتے ہیں ایسا ہی یہ لوگ بھی کرتے ہیں لیکن بوجہ عام شہادت کے جو بداہت کا حکم رکھتی ہے اُن کو اِن واقعات حقّہ سے انکار نہیں ہو سکتا اور نہیں کہہ سکتے کہ دوسرے تمام لوگ بھی اُن کی طرح اندھے ہی ہیں جیسا کہ ہر روز مشاہدہ میں آتا ہے کہ کوئی اندھا اس بات پر جھگڑا نہیں کر سکتا کہ سوجا کھا ہونے کا دعویٰ کرنے والے جھوٹے ہیں اور نہ اس سے انکار کر سکتا ہے کہ بجز اس کے ہزاروں آدمیوں کی آنکھیں موجود ہیں کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے کام لیتے ہیں اور وہ کام کر سکتے ہیں جو اندھا نہیں کر سکتا ہاں اگر ایسا زمانہ آتا جس میں سب لوگ اندھے ہی اندھے ہوتے اور ایک بھی سو جا کھانہ ہوتا۔ تب اِس بحث کے پیدا ہونے کے وقت کہ گذشتہ زمانوں میں سے کوئی ایسا زمانہ بھی تھا کہ اس میں سوجاکھے ہی پیدا ہوتے تھے اندھوں کو انکار اور لڑائی اور جھگڑے کی بہت گنجائش تھی بلکہ میرے خیال میں ہے کہ انجامِ کار اِس بحث میں اندھوں کی ہی فتح ہوتی کیونکہ جو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 12

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/12/mode/1up


شخص صرف گذشتہ زمانہ کا ہی حوالہ دیتا ہے اور جن انسانی طاقتوں اور کمالات کا اس کو دعویٰ ہے وہ کسی انسان میں دکھلا نہیں سکتا اور کہتا ہے کہ وہ قوتیں اور طاقتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں ایسا شخص تو تحقیق کی رُو سے آخر کار جھوٹا ہی ٹھہرتا ہے کیونکہ جس حالت میں فیاض مطلق نے جو کچھ انسانی فطرت کے جسمانی حصہ کو قوتیں عطا کی تھیں جیسے قوت باصرہ، سامعہ، شامّہ، لامسہ، حافظہ، متفکّرہ وغیرہ۔ وہ اب تک انسانوں میں پائی جاتی ہیں تو پھر کیونکر خیال کیا جائے کہ جو روحانی قوتیں انسانوں میں پہلے زمانوں میں تھیں اس زمانہ میں وہ تمام قوتیں اُن کی فطرت سے مفقوؔ د ہو گئی ہیں حالانکہ وہ قوتیں جسمانی قوتوں کی نسبت تکمیل نفس انسان کے لئے زیادہ ترضروری ہیں اور کیونکر انکار ہو سکتا ہے کہ جس حالت میں کہ مشاہدہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ مفقود نہیں ہوئیں۔ اِس سے ظاہر ہے کہ کس قدر وہ مذہب سچائی سے دور ہیں کہ یہ تو اُن کو اقرار ہے کہ انسانی فطرت کی جسمانی اور معقولی قوتیں اب بھی ایسی ہی ہیں جیسا کہ پہلے تھیں مگر اس سے وہ منکر ہیں کہ انسانوں میں روحانی قوتیں اب بھی ایسی ہی پائی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے تھیں۔

اِس تمام تقریر سے ہمارا مدعایہ ہے کہ کسی شخص کا محض سچی خوابوں کا دیکھنا یا بعض سچے الہامات کا مشاہدہ کرنا یہ امر اس کے کسی کمال پر دلیل نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ دوسرے علامات نہ ہوں جو ہم انشاء اللہ القدیر تیسرے باب میں بیان کریں گے بلکہ یہ صرف دماغی بناوٹ کا ایک نتیجہ ہے اسی وجہ سے اس میں نیک یا راست باز ہونے کی شرط نہیں اور نہ مومن اور مسلمان ہونا اس کے لئے ضروری ہے اور جس طرح محض دماغی بناوٹ کی و جہ سے بعض کو سچی خوابیں آجاتی ہیں یا الہام کے رنگ میں کچھ معلوم ہو جاتا ہے اِسی طرح دماغی بناوٹ کی وجہ سے بعض کی طبیعت معارف اور حقائق سے مناسبت رکھتی ہے اور لطیف لطیف باتیں ان کو سوجھتی ہیں لیکن دراصل وہ لوگ اس حدیث صحیح کا مصداق ہوتے ہیں کہ اٰمن شعرہ وکفر قلبہ یعنی اس کا شعر ایمان لایا مگر اُس کا دل کافر ہے۔ اِسی لئے صادق کو شناخت کرنا ہر ایک سادہ لوح کا کام نہیں

نہیں ؂ اے بساابلیس آدم روئے ہست۔ پس بہر دستے نبایدد اددست۔ اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اِس درجہ کے لوگوں کو جو خوابیں یا الہامات ہوتے ہیں وہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/13/mode/1up


بہت سی تاریکی کے اندر ہوتے ہیں اور ایک شاذو نادر کے طور پر سچائی کی چمک اُن میں ہوتی ہے اور خدا کی محبت اور قبولیت کا کوئی ان کے ساتھ نشان نہیں ہوتا اور اگر غیب کی بات ہو تو صرف ایسی ہوتی ہے جس میں کروڑہا انسان شریک ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک شخص اگر چاہے تو بطور خود تحقیقات کر سکتا ہے کہ ایسی خوابوں اور الہامات میں ہر ایک فاسق و فاجر اور کافر اور ملحد یہاں تک کہ زانیہ عورتیں بھی شریک ہوتی ہیں۔ پس وہ شخص عقلمند نہیں ہے کہ جو اِس قسم کی خوابوں اور الہاموں پر خوش اور فریفتہ ہو جائے اور سخت دھوکہ میں پڑا ہوا وہ شخص ہے کہ جو فقط اِس درجہ کی خوابوں اور الہاموں کا نمونہ اپنے اندر پاکر اپنے تئیں کچھ چیز سمجھ بیٹھے بلکہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس درجہ کا انسان فقط اُس انسان کی طرح ہے کہ جو ایک اندھیری رات میں دور سے ایک آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر اس آگ کی روشنی کو نہیں دیکھ سکتا اورؔ نہ اس کی گرمی سے اپنی سردی اور افسردگی دور کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاص برکتوں اور نعمتوں سے ایسے لوگوں کو کوئی حصّہ نہیں ملتا اور نہ کوئی قبولیت اُن میں پَیدا ہوتی ہے اور نہ کوئی ایک ذرّہ خدا سے تعلق ہوتا ہے اور نہ شعلۂ نُور سے بشریت کی آلائشیں جلتی ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ سے ان کو سچی دوستی پیدا نہیں ہوتی اِس لئے بباعث نہ ہونے قُربتِ رحمانی کے شیطان ان کے ساتھ رہتا ہے اور حدیث النفس اُن پر غالب رہتی ہے اور جس طرح ہجوم بادل کی حالت میں اکثر آفتاب چھپا رہتا ہے اور کبھی کبھی کوئی کنارہ اُس کا نظر آجاتا ہے اسی طرح ان کی حالت اکثر تاریکی میں رہتی ہے اور ان کی خوابوں اور الہاموں میں شیطانی دخل بہت ہوتا ہے۔

باب دوم۲

اُن لوگوں کے بیان میں جن کو بعض اوقات سچی خوابیں آتی ہیں۔ یا سچے الہام ہوتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق بھی ہے لیکن کچھ بڑا تعلق نہیں اور نفسانی قالب اُن کا شعلۂ نور سے جل کر نیست و نابود نہیں ہوتا اگرچہ کسی قدر اُس کے نزدیک آجاتا ہے۔

دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ کسی حد تک زُہد اور عفّت کو اختیار کرتے ہیں اور علاوہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/14/mode/1up


اِس بات کے کہ اُن میں رؤیا اور کشف کے حصول کیلئے ایک فطرتی استعداد ہوتی ہے اور دماغی بناوٹ اِس قسم کی واقع ہوتی ہے کہ خواب و کشف کا کسی قدر نمونہ اُن پر ظاہر ہو جاتا ہے وہ اپنی اصلاح نفس کیلئے بھی کسی قدر کوشش کرتے ہیں اور ایک سطحی نیکی اور راستبازی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے جس کی آمد سے ایک محدود دائرہ تک رؤیا صادقہ اور کشوف صحیحہ کے انوار اُن میں پیدا ہو جاتے ہیں مگر تاریکی سے خالی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بعض دعائیں بھی منظور ہو جاتی ہیں مگر عظیم الشان کاموں میں نہیں کیونکہ اُن کی راستبازی کامل نہیں ہوتی۔ بلکہ اُس شفاف پانی کی طرح ہوتی ہے جو اوپر سے تو شفاف نظر آتا ہو مگر نیچے اُس کے گو براورگند ہو اور چونکہ ان کاتزکیۂ نفس پورا نہیںؔ ہوتا اور انکے صدق و صفا میں بہت کچھ نقصان ہوتا ہے اسلئے کسی ابتلا کے وقت وہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور اگر خدا تعالیٰ کا رحم انکے شاملِ حال ہو جائے اور اُس کی ستّاری اُن کا پردہ محفوظ رکھے تب تو بغیر کسی ٹھوکر کے دنیا سے گذر جاتے ہیں اور اگر کوئی ابتلا پیش آجاوے تو اندیشہ ہوتا ہے کہ بلعم کی طرح انکا انجام بدنہ ہو اور ملہم بننے کے بعد کُتّے سے تشبیہ نہ دئے جائیں کیونکہ ان کی علمی اور عملی اور ایمانی حالت کے نقصان کی وجہ سے شیطان اُن کے دروازے پر کھڑا رہتا ہے اور کسی ٹھوکر کھانے کے وقت فی الفور اُن کے گھر میں داخل ہو جاتا ہے وہ دور سے روشنی کو دیکھ لیتے ہیں مگر اس روشنی کے اندر داخل نہیں ہوتے اور نہ اس کی گرمی سے کافی حصّہ ان کو ملتا ہے اسلئے ان کی حالت ایک خطرہ کی حالت ہوتی ہے خدا نور ہے جیسا کہ اُس نے فرمایا 3 ۱؂ پس وہ شخص جو صرف اس نور کے لوازم کو دیکھتا ہے وہ اُس شخص کی مانند ہے جو دور سے ایک دھوا ں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اِسلئے وہ روشنی کے فوائد سے محروم ہے اور نیز اس کی گرمی سے بھی جو بشریت کی آلودگی کو جلاتی ہے۔ پس وہ لوگ جو صرف منقولی یا معقولی دلائل یا ظنّی الہامات سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل پکڑتے ہیں جیسے علماء ظاہری یا جیسے فلسفی لوگ اور یا ایسے لوگ جو صرف اپنے روحانی قویٰ سے جو استعداد کشوف اور رؤیا ہے خدا تعالیٰ کی ہستی کو مانتے ہیں مگر خدا کے قرب کی روشنی سے بے نصیب ہیں وہ اُس انسان کی مانند ہیں جو دور سے آگ کا دھواں دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی کو نہیں دیکھتا اور صرف دھوئیں پر غور کرنے سے آگ کے وجود پر یقین کر لیتا ہے ایسا شخص اس بصیرت سے محروم ہوتا ہے جو بذریعہ روشنی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن وہ شخص جو اس نور کی روشنی کو دور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/15/mode/1up


سے تو دیکھتا ہے مگر اُس نور کے اندر داخل نہیں ہوتا اُس شخص کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک شخص اندھیری رات میں آگ کی روشنی کو دیکھتا ہے اور اُس کی رہنمائی سے راہِ راست بھی پا لیتا ہے لیکن بوجہ دور ہونے کے اپنی سردی کو اُس آگ سے دور نہیں کر سکتا اور نہ آگ اُس کے نفسانی قالب کو جلا سکتی ہے۔ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایک اندھیری رات میں اور سخت سردی کے وقت دور سے آگ کی روشنی نظر آجاوے تو صرف اس روشنی کا دیکھنا ہی ہلاکت سے نہیں بچاسکتا بلکہ ہلاکت سے وہ بچے گا کہ ایسا آگ کے قریب چلا جائے کہ جو کافی طور پر اُس کی سردی کو دور کر سکے۔ لیکن جو شخص صرف دور سے اُس نور کو دیکھتا ہے اُس کی یہی نشانی ہے کہؔ اگرچہ راہِ راست کی بعض علامات اُس میں پائی جاتی ہیں لیکن خاص فضل کی کوئی علامت اُس میں پائی نہیں جاتی اور اُس کی قبض جو کمی توکّل اور نفسانی خواہشوں کی وجہ سے ہے دور نہیں ہوتی اور اُس کا نفسانی قالب جل کر خاک نہیں ہوتا کیونکہ شعلۂ نور سے بہت دور ہے اور وہ رسولوں اور نبیوں کا کامل طور پر وارث نہیں ہوتا اور اُس کی بعض اندرونی آلائشیں اس کے اندر مخفی ہوتی ہیں اور اُس کا تعلق جو خدا تعالیٰ سے ہے کدورت اور خامی سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ وہ دور سے خدا تعالیٰ کو اپنی دُھندلی نظر کے ساتھ دیکھتا ہے مگر اُس کی گود میں نہیں ہے۔ایسے آدمی جو نفسانی جذبات اُن کے اندر ہیں بعض اوقات اُن کے نفسانی جذبات ان کی خوابوں میں اپنا جوش اور طوفان دکھاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جوش اُن کا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ جوش محض نفسِ امّارہ کی طرف سے ہوتا ہے مثلاً ایک شخص خواب میں کہتا ہے کہ فلاں شخص کی مَیں ہر گز اطاعت نہیں کرونگا مَیں اُس سے بہتر ہوں تو اس سے نتیجہ نکالتا ہے کہ درحقیقت وہ بہتر ہے حالانکہ نفس کے جوش سے وہ کلام ہوتا ہے اِسی طرح نفس کے جوش سے خواب میں اور کئی قسم کے کلام کرتا ہے اور جہالت سے سمجھتا ہے کہ گویا وہ کلام خدا کی مرضی کے موافق ہے اور ہلاک ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کی طرف پوری حرکت نہیں کی اور اپنی تمام طاقت اور تمام صدق اور تمام وفاداری کے ساتھ اس کو اختیار نہیں کیا اِس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی پورے طور پرتجلئ رحمت اس پر نہیں ہوتی اور وہ اُس بچہ کی طرح ہوتا ہے جس میں جان تو پڑ گئی ہے لیکن ابھی وہ مشیمہ سے باہر نہیں آسکا اور عالم روحانی کے کامل نظارہ سے ہنوز اُس کی آنکھ بند ہے اور ہنوز اُس نے اپنی ماں کے چہرہ کو بھی نہیں دیکھا جس کے رحم میں اُس نے پرورش پائی۔ اور بقول مشہور کہ نیم مُلّا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/16/mode/1up


خطرۂ ایمان۔ وہ اپنی معرفت ناقصہ کی وجہ سے خطرہ کی حالت میں ہے ہاں ایسے لوگوں کو بھی کسی قدر کچھ معارف اور حقائق معلوم ہو جاتے ہیں مگر اُس دودھ کی طرح جس میں کچھ پیشاب بھی پڑا ہو اور اُس پانی کی طرح جس میں کچھ نجاست بھی ہو اور اس درجہ کا آدمی اگرچہ بہ نسبت درجہ اوّل کے اپنی خوابوں اور الہامات میں شیطانی دخل اور حدیث النفس سے کسی قدر محفوظ ہوتا ہے لیکن چونکہ اُس کی فطرت میں ابھی شیطان کا حصہ باقی ہے اِس لئے شیطانی القاء سے بچ نہیں سکتا۔ اور چونکہ نفس کے جذبات بھی دامنگیر ہیں اس لئے حدیث النفس سے بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ وحی اور الہام کا کمالِ صفائی، صفائی نفس پر موقوف ہے۔ جنؔ کے نفس میں ابھی کچھ گند باقی ہے اُن کی وحی اور الہام میں بھی گند باقی ہے۔

باب سو۳ م

اُن لوگوں کے بیان میں جو خدا تعالیٰ سے اکمل اور اصفٰی طور پر وحی پاتے ہیں اور کامل طور پرشرفِ مکالمہ اور مخاطبہ ان کو حاصل ہے اور خوابیں بھی اُن کو فلق الصبح کی طرح سچی آتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے اکمل اور اتم طور پر محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور محبت الٰہی کی آگ میں داخل ہو جاتے ہیں اور نفسانی قالب اُن کا شعلۂ نور سے جل کر بالکل خاک ہو جاتا ہے۔

جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جو شخص اُس کی طرف صدق اور صفا سے رجوع کرتا ہے۔وہ اُس سے بڑھ کر اپنا صدق و صفا اُس سے ظاہر کرتا ہے۔ اُس کی طرف صدق دل سے قدم اُٹھانے والا ہر گز ضائع نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ میں بڑے بڑے محبت اور وفاداری اور فیض اور احسان اور کرشمۂ خدائی دکھلانے کے اخلاق ہیں مگر وہی اُن کو پورے طور پر مشاہدہ کرتا ہے جو پورے طور پر اُس کی محبت میں محو ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ بڑا کریم و رحیم ہے مگر غنی اور بے نیاز ہے اس لئے جو شخص اُس کی راہ میں مرتا ہے وہی اُس سے زندگی پاتا ہے۔ اور جو اُس کیلئے سب کچھ کھوتا ہے اُسی کو آسمانی انعام ملتا ہے۔

خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پَیدا کرنیوالے اُس شخص سے مشابہت رکھتے ہیں جو اوّل دور سے آگ کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/17/mode/1up


روشنی دیکھے اور پھر اُس سے نزدیک ہو جائے یہاں تک کہ اُس آگ میں اپنے تئیں داخل کر دے اور تمام جسم جل جائے اور صرف آگ ہی باقی رہ جائے۔ اسی طرح کامل تعلق والا دن بدن خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ محبتِ الٰہی کی آگ میں تمام وجود اُس کا پڑجاتا ہے اور شعلۂ نور سے قالب نفسانی جل کر خاک ہو جاتا ہے اور اُس کی جگہ آگ لے لیتی ہے یہ انتہا اس مبارک محبت کا ہے جو خدا سے ہوتی ہے۔ یہ امر کہ خدا تعالیٰ سے کسی کا کامل تعلق(ہے) اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ صفات الٰہیہ اُس میں پیدا ہو جاتی ہیں اور بشریت کے رذائل شعلۂؔ نور سے جل کر ایک نئی ہستی پیدا ہوتی ہے اور ایک نئی زندگی نمودار ہوتی ہے جو پہلی زندگی سے بالکل مغائر ہوتی ہے اور جیسا کہ لوہا جب آگ میں ڈالا جائے اور آگ اس کے تمام رگ وریشہ میں پُورا غلبہ کر لے تو وہ لوہا بالکل آگ کی شکل پیدا کر لیتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ آگ ہے گو خواص آگ کے ظاہر کرتا ہے اِسی طرح جس کو شعلۂ محبت الٰہی سر سے پیر تک اپنے اندر لیتا ہے وہ بھی مظہر تجلیات الٰہیہ ہو جاتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدا ہے بلکہ ایک بندہ ہے جس کو اُس آگ نے اپنے اندر لے لیا ہے اور اُس آگ کے غلبہ کے بعد ہزاروں علامتیں کامل محبت کی پیدا ہو جاتی ہیں کوئی ایک علامت نہیں ہے تاوہ ایک زیرک اور طالبِ حق پر مشتبہ ہو سکے بلکہ وہ تعلق صدہا علامتوں کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے۔* منجملہ اُن علامات کے یہ بھی ہے کہ خدائے کریم اپنا فصیح اور لذیذکلام وقتاً فوقتاً اُس کی زبان پر جاری کرتا رہتا ہے جو الٰہی شوکت اور برکت اور غیب گوئی کی کامل طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک نُور اُس کے ساتھ ہوتا ہے جو بتلاتا ہے کہ یہ یقینی امر ہے ظنّی نہیں ہے۔ اور ایک ربّانی چمک اُس کے اندر ہوتی ہے اور کدورتوں سے پاک ہوتا ہے اور بسا اوقات اور اکثر اور اغلب طور پر وہ کلام کسی زبردست پیشگوئی پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی پیشگوئیوں کا حلقہ نہایت وسیع اور عالمگیر ہوتا ہے اور وہ پیشگوئیاں کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبار کیفیت بے نظیر ہوتی ہیں کوئی اُن کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ اور ہیبتِ الٰہی اُن میں بھری ہوئی ہوتی ہے اور قُدرتِ تامہّ کی وجہ سے خدا کا چہرہ اُن میں نظر آتا ہے اور اُس کی پیشگوئیاں نجومیوں کی طرح نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں محبوبیّت اور قبولیت کے آثار ہوتے ہیں اور ربّانی تائید اور نصرت سے بھری ہوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/18/mode/1up


ہوتی ہیں اور بعض پیشگوئیاں اُس کے اپنے نفس کے متعلق ہوتی ہیں اور بعض اپنی اولاد کے متعلق اور بعض اُس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اُس کے دُشمنوں کے متعلق اور بعض عام طور پر تمام دنیا کیلئے اور بعض اُس کی بیویوں اور خویشوں کے متعلق ہوتی ہیں اور وہ امور اُسپر ظاہر ہوتے ہیں جو دوسروں پر ظاہر نہیں ہوتے اور وہ غیب کے دروازے اُس کی پیشگوئیوں پر کھولے جاتے ہیں جو دوسروں پر نہیں کھولے جاتے خدا کا کلام اُس پر اُسی طرح نازل ہوتا ہے جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اوروہ ظن سے پاک اور یقینی ہوتا ہے۔ یہ شرف تو اس کی زبان کو دیا جاتا ہے کہ کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبار کیفیت ایسا بے مثل کلام اس کی زبان پر جاری کیا جاتا ہے کہ دنیا اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اُس کی آنکھ کو کشفی قوّت عطا کی جاتی ہے جس سے وہ ؔ مخفی درمخفی خبروں کو دیکھ لیتا ہے اور بسا اوقات لکھی ہوئی تحریریں اُس کی نظر کے سامنے پیش کی جاتی ہیں اور مُردوں سے زندوں کی طرح ملاقات کر لیتا ہے اور بسا اوقات ہزاروں کوس کی چیزیں اس کی نظر کے سامنے ایسی آجاتی ہیں گویاوہ پَیروں کے نیچے پڑی ہیں۔

ایسا ہی اُس کے کان کو بھی مغیبات کے سُننے کی قوت دی جاتی ہے اور اکثر اوقات وہ فرشتوں کی آواز کو سن لیتا ہے اور بیقراریوں کے وقت ان کی آواز سے تسلّی پاتا ہے اور عجیب تر یہ کہ بعض اوقات جمادات اور نباتات اور حیوانات کی آواز بھی اُس کو پہنچ جاتی ہے۔ ؂ فلسفی کو مُنکرحنّانہ است۔ از حواسِ انبیا بیگانہ است اِسی طرح اُس کی ناک کو بھی غیبی خوشبو سونگھنے کی ایک قوت دی جاتی ہے۔ اور بسا اوقات وہ بشارت کے اُمور کو سُونگھ لیتا ہے اور مکروہات کی بدبو اُس کو آجاتی ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس اس کے دل کو قوتِ فراست عطا کی جاتی ہے اور بہت سی باتیں اس کے دل میں پڑجاتی ہیں اور وہ صحیح ہوتی ہیں۔ علیٰ ھٰذا القیاس شیطان اُسپر تصرّف کرنے سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اُس میں شیطان کا کوئی حصہ نہیں رہتا اور بباعث نہایت درجہ فنافی اللہ ہونے کے اُس کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہوتی ہے اور اُس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور اگرچہ اُس کو خاص طور پر الہام بھی نہ ہو تب بھی جو کچھ اُس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ اُس کی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ نفسانی ہستی اُس کی بکلّی جل جاتی ہے اور سفلی ہستی پر ایک موت طاری ہو کر ایک نئی اور پاک زندگی اُس کو ملتی ہے جس پر ہر وقت انوارِ الٰہیہ منعکس ہوتے رہتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/19/mode/1up


اِسی طرح اُس کی پیشانی کو ایک نُور عطا کیاجاتا ہے جو بجز عُشّاقِ الٰہی کے اور کسی کو نہیں دیا جاتا۔ اور بعض خاص وقتوں میں وہ نُور ایسا چمکتا ہے کہ ایک کافر بھی اُس کو محسوس کر سکتا ہے بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ لوگ ستائے جاتے اورنصرت الٰہی حاصل کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ پس وہ اقبال علی اللہ کا وقت ان کیلئے ایک خاص وقت ہوتا ہے اور خدا کا نور ان کی پیشانی میں اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے۔

ایسا ہی اُنکے ہاتھوں میں اور پیروں میں اور تمام بدن میں ایک برکت دیجاتی ہے جس کی وجہ سے اُنؔ کا پہنا ہوا کپڑا بھی متبرّک ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات کسی شخص کو چُھونا یا اُس کو ہاتھ لگانا۔ اُس کے امراض روحانی یا جسمانی کے ازالہ کا موجب ٹھہرتا ہے۔

اِسی طرح اُن کے رہنے کے مکانات میں بھی خدائے عزّوجلّ ایک برکت رکھ دیتا ہے وہ مکان بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے خدا کے فرشتے اُس کی حفاظت کرتے ہیں۔

اِسی طرح اُن کے شہریا گاؤں میں بھی ایک برکت اور خصوصیت دی جاتی ہے۔ اِسی طرح اُس خاک کو بھی کچھ برکت دی جاتی ہے جس پراُن کا قدم پڑتا ہے۔

اِسی طرح اِس درجہ کے لوگوں کی تمام خواہشیں بھی اکثر اوقات پیشگوئی کا رنگ پیدا کر لیتی ہیں یعنی جب کسی چیز کے کھانے یا پینے یا پہننے یا دیکھنے کی بشدّت اُن کے اندر خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ خواہش ہی پیشگوئی کی صورت پکڑ لیتی ہے اور جب قبل از وقت اضطرار کے ساتھ اُن کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ چیز میسر آجاتی ہے۔

اِسی طرح اُن کی رضامندی اور ناراضگی بھی پیشگوئی کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہے پس جِس شخص پر وہ شدّت سے راضی اور خوش ہوتے ہیں اس کے آئندہ اقبال کے لئے یہ بشارت ہوتی ہے اور جس پر وہ بشدّت ناراض ہوتے ہیں اُس کے آئندہ ادبار اور تباہی پر دلیل ہوتی ہے کیونکہ بباعث فنافی اللہ ہونے کے وہ سرائے حق میں ہوتے ہیں اور اُن کی رضا اور غضب خدا کا رضا اور غضب ہوتا ہے اور نفس کی تحریک سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے یہ حالات اُن میں پیدا ہوتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/20/mode/1up


اِسی طرح اُن کی دعا اور اُن کی توجہ بھی معمولی دعاؤں اور توجہات کی طرح نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر ایک شدید اثر رکھتی ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ اگر قضاء مبرم اور اٹل نہ ہو اور اُن کی توجہ اپنی تمام شرائط کے ساتھ اُس بَلا کے دور کرنے کے لئے مصروف ہو جائے تو خدا تعالیٰ اُس بَلا کو دور کر دیتا ہے گو ایک فرد واحد یا چند کَس پر وہ بَلا نازل ہو یا ایک مُلک پر وہ بَلا نازل ہو یا ایک بادشاہ وقت پر وہ بلا نازل ہو۔ اس میں اصل یہ ہے کہ وہ اپنے وجودؔ سے فانی ہوتے ہیں اس لئے اکثر اوقات اُن کے ارادہ کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے توارد ہو جاتا ہے۔ پس جب شدّت سے اُن کی توجہ کسی بلا کے دور کرنے کے لئے مبذول ہو جاتی ہے اور جیسا کہ دردِ دل کے ساتھ اقبال علی اللہ چاہیئے میسر آجاتا ہے تو سُنّت الٰہیہ اسی طرح پر واقع ہے کہ خدا اُن کی سنتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ خدا اُن کی دعا کو ردّ نہیں کرتا۔ اور کبھی اُن کی عبودیت ثابت کرنے کے لئے دعا سُنی نہیں جاتی تا جاہلوں کی نظر میں خدا کے شریک نہ ٹھہر جائیں اور اگر ایسا اتفاق ہو کہ بَلاوارد ہو جائے جس سے مَوت کے آثار ظاہر ہو جائیں تو اکثر عادت اللہ یہی ہے کہ اُس بَلا میں تاخیر نہیں ہوتی اور ایسے وقت میں خدا کے مقبولوں کا ادب یہی ہے کہ دعا کو ترک کر دیں اور صبر سے کام لیں۔ بہتر وقت دعا کا یہی ہے کہ ایسے وقت میں دُعا ہو جب اسباب یاس اور نومیدی بکلّی ظاہر نہ ہوں اور ایسی علامات نمودار نہ ہوں جن سے صاف طور پر نظر آتا ہو کہ اب بَلا دروازہ پر ہے اور ایک طور پر اس کا نزول ہو چکا ہے کیونکہ اکثر سُنّت یہی ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے ایک عذاب کے نازل کرنے میں اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیا تو وہ اپنے ارادہ کو واپس نہیں لیتا۔

یہ بالکل سچ ہے کہ مقبولین کی اکثر دعائیں منظور ہوتی ہیں بلکہ بڑا معجزہ اُن کا استجابتِ دعا ہی ہے جب اُن کے دلوں میں کسی مصیبت کے وقت شدّت سے بیقراری ہوتی ہے اور اس شدید بیقراری کی حالت میں وہ اپنے خدا کی طرف توجہ کرتے ہیں تو خدا اُن کی سنتا ہے اور اُس وقت اُن کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خدا ایک مخفی خزانہ کی طرح ہے کامل مقبولوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/21/mode/1up


کے ذریعہ سے وہ اپنا چہرہ دکھلاتا ہے۔ خدا کے نشان تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب اُس کے مقبول ستائے جاتے ہیں۔ اور جب حد سے زیادہ اُن کو دُکھ دیا جاتا ہے تو سمجھو کہ خدا کانشان نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر۔ کیونکہ یہ وہ قوم ہے کہ کوئی اپنے پیارے بیٹے سے ایسی محبت نہیں کرے گا جیسا کہ خدا اُن لوگوں سے کرتا ہے جو دل و جان سے اُس کے ہو جاتے ہیں وہ اُن کیلئے عجائب کام دِکھلاتا ہے اور ایسی اپنی قُوّت دِکھلاتا ہے کہ جیسا ایک سوتا ہوا شیر جاگ اُٹھتاؔ ہے خدا مخفی ہے اور اُس کے ظاہر کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ وہ ہزاروں پَردوں کے اندر ہے اوراس کا چہرہ دِکھلانے والی یہی قوم ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دُعا قبول ہوجاتی ہے یہ سراسر غلط ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے کبھی وہ اُن کی دُعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت اُن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اُس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اُس سے منوانا چاہتا ہے اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابتِ دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی تم مجھ سے دُعا کرو مَیں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔ اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضا و قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔

333 3 3 ۔۲؂

پس اِن دونوں آیتوں کو ایک جگہ پڑھنے سے صاف معلوم ہو جائے گا کہ دعاؤں کے بارے میں کیا سُنّت اللہ ہے اور ربّ اور عَبد کا کیا باہمی تعلّق ہے۔

مَیں پھر مکرّر لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کوئی نادان یہ خیال نہ کرے کہ جو کچھ تیسرے درجہ کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/22/mode/1up


کامل الایمان اور کامل المحبّت لوگوں کی نسبت اِس رسالہ میں بیان کیا گیا ہے اِن میں سے اکثر اُمور میں دوسرے لوگ بھی شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ دوسروں کو بھی خوابیں آتی ہیں۔ کشف بھی ہوتے ہیں۔ الہام بھی پاتے ہیں تو مابہ الامتیاز کیا ہوا۔

اِن وساوس کا جواب اگرچہ ہم بار ہا دے چکے ہیں مگر پھر ہم کہتے ہیں کہ مقبولوں اور غیر مقبولوں میں فرق تو بہت ہے جو کسی قدر اس رسالہ میں بھی تحریر ہو چکا ہے لیکن آسمانی نشانوں کےؔ رُو سے ایک عظیم الشان یہ فرق ہے کہ خدا کے مقبول بندے جو انوارِ سُبحانی میں غرق کئے جاتے اور آتشِ محبت سے اُن کی ساری نفسانیت جلائی جاتی ہے وہ اپنی ہر شان میں کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبارکیفیت غیروں پر غالب ہوتے ہیں اور غیر معمولی طور پر خدا کی تائید اور نصرت کے نشان اِس کثرت سے اُن کیلئے ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا میں کسی کو مجال نہیں ہوتی کہ اُن کی نظیر پیش کر سکے کیونکہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں خدا جو مخفی ہے اُس کا چہرہ دِکھلانے کیلئے وہ کامل مظہر ہوتے ہیں وہ دنیا کے آگے پوشیدہ خدا کو دکھلاتے ہیں اور خدا اُنہیں دکھلاتا ہے۔

اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ آسمانی نشانوں سے حصّہ لینے والے تین قِسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ اوّل وہ جو کوئی ہنر اپنے اندر نہیں رکھتے اور کوئی تعلق خدا تعالیٰ سے اُن کا نہیں ہوتا صرف دماغی مناسبت کی وجہ سے اُن کو بعض سچی خوابیں آجاتی ہیں اور سچے کشف ظاہر ہو جاتے ہیں جن میں کوئی مقبولیت اور محبوبیّت کے آثار ظاہرنہیں ہوتے اور اُن سے کوئی فائدہ اُن کی ذات کو نہیں ہوتا اور ہزاروں شریر اور بد چلن اور فاسق وفاجر ایسی بد بُودار خوابوں اور الہاموں میں اُن کے شریک ہوتے ہیں اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ باوجود ان خوابوں اور کشفوں کے اُن کا چال چلن قابلِ تعریف نہیں ہوتا کم سے کم یہ کہ اُن کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہوتی ہے اِس قدر کہ ایک سچی گواہی بھی نہیں دے سکتے اور جس قدر دنیا سے ڈرتے ہیں خدا سے نہیں ڈرتے اور شریر آدمیوں سے قطع تعلق نہیں کر سکتے اور کوئی ایسی سچی گواہی نہیں دے سکتے جس سے بڑے آدمی کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہو اور دینی اُمور میں نہایت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/23/mode/1up


درجہ کسل اور سُستی ان میں پائی جاتی ہے اور دنیا کے ہموم و غموم میں دن رات غرق رہتے ہیں اور دانستہ جھوٹ کی حمایت کرتے اور سچ کو چھوڑتے ہیں اور ہر ایک قدم میں خیانت پائی جاتی ہے اور بعض میں اس سے بڑھ کر یہ عادت بھی پائی گئی ہے کہ وہ فسق و فجور سے بھی پرہیز نہیں کرتے اور دنیا کمانے کے لئے ہر ایک ناجائز کام کر لیتے ہیں اور بعض کی اخلاقی حالت بھیؔ نہایت خراب ہوتی ہے اور حسد اور بخل اور عُجب اور تکبّر اور غرور کے پُتلے ہوتے ہیں اور ہر ایک کمینگی کے کام اُن سے صادر ہوتے ہیں اور طرح طرح کی قابلِ شرم خباثتیں اُن میں پائی جاتی ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ بعض اُن میں ایسے ہیں کہ ہمیشہ بد خوابیں ہی اُن کو آتی ہیں اور وہ سچی بھی ہو جاتی ہیں۔ گویا اُن کے دماغ کی بناوٹ صرف بد اور منحوس خوابوں کیلئے مخلوق ہے نہ اپنے لئے کوئی بہتری کے خواب دیکھ سکتے ہیں جس سے اُن کی دنیا درست ہو اور اُن کی مُرادیں حاصل ہوں اور نہ اوروں کے لئے کوئی بشارت کی خواب دیکھتے ہیں۔ اِن لوگوں کے خوابوں کی حالت اقسامِ ثلاثہ میں سے اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص دور سے صرف ایک دھواں آگ کا دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اور نہ آگ کی گرمی محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ خدا سے بالکل بے تعلق ہیں اور روحانی اُمور سے صرف ایک دھواں اُن کی قسمت میں ہے جس سے کوئی روشنی حاصل نہیں ہوتی۔


پھر دوسری قسم کے خواب بین یا مُلہم وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ سے کسی قدر تعلق ہے مگر کامل تعلق نہیں ان لوگوں کی خوابوں یا الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص اندھیری رات اور شَدِیْدُ البَرد رات میں دور سے ایک آگ کی روشنی دیکھتا ہے۔ اس دیکھنے سے اتنا فائدہ تو اُسے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی راہ پر چلنے سے پرہیز کرتا ہے جس میں بہت سے گڑھے اور کانٹے اور پتھر اور سانپ اور درندے ہیں مگر اس قدر روشنی اس کو سردی اور ہلاکت سے بچا نہیں سکتی۔ پس اگر وہ آگ کے گرم حلقہ تک پہنچ نہ سکے تو وہ بھی ایسا ہی ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اندھیرے میں چلنے والا ہلاک ہو جاتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/24/mode/1up


پھر تیسری قسم کے ملہم اور خواب بین وہ لوگ ہیں جن کے خوابوں اور الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظّارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص اندھیری اور شَدِیْدُ الْبَرْد رات میںؔ نہ صرف آگ کی کامل روشنی ہی پاتا ہے اور اُس میں چلتا ہے بلکہ اُس کے گرم حلقہ میں داخل ہو کر بکلّی سردی کے ضرر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اِس مرتبہ تک وہ لوگ پہنچتے ہیں جو شہوات نفسانیہ کا چولہ آتشِ محبتِ الٰہی میں جلادیتے ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں وہ دیکھتے ہیں جو آگے موت ہے اور دوڑ کر اُس موت کو اپنے لئے پسند کر لیتے ہیں وہ ہر ایک درد کو خدا کی راہ میں قبول کرتے ہیں اور خدا کیلئے اپنے نفس کے دشمن ہو کر اور اس کے بر خلاف قدم رکھ کر ایسی طاقت ایمانی دکھلاتے ہیں کہ فرشتے بھی اُن کے اس ایمان سے حیرت اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ روحانی پہلوان ہوتے ہیں اور شیطان کے تمام حملے اُن کی روحانی قوت کے آگے ہیچ ٹھہرتے ہیں وہ سچے وفادار اور صادق مرد ہوتے ہیں کہ نہ دنیا کے لذّات کے نظّارے انہیں گمراہ کر سکتے ہیں اور نہ اولاد کی محبت اور نہ بیوی کا تعلق اُن کو اپنے محبوب حقیقی سے برگشتہ کر سکتا ہے۔ غرض کوئی تلخی اُن کو ڈرا نہیں سکتی اور کوئی نفسانی لذّت اُن کو خدا سے روک نہیں سکتی اور کوئی تعلق خدا کے تعلق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا۔

یہ تین روحانی مراتب کی حالتیں ہیں جن میں سے پہلی حالت علم الیقین کے نام سے موسوم ہے اور دوسری حالت عین الیقین کے نام سے نامزد ہے اور تیسری مبارک اور کامل حالت حق الیقین کہلاتی ہے۔ اور انسانی معرفت کامل نہیں ہو سکتی اور نہ کدورتوں سے پاک ہو سکتی ہے جب تک حق الیقین تک نہیں پہنچتی۔ کیونکہ حق الیقین کی حالت صرف مشاہدات پر موقوف نہیں بلکہ یہ بطور حال کے انسان کے دل پر وارد ہو جاتی ہے اور انسان محبتِ الٰہی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر اپنے نفسانی وجود سے بالکل نیست ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ پر انسانی معرفت پہنچ کر قال سے حال کی طرف انتقال کرتی ہے اور سفلی زندگی بالکل جل کر خاک ہوجاتی ہے اور ایسا انسان خدا تعالیٰ کی گود میں بیٹھ جاتا ہے اور جیسا کہ ایک لوہا آگ میں پڑ کر بالکل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/25/mode/1up


آگ کی رنگ میں آجاتا ہے اور آگ کی صفات اُس سے ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں ایسا ہی اس درجہ کا آدمی صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پر متّصف ہو جاتا ہے۔ اور اس قدر طبعًا مرضاؔ ت الٰہیہ میں فنا ہو جاتا ہے کہ خدا میں ہو کر بولتا ہے اور خدا میں ہو کر دیکھتا ہے اور خدا میں ہو کر سُنتا ہے اور خدا میں ہو کر چلتا ہے گویا اُس کے جُبہّ میں خدا ہی ہوتا ہے۔ اور انسانیت اُس کی تجلّیات الٰہیہ کے نیچے مغلوب ہو جاتی ہے چونکہ یہ مضمون نازک ہے اور عام فہم نہیں اس لئے ہم اِس کو اِسی جگہ چھوڑتے ہیں۔

اور ایک دوسرے پیرایہ میں ہم اس مرتبہ ثالثہ کی جو اعلیٰ اور اکمل مرتبہ ہے اِس طرح پر تصویر کھینچتے ہیں کہ وہ وحی کامل جو اقسام ثلاثہ میں سے تیسری قسم کی وحی ہے جو کامل فردپر نازل ہوتی ہے اُس کی یہ مثال ہے کہ جیسے سورج کی دھوپ اور شعاع ایک مصفّا آئینہ پر پڑتی ہے جو عین اس کے مقابل پر پڑا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اگرچہ سورج کی دھوپ ایک ہی چیز ہے لیکن بوجہ اختلاف مظاہر کے اس کے ظہور کی کیفیت میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ پس جب سُورج کی شعاع زمین کے کسی ایسے کثیف حصّہ میں پڑتی ہے جس کی سطح پر ایک شفاف اور مصفّا پانی موجود نہیں بلکہ سیاہ اور تاریک خاک ہے اور سطح بھی مستوی نہیں تب شعاع نہایت کمزور ہوتی ہے خاص کر اُس حالت میں جبکہ سورج اور زمین میں کوئی بادل بھی حائل ہو۔ لیکن جب وہی شعاع جس کے آگے کوئی بادل حائل نہیں ایک شفاف پانی پر پڑتی ہے جو ایک مصفّا آئینہ کی طرح چمکتا ہے تب وہی شعاع ایک سے دہ چند ہو کر ظاہر ہوتی ہے جسے آنکھ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔

پس اسی طرح جب نفس تزکیہ یافتہ پر جو تمام کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے وحی نازل ہوتی ہے تو اُس کا نُور فوق العادت نمایاں ہوتا ہے۔ اور اُس نفس پر صفاتِ الٰہیہ کا انعکاس پورے طور پر ہو جاتا ہے اور پورے طور پر چہرہ حضرت احدیّت ظاہر ہوتا ہے۔ اِس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جیسے آفتاب جب نکلتا ہے تو ہر ایک پاک ناپاک جگہ پر اُس کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/26/mode/1up


روشنی پڑتی ہے یہاں تک کہ ایک پاخانہ کی جگہ بھی جو نجاست سے پُر ہے اُس سے حصّہ لیتی ہے۔ تاہم پورا فیض اُس روشنی کا اُس آئینہ صافی یا آبِ صافی کو حاصل ہوتا ؔ ہے جو اپنی کمال صفائی سے خود سُورج کی تصویر کو اپنے اندر دِکھلاسکتا ہے۔ اِسی طرح بوجہ اس کے کہ خدا تعالیٰ بخیل نہیں ہے اُس کی روشنی سے ہر ایک فیضیاب ہے مگر تاہم وہ لوگ جو اپنی نفسانی حیات سے مر کر خدا تعالیٰ کی ذات کا مظہر اتم ہو جاتے ہیں اور ظلّی طور پر خدا تعالیٰ اُن کے اندر داخل ہو جاتا ہے اُن کی حالت سب سے الگ ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ اگرچہ سورج آسمان پر ہے لیکن تاہم جب وہ ایک نہایت شفاف پانی یا مصفّا آئینہ کے مقابل پر پڑتا ہے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس پانی یا آئینہ کے اندر ہے لیکن دراصل وہ اُس پانی یا آئینہ کے اندر نہیں ہے بلکہ پانی یا آئینہ نے اپنی کمال صفائی اور آب و تاب کی وجہ سے لوگوں کو یہ دِکھلادیا ہے کہ گویا وہ پانی یا آئینہ کے اندر ہے۔

غرض وحی الٰہی کے انوار اکمل اور اتم طور پر وہی نفس قبول کرتا ہے جو اکمل اور اتم طور پر تزکیہ حاصل کر لیتا ہے اور صرف الہام اور خواب کا پانا کسی خوبی اور کمال پر دلالت نہیں کرتا۔ جب تک کسی نفس کو بوجہ تزکیہ تام کے یہ انعکاسی حالت نصیب نہ ہو اور محبوبِ حقیقی کا چہرہ اُس کے نفس میں نمودار نہ ہو جائے۔ کیونکہ جس طرح فیضِ عام حضرت اَحدیّت نے ہر ایک کو بجز شاذ و نادر لوگوں کے جسمانی صورت میں آنکھ اور ناک اور کان اور قُوّتِ شامّہ اور دوسری تمام قوتیں عطا فرمائی ہیں اور کسی قوم سے بخل نہیں کیا۔ اِسی طرح روحانی طور پر بھی اُس نے کسی زمانہ اور کسی قوم کے لوگوں کو روحانی قویٰ کی تخم ریزی سے محروم نہیں رکھا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ سُورج کی روشنی ہر ایک جگہ پڑتی ہے اور کوئی لطیف یا کثیف جگہ اس سے باہر نہیں ہے۔ یہی قانونِ قدرت روحانی آفتاب کی روشنی کے متعلق ہے کہ نہ کثیف جگہ اُس روشنی سے محروم رہ سکتی ہے اور نہ لطیف جگہ ہاں مصفّٰی اور شفاف دلوں پر وہ نور عاشق ہے جب وہ آفتابِ روحانی مُصفّٰے چیزوں پر اپنا نور ڈالتا ہے تو اپنا کُل نور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/27/mode/1up


اُن میں ظاہر کر دیتا ہے یہاں تک کہ اپنے چہرہ کی تصویر اُن میں کھینچ دیتا ہے جیساؔ کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک مصفّا پانی یا مصفّا آئینہ کے مقابل پر جب سورج آتا ہے۔ تو اپنی تمام صورت اُس میں ظاہر کر دیتا ہے یہاں تک کہ جیسا کہ آسمان پر سُورج نظر آتا ہے ویسا ہی بغیر کسی فرق کے اس مصفا پانی یا آئینہ میں نظر آتا ہے۔

پس روحانی طورپر انسان کے لئے اِس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں کہ وہ اس قدر صفائی حاصل کرے کہ خدا تعالیٰ کی تصویر اُس میں کھینچی جائے۔ اِسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3 ۱؂ یعنی میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ یہ ظاہر ہے کہ تصویر ایک چیز کی اصل صورت کی خلیفہ ہوتی ہے یعنی جانشین۔ اور یہی وجہ ہے کہ جس جس موقعہ پر اصل صورت میں اعضا واقع ہوتے ہیں اور خطّ و خال ہوتے ہیں اُسی اُسی موقعہ پر تصویر میں بھی ہوتے ہیں اور حدیث شریف اور نیز توریت میں بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا۔ پس صورت سے مراد یہی روحانی تشابہ ہے۔ اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب مثلًا ایک نہایت صاف آئینہ پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے تو صرف اِسی قدر نہیں ہوتا کہ آفتاب اس کے اندر دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ شیشہ آفتاب کی صفات بھی ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ کہ اُس کی روشنی انعکاسی طور پر دوسرے پر بھی پڑجاتی ہے۔ پس یہی حال روحانی آفتاب کی تصویر کا ہوتا ہے کہ جب ایک قلبِ صَافی اُس سے ایک انعکاسی شکل قبول کر لیتا ہے تو آفتاب کی طرح اُس میں سے بھی شعاعیں نکل کر دوسری چیزوں کو منور کرتی ہیں گویا تمام آفتاب اپنی پوری شوکت کے ساتھ اُس میں داخل ہو جاتا ہے۔

اور پھر اس جگہ ایک اور نکتہ قابلِ یاد داشت ہے اور وہ یہ کہ تیسری قِسم کے لوگ بھی جن کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہوتا ہے اور کامل اور مصفّا الہام پاتے ہیں قبول فیوض الٰہیہ میں برابر نہیں ہوتے اور ان سب کا دائرۂ استعداد فطرت باہم برابر نہیں ہوتا بلکہ کسی کا دائرہ استعداد فطرت کم درجہ پر وسعت رکھتا ہے اور کسی کا زیادہ وسیع



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/28/mode/1up


ہوتا ؔ ہے اور کسی کا بہت زیادہ اور کسی کا اس قدر جو خیال و گمان سے برتر ہے اور کسی کا خدا تعالیٰ سے رابطہ محبت قوی ہوتا ہے اور کسی کا اقویٰ۔ اور کسی کا اِس قدر کہ دنیا اُس کو شناخت نہیں کر سکتی اور کوئی عقل اُس کے انتہا تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور وہ اپنے محبوبِ ازلی کی محبت میں اِس قدر محو ہوتے ہیں کہ کوئی رگ و ریشہ اُن کی ہستی اور وجود کا باقی نہیں رہتا اور یہ تمام مراتب کے لوگ بموجب آیت3۱؂ اپنے دائرۂ استعداد فطرت سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے۔ اور کوئی اُن میں سے اپنے دائرۂ فطرت سے بڑھ کر کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی روحانی تصویر آفتابِ نورانی کی اپنی فطرت کے دائرہ سے بڑھ کر اپنے اندر لے سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعدادِ فطرت کے موافق اپنا چہرہ اُس کو دکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہوجاتاہے اور کہیں بڑا جیسے مثلاً ایک بڑا چہرہ ایک آرسی کے شیشہ میں نہایت چھوٹا معلوم ہوتا ہے مگر وہی چہرہ ایک بڑے شیشہ میں بڑا دکھائی دیتا ہے مگر شیشہ خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا چہرہ کے تمام اعضاء اور نقوش دکھا دیتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ چھوٹا شیشہ پورا مقدار چہرہ کا دکھلا نہیں سکتا۔ سو جس طرح چھوٹے اور بڑے شیشہ میں یہ کمی بیشی پائی جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اگرچہ قدیم اور غیر متبدل ہے مگر انسانی استعداد کے لحاظ سے اِس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس قدر فرق نمودار ہو جاتے ہیں کہ گویا اظہارِ صفات کے لحاظ سے جو زید کا خدا ہے اُس سے بڑھ کر وہ خدا ہے جو بکر کا خدا ہے اور اس سے بڑھ کر وہ جو خالد کا خدا ہے مگر خدا تین نہیں خدا ایک ہی ہے صرف تجلّیاتِ مختلفہ کی وجہ سے اس کی شانیں مختلف طور پر ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے تین خدا نہیں ہیں مگر مختلف تجلّیات کی رُو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں چونکہ موسیٰ کی ہمّت صرف بنی اسرائیل اور فرعون تک ہی محدود تھی اِس لئے موسیٰ پر تجلّی قدرت الٰہی اُسی حد تک محدود رہی اور اگر موسیٰٰؑ کی نظر اُس زمانہ اور آئندہ زمانوں کے تمام بنی آدم پر ہوتی تو توریت کی تعلیم بھی ایسی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/29/mode/1up


محدوؔ د اور ناقص نہ ہوتی جو اب ہے۔

ایسا ہی حضرت عیسیٰ کی ہمّت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدود تھی جو اُن کی نظر کے سامنے تھے اور دوسری قوموں اور آئندہ زمانہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی کا کچھ تعلق نہ تھا اس لئے قدرت الٰہی کی تجلّی بھی اُن کے مذہب میں اُسی حد تک محدود رہی جس قدر اُن کی ہمت تھی اور آئندہ الہام اور وحی الٰہی پر مُہر لگ گئی اور چونکہ انجیل کی تعلیم بھی صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے تھی تمام دنیا کے مفاسد پر نظر نہ تھی اس لئے انجیل بھی عام اصلاح سے قاصر ہے بلکہ وہ صرف ان یہودیوں کی موجودہ بد اخلاقی کی اصلاح کرتی ہے جو نظر کے سامنے تھے۔ اور جو دوسرے ممالک کے رہنے والے یا آئندہ زمانہ کے لوگ ہیں اُن کے حالات سے انجیل کو کچھ سروکار نہیں اور اگر انجیل کو تمام فرقوں اور مختلف طبائع کی اصلاح مد نظر ہوتی تو اس کی یہ تعلیم نہ ہوتی جو اب موجود ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو انجیل کی تعلیم ہی ناقص تھی اور دوسری طرف خود ایجاد غلطیوں نے بڑا نقصان پہنچایا جو ایک عاجز انسان کو خواہ نخواہ خدا بنایا گیا اور کفّارہ کا من گھڑت مسئلہ پیش کرکے عملی اصلاحوں کی کوششوں کا یک لخت دروازہ بند کر دیا گیا۔

اب عیسائی قوم دوگونہ بد قسمتی میں مبتلاہے۔ ایک تو اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اور الہام مدد نہیں مل سکتی کیونکہ الہام پر جو مُہر لگ گئی اور دوسری یہ کہ وہ عملی طور پر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفّارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا مگر جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدود نہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا۔ بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی اس لئے قدرت کی تجلّیات کا پورا اور کامل حصّہ اُس کو ملا۔ اور وہ خاتم الانبیاء بنے۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/30/mode/1up


اورؔ اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجُزاُس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے۔ اور اُس کی ہمّت اور ہمدردی نے اُمّت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔* اوراُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیضِ وحی آپ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمّتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو سو خدا نے اِن معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ لہٰذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پیروی سے اپنا اُمّتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل ملہم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی ہے مگر ظلّی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدی سے وحی پاناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بند نہ ہو اور تا یہ نشان دنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کے دروازے کھلے رہیں اور معرفتِ الٰہیہ جو مدارِ نجات ہے مفقود نہ ہو جائے۔

کسی حدیث صحیح سے اِس بات کا پتہ نہیں ملے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے جو اُمّتی نہیں یعنی آپ کی پیروی سے فیض یاب نہیں اور اسی جگہ سے اُن


* اِس جگہ یہ سوال طبعًا ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی اُمّت میں بہت سے نبی گذرے ہیں۔ پس اِس حالت میں موسیٰ کا افضل ہونا لازم آتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس قدر نبی گذرے ہیں اُن سب کو خدا نے براہ راست چُن لیا تھا۔ حضرت موسیٰ کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں تھا۔ لیکن اِس اُمّت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو اُمّتی بھی ہے اور نبی بھی۔ اِس کثرتِ فیضان کی کسی نبی میں نظیر نہیں مل سکتی اسرائیلی نبیوں کو الگ کرکے باقی تمام لوگ اکثر موسوی اُمّت میں ناقص پائے جاتے ہیں۔ رہے انبیاء سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے کچھ نہیں پایا بلکہ وہ براہ راست نبی کئے گئے مگر اُمّتِ محمدیہ میں سے ہزارہا لوگ محض پیروی کی وجہ سے ولی کئے گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/31/mode/1up


لوگوؔ ں کی غلطی ثابت ہوتی ہے جو خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ کو دوبارہ دنیا میں لاتے ہیں اور وہ حقیقت جو الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی تھی جو خود حضرت عیسیٰ کے بیان سے کھل گئی۔* اس سے کچھ عبرت نہیں پکڑتے بلکہ جس آنے والے مسیح موعود کا حدیثوں سے پتہ لگتا ہے اُس کا اُنہیں حدیثوں میں یہ نشان دیا گیا ہے کہ وہ نبی بھی ہوگا اور اُمّتی بھی مگر کیا مریم کا بیٹا اُمّتی ہو سکتا ہے؟ کون ثابت کرے گا کہ اُس نے براہِ راست نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے درجۂ نبوت پایا تھا؟ ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ ط وَاِنْ تَوَلَّوا فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ اور ہزار کوشش کی جائے اور تاویل کی جائے یہ بات بالکل غیر معقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے کہ جب لوگ نماز کیلئے مساجد کی طرف دوڑیں گے تو وہ کلیسیا کی طرف بھاگے گا اور جب لوگ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ انجیل کھول بیٹھے گا اور جب لوگ عبادت کے وقت بیت اللہ کی طرف مُنہ کریں گے تو وہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوگا اور شراب پئے گا اور سؤر کا گوشت کھائے گا اور اسلام کے حلال و حرام کی کچھ پرواہ نہیں رکھے گا۔ کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اسلام کے لئے یہ مصیبت کا دِن بھی باقی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی بھی آئے گا کہ جو مستقل نبوت کی وجہ سے آپ کی ختم نبوت کی مُہر کوتوڑ دے گا اور آپ کی فضیلت خاتم الانبیاء ہونے کی چھین لے گا۔


حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کا مسئلہ عیسائیوں نے محض اپنے فائدہ کے لئے گھڑا تھا کیونکہ اُن کی پہلی آمد میں اُن کی خدائی کا کوئی نشان ظاہر نہ ہوا۔ ہر دفعہ مار کھاتے رہے۔ کمزوری دکھلاتے رہے۔ پس یہ عقیدہ پیش کیا گیا کہ آمد ثانی میں وہ خدائی کا جلوہ دکھائیں گے اور پہلی کسریں نکالیں گے تا اِس طرح پر پہلی آمد کے حالات کی پردہ پوشی کی جائے مگر اب وہ زمانہ آتا جاتا ہے کہ خود عیسائی ایسے عقائد سے منحرف ہوتے جاتے ہیں۔ مَیں یقین کرتا ہوں کہ جب اُن کی عقلیں ترقی کریں گی تو وہ بہت آسانی سے اِس عقیدے کو چھوڑ دیں گے۔ اور جیسا کہ بچہ پورا تیار ہو کر پھر رحم میں نہیں رہ سکتا اسی طرح وہ بھی مشیمۂ حجاب اور جہل سے باہر آجائیں گے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/32/mode/1up


اورؔ آپ کی پیروی سے نہیں بلکہ براہ راست مقامِ نبوّت حاصل رکھتا ہوگا اور اس کی عملی حالتیں شریعتِ محمدیہ کے مخالف ہونگی اورقرآن شریف کی صریح مخالفت کرکے لوگوں کو فتنہ میں ڈالے گا اور اسلام کی ہتک عزّت کا موجب ہوگا۔ یقیناًسمجھو کہ خدا ہر گز ایسا نہیں کرے گا۔*بے شک حدیثوں میں مسیح موعود کے ساتھ نبی کا نام موجود ہے مگر ساتھ اُس کے اُمّتی کا نام بھی تو موجود ہے۔ اور اگر موجود بھی نہ ہوتا تو مفاسد مذکورہ بالا پر نظر کرکے ماننا پڑتا کہ ہر گز ایسا ہو نہیں سکتا کہ کوئی مستقل نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آوے۔ کیونکہ ایسے شخص کا آنا صریح طور پر ختم نبوت کے منافی ہے۔ اور یہ تاویل کہ پھر اُس کو اُمّتی بنایا جائے گا اور وہی نو مسلم نبی مسیح موعود کہلائے گا۔یہ طریق عزّتِ اسلام سے بہت بعید ہے۔ جس حالت میں حدیثوں سے ثابت ہے کہ اِسی اُمّت میں سے یہود پیدا ہوں گے تو افسوس کی بات ہے کہ یہود تو پیدا ہوں اِس اُمّت میں سے اور مسیح باہر سے آوے کیا ایک خدا ترس کیلئے یہ ایک مشکل بات ہے؟ کہ جیسا کہ اس کی عقل اس بات پر تسلّی پکڑتی ہے کہ اس اُمّت میں بعض لوگ ایسے پیدا ہوں گے جن کا نام یہود رکھا جائے گا ایسا ہی اِسی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام عیسیٰ اور مسیح موعود رکھا جائے گا۔ کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُتارا جائے اور اس کی مستقل نبوّت کا جامہ اُتار کر اُمّتی بنایا جائے۔ اگر کہو کہ یہ کارروائی بطور سزا کے ہوگی کیونکہ اُن کی اُمّت نے اُن کو خدا بنایا تھا تو یہ جواب بھی بیہودہ ہے کیونکہ اس میں حضرت عیسیٰ کا کیا قصور ہے۔


یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ کا دوبارہ دنیا میں آنا اجماعی عقیدہ ہے یہ سراسر افترا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع صرف اِس آیت پر ہوا تھا کہ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ ۔۱؂ پھر بعد ان کے اُمّت میں طرح طرح کے فرقے پیدا ہو گئے چنانچہ معتزلہ اب تک حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں۔ اور بعض اکابر صوفیہ بھی ان کی موت کے قائل ہیں اور مسیح موعود کے ظہور سے پہلے اگر اُمّت میں سے کسی نے یہ خیال بھی کیا کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آئیں گے تو ان پر کوئی گناہ نہیں صرف اجتہادی خطا ہے جو اسرائیلی نبیوں سے بھی بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ہوتی رہی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/33/mode/1up


میںؔ یہ باتیں کسی قیاس اور ظن سے نہیں کہتا بلکہ میں خدا تعالیٰ سے وحی پاکر کہتا ہوں اور میں اُس کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اُسی نے مجھے یہ اطلاع دی ہے۔ وقت میری گواہی دیتا ہے۔ خدا کے نشان میری گواہی دیتے ہیں۔

ماسوا اس کے جبکہ قرآن شریف سے قطعی طورپر حضرت عیسیٰ کا وفات پا جانا ثابت ہے تو پھر اُن کے دوبارہ آنے کا خیال بد یہی البطلان ہے۔ کیونکہ جو شخص آسمان پر مع جسم عنصری زندہ موجود ہی نہیں وہ کیونکر زمین پر دوبارہ آسکتا ہے۔

اگر کہو کہ کن آیات قرآن شریف سے قطعی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے تو میں نمونہ کے طور پر اس آیت کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں جو قرآن شریف میں ہے یعنی یہ کہ 3 ۱؂ الخ۔ اِس جگہ اگر توفّی کے معنی مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھانا تجویز کیا جائے تو یہ معنی تو بدیہی البطلان ہیں کیونکہ قرآن شریف کی انہی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ سوال حضرت عیسیٰ سے قیامت کے دن ہوگا۔ پس اِس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ وہ موت سے پہلے اس رفع جسمانی کی حالت میں ہی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو جائیں گے اور پھر کبھی نہیں مریں گے کیونکہ قیامت کے بعد مَوت نہیں اور ایسا خیال ببداہت باطل ہے۔

علاوہ اس کے قیامت کے دن یہ جواب اُن کا کہ اُس روز سے کہ میں مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا گیا مجھے معلوم نہیں کہ میرے بعد میری اُمّت کا کیا حال ہوا۔ یہ اس عقیدہ کی رُو سے صریح دروغ بے فروغ ٹھہرتا ہے جبکہ یہ تجویز کیا جائے کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میںآئیں گے۔ کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور اپنی اُمّت کی مُشرکانہ حالت کو دیکھ لے بلکہ اُن سے لڑائیاں کرے اور اُن کی صلیب توڑے اور اُن کے خنزیر کو قتل کرے وہ کیونکر قیامت کے روز کہہ سکتا ہے کہ مجھے اپنی اُمّت کی کچھ بھی خبر نہیں۔

اور خود یہ دعوےٰ کہ توفّی کا لفظ جب حضرت عیسیٰ کی نسبت قرآن شریف میں آتا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/34/mode/1up


تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ مع جسم آسمان پر اُٹھائے جانا۔ مگر دوسروں کے لئے یہ معنی نہیں ہوتے یہ دعویٰ بھی عجیب دعویٰ ہے گویا تمام دنیا کے لئے تو توفّیکے لفظ کے یہ معنی ہیں کہ قبض روح کرنا نہ قبض جسم۔ مگر حضرت عیسیٰ کے لئے خاص طور پر یہ معنی ہیں کہ مع جسم آسمان پر اُٹھا لینا۔ یہ معنی خوب ہیں جن سے ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حصہ نہیں ملا۔ اور تمام مخلوقات میں سے حضرت عیسیٰ کیلئے ہی یہ معنی مخصوص ہیں۔ اور اس بات پر زور دینا کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آئیں گے یہ عجیب افتراء ہے جو سمجھ نہیں آتا۔ اگر اتفاق سے مراد صحابہ کا اتفاق ہے تو یہ اُن پر تہمت ہے اُن کی تو بَلا کو بھی اِس مستحدث عقیدہ کی خبر نہیں تھی کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میں آجائیں گے اور اگر اُن کا یہ عقیدہ ہوتا تو اس آیت کے مضمون پر رورو کر کیوں اتفاق کیا جاتا ۔کہ 33 ۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک انسان رسول تھے خدا تو نہیں تھے اور اُن سے پہلے سب رسول دنیا سے گذر گئے ہیں۔ پس اگر حضرت عیسیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک دنیا سے نہیں گذرے تھے اور اُن کو اُس وقت تک ملک الموت چُھو نہیں گیا تھا تو اس آیت کے سننے کے بعد کیونکر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عقیدہ سے رجوع کر لیا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ یہ آیت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُس دن تمام صحابہ کو مسجد نبوی میں پڑھ کر سنائی تھی جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی اور وہ پیر کا دن تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دفن نہیں کئے گئے تھے اور عائشہ صدیقہ کے گھر میں آپ کی میّت مطہر تھی کہ شدّتِ دردِ فراق کی وجہ سے بعض صحابہ کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں فوت نہیں ہوئے بلکہ غائب ہو گئے ہیں اور پھر دنیا میں آئیں گے۔ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے اِس فتنہ کو خطرناک سمجھ کر اُسی وقت تمام صحابہ کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 35

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/35/mode/1up


جمع کیا اور اتفاؔ ق حسنہ سے اُس دن کُل صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ میں موجود تھے تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا کہ مَیں نے سنا ہے کہ بعض ہمارے دوست ایسا ایسا خیال کرتے ہیں مگر سچ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور ہمارے لئے یہ کوئی خاص حادثہ نہیں ہے۔ اِس سے پہلے کوئی نبی نہیں گذرا جو فوت نہیں ہوا۔ پھر حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھی 33 ۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسان رسول تھے خدا تو نہیں تھے۔* سو جیسے پہلے اِس سے سب رسول فوت ہو چکے ہیں آپ بھی فوت ہو گئے۔

تب اِس آیت کو سُن کر تمام صحابہ چشم پُر آب ہو گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ اور اِس آیت نے اُن کے دلوں میں ایسی تاثیر کی کہ گویا اُسی روز نازل ہوئی تھی۔ چنانچہ بعد اس کے حسّان بن ثابت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ مرثیہ بنایا۔

کنت السَّواد لناظری

فعمی علیک الناظرٗ


مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ

فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ

یعنی تُو میری آنکھوں کی پُتلی تھا۔ میں تو تیری مَوت سے اندھا ہوگیا۔ اب بعد اس کے جو چاہے مَرے مجھے تو تیرے ہی مَرنے کا خوف تھا۔ اِس شعر میں حسّان بن ثابت نے تمام نبیوں کی موت کی طرف اشارہ کیا ہے گویا وہ کہتا ہے کہ ہمیں اِس کی کیا پروا ہے کہ موسیٰ مرگیا ہو یا عیسیٰ مر گیاہو ہمارا ماتم تو اِس نبی محبوب کیلئے ہے جو آج ہم سے علیحدہ ہو گیا اور آج ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہو گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ اس غلط عقیدہ میں بھی مبتلا تھے کہ گویا حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیا میںآئیں گے مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌


* جو شخص حضرت عیسٰیؑ کو آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ سے باہر رکھتا ہے اُس کو اقرار

کرنا پڑے گا کہ عیسٰیؑ انسان نہیں ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اس صورت میں حضرت ابوبکرؓ کا اس آیت سے استدلال صحیح نہیں ٹھہرتا کیونکہ جبکہ حضرت عیسٰیؑ آسمان پر زندہ مع جسم عنصری موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اِس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کونسی تسلّی ہو سکتی تھی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 36

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/36/mode/1up


پیش کرکے یہ غلطی دور کر دی اور اسلام میں یہ پہلا اجماع تھا کہ سب نبی فوت ہو چکے ہیں۔

غرضؔ اِس مرثیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہیں تھی (جیسے ابو ھریرہ) وہ اپنی غلط فہمی سے عیسیٰ موعود کے آنے کی پیشگوئی پر نظر ڈال کر یہ خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ ہی آجائیں گے جیسا کہ ابتداء میں ابوہریرہ کو بھی یہی دھوکہ لگاہوا تھا اور اکثر باتوں میں ابو ہریرہ بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے دھوکوں میں پڑ جایا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک صحابی کے آگ میں پڑ نے کی پیشگوئی میں بھی اس کو یہی دھوکہ لگا تھا اور آیت333 ۱؂ کے ایسے اُلٹے معنی کرتا تھا جس سے سُننے والے کو ہنسی آتی تھی کیونکہ وہ اس آیت سے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کی مَوت سے پہلے سب اُس پر ایمان لے آئیں گے حالانکہ دوسری قراء ت اس آیت میں بجائے قَبْلَ مَوْتِہٖ کے قَبْلَ مَوْتِھِمْ موجود ہے اور یہ عقیدہ کُھلے طور پر قرآن شریف کے مخالف ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ سب لوگ حضرت عیسیٰ کو قبول کر لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:۔

33َ 33 ۲؂ یعنی اے عیسٰی مَیں تجھے مَوت دُوں گا اور پھر مَوت کے بعد مومنوں کی طرح اپنی طرف تجھے اُٹھاؤں گا اور پھر تمام تہمتوں سے تجھے بَری کروں گا اور پھر قیامت تک تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر غالب رکھوں گا اب ظاہر ہے کہ اگر قیامت سے پہلے تمام لوگ حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے تو پھر وہ کون سے مخالف ہیں جو قیامت تک رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک اور مقام میں فرماتا ہے۔

33 ۳؂ یعنی یہود اور نصاریٰ میں قیامت تک عداوت رہے گی پس ظاہر ہے کہ اگر تمام یہود قیامت سے پہلے ہی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے تو قیامت تک عداوت رکھنے والا کون رہے گا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 37

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/37/mode/1up


ماسوا اس کے ایسا خیال کہ تمام یہودی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے اس طور سے بھیؔ بیہودہ اور خلاف عقل ہے کہ یہ اعتقاد واقعات کے برخلاف ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کے زمانہ کو قریباً دو ۲۰۰۰ہزار برس گذرتا ہے اور کسی پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اس عرصہ میں کروڑہا یہودی حضرت عیسیٰ سے منکر اور اُن کو گالیاں دینے والے اور کافر ٹھہرانے والے دنیا سے گذر گئے ہیں۔ پھر یہ قول کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے کہ ہر ایک یہودی ان پر ایمان لے آئے گا۔ اس دوہزار برس کی ذرا میزان تو لگاؤ کہ کس قدر یہودی بے ایمانی کی حالت میں مر گئے کیا اُن کی نسبت رضی اللہ عنہم کہہ سکتے ہیں۔

غرض تمام صحابہ کا اجماع حضرت عیسیٰ کی موت پر تھا بلکہ تمام انبیاء کی موت پر اجماع ہو گیا تھا اور یہی پہلا اجماع تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہوا۔ اسی اجماع کی وجہ سے تمام صحابہ حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل تھے اور اسی وجہ سے حسّان بن ثابت نے مذکورہ بالا مرثیہ بنایا تھا جس کا ترجمہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تُو تو میری آنکھوں کی پُتلی تھا مَیں تو تیرے مَرنے سے اندھا ہو گیا اب تیرے بعد جو شخص چاہے مرے۔ عیسیٰ ہو یا موسیٰ مجھے تو تیرے ہی مَرنے کا خوف تھا۔ اور درحقیقت صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ اور ان کو کسی طرح یہ بات گوارا نہ تھی کہ عیسیٰ جس کا وجود شرک عظیم کی جڑ قرار دیا گیا ہے زندہ ہو اور آپ فوت ہو جائیں۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت اُن کو یہ معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری زندہ بیٹھے ہیں اور اُن کا برگزیدہ نبی فوت ہو گیا تو وہ مارے غم کے مر جاتے کیونکہ ان کو ہر گز اِس بات کی برداشت نہ تھی کہ کوئی اور نبی زندہ ہو اور اُن کا پیارا نبی قبر میں داخل ہو جائے۔ اللّٰہم صلِّ علٰی محمد و آلہٖ واصحابہٖ اجمعین

اور خدا تعالیٰ کے اِس کلام سے کہ 3 ۱؂ یہمعنی نکالنا کہ حضرت عیسیٰ مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر حضرت یحیٰی کے پاس جا بیٹھے کس قدر نافہمی اور نادانی ہے۔

کیا خدائے عزّوجلّ دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے اور کیا قرآن میں رَفع اِلی اللّٰہ کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 38

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/38/mode/1up


معنی کسی اور محل میں بھی یہ آئے ہیں کہ آسمان پر مع جسم عنصری اُٹھا لینا اورؔ کیا قرآن شریف میں اِس کی کوئی نظیر ہے کہ جسم عنصری بھی آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے؟ اور اس آیت کے مشابہ دوسری آیت بھی قرآن شریف میں موجود ہے اور وہ یہ کہ:۔

33 ۱؂۔ پس کیا اِس کے معنی یہ ہیں کہ اے نفسِ مطمئنہ مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر چلا جا! اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بلعم باعور کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی طرف اُس کا رفع چاہا مگر وہ زمین کی طرف جُھک گیا کیا اِس آیت کے بھی یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ بلعم باعور کو مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھانا چاہتا تھا مگر بلعم نے زمین پر رہنا ہی پسند کیا۔ افسوس کس قدر قرآن شریف کی تحریف کی جاتی ہے۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں 3 ۲؂ موجود ہے اِس سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر اُٹھائے گئے ہیں۔ مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ کسی شخص کا نہ مقتول ہونا نہ مصلوب ہونا اِس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھایا گیا ہو۔ اگلی آیت میں صریح یہ لفظ موجود ہیں کہ 3 ۳؂ یعنی یہودی قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مگر اُن کو شُبہ میں ڈالا گیا کہ ہم نے قتل کر دیا ہے۔ پس شُبہ میں ڈالنے کے لئے اِس بات کی کیا ضرورت تھی کہ کسی اور مومن کو مصلوب کرکے *** بنایا جائے۔ * یاخود یہودیوں میں سے کسی کو حضرت عیسیٰ کی شکل بنا کر صلیب پر چڑھایا جاوے۔ کیونکہ اس صورت میں ایسا شخص اپنے تئیں حضرت عیسیٰ کا دشمن ظاہر کرکے اور اپنے اہل و عیال کے پتے اور نشان دے کر ایک دم میں مَخلصی حاصل کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ عیسیٰ نے جادُو سے مجھے


* یہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے ائمہء تعبیرجہاں حضرت عیسیٰ کی رویت کی تعبیر کرتے ہیں وہاں

یہ لکھتے ہیں کہ جو شخص حضرت عیسیٰ کو خواب میں دیکھے وہ کسی بَلا سے نجات پاکر کسی اور ملک کی طرف چلا جائے گا اور ایک زمین سے دوسری زمین کی طرف ہجرت کرے گا۔ یہ نہیں لکھتے کہ وہ آسمان پر چڑھ جائے گا۔ دیکھو کتاب تعطیر الانام اور دوسرے ائمہ کی کتابیں پس عقلمند پر حقیقت ظاہر ہونے کے لئے یہ بھی ایک پہلو ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 39

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/39/mode/1up


اپنی شکل پر بنادیا ہے یہ کس قدر مجنونانہ تو ہمات ہیں۔ کیوں لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ کے معنی یہ نہیں کرتے کہ حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ مگر غشی کی حالت اُن پر طاری ہو گئی تھی بعد میںؔ دو تین روز تک ہوش میں آگئے اور مرہم عیسیٰ کے استعمال سے (جو آج تک صدہا طبّی کتابوں میں موجود ہے جو حضرت عیسیٰ کیلئے بنائی گئی تھی) اُن کے زخم بھی اچھے ہو گئے۔

پھر ایک اور بدقسمتی ہے کہ وہ ان آیتوں کے شان نزول کو نہیں دیکھتے۔ قرآن شریف یہود و نصاریٰ کے اختلافات دور کرنے کے لئے بطور حَکم کے تھا تا اُن کے اختلافات کا فیصلہ کرے اور اُس کا فرض تھا کہ اُن کے متنازعہ فیہ امور کا فیصلہ کرتا پس منجملہ متنازعہ فیہ امور کے ایک یہ امر بھی متنازعہ فیہ تھا کہ یہود کہتے تھے کہ ہماری توریت میں لکھا ہے کہ جو کاٹھ پر لٹکایا جاوے وہ *** ہوتا ہے اُس کی روح مَرنے کے بعد خدا کی طرف نہیں جاتی۔ پس چونکہ حضرت عیسیٰ صلیب پر مر گئے اس لئے وہ خدا کی طرف نہیں گئے اور آسمان کے دروازے اُن کے لئے نہیں کھولے گئے۔ اور عیسائیوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عیسائی تھے اپنا یہ عقیدہ مشہور کیا تھا چنانچہ آج تک وہی عقیدہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ صلیب پر جان دے کر *** تو بن گئے مگر یہ *** اوروں کو نجات دینے کے لئے انہوں نے خود اپنے سر پر لے لی تھی اور آخر وہ نہ جسم عنصری کے ساتھ بلکہ ایک نئے اور ایک جلالی جسم کے ساتھ جو خُون اور گوشت اور ہڈی اور زوال پذیر ہونے والے مادہ سے پاک تھا خدا کی طرف اُٹھائے گئے۔* اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اِن دونوں متخاصمین کی نسبت یہ فیصلہ دیا کہ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کہ عیسیٰ کی صلیب پر جان نکلی یا وہ قتل ہوا تا اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ وہ بموجب حکم توریت ***


* اگر آیۃ 3کے یہ معنی ہیں کہ حضرت عیسیٰ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے تو ہمیں کوئی دکھلائے کہ قرآن شریف میں وہ آیۃ کہاں ہے جو امر متنازعہ فیہ کا فیصلہ کرتی ہے یعنی جس میںیہ لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ کا بعد موت مومنوں کی طرح خدا کی طرف رفع ہوگا اور وہ مَرنے کے بعد یحیٰی وغیرہ انبیاء کے ساتھ جا ملیں گے کیا نعوذ باللہ خدا کو یہ دھوکہ لگا کہ یہود کی طرف سے انکار تو تھا اُن کے رفع روحانی کا جو مومن کا بعد موت ہوتا ہے اور خدا نے کچھ اور کا اور سمجھ لیا۔ نعوذ باللّٰہ من ھٰذا الافتراء علی اللّٰہ سبحان اللّٰہ تبارک و تعالٰی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 40

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/40/mode/1up


ہے بلکہ وہ صلیبی موت سے بچایا گیا اور مومنوں کی طرح اُس کا خدا کی طرف رفع ہؤا اور جیسا کہ ہر ایک مومن ایک جلالی جسم خدا سے پاکر خدائے عزّوجلّ کی طرف اُٹھایا جاتا ہے وہ بھی اُٹھائے گئے اور اُن نبیوں میں جا ملے جو اُن سے پہلے گذر چکے تھے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان سے سمجھا جاتا ہے کہ جو آپ نے معراج سے واپس آکر بیان فرمایا کہ جیسے اور نبیوں کے مقدّس اجسام دیکھے ویسا ہی حضرت عیسیٰ کو بھی اُنہیں کے رنگ میں پایا اور اُن کے ساتھ پایا کوئی نرالا جسمؔ نہیں دیکھا۔

پس یہ مسئلہ کیسا صاف اور صریح تھا کہ یہودیوں کا انکار محض رفع روحانی سے تھا کیونکہ وہی رفع ہے جو *** کے مفہوم کے برخلاف ہے مگر مسلمانوں نے محض اپنی ناواقفیت کی وجہ سے رفع روحانی کو رفع جسمانی بنادیا۔ یہودیوں کا ہر گز یہ اعتقاد نہیں کہ جو شخص مع جسم عنصری آسمان پر نہ جاوے وہ مومن نہیں بلکہ وہ تو آج تک اِسی بات پر زور دیتے ہیں کہ جس کا رفع روحانی نہ ہو اور اُس کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں وہ مومن نہیں ہوتا جیسا کہ قرآن شریف بھی فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی کافروں کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ مگر مومنوں کیلئے فرماتا ہے ۔ 3 ۲؂۔ یعنی مومنوں کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے۔ پس یہودیوں کا یہی جھگڑا تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کافر ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف اُن کا رفع نہیں ہوا۔ یہودی اب تک زندہ ہیں مرتو نہیں گئے۔ اُن کو پوچھ کر دیکھ لو کہ جو صلیب پر لٹکایا گیا کیا اس کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا اور اُس کے جسم کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ جہالت بھی ایک عجیب بلا ہے۔ مسلمانوں نے اپنی نافہمی سے کہاں کی بات کہاں تک پہنچا دی اور ایک فوت شدہ انسان کے دوبارہ آنے کے منتظر ہو گئے حالانکہ حدیثوں میں حضرت عیسیٰ کی عمر ایک۱۲۰ سو بیس بر س مقرر ہو چکی ہے۔ کیا وہ ایک۱۲۰ سو بیس برس اب تک نہیں گذرے۔

ایسا ہی انہوں نے اپنی نافہمی سے قرآن شریف اور احادیث میں تناقض پیدا کر دیا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 41

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/41/mode/1up


کیونکہ قرآن شریف اُس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجّال ہے شیطان قرار دیتا ہے جیسا کہ وہ شیطان کی طرف سے حکایت کرکے فرماتا ہے۔ 333۱؂۔ یعنی شیطان نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ میں اُس وقت تک ہلاک نہ کیا جاؤں جب تک کہ وہ مُردے جن کے دل مر گئے ہیں دوبارہ زندہ ہوں۔ خدا نے کہا ؔ کہ میں نے تجھے اُس وقت تک مہلت دی۔ سو وہ دجّال جس کا حدیثوں میں ذکر ہے وہ شیطان ہی ہے جو آخر زمانہ میں قتل کیا جائے گا۔ جیسا کہ دانیال نے بھی یہی لکھا ہے اور بعض حدیثیں بھی یہی کہتی ہیں۔ اور چونکہ مظہر اتم شیطان کا نصر انیت ہے اِس لئے سورۃ فاتحہ میں دجّال کا تو کہیں ذکر نہیں مگر نصاریٰ کے شر سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم ہے۔ اگر دجّال کوئی الگ مفسد ہوتا تو قرآن شریف میں بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا 3۲؂ یہ فرمانا چاہئے تھا کہ وَلَا الدَّجَّال۔ اور آیت اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُونَ سے مُراد جسمانی بعث نہیں کیونکہ شیطان صرف اُس وقت تک زندہ ہے جب تک کہ بنی آدم زندہ ہیں۔ ہاں شیطان اپنے طور سے کوئی کام نہیں کرتا بلکہ بذریعہ اپنے مظاہر کے کرتا ہے سو وہ مظاہر یہی انسان کو خدا بنانے والے ہیں اور چونکہ وہ گروہ ہے اِس لئے اُس کا نام دجّال رکھا گیا ہے۔ کیونکہ عربی زبان میں دجّال گروہ کو بھی کہتے ہیں۔ اور اگر دجّال کو نصرانیت کے گمراہ واعظوں سے الگ سمجھا جائے تو ایک محذور لازم آتا ہے وہ یہ کہ جن حدیثوں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ آخری دنوں میں دجّال تمام زمین پر محیط ہو جائے گا انہیں حدیثوں سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آخری دنوں میں کلیسیا کی طاقت تمام مذاہب پر غالب آجائے گی۔ پس یہ تناقض بجز اس کے کیونکر دور ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔

علاوہ اس کے خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے نصرانیت کے فتنہ کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر دجّال جو بقول ہمارے مخالفوں کے بڑے زور و شور سے خدائی کا دعویٰ کرے گا اور دنیا کے تمام فتنوں سے اُس کا فتنہ بڑا ہوگا۔ اس کی نسبت قرآن شریف میں اتنا بھی ذِکر نہیں کہ اس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 42

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/42/mode/1up


فتنہ سے ایک چھوٹا پہاڑ بھی پھٹ سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ قرآن شریف تو عیسائیت کے فتنہ کو سب سے بڑا ٹھہراوے اور ہمارے مخالف کسی اور دجّال کے لئے شور مچاویں۔

اور حضرات عیسائیوں کی غلطی کو بھی دیکھو کہ ایک طرف تو حضرت عیسیٰ کو خدا بنا دیا اور دوسری طرف اُس کے ملعون ہونے کا بھی اعتقاد ہے حالانکہ تمام اہلِ لُغت کے اتفاق سے ***ؔ ایک روحانی امر ہے اور ملعون راندہ درگاہِ الٰہی کو کہتے ہیں یعنی جس کا خدا کی طرف رفع نہ ہو اور جس کے دل کا کوئی تعلق محبت اور اطاعت کا خدا سے باقی نہ رہے اور خدا اُس سے بیزار ہو جائے اور وہ خدا سے بیزار ہو جائے اِسی لئے شیطان کا نام لعین ہے۔ پس کیا کوئی عقلمند تجویز کر سکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے دل کا تعلق خدا تعالیٰ سے بالکل ٹوٹ گیا تھا اور خدا تعالیٰ اُن سے بیزار ہو گیا تھا۔ اور عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو حضرات عیسائیاں انجیلوں کے حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے اِس واقعہ کو یونس ؑ کے واقعہ اور اسحاق ؑ کے واقعہ سے مشابہت تھی اور پھر آپ ہی اس مشابہت کے برخلاف عقیدہ رکھتے ہیں کیا وہ ہمیں بتلا سکتے ہیں کہ یونس ؑ نبی مچھلی کے پیٹ میں مُردہ ہونے کی حالت میں داخل ہوا تھا۔ اور مُردہ ہونے کی حالت میں اس کے اندر دو یا تین دن تک رہا۔ پس یونس ؑ سے یسوع کی مشابہت کیا ہوئی زندہ کو مُردہ سے کیا مشابہت؟ اور کیا حضرات عیسائیاں ہمیں بتلا سکتے ہیں کہ اسحٰق حقیقت میں ذبح ہو کر پھر زندہ کیا گیا تھا اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یسوع کے واقعہ کو اسحٰق کے واقعہ سے کیا مشابہت۔

پھر یسوع مسیح انجیل میں کہتا ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانہ جتنا بھی ایمان ہو تو تم اگر پہاڑ کو یہ کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جا تو ایسا ہی ہوگا مگر یسوع کی تمام دعا جو اپنی جان بچانے کے لئے کی گئی تھی بیکار گئی۔ اب دیکھو کہ انجیل کی رُو سے یسوع کے ایمان کا کیا حال ہے یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ یسوع کی یہ دعا تھی کہ مَیں صلیب پر مر تو جاؤں مگر گھبراہٹ نہ ہو۔ کیا باغ والی دعا صرف گھبراہٹ دور کرنے کے لئے تھی؟ اگر یہی بات تھی تو صلیب پر لٹکائے جانے کے وقت کیوں کہا تھا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ کیا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ اس وقت گھبراہٹ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 43

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/43/mode/1up


دور ہو چکی تھی بناوٹ کی بات کہاں تک چل سکتی ہے۔ یسوع کی دعا میں صاف یہ لفظ ہیں کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ سو خدا نے وہ پیا لہ ٹال دیا اور ایسے اسباب پیدا کر دئیے کہ جو جان بچ جانے کے لئے کافی تھے جیسے یہ امر کہ یسوع مسیح معمول کے مطابق چھ سات دن صلیب پر نہیںؔ رکھا گیا بلکہ اُسی وقت اُتارا گیا اور جیسے کہ یہ امر کہ اُس کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں جس طرح کہ اور لوگوں کی ہمیشہ توڑی جاتی تھیں۔ اور یہ خلاف قیاس امر ہے کہ اس قدر خفیف سی تکلیف سے جان نکل جائے۔

ہمارے مخالفوں کا یہ اعتقاد کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے محفوظ رہ کر آسمان پر مع جسم عنصری چڑھ گئے۔ یہ ایسا اعتقاد ہے جس سے قرآن شریف سخت اعتراض کا نشانہ ٹھہرتا ہے کیونکہ قرآن شریف ہر ایک جگہ عیسائیوں کے ایسے دعاوی کو جن سے حضرت عیسیٰ کی خدائی ثابت کی جاتی ہے ردّ کرتا ہے جیسا کہ قرآن شریف نے حضرت عیسیٰ کا بغیر باپ پیدا ہونا (جس سے اُن کی خدائی پر دلیل پیش کی جاتی تھی) یہ کہہ کر ردّ کیا کہ3 3۔۱؂ پھر اگر حضرت عیسیٰ درحقیقت مع جسمِ عنصری آسمان پر چڑھ گئے تھے اور پھرنازل ہونے والے ہیں تو یہ تو اُن کی ایسی خصوصیت تھی کہ بے باپ پیدا ہونے سے زیادہ دھوکہ میں ڈالتی تھی۔ پس جواب دو کہ کہاں قرآن شریف نے اس کی کوئی نظیر پیش کرکے اِس کو ردّ کیا ہے کیا خدا تعالیٰ اِس خصوصیت کے توڑنے سے عاجز رہا۔پھر ہم بیان سابق کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس بات پر اجماعی طور سے عقیدہ تھا وہ یہی بات تھی کہ تمام انبیاء علیہم السلام فوت ہو چکے ہیں اور کوئی زندہ نہیں اسی عقیدہ پر تمام صحابہؓ فوت ہوئے اور یہ عقیدہ قرآن شریف کی نصصریح کے مطابق تھا۔

پھر بعد صحابہ کے یہ دعویٰ کرنا کہ کسی وقت اِس اُمت کا اِس بات پر اجماع ہوا تھا کہ*


* یاد رہے کہ یہ بات بھی کسی آیت قطعیۃ الدلالت یا حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ حضرت عیسیٰ درحقیقت مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھائے گئے تھے۔ پس جس کا اُٹھایا جانا ثابت نہیں اس کی دوبارہ آمد کی توقع رکھنا محض طمع خام ہے۔ اوّل حضرت عیسیٰ کا آسمان پر جانا کسی آیت قطعیۃ الدلالت یا حدیث صحیح مرفوع متّصل سے ثابت کرو ورنہ بے اصل مخالفت تقویٰ سے بعید ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 44

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/44/mode/1up


حضرت عیسیٰ آسمان پر مع جسم عنصری زندہ موجود ہیں اِس سے زیادہ کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ اور ایسے شخص پر امام احمد حنبل صاحب کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جو شخص بعد صحابہ کے کسی مسئلہ میں اجماع کا دعویٰ کرے وہ کذّاب ہے۔

بلکہؔ اصل بات یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد اُمّت مرحومہ تہتّر فرقوں پرمنقسم ہو گئی اور صدہا مختلف قسم کے عقائد ایک دوسرے کے مخالف اُن میں پھیل گئے یہاں تک کہ یہ عقائد کہ مہدی ظاہر ہوگا اور مسیح آئے گا اِن میں بھی ایک بات پر متفق نہ رہے۔ چنانچہ شیعوں کا مہدی تو ایک غار میں پوشیدہ ہے جس کے پاس اصل قرآن شریف ہے وہ اُس وقت ظاہر ہوگا جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نئے سرے زندہ کئے جاویں گے اور وہ اُن سے غصب خلافت کا انتقام لے گا۔ اور سُنّیوں کا مہدی بھی بقول اُن کے قطعی طور پر کسی خاندان میں سے پیدا ہونے والا نہیں اور نہ قطعی طور پر عیسیٰ کے زمانہ میں ظاہر ہونے والا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ بنی فاطمہ میں سے پیدا ہوگا۔ اور بعض کا قول ہے کہ بنی عباس میں سے ہوگا۔ اور بعض کا بموجب ایک حدیث کے یہ خیال ہے کہ اُمّت میں سے ایک آدمی ہے۔ پھر بعض کہتے ہیں کہ مہدی کا آنا وسط زمانہ میں ضرور ہے اور مسیح موعود بعد اس کے آئے گا۔ اور اس پر احادیث پیش کرتے ہیں۔ اور بعض کا یہ قول ہے کہ مسیح اور مہدی دو جُدا جُدا آدمی نہیں بلکہ وہی مسیح مہدی ہے۔ اور اِس قول پر لامہدی الّا عیسٰی کی حدیث پیش کرتے ہیں۔ پھر دجّال کی نسبت بعض کا خیال ہے کہ ابن صیّاد ہی دجّال*ہے اور وہ مخفی ہے اخیر زمانہ میں ظاہر ہوگا حالانکہ وہ بے چارہ مسلمان ہو چکا اور اس کی موت اسلام پر ہوئی اور مسلمانوں نے اُس کا جنازہ پڑھا۔ اور بعض کا قول ہے کہ دجّال کلیسیا میں قید ہے یعنی کسی گرجا میں محبوس ہے اور آخر اسی میں سے نکلے گا۔ یہ آخری قول تو صحیح تھا مگر افسوس کہ اس کے معنی باوجود واضح ہونے کے بگاڑ دئے گئے۔ اِس میں کیا شک ہے کہ دجّال جس سے مراد عیسائیت کا بھوت ہے ایک مُدّت تک گرجا میں قید رہا ہے اور اپنے دجّالی تصرّفات سے رُکا رہا ہے مگر


* ابن صیّاد کا حج کرنا بھی ثابت ہے اور مسلمان بھی تھا مگر باوجود حج کرنے اور مسلمان ہونے

کے دجّال کے نام سے بچ نہ سکا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 45

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/45/mode/1up


اب آخری زمانہ میں اس نے قید سے پوری رہائی پائی ہے اور اُس کی مُشکیں کھولی گئی ہیں تا جو جو حملے کرنا اُس کی تقدیر میں ہے کر گذرے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ دجّال نوع انسان میں سے نہیں بلکہ شیطان کا نام ہے۔* اور بعض حضرت عیسیٰ کی نسبت خیال رکھتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور بعض فرقے مسلمانوں کے جنہیں معتزلہ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ کی موت کے قائل ہیں اور بعض صُوفیوں کا قدیمؔ سے یہ مذہب ہے کہ مسیح آنے والے سے مراد کوئی اُمّتی انسان ہے کہ جو اِسی اُمّت میں سے پیدا ہوگا۔ اب ذرا غور کرکے دیکھ لو کہ مسیح اور مہدی اور دجّال کے بارے میں کس قدر اس اُمّت میں اختلاف موجود ہے اور بموجب آیت 3۱؂ ہر ایک اپنے عقیدہ کی نسبت اجماع کا دعویٰ کر رہا ہے پس اصل بات یہ ہے کہ جب کسی شریعت میں بہت سے اختلاف پیدا ہو جائیں تو وہی اختلافات طبعًا چاہتے ہیں کہ اُن کے تصفیہ کے لئے کوئی شخص خدا کی طرف سے آوے کیونکہ یہی قدیم سے سُنّت اللہ ہے۔ جب یہودیوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے تو اُن کے لئے حضرت عیسیٰ حَکَمْ بن کر آئے۔ اور جب عیسائیوں اور یہودیوں کے باہمی تنازعات بڑھ گئے تو اُن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے حَکَمْ مقرر ہو کر مبعوث ہوئے۔

اب اِس زمانہ میں دنیا اختلافات سے بھر گئی۔ ایک طرف یہودی کچھ کہتے ہیں اور عیسائی کچھ ظاہر کرتے ہیں اور اُمّتِ محمدیہ میں الگ باہمی اختلافات ہیں۔ اور دوسرے مشرکین سب کے برخلاف رائیں ظاہر کرتے ہیں اور اس قدر نئے مذاہب اور نئے عقائد پیدا ہو گئے ہیں کہ گویا ہر ایک انسان ایک خاص مذہب رکھتا ہے۔ اِس لئے بموجب سُنّت اللہ کے ضروری تھا کہ


* اِس شیطان کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے یہ بھوت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم

کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف جسّاسہ کے ذریعہ سے اسلامی اخبار معلوم کرتا تھا۔ پھر قرون ثلاثہ کے بعد بموجب خبر انبیاء علیہم السلام کے اِس بھوت نے رہائی پائی اور ہرروز اس کی طاقت بڑھتی گئی یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری میں بڑے زور سے اُس نے خروج کیا اِسی بھُوت کا نام دجّال ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا تعالیٰ نے سُورۃ فاتحہ کے اخیر میں 3 کی دُعا میں ڈرایا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 46

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/46/mode/1up


ان سب اختلافات کا تصفیہ کرنے کے لئے کوئی حَکَمْ آتا۔ سو اسی حَکَمْ کا نام مسیح موعود اور مہدی مسعود رکھا گیا یعنی باعتبار خارجی نزاعوں کے تصفیہ کے اس کا نام مسیح ٹھہرا اور باعتبار اندرونی جھگڑوں کے فیصلہ کرنے کے اس کو مہدی معہود کرکے پکارا گیا۔ اگرچہ اس بارے میں سُنّت اللہ اس قدر متواتر تھی کہ کچھ ضرور نہ تھا کہ حدیثوں کے ذریعہ سے یہ ظاہر کیا جاتا کہ ایک شخص حَکَمْ ہو کر آئے گا جس کا نام مسیح ہوگا لیکن حدیثوں میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ وہ مسیح موعود جو اِسی اُمّت میں سے ہوگا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حَکَمْ ہو گایعنی جس قدر اختلافات داخلی اور خارجی موجود ہیں اُن کو دور کرنے کے لئے خدا اُسے بھیجے گا۔ اور وہی عقیدہ سچا ہوگا جس پر وہ قائم کیا جائے گا۔ کیونکہ خدا اُسے راستی پر قائم کرے گا اور وہ جو کچھ کہے گا بصیرت سے کہے گا اور کسی فرقہ کا حق نہیں ہوگا کہ اپنے عقیدہ کےؔ اختلاف کی وجہ سے اس سے بحث کرے کیونکہ اُس زمانہ میں مختلف عقائد کے باعث منقولی مسائل جن کی قرآن شریف میں تصریح نہیں مشتبہ ہو جائیں گے اور بباعث کثرت اختلافات تمام اندرونی طور پر جھگڑنے والے یا بیرونی طور پر اختلاف کرنے والے ایک حَکَمْ کے محتاج ہوں گے جو آسمانی شہادت سے اپنی سچائی ظاہر کرے گا جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے وقت میں ہوا اور پھر بعد اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا سو آخری موعود کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔

اِس جگہ اس سُنّت اللہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کوئی پیشگوئی کسی عظیم الشان مرسل کے آنے کے لئے ہوتی ہے اس میں ضرور بعض لوگوں کے لئے ایک ابتلا بھی مخفی ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے لئے یہود کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/47/mode/1up

کتابوں میں پیشینگوئی کی گئی تھی کہ وہ اُس وقت آئے گا جبکہ اِلیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل ہوگا۔ یہ پیشگوئی ملاکی نبی کی کتاب میں اب تک موجود ہے۔ پس یہ پیشگوئی یہودیوں کے لئے بڑی ٹھوکر کا باعث ہوئی اور وہ اب تک منتظر ہیں کہ اِلیاس نبی آسمان سے نازل ہوگا اور ضرور ہے کہ وہ پہلے نازل ہو اور پھر اُن کا سچا مسیح آئے گا مگر اب تک نہ اِلیاس دوبارہ زمین پر نازل ہوا اور نہ ایسا مسیح آیا جو اس شرط کو پوری کرتا۔

اِسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت توریت میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ یہودیوں کے

خاندان یعنی ابراہیم کی اولاد میں سے پیدا ہوں گے اور انہیں میں سے اور انہیں کے بھائیوں میں سے اُن کا ظہور ہوگا اور تمام نبیوں نے جو بنی اسرائیل میں آتے رہے اِس پیشگوئی کے یہی معنے سمجھے تھے کہ وہ آخرالزمان کانبی بنی اسرائیل میں سے پیدا ہوگا مگر آخر وہ نبی بنی اسمٰعیل میں سے پیدا ہو گیا اور یہ امر یہودیوں کیلئے سخت ٹھوکر کا باعث ہوا اگر توریت میں صریح طور پر یہ الفاظ ہوتے کہ وہ نبی بنی اسمٰعیل میں سے آئے گا اور اُس کا مولد مکّہ ہوگا اور اُس کا نام مُحَمَّد ہوگا صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے باپ کا نام عبد اللہ ہوگا تو یہ فتنہ یہودیوں میں ہرگز نہ ہوتا۔

پس جب کہ اِس امر کے لئے دو۲ مثالیں موجود ہیں کہ ایسی پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کا کچھ ابتلا بھی منظور ہوتا ہے تو پھر تعجب کہ کس طرح ہمارے مخالف باوجود بہت سے اختلافاؔ ت کے جو مسیح موعود کے بارے میں ہر ایک فرقہ کی حدیثوں میں پائے جاتے ہیں اور بالاتفاق اس کو اُمتی بھی قرار دیا گیا ہے اِس بات پر مطمئن ہیں کہ ضرور مسیح آسمان سے ہی نازل ہوگا حالانکہ آسمان سے نازل ہونا خود غیر معقول اور خلاف نص قرآن ہے*۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ33 ۔۱؂ پس اگر بشر کے جسم عنصری کا آسمان پر چڑھانا عادت اللہ میں داخل تھا تو اِس جگہ کفار قریش کو کیوں انکار کے ساتھ جواب دیا گیا کیا عیسیٰ بشر نہیں تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں۔ اور کیا خدا تعالیٰ کو حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھانے کے وقت وہ وعدہ یاد نہ رہا کہ 33۲؂ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان پر چڑھنے کا جب سوال کیا گیا تو وہ وعدہ یاد آگیا۔ اور جس کو علم کتاب اللہ ہے وہ خوب جانتا ہے کہ قرآن شریف نے اپنے قول سے حضرت عیسٰی کی وفات کی گواہی دیدی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے یعنی اپنی رؤیت کے ساتھ اِسی شہادت کو ادا کر دیا


* کسی حدیث صحیح مرفوع متصل سے ثابت نہیں کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگارہا نزول کا لفظ سو وہ اکرام اور اعزاز کے لئے آتا ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں لشکر فلاں جگہ اُترا ہے اِسی لئے نزیل مسافر کو کہتے ہیں پس صرف نزول کے لفظ سے آسمان سمجھ لینا پر لے درجہ کی ناسمجھی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/48/mode/1up


ہے یعنی بیان کر دیا ہے کہ آپ نے حضرت مسیح کو وفات شدہ انبیاء کی جماعت میں دیکھا ہے پھرباوجود اِن دو گواہیوں کے تیسری گواہی خدا سے الہام پاکر میری ہے۔ اگر میرے لئے خدا کے نشان ظاہر نہیں ہوئے اور آسمان اور زمین نے میری گواہی نہیں دی تو مَیں جھوٹا ہوں لیکن اگر میرے لئے خدا کے نشان ظاہر ہوئے ہیں اور نیز زمانہ نے میری ضرورت کو ظاہر کر دیا ہے تو میرا انکار تیز تلوار کی دھار پر ہاتھ مارنا ہے۔

میرے ہی زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا۔ میرے ہی زمانہ میں ملک پر موافق احادیث صحیحہ اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں کے طاعون آئی۔ اور میرے ہی زمانہ میں نئی سواری یعنی ریل جاری ہوئی۔ اور میرے ہی زمانہ میں میری پیشگوئیوں کے مطابق خوفناک زلزلے آئے تو پھر کیا تقویٰ کا مقتضانہ تھا کہ میری تکذیب پر دلیری نہ کی جاتی؟

دیکھو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزاروں نشان میری تصدیق کے ظاہر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور آئندہ ہوں گے اگریہ انسان کا منصوبہ ہوتا تو اِس قدر تائید اور نصرت اسؔ کی ہرگز نہ ہوتی اور یہ امر انصاف اور ایمان کے برخلاف ہے کہ ہزاروں نشانوں میں سے جو ظہور میں آچکے صرف ایک یادو امر لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے پیش کرنا کہ فلاں فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اَے نادانو! اور عقل کے اندھو! اور انصاف اور دیانت سے دور رہنے والو! ہزارہا پیشگوئیوں میں سے اگر ایک یا دو پیشگوئیوں کا پورا ہونا تمہاری سمجھ میں نہیں آسکا تو کیا تم اِس عذر سے خدا تعالیٰ کے سامنے معذور ٹھہر جاؤ گے۔* توبہ کرو کہ خدا کے دن نزدیک ہیں اور وہ نشان ظاہر ہونے والے ہیں جو زمین کو ہلادیں گے۔


* اگر خدا تعالیٰ کے نشانوں کو جو میری تائید میں ظہور میں آچکے ہیں آج کے دن تک شمار کیا جائے تو وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوں گے پھر اگر اس قدر نشانوں میں سے دو تین نشان کسی مخالف کی نظر میں مشتبہ ہیں تو اُن کی نسبت شور مچانا اور اس قدر نشانوں سے فائدہ نہ اُٹھانا کیا یہی ان لوگوں کا تقویٰ ہے کیا انبیاء کی پیشگوئیوں میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی؟منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/49/mode/1up


یہ تو خدا کے نشان ہیں جو مَیں پیش کرتا ہوں۔ مگر تم سوچو کہ اس مخالفت میں تمہارے ہاتھ میں کونسی دلیل ہے بجز اِس کے کہ ایسی حدیثیں پیش کرتے ہو جن کے مخالف قرآن شریف گواہی دیتا ہے اور جن کے مخالف حدیثیں بھی موجود ہیں اور جن کے مخالف واقعات اپنا چہرہ دکھلا رہے ہیں۔ وہ دجّال کہاں ہے؟ جس سے تم ڈراتے ہو مگر لَا الضَّآلِّیْنَوالادجَّال دن بدن دنیا میں ترقی کر رہا ہے اور قریب ہے کہ آسمان و زمین اس کے فتنہ سے پھٹ جائیں۔ پس اگر تمہارے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا تو سُورۃ فاتحہ پر غور کرنا ہی تمہارے لئے کافی تھا۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ جو کچھ تم نے مسیح موعود کی پیشگوئی کے معنی سمجھے ہیں وہ صحیح نہ ہوں۔ کیا ان غلطیوں کے نمونے یہود اور نصاریٰ میں موجود نہیں ہیں پھر تم کیونکر غلطی سے بچ سکتے ہو۔ اور کیا خدا کی یہ عادت نہیں ہے کہ کبھی وہ ایسی پیشگوئیوں سے اپنے بندوں کا امتحان بھی لیا کرتا ہے جیسا کہ توریت اور ملا کی نبی کی پیشگوئی سے اور انجیل کی پیشگوئی سے یہود و نصاریٰ کو امتحان میں ڈالا گیا۔ سو تقویٰ کے دائرہ سے باہر قدم مت رکھو کیا جیساکہ یہود نے اور اُن کے نبیوں نے سمجھا تھا آخری نبی بنی اسرائیل میں سے آیا یا الیاس نبی دوبارہ زمین پر آگیا؟ ہر گز نہیں بلکہ یہود نے دونوں جگہ غلطی کھائی۔ پس تم ڈرو کیونکہ خدا تعالیٰ تمہیں سورہ فاتحہ میں ڈراتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم یہود بن جاؤ۔ یہود بھی تمہارے دعویٰ کی طرح ظاہر الفاظ کتاب اللہ سے متمسک تھے۔ مگر بوجہ اِس کے کہ حَکَمْ کی بات کو انہوں نے نہ مانا اور اُس کے نشانوں سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا مواخذہ میں آگئے اور اُن کا کوئی عذر سنانہ گیا۔

یہ نکتہؔ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ساتویں صدی پر مبعوث ہوئے تھے کیونکہ خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ ساتویں صدی تک بہت سی گمراہی عیسائیوں اور یہودیوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ سو خدا تعالیٰ نے دونوں قوموں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور حَکَمْ مبعوث فرمایا۔ مگر جو مسلمانوں کیلئے حَکَمْ مقدر تھا اُس کے ظہور کی میعاد پہلی میعاد سے دو چند کی گئی یعنی چودھویں صدی۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عیسائی تو صرف ساتویں تک بگڑ گئے مگر مسلمانوں کی حالت میں اس مدّت کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/50/mode/1up


د و حصہ میں پہنچ کر فتور آئے گا اور چودھویں صدی کے سر پر اُن کا حَکَمْ ظاہر ہوگا۔

پھر ہم اپنے پہلے بیان کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ وحی کے اقسامِ ثلاثہ میں سے اکمل اور اتم وہ وحی ہے جو علم کی تیسری قسم میں داخل ہے جس کا پانے والا انوار سُبحانی میں سراپا غرق ہوتا ہے اور وہ تیسری قسم حق الیقین کے نام سے موسوم ہے۔ اور ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ پہلی قسم وحی یا خواب کی محض علم الیقین تک پہنچاتی ہے جیسا کہ ایک شخص اندھیری رات میں ایک دھواں دیکھتا ہے اور اُس سے ظنّی طور پر استدلال کرتا ہے کہ اس جگہ آگ ہوگی اور وہ استدلال ہرگز یقینی نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ دُھواں نہ ہو بلکہ ایسی غبار ہو جو دُھوئیں سے متشابہ ہو۔ یا دُھواں تو ہو مگر وہ ایک ایسی زمین سے نکلتا ہو جس میں کوئی مادہ آتشی موجود ہو۔ پس یہ علم ایک عقلمند کو اُس کے ظنون سے رہائی نہیں بخش سکتا اور اُس کو کوئی ترقی نہیں دے سکتا بلکہ صرف ایک خیال ہے جو اپنے ہی دماغ میں پیدا ہوتا ہے۔ پس اس علم کی حد تک اُن لوگوں کی خوابیں اور الہام ہیں جو محض دماغی بناوٹ کی وجہ سے اُن کو آتی ہیں کوئی عملی حالت اُن میں موجود نہیں یہ تو علم الیقین کی مثال ہے۔ اور جس شخص کی خواب اور الہام کا سر چشمہ یہی درجہ ہے اُس کے دل پر اکثر شیطان کا تسلّط رہتا ہے اور اس کو گمراہ کرنے کے لئے وہ شیطان بعض اوقات ایسی خوابیں یا الہام پیش کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ اپنے تئیں قوم کا پیشوا یا رسول کہتا ہے اور ہلاک ہو جاتاہے جیساؔ کہ جموں کا رہنے والا بدقسمت چراغدین جو پہلے میری جماعت میں داخل تھا اسی وجہ سے ہلاک ہوا اور اُس کو شیطانی الہام ہوا کہ وہ رسول ہے اور مرسلین میں سے ہے اور حضرت عیسیٰ نے اُس کو ایک عصا دیا ہے کہ تا دجّال کو اُس سے قتل کرے اور مجھے اُس نے دجّال ٹھہرایا۔ آخر اس پیشگوئی کے مطابق جو رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں درج ہے مع اپنے دونوں لڑکوں کے طاعون سے جو اناں مرگ مرا۔ اور موت کے دنوں کے قریب اُس نے یہ مضمون بھی مباہلہ کے طور پر میرا نام لے کر شائع کیا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کر دے۔ سو وہ خود ۴؍اپریل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/51/mode/1up


۱۹۰۶ ؁ء کو مع اپنے دونوں لڑکوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ فاتقوااللّٰہ یا معشرالملھمین۔

دوسری حالت وہ ہے کہ جیسے انسان اندھیری رات کے وقت اور سخت سردی کے وقت ایک روشنی کو دور سے مشاہدہ کرتا ہے اور وہ روشنی اُس کو اگرچہ راہِ راست کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے مگر سردی کو دور نہیں کر سکتی۔ اِس درجہ کا نام عین الیقین ہے اور اس درجہ کا عارف خدا تعالیٰ سے تعلق تو رکھتا ہے مگر وہ تعلق کامل نہیں ہوتا۔ اِس مذکورہ بالا درجہ پر شیطانی الہامات بکثرت ہوتے ہیں کیونکہ ابھی ایسے شخص کو جس قدر شیطان سے تعلق ہوتا ہے خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا۔

تیسری حالت وہ ہے کہ جب انسان اندھیری رات اور سخت سردی کے وقت میں نہ صرف آگ کی روشنی پاتا ہے بلکہ اُس آگ کے حلقہ کے اندر داخل ہو جاتا ہے اور اُس کو محسوس ہو جاتا ہے کہ درحقیقت آگ یہ ہے اور اُس سے اپنی سردی کو دور کرتا ہے یہ وہ کامل درجہ ہے جس کے ساتھ ظنّ جمع نہیں ہو سکتا اور یہی وہ درجہ ہے جو بشریت کی سردی اور قبض کو بکلّی دور کرتا ہے۔ اِس حالت کا نام حق الیقین ہے اور یہ مرتبہ محض کامل افراد کو حاصل ہوتا ہے جو تجلّیاتِ الٰہیہ کے حلقہ کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اور علمی اور عملی دونوں حالتیں اُن کی درست ہو جاتی ہیں اِس درجہ سے پہلے نہ علمی حالت کمال کو پہنچتی ہے اور نہ عملی حالت مکمل ہوتی ہے اور اس درجہ کو پانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے کامل تعلق رکھتے ہیں اور حقیقت میں وحی کا لفظ انہیں ؔ کی وحی پر اطلاق پاتاہے کیونکہ وہ شیطانی تصرفات سے پاک ہوتی ہے اور وہ ظنّ کے درجہ پر نہیں ہوتی بلکہ یقینی اور قطعی ہوتی ہے اور وہ نور ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو ملتا ہے۔ اور ہزارہا برکات اُن کے ساتھ ہوتی ہیں اور بصیرت صحیحہ ان کو حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ دور سے نہیں دیکھتے بلکہ نور کے حلقہ کے اندر داخل کئے جاتے ہیں۔ اور اُن کے دل کو خدا سے ایک ذاتی تعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے جس طرح خدا تعالیٰ اپنے لئے یہ امر چاہتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے ایسا ہی اُن کے لئے بھی یہی چاہتا ہے کہ اُس کے بندے اُن کو شناخت کر لیں۔ پس اِسی غرض سے وہ بڑے بڑے نشان اُن کی تائید اور نصرت میں ظاہر کرتا ہے ہر ایک جو اُن کا مقابلہ کرتا ہے ہلاک ہوتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/52/mode/1up


ہر ایک جو اُن سے عداوت کرتا ہے آخر خاک میں ملایا جاتا ہے اور خدا اُن کی ہر بات میں اور حرکات میں اور اُن کے لباس میں اور مکان میں برکتیں رکھ دیتا ہے اور اُن کے دوستوں کا دوست اور اُن کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ اور زمین اور آسمان کو اُن کی خدمت میں لگا دیتا ہے اور جیسا کہ زمین اور آسمان کی مخلوقات پر نظر ڈال کر ماننا پڑتا ہے کہ ان مصنوعات کا ایک خدا ہے ایسا ہی اُن تمام نصرتوں اور تائیدوں اور نشانوں پر نظر ڈال کر جو اُن کے لئے خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے قبول کرنا پڑتا ہے کہ وہ مقبول الٰہی ہیں پس وہ اُن تائیدوں اور نصرتوں اور نشانوں سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کثرت اوراس صفائی سے ہوتے ہیں کہ اُن میں کوئی دوسرا شریک اُن کا ہو ہی نہیں سکتا۔

ماسوا اس کے جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اپنے صفاتِ اخلاقیہ سے دلوں میں اپنی محبت جماوے ایسا ہی اُن کی صفاتِ اخلاقیہ میں اِس قدر معجزانہ تاثیر رکھ دیتا ہے کہ دل اُن کی طرف کھنچے جاتے ہیں۔ وہ ایک عجیب قوم ہے کہ مَرنے کے بعد زندہ ہوتے ہیں اور کھونے کے بعد پاتے ہیں اور اِس قدر زور سے صدق اور وفا کی راہوں پر چلتے ہیں کہ اُن کے ساتھ خدا کی ایک الگ عادت ہو جاتی ہے گویا اُن کا خدا ایک الگ خدا ہے جس سے دنیاؔ بے خبر ہے۔ اور اُن سے خدا تعالیٰ کے وہ معاملات ہوتے ہیں جو دوسروں سے وہ ہر گز نہیں کرتا جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خدا تعالیٰ کا وفادار بندہ تھا اِس لئے ہر ایک ابتلاء کے وقت خدا نے اُس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اُس کے لئے سرد کر دیا۔ اور جب ایک بد کردار بادشاہ اُن کی بیوی سے بد ارادہ رکھتا تھا تو خدا نے اُس کے اُن ہاتھوں پر بلا نازل کی جن کے ذریعہ سے وہ اپنے پلید ارادہ کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ پھر جبکہ ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے پیارے بیٹے کو جو اسمٰعیل تھا ایسی پہاڑیوں میں ڈال دیا جن میں نہ پانی نہ دانہ تھا تو خدا نے غیب سے اُس کے لئے پانی اور سامانِ خوراک پیدا کر دیا۔

اورظاہر ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ ظالم لوگ اُن کو ہلاک کر دیتے ہیں اور آگ میں ڈالتے اور پانی میں غرق کر دیتے ہیں اور کوئی مدد خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو نہیں پہنچتی گو وہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/53/mode/1up


نیک بھی ہوتے ہیں۔ اورکئی لوگ ایسے ہیں کہ بد ذات لوگ اُن کی عورتوں سے زنا بالجبر کرتے ہیں۔ اور کئی ایسے لوگ ہیں جن کی اولاد کسی جنگل میں پانی سے ترستی ترستی مر جاتی ہے اور اُن کے لئے غیب سے کوئی آبِ زمزم پیدا نہیں ہوتا۔ پس اِس سے سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر ایک شخص سے بقدر تعلق ہوتا ہے۔ اور گو محبوبین الٰہی پر مصائب بھی پڑتی ہیں مگر نُصرتِ الٰہی نمایاں طور پر اُن کے شاملِ حال ہوتی ہے اور غیرتِ الٰہی ہر گز ہر گز گوارا نہیں کرتی کہ اُن کو ذلیل اور رسوا کرے اور اُس کی محبت گوارا نہیں کرتی کہ اُن کا نام دنیا سے مٹا دے۔

اور کرامات کی اصل بھی یہی ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا کا ہو جاتا ہے اور اُس میں اور اُس کے ربّ میں کوئی حجاب باقی نہیں رہتا اور وہ وفا اور صدق کے تمام اُن مراتب کو پورے کرکے دکھلاتا ہے جو حجاب سوز ہیں تب وہ خدا کا اور اُس کی قدرتوں کا وارث ٹھہرایا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ طرح طرح کے نشان اس کے لئے ظاہر کرتا ہے جو بعض بطور دفع شر ہوتےؔ ہیں اور بعض بطور افاضۂ خیر اور بعض اُس کی ذات کے متعلق ہوتے ہیں اور بعض اُس کے اہل وعیال کے متعلق اور بعض اُس کے دشمنوں کے متعلق اور بعض اُس کے دوستوں کے متعلق اور بعض اُس کے اہل وطن کے متعلق اور بعض عالمگیر اور بعض زمین سے اور بعض آسمان سے۔ غرض کوئی نشان ایسا نہیں ہوتا جو اُس کے لئے دِکھلایا نہیں جاتا اور یہ مرحلہ دقّت طلب نہیں اور کسی بحث کی اِس جگہ ضرورت نہیں کیونکہ اگر درحقیقت کسی شخص کو یہ تیسرا درجہ نصیب ہو گیا ہے جو بیان ہو چکا ہے تو دنیا ہر گز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہر ایک جو اُس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جس پر وہ گرے گا اُس کو ریزہ ریزہ کر دے گا کیونکہ اُس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ اور اُس کا مُنہ خدا کا مُنہ ہے اور اُس کا وہ مقام ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ظاہر ہے کہ اگرچہ درہم و دینار اکثر لوگوں کے پاس (جو مالدار ہیں) ہوتے ہیں لیکن اگر وہ گُستاخی کرکے بادشاہ کا مقابلہ کریں جس کے خزائن مشرق و مغرب میں پڑے ہوئے ہیں تو ایسے مقابلہ کا انجام بجز ذلّت کے کیا ہوگا؟ ایسے لوگ ہلاک ہوں گے اور وہ تھوڑے سے درہم و دینار اُن کے بھی ضبط کئے جائیں گے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/54/mode/1up


عزیز خدا کا نام ہے وہ اپنی عزّت کسی کو نہیں دیتا مگر اُنہیں کو جو اُس کی محبت میں کھوئے گئے ہیں۔ ظاہر خدا کا نام ہے وہ اپنا ظہور کسی کو نہیں بخشتا مگر اُنہیں کو جو اُس کے لئے بمنزلہ اُس کی توحید اور تفرید کے ہیں اور ایسے اُس کی دوستی میں محو ہوئے ہیں جو اَبْ بمنزلہ اُس کی صفات کے ہیں۔ وہ ان کو نور دیتا ہے اپنے نور میں سے اور علم دیتا ہے اپنے علم میں سے تب وہ اپنے سارے دل اور ساری جان اور ساری محبت سے اُس یاریگانہ کی پرستش کرتے ہیں اور اُس کی رضا کو ایسا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ خود چاہتا ہے۔

انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستارِ الٰہی کہلا سکتے ہیں بلکہ پرستش اُس سے ہوسکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اؔ س کا اپنا وجود درمیان سے اُٹھ جائے اوّل خداکی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حُسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اُس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اُس کی ہستی کے آگے مُردہ متصّور ہو اور ہر ایک خوف اُسی کی ذات سے وابستہ ہو اور اُسی کی درد میں لذّت ہو اور اُسی کی خلوت میں راحت ہو اور اُس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو۔ اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے مگر یہ حالت بجُز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو۔ اِسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی 3 ۱؂ یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حقِّ پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مدد نہ ہو۔ خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اُس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اُسی پر توکّل کرے اور اُسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اُسی کو اختیار کرے اور اپنی زندگی کا مقصد اُسی کی یاد کو سمجھے اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حُکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجا لائے اور رضاجوئی اپنے آقائے کریم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/55/mode/1up


میں اس حد تک کوشش کرے کہ اُس کی اطاعت میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے۔ تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے اور اس شربت کو پیتے ہیں۔ زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہُنر نہیں۔ مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور سچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اورؔ جو شخص یہ عبادت بجا لاتا ہے تب تو اُس کے اِس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے 3۔3 3 ۱؂ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا اُن لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے۔ حضرت احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اُس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے چنانچہ خوارق اور نشان جن کی دوسرے لوگ نظیرپیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالیٰ کے انعام ہیں جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں۔

اے گرفتارِ ہوا در ہمہ اوقاتِ حیٰوۃ

باچنیں نفس سیہ چوں رسدت زو عَونے


گر تو آن صدق بورزی کہ بورزید کلیم

عجبے نیست اگر غرق شود فرعونے

اب خلاصہ اس تمام کلام کا یہ ہے کہ کسی کو بجُز درجہ ثالثہ کے پاک اور مطہر وحی کا انعام نہیں مل سکتا اور اس انعام کو پانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ہستی سے مر جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے ایک نئی زندگی پاتے ہیں اور اپنے نفس کے تمام تعلقات توڑ کر خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر لیتے ہیں۔ تب اُن کا وجود مظہر تجلّیاتِ الٰہیہ ہو جاتا ہے اور خدا اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ ہزار اپنے تئیں پوشیدہ کریں مگر خدا تعالیٰ اُن کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اور وہ نشان اُن سے ظاہر ہوتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/56/mode/1up


دنیا اُن کا کسی بات میں مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ ہر ایک راہ میں خدا اُن کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر ایک میدان میں خدا کا ہاتھ اُن کو مدد دیتا ہے۔ ہزارہا نشان اُن کی تائید اور نصرت میں ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک جو اُن کی دشمنی سے باز نہیں آتا آخر وہ بڑی ذِلّت کے ساتھ ہلاک کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خدا کے نزدیک اُن کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ خدا حلیم ہے اور آہستگی سے کام کرتا ہے لیکن ہر ایک جو اُن کی دشمنی سے باز نہیں آتا اور عمداً ایذا پر کمر ؔ بستہ ہے خدا اُس کے استیصال کے لئے ایسا حملہ کرتا ہے کہ جیسا کہ ایک مادہ شیر (جبکہ کوئی اُس کے بچہ کو مارنے کے لئے قصد کرے) غضب اور جوش کے ساتھ اُس پر حملہ کرتی ہے اور نہیں چھوڑتی جب تک اُس کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کر دے۔ خدا کے پیارے اور دوست ایسی مصیبتوں کے وقت میں ہی شناخت کئے جاتے ہیں جب کوئی اُن کو دُکھ دینا چاہتا ہے اور اس ایذا پر اصرار کرتا ہے اور باز نہیں آتا تب خدا صاعقہ کی طرح اُس پر گرتا ہے اور طوفان کی طرح اپنے غضب کے حلقہ میں اُس کو لے لیتا ہے اور بہت جلد ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہے جس طرح تم دیکھتے ہو کہ آفتاب کی روشنی اور کرمِ شب چراغ کی روشنی میں کوئی اشتباہ نہیں ہو سکتا اِسی طرح وہ نور جو اُن کو دیا جاتا ہے اور وہ نشان جو اُن کے لئے ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ روحانی نعمتیں جو اُن کو عطاہوتی ہیں اُن کے ساتھ کسی کا اشتباہ واقع نہیں ہو سکتا اور اُن کی نظیر کسی فرد میں پائی نہیں جاتی۔ خدا اُن پر نازل ہوتا ہے اور خدا کا عرش اُن کا دِ ل ہو جاتا ہے اور وہ ایک اور چیز بن جاتے ہیں جس کی تہ تک دنیا نہیں پہنچ سکتی۔

اور یہ سوال کہ کیوں خدا اُن سے ایسا تعلق پکڑ لیتا ہے؟ اِس کا یہ جواب ہے کہ خدا نے انسان کی ایسی فطرت رکھی ہے کہ وہ ایک ایسے ظرف کی طرح ہے جو کسی قسم کی محبت سے خالی نہیں رہ سکتا اور خلایعنی خالی رہنا اُس میں محال ہے پس جب کوئی ایسا دل ہو جاتا ہے کہ نفس کی محبت اور اُس کی آرزوؤں اور دنیا کی محبت اور اُس کی تمناؤں سے بالکل خالی ہو جاتا ہے اور سفلی محبتوں کی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے تو ایسے دل کو جو غیر کی محبت سے خالی ہو چکا ہے خدا تعالیٰ تجلّیات حسن و جمال کے ساتھ اپنی محبت سے پُر کر دیتا ہے تب دنیا اُس سے دشمنی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/57/mode/1up


کرتی ہے کیونکہ دنیا شیطان کے سایہ کے نیچے چلتی ہے اِس لئے وہ راستباز سے پیار نہیں کر سکتی مگر خدا اُس کو ایک بچہ کی طرح اپنے کنارِ عاطفت میں لے لیتا ہے اور اُس کے لئے ایسی ایسی طاقتِ الوہیت کے کام دکھلاتا ہے جس سے ہر ایک دیکھنے والے کی آنکھ کو چہرہ خدا کا نظر آجاتا ہے۔ پس اُس کا وجود خدا نما ہوتا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔

اور ؔ یاد رہے کہ جیسا کہ تیسری قسم کے لوگوں کی خوابیں نہایت صاف ہوتی ہیں اور پیشگوئیاں اُن کی تمام دنیا سے بڑھ کر صحیح نکلتی ہیں اور نیز وہ عظیم الشان اُمور کے متعلق ہوتی ہیں اور اس قدر اُن کی کثرت ہوتی ہے کہ گویا ایک سمندر ہے۔ ایسا ہی ان کے معارف اور حقائق بھی کیفیت اور کمیّت میں تمام بنی نوع سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور خدا کے کلام کے متعلق وہ معارفِ صحیحہ اُن کو سوجھتے ہیں جو دوسروں کو نہیں سوجھ سکتے کیونکہ وہ روح القدس سے مدد پاتے ہیں اور جس طرح اُن کو ایک زندہ دل دیا جاتا ہے اسی طرح اُن کو ایک زبان عطا کی جاتی ہے اور اُن کے معارف حال کے چشمہ میں سے نکلتے ہیں نہ محض قال کے گندہ کیچڑ سے اور انسانی فطرت کی تمام عمدہ شاخیں اُن میں پائی جاتی ہیں اور اِسی کے مقابل پر تمام قسم کی نصرت بھی اُن کو عطا ہوتی ہے۔ اُن کے سینے کھولے جاتے ہیں اور اُن کو خدا کی راہ میں ایک غیر معمولی شجاعت بخشی جاتی ہے وہ خدا کے لئے موت سے نہیں ڈرتے اور آگ میں جل جانے سے خوف نہیں کرتے۔ اُن کے دودھ سے ایک دنیا سیراب ہوتی ہے اور کمزور دل قوت پکڑتے ہیں۔ خدا کی رضا جوئی کے لئے اُن کے دل قربان ہوتے ہیں۔ وہ اُسی کے ہو جاتے ہیں اسی لئے خدا اُن کا ہو جاتا ہے اور جب وہ اپنے سارے دل سے خدا کی طرف جھکتے ہیں تو خدا اُسی طرح اُن کی طرف جھکتا ہے کہ ہر ایک کو پتہ لگ جاتا ہے کہ ہرمیدان میں خدا اُن کی پاسداری کرتا ہے۔ درحقیقت خدا کے لوگوں کو کوئی شناخت نہیں کر سکتا مگر وہی قادر خدا جس کی دلوں پر نظر ہے پس جس دل کو وہ دیکھتا ہے کہ سچ مچ اُس کی طرف آگیا۔ اُس کے لئے عجیب عجیب کام دکھلاتا ہے اور اُس کی مدد کے لئے ہر ایک راہ میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ اُس کے لئے وہ قدرتیں دکھلاتا ہے جو دنیا پر مخفی ہیں اور اس کے لئے ایسا غیرت مند ہو جاتا ہے کہ کوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/58/mode/1up


خویش اپنے خویش کے لئے ایسی غیرت دکھلا نہیں سکتا۔ اپنے علم میں سے اُس کو علم دیتا ہے اور اپنی عقل میں سے اُس کو عقل بخشتا ہے اور اُس کو اپنے لئے ایسا محو کر دیتا ہے کہ دوسرے تمامؔ لوگوں سے اُس کے تعلقات قطع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی محبت میں مَر کر ایک نیا تولّد پاتے ہیں اور فنا ہو کر ایک نئے وجود کے وارث بنتے ہیں۔ خدا اُن کو غیروں کی آنکھ سے ایسا ہی پوشیدہ رکھتا ہے جیسا کہ وہ آپ پوشیدہ ہے۔ مگر پھر بھی اپنے چہرہ کی چمک اُن کے مُنہ پر ڈالتا ہے اور اپنا نور اُن کی پیشانی پر برساتا ہے جس سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ اور اُن پر جب کوئی مصیبت آوے تو وہ اُس سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ آگے قدم بڑھاتے ہیں اور اُن کا آج کا دن کل کے دِن سے جو گذرگیا معرفت اور محبت میں زیادہ ہوتا ہے اور ہر ایک دم محبتانہ تعلق اُن کا ترقی میں ہوا کرتا ہے اور اُن کی شدّتِ محبت اور توکل اور تقویٰ کی وجہ سے اُن کی دُعائیں ردّ نہیں ہوتیں اور وہ ضائع نہیں کی جاتیں کیونکہ وہ خدا کی رضا جوئی میں گُم ہو جاتے ہیں اور اپنی رضا ترک کر دیتے ہیں اِس لئے خدا بھی اُن کی رضا جوئی کرتا ہے۔ وہ نہاں درنہاں ہوتے ہیں دنیا اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور چلے جاتے ہیں اور اُن کے بارے میں سر سری رائیں نکالنے والے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ نہ دوست اُن کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے نہ کوئی دشمن کیونکہ وہ احدیّت کی چادر کے اندر مخفی ہوتے ہیں۔ کون اُن کی پوری حقیقت جانتا ہے مگر وہی جس کے جذباتِ محبت میں وہ سرمست ہیں۔ وہ ایک قوم ہے جو خدا نہیں مگر خدا سے ایک دم بھی الگ نہیں۔ وہ سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والے۔ سب سے زیادہ خدا سے وفاکرنے والے۔ سب سے زیادہ خدا کی راہ میں صدق اور استقامت دکھلانے والے۔ سب سے زیادہ خدا پر توکل کرنے والے۔ سب سے زیادہ خدا کی رضا کو ڈھونڈنے والے۔ سب سے زیادہ خدا کا ساتھ اختیار کرنے والے۔ سب سے زیادہ اپنے ربّ عزیز سے محبت کرنے والے ہیں اور تعلق باللہ میں اُن کا اُس جگہ تک قدم ہے جہاں تک انسانی نظریں نہیں پہنچتیں اِس لئے خدا ایک ایسی خارق عادت نصرت کے ساتھ اُن کی طرف دوڑتا ہے کہ گویا وہ اور ہی خدا ہے اور وہ کام اُن کے لئے دکھلاتا ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی کسی غیر کے لئے اُس نے دکھلائے نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/59/mode/1up


بابؔ چہارم

اپنے حالات کے بیان میں یعنی اس بات کے بیان

میں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم نے مجھے ان

اقسام ثلاثہ میں سے کِس قسم میں

داخل فرمایا ہے

خدا تعالیٰ اِس بات کو جانتا ہے اور وہ ہر ایک امرپر بہتر گواہ ہے کہ وہ چیز جو اُس کی راہ میں مجھے سب سے پہلے دی گئی وہ قلبِ سلیم تھا۔ یعنی ایسا دل کہ حقیقی تعلق اُس کا بجُز خدائے عزّوجلّ کے کسی چیز کے ساتھ نہ تھا۔ مَیں کسی زمانہ میں جوان تھا اور اَبْ بوڑھا ہوا۔ مگر مَیں نے کسی حصہ عمر میں بجز خدائیعزّوجلّ کسی کے ساتھ اپنا حقیقی تعلق نہ پایا۔ گویا رُومی مولوی صاحب نے میرے لئے ہی یہ دو شعر بنائے تھے: ؂

من زِ ہر جمعیّتے نالاں شُدم

جُفتِ خوشحالان و بدحالان شُدم


ہر کسے از ظنِّ خود شد یارِ من

و از درونِ من نجست اسرارِ من

اگرچہ خدا نے کسی چیز میں میرے ساتھ کمی نہیں رکھی اور اس درجہ تک ہر ایک نعمت اور راحت مجھے عطا کی کہ میرے دل اور زبان کو یہ طاقت ہرگز نہیں کہ مَیں اُس کا شکر ادا کر سکوں تا ہم میری فطرت کو اُس نے ایسا بنایا ہے کہ مَیں دنیا کی فانی چیزوں سے ہمیشہ دل برداشتہ رہا ہوں۔ اور اُس زمانہ میں بھی جبکہ مَیں اِس دنیا میں ایک نیا مسافر تھا اور میرے بالغ ہونے کے ایّام ابھی تھوڑے تھے۔ مَیں اِس تپشِ محبت سے خالی نہیں تھا جو خدائے عزّوجلّ سے ہونی چاہئے اور اِسی تپشِ محبت کی وجہ سے مَیں ہرگز کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوا۔ جس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/60/mode/1up


عقاؔ ئد خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیت کے برخلاف تھے یا کسی قسم کی توہین کو مستلزم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی مذہب مجھے پسند نہ آیا کیونکہ اس کے ہر قدم میں خدائے عزّوجلّ کی توہین ہے۔ ایک عاجز انسان جو اپنے نفس کی بھی مدد نہ کر سکا اُس کو خدا ٹھہرایا گیا اور اُسی کو خَالِقُ السَّمٰوات والارضسمجھا گیا۔ دنیا کی بادشاہت جو آج ہے اور کل نابود ہوسکتی ہے اُس کے ساتھ ذلّت جمع نہیں ہو سکتی۔ پھر خدا کی حقیقی بادشاہی کے ساتھ اتنی ذلّتیں کیوں جمع ہو گئیں کہ وہ قید میں ڈالا گیا اُس کو کوڑے لگے اور اُس کے مُنہ پر تھوکاگیا۔ اور آخر بقول عیسائیوں کے ایک *** موت اُس کے حصہ میں آئی جس کے بغیر وہ اپنے بندوں کو نجات نہیں دے سکتا تھا * کیا ایسے کمزور خدا پر کچھ بھروسہ ہو سکتا ہے اور کیا خدا بھی ایک فانی انسان کی طرح مَر جاتا ہے اور پھر صرف جان نہیں بلکہ اُس کی عصمت اور اُس کی ماں کی عصمت پر بھی یہودیوں نے ناپاک تُہمتیں لگائیں اور کچھ بھی اُس خدا سے نہ ہو سکا کہ زبردست طاقتیں دکھلا کر اپنی بریّت ظاہر کرتا۔ پس ایسے خدا کا ماننا عقل تجویز نہیں کر سکتی جو خود مصیبت زدہ ہونے کی حالت میں مر گیا اور یہودیوں کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکا اور یہ کہنا کہ اُس نے عمداً اپنے تئیں صلیب پر چڑھایا تا اُس کی اُمت کے گناہ بخشے جائیں اِس سے زیادہ کوئی بیہودہ خیال نہیں ہوگا۔ جس شخص نے تمام رات


یہ بات کہ اس *** موت پر مسیح خود راضی ہو گیا تھا اِس دلیل سے ردّ ہو جاتی ہے کہ مسیح نے باغ میں رو رو کر دعاکی کہ وہ پیالہ اُس سے ٹل جائے اور پھر صلیب پر کھنچنے کے وقت چیخ مار کر کہا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ اگر وہ اس صلیبی موت پر راضی تھا تو اُس نے کیوں دعائیں کیں اور یہ خیال کہ مسیح کی صلیبی موت خدا تعالیٰ کی طرف سے مخلوق پر ایک رحمت تھی اور خدا نے خوش ہو کر ایسا کام کیا تھا تا دنیا مسیح کے خون سے نجات پاوے تو یہ وہم اِس دلیل سے ردّ ہو جاتا ہے کہ اگر درحقیقت اُس دن رحمت الٰہی جوش میں آئی تھی تو کیوں اُس دن سخت زلزلہ آیا یہاں تک کہ ہیکل کا پردہ پھٹ گیا اور کیوں سخت آندھی آئی اور سورج تاریک ہو گیا۔ اِس سے تو صریح معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح کو صلیب دینے پر سخت ناراض تھا جس کی وجہ سے چالیس۴۰ برس تک خدا نے یہودیوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا رہے۔ اوّل سخت طاعون سے ہلاک ہوئے اور آخر طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی مارے گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/61/mode/1up


اپنی جان بچانے کے لئے رو رو کر ایک باغ میں دعا کی اور وہ بھی منظور نہ ہوئی اور پھر گھبراہٹ اس قدر اس پر غالب آئی کہ صلیب پر چڑھنے کے وقت ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر اپنے خدا کو خدا کرکے پکارا اور اس شدّتِ بیقراری میں باپ کہنا بھی بھول گیا۔ کیا اُس کی نسبت کوئی خیال کر سکتا ہے کہ اُس نے اپنی مرضی سے جان دی۔ عیسائیوں کے اِس متناقض بیان کو کون سمجھ سکتا ہے کہ ایک طرف تو یسوع کو خدا ٹھہرایا جاتا ہے پھر وہی خدا کسی اور خدا کے آگے رو رو کر دعاکرتا ہے جبکہ تینوں خدا یسوع کے اندر ہی موجود تھے اور وہ اُن سب کا مجموعہ تھا تو پھر اُس نے کِس کے آگے رو رو کر دعاکی۔ اِس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک اُن تین۳ خداؤں کے علاوہ کوئی اور بھی زبردست خداؔ ہے جو اُن سے الگ اور اُن پر حکمران ہے جس کے آگے تینوں خداؤں کو رونا پڑا۔

پھر جس غرض کیلئے خود کُشی اختیار کی گئی وہ غرض بھی تو پُوری نہ ہوئی۔* غرض تو یہ تھی کہ یسوع کو ماننے والے گناہ اور دنیا پرستی اوردنیا کے لالچوں سے باز آجائیں مگر نتیجہ برعکس ہوا۔ اِس خود کُشی سے پہلے تو کسی قدر یسوع کے ماننے والے رُو بخدا بھی تھے مگر بعد اس کے جیسے جیسے خود کُشی اور کفّارہ کے عقیدہ پر زور دیا گیا اُسی قدر دنیا پرستی اور دنیا کے لالچ اور دنیا کی


* افسوس کہ قرون ثلاثہ کے بعد بعض مسلمانوں کے فرقوں کا یہ مذہب ہو گیا کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے محفوظ رہ کر آسمان پر زندہ چلے گئے اور ابتک وہیں زندہ مع جسم عنصری بیٹھے ہیں اُن پر موت نہیں آئی اور اس طرح پر ان نادان مسلمانوں نے عیسائی مذہب کو بڑی مدد دی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ کی موت کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں حالانکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں بتصریح ان کی موت کا ذکر ہے مثلاً آیت3 ۱؂ کیسی صاف تصریح سے ان کی موت پر دلالت کرتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ آیت 3 ۲؂ حضرت عیسٰیؑ کی حیات پر دلالت کرتی ہے۔ ان کی ایسی سمجھ پر رونا آتا ہے۔ کیا جو شخص مصلوب نہیں ہوتا وہ مرتا نہیں؟ میں نے بار بار بیان کیا ہے کہ قرآن شریف میں نفی صلیب اور رفع عیسیٰ کا ذکر اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ کی حیات ثابت کرے بلکہ اس لئے یہ ذکر ہے کہ تایہ ثابت کرے کہ عیسیٰ *** موت سے نہیں مرا۔ اور مومنوں کی طرح اس کا رفع روحانی ہوا ہے اِس میں یہود کا ردّ مقصود ہے کیونکہ وہ اُن کے رفع ہونے کے منکر ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/62/mode/1up


خواہش اور شراب خواری اور قمار بازی اور بد نظری اور ناجائز تعلقات عیسائی قوم میں بڑھ گئے کہ جیسے ایک خونخوار اور تیز رَو دریا پر جو ایک بند لگایا گیا تھا وہ بندیک دفعہ ٹوٹ جائے اور اِرد گرد کے تمام دیہات اور زمین کو تباہ کر دے۔ یہ بھی یاد رہے کہ صرف گناہ سے پاک ہونا انسان کیلئے کمال نہیں۔ ہزاروں کیڑے مکوڑے اور چرندو پرند ہیں کہ کوئی گناہ نہیں کرتے۔ پس کیا ان کی نسبت ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ خدا تک پہنچ گئے ہیں۔ پس سوال یہ ہے کہ مسیح نے رُوحانی کمالات کے حاصل کرنے کے لئے کونسا کفّارہ دیا انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ اوّل بدی سے پرہیز کرنا۔ دوم نیکی کے اعمال کو حاصل کرنا اور محض بدی کو چھوڑنا کوئی ہنر نہیں ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے یہ دونوں قُوتیں اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ ایک طرف تو جذباتِ نفسانی اس کو گناہ کی طرف مائل کرتے ہیں اور دُوسری طرف محبتِ الٰہی کی آگ جو اُس کی فطرت کے اندر مخفی ہے وہ اُس گناہ کے خس و خاشاک کو اس طرح پر جلا دیتی ہے جیسا کہ ظاہری آگ ظاہری خس و خاشاک کو جلاتی ہے۔ مگر اُس رُوحانی آگ کا افروختہ ہونا جو گناہوں کو جلاتی ہے معرفتِ الٰہی پر موقوف ہے کیونکہ ہر ایک چیز کی محبت اور عشق اُس کی معرفت سے وابستہ ہے۔ جس چیز کے حسن اور خوبی کا تمہیں علم نہیں تم اس پر عاشق نہیں ہو سکتے۔ پس خدائے عزّوجلّکی خوبی اور حُسن و جمال کی معرفت اس کی محبت پیدا کرتی ہے اور محبت کی آگ سے گناہ جلتے ہیں مگر سنّت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے کہ وہ معرفت عام لوگوں کو نبیوں کی ؔ معرفت ملتی ہے اور ان کی روشنی سے وہ روشنی حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اُن کو دیا گیا وہ اُن کی پیروی سے سب کچھ پالیتے ہیں۔

مگر افسوس کہ عیسائی مذہب میں معرفت الٰہی کادروازہ بند ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی پر مُہر لگ گئی ہے اور آسمانی نشانوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پھر تازہ بتازہ معرفت کس ذریعہ سے حاصل ہو۔ صرف قصّوں کو زبان سے چاٹو۔ ایسے مذہب کو ایک عقلمند کیا کرے جس کا خدا ہی کمزور اور عاجز ہے اور جس کا سارا مدار قصّوں اور کہانیوں پر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/63/mode/1up


اِسی طرح ہندو مذہب جس کی ایک شاخ آریہ مذہب ہے وہ سچائی کی حالت سے بالکل گِرا ہوا ہے اُن کے نزدیک اِس جہان کا ذرّہ ذرّہ قدیم ہے جن کاکوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ پس ہندوؤں کو اُس خدا پر ایمان نہیں جس کے بغیر کوئی چیز ظہور میں نہیں آئی اور جس کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی اور کہتے ہیں کہ اُن کا پرمیشر کسی کے گناہ معاف نہیں کر سکتا گویا اُس کی اخلاقی حالت انسان کی اخلاقی حالت سے بھی گری ہوئی ہے جبکہ ہم اپنے گنہگاروں کے گنہ معاف کر سکتے ہیں اور اپنے نفوس میں ہم یہ قوت پاتے ہیں کہ جو شخص سچے دل سے اپنے قصور کا اعتراف کرے اور اپنے فعل پر سخت نادم ہو اور آئندہ کے لئے اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کرے اور تذلّل اور انکسار سے ہمارے سامنے توبہ کرے تو ہم خوشی کے ساتھ اُس کے گناہ معاف کر سکتے ہیں بلکہ معاف کرنے سے ہمارے اندر ایک خوشی پیدا ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ وہ پرمیشر جو خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس کے پیدا کردہ گنہگار ہیں اور اُن کے گناہ کرنے کی طاقتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں۔ اُس میں یہ عمدہ خلق نہیں اور جب تک کروڑوں سال تک ایک گناہ کی سزا نہ دے خوش نہیں ہوتا۔ ایسے پرمیشر کے ماتحت رہ کر کیونکر کوئی نجات پا سکتا ہے اور کیونکر کوئی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔

غرض مَیں نے خوب غور سے دیکھا کہ یہ دونوں مذہب راستبازی کے مخالف ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں جس قدر اِن مذاہب میں روکیں اور نومیدی پائی جاتی ہے مَیں سب کو اِسؔ رسالہ میں لِکھ نہیں سکتا۔ صرف بطور خلاصہ لکھتا ہوں کہ وہ خدا جس کو پاک روحیں تلاش کرتی ہیں اور جس کو پانے سے انسان اِسی زندگی میں سچی نجات پا سکتا ہے اور اُس پر انوارِ الٰہی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور اُس کی کامل معرفت کے ذریعہ سے کامل محبت پیدا ہو سکتی ہے۔ اُس خدا کی طرف یہ دونوں مذہب رہبری نہیں کرتے اور ہلاکت کے گڑھے میں ڈالتے ہیں ایسا ہی اِن کے مشابہ دنیا میں اور مذاہب بھی پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ سب مذاہب خدائے واحد لاشریک تک نہیں پہنچا سکتے اور طالب کو تاریکی میں چھوڑتے ہیں۔

یہ وہ تمام مذاہب ہیں جن میں غور کرنے کے لئے میں نے ایک بڑا حصہ عمر کا خرچ کیا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/64/mode/1up


اور نہایت دیانت اورتدبّر سے اُن کے اُصول میں غور کی۔ مگر سب کو حق سے دور اور مہجور پایا۔ ہاں یہ مبارک مذہب جس کا نام اسلام ہے وہی ایک مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ اور وہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے پاک تقاضاؤں کو پورا کرنے والا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کی ایک ایسی فطرت ہے کہ وہ ہر ایک بات میں کمال کو چاہتا ہے۔ پس چونکہ انسان خدا تعالیٰ کے تعبدِ ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اِس لئے وہ اِس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا جس کی شناخت میں اُس کی نجات ہے اُسی کی شناخت کے بارے میں صرف چند بیہودہ قصوں پر حصر رکھے اور وہ اندھا رہنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ کے متعلق پورا علم پاوے گویا اُس کو دیکھ لے۔ سو یہ خواہش اُس کی محض اسلام کے ذریعہ سے پوری ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بعض کی یہ خواہش نفسانی جذبات کے نیچے چُھپ گئی ہے اور جو لوگ دنیاکی لذّات کو چاہتے ہیں اور دنیا سے محبت کرتے ہیں وہ بوجہ سخت محجوب ہونے کے نہ خدا کی کچھ پروا رکھتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کے وصال کے طالب ہیں۔ کیونکہ دنیا کے بُت کے آگے وہ سرنگوں ہیں۔ لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ جو شخص دنیا کے بُت سے رہائی پائے اور دائمی اور سچی لذّت کا طالب ہو وہ صرف قصّوں والے مذہب پر خوش نہیں ہو سکتا اورنہ اُس سے کچھ تسلّی پا سکتا ہے ایسا شخص محض اِسلام میں اپنی تسلّی پائے گا۔ اِسلام کا خدا کسی پر اپنےؔ فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں سے بُلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ اور جو لوگ پورے زور سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اُن کے لئے دروازہ کھولا جاتا ہے۔

سو مَیں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہُنر سے اِس نعمت سے کامل حصّہ پایا ہے جو مُجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر مَیں اپنے سیّد و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا۔ اُس پیروی سے پایا اور مَیں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/65/mode/1up


بجز پَیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصّہ پا سکتا ہے۔ اور مَیں اِس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پَیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذّت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّٰی اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ 33 ۱؂ یعنی اُن کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے بلکہ یکطرفہ محبت کا دعویٰ بالکل ایک جھوٹ اور لاف و گزاف ہے۔ جب انسان سچے طور پر خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو خدا بھی اُس سے محبت کرتا ہے۔ تب زمین پر اُس کے لئے ایک قبولیت پھیلائی جاتی ہے اور ہزاروں انسانوں کے دلوں میں ایک سچی محبت اُس کی ڈال دی جاتی ہے اور ایک قوّتِ جذب اُس کو عنایت ہوتی ہے ا ور ایک نور اُس کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب ایک انسان سچے دل سے خدا سے محبتؔ کرتا ہے اور تمام دنیا پر اس کو اختیار کر لیتا ہے اور غیر اللہ کی عظمت اور وجاہت اُس کے دل میں باقی نہیں رہتی بلکہ سب کو ایک مَرے ہوئے کیڑے سے بھی بدتر سمجھتا ہے۔ تب خدا جو اُس کے دل کو دیکھتا ہے ایک بھاری تجلّی کے ساتھ اُس پر نازل ہوتا ہے اور جس طرح ایک صاف آئینہ میں جو آفتاب کے مقابل پر رکھا گیا ہے آفتاب کا عکس ایسے پورے طور پر پڑتا ہے کہ مجاز اور استعارہ کے رنگ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہی آفتاب جو آسمان پر ہے اس آئینہ میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی خدا ایسے دل پر اُترتا ہے اور اُس کے دل کو اپنا عرش بنا لیتا ہے۔ یہی وہ امر ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ پہلی کتابوں میں جو کامل راستبازوں کو خدا کے بیٹے کرکے بیان کیا گیا ہے اس کے بھی یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ درحقیقت خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ یہ تو کُفر ہے اور خدا بیٹوں اور بیٹیوں سے پاک ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/66/mode/1up


اُن کامل راستبازوں کے آئینہ صافی میں عکسی طور پر خدا نازل ہوا تھا۔ اور ایک شخص کا عکس جو آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے استعارہ کے رنگ میں گویا وہ اس کا بیٹا ہوتا ہے کیونکہ جیسا کہ بیٹا باپ سے پیدا ہوتا ہے ایسا ہی عکس اپنے اصل سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جبکہ ایسے دل میں جو نہایت صافی ہے اور کوئی کدورت اُس میں باقی نہیں رہی تجلّیات الٰہیہ کا انعکاس ہوتا ہے تو وہ عکسی تصویر استعارہ کے رنگ میں اصل کے لئے بطور بیٹے کے ہو جاتی ہے۔ اِسی بناء پر توریت میں کہا گیا ہے کہ یعقوب میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا بیٹا ہے اور عیسیٰ ابن مریم کو جو انجیلوں میں بیٹا کہا گیا۔ اگر عیسائی لوگ اِسی حدتک کھڑے رہتے کہ جیسے ابراہیم اور اسحاق اور اسمٰعیل اور یعقوب اور یوسف اور موسیٰ اور داؤد اور سلیمان وغیرہ خدا کی کتابوں میں استعارہ کے رنگ میں خدا کے بیٹے کہلائے ہیں۔

ایسا ہی عیسیٰ بھی ہے تو اُن پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ کیونکہ جیسا کہ استعارہ کے رنگ میں ان نبیوں کو پہلے نبیوں کی کتابوں میں بیٹا کرکے پُکارا گیا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض پیشگوئیوں میں خدا کرکے پُکارا گیا ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ نہ وہ تمام نبیؔ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا ہیں بلکہ یہ تمام استعارات ہیں محبت کے پیرایہ میں۔ ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کے کلام میں بہت ہیں۔ جب انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا محو ہوتا ہے جو کچھ بھی نہیں رہتا تب اُسی فنا کی حالت میں ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس حالت میں اُن کا وجود درمیان نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 33 ۔۱؂ یعنی اِن لوگوں کو کہہ کہ اے میرے بندو خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو خدا تمام گناہ بخش دے گا۔ اب دیکھو اِس جگہ یَا عِبَادَ اللّٰہ کی جگہ یَاعِبَادِیْ کہہ دیا گیا حالانکہ لوگ خدا کے بندے ہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے۔ مگر یہ استعارہ کے رنگ میں بولا گیا۔

ایسا ہی فرمایا۔ 33 ۲؂ یعنی جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت خدا کی بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/67/mode/1up


جو اُن کے ہاتھوں پر ہے۔ اب ان تمام آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ٹھہرایا گیا مگر ظاہر ہے کہ وہ خدا کا ہاتھ نہیں ہے۔

ایسا ہی ایک جگہ فرمایا۔ 3 ۱؂ پس تم خدا کو یاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ پس اِس جگہ خدا تعالیٰ کو باپ کے ساتھ تشبیہ دی اور استعارہ بھی صرف تشبیہ کی حد تک ہے۔

ایسا ہی خدا تعالیٰ نے یہودیوں کا ایک قول بطور حکایت عن الیھود قرآن شریف میں ذکر فرمایا ہے اور وہ قول یہ ہے کہ 3 ۲؂ یعنی ہم خدا کے بیٹے اور اُس کے پیارے ہیں۔ اِس جگہ ابناء کے لفظ کا خدا تعالیٰ نے کچھ ردّ نہیں کیا کہ تم کُفر بکتے ہو بلکہ یہ فرمایا کہ اگر تم خدا کے پیارے ہو تو پھر وہ تمہیں کیوں عذاب دیتا ہے اور ابناء کا دوبارہ ذکر بھی نہیں کیا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہودیوں کی کتابوں میں خدا کے پیاروں کو بیٹاؔ کرکے بھی پکارتے تھے۔

اب اِس تمام بیان سے ہماری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔* چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جُھک جاتا ہے اور اُس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبتِ الٰہی کی ایک خاص تجلّی اُس پر پڑتی ہے اور اُس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذباتِ نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اُس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک


* اگر کوئی کہے کہ غرض تو اعمال صالحہ بجا لانا ہے تو پھر ناجی اورمقبول بننے کیلئے پیروی کی کیا ضرورت ہے اِس کا جواب یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا صادر ہونا خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے پس جبکہ خدا تعالیٰ نے ایک کو اپنی عظیم الشان مصلحت سے امام اور رسول مقرر فرمایا اور اُس کی اطاعت کے لئے حکم دیا تو جو شخص اس حکم کو پاکر پیروی نہیں کرتا اُس کو اعمال صالحہ کی توفیق نہیں دی جاتی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/68/mode/1up


پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

یہ تو کسب اور سلوک کی ہم نے ایک مثال بیان کی ہے لیکن بعض اشخاص ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے مدارج میں کسب اور سلوک اور مجاہدہ کو کچھ دخل نہیں بلکہ اُن کی شِکم مادر میں ہی ایک ایسی بناوٹ ہوتی ہے کہ فطرتًا بغیر ذریعہ کسب اور سعی اور مجاہدہ کے وہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔ اور اُس کے رسول یعنی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ان کو رُوحانی تعلق ہو جاتا ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور پھر جیسا جیسا اُن پر زمانہ گذرتا ہے وہ اندرونی آگ عشق اور محبت الٰہی کی بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ہی محبت رسول کی آگ ترقی پکڑتی ہے اور اِن تمام اُمور میں خدا اُن کا متولّی اور متکفّل ہوتا ہے اور جب وہ محبت اور عشق کی آگ انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ تب وہ نہایت بیقراری اور دردمندی سے چاہتے ہیں کہ خدا کا جلال زمین پر ظاہر ہو اور اسی میں اُن کی لذّت اور یہی اُن کا آخری مقصد ہوتا ہے۔ تب اُن کے لئے زمین پر خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کسی کے لئے اپنے عظیم الشان نشانؔ ظاہر نہیں کرتا اور کسی کو آئندہ زمانہ کی عظیم الشان خبریں نہیں دیتا۔ مگر اُنہیں کو جو اُس کے عشق اور محبت میں محو ہوتے ہیں اور اُس کی توحید اور جلال کے ظاہر ہونے کے ایسے خواہاں ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے۔ یہ بات اُنہیں سے مخصوص ہے کہ حضرت اُلوہیت کے خاص اسرار اُن پر ظاہر ہوتے ہیں اور غیب کی باتیں کمال صفائی سے اُن پر منکشف کی جاتی ہیں اور یہ خاص عزّت دوسرے کو نہیں دی جاتی۔

شاید ایک نادان خیال کرے کہ بعض عام لوگوں کو کبھی کبھی سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ بعض مرد یا عورتیں دیکھتے ہیں کہ کسی کے گھر میں لڑکی یا لڑکا پیدا ہوا تو وہی پیدا ہوجاتا ہے اور بعض کو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا تو وہ مر بھی جاتا ہے یا بعض ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات دیکھ لیتے ہیں تو وہ ایسے ہی ہو جاتے ہیں۔ تو مَیں اِس وسوسہ کا پہلے ہی جواب دے آیا ہوں کہ ایسے واقعات کچھ چیز ہی نہیں ہیں اور نہ کسی نیک بختی کی اِن میں شرط ہے۔ بہت سے خبیث طبع اور بدمعاش بھی ایسی خوابیں اپنے لئے یا کسی اور کیلئے دیکھ لیتے ہیں لیکن وہ امور جو خاص طور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/69/mode/1up


کے غیب ہیں وہ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں۔ وہ لوگ عام لوگوں کی خوابوں اور الہاموں سے چا۴ر طور کا امتیاز رکھتے ہیں۔ ایک یہ کہ اکثر اُن کے مکاشفات نہایت صاف ہوتے ہیں اور شاذو نادر مشتبہ ہوتا ہے مگر دوسرے لوگوں کے مکاشفات اکثر مکدّر اور مشتبہ ہوتے ہیں اور شاذونادر کوئی صاف ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ عام لوگوں کی نسبت اِس قدر کثیر الوقوع ہوتے ہیں کہ اگر مقابلہ کیا جائے تو وہ مقابلہ ایسا فرق رکھتا ہے جیسا کہ ایک بادشاہ اور ایک گدا کے مال کا مقابلہ کیا جائے۔ تیسرے اُن سے ایسے عظیم الشان نشان ظاہر ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا شخص اُن کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔ چوتھے اُن کے نشانوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں پائی جاتی ہیں اور محبوب حقیقی کی محبت اور نصرت کے آثار اُن میں نمودار ہوتے ہیں اور صریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ ان نشانوں کے ذریعہ سے اُن مقبولوں کی عزّت اور قُربت کو دنیا پر ظاہرکرنا چاہتا ہے اور اُن کی وجاہت دلوں میں بٹھانا چاہتا ہے مگر جن کا خدا سے کامل تعلق نہیںؔ اُن میں یہ بات پائی نہیں جاتی بلکہ ان کی بعض خوابوں یا الہاموں کی سچائی اُن کے لئے ایک بلا ہوتی ہے۔ کیونکہ اِس سے ان کے دلوں میں تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے وہ مَرتے ہیں اور اُس جڑھ سے مخالفت پیدا کرتے ہیں جو شاخ کی سر سبزی کا موجب ہوتی ہے۔ اے شاخ یہ مانا کہ تُو سر سبز ہے اور یہ بھی قبول کیا کہ تجھے پھول اور پھل آتے ہیں مگر جڑھ سے الگ مت ہو کہ اِس سے تُو خشک ہو جائے گی اور تمام برکتوں سے محروم کی جائے گی کیونکہ تو جُزو ہے کل نہیں ہے۔ اورجو کچھ تُجھ میں ہے وہ تیرا نہیں بلکہ وہ سب جڑھ کا فیضان ہے۔*


* یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اُس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اورانتشار روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصّہ لیتی ہے ایسا ہی اُس وقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب اُن ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس قدر لوگوں کو خوابیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل اُن کے کھلنے کادروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اُترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسب استعداد حصہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہے مگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دنیا پر کھولا جاتا ہے اور اُس کا زمانہ ایک لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اُترتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂ جب سے خدا نے دنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/70/mode/1up


اب مَیں بموجب آیۃ کریمہ 3۱؂ اپنی نسبت بیان کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اُس تیسرے درجہ میں داخل کرکے وہ نعمت بخشی ہے کہ جو میری کوشش سے نہیں بلکہ شِکم مادر میں ہی مجھے عطا کی گئی ہے میری تائید میں اُس نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ آج کی تاریخ سے جو ۱۶؍جولائی۱۹۰۶ء ہے۔ اگر مَیں اُن کو فردًا فردًا شمار کروں تو مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور اگر کوئی میری قسم کا اعتبار نہ کرے تو مَیں اُس کو ثبوت دے سکتا ہوں۔ بعض نشان اِس قِسم کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے ہر ایک محل پر اپنے وعدہ کے موافق مجھ کو دشمنوں کے شرّ سے محفوظ رکھا۔ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں ہرمحل میں اپنے وعدہ کے موافق میری ضرورتیں اور حاجتیں اُس نے پوری کیں اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں اُس نے بموجب اپنے وعدہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کے میرے پر حملہ کرنے والوں کو ذلیل اور رُسوا کیا اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو مجھ پر مقدمہ دائر کرنے والوں پر اُس نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق مجھ کو فتح دی اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو میری مدّتِ بعث سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ مُدّت دراز کسی کا ذب کو نصیب نہیں ہوئی اور بعض نشان زمانہ کی حالت دیکھنے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ زمانہ کسی امام کے پیدا ہونے کی ضرورت تسلیم کرتا ہے اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن میں دوستوں کے حق میں میری دُعائیں منظور ہوئیں اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو شریر دشمنوں پر میرؔ ی بد دعاکا اثر ہوا اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو میری دعاسے بعض خطرناک بیماروں نے شفاپائی اور اُن کی شفا کی پہلے خبر دی گئی۔ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جومیرے لئے اور میری تصدیق کے لئے عام طور پر خدا نے حوادث ارضی یا سماوی ظاہر کئے اور بعض نشان اس قسم کے ہیں جو میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے ممتاز لوگوں کو جو مشاہیر فقراء میں سے تھے خوابیں آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا جیسے سجادہ نشین صاحب العَلم سندھ جن کے مُرید ایک لاکھ کے قریب تھے اور جیسے خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے اور بعض



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/71/mode/1up


نشان اِس قسم کے ہیں کہ ہزار ہا انسانوں نے محض اِس وجہ سے میری بیعت کی کہ خواب میں اُن کو بتلایا گیا کہ یہ سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے اور بعض نے اِس وجہ سے بیعت کی کہ آنحضرت کو خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور یہ خدا کا آخری خلیفہ اور مسیح موعود ہے۔ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جو بعض اکابر نے میری پیدائش یا بلوغ سے پہلے میرا نام لے کر میرے مسیح موعود ہونے کی خبر دی جیسے نعمت اللہ ولی اور میاں گلاب شاہ ساکن جمالپور ضلع لدھیانہ اور بعض نشان اِس قسم کے ہیں جن کا دامن ہر ایک قوم کے مقابل پر اور ہر ایک ملک تک اور ہر ایک زمانہ تک وسیع چلا گیا ہے اور وہ سلسلہ مباہلات ہے جس کے بہت سے نمونے دنیا نے دیکھ لئے* ہیں اور مَیں کافی مقدار دیکھنے کے بعد مباہلہ کی رسم کو اپنی طرف سے ختم کر چکا ہوں لیکن ہر ایک جو مجھے کذّاب سمجھتا ہے اور ایک مکّار اور مُفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعویٰ مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذّب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی اُس کو میرا افترا خیال کرتا ہے۔ وہ خواہ مسلمان کہلاتا ہو یا ہندو یا آریہ یا کسی اورمذہب کا پابند ہو۔ اُس کو بہرحال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے یعنی خدا تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار چند اخباروں میں شائع کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص (اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے) جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے در حقیقت کذّاب ہے اور یہ الہام جن میں سے بعض اُس نے اس کتاب میں لکھے ہیں یہ ؔ خداکا کلام نہیں ہے بلکہ سب اُس کا افترا ہے اور مَیں اُس کو درحقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقین کامل کے ساتھ مفتری اور کذّاب اور دجّال سمجھتا ہوں۔ پس


* ہر ایک منصف مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور اپنی کتاب فیض رحمانی میں اس کو شائع کر دیا اور پھر اس مباہلہ سے صرف چند روز بعد فوت ہو گیا اور کس طرح چراغدین جموں والے نے اپنے طور سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ ہم دونوں میں سے جھوٹے کو خدا ہلاک کرے۔ اور پھر اس سے صرف چند روز بعد طاعون سے مع اپنے دونوں لڑکوں کے ہلاک ہو گیا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/72/mode/1up


اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذّاب اور مُفتری اور کافر اور بے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذاب شدید نازل کر ورنہ اُس کو عذاب میں مبتلا کر۔ آمین

ہر ایک کیلئے کوئی تازہ نشان طلب کرنے کیلئے یہ دروازہ کُھلا ہے اور مَیں اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس دعائے مباہلہ کے بعد جس کو عام طور پر مشتہر کرنا ہوگا اور کم سے کم تین نامی اخباروں میں درج کرنا ہوگا ایسا شخص جو اس تصریح کے ساتھ قسم کھا کر مباہلہ کرے اور آسمانی عذاب سے محفوظ رہے تو پھر مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ اس مباہلہ میں کسی میعاد کی ضرورت نہیں۔ یہ شرط ہے کہ کوئی ایسا امر نازل ہو جس کو دل محسوس کر لیں۔

اب چند الہامِ الٰہی ذیل میں مع ترجمہ لکھے جاتے ہیں* جن کے لکھنے سے غرض یہ ہے کہ ایسے مباہلہ کرنے والے کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر ان تمام میرے الہامات کو اپنے اس مضمون مباہلہ میں (جس کو شائع کرے) لکھے اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی شائع کرے کہ یہ تمام الہامات انسان کا افترا ہے خدا کا کلام نہیں ہے اور یہ بھی لکھے کہ ان تمام الہامات کو مَیں نے غور سے دیکھ لیا ہے۔ مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ انسان کا افترا ہے یعنی اِس شخص کا افترا ہے اور اس پر کوئی الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوا بالخصوص عبد الحکیم خان نام ایک شخص جو اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ ہے جو بیعت توڑ کر مُرتد ہو گیا ہے خاص طور پر اِس جگہ مخاطب ہے۔

اب ہم وہ الہامات بطور نمونہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔


* اِن الہامات کی ترتیب بوجہ بار بار کی تکرار کے مختلف ہے کیونکہ یہ فقرے وحی الٰہی کے کبھی کسی ترتیب سے کبھی کسی ترتیب سے مجھ پر نازل ہوئے ہیں اور بعض فقرے ایسے ہیں کہ شائد سو۱۰۰ سو۱۰۰ دفعہ یا اس سے بھی زیادہ دفعہ نازل ہوئے ہیں پس اس وجہ سے ان کی قراء ت ایک ترتیب سے نہیں اور شائد آئندہ بھی یہ ترتیب محفوظ نہ رہے کیونکہ عادت اللہ اسی طرح سے واقع ہے کہ اس کی پاک وحی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زبان پر جاری ہوتی اور دل سے جوش مارتی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ ان متفرق ٹکڑوں کی ترتیب آپ کرتا ہے اور کبھی ترتیب کے وقت پہلے ٹکڑہ کو عبارت کے پیچھے لگا دیتا ہے اور یہ ضروری سُنّت ہے کہ وہ تمام فقرے کسی ایک ہی خاص ترتیب پر نہیں رکھے جاتے۔ بلکہ ترتیب کے لحاظ سے ان کی قراء ت مختلف طور پر کی جاتی ہے اور بعض فقرے مکرر وحی میں پہلے الفاظ سے کچھ بدلائے جاتے ہیں۔ یہ عادت صرف خدا تعالیٰ کی خاص ہے وہ اپنے اسرار بہتر جانتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/73/mode/1up


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ


یا احمد بارک اللّٰہ فیکَ ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ

اے احمد خدانے تجھ میں برکت رکھ دی ہے۔ جو کچھ تُو نے چلایا وہ تُونے نہیں چلایا

وَلٰکِنَّ اللّٰہ رَمٰی ۔ الرَّحْمٰن ۔ عَلّمَ القراٰن ۔ لِتُنْذِرَ

بلکہ خدانے چلایا۔ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اس کے صحیح معنی تجھ پر ظاہر کئے۔ تاکہ

قَوْمًا مَا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ

تو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم

المجرمین ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَانا اوّل المؤمنین ۔

ہو جائے کہ کون تجھ سے برگشتہ ہوتا ہے۔ کہہ مَیں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور مَیں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں

قل جاء الحقّ وزھق الباطل اِنّ البَاطِلَ کَانَ زھُوقًا۔

کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا۔ اور باطل بھاگنے والا ہی تھا۔

کُلُّ برکۃٍ من محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔

ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔

فتبارک من علّم وتعلّم۔ وقالوا ان ھٰذا اِلّا

پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ اور کہیں گے کہ یہ وحی نہیں ہے یہ کلمات تو اپنی

اختلاق ۔قل اللّٰہ ثمّ ذرھم فی خوضہم یلعبون ۔

طرف سے بنائے ہیں۔ اُن کو کہہ وہ خدا ہے جس نے یہ کلمات نازل کئے پھر اُن کو لہوو لعب کے خیالات میں چھوڑ دے

قل ان افتریتُہٗ فعلیّ اجرام شدید ۔

اُن کو کہہ اگر یہ کلمات میرا افترا ہے اور خدا کا کلام نہیں تو پھرمَیں سخت سزا کے لائق ہوں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/74/mode/1up


و ؔ مَنْ اَظْلَم مِمّنِ افْتریٰ علَی اللّٰہِ کَذِبًا۔

اور اُس انسان سے زیادہ تر کون ظالم ہے جس نے خدا پر افترا کیا اور جھوٹ باندھا۔

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحقّ

خدا وہ خدا ہے جس نے اپنا رسول اور اپنا فرستادہ اپنی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔ تا اس

لِیظھرہٗ عَلَی الدّین کُلّہ ۔ لا مبدّل لِکلماتہٖ ۔

دین کو ہر قسم کے دین پر غالب کرے۔ خدا کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں کوئی ان کو بدل نہیں سکتا۔

یَقُولُونَ انّٰی لک ھٰذا اِنْ ھٰذا الَّا قول البشر ۔

اور لوگ کہیں گے کہ یہ مقام تجھے کہاں سے حاصل ہوا یہ جو الہام کرکے بیان کیا جاتا ہے یہ تو انسان کا قول ہے۔

واعانہٗ علیہ قومٌ اٰخَرون ۔ افتأتون السّحر

اور دوسروں کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ اے لوگو! کیا تم ایک فریب میں دیدہ و

وانتم تبصرون۔ ھَیْھات ھَیْھات لما تو عدُوْن ۔

دانستہ پھنستے ہو جو کچھ تمہیں یہ شخص وعدہ دیتا ہے اس کا ہونا کب ممکن ہے۔

مِنْ ھٰذا الّذی ھو مھینٌ جاھل اومجنون۔

پھر ایسے شخص کا وعدہ جو حقیر اور ذلیل ہے۔ یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے جو بے ٹھکا نے باتیں کرتا ہے

قُل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مُسْلِمُوْن ۔

ان کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کروگے یا نہیں۔

قُل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون ۔ ولقد لبثتُ

پھر اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاؤ گے یا نہیں۔ اور مَیں پہلے اس سے

فیکم عمرًا من قبلہٖ اَفَلا تعقلون ۔ ھٰذا من رحمۃ ربّک یتمّ

ایک مدت تک تم میں ہی رہتا تھا کیا تم سمجھتے نہیں۔ یہ مرتبہ تیرے رب کی رحمت سے ہے وہ اپنی

نعمتہ علیک ۔ فبشّر وما انت بنعمۃ ربّک بمجنون ۔

نعمت تیرے پر پوری کرے گا۔ پس تو خوشخبری دے اور خدا کے فضل سے تو دیوانہ نہیں ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/75/mode/1up


لک درجۃٌ فی السّماءِ وفی الّذین ھُم یُبْصِرون ۔ وَلک

تیرا آسمان پر ایک درجہ اورایک مرتبہ ہے اور نیز اُن لوگوں کی نگہ میں جو دیکھتے ہیں۔ اور تیرے لئے

نُرِیٓ اٰیَات ونھدم ما یعمرون۔ الحمد لِلّٰہِ الّذی

ہم نشان دکھائیں گے اور جو عمارتیں بناتے ہیں ہم ڈھادینگے۔ اُس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے

جعلک المسیح ابن مریم ۔ لا یُسئلُ عمّا یَفْعَلُ وھم

مسیح ابن مریم بنایا۔ وہ اُن کاموں سے پوچھا نہیں جاتا جو کرتا ہے۔ اور لوگ اپنے کاموں سے

یُسْءَلون*۔وَقالُوا اَتَجْعَلُ فیھا من یُّفْسِد فِیْھا

پوچھے جاتے ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ کیا تُو ایسے شخص کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے۔

قال اِنّی اعلمُ مَا لا تعلمون ۔ انّی مھین مَنْ اراد

اُس نے کہا کہ اسکی نسبت جو کچھ مَیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ مَیں اُس شخص کی اہانت کرونگا جو تیری

اھانتک۔ انّی لا یخاف لدیّ المرسلون ۔ کتب اللّٰہ

اہانت کا ارادہ کریگا۔ میرے قرب میں میرے رسول کسی دشمن سے نہیں ڈراکرتے۔ خدا نے لِکھ چھوڑا ہے کہ


خدا تعالیٰ کا پاک کلام جو میری کتاب براہین احمدیہ کے بعض مقامات میں لکھا گیا ہے اس میں خدا تعالیٰ نے بتصریح ذکر کر دیا ہے کہ کس طرح اُس نے مجھے عیسیٰ بن مریم ٹھہرایا۔ اس کتاب میں پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور بعد اس کے ظاہر کیا کہ اس مریم میں خدا کی طرف سے روح پُھونکی گئی اور پھر فرمایا کہ روح پھونکنے کے بعد مریمی مرتبہ عیسوی مرتبہ کی طرف منتقل ہو گیا اور اس طرح مریم سے عیسیٰ پیدا ہو کر ابن مریم کہلایا۔ پھر دوسرے مقام میں اسی مرتبہ کے متعلق فرمایا فاجاء ہ المخاض الٰی جذع النخلۃ ۔ قال یا لیتنی متّ قبل ھٰذا وکنت نسیًامَّنسیًّا۔ اس جگہ خدا تعالیٰ ایک استعارہ کے رنگ میں فرماتا ہے کہ جب اس مامور میں مریمی مرتبہ سے عیسوی مرتبہ کا تولّد ہوا اور اس لحاظ سے یہ مامور ابن مریم بننے لگا تو تبلیغ کی ضرورت جو دردِ زہ سے مشابہت رکھتی ہے اس کو اُمّت کی خشک جڑ کے سامنے لائی جن میں فہم اور تقویٰ کا پھل نہیں تھا اور وہ طیار تھے کہ ایسا دعویٰ سُن کر افترا کی تہمتیں لگاویں اور دُکھ دیں اور طرح طرح کی باتیں اُسکے حق میں کریں تب اُس نے اپنے دل میں کہا کہ کاش مَیں پہلے اس سے مرجاتا اور ایسا بُھولا بسرا ہو جاتا کہ کوئی میرے نام سے واقف نہ ہوتا۔ منہ

** اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام رسل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیا علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ مَیں آدم ہوں مَیں شیث ہوں مَیں نوح ہوں مَیں ابراہیم ہوں مَیں اسحٰق ہوں مَیں اسمٰعیل ہوں مٰں یعقوب ہوں مَیں یوسف ہوں مَیں موسٰی ہوں مَیں داؤد ہوں مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہر اتم ہوں یعنی ظلی طور پر محمدؐ اور احمدؐ ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/76/mode/1up


لَاَغْلِبَنَّ اَنَا ورُسُلی ۔ وَھم من بعد غلبھم سیغلبون*

مَیں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔ اور وہ مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہو جائیں گے۔

اِنّ اللّٰہ مع الّذین اتّقوا والّذین ھم محسنون ۔

خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو نکو کار ہیں۔

اریک زلزلۃ السَّاعَۃ ۔ انّی احافظ کُلّ مَنْ فی الدّار۔

قیامت کے مشابہ ایک زلزلہ آنے والا ہے جو تمہیں دکھاؤں گا اور مَیں ہر ایک کو جو اس گھر میں ہے نگہ

وَ ؔ امتازوا الیوْم اَیُّھا المُجْرمُوْن۔ جآء الحق وزھق

رکھوں گا۔ اے مجرمو ! آج تم الگ ہو جاؤ۔ حق آیا اور باطل بھاگ

الباطل ۔ ھٰذا الذی کنتم بہٖ تستعجلون ۔

گیا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے۔

بشارۃ تلقاھا النّبیّون ۔ اَنْتَ علٰی بیّنۃٍ مِن رَّبّک ۔

یہ وہ بشارت ہے جو نبیوں کو ملی تھی۔ تُو خدا کی طرف سے کھلی کھلی دلیل کے ساتھ ظاہر ہوا ہے

کفیناک المستَھْزِئین ۔ ھَل اُنبّئکم علٰی مَن تنزّل

وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں اُن کے لئے ہم کافی ہیں۔ کیا مَیں تمہیں بتلاؤں کہ کن لوگوں پر

الشیاطین۔ تنزّل علٰی کُلّ افّاکٍ اثیم۔ ولا تیئس

شیطان اُترا کرتے ہیں۔ ہر ایک کذّاب بدکار پر شیطان اُترتے ہیں۔ اور تُو خدا کی

من رّوح اللّٰہ ۔ اَلا انّ روح اللّٰہ قریب ۔ اَلا انّ نصر

رحمت سے نومید مت ہو۔ خبردار ہو کہ خدا کی رحمت قریب ہے۔ خبردار ہو کہ خدا کی مدد


* اس وحی الٰہی میں خدا نے میرا نام رُسُل رکھا کیونکہ جیسا کہ براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے تمام انبیاء علیہم السلام کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ مَیں آدم ہوں مَیں شیث ہوں مَیں نوح ہوں مَیں ابراہیم ہوں مَیں اسحٰق ہوں مَیں اسمٰعیل ہوں مَیں یعقوب ہوں مَیں یوسف ہوں مَیں موسیٰ ہوں مَیں داؤد ہوں مَیں عیسیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا مَیں مظہر اتم ہوں یعنی ظلّی طور پر محمدؐ اور احمدؐ ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/77/mode/1up


اللّٰہ قریب ۔ یاْ تیک من کُلّ فجٍّ عمیق ۔

قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک دُور کی راہ سے تجھے پہنچے گی اور ایسی راہوں سے پہنچے گی کہ وہ راہ لوگوں کے بہت چلنے سے

یاْتون من کُلِّ فجٍّ عمیق ۔

جو تیری طرف آئیں گے گہرے ہو جائیں گے اِس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ

ینصرک اللّٰہ من عندہ ۔ ینصرک رجال نوحی الیھم

چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے۔ خدا اپنی طرف سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں

من السماء ۔ لا مبدل لکلمات اللّٰہ ۔ قال رَبّک

ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔ تیرا ربّ فرماتا ہے

انّہٗ نازل من السّماء ما یرضیک ۔ انّا فتحنا لک

کہ ایک ایسا امر آسمان سے نازل ہوگا۔ جس سے تُو خوش ہو جائیگا۔ ہم ایک کُھلی کُھلی فتح تجھ کو

فتحًا مُبینًا۔ فتح الولی فتح وقربناہ نجیّا۔

عطا کریں گے۔ ولی کی فتح ایک بڑی فتح ہے اور ہم نے اسکو ایک ایسا قُرب بخشا کہ ہمراز اپنا بنادیا

اشجع الناس ۔ ولو کان الایمان معلّقًا بالثریّا

وہ تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے۔ اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تو وہ وہیں جاکر اس کو لے لیتا۔

لنا لہ ۔ انار اللّٰہ برھانہ ۔ کُنتُ کنزًا مخفیًّا

خدا اس کی حجت روشن کرے گا۔ مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا۔

فَاَحْبَبْتُ ان اُعرف۔ یاقمریا شمس انت منّی واَنا

پس مَیں نے چاہا کہ ظاہر کیا جاؤں۔ اے چاند اور اے سورج تُو مجھ سے ظاہر ہوا اور مَیں

منک۔ اذا جاء نصر اللّٰہ وانتھٰی امر الزمان الینا

تجھ سے۔ جب خدا کی مدد آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرے گا تب کہا جائے گا کہ کیا

وتمّت کلمۃ ربّک ۔ اَلَیْس ھٰذا بالحقّ۔ ولا تصعّر

یہ شخص جو بھیجا گیا حق پر نہ تھا اور چاہئے کہ تُو مخلوق الٰہی کے ملنے کے وقت چیں برجبیں نہ ہو اور چاہیئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/78/mode/1up


لخلق اللّٰہ ولا تسئم من النّاس ۔ ووسّع مکانک ۔

کہ تو لوگوں کی کثرت ملاقات سے تھک نہ جائے۔ اور تجھے لازم ہے کہ اپنے مکان کو وسیع کرے تا لوگ جو کثرت سے آئیں گے

وبشّر الّذین اٰمنوا انّ لھم قدم صدق عند ربّھم ۔

انکو اُترنے کیلئے کافی گنجائش ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دے کہ خدا کے حضور میں اُنکا قدم صدق پر

وَاتْلُ علیھم مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ من رَبِّکَ ۔ اصحاب الصّفّۃ ۔

ہے اور جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تیرے پر وحی نازل کی گئی ہے وہ ان لوگوں کو سُنا جو تیری جماعت میں داخل ہونگے

و ؔ ما ادراک ما اصحاب الصفّۃ ۔ ترٰی اعینھم تفیض

صفّہ کے رہنے والے اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفّہ کے رہنے والے۔ تو دیکھے گا کہ اُنکی آنکھوں سے آنسو

من الدَّمْعِ۔ یُصلّون علیک۔ ربّنا انّنا سمعنا منادیًا

جاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک منادی کرنے والے

ینادی للایمان ۔ وداعیًا الی اللّٰہ وسراجًا منیرًا۔ یا اَحْمَدُ

کی آواز سُنی ہے جو ایمان کی طرف بلاتا ہے اور خدا کی طرف بلاتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے۔ اے احمد تیرے

فاضت الرّحمۃ علٰی شفتیک ۔ انّک باعیننا۔ سمّیتک

لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔ تُو میری آنکھوں کے سامنے ہے مَیں نے تیرا نام

المتوکّل ۔ یرفع اللّٰہ ذکرک ویتمّ نعمتہٗ علیک فی الدنیا

متوکّل رکھا ہے۔ خدا تیرا ذکر بلند کرے گا۔ اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تیرے پر

والاٰخر ۃ ۔ بورکت یا احمد وکان مابارک اللّٰہ فیک

پوری کرے گا۔ اے احمد تُو برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی

حقّافیک ۔ شانک عجیب ۔ واجرک قریب ۔ الارض والسّماء

حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے۔ اور تیرا اجر قریب ہے۔ آسمان اور زمین

معک کما ھو معی ۔ انت وجیہ فِی حضرتی اخترتک

تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے مَیں نے تجھے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/79/mode/1up


لنفسی۔ سُبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی زاد مَجْدک

اپنے لئے چُنا۔ خدائے پاک بڑا برکتوں والا اور بڑا بزرگ ہے وہ تیری بزرگی کو زیادہ کرے گا۔

ینقطعؔ اٰبائک و یبدء منک*

تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا۔

وما کان اللّٰہ لیترکک حتّی یمیز الخبیث من الطیّب ۔

اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ کو چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلادے۔

اذا جآء نصر اللّٰہ والفتح وتمّت کلمۃ ربّک ۔ ھٰذا

اور جب خدا تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور خدا کا وعدہ پُورا ہوگا تب کہا جائے گا کہ یہ

الّذی کنتم بہٖ تستعجلون ۔ اَرَدتُ ان استخلف فخلقتُ

وہی امر ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔ مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو مَیں نے

ٰادَم ۔ دَنٰی فَتَدَلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی۔

اس آدم کو پَیدا کیا۔ وہ خدا سے نزدیک ہوا پھر مخلوق کی طرف جھکا اور خدا اور مخلوق کے درمیان ایسا

یُحْیِی الدّین ویقیم الشریعۃ ۔ یا اٰدم اسکن انت

ہو گیا جیسا کہ دو قوسوں کے درمیان کا خط ہوتا ہے دین کو زندہ کریگا اور شریعت کو قائم کریگا اے آدم

وزوجک الجنۃ ۔ یامریم اسکن انت وزوجک الجنۃ

تو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔ اے مریم تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔


یاد رہے کہ ظاہری بزرگی اور وجاہت کے لحاظ سے اس خاکسار کا خاندان بہت شہرت رکھتا تھا بلکہ اس زمانہ تک بھی کہ اس خاندان کی دنیوی شوکت زوال کے قریب قریب تھی۔ میرے دادا صاحب کے اِس نواح میں بیا۸۲سی گاؤں اپنی ملکیت کے تھے اور پہلے اِس سے وہ والیانِ ملک کے رنگ میں بسر کرتے تھے اور کسی سلطنت کے ماتحت نہ تھے۔ اور پھر رفتہ رفتہ حکمت اور مشیت ایزدی سے سکّھوں کے زمانہ میں چند لڑائیوں کے بعد سب کچھ کھو بیٹھے اور صرف چھ۶ گاؤں اُن کے قبضہ میں رہے اور پھر دو گاؤں اور ہاتھ سے جاتے رہے اور صرف چار گاؤں رہ گئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/80/mode/1up


یاؔ احمد اسکن انت و زوجک الجنّۃ۔ نُصِرْتَ

اے احمد تُو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو۔ تجھے مدد دی جائے گی۔

وقالوا لات حین مناص۔ انّ الّذین کفروا

اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ وہ لوگ جو کافر ہوئے

وصدُّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس

اور خدا کی راہ کے مانع ہوئے اُن کا ایک فارسی الاصل آدمی نے ردّ کیا۔

شکر اللّٰہ سعیہ ۔ ام یقولون نحن جمیع منتصر ۔

خدا اسکی کوشش کا شکر گذار ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایک زبردست جماعت تباہ کرنیوالے ہیں۔


اور اس طرح پر دُنیوی شوکت جو کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی زوال پذیر ہو گئی۔ بہرحال یہ خاندان اس نواح میں بہت شہرت رکھتا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ عزّت صرف دنیوی حیثیت تک محدود رہے کیونکہ دنیا کی عزّتوں کا بجزبے جامشیخت اور تکّبر اور غرور کے اور کوئی ماحصل نہیں اِس لئے اب خدا تعالیٰ اپنی پاک وحی میں وعدہ دیتا ہے اور مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اب یہ خاندان اپنا رنگ بدل لیگا اور اس خاندان کا سلسلہ تم سے شروع ہوگا اور پہلا ذکر منقطع ہو جائیگا اور اس وحی الٰہی میں کثرت نسل کیطرف بھی اشارہ ہے یعنی نسل بہت ہو جائیگی اور جیسا کہ بظاہر سمجھا گیا ہے ۔ یہ خاندان مغلیہ خاندان کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ لیکن خدائے عالم الغیب نے جو دانائے حقیقتِ حال ہے بار بار اپنی وحی مقدّس میں ظاہر فرمایا ہے جو یہ فارسی خاندان ہے اور مجھ کو ابناء فارس کرکے پکارا ہے جیسا کہ وہ میری نسبت فرماتا ہے انّ الّذین کفروا وصدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ یعنی جو لوگ کافر ہو کر خدا تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں ایک فارسی الاصل نے انکا ردّ لکھا ہے خدا اسکی اس کوشش کا شکر گذار ہے۔ پھر وہ ایک اور وحی میں میری نسبت فرماتا ہے لوکان الایمان معلّقًا بالثریّا لنا لہ ص رجل من فارسٍ۔ یعنی اگر ایمان ثریا کے ساتھ معلّق ہوتا تو ایک فارسی الاصل انسان وہاں بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/81/mode/1up


سیھزؔ م الجمع ویولّون الدُّبر ۔ انّک الیوم لدینا مکین

یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیرلیں گے تو ہمارے نزدیک آج صاحب مرتبہ

امین ۔ وانّ علیک رحمتی فی الدُّنیا والدّین وانّک

امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے اور تُو اُن لوگوں میں سے ہے

من المنصورین ۔ یحمدک اللّٰہ ویمشی الیک ۔ سبحان

جن کے شامل نصرت الٰہی ہوتی ہے۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چل رہا ہے۔ وہ پاک ذات

الّذی اسریٰ بعبدہٖ لیلا ۔ خلق اٰدم فاکرمہٗ ۔

وہی خدا ہے جس نے ایک رات میں تجھے سیر کرادیا۔ اُس نے اس آدم کو پیدا کیا اور پھر اس کو عزت دی۔


اس کو پا لیتا۔ پھر اپنی ایک اور وحی میں مجھ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے خذوا التوحید خذوا التوحید یا ابناء الفارس۔ یعنی توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے فارس کے بیٹو۔

ان تمام کلمات الہٰیہ سے ثابت ہے کہ اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہو گیا اور جیسا کہ ہمیں اطلاع دیگئی ہے میرے خاندان کا شجرہ نسب اس طرح پر ہے کہ میرے والد کا نام میرزا غلام مرتضیٰ تھا اور اُنکے والد کا نام میرزا عطا محمد۔ میرزا عطا محمد کے والد میرزا گل محمد۔ میرزا گل محمد کے والد میرزا فیض محمداور میرزا فیض محمد کے والد میرزا محمد قائم۔ میرزا محمد قائم کے والد میرزا محمد اسلم۔ میرزا محمد اسلم کے والد میرزا دلاور۔ میرزا دلاور کے والد میرزا الٰہ دین۔ میرزا الٰہ دین کے والد میرزا جعفر بیگ۔ میرزا جعفر بیگ کے والد میرزا محمد بیگ۔ میرزا محمد بیگ کے والد میرزا عبد الباقی۔ میرزا عبد الباقی کے والد میرا محمد سلطان۔ میرزا محمد سلطان کے والد میرزا ہادی بیگ معلوم ہوتا ہے کہ میرزا اور بیگ کا لفظ کسی زمانہ میں بطور خطاب کے انکو ملا تھا جس طرح خان کا نام بطور خطاب دیا جاتا ہے۔ بہرحال جو کچھ خدانے ظاہر فرمایا ہے وہی درست ہے انسان ایک ادنیٰ سی لغزش سے غلطی میں پڑ سکتا ہے مگر خدا سہو اور غلطی سے پاک ہے۔منہ


میرے خاندان کی نسبت ایک اور وحی الٰہی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا میری نسبت فرماتاس ہے سلمان منّا اھل البیت (ترجمہ) سلمان یعنی یہ عاجز جو دو صلح کی بنیاد ڈالتا ہے ہم میں سے ہے جو اہل بیت ہیں۔ یہ وحی الٰہی اس مشہور واقعہ کی تصدیق کرتی ہے جو بعض دادیاں اس عاجز کی سادات میں سے تھیں۔ اور دو صلح سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ ایک صلح میرے ہاتھ سے اور میرے ذریعہ سے اسلام کے اندرونی فرقوں میں ہوگی اور بہت کچھ تفرقہ اُٹھ جائے گا اور دُوسری صلح اسلام کے بیرونی دشمنوں کے ساتھ ہوگی کہ بہتوں کو اسلام کی حقانیت کی سمجھ دی جائیگی اور وہ اسلام میں داخل ہو جائینگے تب خاتمہ ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/82/mode/1up


جَرِؔ ی اللّٰہ فِیْ حُللِ الانبیآء ۔ بُشْرٰی لک یا احمدی ۔

یہ رسول خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اسمیں موجود ہے۔ تجھے بشارت ہو اے میرے احمد۔

اَنْتَ مُرَادِی ومَعِیْ ۔ سِرُّکَ سِرِّیْ۔ اِنّی ناصِرک ۔

تو میری مُراد اور میرے ساتھ ہے۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ میں تیری مدد کروں گا۔

اِنّی حافظک ۔ انّی جاعِلُکَ للنّاس امامًا ۔

مَیں تیرا نگہبان رہونگا۔ میں لوگوں کیلئے تجھے امام بناؤں گا تُو اُن کا رہبر ہوگا اور وہ تیرے پیرو ہونگے۔

أ کان للنّاس عجبًا ۔ قُل ھواللّٰہ عجیب ۔ لا یُسْءَلُ عمّا یفعل

کیا ان لوگوں کو تعجب آیا۔ کہہ خداذوالعجائب ہے۔ وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا

وَھُمْ یُسْءَلُوْنَ ۔ وَتِلْکَ الْاَیّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النّاس ۔

اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔ اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں۔

وقالوا اِنْ ھٰذا الَّا اختلاق ۔ قل ان کنتم تحبُّون

اور کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک بناوٹ ہے۔ کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو

اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ ۔ اذا نصر اللّٰہ المؤمِنَ

آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ جب خدا تعالیٰ مومن کی مدد کرتا ہے تو

جعل لہ الحاسدین فی الارض ۔ ولارآدّ لفضلہ ۔

زمین پر اُس کے کئی حاسد مقرر کر دیتا ہے۔ اور اس کے فضل کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔

فالنّارموعدھم ۔ قل اللّٰہ ثمّ ذرھم فی خوضہم یلعبون ۔

پس جہنم اُن کے وعدہ کی جگہ ہے۔ کہہ خدا نے یہ کلام اتارا ہے پھر انکو لہوو لعب کے خیالات میں چھوڑ دے۔

واذا قیل لھم اٰمنوا کما اٰمن النّاس قالوا أنُؤمِنُ

اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ ۔ جیسا کہ لوگ ایمان لائے کہتے ہیں کیا ہم

کما اٰمن السُّفھَآءُ الَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لَّا

بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں خبردار ہوکہ درحقیقت وہی لوگ بے وقوف ہیں مگر اپنی نادانی پر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/83/mode/1up


یعلمون ۔ وَاِذَا قِیْلَ لھم لا تُفْسِدُوْا فی الارض قَالوا

مطلع نہیں اور جب اُن کو کہا جائے کہ زمین پر فساد مت کرو کہتے ہیں کہ

انّما نحن مُصلِحون۔ قل جَاءَ کُم نُورٌ مِّنَ اللّٰہ فلا تکفروا

بلکہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں۔ کہہ تمہارے پاس خدا کا نور آیا ہے پس اگر

ان کنتم مؤمنین ۔ اَمْ تَسْءَلھم من خرج فھم مِنْ مَّغْرمٍ

مومن ہو تو انکار مت کرو کیا تُو ان سے کچھ خراج مانگتا ہے پس وہ اُس چٹی کی وجہ سے

مُّثْقَلُوْنَ ۔ بل اٰ تَیْنٰھم بِالحَقِّ فہم لِلْحَقِّ کارِھون۔ تلطّف

ایمان لانے کا بوجھ اُٹھا نہیں سکتے۔ بلکہ ہم نے ان کو حق دیا اور وہ حق لینے سے کراہت کرتے ہیں۔ لوگوں کے

بالنّاس وترحم علیھم۔ انت فیھم بمنزلۃ موسٰی واصبر

ساتھلطف اور رحم کے ساتھ پیش آ۔ تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی

علٰی ما یقولون ۔ لعلّک بَاخِعٌ نفسک اَ لَّا یکونوا مؤمنین ۔

باتوں پر صبر کر۔ کیا تُو اس لئے اپنے تئیں ہلاک کرے گا کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے

لا تقف ما لیس لک بہٖ علم ۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا

اس بات کے پیچھے مت پڑ جس کا تجھے علم نہیں اور ان لوگوں کے بارہ میں جو ظالم ہیں مجھ سے گفتگو

انّھم مغرقون ۔ واصنع الفلک بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ اِنَّ

مت کر کیونکہ وہ سب غرق کئے جائینگے۔ اور ہماری آنکھوں کے رو برو کشتی تیار کر۔ اور ہمارے اشارے سے وہ لوگ جو

الّذین یبایعونک انّما یبایعون اللّٰہ۔ ید اللّٰہ فوق ایدیھم

تیرے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں وہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہیں یہ خدا کا ہاتھ ہے جو انکے ہاتھوں پر ہے

واذؔ یمکربک الّذی کفَّر* ۔ اوقدلی یا ھامان

اور یاد کروہ وقت جب تجھ سے وہ شخص مکر کرنے لگا جس نے تیری تکفیر کی اور تجھے کافر ٹھہرایا اور کہا کہ اے ہامان


* مکفّر سے مراد مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی ہے کیونکہ اُس نے استفتاء لکھ کر نذیر حسین کے سامنے پیش کیا اور اس ملک میں تکفیر کی آگ بھڑکانے والا نذیر حسین ہی تھا۔ علیہ ما یستحقّہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/84/mode/1up


لعلی اطّلع علٰی اِلٰہِ مُوسٰی ۔ وانّی لَاَ ظُنُّہٗ من الکاذبین ۔

میرے لئے آگ بھڑکا تا میں موسیٰ کے خدا پر اطلاع پاؤں اور مَیں اُس کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔

تبّت یدا ابی لھبٍ وَّ تبّ * ۔ ما کان لہٗ ان یدخل

ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا اسکو نہیں چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا

فیھا الَّا خائفًا ۔ وما اصابک فمن اللّٰہ ۔ الفتنۃ ھٰھُنا ۔

مگر ڈرتے ڈرتے۔ اور جو کچھ تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ اس جگہ ایک فتنہ برپا ہوگا۔

فاصبر کما صبر اولو العزم ۔ الَآ انّھا فتنۃ من اللّٰہ ۔

پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔ وہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔

لیحب حبًّا جمّا ۔ حُبًّا من اللّٰہ العزیز الاکْرَم ۔ شاتان

تا وہ تجھ سے محبت کرے۔ وہ اس خدا کی محبت ہے جو بہت غالب اور بزرگ ہے۔ دو بکریاں

تذبحان ۔ وکل من علیھا فان ۔ ولا تھنوا ولا تحزنوا ۔

ذبح کی جائیں گی۔ اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر وہ فنا ہوگا۔ تم کچھ غم مت کرو اور اندو ہگین مت ہو

الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ ۔ الم تعلم انّ اللّٰہ علٰی

کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر ایک

کُلِّ شیءٍ قدیر۔ وان یتخذونک الَّا ھزوا ۔

چیز پر قادر ہے اور تجھے انہوں نے ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے۔

أَھٰذا الّذی بعث اللّٰہ ۔قل انّما انا بشر مثلکم

وہ ہنسی کی راہ سے کہتے ہیں کیا یہی ہے جس کو خدا نے مبعوث فرمایا۔ ان کو کہہ کہ مَیں تو ایک انسان ہوں۔


* اس جگہ ابو لہب سے مراد ایک دہلوی مولوی ہے جو فوت ہو چکا ہے اور یہ پیشگوئی ۲۵ برس کی ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے اور یہ اس زمانہ میں شائع ہو چکی ہے جبکہ میری نسبت تکفیر کا فتویٰ بھی ان مولویوں کی طرف سے نکلا تھا۔ تکفیر کے فتویٰ کا بانی بھی وہی دہلی کا مولوی تھا جس کا نام خدا تعالیٰ نے ابو لہب رکھا اور تکفیر سے ایک مدّت دراز پہلے یہ خبر دے دی جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/85/mode/1up


یوؔ حٰی الیّ انّما اِلٰھُکم الٰہٌ واحد والخیر کلّہ فی القرآن ۔

میری طرف یہ وحی ہوئی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے۔ اور تمام بھلائی اور نیکی قرآن میں ہے۔

لا یمسّہٗ الّا المطھّرون۔ قل انّ ھدی اللّٰہ ھو

کسی دُوسری کتاب میں نہیں اسکے اسرار تک وہی پہنچتے ہیں جو پاک دل ہیں۔ کہہ ہدایت دراصل خدا کی ہدایت

الھُدیٰ ۔ وقالوا لولا نزّل علٰی رجل من قریتین

ہی ہے۔ اور کہیں گے کہ یہ وحی الٰہی کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں ہوئی جو دو شہروں میں سے

عظیم* ۔ وقالوا انّی لک ھٰذا ۔ انّ ھٰذا لمکر مکرتمُوہ

کسی ایک شہر کا باشندہ ہے۔ اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہو گیا۔ یہ تو ایک مکر ہے جو تم لوگوں نے

فی المدینۃ ۔ ینظرون الیک وھم لا یُبْصِرون ۔

مل کر بنایا۔ یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں مگر تو اُنہیں دکھائی نہیں دیتا۔

قل ان کنتم تحبّون اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ۔ عسٰی

ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔ خدا آیا

ربّکم ان یرحمکم ۔ وان عُدتم عُدْنا ۔ وجعلنا جھنّم

ہے تا تم پر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر شرارت کی طرف عود کروگے تو ہم بھی عذاب دینے کی طرف

للکافرین حصیرا ۔ وما أرْسَلْنٰک اِلَّا رحمۃ للعالمین ۔

عود کرینگے اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنایا ہے۔ اور ہم نے تجھے تمام دنیا پر رحمت کرنے کیلئے بھیجا ہے۔

قل اعملوا علٰی مکانتکم انّی عامل فسوف تعلمون ۔

انکو کہہ کہ تم اپنے مکانوں پر اپنے طور پر عمل کرو اور مَیں اپنے طور پر عمل کر رہا ہوں پھر تھوڑی دیر کے بعد تم دیکھ لوگے کہ

لا یُقْبل عملٌ مثقال ذرّۃ من غیر التقویٰ ۔ انّ اللّٰہ مع

کس کی خدا مدد کرتا ہے کوئی عمل بغیر تقویٰ کے ایک ذرّہ قبول نہیں ہو سکتا۔ خدا اُن کے ساتھ ہوتا ہے


* یعنی اس شخص کو مہدی موعود ہونے کا دعویٰ ہے جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں قادیان کارہنے والا

ہے۔ کیوں مہدی معہود مکہ یا مدینہ میں مبعوث نہ ہوا جو سرزمین اسلام ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/86/mode/1up


الذؔ ین اتقوا والذین ھم محسنون ۔ قل ان افتریتہٗ

جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور انکے ساتھ جو نیک کا موں میں مشغول ہیں۔ کہہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو میری

فعلیّ اجرامی ۔ ولقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون ۔

گردن پر میرا گناہ ہے اور میں پہلے اس سے ایک مدّت تک تم ہی میں رہتا تھا کیا تم کو سمجھ نہیں۔

الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ ۔ ولنجعلہ اٰیۃ للنّاس ورحمۃ

کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اور ہم اس کو لوگوں کے لئے ایک نشان اور ایک نمونہ

منّا وکان امرًا مقضیّا ۔ قول الحق الذی فیہ تمترون۔

رحمت بنائیں گے اور یہ ابتدا سے مقدر تھا۔ یہ وہی امر ہے جس میں تم شک کرتے تھے۔

سلام علیک جُعلت مبارکًا۔ انت مبارک فی الدنیا

تیرے پر سلام تُو مبارک کیا گیا۔ تُو دنیا اور آخرت میں مبارک

و الاٰخرۃ ۔ امراض الناس و برکاتہٗ ۔ بخرام کہ وقت ِ تو

ہے۔ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی۔*

نزدیک رسید وپائے محمدیان برمنار بلند تر محکم افتادپاک محمد

مصطفٰے نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔


یہ خدا کا قول کہ تیرے ذریعہ سے مریضوں پر برکت نازل ہوگی رُوحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مریضوں پر مشتمل ہے۔ رُوحانی طور پر اس لئے کہ مَیں دیکھتا ہوں کہ میرے ہاتھ پر ہزارہا لوگ بیعت کرنیوالے ایسے ہیں کہ پہلے اُنکی عملی حالتیں خراب تھیں اور پھر بیعت کرنے کے بعد اُنکے عملی حالات درست ہو گئے اور طرح طرح کے معاصی سے انہوں نے توبہ کی اور نماز کی پابندی اختیار کی اور مَیں صدہا ایسے لوگ اپنی جماعت میں پاتا ہوں کہ جن کے دلوں میں یہ سوزش اور تپش پیدا ہو گئی ہے کہ کس طرح وہ جذباتِ نفسانیہ سے پاکؔ ہوں اور جسمانی امراض کی نسبت مَیں نے بارہامشاہدہ کیا ہے کہ اکثر خطرناک امراض والے میری دعا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 87

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/87/mode/1up


اورؔ تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رَبُّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا

اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مُنہ کی باتیں ہیں

یا عیسٰی انّی متوفّیک ورافعک الیّ وجاعل الّذین

اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور مَیں تیرے

اتبعوک فوق الّذین کفروا الٰی یوم القیامۃ ۔

تابعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا۔


اور توجہ سے شفایاب ہوئے ہیں میرا لڑکا مبارک احمد قریباً دو برس کی عمر میں ایسا بیمار ہوا کہ حالتِ یاس ظاہر ہو گئی اور ابھی میں دعاکر رہا تھا کہ کسی نے کہا کہ لڑکا فوت ہو گیا ہے یعنی اب بس کرو دعاکا وقت نہیں مگر مَیں نے دعا کرنا بس نہ کیا اور جب میں نے اسی حالت توجہ الی اللہ میں لڑکے کے بدن پر ہاتھ رکھا تو معاً مجھے اُس کا دم آنا محسوس ہوا اور ابھی میں نے ہاتھ اس سے علیحدہ نہیں کیا تھا کہ صریح طور پر لڑکے میں جان محسوس ہوئی اور چند منٹ کے بعد ہوش میں آکر بیٹھ گیا۔

اور پھر طاعون کے دنوں میں جبکہ قادیان میں طاعون زور پر تھا میرا لڑکا شریف احمد بیمار ہوا اور ایک سخت تپ محرقہ کے رنگ میں چڑھا جس سے لڑکا بالکل بیہوش ہو گیا اور بیہوشی میں دونوں ہاتھ مارتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اگرچہ انسان کو موت سے گریز نہیں مگر اگر لڑکا اِن دنوں میں جو طاعون کا زور ہے فوت ہو گیا تو تمام دشمن اِس تپ کو طاعون ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کی اُس پاک وحی کی تکذیب کریں گے کہ جو اُس نے فرمایا ہے انّی احافظ کلّ من فی الدار یعنی مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے طاعون سے بچاؤنگا۔ اِس خیال سے میرے دل پر وہ صدمہ وارد ہوا کہ مَیں بیان نہیں کر سکتا۔ قریبًا رات کے بارہ بجے کا وقت تھا کہ جب لڑکے کی حالت ابتر ہو گئی اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ معمولی تپ نہیں یہ اور ہی بلا ہے تب میں کیا بیان کروں کہ میرے دل کیؔ کیا حالت تھی کہ خدا نخواستہ اگر لڑکا فوت ہو گیا تو ظالم طبع لوگوں کو حق پوشی کے لئے بہت کچھ سامان ہاتھ آجائے گا۔ اسی حالت میں مَیں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا اور معًا کھڑا ہونے کے ساتھ ہی مجھے وہ حالت میسّر آگئی جو استجابت دعاکے لئے ایک کھلی کھلی نشانی ہے اور مَیں اُس خدا کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 88

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/88/mode/1up


ثلّۃؔ من الاوّلین وثلّۃ من الاٰخرین۔ مَیں اپنی چمکار

ان میں سے ایک پہلا گرو ہ ہو اور ایک پچھلا۔

دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سےؔ


قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی مَیں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور مَیں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے اور مَیں چار رکعت پوری کر چکا تھا۔ فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام ونشان نہیں اور ہذیان اور بیتابی اور بیہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی۔ مجھے اُس خدا کی قدرت کے نظارہ نے الٰہی طاقتوں اور دعاقبول ہونے پر ایک تازہ ایمان بخشا۔

پھر ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ نواب سردار محمد علی خان رئیس مالیرکوٹلہ کا لڑکا قادیان میں سخت بیمار ہو گیا اور آثار یاس اور نومیدی کے ظاہر ہو گئے اُنہوں نے میری طرف دعاکیلئے التجا کی۔ مَیں نے اپنے بیت الدعا میں جاکر اُن کیلئے دعاکی اور دعاکے بعد معلوم ہوا کہ گویا تقدیر مبرم ہے اور اس وقت دعا کرنا عبث ہے تب میں نے کہا کہ یا الٰہی اگر دعاقبول نہیں ہوتی تو ؔ میں شفاعت کرتا ہوں کہ میرے لئے اس کو اچھا کر دے یہ لفظ میرے مُنہ سے نکل گئے مگر بعد میں مَیں بہت نادم ہوا کہ ایسا مَیں نے کیوں کہا۔ اور ساتھ ہی مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی من ذاالذی یشفع عندہٗ اِلَّا باذنہٖ یعنی کس کو مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی شفاعت کرے۔ مَیں اس وحی کو سُن کر چُپ ہو گیا اور ابھی ایک منٹ نہیں گذرا ہوگا کہ پھر یہ وحی الٰہی ہوئی کہ انک انت المجاز یعنی تجھے شفاعت کرنے کی اجازت دی گئی۔ بعد میں پھر مَیں نے دعاپر زور دیا اور مجھے محسوس ہوا کہ اب یہ دعا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 89

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/89/mode/1up


اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ انت منّی بمنزلۃ توحیدی

تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید

وتفریدی۔ فحان ان تُعَان وتعرف بین الناس ۔

اور تفرید۔ پس وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جائے گا اور دنیا میں مشہور کیا جائے گا۔

انت منّی بمنزلۃ عرشی۔ انت منّی بمنزلۃ ولدی۔*

تو مجھ سے بمنزلہ میرے عرش کے ہے۔ تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔

انت منّی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ نحن اولیآء کم

تو مجھے سے بمنزلہ اس انتہائی قُرب کے ہے جس کو دنیا نہیں جان سکتی۔ ہم تمہارے متولّی اور


خالی نہیں جائے گی۔ چنانچہ اُسی دن بلکہ اُسی وقت لڑکے کی حالت روبہ صحت ہو گئی گویا وہ قبر میں سے نکلا۔ مَیں یقیناًجانتا ہوں کہ معجزات احیائے موتٰی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس سے زیادہ نہ تھے۔ مَیں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اِس قسم کے احیائے موتٰی بہت سے میرے ہاتھ سے ظہور میں آچکے ہیں۔ اور ایک دفعہ بشیراحمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے بیمار ہو گیا اور مدّت تک علاج ہوتا رہا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تب اُس کی اضطراری حالت دیکھ کر میں نے جناب الٰہی میں دعاکی تو یہ الہام ہوا برَّق طفلی بشیر یعنی میرے لڑکے بشیر نے آنکھیں کھول دیں تب اُسی دِن خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اُس کی آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ اور ایک مرتبہ مَیں خود بیمارہو گیا یہاں تک کہ قُربِ اجل سمجھ کر تین مرتبہ مجھے سورۃ یٰسٓ


* خداؔ تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے اور یہ کلمہ بطور استعارہ کے ہے چونکہ اس زمانہ میں ایسے ایسے الفاظ سے

نادان عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا ٹھہرا رکھا ہے اسلئے مصلحتِ الٰہی نے یہ چاہا کہ اس سے بڑھ کر الفاظ اس عاجز کیلئے استعمال کرے تا عیسائیوں کی آنکھیں کھلیں اوروہ سمجھیں کہ وہ الفاظ جن سے مسیح کو وہ خدا بناتے ہیں اس اُمّت میں بھی ایک ہے جس کی نسبت اس سے بڑھ کر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 90

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/90/mode/1up


فیؔ الحیٰوۃ الدُّنیا وَ الاٰخرۃ ۔ اذا غضبتَ غضبتُ

متکفّل دنیا اور آخرت میں ہیں جس پر تو غضبناک ہو مَیں غضبناک ہوتا ہوں

وکلّما اَحْبَبْتَ اَحْبَبْتُ۔ من عادیٰ ولیًّا لی فقد ٰاذنتہٗ

اور جن سے تو محبت کرے مَیں بھی محبت کرتا ہوں۔ اور جو شخص میرے ولی سے دشمنی رکھے میں لڑنے کیلئے

للحرب۔ اِنّی مع الرّسول اقوم ۔ والوم من یلوم ۔

اُسکو متنبّہ کرتا ہوں۔ مَیں اِس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اور اس شخص کو ملامت کروں گا جو اُسکو ملامت کرے۔

واُعْطیک مَا یدوم ۔ یأتیک الفرج۔ سَلامٌ علٰی ابراہیم

اور تجھے وہ چیزدوں گا جو ہمیشہ رہے گی۔ کشائش تجھے ملے گی۔ اِس ابراہیم پر سلام۔


سُنائی گئی مگر خدا تعالیٰ نے میری دعاکو قبول فرما کر بغیر ذریعہ کسی دوا کے مجھے شفا بخشی اور جب مَیں صبح اُٹھا تو بالکل شفا تھی اور ساتھ ہی یہ وحی الٰہی ہوئی وان کنتم فی ریب ممّا نزلنا علٰی عبدنا فاتوا بشفاء من مثلہٖ یعنی اگر تم اِس رحمت کے بارہ میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر نازل کی تو اس شفا کی کوئی نظیر پیش کرو۔ اسی طرح بہت سی ایسی صورتیں پیش آئیں جو محض دعااور توجہ سے خدا تعالیٰ نے بیماروں کو اچھا کر دیا جن کا شمار کرنا مشکل ہے۔ ابھی ۸؍جولائی ۱۹۰۶ء کے دن سے جو پہلی رات تھی میرا لڑکا مبارک احمد خسرہ کی بیماری سے سخت گھبراہٹ اور اضطراب میں تھا۔ ایک رات تو شام سے صبح تک تڑپ تڑپ کر اُس نے بسر کی اور ایک دم نیند نہ آئی اور دُوسری رات میں اس سے سخت تر آثار ظاہر ہوئے اور بیہوشی میں اپنی بوٹیاں توڑتا تھا اور ہذیان کرتا تھا۔ اور ایک سخت خارش بدن میں تھی۔ اُس وقت میرا دل دردمند ہوا اور الہام ہوا۔ اُدْعُونی استجب لکم۔ تب معًا دعاکے ساتھ مجھے کشفی حالت میں معلوم ہوا کہ اُس کے بستر پر چوہوں کی شکل پر بہت سے جانور پڑے ہیں اوروہ اُس کو کاٹ رہے ہیں اور ایک شخص اُٹھا اور اُس نے تمام وہ جانور اکٹھے کرکے ایک چادر میں باندھ دئے اور کہا کہ اِس کو باہر پھینک آؤ اور پھر وہ کشفی حالت جاتی رہی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 91

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/91/mode/1up


صاؔ فیناہ ونجّیناہُ من الغمّ ۔ تفرّدنا بذالک۔ فاتخذوا

ہم نے اس سے صاف دوستی کی اور غم سے نجات دی ہم اس امر میں اکیلے ہیں سو تم

من مقام ابراہیم مُصلّٰی۔ انّا انزلناہ قریبًا مِن القادیان

اس ابراہیم کے مقام سے عبادت کی جگہ بناؤ یعنی اس نمونہ پر چلو۔ ہم نے اسکو قادیان کے قریب اُتارا ہے

وبالحق انزلناہ وبالحق نزل ۔ صدق اللّٰہ ورسولہ ۔

اوروہ عین ضرورت کے وقت اُتارا ہے اور ضرورت کے وقت اُترا ہے۔ خدا اور اُسکے رسول کی پیشگوئی پوری ہوئی

وکان امر اللّٰہ مفعولا ۔ الحمد للّٰہ الذی جعلک المسیح

اور خدا کا ارادہ پُورا ہونا ہی تھا۔ اُس خدا کی تعریف ہے جس نے تجھے مسیح


اور میں نہیں جانتا کہ پہلے وہ کشفی حالت دور ہوئی یا پہلے مرض دور ہو گئی اور لڑکا آرام سے فجر تک سویا رہا۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے یہ خاص معجزہ مجھ کو عطا فرمایا ہے اس لئے مَیں یقیناًکہتا ہوں کہ اس معجزہ شفاء الامراض کے بارے میں کوئی شخص روئے زمین پر میرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اگر مقابلہ کا ارادہ کرے تو خدا اس کو شرمندہ کرے گا۔ کیونکہ یہ خاص طور پر مجھ کو موہبت الٰہی ہے جو معجزانہ نشان دکھلانے کے لئے عطا کی گئی ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر ایک بیمار اچھا ہو جائے گا بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اکثر بیماروں کو میرے ہاتھ پر شفا ہوگی۔

اور اگر کوئی چالاکی اور گُستاخی سے اِس معجزہ میں میرا مقابلہ کرے اور یہ مقابلہ ایسی صُورت سے کیا جائے کہ مثلاً قرعہ اندازی سے بیس۲۰ بیمار میرے حوالہ کئے جائیں اور بیس۲۰ اس کے حوالے کئے جائیں تو خدا تعالیٰ ان بیماروں کو جو میرے حصّہ میں آئیں شفایابی میں صریح طور پر فریق ثانی کے بیماروں سے زیادہ رکھے گا اور یہ نمایاں معجزہ ہوگا۔ افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں ورنہ نظیر کے طور پر بہت سے عجیب واقعات بیان کئے جاتے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 92

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/92/mode/1up


ابنؔ مریم ۔ لا یسئل عمّا یفعل وھم یسئلون ۔ اٰثرک

ابن مریم بنایا ہے وہ اپنے کاموں سے پُوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں خدا نے تجھے

اللّٰہ علٰی کلِّ شیءٍ ۔ آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا

ہر ایک چیز میں سے چُن لیا۔ دنیا میں کئی تخت اُترے پر تیرا

تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا۔ یریدون اَن یطفءُوْا

تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا۔ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نُور کو

نور اللّٰہ ۔ الا انّ حزب اللّٰہ ھم الغالبون۔ لا تخف ط

بُجھا دیں خبردار ہو کہ انجام کار خدا کی جماعت ہی غالب ہوگی۔ کچھ خوف مت کر

انّک انت الا علٰی ۔ لا تخف ط انّی لا یخاف لدیّ

تُو ہی غالب ہوگا۔ کچھ خوف مت کر کہ میرے رسول میرے قرب میں کسی سے

المرسلون ۔ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ بافواھہم ۔

نہیں ڈرتے۔ دشمن ارادہ کریں گے کہ اپنے مُنہ کی پھونکوں سے خدا کے نور کو بجھا دیں۔

واللّٰہ متم نورہٖ ولوکرہ الکٰفرون ۔ نُنَزِّلُ علیک

اور خدا اپنے نُور کو پورا کریگا اگرچہ کافر کراہت ہی کریں۔ ہم آسمان سے تیرے پر کئی

اسرارا من السَّمآءِ ۔ ونمزّق الا عدآء کل ممزق ۔

پوشیدہ باتیں نازل کریں گے۔ اور دشمنوں کے منصوبوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔

ونری فرعون وھامان وجنودھما ما کانوا یحذرون ۔

اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو وہ ہاتھ دکھاویں گے جس سے وہ ڈرتے ہیں۔

فلا تحزن علی الذی قالوا۔ ان ربّک لبالمرصاد ۔

پس اُن کی باتوں سے کچھ غم مت کر کہ تیرا خدا اُن کی تاک میں ہے۔

ماؔ اُرسل نبیّ اِلَّا اَخْزٰی بہِ اللّٰہ قومًا لا یؤمنون ۔

کوئی نبی نہیں بھیجا گیا جس کے آنے کے ساتھ خدا نے اُن لوگوں کو رُسوا نہیں کیا جو اُسپر ایمان نہیں لائے تھے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/93/mode/1up


سننجیک ۔ سنعلیک ۔ ساُکرمک اکرامًا عجبًا ۔ اُریحک

ہم تجھے نجات دینگے۔ ہم تجھے غالب کرینگے اور مَیں تجھے ایسی بزرگی دُونگا جس سے لوگ تعجب میں پڑینگے میں تجھے آرام دُونگا

ولا اُجیحک واُخرج منک قومًا ۔ ولک نُری اٰیات

اور تیرا نام نہیں مٹاؤں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم پیدا کرونگا۔ اور تیرے لئے ہم بڑے بڑے نشان دکھاوینگے

ونھدم ما یعمرون ۔ انت الشیخ المسیح الذی لا یُضاع

اور ہم اُن عمارتوں کو ڈھا دیں گے جو بنائی جاتی ہیں۔ تووہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا

وقتہٗ ۔ کمثلک دُرٌّ لا یضاع ۔ لک درجۃ فی السّمآءِ

جائے گا۔ اور تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہو سکتا۔ آسمان پر تیرا بڑا درجہ ہے اور نیز

وفی الذین ھم یبصرون۔ یبدی لک الرحمٰن شیءًا

ان لوگوں کی نگاہ میں جن کو آنکھیں دی گئی ہیں ۔خدا ایک کرشمہ قدرت تیرے لئے ظاہر کرے گا اس سے منکر لوگ

یخرّون علی المساجد ۔ یخرّون علی الاذقان ۔ ربّنا اغفرلنا

سجدہ گاہوں میں گِر پڑیں گے اور اپنی ٹھوڑیوں پر گر پڑیں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا

ذنوبنا انا کنّا خاطئین ۔ تاللّٰہ لقد اٰثرک اللّٰہ علینا

ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے۔ اور پھر تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ خدا کی قسم خدا نے ہم سب میں سے

وان کنّا لخاطئین ۔ لا تثریب علیکم الیوم ۔ یغفر اللّٰہ

تجھے چُن لیا اور ہماری خطا تھی جو ہم برگشتہ رہے۔ تب کہا جائیگا کہ آج جو تم ایمان لائے تم پر کچھ سرزنش نہیں خدا نے تمہارے

لکم وھو ارحم الرّاحمین ۔ یعصمک اللّٰہ من العدا

گناہ بخش دئے اور وہ ارحم الراحمین ہے۔ خدا تجھے دشمنوں کے شر سے بچائے گا۔

و ؔ یسطو بکل من سَطَا ۔ ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون ۔

اور اس شخص پر حملہ کریگا جو تیرے پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ لوگ حد سے نکل گئے ہیں اور نافرمانی کی راہوں پر قدم رکھا ہے۔

الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ۔ یا جبال اوّبی معہ والطیر ۔

کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ اے پہاڑو اور اے پرندو میرے اس بندہ کے ساتھ وجدا ور رقت سے میری یاد کرو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/94/mode/1up


سَلامٌ قولًا من ربّ رحیم۔ وامتازوالیوم ایّھا المجرمون۔

تم سب پر اُس خدا کا سلام جو رحیم ہے اور اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔

اِنّی مع الروح معک ومع اھلک ۔لا تخف انی لا یخاف لدیّ

مَیں اور رُوح القدس تیرے ساتھ ہیں اور تیرے اہل کے ساتھ مت ڈر میرے قرب میں میرے

المرسلون۔ ان وعد اللّٰہ اتٰی ورکل ورکٰی فطوبٰی لمن

رسول نہیں ڈرتے۔ خدا کا وعدہ آیا اور زمین پر ایک پاؤں مارا اور خلل کی اصلاح کی پس مبارک وہ

وجد و رَاأی ۔ امم یَسّرنا لھم الھُدیٰ۔ وامم حق

جس نے پایا اور دیکھا۔ بعض نے ہدایت پائی اور بعض مستوجب

علیھم العذاب ۔ وقالوا لست مرسلا ۔ قل کفٰی باللّٰہ

عذاب ہو گئے۔ اور کہیں گے کہ یہ خدا کا فرستادہ نہیں۔ کہہ میری سچائی پر خدا

شھیدا بینی وبینکم ومن عندہٗ علم الکتٰب ینصرکم

گواہی دے رہا ہے اور وہ لوگ گواہی دیتے ہیں جو کتاب اللہ کا علم رکھتے ہیں خدا ایک عزیز

اللّٰہ فی وقت عزیز ۔ حکم اللّٰہ الرحمٰن لخلیفۃ اللّٰہ

وقت میں تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے رحمن کا حکم ہے اس کے خلیفہ کے لئے جس کی آسمانی

السلطان۔ یُؤْتٰی لہ الملک العظیم ۔ وتفتح علی یدہ*

بادشاہت ہے۔ اس کو ملک عظیم دیا جائے گا۔ اور خزینے اُس کے لئے

الخزؔ ائن ۔ ذالک فضل اللّٰہ۔ وفی اعینکم عجیب ۔ قل یٰٓایُّھَا

کھولے جائیں گے یہ خدا کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب۔ کہہ اے


* کسی آئندہ زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کشفی رنگ میں کنجیاں دی گئی تھیں مگر ان کنجیوں کا ظہور حضرت عمر فاروق کے ذریعہ سے ہوا۔ خدا جب اپنے ہاتھ سے ایک قوم بناتا ہے تو پسند نہیں کرتا کہ ہمیشہ ان کو لوگ پاؤں کے نیچے کچلتے رہیں آخر بعض بادشاہ ان کی جماعت میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر وہ ظالموں کے ہاتھ سے نجات پاتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ہوا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/95/mode/1up


الکُفّار اِنّی من الصادقین ۔ فانتظروا ٰا یا تی حتّٰی حین ۔ سنریھم

منکرو مَیں صادقوں میں سے ہوں۔ پس تم میرے نشانوں کا ایک وقت تک انتظار کرو۔ ہم عنقریب

اٰیا تنا فی الاٰ فاق وفیانفسھم ۔ حُجّۃ قائمۃ وفتح مبین ۔ انّ اللّٰہ

انکو اپنے نشان اُنکے ارد گرد اور انکی ذاتوں میں دکھائیں گے اُس دن حجت قائم ہوگی اور کھلی کھلی فتح ہو جائیگی خدا اُس دن

یفصل بینکم ۔ ان اللّٰہ لا یھد ی من ھو مسرف کذّ اب ۔ و وضعنا

تم میں فیصلہ کر دے گا۔ خدا اُس شخص کو کامیاب نہیں کرتا جو حد سے نکلا ہوا اور کذّاب ہے۔ اور ہم وہ بھار

عنک وزرک الذ ی ا نقض ظھرک ۔ و قُطع دابر القوم الذ ین

تیرا اُٹھا لیں گے جس نے تیری کمر توڑدی۔ اور ہم اس قوم کو جڑھ سے کاٹ دینگے جو ایک

لا یُؤْ منون *۔ قل ا عملوا علٰی مکانتکم انی عامل فسوف

حق الامر پر ایمان نہیں لاتے۔ اُنکو کہہ کہ تم اپنے طور پر اپنی کامیابی کیلئے عمل میں مشغول رہو اور میں بھی عمل میں مشغول ہوں پھر دیکھو گے

تعلمون ۔ انّ اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون ۔

کہ کس کے عمل میں قبولیت پیدا ہوتی ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہوگا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اُنکے ساتھ جو نیک کاموں میں مشغول ہیں۔

ھل اَ تاک حدیث الزلزلۃ ۔ اذا زلزلت الارض زلزالھا ۔

کیا تجھے آنے والے زلزلہ کی خبر نہیں ملی۔ یاد کر جب کہ سخت طور پر زمین ہلائی جائے گی۔

واخرجت الارض اثقالھا۔ وقال الانسان مالھا ۔ یومئذٍ

اور زمین جو کچھ اسکے اندر ہے باہر پھینک دے گی۔ اور انسان کہے گا کہ زمین کو کیا ہو گیا کہ یہ غیر معمولی بلا اس میں پیدا ہو گئی۔

تحدّث اخبارھا ۔ بانّ ربّک اوحٰی لھا۔احسب النّاس

اُس دن زمین اپنی باتیں بیان کریگی کہ کیا اسپر گذرا۔ خدا اس کیلئے اپنے رسول پر وحی نازل کریگا کہ یہ مصیبت پیش آئی ہے۔ کیا لوگ

ان ؔ یترکوا ۔ وما یأتیھم اِلّا بغتۃ ۔ یسئلونک احق ھو ۔

خیال کرتے ہیں کہ یہ زلزلہ نہیں آئے گا ضرور آئے گا اور ایسے وقت آئے گا کہ وہ بالکل غفلت میں ہوں گے اور ہر ایک اپنے دنیا کے کام میں مشغول ہوگا کہ زلزلہ ان کوپکڑ لے گا۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا ایسے زلزلہ کا آنا سچ ہے؟


* یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ وقت آتا ہے کہ حق کھل جائے گا اور تمام جھگڑے طے ہو جائیں گے اور یہ فیصلہ آسمانی نشانوں کے ساتھ ہوگا زمین بگڑ گئی ہے اب آسمان اس کے ساتھ جنگ کرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/96/mode/1up


قل ای وربّی انّہ لحق ۔ ولا یُردّ عن قوم یعرضون ۔ الرحٰی

کہہ خدا کی قسم اس زلزلہ کا آنا سچ ہے۔ اور خدا سے برگشتہ ہونیوالے کسی مقام میں اس سے بچ نہیں سکتے یعنی کوئی مقام

یدور و ینزل القضاء ۔ لم یکن الذین کفروا من

اُن کو پناہ نہیں دے سکتا بلکہ اگر گھر کے دروازہ میں بھی کھڑے ہیں تو توفیق نہ پائینگے جو اس سے باہر ہو جائیں مگر اپنے عمل سے

اھل الکتاب والمشرکین منفکّین حتّٰی تاْ تیھم البیّنۃ ۔

ایک چکی گردش میں آئیگی اور قضا نازل ہوگی ۔ جو لوگ اہل کتاب اور مُشرکوں میں سے حق کے منکر ہو گئے وہ بُجز اس نشان عظیم کے

اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ اُرِیْک زلزلۃ الساعۃ ۔

باز آنیوالے نہ تھے۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ مَیں تجھے قیامت والا زلزلہ دکھاؤں گا۔

یریکم اللّٰہ زلزلۃ الساعۃ ۔ لمن الملک الیوم لِلّٰہِ الواحِد

خدا تجھے قیامت والا زلزلہ دکھائے گا۔ اُس دن کہا جائے گا آج کس کا ملک ہے کیا اس خدا کا ملک نہیں جو

القھّار ۔ چمک دِکھلاؤں گا تم کو اِس نشان کی پنج بار ۔

سب پر غالب ہے۔ اور مَیں اس زلزلہ کے نشان کی پنج مرتبہ تم کو چمک دکھلاؤں گا۔

اگر چاہوں تو اُس دن خاتمہ۔* انّی احافظ کلّ من

اگر چاہوں تو اُس دن دنیا کا خاتمہ کردوں۔ مَیں ہر ایک کو جو تیرے گھر میں ہوگا اُس کی

فی الدّار ۔ اریک ما یُرضیک۔ رفیقوں کو کہہ دو کہ

حفاظت کروں گا۔ اور مَیں تجھے وہ کرشمہ قدرت دکھلاؤنگا جس سے تُو خوش ہو جائیگا۔ رفیقوں کو کہہ دو کہ

عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔

عجائب در عجائب کام دکھلانے کا وقت آگیا ہے۔


* اس وحی الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ زلزلے آئیں گے اور پہلے چار زلزلے کسی قدر ہلکے اور خفیف ہوں گے اور دنیا ان کو معمولی سمجھے گی اور پھر پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا کہ لوگوں کو سو دائی اور دیوانہ کر دے گا یہاں تک کہ وہ تمنّا کرینگے کہ وہ اس دن سے پہلے مر جاتے۔ اب یاد رہے کہ اس وحی الٰہی کے بعد اس وقت تک جو ۲۲؍جولائی۱۹۰۶ء ہے اس ملک میں تین زلزلے آچکے ہیں یعنی ۲۸؍فروری ۱۹۰۶ء اور ۲۰؍مئی ۱۹۰۶ء ۔اور ۲۱؍جولائی ۱۹۰۶ء مگر غالبًا خدا کے نزدیک یہ زلزلوں میں داخل نہیں ہیں کیونکہ بہت ہی خفیف ہیں شاید چار زلزلے پہلے ایسے ہوں گے جیسا کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ تھا اور پانچواں قیامت کا نمونہ ہوگا۔ واللّہ اعلم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/97/mode/1up


اناؔ فتحنا لک فتحًا مبینًا ۔ لیغفرلک اللّٰہ ما تقدّم من ذنبک

میں ایک عظیم فتح تجھ کو عطا کروں گا جو کھلی کھلی فتح ہوگی تاکہ تیرا خدا تیرے تمام گناہ بخش دے جو پہلے ہیں

وما تأخّر۔* انّی انا التوّاب ۔ من جآء ک جآء نی ۔ سلام

اور پچھلے ہیں۔ مَیں توبہ قبول کرنیوالا ہوں۔ جو شخص تیرے پاس آئیگا وہ گویا میرے پاس آئیگا۔ تم پر

علیکم طبتم ۔ نحمدک و نصلّی ۔ صلٰو ۃ العرش الی الفرش ۔

سلام تم پاک ہو۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ عرش سے فرش تک تیرے پردرود ہے

نَزَلتُ لَکَ ولَکَ نُرِیْ اٰیاتٍ۔ اَلْاَمْرَاضُ تُشَاعُ والنُّفُوْسُ

مَیں تیرے لئے اُترا ہوں اور تیرے لئے اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ ملک میں بیماریاں پھیلیں گی۔ اور بہت جانیں

تُضَاعُ۔ وَمَا کَانَ اللّٰہ لِیُغَیِّرَ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا

ضائع ہونگی۔ اور خدا ایسا نہیں ہے جو اپنی تقدیر کو بدل دے جو ایک قوم پر نازل کی جب تک وہ قوم اپنے دلوں کے خیالات

بِاَنْفُسِھِمْ ۔ اِنہٗ اوی القریۃ۔ز لولا الاکرام ۔ لھلک المقام ۔

کو نہ بدل ڈالیں۔ وہ اس قادیان کو کسی قدر بلا کے بعد اپنی پناہ میں لے گا۔ اگر مجھے تیری عزّت کا پاس نہ ہوتا تو اس تمام گاؤں کو مَیں ہلاک کر دیتا

انی احافظ کُلّ من فی الدار ۔ ما کان اللّٰہ لیعذّبھم

میں ہر ایک کو جو اس گھر کی چار دیوار کے اندر ہے بچا لوں گا۔ کوئی ان میں سے طاعون یا بھونچال سے نہیں مریگا۔ خدا ایسا نہیں ہے


ظالم انسان کا قاعدہ ہے کہ وہ خدا کے رسولوں اور نبیوں پر ہزارہا نکتہ چینیاں کرتا ہے اور طرح طرح کے عیب اُن میں نکالتا ہے گویا دنیا کے تمام عیبوں اور خرابیوں اور جرائم اور معاصی اور خیانتوں کا وہی مجموعہ ہیں۔ اب ان وساوس کا کہاں تک جواب دیا جائے جو نفس کی شرارت کے ساتھ مخلوط ہیں۔ اس لئے یہ سنت اللہ ہے کہ آخر ان تمام جھگڑوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور کوئی ایسا عظیم الشان نشان ظاہر کرتا ہے جس سے اس نبی کی بریت ظاہر ہوتی ہے۔ پس 3 ۱؂ کے یہی معنے ہیں۔منہ


ز اویٰ کا لفظ عرب کی زبان میں اس موقعہ پر استعمال پاتا ہے جبکہ کسی قدر تکلیف کے بعد کسی شخص کو اپنی پناہ میں لیا جائے۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3۲؂۔ اور جیسا کہ فرماتا ہے 3 ۳؂۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/98/mode/1up


وانت فیھم ۔ امن است درمکان محبت سرائے ما۔ بھونچال

کہ جن میں تو ہے ان کو عذاب کرے۔ ہماری محبت کا گھر امن کا گھر ہے۔ ایک زلزلہ

آیا اور شدّت سے آیا۔ زمین تہ و بالا کر دی۔ یوم تأ تی السمآء

آئے گا اور بڑی سختی سے آئے گا۔ اور زمین کو زیر وزبر کر دے گا۔ اُس دن آسمان سے

بد خان مبین* ۔ و تری الا رض یومئذٍ خامدۃ

ایک کھلا کھلا دُھواں نازل ہوگا۔ اور اس دن زمین زرد پڑ جائے گی یعنی سخت قحط کے آثار ظاہر ہونگے

مصفرّؔ ۃ ۔ اُکرمک بعد توھینک ۔ژ یریدون ان لا یتمّ

مَیں بعد اسکے جو مخالف تیری توہین کریں تجھے عزّت دُونگا اور تیرا اکرام کرونگا۔ وہ ارادہ کرینگے جو تیرا کام نا تمام رہے

امرک ۔ واللّٰہ یابٰی الَّا ان یتمّ امرک ۔ انی انا الرحمٰن ۔ سأَجعل

اور خدا نہیں چاہتا جو تجھے چھوڑ دے جب تک تیرے تمام کام پورے نہ کرے۔ مَیں رحمان ہوں۔ ہر ایک امر

لک سھولۃ فی کلّ امر ۔ اُریک برکات من کلّ طرفٍ ۔

میں تجھے سہولت دُوں گا۔ ہر ایک طرف سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔

نزلت الرحمۃ علٰی ثلاث العین وعلی الاُخریین ۔ تردّ الیک

میری رحمت تیرے تین عضو پر نازل ہے ایک آنکھیں اور دو اور عضو ہیں یعنی انکو سلامت رکھوں گا۔ اور جوانی کے نور

انوار الشباب ۔ تریٰ نسلاً بعیداظ ۔ انّا نبشّرک بغلام مظھر

تیری طرف عود کریں گے۔ اور تُو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لیگا۔ ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ


یعنی اس زلزلہ کے لئے جو قیامت کا نمونہ ہوگا یہ علامتیں ہیں کہ کچھ دن پہلے اس سے قحط پڑے گا اور زمین خشک رہ جائے گی۔ نہ معلوم کہ معًا اس کے بعد یا کچھ دیر کے بعد زلزلہ آئے گا۔ منہ

ژ یعنی وہ بڑے نشان جو دنیا میں ظاہر ہوں گے ضرور ہے جو پہلے ان سے توہین کی جائے اور طرح طرح کی بُری باتیں کہی جائیں اور الزام لگائے جائیں۔ تب بعد اس کے آسمان سے خوفناک نشان ظاہر ہوں گے یہی سُنّت اللہ ہے کہ پہلی نوبت منکروں کی ہوتی ہے اور دوسری خدا کی۔ منہ

ظ یہ خدا تعالیٰ کی وحی یعنی’’ تریٰ نسلًا بعیدًا‘‘ قریبًا تیس سال کی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/99/mode/1up


الحق والعلٰی ۔ کَاَنّ اللّٰہَ نزل من السّمآء ۔ انّا نُبَشِّرُکَ بغلامٍ

حق کا ظہور ہوگا۔ گویا آسمان سے خدا اُترے گا ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں

نافلۃً لک ۔ سَبّحک اللّٰہ ورافاک ۔ وعلّمک مالم تعلم

جو تیرا پوتا ہوگا خدا نے ہر ایک عیب سے تجھے پاک کیا اور تجھ سے موافقت کی اور وہ معارف تجھے سکھلائے جن کا تجھے علم نہ تھا

انہ کریم تمشی امامک وعادیٰ لک من عادی ۔ وقالوا ان ھٰذا

وہ کریم ہے وہ تیرے آگے آگے چلا اور تیرے دشمنوں کا وہ دشمن ہوا اور کہیں گے کہ یہ تو

الّا اختلاق ۔ الم تعلم ان اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر ۔ یلقی الروح

ایک بناوٹ ہے۔ اے معترض کیا تُو نہیں جانتا کہ خدا ہر ایک بات پر قادر ہے۔ جس پر اپنے بندوں میں سے

علٰی من یشاء من عبادہٖ ۔ کلّ برکۃ من محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم

چاہتا ہے اپنی رُوح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اسکو بخشتا ہے اور یہ تو تمام برکت محمد صلعم سے ہے۔

فتبارک من عَلَّمَ وَتَعَلَّم ۔ خدا کی فیلنگ اور خدا کی

پس بہت برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی اور بہت برکتوں والا جس نے تعلیم پائی۔ خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی

مُہر نے کتنا بڑا کام کیا۔* انّی معک ومع اھلک

اور اسکے محسوس کرنے اور نبوت کی مُہر نے جس میں بشدت قوت کا فیضان ہے۔ بڑا کام کیا یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں(۱) خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور آنحضرتؐ کی مُہرنبوت کا فیضان۔

ومع کلّ من احبّک۔ تیرے لئے میرا نام چمکا۔

میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ اور ہر ایک کے ساتھ جو تجھ سے پیار کرتا ہے تیرے لئے میرے نام نے اپنی چمک دکھلائی۔

روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا۔ فبصرک الیوم حدید ۔

روحانی عالم تیرے پر کھولا گیا۔ پس آج نظر تیری تیز ہے۔


* یہ وحی الٰہی کہ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مُہر نے کتنا بڑا کام کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مُہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمّتی ہے اور ایک پہلو سےؔ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/100/mode/1up


اطال اللّٰہ بقاء ک۔ اسی۸۰ یا اسپر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔

خدا تیری عمر دراز کرے گا۔ اسّی۰۸ برس یا پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم۔

مَیں تجھے بہت برکت دُونگا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈُھونڈیں گے۔ تیرے لئے میرا نام چمکا۔ پچاس یا ساٹھ نشان اور دکھاؤں گا۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اوراُن کی تعظیم ملوکؔ اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور وہ سلامتی کے

شہزادے کہلاتے ہیں۔ فرشتوں کی کھنچی ہوئی تلوار


نبی کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتم بنایا۔ یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ علماء اُمّتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہونگے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر اُنکی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح اُن کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتیبلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست اُن کو منصبِ نبوت ملا۔ اور اُن کو چھوڑ کر جب اور بنی اسرائیل کا حال دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/101/mode/1up


تیرے آگے ہے۔* پر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا

نہ جانا۔ برہمن اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں۔

ربّؔ فرق بین صادق وکاذب ۔ انت تریٰ کلّ مصلح

اے خدا سچے اور جھوٹے میں فرق کرکے دِکھلا۔ تُو ہر ایک مصلح اور صادق

وصادق۔ رَبّ کلّ شی ءٍ خادمک ۔ ربّ فاحفظنی وانصرنی

کو جانتا ہے۔ اے میرے خدا ہر ایک چیز تیری خادم ہے۔ اے میرے خدا شریر کی شرارت سے مجھے نگہ رکھ اور میری

وارحمنی۔ خدا قاتل تو باد۔ ومرااز شرتو محفوظ دارد۔

مدد کر اور مجھ پر رحم کر۔ اے دشمن تو جو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے خدا تجھے تباہ کرے اور تیرے شر سے مجھے نگہ رکھے یعنی

زلزلہ آیا اُٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کا نمونہ دیکھیں۔

وہ بھونچال جو وعدہ دیا گیا ہے جلد آنے والا ہے اُس وقت خدا کے بندے قیامت کا نمونہ دیکھ کر نمازیں پڑھیں گے۔


رشد اور صلاح اور تقویٰ سے بہت ہی کم حصہ ملا تھا اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی اُمّت اولیاء اللہ کے وجود سے عموماً محروم رہی تھی اور کوئی شاذونادر اُن میں ہوا تو وہ حکم معدوم کا رکھتا ہے بلکہ اکثر ان ؔ میں سرکش فاسق فاجر دنیا پرست ہوتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی نسبت حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کی قوت تاثیر کا توریت اور انجیل میں اشارہ تک نہیں ہے توریت میں جا بجا حضرت موسیٰ کے صحابہ کا نام ایک سرکش اور سخت دل اور مرتکب معاصی اور مفسد قوم لکھا ہے جن کی نافرمانیوں کی نسبت قرآن شریف میں بھی یہ بیان ہے کہ ایک لڑائی کے موقع کے وقت میں انہوں نے حضرت موسیٰ کو یہ جواب دیا تھا 33 ۱؂۔ یعنی تُو اور تیرا ربّ دونوں جاکر دشمنوں سے لڑائی کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھیں گے یہ حال تھا اُن کی فرمانبرداری کا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوش عشقِ الٰہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت


یہ پیشگوئی ایک ایسے شخص کے بارہ میں ہے جو مرید بن کر پھر مرتد ہو گیا اور بہت شوخیاں دکھلائیں اور گالیاں دیں اور زبان درازی میں آگے سے آگے بڑھا۔ پس خدا فرماتا ہے کہ کیوں آگے بڑھتا ہے کیا تو فرشتوں کی تلواریں نہیں دیکھتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/102/mode/1up


یظھرؔ ک اللّٰہ ویثنی علیک۔ لولاک لما خلقت الافلاک*

خدا تجھے غالب کریگا اور تیری تعریف لوگوں میں شائع کر دیگا۔ اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔

ادعونی استجب لکم ۔ دست تو دعائے تو ترحم زِخدا۔

مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔ تیرا ہاتھ ہے اور تیری دعا اور خدا کی طرف سے رحم ہے۔

زلزلہ کا دھکا۔ عفت الدیار محلّھا و مقامھا

زلزلہ کا دھکا جس سے ایک حصہ عمارت کا مٹ جائیگا مستقل سکونت کی جگہ اور عارضی سکونت کی جگہ سب مٹ جائینگی


صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر اُنکے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سرکٹائے۔ کیا کوئی پہلی اُمّت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا یہ تو حضرت موسیٰ کے صحابہ کا حال تھا۔ اب حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو کہ ایک نے تو جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا تیس روپیہ لیکر حضرت مسیح کو گرفتار کرا دیا اورؔ پطرس حواری جس کو بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں اس نے حضرت مسیح کے رُو برو اُن پر *** بھیجی اور باقی جس قدر حواری تھے وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بُزدلی اُن پر غالب آگئی۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ رُوح اُن میں پھونک دی۔ اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اُن میں اس قدر تبدیلی کر دی یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت اُن کی تھی کہ وہ دنیا کے کیڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو اُن سے ظہور میں نہیں آئی تھی۔ اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا اُن کے اندر سکونت پذیر ہو گیا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اس پاک نبی کی تھی جو اُن لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اس تیرہ سال کی آہ وزاری اور دعااور تضرع کا اثر تھا۔


* ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی ہے یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگا یا جاتا ہے اور زمین پر مستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/103/mode/1up


تتبعھا الرّادفۃ ۔ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی

اس کے بعد ایک اور زلزلہ آئے گا۔ بہار جب دوبارہ آئے گی تو پھر ایک اور زلزلہ آئے گا۔

پھرؔ بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔ ربّ اخّروقت

پھر بہار جب بار سوم آئیگی تو اسوقت اطمینان کے دن آجائینگے اور اسوقت تک خدا کئی نشان ظاہر کریگا اے خدا بزرگ زلزلہ کے ظہور

ھٰذا۔ اخّرہ اللّٰہ الی وقت مسمّٰی۔* تریٰ نصرًا عجیبا۔

میں کسی قدر تاخیر کر دے۔ خدا نمونۂ قیامت کے زلزلہ کے ظہور میں ایک وقت مقرر تک تاخیر کر دیگا۔ تب تُو ایک عجیب مدد دیکھے گا


* پہلے یہ وحی الٰہی ہوئی تھی کہ وہ زلزلہ جو نمونۂ قیامت ہوگا بہت جلد آنیوالا ہے اور اس کے لئے یہ نشان دیا گیا تھا کہ پیر منظور محمد لدہانوی کی بیوی محمدی بیگم کو لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس زلزلہ کے ظہورکیلئے ایک نشان ہوگا اسلئے اس کا نام بشیر الدولہ ہوگا کیونکہ وہ ہماری ترقی سلسلہ کیلئے بشارت دیگا۔ اِسی طرح اس کا نام عالم کباب ہوگا۔ کیونکہ اگر لوگ توبہ نہیں کرینگے تو بڑی بڑی آفتیں دنیا میں آئیں گی۔ ایسا ہی اس کا نام کلمۃ اللہ اور کلمۃ العزیز ہوگا کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جو وقت پر ظاہر ہوگا اور اس کیلئے اور نام بھی ہونگے۔ مگر بعد اسکے میں نے دعاکی کہ اس زلزلہ نمونہ قیامت میں کچھ تاخیر ڈال دی جائے۔ اس دعاکا اللہ تعالیٰ نے اس وحی میں خود ذکر فرمایا اور جواب بھی دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ ربّ اخّروقت ھٰذا۔ اخّرہ اللّٰہ الٰی وقت مسمّٰی یعنی خدا نے دعاقبول کرکے اس زلزلہ کو کسی اور وقت پر ڈال دیا ہے اور یہ وحی الٰہی قریبا چار۴ ماہ سے اخبار بدر اور الحکم میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور چونکہ زلزلہ نمونۂ قیامت آنے میں تاخیر ہو گئی اس لئے ضرور تھا کہ لڑکا پیدا ہونے میں بھی تاخیر ہوتی۔ لہٰذاؔ پیر منظور محمد کے گھر میں ۱۷؍جولائی ۱۹۰۶ء میں بروز سہ شنبہ لڑکی پیدا ہوئی اور یہ دعاکی قبولیت کا ایک نشان ہے اور نیز وحی الٰہی کی سچائی کا ایک نشان ہے جو لڑکی پیدا ہونے سے قریباً چار۴ ماہ پہلے شائع ہو چکی تھی مگر یہ ضرور ہوگا کہ کم درجہ کے زلزلے آتے رہیں گے اور ضرور ہے کہ زمین نمونۂ قیامت زلزلہ سے رُکی رہے جب تک وہ موعود لڑکا پیدا ہو۔ یاد رہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی بڑی رحمت کی نشانی ہے کہ لڑکی پیدا کرکے آئندہ بلا یعنی زلزلہ نمونۂ قیامت کی نسبت تسلی دیدی کہ اس میں بموجب وعدہ اخّرہ اللّٰہ الٰی وقت مسمّٰی ابھی تاخیر ہے اور اگر ابھی لڑکا پیدا ہو جاتا تو ہر ایک زلزلہ اور ہر ایک آفت کے وقت سخت غم اور اندیشہ د امنگیر ہوتا کہ شائد وہ وقت آگیا اور تاخیر کا کچھ اعتبار نہ ہوتا اور اب تو تاخیر ایک شرط کے ساتھ مشروط ہو کر معیّن ہو گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/104/mode/1up


ویخرّون علی الاذقان۔ ربّنا اغفرلنا ذُنوبنا انّا کنّا

اور تیرے مخالف ٹھوڑیوں پر گرینگے یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا ہمیں بخش اور ہمارے گناہ معاف کر کہ ہم

خاطئین۔ یا نبی اللّٰہ کنت لا اعرفک۔ لا تثریب علیکم الیوم

خطا پر تھے۔ اور زمین کہے گی کہ اے خدا کے نبی مَیں تجھے شناخت نہیں کرتی تھی اے خطا کارو! آج تم پر کوئی ملامت نہیں

یغفرؔ اللّٰہ لکم ۔ وھو ارحم الراحمین۔ تلطّف بالنّاس وترحّم

خدا تمہارے گناہ بخش دے گا وہ ارحم الراحمین ہے۔ لوگوں کے ساتھ لطف اور مدارات سے

علیھم ۔ انت فیھم بمنزلۃ موسٰی۔ یاْ تی علیک زمنٌ

پیش آ۔ تُو مجھ سے بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ تیرے پر موسیٰ کے زمانہ


یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ پس پہلے نبیوں کی اُمت میں جو اس درجہ کی صلاح وتقویٰ پیدا نہ ہوئی اس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دل سوزی اُمت کیلئے اُن نبیوں میں نہیں تھی۔ افسوس کہ حال کے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی وہ ختم نبوت کے ایسے معنے کرتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو نکلتی ہے نہ تعریف۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس پاک میں افاضہ اور تکمیل نفوس کیلئے کوئی قوت نہ تھی اور وہ صرف خشکؔ شریعت کو سکھلانے آئے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس امت کو یہ دعا سکھلاتا ہے:۔ 3 3 ۱؂ پس اگر یہ امت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے اِن کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی۔ افسوس کہ تعصب اور نادانی کے جوش سے کوئی اس آیت میں غور نہیں کرتا۔ بڑا شوق رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو مگر خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے کہ وہ مر گیا اور اُس کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۲؂ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ میں پہنچا دیا جو آرام اور خوشحالی کی جگہ تھی اور مصفّا پانی کے چشمے اُس میں جاری تھے سو وہی کشمیر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بھی حضرت عیسیٰ کی طرح مفقود ہے۔ یہ کس قدر ظلم ہے جو نادان مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے بے نصیب ہے اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہ لوگ پیدا ہوں گے اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ وہی مسیح موعود کہلائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 105

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/105/mode/1up


کمثل زمن مُوسٰی۔ اِنَّا اَرْسَلْنَا اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھدًا

کی طرح ایک زمانہ آئے گا۔ ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے۔ اُسی رسول

علیکم کما ارسلنا الٰی فرعون رسولًا۔ آسمان سے بہت دُودھ

کی مانند جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا۔ آسمان سے بہت دُودھ

اُترا ؔ ہے محفوظ رکھو۔ انّی انرتک و اخترتک۔ تیری

اُترا ہے یعنی معارف اور حقائق کا دُودھ۔ مَیں نے تجھے روشن کیا اور چُن لیا۔ اور تیری

خوش زندگی کا سامان ہو گیا۔ وَاللّٰہ خیر من کلّ شیءٍ ۔ عندی

خوش زندگی کا سامان ہو گیا ہے۔ خدا ہر چیز سے بہتر ہے۔ میرے قرب

حسنۃ ہی خیر من جبل۔ بہت سے سلام میرے تیرے پر

میں ایک نیکی ہے جو وہ ایک پہاڑ سے زیادہ ہے تیرے پر بکثرت میرے سلام

ہوں۔ انّا اعطیناک الکوثر۔ ان اللّٰہ مع الذین اھتدوا والذین ھم

ہیں۔ ہم نے کثرت سے تجھے دیا ہے۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو راہ راست اختیار کرتے ہیں اور

صادقون۔ ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔

جو صادق ہیں۔ خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکوکار ہیں۔

اراد اللّٰہ ان یبعثک مقامًا محمودًا۔ د۲و نشان ظاہر ہونگے۔

خدا نے ارادہ کیا ہے جو تجھے وہ مقام بخشے جس میں تو تعریف کیا جائیگا۔ دو۲ نشان ظاہر ہوں گے۔

وامتازوا الیوم ایّھا المجرمون۔ یکاد البرق یخطف

اور اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔ خدا کے نشانوں کی برق اُن کی آنکھیں اُچک کر

ابصار ھم ۔ ھٰذا الذی کنتم بہٖ تستعجلون ۔ یا احمد

لے جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جس کے لئے (تم) جلدی کرتے تھے۔ اے احمد!

فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک۔ کلام اُفصحت

تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 106

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/106/mode/1up


منلّدن ربّ کریم۔درکلام تو چیزے ست کہ شعرار ادران

فصیح کیا گیا ہے۔ تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو

دخلےؔ نیست۔ رب عَلّمنی ماھو خیر عندک۔ یعصمک اللّٰہ من

دخل نہیں۔ اے میرے خدا مجھے وہ سکھلا جو تیرے نزدیک بہتر ہے تجھے خدا دشمنوں سے

العدا و یسطو بکلّ من سطا۔ برزما عند ھم من الرّماح۔ انی

بچائے گا اور حملہ کرنے والوں پر حملہ کر دیگا۔ انہوں نے جو کچھ اُن کے پاس ہتھیار تھے سب ظاہر کر دئے

سأخبرہ فی اٰخرالوقت۔ انک لست علی الحق۔ ان اللّٰہ رء وف

مَیں مولوی محمد حسین بٹالوی کو آخر وقت میں خبر دیدونگا کہ تُو حق پر نہیں ہے۔ خدا رؤف و

رحیم۔ انّا النّا لک الحدید۔ انی مع الافواج اٰتیک بغتۃ۔

رحیم ہے۔ ہم نے تیرے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ مَیں فوجوں کے ساتھ ناگہانی طور پر آؤں گا۔

انی مع الرسول اُجیب اُخطی و اُصیب۔* وقالوا انّٰی لک

مَیں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دُونگا اپنے ارادہ کو کبھی چھوڑ بھی دونگا اور کبھی ارادہ پورا کرونگا۔ اور کہیں گے کہ تجھے یہ مرتبہ کہاں

ھٰذا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب۔ جآء نی ٰایلژ واختار۔ وادار اصبعہٗ

سے حاصل ہوا۔ کہہ خدا ذو العجائب ہے۔ میرے پاس آیل آیا اور اُس نے مجھے چُن لیا۔ اور اپنی انگلی کو گردش دی

و اشار۔ ان وعد اللّٰہ اتٰی۔ فطوبٰی لمن وجدورأیٰ۔ الامراض

اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔ پس مبارک وہ جو اُس کو پاوے اور دیکھے۔ طرح طرح کی بیماریاں


اس وحی الٰہی کے ظاہری الفاظ یہ معنے رکھتے ہیں کہ مَیں خطا بھی کرونگا اور صواب بھی یعنی جو مَیں چاہوں گا کبھی کروں گا اور کبھی نہیں اور کبھی میرا ارادہ پورا ہوگا اور کبھی نہیں۔ ایسے الفاظ خدا تعالیٰ کی کلام میں آجاتے ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں لکھا ہے کہ مَیں مومن کی قبض رُوح کے وقت تردّد میں پڑتا ہوں۔ حالانکہ خدا تردّد سے پاک ہے اِسی طرح یہ وحی الٰہی ہے کہ کبھی میرا ارادہ خطاجاتا ہے اور کبھی پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ کبھی مَیں اپنی تقدیر اور ارادہ کو منسوخ کر دیتا ہوں اور کبھی وہ ارادہ جیسا کہ چاہا ہوتا ہے۔ منہ


اِس جگہ آیل خدا تعالیٰ نے جبریل کا نام رکھا ہے اِس لئے کہ بار بار رجوع کرتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 107

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/107/mode/1up


تشاع والنفوس تضاع انی مع الرسول اقوم

پھیلائی جائیں گی اور کئی آفتوں سے جانوں کا نقصان ہوگا۔ مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔

و اُؔ فطر واصوم۔* ولن ابرح الارض الی الوقت المعلوم۔

مَیں افطار کرونگا اور روزہ بھی رکھونگا اور ایک وقت مقرر تک میں اس زمین سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔

واجعل لک انوار القدوم۔ واقصدک واروم۔ واعطیک

اور تیرے لئے اپنے آنے کے نور عطا کروں گا۔ اور تیری طرف قصد کروں گا۔ اور وہ چیز تجھے دونگا جو

مایدوم۔ انا نرث الارض ناکلھا من اطرافھا۔ نقلوا الی

تیرے ساتھ ہمیشہ رہے گی۔ ہم زمین کے وارث ہونگے اور اطراف سے اسکو کھاتے آئیں گے۔ کئی لوگ قبروں کی طرف

المقابر۔ ظفر من اللّٰہ وفتح مبین۔ ان ربّی قویّ قدیر۔

نقل کریں گے۔ اُس دن خدا کی طرف سے کُھلی کُھلی فتح ہوگی۔ میرا ربّ زبردست قدرت والا ہے۔

انہ قویّ عزیز۔ حلّ غضبہ علی الارض۔ اِنی صادق

اور وہ قوی اور غالب ہے۔ اُس کا غضب زمین پر نازل ہوگا۔ میں صادق ہوں

انی صادق و یشھد اللّٰہ لی۔ اے ازلی ابدی خدا بیڑیوں کو

میں صادق ہوں اور خدا میری گواہی دے گا۔ اے ازلی ابدی خدا میری

پکڑ کے آ۔ ضاقت الارض بمارحبت۔ ربّ انّی مغلوب فانتصر

مدد کے لئے آ۔ زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو گئی ہے، اے میرے خدا میں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے

فسحّقھم تسحیقا۔ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔

لے۔ پس اُن کو پیس ڈال۔ کہ وہ زندگی کی وضع سے دُور جا پڑے ہیں۔

ظاہر ہے کہ خدا روزہ رکھنے اور افطار سے پاک ہے اور یہ الفاظ اپنے اصلی معنوں کی رُو سے اُس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ پس یہ صرف ایک استعارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کبھی مَیں اپنا قہرنازل کروں گا اور کبھی کچھ مہلت دُوں گا۔ اُس شخص کی مانند جو کبھی کھاتا ہے اور کبھی روزہ رکھ لیتا ہے اور اپنے تئیں کھانے سے روکتا ہے۔ اور اس قسم کے استعارات خدا کی کتابوں میں بہت ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کو خدا کہے گا کہ مَیں بیمار تھا۔ مَیں بھوکا تھا۔ مَیں ننگا تھا۔ الخ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 108

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/108/mode/1up


لے۔ پس اُن کو پیس ڈال۔ کہ وہ زندگی کی وضع سے دُور جا پڑے ہیں۔

انماؔ امرک اذا اردت شیءًا ان تقول لہ کن فیکون۔ تو درمنزل ماچو بار بار آئی

تُو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے۔ اے میرے بندے چونکہ تو میری فرو دگاہ میں

خدا ابر رحمت بباریدیانے۔ انا امتنا اربعۃ عشر دوابا ۔

بار بار آتاہے اس لئے اب تو خود دیکھ لے کہ تیرے پر رحمت کی بارش ہوئی یا نہ۔ ہم نے چو دہ چار پایوں کو ہلاک کر دیا۔

ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ سر انجام جاہل جہنم بود

کیونکہ وہ نافرمانی میں حد سے گذر گئے تھے۔ جاہل کا انجام جہنم ہے۔

کہ جاہل نکوعاقبت کم بود ۔میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا۔

جاہل کا خاتمہ بالخیر کم ہوتا ہے میری فتح ہوئی میرا غلبہ ہوا

انّی اُمِرت من الرحمٰن فاْتونی۔ انی حمی الرحمٰن۔ انی لاجد

میں خدا کی طرف سے خلیفہ کیا گیا ہوں پس تم میری طرف آجاؤ۔ میں خدا کا چراگاہ ہوں۔ اور مجھے گم گشتہ

ریح یوسف لولا ان تفنّدون۔ الم ترکیف فعل

یوسف کی خوشبو لائی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ یہ شخص بہک رہا ہے کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے

ربّک باصحاب الفیل ۔ الم یجعل کیدھم فی تضلیل ۔

ربّ نے اصحاب فیل کے ساتھ کیا کیا۔ کیا اُس نے اُن کے مکر کو اُلٹا کر انہیں پر نہیں مارا۔

وہ کام جو تم نے کیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں ہوگا۔*

وہ کام جو تم نے کیا خدا کی مرضی کے موافق نہیں ہوگا۔

انا عفونا عنک۔ لقد نصرکم اللّٰہ ببدرو انتم اذلّۃ ۔

ہم نے تجھے معاف کیا۔ خدانے بدر میں یعنی اس چودھویں صدی میں تمہیں ذلّت میں پاکر تمہاری مدد کی۔

وقالوا ان ھٰذا الا اختلاق۔ قل لو کان من عند غیر اللّٰہ

اور کہیں گے کہ یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ ان کو کہہ کہ اگر یہ کاروبار بجز خدا کے کسی اور کا ہوتا


* اِس کی تصریح نہیں کی گئی۔ وَاللّٰہ اعلم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 109

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/109/mode/1up


لوجدتم فیہ اختلافا کثیرا ۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ

تو اس میں بہت اختلاف تم دیکھتے۔ اُن کو کہہ کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے

فھل انتم مؤمنون۔ یاْتی قمر الانبیاء۔ وامرک یتا تّٰی

پس کیا تم ایمان لاؤگے یا نہیں۔ نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام پُورا ہو جائے گا۔

و امتازوالیوم ایّھا المجرمون۔ بھونچال آیا اور بشدّت آیا

اور آج اے مجرمو! تم الگ ہو جاؤ بڑی شدت سے زلزلہ آئے گا اور

زمین تہ و بالا کر دی۔* ھٰذا الذی کنتم بہٖ تستعجلون۔

اُوپر کی زمین نیچے کر دے گا۔ یہ وہی وعدہ ہے جس کی تم جلدی کرتے تھے۔

انّی اُحَافظ کلّ من فی الدار۔ سفینۃ و سکینۃ۔ انی معک

مَیں ہر ایک کو جو اس گھر میں ہے اس زلزلہ سے بچا لونگا کشتی ہے اور آرام ہے مَیں تیرے ساتھ

ومع اھلک ۔ ارید ما تریدون۔ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ

اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں میں وہی ارادہ کرونگا جو تمہارا ارادہ ہے۔ بنگالہ کی نسبت پیشگوئی ہے جو تقسیم بنگالہ سے اہل بنگالہ

حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب اُن کی دلجوئی ہوگی۔

کی دلآز اری کی گئی خدا فرماتا ہے کہ پھر وہ وقت آتا ہے کہ پھر کسی پیرایہ میں اہل بنگالہ کی دلجوئی کی جائے گی۔


* اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے جیسا کہ یسعیاہ نبی کے زمانہ میں ہوا کہ اس نبی کی پیشگوئی کے مطابق پہلے ایک عورت مسمات علمہ کو لڑکا پیدا ہوا۔ پھر بعد اس کے حزقیاہ بادشاہ نے فقہ۱؂ پر فتح پائی۔ اسی طرح اس زلزلہ سے پیر منظور محمد لدہانوی کی بیوی کو جس کا نام محمدی بیگم ہے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ لڑکا اس بڑے زلزلہ کے لئے نشان ہوگا جو قیامت کا نمونہ ہوگا۔ مگر ضروری ہے کہ اس سے پہلے اور زلزلے بھی آویں۔ اس لڑکے کے مفصلہ ذیل نام ہونگے۔ بشیر ا۱لدولہ کیونکہ وہ ہماری فتح کیلئے نشان ہوگا۔ کلمۃ۲ اللہ خان یعنی خدا کا کلمہ۔ عالم کبا۳ب، ور۴ڈ، شاد۵یخاں، کلمۃ ۶العزیز وغیرہ کیونکہ وہ خدا کا کلمہ ہوگا جس سے حق کا غلبہ ہوگا۔ تمام دنیا خدا کے ہی کلمے ہیں۔ اس لئے اس کا نام کلمۃ اللہ رکھنا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ وہ لڑکا۔ اب کی دفعہ وہ لڑکا پیدا نہیں ہوا کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ اخّرہ اللّٰہ الٰی وقتٍ مسمّٰی یعنی وہ زلزلۃ الساعۃ جس کیلئے وہ لڑکا نشان ہوگا ہم نے اس کو ایک اور وقت پر ڈالدیا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 110

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/110/mode/1up


الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصھرو النسب ۔* الحمدللّٰہ الذی اذھب

اُس خدا کو تعریف ہے جس نے دامادی اور نسب کی رو سے تیرے پر احسان کیا۔ اس خدا کو تعریف ہے جس نے میرا

عنی الحزن ۔ واٰتانی مالم یؤت احد من العالمین۔ یٰسٓ۔ انک

غم دُور کیا۔ اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی۔ اے سردار تُو خدا کا

لمن المرسلین ۔ علٰی صراط مستقیم۔ تنزیل العزیز الرحیم ۔ اردت

مُرسل ہے راہ راست پر اُس خدا کی طرف سے جو غالب اور رحم کرنے والا ہے مَیں نے ارادہ

ان استخلف فخلقت اٰدم۔ یُحْیِی الدین ویقیم الشریعۃ۔

کیا کہ اس زمانہ میں اپنا خلیفہ مقرر کروں سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا۔ وہ دین کو زندہ کریگا اور شریعت کو قائم کرے گا۔

چو دَورِ خسروی ژ آغاز کر دند مسلمان رامسلمان باز کردند

جب مسیح السلطان کا دور شروع کیا گیا تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے مسلمان بنانے لگے

ان السمٰوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ قرب اجلک

آسمان اور زمین ایک گٹھڑی کی طرح بندھے ہوئے تھے ہم نے ان دونوں کو کھولدیا یعنی زمین نے اپنی پوری قوت ظاہر کی اور آسمان نے بھی۔

المقدّر۔ انّ ذاالعرش یدعوک۔ ولا نبقی لک من المخزیات

اب تیرا وقت موت قریب آگیا۔ ذوالعرش تجھے بُلاتا ہے اور ہم تیرے لئے کوئی رُسوا کنندہ امر نہیں چھوڑیں گے

ذکرا۔ قَلَّ میعاد ربّک۔ ولا نبقی لک من المخزیات شیءًا۔

تیرے رب کا وعدہ کم رہ گیا ہے اور ہم تیرے لئے کوئی امر رُسوا کنندہ باقی نہیں چھوڑیں گے۔

بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اُس دن خدا کی طرف سے

زندگی کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اس دن سب جماعت دل برداشتہ

سب پر اُداسی چھا جائے گی۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔ یہ ہوگا۔

اور اُداس ہو جائے گی۔ کئی واقعات کے ظہور کے بعد


یعنی خدا نے تجھ پر یہ احسان کیا کہ ایک شریف اور معزز اور شہرت یافتہ اور باوجاہت خاندان سے تجھے پیدا کیا اور دوسرے یہ احسان کیا کہ ایک معزز دہلی کے سادات خاندان سے تیری بیوی آئی۔منہ


ژ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں مسیح آخرالزمان کو بادشاہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس سے مراد آسمانی بادشاہی ہے یعنی وہ آئندہ سلسلہ کا ایک بادشاہ ہوگا اور بڑے بڑے اکابر اُس کے پیرو ہوں گے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 111

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/111/mode/1up


پھرؔ تیرا واقعہ ہوگا۔ تمام عجائبات قدرت دکھلانے کے

پھر تیرا واقعہ ظہور میں آئے گا۔ قدرت الٰہی کے کئی عجائب کام پہلے دکھلائے جائیں گے

بعد تمہارا حادثہ آئے گا۔ جَآء وقتک ۔ و نبقی لک الاٰیات

پھر تمہاری موت کا واقعہ ظہور میں آئے گا۔ تیرا وقت آگیا ہے اور ہم تیرے لئے روشن نشان

باھرات ۔ جَآء وقتک ۔ ونبقی لک الاٰیات بیّنات ۔

چھوڑیں گے تیرا وقت آگیا ہے اور ہم تیرے لئے کھلے نشان باقی رکھیں گے۔

ربّ توفّنی مُسلمًا والحقنی بالصالحین۔ اٰمین

اے میرے خدا اسلام پر مجھے وفات دے اور نیکو کاروں کے ساتھ مجھے ملا دے۔ آمین

خاتمہ

بعض معترضین کے اعتراضات کے جواب میں

چونکہ اس پُر آشوب زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور آپ کی پیروی کرنا نجات کیلئے ضروری نہیں سمجھتے اور صرف خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک ماننا بہشت میں داخل ہونے کے لئے کافی خیال کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ محض افترا اور ظلم کے طور پر یا اپنی غلط فہمی سے میرے پر طرح طرح کے بیجا اعتراض کرتے ہیں جن اعتراضوں سے بعض کا مطلب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تا لوگوں کو اس سلسلہ سے بیزار کریں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں کہ دقائق دین کے سمجھنے سے اُن کی طبیعتیں قاصر ہیں اور اُن کی طبیعت میں شر نہیں مگر فہم رسا بھی نہیں اور نہ وسعت علمی ہے جس سے وہ خودبخود حقیقتِ حال دریافت کر سکیں۔ اِس لئے میں نے قرینِ مصلحت سمجھا کہ اس خاتمہ میں اُن سب کے شُبہات کا ازالہ کیا جاوے۔

کچھ ؔ ضرور نہ تھا کہ مَیں ان شبہات کے دُور کرنے کیلئے توجہ کرتا۔ کیونکہ میری بہت سی کتابوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 112

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/112/mode/1up


کے متفرق مقامات میں ان بیہودہ اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے لیکن اِن دنوں میں عبد الحکیم خان نام ایک شخص جو پٹیالہ کی ریاست میں اسسٹنٹ سرجن ہے جو پہلے اس سے ہمارے سلسلہ بیعت میں داخل تھا مگر بباعث کمی ملاقات اور قلّتِ صُحبت دینی حقائق سے محض بے خبر اور محروم تھا اور تکبّر اور جہل مرکب اور رعونت اور بد ظنی کی مرض میں مبتلا تھا اپنی بد قسمتی سے مرتد ہو کر اِس سلسلہ کا دشمن ہو گیا ہے اور جہاں تک اس سے ہو سکا خدا کے نور کو معدوم کرنے کیلئے اپنی جاہلانہ تحریروں میں زہریلی پھونکوں سے کام لے رہا ہے تا اس شمع کو بجھا وے جو خدا کے ہاتھ سے روشن ہے اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ اختصار کے لحاظ سے بعض اس کے ایسے اعتراضات کا جواب لکھ دیا جائے جو عوام کو مطلع کرنے کیلئے قابل جواب ہیں کیونکہ عوام پر یہ امر بباعث غفلت اور مشغولی دنیا کے البتہ مشکل ہے کہ تمام میری کتابیں تلاش کرکے اُن میں سے یہ جواب معلوم کر لیں۔

سو پہلے وہ امر لکھنے کے لائق ہے جس کی وجہ سے عبد الحکیم خان ہماری جماعت سے علیحدہ ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ نجات اُخروی حاصل کرنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک جو خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے (گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذب ہے) وہ نجات پائے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اُس کے نزدیک ایک شخص اسلام سے مرتد ہو کر بھی نجات پا سکتا ہے اور ارتداد کی سزا دینا اُس کو ظلم ہے۔ مثلاً حال میں ہی جو ایک شخص عبد الغفور نام مرتد ہوکر آریہ سماج میں داخل ہوا اور دھرم پال نام رکھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور تکذیب میں دن رات کمربستہ ہے وہ بھی عبد الحکیم خان کے نزدیک سیدھا بہشت میں جائے گا۔ کیونکہ آریہ لوگ بُت پرستی سے دستکش ہیں۔ مگر ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسے عقیدہ کی رو سے انبیاء علیہم السلام کا مبعوث ہونا محض بیہودہ اور لغو کام ٹھہرے گا۔ کیونکہ جب ایک شخص انبیاء علیہم السلام کا مکذّب اور دشمن ہو کر بھی خدا کو ایک جاننے سے نجات پا سکتا ہے تو پھر اس صورؔ ت میں گویا انبیاء صرف عبث طور پر دنیا میں بھیجے گئے۔* ورنہ اُن کے بغیر بھی کام چل سکتا تھا۔


* اگر یہ بات سچ ہے کہ وہ لوگ جو ابنیاء علیہم السلام کی تکذیب کرنے والے اور اُن کے دشمن ہیں محض اپنی خیالی توحید سے نجات پا جائیں گے تو بجائے اس کے کہ ان کفّار کو قیامت میں کوئی عذاب ہو انبیاء خود ایک قسم کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 113

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/113/mode/1up


اور اُن کے وجود کی کوئی بڑی بھاری ضرورت نہ تھی۔ اور اگر یہ سچ تھا کہ صرف خدا کو واحد لا شریک کہنا ہی کافی ہے تو گویا یہ بھی ایک شرک کی قسم ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّد رسُول اللّٰہ لازمی طور پر ملایا گیا اور درحقیقت اس خیال کے لوگ محمّد رسول اللّٰہ کہنا شرک ہی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی کامل توحید اسی میں تصور کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ کسی کا نام نہ ملایا جائے اور ان کے نزدیک دین اسلام سے خارج ہونا نجات سے مانع نہیں۔ اور اگر مثلاً ایک ہی دن میں سب کے سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کرکے گمراہ فلسفیوں کی طرح مجرّد توحید کو کافی سمجھیں اور اپنے تئیں قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے مستغنی خیال کر لیں اور مکذّب ہو جائیں تو اُن کے نزدیک یہ سب لوگ باوجود مرتد ہونے کے نجات پاجائیں گے اور بلا شبہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

مگر یہ بات کسی ادنیٰ عقل والے پر بھی پوشیدہ نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے ہمارے اِس زمانہ تک تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ جیسا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک سمجھتا ہے اور اس کی ہستی اور وجود اور واحدانیت پر ایمان لاتا ہے ایسا ہی اُس کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لاوے۔ اور جو کچھ قرآن شریف میں مذکورو مسطور ہے سب پر ایمان رکھے۔ یہی وہ امر ہے جو ابتدا سے مسلمانوں کے ذہن نشین کر دیا گیا ہے اور اسی پر محکم عقیدہ رکھنے کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی جانیں دیں۔ اور کئی صادق مسلمان جو کفار کے ہاتھ میں عہدنبوی میں گرفتار ہو گئے تھے اُنکو بار باریہ فہمائش کی گئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہو جاؤ تو تم ہمارے ہاتھ سے رہائی پاؤ گے۔ لیکن انہوں نے انکار نہ کیا اور اسی راہ میں جان دی۔ یہ باتیں اِسلام کے واقعات میں ایسی مشہور ہیں کہ جو شخص ایک ادنیٰ


جبکہ وہ اپنے سخت دشمنوں اور مکذبوں اور اہانت کرنیوالوں کو بہشت کے تختوں پر بیٹھے دیکھیں گے اور اپنی طرح ہر ایک قسم کی نازو نعمت میں اُنکو پائیں گے اور ممکن ہے کہ اسوقت بھی وہ لوگ ٹھٹھا کرکے نبیوں کو کہیں کہ تمہاری تکذیب اور توہین نے ہمارا کیا بگاڑا۔ تب بہشت میں رہنا نبیوں پر تلخ ہو جائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 114

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/114/mode/1up


واقفیت بھی اسلامی تاریخ سے رکھتا ہوگا اُس کو ہمارے اِس بیان سے انکار نہیں ہوگا۔

اور ؔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ اسلامی لڑائیاں مدافعت کے طور پر تھیں یعنی ابتدا انکی کفار کی طرف سے تھی اور کفارِ عرب اپنے حملوں سے باز نہیں آتے تھے اِس خوف سے کہ مبادادینِ اسلام جزیرہ عرب میں پھیل جائے اور اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے ساتھ لڑنے کا حکم ہوا تھا۔ تا مظلوموں کو اُن فرعونوں کے ہاتھ سے رہائی بخشیں مگر اِس میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ پھر بھی اگر کفّار کو یہ پیغام دیا جاتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ماننا کچھ ضروری نہیں اور آنجناب پر ایمان لانا کچھ شرط نجات نہیں صرف اپنے طور پر خدا کو واحد لا شریک سمجھو گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکذّب اور مخالف اور دشمن رہو اور اِس بات کی ضرورت نہیں کہ انکو اپنا سردار اور پیشوا سمجھ لو تو اِس سے اس قدر خونریزی کی نوبت نہ آتی بالخصوص یہودی جو خدا کو واحد لاشریک سمجھتے تھے کیا وجہ کہ اُن سے لڑائیاں کی گئیں یہاں تک کہ بعض موقعوں میں کئی ہزار یہودی گرفتار کرکے ایک ہی دن میں قتل کئے گئے۔ اِس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر صرف توحید نجات کے لئے کافی تھی تو یہودیوں سے خواہ نخواہ لڑائیاں کرنا اور اُن میں سے ہزاروں کو قتل کرنا یہ فعل سراسر ناجائز اور حرام تھا۔ پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اِس فعل کے کیوں مرتکب ہوئے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کا علم نہ تھا؟

اور اگر خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام نبی یہی سکھلاتے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک مانو اور ساتھ اس کے ہماری رسالت پر بھی ایمان لاؤ۔ اِسی وجہ سے اسلامی تعلیم کا اِن دو فقروں میں خلاصہ تمام اُمّت کو سکھلایا گیا کہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔

یہ بھی یاد رہے کہ خدا کے وجود کا پتہ دینے والے اور اُس کے واحد لا شریک ہونے کا علم لوگوں کو سکھلانے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں۔ اور اگر یہ مقدس لوگ دنیا میں نہ آتے تو صراط مستقیم کا یقینی طور پر پانا ایک ممتنع اور محال امر تھا اگرچہ زمین و آسمان پر غور کرکے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 115

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/115/mode/1up


اور اُن کی ترتیب ابلغ اور محکم پر نظر ڈال کر ایک صحیح الفطرت اور سلیم العقل انسان دریافت کرؔ سکتا ہے کہ اِس کار خانہ ء پُر حکمت کا بنانے والا کوئی ضرور ہونا چاہئے لیکن اِس فقرہ میں کہ ضرور ہونا چاہئے۔ اور اِس فقرہ میں کہ واقعی وہ موجود ہے بہت فرق ہے۔ واقعی وجود پر اطلاع دینے والے صرف انبیاء علیہم السلام ہیں جنہوں نے ہزارہا نشانوں اور معجزات سے دنیا پر ثابت کر دکھایا کہ وہ ذات جو مخفی در مخفی اور تمام طاقتوں کی جامع ہے درحقیقت موجود ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس قدر عقل بھی کہ نظام عالم کو دیکھ کر صانع حقیقی کی ضرورت محسوس ہو۔ یہ مرتبہ عقل بھی نبوت کی شعاعوں سے ہی مستفیض ہے۔ اگر ابنیاء علیہم السلام کا وجود نہ ہوتا تو اِس قدر عقل بھی کسی کو حاصل نہ ہوتی۔ اِس کی مثال یہ ہے کہ اگرچہ زمین کے نیچے پانی بھی ہے مگر اس پانی کا بقاء اور وجود آسمانی پانی سے وابستہ ہے۔ جب کبھی ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نہیں برستا تو زمینی پانی بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ اور جب آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین میں بھی پانی جوش مارتا ہے۔ اِسی طرح انبیاء علیہم السلام کے آنے سے عقلیں تیز ہو جاتی ہیں اور عقل جو زمینی پانی ہے اپنی حالت میں ترقی کرتی ہے۔ اور پھر جب ایک مُدّت دراز اِس بات پر گذرتی ہے کہ کوئی نبی مبعوث نہیں ہوتا تو عقلوں کا زمینی پانی گندہ اور کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور دنیا میں بُت پرستی اور شرک اور ہر ایک قسم کی بدی پھیل جاتی ہے۔ پس جس طرح آنکھ میں ایک روشنی ہے اور وہ باوجود اس روشنی کے پھر بھی آفتاب کی محتاج ہے اِسی طرح دنیا کی عقلیں جو آنکھ سے مشابہ ہیں ہمیشہ آفتابِ نبوت کی محتاج رہتی ہیں اور جبھی کہ وہ آفتاب پوشیدہ ہو جائے اُن میں فی الفور کدورت اور تاریکی پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا تم صرف آنکھ سے کچھ دیکھ سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ اِسی طرح تم بغیر نبوت کی روشنی کے بھی کچھ نہیں دیکھ سکتے۔

پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے اِس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے۔ نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 116

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/116/mode/1up


بھیجتا ؔ ہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے۔ تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانونِ ازلی کے رُو سے خد اشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص توحید جو چشمہء یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آسکے۔ وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کنزِ مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے۔ ورنہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک توحید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اُس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلاف تجارب سالکین ہے۔

بعض نادانوں کو جو یہ وہم گذرتا ہے کہ گویا نجات کے لئے صرف توحید کافی ہے نبی پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں۔ گویا وہ رُوح کو جسم سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں یہ وہم سراسر دلی کوری پر مبنی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جبکہ توحید حقیقی کا وجود ہی نبی کے ذریعہ سے ہوتا ہے اور بغیر اس کے ممتنع اور محال ہے تو وہ بغیر نبی پر ایمان لانے کے میسر کیونکر آسکتی ہے۔ اور اگر نبی کو جوجڑھ توحید کی ہے ایمان لانے میں علیحدہ کر دیا جائے تو توحید کیونکر قائم رہے گی۔ توحید کا موجب اور توحید کا پیدا کرنے والا اور توحید کا باپ اور توحید کا سرچشمہ اور توحید کا مظہر اتم صرف نبی ہی ہوتا ہے اُسی کے ذریعہ سے خدا کا مخفی چہرہ نظر آتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو حضرت احدیّت جلّ شانہٗ کی ذات نہات درجہ استغنا اور بے نیازی میں پڑی ہے اُس کو کسی کی ہدایت اور ضلالت کی پروا نہیں۔ اور دوسری طرف وہ بالطبع یہ بھی تقاضا فرماتا ہے کہ وہ شناخت کیا جائے اور اُسکی رحمتِ ازلی سے لوگ فائدہ اُٹھاویں۔ پس وہ ایسے دل پر جوؔ اہل زمین کے تمام دلوں میں سے محبت اور قرب اوسبحانہٗ کا حاصل کرنے کیلئے کمال درجہ پر فطرتی طاقت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 117

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/117/mode/1up


اپنے اندر رکھتا ہے۔ اور نیز کمال درجہ کی ہمدردی بنی نوع کی اس کی فطرت میں ہے تجلّی فرماتا ہے اور اُس پر اپنی ہستی اور صفاتِ ازلیہ ابدیہ کے انوار ظاہر کرتا ہے اور اس طرح وہ خاص اور اعلیٰ فطرت کا آدمی جس کو دوسرے لفظوں میں نبی کہتے ہیں اس کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ پھر وہ نبی بوجہ اسکے کہ ہمدردی بنی نوع کا اس کے دل میں کمال درجہ پر جوش ہوتا ہے اپنی روحانی توجہات اور تضرع اور انکسار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ خدا جو اُس پر ظاہرہوا ہے۔ دُوسرے لوگ بھی اُسکو شناخت کریں اور نجات پاویں اور وہ دلی خواہش سے اپنے وجود کی قربانی خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس تمنا سے کہ لوگ زندہ ہو جائیں کئی موتیں اپنے لئے قبول کر لیتا ہے اور بڑے مجاہدات میں اپنے تئیں ڈالتا ہے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے3 3 ۱ ؂ * تب اگرچہ خدا مخلوق سے بے نیاز اور مستغنی ہے مگر اُس کے دائمی غم اور حزن اور کرب و قلق اور تذلل اور نیستی اور نہایت درجہ کے صدق اور صفا پر نظر کرکے مخلوق کے مستعددلوں پر اپنے نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کر دیتا ہے اور اُس کی پُر جوش دعاؤں کی تحریک سے جو آسمان پر ایک صَعبناک شورڈالتی ہیں خدا تعالیٰ کے نشان زمین پر بارش کی طرح برستے ہیں۔ اور عظیم الشان خوارق دنیا کے لوگوں کو دکھلائے جاتے ہیں جن سے دنیا دیکھ لیتی ہے کہ خدا ہے اور خدا کا چہرہ نظر آجاتا ہے لیکن اگر وہ پاک نبی اِس قدر دعا اور تضرّع اور ابتہال سے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کرتا اور خدا کے چہرہ کی چمک دنیا پر ظاہر کرنے کیلئے اپنی قربانی نہ دیتا اور ہرایک قدم میں صدہا موتیں قبول نہ کرتا تو خُدا کا چہرہ دنیا پر ہر گز ظاہر نہ ہوتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ بوجہ استغناء ذاتی کے بے نیاز ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3 ۲؂ اور 3 ۳؂ یعنی خدا تو تمام دنیا سے بے نیاز ہے اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور ہماری طلب میں کوشش کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اُنہیں کیلئے ہمارا یہ قانون قدرت ہے کہ ہم اُنکو اپنی راہ دکھلا دیا کرتے ہیں۔ سو خدا کی راہ میں سب سے اول قربانی دینے والے نبی ہیں۔ ہر ایک اپنے لئے


* (ترجمہ) یعنی کیا تُو اِس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ کافر لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 118

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/118/mode/1up


کوششؔ کرتاہے مگر انبیاء علیہم السلام دوسروں کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ لوگ سوتے ہیں اور وہ ان کیلئے جاگتے ہیں۔ اورلوگ ہنستے ہیں اور وہ اُن کیلئے روتے ہیں اور دنیا کی رہائی کیلئے ہر ایک مصیبت کو بخوشی اپنے پر وارد کر لیتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کرتے ہیں کہ تا خدا تعالیٰ کچھ ایسی تجلی فرماوے کہ لوگوں پر ثابت ہو جاوے کہ خدا موجود ہے اور مستعد دلوں پر اُس کی ہستی اور اُس کی توحید منکشف ہو جاوے تاکہ وہ نجات پائیں۔ پس وہ جانی دشمنوں کی ہمدردی میں مر رہتے ہیں۔ اور جب انتہا درجہ پر اُن کا درد پہنچتا ہے اور ان کی دردناک آہوں سے (جو مخلوق کی رہائی کیلئے ہوتی ہیں) آسمان پُر ہو جاتا ہے۔ تب خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمک دکھلاتا ہے اور زبردست نشانوں کے ساتھ اپنی ہستی اور اپنی توحید لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ پس اس میں شک نہیں کہ توحید اور خدا دانی کی متاع رسول کے دامن سے ہی دنیا کو ملتی ہے بغیر اس کے ہر گز نہیں مل سکتی اور اس امر میں سب سے اعلیٰ نمونہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا کہ ایک قوم جو نجاست پر بیٹھی ہوئی تھی اُن کو نجاست سے اُٹھا کر گلزار میں پہنچا دیا۔ اور وہ جو روحانی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تھے اُن کے آگے روحانی اعلیٰ درجہ کی غذائیں اور شیریں شربت رکھ دئے۔ اُن کو وحشیانہ حالت سے انسان بنایا۔پھر معمولی انسان سے مہذب انسان بنایا پھر مہذب انسان سے کامل انسان بنایا اور اس قدر اُن کے لئے نشان ظاہر کئے کہ اُنکو خدا دکھلا دیا اور اُن میں ایسی تبدیلی پیدا کر دی کہ اُنہوں نے فرشتوں سے ہاتھ جا ملائے۔ یہ تاثیر کِسی اور نبی سے اپنی اُمّت کی نسبت ظہور میں نہ آئی کیونکہ اُن کے صحبت یاب ناقص رہے پس مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔* افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے


* یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے مگر اس کامل نبی کے فیضان کی شعاعیں اب تک ختم نہیں ہوئیں اگر

خدا کا کلام قرآن شریف مانع نہ ہوتا تو فقط یہی نبی تھا جس کی نسبت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب تک مع جسم عنصری



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 119

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/119/mode/1up


مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میںؔ اس کی جان گداز ہوئی اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اسکے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔

وہ لوگ جو اس غلط خیال پر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاوے یا مرتد ہو جائے اور توحید پر قائم ہو اور خدا کو واحد لا شریک جانتا ہو وہ بھی نجات پا جائے گا اور ایمان نہ لانے یا مرتد ہونے سے اس کا کچھ بھی حرج نہ ہوگا جیسا کہ عبد الحکیم خان کا مذہب ہے ایسے لوگ درحقیقت توحید کی حقیقت سے ہی بے خبر ہیں۔ ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ یوں تو شیطان بھی خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک سمجھتا ہے۔


زندہ آسمان پر موجود ہے کیونکہ ہم اُس کی زندگی کے صریح آثار پاتے ہیں۔ اس کا دین زندہ ہے اس کی پیروی کرنے والا زندہ ہو جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے زندہ خدا مل جاتا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدا اس سے اور اس کے دین سے اور اس کے محبّ سے محبت کرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ درحقیقت وہ زندہ ہے اور آسمان پر سب سے اس کا مقام برتر ہے لیکن یہ جسم عنصری جو فانی ہے یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور نورانی جسم کے ساتھ جو لازوال ہے اپنے خدائے مقتدر کے پاس آسمان پر ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 120

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/120/mode/1up


مگر صرف واحد سمجھنے سے نجات نہیں ہو سکتی بلکہ نجات تو دو امر پر موقوف ہے۔

(۱) ایک یہ کہ یقین کامل کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت پر ایمان لاوے۔

(۲) دوسرے یہ کہ ایسی کامل محبت حضرت احدیّت جلّ شانہٗ کی اُس کے دل میں جاگزین ہو۔ کہ جس کے استیلا اور غلبہ کا یہ نتیجہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت عین اُس کی راحتِ جان ہو جس کے بغیر وہ جی ہی نہ سکے اور اس کی محبت تمام اغیار کی محبتوں کو پامال اور معدوم کر دے یہی توحید حقیقی ہے کہ ؔ بجز متابعت ہمارے سیّد ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ کیوں حاصل نہیں ہو سکتی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی ذات غیب الغیب اور وراء الوراء اور نہایت مخفی واقع ہوئی ہے جس کو عقول انسانیہ محض اپنی طاقت سے دریافت نہیں کر سکتیں اور کوئی برہان عقلی اس کے وجود پر قطعی دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ عقل کی دوڑ اور سعی صرف اِس حد تک ہے کہ اس عالم کی صنعتوں پر نظر کرکے صانع کی ضرورت محسوس کرے مگر ضرورت کا محسوس کرنا اور شئے ہے اور اس درجہ عین الیقین تک پہنچنا کہ جس خدا کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے وہ درحقیقت موجود بھی ہے یہ اور بات ہے۔ اور چونکہ عقل کا طریق ناقص اور نا تمام اور مشتبہ ہے اسلئے ہر ایک فلسفی محض عقل کے ذریعہ سے خدا کوشناخت نہیں کر سکتا بلکہ اکثر ایسے لوگ جو محض عقل کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا پتہ لگانا چاہتے ہیں آخر کار دہریہ بن جاتے ہیں۔ اور مصنوعا ت زمین و آسمان پر غور کرنا کچھ بھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اور خدا تعالیٰ کے کاملوں پر ٹھٹھا اور ہنسی کرتے ہیں اور اُن کی یہ حجت ہے کہ دنیا میں ہزارہا ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کے وجود کا ہم کوئی فائدہ نہیں دیکھتے اور جن میں ہماری عقلی تحقیق سے کوئی ایسی صنعت ثابت نہیں ہوتی جو صانع پر دلالت کرے بلکہ محض لغو اور باطل طور پر اُن چیزوں کا وجود پایا جاتا ہے۔ افسوس وہ نادان نہیں جانتے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا۔ اِس قسم کے لوگ کئی لاکھ اِس زمانہ میں پائے جاتے ہیں جو اپنے تئیں اول درجہ کے عقلمند اور فلسفی سمجھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود سے سخت منکر ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی عقلی دلیل زبر دست اُن کو ملتی تو وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار نہ کرتے۔ اور اگر وجود باری جلّ شانہٗ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/121/mode/1up


پر کوئی بُرہان یقینی عقلی اُنکو ملزم کرتی تو وہ سخت بے حیائی اور ٹھٹھے اور ہنسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود سے منکر نہ ہو جاتے۔ پس کوئی شخص فلسفیوں کی کشتی پر بیٹھ کر طوفان شبہات سے نجات نہیں پا سکتا بلکہ ضرور غرق ہوگا اور ہر گز ہرگز شربت توحید خالص اُس کو میسر نہیں آئے گا۔ اب سوچو کہ یہ خیال کس قدر باطل اور بدبودار ہے کہ بغیر وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےؔ توحید میسر آسکتی ہے اور اس سے انسان نجات پا سکتا ہے۔ اے نادانو! جب تک خدا کی ہستی پر یقین کامل نہ ہو اُس کی توحید پر کیونکر یقین ہو سکے۔ پس یقیناًسمجھو کہ توحید یقینی محض نبی کے ذریعہ سے ہی مل سکتی ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دہریوں اور بد مذہبوں کو ہزار ہا آسمانی نشان دکھلا کر خدا تعالیٰ کے وجودکا قائل کر دیا اور اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور کامل پیروی کرنے والے اُن نشانوں کو دہریوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بات یہی سچ ہے کہ جب تک زندہ خدا کی زندہ طاقتیں انسان مشاہدہ نہیں کرتا شیطان اُس کے دل میں سے نہیں نکلتا اور نہ سچی توحید اُس کے دل میں داخل ہوتی ہے اور نہ یقینی طور پر خداکی ہستی کا قائل ہو سکتا ہے۔ اور یہ پاک اور کامل توحید صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے ملتی ہے۔

اور وہ زبردست نشان جو نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت کو ثابت کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات جمالی اور جلالی کو اکمل اور اتم طور پر ثابت کرکے اُس کی عظمت اور محبت دلوں میں بٹھاتے ہیں اور جب ان نشانوں سے جن کی جڑھ زبردست اور اقتداری پیشگوئیاں ہیں خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت اور اس کے صفات جمالیہ اور جلالیہ پر یقین آجاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو اُس کی ذات اورجمیع صفات میں واحد لاشریک جانتا ہے اور اُس کی خوبیوں اور روحانی حسن و جمال پر نظر ڈال کر اُس کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور پھر اُس کی عظمت اور جلال اور بے نیازی پر نظر ڈال کر اُس سے ڈرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ دن بدن خدا تعالیٰ کی طرف کھنچا جاتا ہے یہاں تک کہ تمام سفلی تعلقات توڑ کر رُوح محض رہ جاتا ہے اور تمام صحنِ سینہ اُس کا محبت الٰہی سے بھر جاتا ہے اور خدا کے وجود کے مشاہدہ سے اُس کے وجود پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور وہ موت کے بعد ایک نئی زندگی پاتا ہے۔ تب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/122/mode/1up


اُس فنا کی حالت میں کہا جاتا ہے کہ اسکو توحید حاصل ہو گئی ہے۔ پس جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں۔ وہ کامل توحید جو سر چشمہ ء نجات ہے بجز نبی کامل کی پیروی کے حاصل ہو ہی نہیں سکتی۔

ابؔ اِس تقریر سے ظاہر ہے کہ خدا کے رسول کو ماننا توحید کے ماننے کے لئے علّتِ موجبہ کی طرح ہے اور ان کے باہمی ایسے تعلقات ہیں کہ ایک دوسرے سے جُدا ہو ہی نہیں سکتے۔ اور جو شخص بغیر پیروی رسول کے توحید کا دعویٰ کرتا ہے اسکے پاس صرف ایک خشک ہڈی ہے جس میں مغز نہیں اور اس کے ہاتھ میں محض ایک مردہ چراغ ہے جس میں روشنی نہیں ہے اور ایسا شخص کہ جو یہ خیال کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کو واحد لا شریک جانتا ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو وہ نجات پائے گا یقیناًسمجھو کہ اُس کا دل مجذوم ہے اور وہ اندھا ہے اور اُس کو توحید کی کچھ بھی خبر نہیں کہ کیا چیز ہے اور ایسی توحید کے اقرار میں شیطان اُس سے بہتر ہے کیونکہ اگرچہ شیطان عاصی اور نافرمان ہے لیکن وہ اس بات پر تو یقین رکھتا ہے کہ خدا موجود ہے۔* مگر اس شخص کوتو خدا پر بھی یقین نہیں۔

اب خلاصہ کلام یہ کہ جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ بغیر اس کے کہ کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے صرف توحید کے اقرار سے اس کی نجات ہو جائے گی۔ ایسے لوگ پوشیدہ مرتد ہیں اور درحقیقت وہ اسلام کے دشمن ہیں اور اپنے لئے ارتداد کی ایک راہ نکالتے ہیں ان کی حمایت کرنا کسی دیندار کا کام نہیں ہے۔ افسوس کہ ہمارے مخالف باوجود مولوی اور اہل علم کہلانے کے ان لوگوں کی ایسی حرکات سے خوش ہوتے ہیں۔ دراصل یہ بیچارے ہمیشہ اسی تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی سبب ایسا پیدا ہو جاوے کہ جس سے میری ذلّت اوراہانت ہو۔ مگر اپنی بد قسمتی سے آخر نا مراد ہی رہتے ہیں۔ پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتویٰ تیار کیا اور قریباً د ۲۰۰ و سو مولوی نے اس پر


* اگر کوئی کہے کہ جس حالت میں شیطان کو خدا تعالیٰ کی ہستی اور وحدانیت پر یقین ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کیوں کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نافرمانی انسان کی نافرمانی کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ اسی عادت پر انسان کی آزمائش کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور یہ ایک راز ہے جسکی تفصیل انسان کو نہیں دی گئی اور انسان کی خاصیت اکثر اور اغلب طورپر یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کامل حاصل کرنے سے ہدایت پالیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3 ۱؂ ہاں جو لوگ شیطانی سرشت رکھتے ہیں وہ اس قاعدہ سے باہر ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/123/mode/1up


مہریں لگائیں اور ہمیں کافر ٹھہرایا گیا۔ اور اُن فتووں میں یہاںؔ تک تشدد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میں یہود اور نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں اور عام طور پر یہ بھی فتوے دئے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہئے۔ اور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور اُن کے پیچھے نماز درست نہیں کافر جو ہوئے۔ بلکہ چاہئے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاویں کیونکہ کافر ہیں۔ مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہیں۔ اور اگر داخل ہوجا ئیں تو مسجد کو دھو ڈالنا چاہئے۔ اوران کا مال چُرانا درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں کیونکہ مہدی خُونی کے آنے سے انکاری اور جہاد سے منکر ہیں۔ مگر باوجود ان فتووں کے ہمارا کیا بگاڑا۔ جن دنوں میں یہ فتویٰ ملک میں شائع کیا گیا اُن دنوں میں دس آدمی بھی میری بیعت میں نہ تھے مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور حق کے طالب بڑے زور سے اِس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا مومنوں کے مقابل پر کافروں کی مدد خدا ایسی ہی کیا کرتا ہے۔ پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے ۲۰بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا۔ حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے مُنہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ ہو گیا۔کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر د ل آزار ہے۔ ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے؟ اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/124/mode/1up


کہؔ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہے تو اِس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب اُنہیں کے اقرار کے ہم اُن کو کافر کہتے۔

غرض ان لوگوں نے چند روز تک اِس جھوٹی خوشی سے اپنا دل خوش کر لیا کہ یہ لوگ کافر ہیں۔ اور پھر جب وہ خوشی باسی ہو گئی اور خدا نے ہماری جماعت کو تمام ملک میں پھیلا دیا تو پھر کسی اور منصوبہ کی تلاش میں لگے۔

تب انہی دنوں میں میری پیشگوئی کے مطابق پنڈت لیکھرام آریہ سماجی کو میعاد کے اندر کسی نے ہلاک کر دیا مگر افسوس کہ کسی مولوی کو یہ خیال نہ آیا کہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اسلامی نشان ظاہر ہوا۔ بلکہ بعض نے ان میں سے بار بار گورنمنٹ کو توجہ دلائی کہ کیوں گورنمنٹ پیشگوئی کرنیوالے کو نہیں پکڑتی مگر اس آرزو میں بھی خائب اور خاصر رہے۔ اور پھر کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر پادری مارٹن کلارک نے ایک خون کا مقدمہ میرے پر دائر کیا۔ پھر کیا کہنا تھا اِس قدر خوشی ان لوگوں کو ہوئی کہ گویا پھولے اپنے جامہ میں نہ سماتے تھے۔ اور بعض مسجدوں میں سجدے کرکے میرے لئے اِس مقدمہ میں پھانسی وغیرہ کی سزا مانگتے تھے اور اس آرزو میں اُنہوں نے اس قدر سجدے رو رو کے کئے تھے کہ اُن کی نا کیں بھی گھس گئیں مگر آخر خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق جو پہلے شائع کیا گیا تھا بڑی عزت سے میں بَری کیا گیا او راجازت دی گئی کہ اگر چاہو تو ان عیسائیوں پر نالش کرو۔ مختصر یہ کہ اس آرزو میں بھی ہمارے مخالف مولوی اور اُن کے زیر اثر نامراد ہی رہے۔

پھر کچھ دِنوں کے بعد کرم دین نام ایک مولوی نے فو جداری مقدمہ گورداسپور میں میرے نام دائر کیا اور میرے مخالف مولویوں نے اُس کی تائید میں آتمارام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں جاکر گواہیاں دیں اور ناخنوں تک زور لگایا اور اُن کو بڑی اُمید ہوئی کہ اب کی دفعہ ضرور کامیاب ہوں گے اور اُن کو جھوٹی خوشی پہنچانے کے لئے ایسا اتفاق ہوا کہ آتمارام نے اِس مقدمہ میں اپنی نافہمی کی وجہ سے پوری غور نہ کی اور مجھ کو سزائے قید دینے کیلئے مستعد ہو گیا۔ اُس وقت خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتمارام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا چنانچہ یہ کشف میں نے اپنی جماعت کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/125/mode/1up


سنا دیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس ۰۲ پچیس ۲۵ دن کے عرصہ میں دو بیٹے اُس کے مر گئے اور آخر یہ اتفاق ہوا کہ آتمارام سزائے قید تو مجھ کو نہ دے سکا اگرچہ فیصلہ لکھنے میں اُس نے قید کرنے کی بنیاد بھی باندھی مگر اخیر پر خدانے اُسکو اس حرکت سے روک دیا۔ لیکن تاہم اُس نے سا3ت سو روپیہ جرمانہ کیا۔ پھر ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ میں بری کیا گیا* اور کرم دین پر سزا قائم رہی اور میرا جرمانہ واپس ہوا۔ مگر آتما رام کے دو بیٹے واپس نہ آئے۔

پس جس خوشی کے حاصل ہونے کی کرم دین کے مقدمہ میں ہمارے مخالف مولویوں کو تمنا تھی وہ پوری نہ ہو سکی اور خدا تعالیٰ کی اس پیشگوئی کے مطابق جو میری کتاب مواہب الرحمن میں پہلے سے چھپ کر شائع ہو چکی تھی میں بری کیا گیا اور میرا جرمانہ واپس کیا گیا اور حاکم مجوز کو منسوخی حکم کے ساتھ یہ تنبیہ ہوئی کہ یہ حکم اُس نے بے جا دیا۔ مگر کرم دین کو جیسا کہ میں مواہب الرحمن میں شائع کر چکا تھا سزا مل گئی اور عدالت کی رائے سے اُس کے کذّاب ہونے پر مُہر لگ گئی اور ہمارے تمام مخالف مولوی اپنے مقاصد میں نامراد رہے۔ افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامُرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ در پردہ ایک ہاتھ ہے جو ان کے ہر ایک حملہ سے اس کو بچاتا ہے۔ اگر بد قسمتی نہ ہوتی تو اُن کے لئے یہ ایک معجزہ تھا کہ اُن کے ہر ایک حملہ کے وقت خدا نے مجھ کو اِن کے شر سے بچایا اور نہ صرف بچایا بلکہ پہلے اِس سے خبر بھی دیدی کہ وہ بچائے گا۔ اور ہر ایک مرتبہ اور ہر ایک مقدمہ میں خدا تعالیٰ مجھے خبر دیتا رہا کہ میں تجھے بچاؤں گا۔ چنانچہ وہ اپنے وعدہ کے موافق مجھے محفوظ رکھتا رہا ژ یہ ہیں خدا کے اقتداری نشان کہ ایک طرف تمام دنیا ہمارے ہلاک کرنے کے لئے جمع ہے اور ایک طرف وہ قادر خدا ہے کہ اُن کے ہر ایک حملہ سے مجھے بچاتا ہے۔


ڈویژنل جج امرتسر نے جو ایک انگریز تھا پوری تحقیق سے اس مقدمہ میں کام لیا اور جیسا کہ شرط انصاف ہے وہ فیصلہ کیا جو کامل تحقیقات اور عدالت کی رو سے چاہئے تھا۔ اور اپنے فیصلہ میں اپنے الفاظ میں لکھا کہ جو الفاظ اپیلانٹ مستغاث علیہ نے کرم دین رسپانڈنٹ مستغیث کے حق میں استعمال کئے تھے جو موجب ازالہ حیثیت عرفی سمجھے گئے۔ یعنی کذاب اور لئیم کا لفظ اگر اپیلانٹ ان الفاظ سے بڑھ کر کر م دین کے حق میں استعمال کرتا تو بھی کر مدین اُن الفاظ کا مستحق تھا۔منہ


ژ یہ تمام پیشگوئیاں وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہی ہیں ہمارے مخالفوں کو خدا کے سامنے یہ جواب دینا ہوگاکہ وہ کیوں ان سب نشانوں کو بھول گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/126/mode/1up


پھر ایک اور خوشی کا موقعہ ہمارے مخالفوں کو پیش آیا کہ جب چراغ دین جموں والا جو میرا مرید تھا۔ مرتد ہو گیا اور بعد ارتداد میں نے رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اُسکی نسبت خدا تعالیٰ سے یہ الہام پاکر شائع کیا کہ وہ غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر ہلاک کیا جائے گا تو بعض مولویوں نے محض میری ضد سے اُس کی رفاقت اختیار کی اور اُس نے ایک کتاب بنائی جس کا نام منارۃ المسیح رکھاؔ اور اس میں مجھے دجال قرار دیا اور اپنا یہ الہام شائع کیا کہ میں رسول ہوں اور خدا کے مرسلوں میں سے ایک مرسل ہوں اور حضرت عیسیٰ نے مجھے ایک عصا دیا ہے کہ تا میں اس عصا سے اس دجال کو (یعنی مجھ کو) قتل کروں چنانچہ منارۃ المسیح میں قریب نصف کے یہی بیان ہے کہ یہ شخص دجال ہے اور میرے ہاتھ سے تباہ ہوگا۔ اور بیان کیا کہ یہی خبر مجھے خدا نے اور عیسیٰ نے بھی دی ہے مگر آخر کا رجو ہوا لوگوں نے سنا ہوگا کہ یہ شخص ۴؍اپریل۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے فوت ہو کر میری پیشگوئی کی تصدیق کر گیا اور بڑی نومیدی سے اُس نے جان دی اور مرنے سے چند دن پہلے ایک مباہلہ کا کاغذ اس نے لکھا جس میں اپنا اور میرا نام ذکر کرکے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو۔ خدا کی قدرت کہ وہ کاغذ ابھی کاتب کے ہاتھ میں ہی تھا اور وہ کاپی لکھ رہا تھا کہ چراغ دین مع اپنے دونوں بیٹوں کے اُسی دن ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا۔ 3 ۱؂ یہ ہیں میرے مخالف الہاموں کا دعویٰ کرنیوالے جو مجھے دجال ٹھہراتے ہیں۔ کوئی شخص اُن کے انجام پر غور نہیں کرتا۔ القصہ حضرات مولوی صاحبان چراغدین مرتد کا ساتھ دیکر بھی اپنی مراد کو نہ پہنچ سکے۔

پھر بعد اسکے ایک اور چراغدین پیدا ہوا یعنی ڈاکٹر عبد الحکیم خان۔ یہ شخص بھی مجھے دجال ٹھہراتا ہے اور پہلے چراغدین کی طرح اپنے تئیں مُرسلین میں سے شمار کرتا ہے مگر معلوم نہیں کہ پہلے چراغدین کی طرح میرے قتل کرنے کے لئے اِس کو بھی حضرت عیسیٰ نے عصا دیا ہے یا نہیں۔* تکبر اور غرور میں تو پہلے


* حضرت عیسیٰ نے جو میرے قتل کرنے کیلئے چراغدین کو عصا دیا معلوم نہیں کہ یہ جوش اور غضب کیوں اُن کے دل میں بھڑکا۔ اگر اسلئے ناراض ہو گئے کہ میں نے اُن کا مرنا دنیا میں شائع کیا ہے تو یہ اُنکی غلطی ہے یہ میں نے شائع نہیں کیا بلکہ اُس نے شائع کیا ہے جس کی مخلوق ہماری طرح حضرت عیسیٰ بھی ہیں اگر شک ہو تو یہ آیت دیکھیں 33 ۲؂ اور نیز یہ آیت 3 ۳؂ ۔ اور تعجب کہ جس کو وہ میرے ہلاک کرنے کیلئے عصا دیتے ہیں وہ آپ ہی ہلاک ہو جاتا ہے یہ خوب عصا ہے۔ سُنا ہے کہ دوسرے چراغدین یعنی عبدالحکیم خان نے بھی میری موت کے بارے میں کوئی پیشگوئی پہلے چراغ دین کی طرح کی ہے مگر معلوم نہیں کہ اُس میں کوئی عصا کا بھی ذکر ہے یا نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 127

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 127

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/127/mode/1up


چراغ دین سے بھی بہت بڑھ کر ہے اور گالیاں دینے میں بھی اُس سے زیادہ مشق ہے اور افترا میں اُس سے بڑھ کر قدم ہے۔ اس مشتعل طبع مُشتِ خاک کی ارتداد سے بھی ہمارے مخالف مولویوں کو بہت خوشی ہوئی۔ گویا ایک خزانہ مل گیا۔ مگر اُن کو چاہئے کہ اتنا خوشؔ نہ ہوں اور پہلے چراغ دین کو یاد کریں۔ وہ خدا جس نے ہمیشہ اُن کو ایسی خوشیوں سے نامراد رکھا ہے وہی خدا اب بھی ہے۔ اور اس کی پیشگوئی نے جیسا کہ پہلے چراغ دین کے انجام کی خبر دی تھی اسی طرح اُس علیم خبیر نے اس دوسرے چراغ دین یعنی عبد الحکیم کے انجام سے خبر دی ہے پھر خوشی کا کیا مقام ہے ذرا صبر کریں اور انجام دیکھیں۔ اور پھر تعجب کا مقام ہے کہ ایک نادان مرتد کے ارتداد سے اِس قدر کیوں خوشی کی جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ کا ہم پر فضل ہے کہ اگر ایک بد قسمتی سے مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہزار آتا ہے۔

اور پھر ماسوا اِس کے کیا کسی مرتد کے ارتداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سلسلہ جس میں سے یہ مرتد خارج ہوا حق نہیں ہے۔ کیا ہمارے مخالف علماء کو خبر نہیں کہ کئی بد بخت حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اُن سے مر تد ہو گئے تھے۔ پھر کئی لوگ حضرت عیسیٰ سے مرتد ہوئے اور پھر کئی بد بخت اور بد قسمت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ سے مرتد ہو گئے چنانچہ مسیلمہ کذاب بھی مرتدین میں سے ایک تھا۔ پس عبدالحکیم مرتد کے ارتداد سے خوش ہونا اور اس کو سلسلہ حقّہ کے بطلان کی ایک دلیل قرار دینا ان لوگوں کا کام ہے جو محض نادان ہیں۔ ہاں یہ لوگ چند روز کے لئے ایک جھوٹی خوشی کا موجب ضرور ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ خوشی جلد زائل ہو جاتی ہے۔

یہ وہی عبد الحکیم خان ہے جس نے اپنی کتاب میں میرا نام لیکر یہ لکھا ہے کہ ایک شخص اُن کے دعویٰ مسیح موعود ہونے سے مُنکرتھا تب مجھ کو خواب میں دکھا یا گیا کہ یہ منکر طاعون سے مر جائے گا۔ چنانچہ وہ طاعون سے مر گیا۔ مگر اب خود گُستاخی سے مرتد ہو کر گالیاں دیتا اور سخت بد زبانی کرتا اور جھوٹی تہمتیں لگاتا ہے کیا اب طاعون کا وقت جاتا رہا؟!

یہ تو ہم بیان کر چکے کہ وہ امر جس کا نام توحید ہے اور جو مدارِ نجات ہے اور جو شیطانی توحید سے ایک علیحدہ امر ہے وہ بجز اس کے کہ وقت کے نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 128

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 128

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/128/mode/1up


ایمان لایا جائے اور اُن کی اطاعت کی جائے میسر نہیں آسکتا اور صرف توحید خشک بجز اطاعت رسوؔ ل کے کچھ چیز نہیں بلکہ اُس مردہ کی طرح ہے جس میں روح نہیں۔ اب یہ بیان کرنا رہ گیا کہ کیا قرآن شریف نے ہمارے بیان کے مطابق انسانی نجات کو اطاعت رسول کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے یا اُس کے بر خلاف قرآنی تعلیم ہے۔ سو اس حقیقت کے سمجھانے کے لئے ہم آیاتِ ذیل پیش کرتے ہیں۔

(۱) قولہ تعالٰی۔ 3 ۔۱؂ الجزو نمبر۱۸ سورۃ نور (ترجمہ)کہہ خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور یہ مسلّم اور بد یہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے تخلف کرنا معصیت اور موجب دخول جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا اپنی اطاعت کیلئے حکم فرماتا ہے۔ ایسا ہی رسول کی اطاعت کے لئے حکم فرماتا ہے۔ سو جو شخص اُس کے حکم سے مُنہ پھیرتا ہے وہ ایسے جُرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا جہنم ہے۔

(۲) قولہ تعالٰی۔ 333 ۲؂ (الجز و نمبر ۲۶ سورۃ حجرات)

(ترجمہ) اے ایمان والو خدا اور رسول کے حکم سے بڑھ کر کوئی بات نہ کرو یعنی ٹھیک ٹھیک احکامِ خدا اور رسول پر چلو اور نافرمانی میں خدا سے ڈرو۔ خدا سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص محض اپنی خشک توحید پر بھروسہ کرکے (جو دراصل وہ توحید بھی نہیں) رسول سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتا ہے اور رسول سے قطع تعلق کرتا ہے اور اس سے بالکل اپنے تئیں علیحدہ کر دیتا ہے اور گستاخی سے قدم آگے رکھتا ہے۔ وہ خدا کا نافرمان ہے اور نجات سے بے نصیب۔ قولہ تعالٰی۔ 3ٖ3 3 ۲؂ (الجزو نمبر۱ سُورۃ بقرہ) (۳)

(ترجمہ) یعنی جو شخص خدا اور اُسکے فرشتوں اور اس کے پیغمبروں اور جبریل اور میکائیل کا دشمن ہو تو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 129

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 129

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/129/mode/1up


خدا ایسے کافروں کا خودد شمن ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص توحید خشک کا توقائل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہؔ وسلم کا مکذب ہے وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے لہٰذا بموجب منشاء اس آیت کے خدا اُس کا دشمن ہے اور وہ خدا کے نزدیک کافر ہے تو پھر اس کی نجات کیونکر ہو سکتی ہے۔

(۴) قولہ تعالٰی۔ 33333 ۱؂ (الجزو نمبر ۵ سورۃ نساء)

(ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا پر ایمان لاؤ۔ اور اُس کے رسول پر اور اس کی اس کتاب پر جو اُس کے رسول پر نازل ہوئی ہے یعنی قرآن شریف پر اور اُس کتاب پر ایمان لاؤ جو پہلے نازل ہوئی۔ یعنی توریت وغیرہ پر۔ اور جو شخص خدا پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُسکے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لائے گا وہ حق سے بہت دور جا پڑا یعنی نجات سے محروم رہا۔

(۵) قولہ تعالٰی۔ 3 333۲؂ (الجزو نمبر۲۲ سورۃ احزاب)

(ترجمہ) کسی مومن یا مومنہ کوجائز نہیں ہے کہ جب خدا اور اُس کا رسول کوئی حکم کرے تو ان کو اس حکم کے ردّ کرنے میں اختیار ہو۔ اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ حق سے بہت دُور جا پڑا ہے یعنی نجات سے بے نصیب رہا۔ کیونکہ نجات اہل حق کے لئے ہے۔

(۶) قولہ تعالٰی۔ 333 ۳؂ (الجزو نمبر۴ سورۃ نساء)

(ترجمہ) جو شخص خدا اور رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے باہر ہو جائے خدا اُس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور اُس پر ذلیل کرنے والا عذاب نازل ہوگا۔

اب دیکھو کہ رسول سے قطع تعلق کرنے میں اس سے بڑھ کر اور کیا وعید ہوگا کہ خدائے عزو جل فرماتا ہے کہ جو شخص رسول کی نافرمانی کرے اُس کے لئے دائمی جہنم کا وعدہ ہے۔ مگرمیاں عبد الحکیم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 130

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 130

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/130/mode/1up


کہتے ہیں کہ جو شخص نبی کریم کا مکذب اور نافرمان ہو۔ اگروہ توحید پر قائم ہو تو وہ بلاشبہ بہشت میں جائےؔ گا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اُن کے پیٹ میں کس قسم کی توحید ہے کہ باوجود نبی کریم کی مخالفت اور نافرمانی کے جو توحید کا سرچشمہ ہے بہشت تک پہنچا سکتی ہے۔ *** اللہ علی الکاذبین۔

(۷) قولہ تعالٰی۔33۱؂ (الجزو نمبر۵ سورۃ نساء)

(ترجمہ) یعنی ہر ایک نبی ہم نے اِس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا کے حکم سے اُسکی اطاعت کی جائے۔

اب ظاہر ہے کہ جبکہ بمنشاء اس آیت کے نبی واجب الاطاعت ہے۔ پس جو شخص نبی کی اطاعت سے باہر ہو وہ کیونکر نجات پا سکتا ہے۔

(۸) قولہ تعالٰی۔ 33 3۔333 ۲؂ (الجزونمبر۳اٰ ل عمران)

(ترجمہ) انکو کہہ کہ اگر خدا سے تم محبت کرتے ہو۔ پس آؤ میری پیروی کرو۔ تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گنہ بخش دے اور خدا غفورو رحیم ہے۔ اُن کو کہہ کہ خدا اور رسول کی اطاعت کرو پس اگر وہ اطاعت سے مُنہ پھیر لیں تو خدا کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ اِن آیات سے صاف طور پر ظاہرہوتا ہے کہ گناہوں کی مغفرت اور خدا تعالیٰ کا پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وابستہ ہے۔ اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے وہ کافر ہیں۔

(۹) قولہ تعالٰی۔ 33 33 3۔33۔3 333 ۳؂ (الجزو نمبر۶ سورۃ نساء)

(ترجمہ) وہ لوگ جو خدا اور رسول سے منکر ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈال دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لائیں گے اور بعض پر نہیں۔ یعنی صرف خدا کا ماننا یا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 131

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 131

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/131/mode/1up


صرف بعض رسولوں پر ایمان لانا کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ خدا کے ساتھ رسول پر بھی ایمان لاویں یا سبؔ نبیوں پر ایمان لاویں اور چاہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر بین بین مذہب اختیار کر لیں۔ وہی پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے اور وہ لوگ جو خدا اور رسول پر ایمان لاتے ہیں اور خدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ نہیں ڈالتے یعنی یہ تفرقہ اختیار نہیں کرتے کہ صرف خدا پر ایمان لاویں مگر اُس کے رسولوں پر ایمان نہ لاویں اور نہ یہ تفرقہ پسند کرتے ہیں کہ بعض رسولوں پر تو ایمان لاویں اور بعض سے برگشتہ رہیں۔ ان لوگوں کو خدا اُن کا اجر دے گا۔

اب کہاں ہیں میاں عبد الحکیم خان مرتد جو میری اس تحریر سے مجھ سے برگشتہ ہوگیا۔ چاہئے کہ اب آنکھ کھول کر دیکھے کہ کس طرح خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے۔ اس میں رازیہ ہے کہ انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد اُس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے۔ اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے جو اس پتھر پر ضرب توجہ لگا کر اُس آگ کو باہر نکالتا ہے۔ پس ہر گز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے توحید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اُسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے۔ خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے ۔*

(۱۰) قولہ تعالٰی۔ 333 ۱؂ (الجزو نمبر ۶ سورۃ نساء)

ترجمہ۔ اے لوگو! تمہارے پاس رسول حق کے ساتھ آیا ہے۔ پس تم اُس رسول پر ایمان لاؤ۔


ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا۔ کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے3۲؂ تب ایک مُدّت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دو سقے یعنی ماشکی آئے اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راہ سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں اور اُن کے کا ندھوں پر نور کی مشکیں ہیں اور کہتے ہیں ھٰذا بما صلّیت علٰی محمّدٍ۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 132

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 132

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/132/mode/1up


تمہاری بہتری اِسی میں ہے اور اگر تم کفر اختیار کرو تو خدا کو تمہاری کیاؔ پروا ہے زمین و آسمان سب اُسی کا ہے اور سب اُس کی اطاعت کر رہے ہیں اور خدا علیم اور حکیم ہے۔

(۱۱) قولہ تعالٰی۔33333 ۱؂ (الجزو نمبر۲۹ سورۃ الملک)

ترجمہ۔ اور جب دوزخ میں کوئی فوج کافروں کی پڑے گی تو جو فرشتے دوزخ پر مقرر ہیں وہ دوزخیوں کو کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا وہ کہیں گے کہ ہاں آیا تو تھا مگر ہم نے اُس کی تکذیب کی اور ہم نے کہا کہ خدا نے کچھ نہیں اُتارا۔ اب دیکھو ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوزخی دوزخ میں اس لئے پڑیں گے کہ وہ وقت کے نبیوں کو قبول نہیں کریں گے۔

(۱۲) قولہ تعالٰی۔333 ۲؂ (الجزونمبر ۲۶ سورۃ حجرات)

ترجمہ۔ سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک و شبہات میں نہیں پڑے دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا ہے کہ خدا کے نزدیک مومن وہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیونکر ہو سکتی ہے اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف توحید کس کام آسکتی ہے۔

(۱۳) قولہ تعالٰی۔333 ۳؂ (الجزونمبر ۱۰ سورۃ توبہ)

ترجمہ۔ یعنی اس بات کا سبب جو کفار کے صدقات قبول نہیں کئے جاتے صرف یہ ہے کہ وہ خدا اور اُس کے رسول سے منکر ہیں۔ اب دیکھو ان آیات سے صاف ظاہرہے کہ جو لوگ رسول پرایمان نہیں لاتے اُن کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ خداان کو قبول نہیں کرتا۔ اور پھر جب اعمال ضائع ہوئے تو نجات کیونکر ہوگی ۔


یہتمام آیات اُن لوگوں کے متعلق ہیں جنہوں نے رسول کے وجود پر اطلاع پائی اور رسول کی دعوت ان کو پہنچ گئی اور جو لوگ رسول کے وجود سے بالکل بے خبر رہے اور نہ ان کو دعوت پہنچی اُن کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اُن کے حالات کا علم خدا کو ہے اُن سے وہ۔ وہ معاملہ کرے گا جو اُس کے رحم اور انصاف کا مقتضاء ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 133

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 133

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/133/mode/1up

*

(۱۴) قولہ تعالٰی۔33 33 ۱؂ (الجزو نمبر ۲۶ سورۃ محمد)

ترجمہؔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور وہ کلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور وہی حق ہے ایسے لوگوں کے خدا گناہ بخش دے گا اور اُن کے دلوں کی اصلاح کرے گا۔ اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے کس قدر خدا تعالیٰ اپنی خوشنودی ظاہر فرماتا ہے کہ اُن کے گناہ بخشتا ہے اور اُن کے تزکیہ نفس کا خود متکفل ہوتا ہے۔ پھر کیسا بدبخت وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں اور غرور اور تکبر سے اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے۔ سعدیؒ نے سچ کہا ہے:۔

محال ست سعدی کہ راہِ صفا

برد مہر آن شاہ سوئے بہشت


توان رفت جُز درپئے مصطفٰے

حرام است بر غیر بُوئے بہشت

(۱۵) قولہ تعالٰی۔333 ۲؂ (الجزو نمبر ۱۰ سورۃ توبہ)

ترجمہ ۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ جو شخص خدا اور رسول کی مخالفت کرے خدااُس کو جہنم میں ڈالے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا یہ ایک بڑی رُسوائی ہے۔ اب بتلاویں میاں عبد الحکیم خان کہ اُن کی کیا رائے ہے۔ کیا خدا کے اِس حکم کو قبول کریں گے یا بہادری سے اِن آیتوں کے وعید کو اپنے سر پر لے لیں گے۔

(۱۶) قولہ تعالٰی۔33 33333 ۳؂ (الجزونمبر ۳۱۷)

ترجمہ۔ اور یاد کر جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا۔ اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اُس پر ایمان لانا ہوگا اور اُس کی مدد کرنی ہوگی اور کہا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس عہد پر استوار



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 134

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 134

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/134/mode/1up


ہو ؔ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اقرار کر لیا۔ تب خدا نے فرمایا کہ اب اپنے اقرار کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ اِس بات کا گواہ ہوں۔

اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہو گئے تھے یہ حکم ہر نبی کی اُمت کے لئے ہے کہ جب وہ رسول ظاہر ہو تو اس پر ایمان لاؤ ورنہ مواخذہ ہوگا۔ اب بتلاویں میاں عبد الحکیم خان نیم ملّا خطرہ ایمان! کہ اگر صرف توحید خشک سے نجات ہو سکتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے کیوں مؤاخذہ کرے گا جو گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے مگر توحید باری کے قائل ہیں۔

علاوہ اِس کے توریت استثناء باب۱۸ میں ایک یہ آیت موجود ہے کہ جو شخص اُس آخر الزمان نبی کو نہیں مانے گا میں اُس سے مطالبہ کروں گا۔ پس اگر صرف توحید ہی کافی ہے تو یہ مطالبہ کیوں ہوگا؟ کیا خدا اپنی بات کو بھول جائے گا؟ اور میں نے بقدر کفایت قرآن شریف میں سے یہ آیات لکھی ہیں ورنہ قرآن شریف اِس قسم کی آیات سے بھرا ہوا ہے چنانچہ قرآن شریف انہیں آیات سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 3۔ 3۱؂ * یعنی اے ہمارے خدا ہمیں رسولوں اور نبیوں کی راہ پر چلا جن پر تیرا انعام اور اکرام ہوا ہے۔


ہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان سچے دین پر ہو تو اعمال صالحہ بجا لانے سے خدا تعالیٰ کی

طرف سے ایک انعام پاتا ہے۔ اِسی طرح سنّتِ الٰہی واقع ہے کہ سچے دین والا صرف اس حد تک ٹھہرایا نہیں جاتا جس حد تک وہ اپنی کوشش سے چلتا ہے اور اپنی سعی سے قدم رکھتا ہے بلکہ جب اس کی کوشش حد تک پہنچ جاتی ہے اور انسانی طاقتوں کا کام ختم ہو جاتا ہے تب عنایت الٰہی اُسکے وجود میں اپنا کام کرتی ہے اور ہدایت الٰہی اس مرتبہ تک اس کو علم اور عمل اور معرفت میں ترقی بخشتی ہے جس مرتبہ تک وہ اپنی کوشش سے نہیں پہنچ سکتا تھا جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3 ۲؂ یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ اختیار کرتے ہیں اور جو کچھ اُن سے اور اُن کی قوتوں سے ہو سکتا ہے بجا لاتے ہیں۔ تب عنایت حضرت احدیّت اُن کا ہاتھ پکڑتی ہے اور جو کام اُن سے نہیں ہو سکتا تھا وہ آپ کر دِکھلاتی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 135

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 135

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/135/mode/1up


ابؔ اِس آیت سے کہ جو پنج وقت نماز میں پڑھی جاتی ہے ظاہر ہے کہ خدا کا روحانی انعام جو معرفت اور محبت الٰہی ہے صرف رسولوں اور نبیوں کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے نہ کسی اور ذریعہ سے ہمیں معلوم نہیں کہ میاں عبد الحکیم خان نماز بھی پڑھتے ہیں یا نہیں اگر پڑھتے ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اِن آیات کے معنوں سے بے خبر رہتے مگر جب اُن کے نزدیک صرف توحید ہی کافی ہے تو پھر نماز کی کیا ضرورت ہے۔ نماز تو رسول کا ایک طریق عبادت بتلایا ہوا ہے جس کو رسول کی متابعت سے کچھ غرض نہیں اُس کو نماز سے کیا غرض ہے۔ اس کے نزدیک تو موحد برہمو بھی نجات یافتہ ہیں کیا وہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور جب کہ اُس کے نزدیک ایک شخص اسلام سے مرتد ہو کر بھی بوجہ اپنی خشک توحید کے نجات پا سکتا ہے* اور ایسا آدمی بھی نجات پا سکتا ہے جو یہود یا نصاریٰ یا آریوں میں سے مو ّ حد ہے گو اسلام کا مکذب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے تو پھر اُس کی یہی رائے ہوگی کہ نماز لا حاصل اور روزہ بے سُود ہے مگر ایک مومن کے لئے تو صرف یہی آیت کافی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ روحانی دولت کے مالک صرف انبیاء اور رُسل ہیں اور ہر ایک کو اُن کی پیروی سے حصہ ملتا ہے۔

پھر سورۂ بقرہ کے شروع میں یہ آیات ہیں۔ 3 3۔33۔ 33 3۔33۔ ۱؂

ترجمہ۔ یہ کتاب جو شکوک و شبہات سے پاک ہے متقیوں کے لئے ہدایت نامہ ہے اور متقی وہ لوگ ہیں جو خدا پر (جس کی ذات مخفی در مخفی ہے) ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے اور اُس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تیرے پر نازل ہوئی


* عبد الحکیم خان کے نزدیک جہاں تک اُس کی عبارت سے سمجھا جاتا ہے ارتداد کے لئے یہ بھی ایک عذر ہے کہ جس شخص کو اپنی رائے میں اسلام کی سچائی کے کافی دلائل نہیں ملے وہ اسلام سے مرتد ہو کربھی نجات پا سکتا ہے کیونکہ اسلام کی حقانیت پر اُس کو تسلی حاصل نہیں ہوئی مگر اس کو بیان کرنا چاہئیے تھا کہ کس حد تک اتمام حجت اس کے نزدیک ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 136

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 136

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/136/mode/1up


اور نیز اُن کتابوں پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ سے پہلے نازل ہوئیں وہی لوگ خدا کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جو نجات پائیں گے۔

ابؔ اُٹھواور آنکھ کھولو اے میاں عبد الحکیم مرتد! کہ خدا تعالیٰ نے اِن آیات میں فیصلہ کر دیا ہے اور نجات پانا صرف اسی بات میں حصر کر دیا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لاویں اور اس کی بندگی کریں۔ خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض اور اختلاف نہیں ہو سکتا پس جبکہ اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے نجات کو وابستہ کر دیا ہے تو پھر بے ایمانی ہے کہ اِن آیات قطعیۃ الد لالت سے انحراف کرکے متشابہات کی طرف دوڑیں۔ متشابہات کی طرف وہی لوگ دوڑتے ہیں جن کے دل نفاق کی مرض سے بیمار ہوتے ہیں۔

اور ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ آیات ممد وحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ 3۔ 3 ۱؂ یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک و شبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کے لئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کے لئے ایک کامل ہدایت ہے* اور اُن کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کے لئے آخری مقام ہے اور خدا ان آیات میں فرماتا ہے کہ متقی وہ ہیں کہ جو پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں


* جب تک کسی کتاب کے علل اربعہ کامل نہ ہوں وہ کتاب کامل نہیں کہلا سکتی۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے ان

آیات میں قرآن شریف کے علل اربعہ کا ذکر فرما دیا ہے اور وہ چارہیں (۱) علّت فاعلی (۲) علّت مادی (۳) علّت صوری (۴) علّت غائی۔ اور ہر چہار کامل درجہ پر ہیں۔ پس اآآ علّت فاعلی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے معنی ہیں۔ انااللّٰہ اعلم یعنی کہ مَیں جو خدائے عالم الغیب ہوں مَیں نے اِس کتاب کو اُتارا ہے۔ پس چونکہ خدا اِس کتاب کی علّتِ فاعلی ہے اِس لئے اِس کتاب کا فاعل ہر ایک فاعل سے زبردست اور کامل ہے اور علّتِ مادی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ فقرہ کہ ذالک الکتٰب یعنی یہ وہ کتاب ہے جس نے خدا کے علم سے خلعت وجود پہنا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 137

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 137

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/137/mode/1up


اورؔ قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں وہی ہدایت کے سر پر ہیں اور وہی نجات پائیں گے۔ ان آیات سے یہ تو معلوم ہوا کہ نجات بغیر نبی کریم پر ایمان لانے اور اس کی ہدایات نماز وغیرہ کے بجا لانے کے نہیں مل سکتی اور جھوٹے ہیں وہ لوگ جو نبی کریم کا دامن چھوڑ کر محض خشک توحید سے نجات ڈھونڈھتے ہیں۔ مگریہ عقدہ قابل حل رہا کہ جبکہ وہ لوگ ایسے راستباز ہیں کہ پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے اور نماز بھی ادا کرتے اور روزہ بھی رکھتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے خدا کی راہ میں کچھ دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں تو پھر یہ فرمانا کہ ھدًی لِّلْمُتّقِیْنَ یعنی اُن کو یہ کتاب ہدایت دے گی اِس کے کیا معنی ہیں وہ تو ان سب باتوں کو بجالاکر پہلے ہی سے ہدایت یافتہ ہیں اور حاصل شدہ کو حاصل کرانا یہ تو ایک امر عبث معلوم ہوتا ہے۔

اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ باوجود ایمان اور عمل صالح کے کامل استقامت اور کامل ترقی کے محتاج ہیں جس کی رہنمائی صرف خدا ہی کرتا ہے انسانی کوشش کا اس میں دخل نہیں۔ استقامت سے مُراد یہ ہے کہ ایسا ایمان دل میں رچ جائے کہ کسی ابتلاء کے وقت ٹھوکر نہ کھاویں اور ایسے طرز اور ایسے طور پر اعمال صالحہ صادر ہوں کہ اُن میں لذّت پیدا ہو اور مشقّت اور تلخی محسوس نہ ہو اور اُن کے بغیر جی ہی نہ سکیں۔ گویا وہ اعمال رُوح کی غذا ہو جائیں اور اُس کی روٹی بن جائیں اور اُس کا آب شیریں بن جائیں کہ بغیر اس کے زندہ نہ رہ سکیں۔ غرض استقامت کے بارے میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن کو انسان محض اپنی سعی سے پیدا نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ روح کا خدا کی طرف سے فیضان ہوتا ہے وہ فوق العادت استقامت بھی خدا کی طرف سے پیدا ہو جائے۔


اور اس میں کچھ شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا علم تمام علوم سے کامل تر ہے اور علّت صوری کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ فقرہ لا ریب فیہ یعنی یہ کتاب ہر ایک غلطی اور شک و شبہ سے پاک ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جو کتاب خدا تعالیٰ کے علم سے نکلی ہے وہ اپنی صحت اور ہر ایک عیب سے مبرا ہونے میں بے مثل وبے مانند ہے اور لاریب ہونے میں اکمل اور اتم ہے اور علّتِ غائی کے کمال کی طرف اشارہ کرتا ہے یہ فقرہ کہ ھُدًی للمتقین یعنی یہ کتاب ہدایت کامل متقین کے لئے ہے اور جہاں تک انسانی سرشت کے لئے زیادہ سے زیادہ ہدایت ہو سکے وہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 138

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 138

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/138/mode/1up


اورؔ ترقی سے مُراد یہ ہے کہ وہ عبادت اور ایمان جو انسانی کوششوں کی انتہا ہے اس کے علاوہ وہ حالات پیدا ہو جائیں جو محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی سعی اور عقل صرف اِس حد تک رہبری کرتی ہے کہ اس پوشیدہ خدا پر جس کا چہرہ نہیں دیکھا گیا ایمان لایا جائے۔ اسی وجہ سے شریعت جو انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دینا نہیں چاہتی۔ اس بات کے لئے مجبور نہیں کرتی کہ انسان اپنی طاقت سے ایمان بالغیب سے بڑھ کر ایمان حاصل کرے۔ ہاں راستبازوں کو اسی آیت ھُدًی لِّلْمُتّقین میں وعدہ دیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان بالغیب پر ثابت قدم ہو جائیں اور جو کچھ وہ اپنی سعی سے کر سکتے ہیں کر لیں تب خدا ایمان کی حالت سے عرفان کی حالت تک ان کو پہنچا دے گا اور اُن کے ایمان میں ایک اور رنگ پیدا کر دے گا۔ قرآن شریف کی سچائی کی یہ ایک نشانی ہے کہ وہ جو اُس کی طرف آتے ہیں اُن کو اُس مرتبہ ایمان اور عمل پر رکھنا نہیں چاہتا کہ جو وہ اپنی کوشش سے اختیار کرتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو کیونکر معلوم ہو کہ خدا موجود ہے بلکہ وہ انسانی کوششوں پر اپنی طرف سے ایک ثمرہ مرتب کرتا ہے جس میں خدائی چمک اور خدائی تصرف ہوتا ہے مثلاً جیسا کہ میں نے بیان کیا انسان خدا پر ایمان لانے کے بارہ میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ وہ اس پوشیدہ خدا پر ایمان لاوے جس کے وجود پرذرّہ ذرّہ اِس عالم کا گواہ ہے۔ مگر انسان کی یہ تو طاقت ہی نہیں ہے کہ محض اپنے ہی قدموں اور اپنی ہی کوشش اور اپنے ہی زور بازو سے خدا کے انوارِ الوہیت پر اطلاع پاوے اور ایمانی حالت سے عرفانی حالت تک پہنچ جاوے اور مشاہدہ اور رویت کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر لے۔

اِسی طرح انسانی سعی اور کوشش نماز کے ادا کرنے میں اِس سے زیادہ کیا کر سکتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے پاک اور صاف ہو کر اور نفی خطرات کرکے نماز ادا کریں اور کوشش کریں کہ نماز ایک گری ہوئی حالت میں نہ رہے اور اس کے جس قدر ارکان حمد و ثنا حضرت عزت اور توبہ و استغفار اور دعا اور درود ہیں وہ دلی جوش سے صادر ہوں لیکن یہ تو انسان کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 139

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 139

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/139/mode/1up


اختیاؔ ر میں نہیں ہے کہ ایک فوق العادت محبت ذاتی اور خشوع ذاتی اور محویت سے بھرا ہوا ذوق و شوق اور ہر ایک کدورت سے خالی حضور اُس کی نماز میں پیدا ہو جائے گویا وہ خدا کو دیکھ لے اور ظاہر ہے کہ جب تک نماز میں یہ کیفیت پیدا نہ ہو وہ نقصان سے خالی نہیں۔ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گرنے کے لئے مستعد ہے۔ پس آیت یُقیمونَ الصّلٰوۃ کے یہ معنی ہیں کہ جہاں تک اُن سے ہو سکتا ہے نماز کو قائم کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں۔ اس لئے اُس کریم و رحیم نے فرمایا ھُدًی لّلمتّقِیْن یعنی جہاں تک ممکن ہو وہ تقویٰ کی راہ سے نماز کی اقامت میں کوشش کریں۔ پھر اگر وہ میرے کلام پر ایمان لاتے ہیں تو میں ان کو فقط انہی کی کوشش اور سعی پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں آپ ان کی دستگیری کروں گا۔ تب اُن کی نماز ایک اور رنگ پکڑ جائے گی اور ایک اور کیفیت اُن میں پیدا ہو جائے گی جو اُن کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھی۔ یہ فضل محض اس لئے ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور جہاں تک اُن سے ہو سکا اُس کے احکام کے مطابق عمل میں مشغول رہے۔ غرض نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لئے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمالِ باری کی میسر آجائے جو لذّات روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دُنیوی رذایل اور انواع و اقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 ۔۱؂

ایسا ہی مالی عبادت جس قدر انسان اپنی کوشش سے کر سکتا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اپنے اموال مرغوبہ میں سے کچھ خدا کے لئے دیوے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اِسی سورت میں فرمایا ہے 3 ۲؂ اور جیسا کہ ایک دوسری جگہ فرمایا ہے 33۔۳؂ لیکن ظاہر ہے کہ اگر مالی عبادت میں انسان صرف اسی قدر بجا لاوے کہ اپنے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 140

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 140

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/140/mode/1up


امواؔ ل محبوبہ مرغوبہ میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں دیوے تو یہ کچھ کمال نہیں ہے کمال تو یہ ہے کہ ماسویٰ سے بکلّی دست بردار ہو جائے اور جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا کا ہو جائے۔ یہاں تک کہ جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں فدا کرنے کے لئے طیار ہو کیونکہ وہ بھی 3میں داخل ہے خدا تعالیٰ کا منشاء اُس کے قول ممّا رزقنا سے صرف درہم و دینار نہیں ہے بلکہ یہ بڑا وسیع لفظ ہے جس میں ہر ایک وہ نعمت داخل ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔

غرض اِس جگہ بھی 3 ۱؂ فرمانے سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ جو کچھ انسان کو ہر ایک قسم کی نعمت مثلاً اُس کی جان اور صحت اور علم اور طاقت اور مال وغیرہ میں سے دیا گیا ہے اس کی نسبت انسان اپنی کوشش سے صرف3 تک اپنا اخلاص ظاہرکر سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر بشری قوتیں طاقت نہیں رکھتیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کا قرآن شریف پر ایمان لانے والے کے لئے اگر وہ 3 کی حد تک اپنا صدق ظاہر کرے گا بموجب آیت 3کے یہ وعدہ ہے کہ خدا تعالیٰ اِس قسم کی عبادات میں بھی کمال تک اُس کو پہنچا دے گا اور کمال یہ ہے کہ اُس کو یہ قوت ایثار بخشی *جائے گی کہ وہ شرح صدر سے یہ سمجھ لے گا کہ جو کچھ اُس کا ہے خدا کا ہے اور کبھی کسی کو محسوس نہیں کرائے گا کہ یہ چیزیں اُس کی تھیں جس کے ذریعہ سے اُس نے نوعِ انسان کی خدمت کی۔ مثلاً احسان کے ذریعہ سے کبھی انسان کسی کو محسوس کراتا ہے کہ اُس نے اپنا مال دُوسرے کو دیا مگر یہ ناقص حالت ہے کیونکہ وہ تبھی محسوس کرے گا کہ جب اُس چیز کو اپنی چیز سمجھے گا۔ پس جب بموجب آیت 3 کے خدا تعالیٰ قرآن شریف پر


* اس کا سبب یہ ہے کہ بباعث ضعف بشریت انسان کی فطرت ایک بخل بھی ہے کہ اگر ایک پہاڑ سونے کا بھی اُس کے پاس ہو تب بھی ایک حصہ بخل کا اُس کے اندر ہوتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اپنا تمام مال اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے لیکن جب بموجب آیت 3 کی ایک وہبی قوت اُس کے شامل حال ہو جاتی ہے تو پھر ایسا انشراح صدر ہو جاتا ہے کہ تمام بخل اور سارا شُحِّ نفسدُور ہو جاتا ہے تب خدا کی رضا جوئی ہر ایک مال سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ زمین پر فانی خزانے جمع کرے بلکہ آسمان پر اپنا مال جمع کرتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 141

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 141

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/141/mode/1up


ایمان لانے والے کو اس مقام سے ترقی بخشے گا تو وہ یہاں تک اپنی تمام چیزوں کوخدا کی چیزیں سمجھ لے گا کہ محسوس کرانے کی مرض بھی اُس کے دل میں سے جاتی رہے گی اور نوع انسان کے لئے ایک مادری ہمدردی اُس کے دل میں پیدا ہو جائے گی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اور کوئی چیز اُس کی اپنی نہیں رہے گی بلکہ سب خدا کی ہو جائے گی اور یہ تب ہوگا کہ جب وہ سچے دل سے قرآن شریف اور نبی کریمؐ پر ایمان لائے گا۔ بغیر اس کے نہیں۔ پس کس قدر گمراہ وہ لوگ ہیں جو بغیر متابعت قرآؔ ن شریف اور رسول کریمؐ کے صرف خشک توحید کوموجب نجات ٹھہراتے ہیں بلکہ مشاہدہ ثابت کر رہا ہے کہ ایسے لوگ نہ خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں نہ دنیا کے لالچوں اور خواہشوں سے پاک ہو سکتے ہیں چہ جائیکہ وہ کسی کمال تک ترقی کریں اور یہ بات بھی بالکل غلط اور کورانہ خیال ہے کہ انسان خود بخود نعمت توحید حاصل کر سکتا ہے بلکہ توحید خدا کی کلام کے ذریعہ سے ملتی ہے اور اپنی طرف سے جو کچھ سمجھتا ہے وہ شرک سے خالی نہیں۔ اِسی طرح خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانے کے بارے میں انسانی کوشش صرف اِس حد تک ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرکے اُس کی کتاب پر ایمان لاوے اور صبر سے اُس کی پیروی کرے اس سے زیادہ انسان میں طاقت نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے آیت 3 میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ اگر اس کی کتاب اور رسول پر کوئی ایمان لائے گا تو وہ مزید ہدایت کا مستحق ہوگا اور خدا اُس کی آنکھ کھولے گا اور اپنے مکالمات و مخاطبات سے مشرف کرے گا ۔* اور بڑے بڑے نشان اُس کو دکھائے گا۔ یہاں تک کہ وہ اِسی دنیا میں اُس کو دیکھ لے گا کہ اُس کا خدا موجود ہے اور پوری تسلی پائے گا۔ خدا کا کلام کہتا ہے کہ اگر تو میرے پر کامل ایمان لاوے تو میں تیرے پر بھی نازل ہوں گا۔ اِسی بنا پر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اِس اخلاص اور محبت اور شوق سے خدا کے کلام کو پڑھا کہ وہ الہامی رنگ میں میری زبان پر بھی جاری ہو گیا۔ لیکن افسوس کہ لوگ اِس بات کونہیں سمجھتے کہ مکالمات الٰہیہ کیا شے ہیں


* در حقیقت کمال متابعت یہی ہے کہ وہی رنگ پکڑلے اور وہی انوار دل پروارد ہو جائیں۔ دَخَلْتُ النَّار حَتّٰی صِرْتُ نَارًا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 142

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 142

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/142/mode/1up


اور کس حالت میں کہا جائے گا کہ خُدا کسی شخص سے مکالمہ فرماتا ہے بلکہ اکثر نادان لوگ شیطانی القا کو بھی خدا کا کلام سمجھنے لگتے ہیں اور اُن کو شیطانی اور رحمانی الہام میں تمیز نہیں۔ پس یاد رہے کہ رحمانی الہام اور وحی کیلئے اول شر ط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اُس میں نہ رہے کیونکہ جہاں مردار ہے ضرور ہے کہ وہاں کُتے بھی جمع ہو جائیں اِسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 33 ۱؂۔ مگر جس میں شیطان کا حصہ نہیں رہا اور وہ سفلی زندگی سے ایسا دور ہوا کہ گویا مر گیا اور راستباز اور وفادار بندہ بن گیا اور خدا کی طرف آگیا اُس پر شیطان حملہ نہیں کر سکتا۔ جیسا ؔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 ۲؂ ۔جو شیطان کے ہیں اور شیطان کی عادتیں اپنے اندر رکھتے ہیں اُنہیں کی طرف شیطان دوڑتا ہے کیونکہ وہ شیطان کے شکار ہیں۔

اور نیز یاد رہے کہ خدا کے مکالمات ایک خاص برکت اور شوکت اور لذّت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اور چونکہ خدا سمیع وعلیم و رحیم ہے اس لئے وہ اپنے متقی اور راستباز اور وفادار بندوں کو اُن کے معروضات کا جواب دیتا ہے اور یہ سوال وجواب کئی گھنٹوں تک طول پکڑ سکتے ہیں جب بندہ عجزو نیاز کے رنگ میں ایک سوال کرتا ہے تو اس کے بعد چند منٹ تک اس پر ایک ربودگی طاری ہو کر اس ربودگی کے پردہ میں اُس کو جواب مل جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے بندہ اگر کوئی سوال کرتا ہے تو پھر دیکھتے دیکھتے اس پر ایک اور ربودگی طاری ہو جاتی ہے اور بدستور اس کے پردہ میں جواب مل جاتا ہے۔ اور خدا ایسا کریم اور رحیم اور حلیم ہے کہ اگر ہزار دفعہ بھی ایک بندہ کچھ سوالات کرے تو جواب مل جاتا ہے۔ مگر چونکہ خدا تعالیٰ بے نیاز بھی ہے اور حکمت اور مصلحت کی بھی رعایت رکھتا ہے اِس لئے بعض سوالات کے جواب میں اظہار مطلوب نہیں کیا جاتا اور اگر یہ پوچھا جاوے کہ کیونکر معلوم ہو کہ وہ جوابات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں نہ شیطان کی طرف سے۔ اِس کا جواب ہم ابھی دے چکے ہیں۔

ما سوا اس کے شیطان گُنگا ہے اپنی زبان میں فصاحت اور روانگی نہیں رکھتا اور گُنگے کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 143

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 143

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/143/mode/1up


طرح وہ فصیح اور کثیر المقدار باتوں پر قادر نہیں ہو سکتا صرف ایک بد بو دار پیرایہ میں فقرہ دوفقرہ دل میں ڈال دیتا ہے۔ اس کو ازل سے یہ توفیق ہی نہیں دی گئی کہ لذیذ اور باشوکت کلام کر سکے اور یا چند گھنٹہ تک سلسلہ کلام کا سوالات کے جواب دینے میں جاری رکھ سکے۔ اور وہ بہرہ بھی ہے ہر ایک سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ اور وہ عاجز بھی ہے اپنے الہامات میں کوئی قُدرت اور اعلیٰ درجہ کی غیب گوئی کا نمونہ دکھلا نہیں سکتا۔* اور اُس کا گلا بھی بیٹھا ہوا ہے پُر شوکت اور بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ مخنثوں کی طرح اُس کی آواز دھیمی ہے انہیں علامات سے شیطانی وحی کو ؔ شاخت کر لوگے۔ لیکن خدا تعالیٰ گُنگے اور بہرے اور عاجز کی طرح نہیں وہ سنتا ہے اور برابر جواب دیتا ہے اور


* یہ سوال کہ آیا شیطانی خواب یا الہام میں کوئی غیبی خبر ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ شیطانی خواب یا الہام میں جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہرہوتا ہے کبھی خبر غیب تو ہو سکتی ہے مگر وہ تین۳ علامتیں اپنے ساتھ رکھتی ہے (۱) اوّل یہ کہ وہ غیب کوئی اقتداری غیب نہیں ہوتا جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس قسم کے غیب ہوتے ہیں کہ فلاں شخص جو شرارت سے باز نہیں آتاہم اُس کو ہلاک کریں گے۔ اور فلاں شخص جس نے صدق دکھلایا ہم اُس کو ایسی ایسی عزت دیں گے اور ہم اپنے نبی کی تائید کے لئے فلاں فلاں نشان دکھلائیں گے اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اورہم منکروں پر فلاں عذاب وارد کریں گے اور مومنوں کو اس طور کی فتح اور نصرت دیں گے۔ یہ اقتداری غیب ہیں جو حکومت کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ایسی پیشگوئیاں شیطان نہیں کر سکتا۔ (۲) دوسرے شیطانی خواب یا الہام بخیل کی طرح ہوتا ہے اس میں کثرت سے غیب نہیں ہوتا اور رحمانی ملہم کے مقابل پر ایسا شخص بھاگ جاتا ہے کیونکہ رحمانی ملہم کے مقابل پر اس کا غیب اس قدر قلیل المقدار ہوتا ہے جیسا کہ سمندر کے مقابل پر ایک قطرہ ۔(۳) تیسرے اکثر اُس پر جھوٹ غالب ہوتا ہے۔ مگر رحمانی خواب یا الہام پر سچ غالب ہوتا ہے یعنی اگر کل الہامات کو دیکھا جائے تو رحمانی الہام میں کثرت سچ کی ہوتی ہے۔ اور شیطانی میں اس کے بر خلاف۔ اور ؔ ہم نے کُل کا لفظ رحمانی خوابوں یا الہاموں کی نسبت اس لئے استعمال نہیں کیا کہ ان میں بھی بعض الہام یا خواب متشابہات کے رنگ میں ہوتے ہیں یا اجتہادی طور پر کوئی غلطی ہو جاتی ہے اور جاہل نادان ایسی پیشگوئیوں کو جھوٹ سمجھ لیتے ہیں اور ان کا وجود محض ابتلا کے لئے ہوتا ہے۔ اور بعض ربّانی پیشگوئیاں وعید کی قسم سے ہوتی ہیں جن کا تخلّف جائز ہوتا ہے۔ اور نیز یاد رہے کہ شیطانی الہام فاسق اور ناپاک آدمی سے مناسبت رکھتا ہے۔ مگر رحمانی الہامات کی کثرت صرف اُن کو ہوتی ہے جو پاک دل ہوتے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 144

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 144

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/144/mode/1up


اُس کے کلام میں شوکت اور ہیبت اور بلندیء آواز ہوتی ہے اور کلام پُر اثر اور لذیذہوتا ہے اور شیطان کا کلام دھیما اور زنانہ اور مُشتبہ رنگ میں ہوتا ہے اس میں ہیبت اورشوکت اور بلندی نہیں ہوتی اور نہ وہ بہت دیر تک چل سکتا ہے گویا جلدی تھک جاتا ہے اور اس میں بھی کمزوری اور بُزدلی ٹپکتی ہے۔ مگر خدا کا کلام تھکنے والا نہیں ہوتا اور ہر ایک قسم کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور بڑے بڑے غیبی امور اور اقتداری وعدوں پر مشتمل ہوتا ہے اور خدائی جلال اور عظمت اور قُدرت اور قُدوسی کی اُس سے بُو آتی ہے۔ اور شیطان کے کلام میں یہ خاصیت نہیں ہوتی۔ اور نیز خدا تعالیٰ کا کلام ایک قوی تاثیر اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک میخ فولادی کی طرح دل میں دھنس جاتا ہے اور دل پر ایک پاک اثر کرتا ہے اور دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور جس پر نازل ہوتا ہے اُس کو مرد میدان کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُس کو تیز تلوار کے ساتھ ٹکڑہ ٹکڑہ کر دیا جاوے یا اُس کو پھانسی دیا جاوے یا ہر ایک قسم کا دُکھ جو دنیا میں ممکن ہے پہنچایا جاوے اور ہر ایک قسم کی بے عزتی اور توہین کی جائے یا آتش سوزاں میں بٹھایا جاوے یا جلایا جاوے وہ کبھی نہیں کہے گا کہ یہ خدا کا کلام نہیں جو میرے پر نازل ہوتا ہے کیونکہ خدا اُس کو یقین کامل بخش دیتا ہے اور اپنے چہرہ کا عاشق کر دیتا ہے اور جان اور عزت اور مال اُس کے نزدیک ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک تنکا۔ وہ خدا کا دامن نہیں چھوڑتا اگرچہ تمام دنیا اُس کو اپنے پیروں کے نیچے کُچل ڈالے اور توکل اور شجاعت اور استقامت میں بے مثل ہوتا ہے مگر شیطان سے الہام پانے والے یہ قوت نہیں پاتے وہ بُزدل ہوتے ہیں کیونکہ شیطان بُزدل ہے۔

بالآخر ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ امر جو عبد الحکیم خان کی ضلالت کا باعث ہوا ہے جس کی وجہ سے اُس کو یہ خیال گذرا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں وہ قرآن شریف کی ایک آیت کی غلط فہمی ہے جو بباعث کمی علم اور کمی تدبر کے اُس سے ظہور میں آئی اور وہ آیت یہ ہے۔ 33 333 ۱؂ (ترجمہ) یعنی جو لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 145

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 145

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/145/mode/1up


جو لوگ یہود و نصاریٰ اور ستارہ پرست ہیں جو شخص اُن میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے گا اور اعمال صالحہ بجا لائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور ایسے لوگوں کا اَجر اُن کے ربّ کے پاس ہے اور اُن کو کچھ خوف نہیں ہوگا اور نہ غم ۔*

یہ آیت ہے جس سے بباعث نادانی اور کج فہمی یہ نتیجہ نکالا گیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ اپنے نفسِ امّارہ کے پیرو ہو کر محکمات اور بینات قرآنی کی مخالفت کرتے ہیں اور اسلام سے خارج ہونے کے لئے متشابہات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ اُن کو یاد رہے کہ اِس آیت سے وہ کچھ فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت پر ایمان لانا اِس بات کو مستلزم پڑا ہوا ہے کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اللّٰہ کے نام کی قرآن شریف میں یہ تعریف کی ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو ربّ العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ۶دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب کے آخر حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل ہے اور یوم آخر قرآن شریف کی رُو سے یہ ہے جس میں مُردے جی اُٹھیں گے اور پھر ایک فریق بہشت میں داخل کیا جائے گا جو جسمانی اور روحانی نعمت کی جگہ ہے اور ایک فریق دوزخ میں داخل کیا جاوے گا جو روحانی اور جسمانی عذاب کی جگہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس یوم آخر پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جو اِس کتاب پر ایمان لاتے ہیں۔

پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود لفظ اللہ اور یوم آخر کے بتصریح ایسے معنی کر دئے جو اسلام سے مخصوص ہیں توجو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور یوم آخر پر ایمان لائے گا۔ اُس کے لئے یہ لازمی امر ہوگا کہ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے اور کسی کا


* اگر اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ صرف توحید کافی ہے تو پھر مفصلہ ذیل آیت سے یہ ثابت ہوگا کہ شرک وغیرہ سب گناہ بغیر توبہ کے بخشے جائیں گے اور وہ آیت یہ ہے۔3 33 ۱؂ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 146

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 146

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/146/mode/1up


اختیاؔ ر نہیں ہے کہ ان معنوں کو بدل ڈالے اور ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے کوئی ایسے معنی ایجاد کریں کہ جو قرآن شریف کے بیان کردہ معنوں سے مغائر اور مخالف ہوں ہم نے اول سے آخر تک قرآن شریف کو غور سے دیکھا ہے اور توجہ سے دیکھا۔ اور بار بار دیکھا اور اس کے معانی میں خوب تدبر کیا ہے ہمیں بد یہی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ قرآن شریف میں جس قدر صفات اور افعال الٰہیہ کا ذکر ہے ان سب صفات کا موصوف ا سم اللہ ٹھہرایا گیا ہے۔ مثلاً کہا گیا ہے 3۔3۱؂ ۔ ایسا ہی اس قِسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن اُتارا۔ اللہ وہ ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ پس جبکہ قرآنی اصطلاح میں اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاوے تبھی اُس کا ایمان معتبر اور صحیح سمجھا جائے گا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے۔ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ من اٰمن بالرحمٰن یامن اٰمن بالرحیم یا من اٰمن بالکریم بلکہ یہ فرمایا کہ من اٰمن باللّٰہ اور اللہ سے مراد وہ ذات ہے جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے اور ایک عظیم الشان صفت اُس کی یہ ہے کہ اُس نے قرآن شریف کو اُتارا۔ اس صورت میں ہم صرف ایسے شخص کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ پر ایمان لایا جبکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا ہو اور قرآن شریف پر بھی ایمان لایاہو ۔ اگر کوئی کہے کہ پھر انّ الّذین اٰمنوا کے کیا معنی ہوئے تو یاد رہے کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جو لوگ محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اُن کا ایمان معتبر نہیں ہے۔ جب تک خدا کے رسول پر ایمان نہ لاویں یا جب تک اُس ایمان کو کامل نہ کریں۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئیے کہ قرآن شریف میں اختلاف نہیں ہے۔ پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ صدہا آیتوں میں تو خدا تعالیٰ یہ فرماوے کہ صرف توحید کافی نہیں ہے بلکہ اُس کے نبی پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے بجُز اس صورت کے کہ کوئی اس نبی سے بیخبر رہا ہو اور پھر کسی ایک آیت میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 147

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 147

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/147/mode/1up


بر خلاف اِس کے یہ بتلاوے کہ صرف توحید سے ہی نجات ہو سکتی ہے۔ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کچھ ضرورت نہیں اور طُرفہ یہ کہ اس آیت میں توحید کا ذکر بھی نہیں۔ اگر توحید مُراد ہوتی تو یُوں کہنا چاہئیے تھا کہ من اٰمن بالتّوحید ۔ مگر آیت کا تویہ لفظ ہے کہ من اٰمن باللّٰہ ۔ پس اٰمن باللّٰہ کا فقرہ ہم پر یہ واجب کرتا ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قرآن شریف میں اللہ کا لفظ کن معنوں پر آتا ہے۔ ہماری دیانت کا یہ تقاضا ہونا چاہیئے کہ جب ہمیں خود قرآن سے ہی یہ معلوم ہوا کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے قرآن بھیجا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تو ہم اُسی معنی کو قبول کر لیں جو قرآن شریف نے بیان کئے اور خود روی اختیار نہ کریں۔

ماسوا اِس کے ہم بیان کر چکے ہیں کہ نجات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل یقین پیدا کرے اور نہ صرف یقین بلکہ اطاعت کے لئے بھی کمر بستہ ہو جائے اور اس کی رضامندی کی راہوں کو شناخت کرے۔ اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے یہ دونوں باتیں محض خدا تعالیٰ کے رسولوں کے ذریعہ سے ہی حاصل ہوتی آئی ہیں پھر کس قدر یہ لغو خیال ہے کہ ایک شخص توحیدتو رکھتا ہو مگر خدا تعالیٰ کے رسول پر ایمان نہیں لاتا وہ بھی نجات پائے گا۔ اے عقل کے اندھے اور نادان! توحید بُجز ذریعہ رسول کے کب حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کی تو ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے ایک شخص روزِ روشن سے تو نفرت کرے اور اُس سے بھاگے اور پھر کہے کہ میرے لئے آفتاب ہی کافی ہے دن کی کیا حاجت ہے۔ وہ نادان نہیں جانتا کہ کیا آفتاب کبھی دن سے علیحدہ بھی ہوتا ہے۔ ہائے افسوس یہ نادان نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات تو مخفی در مخفی اور غیب در غیب اور وراء الوراء ہے اور کوئی عقل اس کو دریافت نہیں کر سکتی جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ 3۔۱؂ یعنی بصارتیں اور بصیرتیں اسکو پا نہیں سکتیں اور وہ اُن کے انتہا کو جانتا ہے اور اُن پر غالب ہے۔ پس اُس کی توحید محض عقل کے ذریعہ سے غیر ممکن ہے کیونکہ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ انسان آفاقی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 148

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 148

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/148/mode/1up


باطل ؔ معبودوں سے کنارہ کرتا ہے یعنی بُتوں یا انسانوں یا سورج چاند وغیرہ کی پرستش سے دستکش ہوتا ہے۔ ایسا ہی انفسی باطل معبودوں سے پرہیز کرے یعنی اپنی روحانی جسمانی طاقتوں پر بھروسہ کرنے سے اور اُن کے ذریعہ سے عُجب کی بَلا میں گرفتار ہونے سے اپنے تئیں بچاوے۔ پس اِس صورت میں ظاہر ہے کہ بجز ترک خودی اور رسول کا دامن پکڑنے کے توحید کامل حاصل نہیں ہو سکتی۔

اور جو شخص اپنی کسی قُوت کو شریک باری ٹھہراتا ہے وہ کیونکر موحد کہلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے جا بجا توحید کامل کو پیروی رسول سے وابستہ کیا ہے۔ کیونکہ کامل توحید ایک نئی زندگی ہے اور بُجز اُس کے نجات حاصل نہیں ہو سکتی جب تک خدا کے رسول کا پیرو ہو کر اپنی سفلی زندگی پر موت وارد نہ کرے۔ علاوہ اس کے قرآن شریف میں بموجب قول ان نادانوں کے تناقض لازم آتا ہے کیونکہ ایک طرف تو جابجا وہ یہ فرماتا ہے کہ بجُز ذریعۂ رسول توحید حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ پھر دوسری طرف گویا وہ یہ کہتا ہے کہ حاصل ہو سکتی ہے حالانکہ توحید اور نجات کا آفتاب اور اُس کو ظاہر کرنے والا صرف رسول ہی ہوتا ہے اُسی کی روشنی سے توحید ظاہر ہوتی ہے پس ایسا تناقض خدا کی کلام کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔

بڑی غلطی اس نادان کی یہ ہے کہ اُس نے توحید کی حقیقت کو بالکل نہیں سمجھا توحید ایک نور ہے جو آفاقی وانفسی معبودوں کی نفی کے بعد دل میں پیدا ہوتا ہے اور وجود کے ذرّہ ذرّہ میں سرایت کر جاتا ہے پس وہ بُجز خدا اور اُس کے رسول کے ذریعہ کے محض اپنی طاقت سے کیونکر حاصل ہو سکتا ہے انسان کا فقط یہ کام ہے کہ اپنی خودی پر موت وارد کرے اس شیطانی نخوت کو چھوڑ دے کہ مَیں علوم میں پرورش یافتہ ہوں اور ایک جاہل کی طرح اپنے تئیں تصوّر کرے اور دعامیں لگا رہے تب توحید کا نور خدا کی طرف سے اُس پر نازل ہوگا اور ایک نئی زندگی اُس کو بخشے گا۔

اخیر پر ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر ہم فرض محال کے طور پر یہ مان لیں کہ اللہ کا لفظ ایک عام معنوں پر مشتمل ہے جس کا ترجمہ خدا ہے اور اُن معنوں کو نظر انداز کر دیں جو قرآن شریف پر نظر تدبر ڈال کر معلوم ہوتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ وہ وہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 149

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 149

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/149/mode/1up


ذاتؔ ہے جس نے قرآن شریف بھیجا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ تب بھی یہ آیت مخالف کو مفید نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا نجات کے لئے کافی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر جو خدا تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے اور مستجمع جمیع صفاتِ کاملہ حضرت عزت ہے ایمان لائے گا تو خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور کشاں کشاں اس کو اسلام کی طرف لے آئے گا کیونکہ ایک سچائی دوسری سچائی میں داخل ہونے کے لئے مدد دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر خالص ایمان لانے والے آخر حق کو پالیتے ہیں۔

قرآن شریف میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص سچے دل سے خدا تعالیٰ پر ایمان لائے گا خدا اُس کو ضائع نہیں کرے گا اور حق اُس پر کھول دے گا اور راہ راست اُسکو دکھائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

3 ۱؂

پس اس آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا ضائع نہیں کیا جاتا آخر اللہ تعالیٰ پوری ہدایت اُس کو کر دیتا ہے چنانچہ صُوفیوں نے صدہا مثالیں اس کی لکھی ہیں کہ بعض غیر قوم کے لوگ جب کمال اخلاص سے خدا تعالیٰ پر ایمان لائے اور اعمال صالحہ میں مشغول ہوئے تو خدا تعالیٰ نے اُن کو اُن کے اخلاص کا یہ بدلہ دیا کہ اُن کی آنکھیں کھول دیں اور خاص اپنی دستگیری سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اُن پر ظاہرکر دی۔ یہی معنی اس آیت کے آخری فقرہ کے ہیں 3۲؂ خدا تعالیٰ کا اجر جب تک دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا آخرت میں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ پس دنیا میں خدا پر ایمان لانے کا یہ اجر ملتا ہے کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ پوری ہدایت بخشتا ہے اور ضائع نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے۔ 3ٖ۳؂ یعنی وہ لوگ جو درحقیقت اہل کتاب ہیں اور سچے دل سے خدا پر اور اُس کی کتابوں پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں وہ آخر کار اِس نبی پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہاں خبیث آدمی جن کو اہل کتاب نہیں کہنا چاہئیے وہ ایمان نہیں لاتے۔ ایسا ہی سوانح اسلام میں اس کی بہت سی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 150

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 150

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/150/mode/1up


مثالیںؔ پائی جاتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کریم و رحیم ہے اگر کوئی ایک ذرّہ بھی نیکی کرے تب بھی اُس کی جزا میں اسلام میں اُس کو داخل کر دیتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے کُفر کی حالت میں محض خدا تعالیٰ کے خوش کرنے کے لئے بہت کچھ مال مساکین کو دیا تھا۔ کیا اس کا ثواب بھی مجھ کو ہوگا۔ تو آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات ہیں جو تجھ کو اسلام کی طرف کھینچ لائے۔ پس اِسی طرح جو شخص کسی غیر مذہب میں خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک جانتا ہے اور اُس سے محبت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ بموجب آیت 3 ۱؂ آخر اُس کو اسلام میں داخل کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ باوانانک کو پیش آیا۔ جب اُس نے بڑے اخلاص سے بُت پرستی کو چھوڑ کر توحید کو اختیار کیا اور خدا تعالیٰ سے محبت کی تو وہی خدا جس نے آیت ممدوحہ بالا میں فرمایا ہے 3 اُس پر ظاہر ہوا اور اپنے الہام سے اسلام کی طرف اُس کو رہبری کی تب وہ مسلمان ہو گیا اور حج بھی کیا۔

اورکتاب بحر الجواہر میں لکھا ہے کہ ابو الخیر نام ایک یہودی تھا جو پارسا طبع اور راستباز آدمی تھا۔ اور خدا تعالیٰ کو واحد لا شریک جانتا تھا۔ ایک دفعہ وہ بازار میں چلا جاتاتھا تو ایک مسجد سے اُس کو آواز آئی کہ ایک لڑکا قرآن شریف کی یہ آیت پڑھ رہا تھا:۔

3۔ 3 ۔ ۲؂

یعنی کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ یونہی وہ نجات پا جاویں گے صرف اس کلمہ سے کہ ہم ایمان لائے۔ اور ابھی خدا کی راہ میں اُن کا امتحان نہیں کیا گیا کہ کیا ان میں ایمان لانے والوں کی سی استقامت اور صدق اور وفا بھی موجود ہے یا نہیں؟ اِس آیت نے ابو الخیر کے دل پر بڑا اثر کیا اور اُس کے دل کو گداز کر دیا۔ تب وہ مسجد کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہوکر زار زار رویا۔ رات کو حضرت سیّدنا و مولانامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی خواب میں آئے اور فرمایا یا اباالخیر اعجبنی ان مثلک مع کمال فضلک ینکر بنبوّتی۔ یعنی اے ابو الخیرمجھے تعجب آیا کہ تیرے جیسا انسان باوجود اپنے کمال



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 151

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 151

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/151/mode/1up


فضلؔ اور بزرگی کے میری نبوت سے انکار کرے۔ پس صبح ہوتے ہی ابو الخیر مسلمان ہو گیا اور اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔

خلاصہ یہ کہ میں اِس بات کو بالکل سمجھ نہیں سکتا کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر ایمان لاوے اور اُس کو واحد لا شریک سمجھے اور خدا اُس کو دوزخ سے تو نجات دے مگر نابینائی سے نجات نہ دے حالانکہ نجات کی جڑھ معرفت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3۱؂ ۱؂ ۔ یعنی جو شخص اِس جہان میں اندھا ہے وہ دُوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا یا اِس سے بھی بد تر۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ جس نے خدا کے رسولوں کو شناخت نہیں کیا اُس نے خدا کو بھی شناخت نہیں کیا۔ خدا کے چہرے کا آئینہ اُس کے رسول ہیں۔ ہر ایک جو خدا کو دیکھتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ پس یہ کس قسم کی نجات ہے کہ ایک شخص دنیا میں تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکذّب اور منکر رہا اور قرآن شریف سے انکاری رہا اور خدا تعالیٰ نے اُس کو آنکھیں نہ بخشیں اور دل نہ دیا اور وہ اندھا ہی رہا اور اندھا ہی مر گیا اور پھر نجات بھی پا گیا۔ یہ عجیب نجات ہے ! اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس شخص پر رحمت کرنا چاہتا ہے پہلے اُس کو آنکھیں بخشتا ہے اور اپنی طرف سے اُس کو علم عطا کرتا ہے۔ صدہا آدمی ہمارے سلسلہ میں ایسے ہوں گے کہ وہ محض خواب یا الہام کے ذریعہ سے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات وسیع الرحمت ہے اگر کوئی ایک قدم اس کی طرف آتا ہے تو وہ دو قدم آتا ہے۔ اور جو شخص اُس کی طرف جلدی سے چلتا ہے تو وہ اُس کی طرف دوڑتا آتا ہے اور نابینا کی آنکھیں کھولتا ہے۔ پھر کیونکر قبول کیا جائے کہ ایک شخص اُس کی ذات پر ایمان لایا اور سچے دل سے اُس کو وحدہٗ لاشریک سمجھا اورو اپس سے محبت کی اور اس کے اولیاء میں داخل ہوا۔ پھر خدا نے اُس کو نابینا رکھا اور ایسا اندھا رہا کہ خدا کے نبی کو شناخت نہ کر سکا۔ اسی کی مؤید یہ حدیث ہے کہ من مات ولم یعرف امام زمانہٖ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ یعنی جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیت کی موت پر مر گیا اور صراطِ مستقیم سے بے نصیب رہا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 152

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 152

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/152/mode/1up


ابؔ ہم اُن چند وساوس کا جواب دیتے ہیں جن کاجواب بعض حق کے طالبوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے اور اکثر ان میں وہ وساوس ہیں کہ جو عبد الحکیم خان اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ نے تحریراً یا تقریراً لوگوں کے دلوں میں ڈالے اور اپنے مرتد ہونے پر ایسی مُہر لگا دی کہ اب غالباً اس کا خاتمہ اسی پر ہوگا۔ میں نے اِن چند وساوس کاجواب منشی برہان الحق صاحب شاہجہانپور کے اصرار سے لکھا ہے جو اُنہوں نے نہایت انکسار سے اپنے خط میں ظاہرکیا ہے۔ چنانچہ میں ذیل میں منشی برہان الحق کے خط کی اصل عبارت ہر ایک سوال میں لکھ کر اُس کا جواب دیتا ہوں۔ وباللّٰہ التوفیق۔

سوال(۱)

تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے) لکھا ہے۔ اِس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر بھی ہو سکتی ہے۔ پھر ریویو جلد اوّل نمبر ۶صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ پھر ریویو صفحہ۴۷۵* میں لکھا ہے۔ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز دکھلا نہ سکتا۔ خلاصہ اعتراض یہ کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔

الجواب

یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہراؤں۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے قُلْ اُجَرّدُ نفسی من ضروب الخطاب۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مُراد اِن خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے میرا اس میں دخل نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا ہے اور کلام میںیہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا۔ سو اِس بات کو توجہ کرکے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براھین احمدیہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 153

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 153

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/153/mode/1up


میںؔ مَیں نے یہ لکھاتھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں اِس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی۔ مگرچونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اِس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اوراپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اِس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کرکے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسی اُمّت میں سے آئے گا۔ اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتاہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اِس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں۔ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اِس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی۔ میں پوشیدگی کے حُجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ مَیں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ مَیں تجھے تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا۔ پس یہ اُس خدا سے پوچھو کہ ایسا تونے کیوں کیا؟ میرا اس میں کیا قصور ہے۔ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے۔ اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہرہوتا تو میں اُس کو جزئی فضیلت قرار دیتا ؔ تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 154

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 154

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/154/mode/1up


صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔* اور جیسا کہ مَیں نے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اِس رسالہ میں بھی لکھی ہیں اُن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خدا تعالیٰ میری نسبت کیا فرماتا ہے۔ میں خدا تعالیٰ کی تیئیس۲۳ برس کی متواتر وحی کو کیونکر ردّ کر سکتا ہوں۔ میں اُس کی اِس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ اُن تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جومجھ سے پہلے ہو چکی ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مسیح ابن مریم آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کا ہے اور میں آخری خلیفہ اُس نبی کا ہوں جو خیر الرسل ہے اِس لئے خدا نے چاہا کہ مجھے اس سے کم نہ رکھے۔ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ الفاظ میرے اُن لوگوں کو گوارا نہ ہوں گے جن کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت پر ستش کی حد تک پہنچ گئی ہے مگر میں اُن کی پروا ہ نہیں کرتا۔ میں کیا کروں کس طرح خدا کے حکم کوچھوڑ سکتا ہوں اور کس طرح اُس روشنی سے جو مجھے دی گئی تاریکی میں آسکتا ہوں خلاصہ یہ کہ میری کلام میں کچھ تناقض نہیں مَیں تو خدا تعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں۔ جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں مَیں نے کہا اور جب مجھ کو اُس کی طرف سے علم ہوا تو میں نے اُسکے مخالف کہا۔ میں انسان ہوں مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔ بات یہی ہے جو شخص چاہے قبول کرے یا نہ کرے۔ میں نہیں جانتا کہ خدا نے ایسا کیوں کیا۔ ہاں میں اس قدر جانتا ہوں کہ آسمان پر خدا تعالیٰ کی غیرت عیسائیوں کے مقابل پر بڑا جوش مار رہی ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مخالف وہ توہین کے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قریب ہے کہ اُن سے آسمان پھٹ جائیں۔ پس خدا دکھلاتا ہے


* یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت۔ اِسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام اُمتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 155

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 155

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/155/mode/1up


کہ اس رسول کے ادنیٰ خادم اسرائیلی مسیح ابن مریم سے بڑھ کر ہیں۔ جس شخص کو اس فقرہ سے غیظ و غضب ہوا اُس کو اختیار ہے کہ وہ اپنے غیظ سے مر جائے ۔ مگر خدا نے جو چاہا ہے کیا اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیا انسان کا مقدور ہے کہ وہ اعتراض کرے کہ ایسا تونے کیوں کیا۔

اِسؔ جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے۔ اِس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا تو اُس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں جو اس بوجھ کے اُٹھانے کے لئے ضروری تھیں اور وہ معارف اور نشان بھی دئے گئے ہیں جن کا دیا جانا اتمام حجت کے لئے مناسب وقت تھا۔ مگر ضروری نہ تھا کہ حضرت عیسیٰ کو وہ معارف اور نشان دیئے جاتے ۔* کیونکہ اُس وقت اُن کی ضرورت نہ تھی اِس لئے حضرت عیسیٰ کی سرشت کو صرف وہ قوتیں اور طاقتیں دی گئیں جو یہودیوں کے ایک تھوڑے سے فرقہ کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں اور ہم قرآن شریف کے وارث ہیں جس کی تعلیم جامع تمام کمالات ہے اور تمام دنیا کے لئے ہے۔ مگر حضرت عیسیٰ صرف توریت کے وارث تھے جس کی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے اِسی وجہ سے انجیل میں اُن کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زیادہ بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اُس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں۔

پھر جس حالت میں یہ بات ظاہر اور بد یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی قدر روحانی قوتیں اور طاقتیں دی گئی تھیں جو فرقہ یہود کی اصلاح کے لئے کافی تھیں تو بلا شبہ اُن کے کمالات بھی اُسی پیمانہ کے لحاظ سے ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3 3۔۱؂ یعنی ہر ایک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر ہم قدر ضرورت


* اگر کوئی کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے زندہ کرتے تھے یہ کتنا بڑا نشان اُن کو دیا گیا۔ اس کا یہ جواب ہے کہ واقعی طور پر مُردہ کا زندہ ہونا قرآن شریف کی تعلیم کے بر خلاف ہے ہاں جو مُردہ کے طور پر بیمار تھے اگر اُن کو زندہ کیا تو اس جگہ بھی ایسے مُردے زندہ ہو چکے ہیں اور پہلے نبی بھی کرتے رہے ہیں جیسے الیاس نبی۔ مگر عظیم الشان نشان اور ہیں جن کو خدا دکھلا رہا ہے اور دِکھلائے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 156

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 156

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/156/mode/1up


سے زیادہ اُن کو نازل نہیں کیا کرتے۔ پس یہ حکمت الٰہیہ کے برخلاف ہے کہ ایک نبی کو اُمّت کی اِصلاح کے لئے وہ علوم دئے جائیں جن علوم سے وہ اُمّت مناسبت ہی نہیں رکھتی بلکہ حیوانات میں بھی خدا تعالیٰ کا یہی قانون قدرت پایا جاتا ہے۔ مثلاً گھوڑے کو اس غرض کیلئے خدا نے پیدا کیا ہے کہ ؔ قطع مسافت میں عمدہ کام دے اور ہر ایک میدان میں دوڑنے سے اپنے سوار کا حامی اور مددگار ہو اِس لئے ایک بکری ان صفات میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اس غرض کے لئے پیدا نہیں کی گئی۔ ایسا ہی خدا نے پانی کو پیاس بجھانے کے لئے پیدا کیا ہے اِس لئے آگ اُس کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔ انسانی سرشت بہت سی شاخوں پر مشتمل ہے اور کئی مختلف قوتیں خدا نے اُس میں رکھی ہیں۔ لیکن انجیل نے صرف ایک ہی قوت عفو اور درگذر پر زور دیا ہے گویا انسانی درخت کی صدہا شاخوں میں سے صرف ایک شاخ انجیل کے ہاتھ میں ہے۔ پس اِس سے حضرت عیسیٰ کی معرفت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کہاں تک ہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت انسانی فطرت کے انتہا تک پہنچی ہوئی ہے اِس لئے قرآن شریف کامل نازل ہوا۔ اور یہ کچھ بُرا ماننے کی بات نہیں اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ 3 ۱ ؂ یعنی بعض نبیوں کو ہم نے بعض پر فضیلت دی ہے۔ اورہمیں حکم ہے کہ تمام احکام میں اخلاق میں عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں اگر ہماری فطرت کو وہ قوتیں نہ دی جاتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کمالات کو ظلّی طور پر حاصل کر سکتیں تو یہ حکم ہمیں ہر گز نہ ہوتا کہ اس بزرگ نبی کی پیروی کرو کیونکہ خدا تعالیٰ فوق الطاقت کوئی تکلیف نہیں دیتا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے3 ۲؂ اور چونکہ وہ جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جامع کمالات تمام انبیاء کے ہیں اس لئے اُس نے ہماری پنج وقتہ نماز میں ہمیں یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا کہ3۔3۳؂ یعنی اے ہمارے خدا ہم سے پہلے جس قدر نبی اور رسول اور صدیق اور شہید گذر چکے ہیں اُن سب کے کمالات ہم میں جمع کر۔ پس اِس اُمت مرحومہ کی فطرت عالیہ کا اِس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کو حکم ہوا ہے کہ تمام گذشتہ متفرق کمالات کو اپنے اندر جمع کرو۔ یہ تو عام طور پر حکم ہے اور خواص کے مدارج خاصّہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 157

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 157

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/157/mode/1up


اِسی سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اِس اُمّت کے باکمال صُوفی اِس پوشیدہ حقیقت تک پہنچ گئے ہیں کہ انسانی فطرتوں کے کمال کا دائرہ اِسی اُمّت نے پُورا کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ جس طرح ایک چھوٹا سا تُخم زمین میں بویا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ اؔ پنے کمال کو پہنچ کر ایک بڑا درخت بن جاتا ہے۔ اِسی طرح انسانی سلسلہ نشوو نما پاتا گیا اور انسانی قوتیں اپنے کمال میں بڑھتی گئیں یہاں تک کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں وہ اپنے کمال تام تک پہنچ گئیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ چونکہ مَیں ایک ایسے نبی کا تابع ہوں جو انسانیت کے تمام کمالات کا جامع تھا اور اس کی شریعت اکمل اور اتم تھی اور تمام دنیا کی اصلاح کے لئے تھی اِس لئے مجھے وہ قوتیں عنایت کی گئیں جو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ضروری تھیں تو پھر اس امر میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں کیونکہ وہ ایک خاص قوم کے لئے آئے تھے اور اگر وہ میری جگہ ہوتے تو اپنی اُس فطرت کی وجہ سے وہ کام انجام نہ دے سکتے جو خدا کی عنایت نے مجھے انجام دینے کو قوت دی۔ وھٰذا تحدیث نعمت اللّٰہ ولا فخر۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ آتے تو اس کام کو انجام نہ دے سکتے اور اگر قرآن شریف کی جگہ توریت نازل ہوتی تو اس کام کو ہر گز انجام نہ دے سکتی جو قرآن شریف نے دیا۔ انسانی مراتب پردۂ غیب میں ہیں۔ اس بات میں بگڑنا اور مُنہ بنانا اچھا نہیں۔ کیا جس قادر مطلق نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا وہ ایسا ہی ایک اور انسان یا اس سے بہتر پیدا نہیں کر سکتا ؟* اگر قرآن شریف کی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے تو وہ آیت پیش کرنی چاہئیے۔ سخت مردود وہ شخص ہوگا جو قرآنی آیت سے انکار کرے ورنہ میں اس پاک وحی کے مخالف کیونکر خلاف واقعہ کہہ سکتا ہوں جو قریباً تیئیس۲۳ برس سے مجھ کو


* خدائے تعالیٰ کے کاموں کا کوئی انتہانہیں پاسکتا۔ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام عظیم الشان نبی گذرے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے توریت دی اور جن کی عظمت اور وجاہت کی وجہ سے بلعم باعور بھی اُن کا مقابلہ کرکے تحت الثریٰ میں ڈالا گیا اور کُتے کے ساتھ خدا نے اس کی مشابہت دی وہی موسیٰ ہے جس کو ایک بادیہ نشین شخص کے علوم روحانیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا اور اُن غیبی اسرار کا کچھ پتہ نہ لگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔33۔۱؂منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 158

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 158

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/158/mode/1up


تسلی دے رہی ہے اور ہزار ہا خدا کی گواہیاں اور فوق العادت نشان اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ خداتعالیٰ کے کام مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں۔ اُس نے دیکھا کہؔ ایک شخص کو محض بے وجہ خدا بنایا گیا ہے جس کی چالیس کروڑ آدمی پرستش کر رہے ہیں۔ تب اُس نے مجھے ایسے زمانہ میں بھیجا کہ جب اس عقیدہ پر غلوّانتہا تک پہنچ گیا تھا اور تمام نبیوں کے نام میرے نام رکھے مگر مسیح ابن مریم کے نام سے خاص طور پر مجھے مخصوص کرکے وہ میرے پر رحمت اور عنایت کی گئی جو اُس پر نہیں کی گئی تا لوگ سمجھیں کہ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ اگر میں اپنی طرف سے یہ باتیں کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا میری نسبت اپنے نشانوں کے ساتھ گواہی دیتا ہے تو میری تکذیب تقویٰ کے بر خلاف ہے اور جیسا کہ دانیال نبی نے بھی لکھا ہے میرا آنا خدا کے کامل جلال کے ظہور کا وقت ہے اور میرے وقت میں فرشتوں اور شیاطین کا آخری جنگ ہے۔ اور خدا اس وقت وہ نشان دکھائے گا جو اُس نے کبھی دکھائے نہیں گویا خدا زمین پر خود اُتر آئے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی اُس دن بادلوں میں تیرا خدا آئے گا یعنی انسانی مظہر کے ذریعہ سے اپنا جلال ظاہر کرے گا اور اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ کُفر اور شرک نے بہت غلبہ کیا اور وہ خاموش رہا اور ایک مخفی خزانہ کی طرح ہو گیا۔ اب چونکہ شرک اور انسان پرستی کا غلبہ کمال تک پہنچ گیا اور اسلام اس کے پاؤں کے نیچے کُچلا گیا اس لئے خدا فرماتا ہے کہ مَیں زمین پر نازل ہوں گا اور وہ قہری نشان دِکھلاؤں گا کہ جب سے نسل آدم پیدا ہوئی ہے کبھی نہیں دِکھلائے۔ اِس میں حکمت یہ ہے کہ مدافعت بقدر حملہء دشمن ہوتی ہے پس جس قدر انسان پرستوں کو شرک پر غلو ہے وہ غلو بھی انتہا تک پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اب خدا آپ لڑے گا وہ انسانوں کو کوئی تلوار نہیں دے گا اور نہ کوئی جہاد ہوگا ہاں اپنا ہاتھ دِکھلائے گا۔ یہودیوں کا یہ عقید ہے کہ دو مسیح ظاہر ہوں گے اور آخری مسیح (جس سے اِس زمانہ کا مسیح مُراد ہے) پہلے مسیح سے افضل ہوگا اور عیسائی ایک ہی مسیح کے قائل ہیں مگر کہتے ہیں کہ وہی مسیح ابن مریم جو پہلے ظاہر ہوا آمد ثانی میں بڑی قُوّت اور جلال کے ساتھ ظاہر ہوگا اور دنیا کے فرقوں کا فیصلہ کرے گا اور کہتے ہیں کہ اس قدر جلال کے ساتھ ظاہر ہوگا کہ آمد اوّل کو اِس سے کچھ نسبت نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 159

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 159

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/159/mode/1up


بہر حال یہ دونوں فرقے قائل ہیں کہ آنے والا مسیح جو آخری زمانہ میںآئے گا اپنے جلالؔ اور قوی نشانوں کے لحاظ سے پہلے مسیح یا پہلی آمد سے افضل ہے اور اسلام نے بھی آخری مسیح کا نام حَکَم رکھا ہے اور تمام دنیا کے مذاہب کا فیصلہ کرنے والا اور محض اپنے دم سے کفارکو مارنے والا قرار دیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اُس کے ساتھ ہوگا اور اُس کی توجہ اور دعا بجلی کا کام کرے گی اور وہ ایسی اتمام حجت کرے گا کہ گویا ہلاک کر دے گا۔ غرض نہ اہل کتاب نہ اہل اسلام اِس بات کے قائل ہیں کہ پہلا مسیح آنے والے مسیح سے افضل ہے۔ یہود تو دو مسیح قرار دے کر آخری مسیح کو نہایت افضل سمجھتے ہیں اور جو لوگ اپنی غلط فہمی سے صرف ایک ہی مسیح مانتے ہیں وہ بھی دوسری آمد کو نہایت جلالی آمد قرار دیتے ہیں اور پہلی آمد کو اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہیں سمجھتے۔ پھر جبکہ خدا نے اور اُس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح کو اُس کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔ عزیزو! جبکہ میں نے یہ ثابت کر دیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آنے والا مسیح میں ہوں تو اس صورت میں جو شخص پہلے مسیح کو افضل سمجھتا ہے اُس کو نصوص حدیثیہ اور قرآنیہ سے ثابت کرنا چاہئیے کہ آنے والا مسیح کچھ چیز ہی نہیں نہ نبی کہلا سکتا ہے نہ حَکَم۔ جو کچھ ہے پہلا ہے۔ خدا نے اپنے وعدہ کے موافق مجھے بھیج دیا اب خدا سے لڑو۔ ہاں میں صرف نبی نہیں بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی بھی تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قُدسیہ اور کمال فیضان ثابت ہو۔

سوال (۲)

حضور عالی نے سکیڑوں بلکہ ہزاروں جگہ لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے تلوار نہیں اُٹھائی مگر عبد الحکیم کو جو خط تحریر فرمایا ہے اس میں یہ فقرہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی دعوت کے لئے زمین میں خون کی نہریں چلادیں اِس کا کیا مطلب ہے۔


الجواب ۔ مَیں اب بھی کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کو جبراً نہیں پھیلایا اور جو تلوار اُٹھائی گئی وہ اِس لئے نہیں تھی کہ دھمکی دے کر اسلام قبول کرایا جائے بلکہ اِس میں دو امر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 160

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 160

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/160/mode/1up


ملحوظ ؔ تھے (۱) ایک تو بطور مدافعت یہ لڑائیاں تھیں کیونکہ جبکہ کفار نے حملہ کرکے تلوار کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہا تو بجُز اس کے کیا چارہ تھا کہ اپنی حفاظت کے لئے تلوار اُٹھائی جاتی۔ (۲) دوسری قرآن شریف میں ان لڑائیوں سے ایک زمانہ پہلے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جولوگ اس رسول کو نہیں مانتے خدا اُن پر عذاب نازل کرے گا۔ چاہے تو آسمان سے اور چاہے تو زمین سے اور چاہے تو بعض کی تلوار کا مزہ بعض کو چکھادے۔ اِسی طرح اس مضمون کی اور بھی پیشگوئیاں تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ اب سمجھنا چاہئیے کہ وہ خط جو میں نے عبد الحکیم خان کو لکھا تھا اس میں میرا یہی مطلب تھا کہ اگر رسول کا ماننا غیر ضرری ہے تو خدا تعالیٰ نے اِس رسول کے لئے یہ اپنی غیرت کیوں دکھلائی کہ کفار کے خون کی نہریں چلادیں۔ یہ سچ ہے کہ اسلام کے لئے جبر نہیں کیا گیا مگر چونکہ قرآن شریف میں یہ وعدہ موجود ہے کہ جو لوگ اس رسول کے مکذّب اور منکر ہیں وہ عذاب سے ہلاک کئے جائیں گے۔ اِس لئے اُن کے عذاب کیلئے یہ تقریب پیش آئی کہ خود اُن کافروں نے لڑائیوں کے لئے سبقت کی تب جن لوگوں نے تلوار اُٹھائی وہ تلوار ہی سے مارے گئے۔ اگر رسول کا انکار کرنا خدا کے نزدیک ایک سہل امر تھا اور باوجود انکار کے نجات ہو سکتی تھی تو پھر اس عذاب کے نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی جو ایسے طور سے نازل ہوا جس کی دنیا میں نظیرنہیں پائی جاتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔33 3 ۱؂ یعنی اگر یہ رسول جھوٹا ہے تو خود تباہ ہو جائے گا لیکن اگر سچا ہے تو تمہاری نسبت جو عذاب کے بعض وعدے کئے گئے ہیں۔ وہ پورے ہوں گے ۔*

اب غور کا مقام ہے کہ اگر خدا کے رسول پر ایمان لانا غیر ضروری ہے تو ایمان نہ لانے پر عذاب کا کیوں وعدہ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ جبر سے اپنا دین منوانا اور تلوار سے مسلمان کرنا یہ اور امر ہے مگر اُس شخص کو سزا دینا جو سچے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور مقابلہ سے پیش آتا ہے اور اُس کو دُکھ دیتا ہے یہ اور بات ہے۔ سزا دینے کے لئے یہ امرشرط نہیں ہے کہ کوئی شخص مسلمان ہو جائے بلکہ انکار کے


* بعض کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا کہ وعید کی پیشگوئیوں میں یہ ضروری نہیں کہ وہ سب کی سب پوری ہوجائیں بلکہ بعض کا انجام معافی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 161

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 161

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/161/mode/1up


ساتھ مقابلہ کرنے والے واجب القتل ہو چکے تھے اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو یہ رعایت دی ؔ گئی تھی کہ اگر مشرف باسلام ہو جائیں تو وہ سزا معاف ہو جائے گی اور پھر ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂ الجزو نمبر۳ سورہ اٰل عمران۔ یعنی جو لوگ خدا تعالیٰ کی آیتوں سے منکر ہو گئے اُن کے لئے سخت عذاب ہے اور خدا غالب بدلہ لینے والا ہے۔ اب صاف ظاہر ہے کہ اِس آیت میں بھی منکروں کے لئے عذاب کا وعدہ ہے۔ لہٰذا ضرور تھا کہ اُن پر عذاب نازل ہوتا۔ پس خدا تعالیٰ نے تلوار کا عذاب اُن پر وارد کیا اور پھر ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے3333 ۲؂ الجزو نمبر۶ سورۃ المائدۃ یعنی سوا اس کے نہیں کہ بدلہ ان لوگوں کا کہ جو خدا اور رسول سے لڑتے اور زمین پر فساد کے لئے دوڑتے ہیں یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی دئے جائیں یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف طرف سے کاٹے جائیں یا جلا وطن کرکے قید رکھے جائیں یہ رُسوائی اُن کی دُنیا میں ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے پس اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے رسول کریم کی عدول حکمی اور اس کا مقابلہ کچھ چیز نہیں تھا تو ایسے منکروں کو جوموحد تھے (جیسا کہ یہودی) انکار اور مقابلہ کی وجہ سے اس قدر سخت سزا یعنی طرح طرح کے عذابوں سے موت کی سزا دینے کے لئے خدا تعالیٰ کی کتاب میں کیوں حکم لکھا گیا اور کیوں ایسی سخت سزائیں دی گئیں کیونکہ دونوں طرف موحد تھے اس طرف بھی اور اس طرف بھی اور کسی گروہ میں کوئی مُشرک نہ تھا اور باوجود اس کے یہودیوں پر کچھ بھی رحم نہ آیا اور اُن موحد لوگوں کو محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے بُری طرح قتل کیا گیا یہاں تک کہ ایک دفعہ دس ہزار یہودی ایک ہی دِن میں قتل کئے گئے حالانکہ اُنہوں نے صرف اپنے دین کی حفاظت کے لئے انکار اور مقابلہ کیا تھا اور اپنے خیال میں پکے موحد تھے اور خدا کو ایک جانتے تھے۔

ہاں یہ بات ضرور یاد رکھو کہ بے شک ہزاروں یہودی قتل کئے گئے مگر اس غرض سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 162

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 162

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/162/mode/1up


نہیںؔ کہ تاوہ مسلمان ہو جائیں۔ بلکہ محض اِس غرض سے کہ خدا کے رسول کا مقابلہ کیا۔ اِس لئے وہ خدا کے نزدیک مستوجب سزا ہو گئے اور پانی کی طرح اُن کا خون زمین پر بہایا گیا۔ پس ظاہر ہے کہ اگر توحید کافی ہوتی تو یہودیوں کا کوئی جرم نہ تھا وہ بھی تو موحد تھے وہ محض انکار اور مقابلہ رسول کی وجہ سے کیوں خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل سزا ٹھہرے۔

(۳)سوال

جناب عالی۔ عبد الحکیم کو جو آپ نے خط تحریر فرمایا ہے اُس میں لکھا ہے کہ فطرتی ایمان ایک *** چیز ہے اِس کا مطلب بھی سمجھنے میں نہیں آیا۔

الجواب:۔ خلاصہ اور مد عامیری تحریر کا یہ ہے کہ جو ایمان خدا تعالیٰ کے رسول کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوتا اور محض انسانی فطرت خدا تعالیٰ کے وجود کی ضرورت محسوس کرتی ہے جیسا کہ فلسفیوں کا ایمان ہے اس کا آخری نتیجہ اکثر *** ہی ہوتا ہے کیونکہ ایسا ایمان تاریکی سے خالی نہیں ہوتا اِس لئے وہ لوگ جلدی اپنے ایمان سے پھسل کر دہریہ بن جاتے ہیں پہلے تو صحیفہء فطرت اور قانونِ قدرت پر زور دیتے ہیں مگر چونکہ شمع رسالت کی روشنی ساتھ نہیں ہوتی جلد تاریکی میں پڑ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ مبارک اور بے خطر وہ ایمان ہے جو خدا کے رسول کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ ایمان صرف اس حد تک نہیں ہوتا کہ خدا کے وجود کی ایک ضرورت ہے بلکہ صدہا آسمانی نشان اُس کو اِس حد تک پہنچا دیتے ہیں کہ درحقیقت وہ خدا موجود ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ خدا پر ایمان مستحکم کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا مثل میخوں کے ہے اور خدا پر اُسی وقت تک ایمان قائم رہ سکتا ہے جب تک کہ رسول پر ایمان ہو اور جب رسول پرایمان نہ رہے تو خدا پر ایمان لانے میں بھی کوئی آفت آجاتی ہے اور خشک توحید انسان کو جلد گمراہی میں ڈالتی ہے اِسی واسطے مَیں نے کہا کہ فطرتی ایمان *** ہے یعنی جس کی بنیاد صرف صحیفۂ فطرت ہے اور جس کی بنا مجرد فطرت پر ہے اور رسول کی روشنی سے حاصل نہیں آخروہ *** خیال تک پہنچا دیتا ہے۔ غرض خدا کے رسول کو چھوڑ کر اور رسول کے معجزات کو چھوڑ کر محض فطرت کے لحاظ سے جس کا ایمان ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 163

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 163

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/163/mode/1up


وہ اؔ یک دیوارِ ریگ ہے وہ آج بھی تباہ ہوا اور کل بھی۔ ایمان درحقیقت وہی ایمان ہے جو خدا کے رسول کو شناخت کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اس ایمان کو زوال نہیں ہوتا اور اس کا انجام بد نہیں ہوتا۔ ہاں جو شخص سر سری طور پر رسول کا تابع ہو گیا اور اُس کو شناخت نہیں کیا اور اُس کے انوار سے مطلع نہیں ہوا اُس کا ایمان بھی کچھ چیز نہیں اور آخر ضرور وہ مُرتد ہوگا جیسا کہ مسیلمہ کذّاب اور عبد اللہ ابن ابی سرح اور عبیدہ اللہ بن جحش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودا اسکریوطی اورپانسو اور عیسائی مرتد حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں اور جموں والا چراغدین اور عبدالحکیم خان ہمارے اِس زمانہ میں مُرتد ہوئے۔

(۴)سوال

پہلی کتابوں ازالہ اوہام وغیرہ میں لکھا ہے کہ یہ بھی کچھ کوئی پیشگوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے۔ مری پڑے گی۔ لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے لیکن اب کئی تحریروں میں دیکھا گیا ہے کہ انہیں پیشگوئیوں کو جناب والا نے عظیم الشان پیشگوئیاں قرار دیا ہے۔

الجواب:۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ میں نے انہیں پیشگوئیوں کو عظیم الشان قرار دیا ہے ہر ایک چیز کی عظمت یا عدم عظمت اس کی مقدار اور کیفیت سے اور نیز اُس کے حالات خاصہ یامعمولی حالات سے ظاہر ہوتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جس مُلک میں طاعون اور زلزلوں کی خبر دی تھی وہ ملک ایسا ہے کہ اکثر اس میں طاعون کا دورہ رہتا ہے اور کشمیر کی طرح اس میں زلزلے بھی آتے رہتے ہیں اور قحط بھی پڑتے ہیں اور لڑائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے اور حضرت مسیح کی پیشگوئی میں نہ کسی خارق عادت زلزلہ کا ذکر ہے اور نہ کسی خارق عادت مری یا طاعون کا۔ اِس صورت میں کوئی عقلمند ایسی پیشگوئیوں کو عظمت اور وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ مگر جس ملک کے لئے


ہاں ممکن ہے کہ اصل پیشگوئیوں میں تحریف ہو گئی ہو جبکہ ایک انجیل کی بیسیوں انجیلیں بن گئی ہیں تو کسی عبارت

میں تحریف ہونا کونسا ایسا امر ہے جو بعید از عقل ہو سکتا ہے مگر ہمارا موجودہ انجیلوں پر اعتراض ہے اور خدا نے ان

انجیلوں کو محرف مبدل قرار دیکر ہمیں ان اعتراضوں کا موقعہ دیا ہے۔ منہ


* یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح کی پیشگوئیوں میں جو انجیلوں میں پائی جاتی ہیں صرف معمولی اور نرم لفظ ہیں کسی شدید اور ہیبت ناک زلزلہ یا ہیبت ناک طاعون کا ان میں ذکر نہیں ہے مگر میری پیشگوئیوں میں ان دونوں واقعات کی نسبت ایسے لفظ ہیں جو ان کو خارق عادت قرار دیتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 164

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 164

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/164/mode/1up

*

میں ؔ نے طاعون کی خبردی اور شدید زلزلوں سے اطلاع دی ہے وہ اس ملک کی حالت کے لحاظ سے درحقیقت عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ کیونکہ اگر اس ملک کے صدہا سال کی تاریخ دیکھی جائے تب بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کبھی اس ملک میں طاعون پڑی ہے چہ جائیکہ ایسی طاعون جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیا چنانچہ طاعون کی نسبت میری پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں کہ ملک کا کوئی حصہ طاعون سے خالی نہیں رہے گا اور سخت تباہی آئے گی اور وہ تباہی زمانہ دراز تک رہے گی۔ اب کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ جیسا کہ اب پیشگوئی کے مطابق یہ سخت تباہیاں طاعون سے ظہور میں آئیں پہلے اس ملک میں کبھی ظہور میں آیا تھا۔ ہر گز نہیں۔ رہا زلزلہ وہ بھی میری طرف سے کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی بلکہ پیشگوئی میں یہ الفاظ تھے کہ ایک حصہ ملک کا اس سے تباہ ہو جائے گا جیسا کہ ظاہر ہے کہ وہ تباہی جو اس زلزلہ سے کانگڑہ اور بھاگسو خاص جوالا مُکھی پر آئی۔ د۲۰۰۰وہزار برس تک اس کی نظیر نہیں ملتی کہ کبھی زلزلہ سے ایسا نقصان ہوا چنانچہ انگریز محققوں نے بھی یہی گواہی دی ہے۔ پس اِس صُورت میں میرے پر اعتراض کرنا محض جلدبازی ہے۔

(۵)سوال

جناب عالی نے متفرق طور پر بہت سے اشتہارات میں لکھا ہے کہ مذہب کی خرابی کی وجہ سے دنیا میں عذاب نازل نہیں ہوتا بلکہ شوخی اور شرارت اور مرسلین کے ساتھ استہزا کرنے سے عذاب آتا ہے۔ اب سان فرانسسکو وغیرہ میں جو زلزلے آئے ہیں جناب عالی نے اپنی تصدیق کا اُن کو نشان قرار دیا ہے۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ زلزلے آپ کی تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں۔

الجواب:۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ یہ تمام زلزلے جو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات میں آئے ہیں یہ محض میری تکذیب کی وجہ سے آئے ہیں کسی اور امر کا اِس میں دخل نہیں۔ ہاں میں کہتا ہوں کہ میری تکذیب اِن زلزلوں کے ظہور کا باعث ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام نبی اِس بات پر متفق ہیں کہ عادت اللہ ہمیشہ سے اِس طرح پر جاری ہے کہ جب دنیا ہر ایک قسم کے گناہ کرتی ہے اور بہت سے گناہ ان کے جمع ہو جاتے ہیں تب اس زمانہ میں خدا اپنی طرف سے کسی کو مبعوث فرماتا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 165

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 165

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/165/mode/1up


اورؔ کوئی حصہ دنیا کا اس کی تکذیب کرتا ہے تب اُس کا مبعوث ہونا دو سرے شریر لوگوں کی سزا دینے کے لئے بھی جو پہلے مجرم ہو چکے ہیں ایک محرک ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے گذشتہ گناہوں کی سزا پاتا ہے اُ س کے لئے اِس بات کا علم ضروری نہیں کہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے کوئی نبی یا رسول بھی موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3 ۱؂ پس اس سے زیادہ میرا مطلب نہ تھا کہ ان زلزلوں کا موجب میری تکذیب ہو سکتی ہے۔ یہی قدیم سے سُنت اللہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا سو سان فرانسسکو وغیرہ مقامات کے رہنے والے جو زلزلہ اور دوسری آفات سے ہلاک ہو گئے ہیں اگرچہ اصل سبب اُن پر عذاب نازل ہونے کا اُن کے گذشتہ گناہ تھے مگر یہ زلزلے اُن کو ہلاک کرنے والے میری سچائی کا ایک نشان تھے کیونکہ قدیم سنت اللہ کے موافق شریر لوگ کسی رسول کے آنے کے وقت ہلاک کئے جاتے ہیں اور نیز اِس وجہ سے کہ میں نے براہین احمدیہ اور بہت سی اپنی کتابوں میں یہ خبر دی تھی کہ میرے زمانہ میں دنیا میں بہت سے غیر معمولی زلزلے آئیں گے اور دوسری آفات بھی آئیں گی اور ایک دنیا اُن سے ہلاک ہو جائے گی۔ پس اِس میں کیا شک ہے کہ میری پیشگوئیوں کے بعد دُنیا میں زلزلوں اور دوسری آفات کا سلسلہ شروع ہو جانا میری سچائی کے لئے ایک نشان ہے۔ یاد رہے کہ خدا کے رسول کی خواہ کسی حصہ زمین میں تکذیب ہو مگر اس تکذیب کے وقت دوسرے مجرم بھی پکڑے جاتے ہیں جو اور ملکوں کے رہنے والے ہیں جن کو اس رسول کی خبر بھی نہیں۔ جیسا کہ نوح کے وقت میں ہوا کہ ایک قوم کی تکذیب سے ایک دنیا پر عذاب آیا بلکہ پرند چرند بھی اس عذاب سے باہر نہ رہے۔

غرض عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کسی صادق کی حد سے زیادہ تکذیب کی جائے یا اُس کو ستایا جائے تو دنیا میں طرح طرح کی بلائیں آتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں یہی بیان فرماتی ہیں اور قرآن شریف یہی* فرماتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ کی تکذیب کی وجہ سے مصر کے ملک پر طرح طرح کی آفات نازل ہوئیں۔ جوئیں برسیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 166

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 166

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/166/mode/1up


مینڈؔ کیں برسیں خون برسا اور عام قحط پڑا۔ حالانکہ مُلک مصر کے دور دور کے باشندوں کو حضرت موسیٰ کی خبر بھی نہ تھی اور نہ اُن کا اس میں کچھ گناہ تھا اور نہ صرف یہ بلکہ تمام مصریوں کے پلوٹھے بچے مارے گئے اور فرعون ایک مدت تک ان آفت سے محفوظ تھا اور جو محض بے خبر تھے وہ پہلے مارے گئے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب سے قتل کرنا چاہا تھا اُن کا تو بال بیکا بھی نہ ہوا اور وہ آرام سے زندگی بسر کرتے رہے۔ لیکن چالیس برس بعد جب وہ صدی گذرنے پر تھی تو طیطوس رومی کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی قتل کئے گئے اور طاعون بھی پڑی۔ اور قرآن شریف سے ثابت ہے کہ یہ عذاب محض حضرت عیسیٰ کی وجہ سے تھا۔

ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سات برس کا قحط پڑا اور اکثر اس قحط میں غریب ہی مارے گئے اور بڑے بڑے سردار فتنہ انگیز جو دُکھ دینے والے تھے مُدت تک عذاب سے بچے رہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ سُنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آتا ہے اور اُس کی تکذیب کی جاتی ہے تو طرح طرح کی آفتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں جن میں اکثر ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں جن کا ا س تکذیب سے کچھ تعلق نہیں پھر رفتہ رفتہ ائمۃ الکفر پکڑے جاتے ہیں اور سب سے آخر بڑے شریروں کا وقت آتا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے33 ۱؂ یعنی ہم آہستہ آہستہ زمین کی طرف آتے جاتے ہیں۔ اِس میرے بیان میں اُن بعض نادانوں کے اعتراضات کا جواب آگیا ہے جو کہتے ہیں کہ تکفیر تو مولویوں نے کی تھی اور غریب آدمی طاعون سے مارے گئے۔ اور کانگڑہ اور بھاگسو کے پہاڑ کے صدہا آدمی زلزلہ سے ہلاک ہو گئے۔ اُن کا کیا قصور تھا۔ اُنہوں نے کونسی تکذیب کی تھی۔ سو یاد رہے کہ جب خدا کے کسی مُرسل کی تکذیب کی جاتی ہے خواہ وہ تکذیب کوئی خاص قوم کرے یا کسی خاص حصہ زمین میں ہو مگر خدا تعالیٰ کی غیرت عام عذاب نازل کرتی ہے اور آسمان سے عام طور پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 167

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 167

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/167/mode/1up


کہ اؔ صل شریر پیچھے سے پکڑے جاتے ہیں جو اصل مبدء فساد ہوتے ہیں جیسا کہ اُن قہری نشانوں سے جو حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے۔ فرعون کا کچھ نقصان نہ ہوا صرف غریب مارے گئے لیکن آخر کار خدا نے فرعون کو مع اُس کے لشکر کے غرق کیا۔ یہ سُنّت اللہ ہے جس سے کوئی واقف کار انکار نہیں کر سکتا۔

(۶)سوال

حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اور اہل قبلہ کو کافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ اُن مومنوں کے جو آپ کی تکفیر کرکے کافربن جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا۔ لیکن عبد الحکیم خان کو آپ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اُس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ اِس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے۔ یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہوتا اور اب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتا ہے۔

الجواب:۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھہراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اِسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مُفتری قرار دیتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا پر افترا کرنے والا سب کافروں سے بڑھ کر کافر ہے جیسا کہ فرماتا ہے 3 3 ۱؂ یعنی بڑے کافر دو ہی ہیں ایک خدا پر افترا کرنے والا ۔* دوسرا خدا کی کلام کی تکذیب کرنے والا۔ پس جبکہ میں نے ایک مکذب کے نزدیک خدا پر افترا کیا ہے۔ اس صورت میں نہ میں صرف کافر بلکہ بڑا کافر ہوا، اور اگر میں مُفتری نہیں تو بلا شُبہ وہ کفر اُس پر پڑے گا جیسا کہ

* ظالم سے مُراد اِس جگہ کافر ہے۔ اِس پر قرینہ یہ ہے کہ مُفتری کے مقابل پر مکذّب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایاہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے۔ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اِس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔ منہ

* ظالم سے مُراد اِس جگہ کافر ہے۔ اِس پر قرینہ یہ ہے کہ مُفتری کے مقابل پر مکذّب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایاہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے۔ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اِس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔ منہ


* ظالم سے مُراد اِس جگہ کافر ہے۔ اِس پر قرینہ یہ ہے کہ مُفتری کے مقابل پر مکذّب کتاب اللہ کو ظالم ٹھہرایاہے اور بلا شبہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتا ہے کافر ہے۔ سو جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ مجھے مفتری قرار دے کر مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ اِس لئے میری تکفیر کی وجہ سے آپ کافر بنتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 168

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 168

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/168/mode/1up


اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں خود فرمایا ہے۔ علاوہ اِس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے۔ یعنی رسوؔ ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری اُمت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی تھی کہ میں معراج کی رات میں مسیح ابن مریم کو اُن نبیوں میں دیکھ آیا ہوں جو اِس دنیا سے گذر گئے ہیں اور یحیٰی شہید کے پاس دوسرے آسمان میں اُن کو دیکھا ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں خبر دی کہ مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا۔ اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمدًا خدا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مُفتری ٹھہراتا ہے تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے اور اگر وہ مومن ہے تو میں بوجہ افترا کرنے کے کافر ٹھہرا کیونکہ میں اُن کی نظر میں مفتری ہوں اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ 3 3 3 ۱؂ یعنی عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اُن سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے۔ ہاں یوں کہو کہ ہم نے اطاعت اختیار کر لی ہے اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پس جبکہ خدا اطاعت کرنے والوں کا نام مومن نہیں رکھتا۔ پھروہ لوگ خدا کے نزدیک کیونکر مومن ہو سکتے ہیں جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزار ہانشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے۔ وہ خود اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ اگر میں مفتری نہیں اور مومن ہوں تو اس صورت میں وہ میری تکذیب اور تکفیر کے بعد کافر ہوئے اور مجھے کافر ٹھہراکر اپنے کفر پر مہر لگا دی۔ یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے۔ پھر جب کہ قریبًا دوسو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہیں کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 169

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 169

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/169/mode/1up


ہے۔ تو اب اِس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اورؔ ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو اُن کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب میں اُن کو مسلمان سمجھ لوں گا۔ بشرطیکہ اُن میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کُھلے کُھلے معجزات کے مکذب نہ ہوں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3 3 ۱؂ یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ما زنا زانٍ و ھو مؤمن وما سرق سارق وھو مؤمن یعنی کوئی زانی زنا کی حالت میں اور کوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوگا۔ پھر منافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کو کافر کہنے سے انسان خود کافر ہو جاتا ہے تو اپنے مولویوں کا فتویٰ مجھے دکھلادیں میں قبول کر لوں گا اور اگر کافر ہو جاتا ہے تو دو سو مولوی کے کفر کی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کر دیں۔ بعد اس کے حرام ہوگا کہ میں اُن کے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت اُن میں نہ پائی جائے۔*

(۷)سوال

دعوت پہنچ جانے سے کیا مراد ہے۔

الجواب:۔ دعوت پہنچا دینے میں دو امر ضروری ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ وہ شخص جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے وہ لوگوں کو اطلاع دیدے کہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور اُن کو اُن کی


* جیسا کہ میں نے بیان کیا کافر کو مومن قرار دینے سے انسان کافر ہو جاتا ہے کیونکہ جو شخص درحقیقت کافر ہے وہ اُس کے کفر کی نفی کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے پر ایمان نہیں لاتے وہ سب کے سب ایسے ہیں کہ اُن تمام لوگوں کو وہ مومن جانتے ہیں جنہوں نے مجھ کو کافر ٹھہرایا ہے پس میں اب بھی اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتا لیکن جن میں خود اُنہیں کے ہاتھ سے ان کی وجہ کفر کی پیدا ہو گئی ہے۔ ان کو کیونکر مومن کہہ سکتا ہوں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 170

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 170

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/170/mode/1up


غلطیوں پر متنبہ کر دے کہ فلاں فلاں اعتقاد میں تم خطا پر ہو۔ یا فلاں فلاں عملی حالت میں تم سُست ہو۔ دوسرے یہ کہ آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے اپنا سچا ہونا ثابت کرے اور عادت اللہ اِس طرح پر ہے کہ اوّل اپنے نبیوں اور مُرسلوں کو اس قدر مہلت دیتا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصہ میں اُنکا نام پھیل جاتا ہے اور اُن کے دعوےٰ سے لوگ مطلع ہو جاتے ہیں اور پھر آسمانی نشانوں اور دلائل عقلیہ اور نقلیہ کے ساتھ لوگوں پر اتمام حُجت کر دیتا ہے اورؔ دنیا میں خارق عادت طور پر شہرت دینا اورروشن نشانوں کے ساتھ اتمام حجت کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک غیر ممکن نہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ ایک دم میں آسمان کے ایک کنارہ سے بجلی چمکتی اور دوسرے کنارہ تک پھیل جاتی ہے۔ اِسی طرح خدا کے حکم سے خدا کے رسولوں کو شہرت دی جاتی ہے اور خدا کے فرشتے زمین پر اُترتے اور سعید لوگوں کے دِلوں میں ڈالتے ہیں کہ جن راہوں کو تم نے اختیار کر رکھا ہے وہ صحیح نہیں ہیں تب ایسے لوگ راہ راست کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے امام وقت کی خبر ان لوگوں کو پہنچ جاتی ہے۔ بالخصوص یہ زمانہ تو ایسا زمانہ ہے کہ چند دنوں میں ایک نامی ڈاکو کی بھی بد نامی کے ساتھ تمام دنیا میں شہرت ہو سکتی ہے تو کیا خدا تعالیٰ کے بندے جن کے ساتھ ہر وقت خدا ہے وہ اِس دنیا میں شہرت نہیں پا سکتے اور مخفی رہتے ہیں اور خدا اُن کی شہرت پر قادر نہیں ہوتا * ۔ میں


* آج سے پچیس ۲۵ برس پہلے براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کا یہ الہام میری نسبت موجود ہے۔ یہ اُس زمانہ کا الہام ہے کہ جبکہ میں ایک پوشیدہ زندگی بسر کرتا تھا اور بجز میرے والد صاحب کے چند تعارف رکھنے والوں کے کوئی مجھ کو جانتا بھی نہیں تھا اور وہ الہام یہ ہے انت منّی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی۔ فحان ان تعان و تعرف بین الناس یعنی تو مجھ سے بمنزلہ میری توحید و تفرید کے ہے۔ پس وہ وقت آگیا ہے کہ تجھے ہر ایک قسم کی مدد دی جائے گی۔ اوردنیا میں تو عزت کے ساتھ شہرت دیا جائے گا۔ اور شہر ت دینے کے وعدہ کو توحید اور تفرید کے ساتھ ذکر کرنا اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جلال اور عزّت کے ساتھ شہرت پانا اصل حق خدائے واحد لا شریک کا ہے۔ پھرجس پر خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہووہ اپنی نہایت محویت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے قائم مقام ہو جاتا ہے اور رنگ دُوئی اس سے جاتا رہتا ہے تب خدا تعالیٰ اسی طرح اس کو عزّت اور جلال اور عظمت کے ساتھ شہرت دیتا ہے جیسا کہ وہ اپنے تئیں شہرت دیتا ہے کیونکہ توحیداور تفرید یہ حق پیدا کرتی ہے کہ وہ ایسی ہی عزت حاصل کرے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 171

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 171

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/171/mode/1up


دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا فضل ایسے طور سے میرے شامل حال ہے کہ میری اتمام حجت کے لئے اور اپنے نبی کریم کی اشاعت دین کے لئے خدا تعالیٰ نے وہ سامان مقرر کر رکھے ہیں کہ پہلے اِس سے کسی نبی کو میسر نہیں آئے تھے چنانچہ میرے وقت میں ممالک مختلفہ کے باہمی تعلقات بباعث سواری ریل اور تار اور انتظام ڈاک اور انتظام سفر بحری اور بَرّی اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ گویا اب تمام ممالک ایک ہی ملک کا حکم رکھتے ہیں بلکہ ایک ہی شہر کا حکم رکھتے ہیں اور ایک شخص اگر سیر کرنا چاہے تو تھوڑی مدت میں تمام دنیا کا سیر کرکے آسکتا ہے۔ ماسوا اس کے کتابوں کا لکھنا ایسا سہل اور آسان ہو گیا ہے کہ ایسی ایسی چھاپوں کی کلیں ایجاد ہو گئی ہیں کہ جس کسی ضخیم کتاب کے چند مجلد سو برس میں بھی نہیں لکھ سکتے تھے اس کے کئی لاکھ نسخے ایک دو برس میں لکھ سکتے ہیں اور تمام مُلک میں شائع ہو سکتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے تبلیغ کے لئے بھی اِس قدر آسانیاں ہو گئی ہیں کہ ہمارے مُلک میں آج سے سو برس پہلے اُن کا نام و نشان نہ تھا اور آج سے پہلے اگر پچاس برس پر نظر ڈالی جائے تو ثابت ہوگا کہ اکثر لوگ نا خواندہ اور جاہل تھے مگر اب بباعث کثرت مدارس کے جو دیہات میں بھی قائم کئے گئے ہیں اس قدر استعداد علمیّت لوگوں کو حاصل ہو گئی ہےؔ کہ وہ دینی کتابوں کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور میری طرف سے تبلیغ کی کارروائی یہ ہوئی ہے کہ میں نے پنجاب اور ہندوستان کے بعض شہروں جیسے امرتسر، لاہور، جالندھر، سیالکوٹ اور دہلی اور لدھیانہ وغیرہ میں بڑے بڑے مجمعوں میں خود جاکر خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچایا ہے اور ہزار ہا انسانوں کے رُوبرو اسلامی تعلیم کی خوبیاں پیش کی ہیں اور ستر ۰۷ کے قریب کتابیں عربی اور فارسی اوراُردو اور انگریزی میں حقّانیت اسلام کے بارہ میں جن کی جلدیں ایک لاکھ کے قریب ہونگی تالیف کرکے ممالک اسلام میں شائع کی ہیں اور اسی مقصد کے لئے کئی لاکھ اشتہار شائع * کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی ہدایت سے تین لاکھ


* ایک دفعہ ۱۶۰۰۰ سولہ ہزار اشتہار حقّانیت اسلام کے بارے میں انگریزی میں ترجمہ کرا کر ممالک یورپ اور امریکہ میں مَیں نے شائع کیا تھا جو کئی انگریزی اخباروں میں بھی شائع ہو گیا تھااور وہ اشتہارات ان مقامات یورپ اور امریکہ میں پہنچائے گئے تھے جہاں لوگ اسلامی خوبیوں سے بے خبر تھے اور ایک انگریز امریکہ کا رہنے والا وب نام جو ابھی اُن دِنوں میں مسلمان نہیں ہوا تھا اس کو بھی وہ اشتہار پہنچے تھے جن کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور اب تک مسلمان ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 172

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 172

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/172/mode/1up


سے زیادہ لوگ میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے آج تک توبہ کر چکے ہیں اور اس قدر سرعت سے یہ کارروائی جاری ہے کہ ہر ایک ماہ میں صدہا آدمی بیعت میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور ہمارے سلسلہ سے غیر ملکوں کے لوگ بے خبر نہیں ہیں بلکہ ممالک امریکہ اور یورپ کے دُور دراز مُلکوں تک ہماری دعوت پہنچ گئی ہے یہاں تک کہ امریکہ میں کئی لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور خود انہوں نے غیر معمولی زلزلوں کی پیشگوئیوں کو ہمارے نشانوں کا ثبوت دینے کے لئے امریکہ کے نامی اخباروں میں شائع کرایا ہے اور یورپ کے بعض لوگ بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں اور اسلامی بلاد کا تو کیا ذکر کریں کہ اب تک جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کچھ زیادہ تین لاکھ سے اس جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور ہزار ہا نشانوں سے لوگ اطلاع پا چکے ہیں اور اکثران میں صالح اور نیک بخت ہیں۔*

(۸)سواؔ ل

اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ نری خشک توحید مدار نجات نہیں ہو سکتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے علیحدہ ہو کر کوئی عمل کرنا انسان کو ناجی نہیں بنا سکتا۔ لیکن طمانیت قلب کے لئے عرض پر داز ہیں کہ عبد الحکیم خان نے جو آیات لکھی ہیں ان کا کیا مطلب ہے۔مثلاً


افسوس کہ ہماری جماعت کی ایمانداری اور اخلاص پر اعتراض کرنے والے دیانت اور راستبازی سے کام نہیں لیتے۔ اس جماعت میں بعض لوگوں نے اپنی استقامت کے وہ نمونے دکھائے ہیں جن کی اس زمانہ میں نظیر ملنا مشکل ہے مثلاً ایک خدا ترس اور منصف مزاج کومولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی استقامت پر نظر انصاف ڈالنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ کیا اس سے بڑھ کر کوئی شخص دنیا میں استقامت کا نمونہ دکھا سکتا ہے۔ مولوی صاحب موصوف ایک جلیل الشان فاضل علوم عربیہ میں تھے اور تمام عمر حدیث اور تفسیر کے درس میں بسر کی تھی اور ان کو الہام بھی ہوتا تھا اور پچاس ہزار کے قریب اُن کے پیرو اور شاگرد تھے اور دنیویؔ عزت بھی بہت رکھتے تھے یہاں تک کہ ریاست کابل کے امیروں کی نظر میں ایک بزرگوار اور شیخ الوقت تسلیم کئے گئے تھے اور گورنمنٹ انگریزی اور ریاست میں جاگیر رکھتے تھے انہوں نے میری سچائی ماننے پر اپنی جان دیدی۔ اُن کو بہت سمجھایاگیا کہ مُجھ سے انکار کریں پر انہوں نے کہا کہ میں نادان نہیں۔ میں بصیرت کی راہ سے ایمان لایا ہوں میں ان کو ترک نہیں کر سکتا مگر جان کو ترک کروں گا۔ امیر نے کئی دفعہ ان کو سمجھایا کہ آپ بزرگوار ہیں لوگ شورش کرتے ہیں مصلحتِ وقت سمجھ لیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دین کو دُنیا پر مقدم رکھتا ہوں میں اپنا ایمان ضائع کرنا نہیں چاہتا۔ میں جانتا ہوں جس سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 173

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 173

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/173/mode/1up


3 ۱؂ اور جیسا کہ یہ آیت 3 3 ۲؂۔ اور جیسا کہ یہ آیت 3 33 ۳؂۔

الجواب:۔ واضح ہو کہ قرآن شریف میں ان آیات کے ذکر کرنے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر اس کے جو رسول پر ایمان لایا جائے نجات ہو سکتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ خدائے واحد لاشرؔ یک اور یوم آخرت پر ایمان لایا جاوے نجات نہیں ہو سکتی۔* اور اللہ پر پور اایمان تبھی ہو سکتا ہے کہ اُسکے رسولوں پر ایمان لاوے۔ وجہ یہ کہ وہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور کسی چیز کا وجود بغیر وجود اُس کی صفات کے بپایۂ ثبوت نہیں پہنچتا۔ لہٰذا بغیر علم صفات باری تعالیٰ کے معرفت باری تعالیٰ ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ مثلاً یہ صفات اللہ تعالیٰ کے


میں نے بیعت کی ہے وہ حق پر ہے اور تمام دنیا سے بہتر ہے اور آنے والا مسیح یہی ہے اور عیسیٰ مر گیا تب مولویوں نے شور مچایا کہ کافر ہو گیا کیوں قتل نہ کیا جاوے مگر امیر نے پھر بھی قتل کرنے میں تاخیر کی۔ آخر یہ حجت پیش کی گئی کہ یہ لوگ جہاد کے منکر ہیں کہ اب غیر قوموں سے تلوار کے ساتھ دین کے لئے لڑنا نہیں چاہئے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اس الزام سے انکار نہ کیا اور کہا کہ یہی وعدہ ہے کہ مسیح کو خدا آسمان سے مدد دے گا۔ اب جہاد حرام ہے اورپھر وہ نہایت بے رحمی سے سنگسار کئے گئے اور اُن کے عیال گرفتار کرکے کسی دُور دراز گوشۂ ریاست کابل میں پہنچائے گئے اور اُن کی جماعت کے آدمی اس سلسلہ میں داخل ہو گئے۔ اب حیا اور شرم سے سوچنا چاہئے کہ ایک فاضل جلیل سے جو دنیا اور دین میں عزت رکھتا تھا جس نے میرے لئے جان دی عبد الحکیم کو کیانسبت ہے اگر وہ مرتد ہو گیا تو ایسے آدمی کے ارتداد سے جو علوم عربیہ سے بالکل محروم ہے دین کو کیا نقصان پہنچا ایسا ہی عمادالدین جو مولوی کہلاتا تھا مرتد ہو کر عیسائی ہو گیا تھا اس نے اسلام کا کیا بگاڑا تھا۔ تایہ خیال کریں کہ یہ بھی کچھ بگاڑے گا۔ اِسی طرح دھرمپال جو انہیں دنوں میں اسلام سے مُرتد ہو گیا اس نے کیا بگاڑا*۔ ؂

درکارخانۂ عشق از کفر ناگزیر است آتش کرابسو زد گر بولہب نباشد منہ


* قرآن شریف میں عادت اللہ ہے کہ بعض جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض جگہ اجمال سے کام لیا جاتا ہے اور پڑھنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مجمل آیتوں کے ایسے طور سے معنی کرے کہ آیات مفصلہ سے مخالف نہ ہو جائیں۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے تصریح سے فرما دیا کہ شرک نہیں بخشا جائے گا مگر قرآن شریف کی یہ آیت کہ3 ۴ ؂ اس آیت سے مخالف معلوم ہوتی ہے جس میں لکھا ہے کہ شرک نہیں بخشا جائے گا۔ پس یہ الحاد ہوگا کہ اس آیت کے وہ معنی کئے جائیں کہ جو آیات محکمات بیّنات کے مخالف ہیں۔منہ




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 174

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 174

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/174/mode/1up


کہ وہ بولتا ہے سنتا ہے پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔ رحمت یا عذاب کرنے پر قدرت رکھتا ہے بغیر اس کے کہ رسول کے ذریعہ سے اُن کا پتہ لگے کیونکر اُن پر یقین آسکتا ہے اور اگر یہ صفات مشاہدہ کے رنگ میں ثابت نہ ہوں تو خدا تعالیٰ کا وجود ہی ثابت نہیں ہوتا تو اِس صورت میں اس پر ایمان لانے کے کیا معنی ہوں گے اور جو شخص خداپر ایمان لاوے ضرور ہے کہ اُس کے صفات پر بھی ایمان لاوے اور یہ ایمان اُس کو نبیوں پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرے گا۔ کیونکہ مثلاً خدا کا کلام کرنا اور بولنا بغیر ثبوت خدا کی کلام کے کیوں کر سمجھ آسکتا ہے اور اس کلام کو پیش کرنے والے مع اس کے ثبوت کے صرف نبی ہیں۔

پھر یہ بھی واضح ہو کہ قرآن شریف میں دو قسم کی آیات ہیں ایک محکمات اور بیّنات جیسا کہ یہ آیت33 33۔3 3 ۱؂ یعنی جولوگ ایسا ایمان لانا نہیں چاہتے جو خدا پر بھی ایمان لاویں اور اس کے رسولوں پر بھی اور چاہتے ہیں کہ خدا کو اس کے رسولوں سے علیحدہ کر دیں اور کہتے ہیں کہ بعض پر ہم ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں یعنی خدا پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں پر نہیںیا بعض رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر نہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ بین بین راہ اختیار کر لیں یہی لوگ واقعی طور پر کافر اور پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ یہ تو آیات محکمات ہیں جن کی ہم ایک بڑی تفصیل ابھی لکھ چکے ہیں۔

دوسرؔ ی قسم کی آیات متشابہات ہیں جن کے معنی باریک ہوتے ہیں اور جو لوگ راسخ فی العلم ہیں اُن لوگوں کو اُن کا علم دیا جاتا ہے اور جن لوگوں کے دِلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ آیات محکمات کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور متشابہات کی پیروی کرتے ہیں اور محکمات کی علامت یہ ہے کہ محکمات آیات خدا تعالیٰ کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور خدا تعالیٰ کا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 175

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 175

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/175/mode/1up


کلام اُن سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اُن کے معنی کھلے کھلے ہوتے ہیں اور اُن کے نہ ماننے سے فساد لازم آتا ہے مثلاً اسی جگہ دیکھ لو کہ جو شخص محض خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اُس کے رسولوں پر ایمان نہیں لاتا اُس کو خدا تعالیٰ کی صفات سے منکر ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً ہمارے زمانہ میں برہمو جو ایک نیا فرقہ ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر نبیوں کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کے کلام سے منکر ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سنتا ہے تو بولتا بھی ہے۔ پس اگر اس کا بولنا ثابت نہیں تو سُننا بھی ثابت نہیں۔ اس طرح پر ایسے لوگ صفات باری سے انکار کرکے دہریوں کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور صفاتِ باری جیسے ازلی ہیں ویسے ابدی بھی ہیں اور ان کو مشاہدہ کے طور پر دکھلانے والے محض انبیاء علیہم السلام ہیں اور نفی صفات باری نفی وجود باری کو مستلزم ہے۔ اِس تحقیق سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لئے انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانا کس قدر ضروری ہے کہ بغیر اُن کے خدا پر ایمان لانا ناقص اور نا تمام رہ جاتا ہے اور نیز آیات محکمات کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ اُن کی شہادت نہ محض کثرت آیات سے بلکہ عملی طور پر بھی ملتی ہے۔ یعنی خدا کے نبیوں کی متواتر شہادت اُن کے بارہ میں پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف اور دوسرے نبیوں کی کتابوں کو دیکھے گا۔ اُس کو معلوم ہوگا کہ نبیوں کی کتابوں میں جس طرح خدا پر ایمان لانے کی تاکید ہے ایسا ہے اُس کے رسولوں پر بھی ایمان لانے کی تاکید ہے اور متشابہات کی یہ علامت ہے کہ اُن کے ایسے معنی ماننے سے جو مخالف محکمات کے ہیں فساد لازم آتا ہے اور نیز دوسری آیات سے جو کثر ت کے ساتھ ہیں مخالف پڑتی ہیں خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض ممکنؔ نہیں اِس لئے جو قلیل ہے بہرحال کثیر کے تابع کرنا پڑتا ہے اور میں لکھ چکا ہوں کہ اللہ کے لفظ پر غور کرنا اس وسوسہ کو مٹا دیتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے اپنے بیان میں اللہ کے لفظ کی یہ تصریح ہے کہ اللہ وہ خدا ہے جس نے کتابیں بھیجی ہیں اور نبی بھیجے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا کہ وہ ان مدارج اور مراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 176

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 176

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/176/mode/1up


کیونکہ جن منازل تک بباعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے۔ اور جبکہ خدا تعالیٰ نے اسم اللہ کو اپنے تمام صفات اور افعال کا موصوف ٹھہرایا ہے تو اللہ کے لفظ کے معنے کرنے کے وقت کیوں اس ضروری امر کو ملحوظ نہ رکھا جاوے۔ ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ قرآن شریف سے پہلے عرب کے لوگ اللہ کے لفظ کو کن معنوں پر استعمال کرتے تھے۔ مگر ہمیں اِس بات کی پابندی کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں اول سے آخر تک اللہ کے لفظ کو انہیں معنوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ وہ رسولوں اور نبیوں اور کتابوں کا بھیجنے والا اور زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والااور فلاں فلاں صفت سے متصف اور واحد لا شریک ہے۔ ہاں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کا کلام نہیں پہنچا اور وہ بالکل بے خبر ہیں اُن سے اُن کے علم اور عقل اور فہم کے موافق مواخذہ ہوگا۔ لیکن یہ ہر گز ممکن نہیں کہ وہ ان مدارج اورمراتب کو پالیں جو رسول کریم کی پیروی سے لوگوں کو ملیں گے۔ کیونکہ جن منازل تک بباعث پیروی نور رسالت پیروی کرنے والے پہنچ سکتے ہیں محض اندھے نہیں پہنچ سکتے اور یہ خدا کا فضل ہے جس پر چاہے کرے۔*

پھر اس ظلم کو تو دیکھو کہ باوجود اس کے کہ قرآن شریف کی صدہا آیتیں بلند آواز سے کہہ رہی ہیں کہ نری توحید موجب نجات نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ساتھ رسول کریم پر ایمان لاناشرط ہے پھر بھی میاں عبد الحکیم خان ان آیات کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے اور یہودیوں کی طرح ایک دو آیت جو مجمل طور پر واقع ہیں اُن کے اُلٹے معنے کرکے بار بار پیش کرتے ہیں۔ ہر ایک عقلمندسمجھ سکتا ہے کہ اگر ان آیات کے یہی معنے ہیں جو عبد الحکیم پیش کرتا ہے تب اسلام دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اورؔ جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احکام مثل نماز روزہ وغیرہ کے سکھلائے ہیں وہ سب کچھ بیہودہ اور لغو اور عبث ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ اگر یہی بات ہے کہ ہر ایک شخص اپنی خیالی توحید سے


* اگر اس مجمل آیت کے یہ معنی کئے جائیں تو کیا وجہ کہ اس دوسری مجمل آیت یعنی 3 3 ۱؂ کی رو سے اعتقاد یہ رکھا جائے کہ شرک بھی بخشا جائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 177

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 177

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/177/mode/1up


نجات پا سکتا ہے تو پھر نبی کی تکذیب کچھ بھی گناہ نہیں اور نہ مرتد ہونا کسی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ پس یاد رہے کہ قرآن شریف میں کوئی بھی ایسی آیت نہیں کہ جو نبی کریم کی اطاعت سے لاپروا کرتی ہو اور اگر بالفرض وہ دو تین آیتیں ان صدہا آیتوں کے مخالف ہوتیں تب بھی چاہئے تھا کہ قلیل کو کثیر کے تابع کیا جاتا نہ کہ کثیر کو بالکل نظر انداز کرکے ارتداد کا جامہ پہن لیں۔ اور اس جگہ آیات کلام اللہ میں کوئی تناقض بھی نہیں صرف اپنے فہم کا فرق اور اپنی طبیعت کی تارکی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ کے لفظ کے وہ معنی کریں جو خدا تعالیٰ نے خود کئے ہیں نہ کہ اپنی طرف سے یہودیوں کی طرح اور معنی بناویں۔

ماسوا اس کے خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسولوں کی قدیم سے یہ سُنّت ہے کہ وہ ہر ایک سرکش اور سخت منکر کو اس پیرایہ سے بھی ہدایت کیا کرتے ہیں کہ تم صحیح اور خالص طور پر خدا پر ایمان لاؤ۔ اُس سے محبت کرو۔ اُس کو واحد لاشریک سمجھو تب تمہاری نجات ہو جائے گی اور اس کلام سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پورے طور سے خدا پر ایمان لائیں گے تو خدا اُن کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دے دے گا۔ قرآن شریف کو یہ لوگ نہیں پڑھتے۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ خدا پر سچا ایمان لانا اُس کے رسول پر ایمان لانے کیلئے موجب ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کا سینہ اسلام کو قبول کرنے کیلئے کھولا جاتا ہے اِس لئے میرا بھی یہی دستور ہے کہ جب کوئی آریہ یابرہمو یا عیسائی یا یہودی یا سکھ یا اور منکر اسلام کج بحثی کرتا ہے اور کسی طرح باز نہیں آتا تو آخر کہہ دیا کرتاہوں کہ تمہاری اس بحث سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا تم خدا پر پورے اخلاص سے ایمان لاؤ اس سے وہ تمہیں نجات دے گا۔ مگر اس کلمہ سے میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بغیر متابعت نبی کریم کے نجات مل سکتی ہے بلکہ میرا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو شخص پورے صدق سے خدا پر ایمان لائے گا خدا اُس کو توفیق بخش دے گا اور اپنے رسول پر ایمان لانے کے لئے اُس کا سینہ کھول دے گا۔ ایسا ہی میں نے تجربہ سے دیکھا ہے کہؔ ایک نیکی دوسری نیکی کی توفیق بخشتی ہے اور ایک نیک عمل دوسرے نیک عمل کی طاقت دے دیتا ہے۔ تذکرۃ الاولیاء میںیہ ایک عجیب حکایت لکھی ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ فرماتے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 178

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 178

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/178/mode/1up


ہیں کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند دن بارش رہی اور بہت مینہ برسا۔ مینہ تھم جانے کے بعد میں اپنے کوٹھے پر کسی کام کے لئے چڑھا اور میرا ہمسایہ ایک بڈھا آتش پرست تھا وہ اُس وقت اپنے کوٹھے پر بہت سے دانے ڈال رہا تھا۔ مَیں نے سبب پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ چند روز سے بباعث بارش پرندے بھوکے ہیں مجھے اُن پر رحم آیا اس لئے میںیہ دانے اُن کے لئے ڈال رہا ہوں تا مجھے ثواب ہو۔ میں نے جواب دیا کہ اے بڈھے تیرا یہ خیال غلط ہے۔ تو مُشرک ہے اور مُشرک کو کوئی ثواب نہیں ملتاکیونکہ تو آتش پرست ہے۔ یہ کہہ کر میں نیچے اُتر آیا۔ کچھ مُدت کے بعد مجھے حج کرنے کا اتفاق ہوا اور میں مکہ معظمہ پہنچا اور جب میں طواف کر رہا تھا تو میرے پیچھے سے ایک طواف کرنے والے نے مجھے میرا نام لے کر آواز دی۔ جب میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہی بڈھا تھا جو مشرف باسلام ہو کرطواف کر رہا تھا۔ اُس نے مجھے کہا کہ کیا اُن دانوں کا جو میں نے پرندوں کو ڈالے تھے مجھے ثواب ملایا نہ ملا؟ پس جبکہ پرندوں کو دانہ ڈالناآخر کھینچ کر اسلام کی طرف لے آتا ہے تو پھرجو شخص اس سچے بادشاہ قادر حقیقی پر ایمان لاوے تو کیا وہ اسلام سے محروم رہے گا۔ ہر گز نہیں ؂

عاشق کہ شدکہ یار بحالش نظر نہ کرد

اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست

یاد رہے کہ اول تو توحید بغیر پیروی نبی کریم کے کامل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ ابھی ہم بیان کر آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات جو اس کی ذات سے الگ نہیں ہو سکتیں بغیر آئینہء وحی نبوت کے مشاہدہ میںآ نہیں سکتیں۔ اُن صفات کو مشاہدہ کے رنگ میں دکھلانے والا محض نبی ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے اگر بفرض محال حصول اُن کا ناقص طور پر ہو جائے تو وہ شرک کی آلائش سے خالی نہیں جب تک کہ خدا اسی مغشوش متاع کو قبول کرکے اسلام میں داخل نہ کرے کیونکہ جو کچھ انسان کو خدا تعالیٰ سے اُس کے رسول کی معرفت ملتا ہے وہ ایک آسمانی پانی ہے اس میں اپنےؔ فخر اور عُجب کو کچھ دخل نہیں لیکن انسان اپنی کوشش سے جو کچھ حاصل کرتا ہے۔ اس میں ضرور کوئی شرک کی آلائش پیدا ہو جاتی ہے۔ پس یہی حکمت تھی کہ توحیدکو سکھلانے کے لئے رسول بھیجے گئے اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 179

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 179

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/179/mode/1up


انسانوں کی محض عقل پر نہیں چھوڑا گیا تا توحید خالص رہے اورانسانی عُجب کا شرک اس میں مخلوط نہ ہو جائے اور اسی وجہ سے فلاسفہ ضالہ کو توحید خالص نصیب نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ رعونت اور تکبر اور عُجب میں گرفتار رہے اور توحید خالص نیستی کو چاہتی ہے اور وہ نیستی جب تک انسان سچے دل سے یہ نہ سمجھے کہ میری کوشش کا کچھ دخل نہیں یہ محض انعام الٰہی ہے حاصل نہیں ہو سکتی۔ مثلاً ایک شخص تمام رات جاگ کر اور اپنے نفس کو مصیبت میں ڈال کر اپنے کھیت کی آبپاشی کر رہا ہے اور دوسرا شخص تمام رات سوتا رہا اور ایک بادل آیا اور اُس کے کھیت کو پانی سے بھر دیا۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا وہ دونوں خدا کا شکر کرنے میں برابر ہوں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ زیادہ شکر کرے گا جس کے کھیت کو بغیر اُس کی محنت کے پانی دیا گیا۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کے کلام میں بار بار آیا ہے کہ اس خدا کا شکر کرو جس نے رسول بھیجے اور تمہیں توحیدسکھائی۔

(۹)سوال

جن لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ آنحضرتؐ کا خلاف کیا یاکرتے ہیں یعنی آنجناب کی رسالت سے منکر ہیں اور توحید الٰہی کے قائل ہیں نیک عمل بجا لاتے ہیں اوربد عملوں سے پرہیز کرتے ہیں اُن کی نسبت کیا عقیدہ رکھا جائے۔

الجواب:۔ انسان کی نیک نیتی تسلی پانے پر ثابت ہوتی ہے پس جبکہ بجز اسلام کے کسی مذہب میں تسلی نہیں مل سکتی تو نیک نیتی کا ثبوت کیا ہوا۔ مثلاً عیسائی مذہب کا یہ حال ہے کہ وہ کُھلے کُھلے طور پر ایک انسان کو خدا بنا رہے ہیں اور انسان بھی وہ کہ جو تختہ مشق مصائب ہے*


* کیا کوئی کانشنس یا نورقلب اِس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ ایک عاجز انسان جو گذشتہ نبیوں سے بڑھ کر ایک ذرّہ بھر کوئی کام دکھلا نہیں سکا بلکہ ذلیل یہودیوں سے ماریں کھاتا رہا۔ وہی خدا اور وہی زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے اور کیا کوئی عقل قبول کر سکتی ہے کہ خدائے قادر باوجود اپنی بے انتہا طاقتوں کے کسی دوسرے کی مدد کا محتاج رہے۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ عیسیٰ کیسا خدا تھا کہ جو اپنی مخلصی کیلئے تمام رات رو رو کر دعا کرتا رہا تعجب کہ جبکہ تینوں خدا اس کے اندر تھے تو وہ چو ۴ تھا خدا کون تھاجس کی جناب میں اُس نے رو رو کر ساری رات دُعا کی اور پھر وہ دُعا قبول بھی نہ ہوئی۔ ایسے خدا پر کیا امید رکھی جائے جس پر ذلیل یہودی غالب آئے اور اُس کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک سُولی پر نہ چڑھا دیا۔ آریوں کا تو گویا کوئی خدا ہی نہیں انادی جو ہوئے۔ کیا یہ ہدایت انسان کو کچھ تسلی دے سکتی ہے۔ مگر اسلام وہ خدا پیش کرتا ہے جس پر انسانی فطرت اور تمام انبیاؑ ء کا اتفاق ہے جو اسلام کے کامل پرستاروں پر اپنی طاقتیں ظاہر کرتا ہے۔منہ

* اسلام ایک ایسا فطرت کے موافق مذہب ہے کہ اسکی سچائی ایک جاہل اور ناخواندہ ہندوکو بھی دو منٹ میں سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ جو کچھ اسکے مقابل پر دوسری قوموں نے قبول کیا ہوا ہے وہ تمام عقائد قابل شرم اورایک غمگین کے ہنسانے کا ذریعہ ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 180

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 180

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/180/mode/1up


اور آریہ سماج والے اپنے پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل نہیں لائے کیونکہ اُن کے نزدیک وہ خالق نہیں تا مخلوق پر نظر کرکے خالق کی شناخت ہو اور اُن کے مذہب کی رو سے خدا تعالیٰ معجزات نہیں دکھلاتا اور نہ ویدکے زمانہ میں دکھلائے تا معجزوں کے ذریعہ سے پرمیشر کا ثبوت ملے اورؔ اُن کے پاس اِس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ وہ صفات جو پرمیشر کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں فی الحقیقت اُس میں موجود ہیں جیسے علم غیب اور سننا اور بولنا اور قدرت رکھنا اور دیالوہونا۔ پس اُن کا پرمیشر صرف فرضی پرمیشر ہے۔ یہی عیسائیوں کا حال ہے۔ اُن کے خدا کے الہام پر بھی مہر لگ گئی ہے۔ پس ایسے پرمیشر یا خدا پر ایمان لانے سے تسلی کیونکر ہو اور جو شخص اپنے خدا پر کامل یقین نہیں رکھتا وہ کیونکر کامل طور پر خدا کی محبت کر سکے اور کیونکر شرک سے خالی ہو سکے خدا نے اپنے رسول نبی کریم کی اتمام حجت میں کسر نہیں رکھی وہ ایک آفتاب کی طرح آیا اورہر ایک پہلو سے اپنی روشنی ظاہر کی۔ پس جو شخص اس آفتاب حقیقی سے مُنہ پھیرتا ہے اُس کی خیر نہیں ہم اُس کو نیک نیت نہیں کہہ سکتے۔ کیا جو شخص مجذوم ہے اور جذام نے اُس کے اعضاء کھا لئے ہیں وہ کہہ سکتا ہے کہ میں مجذوم نہیں یا مجھے علاج کی حاجت نہیں اور اگر کہے تو کیا ہم اس کو نیک نیت کہہ سکتے ہیں۔ ماسواء اس کے اگر فرض کے طورپر کوئی ایسا شخص دنیامیں ہو کہ وہ باوجود پوری نیک نیتی اورایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دنیاکے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اس کاحساب خدا کے پاس ہے مگر ہم نے اپنی تمام عمر میں ایسا کوئی آدمی دیکھا نہیں۔* اس لئے ہم اس بات کو قطعاً محال جانتے ہیں کہ کوئی شخص عقل اور انصاف کی رو سے کسی دوسرے مذہب کو اسلام پر ترجیح دے سکے۔ نادان اور جاہل لوگ نفس امارہ کی تعلیم سے ایک بات سیکھ لیتے ہیں کہ صرف توحید کافی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ مگر یاد رہے کہ توحید کی ماں نبی ہی ہوتاہے جس سے توحیدپیدا ہوتی ہے اور خدا کے وجود کا اُسی سے پتہ لگتا ہے اور خدا تعالیٰ سے زیادہ


* اسلام ایک ایسا فطرت کے موافق مذہب ہے کہ اس کی سچائی ایک جاہل اور ناخواندہ ہندوکو بھی د۲و منٹ میں سمجھ میں آسکتی ہے کیونکہ جو کچھ اس کے مقابل پر دوسری قوموں نے قبول کیا ہوا ہے وہ تمام عقائد قابل شرم اورایک غمگین کے ہنسانے کا ذریعہ ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 181

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 181

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/181/mode/1up


اتمام حجت کو کون جانتا ہے اُس نے اپنے نبی کریم کی سچائی ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان نشانوں سے بھر دیا ہے اور اب اس زمانہ میں بھی خدا نے اس ناچیز خادم کو بھیج کر ہزارہا نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے ظاہر فرمائے ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں تو پھر اتمام حجت میں کونسی کسر باقی ہے۔ جس شخص کو مخالفت کرنے کی عقل ہے وہ کیوں موافقت کی راہ کو سوچ نہیں سکتا اور جورات کو دیکھتا ہے کیوں اُس کو روز روشن میں نظر نہیں آتا۔ حالاؔ نکہ تکذیب کی راہوں کی نسبت تصدیق کی راہ بہت سہل ہے ہاں جو شخص مسلوب العقل کی طرح ہے اور انسانی قوتوں سے کم حصہ رکھتا ہے اس کا حساب خدا کے سپرد کرنا چاہئے اس کے بارہ میں ہم کلام نہیں کر سکتے۔ وہ اُن انسانوں کی طرح ہے جو خورد سالی اور بچپن میں مر جاتے ہیں مگر ایک شریر مکذب یہ عذر نہیں کر سکتا کہ میں نیک نیتی سے تکذیب کرتا ہوں۔ دیکھنا چاہئے کہ اس کے حواس اس لائق ہیں یا نہیں کہ مسئلہ تو حید اور رسالت کو سمجھ سکے۔ اگر معلوم ہوتا ہے کہ سمجھ سکتا ہے مگر شرارت سے تکذیب کرتا ہے تو وہ کیونکر معذور رہ سکتا ہے۔ اگر کوئی آفتاب کی روشنی کو دیکھ کر یہ کہے کہ دن نہیں بلکہ رات ہے تو کیا ہم اُس کو معذور سمجھ سکتے ہیں۔ اِسی طرح جو لوگ دانستہ کج بحثی کرتے ہیں اور اسلام کے دلائل کو توڑ نہیں سکتے کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ معذور ہیں۔ اور اسلام تو ایک زندہ مذہب ہے جو شخص زندہ اور مُردہ میں فرق کر سکتا ہے وہ کیوں اسلام کو ترک کرتا اور مُردہ مذہب کو قبول کرتا ہے۔* خداتعالیٰ اس زمانہ میں بھی اسلام کی تائید میں بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے اور جیسا کہ اس بارہ میں مَیں خود صاحب تجربہ ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اگر میرے مقابل پر تمام دنیا کی قومیں جمع ہو جائیں اور اس بات کا بالمقابل امتحان ہو کہ کس کو خدا غیب کی خبریں دیتا ہے اور کس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور کِس کی مدد کرتا ہے اور کس کے لئے بڑے بڑے نشان دکھاتا ہے تو میں خدا


* جو شخص بے دلیل ایک انسان کو خدا بناتا ہے یا بے دلیل خدا کو خالق ہونے سے جواب دیتا ہے کیا وہ اسلام کی سچائی کے صاف صاف دلائل سمجھ نہیں سکتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 182

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 182

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/182/mode/1up


کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی غالب رہوں گا۔ کیا کوئی ہے؟!! کہ اس امتحان میں میرے مقابل پر آوے۔ ہزار ہا نشان خدا نے محض اس لئے مجھے دئے ہیں کہ تا دشمن معلوم کرے کہ دین اسلام سچا ہے۔ میں اپنی کوئی عزت نہیں چاہتا بلکہ اُس کی عزت چاہتا ہوں جس کے لئے مَیں بھیجا گیا ہوں۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ فلاں فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور اپنی جہالت سے ایک دو پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ شریر آدمی پہلے نبیوں کے وقت میں ایسا ہی کرتے آئے ہیں۔ مگر وہ آفتاب پر تھوکنا چاہتے ہیں اور اپنے جھوٹ اورؔ افترا سے اپنی بات کو رنگ دے کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اُن کو خدا تعالیٰ کی سنت کی خبر نہیں۔ ان کو خدا تعالیٰ کی کتابوں کا علم نہیں یا کسی کو علم ہے اور محض شرارت سے ایسا کہتا ہے۔ اُن کے نزدیک تو گویا یونس نبی بھی جھوٹا تھا جس کی قطعی پیشگوئی جس کے ساتھ کوئی شرط نہ تھی پوری نہ ہوئی۔ مگر میری دو پیشگوئیاں جن کو وہ بار بار پیش کرتے ہیں یعنی آتھم اور احمد بیگ کے داماد کی نسبت وہ اپنے شرائط کے لحاظ سے پوری ہو گئی ہیں کیونکہ اُن کے ساتھ شرطیں تھیں۔ ان شرطوں کے لحاظ سے تاخیر ہوئی۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ وعید کی پیشگوئیوں میں ضروری نہیں ہوتا کہ وہ پوری ہو جائیں۔ اس پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے اور میں اس بارہ میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ اس کی تفصیل میں میری کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آتھم تو بموجب پیشگوئی کے فوت ہو گیا اور احمد بیگ بھی بموجب پیشگوئی کے فوت ہو گیا۔ اب اُس کے داماد کی نسبت روتے ہیں اور وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت جو سنت اللہ ہے اُس کو بھول جاتے ہیں۔ اگر شرم اور حیا اور انصاف ہے تو دو۲ فردیں بنا کر ایک فرد میں وہ پیشگوئیاں لکھیں جو اُن کی دانست میں پوری نہیں ہوئیں اور دوسری فرد میں وہ پیشگوئیاں ہم تحریر کریں گے جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ تب ان کو معلوم ہوگا کہ وہ ایک دریا کے مقابل پر جو نہایت مصفّا ہے ایک قطرہ پیش کرتے ہیں جو اُن کے نزدیک مصفّا نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 183

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 183

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/183/mode/1up


غرض یہ امر سوچنے کے لائق ہے کہ صرف دو پیشگوئیوں پر اُن کا اتنا ماتم اور سیاپا ہے۔ مگر اس جگہ ہزار ہا پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں اور کئی لاکھ انسان ان کے گواہ ہیں۔ اگر ان کو خدا کا خوف ہے تو کیوں اُن سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ اس طرح تو یہودی بھی اب تک لکھتے ہیں کہ اکثر پیشگوئیاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ بار ہ ۲۱ حواریوں کے ۱۲با رہ تختوں کی پیشگوئی اور اُسی زمانہ میں اُن کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی وغیرہ ۔*

خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حجت تمام دنیا پر پوری ہو چکی ہے اور آپ کے انوار سورج سے زیادہ چمک رہے ہیں۔ پھر انکار کے ساتھ نیک نیتی کیونکر جمع ہو سکتی ہے اور جس شخص سے یہ بد عملی ظہور میں آئے کہ ایک کھلی کھلی سچائی کو رد کیا اُس کی نسبت ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ ؔ نیک اعمال بجا لاتا ہے۔ تیرہ سو برس سے یہ منادی ہو رہی ہے اور ہزار ہا اہل کرامات و خوارق اپنے اپنے زمانہ میں حجت پوری کر گئے ہیں۔ پس کیا اب تک حجت پوری نہیں ہوئی۔ آخر منکر کسی حد تک معذور ہونے کے لائق ہوتا ہے نہ کہ ہزارہا معجزات اور خوارق اور خدا کے نشان دیکھ کر اور تعلیم کو عمدہ پاکر اور خالص توحید اسلام میں ژ دیکھ کر پھر کہتا جائے کہ’’ ابھی میری تسلی نہیں ہوئی‘‘۔ء


حضرت موسیٰ کی توریت میں یہ پیشگوئی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو ملک شام میں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں پہنچائیں گے مگر یہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی حضرت موسیٰ بھی راہ میں فوت ہوئے اور بنی اسرائیل بھی راہ میں ہی مر گئے صرف اولاد اُ ن کی وہاں گئی۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی کہ بارہ ۲۱ تخت اُن کے حواریوں کو ملیں گے وہ پیشگوئی بھی غلط نکلی۔ اب موسیٰ اور عیسیٰ دونوں کی نبوت سے دستبردار ہو جاؤ۔ سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں قد یوعد ولا یوفٰی یعنی کبھی وعدہ دیا جاتا ہے اور اُس کا ایفا نہیں ہوتا۔ پھر وعید کی شرطی پیشگوئیوں پر اس قدر شور مچا ناکس قدر بے علمی پر دلالت کرتا ہے۔ منہ


ژ افسوس عبد الحکیم خان ایک اور کھلی کھلی ضلالت میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اسلام کے مفہوم میں یہ امر داخل نہیں ہے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاوے حالانکہ تمام مسلمانوں کے اتفاق سے اسلام تمام نہیں ہوتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لایا جائے۔ اسی وجہ سے قرآن شریف فرماتا ہے کہ


ء اہل یورپ کو کیونکر ہم بے خبر کہہ سکتے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کے ترجمے کرکے شائع کئے اور آپ تفسیریں لکھیں اور حدیث کی بڑی بڑی کتابوں کے ترجمے کئے اور لغت عرب کی بڑی بڑی کتابیں تالیف کیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اسلام کے کتب خانے یورپ میں موجود ہیں اس قدر مسلمانوں کے ہاتھ میں وہ کتابیں موجود نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 184

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 184

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/184/mode/1up


بالآخر ہم اس خاتمہ میں چند امور ضرور یہ بیان کرکے اس رسالہ کو ختم کرتے ہیں۔ از انجملہ ایک یہ کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خان اپنے رسالہ المسیح الدجال وغیرہ میں میرے پر یہ الزام لگاتا ہے کہ گویا میں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ جو شخص میرے پر ایمان نہیں لائے گا گو وہ میرے نام سے بھی بے خبر ہوگا اور گو وہ ایسے ملک میں ہوگا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی تب بھی وہ کافر ہو جائے گا اور دوزخ میں پڑے گا۔ یہ ڈاکٹر مذکور کا سراسر افترا ہے میں نے کسی کتاب یا کسی اشتہار میں ایسا نہیں لکھا۔ اُس پر فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی میری کتاب پیش کرے جس میں یہ لکھا ہے۔ یاد رہے کہ اُس نے محض چالاکی سے جیسا کہ اُس کی عادت ہے یہ افترا میرے پر کیا ہے۔ یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی جو شخص بکلّی نام سے بھی بے خبر ہے اُس پر مؤاخذہ کیونکر ہوسکتا ہے۔ ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طورپر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں۔ پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چکا ہے وہ قابل مؤاخذہ ہوگا کیونکہ خدا کے فرستادوں سے دانستہ مُنہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے کہ اُس پر کوئی گرفت نہ ہو۔ اس گناہ کا داد خواہ میں نہیں ہوں بلکہ ایک ہی ہے جس کی تائید کے لئے میں بھیجا گیا یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ میرا نہیں بلکہ اس کا نافرمان ہے جس نے میرے آنے کی پیشگوئی کی۔

ایسا ہی عقیدہ میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بارہ میں بھی یہی ہے کہ


ہر ایک اُمت سے بذریعہ اُن کے نبی کے یہ عہد لیا گیا تھا کہ جب حضرت خاتم الانبیاءؑ پیدا ہوں تو اُن پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا اور پھر اس پر ایک اور دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعوت اسلام کے خط اس وقت کے عیسائی بادشاہوں کی طرف لکھے تھے یعنی قیصر اور مقوقسؔ اور حبش کے بادشاہ کی طرف اس میں اَسْلِم8 تَسْلِم کا لفظ تھا۔ یعنی اسلام لا۔ اس سے تو سلامت رہے گا۔ حالانکہ بعض اُن عیسائی بادشاہوں میں سے موحد تھے۔ تثلیث کے قائل نہ تھے اور یہ ثابت شدہ امر ہے اور یہودی بھی تثلیث کے قائل نہ تھے پھر ان کو اسلام کی دعوت کیا معنے رکھتی تھی۔ وہ تو پہلے ہی اسلام میں داخل تھے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 185

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 185

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/185/mode/1up


جس شخص کو آنحضرؔ ت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچ چکی ہے اور وہ آپ کی بعثت سے مطلع ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارہ میں اس پر اتمام حجت ہو چکا ہے وہ اگر کفر پر مر گیا تو ہمیشہ کی جہنم کا سزاوار ہوگا۔

اور اتمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے۔ ہاں عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ چونکہ لوگ مختلف استعداد اور مختلف فہم پر مجبول ہیں اس لئے اتمام حجت بھی صرف ایک ہی طرز سے نہیں ہوگا۔ پس جو لوگ بوجہ علمی استعداد کے خدا کی براہین اور نشانوں اور دین کی خوبیوں کو بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور شناخت کر سکتے ہیں وہ اگر خدا کے رسول سے انکار کریں تو وہ کفر کے اول درجہ پرہوں گے اور جو لوگ اس قدر فہم اور علم نہیں رکھتے مگر خدا کے نزدیک اُن پر بھی اُن کے فہم کے مطابق حجت پوری ہو چکی ہے اُن سے بھی رسول کے انکار کا مواخذہ ہوگا مگر بہ نسبت پہلے منکرین کے کم۔ بہر حال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے یہ اُس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مؤاخذہ کے لائق ہوگا۔ ہاں چونکہ شریعت کی بنیاد ظاہر پر ہے اس لئے ہم منکر کو مومن نہیں کہہ سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مواخذہ سے بری ہے اور کافر منکر کو ہی کہتے ہیں کیونکہ کافر کا لفظ مومن کے مقابل پر ہے اور کفر دو قسم پر ہے۔

(اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہی کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے کے خدا اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 186

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 186

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/186/mode/1up


رسولؔ کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوص صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذّب اور منکر ہے تو گو شریعت نے (جس کی بنا ظاہرپر ہے) اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اُس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھربھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیت3 ۱؂ قابل مواخذہ نہیں ہوگا۔ ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم اُس کی نسبت نجات کا حکم دیں اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوںیہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا۔ ہمیں دعوےٰ سے کہنا نہیں چاہئے کہ فلاں شخص پر اتمام حجت نہیں ہوا ہمیں کسی کے باطن کا علم نہیں ہے اور چونکہ ہر ایک پہلو کے دلائل پیش کرنے اور نشانوں کے دکھلانے سے خدا تعالیٰ کے ہر ایک رسول کا یہی ارادہ رہا ہے کہ وہ اپنی حجت لوگوں پر پوری کرے اور اس بارے میں خدا بھی اس کا موید رہاہے اس لئے جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر حجت پوری نہیں ہوئی* وہ اپنے انکارکا ذمہ وار آپ ہے اور اس بات کا بار ثبوت اُسی کی گردن پر ہے اور وہی اس بات کا جواب دِہ ہوگا کہ باوجود دلائل عقلیہ اور نقلیہ اور عمدہ تعلیم اورآسمانی

* اس مقام میں یہ بھی تو دیکھناچاہئے کہ جس دین کو ایسا شخص اختیار کر رہا ہے وہ دین بمقابلہ اسلام کس قسم کی توحیداورعظمت حضرت باری پیش کرتاہے عجیب بات ہے کہ ایسے لوگ جن کے دین میں نہ خدا کی عظمت ہے نہ خدا کی توحیدنہ خدا کی شناخت کی کوئی راہ، وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر دین اسلام کی حجت پوری نہیں ہوئی ایک عیسائی جوصرف ایک عاجز انسان کو خدا مانتا ہے یا ایک آریہ جس کے نزدیک نہ خدا خالق ہے نہ تازہ نشانوں سے اپناثبوت دے سکتا ہے وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ بہ نسبت اسلام میرا دین اچھا ہے کیا وہ اپنے مذہب کی خوبی دکھلانے کے لئے نیوگ کو پیش کرے گا جس میں باوجود زندہ ہونے ایک عورت کے خاوند کے دوسراشخص اُس سے ہم بستر ہو سکتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 187

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 187

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/187/mode/1up


نشانوں اور ہر ایک قسم کی رہنمائی کے کیوں اُس پر حجت پوری نہیں ہوئی یہ بحث محض فضول اورفرضی بکواس ہے کہ جس پر حجت پوری نہیں ہوئی وہ باوجود اس کے کہ اُس نے اسلام پر اطلاع پائی انکار کی حالت میں نجات پا جائے گا بلکہ ایسے تذکرہ میں خدا تعالیٰ کی ہتک ہے کیونکہ جس قادر توانا نے اپنے رسول کو بھیجا اُس کی اس میں کسر شان ہے اور نیز تخلف وعدہ لازم آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اُس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ میں اپنی حجت پوری کروں گا۔ پھرؔ بھی وہ مکذّبین پر اپنی حجت پوری نہیں کر سکا اور اُنہوں نے اُس کے رسول کی تکذیب بھی کی اورپھر نجات بھی پا گئے اور ہم جب خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھتے ہیں جو اُس نے دین اسلام کے لئے ظاہر کئے اورپھر ہم دلائل عقلیہ اور نقلیہ کو دیکھتے اور ہزارہا خوبیاں اسلام میں پاتے ہیں جو غیر قوموں کے مذاہب میں نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف ترقی کرنے کا دروازہ محض اسلام میں ہی کھلا دیکھتے ہیں اور دوسرے مذاہب کو ایسی حالت میں پاتے ہیں کہ وہ یا تو مخلوق پرستی میں گرفتار ہیں اور یا خدا تعالیٰ کو خالق الکل اور مبدء الکل اور سرچشمہ کل فیوض کا نہیں مانتے تو ہمیں ایسے لوگوں پر افسوس آتا ہے جو ان بیہودہ باتوں کو دنیا میں پھیلاتے ہیں کہ جو شخص اسلام پر اطلاع تو رکھتا ہو مگر اس پر اتمام حجت نہ ہو وہ نجات پائے گا یہ ظاہر ہے کہ صحیح واقعات کو نہ ماننا گو عمداً نہ ہو تب بھی وہ نقصان رساں ہوتا ہے۔ مثلاً طبیبوں نے یہ اشتہار دیا ہے کہ آتشک زدہ عورت کے نزدیک مت جاؤ اور ایک شخص نے ایسی عورت سے صحبت کی اب اُس کا یہ کہنا بے فائدہ ہوگا کہ میں طبیبوں کے اس اشتہار سے بے خبر تھا مجھے کیوں آتشک ہو گئی۔ باوانا نک صاحب نے سچ کہا ہے۔ ع مند*ے کمیں نانکا جد کد منداہو۔

اے نادانو! جبکہ خدا نے اپنی سنت کے موافق اپنے دین قویم کی حجت پوری کر دی تو اب اس میں شبہات کو دخل دینا اور باوجود خدا کے اتمام حجت کے بیہودہ باتوں کو پیش کرنا کیا ضرورت ہے۔ اگر درحقیقت خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا ہوگا کہ اُس پر اتمام حجت


* یعنی اے نانک بُرے کاموں سے آخر برائی پیش آتی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 188

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 188

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/188/mode/1up


نہیں ہوا تو اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اِس بحث کی ضرورت نہیں ہاں جو اسلام سے محض بے خبر ہے اگر بے خبری میں مر جاوے جیسے نابالغ بچے اور مجانین یا کسی ایسے ملک کے رہنے والے جہاں اسلام نہیں پہنچا وہ معذور ہیں۔

از انجملہ یہ امر قابل تذکرہ ہے کہ عبد الحکیم خان نے اپنے دوسرے ہم جنسوں کی پیروی کرکے میرے پر یہ الزام لگائے ہیں کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں اور میں دجال ہوں اور حرامخور ہوں اور خائن ہوں اور اپنے رسالہ المسیح الدجال میں طرح طرح کی میری عیب شماری کی ہے چنانچہ میرؔ ا نام شکم پرست نفس پرست متکبر دجال شیطان جاہل مجنون کذّاب سُست حرامخور عہد شکن خائن رکھا ہے اور دوسرے کئی عیب لگائے ہیں جو اُس کی کتاب المسیح الدجال میں لکھے ہوئے ہیں اور یہی تمام عیب ہیں جو اب تک یہودی حضرت عیسیٰ پر لگاتے ہیں۔ پس یہ خوشی کی بات ہے کہ اس اُمت کے یہودیوں نے بھی وہی عیب میرے پر لگائے مگر میں نہیں چاہتا کہ ان تمام الزاموں اور گالیوں کاجواب دوں بلکہ میں ان تمام باتوں کو خدا تعالیٰ کے حوالہ کرتا ہوں اگر میں ایسا ہی ہوں جیسا کہ عبد الحکیم اور اُس کے ہم جنسوں نے مجھے سمجھا ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے بڑھ کر میرا دشمن اور کون ہوگا اور اگر میں خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسا نہیں ہوں تو پھر میں یہی بہتر طریق سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کاجواب خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں۔ ہمیشہ اسی طرح پر سنت اللہ ہے کہ جب کوئی فیصلہ زمین پر ہو نہیں سکتا تو اس مقدمہ کو جو اُس کے کسی رسول کی نسبت ہوتا ہے خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور آپ فیصلہ کرتا ہے اور اگر مخالفوں میں سے کوئی غور کرے تو اُن کے الزاموں سے بھی میری ایک کرامت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جبکہ میں ایک ایسا ظالم اور شریر آدمی ہوں کہ ایک طرف تو عرصہ پچیس ۵۲ سال سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بول رہا ہوں اور رات کو اپنی طرف سے دو چار باتیں بناتا ہوں اور صبح کہتا ہوں کہ خدا کا یہ الہام ہے اور پھر دوسری طرف خدا تعالیٰ کی مخلوق پر یہ ظلم کرتا ہوں کہ ہزارہا روپیہ اُن کا بد دیانتی سے کھا لیا ہے۔ عہد شکنی کرتا ہوں۔ جھوٹ بولتا ہوں اوراپنی نفس پرستی کے لئے اُن کا نقصان کر رہا ہوں اور تمام دنیا کے عیب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 189

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 189

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/189/mode/1up


اپنے اندر رکھتا ہوں۔ پھر بجائے غضب کے خدا کی رحمت مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ ہر ایک منصوبہ جو میرے لئے کیا جاتا ہے خدا دشمنوں کو اس میں نامراد رکھتا ہے اور اُن ہزارہا گناہوں اور افتراؤں اور ظلم اور حرامخوریوں کی وجہ سے نہ میرے پرکوئی بجلی گرتی ہے اورنہ مَیں زمین میں دھنسایا جاتا ہوں بلکہ تمام دشمنوں کے مقابل پر مجھے مدد ملتی ہے۔ چنانچہ باوجود کئی اُن کے حملوں کے میں بچایا گیا ۔* اور باوجود ہزاروں روکوں کے کئی لاکھ تک میری جماعت خدا نے کر دی۔ پس اگر یہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر اس کی نظیر مخالفوں کے پاس موجود ہے تو وہ پیش کریں ورنہ بجز اسکے کیا کہیں کہ *** اللہ علی الکاذبین۔ کیا اُن کے پاس پچیس سال کے مفتری کی کوئی نظیرؔ ہے جس کو باوجود اس مدت کے افترا کے صدہا نشان تائید اور نصرت الٰہی کے دئے گئے ہوں اور وہ دشمنوں کے ہر ایک حملہ سے بچایا گیا ہو۔ فاْتوا بھا ان کنتم صادقین۔


ہ کلام یہ کہ اب ہمارا اور مخالفوں کا جھگڑا انتہا تک پہنچ گیا ہے اور اب یہ مقدمہ وہ خود فیصلہ کرے گا جس نے مجھے بھیجا ہے۔ اگر میں صادق ہوں تو ضرور ہے کہ آسمان میرے لئے ایک زبردست گواہی دے جس سے بدن کانپ جائیں اور اگر میں پچیس سالہ مجرم ہوں جس نے اس مدت دراز تک خدا پر افترا کیا تو میں کیونکر بچ سکتا ہوں۔ اس صورت میں اگر تم سب میرے دوست بھی بن جاؤ تب بھی میں ہلاک شدہ ہوں کیونکہ خدا کا ہاتھ میرے مخالف ہے


* کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنرکی عدالت میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا گیا میں اُس سے بچایا گیا بلکہ بریّت کی خبر پہلے سے مجھے دیدی گئی۔ اور قانون ڈاک کے خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا۔ جس کی سزا چھ ماہ قید تھی اس سے بھی میں بچایا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے مجھے دے دی گئی۔ اسی طرح مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ایک فوجداری مقدمہ میرے پر چلایا گیا آخر اس میں بھی خدا نے مجھے رہائی بخشی اور دشمن اپنے مقصد میں نامراد رہے اور اس رہائی کی پہلے مجھے خبر دی گئی۔ پھر ایک مقدمہ فوجداری جہلم کے ایک مجسٹریٹ سنسار چند نام کی عدالت میں کرم دین نام ایک شخص نے مجھ پر دائر کیا اس سے بھی میں بَری کیا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دے دی۔ پھر ایک مقدمہ گورداسپور میں اسی کرم دین نے فوجداری میں میرے نام دائر کیا اس میں بھی میں بَری کیا گیا اور بریّت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دی اسی طرح میرے دشمنوں نے آٹھ حملے میرے پر کئے اور آٹھ میں ہی نامراد رہے اور خدا کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے پچیس ۵۲ سال پہلے براہین احمدیہ میں درج ہے یعنی یہ کہ ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ کیا یہ کرامت نہیں؟۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 190

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 190

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/190/mode/1up


اے لوگو! تمہیں یاد رہے کہ میں کاذب نہیں بلکہ مظلوم ہوں اور مفتری نہیں بلکہ صاد ق ہوں۔ میرے مظلوم ہونے پر ایک زمانہ گذر گیا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ آج سے ۲۵ برس پہلے خدا نے فرمائی جو براہین احمدیہ میں شائع ہوئی یعنی خدا کا یہ الہام کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اسکی سچائی ظاہر کر دے گا۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے جبکہ میری طرف سے نہ کوئی دعوت تھی اور نہ کوئی منکر تھا صرف پیشگوئی کے رنگ میں یہ الفاظ تھے جو مخالف مولویوں نے پورے کئے۔ سو اُنہوں نے جو چاہا کیا۔ اب اِس پیشگوئی کے دوسرے فقرے کے ظہور کا وقت ہے یعنی یہ فقرہ کہ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔

افسوس کہ جو خداتعالیٰ کے نشان کھلے طورپر ظاہر ہوئے اُن سے اُنہوں نے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا اور جو بعض نشان سمجھ میں نہیں آئے اُن کو ذریعۂ اعتراض بنا دیا۔ اِس لئے میں جانتا ہوں کہ اب اِس فیصلہ میں دیر نہیں آسمان کے نیچے یہ بڑا ظلم ہوا کہ ایک خدا کے مامور سے جو چاہا ان لوگوں نے کیا اور جو چاہا لکھا اور یہ عجیب بات ہے کہ عبد الحکیم خان اپنے رسالہ ذکر الحکیم کے ۴۵پینتالیس صفحہ میں میری نسبت یہ لکھتا ہے ’’مجھے آپ کی طرف سے کوئی لغزش نہیں۔ وہی ایمان ہے کہ آپ مثیل مسیح ہیں۔ مسیح ہیں مثیل انبیاء ہیں۔‘‘ پھر اسی کتاب کے صفحہ ۱۲ میںؔ سطر ۱۵ سے لے کر سطر ۲۰ تک میری تصدیق میں اُس کی اپنی عبارت یہ ہے جو جلی قلم سے لکھی جاتی ہے۔ ’’ایک مولوی محمد حسن بیگ میرے خالہ زاد بھائی تھے حضور کے سخت مخالف تھے اُن کی نسبت خواب میں مجھے معلوم ہوا کہ اگر وہ مسیح الزمان کی مخالفت پر اڑا رہا تو پلیگ سے ہلاک ہو جائے گا اُس کی سکونت بھی شہر سے باہر ایک ہوادار کشادہ مکان میں تھی یہ خواب میں نے اُس کے حقیقی بھائی اور چچا اور دیگر عزیزوں کو سُنا دیا تھا۔ ایک سال بعد وہ پلیگ سے ہی فوت ہوا۔‘‘ دیکھو عبد الحکیم خان کا رسالہ ذکر الحکیم صفحہ ۱۲۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 191

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 191

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/191/mode/1up


اب دیکھو کہ ایک طرف تو یہ شخص میرے مسیح موعود ہونے کا اقرار کرتا ہے اور نہ صرف اقرار بلکہ میری تصدیق کے بارہ میں ایک خواب بھی پیش کرتا ہے جو سچی نکلی۔

پھر اسی کتاب کے آخر میں اور نیز اپنے رسالہ المسیح الدجال میں میرا نام دجال اور شیطان بھی رکھتا ہے اور مجھے خائن اور حرامخوار اور کذّاب ٹھہراتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ عبدالحکیم خان نے اپنے ان دونوں متناقض بیانوں میں چند روز کا بھی فرق نہیں رکھا۔ ایک طرف تو مجھے مسیح موعود کہا اور اپنے خواب کے ساتھ میری تصدیق کی اور پھر ساتھ ہی دجّال اورکذّاب بھی کہہ دیا۔ مجھے اِس بات کی پروا نہیں کہ ایسا کیوں کیا۔ مگر ہر ایک کو سوچنا چاہئے کہ اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔ ایک طرف تو مجھے سچا مسیح قرار دیتا ہے بلکہ میری تصدیق میں ایک سچی خواب پیش کرتا ہے جو پوری ہو گئی اور دوسری طرف مجھے سب کافروں سے بد تر سمجھتا ہے کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور تناقض ہوگا اور جن عیبوں کو وہ میری طرف منسوب کرتا ہے اُس کو خود سوچنا چاہئے تھا کہ جب خواب کی رُو سے میری سچائی کی اُس کو تصدیق ہو چکی تھی بلکہ میری تصدیق کے لئے خدا نے حسن بیگ کو طاعون سے ہلاک بھی کر دیا تھا ۔* تو کیا ایک دجّال کے لئے خدا نے اس کو مارا اور کیا خدا کو وہ عیب معلوم نہ تھے جو بیس۰۲ سال کے بعد اُس کومعلوم ہو گئیژ اور یہ عذر اُس کا قابلِ قبول نہ ہوگا کہ مجھ کو شیطانی خوابیں آتی ہوں گی اور یہ بھی ایک شیطانی خواب تھی۔ کیونکہ یہ تو ہم قبول کر سکتے ہیں کہ اُس کو بوجہ فطرتی مناسبت کے شیطانی خوابیں آتی ہوں گی اور شیطانی الہام


اب عبد الحکیم کے لئے لازم ہے کہ محمد حسن بیگ کی قبر پر جاکر رو وے کہ اے بھائی تو تکذیب میں سچا تھا اور میں جھوٹا۔ میرا گناہ معاف کر اور خدا سے معلوم کرکے مجھے بتلا کہ ایک کذّاب اور دجال کے لئے کیوں اُس نے تجھے ہلاک کر دیا۔ منہ

ژ یہ بات بھی غور کے لائق ہے کہ جو شخص بیس ۰۲ سال تک تحریر اور تقریر میں میری تائید کرتارہا اور مخالفوں کے ساتھ جھگڑتا رہا۔ اب بیس سال کے بعد کونسی نئی بات اُس کو معلوم ہوئی جو عیب اُس نے لکھے ہیں وہ تو وہی ہیں جن کا جواب وہ آپ دیاکرتا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 192

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 192

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/192/mode/1up


بھی ہوتے ہوں گے ۔ * مگر یہ ہم قبول نہیںؔ کر سکتے کہ یہ شیطانی خواب ہے کیونکہ شیطان کو کسی کے ہلاک کرنے کے لئے قدرت نہیں دی گئی۔ ہاں شیطانی خوابیں اور شیطانی الہام وہ ہیں جو اَب میری مخالفت کی حالت میں اُس کو ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے ساتھ کوئی نمونہ خدائی طاقت کا نہیں سو اُس کو کوشش کرنی چاہئے کہ شیطان اُس سے دور ہو جائے۔

اور منجملہ امور قابلِ تذکرہ کے ایک یہ ہے کہ عبد الحکیم خان نے اپنے رسالہ المسیح الدجّال میں دوسرے مخالفوں کی طرح عوام کو یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ گویا میری پیشگوئیاں غلط نکلتی رہی ہیں۔ چنانچہ جو پیشگوئی عبد اللہ آتھم کی نسبت تھی اور جو پیشگوئی احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھی اور جو ایک پیشگوئی مولوی محمد حسین بٹالوی اوراُن کے بعض رفیقوں کی نسبت تھی۔ ان سب کو بیان کرکے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مگر میں ان پیشگوئیوں کی نسبت بارہا لکھ چکا ہوں کہ وہ سنت اللہ کے موافق پوری ہو چکی ہیں۔ عبد اللہ آتھم کی نسبت اور نیز احمد بیگ اور اُس کے داماد کی نسبت صدہا مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ دونوں پیشگوئیاں شرطی تھیں۔ عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی کے یہ لفظ تھے کہ وہ پندرہ مہینے میں ہلاک ہوگا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یہ لفظ نہیں تھے کہ بشرطیکہ ظاہری طور پر مسلمان


* یہ بھی عبد الحکیم کی مخبط الحواس ہونے کی نشانی ہے کہ اس اپنی خواب کو جس میں محمد حسن بیگ کی موت بتلائی گئی تھی اور اس کے موافق حسن بیگ مر بھی گیا تھا ایک شیطانی خواب قرار دیتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ جوش مخالفت نے اس شخص کی عقل مار دی ہے جس خواب کو واقعات نے سچی کرکے دکھلا دیا اور اُس نے منجانب اللہ ہونے پر مہر لگا دی وہ کیونکر جھوٹی ہو سکتی ہے جھوٹی اور نفسانی خوابیں تو وہ ہیں جو اب اس کے مخالف آتی ہیں جن پر کوئی سچائی کی مہر نہیں مگر اس خواب میں شیطان کا ایک ذرہ دخل نہیں کیونکہ یہ ایک ہیبت ناک واقعہ کے ساتھ پوری ہو گئی اور محیی ممیت تو خداکا نام ہے شیطان کا نام نہیں۔ ہاں اس سچی خواب سے میاں عبد الحکیم کی کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضرت یوسف کے وقت میں فرعون کو بھی سچی خواب آگئی تھی اور بڑے بڑے کافروں کو بعض وقف سچی خوابیں آجاتی ہیں۔ اور خدا کے مقبول علم غیب کی کثرت اور ایک خاص نصرت سے شناخت کئے جاتے ہیں نہ محض ایک دو خواب سے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 193

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 193

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/193/mode/1up


بھی ہو جائے۔ رجوع ایک ایسا لفظ ہے جو دل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔* سو اُس نے اُسی مجلس میں جس میں ساٹھ یا ستر یا کچھ کم و بیش آدمی موجود تھے پیشگوئی سُننے کے بعد آثار رجوع ظاہر کئے یعنی جب میں نے پیشگوئی سُنا کر اُس کو یہ کہا کہ تم نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کتاب میں دجّال کہا ہے اُس کی سزا میں یہ پیشگوئی ہے کہ پندرہ مہینے کے اندر تمہاری زندگی کا خاتمہ ہوگا تب اُس کا رنگ زرد ہو گیا اور اُس نے اپنی زبان باہر نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بلند آواز سے کہا کہ میں نے ہر گز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال نہیں رکھاز۔ اِس مجلس میں مسلمانوں میں سے ایک رئیس امرتسر کے بھی موجود تھے جن کا نام شاید یوسف شاہ تھا اور بہت سے عیسائی اور مسلمان تھے بالخصوص عیساؔ ئیوں میں سے ڈاکٹر مارٹن کلارک بھی تھا جس نے بعد میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان سب کو حلف کے ساتھ پوچھنا چاہئے کہ کیا یہ امر وقوع میں آیا تھا یا نہیں۔ اور اگر درحقیقت یہ الفاظ عبد اللہ آتھم کے منہ سے نکلے تھے تو اب خودسوچنا چاہئے کہ کیا یہ شوخی اور شرارت کے الفاظ تھے یا عجز و نیاز اور رجوع کے الفاظ تھے میں نے تو اس قسم کے عجز و نیاز کے الفاظ اپنی تمام عمر میں کسی عیسائی کے منہ سے نہیں سنے بلکہ اکثر اُن کی کتابیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے بھری ہوئی دیکھی ہیں پھر جبکہ ایک مخالف شخص نے عین مباحثہ کے وقت میں اس قدر تذلّل اور انکسار کے ساتھ دجّال کہنے سے انکار کیا اور بعد میں وہ پندرہ مہینہ تک خاموش رہا بلکہ روتا رہا تو پھر کیا وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس بات کا حق نہ رکھتا تھا کہ خدا تعالیٰ شرط کے موافق اُس کو فائدہ پہنچاتا ؤ۔ پھر بہت


اگر کسی کی نسبت یہ پیشگوئی ہو کہ وہ پندرہ مہینہ تک مجذوم ہو جائیگا پس اگر وہ بجائے پندرہ کے بیسویں مہینہ میں مجذوم ہو جائے اور ناک اور تمام اعضاگر جائیں تو کیا وہ مجاز ہوگا کہ یہ کہے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی نفس واقعہ پر نظر چاہئے۔ منہ

ز ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ عبداللہ آتھم نے دجال کہنے سے رجوع کرلیا تھا اور پیشگوئی کا اصل موجب یہی لفظ تھا۔ منہ

یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ عبد اللہ آتھم کی نسبت بھی موت کی پیشگوئی تھی اور لیکھرام کی نسبت بھی موت کی پیشگوئی تھی مگر عبد اللہ آتھم نے عجز و نیاز دکھلا دیا اس لئے اس کی موت میں اصل میعاد سے چند ماہ کی تاخیر واقع ہوئی اور لیکھرام نے پیشگوئی سُننے کے بعد شوخی ظاہر کی اور بازاروں اور مجمعوں میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا رہا اس لئے قبل اس کے کہ اس کی اصل میعاد بھی پوری ہوتی وہ پکڑا گیا اور ابھی ایک سال باقی رہتا تھا کہ وہ مارا گیا۔ عبد اللہ آتھم سے خدا تعالیٰ نے اپنی جمالی صفت کو ظاہر کیا اور لیکھرام سے جلالی صفت کو وہ قادر ہے کم بھی کر سکتا ہے اور زیادہ بھی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 194

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 194

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/194/mode/1up


مدت تک بھی اُس کی زندگی نہیں ہوئی بلکہ چند ماہ کے بعد فوت ہو گیا۔ اُس نے بعد اس کے کوئی شوخی نہیں دکھلائی اور جو کچھ اُس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ عیسائیوں کا اپنا کرتب ہے غرض نفس پیشگوئی تو اُس کی موت تھی اس کے موافق وہ میری زندگی میں ہی مر گیا خدا نے میری عمر بڑھا دی اور اُس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ اب اِسی بات پر زور دینا کہ وہ میعاد کے اندر نہیں مرا کس قدر ظلم اور تعصب ہے۔ اے نادان کیا تو یونس کے قصہ سے بھی بے خبر ہے جس کا ذکر قرآن شریف میں موجود ہے یونسؑ کی پیشگوئی میں کوئی شرط بھی نہیں تھی تب بھی توبہ و استغفار سے اُس کی قوم بچ گئی حالانکہ اس کی قوم کی نسبت خدا تعالیٰ کا قطعی وعدہ تھا کہ وہ ضرور چالیس دن کے اندر ہلاک ہو جائے گی مگر کیا وہ اِس ؔ پیشگوئی کے مطابق چالیس دن کے اندر ہلاک ہو گئی۔ اگر چاہو تو دُرِّ منثور میں اُن کا قصہ دیکھ لو یا یونہ نبی کی کتاب بھی ملاحظہ کرو۔ حد سے زیادہ کیوں شرارت دکھلاتے ہو کیا ایک دن مرنا نہیں۔ شوخی اور بد دیانتی ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔

اوراحمد بیگ کے داماد کی نسبت بھی ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ پیشگوئی بھی شرطی تھی۔ اور شرط کے الفاظ جو ہم اشتہارات میں پہلے سے شائع کر چکے ہیں یہ تھے ایّھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علٰی عقبکِ یہ الہامی الفاظ ہیں اور اس میں مخاطب اس عورت کی نانی ہے جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے۔ اور ایک مرتبہ میں نے یہ الہام مولوی عبد اللہ صاحب کی اولاد میں سے ایک شخص کو بمقام ہوشیارپور قبل از وقت سنایا تھا شائد اُن کا نام عبدالرحیم تھا یا عبد الواحد تھا۔ اِس الہامی عبارت کا ترجمہ یہ ہے۔ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ تیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر ایک بلا آنے والی ہے اور اس پیشگوئی میں احمد بیگ اور اس کے داماد کی خبر دی گئی تھی چنانچہ احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا۔* اور اُس عورت کی لڑکی پر بلا


تعجب ہے کہ جو لوگ احمد بیگ کے داماد کا بار بار ذکر کرتے ہیں کبھی وہ یہ زبان پر نہیں لاتے کہ اس پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے کیونکہ احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا ہے اگر ان میں کچھ دیانت ہوتی تو یوں بیان کرنا چاہئے تھا کہ اس پیشگوئی کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا ہو چکا ہے اور دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے مگر تعصب بھی ایک عجیب بلا ہے کہ انصاف کے لفظ کو زبان پر نہیں آنے دیتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 195

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 195

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/195/mode/1up


آگئی کیونکہ وہ احمد بیگ کی بیوی تھی اور احمد بیگ کے مرنے سے بڑا خوف اُس کے اقارب پر غالب آگیا یہاں تک کہ بعض نے اُن میں سے میری طرف عجز و نیاز کے ساتھ خط بھی لکھے کہ دعا کرو پس خدا نے اُن کے اس خوف اور اس قدر عجز و نیاز کی وجہ سے پیشگوئی کے وقوع میں تاخیر ڈال دی اور جو کچھ مولوی محمد حسین اور اُن کے رفقاء کی نسبت پیشگوئی خدا تعالیٰ کے الہام میں لکھی گئی تھی اس کی نسبت کوئی تاریخ مقرر نہ تھی صرف میری دعا میں اپنے الفاظ تھے الہامی الفاظ نہ تھے۔ اورؔ صرف میری طرف سے دعا تھی کہ اتنی مدّت میں ایسا ہو۔ سو خداوند تعالیٰ اپنی وحی کا پابند ہوتا ہے اس پر فرض نہیں ہے کہ جو اپنی طرف سے التجا کی جائے بعینہٖ اُس کو ملحوظ رکھے۔ اِس لئے پیشگوئی میں جوعربی میں شائع ہو چکی ہے کوئی مدّت مقرر نہیں ہے کہ فلاں مہینہ یا برس میں رُسوا کیا جائے گا اور یہ تو معلوم ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ اختیار رکھتا ہے کہ اُن کو کسی کے عجز و نیاز سے یا اپنی طرف سے ملتوی کر دے۔ تمام اہل سنت بلکہ تمام انبیاء علیھم السلام کا اس پر اتفاق ہے کیونکہ وعید کی پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بلا کسی کے لئے مقدر ہوتی ہے جو صدقات خیرات اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس بلا کو صرف اپنے علم میں رکھے اور اپنی وحی کے ذریعہ سے کسی اپنے مرسل پر ظاہر نہ کرے تب تو وہ صرف بلائے مقدر کہلاتی ہے کہ جو خداتعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوتی ہے اور اگر اپنی وحی کے ذریعہ سے کسی اپنے رسول کو اس بلا کا علم دیدے تب وہ پیشگوئی ہو جاتی ہے اوردنیا کی تمام قومیں اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ آنے والی بلائیں خواہ وہ پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی جائیں اور خواہ صرف خدا تعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوں وہ صدقہ خیرات اور توبہ و استغفار سے ٹل سکتی ہیں تبھی تو لوگ مصیبت کے وقت میں صدقہ خیرات دیا کرتے ہیں ورنہ بے فائدہ کام کون کرتا ہے۔ اور تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ، خیرات اور توبہ و استغفار سے ردّ بلا ہوتا ہے اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 196

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 196

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/196/mode/1up


ایک آنے والی بلا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا الہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا۔ پس اگر اس طرح پر وعید کی پیشگوئی ضروری الوقوع ہے تو میں بیسیوں دفعہ جھوٹا بن سکتا ہوں اور اگر ہمارے مخالفوں اور بد اندیشوں کو اس قسم کی تکذیب کا شوق ہے اگر چاہیں تو میں اس قسم کی کئی پیشگوئیاں اور پھر ان کی منسوخی کی ان کو اطلاع دیدیا کروں۔ ہماری اسلامی تفسیروں میں اور نیز بائیبل میں بھی لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی نسبت وقتؔ کے نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ اُس کی عمر پندرہ دن رہ گئی ہے مگر وہ بادشاہ تمام رات روتا رہا تب اُس نبی کو دوبارہ الہام ہوا کہ ہم نے پندرہ دن کو پندرہ سال کے ساتھ بدل دیا ہے۔ یہ قصہ جیسا کہ میں نے لکھا ہے ہماری کتابوں اور یہود اور نصاریٰ کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب کیا تم یہ کہو گے کہ وہ نبی جس نے بادشاہ کی عمر کے بارے میں صرف پندرہ دن بتلائے تھے اور پندرہ دن کے بعد موت بتلائی تھی وہ اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلا۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وعید کی پیشگوئیوں میں منسوخی کا سلسلہ اس کی طرف سے جاری ہے یہاں تک کہ جو جہنم میں ہمیشہ رہنے کا وعید قرآن شریف میں کافروں کے لئے ہے وہاں بھی یہ آیت موجود ہے 3 3 ۱؂ یعنی کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے لیکن اگر تیرا رب چاہے کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے اُس کے کرنے پر وہ قادر ہے لیکن بہشتیوں کے لئے ایسا نہیں فرمایا کیونکہ وہ وعدہ ہے وعید نہیں ہے۔*

اخیر پر میں بڑے زور سے اور بڑے دعوے سے اور بڑی بصیرت سے یہ کہتا ہوں کہ


* قرآن شریف میں کفّار اور مشرکین کی سزا کے لئے بار بار ابدی جہنم کا ذکر ہے اور بار بار فرمایا ہے 3۔۲؂ اور پھر باوجود اس کے قرآن شریف میں دوزخیوں کے حق میں3 3َ۳؂ بھی موجود ہے اور حدیث میں بھی ہے کہ یاتی علٰی جھنم زمان لیس فیھا احدٌ ونسیم الصبا تحرّک ابوابھا یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی بھی نہ ہوگا اور نسیم صبا اس کے کواڑوں کو ہلائے گی اور بعض کتب میں زبانِ پارسی میں یہ حدیث لکھی ہے۔ ایں مُشتِ خاک راگرنہ بخشم چہ کنم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 197

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 197

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/197/mode/1up


جو جواعتراض میری پیشگوئیوں پر ڈاکٹر عبدالحکیم خان اور اُس کے ہم جنس مولویوں نے کئے ہیں میں دکھلا سکتا ہوں کہ اولوالعزم نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں جس کی کسی پیشگوئی پر انہیں اعتراضات کے مشابہ کوئی اعتراض نہ ہو اور صرف یونسؑ کا قصہ مَیں پیش نہیں کروں گا۔ بلکہ حضرت موسیٰ اور حضرت مسیح اور حضرت سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں میں یا خدا کی کلام میں اُس کی نظیر دکھلاؤں گا مگر میں یہ سنناچاہتا ہوں کہ کیا اس وقت یہ تمام لوگ ان تمام نبیوں کو چھوڑنے کے لئے طیار ہیں اور کیا وہ اس بات کے لئے مستعد بیٹھے ہیں کہ اس ثبوت کے پیش کرنے کے بعد جیسا کہ وہ مجھے گالیاں دیتے ہیں ان کو بھی گالیاں دیں گے اور جیسا کہ مجھے کاذب ٹھہرایا ہے انہیں بھی کاذب ٹھہرا ویں گے۔ اے نادانو! اور آنکھوں کے اندھو! کیوں اپنی عاقبت خراب کرتے ہو۔ ہائے افسوس کیوں تم دانستہ آگ میں پڑتے ہو اور کیوں تم اس قدر ایمان اورتقویٰ سے دور چلےؔ گئے کہ تمہارے دل میںیہ خوف بھی نہیں رہا کہ یہ اعتراض کس کس پاک اور مقدس پروارد ہوں گے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 3333 ۔۱؂ یعنی اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو خود تباہ ہو جائے گا کیونکہ خدا کذّاب کے کام کو انجام تک نہیں پہنچاتا وجہ یہ کہ اِس سے صادق اور کاذب کا معاملہ باہم مشتبہ ہو جائے گا۔ اور اگر یہ رسول سچا ہے تو اس کی بعض وعید کی پیشگوئیاں ضرور وقوع میں آئیں گی۔ پس اِس آیت میں جو بعض کا لفظ ہے صریح طور پر اس میں یہ اشارہ ہے کہ سچا رسول جو وعید کی پیشگوئیاں یعنی عذاب کی پیشگوئیاں کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سب کی سب ظہور میں آجائیں ہاں یہ ضروری ہے کہ بعض اُن میں سے ظہور میں آجائیں جیسا کہ یہ آیت فرما رہی ہے یصبکم بعض الذی یعدکم اب آنکھ کھو ل کر دیکھو کہ وہ وعید کی چند پیشگوئیاں جو میری طرف سے شائع ہوئی تھیں اُن میں سے کس قوت اور شان کے ساتھ لیکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی جس کی نسبت یہ بھی بتلایا گیا تھا کہ وہ معمولی موت سے نہیں مرے گا بلکہ خدا کا غضب کسی حربہ سے اُس کا کام تمام کرے گا اوریہ بھی بتلایا گیا تھا کہ عید کے متصل اُس کی موت کا واقعہ ہوگا اور یہ بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 198

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 198

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/198/mode/1up


اشارہ کیا گیا تھا کہ اُس کے واقعہ کے بعد ملک میں طاعون پڑے گی اور یہ بھی ظاہرکیا گیا تھا کہ یہ صرف پیشگوئی نہیں بلکہ یہ واقعہ میری بد دعا کا ایک نتیجہ ہوگا کیونکہ اس کی زبان درازیاں انتہا تک پہنچ گئی تھیں۔ پس وہ خدا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو برباد کرنانہیں چاہتا اُس کا غضب لیکھرام پر نازل ہوا اور اُس کو درد ناک عذاب کے ساتھ ہلاک کیا۔

پھر سوچنا چاہئے کہ احمد بیگ کی نسبت جو میری تکذیب کے لئے کمر بستہ تھا اور دن رات ہنسی ٹھٹھا کرتا تھا کس صفائی سے پیشگوئی نے اپنا ظہور کیا اور وہ میعاد کے اندر مُحرقہ تپ سے ہوشیارپور کے شفاخانہ میں فوت ہو گیا اور اس کے اقارب میں اس کی موت سے تہلکہ برپا ہوا یہ وہی احمد بیگ ہے جس کے داماد کی نسبت اب تک ہمارے مخالف ماتم اور سیاپاکر رہے ہیں کہ کیوں نہیں مرتا اور نہیں جانتے کہ دائیں ٹانگ تو اس پیشگوئی کی احمد بیگ ہی تھا جس نے اچانک اپنی جواناں مرگ مرنےؔ سے ثابت کر دیا کہ پیشگوئی سچی ہے اور پھر جیسا کہ پیشگوئی میں لکھا تھا کہ احمد بیگ کی موت کے قریب اور موتیں بھی اُس کے عزیزوں کی ہوں گی وہ امر بھی وقوع میں آگیا اور احمد بیگ کا ایک لڑکا اور دو ہمشیرہ انہیں ایام میں فوت ہو گئے۔ تو اب ہمارے مخالف بتلاویں کہ فقرہ آیت یُصِبْکُم بَعْضُ الَّذِی یَعِدُکُم اس پر صادق آیا یا نہیں۔ پس جبکہ میری بعض وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت خود ان کو اقرار کرناپڑتا ہے کہ کمال صفائی سے پوری ہو گئیں تو پھر باوجود اسلام کے دعوے کے کیوںیہ آیت ممدوحہ اُن کے مد نظر نہیں رہتی یعنی یصبکم بعضالذی یعدکمکیاپوشیدہ طور پر ارتداد کے لئے طیاری تو نہیں۔ اور یہ کہنا کہ پیشگوئی کے بعد احمد بیگ کی لڑکی کے نکاح کے لئے کوشش کی گئی اور طمع دی گئی اور خط لکھے گئے یہ عجیب اعتراض ہیں۔ سچ ہے انسان شدت تعصب کی وجہ سے اندھا ہو جاتا ہے۔ کوئی مولوی اِس بات سے بے خبر نہ ہوگا کہ اگر وحی الٰہی کوئی بات بطور پیشگوئی ظاہر فرماوے اور ممکن ہو کہ انسان بغیر کسی فتنہ اور ناجائز طریق کے اس کو پورا کر سکے تو اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کا پورا کرنا نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنا فعل اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور پھر حضرت عمر کا ایک صحابی کو کڑے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 199

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 199

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/199/mode/1up


پہنانا دوسری دلیل ہے اور اسلام کی ترقی کے لئے بھی قرآن شریف میں ایک پیشگوئی تھی پھر کیوں اسلام کی ترقی کے لئے جان توڑ کر کوشش کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ مؤلفۃ القلوب کے لئے کئی لاکھ روپیہ دیا گیا اور اس جگہ تو زمین وغیرہ کے لئے اصل تحریک خود احمد بیگ کی طرف سے تھی۔

پھر سوچنے کا مقام ہے کہ ایک طرف تو یہ دو تین پیشگوئیاں ہیں جو ہمارے مخالف اپنی نابینائی کی وجہ سے بار بار پیش کرتے ہیں جن کا پلید پَس خوردہ عبد الحکیم کو بھی کھانا پڑا اور دوسری طرف میری تائید میں خدا تعالیٰ کے نشانوں کا ایک دریا بہہ رہا ہے جس سے یہ لوگ بے خبر نہیں ہیں اور کوئی مہینہ شاذو نادر ایسا گذرتا ہوگا جس میں کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ ان نشانوں پر کوئی نظر نہیں ڈالتا۔ نہیں دیکھتے کہ خدا کیا کہہ رہا ہے۔ ایک طرف طاعون بزبانِ حال کہہ رہی ہے کہ قیامت کے دن نزدیک ہیں اور دوسری طرف خارق عادت زلزلے جو کبھی اس ؔ طور سے اِس ملک میں نہیں آئے تھے خبر دے رہے ہیں کہ خدا کا غضب زمین پر بھڑک رہا ہے اور آئے دن ایسی نئی نئی آفات نازل ہوتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے طور بدل گئے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی بڑی آفت دکھلانی چاہتا ہے اور ہر ایک آفت جو ظاہر ہوتی ہے پہلے سے اس کی مجھے خبر دیجاتی ہے اور میں بذریعہ اخبار یا رسائل یا اشتہار کے اس کو شائع کر دیتا ہوں۔ چنانچہ میں بار بار کہتا ہوں کہ توبہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہیں کہ جیسا کہ ناگہانی طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے اور جیسا کہ فرعون کے زمانہ میں ہوا کہ پہلے تھوڑے نشان دِکھلائے گئے اور آخر وہ نشان دکھلایا گیا جس کو دیکھ کر فرعون کو بھی کہنا پڑا کہ 3 ۱؂ خدا عناصر اربعہ میں سے ہر ایک عنصر میں نشان کے طور پر ایک طوفان پیدا کرے گا اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آجائے گا جو قیامت کا نمونہ ہے تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کو شناخت نہ کیا یہی معنی خدا کے اِس الہام کے ہیں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 200

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 200

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/200/mode/1up


اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ یہ پچیس ۲۵ برس کا الہام ہے جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا اور ان دنوں میں پوراہوگا۔ جس کے کان سُننے کے ہیں وہ سنے ۔*

یہ تو ہم نے وہ دو تین پیشگوئیاں لکھی ہیں جن پر ہمارے مخالف مولوی اور انہیں کا نیا چیلا عبد الحکیم خان بار بار اعتراض کرتے ہیں۔ اب ہم اُن کے مقابل یہ دکھلانا چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے آسمانی نشان ہماری شہادت کے لئے کسی قدر ہیں لیکن افسوس کہ اگر وہ سب کے سب لکھے جائیں تو ہزار جزو کی کتاب میں بھی ان کی گنجائش نہیں ہو سکتی اس لئے ہم محض بطور نمونہ کے ایک سو چالیس نشان اُن میں سے لکھتے ہیں۔ اُن میں سے بعض وہ پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں ہیں جو میرے حق میں پوری ہوئیں۔ اور بعض اس اُمت کے اکابر کی پیشگوئیاں ہیں اور بعض وہ نشان خدؔ ا تعالیٰ کے ہیں جو میرے ہاتھ پر ظہور ہیں آئے اور چونکہ میری پیشگوئیوں پر اُن پیشگوئیوں کو تقدّم زمانی ہے اِس لئے مناسب سمجھا گیا کہ تحریری طور پر بھی اُنہیں کو مقدم رکھا جائے اور یہ تمام پیشگوئیاں ایک ہی سلسلہ میں نمبروار لکھی جائیں گی۔ اور وہ یہ ہیں۔

۱ ۔ پہلا نشان۔ قال رسُول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم انّ اللّٰہ یبعث لھٰذہ الامۃ علٰی رأس کُلّ ماءۃ سنۃ من یجدّ د لھا دینھا۔ رواہ ابو دا ؤد یعنی خدا ہر ایک صدی کے سر پر اِس اُمّت کے لئے ایک شخص مبعوث فرمائے گا جو اُس کے لئے دین کو تازہ کرے گا اور اب اِس صدی کا چوبیسواں سال جاتا ہے اورممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ میں تخلّف ہو۔ اگر کوئی کہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو بارہ صدیوں کے مجددوں کے نام بتلاویں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث


* خدا تعالیٰ نے مجھے صرف یہی خبر نہیں دی کہ پنجاب میں زلزلے وغیرہ آفات آئیں گی کیونکہ میں صرف پنجاب کے لئے مبعوث نہیں ہوا بلکہ جہاں تک دنیا کی آبادی ہے ان سب کی اصلاح کے لئے مامور ہوں پس میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ آفتیں اور یہ زلزلے صرف پنجاب سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا ان آفات سے حصہ لے گی اور جیسا کہ امریکہ وغیرہ کے بہت حصے تباہ ہو چکے ہیں یہی گھڑی کسی دن یورپ کے لئے درپیش ہے اور پھر یہ ہولناک دن پنجاب اور ہندوستان اور ہر ایک حصہ ایشیا کے لئے مقدرہے جو شخص زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 201

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/201/mode/1up


علماء اُمت میں مسلّم چلی آئی ہے اب اگر میرے دعوے کے وقت اس حدیث کو وضعی بھی قرار دیا جائے تو ان مولوی صاحبوں سے یہ بھی سچ ہے بعض اکابر محدثین نے اپنے اپنے زمانہ میں خود مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بعض نے کسی دوسرے کے مجدد بنانے کی کوشش کی ہے۔ پس اگر یہ حدیث صحیح نہیں تو انہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا اور ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ تمام مجددین کے نام ہمیں یاد ہوں یہ علم محیط تو خاصہ خدا تعالیٰ کا ہے ہمیں عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں مگر اُسی قدر جو خدا بتلاوے ماسوا اسکے یہ اُمت ایک بڑے حصہ دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور خدا کی مصلحت کبھی کسی ملک میں مجدّد پیدا کرتی ہے اور کبھی کسی ملک میں پس خدا کے کاموں کا کون پورا علم رکھ سکتا ہے اور کون اُس کے غیب پرا حاطہ کر سکتا ہے۔ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ حضرت آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ایک قوم میں نبی کتنے گذرے ہیں۔ اگر تم یہ بتلا دو گے تو ہم مجدّد بھی بتلا دیں گے۔ ظاہر ہے کہ عدم علم سے عدم شئے لازم نہیں آتا اور یہ بھی اہل سنت میں متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اِس اُمت کا مسیح موعود ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے یا نہیں یہود و نصاریٰ دونوں قومیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے اگر چاہو تو پوچھ کر دیکھ لو۔ مَری پڑ رہی ہے زلزلے آرہے ہیں۔ ہر اؔ یک قسم کی خارق عادت تباہیاں شروع ہیں پھر کیا یہ آخری زمانہ نہیں؟ اور صلحاء اسلام نے بھی اس زمانہ کو آخری زمانہ قرار دیا ہے اور چودھویں صدی میں سے بھی تیئیس ۳۲ سال گذر گئے ہیں۔ پس یہ قوی دلیل اِس بات پر ہے کہ یہی وقت مسیح موعود کے ظہور کا وقت ہے اور مَیں ہی وہ ایک شخص ہوں جس نے اِس صدی کے شروع ہونے سے پہلے دعویٰ کیا۔ اور مَیں ہی وہ ایک شخص ہوں جس کے دعوے پر پچیس ۵۲ برس گذر گئے اور اب تک زندہ موجود ہوں اور مَیں ہی وہ ایک ہوں جس نے عیسائیوں اور دوسری قوموں کو خدا کے نشانوں کے ساتھ ملزم کیا۔ پس جب تک میرے اِس دعوے کے مقابل پر انہیں صفات کے ساتھ کوئی دوسرا مدعی پیش نہ کیا جائے تب تک میرا یہ دعویٰ ثابت ہے کہ وہ مسیح موعود جو آخری زمانہ کا مجدّد ہے وہ میں ہی ہوں۔ زمانہ میں خدا نے نوبتیں رکھی ہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 202

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/202/mode/1up


۔ ایک وہ وقت تھا کہ خدا کے سچے مسیح کو صلیب نے توڑا اور اس کو زخمی کیاتھا اور آخری زمانہ میں یہ مقدر تھا کہ مسیح صلیب کو توڑے گا یعنی آسمانی نشانوں سے کفارہ کے عقیدہ کو دُنیا سے اُٹھا وے گا۔ عوض معاوضہ گلہ ندارد۔

۲۔ نشان۔ صحیح دارقطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں انّ لمھدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السماوات والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃٍ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ۔ ترجمہ یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اُس کی اوّل رات میں ہوگا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اُس کے دِنوں میں سے بیچ کے دن میں ہوگا۔ یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا صرف مہدی معہود کے وقت اُس کا ہونا مقدر ہے۔ اب تمام انگریزی اور اُردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اِس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً با ۱۲ رہ سال کا گذر چکا ہے اِسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اورؔ جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے۔ اول اِس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چونکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دیکر صدہا اشتہار اور رسالے اُردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے اِس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا۔ دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ با۱۲ رہ برس پہلے اِس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اِس نشان کے بارے میں مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا۔ اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لاکھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 203

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/203/mode/1up


اور بڑا افسوس ہے کہ ہمارے مخالف سراسر تعصب سے یہ اعتراض کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ چاند گرہن پہلی رات میں ہوگا اور سُورج گرہن بیچ کے دن میں مگر ایسا نہیں ہوا یعنی اُن کے زعم کے موافق ’’چاند گرہن شبِ ہلال کو ہونا چاہئے تھا جو قمری مہینہ کی پہلی رات ہے اور سُورج گرہن قمری مہینہ کے پندرھویں دن کو ہونا چاہئے تھا جو مہینہ کا بیچواں دن ہے۔‘‘ مگر اس خیال میں سراسر ان لوگوں کی نا سمجھی ہے کیونکہ دنیا جب سے پیدا ہوئی ہے چاند گرہن کے لئے تین راتیں خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور چاند گرہن کی پہلی رات جو خدا کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے وہ قمری مہینے کی تیرھویں رات ہے اور سورج کے گرہن کے لئے تین دن خدا کے قانون قدرت میں مقرر ہیں۔ یعنی قمری مہینے کا ستائیسواں اٹھائیسواں اور انتیسواں دن۔ اور سورج کے تین دن گرہن میں سے قمری مہینہ کے رُو سے اٹھائیسواں دن بیچ کا دن ہے۔ سو ا نہیں تاریخوں میں عین حدیث کے منشاء کے موافق سورج اور چاند کا رمضان میں گرہن ہوا۔ یعنی چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات میں ہوا اور سورج گرہن اسی رمضان کے اٹھائیسویں دن ہوا۔

اور عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر کبھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نامؔ ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے۔ دوسرا یہ اعتراض ہے کہ اگر ہم قبول کر لیں کہ چاند کی پہلی رات سے مُراد تیرھویں رات ہے اور سورج کے بیچ کے دن سے مُراد اٹھائیسواں دن ہے تو اس میں خارق عادت کونسا امر ہوا کیا رمضان کے مہینہ میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن نہیں ہوا تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مُدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اِسی پر دلالت کر رہے ہیں۔ اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔ خاص کر یہ امر کس کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 204

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/204/mode/1up


معلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعویٰ بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں۔ مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے۔ اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو توکہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھو آیت وَخَسَفَ الْقَمَرُۙ ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُۙ ۱؂ *

32تیسرا یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے صرف امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کا یہی طریق تھا کہ وہ بوجہ اپنی وجاہت ذاتی کے سلسلہ حدیث کو نام بنام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانا ضروری نہیں سمجھتے تھے ان کی یہ عادت شائع متعارف ہے چنانچہ شیعہ مذہب میں صدہا اسی قسم کی حدیثیں موجود ہیں اور خودامام دارقطنی نے اس کو احادیث کے سلسلہ میں لکھا ہے ماسوا اس کے یہ حدیث ایک غیبی امر پر مشتمل ہے جو تیرہ سو برس کے بعد ظہور میں آگیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت مہدیؔ موعود ظاہر ہوگا اُس کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند گرہن تیرھویں رات کو ہوگا اور اسی مہینہ میں سورج گرہن اٹھائیسویں دن ہوگا اور ایسا واقعہ کسی مدعی کے زمانہ میں بجز مہدی معہود کے زمانہ کے پیش نہیں آئیگا اور ظاہر ہے کہ ایسی کھلی کھی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 333۔۲؂ یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع نہیں فرماتا پس جبکہ یہ پیشگوئی اپنے معنوں کے رو سے کامل طور پر پوری ہو چکی تو اب یہ کچے بہانے ہیں کہ


* خدا تعالیٰ نے مختصر لفظوں میں فرما دیا کہ آخری زمانہ کی نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ میں شمس اور قمر کے کسوف خسوف کا اجتماع ہوگا اور اسی آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ اس وقت مکذب کو فرار کی جگہ نہیں رہے گی جس سے ظاہر ہے کہ وہ کسوف خسوف مہدی معہود کے زمانہ میں ہوگا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ وہ کسوف خسوف خدا کی پیشگوئی کے مطابق واقع ہوگا اس لئے مکذبوں پر حجت پوری ہو جائے گی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 205

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/205/mode/1up


حدیث ضعیف ہے یا امام محمد باقر کا قول ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ ہر گز نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو یا کوئی قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو۔ دنیا ختم ہونے تک پہنچ گئی مگر بقول اُن کے اب تک آخری زمانہ کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اور اس حدیث سے بڑھ کر اور کونسی حدیث صحیح ہوگی جس کے سر پر محدثین کی تنقید کا بھی احسان نہیں بلکہ اُس نے اپنی صحت کو آپ ظاہر کرکے دکھلا دیا کہ وہ صحت کے اعلیٰ درجہ پر ہے۔* خدا کے نشانوں کو قبول نہ کرنا یہ اور بات ہے ورنہ یہ عظیم الشان نشان ہے جو مجھ سے پہلے ہزاروں علماء اور محدثین اس کے وقوع کے اُمید وار تھے اور منبروں پر چڑھ چڑھ کر اور رو رو کر اس کو یاد دلایا کرتے تھے چنانچہ سب سے آخر مولوی محمد لکھوکے والے اسی زمانہ میں اسی گرہن کی نسبت اپنی کتاب احوال الآخرت میں ایک شعر لکھ گئے ہیں جس میں مہدی موعود کا وقت بتایا گیا ہے اور وہ یہ ہے:

تیرھویں چند ستیہویں ژ سورج گرہن ہو سی اُس سالے

اندر ماہ رمضانے لِکھیا ہک روایت والے

پھر دوسرے بزرگ جن کا شعر صدہا سال سے مشہور چلا آتا ہے۔ یہ لکھتے ہیں:

در۱۳۱۱سنِ غاشی ہجری دو قِران خواہدبود

از پئے مہدی و دجّال نشان خواہدبود

یعنی چو۱۳۱۱ دھویں صدی میں جب چاند اور سُورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا تب وہ مہدی معہود اوردجّال کے ظہور کا ایک نشان ہوگا۔ اِس شعر میں ٹھیک سن کسوف و خسوف درج ہوا ہے۔

۳۔ؔ تیسرا نشان۔ ذوالسنین ستارہ کا نکلنا ہے جس کے طلوع ہونے کا زمانہ مسیح موعود کا وقت مقرر تھا اور مدّت ہوئی کہ وہ طلوع ہو چکا ہے اسی کو دیکھ کر عیسائیوں کے بعض انگریزی اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ اب مسیح کے آنے کا وقت آگیا۔

۴۔ چوتھا نشان۔ ایک نئی سواری کانکلناہے جو مسیح موعود کے ظہور کی خاص نشانی ہے


۔۱ ؂ منہ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰـكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِىْ فِىْ الصُّدُوْرِ *

ژ شعر میں ستائیسویں کا لفظ سہو کا تب ہے یا خود مولوی صاحب سے بباعث بشریت سہو ہو گیاہے ورنہ جس حدیث کا یہ شعر ترجمہ ہے اُس میں بجائے ستائیس کے اٹھائیسویں تاریخ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 206

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/206/mode/1up


جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے3۱؂ یعنی آخری زمانہ وہ ہے جب اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی۔ اور ایسا ہی حدیث مسلم میں ہے ولیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھا۔ یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور کوئی اُن پر سفر نہیں کرے گا۔ ایامِ حج میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف اونٹنیوں پر سفر ہوتا ہے۔ اب وہ دن بہت قریب ہے کہ اس سفر کے لئے ریل تیار ہو جائے گی تب اس سفر پر یہ صادق آئے گا کہ لیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھا۔

۵ ۔پانچواں۔ نشان ۔حج کا بند ہونا ہے جو صحیح حدیث میں آچکا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں حج کرناکسی مُدت تک بندہو جا ئے گا۔ سو بباعث طاعون ۱۸۹۹ء و۱۹۰۰ء وغیرہ میں یہ نشان بھی ظہور میں آگیا۔

۶۔ چھٹا نشان۔ کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا جیسا کہ آیت 33 ۲؂ سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اِس کے بیان کی ضرورت نہیں۔

۷ ۔ساتواں نشان۔ کثرت سے نہریں جاری کئے جانا جیسا کہ آیت 3 3 ۳؂ سے ظاہر ہوتا ہے پس اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں اس کثرت سے نہریں جاری ہوئی ہیں۔جن کی کثرت سے دریا خشک ہوئے جاتے ہیں۔

۸۔ آٹھواں نشان۔ نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہو جانا ہے۔ جیسا کہ آیت 3 ۴؂سے ظاہر ہے سو بذریعہ ریل اور تار کے یہ امر ایسا ظہور میں آیا ہے کہ گویا دنیا بدل گئی ہے۔

۹۔ نواں نشان۔ زلزلوں کا متواتر آنا اور سخت ہونا ہے جیسا کہ آیت 33۔3۔ ۵؂ سے ظاہر ہے سو غیر معمولی زلزلے دنیا میں آرہے ہیں۔

۱۰۔ دسواں نشان۔ طرح طرح کی آفات سے اس زمانہ میں انسانوں کا کثرت سے ہلاک ہونا ہے جیسا کہ قرآن شریف کی اس آیت کا مطلب ہے333۶؂ ترجمہ۔ کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے کچھ مدّت پہلے ہلاک نہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 207

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/207/mode/1up


کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے۔ سو یہی وہ زمانہ ہے کیونکہ طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔

۱۱۔ گیارھواں نشان۔ دانیال نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ وہی لکھا ہے جس میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اور لکھا ہے کہ اس وقت بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور سفید کئے جائیں گے اور آزمائے جائیں گے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہیں سمجھے گا پر دانشور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور مکر وہ چیز جو خراب کرتی ہے قائم کی جائے گی ایک ہزار۱۲۹۰ دو سو نوے دن ہوں گے۔* مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار۱۳۳۵ تین سو پینتیس روز تک آتاہے۔‘‘ اس پیشگوئی میں مسیح موعود کی خبر ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا۔ سو دانیال نبی نے اس کا یہ نشان دیا ہے کہ اس وقت سے جو یہود اپنی رسم قربانیژ سوختنی کو چھوڑ دیں گے اور


دن سے مراد دانیال کی کتاب میں سال ہے اور اس جگہ وہ نبی ہجری سال کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اسلامی فتح اور غلبہ کا پہلا سال ہے۔ منہ

ژ حاشیہ۔ یہود اپنی کتابوں کی تعلیم کے موافق قربانی سوختنی کے پابند تھے جو ہیکل کے آگے بکرے ذبح کرکے آگ میں جلاتے تھے۔ اس میں شریعت کا راز یہ تھا کہ اسی طرح انسان کو خدا تعالیٰ کے آگے اپنے نفس کی قربانی دینی چاہئے اور نفسانی جذبات اور سر کشیوں کو ؔ جلا دینا چاہئے۔ اس قربانی کا عملدرآمد کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہود نے ترک کر دیا تھا اور دوسری مکروہات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے پس جب حقیقی سوختنی قربانی یہود نے ترک کر دی جس سے مراد خدا کی راہ میں اپنا نفس قربان کرنا اورجذبات نفسانیہ کو جلا دینا ہے تب خدا تعالیٰ کے قہری عذاب نے جسمانی قربانی سے بھی اُن کو محروم کر دیا۔ پس یہود کی پوری بد چلنی کا وہ زمانہ تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے۔ اسی زمانہ میں یہود کا پورا استیصال ہوا اور اسلامی قربانیاں جو حج بیت اللہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کی جاتی ہیں یہ دراصل انہیں قربانیوں کے قائم مقام ہیں جو یہودبیت المقدس کے سامنے کرتے تھے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اسلام میں سوختنی قربانی نہیں۔ یہود ایک سرکش قوم تھی۔ اُن کے لئے نفسانی جذبات کو جلا دینا ضروری سمجھ کر یہ نشان ظاہری قربانی میں رکھا گیا تھا۔ اسلام کے لئے اس نشان کی ضرورت نہیں صرف اپنے تئیں خدا کی راہ میں قربان کر دینا کافی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 208

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/208/mode/1up


بد چلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ایک ہزار دو سو نوے سال ہونگے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا سو اِس عاجز کے ظہور کا یہی وقت تھا کیونکہ میری کتاب براہین احمدیہ صرف چند سال بعد میرے مامور اور مبعوث ہونے کے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک با۱۲۹۰رہ سو نوے ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاؔ طبہ پا چکا تھا۔ پھر سات سال بعد کتاب براہین احمدیہ جس میں میرا دعویٰ مسطور ہے تالیف ہو کر شائع کی گئی جیسا کہ میری کتاب براہین احمدیہ کے سرورق پر یہ شعر لکھا ہوا ہے:

از بس کہ یہ مغفرت کا دِکھلاتی ہے راہ

تاریخ بھی یا غفو۱۲۹۷ ر نکلی واہ واہ

سو دانیال نبی کی کتاب میں جو ظہور مسیح موعود کے لئے با۱۲۹۰رہ سو نوے برس لکھے ہیں۔ اِس کتاب براہین احمدیہ میں جس میں میری طرف سے مامور اور منجانب اللہ ہونے کا اعلان ہے صرف سات برس اِس تاریخ سے زیادہ ہیں جن کی نسبت میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ مکالمات الٰہیہ کا سلسلہ اِن سات برس سے پہلے کا ہے یعنی با۱۲۹۰رہ سو نوے کا۔ پھر آخری زمانہ اس مسیح موعود کا دانیال ۱۳۳۵تیرہ سو پینتیس برس لکھتا ہے۔ جو خدا تعالیٰ کے اس الہام سے مشابہ ہے جو میری عمر کی نسبت بیان فرمایا ہے اور یہ پیشگوئی ظنی نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی جو مسیح موعود کے بارہ میں انجیل میں ہے اُس کا اِس سے توارد ہو گیا ہے اور وہ بھی یہی زمانہ مسیح موعود کا قرار دیتی ہے چنانچہ اس میں مسیح موعود کے زمانہ کی یہ علامتیں لکھی ہیں کہ اُن دنوں میں طاعون پڑے گی زلزلے آئیں گے لڑائیاں ہوں گی اور چاند اور سورج کا کسوف خسوف ہوگا۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ جس زمانہ کے آثار انجیل ظاہر کرتی ہے اُسی زمانہ کی دانیال بھی خبر دیتا ہے اور انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے کیونکہ وہ سب باتیں اس زمانہ میں وقوع میں آگئیں ہیں اور ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کی وہ پیشگوئی جو بائیبل میں سے استنباط کی گئی ہے اس کی مؤید ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود آدم کی تاریخ پیدائش سےؔ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا چنانچہ قمری حساب کے رُو سے جو اصل حساب اہل کتاب کا ہے میری ولادت چھٹے ہزار کے آخر میں تھی اور چھٹے ہزار کے آخر میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ابتدا سے ارادۂِ الٰہی میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 209

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/209/mode/1up


مقرر تھا۔ کیونکہ مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے اور آخر کو اوّل سے مناسبت چاہئے۔ اور چونکہ حضرت آدم بھی چھٹے دن کے آخر میں پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے بلحاظ مناسبت ضروری تھا کہ آخری خلیفہ جو آخری آدم ہے وہ بھی چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو۔ وجہ یہ کہ خدا کے سات دنوں میں سے ہر ایک دن ہزار برس کے برابر ہے جیسا کہ خود وہ فرماتا ہے۔33 ۔۱؂ اور احادیث صحیحہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود چھٹے ہزار میں پیدا ہوگا*۔ اِسی لئے تمام اہل کشف مسیح موعود کا زمانہ قرار دینے میں چھٹے ہزار برس سے باہر نہیں گئے اور زیادہ سے زیادہ اُس کے ظہور کا وقت چودھویں صدی ہجری لکھا ہےؤ۔ اور اہل اسلام کے اہل کشف نے مسیح موعود کو جو آخری خلیفہ اور خاتم الخلفاء ہے صرف اِس بات میں ہی آدم سے مشابہ قرار نہیں دیا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا اور مسیح موعود چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوگا بلکہ اس بات میں بھی مشابہ قرار دیا ہے کہ آدم کی طرح وہ بھی جمعہ کے دن پیدا ہوگا اور اسکی پیدائش بھی توَام کے طور پر ہوگی یعنی جیسا کہ آدم توَام کے طور پر پیدا ہوا تھا پہلے آدم اور بعد میں حوّا۔ ایسا ہی مسیح موعود بھی توَام کے طور پر پیدا ہوگا۔ سو الحمدللّٰہ والمنۃ کہ متصوفین کی اس پیشگوئی کا میں مصداق ہوں میں بھی جمعہ کے روز بوقت صبح توام پیدا ہوا تھا صرف یہ فرق ہوا کہ پہلے لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا۔ وہ چند روز کے بعد جنت میں چلی گئی اور بعد اس کے میں پیدا ہوا۔ اور اس پیشگوئی کو شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی اپنی کتاب فصوص میں لکھا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صینی الاصل ہوگا۔بہر حال


خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا ہے کہ سورۃ والعصر کے حروف حساب جمل کے رو سے ابتدائے آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جس قدر برس گزرے ہیں ان کی تعداد ظاہر کرتے ہیں۔ سورۃ ممد و حہ کی رو سے جب اس زمانہ تک حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ اب ساتواں ہزار لگ گیا ہے اور اسی حساب کے رو سے میری پیدائش چھٹے ہزار میں ہوئی ہے کیونکہ میری عمر اس وقت قریباً ۶۸ سال کی ہے۔ منہ


ؤ دیکھو حجج الکرامہ تالیف نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپال۔ منہ


ژ اس سے مطلب یہ ہے کہ اس کے خاندان میں تُرک کا خون ملا ہوا ہوگا ہمارا خاندان جو اپنی شہرت کے لحاظ سے مغلیہ خاندان کہلاتا ہے اس پیشگوئی کا مصداق ہے کیونکہ اگرچہ سچ وہی ہے کہ جو خدا نے فرمایا کہ یہ خاندان فارسی الاصل ہے مگر یہ تو یقینی اور مشہود و محسوس ہے کہ اکثر مائیں اور دادیاں ہماری مغلیہ خاندان سے ہیں اور وہ صینی الاصل ہیں یعنی چین کی رہنے والی۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 210

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/210/mode/1up


یہ تینوں پیشگوئیاں ایک دوسری کو قوت دیتی ہیں اور بباعث تظاہر کے یقین کی حدتک پہنچ گئی ہیں جن سے کوئی عقلمند انکار نہیں کر سکتا۔

۱۲۔ ؔ نشان۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی زلزلوں اور طاعون کی جیسا کہ ابھی لکھا گیا ہے کہ مسیح* موعود کا اُس وقت ظاہر ہونا ضروری ہے۔

۱۳۔ نشان۔ چھ ہزار برس کے آخر پر مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی جو بیبل سے استنباط کی گئی ہے۔

۱۴۔ نشان۔ میری نسبت نعمت اللہ ولی کی پیشگوئی جس کے اشعار میں نے اپنی کتاب نشان آسمانی میں نقل کئے ہیں۔

۱۵۔ نشان۔ میری نسبت گلاب شاہ جمالپوری کی پیشگوئی جس کو میں نے ازالہ اوہام میں مفصل لکھ دیا ہے۔

۱۶۔ نشان۔ میری نسبت پیر صاحب العلَم سندھی نے جس کے ایک لاکھ مُرید تھے اور وہ اپنی نواح میں مشہور بزرگ تھے خواب میں دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سچا ہے اور ہماری طرف سے ہے۔ اِس خواب کو میں تحفہ گولڑویہ میں شائع کر چکا ہوں اس لئے تفصیل کی ضرورت نہیں۔

۱۷۔ نشان۔ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کا الہام کہ یہ شخص حق پر ہے اور مسیح موعود بھی ہے۔ اور اسکے ساتھ کئی متواتر خوابیں تھیں جنہوں نے مولوی صاحب موصوف کو وہ استقامت بخشی کہ آخر انہوں نے میری تصدیق کے لئے کابل کی سر زمین میں امیر کابل کے حکم سے جان دی اُن کو


* ایک پادری صاحب لکھتے ہیں کہ طاعون اور زلزلوں کا آنا مسیح موعود ہونے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے زلزلے اور ایسی طاعون ہمیشہ دنیا میں ظاہر ہو تے رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زلزلے اور یہ طاعون بلا شبہ پنجاب اور ہندوستان میں غیر معمولی ہیں۔ صدہا برس تک بھی اس کا پتہ نہیں لگتا۔ اور کیا باعتبار کمیّت اور کیا باعتبارکیفیت یہ طاعون اور زلزلے خارق عادت ہیں۔ اگر پادری صاحب کو انکار ہے تو اس کی کوئی نظیر پیش کریں ماسوا اس کے اگر پہلے دنیا میں طاعون ہوتی رہی ہے اور زلزلے آتے رہے ہیں اور لڑائیاں ہوتی رہی ہیں تو اُس وقت مسیح موعود ہونے کا کوئی مدعی موجود نہ تھا۔ پس جبکہ ایسے غیر معمولی زلزلوں اور طاعون سے پہلے ایک مدعی مسیحیت موجود ہو گیا۔ اور بعد اس کے یہ سب علامتیں انجیل کے موافق ظہور میں آئیں تو کیوں اس سے انکار کیا جاوے۔ ہاں آسمان کے ستارے زمین پر نہیں گرے۔ سو اس کا جواب ہیئت دانوں سے پوچھ لو کہ کیا ستاروں کے گرنے سے انسان اور حیوان زندہ رہ سکتے ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 211

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/211/mode/1up


کئی مرتبہ امیر نے فہمائش کی کہ اُس شخص کی بیعت اگر چھوڑ دو تو پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزّت کی جائے گی۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں جان کو ایمان پرمقدم نہیں رکھ سکتا۔ آخر انہوں نے اِس راہ میں جان دی اور کہا کہ اِس راہ میں خدا کی رضامندی کے لئے جان دینا پسند کرتا ہوں۔ تب وہ پتھروں سے سنگسار کئے گئے اور ایسی استقامت دکھلائی کہ ایک آہ بھی ان کے مُنہ سے نہ نکلی اورچالیس دن تک ان کی نعش پتھروں میں پڑی رہی اورپھرایک مُرید احمد نور نام نے اُن کی لاش دفن کی اور بیان کیا گیا ہے کہ اُن کی قبر سے اب تک مُشک کی خوشبو آتی ہے۔ اور ایک بال اُن کا اس جگہ پہنچایا گیاجس سے اب تک مُشک کی خوشبو آتی ہے اور ہمارے بیت الدعاء کے ایک گوشہ میں ایک شیشہ میں آویزاں ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کاروبار محض ایک مفتری کا فریب تھا تو شہید مرحوم کو اتنے دور دراز فاصلہ پر سے کیوں میری سچائی کے بارہ میں الہام ہوئے اور کیوں متواتر خوابیں آئیں وہ تو میرے نام سے بھی بے خبر تھے محض خدا نے ان کو میری خبر دی کہ پنچاب میں مسیح موعود پیدا ہو گیا تب اُنہوں نے پنجاب کی خبروں کی تفتیش شروع کیؔ اور جب یہ پتہ مل گیا کہ درحقیقت ایک شخص قادیان متعلقہ پنجاب ضلع گورداسپور میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تب سب کچھ چھوڑ کر میری طرف بھاگے اور قریباً دو ماہ یہاں رہے اور پھر واپسی پر شریر مخبروں کی مخبری سے گرفتار کئے گئے اور جب گرفتاری کے بعد کہا گیا کہ اپنی بیوی اور بچوں سے ملاقات کر لو تو کہا کہ اب مجھ کو اُن کی ملاقات کی ضرورت نہیں میں اُن کو خدا کے حوالہ کرتا ہوں اور جب حکم سنایا گیا کہ آپ سنگسار کئے جاؤ گے تو کہا میں چالیس دن سے زیادہ مردہ نہیں رہوں گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو خدا کی کتابوں میں لکھا گیا کہ مومن مرنے سے چند روز بعد یا نہایت چالیس دن تک زندہ کیا جاتا اور آسمان کی طرف اُٹھایا جاتا ہے۔ یہ وہی جھگڑا ہے جو اب تک ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کی نسبت چلا آتا ہے۔ ہم موافق کتاب اللہ کے ان کے رفع روحانی ہونے کے قائل ہیں اور وہ کتاب اللہ کی مخالفت کرکے اور خدا کے حکم 3



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 212

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/212/mode/1up


3 ۱؂ کو پیروں کے نیچے رکھ کر رفع جسمانی ہونے کے قائل ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ یہ دجّال ہے کیونکہ لکھا ہے کہ تیس دجّال آئیں گے وہ نہیں سوچتے کہ اگر تیس دجّال آنے والے تھے تو اِس حساب کی رُو سے ہر ایک دجّال کے مقابل پر تیس مسیح بھی تو چاہئے تھے یہ کیا غضب ہے کہ دجّال تو تیس آگئے مگر مسیح ایک بھی نہ آیا۔ یہ اُمت کیسی بد قسمت ہے کہ اس کے حصہ میں دجّال ہی رہ گئے اور سچے مسیح کا منہ دیکھنا اب تک نصیب نہ ہوا حالانکہ اسرائیلی سلسلہ میں تو صد ہا نبی آئے تھے۔

غرض جس سلسلہ میں عبد اللطیف شہیدجیسے صادق اور ملہم خدا نے پیدا کئے جنہوں نے جان بھی اِس راہ میں قربان کر دی اور خدا سے الہام پاکر میری تصدیق کی ایسے سلسلہ پر اعتراض کرنا کیا یہ تقویٰ میں داخل ہے ایک پارسا طبع صالح اہل علم کا ایک جھوٹے انسان کے لئے اِس قدر عاشقانہ جوش کب ہو سکتا ہے۔

کس بہر کسے سرندہد جان نفشاند

عشق است کہ ایں کاربصد صدق کناند

عشقؔ است کہ در آتش سوزاں بنشاند

عشق است کہ بر خاکِ مذلّت غلطاند

بے عشق دلے پاک شود من نپذیرم

عشق است کزیں دام بیکدم برہاند

صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف شہید نے اپنے خون کے ساتھ سچائی کی گواہی دی الاستقامت فوق الکرامت۔ مگر آج کل کے اکثر علماء کا یہ قاعدہ ہے کہ دو دو روپیہ سے اُن کے فتوے بدل جاتے ہیں اور اُن کی باتیں خدا کے خوف سے نہیں بلکہ نفس کے جوش سے ہوتی ہیں لیکن عبد اللطیف شہید مرحوم وہ صادق اور متقی خدا کا بندہ تھا جس نے خدا کی راہ میں نہ اپنی بیوی کی پروا کی نہ بچوں کی نہ اپنی جان عزیز کی۔ یہ لوگ ہیں جو حقّانی علماء ہیں جن کے اقوال و اعمال پیروی کے لائق ہیں۔ جنہوں نے اخیر تک خدا کی راہ میں اپنا صدق نباہ دیا۔

از بند گانِ نفس رہِ آں یگان مپرس

ہر جاکہ گرد خاست سوارے دران بجو

آں کس کہ ہست از پأ آن یار بے قرار

رو صحبتش گزین و قرارے دران بجو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 213

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/213/mode/1up


بر آستان آنکہ زخود رفت بہر یار

چُون خاک باش و مرضی ء یارے دران بجو

مردان بتلخ کامی و حرقت بدورسند

حرقت گزین وفتح حصارے دران بجو

بر مسند غرور نشستن طریق نیست

این نفس دون بسوزونگارے دران بجو

۱۸۔ اٹھارھواں نشان۔ خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے 3۔ 3۔3 ۱؂ یعنی اگریہ نبی ہمارے پر افترا کرتا تو ہم اس کو دہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے یہ آیت اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے معنوں میں عموم ہے جیسا کہ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ بظاہر اکثر امرو نہی کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں لیکن اُن احکام میں دوسرے بھی شریک ہوتے ہیں یا وہ احکام دوسروں کے لئے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ یہ آیت33۲؂ یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اورایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اِس آیت کے مخاطب توآنحضرؔ ت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن در اصل مرجع کلام اُمت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خورد سالی میں ہی فوت ہو چکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بُزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔ 33۳؂ یعنی تیرے ربّ نے چاہا ہے کہ تو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔ اِس آیت میں بُت پرستوں کو جو بُت کی پوجا کرتے ہیں سمجھایا گیا ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں ہیں اور بُتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے۔ انہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفل نہیں تھے اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/214/mode/1up


والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی ربّ ہیں اورہر ایک شخص طبعًا یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو اُن کی خوردسالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

جملہ معترضہ کے بعد پھر ہم اصل کلام کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پرکچھ افترا کرتا تو ہم اُس کو ہلاک کر دیتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیرت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو ہلاک کردیتا مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دُوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افتراء کریں اور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں اُن کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی۔ یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے۔ ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں کے بر خلاف بھی ہے اور اب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو ؔ شخص خدا پر افتراکرے گا اورجھوٹا دعویٰ نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیاجاوے گا۔ علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت لَوْ تَقَولَّ عَلَینَا کوعیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہو وہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی۔ بھلا یہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کئے جاتے اور تمام کام بگڑ جاتا لیکن اگر کوئی دوسرا افترا کرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مُہلت دیتا ہے اور اُس کی نصرت اور تائید کرتا ہے اِس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہئے بلکہ یہ تو ایک دعویٰ ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے۔ افسوس میری عداوت کے لئے اِن لوگوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے نشانوں پر بھی حملے کرنے لگے۔ چونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے اِس دعویٰ وحی اورالہام پر پچیس۲۵ سال سے زیادہ گذر چکے ہیں جو آنحضرت ؐکے ایام بعثت سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ وہ تیئیس برس

تھے اور یہ تیس۳۰ سال کے قریب اور ابھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/215/mode/1up


معلوم نہیں کہ کہاں تک خدا تعالیٰ کے علم میں میرے ایام دعوت کا سلسلہ ہے اسلئے یہ لوگ باوجود مولوی کہلانے کے یہ کہتے ہیں کہ ایک خدا پر افترا کرنیوالا اور جھوٹا ملہم بننے والا اپنے ابتدائے افترا سے تیس سال تک بھی زندہ رہ سکتاہے اور خدا اس کی نصرت اور تائید کر سکتا ہے اور اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتے۔ اے بیباک لوگو! جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔ جو کچھ خدا نے اپنے لطف و کرم سے میرے ساتھ معاملہ کیا یہاں تک کہ اِس مُدّت دراز* میں ہر ایک دن میرے لئے ترقی کا دن تھا اور ہر ایک مقدمہ جو میرے تباہ کرنے کے لئے اُٹھا یا گیا خدا نے دشمنوں کو رسوا کیا۔ اگر اس مُدّت اور اُس تائید اور نصرت کی تمہارے پاس کوئی نظیر ہے تو پیش کرو۔ ورنہ بموجب آیت3 ۱؂ یہ نشان بھی ثابت ہو گیا اور تم اِس سے پوچھے جاؤگے۔

۱۹۔ انیسواں نشان یہ ہے کہ خواجہ غلام فرید صاحب نے جو نواب بہاولپور کے پیر تھے میری تصدیق کے لئے ایک خواب دیکھا جس کی بنا پر میری محبت خدا تعالیٰ نے اُن کے دل میں ڈال دی اور اسی بنا پر کتابؔ اشارات فریدی میں جو خواجہ صاحب موصوف کے ملفوظات ہیں جا بجا خواجہ صاحب موصوف میری تصدیق فرماتے ہیں۔ اہل فقر کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ظاہری جھگڑوں میں بہت کم پڑتے ہیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کو بذریعہ خواب یا کشف یا الہام پتہ ملتا ہے اسپر ایما ن لاتے ہیں۔ پس چونکہ خواجہ غلام فرید صاحب پیر صاحب العلم کی طرح پاک باطن تھے اس لئے خدا نے اُن پر میری سچائی کی حقیقت کھول دی اور کئی مولوی جیسے مولوی غلام دستگیر خواجہ صاحب کو میرا مکذب بنانے کے لئے آپ کے گاؤں میں پہنچے جیسا کہ کتاب اشارات فریدی میں خواجہ

صاحب نے خود یہ حالات بیان کئے ہیں اور بعض غزنویوں کا بھی خواجہ صاحب موصوف کے پاس خط پہنچا مگر آپ نے


* یہ یاد رہے کہ اگر میرے زمانہ الہام کو اس تاریخ سے لیا جائے جب اول حصہ براہین احمدیہ کا لکھا گیا تھا تب تو اس سال سے میرے الہام کے زمانہ کو ستائیس سال کے قریب ہوتے ہیں اور جب براہین احمدیہ کے چہارم حصہ سے شمار کیا جائے تو تب پچیس سال گذر گئے ہیں اور جب وہ زمانہ لیا جائے کہ جب پہلے الہام شروع ہوا تب تیس ۳۰ سال ہوتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/216/mode/1up


کسی کی بھی پروا نہیں کی اور ان خشک مُلّاؤں کو ایسے دندان شکن جواب دئے کہ وہ ساکت ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کا خاتمہ مصدق ہونے کی حالت میں ہوا چنانچہ وہ خطوط جو آپ نے میری طرف لکھے اُن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کس قدرمیری محبت اُن کے دل میں ڈال دی تھی اور کس قدر اپنے فضل سے میرے بارہ میں اُن کو معرفت بخش دی تھی۔ خواجہ صاحب نے اپنی کتاب اشارات فریدی میں مخالفوں کے حملوں کا جا بجا جواب دیا ہے جیسا کہ ایک جگہ اشارات فریدی میں لکھا ہے کہ کسی نے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں عرض کی کہ آتھم میعاد کے بعد مرا انہوں نے میرا نام لے کر فرمایا کہ اس بات کی کیا پروا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آتھم اُنہیں کے نفس سے مرا ہے یعنی انہیں کی توجہ اور عقد ہمت نے آتھم کا خاتمہ کر دیا۔* اور کسی نے میری نسبت آپ کو کہا کہ ہم اُن کو مہدی معہود کیونکر مان لیں کیونکہ مہدی موعود کی ساری علامتیں جو حدیثوں میں لکھی ہیں اُن میں پائی نہیں جاتیں۔ تب خواجہ صاحب اس کلمہ پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ تو کہو کہ تمام قرار دادہ نشان جو لوگوں نے پہلے سے سمجھ رکھے تھے کس نبی یا رسول میں سب کے سب پائے گئے اگر ایسا وقوع میں آتا تو کیوں بعض کافر رہتے اور بعض ایمان لاتے۔ یہی

سنّت اللہ ہے کہ جو جو علامتیں پیشگوئیوں میں کسی آنے والے نبی


* میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ آتھم کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ اپنے مفہوم کے مطابق پوری ہو گئی۔ اگر آتھم لوگوں کے رو برو جو ساٹھ ۶۰ یا ستر ۷۰ تھے دجّال کہنے سے رجوع نہ کرتا تو اس وقت کہہ سکتے تھے کہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی مگر جبکہ آتھم نے رجوع کر لیا تھا۔ تو ضرور تھا کہ وہ شرط کا فائدہ اُٹھاتا بلکہ اگر آتھم باوجود اس قدر رجوع کے جو اس نے اپنی عزّت اور حشمت کی کچھ پروا نہ کرکے عیسائیوں کے مجمع میں ہی رجوع کیا پھر بھی پندرہ مہینہ کے اندر مر جاتا تو خدا تعالیٰ کے وعدہ پر اعتراض ہوتا۔ تب کہہ سکتے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی مگر اب باوجود رجوع کے پھر اعتراض کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جن کو دین اور دیانت سے کچھ سروکار نہیں۔ ہاں جب آتھم پندرہ مہینہ کے گذرنے کے بعد شوخ چشم ہو گیا اور خدا تعالیٰ کے احسان کا شکر گذار نہ رہا تب ایک دوسری پیشگوئی کے مطابق میرے آخری اشتہار سے پندرہ مہینہ کے اندر مر گیا۔ بہر حال اس کی موت پندرہ مہینہ سے باہر نہ نکل سکی۔ چنانچہ ایک عقلمند نے باوجود عیسائی ہونے کے اقرار کیا ہے کہ آتھم کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ نہایت صفائی سے پوری ہو گئی اور انکار ہٹ دھرمی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 217

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/217/mode/1up


کے بارہ میں لکھی جاتی ہیں وہ تمام باتیں اپنے ظاہری الفاظ کے ساتھ ہر گز پوری نہیں ہوتیں بعضؔ جگہ استعارات ہوتے ہیں بعض جگہ خود اپنی سمجھ میں فرق پڑ جاتا ہے اور بعض جگہ پرانی باتوں میں کچھ تحریف ہو جاتی ہے اس لئے تقویٰ کا طریق یہ ہے کہ جو باتیں پوری ہو جائیں اُن سے فائدہ اُٹھائیں اور وقت اور ضرورت کو مد نظر رکھیں اور اگر تمام مقرر کردہ علامتوں کو اپنی سمجھ سے مطابق کرنا ضروری ہوتا تو تمام نبیوں سے دستبردار ہونا پڑتا اور انجام اس کا بجز محرومی اور بے ایمانی کے کچھ نہ ہوتا کیونکہ کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس پر تمام قرار داد ہ علامتیں ظاہری طور پر صادق آگئی ہوں۔ کوئی نہ کوئی کسر رہ گئی ہے۔ یہودی پہلے مسیح کی نسبت یعنی حضرت عیسیٰ کی نسبت کہتے تھے کہ وہ اُس وقت آئے گا کہ جب پہلے اس سے الیاس نبی دوبارہ زمین پر آجائے گا۔ پس کیا الیاس آگیا؟ ایسا ہی یہودیوں کا اِس بات پر اصرار تھا کہ آنے والا خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے ہوگا پس کیا وہ بنی اسرائیل میں سے ظاہر ہوا؟ پھر جبکہ یہودیوں کے خیال کے موافق جس پر ان کے تمام نبیوں کا اتفاق تھا خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا۔ پھر اگر مہدی موعود فاطمی یا عباسی خاندان سے ظاہر نہ ہوا تو اس میں کونسی تعجب کی جگہ ہے۔ خدا کی پیشگوئی میں کئی اسرار مخفی ہوتے ہیں اور امتحان بھی منظور ہوتا ہے۔*

پس جبکہ یہودی اپنے خیالات پر زور دینے سے ایمان سے محروم رہے تو مسلمانوں کے لئے یہ عبرت پکڑنے کا مقام ہے کیونکہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں میں سے بعض یہودی ہو جائیں گے یعنی یہودیوں کی عادت اختیار کریں گے اور اُن کے قدم پر چلیں گے جیسا کہ لکھا ہے کہ اگر کسی یہودی نے اپنی ماں سے بھی زنا کیا ہوگا تو وہ بھی کرینگے۔ پس کس قدر


. * حدیثوں کو خوب غور کرکے پڑھو وہ مہدی معہود کی نسبت اس قدر اختلاف رکھتی ہیں کہ گویا تناقضات کا مجموعہ ہے بعض حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی فاطمی ہوگا اور بعض میں لکھا ہے کہ عباسی ہوگا اور بعض میں لکھا ہے کہ رجل من اُمّتی یعنی میری اُمّت سے ایک شخص ہوگا اور ابن ماجہ کی حدیث نے ان سب روایات پر پانی پھیر دیا ہے کیونکہ اس حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ لا مھدی اِلّا عیسٰی یعنی عیسٰی ہی مہدی ہے اسکے سوا اور کوئی مہدی نہیں۔ پھر مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح حدیث نہیں کہہ سکتے۔ پس جس رنگ پر پیشگوئی ظہور میں آئی اور جو کچھ حَکَمِ موعود نے فیصلہ کیا وہی صحیح ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 218

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/218/mode/1up


خوف کا مقام ہے اکثر یہودیوں نے صرف اِس سبب سے حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا کہ اس بات کو انہوں نے اپنا فرض سمجھا کہ جب تک ساری علامتیں اور ساری نشانیاں اُن میں اپنے خیال کے موافق پوری ہوتی نہ دیکھ لیں تب تک ماننا ناجائزہے اور آخر کفر کے گڑھے میں گر گئے اور اس بات پر اب تک اڑے رہے کہ پہلے الیاس آنا چاہئے پھر مسیح اور خاتم الانبیاء بنی اسرائیل میں سے چاہئے۔ غرض خواجہ غلام فرید صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہؔ نور باطن عطا کیا تھا کہ وہ ایک ہی نظر میں صادق اور کاذب میں فرق کر لیتے تھے خدا اُن کو غریق رحمت کرے اور اپنے قرب میں جگہ دے۔ آمین

۲۰۔ بیسواں نشان۔ قریباً تیس برس کا عرصہ ہوا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا تھا کہ تو ایک نسل بعید کو دیکھے گا۔ اِس الہام کے صدہا آدمی گواہ ہیں اور کئی مرتبہ چھپ چکا ہے اب اس کے موافق ظہور میں آیا کہ میں نے وہ اولاد دیکھی جو پیشگوئی کے وقت موجود نہ تھی اور پھر اولاد کی اولاد دیکھی اور نہ معلوم ابھی کہاں تک اس پیشگوئی کا اثر ہے۔

۲۱۔ اکیسواں نشان۔ یہ کہ عرصہ تخمیناً تیس برس کا ہوا ہے کہ جب میرے والد صاحب خدا اُن کو غریق رحمت کرے اپنی آخری عمر میں بیمار ہوئے تو جس روز اُن کی وفات مقدر تھی دوپہر کے وقت مجھ کو الہام ہوا۔ وَالسّماءِ وَالطّارق اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ اُن کی وفات کی طرف اشارہ ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد پڑے گا۔ اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندہ کو عزا پُرسی تھی۔ تب میں نے سمجھ لیا کہ میرے والد صاحب غروب آفتاب کے بعد فوت ہو جائیں گے اور کئی اور لوگوں کو اس الہام کی خبر دی گئی اور مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنا ایک شیطان اور *** کا کام ہے کہ ایسا ہی ظہور میں آیا اور اس دن میرے والد صاحب کی اصل مرض جو درد گردہ تھی دور ہو چکی تھی صرف تھوڑی سی زحیر باقی تھی اور اپنی طاقت سے بغیر کسی سہارے کے پاخانہ میں جاتے تھے جب سورج غروب ہوا اور وہ پاخانہ سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 219

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/219/mode/1up


آکر چارپائی پر بیٹھے تو بیٹھتے ہی جان کندن کا غرغرہ شروع ہوا۔ اُسی غر غرہ کی حالت میں اُنہوں نے مجھے کہا کہ دیکھا یہ کیا ہے اور پھر لیٹ گئے اور پہلے اس سے مجھے کبھی اِس بات کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص غر غرہ کے وقت میں بول سکے اور غر غرہ کی حالت میں صفائی اور استقامت سے کلام کر سکے۔ بعد اس کے عین اس وقت جب کہ آفتاب غروب ہوا وہ اس جہان فانی سے انتقال فرماگئے اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔اور یہ اُن سب الہاموں سے پہلاؔ الہام اور پہلی پیشگوئی تھی جو خدا نے مجھ پر ظاہر کی دوپہر کے وقت خدا نے مجھے اِس کی اطلاع دی کہ ایسا ہونے والا ہے اور غروب کے بعد یہ خبر پوری ہو گئی اور مجھے فخر کی جگہ ہے اور میں اِس بات کو فراموش نہیں کروں گا کہ میرے والد صاحب کی وفات کے وقت خدا تعالیٰ نے میری عزا پُرسی کی اور میرے والد کی وفات کی قسم کھائی جیسا کہ آسمان کی قسم کھائی۔ جن لوگوں میں شیطانی روح جوش زن ہے وہ تعجب کریں گے کہ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ خدا کسی کو اس قدر عظمت دے کہ اُس کے والد کی وفات کو ایک عظیم الشان صدمہ قرار دے کر اُس کی قسم کھاوے مگر میں پھر دوبارہ خدائے عزّوجَلّکی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعہ حق ہے اور وہ خدا ہی تھا جس نے عزا پُرسی کے طور پر مجھے خبر دی اور کہا کہ والسماء والطارق اور اسی کے موافق ظہور میں آیا۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۲۲۔ بائیسواں نشان۔ یہ ہے کہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اِس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ اُنہیں کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے۔ جو اُن کی حیات سے مشروط تھی۔ اِس لئے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شائد تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 220

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/220/mode/1up


اِس الہام الٰہی کے ساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت دردناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے۔ درحقیقت یہ امر بار ہا آزمایا گیا ہے کہ وحی الٰہی میں دلی تسلی دینے کے لئے ایک ذاتی خاصیت ہے اور جڑھ اِس خاصیت کی وہ یقین ہے جو وحی الٰہی پر ہو جاتا ہے۔ افسوس ان لوگوں کے کیسے الہام ہیں کہ باوجود دعویٰ الہام کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے الہام ظنّی امور ہیں نہ معلوم یہ شیطانی ہیں یا رحمانی ایسے الہاموں کا ضررؔ اُن کے نفع سے زیادہ ہے مگر مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اِن الہامات پر اُسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اُسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں کیونکہ اس کے ساتھ الٰہی چمک اور نور دیکھتا ہوں اور اسکے ساتھ خدا کی قدرتوں کے نمونے پاتا ہوں۔ غرض جب مجھ کو الہام ہوا کہ الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ تو میں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوا مل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اُس کو سُنایا اور اُس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اِس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تامولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ 3روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہے جس کا نشان یہ ہے 3 یہ اُس زمانہ میں الہام ہوا تھا جبکہ ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھاجو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 221

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/221/mode/1up


مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی اُمید نہ تھی کہ3 دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اُٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے اُس نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقیناًکہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔* اور شائد اس سے زیادہ ہو اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہئے کہ سالہا سال سے صرف لنگر خانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے یعنی ؔ اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی یعنی الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ کس صفائی اور قوت اور شان سے پوری ہوئی۔ کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے۔ اگر اس میرے بیان کا اعتبار نہ ہو تو بیس برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھو تا معلوم ہو کہ کس قدر آمدنی کا دروازہ اِس تمام مدّت میں کھولا گیا ہے حالانکہ یہ آمدنی صرف ڈاک کے ذریعہ تک محدود نہیں رہی بلکہ ہزار ہا روپیہ کی آمدنی اس طرح ہی ہوتی ہے کہ لوگ خود قادیان میں آکر دیتے ہیں اور نیز ایسی آمدنی جو لفافوں میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں۔

۲۳۔ تیئیسواں نشان۔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی ہے جو بہت صفائی سے پوری ہو گئی ہے اور یہ دراصل دو پیشگوئیاں تھیں۔ اوّل یہ کہ وہ پندرہ مہینے کے اندر مر جائے گا دوسری یہ کہ اگر وہ اپنے اس کلام سے باز آجائے گا جو اُس نے شائع کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت


اگرچہ منی آرڈروں کے ذریعہ ہزارہا روپے آچکے ہیں مگر اُس سے زیادہ وہ ہیں جو خود مخلص لوگوں نے آکر دئے اور جو خطوط کے اندر نوٹ آئے اور بعض مخلصوں نے نوٹ یا سونا اس طرح بھیجا جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا اور مجھے اب تک معلوم نہیں کہ اُن کے نام کیا کیا ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 222

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/222/mode/1up


صلی اللہ علیہ وسلم دجّال تھے تو پندرہ* مہینے کے اندر نہیں مرے گا۔ اور جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں۔ موت کی پیشگوئی اس بنا پرتھی کہ آتھم نے اپنی ایک کتاب اندرونہ بیبل نام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کہا تھا اور یہ سچ ہے کہ پیشگوئی میں آتھم کے مَرنے کے لئے پندرہ مہینے کی میعاد تھی مگر ساتھ ہی یہ شرط تھی جس کے یہ الفاظ تھے کہ ’’بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ مگر آتھم نے اُسی مجلس میں رجوع کر لیا اور نہایت عاجزی سے زبان نکال کر اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر دجّال کہنے سے ندامت ظاہر کی۔ اِس بات کے گواہ نہ ایک نہ دو بلکہ ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ آدمی ہیں۔ جن میں سے نصف کے قریب عیسائی ہیں اور نصف کے قریب مسلمان اور میں خیال کرتاہوں کہ پچا۵۰س کے قریب اب تک اُن میں سے زندہ ہوں گے جن کے روبرو آتھم نے دجّال کہنے سے رجوع کیا اور پھر مرتے وقت تک ایسا لفظ مُنہ پر نہیں لایا۔ اب سوچنا چاہئے کہ کیسی بد ذاتی اور بدمعاشی اور بے ایمانی ہے کہ باوجود اِس کھلے کھلے رجوع کے جو آتھم نے ساٹھ۶۰ یا ستر ۷۰ آدمیوں کے رو برو کیا پھر بھی کہا جائے کہ اُس نے رجوعؔ نہیں کیا تمام مدارغضب الٰہی کا تو دجّال کے لفظ پر تھااور اسی بناء پر پیشگوئی تھی اوراُسی لفظ سے رجوع کرنا شرط تھا۔ مسلمان ہونے کا پیشگوئی میں کوئی ذکر نہیں پس جب اُس نے نہایت انکساری سے رجوع کیا تو خدا نے بھی رحمت کے ساتھ رجوع کیا۔ الہام الٰہی کا تو یہ مدعا نہیں تھا کہ جب تک آتھم اسلام نہ لاوے ہلاکت سے نہیں بچے گا۔ کیونکہ اسلام کے انکار میں تو سارے


* اس بات کی ہزاروں آدمیوں کو خبر ہوگی کہ جب آتھم کو بموجب شرط الہام کے تاخیر دی گئی تو اُس نے اس تاخیر کا کوئی شکر ادا نہ کیا بلکہ یہ سمجھ کر کہ بلا سر سے ٹل گئی حق پوشی اختیار کی اور کہا کہ میں نہیں ڈرا اور قسم کھانے سے بھی انکار کیا۔ حالانکہ عیسائی مذہب کے سارے بزرگ قسم کھاتے آئے ہیں اور انجیل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے خود قسم کھائی۔ پولوس نے قسم کھائی پطرس نے قسم کھائی لہٰذا اُس کی اِس حق پوشی کے بعد خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ اب جلد فوت ہو جائے گا۔ تب میں نے اس بارہ میں ایک اشتہار شائع کیا پس عجیب بات ہے کہ اس اشتہار کی تاریخ سے جو میں نے اس دوسرے الہام کی رو سے اُسکی موت کے بارہ میں شائع کیا تھا وہ پندرہ۱۵ مہینے کے اندر مر گیا۔ سو خدا نے آتھم کے لئے جبکہ اُس نے سچائی کی راہ چھوڑ دی اور حق پوشی کی وہی پندرہ ۱۵ مہینے قائم رکھے جس کے بارہ میں ہمارے مخالفوں کے گھروں میں ماتم اور سیاپا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 223

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/223/mode/1up


عیسائی شریک ہیں خدا اسلام کے لئے کسی پر جبر نہیں کرتا اور ایسی پیشگوئی بالکل غیرمعقول ہے کہ فلاں شخص اگر اسلام نہ لاوے تو فلاں مدّت تک مر جاوے گا دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو منکر اسلام ہیں۔ اور جیسا کہ میں بار بار لکھ چکا ہوں محض انکار اسلام سے کوئی عذاب کسی پر دنیا میں نہیں آسکتا بلکہ اس گناہ کی باز پُرس صرف قیامت کو ہوگی۔ پھر آتھم کی اِس میں کونسی خصوصیت تھی کہ بوجہ انکار اسلام اُس کی موت کی پیشگوئی کی گئی اور دوسروں کے لئے نہیں کی گئی بلکہ پیشگوئی کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مقدس کی نسبت دجّال کا لفظ استعمال کیا تھا جس قول سے اس نے ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ انسانوں کے رُوبرو رجوع کیا جن میں سے بہت سے شریف اور معزز تھے جو اس مجلس میں موجود تھے۔ پھر جبکہ اُس نے اِس لفظ سے رجوع کر لیا بلکہ بعد اس کے رو تا رہا تو خداتعالیٰ کی جناب میں رحم کے قابل ہو گیا۔ مگر صرف اِسی قدر کہ اُس کی موت میں چند ماہ کی تاخیر ہو گئی اور میری زندگی میں ہی مر گیا اور وہ بحث جو ایک مباہلہ کے رنگ میں تھی اس کی رو سے وہ بوجہ اپنی موت کے جھوٹا ثابت ہوا توکیا اب تک وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بے شک پوری ہو گئی اور نہایت صفائی سے پوری ہو ئی۔ ایسے دلوں پر خدا کی *** ہے کہ ایسے صریح نشانوں پر اعتراض کرنے سے بازنہیں آتے اگر وہ چاہیں تو آتھم کے رجوع پر میں چالیس ۴۰ آدمی کے قریب گواہ پیش کر سکتا ہوں اور اسی وجہ سے اُس نے قسم بھی نہ کھائی حالانکہ تمام عیسائی قسم کھاتے آئے ہیں اور حضرت مسیح نے خود قسم کھائی اور ہمیں اِس بحث کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔ آتھم اب زندہ موجود نہیں گیا۱۱رہ برس سے زیادہ عرصہ گذرا کہ وہ مر چکا ہے۔

۲۴۔نشان۔ ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں مجھے یہ الہام ہوا۔ پہلے بیہوشی ،پھر غشی، پھر موت، ساتھ ہی اسکے یہ تفہیم ہوئی کہ یہ الہام ایک مخلص دوست کی نسبت ہے جس کی موت سے ہمیں رنج پہنچے گا۔ چنانچہ اپنی جماعت کے بہت سے لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا اور الحکم ۳۰؍جون ۱۸۹۹ء میں درج ہو کر شائع کیا گیا پھر آخر جولائی ۱۸۹۹ء میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست یعنی ڈاکٹر محمد بوڑے خاں اسسٹنٹ سرجن



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 224

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/224/mode/1up


ایک ناگہانی موت سے قصور میں گذر گئے۔ اوّل بے ہوش رہے پھر یک دفعہ غشی طاری ہو گئی۔ پھر اس ناپائدار دُنیا سے کوچ کیا اور اُن کی موت اور اس الہام میں صرف بیس۲۰ بائیس۲۲ دن کا فرق تھا۔

۲۵ ۔پچیسواں نشان۔ کرم دین جہلمی کے اُس مقدمہ فوجداری کی نسبت پیشگوئی ہے جو اُس نے جہلم میں مجھ پر دائر کیا تھا جس پیشگوئی کے یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُک۔ رَبِّ فَاحفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور دوسرے الہامات بھی تھے جن میں بریت کا وعدہ تھا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اِس مقدمہ سے مجھ کو بَری کر دیا۔

۲۶ ۔چھبیسواں نشان۔ کرم دین جہلمی کے اس مقدمہ فوجداری میں میری بریت ہے جو گورداسپور میں چند ولال اور آتما رام مجسٹریٹ کی عدالت میں میرے پر دائر تھا اور پیشگوئی میں بتلایا گیا تھا کہ آخر بریّت ہوگی۔ چنانچہ میں بَری ہوا۔

۲۷ ۔ستائیسواں نشان-کرم دین جہلمی کی سزایابی کی نسبت پیشگوئی ہے جس کی رو سے آخر وہ سزا پاگیا دیکھو میری کتاب مواھب الرحمان صفحہ ۱۲۹ سطر ۸ یہ تینوں پیشگوئیاں بڑی تفصیل کے ساتھ مواہب الرحمان میں درج ہیں اور یہ کتاب مواہب الرحمان اُس وقت تالیف ہو کر شائع کی گئی تھی جبکہ پیشگوئی کا کوئی انجام معلوم نہ تھا پیشگوئی کی عبارت یہ ہے جو کتاب موصوف میں شائع ہوئی۔ ومن اٰیاتی ما انبأنی العلیم الحکیم فی امر رجل لئیم ۔ وبھتانہ العظیم واوحی الیّ انہ یرید ان یتخطف عرضک۔ ثم یجعل نفسہ غرضک۔ وارانی فیہ رؤیا ثلٰث مرات۔ وارانی ان العدوّ اعد لذالک ثلا ثۃ حُماۃٍ لتوھین و اعناتٍ ورئیت کأنّی احضرت محاکمۃ کالماخوذین ورئیت انّ اٰخر امری نجات بفضل ربّ العٰلمین۔ ولو بعد حین۔ و بُشّرتُ انّ البلاء یرد علٰی عدوی الکذاب المھین۔ فاشعت کلّما رأیت والھمت قبل ظھورہ فی جریدۃٍ یسمّی الحکم وفیؔ جریدۃ اخری یُسمّی البدر۔ ثم قعدت کالمنتظرین۔ وما مرّ علٰی مارئیت الّا سنۃ فاذا اظھر قدراللّٰہ علٰی ید عدوّ مبین اسمہ کرم الدین...



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/225/mode/1up


وقد ظھر بعض انبآء ہ تعالٰی من اجزآءِ ھٰذہ القضیۃ فیظھر بقیتھا کما وعد من غیر الشکّ والشبھۃ ترجمہ اور منجملہ میرے نشانوں کے ایک یہ ہے کہ جو خدائے علیم و حکیم نے ایک لئیم شخص کی نسبت اور اس کے بہتان عظیم کی نسبت مجھے خبر دی۔ اور مجھے اپنی وحی سے اطلاع دی کہ یہ شخص میری عزت دور کرنے کے لئے حملہ کرے گا اور انجام کار میرا نشانہ آپ بن جائے گا۔ اور خدا نے تین خوابوں میں یہ حقیقت میرے پر ظاہر کی اور خواب میں میرے پر ظاہر کیا کہ یہ دشمن تین حمایت کرنے والے اپنی کامیابی کے لئے مقرر کرے گا تاکہ کسی طرح اہانت کرے اور رنج پہنچاوے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ گویا میں کسی عدالت میں گرفتاروں کی طرح حاضر کیا گیا ہوں اور مجھے دکھلایا گیا کہ انجام ان حالات کا میری نجات ہے اگرچہ کچھ مُدت کے بعد ہو۔ اور مجھے بشارت دی گئی کہ اس دشمن کذاب مہین پر بَلاردّ کی جائے گی پس ان تمام خوابوں اور الہامات کو میں نے قبل از وقت شائع کر دیا اور جن اخباروں میں شائع کیا ایک کا نام ان میں سے الحکم ہے اور دوسری کا نام البدر۔ پھر میں انتظار کرتا رہا کہ کب یہ پیشگوئی کی باتیں ظہور میں آئیں گی پس جب ایک برس گذرا تو یہ مقدر باتیں کرم دین کے ہاتھ سے ظہور میں آگئیں (یعنی اُس نے ناحق میرے پر فوجداری مقدمات دائر کئے) پس اُس کے مقدمات دائر کرنے سے پیشگوئی کا ایک حصہ تو پورا ہوگیا اور جو باقی حصہ ہے یعنی میرااُس کے مقدمات سے نجات پانا۔اور آخر اُسی کا سزا یاب ہونا یہ بھی عنقریب پورا ہو جائے گا اس حصہ عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت تک نہ مجھے کرم دین کے مقدمات سے نجات اور رہائی ملی تھی اور نہ وہ سزایاب ہوا تھا بلکہ یہ سب کچھ پیشگوئی کے طورپر لکھا گیا تھا۔* یہ ترجمہ ہے اس پیشگوئی کا جو عربی میں اوپر لکھی گئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ کرم دین میرے سزا دلانے کے لئے فوجداری میں مقدمات دائر کرے گا اور کئی حمایتی اُس کو مدد دیں گے آخر وہ خود سزا پائے گا اور خدا مجھے اس کے شر سے نجات دیگا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/226/mode/1up


سو ا ؔ یسا ہی ظہور میں آیا۔اب سوچناچاہئے کہ یہ پیشگوئی کس قدر غیب پر مشتمل ہے کیاکسی انسان یا شیطان کا کام ہے کہ ایسی پیشگوئی کرے جو میری عزت اور دشمن کی ذلّت کا حکم دیتی ہے۔

۲۸ ۔اٹھائیسواں نشان۔ آتما رام کی اولاد کی موت کی نسبت پیشگوئی۔ چنانچہ بیس۲۰ دن میں دولڑکے اس کے مر گئے۔ اِس پیشگوئی کے گواہ وہ جماعت کے لوگ ہیں جو گورداسپور میں میرے ساتھ مقدمہ میں حاضر تھے۔

۲۹ ۔انتیسواں نشان۔ لالہ چندو لال مجسٹریٹ اکسٹرا اسسٹنٹ گورداسپورہ کے تنزل کی نسبت پیشگوئی۔ چنانچہ وہ گورداسپورہ سے تبدیل ہو کر ملتان منصفی پر چلا گیا۔

۳۰ ۔تیسواں نشان۔ ایک شخص ڈوئی نام امریکہ کا رہنے والا تھا اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور اسلام کا سخت دشمن تھا اُس کا خیال تھا کہ میں اسلام کی بیخ کنی کروں گا۔ حضرت عیسیٰ کو خدا مانتا تھا میں نے اُس کی طرف لکھا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرے اور ساتھ اس کے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ مباہلہ نہیں کرے گا تب بھی خدااُس کو تباہ کر دے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی امریکہ کے کئی اخباروں میں شائع کی گئی اور اپنے انگریزی رسالہ میں بھی شائع کی گئی۔ آخر اس پیشگوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی لاکھ روپیہ کی ملکیت سے اُس کو جواب مل گیا اوربڑی ذلّت پیش آئی اور آپ مرضِ فالج میں گرفتار ہو گیا ایساکہ اب وہ ایک قدم بھی آپ چل نہیں سکتا۔ہر ایک جگہ اُٹھاکر لے جاتے ہیں اور امریکہ کے ڈاکٹروں نے رائے دی ہے کہ اب یہ قابل علاج نہیں شائد چند ماہ تک مر جائے گا۔

۳۱ ۔اکتیسواں نشان ۔میری بریت کے بارہ میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں پیشگوئی تھی جو اُس نے میرے پر خون کا مقدمہ کیا تھا چنانچہ اس پیشگوئی کے موافق میں بری ہو گیا۔

۳۲ ۔بتیسواں نشان ٹیکس کے مقدمہ میں پیشگوئی ہے جو بعض شریر لوگوں نے سرکار انگریزی میں میری نسبت یہ مخبری کی تھی کہ ہزارہا روپیہ کی ان کو آمدنی ہے ٹیکس لگاناچاہئے اور خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ اس میں وہ لوگ نامراد رہیں گے چنانچہ ایساہی ظہورمیںآیا۔

۳۳ ۔ تینتیسواں نشان۔ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس میری نسبت بہ نیت سزا دلانے کے فوجداری میں ایک مقدمہ پولیس نے بنایا تھا اور اُس کی نسبت خدا تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/227/mode/1up


مجھےؔ بتلایا کہ ایسی کوشش کرنے والے نا مراد رہیں گے چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا انا تجالدنا فانقطع العدوواسبابہیعنی ہم نے تلوار کے ساتھ جنگ کیا پس نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن ہلاک ہو گیا اور اس کے اسباب بھی ہلاک ہوئے۔ اِس جگہ دشمن سے مراد ایک ڈپٹی انسپکٹر ہے جس نے ناحق عداوت سے مقدمہ بنایا تھا آخر طاعون سے ہلاک ہوا۔

۳۴ ۔چونتیسواں نشان یہ ہے کہ میرا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھا اور مخالفوں نے جیسا کہ اُن کی عادت ہے اس لڑکے کے مَرنے پر بڑی خوشی ظاہر کی تھی تب خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور لڑکا پیدا ہوگا جس کا نام محمود ہوگا اور اُس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا تب میں نے ایک سبز رنگ اشتہار میں ہزارہا موافقوں اور مخالفوں میں یہ پیشگوئی شائع کی اور ابھی ستر ۷۰دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہو گیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا۔

۳۵ ۔پینتیسواں نشان یہ ہے کہ پہلا لڑکا محمود احمد پیدا ہونے کے بعد میرے گھر میں ایک اور لڑکا پیداہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی اور اس کا اشتہار بھی لوگوں میں شائع کیا گیا چنانچہ دوسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔

۳۶ ۔چھتیسواں نشان یہ ہے کہ بشیر احمد کے بعد ایک اور لڑکا پیداہونے کی خدا نے مجھے بشارت دی چنانچہ وہ بشارت بھی بذریعہ اشتہار لوگوں میں شائع کی گئی بعد اس کے تیسرا لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام شریف احمد رکھا گیا۔

۳۷۔ سینتیسواں نشان یہ ہے کہ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا تُنَشَّأُ فِی الحِلیۃ یعنی زیور میں نشو و نما پائے گی یعنی نہ خورد سالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی۔ چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا اور اس کی پیدائش سے جب سات روز گذرے تو عین عقیقہ کے دن یہ خبر آئی کہ پنڈت لیکھرام پیشگوئی کے مطابق کسی کے ہاتھ سے مارا گیا تب ایک ہی وقت میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/228/mode/1up


دونشا ن پورے ہوئے۔

۳۸ ۔اٹھتیسواں نشان یہ ہے کہ لڑکی کے بعد مجھے ایک اور پسر کی بشارت دی گئی چنانچہ وہ بشارت قدیم دستور کے موافق شائع کی گئی اور پھر لڑکا پیدا ہوا اور اس کا نام مبارک احمدرکھا گیا۔

۳۹ ۔اُنتالیسواں نشان یہ ہے کہ مجھے وحی الٰہی سے بتلایا گیا کہ ایک اور لڑکی پیدا ہوگی مگر وہ فوت ہو جائے گی چنانچہ وہ الہام قبل از وقت بہتوں کو بتلایا گیا بعد اس کے وہ لڑکی پیداہوئی اور چندماہ بعد فوت ہو گئی۔

۴۰ ۔چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ دُخت کرام چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اورشاید ان دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام امۃ الحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں نشان یہ ہے کہ عرصہ بیس ۲۰یا اکیس۲۱ برس کا گذرگیا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں چار لڑکے دوں گا جو عمر پاویں گے اسی پیشگوئی کی طرف مواھب الرحمٰن صفحہ ۱۳۹ میں اشارہ ہے یعنی اس عبارت میں الحمد للّٰہ الذی وھب لی علی الکبر اربعۃً من البنین و انجز وعدہ من الاحسان یعنی اللہ تعالیٰ کو حمد و ثنا ہے جس نے پیرا نہ سالی میں چار لڑکے مجھے دیئے اور اپنا وعدہ پورا کیا (جو میں چار لڑکے دوں گا) چنانچہ وہ چار لڑکے یہ ہیں: محمود۱ احمد،

بشیر۲ احمد، شریف ۳احمد، مبارک۴ احمد جو زندہ موجود ہیں۔

۴۲۔بیالیسواں نشان یہ ہے کہ خدا نے نافلہ کے طور پر پانچویں لڑکے کا وعدہ کیا تھا۔ جیساکہ اسی کتاب مواہب الرحمن کے صفحہ ۱۳۹ میں اس طرح پر یہ پیشگوئی لکھی ہے:

و بشّرنی بخامسٍ فی حین من الاحیان یعنی پانچواں لڑکا جو چار سے علاوہ بطور نافلہ پیدا ہونے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/229/mode/1up


والاؔ تھا اُس کی خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ کسی وقت ضرور پیدا ہوگا اور اس کے بارہ میں ایک اور الہام بھی ہوا کہ جو اخبار البدر اور الحکم میں مدت ہوئی کہ شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ انّا نبشّرک بغلامٍ نافلۃً لک نا فلۃً من عندی۔ یعنی ہم ایک اور لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں کہ جو نافلہ ہوگا یعنی لڑکے کا لڑکا یہ نافلہ ہماری طرف سے ہے چنانچہ قریباً تین ماہ کا عرصہ گذرا ہے کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام نصیر احمد رکھا گیا۔ سو یہ پیشگوئی ساڑھے چار برس کے بعد پوری ہوئی۔

۴۳ ۔تینتالیسواں نشان یہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب کشتی نوح میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ طاعون کے زمانہ میں ہمیں ٹیکہ کی ضرورت نہیں ہوگی خدا ہماری اور اُن سب کی جو ہمارے گھر میں ہیں آپ حفاظت کرے گا اور بالمقابل عافیت ہمارے ساتھ رہے گی لیکن بعض ٹیکہ لگوانے والے جان کا نقصان اُٹھائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بعض لوگوں نے ٹیکہ سے اس قدر نقصان اٹھایا کہ اُن کی بینائی جاتی رہی اور بعض کے اور اعضا میں خلل پیدا ہو گیا اور سب سے زیادہ یہ کہ ملکوال ضلع گجرات میں ایک ہی دفعہ انیس آدمی ٹیکہ سے مر گئے۔

۴۴۔ چوالیسواں نشان یہ ہے کہ سردار نواب محمد علی خان صاحب* رئیس مالیر کوٹلہ کا لڑکا عبد الرحیم خاں ایک شدید محرقہ تپ کی بیماری سے بیمار ہو گیا تھا اور کوئی صورت جان بری کی دکھائی نہیں دیتی تھی گویا مردہ کے حکم میں تھا۔ اُس وقت میں نے اُس کے لئے دعا کی تو معلوم ہوا کہ تقدیر مبرم کی طرح ہے تب میں نے جناب الٰہی میں عرض کی کہ یاالٰہی میں اس کے لئے شفاعت کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا من ذا الذی یشفع عندہ الّا باذنہٖ یعنی کس کی مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کے کسی کی شفاعت کر سکے تب میں خاموش ہو گیا بعد اس کے بغیر توقف کے یہ الہام ہوا انک انت المجاز۔ یعنی تجھے شفاعت کر نے کی اجازت دی گئی تب میں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے دعا کرنی شروع کی۔ تو خدا تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی اور لڑکا گویا قبر میں سے نکل کر باہر آیا


*نواب صاحب موصوف عرصہ پانچ سال سے اپنی ریاست گاہ سے ہجرت کر کے قادیان میں مقیم ہیں اور سابقین میں سے ہیں۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/230/mode/1up


اور آثار صحت ظاہر ہوئے اور اس قدر لاغر ہو گیاتھا کہ مدّت دراز کے بعد وہ اپنے اصلی بدن پرآیاؔ اور تندرست ہو گیا اور زندہ موجود ہے۔

۴۵ ۔پینتالیسواں نشان یہ ہے کہ میرے مخلص دوست مولوی نور دین صاحب کا ایک لڑکا فوت ہو گیا تھااور وہی ایک لڑکا تھا اُس کے فوت ہونے پر بعض نادان دشمنوں نے بہت خوشی ظاہر کی اِس خیال سے کہ مولوی صاحب لاولد رہ گئے تب میں نے اُن کے لئے بہت دعا کی اور دعا کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی کہ تمہاری دعا سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اِس بات کا نشان کہ وہ محض دعا کے ذریعہ سے پیدا کیا گیا ہے یہ بتایا گیا کہ اُس کے بدن پر بہت سے پھوڑے نکل آئیں گے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبد الحیّ رکھا گیا اور اُس کے بدن پر غیر معمولی پھوڑے بہت سے نکلے جن کے داغ اب تک موجود ہیں۔ اور یہ پھوڑوں کا نشان لڑکے کے پیدا ہونے سے پہلے بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا تھا۔

۴۶ ۔چھیالیسواں نشان یہ ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ بجز ایک مقام کے پنجاب کے تمام اضلاع میں طاعون کا نام و نشان نہ تھا خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تمام پنجاب میں طاعون پھیل جائے گی اور ہر ایک مقام طاعون سے آلودہ ہو جائے گا اور بہت مَری پڑے گی اور ہزار ہا لوگ طاعون کا شکار ہو جائیں گے اور کئی گاؤں ویران ہو جائیں گے۔ اور مجھے دکھایا گیا کہ ہر ایک جگہ اور ہر ایک ضلع میں طاعون کے سیاہ درخت لگائے گئے ہیں چنانچہ یہ پیشگوئی کئی ہزار اشتہار اور رسالوں کے ذریعہ سے میں نے اس ملک میں شائع کی۔ پھر تھوڑی مدت کے بعد ہر ایک ضلع میں طاعون پھوٹ پڑی چنانچہ تین لاکھ کے قریب اب تک جانوں کا نقصان ہوا اور ہو رہا ہے اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اب اس ملک سے کبھی طاعون دور نہیں ہوگی جب تک یہ لوگ اپنی تبدیلی نہ کریں۔

۴۷ ۔سینتالیسواں نشان یہ ہے کہ ایک شخص مسمّی چراغ دین ساکن جموں میرے مُریدوں میں داخل ہوا تھا پھر مُرتد ہو گیا اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ میں عیسیٰ کا رسول ہوں اور اُس نے میرا نام دجّال رکھا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ نے مجھے عصا دیا ہے تا اس دجّال کو اس عصا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/231/mode/1up


کے ساتھ قتل کروں۔ اور میں نے اُس کی نسبت* یہ پیشگوئی کی کہ وہ غضب اللہ کی بیماری سے یعنی طاعون سے ہلاک ہوگا اور خدا اُس کو غارت کرے گا۔ چنانچہ وہ ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔

۴۸ ؔ ۔اٹھتالیسواں نشان یہ ہے کہ میں نے مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کی نسبت پیشگوئی کی تھی کہ وہ تین سال کے عرصہ میں فوت ہو جائے گا چنانچہ وہ تین سال کی مدت کے اندر فوت ہو گیا۔

۴۹ ۔انچاسواں نشان یہ ہے کہ میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدر میں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے جو بعض حصہ پنجاب میں ایک سخت تبا ہی کا موجب ہوگا اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے: زلزلہ کا دھکا۔ عفت الدیار محلہاو مقامہا چنانچہ وہ پیشگوئی ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو پوری ہوئی۔

۵۰۔ پچاسواں نشان یہ ہے کہ میں نے پھر ایک پیشگوئی کی تھی کہ اس زلزلہ کے بعد بہار کے دنوں میں پھر ایک اور زلزلہ آئے گا۔ اس الہامی پیشگوئی کی ایک عبارت یہ تھی۔ ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی۔‘‘ چنانچہ ۲۸؍فروری۱۹۰۶ء کو وہ زلزلہ آیا اور کوہستانی جگہوں میں بہت سا نقصان جانوں اور مالوں کے تلف ہونے سے ہوا۔

۵۱۔ اکاونواں نشان یہ ہے کہ پھر میں نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ کچھ مدت تک زلزلے متواتر آتے رہیں گے۔ ان میں سے چار زلزلے بڑے ہوں گے اور پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہوگا چنانچہ زلزلے اب تک آتے ہیں اور ایسے دو مہینے کم گذرتے ہیں جن میں کوئی زلزلہ نہیں آجاتا اور یقیناًیاد رکھنا چاہئے کہ بعد اس کے سخت زلزلے آنے والے ہیں خاص کر پانچواں زلزلہ جو قیامت کا نمونہ ہوگا اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ سب تیری سچائی کے لئے نشان ہیں۔

۵۲۔ باونواں نشان یہ کہ پنڈت دیانند جو آریوں کے لئے بطور گُروکے تھا جب اُس کا فتنہ حد سے


* دیکھو رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/232/mode/1up


بڑھ گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ اب اُس کی زندگی کا خاتمہ ہے۔چنانچہ اُسی سال میں وہ فوت ہوگیا۔ میں نے یہ پیشگوئی ایک آریہ شرمپت نام کو جو ساکن قادیان ہے قبل از وقوع بتلا دی تھی اور وہ ابتک زندہ ہے۔

۵۳۔تریپن واں نشان۔ یہ ہے کہ اسی شرمپت کا ایک بھائی بسمبرداس نام ایک فوجداری مقدمہ میں شائد ڈیڑھ سال کے لئے قید ہو گیا تھا تب شرمپت نے اپنی اضطراب کی حالت میں مجھ سے دعا کی درخواست کی۔ چنا ؔ نچہ میں نے اس کی نسبت دُعاکی تو میں نے بعد اس کے خواب میں دیکھا کہ میں اُس دفتر میں گیا ہوں جس جگہ قیدیوں کے ناموں کے رجسٹر تھے اور اُن رجسٹروں میں ہر ایک قیدی کی میعاد قید لکھی تھی تب میں نے وہ رجسٹر کھولا جس میں بسمبرداس کی قید کی نسبت لکھا تھا کہ اتنی قید ہے اور میں نے اپنے ہاتھ سے اُس کی نصف قید کاٹ دی اور جب اس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل کیا گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ انجام مقدمہ کا یہ ہوگا کہ مثل مقدمہ ضلع میں واپس آئے گی اور نصف قید بسمبرداس کی تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہوگا۔ اور میں نے وہ تمام حالات اُس کے بھائی لالہ شرمپت کو قبل از ظہور انجام مقدمہ بتلا دئے تھے اور انجام کار ایسا ہی ہوا جو میں نے کہا تھا۔

۵۴۔چونواں نشان۔ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کے قتل ہونے کی نسبت پیشگوئی ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے۔

۵۵۔ پچپنواں نشان۔ میاں عبد اللہ سنوری کی ایک ناکامی کی نسبت پیشگوئی ہے اِس پیشگوئی کے پورے ہونے کا گواہ خود میاں عبد اللہ سنوری ہے۔

۵۶۔ چھپنواں نشان ۔یہ کہ میں نے دہلی میں اپنی شادی کی نسبت پیشگوئی تھی یہ الہام میں نے بہتوں کو بتایا تھا جو اب تک زندہ موجود ہیں اور اس کی نسبت براہین میں ایک یہ الہام ہے جس سے ظاہر ہوتا تھاکہ سادات میں وہ رشتہ ہوگا۔ اذکرنعمتی رئیت خدیجتی*

۵۷ ۔مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کی نسبت براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ وہ میری نسبت


* حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سادات کی نانی ہے پس اس الہام میں ایک تو یہ اشارہ تھا کہ تمہاری بیوی قوم کی سید ہو گی اور دوسری یہ پیشگوئی تھی کہ اس کی اولاد سے ایک بڑی نسل پیدا ہو گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/233/mode/1up


تکفیر کے لئے کوشش کرے گا اور کافر ٹھہرانے کے لئے استفتاء لکھے گا۔

۵۸۔ اٹھاونواں نشان۔ مولوی نذیر حسین دہلوی کی نسبت براہین احمدیہ میںیہ پیشگوئی ہے کہ وہ فتوائے تکفیر دے گا۔

۵۹۔ انسٹھواں نشان۔ شیخ مہر علی ہوشیارپوری کی نسبت پیشگوئی۔ یعنی خواب میں میں نے دیکھا کہ اُس کے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر میں نے اُس کو بجھایا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر میری دعا سے رہائی ہوگی یہ تمام پیشگوئی میں نے خط میں لکھ کر شیخ مہر علی کو اس سے اطلاع دی بعد اس کے پیشگوئی کےؔ مطابق اس پر قید کی مصیبت آئی۔ اور پھر قید کے بعد پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق اُس نے رہائی پائی۔

۶۰۔ساٹھواں نشان۔ بعد میں شیخ مہر علی کی نسبت ایک اور پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ ایک اور سخت بلا میں مبتلا ہوگا چنانچہ بعد اس کے وہ مرض فالج میں مبتلا ہو گیا اور پھر حال معلوم نہیں۔

۶۱ ۔اکسٹھواں نشان۔ اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغیر مجھے یہ الہام ہوا اے عمّی بازئ خویش کر دی و مرا افسوس بسیار دادی۔ یہ پیشگوئی بھی اسی شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت اور ناگہانی موت ہوگی جو موجب صدمہ ہوگی جب یہ الہام ہوا تو اس دن یا اس سے ایک دن پہلے شرمپت مذکور کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا اُس نے امین چند نام رکھا اور مجھے آکر اُس نے بتلایا کہ میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا نام میں نے امین چند رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ اے عمی بازئ خویش کر دی و مراافسوس بسیار دادی۔ اور ہنوز اس الہام کے میرے پر معنی نہیں کھلے میں ڈرتا ہوں کہ اس سے مُراد تیرا لڑکا امین چند ہی نہ ہو کیونکہ تیری میرے پاس آمد و رفت بہت ہے اور الہامات میں کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ کسی تعلق رکھنے والے کی نسبت الہام ہوتا ہے۔ وہ یہ بات سن کر ڈر گیا اور اس نے گھر میں جاتے ہی اپنے لڑکے کا نام بد لا دیا یعنی بجائے امین چند کے گوکل چند نام رکھ دیا۔ وہ لڑکا اب تک زندہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/234/mode/1up


ہے اور ان دنوں میں کسی ضلع کے بندوبست میں مثل خواں ہے اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طورپر فوت ہو گیا اورمیرے اُس لڑکے کو اُس کی موت کا صدمہ پہنچا اور اس پیچ میں آکر شرمپت مذکور جو سخت متعصب آریہ ہے گواہ بن گیا اگرکہو کہ خدا کے الہام کے اُسی وقت کیوں معنے نہ کھولے گئے تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ مقطعات قرآنی کے اب تک معنے نہیں کھولے گئے کون جانتا ہے کہ 3۱؂ کیا چیز ہے اور 3۲؂کیا چیز ہے اور 3۳؂کیا چیز ہے۔او۱رآیت 3۴؂ کی نسبت حدیث میں ہے کہؔ آنحضرت نے فرمایا کہ اب تک مجھے اس کے معنی معلوم نہیں او۲ر نیز آپ نے فرمایا کہ مجھے ایک خوشہ بہشتی انگور کا دیا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے اور میں اس کی تاویل سمجھ نہ سکا جب تک کہ عکرمہ اُس کا بیٹا مسلمان ہوا اور ۳ مجھے ہجرت کی زمین بتلائی گئی اور میں نہ سمجھ سکا کہ وہ مدینہ ہے۔ غرض ایسے اعتراض بوجہ بے خبری سنت اللہ کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

۶۲۔ باسٹھواں نشان ۔قنصل رومی کی تباہی کی نسبت پیشگوئی ہے اس کا مفصل حال میری کتابوں میں مذکور ہے۔

۶۳ ۔تریسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے کہ قتل وغیرہ منصوبوں سے میں بچایا جاؤں گا چنانچہ آج تک باوجود متعدد حملوں کے خدا تعالیٰ نے دشمنوں کے شر سے مجھے بچایا۔

۶۴ ۔چوسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ جس قدر میرے پر مقدمات کئے جائیں گے مجھے فتح ہوگی۔ چنانچہ ہر ایک مقدمہ میں مجھے فتح ہوتی رہی۔

۶۵۔ پینسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ اس قدر لوگ میرے پاس آئیں گے کہ قریب ہوگا کہ میں ان کی کثرت ملاقات سے تھک جاؤں۔ چنانچہ کئی لاکھ آدمی میرے پاس آیا۔

۶۶۔ چھیاسٹھواں نشان ۔براہین احمدیہ میں اصحاب الصفہ کی نسبت پیشگوئی ہے چنانچہ کئی مخلص لوگ اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے میرے مکان کے بعض حصوں میں مع عیال مقیم ہیں جن میں سے سب سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/235/mode/1up


اول اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب ہیں۔

۶۷۔ ست سٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی۔* جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا۔

۶۸۔ اڑسٹھواں نشان۔ براہین احمدیہ میں شاہد نزاغ کی پیشگوئی جس کا پورا ہونا براہین احمدیہ میں مفصل لکھا ہے۔

۶۹۔ انہترواں نشان۔ حمامۃ البشریٰ میں جو کئی سال طاعون پیدا ہونے سے پہلے شائع کی تھی میں نے یہ لکھا تھا کہ میں نے طاعون پھیلنے کے لئے دعا کی ہے سو وہ دعا قبول ہو کر ملک میں طاعون پھیل گئی۔

۷۰۔ سترواں نشان۔ براہین احمدیہ میں بباعث تکذیب طاعون پیدا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی سو پچیس ۲۵برس بعد پنجاب میں طاعون پھیل گئی۔

۷۱۔ اکہترواں نشان جو کتاب سرالخلافہ کے صفحہ۶۲میں مَیں نے لکھا ہے یہ ہے کہ مخالفوں پر طاعون پڑنے کے لئے مَیں نے دُعا کی تھی یعنی ایسے مخالف جن کی قسمت میں ہدایت نہیں سو اس دُعا سے کئی سال بعد اس مُلک میں طاعون کا غلبہ ہوا اور بعض سخت مخالف اس دنیا سے گذر گئے اور وہ دُعا یہ تھی:

وخذرب من عادی الصلاح و مفسدًا

و نزّل علیہ الرجز حقًا و دمّرٖ

و فرج کروبی یا کریمی و نجِّنی

ومزّق خصیمی یا الٰھی و عفّرٖ


اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ کلام افصحت من لدن رب کریم۔ اور جو میں نے اب تک عربی میں کتابیں بنائی ہیں جن میں سے بعض نثر میں ہیں اور بعض نظم میں جس کی نظیر علماء مخالف پیش نہیں کر سکے ان کی تفصیل یہ ہے:۔

رسالہ ملحقہ انجام آتھم صفحہ۷۳ سے صفحہ ۲۸۲ تک۔ التبلیغ ملحقہ آئینہ کمالات اسلام۔ کرامات الصادقین۔ حمامۃ البشریٰ۔ سیرت الابدال۔ نور الحق حصہ اول۔ نور الحق حصہ دوم۔ تحفہ بغداد۔ اعجاز المسیح۔ اتمام الحجۃ۔ حجۃ اللہ۔ سر الخلافہ۔ مواہب الرحمٰن۔ اعجاز احمدی۔ خطبہ الہامیہ۔ الہدیٰ۔ علامات المقربین۔ملحقہ تذکرۃ الشہادتین اور وہ کتابیں جو عربی میں تالیف ہو چکی ہیں مگر ابھی شائع نہیں ہوئیں یہ ہیں۔ ترغیب المومنین۔ لجۃ النور۔ نجم الہدیٰ۔ منہ


ترجمہ:(۱)اے میرے خدا جو شخص نیک راہ اور نیک کام کا دشمن ہے اور فساد کرتا ہے اس کو پکڑ اور اس پر طاعون کا عذاب نازل کراور اس کو ہلاک کر دے۔(۲) اور میری بے قراریاں دور کر اور مجھے غموں سے نجات دے اے میرے کریم۔ اور میرے دشمن کو ٹکڑے ٹکڑے کر اور خاک میں ملا دے۔ یہ پیشگوئی اس وقت کی گئی تھی کہ جبکہ اس ملک کے کسی حصہ میں*



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/236/mode/1up


اورؔ پھر کتاب اعجاز احمدی میں یہ پیشگوئی تھی۔

اذا ما غضبنا غاضب اللّٰہ صاءِلًا

علٰی معتدٍ یؤذی و بالسّوء یجھر

جب ہم غضبناک ہوں تو خدا اُس شخص پر غضب کرتا ہے

جو حد سے بڑھ جاتا ہے اور کھلی کھلی بدی پر آمادہ ہوتا ہے

ویأتی زمان کاسرٌ کُلّ ظالم

وھل یھلکنّ الیوم الا المدَمّرٗ

اور وہ زمانہ آرہا ہے کہ ہر ایک ظالم کو توڑے گا اور وہی

ہلاک ہوں گے جو اپنے گناہوں کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں

وانّی لشرّ النّاس ان لم یکن لھم

جزاء اھانتھم صغارٌ یصغّرٗ

اور میں سب بد لوگوں سے بدتر ہوں گا

اگر اُن کے لئے ان کی اہانت کی جزا اہانت نہ ہو

قضی اللّٰہ انّ الطعن بالطعن بیننا

فذالک طاعون اتاھم لیبصروا

خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ طعن کا بدلہ طعن ہے

پس وہی طاعون ہے جو اُن کو پکڑے گی

ولمّا طغی الفسق المبید بسیلہ

تمنّیت لو کان الو باء* المتبّرٗ

اور جب فسق ہلاک کرنے والا حد سے بڑھ گیا

تو میں نے آرزو کی کہ اب ہلاک کرنے والی طاعون چاہئے

اور اس کے بعد یہ الہام ہوا۔ ع اے بسا خانۂ دشمن کہ تو ویران کر دی۔ اور یہ الحکم اور البدر میں شائع کیا گیا اور پھر مذکورہ بالا دُعائیں جو دشمنوں کی سخت ایذا کے بعد کی گئیں جناب الٰہی میں قبول ہو کر پیشگوئیوں کے مطابق طاعون کا عذاب اُن پر آگ کی طرح برسا اور کئی ہزار دشمن جو میری تکذیب کرتا اور بدی سے نام لیتا تھا ہلاک ہو گیا۔ لیکن اس جگہ ہم نمونہ کے طور پر چند سخت مخالفوں کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے مولوی رسل بابا باشندۂ امرتسر ذکر کے لائق ہے جس نے میرے رد میں کتاب لکھی اور بہت سخت زبانی دکھائی اور چند روزہ زندگی سے پیار کرکے جھوٹ بولا آخر خدا کے وعدہ کے موافق طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص محمد بخش نام جو ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ تھا عداوت اور ایذا پر کمر بستہ ہوا وہ بھی طاعون سے ہلاک ہوا۔ پھر بعد اس کے ایک شخص چراغ دین نام ساکن جموں اٹھا جو رسول ہونے کا دعویٰ کرتا تھا جس نے


* یہ پیشگوئی حمامۃ البشریٰ میں ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/237/mode/1up


میرا نام دجّال رکھا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت عیسیٰ نے مجھے خواب میں عصادیا ہے تا میں عیسیٰ کے عصاؔ سے اس دجال کو ہلاک کروں سو وہ بھی میری اس پیشگوئی کے مطابق جو خاص اُس کے حق میں رسالہ دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء میں اُس کی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو مع اپنے دونوں بیٹوں کے طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ کہاں گیا عیسیٰ کا عصا جس کے ساتھ مجھے قتل کرتا تھا؟ اور کہاں گیا اُس کا الہام انّی لمن المرسلین؟ افسوس اکثرلوگ قبل تزکیہ نفس کے حدیث النفس کو ہی الہام قرار دیتے ہیں اِس لئے آخر کار ذلّت اور رسوائی سے ان کی موت ہوتی ہے اور ان کے سوا اور بھی کئی لوگ ہیں جو ایذا اور اہانت میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کے قہر سے نہیں ڈرتے تھے اور دن رات ہنسی اور ٹھٹھا اور گالیاں دینا اُن کا کام تھا آخر کار طاعون کا شکار ہو گئے جیسا کہ منشی محبوب عالم صاحب احمدی لاہور سے لکھتے ہیں کہ ایک میرا چچا تھا جس کا نام نور احمد تھا وہ موضع بھڑی چٹھہ تحصیل حافظ آباد کا باشندہ تھا اُس نے ایک دن مجھے کہا کہ مرزا صاحب اپنی مسیحیت کے دعوے پر کیوں کوئی نشان نہیں دکھلاتے۔ میں نے کہا کہ اُن کے نشانوں میں سے ایک نشان طاعون ہے جو پیشگوئی کے بعد آئی جو دنیا کو کھاتی جاتی ہے تو اس بات پر وہ بول اُٹھا کہ طاعون ہمیں نہیں چھوئے گی بلکہ یہ طاعون مرزا صاحب کو ہی ہلاک کرنے کے لئے آئی ہے۔* اور اس کا اثر ہم پر ہر گز نہیں ہوگا مرزا صاحب پر ہی ہوگا اسی قدر گفتگو پر بات ختم ہو گئی۔ جب میں لاہور پہنچا تو ایک ہفتہ کے بعد مجھے خبر ملی کہ چچا نور احمد طاعون سے مر گئے اور اس گاؤں کے بہت سے لوگ اس گفتگو کے گواہ ہیں اور یہ ایسا واقعہ ہے کہ چھپ نہیں سکتا۔

اور میاں معراج الدین صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ مولوی زین العابدین جو مولوی فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کردہ تھا اور مولوی غلام رسول قلعہ والے کے رشتہ داروں میں سے تھا اور دینی تعلیم سے فارغ التحصیل تھااور انجمن حمایت اسلام لاہور کا ایک مقرب مدرس تھا اُس نے حضور کے صدق کے بارہ میں مولوی محمد علی سیالکوٹی سے کشمیری بازار میں ایک دو کان پر کھڑے ہو کر مباہلہ کیا۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد بمرض طاعون مر گیا اور نہ صرف وہ بلکہ اُس کی بیوی بھ


* یہ الفاظ خدا تعالیٰ کی نظر میں بطور مباہلہ کے تھے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/238/mode/1up


طاعون سے مر گئی اور اُس کا داماد بھی جو محکمہ اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا طاعون سے مر گیا۔ اِسی طرح اُس کے گھر کے ستر۱۷ہ آدمی مباہلہ کے بعد طاعون سے ہلاک ہو گئے۔

یہ ؔ عجیب بات ہے کیا کوئی اِس بھید کو سمجھ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں کاذب اور مفتری اور دجّال تو میں ٹھہرا مگر مباہلہ کے وقت میں یہی لوگ مرتے ہیں کیا نعوذ باللہ خدا سے بھی کوئی غلط فہمی ہو جاتی ہے؟ ایسے نیک لوگوں پر کیوں یہ قہر الٰہی نازل ہے جو موت بھی ہوتی ہے اور پھر ذلّت اور رسوائی بھی اور میاں معراج دین لکھتے ہیں کہ ایسا ہی کریم بخش نام لاہور میں ایک ٹھیکہ دار تھا وہ سخت بے ادبی اور گستاخی حضور کے حق میں کرتا تھا اور اکثر کرتا ہی رہتا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اُس کو سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر جوانی کی عمر میں ہی شکار موت ہوا۔

سیّد حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ سلطان سیالکوٹی حضور کا سخت مخالف تھا یہ وہی شخص تھا جس نے ارادہ کیا تھا کہ سیالکوٹ میں آپ کی سواری گذرنے پر آپ پر راکھ ڈالے آخر وہ سخت طاعون سے اسی ۱۹۰۶ء میں ہلاک ہوا اور اُس کے گھر کے نو ۹یا دس۱۰ آدمی بھی طاعون سے ہلاک ہوئے۔ ایسا ہی شہر سیالکوٹ میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حکیم محمد شفیع جو بیعت کرکے مرتد ہو گیا تھا جس نے مدرسۃ القرآن کی بنیاد ڈالی تھی آپ کا سخت مخالف تھا یہ بد قسمت اپنی اغراضِ نفسانی کی وجہ سے بیعت پر قائم نہ رہ سکا اور سیالکوٹ کے محلہ لوہاراں کے لوگ جو سخت مخالف تھے عداوت اور مخالفت میں اُن کا شریک ہو گیا۔ آخر وہ بھی طاعون کا شکار ہوا اور اُس کی بیوی اور اُس کی والدہ اور اُس کا بھائی سب یکے بعد دیگرے طاعون سے مرے اور اُس کے مدرسہ کو جو لوگ امداد دیتے تھے وہ بھی ہلاک ہو گئے۔

ایسا ہی مرزا سردار بیگ سیالکوٹی جو اپنی گندہ زبانی اور شوخی میں بہت بڑھ گیا تھا اور ہر وقت استہزا اور ٹھٹھا اس کا کام تھا اور ہر ایک بات طنز اور شوخی سے کرتا تھا وہ بھی سخت طاعون میں گرفتار ہو کرہلاک ہوا اور ایک دن اُس نے شوخی سے جماعت احمدیہ کے ایک فرد کو کہا کہ کیوں طاعون طاعون کرتے ہو ہم تو تب جانیں کہ ہمیں طاعون ہو پس اس سے دو دن بعد طاعون سے مر گیا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/239/mode/1up


۷۲۔بہترواں نشان۔ بعض سخت مخالف جنہوں نے مباہلہ کے طور پر *** اللّٰہ علی الکاذبین کہا تھا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مَرے جیسا کہ مولوی رشید احمد گنگوہی پہلے اندھا ہوا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا۔ اور بعض دیوانہ ہو کر مر گئے جیسا کہ مولوی شاہؔ دین لدھیانوی اور مولوی عبد العزیز اور مولوی محمد اور مولوی عبد اللہ لودھانوی جو اوّل درجہ کے مخالف تھے تینوں فوت ہو گئے۔ ایسا ہی عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے اپنے اس الہام کے بعد کہ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہوگا فوت ہو گئے۔

۷۳۔ تہترواں نشان۔ ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے طور پر مجھ سے مباہلہ کیا اور اپنی کتاب میں دعا کی کہ جو کاذب ہے خدا اُس کو ہلاک کرے پھر اس دعا سے چند دن بعد آپ ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ کس قدر مخالف مولویوں کے لئے نشان تھا اگر وہ سمجھتے۔

۷۴۔ چوہترواں نشان۔ ایسا ہی مولوی محمد حسن بھیں والامیری پیشگوئی کے مطابق مرا جیسا کہ میں نے مفصل اپنی کتاب مواہب الرحمن میں لکھا ہے۔

۷۵۔ پچھترواں نشان۔ میں نے اپنی کتاب نور الحق کے صفحہ ۳۵ سے صفحہ ۳۸ تک یہ پیشگوئی لکھی ہے کہ خدا نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ رمضان میں جو خسوف کسوف ہوا یہ آنے والے عذاب کا ایک مقدمہ ہے چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق ملک میں ایسی طاعون پھیلی کہ اب تک تین لاکھ کے قریب لوگ مر گئے۔

۷۶۔ چھہترواں نشان۔ براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے القیت علیک محبَّۃً منّی ولتصنع علٰی عینی یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا۔ اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے کہ جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک مدت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/240/mode/1up


نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں۔* اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پُر ہیں اورؔ بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔ جب میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا !درحقیقت ذرّہ ذرّہ پر تیرا تصرف ہے تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے۔

۷۷۔ ستترھواں نشان۔ بشیر احمد میرا لڑکا آنکھوں کی بیماری سے ایسا بیمار ہو گیا تھا کہ کوئی دوا فائدہ نہیں کر سکتی تھی اور بینائی جاتے رہنے کا اندیشہ تھا۔ جب شدت مرض انتہا تک پہنچ گئی تب میں نے دُعا کی تو الہام ہوا بَرّق طفلی بشیر۔ یعنی میرا لڑکا بشیر دیکھنے لگا۔تب اسی دن یا دوسرے دن وہ شفا یاب ہو گیا۔ یہ واقعہ بھی قریباً سو آدمی کو معلوم ہو گا۔

۷۸ ۔ اٹھترواں نشان۔ جب چھوٹی مسجد میں نے تعمیر کی جو ہمارے گھر کے ساتھ ایک کوچہ پر ہے تب مجھے خیال آیا کہ اس کی کوئی تاریخ چاہئے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا مبارک ومبارک و کل امرٍ مبارک یجعل فیہ یہ ایک پیشگوئی تھی اور اسی سے مادہ تاریخ بنائے مسجد نکلتا ہے۔


* حاشیہ: میں اپنی تحریر میں اس جگہ تک پہنچا تھا اور یہ فقرہ لکھ چکا تھا کہ اسی وقت ایک مخلص صادق کا خط آیا جو میرے سلسلہ میں داخل ہے اور چونکہ وہ خط اس فقرہ کے عین لکھنے کے وقت آیا اور اس کے مناسب حال تھا اس لئے ذیل میں اس کو لکھتا ہوں اور وہ یہ ہے۔

میری بڑی تمنا یہ ہے کہ قیامت میں حضور والا کے زیر سایہ جماعت بابرکت میں شامل ہوں جیسا کہ اب ہوں۔ آمین۔ حضور عالی اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے کہ خاکسار کو اس قدر محبت ذات والا صفات کی ہے کہ میرا تمام مال و جان آپ پر قربان ہے اور میں ہزار جان سے آپ پر قربان ہوں۔ میرے بھائی اور والدین آپ پر نثار ہوں۔ خدا میرا خاتمہ آپ کی محبت اور اطاعت میں کرے۔ آمین۔ می پریدم سوئے کوئے تو مدام۔ من اگر میداشتم بال وپرے۔ خاکسار سید ناصر شاہ اورسیئر از مقام بارہ مولا کشمیر۱۵؍اگست۱۹۰۶ء ۔در حقیقت یہ نوجوان مخلص نہایت درجہ اخلاص رکھتا ہے اور قریب دو ہزار روپیہ کے یا زیادہ اس سے اپنی محبت کے جوش سے دے چکا ہے اس خط کے ساتھ بھی پہنچے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/241/mode/1up


۷۹ ۷۹۔اُناسی واں نشان۔ براہین احمدیہ میں اس جماعت کی ترقی کی نسبت یہ پیشگوئی ہے کزرع اٰخرج شطأہٗ فاٰزرہ فاستغلظ فاستویٰ علٰی سُوْقہٖ۔ یعنی پہلے ایک بیج ہوگا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا پھر موٹاہوگا پھر اپنی ساقوں پر قائم ہوگا۔ یہ ایک بڑی پیشگوئی تھی جو اِس جماعت کے پیدا ہونے سے پہلے اور اُس کے نشو و نما کے بارہ میں آج سے پچیس برس پہلے کی گئی تھی ایسے وقت میں کہ نہ اُس وقت جماعت تھی اور نہ کسی کو مجھ سے تعلق بیعت تھا بلکہ کوئی اُن میں سے میرے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے یہ جماعت پیدا کر دی جو اَب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ مَیں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح تھا جوخدا تعالیٰ کے ہاتھ سے بویا گیا۔ پھر میں ایک مدت تک مخفی رہا پھر میرا ظہور ہوا اور بہت سی شاخوؔ ں نے میرے ساتھ تعلق پکڑا۔ سو یہ پیشگوئی محض خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے پوری ہوئی۔

۸۰ ۔ اسی واں نشان۔ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے۔ یُریدون ان یطفؤْا نور اللّٰہ بافواھھم واللّٰہ متمّ نورہٖ ولو کرہ الکافرون۔ یعنی مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں۔ یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ کوئی مخالف نہ تھا بلکہ کوئی میرے نام سے بھی واقف نہ تھا پھر بعداس کے حسب بیان پیشگوئی دنیا میں عزت کے ساتھ میری شہرت ہوئی اور ہزاروں نے مجھے قبول کیا تب اس قدر مخالفت ہوئی کہ مکہ معظمہ سے اہل مکہ کے پاس خلاف واقعہ باتیں بیان کرکے میرے لئے کفر کے فتوے منگوائے گئے اور میری تکفیر کا دنیا میں ایک شور ڈالا گیا قتل کے فتوے دئے گئے حُکّام کو اُکسایا گیا۔ عام لوگوں کو مجھ سے اور میری جماعت سے بیزار کیا گیا۔ غرض ہر ایک طرح سے میرے نابود کرنے کے لئے کوشش کی گئی مگر خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مولوی اور اُن کے ہم جنس اپنی کوششوں میں نا مراد اور نا کام رہے افسوس کس قدر مخالف اندھے ہیں ان پیشگوئیوں کی عظمت کو نہیں دیکھتے کہ کس زمانہ کی ہیں اور کس شوکت اور قدرت کے ساتھ پوری ہوئیں کیا بجز خدا تعالیٰ کے یہ کسی اور کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی نظیر پیش کرو نہیں سوچتے کہ اگر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/242/mode/1up


یہ انسان کا کاروبار ہوتا اور خدا کی مرضی کے مخالف ہوتا تو وہ اپنی کوششوں میں نا مراد نہ رہتے۔ کس نے اُن کو نا مراد رکھا؟ اُسی خدا نے جو میرے ساتھ ہے۔

۸۱۔ اکاسی واں نشان۔ براہین حمدیہ میں ایک یہ بھی پیشگوئی ہے یعصمک اللّٰہ من عندہ ولو لم یعصمک النّاس۔ یعنی خدا تجھے آپ تمام آفات سے بچائے گا اگرچہ لوگ نہیں چاہیں گے کہ تو آفات سے بچ جائے یہ اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں ایک زاویۂ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور کوئی مجھ سے نہ تعلق بیعت رکھتا تھا نہ عداوت۔ بعد اس کے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مَیں نے کیا تو سب مولوی اور اُن کے ہم جنس آگ کی طرح ہو گئے اُن دنوں میں میرے پر ایک پادری ڈاکٹر مارٹن کلارک نام نے خون کا مقدمہ کیا اس مقدمہ میں مجھے یہ تجربہ ہو گیا کہ پنجاب کے مولوؔ ی میرے خون کے پیاسے ہیں اور مجھے ایک عیسائی سے بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اور گالیاں نکالتا ہے بد تر سمجھتے ہیں کیونکہ بعض مولویوں نے اس مقدمہ میں میرے مخالف عدالت میں حاضر ہو کر اس پادری کے گواہ بن کر گواہیاں دیں اور بعض اس دعا میں لگے رہے کہ پادری لوگ فتح پاویں۔ میں نے معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ وہ مسجدوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا اس پادری کی مدد کر اُس کو فتح دے مگر خدائے علیم نے اُن کی ایک نہ سنی۔ نہ گواہی دینے والے اپنی گواہی میں کامیاب ہوئے اور نہ دعا کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ یہ علماء ہیں دین کے حامی اور یہ قوم ہے جس کے لئے لوگ قوم قوم پکارتے ہیں۔ ان لوگوں نے میرے پھانسی دلانے کے لئے اپنے تمام منصوبوں سے زور لگایا اور ایک دشمن خدا اور رسول کی مدد کی۔ اور اس جگہ طبعاً دلوں میں گذرتا ہے کہ جب یہ قوم کے تمام مولوی اور اُن کے پیرو میرے جانی دشمن ہو گئے تھے پھر کس نے مجھے اُس بھڑکتی ہوئی آگ سے بچایا حالانکہ آ۸ٹھ ،نو۹ گواہ میرے مجرم بنانے کے لئے گذر چکے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اُسی نے بچایا جس نے پچیس۲۵ برس پہلے یہ وعدہ دیا تھا کہ تیری قوم تو تجھے نہیں بچائے گی اور کوشش کرے گی کہ تو ہلاک ہو جائے مگر میں تجھے بچاؤں گا جیسا کہ اُس نے پہلے سے فرمایا تھا جو براہین احمدیہ میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/243/mode/1up


آج سے پچیس برس پہلے درج ہے اور وہ یہ ہے فَبَرَّأہُ اللّٰہ ممّا قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا یعنی خدا نے اُس الزام سے اُس کو بری کیا جو اُس پر لگایا گیا تھا اور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے۔

۸۲۔ بیاسی واں نشان۔ یہ پیشگوئی ہے جو بار ہا میرے رسالوں میں درج ہو چکی ہے انّ اللّٰہ لا یغیّر ما بقومٍ حتّٰی یغیّروا ما بانفسھم انّہٗ اوی القریۃ۔ یعنی خدا اس طاعون کو اس قوم سے دور نہیں کرے گا اور اپنا ارادہ نہیں بدلائے گا جب تک لوگ اپنے دلوں کی حالت نہ بدلا لیں اور خدا انجام کار اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ اور فرمایا کہ لو لا الاکرام لھلک المقام۔ یعنی اگر میں تمہاری عزت کا پاس نہ کرتا تو میں اِس تمام گاؤں کو ہلاک کر دیتا اور اُن میں سے ایک بھی نہ چھوڑتا اور فرمایا وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم اور خدا ایسا نہیں ہے کہؔ ان سب کو عذاب سے ہلاک کر دیتا حالانکہ تو انہیں میں رہتا ہے یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ فقرہ کہ انّہٗ اوی القریۃ اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قدر عذاب کے بعد اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لے گا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر گز اس میں طاعون نہیں آئے گی۔ اٰویٰ کا لفظ عربی زبان میں اُس پناہ دینے کو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی حد تک مصیبت رسیدہ ہو کر پھر امن میں آجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 3۔۱؂ یعنی خدا نے تجھے یتیم پایا اور یتیمی کے مصائب میں تجھے مبتلا دیکھا پھر پناہ دی۔ اور جیسا کہ فرماتا ہے3۲؂ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اُس کی ماں کو بعد اس کے جو یہودیوں نے اُن پر ظلم کیا اور حضرت عیسیٰ کو سُولی دینا چاہا ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو پناہ دی اور دونوں کو ایک ایسے پہاڑ پر پہنچا دیا جو سب پہاڑوں سے اونچا تھا یعنی کشمیر کا پہاڑ جس میں خوش گوار پانی تھا اور بڑی آسائش اور آرام کی جگہ تھی اور جیسا کہ سورۃالکہف میں یہ آیت ہے 3۳؂ الجزو نمبر ۱۵ سورہ کہف یعنی غار کی پناہ میں آجاؤ اِس طرح پر خدا اپنی رحمت تم پر پھیلائے گا ۔یعنی تم ظالم بادشاہ کی ایذا سے نجات پاؤگے۔ غرض اٰویٰ کا لفظ ہمیشہ اُس موقعہ پر آتا ہے جب ایک شخص کسی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/244/mode/1up


حد تک کوئی مصیبت اُٹھا کر پھر امن میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہی پیشگوئی قادیان کی نسبت ہے چنانچہ صرف ایک دفعہ کسی قدر شدت سے طاعون قادیان میں ہوئی۔ بعد اس کے کم ہوتی گئی یہاں تک کہ اب کے سال میں ایک شخص بھی قادیان میں طاعون سے نہیں مرا۔ حالانکہ اردگرد صدہا آدمی طاعون سے فوت ہو گئے۔

۸۳۔تراسی واں نشان۔ ایک دفعہ میں اپنے اُس چوبارہ میں بیٹھا ہوا تھا جو چھوٹی مسجد سے ملحق ہے جس کا نام خدا تعالیٰ نے بیت الفکر رکھا ہے اور میرے پاس میرا ایک خدمتگار حامد علی نام پیر د بارہا تھا اتنے میں مجھے الہام ہوا تریٰ فخذًا اَلیمًا یعنی تو ایک درد ناک ران دیکھے گا ۔میں نے حامد علی کو کہا کہ اس وقت مجھے یہ الہام ہوا ہے اُس نے مجھے یہ جواب دیاکہؔ آپ کے ہاتھ پر ایک پُھنسی ہے شائد اسی کی طرف اشارہ ہو میں نے اُس کو کہا کہ کُجا ہاتھ اور کُجا ران یہ خیال بیہودہ اور غیر معقول ہے اور پُھنسی تو درد بھی نہیں کرتی اور نیز الہام کے یہ معنی ہیں کہ تو دیکھے گا نہ کہ اب دیکھ رہا ہے۔ بعد اس کے ہم دونوں چوبارہ پر سے اُترے۔ تابڑی مسجد میں جاکر نماز پڑھیں اور نیچے اُتر کر میں نے دیکھا کہ دو شخص گھوڑے پر سوار میری طرف آرہے ہیں دونوں بغیر کاٹھی کے دو گھوڑوں پر سوار تھے اور دونوں کی عمر بیس ۲۰برس سے کم تھی وہ مجھے دیکھ کر وہیں ٹھہر گئے اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ میرا بھائی جو دوسرے گھوڑے پر سوار ہے درد ران سے سخت بیمار ہے اور سخت لاچار ہے اس لئے ہم آئے ہیں کہ آپ اِن کے لئے کوئی دوا تجویز کریں۔ تب میں نے حامد علی کو کہا کہ الحمد للہ کہ میرا الہام اس قدر جلد پورا ہوا کہ صرف اسی قدر دیر لگی کہ جس قدر زینہ پر سے اُترنے میں دیر لگی ہے ۔شیخ حامد علی اب تک موجود ہے جو موضع تھہ غلام نبی کا باشندہ ہے اور ان دنوں میرے پاس ہے۔ کوئی شخص دوسرے کے لئے اپنے ایمان کو ضائع نہیں کر سکتابلکہ اگر درمیان تعلق مریدی کا ہو اور کوئی شخص اپنے مرید کو یہ کہے کہ میں نے اپنے لئے ایک جھوٹی کرامت بنائی ہے تو میرے لئے گواہی دے۔ تب وہ اپنے دل میں ضرور کہے گا کہ یہ تو ایک مکار اور بد آدمی ہے میں نے ناحق



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 245

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/245/mode/1up


اِس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے اِسی طرح جس قدر میں نے اِس رسالہ میں پیشگوئیاں لکھی ہیں ہزار ہا مرید میرے اُن کی سچائی کے گواہ ہیں۔ ایک جاہل کہے گا کہ مرید کی گواہی کا کیا اعتبار ہے میں کہتا ہوں کہ اس گواہی جیسی اور کوئی گواہی ہی نہیں کیونکہ یہ تعلق محض دین کے لئے ہوتا ہے اور انسان اُسی کا مرید بنتا ہے جس کو اپنی دانست میں تمام دنیا سے زیادہ پارسا طبع اور متقی اور راست گو خیال کرتا ہے پھر جب مرشد کا یہ حال ہو کہ صدہا جھوٹی پیشگوئیاں اپنی طرف سے تراش کر مریدوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ میرے لئے جھوٹ بولو اور کسی طرح جھوٹ بول کر مجھے ولی بنا دو اُس کو کیونکر اُس کے مرید نیک آدمی کہہ سکتے ہیں اور کیونکر دل و جان سے اُس کی خدمت کر سکتے ہیں بلکہ اُس کو تو ایک شیطان کہیں گے اور اُس سے بیزار ہو جائیں گے اور میں تو ایسے مرید پر *** بھیجتاؔ ہوں جو میری طرف جھوٹی کرامتیں منسوب کرے اور ایسا مرشد بھی *** ہے جو جھوٹی کرامتیں بنا وے۔

۸۴۔ نشان۔ ۵؍اگست ۱۹۰۶ء کو ایک دفعہ نصف حصہ اسفل بدن کا میرا بے حس ہو گیا اور ایک قدم چلنے کی طاقت نہ رہی اور چونکہ میں نے یونانی طبابت کی کتابیں سبقًا سبقًا پڑھی تھیں اس لئے مجھے خیال گذرا کہ یہ فالج کی علامات ہیں ساتھ ہی سخت درد تھی ۔دل میں گھبراہٹ تھی کروٹ بدلنا مشکل تھا۔ر ات کو جب میں بہت تکلیف میں تھا تو مجھے شماتت اعداء کا خیال آیا مگر محض دین کے لئے نہ کسی اور امر کے لئے۔ تب میں نے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ موت تو ایک امر ضروری ہے مگر تو جانتا ہے کہ ایسی موت اور بے وقت موت میں شماتتِ اعداء ہے تب مجھے تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا اِنَّ اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر۔ اِنّ اللّٰہ لا یخزی المؤمنین۔ یعنی خدا ہر چیز پر قادر ہے اور خدا مومنوں کو رُسوا نہیں کیا کرتا۔ پس اُسی خدائے کریم کی مجھے قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو اس وقت بھی دیکھ رہا ہے کہ میں اُس پر افتراکرتا ہوں یا سچ بولتا ہوں کہ اس الہام کے ساتھ ہی شاید آدھ گھنٹہ تک مجھے نیند آگئی اور پھر یک دفعہ جب آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مرض کا نام و نشان نہیں رہا تمام لوگ سوئے ہوئے تھے اور میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 246

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/246/mode/1up


اُٹھا اور امتحان کے لئے چلنا شروع کیا تو ثابت ہوا کہ میں کہ بالکل تندرست ہوں تب مجھے اپنے قادر خدا کی قدرت عظیم کودیکھ کر رونا آیا کہ کیسا قادر ہمارا خدا ہے اور ہم کیسے خوش نصیب ہیں کہ اُس کی کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور اس کے رسول کی پیروی کی اور کیا بد نصیب وہ لوگ ہیں جو اس ذوالعجائب خدا پر ایمان نہیں لائے۔

۸۵۔نشان۔ ایک مرتبہ میں قولنج زحیری سے سخت بیمار ہوا اور سو۱۶لہ دن پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا اور سخت درد تھا جو بیان سے باہر ہے انہیں دنوں میں شیخ رحیم بخش صاحب مرحوم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب کے والد ماجد بٹالہ سے میری عیادت کے لئے آئے اور میری نازک حالت انہوں نے دیکھی اور میں نے سنا کہ وہ بعض لوگوں کو کہہ رہے تھے کہ آج کل یہ مرض وباکی طرح پھیل رہی ہے بٹالہ میں ابھی میں ایک جنازہ پڑھ کر آیا ہوں جو اسی مرض سے فوت ہوا ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہؔ محمد بخش نام ایک حجام قادیان کا رہنے والا اُسی دن اسی مرض سے بیمار ہوا اور آٹھویں دن مر گیا اور جب سولہ۱۶ دن میری مرض پر گذرے تو آثار نومیدی کے ظاہر ہو گئے اور میں نے دیکھا کہ بعض عزیز میرے دیوار کے پیچھے روتے تھے اور مسنون طور پر تین مرتبہ سورہ یٰسٓ سنائی گئی۔ جب میری مرض اس نوبت پر پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے میرے دل پر القا کیا کہ اور علاج چھوڑ و اور دریا کی ریت جس کے ساتھ پانی بھی ہو تسبیح اوردرود کے ساتھ اپنے بدن پر ملو۔ تب بہت جلدی دریا سے ایسی ریت منگوائی گئی اور میں نے اِس کلمہ کے ساتھ کہ سبحان اللّٰہ و بحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم اور درود شریف کے ساتھ اُس ریت کو بدن پر ملنا شروع کیا۔ ہر ایک دفعہ جو جسم پر وہ ریت پہنچتی تھی تو گویا میرا بدن آگ میں سے نجات پاتا تھا صبح تک وہ تمام مرض دور ہو گئی اور صبح کے وقت الہام ہوا وان کنتم فی ریبٍ ممّا نزّلنا علٰی عبدنا فأْتوا بشفآءٍ من مثلہٖ۔

۸۶۔ نشان۔ ایک دفعہ مجھے دانت میں سخت درد ہوئی ایک دم قرار نہ تھا کسی شخص سے میں نے دریافت کیا کہ اس کا کوئی علاج بھی ہے۔ اس نے کہا کہ علاج دندان اخراج دندان۔ اور دانت نکالنے سے میرا دل ڈرا تب اُس وقت مجھے غنودگی آگئی اور میں زمین پر بیتابی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور چارپائی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 247

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/247/mode/1up


پاس بچھی تھی۔ میں نے بیتابی کی حالت میں اُس چار پائی کی پائینتی پر اپنا سر رکھ دیا اور تھوڑی سی نیند آگئی۔ جب میں بیدار ہوا تو درد کا نام و نشان نہ تھا اور زبان پر یہ الہام جاری تھا: اذا مرضت فھو یشفی یعنی جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجھے شفا دیتا ہے فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۸۷۔ستاسیواں نشان۔ یہ پیشگوئی ہے کہ میری اس شادی کے بارہ میں جو دہلی میں ہوئی تھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا تھا۔ الحمدللہ الذی جعل لکم الصھر والنسب۔ یعنی اُس خدا کو تعریف ہے جس نے تمہیں دامادی اور نسب دونوں طرف سے عزت دی یعنی تمہاری نسب کو بھی شریف بنایا اور تمہاری بیوی بھی سادات میں سے آئے گی۔ یہ الہام شادی کے لئے ایک پیشگوئی تھی جس سے مجھے یہ فکر پیدا ہوا کہ شادی کے اخراجات کو کیونکر میں انجام دوں گا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں اور نیز کیونکر میں ہمیشہ کے لئے اس بوجھ کا متحمل ہو سکوں گا تو میں نے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ ان اخرؔ اجات کی مجھ میں طاقت نہیں۔ تب یہ الہام ہوا کہ :

ہر چہ باید نو عروسی را ہمہ ساماں کنم

و آنچہ درکار شما باشد عطائے آں کنم

یعنی جو کچھ تمہیں شادی کے لئے درکار ہوگا تمام سامان اس کا میں آپ کروں گا اور جو کچھ تمہیں وقتاً فوقتاً حاجت ہوتی رہے گی آپ دیتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا شادی کے لئے جو کسی قدر مجھے روپیہ درکار تھا اُن ضروری اخراجات کے لئے منشی عبد الحق صاحب اکاوئنٹنٹلاہور نے پانچ سو روپیہ مجھے قرضہ دیا اور ایک اور صاحب حکیم محمد شریف نام ساکن کلانور نے جو امرتسر میں طبابت کرتے تھے دو سو روپیہ یا تین سو روپیہ مجھے بطور قرضہ دیا۔ اُس وقت منشی عبد الحق صاحب اکاوئنٹنٹنے مجھے کہا کہ ہندوستان میں شادی کرنا ایسا ہے جیسا کہ ہاتھی کو اپنے دروازہ پر باندھنا میں نے اُن کو جواب دیا کہ ان اخراجات کا خدا نے خود وعدہ فرما دیا ہے پھر شادی کرنے کے بعد سلسلہ فتوحات کا شروع ہو گیا اور یا وہ زمانہ تھا کہ بباعث تفرقہ وجوہ معاش پانچ سات آدمی کا خرچ بھی میرے پر ایک بوجھ تھا اور یا اب وہ وقت آگیا کہ بحساب اوسط تین سو۳۰۰ آدمی ہر روز مع عیال و اطفال اور ساتھ اس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 248

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/248/mode/1up


کئی غربا اور درویش اس لنگر خانہ میں روٹی کھاتے ہیں اور یہ پیشگوئی لالہ شرمپت آریہ اور ملاوامل آریہ ساکنان قادیان کو بھی قبل از وقت سُنائی گئی تھی اور شیخ حامد علی اور چند اور واقف کاروں کو اِس سے اطلاع دی گئی تھی اور منشی عبد الحق اکاونٹنٹ لاہوری اگرچہ اس وقت مخالفین کے زمرہ میں ہیں مگر میں اُمید نہیں رکھتا کہ وہ اِس سچی شہادت کا اخفاء کریں۔ واللّٰہ اعلم۔

۸۸۔ اٹھاسی واں نشان۔ جب دلیپ سنگھ کی نسبت اخباروں میں بار بار بیان کیا گیا تھا کہ وہ پنجاب میں آئے گا۔ تب مجھے دکھایا گیا کہ وہ ہر گز نہیں آئے گا بلکہ روکا جائے گا اور میں نے قریباً پانچ سو آدمیوں کو اِس پیشگوئی سے مطلع کیا تھا اور ایک اشتہار میں بھی جو دو ورقہ تھا اجمالاً اس پیشگوئی کو لکھا تھا چنانچہ آخر کار ایسا ہی ظہور میں آیا۔

۸۹۔نواسی واں نشان۔ میں نے سید احمد خان کی نسبت پیشگوئی کی تھی کہ آخر عمر میں اُن کو کچھ تکالیف پیش آئیں گی اور اُن کی عمر کے دن تھوڑے باقی ہیں اور یہ مضمون اشتہارات میں شائع کرؔ دیا تھا چنانچہ اس کے بعد ایک شریر ہندو کے غبن مال کی وجہ سے سید احمد خان کو آخری عمر میں بہت غم اور صدمہ اُٹھانا پڑا اور بعد اس کے تھوڑے دن تک ہی زندہ رہے اور اِسی غم اور صدمہ سے اُن کا انتقال ہو گیا۔

۹۰۔نوے واں نشان۔ ایک دفعہ قانون ڈاک کی خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا جس کی سزا پانچ 3سو روپیہ جرمانہ یا چھ۶ ماہ قید تھی اور بظاہر سبیل رہائی معلوم نہیں ہوتی تھی تب بعد دعا خواب میں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ مقدمہ رفع دفع کر دیا جائے گا اس مقدمہ کا مخبر ایک عیسائی رلیا رام نام تھا جو امرتسر میں وکیل تھا اور میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ اُس نے میری طرف ایک سانپ بھیجا ہے اور میں نے اُس سانپ کو مچھلی کی طرح تل کر اُس کی طرف واپس بھیج دیا ہے۔ چونکہ وہ وکیل تھا اس لئے میرے مقدمہ کی نظیر گویا اُس کے لئے کار آمدتھی اور تلی ہوئی مچھلی کا کام دیتی تھی چنانچہ وہ مقدمہ پہلی پیشی میں ہی خارج ہو گیا۔

۹۱۔ اکانواں نشان۔ براہین احمدیہ میں جو آج سے پچیس برس پہلے تمام ممالک میں شائع ہو چکی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 249

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/249/mode/1up


ہے یعنی ہر حصہ پنجاب اور ہندوستان اور بلاد عرب اور شام اورکابل اور بخارا غرض تمام بلاد اسلامیہ میں پہنچائی گئی ہے اس میں یہ ایک پیشگوئی ہے ربّ لا تذرنی فردًا و انت خیر الوارثین۔ یعنی خدا کی وحی میں میری طرف سے یہ دعا تھی کہ اے میرے خدا مجھے اکیلا مت چھوڑ جیسا کہ اب میں اکیلا ہوں اور تجھ سے بہتر کون وارث ہے یعنی اگرچہ میں اس وقت اولاد بھی رکھتا ہوں اور والد بھی اور بھائی بھی لیکن روحانی طور پر ابھی میں اکیلا ہی ہوں اور تجھ سے ایسے لوگ چاہتا ہوں جو روحانی طور پر میرے وارث ہوں یہ دعا اس آئندہ امر کے لئے پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ روحانی تعلق والوں کی ایک جماعت میرے ساتھ کر دے گاجو میرے ہاتھ پر توبہ کریں گے سو خدا کا شکر ہے کہ یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی ۔پنجاب اور ہندوستان سے ہزار ہا سعید لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ایسا ہی سرزمین ریاست امیر کابل سے بہت سے لوگ میری بیعت میں داخل ہوئے ہیں اور میرے لئے ؔ یہ عمل کافی ہے کہ ہزارہا آدمیوں نے میرے ہاتھ پر اپنے طرح طرح کے گناہوں سے توبہ کی ہے اور ہزار ہا لوگوں میں بعد بیعت میں نے ایسی تبدیلی پائی ہے کہ جب تک خدا کا ہاتھ کسی کو صاف نہ کرے ہر گز ایسا صاف نہیں ہو سکتا اور میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرے ہزار ہا صادق اور وفادار مرید بیعت کے بعد ایسی پاک تبدیلی حاصل کر چکے ہیں کہ ایک ایک فرد اُن میں بجائے ایک ایک نشان کے ہے اگرچہ یہ درست ہے کہ اُن کی فطرت میں پہلے ہی سے ایک مادہ رُشد اور سعادت کا مخفی تھا مگر وہ کھلے طور پر ظاہر نہیں ہوا جب تک انہوں نے بیعت نہیں کی غرض خدا کی شہادت سے ثابت ہے کہ پہلے میں اکیلا تھا اور میرے ساتھ کوئی جماعت نہ تھی اور اب کوئی مخالف اِس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ اب ہزارہا لوگ میرے ساتھ ہیں۔ پس خدا کی پیشگوئیاں اِس قسم کی ہوتی ہیں جن کے ساتھ نصرت اور تائید الٰہی ہوتی ہے۔ کون اِس بات میں مجھے جھٹلا سکتا ہے کہ جب یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ نے فرمائی اور براہین احمدیہ میں درج کرکے شائع کی گئی اُس وقت جیسا کہ خدا نے فرمایا میں اکیلا تھا اور بجُز خدا کے میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں اپنے خویشوں کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 250

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/250/mode/1up


نگاہ میں بھی حقیر تھا کیونکہ اُن کی راہیں اور تھیں اور میری راہ اور تھی اور قادیان کے تمام ہندو بھی باوجود سخت مخالفت کے اس گواہی کے دینے کے لئے مجبور ہوں گے کہ میں درحقیقت اُس زمانہ میں ایک گمنامی کی حالت میں بسر کرتا تھااورکوئی نشان اس بات کا موجود نہ تھا کہ اس قدر ارادت اور محبت اورجانفشانی کا تعلق رکھنے والے میرے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ اب کہو کہ کیا یہ پیشگوئی کرامت نہیں ہے۔ کیا انسان اس پر قادر ہے اور اگر قادر ہے تو زمانہ حال یا سابق زمانہ میں سے اس کی کوئی نظیر پیش کرو۔ 3 33 ا؂۔

۹۲۔ بانواں نشان۔ وہ مباہلہ ہے جو عبد الحق غزنوی کے ساتھ بمقام امرتسر کیا گیا تھا جس کو آج گیارہ سال گذر گئے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے۔عبد الحق نے مباہلہ کے لئے بہت اصرار کیا تھااور مجھے اس کے ساتھ مباہلہ کرنے میں تأمل تھا کیونکہ جس شخص کی شاگردی کی طرؔ ف وہ اپنے تئیں منسوب کرتا تھا وہ میرے خیال میں ایک صالح آدمی تھا یعنی مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی اور اگر میرے زمانہ کو وہ پاتا تو میں یقین کرتا ہوں کہ وہ مجھے میرے دعوے کے ساتھ قبول کرتا اورردّ نہ کرتا مگروہ مرد صالح میری دعوت سے پہلے ہی وفات پاگیا اور جو کچھ عقیدہ میں غلطی تھی وہ قابل مؤاخذہ نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی معاف ہے۔ مؤاخذہ دعوت اور اتمام حجت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ وہ متقی اورر استباز تھا اور تبتل اور انقطاع اس پر غالب تھا اور عباد صالحین میں سے تھا۔ میں نے اُس کی وفات کے بعد ایک دفعہ اُس کو خواب میں دیکھا اور میں نے اُس کو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے ہاتھ میں اور نوک آسمان میں ہے اور میں یمین ویسار میں اُس تلوار کو چلاتاہوں اور ہر ایک ضرب سے ہزار ہا مخالف مرتے ہیں اِس کی تعبیر کیا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے ایسی حجت کہ جو زمین سے آسمان تک پہنچے گی اور کوئی اُس کو روک نہیں سکے گا۔ اور یہ جو دیکھا کہ کبھی دہنی طرف تلوار چلائی جاتی ہے اور کبھی بائیں طرف اِس سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 251

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/251/mode/1up


مراد دونوں قسم کے دلائل ہیں جو آپ کو دئے جائیں گے یعنی ایک عقل اور نقل کے دلائل دوسرے خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں کے دلائل۔ سو اِن دونوں طریق سے دنیا پر حجت پوری ہوگی اور مخالف لوگ ان دلائل کے سامنے انجام کار ساکت ہو جائیں گے گویا مر جائیں گے۔ اور پھر فرمایا کہ جب میں دنیا میں تھا تو میں اُمیدوار تھا کہ ایسا کوئی انسان پیدا ہوگا یہ الفاظ ہیں جو اُن کے مُنہ سے نکلے۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیردی میں اور دوسری دفعہ مقام امرتسر میں اُن سے میری ملاقات ہوئی میں نے اُنہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اِس کے لئے آپ دُعا کرو مگر میں آپ کو نہیں بتلاؤنگا کہ کیا مُدعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درپوشیدہ داشتن برکت است و من انشاء اللہ دعا خواہم کردو الہام امراختیاری نیست۔ اور میرا مدعا یہ تھاکہ دین محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اُس کا مددگار ہو۔ بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا تھوڑے دنوں کے بعد بذرؔ یعہ ڈاک اُن کا خط مجھے ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ ’’ایں عاجز برائے شما دعا کردہ بود القاشد۔ وَانْصُرنا علی القوم الکافرین۔ فقیرراکم اتفاق مے افتدکہ بدیں جلدی القاشود ایں از اخلاص شمامے بینم۔‘‘

غرض عبد الحق کے بہت اصرار کے بعد میں نے اُس کی طرف لکھا کہ میں کسی مسلمان کلمہ گو سے مباہلہ کرنا نہیں چاہتا اُس نے جواب میں لکھاکہ جب ہم نے تم پر کفرکا فتویٰ دے دیا تو اب تمہارے نزدیک ہم کافر ہو گئے تو پھر مباہلہ میں کیا مضائقہ۔ غرض اس کے سخت اصرار کے بعد میں مباہلہ کے لئے امرتسر میں آیا اور چونکہ مجھے مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم سے دِلی محبت تھی اور میں اُن کو اپنے اس منصب کے لئے بطور ارہاص کے سمجھتا تھا یا جیسا کہ یحیٰی عیسیٰ کے پہلے ظاہر ہوا اس لئے میرے دل نے عبد الحق کے لئے کسی بد دُعا کو پسند نہیں کیا بلکہ میری نظر میں وہ قابل رحم تھا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ کس کو بُرا کہتا ہے۔ وہ اپنے خیال میں اسلام کے

لئے ایک غیرت دکھلاتا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ اسلام کی تائید میں خدا کا کیا ارادہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 252

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/252/mode/1up


بہر حال مباہلہ میں جو اُس نے چاہا کہا مگر میری دعا کا مرجع میرا ہی نفس تھا اور میں جنابِ الٰہی میں یہی التجا کر رہا تھا کہ اگر میں کاذب ہوں تو کاذبوں کی طرح تباہ کیا جاؤں اور اگر میں صادق ہوں تو خدا میری مدد اور نصرت کرے اِس بات کو گیارہ برس گذر گئے جب یہ مباہلہ ہوا تھا بعد اس کے جو کچھ خدا نے میری نصرت اور مدد کی میں اس مختصر رسالہ میں اُس کو بیان نہیں کر سکتا یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ جب مباہلہ کیا گیا تو میرے ساتھ صرف چند آدمی تھے جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے اور اب تین لاکھ سے بھی کچھ زیادہ میری بیعت کر چکے ہیں اور مالی مشکلات اس قدر تھے کہ بیس روپیہ ماہوار بھی نہیں آتے تھے اور قرضہ لینا پڑتا تھا اور اب میرے سلسلہ کی تمام شاخوں سے قریباً تین ہزار روپیہ ماہواری آمدنی ہے۔ اور خدا نے اس کے بعد بڑے بڑے قوی نشان دکھلائے جس نے مقابلہ کیا آخر وہ تباہ ہوا۔ جیسا کہ ان نشانوں کے دیکھنے سے جو محض بطور نمونہ اس جگہ لکھے گئے ہیں ظاہر ہوگا کہ خدا نے کیسی کیسی میری مدد کی۔ایسے ہی ہزار ہا نشاؔ ن نصرت الٰہی کے ظاہر ہو چکے ہیں جو صرف اُن میں سے اس قدر بطور نمونہ اس جگہ لکھے گئے اگر کسی شخص میں حیا اور انصاف ہو تو اُس کے لئے یہ نشان میری تصدیق کے لئے کافی ہیں۔

اور یہ حجت اُٹھانا کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا اور یہ کہ عیسائیوں نے بہت گالیاں دیں اور بہت شوخی کی تو سمجھنا چاہئے کہ کیا عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے ٹھٹھا نہیں کرتے اور کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کتابیں اب تک لکھ نہیں چکے اور ہنسی ٹھٹھے کو انتہا تک نہیں پہنچا دیا تو کیا ان بد قسمت لوگوں کی ان حرکات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مشتبہ ہو گئی یا آپ کی اِس سے کچھ رُسوائی ہوئی؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3333۔۱؂ یعنی کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس سے جاہل آدمیوں نے ٹھٹھا نہیں کیا۔ دیکھنا تو یہ چاہئیے کہ کیا ٹھٹھا کرنے میں وہ حق بجانب تھے۔ یا محض شیطنت اور شرارت تھی۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ آتھم پیشگوئی کے مطابق چند روز



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 253

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/253/mode/1up


زندہ رہا اورپھر پیشگوئی کے مطابق پندرہ مہینے کے اندرمر گیا اور اس کی موت کی تاخیر بوجہ اُس کے رجوع کے تھی۔ اِس بات کو دُنیا جانتی ہے کہ آتھم نے قریباً ستر۷۰ آدمی کے رو برو دجّال کہنے سے رجوع کیا۔ لہٰذا خدا نے چند ماہ تک اُس کی موت میں تاخیر ڈال دی اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد اُس کو اِس دُنیا سے اُٹھا بھی لیا کیونکہ دوسری پیشگوئی میں یہ بھی تھا کہ گو تاخیر کی گئی مگر پھر بھی آتھم پندرہ مہینے کے اندر فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ گیارہ سال گذر گئے کہ وہ مر گیا اور میں اب تک زندہ ہوں کیا آتھم نے قریباًستر۷۰آدمیوں کے رو برودجّال کہنے سے رجوع نہیں کیا؟ پھر کیاضرور نہ تھا کہ اُس کو کسی قدر تاخیر دی جاتی؟ میں اس خیال سے حیرت کے دریا میں ڈوب جاتا ہوں کہ اس صاف اور صریح پیشگوئی کاکیوں انکار کرتے ہیں۔ آخر کہنا پڑتا ہے کہ جن دلوں پر پردے ہیں وہ سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے اور مسلمان کہلا کر پھر عیسائیوں کو مدد دیتے ہیں اور وعید *** اللّٰہ علیالکاذبین سے نہیں ڈرتے۔ کوئی انسان دروغ اور افتراسے فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ دروغ گو کا انجام ذلّت اور ؔ رسوائی ہے اور سچائی کی آخر فتح ہے۔

عبد الحق کے ساتھ مباہلہ کرنے کے بعد جس قدر تائید اور نصرت الٰہی کے مجھے الہام ہوئے اور جس طرح عظمت اور شوکت سے وہ پورے ہوئے وہ تمام حال میری اُن تمام کتابوں میں بھراپڑا ہے جو مباہلہ کے بعد لکھی گئی ہیں جو چاہے دیکھ لے مجھے بار بار اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں میں صرف مختصرطور پر کہتا ہوں کہ بمجرداس کے کہ میں مباہلہ کرکے اپنے مکان پر آیا اُسی وقت تائید اور نصرت الٰہی کے الہام شروع ہو گئے۔* اور خدا نے متواتر بشارتیں مجھے دیں اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں دنیا میں تجھے ایک بڑی عزّت دوں گا۔ تجھے ایک بڑی جماعت بناؤں گا اور بڑے بڑے نشان تیرے لئے دکھلاؤں گا اور تمام برکات کا تیرے پر دروازہ کھولوں گا۔ چنانچہ ان پیشگوئیوں کے مطابق کئی لاکھ آدمی میری جماعت میں داخل ہوا جو اس راہ میں اپنی جان قربان کرتے ہیں اور اُس وقت سے آج تک دو لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ آیا۔ اور اس قدر ہر ایک


* اگر کسی کو شک ہو تو مباہلہ کے بعد جو الہام میں نے شائع کئے ان کو میری کتابوں اور اخباروں میں دیکھ لے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 254

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/254/mode/1up


طرف سے تحائف آئے کہ اگر وہ سب جمع کئے جاتے تو کئی کوٹھے اُن سے بھر جاتے اورمخالف لوگوں نے میرے پر مقدمے اُٹھائے اور مجھے ہلاک کرنا چاہا لیکن سب کے مُنہ کالے ہوئے اور ہر ایک مقدمہ میں انجام کار میری عزت اور اُن کی نامرادی تھی اور مباہلہ کے بعد تین لڑکے بھی میرے پیدا ہوئے اور مجھے خدا نے عزت کے ساتھ اسی دنیا میں شہرت دی کہ ہزارہا لوگ ذی عزت میری جماعت میں داخل ہوئے۔ یقینایاد رکھو کہ ہر ایک شخص جس کو اِس بات پر اطلاع ہو گی کہ مباہلہ کے پہلے میری عزت کیا تھی اور کس قدرمیری جماعت تھی اورکیا میری آمدنی تھی اور اولاد میری کس قدر تھی پھر بعد اس کے کیا ترقی ہوئی اُس کو گو کیسا ہی دشمن ہو ماننا پڑے گا کہ مباہلہ کے بعد خدا نے برکت پر برکت دینے سے میری سچائی کی گواہی دی۔ اب عبد الحق سے پوچھنا چاہئے کہ اُس کو مباہلہ کے بعد کونسی برکت ملی۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک کھلاکھلا معجزہ ہے اور قریب ہے کہ اندھا بھی اُس کو دیکھ لے مگر افسوس اُن لوگوں پر کہ جو رات کو دیکھتے ہیں اور دن کو اندھے ہو جاتے ہیں۔ مباہلہ کے دن سے آج تک مجھ پر فضل کی بارشیں ہو رہی ہیں اور جیسا کہ خدا ؔ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ دیکھ میں تیرے لئے آسمان سے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا۔ سو اُس نے ایسا ہی میرے ساتھ معاملہ کیا اوروہ نعمتیں دیں اور وہ نشان دکھلائے جو میں شمار نہیں کر سکتا۔ اور وہ عزت دی کہ کئی لاکھ انسان میرے پاؤں پر گر رہے ہیں۔

۹۳۔ترانواں نشان۔ اپنے امور وراثت کے متعلق ایک پیشگوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض غیر قابض جدّی شرکاء نے جو قادیان کی ملکیت میں ہمارے شریک تھے دخل یابی کا دعویٰ عدالت گورداسپور میں کیا تب میں نے دعا کی کہ وہ اپنے مقدمہ میں ناکام رہیں۔ اِس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فرمایا اجیب کُلّ دُعائک الّافی شرکاء ک یعنی میں تیری ساری دعائیں قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارہ میں نہیں*۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ اسی عدالت میں یا انجام کار


* اردو میں بھی الہام ہوا تھا جو یہی فقرہ ہے اس الہام میں جس قدر خدا نے اپنے اس عاجز بندہ کوعزت دی ہے وہ ظاہر ہے ایسا فقرہ مقامِ محبت میں استعمال ہوتا ہے اور خاص شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 255

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/255/mode/1up


کسی اورعدالت میں مدعی فتح پا جائیں گے یہ الہام اِس قدر زور سے ہوا تھا کہ میں نے سمجھا کہ شاید قریب محلہ کے لوگوں تک آواز پہنچی ہوگی اور میں جناب الٰہی کے اس منشاء سے مطلع ہو کر گھر میں گیا اور میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم اُس وقت زندہ تھے میں نے رو برو تمام گھر کے لوگوں کے سب حال اُن کو کہہ دیا۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں اگر پہلے سے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے مگر یہ عذر اُن کا محض سر سری تھا اور اُن کو اپنی کامیابی اور فتح پر یقین تھا چنانچہ پہلی عدالت میں تو اُن کی فتح ہو گئی۔ مگر چیف کورٹ میں مدعی کامیاب ہو گئے اور تمام عدالتوں کا خرچہ ہمارے ذمہ پڑا اور علاوہ اس کے وہ روپیہ جو پیروی مقدمہ کے لئے آپ قرضہ اُٹھایا تھا وہ بھی دینا پڑا اس طرح پر کئی ہزار روپیہ کا نقصان ہوا اور میرے بھائی کو اِس سے بڑا صدمہ پہنچا کیونکہ میں نے اُن کو کئی مرتبہ کہا تھا کہ شرکاء نے اپنا حصہ میرزا اعظم بیگ لاہوری کے پاس بیچا ہے آپکا حق شفعہ ہے روپیہ دے کرلے لو۔ مگر انہوں نے اِس بات کو قبول نہ کیا اور وقت ہاتھ سے نکل گیا اس لئے اس بات پر پچھتاتے رہے کہ کیوں ہم نے الہام الٰہی پر عمل نہ کیا یہ واقعہ اس قدر مشہور ہے کہ پچاس آدمی کے قریب اس واقعہ کو جانتے ہیں کیونکہ یہ الہام بہت سے لوگوں کو سُنایا گیا تھا جن میں سے بعض ہندو بھی ہیں۔

۹۴ؔ ۔ چورانواں نشان۔ ایک دفعہ میں لدھیانہ کی طرف سے قادیان کی طرف ریل گاڑی میں چلا آتا تھا اور میرے ساتھ شیخ حامد علی میرا خدمتگار اور چند اور آدمی بھی تھے جب ہم کسی قدر مسافت طے کر چکے تو تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا نصف ترانصف عمالیق را اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ وراثت کا حصہ ہے کہ کسی وارث کی موت سے ہمیں ملے گا اور نیز دل میں ڈالا گیا کہ عمالیق سے مراد میرے چچا زاد بھائی ہیں جو مخالفت بھی رکھتے تھے اور قد کے بھی لمبے تھے گویا خدا نے مجھ کو موسیٰ ٹھہرایا اور اُن کو مخالفِ موسیٰ جب میں قادیان میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ہمارے شرکاء میں سے ایک عورت امام بی بی نام مرض اسہال کبدی سے بیمار ہے چنانچہ وہ چند دن کے بعد مر گئی اور ہم دونوں گروہ کے سوا اُ س کا کوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 256

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/256/mode/1up


وارث نہیں تھا اس لئے اُس کی زمین میں سے آدھی تو ہمارے حصہ میں آئی اور آدھی زمین ہمارے چچازاد بھائیوں کے حصہ میں گئی اور اس طرح پر وہ پیشگوئی پوری ہو گئی جس کے پورے ہونے اور بیان کرنے پر ایک جماعت گواہ ہے اور نیز شیخ حامد علی بھی جو زندہ موجود ہے۔

۹۵۔پچانواں نشان۔ ایک دفعہ مجھے لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا اور میرے ساتھ وہی شیخ حامد علی اور دوسرا شخص فتح خان نام ساکن ایک گاؤں متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیارپور کا اور تیسرا شخص عبد الرحیم نام ساکن انبالہ چھاؤنی تھا اور بعض اور بھی تھے جو یاد نہیں رہے۔ جس صبح ہم نے ریل پر سوار ہونا تھا مجھے الہام کے ذریعہ سے بتایا گیا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ حرج بھی۔ میں نے اپنے ان تمام ہمراہیوں کو کہا کہ نماز پڑھ کر دعا کر لو کیونکہ مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ چنانچہ سب نے دعا کی اور پھر ہم ریل پر سوار ہو کر ہر ایک طور کی عافیت سے پٹیالہ میں پہنچ گئے۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو وزیر اعظم ریاست کا خلیفہ محمد حسن مع اپنے تمام ارکان ریاست کے جو شاید اٹھارہ گاڑیوں پر سوار ہوں گے پیشوائی کے لئے موجود دیکھے اور جب آگے بڑھے تو شاید سات ہزار کے قریب دوسرے عام و خاص شہر کے رہنے والے ملاقات کے لئے موجود تھے اِس حد تک تو خیر گذری نہ کوئی نقصان ہوا اور نہ کوئی حرج۔ لیکن جب واپس آنے کا ارادہ ہوا تو وہیؔ وزیر صاحب مع اپنے بھائی سید محمد حسین صاحب کے جو شاید ان دنوں میں ممبر کونسل ہیں مجھے ریل پر سوار کرنے کے لئے اسٹیشن پر میرے ہمراہ گئے اور اُن کے ساتھ نواب علی محمد خان صاحب مرحوم جھجروالے بھی تھے جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ریل کے چلنے میں کچھ دیر تھی میں نے ارادہ کیا کہ عصر کی نماز یہیں پڑھ لوں اس لئے میں نے چوغہ اتار کر وضو کرنا چاہا اور چوغہ وزیر صاحب کے ایک ملازم کو پکڑا دیا اور پھر چوغہ پہن کر نماز پڑھ لی اور اس چوغہ میں زادِ راہ کے طور پر کچھ روپیہ تھے اور اسی میں ریل کا کرایہ بھی دینا تھاجب ٹکٹ لینے کا وقت آیا تو میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کہ تا ٹکٹ کے لئے روپیہ دوں تو معلوم ہوا کہ وہ رومال جس میں روپیہ تھا گم ہو گیا ۔معلوم ہوتا ہے کہ چوغہ اُتارنے کے وقت کہیں گر پڑا مگر مجھے بجائے غم کے خوشی ہوئی کہ ایک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 257

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/257/mode/1up


حصہ پیشگوئی کا پوا ہو گیا۔ پھر ہم ٹکٹ کا انتظام کرکے ریل پر سوار ہو گئے جب ہم دوراہہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو شاید اُس وقت دس بجے رات کا وقت تھا اور وہاں صرف پانچ منٹ کے لئے ریل ٹھہرتی تھی میرے ایک ہمراہی شیخ عبد الرحیم نے ایک انگریز سے پوچھا کہ کیا لودہانہ آگیا؟ اُس نے شرارت سے یا کسی اپنی خود غرضی سے جواب دیا کہ ہاں آگیا تب ہم مع اپنے تمام اسباب کے جلد جلد اُتر آئے۔ اتنے میں ریل روانہ ہو گئی۔ اُترنے کے ساتھ ہی ایک ویرانہ سا اسٹیشن دیکھ کر پتہ لگ گیا کہ ہمیں دھوکہ دیا گیا وہ ایسا ویرانہ اسٹیشن تھا کہ بیٹھنے کے لئے چارپائی بھی نہیں ملتی تھی اور نہ روٹی کا سامان ہو سکتا تھا مگر اس امر کے خیال سے کہ اس حرجہ کے پیش آنے سے دوسرا حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو گیا اس قدر مجھے خوشی ہوئی کہ گویا اس مقام میں کسی نے ہمیں بھاری دعوت دی اور گویا ہر ایک قسم کا خوش مزہ کھانا ہمیں مل گیا۔ بعد اس کے اسٹیشن ماسٹر اپنے کمرہ سے نکلا۔ اُس نے افسوس کیا کہ کسی نے ناحق شرارت سے آپ کو حرج پہنچایا اور کہا کہ آدھی رات کو ایک مال گاڑی آئے گی اگر گنجائش ہوئی تو میں اس میں بٹھا دوں گا۔ تب اُس نے اس امر کے دریافت کے لئے تار دی اور جواب آیا گنجائش ہے تب ہم آدھی رات کو سوار ہو کر لودہانہ میں پہنچ گئے گویا یہ سفر اسی پیشگوئی کے لئے تھا۔

۹۶۔چھیانواں نشان۔ ایک دفعہ نواب علی محمد خان مرحوم رئیس لدھیانہ نے میری طرف خط لکھا کہ میرے بعض امور معاش بندہو گئے ہیں آپ دعا کریں کہ تا وہ کھل جائیں۔ جب میں نے دعا کی تو مجھے الہام ہوا کہ کھل جائیں گے۔ میں نے بذریعہ خط اُن کو اطلاع دے دی۔ پھر صرف دو چار دن کے بعد وہ وجوہ معاش کھل گئے اور اُن کو بشدت اعتقاد ہو گیا۔ پھر ایک دفعہ انہوں نے بعض اپنے پوشیدہ مطالب کے متعلق میری طرف ایک خط روانہ کیا اور جس گھڑی اُنہوں نے خط ڈاک میں ڈالا اُسی گھڑی مجھے الہام ہوا کہ اس

مضمون کا خط اُن کی طرف سے آنے والا ہے تب میں نے بلا توقف اُن کی طرف یہ خط لکھا کہ اس مضمون کا خط آپ روانہ کریں گے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 258

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/258/mode/1up


دوسرے دن وہ خط آگیا اور جب میرا خط اُن کو ملا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ غیب کی خبر کس طرح مل گئی کیونکہ میرے اِس راز کی خبر کسی کو نہ تھی۔ اور اُن کا اعتقاد اِس قدر بڑھاکہ وہ محبت اور ارادت میں فنا ہو گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی یاد داشت کی کتاب میں وہ دونوں نشان متذکرہ بالا درج کر دئے اور ہمیشہ اُن کو پاس رکھتے تھے جب میں پٹیالہ میں گیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے۔جب وزیر سید محمد حسن صاحب کی ملاقات ہوئی تو اتفاقاً سلسلہ گفتگو میں وزیر صاحب اور نواب صاحب کا میرے خوارق اور نشانوں کے بارہ میں کچھ تذکرہ ہوا تب نواب صاحب مرحوم نے ایک چھوٹی سی کتاب اپنی جیب میں سے نکال کر وزیر صاحب کے سامنے پیش کر دی اور کہا کہ میرے ایمان اور ارادت کا باعث تو یہ دو پیشگوئیاں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں اور جب کچھ مدت کے بعد اُن کی موت سے ایک دن پہلے میں اُن کی عیادت کے لئے لدھیانہ میں اُن کے مکان پر گیا تو وہ بواسیر کے مرض سے بہت کمزور ہو رہے تھے اور بہت خون آرہا تھا اس حالت میں وہ اُٹھ بیٹھے اور اپنے اندر کے کمرہ میں چلے گئے اور وہی چھوٹی کتاب لے آئے اور کہا کہ یہ میں نے بطور حرزِ جان رکھی ہے اور اس کے دیکھنے سے میں تسلی پاتا ہوں اور وہ مقام دکھلائے جہاں دونوں پیشگوئیاں لکھی ہوئی تھیں۔ پھر جب قریب نصف ؔ کے یا زیادہ رات گذری تو وہ فوت ہو گئے انّاللّٰہ و انّا الیہ راجعون میں یقین رکھتا ہوں کہ اب تک اُن کے کتب خانہ میں وہ کتاب ہوگی۔

215۹۔ستانواں نشان۔ یہ ایک پیشگوئی اخبار الحکم اور البدر میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے کہ تخرج الصدور الی القبور۔ اس کے معنوں کی تفہیم خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ہوئی تھی کہ پنجاب کے صدر نشین مولوی جو اپنی اپنی جگہ مفتی سمجھے جاتے ہیں جو ماتحت مولویوں کے استاد اور شیخ ہیں وہ بعد اس الہام کے قبروں کی طرف انتقال کریں گے سو بعد اس کے تمام مولویوں کے شیخ المشائخ مولوی نذیر حسین دہلوی اس دنیا کو چھوڑ گئے وہی میری نسبت سب سے پہلے فتویٰ دینے والے تھے جنہوں نے میرے کُفر کا فتویٰ دیا تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے اُستاد تھے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 259

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/259/mode/1up


اور انہوں نے مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی کے استفتاء پر یہ کلمات میری نسبت لکھے تھے کہ ایسا شخص ضال مضل اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ایسے لوگوں کو مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہیں کرنا چاہئے۔ اور اس مولوی نے یہ فتوے دیکر تمام پنجاب میں آگ لگا دی تھی اور لوگ اس قدر ڈر گئے تھے کہ ہم سے مصافحہ کرنے سے بھی بیزار ہو گئے تھے کہ شاید اس قدر تعلق سے بھی ہم کافر ہو جائیں گے پھر مولوی غلام دستگیر قصوری وہ بزرگ تھے جنہوں نے میرے کفر کے لئے مکہ معظمہ سے کفر کے فتوے منگوائے تھے وہ بھی اپنے یکطرفہ مباہلہ کے بعد انتقال کر گئے افسوس کہ مکہ والوں کو اُن کی اس موت کی خبر نہیں ہوئی تا اپنے فتوے واپس لیتے۔ پھر لودھیانہ کے مفتی مولوی محمد مولوی عبد اللہ مولوی عبد العزیز جنہوں نے کئی دفعہ مباہلہ کے رنگ میں *** اللّٰہ علی الکاذبین کہا تھا۔ وہ بھی اس الہام کے بعد گذر گئے۔ پھر امرتسر کے مفتی مولوی رسل بابا تھے وہ بھی کوچ کر گئے۔ اسی طرح بہت سے پنجاب کے مولوی اور بعض ہندوستان کے مولوی اس الہام کے بعد اس جہان کو چھوڑ گئے اگر ان سب کی اس جگہ فہرست لکھی جاوے تو وہ بھی ایک رسالہ بنے گا اور اس قدر جو لکھا گیا۔ وہ پیشگوئی کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ اور اگر کوئی اس قدر پر سیر نہ ہو تو ایکؔ لمبی فہرست ہم دے سکتے ہیں۔

۹۸۔اٹھانواں نشان۔ چند سال ہوئے ہیں کہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب تاجر مدراس جو اول درجہ کے مخلص جماعت میں سے ہیں قادیان میں آئے تھے اور اُن کی تجارت کے امور میں کوئی تفرقہ اور پریشانی واقع ہو گئی تھی اُنہوں نے دعا کے لئے درخواست کی۔ تب یہ الہام ہوا جو ذیل میں درج ہے۔ قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے۔ بنا بنایا توڑ دے کوئی اُس کا بھید نہ پاوے۔ اس الہامی عبارت کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ ٹوٹاہوا کام بنا دے گا۔ مگر پھر کچھ عرصہ کے بعد بنا بنایا توڑ دے گا۔چنانچہ یہ الہام قادیان میں ہی سیٹھ صاحب کو سنایا گیا اور تھوڑے دن ہی گذرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے تجارتی امور میں رونق پیدا کر دی اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 260

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/260/mode/1up


ایسے اسباب غیب سے پیدا ہوئے کہ فتوحات مالی شروع ہو گئیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا۔

۹۹۔ ننانواں نشان۔ ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کاروپیہ آتا ہے۔ چنانچہ میں نے دو آریہ شرمپت اور ملاوامل ساکنان قادیان کو صبح کے وقت یعنی ڈاک آنے کے وقت سے بہت پہلے یہ پیشگوئی بتلادی مگر ان دونوں آریوں نے بوجہ مخالفت مذہبی کے اس بات پر ضد کی کہ ہم تب مانیں گے کہ جب ہم میں سے کوئی ڈاکخانہ میں جاوے اور اتفاقاً ڈاکخانہ کا سب پوسٹ ماسٹر بھی ہندو ہی تھا تب میں نے اُن کی اس کی درخواست کو منظور کیا اور جب ڈاک آنے کا وقت ہوا تو اُن دونوں میں سے ملاوامل آریہ ڈاک لینے کے لئے گیا اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ سرور خان نے مبلغ 3 بھیجے ہیں۔ اب یہ نیاجھگڑاپیش آیا کہ سرور خان کون ہے کیا وہ محمد لشکر خان کا کوئی قرابتی ہے یا نہیں۔ اور آریوں کا حق تھا کہ اس کا فیصلہ کیا جاوے تا اصل حقیقت معلوم ہو تب منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤ نٹنٹ مصنف عصائے موسیٰ کی طرف جو اُس وقت ہوتی مردان میں تھے اور ابھی مخالف نہیں تھے خط لکھا گیا کہ اس جگہ یہ بحث درپیش ہے اور دریافت طلب یہ امر ہے کہ سرور خان کی محمد لشکر خان سے کچھ قرابت ہے یا نہیں چند روز کے بعد منشی الٰہی بخش صاحب کا ہوتی مردان سے جواب آیا جس میں لکھا تھا کہ سرور خان ارباب لشکر خان کا بیٹا ہے۔ تب دونوں آریہ لا جواب رہ گئے۔ اب دیکھو یہ اس قسم کا علم غیب ہے کہ عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ بجز خدا کے کوئی اس پر قادر ہو سکے۔ اس پیشگوئی میں دونوں طرف مخالفوں کی گواہی ہے۔ یعنی ایک طرف تو دو آریہ ہیں جن کی نسبت میرا بیان ہے کہ ان کو یہ پیشگوئی میں نے سُنائی تھی اور ان میں سے ایک خط لانے کے لئے ڈاک خانہ میں گیا تھا اور دوسری طرف منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ ہیں جو ان دنوں لاہور میں ہیں جنہوں نے میری مخالفت میں اپنی کتاب عصائے موسیٰ شائع کی ہے اور جو کچھ چاہا میری نسبت لکھا۔ ہاں میں اس قدر کہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے ان دو طرفہ گواہوں سے حلفاً پوچھنا چاہئے نہ محض معمولی بیان سے کیونکہ ملاوامل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 261

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/261/mode/1up


اور شرمپت وہ متعصب آریہ ہیں جنہوں نے میری مخالفت میں اشتہار دےئے اور منشی الٰہی بخش صاحب وہی منشی صاحب ہیں جنہوں نے میری مخالفت میں عصائے موسیٰ تالیف کرکے بہتوں کو دھوکا دیاہے پس بجز قسم کے چارہ نہیں۔ اوریہ پیشگوئی بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی معلوم ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ منشی صاحب کی خدمت میں خط بھیجا گیاتھا اوراُن کا مذکورہ بالا جواب آیا تھا۔ اس لئے کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ ہر دوآریہ اس پیشگوئی سے انکار کریں۔ یا منشی الٰہی بخش صاحب خط کے بھیجنے سے انکار کریں اور اگر انکار بھی کریں تو یہ امر تو اب بھی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ سرور خان کا ارباب لشکر خان سے کوئی رشتہ ہے یا نہیں۔

۱۰۰۔سوواں نشان۔ براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی ہے جو اُس کے صفحہ ۲۴۱ میں درج ہے اور پیشگوئی کی عبارت یہ ہے لا تیئس من روح اللّٰہ۔ الآ انّ روح اللّٰہ قریب۔ الآ انّ نصر اللّٰہ قریب۔ یاْتیک من کُلّ فجٍّ عمیق۔ یاْتون من کلّ فجٍّ عمیق۔ ینصرک اللّٰہ من عندہٖ۔ ینصرک رجالٌ نوحی الیھم من السّمآء۔ ولا تصعّرلخلق اللّٰہ وَلا تسئم من النّاس۔ دیکھو صفحہ ۲۴۱ براہین احمدیہ مطبوعہ ۱۸۸۱ء و ۱۸۸۲ء مطبع سفیر ہند پریس امرتسر۔ (ترجمہ) خدا کے فضلؔ سے نومید مت ہو اور یہ بات سُن رکھ کہ خدا کا فضل قریب ہے۔ خبردار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے۔ وہ مدد ہر ایک راہ سے تجھے پہنچے گی اور ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور اِس کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی۔ خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القا کریں گے مگر چاہئیے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بد خلقی نہ کرے اور چاہئیے کہ تو اُن کی کثرت دیکھ کر ملاقاتوں سے تھک نہ جائے۔ اس پیشگوئی کو آج تک پچیس برس گذر گئے جب یہ براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی۔ اور یہ اُس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ میں زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا اور ان سب میں سے جو آج میرے ساتھ ہیں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا اور میں اُن لوگوں میں سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/262/mode/1up


نہیں تھا جن کا کسی وجاہت کی وجہ سے دنیا میں ذکر کیا جاتا ہے۔ غرض کچھ بھی نہیں تھا اور میں صرف ایک احد من الناس تھا اور محض گمنام تھا اور ایک فرد بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا مگر شاذو نادر ایسے چند آدمی جو میرے خاندان سے پہلے ہی سے تعارف رکھتے تھے۔ اور یہ وہ واقعہ ہے کہ قادیان کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی اس کے برخلاف شہادت نہیں دے سکتا۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے پوراکرنے کے لئے اپنے بندوں کو میری طرف رجوع دلایا اور فوج در فوج لوگ قادیان میں آئے اور آرہے ہیں اور نقد اور جنس اورہر ایک قسم کے تحائف اس کثرت سے لوگوں نے دیئے اور دے رہے ہیں جن کا میں شمار نہیں کر سکتا اور ہر چند مولویوں کی طرف سے روکیں ہوئیں اور انہوں نے ناخنوں تک زور لگایا کہ رجوع خلائق نہ ہو یہاں تک کہ مکہ تک سے بھی فتوے منگوائے گئے اور قریباً دو سو۲۰۰ مولویوں نے میرے پر کفر کے فتوے دئے بلکہ واجب القتل ہونے کے بھی فتوے شائع کئے گئے لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامراد رہے اور انجام یہ ہوا کہ میری جماعت پنجاب کے تمام شہروں اور دیہات میں پھیل گئی اور ہندوستان میں بھی جا بجا یہ تخم ریزی ہو گئی۔ بلکہ یورپ اور امریکہ کے بعض انگریز بھی مشرف باسلام ہو کر اس جماعت میں داخل ہوئے اور اس قدر فوج در فوج قادیان میںؔ لوگ آئے کہ یکوں کی کثرت سے کئی جگہ سے قادیان کی سڑک ٹوٹ گئی اس پیشگوئی کو خوب سوچنا چاہئے اور خوب غور سے سوچنا چاہئے کہ اگر یہ خدا کی طرف سے پیشگوئی نہ ہوتی تو یہ طوفان مخالفت جو اُٹھا تھا اورتمام پنجاب اور ہندوستان کے لوگ مجھ سے ایسے بگڑ گئے تھے جو مجھے پیروں کے نیچے کچلنا چاہتے تھے ضرور تھا کہ وہ لوگ اپنی جان توڑ کوششوں میں کامیاب ہو جاتے اور مجھے تباہ کر دیتے لیکن وہ سب کے سب نا مراد رہے اور میں جانتا ہوں کہ اُن کا اس قدر شور اور میرے تباہ کرنے کے لئے اس قدر کوشش اور یہ پُر زور طوفان جو میری مخالفت میں پیدا ہوا یہ اس لئے نہیں تھا کہ خدا نے میرے

تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا بلکہ اس لئے تھا کہ تا خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوں اور تا خدائے قادر جو کسی سے مغلوب نہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/263/mode/1up


ہو سکتا اُن لوگوں کے مقابل پر اپنی طاقت اور قوت دکھلاوے اور اپنی قدرت کا نشان ظاہر کرے چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح شور بغاوت میرے اِس چھوٹے سے تخم پر پھر گیا پھر بھی میں اِن صدمات سے بچ جاؤں گا سو وہ تخم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا بلکہ بڑھا اور پھولا اور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سایہ کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے یہ خدائی کام ہیں جن کے ادراک سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں۔ وہ کسی سے مغلوب نہیں ہو سکتا۔ اے لوگو! کبھی تو خدا سے شرم کرو! کیا اس کی نظیر کسی مفتری کی سوانح میں پیش کر سکتے ہو؟ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو کچھ بھی ضرورت نہ تھی کہ تم مخالفت کرتے اور میرے ہلاک کرنے کے لئے اس قدر تکلیف اُٹھاتے بلکہ میرے مارنے کے لئے خدا ہی کافی تھا جب ملک میں طاعون پھیلی تو کئی لوگوں نے دعویٰ کرکے کہا کہ یہ شخص طاعون سے ہلاک کیا جائے گا مگر عجیب قدرتِ حق ہے کہ وہ سب لوگ آپ ہی طاعون سے ہلاک ہو گئے اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تیری حفاظت کروں گا اور طاعون تیرے نزدیک نہیں آئے گی بلکہ یہ بھی مجھے فرمایا کہ میں لوگوؔ ں کو یہ کہوں کہ آگ سے (یعنی طاعون سے) ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے اور نیز مجھے فرمایا کہ میں اِس تیرے گھر کی حفاظت کروں گا اور ہر ایک جو اِس چاردیوار کے اندر ہے وہ طاعون سے بچا رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اِس نواح میں سب کو معلوم ہے کہ طاعون کے حملہ سے گاؤں کے گاؤں ہلاک ہو گئے اور ہمارے اِرد گرد قیامت کا نمونہ رہا مگر خدانے ہمیں محفوظ رکھا۔

۱۰۱۔ ایک سو ایک نشان۔ جب میں ۱۹۰۴ء میں کرم دین کے فوجداری مقدمہ کی وجہ سے جہلم میں جا رہا تھا تو راہ میں مجھے الہام ہوا اُریک برکاتٍ من کلّ طرفٍ یعنی میں ہر ایک پہلو سے تجھے برکتیں دکھلاؤں گا۔ اور یہ الہام اُسی وقت تمام جماعت کو سُنا دیا گیا۔ بلکہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/264/mode/1up


اخبار الحکم میں درج کرکے شائع کیا گیا اور یہ پیشگوئی اِس طرح پر پوری ہوئی *کہ جب میں جہلم کے قریب پہنچا تو تخمیناً دس ہزار سے زیادہ آدمی ہوگا کہ وہ میری ملاقات کے لئے آیا اور تمام سڑک پر آدمی تھے اور ایسے انکسار کی حالت میں تھے کہ گویا سجدے کرتے تھے۔ اور پھر ضلع کی کچہری کے اِرد گرد اِس قدر لوگوں کا ہجوم تھا کہ حکام حیرت میں پڑ گئے۔ گیارہ ۱۱۰۰سو آدمیوں نے بیعت کی اور قریباً دو سو ۲۰۰کے عورت بیعت کرکے اِس سلسلہ میں داخل ہوئی۔ اور کرم دین کا مقدمہ جو میرے پر تھا خارج کیا گیا۔ اور بہت سے لوگوں نے ارادت اور انکسار سے نذرانے دئے اور تحفے پیش کئے اور اس طرح ہم ہر ایک طرف سے برکتوں سے مالا مال ہو کر قادیان میں واپس آئے اور خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے وہ پیشگوئی پوری کی۔

۱۰۲ ۔نشان ۔براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے سبحان اللّٰہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک۔ ینقطع اٰباء ک ویبدء منک دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۹۰۔ (ترجمہ) خدا ہر ایک عیب سے پاک اور بہت برکتوں والا ہے وہ تیری بزرگی زیادہ کرے گا تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائیگا* اور خدا اس خاندان کی بزرگی کی تجھ سے بنیاد ڈالے گا۔ یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے کہ جب کسی قسم کی عظمت میری طرف منسوب نہیں ہوتی تھی اور میں ایسے گمنام کی طرح تھا


* راستہ میں لاہور سے آگے گوجرانوالہ اور وزیر آباد اور گجرات وغیرہ اسٹیشنوں پر اس قدر لوگ ملاقات کے لئے آئے کہ اسٹیشنوں پر انتظام رکھنا مشکل ہو گیا۔ ٹکٹ پلیٹ فارم ختم ہونے کی وجہ سے لوگ بلا ٹکٹ پلیٹ فارم پر چلے گئے اور بعض مقامات پر گاڑی کو کثرت ہجوم کی وجہ سے زیادہ دیر تک ٹھہرایا گیا اور نہایت نرمی سے زائروں کو ملازمین ریل نے گاڑی سے علیحدہ کیا بعض جگہ کچھ دور تک لوگ گاڑی کو پکڑے ہوئے ساتھ چلے گئے خوف تھا کہ کوئی آدمی نہ مر جاوے۔ ان واقعات کو مخالف اخباروں نے بھی مثل پنجۂ فولاد کے شائع کیا تھا۔ منہ

* اس الہام میں یہ بھی اشارہ تھا کہ آبائی وجوہ معاش سب بند ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ نئی برکتیں عطا کرے گا چنانچہ ہمارے والد صاحب کی وجوہ معاش کچھ تو گورنمنٹ میں ضبط ہو گئے اور کچھ شرکاء کو مل گئے اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے۔ پھر خدا نے اپنی طرف سے سب کچھ مہیا کیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/265/mode/1up


جو ؔ گویا دنیا میں نہیں تھا۔ اور وہ زمانہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اُس پر اب قریباً تیس برس گذر گئے اب دیکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی کس صفائی سے پوری ہوئی جو اس وقت ہزار ہا آدمی میری جماعت کے حلقہ میں داخل ہیں اور اس سے پہلے کون جانتا تھا کہ اس قدر میری عظمت دنیا میں پھیلے گی پس افسوس اُن پر جو خدا کے نشانوں پر غور نہیں کرتے۔ پھر اس پیشگوئی میں جس کثرتِ نسل کا وعدہ تھا اُس کی بنیاد بھی ڈالی گئی کیونکہ اس پیشگوئی کے بعد چار فرزند نرینہ اور ایک پوتا اور دو لڑکیاں میرے گھر میں پیدا ہوئیں جو اُس وقت موجود نہ تھیں۔

۱۰۳ ۔ایک سو تین نشان ۔ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی صاحب ایم اے کو سخت بخار ہو گیا اور اُن کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیّت کر دی اور مفتی محمد صادق صاحب کو سب کچھ سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے جس گھر کی نسبت خدا تعالیٰ کا یہ الہام ہے۔ انّی احافظ کلّ من فی الدار۔ تب میں اُن کی عیادت کے لئے گیا اور اُن کو پریشان اور گھبراہٹ میں پاکر میں نے اُن کوکہا کہ اگر آپ کو طاعون ہو گئی ہے تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰء الہام غلط ہے یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا۔ یہ عجیب نمونہ قدرت الٰہی دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ہی ایسا بدن سردپایا کہ تپ کا نام و نشان نہ تھا۔

۱۰۴ ۔ایک سو چار نشان۔ ایک دفعہ میرا چھوٹا لڑکا مبارک احمد بیمار ہو گیاغشی پر غشی پڑتی تھی اور میں اُس کے قریب مکان میں دعا میں مشغول تھا اور کئی عورتیں اُس کے پاس بیٹھی تھیں کہ یک دفعہ ایک عورت نے پکار کر کہا کہ اب بس کرو کیونکہ لڑکا فوت ہو گیاتب میں اُس کے پاس آیا اور اُس کے بدن پر ہاتھ رکھا اور خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی تو دو تین منٹ کے بعد لڑکے کو سانس آنا شروع ہو گیا اور نبض بھی محسوس ہوئی اور لڑکا زندہ ہو گیا۔ تب مجھے خیال آیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا احیاء موتٰی بھی اسی قسم کا تھا اور پھر نادانوں نے اس پر حاشیے چڑھادئے۔

۱۰۵ ۔ ایک سو پانچواں نشان۔ ایک دفعہ میرے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/266/mode/1up


نسبت مجھے خواب میں دکھلایا گیا کہ ان کی زندگی کے تھوڑے دن رہ گئے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہیں بعد میں وہ یک دفعہ سخت بیمار ہو گئے یہاں تک کہ صرف استخوان باقی رہ گئیں اور اس قدر دُبلے ہو گئے کہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے نہیں معلوم ہوتے تھے کہ کوئی اس پر بیٹھا ہوا ہے یا خالی چارپائی ہے پاخانہ اور پیشاب اوپر ہی نکل جاتا تھا اوربیہوشی کا عالم رہتا تھا۔ میرے والد صاحب میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم بڑے حاذق طبیب تھے انہوں نے کہہ دیا کہ اب یہ حالت یاس اور نو میدی کی ہے صرف چند روز کی بات ہے مجھ میں اس وقت جوانی کی قوت موجود تھی اور مجاہدات کی طاقت تھی اور میری فطرت ایسی واقع ہے کہ میں ہر ایک بات پر خدا کو قادر جانتا ہوں اور درحقیقت اس کی قدرتوں کا کون انتہا پا سکتا ہے اور اُس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں بجز اُن امور کے جو اس کے وعدہ کے برخلاف یا اُس کی پاک شان کے منافی اور اُس کی توحید کی ضدّ ہیں۔ اسلئے میں نے اس حالت میں بھی اُن کے لئے دعا کرنی شروع کی اور مَیں نے دل میں یہ مقرر کر لیا کہ اس دُعا میں مَیں تین باتوں میں اپنی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہوں۔

ا164ک ۱ یہ کہ مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کیا میں حضرت عزت میں اس لائق ہوں کہ میری دعا قبول ہو جائے دو۲ سری یہ کہ کیا خواب اور الہام جو وعید کے رنگ میں آتے ہیں اُن کی تاخیر بھی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ تیسر۳ی یہ کہ کیا اس درجہ کا بیمار جس کے صرف استخوان باقی ہیں دعا کے ذریعہ سے اچھا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ غرض میں نے اِس بناء پر دعا کرنی شروع کی پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ دعا کے ساتھ ہی تغیر شروع ہو گیا اور اس اثنامیں ایک دوسرے خواب میں مَیں نے دیکھا کہ وہ گویا اپنے دالان میں اپنے قدموں سے چل رہے ہیں اور حالت یہ تھی کہ دوسرا شخص کروٹ بدلتا تھا جب دعا کرتے کرتے پندرہ دن گذر ے تو اُن میں صحت کے ایک ظاہری آثار پیدا ہو گئے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ چندقدم چلوں چنانچہ وہ کسی قدر سہارے سے اُٹھے اور سوٹے کے سہارے سے چلنا شروع کیا اور پھر سوٹا بھی چھوڑ دیا چند روز تک پورے تندرست ہو گئے اور بعد اس کے پندرہ برس تک زندہ رہے اور پھر فوت ہو گئے جس سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/267/mode/1up


معلوؔ م ہوا کہ خدا نے اُن کی زندگی کے پند۱۵رہ دن پندرہ سال سے بدل دئے ہیں یہ ہے ہماراخدا جو اپنی پیشگوئیوں کے بدلانے پر بھی قادر ہے مگر ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ قادر نہیں۔

نشان ۱۰۶۔ ایک دفعہ تمثلی طور پر مجھے خدا تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور میں نے اپنے ہاتھ سے کئی پیشگوئیاں لکھیں جن کا یہ مطلب تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں تب میں نے وہ کاغذ دستخط کرانے کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا اور اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تامل کے سرخی کے قلم سے اُس پر دستخط کئے اور دستخط کرنے کے وقت قلم کو چھڑکا جیسا کہ جب قلم پر زیادہ سیاہی آجاتی ہے تو اسی طرح پر جھاڑ دیتے ہیں اور پھر دستخط کر دئے اور میرے پر اُس وقت نہایت رِقّت کا عالم تھا اِس خیال سے کہ کس قدر خدا تعالیٰ کا میرے پر فضل اور کرم ہے کہ جو کچھ میں نے چاہا بلا توقف اللہ تعالیٰ نے اُس پر دستخط کر دئے اور اُسی وقت میری آنکھ کُھل گئی اور اُس وقت میاں عبد اللہ سنوری مسجد کے حجرہ میں میرے پیر دبا رہا تھا کہ اُس کے رُوبرو غیب سے سُرخی کے قطرے میرے کُرتے اور اُس کی ٹوپی پر بھی گرے اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سُرخی کے قطرے گرنے اور قلم کے جھاڑنے کا ایک ہی وقت تھا ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہ تھا ایک غیر آدمی اِس راز کو نہیں سمجھے گا اور شک کرے گا کہ کیونکر اس کو صرف ایک خواب کا معاملہ محسوس ہوگامگر جس کو روحانی امور کا علم ہو وہ ا س میں شک نہیں کر سکتااسی طرح خدا نیست سے ہست کر سکتا ہے۔ غرض میں نے یہ سارا قصہ میاں عبد اللہ کو سنایا اور اُس وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عبد اللہ جو ایک رویت کا گواہ ہے اس پر بہت اثر ہوا اور اُس نے میرا کرتہ بطور تبرک اپنے پاس رکھ لیا جو اب تک اُس کے پاس موجود ہے۔

۱۰۷۔کئی مرتبہ زلزلوں سے پہلے اخباروں میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ زمین زیر و زبر ہو جائے گی۔ پس وہ زلزلے جو سان فرانسسکو اور فارموسا وغیرہ میں میری پیشگوئی کے مطابق آئے وہ تو سب کو معلوم ہیں لیکن حال میں ۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء کو جو جنوبی حصہ امریکہ یعنی چِلی کے صوبہ میں ایک سخت زلزلہ آیا۔ وہ پہلے زلزلوں سے کم نہ تھا۔ جس سے پند۱۵ رہ چھوٹے بڑے شہر اور قصبے برباد ہو گئے اور ہزارہا جانیں تلف ہوئیں اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/268/mode/1up


دسؔ لاکھ آدمی اب تک بے خانمان ہیں۔ شاید نادان لوگ کہیں گے کہ یہ کیونکر نشان ہو سکتا ہے یہ زلزلے تو پنجاب میں نہیں آئے مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا تمام دنیا کا خدا ہے نہ صرف پنجاب کا اور اس نے تمام دنیا کے لئے یہ خبریں دی ہیں نہ صرف پنجاب کے لئے یہ بد قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کو ناحق ٹال دینا اور خدا کے کلام کو غور سے نہ پڑھنا اور کوشش کرتے رہنا کہ کسی طرح حق چھپ جائے مگر ایسی تکذیب سے سچائی چھپ نہیں سکتی۔

یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے پس یقیناًسمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گاتب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔3

3۔۱؂ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/269/mode/1up


اپنیؔ تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگایہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔

۱۰۸ ۔نشان۔ جو براہین احمدیہ میں درج ہے یہ ہے اردت ان استخلف فخلقتُ اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا کہ خلیفہ بناؤں پس میں نے آدم کو خلیفہ بنایا۔ یہ الہام مدت پچیس۲۵ برس سے براہین احمدیہ میں درج ہے اِس جگہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام آدم رکھا اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا کہ فرشتوں نے آدم کی عیب جوئی کی تھی اور اُس کو ردّ کر دیا تھا مگر آخر خدا نے اُسی آدم کو خلیفہ بنایا اور سب کو اُس کے آگے سر جھکانا پڑا۔ سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ چنانچہ میرے مخالف علماء اور اُن کے ہم جنسوں نے عیب جوئی میں کمی نہ کی اور تباہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ مکر کا اٹھا نہیں رکھا۔ مگر آخر کار خدا نے مجھے غالب کیا اور خدا بس نہیں کرے گاجب تک جھوٹ کو اپنے پیروں کے نیچے نہ کچلے۔

۱۰۹ ۔نشان۔ جو براہین احمدیہ میں درج ہو کر شائع ہو چکا ہے یہ ہے۔ و کذالک مننّا علٰی یوسف



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/270/mode/1up


لنصرف عنہ السوٓء والفحشآء۔ ولتُنذر قومًا ما انذر اٰبآء ھم فھم غافلون۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۵۵۵ (ترجمہ) اور اسی طرح ہم نے اپنے نشانوں کے ساتھ اِس یوسف پراحسان کیا تاکہ جو بدی اور عیب اُس کی طرف منسوب کئے جائیں گے اُن سے ہم اس کو بچا لیں اور تاکہ تو اُن نشانوں کی عظمت کی وجہ سے اس لائق ہوکہ غافلوں کو ڈراوے کیونکہ درحقیقت انہیں لوگوں کا وعظ دلوں پر اثر کرتا ہے جن کو خدا اپنی طرف سے عظمت اور امتیاز بخشتا ہے۔ اِس جگہ خدا تعالیٰ نے میرا نام یوسف رکھا اور یہ ایک پیشگوئی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح یوسف کے بھائیوں نے اپنی جہالت سے یوسف کو بہت دُکھ دیا تھا اور اس کے ہلاک کرنے میں کسر نہیں رکھی تھی خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا اور اشارہ فرماتا ہے کہ یہ لوگ بھی جو قومی اخوت رکھتے ہیں ہلاک اور تباہ کرنے کے لئے بڑے بڑے فریب کریں گے مگر آخر کاروہ نا مراد رہیں گے اور خدا اُن پر کھول دے گاکہ جس شخص کو تم نے ذلیل کرنا چاہا تھا میں نے اُس کو عزت کا تاج پہنایا۔ تب بہتوں پر کھل جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے جیسا کہ وہ ایک دوسرے الہام میں فرماتا ہے:

یخرّون علی الاذقان سجّدًا۔ ربّنااغفرلنا انّا کنّا خاطئین۔ تَاللّٰہِ لَقَدْ اٰثرک اللّٰہ علینا وان کنّا لخاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم۔ یغفر اللّٰہ لکم۔ وھوارحم الراحمین۔ یعنی وہ لوگ اپنی ٹھوڈیوں پر سجدہ کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش ہم خطا پر تھے۔ اور تجھے مخاطب کرکے کہیں گے کہ بخدا خدا نے ہم سب میں سے تجھے چُن لیا اور ہم خطا پر تھے۔ تب خدا رجوع کرنے والوں کو کہے گا کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں کیونکہ تم ایمان لائے۔ خدا تمہیں تمہاری پہلی لغزشیں بخش دے گا کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔

غرض اس پیشگوئی میں دو امر غیب کا بیان ہے (۱) اوّل یہ کہ آئیندہ زمانہ میں قوم میں سخت مخالف پیدا ہو جائیں گے اور حسد کا شعلہ ایسا اُن میں جوش مارے گا جیسا کہ یوسف ؑ کے بھائیوں میں جوش مارا تھا تب وہ سخت دشمن بن جائیں گے اور تباہ اور ہلاک کرنے کے لئے طرح طرح کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/271/mode/1up


منصوبے کریں گے اور یہ امر کہ قوم میں سے مخالف پیدا ہو جائیں گے اور بڑی بڑی شرارت کریں گے یہ ایک پیشگوئی ہے کیونکہ یہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہے جس کو پچیس برس کا عرصہ گذر گیا ہے اور اُس وقت قوم میں سے میرا کوئی مخالف نہ تھا کیونکہ ابھی تو براہین احمدیہ بھی شائع نہ ہوئی تھی پھر مخالفت کی کیا وجہ تھی۔ پس بلا شبہ یہ خبر کہ کسی زمانہ میں ایسے دشمن جانی پیدا ہو جائیں گے جو پہلے اخوت اسلامی کی وجہ سے بھائیوں کے طور پر تھے یہ ایک امر غیب ہے جو خدا نے قبل از وقوع ظاہر کیا اور براہین احمدیہ میں لکھا گیا

(۲) دوسرا امر غیب اس پیشگوئی میں یہ ہے کہ اس مخالفت کا یہ انجام بتا دیا ہے کہ آخر کار وہ دشمن خائب و خاسرر ہیں گے اور بہتیرے اُن میں سے یوسف ؑ کے بھائیوں کی طرح رجوع کریں گے اور اُس وقت خدا اس عاجز کو یوسف کی طرح تاج عزت پہنائے گا اور وہ عظمت اور بزرگی بخشے گا جس کی کسی کو توقع نہ تھی چنانچہ بہت سا حصہ اس پیشگوئی کا پورا ہو چکا ہے کیونکہ ایسے دشمن پیدا ہو گئے جو میرا استیصال چاہتے ہیں اور درحقیقت یہ لوگ اپنے بد ارادے میں یوسف کے بھائیوں سے بھی بُرے ہیں۔ سو خدا نے کئی لاکھ انسان میرے تابع کرکے اور مجھے ایک خاص عزت اور عظمت بخش کر اُن کو ذلیل کیا اور وہ وقت آتا ہے کہ اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ میری شان ظاہر کرے گااور بڑے بڑے مخالفوں میں سے جو سعید ہیں اُن کو کہنا پڑے گا کہ ربّنا اغفرلنا انّا کنّا خاطئین۔ اور کہنا پڑے گا کہ تاللّٰہ لقد اٰثرک اللّٰہ علینا۔

۱۱۰۔نشان۔براہین احمدیہ کی یہ پیشگوئی انّا اعطینا ک الکوثر۔ ثُلّۃٌ من الاوّلین و ثُلّۃٌ من الاٰخرین دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۶ ۔(ترجمہ) ہم ایک کثیر جماعت تجھے عطا کریں گے اوّل ایک پہلا گروہ جو آفات کے نزول سے پہلے ایمان لائیں گے۔ دوم دوسرا گروہ جو قہری نشانوں کے بعد ایمان لائیں گے ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ جس قدر براہین احمدیہ میں پیشگوئیاں ہیں اُن پر پچیس برس گذر گئے ہیں اور وہ اُس زمانہ کی پیشگوئیاں ہیں جبکہ میرے ساتھ ایک انسان بھی نہ تھا اگر یہ بیان غلط ہے تو گویا میرا تمام دعویٰ باطل ہے۔ پس واضح ہو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/272/mode/1up


کہ ؔ یہ پیشگوئی بھی براہین احمدیہ میں درج ہے جو اس تنہائی اور بے کسی کے زمانہ میں ایک ایسے زمانہ کی خبر دیتی ہے جبکہ ہزار ہا آدمی میری بیعت میں داخل ہو جائیں گے۔ سو اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ غیب کی خبر دینابجُز خدا کے کسی کی طاقت میں نہیں۔ عِلم غیب خاصّہ خدا ہے مگر اب تو ہمارے مخالفوں کی نظر میں علم غیب بھی خاصہ خدا نہیں دیکھئے کہاں تک ترقی کریں گے۔

۱۱۱۔ نشان۔ براہین احمدیہ میں ایک یہ پیشگوئی ہے۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قُدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دیگا۔ اس پیشگوئی پر پچیس ۲۵برس گذر گئے یہ اُس زمانہ کی ہے جبکہ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ بباعث سخت مخالفت بیرونی اور اندرونی کے کوئی ظاہری امید نہیں ہوگی کہ یہ سلسلہ قائم ہو سکے۔ لیکن خدا اپنے چمک دار نشانوں سے دنیا کو اِس طرف کھینچ لے گا اور میری تصدیق کے لئے زور آور حملے دکھائے گا۔ چنانچہ اُنہیں حملوں میں سے ایک طاعون ہے جس کی ایک مدّت پہلے خبر دی گئی تھی۔ اور اُنہیں حملوں میں زلزلے ہیں جو دنیا میں آرہے ہیں اور نہ معلوم اور کیا کیا حملے ہوں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ جیسا کہ اس پیشگوئی میں بیان فرمایا ہے خدا نے محض اپنی قدرت نمائی سے اس جماعت کو قائم کر دیا ہے ورنہ باوجود اس قدر قومی مخالفت کے یہ امر محالات میں سے تھا کہ اس قدر جلدی سے کئی لاکھ انسان میرے ساتھ ہو جائیں اور مخالفوں نے بہتیری کوششیں کیں مگر خدا تعالیٰ کے ارادہ کے مقابل پر ایک پیش نہ گئی۔

۱۱۲ ۔نشان۔ ہمارا ایک مقدمہ تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں چند موروثی اسامیوں پر تھامجھے خواب میں بتلایا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہوگی میں نے کئی لوگوں کے آگے وہ خواب بیان کی منجملہ اُن کے ایک ہندو بھی تھاجو میرے پاس آمد و رفت رکھتا تھا اُس کا نام شرمپت ہے جو زندہ موجود ہے اُس کے پاس بھی میں نے یہ پیشگوئی بیان کر دی تھی کہ اس مقدمہ میں ہماری فتح ہوگی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 273

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 273

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/273/mode/1up


بعدؔ اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ جس روز اس مقدمہ کا اخیرحکم سنایا جانا تھا ہماری طرف سے کوئی شخص حاضر نہ ہوا اورفریق ثانی جو شاید پندرہ یا سولہ آدمی تھے حاضر ہوئے۔ عصر کے وقت اُن سب نے واپس آکر بازار میں بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہو گیا ۔تب وہی شخص مسجد میں میرے پاس دوڑتا آیا اور طنزاً کہا کہ لو صاحب آپ کا مقدمہ خارج ہو گیا۔ میں نے کہا کہ کس نے بیان کیا اُس نے جواب دیا کہ سب مدعا علیھم آگئے ہیں اور بازار میں بیان کر رہے ہیں۔ یہ سُنتے ہی میں حیرت میں پڑ گیا کیونکہ خبر دینے والے پندرہ آدمی سے کم نہ تھے اور بعض اُن میں سے مسلمان اور بعض ہندو تھے۔ تب جو کچھ مجھ کو فکر اور غم لاحق ہوا اُس کو میں بیان نہیں کر سکتا وہ ہندو تو یہ بات کہہ کر خوش خوش بازار کی طرف چلا گیا گویا اسلام پر حملہ کرنے کا ایک موقعہ اُس کو مل گیامگر جو کچھ میراحال ہوا اُس کا بیان کرناطاقت سے باہر ہے عصر کا وقت تھا میں مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھ گیا اور دل سخت پریشان تھا کہ اب یہ ہندو ہمیشہ کے لئے یہ کہتا رہے گا کہ کس قدر دعویٰ سے ڈگری ہونے کی پیشگوئی کی تھی اور وہ جھوٹی نکلی۔ اتنے میں غیب سے ایک آواز گونج کر آئی اور آواز اس قدر بلند تھی کہ میں نے خیال کیا کہ باہر سے کسی آدمی نے آواز دی ہے آواز کے یہ لفظ تھے کہ ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے! یعنی کیا تو باور نہیں کرتا۔ تب میں نے اُٹھ کر مسجد کے چاروں طرف دیکھا تو کوئی آدمی نہ پایا۔ تب یقین ہو گیا کہ فرشتہ کی آواز ہے۔ میں نے اُس ہندو کو پھر اُسی وقت بلایا اور فرشتہ کی آواز سے اُس کو اطلاع دی مگراُس کوباور نہ آیا صبح میں خود بٹالہ کی تحصیل میں گیا اور تحصیلدار حافظ ہدایت علی نام ایک شخص تھا وہ اُس وقت ابھی تحصیل میں نہیں آیا تھا اُس کا مثل خواں متھر اداس نام ایک ہندو موجود تھامَیں نے اُس سے دریافت کیا کہ کیا ہمارا مقدمہ خارج ہو گیا؟ اُس نے کہا کہ نہیں بلکہ ڈگری ہو گئی میں نے کہا کہ فریق مخالف نے قادیان میں جا کر یہ مشہور کر دیا ہے کہ مقدمہ خارج ہو گیا ہے اُس نے کہا کہ ایک طور سے انہوں نے بھی سچ کہا ہے ،بات یہ ہے کہ جب تحصیلدار فیصلہ لکھ رہا تھا تو میں ایک ضروری حاجت کے لئے اس کی پیشی سے اُٹھ کر چلا گیا تھا۔ تحصیلدار نیا تھا اُس کو مقدمہ کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 274

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 274

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/274/mode/1up


پیشؔ و پس کی خبر نہ تھی فریق مخالف نے ایک فیصلہ اُس کے رو برو پیش کیاجس میں موروثی آسامیوں کو بلا اجازت مالک کے اپنے اپنے کھیتوں سے درخت کاٹنے کا اختیار دیا گیا تھا تحصیلدار نے اس فیصلہ کو دیکھ کر مقدمہ خارج کر دیا اور اُن کو رخصت کر دیا۔ جب میں آیا تو تحصیلدار نے وہ فیصلہ مجھے دیا کہ شامل مثل کرو جب میں نے اُس کو پڑھا تو میں نے تحصیلدار کو کہا کہ یہ تو آپ نے بڑی بھاری غلطی کی کیونکہ جس فیصلہ کی بناپر آپ نے یہ حکم لکھا ہے وہ تو اپیل کے محکمہ سے منسوخ ہو چکا ہے مدعا علیھم نے شرارت سے آپ کو دھوکہ دیا ہے اور میں نے اُسی وقت محکمہ اپیل کا فیصلہ جو مثل سے شامل تھا اُن کو دکھلا دیا۔ تب تحصیلدار نے بلا توقف اپنا پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور ڈگری کر دی یہ ایک پیشگوئی ہے کہ ایک ہندوؤں کی جماعت اور کئی مسلمان اس کے گواہ ہیں اور وہی شرمپت اس کا گواہ ہے جو بہت خوشی سے یہ خبر لے کر میرے پاس آیا تھا کہ مقدمہ خارج ہو گیا فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ خدا کے کام عجیب قدرتوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس پیشگوئی کی تمام وقعت اس سے پیدا ہوئی کہ ہماری طرف سے کوئی حاضر نہ ہوا اور تحصیلدار نے غلط فیصلہ فریق ثانی کو سنا دیادراصل یہ سب کچھ خدا نے کیااگر ایسا نہ ہوتا تو یہ خاص عظمت اور وقعت پیشگوئی میں ہر گز پیدا نہ ہوتی۔

۱۱۳۔نشان۔ براہین احمدیہ کی یہ پیشگوئی ہیکہشاتان تُذبحان۔ وکُلّ من علیھا فانٍ۔ یعنی دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا۔ یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں درج ہے جو آج سے پچیس ۲۵برس پہلے شائع ہو چکی ہے مجھے مُدّت تک اسکے معنے معلوم نہ ہوئے بلکہ اور اور جگہ کو محض اجتہاد سے اس کا مصداق ٹھہرایا لیکن جب مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف مرحوم اور شیخ عبد الرحمن اُن کے تلمیذ سعید امیر کابل کے ناحق ظلم سے قتل کئے گئے تب روز روشن کی طرح کھل گیاکہ اس پیشگوئی کے مصداق یہی دونوں بزرگ ہیں کیونکہ شاۃ کا لفظ نبیوں کی کتابوں میں صرف صالح انسان پر بولا گیا ہے اور ہماری تمام جماعت میں ابھی تک بجز اِن دونوں بزرگوں کے کوئی شہید نہیں ہوا اور جو لوگ ہماری جماعت سے باہر اور دین اور دیانت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 275

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 275

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/275/mode/1up


سے ؔ محروم ہیں اُن پر شاۃ کا لفظ اطلاق نہیں پا سکتا۔ اور پھر اس پر اور قرینہ یہ ہے کہ اس الہام کے ساتھ یہ دوسرا فقرہ ہے کہ لا تھنواولا تحزنوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایسی موتیں ہوں گی جو ہمارے غم اور حزن کا موجب ہوں گی اور ظاہر ہے کہ دشمن کی موت سے کوئی غم نہیں ہو سکتااور جب صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف شہید اسی جگہ قادیان میں تھے اُس وقت بھی اُن کے بارہ میں یہ الہام ہوا تھا قتل خیبۃ وزید ھیبۃ یعنی مخالفوں سے نومید ہونے کی حالت میں قتل کیا جائے گا اور اُس کا مارا جانا بہت ہیبت ناک ہوگا۔

۱۱۴۔نشان۔ طاعون کے پھیلنے کے بارہ میں مجھے الہام ہوا۔ الامراض تشاع والنفوس تُضاع۔ یعنی مرضیں پھیلائی جائیں گی اور جانوں کا نقصان ہوگا۔ اب جو شخص چاہے دیکھ لے کہ میں نے اِس الہام کو طاعون کے پھیلنے سے پہلے اخبار الحکم اور البدر میں شائع کر دیاتھا پھر بعد اس کے پنجاب میں اس قدر طاعون کا زور ہوا کہ ہزارہا گھر موت سے ویران ہو گئے۔

۱۱۵۔نشان۔ رسالہ سراج منیر میں طاعون کے آنے کی نسبت یہ ایک پیشگوئی ہے یا مسیح الخلق عَدوانا۔ یعنی اے وہ مسیح جو مخلوق کے لئے بھیجا گیا ہمارے طاعون کی خبر لے۔ پھر بعد اس کے سخت طاعون پڑی اور ہزارہا بندگانِ خدا طاعون سے ڈرکر میری طرف دوڑے گویا اُن کی زبان پر یہی فقرہ تھا کہ یا مسیح الخلق عدوانا۔ اور یہ پیشگوئی جس طرح میری کتاب سراج منیر میں درج ہے اسی طرح صدہا آدمیوں کو قبل از وقوع اِس سے اطلاع دی گئی تھی۔

۱۱۶ ۔نشان۔ ایک دفعہ صبح کے وقت وحی الٰہی سے میری زبان پر جاری ہوا۔ عبد اللہ خان ڈیرہ اسمٰعیل خان اور تفہیم ہوئی کہ اِس نام کا ایک شخص آج کچھ روپیہ بھیجے گا میں نے چند ہندوؤں کے پاس جو سلسلہ وحی کے جاری رہنے کے منکر ہیں اور سب کچھ وید پر ختم کر بیٹھے ہیں اس الہام الہٰی کو ذکر کیا اور میں نے بیان کیا کہ اگر آج یہ روپیہ نہ آیا تو میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 276

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 276

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/276/mode/1up


حقؔ پر نہیں ان میں سے ایک ہندوبشن داس نام قوم کا برہمن جو آج کل ایک جگہ کا پٹواری ہے بول اُٹھا کہ میں اِس بات کا امتحان کروں گا اور میں ڈاک خانہ میں جاؤں گا۔ اُن دنوں میں قادیان میں ڈاک دوپہر کے بعد دو بجے آتی تھی وہ اُسی وقت ڈاکخانہ میں گیا اور نہایت حیرت زدہ ہو کر جواب لایا کہ درحقیقت عبد اللہ خان نام ایک شخص نے جو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں اکسٹرا اسسٹنٹ ہے کچھ روپیہ بھیجا ہے اور وہ ہندو نہایت متعجب اور حیران ہو کر بار بار مجھ سے پوچھتا تھا کہ یہ امر آپ کو کس نے بتایا اور اُس کے چہرہ سے حیرانی اور مبہوت ہونے کے آثار ظاہر تھے۔ تب میں نے اُس کو کہا کہ اُس نے بتایا جو پوشیدہ بھید جانتا ہے وہی خدا ہے جس کی ہم پرستش کرتے ہیں چونکہ ہندو لوگ اُس زندہ خدا سے محض ناواقف ہیں جو ہمیشہ اپنی قدرت اور اسلام پر سچائی کے نمونے ظاہر کرتا رہتا ہے اِس لئے عام طور پر ہندوؤں کی یہ عادت ہے کہ اوّل تو خدا تعالیٰ کے عجائب نشانوں سے انکار کرتے ہیں اور جب کوئی ایسا شخص اُن کو مل جائے کہ غیب کی پوشیدہ باتیں اُس کے ہاتھ سے ظاہر ہوں تب حیرت اور تعجب کے دریا میں ڈوب جاتے ہیں۔ اِسی طرح لالہ شرمپت کا حال ہوا تھا جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں اُس کا بھائی بشمبر داس اور ایک اور شخص خوشحال نام کسی جُرم میں قید ہو گئے تھے اور شرمپت نے امتحان کے رو سے نہ کسی اعتقاد سے مجھ سے دریافت کیا تھا کہ اِس مقدمہ کا انجام کیا ہوگا اور دعا کی بھی درخواست کی تھی تب میں کئی دن اُس کے لئے دعاکرتا رہا آخر وہ خدا جو عالم الغیب ہے اُس نے رات کے وقت یہ پوشیدہ امر میرے پر کھول دیا کہ مقدمہ کا انجام یہ ہوگا کہ بشمبرداس کی نصف قید تخفیف کر دی جائے گی جیسا کہ میں نے اپنی کشفی حالت میں دیکھا تھا کہ آدھی قید اُس کی خود میں نے اپنی قلم سے کاٹ دی ہے مگر میرے پر ظاہر کیا گیا کہ خوشحال کو پوری قید بھگتنی پڑے گی ایک دن بھی کاٹا نہیں جائے گااور بشمبرداس کی نصف قید رہ جانا صرف دعا کے اثر سے ہوگا مگر دونوں میں سے کوئی بھی بَری نہیں ہوگا اور ضرور ہے کہ مثل ضلع میں واپس آوے اور انجام وہ ہو جو بیان کیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب یہ سب باتیں پوری ہو گئیں توشرمپت حیرت میں پڑا اور ہمارے خدا کی قدرتوں نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 277

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 277

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/277/mode/1up


اسؔ کو سخت حیران کر دیا اور اُس نے میری طرف رقعہ لکھا کہ یہ سب باتیں آپ کی نیک بختی کی وجہ سے پوری ہو گئیں۔ افسوس کہ اُس نے پھر بھی اسلام کے نور سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور آجکل وہ آریہ ہے اور ہدایت تو ایک طرف مجھے تو ان لوگوں پر اتنی بھی اُمید نہیں کہ وہ سچی گواہی دے سکیں اگرچہ بظاہر یہی لاف و گزاف ہے کہ سچائی کی حمایت کرنی چاہئے مگر اس پر عمل نہیں ہاں میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ایسے گواہ یعنی شرمپت کو حلف دی جائے اور حلف میں جھوٹ کی حالت میں اولاد پر اثر پڑنے کا اقرار کرایا جائے تو پھر ضرور سچ بول دے گا۔ میری کئی پیشگوئیوں کی گواہیاں اس کے پاس ہیں ممکن ہے کہ پیچھا چُھڑانے کے لئے یہ کہہ دے کہ مجھے یاد نہیں مگر حلف ایک ایسی چیز ہے کہ ضرور اس سے یاد آجائے گا۔ اور اگر جھوٹ بولے گا تو یقیناًیاد رکھو کہ میرا خدا اُسے سزا دے گا اور یہ بھی ایک نشان ظاہر ہوگا وہ کھلے کھلے نو ۹نشانوں کا گواہ ہے۔

میں خدائے قادر کا شکر کرتا ہوں کہ میرے نشانوں کے صرف مسلمان ہی گواہ نہیں بلکہ دنیا میں جس قدر قومیں ہیں وہ سب میرے نشانوں کی گواہ ہیں۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۱۱۷۔ نشان ۔ایک دفعہ ایک آریہ ملا وامل نام مرض دق میں مبتلا ہو گیا اور آثار نو میدی ظاہر ہوتے جاتے تھے اور اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک زہریلا سانپ اُسکو کاٹ گیا وہ ایک دن اپنی زندگی سے نو مید ہو کر میرے پاس آکر رویا میں نے اُس کے حق میں دعا کی تو جواب آیا قلنا یا نارکُونی بردًا وسلامًا یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ سرد اور سلامتی ہو جا۔ چنانچہ بعد اس کے وہ ایک ہفتہ میں اچھا ہو گیا ۔اور اب تک وہ زندہ موجود ہے۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۷ مگر یقین ہے کہ اُس کی گواہی کے لئے بھی حلف کی ضرورت پڑے گی۔

۱۱۸۔ نشان۔ ایک دفعہ جب میں گورداسپور میں ایک فوجداری مقدمہ کی وجہ سے (جو کرم دین جہلمی نے میرے پر دائر کیا تھا) موجود تھا مجھے الہام ہوا یسئلونک عن شانک۔ قل اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضہم یلعبون۔ یعنی تیری شان کے بارہ میں پوچھیں گے کہ تیری کیا شان اور کیا مرتبہ ہے۔ کہہ وہ خدا ہے جس نے مجھے یہ مرتبہ بخشا ہے پھر ان کو اپنی لہو و لعب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 278

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 278

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/278/mode/1up


میں ؔ چھوڑ دے سو میں نے یہ الہام اپنی اُس جماعت کو جو گورداسپور میں میرے ہمراہ تھی جو چالیس۴۰ آدمی سے کم نہیں ہوں گے سنادیا جن میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے. اور خواجہ کمال الدین صاحب بی.اے. پلیڈر بھی تھے پھر بعد اس کے جب ہم کچہری میں گئے تو فریق ثانی کے وکیل نے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا آپ کی شان اور آپ کا مرتبہ ایسا ہے جیسا کہ تریاق القلوب* کتاب میں لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں خدا کے فضل سے یہی مرتبہ ہے۔اُسی نے یہ مرتبہ مجھے عطا کیا ہے۔ تب وہ الہام جو خدا کی طرف سے صبح کے وقت ہوا تھا قریباً عصر کے وقت پورا ہو گیا۔ اور ہماری تمام جماعت کے زیادتِ ایمان کاموجب ہوا۔

۱۱۹۔نشان۔ ۱۹۰۰ ؁ء میں ایسا اتفاق ہوا کہ میرے چچازاد بھائیوں میں سے امام الدین نام ایک سخت مخالف تھا اُس نے یہ ایک فتنہ برپا کیا کہ ہمارے گھر کے آگے ایک دیوار کھینچ دی اور ایسے موقعہ پر دیوار کھینچی کہ مسجد میں آنے جانے کا راستہ رُک گیا اور جو مہمان میری نشست کی جگہ پر میرے پاس آتے تھے یا مسجد میں آتے تھے وہ بھی آنے سے رُک گئے اور مجھے اور میری جماعت کو سخت تکلیف پہنچی گویا ہم محاصرہ میں آگئے۔ ناچار دیوانی میں منشی خدا بخش صاحب ڈسٹرکٹ جج کے محکمہ میں نالش کی گئی جب نالش ہو چکی تو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مقدمہ ناقابل فتح ہے اور اس میں یہ مشکلات ہیں کہ جس زمین پر دیوار کھینچی گئی ہے اُس کی نسبت کسی پہلے وقت کی مثل کے رُو سے ثابت ہوتا ہے کہ مدعا علیہ یعنی امام الدین قدیم سے اس کا قابض ہے اور یہ زمین در اصل کسی اور شریک کی تھی جس کا نام غلام جیلانی تھا اور اُس کے قبضہ میں سے نکل گئی تھی تب اُس نے


* یہ سہواً لکھا گیا ہے مراد تحفہ گولڑویہ ہے کیونکہ حضرت اقدس سے سوال تحفہ گولڑویہ کے متعلق کیا گیا تھا۔ ہمارے پاس مسل مقدمہ حکیم فضل دین بنام مولوی ابو الفضل محمد کرم الدین دبیرولد نامعلوم سکنہ موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم کی مصدقہ نقل موجود ہے اس میں یہ الفاظ درج ہیں۔ ’’تحفہ گولڑویہ میری تصنیف ہے۔ یکم ستمبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوا۔ پیر مہر علی کے مقابلہ پر لکھی ہے۔ یہ کتاب سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی۔ سوال۔ جن لوگوں کا ذکر صفحہ ۴۸ لغایت۵۰ اس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کا مصداق ہیں۔ جواب خدا کے فضل اور رحمت سے میں اس کا مصداق ہوں۔‘‘ (مصحح)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 279

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 279

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/279/mode/1up


امام الدین کو اس زمین کا قابض خیال کرکے گورداسپور میں بصیغۂ دیوانی نالش کی تھی اور بوجہ ثبوت مخالفانہ قبضہ کے وہ نالش خارج ہو گئی تھی تب سے امام الدین کا اس پر قبضہ چلا آتا ہے اب اسی زمین پر امام الدین نے دیوار کھینچ دی ہے کہ یہ میری زمین ہے۔ غرض نالش کے بعد ایک پُرانی مثل کے ملاحظہ سے یہ ایسا عقدۂ لاینحل ہمارے لئے پیش آگیا تھا جس سے صریح معلوم ہوتا تھا کہ ہمارا دعویٰ خارج کیا جائے گا کیونکہ جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ایک پرانی مثل سے یہی ثابت ہوتا تھا کہؔ اس زمین پر قبضہ امام الدین کا ہے اُس سخت مشکل کو دیکھ کر ہمارے وکیل خواجہ کمال الدین نے ہمیں یہ بھی صلاح دی تھی کہ بہتر ہوگا کہ اس مقدمہ میں صلح کی جائے یعنی امام الدین کو بطور خود کچھ روپیہ دے کرراضی کر لیا جائے لہٰذا میں نے مجبورًا اِس تجویز کو پسند کر لیا تھا مگر وہ ایسا انسان نہیں تھا جو راضی ہوتا۔ اُس کو مجھ سے بلکہ دین اسلام سے ایک ذاتی بغض تھا اور اُس کو پتہ لگ گیا تھا کہ مقدمہ چلانے کا ان پر قطعاً دروازہ بند ہے لہٰذا وہ اپنی شوخی میں اور بھی بڑھ گیا آخر ہم نے اِس بات کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا مگر جہاں تک ہم نے اور ہمارے وکیل نے سوچا کوئی بھی صورت کامیابی کی نہیں تھی کیونکہ پرانی مثل سے امام الدین کا ہی قبضہ ثابت ہوتا تھا اور امام الدین کی یہاں تک بدنیّت تھی کہ ہمارے گھر کے آگے جو صحن تھا جس میں آکر ہماری جماعت کے یکے ٹھہرتے تھے وہاں ہروقت مزاحمت کرتا اور گالیاں نکالتا تھا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ اُس نے یہ بھی ارادہ کیا تھا کہ ہمارا مقدمہ خارج ہونے کے بعد ایک لمبی دیوار ہمارے گھر کے دروازوں کے آگے کھینچ دے تا ہم قیدیوں کی طرح محاصرہ میں آجائیں اور گھر سے باہر نکل نہ سکیں اور نہ باہر جا سکیں۔ یہ دن بڑی تشویش کے دن تھے یہاں تک کہ ہم 3 ۱؂ کا مصداق ہو گئے اور بیٹھے بیٹھے ایک مصیبت پیش آگئی اِس لئے جناب الٰہی میں دعا کی گئی اور اُس سے مدد مانگی گئی۔ تب بعد دعا مندرجہ ذیل الہام ہوا اور یہ الہام علیحدہ علیحدہ وقت کے نہیں بلکہ ایک ہی دفعہ ایک ہی وقت میں ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت سیّد فضل شاہ صاحب لاہوری برادر سیّد ناصر شاہ صاحب اور سیر متعین بارہ مولہ کشمیر میرے پیر دبا رہا تھا اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 280

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 280

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/280/mode/1up


دوپہر کا وقت تھا کہ یہ سلسلہ الہام دیوار کے مقدمہ کی نسبت شروع ہوا۔ میں نے سید صاحب کو کہا کہ یہ دیوار کے مقدمہ کی نسبت الہام ہے۔ آپ جیسا جیسا یہ الہام ہوتا جائے لکھتے جائیں چنانچہ انہوں نے قلم دوات اور کاغذ لے لیا۔ پس ایسا ہوا کہ ہر ایک دفعہ غنودگی کی حالت طاری ہو کر ایک ایک فقرہ وحی الٰہی کا جیسا کہ سُنّت اللہ ہے زبان پر نازل ہوتا تھا*۔ اور جب ایک فقرہ ختم ہو جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا تو پھر غنودگی آتی تھی اور دُوسرا فقرہ وحی الٰہی کا زبان پر جارؔ ی ہوتا تھا یہاں تک کہ کل وحی الٰہی نازل ہو کر سید فضل شاہ صاحب لاہوری کی قلم سے لکھی گئی اور اس میں تفہیم ہوئی کہ یہ اس دیوار کے متعلق ہے جو امام الدین نے کھینچی ہے جس کا مقدمہ عدالت میں دائر ہے اور یہ تفہیم ہوئی کہ انجام کار اس مقدمہ میں فتح ہوگی چنانچہ میں نے اپنی ایک کثیر جماعت کو یہ وحی الٰہی سنا دی اور اس کے معنے اور شانِ نزول سے اطلاع دے دی اور اخبار الحکم میں چھپوا دیا اور سب کو کہہ دیا کہ اگرچہ مقدمہ اب خطرناک اور صورت نومیدی کی ہے مگر آخر خدا تعالیٰ کچھ ایسے اسباب پیدا کر دے گا جس میں ہماری فتح ہوگی کیونکہ وحی الٰہی کا خلاصہ مضمون یہی تھا اب ہم اس وحی الٰہی کو معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے:

الرحٰی تد وروینزل القضاء۔ انّ فضل اللّٰہ لاٰتٍ ولیس لاحدٍان یردّ ما اتٰی۔* قل ای وربّی انہ لحق لا یتبدّل ولا یخفٰی۔ وینزل ما تعجب منہ۔


*حاشیہ ۔ وحی الٰہی کے نزول کے وقت کی غنودگی بھی ایک خارق عادت امر ہے یہ جسم کے طبعی اسباب سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ جہاں تک ضرورتوں کا سامان پیش ہو ہر ایک ضرورت اوردعا کے وقت محض قدرت سے غنودگی پیدا ہو جاتی ہے۔ مادی اسباب کا کچھ بھی اس میں دخل نہیں ہوتا۔ پس اس سے آریہ سماج والوں کے مذہب کا بطلان ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ انسانی زندگانی اور تمام عوارض کا سلسلہ مادی اسباب تک ہی محدود رکھتے ہیں تبھی تو وہ نیستی سے ہستی ہونے کے قائل نہیں اور ان کے نزدیک ہر ایک چیز کے ظہور کے لئے مادی اسباب کا موجود ہونا ضروری ہے پس اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ و ہ وحی الٰہی کے بھی منکرہیں۔ منہ

* عجب بات ہے کہ اس الہام میں بشارت فضل کے لفظ سے شروع ہوتی ہے اور جس کے ہاتھ سے بروقت نزول یہ وحی قلمبند کرائی گئی اس کا نام بھی فضل ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 281

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 281

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/281/mode/1up


وحی من ربّ السماوات العلٰی۔ ان ربّی لا یضل ولا ینسٰی ۔ظفر مبین۔ وانّما یؤخرھم الٰی اجل مسمّٰی۔ انت معی و انا معک۔ قل اللّٰہ ثمّ ذرہ فی غیّہٖ یتمطّٰی۔ انہ معک وانہ یعلم السرَّ وما اخفٰی۔ لا الٰہ الّا ھو۔ یعلم کل شیءٍ ویرَی۔ انّ اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم یُحسنون الحسنٰی۔ انا ارسلنا احمد الٰی قومہٖ فاعرضوا وقالوا کذّابٌ اشر۔ وجعلوا یشھدون علیہ ویسیلون الیہ کماء منھمر۔ ان حبّی قریب۔ انہ قریب مستتر۔ (ترؔ جمہ) چکی پھرے گی اور قضاو قدر نازل ہو گی یعنی مقدمہ کی صورت بدل جائے گی جیسا کہ چکی جب گردش کرتی ہے تو وہ حصہ چکی کا جو سامنے ہوتا ہے بباعث گردش کے پردہ میں آجاتا ہے اور وہ حصہ جو پردہ میں ہوتا ہے وہ سامنے آجاتاہے مطلب یہ کہ مقدمہ کی موجودہ حالت میں جو صورتِ مقدمہ حاکم کی نظر کے سامنے ہے جو ہمارے لئے مضراور نقصان رسان ہے یہ صورت قائم نہیں رہے گی اور ایک دوسری صورت پیدا ہو جائے گی جو ہمارے لئے مفید ہے اور جیسا کہ چکی کو گردش دینے سے جو مُنہ کے سامنے حصہ چکی کا ہوتا ہے وہ پیچھے کو چلا جاتا ہے۔ اور جو پیچھے کا حصہ ہوتا ہے وہ مُنہ کے سامنے آجاتا ہے اسی طرح جو مخفی اور درپردہ باتیں ہیں وہ منہ کے سامنے آجائیں گی اور ظاہر ہو جائیں گی اور جو ظاہر ہیں وہ ناقابلِ التفات اور مخفی ہو جائیں گی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ خدا کا فضل ہے جس کا وعدہ دیا گیا ہے یہ ضرور آئے گا اور کسی کی مجال نہیں جو اُس کو رد کر سکے یعنی آسمان پر یہ فیصلہ یافتہ امر ہے کہ یہ صورت موجودہ مقدمہ کی جس سے یاس اور نومیدی ٹپکتی ہے یک دفعہ اُٹھا دی جائے گی اور ایک اور صورت ظاہر ہو جائے گی جو ہماری کامیابی کے لئے مفید ہے جس کا ہنوز کسی کو علم نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ کہہ مجھے میرے خدا کی قسم ہے کہ یہی بات سچ ہے اِس امر میں نہ کچھ فرق آئے گا اور نہ یہ امر پوشیدہ رہے گا اور ایک بات پیدا ہو جائے گی جو تجھے تعجب میں ڈالے گی۔ یہ اُس خدا کی وحی ہے جو بلند آسمانوں کا خدا ہے میرا ربّ اس صراط مستقیم کو نہیں چھوڑتا جو اپنے برگزیدہ بندوں سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 282

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 282

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/282/mode/1up


عادت رکھتا ہے اور وہ اپنے ان بندوں کو بھولتا نہیں جو مدد کرنے کے لائق ہیں۔ سو تمہیں اِس مقدمہ میں کھلی کھلی فتح ہوگی مگر اس فیصلہ میں اُ س وقت تک تاخیر ہے جو خدا نے مقررکر رکھا ہے۔ تُو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تو کہہ ہر ایک امر میرے خدا کے اختیار میں ہے پھر اس مخالف کو اس کی گمراہی اورناز اور تکبر میں چھوڑ دے (یہ فقرہ وحی الٰہی کا ایک تسلی دینے کا فقرہ ہے کیونکہ جب ہماری نالش کے بعد اکثر قانون دان سمجھ گئے تھے کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے ضرور خارج ہو جائے گا اور امام الدین مدعا علیہ کو ہر ایک پہلو سے یہؔ خبریں مل گئی تھیں کہ قانون کے رُو سے ہماری کامیابی کی سبیل بند ہے تو اِس وجہ سے اُس کا تکبر بہت بڑھ گیا تھا اوروہ دعوے سے کہتا تھا کہ وہ مقدمہ عنقریب خارج ہو جائیگا بلکہ یہی سمجھو کہ خارج ہو گیا اور شریر لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ یہ بات قریباً تمام گاؤں میں مشہور ہو گئی تھی کہ اس مقدمہ کو ہمارے مخالفوں نے ایسا سمجھ لیا ہے کہ گویا مقدمہ اُن کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہے سو اِس جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیوں اِس قدر ناز اورر عونت دکھلا رہے ہو ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے اور پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ وہ قادر تیرے ساتھ ہے اُس کو پوشیدہ باتوں کا علم ہے بلکہ جو نہایت پوشیدہ باتیں ہیں جو انسان کے فہم سے بھی بر تر ہیں وہ بھی اُس کو معلوم ہیں ماحصل اس فقرہ وحی الٰہی کا یہ ہے کہ اس جگہ بھی ایک پوشیدہ امر ہے کہ جو اب تک نہ تجھے معلوم ہے اور نہ تمہارے وکیل کو اور نہ اُس حاکم کو جس کی عدالت میں یہ مقدمہ ہے اور پھر فرمایا کہ وہی خدا حقیقی معبود ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں انسان کو نہیں چاہئے کہ کسی دوسرے پر توکل کرے کہ گویا وہ اُس کا معبود ہے ایک خدا ہی ہے جو یہ صفت اپنے اندر رکھتا ہے وہی ہے جس کو ہر ایک چیز کا علم ہے اورجو ہر ایک چیز کو دیکھ رہا ہے اور وہ خدا اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اُس سے ڈرتے ہیں اور جب کوئی نیکی کرتے ہیں تو نیکی کے تمام باریک لوازم کو ادا کرتے ہیں سطحی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 283

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 283

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/283/mode/1up


طور پر نیکی نہیں کرتے اور نہ ناقص طور پر بلکہ اُس کی عمیق در عمیق شاخوں کو بجا لاتے ہیں اور کمال خوبی سے اُس کا انجام دیتے ہیں سو اُنہیں کی خدا مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی پسندیدہ راہوں کے خادم ہوتے ہیں اور اُن پر چلتے ہیں اور چلاتے ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ ہم نے احمد کو یعنی اِس عاجز کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا۔ پس قوم اُس سے رُو گردان ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ تو کذاب ہے دنیا کے لالچ میں پڑا ہوا ہے یعنی ایسے ایسے حیلوں سے دنیا کمانا چاہتا ہے اور انہوں نے عدالتوں میں اُس پر گواہیاں دیں تا اُس کو گرفتار کرا دیں اور وہ ایکؔ تُندسیلاب کی طرح جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اُس پر اپنے حملوں کے ساتھ گر رہے ہیں۔ مگر وہ کہتا ہے کہ میرا پیارا مجھ سے بہت قریب ہے وہ قریب تو ہے مگر مخالفوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ یہ پیشگوئی ہے جو اُس وقت کی گئی تھی جبکہ مخالف دعوےٰ سے کہتے تھے کہ بالیقین مقدمہ خارج ہو جائے گا اور میری نسبت کہتے تھے کہ ہم اُن کے گھر کے تمام دروازوں کے سامنے دیوار کھینچ کر وہ دُکھ دیں گے کہ گویا وہ قید میں پڑ جائیں گے اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں خدا نے اس پیشگوئی میں خبر دی کہ میں ایک ایسا امر ظاہر کروں گا جس سے جو مغلوب ہے وہ غالب اور جو غالب ہے وہ مغلوب ہو جائے گا اور یہ پیشگوئی اس قدر شائع کی گئی تھی کہ بعض ہماری جماعت کے لوگوں نے اس کو حفظ کر لیا تھا اور صدہا آدمی اِس سے اطلاع رکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ یہ کیونکر ہوگا۔ غرض کوئی اِس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ پیشگوئی قبل از وقت بلکہ کئی مہینے فیصلہ سے پہلے عام طور پر شائع ہو چکی تھی اور الحکم اخبار میں درج ہو کر دور دراز ملک کے لوگوں تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی۔ پھر فیصلہ کا دن آیا اُس دن ہمارے مخالف بہت خوش تھے کہ آج اخراج مقدمہ کا حکم سنایا جائے گا اور کہتے تھے کہ آج سے ہمارے لئے ہر ایک قسم کی ایذاکا موقع ہاتھ آجائے گا وہی دن تھا جس میں پیشگوئی کے اس بیان کے معنی کھلنے تھے کہ وہ ایک امر مخفی ہے جس سے مقدمہ پلٹا کھائے گا اور آخر میں وہ ظاہر کیا جائے گا۔ سو ایسا اتفاق ہوا کہ اس دن ہمارے وکیل خواجہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 284

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 284

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/284/mode/1up


کمال الدین کو خیال آیا کہ پُرانی مثل کا انڈیکس دیکھنا چاہئے یعنی ضمیمہ جس میں ضروری احکام کا خلاصہ ہوتا ہے جب وہ دیکھا گیا تو اس میں وہ بات نکلی جس کے نکلنے کی توقع نہ تھی یعنی حاکم کا تصدیق شدہ یہ حکم نکلا کہ اس زمین پر قابض نہ صرف امام الدین ہے بلکہ میرزا غلام مرتضیٰ یعنی میرے والد صاحب بھی قابض ہیں۔ تب یہ دیکھنے سے میرے وکیل نے سمجھ لیا کہ ہمارا مقدمہ فتح ہو گیا۔ حاکم کے پاس یہ بیان کیا گیا اُس نے فی الفور وہ انڈیکس طلب کیا اور چونکہ دیکھتے ہی اُس پر حقیقت کھل گئی اِس لئے اُس نے بلا توقف امام الدین پر ڈگری زمینؔ کی بمعہ خرچہ کر دی۔ اگر وہ کاغذ پیش نہ ہوتا تو حاکم مجوز بجز اس کے کیا کر سکتا تھا کہ مقدمہ کو خارج کرتا اور دشمن بد خواہ کے ہاتھ سے ہمیں تکلیفیں اُٹھانی پڑتیں۔ یہ خدا کے کام ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور یہ پیشگوئی درحقیقت ایک پیشگوئی نہیں بلکہ دو پیشگوئیاں ہیں کیونکہ ایک تو اس میں فتح کا وعدہ ہے اور دوسرے ایک امر مخفی کے ظاہر کرنے کا وعدہ ہے جو سب کی نظر سے پوشیدہ تھا اور ہم اس جگہ بہت خوشی اور خدا کے شکر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس پیشگوئی کی سچائی کا گواہ حاکم مجوز مقدمہ بھی خدا کی قضاو قدر نے کر دیا ہے جس شہادت سے وہ اپنے تئیں علیحدہ نہیں کر سکتا گو ہمارا مذہبی مخالف ہے یعنی شیخ خدا بخش ڈسٹرکٹ جج۔ کیونکہ وہ گواہی دے سکتا ہے کہ ہمارے وکیل نے باوجود کئی پیشیوں کے اِس قوی حجت کو پیش نہیں کیا صرف مقدمہ کے آخری مرحلہ پر محض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ عقدہ کھلا چنانچہ ہر ایک شخص جو شیخ خدا بخش کے فیصلہ کو دیکھے گا اُس پر فی الفور ظاہر ہو جائے گا کہ مُدّت تک ہمارا پلیڈر محض سماعی شہادتوں سے کام لیتا رہا جو ایک جوڈیشل فیصلہ کے مقابل پر ہیچ تھیں کیونکہ امام الدین مدعا علیہ نے جس مثل کو اپنے مخصوص قبضہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا تھا اُس میں تو صرف امام الدین کا نام تھا میرے والد صاحب کا نام نہ تھا اس میں بھید یہ تھا کہ غلام جیلانی اصل مالک زمین نے امام الدین پر ہی نالش کی تھی اور اُس کی عرضی پر مدعا علیہ صرف امام الدین ہی لکھا گیا تھا اور پھر اطلاع پانے کے بعد میرے والد صاحب نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 285

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 285

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/285/mode/1up


بذریعہ اپنے مختار کے مدعا علیھم میں اپنا نام بھی لکھوا دیا تھا جس سے مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں قابض ہیں۔ اور وہ کاغذات کسی اتفاق سے تلف ہو گئے تھے اور صرف امام الدین کا نام مدعی کے عرضی دعوے پر باقی رہ گیا تھا جس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ قابض زمین صرف امام الدین ہے سو یہی مخفی راز تھا جو ہمیں معلوم نہ تھا اور جب خدا تعالیٰ نے چاہا تو انڈیکس کی مدد سے وہ مخفی حقیقت ظاہر ہو گئی۔ اور جیسا کہ پیشگوئی میں ہے ایک دم میں چکی پھر گئی۔ ظاہر ہے کہ چکی کی روش سے جو حصہ چکی کا آنکھ سے پوشیدہ ہوتا ہے وہ آنکھ کے سامنے آجاتا ہے اور جوؔ سامنے ہوتا ہے وہ پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ پس یہی حال اِس مقدمہ کا ہوا یعنی جو وجوہات قبل اِس سے حاکم کی نظر کے سامنے تھے یعنی یہ کہ غلام جیلانی مدعی نے اپنے عرضی دعوے میں صرف امام الدین کو قابض ظاہر کیا ہے انڈکس پیدا ہونے سے یک دفعہ یہ وجوہات ناپید ہوگئے اور چکی کی پوشیدہ طرف کی طرح نئے وجوہات نظر کے سامنے آگئے اور جس پوشیدہ امر کے لئے اِس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ آخر کار میں ظاہر کردوں گا وہ ظاہر ہو گیا۔ بات یہ ہے کہ غلام جیلانی کی نالش کا مقدمہ ایک پُرانے زمانہ کا تھا جس پر قریباً چالیس برس کے گذر گئے تھے اور وہ مقدمہ میرے والد صاحب کے وقت کا تھا مجھ کو اس سے کچھ اطلاع نہ تھی اور چونکہ مدعی کے عرضی دعوے میں صرف امام الدین کا نام مدعا علیہ لکھا گیا تھا اور باقی کاغذات تلف ہو چکے تھے اور تیس ۳۰ برسگذر گئے تھے جبکہ میرے والد صاحب اور نیز بعد اُن کے میرے بڑے بھائی بھی فوت ہو چکے تھے اِس لئے اِن پوشیدہ باتوں کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی۔

اب سوچنا چاہئے کہ یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے جو نصرتِ الٰہی سے خمیر کی گئی ہے اب جو شخص ایسی پیشگوئیوں کی بھی تکذیب کرے گا تو ہمیں اُس کے اسلام کی کچھ خیر نظر نہیں آتی افسوس کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی نصرت کی بھی قدر نہیں کرتے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ پادری لوگ محض اپنے تعصب سے یہ بکواس کرتے تھے کہ قرآن شریف میں کوئی پیشگوئی نہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 286

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 286

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/286/mode/1up


اور علماء اسلام جواب تو دیتے تھے مگر سچ بات تو یہ ہے کہ پیشگوئیوں اور خوارق کے منکر کا جواب دینا اُسی شخص کا کام ہے جو پیشگوئی دکھلا بھی سکے ورنہ محض باتوں سے یہ تنازع فیصلہ پاتا نہیں۔ پس جبکہ پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے حجت محمدیہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا۔ اب کہاں ہیں پادری تامیرے مقابل پر آویں۔ میں بے وقت نہیں آیا۔ میں اُسوقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ اے آنکھوں کے اندھو! تمہیں سچائی کا مخالف بننا کس نے سکھلایا! دین تباہ ہو گیا اور بیرونی حملوں اور اندرونی بدعات نے تمام اعضاؔ ء دین کے زخمی کر دئے اور صدی میں سے بھی تیئیس۲۳ برس گذر گئے اور کئی لاکھ مسلمان مرتد ہو کر خدا اور رسول کے دشمن ہو گئے مگر تم کہتے ہو کہ اس وقت کوئی خدا کی طرف سے تو نہیں مگر دجّال آیا بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیشگوئی نہیں کی ۔یاد رکھو کہ وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گذر گیا اب وہ زمانہ آگیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربیؐ جس کوگالیاں دی گئیں جس کے نام کی بے عزتی کی گئی جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتابیں اِس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں وہی سچا اور سچوں کا سردار ہے اُس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا مگر آخر اُسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا اُس کے غلاموں* اور خادموں میں سے ایک میں ہوں جس سے خدا مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے اور جس پر خدا کے غیبوں اور نشانوں کا دروازہ کھولا گیا ہے اے نادانو! تم کفر کہو یا کچھ کہو۔ تمہاری تکفیر کی اُس شخص کو کیا پروا ہے جو خدا کے حکم کے موافق دین کی خدمت میں مشغول ہے اور اپنے پر خدا کی عنایات کو بارش کی طرح دیکھتا ہے ۔وہ خدا جو مریم کے بیٹے کے دل پر اُترا تھا وہی میرے دل پر بھی اُترا ہے مگر اپنی تجلّی میں اُس سے زیادہ۔ وہ بھی بشر تھا اور مَیں بھی بشر ہوں اور جس طرح دھوپ


* اس کے متعلق ایک الہامی شعر بھی ہے جو یہ ہے ؂

برترگمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 287

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 287

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/287/mode/1up


دیوار پر پڑتی ہے اور دیوار نہیں کہہ سکتی کہ میں سورج ہوں۔ اس لئے ہم دونوں اِن تجلیات سے اپنے نفس کی کوئی ذاتی عزت نہیں نکال سکتے کیونکہ وہ حقیقی آفتاب کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے الگ ہو کر پھر دیکھ کہ تجھ میں کونسی عزت ہے۔ اِسی طرح عیسیٰ نے ایک وقت میں تو یہ کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور دوسرے وقت بقول عیسائیوں کے شیطان کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا اگر اُس میں حقیقی روشنی ہوتی تو یہ ابتلا اُس کو پیش نہ آتا۔ کیا شیطان خداکی بھی آزمائش کر سکتا ہے۔ پس چونکہ عیسیٰ انسان تھا اِس لئے انسانی آزمائشیں اُس کو پیش آئیں۔ اور عیسیٰ کی دُعاؤں میں بھی کوئی اقتدار نہ تھا صرف انسان کی طرح جناب الٰہی میں عجز و نیاز تھا یہی وجہ ہے کہ باغ والی دعا میں اِس قدر وہ رویا کہ اُس کے کپڑے آنسوؤں سے بھر گئے مگر باوجود اس کے عیسائی کہتے ہیں کہ پھر بھی وہ دعا قبول نہ ہوئی لیکن ہم کہتے ہیں کہ وہ قبول ہو گئی اور خدا نے اُس کو صلیب سے بچا لیا اور صرف یونس کی طرح قبر میں داخل ہوا اور یونس کی طرح زندہ ہی داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا اُس کا رونا اور اُس کی روح کا گداز ہونا موت کے قائم مقام تھا ایسی دعائیں قبول ہوتی ہیں جیسی مریم کے بیٹے نے باغ میں کی۔*

اس درگاہ بلند میں آساں نہیں دُعا جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا

۱۲۰۔ نشان۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے متعلق خدا نے میرے لئے ایک نشان ظاہر کیا تھا۔ چونکہ اس نشان کے اول گواہ مفتی محمد صادق صاحب اڈیٹر اخبار بدر ہیں اس لئے انہیں کے ہاتھ کا خط بطور شہادت ذیل میں درج کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:۔


* مجھے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے سُولی دئے جانے کی نسبت کوئی خواب دیکھی ہو گی اس لئے ان کے دل میں یہ خوف دامنگیر ہوا کہ اگرمیں سُولی دیا گیا تو شریر یہودی *** ہونے کی تہمت میرے پر لگائیں گے پس اسی وجہ سے انہوں نے جان توڑ کر دعا کی اور وہ دعا قبول ہو گئی اور خدا نے اس تقدیر کو اس طرح بدل دیا کہ بگفتن سُولی پر چڑھائے گئے۔ قبر میں بھی داخل کئے گئے مگر یونس کی طرح زندہ ہی داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے۔ نبی بہادر ہوتے ہیں ذلیل یہودیوں کا ان کو خوف نہ تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 288

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 288

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/288/mode/1up


نَحْمدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

حضرت اقدس مرشد ناو مہدینا مسیح موعود و مہدی معہود الصلوٰۃ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ جناب عالی مجھے جوکچھ معلوم ہے خدمت میں عرض کرتا ہوں اور وہ یہ کہ جب کتاب اُمّہات المؤمنین عیسائیوں کی طرف سے اپریل ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئی تھی تو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ممبروں نے گورنمنٹ میں اس مضمون کا میموریل بھیجا تھا کہ اس کتاب کی اشاعت بند کی جائے اور اُس کے مصنف سے جس نے ایسی گندی کتاب لکھی ہے باز پُرس ہو۔ اُن ایام میں یہ عاجز لاہور میں دفتر اکونٹنٹ جنرل میں ملازم تھا اور دوچار روز کے واسطے کسی رخصت کی تقریب پر قادیان آیا ہوا تھا جبکہ حضور کی خدمت میں اُن کے میموریل کاذکر کیا گیا تو مجھے خوب یاد ہے کہ حضور بہت سے آدمیوں کے ساتھ جن میں حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے بھی تھے باغ کی طرف سیر کو جا رہے تھے۔ تب حضور نے فرمایا کہ یہ بات انجمن نے ٹھیک نہیں کی۔ ہم اس میموریل کے سخت مخالف ہیں۔ چنانچہ حضور نے اس مخالفت کو اپنی ایک تحریر میں جو بصورت میموریل بخدمت گورنمنٹ بھیجی تھی صاف طور پر ۴؍مئی ۱۸۹۸ء کو شائع بھی کر ؔ دیا تھا۔ جس پر انجمن والوں نے بہت شور مچایا اور اخباروں میں حضور کے بر خلاف مضمون شائع کئے اُنہیں دنوں میں جب حضور باہر سیر کرنے کو گئے تو حضور نے فرمایا تھا کہ ہمیں انجمن حمایت اسلام لاہور کی اس کارروائی کے متعلق الہام ہوا ہے کہ ستذکرون ما اقول لکم وافوض امری الی اللّٰہ۔ اور اس کے ترجمہ اور تفہیم میں حضور نے فرمایا کہ عنقریب انجمن والے میری بات کو یاد کریں گے کہ اس طریق کے اختیار کرنے میں ناکامی ہے اور جس امر کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی مخالفین کے اعتراضات کو ردّ کرنا اور اُن کا جواب دینا اس امر کو خدا تعالیٰ کو سونپتا ہوں یعنی خدا میرے کام کا محافظ ہوگا مگر وہ ارادہ جو انجمن والوں نے کیا ہے کہ اُمّہات المؤمنین کے مؤلف کو سزا دلائیں اس میں اُن کو کامیابی ہر گز نہ ہوگی اور بعد میں اُن کو


* لیکھرام شنبہ کے دن قتل کیا گیا تھا اور جمعہ کے روز عید الفطر تھی اور جمعہ خود اسلام میں عید کا دن ہے گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ لیکھرام کے قتل سے پہلے دن مسلمانوں کی دو عیدیں ہوں گی اور ان دو۲ عیدوں کے دوسرے دن آریوں کے گھر میں دو ۲ماتم ہوں گے ایک یہ کہ ان کا لیڈر مارا گیا دوسرے یہ کہ ہماری پیشگوئی پوری ہو کر ان کے مذہب کا باطل ہونا ثابت ہوا۔ منہ

* دیکھو تکذیب براہین احمدیہ صفحہ۳۰۷و۳۱۱۔ اور کلیات آریہ مسافر صفحہ ۵۰۱ جس میں یہ بھی لکھا ہے کہ تین سال کے اندر آپ کا خاتمہ ہو گا اور آپ کی ذریت میں سے کوئی باقی نہ رہے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 289

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 289

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/289/mode/1up


یاد آئے گا کہ جو پیش از وقت بتلایا گیا تھا وہ واقعی اور درست تھا اس الہام کے سُننے کے ایک دو دن کے بعد جب میں واپس لاہور گیا تو حسب معمول مسجد گمٹی بازار لاہور میں ایک جلسہ کیا گیا اور اُس جلسہ میں یہ عاجز اپنے قادیان کے سفر کی رپورٹ سناتا تھا چنانچہ حضور کا یہ الہام اور اُس کی تشریح ایک گروہ کثیر کو وہاں سنائی گئی اور ہنوز میں سنا ہی چکا تھا کہ ایک شخص نے خبر دی کہ انجمن کو لفٹنٹ گورنر کی طرف سے جواب آگیا ہے اور اُن کا میموریل نا منظور ہوا ہے اور مؤلف رسالہ اُمّہات المؤمنین کسی قانون کے مواخذہ کے نیچے نہیں آسکتا۔ تب اس خبر کا سننا تمام حاضرین جلسہ کے واسطے ازدیادِ ایمان کا موجب ہوا اور سب نے خداتعالیٰ کے عجیب کاموں پر اُس کی حمد کی۔ (راقم) حضور کی جو تیوں کا غلام محمدصادق

۱۲۱۔نشان۔ جن دنوں میں ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ واقع ہوا تھا۔ اُس وقت چونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ کو خبر ملی تھی کہ اسی زلزلہ پر حصر نہیں اور بھی زلزلے آئیں گے۔ اِس لئے میں مصلحتاً باغ میں مع عیال و اطفال اوراکثر اپنی جماعت کے لوگوں کے چلا گیا تھا اور وہاں ایک بڑے میدان میں دو خیمے لگا کر ہم بسرکرتے تھے اُنہیں دنوں میں میرے گھر کے لوگ سخت بیمار ہو گئے تھے کسی وقت تپ مفارقت نہیں کرتا تھا اور کھانسی ساتھ تھیؔ ۔ میرے مخلص دوست مولوی حکیم نور دین صاحب علاج کرتے تھے مگر فائدہ محسوس نہ ہوتا تھا یہاں تک نوبت پہنچی کہ نشست و برخاست سے عاری ہو گئی چارپائی پر بٹھا کر خیمہ میں شام کے وقت عورتیں لے جاتی تھیں اور صبح چارپائی پر باغ میں لے آتی تھیں اور دن بدن جسم لاغر ہوتا جاتا تھا۔ آخر میں نے توجہ سے دُعاکی تب الہام ہوا انّ مَعِیَ ربّی سَیھدین یعنی میرا رب میرے ساتھ ہے عنقریب وہ مجھے بتلا دے گا کہ مرض کیا ہے اور علاج کیا ہے اس الہام سے چند منٹ بعد ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ بیماری بباعث حرارتِ جگر ہے اور دل میں ڈالا گیاکہ کتاب شفاء الاسقام کا نسخہ اس کے لئے مفید ہوگا سو وہ نسخہ بنایا گیا اور وہ قرص تھے۔ جب تین یا چار قرص کھائے گئے تو ایک دن صبح کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 290

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 290

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/290/mode/1up


وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ عبد الرحمن نام ایک شخص ہمارے مکان میں آیا ہے اور وہ کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ بخار ٹوٹ گیا۔ اور یہ عجیب قدرت الٰہی ہے کہ ایک طرف یہ خواب دیکھی گئی اور دوسری طرف جب میں نے نبض دیکھی تو بخار کا نام و نشان نہ تھا پھر یہ الہام ہوا۔

تو در منزل ماچو بار بار آئی خداا برِ رحمت ببارید یانے

اس پیشگوئی کی بھی ایک جماعت گواہ ہے جس کا جی چاہے دریافت کر لے۔

۱۲۲۔نشان۔ عرصہ تیس ۳۰برس کے قریب گذرا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بلند چبوترہ ہے جو دو کان کے مشابہ ہے اور شائد اُس پر چھت بھی ہے اس میں ایک نہایت خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے جو قریباً سات برس کی عمر کا تھا۔ میرے دل میں گذرا کہ یہ فرشتہ ہے اُس نے مجھے بُلایا یامیں خود گیایہ یاد نہیں لیکن جب میں اُس کے چبوترہ کے پاس جاکر کھڑا ہوا تو اس نے ایک نان جو نہایت لطیف تھا اور چمک رہا تھا اوربہت بڑا تھاگویا چارنان کے مقدار پر تھا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے دیا اورکہا کہ یہ نان لو یہ تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے سو دس ۱۰برس کے بعد اس خواب کا ظہور ہو گیا۔ اگر کوئی دل کی صفائی سے قادیان میں آکر رہے تو اُسے معلوم ہوگا کہ وہی روٹی جو فرشتے نے دی تھی دو وقت ہمیں غیبؔ سے ملتی ہے کئی عیالدار دو وقت یہاں سے روٹی کھاتے ہیں کئی نابینا اور اپاہج اور مسکین دو وقت اس لنگرخانہ سے روٹی لے جاتے ہیں اور ہر ایک طرف سے مہمان آتے ہیں اوراوسط تعداد روٹی کھانے والوں کی ہر روز دو سو اورکبھی تین سو اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو دو وقت اس لنگرسے روٹی کھاتے ہیں اور دوسرے مصارف مہمان داری کے الگ ہیں اوراوسط خرچ بہت کفایت شعاری سے پندرہ سو۱۵۰۰ روپیہ ماہواری ہوتا ہے مگر اورکئی متفرق خرچ ہیں جو اس کے علاوہ ہیں اور یہ خدا کا معجزہ بیس ۲۰برس سے میں دیکھ رہا ہوں کہ غیب سے ہمیں وہ روٹی ملتی ہے اور نہیں معلوم ہوتا کہ کل کہاں سے آئے گی لیکن آجاتی ہے حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی تو یہ دعا تھی کہ اے خدا ہمیں روز کی روٹی دے لیکن خدائے کریم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 291

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 291

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/291/mode/1up


ہمیں بغیر دعا کے ہر روز کی روٹی دے رہا ہے اور جیسا کہ فرشتہ نے کہا تھا کہ یہ روٹی تمہارے لئے اورتمہارے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے اِسی طرح خدائے کریم مجھے اور میرے ساتھ کے درویشوں کوہر روز اپنی طرف سے یہ دعوت بھیجتا ہے پس ہر روز نئی دعوت اُس کی ہمارے لئے ایک نیا نشان ہے۔

۱۲۳۔نشان۔ ایک دفعہ ایک ہندو صاحب قادیان میں میرے پاس آئے جن کا نام یاد نہیں* رہا۔ اور کہا کہ میں ایک مذہبی جلسہ+ کرنا چاہتا ہوں آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں کے متعلق کچھ مضمون لکھیں تا اس جلسہ میں پڑھا جائے میں نے عذرکیا پر اُس نے بہت اصرار سے کہا کہ آپ ضرور لکھیں چونکہ میں جانتاہوں کہ مَیں اپنی ذاتی طاقت سے کچھ بھی نہیں کر سکتا بلکہ مجھ میں کوئی طاقت نہیں۔ میں بغیر خدا کے بُلائے بول نہیں سکتا اور بغیر اس کے دکھانے کے کچھ دیکھ نہیں سکتا اس لئے میں نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ مجھے ایسے مضمون کا القا کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے میں نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت میرے اندر پھونک دی گئی ہے میں نے اس آسمانی قوت کی ایک حرکت اپنے اندر محسوس کی اور میرے دوست جو اس وقت حاضر تھے جانتے ہیں کہ میں نے اس مضمون کا کوئی مسودہ نہیں لکھا جو کچھ لکھا ؔ صرف قلم برداشتہ لکھا تھا اور ایسی تیزی اور جلدی سے میں لکھتا جاتا تھا کہ نقل کرنے والے کے لئے مشکل ہو گیا کہ اس قدر جلدی سے اُس کی نقل لکھے۔ جب میں مضمون ختم کر چکا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا خلاصہ کلام یہ کہ جب وہ مضمون اس مجمع میں پڑھا گیا تو اس کے پڑھنے کے وقت سامعین کے لئے ایک عالم وجد تھا۔ اور ہر ایک طرف سے تحسین کی آواز تھی یہاں تک کہ ایک ہندو صاحب جو صدر نشین اس مجمع کے تھے اُن کے مُنہ سے بھی بے اختیار نکل گیا کہ یہ مضمون* تمام مضامین سے بالا رہا۔ اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 292

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 292

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/292/mode/1up


لاہور سے انگریزی میں ایک اخبار نکلتا ہے اُس نے بھی شہادت کے طور پر شائع کیا کہ یہ مضمون بالا رہا۔ اور شائد بیس ۲۰کے قریب ایسے اردو اخبار بھی ہوں گے جنہوں نے یہی شہادت دی اور اس مجمع میں بجُز بعض متعصب لوگوں کے تمام زبانوں پر یہی تھا کہ یہی مضمون فتح یاب ہوا اور آج تک صدہا آدمی ایسے موجود ہیں جو یہی گواہی دے رہے ہیں۔ غرض ہر ایک فرقہ کی شہادت اور نیز انگریزی اخباروں کی شہادت سے میری پیشگوئی پوری ہو گئی کہ مضمون بالا رہا۔ یہ مقابلہ اُس مقابلہ کی مانند تھا جو موسیٰ نبی کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا تھا کیونکہ اس مجمع میں مختلف خیالات کے آدمیوں نے اپنے اپنے مذہب کے متعلق تقریریں سنائی تھیں جن میں سے بعض عیسائی تھے اور بعض سناتن دھرم کے ہندو اور بعض آریہ سماج کے ہندو اور بعض برہمو اور بعض سکھ اور بعض ہمارے مخالف مسلمان تھے۔ اور سب نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جبکہ خدا نے میرے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پُر معارف تقریر کے پیرایہ میں اُن کے مقابل پر چھوڑا تو وہ اژدہا بن کر سب کو نگل گیا۔ اور آج تک قوم میں میری اس تقریر کا تعریف کے ساتھ چرچا ہے جو میرے مُنہ سے نکلی تھی۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۱۲۴۔نشان۔ تصنیف براہین احمدیہ کے زمانہ میں جبکہ لوگوں کا میری طرف کچھ رجوع نہ تھا اور نہ دنیا میں شہرت تھی روپیہ کی سخت ضرورت پیش آئی۔ اس کے لئے میں نے دعا کی تب یہ اؔ لہام ہوا دس دن کے بعد میں موج دکھاتا ہوں الا انّ نصر اللّٰہ قریب۔ فی شائل مقیاس۔ دن وِل یو گو ٹو امرت سر*۔ یعنی دس دن کے بعد روپیہ ضرور آئے گا پہلے اس سے کچھ نہیں آئے گا خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اُونٹنی دُم اُٹھاتی ہے تب اُس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مددِ الٰہی بھی قریب ہے۔ اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرت سر میں بھی جاؤگے۔ یہ پیشگوئی میں نے تین ہندوؤں یعنی شرمپت، ملاوامل، بشنداس کو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 293

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 293

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/293/mode/1up


جو آریہ ہیں سُنا دی اور اُن کو کہہ دیا کہ یاد رکھو کہ یہ روپیہ ڈاک کے ذریعہ سے آئے گا اور دس دن تک ڈاک کے ذریعہ سے کچھ بھی نہیں آئے گا۔ اور علاوہ ان ہندوؤں کے اور بہت سے مسلمانوں کو یہ پیشگوئی قبل از وقت سُنا دی اور خوب مشہور کر دی۔ کیونکہ اس پیشگوئی میں دو پہلو بہت عجیب تھے۔ ایک یہ کہ قطعی طور پر حکم دیا گیا تھا کہ دس ۱۰دن تک کچھ نہیں آئے گا اور گیارھویں دن بلا توقف اور بلا فاصلہ روپیہ آئے گا۔ دوسرا پہلو یہ عجیب تھا کہ روپیہ آنے کے ساتھ ہی کچھ ایسا اتفاق پیش آجائے گا کہ تمہیں امرت سر جانا پڑ ے گا۔ پس یہ عجیب نمونہ قدرتِ الٰہی ظاہر ہوا کہ الہام کے دن سے دس ۱۰دن تک ایک پیسہ بھی نہ آیا اور مذکورہ بالا آریان ہر روز ڈاکخانہ میں جاکر تفتیش کرتے رہے اور اُن دِنوں میں ڈاکخانہ کا سب پوسٹ ماسٹر بھی ہندو تھا۔ جب گیار۱۱ھواں دن چڑھا تو اِن آریوں کے لئے ایک عجیب تماشے کا دن تھا اور وہ بہت خوشی سے اِس بات کے اُمید وار تھے کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے تب بعض ان میں سے ڈاکخانہ میں گئے اور غمگین صورت بنا کر واپس آئے اور بیان کیا کہ آج محمد افضل خان نام ایک سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے ہیں اور ایسا ہی ایک شخص نے 3 روپیہ بھیجے غرض اُس دن ایک3 سو تیس روپے آئے جن سے وہ کام پورا ہو گیا جس کے لئے ضرورت تھی اور اُسی دن جبکہ یہ روپیہ آیا عدالت خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے میرے نام سمن آگیا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا اس پیشگوئی کے پورے ہونے کی ایک جماعت گواہ ہے اور اس کی اس طرح پر بھی تصدیق ہو سکتی ہے کہ قادیان کے ڈاکخانہ کا رجسٹر دیکھا جائے تو جس دن یہ ایک3 سو تیس روپے آئے ہیں اُس دن سے دس دن پہلے کی تاریخوں میں رجسٹر میں ایک پیسے کا منی آرڈر بھی میرے نام نہیں پاؤ گے اور پھر اگر اُسی تاریخ عدالت خفیفہ امرتسر کے دفتر میں تلاش کروگے تو اس میں ایک شخص پادری رجب علی نام کے مقدمہ میں میرا اظہار شامل مثل پاؤگے اور یہ ۱۸۸۴ء کا نشان ہے۔ اسی پتہ سے ڈاکخانہ کا رجسٹر ملاحظہ ہو سکتا ہے اور اسی پتہ سے عدالت خفیفہ امرتسر میں میرے اظہار کا پتہ لگ سکتا ہے اور اگر ہندو گواہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 294

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 294

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/294/mode/1up


انکار کریں تو حلف دینے سے وہ سچ سچ بیان کر سکتے ہیں اور جبکہ یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے صفحہ۴۶۹ وصفحہ ۴۷۰ میں درج ہے اور ان آریوں کا حوالہ دیا گیا ہے تو عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اگر وہ لوگ اس پیشگوئی کے گواہ رویت نہیں تھے تو باوجود سخت مخالف ہونے کے اِس مدت تک اُن کا خاموش رہنا عقل تجویز نہیں کر سکتی وہ اُس زمانہ سے کہ جب سن عیسوی ۱۸۸۴ء تھا اِس زمانہ تک کہ اب ۱۹۰۶ء ہے باوجود علم اِس بات کے کہ بار بار کتابوں اور اشتہاروں میں اُن کے نام بطور گواہوں کے ہم لکھ رہے ہیں کیوں خاموش رہے اُن کا حق تھا کہ ان تمام شہادتوں کی تکذیب کرتے جو براہین احمدیہ میں ان کی نسبت درج ہیںیاد رہے کہ تین ہندوؤں کی شہادتیں براہین احمدیہ میں پیشگوئیوں کے بارہ میں درج ہیں سب سے اول لالہ شرمپت کھتری دوسرا لالہ ملاوامل کھتری تیسرا بشنداس برہمن ہے اور براہین احمدیہ کی ہر ایک عبارت میں آریوں سے مُراد یہی لوگ ہیں بعض جگہ اور بھی ہیں اور اس پیشگوئی میں ایک انگریزی فقرہ ہے وہ بھی میرے لئے بطور نشان کے ہے کیونکہ میں انگریزی بالکل نہیں جانتا۔ پس اس پیشگوئی کو خدا تعالیٰ نے اردو اور عربی اور انگریزی میں بیان کرکے ہر ایک طرح سے اس کی منشاء کو کھول دیا ہے اور یہ ایک بڑا نشان ہے مگر اُن کے لئے جن کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی نہیں۔

۱۲۵۔نشان۔ واضح ہو کہ من جملہ ہیبت ناک اور عظیم الشان نشانوں کے پنڈت لیکھرام کی ؔ موت کا نشان ہے جس کی بنیادی پیشگوئی کا سر چشمہ میری کتابیں برکات الدعا اور کرامات الصادقین اور آئینہ کمالا۳تِ اسلام ہیں جن میں قبل از وقوع خبر دی گئی تھی کہ لیکھرام قتل کے ذریعہ سے چھ ۶سال کے اندر اِس دنیا سے کوچ کرجائے گا اور اس کے قتل کئے جانے کا دن عید سے دوسرا دن ہوگا یعنی شنبہ کا دن اور یہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ تاعید کا دن جو جمعہ تھا اِس بات پر دلالت کرے کہ جس دن مسلمانوں کے گھر میں د۲و عیدیں ہوں گی اس سے دوسرے دن آریوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 295

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 295

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/295/mode/1up


کے گھر میں دو۲ ماتم ہونگے۔* اور یہ پیشگوئی نہ صرف میری کتابوں میں درج ہے بلکہ لیکھرام نے خود اپنی کتاب میں نقل کر کے اپنی قوم میں اس پیشگوئی کی قبل از وقوع شہرت دے دی تھی اور اس پیشگوئی کے مقابل پر اُس نے اپنی کتاب میں میری نسبت یہ لکھا کہ میرے پرمیشر نے مجھے یہ الہام کیا ہے کہ یہ شخص (یعنی یہ خاکسار) تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائے گا کیونکہ کذاب ہے۔* لیکھرام کا یہ الہام سہ ۳سالہ ایسا ہی تھا جیسا کہ اب میری موت کی نسبت عبد الحکیم خان نے سہ ۳سالہ الہام شائع کیا ہے غرض میری یہ پیشگوئی لیکھرام کے بالمقابل تھی اور بطور مباہلہ کے تھی اور لیکھرام کی اب تک وہ کتابیں موجود ہیں اور آریوں میں بہت شہرت یافتہ ہیں جن میں لیکھرام نے اپنے پرمیشر کی طرف منسوب کرکے وہ پیشگوئی لکھی ہے ایسا ہی میری پیشگوئی بھی جس میں لیکھرام کی موت کی نسبت چھ۶ سال قرار دئے گئے تھے کئی لاکھ انسانوں میں شہرت پا چکی تھی چنانچہ رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر ۱۳۱۱ ہجری میں یہ پیشگوئی درج کی گئی اور وہ عربی کتاب ہے جس کاترجمہ یہ ہے کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کرکے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چھ۶ سال کے اندر ہلاک ہوگا اور اُس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا اور بُرے لفظوں کے ساتھ توہین کرتا تھا۔ یہ کتاب لیکھرام کے مرنے سے پانچ برس پہلے پنجاب اور ہندوستان میں خوب شائع ہو گئی تھی اور پھر اشتہار ۲۲؍فروری ۱۸۹۳ء میں جو میری کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام کے ساتھ شامل ہے لیکھرام کی موت سے کئی سال پہلے




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 296

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 296

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/296/mode/1up


صاف طور پر میں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ لیکھرام گو سالہ سامری کی طرح ٹکڑؔ ے ٹکڑے کیا جائے گا اور اس میں یہ اشارہ تھا کہ جیسا کہ گو سالہ سامری شنبہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا ٰیہی لیکھرام کا حال ہوگا اوریہ اُس کے قتل کی طرف اشارہ تھا چنانچہ لیکھرام شنبہ کے دن قتل کیاگیا اور اُن دنوں میں شنبہ سے پہلے جمعہ کے دن مسلمانوں کی عیدہوئی تھی ایسا ہی گو سالہ سامری بھی شنبہ کے دن ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور وہ یہود کی عید کا دن تھا اور گوسالہ سامری ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد جلایا گیا تھا ایسا ہی لیکھرام بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد جلایا گیا کیونکہ اول قاتل نے اُس کی انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پھر ڈاکٹر نے اُس کے زخم کو زیادہ کھولا اوربالآخر جلایاگیا اور پھر گوسالہ سامری کی طرح اُس کی ہڈیاں دریا میں ڈالی گئیں اور خدا تعالیٰ نے گو سالہ سامری سے اس لئے اُس کو تشبیہ دی کہ وہ گو سالہ محض بے جان تھا اور اس زمانہ کے ان کھلونے۱؂ کی طرح تھا۔ جن کی کل دبانے سے آواز نکلتی ہے۔ اسی طرح اس گو سالہ میں سے ایک آواز نکلتی تھی پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل لیکھرام بے جان تھا اور اُس میں روحانی زندگی نہیں آئی تھی اور اس کی آواز محض گوسالہ سامری کی طرح تھی اور سچا علم اور سچا گیان اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق اور سچی محبت اُس کو نصیب نہیں تھی۔ یہ آریوں کا قصور تھاکہ اُس بے جان کو جس میں روحانیت کی جان نہ تھی اور محض مردہ تھا اس مقام پر کھڑا کر دیا جس پر کوئی زندہ کھڑا ہونا چاہئے تھا۔ اِس لئے اس کا گو سالہ سامری کی طرح انجام ہوا۔

اس پیشگوئی کے وقت بعض اخبار والوں نے بھی میرے پر حملے کئے چنانچہ پرچہ انیس ہند میرٹھ مطبوعہ ۲۵؍مارچ ۱۸۹۳ء میں اخبار مذکور کے ایڈیٹر نے بھی ایک حملہ کیا اور وہ یہ تھا کہ اگر لیکھرام کو تھوڑی سی درد سریا تپ آیا تو کہہ دیا جائے گا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ میں نے اس کے جواب میں برکات الدعا میں لکھا کہ اگر ایسی کوئی معمولی بات ہوئی تو میں سزا کے لائق ٹھہروں گالیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہرِ الٰہی کا نشان صاف صاف طور پر دکھائی دے تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یہ جواب برکات الدعا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 297

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 297

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/297/mode/1up


کےؔ پہلے صفحہ میں ہی شائع کیا گیا تھا چاہو تو دیکھ لو۔

اور یہ امر کہ کن پیشگوئیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ قتل کیا جائے گا۔ پس واضح ہو کہ وہ تین ہیں۔ اول ایک پیشگوئی کہ جو رسالہ برکات الدعا میں لیکھرام کی زندگی میں ہی شائع کی گئی تھی وہ اُس کے قتل کی صاف طورپر خبر دیتی ہے اور وہ یہ ہے عجل جسد لہٗ خوار۔ لہ نصب و عذاب۔ یعنی لیکھرام گوسالہ سامری ہے جو بے جان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں رُوحانیت نہیں اس لئے اُس کو وہ عذاب دیا جائے گا جو گو سالہ سامری کو دیا گیا تھا اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گو سالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور پھر دریا میں ڈالا گیا تھا۔ پس اس پیشگوئی میں صریح اور صاف طور پر لیکھرام کے قتل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اُس کے لئے وہ عذاب مقرر کیا گیا ہے جو گوسالہ سامری کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔

دوسری پیشگوئی جو لیکھرام کے قتل کی خبر دیتی ہے وہ ایک کشف ہے جو رسالہ برکات الدعاء کے حاشیہ پر درج ہے اور اس کی عبارت یہ ہے کہ ۲؍اپریل ۱۸۹۳ء کو میں نے دیکھا کہ ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اُس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے گویا وہ انسان نہیں ملائک شدّاد و غلاّظ میں سے ہے وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور اُس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُس کو دیکھتا تھا کہ ایک خونی شخص کے رنگ میں ہے اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا اور کہا کہ وہ کہاں ہے* تب میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص لیکھرام اور اُس دوسرے کی سزا کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ دیکھو ٹائیٹل پیج برکات الدعا


*حاشیہ۔ اب تک مجھے معلوم نہیں کہ وہ اور شخص کون ہے اس فرشتہ خونی نے اس کا نام تو لیا مگر مجھے یاد نہ رہا۔ کاش اگر مجھے یاد ہوتا تو اسے میں متنبہ کرتا تا اگر ہو سکتا تو میں اسے وعظ و نصیحت سے توبہ کی طرف مائل کرتا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص بھی لیکھرام کا روپ یا یوں کہو کہ اس کا بروز ہے اور توہین اور گالیاں دینے میں اس کا مثیل ہے۔ واللّٰہ اعلم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 298

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 298

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/298/mode/1up


مطبوعہ اپریل ۱۸۹۳ء۔ اس کے بعد ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء میں لیکھرام بذریعہ قتل ہلاک ہو گیا اور اُس کی موؔ ت سے تخمیناً پانچ برس پہلے یہ کشف رسالہ برکات الدعا میں چھاپ کر شائع کیا گیاتھا۔ اور یاد رہے کہ لیکھرام کے مارے جانے کی پیشگوئی صرف پیشگوئی نہیں تھی بلکہ میں نے اُس کے ہلاک ہونے کے لئے دعا کی تھی اور مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا تھا کہ وہ چھ۶ برس کے اندر ہلاک کیا جائے گا۔ اگر وہ حد سے زیادہ زبان درازی نہ کرتا اور علانیہ طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہ دیتا تو چھ۶ برس پورے کرکے مرتا۔ مگر اس کی زبان درازیوں نے وہ مدت بھی پوری ہونے نہ دی اور ایک برس ابھی باقی تھاکہ وہ پنجۂ اجل میں گرفتار ہو گیا۔ اس کے بر خلاف ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے نرمی کا طریق اختیار کیا یہاں تک کہ جب میں اس مباحثہ کے لئے ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی پر جاتا تھا تو مجھے دیکھ کر وہ تعظیم کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا اور کمینہ طبع عیسائی اُس کو منع کرتے تھے مگر وہ اس تعظیم سے باز نہیں آتا تھا اور نہ صرف اس قدر بلکہ اس نے دجّال کہنے سے جلسۂ عام میں رجوع بھی کیا اور عیسائیوں کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا اس لئے خدا نے میعاد مقررہ سے زیادہ اس کومہلت دے دی لیکھرام وہ تھا جو اپنی شوخیوں کی وجہ سے اصلی میعاد بھی پوری نہ کر سکا اور عبد اللہ آتھم وہ تھاجو اپنے ادب اور نرمی کی وجہ سے علاوہ اصل میعاد کے پندرہ مہینہ تک اور زندہ رہا اور بہرحال پندرہ مہینہ کے اندر مر گیا خدا نے اس کومہلت بھی دے دی اور پھر اپنی بات کو بھی نہ چھوڑا یعنی بہر حال اس کی موت کے لئے پندرہ مہینے قائم رہے۔

اور میں نے سید احمد خان کو مخاطب کرکے اپنی کتاب برکات الدعاء میں لکھا تھا کہ لیکھرام کی موت کے لئے میں نے دعا کی ہے اور وہ دُعا قبول ہو گئی ہے سو آپ کے لئے جو قبولیت دعا کے منکر ہیں یہ نمونہ دعائے مستجاب کافی ہے مگر میری اِس تحریر پر ہنسی کی گئی۔ کیونکہ لیکھرام ابھی زندہ اور ہر طرح سے تندرست اور توہین اسلام میں سخت سرگرم تھا اور میں نے اس مُراد سے کہ لوگ پیشگوئی کو یاد کر لیں اشعار میں سیداحمد خان کو مخاطب کیا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 299

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 299

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/299/mode/1up


اور وہ اشعار یہ ہیں جو میری کتاب برکات الدعا میں درج ہیں اور اُس وقت شائع کئے گئےؔ جب لیکھرام زندہ موجودتھا۔

سید احمد خان صاحب سی ایس آئی کی طرف نظم میں ایک خط

جو دعا کی قبولیت کا مُنکر تھا

رُوئے دلبر از طلبگار ان نمیدار دحجاب

می درخشد درخور ومی تابد اندر ماہتاب

لیکن آن رُوئے حسین از غافلان ماند نہان

عاشقے باید کہ بردارنداز بہرش نقاب

دامن پاکش زنخوت ہانمی آید بدست

ہیچ راہے نیست غیر از عجز و درد و اضطراب

بس خطرناک است راہِ کُوچۂ یارقدیم

جان سلامت بایدت ازخودر و ی ہاسربتاب

تاکلامش عقل وفہمِ ناسزایاں کم رسد

ہر کہ از خود گُم شوداو یابدآں راہِ صواب

مشکلِ قرآن نہ از ابنائے دنیا حل شود

ذوق آن میداند آن مستے کہ نوشد آن شراب

ایکہ آگاہی نداد ندت زانوارِ دروں

درحقِ ماہرچہ گوئی نیستی جائے عتاب

از سروعظ و نصیحت ایں سخنہا گفتہ ایم

تامگر زیں مرہمے بہ گردد آن زخمِ خراب

از دعا کن چارۂ آزارِ انکارِ دعا

چون علاجِ مَے زِمے وقتِ خمار و التہاب

ایکہ گوئی گر دعاہا رااثر بودے کجاست

سُوئے من بشتاب بنمایم تراچوں آفتاب

ہاں مکن انکار زیں اسرارِ قُدرتہائے حق

یعنی دُعائے موت لیکھرام *قِصّہکو تہ کُن ببیں از ما دعائے مستجاب

یہ کل نقل مطابق اصل ہے اور اس میں یہ تشریح درج ہے کہ یہ دعا لیکھرام کی موت کے لئے کی گئی تھی۔ اور کتاب کرامات الصادقین میں ایک شعر لکھا گیا ہے کہ لیکھرام کی موت عید کے دن کے قریب ہوگی چنانچہ عید جمعہ کو ہوئی اور لیکھرام شنبہ کے دن مارا گیا اور وہ شعر یہ ہے۔

وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مُبَشِّرًا

سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَالْعِیْدُ اَقْرَب


* دیکھو صفحہ ۲۔۳۔۴ سر ورق برکات الدعاء۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 300

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 300

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/300/mode/1up


یعنیؔ مجھے لیکھرام کی موت کی نسبت خدا نے بشارت دی اور کہا کہ تو اس واقعہ کو عید کے دن میں پہچان لے گا اور عید اُس سے قریب ہوگی۔ یہ پیشگوئی کہ لیکھرام کی موت عید کے دن کے قریب واقع ہوگی بعض آریہ سماج والوں کی اخباروں میں چھپ چکی ہے جیسا کہ سماچار میں۔

واضح ہو کہ لیکھرام کی موت کے بارے میں پیشگوئی حق الیقین تک پہنچ گئی ہے اور جو شخص اس پیشگوئی کے متعلق پوری واقفیت حاصل کرنا چاہے اُسے چاہئے کہ اول میری کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام والا اشتہار پڑھے اور پھر میری کتاب برکات الدعاکی وہ عبارت غور سے پڑھے جس میں مَیں نے سید احمد خان کی طرف لکھا تھا کہ آپ سُن رکھیں کہ میں نے لیکھرام کی موت کے لئے دُعا کی تھی پس تم یقیناًیاد رکھو کہ وہ میعاد کے اندر مر جائے گا پھر طالبِ حق کو چاہئے کہ اس کے بعد وہ کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام کے اشتہار میں میرا وہ نوٹ پڑھے جس میں مَیں نے آریوں کو مخاطب کرکے لکھا ہے کہ لیکھرام کی موت کی نسبت میری دُعا قبول ہو چکی ہے اب اگر تمہارا مذہب سچا ہے تو اپنے پرمیشر سے پرارتھنا اور دعا کرو کہ وہ اس قطعی موت سے بچ جائے اور ایسا ہی طالبِ حق کو چاہئے کہ برکات الدعاء کے اخیر میں میرے اُس کشف کو پڑھے جس میں مَیں نے لکھا ہے کہ ایک فرشتہ میں نے دیکھا جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا اور اُس نے مجھے آکر کہا کہ لیکھرام کہاں ہے۔* اور ایک اور شخص کا بھی نام لیا کہ وہ کہاں ہے اور پھر چاہئے کہ طالبِ حق کرامات الصادقین میں وہ شعر پڑھے جس میں لکھا ہے کہ لیکھرام عید کے دن کے قریب ہلاک ہوگا اورپھر چاہئے کہ طالبِ حق آئینہ کمالاتِ اسلام کا الہام پڑھے جس میں لیکھرام کی نسبت لکھا ہے عجل جسد لہ خوار لہٗ نصب و عذاب یعنی لہ کمثلہ نصب و عذاب۔ ترجمہ یہ گو سالہ بے جان ہے جس میں روحانیت کی جان نہیں صرف آواز ہی آواز ہے پس وہ سامری کے گو سالہ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ عبارت لہٗ نصب و عذابکی تصریح موافق تفہیم الٰہی یہ ہے کہ لہٗ کمثلہٖ نصب و عذاب


*خونی فرشتہ کے اس قول سے یہ اشارہ تھا کہ لیکھرام قتل کیا جائے گا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 301

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 301

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/301/mode/1up


سو ایسا ہی ظہور میں آیا اور جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں لیکھرام کےؔ قتل کئے جانے کی نسبت تین الہام ہیں۔ اوّل خونی فرشتہ جو میرے پر ظاہر ہوا اور اُس نے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے۔ دوسرا یہی الہام یعنی عجل جسدٌ لہ خوار۔ لہ نصبٌ و عذاب یعنی لیکھرا م گو سالہ سامری ہے اور گو سالہ سامری کی مانند وہ ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا تیسرا۳ وہ شعر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا اور قبل از وقت یعنی پانچ سال لیکھرام کی موت سے پہلے شائع کیا گیا اور وہ شعر یہ ہے:

الااے دشمنِ نادان و بیراہ

بترس از تیغ بُرّانِ محمدؐ

یعنی اے لیکھرام تو کیوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تلوار سے جو تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی کیوں نہیں ڈرتا۔ اب ہم وہ کل اشعار اس جگہ لکھ دیتے ہیں جن میں مذکورہ بالا الہامی شعر ہے اور نیچے اُن کے لیکھرام پشاوری کی نعش کی وہ تصویر لکھ دیں گے جو خود آریہ صاحبوں نے شائع کی اور ہمیں اُس بد قسمت لیکھرام کی حالت پر نہایت افسوس آتا ہے کہ چند دن اسلام پر زبان درازی کرکے آخر اُس نے جواناں مرگ جان دی۔ اور وہ قریباً دو ماہ تک قادیان میں بھی میرے پاس رہا تھا اور پہلے اس کی ایسی طبیعت نہیں تھی مگر شریر لوگوں نے اس کی طبیعت کو خراب کر دیا۔ اُس نے بڑی خواہش کے ساتھ یہ قبول کیا تھا کہ اگر مجھے معلوم ہوا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور امور غیبیہ کھلتے ہیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا مگر قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اُس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی اُن نالائق ہندوؤں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اُس کو سُنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بد صحبتوں کی وجہ سے روز بروز وہ ردّی حالت کی طرف گرتا گیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے ابتدامیں اس کی ایسی ردّی حالت نہ تھی صرف مذہبی جوش تھا جو ہر ایک اہل مذہب حق رکھتا ہے کہ اپنے مذہب کی پابندی میں بپا بندی حق پرستی و انصاف بحث کرے وہ ایک مرتبہ اپنے قتل کئے جانے سے ایک برس پہلے لاہور کے اسٹیشن پر ایک چھوٹی سی مسجد میں مجھے ملا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 302

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 302

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/302/mode/1up


اورؔ میں وضو کر رہا تھا اور وہ نمستے کرکے چند منٹ کھڑا رہا اور پھر چلا گیا مجھے افسوس ہے کہ اُس وقت نماز کی وجہ سے میں اُس سے بات نہ کر سکا اور مجھے بڑا افسوس ہے کہ قادیان کے ہندوؤں نے اُس کو میری باتیں سُننے کا موقع نہ دیا اور محض افترا سے اس کو جوش دلایا اور میں یقیناًجانتا ہوں کہ یہ خون اُن کی گردن پر ہے وہ باوجود اس قدر جوش کے اپنی طبیعت میں ایک سادگی بھی رکھتا تھا کیونکہ شریر لوگوں کی باتوں سے بغیر تفتیش اور تفحّص کے متأثر ہو جاتا تھا اِسی وجہ سے خداتعالیٰ نے اُس کو ایک گو سالہ سے مشابہت دی بہر حال ہم اُس کی ناگہانی موت سے بغیر افسوس کے نہیں رہ سکتے مگر کیا کیا جائے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر تھا وہ پورا ہونا ضروری تھا ہم ان اشعار کے نیچے جو ذیل میں لکھیں گے پنڈت لیکھرام کی اُس نعش کی تصویر دکھائیں گے جو آریہ صاحبوں نے شائع کی ہے یہ اُس وقت کی تصویر ہے جبکہ وہ مقتول ہونے کے بعد ارتھی پر رکھا گیا تھا اور ایک جماعت کثیر اُس کے ساتھ تھی یہ تصویر ہم نے اِس رسالہ میں اِس لئے شائع کی ہے تا اگر ممکن ہو تو کوئی اِس حالت سے عبرت پکڑے اور مذہبی مباحثات میں وہ طریق اختیار نہ کرے جو خدا کو پسند نہیں۔ اِس امر کو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ مجھے کسی سے بغض نہیں ہے اگرچہ میں لیکھرام کے معاملہ میں اِس بات سے تو خوش ہوں کہ خداتعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی مگر دوسرے پہلو سے میں غمگین ہوں کہ وہ عین جوانی کی حالت میں مرا اگر وہ میری طرف رجوع کرتا تو میں اُس کے لئے دُعا کرتا تا یہ بلا ٹل جاتی اُس کے لئے ضروری نہ تھا کہ اس بلا کے ردّ کرانے کے لئے مُسلمان ہو جاتا بلکہ صرف اِس قدر ضروری تھا کہ گالیوں اور گندہ زبانی سے اپنے مُنہ کو روک لیتا اور اس کی طرف سے یہ صریح ظلم تھا کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ کو بغیر کامل علم اور وسیع واقفیت کے کاذب اور مفتری کہتا تھا اور دوسرے تمام انبیاء علیھم السلام کو بھی گالیاں دیتا تھا اور جو خدا کا برگزیدہ نبی ایسے وقت میں آیا کہ جب تمام عرب اور فارس اور شام اور روم اور تمام بلادِ یورپ مخلوق پرستی میں گرفتار تھے اور با قرار پنڈت دیانند اُس زمانہ میں تمام آریہ ورت بھی بُت پرستی میں ڈوبا ہوا تھا اور کسی حصہ زمین میں خدا کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 303

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 303

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/303/mode/1up


توحید قائم نہیں رہی تھی اور اسی نبی نے ظاہر ہو کر توحید کو نئے سرے قائم کیا اور زمین پر خدا کے جلال اور عظمت کا سکہ جمایا اور ہزارہا نشانوں اور معجزات سے اپنی سچائی ظاہر کی اور اب تک اُس کے معجزات ظہور میں آرہے ہیں۔ پس کیا یہ شرافت اور تہذیب کا طریق تھا کہ ایسے عظیم الشان نبی کو جو خدا کے جلال کو زمین پر ظاہر کرنے والا اور بُت پرستی کو نابود کرنے والا اور نئے سرے توحید کو قائم کرنے والا تھا گندی گالیوں سے یاد کیا جاوے؟ اور کبھی بھی بس نہ کیا جاوے! بازاروں میں گالیاں دیں؟ عام مجمعوں میں گالیاں دیں؟ ہر ایک کُوچہ و گلی میں گالیاں دیں؟ خدا غضب میں دھیما ہے اور نہایت کریم و رحیم ہے مگر آخر سرکش اور بے حیا کو پکڑتا ہے۔ معاملہ آخرت کا ابھی مخفی ہے مگر ایسے مذہب کو ضرور خدا کی طرف سے کہنا پڑتا ہے جو زندہ خدا کے زندہ نشان دکھاتا ہو انسان ہر ایک عمدہ تعلیم کی نقل اُتار سکتا ہے مگر خدا کے نشانوں کی نقل نہیں اُتار سکتا۔ پس اس معیار کی رُو سے آج رُوئے زمین پر زندہ مذہب صرف اسلام ہے مگر باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہندوؤں کے پیشوا اور اَوتار کاذب اور مکّار تھے اور نہ (نعوذ باللہ) ہم اُن کو گالیاں دیتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ کوئی آباد بستی اور ملک نہیں جس میں اُس نے کوئی نبی نہ بھیجا ہو جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے 3۔۱؂ یعنی کوئی ایسی اُمّت نہیں جس میں خدا کا کوئی نبی نہ آیا ہو مگر ہم اس عقیدہ کو سمجھ نہیں سکتے کہ باوجود خدا کے وسیع بلاد اور اقالیم کے جو سب اُس کی ہدایت کے محتاج ہیں اور سب اُس کے بندے ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ کا قدیم سے آریہ ورت سے ہی تعلق رہا اور دوسری قومیں اُس کی براہ راست ہدایت سے محروم رہی ہیں۔ خدا کا موجودہ قانون بھی ہم اُس کے برخلاف پاتے ہیں وہ... دوسرے ممالک میں اب بھی اپنی وحی اور الہام سے اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے اپنے بندوں کی نسبت خدا کی طرف سے یہ پکش پات اور طرفداری اُس کی ذات کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی جو شخص اُس کی طرف دل اور جان سے رجوع



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 304

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 304

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/304/mode/1up


کرؔ ے وہ بھی اُس کی طرف رجوع برحمت کرتا ہے خواہ ہندی ہو اور خواہ عربی وہ کسی کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اُس کی رحمت عام ہے کسی خاص ملک سے محدود نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ جسمانی طور پر بھی خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہر ایک جگہ پائی جاتی ہیں ہر ایک ملک میں پانی موجود ہے جیسا کہ آریہ ورت میں موجود ہے۔ ہر ایک ملک میں اناج موجود ہے جیسا کہ آریہ ورت میں موجود ہے ہر ایک ملک میں وہ نعمتیں موجود ہیں جیسا کہ آریہ ورت میں موجود ہیں تو پھر جبکہ خدا نے جسمانی طور پر اپنے فیضان میں کسی قوم اور ملک سے فرق نہیں کیا تو کیا کوئی سمجھ سکتا ہے کہ روحانی طور پر اُس نے فرق کیا ہے اُس کے سب بندے ہیں کیا کالے اور کیا گورے اور کیا ہندی اور کیا عربی۔ پس یہ غیر محدود صفات والا خدا کسی تنگ دائرہ میں محدود نہیں ہو سکتا اور اُس کو محدودکرنا تنگ ظرفی اور نادانی ہے۔

اب ہم وہ اشعار ذیل میں لکھتے ہیں جن میں لیکھرام کے قتل کئے جانے کی پیشگوئی ہے اور جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں یہ اشعار اُس کے مارے جانے سے پانچ برس پہلے طبع ہو کر تمام پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہو چکے ہیں اور وہ یہ ہیں اور اُن کے آخر میں لیکھرام کی نعش کی تصویر چسپاں کی گئی ہے۔

اشعار

عجب نُورے است درجانِ محمدؐ

عجب لعلیست درکانِ محمدؐ

زظلمت ہا دلے آنگہ شود صاف

کہ گردداز محبّانِ محمدؐ

عجب دارم دلِ آن ناکسان را

کہ رُو تابند از خوانِ محمدؐ

ندانم ہیچ نفسے در دو عالم

کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ

خدا زان سینہ بیزارست صدبار

کہ ہست از کینہ دارانِ محمدؐ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 305

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 305

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/305/mode/1up


خداؔ خود سوز د آن کرمِ دنی را

کہ باشد از عدوّانِ محمدؐ

اگر خواہی نجات از مستیء نفس

بیا در ذیل مستانِ محمدؐ

اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت

بشواز دل ثنا خوانِ محمدؐ

اگر خواہی دلیلے عاشقش باش

محمدؐ ہست بُرہانِ محمدؐ

سرے دارم فدائے خاکِ احمدؐ

دلم ہر وقت قُربانِ محمدؐ

بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم

نثارِ رُوئے تابانِ محمدؐ

درین رہ گر کُشندم ور بسوزند

نتابم رُوزِ ایوانِ محمدؐ

بسے سہل است از دنیا بُریدن

بیادِ حُسن و احسانِ محمدؐ

فدا شد در رہش ہر ذرّۂ من

کہ دیدم حُسن پہنانِ محمدؐ

دگر اُستاد را نامے ندانم

کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ

بدیگر دلبرے کارے ندارم

کہ ہستم کُشتۂ آنِ محمدؐ

مرا آن گوشہء چشمے بباید

نخواہم جُز گلستانِ محمدؐ

دلِ ذارم بہ پہلویم مجوئید

کہ بستیمش بدامانِ محمدؐ

من آں خوش مُرغ از مرغانِ قدسم

کہ دارد جا بہ بُستانِ محمدؐ

تو جانِ ما منور کردی از عشق

فدایت جانم اے جانِ محمدؐ

دریغا گردہم صد جاں دریں راہ

نباشد نیز شایانِ محمدؐ

چہؔ ہیبت ہا بداوند ایں جواں را

کہ ناید کس بہ میدانِ محمدؐ

رہِ مولےٰ کہ گم کردند مردم

بجو در آل و اعوانِ محمدؐ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 306

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 306

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/306/mode/1up


الا اے دشمنِ نادان وبے راہ

بترس از تیغ بُرّانِ محمدؐ

الا اے مُنکر از شانِ محمدؐ

ہم از نورِ نمایانِ محمدؐ

کرامت گرچہ بے نام و نشان است

بیا بنگر زِ غلمانِ محمدؐ*


* لیکھرام نے بار بار مجھے لکھا تھا کہ میں کرامت دیکھنا چاہتا ہوں اور اپنی کتابوں میں بھی بار بار بیان کیا تھا کہ مجھے کرامت دکھلاؤمگر خدا تعالیٰ جو حکیم ہے ہر ایک کے

مناسب حال اس کو کرامت دکھاتا ہے پس جبکہ لیکھرام کی زبان ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینے میں چھری کی طرح چلتی تھی اور اپنی زبان سے



ہزار ہا دل اس نے زخمی کر دئے تھے اس لئے خدا نے چھری کا ہی نشان دکھلایا اور اس کی بدزبانی ایک چھری مجسم ہو کر اس کے اندر داخل ہوئی اور انتڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہی خدا کا قہری نشان ہے جو سن سکتا ہے وہ سنے! اور جب وہ زندہ تھا یہ بھی کہتا تھا کہ میں قبول نہیں کروں گا جب تک کوئی ستارہ آسمان سے نہ گرے۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں آریہ قوم کا ستارہ جانتا تھا اور قوم بھی اس کو ستارہ بیان کرتی تھی اس لئے وہ ستارہ گرا اور آریوں کے لئے اس کا گرنا بہت سخت ہوا جس سے ہر ایک گھر میں ماتم برپا ہو گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 307

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 307

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/307/mode/1up


۱۲۶ؔ ۱۲۶۔نشان۔ لودہانہ میں ایک صاحب میر عباس علی نام تھے جو بیعت کرنے والوں میں داخل تھے چند سال تک انہوں نے اخلاص میں ایسی ترقی کی کہ اُن کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک دفعہ الہام ہوا اصلھا ثابتٌ و فرعُھا فی السمآء اس الہام سے صرف اس قدر مطلب تھا کہ اُس زمانہ میں وہ راسخ الاعتقاد تھے اور ایسے ہی انہوں نے اُس زمانہ میں آثار ظاہر کئے کہ اُن کے لئے بجز میرے ذکر کے اور کوئی ورد نہ تھا اور ہر ایک میرے خط کو نہایت درجہ متبرک سمجھ کر اپنے ہاتھ سے اُس کی نقل کرتے تھے اورلوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اگر ایک خشک ٹکڑا بھی دستر خوان کا ہو تو متبرک سمجھ کر کھا جاتے تھے اور سب سے پہلے لدھیانہ سے وہی قادیان میں آئے تھے ایک مرتبہ مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دکھایا گیا کہ عباس علی ٹھوکر کھائے گا اور برگشتہ ہو جائے گا وہ میرا خط بھی اُنہوں نے میرے ملفوظات میں درج کر لیا بعد اس کے جب اُن کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ کو کہا کہ مجھ کو اس کشف سے جو میری نسبت ہوا بڑا تعجب ہوا کیونکہ مَیں تو آپ کے لئے مرنے کو تیار ہوں میں نے جواب دیا کہ جو کچھ آپ کے لئے مقدر ہے وہ پوراہوگا۔ بعد اس کے جب وہ زمانہ آیا کہ میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو وہ دعویٰ اُن کو ناگوار گذرا۔ اول دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے رہے بعد اس کے اس مباحثہ کے وقت کہ جو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے لدھیانہ میں میری طرف سے ہوا تھا اور اس تقریب سے چند دن اُن کو مخالفوں کی صحبت بھی میسر آگئی تو نوشتۂ تقدیر ظاہر ہو گیا اور وہ صریح طور پر بگڑ گئے اور پھر ایسے بگڑے کہ وہ یقین دل کا اور وہ نورانیت مُنہ کی جو تھی وہ سب جاتی رہی اور ارتداد کی تاریکی ظاہر ہو گئی اور مُرتد ہونے کے بعد ایک دن وہ لدھیانہ میں پیر افتخار احمد صاحب کے مکان پر مجھے ملے اور کہنے لگے کہ آپ کا اور ہمارا اس طرح پر مقابلہ ہو سکتا ہے کہ ایک حجرہ میں ہم دونوں بند کئے جائیں اور دس دن تک بند رہیں پھر جو جھوٹا ہوگا مر جائے گا میں نے کہا میر صاحب ایسی خلاف شرع آزمائشوں کی کیا ضرورت ہے کسی نبی نے خدا کی آزمائش نہیں کی مگر مجھے اور آپ کو خدا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 308

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 308

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/308/mode/1up


دیکھؔ رہا ہے وہ قادر ہے کہ بطور خود جھوٹے کو سچے کے رو برو ہلاک کر دے اور خدا کے نشان تو بارش کی طرح برس رہے ہیں اگر آپ طالب صادق ہیں تو قادیان میں میرے ساتھ چلیں جواب دیا کہ میری بیوی بیمار ہے میں جا نہیں سکتا اور شائد یہ جواب دیا کہ کسی جگہ گئی ہوئی ہے یاد نہیں رہا۔ میں نے کہا کہ اب بس خدا کے فیصلہ کے منتظر رہو پھر اُسی سال میں وہ فوت ہو گئے اور کسی حجرہ میں بند کئے جانے کی ضرورت نہ رہی پس یہ خوف کا مقام ہے کہ آخر عباس علی کا کیا انجام ہوا اور اس قدر ترقی کے بعد ایک ہی دَم میں تنزل کے گڑھے میں پڑ گیا۔ اور اُس کے حالات سے یہ تجربہ ہوا کہ اگر کسی شخص کی نسبت خوشنودی کا بھی الہام ہو تو بسا اوقات خوشنودی بھی کسی خاص وقت تک ہوتی ہے۔* یعنی جب تک کہ کوئی خوشنودی کے کام کرے جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں کافروں پر جا بجا غضب ظاہر فرماتا ہے اور جب اُن میں سے کوئی مومن ہو جاتا ہے تو معاً وہ غضب رحمت کے ساتھ بدل جاتا ہے اور اسی طرح کبھی رحمت غضب کے ساتھ بدل جاتی ہے اِسی وجہ سے حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص بہشتیوں کے اعمال بجا لاتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور بہشت میں ایک بالشت کا فرق رہ جاتا ہے اور دراصل قضاو قدر میں وہ جہنمی ہوتاہے تو آخر کار کوئی ایسا عمل یا کوئی ایسا عقیدہ اس سے سرزد ہو جاتا ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جاتا ہے اِسی طرح ایک شخص بہشتی ہوتا ہے اور جہنمیوں کے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اُس میں اور جہنم میں صرف ایک بالشت کا فرق رہ جاتا ہے اور آخر کار اُس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور پھر وہ نیک عمل بجا لانا شروع کرتا ہے اور اسی پر اُس کی موت ہوتی ہے اور بہشت میں داخل کیا جاتا ہے اور اس پیشگوئی کی سچائی کا یہ ثبوت ہے جس سے کوئی مخالف انکار نہیں کر سکتا کہ وہ کتاب میر


* اسی لئے ہر وقت نماز میں یہ دعا خدا تعالیٰ نے سکھلائی ہے (اور فرض کر دی ہے کہ اس کے بدوں نماز نہیں ہو سکتی) کہ غیر المغضوب علیھم یعنی ایسا نہ ہو کہ ہم منعم علیہ ہونے کے بعد مغضوب علیہ ہو جاویں۔ پس ہمیشہ خدا تعالیٰ کی بے نیازی سے ڈرتے رہنا چاہئیے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 309

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 309

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/309/mode/1up


عباس علی کی جس میں اُس نے اپنے ہاتھ سے میری یہ پیشگوئی لکھی ہے (جو پوری ہو گئی) وہ اب تک موجود ہے اور میں نے اُس کی وفات کے بعد اُس کو ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ سیاہ کیڑے پہنے ہوئے ہے (جو سر سے پیر تک سیاہ ہیں )اور مجھ سے قریباً سو قدم کے فاصلہ پر کھڑا ہے اور مجھ سے مدد کے طور پر کچھ مانگتا ہے میں نے جواب دیا کہ اب وقت گذر گیا اب ہم میں اور تم میں بہت فاصلہ ہے تو میرے تک پہنچ نہیں سکتا۔

۱۲۷ ۔نشان۔ ایک شخص سہج رام نام امرت سر کی کمشنری میں سر رشتہ دار تھا اور پہلے وہ ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث رکھاکرتا تھا اور دین اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہو گئے تھے اور وہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے ایک دن مَیں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ اُلٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرا دو میں نے اس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہو گیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اُترا۔ اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی نوکری کے بارہ میں باتیں کر رہے تھے میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہو جائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے ان سب نے میری بات سُن کر قہقہہ مار کر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مارتے ہو دوسرے دن یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اُسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اِس دنیا سے گذر گیا۔

۔نشان۔ ۱۱؍فروری ۱۹۰۶ء کو بنگالہ کی نسبت ایک پیشگوئی کی گئی تھی جس کے ۱۲۸



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 310

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 310

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/310/mode/1up


یہ الفاظ تھے ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب اُن کی دلجوئی ہوگی۔‘‘ اُس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ سب کو معلوم ہے گورنمنٹ نے تقسیم بنگالہ کی نسبت حکم نافذ کیا تھا اوریہ حکم بنگالیوں کی د ل شکنی کا باعث اس قدر ہوا تھا کہ گویا اُن کے گھروں میں ماتم پڑ گیا تھا اور انہوں نے تقسیمؔ بنگالہ کے رُک جانے کی نسبت بہت کوشش کی مگر نا کام رہے بلکہ بر خلاف اس کے یہ نتیجہ ہوا کہ اُن کا شور و غو غاگورنمنٹ کے افسروں نے پسند نہ کیا اور اُن کی نسبت ان افسروں کی طرف سے جو کچھ کارروائیاں ہوئیں ہمیں اس جگہ اُس کی تفصیل کی بھی ضرورت نہیں۔ خاص کر فلرلفٹنٹ گورنر کو انہوں نے اپنے لئے ملک الموت سمجھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ اُن ایاّم میں کہ بنگالی لوگ اپنے افسروں کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھا رہے تھے۔ اور سر فلر کے انتظام سے جاں بلب تھے مجھے مذکورہ بالا الہام ہوا یعنی یہ کہ پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی چنانچہ میں نے اِس پیشگوئی کو انہیں دنوں میں شائع کر دیا۔ سو یہ پیشگوئی اِس طرح پر پوری ہوئی کہ بنگالہ کا لفٹنٹ گورنر فلر صاحب جس کے ہاتھ سے بنگالی لوگ تنگ آگئے تھے اور اس قدر شاکی تھے کہ اُن کی آہیں آسمان تک پہنچ گئی تھیں یکدفعہ مستعفی ہو گیا وہ کاغذات شائع نہیں کئے گئے جن کی وجہ سے استعفا دیا گیا۔ مگر فلر صاحب کے استعفیٰ پر جس قدر خوشی کا اظہار بنگالیوں نے کیا ہے جیسا کہ بنگالی اخباروں سے ظاہر ہے وہ سب سے بڑھ کر گواہ اِس بات پر ہے کہ بنگالیوں نے فلر کی علیحد گی میں اپنی دلجوئی محسوس کی ہے اور فلر کے استعفیٰ دینے سے اُن کی خوشی کے جلسے اور عام طور پر خوشی کے نعرے اِس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ درحقیقت فُلر کی علیحدگی سے اُن کی دلجوئی ہوئی ہے بلکہ پورے طورپر دلجوئی ہو گئی ہے اور یہ کہ انہوں نے فُلر کی علیحدگی کو اپنے لئے گورنمنٹ کا بڑا احسان سمجھا ہے پس فُلر کے استعفیٰ میں جس غرض کو کہ گورنمنٹ نے اپنی کسی مصلحت سے پوشیدہ کیا ہے وہ غرض بنگالیوں کی بے حد خوشیوں سے ظاہر ہو رہی ہے اور اس سے بڑھ کر پیشگوئی کے پورا ہونے کا اور کیا ثبوت ہوگا کہ بنگالیوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 311

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 311

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/311/mode/1up


نے اپنی دلجوئی اس کار روائی میں خود مان لی ہے اور گورنمنٹ کا بے انتہا شکر کیا ہے۔ اور یہ میری پیشگوئی صرف ہمارے رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں ہی شائع نہیں ہوئی تھی بلکہ پنجاب کے بہت سے اخباروں نے اس کو شائع کیا تھا۔ یہاں تک کہ خود بنگالہ کے بعض نامیؔ اخباروں نے اِس پیشگوئی کو شائع کر دیا تھا۔

اور ایک اور دلیل اس بات پر کہ یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے یہ ہے کہ امرت بازار پتر کا کلکتہ کا انگریزی اخبار جو بنگالیوں کا سب سے زیادہ مشہور اخبار ہے لکھتا ہے جس کے فقرہ ذیل کو اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے ۲۲؍اگست ۱۹۰۶ء کی اشاعت میں درج کیا ہے اور وہ یہ ہے۔ ’’یہ اغلب ہے کہ اس کا یعنی فلر کا جانشین (نیا لفٹنٹ گورنر) خاص دلجوئی کی پالیسی اختیار کرے گا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ عین ہمارے مقصد کے مطابق ہے۔

اخبار مذکور کے اس فقرہ سے بھی ظاہر ہے کہ اُس نے اس بارہ میں اپنے اطمینان ظاہر کی ہے کہ ضرور ہی لفٹنٹ گورنر کا یہ فرض ہوگا کہ بنگالیوں کی دلجوئی کرتا رہے۔ پس اخبار مذکور بھی پیشگوئی کے پورا ہونے کی ایک شہادت ہے

پھر آخر میں ہم اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایک اور زبردست دلیل لکھتے ہیں اور وہ یہ کہ ایک انگریز افسر جو پچاس ۵۰سال گورنمنٹ کے ایک ممتاز عہدہ پر رہا ہے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۰۶ء میں ایک لمبی چٹھی کے اثناء میں جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سرفُلر کا استعفیٰ عین بنگالی بابوؤں کے منشاء کے مطابق ہے لکھتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اُس کے یعنی فُلر کے جانشین کو یہ حکم (حکام بالا سے) ملا ہے اور اُس نے اُس کو قبول کیا ہے کہ شر انگیز بابوؤں کے ساتھ دلجوئی کا طریق اختیار کرے۔

اب دیکھو کہ کس صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی خدا تازہ بتازہ اپنے نشان دکھلاتا جاتا ہے آہ! کیسے غافل دل ہیں کہ پھر قبول نہیں کرتے ہم اِن متواتر نشانوں سے ایسے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 312

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 312

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/312/mode/1up


یقین سے بھر گئے ہیں جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے مگر افسوس کہ ہمارے مخالفوں کو اِس آبِ زلال سے ایک قطرہ بھی نصیب نہیں ہوا ۔اس بد قسمتی کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔

کوئی قوم نہیں جس میں میرے نشان ظاہر نہیں ہوئے۔ اور کوئی فرقہ نہیںؔ جو میرے نشانوں کا گواہ نہیں۔ اگر ان نشانوں کے گواہ دس۱۰ کروڑ بھی کہیں تو کچھ مبالغہ نہیں ہوگا مگر مخالفوں کے حال پر رونا آتا ہے کہ انہوں نے کچھ فائدہ نہ اُٹھایااگر یہ نشان جو اُن کو دکھلائے گئے حضرت عیسیٰ بن مریم کے وقت میں یہودیوں کو دکھلائے جاتے تو وہ ضربت علیھم الذلّۃ کے مصداق نہ ہوتے۔ اور اگر لوط کی قوم ان نشانوں کا مشاہدہ کرتی تو وہ ایک بھاری زلزلہ سے زمین کے نیچے نہ دبائی جاتی۔ مگر افسوس اُن دلوں پر کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئے اور ہر ایک تاریکی سے زیادہ اُن کے دل کی تاریکی بڑھ گئی اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ زمانہ نے ہر ایک دنیوی سامان میں ترقی کی ایسا ہی کفر اور بے ایمانی میں بھی ترقی کی۔ پس یہ ترقی یافتہ کفر چاہتا ہے کہ کوئی معمولی عذاب اُن پر نازل نہ ہو بلکہ وہ عذاب نازل ہو جو ابتدائے دنیا سے آج تک کبھی نازل نہیں ہوا۔ بہر حال ہم خدا کا ہزار ہزار شکر کرتے ہیں کہ جس روشنی کو مخالفوں نے قبول نہیں کیا اور اندھے رہے وہی روشنی ہماری بصارت اور معرفت کی زیادت کا موجب ہو گئی۔

شَرِبْنَا مِنْ عُیُوْنِ اللّٰہِ مَاءً ا بِوَحْیٍ مُشْرِقٍ حَتّٰی رَوَینَا

ہم نے خدا کے چشموں سے ایک پانی پیا جو روشن وحی کا پانی ہے یہاں تک کہ ہم سیراب ہو گئے

رَأَیْنَا مِنْ جَلال اللّٰہ شمسًا فَامَنَّا وَصَدَّقْنَا یَقِیْنًا

ہم نے خدا کی بزرگی کا ایک آفتاب دیکھا پس ہم ایمان لائے اور یقین کے ساتھ تصدیق کی

تَجَلَّتْ مِنْہُ آیٌ فِیْ قَطِیْعِیْ وَاُخْریٰ فِیْ عَشَاءِر کَافِرِیْنَا

اس کے ایک قسم کے نشان تو میری جماعت میں ظاہر ہوئے اور دوسری قسم کے نشان کافروں کے گروہ میں ظہور پذیر ہوئے

۱۲۹۔ نشان۔ مولوی رُسل بابا امرت سری جس نے میرے مقابل پر محض بیہودہ اور لغو طور پر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 313

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 313

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/313/mode/1up


رسالہ حیات المسیح لکھا تھا اس کا یہ مقولہ تھا کہ اگر یہ طاعون مسیح موعود کی صداقت کا نشان ہے تو کیوں مجھ کو طاعون نہیں ہوتی۔ آخر وہ طاعون سے پکڑا گیا اور اُس کے عین طاعون کے دنوں میں جمعہ کے روز مجھ کو الہام ہوا یموت قبل یومی ھٰذا یعنی ؔ آئندہ جمعہ سے پہلے مرجائے گا چنانچہ وہ آئندہ جمعہ سے پہلے ۸؍دسمبر ۱۹۰۲ء کو ۲-۵۱بجے صبح کے ا س جہان فانی سے رخصت ہوا اور یہ میرا الہام اس کی موت سے پہلے شائع کیا گیا تھا اور الحکم میں بھی شائع ہو چکا ہے پھر ساتھ ہی مجھے یہ الہام ہوا سلام علیک یا ابراہیم۔ سلام علٰی امرک۔ صرت فائزا۔ یعنی اے ابراہیم تیرے پر سلام تو فتح یاب ہوگیا۔

۱۳۰۔ نشان۔ میں نے اپنے رسالہ انجام اٰتھم میں بہت سے مخالف مولویوں کا نام لے کر مباہلہ کی طرف اُن کو بُلایا تھا اور صفحہ ۶۶ رسالہ مذکور میںیہ لکھا تھا کہ اگر کوئی اِن میں سے مباہلہ کرے تو میں یہ دعا کروں گا کہ ان میں سے کوئی اندھا ہو جائے اور کوئی مفلوج اور کوئی دیوانہ اور کسی کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہو اورکوئی بے وقت موت سے مر جائے اور کوئی بے عزت ہو اور کسی کو مال کا نقصان پہنچے۔ پھر اگرچہ تمام مخالف مولوی مرد میدان بن کر مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوئے مگر پس پشت گالیاں دیتے رہے اور تکذیب کرتے رہے چنانچہ ان میں سے رشید احمد گنگوہی نے صرف لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین نہیں کہا بلکہ اپنے ایک اشتہار میں مجھے شیطان کے نام سے پکارا ہے آخر نتیجہ اِس کا یہ ہوا کہ تمام بالمقابل مولویوں میں سے جو باون۵۲ تھے آج تک صرف بیس زندہ ہیں اور وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار ،باقی سب فوت ہوگئے مولوی رشید احمد اندھا ہوا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مر گیا جیسا کہ مباہلہ کی دعا میں تھا مولوی شاہ دین دیوانہ ہو کر مر گیا۔ مولوی غلام دستگیر خود اپنے مباہلہ سے مر گیا اور جو زندہ ہیں اُن میں سے کوئی بھی آفات متذکرہ بالا سے خالی نہیں حالانکہ ابھی انہوں نے مسنون طور پر مباہلہ نہیں کیا تھا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 314

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 314

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/314/mode/1up


۱۳۱۔ نشان۔ ناظرین میرے اس رسالہ میں پڑھیں گے کہ ایک دفعہ میں نے بسمبرداس برادر شرمپت کھتری کے بارہ میں ایک پیشگوئی کی تھی کہ وہ اس مقدمہ فوجداری سے جو اُس پر بنا تھا بَری تو نہیں ہوگا مگر نصف قید رہ جائے گی۔ بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ جب بسمبر داس نصفؔ قید بھگت کر رہاہوگیا جیسا کہ پہلے سے پیشگوئی میں بتلایا گیا تھاتو اُس کے وارثوں نے خلاف واقعہ طور پر یہ مشہور کر دیا کہ بسمبرداس بَری ہو گیا۔ رات کا وقت تھا اور میں اپنی بڑی مسجد میں نمازپڑھنے کے لئے گیا تھا جب ایک شخص علی محمد نام مُلّا ساکن قادیان نے مسجد میں آکر یہ بیان کیا کہ بسمبرداس بَری ہو گیا ہے اور بازار میں اُس کو مبارکبادیاں مِل رہی ہیں تو مجھے یہ خبر سُنتے ہی بہت صدمہ پہنچا اور دل میں بیقراری پیدا ہوئی کہ متعصب ہندو اِس بات پر حملہ کریں گے کہ تم نے تو یہ خبر دی تھی کہ بسمبرداس بَری نہیں ہوگا اب دیکھو وہ تو بَری ہو گیا۔ مجھے اِس غم سے ایک ایک رکعت نماز کی ایک ایک سال کے برابر ہوگئی اور جب میں نماز میں کسی رکعت کے بعد سجدہ میں گیا تو اُس وقت میرا اضطرار نہایت تک پہنچ گیا تھا۔ تب سجدہ کی حالت میں ہی بلندآواز سے خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا لا تخف۔ انّک انت الاعلٰی۔ یعنی کچھ خوف مت کر تو ہی غالب ہے ۔پھر میں منتظرر ہاکہ یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوگی مگر کوئی نشان ظاہر نہ ہوا میں بار بار اسی شرمپت سے پوچھتا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ بسمبرداس بَری ہو گیا؟ تو وہ یہی جواب دیتا تھا کہ وہ درحقیقت بَری ہو گیا ہے مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی اور اس گاؤں میں جس سے میں دریافت کرتا وہ یہی کہتا تھا کہ ہم نے بھی سُنا ہے کہ وہ بَری ہو گیا ہے اسی طرح قریباً چھ۶ ماہ گذر گئے یا کچھ کم و بیش اور شریر لوگ ٹھٹھا اور ہنسی کرتے تھے جیسا کہ اُن کی قدیم سے عادت ہے مگر شرمپت نے کوئی ٹھٹھا اور ہنسی نہیں کی جس سے مجھے یقین ہوا کہ اب تو اُس نے شرافت کا برتاؤ مجھ سے کیا ہے مگر پھر بھی میں اُس کے رو برو نادم ہوتا تھا کہ اس قدر تاکید سے میں نے اُس کو اُس کے بھائی کے بَری نہ ہونے کی خبر دی تھی اور اب یہ صورت پیش آئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 315

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 315

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/315/mode/1up


لیکن تاہم اپنے خدا پر میرا پختہ ایمان تھا اور مجھے یقین تھا کہ خدا کوئی نظارۂ قدرت دِکھلائے گا اور ممکن ہے کہ بَری ہونے کے بعد پھر ماخوذ ہو جائے مگر یہ مجھے خبر نہ تھی کہ خود یہ خبر بریّت ہی ایک بناوٹ ہے۔ بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ صبح کے وقت آٹھ بجے کےؔ قریب بٹالہ کا ایک تحصیلدار حافظ ہدایت علی نام جس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے بطور دورہ قادیان میں آیا کیونکہ قادیان تحصیل بٹالہ کے متعلق ہے اور وہ ہمارے مکان پر آگیا اور ابھی گھوڑے پر سے نہیں اُترا تھا کہ چند ہندو جیسا کہ ان کی رسم ہے اُس کو سلام کرنے کے لئے آگئے اور اُن میں بسمبرداس بھی تھا تب تحصیلدار نے بسمبرداس کو دیکھ کر کہا کہ بسمبرداس ہم اس سے خوش ہوئے کہ تم نے قید سے رہائی پائی۔ مگر افسوس کہ تم بری نہ ہوئے میں نے تو اِس بات کو سنتے ہی سجدہ شکر کیا اور فی الفور شرمپت کو بلایا کہ تو کس لئے اتنی مدت تک میرے پاس جھوٹ بولتا رہا کہ بسمبرداس بَری ہو گیا اور مجھے ناحق دُکھ دیا۔ اُس نے جواب دیا کہ ایک معذوری کی وجہ سے یہ جھوٹ بولنا پڑا اور وہ یہ ہے کہ ہماری قوم میں رشتوں اور ناطوں کے وقت ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور کسی بد چلنی کے ثابت ہونے سے لڑکیاں ملنی مشکل ہو جاتی ہیں سو اِسی معذوری سے میں خلاف واقعہ کہتا رہا اور خلاف واقعہ شہرت دی۔

۱۳۲ ۔نشان۔ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے وقت ہم مع اپنے تمام اہل عیال کے باغ میں چلے گئے تھے اور ایک میدان ہماری زمین کا جس میں پانچ ہزار آدمی کی گنجائش ہو سکتی تھی ہم نے سونے کے لئے پسند کیا اور اس میں دو خیمے لگائے اور اردگرد قناتوں سے پردہ کرا دیا مگر پھر بھی چوروں کا خطرہ تھا کیونکہ جنگل تھا اِس کے قریب ہی بعض دیہات میں نامی چور رہتے ہیں جو کئی مرتبہ سزا پا چکے ہیں ایک مرتبہ رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پہرہ کے لئے پھرتا ہوں جب میں چند قدم گیا تو ایک شخص مجھے ملا اور اُس نے کہا کہ آگے فرشتوں کا پہرہ ہے یعنی تمہارے پہرہ کی کچھ ضرورت نہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 316

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 316

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/316/mode/1up


تمہاری فرودگاہ کے ارد گرد فرشتے پہرہ دے ر ہیں۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا امن است درمقامِ محبت سرائے ما۔پھر چند روز کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اردگرد کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا باشندہ جو نامی چورتھا چوری کے ارادہ سےؔ ہمارے باغ میں آیا اور اس کا نام بشن سنگھ تھا۔ رات کا پچھلا حصہ تھا۔ جب وہ اس ارادہ سے باغ میں داخل ہوا مگر موقع نہ ملنے سے ایک پیاز کے کھیت میں بیٹھ گیا۔ اور بہت سی پیاز اُس نے توڑی اور ایک ڈھیر لگا دیا اور پھر کسی نے دیکھ لیا تب وہاں سے دوڑا اور وہ اس قدر قوی ہیکل تھا کہ اُس کو دس ۱۰آدمی بھی پکڑ نہ سکتے۔ اگر خدا کی پیشگوئی نے پہلے سے اُس کو پکڑا ہوا نہ ہوتا دوڑنے کے وقت ایک گڑھے میں پیر اُس کا جاپڑا پھر بھی وہ سنبھل کر اُٹھامگر آگے پیچھے سے لوگ پہنچ گئے اور اس طرح پر سردار بشن سنگھ باوجود اپنی سخت کوشش کے پکڑے گئے اور عدالت میں جاتے ہی سزا یاب ہو گئے بعد اس کے ہمارے سکونتی مکان میں سے جو باغ میں ہے جس میں ہم دن کے وقت رہتے تھے ایک بڑا سانپ نکلا جو ایک زہریلہ سانپ تھا اور بڑا لمبا تھا وہ بھی اس چور کی طرح اپنی سزاکو پہنچا اور اس طرح پر فرشتوں کی حفاظت کا ثبوت ہمیں دست بدست مل گیا۔*

۱۳۳۔ نشان۔ میں انگریزی سے بالکل بے بہرہ ہوں تا ہم خدا تعالیٰ نے بعض پیشگوئیوں کو بطور موہبت انگریزی میں میرے پر ظاہر فرمایا ہے جیسا کہ براہین کے صفحہ ۴۸۰ و ۴۸۱ و ۴۸۳ و ۴۸۴ و صفحہ ۵۲۲ میں یہ پیشگوئی ہے جس پر ۲۵ برس گذر گئے اور وہ یہ ہے:۔

I love you. I am with you. Yes I am happy. Life of pain. I shall help you. I can, what I will do, We can, what we will do۔ God is coming by His army. He is with you to kill enemy. The days shall come when God shall help you. Glory be to the Lord. God maker of earth and heaven.

* اس پیشگوئی کے گواہ مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور تمام جماعت کے لوگ ہیں کہ جو باغ میں میرے ساتھ تھے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 317

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 317

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/317/mode/1up


آئی ؔ لَوْیُو۔ آئی ایم وِد یُو۔ یس آئی ایم ہیپی، لائف آف پین۔ آئی شیل ہیلپ یُو۔ آئی کین واٹ آئی وِل ڈو۔ وی کین واٹ وی وِل ڈو، گؤڈاز کمنگ بائی ہز آرمی۔ ہی اِزْ وِد یُو ٹو کِل اینمی۔ دی ڈیزشیل کم وَیْن گوڈ شیل ہیلپ یُو۔ گلوری بی ٹودِی لارڈ۔ گوڈ میکر آف اَرتھ اینڈ ہَیوَن۔*

(ترجمہ) میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہاں میں خوش ہوں۔ زندگی دُکھ کی (یعنی موجودہ زندگی تمہاری تکالیف کی زندگی ہے) میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں کر سکتا ہوں جو چاہوں گا۔ ہم کر سکتے ہیں جو چاہیں گے۔ خدا تمہاری طرف ایک لشکر کے ساتھ چلا آتا ہے۔ وہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوالجلال آفرینندۂ زمین و آسمان۔

یہ وہ پیشگوئی ہے کہ انگریزی میں خدائے واحد لا شریک نے کی حالانکہ میں انگریزی خوان نہیں ہوں اور بکلّی اس زبان سے نا واقف ہوں مگر خدا نے چاہا کہ اپنے آئندہ وعدوں کو اس ملک کی تمام شہرت یافتہ زبانوں میں شائع کرے سو اس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے کہ جو تمہاری موجودہ حالت دُکھ اور تکلیف کی ہے میں اس کو دور کروں گا اور میں تمہاری مدد کروں گا۔ اور ایک فوج کے ساتھ تمہارے پاس آؤں گا اور دشمن کو ہلاک کروں گا اس پیشگوئی میں سے بہت کچھ حصہ پورا ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ نے ہر ایک نعمت کا دروازہ میرے پر کھول دیا ہے اور ہزارہا انسان دل و جان سے میری بیعت میں داخل


*حاشیہ۔ چونکہ یہ غیر زبان میں الہام ہے اور الہام الٰہی میں ایک سُرعت ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کے ادا کرنے میں کچھ فرق ہو اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جگہ خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا یا کسی اور زمانہ کے متروکہ محاورہ کو اختیار کرتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ بعض جگہ انسانی گریمر یعنی صرف و نحو کے ماتحت نہیں چلتا۔ اس کی نظیریں قرآن شریف میں بہت پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ آیت 3۔۱؂ انسانی نحو کی رو سے ان ھٰذین چاہیے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 318

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 318

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/318/mode/1up


ہو ؔ گئے ہیں۔ اس پیشگوئی کے وقت میں کون جانتا تھا کہ کس وقت اس قدر نصرت آئے گی سو یہ عجیب پیشگوئی ہے جس کے الفاظ بھی ایک نشان ہیں یعنی انگریزی عبارت اور معانی بھی نشان ہیں کیونکہ ان میں آئندہ کی خبر ہے

۱۳۴ ۔نشان۔ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۳ میں اس نشان کا مفصل ذکر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مجھے الہام ہوا کہ بست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔ چنانچہ یہ الہام بھی اُنہیں آریوں کو بتلایا گیا جن کا کئی دفعہ ذکر ہو چکا ہے اور الہام میں یہ تفہیم ہوئی تھی کہ وہ روپیہ آج ہی آئے گا۔ چنانچہ اُس روز وزیر سنگھ نامی ایک بیمار نے آکر مجھے ایک روپیہ دیا اور پھر مجھے خیال آیا کہ باقی بیس۲۰ روپیہ شاید ڈاک کی معرفت آئیں گے۔ چنانچہ ڈاک خانہ میں اپنا ایک معتبر بھیجا گیا وہ جواب لایا کہ ڈاک منشی کہتا ہے کہ میرے پاس آج صرف پانچ روپیہ ڈیرہ غازی خان سے آئے ہیں جن کے ساتھ ایک کارڈ بھی ہے اِس خبر کے سُننے سے بہت حیرانی ہوئی کیونکہ میں آریوں کو اس پیشگوئی سے اطلاع دے چکا تھا کہ آج اکیس۲۱ روپے آئیں گے اور اُن کو معلوم تھا کہ ایک روپیہ آچکا ہے اور مجھے ڈاک منشی کی اِس خبر سے اس قدر اضطراب ہوا جس کا بیان نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کی اِس خبر سے کہ صرف پانچ روپیہ ڈیرہ غازی خان سے آئے ہیں زیادہ روپیہ سے قطعاً نومیدی ہو گئی اور مجھے علامات سے معلوم ہوا کہ آریہ لوگ جن کو یہ اطلاع دی گئی تھی دل میں بہت خوش ہوئے ہیں کہ آج ہمیں تکذیب کا موقعہ مل گیا اور میں نہایت اضطراب میں تھا کہ یک دفعہ مجھے یہ الہام ہوا ۔بست ویک آئے ہیں اس میں شک نہیں۔ مَیں نے آریوں کو یہ الہام سُنایا وہ اور بھی زیادہ ہنسی کا موجب ہوا کیونکہ ایک ملازم سرکاری نے جو سب پوسٹ ماسٹر تھا علانیہ طور پر کہہ دیا تھا کہ صرف پانچ روپیہ آئے ہیں بعد اس کے اتفاقاً ایک آریہ اُن آریوں میں سے ڈاک خانہ میں گیا اور اُس کو ڈاک منشی نے اُس کے استفسار سے یا خود بخود کہا کہ دراصل بیس۲۰ روپے آئے ہیں اور پہلے یوں ہی میرے مُنہ سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 319

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 319

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/319/mode/1up


نکل ؔ گیا تھا کہ پانچ روپے آئے ہیں اور ساتھ اس کے منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کا ایک کارڈ بھی تھا اور یہ روپیہ ۶؍ستمبر ۱۸۸۳ء کو پہنچا تھا جس دن یہ الہام ہوا۔ پس اس مبارک دن کی یاد داشت کے لئے اور نیز آریوں کو گواہ بنانے کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی تقسیم کی گئی جس کو ایک آریہ لایا اور آریوں کو اور نیز دوسروں کو دی گئی تا اگر یوں نہیں تو شیرینی کھاکر ہی اس نشان کو یاد رکھیں۔

۱۳۵ ۔نشان۔ ایک دفعہ بباعث مرض ذیابیطس جو قریباً بیس۲۰ سال سے مجھے دامن گیر ہے آنکھوں کی بصارت کی نسبت بہت اندیشہ ہوا کیونکہ ایسے امراض میں نزول الماء کا سخت خطرہ ہوتا ہے تب خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے اپنی اس وحی سے تسلی اور اطمینان اور سکینت بخشی اور وہ وحی یہ ہے نزلت الرحمۃ علٰی ثلٰث۔ العین وعلی الاُخریین یعنی تین اعضاء پر رحمت نازل کی گئی۔ ایک آنکھیں اور دو اور عضو اور اُن کی تصریح نہیں کی۔ اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ پندرہ بیس۲۰ برس کی عمر میں میری بینائی تھی ایسی ہی اس عمر میں بھی کہ قریباً ستر۷۰ برس تک پہنچ گئی ہے وہی بینائی ہے سو یہ وہی رحمت ہے جس کا وعدہ خدا تعالیٰ کی وحی میں دیا گیا تھا۔

۱۳۶ ۔نشان۔ مجھے دماغی کمزوری اور دوران سر کی وجہ سے بہت سی ناطاقتی ہو گئی تھی یہاں تک کہ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اب میری حالت بالکل تالیف تصنیف کے لائق نہیں رہی اور ایسی کمزوری تھی کہ گویا بدن میں روح نہیں تھی۔ اِس حالت میں مجھے الہام ہوا

تُرَدُّ الیک انوار الشّباب۔ یعنی جوانی کے نور تیری طرف واپس کئے۔ بعد اس کے چند روز میں ہی مجھے محسوس ہوا کہ میری گم شدہ قوتیں پھر واپس آتی جاتی ہیں۔ اور تھوڑے دنوں کے بعد مجھ میں اس قدر طاقت ہو گئی کہ میں ہر روز دو۲ دو ۲جزو نو تالیف کتاب

کو اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں اور نہ صرف لکھنا بلکہ سوچنا اور فکر کرنا جو نئی تالیف



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 320

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 320

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/320/mode/1up


کے ؔ لئے ضروری ہے پورے طور پر میسر آگیا ہاں دو مرض میرے لاحق حال ہیں ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں۔ اور دوسری بدن کے نیچے کے حصہ میں اوپر کے حصہ میں دوران سر ہے اور نیچے کے حصہ میں کثرتِ پیشاب ہے اور یہ دونوں مرضیں اُسی زمانہ سے ہیں جس زمانہ سے میں نے اپنا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا شائع کیا ہے میں نے ان کے لئے دعائیں بھی کیں مگر منع میں جواب پایا اور میرے دل میں القاء کیا گیا کہ ابتداء سے مسیح موعود کے لئے یہ نشان مقرر ہے کہ وہ دو زرد چادروں کے ساتھ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اُترے گا۔ سو یہ وہی دو زرد چادریں ہیں جو میری جسمانی حالت کے ساتھ شامل کی گئیں ۔انبیاء علیھم السلام کے اتفاق سے زرد چادر کی تعبیر بیماری ہے اور دو زرد چادریں دو بیماریاں ہیں جو دو حصہ بدن پر مشتمل ہیں اور میرے پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی کھولا گیا ہے کہ دو زرد چادروں سے مُراد دو بیماریاں ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ پورا ہوتا۔

یاد رہے کہ مسیح موعود کی خاص علامتوں میں سے یہ لکھا ہے کہ (۱)وہ دو زرد چادروں کے ساتھ اُترے گا (۲) اور نیز یہ کہ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اترے گا (۳) اور نیز یہ کہ کافر اُس کے دم سے مریں گے (۴) اور نیز یہ کہ وہ ایسی حالت میں دکھائی دے گا کہ گویا غسل کرکے حمام میں سے نکلا ہے اور پانی کے قطرے اُس کے سر پر سے موتیوں کے دانوں کی طرح ٹپکتے نظر آئیں گے (۵) اور نیز یہ کہ وہ دجّال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا (۶) اور نیز یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا (۷) اور نیز یہ کہ وہ خنزیر کو قتل کرے گا(۸) اور نیز یہ کہ وہ بیوی کرے گا اور اُس کی اولاد ہوگی (۹) اور نیز یہ کہ وہی ہے جو دجّال کا قاتل ہوگا (۱۰) اور نیز یہ کہ مسیح موعود قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ فوت ہوگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل کیا جائے گا۔ وتلک عشرۃ کاملۃ۔

پس دو زرد چادروں کی نسبت ہم بیان کر چکے ہیں کہ وہ دو بیماریاں ہیں جو بطور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 321

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 321

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/321/mode/1up


علاؔ مت کے مسیح موعود کے جسم کو اُن کا روزِ ازل سے لاحق ہونا مقدر کیا گیا تھا۔ تا اس کی غیر معمولی صحت بھی ایک نشان ہو۔

اور دو فرشتوں سے مُراد اس کے لئے دو قسم کے غیبی سہارے ہیں جن پر ان کی اتمام حجت موقوف ہے (۱) ایک وَہبی علم متعلق عقل اور نقل کے ساتھ اتمام حجت جو بغیر کسب اور اکتساب کے اُس کو عطا کیا جائے گا (۲) دوسری اتمام حجت نشانوں کے ساتھ جو بغیر انسانی دخل کے خدا کی طرف سے نازل ہوں گے اور دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اُس کا اُترنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ترقی کے لئے غیب سے سامان میسر ہوں گے اور اُن کے سہارے سے کام چلے گا۔ اور میں اس سے پہلے ایک خواب بیان کر چکا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے جس کا قبضہ تو میرے ہاتھ میں ہے اور نوک اُس کی آسمان میں ہے اور میں دونوں طرف اُس کو چلاتاہوں اور ہر ایک طرف چلانے سے صدہا انسان قتل ہوتے جاتے ہیں جس کی تعبیر خواب ہی میں ایک بندہ صالح نے یہ بیان کی کہ یہ اتمام حجت کی تلوار ہے اور دہنی طرف سے مُراد وہ اتمام حجت ہے جو بذریعہ نشانوں کے ہوگا اور بائیں طرف سے وہ اتمام حجت مُراد ہے جو بذریعہ عقل اور نقل کے ہوگا اور یہ دونوں طور کا اتمام حجت بغیر انسانی کسب اور کوشش کے ظہور میں آئے گا۔

اور کافروں کو اپنے دم سے مارنا اِس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح موعود کے نفس سے یعنی اُس کی توجہ سے کافر ہلاک ہوں گے اور مسیح موعود کا ایسا دکھائی دینا کہ گویا وہ حمام سے غسل کرکے نکلا ہے اور موتیوں کے دانوں کی طرح آبِ غسل کے قطرے اُس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں اس کشف کے معنے یہ ہیں کہ مسیح موعود اپنی بار بار کی توبہ اور تضرع سے اپنے اس تعلق کو جو اس کو خدا کے ساتھ ہے تازہ کرتا رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور اُس پاک غسل کے پاک قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں یہ نہیں کہ انسانی سرشت کے بر خلاف اس میں کوئی خارق عادت امر ہے ہر گز نہیں ہر گز نہیں۔ کیا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 322

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 322

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/322/mode/1up


لوگوؔ ں نے اِس سے پہلے خارق عادت امرکا عیسیٰ بن مریم میں نتیجہ نہیں دیکھ لیا جس نے کروڑہا انسانوں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنا دیا تو کیا اب بھی یہ شوق باقی ہے کہ انسانی عادت کے برخلاف عیسیٰ آسمان سے اُترے فرشتے بھی ساتھ ہوں اور اپنے مُنہ کی پھونک سے لوگوں کو ہلاک کرے اور موتیوں کی طرح قطرے اُس کے بدن سے ٹپکتے ہوں۔ غرض مسیح موعود کے بدن سے موتیوں کی طرح قطرے ٹپکنے کے معنے جو مَیں نے لکھے ہیں وہ صحیح ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے دیکھے تھے تو کیا اِس سے کڑے ہی مُراد تھے؟ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گائیاں ذبح ہوتے دیکھیں تو کیا اس سے گائیاں ہی مُراد تھیں؟ ہرگز نہیں بلکہ اِن کے اور معانی تھے۔ پس اِسی طرح مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس رنگ میں دیکھنا کہ گویا وہ غسل کرکے آتا ہے اور غسل کے قطرے موتیوں کی طرح اس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ بہت توبہ کرنے والا اور رجوع کرنے والا ہوگا اور ہمیشہ اُس کا تعلق خدا تعالیٰ سے تازہ بتازہ رہے گا گویا وہ ہر وقت غسل کرتا ہے اور پاک رجوع کے پاک قطرے موتیوں کے دانوں کی طرح اُس کے سر پر سے ٹپکتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کو غسل سے مشابہت دی ہے جیسا کہ نماز کی خوبیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کے دروازے کے آگے نہر ہو اور وہ پانچ وقت اُس نہر میں غسل کرے تو کیا اُس کے بدن پر مَیل رہ سکتی ہے صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں۔ تب آپ نے فرمایا کہ اِسی طرح جو شخص پانچ وقت نماز پڑھتا ہے (جو جامع توبہ اور استغفار اور دعا اور تضرّع اور نیاز اور تحمید اور تسبیح ہے) اُس کے نفس پر بھی گناہوں کی مَیل نہیں رہ سکتی گویا وہ پانچ وقت غسل کرتا ہے۔ اِس حدیث سے ظاہر ہے کہ مسیح موعود کے غسل کے بھی یہی معنے ہیں ورنہ جسمانی غسل میں کونسی کوئی خاص خوبی ہے۔ اِس طرح تو ہندو بھی ہر روز صبح کو غسل کرتے ہیں اور غسل کے قطرے بھی ٹپکتے ہیں۔ افسوس کہ جسمانی خیال کے آدمی ہر ایک روحانی امر کو جسمانی امور کی طرف ہی کھینچ کر لے جاتے ہیں اور یہود کی طرح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 323

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 323

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/323/mode/1up


اسرؔ ار اور حقائق سے نا آشنا ہیں۔

اور یہ امر کہ مسیح موعود دجّال کے مقابل پر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا یعنی دجّال بھی خانہ کعبہ کا طواف کرے گا اور مسیح موعود بھی۔ اس کے معنی خود ظاہر ہیں کہ اس طواف سے ظاہری طواف مراد نہیں ورنہ یہ ماننا پڑیگا کہ دجّال خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے گا یا یہ کہ مسلمان ہو جائے گا۔ یہ دونوں باتیں خلاف نصوص حدیثیہ ہیں۔ پس بہرحال یہ حدیث قابلِ تاویل ہے اور اس کی وہ تاویل جو خدا نے میرے پر ظاہر فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگا جس کا نام دجّال ہے وہ اسلام کا سخت دشمن ہوگا اور وہ اسلام کو نابود کرنے کے لئے جس کا مرکز خانہ کعبہ ہے چور کی طرح اُس کے گرد طواف کرے گا تا اسلام کی عمارت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑ دے اور اس کے مقابل پر مسیح موعود بھی مرکز اسلام کا طواف کرے گا جس کی تمثلی صورت خانہ کعبہ ہے اور اس طواف سے مسیح موعود کی غرض یہ ہوگی کہ اس چور کو پکڑے جس کا نام دجّال ہے اور اس کی دست درازیوں سے مرکز اسلام کو محفوظ رکھے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ رات کے وقت چور بھی گھروں کا طواف کرتا ہے اور چوکیدار بھی۔ چور کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ نقب لگاوے اور گھروالوں کو تباہ کرے اور چوکیدار کی غرض طواف سے یہ ہوتی ہے کہ چور کو پکڑے اور اُس کو سخت عقوبت کے زندان میں داخل کراوے تا اس کی بدی سے لوگ امن میں آجاویں۔ پس اِس حدیث میں اسی مقابلہ کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں وہ چور جس کو دجّال کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ناخنوں تک زور لگائے گا کہ اسلام کی عمارت کو منہدم کر دے۔* اور مسیح موعود


*حاشیہ۔خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ دجال جس سے ڈرایا گیا ہے وہ آخری زمانہ کے گمراہ پادری ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کا طریق چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ اس نے سورۂ ممدوحہ میں یہی دعا سکھلائی ہے کہ ہم خدا سے چاہتے ہیں کہ ایسے یہودی نہ بن جائیں جن پر حضرت عیسیٰ کی نافرمانی اور عداوت سے غضب نازل ہوا تھا اور نہ ایسے عیسائی بن جائیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کی تعلیم کو چھوڑ کر اس کو خدا بنا دیا تھا اور ایک ایسا جھوٹ اختیار کیا جو تمام جھوٹوں سے بڑھ کر ہے اور اس کی تائید میں حد سے زیادہ فریب اور مکر استعمال میں لائے۔ اس لئے آسمان پر ان کا نام دجال رکھا گیا اگر کوئی اور دجال ہوتا تو اس آیت میں اس سے پناہ مانگنی ضروری تھی یعنی سورۃ فاتحہ میں بجائے ولا الضّالینکے ولا الدجّال ہونا چاہیے تھا اور یہی معنی واقعات نے ظاہر کئے ہیں کیونکہ جس آخری فتنہ سے ڈرایا گیا تھا زمانہ نے اسی فتنہ کو پیش کیا ہے جو تثلیث پر غلو کرنے کا فتنہ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 324

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 324

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/324/mode/1up


بھی اسلام کی ہمدردی میں اپنے نعرے آسماؔ ن تک پہنچائے گا اور تمام فرشتے اس کے ساتھ ہو جائیں گے تا اِس آخری جنگ میں اُس کی فتح ہو۔ وہ نہ تھکے گا اور نہ درماندہ ہوگا اور نہ سُست ہوگا اور ناخنوں تک زور لگائے گا کہ تا اُس چور کو پکڑے اور جب اُس کی تضرّعات انتہاتک پہنچ جائیں گی تب خدا اس کے دل کو دیکھے گا کہ کہانتک وہ اسلام کے لئے پگھل گیا تب وہ کام جو زمین نہیں کر سکتی آسمان کرے گا اور وہ فتح جو انسانی ہاتھوں سے نہیں ہو سکتی وہ فرشتوں کے ہاتھوں سے میسر آجائے گی۔

اس مسیح کے آخری دنوں میں سخت بلائیں نازل ہوں گی اور سخت زلزلے آئیں گے اور تمام دنیا سے امن جاتا رہے گا۔ یہ بلائیں صرف اس مسیح کی دعا سے نازل ہوں گی تب اِن نشانوں کے بعد اُس کی فتح ہوگی۔ وہی فرشتے ہیں جو استعارہ کے لباس میں لکھا گیا ہے کہ مسیح موعود اُن کے کاندھوں پر نزول کرے گا۔ آج کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ دجّالی فتنہ جس سے مراد آخری زمانہ کے ضلالت پیشہ پادریوں کے منصوبے ہیں انسانی کوششوں سے فرو ہو سکتا ہے ہر گز نہیں بلکہ آسمان کا خدا خود اس فتنہ کو فرو کرے گا۔ وہ بجلی کی طرح گرے گا اور طوفان کی طرح آئے گا اور ایک سخت آندھی کی طرح دنیا کو ہلا دے گا کیونکہ اس کے غضب کا وقت آگیا مگر وہ بے نیاز ہے۔ قدرت کی پتھر کی آگ انسانی تضرعات کی ضرب کی محتاج ہے آہ کیا مشکل کام ہے۔ آہ کیا مشکل کام ہے۔ ہم نے ایک قربانی دینا ہے جب تک ہم وہ قربانی ادا نہ کریں کسر صلیب نہیں ہوگا ایسی قربانی کو جب تک کسی نبی نے ادا نہیں کیا اس کی فتح نہیں ہوئی اور اُسی قربانی کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے333 ۱؂ یعنی نبیوں نے اپنے تئیں مجاہدہ کی آگ میں ڈال کر فتح چاہی پھر کیا تھا ہر ایک ظالم سر کش تباہ ہو گیا اور اسی کی طرف اس شعر میں اشارہ ہے۔

تا دلِ مردِ خدا نامد بدرد

ہیچ قومے را خدا رُسوا نکرد

اور صلیب کے توڑنے سے یہ سمجھنا کہ صلیب کی لکڑی یا سونے چاندی کی

صلیبیں توڑدی جائیں گی یہ سخت غلطی ہے اس قسم کی صلیبیں تو ہمیشہ اسلامی جنگوں میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 325

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 325

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/325/mode/1up


ٹوٹتیؔ رہی ہیں بلکہ اس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود صلیبی عقیدہ کو توڑ دے گا اور بعد اس کے دنیا میں صلیبی عقیدہ کا نشو و نما نہیں ہوگا ایسا ٹوٹے گا کہ پھر قیامت تک اس کا پیوند نہیں ہوگا۔ انسانی ہاتھ اس کو نہیں توڑیں گے بلکہ وہ خدا جو تمام قدرتوں کا مالک ہے جس طرح اُس نے اس فتنہ کو پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو نابود کرے گا۔ اس کی آنکھ ہر ایک کو دیکھتی ہے اور ہر ایک صادق اور کاذب اس کی نظر کے سامنے ہے وہ غیر کو یہ عزت نہیں دے گا مگر اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا مسیح یہ شرف پائے گا جس کو خدا عزت دے کوئی نہیں جو اس کو ذلیل کر سکے وہ مسیح ایک بڑے کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے سو وہ کام اس کے ہاتھ پر فتح ہوگا اُس کا اقبال صلیب کے زوال کا موجب ہوگا۔ اور صلیبی عقیدہ کی عمر اس کے ظہور سے پوری ہو جائے گی اور خود بخود لوگوں کے خیالات صلیبی عقیدہ سے بیزار ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ آجکل یورپ میں ہو رہا ہے اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان دنوں میں عیسائیت کا کام صرف تنخواہ دار پادری چلا رہے ہیں اور اہل علم اس عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں پس یہ ایک ہوا ہے جو صلیبی عقیدہ کے بر خلاف یورپ میں چل پڑی ہے اور ہر روز تُند اور تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی مسیح موعود کے ظہور کے آثار ہیں کیونکہ وہی دو فرشتے جو مسیح موعود کے ساتھ نازل ہونے والے تھے صلیبی عقیدہ کے بر خلاف کام کر رہے ہیں اور دنیا ظلمت سے روشنی کی طرف آتی جاتی ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ دجّالی طلسم کھلے کھلے طور پر ٹوٹ جائے کیونکہ عمر پوری ہو گئی ہے۔

اور یہ پیشگوئی کہ خنزیر کو قتل کرے گا یہ ایک نجس اور بد زبان دشمن کو مغلوب کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا دشمن مسیح موعود کی دعا سے ہلاک کیا جائے گا۔

اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود کی اولاد ہوگی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا اس کی نسل سے ایک ایسے شخص کو پیدا کرے گا جو اس کا جانشین ہوگا اور دین اسلام کی حمایت کرے گا جیسا کہ میری بعض پیشگوئیوں میں یہ خبر آچکی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 326

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 326

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/326/mode/1up


اور ؔ یہ پیشگوئی کہ وہ دجّال کو قتل کرے گا اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ظہور سے دجّالی فتنہ رو بزوال ہو جائے گا اور خود بخود کم ہوتا جائے گا اور دانشمندوں کے دل توحید کی طرف پلٹا کھا جائیں گے۔ واضح ہو کہ دجّال کے لفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دجّال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام چلاوے۔ دوسری یہ کہ دجّال شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے پس قتل کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اُس شیطانی فتنہ کا ایسا استیصال ہوگا کہ پھر قیامت تک کبھی اس کانشوو نما نہیں ہوگا گویا اس آخری لڑائی میں شیطان قتل کیا جائے گا۔

اور یہ پیشگوئی کہ مسیح موعود بعد وفات کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں داخل ہوگا اس کے یہ معنی کرنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھودی جائے گی یہ جسمانی خیال کے لوگوں کی غلطیاں ہیں جو گستاخی اور بے ادبی سے بھری ہوئی ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود مقام قرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدرہوگا کہ موت کے بعد وہ اس رُتبہ کو پائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کا رتبہ اس کو ملے گا۔ اور اس کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے جا ملے گی۔ گویا ایک ہی قبر میں ہیں۔ اصل معنی یہی ہیں جس کا جی چاہے دوسرے معنی کرے۔ اِس بات کو روحانی لوگ جانتے ہیں کہ موت کے بعد جسمانی قرب کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی قرب رکھتا ہے اس کی روح آپ کی روح سے نزدیک کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3ْ۔۱؂

اوریہ پیشگوئی کہ وہ قتل نہیں کیا جائے گا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خاتم الخلفاء کا قتل ہونا موجب ہتکِ اسلام ہے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قتل سے بچائے گئے

۱۳۷۔ نشان۔ یہ عظیم الشان نشان لیکھرام کا مباہلہ ہے واضح ہو کہ میں نے سرمہ چشم آریہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 327

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 327

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/327/mode/1up


کےؔ خاتمہ میں بعض آریہ صاحبوں کو مباہلہ کے لئے بلایا تھا اور لکھا تھا کہ جو تعلیم وید کی طرف منسوب کی جاتی ہے صحیح نہیں ہے اور جو تکذیب قرآن شریف کی آریہ صاحبان کرتے ہیں اُس تکذیب میں وہ کاذب ہیں اگر اُن کو دعویٰ ہے کہ وہ تعلیم جو وید کی طرف منسوب کی جاتی ہے سچی ہے اور یا نعوذ باللہ قرآن شریف منجانب اللہ نہیں تو وہ مجھ سے مباہلہ کر لیں اور لکھا گیا تھا کہ سب سے پہلے مباہلہ کے لئے لالہ*مری دھر مخاطب ہیں جن سے بمقام ہوشیار پور بحث ہوئی تھی۔ پھر بعد اس کے ہمارے مخاطب لالہ جیون داس سیکرٹری آریہ سماج لاہور ہیں اور پھر کوئی اور دوسرے صاحب آریوں میں سے جو معزز اور ذی علم تسلیم کئے گئے ہوں مخاطب کئے جاتے ہیں۔

میری اس تحریر پر پنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب خبط احمدیہ میں جو ۱۸۸۸ء میں اُس نے شائع کی تھی جیسا کہ اس کتاب کے اخیر میں یہ تاریخ درج ہے میرے ساتھ مباہلہ کیا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کے لئے اپنی کتاب خبط احمدیہ کے صفحہ ۳۴۴ میں بطور تمہید یہ عبارت لکھتا ہے:۔

چونکہ ہمارے مکرم و معظم ماسٹر مرلی دھرصاحب و منشی جیون داس صاحب بہ سبب کثرت کام سرکاری کے عدیم الفرصت ہیں بنا براں اپنے اوتشاہ اور اُن کے ارشاد سے اس خدمت کوبھی نیاز مند نے اپنے ذمہ لیا پس کسی دانا کے اس مقولہ پر کہ دروغگورا تا بدروازہ باید رسانید عمل کرکے میرزا صاحب کی اس آخری التماس کو بھی (یعنے مباہلہ کو)


*ظاہر ہے کہ مباہلہ کی دو چار سطر کے لئے کسی فرصت کی ضرورت نہ تھی مباہلہ کا خلاصہ تو صرف یہ فقرہ ہے کہ اپنا اور فریق ثانی کا نام لے کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ جوشخص ہم میں سے جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو۔ پس کیا ماسٹر مرلی دھر اور منشی جیون داس کو اتنی کم فرصتی تھی کہ یہ دو سطر بھی نہیں لکھ سکتے تھے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ دونوں سچ کے مقابل پر ڈر گئے اور لیکھرام اپنی بدقسمتی سے شوخ دیدہ اور اندھا آدمی تھا اس نے اپنی فطرتی شوخی سے ان کی بلا اپنے ذمہ لے لی آخر مباہلہ کے بعد ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کوبروز شنبہ اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 328

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 328

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/328/mode/1up


منظوؔ ر کرتا ہوں اور مباہلہ کو یہاں پر طبع کرا کر مشہور۔

مضمون مباہلہ

مَیں نیاز التیام لیکھرام ولد پنڈت تا را سنگھ صاحب شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ ورسالہ ھٰذا اقرار صحیح بدرستی ہوش و حواس کرکے کہتا ہوں کہ میں نے اول سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا۔ اور ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اس کے دلائل کو بخوبی سمجھ لیا بلکہ اُن کے بطلان کو بروئے ست دھرم رسالہ ہٰذا میں شائع کیامیرے دل میں مرزا جی کی دلیلوں نے کچھ بھی اثر نہیں کیا اور نہ وہ راستی کے متعلق ہیں۔ میں اپنے جگت پتا پر میشر کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ جیسا کہ ہر چہار وید مقدس میں ارشاد ہدایت بنیاد ہے اس پر میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ میری روح اور تمام ارواح کو کبھی نیستی یعنی قطعی ناش نہیں ہے اور نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔ میری روح کو کسی نے نیست سے ہست نہیں کیا (یعنی میری روح کاکوئی پیدا کرنے والا نہیں بلکہ خود بخود قدیم سے ہے) بلکہ ہمیشہ سے پر ماتما کی انادی قدرت میں رہا اور رہے گا۔* ایسا ہی میرا جسمی مادہ یعنی پرکرتی یا پرمانو بھی قدیمی یا انادی پرماتما کے قبضہ قدرت میں موجود ہیں کبھی مفقود


* حاشیہ۔یہ کیسا فضول فقرہ ہے کہ ہمیشہ سے پر ماتما کی انادی قدرت میں رہا اور رہے گاظاہر ہے کہ جبکہ ارواح بقول آریہ سماج کے اپنی تمام طاقتوں اور قدرتوں کے ساتھ قدیم سے خود بخود ہیں تو پھر ان کو پر میشر کی قدرت کے ساتھ تعلق ہی کیا ہے ان قوتوں کو نہ پر میشر بڑھا سکتا ہے نہ گھٹا سکتا ہے اور نہ اُن میں کسی طرح کا تصرف کر سکتا ہے وہ تمام ارواح تو بقول آریوں کے اپنے اپنے وجود کے آپ ہی پر میشر ہیں اور ایک ذرّہ پرمیشر کا اُن پر احسان نہیں۔ پس یاد رہے کہ یہ مقولہ لیکھرام اور اس کے دوسرے ہم مذہبوں کا کہ ارواح پر ماتما کی انادی قدرت میں رہتے ہیں اور رہیں گے یہ صرف اپنے غلط مذہب کی پردہ پوشی کے لئے بولا جاتا ہے کیونکہ انسان کا کانشنس اس کو ہر وقت ایسے بے ہودہ عقائد پر ملزم کرتا ہے اگر خدا روحوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 329

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 329

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/329/mode/1up


نہیںؔ ہوں گے اور تمام جگت کا سرجن ہار ایک ہی کرتا رہے دوسرا کوئی نہیں میں پرمیشر کی طرح تمام دنیا کا مالک یا صانع نہیں ہوں اور نہ سرب بیاپک ہوں اور نہ انتریامی بلکہ اس مہان شکتی مان کا ایک ادنیٰ سیوک ہوں مگر اُس کے گیان اور شکتی میں ہمیشہ سے ہوں معدوم کبھی نہیں ہوا۔ اور نہ کوئی عدم خانہ کہیں ہے بلکہ کسی چیز کو عدم نہیں۔ ایسا ہی وید کی


بقیہ حاشیہ :۔اورؔ ان کی قوتوں اور ذرّات عالم اور ان کی قوتوں کا پیدا کرنے والا نہیں تو پھر وہ اُن کا خدا بھی نہیں ہو سکتا اور یہ کہنا کہ اگرچہ ہم ارواح کو اُن کے تجرد کی حالت میں خدا کے بندے اور مخلوق نہیں کہہ سکتے کیونکہ اُس نے اُن کو نہیں بنایا لیکن جب پرمیشر ارواح کو اجسام میں ڈالتا ہے تو اس قدر اپنی کارروائی سے اُن کا پرمیشر بن جاتا ہے یہ خیال بھی غلط ہے کیونکہ جس پرمیشر نے ارواح اور پرمانو کو مع ان کی تمام قوتوں کے پیدا نہیں کیا کوئی دلیل اِس بات پر قائم نہیں ہو سکتی کہ وہ اُن کے جوڑنے پر قادر ہے اور محض بعض کا بعض سے جوڑنا اس کو پرمیشر بننے کا حق نہیں بخش دے گا بلکہ اس صورت میں تو وہ اُس نان بائی کی طرح ہے جس نے آٹا بازار سے لیا اور لکڑی کسی لکڑی فروش سے اور آگ ہمسایہ سے اور پھر روٹی پکائی۔ اور اس صورت میں پرمیشر کے وجود پر کوئی بھی ثبوت نہیں کیونکہ اگر ارواح مع اپنی تمام قوتوں کے قدیم سے خود بخود ہیں تو پھر اس پر کیا دلیل ہے کہ ارواح اور پر مانوؤں کا اتّصالاور انفصالبھی قدیم سے خود بخود نہیں جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے اس لئے آریہ سماج والے اپنے پرمیشر کے وجود پرکوئی دلیل نہیں پیش کر سکتے اور نہ اُن کے پاس کوئی دلیل ہے یہ ہے خلاصہ وید کے گیان کا جس پر فخر کیا جاتا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر دو قسم کے دلائل قائم ہو سکتے ہیں اول اس حالت میں دلیل قائم ہوتی ہے کہ جب اس کی ذات کو سر چشمہ تمام فیوض کا مان لیا جائے اور اُسی کو ہر ایک ہستی کا پیدا کنندہ تسلیم کر لیا جائے تو اِس صورت میں خواہ ذرّات عالم پر نظر کریں یا ارواح پر یا اجسام پر ضروری طور پر ماننا پڑے گا کہ ان تمام مصنوعات کا ایک صانع ہے۔

دوسرا طریق خدا تعالیٰ کی شناخت کا اس کے تازہ بتازہ نشان ہیں جو انبیاء اور اولیاء کیؔ معرفت ظاہر ہوتے ہیں سو آریہ سماج والے اُن سے بھی منکر ہیں اس لئے اُن کے پاس اپنے پرمیشر کے وجود پر کوئی بھی دلیل نہیں۔

عجیب بات ہے کہ آریہ لوگ یوں تو بات بات میں اپنے پرمیشر کو پتا پتا کرکے پکارتے ہیں جیسا کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 330

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 330

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/330/mode/1up


اسؔ انصافانہ تعلیم کو بھی میں تسلیم کرتا ہوں کہ مُکتی یعنی نجات کرموں کے مطابق مہماکلب تک ملتی ہے (یعنی دائمی نجات نہیں صرف ایک مقررہ مدّت تک ہے) بعد اس کے پر ماتما کی نیا کے مطابق پھر جسم انسانی لینا پڑتا ہے۔ محدود کرموں کا بے حد پھل نہیں (کرم تو محدود ہیں۔ مگر وفادار پرستار کی نیّت محدود نہیں ہوتی اور نیز کرم کا محدود ہونا اس کی مرضی سے نہیں)


بقیہ حاشیہ:۔ ابھی لیکھرام نے اپنے مضمون مباہلہ میں لکھا ہے مگر معلوم نہیں کہ وہ کس طور کا پتا ہے کیا اس طور کا پتا جیسا کہ ایک متبنّٰی ایک اجنبی شخص کو اپنا باپ کہہ دیتاہے یا ایسا پتا جو نیوگ کے ذریعہ سے فرضی طور پر بنایا جاتا ہے اور ایک آریہ کی عورت اپنی پاکدامنی کو خاک میں ملاکر دوسرے سے اپنا مُنہ کالا کراتی ہے اور اس طرح پر اُس عورت کا خاوند اس بچہ کا پتا بن جاتا ہے جو نیوگ کے ذریعہ سے حاصل کیا جاتا ہے پس اگر پرمیشر آریوں کا ایسا ہی پتا ہے تب تو ہمیں کلام کرنے کی گنجائش نہیں لیکن اگر اس طرح کا پتا ہے کہ ارواح اور ذرّاتِ عالم معہ اپنی تمام قوتوں کے اُس کے ہاتھ سے نکلے ہیں اور اُسی سے وجود پذیر ہیں تو یہ بات آریوں کے اصول کے برخلاف ہے اگر پوچھو کہ کیوں اُن کے اصول کے برخلاف ہے تو واضح ہو کہ آریوں کے اصول کے مطابق تمام ارواح پرمیشر کے قدیمی شریک ہیں جو اُس سے وجود پذیر نہیں ہوئیں تو پھر ہم پرمیشر کو اُن کا پتا کیونکر کہہ سکتے ہیں وہ تو خود بخود ہیں جیسے کہ پرمیشر خود بخود۔ مگر یہ اصول غلط ہے معرفت کی آنکھ سے دیکھنے والے معلوم کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ باپ میں قوتیں اور خاصیتیں اور خصلتیں ہوتی ہیں ویسی ہی بیٹے میں بھی پائی جاتی ہیں پس اسی طرح چونکہ ارواح خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے نکلی ہیں اُن میں ظلّی طور پر وہ رنگ پایا جاتا ہے جو خدا کی ذات میں موجود ہے اور جیسے جیسے خدا کے بندے اس کی محبت اور پرستش کے ذریعہ سے صَفوت اور پاکیزگی میں ترقی کرتے ہیں وہ رنگ تیز ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ظلّی طور پر ایسے انسانوں میں خدا کے انوار ظاہرہونے شروع ہو جاتے ہیںؔ ۔ صاف طور پر ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ انسانی فطرت میں خدا کے پاک اخلاق مخفی ہیں جو تزکیہ نفس سے ظاہر ہو جاتے ہیں مثلاً خدا رحیم ہے ایسا ہی انسان بھی تزکیہ نفس کے بعد رحم کی صفت سے حصہ لیتا ہے۔ خدا جوّاد ہے ایسا ہی انسان بھی تزکیہ نفس کے بعد جُود کی صفت سے حصہ لیتا ہے ایسا ہی خدا ستّارہے خدا کریم ہے خدا غفور ہے اور انسان بھی تزکیہ نفس کے بعد ان تمام صفات سے حصہ لیتاہے۔ پس کس نے یہ صفاتِ فاضلہ انسان کی روح میں رکھ دیئے ہیں۔ اگر خدا نے رکھے ہیں تو اس سے ثابت ہے کہ وہ ارواح کا خالق ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ خود بخود ہیں تو اس کا جواب یہی کافی ہے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 331

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 331

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/331/mode/1up


مَیںؔ ویدوں کی ان سب تعلیموں کو دلی یقین سے مانتا ہوں... اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ پرمیشر گناہوں کو بالکل نہیں بخشتا (عجیب پرمیشر ہے) میرا کسی شفاعت یا سفارش پر بھروسہ نہیں (یعنی کسی کی دعا کسی کے حق میں قبول نہیں ہوتی) میں خدا کو راشی یا ظالم نہیں جانتا (لفظ مرتشی ہے جس کے معنی ہیں رشوت لینے والا راشی لفظ نہیں ہے۔ لیکھرام کی علمیت کا یہ نمونہ ہے کہ بجائے مرتشی کے راشی لکھتا ہے) اور مَیں ویدکی رو سے اِس بات پر کامل وصحیح یقین رکھتا ہوں کہ چاروں وید ضرور ایشر کا گیان ہے ان میں ذرا بھی غلطی یا جھوٹ یا کوئی قصہ کہانی نہیں۔ ان کو ہمیشہ ہرنئی دنیا میں پرماتما جگت کی ہدایت عام کے لئے پرکاش کیا کرتا ہے۔ اس سرشٹی کے آغاز میں جب انسانی خلقت شروع ہوئی پرماتما نے ویدوں کو شری۱ اگنی، شری ۲وایو، شری ۳آدت، شری۴انگرہ جیو چار رشیوں کے آتماؤں میں الہام دیا۔ مگر جبرئیل یا کسی اور چٹھی رسان کی معرفت نہیں بلکہ خود ہی* کیونکہ وہ


*حاشیہ۔جسمانی نظام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہوا کے ذریعہ سے سنتا ہے اور سورج کے ذریعہ سے دیکھتا ہے۔ پھر جسمانی نظام میں یہ دو چٹھی رسان کیوں مقرر کئے گئے حالانکہ خدا کا جسمانی روحانی قانون باہم مطابق ہونا چاہئے۔ افسوس وید کا گیان ہر جگہ پر صحیفہ قدرت کے مخالف پڑا ہے اور کون کہتا ہے کہ خدا ہر جگہ نہیں بلکہ وہ ہر جگہ بھی ہے اور ذو العرش بھی ہے۔ نادان اس معرفت کے نکتہ کو نہیں سمجھتا۔ یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ اگرچہ اس عالم میں سب کچھ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے مگر پھر بھی اس نے اپنی قضاو قدر کے نافذ کرنے کے وسائط رکھے ہیں مثلاً ایک زہر جو انسان کو ہلاک کرتی ہے اور ایک تریاق جوفائدہ بخشتا ہے کیا ہم گمان کر سکتے ہیں کہ یہ دونوں خود بخود انسان کے بدن میں تاثیر کرتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ وہ خدا کے حکم سے تاثیر مخالف یا موافق کرتے ہیں۔ پس وہ بھی ایک قسم کے فرشتے ہیں بلکہ ذرّہ ذرّہ عالم کا جس سے انواع و اقسام کے تغیرات ہوتے رہتے ہیں یہ سب خدا کے فرشتے ہیں اور توحید پوری نہیں ہوتی جب تک ہم ذرہ ذرہ کو خدا تعالیٰ کے فرشتے نہ مان لیں۔ کیونکہ اگر ہم تمام مؤثرات کو جو دنیا میں پائے جاتے ہیں خدا کے فرشتے تسلیم نہ کریں تو پھر ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ تمام تغیرات انسانی جسم اور تمام عالم میں بغیر خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ اور مرضی کے خود بخود ہو رہے ہیں اور اس صورت میں خدا کو محض معطل اور بے خبرماننا پڑے گا۔ پس فرشتوں پر ایمان لانے کا یہ راز ہے کہ بغیر اس کے توحید قائم نہیں رہ سکتی اور ہر ایک چیز کو اور ہر ایک تاثیر کو خدا تعالیٰ کے ارادہ سے باہرماننا پڑتا ہے اور فرشتہ کا مفہوم تویہی ہے کہ وہ چیزیں ہیں جو خدا کے حکم سے کام کر رہی ہیں۔ پس جبکہ یہ قانون ضروری اور مسلّم ہے تو پھر جبرائیل اور میکائیل سے کیوں انکار کیا جائے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 332

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 332

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/332/mode/1up


آسماؔ ں یا عرش پر نہیں بلکہ سرب بیاپک ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ وید ہی سب سے کامل اور مقدس گیان کے پُستک ہیں۔ آریہ ورت سے ہی تمام دنیانے فضیلت سیکھی۔ آریہ لوگ ہی سب کے اُستاد اول ہیں۔ آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر۵۔۶ ہزار سال سے آئے ہیں اور توریت، زبور، انجیل، قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں مَیں دلی یقین سے اُن پستکوں کو مطالعہ کرنے سے اور سمجھنے سے... اُن کی تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی اصلی الہام کے بد نام کرنیوالی تحریریں خیال کرتا ہوں... اُن کی سچائی کی دلیل سوائے طمع یا نادانی یا تلوار کے اُن کے پاس کوئی نہیں... اور جس طرح میں اور راستی کے برخلاف باتوں کو غلط سمجھتا ہوں ایسا ہی قرآن اور اس کے اصولوں اور تعلیموں کو جو وید کے مخالف ہیں اُن کو غلط اور جھوٹا جانتاہوں۔ (لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین) لیکن میرا دوسرا فریق میرزا غلام احمد ہے وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتا ہے اور جس طرح میں قرآن وغیرہ کو پڑھ کر غلط سمجھتا ہوں ویسے ہی وہ اُمّی محض سنسکرت اور ناگری سے محروم مُطلق بغیر پڑھنے یا دیکھنے ویدوں کے ویدوں کو غلط سمجھتا ہے۔*

اے پرمیشر ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پا سکتا۔

راقم آپکا ازلی بندہ لیکھرام شرما سبھاسد آریہ سماج پشاور

حال اڈیٹر آریہ گزٹ فیروز پور پنچاب


* حاشیہ۔ اگرمیں نے وید نہیں پڑھے بھلا یہ تو غنیمت ہے کہ لیکھرام نے چاروں وید کنٹھ کر لئے تھے اس جگہ بھی بجز لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبینکیا کہہ سکتے ہیں۔ بحث اصولوں پر ہوتی ہے جبکہ آریہ سماج والوں نے اپنے ہاتھ سے وید کے اصول شائع کر دئے تو ان پر بحث کرنا ہر ایک عقلمند کا حق ہے اور یہ سراسر غلط ہے کہ میں وید نہیں پڑھا۔ میں نے وید کے وہ ترجمے جو ملک میں شائع ہوئے اول سے آخر تک دیکھے ہیں۔ پنڈت دیانند کا وید بھاش بھی دیکھا ہے اور عرصہ قریباً پچیس سال سے برابر آریوں سے میرے مباحثات ہوتے رہے ہیں پھر یہ کہنا کہ وید کی مجھے کچھ بھی خبر نہیں کس قدر جھوٹ ہے اور اگر آریہ صاحبوں کے پنڈت اب بھی لیکھرام کو وید کا فاضل تسلیم کر چکے ہیں تو میں وہ سرٹیفیکیٹ دیکھنے کا مشتاق ہوں بلکہ لیکھرام کا رتبہ ذرا بھی اس سے بڑھ کر نہیں جو خدا نے اس کے لئے فرمایا عجل جسد لہ خوار۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 333

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 333

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/333/mode/1up


ابؔ مباہلہ کی اس دعا کے بعد جو پنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب خبط احمدیہ کے صفحہ ۳۴۴ سے ۳۴۷ تک لکھی ہے جو کچھ خدا نے آسمان سے فیصلہ کیا ہے اور جس طرح اُس نے کاذب کی ذلّت ظاہر کی اور صادق کی عزت وہ یہ ہے جو ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء کو بروز شنبہ دن کے چار بجے کے بعد ظہور میں آیا۔

دیکھو یہ خدا کا فیصلہ ہے جس فیصلہ کو لیکھرام نے اپنے پرمیشر سے مانگا تھا تا صادق اور کاذب میں فرق ظاہر ہو جائے


فوٹو




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 334

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 334

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/334/mode/1up


یہ ؔ بات یاد رہے کہ اس جگہ ایک نشان نہیں بلکہ دو نشان ہیں (۱) ایک یہ کہ لیکھرام کے مارے جانے کی بذاتِ خود ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں اس کے مارے جانے کا دن بتلایا گیا۔ موت کی قِسم بتلائی گئی۔ مُدّت بتلائی گئی وقت بتلایا گیا۔ (۲) دوسری یہ کہ باوجود ہزار کوشش اور سعی کے قاتل کا کچھ بھی پتہ نہیں لگاگویا وہ آسمان پر چڑھ گیا یا زمین کے اندر مخفی ہو گیا۔ اگر قاتل پکڑا جاتا اور پھانسی مل جاتا تو پیشگوئی کی یہ وقعت نہ رہتی بلکہ اُس وقت ہر ایک کہہ سکتا تھا کہ جیسے لیکھرام مارا گیا قاتل بھی مارا گیا مگر قاتل ایسا گم ہوا کہ نہیں معلوم کہ آیا وہ آدمی تھا یا فرشتہ تھا جو آسمان پر چڑھ گیا۔

۱۳۸۔ نشان۔ یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابتِ دعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابتِ دعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جنابِ الٰہی میں قدر اور عزت ہے۔ اگرچہ دعاکا قبول ہوجانا ہر جگہ لازمی امر نہیں کبھی کبھی خدائے عزّ و جلّ اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے لیکن اِس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے کثرت سے اُن کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابتِ دعا کے مرتبہ میں اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ہزارہا میری دعائیں قبول ہوئی ہیں اگر میں سب کو لکھوں تو ایک بڑی کتاب ہو جائے اور کسی قدر مَیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اس جگہ بھی چند دعاؤں کا قبول ہونا تحریر کرتا ہوں چنانچہ من جملہ اُن کے استجابتِ دعا کا ایک یہ نشان ہے کہ ایک میرے مخلص سیّدناصر شاہ نام جو اَب کشمیر بارہ مولہ میں اورسیئر ہیں وہ اپنے افسروں کے ماتحت نہایت تنگ تھے اورکئی آدمی اُن کی ترقی کے حارج تھے بلکہ اُن کی ملازمت خطرہ میں تھی۔ ایک دفعہ انہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں استعفا دے دیتا ہوں تا اِس ہر روزہ تکلیف سے نجات پاؤں۔ مَیں نے اُن کو منع کیا مگر وہ اس قدر ملازمت سے عاجز آگئے تھے کہ انہوں نے بار بار نہایت عجز و انکسار سے عرض کی کہ مجھے اجازت دی جائے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 335

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 335

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/335/mode/1up


کہؔ میری جان ایک بلا میں گرفتار ہے اور حد سے زیادہ اصرار کیا اور کہا کہ میرے لئے ترقی عہدہ کی راہ بند ہے بلکہ ایسا نہ ہو کہ کسی ظالم کے ہاتھ سے فوق الطاقت مجھے ضرر پہنچ جائے تب میں نے اُن کو کہا کہ کچھ دن صبر کرو میں تمہارے لئے دعا کروں گا اوراگر پھر بھی مشکلات پیش آئیں تو پھر اختیار ہے۔ بعد اس کے میں نے جناب الٰہی میں اُن کے لئے دعا کی اور حضرت عزت سے اُن کی کامیابی چاہی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ پہلی ملازمت بھی خطرہ میں تھی غیر مترقب طورپر ترقی ہو گئی چنانچہ ہم ذیل میں سیّد ناصر شاہ صاحب کا خط درج کرتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ دعا نے اُن کی حالت پر کیا اثر کیا اوروہ یہ ہے:-

بحضور اقدس حضرت پیرو مرشد دام ظلکم

خاکسار نابکار سیّد ناصر شاہ بعد از سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ عرض رساں ہے کہ حضور والا کی دعا نے یہ اثر دکھایا کہ حضور کی دعا کی برکت سے ترقی عہدہ اور ترقی تنخواہ ہو گئی۔ حضور والا کے وہ الفاظ خاکسار کو بخوبی یاد ہیں کہ جب خاکسار نے آزردہ خاطر ہو کر عرض کیا تھا کہ اب ملازمت چھوڑ دوں گالیکن حضور نے بڑے لطف اور رحم سے فرمایا تھا کہ گھبرانا نہیں چاہیئے ہم دعا کریں گے خدا قادر ہے کہ اُنہیں دشمنوں کو تمہارادوست بنا دے گا۔ سو جناب والا! الحمدللہ کہ جو جو الفاظ حضور والا نے فرمائے تھے اسی طرح ظہور میں آگیا اور وہی دشمن بعد میں میرے لئے دوست اور سفارش کرنے والے بن گئے خدا نے حضور کی دعا سے اُن کا دل میری طرف پھیردیا۔ ایک اور بڑا معجزہ حضور والا کی برکت سے یہ ظہور میںآیا کہ ممبران بالا کی طرف سے مجھ پر اعتراض ہوا تھا کہ ناصر شاہ نے کالج کا پاس نہیں کیا اور نہ کسی امتحان کی سند ہے اِس لئے عہدہ کی ترقی کا کیونکر مستحق ہو سکتا ہے۔ اِدھر یہ اعتراض تھا اور اس طرف سے حضور والا کا نامہ صادر ہوا کہ ہم نے جہاں تک ممکن تھا بہت دعا کی ہے سو جناب عالی وہی دن تھا جبکہ میری نسبت کاغذات کونسل میں پیش ہوئے اور صاحب بہادر نے میرے لئے بہت زور دے کر کہا اور عجیب تر یہ کہ وہی مخالف میرے لئے سفارش کرنے والے تھے اور دلی دوستی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 336

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 336

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/336/mode/1up


اورؔ خیر خواہی سے میری ترقی کے خواہاں تھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر کسی عذر و حیلہ کے میری ترقی کے لئے رزولیوشن پاس ہو گیا فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ جناب من مبلغ پچاس روپیہ پرسوں کی ڈاک میں حضور والا میں اِس خاکسار نے روانہ کئے ہیں قبول فرماویں اور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ آفات زمانہ سے محفوظ رکھے اور عاقبت نیک فرماوے۔ آمین

عریضہ بندہ خاکسار سید ناصر شاہ اور سیراز مقام بارہ مولہ کشمیر

۱۳۹۔ نشان۔ ایک مرتبہ مستری نظام الدین نام ایک ہماری جماعت کے شخص نے سیالکوٹ اپنی جائے سکونت سے میری طرف خط لکھا کہ ایک خطرناک مقدمہ فوجداری کا میرے پر دائر ہو گیا ہے اور کوئی سبیل رہائی معلوم نہیں ہوتی سخت خوف دامن گیر ہے اور دشمن چاہتے ہیں کہ میں اس میں پھنس جاؤں اور بہت خوش ہو رہے ہیں اور میں نے اِس وقت ظاہری اسباب سے نومید ہو کر یہ خط لکھا ہے اور میں نے اپنے دل میں نذر کی ہے کہ اگر میں اِس مقدمہ سے نجات پا جاؤں تو مبلغ پچاس روپے خدا تعالیٰ کے شکریہ کے طور پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں گا۔

تب وہ خط اُس کا کئی لوگوں کو دکھلایا گیا اور بہت دُعا کی گئی اور اس کو اطلاع دی گئی چند دن گذرنے کے بعد اُس کا پھر خط مع پچاس روپیہ کے آیا اور لکھا کہ خدا نے مجھے اُس بلا سے نجات دی۔

پھر چند ہفتہ کے بعد ایک اور خط آیا جس میں لکھا تھا کہ سرکاری وکیل نے پھر وہ مقدمہ اُٹھایا ہے اِس بنیاد پر کہ فیصلہ میں غلطی ہے اور صاحب ڈپٹی کمشنر نے ایڈوکیٹ کی بات قبول کرکے فیصلہ کو انگریزی میں ترجمہ کراکر اور سفارش لکھ کر صاحب کمشنر بہادر کی خدمت میں بھیج دیا ہے اِس لئے یہ حملہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور بہت تشویش دِہ ہے اور میں نے اس حالت بے قراری میں پھر اپنے ذمہ یہ نذر مقرر کی ہے کہ اگر اب کی دفعہ میں اِس حملہ سے بچ جاؤں تو مبلغ پچاس روپیہ پھر بطور شکریہ ادا کروں گا۔ میرے لئے بہت دعا کی جائے یہ خلاصہ دونوں خطوں کا ہے جن کے بعد دعاکی گئی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 337

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 337

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/337/mode/1up


بعدؔ اس کے شاید ایک دو ہفتہ ہی گذرے تھے کہ پھر مستری نظام الدین کا خط آیا جو بجنسہٖ ذیل میں لکھاجاتا ہے:۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مسیحنا و مہدینا حضرت حجۃ اللہ علی الارض۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی خاطر پھر دوبارہ خاکسار پر رحم فرمایا اور اپیل فریق مخالف کی کمشنر صاحب لاہور نے نامنظور کرکے کَل واپس کردی فالحمدللّٰہ والمنۃ خاکسار دو ہفتہ کے اندر حضور کی قدم بوسی کے لئے حضور کی خدمت میں پچاس روپیہ نذرانہ جو پہلے مانا ہوا ہے لے کر حاضر ہوگا۔

حضور کا ناکارہ غلام

خاکسار نظام الدین مستری شہر سیالکوٹ متصل ڈاک خانہ

۱۴۰۔ نشان۔ سردار خان برادر حکیم شاہ نواز خان جو ساکن راولپنڈی ہیں۔ میری طرف لکھتے ہیں کہ ایک مقدمہ میں اُن کے بھائی شاہ نواز خان کی مع ایک فریق مخالف کے عدالت میں ضمانت لی گئی تھی جس میں حضرت صاحب سے یعنی مجھ سے بعد اپیل دعا کروائی گئی تھی اور ہر دو فریق نے اپیل کیا تھا۔ چنانچہ دعا کی برکت سے شاہ نواز کا اپیل منظور ہو گیا اور فریق ثانی کی اپیل خارج ہو گئی۔ قانون دان لوگ کہتے تھے کہ اپیل کرنا بے فائدہ ہے کیونکہ بالمقابل ضمانتیں ہیں یہ دعا کا اثر تھا کہ دشمن کی ضمانت قائم رہی اور شاہ نواز ضمانت سے بَری کیا گیا۔

۱۴۱۔ نشان۔ میاں نور احمد مدرس مدرسہ امدادی بستی وریام کملانہ ڈاک خانہ ڈب کلاں تحصیل شور کوٹ ضلع جھنگ کے متواتر خطوط میرے نام اس بارہ میں پہنچے تھے کہ اُن کے عزیز دوست مسمّی قاسم و رستم ولعل وغیرہ پر ایک جھوٹا مقدمہ مسمّی پٹھانہ کملانہ نے کیا ہوا ہے اور مقدمہ خطرناک ہو گیا ہے دعاکی جائے پس جبکہ کثرت سے ہر ایک خط میں عاجز انہ طور پر دعا کے لئے اُن کا اصرار ہوا تب میرے دل کو اس طرف توجہ ہو گئی کیونکہ میں نے واقعی طور پر ان کی حالت کو قابِل رحم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 338

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 338

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/338/mode/1up


پایا ؔ اِس لئے بہت دُعا کی گئی آخر دُعا منظور ہوئی چنانچہ ۱۲؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو اُسی میاں نور احمد کا خط مجھ کوبذریعہ ڈاک جو فتح یابی مقدمہ کی نسبت تھا پہنچا جو ذیل میں لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:-

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

حضرت مرشد نا و مولانا جناب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ بعد ادائے آداب غلامانہ عرض ہے کہ جو مقدمہ جھوٹا پٹھانہ کملانہ نے ہمارے غریب دوست مسمّی قاسم ورستم و لعل وغیرہ پر دائر کیا ہوا تھا وہ مقدمہ خدا کے فضل سے آپ کی دعاؤں کی برکت سے ۳۱؍اگست ۱۹۰۶ء کو فتح ہو گیا ہے آپ کو مبارک ہو۔ سبحان اللہ خدائے پاک نے اپنے پیارے امام کی دُعاؤں کو قبول فرمایا اور سرافراز کیا اور ہمارے ایمان میں ایزادی ہوئی ہم اس احکم الحاکمین کے فضلوں کا شکر ادا نہیں کر سکتے۔

راقم بندہ نور احمد مدرس مدرسہ امدادی بستی وریام کملانہ

ڈاکخانہ ڈب کلاں تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ

۱۴۲۔ نشان۔ میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبد الرحمن تاجر مدراس اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اِس لئے انکی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تر دّد ہوا قریباً نو بجے دن کا وقت تھا کہ میں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جُھک گیا اور معاً خدائے عزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِ زندگی۔ بعد اس کے ایک اور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن پھر ایک اور خط آیا کہ جو اُن کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھاجس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اِس سے ذیابیطس کی بھی شکایت تھی۔ چونکہ ذیابیطس کا کاربنکل اچھا ہونا قریباً محال ہے اِس لئے دوبارہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 339

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 339

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/339/mode/1up


غم اؔ ور فکر نے استیلا کیا اور غم انتہا تک پہنچ گیا اور یہ غم اس لئے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبد الرحمن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اول درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگر خانہ کے لئے کئی ہزار روپیہ سے مدد کرتے رہے تھے جس میں بجز خوشنودیء خدا کے اور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضا سے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لئے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور اُن کا حق تھا کہ اُن کے لئے بہت دعا کی جائے آخر دل نے اُن کے لئے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیارات اور کیا دن میں نہایت توجہ سے دعا میں لگا رہاتب خدا تعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مہلک مرض سے سیٹھ عبد الرحمن صاحب کو نجات بخشی گو یا اُن کو نئے سرے سے زندہ کیا چنانچہ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دُعا سے ایک بڑا معجزہ دکھلایا ورنہ زندگی کی کچھ بھی اُمید نہ تھی اپریشن کے بعد زخم کا مندمل ہونا شروع ہو گیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا تھا جس نے پھر خوف اورتہلکہ میں ڈال دیا تھا مگر بعد میں معلوم ہواکہ وہ کاربنکل نہیں آخر چند ماہ کے بعد بکلّی شفا ہو گئی۔ میں یقیناًجانتا ہوں کہ یہی مُردہ کا زندہ ہونا ہے۔ کاربنکل اور پھر اس کے ساتھ ذیابیطس اور عمر پیرانہ سالی اِس خوفناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہونا غیر ممکن ہے ہمارا خدا بڑا کریم و رحیم ہے اور اس کی صفات میں سے ایک احیاء کی صفت بھی ہے سال گذشتہ میں یعنی ۱۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اِسی بیماری کار بنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے اُن کے لئے بھی میں نے بہت دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام اُن کے لئے تسلّی بخش نہ تھا بلکہ بار بار یہ الہام ہوتے رہے کہ کفن۱ میں لپیٹا گیا۔ ۴۷ بر۲س کی عمر۔ اِنّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون۔ ان ا۳لمنایا لا تطیش سھامھا یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔ جب اس پر بھی دعا کی گئی تب الہام ہوا یا ایھا النا۴س اعبدوا ربکم الذی خلقکم۔ تؤثرون۵



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 340

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 340

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/340/mode/1up


الحیٰوۃ الدُّنیا۔ یعنی اے لوگو! تم اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو اور اس پر توکل رکھو۔ کیا تم دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو۔ اِس میں یہ اشارہ تھا کہ کسی کے وجود کو ایسا ضروری سمجھنا کہ اس کے مرنے سے نہایت درجہ حرج ہوگا ایک شرک ہے اور اس کی زندگی پر نہایت درجہ زور لگا دینا ایک قسم کی پرستش ہے اس کے بعد میں خاموش ہو گیا اور سمجھ لیا کہ اس کی موت قطعی ہے چنانچہ وہ گیارہ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو بروز چار شنبہ بوقت عصر اس فانی دنیا سے گذر گئے۔ وہ درد جو اُن کے لئے دُعا کرنے میں میرے دل پر وارد ہوا تھا خدا نے اس کو فراموش نہ کیا اور چاہا کہ اس ناکامی کا ایک اور کامیابی کے ساتھ تدارک کرے۔ اس لئے اِس نشان کے لئے سیٹھ عبد الرحمن کو منتخب کر لیا اگرچہ خدا نے عبد الکریم کو ہم سے لے لیا تو عبد الرحمن کو دوبارہ ہمیں دے دیا۔ وہی مرض اُن کے دامنگیرہو گئی آخر وہ اسی بندہ کی دعاؤں سے شفایاب ہو گئے فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ میرا صدہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایساکریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دُعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دُعا منظور کر لیتا ہے جو اُس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔33333۔۱؂

۱۴۳۔ نشان۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایک اور خوشی کا نشان مجھے عطا فرمایا اور وہ یہ ہے کہ میں نے ان دنوں میں ایک دفعہ دعا کی تھی کہ کوئی تازہ نشان خدا تعالیٰ مجھے دکھاوے تب جیسا کہ ۳۰؍اگست ۱۹۰۶ء کے اخبار بدر میں شائع ہو چکا ہے یہ الہام مجھے ہواآج کل کوئی نشان ظاہر ہوگا یعنی عنقریب کوئی نشان ظاہر ہونے والا ہے۔ چنانچہ وہ نشان اس طرح پر ظہور میں آیا کہ میں نے کئی دفعہ ایسی منذر خوابیں دیکھیں جن میں صریح طور پر یہ بتلایا گیا تھا کہ میر ناصر نواب جو میرے خُسر ہیں اُن کے عیال کے متعلق کوئی مصیبت آنے والی ہے چنانچہ ایک دفعہ میں نے گھر میں بکرے کی ایک ران لٹکائی ہوئی دیکھی جو کسی کی موت پر دلالت کرتی تھی اور ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خان اسسٹنٹ سرجن اس چوبارہ کے پاس باہر کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 341

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 341

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/341/mode/1up


طر ؔ ف چوکھٹ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے جس میں مَیں رہتا ہوں تب کسی شخص نے مجھ کو کہا کہ عبد الحکیم خان کو والدۂ اسحاق نے گھر کے اندر بُلایا ہے (والدہ اسحاق میرناصر نواب صاحب کی بیوی ہیں اور اسحاق اُن کا لڑکا ہے) اور وہ سب ہمارے گھر میں ہی رہتے ہیں تب میں نے یہ بات سُن کر جواب دیا کہ میں عبد الحکیم خان کو ہر گز اپنے گھر میں آنے نہ دوں گا۔ اِس میں ہماری بے عزتی ہے۔ تب وہ آنکھوں کے سامنے سے گم ہو گیا اندر داخل نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ علم تعبیر میں معبّریننے یہ لکھا ہے جس کا بار ہا تجربہ ہو چکا ہے کہ اگر کسی کے گھر میں دشمن داخل ہو جائے تو اُس گھر میں کوئی مصیبت یا موت آتی ہے اور چونکہ آجکل عبد الحکیم خان سخت دشمن جانی اور ہمارے زوال کا رات دن منتظر ہے اِس لئے خدا تعالیٰ نے اُسی کو خواب میں دکھلایا کہ گویا وہ ہمارے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہے اور والدۂ اسحاق یعنی میر ناصر صاحب کی بیوی اُس کو بلاتی ہیں اور بلانے کی تعبیر یہ لکھی ہے کہ ایسا شخص محض اپنی بعض دینی غفلتوں کی وجہ سے جن کا علم خدا تعالیٰ کو ہے مصیبت کو اپنے گھر میں بلاتا ہے یعنی اس کی موجودہ حالت اس بات کو چاہتی ہے کہ کوئی بلا نازل ہو یہ ظاہر ہے کہ انسان معاصی اور گناہوں سے خالی نہیں ہے اور انسانی فطرت بجز خاص لوگوں کی لغزش سے محفوظ نہیں رہ سکتی اور وہ لغزش چاہتی ہے کہ کوئی تنبیہ نازل ہو اِس میں تمام دنیاشریک ہے پس اِس خواب کے یہی معنی تھے کہ اُن کی کسی لغزش نے دشمن کو گھر میں بلانا چاہا مگر شفاعت نے روک لیا۔میں نے خواب میں عبد الحکیم خان کو گھر کے اندر داخل ہونے سے روک دیا یعنی وہ فضل خدا تعالیٰ کا جو میرے شامل حال ہے اُس نے دشمن کو شماتت کے موقعہ سے باز رکھا۔ غرض جب اس قدر مجھے الہام ہوئے جن سے یقیناًمیرے پر کُھل گیا کہ میر صاحب کے عیال پرکوئی مصیبت درپیش ہے تو میں دعا میں لگ گیا اور وہ اتفاقاً مع اپنے بیٹے اسحاق اور اپنے گھر کے لوگوں کے لاہور جانے کو تھے میں نے اُن کو یہ خوابیں سُنادیں اور لاہور جانے سے روک دیا۔ اور انہوں نے کہا کہ مَیں آپ کی اجازت کے بغیر ہر گز نہیں جاؤں گا جب دوسرے دن کی صبح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 342

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 342

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/342/mode/1up


ہو ؔ ئی تو میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ چڑھ گیا اور سخت گھبراہٹ شروع ہو گئی اور دونوں طرف بُنِ ران میں گلٹیاں نکل آئیں اور یقین ہو گیا کہ طاعون ہے کیونکہ اِس ضلع کے بعض مواضع میں طاعون پھوٹ پڑی ہے تب معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا خوابوں کی تعبیر یہی تھی اور دل میں سخت غم پیدا ہوا اور میں نے میر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا کہ میں تو دعا کرتا ہوں آپ توبہ و استغفار بہت کریں کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ آپ نے دشمن کو اپنے گھر میں بلایا ہے اور یہ کسی لغزش کی طرف اشارہ ہے اور اگرچہ میں جانتا تھا کہ موت فوت قدیم سے ایک قانونِ قدرت ہے لیکن یہ خیال آیا کہ اگر خدانخواستہ ہمارے گھر میں کوئی طاعون سے مر گیا تو ہماری تکذیب میں ایک شور قیامت برپا ہو جائے گا اور پھر گو میں ہزار نشان بھی پیش کروں تب بھی اس اعتراض کے مقابل پر کچھ بھی اُن کا اثر نہیں ہوگا کیونکہ میں صدہا مرتبہ لکھ چکا ہوں اور شائع کر چکا ہوں اور ہزار ہا لوگوں میں بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے گھر کے تمام لوگ طاعون کی موت سے بچے رہیں گے۔ غرض اُس وقت جو کچھ میرے دل کی حالت تھی میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں فی الفور دعا میں مشغول ہو گیا اور بعد دعا کے عجیب نظارۂ قدرت دیکھا کہ دو تین گھنٹہ میں خارق عادت کے طور پر اسحاق کا تپ اُتر گیااور گلٹیوں کا نام و نشان نہ رہا اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ پھرنا۔ چلنا کھیلنا دوڑنا شروع کر دیا گویا کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی۔ یہی ہے احیائے موتی۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ کے احیائے موتی میں اس سے ایک ذرہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ اب لوگ جو چاہیں اُن کے معجزات پر حاشیے چڑھائیں مگر حقیقت یہی تھی۔ جو شخص حقیقی طور پر مر جاتا ہے اور اس دنیا سے گذر جاتا ہے اور ملک الموت اُس کی روح کو قبض کر لیتا ہے وہ ہر گز واپس نہیں آتا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 3۔۱؂

۱۴۴۔ نشان۔ مولوی اسمٰعیل باشندۂ خاص علی گڑھ وہ شخص تھاجو سب سے پہلا عداوت پر کمر بستہ ہوا اور جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ فتح اسلام میں لکھا ہے اُس نے لوگوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 343

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 343

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/343/mode/1up


میںؔ میری نسبت یہ شہرت دی کہ یہ شخص رمل اور نجوم سے پیشگوئیاں بتلاتا ہے اور اُس کے پاس آلات نجوم کے موجود ہیں۔ میں نے اس کی نسبت لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبینکہا اور خدا تعالیٰ کا عذاب اُس کے لئے چاہا جیسا کہ رسالہ فتح اسلام کے لکھنے کے وقت اس کی زندگی میں ہی میں نے یہ شائع کیا تھا اور یہ لکھا تھا تعالوا ندع ابنآء نا وابنآء کُم و نسآئنا و نسآئکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ چنانچہ قریباً ایک برس اس مباہلہ پر گذرا ہوگا کہ وہ یک دفعہ کسی ناگہانی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا اور اُس نے اپنی کتاب میں جو میرے مقابل پر اور میرے ردّ میں شائع کی تھی یہ لکھا تھا کہ جآء الحقّ وزھق الباطل۔ پس خدا نے لوگوں پر ظاہر کر دیا کہ حق کون سا ہے جو

قائم رہا اور باطل کون سا تھا جو بھاگ گیا۔ قریباً سو۱۶لہ برس ہو گئے کہ وہ اس مباہلہ کے بعد

فوت ہوا۔*

۱۴۵۔* نشان۔ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنے رسالہ فتح رحمانی میں جو ۱۳۱۵ھ کو میری مخالفت میں مطبع احمدی لدھیانہ میں چھاپ کر شائع کیا گیا مباہلہ کے رنگ میں میرے پر ایک بددُعا کی تھی جیسا کہ کتاب مذکور کے صفحہ ۲۶ و ۲۷ میں ان کی یہ بد دعا تھی:۔

اَللّٰھُمَّ یاذا الجلال والاکرام یا مالک المُلک جیسا کہ تونے ایک عالم ربّانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحار الانوار کی دعا اور سعی سے اُس مہدی کاذب اور جعلی مسیح کا بیڑا غارت کیا (جو اُن کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا) ویسا ہی دعا اور التجا اِس فقیر قصوری کان اللہ لہٗ سے ہے جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتّی الوسع ساعی ہے کہ تو مرزا قادیانی اور اُس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو اُن کو مورد اِس آیت فرقانی کا بنا۔ فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمدللّٰہ


* مولوی اسمٰعیل نے اپنے ایک رسالہ میں میری موت کے لئے بد دعا کی تھی پھر بعد اس بددعا کے جلد مر گیا اور اس کی بد دعا اُسی پر پڑگئی۔منہ

* مزید تشریح کے لئے دوبارہ لکھا گیا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 344

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 344

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/344/mode/1up


ربّ العالمین انّک علٰی کلّ شَیءٍ قدیرو بالاجابۃ جدیرٌ۔ آمین یعنی جو لوگ ظالم ہیں وہ جڑ سے کاٹے جائیں گے اور خدا کے لئے حمد ہے تو ہر چیز پر قادر ہے اور دعا قبول کرنے والا ہے آمین۔ اور پھر صفحہ ۲۶ کتاب مذکور کے حاشیہ میں مولوی مذکور نے میری نسبت لکھاؔ ہے تَبًّا لَہٗ وَلِاَ تْبَاعِہٖ یعنی وہ اور اُس کے پیرو ہلاک ہو جائیں۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل سے میں اب تک زندہ ہوں اور میرے پیرو اُس زمانہ سے قریباً پچاس حصہ زیادہ ہیں اور ظاہر ہے کہ مولوی غلام دستگیر نے میرے صدق یا کذب کا فیصلہ آیت 33 ۱؂پر چھوڑا تھا جس کے اِس محل پر یہ معنی ہیں کہ جو ظالم ہوگا اُس کی جڑکاٹ دی جائے گی اور یہ امر کسی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آیت ممدوحہ بالا کا مفہوم عام ہے جس کا اُس شخص پر اثر ہوتا ہے جو ظالم ہے پس ضرور تھا کہ ظالم اُس کے اثر سے ہلاک کیا جاتا لہٰذا چونکہ غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی نظر میں ظالم تھا اِس لئے اس قدر بھی اس کو مہلت نہ ملی جو اپنی اس کتاب کی اشاعت کو دیکھ لیتا اس سے پہلے ہی مر گیا اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اِس دعا سے چند روز بعد ہی فوت ہو گیا۔

بعض نادان مولوی لکھتے ہیں کہ غلام دستگیر نے مباہلہ نہیں کیا صرف ظالم پر بد دعا کی تھی مگر میں کہتا ہوں کہ جبکہ اُس نے میرے مرنے کے ساتھ خدا سے فیصلہ* چاہا تھا اور مجھے ظالم قرار دیا تھا تو پھر وہ بد دعا اس پر کیوں پڑ گئی اور خدا نے ایسے نازک وقت میں جبکہ لوگ خدائی فیصلہ کے منتظر تھے غلام دستگیر کو ہی کیوں ہلاک کر دیا اور جبکہ وہ اپنی دعا میں میرا ہلاک ہونا چاہتا تھا تا دنیا پر یہ بات ثابت کر دے کہ جیسا کہ محمد طاہرکی بد دعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک


* غلام دستگیر نے میری نسبت یہ ارادہ کیا تھا کہ اس کی بد دعا سے میں مر جاؤں اور اس بات کا ثبوت ہو کہ میں کاذب اور مفتری ہوں اور محمد طاہر کی طرح غلام دستگیر کی کرامت ثابت ہو۔اور اس طرف میرے خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ انّی مھین من اراد اھانتک یعنی جو شخص تیری اہانت چاہتا ہے میں اُس کو ذلیل کروں گا۔ آخر خدا کے فیصلہ سے غلام دستگیر ہلاک ہو گیا اور میں بفضلہ تعالیٰ اب تک زندہ ہوں اور یہ ایک بزرگ نشان ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 345

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 345

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/345/mode/1up


ہو گیا تھا میری بد دعا سے یہ شخص ہلاک ہو گیا تو اس دعا کا اُلٹا اثر کیوں ہوا یہ تو سچ ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے جھوٹا مہدی اور جھوٹا مسیح ہلاک ہو گیا تھا اور اُسی محمد طاہرکی ریس سے غلام دستگیر نے میرے پر بد دعا کی تھی تو اب یہ سوچنا چاہیے کہ محمد طاہر کی بددعا کا کیا اثر ہوا اور غلام دستگیر کی دعا کا کیا اثر ہوا اور اگر کہو کہ غلام دستگیر اتفاقاً مر گیا تو پھر یہ بھی کہو کہ وہ جھوٹا مہدی بھی اتفاقاً مر گیا تھا محمد طاہر کی کوئی کرامت نہ تھی۔ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

اِس وقت قریباً گیارہ سال غلام دستگیر کے مرنے پر گذر گئے ہیں جو ظالم تھا خدا نے اُس کو ہلاک کیا اور اُس کا گھر ویران کر دیا اب انصافاً کہو کہ کس کی جڑ کاٹی گئی اور کس پر یہ دعا پڑی اللہؔ تعالیٰ فرماتا ہے3 ۔۱؂ یعنی اے نبی تیرے پر یہ بدنہاد دشمن طرح طرح کی گردشیں چاہتے ہیں۔ انہیں پر گردشیں پڑیں گی۔ پس اِس آیت کریمہ کی رُو سے یہ سُنت اللہ ہے کہ جو شخص صادق پر کوئی بد دعا کرتا ہے وہی بد دعا اُس پر پڑتی ہے یہ سنت اللہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ظاہرہے۔ پس اب بتلاؤ کہ غلام دستگیراس بد دعا کے بعد مر گیا ہے یا نہیں۔ لہٰذا بتلاؤ کہ اس میں کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی بد دعا سے تو ایک جھوٹا مسیح مر گیا اور میرے پر بد دعا کرنے والا خود مر گیا۔ خدا نے میری عمر تو بڑھادی کہ گیار۱۱ہ سال سے میں ابتک زندہ ہوں اور غلام دستگیر کو ایک مہینہ کی بھی مہلت نہ دی۔

۱۴۶۔ نشان۔ نواب محمد حیات خان جو ڈویژنل جج تھا کسی فوجداری الزام میں معطل ہو گیا تھا اور کوئی صورت اُس کی رہائی کی نظر نہیں آتی تھی تب اُس نے مجھ سے دعا کی درخواست کی اور میں نے دعا کی تب میرے پر خدا نے ظاہر کیا کہ وہ بری ہو جائے گا اوریہ خبر اُس کو اور بہت سے لوگوں کو قبل از وقت سنا دی گئی جیسا کہ براہین احمدیہ میں مفصل درج ہے آخر وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بَری ہو گیا۔

۱۴۷۔ نشان۔ ایک دفعہ مارچ ۱۹۰۵ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگر خانہ کے مصارف میں بہت دقّت ہوئی کیونکہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اور اس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 346

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 346

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/346/mode/1up


اِس لئے دعاکی گئی۔ ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے آیا اور اُس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا میں نے اُس کا نام پوچھا اس نے کہا نام کچھ نہیں میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا اُس نے کہا میرا نام ہے ٹیچی۔ ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا تب میری آنکھ کھل گئی ۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعہ سے اور کیا براہِ راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں جن کا خیال و گمان نہ تھا اور کئی ہزار روپیہ آگیا چنانچہ جو شخص اس کی تصدیق کے لئے صرف ڈاک خانہ کے رجسٹر ہی ۵؍مارچ ۱۹۰۵ء سے اخیرؔ سال تک دیکھے اُس کو معلوم ہوگا کہ کس قدر روپیہ آیا تھا۔

یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ اکثر جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا اور چیزیں تحائف کے طور پر ہوں اُن کی خبر قبل از وقت بذریعہ الہام یا خواب کے مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشان پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے۔

۱۴۸۔ نشان۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں نعمت اللہ ولی کا وہ قصیدہ دیکھ رہا تھا جس میں اُس نے میرے آنے کی بطور پیشگوئی خبر دی ہے اور میرا نام بھی لکھا ہے اور بتلایا ہے کہ تیرھویں صدی کے اخیر میں وہ مسیح موعود ظاہر ہوگا اور میری نسبت یہ شعر لکھا ہے کہ:

مہدئ وقت و عیسیٰ دَوران

ہر دو را شہسوار می بینم

یعنی وہ آنے والا مہدی بھی ہوگا اور عیسیٰ بھی ہوگا دونوں ناموں کا مصداق ہوگا اور دونوں طور کے دعوے کرے گا۔ پس اِس اثناء میں کہ مَیں یہ شعر پڑھ رہا تھا عین پڑھنے کے وقت مجھے یہ الہام ہوا۔

از پئے آن محمد احسن را

تارکِ روزگار می بینم

یعنی مَیں دیکھتا ہوں کہ مولوی سیّد محمد احسن امروہی اِسی غرض کے لئے اپنی نوکری سے جو ریاست بھوپال میں تھی علیحدہ ہو گئے تا خدا کے مسیح موعود کے پاس حاضر ہوں اور اُس کے دعویٰ کی تائید کے لئے خدمت بجا لاوے اور یہ ایک پیشگوئی تھی جو بعد میں نہایت صفائی سے ظہور میں آئی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 347

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 347

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/347/mode/1up


کیونکہ مولوی صاحب موصوف نے کمر بستہ ہو کر میرے دعویٰ کی تائید میں بہت سی کتابیں تالیف کیں اور لوگوں سے مباحثات کئے اور اب تک اسی کام میں مشغول ہیں خدا اُن کے کام میں برکت دے اور اِس خدمت کا اُن کو اجر بخشے۔ آمین۔

۱۴۹۔ نشان۔ براہین احمدیہ صفحہ ۵۲۲ میں یہ پیشگوئی ہے بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیان برمنارِ بلند ترمحکم اُفتاد۔ اُس زمانہ کو پچیسؔ برس سے بھی زیادہ گذر گیا جب یہ پیشگوئی خدائے عزّ و جلّ کی براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی جس کا یہ مطلب تھا کہ تیرے اقبال کے دن آنے والے ہیں جو دین محمدی کی شان اورعزت کو بڑھائیں گے اور اس زمانہ میں جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں میں ایک زاویۂ گمنامی میں مستور و محجوب تھا اور میرے ساتھ ایک بھی انسان نہ تھا اور نہ کسی کو توقع تھی کہ مجھے یہ مرتبہ ملے گا بلکہ میں خود اس آئندہ شان و شوکت سے محض بے خبر تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میں کچھ بھی نہ تھا بعد میں خدا نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے چُن لیا میں گمنام تھا مجھے شہرت دی اور اس قدر جلد شہرت دی کہ جیسا کہ بجلی ایک طرف سے دوسری طرف اپنی چمکار ظاہرکر دیتی ہے اور میں نادان تھا مجھے اپنی طرف سے علم دیا اور میں کوئی مالی وسعت نہیں رکھتا تھا اُس نے کئی لاکھ روپے کی میرے پر فتوحات کیں اور میں اکیلا تھا اُس نے کئی لاکھ انسان کو میرے تابع کر دیا اور زمین اور آسمان دونوں میں سے میرے لئے نشان ظاہر فرمائے میں نہیں جانتا کہ اُس نے میرے لئے یہ کیوں کیا کیونکہ میں اپنے نفس میں کوئی خوبی نہیں پاتا اور میں شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کے اِس شعر کو حضرت عزّت میں پڑھنا اپنے مناسب حال پاتا ہوں

پسندید گانے بجائے رسند

زِماکہترانت چہ آمد پسند

میرے خدا نے ہر ایک پہلو سے میری مدد کی ہر ایک جو دشمنی کے لئے اُٹھا اُس کو نیچے گرایا۔ ہرایک نے جو سزا دلانے کے لئے عدالتوں میں مجھے کھینچا اُن سب مقدموں میں میرے مولیٰ نے مجھے فتح دی ہر ایک نے جو میرے پر بد دعا کی میرے آقا نے وہ بد دعا اُسی پر ڈال دی جیسا کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 348

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 348

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/348/mode/1up


لیکھرام بد قسمت نے اپنی جھوٹی خوشیوں پر بھروسہ کرکے میری نسبت شائع کیا تھا کہ وہ تین سال کے اندر مع اپنے تمام فرزندوں کے مر جائے گا۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود ہی میری پیشگوئی کے مطابق لاولد مر گیا اور کوئی نسل اُس کی دنیا میں نہ رہی۔ ایسا ہی عبد الحق غزنوی اُٹھا اور اس نے مباہلہ کرکے اپنی بد دعاؤں سے میرا استیصال چاہا سوجس قدر ہرایک پہلو سے مجھے ترقی ہوئی اُس کے مباہلہ کے بعد ہوئی۔ کئی لاکھ انسان تابع ہو گئے کئی لاکھ روپیہ آیا قریباً تمام دنیا میں عزتؔ کے ساتھ میری شہرت ہو گئی یہاں تک کہ غیر ملکوں کے لوگ میری جماعت میں داخل ہوئے اور کئی لڑکے بعد میں پیدا ہوئے مگر عبد الحق منقطع النسل رہاجو مرنے کے حکم میں ہے۔* اور ایک ذرّہ کے برابر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کو برکت نہ ملی اور نہ بعد میں اُس نے کوئی عزت پائی اور 3 کا پورا مصداق ہو گیا پھر مولوی غلام دستگیر قصوری اُٹھا اور اُس کو شوق ہوا کہ محمد طاہر کی طرح میرے پر بد دعا کرکے قوم میں نام حاصل کرے یعنی جس طرح محمد طاہر نے ایک جھوٹے مسیح اور جھوٹے مہدی پربد دعا کی تھی اور وہ ہلاک ہو گیا تھا اسی طرح اپنی بد دُعا سے مجھے ہلاک کرے مگر اس بد دعاکے بعد وہ آپ ہی ایسے جلدی ہلاک ہوا جس کی نظیر نہیں پائی جاتی ۔کوئی مولوی جواب نہیں دیتا کہ یہ کیا راز ہے کہ محمد طاہر نے تو اپنے زمانہ کے جھوٹے مسیح پر بد دعا کرکے اس کو ہلاک کر دیا اور غلام دستگیر اپنے زمانہ کے مسیح پر بد دعا کرکے آپ ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ تو اندرونی نصرت الٰہی ہے بیرونی طور پر خدا تعالیٰ نے وہ رعب مجھے بخشا ہے کہ کوئی پادری میرے مقابل نہیں آسکتا۔ یا تو وہ زمانہ تھا کہ وہ لوگ بازاروں میں چلّا چلّا کر کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور قرآن شریف میں کوئی پیشگوئی نہیں اور یا خدا تعالیٰ نے ایسا اُن پر رعب ڈالا کہ اِس طرف


* عبد الحق غزنوی کو مباہلہ کے بعد میں نے اپنے رسالہ انوار الاسلام میں بار بار مخاطب کرکے لکھا ہے کہ اگر تم اپنی دعا سے مباہلہ کے اثر سے بچ سکتے ہو تو کوشش کرو کہ تمہارے گھر میں کوئی لڑکا پیدا ہو جائے تا تم ابتر نہ رہو جو مباہلہ کا ایک اثر سمجھا جائے گا۔ پس اس قدر تاکید پر ضرور اُس نے مباہلہ کے بعد دعائیں کی ہوں گی آخر ابتر رہاپس اس سے زیادہ اور کیا نشان ہوگا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 349

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 349

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/349/mode/1up


مُنہ نہیں کرتے گویا وہ سب اِس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اور مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر کوئی پادری اس مقابلہ کے لئے میری طرف مُنہ کرے تو خدا اُس کو سخت ذلیل کرے گا اور اُس عذاب میں مبتلا کرے گا جس کی نظیر نہیں ہوگی اور اُس کو طاقت نہیں ہوگی کہ جو کچھ میں دکھلاتا ہوں وہ اپنے فرضی خدا کی طاقت اور قوت سے دکھلا سکے اور میرے لئے خدا آسمان سے بھی نشان برسائے گا اور زمین سے بھی۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ برکت غیر قوموں کو نہیں دی گئی۔ پس کیا روئے زمین میں مشرق سے لے کر مغرب کی انتہا تک کوئی پادری ہے جو خدائی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے۔ ہم نے میدان فتح کر لیا ہے۔ کسی کی مجال نہیں جو ہمارے مقابل پر آوے پس یہ وہی بات ہے جو ؔ خدا تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے بطور پیشگوئی فرمائی ہے بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسیدو پائے محمدیان برمنار بلند تر محکم اوفتاد۔ بخدا کہ ہم محمدی آج بلند مینار پر ہیں اور ہر ایک شخص ہمارے پیروں کے نیچے ہے۔

۱۵۰۔*نشان۔ میری کتاب نور الحق حصہ دوم کے صفحہ ۳۵ سے ۳۸ تک جو طاعون کے پھوٹنے سے پہلے ملک میں شائع کی گئی تھی طاعون کے بارے میں یہ پیشگوئی ہے۔ اعلم انّ اللّٰہ نفث فی روعی ان ھٰذا الخسوف والکسوف فی رمضان اٰیاتان مخوفتان لقوم اتبعوا الشیطان ولئن ابوا فان العذاب قد حان۔ دیکھو صفحہ ۳۵ سے ۳۸ تک رسالہ نور الحق (ترجمہ) خدا نے اپنے الہام کے ساتھ میرے دِل میں پھونکا ہے کہ خسوف کسوف ایک عذاب کا مقدمہ ہے یعنی طاعون کا جو قریب ہے اب برائے خدا وہ میری کتاب یعنی نور الحق حصہ دوم غور سے پڑھو اور دیکھو کہ کس قدر مُدّت دراز طاعون سے پہلے اُس میں طاعون کے آنے کی پیشگوئی موجود ہے۔ کیا انسان کی طاقت ہے کہ اپنی طرف سے ایسی پیشگوئی کرے خدا تعالیٰ فرماتا ہے 33۔۱؂ یعنی غیب کا ایسا دروازہ کسی پر کھولنا کہ گویا وہ غیب پر غالب اور غیب اُس کے قبضہ میں ہے یہ تصرّف علم غیب میں بجز خدا کے برگزیدہ رسولوں کے اور کسی کو


* مزید تشریح کے لئے دوبارہ لکھا گیا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 350

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 350

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/350/mode/1up


نہیں دیاجاتا کہ کیا باعتبار کیفیّت اور کیا باعتبار کمیّت غیب کے دروازے اُس پر کھولے جائیں ہاں شاذو نادر کے طورپر عام لوگوں کو کوئی سچی خواب آسکتی ہے یا سچا الہام ہو سکتا ہے اور وہ بھی تاریکی سے خالی نہیں ہوتا مگر غیب کے دروازے اُن پر نہیں کھلتے یہ موہبت محض خدا کے برگزیدہ رسولوں کے لئے ہوتی ہے۔

۱۵۱۔ نشان۔ جب میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ تصنیف کی جو میری پہلی تصنیف ہے تو مجھے یہ مشکل پیش آئی کہ اُس کی چھپوائی کے لئے کچھ روپیہ نہ تھا اور میں ایک گمنام آدمی تھا مجھے کسی سے تعارف نہ تھا تب میں نے خدا تعالیٰ کی جناب میں دعا کی تو یہ الہام ہوا ھزّ الیک بجذؔ ع النخلۃ۔ تساقط علیک رطبًا جنیّا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۶۔ (ترجمہ) کھجور کے تنہ کو ہلا تیرے پر تازہ بتازہ کھجوریں گریں گی۔ چنانچہ میں نے اِس حکم پر عمل کرنے کے لئے سب سے اول خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ کی طرف خط لکھا پس خدا نے جیسا کہ اُس نے وعدہ کیا تھا اُن کو میری طرف مائل کر دیا اور انہوں نے بلاتوقف اڈھائی سو روپیہ بھیج دیا اور پھر دوسری دفعہ اڈھائی سو روپیہ دیا اور چند اور آدمیوں نے روپیہ کی مدد کی اور اس طرح پر وہ کتاب باوجود نو میدی کے چھپ گئی اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ یہ واقعات ایسے ہیں کہ صرف ایک دو آدمی ان کے گواہ نہیں بلکہ ایک جماعت کثیر گواہ ہے جس میں ہندو بھی ہیں۔ اِس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ وحی الٰہی کہ ھزّ الیک بجذع النخلۃ۔ یہ حضرت مریم* کو قرآن شریف میں خطاب ہے جب


* متنِ کتاب ہٰذا میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ کتاب براہین احمدیہ میں اول خدا نے میرا نام مریم رکھا اور پھر فرمایا کہ مَیں نے اِس مریم میں صدق کی رُوح پھونکنے کے بعد اس کا نام عیسیٰ رکھ دیاگویا مریمی حالت سے عیسیٰ پیدا ہو گیا اور اس طرح میں خدا کے کلام میں ابن مریم کہلایا۔ اِس بارہ میں قرآن شریف میں بھی ایک اشارہ ہے اور وہ میرے لئے بطور پیشگوئی کے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اِس اُمّت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسیٰ سے حاملہ ہو گئی اور اب ظاہر ہے کہ اس اُمّت میں بجُز میرے کسی نے اِس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا اور پھر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 351

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 351

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/351/mode/1up


لڑکا پیدا ہونے سے وہ بہت کمزور ہو گئی تھیں اور غذا کے لئے خدا تعالیٰ کی مدد کی محتاج تھیں۔ اِسی طرح براہین احمدیہ میرے لئے بطور بچہ کے تھی جو پیدا ہوا۔ اور یہ بات ہرایک جانتا ہے کہ تالیفات کی نسبت یہ عام محاورہ ہے کہ ان کو نتائج طبع کہتے ہیں۔ یعنی طبع زاد بچے ۔ اور جبکہ براہین احمدیہ میرا بچہ ٹھہرا جو پیدا ہوا تو اُس کے پیدا ؔ ہونے کے وقت میں بھی اپنی مالی حالت میں کمزور تھا جیسا کہ مریم کمزور تھی اور اپنے طور پر اس بچہ کی پرورش کے لئے یعنی اس کے طبع کے لئے غذا حاصل نہیں کر سکتا تھا تو مجھے بھی مریم کی طرح یہی حکم ہوا کہ ھزّ الیک بجذع النخلۃ پس اس پیشگوئی کے مطابق سرمایہ کتاب اکٹھا ہو گیا اور پیشگوئی پوری ہو گئی اور اس روپیہ کا آنا بالکل غیر متوقع تھا کیونکہ میں گمنام تھا اور یہ میری پہلی تالیف تھی اور یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ


اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی ہے اور خدا کا کلام باطل نہیں ضرور ہے کہ اس اُمّت میں کوئی اس کا مصداؔ ق ہو۔ اور خوب غور کرکے دیکھ لو اور دنیا میں تلاش کر لو کہ قرآن شریف کی اس آیت کا بجُز میرے کوئی دنیا میں مصداق نہیں۔ پس یہ پیشگوئی سورہ تحریم میں خاص میرے لئے ہے اور وہ آیت یہ ہے 333 ۱؂ دیکھو سورۃ تحریم الجزو نمبر ۲۸ (ترجمہ) اوردوسری مثال اس اُمّت کے افرادکی مریم عمران کی بیٹی ہے جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا تب ہم نے اُس کے پیٹ میں اپنی قدرت سے روح پھونک دی یعنی عیسیٰ کی روح۔ اب ظاہر ہے کہ بموجب اس آیت کے اس اُ مّت کی مریم کو پہلی مریم کے ساتھ تب مشابہت پیدا ہوتی ہے کہ اس میں بھی عیسیٰ کی روح پھونک دی جائے جیسا کہ خدا نے خود روح پھونکنے کا ذکر بھی اِس آیت میں فرما دیا ہے اور ضرور ہے کہ خدا کا کلام پورا ہو۔پس اِس تمام اُمّت میں وہ میں ہی ہوں میرا ہی نام خدا نے براہین احمدیہ میں پہلے مریم رکھا اور بعد اس کے میری ہی نسبت یہ کہا کہ ہم نے اس مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور پھر روح پھونکنے کے بعد مجھے ہی عیسیٰ قرار دیا۔ پس اِس آیت کا میں ہی مصداق ہوں۔ میرے سوا تیرہ۱۳۰۰ سو برس میں کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی جس سے مَیں عیسیٰ بن گیا۔ خدا سے ڈرواور اِس میں غور کرو جس زمانہ میں خدا نے براہین احمدیہ میں یہ فرمایا اُسوقت تو میں اِس دقیقہ معرفت سے خود بے خبر تھا جیسا کہ میں نے براہین احمدیہ میں اپنا عقیدہ بھی ظاہرکر دیا کہ عیسیٰ آسمان سے آنیوالا ہے۔ یہ میرا عقیدہ اِس بات پر گواہ ہے کہ میری طرف سے کوئی افترا نہیں اور میں خدا کی تفہیم سے پہلے کچھ نہیں سمجھ سکا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 352

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 352

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/352/mode/1up


میں ؔ مجھے عیسیٰ کے نام سے موسوم کرنے سے پہلے میرا نام مریم رکھا اور ایک مدّت تک میرا نام خدا کے نزدیک یہی رہا اور پھر خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اے مریم میں نے تجھ میں سچائی کی رُوح پھونک دی گویا یہ مریم سچائی کی روح سے حاملہ ہوئی اور پھر خدا نے براہین احمدیہ کے اخیر میں میرا نام عیسیٰ رکھ دیاگویا وہ سچائی کی روح جو مریم میں پھونکی گئی تھی ظہور میںآکر عیسیٰ کے نام سے موسوم ہو گئی۔ پس اِس طرح پر مَیں خدا کی کلام میں ابن مریم کہلایا اور یہی معنی اِس وحی الٰہی کے ہیں کہ الحمدللّٰہ الذی جعلک المسیح ابن مریم۔

آنکہ گوید ابن مریم چون شدی ہست او غافل زِ رازِ ایزدی

آن خدائے قادر و ربّ العبا د در براھین نام من مریم نہاد

مدّتے بودم برنگِ مریمی دست نادادہ بہ پیرانِ زِمی

ہمچو بکرے یافتم نشو و نما از رفیق راہ حق نا آشنا

بعد ازان آن قادر و ربّ مجید رُوح عیسیٰ اندران مریم دمید

پس بہ نفخش رنگ دیگر شد عیان زاد زان مریم مسیح این زمان

زین سبب شدابن مریم نام من زانکہ مریم بود اوّل گام من

بعد ازان ازنفخِ حق عیسیٰ شدم شد زِ جائے مریمی بر تر قدم

این ہمہ گفت است ربّ العالمین گرنمی دانی براہین راببیں

حکمتِ حق رازہا دارد بسے نکتۂ مستور کم فہمد کسے

فہم را فیضانِ حق باید نخست کاربے فیضان نمی آید درست

گرنداری فیضِ رحمان را پناہ ظلمتے در ہر قدم داری براہ

فیضِ حق را با تضرّع کن تلاش ہان مَروچوں تو سنے آہستہ باش

اے پأ تکفیرمابستہ کمر خانہ ات ویران تُو در فکرِ دگر

صدہزاران کفر در جانت نہان روچہ نالی بہرِ کفرِ دیگران



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 353

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 353

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/353/mode/1up


خیزؔ و اوّل خویشتن راکُن درست نکتہ چین راچشم می باید نخست

*** گر لعنتے برماکند او نہ برما خویش را رُسوا کند

***ِ اہل جفا آسان بود *** آن باشد کہ از رحمان بود

۱۵۲۔ نشان۔ خدا تعالیٰ نے ایک عام طور پر مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ انّی مھینٌ من اراد اھانتک یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت کا ارادہ کرے گا صدہا دشمن اِس پیشگوئی کے مصداق ہو گئے ہیں اِس رسالہ میں مفصل لکھنے کی گنجائش نہیں۔ اُن میں سے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میری نسبت یہ کہا کہ یہ مفتری ہے طاعون سے ہلاک ہوگا خدا کی قدرت کہ وہ خود طاعون سے ہلاک ہو گئے اور اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اپنا یہ الہام پیش کرتے تھے کہ ہمیں خدا نے بتلایا ہے کہ یہ شخص جلدمر جائے گا خدا کی شان کہ وہ اپنے ایسے الہاموں کے بعد خود جلد مر گئے اور بعض نے میرے پر بد دعائیں کی تھیں کہ وہ جلد ہلاک ہو جائے وہ خود جلدہلاک ہو گئے مولوی محی الدین لکھوکے والے کا الہام لوگوں کویاد ہوگا جنہوں نے مجھے کافر ٹھہرایا اور فرعون سے تشبیہ دی اور میرے پر عذاب نازل ہونے کی نسبت الہام شائع کئے آخر آپ ہی ہلاک ہو گئے اور کئی سال ہو گئے کہ وہ اِس دنیا سے گذر گئے ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری بھی مجھے گالیاں دینے میں حد سے بڑھ گیا تھا جس نے مکہ سے میرے پر کفر کے فتوے منگوائے تھے وہ بھی بیٹھے اُٹھتے میرے پر بد دعا کرتا تھا اور *** اللّٰہ علی الکاذبین اُس کا وِرد تھا اور اِسی پر بس نہیں کی بلکہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اُس کو بھی شوق آیا کہ شیخ محمد طاہر صاحب مجمع البحار کی طرح میرے پر بد دعا کرے تا اس کی بھی کرامت ثابت ہو کیونکہ صاحب مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افترا کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور چونکہ وہ ناراستی پر تھے اِس لئے خدا تعالیٰ نے محمد طاہر کی دعا منظور کرکے اُن کو محمد طاہر کی زندگی میں ہی ہلاک کر دیا پس اِس قصہ کو پڑھ کر غلام دستگیر کو بھی شوق اُٹھا کہ آؤ میں بھی اس جھوٹے مسیح اور جھوٹے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 354

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 354

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/354/mode/1up


مہدؔ ی پر دعا کروں تا اس کی موت سے میری کرامت بھی ثابت ہو مگر اس کو شیخ سعدی کا یہ شعر یاد نہ رہا

ہر بیشہ گماں مبرکہ خالی است شائد کہ پلنگ خفتہ باشد

اگر میں جھوٹا ہوتا تو بے شک ایسی دعا سے کہ جو نہایت توجہ اور دردِ دل سے کی گئی تھی ضرور ہلاک ہو جاتا اور میاں غلام دستگیر محمد طاہر ثانی سمجھا جاتالیکن چونکہ میں صادق تھا اِس لئے غلام دستگیر خدا تعالیٰ کی وحی انّی مھینٌ من اراد اھانتک کا شکار ہو گیا اور وہ دائمی ذلّت جو میرے لئے اُس نے چاہی تھی اُسی پر پڑ گئی۔

اگر کوئی مولوی خدا سے ڈرنے والا ہو تو اِس ایک ہی مقام سے اُس کا پردہ غفلت کا دور ہو سکتا ہے ہر ایک طالبِ حق پر لازم ہے کہ اِس بات کو سوچے کہ یہ کیا بھید ہے کہ محمد طاہر کی دعا سے تو جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی ہلاک ہو گیا اور جب میاں غلام دستگیر نے اس کی ریس کرکے بلکہ مشابہت ظاہر کرنے کے لئے اپنی کتاب فتح رحمانی میں اس کا ذکر بھی کرکے میرے پر بد دعا کی اور بد دعا کرنے کے وقت اپنی اسی کتاب میں میری نسبت یہ لفظ لکھا تَبًّا لہٗ وَلاتبا عِہٖ جس کے یہ معنی ہیں کہ میں اور میرے پیرو سب ہلاک ہو جائیں تب وہ چند ہفتہ کے اندر آپ ہی ہلاک ہو گیا اور جس ذلّت کو میری موت مانگ کر میرے لئے چاہتا تھا وہ داغ ذلّت ہمیشہ کے لئے اُسی کو نصیب ہو گیا کوئی صاحب مجھے جواب دیں کہ کیا یہ اتفاقی امر ہے یا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ظہور میں آیا مَیں اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہوں مگر غلام دستگیر کے مَرنے پر گیارہ برس سے زیادہ گذر گئے اب آپ لوگوں کا کیا خیال ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کو محمد طاہر کے زمانہ کا جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی بُرا معلوم ہوتا تھا اور اُس سے خدا دشمنی رکھتا تھا مگر غلام دستگیر کے زمانہ میں جو جھوٹا مسیح پیدا ہوا اُس کو خدا تعالیٰ نے محبت کی نظر سے دیکھا اور اُس کو عزت دی کہ غلام دستگیر کو اُس کے سامنے ہلاک کر دیا اور غلام دستگیر کی بد دعا کو اُسی کے مُنہ پر مار کر اُسی کو موت کا پیالہ پلا دیا اور قیامت تک یہ داغِ ذلّت اس پر رکھا۔ اگر میں غلام دستگیر کی بد دعا سے مر جاتا اور غلام دستگیر اب تک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 355

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 355

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/355/mode/1up


زندؔ ہ رہتا تو کیا میرے دشمن بلکہ دین اسلام کے دشمن دنیا میں ہزاروں اشتہار جاری کرکے شور قیامت نہ مچا دیتے اور کیا میرا جھوٹا ہونا نقارہ کی چوٹ سے مشہور نہ کیا جاتا؟ تو پھر اب کیوں بزرگان قوم خاموش ہیں کیا ان لوگوں کی یہی تقویٰ ہے اور یہ کہنا کہ یہ مباہلہ نہیں۔ فرض کیا کہ یہ مباہلہ نہیں مگر محمد طاہر کی ریس کرکے بد دعا تو ہے جس کے مقابل میرا الہام ہے کہ انّی مھینٌ من اراد اھانتک پس یہ کیا ہوا کہ اس بد دعا سے میرا تو کچھ نہ بگڑا مگر

خدا تعالیٰ کے الہام انّی مھینٌ من اراد اھانتک نے کھلا کھلا اثر دکھا دیا اور اسی بد دعا کو بموجب آیت3 ۱؂ غلام دستگیر پر نازل کر دیا۔ اور جو شخص محمد طاہر کا ثانی بننا چاہتا تھا اس کو خدا نے جھوٹے مسیح کا ثانی بنا دیا اور اُس کے مرنے کے بعد میرے پر برکت پر برکت نازل کی گئی۔ کئی لاکھ انسان مُرید ہو گئے اور اس کی وفات کے بعد تین بیٹے پیدا ہوئے اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور قریباً تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ خدا نے مجھے مشہور کر دیا۔ شاید ہمارے مخالف اب یہ کہیں گے کہ وہ جھوٹا مسیح اور جھوٹا مہدی جو محمد طاہرکی بد دعا سے مر گیا تھا وہ بھی ایک اتفاقی موت تھی محمد طاہر کی دعا کا اثر نہ تھا پس ایسی باتوں کا ہم کہاں تک جواب دے سکتے ہیں چاہیں تو وہ دہریہ بن جائیں اور یہ کہہ دیں کہ غلام دستگیر کی موت بھی اتفاقی ہے ظاہرً اعلامات تو یہی معلوم ہوتی ہیں۔

کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال

دل میں اُٹھتا ہے میرے سو سو اُبال

اِس قدر کین و تعصّب بڑھ گیا

جس سے کچھ ایماں جو تھا وہ سڑگیا

کیا یہی تقوےٰ یہی اسلام تھا

جس کے باعث سے تمہارا نام تھا

غرض خدا کا یہ الہام کہ انّی مھینٌ من اراد اھانتک صدہا جگہ پر بڑے زور سے ظاہر ہوا اور ظاہر ہو رہا ہے اِس میں کیا بھید ہے کہ وہ قادر اس قدر میری حمایت کرتا ہے یہی بھید ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ اُس کا محب ضائع ہو۔

چہ شیرین منظری اے دِلستانم

چہ شیرین خصلتی اے جانِ جانم


* یہاں سہو واقع ہوا ہے اعجاز احمدی کی بجائے اعجاز المسیح درست ہے کیونکہ مولوی محمد حسن نے اعجاز المسیح کے حاشیہ پرہی *** اللہ علی الکاذبین لکھا تھا۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 356

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 356

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/356/mode/1up


چو دؔ یدم رُوئے تو دل در تو بستم

نماندہ غیر تو اندر جہانم

تواں برداشتن دست از دو عالم

مگر ہجرت بسوزد استخوانم

در آتش تن بآسانی توان داد

زہجرت جان رود باصد فغانم

۱۵۳۔ نشان۔ مولوی محمد حسن بھیں والے نے میری کتاب اعجاز احمدی* کے حاشیہ پر *** اللہ علی الکاذبین لکھ کر اپنے تئیں مباہلہ کے پیچ میں ڈال دیا چنانچہ اس تحریر پر ایک سال بھی نہیں گذرا تھا کہ بڑے دُکھ کے ساتھ اِس جہان سے گذر گیا اور جو اناں مرگ موت ہوئی اُسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مباہلہ ہمارے پاس موجود ہے جو چاہے دیکھ لے

۱۵۴۔ نشان۔ پیر مہر علی شاہ گولڑی نے اپنی کتاب سیف چشتیائی میں مجھے چورکہا تھا یعنی اُس کے خیال میں مَیں نے دوسروں کی کتابوں کا مضمون چُرا کر لکھا ہے اِس افترا کی خدا نے اُس کو یہ سزا دی کہ عدالت میں کرم دین کے مقدمہ میں وہ خود محمد حسن بھیں کے نوٹوں کا چور ثابت ہوا چنانچہ عدالت میں اِس بارہ میں حلفی شہادتیں گذر گئیں تب اس پر بھی الہام اِنّی مہینٌ من اراد اہانتک پورا ہو کر خدا تعالیٰ کا نشان ظاہر ہوا۔

۱۵۵۔نشان۔ خدا تعالیٰ کا یہ بھی ایک نشان تھا کہ اُس نے ۱۸۸۲ء کے بعد باقی حصہ براہین احمدیہ کا تیئیس۲۳ برس کی مُدّت تک چَھپنے سے روک دیا تا اُس کا یہ کلام پورا ہو کہ میں براہین احمدیہ کو بطور نشان کے بناؤں گا کیونکہ اس میں بہت سی ایسی پیشگوئیاں تھیں جو ابھی اُن کا پورا ہونا معرض انتظار میں تھا اور اس میں میری نسبت ایسے وعدے تھے جو ابھی ظہور میں نہیں آئے تھے اور ضرور تھا کہ اُن تمام نشانوں اور تمام وعدوں کا اُسی کتاب میں پورا ہونا دکھلایا جاتا تاکتاب براہین احمدیہ اسم بامسمّٰی ہو جاتی۔ اگر اُن پیشگوئیوں کے پورا ہونے سے پہلے براہین احمدیہ ختم ہو جاتی تو وہ ایک ناقص کتاب ہوتی اِس لئے خدانے جس کے تمام کام حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں یہ چاہا کہ اس وقت تک براہین احمدیہ کے باقی حصہ کا چھپنا اور شائع



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 357

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 357

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/357/mode/1up


روکؔ دیا جائے جب تک کہ وہ پیشگوئیاں پوری ہوجائیں جو براہین احمدیہ میں لکھی گئی ہیں کیونکہ وہ کتاب جیسا کہ اس کا نام براہین احمدیہ ہے اِس لئے تالیف کی گئی ہے کہ تاجو اسلام کی براہین ہیں وہ ظاہر کرے اور براہین میں سے سب سے بڑھ کر آسمانی نشان ہیں جن میں انسانی طاقت کا کچھ بھی دخل نہیں سو ضرور تھا کہ اس میں اس قدر آسمانی نشان لکھے جاتے کہ دشمن پر اتمام حجت کرنے کے لئے کافی ہوتے جیسا کہ براہین احمدیہ میں یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ اس میں تین سونشان لکھے جائیں گے سو خدا نے چاہا کہ وہ باتیں پوری ہوں اگرچہ مخالف لوگ اپنی جہالت سے شور ڈالتے رہے اور میرے پریہ افتراء کیاکہ گویا میں نے بد نیتی سے لوگوں کا روپیہ قیمت ہضم کرنے کے لئے براہین احمدیہ کا چھپنا آئندہ ہمیشہ کے لئے بندکر دیا ہے لیکن براہین احمدیہ کی تاخیر طبع میں یہی حکمت تھی جو مَیں نے بیان کی اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی عقلمند اس سے انکار نہیں کرے گا مگر وہی لوگ جن کو دین و دیانت سے سروکار نہیں۔ 3 ۱؂ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3333 ۲؂ یعنی کافر کہتے ہیں کہ کیوں قرآن ایک مرتبہ ہی نازل نہ ہوا ایسا ہی چاہیئے تھا۔ تا وقتاً فوقتاً ہم تیرے دل کو تسلی دیتے رہیں اور تا وہ معارف اور علوم جو وقت سے وابستہ ہیں اپنے وقت پر ہی ظاہر ہوں کیونکہ قبل از وقت کسی بات کا سمجھنا مشکل ہو جاتاہے سو اِس مصلحت سے خدانے قرآن شریف کو تیئیس برس تک نازل کیا تا اُس مُدّت تک موعود ہ نشان بھی ظاہر ہو جائیں سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کتاب براہین احمدیہ کی تاخیر پر ابھی تیئیسواں برس ختم نہیں ہوگا کہ اس کا پانچواں حصہ ملک میں شائع ہو جائے گا اور خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں تیئیس برس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کیونکہ وہ خدا فرماتا ہے۔ یا احمد بارک اللّٰہ فیک۔ الرحمٰن علم القرآن۔ لتنذر قومًا ما انذر آباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین۔ قل انّی امرت و انا اوّل المؤمنین۔ اے احمد (یہ ظلّی طور پر اس عاجز کا نام ہے) خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی وہ خدائے رحمان جس نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 358

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 358

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/358/mode/1up


تجھےؔ قرآن سکھلایا ہے یعنی اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کا تیرے پر بارمنّت نہیں خدا تیرا معلّم ہے اور خدا نے تجھے اِس لئے قرآن سکھلایا کہ تا تو اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا خدا کی حجت پوری ہو جاوے اور مجرموں کی راہ کھل جائے اِن کو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور سب سے پہلے اس بات پر ایمان لانے والا مَیں ہوں۔ اور چونکہ پہلے اِس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تعلیم قرآن تیئیس برس تک ختم ہوئی اِس لئے ضروری تھا کہ اب بھی اُس مشابہت کو دکھلانے کے لئے تیئیس برس ہی تعلیم قرآن کی مُدّت مقرر کی جاتی تاوہ سب نشان ظاہر ہو جائیں جن کا وعدہ دیا گیا تھا رومی صاحب نے بھی اِسی بارہ میں فرمایا ہے۔

مُدّتے ایں مثنوی تاخیر شد

سالہا بائیست تاخون شیر شد

۱۵۶۔نشان۔یہ نشان پہلے اِس سے میں نے اپنے رسالہ تذکرۃ الشہادتین کے اخیر میں لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو میں نے ارادہ کیا تھا کہ صاحبزادہ عبد اللطیف اور شیخ عبدالرحمن صاحب کی شہادت کے بارہ میں جو نہایت ظلم سے قتل کئے گئے ایک رسالہ لکھوں جس کا نام تذکرۃ الشہادتین تجویز کیا تھا لیکن اتفاقاً مجھے درد گردہ شروع ہو گیا اور میرا ارادہ تھا کہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء تک وہ رسالہ ختم کر لوں کیونکہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ایک فوجداری مقدمہ کے لئے جو ایک مخالف کی طرف سے میرے پر دائر تھا گورداسپور میں جانا ضروری تھا تب میں نے جنا ب الٰہی میں دعا کی کہ یا الٰہی میں شہید مرحوم عبد اللطیف کے لئے رسالہ لکھنا چاہتا ہوں اور درد گردہ شروع ہو گئی ہے مجھے شفا بخش اور اِس سے پہلے مجھے ایک دفعہ دس۱۰ دن برابر درد گردہ رہی تھی اور میں اس سے قریب موت ہو گیا تھا۔ اب کی دفعہ بھی وہی خوف دامنگیر ہو گیا میں نے اپنے گھر کے لوگوں کو کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو تب میں نے اپنی شفا کے لئے اس سخت دردکی حالت میں دعا کی اور انہوں نے آمین کہی پس میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی قسم ہر ایک گواہی سے زیادہ اعتبار



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 359

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 359

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/359/mode/1up


کےؔ لائق ہے کہ ابھی میں نے دعا تمام نہیں کی تھی کہ میرے پر غنودگی طاری ہوئی اور الہام ہوا سَلامٌ قَولًا من ربّ رحیم مَیں نے اُسی وقت یہ الہام اپنے گھر کے لوگوں اور اُن سب کو جو حاضر تھے سُنادیا۔ اور خدائے علیم جانتا ہے کہ صبح کے چھ۶ بجے سے پہلے میں بکلّی صحت یاب ہو گیا اور اُسی دن میں نے آدھی کتاب تصنیف کر لی فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ دیکھو تذکرۃ الشہادتین کا حصہ اخیر۔

۱۵۷۔ نشان۔ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کی شہادت بھی میری سچائی پر ایک نشان ہے کیونکہ جب سے خدا نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص دیدہ ودانستہ ایک جھوٹے مکّار مفتری کے لئے اپنی جان دے اور اپنی بیوی کو بیوہ ہونے کی مصیبت میں ڈالے اور اپنے بچوں کا یتیم ہونا پسند کرے اور اپنے لئے سنگساری کی موت قبول کرے یوں تو صدہا آدمی ظلم کے طور پر قتل کئے جاتے ہیں مگر مَیں جو اِس جگہ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی شہادت کو ایک عظیم الشان نشان قرار دیتا ہوں وہ اِس وجہ سے نہیں کہ ظلم سے قتل کئے گئے اور شہید کئے گئے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ شہید ہونے کے وقت انہوں نے وہ استقامت دکھائی کہ اس سے بڑھ کر کوئی کرامت نہیں ہو سکتی۔ ان کو تین مرتبہ امیر نے مختلف وقتوں میں نرمی سے سمجھایا کہ جو شخص قادیان میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُس کی بیعت توڑ دو تو آپ کو چھوڑ دیا جائے گا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزّت ہوگی ورنہ سنگسار کئے جاؤگے۔ اُنہوں نے ہر ایک مرتبہ میں یہی جواب دیا کہ میں اہل علم ہوں اور زمانہ دیدہ ہوں میں نے بصیرت کی راہ سے بیعت کی ہے میں اس کو تمام دنیا سے بہتر سمجھتا ہوں ۔اور کئی دن اُن کو حراست میں رکھا گیا اور سخت دُکھ دیا گیا اور ایک بھارا زنجیر ڈالا گیا جو سر سے پاؤں تک تھا۔ اور بار بار سمجھایا اور ترکِ بیعت پر عزّت افزائی کا وعدہ کیا کیونکہ ان کو ریاست کابل سے پُرانے تعلقات تھے اور ریاست میں اُن کے حقوق خدمات تھے مگر انہوں نے بار بار



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 360

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 360

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/360/mode/1up


کہاؔ کہ میں دیوانہ نہیں میں نے حق پالیا ہے۔ میں نے بخوبی دیکھ لیا ہے کہ مسیح آنے والا یہی ہے جس کے ہاتھ پر میںنے بیعت کی ہے۔ تب نومید ہو کر ناک میں اُن کے رسی ڈال کر پابہ زنجیر سنگساری کے میدان میں لے گئے اور سنگسار کرنے سے پہلے پھرا میرنے اُن کو سمجھا یا کہ اب بھی وقت ہے آپ بیعت توڑ دیں اور انکار کر دیں۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ ہر گز نہیں ہوگا اب میرا وقت قریب ہے۔ میں دنیا کی زندگی کو دین پر ہر گز مقدم نہیں کروں گا۔ کہتے ہیں کہ اُن کی اِس استقامت کو دیکھ کر صدہا آدمیوں کے بدن پر لرزہ پڑ گیا اور اُن کے دل کانپ اُٹھے کہ یہ کیسا مضبوط ایمان ہے ایسا ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور بہتوں نے کہا کہ اگر وہ شخص جس سے بیعت کی گئی ہے خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو صاحبزادہ عبد اللطیف یہ استقامت ہر گز دکھلانہ سکتا۔ تب اس مظلوم کو پتھروں کے ساتھ شہید کیا گیا اور اُس نے آہ نہ کی اور چالیس۴۰ دن اُن کی لاش پتھروں میں پڑی رہی اور آخری مقولہ اُن کا یہ تھا کہ میں چھ۶ دن سے زیادہ مُردہ نہیں رہوں گا تب امیر نے ان کی سنگساری کی جگہ پر ایک پہرہ بٹھا دیا کہ شاید یہ بھی فریب ہوگا مگراس مقولہ سے ان کی مُراد یہ تھی کہ چھ۶ دن تک میری روح ایک نئے جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائی جائے گی۔

اب ایمان اور انصاف سے سوچنا چاہئے کہ جس سلسلہ کا تمام مدار مکر اور فریب اور جھوٹ اور افترا پر ہو کیا اس سلسلہ کے لوگ ایسی استقامت اور شجاعت دکھلا سکتے ہیں ؟کہ اس راہ میں پتھروں سے کچلا جانا قبول کریں اور اپنے بچوں اور بیوی کی کچھ بھی پروا نہ کریں اور ایسی مردانگی کے ساتھ جان دیں اور بار بار رہائی کا وعدہ بشرط فسخ بیعت دیا جاوے مگر اِس راہ کو نہ چھوڑیں۔ اِسی طرح شیخ عبد الرحمن بھی کابل میں ذبح کیا گیا اور دم نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں بیعت کو توڑتا ہوں اور یہی سچے مذہب اور سچے امام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اس کی پوری معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور ایمانی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے۔ ہاں جو سطحی ایمان رکھتے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 361

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 361

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/361/mode/1up


ہیںؔ اور اُن کے رگ وریشہ میں ایمان داخل نہیں ہوتا وہ یہودا اسکر یوطی کی طرح تھوڑے سے لالچ سے مُرتد ہو سکتے ہیں ایسے ناپاک مُرتدوں کے بھی ہر ایک نبی کے وقت میں بہت نمونے ہیں سو خدا کا شکر ہے کہ مخلصین کی ایک بھاری جماعت میرے ساتھ اور ہر ایک اُن میں سے میرے لئے ایک نشان ہے یہ میرے خدا کا فضل ہے۔ ربّ انّک جَنّتی و رحمتک جُنّتی واٰیاتک غذائی وفضلک ردائی۔

قَصِیْدۃ مِنَ المؤلّف

اِنّی مِنَ الرَّحْمٰن عبد مُکْرَم

سمّ معاداتی وسِلمی اَسْلم

میں رحمن کی طرف سے ایک بندہ عزت دیا گیاہوں

میری دشمنی زہر ہے اور مجھ سے صلح سلامتی بخشنے والی ہے

انّی انا البُستان بُستان الھُدیٰ

انّی صدوق مصلح متردم

میں وہ باغ ہوں جو ہدایت کا باغ ہے

میں راست گو اور مصلح ہوں اور اصلاح کرنے والا ہوں

من فرّ منی فرّمن ربّ الوریٰ

انّی انا النھج السلیم الاقوم

جو شخص مجھ سے بھاگا وہ خدا سے بھاگا

میں سلامتی کی راہ اور سیدھی راہ ہوں

روحی لتقدیس العلیّ حمامۃ

اوعند لیب غارد مترنم

میری روح خدا کی تقدیس کے لئے ایک کبوتری ہے

یا ایک بلبل ہے جو خوش آواز سے بول رہی ہے

ما جئتکم فی غیروقت عابثا

قد جئتکم والوقت لیل مُظلم

میں تمہارے پاس بے وقت بطور لہو و لعب کے نہیں آیا

میں اُس وقت آیا جب کہ زمانہ رات کی طرح تھا

یا ایّھا الناس اترکوا اھواء کم

توبوا وانّ اللّٰہ ربّ ارحم

اے لوگو اپنی حرص و ہوا کو چھوڑ دو

توبہ کرو اور خدا غفور و رحیم ہے

ربٌّ کریم غافر لمن اتقٰی

طوبٰی لمن بعد المعاصی یندم

رب کریم ہے وہ ڈرنے والے کو بخش دیتا ہے

کیا خوش نصیب وہ شخص ہے جو گناہ کے بعد پچھتا تاہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 362

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 362

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/362/mode/1up


یا ؔ ایّھا النّاس اذکروا اٰجالکم

ان المنایا لا تُردّ و تھجم

اے لوگو اپنی موتوں کو یاد کرو

جب موتیں آتی ہیں تو واپس نہیں ہوتیں اور ناگاہ پکڑ لیتی ہیں

یا لا ئمیْ انّ المکارم کلّھا

فی الصدق فاسلک نہج صدقٍ ترحم

اے میرے ملامت کرنے والے تمام بزرگیاں

صدق میں ہیں پس صدق اختیار کر۔ سلامت رہے گا

السعی للتوھین امرٌ باطل

اِنَّ الْمُقَرّبُ لا یُھَانُ ویُکرم

توہین کے لئے کوشش کرنا باطل ہے

جو شخص خدا کا مقرب ہوتا ہے خدا اُس کو ذلیل نہیں کرتا

جاء تک اٰیاتی فانت تُکذِّبُ

شاھدتَ سلطانی فانت تحکّم

میرے نشان تیرے پاس آئے سو تو تکذیب کرتا ہے

اور میرے برہان تونے مشاہدہ کئے اور پھر تو تحکّم کرتا ہے

ھل جائک الابراء من ربّ الوریٰ

ام ھل رئیت العیش لَا یتصرم

کیا بَری ہونے کی خبر خدا تعالیٰ سے تجھے پہنچ گئی

یا تُونے دیکھ لیا کہ تیری زندگی کبھی منقطع نہیں ہوگی

ان کنت ازمعت النّضال فانّنا

نأتی کما یأتی لصیدٍ ضیغم

اور اگر تو جنگ کا ارادہ کرتا ہے

تو ہم اس طرح آئیں گے جس طرح شکار کے لئے شیر آتا ہے

لا نتقی حرب العدا و نضالھم

والقلب عند الحرب لا یتجمجم

ہم دشمنوں کی جنگ اور اُن کی تیراندازی سے نہیں ڈرتے

اور دل لڑائی کے وقت متردّد نہیں ہوتا

انظر الٰی عبد الحکیم وغیّہٖ

یَعْوی کسَرْحانٍ و لا یتکلّم

ڈاکٹر عبد الحکیم خان اور اُس کی گمراہی کی طرف دیکھ

بھیڑئے کی طرح چلّا رہا ہے نہ یہ کہ بات کرتا ہے

کبرٌ یُسعّر نفسہ بضرامہ

ما مَدّ ھٰذا الکبر الا الدرھم

تکبّر اپنی ایندھن کے ساتھ ان کو مشتعل کرتا ہے

اور یہ تکبر بباعث مال کے پیدا ہوا ہے

الفخر بالمال الکثیر جھالۃ

غیم قلیل الماء لا یتلوّم

مال کثیر کے ساتھ فخر کرنا جہالت ہے

یہ وہ بادل ہے جس میں کم پانی ہے جو ٹھہر نہیں سکتا

جھد المخالف باطل فی امرنا

سیف من الرحٰمن لا یتثلّم

مخالف کی کوششیں ہمارے معاملہ میں باطل ہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 363

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 363

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/363/mode/1up


یہ وہ تلوار ہے جو رخنہ پذیر نہیں ہوگی

فیؔ وجھنا نور المھیمن لا ئحٌ

ان کان فیکم ناظر متوسّم

ہمارے مُنہ پر خدا کا نور روشن ہے

اگر تم میں کوئی دیکھنے والا ہو

ماقُلْتَ یا عبد الحکیم بجنبنا

الّا کخذف عند سیف یصرم

اے عبد الحکیم تونے ہمارے مقابل پر جو باتیں کی ہیں

تو وہ ایک روڑہ کی طرح ہے جو چلایا جاتا ہے بمقابل اُس تلوار کے جو کاٹتی ہے

وَاللّٰہِ لَا یُخْزیٰ عزیز جنابہ

وَاللّٰہ لا تُعطی العلاء و تُرجم

بخدا کہ خدا تعالیٰ کا عزیز رُسوا نہیں ہوگا

اور بخدا کہ تُو غالب نہیں ہوگا اور ردّ کیا جائے گا

ھٰذا من الرحمٰن نَبَأٌ محکم

فاسمع ویأتی وقتہ المتحتّم

یہ خدا کی طرف سے خبر پختہ ہے محکم ہے

پس سُن رکھ اور اس کا قرار دادہ وقت آرہا ہے

واللّٰہ یُنْقَضُ کلّ خیط مکائد

لَیْن سحیل اوشدید مبرم

اور بخدا ہر ایک مکر کا دھاگہ توڑ دیاجائے گا

خواہ وہ نرم مکر ہے اور خواہ سخت مکر ہے

کفِّرو ما التکفیر منک ببدعۃ

رسم تقادم عھدہ المتقدّم

مجھے کافر کہہ اور کافر کہنا تیرا کوئی نئی بات نہیں

ایک پرانی رسم قدیم سے چلی آتی ہے

قد کُفّرتْ من قبل صحب نبیّنا

قا لوا لئامٌ کفرۃٌ و ھُمٌ ھُمٗ

اس سے پہلے ہمارے نبی صلعم کے صحابہ کو لوگوں نے کافر ٹھہرایا

اور کہا کہ یہ لئیم اور کافر ہیں اور انکی شان جو ہے سو ہے

تب من کلام قلت واحفد تائبًا

والعفو خلقی ایّھا المتوھم

جو کچھ تونے کہا ہے اُس سے توبہ کر اور میری طرف دوڑ

اور بخشنا میرا خُلق ہے اے وہموں میں گرفتار

ان کنت تتمنّی الوغا فَنُحارِبُ

بارز فانّی حاضر متخیّم

اگر تو لڑنے کو چاہتا ہے پس ہم لڑیں گے

باہر میدان میں آکہ میں حاضر ہوں خیمہ لگائے ہوئے

نطقی کسیفٍ قاطع یُردی العدا

قولی کعالیۃ القنا او لھذم

میرا نطق تلوار کاٹنے والی کے مانند ہے جو دشمنوں کو ہلاک کرتی ہے

بات میری نیزہ کی نوک کی طرح ہے یا لہذم کی طرح ہے

کم من قلوب قد شققتُ غلافھا

کم من صدور قد کلمتُ واکلم

بہت دل ہیں جن کے غلاف میں نے پھاڑ دئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 364

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 364

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/364/mode/1up


بہت سینے ہیں جو میں نے مجروح کئے اور کرتا ہوں

حاؔ ربتُ کلّ مُکذّبٍ وبِآخرٍ

للحرب دائرۃٌ علیک فتعلم

میں نے ہر ایک مکذّب سے لڑائی کی ہے

اب آخری نوبت میں لڑائی کے چکر میں تو آگیا پس عنقریب جان لے گا

لی فیک من ربٍّ قدیرٍ اٰیۃٌ

ان کنت لا تدری فانا نعلم

تجھ میں میرے خدا کی طرف سے ایک نشان ہے

اگر تو نہیں جانتا تو ہم جانتے ہیں

قد قلتَ دجّالٌ وقلتَ قد افتریٰ

تھذی وفی صف الوغٰی تتجشّم

تونے کہا کہ یہ شخص دجّال ہے اور خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہے

تو بکواس کر رہا ہے اور لڑائی میں تکلیف کر رہا ہے

والحکم حکم اللّٰہ یا عبد الھویٰ

یُبْدیْک یومًا ما تسر و تکتم

اور حکم خدا کا حکم ہے اے حرص کے بندے

ایک دن وہ تجھے جتلا دے گا جو کچھ تو پوشیدہ کرتا ہے

الحق درع عاصم فیصوننی

فاحذر فانی فارس مُسْتَلْحِمُ

حق ایک سچائی والی درع ہے جو مجھے بچائے گی

پس خوف کر کہ میں ایک سوار پیچھا کرنے والا ہوں

۱۵۸ ۔نشان۔ واضح ہو کہ مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے بعد جو کچھ کابل میں ظہور میں آیا وہ بھی میرے لئے خدا کی طرف سے ایک نشان ہے کیونکہ مظلوم شہید مرحوم کے قتل سے میری سخت اہانت کی گئی اس لئے خدا کے قہر نے کابل پر غضب کی تلوار کھینچی۔ اِس مظلوم شہید کے قتل کئے جانے کے بعد سخت ہیضہ کابل میں پھوٹا اور وہ لوگ جو مشورۂ شہید مظلوم کے قتل میں شریک تھے اکثر ہیضہ کے شکار ہو گئے اور خود امیر کابل کے گھروں میں بعض موتوں سے ماتم برپا ہو گیا اور کئی ہزار انسان جو اِس قتل سے خوش تھے شکار مرگ ہو گئے اور وبائے ہیضہ کا ایسا سخت طوفان آیا کہ کہتے ہیں کہ کابل میں ایسا ہیضہ گذشتہ زمانوں میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے اور الہام اِنّی مھینٌ من اراد اھانتک اِس جگہ بھی پورا ہوا۔

بنگر کہ خونِ ناحق پروانہ شمع را

چندان امان نہ داد کہ شب راسحر کند

۱۵۹۔ نشان۔ میری کتاب انجام آتھم کے صفحہ اٹھا۵۸ون میں ایک یہ پیشگوئی تھی جو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 365

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 365

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/365/mode/1up


مولوؔ ی عبد الحق عزنوی کے مقابل پر لکھی گئی تھی جس کی عبارت یہ ہے کہ عبد الحق کے مباہلہ کے بعد ہر ایک قسم سے خدا تعالیٰ نے مجھے ترقی دی ہماری جماعت کو ہزار ہا تک پہنچا دیا ہماری علمیت کا لاکھوں کو قائل کر دیا اور الہام کے مطابق مباہلہ کے بعد ایک اور لڑکا ہمیں عطا کیا جس کے پیدا ہونے سے تین لڑکے ہو گئے اور پھر ایک چو۴تھے لڑکے کے لئے مجھے متواتر الہام کیا اور ہم عبدالحق کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہیں مرے گا جب تک اِس الہام کو پوراہوتا نہ سُن لے۔ اب اس کو چاہیئے کہ اگر وہ کچھ چیز ہے تو دعا سے اِس پیشگوئی کو ٹال دے دیکھو میری کتاب انجام آتھم صفحہ ۵۸۔ یہ پیشگوئی ہے جو چوتھے لڑکے کے بارے میں کی گئی تھی پھر اِس پیشگوئی سے اڑھائی برس بعد چوتھا لڑکا عبد الحق کی زندگی میں ہی پیدا ہو گیا جس کا نام مبارک احمد رکھا گیا جو اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہے۔ اگر مولوی عبد الحق نے اس لڑکے کا پیدا ہونا اب تک نہیں سُنا تو اب ہم سُنائے دیتے ہیں یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے کہ دونوں پہلوؤں سے سچا نکلا عبدالحق بھی لڑکے کے تولّد تک زندہ رہا اور لڑکا بھی پیدا ہو گیا اور پھر یہ کہ اس بارے میں عبد الحق کی کوئی بد دعا منظور نہ ہوئی اور وہ اپنی بددعا سے میرے اس موعود لڑکے کا پیدا ہونا روک نہ سکا بلکہ بجائے ایک لڑکے کے تین لڑکے پیدا ہوئے اور دوسری طرف عبد الحق کا یہ حال ہوا کہ مباہلہ کے بعد عبد الحق کے گھر میں آج تک باوجود بار۱۲ہ برس گذرنے کے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہوا اور ظاہر ہے کہ مباہلہ کے بعد قطع نسل ہو جانا اور باوجود بار۱۲ہ برس گذرنے کے ایک بچہ بھی پیدا نہ ہونا اور بالکل ابتر رہنا یہ بھی قہر الٰہی ہے اور موت کے برابر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3 یاد رہے کہ اسی بد گوئی کے ساتھ ہی عبد الحق کے گھر میں کوئی لڑکا پیدا نہ ہوا بلکہ لاولد اور ابتر اور اس برکت سے بالکل بے نصیب رہا اور بھائی مر گیا اور مباہلہ کے بعد بجائے لڑکا پیدا ہونے کے عزیز بھائی بھی دارالفنا میں پہنچ گیا۔*



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 366

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 366

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/366/mode/1up


اِس جگہ منصفین خیال کریں اور خدا تعالیٰ سے خوف کرکے سوچیں کہ کیا یہ علم غیبؔ کسی انسان کی طاقت میں داخل ہے کہ خود افترا کرکے کہے کہ ضرور میرے گھر میں چوتھا لڑکا پیدا ہوگا اور ضرور ہے کہ فلاں شخص اُس وقت تک جِیتا رہے گا اور پھر ایسا ہی ظہور میں آوے کیا دنیا میں اس کی کوئی نظیر موجود ہے کہ خدا نے کسی مُفتری کی ایسی تائید کی کہ دونوں پہلوؤں سے اُس کو سچا کرکے دکھلادیا یعنی چوتھا لڑکا بھی دے دیا اور اُس وقت تک اُس کے دشمن کو پیشگوئی کے مطابق زندہ رہنے دیا۔ اور یاد رہے کہ یہ مباہلہ کی صدہا برکات میں سے ایک یہ برکت ہے جو مجھے دی گئی کہ خدا نے مباہلہ کے بعد تین لڑکے مجھے عطا فرمائے یعنی شریف۱ احمد، مبارک ۲احمد ، نصیر ۳احمد۔ اب ہم اگر عبدالحق کے ابتر ہونے کی بابت غلطی کرتے ہیں تو وہ بتلاوے کہ مباہلہ کے بعد اُس کے گھر میں کتنے لڑکے پیدا ہوئے اور وہ کہاں ہیں ورنہ کوئی پہلا لڑکا ہی ہمیں دکھلا دے۔* اگر یہ *** کا اثر نہیں تو اور کیا ہے اور میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ جیسا کہ عبد الحق مباہلہ کے بعد ہر ایک برکت سے محروم رہا اسی طرح اُس کے مقابل پر میرے پر خدا کا وہ فضل ہوا کہ کوئی دنیا اور دین کی برکت نہیں جو مجھے نہیں ملی اولاد میں برکت ہوئی کہ بجائے دو کے پانچ ہو گئے۔ مال میں برکت ہوئی کہ کئی لاکھ روپیہ آیا۔ عزّت میں برکت ہوئی کہ کئی لاکھ انسان نے میری بیعت کی۔ خدا کی تائید میں برکت ہوئی کہ صدہا نشان میرے لئے ظاہر ہوئے۔

۱۶۰ ۔نشان۔ اس وقت مولوی عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے کا اپنی قلم

سے لکھا ہوا ایک خط میرے ہاتھ میں ہے جس کو اسی وقت میرے دوست فاضل جلیل مولوی حکیم نور دین صاحب نے مجھ کو دیا ہے اور میں اس کو اپنے خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں اِس لئے اصل خط دستخطی مولوی صاحب مذکور کی نقل ذیل میں لکھتا ہوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 367

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 367

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/367/mode/1up


اور بعد میں ظاہر کروں گا کہ وہ کیونکر میرے لئے نشان ہے اور وہ خط یہ ہے:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم حامدًا وَ مصلّیًا

امّا بعد از عبد الرحمن محی الدین بجمیع اہلِ اسلام عرض یہ ہے کہ اس عاجز نے دعا کی کہ یا خبیر اخبرنیمرزاؔ کا کیا حال ہے خواب میں یہ الہام ہوا ان فرعون وھامان

و جنودھما کانوا خاطئین۔ وان شانئک ھو الا بتر۔* مرزا صاحب کی طرف سے جواب آیا کہ یہ الہام محتمل المعانی ہیں اِس میں میرا نام نہیں اور بڑے زور*دعویٰ کیا کہ میرے نام سے الہام نہ بخشاجائے گا۔ ہر دو الہام مذکور ماہ صفر کو ہوئے تھے۔ جب مرزا کا جواب آگیا بعد


* بہت لوگ اپنی خوابوں کے نا سمجھنے کی وجہ سے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں مولوی عبد الرحمن محی الدین صاحب کی یہ دُعا اِس بناء پر تھی کہ مرزا کو جو مولوی نذیر حسین دہلوی اور اُن کے شاگرد مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی اور اُن کے باقی جنود نے کافر قرار دیا ہے کیا وہ حقیقت میں کافر ہے خدا کے نزدیک اس کا کیا حال ہے تب اس کے جواب میں (اگر ہم محی الدین کے الہام کو سچا سمجھ لیں) خدا نے فرمایا انّ فرعون وھامان وجنودھما کانوا خاطئین۔ پس ہم اس الہام کے یہ معنے کریں گے کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے دو مولویوں کو جو تکفیر کے بانی تھے فرعون اور ہامان قرار دیا اور فرمایا کہ وہ دونوں اور اُن کے متبعین تکفیر میں خطا پر تھے اور استعارہ کے رنگ میں سب سے اول کفر کا فتویٰ دینے والے کو فرعون قرار دیا اور جس نے استفتا لکھا تھا اس کو ہامان ٹھہرا دیا اور باقی ہزار ہا مولوی وغیرہ جو پنجاب اور ہندوستان میں ان کی اس تکفیر میں پیرو ہوئے اُن کو ان کا لشکر قرار دیا۔ اگر مولوی محی الدین بد قسمت نہ ہوتا تو یہ معنے بہت صاف تھے کیوں فرعون اور ہامان کا طریق انہیں لوگوں نے اختیار کیا تھا جو بغیر تحقیق کے مجھے نابود کرنے کے درپے ہو گئے اور میرے پر ایک طوفان برپا کر دیا تھا اور اِس پر ایک اور دلیل یہ ہے کہ براہین میں آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے ان دونوں صاحبوں کو بطور پیشگوئی کے فرعون اور ہامان کہا گیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ و ۵۱۱ میں یہ عبارت

* زور کے آگے لفظ سے چاہیے تھا جو کہ راقم کی تحریر میں نہیں اس لئے نہیں لکھا گیا۔ من


* بہت لوگ اپنی خوابوں کے نا سمجھنے کی وجہ سے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں مولوی عبد الرحمن محی الدین صاحب کی یہ دُعا اِس بناء پر تھی کہ مرزا کو جو مولوی نذیر حسین دہلوی اور اُن کے شاگرد مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی اور اُن کے باقی جنود نے کافر قرار دیا ہے کیا وہ حقیقت میں کافر ہے خدا کے نزدیک اس کا کیا حال ہے تب اس کے جواب میں (اگر ہم محی الدین کے الہام کو سچا سمجھ لیں) خدا نے فرمایا انّ فرعون وھامان وجنودھما کانوا خاطئین۔ پس ہم اس الہام کے یہ معنے کریں گے کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے دو مولویوں کو جو تکفیر کے بانی تھے فرعون اور ہامان قرار دیا اور فرمایا کہ وہ دونوں اور اُن کے متبعین تکفیر میں خطا پر تھے اور استعارہ کے رنگ میں سب سے اول کفر کا فتویٰ دینے والے کو فرعون قرار دیا اور جس نے استفتا لکھا تھا اس کو ہامان ٹھہرا دیا اور باقی ہزار ہا مولوی وغیرہ جو پنجاب اور ہندوستان میں ان کی اس تکفیر میں پیرو ہوئے اُن کو ان کا لشکر قرار دیا۔ اگر مولوی محی الدین بد قسمت نہ ہوتا تو یہ معنے بہت صاف تھے کیوں فرعون اور ہامان کا طریق انہیں لوگوں نے اختیار کیا تھا جو بغیر تحقیق کے مجھے نابود کرنے کے درپے ہو گئے اور میرے پر ایک طوفان برپا کر دیا تھا اور اِس پر ایک اور دلیل یہ ہے کہ براہین میں آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے ان دونوں صاحبوں کو بطور پیشگوئی کے فرعون اور ہامان کہا گیا ہے چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ و ۵۱۱ میں یہ عبارت

* زور کے آگے لفظ سے چاہیے تھا جو کہ راقم کی تحریر میں نہیں اس لئے نہیں لکھا گیا۔ من



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 368

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 368

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/368/mode/1up


ازاں ماہ صفر کو یہ الہام خواب میں ہوا مرزا صاحب فرعون الحمدللّٰہ علٰی ذالک اب مرزا کا دعویٰ بھی غلط ہو گیا اور مرزا صاحب مراد کو پہنچ گئے اور جس وقت مجھ کو پہلا الہام ہواؔ تھا بیدار ہوتے ہی یہ تعبیر دل میں آئی کہ فرعون مرزا صاحب ہیں اور ہامان نوردین مجھے اہل اسلام کی خیر خواہی کے لئے اطلاع دینی ضرور تھی۔

ہُن تُوں بھی حق کہن دے اُتّے لک بنّہیں بھراوا

اہلِ نفاق بلائیں بُریاں لوکاں دین بُھلاوا

العبد

عبد الرحمن محی الدین لکھوکے بقلمہٖ بتاریخ ۲۱؍ماہ ربیع الاوّل ۱۳۱۲ھ

یہ ہے خط مولوی عبد الرحمن محی الدین کا اور بعد نقل کے بخدمت مکرمی مولوی حکیم نور دین صاحب واپس کیا گیا۔ مولوی صاحب موصوف اس کو حفاظت سے رکھیں گے جس کا جی چاہے دیکھ لے


بقیہ حاشیہ

ہے۔ واذ یمکربک الذی کفر* اوقِدْ لِیْ یا ھامان لعلیّ اطلع علٰی الٰہِ موسٰی وانّی لاظنّہٗ ۔منؔ الکاذبین۔ تبّت یدا ابی لھب و تب۔ ما کان لہٗ ان ید خل فیھا الّا خائفا۔ وما اصابتک فمن اللّٰہ الفتنۃ ھٰھُنَا فاصبر کما صبر اولوالعزم۔ الا انّھا فتنۃ من اللّٰہ۔ لیحبّ حبّا جمّا۔ حبًّا من اللّٰہ العزیز الاکرم عطاءً غیر مجذوذ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۰ و صفحہ ۵۱۱ ترجمہ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ ایک فرعون تجھے کافر ٹھہرائے گا اور اپنے رفیق ہامان کو کہے گا کہ تو تکفیر کی آگ بھڑکا دے یعنی ایسا تیز فتویٰ لکھ کہ لوگ اُس فتوے کو دیکھ کر اُس شخص کے دشمن جانی ہو جائیں اور کافر سمجھنے لگیں تاکہ میں دیکھوں کہ اس موسیٰ کا خدا اس کی کچھ مدد کرتا ہے یا نہیں اور میں تو اس کو جھوٹا خیال کرتا ہوں۔ ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے جن سے اُس نے فتویٰ لکھا تھا اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا اُس کو نہیں چاہیئے تھا کہ


* یاد رہے کہ اس وحی الٰہی میں دونوں قراء تیں ہیں کَفَر بھی اورکَفّربھی۔ اور اگرکفرکی قراء ت کی رو سے معنے کئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ پہلے شخص مستفتی میرے پر اعتقاد رکھتا ہو گا اور معتقدین میں داخل ہو گا۔ اور پھر بعد میں برگشتہ اور منکر ہو جائے گا۔ اور یہ معنی مولوی محمد حسین بٹالوی پر بہت چسپاں ہیں جنہوں نے براہین احمدیہ کے ریویو میں میری نسبت ایسا اعتقاد ظاہر کیا کہ اپنے ماں باپ بھی میرے پر فدا کر دیئے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 369

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 369

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/369/mode/1up


اِسؔ الہام میں انہوں نے اپنے خیال میں مجھ کو فرعون قرار دیا ہے جیسا کہ خود انہوں نے اس خط میں اس کی تصریح کی ہے لیکن تعجب کہ کیسے بڑے ادب سے خدا نے مجھ کو پکارا ہے کہ مرزا نے نہیں کہا بلکہ میرزا صاحب کہا ہے چاہیئے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ سے ادب سیکھیں اور پھر دوسرا تعجب یہ کہ باوجود اس کے کہ میری طرف سے یہ درخواست تھی کہ الہام میں میرا نام ظاہر کیا جائے مگر پھر بھی خدا کو میرا نام لینے سے شرم دامنگیرہو گئی اور شرم کے غلبہ نے میرا نام زبان پر لانے


اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے اور جو تکلیف تجھے پہنچے گی وہ تو خدا کی طرف سے ہے اس فتویٰ سے تیرے پر ایک فتنہ برپا ہو جائے گا پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا۔ یاد رکھ کہ یہ تکفیر کا فتنہ خدا کی طرف سے ظاہر ہوگا تا وہ تجھ سے بہت پیار کرے۔ یہ اُس کریم کا پیار ہے جو عزیز اور بزرگ ہے اور یہ وہ عطا ہے کہ کبھی واپس نہیں لی جائے گی۔ اب اس جگہ آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ خدا نے مجھے اس جگہ موسیٰ ٹھہرایا اور مستفتی اور مفتی کو فرعون اور ہامان ٹھہرایا اور مولوی محی الدین نے تو یہ الہام ۱۳۱۲ھ میں ظاہر کیا جیسا کہ اُن کے خط کی تاریخؔ سے ظاہر ہوتا ہے۔ پس بموجب مقولہ مشہورہ کہ الفضل للمتقدم زیادہ اعتبار کے لائق یہی الہام ہے پھر اس کی تائید میں میری کتاب ازالۃ االاوھام کے صفحہ ۸۵۵ میں ایک اور وحی الٰہی ہے اور وہ یہ ہے نرید ان ننزل علیک اسرارًا من السّماء و نمزّق الاعداء کل ممزّق و نری فرعون و ھامان وجنودھما ما کانوا یحذرون۔ یعنی ہم ارادہ کرتے ہیں کہ تیرے پر آسمانی نشان نازل کریں گے اور اُن سے دشمنوں کو ہم پیس ڈالیں گے اور فرعون اور ہامان اور اُن کے جنود کو ہم وہ اپنے کرشمہ قدرت دکھائیں گے جن کے ظہور سے وہ ڈرتے تھے اب دیکھو اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نے اوّل المکفرین کا نام فرعون اور ہامان رکھا اور یہ کتاب ۱۸۹۱ء میں چھپی ہے ۔پس یہ الہام بھی محی الدین کے الہام سے چار برس پہلے ہے کیونکہ اُن کے خط میں جس میں یہ الہام ہے ۱۳۱۲ ہجری لکھا ہے اور یہ ۱۸۹۱ء میں۔ پس جو مقدّم ہے اس کی رعایت مقدّم ہے اور مولوی محی الدین صاحب کے خط میں بتصریح موجود ہے کہ انہوں نے مجھے فرعون قرار دیا ہے اور اخویم حکیم نوردین صاحب کو ہامان قرار دیا ہے آپ موسیٰ صفات بنے ہیں مگر یہ تعجب کی بات ہے کہ فرعون اور ہامان تو اب تک زندہ ہیں اور موسیٰ اس جہان سے گذر گیا۔ چاہئے تھا کہ الہامی تشبیہ کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ہلاک کرکے مرتے مگر یہ کیا ہوا کہ آپ ہی ہلاک ہو گئے۔ کیا کوئی اس کا جواب دے سکتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 370

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 370

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/370/mode/1up


ے اُس کو روک دیا۔کیا میرا نام مرزا صاحب ہے کیا دنیامیں اور کوئی مرزا صاحب کے نام سے پکارا نہیں جاتا۔اور پھر تیسرا تعجب یہ کہ میں تو الہام کی رُو سے فرعون ٹھہرا اور محیؔ الدین صاحب قائم مقام موسیٰ ہوئے۔ پس چاہیئے تھا کہ موسیٰ کی زندگی میں میں مر جاتا نہ کہ موسیٰ ہی ہلاک ہو جاتا۔ محی الدین صاحب کی بد دعاؤں کا سلسلہ جاری تھا اور میری ہلاکت کے لئے وہ کئی الہام بھی دیکھ چکے تھے پھر یہ کیا ہوا کہ وہ سب الہام اُنہیں پر پڑ گئے اور میری جگہ وہ مر گئے کیا یہ عجیب نہیں ہے کہ جس کو انہوں نے فرعون قرار دیا تھا وہ تو اب تک زندہ ہے جو بول رہا ہے بلکہ ترقی پر ترقی کر رہا ہے مگر وہ جو موسیٰ کے مشابہ اپنے تئیں سمجھتا تھا وہ کئی سال ہو گئے کہ اس دنیا سے گذر گیا اور اب اُس کا زمین پر نام و نشان نہیں یہ کیسا موسیٰ تھا کہ فرعون کے سامنے ہی اِس جہان کو چھوڑ گیا پھر دوسرا الہام محی الدین صاحب کایہ بھی تھا کہ 33 یعنی تیرا بد گو تباہ کیا جائے گا اور لاولد رہے گا اور لاولد مرے گا۔ اِس الہام میں اُن کے خیال میں میری ہلاکت اور تباہی اور لاولد مرنے کی طرف اشارہ تھا۔* سو الحمدللہ کہ میں اب تک زندہ ہوں۔ میاں محی الدین صاحب قریباً د۱۰س برس ہوئے ہیں کہ فوت ہو گئے اور اُن کے اِس الہام کے بعد میرے تین بیٹے اور ہوئے اور اگر اس الہام کے بعد محی الدین صاحب کے گھر میں بھی کوئی لڑکا ہوا ہے جو زندہ ہے تو میں عہد کرتا ہوں کہ مَیں اُن کی بیوی کو ایک سو۱۰۰ روپیہ نقد دوں گا ورنہ ظاہر ہے کہ یہ الہام اُن کا اُنہیں پر صادق آیا میں نے معتبر ذریعہ سے یہ سُنا ہے کہ اس الہام کے بعد کوئی لڑکا نہیں ہوا بلکہ ایک جوان لڑکا مر گیا اور صرف ایک


* مباہلہ کا صرف یہی اثر نہیں کہ مولوی محی الدین صاحب اپنی اس دعا کے بعد کہ انّ شانئک ھوالابتر۔ خود مر گئے اور ایک لڑکا اٹھا۱۸رہ برس کا مر گیابلکہ میں نے بعض عورتوں کو اُن کے گھر میں بھیج کر دریافت کیا ہے کہ ان کی بیوی خود اپنی زبان سے کہتی ہے کہ اس بد دعا کے بعد اُن کے گھر کا تختہ اُلٹ گیا۔ مولوی محی الدین بہت جلد مکہ اور مدینہ کی راہ میں فوت ہو گئے اور اس قدر تنگی اور تکلیف دامنگیر ہوئی کہ اب صرف گدا گری پر گذارہ ہے چند دیہات سے بطور گدائی آٹا لاتے ہیں تو اس سے پیٹ بھرتے ہیں اور جس دن آٹا نہ آوے اُس روز فاقہ۔ اُن کی بیوی کہتی تھی کہ اب ہمارے پر رات پڑ گئی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 371

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 371

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/371/mode/1up


زندہ رہا ہے غرض یہ الہام اُن کا بھی جو مباہلہ کے رنگ میں تھا اُنہیں پر پڑا اور جو معنے اس کے واقعات نے ظاہر کئے ہیں وہ یہی ہیں کہ جو پہلے ہلاک ہونے والاہے وہی فرعون ہے اور جو موسیٰ کے قائم مقام ہے اس کی نسبت دوسرا الہام ہے کہ3۔ جس کے یہ معنی ہیں دشمن اُن کی زندگی میں ہی لاولد مرے گا اور ہر ایک نعمت اور برکت سے محروم رہے گا اور اس کی بکلّی بیخ کنی کی جائے گی۔ اگر یہ دونوں الہامات مولوی عبد الرحمن محی الدین صاحب شائع نہ کرتے اور جیسا کہ اُن کے خط کی ابتدا میں ہی اُن کا میری نسبت یہ ارادہ نہ ہوتا کہ جمیع اہل اسلام کی نظر میں ذلیل کیا جاؤں اور مجھ کو تمام لوگ فرعون سمجھ لیں اورؔ میرے مرنے کے بعد مجھے مفتری اور کذّاب کہہ کر میرے پر ہمیشہ لعنتیں بھیجتے رہیں تو خدا تعالیٰ اُن کو اس قدر جلد ہلاک نہ کرتا لیکن انہوں نے تو الہام سُنا کر تمام دنیا کو اپنے الہام کے ذریعہ سے یہ ترغیب دی کہ وہ مجھے کافر اور منافق اور *** سمجھ لیں اور میں ان کی زندگی میں مع اپنے تمام فرزندوں کے مر جاؤں اور میرا تمام کاروبار بگڑ جائے اور وہ ولی اللہ اور کراماتی ثابت ہو جائے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایک صادق کے حق میں ایسی ذلّت روا نہیں رکھتا اور نہیں چاہتا کہ ایک سچا سلسلہ تباہ ہو جاوے کیونکہ اِس صورت میں وہ خود اپنے سلسلہ کا دشمن ہوگا سو خداتعالیٰ کو یہی فیصلہ پسند آیا کہ خود انہیں کو ہلاک اور تباہ کر دیا اور اس دعا کے بعد کوئی لڑکا اُن کے گھر میں پیدا نہیں ہوا بلکہ پہلا ایک لڑکا بھی فوت ہو گیا اور ہزار ہا لوگوں کو خبر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میں نے یہ الہام شائع کیا ہوا ہے کہ انّی مھین من اراد اھانتک پس اِس میں کیا شک ہے یہ عبد الرحمن محی الدین نے میرے ذلیل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا مجھے فرعون بنایا میری بیخ کنی کے لئے پیشگوئی کی میری اولاد مرنے کی خبر دی کہ سب مر جائے گی پس اگر میں پہلے اس سے مر جاتا تو اس میں کیا شک تھا کہ اس کے تمام دوست میری موت کو اس کی کرامت بناتے۔ اور اگر میری اولاد بھی مر جاتی تو دوکرامتیں اُن کی مشہور ہو جاتیں مگر خدا تعالیٰ نے اُن کے اس الہام کے بعد تین لڑکے مجھ کو اور دیئے اور بموجب اپنے وعدے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 372

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 372

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/372/mode/1up


انّی مھین من اراد اھانتککے محی الدین کو میری زندگی میں ہی ہلاک کرکے اس کی ذلت ظاہر کر دی اور نہ صرف اِس قدر بلکہ اُس کے الہام انّ شانئک ھوالابتر کے بعدنہ صرف تین بیٹے اور مجھ کو دیئے بلکہ یہ بھی کیا کہ اس کی بیوی کو لاولد رکھا اور اِس طرح پر میری عزت کاثبوت دُنیا پر ظاہرکیا خدا تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے وفادار بندوں کے لئے کون غیرتمند ہو سکتا ہے اُس نے میرے لئے غیرت دکھلائی۔ افسوس کہ عبد الرحمن محی الدین نے باوجود مولوی اور ملہم کہلانے کے خدا تعالیٰ سے کچھ خوف نہ کیا اور وعید 33۱؂سے کچھ نہ ڈرا۔ تب خدا تعالیٰ کے وعدہ انّی مھین من اراد اھانتک نے اس کو پکڑ لیا پس میرے لئے یہ ایک بڑا ؔ نشان ہے کہ جو شخص میرے تباہ کرنے کے لئے ایک الہام پیش کرتا تھا وہ خود ہی تباہ اور ہلاک ہو گیا۔ چونکہ عبد الرحمن محی الدین علماء کے خاندان میں سے تھا اور ہزاروں انسانوں پر اُس کا اثر تھا اور علاوہ اس کے وہ پیرزادگی اور الہام کا بھی مدعی تھا اور اُس نواح میں ایک بڑا مشہور اور مرجع خلائق تھا۔ اِس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس کے قول سے لوگ ہلاک ہوں۔ پس یہی بھید ہے کہ اس کے الہام کے بعد جس کے رو سے وہ میری ہلاکت اور تباہی کا منتظر تھا خدا نے اُسی کو ہلاک کیا اور میرے پر صدہا برکتیں نازل کیں اور الہام 3کے بعد اُسی پر دروازہ نسل بند کر دیا اور مجھے اُس کے الہام کے بعد تین بیٹے اور دیئے۔ کہاں گیا اُس کا الہام 3۔کون اس میں شک کر سکتا ہے کہ اگر یہ الہام اُس کا پورا ہو جاتا اور وہ زندہ رہتا اور میں ہلاک ہو جاتا اور اُس کے اولاد ہوتی اور میں ابتررہ جاتا تو وہ لاکھوں انسانوں میں کراماتی مشہور ہو جاتا آگے اُن کا پیر زادگی کا خاندان تھا ہی پس اِس کرامت سے تو لکھوکے والا اسم بامسمّٰی ہو جاتا اور لاکھوں انسان لکھو کے والہ کی طرف رجوع کرتے سو خدا نے بموجب مثل پنجابی ایک دم میں لکھ توں کَکھ کر دیا اورحج کرنا بھی اُس کو مفید نہ ہوا۔ اور مکہ اور مدینہ کی راہ میں ہی فوت ہو گیا کیونکہ خانہ کعبہ ظالم کو بچا نہیں سکتا۔

خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ جو شخص میرے ذلیل کرنے کے ارادہ کو انتہا تک پہنچا دیتا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 373

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 373

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/373/mode/1up


ہے آخر وہ اُس کو پکڑتا ہے یا اُس کے مقابل پر کسی اور رنگ میں میرے لئے نشان ظاہر کر دیتا ہے اور دونوں باتوں میں سے ضرور ایک بات کر دیتا ہے یا دونوں پہلوؤں سے اپنا نشانِ قدرت دکھلاتا ہے سو چونکہ عبد الرحمن محی الدین نے میرے ذلیل کرنے کے لئے تمام مسلمانانِ پنجاب کی طرف ایک عام سرکلر جاری کیا اور کہا یہ مفتری ہے کذاب ہے منافق ہے کافر ہے فرعون ہے۔ اور نہ صرف اسی قدر بلکہ ساتھ ہی یہ الہام بھی جڑ دیا کہ خدا اس کو تباہ کرے گا ہلاک کرے گا اس کی اولاد بھی مر جائے گی اور کوئی ان میں سے نہیں رہے گا۔ اِس لئے وہ اپنے غلوسے اِس لائق ہو گیاکہ خدا کا الہام انّی مھین من اراد اھانتک اس کی ذلّت ظاہر کرے۔ سو اِؔ س سے زیادہ کیا ذلت ہوگی کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگیا۔ اگر میں اس کے الہام (کے) مطابق فرعون تھا تو چاہئے تھا کہ میں اس کے سامنے ہلاک ہوتا نہ کہ وہ اور نیز اس کے الہام میں یہ تھا کہ میں بے اولاد رہوں گا خدا نے اُس کی موت کے بعد تین لڑکے مجھے اور دئے پس اِس میں بھی اُس کی ذلت ہے کہ اُس کے الہام کے برخلاف ظہور میں آیا۔

اور یہ جو میں نے لکھا ہے کہ جب کوئی میرے ذلیل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کبھی کسی اور رنگ میں بھی خدا تعالیٰ میرا نشان ظاہر کرتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ جب آتھم شرطی میعاد کے بعد مرا تو نادان لوگوں نے شور مچایا کہ وہ میعاد کے اندر نہیں مرا حالانکہ اُس نے شرط الہام پوری کر دی تھی کیونکہ اُس نے سا۶۰ٹھ یا ستر۷۰ لوگوں کے رو برو دجّال کہنے سے رجوع کر لیا تھا اور شرط کو پورا کر دیا تھا مگر پھر بھی جن کی طینت پاک نہیں تھی اعتراض کرنے سے باز نہ آئے تب خدا تعالیٰ نے میری نصرت اور تائید کے لئے لیکھرام کے مارے جانے کا نشان دکھلایا۔

ایسا ہی جب میرا پہلا لڑکا فوت ہو گیا تو نادان مولویوں اور اُن کے دوستوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں نے اُس کے مرنے پر بہت خوشی ظاہر کی اور بار بار اُن کو کہا گیا کہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے۔ پس ضرور تھا کہ کوئی لڑکا خورد سالی میں فوت ہو جاتا تب بھی وہ لوگ اعتراض سے باز نہ آئے تب خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 374

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 374

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/374/mode/1up


لڑکے کی مجھے بشارت دی چنانچہ میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اُس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے۔ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ اب تک جو یکم ستمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اُس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سا۷ت کی جس کے مطابق جنوری ۱۸۸۹ء میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور ستر۷اھویں سال میں ہے۔

۱۶۱ؔ ۔ نشان۔ جب لیکھرام قتل کیا گیا تو آریوں کو میری نسبت شک واقع ہو گیا کہ اُن کے کسی مُرید نے قتل کیا ہے چنانچہ میری خانہ تلاشی بھی ہوئی اور بعض مولویوں نے اپنی عداوت کی وجہ سے اپنے رسالوں میں یہ شائع کیا کہ پیشگوئی کرنے والے سے لیکھرام کے قتل کی نسبت پوچھنا چاہئے اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ الہام ہوا۔ سلامت بر تواے مردِ سلامت اور وہ اشتہار جس میں یہ الہام تھا شائع کر دیا گیا۔ تب باوجود مخالفوں کی سخت کوشش کے خدا تعالیٰ نے دشمنوں کی تہمتوں سے مجھے بچا لیا اور اُن کے مکر اور فریب اور منصوبوں سے محفوظ رکھا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ میری جماعت کے بہت سے آدمی اس کے گواہ میں۔

۱۶۲۔ نشان۔ جب میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف سے خون کا مقدمہ دائر ہوا اُس مقدمہ کے بارے میں ایک تو یہ نشان تھا کہ خدا نے اُس مخفی بلا سے پہلے مجھے اطلاع دی کہ ایسا مقدمہ ہونے والا ہے اور پھر یہ بھی اطلاع دے دی کہ آخر بریّت ہے اور جب اس پیشگوئی کے مطابق وہ بلا ظاہر ہو گئی اور ڈاکٹر مارٹن کلارک نے میرے پر خون کا مقدمہ دائر کر دیا اور گواہوں نے ثبوت دے دیا اور مقدمہ کی صورت خطرناک ہو گئی تو مجھے الہام ہوا مخالفوں میں پھوٹ اور ایک شخص متنا فس کی ذلّت اور اہانت۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا اتفاق ہوا کہ مخالفوں میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 375

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 375

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/375/mode/1up


پھوٹ پڑ گئی اور عبد الحمید جو خون کرنے کا مخبر تھا اور میری نسبت یہ الزام لگا تا تھا جو مجھے خون کرنے کے لئے بھیجا ہے اُس نے دوسرے مخالفوں سے الگ ہو کر سچ سچ حالات بیان کر دئے جس سے میں بَری کیا گیا اور مدعی کے ایک معزز گواہ کو کچہری میں ذلت اور اہانت بھی دیکھنی پڑی اور اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ شکر کا مقام ہے کہ اس پیشگوئی اور بریّت کی پیشگوئی کے تین سو سے زیادہ گواہ ہیں۔

۱۶۳ ۔نشان۔ ایک مولوی نے کتاب نبراس تالیف صاحب زمرّد کا حاشیہ لکھتے ہوئے میرؔ ے حق میں ان الفاظ سے بد دعا کی مرزا غلام احمد وحزبہٗ کسّرھم اللّٰہ تعالٰی یعنی خدا اس شخص مرزا غلام احمد اور اُس کے گروہ کو توڑ دے سو ابھی حاشیہ ختم کرنے نہ پایا تھا کہ وہ مولوی نور احمد مع اپنے مددگار بھائی نور محمد کے جو دونوں پسران مولوی خدایار تھے مر گیا۔ مجھے خدا نے تین بیٹے اور دئے۔

۱۶۴ ۔نشان۔ ایک شخص اہل تشیّع میں سے جو اپنے تئیں شیخ نجفی کے نام سے مشہور کرتا تھا ایک دفعہ لاہور میں آکر میرے مقابل پر شور مچانے لگا اور نشان کا طلبگار ہوا۔ میں نے باشاعت اشتہار یکم فروری ۱۸۹۷ء اس کو یہ وعدہ دیا کہ چالیس روز تک خدا تعالیٰ میرا کوئی نشان دکھائے گا۔ سو ابھی چالیس دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء کو نشان ہلاکت لیکھرام پشاوری ظاہر ہو گیا تب تو شیخ نجفی ایسا گم ہوا کہ اس کا نشان نہ ملا کہ کہاں گیا۔ دیکھو میرا اشتہار یکم فروری ۱۸۹۷ء۔

۱۶۵۔نشان۔ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کلام افصحت من لدن ربّ کریم یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔ چنانچہ اس الہام کو اُسی وقت اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور اخویم حکیم مولوی نور دین صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم.اے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 376

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 376

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/376/mode/1up


اور ماسٹر عبد الرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی.اے. اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی۔ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الھامیہ رکھا گیا لوگوؔ ں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو۲۰۰ کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہ بیان کر سکے یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔

۱۶۶۔ نشان۔ مجھے دو بیماریاں مدت دراز سے تھیں ایک شدید درد سر جس سے میں نہایت بیتاب ہو جاتا تھا اور ہولناک عوارض پیدا ہو جاتے تھے اور یہ مرض قریباً پچیس۲۵ برس تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دوران سر بھی لاحق ہو گیا اور طبیبوں نے لکھا کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مرگی ہوتی ہے چنانچہ میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر قریباً دو ماہ تک اسی مرض میں مبتلا ہو کر آخر مرض صرع میں مبتلا ہو گئے اور اسی سے اُن کا انتقال ہو گیا لہٰذا میں دعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ ان امراض سے مجھے محفوظ رکھے۔ ایک دفعہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 377

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 377

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/377/mode/1up


عالم کشف میں مجھے دکھائی دیا کہ ایک بلا سیاہ رنگ چار پائے کی شکل پر جو بھیڑ کے قد کی مانند اُس کا قد تھا اور بڑے بڑے بال تھے اور بڑے بڑے پنجے تھے میرے پر حملہ کرنے لگی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہی صرع ہے تب میں نے اپنا داہنا ہاتھ زور سے اُس کے سینہ پر مارا اور کہا کہ دور ہو تیرا مجھ میں حصہ نہیں۔ تب خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ بعد اس کے وہ خطرناک عوارض جاتے رہے اور وہ درد شدید بالکل جاتی رہی صرف دوران سر کبھی کبھی ہوتا ہے۔ تا دو زرد چادروں کی پیشگوئی میں خلل نہ آوے۔ دوسری مرض ذیابیطس تخمیناً بیس برس سے ہے جو مجھے لاحق ہے جیسا کہ اس نشان کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے اور ابھی تک بیسؔ دفعہ کے قریب ہر روز پیشاب آتا ہے اور امتحان سے بول میں شکر پائی گئی ایک دن مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹروں کے تجربہ کے رو سے انجام ذیابیطس کا یا تو نزول الماء ہوتا ہے اور یا کار بنکل یعنی سرطان کا پھوڑا نکلتا ہے جو مہلک ہوتا ہے سو اسی وقت نزول الماء کی نسبت مجھے الہام ہوا نزلت الرحمۃ علٰی ثلٰث العین وعلی الاخریین۔ یعنی تین عضو پر رحمت نازل کی گئی آنکھ اور دو اور عضو پر اور پھر جب کاربنکل کا خیال میرے دل میں آیا تو الہام ہوا السَّلام علیکم۔ سو ایک عمر گذری کہ میں ان بلاؤں سے محفوظ ہوں۔ فالحمدللّٰہ۔

۱۶۷۔ نشان۔ تخمیناً تیرہ برس ہوئے کہ جب مجھے سعد اللہ نو مسلم لدہانوی کی نسبت الہام ہوا تھا۔ 3۔ دیکھو انوار الاسلام در اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ صفحہ ۱۲ اُس وقت ایک بیٹا سعد اللہ کا بعمر سو۱۶لہ یا پند۱۵رہ برس کا موجود تھا بعد اس وحی کے باوجود گذرنے تیر۱۳ہ برس کے ایک بچہ بھی اُس کے گھر میں نہیں ہوا اور پہلا لڑکا اُس کا بموجب الہام موصوف کے اِس قابل نہیں کہ اس سے نسل جاری ہو سکے پس ابتر کی پیشگوئی کا ثبوت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 378

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 378

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/378/mode/1up


ظاہر ہے اور قطع نسل کی علامات موجود۔*

۱۶۸۔ نشان۔ میرے پر خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا تھا کہ سخت بارشیں ہوں گی اور گھروں میں ندیاں چلیں گی اور بعد اس کے سخت زلزلے آئیں گے چنانچہ ان بارشوں سے پہلے وہ وحی الٰہی اخبار بدر اور الحکم میں شائع کر دی گئی تھی چنانچہ ویسا ہی ظہور میں آیا اور کثرت بارشوں سے کئی گاؤں ویران ہو گئے اور وہ پیشگوئی پوری ہو گئی مگر دوسرا حصہ اُس کا یعنی سخت زلزلے ابھی اُن کی انتظار ہے سو منتظر رہنا چاہئے۔

۱۶۹۔نشان۔ جب ہم بہار کی موسم میں ۱۹۰۵ء میں باغ میں تھے تو مجھے اپنی جماعت کے لوگوں میں سے جو باغ میں تھے کسی ایک کی نسبت یہ الہام ہوا تھا کہ خدا کا ارادہ ہی نہ تھا کہ اُس کو اچھا کرے مگر فضل سے اپنے ارادہ کو بدل دیا۔ اِس الہام کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ سید مہدی حسین صاحب جو ہمارے باغ میں تھے اور ہماری جماعت میں داخل ہیں اُن کی بیوی سختؔ بیمار ہو گئی۔ وہ پہلے بھی تپ اور ورم سے جو مُنہ اور دونوں پیروں اور تمام بدن پر تھی بیمار تھی اور بہت کمزور تھی اور حاملہ تھی پھر بعد وضع حمل جو باغ میں ہوا اس کی حالت بہت نازک ہو گئی اور آثار نومیدی ظاہر ہو گئے اور میں اُس کے لئے دعا کرتا رہا آخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اُس کو دو بارہ زندگی حاصل ہوئی۔ اِس امر کے گواہ اخویم حکیم مولوی نور دین صاحب


* اگرسعد اللہ کا پہلا لڑکا نامرد نہیں ہے جو الہام انّ شانئک ھوالابتر سے پہلے پیدا ہو چکا تھا جس کی عمر تخمیناً تیس برس کی ہے تو کیا وجہ کہ باوجود اس قدر عمر گذرنے اور استطاعت کے اب تک اُس کی شادی نہیں ہوئی اور نہ اُس کی شادی کا کچھ فکر ہے اِس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ سعد اللہ پر فرض ہے کہ اس پیشگوئی کی تکذیب کے لئے یا تو اپنے گھر اولاد پیدا کرکے دکھلاوے اور یا پہلے لڑکے کی شادی کرکے اور اولاد حاصل کرا کر اُس کی مردمی ثابت کرے اور یاد رکھے کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات اس کو ہر گز حاصل نہیں ہوگی۔ کیونکہ خدا کے کلام نے اس کا نام ابتر رکھا ہے اور ممکن نہیں کہ خدا کا کلام باطل ہو۔ یقیناًوہ ابتر ہی مرے گا جیسا کہ آثار نے ظاہر بھی کر دیا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 379

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 379

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/379/mode/1up


مولوی محمد علی صاحب ایم.اے. مفتی محمد صادق صاحب اور خود مہدی حسین صاحب اور تمام وہ دوست ہیں جو میرے ساتھ باغ میں تھے۔ دعا کے بعد دوسرے روز سید مہدی حسین کی اہلیہ کی زبان پر یہ الہام منجانب اللہ جاری ہوا۔ تو اچھی تو نہ ہوتی مگر حضرت صاحب کی دعا کا سبب ہے کہ اب تو اچھی ہو جائے گی۔

۱۷۰۔ نشان۔ مندرجہ البدر نمبر ۲۴ جلد ۲ میں یہ پیشگوئی جیسا کہ میں نے ابھی لکھا ہے قبل از وقوع اخبار البدر میں درج ہو چکی ہے اور بعد میں ویسی ہی ظہور میں آئی اور وہ یہ ہے کہ رات کے وقت جو ۲۸؍جون ۱۹۰۳ء کے دن کے بعد کی رات تھی یعنی وہ رات جس کے بعد پیر کا دن تھا اور ۲۹؍جون ۱۹۰۳ء تھی میرے خیال پر یہ کشش غالب ہو ئی کہ یہ مقدمات جو کرم الدین کی طرف سے میرے پر ہیں یا میری جماعت کے لوگوں کی طرف سے کرم الدین پر ہیں اُن کا انجام کیا ہوگا سو اس غلبہ کشش کے وقت میری حالت وحی الٰہی کی طرف منتقل کی گئی اور خدا کا یہ کلام میرے پر نازل ہوا جو مع اُن معنوں کے جو اخبار البدر میں ساتھ ہی قبل از وقت شائع کی گئی تھی ذیل میں درج کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے۔ اِنَّ اللّٰہ مَع الذین اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھم مُّحْسِنون۔ فیہ اٰیات للسَّاءِلین۔ اس کے یہ معنی سمجھائے گئے کہ ان دونوں فریقوں میں سے خدا اُس کے ساتھ ہوگا۔ اور اُس کو فتح و نصرت نصیب کرے گا کہ جو پرہیزگار ہیں یعنی جھوٹ نہیں بولتے ظلم نہیں کرتے تہمت نہیں لگاتے اور دغا اور فریب اور خیانت سے ناحق خدا کے بندوں کو نہیں ستاتے اور ہر ایک بدی سے بچتے اورر استبازی اور انصاف کو اختیار کرتے ہیں اورؔ خدا سے ڈر کر اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور نیکی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بنی نوع کے وہ سچے خیر خواہ ہیں ان میں درندگی اور ظلم اور بدی کا جوش نہیں بلکہ عام طور پر ہر ایک کے ساتھ وہ نیکی کرنے کے لئے طیار ہیں سو انجام یہ ہے کہ اُن کے حق میں فیصلہ ہوگا تب وہ لوگ جو پوچھا کرتے ہیں جو اِن دونوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 380

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 380

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/380/mode/1up


ان کے لئے ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہرہوں گے والسّلام علٰی من اتّبع الہدیٰ۔ دیکھو پرچہ اخبار البدر نمبر ۲۴ جلد ۲۔

اس کے بعد وہ مقدمات جو کرم الدین کی طرف سے دائر تھے خارج ہو کر وہ سزایاب ہو گیا اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ایسے طور سے پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کی قرار داداہ علامات جو فتح پانے والے کے لئے اس پیشگوئی میں ہیں وہ ہمارے نصیب ہوئیں فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔

۱۷۱۔ نشان۔ آج کی ڈاک میں ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۶ء کو بروز چار شنبہ موضع دو المیال ضلع جہلم سے مجھے ایک خط پہنچا ہے جس میں ایک بڑے نشان کا ذکر ہے اس خط کے کاتب حکیم کرم داد صاحب ہیں جو ضلع جہلم میں ایک معزز زمیندار ہیں اور موضع دو المیال ضلع جہلم تحصیل پنڈ دادن خان میں رہتے ہیں اُنہوں نے اس خط کے ساتھ ایک فقیر مرزا نام کا ایک اقرار نامہ بطور مباہلہ کے بھیجا ہے جس اقرار نامہ میں اُن کی ایک پیشگوئی میرے مرنے کی نسبت ہے جس پر گاؤں کے نمبرداروں وغیرہ کی بہت سی شہادتیں درج ہیں سو پہلے حکیم کرمداد صاحب کا خط لکھا جاتا ہے اور بعد میں فقیر مذکورکا خط جو اپنے تئیں ایک بزرگ ولی اللہ قرار دیتا ہے درج کیا جائے گا اور اخیر میں یہ ذکر ہے کہ فقیر صاحب کی وہ پیشگوئی کیونکر پوری ہوئی اور چونکہ اس واقعہ کو موضع دوالمیال کے تمام باشندے جانتے ہیں اس لئے ہر ایک کو اختیار ہے کہ اگر اس واقعہ پر اس کو پوری تسلی نہ ہو تو موضع دوالمیال میں جاکر ہر ایک شخص سے خدا تعالیٰ کی قسم دیکر دریافت کرے اور کسی کی مجال نہیں کہ مشہور شدہ واقعات کو چھپا سکے اب ہم ذیل میں حکیم کرمداد صاحب کا خط لکھتے ہیں اور بعد میں فقیر مرزا کا اقرار نامہ اور آخری نتیجہ اسؔ پیشگوئی کا درج کریں گے اور ہم خدائے قدیر و کریم کا شکر کرتے ہیں جو ہر میدان میں ہمیں فتح دیتا ہے۔

حکیم کرم داد صاحب کا خط

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 381

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 381

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/381/mode/1up


بحضور جناب مسیح موعود و مہدی معہود حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور کی سچائی کے دو بڑے نشان ہمارے گاؤں میں ظاہر فرمائے ہیں جن کو اِس گاؤں کے بچے بھی جانتے ہیں ان میں سے پہلا نشان یہ ہے کہ اِس جگہ مرزا نام ایک شخص اپنے آپ کو صاحب الہام اور کشف سمجھتا تھا وہ ۷؍رمضان ۲۱ھ میں ایک دن صبح کے وقت پندرہ بیس آدمی اپنی مسجد کے ہمراہ لے کر حافظ شہباز صاحب احمدی کے مکان پر آیا اور کہنے لگا کہ میں تمہارے مقابلہ کے لئے آیا ہوں اور یہ لوگ میرے گواہ ہیں۔ راقم عاجز نے کہا فقیر صاحب آپ کس بات میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ فقیر صاحب۔ کیا تم مرزا غلام احمد قادیانی کو مہدی مسیح موعود مانتے ہو۔ راقم۔ ہاں۔ فقیر صاحب۔ وہ شخص اس دعویٰ میں جھوٹا ہے۔ راقم۔ اُن کو جھوٹا سمجھنے میں آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ فقیر صاحب۔ دلیل یہ ہے کہ میں صاحب الہام ہوں اور بار ہا مجھے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو چکی ہے اور مجھے بتایا گیا کہ تو مہدی آخر الزمان کے پہلے درجہ کے مخلصین میں سے ہے چونکہ مرزا صاحب کے دعوے کو بہت عرصہ گذر چکا ہے اور مَیں اب تک مخالف ہوں اس لئے میں اپنے الہام کی بنا پر اس شخص کو جھوٹا سمجھتا ہوں نیز مجھے خروج مہدی کے زمانہ کا ایک نشان بھی دکھلایا گیا ہے کہ مشرق کی طرف سے ایک روشنی نمودار ہوئی ہے جو مغرب میں جاکر پھیل گئی سو یہ روشنی بھی میں نے اب تک مشاہدہ نہیں کی جو میں مرزا صاحب کو مان لوں۔ راقم۔ فقیر صاحب کا یہ الہام اور کشفی نظارہ تو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کا مُصدّق اور مؤیّد ہے پھر آپ اُن کو جھوٹا کیوں سمجھتے ہیں کیونکہ آپ کے الہام سے ثابت ہوتا ہے کہ مہدی کا ظہور پنجاب میں ہوگا ورنہ آپ پہلے درجہ کے مخلصین میں کیونکر شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر مہدی کو ظہور عرب میں مانا جاوے تو اس صورت میں آپ کا نمبر بہت پیچھے رہ جاتا ہے یا آپ مہدی کا چرچا سُن کر مغرؔ ب میں جاویں گے یا آپ کی الہامی کشش مہدی کو پنجاب میں لاوے گی دونوں صورتوں میں آپ پہلے درجہ کو حاصل نہیں کر سکتے اور جو آپ نے روشنی دیکھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قادیان مشرق کی طرف ہے اور جناب مرزا صاحب کی تعلیم سے ممالک مغربیہ میں توحید اسلام کی روشنی پھیل رہی ہے پس آپ کو مرزا صاحب کے مخلصین میں شامل ہونا چاہئے۔ فقیر صاحب۔ میں شامل نہیں ہوتا کیونکہ آج رات مَیں نے دیکھا ہے کہ مَیں عرش کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 382

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 382

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/382/mode/1up


پاس کھڑا ہوں اور مجھے کہا گیا کہ اس رمضان کی ۲۷؍تاریخ تک مرزا غلام احمد قادیانی پر ایک سخت آفت نازل ہوگی میں نہیں سمجھتا اس آفت سے مراد موت یا کوئی ذلت ہے جس سے اس کا کام درہم برہم ہو کر اس کا نام و نشان مٹ جائے گا اور تمام دنیا اس حالت کو دیکھے گی۔ اگر میری یہ پیشگوئی غلط نکلی تو مَیں ہر قسم کی سزا قبول کرنے کو طیار ہوں۔ تم میری اس پیشگوئی کو اخبار بدر یا الحکم میں شائع کرادو اور مجھ سے اقرار نامہ لکھا لو اگر تم ایسا نہیں کرتے تو حاضرین مجلس سنتے ہیں کہ تم لوگ ایک جھوٹے شخص کی پیروی کررہے ہو۔ راقم نے اس ملہم صاحب سے دیگر حاضرین مجلس کے کہنے سے اقرار نامہ لکھا لیا اور وہ اقرار نامہ یہ ہے:۔

فقیر مرزا کا اقرار نامہ جس میں پیشگوئی ہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

منکہ* مرزاولد فیض بخش قوم اوان سکنہ دو المیال علاقہ کہون تحصیل پنڈ داد نخاں ضلع جہلم کا ہوں۔ میں اس اقرار کو رو برو اشخاص ذیل لکھ دیتا ہوں کہ میں نے بار ہا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور خود عرش معلّٰی تک میرا گذر ہوا اور یہ مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ میرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں اور الہام کے ذریعہ مجھے جتایا گیا کہ میرزا غلام احمد صاحب کا سلسلہ ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۲۱ھ تک ٹوٹ پھوٹ جاوے گا اور بڑے سخت درجہ کی ذلّت وارد ہوگی جسے تمام دنیا دیکھے گی اگریہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی یعنی اگر مرزا کا یہ سلسلہ اور عروج ۲۷رمضان ۱۳۲۱ھ تک قائم رہا یا ترقی کی تو میں ہر قسم کی سزا قبول کرنے کو تیار ہوں۔ اشخاص ذیل کو اختیار ہے کہ خواہ مجھے سنگساری سے قتل کریں یا کوئی اور سزا مقرر کر ؔ یں مجھے ہر گز انکار نہ ہوگا اور نہ میرے وارثان کو اختیار ہے کہ میری سزا میں کسی قسم کی حجت پیش کرکے میرے سزا دینے والوں کے مزاحم ہوں لہٰذا میں یہ چند سطور بطور


* یہ اصل اقرار نامہ دستخطی فقیر مرزا جس میں معتبر اور معزز اشخاص کی گواہیاں اور مہریں اور انگوٹھے لگے ہوئے ہیں۔ حکیم کرمداد صاحب نے میرے پاس بھیج دیا ہے جو اس جگہ بحفاظت رکھا گیا ہے تا ہر ایک شک کر نے والے کو دکھلایا جائے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 383

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 383

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/383/mode/1up


اقرار نامہ لکھ دیتا ہوں کہ سند رہے اور کَل مجھے انکارکرنے کی گنجائش نہ رہے اور تمام دنیا میں حق و باطل میں تمیز ہو جاوے اور خلق خدا اِس واقعہ سے ایک سبق حاصل کرے خصوصاً میرے اہل شہر کو نہایت فائدہ مند اور عبرت ناک نظارہ ہے۔ پس ایک مہینے میں یہ فیصلہ ظاہر ہو جاوے گا المرقوم ۷؍رمضان المبارک ۱۳۲۱ہجری۔

العبد

فقیر مرزا ولد ملک فیض بخش سکنہ دوالمیال

نشان انگوٹھا


ملک شیر ولد قطب سکنہ دو المیال

بقلم خود کریم بخش


ملک فتح محمد بقلم خود ؍؍

حافظ شہباز بقلم خود سکنہ ایضاً

حوالدار محمد خان سکنہ ایضاً

ملک محمد بخش ولد جلال سکنہ ایضاً

ملک سمند خان ولد محمد خان سکنہ ؍؍

ملک دوست محمد ولد شکور سکنہ ؍؍

ملک اعظم سکنہ ایضاً ؍؍

ملک سخی دتہ ولد ملک لال سکنہ ؍؍

ملک خدا بخش ولد امام سکنہ ایضاً

ملک محمد علی ولد بہاؤ بخش سکنہ ایضاً

ملک گھیبا ولد بختاور سکنہ ؍؍

ملک اللہ دتہ ولد عمر سکنہ ایضاً

ملک عبد اللہ ولد شاہولی سکنہ ؍؍

ملک غلام محمد ولد دولہ سکنہ ؍؍

ملک نور محمد ولد دراب سکنہ ؍؍

ملک مدد ولد معزد اللہ سکنہ ؍؍

ملک غلام محمد ولدصوبہ دار احمد جان

بہاؤ لا نمبر دار دولمیال وغیرہ

باشندگان دوالمیال

ملک بہادر ولد کرم سکنہ ایضاً

کرم داد احمدی دو المیال عفی عنہ

راجہ نمبر دار دو المیال

(مہر)

حق و باطل میں فیصلہ ہو گیا تمام گواہوں کے رُوبرو

جھوٹے مُلہم کو اللہ تعالیٰ دُنیا سے بہت جلد اُٹھا لیتا ہے اور یہ ایک ایسا الٰہی قانون ہے جو کبھی نہیں بدلتا اس اقرار نامہ کا مقر مسمّی مرزا جو اپنے کشف پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کرکے ان کے نابود اور فناہونے کی پیشگوئی کر چکا تھا پورے ایک سال کے بعد اسی رمضان کی ۷؍تاریخ ۱۳۲۲ھ میں جس میں اقرار نامہ لکھا گیا عذاب طاعون سے ہلاک ہو گیا اور اس سے پہلے اس کی عورت بھی مر گئی اور خود اُس کے گھر کا سلسلہ تباہ ہو گیا لہٰذا ہمارے اہل دہ کو اس واقعہ سے عبرت چاہئے اور حضرت اقدس کی صداقت پر ایمان لاویں۔

المرقوم ۷؍رمضان ۱۳۲۲ھ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 384

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 384

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/384/mode/1up


راقم ؔ عاجز نے اس اقرار نامہ کو بغرض اشاعت دار الامان میں بخدمت بابو محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر البدر کے روانہ کیا انہوں نے یہ لکھ کر کہ ہم ایسے مضامین کو اپنے اخبار میں درج نہیں کرتے واپس کردیا گرد نواح کے علاقہ میں بھی اس پیشگوئی کی شہرت ہو گئی اور لوگ کہنے لگے کہ دیکھا چاہئے اب کون جیتتا ہے مرزا قادیانی یا مرزا دو المیالی بلکہ مخالف لوگ نماز کے بعد اپنے فقیر مرزا کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگنے لگے۔ ایک دن ایک ہندو سارجنٹ فقیر صاحب کو سراج الاخبار پڑھ کر سنا رہا تھا کہ حکیم فضل دین سخت بیمار ہے چارپائی اُٹھا کر گورداسپور کی عدالت میں لائے ہیں اس خبر کے سُننے سے ملہم صاحب خوش ہو کر کہنے لگے کہ اب مرزا قادیانی کی تباہی کا وقت آگیا ہے اور اس کے آثار ظاہر ہو پڑے ہیں مگر بیچارے کو کیا معلوم کہ ادھر میری تباہی کی تیاریاں ہو رہی ہیں تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ علاقہ میں طاعونی لشکر نے ڈیرے لگا دئے۔ مُلہم صاحب کو اپنے الہامات پراس قدر فخر تھا کہ میرے طفیل میرا تمام محلہ طاعون سے محفوظ رہے گا جب دوسرا رمضان آیا تو اُس کے محلہ میں طاعون شروع ہو گئی۔ اس وقت یہ چار آدمی گھر میں موجود تھے ایک ملہم دوسری ملہم کی بیوی تیسری لڑکی چوتھی لڑکے کی زوجہ پہلے ملہم کی بیوی کا طاعون سے انتقال ہو گیا پھر خود فقیر صاحب ۵یا۶؍رمضان ۱۳۲۲ھ کی شام کو سخت طاعون میں مبتلا ہو گئے ساتھ ہی زبان بند ہو گئی شدت ورم اور حبسِ دم کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے آخر پورے ایک سال کے بعد جس روز پیشگوئی کی گئی تھی یعنی ۷؍رمضان ۱۳۲۲ھ کو ہلاک ہو گیا دو لڑکیاں جو پیچھے رہ گئی تھیں وہ بھی تھوڑے دنوں کے بعد سخت بیمار ہو گئیں۔ راقم کو علاج کے واسطے بُلا کر لے گئے میں اُن کی حالت دیکھ کر ڈر گیا۔ علاج کرانے والوں کو کہا کہ اس گھر میں خدا کا غضب نازل ہو رہا ہے تم اپنی ہمشیرہ کو گھر لے جاؤ وہ گھر میں لے گئے اور مریضہ کچھ دن بعد اچھی ہو گئی جو ملہم کی لڑکی تھی وہ اُسی گھر میں دوسرے روز باپ سے جا ملی اور بجائے ۲۷؍ رمضان کے ۷؍رمضان کو حضرت مرزا صاحب قادیانی کے سلسلہ کے عوض مرزا دو المیالی کے گھر کا سلسلہ تباہ ہو گیا۔

دوسرا نشان یہ ہے کہ صوبیدار غلام محمد خان کے لڑکے عطا محمد کو ایک دیوانے کُتے نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 385

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 385

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/385/mode/1up


کاٹا ؔ اور یہ لڑکا اُس کتے کی زہر سے بیمار ہو کر مر گیا اُسی دیوانے کُتے نے راقم کے لڑکے عبد المجید کو بھی کاٹا تھا ایسا اتفاق ہوا کہ یہاں کے باشندے ایک سیّد صاحب کو لے آئے کہ یہ کڑا ڈال کر طاعون کو روکے گاخاکسار اس کڑا میں شامل نہ ہوا۔ دوسرے روز صبح کے وقت خاکسار کا لڑکا عبد المجید بیمار ہو گیا ذرا سی آواز اور آہٹ سے ایسی زور کی تشنجوں کا دورہ ہوتا تھا کہ الامان عضلات تنفس کے تشنج سے سخت دم کشی ہو کر چہرہ نیلا پڑ جاتا اور یہی معلوم ہوتا کہ اب دم ختم ہوتا ہے۔ چونکہ تمام لوگ صوبیدار صاحب کے لڑکے کی حالت دیکھ چکے تھے اس لئے ہر ایک یہی کہتا کہ یہ لڑکا دم بھرکا مہمان ہے راقم عاجز بھی طب کی رو سے عبد المجید کو مردہ تصور کر چکا۔ اُدھر مخالفوں کے طعنے کو دیکھا کہ بزرگوں کے نہ ماننے اور کڑا میں شامل نہ ہونے کا یہ نتیجہ ہے۔ الغرض اس صدمہ نے میرے دل کو پانی کر دیا تب میں سجدہ میں گر کر دعا کرنے لگا کہ اے بے کسوں اور عاجزوں کے مددگار اور گنہگاروں پر رحم فرمانے والے رحیم خدا تو جانتا ہے کہ آج میرے مخالف محض اس سبب سے خوش ہو رہے ہیں کہ میں تیرے فرستادہ اور مُرسل جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور مہدی معہود مانتا ہوں سو اے میرے خدا تو اس لڑکے کو صحت بخش تا کہ یہ مُردہ زندہ ہو کر مسیح محمدی کی صداقت پر ایک نشان ہو اس دعا کے بعد اُن علامات مُنذرہ میں تخفیف ہونے لگی یہاں تک کہ کچھ روز کے بعد بالکل صحت ہو گئی۔ الحمدللہ۔

اس نشان کو ہمارے گاؤں کے تمام لوگوں نے دیکھا ہے مخالف سے مخالف آدمی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ واقعی وہ تمام علامتیں جو اس مرض میں پائی جاتی ہیں بر خوردار عبد المجید کی مرض میں موجود تھیں دیوانہ کتے کا لڑنا* اور پھر صوبیدار صاحب کے لڑکے کا اس کُتے کی زہر سے انہیں علامات کے ساتھ مر جانا یہ سب کچھ ہمارے گاؤں کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں مگر تعصب اور ضد کا ستیاناس ہو پھر بھی لوگ مخالفت سے باز نہیں آتے۔ اے خدا کے پیارے رسول۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ گنہگار پر بڑا رحم کیا ہے اور محض اپنے فضل سے اس عاجز کو مُردہ کے زندہ ہونے کا معجزہ اپنے گھر میں دکھا دیا دعا فرمایئے اللہ تعالیٰ ہم کو اورہمارے دوسرے بھائیوں کو آپ کی فرمانبرداری میں موت دے اور

حشر نشر میں ہم آپ کے ساتھ ہوں۔ آمین

راقم آپکا خادم کرمداد از دو المیال ضلع جہلم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 386

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 386

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/386/mode/1up


۱۷۲ؔ ۔نشان۔ ایک مرتبہ کشفی عالم میں میرے پر ظاہرکیا گیا کہ کوئی سمن سرکاری میرے نام آیا ہے اور مجھے کسی کچہری میں کسی گواہی کے لئے بُلایا ہے اور میں اس کچہری میں گیا ہوں اور حاکم انگریز ہے تب اس نے بغیر حلف دینے کے جیسا کہ قانون ہے میرا اظہار لکھنا شروع کیا اور وہ تمام اظہار بغیر حلف کے ہی لکھا گیا بعد اس کے کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے یہ کشف اپنا اپنے بہت سے دوستوں کو اُسی وقت سُنا دیا چنانچہ اُن میں سے خواجہ کمال الدین بی اے پلیڈر اور اخویم مولوی حکیم نوردین صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے ہیں۔ پھر اُسی دن یا دوسرے تیسرے دن ملتان کے صاحب ڈپٹی کمشنر کا سمن ایک گواہی کے لئے میرے نام آگیا جب میں گواہی کے لئے صاحب ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں حاضر ہوا تو صاحب ڈپٹی کمشنر نے میرا اظہار لکھنا شروع کیا اور حلف دینا بھول گئے جب کُل اظہار لکھا گیا تو بعد میں حلف یاد آیا اس دوسرے حصہ کے گواہ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر اور مولوی رحیم بخش صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نواب صاحب بھوپال اور کئی لوگ ہیں۔

۱۷۳۔ نشان۔ چراغ دین ساکن جموں جب میری بیعت سے مُرتد ہو کر مخالفوں میں جا ملا تو اُس نے صرف گالیوں پر بس نہ کی بلکہ اپنے الہام اور وحی کا بھی دعویٰ کیا اور عام طور پر لوگوں میں شائع کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحی سے مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دجّال ہے تب میں نے اپنی کتاب دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء کے صفحہ ۲۳ کے حاشیہ پر وہ الہام شائع کیا جو چراغدین کی نسبت مجھ کو ہوا اور وہ یہ ہے انّی اذیب من یریب اور اُردو میں اس کی نسبت یہ الہام ہوا میں فنا کر دوں گا میں غارت کر دوں گا میں غضب نازل کروں گا اگر اُس نے یعنی چراغ دین نے شک کیا اور اس پر یعنی میرے مسیح موعود ہونے پر ایمان نہ لایا اور مامور من اللہ ہونے کے دعویٰ سے توبہ نہ کی یہ پیشگوئی چراغ دین کی موت سے تین برس پہلے کی گئی تھی جیسا کہ رسالہ دافع البلاء کی تاریخ طبع سے ظاہر ہے اور مجھے اس وقت یاد نہیں کہ مَیں پہلے بھی اس پیشگوئی کو لکھ آیا ہوں یا نہیں اگر ؔ پہلے لکھی گئی ہے تو یہ نشان اس کتاب میں گذر چکا ہے اور اس جگہ اس نشان کا مکرر لکھنا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 387

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 387

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/387/mode/1up


دوسری پیشگوئی کی تصریح کے لئے ضرور تھا بہرحال اس پیشگوئی سے تین برس بعد چراغ دین مر گیا اور غضب اللہ کی بیماری سے یعنی طاعون کی بیماری سے اُس کی موت ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ طاعون کے رسالہ میں بھی یعنی دافع البلاء میں یہ پیشگوئی لکھی ہے اور اس پیشگوئی کا ہم پہلو نشان چراغ دین کا خود اپنا مباہلہ ہے اس لئے ہم وہ نشان الگ طور پر اس پیشگوئی کے ساتھ ہی ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے:۔

۱۷۴ ۔نشان۔ یہ نشان چراغ دین کے مباہلہ کا نشان ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جبکہ چراغ دین کو بار بار یہ شیطانی الہام میری نسبت ہوئے کہ یہ شخص دجّال ہے اور اپنی نسبت یہ الہام ہوا کہ وہ اس دجّال کو نابود کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور حضرت عیسیٰ نے اس کو اپنا عصا دیا ہے تا اُس عصا سے اس دجّال کو قتل کرے تو اُس کا تکبر بہت بڑھ گیا اور اُس نے ایک کتاب بنائی اور اُس کا نام منارۃ المسیح رکھا اور اس میں بار بار اسی بات پر زور دیا کہ گویا میں حقیقت میں موعود دجال ہوں اور پھر جب منارۃ المسیح کی تالیف پر ایک برس گذر گیا تو اس نے مجھے دجّال ثابت کرنے کے لئے ایک اور کتاب بنائی اور بار بار لوگوں کو یاد دلایا کہ یہ وہی دجّال ہے جس کے آنے کی خبر احادیث میں ہے اور چونکہ غضب الٰہی کا وقت اُس کے لئے قریب آگیا تھا اس لئے اُس نے اس دوسری کتاب میں مباہلہ کی دعا لکھی اور جناب الٰہی میں دعا کرکے میری ہلاکت چاہی اور مجھے ایک فتنہ قرار دے کر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ تو اس فتنہ کو دنیا سے اُٹھا دے یہ عجیب قدرت حق اور عبرت کا مقام ہے کہ جب مضمون مباہلہ اُس نے کاتب کے حوالہ کیا تو وہ کاپیاں ابھی پتھر پر نہیں جمی تھیں کہ دونوں لڑکے اُس کے جو صرف دو ہی تھے طاعون میں مبتلا ہو کر مر گئے اور آخر ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو لڑکوں کی موت سے دو تین روز بعد طاعون میں مبتلا ہو کر اس جہان کو چھوڑ گیا اور لوگوں پر ظاہرکر گیا کہ صادق کون ہے اور کاذب کون جو لوگ اُسوقت حاضر تھے اُن کی زبانی سُنا گیا ہے کہ وہ اپنی موت کے قریب کہتا تھاکہ ’’اب خدا بھی میرا دشمن ہو گیا ہے‘‘۔ چو ؔ نکہ اس کی وہ کتاب چھپ گئی ہے جس میں وہ مباہلہ ہے اس لئے ہم اُن لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 388

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 388

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/388/mode/1up


ڈرتے ہیں وہ مباہلہ کی دعا ذیل میں لکھتے ہیں اور یہ محض اس غرض سے ہے کہ اگر اس نشان سے ایک شخص بھی ہدایت پاوے تب بھی انشاء اللہ القدیر ہمیں ثواب ہوگا اور چونکہ چراغ دین کے اصل مسودہ مباہلہ پر جو اس کی قلم سے لکھا ہوا ہے کاتب کو تاکید کی گئی ہے کہ یہ مباہلہ کی دعا جلی قلم سے لکھی جاوے اس لئے اگرچہ ہم اس کی دوسری باتوں کے مخالف ہیں تاہم اُس کی اس درخواست کو منظور کرکے مباہلہ کی دعاجلی قلم سے لکھوا دیتے ہیں کیونکہ وہ وصیّت صرف ایک دن موت سے پہلے کی گئی ہے پس کیا مضائقہ ہے کہ ہم اس کی وصیّت کو مان لیں اور وہ مباہلہ کی دُعا یہ ہے:۔

الدُّعَاء

اے میرے خدا اے میرے خدا میں صدق دل سے گواہی دیتا ہوں کہ آسمان و زمین اور ماسواہما کا تو ہی اکیلا خالق اورمالک اور رازق ہے اور آسمان و زمین ماسواء ہما کے ہر ایک ذرہ پر تیرا ہی حکم جاری اور نافذ ہے اور تو سب کا ابتدا اور انتہا ظاہر اور باطن جانتا اور سب کی آواز سُنتا اور ان کی حاجتیں بر لاتا اور آسمان و زمین کے درمیان تیرے حکم بغیر ایک ذرہ بھی ٹل نہیں سکتا اور انبیا اولیا شاہ اور گدا ملائک اور شیاطین بلکہ جمیع موجودات تیری ہی مخلوق اور محتاج ہے جو تیری رحمت کے اُمید وار اور تیرے غضب سے لرزاں ہیں اور تو ہی اکیلا اس تمام ارضی اور سماوی ظاہری اور باطنی روحانی اور جسمانی مخلوق کا خالق مالک اور معبود ہے اور تیرے سوا آسمان اور زمین و ماسواء ہما کے درمیان عبادت اور توکل یا محبت کے لائق اور کوئی معبود نہیں اور جس قدر معبود لوگوں نے ٹھہرائے ہوئے ہیں خواہ وہ بُت ہیں یاروح یا فرشتے یا شیاطین یا آسمانی اجرام یا زمینی اجسام وہ سب باطل ہیں اور تیری ہی مخلوق اور محتاج ہیں ان میں سے ایک بھی پرستش اور توکل اور محبت کے لائق نہیں بلکہ آسمان اور زمین اور ماسواء ہما کے درمیان عبادت اور توکل اور محبت کے لائق تو ہی ایکؔ خدا ہے جو ازلی ابدی زندہ خدا ہے تیرا نہ کوئی باپ ہے نہ بیٹا اور نہ کوئی جورو

ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 389

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 389

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/389/mode/1up


نہ مصاحب اور نہ کوئی مشیر ہے نہ معاون بلکہ تو اکیلا ہی سب کا خالق مالک اور غالب خدا ہے جو تمام خوبیوں کا منبع اور جمیع عیوب سے منزّہ ہے اس لئے تمام محامد تقدیس اور ستائش اور تعریف کے لائق تو ہی ایک خدا ہے اور ہماری یہ جسمانی اور روحانی یا ظاہری اور باطنی تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں اور ہم تیرے ہی لئے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سب پیغمبر اورجملہ کتب سماویہ بالعموم اور تیرا سچا اور پیارا حبیب خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلعم اور تیری پاک کلام قرآن شریف و فرقان حمید بالخصوص حق ہے اور نجات اسلام میں محدود۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت اورجزا سزا حساب اور میزان دوزخ اور بہشت لقا وغیرہ سب حق اور درست ہیں اور ہم سب مرنے کے بعد جی اُٹھیں گے اور اپنے ہی اعمال کے مطابق جزا اور سزا دیئے جائیں گے۔

اب اے میرے خدا میں تیری بارگاہ تقدّس و تعالیٰ میں نہایت عجز اور انکسار تضرّع و ابتہال کے ساتھ مؤدّبانہ التماس کرتا ہوں کہ تو جانتا ہے کہ میں وہی شخص ہوں جس کو تونے بلا کسی استحقاق محض اپنے ہی فضل و کرم سے اپنی مشیت اور ارادہ کے مطابق جوازل ہی سے مقرر کیا گیا تھا اپنے مقدس اور سچے دین اسلام کی خدمت اور نصرت کے لئے اہل دنیا میں سے چُن لیا اور اس کام کے واسطے مخصوص کیا ہے اور تو نے ہی میرے ہاتھ سے وہ روحانی منارہ جس پر نزول ابن مریم مقدر تھا تیار کرا دیا ہے اور تونے ہی مجھ سے نزول عیسیٰ کی منادی کرنے اور نصاریٰ پر حجت اسلام ثابت کرنے کی خدمت پر مقرر فرمایا ہے اور تونے ہی مجھے اپنی رحمت کے خزانہ سے وہ علم بخشا ہے جس سے نصاریٰ و اہل اسلام یا قرآن و انجیل کا باہمی اختلاف دور ہو کر اتحاد اور موافقت پیدا ہو سکتی ہے۔ ہاں وہ نزول ابن مریم کا ایک روحانی راز تھا جو مدت ہائے دراز سے اہل دُنیا پر پوشیدہ رہا اور خاص اسی زمانہ کے لئے ودیعت کیا گیا تھا اور اسی سے تو اب اپنی مخلوق پر حجت اسلام ثابت کرے گا۔ اور اسلام کو کُل دینوں پر غالب کر دے گا پس اے میرے خدا تو جانتا اور دیکھ رہا ہے کہ میں تیرے اس حکم کی تعمیل کو تیری ہی ہدایات کے مطابق انجام دے رہا ہوں اور تیری مرضی کے موافق نزوؔ ل ابن مریم کے اس نہانی راز کو اہل دُنیا پر ظاہر کرکے اتمام حجت کر رہا ہوں لیکن اے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 390

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 390

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/390/mode/1up


میرے خدا تو خود جانتا اور دیکھ رہا ہے کہ دنیا میں ایک شخص نبوت اور رسالت کا مدعی اور مسیحیت کا دعوے دار موجود ہے جو کہتا ہے کہ خاتم الانبیاء میں ہوں اور پیشگوئیوں کے مطابق نزول ابن مریم کا مصداق بھی میرا ہی وجود ہے اور کہتا ہے کہ میرے لئے آسمان اور زمین سے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ بلکہ طاعون اور زلزلے بھی میری ہی تائید میں ظاہر ہوئے ہیں تاکہ میرے مخالفوں کو ہلاک اور تباہ کر دیں۔* اور کہتا ہے کہ میں خدا کی مجسم قدرت ہوں اور نجات میرے ہی طریق میں محدود ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا وہ کافر اور مردود اور اُس کے اعمال حسنہ نامقبول اور وہ دنیا میں معذّب اور آخرت میں ملعون ہوگا اور کہتا ہے کہ اب کے موسم بہار یا کسی اور موسم بہار میں ایک سخت زلزلہ ظاہر ہوگا جس سے زمین کو انقلاب پیدا ہوگا اور اہل دنیا مہدی کے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے اِس لئے اے میرے خدا دنیا کے دل تذبذب میں ہیں اور حق ظاہر نہیں ہو سکتا اور تیری مخلوق باطل پرستی میں مبتلا ہے اور تیرے دین میں گڑ بڑ پڑ رہی ہے اور تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلعم کی ہتک کی جارہی ہے اور آنجناب کا منصب نبوت و رسالت چھین لیا گیا اور اسلام کو منسوخ اور بے اثر ٹھہرایا گیا اور ایک نئے دین کی بنیاد ڈالی گئی یعنی مرزا قادیانی کی نبوت اور رسالت پر ایمان لانے کے بغیر کوئی مسلمان خواہ وہ کیسا ہی مخلص متقی ایماندار ہو مسلمان نہیں رہ سکتا اور دین کے لئے اس کی کوششیں عبث اور بیکار ہیں اوریسا*ہی اے میرے خدا تیرے مقدس نبی مسیح ابن مریم علیہ السلام کا بھی منصب چھین لیا گیا ہے اور اس کی شان کی تحقیر کی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ کلمۃ اللہ اور روح القدس گنہگار تھا اور میں اُس سے بہتر ہوں پس اے میرے خدا اب تو آسمان پر سے نظر فرما اور اپنے دین اسلام اور اپنے مقدسوں کی عزت بچا اور ان کی نصرت کے لئے اپنی خدمت کا ہاتھ ظاہر کر اور اس فتنہ کو


* یہ عجیب کلمہ چراغدین کے منہ سے میری نسبت نکلا ہے کہ خدا میرے مخالفوں کو طاعون اور زلزلہ سے ہلاک کرے گا۔ سو چراغدین اپنے اس کلمہ کے مطابق طاعون سے ہلاک ہو گیا اور کیا تعجب کہ آئندہ کوئی مخالف زلزلہ سے بھی ہلاک ہو۔ من المؤلف



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 391

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 391

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/391/mode/1up


دُنیا پر سے اُٹھا۔* اور اہل دُنیا کو حق کی طرف توجہ دلا اور اُن کو اتباع کی توفیق عنایت کر اور مدعیؔ نبوت کی دقیق عمیق پالسی دریافت کرنے کے لئے ان کی بصیرتوں کو تیز فرما اور اہل دنیا کو تمام ارضی و سماوی آفات یعنی طاعون و زلزلہ وغیرہ سے محفوظ رکھ اور ان کو ہر طرح سے امن اور چین عطا فرما کیونکہ تو قادر اور غفور الرحیم ہے اور اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرنا تیرا ہی کام ہے اور ہم عاجز ضعیف انسان ہیں۔ بھول چوک سے محفوظ نہیں ہم تو ہر وقت خطاکار ہیں اور تیری ہی بخشش کے امیدوار۔ اِس کے بعد اے میرے خدا مَیں یہ بھی التماس کرتا ہوں اور میری روح تیری عالی و مقدس جناب میں التجا کر رہی ہے اور میری آنکھیں تیری نصرت کی انتظار میں تیری ہی طرف ہیں کہ تو اس سلسلہ کی صداقت کو جو تیرے ہی حکم اور منشا کے مطابق تیرے مقدس دین و اسلام کی نصرت میں اور تیرے مقدس نبیوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے اہل دنیا پر ظاہر کر دے اور اُن کی بصیرتوں کو روشن کر اور اُن کو اتباع حق کی توفیق بخش تاکہ تیرا جلال ظاہر ہو اور تیری مرضی جیسی کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی ظاہر ہو کیونکہ اے میرے خدا تو جانتا اور دیکھتا ہے کہ میں ایک عاجز اور ضعیف انسان ہوں تیری مدد کے سوا کچھ کہہ نہیں سکتا اور دلوں پر اثر ڈالنا اور حق کی پہچان میں ان کی بصیرتوں کو کھولنا تیرا ہی کام ہے اس لئے اگر تیری امداد میرے شامل حال نہ ہوگی تو میں ناکامیاب رہ جاؤں گا جیسا کہ جھوٹے رہ جاتے ہیں پس اے میرے خدا تو اِس سلسلہ کی نصرت میں اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر فرما اور جس غرض کے لئے یہ جاری کیا گیا ہے اس کو انجام دے اور صداقت کو مذاہب غیر کے معتقدوں پر عموماً اور اہل اسلام پر خصوصًا کھول دے اور اُن کو اِس کے اتباع کی توفیق عنایت کر کیونکہ تو قادر ہے۔ اور آسمان و زمین کا* ہر ایک ذرہ پر تیرا ہی حکم نافذ ہے کیا ممکن کہ تیرے حکم کے بغیر ایک ذرہ حرکت کر سکے لہٰذا تو جو چاہتا ہے کرتا ہے تیرے آگے کوئی بات انہونی اور محال نہیں اور


* یعنی اس شخص کو جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ہلاک کر۔ منہ *سہو کتابت ہے درست ’’کے‘‘ ہے۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 392

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 392

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/392/mode/1up


تیرے وعدے سچے اور تیرا ارادہ غیر مبدّل ہے اور تیری رحمت ابدی اور تیری قدرت کامل ہے تیرے ہی حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں اور تو ہی رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی کو ؔ نمودار کر دیتا ہے اور آفتاب کو مغرب سے مشرق کی طرف کھینچ لاتا ہے تو ہی دنیا میں انقلاب ڈالتا۔ کسی کو شاہی تخت پر اور کسی کو تودۂ راکھ پر بٹھا دیتا ہے اور توہی حق اور باطل میں فیصلہ کر سکتا ہے تو ہی اس امر میں ہماری نصرت فرما اور حق ظاہر کر اور مخلوق کو گمراہی کی موت سے بچا اور اُن کو صراطِ مستقیم کی طرف راہ نمائی کر آمین ثم آمین۔

یہ ہے عبارت چراغ دین کے مباہلہ کی جس میں وہ مجھے اپنا فریق مخالف ٹھہرا کر اور مجھے دجّال قرار دے کر خدا تعالیٰ کا فیصلہ مانگتا ہے اور مجھے ایک فتنہ قرار دے کر میرے اُٹھائے جانے کی درخواست کرتا ہے اور میری ہلاکت مانگتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اے خدا اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر فرما۔ سو الحمدللہ کہ اس مباہلہ کے ایک دن بعد خدا تعالیٰ نے قدرت کا ہاتھ دکھا دیا اور ابھی اس مباہلہ کی کاپی پتھر پر نہیں جمائی گئی تھی کہ ۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو طاعون نے اس ظالم کو مع اس کے دونوں بیٹوں کے ہلاک کر دیا یہ ہیں خدا کے کام۔ یہ ہیں خدا کے معجزات۔ یہ ہے خدا کی قدرت کا ہاتھ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

۱۷۵۔ نشان۔ ایک دفعہ پنڈت شونارائن اگنی ہوتری صاحب ایڈیٹر رسالہ برادر ہند کا ایک خط لاہور سے آنے والا تھا جس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ میں براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ کا ردّ لکھوں گا جس میں الہام ہیں اور ایسا اتفاق ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اُس خط کے پہنچنے سے پہلے اُسی دن بلکہ اُسی ساعت جبکہ وہ لاہور میں اپنا خط لکھ رہے تھے مجھ کو اس خط سے بذریعہ کشف اطلاع دے دی اور کشفی طور پر وہ خط میرے سامنے آگیا اور میں نے اُس کو پڑھا اُس وقت اُن آریوں کو جن کا کئی دفعہ ذکر آچکا ہے اس خط کے مضمون سے اُسی دن خط آنے سے پہلے مطلع کر دیا اور دوسرے دن اُن میں سے ایک آریہ ڈاک خانہ میں خط لینے کو گیا اور اُس کے رو برو ڈاک کے تھیلہ سے وہ خط نکلا اور جب پڑھا گیا تو بلا کم و بیش وہی مضمون تھا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 393

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 393

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/393/mode/1up


جو میں نے بیان کیا تھا تب وہ آریہ لوگ نہایت حیرت میں اور تعجب میں رہ گئے وہ اب تک زندہ موجود ہیں اور حلف دینے سے راست راست بیان کر سکتے ہیں۔

۷۶ؔ ۱۔نشان۔ رسالہ اعجاز المسیح جب فصیح عربی میں مَیں نے لکھا تو خدا تعالیٰ سے الہام پاکر میں نے یہ اعلان شائع کیا کہ اس رسالہ کی نظیر اس فصاحت بلاغت کے ساتھ کوئی مولوی پیش نہیں کر سکے گا تب ایک شخص پیر مہر علی نام ساکن گولڑہ نے یہ لاف و گزاف مشہور کی کہ گویا وہ ایسا ہی رسالہ لکھ کر دکھلائے گا اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا منعہ مانع من السماء یعنی ایک مانع نے آسمان سے اس کو نظیر پیش کرنے سے منع کر دیا تب وہ ایسا ساکت اور لاجواب ہو گیا کہ اگرچہ عوام النّاس کی طرح اردو میں بکواس کرتا رہا۔ مگر عربی رسالہ کی نظیر آج تک لکھ نہ سکا۔

۱۷۷۔ نشان۔ میرے مکان کے ملحق دو مکان تھے جو میرے قبضہ میں نہیں تھے۔ اور بباعث تنگی مکان توسیع مکان کی ضرورت تھی ایک دفعہ مجھے کشفی طور پر دکھلایا گیا جو اس زمین پر ایک بڑا چبوترہ ہے اور مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ اس جگہ ایک لمبا دالان بن جائے اور مجھے دکھایا گیا کہ اس زمین کے مشرقی حصہ نے ہماری عمارت کے بننے کے لئے دعا کی ہے مغربی حصہ کی زمین افتادہ نے آمین کہی ہے۔ چنانچہ فی الفور یہ کشف اپنی جماعت کے صدہا آدمیوں کو سنایا گیا اور اخباروں میں درج کیا گیا بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ وہ دونوں مکان بذریعہ خریداری اور وراثت کے ہمارے حصہ میں آگئے اور اُن کے بعض حصوں میں مکانات مہمانوں کے لئے بنائے گئے حالانکہ اُن سب کا ہمارے قبضہ میں آنا محال تھا اور کوئی خیال نہیں کر سکتا تھا کہ ایسا وقوع میں آئے گا دیکھو اخبار الحکم نمبر ۴۶ و ۴۷ جلد ۷* والحکم نمبر ۳ جلد ۸۔

۱۷۸۔ نشان۔ ایک دفعہ خلیفہ سید محمد حسن صاحب وزیر ریاست پٹیالہ نے اپنے کسی اضطراب اور مشکل کے وقت میری طرف خط لکھا کہ میرے لئے دعا کریں چونکہ انہوں نے کئی دفعہ ہمارے سلسلہ میں خدمت کی تھی اس لئے اُن کے لئے دعا کی گئی تب


*اصل میں جلد کا نمبر درج نہیں تھا اب درج کر دیا گیا ہے۔( ناشر)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 394

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 394

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/394/mode/1up


منجانب اللہ الہام ہوا:۔

چل رہی ہے نسیم رحمت کی جو دُعا کیجئے قبول ہے آج

اس دعا کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ مشکلات اُن کے دور کر دیئے اور انہوؔ ں نے شکر گذاری کا خط لکھا اس واقعہ کا وہی خط گواہ ہے جو میرے کسی بستہ میں موجود ہوگا اور کئی اور لوگ گواہ ہیں بلکہ اُس وقت صدہا آدمیوں میںیہ میرا الہام شہرت پا گیا تھا اور نواب علی محمد خان مرحوم رئیس جھجر نے بھی اپنی یاد داشت میں اس کولکھ لیا تھا۔

۱۷۹۔ نشان۔ مولوی کرم دین کے مقدمہ میں جو گورداسپور میں دائر تھا کرم دین مذکور اس بات پر زور دیتا تھا کہ لئیمکے لفظ کے معنی ولد الزنا ہیں اور کذّاب کے یہ معنی ہیں جو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو یہی معنی پہلی عدالت نے قبول کئے ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے الہام ہوا۔ معنیء دیگر نہ پسندیم ما جس سے یہ تفہیم ہوئی کہ دوسری عدالت میں یہ معنی قائم نہیں رہیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اپیل کی عدالت میں صاحب ڈویزنل جج نے ان تمام عذرات کو ردّ کر دیا اور یہ لکھا کہ کذّاب اور لئیم کے الفاظ کرم دین کے مناسب حال ہیں بلکہ وہ اس سے بڑھ کر الفاظ کا بھی مستحق ہے سو صاحب ڈویزنل جج نے وہ پُر تکلف معنے کرم دین کے پسند نہ کئے جو پہلی عدالت میں پسند کئے گئے تھے دیکھو اخبار الحکم نمبر ۱۷ جلد ۸*۔ ۲۴؍مئی ۱۹۰۴ء جس میں یہ الہام موجود ہے۔

۱۸۰ ۔نشان۔ ایک دفعہ ۱۹۰۲ء میں مجھے الہام ہوا یریدون ان یطفؤا نورک۔ و یتخطفوا عرضک۔ وانّی معک و مع اھلک۔ یعنی دشمن لوگ ارادہ کریں گے کہ تیرے نور کو بجھا ویں اور تیری آبرو ریزی کریں مگر میں تیرے ساتھ ہوں گا اور اُن کے ساتھ جو تیرے ساتھ ہیں اور انہی دنوں میں میں نے دیکھا کہ میں ایک کوچہ میں ہوں جو آگے سے بند ہے اور بہت تنگ کوچہ ہے کہ بمشکل ایک آدمی اس میں سے گذر سکتا ہے۔ میں بند کوچہ کے آخری حصہ میں جس کے آگے کوئی راہ نہ تھا دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور جو واپس جانے کی طرف راہ تھی اس کی طرف جب نظر اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تین قوی ہیکل سنڈھے وہاں کھڑے ہیں جو خونی ہیں اور گذرنے کی


*اصل میں جلد کا نمبر درج نہیں تھا اب درج کر دیا گیا ہے۔( ناشر)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 395

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 395

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/395/mode/1up


راہ بند کر رکھی ہے ایک اُن میں سے میری طرف حملہ کرکے دوڑا اُس کو میں نے ہاتھ سے ہٹا دیا پھر دوسرا حملہ آورہوا اُس کو بھی میں نے ہاتھ سے ہٹا دیا۔ پھر ؔ تیسرا اس شدت اورجوش سے آیا کہ اُسے دیکھ کر یقین ہوتا تھا کہ اب خیر نہیں لیکن جب میرے قریب آیا تو دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور میں اس کے ساتھ رگڑ کر اُس کے پاس سے گذر گیا اِسی اثناء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے چند کلمات میرے دل پر القا ہوئے جن کو میں پڑھتا جاتا اور دوڑتا تھا اور وہ یہ ہیں رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَاْنصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی۔ اس واقعہ کے دیکھنے کے ساتھ ہی مجھ کو تفہیم ہوئی کہ کوئی دشمن مقدمہ برپا کرے گا اور اس کے تین وکیل ہوں گے اور یہ الہام اور کشف قبل ظہور اس مقدمہ کے پرچہ اخبار الحکم ۱۹۰۲ء یعنی الحکم نمبر ۲۴ میں درج ہو کر شائع کی گئی بعد میں کرم دین نے جہلم میں میرے پر مقدمہ کیا اور میری طلبی ہوئی اور وہ مقدمہ فوجداری اور سخت مقدمہ تھا اور جیسا کہ کشفی حالت میں ظاہر کیا گیا تین وکیل اس کے تھے۔ آخرکار بموجب وعدہ الٰہی وہ مقدمہ اُس کا خارج ہوا دیکھو پرچہ اخبار الحکم ۱۹۰۲ء نمبر ۲۴ جلد ۶۔*

۱۸۱۔* نشان۔ خدا تعالیٰ نے مجھے خبردی کہ ایک لڑکی تمہارے گھر میں پیدا ہوگی اور مر جائے گی اور اُس کا نام غاسق رکھا یعنی غروب ہونیوالی اور یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ طفولیت


* مولوی کرم دین کے متعلق ایک پیشگوئی مفصل طور پر اخبار الحکم میں قبل از وقت شائع ہو چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک فوجداری مقدمہ میں عدالت ماتحت میرے بر خلاف فیصلہ کریگی اور پھر عدالت عالیہ سے میرے بریت ہو جائیگی چنانچہ کرم دین نے جب گورداسپور میں میرے پر فوجداری مقدمہ کیا تو عدالت ماتحت یعنی آتمارام کے محکمہ سے پانسو روپیہ جرمانہ میرے پرہوا۔ پھر عدالت عالیہ یعنی صاحب ڈویزنل جج کے محکمہ سے وہ حکم منسوخ ہو کر عزت کے ساتھ میری بریّت ہوئی اور حاکم مجوز نے لکھا کہ لفظ کذاب اور لئیم جو کرم دین کی نسبت استعمال کئے گئے ہیں وہ محل پر ہیں اور کرم دین ان الفاظ کا مستحق ہے بلکہ اگر ان الفاظ سے بڑھ کر اور سخت الفاظ کرم دین کی نسبت لکھے جاتے تب بھی وہ ان الفاظ کا مستحق تھا ایسے الفاظ سے کرم دین کی کوئی ازالہ حیثیت عرفی نہیں ہوئی۔ یہ پیشگوئی وقت سے بہت پہلے شائع کی گئی تھی۔ منہ

* یہ نشان پہلے بھی لکھا جا چکا ہے مگر اب اس جگہ مزید تشریح کے لئے دوبارہ درج کیا گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 396

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 396

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/396/mode/1up


میں ہی مر جائے گی چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق لڑکی پیدا ہوئی اور پیشگوئی کے مطابق طفولیت میں ہی مر گئی دیکھو اخبار الحکم نمبر ۴ جلد ۷۔

۱۸۲ ۔نشان۔ مولوی محمد فضل صاحب احمدی مقام چنگاتحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی سے لکھتے ہیں کہ ایک روز ماہ مئی ۱۹۰۴ء کو بمقام چنگا تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی جبکہ میں کچھ آدمیوں کے ساتھ جن میں بعض احمدی اور چند غیر احمدی شامل تھے نماز جمعہ ادا کرکے مسجد میں بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص مسمّی فضل داد خان نمبردار چنگا جو میرا ہم قوم اور رشتہ میں سے تھا ایک شخص کے ورغلانے سے مسجد میں آکر مجھے معہ دیگر احمدیوں کے ملامت کرنے لگا اور کہا کہ تم لوگ مسجد میں نماز نہ پڑھا کرو مسجد کو بھرشٹ کر دیا ہے پھر فروعی مسائل کا جو احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مختلف فیہ ہیں ذکر چھیڑ کر میرے ساتھ مجادلہ شروع کر دیا۔ میںؔ نے اُس کو معقولاً و منقولاً سمجھایا اور خوب ملزم کیا مگر وہ تکذیب پر اڑا رہا اور اُس کے بہکانے سے عوام کو میں نے احمدیوں پر مشتعل پایا اوردیکھا کہ وہ شخص فتنہ اور فساد سے باز نہیں آتا اُس وقت میرے دل پر سخت قلق واضطراب پیدا ہوا کہ خداوندا اب اِس امر کا کیا علاج ہو اس شخص کے ذریعہ بڑا فتنہ ہونے والا ہے۔ تب میں نے اس کو اپنا مخاطب بناکر کہا کہ اگر میں جو مسائل بیان کر رہا ہوں اُن میں جھوٹا ہوں تو خدا تعالیٰ تجھ سے پہلے مجھے ہلاک کرے اور اگر تو جھوٹا ہے تو خدا تعالیٰ تجھے ہلاک کرے۔ تب فضل داد خان نے ان لفظوں کے ساتھ مجھے جواب دیا کہ خدا تجھے ہلاک کرے۔ پھر میں اُسی وقت مسجد سے باہر آگیا اور لوگ منتشر ہو گئے۔ پھر چند روز کے بعد شخص مذکور (یعنی فضل داد خان) درد شکم کی سخت مرض میں مبتلا ہو گیا اور دس۱۰ ماہ کے اندر ۲۴؍مارچ ۱۹۰۶ء کو مر گیا اوراپنی موت سے سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا نشان بطور یادگار چھوڑ گیا۔

کچھ مدت تک مجلس مباہلین حاضرین میں اس کے مرنے سے ایک دہشت اور رُعب پھیل گیا تھا اور میں نے اپنے بعض مخالفین سے بھی اپنے کانوں کے ساتھ یہ ذکر سُنا کہ اس شخص کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 397

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 397

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/397/mode/1up


موت بطور نشان ہوئی ہے۔ العبد

خاکسار محمد فضل احمدی مقام چنگا تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی

۳۰؍ستمبر ۱۹۰۶ء

گواہ مباہلہ و موت فضل داد خان گواہ شدفضل خان بقلم خود گواہ شد شاہ ولی خان بقلم خود

نظام الدین درزی نشان انگوٹھا بیان مذکورہ بالا صحیح ہے بیان مذکورہ بالا صحیح ہے

۱۸۳۔ نشان۔ وہی محمد فضل صاحب احمدی مقام چنگا سے لکھتے ہیں کہ ایک صاحب کریم اللہ نام جو ڈاک خانہ جات حلقہ گوجرخان کے انسپکٹر تھے ماہ جون ۱۹۰۴ء کو بمقام چنگا میاں غلام نبی سب پوسٹ ماسٹر چنگا کے مکان پر اُترے اور میں اُن کو معزز اور خواندہ سمجھ کر اُن کے پاس گیا تب انہوں نے مجھے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے برگزیدہ و مقدس انسان یعنی حضور کے متعلق کچھ سُبک الفاظ کہنے شروع کئے اور پھر حضور کے متعلق اعتراضات سخت گندے الفاؔ ظ کے ساتھ استعمال کئے اور میرے ساتھ مباحثہ شروع کر دیا۔ گاؤں کے بہت لوگ جمع ہو گئے میں نے اُس کی باتوں کا مہذبانہ جواب دیا اور اُس نے حضور کی نسبت ٹھٹھا اور استہزاکرنا شروع کیا اور مجھے کہا کہ چالیس دن کے اندر تمہیں سخت ضرر پہنچے گا اور تمہارا بڑا نقصان ہوگا اور سب لوگ دیکھیں گے میں نے جواب دیا کہ تمہاری پیشگوئی بیہودہ ہے میرا خدا حافظ ہے مگر یاد رکھوکہ مسیح موعود کے مقابل پر جو انسان گستاخی کرتا ہے خدا اُس کو سزا دے گا۔ میں یہ کہہ کر اس گندی مجلس سے رخصت ہو گیا کچھ تھوڑے دنوں کے بعد سُنا گیا کہ اس انسپکٹر کے گھر میں نقب زنی ہوئی اور بہت سامال عزیز اُس کا چوری گیا بعد اس کے گوجرخان کے حلقہ میں عام لوگوں نے اُس کی شکائتیں شروع کر دیں چنانچہ وہ اس کے بعد ایک سرحدی ضلع میں تبدیل کیا گیا۔

العبد

محمد فضل احمدی مقام چنگا تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی

گواہ شد نظام الدین خیاط گواہ شد شاہ ولی خان

بقلم خود گواہ شد فضل خان بقلم خود



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 398

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 398

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/398/mode/1up


۱۸۴۔ نشان۔ ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمٰعیل کا جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن ہے۔ پٹیالہ سے خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور خط کے اخیر میں یہ بھی لکھا تھا کہ اسحاق میرا چھوٹا بھائی بھی فوت ہو گیا ہے اور تاکید کی تھی کہ خط کو دیکھتے ہی چلے آویں اور اتفاق ایسا ہوا کہ ایسے وقت میں وہ خط پہنچا کہ جب خود میرے گھر کے لوگ سخت تپ سے بیمار تھے اور مجھے خوف تھا کہ اگر اُن کو اِس خط کے مضمون سے اطلاع دی جائے گی تو اندیشہ جان ہے۔ تب میرا دل نہایت اضطراب میں پڑا اُس اضطراب کی حالت میں مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ یہ خبر وفات صحیح نہیں اور میں نے اس الہام سے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور شیخ حامد علی اور بہت سے لوگوں کو ا طلاع دی اور پھر بعد اس کے شیخ حامد علی کو جو میرا ملازم ہے پٹیالہ میںؔ بھیجا تو معلوم ہوا کہ درحقیقت وہ خبر خلاف واقعہ تھی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ بغیر خدا تعالیٰ کے کسی کو اُمور غیبیہ پر اطلاع نہیں ہوتی اور یہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسی غیب کی خبر دی جس نے خط کے مضمون کو ردّ کر دیا۔

۱۸۵۔ نشان۔ بعض نشان اِس قسم کے ہوتے ہیں کہ اُن کے وقوع میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں ہوتی کہ فی الفور واقع ہو جاتے ہیں اور ان میں گواہ کا پیدا ہونا کم میسر آتا ہے اِسی قسم کا یہ ایک نشان ہے کہ ایک دن بعد نماز صبح میرے پر کشفی حالت طاری ہوئی اور میں نے اُس وقت اس کشفی حالت میں دیکھا کہ میرا لڑکا مبارک احمد باہر سے آیا ہے اور میرے قریب جو ایک چٹائی پڑی ہوئی تھی اُس کے ساتھ پیر پھسل کر گر پڑا ہے اور اُس کو بہت چوٹ لگی ہے اور تمام کُرتہ خون سے بھر گیا ہے میں نے اُس وقت مبارک احمد کی والدہ کے پاس جو اُس وقت میرے پاس کھڑی تھیں یہ کشف بیان کیا تو ابھی میں بیان ہی کر چکا تھا کہ مبارک احمد ایک طرف سے دوڑاآیا جب چٹائی کے پاس پہنچا تو چٹائی سے پیر پھسل کر گر پڑا اور سخت چوٹ آئی اور تمام کُرتہ خون سے بھر گیا۔ اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 399

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 399

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/399/mode/1up


ایک منٹ کے اندر ہی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ ایک نادان کہے گا کہ اپنی بیوی کی گواہی کا کیا اعتبار ہے اور نہیں جانتا کہ ہر ایک شخص طبعًا اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر پھر جھوٹ بولے۔ سوا اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر معجزات کے گواہ آنجناب کے دوست اور آنجناب کی بیویاں تھیں اِس صورت میں وہ معجزات بھی باطل ہوتے ہیں اور اکثر نشانوں کے دیکھنے والے یہی لوگ ہوتے ہیں کیونکہ ہر وقت ساتھ رہنے کا انہیں کو اتفاق ہوتا ہے دشمنوں کو کہاں نصیب ہو سکتا ہے کہ وہ ان نشانوں کو دیکھ سکیں کہ جو ایک طرف بذریعہ پیشگوئی بتلائے جاتے اور دوسری طرف معاً پورے ہو جاتے ہیں دشمن کا تو دل بھی دور ہوتا ہے اور جسم بھی دور۔

۸۶ؔ ۱۔ نشان۔ ایسا ہی عرصہ قریباً تین سال کا ہوا ہے کہ صبح کے وقت کشفی طور پر مجھے دکھایا گیا کہ مبارک احمد سخت مبہوت اور بدحواس ہو کر میرے پاس دوڑا آیا ہے اور نہایت بے قرار ہے اور حواس اُڑے ہوئے ہیں اور کہتا ہے کہ ابّا پانی یعنی مجھے پانی دو! یہ کشف میں نے نہ صرف گھر کے لوگوں کو بلکہ بہتوں کو سُنادیا تھا کیونکہ اس کے وقوع میں ابھی قریباً دو گھنٹے باقی تھے۔ اِس کے بعد اُسی وقت ہم باغ میں گئے اور قریباً ۸ بجے صبح کا وقت تھا اور مبارک احمد بھی ساتھ تھا اور مبارک احمد کئی دوسرے چھوٹے بچوں کے ساتھ باغ کے ایک گوشہ میں کھیلتا تھا اور عمر قریباً چار برس کی تھی اُس وقت مَیں ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا میں نے دیکھا کہ مبارک احمد زور سے میری طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور سخت بد حواس ہو رہا ہے میرے سامنے آکر اتنا اس کے مُنہ سے نکلا کہ ابّا پانی۔ بعد اس کے نیم بیہوش کی طرح ہو گیا اور وہاں سے کنواں قریباً پچاس قدم کے فاصلہ پر تھا میں نے اُس کو گود میں اُٹھا لیا اور جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں تیز قدم اُٹھا کر اور دوڑ کر کنوئیں تک پہنچا اور اس کے مُنہ میں پانی ڈالا جب اُس کو ہوش آئی اور کچھ آرام آیا تو میں نے اُس سے اِس حادثہ کا سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا کہ بعض بچوں کے کہنے سے میں نے بہت پسا ہوا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 400

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 400

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/400/mode/1up


نمک پھانک لیا اور دماغ پر بخار چڑھ گئے اور سانس رُک گیا اورگلا گھونٹا گیا پس اس طرح پر خدا نے اُس کو شفا دی اور کشفی پیشگوئی پوری کی۔

۱۸۷۔ نشان۔ میرے بڑے بھائی جن کا نام میرزا غلام قادر تھا کچھ مُدّت تک بیماررہے جس بیماری سے آخر اُن کا انتقال ہوا جس دن اُن کی وفات مقدّر تھی صبح مجھے الہام ہوا کہ جنازہ۔ اور اگرچہ کچھ آثار اُن کی وفات کے نہ تھے مگر مجھے سمجھایا گیا کہ آج وہ فوت ہو جائیں گے اور میں نے اپنے خاص ہم نشینوں کو اِس پیشگوئی کی خبر دے دی جو اَب تک زندہ ہیں۔ پھر شام کے قریب میرے بھائی کا اؔ نتقال ہو گیا۔

اِن تمام پیشین گوئیوں میں جو اِس جگہ لکھی گئی ہیں میں نے اختصار کے خیال سے بہت کم گواہوں کا ذکر کیا ہے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار گواہ ہیں جن کے رو برو یہ پیشین گوئیاں کی گئیں۔ اور پوری ہوئیں بلکہ بعض پیشگوئیوں کے تو کئی لاکھ گواہ ہیں۔

میرا ارادہ تھا کہ ان نشانوں کو تین سو تک اس کتاب میں لکھوں اور وہ تمام نشان جو میری کتاب نزول المسیح اور تریاق القلوب وغیرہ کتابوں میں لکھے گئے ہیں اور دوسرے نئے نشان اِس قدر اس میں لکھ دوں کہ تین۳۰۰ سو کا عدد پوراہو جائے مگر تین روز سے میں بیمار ہو گیا ہوں اور آج اُنتیس۲۹ ستمبر ۱۹۰۶ء کو اِس قدر غلبہ مرض اور ضعف اور نقاہت ہے کہ میں لکھنے سے مجبور ہو گیا ہوں اگر خدا نے چاہا تو حصۂ پنجم براہین احمدیہ میں یہ تین۳۰۰ سو نشان یا زیادہ اس سے لکھے جاویں گے بالآخر اس قدر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ان نشانوں سے کسی کا دل تسلی پذیر نہ ہو اور ایسا شخص اُن لوگوں میں سے ہو جو الہام اور وحی کا دعویٰ کرتے ہیں تو اُس کے لئے یہ دوسری راہ کھلی ہے کہ وہ میرے مقابل پر اپنے الہام اپنی قوم کے دو اخباروں میں ایک سال تک شائع کرتا رہے اور دوسری طرف میں وہ تمام

امور غیبیہ جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوں اپنی جماعت کے دو اخباروں میں شائع کروں اور دونوں فریقوں
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 22. Page: 401

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 401

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کے لئے شرط یہ ہے کہ جو الہام اخباروں میں درج کرائے جائیں وہ ایسے ہوں کہ ہر ایک اُن میں سے امور غیبیہ پر مشتمل ہو اور ایسے امور غیب ہوں جو انسانی طاقتوں سے بالاترہوں اور پھر ایک سال کے بعد چند منصفوں کے ذریعہ سے دیکھا جائے گا کہ کس طرف غلبہ اور کثرت ہے اور کس فریق کی پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں اور اس امتحان کے بعد اگر فریق مخالف کا غلبہ رہا اور میرا غلبہ نہ ہوا تو میں کاذب ٹھہروں گا ورنہ قوم پر لازم ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر آئندہ طریق تکذیب اور انکار کو چھوڑ دیں اور خدا کے مرسل کا مقابلہ کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ اور یاد رہے کہ جن اعتراضوں کو وہ پیش کرتے ہیں اگر ان سے کچھ ثابت ہوتاہے تو بسؔ یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے دل تعصب کے غبار اور تاریکی سے بھر گئے ہیں اور اُن کی آنکھوں پر بُغض اور حسد کے پردے آگئے ہیں مثلاً بار بار یہ پیش کرنا کہ ڈپٹی آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیا یہ ایمانداری کا اعتراض ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہ ہوئی کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گیار۱۱ہ برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے کہ آتھم مرگیا اور اب زمین پر اُس کا نام و نشان نہیں اور اُس کا رجوع کرنا قریباً ستر آدمیوں کی گواہی سے ثابت ہے جبکہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عین مجلس مباحثہ میں دجّال کہنے سے رجوع کیا اور پھر پندرہ مہینے تک روتا رہا اور یہ پیشگوئی شرطی تھی جیسا کہ پیشگوئی کے یہ لفظ تھے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے پھر جبکہ اس نے رجوع کر لیا اور ان گواہوں کے رُو برو رجوع کیا جن میں سے اب تک بہت سے زندہ ہیں تو پھر اب تک اعتراض کرنے سے باز نہ آنا کیا کسی پاک طینت کی علامت ہے۔


ایسا ہی محض تعصّب اور جہالت سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت بھی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور دیانت کا حال یہ ہے کہ اس اعتراض کے وقت احمد بیگ کا نام بھی نہیں لیتے کہ اُس پر کیا حقیقت گذری اور محض خیانت کے طور پر پیشگوئی کی ایک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 402

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 402

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ٹانگ مخفی رکھ کر دوسری ٹانگ پیش کر دیتے ہیں اور دیدہ و دانستہ لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ اِس پیشگوئی کی دوشاخیں تھیں ایک شاخ احمد بیگ کی نسبت اور دوسری احمد بیگ کے داماد کی نسبت۔ سو احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہو گیا اور اس کے مرنے سے اس کے وارثوں کے دلوں کو بہت صدمہ پہنچا اور خوف سے بھر گئے اور یہ تو انسانی سرشت میں داخل ہے کہ جب دو شخص ایک ہی بلا میں(جو وارد ہونیوالی ہو) گرفتار ہوں اور ایک اُن میں سے اس بلا کے نزول سے مر جائے تو جو شخص ابھی زندہ ہے وہ اور اُس کے وارث سخت خوف اور اندیشہ میں پڑ جاتے ہیں چونکہ یہ پیشگوئی شرطی تھی* جیسا کہ آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اِس لئے جب احمد بیگ کے مرنے سے وہ لوگ سخت خوف اور اندیشہ میں پڑ گئے اور دعائیں کیں اور صدقہ و خیرات بھی کیا اور بعض کے خط عجز و نیاز کے بھرے ہوئے میرے پاس آئےؔ جو اب تک موجود ہیں تو خدا تعالیٰ نے اپنی شرط کے پورا کرنے کے لئے

اس پیشگوئی میں بھی تاخیر ڈال دی مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت جا بجا شور مچاتے ہیں اور صدہا رسالوں اور اخباروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی ایک دفعہ بھی شرافت اور راست گوئی کے لحاظ سے پورے طور پر پیشگوئی کا ذکر نہیں کرتے اور کبھی کسی رسالہ میں نہیں لکھتے کہ اس پیشگوئی کی دو شاخیں تھیں ایک شاخ ان میں سے میعاد کے اندر پوری ہو چکی ہے یعنی احمد بیگ کی موت بلکہ ہمیشہ اور ہر محل اور ہر موقع اور ہر مجلس میں اور ہر رسالہ اور ہر اخبار میں احمد بیگ کے داماد کو ہی روتے ہیں اور جو مر گیا اُس کو نہیں روتے یہ شرافت اور دیانت اس زمانہ کے مولویوں کے ہی حصہ میں آگئی ہے۔


* اس پیشگوئی میں شرطی الہام یہ تھا جو اُسی زمانہ میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے۔ ایّتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علٰی عقبک یعنی اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلاتیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر نازل ہونے والی ہے پس اس کی لڑکی پر تو بلا نازل ہوئی کہ اُس کا خاوند مرزا احمد بیگ مر گیا لیکن احمد بیگ کی وفات کے بعد بوجہ خوف اور دعا اور صدقہ خیرات کے لڑکی کی لڑکی اس بلا کے نزول سے اس وقت تک بچائی گئی جو خدا تعالیٰ کے علم میں ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 403

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 403

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


ایسا ہی ایک یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ایک پیشگوئی میں مولوی محمد حسین اور اس کے رفیقوں کی نسبت ذلّت کی خبر دی گئی تھی اُس کی کوئی ذلت نہیں ہوئی۔ افسوس! ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ ہر ایک طبقہ کی ذلّت علیحدہ رنگ میں ہوتی ہے کیا مولوی محمد حسین وہی نہیں ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ’’میں نے ہی اس شخص کو اونچا کیا اور پھر میں ہی گراؤں گا۔‘‘ تو کیا انہوں نے گرا دیا؟ کیا مولوی محمد حسین وہی نہیں ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ان کو ایک صیغہ عربی کا نہیں آتا؟ تو جب بیس۲۰ کے قریب نظم اور نثر میں عربی کی کتابیں مَیں نے لکھیں اور اُن کو بالمقابل لکھنے کی دعوت کی گئی تو وہ ایک کتاب بھی عربی میں میرے مقابل نہ لکھ سکے کیا مولوی محمد حسین وہی نہیں کہ جن کو میں نے اس بات کے لئے بلایا؟ کہ وہ میرے مقابل زانو بزانو بیٹھ کر قرآن شریف کی تفسیر عربی میں لکھیں تو وہ اس مقابلہ سے عاجز آگئے۔ ایسا ہی بہت سی ان کی خانہ داری کی اندرونی تلخیاں اور ذلتیں ایسی ہیں جن کی تصریح ہم مناسب نہیں سمجھتے تو کیا باوجود ان سب باتوں کے ان کی کوئی ذلّت نہ ہوئی۔ اور نہ معلوم آئندہ کیا مقدّر ہے کیونکہ وعید کی پیشگوئی میں کسی میعاد کا لحاظ ضروری نہیں ہوتا بلکہ توبہ و استغفار سے ٹل بھی سکتی ہے*۔

ماسوا اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چند پیشگوئیاں جو تین چارسے زیادہ نہیں جن کے لئے ہمارے مخالف مولوی شور مچاتے ہیں یہ وعید کی پیشگوئیاں ہیں اور وعید کی پیشگوئیوں کا پوؔ را ہونا بموجب نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے ضروری نہیں کیونکہ وہ کسی بلا کے نازل ہونے کی خبر دیتی ہیں اور باتفاق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کے ہر ایک بلا صدقہ اور خیرات اور دعا اور


* اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے333۱؂ یعنی اگر یہ نبی کاذب ہے تو خود تباہ ہو جائے گا اور اگر صادق ہے تو بعض پیشگوئیاں وعید کی اس کی تم پر پوری ہو جائیں گی اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ کُل پوری ہو جائیں گی۔ پس اس جگہ صاف طور پر خدا نے فرما دیا ہے کہ وعید کی تمام پیشگوئیوں کا پورا ہونا ضروری نہیں بلکہ بعض ٹل بھی سکتی ہیں اور اگر ایسا ارادہ نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ یہ فرماتا وان یک صادقًا یصبکم کلّ الذی یعدکم مگر ایسا نہیں فرمایا۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 404

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 404

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


تضرّع وزاری سے رد ہو سکتی ہے۔ یہ بات ایک ادنیٰ عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک بلا جس کے نازل کرنے کا ارادہ خدا نے فرمایا ہے خدا کے علم تک ہی محدود رہے اور کسی نبی کو اس سے اطلاع نہ دی جائے تو وہ صرف بلا کے نام سے موسوم ہوتی ہے اور جب نبی کو اس بلا سے اطلاع دی جائے تو پھر وہی بلا وعید کی پیشگوئی کہلاتی ہے۔پس اگر بہرحال وعید کی پیشگوئی کا پورا ہونا ضروری ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ بہر حال بلا کا نازل ہونا ضروری ہے۔*حالانکہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ بلا صدقہ و خیرات اور دعا وغیرہ سے رد ہو سکتی ہے اور اس پر کل انبیاء کا اجماع ہے پس یہ کمینہ حملے جو یہ لوگ مولوی کہلا کر میرے پر کرتے ہیں یہ سخت حیرت کا موجب ہے اور تعجب آتا ہے کہ کیا یہ لوگ کبھی قرآن شریف بھی نہیں پڑھتے اور کیا کبھی حدیثوں کو نہیں دیکھتے کیاان کو یونس نبی کی پیشگوئی بھی معلوم نہیں جس کا مفصّل قصہ کتاب درّ منثور میں بھی مذکور ہے جس کے ساتھ کوئی شرط موجود نہ تھی لیکن پھر بھی توبہ کرنے سے وہ سب لوگ عذاب سے بچائے گئے اور یونس باوجود یکہ خدا کا نبی تھا جب اُس کے دل میں گذرا کہ میری پیشگوئی کیوں نہیں پوری ہوئی اور کیوں وہ لوگ ہلاک نہیں کئے گئے تو تنبیہ کے طور پر اُس پر عذب نازل کیا گیا۔ اور اُس نے اس اعتراض کی وجہ سے بڑے بڑے دُکھ اُٹھائے اور پھر جبکہ اس پاک دل نبی نے اس اعتراض کی وجہ سے اتنے دُکھ اُٹھائے تو ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو شرطی پیشگوئیوں کی نسبت بار بار اعتراض کرتے ہیں اور باز نہیں آتے۔ اگر ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا تو یونس کی پیشگوئی سے کوئی سبق حاصل کرتے اور اتنی زبان درازی اور شوخی نہ دکھلاتے اور اگر کچھ


* جس بلا سے اللہ تعالیٰ بذریعہ کسی نبی یا رسول یامحدّث کے اطلاع دیتاہے وہ ایسی بلا سے زیادہ ردّ ہونے کے لائق ہوتی ہے جس کی اطلاع نہیں دی جاتی کیونکہ اطلاع دینے سے سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ ہے کہ اگر کوئی شخص توبہ استغفار یا دعا کرے یا صدقہ خیرات دے تو وہ بلا رد کی جائے۔ اور اگر وعید کی پیشگوئی رد نہیں ہو سکتی تو یہ کہناپڑے گا کہ بلا رد نہیں ہو سکتی اوریہ بر خلاف معتقدات دین ہے اور نیز اس صورت میں یہ اعتقاد رکھناپڑے گا کہ بروقت نزول بلا صدقہ و خیرات اور توبہ و دعا سب لاحاصل ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 405

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 405

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/405/mode/1up


تقویٰ کا تخم ان کے اندر ہوتا تو یہ لوگ سوچتے کہ جن پیشگوئیوں پر انہوں نے اعتراض کیا ہے وہ تو صرف دو تین ہیں اور ان کے مقابل پر وہ پیشگوئیاں جو اپنی سچائی دکھلا کر ان کے مُنہ پر طمانچے مار رہی ہیں وہ توسینکڑوں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچ گئی ہیں یہ تو سوچنے کا مقام تھا کہ کثرت کسؔ طرف *ہے کیا وہ اس بات کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ جس قسم کا کوئی اعتراض انہوں نے ان پیشگوئیوں کی نسبت یا کسی اجتہادی غلطی کی نسبت کیا ہے دوسرے انبیاء کی پیشگوئیوں میں اُن کی نظیر نہیں پائی جاتی؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ قطع نظر دوسرے انبیاء کے خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو سب نبیوں سے افضل اور اعلیٰ اور خاتم الانبیاء تھے اس قسم کی اجتہادی غلطی سے محفوظ نہیں رہے کیا حدیبیہ کا سفر اجتہادی غلطی نہ تھا کیا یمامہ یا ہجر کو اپنی ہجرت کا مقام خیال کرنا اجتہادی غلطی نہ تھی کیا اور بھی اجتہادی غلطیاں نہ تھیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے پس اس قسم کے کمینے حملے جن کے دائرہ کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی


* ہم نے اس کتاب میں ۱۸۷ نشان خدا تعالیٰ کے لکھے ہیں یہ وہ نشان ہیں جو کوئی ظنی امر نہیں بلکہ اکثر یہ پیشگوئیاں پیش از وقوع اخباروں اور کتابوں میں شائع کی گئی ہیں اور ہزاروں ان کے گواہ اب تک زندہ موجود ہیں اور یہ تمام وہ امور ہیں جو انسانی طاقت سے برتر ہیں۔ اگر یہ تمام ذخیرہ خدا کے نشانوں اور پیشگوئیوں کا کسی پہلے اسرائیلی نبی کی کتابوں میں تلاش کیا جائے تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کسی اسرائیلی نبی کی سوانح میں اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ اور اگر فرض بھی کر لیں تو ان نشانوں کی رویت کے گواہ کہاں سے میسر آئیں گے اور صرف خبر معاینہ کے مساوی نہیں ہو سکتی۔ عیسائی بار بار حضرت مسیح کے مُردے زندہ کرنے کے معجزات پیش کرتے ہیں مگر ثبوت ایک کا بھی نہیں۔ نہ کسی مُردہ نے آکر عالم آخرت کی سرگزشت سنائی یا بہشت دوزخ کی حقیقت ظاہر کی یا دوسرے جہان کے چشم دید عجائبات کے بارے میں کوئی کتاب شائع کی یا اپنی شہادت سے فرشتوں کے وجود کا ثبوت دیا بلکہ مُردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی یا جسمانی طور پر مُردوں کی مانند تھے۔ پھر گویا دعا کے ذریعہ سے نئی زندگی پائی۔ یہی حال حضرت عیسیٰ کے پرندے بنانے کا ہے۔ اگر وہ سچ مچ پرندے بناتے تو ایک دنیا اُن کی طرف اُلٹ پڑتی اور پھر کیوں صلیب تک نوبت پہنچتی اور کیا ممکن تھا کہ عیسائی لوگ جو حضرت عیسیٰ کے خدا بنانے پر حریص ہیں وہ ایسے بڑے خدائی نشان کو چھوڑ دیتے بلکہ وہ تو ایک تنکہ کا پہاڑ بنا دیتے۔ اِس سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ جو قرآن شریف میں مذکور ہے اپنے ظاہری معنوں پر محمول نہیں بلکہ اس سے کوئی خفیف امر مراد ہے جو بہت وقعت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 406

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 406

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/406/mode/1up


آجاتے ہیں کسی مسلمان کا کام نہیں بلکہ ان لوگوں کا کام ہے جو درحقیقت اسلام کے دشمن ہیں۔

اور پھر ایک اور نادانی یہ ہے کہ جاہل لوگوں کو بھڑکانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ اُن کا سراسر افترا ہے بلکہ جس نبوت کا دعویٰ کرنا قرآن شریف کے رو سے منع معلوم ہوتا ہے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا صرف یہ دعویٰ ہے کہ ایک پہلو سے میں اُمتی ہوں اور ایک پہلو سے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض نبوت کی وجہ سے نبی ہوں اور نبی سے مراد صرف اس قدر ہے کہ خدا تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتا ہوں بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجدّد صاحب سر ہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس اُمت کے بعض افراد مکالمہ و مخاطبہ الہٰیہ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیں گے لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے۔ اب واضع ہو کہ احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا۔ اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3 ۱؂ یعنیخدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیںؔ بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہو سکتا ہے بجز اُس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیر۱۳۰۰ہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی۔ اگر کوئی منکر ہو تو بارثبوت اس کی گردن پر ہے۔

غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے مَیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمّت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 407

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 407

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/407/mode/1up


مَیں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اِس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو جاتی کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گذر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الہٰیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پا لیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو* اِس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا تا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیشگوئی پوری ہو جائے۔ اور یاد رہے کہ ہم نے محض نمونے کے طورپرچند پیشگوئیاں اس کتاب میں لکھی ہیں مگر در اصل وہ کئی لاکھ پیشگوئی ہے جن کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا اور خدا کا کلام اِس قدر مجھ پرنازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے تو بیس۲۰ جزو سے کم نہیں ہوگا اب ہم اسی قدر پر کتاب کو ختم کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ اپنی طرف سے اس میں برکت ڈالے اور لاکھوں دلوں کو اس کے ذریعہ سے ہماری طرف کھینچے۔ آمین۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔

تمّت


* خدا کے کلام میںیہ امر قرار یافتہ تھا کہ دوسرا حصہ اس اُمّت کا وہ ہوگا جو مسیح موعود کی جماعت ہوگی۔ اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو دوسروں سے علیحدہ کرکے بیان کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی اُمّت محمدیہ میں سے ایک اور فرقہ بھی ہے جو بعد میں آخری زمانہ میں آنیوالے ہیں اور حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کی پُشت پر مارا اور فرمایا لوکان الایمان معلّقًا بالثریا لنالہ رجلٌ من فارس اور یہ میری نسبت پیشگوئی تھی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے وہی حدیث بطور وحی میرے پر نازل کی اور وحی کی رو سے مجھ سے پہلے اس کا کوئی مصداق معیّن نہ تھا اور خدا کی وحی نے مجھے معیّن کر دیا۔ فالحمدللّٰہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 408

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 408

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/408/mode/1up



چوں مراحکم از پأ قومِ مسیحی دادہ اند

مصلحت را ابن مریم نامِ من بنہادہ اند


آسماں بارد نشان اَلْوَقت می گوید زمین

این دو شاہد از پأ تصدیق من استادہ اند


بے ضرورت نامدم نے آمدم درغیر وقت

درمن از جہل و تعصّب قوم من اُفتادہ اند


سوئے من اے بدگمان از بدگمانی ہا مبین

فتنہ ہا بنگرچہ قدر اندر ممالک زادہ اند


چون زمیں بکشود یارانِ صد در فِسق و فساد

پس درے از بہرِ آن از آسماں بکشادہ اند


بقلم احقر العباد غلام محمد کاتب امرتسری

یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 409

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 409

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/409/mode/1up


ِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

نحمدہٗ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم

خُدا سچے کا حامی ہو

اٰمین

اِس امر سے اکثر لوگ واقف ہوں گے کہ ڈاکٹر عبد الحکیم خان صاحب جو تخمیناً بیس برس تک میرے مُریدوں میں داخل رہے چند دنوں سے مجھ سے برگشتہ ہو کر سخت مخالف ہو گئے ہیں۔ اور اپنے رسالہ المسیح الدّجال میں میرا نام کذّاب مکّار شیطان دجّال شریر حرام خور رکھا ہے اور مجھے خائن اور شکم پرست اور نفس پرست اورمُفسد اور مفتری اور خداپر افتراکرنے والا قرار دیا ہے اورکوئی ایسا عیب نہیں ہے جو میرے ذمّہ نہیں لگایا۔ گویا جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے ان تمام بدیوں کا مجموعہ میرے سوا کوئی نہیں گذرا۔ اور پھر اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کرکے میری عیب شماری کے بارہ میں لیکچر دیئے اور لاہور اور امرت سر اورپٹیالہ اور دوسرے مقامات میں انواع و اقسام کی بدیاں عام جلسوں میں میرے ذمّہ لگائیں اور میرے وجود کو دنیا کے لئے ایک خطرناک اورشیطان سے بد تر ظاہرکرکے ہر ایک لیکچر میں مجھ پر ہنسی اور ٹھٹھا اُڑایا۔ غرض ہم نے اس کے ہاتھ سے وہ دُکھ اُٹھایا جس کے بیان کی حاجت نہیں اور پھر میاں عبدالحکیم صاحب نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ ہر ایک لیکچر کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی صدہا آدمیوں میں شائع کی کہ ’’ مجھے خدا نے الہام کیا ہے کہ یہ شخص تین سال کے عرصہ میں فنا ہو جائے گا اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ کذّاب اور مفتری ہے۔‘‘ میں نے اس کی ان پیشگوئیوں پر صبر کیا مگر آج جو ۱۴؍اگست ۱۹۰۶ء ہے پھر اس کا ایک خط ہمارے دوست فاضل جلیل مولوی نُورُ الدّین صاحب کے نام آیا اس میں بھی میری نسبت کئی قسم کی عیب شماری اور گالیوں کے بعد لکھا ہے کہ ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو خدا تعالیٰ نے اس شخص کے ہلاک ہونے کی خبر مجھے دی ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 410

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 410

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/410/mode/1up


اس تاریخ سے تین برس تک ہلاک ہو جائے گا جب اِس حد تک نوبت پہنچ گئی تو اَبْ میں بھی اس بات میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ جو کچھ خدا نے اس کی نسبت میرے پر ظاہر فرمایا ہے میں بھی شائع کروں اور درحقیقت اس میں قوم کی بھلائی ہے کیونکہ اگر درحقیقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک کذّاب ہوں اور پچیس۲۵ برس سے دن رات خدا پر افترا کر رہا ہوں اور اُس کی عظمت اور جلال سے بے خوف ہو کر اُس پر جھوٹ باندھتا ہوں اور اس کی مخلوق کے ساتھ بھی میرا یہ معاملہ ہے کہ میں لوگوں کا مال بد دیانتی اور حرام خوری کے طریق سے کھاتا ہوں اور خدا کی مخلوق کو اپنی بد کرداری اور نفس پرستی کے جوش سے دُکھ دیتا ہوں تو اس صورت میں تمام بدکرداروں سے بڑھ کر سزا کے لائق ہوں تالوگ میرے فتنہ سے نجات پاویں اور اگر میں ایسا نہیں ہوں جیسا کہ میاں عبد الحکیم خان نے سمجھا ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ خدا مجھ کو ایسی ذلّت کی موت نہیں دے گا کہ میرے آگے بھی ***ؔ ہو اور میرے پیچھے بھی۔ میں خدا کی آنکھ سے مخفی نہیں مجھے کون جانتا ہے مگر وہی اس لئے میں اس وقت دونوں پیشگوئیاں۔ یعنی میاں عبد الحکیم خان کی میری نسبت پیشگوئی اور اُس کے مقابل پر جو خدا نے میرے پر ظاہر کیا ذیل میں لکھتا ہوں اور اس کا انصاف خدائے قادر پر چھوڑتا ہوں اوروہ یہ ہیں:۔

میاں عبد الحکیم خان صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی میری نسبت پیشگوئی

جو اخویم مولوی نوردین صاحب کی طرف اپنے خط میں لکھتے ہیں اُن کے اپنے الفاظ یہ ہیں۔

مرزا کے خلاف ۱۲؍جولائی ۱۹۰۶ء کو یہ الہامات ہوئے ہیں۔ مرزا مُسرف کذّاب اور عیّار ہے صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا اور اُس کی میعاد تین سال بتائی گئی ہے۔*

اس کے مقابل پر وہ پیشگوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میاں عبد الحکیم خان


* اس میں میاں عبد الحکیم خان نے خدا کے اصل لفظ بیان نہیں کئے بلکہ یہ کہا کہ تین سال میعاد بتائی گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 411

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 411

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/411/mode/1up


صاحب اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ کی نسبت مجھے معلوم ہوئی جس کے الفاظ یہ ہیں۔

خداکے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں۔ اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔* ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے۔* پر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ جاناخ ربّ فرّق بین صادق و کاذب۔ انت تریٰ کلّ مصلح و صادقء۔


* خدا تعالیٰ کا یہ فقرہ کہ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عبد الحکیم خان کے اس فقرہ کا ردّ ہے کہ جو مجھے کاذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ گویا میں کاذب ہوں اور وہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور میں شریر۔ اور خدا تعالیٰ اس کے ردّ میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں ذلت کی موت اور ذلت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور صادق اور کاذب میں کوئی امر خارق نہ رہے۔ منہ

*اس فقرہ میں عبد الحکیم خان مخاطب ہے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار سے آسمانی عذاب مراد ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے ظاہر ہو گا۔

خیعنی تو نے یہ غور نہ کی کہ کیا اس زمانہ میں اور اس نازک وقت میں اُمّت محمدیہ کے لئے کسی دجّال کی ضرورت ہے یا کسی مصلح اور مجدّد کی۔

ئیعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا۔ تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے۔اس فقرہ الہامیہ میں عبد الحکیم خان کے اس قول کا ردّ ہے جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھہراتا ہے اور خدا فرماتا ہے کہ تو صادق نہیں ہے میں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا۔ منہ


المشتھر۔ میرزا غلام احمد مسیح موعود قادیانی

۱۶؍اگست ۱۹۰۶ء مطابق ۲۴؍جمادی الثانی ۱۳۲۴ھ

مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان دارالامان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 412

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 412

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/412/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 413

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 413

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/413/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 414

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 414

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/414/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 415

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 415

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/415/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 416

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 416

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/416/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 417

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 417

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/417/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 418

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 418

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/418/mode/1up



ملک پنجاب و ہندوستان کے لوگوں پر یہ ا مرمخفی نہیں کہ ان چند سال کے اندر آفت طاعون نے اِس ملک میں کیا کچھ انقلاب کر دکھایا ہے جس شہر یا گاؤں یا گھر میں قدم رکھتی ہے صفائی کئے بغیر نہیں چھوڑتی۔ اِسکے ہیبت ناک حملوں کے نظارہ سے دل کانپتے اور بدنوں پر لرزہ آتا ہے۔ یہ آسمانی بجلی کی طرح دنیا کو کھاتی جاتی ہے لوگ اپنے گھروں اور شہروں کو چھوڑ کر بھاگتے جاتے ہیں۔ عزیزوں اور اقارب میں تفرقہ ہو


تنبیہ۔واضح ہو کہ اشتہار چراغدین کا محض اس غرض سے کتاب حقیقۃ الوحی کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے کہ تا ہر ایک منصف مزاج معلوم کر لے کہ یہ شخص جو اپنے اعمال کی سزا پا چکا ہے پہلے میری تصدیق کرتا تھا اور پھر نفس امّارہ کی کشش سے بعض پادریوں سے اتفاق کر کے مرتد ہو گیا اور مجھے دجال وغیرہ ناموں سے پکارا اور میرے مخالف کتاب منارۃ المسیح اور اعجاز محمدی لکھی۔ اب ہر ایک منصف مزاج خود انصاف کی نظر سے دیکھ سکتا ہے کہ یہ وہی چراغدین ہے جس نے میری تائید میں یہ اشتہار لکھا تھا اور جس مدت تک یہ مصدقین میں رہا خدا نے طاعون وغیرہ سے اس کو محفوظ رکھا پھر جب اس نے جامۂ ارتداد پہن کر تحقیر اور توہین پر کمر باندھ لی تب پکڑا گیا اور میری پیشگوئی کے مطابق اور نیز اپنے مباہلہ کی رو سے ہلاک ہوا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک

* حاشیہ نمبر۱ ۔ مَیں اس جگہ اس بات کو بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ میرا یہ اعلان صرف میری اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 419

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 419

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/419/mode/1up


رہا ہے۔ دنیا کے دم میں دم نہیں رہا۔ مخلوق اپنے بچاؤ کی مختلف تدبیروں میں مشغول ہے مگر افسوس کہ اس کی اصل حقیقت اور علاج سے محض ناواقف ہیں۔

میرے دل میں ہمدردی بنی نوع کا ایک جوش ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کا حقیقی اور قطعی اور یقینی علاج اس عاجز پر ظاہر فرمایا ہے اس لئے میرا دل و ایمان و ہمدردی بنی نوع انسان مجھے مجبور کر رہی ہے کہ میں اُس اصل علاج کو جو اس آفت کے دفعیہ کے لئے کافی و شافی ہے اور جس کے اندر دُنیا کے بچاؤ کے اسباب موجود ہیں پبلک پر ظاہر کروں تاکہ جن کی قسمت میں اس سعادت سے حصہ لینا مقسوم ہے نجات پائیں۔

پس واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ قریباً عرصہ ایک سال سے اس عاجز پر کشفی رنگ میں ظاہر فرما رہا ہے کہ یہ زمانہ روحانی قیامت یعنی ؔ صلح و صلاحیت کا* زمانہ کا مقدمہ اور آغاز ہے جس کو اہل اسلام کے محاورہ میں فتح اسلام اور مسیحیوں کے نزدیک مسیح کے جلالی نزول اور اس کی بادشاہت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور وہ ایسا زمانہ ہے کہ جس میں شیطانی تسلط اور دجّالی فتنت دنیا سے اُٹھائی جائے گی اور زمین روز روشن کی طرح خدا کے جلال کی معرفت سے معمور ہوگی اور حقیقی خدا پرستی ابدی راستبازی امن و صلحکاری دنیا میں قائم ہوگی اور قوم قوم سے اور بادشاہ بادشاہ سے لڑائی نہ کریں گے۔ مذہبی مخالفتیں تمام دنیا سے اُٹھ جائیں گی اور اہل دنیا ایک ہی طریق و دین میں ہو کر صلح و صلاحیت کا کامل نمونہ ظاہر کریں گے اور قومیں جسمانی و روحانی نعمتوں سے مالا مال ہو کر نہایت امن و چین کی حالت میں اپنی زندگی بسر کریں گی اور تمام جنگ و جدال فتن و فساد، بغض و عداوت کفرو معصیت ، رنج و مصائب دنیا سے اُٹھائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ شیر اور بیل، بھیڑ اور بھیڑیا اب


بقیہ حاشیہ نمبر۱

کی ؔ طرف سے ہے کیونکہ اس نے مجھے امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آپ کے اس متبرک زمانہ کی چگونگی حالات پر گواہی دینے کے لئے مامور فرمایا ہے جیسا کہ سورہ بروج آیت 3 ۱؂ کے مفہوم سے ثابت ہے کیونکہ یوم الموعود یہی زمانہ ہے اور مشہود سے مُراد حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور شاہد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جناب ممدوح کی صداقت پر گواہی دیں گے اس لئے میں اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں کہ بلاشک و شبہ حضرت اقدس میرزا صاحب خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے لئے بحیثیت ماموریت منصب امامت پر مشرف ہیں اور جناب کی اطاعت خدا کی خوشنودی کا سبب اور مخالفت اس کے قہر*وغضب کا موجب ہے۔ لہٰذا دنیا کے زیادہ


* (نقل مطابق اصل) ۱؂ البروج: ۳،۴ (باوجود اس قدر علم کے پھر بھی مخالفت سے نہیں ڈرا)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 420

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 420

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/420/mode/1up


ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے اِس کا ثبوت قرآن شریف اور کتاب مقدسہ میں موجود ہے۔

اب میں اس بات کو بھی ظاہر کر دیتا ہوں کہ وہ متبرک زمانہ جس کی تعریف کی گئی ہے عمر دنیا میں ساتواں ہزار ہے جو سبت کی طرح خدا کی بادشاہت یعنی صلح و صلاحیت کے لئے مخصوص و مقرر ہے اور یہ بات بھی مجھ پر ثابت ہو چکی ہے کہ یہ صدی چھٹویں ہزار کا اختتام ہے اس لئے اس روحانی قیامت کی تیاری کے لئے جو کچھ انقلاب وقوع میں آنے والا ہے اسی صدی میں پورا کیا جائے گا۔ پس اس کامل اور عظیم الشان روحانی انقلاب کی تیاری کے واسطے خدا تعالیٰ نے دو طرح کا انتظام فرمایا ہے۔ ایک جمالی دوسرا جلالی، جمالی تو یہ ہے کہ اُس نے اپنی سُنت قدیمہ کے مطابق جیسا کہ وہ ہر ایک زمانہ میں دنیا کی ہدایت و صلاحیت کے لئے اپنے بندوں میں سے بعض کو مامور و ؔ مبعوث فرماتا رہا ہے۔ اس زمانہ میں بھی اپنے ایک خاص بندہ کو جن کا نام نامی و اسم گرامی حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہے منصب امامت عطا کرکے مامور و مبعوث فرمایا ہے۔ تاکہ دنیا آپ کے زیر سایہ ہدایت و اطاعت میں رہ کر اس پاک روحانی تبدیلی کا نور جس کا حصول روحانی قیامت کی تیاری کے لئے ضروری ہے اپنے اندر پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی اس پُرامن و بابرکت بادشاہت میں جس کا ذکر کیا گیا ہے اور جس میں کسی ناپاک اور شریر کا گذر نہیں ہو سکتا داخل و شامل ہونے کے لائق ٹھہرے۔

اور دوسرا نظام خدا تعالیٰ کا جلالی اور قہری حربہ جس سے مُراد طاعون اور قحط ہے تاکہ جو لوگ اُس


بقیہ حاشیہ نمبر۱

اطمیناؔ ن کے لئے میں اپنے بعض رؤیا اور کشوف کو بھی اختصار کے ساتھ تحریر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ پس واضح رائے ناظرین ہو کہ عرصہ قریباً بارہ سال کا گذرا ہوگا کہ ایک رؤیا صالحہ میں اس عاجز نے دیکھا ۔کہ ایک نور ستون کی صورت پر آیا اور اُس نے مجھے اپنے اندر ڈھانپ لیا اور میری حالت کو بدل ڈالا۔ اور کلمۂ توحید میری زبان پر جاری کر دیا چنانچہ اس کے بعد ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک میں اللہ تعالیٰ کو مشاہدہ میں دیکھتا رہا اور جب وہ حالت کم ہونے لگی تو ایک رات میں نے رؤیا کی حالت میں خدا تعالیٰ کو دیکھا اور میں اس میں بالکل محو اور وصل ہو گیا اور تمام روز اس کی لذّت اور سرور میرے دل پر موجود رہا اور پھر بعد اس کے آج سے قریباً سات سال پہلے ایک رؤیا صالحہ میں اِس عاجز نے ایک کثیر التعداد جماعت کو ایک مقام پر حضرت مسیح علیہ السلام کی انتظاری میں کھڑے اور آسمان کی طرف تاکتے ہوئے دیکھا کہ گویا اب ہی حضرت مسیح علیہ السلام نزول فرمائیں گے اور یہ بھی دیکھا کہ نزول مسیح کے لئے ایک مینار بنانے کے تردّد میں لگ رہے ہیں اور اُس وقت مجھے ایک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 421

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 421

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/421/mode/1up


جمالی نظام سے اصلاح پذیر نہ ہوں اس جلالی حربہ سے ہلاک یا متنبہ کئے جائیں جیسا کہ قدیم سے سُنّۃ اللّٰہ چلی آتی ہے کہ ہر ایک روحانی انقلاب کے لئے پہلے مامور آتے رہے ہیں اور جب قوم اُن کی تکفیر و تکذیب میں حد سے بڑھ جاتی تھی تو اُن پر عذاب آجاتا رہاجس کی نظیریں قرآن شریف و کتب مقدسہ میں بکثرت موجود ہیں۔ چنانچہ اسی طرح اب بھی وقوع میں آیا کہ جب حضرت اقدس نے تبلیغ اور حجۃ اللہ کو دنیا پر پورا کیا اور اپنے دعویٰ ماموریّت کو ہر ایک پہلو سے جیسا کہ حق تھا ثابت کر دکھایا لیکن دُنیا اُن کی تکفیر و تکذیب سے باز نہ آئی تو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیم کے مطابق اس زمانہ کے لوگوں کے لئے آسمان سے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں کی طرح آپ کے مکذّبین کے لئے بھی ایک بلا نازل فرمائی۔ سو وہ یہی طاعون ہے جو دنیا کو کھا جانیوالی آگؔ کی طرح بھسم کرتی جاتی ہے۔ دیکھو حدیث نبوی میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس کثرت سے طاعون پڑے گی کہ زمین مُردوں سے بھر جائے گی۔ اور انجیل مقدس کتاب مکاشفات باب۱۶ میں لکھا ہے کہ نزول مسیح کے زمانہ میں خلقت بُرے اور زبوں پھوڑے کی آفت سے جس سے مراد طاعون ہے ہلاک ہوگی۔ علاوہ اس کے قرآن کریم بڑی شد و مد کے ساتھ آخری زمانہ میں قوموں کے ہلاک ہونے کی خبر دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا 33333 ۱؂(سورہ بنی اسرائیل رکوع۶) اور ایسا ہی سورہ دخان میں فرمایا 33۲؂ الخ


بقیہ حاشیہ نمبر۱

الہاؔ می کتاب میں لکھا ہوا دکھایا گیا کہ وہ مینار جس پر مسیح نازل ہوگا۔ چراغ دین یعنی اس عاجز کے ہاتھ سے بنایا جائے گا۔ اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی مجھ پر ظاہر ہوا کہ گویا دنیا میں اس مینار کے بنانے کے لئے کوئی دوسرا شخص میرا ہم نام نہیں ہے اور پھر تقریباً عرصہ تین سال کے بعد رؤیا کی حالت میں تمام دنیا کی قومیں چڑیوں کی صورت پر آپس میں شور و غل کرتی ہوئیں مجھے دکھائی گئیں۔ اور جب میں اُن کا نظارہ کر رہا تھا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا (اُن کو کہو اس طرف چلی آویں تاکہ ان کو آرام ملے) پھر اس کے بعد میں نے ایک دفعہ ایک رؤیا صالحہ میں دیکھا کہ صلحاء لوگوں کا ایک جلسہ منعقد ہوا اور اس عاجز کو اس میں شامل کیا گیا اور لوگ مجھے مبارک باد دیتے ہیں اور پھر ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس کے مخلص خدام کا جلسہ منعقد ہو رہا ہے اور اِس عاجز کو اِس خدمت پر مامور کیا گیا کہ میں لوگوں کو حضرت اقدس مسیح کی بیعت کے لئے بلند آواز سے پُکاروں اور جو آئے اس کو حضور پُر نور کی خدمت میں حاضر کروں۔ اب ایک سال کا ذکر ہے کہ میں نے ایک رؤیا صالحہ میں دیکھا کہ مغرب کی طرف سے ایک روشنی آئی جس کا طولان کوسوں تک اور اُونچان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 422

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 422

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/422/mode/1up


اور فرمایا3 ۱؂ یعنی انتظاری کرو اُس دن کی کہ لاوے آسمان دھوآں ڈھانک لے گا لوگوں کو ۔یہ ہے عذاب درد دینے والا۔ جس دن پکڑیں گے ہم پکڑنا سخت تحقیق ہم بدلہ لینے والے ہیں اور اسی طرح سورۃ قیامت میں فرمایا 3 33333 3۲؂ یعنی چاند اور سورج کو جب ایک ہی مہینے یعنی رمضان میں گہن ہوگا تو اس کے بعد لوگ بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے اور نہ پاویں گے۔ سوائے اس کے کتب مقدسہ میں بھی اس زمانہ کے متعلق بہت سی پیشینؔ گوئیاں موجود ہیں۔ دیکھو یسعیاہ باب ۴ ، ۱۵،۶۶ اور ۵۰ زبور ۳ آیت ۔ دانی ایل ب۱۲، حزقی ایل باب۳۷ آیات ۱۵ تا ۲۸۔حبقوق ب ۳۔ صفنیاہ ب۳۔ میکایہ باب۴ ۔متی باب ۱۳ آیت۴۰۔ باب ۲۴ آیات ۱۵ تا ۳۱۔مکاشفات باب۱۵،۱۶۔ ان کتابوں میں اس زمانہ کا پورا اور کامل فوٹو موجود ہے۔

ہاں اگر یہ سوال ہو کہ ہم کیونکر مانیں کہ یہ عذاب امام وقت کی مخالفت کے باعث ہم پر آگیا ہے تو اس کا جواب ہم آیات ذیل سے دیتے ہیں جیسا فرمایا 3333۔۳؂ یعنی ہم کسی بستی کوبھی ہلاک نہیں کرتے جب تک کہ ان کے درمیان کوئی رسول


بقیہ حاشیہ نمبر۱

آسماؔ ن سے ملا ہوا تھا۔ اور وہ روشنی سیدھی میری طرف آئی اور جس قدر نزدیک آتی تھی کم ہوتی جاتی تھی یہانتک کہ جب میرے نزدیک پہنچی تو میں نے بجائے روشنی کے صرف واحد شخص کو دیکھا جسکے دونوں ہاتھوں میں نعلین کی صورت پر دو اشیاء پکڑی ہوئی تھیں اور جب اُن کو ہلاتا تھا تو وہ روشنی اُن کے اندر سے نکلتی تھی چنانچہ اُس شخص نے میرے قریب آکر نہایت جذبہ کے ساتھ پُکارا کہ بیماروں کو حاضر کرو۔ اُس کے کہنے پر میں اُس کے آگے سرنگوں ہو گیا اور اُس نے اُس چیز کے ساتھ جو اُس کے ہاتھ میں تھی میرے سرکو مسح کیا اور میں دیکھتا ہوں کہ میرے گلے میں قیدیوں کی طرح لو ہے کی ایک ہیکل پڑی ہے جس کو میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول رہا ہوں۔ چنانچہ اس کے چند روز بعد پھر پہلے کی طرح کشفی حالت مجھ پر طاری ہوئی اور ایک ایسا سرور میرے دل پر طاری ہوا کہ گویا میں بادشاہ ہوں چنانچہ اسی سرور اور تموّج کی حالت میں ایک روز کشفی طور پر میں خدا کے حضور پہنچایا گیا اور اس وقت مسیحی تعلیم یعنی انجیل کی حقیقت مجھ پر کھولی گئی اور مسیحیوں کی غلط فہمی پر آگاہ کیا گیا اور اس کے ساتھ یہ بات بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 423

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 423

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/423/mode/1up


نہ بھیجیں اور دوسری جگہ فرمایا 3333333۱؂ یعنی ہر ایک قرن کے لوگوں کا فیصلہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ ان کے پاس رسول آتا ہے پس جب ایک طرف ایک رسول یعنی حضرت امام الزمان موجودہیں جو دنیا کو حق اور راستی کی طرف بُلا رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی تکذیب بھی بڑے زور و شور کے ساتھ ہو رہی ہے اور تیسری طرف ایک ہولناک عذاب بھی دروازہ پر کھڑا ہے تو کیا سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ وہی مخالفت اور شرارت ہماری جو ایک مامور من اللہ کے حق میں کر رہے ہیں عذاب کے رنگ میں متمثل ہو کر ہمارے سامنے آگئی ہے یا یوں کہو کہ اس عذاب کا اصل سبب وہی تکفیر و تکذیب ہے۔ جو دُنیا کی ہلاکت کا باعث ہوئی3 3 ۲؂ یعنی گھیرلیا اُن کو اُس چیز نے جو تھے وہ ساتھ اس کے ٹھٹھا کرتے۔ ہم نے تو اپنی آنکھوں* سے دیکھا اور کانوں سے سُنا کہ مخالف لوگ حضرت مسیح الزمان علیہ السلام کی اُس پیشین گوئی پر جو اسی طاعون کے بارہ میں آج سے چار سال پہلے شائع کی گئی تھی کہ ملک پنجاب میں طاعون پڑے گا۔ ہنسی اور ٹھٹھا کرتے تھے کہ وہ طاعون کہاں ہے۔ علاوہ اس کے جب صدہا نظیریں اس کی قرآن شریف اور کتب مقدسہ میں موجود ہیں کہ گذشتہ زمانوں


بقیہ حاشیہ نمبر۱

ظاہر کیؔ گئی کہ گویا اب مسیح موعود علیہ السلام (یعنی اِس اُمّت کا مسیح) اپنے جلالی نزول میں نازل ہونے پر ہے اور اس عاجز کو اس کے نزول کی منادی کرنے اور قوموں کو اس کی بادشاہت میں شامل ہونے کی خوشخبری دینے کے لئے مامور فرمایا۔ پھر اس کے چند روز بعد ایک رؤیا صالحہ میں مجھے دکھایا گیا کہ آسمان سے نصف چاندکی صورت پر نورانی اجرام تیرتے ہوئے نازل ہو رہے ہیں اور میں اپنے ہاتھوں کو پسار کر حضرت امام الزمان کے لئے ان کو پکڑ رہا ہوں چنانچہ اسی رؤیا کے سلسلہ میں پھر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مقام پر یورپینوں کے لئے بہت سے مکانات تیار ہو رہے ہیں اور ان کے ایک طرف ایک بزرگ یعنی حضرت اقدس تشریف رکھتے ہیں اور آپ کے گرد اگرد ایک پردہ کھڑا ہے جس کے سبب حضرت موصوف باہر کی طرف سے دکھائی نہیں دیتے اور اس پردہ کے اندر سے بڑے زور کے ساتھ اُن لوگوں کو جو تعمیر کے کام میں مصروف ہیں ڈانٹ رہے ہیں کہ جلدی کرو۔ اگر کل تک یہ کام تیارنہ ہوگا تو تمہارا ٹھیکہ فسخ کیا جائے گا۔ اسی اثنا میں اتفاقاً ایک ایسی ہوا چلی جس سے وہ پردہ جس کے اندر حضور تشریف رکھتے تھے گر گیا۔اور آپ کا


* خدا جانے بعد میں ان آنکھوں کو کیا ہو گیا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 424

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 424

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/424/mode/1up


میں ہر ایک مامور من اللہ کے مکذّبوں کاانجام ہلاکت ہی ہوتا رہا اور ہر ایک اُمّت پر جداگانہ رنگ میں عذاب آجاتارہا تو اس صورت میں ہمیں اس بات کے ماننے میں کہ یہ عذاب اسی مخالفت کا نتیجہ ہے کونسی چیز مانع ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں بلا شک و شبہ یہ خدا تعالیٰ کا وہی جلالی اور قہری حربہ ہے جو ہمیشہ سے اس کے سچے رسولوں کے مخالفوں کی ہلاکت کے لئے موجود ہو جاتا رہا ہے۔

پس جب اس کا سبب معلوم ہوا تو علاج میں کوشش کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ ماموریت کو مان کر اور ان کی اطاعت کا جُوَا اخلاص دل سے اُٹھا کر اور بصدق دل آپ کے زیر سایۂ ہدایات رہ کر ایک پاک اور زندہ روحانی تبدیلی کو جوہر ایک قسم کے گناہ و بغاوت سے منزّہ ہے حاصل کیا جاوے۔ سو جو شخص یا گھرانہ یا قوم یا اہل شہر ایسا کرلیں گے یقیناًبفضلہ تعالیٰ اس بلا سے نجات پائیں گے کیونکہ ابھی قبو ؔ لیت کا دروازہ کھلا ہے اس لئے جو شخص بصدق دل توبہ کرے گا قبول ہوگی لیکن ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے کہ لوگ توبہ کریں گے مگر قبول نہ ہوگی۔ قومیں خدا کے آگے چلائیں گی پر سُنی نہ جائیگی۔ دُنیا خدا کی طرف رجوع لاوے گی لیکن انجام اس کا مایوسی ہوگی۔ جیسا فرمایا 3 333۱؂الخ(سورۂ دخان)اور وہ وقت ایسا ہوگا کہ یہ بلا روئے زمین پر عام ہوگی کوئی شہر یا بستی اِلّا ماشاء اللہ اس سے خالی نہ رہے گی بلکہ دریاؤں اور


بقیہ حاشیہ نمبر۱

نورانی وجود آفتاب کی طرح چمکتا ہوا نظرؔ آنے لگا اور اس عاجز نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ نہایت ہی خوبصورت اور روشن ہے گویا کہ حضور انور کے چہرہ سے نور ٹپک رہا ہے اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی دیکھا کہ حضور کی پوشاک سر سے پاؤں تک نہایت سفید اور برّاق ہے تب میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور آپ اس قدر مہربانی و محبت کے ساتھ پیش آئے کہ مجھے کامل یقین ہو گیا کہ اب میں حضور کے نظر منظور ہوکر عطائے خدمت سے مشرف کیا گیا ہوں یہاں تک کہ میں کیا دیکھتا ہوں کہ میری پوشاک بھی حضور کی پوشاک کی طرح سفید اور برّاق ہو گئی۔ اور ایسا ہی ایک بزرگ نے بعد توجہ اس عاجز کے حق میں یہ رؤیا دیکھی تھی کہ ایک تالاب ہے اور اس کے درمیان ایک پختہ عمارت ہے جس کے اندر سے ایک شعلہ روشنی کا نکل رہا ہے اور وہ بزرگ کہتا ہے کہ میں اس تحقیق کے لئے کہ یہ روشنی کس چیز سے ظاہر ہو رہی ہے اس مکان کے دروازہ پر گیا تو اس کے اندر اس خاکسار کو پایا۔ حاصل کلام



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 425

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 425

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/425/mode/1up


جنگلوں میں بھی طاعون ہوگا۔ اُس وقت لوگ بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے مگر نہ پاویں گے جیسا فرمایا 333 ۱؂ کیونکہ یہ غضب الٰہی کی آگ ہے جب تک اپنا کام پورا نہ کر لے اور خدا کے مخالفوں سے انتقام نہ لے لے فرونہ ہوگی اس لئے میں ہمدردی بنی نوع کی راہ سے جو میرے دل میں موجزن ہے خلق اللہ کو متنبہ کرتا ہوں کہ قبل اس کے کہ یہ بلا عالمگیر ہو کر جنگلوں اور دریاؤں کو بھی اپنے زہریلے اثر سے ہلاک کرے اور پہلے اس کے جو غضب الٰہی کی یہ آگ دنیا کو بھسم کرنے کے لئے پورے طور پر مستعد ہوتوبہ کرو اور اپنے بچاؤ کی تدبیر میں مصروف ہو اوروہ یہ ہے۔ اول خدا کو واحد مانو اور تمام شرک و کفرو معصیّت سے توبہ کرو اور اپنے دلوں کو تمام ظاہری و باطنی بُتوں اور ڈھاسنوں کو توڑ کر ایک ہی خداپر بھروسہ کرو۔ دوم اس کے تمام انبیاء صادقین اورجملہ کتب سماوی پر عموماً اور نبی عربی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و قرآن کریم پر خصوصاً ایمان لاؤ اور اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کے زندہ اور کامل دین اسلام کی پیروی میں مشغول ہو۔ سوم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریّت کو بصدق دل قبول کرکے اورؔ جناب کے پر امن و بابرکت سلسلہ میں داخل ہو کر اپنی روحانی زندگی کے اُس کامل نُور کو جو اس بلا اور عذاب الٰہی سے نجات بخش ہے حاصل کرو۔ چہارم۔ ہرایک شخص اپنے سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضور توبہ کرکے ہر ایک گناہ اور معصیّت کو جس کا وہ مرتکب ہے ترک کرے اور پنجوقتی نماز اور


بقیہ حاشیہ نمبر۱

ایسے ہی اور بھی بہت سے رؤیا اورؔ کشوف ہیں جن کا لکھنا موجب طوالت ہے۔ مگر یہ بات خوب یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی رؤیا و کشوف وغیرہ کی وساطت سے اس عاجز پر بخوبی ظاہر و ثابت کر دیا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی ناصروں میں سے ایک ہوں۔ جیسا کہ حضور کو ابتدائے دعویٰ مسیحیت کے وقت ایک رؤیا صالحہ میں دو ناصر دکھائے گئے تھے جسکی تصدیق حدیث نبوی صلعم سے ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح موعود دو فرشتوں یا مردوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر نازل ہوں گے سو میری رؤیا و کشوف جن کا ذکر اختصار کے طور پر پہلے کیا گیا ہے۔ اس بات کو بخوبی ثابت کرتے ہیں کہ ان دو ناصروں میں سے جن کا ذکر نبوی اور حضرت اقدس کی رؤیا مبارکہ میں ہے ایک کا مصداق یہ عاجز ہے اس وجہ سے کہ اول تو مجھے ایک الہامی کتاب میں لکھا ہوا دکھایا گیا کہ وہ مینار جس پر مسیحؑ نازل ہوگا اس عاجز کے ہاتھ سے بنایا جائے گا۔ دوئم کشفی حالت میں خدا نے مجھے مسیح کے جلالی نزول کی منادی کرنے اور قوموں کو اس کی بادشاہت میں شامل ہونے کی خوشخبری دینے کے لئے مامور فرمایا۔ سوم خدا تعالیٰ نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 426

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 426

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/426/mode/1up


دعا و استغفار میں مشغول رہے اور موت کو ہر دم یاد رکھے۔ اور حقوق اللہ و حقوق عباد کے ادا کرنے میں دل و جان سے مصروف رہے اور حتّی الوسع غریبوں،ضعیفوں و درماندگان پر رحم کرے جہاں تک ہو سکے اپنی جانوں اور مالوں کو خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اس کی رضامندی حاصل کرنے اور بنی نوع کی ہمدردی کے لئے وقف کرے۔ پنجم اپنے اخلاص دل سے محسن گورنمنٹ کی اطاعت اور شکر گذاری ادا کرتا رہے اور کسی طرح کی نقیض امن و امور بغاوت وغیرہ کا اپنے دل میں خیال تک نہ آنے دے۔ ششم ہر ایک شہر و بستی کے لوگ روزہ رکھیں اور جماعتوں کی جماعتیں جنگلوں اور میدانوں میں نکل کر نہایت عجز اور تضرّع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں اس بلا کے دفعیہ کیلئے دعا کریں۔ اور اس کے تمام انبیاء و صلحاء کو عموماً اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کو خصوصاً اس کی جناب میں شفیع لاویں۔ ہفتم ہر ایک قوم ہر ایک گروہ اپنے سچے دل سے توبہ کرکے خدا اور اس کے کامل رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم و امام الوقت پر ایمان لاکر اپنی مخلصانہ درخواستوں کے ذریعہ سے حضرت اقدس امام الزمان علیہ السلام سے اس آفت کے دفعیہ کے لئے دعا کراویں۔ سو اگر دنیا میری اس عرضداشت کے مطاؔ بق عمل کرے گی تو مَیں یقین کامل سے کہتا ہوں کہ یہ عذاب اُس خاص شخص یا گھر یا قوم یا شہر یا ملک کے اُس خاص حصے سے جس میں پاک تبدیلی کا نمونہ قائم کیا جاوے بفضلہ تعالیٰ رفع ہوگا کیونکہ اس کا اصل سبب گناہ اور امام الوقت کی مخالفت ہے۔ اِس لئے جب تک اصل سبب دور نہ ہو اور غضبِ الٰہی کی یہ آگ جومخالفت اور گناہ کے باعث مشتعل ہورہی ہے فرونہ ہو۔ یہ عذاب دنیا سے موقوف نہ ہوگا۔ مگر میں ڈرتا ہوں کہ دُنیا میری اس عرضداشت کو ایک سرسری نگاہ سے نظر انداز کرکے اُس وقت کی انتظاری کرے جبکہ دامنِ اجابت ہاتھ سے چھوٹ جائے اور توبہ کا


بقیہ حاشیہ نمبر۱

اپنےؔ الہام کے ذریعہ سے مجھے قوموں کو طاعون سے نجات کی طرف بلانے کے لئے حکم دیا۔ چہارم آسمان سے نورانی اجرام نشان کے طور پر خدا تعالیٰ نے حضرت امام الزمان کی تائید میں اس عاجز کے ہاتھ پر نازل فرمائے۔ پنجم حضور کی طرف سے آپ کی خدمت اور مختار کاری کا منصب عطا ہوا۔ ششم حضور کی بیعت کے لئے قوموں کو دعوت کرنے کی خدمت عطا فرمائی گئی۔

اب ان بیّن دلائل کے بعد شک کرنے کا کون سا محل ہے کہ مَیں حضور کے ناصروں میں سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 427

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 427

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/427/mode/1up


دروازہ بند ہوجاوے کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ شرارت انتہا کو پہنچتی ہے اور قطعی فیصلہ کا وقت آجاتا ہے تو مخالفوں کے حق میں انبیاء علیہم السلام کی بھی دُعا قبول نہیں ہوتی۔دیکھو حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے وقت اپنے بیٹے کنعان کے لئے جو کافروں اور منکروں سے تھا دعا کی اور قبول نہ ہوئی (دیکھو سورہ ہود رکوع۲) اور ایسا ہی جب فرعون ڈوبنے لگا تو خدا پر ایمان لایا مگر قبول نہ ہوا۔

ہاں اس خاص وقت سے پہلے اگر رجوع کیا جاوے تو البتہ قبول ہوتا ہے333 ۱؂ یعنی جب خفیف سے آثار عذاب کے ظاہر ہوں تو اُس وقت کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ ابھی اس عذاب الٰہی کا دُنیا میں صرف آغاز ہی ظاہر ہوا ہے اور اس کا انتہا اور غایت نہایت ہی سخت ہے لہذا لوگوں کو چاہئے کہ اُس خاص ہلاکت کے وقت سے پہلے خدا کی طرف رجوع کر لیں اور خدا اور رسول اور امام وقت کی اطاعت کریں اور توبہ و ترک معصیّت دعا و استغفار کے ساتھ اس کا دفعیہ چاہیں اور اپنے اندر ایک نیک و پاک تبدیلی پیدا کریں تاکہ اس ہولناک عذاب سے محفوظ رہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ پختہ وعدہ ہے کہ وہ ایسےؔ وقت میں ہمیشہ مومنوں ہی کو نجات دیا کرتا ہے جیسا کہ فرمایا 3۲؂ اب ہم اس مضمون کو اس دعا پر ختم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو اور کُل مومنوں کو اس بلا سے بچاوے اور راہِ راست کی طرف رہنمائی کرے اور باہم صلح و صلاحیّت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔

اب میں اپنی جماعت کے روحانی بھائیوں کی خدمت میں گذارش کرتا ہوں کہ اس غضب الٰہی کی آگ اور ہولناک عذاب سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دو سامان ہیں ایک ایمان دوسرا تقویٰ۔ ایمان تو یہ ہے کہ ہم اپنے کامل یقین سے جان لیں کہ ہمارے پاس اس عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے اپنے ہادی و مولا حضرت


بقیہ حاشیہ نمبر۱

جن ؔ کا ذکر حدیث شریف اور رؤیا صالحہ میں ہے ایک کا مصداق نہ ہوں۔ ہرگز نہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ابھی تک میں اپنے اندر مالی یا علمی ایسی استعداد نہیں دیکھتا جس سے میں اپنے تئیں معقولی پیرایہ میں حضرت موصوف کا ناصر قرار دے سکوں۔ کیونکہ یہ عاجز ان دونوں باتوں میں ابھی تک بے سروسامان اور تہیدست ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ان وعدوں اور تسلیوں پر جو مجھے دی گئی ہیں ایمان رکھتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ بلکہ میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ جب تک وہ خدمت جو اس عاجز کے حصہ میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 428

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 428

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/428/mode/1up


امام الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام پر کامل ایمان لانے اور ان کے مخلصانہ اتباع کے بغیر کوئی صورت نہیں اگر ہم بچیں گے تو حضور ہی کے مخلصانہ اتباع کے سبب۔ اور اگر مریں گے تو ان کی ہی مخالفت کے باعث گویا کہ ہماری زندگی اور موت حضور کی اطاعت اور مخالفت پر موقوف* ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ ہم اس بات سے ہر وقت ڈرتے اور اپنی تمام حرکات و سکنات کو ٹٹولتے رہیں کہ کسی امر میں ہم اپنے ہادی و مولا کی ہدایات اور ان کی امن بخش اطاعات سے باہر نہ رہ جائیں تاکہ اچانک عذاب الٰہی کا شکار نہ بنیں کیونکہ اس عذاب سے بچنے کے لئے امن و پناہ سوائے اطاعت احمدیہ کے نہیں جو اس کے اندر رہے گا یقیناًبچ جائے گا کیونکہ ہمارا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ یہ عذاب جو اب دُنیا کو ہلاک کرکے عدم کی راہ دکھا رہا ہے صرف حضرت امام الزمان علیہ السلام کی مخالفت کے سبب سے ہے اِس لئے یہ بات سُنت اللہ کے خلاف ہے کہ یہ عذاب حضرت اقدس کے مخلص متبعین پر بھی کسی طرح کا اثر ڈالے جیسا کہ قرآن کریم کی صدہا نظیروں سے یہ بات ثابت شدہ صداقت ہے کہ گذشتہ زمانوں میں حضرت انبیاء علیہم السلام کے مخلص ایماندار عذاب الٰہی کے وقت نجات پاتے رہےؔ ہیں۔ اور یہ بات صرف پہلے ہی نہ تھی بلکہ اب بھی ہے۔ جیسا فرمایا۔33۔۱؂ مگر مومن مخلص بننا شرط ہے کیونکہ اگر مومن نہ ہوگاتو وہ حضرت لوط کی بیوی اور حضرت نوحؑ کے بیٹے کی طرح صرف جسمانی قرابت یا تعلق کی وجہ سے بچ نہیں سکتا اس لئے ہر ایک مومن احمدی بھائی کو لازم ہے کہ حضرت امام الزمان کی چھوٹی اور بڑی مخالفت سے ڈرتا ہوا اور کانپتا ہوا ہر وقت استغفار اور دعا میں مشغول رہے تاکہ جو باریک باریک امروں میں نادانی کے سبب ہم سے اکثر اوقات مخالفت ہو جاتی ہے اُس کا کفّارہ ہوتا رہے اور خدا تعالیٰ اس کے انتقام کے لئے اپنے مؤاخذہ سے محفوظ رکھے۔ اور جہاں تک ہمارے معلومات ہیں ہر ایک امر میں اپنے ہادی


بقیہ حاشیہ نمبر۱

مقرؔ ر ہے پوری نہ ہو اس دنیا سے اٹھایا نہ جاؤں گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے وعدے ٹل نہیں جاتے اور اس کا ارادہ رک نہیں سکتا اس لئے میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلالی نزول کا رسول ہوں اور وہ یہ ہے کہ اب تک حضرت مسیح موعود کا جمالی نزول تھا۔ اور اب سے جلالی شروع ہو گا۔ یعنی پہلے لوگوں کو جمالی پیرایہ میں نرمی سے سمجھایا جاتا تھا۔ مگر اب خدا تعالیٰ اپنے جلالی اور قہری حربہ کے ساتھ متنبہ کرے گا اور اسی امر کی منادی کے لئے میں مامور ہوں۔ منہ ۱۲


* (یہ بات اس کی بالکل سچ ثابت ہو گئی)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 429

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 429

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/429/mode/1up


امام الزمان علیہ السلام کی خلاف ورزی سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ عذاب مخالفین کے لئے ہلاکت اور ہمارے لئے تنبیہ اور عبرت ہے۔ سو ہر ایک بھائی کو چاہئے کہ دوسروں کے نظارہ سے اپنے لئے عبرت حاصل کرے (فاعتبروا یا اولی الابصار) اور اس عذاب سے بچنے کی کوشش میں لگا رہے۔ کیونکہ یہ بات مجھ پر کھولی گئی ہے کہ ہماری جماعت میں کا کوئی مخلص بھائی اس بیماری سے ہلاک نہ ہوگا مگر وہی جو منافقانہ زندگی بسر کرتا ہے۔ اس لئے ہماری جماعت میں سے جو شخص اس بلا کے مؤاخذاہ میںآجائے تو جان لیناچاہئے۱؂ کہ اس کی ایمانی اور عملی حالت اچھی نہ تھی جس کی سزا اُس کو دی گئی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے مخلص مومنوں کو مخالفین کے عذاب میں شامل نہیں کرتا۔ 3333۲؂ اس لئے ہر ایک مومن کو ڈرنا چاہئے کہ کسی قسم کی مخالفت کے باعث عذاب الٰہی کے اس بلا میں مبتلاؔ ہو کر فاسقوں میں شامل ہونا نہ پڑے۔

علاوہ اس کے مَیں اپنے عالی ہمت بھائیوں کی خدمت میں اس قدر زیادہ عرض پر داز ہوں کہ جن احباب کے پاس یہ اشتہار پہنچے وہ اپنے ہادی و مولا امام برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید و بنی نوع انسان کی ہمدردی کا حق ادا کرنے کے لئے دل و جان سے اس کی اشاعت میں سعی فرماویں۔ اور اگر ہو سکے تو اپنے اپنے شہر کی جماعت کے چندہ سے اس کو مکررطبع کراکر دیہات و قصبہ جات میں بھی ارسال کریں۔ کیونکہ ضدّی اور متعصّب لوگوں کو چھوڑ کر باقی سادہ لوح خلقت محض بے علمی و غفلت کی حالت میں اس عذاب الٰہی کا شکار ہو رہی ہے اس لئے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ اس وقت بندگانِ خدا کو راہِ راست کی طرف تحریک کرنے اور اس مہلک عذاب سے بچانے کے لئے کوشش کرے تا کہ اس مقدس جماعت کا وجود دنیا کی بہبودی اور صلاحیّت کے لئے مفید ثابت ہو اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اجرِ عظیم پانے کے مستحق ٹھہریں و باللہ التوفیق۔

زیادہ والسلام

المشتھر

خاکسار چراغ الدین احمدی ازجموں

۹؍فروری ۱۹۰۲ء


۱؂ (شھدوا علٰی انفسھم انھم کانوا کافرین)-الانعام:



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 430

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 430

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/430/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 431

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 431

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/431/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 432

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 432

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/432/mode/1up


تتمہؔ حقیقت الوحی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہ الْکَرِیْم

اس کتاب کے ختم کرنے کے بعد ایسی ضروری باتیں معلوم ہوئیں جن کا اِس کتاب کے ساتھ شامل کرنا کتاب کی تکمیل کے لئے واجبات سے ہے سو ذیل میں وہ امور بیان کئے جاتے ہیں:۔

(۱) چراغ دین جموں والے کا مباہلہ جو اس کتاب میں درج ہو چکا ہے اگرچہ وہ ایسا نشان ہے کہ جو شخص عقل اور انصاف اور ایمان کا پابند ہو اور خدا ترسی کے طریق کو ہاتھ سے نہ چھوڑے وہ صرف اسی ایک نشان پر غور کرنے سے سمجھ سکتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے اور حق پر ہوں لیکن ایک بدظن کے دل میں یہ شبہ گذر سکتا تھا کہ چونکہ چراغ دین طاعون سے مر چکا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ مباہلہ اُس کی طرف سے نہ ہو بلکہ اُس کی موت کے بعد اپنی طرف سے عبارت مباہلہ بناکر لکھی گئی ہو اس لئے مَیں نے اس کتاب کا شائع کرنا اس وقت تک ملتوی کر دیا جب تک کہ چراغ دین کے وارث یا دوست اس کی اس کتاب کو چھاپ دیں جس میں یہ مباہلہ کی عبارت درج ہے چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اُن لوگوں کے دل میں پڑ گیا کہ وہ کتاب جس میں مضمون مباہلہ ہے چھاپ دی جائے اور پھر چند ہفتوں میں اُنہوں نے اس کتاب کو چھاپ دیا اور اس کتاب کا نام اعجاز محمدی رکھا۔ اور کمال شکر کی بات ہے کہ باوجود سخت مخالفت کے وہ مضمون مباہلہ کو کتاب اعجاز محمدی سے علیحدہ نہ کر سکے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چراغ دین نے اپنی زندگی میں اس ارادہ کو عام لوگوں کے رو برو ظاہر کر دیا تھا کہ میں مباہلہ کے طور پر مضمون لکھوں گا تا وہ شخص جو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 433

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 433

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/433/mode/1up


جھوٹا ؔ ہے ہلاک ہو جائے۔ اور نہایت درجہ کی شوخی اور تکبر سے میرا نام اُس نے دجّال رکھا تھا اور اپنی کتاب منارۃ المسیح میں یہ لکھا تھا کہ دجّال معہود آنے والا یہی شخص ہے ۔اور نیز لکھا تھا کہ خواب میں حضرت عیسیٰ نے مجھے عصا دیا ہے کہ تا اِس دجال کو اِس عصا سے قتل کروں اور پھر جب اپنی کتاب اعجاز محمدی میں جس کی تالیف کے ساتھ ہی وہ طاعون میں گرفتار ہو گیا اُس نے مباہلہ کی عبارت لکھی تو گو وہ اپنی کتاب کو اپنی زندگی میں شائع نہ کر سکا لیکن مباہلہ کا ارادہ شائع کر چکا تھا۔ اور مضمون مباہلہ کئی لوگوں کو دکھلا چکا تھا اور نیز لکھنے کے لئے کاتب کو وہ مضمون دے چکا تھا اس لئے اُس کے دوستوں کو باوجود سخت مخالفت کے یہ جُرأت نہ ہو سکی کہ وہ مضمون مباہلہ کتاب میں سے نکال دیں۔ اور در اصل یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے کہ اُس نے اُن لوگوں کو اس طرف متوجہ ہونے سے روک دیا کہ وہ یہ سوچتے کہ مباہلہ کا مضمون شائع ہونے سے چراغ دین کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا کیونکہ چراغ دین نے جب مباہلہ کا مضمون کاتب کو لکھنے کے لئے دیا تو اُسی روز اُس کے دو لڑکے جو دو ہی تھے طاعون میں گرفتار ہو کر مر گئے اور پھر ابھی وہ مضمون پتھر پر نہیں جمایا گیا تھا کہ چراغ دین نے طاعون کا شکار ہو کر اس جھگڑے کا اپنی موت سے خود ہی فیصلہ کر دیا جو مجھ میں اور اُس میں تھا۔ غرض مباہلہ کا مضمون ایک مشہور واقعہ ہو چکا تھا پس یہی وجہ تھی کہ وہ مضمون بہرحال اُس کے دوستوں نے کتاب اعجاز محمدی میں چھاپ دیا۔ اور جبکہ وہ مضمون چھا پا گیا تو ہم نے بھی بہت سے نُسخے اس کتاب کے خرید لئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ جس مضمون مباہلہ کو ہم نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں شائع کیا ہے وہ اسی چراغ دین کا مضمون ہے۔

اگرچہ اس قدر پبلک کی تسلّی کے لئے کافی ثبوت تھا مگر پھر بھی مجھے خیال آیا کہ اگر اصل مضمون مباہلہ کا جو چراغ دین نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا مل جائے اور اُس کا فوٹو لیا جائے تو یہ ثبوت نور علیٰ نور ہو جائے گا اور اس مطلب کے لئے بہت سی سعی کی گئی۔ آخر وہ مضمون اعجاز محمدی کے کاتب سے بعد شائع ہونے اس کتاب کے مل گیا بلکہ تمام مسوّدہ اُس کتاب کا مل گیا۔ تب میں نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح اس مضمون کا فوٹو لیا جائے چنانچہ اخویم مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 434

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 434

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/434/mode/1up


معرؔ فت کلکتہ اور بمبئی اور مدراس میں اُن کا رخانوں کی طرف چٹھیات لکھی گئیں جہاں تحریروں کے فوٹو لئے جاتے ہیں اگرچہ اس قدر گراں نرخ بیان کیا گیا کہ 3پچاس روپے فی صفحہ فوٹو لینے کے لئے مطالبہ ہوا تاہم ہم نے سب کچھ منظور کیا۔ یہی باعث تھا کہ کتاب حقیقت الوحی کے شائع ہونے میں بہت تاخیر ہو گئی۔ بالآخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریر کا عکس لینے میں ہم کامیاب ہوئے چنانچہ وہ عکس اس تتمہ کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے اور اصل تحریر چراغ دین کی جو مباہلہ کی عبارت ہے بلکہ تمام کتاب اُس کی دستخطی ہمارے پاس محفوظ ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے اور جو شخص چراغ دین کی تحریر کو شناخت کرتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اس مضمون کو جو چراغ دین کا دستخطی ہمارے پاس محفوظ ہے دیکھے۔ بلکہ وہ صرف اس کا عکس دیکھ کر مطمئن ہو جائے گا۔

(۲) دوسرا امر جو اس تتمہ میں لکھنے کے لائق ہے وہ چند پیشگوئیاں ہیں جو کتاب حقیقت الوحی کے تمام کرنے کے بعد پوری ہوئیں۔ اور ایک ان میں سے وہ پیشگوئی بھی ہے کہ جو گذشتہ زمانہ کا ایک نشان ہے اور نشانوں کے تحریر کے وقت اُس کا لکھنا یاد نہیں رہا تھا اس لئے اب تتمہ میں لکھا گیا ہے کیونکہ وہ ایک بڑا نشان ہے اور اکثر اشد دشمن اور مخالف اس راقم کے اس کے گواہ ہیں۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس نشان کو بھی ان نشانوں کے ساتھ اس تتمہ میں لکھ دوں اور وہ یہ ہیں:۔

اوّل۔ منجملہ ان نشانوں کے یہ نشان ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس کوٹلہ مالیر کی نسبت میرے پر خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ اُن کی بیوی عنقریب فوت ہو جائے گی اور موت کی خبر دے کر یہ بھی فرمایا کہ درد ناک دُکھ اور درد ناک واقعہ مَیں نے اس خبر سے سب سے پہلے اپنے گھر کے لوگوں کو مطلع کیا اور پھر دوسروں کو اور پھر اخبار بدر اور الحکم میں یہ پیشگوئی شائع کرا دی اور یہ اُس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی جبکہ نواب صاحب موصوف کی بیوی بہر طرح تندرست اور صحیح و سالم تھی۔ پھر تخمیناً چھ ماہ کے بعد نواب محمد علی خانصاحب کی بیوی کوسل کی مرض ہو گئی اور جہاں تک ممکن تھا اُن کا علاج کیا گیا۔ آخر رمضان ۱۳۲۴ ھ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 435

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 435

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/435/mode/1up


میںؔ وہ مرحومہ اُسی مرض سے اس ناپائیدار دنیا سے گذر گئیں۔ اس پیشگوئی سے نواب صاحب کو بھی قبل از وقت خبر دی گئی تھی اور ہمارے فاضل دوست حکیم مولوی نور دین صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب اور اکثر معزز اس جماعت کے اس پیشگوئی پر اطلاع رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے۔3 3 ۱؂ یعنی خدا تعالیٰ صاف صاف اور کھلا کھلا غیب بجز اپنے رسولوں کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ دعوے کے ساتھ کسی پیشگوئی کو بتمام تر تصریح شائع کرنا اور پھر اُس کا اُسی طرح بکمال صفائی پورا ہونا اس سے زیادہ روشن نشان کی اور کیا علامت ہو سکتی ہے۔

(۲) منجملہ اُن نشانوں کے دوسرا نشان یہ ہے کہ مجھ کو ۳۰؍جولائی ۱۹۰۶ء میں اور بعد اس کے اور کئی تاریخوں میں وحی الٰہی کے ذریعہ سے بتلایا گیا کہ ایک شخص اس جماعت میں سے ایک دم میں دُنیا سے رخصت ہو جائے گا اور پیٹ پھٹ جائے گااور شعبان کے مہینہ میں وہ فوت ہوگا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق شعبان ۱۳۲۴ھ میں میاں صاحب نور مہاجر جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کی جماعت میں سے تھایک دفعہ ایک دم میں پیٹ پھٹنے کے ساتھ مر گیا اور معلوم ہوا کہ اُس کے پیٹ میں کچھ مدت سے رسولی تھی لیکن کچھ محسوس نہیں کرتا تھا اور جوان مضبوط و توانا تھا یک دفعہ پیٹ میں درد ہوا اور آخری کلمہ اُس کا یہ تھا کہ اُس نے تین مرتبہ کہا کہ میرا پیٹ پھٹ گیا بعد اس کے مر گیا اور جیسا کہ پیشگوئی میں تھا شعبان کے مہینہ میں ایک دَم میں اُس کی جان رخصت ہو گئی۔ یہ پیشگوئی قبل از ظہور اخبار بدر اور الحکم میں شائع کرا دی گئی تھی۔

(۳) منجملہ اُن نشانوں کے سعد اللہ لودھیا نوی کی موت ہے جو پیشگوئی کے مطابق ظہور میں آئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب منشی سعد اللہ لدھیانوی بدگوئی اور بد زبانی میں حد سے بڑھ گیا اور اپنی نظم اور نثر میں اس قدر اُس نے مجھ کو گالیاں دیں کہ میں خیال کرتا ہوں کہ پنجاب کے تمام بد گو دشمنوں میں سے اوّل درجہ کا وہ گندہ زبان مخالف تھا۔ تب میں نے اُس کی موت کے لئے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ میری زندگی میں ہی نامراد رہ کر ہلاک ہو* ۔اور ذلت کی موت سے مرے۔ اس دعا


* جیسا کہ میںآگے چل کر بیان کروں گا اس شخص یعنی سعد اللہ نے میری موت کی پیشگوئی کی تھی اور شائع کیا تھا کہ میں اس کی زندگی میں ہی ذلّت کے ساتھ مروں گا اور میں نے شائع کیا تھا کہ وہ میری زندگی میں مرے گا آخر کار میرے خدا نے مجھے سچا کیا اور وہ جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی مر گیا اور ذلّت اور حسرت کو ساتھ لے گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 436

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 436

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/436/mode/1up


کا باؔ عث صرف اُس کی گالیاں نہیں تھیں بلکہ بڑا باعث یہ تھا کہ وہ میری موت کا خواہاں تھا اور اپنی نظم و نثر میں میرے لئے بد دعائیں کرتا تھا۔ اور اپنی سفاہت اورجہالت سے میری تباہی اور ہلاکت کو بدل چاہتا تھا اور لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین میرے حق میں اُس کا ورد تھا۔ اور تمنا کرتا تھا کہ میں اس کی زندگی میں تباہ ہو جاؤں اور ہلاک ہو جاؤں اور یہ سلسلہ زوال پذیر ہو جائے اور اس وجہ سے جھوٹا ٹھہروں اور مخلوق کی *** کا نشانہ بنوں۔ اور اگرچہ یہ تمنا ہر ایک دشمن میں پائی جاتی ہے کہ وہ میری موت دیکھیں اور اُن کی زندگی میں میری موت ہو لیکن یہ شخص سب سے بڑھ گیا تھا اور ہر ایک بدی کے لئے جب بد قسمت مخالف قصد کرتے تھے تو وہ اس منصوبہ سے پورا حصہ لیتا تھا اور میں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مرسل کو دی ہوں جیسا کہ اُس نے مجھے دیں۔ چنانچہ جس شخص نے اُس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیز میری ذلت اور نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر حریص تھا اور میری مخالفت میں کہاں تک اُس کادل گندہ ہو گیا تھا پس ان تمام امور کے باعث میں نے اس کے بارے میں یہ دعا کی کہ میری زندگی میں اس کو نامرادی اور ذلّت کی موت نصیب ہو۔ سو خدا نے ایسا ہی کیا اور جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہی ہفتہ میں چند گھنٹہ میں نمونیا پلیگ سے اس جہان فانی سے ہزاروں حسرتوں کے ساتھ کوچ کر گیا۔

چنانچہ اخبار اہل حدیث کے اڈیٹر مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنے اخبار کے صفحہ ۴ میں سعد اللہ کی موت پر حسرت کی طرف ان الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ اس کے لڑکے کی نسبت حاجی عبد الرحیم کی دختر سے ہو چکی تھی اور عنقریب شادی ہونیوالی تھی کہ سعد اللہ کا انتقال ہو گیا۔ اور سعد اللہ کو یہ بھی نصیب نہ ہوا کہ اپنے لڑکے کی شادی دیکھ لیتا جبکہ اُس کا ایک ہی لڑکا تھا اور شادی کا تمام سامان اُس نے اکٹھا کر لیا تھا اور چند روز میں ہی اس منحوس کام کو انجام دینے کو طیار تھا کہ فرشتہ ملک الموت نے آپکڑا۔ اور یہ قول مولوی ثناء اللہ صاحب کا قرین قیاس ہے کیونکہ ہماری جماعت کے بعض صاحبوں نے بار بار اس کو یہ کہہ کر ملزم کیا تھا کہ تیری نسبت قریباً تیرہ۱۳ سال سے مسیح موعود کو یہ الہام ہو چکا ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 437

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 437

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/437/mode/1up


3 یعنی تیرے بد گو دشمن سعد اللہ کی قطع نسل کی جائے گی۔ پھرتُو اپنے لڑکے کی کیوں کسی جگہ شادی نہیں کرتا تا نسل جاری ہو۔ پس قریب قیاس ہے کہ ان بار بار کی ملامتوں کو سن کر سعد اللہ نے کسی جگہ اپنے لڑکے کی نسبت کر دی ہو۔ مگر شادی کی ابھی طیاری ہو رہی تھی کہ سعد اللہ کی دوسرے جہان کی طرف طیاری ہو گئی۔ پس سعد اللہ کا شادی کا نام لیتے ہی مر جانا یہ بھی ایک نامرادی ہے۔ پس اس میں کیا شک ہو سکتاہے کہ وہ میری پیشگوئی کے مطابق نامراد مرا۔ اوربلاشبہ یہ ایک ذلّت کی موت ہے کہ وہ پیشگوئی کے اس مفہوم کو اپنی کوشش سے دور نہ کر سکا کہ آئندہ اس کی نسل نہیں چلے گی اور نہ اس پیشگوئی کو اپنی طاقت سے رفع کر سکا کہ میری زندگی میں ہی اس کی موت ہوگی اور میری ہر ایک ترقی کو دیکھ کر مرے گا۔

اور مولوی ثناء اللہ صاحب کا اپنے اخبار ۸؍فروری ۱۹۰۷ء میں ابتر کی پیشگوئی کو ردّ کرنے کے لئے یہ عذر پیش کرنا کہ سعداللہ ایک لڑکا چھوڑ گیا ہے پھر کیونکر اس کو ابتر کہہ سکتے ہیں۔ یہ اس کا ایسا بیان ہے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ یا تو اُس نے خود دھوکہ کھایا یا عمداً لوگوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ کیونکہ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی کے ذریعہ سے میرے پر ظاہر کیا ہے وہ سعد اللہ کی موجودہ حالت کی نسبت بیان نہیں اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ پیشگوئی کے وقت میں سعد اللہ کا لڑکا بعمرپندرہ سال یا چودہ سال موجود تھااور باوجود لڑکے کے موجود ہونے کے خدا تعالیٰ نے اپنی پیشگوئی میں اس کا نام ابتر رکھا تھا اور فرمایا تھا کہ 3یعنی خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تیرا بد گوہی ابتر ہوگا نہ کہ تُو۔ چونکہ سعد اللہ اپنی تحریروں میں بار بار میری نسبت یہ ظاہرکرتا تھا کہ یہ شخص مفتری ہے جلد تباہ ہو جائے گا اور کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہے گا۔ پس خدا تعالیٰ نے اس کے ان الفاظ کے مقابل پر جو محض شوخی اور شرارت سے بھرے ہوئے تھے یہ فرمایا کہ آخر کار وہ خود تباہ ہو جائے گا اس کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ پس پیشگوئی کے معنی پیشگوئی کو مدّ نظر رکھ کر کرنے چاہئیں پیشگوئی نے موجودہ لڑکے کو کالعدم قرار دے کر قطع نسل کا وعدہ دیا ہے اور یہ اشارہ کیا ہے کہ اس لڑکے کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ پس اس جگہ قاموس وغیرہ کا ابتر کے معنی کے بارے میں حوالہ دینا صرف



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 438

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 438

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/438/mode/1up


بیہوؔ دہ گوئی اور حماقت ہے۔ اس مقدمہ کی یہ صورت تو نہیں ہے کہ پیشگوئی کے بعد لڑکا پیدا ہوگیا بلکہ وہ لڑکا جو اب موجود ہے پیشگوئی کے وقت میں پندر۱۵ہ یا چودہ۱۴ برس کا تھا اور اب تیس ۳۰یا انتیس۲۹ برس کا ہوگا۔پس جبکہ پیشگوئی کے زمانہ میں یہ لڑکا موجود تھا تو ایک عقلمند صاف سمجھ سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مطلب ہے کہ یہ لڑکا کالعدم ہے اور اس کے بعد نسل کا خاتمہ ہے اور یہی خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے تفہیم ہوئی تھی۔ ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ نے اِس پیشگوئی کے یہی معنی کھولے کہ یہ لڑکا کالعدم ہے اور اس کے بعد سعد اللہ کی نسل نہیں چلے گی اور اسی پر سعد اللہ کی نسل کا خاتمہ ہو جائے گا تو پھر کس قدر ہٹ دھرمی ہے کہ یہ کہنا کہ سعد اللہ اپنی موت کے بعد لڑکا چھوڑ گیا۔

اے نادان ! یہ لڑکا تو پیشگوئی کے وقت موجود تھااور محاورات عرب کو بالاستقصاء دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ اَبتر کے لفظ میں یہ شرط نہیں ہے کہ کوئی شخص صاحب اولاد اس حالت میں مرے کہ جب اس کی زندگی میں اس کی اولاد فوت ہو جائے بلکہ نسل کی جڑھ کٹ جانا شرط ہے جیسا کہ بتر کے معنی لغت عرب میں یہ لکھے ہیں کہ البتر: استیصال الشَّیءِ قطعًا یعنی بتر کہتے ہیں کسی چیز کو جڑھ سے کاٹ دینے کو۔ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی آئندہ نسل کے لئے تھی۔ یعنی یہ کہ موجودہ لڑکے سے آئندہ نسل نہیں چلے گی جیسا کہ ہم آئندہ تصریح سے بیان کریں گے۔ پس جس شخص کی فطرت میں ایک ذرّہ عقل اور حیا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کی نسبت یہ پیشگوئی کرنا کہ فلاں شخص منقطع النسل ہو جائے گا۔ اس پیشگوئی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی زندگی میں ہی وہ تمام نسل مر جائے کیونکہ اگر یہی شرط ہو تو پھر ایسی صورت میں ایسی قطع نسل کا کیا نام رکھنا چاہئے کہ ایک انسان ایک یا دو ولد چھوڑ کر مر جائے اور بعد اس کے کسی وقت وہ لڑکے بھی مر جائیں اور کچھ نسل باقی نہ رہے کیا عرب کے محاورات میں بجز ابتر کے لفظ کے ایسی صورت میں کوئی اور لفظ بھی موجود ہے اور کیا یہ کہنا جائز ہوگا کہ ایسا شخص منقطع النسل نہیں اور لفظ استیصال الشَّیءِ قطعًا اُس پر لازم نہیں آتا۔ پس ظاہر ہے کہ ایسا خیال حماقت اور دیوانگی ہے۔ اور زبان عرب میں اس قسم کے قطع نسل کے لئے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 439

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 439

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/439/mode/1up


ؔ بجز لفظ ابتر کے اور کوئی لفظ مقرر نہیں۔ اہل عرب اُس شخص کو بہر حال ابتر ہی کہتے ہیں جس کی اولاد اُس کی زندگی میں یا بعد اس کے اپنی موت کی وجہ سے اس کو لاولد کے نام سے موسوم کرے بلکہ ہر ایک ملک میں ایسے شخص کا نام بہر حال ابتر ہی ہے جس کی نسل باقی نہ رہے اور منقطع النسل کرکے پکارا جائے اور ائمہ لغت عرب میں سے کسی نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابتر ہونے کے لئے لازمی طور پر یہ شرط ہے کہ ایک شخص کے اولاد ہو کر اس کی زندگی میں ہی مر جائے۔ اور اگر کسی کی اولاد اس کی زندگی میں فوت نہ ہو مگر اُس کے مرنے کے بعد فوت ہو کر قطع نسل کر دے تو کیا عرب کی زبان میں ایسے شخص کو کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بلکہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اِس لفظ کے اصل مادہ میں بہت وسعت ہے کیونکہ عربی میں بتر صرف جڑھ کاٹ دینے کو کہتے ہیں۔

واضح ہو کہ عرب کی زبان میں ابتر کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے لسان العرب میں لکھا ہے: البتر استیصال الشیء قطعًا۔ البتر قطع الذنب و نحوہٗ۔ الابتر المقطوع الذنب۔ والابتر من الحیات الذی یقال لہ الشیطان۔ لا تبصرہ حامل الّا اسقطت۔ وفی الحدیث کل امرٍ ذی بال لا یبدء فیہ بحمد اللّٰہ فھوابتر۔ و الابتر الذی لا عقب لہ وبہ فسّرقولہ تعالٰی3 ۱؂ نزلت فی العاص ابن وائل وکان دخل علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم وھو جالس فقال ھٰذا الابتر ای ھٰذا الذی لا عقب لہ فقال اللّٰہ جلّ ثناۂٗ ان شانئک یا محمد ھو الا بتر ای المنقطع العقب و جائز ان یکون ھو المنقطع عنہ کل خیرٍ۔

وفی حدیث ابن عباس قال لمّا قدم ابن اشرف مکۃ۔ قالت لہ قریش انت خیر اھل المدینۃ وسیّدھم قال نعم قالوا الا تریٰ ھذا الصُّنَیر الابیتر عن قومہ یزعم انہ خیر منّا ونحن اھل الحجیج و اھل السدانۃ واھل السقایۃ قال انتم خیر منہ۔ فانزلت3 3۔

والا بترالمُعدِم۔ والابتر الخاسِرُ و ا لا بتر ھوالذی لا عروۃ لہ من المراد والدِّ لَاءِ ۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 440

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 440

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/440/mode/1up


ترجمہ ؔ : بتر کہتے ہیں ایک چیز کا جڑھ سے کاٹ دینا۔ دوسرے معنی بتر کے یہ ہیں کہ دُم وغیرہ کو کاٹ دینا۔ (۱) ابتر اُس کو کہتے ہیں جس کی دُم کاٹی گئی ہو۔ (۲) سانپوں کی اقسام میں سے ایک قسم کے سانپوں کا نام ابتر ہے اِس قسم کے سانپ کو شیطان کہتے ہیں اگر حاملہ عورت اُس کو دیکھے تو اُس کا حمل ساقط ہو جاتا ہے (۳) اور حدیث میں ہے کہ ہر ایک امر شاندار جس کو حمد الٰہی سے شروع نہ کیا جاوے وہ ابتر ہے۔ (۴) اور ابتر اُس کو بھی کہتے ہیں کہ جو عقب نہ رکھتا ہو یعنی اُس کا کوئی بیٹا نہ ہو یا بیٹے کا بیٹا نہ ہو۔ لسان العرب میں لکھا گیا ہے کہ عقب ولد کو بھی کہتے ہیں اور ولد الولد کو بھی کہتے ہیں۔ پس ان معنوں کی رو سے جس کا بیٹا نہیں وہ بھی ابتر ہے اور جس کے بیٹے کے آگے بیٹا نہیں وہ بھی ابتر ہے مگر جس کے کئی بیٹوں میں سے کسی بیٹے کی نسل چل جائے اُس کو ابتر نہیں کہہ سکتے۔ پس جو شخص مر جائے اور ایسا کوئی بچہ نہ چھوڑے اُس کا نام بھی ابتر ہے اور اس کے موافق خدا تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر کی گئی ہے کہ 3 ۱؂ یہ آیت عاص بن وائل کے حق میں نازل ہوئی تھی۔ وہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ پس عاص بن وائل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ ابتر ہے یعنی اس کا کوئی لڑکا نہیں ہے اور نہ لڑکے کا لڑکا۔ تب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اے محمد جو تیرا بد گو ہے وہی ابتر ہے یعنی مقدّر یوں ہے کہ جس اولاد پر وہ ناز کرتا ہے آخر اُس کی اولاد فنا ہو جائے گی۔ گواُس کی زندگی میں یا بعد اُس کے۔ اور سلسلہ نسل ختم ہوجائے گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ عاص بن وائل اولاد رکھتا تھا کیونکہ اگر وہ ابتر یعنی بے اولاد ہوتا تو یہ غیر معقول بات تھی کہ باوجود آپ ابتر ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ابتر رکھتا۔ پس خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ پیشگوئی تھی کہ انجام کار اس کی نسل قطع ہو جائے گی۔ گو اُس کی زندگی میں ہو یا بعد اُس کے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اولاد چھوڑ کر مر گیا تھا لیکن بعد اُس کے اُس کی اولاد کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر اولاد اُس کے رو برو مرتی تو ضرور اُس کا ذکر کیا جاتا۔ اور باقی ترجمہ یہ ہے کہ اس جگہ ابتر کے یہ معنی بھی جائز ہیں کہ ابتر اُس کو کہتے ہیں کہ ہر ایک خیر سے محروم اور بے نصیب ہو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 441

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 441

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/441/mode/1up


اورابن عباس کی حدیث میں ہے کہ جب ؔ ابن اشرف مکہ میں آیا تو اُس کو قریش نے کہا کہ تو سب مدینہ والوں سے بہتر اور اُن کا سردار ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں میں ایسا ہی ہوں تب قریش نے کہا کہ کیا تو اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) یہ ایک کمزور اور ضعیف اور گمنام شخص ہے نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ کوئی بھائی اور نہ کوئی دوستوں کی جماعت اس کے ساتھ ہے بلکہ ایک فرد واحد اکیلی جان ہے اور قوم میں سے کاٹا ہوا ہے یعنی قوم نے بباعث مخالفت مذہب اپنی جماعت میں سے اس کو خارج کر دیا ہے اور فتویٰ دے دیا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ میل ملاپ نہ کرے اور نہ کوئی اس کی ہمدردی کرے اور باوجود اس بات کے کہ یہ شخص کچھ بھی عزت نہیں رکھتا اور اس کو کوئی جانتا نہیں کہ کون ہے پھر یہ گمان کرتا ہے کہ ہم سے بہتر ہے۔ لیکن ہم ایک معزز جماعت ہیں تمام حج کرنیوالے ہم میں سے ہیں اور ہم اُن کے سردار ہیں اور خانہ کعبہ کے متولّی اور خادم بھی ہم ہی ہیں اور حاجیوں کو پانی پلانے کا شرف بھی ہمیں ہی حاصل ہے مگر یہ شخص تو کسی شمار میں نہیں۔ جب یہ تمام باتیں ابن الاشرف نے سنیں تو اُس بد بخت نے جواب دیا کہ درحقیقت تم اس شخص سے جو پیغمبری کا دعویٰ کرتاہے بہتر ہو۔ تب خدا تعالیٰ نے اُس کے حق میں اور قریش کی اُس تمام جماعت کے حق میں جو ابتر کہتی تھی فرمایا کہ3 ۱؂ یعنی ابن الاشرف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا اور قریش کے کفّار نے بھی ابتر کہا یہ خود ابتر ہیںیعنی ان کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور ہر ایک خیرو برکت سے محروم مریں گے۔ اس بات کو تو آج تک کوئی ثابت نہیں کر سکا کہ وہ تمام قریش کے لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہتے تھے اُن کی زندگی میں ہی اُن کے تمام لڑکے مر گئے تھے یا اُن کی اولاد نہیں تھی کیونکہ اگر اُن کی اولاد نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر گز وہ لوگ ابترنہ کہتے۔ یہ بات کوئی عقلمند قبول نہیں کر سکتا کہ ایک شخص خود ابتر ہو کر دوسرے کو ابتر کہے پس ماننا پڑتا ہے کہ اُن کی اولاد موجود تھی اور یہ دوسرا امر کہ پیشگوئی کے مطابق اُن لوگوں کی اولاد اُن کی زندگی میں ہی مر گئی تھی یہ امر بھی قرین قیاس نہیں اور عقل اس کو ہر گز باور نہیں کر سکتی۔ کیونکہ ایسا کہنے والے نہ ایک نہ دو بلکہ صدہا شریر النفس اور خبیث الطبع آدمی تھے جن کی اولاد کی ہزار ہا تک نوبت پہنچی تھی۔ پس اگر اُن کی زندگی میں ہی اُن کی تما م



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 442

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 442

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/442/mode/1up


اولاؔ د مر جاتی تو ملک میں ایک کہرام مچ جاتا۔ کیونکہ معجزہ کے طورپرہزار ہا بچوں کا مر جانا اور پھر لاولد ہونے کی حالت میں ان کے باپوں کا مرنا یہ ایسا معجزہ نہیں تھا جو مخفی رہ سکتا اور ضرور تھا کہ احادیث اور تاریخوں کی کتابوں میں اس کا ذکر ہوتا۔ پس اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اکثر اُن کے اولاد چھوڑ کر مر گئے تھے اور بعد میں پیشگوئی کے مطابق آہستہ آہستہ اُن کی نسل منقطع ہو گئی پس قرآن شریف کی یہ پیشگوئی جو قریش کے کافروں کے حق میں تھی یعنی 3 ۱؂ یہ بعینہٖ اسی رنگ کی پیشگوئی ہے جو میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر سعد اللہ لودھیانوی کے حق میں کی تھی۔ پس اسی طرح اُس کا ظہور ہوگا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے۔ بقیہ ترجمہ لسان العرب کا یہ ہے کہ ابتر مفلس کو بھی کہتے ہیں اور اس شخص کو بھی جو خسارہ میں ہو۔ اور اُن چیزوں کو ابتر کہتے ہیں جو مشکیزہ اور بوکا وغیرہ میں سے قبضہ نہ رکھتے ہوں۔

اِس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ اوّل تو ابتر کا لفظ بے فرزند ہونے کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر ایک بد نصیب اور نامراد جوناکام اور زیان کار رہے اس کو بھی ابتر کہتے ہیں جیسا کہ سعد اللہ اپنے کاموں میں نامراد گیا اور میرے مقابل پر جو کچھ اس کی آرزو تھی سب میں اس کو نامرادی نصیب ہوئی جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ علاوہ اس کے تحقیق متذکرہ بالا کی رو سے ثابت ہو گیا کہ ابتر ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ انسان ایسی حالت میں مرے جبکہ کوئی اُس کی اولاد نہ ہو بلکہ اگر بعد میں بھی اس کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور پوتے سے آگے نہ چلے تب بھی وہ ابتر کہلاتا ہے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قریش کے صدہا خبیث طبع لوگوں نے آنحضرت صلعم

کا نام ابتر رکھا تھا اور وہ لوگ صاحبِ اولاد تھے اور اسلامی تاریخ میں ثابت نہیں کیا گیا کہ ان کی حیات میں ہی اُن کے بیٹے اور پوتے ہلاک ہو گئے تھے بلکہ بعد میں آہستہ آہستہ ان کا قطع نسل ہو گیا تھا سو وہ پیشگوئی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر ظاہر ہوئی اس کا بھی یہی منشاء تھا کہ آخرکار سعد اللہ کی قطع نسل ہو جائے گی۔ چنانچہ اس کے علامات بھی ظاہر ہو گئے کہ باوجود اس کے کہ پیشگوئی پر بارہ ۱۲سال کے قریب مدت گذر گئی تب بھی سعد اللہ کے گھر میں پیشگوئی کے بعد



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 443

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 443

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/443/mode/1up


لڑکاؔ نہ ہوا اورنہ اُس کے لڑکے کی اولاد ہوئی۔ کیا اِس واقعہ سے پیشگوئی کے اثر کی کچھ بھی بُو نہیں آتی کہ پیشگوئی کے بعد تخمیناً بارہ ۱۲ سال تک سعد اللہ زندہ رہا اور جو رو رکھتا تھا مگر پھر بھی اولاد کا ہونا ایسا رُک گیا جیسا کہ ایک سیلاب کے آگے بندھ لگایا جاتا ہے اور لڑکا جو پیشگوئی سے پہلے بعمرپندرہ ۱۵ سال موجود تھا وہ بھی تیس سال تک پہنچ گیا اور شادی تک نوبت نہ آئی اور سعد اللہ ایک جوان مضبوط تھا اور اس لائق تھا کہ پیشگوئی کے بعد کئی لڑکے اس کے گھر میں پیدا ہو جاتے لیکن پیشگوئی کے بعد موت کے دن تک اس کے گھر میں کوئی زندہ رہنے والا لڑکا پیدا نہیں ہوا اورنہ اس کے لڑکے کے گھر میں کچھ اولاد ہوئی بلکہ اب تک وہ شادی سے محروم ہے اور سُنا گیا ہے کہ اس کی عمرتیس۳۰ برس یا اس سے زائد ہے۔ پس پیشگوئی نے اپنی سچائی کو ظاہر کر دیا کہ پیشگوئی کے بعد خدا تعالیٰ نے سعد اللہ کے گھر میں نسل کاپیداکرنا روک دیا۔ ہر ایک شخص جو کچھ حیا اور شرم کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ پیشگوئی کے ساتھ ہی آئندہ بارہ ۱۲برس تک سلسلہ اولاد کاقطع ہو جانا اور اُسی حالت میں سعد اللہ کا مر جانا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ نظر انداز کیا جائے جس حالت میں بد قسمت سعد اللہ کے ان کلمات کے بعد جو اُس نے میری نسبت کہے یعنی یہ کہ گویا میں مع اپنی تمام اولاد کے ہلاک ہو جاؤنگا اورکچھ بھی میرا باقی نہیں رہے گا اور جماعت درہم برہم ہو جائے گی خدا نے اس کی نسبت یہ الہام دیا کہ

3یعنی تو ابتر نہیں ہوگا بلکہ تیرا بد گو ہی ابتر رہے گا۔ تو اب دیکھنا چاہیئے کہ اس پیشگوئی کا نتیجہ کیا ہوا۔ صاف ظاہر ہے کہ نتیجہ یہ ہوا کہ بد قسمت سعد اللہ ابتر کے لفظ کے ہر ایک معنی کی رو سے جو لغت میں کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ کے قہر اور غضب کا مورد ہو گیا اپنے ارادہ میں خائب و خاسر رہا جیسا کہ ابترکے لفظ کے ایک یہ بھی معنی ہیں اور ابھی ہم یہ معنی بھی لکھ چکے ہیں۔ دوسرے یہ معنی بھی اُس پر صادق آئے کہ آخر کار پادریوں کا نوکر ہو کر جو دین اسلام کی توہین میں ہر وقت لگے رہتے ہیں ذلت کی زندگی اختیار کی اور وہ خیر اور برکت جو ایک غیرت مند اسلام کے حصہ میںآتی ہے اس سے بے نصیب ہو گیا۔ یہ اس کا نتیجہ تھا کہ محض شرارت اور دنیاداری سے حق کی مخالفت پر کمر بستہ تھا۔ لہذا اس پر یہ رجعت پڑی کہ میری اطاعت کا جُوَا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 444

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 444

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/444/mode/1up


نہ اُؔ ٹھا یا مگر پادریوں کی اطاعت کا جُوَا اُٹھا لیا۔ پس اِن معنوں کے رو سے بھی وہ ابتر ٹھہرا۔ پھر جیسا کہ بیان کر چکا ہوں ان معنوں کے رو سے بھی ابترہوا کہ اُس وقت سے جو اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ3گویا اُسی دم سے خدا تعالیٰ نے اس کی بیوی کے رحم پر مہر لگا دی اور اس کو یہ الہام کھلے کھلے لفظوں میں سُنایا گیا تھا کہ اب موت کے دن تک تیرے گھر میں اولاد نہ ہوگی اور نہ آگے سلسلہ اولاد کا چلے گا اور یقیناًاُس نے اس الہام کو توڑنے کے لئے اولاد حاصل کرنے کی غرض سے بہت کوشش کی ہوگی مگر وہ کوشش ضائع گئی۔ آخر نامراد مرا اور ابتر کے ہر ایک معنی اُس پر صادق آگئے۔ اور دوسری طرف جو میری نسبت وہ بار بار بد دعائیں کرتا تھا کہ یہ شخص مفتری ہے ہلاک ہو جائے گا اور اولاد بھی مرے گی اور جماعت متفرق ہو جائے گی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس الہام کے بعد یعنی الہام 3 کے بعد تین لڑکے میرے گھر میں پیدا ہوئے اور تین لاکھ سے زیادہ جماعت ہو گئی اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور کئی عیسائی اور ہندو میری دعوت سے مسلمان ہوئے۔ پس کیا یہ نشان نہیں اور کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور یہ کہنا کہ سعد اللہ کے لڑکے کی عبد الرحیم کی دختر سے نسبت ہو گئی ہے اور شادی ہو جائے گی اور اولاد بھی ہوگی یہ ایک خیالی پلاؤ ہے اور محض ایک گپ *ہے۔ جو ہنسی کے لائق ہے اور اس کا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کے وعدے ٹل نہیں سکتے۔ یہ بات تو اُس وقت پیش کرنی چاہئے کہ جب شادی ہوجائے اور اولاد بھی ہو جائے۔ بالفعل تو ایمانداری کا یہ تقاضا ہے کہ اس بات کو غور سے سوچیں کہ جیسا کہ قرآن شریف کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ


یہ اسی طرح کی امید ہے جیسا کہ عبد الحق غزنوی ثم امرتسری نے مباہلہ کے بعد اپنی نسبت مباہلہ کا اثر یہ ظاہر کیا تھا کہ میرا بھائی مر گیا ہے اس کی بیوی سے میں نے نکاح کیا ہے اور اس کو حمل ہو گیاہے اور اب اس کو لڑکا پیدا ہوگا اور وہ مباہلہ کا اثر سمجھا جائے گامگر اُس حمل کا انجام یہ ہوا کہ کچھ بھی پیدا نہ ہوا اور اب تک وہ باوجود گذرنے چودہ ۱۴برس کے نامرادی اور ذلّت کی زندگی بھگت رہا ہے اور بر خلاف اس کے مباہلہ کے بعد میرے گھر میں کئی لڑکے پیدا ہوئے اور کئی لاکھ انسان نے بیعت کی اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور دنیا کے کناروں تک عزت کے ساتھ میری شہرت ہو گئی اور اکثر دشمن مباہلہ کے بعد مر گئے اور ہزار ہانشان آسمانی میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 445

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 445

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/445/mode/1up


ا ہی یہ پیشگوئی بھی ظہور میں آگئی جو خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ظاہر فرمائی۔ کیونکہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اُسی روز سے جبکہ خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت مجھے یہ خبر دی کہ 3 جس کو آج تک بارہ ۱۲ برس گذر گئے اُسی وقت سے اولاد کا دروازہ سعد اللہ پر بند کیا گیا اور اس کی بد دُعاؤں کو اُسی کے مُنہ پر مار کر خدا تعالیٰ نے تین لڑکے بعد اس الہام کے مجھ کو دیئے اور کروڑہا انسانوں میں مجھے عزت کے ساتھ شہرت دی اور اس قدر مالی فتوحات اورؔ آمدنی نقد اور جنس اور طرح طرح کے تحائف مجھ کو دیئے گئے کہ اگر وہ سب جمع کئے جاتے تو کئی کوٹھے اُن سے بھر سکتے تھے۔ سعداللہ چاہتا تھا کہ میں اکیلا رہ جاؤں کوئی میرے ساتھ نہ ہو پس خدا تعالیٰ نے اِس آرزو میں اس کو نا مراد رکھ کر کئی لاکھ انسان میرے ساتھ کر دیا۔ اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ میری مدد نہ کریں مگر خدا تعالیٰ نے اس کی زندگی میں ہی اس کو دکھلا دیا کہ ایک جہان میری مدد کے لئے میری طرف متوجہ ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے وہ میری مالی مدد کی کہ صدہا برس میں کسی کی ایسی مدد نہیں ہوئی۔ اور وہ چاہتا تھا کہ مجھ کو کوئی عزت نہ ملے مگر خدانے ہر ایک طبقہ کے ہزارہا انسانوں کی گردنیں میری طرف جھکا دیں اور وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی زندگی میں ہی مر جاؤں اور میری اولاد بھی مر جائے مگر خدا تعالیٰ نے میری زندگی میں اس کو ہلاک کیا اور الہام کے دن کے بعد تین لڑکے اور مجھ کو عطا کئے۔ پس یہ موت اس کی بڑی نامرادی اور ذلّت کے ساتھ ہوئی اور یہی پیشگوئی میں نے کی تھی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو گئی۔

اور وہ پیشگوئی جس میں میں نے لکھا تھا کہ نامرادی اور ذلت کے ساتھ میرے رو برو وہ مرے گاوہ انجام آتھم میں عربی شعروں میں ہے اور وہ یہ ہے:۔


وَمِنَ اللِّءَامِ أرٰی رُجیلا فاسقًا

اور لئیموں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتا

غولًا لعینًا نطفۃَ السُّفھَاءِ *

ہوں کہ ایک شیطان ملعون ہے سفیہوں کا نطفہ

شکسٌ خَبیثٌ مُفْسِدٌ ومُزوِّر

نَحْسٌ یُسمّی السَّعْد فی الجُھَلاء

بد گو ہے اور خبیث اور مفسد اور جھوٹ کو ملمع کرکے دکھلانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعد اللہ رکھا ہے


* میں لکھ چکا ہوں کہ یہ چند شعر اُس وقت صحت نیت سے لکھے گئے جبکہ بد قسمت سعد اللہ کی بد زبانی حد سے زیادہ گذر گئی تھی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 446

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 446

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/446/mode/1up


یا لَاعنِی اِنَّ الْمُھَیْمن یَنْظر

خَفْ قَھْر ربٍّ قَادرٍ مَولَاءِی

اے مجھ کو *** کرنے والے خدا تجھ کو دیکھ رہاہے

اس خدا کے قہر سے خوف کر جو میرا قادر آقا ہے

انّی اراکَ تَمِیْسُ بِالْخُیَلَاءِ

أنسیت یوم الطعنۃ النجلَاءِ

میں تجھے دیکھتا ہوں کہ ناز اور تکبر کے ساتھ تو چلتا ہے

کیا تجھیوہ دن یاد نہیں آتا کہ جب تو طاعون زخم کرنیوالی کے ساتھ ہلاک ہوگا

۔لَا تتَّبِع اَھْواءَ نَفْسکَ شقوَۃً

یُلْقِیْک حُبّ النّفسِ فی الخَوقاءِ

اپنی نفسانی خواہشوں کا بد بختی کی وجہ سے پیرومت بن

تجھے تیرے نفس کی محبت کوئیں میں ڈالے گی

فرسٌخبیث خَفْ ذُرَی صَھَواتہ

خَفْ ان تزلّکَ عدو ذی عَدْوَاءِ

تیرا نفس ایک خبیث گھوڑا ہے اس کی پیٹھ کی بلندی سے تو خوف کر

اور تو اس بات سے ڈر کہ ناہموار چلنا اس کا تجھے زمین پر گرا دے

اِنَّ السُّمُوْمَ لَشَرُّ مَا فِی العالم

شَرَّ السُّمُوْمِ عَداوۃُ الصُّلحَاءِ

جو کچھ دُنیا میں ہے ان سب سے بد تر زہریں ہیں

اورزہروں سے بدتر صلحا کی دشمنی ہے

اٰذَیْتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بصَادِقٍ

اِنْ لَمْ تَمُتْ بِالخِزْیِ یَا ابن بِغَاءِ

تونے اپنی خباثت سے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔پس میں سچا نہیں ہوں گا اگر ذلت کے ساتھ تیری موت نہ ہو

اللّٰہ یُخزی حِزْبَکُمْ ویُعِزّنی

حتّٰی یجیءَ النّاس تَحْتَ لِوَاءِی

اور صرف تیری ذلت پر کچھ حصر نہیں خدا تجھے مع تیرے گروہ کے ذلیل کرے گااور مجھے عزت دے گا یہاں تک کہ لوگ میرے جھنڈے کے نیچے آجائیں گے

یَاربَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا بِکَرَامَۃٍ

یا من یریٰ قلبِیْ ولُبَّ لحائی

اے میرے خدا مجھ میں اور سعد اللہ میں فیصلہ کر یعنی جو کاذب ہے صادق کے رو برواس کو

ہلاک کر اے وہ علیم و خبیر جو میرے دل کو اور میرے اندر کی پوشیدہ باتوں کو دیکھ رہا ہے

یَا مَنْ اریٰ ابو ابَہ مَفْتُوحۃً

لِلسَّاءِلیْنَ فَلا تَرُدَّ دُعَاءِی

اے میرے خدا میں تیری رحمت کے دروازے دعا کرنے والوں کے لئے کھلے دیکھتا ہوں پس یہ جو میں نے

سعد اللہ کے حق میں دعا کی ہے اس کو قبول فرما اور رد نہ کر یعنی میری زندگی میں ہی اس کو ذلت کی موت دے


* سعد اللہ کی موت صرف ایک نشان نہیں بلکہ تین نشان ہیں (۱) اس کی موت کی نسبت میری پیشگوئی (۲) میری موت کی نسبت بطور مباہلہ اس کی پیشگوئی کہ گویا میں اُس کی زندگی میں ہی مرجاؤں گا (۳) اس کی موت کی نسبت میری دعاجو قبول ہو گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 447

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 447

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/447/mode/1up


اور جیسا کہ میں نے ان تمام اشعار کے نیچے ہر ایک شعر کا ترجمہ کر دیا ہے ان کے پڑھنے سے ظاہر ہے کہ میں نے سعد اللہ سے ان اشعار میں مباہلہ کیا تھا اور جیسا کہ اُس نے اپنی کتاب شہاب ثاقب میں مباہلہ کے طور پر میری موت کواپنی زندگی میں چاہا تھا اُس کے مقابل پر مَیں نے بھی اپنے

خدا سے یہ چاہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے صادق کی زندگی میں ہی اس کی موت ہو اور اسی بنا پر آٹھویں شعر میں مَیں نے یہ لکھا ہے کہ اے سعد اللہ تو نے مجھے بہت دُکھ دیا ہے پس اگر تیری ذلّت کے ساتھ موت نہ ہو یعنی اگر تو بموجب اس مباہلہ کے میری زندگی میں ہی نامراد رہ کر مر نہ جائے تو پھر میں جھوٹاہوں۔ اور چوتھے ۴ شعر میں صریح طور پر یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ سعد اللہ نمونیاؔ پلیگ سے مرے گا کیونکہ طعنہ کالفظ طاعون کی طرف اشارہ کرتا ہے اور نجلاء عربی زبان میں فراخ زخم کو کہتے ہیں اور نمونیا پلیگ کی بھی یہی صورت ہوتی ہے کہ پھیپھڑہ زخمی ہوکر پھٹ جاتا ہے اور اس میں فراخ زخم ہو جاتا ہے اور عجیب تر یہ ہے کہ جس زمانہ میں یہ پیشگوئی کی گئی اُس زمانہ میں اس مُلک میں طاعون کا نام و نشان نہ تھا پس یہ اس قادر علیم کے عمیق درعمیق علم کا ایک نمونہ ہے کہ اُس نے سعد اللہ کی اس قسم کی موت کی اُس وقت خبر دی جبکہ یہ تمام مُلک طاعون سے پاک تھا۔

اور یہ جو مذکورہ بالا اشعار میں خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ میری زندگی میں ہی سعد اللہ کی موت ذلّت اور رسوائی کے ساتھ ہو گی یہ پیشگوئی پورے طور پر ظہور میں آگئی اور نمونیہ پلیگ نے چند گھنٹہ میں ہی اُس کا کام تمام کر دیا اور جنوری ۱۹۰۷ ؁ء کے پہلے ہی ہفتہ میں وہ اس دُنیا سے گذر گیا۔ مگر اس جگہ طبعًا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی پیشگوئی کیوں کی گئی تھی اور کیوں اس کی گالیوں پر صبر نہ کیا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ اس پیشگوئی سے چا۴ر برس پہلے سعد اللہ نے میری موت کی نسبت اور تمام جماعت کے مرتد اور منتشر ہونے کی نسبت پیشگوئی اپنی کتاب شہاب ثاقب میں شائع کی تھی اور اس میں اُس نے صاف طورپر لکھا تھاکہ یہ شخص کذّاب اور مفتری ہے اس لئے وہ ذلت کی موت سے مرے گا اور اس کی جماعت متفرق اور منتشر ہو جائے گی اور بہت گندے الفاظ کے ساتھ میری ہلاکت کی خبر دی تھی اس لئے خدا تعالیٰ کی غیرت نے جو وہ صادقوں کے لئے رکھتا ہے اُس کی پیشگوئی کو اُسی پر اُلٹا دیا بد قسمت سعد اللہ نے اپنی کتاب میں جس کا نام اُس نے رکھا ہے شہاب ثاقب بَر مسیح کاذب جس کے معنی ہیں کہ اس



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 448

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 448

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/448/mode/1up


جھوٹے مسیح پر آگ پڑے گی * اور اُس کو ہلاک کرے گی۔ میری نسبت یہ پیشگوئی کی تھی جو فارسی زبان میں شعر ہیں اور وہ یہ ہیں:۔

اخذ یمین و قطع وتین است بہر تو

بے رونقی و سلسلہ ہائے مزوّری

اکنون باصطلاح شما نام ابتلا است

آخر بروز حشر و بایں دار خاسری

ترجمہؔ اِن اشعار کا یہ ہے کہ وہ اپنی کتاب مذکور میں مجھے مخاطب کرکے لکھتا ہے کہ خدا کی طرف سے تیرے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ خدا تجھے پکڑے گا اور تیری رگِ جان کاٹ دے گا۔ تب تیرے مرنے کے بعد یہ جھوٹا تیرا سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور اگرچہ تم لوگ کہتے ہو کہ ابتلا بھی آیا کرتے ہیں مگر آخر تُو حشر کے دن اور نیز اس دنیا میں زیاں کار اور نامراد مرے گا اور پھر بعد اس کے آیت3 لِکھ کر کہتا ہے کہ تُو ہر جگہ ذلت پائے گا اور اس جہان میں اور اُس جہان میں تیرے لئے عزت نہیں۔

اس کے ان کلمات سے ظاہر ہے کہ وہ میری نسبت کیا آرزو رکھتا تھا۔ جس کو وہ ہزاروں حسرتوں کے ساتھ اپنے دل میں لے گیا یہ مقام منصفین کے بڑی غور کے لائق ہے کہ یہ دو طرفہ پیشگوئیاں مباہلہ کے طور پر تھیں یعنی اُس نے میری موت کی خبر دی تھی جس کو وہ خیال کرتا تھاجو اس کی زندگی میں ہی میری موت نہایت نامرادی سے ہوگی اور میری موت کے لئے وہ بہت دعائیں کرتا تھا اور اس کو یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا دوسری طرف اس کی پیشگوئی سے چار برس بعد مجھے خدا نے خبر دی کہ وہ میری زندگی میں ہی ذلّت کی موت سے مرے گا اور طاعون کی ایک قسم سے ہلاک ہوگا اور میں اپنی پیشگوئی کی تصدیق کے لئے اس کی موت کے بارے میں دعائیں کرتا تھا آخر خدا نے مجھے سچا کیا اور وہ میری پیشگوئی کے مطابق میری زندگی میں ہی جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی ہلاک ہوا۔ اور جن حسرتوں اور ذلتوں کے ساتھ وہ مر گیا ان کاکون اندازہ کر سکتا ہے؟ اور یہ حسرت اور ذلّت کچھ تھوڑی نہیں کہ جس کی وہ موت چاہتا تھا اور جس کے لئے وہ اپنی پیشگوئی شائع کر چکا تھا اس کو نہ صرف زندہ چھوڑ گیا


* طاعون بھی ایک آگ ہے جس آگ سے سعداللہ ہلاک ہوا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 449

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 449

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/449/mode/1up


بلکہ لاکھوں انسانوں کو اس کے تابع دیکھ گیا اور وہ جماعت جس کی بربادی اور تباہی کے لئے اُس نے پیشگوئی کی تھی اُس کی غیر معمولی اور معجزانہ ترقی کو اُس نے بچشم خود دیکھ لیا اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ وہ یہ بھی دعائیں کرتا تھا کہ الہام 3 کے برخلاف اپنی بہت سی اولاد دیکھ لے گا۔ لیکن اُس کی اولاد ہو کر مرتی گئی اور یہ ایک دل خراش دُکھ تھاجو اُس نے بار بار دیکھا اور الہام 3 کے بعد کوئی لڑکا اس کے گھر میں پیدا نہ ہوا اور صرف وہ ؔ بیٹا رہا جوپیشگوئی سے پہلے پیدا ہو چکا تھا اور بڑی عمر تک پہنچ گیا اور اب تک شادی اور بیاہ کا نام تک نہیں چہ جائیکہ اولاد ہو۔

اس حسرت پر اُس کے یہ اشعار کافی ہیں جو اُس کی ایک مناجات میں ہیں جن کی قاضی الحاجات سُرخی ہے اور وہ یہ ہیں:۔

جگر گوشہ ہا دادی اے بے نیاز

ولے چند زانہا گرفتی تو باز

دل من بنعم البدل شاد کن

بلُطف از غم و غصّہ آزاد کُن

ز ازواج و اولادم اے ذوالمنن

بود ہر یکے قُرّۃالعینِ من

جگر پار ہائے کہ رفتند پیش

ز مہجورئ شان دلم ریش ریش

ان درد ناک اشعار پر نظر ڈال کر ہر ایک شخص سوچ سکتا ہے کہ اولاد نہ ہونے اور مرجانے سے کس قدر حسرتیں اُس کے دل میں بھری ہوئی تھیں جن سے وہ نجات نہ پا سکا اور جیسا کہ اُس کی کتاب سے ثابت ہوتا ہے سولہ۱۶ برس تک اپنی کثرت اولاد کے لئے اور میری موت اور تباہی کے لئے وہ دعائیں کرتا رہا۔ آخر جنوری ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی اُن تمام دُعاؤں سے نامراد رہ کر چند گھنٹہ میں لدھیانہ میں نمونیا پلیگ سے مر گیا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میری زندگی میں اُس کی موت ہو بلکہ یہ چاہتا تھا کہ اُس کی زندگی میں میری موت ہو اس بارے میں اُس نے پیشگوئی بھی شائع کی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میرے اولاد ہو یا میری جماعت ترقی کرے اور اپنی اولاد کی کثرت چاہتا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ میرے سلسلہ کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 450

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 450

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/450/mode/1up


کوئی مدد کرے مگر ان تمام آرزوؤں سے نا مراد رہ کر اِس ذلت کے ساتھ مر گیا کہ کوئی مراد اُس کی پوری نہ ہوئی*۔اور میں نے اُس کو بار بار خبر دی تھی کہ الہام3میں ابتر سے مراد خدا تعالیٰ کی یہی ہے کہ آئندہ اولاد کا سلسلہ اُس پر بندہوگا اور اُس کا بیٹا بھی اَبتر ہی مرے گا سو اُس نے دیکھ لیا کہ باوجود اس کے کہ پیشگوئی کے وقت سے بار۱۲ہ سال تک وہ زندہ رہا اور دعائیں بھی کرتا رہا۔ لیکن بجز اُس لڑکے کے جو پیشگوئی کے وقت قریباً پندرہ سال کا تھا اور کوئی اولاد اس کے گھر میں نہ ہوئی اور یہ حسرت بھی ساتھ لے گیا کہ بیٹے کی شادی نہ کر سکا پس پیشگوئی کے مطابق یہ تمام مجموعہ ذلتوں کا اس کے نصیب ہوا۔ اور اسی سعد اللہ کے بارے میں اشتہار انعامی تین ہزار۳۰۰۰ روپیہ مشتہرہ پانچ ؔ اکتوبر ۱۸۹۴ء کے صفحہ ۱۲ پر جو کتاب انوار الاسلام کے ساتھ ملحق ہے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مندرجہ ذیل عبارت میں نے لکھی تھی اور وہ یہ ہے:۔

حق سے لڑتا رہ آخر اے مُردار تو دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا۔ اے عدوّ اللہ تو مجھ سے نہیں خدا سے لڑ رہا ہے۔ بخدا مجھے اِسی وقت ۲۹؍ستمبر ۱۸۹۴ء کو تیری نسبت یہ الہام ہوا ہے۔ 3۔ اِس الہامی عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ سعد اللہ جو تجھے ابتر کہتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیرا سلسلہ اولاد اور دوسری برکات کا منقطع ہو جائے گا ایسا ہر گز نہیں ہوگا بلکہ وہ خود ابتر رہے گا۔

یاد رہے کہ یہ فقرہ کہ3 زبان عرب میں بغیر مقابلہ کے نہیں آتایعنی


* اب دیکھنا چاہئے کہ اس کی نامرادی اور حسرت اور ذلّت کی موت سے کیسے اس پیشگوئی کے معنی کھل گئے کہ خدا ذلت اور رسوائی کی اس کو موت دیگا جیسا کہ اس واقعہ سے بارہ ۲۱ برس پہلے اس کی نسبت انجام آتھم میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی۔

اٰذ یتنی خُبْثًا فلستُ بصادق ان لم تمت بالخزی یاابن بغاء

یعنی تو نے اے سعد اللہ اپنی فطرتی خباثت سے مجھے بہت دُکھ دیا ہے پس میں اس حالت میں سچا نہیں ہوں گا کہ جب ذلّت کے ساتھ تیری موت نہ ہو۔ پس اس سے بڑھ کر ذلّت اور کیا ہوگی کہ وہ میری موت چاہتا تھا مگر میری زندگی میں مر گیا اور میری نامرادی چاہتا تھا مگر میرے اقبال اور ترقی کو دیکھ گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 451

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 451

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/451/mode/1up


اِس فقرہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے کسی نے ابتر کہا ہو پھر اس کے مقابل پر اس کو ابتر کہا جائے پس یہ فقرہ اس بات پر شاہد ہے کہ سعد اللہ مجھے ابتر کہتا تھا اور میری نسبت چاہتا تھا کہ میں ہر ایک خیرو برکت سے بے نصیب رہ کر اس کے رو برو فوت ہو جاؤں اور میری نسل بھی منقطع ہو جائے پس جو کچھ اُس نے خدا سے میرے لئے چاہا خدا نے اس کے لئے کر دیا۔ میں نے اس کے ابتر اور نامراد مرنے کے لئے سبقت نہیں کی اور نہ میں نے یہ چاہا کہ وہ میرے رو برو ہلاک ہو مگر جب اُس نے ان باتوں میں سبقت کی اور کھلے کھلے طور پر اپنی کتاب شہاب ثاقب میں میری موت کی نسبت پیشگوئی شائع کی اور میرا دل دُکھایا اور دُکھ دینے میں حد سے بڑھ گیا۔ تب چار برس بعد میں نے اس کے لئے دُعا کی تو خدا نے مجھ کو اس کی موت کی خبر دی اور نیز فرمایا کہ سعد اللہ جو تیرے ابتر رہنے کی پیشگوئی کرتا ہے وہ خود ابتر رہے گا۔ مگر میں تیری نسل کو قیامت تک قائم رکھوں گا۔ اور تو برکات سے محروم نہیں ہوگا اور میں یہاں تک تجھے برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور ایک دنیا کو تیری طرف رجوع دوں گا مگر سعد اللہ خیرو برکت سے بے نصیب رہ کر تیری آنکھوں کے سامنے ذلّت کی موت سے مرے گا سو ایسا ہی ظہور میں آیا۔ یہ ہیں خدا کی پیشگوئیاں جو ٹل نہیں سکتیں اگر یہ باتیں صرف زبانی ہوتیں تو کو نؔ مخالف آج میری اِس پیشگوئی کو مانتا۔ لیکن یہ تمام باتیں آج سے بار۱۲ہ برس پہلے میری کتابوں اور اشتہاروں میں شائع ہو چکی ہیں جن سے کسی مخالف کو گریز کی جگہ نہیں مگر وہی جو حیا اور شرم کو چھوڑ کر ابو جہل کی طرح روز روشن کو رات کہتا ہے اور آفتاب کو جو چمک رہا ہے بے نور قرار دیتا ہے۔ ایسا ہی اگر سعد اللہ میری موت اور ذلت اور نیز میری جماعت کے تباہ ہونے کی نسبت اپنی کتاب شہاب ثاقب میں پیشگوئی شائع نہ کرتا تواس وقت میری بات کون مان سکتا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ دونوں طرف سے مباہلہ کے رنگ میں پیشگوئیاں شائع ہو گئیں اور روز روشن کی طرح کھل گیا کہ آخر کس کے حق میں خدا تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ اگرچہ سعد اللہ کی نسبت میری کتابوں میں بعض سخت لفظ پاؤگے اور تعجب کروگے کہ اس قدر سختی اس کی نسبت کیوں اختیار کی گئی۔ مگر یہ تعجب اُس وقت فی الفور دور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 452

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 452

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/452/mode/1up


ہو جاوے گا جب اس کی گندی نظم اور نثر کو دیکھوگے۔ وہ بد قسمت اس قدر گندہ زبانی اور دُشنام دہی میں بڑھ گیا تھا کہ مجھے ہر گز امید نہیں کہ ابو جہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ بد زبانی کی ہو بلکہ مَیں یقیناًکہتا ہوں کہ جس قدر خدا کے نبی دُنیا میں آئے ہیں اُن سب کے مقابل پر کوئی ایسا گندہ زبان دشمن ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ سعد اللہ تھا اُس نے مخالفت اور عناد کے کسی پہلو میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا تھا اور چوہڑوں اور چماروں کو بھی وہ گندہ طریق گالیوں کا یاد نہیں ہوگا جو اس کو یاد تھا۔ سخت سے سخت الفاظ اور ناپاک سے ناپاک گالیاں اس شدت اور بے حیائی سے اس کے منہ سے نکلتی تھیں کہ جب تک کوئی شخص اپنی ماں کے پیٹ سے ہی بد طینت پیدا نہ ہو ایسی فطرت کا انسان نہیں ہو سکتا ایسے انسانوں سے سانپوں کے بچے بھی اچھے ہوتے ہیں۔ مَیں نے اس کی بد زبانی پر بہت صبر کیا اور اپنے تئیں روکا کیا۔ لیکن جب وہ حد سے گذر گیا اور اس کے اندرونی گند کا پُل ٹوٹ گیا تب میں نے نیک نیتی سے اس کے حق میں وہ الفاظ استعمال کئے جو محل پر چسپاں تھے اگرچہ وہ الفاظ جیسا کہ مذکورہ بالا الفاظ میں مندرج ہیں بظاہر کسی قدر سخت ہیں مگر وہ دُشنام دہی کی قسم میں سے نہیں ہیں بلکہ واقعات کے مطابق ہیں اور عین ضرورت کے وقت لکھے گئے ہیں۔ ہر ایک نبی ؔ حلیم تھا مگر اُن سب کو واقعات کے متعلق ایسے الفاظ اپنے دُشمنوں کی نسبت استعمال کرنے پڑے ہیں چنانچہ انجیل میں کس قدر نرم تعلیم کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم اُنہیں انجیلوں میں فقیہوں فریسیوں اور یہودیوں کے علماء کی نسبت یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ وہ مکار ہیں فریبی ہیں مفسد ہیں سانپوں کے بچے ہیں بھیڑیئے ہیں اور ناپاک طبع اور خراب اندرون ہیں اور کنجریاں اُن سے پہلے بہشت میں جائیں گی۔ ایسا ہی قرآن شریف میں زنیم وغیرہ الفاظ موجود ہیں پس اِس سے ظاہر ہے کہ جو لفظ محل پر چسپاں ہو وہ دشنام دہی میں داخل نہیں اور کسی نبی نے سخت گوئی میں سبقت نہیں کی بلکہ جس وقت بد طینت کافروں کی بد گوئی انتہاتک پہنچ گئی تب خدا کے اذن سے یا اُس کی وحی سے وہ الفاظ اُنہوں نے استعمال کئے۔

ایسا ہی تمام مخالفوں کی نسبت میرا یہی دستور رہا ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 453

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 453

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/453/mode/1up


کسی مخالف کی نسبت اس کی بد گوئی سے پہلے خود بد زبانی میں سبقت کی ہو مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب جُرأت کے ساتھ زبان کھول کر میرا نام دجّال رکھا اور میرے پر فتویٰء کفر لکھوا کر صدہا پنجاب و ہندوستان کے مولویوں سے مجھے گالیاں دلوائیں اور مجھے یہود و نصاریٰ سے بد تر قرار دیا اور میرا نام کذّاب مفسد، دجّال، مفتری، مکّار، ٹھگ، فاسق، فاجر، خائن رکھا تب خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ صحت نیّت کے ساتھ ان تحریروں کی مدافعت کروں۔ میں نفسانی جوش سے کسی کا دشمن نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک سے بھلائی کروں مگر جب کوئی حد سے بڑھ جائے تو میں کیا کروں۔ میرا انصاف خدا کے پاس ہے ان سب مولوی لوگوں نے مجھے دُکھ دیا اور حد سے زیادہ دُکھ دیا اور ہر ایک بات میں ہنسی اور ٹھٹھا کا نشانہ بنایا۔پس میں بجز اس کے کیا کہوں کہ3۱؂

یاد رہے کہ سعد اللہ میرے مقابلہ پر دو دفعہ مباہلہ کا نشانہ ہو چکا ہے پہلے تو اُنہیں عربی شعروں میں جو انجام آتھم میں مَیں لکھ چکا ہوں مباہلہ کے طور پر میں نے دُعا کی ہے کہ خدا جھوٹے کو ہلاک کرے چناؔ نچہ اُن مباہلوں کے شعروں میں سے ایک شعر یہ ہے:۔

یَارَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا بِکَرَا مَۃٍ

یَا مَنْ یَریٰ قَلْبِیْ وَلُبَّ لحَاءِی

یعنی اے خدا تو مجھ میں اور سعد اللہ میں فیصلہ کر

تو میرے دل کی حالت کو جانتا ہے

اور پھر سعد اللہ کی نسبت دوسرا شعر یہ ہے:۔

اٰذَیْتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادق

اِنْ لَمْ تَمُتْ بِالخِزْی یَاابْن بغَاءِ

یعنی تونے اے سعد اللہ خباثت کی راہ سے مجھے دُکھ دیا ہے پس میں جھوٹا ہونگا اگر میرے سامنے ذلّت کے ساتھ تیری موت نہ ہو

پھر دوسری دفعہ جو میں نے سعد اللہ کو مباہلہ کا نشانہ بنایا اُس کا ذکر میری کتاب انجام آتھم کے صفحہ ۶۷ میں ہے اور اس دعوتِ مباہلہ میں کئی مولوی اور شامل ہیں جن کے ناموں کی فہرست انجام آتھم کے صفحہ ۶۹ سے صفحہ ۷۲ تک کتاب مذکور ہ میں درج ہے اور دعوت مباہلہ میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 454

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 454

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/454/mode/1up


تمہیدی عبارت صفحہ ۶۷۔ انجام آتھم پر یہ ہے:۔

’’گواہ رہ اے زمین !اور اے آسمان !کہ خدا کی *** اُس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ کے لئے حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ رہے۔ اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین‘‘۔ اور کتاب انجام آتھم جس میں سخت معاند لوگوں کو مباہلہ کے لئے بُلایا گیا ہے اور ایسے لوگوں کی اس میں فہرست لکھی گئی ہے اس فہرست کے صفحہ ۷۰ کی پہلی سطر کو ہی دیکھو کہ پہلی سطر کے سر پر ہی اس بد قسمت سعد اللہ کا نام درج ہے چنانچہ لکھا ہے: سعد اللہ نو مسلم مدرس لودہانہ

اس مباہلہ پرآج کے دن تک بارہ۱۲ برس اور تین مہینے اور کئی دن گذر چکے ہیں پھر اس کے بعد اکثر لوگوں نے زبان بند کر لی اور جو بد زبانی سے باز نہ آئے اُن میں سے بہت کم ہوں گے جنہوں نے موت کا مزہ نہ چکھا۔ یا کسی ذلت میں گرفتار نہ ہوئے۔ چنانچہ نذیر حسین دہلوی جو ان سب کا سرغنہ تھا جو دعوتِ مباہلہ میں اوّل المدعوین ہے اپنے لائق بیٹے کی موت دیکھ کر ابتر ہونے کی حالت میں دنیا سے گذر گیا۔ رشید احمد گنگوہی جس کا نام دعوت مباہلہ کے صفحہ ۶۹ میں درج ہے مباہلہ کی دعوۃ اور بد دعا کے بعد اندھا ہو گیا اور پھر سانپ کے کاٹنے سے مرگیا اورؔ مولوی عبد العزیز لدھیانوی اور مولوی محمد لدھیانوی جن کا ذکر بھی اسی صفحہ ۶۹ میں ہے بعد دعوت مباہلہ اس دُنیا کو چھوڑ گئے۔ اور ایسا ہی مولوی غلام رسول عرف رسل بابا جس کا ذکر دعوت مباہلہ کے صفحہ ۷۰ میں ہے بعد دعوت مباہلہ اور بد دُعا مذکورہ بالا کے بمقام امرتسر طاعون سے مر گیا۔ ایسا ہی مولوی غلام دستگیر قصوری جس کا ذکر اسی کتاب انجام آتھم کے صفحہ ۷۰ میں ہے اور جس نے خود بھی اپنا مباہلہ اپنی کتاب فیض رحمانی میں شائع کیا تھا وہ کتاب کی تالیف سے ایک ماہ بعد مر گیا۔ اور اس کی موت کا یہی سبب نہیں کہ میں نے انجام آتھم کے صفحہ ۶۷ میں یعنی اس کی سترھویں۱۷ سطر میں اُس پر اور دوسرے مخالفوں پر جو شرارتوں سے باز نہ آویں اور نہ مباہلہ کریں بد دعا کی تھی اور اُن پر خدا کا عذاب چاہا تھا بلکہ اس کا اپنا مباہلہ بھی اس کی موت کا سبب ہو گیا کیونکہ اُس نے میرا اور اپنا ذکر کرکے خدا تعالیٰ سے ظالم کی بیخ کنی ہونی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 455

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 455

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/455/mode/1up


چاہی تھی سو اس کے چند روز ہی کے بعد اس کی بیخ کنی ہو گئی۔ اور اسی صفحہ ۷۰ میں مولوی اصغر علی کانام درج ہے وہ بھی اس وقت تک بد گوئی سے باز نہ آیا جب تک خدا تعالیٰ کے قہر سے ایک آنکھ اُس کی نکل گئی۔ ایسا ہی اس مباہلہ کی فہرست میں مولوی عبد المجید دہلوی کا ذکر ہے جو فروری ۱۹۰۷ء میں بمقام دہلی ہیضہ سے گذر گیا *۔ایسا ہی اور بہت سے لوگ تھے جو علماء یا سجادہ نشین کہلاتے تھے اور بعد اس دعوت مباہلہ کے بد گوئی اور بد زبانی سے باز نہیں آئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ نے بعض کو تو موت کا پیالہ پلا دیا اور بعض طرح طرح کی ذلتوں میں گرفتار ہو گئے اور بعض اس قدر دنیا کے مکر اور فریب اور دنیا طلبی کے گندے شغل میں گرفتار ہوئے کہ حلاوت ایمان اُن سے چھین لی گئی ایک بھی اس بد دعا کے اثر سے محفوظ نہ رہا۔چونکہ سعد اللہ اپنی بد زبانی میں سب سے زیادہ بڑھ گیاتھا اس لئے نہ صرف اس کو نامرادی کی موت پیش آئی بلکہ ہر ایک ذلّت سے اس کو حصہ ملا اور تمام عمر نوکری کرکے پھر بھی اس کا پیٹ نہ بھرا۔ آخر موت کے قریب آکر عیسائیوں کے مدرسہ میں نوکری اختیار کی اور علاوہ ان تمام ذلتوں کے جو اس کو نصیب ہوئیں یہ آخری ذلت بھی اُس کو دیکھنی پڑی کہ پادریوں کا فرقہ جو دینِ اسلام کا دشمن ہے جن کے مدارس میں خلاف اسلام وعظؔ کرنا ایک شرط ہے اور ہر روز یا ہر ایک ساتویں دن حضرت عیسیٰ کی خدائی کے بارے میں مدرسہ میں گمراہ کرنے والی باتیں سُنانا اُن کا طریق ہے اُس نے گوارا کر لیا کہ ان کی چاکری اختیار کرے اور چونکہ عربی زبان میں اَبْتَرْ مُعْدِم کو بھی کہتے ہیں یعنی ایسے مفلس کو جوسب اندوختہ کھو بیٹھے اس قسم کے ابتر ہونے کا مصداق بھی اپنے تئیں ثابت کردیا کیونکہ اگر مالی برکت اس کو حاصل ہوتی تو وہ اپنے آخری


* عبد المجید جب میں پہلے دہلی گیا تھا خود میرے مکان پر آیا تھا اور کہتا تھا کہ یہ الہام شیطانی ہیں اور مسیلمہ کذّاب سے مجھے تشبیہ دی اور کہا کہ اگر توبہ نہ کرو تو تقوّل اور افترا کا نتیجہ بھگتوگے۔ میں نے کہا کہ اگر میں مفتری ہوں تو میں افترا کی سزا پاؤں گا ورنہ جو شخص مجھے مفتری کہتا ہے وہ مواخذہ سے بچ نہیں سکتا آخر عبد المجید میری زندگی میں ہی اپنے اس زبانی مباہلہ کے بعد مر گیا اور ان ایّام میں اُس نے میرے مقابل پر میری تکذیب کے بارے میں سخت الفاظ کے ساتھ ایک اشتہار بھی شائع کیا تھا اور شاید پیسہ پیسہ پر فروخت کیا تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 456

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 456

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/456/mode/1up


دنوں میں پادریوں کے دروازہ پر گداگری اختیار نہ کرتاجو لوگ اپنے کالجوں اور سکولوں میں لازمی طور پر خلافِ اسلام تعلیم دیتے ہیں کسی سچے مسلمان کا طریق نہیں کہ ان کی نوکری اختیار کرے۔

افسوس کہ یہ شخص سعد اللہ نام جو فوت ہو گیا ہے وہ بعض میرے تقریری مباحثات بھی سُن چکا تھا اور اُس کو میری کتابیں دیکھنے کا بھی بہت موقعہ ملا تھا۔مگر تعصب اور بغض ایک ایسی بلا ہے کہ وہ اُن سے کچھ فائدہ اُٹھا نہ سکا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وفات پاناکوئی مشتبہ امر نہ تھا خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بیان کر چکا اور اُس کا رسولؐ معراج کی رات میں وفات یافتہ نبیوں میں اس کو دیکھ چکا تھادوسری طرف قرآن اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ سب خلیفے اسلام کے اسی اُمت میں سے آئیں گے بلکہ حدیثوں میں یہ بھی آچکا ہے کہ نازل ہونے والا عیسٰی اسی اُمت میں سے ہے۔ پھر بھی وہ بد قسمت سمجھ نہ سکا اور پہلی کتابوں اور احادیث صحیحہ میں بڑا نشان آخری مسیح کا یہ دیا گیا تھا کہ وہ دجّال کے ظہور کے وقت آئے گا اور قرآن شریف نے ظاہر کر دیا کہ وہ دجال*پادریوں کا فرقہ ہے جن کا دن رات کام تحریف و تبدیل ہے کیونکہ دجال کے یہی معنے ہیں جو تحریف و تبدیل کرکے حق کو چھپانے والا ہو اور اسی کی طرف سورۃ فاتحہ اشارہ کرتی ہے ایسا ہی قرآن شریف کی اس آیت سے کہ 3۱؂ ثابت ہوتا ہے کہ دجّال عیسائیوں کے سوا کوئی علیحدہ گروہ نہیں ہوگا کیونکہ جب کہ غلبہ اور سلطنت قیامت تک عیسائیوں


* دجّال کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے والا اور گمراہ کرنے والا اور خدا کے کلام کی تحریفکرنے والا ہو اس کو دجّال کہتے ہیں۔ سو ظاہر ہے کہ پادری لوگ اِس کام میں سب سے بڑھ کر ہیں کیونکہ دوسروں کا دجل اور فریب تو کمتر درجہ پر ہے مگر ان لوگوں کا دجل اس قدر ہے کہ خواہ نخواہ انسان کو خدا بنانے کے لئے کروڑ ہا روپیہ خرچ کر رہے ہیں اور لاکھوں رسالے اور کتابیں دنیا میں شائع کی ہیں اور اسی غرض سے زمین کے کناروں تک سفر کرتے ہیں پس اسی وجہ سے وہ دجّالِ اکبر ہیں اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق دوسرے کسی دجال کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ دجال گرجا سے نکلے گا اور جس قوم میں سے ہوگا وہ قوم تمام دنیا میں سلطنت کرے گی اور قیامت تک ان کی طاقت اور قوت رہے گی۔ پھر جبکہ یہ حال ہے تو کون سی زمین باقی رہی جس میں ہمارے مخالفوں کا فرضی دجال ظہور کرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 457

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 457

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/457/mode/1up


کے لئے مقدر ہے یا مسلمانوں کے لئے جو حقیقی متبع ہیں توپھر کون ایماندار یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک اور شخص جو حضرت عیسیٰ کا مخالف ہے اور اُن کو نبی نہیں جانتا تمام زمین پر اپنا تسلط جما لے گا۔ ایساؔ خیال تونصِ صریح قرآن شریف کے مخالف ہے۔ ایسا ہی گرجا والی حدیث جو صحیح مسلم میں ہے یعنی یہ کہ گرجا میں سے دجّال نکلے گا اس آیت ممدوحہ کی مؤیّد ہے اور واقعات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کیونکہ جس عظیم الشان فتنہ کی خبر دی گئی تھی آخر کار وہ پادریوں کے ہاتھ سے ظہور پذیر ہوا۔ انسان کی عقلمندی کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ واقعات پر بھی نظر کرے اور سوچ کر دیکھے کہ آثار اور علامات جو پیدا ہوئے ہیں وہ کس پہلو کی تائید کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اِس دنیا کو ایک دن مقررکرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر کے وقت سے تشبیہ دی ہے۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ عصر ہوا تو پھر اب تیرہ سو چو۱۳۲۴بیس برس کے بعد اس زمانہ کا کیا نام رکھنا چاہئے؟ کیا یہ وقت قریب غروب نہیں اور پھر جب قریب غروب ہوا تو مسیح کے نازل ہونے کا اگر یہ وقت نہیں تو پھر اس کے بعد تو کوئی وقت نہیں۔

اسی طرح احادیث صحیحہ میں جو بعض ان کی صحیح بخاری میں پائی جاتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر سے تشبیہ دی ہے۔ پس اس سے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا زمانہ قیامت کے قرب کا زمانہ ہے اور پھر دوسری حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر دُنیا کی سات ۷۰۰۰ہزار سال ہے۔ اور قرآن شریف کی اِس آیت سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3 33 ۱؂ یعنی ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں۔ پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حسابِ جُمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک بحساب قمری گذر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسان کی عمر چھ ہزار برس تک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 458

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 458

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/458/mode/1up


ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہےؔ جس میں آدم پیدا ہوا۔ اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا۔ پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی۔ اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے بھی جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا۔ اور جیسا کہ آدم نَر اور مادہ پیدا ہوئے تھے میں بھی توام کی شکل پر پیدا ہوا تھا۔ ایک میرے ساتھ لڑکی تھی جوپہلے پیدا ہوئی اور بعد میں اس کے مَیں پیدا ہوا۔ یہ تو وہ امور ہیں جو میری سوانح پر نظر کرکے طالب حق کو دلائل واضحہ دیتے ہیں۔ مگر سوائے اس کے ہزار ہا اور نشان ہیں جن میں سے بطور نمونہ ہم کچھ لکھ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ میرے نشانوں کو سُن کر مولوی ثناء اللہ صاحب کی عادت ہے کہ ابو جہلی مادہ کے جوش سے انکار کے لئے کچے حیلے پیش کیا کرتے ہیں چنانچہ اس جگہ بھی انہوں نے یہی عادت دکھلائی اور محض افترا کے طور پر اپنے پرچہ اہل حدیث ۸؍فروری ۱۹۰۷ء میں میری نسبت یہ لکھ دیاہے کہ مولوی عبد الکریم کے صحت یاب ہونے کی نسبت جو اُن کو الہام ہوا تھا کہ وہ ضرور صحت یاب ہو جائے گا مگر آخر وہ فوت ہو گیا۔ اس افترا کا ہم کیا جواب دیں بجز اس کے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیں بتاویں کہ اگر مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے صحت یاب ہونے کی نسبت الہام مذکورہ بالا ہو چکا ہے تو پھر یہ الہامات مندرجہ ذیل جو پرچہ اخبار بدر اور الحکم میں شائع ہو چکے ہیں کس کی نسبت تھے یعنی کفن میں لپیٹا گیا۔ ۴۷سال کی عمر انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون اُس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا۔ اِنّ المنایا لا تطیش سہامہا۔ یعنی موتوں کے تیر ٹل نہیں سکتے۔

واضح ہو کہ یہ سب الہام مولوی عبد الکریم صاحب کی نسبت تھے۔ ہاں ایک خواب میں اُن کو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور تعبیر کی کتابوں کو دیکھ لو۔ خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مُراد صحت اور کبھی صحت سے مُراد موت ہوتی ہے۔ اور کئی مرتبہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 459

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 459

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/459/mode/1up


خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اس کی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے یہ ہے حال اُن مولویوں کا جو بڑے دیانتدار کہلاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اور کوئی بُرا کام نہیں۔ ایسے جھوؔ ٹ کو خدا نے رِجس کے ساتھ مشابہت دی ہے مگر یہ لوگ رجس سے پرہیز نہیں کرتے ہم نے اس قدر وضاحت سے سعد اللہ کا مرنا پیشگوئی کے مطابق ثابت کر کے لکھا ہے مگر کیا مولوی ثناء اللہ صاحب مان لیں گے؟ نہیں بلکہ کوشش کریں گے کہ کسی طرح رد کریں ان لوگوں کا خدا تعالیٰ سے جنگ ہے۔ نہیں دیکھتے کہ اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو یہ برکات اس کے شامل حال نہ ہوتیں کیا کوئی ایماندار خدائے عزّوجلّ کی نسبت ان افعال کو منسوب کر سکتا ہے کہ ایک شخص کو وہ دعوائے الہام کے بعد تیس بتیس برس کی مہلت دے اور دن بدن اس کے سلسلہ کو ترقی بخشے اور ایسے وقت میں جبکہ اس کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا یہ بشارت اس کو دی کہ لاکھوں انسان تیرے سلسلہ میں داخل کئے جائیں گے اور کئی لاکھ روپیہ اور طرح طرح کے تحائف لوگ تجھے دیں گے اور دور دور سے ہزار ہا لوگ تیرے پاس آئیں گے یہاں تک کہ وہ راہ گہرے ہو جائیں گے اور اُن میں گڑھے پڑ جائیں گے جن راہوں سے وہ آئیں گے تجھے چاہئیے کہ ان کی کثرت کی وجہ سے تو تھک نہ جائے اور ان سے بد اخلاقی نہ کرے خدا تجھے تمام دنیا میں شہرت دے گا اور بڑے بڑے نشان تیرے لئے دکھلائے گا اور خدا تجھے نہیں چھوڑے گا جب تک وہ رُشد اور گمراہی میں فرق کرکے نہ دکھلاوے اور دشمن زور لگائیں گے اور طرح طرح کے مکر اور فریب اور منصوبے استعمال کریں گے مگر خدا انہیں نامراد رکھے گا۔ خدا ہر ایک قدم میں تیرے ساتھ ہوگا اور ہر ایک میدان میں تجھے فتح دے گا۔ اور تیرے ہاتھ پر اپنے نور کو پورا کرے گا۔ دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاؤں گا میں تجھے دشمنوں کے ہر ایک حملہ سے بچاؤں گا اگرچہ لوگ تجھے نہ بچاویں۔ اگرچہ لوگ تیرے بچانے کی کچھ پروا نہ رکھیں مگر میں تجھے ضرور بچاؤں گا۔

یہ اُس زمانہ کے الہام ہیں جس پر تیس ۳۰برس سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اور یہ تمام الہام



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 460

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 460

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/460/mode/1up


براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں جن کے شائع ہونے پر اب چھبیس ۲۶ برس سے زیادہ عرصہ گذر گیا اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا نہ کوئی موافق تھا نہ مخالف۔ کیوؔ نکہ مَیں اُس زمانہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احدٌ مِّن النّاس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا پھر بعد اس کے آہستہ آہستہ ترقی ہوئی اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے تیس بتیس برس پہلے پیشگوئی کی تھی وہ سب باتیں ظہور میں آگئیں اور اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آکر سلسلہ بیعت میں داخل ہو چکا ہے اور درحقیقت اس کثرت سے لوگ بیعت کے لئے قادیان میں آئے کہ اگر مجھے یہ الہام یاد نہ ہوتا ولا تصعّر لخلق اللّٰہ ولا تسئم من الناس تو میں ان کی ملاقاتوں سے تھک جاتا۔ اور جیسا کہ شرط ہے طریق اخلاق کو بجانہ لا سکتا مگر یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ اُس نے ان واقعات سے تیس بتیس برس پہلے مجھ کو ان واقعات کی خبر دے دی اور ڈاک خانوں کے رجسٹروں سے تحقیق ہو سکتا ہے کہ اب تک مالی فتوحات میں کئی لاکھ روپیہ آچکا ہے اور اس سے زیادہ وہ روپیہ ہے جو لوگ خود آکر دیتے ہیں اور بعض لوگ خطوط کے ذریعہ سے نوٹ بھیج دیتے ہیں اور تخمیناً تین ہزار۳۰۰۰ کے قریب اس سلسلہ کی ہر ایک مد کا ماہواری خرچ ہے جس سے ظاہر ہے کہ ان دنوں میں ماہوار آمدنی بھی اسی قدر ہے۔ حالانکہ جس زمانہ میں ان فتوحات مالیہ کی پیشگوئی براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی اُس زمانہ میں کوئی شخص ایک پیسہ سالانہ بھی نہیں دیتا تھا اور نہ کوئی امید تھی اور اس پیشگوئی پر تیس بتیس برس گذر گئے اور اُس زمانہ کی ہے جبکہ سال میں ایک پیسہ بھی کسی طرف سے نہیں آتا تھا اور نہ کوئی میری جماعت میں داخل تھا بلکہ میں اُس تخم کی طرح تھا جو زمین کے اندرپوشیدہ ہو جیسا کہ براہین احمدیہ میں جس کے شائع ہونے پر چھبیس۲۶ برس گذر گئے خدا تعالیٰ نے میری نسبت یہ گواہی دی ہے اور وہ یہ الہام ہے۔ 3 3 یعنی دُعا کر کہ اے خُدا مجھے اکیلا مت چھوڑ۔ اس سے ظاہر ہے کہ میں اُس وقت جبکہ یہ پیشگوئی فرمائی گئی اکیلا تھا۔ اور پھر دوسرا الہام براہین احمدیہ میں میری نسبت یہ ہے کَزَرْعٍ اخرج شطأہ یعنی میں اُس بیج کی طرح تھا جو زمین میں بویا گیا اور نہ صرف یہ الہامات ہیں بلکہ اس قصبہ کے تمام لوگ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 461

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 461

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/461/mode/1up


اور دوسرے ہزار ہا لوگ جانتے ہیں کہ اُس زمانہ میں درحقیقت میں اُس مردہ کی طرح تھاجو قبر میں صدہا سال سے مدفون ہو ۔۔۔۔۔۔ اور کوئی نہ جانتا ہو کہ یہ کس کی قبر ہے بعد اس کے خدا تعالیٰ کی قدرؔ ت نے وہ جلوے دکھلائے کہ جو اس کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں۔

اور پھر خدا تعالیٰ نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ صدہا دعائیں میری قبول کیں جن میں سے نمونہ کے طور پر اس کتاب میں درج ہیں۔ ہر ایک نے جو میرے پر مقدمہ کیا اس میں میں نے ہی فتح پائی اور فتح سے پہلے مجھے خبر دی گئی کہ تیرا دشمن مغلوب ہوگا اور ہر ایک نے جو مجھ سے مباہلہ کیا آخر خدا نے یا تو اُسے ہلاک کیا اور یا ذلّت اور تنگیء معاش کی زندگی اس کو نصیب ہوئی یا اس کی قطع نسل کی گئی اور ہر ایک جو میری موت چاہتا رہا اور بد زبانی کی آخر وہ آپ ہی مر گیا۔ اور اتنے نشان خدا نے میری تائید میں دکھلائے کہ وہ شمار سے باہر ہیں۔ اب کوئی خدا ترس جس کے دل میں خدا کی عظمت ہے اور کوئی دانشمند جس کو کچھ حیا اور شرم ہے یہ بتلاوے کہ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی سنت میں داخل ہے کہ ایک شخص جس کو وہ جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے اور خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے اس سے خدا تعالیٰ یہ معاملات کرے؟ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جب سلسلہ الہامات کا شروع ہوا تو اُس زمانہ میں مَیں جوان تھا اب میں بوڑھا ہوا اور ستر ۷۰سال کے قریب عمر پہنچ گئی اور اُس زمانہ پر قریباً پینتیس سال گذر گئے۔ مگر میرا خدا ایک دن بھی مجھ سے علیحدہ نہیں ہوا۔ اُس نے اپنی پیشین گوئیوں کے مطابق ایک دُنیا کو میری طرف جھکا دیا۔ میں مفلس نادار تھا۔ اُس نے لاکھوں روپے مجھے عطا کئے اور ایک زمانہ دراز فتوحات مالی سے پہلے مجھے خبر دی اور ہر ایک مباہلہ میں مجھ کو فتح دی اور صدہا میری دعائیں منظور کیں اور مجھ کو وہ نعمتیں دیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا۔ پس کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس قدر فضل اور احسان ایک شخص پر کرے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اُس پر افترا کرتا ہے جبکہ مَیں میرے مخالفوں کی رائے میں تیس بتیس برس سے خداتعالیٰ پر افترا کر رہا ہوں اور ہر روز رات کو اپنی طرف سے ایک کلام بناتاہوں اور صبح کہتا ہوں کہ یہ خدا کا کلام ہے اور پھر اس کی پاداش میں خدا تعالیٰ کا مجھ سے یہ معاملہ ہے کہ وہ جو اپنے زعم میں مومن کہلاتے ہیں اُن پر مجھے فتح دیتا ہے اور مباہلہ کے وقت میں اُن کو میرے مقابل پر ہلاک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 462

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 462

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/462/mode/1up


کرتاہے یا ذلّت کی مار سے پامال کر دیتا ہے اورا پنی پیشین گوئیوں کے مطابق ایک دُنیا کو میری طرف کھینچ رہا ہے اور ہزاروں نشان دکھلاتا ہے اور اس قدر ہر ایک میدان میں اورؔ ہر ایک پہلو سے اور ہر ایک مصیبت کے وقت میں میری مدد کرتا ہے کہ جب تک اُس کی نظر میں کوئی صادق نہ ہو ایسی مدد اس کی وہ کبھی نہیں کرتا اور نہ ایسے نشان اُس کے لئے ظاہر کرتا ہے*۔ پھر بھی اگر مولوی ثناء اللہ صاحب جو آج کل ٹھٹھے اور ہنسی اور توہین میں دوسرے علماء سے بڑھے ہوئے ہیں اس گندے طریق سے باز نہیں آتے تو میں بخوشی قبول کروں گا اگر وہ مجھ سے درخواست مباہلہ کریں۔ لیکن امرت سر میں یہ مباہلہ نہیں ہوگا۔ ابھی تک مجھے وہ وقت بھولا نہیں جب میں ایک مجمع میں اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے کھڑا ہوا تھااور ہر ایک کو معلوم ہے کہ اس وقت اس جگہ کے اہل حدیث نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا اور کس طرح شور کرکے اور پوری طور پر سفاہت دکھلا کر میری تقریر بند کرا دی اور جب میں سوار ہوا تو اینٹیں اور پتھر میری طرف چلائے اور حکّام کی بھی کچھ پروانہ کی۔ پس ایسی جگہ مباہلہ کیلئے موزوں نہیں ہاں قادیان موزوں ہے اور اس جگہ میں خود مولوی ثناء اللہ صاحب کی عزت اور جان کا... ذمّہ وار ہوں اور آمد و رفت کا کُل خرچ جو امرتسر سے قادیان تک ہوگا میں ہی دے دوں گا۔ مگر یہ شرط ہوگی کہ دو گھنٹہ تک پہلے میں اپنی سچائی کے وجوہات اُن کو سناؤں گا۔

اور اگر وہ قادیان میں آنا گوارا نہ کریں تو اس طرح بھی مباہلہ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب حقیقۃ الوحی میں جو کچھ مَیں نے اپنی سچائی ثابت کرنے کے دلائل لکھے ہیں ان کی نسبت مولوی ثناء اللہ صاحب کا


* یہ عجیب بات ہے کہ چودھویں صدی کے سر پر جس قدر بجز میرے لوگوں نے مجدّد ہونے کے دعوے کئے تھے۔ جیسا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپال اور مولوی عبد الحی لکھنؤ وہ سب صدی کے اوائل دنوں میں ہی ہلاک ہو گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک میں نے صدی کا چہارم حصہ اپنی زندگی میں دیکھ لیا ہے اور نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب حجج الکرامہ میں لکھتے ہیں کہ سچا مجدّد وہی ہوتا ہے کہ جو صدی کا چہارم حصہ پالے۔ اب اے مخالفو! کسی بات میں تو انصاف کرو آخر خدا سے معاملہ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 463

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 463

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/463/mode/1up


امتحان مباہلہ سے پہلے کر لوں گا اور وہ صرف دس۱۰ سوال ہوں گے کہ متفرق مقامات کتاب حقیقۃ الوحی میں سے اُن سے دریافت کئے جائیں گے تا معلوم ہو کہ اُنہوں نے بغور تمام کتاب کو دیکھ لیا ہے۔ پس اگر انہوں نے ان سوالوں کا جواب کتاب کے موافق دے دیا تو تحریری مباہلہ جانبین کی طرف سے شائع ہو جائے گا۔ اگر اس طریق پر وہ راضی ہوں توایک نسخہ کتاب حقیقۃ الوحی کا میں ان کی طرف روانہ کرونگا اور روز کا جھگڑا اس سے فیصلہ پاجائے گا اور ان کا اختیار ہوگا کہ کتاب پہنچنے کے بعد امتحان مذکور ہ بالا کی تیاری کے لئے ایک دو ہفتہ تک مجھ سے مہلت مانگ لیں۔

میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ اور ان کے دوسرے بھائی علماء میری تکذیب کے وقت خداؔ تعالیٰ کی شریعت کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے بلکہ اپنی طرف سے ایک نئی شریعت بناتے ہیں۔ کیا مولوی کہلا کر اُن کو یہ بھی خبر نہیں کہ وعید کی پیشگوئیوں کا تخلّف جائز ہے اور جس کسی کے حق میں خدا تعالیٰ وعید کی پیشگوئی کرے اور وہ توبہ اور تضرّع زاری کرے اور شوخی نہ دکھلاوے تو وہ پیشگوئی ٹل سکتی ہے جیسا کہ قوم کی تضرّع اور زاری سے یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی جس سے یونس نبی کو بڑا ابتلا پیش آیا اور وہ پیشگوئی کے ٹل جانے سے رنجیدہ ہوا اس لئے خدا نے اس کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا۔ اور جب خدا تعالیٰ کے ایسے تصرفات پر شک کرنے سے ایک مقبول نبی موردِ عتاب ہوا اور موت کے قریب اس کی نوبت پہنچی تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا کہ صرف انکار ہی نہیں بلکہ ہزاروں شوخیوں اور بے ادبیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ایسے تصرفات سے انکار کرتے ہیں اور نہایت بیباکی سے بار بار کہتے ہیں کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور شرط کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ کیا یہی دیانت ہے کیا یہی ایمانداری ہے۔ یونس نبی کی پیشگوئی میں تو کوئی شرط بھی نہیں تھی پھر خدا نے قوم کا تضرّع اور گریہ وبکا دیکھ کر عذاب کو ٹال دیا۔ اسی طرح مولوی ثناء اللہ صاحب احمد بیگ کے داماد کا بار بار ذکر کرتے ہیں کہ وہ پیشگوئی کے مطابق فوت نہیں ہوا اور ان کو خوب معلوم ہے کہ وہ پیشگوئی دو شاخوں پر مشتمل تھی۔ ایک شاخ احمد بیگ کی نسبت تھی سو احمد بیگ عین پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہو گیاسو افسوس کہ ثناء اللہ اور دوسرے مخالف احمد بیگ کی وفات



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 464

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 464

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/464/mode/1up



کا ذکر بھی نہیں کرتے اور دوسری شاخ کا ذکر کرتے ہیںیعنی یہ کہ اُس کا داماد اب تک زندہ ہے*۔

یہ ہے دیانت اُن لوگوں کی کہ جو سچائی ظہور میں آگئی اس کو چھپاتے ہیں اور جس کی ابھی انتظار ہے اس کو بصورت اعتراض پیش کر دیتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ احمد بیگ اور اس کے داماد کی نسبت بھی پیشگوئی آتھم کی پیشگوئی کی طرح شرطی تھی اور شرط کے الفاظ جو شائع ہو چکے ہیں یہ ہیں۔

ایّتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علٰی عقبکِ۔ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری دختر اور دُختر کی دُختر پر ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے جو پہلے سے شائع ہو چکا ہے۔ پھر جبکہ احمد بیگ کی موت نے جو اس پیشگوئی کی ایک شاخ تھی اس کے اقارب کے دلوں میں سخت خوف پیدا کر دیا اور ان کو خیال آیا کہ دوسری شاخ بھی معرؔ ضِ خطر میں ہے کیونکہ ایک ٹانگ اِس پیشگوئی کی میعاد کے اندر ٹوٹ چکی تھی تب ان کے دل خوف سے بھر گئے اور صدقہ خیرات دیا اور توبہ استغفار میں مشغول رہے تو خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں بھی تاخیر ڈال دی اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں ان لوگوں کی خوف کی وجہ یہ تھی کہ یہ پیشگوئی نہ صرف احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھی بلکہ خود احمد بیگ کی موت کی نسبت بھی تھی اور پہلا نشانہ اُس پیشگوئی کا وہی تھا بلکہ مقدّم بالذّات وہی تھا۔ پھر جب احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا اور کمال صفائی سے اس کی نسبت پیشگوئی پوری ہو گئی تب اس کے اقارب کے دل سخت خوف سے بھر گئے اور اتنے روئے کہ ان کی چیخیں اس قصبہ کے کناروں تک جاتی تھیں اور بار بار پیشگوئی کا ذکر کرتے تھے اور جہاں تک اُن سے ممکن تھا توبہ اور استغفار اور صدقہ خیرات میں مشغو ل ہوئے تب خدائے کریم نے اس پیشگوئی میں بھی تاخیر ڈال دی*۔


* یاد رہے کہ مولوی ثناء اللہ نے صرف ان پیشگوئیوں پر اعتراض نہیں کیا بلکہ محض افترا کے طور پر جو نجاست خوری میں داخل ہے میری پیشگوئیوں پر اور حملے بھی کئے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ تازہ بتازہ جواب دے رہا ہے اس لئے اس کے افتراؤں کی کچھ بھی پروا نہیں۔ منہ


*حاشیہ۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے پورے ہونے کے لئے کوشش کی گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ یا تو قرآن شریف سے بیخبر ہیں اور یا اندر ہی اندر جامۂ ارتداد پہن لیا ہے۔ اے نادانو! خدا نے پیشگوئیوں کے پورے کرنے کے لئے کوششوں کو حرام نہیں کیا۔ کیا تم کو وہ حدیث بھی یاد نہیں جس میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنا دئیے تھے اور یہ بھی حدیث ہے کہ اگر کوئی رؤیا دیکھو اور اس کو خود پورا کرسکتے ہو تو اپنی کوشش سے اس خواب کو سچی کردو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 465

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 465

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/465/mode/1up


پس یہ کس قدر بے حیائی کا طریق ہے کہ باوجود علم اس بات کے کہ وعید کی پیشگوئیاں ٹل سکتی ہیں اور ہمیشہ ٹلتی رہتی ہیں* پھر بھی شور مچانا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں آخر شوخی اور انکار کی ایک حد ہے حد سے بڑھنا خدا تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے مجھے بار بار تعجب آتا ہے کہ طاعون سر پر ہے اور بڑے بڑے زلزلوں کا خدا نے وعدہ دیا ہے اور آثارِ قیامت ظاہر ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ یہ لوگ کیوں ڈرتے نہیں*۔ اسیؔ وجہ سے مجھے آج یہ لکھنا پڑا کہ اگر مولوی ثناء اللہ امرتسری اپنی شوخیوں سے باز نہیں آتا تو اس کا یہی علاج ہے کہ مباہلہ کی درخواست کرے۔ یہ بھی اُس کی بد قسمتی ہے کہ چند متضاد حدیثوں پر ناز کرکے خدا تعالیٰ کے تازہ نشانوں سے انکار کرتا ہۂ۔اور وعید کی پیشگوئیوں کو عوام کو دھوکہ دینے کے لئے


* آج ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو بوقت صبح روز پنجشنبہ یہ الہام ہوا سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی۔ خوش آمدی نیک آمدی۔ منہ


* حاشیہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ بیان کرتا ہوں کہ اس بارے میں خود اپنی ذات کی نسبت اور اپنے دوستوں کی نسبت صاحب تجربہ ہوں کہ صبح ایک بلانازل ہونے کی پیشگوئی خدا نے فرمائی اور شام کو وہ کثرت دعا کی وجہ سے ٹل گئی اور یہ مجھے بشارت دی گئی کہ ہم نے اس بلا کو ٹال دیا۔ پس اگر میری تکذیب کے لئے یہی دلائل دشمنوں کے ہاتھ میں ہیں تو صدہا نظیریں اس کی خود میری سوانح اور میرے عزیزوں کے سوانح میں موجود ہیں تعجب کہ ہمارے مخالف ان تمام قصوں کو بھی بھول جاتے ہیں جو خود تفسیروں اور حدیثوں میں پڑھتے ہیں چنانچہ ان کی تفسیروں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ بنی اسرائیل میں تھا اور وقت کے پیغمبر نے اُس کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ پندرہ دن کے اندر مر جائے گا۔ وہ اس پیشگوئی کو سُن کر بہت رویا اور اس قدر رویا کہ اُس پیغمبر پر دوبارہ وحی نازل ہوئی کہ ہم نے اُس کے پندرہ دن پندرہ سال سے بدل دیئے۔ یہ پیشگوئی اب تک بائبل میں بھی موجود ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے۔منہ


أ یاد رہے کہ یہ دعویٰ کہ احادیث سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ثابت ہے بالکل جھوٹ ہے کیونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ مسیح آنے والا اسی اُمت میں سے ہوگا۔ پس اس تکلف کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان سے نازل کرکے اُمّت میں داخل کیا جائے اور نبوت سے معطل کیا جائے کیا خدا تعالیٰ الیاس نبی کی طرح اسی اُمّت میں سے عیسیٰ پیدا نہیں کر سکتا جبکہ اس کے لئے ایک نظیر موجود ہے تو اس قدر تکلفات کی کیا حاجت ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 466

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 466

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/466/mode/1up


بار بار پیش کرتا ہے اور خود جانتا ہے کہ کبھی وعید کی پیشگوئی کو ٹال دینا سنت اللہ میں داخل ہے۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ صدقہ اور خیرات اور تضرع اور دعا سے ردّ بلا ہو سکتا ہے۔ تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے۔ پھر اگر بلا والی پیشگوئی ٹل نہیں سکتی تو پھر ردّ بلا کے کیا معنی ہوئے؟ اور یاد رہے کہ جس قسم کی مسیح موعود اور مہدی معہود کی نسبت پیشین گوئیاں ہیں قدیم سے سُنت اللہ یہی ہے کہ ایسی پیشگوئیاں ابتلا اور امتحان سے خالی نہیں ہوتیں اور ان میں اجمال ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے قبل از وقوع ان کی اصل حقیقت سمجھنے میں دھوکہ پڑ سکتا ہے اور اُن کے معنی آخر پر جاکر کھلتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہود کو باوجود موجود ہونے پیشگوئی کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تھی یہ نصیب نہ ہوا کہ ایمان لے آویں۔ اگر اس پیشگوئی میں یہ تصریح ہوتی کہ اس آخری رسول کا نام محمد ہوگا (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے باپ کا نام عبد اللہ ہوگا اور اُس کا مولد مکہ ہوگا اور اُس کا ہجرت گاہ مدینہ ہوگا اور وہ موسیٰ نبی سے اتنی مدّت بعد پیدا ہوگا اور بنی اسمٰعیل میں سے ہوگا (نہ بنی اسرائیل میں سے) تو بد قسمت یہودی انکار کرکے و اصل جہنم نہ ہوتے اور اگر حضرت عیسیٰ کی نسبت پیشگوئی میں بتصریح بیان کیا جاتا کہ وہ الیاس نبی جس کا اُن سے پہلے آسمان سے نازل ہونا ضروری ہے وہ یَحْيزکریا کا بیٹا ہوگا اور آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوگا تو پھر بد بخت یہود حضرت عیسیٰ سے انکار کرکے کیوں دوزخ میں پڑتے۔ پس جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو پیشگوئی تھی وہ بھی امتحان سے خالی نہیں تھی جس کے بارے میں تصریح نہایت


اور پھر انہیں حدیثوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو فوت شدہ انبیاءؑ میں دیکھا اورؔ حضرت یحییٰ کے پاس بیٹھے دیکھا۔تو اب اُن کے فوت ہونے میں کیا شک رہا۔ اور پھر دوسری طرف قرآن شریف صاف طور پر اُن کی وفات کی گواہی دیتا ہے۔ کیا آیت فلمّا توفیتنی اُن کی وفات پر قطعیۃ الدلالت نہیں اور رفع جسمانی پر کیوں زور دیتے ہیں۔ کیا رفع روحانی نہیں ہوا کرتا اور آیت تو خود کہتی ہے کہ رفع روحانی ہے۔ کیونکہ توفّی کے بعد اس کا ذکر ہے۔ اور یہ اعتراض کیوں کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ مہدی بھی آنا چاہئے تھا۔ کیا یہ حدیث یاد نہیں رہی کہ لا مہدی الا عیسٰی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 467

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 467

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/467/mode/1up


مفید تھی اور عام مخلوق کے لئے نہایت ضروری تھی جبکہ اس پیشگوئی کے سمجھنے میں بھی لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں تو پھر دوسری پیشگوئیوں کے سمجھنے میں غلطی کرنا قرین قیاس ہے۔ اور ایسا ہی جو حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت پیشگوئی تھی وہ بھی امتحان سے خالی نہیں تھی تو پھر مسیح موعود اور مہدی مسعود کیؔ نسبت پیشگوئی کیونکر امتحان سے خالی ہو سکتی ہے۔ کیا جیسا کہ سمجھا جاتا تھا اور جیسا کہ یہود کے علماء کا خیال تھا اور آج تک خیال ہے الیاس نبی دوبارہ حضرت عیسیٰ سے پہلے دنیا میں آگیا؟ پھر کس طرح حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کی اُمید رکھی جاتی ہے۔ ایمانداروں کی یہی علامت ہے کہ جب ایک موقعہ میں ایسا خیال جھوٹا ثابت ہو گیا تو پھر چاہئے کہ عمر بھر اس کا نام نہ لیں۔ یہود کی امیدیں الیاس کے دوبارہ آنے کے بارے میں کہاں پوری ہو گئیں کہ اب مسلمانوں کی امیدیں پوری ہو جائیں گی لا یلدغ المؤمن من جحرواحد مرتین۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں کی حقیقت کو وہ زمانہ کھولتا ہے جو ان کے ظہورکا زمانہ ہوتاہے اور اس سے پہلے متقی اور پرہیزگار لوگ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں پر ایمان تو لاتے ہیں مگر اُن کی تفاصیل کو خدا کے حوالے کر دیتے ہیں اور جو لوگ اپنی طرف سے قبل از وقت دخل دیتے ہیں اور اس پر ضد کرتے ہیں وہی ٹھوکر کھاتے ہیں۔

(۴) منجملہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کے جو میری تائید میں ظاہر ہوئے نواب صدیق حسن خان وزیر ریاست بھوپال کے بارہ میں نشان ہے اور وہ یہ ہے کہ نواب صدیق حسن خان نے بعض اپنی کتابوں میں لکھا تھا کہ جب مہدی معہود پیدا ہوگا تو غیر مذاہب کے سلاطین گرفتار کرکے اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے اور یہ ذکر کرتے کرتے یہ بھی بیان کر دیا کہ چونکہ اس ملک میں سلطنت برطانیہ ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کے ظہور کے وقت اس ملک کا عیسائی بادشاہ اسی طرح مہدی کے رو برو پیش کیا جائے گا۔ یہ الفاظ تھے جو اُنہوں نے اپنی کتاب میں شائع کئے تھے جو ابتک ان کی کتابوں میں موجود ہیں اور یہی موجب بغاوت سمجھے گئے اور یہ اُن کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے ایسا لکھا کیونکہ ایسے خونی مہدی کے بارہ میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں بلکہ محدّثین کا اتفاق ہے کہ مہدیء غازی کے بارہ میں جس قدر حدیثیں ہیں کوئی بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 468

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 468

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/468/mode/1up


ان میں جرح سے خالی نہیں سب مغشوش اور صحت کے درجہ سے گری ہوئی ہیں البتہ مسیح موعود کے آنے کے لئے بہت سی حدیثیں موجود ہیں سو ان کے ساتھ یہ بھی الفاظ موجود ہیں کہ وہ جہاد نہیں کرؔ ے گا۔ اور کفار کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں کرے گا اور اس کی فتح محض آسمانی نشانوں سے ہوگی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں مسیح موعود کی نسبت حدیث یضع الحرب موجود ہے یعنی جب مسیح موعود آئے گا تو جنگ اور جہاد کی رسم کو اُٹھا دے گا اور کوئی جنگ نہیں کرے گا اور صرف آسمانی نشانوں اور خدائی تصرّفات سے دینِ اسلام کو زمین پر پھیلائے گا۔* چنانچہ میرے وقت میں اب یہ آثار دُنیا میں موجود بھی ہو رہے ہیں اور یہی سچ ہے اور میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود ہوں خدا نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں جہاد کروں اور دین کے لئے لڑائیاں کروں بلکہ مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں نرمی کروں اور دین کی اشاعت کے لئے خدا سے مدد مانگوں اور آسمانی نشان اور آسمانی حملے طلب کروں اور مجھے اُس خدائے قدیر نے وعدہ دیا ہے کہ میرے لئے بڑے بڑے نشان دکھائے جائیں گے اور کسی قوم کو طاقت نہیں ہوگی کہ میرے خدا کے مقابل پر جو آسمان سے میری مدد کرتا ہے اپنے باطل خداؤں کا کوئی نشان ظاہر کر سکیں۔ چنانچہ میرا خدا اب تک میری تائید میں صدہا نشان ظاہر کر چکا ہے۔

پس نواب صدیق حسن خان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا کہ مہدی کے زمانہ میں جبر کرکے لوگوں کو مسلمان کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ 3 ۱؂ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں ہے ہاں عیسائی لوگ ایک زمانہ میں جبرًا لوگوں کو عیسائی بناتے تھے مگر اسلام جب سے ظاہر ہوا وہ جبر کے مخالف ہے جبر اُن لوگوں کا کام ہے جن کے پاس آسمانی نشان نہیں مگر اسلام تو آسمانی نشانوں کا سمندر ہے۔ کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات اُن کے مرنے کے ساتھ ہی مر گئے مگر


* یہ بات قرین قیاس بھی ہے کہ جب مسیح کے نفس سے یعنی اُس کی توجہ سے کافر خود بخود مرتے جائیں گے تو پھر باوجود موجود ہونے ایسے معجزہ کے تلوار اُٹھانا بالکل غیر معقول ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خدا تعالیٰ خود دشمنوں کو مارتا جائے گا تو پھر تلوار اُٹھانے کی حاجت ہی کیا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 469

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 469

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/469/mode/1up


ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اب تک ظہور میں آرہے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں۔ مگر کہاں ہیں وہ پادری یا یہودی یا اور قومیں جو ان نشانوں کے مقابل پر نشان دکھلا سکتے ہیں۔ ہر گز نہیں! ہر گز نہیں!! ہر گز نہیں!!! اگرچہ کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں۔ تب بھی ایکؔ نشان بھی دکھلا نہیں سکتے۔ کیونکہ ان کے مصنوعی خدا ہیں سچے خدا کے وہ پیرو نہیں ہیں۔ اسلام معجزات کا سمندر ہے اس نے کبھی جبر نہیں کیا اور نہ اس کو جبر کی کچھ ضرورت ہے۔

پہلی لڑائیوں کی صرف بنیاد یہ تھی کہ قریش نے مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے بڑے ظلم کئے اور بہت سے صحابہ قتل کر دیئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا تھا پس وہ اپنی نہایت درجہ کی شرارت اور ظلم کی وجہ سے اس لائق ہو گئے تھے کہ اُن کو ان جرائم کی سزا دی جائے۔ پس جن لوگوں نے تلوار اُٹھائی تھی وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے گئے۔ ہاں نہایت درجہ کی رحمت سے ایک رعایت اُن کو دی گئی کہ اگر وہ اسلام لاویں تو اُن کے جرائم بخش دیئے جاویں گے اور یہ جبر نہیں ہے بلکہ ان کی مرضی پر چھوڑا گیا تھا۔ اور کون ثابت کر سکتا ہے کہ اُن کے ان جرائم اور شرارتوں سے پہلے اُن پر تلوار اُٹھائی گئی تھی* ۔وہ نادان پادری اور آریہ جن کو خواہ مخواہ اسلام سے ایک کینہ ہے محض افترا کے طور پر ایسی باتیں مُنہ پر لاتے ہیں اور نادان مولوی محض اپنی جہالت سے اُن کو مدد دیتے ہیں۔ یہ ہر گز صحیح نہیں ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے بلکہ کامل تعلیم کے زور سے پھیلا ہے اور نشانوں کے زور سے پھیلا ہے۔ اسلام کے مقابل پر عیسائی مذہب کو اگر رکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ اسلام ایک ایسا خدا پیش کرتا ہے جو اپنی تمام قدرتوں اور عظمتوں اور تقدسوں میں کامل ہے اور بے مثل و


* تلوار ہر گز نہیں اُٹھائی گئی بلکہ تیرہ ۱۳ برس تک برابر کافروں کے انواع و اقسام کے ظلم اور خونریزیوں پر صبر کیا گیا اور بعد اس کے جب وہ لوگ حد سے بڑھ گئے تب ان کے مقابلہ کا اذن دیا گیا پس یہ جنگ صرف دفاعی جنگ اور جرائم پیشہ کو محض سزا دینے کی غرض سے تھی تا زمین خونی مُفسدوں سے پاک کی جائے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 470

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 470

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/470/mode/1up


بے مانند۔ اور عیسائی مذہب ایک ایسا خدا پیش کرتا ہے کہ جو مخلوق اور کمزور اور عاجز ہے جو یہودیوں کے ہاتھ سے طرح طرح کے دکھ اُٹھاتا رہا اور ایک گھنٹہ میں گرفتار ہو کر حوالات میں کیا گیا اور پھر آخر عیسائیوں کے عقیدہ کے موافق مصلوب ہوا۔ ایسا خدا دوسرے مشرکوں کے مصنوعی خداؤں کی نسبت کیا امتیاز رکھتا ہے اور نیز عقل کب تسلیم کر سکتی ہے کہ تمام مداررحمت کا خدا کے پھانسی دینے پر ہے اور جب ایک مرتبہ خدا مر گیا تو پھر اس کی زندگی سے امان اُٹھ گیا اور اس پر کیا دلیل ہے کہ وہ پھر نہیں مرے گا؟ جو خدا ہو کر مر بھی سکتا ہے اس کی پوجا کرنا لغو ہے وہ کس کو بچائے گا جب اپنے تئیں بچانہ سکا۔ مکہ کے بُت پرستوں کا بھی یہی حال تھا اور عقل اس بات کو کیونکر قبول کر سکتی ہے کہؔ ایک بُت اپنے ہاتھ سے بنا کر اس کی پوجا کی جاوے مسیحیوں کا خدا مشرکوں کے بتوں سے زیادہ کوئی قدرت ظاہر نہیں کر سکا اور اسلام کا خدا اُن سب پر غالب ہے ع یارغالب شوکہ تا غالب شوی ہمارے خدا کے معجزات عظیمہ نے جو زندہ خدا ہے بطور معائنہ لوگوں کو یقین دلادیا کہ خدا وہی خدا ہے جو اسلام کا خدا ہے چنانچہ آج تک جو جو معجزات اسلام کا خدا ظاہر کرتا رہا ہے اور کوئی شخص اس کے مقابل کوئی معجزہ نہیں دکھلا سکتا۔

مگر چونکہ نواب صدیق حسن خان کے دل میں خشک وہابیت کا خمیر تھا اس لئے انہوں نے غیر قوموں کو صرف مہدی کی تلوار سے ڈرایا اور آخر پکڑے گئے اور نواب ہونے سے معطل کئے گئے اور بڑی انکسار سے میری طرف خط لکھا کہ میں اُن کے لئے دعا کروں تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اُس کے لئے دعا کی تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ سرکو بی سے اس کی عزت بچائی گئی۔ میں نے یہ اطلاع بذریعہ خط اُن کو دے دی اور کئی اور لوگوں کو بھی جو اُن دنوں میں مخالف تھے یہی اطلاع دی چنانچہ منجملہ ان کے حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر حال پنشنر ساکن امرتسر اور مولوی محمد حسین بٹالوی ہیں۔ آخر کچھ مدت کے بعد ان کی نسبت گورنمنٹ کا حکم آگیا کہ صدیق حسن خان کی نسبت نواب کا خطاب قائم رہے۔ گویا یہ سمجھا گیا کہ جو کچھ اُس نے بیان کیا ایک مذہبی پرا نا خیال ہے جو ان کے دل میں تھا بغاوت کی نیت نہیں تھی*۔


* نواب صدیق حسن خان پر جو یہ ابتلا پیش آیا وہ بھی میری ایک پیشگوئی کا نتیجہ ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے انہوں نے میری کتاب براہین احمدیہ کو چاک کرکے واپس بھیج دیا تھا۔ میں نے دُعا کی تھی کہ ان کی عزت چاک کر دی جائے سو ایسا ہی ظہور میںآیا۔ (کتاب براہین احمدیہ)۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 471

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 471

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/471/mode/1up


(۵) پانچواں نشان ایک پیشگوئی ہے جو رسالہ ریو یوآف ریلیجنز بابت ماہ مئی ۱۹۰۶ء کے ٹائٹل پیج کے آخری ورق کے پہلے حصہ میں درج ہے اور وہی پیشگوئی اخبار بدر جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء میں مندرج ہے اور ایسا ہی وہی پیشگوئی اخبار الحکم مورخہ ۵؍مئی ۱۹۰۶ء اور نیز پرچہ الحکم مورخہ۱۰؍مئی ۱۹۰۶ء میں مع تشریح درج ہو کر شائع ہو چکی ہے چنانچہ پہلے ہم اُس پیشگوئی کو اس جگہ لکھتے ہیں جو رسالہ مذکورہ اور دونوں اخباروں میں درج ہو چکی ہے۔اورؔ بعد میں جس طرح وہ پوری ہوئی اُس کو لکھیں گے۔ اور وہ پیشگوئی مع اُسی زمانہ کی تشریح کے یہ ہے۔ ’’الہام ۵؍مئی ۱۹۰۶ء پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔ ثلج کا لفظ عربی ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ برف جو آسمان سے پڑتی ہے اور شدّت سردی کا موجب ہو جاتی ہے اور بارش اُس کے لوازم میں سے ہوتی ہے اس کو عربی میں ثلج کہتے ہیں ان معنوں کی بنا پر اِس پیشگوئی کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ بہار کے دنوں میں ہمارے ملک میں خدا تعالیٰ غیر معمولی طور پر یہ آفتیں نازل کرے گا اور برف اور اس کے لوازم سے شدّت سردی اور کثرت بارش ظہور میں آئے گی (یعنی کسی حصہ دنیا میں جو برف پڑے گی وہ شدّت سردی کا موجب ہو جائے گی) اور دوسرے معنی اس کے عربی میں اطمینان قلب حاصل کرنا ہے یعنی انسان کو کسی امر میں ایسے دلائل اور شواہد میسر آجائیں جن سے اُس کا دل مطمئن ہو جائے اِسی وجہ سے کہتے ہیں کہ فلاں تحریرمو جبِ ثلج قلب ہو گئی یعنی ایسے دلائل قاطعہ بیان کئے گئے کہ جن سے بکلّی اطمینان ہو گیا اور یہ لفظ کبھی خوشی اور راحت پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جو اطمینان قلب کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب انسان کا دل کسی امر میں پوری تسلی اور سکینت پا لیتا ہے تو اس کے لوازم میں سے ہے کہ خوشی اور راحت ضرور ہوتی ہے۔ غرض یہ پیشگوئی ان پہلوؤں پر مشتمل ہے اِس پیشگوئی پر غور کرنے سے ذہن ضروری طور پر اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے نزدیک اِس جگہ ثلج کے دوسرے معنی ہیں یعنی یہ کہ ہر ایک شبہ اور شک کو دور کرنا اور پوری تسلی بخشنا تو اس جگہ اس فقرہ سے یہ بھی مراد ہوگی کہ چونکہ گذشتہ دنوں میں زلزلوں کی نسبت کج طبع لوگوں نے شبہات بھی پیدا کئے تھے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 472

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 472

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/472/mode/1up


اور ثلج قلب یعنی کلّی اطمینان سے محروم رہ گئے تھے اس لئے بہار کے موسم میں ایک ایسا نشان ظاہر ہو گا جس سے ثلج قلب ہو جائے گا اور گذشتہ شکوک و شبہات بکلّی دور ہو جائیں گے اور حجت پوری ہو جائے گی۔ اس الہام پر زیادہ غور کرنے سے یہی قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کہ بہار کے دنوں تک نہ صرف ایک نشان بلکہ کئی نشان ظاہر ہو جائیں گے اور جب بہار کا موسم آئے گا تو اِس قدر متواتر نشانوں کی وجہ سے دلوں پر اثر ہوگا کہ مخالفوں کے مُنہ بند ہو جائیں گے اور حق کے طالبوں کے دل پورؔ ی تسلی پائیں گے اور یہ بیان اس بنا پر ہے کہ جب ثلج کے معنی تسلی پانا اور شکوک اور شبہات سے رہا ہو جانا سمجھے جائیں لیکن اگر برف اور بارش کے معنی ہوئے تو خدا تعالیٰ کوئی اور سماوی آفات نازل کرے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔‘‘

یہ پیشگوئی جو مع تشریح رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور پرچہ اخبار بدر اور الحکم میں اس کے ظہور سے نو ۹ماہ پہلے لکھی گئی تھی اور ظہور کے لئے بہار کا موسم معیّن کیا گیا تھا۔ صفائی سے پوری ہو گئی۔ یعنی جب عین بہار کا موسم آیا اور باغ پھولوں اور شگوفوں سے بھر گئے تب خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ اِس طرح پر پورا کیا کہ کشمیر اور یورپ اور امریکہ کے مُلکوں میں برف باری حد سے زیادہ ہوئی جس کی تفصیل ابھی ہم انشاء اللہ چند اخباروں کے حوالہ سے لکھیں گے لیکن اس مُلک میں بموجب منشاء پیشگوئی کے خاص اس حصہ مُلک میں وہ شدّتِ سردی اور کثرتِ بارش ہوئی کہ ملک فریاد کر اُٹھا اور ساتھ ہی بعض حصہ میں اس ملک کے اس قدر برف پڑی کہ لوگ حیران ہو گئے کہ کیا ہونے والا ہے چنانچہ آج ہی ۲۵؍فروری ۱۹۰۷ء کو ایک خط بنام حاجی عمر ڈار صاحب (جوبا شندۂ کشمیر ہیں اور اس وقت میرے پاس قادیان میں ہیں عبد الرحمن ان کے بیٹے کی طرف سے) کشمیر سے آیا ہے کہ ان دنوں میں اس قدر برف پڑی ہے کہ تین گز تک زمین پر چڑھ گئی اور ہر روز ابر محیط عالم ہے یہ وہ امر ہے کہ کشمیر کے رہنے والے اس سے حیران ہیں کہ بہار کے موسم میں اس قدر برف کا گرنا خارق عادت ہے۔ اور جس قدر اس ملک میں بارش ہوئی اُس کی شہادت چند اخباروں کے حوالہ سے ذیل میں درج کرتے ہیں:۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 473

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 473

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/473/mode/1up


اوّل اخبار عام لاہور ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء سے بطریق اختصار لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اخبار مذکور کے دوسرے صفحہ میں بارش کے یہ حالات لکھے ہیں:۔

’’لاہور میں یہ حال ہے کہ دو ہفتہ سے زیادہ عرصہ سے بادل پیچھے لگ رہے ہیں اور لوگوں کو بجائے خوش کرنے کے پریشان کر رہے ہیں دو روز تک آسمان بارش سے خالی تھا اور معلوم ہوتاتھا کہ شاید اب بس کرے گا لیکن اتوار اور سوموار کی درمیانی رات کے پچھلے نصف حصہ میں بارش اِس زور اور ایسے افراط سے ہوئی کہ لوگ بستروں پر لیٹے ہوئے توبہ الامان پکارتے تھے اور حیران تھے کہ کہیں خدانخواستہ بارش کی رحمت مبدل بز حمت نہ ہو جائے اس کے ساتھ بجلی بھی خوب چمکی اور آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی اور اس کے ساتھ بادلوں کی گرج اور رعدکی کڑک دلوں کو دہلاتی تھی اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ خداوند کو کیا منظور ہے یہ موسم اور یہ بارش زراعتی لحاظ سے نہایت مفید اور مبارک ضرور ہے لیکن آخر اس کی کچھ حد ہے مثل مشہور ہے کہ افراط ہر ایک اچھی چیز کو بھی خراب کر دیتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ جس بارش کو لوگ غیر مترقبہ سمجھتے ہیں اور لاکھ لاکھ شکر کرتے ہیں وہ رحمت کی زحمت نہ بن جائے اور فصلوں کی جڑوں کو اُکھاڑ کر نیست و نابود کر ڈالے اور نشیب کی زراعتیں دریا بُرد نہ ہو جائیں اور تمام امیدوں پر پانی پھر جائے سب لوگ مارے حیرت کے دم بخود ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ معلوم پروردگار کی مرضی کیا ہے کون آدمی دم مارنے کی جرأت کر سکتا ہے انسان سوچتا کچھ ہے اور پیش اور ہی کچھ آتا ہے تعجب کی بات ہے کہ چند روز قبل چڑیا کی قسم کے چھوٹے چھوٹے پرندبڑے شوق سے پانی میں نہاتے ہوئے دیکھے گئے باوجود سردی کی تیزی اور جاڑوں کی شدت کے یہ جانور پانی میں اس طرح نہاتے تھے کہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ ان کے اندر اتنی گرمی کیسے پیدا ہو گئی ہے اور تجربہ کار لوگ اس سے بارش کی افراط کا نتیجہ نکالتے تھے۔ چنانچہ یہ خیال واقعی صحیح ثابت ہوا ہے بادل اس وقت تک آسمان پر بدستور منڈلاتے ہیں اب تو سب لوگ چاہتے ہیں کہ بارش بند ہو اور دھوپ کی صورت نظر آوے قلّت بارشوں سے تو صرف غیر نہری فصلوں کا نقصان متصور ہے حالانکہ اس موسم میں مسلسل بارشوں سے نہری اور غیر نہری



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 474

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 474

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/474/mode/1up


دونوں قسم کی فصلوں کے نقصان کاخوف ہوتا ہے۔ اب کوئی ضلع نہیں ہے جہاں زیادہ بارشوں کی ضرورت بیان کی جائے* ۔سرکاری رپورٹ میں بتلایا گیا ہے کہ ضلع گڑگا نوہ میں پچھلے ہفتہ بعض حصوں میں اولے پڑنے سے فصلوں کا کسی قدر نقصان ضرور ہوا۔ آج رات کی بارش میں گرج اور کڑک بھی تھی لیکن بادلوں کا زور بدستور نظر آرہا ہے۔ اس قدر بارش سے شہر کے مکانات کے لئے بھی نقصان کا اندیشہ غالب ہے۔ سڑکوں کے پرخچے اُڑ گئے ہیں کینکر کی سڑکیں کیچڑ سے دلدؔ ل ہو رہی ہے۔ میدانوں میں پانی ہی پانی نظر آتا ہے تمام اشجار نہائے دھوئے مثل دُلہن کے خوبصورت اور سبز نظر آتے ہیں گویا کہ نئی پوشاکیں پہنائی گئی ہیں اِن ایام میں ایسی بارش سالہائے دراز کے بعد نصیب ہوئی ہے (اِس فقرہ میں اس اخبار نے گواہی دی کہ یہ بارش غیرمعمولی ہے) حق یہ ہے کہ موسم گرما کے ایّامِ برسات میں بھی ایسی بارشیں بہت کم دیکھی گئی ہیں اُس پروردگار پر ماتما کے عجیب و غریب کرشمے ہیں کہ یہ موسم اور یہ حالت۔‘‘

واضح ہو کہ یہ ایک ہندو صاحب کا اخبار ہے جولاہور سے نکلتا ہے اور محض خدا تعالیٰ نے میری پیشگوئی کی شہادت کے لئے اس کے قلم و زبان سے یہ راست راست بیان نکالا ہے۔

اور پھر اسی پرچہ اخبار عام ۲۶؍فروری ۱۹۰۷ء میں یہ خبر اخبار کے صفحہ ۶ میں لکھی ہے:۔

’’اگرچہ اس سال موسم سرما کچھ سُست دکھلائی دیتا تھا اور یہ امید منقطع ہو گئی تھی مگر آخر ایّام جنوری (یعنی موسم بہار) میں اپنا رنگ جمایا اور رنگا رنگ کے دانت دکھلانے شروع کردیئے اِس مہینہ میں موسم سرما نے ایسے تعجب انگیز حالات کبھی نہیں دکھائے تھے۔ اخیر جنوری سے اِس وقت تک یہ نوبت ہوئی کہ لوگ پناہ مانگ اُٹھے کبھی بارش اور کبھی برفباری اور کبھی ژالہ زدگی پھر بادلوں کا انبار ہر وقت برقع پوش

* اس سے ثابت ہے کہ یہ بارش ایک عالمگیر بارش تھی اور اس میں امر خارق عادت صرف یہی نہ تھا کہ بہار کے موسم میں اس قدر بارش ہوئی کہ برسات کو بھی مات کر دیابلکہ یہ دوسرا امر خارق عادت یہی تھا کہ باوجود بہار کے موسم کے عام طورپر تمام ملک میں بارش ہو گئی حالانکہ برسات کے دنوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 475

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 475

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/475/mode/1up


نظر آتا ہے سورج اور دھوپ دیکھنے کو لوگ ترس رہے ہیں کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ برف نہ گرتی ہو یا اولے نہ پڑتے ہوں اور اگر یہ نہ ہو تو بارش تو ضرور ہوتی ہے اور بعض وقت دھواں دھار بادلوں کی وجہ سے دن کے وقت اندھیرا ہو جاتا ہے اور بغیر روشنی کے کام نہیں ہوتا اور سردی کا وہ عالم ہے کہ رات کے وقت اگر پانی کسی جگہ پڑا رہ گیا تو فجر کو یخ ہوجاتا ہے آج کل پانی بغیر گرم کرنے کے پیانہیں جاتااور اس وقت سوائے برف کے چاروں طرف شملہ کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ تمام اشجار و مکانات برف سے برقع پوش ہیں اور سردی بہت سخت ہے اور پھر اسی اخبار میں ہے کہ اس ملک میں بارشؔ عام ہے جن مقامات میں اکثر بارش کی شکایت رہتی تھی وہاں بھی ہو گئی۔‘‘

اور اخبار جاسوس آگرہ پرچہ ۱۵؍فروری ۱۹۰۷ء کے صفحہ ۴ میں لکھتا ہے کہ:۔

’’۶؍فروری ۱۹۰۷ء کو شام کے وقت کانپور میں سخت بارش ہوئی۔ طوفان برق آیا اور ایسی ژالہ باری ہوئی کہ ریل بند ہو گئی۔‘‘

اور اخبار اہل حدیث امرتسر ۲۲؍فروری ۱۹۰۷ء مطابق ۸؍محرم الحرام ۱۳۲۵ھ کے صفحہ گیارہ میں لکھا ہے کہ اس ہفتہ میں اس نواح میں بلکہ کل پنجاب میں بارش کا سلسلہ لگاتار رہا۔ ۱۹؍ کی شب کو سخت ژالہ باری ہوئی۔ کرشن جی قادیانی کو الہام ہوا ہے آسمان ٹوٹ پڑا۔ فرمایا کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘ (یہ الہام الٰہی پر ہنسی ٹھٹھا ہے 33 ۱؂ ) بہر حال ہمارے اس مخالف نے گواہی دی کہ اس ہفتہ میں کل پنجاب میں سلسلہ بارش برابر لگا رہا ہے اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ ۲۲؍فروری عین بہار کا موسم ہے اور اُس نے یہ بھی گواہی دی کہ الہام مذکورہ بالا پورا ہوا۔

اور رسالہ حکمت لاہور ۱۵؍فروری ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ دارجیلنگ میں ہر روز بارش ہو رہی ہے اور طوفان رعد آیا۔

اخبار نیّر اعظم مراد آباد کے پرچہ ۱۹؍فروری ۱۹۰۷ء میں لکھاہے کہ ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی اولے بھی گرے۔

پرچہ اخبار آزاد انبالہ مورخہ ۱۶؍ فروری ۱۹۰۷ء کے صفحہ ایک میں لکھا ہے کہ دہلی میں دس دن تک برابر بارش ہو رہی ہے اور اولے بھی پڑے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 476

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 476

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/476/mode/1up


پیسہ اخبار لاہور مورخہ ۲۳؍فروری ۱۹۰۷ء کے صفحہ ۲۱ میں لکھا ہے کہ متواتر اور کثیر بارش سے بنگال کی فصل نیشکر کو نقصان پہنچا۔ پیسہ اخبار ۲۹؍فروری ۱۹۰۷ء میں بھی لکھا گیا ہے کہ مدراس میں معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔

پبلک میگزین امرتسر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱ میں لکھا ہے کہ امرتسر میں سردی کمال جوبن پر ہے اور سلسلہ برسنے کا شروع ہے۔

اخباؔ ر سماچار لاہور ۲۶؍فروری ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ بارش سے لوگ تنگ آگئے ہیں۔

روزانہ پیسہ اخبار مورخہ ۱۵؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۵ آرہ چار روز سے برابر رحمت کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ ہو بہو موسم برسات کی کیفیت نظر آتی ہے مخلوق گھبرا رہی ہے اور دھوپ کو ترس رہی ہے

روزانہ پیسہ اخبار ۸؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸ میں لکھا ہے۔ کئی دن سے بارش ہو رہی تھی۔ کل دوبارہ بڑے زور سے پانی پڑا سردی بڑھ گئی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے سڑکوں کی حالت تباہ ہے۔

یہ اخبار ہیں جو ہم نے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کے لئے جو اس مُلک میں بارش وغیرہ ہونے پر موقوف تھی ان کے گواہان لکھے ہیں اور اگر ہم چاہتے تو اور پچاس ساٹھ اخبار اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے پیش کر سکتے تھے مگر میں جانتا ہوں کہ اس قدر اخباروں کی شہادت کافی ہے اور مُلک خود جانتا ہے کہ اس موسم بہار میں یہ غیر معمولی بارشیں ہیں جن کا علم بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کو بھی نہیں تھا بلکہ بارشوں اور طوفان وغیرہ کی پیشگوئی کرنیوالے جو گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہیں جو اس کام کے لئے بڑی بڑی بھاری تنخوا ہیں پاتے ہیں وہ پیشگوئی کر چکے تھے کہ معمولی بارش سے زیادہ نہیں ہوگی چنانچہ پرچہ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۶ء میں اس رائے کو دیکھو جو انہوں نے آئندہ موسم کے لئے ظاہر کی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 477

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 477

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/477/mode/1up


اور اس پیشگوئی کا ظہور بارش اور سردی کے متعلق صرف اس پہلو سے ظہور میں نہیں آیا کہ غیر معمولی بارش اور غیر معمولی سردی بہار کے موسم میں پڑ گئی بلکہ اس دوسرے پہلو سے بھی پیشگوئی کا ظہور ہوا کہ اس بہار میں عام طور پر تمام ملک کے حصوں میں بارش ہو گئی اور جن اضلاع میں بارش سے ہمیشہ ترستے تھے وہاں بھی ہو گئی پس ہر ایک شخص جو عقل اور حیا اور انصاف اور خدا ترسی سے کام لے گا وہ بلاتامل اس بات کا اقرار کرے گا کہ یہ امر خارق عادت اور غیر معمولی تھا جس کی خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبر دی تھی اور اس ملک میں ایسے حالات کے پیش از وقت ظاہر کرنے کے لئے گورنمنٹ انگریزی میں ایک عملہ مقرر تھا اور منجم بھی تھے مگر کسی نے یہ خبرنہیںؔ دی کہ موسم بہار میں یہ غیر معمولی بارشیں ہوں گی اور برف پڑے گی صرف اُس خدا نے ہی خبر دی جس نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب نبیوں کے آخر میں بھیجا تا تمام قوموں کو آپ کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا کرے۔

یہ حصہ تو کثرت بارشوں کے متعلق ہے اب ہم اُس حصہ کو بیان کرتے ہیں جو برف گرنے کے متعلق کسی قدر پہلے بھی ہم لکھ چکے ہیں تا معلوم ہو کہ یہ پیشگوئی اس ملک سے خاص نہیں رہی بلکہ دوسرے ممالک میں بھی اس نے خارق عادت رنگ دکھلایا ہے اور وہ یہ ہے:۔

اخبار وکیل امرتسر مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ میں جو ۲۳؍ذی الحجہ ۱۳۲۴ھ کے مطابق ہے یورپ کی موسمی حالات کے متعلق مندرجہ ذیل حال لکھا ہے:۔

بعض ممالک یورپ میں امسال سردی کی ایسی شدت بیان کی جاتی ہے کہ سنین ماضیہ میں اس کی کوئی نظیر شاید ہی ملے۔ چنانچہ بلجیئم میں مقیاس الحرارت صفر سے بھی زیادہ نیچے چلا گیا ہے۔ برلن میں نقطہ انجماد سے تیرہ۱۳ درجے نیچے بیان کیا جاتا ہے آسٹریا ہنگری میں بیس۲۰ درجہ نیچے۔ اس شدید سردی سے کئی آدمی بھی مر چکے ہیں۔ بر اعظم یورپ کی بعض ریلوے لائنوں کی آمد و رفت میں خلل پڑ گیا ہے کیونکہ انجنوں کے نل پانی کے جم جانے سے پھٹ گئے۔ ڈینیوب اور اوڑیسہ کی بندرگاہیں یخ بستہ ہو رہی ہیں۔ روس اور برطانیہ میں مقیاس الحرارت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 478

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 478

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/478/mode/1up


اس قدر گر گیا ہے کہ قبل ازیں کئی سال یہ نوبت نہ پہنچی تھی۔ روم اور نیپلز کے درمیان ٹرینوں پر اس قدر برفباری ہوئی ہے کہ الامان۔ قسطنطنیہ میں کئی کئی فٹ تک برف پڑی۔ آبنائے باسفورس میں جہازوں اور سٹیمروں کی آمد و رفت ملتوی ہو گئی ہے۔ چینل میں آج کل جو جہاز اِدھر اُدھر سے پہنچتے ہیں وہ بالکل برف سے مستور ہوتے ہیں پیرس کے بازاروں میں غریب و غربا ٹھٹھرٹھٹھر کر جان بحق ہو رہے ہیں۔ اٹلی کی جھیلیں اور نہریں جمی ہوئی ہیں۔ کیا سائنس اور علم حوادث ارضی اور سماوی کے ماہر اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب دے سکتے ہیں کہ اگر قدرت کا یہ عظیم الشان کارخانہ ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے ایک مقررہ قانوؔ ن کا پابند ہے اور کوئی فوق الفوق قادر مطلق اور مد بّر بالاِ رادہ ہستی اس پر متصرف نہیں تو نیچر کے حالات روز مرہ میں کبھی کبھی یہ خلاف معمول واقعات کا ظہور کیوں ہوتا ہے اور کیا ایسے حوادث سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اسلام ہی دنیا میں ایک ایسا مذہب ہے جس کے عقائد کو مان کر انسان کسی حال میں ٹھوکر نہیں کھا سکتا*ورنہ دہریے تو ایک طرف رہے اکثر مذاہب موجودہ کے پابند بھی ایسے موقعوں پر اپنے معتقدات کی معقولیت کا کوئی قابل اطمینان ثبوت نہیں دے سکتے۔‘‘

پھر اخبار نور افشاں مورخہ ۲۲؍فروی ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ ہانگ کانگ میں اس شدت سے بارش ہوئی کہ دس۱۰ منٹ کے اندر بندرگاہ کے آس پاس قریب یکصد چینی ہلاک ہوئے اور پرچہ اخبار نورافشاں ۲۳؍فروری ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ بمقام آرمی نیوز ہفتہ ھٰذا میں اس زور وشور کی بارش ہوئی کہ برسات کو بھی مات کر دیا اور دو تین مرتبہ شدّت سے ژالہ باری بھی ہوئی*۔


ایسے غیر معمولی حوادث سے صرف یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ اسلام برحق ہے بلکہ کھلے کھلے طور پر یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس شخص نے مسیح موعود ہونے کے دعوے کے ساتھ پیش از وقت ایسے غیر معمولی اور عالمگیر واقعہ کی خبر دی وہ سچا اور خدا کی طرف سے ہے۔ منہ

* ہم ایڈیٹر پرچہ نور افشاں سے پوچھتے ہیں کہ کیا کسی انجیل کے پیرو نے بھی یہ عظیم الشان پیشگوئی کی تھی کہ جو تمام ملک بلکہ تمام دنیا پر دائرہ کی طرح محیط ہو گئی اگر یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے نہیں تھی تو پھر کس ایسے شخص کی طرف سے تھی جو قدرت نمائی میں خدا کے برابر تھا پھر جبکہ آنے والے مسیح موعود نے خدا کی گواہی اپنے لئے پیش کر دی تو پھر اب بھی اس کو نہ ماننا کیا یہ اُن یہودیوں کی صفت ہے یا نہیں جنہوں نے مسیحؑ کے معجزات دیکھ کر بھی اُس سے دشمنی کی اور جو چاہا اُس سے کیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 479

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 479

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/479/mode/1up


ہم پہلے اس سے لکھ چکے ہیں کہ یہ پیشگوئی وقوع سے نو ماہ پہلے یعنی ۵؍مئی ۱۹۰۶ء کو اخباروں میں شائع ہو چکی تھی۔ پھر نو ماہ کے بعد ایسی کھلے کھلے طور پر ظہور میں آئی کہ پنجاب اور ہندوستان اور یورپ اور امریکہ کی تمام اخباریں اس کی گواہ رویت ہو گئیں۔ پس ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ کسی انسان کو یہ عمیق در عمیق علم حاصل نہیں اور نہ کسی مفتری کی یہاں پیش جاتی ہے کہ وہ افتراء کے طور پر خدائی قدرت کو آپ دکھاوے یہ کس قدر عظیم الشان نشان ہے کہ جیسا کہ خدائے قادر نے دو گذشتہ بہاروں کے متعلق دو زلزلوں کی خبر دی تھی یعنی ۱۹۰۵ء۔ اور ۱۹۰۶ء میں ایسا ہی تیسری مرتبہ پھر بہار کے متعلق یہ خبر دی کہ بہار کے موسم آئندہ میں جو ۱۹۰۷ء میں آئے گا سخت بارشیں ہوں گی اور سردی بہت پڑے گی اور برف پڑے گی سو ایسا ہی ظہور میں آگیا اور بڑی شان و شوکت سے یہ پشین گوئی پوری ہو گئی۔ فالحمد لِلّٰہ علٰی ذالِک۔

اس پیشگوئی کے ساتھ ایک اور پیشگوئی تھی جو رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور بدر، الحکم میں اُنہیں دنوں میں چھپ چکی اور شائع ہو چکی تھی اور وہ یہ ہے:۔

دیکھ میں تیرے لئے آسمان سے برساؤں گا اور زمین سے نکالوں گا۔ صحن میں ندیاں چلیں گی پر وہ جوتیرؔ ے مخالف ہیں پکڑے جائیں گے۔ یأ تیک من کلِّ فجّ عمیق۔ یاتون من کلّ فج عمیق واُلْقی بہ الرعب العظیم۔ ویل لکلّ ھمزۃ لمزۃ۔ ساکرمک اکرامًا عجبًا۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ یہ تمام پیشگوئیاں بارش کے متعلق ہیں اور ساتھ اس کے یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ وہ کثرتِ بارش دشمنوں کے لئے مضر ہوگی۔ شاید اس کا یہ مطلب ہے کہ کثرتِ بارش طاعون اور طرح طرح کے امراض کو پیدا کرے گی*۔اور بعض زراعتوں کا بھی نقصان ہوگااور پھر عربی الہام کے یہ معنی ہیں کہ ان نشانوں کے ظہور کے بعد نئے سرے لوگوں کا رجوع ہوگا ہر ایک راہ سے وہ آئیں گے یہاں تک کہ راہ گہرے ہو جائیں گے اور بہت سے تحائف اور نقد اور جنس دور دور سے لوگ بھیجیں گے اور دشمنوں پر رعب عظیم پڑے گا۔ اُس وقت چغل خوروں اور عیب گیروں پر *** برسے گی اور میں تجھے


* شاید اس فقرہ سے یہ مطلب ہو کہ ان نشانوں کے بعد تمام دشمن پورے طور پر لاجواب اور ساکت ہو جائیں گے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 480

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 480

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/480/mode/1up


ایک عجیب عزت دوں گا۔ اتنی بارشیں ہوں گی کہ گویا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔

(۵) پانچواں نشان جو ان دنوں میں ظاہر ہوا وہ ایک دعا کا قبول ہونا ہے جو در حقیقت احیائے موتٰی میں داخل ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبد الکریم نام ولد عبد الرحمن ساکن حیدرآباد دکھن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے قضاء قدر سے اس کو سگِ دیوانہ کاٹ گیا۔ ہم نے اُس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا۔ چند روز تک اس کاکسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا۔ تھوڑے دن گذرنے کے بعد اُس میں وہ آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہو گئی تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بیقرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہو گئی۔ ہر ایک شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹہ کے بعد مر جائے گا ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اُس کا کوئی علاج بھی ہے اُس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہو گئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصراؔ ر کیا کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیاتو ایک بُرے رنگ میں اُس کی موت شماتتِ اعداء کا موجب ہوگی تب میرا دل اُس کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلا ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اُس سے مُردہ زندہ ہو جائے غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آگئی اور جب وہ توجہ انتہا تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلّط میرے دل پر کر لیا تب اس بیمار پر جو درحقیقت مُردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یکدفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رُخ کیا اور اس نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 481

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 481

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/481/mode/1up


کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا۔ تب اس کو پانی دیا گیا تو اُس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کرکے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہااور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی یہاں تک کہ چند روز تک بکلی صحت یاب ہو گیا۔ میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہو گئی تھی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو۔ اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دُنیا میں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں، پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے اور اس سے زیادہ اس بات کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جو ماہر اس فن کے کسولی میں گورنمنٹ کی طرف سے سگ گزیدہ کے علاج کے لئے ڈاکٹر مقرر ہیں اُنہوں نے ہمارے تارکے جواب میں صاف لکھ دیا ہے کہ اب کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔

اس جگہ اس قدر لکھنا رہ گیا کہ جب میں نے اس لڑکے کے لئے دعا کی تو خدا نے میرے دل میں القا کیا کہ فلاں دوا دینی چاہئے چنانچہ میں نے چند دفعہ وہ دوا بیمار کو دی آخر بیمار اچھا ہو گیا یا یوں کہو کہ مُردہ زندہ ہو گیا اور جوکسولی کے ڈاکٹروں کی طرف سے ہماری تار کا جواب آیا تھا ہم ذیل میں وہ جواب جو انگریزی میں ہے معہ ترجمہ کے لکھ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے:۔


ؔ To Station From Station

Batala Kasauli


To Person From Person

Sherali Pasteur

Kadian


Sorry nothing can be done for Abdul Karim



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 482

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 482

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/482/mode/1up


(انگریزی الفاظ اُردو میں)

ٹو سٹیشن۔ بٹالہ فرام سٹیشن۔ کسولی

ٹو پرسن۔ شیرعلی قادیان فرام پرسن۔ پیسٹیؤر

سارِی نہ تھنگ کین بی ڈن فار عبد الکریم

(ترجمہ) مقام بٹالہ از مقام کسولی

بنام شیر علی قادیان از جانب پیسٹیؤر

افسوس ہے کہ عبد الکریم کے واسطے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا

اور دفتر علاج سگ گزید گان سے ایک مسلمان نے متعجب ہو کر کسولی سے ایک کارڈ بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’سخت افسوس تھا کہ عبد الکریم جس کو دیوانہ کتے نے کاٹا تھا اس کے اثر میں مبتلا ہو گیا مگر اس بات کے سننے سے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ دُعا کے ذریعہ سے صحت یاب ہو گیا ایساموقعہ جانبر ہونے کا کبھی نہیں سنا یہ خدا کا فضل اور بزرگوں کی دعا کا اثر ہے۔ الحمدللہ۔ راقم عاجز عبد اللہ از کسولی۔‘‘

(۵) پانچواں نشان ایک شخص کا مباہلہ ہے یعنی اُس نے اپنے طور پر میری نسبت خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا اور بہت سی ناکردنی اور ناگفتنی باتیں میری طرف منسوب کرکے خدا تعالیٰ سے انصاف کا خواستگار ہوا تب وہ اس درخواست سے چند روز بعد ہی بعارضہ طاعون اس جہان سے انتقال کر گیا۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک شخص عبد القادر نام ساکن طالب پور پنڈوری ضلع گورداسپور میں رہتا تھا اور طبیب کے نام سے مشہور تھا اس کو مجھ سے سخت عناد اور بغض تھا اور ہمیشہ مجھے گندی گالیاں دیتا تھا پھر جب اس کی گندہ زبانی انتہا تک پہنچ گئی تب اُس نے مباہلہ کے طور پر ایک نظم لکھی جس کا وہ حصہ ہم اس جگہ چھوڑ دیتے ہیں جس میں اُس نے سخت سے سخت فسق و فجور کی باتیں میری طرف منسوب کی ہیں اور سعد اللہ لدھیانوی کے رنگ میں میرے چال چلن پر بھی تہمتیں لگائی ہیں اور بہت گندے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ان شعروں کے سوا باقی چند شعر اس کے ہم اس جگہ نقل کر دیتے ہیں مگر اس کے بہت گندے شعروں سے اس کتاب کو پاک رکھتے ہیں اور ہم تمام تحریر اُس کی جس کے سر پر دو شعر میرے بھی لکھے ہیں اور کچھ اُس کی اپنی تحریر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 483

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 483

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/483/mode/1up


جو غلطی سے بھری ہوئی نظم اورکچھ نثر ہے وہ سب ذیل میں لکھ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے:۔

من تصنیف مرزا غلام احمد صاحب قادیانی

ابن مریم مر چکا حق کی قسم

داخلِ جنت ہوا ہے محترم*

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد* ہے

اس کا جواب بموجب قرآن شریف کے3 ۱ ؂ چھیو۶یں پارہ میں غور سے دیکھو جس کو مرزا صاحب خوب جانتے ہیں مگر بباعث طمع نفسانی اس پر عمل نہیں کرتے۔

ابن مریم زندہ ہے حق کی قسم

صورت ملکی بفلک محترم

ذکر و فخر اُن کا ہے قرآن سے ثبوت

جھوٹ کہتے ہیں غلام احمدی

لوگو ثابت کر لو تم قرآن سے

دین کیوں کھوتے ہو تم بُہتان سے


* چونکہ یہ شخص بے علم ہے اس لئے اس نے میرے شعروں کے لکھنے میں بھی غلطی کی ہے یہ مصرع جس پر میں نے نشان لگایا ہے جو میرے شعر کا مصرع ہے اُس میں بھی اس نے غلطی کی ہے کیونکہ وہ لکھتا ہے۔ داخل جنت ہوا ہے محترم۔ حالانکہ یہ مصرع اس طرح پر ہے۔ داخلِ جنت ہوا وہ محترم۔ منہ


* اکثر نادان اس مصرع کو پڑھ کر نفسانی جوش ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ اس مباہلہ کرنے والے نے ظاہر کیا مگر اس مصرع کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اُمت محمدیہ کا مسیح اُمت موسویہ کے مسیح سے افضل ہے کیونکہ ہمارا نبی موسیٰ سے افضل ہے بات یہ ہے کہ حکمت اور مصلحت الٰہیہ نے تقاضا کیا تھا کہ جیسا کہ موسوی خلیفوں میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام خاتم الخلفاء ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفوں میں سے ایک خاتم الخلفاء آخر الزمان میں پیدا ہوگا (جو یہ عاجز ہے) تا اسرائیلی اور اسما عیلی سلسلے باہم مشابہت پیدا کریں پس جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ سے افضل ہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ آپ کی اُمت کا خاتم الخلفاء حضرت موسیٰ کے خاتم الخلفاء سے افضل ہو۔ حق یہی ہے جس کے کان سُننے کے ہیں سُنے۔ افسوس! ہمارے مخالف بار بار یہ تو کہتے ہیں کہ اخیر زمانہ میں ایک گروہ اہل اسلام کا یہودی صفت ہو جائیں گے اور جیسا کہ بد قسمت یہودی خدا کے نبیوں کو رد کرتے اور پیشگوئیوں کا انکار کرتے تھے وہ بھی کریں گے مگر یہ ان کے منہ سے نہیں نکلتا کہ جیسا کہ دونوں سلسلوں کو دو نبیوں کی مماثلت کی وجہ سے اول میں مشابہت ہے ایسا ہی خاتم الخلفاء کے پیدا ہونے کے بعد آخر میں بھی مشابہت پیدا ہو جائے گی۔ یہودی بھی کہتے ہیں کہ آخر زمانہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہوگا مگر یہ لوگ نہیں کہتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور بلند پایہ کا کچھ بھی قدر نہیں کرتے یہ سوچنے کے لائق ہے کہ جس شخص کے دل میں میرے اس مصرع کی وجہ سے مباہلہ کا جوش اُٹھا تھا خدا نے میری زندگی میں ہی اس کو ہلاک کر دیا۔ پس اس مصرع کے سچے ہونے پر اس کی موت کافی گواہ ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 484

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 484

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/484/mode/1up


جھوٹھ کا بازار تھوڑے روز ہے

بعد اس کے حسرت دلسوز ہے

اب بھی مرزائیو ذرا حق سے ڈرو

زندگی میں جلد تر توبہ کرو

دین محمد کی کرو تم پیروی

ہاتھ آوے دو جہاں میں خسروی

جب خدا کا قہر ہو تم پر نزول

پھر نہ مرزا مہدی ہوگا نہ رسول

بھوؔ ل جائیں گے یہ سب قالا و قول

ہیں دلائل سب شریعت سے فضول

صرف اس کی عقل کا طومار ہے

عیش و عشرت کے لئے یہ کار ہے

جو طریقہ اُس نے ہے جاری کیا

کس پیمبر یا ولی نے یہ کہا

عورتیں بیگانہ کو ہمراہ لیا

باغ میں لے جا کے اُس نے یہ کہا

چھوڑ دو مُنہ کھلے اپنے تم نسا

ہاتھ میں لے ہاتھ کرتے چہچہا

اورکرتے کام ہیں وہ ناروا

پھر یہ لوگوں نے اسے مہدی کہا

یا الٰہی جلد تر انصاف کر

جھوٹ کا دنیا سے مطلع صاف کر

یہ شعر ہیں جن میں سے بہت گندے شعر میں نے نکال دیئے ہیں کیونکہ وہ سخت گندے اور بے حیائی کے مضمون تھے مگر جیسا کہ ان شعروں کے مصنّف نے جناب الٰہی میں دعا کی تھی کہ وہ انصاف کرے اور جھوٹ کا مطلع صاف کرے ایسا ہی خدا نے جلد تر انصاف کر دیا اور ان شعروں کے لکھنے کے چند روز بعد یعنی بعد تصنیف ان شعروں کے وہ شخص یعنی عبد القادر طاعون سے ہلاک ہو گیا۔ مجھے اُس کے ایک شاگرد کے ذریعہ سے یہ دستخطی تحریر اس کی مل گئی اور نہ وہ صرف اکیلا طاعون سے ہلاک ہوا بلکہ اور بھی اس کے بعض عزیز طاعون سے مر گئے ایک داماد بھی مر گیا۔ پس اس طرح پر اس کے شعر کے مطابق جھوٹ کا مطلع صاف ہو گیا۔

افسوس کہ یہ لوگ آپ جھوٹ بولتے ہیں اور آپ گستاخ ہو کر تہمتیں لگاتے اور شریعت نبویہ کی رو سے حد قذف کے لائق ٹھہرتے ہیں پھر بھی کچھ پر واہ نہیں کرتے۔ یہ ہیں علماء فضلاء یعنی اس زمانہ کے ان لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی شوخی اور لاپروائی ہے کہ

جب ایک شخص خدا تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 485

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 485

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/485/mode/1up


سے ایسا فیصلہ مانگ کر ہلاک ہو جاتا ہے تو دوسرا اس کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا اور اُس کا قائم مقام ہو کر گستاخی اور بد زبانی شروع کر دیتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے چنانچہ اب تک بیسیوں ان میں سے ایسے مباہلات سے ہلاک ہو چکے ہیں اگر میں سب کے حالات لکھوں تو کئی جزو کتاب کے اسی ذکر میں بھر جائیں میرے بہت سے دوستوں نے خط لکھے کہ فلاں شخص یکؔ طرفہ مباہلہ کرکے چند روز میں مر گیا اور فلاں شخص نے ہماری جماعت میں سے کسی کے ساتھ مباہلہ کیا تو صبح ہوتے ہی دُنیا سے کوچ کر گیا اور بعض نے خود آکر ایسے عجیب نشان بیان کئے چنانچہ کل ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو بھی چند مہمانوں نے حالات مباہلہ کے بیان کئے مگر میں نے اس لئے کہ کتاب بہت بڑھ گئی ہے اور وہ واقعات بھی صرف زبانی ہیں ان کا لکھنا غیر ضروری سمجھا۔ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کیا ارادہ ہے کہ کوئی بھی ان میں سے یہ سوچتا نہیں کہ یہ تائیدات الٰہیہ کیوں ہو رہی ہیں کیا کاذبوں، دجالوں اور فاسقوں کے یہی نشان ہیں کہ ان کے مقابل پرمباہلہ کی حالت میں خدا مومنوں متقیوں کو ہلاک کرتا جائے۔ بالآخر یاد رہے کہ اشعار مذکورہ قلمی مصنف کا عکس لے کر اس کتاب کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے تا مخالفوں پر اتمام حجت ہو اگر کسی کو انکار ہو کہ یہ اس کے شعر نہیں ہیں تو اس کی اس عکسی تحریر کو اس کی دوسری تحریروں سے ملا سکتا ہے اور اصل بھی میرے پاس محفوظ ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے اور جس شخص کے ذریعہ سے مجھے یہ تحریر ملی ہے وہ اُس کا شاگرد ہے اور اس کا نام ہے شیخ محمد ولد علی محمد ساکن ڈیہری والہ ضلع گورداسپور۔

خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اکثر مباہلہ کرنے والے طاعون سے ہی مرے اور اکثر سخت مخالفوں کا طاعون نے ہی فیصلہ کیا۔ براہین احمدیہ میں طاعون اور زلزلہ کا خدا نے اُس زمانہ میں ذکر کیا ہے کہ جبکہ ان عذابوں کا اِس ملک میں نام و نشان نہ تھا جیسا کہ براہین احمدیہ میں موت کی یہ پیشگوئی ہے کہ لا یصدق السّفیہ الّا سیفۃ الھلاک۔ اتٰی امراللّٰہ فلا تستعجلوہ یعنی سفلہ آدمی بجز موت کے نشان کے اور کسی نشان کی تصدیق نہیں کرتا۔ ان کو کہہ دے کہ وہ نشان بھی آنے والا ہے پس تم مجھ سے جلدی مت کرو۔ پس موت کے نشان سے یہی طاعون کا نشان مُراد تھا۔ ایسا ہی دوسری جگہ اللہ تعالیٰ براہین احمدیہ میں فرماتا ہے الرَّحمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰن لتنذر قومًاما



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 486

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 486

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/486/mode/1up


انذر اٰباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین۔ قُل اِنِّیْ اُمِرْتُ وانا اوّل المؤمنین۔ یعنی وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا اور صحیح معنوں پر مطلع کیا تاکہ تو آنے والے عذاب سے اُن لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے۔ اور ؔ تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ کون مجرم اور کون طالب حق ہے۔

اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا جو براہین احمدیہ میں درج ہے اور وہ یہ ہے : ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘

اور ظاہر ہے کہ نذیر کا لفظ اُسی مُرسل کے لئے خدا تعالیٰ استعمال کرتا ہے جس کی تائید میں یہ مقدّر ہوتا ہے کہ اس کے منکروں پر کوئی عذاب نازل ہوگا کیونکہ نذیر ڈرانے والے کو کہتے ہیں اور وہی نبی ڈرانے والا کہلاتا ہے جس کے وقت میں کوئی عذاب نازل ہونا مقدر ہوتا ہے۔ پس آج سے چھبیس ۲۶برس پہلے جو براہین احمدیہ میں میرا نام نذیر رکھا گیا ہے اُس میں صاف اشارہ تھا کہ میرے وقت میں عذاب نازل ہوگا سو اس پیشگوئی کے مطابق طاعون اور زلزلوں کا عذاب نازل ہو گیا۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر انسان تو آپ کے نام سے بھی بے خبر ہیں پھر وہ لوگ زلزلوں اور آتش فشاں پہاڑوں سے کیوں ہلاک ہوئے اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے کثرت گناہوں اور بدکاریوں کی وجہ سے اس لائق ہو چکے تھے کہ دنیا میں اُن پر عذاب نازل کیا جاوے پس خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی کے مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا۔ اور جب وہ نبی مبعوث ہو گیا اور اس قوم کو ہزار ہا اشتہاروں اور رسالوں سے دعوت کی گئی تب وہ وقت آگیا کہ ان کو اپنے جرائم کی سزا دی جاوے اور یہ بات سراسر غلط ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ میرے نام سے بھی بے خبر ہیں یہ امر کسی منصف مزاج پر پوشیدہ نہیں رہے گا کہ عرصہ قریباً بیس ۲۰برس کا گذر گیا ہے جبکہ میں نے سولہ ہزار۱۶۰۰۰ اشتہار دعوت انگریزی میں چھپوا کر اور اس میں اپنے دعوے اور دلائل کا ذکر کرکے یورپ اور امریکہ میں تقسیم کیا تھا اور بعد اس کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 487

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 487

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/487/mode/1up


مختلف اشتہارات وقتاً فوقتاً تقسیم ہوتے رہے اور پھر کئی برس سے رسالہ انگیریزی ریویو آف ریلیجنز یورپ اور امریکہ میں بھیجا جاتا ہے اور یورپ کے اخباروں میں بار ہا میرے دعوے کا ذکر ہوا ہے اور جو ڈوئی* پر بد دعا کی گئی تھی اسؔ کا ذکر بھی یورپ کی اخباروں میں ہوا تھا پھر باوجود اس قدر متواتر اشاعت کے جوبیس۲۰ برس سے زیادہ ہو رہی ہے کون قبول کرے گا کہ وہ لوگ میرے نام سے بھی ناواقف ہیں بلکہ بعض تو ان میں سے میرے سلسلہ میں بھی داخل ہو چکے ہیں۔

ماسوا اس کے ہر ایک کو معلوم ہے کہ حضرت نوحؑ کے طوفان نے اُن لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا جن لوگوں کو حضرت نوحؑ کے نام کی خبر بھی نہیں تھی پس اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ3 ۱؂ خدا تعالیٰ دنیا میں عذاب نازل نہیں کرتا جب تک پہلے اس سے کوئی رسول نہیں بھیجتا یہی سُنت اللہ ہے اور ظاہر ہے کہ یورپ اور امریکہ میں کوئی رسول پیدا نہیں ہوا پس اُن پر جو عذاب نازل ہوا صرف میرے دعویٰ کے بعد ہوا۔



* یہ ملک امریکہ کے ایک جھوٹے اور الیاس ہونے کے مدعی نبوت کا نام ہے جو آج کل علاوہ مالی نقصانات کے مرض فالج میں مبتلا ہو کر قریب المرگ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 488

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 488

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/488/mode/1up


عبدالقادر طالب پور پنڈوری والے کی اصلی تحریر کا عکس یہ ہے

(۶) چھٹا نشان حکیم حافظ محمد دین کی موت ہے جو بعد مباہلہ وقوع میں آئی اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص ساکن موضع ننکر تھا جو متصل ریلوے سٹیشن کا ہنہ اور تحصیل لاہور کے متعلق ہے اُس نے اپنی کتاب میں میری نسبت کئی لفظ بطور مباہلہ کے استعمال کئے تھے اور جھوٹے کے لئے خدا تعالیٰ کے غضب اور *** کی درخواست کی تھی اور پھر اُس درخواست کے بعد کہ جو اُس نے کئی جگہ اپنی کتاب میں کی ہے جس کتاب کا نام اُس نے فیصلہ قرآنی اور تکذیب قادیانی رکھا ہے ایک سال اور تین ماہ بعد مر گیا*۔

چنانچہ وہ صفحہ ۷۶ اور صفحہ ۷۸ اور صفحہ ۸۵ میں یہ آیات بطور مباہلہ کے لکھتا ہے:۔


(۶) چھٹا نشان حکیم حافظ محمد دین کی موت ہے جو بعد مباہلہ وقوع میں آئی اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص ساکن موضع ننکر تھا جو متصل ریلوے سٹیشن کا ہنہ اور تحصیل لاہور کے متعلق ہے اُس نے اپنی کتاب میں میری نسبت کئی لفظ بطور مباہلہ کے استعمال کئے تھے اور جھوٹے کے لئے خدا تعالیٰ کے غضب اور *** کی درخواست کی تھی اور پھر اُس درخواست کے بعد کہ جو اُس نے کئی جگہ اپنی کتاب میں کی ہے جس کتاب کا نام اُس نے فیصلہ قرآنی اور تکذیب قادیانی رکھا ہے ایک سال اور تین ماہ بعد مر گیا*۔

چنانچہ وہ صفحہ ۷۶ اور صفحہ ۷۸ اور صفحہ ۸۵ میں یہ آیات بطور مباہلہ کے لکھتا ہے:۔


* یہ کتاب اس کی اسلامی سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوئی تھی باہتمام حکیم چنن دین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 489

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 489

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/489/mode/1up


3 ۱ ؂ 3 ۲؂ لَعْنَۃ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ ۳؂ یہ آیتیں ہیں جو اُس نے لکھی ہیں چنانچہ ایک آیت میں تو اُس شخص پر *** کی گئی ہے جو جھوٹ بولتا اور افترا کرتا ہے اور دوسری آیت میں اُس شخص پر *** کی گئی ہے جو سچے کی تکذیب کرتا ہے پس یہی مباہلہ ہے اور تیسری آیت میں عام طور پر جھوٹے پر *** کی ہے اور جیسا کہ میں نے لکھا ہے جب یہ شخص اس کتاب کو شائع کر چکا تو ایک سال تین ماہ کے بعد مر گیا۔ اب ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اسلام میں مباہلہ ایک فیصلہ کن امر قرار دیا گیا ہے۔ پس جبکہ مجھے حکیم حافظ محمد دین نے اپنی اس کتاب میں مفتری ٹھہرایا اور میرا نام افّاک اثیم رکھا اور پھر اپنی کتاب کے صفحہ ۶۳ میں میری نسبت یہ آیت لکھی۔3 عَلَیْہِمْ *3۴؂ یعنی *** ہے مفتری گنہگار پر جو خدا کی آیتوں کو سنتا ہے پھر تکبر کی راہ سے انکار پر اصرار کرتا ہے گویا کچھ بھی نہیں سُنا۔ پس اُس کو تُو درد ناک عذاب کی بشارت دے پس یہ شخص محمد دین یہ آیات لکھ کر یہ اشارہ کرتا ہے کہ گویا میں افّاک اثیم ہوں اور اس کی زندگی میں ہی درد ناک عذاب میں مبتلا ہو جاؤں گا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی موت سے فیصلہ کر دیا کہ کون افّاک اثیم ہے۔

(۷) ساتواں نشان۔ ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کی صبح کو یہ الہام ہوا۔ سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی خوش آمدی نیک آمدی۔ چنانچہ یہ پیشگوئی صبح کو ہی قبل از وقوع تمام جماعت کو سنائی گئی اور جب یہ پیشگوئی سنائی گئی بارش کا نام و نشان نہ تھا اور آسمان پر ایک ناخن کے برابر بھی بادل نہ تھا اور آفتاب اپنی تیزی دکھلا رہاتھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج بارش بھی ہوگی اور پھر بارش کے بعد زلزلہ کی خبر دی گئی تھی۔ پھر ظہر کی نماز کے بعد یک دفعہ بادل آیا اور بارش ہوئی اور رات کو بھی کچھ برسا اور اُس رات کو جس کی صبح میں ۳؍مارچ ۱۹۰۷ء کی تاریخ تھی زلزلہ آیا جس کی خبریں عام طور پر مجھے پہنچ گئیں پس اس پیشگوئی کے دونوں پہلو تین دن میں پورے ہو گئے۔


* یہ لفظ آیت قرآنی کا اس شخص نے بوجہ عدم علم قرآن کے غلط لکھا ہے صحیح اس طرح ہے۔ یسمع آیات اللّٰہ تُتْلٰی عَلَیہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 490

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 490

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/490/mode/1up


اس ؔ تحریر کے بعد ۵؍مارچ ۱۹۰۷ء کی ڈاک میں دو خط مجھے ملے ایک خط اخویم مرزا نیاز بیگ صاحب رئیس کلانور کی طرف سے تھا جس میں لکھا تھا کہ دو اور تین مارچ کی درمیانی رات میں سخت دھکا زلزلہ کا محسوس ہوا اور اس سے پہلے بارش بھی ہوئی اور اولے بھی پڑے اور وہ الہام کہ آسمان ٹوٹ پڑا سارا پورا ہو گیا۔

اور اسی ڈاک میں ایک خط یعنی کارڈ اخویم میاں نواب خان صاحب تحصیلدار گجرات کا مجھ کو ملا جس میں لکھا تھا کہ دوسری اور تیسری مارچ ۱۹۰۷ء کی درمیانی جو رات تھی اس میں ساڑھے نو بجے رات کے ایک سخت دھکا زلزلہ کا محسوس ہوا اور نہایت خطرناک تھا۔

اور اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اس زلزلہ کے متعلق مندرجہ ذیل خبر ہے۔ ’’ہفتہ کی شام کو ایک تیز دھکا زلزلہ کا محسوس ہوا جو چند سیکنڈ تک رہا اس کی سمت شمال مشرق تھی۔‘‘

اور اخبار عام لاہور مورخہ ۶؍مارچ ۱۹۰۷ء میں لکھا ہے کہ سرینگر (کشمیر) میں سنیچر کی رات کو بوقت ساڑھے نو بجے ایک تیز زلزلہ محسوس ہوا چند سیکنڈ رہا شمالًا شرقًا۔

اب کوئی ہمیں بتا وے کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں یہ بات داخل ہے کہ اپنی طرف سے یہ پیشگوئی شائع کرے کہ آج بارش ہوگی اور اس کے بعد زلزلہ آئے گا اور ایسے وقت میں خبر دی ہو جبکہ دھوپ نکلی ہوئی تھی اور بارش کا کوئی نشان نہ تھا اور پھر اسی طرح وقوع میں آجائے اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس کا ثبوت کیا ہے تو معزز گواہان رویت کے نام ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کو یہ پیشگوئی اُس وقت سُنائی گئی تھی یعنی ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کی صبح کے وقت جبکہ دھوپ صاف طور پر نکلی ہوئی تھی اور آسمان پر سورج چمک رہا تھا اور بادل کا نام و نشان نہ تھا۔

سخت زلزلہ والی پیشگوئی مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کے قبل از وقت سُننے کے گواہ محمد صادق ایڈیٹر اخبار ’’بدر قادیان، اہلیہ محمد صادق، والدہ خواجہ علی، محمد نصیب احمدی محرر اخبار بدر، ماسٹر شیر علی، غلام احمد محرر تشحیذ الاذہان، غلام محمد مدرس لوئر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 491

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 491

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/491/mode/1up


مولوؔ ی محمد احسن بقلم خود۔ عبید اللہ بسمل احمدی عفی عنہ۔ میں نے اپنے کانوں سے یہ پیشگوئی سنی محمد سرور عفی عنہ غلام قادر۔ قاضی امیر حسین۔ میں نے بھی سنا ہے۔ غلام نبی بقلم خود مامون خان جمنا سٹک انسٹرکٹر۔ حاکم علی از چک پنیار حال وارد قادیان۔ حافظ محمد ابراہیم مہاجر قادیان۔ محمد الدین بقلم خود طالب علم ایم.اے کالج علیگڑھ حال وارد قادیان۔ خاکسار فقیر اللہ نائب ناظم میگزین۔ عبد الرحیم سیکنڈ کلرک میگزین۔ خاکسار احمد علی نمبردار ساکن بازید چک حال وارد قادیان۔ محمد الدین۔ محمد حسن احمدی دفتری۔ انّا علٰی ذالک من الشاہدین سید مہدی حسین مہاجر۔ عبدالمحی عرب مصنّف لغات القرآن۔ محمد جی ایبٹ آبادی سیّد غلام حسین کشمیری۔ سیّد ناصر شاہ صاحب اورسیئر کشمیر۔ محمد اسحاق۔ غلام محمد۔ دولت علی طالب علم۔ بیشک ۲۸؍فروری کو میں نے حضور کا الہام سُنا کہ سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی۔ خادم قطب الدین حکیم۔ محمد حسین کاتب اخبار بدر۔ شیخ عبد الرحیم دفتری بدر۔ سید احمدنور کابلی۔ سلطان محمد طالب علم افغان۔ حضرت نور کابلی۔ عبد اللہ افغان۔ حاجی شہاب الدین۔ فضل الدین حکیم۔ خلیفہ رجب دین لاہوری بقلم خود۔ حاجی فضل حسین شاہجہانپوری۔ شیخ محبوب الرحمن بنارسی۔ لطف الرحمن۔ شیخ احمد میسوری۔ محمد سلیمان مونگیری۔ عبد الستار خان کابلی مہاجر۔ شیخ محمد اسمٰعیل سرساوی مدرس۔ سیّد ناصر نواب۔ عبد الرؤف فخر الدین طالب علم مدرسہ تعلیم الاسلام۔ منشی کرم علی کاتب ریویو آف ریلیجنز۔ سیّد تصور حسین بریلوی۔ اکبر شاہ خان نجیب آبادی۔ غلام حسن نانبائی بورڈنگ۔ غلام محمد افغان مہاجر۔ زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی خوش آمدی نیک آمدی میں نے سنا۔ (حکیم حاجی مولوی) نور الدین۔ میں نے ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو یہ الہام سُنا تھا۔ زلزلہ آیا۔ آج بارش بھی ہوگی۔ خوش آمدی نیک آمدی۔ حکیم محمد زمان میں نے سُنااور اُسی روز خط میں منصوری لکھ دیا۔ عبد الرحیم فورتھ ماسٹر۔ غلام محمد طالب علم بی.اے۔ایم.اے. او کالج علیگڑھ۔ شیخ غلام احمد۔ خاکسار یار محمد بی.او.ایل۔ برکت علی خان۔ قدرت اللہ خان مہاجر۔ شیخ عبد العزیز نو مسلم۔ احمد دین زرگر۔ عبد اللہ ساکن شوپین کشمیر حال وارد قادیان۔ میں نے یہ الہام اُسی دن صبح کے ۷ بجے سُنا اور اُسی دن بارش بھی ہوئی اور زلزلہ بھی تیسرے دن آیا۔ محمود احمد میں نے صبح ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو یہ پیشگوئی سُنی۔ امیر احمد ولد مولوی سردار علی حکیم ساکن میانی۔ میں نے صبح ۲۸؍فروری ۱۹۰۷ء کو یہ پیشگوئی سُنی۔ محمد اشرف محرر دفتر صدر ا نجمن۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 492

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 492

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/492/mode/1up


شیخ ؔ عبد اللہ معالج بورڈنگ ہاؤس ۔ مولوی عظیم اللہ نابھاوالے ۔عبد الغفار خان افغان متوطن ملک خوست حال وارد قادیان ۔عبد الغنی طالب علم۔ دین محمد مستری۔ مولوی محمد فضل چنگوی احمدی کریم بخش نمبر دار رائے پور۔ صاحبزادہ منظورمحمد لدھیانوی ۔غلام حسین ولد محمد یوسف اپیل نویس عبد الغنی۔ فیض احمد ۔محمد اسمٰعیل ۔عبد الحق۔ عبد الرحمن ۔فضل الدین۔ منظور علی ۔ مرزا برکت علی بیگ مستری عبد الرحمن۔ولی اللہ شاہ۔حبیب اللہ شاہ۔ فخر الدین۔ گوہر دین۔ خواجہ عبد الرحمن ملک عبد الرحمن ۔محمد یحيٰ ۔ عبد الستار ۔ عبد العزیز ۔ بشیر احمد۔ عبد اللہ جٹ ۔ عبد الرحمن لدھیانوی محمد اسمٰعیل۔ علی احمد۔ حیات خان۔ اسحق۔ دین محمد۔ ابراہیم۔ برکت اللہ۔ عبد الرحمن سید الطاف حسین۔ عبد الرحمن داتوی۔ ممتاز علی۔ عبد الکریم۔ عبد الجبار۔ احمد دین۔ محمود ۔ عبد الحق عبید اللہ۔ عبد الرحمن۔ عبد اللہ۔کریم بخش خانساماں۔ نور محمد فراش۔ غلام محمد کاتب کتاب ھٰذا

یاد رہے کہ اس پیشگوئی میں کہ سخت زلزلہ آئے گا اور آج بارش بھی ہوگی ایک لطیفہ ہے اور وہ یہ ہے کہ زلزلہ زمین سے متعلق ہے اور بارش آسمان سے آتی ہے پس یہ ایسی پیشگوئی ہے کہ اس میں زمین اور آسمان دونوں جمع کر دیئے گئے ہیں تا پیشگوئی دونوں پہلوؤں سے پوری ہو کیونکہ یہ امر انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسی پیشگوئی کرے جس میں زمین اور آسمان دونوں شامل کر دیئے جائیں بلکہ خود یہ امر انسانی طاقت سے باہر ہے کہ عین دھوپ کے وقت جب کہ بارش کا خاتمہ ہوچکا ہو یہ پیشگوئی کرے کہ آج بارش ہوگی اور پھر بارش ہو جائے۔

اے ناظرین! اب ہم نمونہ کے طور پر وہ تمام نشان اپنے دعوے کے متعلق لکھ چکے ہیں* جن کے لکھنے کے لئے ہم نے قصد کیا تھا اور ہزار ہزار خدائے ذوالجلال کا شکر ہے کہ محض اس نے اپنے فضل و کرم سے میری تائید میں یہ نشان دکھلائے اور مجھے طاقت نہیں تھی کہ ایک ذرہ بھی زمین


* ۹؍مارچ ۱۹۰۷ء لنڈن کی تار میں خبر آئی ہے جو سول اخبار میں شائع ہو گئی کہ ڈوئی جس نے امریکہ میں پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور جس کی نسبت میں نے پیشگوئی کی تھی کہ وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہے خدا اُس کو نہیں چھوڑے گا۔ وہ مفلوج ہو کر مر گیا۔فالحمد للّٰہ علٰی ذالک بڑا نشان ظاہر ہوا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 493

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 493

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/493/mode/1up


سے یا آسمان سے اپنی شہادت میں کچھ پیش کر سکتا مگر اُس نے جو زمین و آسمان کا مالک ہے جسؔ کی اطاعت کا ذرہ ذرہ اس عالم کا جُوَا اُٹھا رہا ہے۔ میری تائید میں ایک دریا نشانوں کا بہا دیا اور وہ تائید دکھلائی جو میرے خیال اور گمان میں بھی نہیں تھی۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں اس لائق نہ تھا کہ میری یہ عزت کی جائے مگر خدائے عزّو جلّ نے محض اپنی ناپیدا کنار رحمت سے میرے لئے یہ معجزات ظاہر فرمائے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اُس کی راہ میں وہ اطاعت اور تقویٰ کا حق بجا نہیں لا سکا جو میری مُراد تھی اور اس کے دین کی وہ خدمت نہیں کر سکا جو میری تمنا تھی۔ میں اس درد کو ساتھ لے جاؤں گا کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہئے تھا میں کر نہیں سکا لیکن اُس خدائے کریم نے میرے لئے اور میری تصدیق کے لئے وہ عجائب کام اپنی قدرت کے دکھلائے جو اپنے خاص برگزیدوں کے لئے دکھلاتا ہے۔ اور میں خوب جانتا ہوں کہ میں اس عزت اور اکرام کے لائق نہ تھا جو میرے خداوند نے میرے ساتھ معاملہ کیا۔ جب مجھے اپنے نقصان حالت کی طرف خیال آتا ہے تو مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ میں کیڑا ہوں نہ آدمی۔ اور مُردہ ہوں نہ زندہ۔ مگر اس کی کیا عجیب قدرت ہے کہ میرے جیسا ہیچ اور ناچیز اس کو پسند آگیا اور پسندیدہ لوگ تو اپنے اعمال سے کسی درجہ تک پہنچتے ہیں مگر میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ کیا شانِ رحمت ہے کہ میرے جیسے کو اُس نے قبول کیا۔ میں اس رحمت کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ دنیا میں ہزاروں آدمی ہیں کہ الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر صرف مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کچھ چیز نہیں ہے جب تک اُس قول کے ساتھ جو خدا کا سمجھا گیا ہے خدا کا فعل یعنی معجزہ نہ ہو۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا قول خداکے فعل سے شناخت کیاگیا ہے۔ ورنہ کون معلوم کر سکتا ہے کہ وہ ایک قول جو پیش کیا گیا ہے وہ خدا کا قول ہے یا شیطان کا؟ یا وسوسہ نفسانی ہے خدا کا قول اور خدا کا فعل لازم ملزوم ہیں یعنی جس پر درحقیقت خدا کا قول نازل ہوتا ہے اس کی تائید میں خدا کا فعل بھی ظہور میں آتا ہے یعنی اس کی پیشگوئیوں کے ذریعہ سے عجائبات قدرت اس قدر ظاہر ہوتے ہیں کہ خدا کا چہرہ نظر آجاتا ہے تاثابت ہو جائے کہ اس کا الہام خدا کا قول ہے۔

افسوس اس زمانہ میں جا بجا ایسے لوگ بہت ہو گئے ہیں جن کو ملہم کہلانے کا شوق ہے اور بغیر اس کے کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 494

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 494

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/494/mode/1up


وہ اپنے نفس کو جانچیں اورؔ اپنی حالت کو دیکھیں جو کچھ اُن کی زبان پر جاری ہو اُس کو کلام الٰہی یقین کر لیتے ہیں حالانکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ وہ زبان جس پر خدا کا کلام جاری ہو سکتا ہے اُسی پر شیطان کا کلام بھی نازل ہو سکتا ہے اور حدیث النفس بھی ہو سکتی ہے پس کوئی کلام جو زبان پر جاری ہو ہر گز اس لائق نہیں کہ اس کو خدا کا کلام کہاجاوے جب تک دو شہادتیں اس کا منجانب اللہ ہونا ثابت نہ کریں۔ اول یہ شہادت کہ ایسا شخص جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میرے پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے اُس کی ایسی حالت چاہئے جس سے معلوم ہو کہ وہ اس لائق ہے کہ اُس پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہو سکتا ہے کیونکہ جو شخص جس سے قریب ہوتا ہے اُسی کی آواز سنتا ہے پس جو شخص شیطان سے قریب ہے وہ شیطان کی آواز سنتا ہے اور جو خدا تعالیٰ سے قریب ہے وہ اُس کی آواز کو۔ صرف اس حالت میں کسی کو ملہم من اللہ کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ درحقیقت خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے اپنی رضا مندی چھوڑ دیتا ہے اور اس کے پورے خوش کرنے کے لئے ایک تلخ موت اپنے لئے اختیار کر لیتا ہے اور اس کو سب چیز پر مقدم کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے دل کی طرف دیکھتا ہے تو اس کو تمام دنیا سے الگ اوراپنی رضا میں محو پاتا ہے اور سچ مچ ہر ایک ذرہ اس کے وجود کا خدا تعالیٰ کے راہ میں قربان ہو جاتا ہے اور اگر امتحان کیا جاوے تو کوئی چیز اس کو خدا تعالیٰ سے نہیں روک سکتی نہ دولت نہ مال نہ زن نہ فرزند نہ آبرو بلکہ وہ درحقیقت اپنی ہستی کا نقش مٹا دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ایسی محبت اُس پر غالب آجاتی ہے کہ اگر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاوے یا اس کی اولاد کو ذبح کیا جاوے یا اس کو آگ میں ڈالا جاوے اور ہر ایک تلخی اس پر وارد کی جائے تب بھی وہ اپنے خدا کو نہیں چھوڑتا اور مصیبت کے کسی حملہ سے وہ اپنے خدا سے الگ نہیں ہوتا اور صادق اور وفادار ہوتا ہے اور تمام دنیا اور دنیا کے بادشاہوں کو ایک مردہ کیڑے کی طرح سمجھتا ہے اور اگر اُس کو یہ بھی سُنایا جائے کہ تو جہنم میں داخل ہوگا تب بھی وہ اپنے محبوب حقیقی کا دامن نہیں چھوڑتا کیونکہ محبتِ الٰہی اس کا بہشت ہو جاتاہے اور وہ خود نہیں سمجھ سکتا کہ مجھ کو خدا سے کیوں ایسا تعلق ہے کیونکہ کوئی نامرادی اور کوئی امتحان اس تعلق کو کم نہیں کر سکتا پس اس حالت میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا سے نزدیک ہے نہ شیطان سے ایسے لوگ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 495

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 495

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/495/mode/1up


اولیاء الرحمن ہیں اور خدا اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ خدا سے۔ اور انہیں پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے اور وہ لوگ 3 ۱؂ میں داخل ہیں۔ دوسری شہادت۔ خدا تعالیٰ کے ملہم کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کلام کے ساتھ جو اس پر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ کا فعل بھی ہوکیونکہ جیسا کہ جب سورج طلوع کرتا ہے تو اس کے ساتھ سورج کی تیز شعاعیں بھی ہونی ضروری ہیں ایسا ہی خدا کا کلام کبھی اکیلا نازل نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ خدا کا فعل بھی ہوتا ہے یعنی انواع واقسام کے معجزات اور انواع و اقسام کی تائیدات اور برکات ساتھ ہوتی ہیں ورنہ کمزور انسان کیونکر سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے پس جس شخص نے خدا کے کلام نازل ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے ساتھ وہ کھلے کھلے معجزات اور تائیدات شامل نہیں اس کو خدا سے ڈرنا چاہئے اور ایسا دعویٰ ترک کرنا چاہئے اور پھر یہ دعویٰ صرف اس قدر بات سے صادق نہیں ٹھہر سکتا کہ وہ ایک دو نشان جو سچ ہو گئے ہیں پیش کرے بلکہ کم سے کم دو تین سو خدا کے کھلے کھلے نشان چاہئیں جو اس کی تصدیق کریں۔ اور پھر علاوہ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کلام قرآن شریف سے مخالف نہ ہو۔

یہ باؔ ت ہر ایک کے لئے قابل غور ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں کس فرقہ ضالّہکا غلبہ ہوگااور اس کے سوا مسیح موعود کا کیاکام ہوگا۔ صحیح بخاری جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب کہلاتی ہے اس میں کہیں ذکر نہیں کہ مسیح موعود دجال کو قتل کرنے کے لئے ظاہر ہوگا بلکہ اس میں صرف یہ کام مسیح موعود کا لکھاہے کہ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا۔ اس سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود پادریوں کے غلبہ اور سطوت اور شوکت کے وقت ظاہر ہو گا یعنی جبکہ ان کا دجل اور تحریف اور تبدیل انتہا تک پہنچ جائے گی اور وہ محرف کتابوں کی اشاعت میں ناخنوں تک زور لگائیں گے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کا اصل مقصد کسر صلیب ہوگا لیکن صحیح مسلم میں قتل دجّال کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ مسیح موعود دجّال کو قتل کرے گا اور اسی مقصد کے لئے ظاہر ہوگا مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ دجال کا گر جا سے یعنی کلیسیاسے خروج ہوگا۔ بظاہر ان دونوں کتابوں یعنی بخاری اور مسلم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 496

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 496

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/496/mode/1up


میں بڑا تناقض ہے کیونکہ صحیح بخاری تو اصل مقصد ظہور مسیح موعود کا کسر صلیب ٹھہراتی ہے لیکن صحیح مسلم اصل مقصد مسیح موعود کا جس کے لئے وہ ظاہر ہوگا قتل دجّال بیان کرتی ہے۔ شاید یہ جواب دیا جائے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت میں ایک حصہ زمین پر دجال کا غلبہ ہوگا اور زمین کے دوسرے حصہ میں صلیب پرست قوم کا غلبہ ہوگا جیسا کہ دو بادشاہتیں جُدا جُدا ہوتی ہیں مگر یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مسلّم امر ہے کہ دجّال تمام زمین پر بجز مکہ اور مدینہ کے پھر جائے گا یعنی ہر ایک جگہ اُس کا تسلط ہو جائے گا جیسا کہ احادیث صحیحہ اس کی شاہد ہیں۔ پس کیا نعوذ باللہ صلیب پرستی کا غلبہ مکہ اور مدینہ میں ہوگا کیونکہ بہر حال مسیح موعود کے وقت میں کسی حصہ زمین میں صلیبی غلبہ بھی مان لینا چاہیے پس جبکہ مکہ اور مدینہ کے سوا تمام زمین پر اور سب جگہ دجال کا غلبہ ہو گیا تو صلیبی غلبہ کے لئے صرف مکہ اور مدینہ کی زمین رہ گئی۔ یہ تو وہ احادیث ہیں جو دجال کے غلبہ کو بیان کرتی ہیں۔ دوسری طرف ایسی احادیث بھی ہیں جو یہ بتلاتی ہیں کہ مسیح موعود کے وقت میں تقریباً تمام زمین پر عیسائی سلطنت قوت اور شوکت رکھتی ہوگی اور درحقیقت حدیث یکسر الصلیب میں بھی اسی طرف اشارہ ہے اور آیت 3 ۱؂ بھی یہی بآواز بلند بتلا رہی ہے پس اس صورت میں یہ توجیہ قابلِ اعتبار نہ رہی کہ اس زمانہ میں کچھ حصہ زمین میں غلبہ عیسائیوں کا ہوگا اور کچھ حصہ میںؔ غلبہ دجّال کا ہوگا۔ مگر شاید جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اوّل عیسائیوں کا غلبہ ہوگا اور پھر دجّال آکر کسر صلیب کرے گا اور پھر مسیح آکر دجّال کو قتل کرے گا مگر یہ ایسا قول ہے کہ آج تک کسی فرقہ کا مسلمانوں کے فرقوں میں سے یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری میں تو یہی لکھا ہے کہ کسر صلیب مسیح موعود کرے گا نہ کہ دجّال*۔

اس تنازع کے فیصلہ کے لئے جب ہم حدیثوں کو دیکھتے ہیں تو وہی صحیح مسلم جو دجّال کا ذکر کرتی ہے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ دجّال معہود گرجا میں سے نکلے گا یعنی عیسائیوں میں پیدا ہوگا۔ پس اس صورت میں صحیح مسلم پادریوں کو دجّال ٹھہراتی ہے اور اس کی تائید میں واقعات بھی شہادت دے


* احادیث سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے وقت عیسائی قوم کثرت سے دنیا میں پھیل جاوے گی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 497

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 497

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/497/mode/1up


رہے ہیں اور ظاہرکر رہے ہیں کہ وہ آخری فتنہ جو ظہور میں آیا جس سے کئی لاکھ مسلمان مُرتد ہو گیا وہ صرف عیسائیت کا فتنہ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پس اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اختلاف صرف لفظی ہے یعنی صحیح بخاری میں جس فتنہ کا نام فتنہء صلیب رکھا ہے اور مسیح موعود کو صلیب کا توڑنے والا قرار دیا ہے صحیح مسلم میں اسی فتنہ کا نام فتنہء دجّال رکھا ہے اور کسرِ صلیب کو بطور قتل دجّال قرار دیا ہے۔

اورجب ہم زیادہ تصریح کے لئے قرآن شریف کی طرف آتے ہیں جو ہر ایک تنازع کا حَکم ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دجال کا نام تک نہیں ہاں عیسائیت کے فتنہ کو وہ بہت بڑا بیان کرتا ہے جو اسلام کے تمام اصول کا دشمن ہے اور کہتا ہے کہ قریب ہے کہ اُس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور اسی فرقہ کو خدا کے کلام کا محرّف مبدّل ٹھہراتا ہے اور جس فعل میں مفہوم دجل درج ہے وہ فعل اسی فرقہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ عیسائیت کے فتنہ سے خدا کی پناہ مانگیں جیسا کہ وَلَا الضَّالِّین کے معنی تمام مفسرین نے یہی کئے ہیں۔ پس قرآن شریف کے اِس فیصلہ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جس فتنہ سے حدیثوں میں ڈرایا گیا ہے وہ صلیبی فتنہ ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جب تھوڑے سے دجل کی کارروائی سے انسان دجال کہلا سکتا ہے تو جس فرقہ نے تمام شریعت اور تعلیم کو بدل دیا ہے کیا ؔ وجہ کہ وہ دجّال نہیں کہلا سکتا؟ اور جبکہ خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کے دجل کی خود گواہی دی ہے تو کیا وجہ کہ وہ دجّال کے نام سے موسوم نہ ہوں؟ ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں وہ دجالِ اکبر نہیں کہلا سکتے تھے کیونکہ ابھی بد دیانتی اور خیانت کمال کے درجہ کو نہیں پہنچی تھی صرف دجال ہونے کی بنا پڑی تھی مگر بعد اس کے ہمارے زمانہ میں جبکہ چھاپنے کی کلیں بھی نکل آئیں تب پادریوں نے تحریف اور تبدیل کو کمال تک پہنچا دیا اور کروڑہا روپیہ خرچ کرکے اُن محرف کتابوں کو شائع کیا اور لوگوں کو مُر تد کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تب خدا کا نوشتہ پوراہوا جیسا کہ واقعات ظاہر کر رہے ہیں اور دجال اکبر کے نام کے مستحق ہو گئے اور جب تک مخالفت حق اور تحریف وتبدیل میں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 498

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 498

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/498/mode/1up


اُن سے بڑھ کر کوئی ظاہر نہ ہو تب تک ہرایک کو ماننا پڑے گا کہ یہی فرقہ دجّالِ اَکبر ہے جس کے ظہور کی نسبت پیشگوئی تھی۔ یہودی بھی تحریف کرتے تھے مگر وہ تو ایسی ذلّت کا نشانہ ہوئے کہ گویا مر گئے۔ صرف اِسی فرقہ نے عروج کیا اور اپنی تمام طاقتوں کو دجل اور تحریف میں خرچ کر دیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ یہ چاہا کہ تمام دنیا کو اپنے جیسا بنا لیں اور بباعث شوکت اور طاقت دنیا کے ان کو ہر ایک سامان بھی مل گیا اور انہوں نے دجل اور تحریف میں وہ کام دکھلایا جس کی نظیر ابتدائے دُنیا سے آج تک مل نہیں سکتی اور کوشش کی کہ لوگ خدائے واحد لا شریک سے مُنہ پھیر کر ابن مریم کو خدا مان لیں اور ہمارے زمانہ میں یہ کسب اُن کا کمال تک پہنچ گیا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی کتابوں میں اس قدر تصرّفات کئے کہ گویا وہ آپ ہی نبی ہیں اس لئے ایسے لوگوں پر دجّال کا لفظ بولا گیا یعنی خدا کی کتابوں کی کمال درجہ کی تحریف کرنے والے اور جھوٹ کو سچ کرکے دکھانے والے۔ حدیثوں میں اکثر دجّالِ معہود کی نسبت خروج کا لفظ ہے اور مسیح موعود کی نسبت نزول کا لفظ ہے اور یہ دونوں لفظ بالمقابل ہیں جس سے مطلب یہ ہے کہ مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوگا اور خدا اس کے ساتھ ہوگامگر دجال اپنے مکر و فریب اور دنیا کے سامانوں کے ساتھ ترقی کرے گا۔ ہاں جیسا کہ قرآن شریف میں عیسائیت کے فتنہ کا ذکر ہے ایسا ہی یاجوج ماجوج کا ذکر ہے اور اِس آیت میں کہ3 ۱؂ ان کے غلبہ کی طرف اشارہ ہے کہ تمام زمین پر اُن کا غلبہ ہو جاؔ ئے گا اب اگر دجال اور عیسائیت اور یاجوج ماجوج تین علیحدہ قومیں سمجھیں جائیں جو مسیح کے وقت ظاہر ہوں گی تو اور بھی تناقض بڑھ جاتا ہے مگر بائبل سے یقینی طور پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یاجوج ماجوج کا فتنہ بھی درحقیقت عیسائیت کا فتنہ ہے کہ کیونکہ بائبل نے اس کو یاجوج کے نام سے پکارا ہے۔ پس درحقیقت ایک ہی قوم کو باعتبار مختلف حالتوں کے تین ناموں سے پکارا گیا ہے۔

اور یہ کہنا کہ قرآن شریف میں مسیح موعود کا کہیں ذکر نہیں یہ سراسر غلطی ہے کیونکہ جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بڑا فتنہ عیسیٰ پرستی کا فتنہ ٹھیرایا ہے اور اُس کے لئے وعید کے طور پر یہ پیشگوئی کی ہے کہ قریب ہے کہ زمین و آسمان اُس سے پھٹ جائیں اور اُسی زمانہ کی نسبت طاعون اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 499

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 499

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/499/mode/1up


زلزلوں وغیرہ حوادث کی پیشگوئی بھی کی ہے اور صریح طور پر فرما دیاہے کہ آخری زمانہ میں جبکہ آسمان اور زمین میں طرح طرح کے خوفناک حوادث ظاہو ہونگے وہ عیسیٰ پرستی کی شامت سے ظاہر ہوں گے اور پھر دوسری طرف یہ بھی فرمایا 3۱؂ پس اس سے مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں ثابت ہوتی ہے کیونکہ جو شخص غور اور ایمانداری سے قرآن شریف کو پڑھے گا اُس پر ظاہر ہوگا کہ آخری زمانہ کے سخت عذابوں کے وقت جبکہ اکثر حصے زمین کے زیر و زبر کئے جائیں گے اور سخت طاعون پڑے گی اور ہر ایک پہلو سے موت کا بازار گرم ہوگا اُس وقت ایک رسول کا آنا ضروری ہے جیسا کہ خُدا تعالیٰ نے فرمایا 3یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نہیں بھیجتے جب تک عذاب سے پہلے رسول نہ بھیج دیں پھر جس حالت میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے وقت میں رسول آئے ہیں جیسا کہ زمانہ کے گذشتہ واقعات سے ثابت ہے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس عظیم الشان عذاب کے وقت میں جو آخری زمانہ کا عذاب ہے اور تمام عالم پر محیط ہونے والا ہے جس کی نسبت تمام نبیوں نے پیشگوئی کی تھی خدا کی طرف سے رسول ظاہر نہ ہو اس سے تو صریح تکذیب کلام اللہ کی لازم آتی ہے۔ پس وہی رسول مسیح موعود ہے کیونکہ جب کہ اصل موجب اُن عذابوں کا عیسائیت کا فتنہ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تو ضرور تھا کہ اس فتنہ کےؔ مناسبِ حال اور اس کے فرو کرنے کی غرض سے رسول ظاہر ہو سو اُسی رسول کو دوسرے پیرایہ میں مسیح موعود کہتے ہیں پس اس سے ثابت ہوا کہ قرآن شریف میں مسیح موعود کا ذکر ہے اور یہی ثابت کرنا تھاہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ اگر قرآن شریف کی رو سے عیسائیت کے فتنہ کے وقت عذاب کاآنا ضروری ہے تو مسیح موعود کا آنا بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عذاب عیسائیت کے کمال فتنہ کے وقت آنا قرآن مجید سے ثابت ہے پس مسیح موعود کا آنا بھی قرآن کریم سے ثابت ہے۔ اسی طرح عام طورپر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کسی قوم پر عذاب کرناچاہتے ہیں تو ان کے دلوں میں فسق و فجور کی خواہش پیدا کر دیتے ہیں تب وہ اتباع شہوات اور بے حیائی کے کاموں میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں تب اُس وقت اُن پر عذاب نازل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ امور بھی یورپ میں کمال تک پہنچ گئے ہیں جو بالطبع عذاب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 500

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 500

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/500/mode/1up


کے مقتضی ہیں اور عذاب رسول کے وجود کا مقتضی ہے اور وہی رسول مسیح موعود ہے۔ پس تعجب ہے اُس قوم سے جو کہتی ہے کہ مسیح موعود کا قرآن شریف میں ذکر نہیں۔ علاوہ اس کے قرآن شریف کی یہ آیت بھی کہ 3 ۱؂ یہی چاہتی ہے کہ اس اُمت کے لئے چودھویں۱۴ صدی میں مثیل عیسیٰ ظاہر ہو جیسا کہ حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ سے چودھویں صدی میں ظاہر ہوئے تھے تا دونوں مثیلوں کے اول و آخر میں مشابہت ہو اسی طرح قرآن شریف میں یہ بھی پیشگوئی ہے3 3 ۲؂ یعنی کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں گے یا اُس پر شدید عذاب نازل نہ کریں گے یعنی آخری زمانہ میں ایک سخت عذاب نازل ہوگااور دوسری طرف یہ فرمایا 3 ۳؂ پس اس سے بھی آخری زمانہ میں ایک رسول کا مبعوث ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہی مسیح موعود ہے۔

اور یہی پیشگوئی سورۂ فاتحہ میں بھی موجود ہے کیونکہ سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے عیسائیوں کا نام الضّآلِّین رکھا ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ دنیا کے صدہا فرقوں میں ضلالت موجود ہے مگر عیسائیوں کی ضلالت کمال تک پہنچ جائے گی گویا دنیا میں فرقہ ضالہ وہی ہے اور جب کسی قوم کی ضلالت کمال تک پہنچتی ہے اور وہ اپنے گناہوں سے باز نہیں آتی تو سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ ؔ ان پر عذاب نازل ہوتا ہے پس اس سے بھی مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہرتا ہے یعنی بموجب آیت 3۔

اور یہ عجیب بات ہے کہ جیسا کہ احادیث نبویہ میں مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی ہے کہ وہ آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔ ایسا ہی ایک رجل فارسی کی نسبت پیشگوئی ہے کہ وہ آخری زمانہ میں ضائع شدہ ایمان کو پھر بحال کرے گا جیسا کہ لکھا ہے۔ لو کان الایمان معلّقًا بالثریّا لنالہ رجل من فارس یعنی اگر ایمان ثریا پر چلا جاتا تب بھی ایک رجل فارسی اس کو واپس لے آتا۔ اب ظاہر ہے کہ رجل فارسی کو اس حدیث میں اس قدر فضیلت دی گئی ہے اور اس قدر کارنمایاں کام اس کا دکھلایا گیا ہے کہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ رجل فارسی مسیح موعود سے افضل ہے کیونکہ مسیح موعود بقول مخالفوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 501

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 501

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/501/mode/1up


کے صرف دجال کو قتل کرے گا لیکن رجل فارسی ایمان کو ثریا سے واپس لائے گا۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں بھی یہ ذکر ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن آسمان پر اُٹھایا جائے گا۔ لوگ قرآن پڑھیں گے مگر وہ اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ پس وہی زمانہ رجل فارسی کا اور وہی زمانہ مسیح موعود کا ہے۔ مگر جس حالت میں رجل فارسی یہ خاص خدمت ادا کرے گا کہ ایمان کو آسمان سے واپس لائے گا تو پھر اس کے مقابل پر مسیح موعود کی کوئی دینی خدمت ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ دجال کو قتل کرنا صرف دفع شر ہے جو مدارِ نجات نہیں مگر آسمان سے ایمان کو واپس لانا اور لوگوں کومومن کامل بنانا یہ افاضۂ خیر ہے جو مدارِنجات ہے اور افاضۂ خیر سے دفعِ شر کو کچھ نسبت نہیں۔ ماسوا اس کے ظاہر ہے کہ جو شخص اس قدر افاضۂ خیر کرے گا کہ ثریا سے ایمان کو واپس لائے گا۔ اس کی نسبت کوئی عقلمند خیال نہیں کر سکتا کہ وہ دفع شر پر قادر نہیں ہوگا۔ پس یہ خیال بالکل غیر معقول ہے کہ آخری زمانہ میں افاضہ خیر تو رجل فارسی کرے گا مگر دفعِ شر مسیح موعود کرے گا۔ جس کو آسمان پر چڑھنے کی طاقت ہے کیا وہ زمین کے شر کو دور نہیں کر سکتا؟

غرض اِس زمانہ کے مسلمانوں کی یہ غلطی قابلِ افسوس ہے کہ مسیح موعود اور رجل فارسی کو دو مختلف آدمی سمجھتے ہیں اور آج سے چھبیس ۲۶برس پہلے خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میںؔ اس عقدہ کو کھول دیا ہے کیونکہ ایک طرف تو مجھ کو مسیح موعود قرار دیا ہے اور میرا نام عیسیٰ رکھا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ میں فرمایا:3 3 3 اور دوسری طرف مجھے رجل فارسی مقرر کرکے بار بار اسی نام سے پکارا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے انّ الّذین صدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس۔ شکراللّٰہ سعیہ۔ یعنی عیسائی اور دوسرے ان کے بھائی جو لوگوں کو دین اسلام سے روکتے ہیں اس رجل فارسی یعنی اس احقر نے اُن کا رد لکھا ہے خدا اس کی اس خدمت کا شکر گذار ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام یعنی عیسائیوں کا مقابلہ کرنا یہ اصل خدمت مسیح موعود کی ہے پس اگر رجل فارسی مسیح موعود نہیں تو کیوں مسیح موعود کا منصبی کام رجل فارسی کے سپرد کیا گیا۔ اس سے ثابت ہے کہ رجل فارسی اور مسیح موعود ایک ہی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 502

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 502

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/502/mode/1up


شخص کے نام ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے33ْ 3 ۱؂ یعنی آنحضرت ؐکے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جونبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں۔ پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہوگا اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے۔ بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔ آیت ممدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایا واٰخرین من الاُمّۃ بلکہ یہ فرمایا واٰخرین منہم اور ہر ایک جانتا ہے کہ منہم کی ضمیر اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف راجع ہے۔لہٰذا وہی فرقہ منہم میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسا رسول موجود ہو کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہے اور خدا تعالیٰ نے آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزؔ قرار دیا ہے اِسی وجہ سے براہین احمدیہ میں لوگوں کو مخاطب کرکے فرمادیا ہے 33 اور نیز فرمایا ہے کلّ برکۃ من محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتبارک من علّم وتعلّم اور اگر کوئی یہ کہے کہ کس طرح معلوم ہوا کہ حدیث لوکان الایمان معلّقًا بالثریّا لنالہ رجل من فارسٍ اس عاجز کے حق میں ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اُمت محمدیہ میں سے کسی اور کے حق میں ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ براہین احمدیہ میں بار بار اس حدیث کا مصداق



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 503

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 503

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/503/mode/1up


وحی الٰہی نے مجھے ٹھہرایا ہے اور تبصریح بیان فرمایا کہ وہ میرے حق میں ہے اور میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا۔ ومن ینکربہ فلیبارز للمباہلۃ ولعنۃ اللّٰہ علٰی من کذب الحق اوافتریٰ علٰی حضرۃ العزّۃ۔ اور یہ دعویٰ اُمت محمدیہ میں سے آج تک کسی اور نے ہر گز نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ نے میرا یہ نام رکھا ہے اور خدا تعالیٰ کی وحی سے صرف مَیں اس نام کا مستحق ہوں۔ اور یہ کہنا کہ نبوت کا دعویٰ کیا ہے کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے اے نادانو! میری مُراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں صرف مُراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں مَیں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔ ولکلّ ان یصطلح۔

اور میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اُسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اُس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں جن میں سے بطور نمونہ کسی قدر اِس کتاب میں بھی لکھے گئے ہیں۔ اگر اس کے معجزانہ افعال اور کھلے کھلے نشان جو ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں میرے صدق پر گواہی نہ دیتے تو میں اُس کے مکالمہ کو کسی پر ظاہر نہ کرتا اور نہ یقیناًکہہ سکتا کہ یہ اُس کا کلام ہے پر اُس نے اپنے اقوال کی تائید میں وہ افعال دکھائے جنہوں نے اُس کا چہرہ دکھانے کے لئے ایک صاف اور روشن آئینہ کا کام دیا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 504

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 504

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/504/mode/1up


ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی امریکہ کا *

جھوٹا نبی میری پیشگوئی

کے مطابق مر گیا

نشان نمبر ۱۹۶*۔ واضح ہو کہ یہ شخص جس کا نام عنوان میں درج ہے اسلام کا سخت درجہ پر دشمن تھا اور علاوہ اس کے اُس نے جھوٹا دعویٰ پیغمبری کا کیا اور حضرت سیّد النبیّین و اصدق الصادقین وخیر المرسلین وامام الطیّبینجناب تقدّس مآب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا۔ غرض بُغض دینِ متین کی وجہ سے اُس کے اندر سخت ناپاک خصلتیں موجود تھیں اور جیسا کہ خنزیروں کے آگے موتیوں کا کچھ قدر نہیں ایسا ہی وہ توحیدِ اسلام کو بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کا استیصال چاہتا تھا۔ اور حضرت


* تتمہ ھٰذا میں سہواً نشانات کے نمبر ایک سے شروع کئے گئے تھے جو ۱۸۹ سے شروع ہونے واجب تھے۔ پس اس جگہ تک آٹھ۸ نشان سابقہ ملا کر (جس میں نمبر ۵ دو مرتبہ سہواً درج ہو گیا ہے) ۱۹۶ تک نمبر نشانات پہنچا لہٰذا یہاں نمبر نشان ۱۹۶ لکھا گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 505

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 505

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/505/mode/1up


عیسیٰ کو خدا جانتا تھا اور تثلیث کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لئے اتنا جوش رکھتا تھا کہ میں نے باوجود اس کے کہ صدہا کتابیں پادریوں کی دیکھیں مگر ایسا جوش کسی میں نہ پایا چنانچہ اس کے اخبار لیؤز آف ہیلنگ مورخہ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۳ء اور ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء میں یہ فقرے ہیں۔

’’میںؔ خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جاوے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر دے۔‘‘

اور پھر اپنے پرچہ اخبار ۱۲؍دسمبر ۱۹۰۳ء میں اپنے تئیں سچا رسول اور سچا نبی قرار دے کر کہتا ہے کہ ’’اگر میں سچا نبی نہیں ہوں تو پھر رُوئے زمین پر کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو خدا کا نبی ہو۔‘‘ علاوہ اس کے وہ سخت مشرک تھا اور کہتا تھا کہ مجھ کو الہام ہو چکا ہے کہ پچیس ۲۵برس تک یسوع مسیح آسمان سے اُتر آئے گا اور حضرت عیسیٰ کو در حقیقت خدا جانتا تھا اور ساتھ اس کے میرے دل کو دُکھ دینے والی ایک یہ بات تھی جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ وہ نہایت درجہ پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا اور میں اس کا پرچہ اخبار لیوز آف ہیلنگ لیتا تھا اور اُس کی بد زبانی پر ہمیشہ مجھے اطلاع ملتی تھی۔ جب اُس کی شوخی انتہا تک پہنچی تو میں نے انگریزی میں ایک چٹھی اُس کی طرف روانہ کی اور مباہلہ کے لئے اُس سے درخواست کی تا خدا تعالیٰ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اُس کو سچے کی زندگی میں ہلاک کرے۔ یہ درخواست دو مرتبہ یعنی ۱۹۰۲ء اور پھر ۱۹۰۳ء میں اُس کی طرف بھیجی گئی تھی اور امریکہ کے چند نامی اخباروں میں بھی شائع کی گئی تھی جن کے نام حاشیہ میں درج ہیں*۔


نمبر (۱)

نام اخبار مع تاریخ

شکاگو انٹرپریٹر اخبار

۲۸ ؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

عنوان ’’کیا ڈوئی اِس مقابلہ میں نکلے گا۔‘‘ دونوں تصویریں پہلو بہ پہلو دے کر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں ڈوئی مفتری ہے اور میں دعا کرنے والا ہوں کہ وہ اُسے میری زندگی میں نیست و نابود کردے اور پھر کہتے ہیں کہ جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کا یہ طریق ہے کہ خدا سے دعا کی جاوے کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جاوے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 506

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 506

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/506/mode/1up


اورؔ اس مضمون مباہلہ میں مَیں نے جھوٹے پر بد دعا بھی کی تھی*اور خدا تعالیٰ سے یہ چاہا تھا کہ خدا جھوٹے کا جھوٹ اپنے فیصلہ سے کھول دے۔ اور یہ میرا مضمون مباہلہ کا جیسا کہ ابھی لکھ چکا ہوں امریکہ کے چند روزانہ اور نامی اخباروں میں بخوبی شائع ہو گیا تھا۔ اور یہ اخباریں امریکہ کے عیسائیوں کی تھیں جن کا مجھ سے کچھ تعلق نہ تھا اور


*حاشیہ ۔ میری طرف سے ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھاجس میں یہ فقرہ ہے کہ میں عمر میں ستر ۷۰برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس۵۰ برس کا جوان ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پروا نہیں کی کیونکہ اس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے وہ اس کا فیصلہ کرے گا۔ اور اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا... تب بھی یقیناًسمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے۔ اب میں اس مضمون کو اس دعا پرختم کرتا ہوں کہ اے قادر اور کامل خدا! جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے اور ظاہر ہوتا رہے گا یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر دے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو کچھ اپنی وحی سے تونے مجھے وعدہ دیا ہے وہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ اے قادر خدا میری دعا سن لے۔ تمام طاقتیں تجھ کو ہیں۔

دیکھو اشتہار ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء بزبان انگریزی۔ منہ


(بقیہ حاشیہ صفحہ ۵۰۵)


(۲)نمبر

نام اخبار مع تاریخ

ٹیلیگراف

۵؍ جولائی ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

مرزا غلام احمد صاحب پنجاب سے ڈوئی کو چیلنج بھیجتے ہیں کہ اے وہ شخص جو مدعیء نبوت ہے آ۔ اور میرے ساتھ مباہلہ کر۔ ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذّاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو۔


(۳)ؔ نمبر

نام اخبار مع تاریخ

ارگوناٹ سان فرانسسکو

یکم ؍ دسمبر ۱۹۰۲ء

خلاصہ مضمون

عنوان انگریزی اور عربی (یعنی عیسائیت اور اسلام) کا مقابلہ دعا۔ مرزا صاحب کے مضمون کا خلاصہ جو ڈوئی کو لکھا ہے یہ ہے کہ تم ایک جماعت کے لیڈر ہو اور میرے بھی بہت سے پیرو ہیں۔ پس اس بات کا فیصلہ کہ خدا کی طرف سے کون ہے ہم میں اس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے خدا سے دعا کرے۔ اور جس کی دعا قبول ہو۔ وہ سچے خدا کی طرف سے سمجھا جاوے۔ دعایہ ہوگی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اُسے پہلے ہلاک کرے۔ یقیناًیہ ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 507

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 507

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/507/mode/1up


اخباروں میں شائعؔ کرانے کی اِس لئے مجھے ضرورت پیش آئی کہ ڈاکٹر ڈوئی جھوٹے نبی نے براہِ راست مجھ کو جواب نہیں دیا تھا آخر میں نے وہ مضمون مباہلہ امریکہ کے اُن نامی اخباروں میں جو روزانہ ہیں اور کثرت سے دنیا میں جاتے ہیں شائع کرا دیا۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ باوجود یکہ اڈیٹران اخبارات امریکہ عیسائی تھے اور اسلام کے مخالف تھے تاہم انہوں نے نہایت مدّو شدّ سے میرے مضمون مباہلہ کو ایسی کثرت سے شائع کر دیا کہ امریکہ اور یورپ میں اس کی دھوم مچ گئی اور ہندوستان تک اس مباہلہ کی خبر ہو گئی۔ اور میرے مباہلہ کا خلاصہ


(بقیہ حاشیہ صفحہ ۵۰۵)


نمبر (۴)

نام اخبار مع تاریخ

لٹریری ڈائجسٹ نیویارک

۲۰ ؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

میری تصویر دے کر مباہلہ کا مفصل ذکر کرتا ہے یعنی یہ کہ دونوں فریق یعنی ڈوئی اور ہم دعا کریں کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں اور اس کے سامنے ہلاک ہو۔

نمبر (۵)

نام اخبار مع تاریخ

نیویارک میل اینڈ ایکسپریس

۲۸؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

عنوان مباہلہ یا مقابلہ دعا کے نیچے اسی مباہلہ کا ذکر کرتا ہے۔

نمبر (۶)

نام اخبار مع تاریخ

ہیرلڈ روچسٹر ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

ڈوئی کو مباہلہ کے لئے بلایا گیا ہے اور پھر مباہلہ کا ذکر کرتا ہے۔

نمبر (۷)

نام اخبار مع تاریخ

ریکارڈ بوسٹن ۲۷؍جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

مباہلہ کا ذکر ہے

نمبر (۸)

نام اخبار مع تاریخ

ایڈورڈ ٹائزر بوسٹن ۲۵؍ جون۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

ایضاً

نمبر (۹)

نام اخبار مع تاریخ

پایلاٹ بوسٹن ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۱۰)

نام اخبار مع تاریخ

پاتھ فائنڈرواشنگٹن ۲۷؍ جون۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۱۱)

نام اخبار مع تاریخ

انٹراوشن شکاگو ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍ پھر ۲۸؍ جون کے پرچہ میں دونوں تصویریں دے کر مفصل ذکر کیا ہے۔

نمبر (۱۲)

نام اخبار مع تاریخ

دوسٹر سپائی ۲۸؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۱۳ (

نام اخبار مع تاریخ

ڈیموکریٹ کرانیکل روچسٹر ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

مباہلہ کے بعد دونوں تصویریں بھی دی ہیں اور میری تصویر کے نیچے یہ لفظ ہیں ۔ مرزا غلام احمد

نمبر (۱۴)

نام اخبار مع تاریخ

شکاگو کا ایک اخبار تاریخ اور نام پھٹ گیا

خلاصہ مضمون

ہندوستان کا مسیح جس نے ڈوئی کو دعا کے مقابلہ کے لئے چیلنج دیا ہے

نمبر (۱۵)

نام اخبار مع تاریخ

برلنگٹن فری پریس ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

مباہلہ کا ذکر ہے

نمبر (۱۶)

نام اخبار مع تاریخ

شکاگو انٹراوشن ۲۸؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 508

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 508

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/508/mode/1up


مضموؔ ن یہ تھا کہ اسلام سچا ہے اور عیسائی مذہب کا عقیدہ جھوٹا ہے اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مسیح ہوں جو آخری زمانہ میں آنے والا تھا اور نبیوں کے


(بقیہ حاشیہ صفحہ ۵۰۵)


نمبر (۱۷)

نام اخبار مع تاریخ

البنی پریس ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

مباہلہ کا ذکرہے

نمبر (۱۸)

نام اخبار مع تاریخ

جیکسنول ٹائمز ۲۸؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۱۹)

نام اخبار مع تاریخ

بالٹی مور امریکن ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۰)

نام اخبار مع تاریخ

بفلوٹائمز ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۱)

نام اخبار مع تاریخ

نیویارک میل ۲۵؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۲)

نام اخبار مع تاریخ

بوسٹن ریکارڈ ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

(۲۳)

نام اخبار مع تاریخ

ڈیزرٹ انگلش نیوز ۲۷؍ جون۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۴)

نام اخبار مع تاریخ

ہیلینا ریکارڈ یکم جولائی ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۵)

نام اخبار مع تاریخ

گروم شایر گزٹ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۶)

نام اخبار مع تاریخ

نونیٹن کرانیکل ایضاً

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۷)

نام اخبار مع تاریخ

ہؤسٹن کرانیکل ۳؍ جولائی ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۲۸)

سؤنا نیوز ۲۹؍ جون ۱۹۰۳ء

؍؍

نمبر (۲۹)

نام اخبار مع تاریخ

رچمنڈ نیوز یکم جولائی ۱۹۰۳

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۳۰)

نام اخبار مع تاریخ

گلاسگو ہیرلڈ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

؍؍

نمبر (۳۱)

نام اخبار مع تاریخ

نیویارک کمرشل ایڈورٹائز ر

۲۶؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

اگر ڈوئی اشارتاً یا صراحتاً اس چیلنج کو منظور کرے گا تو بڑے دکھ اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہوگا اور اگر وہ اس چیلنج کو قبول نہ کرے گا تو بھی اس کے صیحون پر سخت آفت آئے گی

نمبر (۳۲)

نام اخبار مع تاریخ

دی مارننگ ٹیلیگراف نیویارک

۲۸؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء

خلاصہ مضمون

مباہلہ اور ڈوئی پر بددعا کرنے کا ذکرہے۔


یہ اخبار صرف وہ ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں ۔ اس کثرت سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں اخباروں میں یہ ذکر ہوا ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 509

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 509

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/509/mode/1up


نوشتوں میں اس کا وعدہ تھا اور نیز میں نے اس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر ڈوئی اپنے دعویٰ رسول ہونے اور تثلیث کے عقیدہ میں جھوٹاہے اگروہ مجھ سے مباہلہ کرے تو میری زندگی میں ہی بہت سی حسرت اور دُکھ کے ساتھ مرے گا۔ اور اگر مباہلہ بھی نہ کرے تب بھی وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتا۔ اس کے جواب میں بد قسمت ڈوئی نے دسمبر ۱۹۰۳ء کے کسی پرچہ میں اور نیز ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۳ء وغیرہ کے اپنے پرچوں میں اپنی طرف سے یہ چند سطریں انگریزی میں شائع کیں جن کا ترجمہ ذیل میں ہے:۔

’’ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ مسیح یسوع کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تو اس کا جواب کیوں نہیں دیتا اور کہ تو کیوں اس شخص کا جواب نہیں دیتا مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگر میں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو میں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا۔‘‘

اور پھر پرچہ ۱۹؍دسمبر ۱۹۰۲ء میں لکھتا ہے کہ ’’میرا کام یہ ہے کہ میں مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہر اور دوسرے شہروں میں آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمدی دنیا سے مٹایا جائے۔ اے خدا ہمیں وہ وقت دکھلا۔‘‘

غرض یہ شخص میرے مضمون مباہلہ کے بعد جو یورپ اور امریکہ اور اس مُلک میں شائع ہو چکا تھا بلکہ تمام دنیا میں شائع ہو گیا تھا شوخی میں روز بروز بڑھتا گیا اور اس طرف مجھے یہ انتظار تھی کہ جو کچھ میں نے اپنی نسبت اور اُس کی نسبت خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا ہے ضرور خدا تعالیٰ سچا فیصلہ کرے گا اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ کاذب اور صادق میں فرق کرکے دکھلا دے گا * ۔


* اس اشتہار کے صفحہ ۳ کو پڑھو جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو بزبان انگریزی میں نے ڈوئی کے مقابل پر ایک اشتہار شائع کیا تھا اور خدا تعالیٰ سے الہام پاکر اس میں لکھاتھا کہ خواہ ڈوئی میرے ساتھ مباہلہ کرے یا نہ کرے وہ خداکے عذاب سے نہیں بچے گا اور خدا جھوٹے اور سچے میں فیصلہ کرکے دکھلا دے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 510

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 510

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/510/mode/1up


اورؔ میں ہمیشہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ سے دُعا کرتا تھا اور کاذب کی موت چاہتا تھا چنانچہ کئی دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تو غالب *ہوگا اور دشمن ہلاک کیا جائے گا اور پھر ڈوئی کے مرنے سے قریباً پندرہ ۱۵دن پہلے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کے ذریعہ سے مجھے میری فتح کی اطلاع بخشی جس کو میں اس رسالہ میں جس کا نام ہے قادیان کے آریہ اور ہم اس کے ٹائٹل پیج کے پہلے ورق کے دوسرے صفحہ میں ڈوئی کی موت سے قریباً دو ہفتہ پہلے شائع کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے۔

تازہ نشان کی پیشگوئی

خدا فرماتا ہے کہ میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا (یعنی ظہور اس کا صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہوگا) اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا چاہئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے۔ کیونکہ خدا اس کو عنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اس کی طرف سے ہے مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے

المشتھر

میرزا غلام احمد مسیح موعود۔ مشتہرہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۷ء


* حاشیہ۔ ۹؍فروری ۱۹۰۷ء کومجھے یہ الہام ہوا کہ انک انت الاعلٰی یعنی غلبہ تجھی کو ہوگا۔ اور پھر اسی تاریخ مجھے یہ الہام ہوا العید الاٰخرتنال منہ فتحًا عظیمًا یعنی ایک اور خوشی کا نشان تجھ کو ملے گا جس سے ایک بڑی فتح تیری ہوگی۔ جس میں یہ تفہیم ہوئی کہ ممالک مشرقیہ میں تو سعد اللہ لدہانوی میری پیشگوئی اور مباہلہ کے بعد جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہی نمونیا پلیگ سے مر گیا۔ یہ توپہلا نشان تھا اور دوسرا نشان اِس سے بہت ہی بڑا ہوگا جس میں فتح عظیم ہوگی۔ سو وہ ڈوئی کی موت ہے جو ممالک مغربیہ میں ظہور میں آئی۔ دیکھو پرچہ اخبار بدر ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء اس سے خدا تعالیٰ کا وہ الہام پورا ہوا کہ میں دو نشان دکھاؤں گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 511

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 511

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/511/mode/1up


ابؔ ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے۔* کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو اُن کے ظہور کی خبر نہ تھی۔ لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جاکر ایسے شخص کے حق میں پورا ہوا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا اور اُس کے مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اُس مُلک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی چنانچہ پایونیر نے (جو الہ آباد سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۱؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اور سول اینڈ ملٹری گزٹ نے (جولاہور سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اور انڈین ڈیلی ٹیلیگراف نے (جو لکھنؤ سے نکلتا ہے) پرچہ ۱۲؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اس خبر کو شائع کیا ہے۔ پس اس طرح پر قریباً تمام دنیا میں یہ خبر شائع کی گئی اور خود یہ شخص اپنی دنیوی حیثیت کی رو سے ایسا تھا کہ عظیم الشان نوابوں اور شاہزادوں کی طرح مانا جاتا تھا۔ چنانچہ وِب نے جو امریکہ میں مسلمان ہو گیا ہے میری طرف اس کے بارہ میں ایک چٹھی لکھی تھی کہ ڈاکٹر ڈوئی اس ملک میں نہایت معززانہ اور شاہزادوں کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ اور باوجود اِس عزت اور شہرت کے جو امریکہ اور یورپ میں اُس کو حاصل تھی

خدا تعالیٰ


* ڈوئی اِس پیشگوئی کے بعد اس قدر جلد مر گیا کہ ابھی پندرہ ۱۵دن ہی اس کی اشاعت پر گذرے تھے کہ ڈوئی کا خاتمہ ہو گیا پس ایک طالب حق کے لئے یہ ایک قطعی دلیل ہے کہ یہ پیشگوئی خاص ڈوئی کے بارے میں تھی کیونکہ اوّل تو اس پیشگوئی میں یہ لکھا ہے کہ وہ فتح عظیم کا نشان تمام دنیا کے لئے ہوگا اور دوسرے یہ لکھا ہے کہ وہ عنقریب ظاہر ہونے والا ہے پس اس سے زیادہ عنقریب اور کیا ہوگا کہ اس پیشگوئی کے بعد بد قسمت ڈوئی اپنی زندگی کے بیس دن بھی پورے نہ کر سکا اور خاک میں جا ملا جن پادری صاحبان نے آتھم کے بارے میں شور مچایا تھا اب اُن کو ڈوئی کی موت پر ضرور غور کرنی چاہئے۔ منہ

ؔ


Ruhani Khazain Volume 22. Page: 512

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 512

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/512/mode/1up


کے فضل سے یہ ہوا کہ میرے مباہلہ کا مضمون اُس کے مقابل پر امریکہ کے بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کردیا اور تمام امریکہ اور یورپ میں مشہور کر دیا اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی اُس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیں ہو سکتا۔اُس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی۔ اُس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا مگر اُس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا۔ اور وہ اُس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اُس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اس کے قبضہ میں تھا اُس کو جواب دیا گیا۔ اور اُس کی بیوی اور اُس کا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور اُس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزناہے۔ پس اِس طرح پر وہ قوم میں ولد الزنا ثابت ہوا۔ اور یہ دعویٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں۔ یہ تمام لاف وگزاف اُس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلّت اُس کو نصیب ہوئی اور آخر کار اُس پر فالج گِرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اُس کو اُٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجانہ رہے۔ اور یہ دعویٰ اُس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتا ہوں اور لوگ بُڈھے ہوتے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا۔ آخرکار مارچ ۱۹۰۷ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 513

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 513

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/513/mode/1up


دکھ ؔ کے ساتھ مر گیا۔

اَب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوگا چونکہ میرا ا صل کام کسر صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا۔ کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حامیء صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا۔ سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا۔ میں جانتا ہوں کہ اُس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی۔ کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی۔ اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذّاب اور اَسودعَنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا۔ نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اُس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا* ۔اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا۔ اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیّت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا


* الحمدللہ کہ آج نہ صرف میری پیشگوئی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہو گئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 514

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 514

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/514/mode/1up


ؔ




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 515

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 515

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/515/mode/1up


ؔ




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 516

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 516

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/516/mode/1up


ؔ لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا* تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذّاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ا س سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا؟ اب وہی اِس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا۔ والسّلام علٰی من اتّبع الھُدیٰ۔

المشتھر

میرزا غلام احمد مسیح موعود ازمقام قادیان

ضلع گورداسپور پنجاب۔ ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء


* امریکہ کے ایک اخبار نے خوب یہ لطیفہ لکھا ہے کہ ڈوئی مباہلہ کی درخواست کو تو قبول ضرور کرے گا۔ مگر کسی قدر ترمیم کے بعد اور وہ یہ کہ ڈوئی کہے گا کہ میں اس طرح کا مباہلہ تو منظور نہیں کرتا کہ کاذب صادق کے سامنے ہلاک ہو جائے ہاں یہ منظور کرتا ہوں کہ گالیاں دینے میں مقابلہ کیا جائے۔ پھر جو شخص گالیاں دینے میں بڑھ کر نکلے گا اور اول درجہ پر رہے گا اُس کو سچا سمجھا جائے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 517

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 517

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/517/mode/1up



آسماؔ ن بارد نشان الوقت میگوید زمین

این دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند

نشان نمبر ۱۹۷ روشن نشان


پرچہ اخباربدر مورخہ ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء مطابق ۲۸؍ محرم ۱۳۲۵ ھ میں ایک الہام شائع ہوا تھا جو ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر پیشگوئی کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا اور اس کی نسبت جو تفہیم ہوئی تھی وہ بھی اسی پرچہ ۱۴؍ مارچ میں درج کردی گئی تھی اور وہ الہام یہ ہے جو کہ اخبار مذکور کے صفحہ ۳ کے پہلے کالم میں درج کیا گیا ہے پچیس۲۵ دن یا یہ کہ پچیس ۲۵ دن تک یعنی ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیسو۲۵یں دن یا یہ کہ ۲۵ دن تک جو ۳۱؍ مارچ ہوتی ہے کوئی نیا واقعہ ظاہر ہونے والا ہے اور اس الہام میں جو تفہیم ہوئی تھی وہ اسی کالم میں مندرجہ ذیل عبارت میں درج ہے اور وہ یہ ہے۔

الہام میںیہ اشارہ ہے کہ ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیس دن پورے ہونے کے سر پر یا ۷؍ مارچ سے پچیس۲۵ دن تک کوئی نیا واقعہ ظاہر ہوگا اور ضرور ہے کہ تقدیر الٰہی اس واقعہ کو روک رکھے جب تک کہ سات مارچ ۱۹۰۷ء سے ۲۵ دن گذر نہ جاویں یا یہ کہ ۷؍ مارچ سے ۲۵ دن تک یہ واقعہ ظہور میں آجائے گا۔ اگر صرف ۲۵ دن کے لحاظ سے معنی کئے جاویں تو اس طور سے ضرور ہے کہ اس واقعہ کے ظہور کی یکم اپریل سے امید رکھی *جائے کیونکہ الہام الٰہی کی رو سے ساتویں مارچ پچیسویں دن کے شمار میں داخل ہے۔ اس صورت میں پچیس۲۵ دن مارچ کے اکتیسو۳۱یں دن تک پورے ہوجاتے


* یہ مؤخر الذکر تشریح جس پر خط کھینچ دیا گیا ہے صرف اجتہادی طور پر ہے تفہیم الٰہی صرف اس قدر ہے کہ ۷؍ مارچ ۱۹۰۷ء سے ۲۵ دن پورے ہونے کے سر پر یا ۷؍ مارچ سے ۲۵ دن تک جو ۳۱؍ مارچ تک ختم ہوجاتے ہیں کوئی نیا واقعہ ظاہر ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 518

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 518

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/518/mode/1up


ہیں۔مگر یہ سوال کہ وہ واقعہ کیا ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے اس کا ہم اس وقت کوئی جواب نہیں دے سکتے بجز اس کے کہ یہ کہیں کہ کوئی ہولناک یا تعجب انگیز واقعہ ہے کہ ظہور کے بعد پیشگوئی کےؔ رنگ میں ثابت ہوجائے گا۔ دیکھو پرچہ اخبار بدر ۱۴؍ مارچ ۱۹۰۷ء پہلا اور دوسرا کالم۔

اس کے بعد جس رنگ میں یہ پیشگوئی ظہور میں آئی وہ یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو جس پر ۷؍ مارچ سے۲۵ دن ختم ہوتے ہیں ایک بڑا شعلہ آگ کا جس سے دل کانپ اُٹھے آسمان پر ظاہر ہوا اور ایک ہولناک چمک کے ساتھ قریباً سات ۷۰۰سو میل کے فاصلہ تک(جو اب تک معلوم ہو چکا ہے یا اس سے بھی زیادہ) جا بجا زمین پر گرتا دیکھا گیا اور ایسے ہولناک طور پر گرا کہ ہزارہا مخلوقِ خدا اُس کے نظارہ سے حیران ہو گئی اور بعض بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے اور جب ان کے مُنہ میں پانی ڈالا گیا تب ان کو ہوش آئی۔ اکثر لوگوں کا یہی بیان ہے کہ وہ آگ کا ایک آتشی گولہ تھاجو نہایت مہیب اور غیرمعمولی صورت میں نمودار ہوا اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ زمین پر گرا اور پھر دُھواں ہو کر آسمان پر چڑھ گیا۔ بعض کا یہ بھی بیان ہے کہ دُم کی طرح اس کے ایک حصہ میں دُھواں تھا اور اکثر لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ایک ہولناک آگ تھی جو شمال کی طرف سے آئی اور جنوب کو گئی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جنوب کی طرف سے آئی اور شمال کو گئی اور قریب ساڑھے پانچ بجے شام کے اِس وقوعہ کا وقت تھا اور بعض کا بیان ہے کہ آسمان پر مغرب کی طرف سے ایک بڑا سا انگارا نمودار ہوا اور پھر مشرق کی طرف نہایت نمایاں اور خوفناک طور پر دور تک چلا گیا اور زمین کے اس قدر قریب آجاتا تھا کہ ہر جگہ دیکھنے والوں کا یہی خیال تھا کہ اب گرا اب گرا۔ اور بڑی بڑی عمر کے آدمیوں نے یہ گواہی دی کہ اس قسم کا واقعہ مہیب اور ہولناک انہوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جہاں جہاں سے ہمارے پاس خط پہنچے ہیں جن کا خلاصہ ہم نے شہادتوں کے طور پر ہر ایک مقام کے متعلق اس مضمون کے ساتھ شامل کر دیا ہے وہ بہت سے مقام ہیں منجملہ اُن کے کشمیر۔ راولپنڈی۔ پنڈی گھیپ۔ جہلم۔ گجرات۔ گوجرانوالہ۔ سیالکوٹ۔ وزیر آباد۔ امرتسر۔ لاہور۔ فیروزپور۔ جالندھر۔ بسی سرہند۔ پٹیالہ۔ کانگڑہ۔ بھیرہ۔ خوشاب وغیرہ ہیں۔ اور ایک صاحب خدا بخش نام راولپنڈی سے لکھتے ہیں کہ یہ آگ کانشان ہندوستان میں بھی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 519

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 519

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/519/mode/1up


دیکھا گیا ہے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ تنبیہ کے طور پر ان ممالک میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آگ برسی ہے جیسا کہ میں نے شائع کیا تھا کہ آسمان اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے سو خدا نے یہ پیشگوئی پوری کی۔ اگرچہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا صرف بعض آدمی بے ہوش ہو گئے مگر یہ آگ کی بارش آئندہ کسی بڑے عذاب کی خبر دے رہی ہے۔ اے سننے والو !ہوشیار ہو جاؤ بعد میں پچھتاؤ گے یہ ایک نشان ان نشانوں میں سے ہے جن کی خدا نے مجھے خبر دی اور فرمایا تھا کہ میں ساٹھ یا ستر اور نشان دکھلاؤں گا اور آخری نشان یہ ہوگا کہ زمین کو تہ و بالا کر دیا جائے گا اور ایک ہی دَم میں لاکھوں انسان مر جائیں گے۔ کیونکہ لوگوں نے اس کے فرستادہ کو قبول نہ کیا۔ ہولناک زلزلے آئیں گے اور ہولناک طورپرموتیں وقوع میں آئیں گی۔ اور نئے نئے طور پر عذاب نازل ہوں گے۔ یہاں تک کہ انسان کہے گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوگا کہ زمین مر گئی اور انسانوں نے خدا کے نشان دیکھے اور پھر ان کو قبول نہ کیا۔ وہ اُن کیڑوں سے بد تر ہو گئے جونجاست میں ہوتے ہیں اور خدا کے وجود پر ان کا ایمان نہ رہا اس لئے خدا فرماتا ہے کہ میں ایک ہولناک تجلّی کروں گا اور خوفناک نشان دکھاؤں گا اور لاکھوں کو زمین پر سے مٹا دوں گا مگر کون ہے جو ہم پر ایمان لایا اور کس نے ہماری یہ باتیں قبول کیں۔

آج سے چھبیس ۲۶برس پہلے خدائے عزّوجلّ براہین احمدیہ میں فرما چکا ہے۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ۔ سو اُن حملوں میں سے یہ آتشی انگار بھی ہیں جن کی اِس ملک میں بارش ہوئی یہ اسی قسم کے نشان ہیں جیسا کہ موسیٰ نبی نے فرعون کے سامنے دکھائے تھے بلکہ وہ نشان جو ظاہر ہو نے والے ہیں وہ موسیٰ نبی کے نشانوں سے بڑھ کر ہوں گے۔ اس لئے خدا میرا نام موسیٰ رکھ کر فرماتا ہے۔ ایک موسیٰ ہے کہ مَیں اُس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اُس کو عزت دوں گا پر جس نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 520

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 520

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/520/mode/1up


میرا گناہ کیا ہے میں اُس کو گھسیٹوں گا اوراس ؔ کو دوزخ دکھلاؤں گا یعنی عیسیٰ ابن مریم کے ظہور سے تو لوگ کچھ بھی متنبہ نہ ہوئے اب میں اپنے اس بندہ کو موسیٰ * کی صفات میں ظاہر کروں گا اور فرعون اور ہامان کو وہ دن دکھاؤں گا جس سے وہ ڈرتے تھے۔ سو اے عزیزو! مدت تک میں مسیح ابن مریم کے رنگ میں دُکھ اُٹھاتا رہا اور جو کچھ قوم نے کرنا چاہا میرے ساتھ کیا اب خدا میرا نام موسیٰ رکھتا ہے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ مقابل کے لوگوں کا نام اُس نے فرعون رکھا ہے اور یہ نام آج سے نہیں بلکہ اِس بات پرچھبیس۲۶برس گزرے ہیں۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام موسیٰ رکھ کر فرمایا انت منّی بمنزلۃ موسیٰ ۔اور پھر اِسی براہین احمدیہ میں میرا نام موسیٰ رکھ کر فرمایا ولمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکًّا وخرّ مُوسٰی صعقا۔مگرچونکہ خدا نے ابتدا نرمی سے کی اور اپنی بُرد باری کو پورے طور پر دکھلایا اس لئے میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا کیونکہ ابن مریم اپنی قوم سے کوفتہ خاطر رہا اور اس کو بہت دُکھ دیا گیا اور ستایا گیا اور عدالتوں کی طرف اس کو کھینچا گیا اور اُس کا نام کافر اور مکّار اور ملعون اور دجّال رکھا گیا اور نہ صرف اِسی پر کفایت کی گئی بلکہ یہ چاہا گیا کہ اس کو قتل کر دیاجائے مگر چونکہ وہ خدا کابرگزیدہ تھا اور اُن لوگوں میں سے تھا جن کے ساتھ خدا ہوتا ہے اس لئے وہ خبیث قوم


* یہ الہام ۱۵؍مارچ ۱۹۰۷ء جو ۲۲؍ مارچ کو اخبار بدر میں شائع ہو چکا ہے اور بعد میں بھی۔ اس کی عبارت یہ ہے ایک موسیٰ ہے میں اُس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اُس کو عزت دوں گا بلجت آیاتی۔ تلک آیات ظھرت بعضھا خلف بعض اجرّ الا ثیم واریہ الجحیم۔ انی اٰ ثرتک واخترتک (ترجمہ) میرے نشان روشن ہوں گے بعض نشان بعض کے بعد ظہور میں آئیں گے تا اِس موسیٰ کی عزت ظاہرکی جائے۔ پر جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اُس کو گھسیٹوں گا اور اُس کو دوزخ دکھلاؤں گا۔ میں نے تجھ کوچُن لیا اور اختیار کیا۔ تیری عاجز انہ راہیں مجھے پسند آئیں۔ میرا دشمن ہلاک ہو گیا۔ انّ اللّٰہ مع الصادقین۔ خدا سچوں کے ساتھ ہے۔ یہ پیشگوئی کھلے طور پر بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی نسبت ہے جو ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء* کو طاعون سے فوت ہو گیا کیونکہ اُس نے موسیٰ ہونے کادعویٰ کیا تھا سو خدا فرماتا ہے کہ موسیٰ ایک ہی اس زمانہ میں ہے جس کو میں نے موسیٰ بنایا۔ پر وہ شخص جو خود بخود موسیٰ بن گیا وہ ہلاک ہوگا تا صادق اور کاذب میں فرق ظاہر ہو جائے چنانچہ طاعون جو دوزخ کا ایک نمونہ ہے اس میں بابو مذکور گرفتار ہو کر اس دارفانی کو تاریخ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء* میں چھوڑگیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ منہ


* ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء سہوکتابت ہے۔ درست ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء ہے جس کی تصدیق اسی کتاب کے صفحہ ۵۴۰ اور صفحہ ۵۴۴ سے ہوتی ہے۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 521

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 521

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/521/mode/1up


اس کے نور کو نابود نہ کر سکی سو خدا نے جو ہر ایک کام نرمی سے کرتا ہے اس زمانہ کے لئے سب سے پہلے میرا نام عیسیٰ ابن مریم رکھا کیونکہ ضرور تھا کہ میں اپنے ابتدائی زمانہ میں ابن مریم کی طرح قوم کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھاؤں اور کافر اور ملعون اور دجّال کہلاؤں اور عدالتوں میں کھینچا جاؤں سو میرے لئے ابن مریم ہونا پہلا زینہ تھا مگر میں خدا کے دفتر میں صرف عیسیٰ ابن مریم کے نام سے موسوم نہیں بلکہ اور بھی میرے نام ہیں جو آج سے چھبیس ۲۶برس پہلے خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرے ہاتھ سے لکھا دیئے ہیں اور دنیا میں کوئی نبی نہیں گذرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا۔ سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایاہے ۔ میں آدمؑ ہوں۔ میں نوحؑ ہوں۔ میں ابراہیمؑ ہوں۔میںؔ اسحاقؑ ہوں۔ میں یعقوبؑ ہوں۔ میں اسمٰعیلؑ ہوں۔ میں موسٰیؑ ہوں۔ میں داؤدؑ ہوں، میں عیسٰیؑ ابن مریم ہوں۔ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدانے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دیئے اور میری نسبت جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔ مگر خدا نے یہی پسند کیا کہ سب سے پہلے ابن مریم کے صفات مجھ میں ظاہر کرے۔ سو میں نے اپنی قوم سے وہ سب دُکھ اُٹھائے جو ابن مریم نے یہود سے اُٹھائے بلکہ تمام قوموں سے اُٹھائے۔ یہ سب کچھ ہوا مگر پھر خدا نے کسر صلیب کے لئے میرا نام مسیح قائم رکھا تا جس صلیب نے مسیح کو توڑا تھا اور اس کو زخمی کیا تھا دوسرے وقت میں مسیح اس کو توڑے مگر آسمانی نشانوں کے ساتھ نہ انسانی ہاتھوں کے ساتھ۔ کیونکہ خدا کے نبی مغلوب نہیں رہ سکتے سو سنہ عیسوی کی بیسویں۲۰۰۰ صدی میں پھر خدا نے ارادہ فرمایا کہ صلیب کو مسیح کے ہاتھ سے مغلوب کرے لیکن جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں مجھے اور نام بھی دیئے گئے ہیں اور ہر ایک نبی کا مجھے نام دیا گیا ہے چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے جس کو رُدّر گوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا اور پرورش کرنے والا) اس کا نام بھی مجھے دیا گیا ہے پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن مَیں ہی ہوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 522

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 522

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/522/mode/1up


اور یہ دعویٰ صرف میری طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے بار بار میرے پر ظاہر کیا ہے کہ جو کرشن آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا تھا وہ تو ہی ہے آریوں کا بادشاہ۔ اور بادشاہت سے مراد صرف آسمانی بادشاہت ہے ایسے لفظ خدا کے کلام میں آجاتے ہیں مگر معنی رُوحانی ہوتے ہیں۔ سو میں اس تصدیق کے لئے کہ وہی کرشن آریوں کا بادشاہ میں ہوں دہلی کے ایک اشتہار کو جو بالم کند نام ایک پنڈت نے ان دنوں میں شائع کیا ہے مع ترجمہ حاشیہ میں لکھتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ ؔ آریہ ورت کے محقق پنڈت بھی کرشن اوتار کا زمانہ یہی قرار دیتے ہیں* ۔اور اس زمانہ میں اس کے آنے کے منتظر ہیں گو وہ لوگ ابھی مجھ کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ


شری نشکلنک بھگوان کا اوتار*

(شری ہنومان جی کی جے)

سنساری پُرشوں کو ودت ہو کہ آج کل جیسے جیسے اوپدرو ہمارے دیش میں ہو رہے ہیں وہ سب کو معلوم ہی ہیں مثلاً استریوں کا بیوہ ہونا اور ساتھ ہی اُن بُری باتوں کا بھی ہونا جن کو بچہ بچہ جانتا ہے اور گھی اور غلّہ وغیرہ کا اس قدر گراں ہونا اور علاوہ اس کے سینکڑوں قسم کی مصیبتیں ہمارے آریہ ورت پر آئی ہوئی ہیں کہ جن کا ذکر بیان سے باہر ہے یہ آپ لوگوں پر خوب روشن ہے کہ جو طاقت آپ کے پتا و دادا میں تھی وہ اب آپ میں کہاں۔ اور آپ میں جو حوصلہ طاقت و بدھی ہے وہ آپ کی اولاد میں ہے یا کچھ آئندہ ہو جانے کی امید ہے۔ بس اے سجنو! اگر آپ لوگوں کو اس مہاکشٹ سے چھٹنے کی خواہش ہے اور نراکار وسا کار کی ایکتا اور پرماتما میں پریم اور بھگتی بڑھانے کی خواہش ہے تو شری نشکلنک جی مہاراج کا ضرور سُمرن و دھیان کیجئے۔ کیونکہ ایشور پرماتما ہمیشہ بھگتوں کے بس میں ہوتے ہیں۔ اُن کو اپنے بھگتوں کو سُکھ دینے کی ہی اِچھا یعنی خواہش رہتی ہے وہ ضرور پرگھٹ ہو کر حال میں ہی ان سب اوپدروں اور دُشٹوں کو ناش کریں گے۔ اگر کسی سجن کو یہ خیال ہووے کہ ابھی کلجگ کا پرتھم چرن ہی ہے اور مہاراج جی کا جنم کلجگ کے انت میں لکھا ہے توآپ غور کیجئے کہ اس سے زیادہ اور کیا کلجگ پرتیت ہوگا کہ استریاں اپنے پتیوں کو چھوڑ کر دوسروں پر نگاہ رکھیں۔ اور اولاد اپنے والدین کی وفاداری میں نہ رہیں۔ اور والدین اپنی اولاد کو اولاد کی طرح نہ سمجھیں۔ یہاں تک کہ آج کل سب ہی چیزیں اپنے اپنے دھرموں سے پھری ہوئی ہیں۔ اب کوئی صاحب یہ فرماویں کہ ابھی شاستر دوارا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 523

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 523

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/523/mode/1up


مجھے ؔ شناخت کر لیں گے کیونکہ خدا کا ہاتھ اُنہیں دکھائے گا کہ آنے والا یہی ہے۔

پھر میں اپنے مقصد کی طرف رجوع کرکے لکھتا ہوں کہ چونکہ میں آخری خلیفہ ہوں اس لئے


بقیہ حاشیہ

وقت نہیں ودت ہوتاہے تو بھائی پیارے بھگتو! نرسی جی کا بہات بھرنا بھی پہلے کسی شاستری جی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ شری کرشن چندر مہاراج ایسا بھات دیو یں گے اور اسی طرح سینکڑوں بھگتوں کے کارکاج سُدھ کر دیئے جیسا کہ پہلا و بھگت کے اُبھارنے کو کہیں ساعت اور تتھی نہیں لکھی تھی جب نرسنگھ جی پرگھٹ ہو چکے اور دیت راج کو مار چکے تب ہی تو معلوم ہوا کہ نارائین جی نے اپنے بھگت کے اُبھارنے کے واسطے اُتار لیا ہے۔ اس سبب سے ان کلگی بھگوان مہاراج کا پرگھٹ ہونا۔ مانو سنسار کے سُکھ کا مول ہوگا۔ جس طرح بھگوان سورج نارائن کا اودے ہونا سب دنیوی کاروبار و دیگر مخلوقات کے سکھ کا مول ہوتا ہے کیونکہ آنکھوں سے دکھلائی تب ہی دیتا ہے جبکہ اندھیرا دور ہوتا ہے۔ پیارے مترو سچی پرستی اور بھگتی کا تجربہ ایشور کے درشن ہی کرنے کا ہے جیسا کہ شری شوجی مہاراج نے کہا ہے اگ جگ میں سب رہت وراگی۔ پریم سے پربھو پر گھٹیں جمی آگی۔ اپنے شاستروں کے سچے تجربہ کو سچی پریت سے پرتیت کرو کہ کہاں پیدا ہوئے۔ ہے بدھی والو غور سے سوچو کہ(دوس تہان جہان بھانو پرکاشو) سنبھل وہی ہے جہاں نشکلنکؔ جی پرگھٹ ہوں۔ ہے سجنو! مہاتماؤ ! پنڈتو! میرے اس تھوڑے لکھے کو بہت جانو کیونکہ عقلمندوں کو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اب ایشور مہاراج سے بھی پرارتھنا ہے کہ آپ جلدی پر گھٹ ہو کر اپنے بھگتوں کو بچاؤ اور اس مایا روپی جال سے نکالو۔ ورنہ سنسار سب کچھ گیا ہوا ہی ہے اگر میری اس میں کوئی غیر مناسب بات یا بھول ہووے اپنا بچہ سمجھ کر معاف فرما ویں۔

المشتہر بالمکندجی کونچہ پاتی رام دہلی

ترجمہ اس اشتہار کایہ ہے

بے عیب (معصوم) بھگوان کا اوتار

یعنی

مَعْصُوْم خَلِیْفَۃُ اللّٰہ

اہل دنیا کو واضح ہو کہ آج کل جیسی جیسی بدیاں ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں مثلاً عورتوں کا بیوہ ہونا اور ساتھ ہی ان بُری باتوں کا بھی ہونا جن کو بچہ بچہ بھی جانتا ہے اور غلّہ اور گھی وغیرہ کا اس قدر گراں ہونا اور علاوہ اس کے سینکڑوں قسم کی مصیبتیں ہمارے آریہ ورت (ہندوستان) پر آئی ہوئی ہیں کہ جس کا ذکر بیان سے باہر ہے۔ یہ آپ لوگوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 524

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 524

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/524/mode/1up


جیساؔ کہ تمام نبی لکھ چکے ہیں میرے وقت میں انواع اقسام کے عجائب نشان اور قہری تجلّیات کا ظہور ضروری تھا سو ضرور ہے کہ میں اُس وقت تک زندہ رہوں کہ جب تک قہری نشان اور عجائبات


بقیہ حاشیہ

پر خوب روشن ہے کہ جو طاقت آپ کے آباؤ اجداد میں تھی وہ اب آپ میں کہاں اور آپ میں جو حوصلہ طاقت اور عقل ہے وہ آپ کی اولاد میں ہے؟ یا کچھ آئندہ ہو جانے کی امید ہے! پس اے دوستو! اگر آپ لوگوں کو اس درد عظیم سے نجات پانے کی خواہش ہے تو بے عیب خلیفۃ اللہ مہاراج کا ضرور خیال اور دھیان کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے راستباز بندوں کے حامی ہوتے ہیں ان کو اپنے برگزیدہ بندوں کو ہمیشہ راحت پہنچانے ہی کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اسی زمانہ میں ظاہر ہو کر تمام بدیوں اور بد کرداروں کو ہلاک کریں گے۔ اگر کسی دوست کو یہ خیال ہووے کہ ابھی کلجگ (زمانہ کذب و افترا) کا پہلا ہی دور ہے اور مہاراج کا جنم کلجگ کے آخرمیں لکھا ہے تو آپ غور کریں کہ اس سے زیادہ اور کیا کلجگ ظاہر ہوگا کہ عورتیں اپنے شوہروں کو چھوڑ کر دوسروں پر نظر رکھتی ہیں اور اولاد اپنے والدین کی فرمانبرداری اور وفاداری میں نہ رہیں اور والدین اپنی اولاد کو اولاد کی طرح نہ سمجھیں یہاں تک کہ سب ہی چیزیں اپنے اپنے مذہب سے پھری ہوئی ہیں۔ اب کوئی صاحب یہ فرماویں کہ ابھی شاستر کے موافق وقت نہیں معلوم ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بھائی پیارے دوستو! نرسی جی (ایک برگزیدہ بندۂ خدا) کا ؔ ظہور بھی پہلے کسی عالم کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ شری کرشن جی مہاراج ایسا ظہور کریں گے اور اسی طرح سینکڑوں برگزیدہ بندگانِ خدا کی حمایت اور نصرت کی گئی جیسے کہ پہلاد بھگت کی حمایت اور نصرت کا کوئی وقت اور تاریخ لکھی نہ گئی تھی مگر جب نرسنگھ جی ظاہر ہو چکے اور دیت راج کو مار چکے تب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کی حمایت کے واسطے ظہور فرمایا ہے اسی طرح پر کلگی بھوان مہاراج کا ظہور ہے اور وہ کل دنیا کے آرام کا باعث ہوا ہے اور اسی سے کام کاج چلتا ہے کیونکہ آنکھوں سے اسی وقت دکھائی دیتا ہے جب اندھیرا دور ہو جاوے۔ پیارے دوستو! سچی عبادت اور محبت الٰہی تب ہی ہوتی ہے جب اللہ تعالیٰ کو انسان گویا دیکھ لے۔ جیسا کہ شیوجی مہاراج نے فرمایا ہے کہ ’’آگ کل دُنیا میں رہتی ہے اور جس طرح پر رگڑ سے وہ پیدا ہوتی ہے اسی طرح پرمیشر کا حال ہے۔ جب انسان اس سے محبت کرتا ہے تو اُس کا ظہور ہوتا ہے۔‘‘ اپنی کتابوں کے سچے تجربہ کو سچے یقین سے مان لو اور جوکوئی یہ سوال کرے کہ وہ کہاں پیدا ہوئے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اے عقلمندو! غور کرو کہ اُس کے ظہور کا وہ محل ہے جہاں آفتاب کا ظہور ہوتا ہے (یعنی مشرق میں) سنبھل (وہ جگہ جہاں اس اوتار کا ظہور مانا گیا ہے) وہی ہے جہاں وہ خلیفۃ اللہ ظاہر ہوں۔ دوستو! بزرگو! پنڈتو! میرے اس تھوڑے لکھے کو بہت جانو کیونکہ عقلمندوں کو اشارہ ہی کافی ہے۔اب خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ جلد اپنا ظہور فرما کر اپنے دوستوں کو بچایئے اور اس دنیا کے جال سے نجات دیجئے ورنہ دنیا بگڑ چکی ہے۔ اگر اس میں کوئی امر غیر مناسب ہویا فروگذاشت ہوئی ہو تو آپ معاف کریں۔

المشتھر

بالمکند جی کونچہ پاتی رام دہلی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 525

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 525

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/525/mode/1up


قدرت ظاہر ہو جائیں جب سے دنیا پیدا ہوئی یہ زمانہ کسی نے نہیں دیکھا یہ خدا کے فرشتوں اور شیاطین کا آخری جنگ ہے اور دراصل یہ آتشی گولہ بھی جو جا بجا نمودار ہوا ہے اسی جنگ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اگرچہ پہلے اِس سے معمولی طور پر شہاب ثاقب ٹوٹا کرتے تھے لیکن آج تک دنیا میں یہ خوفناک نظارہ نہیں دیکھا تھا۔ اس قدر خوفناک انگار جو برسائے گئے یہاں تک کہ بعض لوگ ان کے نظارہ سے بیہوش ہو گئے یہ امرصاف دلالت کرتا ہے کہ اب بڑے بڑے شیطانوں کی ہلاکت کا وقت آگیا ہے چنانچہ تھوڑے دنوں کے بعد دنیا خود دیکھ لے گی کہ ان آتشی انگاروں کے کیسے معنی ظاہر ہوتے ہیں۔

اب ؔ میں قبل اس کے کہ اس آتشی انگار کے بارہ میں دوسرے لوگوں کی شہادت پیش کروں وہ بیان لکھتا ہوں کہ جو اخبار انگریزی سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور نے پرچہ ۳؍اپریل ۱۹۰۷ء میں اِس گولہ کی نسبت لکھا ہے اور وہ یہ ہے ۔

کئی نامہ نگاروں نے ہمیں اِس شہاب کے متعلق خطوط لکھے ہیں جو اتوار کی شام کو پونے پانچ بجے کے قریب دیکھا گیا۔ یہ نہایت چمکدار تھا اور لاہور میں جب یہ گرتا دیکھا گیا تو اس کے پیچھے ایک بہت لمبی دوہری دھار ایسی تھی جیسے دُھواں ہوتا ہے۔ راولپنڈی میں یہ جنوب مشرق کی طرف نظر آیا۔ اس وقت دھوپ نہایت تیز تھی۔ ہمارے بعض نامہ نگار یہ دریافت کرتے ہیں کہ آیا اس سے پہلے بھی کبھی کوئی ایسا شہاب دیکھا گیا ہے جو اِن حالات کے ماتحت نظر آیا ہو۔ اوربعض یہ لکھتے ہیں کہ اگر غروب آفتاب کے بعد یہ واقعہ دیکھا جاتا تو اس کی چمک واقعی بے نظیر ہوتی۔ (سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۳؍اپریل ۱۹۰۷ء)

اِسی طرح اخبار آرمی نیوز لدھیانہ مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۰۷ء کے صفحہ ۱۱ کالم ۳ میں اسی شہاب کی نسبت لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ شہاب ثاقب ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو قریباً۳ بجے بعددوپہر آسمان سے نازل ہوا جو درج ذیل کرتا ہوں۔ موضع پنوانہ تحصیل پسرور میں گاؤں کے گوشہ جنوب و مغرب میں کوئی ۲/۱ میل کے فاصلہ پر ایک ستارہ ٹوٹا جو کہ آسمان سے ٹوٹتے ہی آگ کی شکل میں ہو کر قریباً ۲۵ گز لمبائی میں جنگل سے گاؤں کی طرف بڑھا۔ گاؤں سے ۱۴ میل کے فاصلہ پر ہندوؤں کا سمسان ہے اس میں ایک کیکر کا درخت ہے اس درخت پر کوئی دس گز اوپر وہ آگ ۵ منٹ تک لہراتی رہی بعد ازاں سفید رنگ میں بدل کر اتنی موٹی ہو گئی جیسے ایک موٹا بانس ہوتا ہے ۵ منٹ کے بعد وہ آگ تین ٹکڑوں میں منقسم ہو گئی جس کے ٹوٹنے کی آواز کئی توپوں کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 526

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 526

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/526/mode/1up


آواز کے برابر تھی جس سے تمام جنگل اور گاؤں گونج اُٹھا۔ اور وہ آگ اسی مرگھٹ میں اُس درخت پر غائب ہو گئی۔ بعد ازاں کوئی ۲۱ ۴ بجے شام کا وقت تھا۔ پھر ایک ستارہ اُس گاؤں کے جانب شمال میں قریباً۳۴ میل پر جنگل میں ٹوٹا اِس کی شکل بھی پہلے کی سی تھی مگر اس کی آواز ٹوٹتے ہی اتنی ہوئی جیسے ایک توپ چلتی ہے۔ سب لوگوں کی نگاہیں اسی میں تھیں۔ میں خود اس وقت گاؤں سے باہر ۱۴ میل کے فاصلہ پر جانب شمال میں کھڑا تھا۔ آواز کے آتے ہی جو دیکھا کہ ایک آگ سی جیسی بجلی چمکتی ہے گاؤں کی طرف بڑھتی ہوئی دیکھی گئی۔ گاؤں کے پاس ایک جوہڑ ہے وہاں تک میں نے خود جاتی دیکھی مگر بعد ازاں لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ گاؤں میں آکر دھوئیں کی شکل میں بدل کر کچھ تو گاؤں میں غائب ہو گئی اور کچھ آگے کو چلی گئی۔ بعد ازاں شام کا وقت تھا۔سورج غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا پھر ایک گول شکل کی آگ موضع رندہاوہ (جو جانب شمال غرب پنوانہ کے واقعہ ہے) کی طرف سے آتاہوا دکھائی دیا اور گاؤں سے آگے نکل گیا اور سُنا گیا ہے کہ یہ گول آگ بھی ایک ستارہ تھا جس کی ۶ میل تک تو یہی خبر ہے کہ ہمارے بھی آگے سے آیا اور آگے معلوم نہیں کہاں تک گیا۔ سُنا گیا ہے کہ موضع جودہالہ تحصیل پسرور میں جو کہ پنوانہ سے چار میل پر ہے وہاں ایک چارہ کے کھیت میں اس کا کچھ حصہ گرا جس سے چارہ کھیت کا جل گیا مگر یہ خبر کچھ معتبر نہیں ہے معلوم نہیں کہ یہ کیا رنگ خدا کا ہے۔

پھر اسی اخبار آرمی نیوز میں اسی جگہ لکھا ہے کہ واقعہ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء کو ضلع جہلم تحصیل پنڈداد نخاں موضع چک شادی میں قریب ۱۲ بجے دن کے آسمان پر قریب ۴ فیٹ لمبے اور ۲ فیٹ گول برنگ سُرخ فاصلہ ۱۲ میل پر دو آتشی گولے گِرے اور گرتے ہی غائب ہو گئے۔

نقشہ خطوط جو بطور شواہد متعلق پیشگوئی پچیس۲۵ یوم (جو ایک ہولناک تعجب انگیز گولہ آسمانی کا نشان ظاہر ہونے پر مشتمل تھی جو ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء کو بوقت عصر ظاہر ہوا) موصول ہوئے۔

نمبر شمار

تاریخ روانگی خطوط

نام فریسندہ

نام موضع

نام تحصیل

ضلع

خلاصہ مضمون خط

(۱)

۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء

سید احمد علی شاہ سفید پوش

مالو مہی

پسرور

سیالکوٹ

آج بوقت ۴ بجے شام مورخہ ۳۱؍مارچ ۰۷ء نشان آسمانی دیکھا جو تمام عمر میں نہیں دیکھا تھا جنوب کی طرف سے شمال کی طرف کو چھوٹا سا ٹکڑا آگ کا معلوم ہوتا (تھا)۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 527

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 527

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/527/mode/1up


نمبر شمار

تاریخ روانگی خط

نام فریسندہ

مقام

ضلع

خلاصہ مضمون خط

قریباً دو فیٹ مربع زمین سے پاؤ میل اونچا اُس کے پیچھے تین رنگ سبز سُرخ گلابی کی دُم تھی۔ مثل دھوئیں کے اور وہ دم برنگ ابر ہوکر کم ہو جاتی تھی اور بارش کی طرف اُس کی تندآواز سُنی جاتی تھی۔ اس انگار کو مرد اور عورت ہندو اورعیسائی اور مسلمان وغیرہ سب نے دیکھا۔ دو میل گاؤں سے قریب شمال کی طرف گیا۔ آواز بمقدار دو توپوں کے اُس میں سے آئی یا جیسے دو گولے۔ پھر دیکھتے دیکھتے غائب ہو گیا۔ حضور کی پیشگوئی پچیس دن والی جو ۷؍مارچ کوکی گئی تھی پوری ہو گئی کیونکہ ۳۱؍مارچ کو یہ تعجب انگیز نظارہ دیکھا گیا۔

نمبر شمار

(۲)

تاریخ روانگی خط

نام فریسندہ

سید عبد الستار شاہ ہاسپٹل اسسٹنٹ

مقام

رعیہ

ضلع

سیالکوٹ

بروزاتوار بوقت ساڑھے چار بجے شام ایک آسمانی نشان یعنی انگار جوبڑے حجم کا تھا دیکھا گیا جو جنوب کی طرف سے آتا اور شمال کی طرف جاتا تھا۔ ہمارے گھر کے متصل درختوں میں سے گذرا۔ سواگز کے قریب لمبا آگ کی طرح چمکتا سخت ہیبت ناک نظر آیا۔ عورتیں دیکھ کر سخت خوفزدہ ہو گئیں۔ درختوں پر چمک سفید تھی اور ہماری طرف آگ کی طرح تھا۔ یکا یک بادل کی طرح بالکل سفید ہو گیا پھر آہستہ آہستہ بہت اونچائی پر چلا گیا۔ پیر کے دن دور دور سے خبر آئی کہ بہت لوگوں نے دیکھا خوفناک ہیبت ناک تھا۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں میں بہت آدمی بیہوش ہو گئے اور اُن کے منہ میں پانی ڈالا گیا تب ہوش آئی۔ جس جس گاؤں میں دیکھا گیا سب کویہی معلوم ہوا کہ اُن کے پاس ہی گرا ہے ۲۵ دن والا الہام پورا ہوا جس میں لکھا تھا کہ ۷؍مارچ سے پچیس۲۵دن تک یا پچیسویں دن کوئی تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آئے گا۔

نمبر شمار

(۳)

تاریخ روانگی خط

۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء

نام فریسندہ

عمر الدین چودھری

مقام

میانوالی

ضلع

سیالکوٹ

خلاصہ مضمون خط

۷؍مارچ ۱۹۰۷ء والی پیشگوئی جس کے ظہور کے لئے پچیس۲۵ دن یا پچیس۲۵ دن تک کی شرط تھی اور جس میں لکھا تھا کہ وہ واقعہ تعجب انگیز اور ہولناک ہوگا۔ آج بفضلہ تعالیٰ وہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ خاکسار معہ چند برادران یعنی جیان نمبردار۔ فضل الٰہی زمیندار، علی بخش زمیندار چند اور احباب مسجد کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ شروع عصر کا وقت تھا آسمان سے ایک آگ کا انگار حجم بقدر بُرج آتش بازی ہمارے موضع سے بطرف مشرق و شمال گرپڑا۔ اتنی تیزآگ تھی کہ دیکھنے والوں نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے۔ ایک دھار دُخان کی آسمان کی طرف ایک ساعت تک قائم رہی۔ اس ہولناک اور تعجب انگیز واقعہ سے مرد و زن متعجب تھے خداوند کریم اپنے مامور پر جو خبر ظاہر کرتا ہے وہ وقت پر پوری ہو جاتی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 528

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 528

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/528/mode/1up


نمبر شمار

(۴)

تاریخ روانگی خط

۳۱مارچ ۱۹۰۷ء

نام فریسندہ

عنایت اللہ رنگریز

مقام ضلع

چونڈہ

ضلع

سیالکوٹ

خلاصہ مضمون

آپ کو مبارک ہو۔ نشان الٰہی جو ۷؍مارچ سے پچیس دن تک پورا ہونے والا تھا وہ ظہور میں آگیا۔ ۳۱؍مارچ کو چار بجے دن کے وقت حسب ذیل مرد مان نے بیان کیا کہ آسمان سے ایک لاٹ بہت روشن نکلی پھر دیکھتے ہی وہ دھواں ہو گیا۔ پھر بادل بن کر گرا۔ گنگا رام اروڑا، دینا ناتھ، بگا کھتری، ٹھاکر داس، رحیم بخش نیلاری، منشی ڈاکخانہ چونڈہ عبد اللہ ٹھیکیدار اور میں نے خود نشان دھوئیں کی حالت میں اُترتا ہوا دیکھا اور میرے چٹھی رسان رام نے بھی دیکھا ہے۔

نمبر شمار

(۵)

تاریخ روانگی خط

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

نام فریسندہ

نبی بخش ولد بھولا شاہ فقیر

مقام ضلع

بوٹر

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون

ایک شعلہ حضور کی پیشگوئی کے عین مطابق ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء کو بروز اتوار چار بجے دن کے وقت جو آتش کا شعلہ معلوم ہوتا تھا قریباً دو گز سے زیادہ لمبا جس کے تین رنگ سُرخ۔ سبز زرد تھے مغرب کی طرف سے نکل کر مشرق کو جاکر غائب ہوا۔ غائب ہونے پر ایک بڑا دھواں ظاہر ہوا توپ جیسی آواز بھی سُنائی دی۔

نمبر شمار

(۶)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

برکت علی سکرٹری میونسپل کمیٹی

مقام ضلع

قلعہ سوبھا سنگھ

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون

کل پانچ بجے کے قریب ایک آسمانی اسرار دیکھا گیا دور دراز تک اس کی شہرت بھی ہو گی یہ ایک آسمانی نشان ہے خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق ۲۵؍ دن کے اندر ظاہر ہوا۔ کیونکہ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء سے جب یہ پیشگوئی کی گئی ۳۱؍ مارچ تک ۲۵؍دن پورے ہو گئے تھے سو پیشگوئی کے مطابق یہ تعجب انگیز واقعہ ۳۱؍مارچ کو ظہور میں آیا۔ الحمدللہ

نمبر شمار

(۷)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

محمد علی شاہ سید مدرس

مقام ضلع

سیدانوالی

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون

۳۱؍مارچ ۵ بجے کے قریب ایک ہیبت ناک اور آتشیں شعلہ جنوب سے شمال کی طرف سرعت سے جاتا ہوا دکھائی دیا۔ الحمدللہ وہ پیشگوئی پوری ہو گئی جس میں لکھا تھا کہ ۷؍مارچ ۱۹۰۷ء سے پچیس دن تک یا پچیسویں دن کوئی تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آئے گا۔

نمبر شمار

(۸)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

محمد الدین اپیل نویس

مقام ضلع

سیالکوٹ

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون

کل قریب ساڑھے تین بجے شعلہ آسمان سے آتے ہوئے نظر آیا۔ زمین اور آسمان کے درمیان ایک ستون دیر تک دکھائی دیا۔ اور خدا نے وہ پیشگوئی پوری کی جس میں لکھا تھا کہ ۳۱؍مارچ تک یا مارچ کے اکتیسویں دن کوئی تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آئے گا۔

نمبر شمار

(۹)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

سید محمد رشید کلرک محکمہ نہر

مقام ضلع

؍؍

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون

کل بوقت عصر شہاب ثاقب ٹوٹا۔ خدا نے وہ پیشگوئی پوری کی جس میں بتلایا گیا تھا کہ ضرور ۳۱؍مارچ کویا ۳۱؍مارچ تک کوئی تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آئے گا۔

نمبر شمار

(۱۰)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

محمد رمضان

مقام ضلع

گولیکی

ضلع

گجرات

خلاصہ مضمون

آتشی انگار سے ۳۱؍مارچ والی پیشگوئی پوری ہوئی۔

نمبر شمار

(۱۱)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

عطاء الٰہی بابو

مقام ضلع

لالہ موسیٰ

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون

تعجب انگیز واقعہ آسمانی انگار نے ۳۱؍مارچ والی پیشگوئی پوری کر دی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 529

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 529

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/529/mode/1up


نمبر شمار

(۱۲)

تاریخ روانگی خط

۳۱مارچ ۱۹۰۷ء

نام فریسندہ

میاں صاحب دین امام مسجد

نام مقام

تہال

ضلع

گجرات

خلاصہ مضمون خط

۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء کو بوقت تخمیناً چار بجے دن کے آپ کے الہام کے مطابق ایک تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آیا یعنی آسمان پر ایک انگار نمودار ہوا جس کے دیکھتے ہی ہزاروں آدمی تعجب میں رہ گئے۔

نمبر شمار

(۱۳)

تاریخ روانگی خط

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

نام فریسندہ

کرم دین مدرس

نام مقام

ڈنگہ

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون خط

خاص ڈنگہ اور نواح ڈنگہ میں ایک شعلہ ناری زمین پر گرا۔ رفتار شعلہ آسمان پر جنوب مغرب سے شمال مشرق کو تھی یہ واقعہ ۳۱؍ مارچ کا ہے اس سے حضور کی پیشگوئی بہت صفائی سے پوری ہو گئی کیونکہ ۳۱ ؍مارچ تک پیشگوئی کی میعاد تھی۔

نمبر شمار

(۱۴)

تاریخ روانگی خط

؍؍

نام فریسندہ

محمد فضل الرحمان

نام مقام

ہیلان

ضلع

؍؍

خلاصہ مضمون خط

۳۱؍ مارچ چار بجے شام چند گولے آگ کے جو آدمی کے سر کے برابر تھے اور دو یا اڑہائی گز اُن کی دُمیں تھیں نہایت ہی مشتعل آسمان سے زمین کی طرف اُترتے ہوئے دکھائی دیئے۔ نہایت ہولناک تعجب انگیز نظارہ تھا بہت سے لوگ خوف کے مارے سہم گئے اور بہت بیہوشی کی حالت میں ہو گئے جو دیر کے بعد ہوش میں آئے۔ اور اس سے حضور کی پیشگوئی واضح طور پر پوری ہو گئی۔

(۱۵)

؍؍

نظام الدین

ادرحمہ

شاہپور

۳۱؍مارچ بوقت عصر مطلع بالکل صاف تھا ناگہاں شعلۂ آتش آسمان پر نمودار ہوا اور آگ کے چنگارے گرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ چونکہ پہلے سے حضور شائع کر چکے تھے کہ ۳۱؍ مارچ کو یا ۳۱؍ مارچ تک کوئی تعجب انگیز واقعہ ظہور میں آئے گا اس لئے یہ پیشگوئی ایسی صاف ہے کہ کوئی اس کو رد نہیں کر سکتا۔

(۱۶)

؍؍

غلام محمد جٹ

گولیکے

گجرات

۳۱؍ مارچ کو آسمان پر ایک ہولناک شعلہ دیکھا گیا پیشگوئی صفائی سے پوری ہوئی۔

(۱۷)

؍؍

نور الدین

کھاریاں

؍؍

مبارک ہو ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی ہولناک شعلۂ آگ سے کھلے طور پر ظہور میں آگئی۔

(۱۸)

؍؍

میراں بخش مدرس

شیخ پورہ

؍؍

۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو بوقت عصر ایک گولہ آتشیں آسمان سے گرا۔ سب کو شمال مشرق کی طرف سے دکھائی دیا۔ ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی صفائی سے پوری ہو گئی۔

(۱۹)

؍؍

غلام قادر

حبونجل

؍؍

بشرح صدر

(۲۰)

؍؍

محمد الدین مدرس

ککرالی

؍؍

۳۱؍ مارچ کو بوقت بعد نماز ظہر ہولناک و تعجب انگیز شعلۂ آتش ہزار ہا لوگوں نے دیکھا۔ اس سے پچیس دن والی پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہو گئی۔

(۲۱)

؍؍

غلام رسول

لنگہ

؍؍

صدر

(۲۲)

؍؍

احمد دین مور

شادیوال

؍؍

۳۱ ؍مارچ کو ایک ہولناک نظارہ آگ آسمانی کا نظر آیا اور اس گاؤں کے لوگوں نے اس کیفیت کو دیکھ کر رات کوتمام گاؤں میں ڈھنڈھورا پٹوایا کہ دن کو سب لوگ ایک کھلے میدان میں جمع ہو کر نفل پڑھیں اور اس طرح پر ۳۱؍ مارچ کی پیشگوئی کے سب لوگ گواہ ہوئے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 530

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 530

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/530/mode/1up


نمبر شمار

تاریخ روانگی خط

نام فریسندہ

مقام

ضلع

خلاصہ مضمون خط

13


226۲۳)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

سلطان علی نمبردار

کھوکر

گجرات

۳۱؍ مارچ کو نہایت ہولناک نظارہ آگ کا آسمان پر دیکھا گیا سبحان اللہ کیسی صفائی سے پیشگوئی پوری ہو ئی۔

(۲۴)

؍؍

شیخ الٰہی بخش تاجر کتب

گجرات

؍؍

۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء وقت ۳ بجے دن کے ایک ٹکڑا آگ کا زمین پر گرتا ہوا معلوم ہوا۔ شہر میں چرچا ہوا لال واری، معین الدین پور، جلال پور وغیرہ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ سب جگہ ہوا اور ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی کھلے کھلے طور پر ظاہر ہو گئی۔

(۲۵)

۳۱ مارچ ۱۹۰۷ء

چودھری محمد

عبد اللہ خان نمبردار

بہلولپور چک ۱۲۷

لائل پور

بذریعہ تار بشارت و مبارک بادی کہ انگار آسمانی سے ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی پوری ہو گئی۔

(۲۶)

؍؍

؍؍

؍؍

؍؍

دوبارہ بذریعہ کارڈ لکھا کہ ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی پوری ہو گئی۔

(۲۷)

؍؍

عبد المجید

مادھوپور

کانگڑہ

بشرح صدر

(۲۸)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

عبد الکریم

ہیڈ گارڈ

کینے

کانگڑہ

ایک تعجب انگیز اور ہولناک انگار نے جو آسمان پر ظاہر ہوا۔ ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی کی سچائی صاف طورپر ظاہر کر دی۔

(۲۹)

۲؍اپریل ۱۹۰۷ء

سید محمد

شاہ نواز

فیروزپور چھاؤنی

فیروزپور

۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی اِس انگار نے ثابت کر دی جو۳۱ ؍مارچ میں دیکھا گیا۔

(۳۰)

؍؍

مولوی

محمد فضل چنگوی

چنگا

راولپنڈی

۳۱ مارچ والی پیشگوئی اس انگار کے ظاہر ہونے سے جو ۳۱؍ مارچ کو دیکھا گیا بڑی صفائی سے ثابت ہوئی۔ سو سو برس کے بوڑھے کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا واقعہ کبھی نہیں دیکھا۔

(۳۱)

؍؍

وارث علی خان

قورم گوجر

؍؍

جس نشان کا ۳۱؍ مارچ کو پورا ہونے کا وعدہ دیا گیا تھا وہ آسمانی انگار سے پورا ہو گیا جو وحشت خیز اور تعجب انگیز تھا جو دید شنید سے بالا تر تھا۔

(۳۲)

؍؍

عبد المجید خان نائب مہتمم اصطبل

کپورتھلہ

کپورتھلہ

جو ایک تعجب انگیز واقعہ کی خبر دی گئی تھی کہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۰۷ء کو ظاہر ہوگا۔ وہ پیشگوئی ایک انگار آسمانی کے پیدا ہونے سے پوری ہو گئی جو ۳۱؍ مارچ کو آسمان پر نمودار ہوا بہت سے آدمی اُس کو دیکھ کر بیہوش ہو گئے بعض سجدہ میں گر گئے۔

(۳۳)

؍؍

عنایت اللہ احمدی

بوچال کلاں

جہلم

مبارک ہو کہ وہ نشان جس کی ۳۱؍ مارچ کو ظاہر ہونے کی خبر دی گئی تھی ایک آسمانی انگار کے ظہور سے پورا ہو گیا جسکا ایک تعجب انگیز نظارہ تھا۔

(۳۴)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

حیات محمد کنسٹیبل پولیس

جہلم

جہلم

اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ جس نشان کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی کہ ۳۱؍ مارچ یا مارچ کے اکتیسویں دن پورا ہوگا وہ نشان آسمانی انگار کے ظہور سے ظاہر ہو گیا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 531

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 531

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/531/mode/1up


نمبر شمار

تاریخ

نام فریسندہ

مقام

ضلع

خلاصہ مضمون خط

(۳۵)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

کرم داد احمدی

دوالمیال

جہلم

حضور کو ہزار مبارک ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہوئی۔ شام کے قریب ۳۱؍ مارچ کو آسمان پر ایک ہولناک آگ دکھائی دی جس نے ایمان زیادہ کیا۔

(۳۶)

۳۱؍مارچ

محمد جان شیخ

وزیر آباد

گوجرانوالہ

حضور کو مبارک ہو۔ ۳۱؍ مارچ میں جو ایک تعجب انگیز واقعہ کے ظاہر ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ وہ واقعہ ۳۱؍ مارچ کو ظہور میںآگیا اور ایک تعجب انگیز آگ آسمان پر دیکھی گئی۔

(۳۷)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

جیون خان بھٹی

؍؍

؍؍

مبارک ہو ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی پوری ہوئی ہزاروں آدمیوں نے ۳۱؍ مارچ کو انگار آسمانی دیکھا۔

(۳۸)

۳ ؍؍

فضل الٰہی

اور سیئر

ڈاک لائن

گورداسپور

گورداسپور

۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی پوری ہو گئی اور اس ستارہ کی چمک سے ایک آدمی گورداسپور کے تالاب میں جو متصل تحصیل ہے غرق ہوا۔ بازاروں اور گاؤں گاؤں میں اس الہام کا چرچہ ہے۔

(۳۹)

۲ صدر

شیخ رحیم بخش تاجرکتب

جموں

جموں

بڑی صفائی سے ۳۱؍ مارچ والی پیشگوئی پوری ہو گئی آسمانی انگار کو ایک دنیا نے دیکھا۔

(۴۰)

۳۱ ؍مارچ

شیخ محمد تیمور طالب علم

؍؍

؍؍

خدا کا شکر ہے کہ ۳۱؍ مارچ کی پیشگوئی بڑی صفائی سے پوری ہوئی اور جیسا کہ بیان کیا گیاتھا ۳۱؍ مارچ کو ایک ہولناک اورتعجب انگیز آسمان پر انگارۂ آگ ظاہر ہوا۔

(۴۱)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

رحمت اللہ احمدی

بنگہ

ہوشیارپور

۳۱؍ مارچ کو نہ صرف آتشی گولہ دکھائی دیا بلکہ بعض جگہ سیاہ بارش کی بوندیں برسیں۔ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ مبارک ہو۔

(۴۲)

۲ صدر

سید امیر علی

شاہ صاحب

سب انسپکٹر پولیس

جلال آباد

فیروزپور

۳۱؍ مارچ کو آسمان پر ایک ہولناک آگ دکھائی دی جس کو ہزاروں انسانوں نے دیکھا خدا کی پیشگوئی جیسا کہ بیان کیا گیا تھا ویسا ہی پوری ہو گئی۔

(۴۳)

یکم ؍؍

نظام الدین

جوڑہ

لاہور

مبارک ہوحضور کی پیشگوئی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی۔ ۳۱؍ مارچ کو جس میں ایک ہولناک اورتعجب انگیز واقعہ کے ظہور کی نسبت خبر دی گئی تھی آگ کا شعلہ ظاہر ہوا۔ جو نہایت ہولناک تھا۔

(۴۴)

۲ صدر

محمد اسمٰعیل

بیدادپور

؍؍

مبارک ہو وہ پیشگوئی پوری ہو گئی جس کی نسبت یہ خبر دی گئی تھی کہ ۳۱؍ مارچ کو ایک ہولناک اورتعجب انگیز واقعہ ظہور میں آئے گا چنانچہ وہ واقعہ یہی تھا کہ آسمان پر ایک انگار دیکھا گیا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 532

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 532

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/532/mode/1up


نمبر شمار

تاریخ خط

نام فریسندہ خط

مقام

ضلع

خلاصہ مضمون خط

(۴۵)

یکم اپریل ۱۹۰۷ء

محمد علی مدرس

تلونڈی موسیٰ خان

سیالکوٹ

۳۱؍ مارچ کی نسبت جو پیشگوئی تھی صفائی سے پوری ہو گئی ہر ایک زبان اقرار کرتی ہے کہ آسمانی انگارجو۳۱؍ مارچ کو ظہور میں آیا اس سے پیشگوئی کی سچائی ثابت ہو گئی۔

(۴۶)

۵؍صدر

سید قاسم شاہ

معین الدین پور

گجرات

تصدیق بشرح صدر

(۴۷)

۳؍ ؍؍

عبد اللہ حکیم

راہوں

جالندھر

؍؍ آسمان اے غافلو اب آگ برسانے کو ہے

)۴۸)

؍؍ ؍؍

عبد العزیز احمدی

درگاہی والہ

گوجرانواالہ

؍؍

)۴۹)


میاں محمد دین

سیالکوٹ

؍؍

؍؍

(۵۰)

۳؍ ؍؍

غلام احمد

کریام

؍؍

؍؍

(۵۱)

؍؍

محمد حسین کلارک

آدوارے

گوجرانوالہ

؍؍

(۵۲)


عنایت اللہ

کنجاہ

گجرات

؍؍

ترجمہ از اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۶؍اپرپل ۱۹۰۷ء

ایک نامہ نگار انگریز سول اینڈ ملٹری گزٹ کی طرف لکھتا ہے کہ جناب آیتوار کی شام کوچار اور پانچ بجے کے درمیان میں نے ڈلہوزی سے شمالی جانب ایک ایسا ہی شہاب دیکھا جیسا آپ کے اخبار مورخہ ۳؍اپریل سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی دن اور اسی وقت لاہور میں دیکھا گیا تھا ایک خرطومی شکل کا دُخانی ستون جس کا باریک حصہ نیچے کی طرف تھا۔ ڈلہوزی سے کوئی بیس میل کے فاصلہ پر اُٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کی اونچائی سطح ڈلہوزی سے بلند تھی۔ اور اسکی چمک سے پہاڑ کی برف زرد رنگ ہو گئی تھی۔ یہ واقعہ ایسا تعجب انگیز تھاکہ میں دور بین لے کر اُسے زیادہ زور سے دیکھنے لگا۔ پہلے میں نے یہ خیال کیا کہ جنگل میں کہیں آگ لگ گئی ہے اور یہ اُس کا دھواں ہے مگر فوراًمجھے یہ خیال آگیا کہ اس موسم میں جنگل میں آگ نہیں لگ سکتی اور علاوہ اس کے جنگل کی آگ کا دھواں صرف ایک جگہ سے نہیں اُٹھا کرتا بلکہ بہت جگہوں سے اُٹھتا ہے یہ قدرت نمائی پنجاب میں تین جگہ ہوئی جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ شعلہ ایک نہ تھا بلکہ بہت سے شعلوں کی ایک بوچھاڑ تھی اور ہر ایک شہاب کے ساتھ بہت سے چھوٹے ٹکڑے تھے جو کہ کسی نے نہیں دیکھے (۲) بہت سے خطوط سے جو ہمارے پاس آئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ آیتوار کا شعلۂ آتش پٹیالہ سے جہلم تک دیکھا گیا تھا۔ ایک نامہ نگار لکھتا ہے کہ جموں میں اُس کے ساتھ ایک توپ کی آواز تھی کپورتھلہ سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ زمین سے آسمان تک آگ کا ایک ستون نظر آتا تھا جس سے اُس قصہ پر روشنی پڑتی ہے جو یعقوب کی سیڑھی کے متعلق مروی ہے۔ رعیہ میں ۴ آدمی دہشت سے بیہوش ہو گئے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 533

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 533

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/533/mode/1up


چمکتاؔ ہوا نشان

نمبر ۱۹۸

بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ پنشنر لاہور جھوٹا موسیٰ مر گیا۔

ناظرین آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ایک شخص الٰہی بخش نام جو لاہور میں اکونٹنٹ تھا وہ اس زمانہ میں جب کہ میں نے خدا تعالیٰ سے وحی پاکر اس بات کو ظاہر کیا کہ میں مسیح موعود ہوں مجھ سے برگشتہ ہو کر اس بات کا مدعی ہوا کہ میں موسیٰ ہوں۔ اس بات کی تفصیل یہ ہے کہ مدت دراز سے الٰہی بخش مذکور میرے ساتھ تعلق ارادت رکھتا تھا اور بارہا قادیان میں آیا کرتا تھا اور مجھ کو ایک سچا ملہم خدا تعالیٰ کی طرف سے جانتا تھا اور خدمت کرتا تھا۔ بعض دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ صبح کے وقت نماز کے بعد بمقام امرت سر میں سوتا تھا اور میرے منہ پر چادر تھی۔ تب ایک شخص آیا اور اُس نے میرے پاؤں دبانے شروع کر دئے۔ جب میں نے چادر اُٹھاکر دیکھا تو وہی الٰہی بخش تھا۔ اس تحریر سے غرض یہ ہے کہ اس حد تک اُس کا اخلاص پہنچ گیا تھا کہ کسی نوع کی خدمت سے وہ ننگ اور عار نہیں رکھتا تھا اور نہایت انکسار سے معمولی خدمت گا روں کی طرح اپنے تئیں تصور کرتا تھا اور مالی خدمت میں بھی حتی المقدور اپنے دریغ نہیں کرتا تھا۔ جب تک خدا نے چاہا وہ اسی مخلصانہ حالت میں رہا اور مجھ کو بڑی امید تھی کہ وہ اپنے اخلاص میں بہت ترقی کرے گا۔ اور جب میں قادیان سے کسی تقریب سے لدھیانہ یا انبالہ یا کسی اور جگہ جاتا تھا تو بشرط گنجائش اور فرصت نکلنے کے اُسی جگہ پہنچتا تھا اور اکثر اوقات اُس کا رفیق منشی عبد الحق اکونٹنٹ بھی اُس کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر اُس کو کچھ مدت کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھ کو الہام


Ruhani Khazain Volume 22. Page: 534

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 534

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/534/mode/1up


ہوتاہے اور یہی ایک زہریلہ بیج تھا کہ قضا و قدر نے اس میں بودیا۔ پھر اس کے بعد

اندرؔ ہی اندر اُس کی مخلصانہ حالت میں کچھ تغیر ہوتا گیا اور پھر جس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے لوگوں سے بیعت لینے کے لئے مامور فرمایا اور قریباً چالیس۴۰ آدمی یاکچھ زیادہ بیعت میں داخل ہوئے اور عام طور پر خدا تعالیٰ کے حکم کے موافق ہر ایک کو سنایا کہ جو شخص ارادت رکھتا ہے وہ بیعت میں داخل ہو تب اس بات کو سنتے ہی الٰہی بخش کا دل بگڑ گیا اور وہ کچھ مدت کے بعد مع اپنے دوست منشی عبد الحق کے قادیان میں میرے پاس آیا اس غرض سے کہ تا اپنے الہام سناوے اور اب کی دفعہ اُس کی مزاج میں اس قدر سختی ہو گئی تھی کہ گویا وہ اور ہی تھا الٰہی بخش نہیں تھا۔ اُس نے بے باکی سے اپنے الہام سنانے شروع کئے اور وہ ایک چھوٹی سی بیاض میں لکھے ہوئے تھے جو اُس کی جیب میں تھی۔ منجملہ اُن کے اُس نے یہ سُنایا کہ خواب میں میں نے دیکھا ہے کہ آپ مجھے کہتے ہیں کہ میری بیعت کرو اور میں نے جواب دیا کہ میں نہیں کرتا بلکہ تم میری بیعت کرو۔ اس خواب کی وجہ سے وہ سر سے پیر تک تکبر اور غرور سے بھر گیا اور یہ سمجھا کہ میں ایسا بزرگ ہوں کہ مجھے بیعت کی حاجت نہیں بلکہ اُن کو میری بیعت کرنی چاہئے مگر دراصل یہ شیطانی وسوسہ تھا کہ اُس کی ٹھوکر کا باعث ہوا۔ بات یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں تکبر اور انکار مخفی ہوتا ہے تو وہی انکار حدیث النفس کی طرح خواب میںآجاتا ہے اور ایک نادان سمجھتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے حالانکہ وہ انکار محض اپنے مخفی خیالات سے پیدا ہوتا ہے خدا سے اُس کو کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ پس صدہا جاہل محض اس حدیث النفس سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ غرض الٰہی بخش نے نہایت شوخی اور بے باکی سے وہ خواب مجھ کو سنائی اور مجھ کو اُس کی نادانی پر افسوس آتا تھا کیونکہ میں یقیناًجانتا تھا کہ جو کچھ وہ سُنارہا ہے وہ صرف حدیث النفس ہے۔ مگر چونکہ میں نے اُس کے دل میں تکبرمحسوس کیا اور نخوت اور خود بینی کے علامات دیکھے اور اُس کے کلمات میں تیزی پائی گئی اس لئے میں نے اُس کو نصیحت کے طور پر کچھ کہنا بے سود سمجھا۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ اکثر لوگ ہر ایک بات کو جو غنودگی کی حالت میں اُن کی زبان پر جاری ہوتی ہے خدا کا کلام قرار دیتے ہیں اور اس طرح پر آیت کریمہ3 ۱؂ کے نیچے اپنے تئیں داخل کر دیتے ہیں اور یاد رکھنا چاہئیے کہ اگر کوئی کلام زبان پر جاری ہو اور قال اللہ وقال الرسول سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 535

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 535

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/535/mode/1up


مخالفؔ بھی نہ ہو تب بھی وہ خدا کا کلام نہیں کہلا سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فعل اُس پر گواہی نہ دے کیونکہ شیطان لعین جو انسان کا دشمن ہے جس طرح اور طریقوں سے انسان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اسی طرح اُس مُضلّ کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اپنے کلمات انسان کے دل میں ڈال کر اس کو یہ یقین دلاتا ہے کہ گویا وہ خدا کا کلام ہے اور آخر انجام ایسے شخص کا ہلاکت ہوتی ہے۔

پس جس پر کوئی کلام نازل ہو جب تک تین۳ علامتیں اس میں نہ پائی جائیں اُس کو خدا کا کلام کہنا اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

اوّ۱ل۔ وہ کلام قرآن شریف سے مخالف اور معارض نہ ہو مگر یہ علامت بغیر تیسری علامت کے جو ذیل میں لکھی جائے گی ناقص ہے بلکہ اگر تیسری علامت نہ ہو تو محض اس علامت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔

دو۲م۔ وہ کلام ایسے شخص پر نازل ہو جس کا تزکیہ نفس بخوبی ہو چکا ہو اور وہ اُن فانیوں کی جماعت میں داخل ہو جو بکلّی جذبات نفسانیہ سے الگ ہو گئے ہیں اور اُن کے نفس پر ایک ایسی موت وارد ہو گئی ہے جس کے ذریعہ سے وہ خدا سے قریب اور شیطان سے دور جا پڑے ہیں کیونکہ جو شخص جس کے قریب ہے اُسی کی آواز سنتا ہے پس جو شیطان کے قریب ہے وہ شیطان کی آواز سنتا ہے اور جو خدا سے قریب ہے وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور انتہائی کوشش انسان کی تزکیۂ نفس ہے اور اُس پر تمام سلوک ختم ہو جاتا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ ایک موت ہے جو تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دیتی ہے۔ پھر جب انسان اپنا سلوک ختم کر چکتا ہے تو تصرفات الٰہیہ کی نوبت آتی ہے تب خدا اپنے اس بندہ کو جو سلب جذبات نفسانیہ سے فنا کے درجہ تک پہنچ چکا ہے۔ معرفت اور محبت کی زندگی سے دوبارہ زندہ کرتا ہے اور اپنے فوق العادت نشانوں سے عجائبات روحانیہ کی اُس کو سیر کراتا ہے اور محبت ذاتیہ کی وراء الوراء کشش اُس کے دل میں بھر دیتا ہے جس کو دنیا سمجھ نہیں سکتی اِس حالت میں کہا جاتا ہے کہ اُس کو نئی حیات مل گئی جس کے بعد موت نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 536

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 536

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/536/mode/1up


پسؔ یہ نئی حیات کامل معرفت اور کامل محبت سے ملتی ہے اور کامل معرفت خدا کے فوق العادت نشانوں سے حاصل ہوتی ہے اور جب انسان اس حد تک پہنچ جاتا ہے تب اُس کو خدا کا سچا مکالمہ مخاطبہ نصیب ہوتا ہے۔ مگر یہ علامت بھی بغیر تیسرے درجہ کی علامت کے قابل اطمینان نہیں کیونکہ کامل تزکیہ ایک امر پوشیدہ ہے اس لئے ہر ایک فضول گو ایسا دعویٰ کر سکتا ہے۔

تیسر۳ی علامت مُلہم صادق کی یہ ہے کہ جس کلام کو وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے خدا کے متواتر افعال اُس پر گواہی دیں یعنی اس قدر اس کی تائید میں نشانات ظاہر ہوں کہ عقلِ سلیم اس بات کو ممتنع سمجھے کہ باوجود اس قدر نشانوں کے پھر بھی وہ خدا کا کلام نہیں اور یہ علامت درحقیقت تمام علامتوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک کلام جو کسی کی زبان پر جاری ہو یا کسی نے بادّعائے الہام پیش کیا ہو وہ اپنے معنوں کی رو سے قرآن شریف کے بیان سے مخالف نہ ہو بلکہ مطابق ہو مگر پھر بھی وہ کسی مفتری کا افتراہو کیونکہ ایک عقلمند جو مسلمان ہے مگر مفتری ہے ضرور اس بات کا لحاظ رکھ لے گا کہ قرآن شریف کے مخالف کوئی کلام بدعوئ الہام پیش نہ کرے ورنہ خواہ نخواہ لوگوں کے اعتراضات کا نشانہ ہو جائے گا۔ اور نیز یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کلام حدیث النفس ہو یعنی نفس کی طرف سے ایک کلمہ زبان پر جاری ہو جیسے اکثر بچے جو دن کو کتابیں پڑھتے ہیں رات کو بعض اوقات وہی کلمات ان کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں۔ غرض کسی کلمہ کا جو بدعوئ الہام پیش کیا گیا ہے قرآن شریف سے مطابق ہونا اس بات پر قطعی دلیل نہیں ہے کہ وہ ضرور خدا کا کلام ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ ایک کلام اپنے معنوں کی رو سے خدا کے کلام کے مخالف بھی نہ ہو اور پھر وہ کسی مفتری کا افترابھی ہو کیونکہ ایک مفتری بڑی آسانی سے یہ کارروائی کر سکتا ہے کہ وہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق ایک کلام پیش کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے اور یا ایسا کلام حدیث النفس ٹھہر سکتا ہے یا شیطانی کلام ہو سکتا ہے۔

ایسا ہی یہ دوسری شرط بھی یعنی یہ کہ جو الہام کا دعویٰ کرے وہ صاحب تزکیۂ نفس ہو



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 537

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 537

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/537/mode/1up


قابلؔ اطمینان نہیں بلکہ ایک پوشیدہ امر ہے اور بہتیرے ناپاک طبع لوگ اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمارا نفس تزکیہ یافتہ ہے اور ہم خدا سے سچی محبت رکھتے ہیں۔ پس یہ امر بھی کوئی سہل امر نہیں کہ اس میں جلد تر صادق اور کاذب میں فیصلہ کیا جاوے یہی وجہ ہے کہ کئی خبیث النفس لوگوں نے اُن برگزیدوں پر جو صاحب تزکیہ نفس تھے ناپاک تہمتیں لگائی ہیں جیسا کہ آج کل کے پادری ہمارے سیّدو مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمتیں لگاتے ہیں اور نعوذباللہ کہتے ہیں کہ آپ نفسانی شہوات کا اتباع کرتے تھے جیسا کہ اُن کے ہزاروں رسالوں اور اخباروں اور کتابوں میں ایسی تہمتیں پاؤگے۔ ایسا ہی یہودی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے ہیں۔ چنانچہ تھوڑی مدت ہوئی ہے کہ میں نے ایک یہودی کی کتاب دیکھی جس میں نہ صرف یہ ناپاک اعتراض تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ کی ولادت ناجائز طور پر ہے بلکہ آپ کے چال و چلن پر بھی نہایت گندے اعتراض کئے تھے اور جو آپ کی خدمت میں بعض عورتیں رہتی تھیں بہت بُرے پیرایہ میں اُن کا ذکر کیا تھا۔ پس جبکہ پلید طبع دشمنوں نے ایسے پاک فطرت اورمقدس لوگوں کو شہوت پرست لوگ قرار دیا اورتزکیہ نفس سے محض خالی سمجھا تو اس سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ تزکیہ نفس کا مرتبہ دشمنوں پر ظاہر ہو جانا کس قدر مشکل ہے چنانچہ آریہ لوگ خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں کو محض مکّا ر اور شہوت پرست قرار دیتے ہیں اور اُن کا دَور مکر و فریب کا دَور ٹھہراتے ہیں۔

لیکن یہ تیسری علامت کہ الہام اور وحی کے ساتھ جو ایک قول ہے اس کے ساتھ خدا کا ایک فعل بھی ہو۔ یہ ایسی کامل علامت ہے جو کوئی اس کو توڑ نہیں سکتا۔ یہی علامت ہے جس سے خدا کے سچے نبی جھوٹوں پر غالب آتے رہے ہیں کیونکہ جو شخص دعویٰ کرے کہ میرے پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ صدہا نشان ظاہر ہوں اور ہزاروں قسم کی تائید اور نصرت الٰہی شامل حال ہو اور اُس کے دشمنوں پر خدا کے کھلے کھلے حملے ہوں پھر کس کی مجال ہے کہ ایسے شخص کو جھوٹا کہہ سکے۔ مگر افسوس کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ اس بلا میں پھنس جاتے ہیں کہ کوئی حدیث النفس یا شیطانی وسوسہ اُن کو پیش آجاتا ہے تو اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ لیتے ہیں اور فعلی شہادت کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 538

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 538

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/538/mode/1up


کچھ ؔ پروا نہیں رکھتے۔

ہاںیہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو کبھی شاذو نادر کے طور پر کوئی سچی خواب آجائے یا سچا الہام ہو جائے مگر وہ صرف اس قدر سے مامور من اللہ نہیں کہلا سکتا اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نفسانی تاریکیوں سے پاک ہے بلکہ اس قدر رؤیا اور الہام میں قریباً تمام دنیا شریک ہے اور یہ کچھ بھی چیز نہیں اور یہ مادّہ کبھی کبھی خواب یا الہام ہونے کا محض اس لئے انسانوں کی فطرت میں رکھا گیا ہے تا ایک عقلمند انسان خدا کے برگزیدہ رسولوں پر بد ظنی نہ کر سکے اور سمجھ سکے کہ وحی اور الہام کا ہر ایک انسان کی فطرت میں تخم داخل ہے پھر اس کی کامل ترقی سے انکار کرنا حماقت ہے۔

لیکن وہ لوگ جو خدا کے نزدیک مُلہم اور مُکلّم کہلاتے ہیں اور مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف رکھتے ہیں اور دعوت خلق کے لئے مبعوث ہوتے ہیں ان کی تائید میں خدا تعالیٰ کے نشان بارش کی طرح برستے ہیں اور دنیا اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی اورفعل الٰہی اپنی کثرت کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ جوکلام وہ پیش کرتے ہیں وہ کلام الٰہی ہے۔ اگر الہام کا دعویٰ کرنے والے اس علامت کو مد نظر رکھتے تو وہ اس فتنہ سے بچ جاتے۔

ایسا ہی اگر الٰہی بخش اس معاملہ میں کچھ سوچتا کہ اُس کی تائید میں خدا تعالیٰ کے نشان کس قدر ظاہر ہوئے اور کس قدر اُس کی تائید اور نصرت ہوئی اور عام لوگوں کی نسبت اُس کو کیا امتیاز بخشا گیا ہے تو وہ اس بلا میں مبتلا نہ ہوتا۔ اب بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی موت کے بعد ایک انبار جھوٹ اور افتراکا چھوڑ گیا۔ میری نسبت وہ یہ الہام پیش کرتا تھا کہ میری زندگی میں یہ شخص طاعون سے ہلاک ہوگا اور اُس کی تمام جماعت منتشر ہو جائے گی سو اُس نے دیکھ لیا کہ وہ خود طاعون سے ہلاک ہوا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں مرے گا جب تک وہ میرا استیصال نہ کر لے مگر اُس نے بچشم خود دیکھ لیا کہ اُس کے جھوٹے الہام کے بعد کئی لاکھ تک میری جماعت پہنچ گئی۔ جب ایسے الہام اُس نے شائع کرنے شروع کئے اُس وقت تو میری جماعت چالیس انسان سے زیادہ نہ تھی اور بعد میں چار لاکھ تک پہنچ گئی اور وہ نہیں مرا جب تک اُس نے اپنی نامُرادی ہر ایک پہلو سے نہ دیکھ لی اور میری کامیابی نہ دیکھ لی اور وہ اپنے جھوٹے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 539

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 539

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/539/mode/1up


الہاؔ موں کے ذریعہ سے ہر ایک مقدمہ میں جو میرے پر دائر ہوتا تھا یہی خیال کرتا تھا کہ میں سزا پاکر عذاب الیم میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ اور ایسے ہی اُس کو الہام ہوتے تھے جن کو وہ اپنے دوستوں میں شائع کرتاتھامگر خدا تعالیٰ ہر ایک مقدمہ میں عزت کے ساتھ مجھے بری کرتا گیا۔ اور سخت نامُرادی کے ساتھ اُس کو موت آئی۔ پس اس میں کچھ شک نہیں کہ جب اُس کو طاعون ہو گئی اور موت کو اُس نے اپنے سامنے دیکھ لیا۔ تب اُس نے اپنے تمام الہاموں کو شیطانی کلمات سمجھا ہوگا اور اُس وقت اُس کو اپنی نسبت یاد آیا ہوگا کہ میں غلطی پر تھا۔یہ بات بالکل غیر معقول اور خلاف قیاس ہے کہ وہ اس قدر ٹھوکریں کھاکر اور وہ طاعون جو میری طرف منسوب کرتا تھا اس میں اپنے تئیں مبتلا دیکھ کر اور میری کامیابیوں کو اپنے آخری دم میں تصور میں لاکر پھر بھی وہ اپنی پہلی حالت پر قائم رہا ہو جب اُس کو یاد آتا ہوگا کہ میں نے موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور اپنی کتاب کانام عصائے موسیٰ رکھا تھا اور یہ تمنا کی تھی کہ یہ عصا اُس شخص کو ہلاک کر دے گا جو مسیح موعود کا دعویٰ کرتا ہے اور جب اُس کو یاد آتا ہوگا کہ مَیں نے اس شخص کی نسبت جو مسیح موعود کا دعویٰ کرتا ہے اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں پیشگوئی کی تھی کہ وہ میری زندگی میں طاعون سے مرے گا اور جب اُس کو یاد آتا ہوگا کہ میں نے اسی کتاب میں پیشگوئی کی تھی کہ میں نہیں مروں گا جب تک اپنے اس دشمن کو نابود نہ کر لوں۔ تو ہر ایک انسان سوچ سکتا ہے کہ اس حالت میں جبکہ طاعون نے اُس کو پکڑا کس قدر درد و حسرت اُس کے دامنگیر ہوتی ہوگی۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ باوجود اس قدر نامرادی کے اور کھل جانے اس بات کے کہ اُس کے سب الہام جھوٹے نکلے پھر بھی طاعون کے وقت اُس کو اپنے موسیٰ ہونے پر یقین تھا؟ نہیں نہیں ہر گز نہیں بلکہ طاعون نے تمام خیالات اُس کے پاش پاش کر دیئے ہوں گے اور متنبہ کر دیا ہوگا کہ وہ غلطی پر تھا۔ چنانچہ اس واقعہ سے بہت پہلے میرے پر خدا نے ظاہر کیا تھا کہ وہ ان خیالات فاسدہ پر قائم نہیں رہے گا اور آخران خیالات سے رجوع کرے گا۔ سو اس میں شک نہیں کہ جب اُس کو ناگہانی طاعون اور بے وقت موت کا نظارہ پیش آیا جس کو وہ خوب جانتا تھا کہ یہ بے وقت اورمیرے دعویٰ کے مخالف ہے تو بلا شبہ اس نظارہ نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 540

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 540

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/540/mode/1up


اسؔ کو یقین دلایا ہوگا کہ اُس کے تمام الہامات شیطانی تھے اس صورت میں لاعلاج حسرت کے ساتھ اُس نے سمجھ لیا ہوگا کہ میں غلطی پر تھا اور جو کچھ میں نے سمجھا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا اور آگے چل کر ہم بیان کریں گے کہ ایسا سمجھنا اُس کے لئے ضروری تھا کیونکہ اس نظارہ موت سے اُس کے الہامی اقوال یک دفعہ ایسے باطل ثابت ہوئے جیسے ناگہانی طور پر ایک دیوار گرتی ہے۔ یہ اُس کے لئے بعید از قیاس تھا کہ میں اس طاعون سے بچ جاؤں گا کیونکہ ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء کو جس تاریخ وہ مرا اور اس سے پہلے ایسی تیز اور مہلک طاعون لاہور میں تھی کہ بعض دنوں دو دوسو سے زیادہ لوگ مرتے تھے اور اُس کا ایک عزیز اُس سے ایک دن پہلے طاعون سے مر گیا تھا جس کے جنازہ پرجاکر وہ طاعون خرید لایا۔ پس اس مہلک بیماری میں کون کہہ سکتا ہے کہ میں بچ جاؤں گا بلکہ ہزار ہا لوگ طاعون میں مبتلا ہوتے ہی پس ماندوں کے لئے وصیّت لکھا دیتے ہیں۔ غرض طاعون میں مبتلا ہونے کے ساتھ ہی اُس کی تمام موسویت دریا بُرد ہو گئی۔ اور اُس نے ہزاروں مرتے ہوئے انسانوں کو یاد کرکے اور خصوصاً یعقوب کی موت کو تصور میں لاکر سمجھ لیا کہ میں ضرور مروں گا ایسی حالت میں کیونکر وہ اس بات پر قائم رہ سکتا تھا کہ میں موسیٰ ہوں۔ پس یہ خدا کا رحم ہے کہ وہ اپنے عقائد فاسدہ کو ساتھ نہیں لے گیا۔ اور خدا نے اُس کا گلا پکڑ کر اُس سے رجوع کرایا۔ اور اُن لوگوں میں داخل ہو گیا جن کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔3 ۱؂

اب اول میں یہ لکھوں گا کہ جن الہامات کو اُس نے اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں لکھا ہے وہ سب کے سب جھوٹے ثابت ہوئے اور بعد میں اس بات کا ثبوت دیا جائے گا کہ وہ میری پیشگوئی کے مطابق مَرا ہے اور اُس کی موت میری سچائی پر ایک نشان ہے بلکہ اُس کی موت نے میری سچائی پر مُہر کر دی ہے۔ اور میں اس بیان کودو باب پر تقسیم کرتاہوں۔

***



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 541

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 541

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/541/mode/1up


باب ؔ اوّل اِس بات کے بیان میں کہ الٰہی بخش

کے وہ تمام الہامات جو میرے مقابل پر اس نے

شائع کئے تھے (اپنی نسبت یا میری نسبت)

وہ سب کے سب جھوٹے نکلے۔


یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ بابو الٰہی بخش نے اپنا نام موسیٰ رکھا تھا اور مجھ کو فرعون قرار دیا تھا اور میرے مقابل پر اپنی کتاب کا نام عصائے موسیٰ رکھا تھا گویا دل میں یہ سوچا تھا کہ اس عصا کے ساتھ اس فرعون کو میں ہلاک کروں گا اور ایک خط بھی میرے نام ارسال کیا تھا جس میں دھمکی دی گئی تھی اور بیان کیا گیا تھا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ یہ شخص کاذب ہے اور اس موسیٰ کے ہاتھ سے اس کا استیصال ہوگا۔ ایسی بہت سی زبانی پیشگوئیاں ان کی ہیں جو صرف اپنے دوستوں یا ملاقاتیوں پر اُس نے ظاہر کی تھیں اور سب کا خلاصہ یہی ہے کہ گویا میں اُس کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جاؤں گا اور وہ مجھ پر غالب آجائے گا اور میں اُس کے سامنے ذلیل ہوں گا اور وہ دُنیا میں بڑا عروج پائے گا* ۔اورموسیٰ نبی کی طرح لاکھوں انسانوں کا سردار بن جائے گا اور افسوس کہ میں نے بہت سی کوشش کی کہ تا اُس کے پوشیدہ الہاموں کا مجھے پتہ لگ جاوے مگر وہ صرف اُس کے دوستوں کے حلقہ تک ہی محدود رہے اور کوئی تحریر جو بطور دستاویز ہو مجھ کو نہ ملی مگر جس قدر کتاب میں اُس نے


* مجھے اپنے دوست فاضل مکرم مولوی نور الدین صاحب کی تحریر سے جماعت غزنوی ثم امرتسری کے ایک بزرگ مولوی عبد الواحد کی ایک خواب بابو الٰہی بخش کی نسبت معلوم ہوئی ہے جس کو میں اپنے الفاظ میں نہیں لکھتا بلکہ مولوی صاحب موصوف کا اصل رقعہ ذیل میں لکھ دیتا ہوں اور وہ یہ ہے۔

حضرت مولاناالامام علیکم الصلوٰۃ والبرکات والسلام۔ مجھے عزیز عبد الواحد الغزنوی نے خط لکھا تھا۔ ہماری جماعت کے لوگوں نے دیکھا ہے الٰہی بخش ایک بلند مینار پر کھڑا ہے اور لوگ اُس کے نیچے ہیں اس لئے اب اُس کی ترقی ہوگی اور بہت الفاظ تھے جومجھے یاد نہیں رہے کیونکہ میں خطوط کو معمولی طور پر پڑھتا ہوں اورپھر محفوظ نہیں رکھتا۔ میں نے الٰہی بخش کے مرنے پر عبدالواحد کو اس مضمون کا خط لکھ دیا ہے تو جواب اب تک نہیں آیا جس قدر مضمون یقینی طور پر یاد ہے یہ ہے

شہادۃ باللہ العظیم۔ عرض خدمت ہے۔ نور الدّ ین۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 542

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 542

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/542/mode/1up


شائع ؔ کئے ہیں ایک منصف مزاج کے لئے کافی ہیں اور اگرچہ بعض بیہودہ اور نہایت لغو الہام اس کے جو ایک چھوٹی سی بیاض میں لکھتا جاتا تھا مجھ کو نہیں ملے مگر جس قدر مل گئے ہیں وہ اُس کا جھوٹ کھولنے کے لئے کافی ذخیرہ ہے اور جو پوشیدہ کئے گئے ہیں اُن کے دستیاب ہونے کی اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ تمام بیہودہ الہام جو جوش نفس سے میری نسبت کئے گئے تھے اُس کے ساتھ ہی دفن کئے گئے ہوں گے۔

وہ الہام جو میری نسبت الٰہی بخش نے عصائے موسیٰ میں لکھے ہیں جن کی نسبت وہ اپنی کتاب مذکور میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں منجملہ اُن کے اُس کا وہ فرضی الہام ہے جو اُس کی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۷۹ میں درج ہے اور وہ یہ ہے۔ سلام لک تغلبون۔ یحل علیہ غضب فقد ھویٰ۔ فتدبّر۔ (ترجمہ) تیرے لئے سلام ہے تم غالب ہو جاؤگے اور اُس پر یعنی اِس عاجز پر غضب نازل ہوگا اور وہ ضرور ہلاک ہو جاوے گا یعنی تم زندہ رہ کر اُس کی موت اور تباہی کو دیکھو گے پس سوچ لو۔

اِس الہام کے معنی جیساکہ خود الٰہی بخش نے جا بجا اپنی کتاب میں دوسرے الہاموں کے ذریعہ سے اس کی تشریح کی ہے یہ ہیں کہ گویا اُس کی زندگی میں ہی مجھ پر غضب نازل ہوگا اور میں ہلاک ہو جاؤں گا لیکن بر خلاف اس کے وہ خود میری زندگی میں ہلاک ہو گیا۔ اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں طاعون کو غضب اللہ کی موت ٹھہرایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت طاعون بنی اسرائیل پر پڑی جو مورد غضب الٰہی تھے اس طاعون کا مفصّل حال توریت میں موجود ہے اور پھر طاعون حضرت عیسیٰ کے بعد یہودیوں پر پڑی تھی جن پر انجیل میں غضب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا تھااوراسی طاعون کا نام قرآن شریف میں رجزمن السّماء رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔3 3 ۱؂ یعنی ہم نے ظالموں پر طاعون کا عذاب بھیجا کیونکہ وہ فاسق تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے کہیں نہیں فرمایا کہ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوْا یُؤْمِنُونَ یعنی اس لئے ہم نے ان پرطاعون نازل کی کہ وہ مومن تھے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 543

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 543

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/543/mode/1up


پسؔ مومن کسی صورت میں طاعون کا مستحق نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کافر اور فاسق کے لئے مخصوص ہے۔ اِسی وجہ سے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا کوئی نبی طاعون سے فوت نہیں ہوا ہاں ایسے مومن جو گناہ سے خالی نہیں ہوتے کبھی وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں اور اُن کی یہ موت اُن کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور اُن کے لئے یہ ایک قسم کی شہادت ہے لیکن کسی نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ موسیٰ ہو کر پھر اُس کو طاعون ہو گئی ہو اور ایسا شخص بڑا خبیث اور پلید اور بد ذات ہوگا جس کا یہ اعتقاد ہو کہ کوئی نبی یا خلیفۃ اللہ طاعون سے مرا ہے۔ پس اگر یہ ایسی شہادت ہوتی جو قابل تعریف ہے اور جس پر کوئی اعتراض نہیں تو پہلے حق دار اُس کے انبیاء اور رسول ہوتے لیکن جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کبھی کوئی نبی یا رسول اور اوّل درجہ کا کوئی برگزیدہ جو خدا تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف رکھتا تھا اس خبیث مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا ہو۔ بلکہ اول حق دار اس مرض کے ابتدا سے وہی لوگ رہے ہیں جو طرح طرح کے معاصی اور فجور میں مبتلا تھے یا کافر اور بے ایمان تھے اور عقل ہر گز تجویز نہیں کر سکتی کہ وہ مرض جو قدیم سے خدا نے کفّار کے سزا دینے کے لئے تجویزکر رکھی ہے اُس میں خدا کے نبی اور رسول اور مُلہم بھی شریک ہو جائیں۔ توریت اور انجیل اور قرآن تینوں مُتّفق اللّسان بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیشہ طاعون کفار کو سزا دینے کے لئے نازل ہوتی رہی ہے اور خدا نے قدیم سے لاکھوں کفّار اور فاسق اور فاجر اسی طاعون کے ذریعہ نیست و نابود کئے جیسا کہ خدا کی کتابوں اور تاریخ سے ظاہر ہے اور خدا اِس سے بَرتَر اور اعلیٰ ہے کہ اپنے مقدس لوگوں کو اس عذاب میں کفار کے ساتھ شریک کرے اور جو بلا کفار کے عذاب کے لئے قدیم سے مقرر ہے اور جس کے ذریعہ سے ہمیشہ نبیوں کے عہد میں ہزاروں فاسق فاجر مرتے رہے ہیں وہی بلا اپنے برگزیدہ نبیوں پر مسلّط کر دے۔ پس جس طرح خدا کا وہ عذاب جو قوم لوط پر آیا تھا کسی نبی کی موت اس کے ذریعہ سے ہر گز نہیں ہوئی۔ بلکہ ہر ایک عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے وارد ہوچکا ہے کوئی نبی اس عذاب سے نہیں مرا ایسا ہی طاعون جو کفار کے لئے ایک مخصوص عذاب ہے کسی برگزیدہ پر وارد نہیں ہو سکتی۔ اور اگر کوئی اس کے بر خلاف دعویٰ کرے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 544

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 544

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/544/mode/1up


اورؔ یہ کہے کہ کوئی نبی گذشتہ نبیوں میں سے طاعون سے بھی ہلاک ہوا تھا تو یہ اُس کا اختیار ہے۔ کسی بے باک یا گستاخ کی ہم زبان تو بند نہیں کر سکتے۔ مگر کتاب اللہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ طاعون رِجْز ہے ہمیشہ کافروں پر نازل ہوتی ہے۔ ہاں جیسا کہ جہنم خاص کافروں کے لئے مخصوص ہے تا ہم بعض گنہ گار مومن جو جہنم میں ڈالے جائیں گے وہ محض تمحیص اور تطہیر اور پاک کرنے کے لئے دوزخ میں ڈالے جائیں گے مگر خدا کے وعدہ کے موافق جو33 ۱؂ ہے برگزیدہ لوگ اس دوزخ سے دور رکھے جائیں گے۔ اِسی طرح طاعون بھی ایک جہنم ہے کا فراس میں عذاب دینے کے لئے ڈالے جاتے ہیں۔ اور ایسے مومن جن کو معصوم نہیں کہہ سکتے اور معاصی سے پاک نہیں ہیں اُن کے لئے یہ طاعون پاک کرنے کا ذریعہ ہے جس کو خدا نے جہنم کے نام سے پکارا ہے۔ سو طاعون ادنیٰ مومنوں کے لئے تجویز ہو سکتی ہے جو پاک ہونے کے محتاج ہیں۔ مگر وہ لوگ جو خدا کے قُرب اور محبت میں بلند مقامات پر ہیں وہ ہر گز اس جہنم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ پھر تعجب کہ وہ شخص کہ جو اپنا الہام یہ پیش کرتا ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر جس الہام کا منشی عبد الحق بھی گواہ ہے اور کئی اور لوگ گواہ ہیں پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص جوخدا کے بعد وہی بزرگ ہے اور وہی اس زمانہ کا موسیٰ ہے وہ خدا کے قہری عذاب سے جو طاعون ہے ہلاک ہو جائے۔ کیا کوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتا ہے؟

اور اگر کوئی یہ کہے کہ بابو الٰہی بخش طاعون سے فوت نہیں ہوا تو ہم اس کا بجز اس کے کیا جواب دیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔خطوط آمدہ لاہور سے معلوم ہوا کہ الٰہی بخش، یعقوب ولد محمد اسحاق کے جنازہ پر گیا اور یعقوب طاعون کے ساتھ مرا تھا پس الٰہی بخش اُسی جگہ سے طاعون خرید لایا۔ اور پیسہ اخبار مورخہ ۱۰؍اپریل میں یہ عبارت ہے۔ انتقال پُر ملال۔ افسوس ہے کہ مولوی الٰہی بخش صاحب پنشنر اکونٹنٹ نے بروز دوشنبہ ۸*؍اپریل کو صرف ایک روز بخارمیں مبتلا رہ کر برمکان مولوی عبد الحق صاحب انتقال کیا۔ اب ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ ان دنوں میں کس شدت سے لاہور میں طاعون پھیلی ہوئی تھی اور اب تک ہے اور ہزاروں انسان


* یہ تاریخ اخبار میں صحیح نہیں درج ہوئی بلکہ ۷؍تاریخ ۶ بجے شام کا یہ واقعہ ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 545

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 545

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/545/mode/1up


صرؔ ف اِسی بخار سے ہلاک ہو گئے اور بجز طاعون کونسا بخار ہے صرف ایک دن میں ہلاک کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ طاعون کے لئے شدید بخار ہوناایک لازمی امر ہے جو ایک دو دن میں ہی کام تمام کر دیتا ہے۔ پس جبکہ الٰہی بخش کی موت کے وقت طاعون لاہور میں زور سے پھیل رہی تھی اور وہ بھی طاعون زدہ مُردہ کا جنازہ پڑھنے کے لئے گیا تھا اور وہیں بیہوش ہو گیا تھا توکیا کسی جنّ کے آسیب سے یہ حالت ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ طاعون کے دن تھے اور لاہور میں طاعون شدت سے زور پر تھی اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان دنوں میں صدہا لوگ طاعونی بخار سے لاہور میں مر چکے ہیں اور اب تک یہی حالت ہے بعض کو گلٹی نکلتی ہے اور بعض کو نہیں۔ اور بعض نمونیا پلیگ سے مرتے ہیں اور بعض سکتہ کی صورت میں فی الفور مرجاتے ہیں تو پھر خواہ نخواہ بے چارہ الٰہی بخش پر یہ جھوٹ باندھناکہ وہ پلیگ سے نہیں مرا کس قدر بے باکی ہے۔ کیا یعقوب پلیگ سے مراتھایانہیں؟ ہمیں معتبر ڈاکٹروں کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے الٰہی بخش کو سخت قسم کی پلیگ ہوئی تھی جس نے ایک دن میں ہی اُس کا کام تمام کر دیا۔ چنانچہ ہم اس جگہ بطور شہادت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن کا خط ذیل میں درج کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے۔

حضرت سیّدی ومولائی و امامی حجۃ اللہ المسیح الموعود سلمہ اللہ تعالیٰ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ الحمدللہ کہ حضور کی پیشگوئی پوری ہوئی اور دشمن ہلاک ہو گیا۔ حضورکو مبارک ہو۔ الٰہی بخش کو پوری علامات طاعون نمودار ہو گئی تھیں اور معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اُس کے بائیں ران کی بُن میں یعنی کنج ران میں ایک گلٹی بھی نکلی تھی۔ اس لئے اس میں کچھ شک نہیں کہ اُس کی موت طاعون سے ہوئی۔ باقی خیریت ہے۔

خاکسار یعقوب بیگ از لاہور

پھر اگر یہ سوال ہو کہ الٰہی بخش کے دوستوں میں سے کس نے اس بات کو شائع کیا ہے کہ وہ طاعون سے مر گیا تو ہم ذیل میں پرچہ اہل حدیث مورخہ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء کی شہادت الٰہی بخش کی طاعون کے بارے میں نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 546

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 546

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/546/mode/1up


افسوؔ س منشی الٰہی بخش صاحب لاہوری مصنّف عصائے موسیٰ بھی طاعون سے شہید ہو گئے۔

دیکھو پرچۂ اہلحدیث ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء

پھر ایک اور الہام اپنا الٰہی بخش نے اپنی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۷۹ میں میری نسبت لکھا ہے اور وہ یہ ہے ’’اِنّی مہین لمن اراد اہانتک‘‘ اگرچہ یہ فقرہ نحوی نقص سے آلودہ ہے کہ من کے لفظ پر لام لگایا گیا ہے۔ مگر اس کے معنی الٰہی بخش نے یہ کئے ہیں کہ گویا میں اُس کے مقابل پر ذلیل کیا جاؤں گا اور اُس کی سچائی ظاہر ہوگی۔ دراصل مدت دراز سے خدا تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا تھا کہ ’’اِنّیْ مُہِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِہَانَتَکَ‘‘ اور الٰہی بخش بارہا میرے مُنہ سے یہ الہام سُن چکا تھا اور خدا نے دکھلا دیا تھا کہ ہر ایک شخص جس نے میرا مقابلہ کیا اُس کا کیا انجام ہوا۔ پس اس الہام میں الٰہی بخش کی طرف سے صرف ایک لام ہے جو انتفاع کے لئے آتا ہے مگر اس جگہ غیر محل ہے اور اِس کے مقصود کے بر خلاف ہے اور اس صورت میں اِس الہام کے یہ معنی ہوئے کہ اے الٰہی بخش میں تیری اہانت کروں گا اُس شخص کی تائید میں جو تیری اہانت چاہتا ہے۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ جیسا کہ الٰہی بخش کا مطلب ہے کہ اُس کی اہانت کرنے سے خدا میری اہانت کرے گا سو یہ معنی بد یہی طور پر غلط ثابت ہوئے کیونکہ میں سالہا سال سے شائع کر رہا ہوں کہ الٰہی بخش اپنے تئیں موسیٰ بنانے اور میری تکذیب میں جھوٹا ہے خدا اُس کو رسوا کرے گا اور مدت ہوئی کہ میں اپنا یہ الہام شائع کر چکا ہوں۔ اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ خدا نے میرے رو برو الٰہی بخش کو طاعون کی موت دے کر رسوا کیا اور وہ اپنے تمام دعووں میں نامراد رہا۔ اور خدا نے لاکھوں انسانوں کو میری جماعت میں شامل کرکے مجھے عزت دی۔ پس اگر الٰہی بخش کو یہ الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوا تھا کہ جو شخص تیری اہانت کرتا ہے میں اُس کی اہانت کروں گا تو ضروری تھا کہ وہ الہام پورا ہو جاتا حالانکہ الٰہی بخش کی بے وقت موت جو میری زندگی میں ہی ہوئی اُس کے جھوٹے ہونے پر مہر لگا گئی وہ دعویٰ کرتاتھا کہ یہ شخص فرعون ہے اور میں موسیٰ ہوں اور میری زندگی میں ہی یہ ہلاک ہوگا اور طاعون سے مرے گا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 547

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 547

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/547/mode/1up


اورؔ تمام سلسلہ اس کا تباہ ہو جائے گا اور خدا کا غضب اس پر نازل ہوگا اور اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا لیکن بر خلاف اس کے خدا نے مجھے کامل ترقی دی اور کامل عزت اور تمام اطراف دنیا میں کامل شہرت دی اور میری زندگی میں اس فضول گو اور بے ادب اور تیزمزاج اور مُنہ پھٹے دشمن کو طاعون سے ہلاک کیا۔ پس کیا اب بھی اُس کا نام موسیٰ رکھو گے؟ یہ کیسا موسیٰ تھا کہ جس کو وہ فرعون کہتا تھا اور اپنی زندگی میں اس کی ہلاکت کی خبر دیتا تھا اُسی کے سامنے طاعون کی ذلیل موت سے وہ ہلاک ہو گیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس شخص کو وہ فرعون قرار دیتا تھا اُس نے اپنا یہ الہام شائع کیا تھا کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّار یعنی خدا فرماتا ہے کہ جو لوگ اِس گھر کی چاردیواری کے اندر ہیں۔ سب کو میں طاعون سے بچاؤں گا۔ سو گیار۱۱ہ برس سے بڑے بڑے حملے طاعون کے اِس نواح میں ہو رہے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کا ایک کتّا بھی طاعون سے نہیں مرا مگر جو اپنے تئیں موسیٰ قرار دیتا تھا خود وہ طاعون سے مر گیا اور صرف یہی نہیں بلکہ وہ تمام الہام اُس کے جھوٹے نکلے اور اُس کی ذلّت کے باعث ہوئے جو میری موت اور طاعون اور ناکامی کے بارے میں اس نے شائع کئے تھے۔ پس کہاں گیا یہ الہام کہ انّی مھین لمن اراد اھانتک۔ یہ انجام اُن لوگوں کا ہوتا ہے جو حدیث النفس کا نام الہام رکھ لیتے ہیں اور خدا کے فعل کی شہادت سے اپنے الہامات کا امتحان نہیں کرتے۔

یاد رہے کہ جب تک کہ ایک بارش کی طرح فوق العادت خدا کے نشان الہام کی تائید میں نازل نہ ہوں جومعمولی طریق سے بہت بڑھے ہوئے ہوں تب تک اپنے الہاموں کو خدا کا کلام سمجھنا دوزخ کی راہ اختیار کرنا ہے اور ذلّت کی موت خریدنا ہے کیونکہ الہام صرف قول ہے اور قول میں شیطان بھی شریک ہو سکتا ہے اور انسان بھی بطور افترا ایسا قول بیان کر سکتا ہے اور حدیث النفس بھی ہو سکتی ہے۔ پس نہایت حماقت اور جہالت ہے کہ انسان صرف اِس بات پر بھروسہ کرکے کہ اس کی زبان پر کچھ جاری ہوتا ہے ایسے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 548

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 548

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/548/mode/1up


کلماؔ ت کو خدا کا کلام سمجھ لے بلکہ خدا کے قول کے ساتھ خدا کے فعل کی شہادت ضروری ہے اور شہادت بھی زبردست شہادت درکار ہے کیونکہ یہ دعویٰ کہ خدا مجھ سے مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے یہ کچھ چھوٹا سا دعویٰ نہیں اور اگر مُدعی اس دعویٰ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو تو ایک دنیا اُس کے ذریعہ سے ہلاک ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کے قولی دعویٰ کے لئے خدا تعالیٰ کی ایسی فعلی شہادت درکار ہے جس کووہ قدیم سے اپنے تمام صادق رسولوں اور نبیوں کی تائید میں ادا کرتا رہا ہے۔ اور اس خفیف اور ناچیز امر کو خدا کی فعلی شہادت قرار نہیں دے سکتے جو معمولی انسانوں کی سوانح سے ملتا جلتا ہو۔ مثلاً کوئی خواب میں دیکھتا ہے کہ میرے گھر میں یا کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور اتفاقاً لڑکا ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ یا دیکھتا ہے کہ فلاں شخص مر جائے گا اور اتفاقاً وہ مر ہی جاتا ہے یا دیکھتا ہے کہ فلاں شخص فلاں کام میں نامراد رہے گا اور اتفاقاً وہ نامراد ہی رہ جاتا ہے۔ ایسے خوابوں میں تمام دنیا شریک ہے بلکہ کافروں اور مُشرکوں کو بھی اس سے حصہ ہے۔ پس اگر معمولی رنگ میں کسی شخص کو ایسی خواب آوے اور وہ خواب یا وہ الہام کیفیت یا کمیت میں کوئی خصوصیت نہ رکھتاہو تو وہ اِس بات پر دلیل نہیں ہو سکتی کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے بلکہ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں ایسی خوابیں فاسقوں اور فاجروں کو بھی آسکتی ہیں پس ایسی خوابوں اور ایسے الہاموں پر مغرور نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اپنے لئے اِس کو ابتلا سمجھنا چاہئیے۔ اور سچے مامور کے لئے یہ شرط ہے کہ ایسے امور جو خدا کا نشان کہلا سکتے ہیں کیفیت اور کمیت میں اس حد تک پہنچ گئے ہوں کہ عام لوگوں میں سے کوئی شخص اُس کا مقابلہ نہ کر سکے اور ایسے شخص کے ساتھ کھلے کھلے طور پر خدا تعالیٰ کا ہاتھ چلتا نظر آوے اور اُس کی فوق العادت تائید میں نشانات بارش کی طرح برستے ہوئے محسوس ہوں جن سے معلوم ہو کہ خصوصیت کے ساتھ ہر ایک راہ میں خدا اُس کا مؤ یّد ہے۔ غرض بڑی علامت یہی ہے کہ وہ آسمانی نشان اور وہ تائید اور نُصرت اِس حد تک پہنچ جائے کہ روئے زمین پر کوئی اُس کا مقابلہ نہ کر سکے اور گو ایک ہی نشان ہو مگر ایسا زبردست اور ذِی شان ہو کہ اس کو دیکھ کر سب دشمن مُردہ کی طرح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 549

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 549

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/549/mode/1up


پڑجاؔ ئیں اور اُس کی نظیر نہ پیش کر سکیں اور یا اِس کثرت سے وہ نشان ہوں کہ کثرت کے لحاظ سے کسی کو طاقت نہ ہو کہ وہ کثرت اپنے نشانوں میں یا کسی اور مفتری کے نشانوں میں دکھلا سکے اِسی کا نام خدا کی شہادت ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ جلّ شانہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرماتاہے 33 ۱؂ یعنی جولوگ کہتے ہیں کہ تو خدا کا رسول نہیں۔ اُن کو کہہ دے کہ تم میں اور مجھ میں خدا گواہ کافی ہے اور نیز وہ جس کو کتاب کا علم ہے۔

اب ہم باقی الہام الٰہی بخش کے جو اُس کی کتاب عصائے موسیٰ میں میری نسبت درج ہیں اس جگہ ناظرین کے غور اور انصاف کے لئے درج کر دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۷۹ میں میری نسبت یہ الہام لکھتا ہے۔ ’’اُڑ جائیں گے زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو‘‘ یعنی ہزار ہا مخالف جو اُن کی ہلاکت کے خواہشمند ہیں ایسا ہی ہو جائے گا۔ پھر صفحہ ۸۰ کتاب مذکور میں لکھتا ہے ’’اَللّٰھُمَّ افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔‘‘ اور اس کو بھی میری نسبت ہی قرار دیتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا سچافیصلہ کر۔ سو الحمدللہ وہ فیصلہ ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء کو ہو گیا اور میاں الٰہی بخش مجھے ہزاروں گالیاں نکال کر اور کذّاب اورمُفسد اور دجّال اور مفتری کہہ کر اور میری نسبت غضب الٰہی اور طاعون کے وعدے دے کر خود تاریخ مذکور میں صرف ایک ہی دن میں اس ناپائیدار دنیا کو چھوڑ گیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ دیکھو ہماری فرعونیت آخر غالب آگئی موسیٰ کو طاعون نے ایسا دبا یا کہ نہ چھوڑا جب تک اُس کی جان نہ نکال لی۔

پھر بابو الٰہی بخش اسی کتاب کے صفحہ اسی۸۰ میں اپنے الہام میں مجھے طاعون کی دھمکی دیتا ہے جیسا کہ الہام یہ ہے ’’رجزًا مّن السّماء علی القریۃ التی کانت حاضرۃ... ولھم عذاب الیم۔ ولا یزید الظالمین اِلَّا تبارًا۔‘‘ یعنی طاعون نازل ہوگی اور وہ مع اپنیؔ جماعت کے طاعون میں مبتلا ہو جائے گا اور خدا ان ظالموں پر ہلاکت نازل کرے گا۔ یہ ہیں الہامات الٰہی بخش جن سے وہ اپنے چند دوستوں کو خوش کرتا تھا۔ مگر اب اُن کے دوست خاص کر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 550

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 550

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/550/mode/1up


منشی عبد الحق صاحب خدا سے ڈر کر گواہی دے سکتے ہیں کہ آخر کس شخص پر طاعون نازل ہوئی۔

پھر ایک اور الہام اُن کا میرے پر عذاب نازل ہونے کے بارہ میں ہے جو اُس کی کتاب کے صفحہ ۸۳ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے سنسمہ علی الخرطرم۔ ما رمیت اذرمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی۔ (ترجمہ) اِس مفتری کو یعنی اس مفتری کی ناک پر یا منہ پر ہم آگ کا داغ لگائیں گے یعنی اس کو طاعون سے ہلاک کریں گے یا یہ کہ جہنم کی آگ میں ڈالیں گے۔ یہ تیر جو تونے (اے الٰہی بخش) چلایا یہ تونے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔‘‘ پھر صفحہ ۹ سطر ۱۳ میں یہ الہام لکھا ہے۔ متّع المسلمین بطول حیاتک وبطول بقائک۔ ینفع المسلمین بطول حیاتک وبطول بقائک۔*... پھر بعد اس کے یہ عبارت ہے اور جو خدمت مجھ

کو سپرد ہوئی ہے جب تک پوری نہ ہو تب تک میں ہر گز نہ مروں گا۔ بابو الٰہی بخش صاحب کی کتاب عصائے موسیٰ کے دیکھنے کے بعد معلوم ہوگا کہ وہ اُس کتاب کی تالیف سے چھ۶ برس


* حاشیہ ۔ اگر کوئی یہ شک کرے کہ یہ تمام الہامات جو عصائے موسیٰ میں بابو الٰہی بخش نے لکھے ہیں کس طرح معلوم ہو کہ وہ اس راقم کے لئے لکھے گئے ہیں تو واضح ہو کہ بابو الٰہی بخش نے یہ کتاب عصائے موسیٰ خاص میرے پر مخالفانہ حملہ کرنے کی غرض سے تالیف کی ہے اور بجز میری تکذیب اور توہین کے اس کتاب کی تالیف کی اور کوئی غرض نہ تھی اور بابو صاحب ہمیشہ پوشیدہ طور پر میری نسبت اپنے دوستوں میں ایسے ایسے الہام مشہور کرتے تھے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ گویا میں کاذب اور کافر اور فرعون ہوں اور وہ موسیٰ ہیں اور میں جلد تر اُن کے ذریعہ سے اور اُن کے الہام کی رو سے خدا کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤں گا اور اِس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جیسا کہ کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۲و ۴ و۶و۷و۸و۹ میں درج ہے بابو الٰہی بخش کے ساتھ اُن کے مخالفانہ الہامات کے بارہ میں میری خط و کتابت ہوئی تھی اور عصائے موسیٰ کے صفحہ ۲ کے خط میں مَیں نے بابو صاحب سے درخواست کی تھی کہ جس قدر آپ میری نسبت تکذیب کے الہام مشہور کرتے ہیں اور محض زبانی طور پر اپنے دوستوں کو سناتے ہیں وہ قسم کھا کر شائع کر دیں تا اگر آپ کے وہ الہام جھوٹ اور افترا ہیں تو خدا تعالیٰ جھوٹ کی پاداش دے۔ اس خط کا جواب انہوں نے وہ دیاکہ جو اُن کی کتاب کے صفحہ ۴ میں درج ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قسم کھانے کی کچھ ضرورت نہیں۔ اگر میں نے خدا پر افترا کیا ہے تو وہ بغیر قسم بھی مجھے سزا دے گا اور میں الہامات شائع کر دوں گا۔ پھر اس کے جواب میں صفحہ ۷ میں میری طرف سے یہ عبارت ہے۔ مَیں صرف خدا سے عقدہ کشائی چاہوں گا تا وہ لوگ جو مجھے مسرف کذّاب کا نام دیتے ہیں اور وہ لوگ جو مجھے مسیح موعود مانتے ہیں۔ اُن میں اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کرے ۔ منہ


*ترجمہ۔ خُدا تعالیٰ تیری عمر کو لمبی کرکے اور دنیا میں ایک زمانہ دراز تک تجھے رکھ کر تیری بہت لمبی عمر سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچائے گا۔ مگر اس کے بعد بابو الٰہی بخش صرف چھ ۶برس تک زندہ رہے۔ یہ ہے لمبی عمر کا الہام۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 551

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 551

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/551/mode/1up


بعدؔ فوت ہو گئے۔ اب منصفین خود سمجھ سکتے ہیں کہ کیا طول حیات اور طول بقا کے یہی معنی ہیں کہ صرف چھ ۶ برس میں قبل اس کے کہ وہ اپنی کسی کامیابی کو دیکھیں مرض طاعون سے اُن کا خاتمہ ہو جائے اور بڑی حسرت کے ساتھ میری زندگی میں ہی نامراد مریں۔ ہم اس وقت اُن کے بارے میں محض اُن کے دوستوں کی رائے پوچھتے ہیں اور ہم باد ب عرض کرتے ہیں کہ کیایہ صحیح ہے کہ جیسا کہ انہوں نے اپنے الہام کی رو سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جو خدمت مجھ کو سپرد ہوئی ہے جب تک پوری نہ ہو میں ہر گز نہ مروں گا ۔ کیا وہ خدمت پوری ہوگئی ہے ؟ کیا ان کی کوششوں اور ان کی تہمتوں سے جو تمام کتاب عصائے موسیٰ میں میرے پر لگائی گئیں میرا ایک بال بھی بیکا ہو گیا ہے؟ اور ناظرین اس کی بھی ہمیں اجازت دیں کہ وہ الہام جو میری نسبت بابو الٰہی بخش صاحب نے کیا تھا کہ سنسمہ علی الخرطوم کیا یہ سچ نہیں کہ وہ اُلٹ کر اُنہیں پر پڑ گیا اور قدرت کے ہاتھ نے ایسے طور پر اُن کی خرطوم پر طاعونی آگ کا داغ لگایا کہ اُن کا خاتمہ ہی کر دیا اور مَارَمَیْتَکا تیر جو اُنہوں نے میری طرف بقول اپنے الہام کے چلایا تھا آخر وہ انہیں کو لگ گیا ؂

الٰہی بخش کے کیسے تھے یہ تیر

کہ آخرہو گیا اُن کا وہ نخچیر

اُسی پر اُس کی *** کی پڑی مار

کوئی ہم کو تو سمجھاوے یہ اسرار

تکبر سے نہیں ملتا وہ دلدار

ملے جو خاک سے اُس کو ملے یار

کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے

کرے پاک آپ کوتب اُس کو پاوے

پسند آتی ہے اُس کو خاکساری

تذلّل ہی رہِ درگاہ باری

عجب ناداں ہے وہ مغرور و گمراہ

کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ

بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے

مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

اور پھر کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۱۵۲ میں بابو الٰہی بخش صاحب میری نسبت یہ الہام شائع کرتے ہیں فیمت وھوکافر۔رُدّت الیہ لعانہ۔ واُزلفت الجنۃ للمتّقین۔یہ ہفتم رمضان ۱۳۱۷ھ کا واقعہ ہے (ترجمہ) یہ شخص کافر مرے گا۔ اور اس کا میرے ساتھ باہم *** کرنا یعنی مُباہلہ کرنا اُسی کی طرف اُس کا بد اثر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 552

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 552

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/552/mode/1up


ردّ کیا جائے گا اور متقیوں کے لئے بہشت نزدیک ہے۔ اس الہام کا ماحصل یہ ہے کہ بابو الٰہی بخش صاحب متقی ہیں اور میں کافر ہوں اور جو میرا اُن کے ساتھ باہم *** اللّٰہ علی الکاذبین یعنی مباہلہ ہوا تھا وہ *** بموجب اُن کے الہام کے میرے پر پڑے گی اور وہ ہر ایک بات میں کامیاب ہو جائیں گے۔

واضح ہو کہ لِعان کہتے ہیں عربی زبان میں ملاعنہ کو۔ لسان العرب میں لکھا ہے اللّعان والملاعنۃ: اللّعن بین اثنین فصاعدًا۔ یعنی لعان اور ملاعنہ جو دو لفظ ہیں ان دونوں کے معنی یہ ہیں کہ دو آدمی یا اُن سے زیادہ ایک دوسرے پر *** بھیجیں۔ پھر اسی کتاب لسان العرب میں لعن کے یہ معنی لکھے ہیں کہ۔ اللَّعن اَلابعاد والطردمن الخیر یعنی *** کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک نیکی اور مال اور برکت اور بہتری سے کسی کو محروم کیا جائے۔ پھر دوسرے معنی *** کے یہ لکھے ہیں کہ الا بعاد من اللّٰہ ومن الخلق یعنی *** کے یہ معنی ہیں کہ جناب الٰہی سے مردود ہو جاوے اور قبولیت سے محروم رہے۔ اور مخلوق کی نظر سے بھی گر جاوے اور عزت اور وجاہت بھی جاتی رہے۔ غرض خدا کے نزدیک *** کا لفظ تمام نامرادیوں اور مردود اورمخذول ہونے کے معنوں پر محیط ہے اور ہر ایک نوع کی برکت سے محروم اور مخذول اور مردود رہنا اس کے لوازم میں سے ہے اور جس شخص پر خدا کی *** وارد ہو جائے اُس کا ثمرہ ہلاکت اور تباہی ہے اِسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر نجران کے عیسائی مجھ سے مباہلہ کرتے (جو *** اللّٰہ علٰی الکاذبین کے ساتھ کیا جاتا ہے) تو اس قدر موت اور ہلاکت اُن پر آتی کہ اُن کے درختوں کے پرندے بھی مر جاتے۔

اب بابو الٰہی بخش صاحب کے الہام کا مطلب جس میں ملاعنہ کاذکر ہے ہر ایک منصف مزاج سمجھ سکتاہے کیونکہ الہام کایہ مطلب ہے کہ وہ ملاعنہ جو مجھ میں اور بابو صاحب میں واقع ہوا تھاجس کا ذکر کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۲ اور صفحہ ۷ میں بھی ہے اور کتاب مذکور کے دوسرے مقام میں بھی مذکور ہے اس کا بد اثر میرے پر ہی پڑے گا اور میں اُن کی زندگی میں ہلاک اور تباہ ہو جاؤں گا حالانکہ خدا تعالیٰ کے ارادہ نے اس کے برخلاف ظاہرکیا۔ اور نہ صرف یہ ہواکہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 553

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 553

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/553/mode/1up


بابوؔ صاحب میری زندگی میں ہی طاعون کے ساتھ ہلاک ہو گئے بلکہ اپنی ہر ایک خواہش اور ارادہ سے نامراد رہ کر اس دنیا سے گذر گئے۔ اور دوسری طرف ہر ایک پہلو سے خدا نے مجھے برومند کیا چنانچہ ہزارہا شکر کا یہ مقام ہے کہ قریباً چار لاکھ انسان اب تک میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے اور کفر سے توبہ کر چکے ہیں اور خدا نے مجھے وہ عزت دی ہے کہ تمام دنیا میں یعنی یورپ اور ایشیا اور امریکہ میں اقبال مندی کے ساتھ مجھے مشہور کر دیا۔ چنانچہ وہ ڈاکٹر ڈوئی جو امریکہ اور یورپ کی نگاہوں میں بادشاہوں کی طرح اپنی شوکت اور شان رکھتا تھا اُس کو خدا نے میرے مباہلہ اور میری دعا سے ہلاک کیا اور ایک دنیا کو میری طرف جھکا دیا۔ اور یہ واقعہ دنیا کے تمام نامی اخباروں میں شہرت پاکر ایک عالمگیر شہرت کے رنگ میں زبان زدِ عوام و خواص ہو گیا اور میں دیکھتا ہوں کہ جن لوگوں نے میرے ساتھ بیعت کی ہزاروں اُن میں متقی ہو گئے اور ایک نمایاں تبدیلی اُن کے اعمال میں پیدا ہو گئی اور خدا نے دنیا کی حیثیت سے وہ برکتیں مجھ کو عطا کیں کہ خدا کے بندوں نے آج تک کئی لاکھ روپیہ اور انواع اقسام کے تحائف انکسار اور تواضع کے ساتھ مجھ کو دئے* اور دے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی انواع اقسام کی رحمتوں کا ایک دریا جاری ہو رہا ہے اور علاوہ اس کے ہزار ہا نشان خداتعالیٰ نے میری تائید میں ظاہر کئے ہیں اور کوئی مہینہ کم گذرتا ہوگا جو کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور خدا نے خود دشمنوں کے مقابلہ پر تلوار کھینچ کرمیرے لئے اُن کا مقابلہ کیا جس نے میرے پر مقدمہ کسی عدالت میں کیا آخر کار شکست اور ذلت اُس کو نصیب ہوئی۔ اور جس نے میرے ساتھ مباہلہ کیا آخر کار وہ خود ہلاک ہوا یا ذلیل کیا گیا۔ چنانچہ یہ تائیدات الٰہیہ اِسی کتاب حقیقۃ الوحی میں بطور نمونہ بیان کی گئی ہیں۔ اب مجھ کو اہل انصاف بتلاویں کہ بابو الٰہی بخش صاحب کا یہ الہام کہ میرے اور اُن کے باہم *** کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر ایک


* جیسا کہ چھبیس ۲۶برس سے یہ پیشگوئی ہے کہ یاتیک من کلِّ فجٍّ عمیق۔ یاتون من کلِّ فجٍّ عمیق۔ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء ولا تصعّر لخلق اللّٰہ ولا تسئم من الناس پس عجیب فضل الٰہی ہے کہ ایک طرف تو وہ پُرانے زمانہ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور دوسری طرف لاکھوں روپیہ کی آمدنی ہوئی اور کئی لاکھ انسان مُرید ہو گئے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 554

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 554

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/554/mode/1up


تباہی اور ہلاکت میرے ہی نصیب ہوگی اور وہ اپنی تمام مرادوں میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیا یہ الہام سچا نکلا؟ اور کیا اس مباہلہ کا نتیجہ ان کے حق میں ہوا یا میرے حق میں۔ اور ملاعنہ کا بد اثر میری طرف رد کیا گیا یا اُن کی طرف۔برائے خدا ناظرین اس مقام میںؔ کچھ غور کریں تا خدا اُن کو جزائے خیر دے ورنہ خدا تعالیٰ اپنی تائیدات اور اپنے نشانوں کو ابھی ختم نہیں کر چکا۔ اور اُسی کی ذات کی مجھے قسم ہے کہ وہ بس نہیں کرے گا جب تک میری سچائی دنیا پر ظاہر نہ کر دے۔ پس اے تمام لوگو! جو میری آواز سنتے ہو۔ خدا کا خوف کرو اور حد سے مت بڑھو۔ اگر یہ منصوبہ انسان کا ہوتا تو خدا مجھے ہلاک کر دیتا اور اس تمام کاروبار کا نام و نشان نہ رہتا۔ مگر تم نے دیکھا کہ کیسی خدا تعالیٰ کی نصرت میرے شامل حال ہو رہی ہے اور اس قدر نشان نازل ہوئے جو شمار سے خارج ہیں۔ دیکھو کس قدر دشمن ہیں جو میرے ساتھ مباہلہ کرکے ہلاک ہو گئے۔ اے بندگانِ خداکچھ تو سوچو کیا خداتعالیٰ جھوٹوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرتا ہے؟

بعض نادان کہتے ہیں کہ آتھم اپنی میعاد میں نہیں مرا لیکن وہ جانتے ہیں کہ مر تو گیا اور میں اب تک زندہ ہوں اور وعید کی پیشگوئیاں جن میں کسی پر عذاب کے نازل ہونے کا وعدہ ہوتا ہے اُن کا میعاد کے اندر پورا ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر شخص مُنْذَربِہٖ توبہ کرے یا رجوع کرے تو اُن کا پورا ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا اور ایسی پیشگوئیاں یعنی عذاب کی پیشگوئیاں تضرع اور توبہ اور صدقہ اور خیرات سے ٹل بھی سکتی ہیں اور ٹلتی رہی ہیں اور اس امر کا گواہ قرآن کریم اور پہلی کتابیں ہیں۔ اور یاد رہے کہ وعید کی پیشگوئی سے مراد عذاب کی پیشگوئی ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ کسی کی شامتِ اعمال سے خدا تعالیٰ اُس پر کوئی بلانازل کرتا ہے تو عادۃ اللہ اسی طرح پر ہے کہ اس بلا کو توبہ اور استغفار اور صدقہ خیرات سے اکثر رد کردیتا ہے اور جب کوئی بلا میں گرفتار ہو کر خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اکثر اس پر رحم کیا جاتا ہے جس طرح کہ یونسؑ نبی کے قوم کی بلا ٹال دی گئی۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ توبہ اور استغفار اور صدقہ اور خیرات سے بلا ٹل سکتی ہے اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی کی حقیقت بجز اس کے کیا ہے کہ وہ بھی ایک بلا ہوتی ہے کہ کسی مامور من اللہ کے ذریعہ سے اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 555

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 555

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/555/mode/1up


پھر اگر یہ بات سچ ہے کہ بلا توبہ و استغفار اور صدقہ و خیرات سے ٹل سکتی ہے تو پھر ایسی پیشگوئی کیوں نہیں ٹل سکتی جس کی خبر کسی مامور من اللہ کے ذریعہ سے دی گئی ہو اور علاوہ اس کے دشمن نادان نہیں جانتے کہ اگرچہ عذاب کی پیشگوئیوں میں کسی شرط کی ضرورت نہیں ہوتی وہ محض توبہ اور استغفاؔ ر سے ٹل سکتی ہیں مگر تاہم آتھم اور احمد بیگ اور اُس کے داماد کی نسبت شرطی پیشگوئیاں تھیں یعنی یہ لکھا گیا تھا کہ اِس شرط سے بلا وارد ہوگی کہ وہ لوگ سر کشی پر قائم رہیں اور رجوع نہ کریں۔ سوآتھم نے اپنی خاموشی اور نہ قسم کھانے اور نہ نالش کرنے اور اسلام پر کوئی حرف زنی نہ کرنے سے ثابت کر دیا کہ اُس نے سر کشی کی خصلت کو چھوڑ دیا ہے اور نیز اُس نے ساٹھ یا ستر۷۰ آدمیوں کے رو برو عین مباحثہ کے وقت میں زبان نکال کر اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر اپنے رجوع کا اقرار کر دیاجس سے کوئی منکر نہیں ہو سکتا۔ اور اُس وقت حاضرین نہ صرف مسلمان تھے بلکہ نصف کے قریب عیسائی تھے اور معتبر شہادتوں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ پندر ۱۵ہمہینہ تک روتا رہا تو کیا اب تک رجوع اُس کا ثابت نہ ہوا؟

اور احمد بیگ کے داماد کی نسبت اِس قدر بیان کرنا کافی ہے کہ وہ پیشگوئی دو شاخیں رکھتی تھی۔ ایک شاخ احمد بیگ کے متعلق تھی اور دوسری شاخ اُس کے داماد کے متعلق تھی۔ سو احمد بیگ اور اُس کے مرنے کا صدمہ اُس کے اقارب کا غرور اور تکبر توڑ گیا اور وہ میعاد کے اندر مر گیا۔ بیگانوں اور ناواقفوں کو کیا خبر ہے کہ اُس کی موت کی وجہ سے اُس کے دو سرے عزیزوں پر کیا مصیبت آئی۔ اور اس مصیبت نے ان کوکیا سبق دیا اور کس غم نے اُن کو گھیر لیا۔ آخر یہ نتیجہ ہوا کہ مرزا محمود بیگ جن کے گھر میں یہ رشتہ ہوا تھا اور جو تمام خاندان کا سرگروہ تھا ہمارے سلسلہ بیعت میں داخل ہو گیا۔ اب اگر ان تمام باتوں کو سُن کر بھی کوئی بکواس سے باز نہ آئے تو اُس کا علاج ہم کیا کریں۔ ایسے سیاہ دل کو جو حیا اور شرم سے دست بردار ہے ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں اور اس کے تعصّب کی بیماری کاکیا علاج کر سکتے ہیں بجز اس کے کہ خدا ہی اس کا علاج کرے۔ ؂

کیا تضرع اورتوبہ سے نہیں ٹلتا عذاب

کس کی یہ تعلیم ہے دکھلاؤ تم مجھ کو شتاب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 556

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 556

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/556/mode/1up


اے عزیزو! اِس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا

کلمہ گوہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوفِ خدا

یہ الہام بابو صاحب کا جس میں وہ میری نسبت لکھتے ہیں کہ وہ شخص کافر مرے گا اور ملاعنہ کا بد انجام اُسی کی طرف اُلٹایا جائیگا۔ اس کے سر پر اُسی صفحہ ۱۵۲ میں یہ ان کی عبارت ہے۔ اس رات مرزا صاحب کےؔ انجام اور اُن کے زیر مشن غریب مسلمانوں کی نسبت یہ الہام ہوا ہے۔

اور پھر صفحہ۱۷۲ میں اُن کا یہ الہام ہے یہ عمدہ اور خوشی کی بات ہے کہ اس امر کا فیصلہ ہو جائے کہ حق مرزا صاحب کی طرف ہے۔

پھر صفحہ ۱۷۳ عصائے موسیٰ میں اُن کا ایک الہام مع اُن کی تمہیدی عبارت کے یہ ہے۔ اور عاجز کو الہاماً یہ دعا بھی تعلیم ہوتی ہے اللّٰھم افتح بیننا و بین قومِنا بِالحق وانت خیر الفاتحین اس کے معنی وہ یہ کرتے ہیں کہ مجھ میں اور اُن میں یعنی اس عاجز میں خدا تعالیٰ فیصلہ کرے۔ اب جو فیصلہ ہو گیا وہ کسی پر مخفی نہیں۔ عجیب بات ہے کہ اُن کی تمام کتاب انہیں الہاموں سے بھری ہوئی ہے کہ اُن کی زندگی میں میرا استیصال ہو جائے گا اور تمام جماعت منتشر ہو جائے گی اورمباہلہ کا بد اثر میرے پر پڑے گا اور وہ نہیں مریں گے جب تک میرا زوال نہ دیکھ لیں۔ اور پھر اُن کے دوست کہتے ہیں کہ جب وہ طاعون میں مبتلا ہوئے تو اُن کو یہ الہام ہوا کہ الرحیل یعنی اب تو دنیا سے کوچ کرے گا کون شخص ہے جو اس مہلک بیماری کے وقت اُس کا دل الرحیل نہیں بولتا۔ طاعون کے معنی خود زبان عرب میں موت ہے۔ ناظرین خود سوچ لیں ہم کچھ نہیں کہتے کہ پہلے تو بابو الٰہی بخش کا ان الہامات پر زور دینا کہ میری عمر بڑی لمبی ہوگی جیسا کہ طول حیات اور طول بقاء اُن کے الہام میں درج ہے اور پھر یہ کہ اُن کی لمبی عمر سے مومنوں کو بہت فائدے حاصل ہوں گے اور پھر یہ الہام کہ وہ نہیں مریں گے جب تک طاعون سے میری موت نہ دیکھ لیں اور میری بکلّی تباہی مشاہدہ نہ کر لیں اور پھر یہ الہام کہ اُن کے دنیا میں بھی بڑے بڑے عروج ہوں گے اور ایک دنیا ان کی طرف رجوع کرے گی اور وہ بساتین اور باغوں کے مالک ہوں گے اور اُن کے ذریعہ سے اسلام کی بڑی ترقی ہوگی۔ یہ تو پہلے الہام تھے جن سے اُن کی کتاب عصائے موسیٰ بھری پڑی ہے پھر جب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 557

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 557

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/557/mode/1up


وہ طاعون میں مبتلا ہو گئے اور ہر روز صدہا آدمیوں کی موت دیکھ کر اس مرض کا انجام سامنے آگیا تب اس وقت بابو صاحب کو الرحیل کا الہام ہوا جو عصائے موسیٰ کے تمام الہاموں پر پانی پھیرتا ہے۔ مگر اگر فرض کے طور پر اس کو الہام بھی سمجھا جاوے تو یہ رحمت کا الہام نہیں بلکہ غضب کا الہامؔ ہے جو سخت نامرادی پرمشتمل ہے اور نیز پہلے الہاموں کا کذب ظاہر کرتا ہے اور ایسا الہام کچھ تعجب کی جگہ نہیں کیونکہ اکثر لوگ جب کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جانبری سے نومیدی ہوتی ہے تو اس وقت ایسے الہام یا ایسی خوابیں آیا کرتی ہیں مومن غیر مومن سب اس میں شریک ہیں۔ پس اس صورت میں الہام کے یہ معنی ہوں گے کہ اے الٰہی بخش تُو تو اپنی عمر لمبی قرار دیتاتھا اور اپنے فریق مخالف کی تباہی چاہتا تھا۔ اور اپنی حدیث النفس کو الہام الٰہی سمجھ کر یہ کہتا تھا کہ میرا مخالف میری زندگی میں طاعون سے مرے گا۔ مگر ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تو اس دنیا سے کوچ کر۔

غرض مجھے اس الہام کی سچائی پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ممکن ہے کہ ہوا ہو۔ جس میں غضب کے طور پر یہ تنبیہ ہو کہ اب تیرا دنیا سے کوچ کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ تونے حق کو قبول نہیں کیا۔

ان لوگوں کی عقل پر مجھے تعجب آتا ہے کہ الٰہی بخش کی طرف الرحیل کا الہام منسوب کرکے اُس کے تمام الہاموں کا بیڑاغرق کر دیتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ وہ تمام الہام اُس کے کہاں گئے جن پر بھروسہ کرکے وہ مجھے کافر اور دجّال کہتا تھا اور اپنا نام موسیٰ رکھتا تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ وہ تمام الہام اُس کے اضغاث احلام اور حدیث النفس تھے اور نیز شیطانی وساوس تھے اس لئے وہ پورے نہ ہو سکے بلکہ اُس کی ذلّت اور بے عزتی کا موجب ہوئے۔ ہاں ممکن ہے کہ الرحیل خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو کیونکہ یہ فقرہ انذار اور تنبیہ کے طور پر ہے اور ایسے الہام کا دعویٰ اگر فرعون بھی کرتا تو ہمیں انکار کی وجہ نہ تھی کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ بغیر امتیاز موحد اور مشرک اور صالح اور فاسق اور صادق اور کاذب کے ہر ایک کو ایسے الہام اُس کے آخری وقت میں ہو سکتے ہیں۔ اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے 3



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 558

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 558

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/558/mode/1up


3۱؂ یعنی ایسا کوئی اہل کتاب نہیں جواپنی موت سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لاوے۔ اور تفاسیر میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کو یہ الہام اُس وقت ہوتا ہے جب وہ جان کندن کی حالت میں ہوتے ہیںیا موت کاوؔ قت بہت قریب ہوتا ہے اور اب ظاہر ہے کہ وہ تبھی ایمان لاتے ہیں جب اُن کو منجانب اللہ الہام ہوتا ہے کہ فلاں رسول سچا ہے مگر اس الہام سے وہ خدا کے برگزیدہ نہیں ٹھہر سکتے اور خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح جاری ہے کہ موت کے قریب اکثر لوگوں کو کوئی خواب یا الہام ہو جاتا ہے۔ اس میں کسی مذہب کی خصوصیت نہیں اور نہ صالح اور نیکو کار ہونے کی شرط ہے۔

پھر بابو الٰہی بخش صاحب اپنی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۱۸۰ میں لکھتے ہیں کہ کشتی کا ملاح بننے کا الہام بھی عاجز کو ہوتا ہے اور کشتی کی تیاری کا حکم بھی الہاماً ہو کر پھر الہام ہوا۔ بِسْم اللّٰہ مجریھا و مُرساھَا ان ربّی لغفور رحیم پھر الہام ہوا۔ انّ الذین ظلموا ان ہم لمغرقون جس کے ظہور کی قادر کے فضل و کرم سے امید واثق* ہے۔ یہ بھی الہام بہت دفعہ ہوا ہے۔ ساُریھم اٰیاتی فلا تستعجلون۔

اس الہام کے یہ معنی ہیں کہ وہی ملاح ہیں جوپار اُتاریں گے اور اُن کی کشتی میں بیٹھنے والے نجات پائیں گے۔ پھر میری طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ جو لوگ اس کشتی میں سوار نہیں ہوئے یعنی یہ عاجز وہ ظالم ہیں اور وہ غرق کئے جائیں گے۔ اور فرماتے ہیں کہ یہ


* ایک طرف تو بابو الٰہی بخش صاحب لکھتے ہیں کہ میں اپنے الہامات کو یقینی نہیں سمجھتا ممکن ہے کہ شیطانی ہوں پھر ایسے الہاموں پر امید واثق بھی ہے تعجب کہ اسی مایہ کے ساتھ حد سے بڑھ کر درندگی اختیار کی اور تعجب کہ دوسروں کے غرق کرنے کے لئے تو الہام ہو امگر آپ ہی اس الہام کے مصداق ہو گئے اور بابو صاحب کا یہ الہام کہ عنقریب میں اپنے نشان دکھلاؤں گا مجھ سے جلدی مت کرو۔ سو ہم جانتے ہیں کہ یہ الہام بابو صاحب کی موت سے پورا ہو گیا گو اُن کی موت اُن کے لئے نشان نہیں مگر ہمارے لئے نشان ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 559

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 559

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/559/mode/1up


بھی کئی دفعہ مجھے الہام ہوا ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اپنے نشان ان مخالفوں کودکھلاؤں گا وہ مجھ سے جلدی نہ کریں۔

اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ یہ تمام الہام اُن کے طاعونی موت نے باطل کر دیئے ہیں۔ کیا ملاح ایسے لوگوں کو کہہ سکتے ہیں کہ جو آپ ہی غرق ہو جائیں جس حالت میں دوسروں کو غرق کرنے کا وعدہ تھا جو اُن کے مخالف ہیں یعنی یہی عاجز تو پھر یہ کیسے ملاح اور کیسی اُن کی کشتی تھی اور یہ کس قسم کا الہام تھا جواُلٹا انہیں پر وارد ہو گیا۔

پھر بابو صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۱۸۶ میں لکھتے ہیں جس خدمت پر مرزا صاحب فخرو ناز فرماتے ہیں اُس کی کیفیت تو الہام قل ھل اُنبّئکم بالاخسرین اعمالًا میں گذر چکی ہے۔ یعنیؔ اُن کے تمام اعمال باطل اور ٹوٹے میں پڑے ہوئے ہیں اور صفحہ ۲۰۱ میں میری نسبت فرماتے ہیں کہ میرزا صاحب جلدی نہ فرماویں امید واثق اور یقین کامل ہے کہ سُنت اللہ کے موافق سرکش متمرد ہمچو من دگرے نیست کہنے والے کو انشاء اللہ ضرور ناکامی اور شکست ہوگی۔

اب ناظرین اس کا جواب دیں کہ یہ کلمہ تو منشی صاحب کا میری نسبت تھا مگرکیا خُدا نے اُن کے قول کے موافق مجھے ناکامی اور شکست کی حالت میں موت دی یا بابو الٰہی بخش صاحب کو۔ میں اس سے زیادہ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ اب وہ دُنیا سے گذر چکے ہیں * ۔

پھر صفحہ ۲۰۲ میں منشی الٰہی بخش صاحب لکھتے ہیں۔ بلعم نے اوّل بد دعا کرنے سے انکار کیا۔ پھر اُس کی قوم نے ہدیہ دے کر اُس کو فتنہ میں ڈالا۔ غرض اِس کی ہلاکت کے یہی اسباب تھے۔ پھر جس شخص کے حالات بلعم کے حالات سے مشابہ ہیں جو حقوق تلف کرتا اور جھوٹے دعوے کرتا ہے اس شخص کے لئے یہ قصہ قابلِ عبرت ہے۔ یہ خلاصہ ہے اُن کی تقریر کا مگر افسوس کہ بابو صاحب کو اس طرف توجہ نہ ہوئی کہ جو شخص بغیر کامل تحقیق کے اعتراض کرتا ہے اور ایسے شخص کو جو خدا کے نزدیک معذور اور بَری ہے (جس نے درحقیقت کوئی حق تلفی نہیں کی اور نہ کوئی جھوٹا دعویٰ کیا) بغیر کسی ثبوتِ کامل کے مُفتری قرار دیتا ہے اور دجّال ٹھہراتا ہے اور خدا کے نشان جو بارش


* بعض نادان میرا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ اگر الٰہی بخش نامراد مر گیا تو آپ کی مرادیں کب پوری ہو گئی ہیں۔ لیکن نہیں سوچتے کہ میں تو اب تک زندہ ہوں اور میری مُرادیں دن بدن پوری ہو رہی ہیں لیکن بابو صاحب تو فوت ہو چکے ہیں اور ان کا عصائے موسیٰ ٹوٹ کر انہیں پر پڑا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 560

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 560

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/560/mode/1up


کی طرح اُس کی تائید میں برس رہے ہیں اُن کی بھی پروا نہیں رکھتا۔ کیا ایسے شخص کے لئے بھی کوئی سزا ہے یا نہیں۔ مگر اب ان باتوں کو طول دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب بابو صاحب اپنے مباہلہ اور ملاعنہ کے بعد اس افترا اور بد زبانی کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔

پھر بابو صاحب کا ایک اور الہام ہے جو ان کی کتاب کے صفحہ ۲۲۴ میں درج ہے اور وہ یہ ہے۔ ان یقولون الّا کذبا اتّبع ھواہ وکان امرہ فرطا یعنی جو دعویٰ یہ شخص کرتا ہے اُس کا جھوٹا دعویٰ ہے اور اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے چلتا ہے اور وہ حد سے بڑھ گیا ہے یعنی اب اُس کی ہلاکت کے دن آگئے ہیں۔ اس الہام کا جواب بھی پڑھنے والے خود بخود ہی سمجھ لیں۔

مگر ؔ اب بابو صاحب کے حمایتی فرماویں کہ خدا تعالیٰ کا وہ معاملہ جو وہ اپنی قدیم سنت کے موافق جھوٹوں سے کیا کرتا ہے وہ میرے ساتھ اُس نے کیا یا بابو صاحب کے ساتھ؟ بموجب تعلیم قرآن شریف کے جو منجانب اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے وہ نامراد رہ کر ہلاک ہوتا ہے سو کیا یہ سچ نہیں کہ یہی انجام بابو صاحب کا ہوا؟

پھر بابو صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۳۱۹ میں میری نسبت یہ الہام لکھتے ہیں سینالھم غضب علٰی غضب جعلتہ کالرمیم۔کالعھن المنفوش یعنی اُس شخص پر غضب پر غضب نازل ہوگا اور میں بوسیدہ ہڈی کی طرح اُس کو کر دوں گا اور اُس روئی کی طرح جو دُھنی جاتی ہے۔ اس الہام کو بھی ناظرین آپ ہی سوچ لیں کہ یہ کس پر صادق آیا۔

پھر صفحہ ۴۳۷ میں میری نسبت یہ الہام ہے ثم اماتہ فاقبرہ یعنی خدا اُس کو مارے گا پھر قبر میں ڈالے گا۔

اور پھر کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۴۴۱ میں بابو صاحب کا یہ الہام میری نسبت ہے یمیزالخبیث من الطیّب جعلناہ ھباءً ا منثورا۔ سلام علیکم کتب علٰی نفسہ الرحمۃ جس کا ظہور انشاء اللہ وقت مقدر پر ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے جدا کرکے دکھلاوے گا یعنی کوئی ایسا کرشمہ قدرت دکھلائے گا کہ ثابت ہو جائے گا کہ صادق کون ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 561

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 561

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/561/mode/1up


اور کاذب کون ہے اور اس شخص کو ہم (یعنی مجھ کو)پر اگندہ غبار کی طرح کر دیں گے یعنی ہلاک کر دیں گے مگر اے الٰہی بخش تم پر سلامتی ہے تمہارے لئے خدا نے رحمت لکھی ہے تم ہلاکت سے بچوگے * ۔اب سوچنے والے سوچ لیں کہ آخر انجام کیاہوا؟ کیا وہ تباہی جو میری نسبت بابو صاحب کا الہام بتاتا ہے وہ انہیں پر آئی ہے یا نہیں؟

پھر اسی صفحہ میں لکھتے ہیں کہ ان کو الہام ہوا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَردًا وَّسَلَامًا یعنی اے آگ ٹھندی ہو جا اور سلامتی ہو جا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کونسی آگ اُن پر ٹھنڈی ہو گئی صرف طاعون کی آگ اُن پر نازل ہوئی تھی سو وہ تو ٹھنڈی نہ ہوئی اور اُن کا کام ایک دن میں تمامؔ کر گئی۔ صدہا آدمی لاہور میں طاعون میں مبتلا ہو کر آخر اچھے ہو گئے مگر یہ ملہم صاحب جانبر نہ ہو سکے اور بے وقت موت نے ہزاروں حسرتوں کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کرا دیا۔ اب وہ تو اس جہان کو چھوڑ گئے صرف اُن کے دوستوں کے لئے محض للہ لکھنا پڑا ہے کیونکہ بابو صاحب کی موت کے بعد مجھ کو یہ الہام ہوا تھا فتنّا بعضہم من بعض یعنی ہم نے الٰہی بخش کی موت سے اُن کے دوستوں کا امتحان کرنا چاہا ہے کہ کیا وہ اب بھی سمجھتے ہیں یا نہیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ بابو الٰہی بخش صاحب میرے مقابل پر ایک بڑی سختی کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور کوئی دقیقہ انہوں نے تحقیر اور توہین کا اٹھا نہیں رکھا تھا اور لوگوں کو انہوں نے اپنی کتاب سے گمراہ کیا تھا اور ہر روز میری موت اور تباہی کے منتظر تھے اور اپنے دوستوں کو صدہا الہامات اس قسم کے سنایا کرتے تھے اور خاص کر طاعون سے میری موت اپنی کتاب میں شائع کی تھی۔ پھر یہ کیا ہوا کہ وہ خود طاعون سے نامرادی کے ساتھ مر گئے


* یہ خوب بچنا ہے کہ مرے بھی تو طاعون سے مرے۔ بابو صاحب کے دوستو! سچ کہو کہ کیا تمہاری یہی مراد تھی کہ بابو صاحب میری زندگی میں ہی جس کی موت اور تباہی کے منتظر تھے طاعون سے مر جائیں۔ اُن کے صدہا الہاموں سے جو میرے ہلاک ہونے کے بارے میں تھے میرا کیا نقصان ہوا۔ یہ کیا بات ہو گئی کہ اُن کے الہاموں کی بجلی اُنہیں پرگر گئی۔ کیا کوئی ہے کہ اس کا جواب دے؟ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 562

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 562

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/562/mode/1up


اور ہر ایک پہلو سے خُدا نے میری مدد کی اور قرآن شریف میں کھلے طور پر لکھا ہے کہ33 ۱؂ یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ ہے کہ جو لوگ اُس کی طرف سے آتے ہیں وہ فریق مخالف پر غالب ہو جاتے ہیں۔ پس اس میں کیا راز ہے کہ بابو صاحب میرے مقابل پر غالب نہ آسکے اور ایک بڑا طاعون کا طوفان جو اس مُلک میں اٹھا تھا اور اُس طوفان سے زیادہ تھا جو موسیٰ اور فرعون کے سامنے نمودار ہوا تھابلکہ اس سے بہت ہی بڑا تھا۔ اس طوفان میں بابو صاحب باوجود موسیٰ کہلانے کے غرق ہو گئے اور جس کو فرعون کہتے تھے اُس کو خدا نے اپنے فضل و کرم سے نجات دی۔ مَیں یقیناًسمجھتا ہوں کہ اس وقت ان کے مُنہ سے یہ الفاظ ضرور نکلے ہوں گے کہ3 ۲؂ پھر میں پوچھتا ہوں کہ خدا نے سورہ فاتحہ میں جو اُمّ الکتاب ہے انسانوں کے تین طبقے رکھے ہیں۔ (۱) منعم علیہم (۲) مغضوب علیہم (۳) ضالین۔ پس اب سوچ کر فرماویں کہ بابو الٰہی بخش صاحب کو خدا تعالیٰ نے کس طبقہ میں داخل کیا ہے۔ اگر آپ کے نزدیک وہ ؔ منعم علیہم میں داخل ہیں تو یہ ثبوت آپ کے ذمّہ ہے کہ جو طبقہ منعم علیہم کا کتاب اللہ سے ثابت ہے۔ اس طبقہ والوں کو کبھی طاعون بھی ہوئی ہو۔ اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی ثابت کرو کہ اُن پر انعام کیا ہوا اور انعام وہ چاہئے جو دنیا کے سامنے ایک ثابت شدہ امر ہو عیسائیوں کے کفّارہ کی طرح نہ ہو یعنی صرف اپنا خیال نہ ہو اور اگر مغضوب علیہم میں داخل ہیں تو یہ قرین قیاس ہے کیونکہ قرآن شریف اور توریت سے ثابت ہے کہ طاعون خدا کے غضب کی نشانی ہے اور جو اوّل طبقہ کے مومن اور برگزیدہ ہوتے ہیں اُن کو کبھی طاعون نہیں ہوئی جیسے انبیاء اور صدیق اور کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ اس طبقہ کے لوگوں کو کبھی طاعون ہوئی ہے کیونکہ یہ رجز اللہ جو کفّار اور فاسقین اور گناہ پر اصرار کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے نازل ہوتی ہے اُس میں برگزیدہ لوگ ہر گز ہر گز شریک نہیں کئے جاتے۔ پس جو اپنے تئیں خدا کا ایسا پیارا ٹھہراتا ہے کہ عصائے موسیٰ میں یہ الہام لکھا ہے قل ان کنتم تحبّوناللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ ایسا محبوب طاعون میں کیوں گرفتار ہو گیا۔ یہود کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 563

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 563

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/563/mode/1up


آیا ہے33 ۱؂ ہاں مومن مُذنب جو اول طبقہ میں داخل نہیں اور گناہوں اور کمزوریوں سے خالی نہیں اس کو کبھی تمحیص اور تطہیر کی غرض سے طاعون ہو سکتی ہے۔ مگر خدا سے جو موسیٰ بن کر آیا ہے اُس کو تو نہیں ہو سکتی۔ بلکہ کامل مومن اِس آیت کے نیچے ہیں کہ 3 ۲؂

اور اگر آپ منشی الٰہی بخش صاحب کو فرقہ ضالّین میں داخل سمجھتے ہیں تب تو یہ خطاب اُن کے لئے نہایت معقول ہے کیونکہ عمدًا اُنہوں نے حق کو چھوڑ دیا اور پھر اس قدر بد زبانی اور شوخی اور اشتعال میں کمال کو پہنچ گئے کہ کیا مجال کہ کوئی بات بھی سُن سکیں جس شخص نے میرا ذِکر اُن کے سامنے پیش کیا اوّل تو مجھے اُنہوں نے دس بیس گالیاں سُنا دیں اور پھر عمداً سچی بات سے انکار کر دیا مگر آخر خدا تعالیٰ ہر ایک دل کو جانتا ہے پس درحقیقت اُن کے ساتھ جو خدا تعالیٰ نے ایک معاملہ کیا ہے وہ دانشمندوں کے لئے ایک عبرت کے لائق ہے اور میرا دل جانتا ہے کہ انہوں نے مجھے بہت ہی دُکھ دیا تھا۔

تا دلِ مردِ خدا نامد بدرد


ہیچ قومے را خدا رُسوا نہ کرد

بھلاؔ آپ لوگ خدا تعالیٰ کا خوف مد نظر رکھ کر یہ تو بتلاویں کہ کیا آپ لوگوں کی یہی مراد تھی اور سچ مچ آپ کی یہی تمنّا تھی کہ الٰہی بخش تو نامرادی کے ساتھ طاعون سے مر جائے اور وہ اُس کا مخالف جس کے لئے اُس نے ہزاروں انسانوں میں شہرت دے دی تھی کہ وہ طاعون سے مرے گا خدا اُس کو اِس مرض سے بچاوے اور اُس کو نمایاں ترقیات بخشے اور صدہا نشان اُس کے لئے دکھلاوے یہاں تک کہ الٰہی بخش کی موت کو بھی اُس کے نشانوں میں سے ایک نشان کر دے۔ کیا وہ الہام جو بابو الٰہی بخش صاحب کو ہوا تھا کہ یمیز الخبیث من الطیّب یعنی خدا پاک اور ناپاک میں امتیاز کرکے دکھلاوے گا۔ کیا اس کے یہی معنی تھے کہ بابو الٰہی بخش طاعون سے ہلاک ہو کر اپنے پس ماندوں کو داغ حسرت دے جاوے گا۔ وہ دن کیسا سخت اور تلخ منشی عبد الحق صاحب اور ان کے دوستوں پر تھا جبکہ اُن کے گھر میں بابو صاحب جو ان کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 564

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 564

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/564/mode/1up


مُرشد تھے بر خلاف اُن کے تمام دعووں کے فوت ہو کر ایک سخت مصیبت میں اُن کو چھوڑ گئے اور طاعونی مادّہ سے گھر کو بھی آلودہ کر گئے۔ اب بھی خدا تعالیٰ اُن کے رفیقوں کو کچھ سمجھ دے تا وہ حق کو شناخت کر لیں۔

پھر صفحہ ۲۹۴ میں ایک اور الہام اُن کا ہے اور وہ یہ ہے قل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ قل لَسْتَ مُرْسلًا ذرھم یخوضوا ویلعبواحتّی یلاقوا یومھم الذی کانوا یوعدون یعنی حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور اپنے مخالف کو یعنی اِس عاجز کو کہہ دے کہ تو خدا کی طرف سے نہیں اور ان کو چھوڑ دے تا وہ چند روز لہو و لعب میں رہیں جب تک کہ طاعونی موت کا وعدہ جو دیا گیا ہے وہ وعدہ کا دن نہ آجائے سبحان اللہ یہ کیسے الہام ہیں یہ کیسا حق تھا کہ جھوٹ کے سامنے سے بھاگ گیا اور الہام کو جھوٹا کر گیا اور یہ کیسا وعدہ طاعون کا تھا جو غلطی کھا کر خود ملہم پر ہی وارد ہو گیا۔ کوئی منصف بتلا وے کہ یہ الہامات اگر شیطانی نہیں تھے تو اور کیا تھا۔ اگر خدا اپنے پیاروں کو ہمیشہ طاعون سے بچاتا رہا ہے تو بے چارہ الٰہی بخش جس کو یہ الہام ہوا تھا کہ بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر اور یہ الہام ہوا تھا قل ان کنتم تحبُّوؔ ن اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ اس کو اس سنت اللہ سے کیوں محروم رکھا گیا۔ جو شخص خدا کے بعد سب سے بزرگ تر ہے اور پھر خدا کا ایسا پیارا کہ اُس کی پیروی سے انسان خدا کا پیارا بن جاتا ہے اس پر کیوں یہ رجز آسمانی نازل کیا گیا جوعموماً فاسقوں اور فاجروں پر نازل ہوتاہے۔ کیا ابھی وقت نہیںآیا کہ منصف مزاج لوگ اس بات کو سمجھ لیں کہ بابو الٰہی بخش کا ایسی نامرادی کے ساتھ دنیا سے کوچ کرنا اور پھر طاعون سے کوچ کرنا اور پھر تمام الہامات کے منشاء کے برخلاف کُوچ کرنا ایک فیصلہ کُن امر ہے۔ اور اگر متعصب لوگ ابھی سمجھ نہیں سکتے تو یقیناًیاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کسی سے عاجز نہیں ہو سکتا وہ کوئی اور نشان دکھائے گا مگر افسوس اُن لوگوں پر جو خدا کے صدہا نشان جو روز روشن کی طرح ظاہر ہوتے جاتے ہیں اُن سے تو کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے اور صرف دو تین ایسی پیشگوئیاں جونفسِ امر کے متعلق پوری ہو گئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 565

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 565

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/565/mode/1up


ہیںیا نصف حصہ اُن کا پورا ہوچکا ہے اور وہ وعید کی پیشگوئیاں ہیں اور سُنت اللہ کے موافق اُن پر کوئی اعتراض نہیں۔ بار بارا نہیں کو پیش کرتے ہیں کیا یہ ایمانداری ہے کہ دس ہزار نشان سے مُنہ پھیرنا اور اگر کسی نشان کی حقیقت سمجھ نہ آوے تو اس پر زور دینا اگر یہی بات ہے تو ان لوگوں کا ایمان آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی معاملہ مجھ سے ایسا نہیں جس میں کوئی نبی شریک نہ ہو اور کوئی اعتراض میرے پر ایسا نہیں کہ کسی اور نبی پر وہی اعتراض وارد نہ ہوتا ہو۔ پس ایسے شخص جو میرے پر اعتراض کرنے کے وقت یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ اعتراض بعض اور نبیوں پر بھی وارد ہوتا ہے وہ سخت خطرناک حالت میں ہیں اور اندیشہ ہے کہ دہریہ ہو کر نہ مریں*۔

یاد رہے کہ جس اصرار اور شوخی کے ساتھ بابو الٰہی بخش نے میرے ساتھ مقابلہ کیا اور میری طاعونی موت اور ہر ایک قسم کی نامرادی کی خبریں دیں۔ اگر یہ معاملہ اسی طرح واقع ہو جاتا اور میں بابو الٰہی بخش کی زندگی میں مر جاتا تو نہ معلوم کہ بابو صاحب کے دوست کن کن لعنتوں کے ساتھ مجھ کو یاد کرتے اور کس معراج عزت اور اوج پر اُن کو چڑھا دیتے مگر اب ایک شخص بھی اُن میں سے نہیں بولتا اور چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ نشان معدوم ہو جائے اور اُن کو خوب معلوم ہے کہ ؔ بابو صاحب مباہلہ اور میری پیشگوئی کا نشانہ ہو گئے ہیں اگر وہ نرمی اختیار کرتے تو شاید کوئی دن اور بچ جاتے مگر اُن کے حدیث النفس کے الہام اُن کے لئے زہر قاتل ہو گئے۔ اُن کو خبر نہ تھی کہ خدا کا سچا مکالمہ موت کے بعد حاصل ہوتا ہے جو شخص درحقیقت اپنی تمام ہوا و ہوس اور جذبات نفسانیہ اور ہر ایک قسم کی تیزی اور شوخی کے جوش سے پاک ہو جاتا ہے اور اُس پر خدا کے لئے ایک موت آجاتی ہے وہی زندہ کیا جاتا ہے اور خدا کا مکالمہ فانیوں کے لئے ایک انعام ہوتا ہے۔ ہر ایک مدعی کو یہ دیکھنا چاہئیے کہ درحقیقت وہ فانی ہو چکا ہے یا ابھی جذباتِ نفسانیہ سے پُر ہے۔


* بعض شریر کذاب کہتے ہیں کہ اگر مرزا سے نشان ظاہر ہوتے ہیں تو مسیلمہ کذّاب سے بھی نشان ظاہر ہوئے ہیں ان کے جواب میں صرف یہ کہنا کافی ہے کہ لعنۃ اللّٰہ علَی الکاذبین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 566

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 566

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/566/mode/1up


ہزار نکتۂ باریک تر زِ مُو ایں جاست

نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند

پھر بابو الٰہی بخش صاحب اپنی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۶۹ میں فرماتے ہیں خاکسار کو عجز بشریت سے یہ خیال آیا کہ شاید مرزا صاحب کی ناراضگی سے کچھ نقصان ہو۔ اس پر الہام ذیل میں حفاظت وسلامتی کی تسلی فرمائی گئی واللّٰہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین* فسلام لک یعنی تیرا خدا حافظ ہوگا اور تجھے سلامتی رہے گی کوئی قہر الٰہی تجھ پر نازل نہیں ہوگا یہ ہے الہام بابو صاحب کا جس نے اُن کو تسلی دی کہ فریق مخالف یعنی اس عاجز مظلوم کی بد دعا سے اُن کا کوئی نقصان نہیں ہوگا وہ سلامت رہیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی الہام نے اُن کو بد زبانی اور گالیاں دینے میں چالاک کر دیا۔ پھر اس کے بعد اُن کی بد زبانی ایسی بڑھ گئی جیسے کسی دریا کا پُل ٹوٹ کر اِرد گرد کی بستیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔

افسوس کہ صدہا نشان اُن کی زندگی میں پورے ہوئے مگر کسی نشان سے اُنہوں نے فائدہ نہ اُٹھایا اور ہر ایک نشان کے دیکھنے کے بعد یا کسی سے اُس کا حال سُننے کے بعد یہی بار بار اُن کا جواب تھا کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا احمد بیگ کا داماد اب تک زندہ ہے حالانکہ الہام تھاکہ احمد بیگ کی لڑکی کا نکاح آسمان پر پڑھا گیا ہے۔ اور اُن کی رہنمائی کے لئے بار بار کتابوں میں لکھا گیا کہ ڈپٹی آتھم تو بہر حال فوت ہو چکا ہے میعاد کے اندر مرا یا میعاد کے باہر مرا آخر مر تو گیا اور یہ پیشگوئی شرطی تھی یعنی مرنا اس کا اِس شرط سے تھا کہ جب حق کی طرف وہ رجوع نہ کرے لیکن آتھم نے جلسہ مباحثہ میں ہی اپنا رجوع ظاہر کر دیاجب اُس کو کہا گیا کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ تم نے اپنی کتاب اندرونہ بائیبل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال رکھا ہے تب اُس نے ساٹھ یا ستر آدمیوں کے رو برو جن میں نصف


* افسوس ان کا کوئی دوست بھی اِس بات کو نہیں سوچتا کہ جبکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ان کی حفاظت کرے گا۔ اور میرا ناراض ہونا اُن کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا تو پھر یہ کیا بات ہوئی کہ طاعون نے بابو صاحب کو آپکڑا۔ کہاں گئی وہ حفاظت جس کا وعدہ تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 567

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 567

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/567/mode/1up


کے قریب عیسائی تھے نہایت خوف اور انکسار کی حالت بناکر زبان مُنہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر گز دجّال نہیں کہا اور پھر معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ پند ۱۵رہ مہینہ تک روتا رہا اور خدا تعالیٰ نے بھی مجھے اپنے الہام کے ذریعہ سے خبر دی کہ اِس پیشگوئی کے ذریعہ سے اُس کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ دیوانہ کی طرح ہو گیا ہے اور اُس کے دل میں عظمت اسلام بیٹھ گئی اور اُس نے شوخی اور بد زبانی قطعاً چھوڑ دی اور باوجود ان سب باتوں کے عیسائی مذہب پر قائم رہنے کے ثبوت کے لئے اُس نے قسم نہیں کھائی حالانکہ اس قسم پر چار ہزار۴۰۰۰ روپیہ نقد اُس کو ملتا تھا اور عیسائی مذہب میں قسم کھانا نہ صرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں فرض لکھا ہے اور اس امر کو چھپانا محض بے ایمانی اور شرارت ہے حضرت عیسیٰ نے خود قسم کھائی۔ پولوس نے قسم کھائی۔ پطرس نے قسم کھائی۔ پس یہ تمام دلائل آتھم کے رجوع پر ہیں اور ایک منصف کے لئے کافی ہیں اور اگر اُس کے رجوع پر کوئی دلیل بھی نہ ہوتی تب بھی میرے لئے یہ کافی تھا کہ خدانے اُس کے رجوع کی مجھے خبر دی اور با ایں ہمہ وہ میرے آخری اشتہار سے چھ ۶ماہ گذر نے کے بعد مر گیا۔ پس جبکہ پیشگوئی شرطی تھی اور شرط کے آثار ظاہر ہو گئے تھے تو پھر کسی خدا ترس آدمی کا کام نہیں ہے کہ حیا اور شرم کو ترک کرکے پھر بھی اعتراض سے باز نہ آوے حالانکہ یہ مسئلہ مسلّم ہے کہ وعید یعنی عذاب کی پیشگوئیوں میں کسی شرط کی بھی ضرورت نہیں وہ ٹل سکتی ہیں کیونکہ وہ مجرم کے لئے ایک عذاب دینے کا وعدہ ہے اور خدا حقیقی بادشاہ ہے وہ کسی کی توبہ اور استغفار سے اپنے عذاب کو معاف کر سکتا ہے جیسا کہ یونس نبی کی قوم کو معاف کر دیا اِسی پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپ فرماتا ہے 3333 ۱؂ یعنی اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو جھوٹ بولنے کا عذاب اس پر نازل ہوگا اور اگر سچا ہے تو بعض عذاب جن کا وہ وعدہ دیتا ہے تم پر وارد ہو جائیں گے۔

اب دیکھو خدا نے بعض کا لفظ اِس جگہ استعمال کیا نہ کل کا جس کے یہ معنی ہیں کہ جس قدر عذاب کی اس نبی نے پیشگوئیاں کی ہیں اُن میں بعض تو ضرور پوری ہو جائیں گی۔ گو بعض معرض التوا میں رہ جائیں گی۔ پس



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 568

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 568

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/568/mode/1up


نص قرآنی سے یہ ثابت ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کا پورا ہونا ضروری نہیں ہاں اِس آیت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مفتری کسی طرح عذاب سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کے لئے یہ قطعی حکم ہے کہ33 ۱؂ پس اگر مفتری کے لئے کوئی عذاب کی پیشگوئی ہو تو وہ ٹل نہیں سکتی۔

ہائے افسوس کچھ سمجھ نہیں آتا یہ کیسی بے حیائی ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ اقرار کرتے ہیں کہ صدقہ خیرات اور دعا وغیرہ سے بلا ردّ ہوجاتی ہے۔ اور دوسری طرف اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس بلا کی اطلاع رسول کو دی جائے کہ فلاں قوم یا فلاں شخص پر وارد ہوگی وہ بلا صدقہ خیرات یا توبہ استغفار سے ٹل ہی نہیں سکتی۔ تعجب یہ کہ کیسے ان لوگوں کی عقل پر پردے پڑ گئے کہ اپنی کلام میں تناقض جمع کر لیتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ توبہ استغفار سے بلا ٹل سکتی ہے اور یہ بھی کہ نہیں ٹل سکتی اور پھر جبکہ مجھے خدا نے اپنے الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے دی کہ آتھم نے ضرور رجوع کیا تھا اور آتھم کے قول اور فعل سے اس کے آثار بھی ظاہر ہو گئے تو پھر ان شرارتوں سے باز نہ آنا کیا یہی اُن لوگوں کی تقویٰ ہے کم سے کم کَفِّ لِسان پر کیوں کفایت نہ کی *۔


* جنؔ لوگوں کو خدا کا خوف نہیں ہے وہ ایسی نکتہ چینیاں کرتے ہیں جن کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے اعتراض کے نیچے آجاتے ہیں چنانچہ بعض نادان کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے بعض لوگ بھی طاعون سے ہلاک ہو گئے ہیں منجملہ ان کے ڈاکٹر عبد الحکیم خان بھی ہے جو بہت خوش ہو کر لکھتا ہے کہ سنور میں فلاں فلاں احمدی طاعون سے فوت ہو گیا ہے۔ ہم ایسے متعصبوں کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کا طاعون سے فوت ہونا بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہؓ لڑائیوں میں شہید ہوتے تھے۔ یہ امر تو قرآن کی نص صریح سے ثابت ہے کہ وہ لڑائیاں محض کافروں پر عذاب نازل کرنے کے لئے تھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ اگر چاہوں تو ان کافروں پر آسمان سے عذاب نازل کروں اور یا زمین سے ان کے لئے عذاب پیدا کروں اور یابعض کو بعض کی لڑائی کا مزہ چکھاؤں۔ مگر باایں ہمہ ان لڑائیوں میں اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہوتے رہے لیکن آخری نتیجہ یہ تھا کہ کافر گھٹتے گئے اور مسلمان بڑھتے گئے اور وہ لڑائیاں مسلمانوں کے لئے سراسر برکت کا موجب ہو گئیں اور کافروں کی بیخ کنی کر گئیں۔ اسی طرح مَیں کہتا ہوں اور بڑے دعویٰ اور زور سے کہتا ہوں کہ اگر ایک شخص ہماری جماعت میں سے طاعون سے مرتا ہے تو بجائے اس کے سو۱۰۰ آدمی یا زیادہ ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے اور یہ طاعون ہماری جماعت کو بڑھاتی جاتی ہے اور ہمارے مخالفوں کو نابود کرتی جاتی ہے۔ ہر ایک مہینہ میں کم سے کم پانسوؔ آدمی اور کبھی ہزار



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 569

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 569

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/569/mode/1up


بھلا میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتا اور آپ وحی کے ذریعہ سے فرماتے کہ فلاں شخص جس پر عذاب نازل ہونا تھا پوشیدہ طور پراپنی شوخیوں سے باز آگیا ہے تو پھر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو یہ لوگ قبول کرتے یا رد کر دیتے۔ اور اگر قبول نہ کرتے تو پھر کیا خدا کے نزدیک سزا کے لائق ٹھہرتے یا نہ ٹھہرتے؟ پسؔ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے آتھم کے لئے یہ شرط مقرر کر دی تھی اور اس نے مجھے اپنی وحی کے رو سے بتلا دیا تھا کہ آتھم اپنی شرارت اور شوخی پر قائم نہیں رہا۔ پس تقویٰ کا حق یہ تھا کہ اِس بحث کو لپیٹ کر رکھ دیتے اور حُسن ظن سے کام لیتے اور دل میں سوچتے کہ شاید یہی امر صحیح ہو۔ پھر جس حالت میں محض خدا کی وحی نے مجھے یہ اطلاع نہیں دی بلکہ جیسا کہ میں ابھی لکھ چکاہوں خود آتھم نے بھی ایسے ہی آثار ظاہر کئے تو ہر ایک پرہیز گار انسان کے یہی لائق تھا کہ اِس میں دم نہ مارتا اور خدا سے ڈرتا۔

رہا معاملہ احمد بیگ کے داماد کا۔ سو ہم کئی دفعہ لکھ چکے ہیں کہ وہ پیشگوئی دو شاخوں پر مشتمل تھی۔ ایک شاخ احمد بیگ کی موت کے متعلق تھی۔ دوسری شاخ اُس کے داماد کی موت کے متعلق تھی اور پیشگوئی شرطی تھی۔ سو احمد بیگ بوجہ نہ پورا کرنے شرط کے میعاد کے اندر مر گیا اور اُ س کے داماد نے اور ایسا ہی اُس کے عزیزوں نے شرط پورا کرنے سے اس کا فائدہ اُٹھا لیا۔ یہ تو لازمی امر تھا کہ احمد بیگ کی موت سے اِن کے دلوں میں خوف پیدا ہو جاتا ۔ کیونکہ پیشگوئی میں دونوں شریک تھے اور جب دو شریکوں میں سے ایک پر موت وارد ہو گئی تو


بقیہ حاشیہ۔ دو ہزار آدمی بذریعہ طاعون ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے۔ پس ہمارے لئے طاعون رحمت ہے اور ہمارے مخالفوں کے لئے زحمت اور عذاب ہے اور اگر دس۱۰ پندرہ ۱۵سال تک ملک میں ایسی ہی طاعون رہی تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ تمام ملک احمدی جماعت سے بھر جائے گا۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ طاعون ہماری جماعت کو بڑھاتی جاتی ہے اور ہمارے مخالفوں کو گھٹاتی جاتی ہے۔ اور اگر اس کے بر خلاف ثابت ہو تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسے ثابت کنندہ کومَیں ہزارروپیہ نقد دینے کو تیار ہوں۔ کون ہے کہ اس مقابلہ کے لئے کھڑا ہووے اور ہم سے ہزارو روپیہ لیوے؟ افسوس کہ یہ مخالف لوگ ایسےؔ اندھے ہو گئے ہیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 570

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 570

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/570/mode/1up


انسانی فطرت کا ایک ضروری خاصہ تھا کہ جو شخص اس پیشگوئی کا دوسرا نشانہ تھا اُس کو اور اُس کے عزیزوں کو موت کا فکر پڑ جاتا جیسا کہ اگر ایک ہی کھاناکھانے سے جو دو آدمیوں نے مل کر کھایا تھا ایک اُن میں سے مر جائے تو ضرور دوسرے کو بھی اپنی مو ت کا فکر پڑ جاتا ہے۔ سو اِسی طرح احمد بیگ کی موت نے وہ خوف باقی ماندہ شخص اور اُس کے عزیزوں پر ڈالا کہ وہ مارے ڈر کے مُردہ کی طرح ہو گئے۔ انجام یہ ہوا کہ وہ بزرگ خاندان جو بانی اِس کام کے تھے سلسلہ بیعت میں داخل ہو گئے۔

اور یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھا گیا ہے یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اُسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ ایتھاالمرأۃ توبِیؔ توبِی فان البلاء علٰی عقبکِ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ یمحواللّٰہ مایشاء ویثبت نکاح آسمان پر پڑھا گیا یا عرش پر مگر آخر وہ سب کارروائی شرطی تھی شیطانی وساوس سے الگ ہو کر اس کو سوچنا چاہئیے کیا یونسؑ کی پیشگوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی جس میں بتلایا گیا تھا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا مگر عذاب نازل نہ ہوا حالانکہ


بقیہ حاشیہ۔ ان کو معلوم نہیں کہ دراصل طاعون ہماری دوست اور ان کی دشمن ہے۔ جس قدر طاعون کے ذریعہ سے ہماری ترقی تین چار سال میں ہوئی ہے وہ دوسری صورت میں پچاس سال میں بھی غیر ممکن تھی۔ پس مبارک وہ خدا ہے جس نے دنیا میں طاعون کو بھیجا تا اس کے ذریعہ سے ہم بڑھیں اور پھولیں اور ہمارے دشمن نیست و نابود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے طاعون کے وجود سے پہلے بذریعہ الہام مجھے خبر دی کہ دنیا میں طاعون آئیگی اور ہمارے دشمن اس سے نیست و نابود ہوتے جائیں گے مگر ہماری کثرت اس کے ذریعہ سے ہوگی پس اس سے زیادہ اندھا کون شخص ہے جو چند احمدی لوگوں کا طاعون سے فوت ہونا پیش کرتا ہے اور اس سے اب تک بے خبر ہے کہ اب تک کئی لاکھ انسان طاعون نے ہماری جماعت میں داخل کر دیا اور ہر روز داخل کر رہی ہے پس مبارک ہے یہ طاعون جو ہمارے عدد کو بڑھا رہی ہے اور مخالفوں کو گھٹا رہی ہے اور حقیقت میں ہماری جماعت کا طاعون سے کوئی فوت نہیں ہوا کیونکہ ایک کے عوض ہم نے سو یا زیادہ اس سے پا لیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 571

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 571

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/571/mode/1up


اِس میں کسی شرط کی تصریح نہ تھی۔ پس وہ خدا جس نے اپنا ایسا ناطق فیصلہ منسوخ کر دیا کیا اس پر مشکل تھا کہ اس نکاح کو بھی منسوخ یا کسی اور وقت پر ڈال دے۔

غرض بے حیا لوگ ان اعتراضوں کے وقت نہیں سوچتے کہ ایسے اعتراض سب نبیوں پر پڑتے ہیں۔ نمازیں بھی پہلے پچاس۵۰ نمازیں مقرر ہو کر پھر پانچ۵ رہ گئیں اور توریت پڑھ کر دیکھو صدہا مرتبہ خدا کے قرار دادہ عذاب حضرت موسیٰ کی شفاعت سے منسوخ کئے گئے ایسا ہی یونس کی قوم پر آسمان پر جو ہلاکت کا حکم لکھا گیا تھا وہ حکم ان کی توبہ سے منسوخ کر دیا گیا اور تمام قوم کو عذاب سے بچا لیا گیا۔ اور بجائے اس کے حضرت یونسؑ خود سخت مصیبت میں پڑ گئے کیونکہ اُن کو یہ خیال دامنگیر ہوا کہ پیشگوئی قطعی تھی اور خدا کا ارادہ عذاب نازل کرنے کا مصمّم تھا۔ افسوس کہ یہ لوگ یونسؑ کے قصہ سے بھی کچھ سبق حاصل نہیں کرتے۔ اُس نے نبی ہو کر محض اِس خیال سے سخت مصیبتیں اُٹھائیں کہ خدا کا قطعی ارادہ جو آسمان پر قائم ہو چکا تھا کیونکر فسخ ہو گیا ہے۔ اور خدا نے توبہ پر ایک لاکھ آدمی کی جان کو بچالیا اور یونسؑ کے منشاء کی کچھ بھی پروا نہ کی۔

کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا یہ مذہب ہے کہ خدا اپنے ارادوں کو بدلا نہیں سکتا اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی کو ٹال نہیں سکتا۔ مگر ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ٹال سکتا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہے گا اور ہم ایسے خدا پر ایمان ہی نہیں لاتے کہ جو بلا کو توبہ اور استغفار سے ردّ نہ کر سکے اور تضرع کرنے والوں کے لئے اپنے ارادوں کو بدل نہ سکے وہ ہمیشہ بدلتا رہے گا یہاں تک کہ پہلی آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی صرف پندرہ ۱۵دن کی عمر رہ گئی تھی خدا نے اُس کی تضرع اور گریہؔ وزاری سے بجائے پندر ۱۵ہ دن کے پندرہ ۱۵سال کر دیئے یہی ہمارا ذاتی تجربہ ہے ایک خوفناک پیشگوئی ہوتی ہے اور دُعاسے ٹل جاتی ہے۔ پس اگر ان لوگوں کا فرضی خدا ان باتوں پر قادر نہیں تو ہم اُس کو نہیں مانتے۔ ہم اُس خدا کو مانتے ہیں جس کی صفت قرآن شریف میں یہ لکھی ہے کہ3 3 ۱؂ اور وعید یعنی عذاب کی پیشگوئی ٹلنے کے بارہ میں تمام نبی متفق ہیں۔ رہی وعدہ کی پیشگوئی جس کی نسبت یہ حکم ہے کہ3 ۲؂ ا س کی نسبت



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 572

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 572

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/572/mode/1up


بھی ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا اس وعدہ کا تخلف نہیں کرتا جو اُس کے علم کے موافق ہے لیکن اگر انسان اپنی غلطی سے ایک بات کو خدا کا وعدہ سمجھ لے جیسا کہ حضرت نوح نے سمجھ لیا تھا ایسا تخلف وعدہ جائز ہے کیونکہ دراصل وہ خدا کا وعدہ نہیں بلکہ انسانی غلطی نے خواہ نخواہ اُس کو وعدہ قرار دیا ہے اِسی کے متعلق سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں قد یوعد ولا یوفٰی یعنی کبھی خدا تعالیٰ وعدہ کرتاہے اور اُس کو پورا نہیں کرتا۔ اس قول کے بھی یہی معنی ہیں کہ اس وعدہ کے ساتھ مخفی طور پر کئی شرائط ہوتے ہیں *اور خدا تعالیٰ پر واجب نہیں کہ تمام شرائط ظاہر کرے پس اس جگہ ایک کچا آدمی ٹھوکر کھاکر منکر ہو جاتا ہے اور کامل انسان اپنے جہل کا اقرار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی کے وقت باوجود یکہ فتح کا وعدہ تھا بہت رو رو کر دعا کرتے رہے اور جناب الٰہی میں عاجزانہ یہ مناجات کی کہ اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا*کیونکہ آپ اس سے ڈرتے تھے کہ شاید اس وعدہ کے اندر کوئی مخفی شرائط ہوں جو پوری نہ ہو سکیں۔ ہر کہ عارف ترست ترساں تر۔

ایسا ہی بابو صاحب کا ایک یہ بھی اعتراض تھا کہ لڑکا پیدا ہونے کی پیشگوئی کی تھی مگر لڑکی پیدا ہوئی۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ لڑکی کا وجود عدم کی طرح تھا کیونکہ بعد اس کے وہ مر گئی اور اس کے بعد ایک لڑکا بھی مر گیا۔ پھر بعد اس کے خدا نے متواتر چار لڑکے دیئے جو اُس کے


* یہ عادت اللہ قدیم سے جاری ہے کہ اس کی پیشگوئیوں میں کوئی حصہ متشابہات کا ہوتا ہے اور کوئی بیّنات کا اور کبھی بعض پیشگوئیاں صرف متشابہات کے رنگ میں ہوتی ہیں اور ایک جاہل آدمی صرف متشابہات پر نظر رکھ کر پیشگوئی کی تکذیب کرتا ہے حالانکہ اگر کوئی پیشگوئی جو متشابہات میں سے ہے ملہم کے خیال کے مطابق ظہور میں نہ آوے تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ وہ جھوٹی نکلی بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ملہم کے اپنے خیال میں غلطی ہوئی جیسا کہ حدیث ذَھَبَ وَھْلِیْ اس پر شاہد حال ہے ہاں برگزیدوں کی پیشگوئیوں میں متشابہات کم ہوتے ہیں اور بیّنات زیادہ۔ مگر ہوتے ضرور ہیں تا خدا اس سے صالح اور فاسق کا امتحان کرے اور خدا کے برگزیدہ کثرت بیّنات سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ایسا نہیں کہ ان کی پیشگوئیاں متشابہت سے بالکل پاک ہوتی ہیں۔ منہ


* یعنی اے میرے خدا اگر تونے اس گروہ کو ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر کوئی تیری پرستش نہیں کرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 573

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 573

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/573/mode/1up


فضل و کرم سے اب تک زندہ ہیں۔ پس خدا کے علم میں مرنے والے کی طرف وہ پیشگوئی منسوب نہیں ہو سکتی اور خدا کے نزدیک وہ کالعدم ہے اور خدا کی پیشگوئی ایک جینے والے لڑکے کے متعلق تھی۔ خدا کا ایسا کوئی الہام نہیں کہ وہ عمر پانے والا لڑکا پہلے حمل سے ہی پیدا ہوگا اور اگر کوئی اجتہادی خیال ہو تو اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کا کام ہے جو نبی کے اپنے اجتہاد کو واجب الوقوع سمجھتے ہیں تعجب کہ یہ لوگ کیسے اپنے افتراسے ایک اعتراض بنا لیتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ جب انسان جھوٹ بولنا روا رکھ لیتا ہے تو حیا اور خدا کا خوف بھی کم ہو جاتاہے۔ ناظرین یاد رکھیں کہ میری طرف سے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی شائع نہیں ہوئی جس کے الہامی الفاظ میں یہ تصریح کی گئی ہو کہ اِسی حمل سے لڑکا پیدا ہوگا۔ رہا اجتہاد تو میں اس بات کا خود قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس نے کبھی اجتہاد میں غلطی نہیں کی۔ جب وہ نبی جو تمام انبیاء سے افضل تھا اجتہادی غلطی سے بچ نہ سکا۔ چنانچہ حدیبیہ کا سفر اجتہادی غلطی تھی۔ یمامہ کو ہجرت گاہ قرار دینا اجتہادی غلطی تھی تو پھر دوسروں پر کیا اعتراض۔ ایک نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے مگر خدا کی وحی میں غلطی نہیں ہوتی۔ ہاں اس کے سمجھنے میں اگر احکام شریعت کے متعلق نہ ہو کسی نبی سے غلطی ہو سکتی ہے جیسا کہ ملاکی نبی اس راز کو سمجھ نہ سکا کہ الیاس نبی کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا حقیقت پر محمول نہیں بلکہ استعارہ کے رنگ میں ہے اور اسرائیلی کوئی نبی توریت کی پیشگوئی سے یہ نہ سمجھ سکا کہ آخری نبی بنی اسمٰعیل میں سے ہے۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ نے بھی اجتہادی غلطی سے اپنے تئیں بادشاہ بننا یقین کر لیا اور کپڑے بیچ کر ہتھیار بھی خریدے گئے۔ یہودا اسکریوطی کو بہشت کا ایک تخت بھی دیا گیا۔ پھر اسی زمانہ میں آسمان سے واپس آنے کا بھی پختہ وعدہ دیا آخر وہ سب پیشگوئیاں غلط نکلیں۔ پس جس امر میں تمام انبیاء شریک ہیں اور ایک بھی اُن میں سے باہر نہیں اس کو اعتراض کی صورت میں پیش کرنا کسی متقی کا کام نہیں ہے۔

خدا تعالیٰ نے یہ اجتہادی غلطی انبیاء کے لئے اس واسطے مقرر کر رکھی ہے تا وہ معبود نہ ٹھہرائے جائیں مگر اِس سے ان کی اتمام حجت میں کچھ فرق نہیںآتا۔ کیونکہ معجزات کثیرہ سے ان کی حقیقت ثابت ہو جاتی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 574

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 574

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/574/mode/1up


ہے۔ خدا کے سچے نبی مسیلمہ کذّاب یا دیگر جھوٹے مدعیان سے صرف اجتہادی غلطی سے جو ان کی کسی پیشگوئی میں ہو مشابہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں سچائی کے انوار اور برکات اور معجزات اور الٰہی تائیدات اِس قدر ہوتی ہیں جو ان کی سچائی کی تیز دھار مخالف کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے اور اُن کے ہزار ہانشان ایک پُر زور دریا کی طرح موجزن ہوتے ہیں۔

ہاں اگر یہ اعتراض ہو کہ اِس جگہ وہ معجزات کہاں ہیں تو میں صرف یہی جواب نہیں دوں گا کہ میں معجزات دکھلا سکتا ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میراجواب یہ ہے کہ اُس نے میرا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے اس قدر معجزات دکھائے ہیں کہ بہت ہی کم نبی ایسے آئے ہیں جنہوں نے اِس قدر معجزات دکھائے ہوں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اُس نے اِس قدر معجزات کا دریا رواں کر دیا ہے کہ باستثناء ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باقی تمام انبیاء علیہم السلام میں ان کا ثبوت اس کثرت کے ساتھ قطعی اور یقینی طور پر محال ہے اور خدا نے اپنی حجت پوری کر دی ہے اب چاہے کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔

یہ تو وہ اعتراض مخالف لوگوں کے ہیں جن کو بابو الٰہی بخش صاحب نے بار بار اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں لکھ کر اپنی دانست میں بڑا ثواب حاصل کر لیا ہے جس کی حقیقت مرنے کے بعد اُن پر کھل گئی ہوگی۔

لیکن عام فائدہ کے لئے میں اس جگہ بیان کرتا ہوں کہ ان مخالفوں کے اعتراض میرے نشانوں کے بارے میں تین قسم سے باہر نہیں ہیں۔

(۱) اوّل محض افترااور تہمتیں ہیں جو خدا تعالیٰ کے قہر سے بے خوف ہو کر میرے پر کی ہیں اور نہایت درجہ کی شرارت اور بے باکی سے شہرت دیدی ہے کہ فلاں پیشگوئی جو فلاں شخص کی نسبت تھی پوری نہیں ہوئی۔ حالانکہ جس پیشگوئی کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ہر گز اس کی نسبت وہ پیشگوئی نہیں کی گئی تھی جیسا کہ پیشگوئی کلب یموت علٰی کلب جومولوی محمد حسین صاحب کی طرف خود بخود منسوب کر دیتے ہیں پس اِس کاجواب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 575

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 575

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/575/mode/1up


بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

(۲)ؔ دوسرے یہ کہ کسی شخص کی نسبت واقعی طور پر ایک پیشگوئی تو ہے مگر وہ پیشگوئی وعید اور عذاب کے رنگ میں تھی اور اپنی شرط کے موافق پوری ہو گئی یا کسی وقت اُس کا ظہور ہو جائے گا۔

(۳) تیسرے یہ کہ محض ایک اجتہادی امر ہے اور اُس کو خدا کا کلام قرار دے کر پھر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی تھی جو پوری نہیں ہوئی جبکہ یہ حال ہے تو ظاہر ہے کہ کوئی نبی ان کی زبان سے بچ نہیں سکتا۔

میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مخالف مشرق اور مغرب کے جمع ہو جاویں تو میرے پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکتے کہ جس اعتراض میں گذشتہ نبیوں میں سے کوئی نبی شریک نہ ہو اپنی چالاکیوں کی وجہ سے ہمیشہ رُسوا ہوتے ہیں اور پھر باز نہیں آتے۔ اور خدا تعالیٰ میرے لئے اِس کثرت سے نشان دِکھلا رہا ہے کہ اگر نوحؑ کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔ مگر میں ان لوگوں کو کس سے مثال دوں وہ اُس خیرہ طبع انسان کی طرح ہیں جو روزِ روشن کو دیکھ کر پھر بھی اِس بات پر ضد کرتا ہے کہ رات ہے دن نہیں۔خدا تعالیٰ نے اُن کو پیش از وقت طاعون کی خبر دی اور فرمایا الامراض تشاع والنفوس تضاع مگر انہوں نے اِس نشان کی کچھ بھی پروانہ کی۔ پھر خدا نے غیر معمولی زلزلہ کی خبر دی جو اِس مُلک میں ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کو آنے والا تھا اور وہ آیا اور صدہا آدمیوں کو ہلاک کر گیا۔ مگر ان لوگوں نے اُس کی بھی کچھ پروا نہ کی۔ پھر خدا نے فرمایا کہ بہار میں ایک اور زلزلہ آئے گا۔ سو وہ بھی آیا مگر ان لوگوں نے اُس کو بھی نظر انداز کیا۔ پھر خدا نے ایک آتشی شعلہ کی خبر دی تھی جو ۳۱؍مارچ ۱۹۰۷ء کو ظاہر ہوا اور قریباً ہزار میل تک عجیب شکل میں مشاہدہ کیا گیا۔ لیکن ان لوگوں نے اِس سے بھی کچھ سبق حاصل نہ کیا۔ پھر خدا نے یہ پیشگوئی کی کہ بہار کے موسم میں سخت بارشیں ہوں گی سخت برف اور اولے پڑیں گے اور سخت درجہ کی سردی ہوگئی مگر ان لوگوں نے اِس عظیم الشان نشان کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ پھر خدا نے اِسی مارچ ۱۹۰۷ء میں ایک اور زلزلہ کی خبر دی جو پشاور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 576

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 576

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/576/mode/1up


کےؔ بعض حصوں میں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑے زور سے آیا مگر اُس کو بھی کالعدم قرار دیا۔ ایسا ہی خدا نے دوسرے ملکوں کے بارہ میں بھی بڑے زلزلوں کی خبر دی اور وہ سب پیشگوئیاں ظہور میں آگئیں مگر ان لوگوں نے اُن سے بھی نیکی کا سبق حاصل نہ کیا۔ اب اِن لوگوں کا مقابلہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے اگر یہ تمام نشان درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ایک مامور بندے کی تائید میں ہیں تو وہ بس نہیں کرے گا جب تک اُن کے قبول کرنے کے لئے گردنیں نہ جھکا دے اور اگر خدا تعالیٰ سے نہیں ہیں تو یہ لوگ فتح یاب ہو جائیں گے۔

پھر صفحہ ۷۸ میں بابو الٰہی بخش صاحب اپنا یہ الہام پیش کرتے ہیں لا تستوی بآیات اللّٰہ اور اُسی جگہ پر اپنی طرف سے اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ جو آیات (نشان) خدائے عزّوجلّ نے خاکسار کے لئے مقدر فرمائے ہیں اُن کی برابری مرزا صاحب کی جماعت کو نصیب نہیں۔ اب ہر ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اس طرف تو اب تک صدہا نشان ظہور میں آچکے ہیں مگر بابو صاحب کے فرضی نشانوں کا کچھ پتہ نہیں۔ شاید آپ کے نزدیک آپ کا طاعون سے فوت ہونا ہی ایک نشان ہو۔

پھر صفحہ ۸۳ عصائے موسیٰ میں آپ لکھتے ہیں کہ جب مرزا صاحب کی طرف سے عاجز کو اظہار علامات کا سخت تقاضا ہوا تو الہام ہوا یریدون لیطفؤا نور اللّٰہ بافواھہم واللّٰہ متمّ نورہٖ ولو کرہ الکافرون۔ جو اور کا چاہے بُرا اُس کا بُرا ہو جائے گا۔ یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے مُنہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا تو اُس کو نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کر لے۔ جو اور کا چاہے بُرا اُس کا بُرا ہو جائے گا۔

اب کوئی بتلا سکتا ہے کہ میاں الٰہی بخش کے ہاتھ سے کون سا نور پورا ہوا اور بابو صاحب کا یہ الہام کہ جو اور کا چاہے بُرا اُس کا بُرا ہو جائے گا۔ بڑی صفائی سے پورا ہو گیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں طاعون سے ہلاک ہو جاؤں اور اسی بنا پر انہوں نے الہام بھی شائع کیا تھا۔ سو آخر وہ خود طاعون سے فوت ہو گئے۔ بابو صاحب کے رفیقوں کو اِس جگہ کچھ سوچنا چاہئے۔ کیا یہی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 577

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 577

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/577/mode/1up


الہاؔ م ہیں جن کے پورے ہونے تک بابو صاحب کا زندہ رہنا ضروری تھا۔

پھر بابو صاحب اپنی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۱۲۴ میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں۔ غور کریں کہ جس پر وہ رحیم و کریم ایسا فضل و کرم کرے اُس کو اگر امام کی مخالفت مُضر ہے تو ایسے الہام کیوں ہوں۔ ہاں اگر اُس قادر مطلق احکم الحاکمین غیاث المستغیثین و ہادی المضلّینکا اس بے چارہ وبے گناہ عاجز مُلہم کو بذریعہ الہام ہی تباہ و ہلاک کرنے کا ارادہ ہے تو اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اقول: واضح ہو کہ بابو الٰہی بخش اپنے فضول الہاموں کے ذریعہ سے ہلاک تو ہو گئے لیکن یہ بات غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ بذریعہ انہیں کے الہام کے ان کو ہلاک کرے خدا تعالیٰ کسی کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا مگر لوگ اپنی بے باکی اور شوخی سے آپ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ کیا عقل سلیم اِس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ ایک خدا کا مامور صدی کے سر پر پیدا ہو اور لوگوں کو راہ راست کی طرف دعوت کرے اور اس سے خدا تعالیٰ مکالمہ مخاطبہ کرے اور ہزار ہانشان اس کی تائید میں ظاہر کرے اور پھر ایک شخص اُس کو قبول نہ کرے اور کہے کہ مجھے خود الہام ہوتا ہے اور اپنے الہام کے منجانب اللہ ہونے کی کوئی برہان واضح پیش نہ کرے لیکن انکار اور سبّ و شتم سے بھی باز نہ آوے۔ پس ایسا شخص اگر ہلاک ہو جاوے تو اپنی شوخی سے ہلاک ہوگا کیونکہ اُس نے بغیر ثبوت کے روشن ثبوت سے مُنہ پھیرلیا۔ اور جبکہ بابو صاحب کے پاس خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت اور زبردست شہادت اُن کے الہام کے منجانب اللہ ہونے پر موجود نہ تھی تو ایسے مدّعی کے مقابلہ پر شوخی کے ساتھ کھڑا ہونا جس کے ملہم ہونے پر خدا کی فعلی شہادت نہ ایک نہ دو بلکہ ہزار ہا زبردست شہادتیں ہیں۔ کیا یہ ایمانداری اور تقویٰ کا کام تھا پس اسی چالاکی اور بیباکی کے باعث بابو صاحب طاعون کے ساتھ ہلاک ہو گئے ورنہ خدا کے برگزیدہ طاعون سے ہلاک نہیں ہوا کرتے۔ اور جس حالت میں شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں اور حدیث النفس بھی تو پھر کسی قول کو کیونکر خدا کی طرف منسوب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 578

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 578

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/578/mode/1up


کرؔ سکتے ہیں جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کی فعلی شہادت زبردست نہ ہو۔ ایک خدا کا قول ہے اور ایک خدا کا فعل ہے اور جب تک خدا کے قول پر خدا کا فعل شہادت نہ دے ایسا الہام شیطانی کہلائے گا اور شہادت سے مُراد ایسے آسمانی نشان ہیں کہ جو انسانوں کی معمولی حالتوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ ورنہ یہ امر نشان میں داخل نہیں ہو سکتا کہ کسی کو اتفاقی طور پر کوئی سچی خواب آجاوے یا شاذ و نادر کے طور پر کبھی کوئی سچا الہام ہو جاوے کیونکہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمام مخلوقات کو بطور بیج کے دیا گیا ہے۔ بلکہ نشان سے مُراد وہ کثیر التعداد نشان ہیں جو بارش کی طرح برس کر اور بے مثل کے درجہ تک پہنچ کر خدا کے قول پرقطعی اور یقینی گواہی دے دیں کہ وہ خدا کا قول ہے نہ انسان کا کیونکہ چند معمولی خوابوں یا چند معمولی الہاموں پر بھروسہ کرکے جو تمام دنیا کو ہوا کرتے ہیں یہ دعویٰ پیش کر دینا کہ میں خدا کی طرف سے مُلہم ہوں اِس سے بڑھ کر کوئی حماقت نہیں۔ اور خدا تعالیٰ پر یہ الزام نہیں آسکتا کہ الہام دے کر کیوں اُس نے نامرادی سے ہلاک کیا بلکہ یہ الزام خود اسی نادان پر آتا ہے جس نے حدیث النفس کو الہام سمجھ لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ جب آپ پر فرشتہ جبرائیل ظاہر ہوا تو آپ نے فی الفور یقین نہ کیا کہ یہ خدا کی طرف سے ہے بلکہ حضرت خدیجہ کے پاس ڈرتے ڈرتے آئے اور فرمایا کہ خشیت علٰی نفسی یعنی مجھے اپنے نفس کی نسبت بڑا اندیشہ ہوا ہے کہ کوئی شیطانی مکرنہ ہو۔ لیکن جو لوگ بغیر تزکیۂ نفس کے جلدی سے ولی بننے کی خواہش کرتے ہیں وہ جلدی سے شیطان کے فریب میں آجاتے ہیں۔ پس سوچنا چاہئے کہ اگر بابو صاحب کے الہامات شیطانی الہام نہیں تو خدا کے زبردست افعال نے ان کی کیوں گواہی نہ دی۔ افسوس وہ خود تو مر گئے مگر سخت ذلّت اور رُسوائی کا ٹیکا اپنے رفیقوں کے مُنہ پر لگا گئے اور اسی طرح بابو صاحب سے پہلے ہزاروں انسان ایسے الہاموں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ افسوس دُنیا کے لوگ سونے کو توپرکھ لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کھوٹا نکلے مگر اپنے الہاموں کو نہیں پرکھتے کہ آیا خدا کی طرف سے ہیںیا شیطان کی طرف سے۔ پھر خدا تعالیٰ کا کیا قصور ہے۔ جو شخص بغیر شہادت فعل الٰہی کے صرف قول پر نازاں ہو گا یہی ذلّت اُس کو ضرور ایک دن دیکھنی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 579

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 579

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/579/mode/1up


پڑے گی اور نہ صرف نامُرادی کی ذلّت اور نہ صرف یہ کہ مباہلہ کرکے فریق مخالف کے مقابل پر موت کی ذِلّت بلکہ طاعون کی ذلّت بھی دیکھے گا جس کی نسبت حدیث صحیح میں لکھا ہے کہ الطاعون وخذ الجنّ یعنی طاعون شیطان کی چوبکی ہے۔ پس طاعون سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بابو صاحب تنزّل شیاطین کے اثر کے نیچے تھے۔

پھر بابو الٰہی بخش صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۴ میں میری اور اپنی باہمی خط و کتابت کو چھاپ دیا ہے اُس کو پڑھ کرہر ایک انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں نے بابو صاحب سے اِس بات پر اصرار کیا تھا کہ جو میرے پر انہوں نے الہام کی بنا پر تہمتیں لگائی ہیں کہ یہ شخص کذّاب ہے اور مُسرف ہے یعنی جو کچھ دعویٰ الہام کرتا ہے یہ سب اس کا افتراہے اور حد سے بڑھ گیا ہے منشی صاحب میرے اس افتراکو جو اُنہیں اپنے الہام کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے شائع کر دیں تافیصلہ ہو جاوے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی اُس سے ظالم تر کون ہے کہ خدا پر افتراکرے یا خدا کے کلام کی تکذیب کرے۔ اِس کے جواب میں بابو صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۴ میں ایسے الہامات کے شائع کرنے کا وعدہ دیا ہے۔ پھر اسی کتاب کے صفحہ ۷ میں آخری جواب میرا چھپا ہے جس کی یہ عبارت ہے۔ میں صرف خدا تعالیٰ سے عقدہ کشائی چاہوں گا تا وہ لوگ جو مجھے مسرف کذّاب کا نام دیتے ہیں اور وہ لوگ جو میرامسیح ہونا تصدیق کرتے ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ آپ فیصلہ کرے۔ پھرکتاب کے صفحہ ۹ میں بابو صاحب لکھتے ہیں کہ اب میں عام لوگوں کے فائدہ کے لئے وہ تمام الہامات مع تفہیمات و تشریحات شائع کر دوں گا۔ چنانچہ کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۱۹ سے اخیر تک وہ تمام الہامات اپنے بابو صاحب نے شائع کر دئیے ہیں اور بعض الہامات کو مخفی بھی رکھا ہے جو میری سزایابی کے متعلق تھے۔ بہر حال جس قدر کتاب میں شائع ہو گئے ہیں بعض میں اُنہوں نے میرا نام کذّاب رکھا ہے اور بعض میں مُفتری اور بعض میں دجّال اور بعض میں ملعون اور بعض میں خائن اور بعض میں ظالم اور بعض میں کافر اِسی طرح اُن کے الہاموں نے مجھے بہت سے نام عطا کئے ہیں مگر خدا نے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 580

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 580

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/580/mode/1up


صرؔ ف ایک نام سے ہی فیصلہ کر دیا یعنی کذّاب جس کے معنی یہ ہیں کہ میں نے گویا خدا تعالیٰ پر حد سے زیادہ جھوٹ بولا اور اپنے افتراکو خدا کی طرف منسوب کر دیا ہے۔جو لوگ عصائے موسیٰ کا صفحہ۴ اور صفحہ ۷ پڑھیں گے اُن کو معلوم ہوگا کہ یہ تہمت جو بابو صاحب نے میرے پر لگائی ہے اس کا فیصلہ مَیں نے خدا تعالیٰ سے چاہا ہے اور جھوٹے پر خدا کی *** کی ہے۔ پھر ماسوا اِس کے خود قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو اُس پر افتراکرے وہ سزا سے نہیں بچے گا۔ اور جو شخص خدا کے کلام کی تکذیب کرے وہ بھی سزا سے نہیں بچے گا۔ پس اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ ۶؍اپریل ۱۹۰۷ء* کو بابو الٰہی بخش صاحب کا طاعون سے مرنا درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کا ایک فیصلہ تھا جو آخر اُس کی عدالت سے صادر ہو گیا۔ اب چاہے کوئی قبول کرے یا نہ کرے۔ مگر بموجب حدیث من عادیٰ لی ولیًّا فقد اٰذنتہ للحرب بابو صاحب نے اِس لڑائی کا انجام دیکھ لیا ہے اب اُن کے رفیق کہتے ہیں کہ وہ شہید ہو گئے۔ مگر میری دعا ہے کہ تمام مفسد اور مخالف حق کے ایسے ہی شہید ہو جائیں۔

اٰمین ثم اٰمین

باب دوم

اُن الہامات کے بیان میں جو بابو الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کے بارے میں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کئے

بابو الٰہی بخش صاحب نے جب کتاب عصائے موسیٰ تالیف کی تو اس تالیف کا باعث یہی تھا کہ انہوں نے مجھے فرعون قرار دیا اور اپنے تئیں موسیٰ ٹھہرایا اور بار بار لکھا کہ مجھے خدا سے الہام ہوتے ہیں کہ یہ شخص کذّاب اور دجّال اور مفتری ہے۔ تب میں نے اُن کی کتاب پڑھ کر اپنے رسالہ اربعین نمبر ۴ کے حاشیہ پر مندرجہ ذیل عبارت لکھی جس میں ایک پیشگوئی اور دعا ہے اور وہ یہ ہے۔

افسوس کہ اُنہوں نے (یعنی بابو الٰہی بخش صاحب نے) آیت 3 ۱؂ کے ویل کے وعید سے کچھ بھی اندیشہ نہیں کیا اور نہ اُنہوں نے آیت 3

3 ۲؂ کی کچھ بھی پروا کی۔ وہ بار بار میری نسبت لکھتے ہیں کہ میں نے اُن کو تسلی دے دی


* سہوکتابت ہے۔ درست ۷؍اپریل ۱۹۰۷ء چھ بجے شام ہے جس کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں اسی کتاب

کے صفحہ ۵۴۴ سے ہوتی ہے۔ (ناشر) ۱؂ الھمزۃ :۲ ۲؂ بنی اسرائیل :۳۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 581

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 581

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/581/mode/1up


کہ ؔ میں آپ کے افتراکی وجہ سے کسی انسانی عدالت میں آپ پر نالش نہیں کروں گا۔ سو میں کہتا ہوں کہ میں نہ صرف انسانی عدالت میں نالش کروں گا بلکہ میں خدا کی عدالت میں بھی نالش نہیں کرتا۔ لیکن چونکہ آپ نے محض جھوٹے اور قابل شرم الزام میرے پر لگائے ہیں اور مجھے ناکردہ گناہ دُکھ دیا ہے اِس لئے میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ میں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بَری کرکے آپ کا کاذب ہونا ثابت نہ کرے۔ اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن اِسی کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو ۱۱؍دسمبر ۱۹۰۰ء روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا۔

برمقام فلک شدہ یارب


گر امیدے دہم مدار عجب۔

بعد۱۱

انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر بہر حال ایک نشان میری بریّت کے لئے اِس مدّت میں ظاہر ہوگا جو آپ کو سخت شرمندہ کرے گا۔ خدا کی کلام پر ہنسی نہ کرو۔ پہاڑ ٹل جاتے ہیں دریا خشک ہو سکتے ہیں موسم بدل جاتے ہیں مگر خدا کا کلام نہیں بدلتا جب تک پورا نہ ہو لے۔

اِسی طرح میری کتاب اربعین نمبر ۴ صفحہ ۱۹ میں بابو الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہے یریدون اَنْ یروا طمثک واللّٰہ یرید ان یریک انعامہ الانعامات المتواترۃ۔ انت منی بمنزلۃ اولادی واللّٰہ ولیک وربک فقلنایا نارکونی بردًا یعنی بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اورناپاکی پر اطلاع پائے مگر خدا تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوں گے۔ اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہو گیا ہے ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اللہ ہے۔ یعنی حیض ایک ناپاک چیز ہے مگر بچہ کا جسم اسی سے تیار ہوتا ہے۔ اسی طرح جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو جس قدر فطرتی ناپاکی اور گند ہوتا ہے جو انسان کی فطرت کو لگا ہوا ہوتا ہے اُسی سے ایک روحانی جسم تیار ہوتاہے۔ یہی طمث انسانی ترقیات کا نتیجہ ہے۔ اِسی بناء پر صوفیاء کا قول ہے کہ اگر گناہ نہ ہوتا تو انسان کوئی ترقی نہ کرسکتا۔ آدم کی ترقیات کا بھی یہی موجب ہوا۔ اِسی وجہ سے ہر ایک نبی مخفی کمزوریوں پر نظر کرکے استغفار



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 582

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 582

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/582/mode/1up


میںؔ مشغول رہا ہے اور وہی خوف ترقیات کا موجب ہوتا رہاہے خدا فرماتاہے 33 ۱؂ پس ہر ایک ابن آدم اپنے اندرایک حیض کی ناپاکی رکھتا ہے مگر وہ جو سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے وہی حیض اُس کا ایک پاک لڑکے کا جسم تیار کر دیتا ہے۔ اِسی بنا پر خدا میں فانی ہونے والے اطفال اللہ کہلاتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ وہ خدا کے درحقیقت بیٹے ہیں کیونکہ یہ تو کلمۂ کفر ہے اور خدا بیٹوں سے پاک ہے بلکہ اس لئے استعارہ کے رنگ میں وہ خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں کہ وہ بچہ کی طرح دلی جوش سے خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اِسی مرتبہ کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کرکے فرمایا گیا ہے 3 3 ۲؂ یعنی خدا کو ایسی محبت اور دلی جوش سے یاد کرو جیسا کہ بچہ اپنے باپ کو یاد کرتا ہے۔ اِسی بنا پر ہر ایک قوم کی کتابوں میں اَب یا پِتَا کے نام سے خدا کو پکارا گیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کو استعارہ کے رنگ میں ماں سے بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ جیسے ماں اپنے پیٹ میں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے پیارے بندے خدا کی محبت کی گود میں پرورش پاتے ہیں اور ایک گندی فطرت سے ایک پاک جسم اُنہیں ملتاہے۔ سو اولیاء کو جو صوفی اطفال حق کہتے ہیں یہ صرف ایک استعارہ ہے ورنہ خدا اطفال سے پاک اور 3 ۳؂ ہے۔

اور یہ جو مذکورہ بالاالہامات میں فقرہ ہے فَقُلْنَا یَا نَارُکُوْنِیْ بَردًا

اِس فقرہ سے یہ مُراد ہے کہ جو کچھ بابو الٰہی بخش نے اپنی کتاب سے لوگوں میں فتنہ کی آگ بھڑکا دی ہے ہم اس آگ کو ٹھنڈی کر دیں گے۔ سو بابو الٰہی بخش کی موت نے ان تمام پیشگوئیوں کو پوری کر دیا۔ الحمدلِلّٰہ علٰی ذالک۔

دوسری پیشگوئی بابو الٰہی بخش صاحب کی موت کے بارے میں وہ ہے جو ۱۵؍مارچ ۱۹۰۷ء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو کر بدر اور الحکم میں شائع ہو چکی ہے اور وہ یہ ہے۔

ایک موسیٰ ہے میں اُس کو ظاہر کروں گااور لوگوں کے سامنے اُس کو عزّت دوں گا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 583

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 583

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/583/mode/1up


پر جس نے میرا گناہ کیا ہے مَیں اُس کو گھسیٹوں گا اور اُس کو دوزخ دکھلاؤں گا میرے نشان روشن ہو جائیں گے۔ میرا دشمن ہلاک ہو گیا یعنی ہلاک ہو جائے گا۔ ہُن اُس دا لیکھا خدا نال جا پیا ہے۔

خدا نے اس جگہ میرا نام موسیٰ رکھا جیسا کہ آج سے چھبیس برس پہلے براہین احمدیہ کے کئی مقامات میں میرا نام موسیٰ رکھا گیا۔ خلاصہ الہام یہ ہے کہ اس زمانہ میں موسیٰ ایک ہی ہے دو۲ نہیں ہیں اور وہ جودوسرا موسیٰ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ کاذب ہے اور پھر فرمایا کہ وہ جو میری طرف سے موسیٰ ہے وقت آگیا ہے کہ مَیں اُس کو ظاہر کروں اور لوگوں میں اُس کو عزّت دوں۔ پر جس نے میرا گناہ کیا ہے یعنی محض دروغگوئی کے طور پر موسیٰ بنا ہے میں اُس کو گھسیٹوں گا۔ یعنی ذلّت دکھلاؤں گا اور ذلّت کی موت دوں گا اور اُس کو دوزخ دِکھلاؤں گا یعنی وہ طاعون میں مبتلا ہو کر مرے گا۔

یہ پیشگوئی پوری تصریح کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی کیونکہ اُس زمانہ میں میرے مقابل پر موسیٰ ہونے کا دعویٰ کرنے والا صرف بابو الٰہی بخش تھا جس کو خدا نے طاعون سے ہلاک کیا اور ان کی بیماری اور موت سے پہلے عام طورپر اخبار بدر اور الحکم کے ذریعہ ہزاروں انسانوں میں یہ الہام الٰہی شائع کیا گیا۔ آخر ایسا ہی ظہور میںآیا۔ یاد رہے کہ میرے تمام الہامات میں جہنم سے مُراد طاعون ہے۔ پس یہ عظیم الشان پیشگوئی تھی جس میں پیش از وقت بتلایا گیا تھا کہ بابو الٰہی بخش صاحب طاعون سے فوت ہوں گے۔ نمونہ کے طور پر ذکرکرتا ہوں کہ جہنم سے مُراد میری الہامات میں طاعون ہے جیسا کہ ایک مُدّت گذری کہ ایک الہام مجھے ہو چکاہے اور وہ مع تشریح بدر او ر الحکم میں شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے۔

یأتِی علٰی جہنّم زمان لیس فیھااحد اس کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ ایک زمانہ طاعون پر ایسا آئے گا کہ اس ملک میں ایک بھی نہ ہوگا کہ اس میں داخل ہو۔ یعنی عام طور پر خدا لوگوں کو اس بلا سے نجات دے دے گا۔ اور پھر ایک اور الہام ہے جس میں آگ سے مُراد طاعون



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 584

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 584

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/584/mode/1up


ہے ؔ اوروہ بھی مدت ہوئی کہ شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے یعنی جو لوگ مجھ سے سچی اور کامل محبت رکھتے ہیں وہ بھی طاعون سے محفوظ رہیں گے چہ جائیکہ مَیں۔

بالآخر ایک منصف انسان کے لئے بابو الٰہی بخش صاحب کے معاملہ میں دو باتیں بہت توجہ کے لائق ہیں۔

اوّل یہ امر غور کرنے کے لائق ہے کہ جب بابو الٰہی بخش صاحب مجھ سے برگشتہ ہو کر میرے بر خلاف اور میری تکذیب میں اپنے دوستوں کو اپنے الہام سُنانے لگے تو اُس وقت میری طرف سے اِس امر کے فیصلہ کے لئے کیا درخواست ہوئی تھی۔ سو وہ درخواست بابو صاحب کی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۵و۶ میں درج ہے جس کو پڑھ کر ناظرین معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ درخواست درحقیقت مباہلہ کے رنگ میں تھی یا یوں کہو کہ وہ صدق دل سے حضرت جلّ شانہٗ کے فیصلہ کے لئے ایک دعا تھی جس کی وہ عبارت جو مطلب سے متعلق ہے ذیل میں لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے:۔

’’چونکہ مجھے آسمانی فیصلہ مطلوب ہے یعنی یہ مُدّعا ہے کہ تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کرکے جس کا وجود حقیقت میں اُن کے لئے مفید ہے راہِ راست پر مستقیم ہو جائیں اور تا لوگ ایسے شخص کو شناخت کر لیں جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے امام ہے اور ابھی تک یہ کس کو معلوم ہے کہ وہ کون ہے صرف خدا کو معلوم ہے یا اُن کو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بصیرت دی گئی ہے اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے (یعنی یہ کہ بابو صاحب اپنے وہ تمام الہامات جو میری تکذیب کے متعلق ہیں شائع کر دیں) پس اگر منشی صاحب کے الہامات درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو وہ الہام جو میری نسبت اُن کو ہوئے ہیں اپنی سچائی کا کوئی کرشمہ ظاہر کریں گے (یعنی ضرور ان کے بعد میرے پر کوئی تباہی اور ہلاکت آئے گی) اور اس طرح پر یہ خلقت جو واجب الرحم ہے مُسرف کذّاب سے نجات پا جائے گی۔ (یعنی جبکہ بابو صاحب مجھ کو کذّاب خیال کرتے ہیں کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 585

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 585

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/585/mode/1up


گویاؔ میں نے دعویٰ مسیح موعود کرکے خدا پر افتراکیا ہے تو میں ہلاک ہو جاؤں گا) اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں کوئی ایسا امر ہے جو اس بدظنی کے برخلاف ہے تو وہ امر روشن ہو جائے گا (یعنی اگر خدا تعالیٰ کے علم میں درحقیقت میں مسیح موعود ہوں تو خدا تعالیٰ میرے لئے کوئی گواہی دے گا) اور میں وعدہ کرتاہوں کہ نعوذ باللہ میری طرف سے نہ کوئی آپ پر نالش ہوگی اور نہ کوئی کسی قسم کا بے جا حملہ آپ کی وجاہت و شان پر ہوگا۔ صرف خدا تعالیٰ سے عقدہ کشائی چاہوں گا (یعنی یہ چاہوں گا کہ اگر میں مفتری نہیں ہوں اور میرے پر یہ جھوٹا اور ظالمانہ حملہ ہے تو میری بریت ہو۔ بابو صاحب کی تکذیب کے لئے خدا آپ کوئی امر نازل کرے کیونکہ بریت کی خواہش کرنا سُنتِ انبیاء ہے جیسا کہ حضرت یوسف نے خواہش کی۔‘‘ اور صادق کو بری کر دینا خدا کی قدیم سُنت ہے*۔

یہ وہ میرا خط ہے جو بابو صاحب کی کتاب عصائے موسیٰ کے صفحہ ۵ اور ۶ و ۷ میں درج ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس خط میں بھی مَیں نے خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا تھا پھر بعد اس کے جو فیصلہ خدا تعالیٰ نے کیا وہ ظاہر ہے کہ ایک طرف خدا تعالیٰ نے ہر ایک پہلو سے مجھے ترقی دی اور دوسری طرف بابو الٰہی بخش صاحب کو عین ناکامی کی حالت میں دنیا سے اُٹھا لیا اور وہ صدہا حسرتوں کے ساتھ بمرض طاعون گذر گئے۔ کیا اُس کا دل چاہتا تھا کہ وہ طاعون سے مر جائیں اور پھر میری زندگی میں مگر خدا نے ایسا کیا۔

دوسرا امر منصفین کے لئے غور کے لائق یہ ہے کہ بابو الٰہی بخش صاحب نے میرے مقابل پر جو ذخیرہ ایک برس کے الہامات کا اُن کے پاس تھا سب اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں شائع کر دیا جن کا خلاصہ یہی ہے کہ گویا میں نامراد اور ناکام رہ کر انجام کار بابو صاحب کی زندگی میں ہی طاعون کے ساتھ ہلاک ہو جاؤں گا اور بڑی بڑی تباہیاں میرے پر آئیں گی اور ملاعنہ اور مباہلہ کا بد اثر میرے پر پڑ کر مجھ کو ہلاک کر دے گا بر خلاف اس کے بابو صاحب کی بڑی بڑی ترقی ہوگی


* آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے میری کتاب براہین احمدیہ میں یہ الہام شائع ہو چکا ہے میری نسبت خدا تعالیٰ اشارہ کرکے فرماتا ہے کہ جیسے پہلے موسیٰ پر جھوٹے الزام لگائے گئے تھے اس موسیٰ پر بھی یعنی اِس عاجز پر بھی جھوٹے الزام لگائے جاویں گے مگر خدا اس کو بَری کرے گا الہام کی عبارت یہ ہے۔ فبرّأہ اللّٰہ ممّا قالوا و کان عند اللّٰہ وجیھا۔ کیا بابو صاحب کی وفات سے یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 586

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 586

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/586/mode/1up


اور خدا تعالیٰ اُن کو ایک لمبی عمر عطا کرے گا اور وہ تمام تباہیاں میری بچشم خود دیکھیں گے اور املاک اور باغ اُن کو دیئے جائیں گے اور ایک دنیا اُن کی طرف رجوع کرے گی۔ یہ الہامات قریباً ایک برس کے ہیں جومیری مخالفت میں بابو صاحب نے شائع کئے لیکن بعداس ؔ کے جو بابو صاحب کی موت تک تخمیناً چھ ۶برس کے الہامات تھے وہ کسی مصلحت سے مخفی رکھے گئے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جس شخص کے ایک برس کے الہامات اِس قدر ہیں چھ۶ برس کے کس قدر ہوں گے۔ مگراب اِن الہامات کے شائع ہونے کی نسبت بالکل نومیدی ہے کیونکہ جیسا کہ میں ہمیشہ سنتا رہا وہ سب میری نامرادی اور موردِ عذاب ہونے کے متعلق تھے۔ اب جبکہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا تو اُن کے دوست ایسے الہامات کو کیوں شائع کرنے لگے یقیناًوہ فی الفور بلا توقف آگ میں رکھ کر جلا دیئے ہوں گے۔ اور اگر وہ نہیں جلائے گئے تو منشی عبد الحق صاحب جو اُن کے اوّل رفیق تھے قسم کھا کر بیان کریں کہ کیا کتاب عصائے موسیٰ کی تالیف کے بعد سلسلہ الہامات کا قطعاً بندہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ چھ برس تک ایک الہام بھی نہ ہوا۔ کاش اگر وہ باقی ماندہ الہامات شائع کئے جاتے تو اور بھی حقیقت کھل جاتی۔ جن لوگوں کو محض نفسانی خیال سے میرے ساتھ ضِد آپڑی ہے وہ ایسی راہ ہر گز اختیار نہ کریں گے جس سے سچائی ظاہر ہو جائے مگر خدا نہیں چھوڑے گا جب تک سچائی ظاہر نہ کرے۔ اگر میں کاذب اورمُفتری ہوں تو میرا بھی ایسا ہی خاتمہ ہوگا جیسا کہ بابو الٰہی بخش کا خاتمہ ہوا۔ لیکن اگر خدائے عزّوجلّ میرے ساتھ ہے تو ایسی حالت میں مجھے ہلاک نہیں کرے گا کہ میرے آگے بھی *** ہو اور پیچھے بھی کیونکہ صادقوں کے ساتھ قدیم سے اُس کی یہی سُنت ہے کہ وہ اُن کو ضائع نہیں کرتا اگرچہ لوگ صادق کے درمیانی زمانہ میں اپنی ناسمجھی سے اس پر اعتراض کریں اور اس کی نسبت کئی نکتہ چینیاں کریں مگر آخر کار صادق کا بَری ہونا خدا تعالیٰ ظاہرکر دیتا ہے۔ اس اندھی دنیا نے کس نبی کو اپنی نکتہ چینی سے مستثنیٰ رکھا ہے یہودی اب تک کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ایک پیشگوئی بھی پوری نہیں ہوئی بادشاہی کا دعویٰ کیا مگر بادشاہی نصیب نہ ہوئی۔ یہود اسکریوطی کو بہشت کا تخت دیا آخر وہ وعدہ بھی صحیح نہ نکلا۔ اس زمانہ میں ہی واپس آنا بتلایا تھا وہ بات بھی غلط ثابت ہوئی۔ یہ ہیں اعتراض یہودیوں اور مُلحدوں کے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 587

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 587

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/587/mode/1up


جو حضرت عیسیٰ کی پیشگوئیوں پر کرتے ہیں اور عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے ہیں۔ پس ضرور تھا کہ مجھ پر کئے جاتے لیکن خدا نے میرے ہزار ہانشانوں سے ؔ میری وہ تائید کی ہے کہ بہت ہی کم نبی گزرے ہیں جن کی یہ تائید کی گئی۔ لیکن پھر بھی جن کے دلوں پر مہریں ہیں وہ خدا کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھاتے* ۔

بابو الٰہی بخش کے دوستوں کے لئے یہ روشن نشان تھا کہ بابو صاحب تواپنی کتاب عصائے موسیٰ میں میری نسبت بار بار یہی الہام ظاہر کر گئے کہ میں ان کی زندگی میں ہی طاعون کے عذاب کے ساتھ مروں گا اور تباہی اور ادبار میرے شامل حال ہو جائے گا مگر برخلاف ان کے الہاموں کے خدا نے میرے ساتھ معاملہ کیا اور اپنی پیشگوئیوں سے اُس نے مجھے تسلّی دی کہ وہ مجھے غالب کرے گا اور میری صداقت ظاہر کر دے گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب بابو الٰہی بخش صاحب اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں اپنے الہامات کے ذریعہ سے میری نسبت سخت سے سخت الفاظ کے ساتھ شائع کر چکے کہ یہ شخص مردود درگاہ الٰہی ہے اور خدا کہتا ہے کہ میں اُس کو طاعون سے ہلاک کروں گا اور وہ تباہ اور ذلیل اور ناکام ہو کر مرے گا تب خدا نے جو اپنے بندوں کے لئے غیرت مند ہے چھ۶ برس تک برابر اُن کے الہامات کے مخالف میرے پر اپنے تسلی بخش الہام ظاہر فرمائے اور نہ صرف اس قدر بلکہ ساتھ ساتھ زبردست نشان دکھلاتا رہا اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کی پیشگوئیاں درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ ایک تو وہ پیشگوئیاں ہیں جو میری کتاب براہین احمدیہ میں درج ہیں اور کچھ بعد اس کے میری دوسری کتابوں میں درج ہو کر شائع ہوئیں۔ اور یہ پیشگوئیاں بابو صاحب کی کتاب عصائے موسیٰ کے وجود سے سالہا سال پہلے کی ہیں۔ اور دوسرا حصہ پیشگوئیوں کا وہ ہے


* خدا تعالیٰ نے ہزارہا زبردست نشان دکھلا کر دشمنوں کے منہ پر طمانچے مارے ہیں مگر عجیب بے حیا مُنہ ہیں کہ اس قدر طمانچے کھا کر پھر سامنے آتے ہیں اگر ایک لاکھ نشان دیکھیں تو اس سے بھی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اگر ایک بات سمجھ نہ آوے تو شور مچا دیتے ہیں دراصل ان کے دل ہر ایک نبی سے برگشتہ ہیں کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں گذرا جو اِن کے فہم کے مطابق ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 588

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 588

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/588/mode/1up


جو کتاب عصائے موسیٰ کے بعد بابو صاحب کی موت تک شائع ہوتی رہیں اور بابو صاحب تو عصائے موسیٰ کو تصنیف کرکے پھر اپنے الہامات کے شائع کرنے سے چُپ ہو گئے مگر ان چھ۶ برسوں میں جو عصائے موسیٰ کے بعد آج تک گذرے صدہا پیشگوئیاں خدا تعالیٰ سے مجھ کو ملیں جو رسالہ ریویو آف ریلیجنز اور اخبار بدر اور اخبار الحکم قادیان میں شائع ہوتی گئیں۔ ایسا ہی میرے رسالوں میں جو وقتاً فوقتاً عصائے موسیٰ کے بعد تالیف ہوئے۔اور ؔ ایساہی میری کتاب حقیقۃ الوحی میں بھی درج ہوئیں۔ غرض یہ چھ ۶برس بھی جو عصائے موسیٰ کی تصنیف سے بابو صاحب کی موت تک ہوتے ہیں خالی نہیں گئے اور بارش کی طرح الہام الٰہی برستا رہا۔ ان الہامات الٰہی کا خلاصہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ میں تجھے اپنی انعامات سے مالامال کروں گا اور بہت سے تیرے دشمن تیرے رو برو ہلاک کئے جاویں گے۔ اور اُن کے گھر ویران کر دیئے جائیں گے۔ اور وہ حسرت اور نامرادی سے مریں گے۔ اور جو تیری اہانت کے درپے ہے میں اُس کو ذلیل کروں گا۔ کیونکہ میں نے یہی لکھ چھوڑا ہے کہ انجام کار میرے رسول غالب ہو جاتے ہیں۔ اور میں تیرے گھر کے تمام لوگوں کو طاعون اور زلزلے کے صدمہ سے بچاؤں گا *۔ اور تو دیکھے گا کہ میں مجرموں کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ میں وہ قضاو قدر نازل کروں گا جس سے تو راضی ہو جائے گا۔ اور آخر کار تجھے ہی فتح نصیب ہوگی اور میں بڑے بڑے حملوں کے ساتھ تیری سچائی ظاہر کروں گا۔ میں تیرے دشمنوں کے ساتھ آپ لڑوں گا۔ میں تیرے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا اور اُس کو ملامت کروں گا جو تجھے ملامت کرتا ہے۔ یہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو بجھا دیں مگر خدا اپنے گروہ کو غالب کرے گا۔ تو کچھ بھی خوف نہ کر میں تجھے غلبہ دوں گا۔ ہم آسمان سے کئی بھید نازل کریں گے اور تیرے مخالفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر کو ہم وہ باتیں دکھلائیں گے جن سے وہ ڈرتے تھے۔ پس تو غم نہ کر خدا اُن کی


* اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ گھر کی چار دیوار کے اندر ہیں اور طاعون کے وقت اِس گھر میں رہتے ہیں خواہ عیال اطفال ہیں خواہ خادم ہیں سب کو طاعون سے بچایا جاوے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 589

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 589

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/589/mode/1up


تاک میں ہے۔ خدا تجھے نہیں چھوڑے گا اور نہ تجھ سے علیحدہ ہوگا جب تک کہ وہ پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلائے۔ کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں بھیجا گیا جس کے دشمنوں کو خدا نے رسوا نہ کیا۔ ہم تجھے دشمنوں کے شرّ سے نجات دیں گے۔ ہم تجھے غالب کریں گے۔ اور مَیں عجیب طور پر دنیا میں تیری بزرگی ظاہر کروں گا۔ میں تجھے راحت دوں گا اور تیری بیخ کنی نہیں کروں گا اور تجھ سے ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ اور تیرے لئے میں بڑے بڑے نشان دکھاؤں گا۔ اور اُن عمارتوں کو ڈھا دوں گا جو مخالفوں نے بنائیں یعنی اُن کے منصوبوں کو پامال کر دوں گا۔ تو وہ بزرگ مسیح ہے جس کے وقت کو ضائع نہیںؔ کیا جائے گا۔ تیرے جیسا موتی ضائع نہیں ہو سکتا۔ تیرے لئے آسمان پر درجہ ہے اور نیز ان کی نگہ میں جو دیکھتے ہیں۔ خدا تجھے مخالفوں کے شر سے بچائے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا اور خدا اُن پر حملہ کرے گا جو تجھ پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ حد سے بڑھ گئے۔ خدا تلوار کھینچ کر اُترے گا۔ تا دشمن اور اُس کے اسباب کو کاٹ دے۔ خدائے رحیم سے تیرے پر سلام وہ تجھ میں اور مجرموں میں امتیاز کرکے دکھلا دیگا۔ اُن کو کہہ دے کہ میں صادق ہوں پس تم میرے نشانوں کے منتظر رہو۔ حجت قائم ہو جائے گی اور کھلی کھلی فتح ہوگی۔ ہم وہ بوجھ اُتار دیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی۔ اور ظالموں کی جڑھ کاٹ دی جائے گی وہ چاہتے ہیں کہ تیرا کام نا تمام رہے لیکن خدا نہیں چاہتا۔ مگر یہی کہ تیرا کام پورا کرکے چھوڑے۔خدا تیرے آگے آگے چلے گا اور اُس کو اپنا دشمن قرار دے گا جو تیرا دشمن ہے۔ جس پر تیرا غضب ہوگا میرا بھی اُسی پر غضب ہوگا۔ اور جس سے تو پیار کرے گا۔ میں بھی اُسی سے پیار کروں گا۔ خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور انجام کار اُن کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ میں چودہ۱۴ چارپایوں* کو ہلاک کروں گا۔ کیونکہ وہ حد سے بڑھ گئے تھے۔ میری فتح ہوگی اور میرا غلبہ ہوگا


* بابو الٰہی بخش صاحب گیارہ ۱۱چار پایوں کے ہلاک ہونے کے بعد طاعون کے ساتھ ہلاک کئے گئے جیسا کہ اس الہامی شعر میں ہے۔ بر مقام فلک شدہ یارب228گرامیدے دہم مدار عجب۔ بعد گیارا۱۱ں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بابو صاحب کا بارہوا۱۲ں نمبر تھا اور ان کے بعد دو اور ہیں تا چودہ ۱۴پورے ہو جاویں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 590

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 590

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/590/mode/1up


مگر جو وجود لوگوں کے لئے مفید ہے میں اُس کو دیر تک رکھوں گا۔ تجھے ایسا غلبہ دیا جائے گا جس کی تعریف ہوگی اور کاذب کا خدا دشمن ہے اُس کو جہنم میں پہنچائے گا۔ ایک موسیٰ ہے میں اُس کو ظاہر کروں گا اور لوگوں کے سامنے اُس کو عزت دوں گا۔ لیکن جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اُس کو گھسیٹوں گا اور اُس کو دوزخ دکھلاؤں گا۔ میرا دشمن ہلاک ہو گیا اور اب معاملہ اُس کا خدا سے جا پڑا یعنی ہلاک ہو جائے گا۔ اے چاند اور اے سورج تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے عنقریب خدا تجھے وہ انعام دے گا کہ تو راضی ہو جائے گا۔

یہ وہ الہامات ہیں جو عصائے موسیٰ کے الہامات شائع ہونے کے بعد مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس چھ برس کی مدت میں ہوئے جب سے کتاب عصائے موسیٰ تصنیف ہو کر شائع ہوئی ہے ۔ اسی ؔ وقت سے یہ الہامات شروع ہوئے اور یہ سب الہامات بابو صاحب کی موت سے پہلے کے ہیں۔ اب ناظرین عصائے موسیٰ کے الہامات اور اُن الہامات کا مقابلہ کرکے خود ہی بتلاویں کہ انجام کاریہ الہامات سچے ہوئے یا بابو الٰہی بخش صاحب کے الہام سچے ہوئے۔ ایک منصف کے لئے تو یہ مقابلہ کافی ہے۔ اسی سے سچا جھوٹا معلوم ہو جاتا ہے اور اگر نیّت میں صفائی نہیں تو ایسے شخص کا فیصلہ خدا تعالیٰ خود کرے گا۔

نشان نمبر۱۹۹ و ۲۰۰ و ۲۰۱۔ قادیان کے آریوں نے محض مجھے دُکھ دینے اور بد زبانی کرنے کے لئے ایک اخبار قادیان میں نکالا تھا جس کا نام شبھ چنتک رکھا تھا اور ایڈیٹر اور منتظم اس کے تین آدمی تھے۔ ایک کا نام سو مراج،دوسرے کا نام اچھرچند، تیسرے کا نام بھگت رام تھا۔ ان تینوں کی موت سے خدا کے تین نشان ظاہر ہوئے یہ تینوں نہایت درجہ موذی اور ظالم تھے۔

جس شخص نے اُن کے اخبار شبھ چنتک کے چند پرچے دیکھے ہوں گے وہ اس بات کا اقرار کرے گا کہ یہ تمام پرچے بد زبانی اورگند اور افتراسے بھرے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اخبار مذکور کے پرچہ ۲۲؍اپریل ۱۹۰۶ء میں میری نسبت لکھا ہے کہ یہ شخص خود پرست ہے نفس پرست ہے فاسق ہے فاجر ہے۔ اس واسطے گندی اور ناپاک خوابیں اس کو آتی ہیں۔

پھر پرچہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۶ء میں لکھا ہے۔ قادیانی مسیح کے الہاموں اور اس کی پیشگوئیوں کی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 591

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 591

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/591/mode/1up


اصلیت طشت ازبام کرنے کا ذمہ اُٹھانے والا ایک ہی پرچہ شبھ چنتک ہے۔ مرزا قادیانی بد اخلاق۔ شہرت کا خواہاں۔شکم پرور ہے۔

اور پھر پرچہ ۲۲؍مئی ۱۹۰۶ء میں میری نسبت لکھتا ہے۔ کمبخت کمانے سے عار رکھنے والا۔ مکر اور فریب اور جھوٹ میں مشّاق۔ اور پھر پرچہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۶ء میں لکھتا ہے ہم ان کی چالاکیوں کو ضرور طشت ازبام کریں گے اور ہمیں امید بھی ہے کہ ہم اپنے ارادہ میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اور پرچہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۶ء میں لکھا ہے مرزا مکّار اور جھوٹ بولنے والا ہے مرزا کی جماعت کے لوگؔ بد چلن اور بد معاش ہیں۔ غرض ہر ایک پرچہ اُن کا ناپاک گالیوں سے بھرا ہوا نکلتا رہا ہے۔ میں نے کئی مرتبہ جناب الٰہی میں دعائیں کیں کہ خدا اس اخبار کے کارکنوں کو نابود کرکے اس فتنہ کو درمیان سے اُٹھا دے چنانچہ کئی مرتبہ مجھے یہ خبر دی گئی کہ خدا تعالیٰ ان کی بیخ کنی کرے گا۔ زیادہ تر میرے پر ناگوار یہ امر تھا کہ چونکہ یہ لوگ قادیان میں رہتے تھے اس لئے ان کے قرب مکانی کی وجہ سے ان کے جھوٹ کو بطور سچ کے دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے خود بھی اپنے اخبار یکم مارچ ۱۹۰۷ء میں محض دھوکا دینے کے لئے یہ شائع کیا ہے کہ ہم نے... پندرہ سال تک متواتر پہلو بہ پہلوایک ہی قصبہ میں اُن کے ساتھ رہ کر اُن کے حال پر غور کی تو اتنی غور کے بعد ہمیں یہی معلوم ہوا کہ یہ شخص درحقیقت مکّار۔ خود غرض، عشرت پسند، بدزبان وغیرہ وغیرہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو لوگ پندرہ سال کی ہمسایگی کا دعویٰ کرکے یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص درحقیقت مکّار اورمُفتری ہے ایسے لوگوں کی گواہی کا کس قدر دلوں پر اثرپڑ سکتا ہے۔ پھر اسی پرچہ میں لکھا ہے کہ نشان تو ہم نے اس مدت تک کوئی نہیں دیکھا البتہ یہ دیکھا ہے کہ یہ شخص ہر روز جھوٹے الہام بناتا ہے ایک لاثانی بیوقوف ہے۔

پس یہی باعث تھا کہ مجھے ان لوگوں کے حق میں بد دعائیں کرنی پڑیں۔ آخر میں نے ایک رسالہ لکھا جس کا نام ہے قادیان کے آریہ اور ہم اس رسالہ کا خلاصہ مضمون یہ ہے کہ قادیان کے دو آریہ جن میں سے ایک کا نام شرمپت اور دوسرے کام نام ہے ملاوامل یہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 592

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 592

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/592/mode/1up


دونوں مدت تک میرے پاس آتے رہے ہیں اور بہت سے نشان آسمانی ہیں جو انہوں نے بچشم خود دیکھے ہیں وہ میرے اُن تمام نشانوں کے گواہ ہیں جن کے وجود سے شبھ چنتک کے ایڈیٹر و منتظم قطعی انکاری ہو کر مجھ کو مکار اور مفتری قرار دیتے ہیں۔ اگر میں ایسا ہی کاذب اور مکار ہوں تو یہ دونوں قسم کھا جائیں کہ ہم نے یہ نشان نہیں دیکھے۔ سو آج تک اُنہوں نے قسم نہیں کھائی مگر ان تینوں کے بارے میں یعنی سوم راج اور اچھر چند اور بھگت رام کی نسبت جو کچھ مجھے خدا سے معلوم ہوا میں نے اس رسالہ میں لکھ دیا۔ چنانچہ منجملہ ان کے ایک دُعا ہے جو اسی رسالہ کے ٹائیٹل پیج کے صفحہؔ دوسرے میں لکھی گئی اور وہ شعر یہ ہیں:۔

موت لیکھو بڑی کرامت ہے

پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے

میرے مالک تو ان کو خود سمجھا

آسماں سے پھر اِک نشان دکھلا

اس شعر کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے چاہا گیا ہے کہ لیکھرام کی موت کی طرح خدا قادیان کے آریوں پر عذاب کے طور پر کوئی نشان ظاہر کرے۔ پھر اسی رسالہ کے صفحہ ۲۱ و ۲۲ میں مَیں نے یہ پیشگوئی ان لوگوں کے حق میں کی کہ یہ لوگ ان نبیوں کی تکذیب میں جن کی سچائی سورج کی طرح چمکتی ہے حد سے بڑھ گئے ہیں۔ خدا جو اپنے بندوں کے لئے غیر ت مند ہے ضرور اس کا فیصلہ کرے گا۔ وہ ضرور اپنے پیارے نبیوں کے لئے کوئی ہاتھ دکھلائے گا... خدا اُن کا اور ہمارا فیصلہ کرے اور پھر اسی کتاب کے صفحہ ۵۳ سے ۵۴ تک پیشگوئی کے طور پر اخبار شبھ چنتک کے ایڈیٹر وغیرہ کی نسبت یہ شعر ہیں:۔

کہنے کو وید والے پر دل ہیں سب کے کالے

پردہ اُٹھا کے دیکھو ان میں بھرا یہی ہے

فطرت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے

ہر دم زباں کے گندے قہر خدا یہی ہے

دینِ خدا کے آگے کچھ بن نہ آئی آخر

سب گالیوں پر اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے

شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کے ہر گز

وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے

ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا

اُس نے ہے کچھ دِکھانا اُس سے رجا یہی * ہے


یہ پیشگوئی سوم راج وغیرہ شبھ جنتک منتظمین کے متعلق ہے


* منشی اللہ دتا سابق پوسٹ ماسٹر قادیان حال کلرک ڈاکخانہ امرتسر ہیڈ آفس بنام شیخ یعقوب علی ایڈیٹر اخبار الحکم مندرجہ ذیل خط



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 593

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 593

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/593/mode/1up


پھر اسی کتاب کے صفحہ ۶۱ میں چندشعر بطور پیشگوئی کے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔

اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے

اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے

مُجھ کو ہو کیوں ستاتے سو افترا بناتے

بہتر تھا باز آتے دور از بلا یہی ہے

جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر

ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دکھانا

گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے

یعنی جو آریہ لیکھرام کی طرح بد زبانی سے باز نہیں آتا وہ بھی عذاب سے بچ نہیں سکتا۔۱۲

یہ ہیں پیشگوئیاں جو اُس وقت کی گئیں جب اخبار شبھ چنتک کے ایڈیٹر اور منتظم گالیاں دینے میں حد سے بڑھؔ گئے اور خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ اب وہ ہلاک ہونے کو ہیں چنانچہ اکثر وہ الہام اخبار بدر اور الحکم میں بھی شائع ہو گئے۔ تب بعد اِس کے اُن بد قسمتوں کی سزا کا وقت آگیا اور یہ تین آدمی تھے ایک کا نام سوم راج تھا دوسرے کا نام اچھر چند تھا۔ تیسرے کا نام بھگت رام تھا۔ پس خدا کے قہری طمانچہ نے تین دن کے اندر ہی ان کا کام تمام کر دیا۔ اور تینوں طاعون کے شکار ہو گئے۔ اور اُن کی بلا اُن کی اولاد اور اہل و عیال پر بھی پڑی۔ چنانچہ سومراج نہ مرا جب تک اُس نے اپنی عزیز اولاد کی موت طاعون سے نہ دیکھ لی۔ یہ ہے پاداش شرارتوں اور شوخیوں کی۔ مگر ابھی میں نہیں باور کرسکتا کہ باقی ماندہ رفیق ان لوگوں کے جو قادیان میں موجود ہیں شرارتوں سے باز آجائیں گے۔ برگزیدہ نبیوں کی روحیں ان کی بدزبانی اور توہین کی وجہ سے اپنے خدائے قدیرکے آگے فریاد کررہی ہیں۔ پس وہ پاک روحیں بلا شبہ یہ عزت رکھتی ہیں کہ خدا کی غیرت اُن کے لئے بھڑکے۔ اِس لئے یقیناًسمجھو کہ یہ قوم اپنے ہاتھ سے فنا کا بیج بو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ناپاک طبع لوگ ہر گز سر سبز


بقیہ حاشیہ

امرتسر سے لکھتے ہیں اور وہ ہماری جماعت میں داخل نہیں ہیں بلکہ ہمارے مخالفوں کی جماعت میں سے ہیں اور مضمون خط یہ ہے۔ لالہ اچھر چند ورما آریہ قادیان کی طاعونی موت کا حال سُن کر مجھے اُس دن کی گفتگو یاد آئی کہ جو میرے سامنے آپ کے اور لالہ اچھر چندکے درمیان ہوئی تھی جو بالکل درست ہوئی اور وہ اس طرح پر تھی کہ ایک دن لالہ اچھر چند اور آپ کے درمیان حضرت مرزا صاحب کے بارہ میں گفتگو ہو رہی تھی۔ اور اثنائے گفتگو میں آپ نے کہا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کا طاعون سے محفوظ رہنا ایک نشان ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ میں طاعون سے محفوظ رہوں گا۔ اس پر لالہ اچھر چند نے کہا تھا کہ لو میں بھی مرزا صاحب کی طرح دعویٰ کرتا ہوں کہ میں طاعون سے نہیں مروں گا۔ جس پر اب میں نے اُس کو کہا تھا کہ تو ضرور طاعون سے ہلاک ہوگا۔ سو ایسا ہی ہوا۔ والسلام ۲۴؍اپریل ۱۹۰۷ء ۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 594

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 594

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/594/mode/1up


نہیں ہو سکتے اور جو درخت خشک بھی ہو اور پھر زہریلہ وہ کیونکر محفوظ رکھنے کے لائق ٹھہرسکتا ہے بلکہ وہ سب سے پہلے کاٹا جائے گا۔ اور یہ مت خیال کرو کہ ان تینوں کا طاعون سے مرنا ایک نشان ہے بلکہ یہ تین نشان ہیں۔ اور اب ہم منتظر ہیں کہ اب ان کا جانشین قادیان میں کون ہوتا ہے اور کب وہ ان کی طرح میری نسبت اخبار میں شائع کرتا ہے کہ یہ شخص مکّار اور کاذب ہے اور ہم نے اس کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔

اے قادیان کے آریو! خدا تعالیٰ کے غضب سے ڈرو اور جھوٹ بولنے پر کمر بستہ نہ ہوجاؤ۔ وہ ایک دَم میں ظالم اور گستاخ آدمی کو فناکرسکتا ہے۔ وہ عظیم الشان نشان جوتم نے دیکھے اگر کوئی شریف طبع آریہ دیکھتا تو قبول کر لیتا۔ کون انسان یہ پیشگوئی کر سکتا ہے کہ اس کی گمنامی اور کسمپرسی کے زمانہ کے بعد اُس پر ایک ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لاکھوں انسان اُس کے تابع ہو جائیں گے اور مخالفوں کے مکروں سے وہ پیشگوئی نہیں ٹلے گی۔ اور کون ناداری کے زمانہ میں یہ خبر دے سکتا ہے کہ اس پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہؔ ایک دنیا تحائف اور اموال کے ساتھ اُس کی طرف رجوع کرے گی اور خدا اُن کے دلوں میں الہام کرے گا کہ پورے صدق اور اخلاص سے اُس کی مدد کریں اور اُس کی راہ میں فدا ہوں۔ پس اے آریو! تمہیں معلوم ہے کہ میری گمنامی اور ناداری کے زمانہ میں جبکہ میں دنیا کی نظر سے پوشیدہ تھا خدا نے براہین احمدیہ میں یہی خبریں دی تھیں جو اب میں نے لکھیں اور اُس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ ہر ایک طرف سے دنیا تیری طرف رجوع کرے گی اور لاکھوں انسان خدمت کے لئے حاضر ہو جائیں گے اور اس قدر لوگ آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو اُن کی ملاقات سے تھک جائے یا بد خُلقی کرے اور اُن کے آنے سے راہیں گہری ہو جائیں گی۔ اور ایک زمانہ تیری طرف اُلٹ آئے گا اور دشمن زور لگائیں گے کہ ایسا نہ ہومگر خدا اپنی بات کوپوری کرے گا۔ پس تم سب سے پہلے اس پیشگوئی کے گواہ تھے پر دانستہ اپنی گواہی کو چھپایا۔

اے بے خوف اور سخت دل قوم! کیا تم نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو براہین احمدیہ میں نہیں پڑھا اور کیا تم اس کے گواہ نہیں ہو کہ درحقیقت یہ پیشگوئیاں اُس زمانہ کی ہیں کہ جبکہ کوئی عقل یہ رائے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 595

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 595

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/595/mode/1up


ظاہر نہیں کر سکتی تھی کہ ایسا کبھی ہوجائے گا اور کیا تم کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں کوئی انسان ایسی پیشگوئی ایسے گمنامی کے زمانہ میں کر سکتا ہے۔ اگر دنیا میں اس کی کوئی اور بھی نظیر ہے تو پیش کرو۔ ورنہ یقیناًسمجھو کہ خدا کی حجت تم پر پوری ہو چکی اب تم کسی طرف بھاگ نہیں سکتے۔ جو شخص خدا کے نشان کو بے عزتی سے دیکھتا ہے وہ اوّل درجہ کا خبیث فطرت اور ناپاک طبع ہوتا ہے اور نہیں مرتا جب تک کوئی دوسرا غضب کانشان نہ دیکھ لے۔ سو تم شوخیوں سے باز آجاؤ ایسا نہ ہو کہ خدا کا قہر تم پر وارد ہو جاوے اور تم نیست و نابود ہو جاؤ۔ وہ قادر خدا انسان سے تھک نہیں سکتا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کوئی اور نشان دکھائے گا کیونکہ دنیا نے اُس کے نشانوں کو قبول نہیں کیا اور ہنسی ٹھٹھا کیا۔ عجیب حالت زمین کی ہے گویا مر گئی۔ کوئی شخص تقویٰ کی آنکھ سے نہیں دیکھتا کہ کہاں تک حقیقت کھل گئی ہے۔ تکذیب کی طرف جھک گئے ہیں اور خدا کے نشانوں سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں صرف قصے ہیں اور خُدا کے چمکتے ہوئے نشانوں پر اُن قصوں کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کی یہ علامات ردّی ہیں۔ نہ معلوم کیا ہونے والا ہے کہ دل سخت ہو گئے اور آنکھیںؔ اندھی ہو گئیں اور خوفِ خدا جاتا رہا پر میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ بعد اس کے اور نشان ہیں جو قیامت کا نمونہ ہیں۔ کاش لوگ سمجھتے اور آنے والے قہر سے بچ جاتے خدا نے فرمایا کہ ایک اور قیامت برپا ہوئی یعنی ہوگی ۲۷؍اپریل ۱۹۰۷ء تھی جب یہ الہام ہوا۔

نشاں کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا

ارے اِک اور جھوٹوں پر قیامت آنے والی ہے

یہ کیا عادت ہے کیوں سچی گواہی کو چھپاتا ہے

تری اک روز اے گستاخ شامت آنے والی ہے

تِرے مکروں سے اے جاہل مِرا نقصاں نہیں ہر گز

کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے

اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں

کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے

بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کی ہیں تونے اور چھپایا حق

مگر یہ یاد رکھ اِک دن ندامت آنے والی ہے

خدا رُسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا

سنو اے مُنکرو اب یہ کرامت آنے والی ہے

خدا ظاہر کرے گا اِس نشاں پر رعب پر ہیبت

دلوں میں اس نشاں سے استقامت آنے والی ہے

خدا کے پاک بندے دوسروں پرہوتے ہیں غالب

مری خاطر خدا سے یہ علامت آنے والی ہے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 596

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 596

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/596/mode/1up


نشان نمبر۲۰۲۔ میرے ایک دوست سیدناصر شاہ اورسیئر اس گردش اور تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ گلگت میں تبدیل کئے گئے تھے اور وہ سفر شدید اور تکالیفِ شاقہ کا تحمل نہیں کر سکتے تھے آخر وہ رخصت لے کر دعا کرانے کے لئے میرے پاس آئے تا وہ جموں میں متعیّن ہوں اور گلگت میں نہ جائیں اور یہ امر بظاہر محال تھا کیونکہ گلگت میں اُن کی تبدیلی ہو چکی تھی اِس لئے وہ نہایت مضطرب تھے۔ میں نے ایک رات اُن کے لئے اور نیز کئی اور دعائیں کیں اور شوکتِ اسلام کے لئے بھی دعا کی اور نماز تہجد میں دعائیں کرتا رہا۔ تب تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ خدا نے مجھے خبر دی کہ تمام دعائیں قبول ہو گئیں جن میں قوت اور شوکتِ اسلام بھی ہے۔ اِس پیرا یہ میں مجھے اطلاع دی گئی کہ سیدناصر شاہ کی تبدیلی ملتوی کی گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ خدا نے اُن کے بارے میں میری دعا قبول کی اور نیز اس وجہ سے بھی خوشی ہوئی کہ خدا کے فضل اور رحمت کے بڑے نشان یہ ہیں کہ وہ دعا قبول کرے۔فی اؔ لفور میں نے اُن کو اطلاع دے دی کہ تمہاری نسبت میری دعا قبول ہو گئی۔ پھر بعد اس کے شاید تیسرے دن یا چوتھے دن ریاست کے کسی اہل کار کا اُن کو خط آگیا کہ آپ کی تبدیلی ملتوی کی گئی تب وہ چند روز بعد مجھ سے رخصت ہو کر جموں چلے گئے اور جموں میں جاکر اُنہوں نے وہ خط بھیجا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:۔

بحضور اقدس حضرت پیرو مُرشد مسیح موعود و مہدی معہود دام ظلّکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ حضور والا کی خدمت میں مَیں مبارک باد عرض کرتا ہوں کہ خاکسار کی تعیّناتی خاص جموں نمبر اوّل سب ڈویژن میں ہو گئی ہے احکامات جاری ہو گئے ہیں۔ اور اب یہ خاکسار گلگت نہیں جائے گا۔ الحمدللہ ربّ العالمین کہ حضور والا کی دعائیں خداوند کریم نے قبول فرمائیں اور حضور کی دعا کے طفیل سے اللہ تعالیٰ نے دور دراز سفر سے اِس عاجز کو نجات بخشی۔ جناب عالی یہ خاکسار کے لئے بڑا معجزہ ظہور میں آیا ہے۔ میرے پیارے مسیح اور مہدی میری جان ومال آپ پر قربان ہو۔ مجھے زیادہ تر یہ خوشی حاصل ہوئی کہ حضور والا کا وہ الہام



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 597

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 597

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/597/mode/1up


پوراہوا کہ آج جو دعائیں قبول ہوئیں اُن میں قوت اور شوکت اسلام بھی ہے اور حضور نے مجھے فرمایا تھا کہ ان دعاؤں میں سے یہ دعا بھی تھی کہ تمہاری گلگت کی تبدیلی ملتوی رہ جائے اور جموں میں تعیّناتی ہو جس کی قبولیت کی اطلاع مل گئی ہے۔سو خدا کا شکر ہے کہ خدا کے فرمودہ کے مطابق ظہور میں آگیا۔ الحمدللّٰہ!الحمدللّٰہ!!

خاکسار نابکار سیّدناصر شاہ اورسیئر سب ڈویژنل افسر جموں

مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۰۷ء

نشان نمبر ۲۰۳۔ تیرہ۱۳ اپریل ۱۹۰۷ء سے چند روز پہلے مجھے یہ الہام ہوا کہ اردت زمان الزلزلۃ چنانچہ یہ الہام بدر اور الحکم دونوں اخباروں میں قبل از وقت شائع کر دیا گیا تھا اور اِس الہام کے معنی یہ تھے کہ اب مَیں پھر زلزلوں کا زمانہ لاؤں گا۔ سو اس کے بعد ایک زلزلہ تو پنجاب میں آیا جس کی نسبت خیر آباد ضلع پشاور سے مجھے خبر ملی کہ وہ سخت زلزلہ اور قیامت کا نمونہ تھا۔ ایساؔ ؔ ؔ ہی لارنس پوراور اَور بہت سے مقامات سے اِس زلزلہ کی خبر ملی اور بہت سے دوستوں نے خط لکھے اور اخبار سول اینڈ ملٹری میں بھی اس کی خبر شائع کی گئی۔

پھر انگریزی اخباروں کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ ایسا ہی اس الہام کے بعد امریکہ اور بعض حصّہ یورپ میں تین سخت زلزلے آئے۔ اور بعض شہر تباہ ہو گئے لیکن چونکہ پیشگوئی میں عموم ہے اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ اِسی پر بس نہیں ہوگا بلکہ اور زلزلے بھی آئیں گے کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ وہ زمانہ آگیا ہے کہ پھر مَیں زلزلوں کو زمین پر ظاہر کروں گا سو ان زلزلوں کا منتظر رہنا چاہئے۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔

نشان نمبر۲۰۴۔ مولوی عبد المجید ساکن دہلی نے اپنی کتاب بیانٌ للنّاس میں میرا ذکر کرکے اور بالمقابل اپنے تئیں رکھ کر مباہلہ کے طور پر بد دعا کی تھی تا کاذب صادق کی زندگی میں فنا ہو۔ سو وہ میری زندگی میں ناگہانی موت سے مر گیا۔ یہ مقامِ عبرت ہے۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 598

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 598

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/598/mode/1up


نشان نمبر ۲۰۵۔ پھر ایک اور شخص ابو الحسن نام* نے میرے ردّ میں ایک کتاب بنائی تھی جس کا نام ہے بجلی آسمانی برسرِ دجّال قادیانی جس کے کئی مقامات میں کاذب کی موت کے لئے بد دعا ہے بلکہ فرضی طور پر میری وفات کا وقوع ذکر کرکے پنجابی زبان میں ایک سیاپا لکھا ہے گویا مَیں مر گیا ہوں اور وہ مولوی میرا سیاپا میری موت کے بعد کرتا ہے آخر نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی مذکور اِس کتاب کے شائع کرنے کے بعد خود طاعون سے مر گیا۔ پھر ایک اور شخص ابو الحسن عبد الکریم نام نے دوبارہ اس کتاب کو چھپوایا وہ بھی حال کے طاعون کے دِنوں میں طاعون کا شکار ہو گیا۔ تعجب کہ باوجود ان تمام نشانوں کے کوئی سوچتا نہیں کہ جس شخص کے شامل حال اِس قدر نُصرتِ الٰہی ہے وہ کیونکر کاذب ہو سکتا ہے۔

اے پڑھنے والے اِس کتاب کے خدا سے ڈر۔ اور ایک دفعہ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھ اور اس قادر مطلق سے درخواست کر کہ وہ تیرے دل کو سچائی کے لئے کھول دے اور خدا کی رحمت ؔ سے نااُمید مت ہو۔


* اس شخص کا نام محمد جان ہے المعروف مولوی محمد ابو الحسن مؤلف شرح صحیح بخاری المعروف بہ فیض الباری ساکن پنج گرائیں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ اِس ضلع میں یہ ایک مشہور مولوی تھا وہ اپنی کتاب بجلی آسمانی کے صفحہ نمبر۳ سطر ۱۷ اور سطر ۱۸ کے شعر میں لکھتا ہے کہ میں دعا کرتا ہوں کہ مرزا کی خدا بیخ کنی کرے اور اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے اور وہ مر جائے۔ اور پھر اس کتاب کے صفحہ ۱۰۰ سطر ۱۵ میں دوسرے حصہ اس کتاب (یعنی بجلی) آسمانی کا وعدہ کرکے یہ شعر میری نسبت لکھا ہے۔ نبیاں تائیں اس متنبی لائیاں بڑیاں سلّاں۔ دو جے حصے اندر دیکھیں میریاں اُسدیاں گلاں۔ ابھی اس بد قسمت مولوی نے دوسرا حصہ اپنی کتاب بجلی آسمانی کا تیار نہیں کیا تھا کہ طاعون کی بجلی اُس پر پڑ گئی۔ انیس۱۹ دن تک نہایت جان کندنی کی حالت میں رہا آخر بڑے دُکھ کے بعد جان دی اور پھر صفحہ ۱۰۰ سطر ۱۹ میں یہ مولوی صاحب میری نسبت یہ پیشگوئی کرتے ہیں۔ توبہ کر جلدی اے ملحد موت نیڑے ہے آئی۔ اج کل مر دنیا توں غافل ہونا ہے توں راہی۔ یعنی جلدی توبہ کر کہ تیری موت نزدیک آگئی ہے اور اے غافل آج کل ہی تو مر جائے گا اور دنیا سے سفر کرے گا۔ شاید یہ مولوی صاحب کا الہام ہے یا خواب مگر عرصہ دو سال کا گذرا ہے کہ یہ مولوی صاحب آپ ہی طاعون سے مر گئے اور دیکھنے والوں نے بیان کیا ہے کہ انیس۱۹ دن تک پلیگ میں مبتلا رہ کر چیخیں مارتے رہے اور نہایت دردناک حالت میں جان دی اور پھر یہ مولوی صاحب پیشگوؔ ئی کے طور پر اِسی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 599

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 599

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/599/mode/1up


مرد میداں باش و حال ما ببیں

نصرتِ آن ذوالجلالِ ما ببین

طعنہ ہابے امتحان نامردی است

امتحان کُن پس مآلِ ما ببین

اے عزیز عباد الرحمن کی نسبت جلدی سے بد ظنی کرنا جائز نہیں۔ جن لوگوں نے پہلے برگزیدوں کی نسبت بد ظنیاں کیں اُنہوں نے کیا پھل پایا۔ اور یہ خیال بھی اپنے دلوں میں سے نکال دو کہ جب تک وہ تمام علامتیں مسیح موعود اور مہدی معہود کی (جو صرف ظنی روایات کی بناء پر تمہارے دلوں میں ہیں) پوری نہ ہو لیں تب تک قبول کرنا ہرگز روا نہیں۔ یہ قول اُن یہودیوں کے قول سے مشابہ ہے جنہوں نے نہ حضرت عیسیٰ کو قبول کیا اور نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ کیونکہ جو کچھ اپنی روایتوں کی بناء پر نشانیاں قرار دی تھیں وہ سب پوری نہ ہوئیں۔ پس کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تمہاری قرار دادہ علامتیں پوری ہو جائیں گی۔ نہیں بلکہ ایسی پیشگوئیوں میں ایک امتحان بھی مخفی ہوتا ہے اور خُدا تمہیںآزماتا ہے کہ تم اُسکے نشانوں کو عزّت کی نگہ سے دیکھتے ہو یا نہیں۔ تمام روایات کب سچی ہو سکتی ہیں بہت سی جھوٹی باتیں مل جاتی ہیں اُ ن پر پورا تکیہ کرنا خطرناک امر ہے۔

یہ تو بتلاؤ کہ کس نبی کی نسبت مقرر کردہ علامات پوری ہو گئیں جوپہلی قوم نے مقرر


بقیّہ حاشیہ۔ کتاب بجلی آسمانی کے صفحہ ۱۰۷ میں یہ چند شعر لکھتے ہیں۔ مرزا مویا خوشیوں مینوں راتیں نیند نہ آئی مرزا گذر گیا۔ مرزا مویا بے شک جانو مَیں ہن نصرت پائی مرزا گذر گیا۔ یعنی بے شک مرزا مر جاویگا اور مجھے فتح ہوگی اور پھر صفحہ ۱۰۷ کے شعر میں لکھتا ہے کہ طاعون کے پھیلنے کی خبر مرزا نے دی تھی وہ بھی ظہور میں نہ آئی۔ مگر مولوی صاحب کو معلوم نہ تھا کہ خود طاعون سے مریں گے۔ قدرت الٰہی ہے کہ اُنہیں پر بجلی آسمانی گری۔ منہ


* ہم ان نشانوں کو دو سو ۲۰۵پانچ پر ختم کر چکے تھے کہ ایک اور رسالہ ہمیں دستیاب ہوا جس نے اِن نشانوں کو دو سو۲۰۶ چھ تک پہنچا دیا۔ اس رسالہ کا نام دُرّہ محمدی ہے اور مصنف کا نام امداد علی ہے۔ اس شخص نے اپنی کتاب کے صفحہ سا۷ت میں میری نسبت یہ شعر لکھا ہے۔ اللہ اجیہے پیغمبر تائیں جلد بجلد سمہالے۔ جس کاذب نے دُنیا اندر بہتیرے چلّے چالے۔ یعنی اس شخص کو خدا جلدی موت دے۔ پھر صفحہ ۸ میں میری نسبت لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین لکھتا ہے اور دُوسرا حصہ کتاب کے بنانے کا وعدہ کرتا ہے اور ابھی دوسرے حصہ کی نوبت نہیں آئی کہ طاعون میں پکڑا گیا اوراپنا گوشت اپنے دانتوں سے کاٹتا تھا۔ آخر اُسی حالت میں مر گیا یہ ہیں مولوی صاحبان جو مجھے جھوٹا ٹھہراتے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 600

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 600

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/600/mode/1up


کر رکھی تھیں۔ پس خدا سے ڈرو اور پہلے بد قسمت مُنکروں کی طرح خدا کے مُرسل کو اِس بنا پر ردّ مت کرو کہ تم نے اُس میں وہ تمام مقرر کردہ علامتیں نہ پائیں اور یقیناًیاد رکھو کہ یہ بات کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کہ اُن کی تمام مقررکردہ علامتیں آنے والے نبی میں پائی جائیں اِسی لئے اُنہوں نے ٹھوکریں کھائیں اور جہنم میں پڑے ورنہ تمام علامتیں پاکر پھر انکار کرنا انسان کی فطرت میں داخل نہیں۔ کوئی بات ٹھوکر کھانے کی ہوتی ہے جس سے بد قسمت انسان ٹھوکر کھاتا ہے۔ یہود کا گمان تھا کہ مسیح آنے والا ایک بادشاہ کی صورت میں آئے گا اور اس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل ہوگا۔ پس اِسی وجہ سے آج تک اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو ؔ قبول نہیں کیا کیونکہ نہ تو اُن سے پہلے الیاس نبی آسمان سے اُترا اور نہ حضرت عیسیٰ بادشاہ ہوئے کوشش تو کی گئی مگر اُس میں ناکام رہے اور پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہودیوں کے عالموں بلکہ اُن کے تمام نبیوں نے بھی یہی سمجھ رکھا تھا کہ وہ آخرالزمان نبی بنی اسرائیل میں سے پیدا ہوگا۔ مگر ایسا ظہور میں نہ آیا بلکہ وہ نبی بنی اسماعیل میں سے پیدا ہو گیا۔ تب لاکھوں یہودی دولتِ قبول سے محروم رہ گئے۔ اگر خدا چاہتا تو ایسی صراحت سے علامتیں بیان کر دیتا کہ یہودی ٹھوکر نہ کھاتے مگر جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ صراحت نہیں کی گئی تو پھر اور کِس کے لئے کی جاتی۔ پس یاد رکھو کہ ایسی پیشگوئیوں میں امتحان بھی مقصود ہوتا ہے۔ جو لوگ عقل سلیم رکھتے ہیں وہ اس امتحان کے وقت تباہ نہیں ہوتے اور روایات کو صرف ایک ظنی ذخیرہ خیال کر لیتے ہیں اور یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اگر کوئی روایت یا حدیث صحیح بھی ہو تب بھی اس کے معنی کرنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔ پس وہ تمام مدارشناخت کا خدا کی نصرت اور خدا کی تائید اور خدا کے نشانوں اور شہادتوں کو قرار دیتے ہیں اور جس قدر علامتیں روایتوں کے ذریعہ سے میسر آگئی ہیں اُن کوکافی سمجھتے ہیں اور باقی روایتوں کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ یہی طریق سعید فطرت یہودیوں نے اختیار کیا تھا جو مسلمان ہو گئے تھے اور یہی طریق ہمیشہ سے راست بازوں کا چلا آیا ہے اور اگر راست بازوں اور خدا ترسوں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 601

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 601

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/601/mode/1up


کا یہ طریق نہ ہوتا تو ایک نفس بھی یہودیوں اور عیسائیوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لا سکتا اور نہ کوئی یہودی حضرت عیسیٰؑ کو قبول کر سکتا۔ بہت سے یہودی اِس مُلک میں رہتے ہیں۔ اُن کو پوچھ کر دیکھ لو کہ کیوں وہ لوگ حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے آخر وہ دیوانہ نہیں ہیں کوئی عذر تو اُن کے پاس ہے۔ پس تم یاد رکھو کہ اُن کی طرف سے تم یہی جواب پاؤ گے کہ وہ علامتیں جو اُن کی احادیث اورروایتوں میں لکھی تھیں پوری نہیں ہوئیں اور اس طرح پر وہ اِس ضد پر قائم رہ کرو اصل جہنم ہو گئے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اب جبکہ ثابت ہوا کہ تمام قرار دادہ علامتوں کا پورا ہونا شرط ایمانؔ قرار دینا جہنم کی راہ ہے جس کی وجہ سے کئی لاکھ یہودی واصل جہنم ہو چکے تو اس راہ کو تم کیوں اختیار کرتے ہو۔ مومن کو چاہئے۔ کہ دوسرے کے حالات سے عبرت پکڑے کیا تم تعجب کرتے ہو کہ جس امتحان میں خدا تعالیٰ نے یہودیوں کو ڈالا تھا وہی امتحان تمہارا بھی کیا گیا ہو۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3 3 ۱؂ ۔ یقیناًسمجھو کہ یہ کاروبار خدا کا ہے نہ انسان کا۔ پس قبول کرنے میں سابقین میں داخل ہو جاؤ۔ اور خدا سے مت لڑو کہ اُس نے ایسا کیوں کیا اور اگر تم تقویٰ کی نظر سے دیکھو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ جس قدر تم نے مخالف روایات کو مضبوط پکڑ لیا ہے عقل اور انصاف تم پر یہ واجب نہیں کرتا کہ تم ضرور ایسا کرو۔ کیونکہ وہ سب مجموعۂ ظنّیات ہے کہ جو احتمال کذب بھی رکھتا ہے اور قابلِ تاویل بھی ہے پس اپنی جانوں پر رحم کرو یقین کے پہلو کو کیوں چھوڑتے ہو۔ کیا ظن یقین کے ساتھ برابر ہو سکتا ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ وہ روایتیں صحیح نہ ہوں جن کو تم صحیح سمجھتے ہو یا اور معنی ہوں۔ کیا وہ بلاجو یہودیوں کو تمام علامتوں پر ضد کرنے سے پیش آئی وہ تمہیں پیش نہیں آسکتی سو تم اُن کی لغزشوں سے فائدہ اُٹھا لو۔ یادرکھو کہ قرآن کریم کی نصوص قطعیۃ الدلالت سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں بلکہ اُن کی موت ثابت ہوتی ہے پس جس کو قرآن مارتا ہے اُس کو تم کیوں زندہ کہتے ہو۔ نبی آسمان پر زندہ تو ہیں مگر سب کی یکساں زندگی ہے عیسیٰ کے لئے کوئی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 602

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 602

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/602/mode/1up


نرالی زندگی نہیں۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ آسمانی زندگی رکھتے ہیں اور سورہ نور کو غور سے پڑھو اُس میں یہی پاؤگے کہ آنے والے خلیفے سب اسی اُمت میں سے ہیں اور جبکہ یہود اِس اُمت میں سے بھی پیدا ہونے والے ہیں تو تم کیوں تعجب کرتے ہو کہ مسیح موعود بھی اِسی اُمت میں سے ہو اور مجھے کب خواہش تھی کہ میں مسیح موعود بنتا اور اگر مجھے یہ خواہش ہوتی تو میں براہین احمدیہ میں اپنے پہلے اعتقاد کی بناء پر کیوں لکھتا کہ مسیح آسمان سے آئے گاحالانکہ اُسی براہین میں خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا ہے۔ پس تم سمجھ سکتے ہو کہ میں نے پہلے اعتقاد کو نہیں چھوڑا تھا جب تک خدا نے روشنؔ نشانوں اور کھلے کھلے الہاموں کے ساتھ نہیں چھڑایا۔ پس میں یقین کو چھوڑ کر تمہاری ظنی روایات کو کیونکر قبول کر سکتا ہوں اور بصیرت کو چھوڑ کر ظنی ڈھکوسلے کیونکر اختیار کر سکتا ہوں جن کا باطل ہونا خدا نے میرے پر ظاہر کر دیا جیسا کہ یہودیوں کی روایات اور احادیث کا باطل ہونا خدا نے حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کر دیا۔ پس وہ بصیرت جو زبردست نشانوں کے ساتھ دی گئی ہے میں اس کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں۔ خدا نے مجھ پر ظاہر کر دیا ہے کہ وہ کل روایتیں صحیح نہیں تھیں کچھ تو صحیح تھیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور کچھ ردّی اور موضوعات کا ذخیرہ تھا جس کا غلط ہونا کھل گیا اور کچھ احادیث صحیحہ کے سمجھنے میں غلطیاں تھیں اگر ایسا نہ ہوتا تو مسیح موعود کا نام حکم کیوں رکھا جاتا۔ کیونکہ اگر مسیح موعود پر واجب ہے کہ وہ ظاہر ہو کر سب روایات کو مان لے تو پھر کن معنوں سے وہ حکم کہلا سکتا ہے۔ ہر ایک درخت اپنے پھلوں سے شناخت کیا جاتا ہے اور ہر ایک غلام کی عزت اُس کے آقا کی عنایات سے معلوم ہو سکتی ہے اور ہر ایک خوشبو اپنی شہادت آپ دیتی ہے۔ پس کیوں مجھ سے جلدی کرتے ہو اور کیوں زبان کی ناپاکی کو انتہا تک پہنچاتے ہو۔ صبر کرو اور تقویٰ سے کام لو۔ اگر میں صادق نہیں اور چوروں اور رہزنوں کی طرح ہوں تو کب تک یہ چوری اوررہزنی پیش جا سکتی ہے ؂

آنکہ آید از خدا آید بدو نصرت دوان

خدمتِ او می کند شمس و قمر چون چاکران

صادقان را از خدا نورے عنایت می شود

عشقِ آن یارِ ازل می تابد اندر روئے شان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 603

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 603

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/603/mode/1up


ازپئے ہمدردیءِ دنیا مصیبت می کشند

خادمان بے اُجرت اند و پردہ پوشانِ جہان

از گروہِ اہل نخوت لا اوبالی* مے زیند

بادشاہانِ دو عالم بے نیاز از حاسدان

دل سپردن دلستان را سیرتِ ایشان بود

جان دہند از بہرآن دلدار وقتِ امتحان

اب ہم نشانوں کو اسی قدر پر ختم کرکے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بہت سی روحیں ایسی پیدا کرے کہ ان نشانوں سے فائدہ اُٹھاویں اور سچائی کی راہ کو اختیار کرؔ یں اور بغض اور کینہ کو چھوڑ دیں۔ اے میرے قادر خدا میری عاجزانہ دُعائیں سُن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دُنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راستباز اورموحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے۔ اور تیرے رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے۔ آمین

اے میرے قادر خدا مجھے یہ تبدیلی دنیا میں دکھا اور میری دعائیں قبول کر جو ہر یک طاقت اور قوت تجھ کو ہے۔ اے قادر خدا ایسا ہی کر۔ آمین ثم آمین

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ

تَمَّتْ بِالخَیْر

اِس کتاب کے ختم کرنے کے بعد ایک اور نشان مباہلہ کے رنگ میں اور دوسرا نشان پیشگوئی کے طور پر ظاہر ہوا جس سے دو سو۲۰۸ آٹھ نمبر نشانوں کا پورا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان نشانوں کے لئے دو اور ورق کتاب میں بڑھانے پڑے وھذا من فضل ربّی انّ ربّی ذو الفضل العظیم ولہ الحمد فی الاولٰی والاٰخرۃ وھوالمولی الکریم۔


* درست لا ابالی ہے۔ (ناشر)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 604

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 604

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/604/mode/1up


فیصلہؔ بذریعہ مُباہلہ کاایک اور تازہ نشان

*

نشان۔ ۲۰۷۔ ذیل میں وہ مباہلہ درج کیا جاتا ہے جو ہماری جماعت کے ایک ممبر منشی مہتاب علی صاحب نے فیض اللہ خان بن ظفر الدین احمد سابق پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کے ساتھ ۱۲؍جون ۱۹۰۶ء کو کیا تھا۔ اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیض اللہ خان اپنی خواہش کے مطابق مرض طاعون میں گرفتار ہو کر ۱۳؍اپریل ۱۹۰۷ء مطابق یکم بیساکھ سم۱۹۶۳ میں نہ صرف خود ہی ہلاک ہوا بلکہ اپنے بعض دیگر عزیزوں کو بھی لے ڈوبا۔

اِس جگہ اس بات کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ اس شخص فیض اللہ خاں کا باپ قاضی ظفر الدین بھی ہمارے سلسلہ کا سخت مخالف تھا اور جب اُس نے اِس سلسلہ کے بر خلاف ایک عربی نظم لکھنی شروع کی*تو ہنوز اُسے پورا نہ کر چکا تھا اور مسودہ اُس کے گھر میں تھا۔ چھاپنے تک نوبت نہ پہنچی تھی کہ وہ مر گیا۔ اب اس مباہلہ کی تحریر کی عبارت طرفین کی نقل کی جاتی ہے۔ دونوں فریق کی دستخطی تحریریں ہمارے پاس موجود ہیں۔

تحریر دستخطی فیض اللہ خان

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

الحمد لِلّٰہ الّذی لا یضرّمع اسمہ شئ فی الارض ولا فی السماء

وھو السمیع العلیم۔

بعد حمدو صلوات برسول رب العالمین کے مَیں قاضی فیض اللہ خان بن قاضی ظفر الدین احمد مرحوم ایک مسلمان حنفی سُنت نبویہ کا پورا تابعدار اس بات کا قائل ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو کہ خاتم النبیین


* ایک قصیدہ مَیں نے عربی میں تالیف کیا تھا جس کا نام اعجاز احمدی رکھا تھا اور الہامی طور پر بتلایا گیا تھا کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور اگر طاقت بھی رکھتا ہوگا تو خدا کوئی روک ڈال دے گا۔پس قاضی ظفر الدین جونہایت درجہ اپنی طینت میں خمیر انکار اور تعصّب اورخود بینی رکھتا تھا اُس نے اِس قصیدہ کا جواب لکھنا شروع کیا تا خدا کے فرمودہ کی تکذیب کرے۔ پس ابھی وہ لکھ ہی رہا تھا کہ ملک الموت نے اُس کاکام تمام کردیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 605

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 605

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/605/mode/1up


ہو چکے ہیں وحی کا نازل ہونا خلاف مذہب قرآن و حدیث ہے۔ اور مرزا صاحب کے اِس دعویٰ کی تردید کرتا ہوں کہ وہ مثیل و مسیح موعود ہیں اور منشی مہتاب علی صاحب خلف الرشید منشی کریم بخش صاحب سکنہ شہر جالندھر جو کہ مرزا صاحب موصوف کے تابع ہیں۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو شخص اُن کے اِس دعویٰ کی تردید کرے اُس پر عذابِ الٰہی نازل ہوگا۔ لہٰذا مَیں یہ دعاکرتا ہوں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے جو شخص جھوٹا ہے اُس پر عذاب الٰہی نازل ہو مثل موت یا بیماری طاعون یا مقدمہ میں گرفتاری اور مَیں بمطابقت سنتؔ نبوی کے ایک سال کی میعاد ٹھہراتا ہوں اور یہ شرط کرتا ہوں کہ اگر یہ عذاب میرے یا منشی مہتاب علی کے بغیر کسی اور شخص قرابتی پر ہو تو یہ شرط میں داخل نہ ہوگا۔ واٰخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ محمدٍ واٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔

قاضی فیض اللہ خاں سکنہ جنڈیالہ باغوالہ ضلع گوجرانوالہ مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۰۶ء

تحریر دستخطی منشی مہتاب علی

بِسْم اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحمدہٗ وَ نُصَلِّیْ

مَیں حضرت اقدس حضرت مرزا غلام احمد کوسچا مسیح سمجھتا ہوں اور اُن کاہرایک دعویٰ جو دین کے متعلق ہے بلا کسی شک و شبہ کے صحیح مانتا ہوں مگر میرے مقابلہ پر قاضی فیض اللہ خلف الرشید قاضی ظفر الدین مرحوم یقین کے ساتھ کہتاہے کہ مرزا صاحب جھوٹا اور اُن کا دعویٰ بالکل گھڑا ہوا اور خود تراشیدہ ہے۔ اِس لئے مَیں قاضی صاحب کے مقابلہ میں مباہلہکرتا ہوں اور پورا پورا اورکامل یقین مجھے ہے کہ جوہر دو میں سے جھوٹا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اُس پر عذاب الیم نازل کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں گے لیکن یہ عذاب یقیناًنہیں ٹلے گا اور وہ اپنی چمکار دِکھاکررہے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ قانون جاری ہے اور آخری و بہتر اور اولیٰ طریق کذب اور راستی میں تفریق کرنے کا ہے۔پس خدا سے میری دعا ہے کہ وہ جلد تر نتیجہ پیدا کرے۔ اے خدا اے خدا تجھ سے کوئی انہونی بات نہیں۔ اگر تو چاہے توایک آن میں عذاب نازل کرسکتا ہے لیکن میں سنت نبوی کے مطابق ایک سال کی میعاد تجویزکرتا ہوں اور وہ عذاب محض



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 606

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 606

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/606/mode/1up


مجھ عاجز پراور یاقاضی صاحب پرنازل ہونا چاہئے مثلاً موت یا طاعون یا کسی مقدمہ میں ماخوذ ہوجانا یہی شرط ہے اور کسی قرابتی اوراپنے کسی متعلق پرکوئی عذاب نازل ہونایااُس کا مر جانا شرط میں داخل نہ ہوگا اوروہ عذاب صرف ہم دونوں سے مخصوص سمجھا جائے گا۔

خاکسار عاجز مہتاب علی سیاح جالندھری مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۰۶ء

اِن بالمقابل تحریروں کے بعد جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ قاضی فیض اللہ خاں مرض طاعون کے ساتھ جیسا کہ جھوٹے کے لئے بد دعا کی گئی تھی اورنیز سال کے اندر جیسا کہ شرط تھی بمقام جموں ہلاک ہو گیا اور بموجب آیت کریمہ 33 ۱؂ مہتاب علی کو خدا

نے طاعون سے بچا لیا کیونکہ وہ اپنے دعوے میں صادق تھا۔ اور فیض اللہ خان طاعون کا شکار ہوگیاکیونکہ وہ اپنے دعوے میں کاذب تھا *


* نکتہ قابل یاد داشت:۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے 33 33 3۲؂ اس آیت سے قطعی اور یقینی طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کھلی کھلی پیشگوئیاں جو مقدار میں زیادہ اور صفائی میں اوّل درجہ پر ہوں صرف خدا کے برگزیدوں کو ہوتی ہیں دوسرے آدمی ان میں شریک نہیں ہوتے۔ اور جو اِس درجہ پر الہام نہیں وہ دوسروں کو بھی ہو سکتے ہیں اور اکثر اُن میں مہمل اور متشابہ الہام ہوتے ہیں۔ پس اسی مقابلہ سے بر گزیدے لوگ شناخت کئے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس آیت کی رو سے اس بات کا جواز پایا جاتا ہے کہ وہ الہامی پیشگوئیاں جو اِس آیت کے منشاء کے مطابق کھلی کھلی نہ ہوں اور نیز اپنے مقدار میں انسانوں کی معمولی حالت سے بڑھ کر نہ ہوں اور متشابہات کا حصہ اُن پر غالب ہو۔ ایسی الہامی پیشگوئیاں اور ایسے الہام اُن لوگوں کو بھی ہو سکتے ہیں جو خدا کے برگزیدہ نہیں ہیں اور معمولی انسانوں میں سے ہیں۔ پس برگزیدوں کی شناخت کے لئے قرآن شریف میں بھی یہی معیار ہے کہ ان کی الہامی پیشگوئیوں میں متشابہات کا حصہ کم ہو اور اپنی کثرت پر نہیں ہے۔ مثلاً نظیر کے طور پر ہم بیان کرتے ہیں کہ براہین احمدیہ کی یہ پیشگوئی کہ یأ تیک من کلّ فجٍّ عمیق۔ یأ تون من کلّ فجٍّ عمیق۔ جس پر چھبیس۶ ۲برس گزر چکے ہیں ایسے کھلے کھلے طور پر پوری ہوئی ہے کہ نہ ایک دفعہ بلکہ لاکھوں دفعہ اُس نے اپنی سچائی ثابت کر دی ہے جس میں تائید اور نصرت الٰہی بھری ہوئی ہے۔ پس ایسی پیشگوئی بجز خدا کے کسی خاص برگزیدہ کے دوسروں سے ہر گز ظہور میں نہیں آسکتی۔ اگر آسکتی ہے تو کوئی اِس کی نظیر پیش کرے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 607

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 607

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/607/mode/1up


خدا ؔ کی طرف سے جو پیشگوئی کسی ظالم کے حق میں

ہوتی ہے آخر وہ پوری ہوجاتی ہے۔

*

نشان ۲۰۸۔ اِس ملک پنجاب میں جب دیانند بانی مبانی آریہ مذہب نے اپنے خیالات پھیلائے اور سفلہ طبع ہندوؤں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر اور ایسے ہی دوسرے انبیاء کی توہین پر چالاک کر دیا اور خود بھی قلم پکڑتے ہی اپنی شیطانی کتابوں میں جا بجا خدا کے تمام پاک اور برگزیدہ نبیوں کی تحقیر اور توہین شروع کی۔ اور خاص اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں بہت کچھ جھوٹ کی نجاست کو استعمال کیا اور بزرگ پیغمبروں کو گندی گالیاں دیں تب مجھے اُس کی نسبت الہام ہوا کہ خدا تعالیٰ ایسے موذی کو جلد تر دنیا سے اُٹھا لے گا۔ اور یہ بھی الہام ہوا سیھزم الجمع ویولون الدبر۔ یعنی آریہ مذہب کا انجام یہ ہوگا کہ خدا اُن کو شکست دے گا اور آخر وہ آریہ مذہب سے بھاگیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے اور آخر کالعدم ہو جائیں گے۔ یہ الہام مدّت دراز کا ہے جس پر قریباً تیس۳۰ برس کا عرصہ گذرا ہے جس سے اِس جگہ کے ایک آریہ یعنی لالہ شرمپت کو اطلاع دی گئی تھی اور اُس کو کھلے طور پر کہا گیا تھا کہ اُن کا بدزبان پنڈت دیانند اب جلد تر فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ ابھی ایک سال نہیں گذرا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اِس پنڈت بد زبان سے اپنے دین کو نجات دی اور وہ اجمیر میں مر گیا اور شرمپت کے لئے یہ ایک بڑا نشان تھا لیکن اُس نے نہ صرف اِسی نشان کے فیض سے اپنے آپ کو محروم رکھا بلکہ اور بھی کئی کھلے کھلے نشان دیکھے مگرپھر بھی بد قسمتی سے اسلام قبول نہ کیا مَیں نے ایک علیحدہ کتاب میں جس کا نام ہے قادیان کے آریہ اور ہم ان تمام نشانوں کو لکھا ہے جن کا گواہ نہ صرف شرمپت ہے بلکہ قادیان کے اور ہندو بھی گواہ رویت ہیں۔ افسوس کہ ان لوگوں نے ان نشانوں سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا۔ بلکہ شوخی اور چالاکی اور شرارت میں بہت بڑھ گئے یہاں تک کہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 608

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 608

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/608/mode/1up


مسمّیسومراج اور اچھر مل اور بھگت رام نے قادیان میں ایک اخبار نکالا اور اُس کا نام شبھ چنتک رکھا اور اُس میں گالیاں دینا اور بد زبانی کرنا اپنا فرض سمجھا۔ مگر خدا نے ایک مُدت سے کئی بار مجھے خبر دے رکھی تھی کہ آریہ سماج کی عمر اَب خاتمہ پر ہے۔ چنانچہ مَیں نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین کے صفحہ ۶۶ میں جو ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شائع ہوئی تھی خدا تعالیٰ سے الہام پاکر پیشگوئی مندرجہ ذیل جو صفحہ ۶۶ کی سطر ۷و۸ میں ہے شائع کی تھی۔ اور وہ یہ ہے وہ مذہب (یعنی آریہ مذہب) مُردہ ہے اِس سے مت ڈرو۔ ابھی تم میں سے لاکھوں اور کرڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اِس مذہب آریہ کو نابود ہوتے دیکھ لوگے۔

اِسی طرح میں نے اپنی کتاب نسیم دعوت کے صفحہ ۴ و ۵ میں جو آریوں کے مقابل پر ۲۸؍فروری ۱۹۰۳ء کو لکھی گئی مندرجہ ذیل پیشگوئی آریوں کے حق میں کی تھی اور وہ یہ ہے۔ ہر ایک جوش محض قوم اور سو سائٹی کے لئے دکھلاتے ہیں خدا کی عظمت اِن لوگوں کے دِلوں میں نہیں۔ قادیان کے آریہ خیال کرتے ہیں کہ ہم طاعون کے پنجہ سے رہائی یاب ہو گئے ہیں مگر کیا یہ بدزبانیاں اور بے ادبیاں خالی جائیں گی؟ سنو اے غافلو! ہمارا اور اُن راست بازوں کا تجربہ ہے جو ہم سے پہلے گذر چکے ہیں کہ خدا کے پاک رسولوں کی بے ادبی کرنا اچھا نہیں۔ خدا کے پاس ہر ایک بدی اور شوخی کی سزا ہے۔

اور پھر مَیں نے اپنی کتاب قادیان کے آریہ اور ہم میں جو ۲۰؍ فروری ۱۹۰۷ء کو شائع ہوئی ہے اس کے صفحہ ۲۱ و ۲۲ میں یہ پیشگوئی شائع کی تھی۔ یہ لوگ نبیوں کی تکذیب میں جن کی سچائی سورج کی طرح چمکتی ہے حد سے بڑھ گئے ہیں خدا جو اپنے بندوں کے لئے غیرت مند ہے ضرور اِس کا فیصلہ کرے گا اور وہ ضرور اپنے پیارے نبیوں کے لئے کوئی ہاتھ دکھلائے گا۔ پھرمیں نے اِسی رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم کی نظم میں یعنی صفحہ ۵۴ میں یہ پیشگوئی کی ہے۔ ؂

شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں ان کے ہر گز


وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہایہی ہے

ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا


اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے رجا یہی ہے

اِس پیشگوئی کا ماحصل یہی ہے کہ خدا اِن لوگوں کوکوئی ہاتھ دکھائے گا۔ پھر اسی کتاب کے ٹائٹل پیج کے صفحہ ۲ میں یہ شعر ہے ؂

میرے مالک تو ان کو خود سمجھا

آسماں سے پھر اک نشاں دکھلا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 609

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 609

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/609/mode/1up


اِس دعا کا ماحصل یہ ہے کہ نشان کے طور پرکوئی ؔ اور بلا آریوں پر نازل ہو۔

یہ پیشگوئیاں ہیں جو آریہ سماج کے حق میں کی گئی تھیں۔ سو ایک عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ وہ کیسے کھلے کھلے طور پر ظہور میں آگئی ہیں۔ اور آریہ سماج کا نحس ستارہ ظاہر ہوگیا۔ چنانچہ اُن کے مطابق قادیان کی آریہ سماج کے پر جوش ممبر جو اخبار شبھ چنتک کو چلاتے تھے طاعون کے ایک ہی طمانچہ سے سب کے سب ہلاک ہو گئے جیسا کہ کتاب ’’نسیم دعوت‘‘ میں اُن کا طاعون سے ہلاک ہونا پانچ برس پہلے بتلایا گیا تھا اور دوسرے مقامات کے آریہ پنجاب کے آریوں میں سے جو سرگروہ کہلاتے تھے جن کی شوکت اور شان کی وجہ سے آریہ لوگ شوخ دیدہ ہو گئے تھے اکثر اُن کے اپنے باغیانہ خیالات سے سزایاب ہو گئے اور بعض اس گورنمنٹ کے قلمرو سے باہر نکالے گئے۔ افسوس کہ اِن لوگوں نے انگریزی سلطنت کے ہزارہا احسان دیکھ کر پھر نمک ّ*** کی اور بغاوت کے کلمات سے سخت بد ذاتی دکھلائی۔ مگر ضرور تھا کہ وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جو آج سے پا۵نچ بر س پہلے ان لوگوں کے زوال اور تباہی کی نسبت بتلائی گئی تھیں۔ اب یقیناًسمجھو کہ آریہ سماجیوں کا خاتمہ ہے۔ اور جیسا کہ خدا نے دعوی کیا تھا وہ پورا ہوا۔ کیا انسان کی طاقت ہے کہ قبل از وقت ایسی پیشگوئیاں کر سکے؟ پس اُس خدا کا ہزار ہزار شکر ہے اور تمام حمد اور جلال اُسی کو مسلّم ہے جو اسلام کی تائید میں ایسے بڑے بڑے نشان ظاہر کرتا ہے۔ وَالسَّلام عَلٰی من اتّبع الھُدٰی۔

مَیں اِس قدر لکھ چکا تھا کہ آج ۱۲؍مئی ۱۹۰۷ء روز یکشنبہ کو ایک شخص مجھ کو کشفی طور پر دکھلایا گیا مگر مَیں اُس کی شکل بھول گیا صرف یہ یاد رہاکہ وہ ایک سخت دشمن ہے کہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں گالیاں دیتا ہے۔ اور سخت بد زبانی کرتاہے۔ بعد اسکے الہام ہوا۔ بدی کا بدلہ بدی ہے اُس کو پلیگ ہو گئی۔ یعنی ہو جائے گی۔ پس مَیں یقین کرتاہوں کہ جلد یا کچھ دیر سے تم سنو گے کہ کوئی ایسا سخت دشمن پلیگ کا شکار ہو جائے گا۔ اگر ایسا کوئی دشمن جس پر تمہارے دل بول اُٹھیں کہ یہ الہام کا مصداق ہو سکتا ہے طاعون میں مبتلا نہ ہوا تو تمہارا حق ہے کہ تم تکذیب کرو۔ بعد اِس کے مجھے دکھلایا گیا کہ مُلک میں بہت غفلت اور گناہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 610

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 610

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/610/mode/1up


اورؔ شوخی پھیل گئی ہے اور لوگ تکذیب سے باز آنے والے نہیں جب تک خدا پنا قوی ہاتھ نہ دکھلادے۔ بعد اس کے الہام ہوا۔ اُس کا نتیجہ سخت طاعون ہے جو مُلک میں پھیلے گی۔ کئی نشان ظاہر ہوں گے۔ کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہو جائیں گے۔ وہ دُنیا کو چھوڑ جائیں گے۔ ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا وہ قیامت کے دن ہوں گے زبردست نشانوں کے ساتھ ترقی ہوگی۔ ایک ہولناک نشان یعنی ان میں سے ایک ہولناک نشان ہوگا۔ شاید وہی زلزلہ ہو جس کا وعدہ ہے یا آسمان سے کوئی اور نشان ظاہر ہو۔ یا طاعون قیامت کا نمونہ دکھلاوے۔ پھر خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ میری رحمت تجھ کو لگ جائے گی اللہ رحم کرے گا۔ اَعْیَیْنَاکَ یعنی ہم اِس قدر نشان دکھلائیں گے کہ تو دیکھتے دیکھتے تھک جائے گا۔

اور پھر ۱۳؍ مئی ۱۹۰۷ء روز دوشنبہ کو الہام ہوا۔

سننجیک۔ سنعلیک۔ سنکرمک اکرامًا عجبًا۔ یعنی ہم عنقریب تجھ کو دشمنوں کے شرّ سے نجات دیں گے۔ اور ہم تجھے اُن پر غالب کر دیں گے۔ اور ہم تجھے ایک عجیب طور پر بزرگی دیں گے۔ اور در حقیقت وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں محض خدا کے نشانوں سے شناخت کئے جاتے ہیں اگر خدا اپنے ہاتھوں سے فیصلہ نہ کرے تو صِرف باتوں سے کوئی

فیصلہ نہیں ہو سکتا۔


تمّت


۱۵؍مئی ۱۹۰۷ء



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 611

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 611

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/611/mode/1up


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

اعلان

بخدمت علمائے اسلام

قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖؕ

یعنی اُس شخص سے ظالم تر کون ہے جو خدا پر افترا کرے یا خدا کی آیتوں اور نشانوں کا مکذّب ہو


ہر ایک کو معلوم ہے کہ میرے اِس دعوے پر کہ مَیں خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر آیاہوں اور اس کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہوں چھبیس۲۶برس کے قریب عرصہ گذر گیا ہے۔ اور اِس مُدّت میں باوجود یکہ میرے سلسلہ کے معدوم کرنے کے لئے ہر ایک مخالف نے ناخنوں تک زور لگائے اور مجھے حُکّام کی طرف بھی کھینچا مگر مَیں اُن کے ہر ایک حملے کے وقت میں محفوظ رہا۔ تعجب کہ اُن کو باوجود صدہا ناکامیوں کے جو میرے استیصال کے بارے میں ہوئیں اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک پوشیدہ ہاتھ میرے ساتھ ہے جو اُن کے ہاتھ سے مجھے بچاتا ہے۔ مجھے وہ کذّاب اور دجّال اور مُفتری تو کہتے ہیں مگر اِس بات کاجواب نہیں دیتے کہ دنیا میں کون سا ایسا کذّاب گذرا ہے جس کو خدا دشمنوں کے خطرناک حملوں سے چھبیس۲۶ برس تک بچاتا رہا یہاں تک کہ اُس نے اپنے خاص فضل سے صدی کے چہارم حصہ تک اُس کو سلامت رکھا اور ترقی پر ترقی بخشی اور ایک فرد سے لاکھوں انسان اس کے تابع کر دیئے اور کسی دشمن کی پیش نہ گئی اور آئندہ ترقیات کی خبر نہیں اور کون سا دنیا میں ایسا کذّاب گذرا ہے جس کے مقابل پر ہر ایک مومن مباہلہ کے وقت مَوت یاکسی اور قسم کی تباہی سے



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 612

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 612

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/612/mode/1up


عذاب کا نشانہ ہوا اور کون سا ایسا کذّاب گذرا ہے جس کے لئے اور جس کی پیشگوئی کی رُو سے رمضان میں خسوف کسوف ہوا اور زمین میں ایک عالمگیر طاعون پھیل گیا۔ کیا کسی اور مہدی کانشان ملتا ہے جس نے کسوف خسوف سے پندرہ۱۵ برس پہلے اس کے وقوع کی خبر دی تھی اور طاعون سے چھبیس۲۶ برس پہلے اور پھر بارہ۱۲ برس پہلے اور پھر تین برس پہلے ملک میں اس کے پھیلنے کی سہ۳ بارہ اطلاع دے دی تھی۔

ابؔ اِس وقت اِس تحریر سے میری غرض یہ ہے کہ مَیں نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں کافی طور پر ہر ایک قسم کا ثبوت اپنے دعویٰ کے متعلق لکھ دیا ہے اور باوجود اِس کے کہ مَیں اِن ایّام میں بباعث طرح طرح کے عوارض جسمانی اور بیماریوں کے متواتر دَورے اور ضعف اورناتوانی کے اِس لائق نہ تھا کہ اِس قدر سخت محنت اُٹھا سکوں تاہم مَیں نے محض بنی نوع کی ہمدردی کے لئے یہ تمام محنت اُٹھائی۔ اِس لئے مَیں اپنی عزیز قوم کے اکابر علماء اور مشائخ اور اُن سب کو جو اِس کتاب کو پڑھ سکتے ہیں خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر اُن کو یہ کتاب پہنچے تو ضرور اوّل سے آخر تک اِس کتاب کو غور سے پڑھ لیں اور مَیں پھر اُن کو اس خدائے لاشریک کی دوبارہ قسم دیتا ہوں جس کے ہاتھ میں ہر ایک کی جان ہے کہ وہ اپنے اوقات اور مشاغل کا حرج بھی کرکے ایک دفعہ غور اور تدبّر سے اِس کتاب کو اوّل سے آخر تک پڑھ لیں۔ اور پھر مَیں تیسری دفعہ اُس غیّور خدا کی اُن کو قسم دیتا ہوں جو اُس شخص کو پکڑتا ہے جو اُس کی قسموں کی پروا نہیں کرتا کہ ضرور ایسے لوگ جن کو یہ کتاب پہنچے اور وہ اِس کو پڑھ سکتے ہوں خواہ وہ مولوی ہیںیا مشائخ، اوّل سے آخر تک ایک مرتبہ اِس کو ضرور پڑھ لیں اور مَیں انشاء اللہ بعض کو تو خود یہ کتاب بھیج دُوں گا اور بعض دیگر کی نسبت مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر وہ قسم کھا کر لکھیں کہ قیمت کے ادا کرنے کی گنجائش نہیں تو مَیں بشرط گنجائش اور بشرط موجود ہونے کتاب کے ضرور اُن کو اِس شرط سے کتاب بھیج دوں گا کہ وہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کرمیری طرف تحریرکریں کہ وہ اوّل سے آخر تک ضرور کتاب کو پڑھیں گے اور نیز



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 613

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 613

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/613/mode/1up


یہ کہ وہ نادار ہیں طاقت ادائے قیمت نہیں رکھتے اور مَیں دعا کرتا ہوں کہ جس شخص کویہ کتاب پہنچے اور وہ خداتعالیٰ کی قسم سے لاپروا رہ کر اور خدا کی قسم کو بے عزّتی سے دیکھ کر کتاب کو اوّل سے آخر تک نہ پڑھے اور یا کچھ حصّہ پڑھ کر چھوڑ دے اور پھر بد گوئی سے باز نہ آوے خدا ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں تباہ اور ذلیل کرے۔ آمین

لیکن جو شخص اوّل سے آخر تک کتاب کو پڑھے اور خوب سمجھے اُس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اب مَیں اِس اعلان کو ختم کرتا ہوں وَالسَّلام عَلٰی مَنِ اتّبع الھُدٰی

المعلن

میرزا غلام احمد مسیح موعود

مقام قادیان۔۱۵؍مارچ ۱۹۰۷ء



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 614

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 614

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/614/mode/1up


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ

نَحْمَدُہٗ ونُصَلِّی

بخدمت آریہ صاحبان

کوئی عقل مند اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ جو خُدا کی طرف سے شریعت ہے اس کے قدیم سے دو ہی ٹکڑے ہوتے آئے ہیں۔

(۱) بڑا اور پہلا ٹکڑا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اُس کی تمام صفات کاملہ کے ساتھ واحد لاشریک مان لیا جائے اَور اُس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہ ٹھہرایا جائے اور اِس بات پر ایمان لایا جائے کہ وہ مبدء ہے تمام فیوض کا اور سر چشمہ ہے تمام ظہورات کا اور خالق ہے ہر ایک وجود کا اور قادر ہے ہر ایک ایسے امر پر جو اُس کی عظمت اور شان اور جلال کے لائق ہے اور اس کے صفات کاملہ کے منافی نہیں اور اوّل ہے ہر ایک موجود سے اور مرجع ہے تمام کائنات کا اور مستجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور پاک ہے اِس سے کہ کسی وقت صفات اس کی بے کار ہو جائیں یا یہ کہ کسی وقت بے کار تھیں۔ وہ قدیم سے خالق اور قدیم سے رازق اور قدیم سے قادر ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ پہلے اُس نے کیا کیا اور آگے کیا کیا کرے گا اُس کی قُدرتوں پر کوئی محیط نہیں ہو سکتا اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں اور افعال میں اور اُس کی طرح کوئی بھی کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں۔ اور پاک ہے ہر ایک عیب اور نقص سے اور نزدیک ہے باوجود دُوری کے اور دور ہے باوجود نزدیکی کے۔ وہ بر تر اور بلند ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ وہ پوشیدہ در پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ ظاہر نہیں وہ اپنے ظہور میں سب سے زیادہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ پوشیدہ نہیں وہ آفتاب میں چمک رہا ہے اور چاند میں اس کے انوار ہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ آفتاب ہے یا چاند ہے بلکہ یہ سب چیزیں اُس کی مخلوق ہیں اورکافر ہے وہ شخص جو اُس کو خدا کہے وہ نہاں در نہاں ہے پھر بھی سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے۔ ہر ایک روح کو اُسی سے قوتیں اور صفات ملی ہیں۔ ہر ایک ذرّہ نے اُسی سے خواص پائے ہیں اور اگر وہ صفات اور قوتیں اور طاقتیں چھین لی جائیں تو پھر نہ رُوح کچھ چیز ہے اور نہ ذرّہ کچھ حقیقت رکھتا ہے اِس لئے انسان کی معرفت کا انتہائی نقطہ یہی ہے کہ یہ سب چیزیں



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 615

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 615

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/615/mode/1up


اس کے ہاتھ سے نکلی ہیں اور خدا اور رُوحوں میں رشتہ محبت کا بھی اِسی وجہ سے ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے ہاتھ سے نکلی ہوئی ہیں اور اُسی نے اُن کی فطرت میں اپنی محبت کا نمک چھڑکا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو عشق الٰہی محال تھا کیونکہ جانبین میں کوئی تعلق نہ تھا۔ بچہ ماں سے اِسی وجہ سے محبت کرتا ہے کہ اس کے پیٹ سے نکلا ہے اور ماں بھی اِسی وجہ سے اُس سے محبت کرتی ہے کہ اس کے جگر کا ٹکڑا ہے۔ پس چونکہ ہر ایک روح خدا کے ہاتھ سے نکلی ہے اس لئے اس محبوب حقیقی کی طلب میں ہے پھر غلطی سے کوئی بُت پرستی کرتا ہے۔ کوئی سورج کو پوجتا ہے کوئی چاند کے آگے جھکتا ہے کوئی پانی کا پرستار ہے کوئی انسان کو خدا جانتا ہے۔ پس اِس غلطی کی وجہ بھی اُس حقیقی محبوب کی طلب ہے جو انسان کی فطرت میں ہے جس طرح بچہ کبھی ماںؔ کی طلب میں دھوکہ کھا کر کسی دوسری عورت سے چمٹ جاتا ہے اسی طرح تمام مخلوق پرست دھوکہ کھا کر دوسری چیزوں کی طرف جھک گئے ہیں خدا کی شریعت اِن غلطیوں کو دور کرنے کے لئے آئی ہے اور خدا کی شریعت وہی ہے جو اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان غلطیوں کو دور کر سکتی ہے اور غلطیوں کو وہی شریعت دور کرے گی جو چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ اُس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھا دے گی کیونکہ اگر کوئی شریعت تازہ نشان دکھلانے پر قادر نہیں تو وہ بھی ایک بُت پیش کرتی ہے نہ خدا کو۔ وہ خدایا پر میشر نہیں ہو سکتا جو اپنے ظہور کے لئے ہماری منطق کا محتاج ہے اگر خدا ایسا ہی مردہ اور قُدرت کی علامات سے محروم ہے جیسا کہ بُت تو ایسے خدا کو کون عارف قبول کر سکتا ہے پس سچی اور کامل شریعت وہی ہے جو زندہ خدا کو اُس کی قدرتوں اور نشانوں کے ساتھ دکھلاتی ہے اور وہی ہے جس کے ذریعہ سے انسان شریعت کے دوسرے حصّہ میں بھی کامل ہو سکتا ہے اور شریعت کا دوسرا ٹکڑہ یہ ہے کہ انسان اُن تمام گناہوں سے پرہیز کرے جن کی جڑ بنی نوع پر ظلم ہے جیسے زنا کرنا۔ چوری کرنا۔ خون کرنا۔ جھوٹی گواہی دینا اور ہر ایک قسم کی خیانت کرنا اور نیکی کرنے والے کے ساتھ بدی کرنا اور انسانی ہمدردی کا حق ادا نہ کرنا۔ پس اِس دوسرے حصہ شریعت کو حاصل کرنا بھی پہلے حصہ کے حصول پر موقوف ہے۔ اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ پہلا حصہ یعنی خدا شناسی کسی طرح ممکن نہیں جب تک خدا کو اُس کی تازہ قدرتوں اور تازہ نشانوں کے ساتھ شناخت نہ کیا جاوے ورنہ بغیر اس کے خداپرستی بھی ایک بُت پرستی ہے۔ کیونکہ جبکہ خُدامحض ایک بُت کی طرح ہے جو سوال کاجواب نہیں دے سکتا اور نہ کوئی قدرت دِکھلا سکتا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 616

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 616

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/616/mode/1up


ہے تو اُس میں اور ایک بُت میں فرق کیا ہے۔ زندہ خدا کی علامات چاہئیں۔ اور اگر وہ ہمارے سوال کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ کوئی قدرت دکھلا سکتا ہے تو کیونکر معلوم ہو کہ وہ موجود ہے۔ صرف اپنی خود تراشیدہ باتوں سے کیونکر اُس کی ہستی ثابت ہو جبکہ ہر ایک انسان اپنی زندگی ثابت کرنے کا آپ ذمہ وار ہے تو پھر کیا وجہ کہ خدا اپنی زندگی ثابت نہیں کرسکتا۔ کیا خدا انسان سے بھی زیادہ کمزور ہے یا کیا اُس کی قُدرت آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے۔ اور اگر اب اُس میں کلام کرنے کی طاقت باقی نہیں رہی تو اس پر کیا دلیل ہے کہ پہلے وہ طاقت موجود تھی اور اگر وہ اِس زمانہ میں بول نہیں سکتا تو اِس پر کیا دلیل ہے کہ وہ اِس زمانہ میں سُن سکتا ہے اور دعائیں قبول کرسکتا ہے اور اگر کسی زمانہ میں اُس نے اپنی قدرتیں ظاہر کی ہیں تو اب کیوں ظاہر نہیں کر سکتا تادہریوں کے مُنہ میں خاک پڑے۔ پس اے عزیزو! وہ قادر خدا جس کی ہم سب کو ضرورت ہے وہ اِسلام نے پیش کیا ہے اِسلام خدا کی قدرتوں کو ایسا ہی پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ پہلے ظہور میں آئی تھیں یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ بغیر اِس کے کہ خدا کی قدرتیں اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان ظاہر ہوں کوئی شخص خدا پر ایمان نہیں لا سکتا یہ سب جھوٹے قصّے ہیں کہ ہم پرمیشر پر ایمان لائے ہیں خدا کی شناخت کرانے والے اس کے نشان ہیں اور اگر نشان نہیں تو خدا بھی نہیں۔ پس اِس لئے مَیں نے نمونہ کے طور پر محض ہمدردی کی راہ سے کتاب حقیقۃ الوحی کوتالیف کیا ہے اور مَیں آپ لوگوں کو اُس پرمیشر کی قسم دیتا ہوں جس پر ایمان لانا آپ لوگ اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اوّل سے آخر تک میری اس کتاب کو پڑھو اور ان نشانوں پر غور کرو جواِس میں لکھے گئے ہیں پھر اگر اپنے مذہب میں اِس کی نظیر نہ پاؤ تو خدا سے ڈر کر اِس مذہب کو چھوڑ دو اَور اسلام کو قبول کرو۔ وہ مذہب کِس کام کا ہے اور کیا فائدہ دے گا جو زندہ خدا تک زندہ نشانوں کے ساتھ رہبری نہیں کر سکتا۔ پھر مَیں آپ لوگوں کو اُسی پرمیشر کی دوبارہ قسم دیتا ہوں کہ ضرور ایک مرتبہ میری اِس کتاب حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخر تک پڑھو اور سچ کہو کہ کیا آپ لوگ اپنے مذہب کی پابندی سے اُس زندہ خدا کو شناخت کر سکتے ہیں۔ پھر مَیں تیسری مرتبہ اُسی پرمیشر کی قسم دیتا ہوں کہ دنیا ختم ہونے کو ہے اور خدا کا قہر ہر طرف نمودار ہے ایک مرتبہ اوّل سے آخر تک میری کتاب حقیقۃ الوحی کو ضرور پڑھ لو۔ خدا تمہیں ہدایت کرے۔ موت کا اعتبار نہیں۔ خدا وہی خدا ہے جو زندہ خدا ہے۔ والسلام علٰی من اتبع الہدیٰ۔

المشتہر۔ میرزا غلام احمد مسیح موعود قادیانی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 617

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 617

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/617/mode/1up


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

دعوتِ حق

3 ۱ ؂

اِن کو کہہ دے کہ اگر خُدا کا کوئی فرزند ہوتا تو مَیں سب سے پہلے اُس کی پرستش کرتا۔


یہ اشتہار پادری صاحبوں کی خدمت میں نہایت عجز اَور ادب اور انکسار سے لکھا جاتا ہے کہ اگر یہ سچ ہوتا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام در حقیقت خدا کا فرزند ہوتا یا خداہوتا تو سب سے پہلے مَیں اُس کی پرستش کرتا اورمَیں تمام ملک میں اُس کی خدائی کی اشاعت کرتا اور اگرچہ مَیں دُکھ اُٹھاتا اَور مارا جاتا اور قتل کیا جاتا اَور اُس کی راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا تب بھی مَیں اِس دعوت اورمنادی سے بازنہ آتا۔ لیکن اے عزیزو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا نہیں وہ صرف ایک نبی ہے ایک ذرّہ اِس سے زیادہ نہیں اور بخدا مَیں وہ سچی محبت اُس سے رکھتاہوں جو تمہیں ہر گز نہیں اور جس نور کے ساتھ مَیں اُسے شناخت کرتا ہوں تم ہر گزاُسے شناخت نہیں کر سکتے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کاایک پیارا اوربرگزیدہ نبی تھااَور اُن میں سے تھا جن پر خدا کاایک خاص فضل ہوتا ہے اور جو خدا کے ہاتھ سے پاک کئے جاتے ہیں مگر خدا نہیں تھا اورنہ خدا کابیٹا تھا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 618

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 618

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/618/mode/1up


مَیںؔ نے یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کیں بلکہ وہ خدا جو زمین و آسمان کا خالق ہے میرے پر ظاہر ہوا اور اُسی نے اِس آخری زمانہ کے لئے مجھے مسیح موعود کیا۔ اُس نے مجھے بتلایا کہ سچ یہی ہے کہ یسوع ابن مریم نہ خدا ہے نہ خدا کا بیٹا ہے اور اُسی نے میرے ساتھ ہمکلام ہو کر مجھے یہ بتلایا کہ وہ نبی جس نے قرآن پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف بُلایا وہ سچا نبی ہے۔ اور وہی ہے جس کے قدموں کے نیچے نجات ہے اور بجز اس کی متابعت کے ہر گز ہر گز کسی کو کوئی نور حاصل نہیں ہوگا اور جب میرے خدا نے اُس نبی کی وقعت اور قدر اور عظمت میرے پر ظاہر کی تو مَیں کانپ اُٹھا اور میرے بدن پر لرزہ پڑ گیا کیونکہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ مسیح کی تعریف میں لوگ حد سے بڑھ گئے یہاں تک کہ اُن کو خدا بنا دیا۔ اسی طرح اِس مقدس نبی کا لوگوں نے قدر شناخت نہیں کیا جیسا کہ حق شناخت کرنے کا تھا اور جیسا کہ چاہئے لوگوں کو اب تک اُس کی عظمتیں معلوم نہیں وہی ایک نبی ہے جس نے توحید کا تخم ایسے طور پر بویا جو آج تک ضائع نہیں ہوا۔ وہی ایک نبی ہے جو ایسے وقت میں آیا جب تمام دنیا بگڑ گئی تھی اور ایسے وقت میں گیا جب ایک سمند ر کی طرح توحید کو دنیا میں پھیلا گیا اور وہی ایک نبی ہے جس کے لئے ہر ایک زمانہ میں خدا اپنی غیرت دکھلاتا رہا ہے اور اس کی تصدیق اور تائید کے لئے ہزارہا معجزات ظاہر کرتا رہا ۔ اِسی طرح اِس زمانہ میں بھی اس پاک نبی کی بہت توہین کی گئی اِس لئے خدا کی غیرت نے جوش مارا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 619

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 619

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/619/mode/1up


اورؔ سب گذشتہ زمانوں سے زیادہ جوش مارا اور مجھے اُس نے مسیح موعود کرکے بھیجا تاکہ مَیں اُس کی نبوت کے لئے تمام دنیا میں گواہی دوں اگر مَیں بے دلیل یہ دعویٰ کرتا ہوں تو جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا اپنے نشانوں کے ساتھ اِس طور سے میری گواہی دیتا ہے کہ اِس زمانہ میں مشرق سے مغرب تک اورشمال سے لے کر جنوب تک اس کی نظیر نہیں تو انصاف اور خدا ترسی کا مقتضا یہی ہے کہ مجھے میری اِس تمام تعلیم کے ساتھ قبول کریں۔ خدا نے میرے لئے وہ نشان دکھائے کہ اگر وہ اُن اُمتوں کے وقت نشان دکھلائے جاتے جو پانی اور آگ اور ہوا سے ہلاک کی گئیں تووہ ہلاک نہ ہوتیں مگر اس زمانہ کے لوگوں کو مَیں کس سے تشبیہ دوں وہ اُس بد قسمت کی طرح ہیں جس کی آنکھیں بھی ہیں پر دیکھتا نہیں اور کان بھی ہیں پر سنتا نہیں اور عقل بھی ہے پر سمجھتا نہیں۔ مَیں اُن کے لئے روتاہوں اور وہ مجھ پر ہنستے ہیں اور مَیں اُن کو زندگانی کا پانی دیتا ہوں اور وہ مجھ پر آگ برساتے ہیں۔ خدا میرے پرنہ صرف اپنے قول سے ظاہر ہوا ہے بلکہ اپنے فعل کے ساتھ بھی اُس نے میرے پر تجلّی کی اور میرے لئے وہ کام دکھلائے اور دکھلائے گا کہ جب تک کسی پر خدا کا خاص فضل نہ ہو اس کے لئے یہ کام دکھلائے نہیں جاتے۔ لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا لیکن خدا نے مجھے قبول کیا۔ کون ہے جو اِن نشانوں کے دکھلانے میں میرے مقابل پر آسکتا ہے۔ مَیں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو۔ وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھا مگر اَب اُس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 620

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 620

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/620/mode/1up


بے ؔ ایمانوں کا مُنہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں مگر اے عزیزو! تم جو خدا کی طلب میں لگے ہوئے ہو مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ سچا خدا وہی ہے جس نے قرآن نازل کیا۔ وہی ہے جس نے میرے پر تجلّی کی اور جو ہر دم میرے ساتھ ہے۔

اے پادری صاحبان!

مَیں آپ لوگوں کو اُس خدا کی قسم دیتا ہوں جس نے مسیح کو بھیجا اور اس محبت کویاد دلاتا ہوں اور قسم دیتا ہوں جو آپ لوگ اپنے زعم میں حضرت یسوع مسیح ابن مریم سے رکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ضرور میری کتاب حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخرتک حرف حرف پڑھ لیں اور اگر کوئی صاحب اہل علم سے نیک نیتی سے میری کتاب حقیقۃ الوحی اِس شرط کے ساتھ طلب کریں گے اور قسم کھائیں گے کہ ہم اِس کتاب کو اوّل سے آخر تک غور سے دیکھیں گے تو مَیں وہ کتاب مُفت اُن کو بھیج دوں گا اور اگراس سے تسلی نہیں ہوگی تو مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ خدا کوئی اور نشان دکھائے گا کیونکہ اُس کا وعدہ ہے کہ مَیں اِس زمانہ پر اپنی حجت پوری کروں گا۔ اب مَیں ختم کرتا ہوں اور دعاکرتا ہوں کہ خدا طالبِ حق کے ساتھ ہو۔ آمین

خاکسار

میرزا غُلام اَحمد مسیح موعود

از قادیان ضلع گورداسپور ۲۰؍مارچ ۱۹۰۷ء



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 621

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 621

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/621/mode/1up


نَحْمَدُ اللّٰہَ العَلیّ العَظِیم وَنُصُلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْم


رَبَّنَا إِنَّنَا جِءْنَاکَ مَظْلُوْمِیْنَ فَافرُق بَینَنَا وبَیْنَ القَومِ الظَّالِمِینَ

ژ آمین ژ

أمّا بعد۔۔ فاعلموا رحمکم اللّٰہ أنّی قسّمت ہذہ الرّسَالۃ عَلٰی قِسْمَین، وبوّبتہا علی بابَین؛ والغرض منہ إتمام الحجّۃ علی أہل العناد، وکتبتہا بماء الدموع ونار الفؤاد، واختتمتہا علی خاتمۃٍ متو!کّلا علٰی ربّ العباد۔*

اَلْبَابُ الأوّل فی الاستفتاء

یا علماء الإسلام، وفقہاءَ ملّۃ خیر الأنام، أفتُونی فی رجلٍ ادّعی أنّہ من اللّٰہ الکریم، وہو یُؤ!من بکتاب اللّٰہ ورسولہ الرؤوف الرحیم۔ وأری اللّٰہ لہ أمورًا خارقۃً للعادۃِ، وأظہر الآیاتِ المُنیرۃَ وعجائب النُصرۃ۔ وظہر فی زمنٍ ہو من الدّین کالعُریان، وعلی صدر الإسلام کالسِّنانِِ، وعلماءُ الوقت کَرجُلٍ رِجْلاہ تتخاذلان، وخرج القساقسۃ فیہ کبطل لہ سہْمانِ: سہم یذلّقونہ لیجرّ!حُوا بہ

ملّۃ الإسلام بالأکاذیب وأنواع البہتان، وآخر یفوّقونہ لیُدخلوا بہ الناس

فی أہل الصُّلبان۔ وتجدونہم کذئب عاث، أو لِصٍّ ینہب الأثاث۔

ولیس عندہم إلاَّ النقول، وما لا تقبلہ العقول۔ ولیس عماد دینہم إلا خشب الکفّارۃ، وقد فُتح بہ کلّ باب للنفس الأمّارۃ۔ فہل أوحش وأفْحش من ہٰذہ العقیدۃ، وأبْعد من قبول الطبائع السعیدۃ؟ ثم یسبّون دین اللّٰہ وخیرَ الأنام، وہٰذا


قد الحقنا ھٰذہ الرسالۃ بکتابنا حقیقۃ الوحی و جعلناھا لہ ضمیمۃً واشعنا بعضھا علیحدۃً۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 622

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 622

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/622/mode/1up


أشدّ المصائب علی الإسلام۔ والدّین الذی قائم علی خشبٍ لا حاجۃ إلٰی تحقیقہ، ولا یہدی العقل إلٰی تصدیقہ، بل تعافہ فطرۃ طیّبۃ، وتفرّ من ہٰذا الحدیث، وتُطلّق بطلاقٍ ثلاثٍ مذہبَ التثلیث۔ وأما صعود عیسٰی ونزولہ فہو أمر یکذّبہ العقل وکتاب اللّٰہ القرآن، وما ہو إلَّا کتَعِلَّۃٍ تُنام بہا الصّبیان، أو کالتماثیل التی تلعب بہا الجواری والغلمان۔ ما قام علیہ دلیل وما شہد علیہ برہان۔ فخلاصۃ الکلام أنّ ہذا المدّعی ظہر فی ہذہ الأیام، عند کثرۃ الفتن وکثرۃ البدعات وضعف الإسلام۔

وما وُجد فی أحوالہ قبل ہٰذا الدعویٰ شیء من عادۃ الکذب والافتراء ، لا فی زمن الشیب ولا فی زمن الفتَاء ۔ وما وُجد فی عملہ شیءٌ یخالف سنّۃ خیر الأنبیاء ، بل یؤمن بکلّ ما جاء بہ الرسول الکریم من الأحکام والاَنباء ، وبکلّ ما ثبت من نبیّنا سیّد الأ!تقیاء ۔ وإنہ من أُسَاۃ الہویٰ، وقد أسا جُرْحَ الذنوب وداویٰ، وجاء لیُؤسّی بین الوریٰ، ویوصل بالاُمّۃ الآخرۃ أممًا أولٰی۔ ولو بغیتَ لہ الاُسٰی، لوجدت فیہ أُسوۃ المصطفٰی، یقتدی بہ فی کلّ سُنن الہُدیٰ۔وسعَی العدا کلّ السَّعْی وسقطوا علیہ کالبلاء ، وتقصُّوا أمرہ بکل الاستقصاء ، لیجدوا فیہ نقصًا أو یَعْثِرُوا علی قولٍ منہ فیہ مخالفۃ الملّۃ الغرّاء ، وخاضوا فی سوانحہ من مقتضی البغض والشحناء ۔ فما وجدوا مع شدّۃ عداوتہم سبیلًا إلی القدْح والزرْی والازدراء ، ولا طریق عمل یُحْمَل علی الأغراض والأہواء ۔ وکان فی أوّل زمنہ مستورًا فی زاویۃ الخمول، لا یُعرف ولا یُذکر، ولا یُرجٰی منہ ولا یحذرُ، ویُنْکر علیہ ولا یُوقَّر، ولا یُعَدّ فی أشیاءٍ یُحدَّث بہا بین العوام والکُبراءِ، بل یُظَنّ أنہ لیس بشیءٍ، ویُعرَض عن ذکرہ فی مجالس العقلاء ۔ وبشّرہ ربّہ فی ذالک الزمن بأنّہ معہ وأنہ اختارہ، وأنہ أدخلہ فی الأحبّاء ۔ وأنّہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 623

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 623

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/623/mode/1up


سیرفع ذکرہ ویُعْلی شأنہ ویعظّم سُلطانہٗ فیُعرَف بین النّاس، ویُذکَر فی مشارق الأرض ومغاربہا بالذکر الجمیل والثناء وتُشاع عظمتہ فی الأرض بأمر ربّ السماء ، ویُعان من حضرۃ الکبریاء ۔ وتأتیہ من کلّ فجٍّ عمیق أَفواجٌ بعد أفواجٍ، کبحرٍ موّاجٍ، حتی یکاد أن یسأم من کثرتہم، ویضیق صدرہ من رؤیتہم، ویروعہ ما یروع العایلَ المعیّل عند کثرۃ العیال وحمل الاَعباء وقلّۃ المال۔

ویفارق النّاسُ أوطانہم، ویُوطِنون قریتہ بما جذب اللّٰہ إلیہ جَنانہم، فیتر!کون للقاۂ ملاقاۃ الرفقاء ، وتتّقد لصُحبتہ الأکبادُ، ویرق برؤیتہ الفؤاد، وتحفِد فی أثرہ العباد، بکمال الصدق والإخلاص والصفاء ، ویؤثرون لہ أنواع البلاء ۔ ومنہم یکون قومٌ یقال لہم أصحاب الصفّۃ، یَسْکُنون فی بعض حجراتہ کالفقراء ۔ تذوب أہواؤہم، وتجری قلوبہم کالماء ۔ تری أعینہم تفیض من الدمع بما یعرفون الحقّ وبما یرون أنوار السماء ۔ یقولون ربّنا إنّنا سمعنا منادیًا ینادی للإیمان، ویبکون لذاذۃ ووَجْدًا شدیدًا کالعُرفاء ۔ وبما أوجدہم اللّٰہ مطلوبہم یشکرون وتخرّ أرواحہم علی حضرۃ الکبریاء ۔ وکذالک تأتی لہٰذا العبد من کلّ طرفٍ تحائفُ وہدایا وأموال وأنواع الأشیاء ۔ ویعطیہ ربّہ برکۃً عظیمۃ، ونفسًا قاہرۃ، وجذبًا شدیدًا، کما قُدّر لہ من الابتداء ۔فتحفد الناس إلٰی بابہ والملوک یتبرّکون بثیابہ ویرجع إلٰی حضرتہ طوائف الملوک والأمراء۔ وتقوم أناسٌ من کل قومٍ لعداوتہ، ویجاہدون من کلّ الجہۃ لإجاحتہ، ویمکرون کلّ المکر لیطفؤا نورہ، ولیکتموا ظہورہ، ولیحقّروا شأنہ، ولیزیّفوا برہانہ، أو یقتلوہ، أو یصلّبوہ، أو ینفوہ من الأرض، أو یجعلوہ

کبنی الغَبراء ، أو یجرّوہ إلی الحکّام بوَشْی الکلام وبتلوینہ وتزیینہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 624

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 624

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/624/mode/1up


ببعض التّہم والافتراء ، أو یؤذوہ بإیذاءٍ ہو فوق کلّ نوع الإیذاء ۔ فیعصمہ اللّٰہ من مکائدہم بفضلٍ من السّماء ، ویُقلِّبُ مکرہم علیہم ویُخْزِیہم، فیَرْجِعُون خائبین خاسرین، کأنّہم لَیْسوا من الأحیاء ۔ ویُتمّ اللّٰہ علیہ ما وعد من النعم والآلاء ۔ ولن یُّخلف اللّٰہ وَعْدَہ لعبدہ ولا وعیدہ لِلاَعْداء ۔

ذالک من أنباء اللّٰہ التی أُوْحِیَ إلٰی ہٰذا العبد قبل وقوعہا، وہی کُتبتْ وطُبعتْ وأشیعتْ فی البلاد وفی الأدانی والأمراء ، وأرسلتْ إلی أقوام ودیارٍ، وجُعل کلّ قوم علیہا کالشہداء ۔ وإنہا أشیعتْ فی زمن مضٰی علیہ سِتّ وعشرون سنۃً إلٰی زمننا ہٰذا، ولم یکنْ فی ذالک الوقت أثر من نتائجہا وما عثر علٰی وقوعہا أحد من أہل الآراء ، بل کان کلّ رجل یستبعد وقوعہا، ویضحک علیہا، ویَحسبہا افتراءً، أو من قبیل حدیث النفس بمقتضی الأہواء، أو من وساوس الشیطان لا من حضرۃ الکبریاء ۔ وإن ہٰذہ الأنباء مرقومۃ فی البراہین الاَحْمدیّۃ، ومندرجۃ فی مواضعہا المتفرّقۃ، التی ہی من تصانیف ہذا العبد فی اللسان الہندیۃ، ومَن شکّ فیہا فلیرجعْ إلی ذالک الکتاب، ولیقرأْہا بصحّۃ النّیّۃ، ولیتّق اللّٰہ، ولیفکّرْ فی عظمۃ ہذہ الأخبار، وجلالۃ شأنہا وعلُوّ برہانہا، وبُعدہا عن ہٰذا الزمان، وبریقہا ولمعانہا۔ وہل لأحد قوّۃ أن ینبیء کمثلہا من دون اِعْلام عالمِ الأشیاء ؟ وإنّہا أنباء کثیرۃ، منہا ذکرْنا ومنہا لم نذکر، وکفٰی ہٰذا القدر للأ!تقیاء ، الذین یخافون اللّٰہ، وإذا وجدوا حقًّا وجلتْ قلوبہم ولا یمرّون علیہ کالأشقیاء ، ویقولون ربّنا آمنّا فاکتبنا فی عبادک المؤمنین وفی الشہداء ۔

ثم اعلموا، رحمکم اللّٰہ، أن زمن ہٰذہ الأنباء کان زمنًا لم یکنْ فیہ أثر من ظہورہا، ولا جلوۃ من نورہا، ولا باب إلٰی مستورہا، بل کان الأمر أمرًا مخفیّا من الأعین والآراء ، وکان ہٰذا العبد مستورًا فی زاویۃ الاختفاء، لا یعرفہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 625

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 625

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/625/mode/1up


أحد إلا قلیل من الذین کانوا یعرفون أباہ فی الابتداء ۔ وإن شئتم فاسألوا أہل ہٰذہ القریۃ التی تُسمَّی قادیان، واسألوا مَن حولہا مِن قری المسلمین والمشرکین والأعداء ۔ وفی ذالک الوقت خاطبہ اللّٰہ تعالٰی وقال: أنت منّی بمنزلۃِ توحیدی وتفریدی۔ فحان أن تُعان وتُعرَف بین النّاس۔ یأتون مِن کلّ فجٍّ عمیق۔ یأتیک مِن کلّ فجٍّ عمیق۔ ینصرک رجال نوحی إلیہم من السماء۔ إذا جاء نصر اللّٰہ وانتہٰی أمر الزمان إلینا۔ ألیس ہذا بالحقّ۔ ولا تصعِّرْ لخلق اللّٰہ، ولا تسأمْ من الناس۔ ووَسِّعْ مکانک للواردین من الأحبّاء ۔ ہذہ أنباء من اللّٰہ مضٰی علیہا ستّ وعشرون سنۃ إلٰی ہٰذا الوقت من وقت الإیحاء ۔ وإنّ فی ذالک لآیۃ للعقلاء ۔

ثم بعد ذالک أیّد اللّٰہ ہٰذا العبد کما کان وعدہ بأنواع الآلاء وألوان النعماء ۔ فرجع إلیہ فوج بعد فوج من الطلباء ، بأموال وتحایف وما یسّر من الأشیاء ، حتّی ضاق علیہم المکان وکاد أن یسأم من کثرۃ اللقاءِ۔ ہناک تمّ ما قال اللّٰہ صدقا وحقّا، ومَن أوفٰی بوعدہ من حضرۃ الکبریاء ؟ وما استطاع عدوٌّ أن یمنع ما أراد اللّٰہ من النصرۃ وإنزال الآلاء ، حتی حلّ القدر الذی منعوہ، وأُنجز الوعد الذی کذّبوہ، وأُعطی ذالک العبد خطاب الخلافۃ من السماء ۔ إنّ فی ذالک لآیۃ لمن طلب الحقّ وجاء بترک البغض والشحناء ۔فبیِّنوا توجَروا أیّہا المتّقون: أہٰذا فعل اللّٰہ أو تقوُّل الإنسان الذی اجترأ علی جنایۃ الافتراء لیُحسَب من الذین یُرسَلون؟ وہل للمتجنّین أمان من تعذیب اللّٰہ فی ہٰذہ الدنیا أو ہم یعذَّبون؟

ثم أستفتیکم مرّۃً ثانیۃ أیہا المتفقّہون، فاتّقوا اللّٰہ وأفتونی کرجالٍ یخافون اللّٰہ ولا یظلمون۔ یا فتیان۔۔ رجل قال إنی من اللّٰہ، ثم باہلہ المنکرون، لعلہم یغلبون۔ فأہلکہم اللّٰہ وأخزی وأبطل ما کانوا یصنعون۔ وإن شئتم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 626

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 626

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/626/mode/1up


فاقْرؤوا فی ہٰذا الکتاب قصصہم، وما صنع اللّٰہ بہم، ألیس ذالک حجّۃ علی قومٍ ینکرون*؟ واللّٰہ نصرہ فی کلّ موطن، وجعلہ غالبًا علی أعداۂ، وأنبأ بہ قبل وقوعہ، ألیس ذالک آیۃ علی صدقہ أیہا العاقلون؟ أتجوّز عقولکم أن القدّوس الذی لا یرضی إلَّا بالصالحات، ولا یقرّب أحدًا إلَّا بالحسنات، ہو یحب رجلًا فاسقًا مفتریًا، ویمہّلہ إلی عمرٍ أزْیَدَ من عمر نبیّنا علیہ السلام، ویعادی من عاداہ ویوالی من والاہ، وینزل لہ آیاتٍ، ویکرمہ بتأییداتٍ، وینصرہ بمعجزات، ویخصّہ ببر!کات، ویظفرہ فی کل موطن علی أعداۂ، ویعصمہ من مواضع المضرّات، ومواقع المعرّات، ویُہلک ویخزی من باہلہ بسخطٍ من عندہ، ویتجالد لہ، فیقتل عدوّہ بسیف من السماوات، مع أنہ یعلم أنہ یفتری علی اللّٰہ، ثم مع الافتراء یعرض علی الناس تلک المفتریات، لیضلّ الذین لا یعلمون۔ فما رأیکم فی ہٰذا الرجل۔۔ أنصرہ اللّٰہ مع افتراۂ، أو ہو من عند اللّٰہ ومن الذین یصدقون؟ وہل ینجو المتحلّمون الذین یقولون أُوحی إلینا وما أوحی إلیہم شیء ، وإنْ ہم إلَّا یکذبون؟

ثم أستفتیکم مرّۃً ثالثۃ أیہا العالمون۔۔ إنّ ہٰذا الرجل الذی سمعتم ذکرہ

* الذین باہَلوا وماتوا بعد المباہلۃ منہم الرجل المسمّی بالمولوی غلام دستکیر القصوری، ومنہم الرجل المسمّی بالمولوی چراغ الدین الجمونی، ومنہم الرجل المسمّی بالمولوی عبد الرحمن

محی الدین اللکو!کی، ومنہم الرجل المسمّی بالمولوی إسماعیل العلی گرہی، ومنہم الرجل المسمّی بفقیر مرزا الدوالمیالی، ومنہم الرجل المسمّی بلیکرام الفشاوری، وکذلک رجال آخرون۔ أکثرہم ماتوا، وبعضہم رُدّوا إلی حیاۃ الخزی وقَطْعِ النسل ومعیشۃٍ ضَنْکٍ، وقد فصّلنا ذکرہم فی کتابنا

’’حقیقۃ الوحی‘‘، وہٰذا خلاصۃ الذکر لقوم یطلبون۔ ومنہم رجل مات فی ہذا الشہر۔۔ أعنی ذا القعدۃ، وکان اسمہ سعد اللّٰہ، ولکن کان بعیدًا من السعادۃ۔ وکنتُ أُخبِرتُ بأنّہ یموت قبل موتی بالخزی والحرمان، ویقطع اللّٰہ نسلَہ، فکذالک مات بالخیبۃ والخسران۔ ہٰذا جزاء الذین یحاربون اللّٰہ ویکفرون برسلہ بالظلم والعدوان۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 627

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 627

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/627/mode/1up


وذکر ما منّ اللّٰہ علیہ۔۔ قد أعطاہ اللّٰہ آیات أُخری دون ذالک لعلّ الناس یعرفون۔ منہا أن الشّہب الثواقب انقضّتْ لہ مرّتان، وشہد علی صدقہ القمران، إذا انخسفا فی رمضان، وقد أخبر بہ القرآن، إذ ذکرہما فی علامات آخر الزمان، ثم الحدیث فصّل ما کان مجملًا فی الفرقان، وقد أنبأ اللّٰہ بہما ہذا العبد کما ہی مسطورۃ فی ’’البراہین‘‘ قبل ظہورہا یا فتیان، إنّ فی ذالک لآیۃ لمن کانت لہ عینان۔ فبیِّنوا توجَروا۔۔ أہذا فعل اللّٰہ أو تقوُّل الإنسان؟

ومنہا أن اللّٰہ أخبرہ بزلازل عظمٰی فی الآفاق وفی ہٰذہ الدیار، قبل ظہورہا وقبل الآثار۔ فسمعتم ما وقع فی ہٰذا الملْک وفی الأقطار، وتعلمون کیف نزلتْ غیاہب ہٰذہ الحوادث علی نوع الإنسان، حتّی إن الشمس طلعتْ علی العمران، وغربتْ وہی خاویۃ علٰی عروشہا، وسقطت السقوف علی السُّکّان، ومُلئت البیوت من الموتٰی والأشجان۔ وانتقل المجالس من القصور إلی القبور، ومن المحافل إلی الطبق السافل، وظہر أنّ ہذہ الحیاۃ لیست إلَّا کالزُّور، أو کحباب البحور۔ والذین بقوا منہم کوَی الجزع قلوبَہم، وشقّت الفجیعۃ جیوبہم، وانہدمتْ مقاصرہم التی کانوا یتنافسون فی نزولہا، ویتغایرون فی حلولہا۔ وما انقطعتْ سلسلۃ الزلازل وما ختمتْ، بل التی یُنتظر وقوعہا ہی أشدّ ممّا وقعتْ۔ إنّ فی ذالک لتبصرۃ لقومٍ یتّقون۔ فبیّنوا تُوجروا أیّہا المقسطون۔۔ أہذہ آیات اللّٰہ أو من أمور تنحتہا المفتعلون؟ إنما المؤمنون رجالٌ إذا نطقوا صدقوا، وإذا حُکِّموا عدلوا ولا یظلمون۔ والذین یخافون الخلق کخوف اللّٰہ ویُخفون الحقّ کأنّ الحق تجدَع آنافَہم، أو ہم یُسجنون۔۔ أولئک إناث فی حلل الرجال، وکَفَرۃ فی حلل الذین ہم یؤمنون۔

ومنہا أن اللّٰہ أخبر ہذا العبد بظہور الطاعون فی ہذہ الدیار، بل



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 628

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 628

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/628/mode/1up


فی جمیع الأعطاف والأقطار، وقال: الأمراض تشاع والنفوس تضاع، فرأیتم افتراس الطاعون کما تفترس السّباع، وعاینتم کیف صال الطاعون علی ہٰذہ البلاد، وشاہدتم کیف کثر المنایا فی العباد، وإلٰی ہٰذا الوقت یصول کما یصول الوحوش، ویجول کلّ یوم وینوش، وفی کلّ سنۃٍ یُری صورتہ أوحشَ من سنۃ أولٰی، ثم وقعتْ علٰی آثارہ الزلازل العُظمٰی۔ وتلک الأنباء کلّہا أُشیعتْ قبل ظہورہا إلی البلاد القصویٰ۔ إنّ فی ذالک لآیۃ لمن یریٰ۔ وأخبرہ اللّٰہ بزلزلۃ أُخریٰ وہی کالقیامۃ الکُبریٰ، فلا نعلم ما یظہر اللّٰہ بعدہا، إن فی ذالک لمقامَ خوفٍ لاُولی النُّہٰی۔ فبیّنوا توجروا یا فتیان۔ أہٰذا فعلُ اللّٰہ أو تقوّل الإنسان؟

وإنّ اللّٰہ قدّر المنایا والعطایا لہٰذا الزمان۔ فالذین آمنوا ولم یلبسوا إیمانہم بظلم أولئک سیُعطَون من عطایا الرحمٰن، والذین ما تابوا وما استغفروا وما أدّاہم إلٰی ہذا العبد تقوی القلوب وخِیفۃُ ما نزل علی البلدان، وعلوا علوّا کبیرا، وتمایلوا علٰی دنیاہم کالسّکْران، أولئک یذوقون المنایا الکثیرۃ بما کانوا یعتدون فی العصیان۔ تسقط السماء علی رؤوسہم، وتنشقّ الأرض تحت أقدامہم، وتری کلّ نفس جزاء ہا، ہناک یتمّ ما وعد اللّٰہ الدَّیّان۔

وآیۃ لہ أن اللّٰہ بشّرہ بأنّ الطاعون لا یدخل دارہ، وأنّ الزلازل لا تہلکہ وأنصارہ، ویدفع اللّٰہ عن بیتہ شرّہما، ولا یخرج سہمہما عن الکنانۃ ولا یرمی، ولا یریش ولا یبری، وکذالک وقع بفضل اللّٰہ ربّ العالمین۔ وإنّ ہٰذا العبد ومن معہ یعیشون بر!حمتہ آمنین، لا یسمعون حسیسہ وحُفظوا من فزع وأنین۔ وترون الطاعون کیف یعیث فی دیارنا ہٰذہ والأقطار والآفاق، ویطوف فی السّکک والأسواق، وکذالک الزلازل لا تستأذن أہلَ دار، ولا تستفتی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 629

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 629

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/629/mode/1up


عند إہلاکٍ وإضرارٍ، وصُبّتْ مصائبہا علی دیار۔ وقد ہلکتْ نفوس کثیرۃ بالطاعون فی قریۃ ہٰذا العبد من یمین الدار ویسارہا، وصار طُعْمتَہ کثیر من الناس من قربہا وجوارہا، وما ماتتْ فی دارہ فأرۃ فضلًا عن الإنسان۔ إن فی ذالک لآیۃ لمن کانت لہ عینان۔ وواللّٰہ إن تعدّوا آیاتٍ نزلتْ لہٰذا العبد لن تستطیعوا أن تُحصُوہا، وقد صُفّف لہ ألوان نعم ما رآہا الخلق وما ذاقوہا۔ إنّ فی ذالک لسلطان واضح لقوم یتفکّرون، الذین لا یسارعون للتکذیب ویتدبّرون۔

وآیۃ لہ أن اللّٰہ یسمع دعاء ہ ولا یضیع بُکاء ہ، وقد کتبْنا فی کتابنا حقیقۃ الوحی کثیرا من نموذج استجابۃ الدعوات، وما فضّل اللّٰہ علیہ عند إقبالہ علی ربّہ بالتضرّعات، فلا حاجۃ أن نعیدہا، فلیرجعْ إلیہا من کان أسیرا فی الشبہات۔

وآیۃ لہ أن اللّٰہ أفصحَ کلماتِہ من لدنہ فی العربیۃ، مع التزام الحقّ والحکمۃ، وأنہ لیس من العرب، وما کان عارفًا بلسانہم کما ہو حقّ المعرفۃ، وما تصفّح دواوین الکتب الأدبیۃ، ولیس من الذین أُرضعوا ثدْیَ الفصاحۃ، ومع ذالک ما أمکن لبشر أن یبارزہ فی ہٰذہ المَلْحمۃ، بل ما قربوہ من خوف الذلۃ۔ وہٰذہ شربۃٌ ما تحسّاہا أحدٌ من الناس، بل سقاہا ربّہ فشرب من أیدی ربّ الأناس۔ فأین تذہبون ولا تفکّرون ولا تتّقون؟ أتقولون شاعرٌ؟ وإن الشعراء لا ینطقون إلَّا بلغوٍ، وہم فی کلّ وادٍ یہیمون۔ أرأیتم شاعرًا لا یترک الحقّ والحقایق، ولا یقول إلَّا المعارف والدقایق، ولا ینطق إلا بحکمۃ، ولا یتکلّم إلا بنکاتٍ مملوّۃٍ من معرفۃ؟ بل الشعراء یتفوّہون کالذین یہذرون، أو کالمجانین الذین یہجُرون۔ وتجدون ہٰذا الکلام مملوًّا من النکات الروحانیۃ، والمعارف الربّانیۃ، مع أنّہ ألطف صنعًا، وأرق نسجًا، وأشرف لفظًا، ولا تجدون فیہ شیءًا ہو خارج من المقصد۔ ما لکم لا تفکّرون؟ وواللّٰہ إنّہ ظِلُّ فصاحۃ القرآن، لیکون



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 630

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 630

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/630/mode/1up


آیۃً لقوم یتدبّرون۔أ تقولون سارق؟ فأْتوا بصفحات مسروقۃ کمثلہا فی التزام الحقّ والحکمۃ إن کنتم تصدقون۔ وہل من أدیبٍ فیکم یأتی بمثل ما أتاہا؟ وإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاعلموا أنہا آیۃ کمثل آیات أُخریٰ لقوم ینظرون۔

فخلاصۃ الکلام أن اللّٰہ أنزل لہٰذا العبد کلّ آیۃ، ونصرہ بکلّ نصرۃٍ، وجمع فیہ کلّ ما ہو من علامات الصادقین، وأمارات المرسلین۔ وأدّبہ فأحسن تأدیبہ بمکارم الأخلاق وتوفیق الصالحات، ووضَعہ تحت سنّتہ التی جرتْ لجمیع الأنبیاء ، فمن صال علیہ فقد صال علی جمیعہم وعلی کلّ من جاء من حضرۃ الکبریاء ۔ ثم مع ذالک وہب لہ اللّٰہ وثوقًا بعصْمتہ لدی الأہوال، واستقامۃً وتثبّتًا فی جمیع الأحوال، ونصَرہ عند مکر الماکرین، ودفَع عنہ شرَّ أہل الشرّ، وضرَّ أہل الضرّ، وکرَّ أہل الکرّ، ورزقہ الفرج بعد الشدّۃ، والظلّ بعد الحرّ۔ ففکِّروا یا معشر المتّقین۔۔ ہل یجوّز العقل أن یُنعم الربّ القدوس بہٰذہ الإنعامات، ویؤیّد بہٰذہ التأییدات رجلًا یعلم أنہ من المفترین؟ وہل یوجد فیہ نصّ أو قول ربّ العالمین؟ وہل تجدون نظیرہ فی العالمین؟

وہل یجزم العقل باجتماع ہٰذہ الأمور کلّہا فی کذّاب یتقوّل علی اللّٰہ فی الصباح والمساء ، ولا یتوب من افتراۂ بترک الحیاء ؟ ثم یمہلہ اللّٰہ ستًّا وعشرین سنۃ، ویُظہرہ علی غیبہ، وینصرہ من کلّ جہۃ، وفی کلّ مباہلۃ علی الأعداء ؟ کلَّا۔۔ بل ہی کلمۃ لا یؤمن قائلہا بأحکم الحاکمین۔ أَلا إنّ لعنۃ اللّٰہ علٰی قوم یفترون علی اللّٰہ، وعلی الذین یکذّبون رسل اللّٰہ، وقد رأوا آیات صدقہم، ثم کفروا بما رأوا وہم یعلمون۔ أَلا یرون أنّ الکاذب لا یُنصَر کالصادق، ولو نُصر لاشتبہ الأمر واختلط الحقّ بالباطل، ولا یبقی الفرق بین الذین یوحی إلیہم من اللّٰہ وبین الذین ہم یفترون۔ أَلا لعنۃ اللّٰہ علی من افتری علی اللّٰہ أو کذّب الصادقین۔ وکلّ من کذّب الصادق أو افتری جمَعہم اللّٰہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 631

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 631

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/631/mode/1up


فی نارٍ أعدّتْ لہم ولیسوا منہا بخارجین۔333۔ 333 ۱؂ وقال المکذّبون 33333۲؂ ونعدّہم من المفترین۔ فیومئذ یخبرہم اللّٰہ بأنہم فی الجنّۃ وأنّکم فی السعیر خالدین۔ ہناک یصدّقون رُسُلَ اللّٰہ تحت أنیاب جہنّم، فیا حسرۃً علی المکذّبین! وإذا قیل لہم تعالوا إلی کتاب اللّٰہ یفتَحْ بیننا وبینکم، قالوا بل نتّبع کبراء نا الأوّلین۔ وتر!کوا صحف اللّٰہ وراء ظہورہم، وتراہم علی غیرہا عاکفین۔ یفرّون من الذی أُرسل إلیہم، وہو الحَکَم من اللّٰہ، واللّٰہ یشہد علٰی صدقہٖ وہو خیر الشاہدین۔ وقد جاء علی رأس الماءۃ، وأنزل اللّٰہ لہ آیاتٍ تشفی العلیل، وتقصر القال والقیل۔ ولا تنفع الآیاتُ قومًا معتدین۔

وإنہ جاء فی وقت الضرورۃ، وعند مصیبۃٍ صُبّتْ علی الإسلام من

أیدی الکفرۃ، وعند الکسوفَین الموعودین فی رمضان، یا أہل الفطنۃ۔ ودعا إلی الحق علٰی وجہ البصیرۃ، وأُیّد بکلّ ما یؤیَّد بہ أہل الاجتباء والخُلّۃ۔ واقتضی الزمان أن یجیء ، ویبکّت الکفارَ، ویہدم ما عمروہ، فہو یدعو الزمان والزمانُ یدعوہ۔ ثم الذین اعتدَوا یمرّون منکرین، ویشحّذون إلی تحقیرہ الحرصَ، وینظرون إلیہ مستہزئین۔ ہو المسیح الموعود، وہو

کاسر الصلیب ببیّناتٍ من الہُدیٰ، کما کان الصلیب کاسِرَ مسیحٍ خلا۔

فالآن وقت الظہیرۃ لأشعّۃ الإسلام، وأتی المسیح الموعود مُہجرًا بأمر

اللّٰہ العلَّام، لیظہر اللّٰہ ضیاء ہ التامّ علی الأنام بعد الظلام۔ وقد ظہر

صدقہ کالبحر إذا ماج، والسیل إذا ہاج۔ وکانت ہذہ الخُطّۃ مقدّرًا لہ فی

آخر الزمان من اللّٰہ الرحمٰن، فظہر کما قدّر ذو الامتنان۔ وإنّہ نظر إلی البلاد



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 632

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 632

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/632/mode/1up


الہندیّۃ فوجدہا مستحقّۃً لمقرّ ہٰذہ الخلافۃ، لأنہا کانت مَہْبَطَ الآدم* الأوّل فی بدْء الخلیقۃ، فبعث اللّٰہ آدمَ آخرِ الزمان فی تلک الأرض إظہارًا للمناسبۃ، لیوصل الآخرَ بالأوّل ویُتمّ دائرۃ الدعوۃ کما ہو کان مقتضی الحقّ والحکمۃ۔ فالآن استدار الزمان علٰی ہیئتہ کما أشار إلیہ خیر البریّۃ، ووصلتْ نقطتہ الأُخریٰ بنقطتہ الأولیٰ فی ہٰذہ الأرض المبارکۃ، وطلعت الشمس من المشرق وکذالک کان مکتوبًا فی صحف اللّٰہ المقدّسۃ، لیطمئنّ بہا قوم کانوا لا یرقأ دمعُہم عند رؤیۃ الظلمۃ۔ فظہرت المسرّۃ فی و!جناتہم وہم بہا یفرحون۔ وأماطَ اللّٰہ شوکَ الشبہات من طریقہم فہم بالسکینۃ یسلکون۔ ونُقلوا من الفلاۃ إلی الجنّات، وخرجوا من الغار المظلم إلی أنوار ربّ الکائنات، فإذا ہم یبصرون۔ وجاء وا من الموامی إلی حصن الربّ الحامی، وأُشعِلتْ فی قلوبہم مَصابیح الإیمان، ودخلوا فی حمی أَمْنٍ لا تقربہ ذراری الشیطان۔ وأمّا الذین یحبّون الحیاۃ الدنیا فطُبع علی قلوبہم فہم لا یفقہون، وأردف اللّیلُ لہم أذنابہ، ومدّ الظلام أطنابہ، فہم فی دجاہم یعمہون۔

ثم أسألکم مرّۃ أخریٰ، أیہا الفتیان۔۔ لتتمّ الحجّۃ علی من أنکر الحق،

أو ینال ثوابہ من نطَق بالحق، وحفِظ التقویٰ والإیمان، وما تبع

سبل الشیطان۔۔ أفتُونی فی رجل قال إنّی مرسل من اللّٰہ، وہو کلَّ یوم

إنا عرّفنا آدمَ ہٰہنا باللام، فإنہ استُعمل کالنکرۃ فی ہٰذا المقام، وہو لیس عندی من الألفاظ العبریۃ۔ نعم یُمکن توارُدُ اللغتین وہو کثیر فی تلک اللسانِ والعربیّۃِ، وقد بیّنّا فی کتابنا

منن الرحمٰن أن العربیۃ أُمُّ الألسنۃ، وکلُّ لسانٍ خَرَجَ منہ عند مرور الزمان۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 633

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 633

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/633/mode/1up


من اللّٰہ یعان، ویُکرم ولا یُہان۔ ویکون معہ ربّہ فی جمیع مناہجہ، ویعجل لہ قضاء حوائجہ۔ ویجعل برکۃً فی رزقہ وعمرہ وجماعتہ وزمرہ، ویجعل لہ نصرۃ وقبولًا فی الخلق بأضعاف ما یظن فی بدْء أمرہ۔ ویرفع ذکرہ وینشرہ إلٰی أطراف الدنیا وأکنافہا، وأقطار الدیار وأعطافہا، ویُعلی شأنہ ویعظم سلطانہ، ویرزقہ فتحًا مبینًا فی کلّ موطن، ویُجری محامدہ علی أَلْسُنٍ، وعند الشدائد یستجیب دعاء ہ، ویخزی أعداء ہ، ویتمّ علیہ نعْماء ہ، حتّی یُحسَد علیہا، ویُہلِک من باہلہ، ویُہین من أہانہ، وینشر ذکرہ الجمیل، ویعیذہ من کلّ خزی، ویبرّۂ من کلّ ما قیل، وینصرہ نصرًا عجیبًا فی کلّ مقام، ویُطہّرہ مما قال فیہ بعض لئام۔

ویشہد علی صدقہ بآیات لا تُعطیٰ إلَّا للصدّیقین، وتأییدات لا توہب إلَّا للصادقین۔ ویجعل برکۃ فی عمرہ وأنفاسہ وکلماتہ، ودلائلہ وآیاتہ، فتہوی إلیہ نفوسکثیرۃ بملفو!ظاتہ وتو!جّہاتہ، ویُحبّبہ إلی عبادہ الصالحین، ویجمع علیہ أفواجًا من المخلصین۔ ویُظہرہ کزرع أخرج شَطْأَہ ولیس معہ فرد من الناس، ثم یجعلہ کدوحۃٍ عظیمۃ تأوی إلٰی ظلّہا وثمراتہا کثیر من الأناس۔

ویحیی بہ أرض القلوب فتُصبح مخضرّۃ، ویُنضِّر الوجوہ ببرہانہ فتکون مُحمرّۃ، ویَفْتح بہ عیونًا عُمْیًا، وآذانًا صُمًّا وقلوبًا غُلْفًا، وکذالک رأیتم یا فتیان۔ ورأیتم بعض أفراد جماعتی کیف أرَوا تثبّتًا فوق العادۃ حتّی إنّ بعضہم قُتلوا ورُجموا لہٰذہ السلسلۃ، فقضوا نحبہم بالصدق والإیمان، وشربوا شربۃ الشہادۃ کصہْباء صافیۃ، وماتوا کالسَّکْران۔ إن فی ذالک لآیۃ لمن کانت لہ عینان۔وواللّٰہ إن ہذا العبد قد رأی مِن عنفوان شبیبتہ إلی ہذا الآن أنواع



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 634

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 634

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/634/mode/1up


مواہب الرحمٰن، وإذا تأخّرتْ عنہ نعمۃ نزلتْ علیہ أخری، وإذا أصابہ من عدوّ نوعُ مَعَرّۃ، فرّجہا اللّٰہ عنہ کلّ مرّۃ۔ ونال فتحًا فی کلّ بأس، حتّی انتہٰی إلٰی وقت أدرکہ عون اللّٰہ وحصحص الحقّ ورُفع الالتباس، ورجع إلیہ أفواج من الناس۔ والّذین قالوا من أین لک ذالک أراہم اللّٰہ أنہ من عندہ، والذین أرادوا خزیہ أراہم اللّٰہ خزیًا وتبابًا، ووضع علیہم الفأس، فضُربوا من أیدی اللّٰہ کلّما رفعوا الرأس۔ ذالک لتکون لہم قلوب یعقلون بہا، وآذان یسمعون بہا، ولعلّہم یستیقظون أو تحدّ الحواسّ، وکأیِّنْ منہم باہلوا فضُربتْ علیہم الذلّۃ، أو أُہلکوا أو قُطع نسلہم، لیوقظہم اللّٰہ من النعاس۔

ودافعَ اللّٰہ عن عبدہ کلّ ما مکروا، ولو کان مکرہم یزیل الجبال، وأنزل علی کلّ مکّارٍ شیءًا من النکال۔ وکلُّ من دعا علی عبدہ ردّ علیہ دعاء ہ،33۱؂ وأہلک أکابرہم عند المباہلۃ متعطّفًا علی الضَّعَفۃ، حمیمًا بالّذین لا یعلمون حقیقۃ الحال۔ وکذالک دفع الشرّ وقضی الأمر، فما بقی أحد من الذین کان لہم للمباہلۃ مجال۔ وأراہم اللّٰہ آیاتٍ ما أریٰ آباء ہم لتستبین سبل المجرمین، ولیفرّق اللّٰہ بین المہتدی والضالّ۔ وأبطل اللّٰہ دعاوی علمہم وورعہم ونسکہم وعبادتہم وتقواہم، وأری الخلْقَ ما ستروا من الأعمال، ونزع ثیابہم عنہم فظہر الہزال۔

والذین خافوا اللّٰہ ووجلتْ قلوبہم آمنہم اللّٰہ فعُصموا من الوبال۔ وکم من معتدٍ جرَّ ہذا العبدَ إلی الحکّام، لیسجن أو یصلب أو ینفٰی من الأرض، فتعلمون ما صنع اللّٰہ فی ذالک البأس فی آخر الأمر والمآل۔ وکلّ ما ذکرْنا من نعم اللّٰہ وإحسانہ علی ہٰذا العبد عند الشدائد أشیع کلّہا قبل ظہور تلک النعم بإعلام اللّٰہ ذی الجلال۔ فہل تعلمون تحت السّماء نظیرہ فی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 635

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 635

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/635/mode/1up


المفترین۔۔ فأْتوا بہ واترکوا القیل والقال۔ وإنّ الناس قد ظلموہ کلّ ظلم، وجاروا علیہ، وأحاطوہ کالجبال، فأتاہ ظفر مبین من عند اللّٰہ، فجعل العالی سافلا وقُلّب علیہم ما رموا، فأصاب القِحْفَ والقَذال، وأریٰ نصرہ علی وجہ الکمال۔ وجاء زَمَعُ النّاس لینصر أعداء ہ بشدّ الرحال، فہُزموا بأمر اللّٰہ، وکانت کلمۃ اللّٰہ ہی العُلیا، وضلّ عنہم ما کان علیہ الا تکال۔ و رزق عبدہ ظفرًا ونصرًا وفتحًا فی سائر الأشیاء وسائر الجہات وسائر الأحوال، ورزق بہاءًا وہیبۃ من ربّہ الفعّال۔ ولو تری أفواجًا مبایعین نشروا فی الأرض، وما جمع اللّٰہ لعبدہ من أفواج یریدون مرضاۃ اللّٰہ، وما یأتیہ من التحائف والأموال من دیار قریبۃ وبعیدۃ، لقلتَ ما ہذا إلَّا فضلٌ من اللّٰہ وتأیید ونُصرۃ وإکرام وإجلال۔

ثم کفر بہ الناس مع رؤیۃ ہذہ التأییدات والآیات، ومکروا کُلّ مکرٍ لیصیبہ بعض المکروہات، فتلقّاہ اللّٰہ بسلام وعصمۃ من کلّ شریر دجّالٍ، ومِن کلّ مَن بارَزَ للحرب والنضال۔کلّما أرادوا تکدُّرَ عیشِہ بَدّل اللّٰہ ہمومہ بالمسرّات، وطابتْ حیاتہ أزْیَدَ من الأوّل بحکم اللّٰہ واہب العطیّات۔ وأرادوا أن یُنشَر معایبُہ فأُثنِیَ علیہ بالمحاسن والحسنات، وأرادوا لہ معیشۃ ضنْکًا

فأتاہ من کلّ طرف ہدایا وتحائف والأموال التی تساقط علیہ کالثّمرات۔ وتمنَّوا أن یروا ذلّتہ وخزیہ، فأکرمہ اللّٰہ إکرامًا عجبًا، وزاد الدرجات۔ والعجب کلّ العجب أنّہم یسبّون ویشتمون، وہم من الحقیقۃ غافلون۔

وإذا قیل لہم آمنوا کما آمن الناس قالوا أنؤمن کما آمن السفہاء ، ألا

إنّہم ہم السفہاء ولکن لا یشعرون۔ لا یفکّرون فی فعل اللّٰہ وفیما

عامل بعبدہ۔ أہٰذا جزاء الذین ہم یفترون؟ إنّ الذین یفترون لُعنوا

فی الدنیا والآخرۃ وہم لا یُنصرون۔ ما لہم حظّ من الدنیا إلَّا قلیل، ثم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 636

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 636

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/636/mode/1up


یموتون برِجْز من اللّٰہ تأخذہم من فوقہم ومن تحت أرجلہم، ومن یمینہم ویسارہم، ویوفّی لہم ما کانوا یعملون۔ وما اُرسلَ نبیّ صادق إلَّا أخزی بہ اللّٰہ قومًا لا یؤمنون۔ یتربّصون بہ المنون، ولا یہلک إلا الہالکون۔

أیہلک اللّٰہ بحیلہم ودعواتہم رجلًا یعلم أنہ صادق؟ بل ہم قوم عمون۔ فما تقولون فی ہذا العبد وفی أعداۂ أیّہا المنصفون؟ أرأیتم مفتریا علی اللّٰہ إذا باہل مؤمنًا نصرہ اللّٰہ علی المؤمن، ومزّق من خالفہ وباہلہ؟ بیِّنوا توجَروا أیہا العاقلون۔ أرأیتم عبدًا افتری علی اللّٰہ، ثم کان اللّٰہ لہ، وکلّما أُعدّ لہ بلاء فرّج اللّٰہ عنہ، وکلّما نُسج لہ کید مزّق اللّٰہ ذالک الکید وفتح علیہ أبواب الفضل وأبواب الرحمۃ وأبواب الرزق، وأنعم علیہ کما یُنعَم المرسلون؟ وفتح علیہ أبواب کلّ خیر وبرکۃ، وحفظ عزّتہ ونفسہ من الأعداء ، وبرّأہ بآیاتہ وشہاداتہ ممّا یقولون۔ وحفظ من العدا، وسطا بکلّ من سطا، ومن عاداہ نزل لحربہ ونصر عبدہ کما ینصر المخلصون؟ أیہا الفتیان۔۔أفتُونی فی ہذا وأرُونی مفتریا أنعم اللّٰہ علیہ کمثل ہذا العبد وتفضّل علیہ کمثلہ، واتّقوا اللّٰہ الذی إلیہ ترجعون۔

ثم أستفتی منکم أیّہا العلماء والفضلاء ، فلا تقولوا إلَّا حقًّا، واتّقوا اللّٰہ الذی بیدہ الجزاء ۔ وتعلمون أنّ الصالحین لا یکذبون، ولا یکون من عادتہم الإخفاء ، ولا یُخفی حقًّا إلا الذی حُتم علیہ الشقاء ۔

أیہا الفتیان وفقہاء الزمان وعلماء الدّہر وفضلاء البُلدان! أفتونی فی رجل قال إنہ من اللّٰہ، وظہرتْ لہ حمایۃ اللّٰہ کشمس الضُّحی، وتجلّتْ أنوار صدقہ کبدر الدُّجیٰ، وأری اللّٰہ لہ آیاتٍ باہرات، وقام لنصرتہ فی کلّ أمرٍ قضٰی، واستجاب دعواتِہ فی الأحباب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 637

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 637

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/637/mode/1up


وفی العِدا۔ ولا یقول ہٰذا العبد إلَّا ما قال النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولا یُخرج قدمًا من الہُدی۔ ویقولُ إن اللّٰہ سمّانی نبیًّا بوحیہ، وکذالک سُمِّیتُ من قبلُ علی لسان رسولنا المصطفٰی*۔ ولیس مُرادہ من النبوۃ إلَّا کثرۃ مکالمۃ اللّٰہ وکثرۃ انباءٍ من اللّٰہ وکثرۃ ما یُوحٰی۔ ویقول ما نعنی من النبوۃ ما یُعنٰی فی الصحف الأولٰی، بل ہی درجۃ لا تُعطٰی إلَّا من اتّباع نبیّنا خیر الوریٰ۔ وکلّ من حصلتْ لہ ہٰذہ الدرجۃ۔۔ یکلّم اللّٰہ ذالک الرجل بکلام أکثر وأَجْلٰی، والشریعۃ تبقیٰ بحالہا۔۔ لا ینقص منہا حُکمٌ ولا تزید ہُدیٰ۔ ویقول إنّی أحد من الأمّۃ النبویۃ، ثم مع ذالک سمّانی اللّٰہ نبیًّا تحت فیض النبوّۃ المحمّدیّۃ، وأَوحٰی إلیّ ما أوحٰی۔ فلَیْست نبوّتی إلَّا نبوّتہ، ولیس فی جُبّتی إلَّا أنوارہ وأشعّتہ، ولولاہ لما کنت شیءًا یذکر أو یسمّٰی۔ وإنّ النبیَّ یُعرَف بإفاضتہ، فکیف نبیّنا الذی ہو أفضل الأنبیاء وأزیدہم فی الفیض، وأرفعہم فی الدرجۃ وأعلٰی؟ وأیّ شیءٍ دینٌ لا یضیء قلبًا نورُہ، ولا یُسَکِّنُ الغلیلَ وجورُہ، ولا یتغلغل فی الصُّدور صَدورُہ، ولا یُثنٰی علیہ بوصْف یُتمّ الحجّۃ

الحاشیۃ۔ وإن قال قائل: کیف یکون نبی من ہذہ الأمۃ وقد ختم اللّٰہ علی النبوّۃ؟ فالجواب۔ إنہ عزّ وجلّ ما سمّی ہذا الرجل نبیّا إلَّا لإثبات کمال نبوّۃ سیدنا خیر البریۃ، فإن ثبوت کمال النبی لا یتحقق إلا بثبوت کمال الأمّۃ، ومن دون ذالک ادّعاء محضٌ لا دلیلَ علیہ عند أہل الفطنۃ۔ ولا معنی لختم النبوّۃ علی فرد من غیر أن تُختَتم کمالاتُ النبوّۃ علی ذالک الفرد، ومن الکمالات العظمٰی کمالُ النبیّ فی الإفاضۃ، وہو لا یثبت من غیر نموذج یوجد فی الأمّۃ۔ ثم مع ذالک ذکرتُ غیر مرّۃ أن اللّٰہ ما أراد من نبوّتی إلَّا کثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ، وہو مُسَلَّم عند أکابر أہل السُنّۃ۔ فالنزاع لیس إلَّا نزاعًا لفظیًّا۔ فلا تستعجلوا یا أہل العقل والفطنۃ۔ ولعنۃ اللّٰہ علٰی من ادّعٰی خلاف ذالک مثقال ذرّۃ، ومعہا لعنۃ الناس والملا!ئکۃ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 638

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 638

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/638/mode/1up


ظہورُہ ؟ وأیّ شیءٍ دینٌ لا یمیز المؤمن مِن الذی کفر وأبٰی، ومَن دخلہ یکون کمثل من خرج منہ، والفرق بینہما لا یُریٰ؟ وأیّ شیءٍ دین لا یمیت حیًّا مِن ہواہ، ولا یُحیی بحیاۃٍ أخریٰ؟ ومن کان لِلّٰہِ کان اللّٰہ لہ۔۔ کذالک خلتْ سُنّتہ فی أُممٍ أُولٰی۔ والنبیّ الذی لیس فیہ صفۃ الإفاضۃ۔۔ لا یقوم دلیلٌ علٰی صدقہ، ولا یعرفہ من أتٰی، ولیس مثلہ إلَّا کمثل راعٍ لا یہُشُّ علی غنمہ ولا یسقی ویبعدہا عن الماء والمرعیٰ۔ وتعلمون أنّ دیننا دینٌ حیٌّ، ونبیّنا یُحیی الموتٰی، وأنہ جاء کصیّب من السماء ببرکات عُظمٰی، ولیس لدینٍ أن ینافس معہ بہذہ الصفات العُلیا۔ ولا یحطّ عن إنسان ثقلَ حجابہ، ولا یوصل إلی قَصْر اللّٰہ وبابہ إلَّا ہٰذا الدّین الأجلٰی، ومن شکّ فی ہٰذہ فلیس ہو إلَّا أعمٰی۔ وقد اخترط الناس سیوفہم علی ہذا العبد من غِمْدٍ واحدٍ، فتَجالَدَہم ربُّ الوریٰ۔ فقطَّ بعضَہم، وأخزیٰ بعضہم، ومہّل بعضہم تحت وعیدہ إلٰی یومٍ قدّر وقضٰی۔ وإنّہم آلوا أن لا یعاملوا بہ إلَّا ظلمًا وزُورا، وتحامتْ زمرُہم عن طرق التقوی، وبعدوا عن منہج الحقّ کأنّ أسدا یفترس فیہ أو یلدغ ثعبان أو تَعِنُّ آفۃٌ أُخریٰ۔

وودّوا أن یُقتَل ہذا العبد أو یسجن أو ینفٰی من الأرض، لیقولوا بعدہ إنہ کان کاذبا فأہلکہ اللّٰہ وأردیٰ أو أہان وأخزیٰ؛ فنصرہ اللّٰہ نصرًا بعد نصرٍ من الأرض والسماوات العُلٰی، واستفتح فخاب کلّ من استعلٰی۔ ورزقہ اللّٰہ الابتہال والإقبال علیہ عند کلّ مصیبۃ، فاستجاب إذا دعا، وجعل أثرًا فی دعوتہ،

ومن دعا علیہ فقد ہویٰ۔ فطُعن کثیر من الناس بدعوتہ، فذاقوا موتًا أَدہیٰ،

وقد کانوا یتمنّون یوم مَنیّتہ ویقولون أخْبَرَنا اللّٰہ بموتہ وأَوحیٰ۔ إنّ فی ذالک لآیۃ لأولی النُّہیٰ۔وجعل اللّٰہ دارہ حَرمًا آمِنًا من دخلہا حُفظ من الطاعون



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 639

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 639

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/639/mode/1up


وما مَسَّہ شیءٌ من الأذی، ویُتخطّف النّاس من حولہا۔ إنّ فی ذالک یری یدَ القدرۃ مَن کان لہ عین تری۔ وأعطاہ أعمالا صالحات مع ثمراتہا لنفع الأبرار، کأنّہا جنّات تجری من تحتہا الأنہار۔ ووضع لہ قبولا فی الأرض، فیسعٰی إلیہ الخلق فی اللیل والنّہار۔ وجذب اللّٰہ إلیہ کثیرًا من أولی الأبصار، الذین لہم نفوسمطہّرۃ وطبائع سعیدۃ، وقلوب صافیۃ، وصدور منشرحۃٌ کالبحار، وجعل بینہم مودّۃ ورحمۃ، وأخرج من صدورہم کلّ رعونۃ واستکبار۔ وأنبأہ بہ فی وقت لم یکن فیہ ہٰذا العبد شیءًا مذکورًا، وکانت ہٰذہ النصرۃ سرًّا مستورا۔ وأعطاہ عصا صدقٍ یخزی بہا العدا، فتلقّفتْ ما صنعوا من حَیَواتِ کیدٍ نحتوہ بالنجویٰ۔ ووعد أنہ یہین من أراد إہانتہ، فأدرک الہوان من أہان واستعلٰی۔ إنّہم کانوا یکذّبون من غیر علم، وقلوبہم فی غَمْرۃ من أہواء الدُّنیا، وکانوا ینظرون إلٰی سلسلۃ اللّٰہ مغاضبًا، ویُؤذُون عباد اللّٰہ بحدیث یفتریٰ، ولا یدخلون دار الحقّ بل یمنعون من یرید أن یدخلہا ولا یأبٰی۔ فغضب اللّٰہ علیہم، وقطّع لہم ثیابًا من النّار، وسعّر علیہم سعیر الحسرات، فلم یملکوا صبرًا، ولم یدفعوا عنہم أُوار الاضطرار۔ وما کان لہم مَلْجأٌ مِن سخط اللّٰہ، ولا مَن ینجّی من البوار ولو نظروا ذات الیمین وذات الیَسار۔ فکان مآلہم الخسران والخسار، والذُّلّ والصَّغار۔ وطاشتْ سہامہم الّتی رموا إلٰی ہٰذا العبدِ، وحفظہ اللّٰہ من شرِّہم، وأَدْخلہ فی حِمی الأمن ودار القرار۔ وقد نفضوا الکنائن لیردّوا القدر الکائن، وأرادوا أن یُطفؤا بأفواہہم ما نزل من الأنوار، وسقطوا کصخرۃ علیہ، وودُّوا لو تُسوّیٰ بہ الأرض أو تخرّ علیہ الجبال، لئلَّا یبقٰی من الآثار۔ فنصرہ اللّٰہ نصرًا عزیزًا من عندہ، لیجعل اللّٰہ ذالک حسرۃً علیہم، وإن اللّٰہ لا یجعل علی المؤمنین سبیلًا للکُفّار۔ وما ادرؤوا عن أنفسہم ما أنبأہ اللّٰہ فیہم من سُوء الأقدار۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 640

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 640

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/640/mode/1up


وبشّر اللّٰہ ہذا العبد المأمور بأنہ یکون فی أمانہ وحِرْزہ، ولا یضرّہ من عاداہ من الأشرار، ویعیش تحت فضل اللّٰہ الغفّار۔ فکذالک عصمہ اللّٰہ تحت حمایتہ، ورحّبَ بہ فی حضرتہٖ، وصار علٰی عداہ کالسَّیف البتّار۔ وأعانہ فی کُلّ موطنٍ کالرفیق، ونقلہ إلی السَّعۃ من الضیق، وجعل لہ الأرض کوادٍ خضرٍ أو روضٍ مملوّۃٍ من الثمار۔ ووضع البر!کۃ فی أنفاسہ، وطہّرہ من أدناسہ، وأوصل إلی الأقطار ضوء نبراسہ۔ فرجع إلیہ کثیر من الأبرار، وہجروا أوطانہم فی اللّٰہ تعالٰی، وأوطنوا قریتہ طمعًا فی رحمۃ اللّٰہ الغفّار۔ فاشتعل العِدا حسدًا من عند أنفسہم، ومکروا کلَّ مکرٍ، فما کان مکرہم إلَّا کالغبار۔ وأخرجوا من کلّ کنانۃٍ سہْمًا، فما کان سہمہم من اللّٰہ إلَّا التبار۔ وأجمعوا لہ ورمَوا من قوسٍ واحدٍ، فانقلب بفضل من اللّٰہ، وزادتْ عِزّتہ فی الدیار۔ وکذالک نصر اللّٰہ عَبْدہ، وصَدَق وعدہ، وہیّأ لہ من لدنہ کثیرًا من الأنصار۔ وبشّرہ بأنّہ یعصمہ من أیدی العِدا، ویسطو بکل من سطا، وکذالک أنجز وعدہ وحفظہ من کلّ نوع الضرار۔

وجعلہ مصطفًی مبرَّءًا من کلّ دنسٍ وزکّیٰ، وقرّبہ نجیًّا وأو!حٰی إلیہ ما أو!حٰی، وعلّمہ من لدنہ طریق الرُّشد والہُدیٰ۔ وجمع لہ کلّ آیۃ من الأرض والسماوات العُلٰی، وکفّ عنہ شرّ أعداۂ، وأسّس کلّ أمرہ علی التقویٰ، وأَصلح شؤونہ بعد تشتُّت شملہا، وأوصل سہْمَہ إلی ما رمٰی۔ وجعل الدُّنیا کأَمَۃٍ لہ تأتیہ من غیر شُحٍّ وہویٰ، وفتح علیہ أبواب کلّ نعمۃٍ وآویٰ وربّٰی۔ وعلّمہ من لدنہ وأعثرہ علی المعارف العُلیا۔ وقد جاء کم علی وقت مُسمّی۔ فما تقولونفی ہٰذا الرجل؟ ہل ہو صادق أو کاذب، ومِن أین منبت ہذا الفضل؟ أأعطاہ اللّٰہ ما أعطیٰ، أم الشیطان قادرٌ علٰی ہٰذہ الأمور العظمٰی؟ بیّنوا توجروا۔۔ واتّقوا یوم الفصل الذی یُظہر ما یخفٰی۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 641

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 641

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/641/mode/1up


البابُ الثَّانی

اسمعوا، یا سادۃ ہداکم اللّٰہ إلی طُرق السعادۃ أنّی أنا المُسْتَفْتِیْ وأنا المدّعی۔ وما أتکلّم بحجاب بل أنا علٰی بصیرۃ من ربّ وہّاب۔ بعثنی اللّٰہ علٰی رأس الماءۃ، لأجدّد الدین وأنوّر وجہ الملّۃ، وأکسّر الصلیب وأُطْفِئَ نار النصرانیۃ، وأقیم سنّۃ خیر البریّۃ، ولاُصلح ما فَسَدَ، وأروّج ما کَسَدَ۔ وأنا المسیح الموعود والمہدی المعہود۔ مَنَّ اللّٰہ علیّ بالوحی والإلہام، وکلّمنی کما کلّم برسلہ الکرام، وشہد علی صدقی بآیات تشاہدونہا، وأری وجہی بأنوارٍ تعرفونہا۔ ولا أقول لکم أن تقبَلونی من غیر برہانٍ، وآمِنوا بی من غیر سلطانٍ، بل أنادی بینکم أن تقوموا لِلّٰہ مقسطین، ثم انظروا إلی ما أنزل اللّٰہ لی من الآیات والبراہین والشہادات۔ فإن لم تجدوا آیاتی کمثل ما جرت عادۃ اللّٰہ فی الصادقین، وخلتْ سُنّتہ فی النبیّین الأوّلین، فرُدّونی ولا تقبلونی یامعشر المُنکرین۔ وإن رأیتم آیاتی کآیات خلتْ فی السابقین، فمن مقتضی الإیمان أن تقبلونی ولا تمرّوا علیہا معرضین۔ أ تعجبون من رحمۃ اللّٰہ وقد جاء ت أیّامہا؟ وترون الملّۃ ذاب لحمہا وظہرت عظامہا، وکُبّر أعداؤہا وحُقّر خُدّامہا۔ ما لکم ترون آیَ اللّٰہ ثم تُنکرون؟ وترون شمس الحق أمام أعینکم ثم لا تستیقنون؟ أیّہا الناس۔ تمّت علیکم حجۃ اللّٰہ فإِلام تفرّون؟ وإن آیاتہ من کلّ جہۃٍ ظہرت، والإسلام نزل فی غار الغربۃ وأوامرہ تعطّلت، وکلّ آفۃٍ علیہ نزلت، وکلّّ مصیبۃٍ کشرت لہ أنیابہا، وکلّ نحوسۃٍ فتح علیہ بابہا، وَالألْفُ السادس الّذی وُعد فیہ ظہور المسیح قد انقضی، فما زعمکم۔ أأخلفَ اللّٰہ وعدہ أو وفّی؟



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 642

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 642

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/642/mode/1up


ألا ترون کیف اتّفقت الأمم علی خلاف ہٰذہ الملّۃ، وصالوا علیہ متّفقین کسباع تخرج من الاَجَمۃ الواحدۃ، وبقی الإسلام کو!حیدٍ طریدٍ، وصار غَرَضَ کلِّ مَریدٍ، وللأغیار عیدٌ، وقمرُنا ذوالقعدۃ، قَعَدْنا کالمنہزمین من الکَفَرۃ بکمال الخوف والرِّعْدۃ، وہم یُطعنون فی دیننا ولا کطَعْن الصَّعْدۃ؟ فعند ذالک بعثنی ربّی علٰی رأس الماءۃ۔ أ تزعمون أنہ أرسلنی من غیر الضرورۃ؟ وواللّٰہ إنّی أریٰ أن الضرورۃ قد زادت من زمانٍ سَبَقَ، وولّی الإقبال کغلامٍ أَبَقَ۔ وکان الإسلام کرجل لطیف البُنْیۃ، ملیح الحلْیۃ، والآن تری علی وجہہ سواد البدعات، وقروح المحدَثات، ونُقل إلی الغثّ سمینُہ، وإلی الکدر مَعینُہ، وإلی الظلمات نورہ، وإلی الأخْرِبۃ قصورہ، وصار کدارٍ لیس فیہا أہلہا، أو کوَقْبَۃِ مَشارٍ ما بقی فیہا إلَّا نحلُہا۔ فکیف تظنّون أن اللّٰہ ما أرسل مجدّدًا فی ہذا الزمان، وکان وقت نزولِ المائدۃ لا وقت رفعِ الخِوان۔ وکیف تزعمون أن اللّٰہ الکریم عند ازدحام ہٰذہ البدعات وسیل السیّئاتِ، ما أراد إصلاح الخلق، بل سلّط علی المسلمین دجّالا منہم لیہلکہم بسمّ الضلالات؟ أکان دجلُ النصاری قلیلًا غیر تامٍّ فی الإضلال، فکمّلہ اللّٰہ بہذا الدجّال؟ فواللّٰہ لیس ہٰذا الرأی من عین العقول والأبصار، بل ہو صوت أنکَرُ مِن صوت الحمارِ، وأضعف مِن رَجْعِ الحوار۔ ثم مع ذالک کیف نزلت الآیات تَتْریٰ لتأیید رجل یعلمہ اللّٰہ أنہ من المفترین؟ ألیس فیکم شیء من تقوی القلوب یا معشر المنکرین؟ ما کان لعبد أن یفتری علی اللّٰہ ثم ینصرہ اللّٰہ کالمقبولین۔ فإن مِنْ ہذا یُرفَع الأمان ویشتبہ الأمر ویتزلزل الإیمان، وفیہ بلاء للطالبین۔ أ تز!عمون أن رجلا یفتری علی اللّٰہ کلّ لیلٍ ونہارٍ وآصال وأبکارٍ ویقول یوحیٰ إلیّ وما أوحی إلیہ شیء ، ثم ینصرہ ربّہ کما ینصر الصادقین؟ أہٰذا أمر یقبلہ العقل السلیم؟ ما لکم لا تفکّرون کالمتقین؟ أبقِیت لکم دجّالون۔۔ وأین المُجدّدون



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 643

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 643

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/643/mode/1up


والمصلحون، وقد أکل الدینَ دودُ الکفر۔۔ ألا تنظرون؟

أَلا ترون علماء النصاری کیف یخدعون الجہّال، ویلمعون الأقوال والأعمال، لعلہم یرجعون؟ وإن اللّٰہ أنزل لکم حجّۃ علیہم، فلم لا تنتفعون بحجّتہ أیہا العاقلون؟ وواللّٰہ لو اجتمع أوّلہم وآخرہم، وخواصّہم وعوامّہم، ورجالہم ونساؤہم، ما استطاعوا أن یأتوا بآیۃ کما نُعطٰی من ربّنا، ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا۔ ذالک بأنہم علی الباطل، ونحن علی الحقّ، وإلٰہنا حیٌّ، وإلٰہہم میّت، فلا یسمع شہیقہم ولا زفیرا۔ وإنّ لنا نبیّ نریٰ آیات صدقہ فی ہٰذا الزمن، ولیس فی أیدیہم إلَّا خضْراء الدمن، فأین تفرّون من حصنِ الأمن أیہا الغافلون؟

وإن نبیّنا خاتم الأنبیاء ، لا نبیّ بعدہ، إلَّا الذی ینوَّر بنورہ، ویکون ظہورہ ظِلَّ ظہورہ۔ فالو!حی لنا حقٌّ ومِلْکٌ بعد الِا!تّباع، وہو ضالّۃُ فِطرتنا وجدناہ من ہٰذا النبیّ المطاع، فأُعطینا مجانًا من غیر الاشتراء ۔ والمؤمن الکامل ہو الذی رُزق من ہذہ النعمۃ علی سبیل الموہبۃ، والذی لمؔ یُرزَق منہ شیءًا یُخاف علیہ سوء الخاتمۃ۔

ہذہ ملّتنا نریٰ کلّ آنٍ ثمارہا، ونشاہد أنوارہا۔ وأما

دین النصاری فلیس إلَّا کدارٍ یخوّف الناسَ دُجاہا، ویعمی العیونَ دُخاہا،

وہل لہا آیۃ لنراہا؟ وواللّٰہ لو لم یکن دین الإسلام لتعسّرت معرفۃ

ربّ العالمین۔ فما ظہرت خبیءۃ المعارف إلَّا بہٰذا الدّین۔ وإنہ کشجرۃ

تؤتی أُکُلہا کلّ حین، ویدعو الآکلین الذین ہم من العاقلین۔ وأمّا دین عیسٰی فما ہو إلَّا کشجرۃ اجْتثّتْ من الأرض، وأزالت الصراصر قرارہا، ثم اللصوص ما أبقَوا آثارہا۔ ولیس فی دینہم إلَّا قصص منقولۃ، ومن المشاہدات معزولۃ۔ ومن المعلوم أن القصص المجرّدۃ لا تہب الیقین، ولیس فیہا قوّۃ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 644

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 644

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/644/mode/1up


تجذب إلی ربّ العالمین۔

وإنّما الجذب فی الآیات المشہودۃ، والکرامات الموجودۃ، وبہا تتبدّل القلوب، وتزکّی النفوس وتزول العیوب، فہی مختصّ بالإسلام، واتّباع نبیّنا خیر الأنام، وانا علٰی ہٰذا من الشاہدین، بل من أہلہا ومن المجرّبین، ونتمّ بہا الحجّۃ علی المنکرین۔ وأیّ شیءٍ الدینُ الذی کان کدارٍ عفَت آثارہا، أو کروضۃٍ أُجیحت أشجارہا؟ ولا یرضی العاقل بدینٍ کان کدارٍ خربت، أو کعصا انکسرت، أو کاِمْرأۃٍ عَقَرت، أو کعین عمیت۔ فالحمد للّٰہ کلّ الحمد، أن الإسلام دین حیٌّ یُحیی الأموات، ویُخضّر المَوات، ویُنضّر الحیاۃ۔ وإنّی أعجب، واللّٰہ، کلَّ العجب من قومٍ یقولون إنّا من فِرق الإسلام، ثم ینکرون فیوض ہٰذا الدّین وفیوض نبیّنا خیر الأنام، ومکالمۃ اللّٰہ العلَّام۔ ما لہم لا یہبّون من رقْدتہم، ولا یفتحون عیون فطنتہم؟ فأستعیذ باللّٰہ من مثل حالہم وأعجب لہم ولأقوالہم! وقد قُمت فیہم مأمورًا من اللّٰہ فلا یؤمنون، وأدعو إلی اللّٰہ فلا یأتون، ویمرّون کأنہم ما سمعوا وہم یسمعون۔ أما بَلَغَتْہُمْ قصص قوم کانوا یکذّبون رسلہم ولا ینتہون؟ أم لہم براء ۃ فی القرآن فہم بہا یتمسّکون؟

وإنّی، واللّٰہ، من الرحمٰن، یکلّمنی ربّی ویوحی إلیّ بالفضل والإحسان۔ وإنی نشدتُہ حتّی وجدتُہ، وطلبتُہ حتّی أصبتُہ۔ وإنّی أُعطیتُ حیاۃً بعد الممات، ووجدت الحقّ بعد ترک الفانیات۔ وإنّ ربّنا لا یضیع قومًا طالبین، ولا یترک فی الشبہات من طلب الیقین۔ وإنّکم مکرتم کلّ المکر، ولو لا فضل اللّٰہ ورحمتہ لکنت من الہالکین۔ وخاطبنی ربّی وقال: إنّک بأعیننا، فأوفیٰ وعدہ فی کل موطنٍ وعند کلّ کیدٍ من الکائدین۔ ونصرنی وآوانی إلیہ، وکرَّ کلُّ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 645

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 645

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/645/mode/1up


واحدٍ منکم علیّ، فلم یتمکّن بشر منّی فرجعوا خائبین۔

وقطعتم ما أمر اللّٰہ بہ أن یوصل، وأشعتم بین النّاس أن ہؤلاء لیسوا من المسلمین، وتمنّیتم أن نکون من المخذولین، فقلّب اللّٰہ علیکم أمانیکم، ونشر ذکرنا فی العالمین۔ أہٰذا جزاء المفترین؟

أیّہا النّاس۔۔ لکم لونان: لون فی القلب، ولون فی اللسان۔ الإیمان علی الأَلْسُن والکفر فی الجنان۔ جعلتم الأقوال للرحمٰن، والأعمال للشیطان

فأین أنتم من ہدایۃ القرآن؟ أنتم تقرؤون فی کتاب اللّٰہ أن عیسٰی ذاق

کأس الممات، ثم ترفعونہ مع جسمہ العنصریّ إلی السماوات، فلا أدری حقیقۃ إیمانکم بالآیات۔ تتلون فی صلواتکم أن عیسٰی مات، ولا رفع الجسمِ ولا حیاۃ*، ثم بعد الصلاۃ تتربّعون فی رکن المحراب، وتُقْبِلون بوجوہکم علی الأصحاب، فتقولون: من اعتقد بموتہ فہو کافر وجزاؤہ السعیر

ووجب لہ التکفیر۔ تلک صلواتکم، وہذہ کلماتکم! تقرؤون فی الفرقان:

33۱؂ وبہ تؤمنون، ثم تتر!کون معناہ وراء ظہور!کم وأنتم تعلمون۔

أ تجدون فی کتاب اللّٰہ نزول عیسٰی بعد موتہ؟ فما معنی 33

یا ذوی الحَصاۃ؟

وأمّا ما قال سبحانہ تعالٰی: 3333۲؂ فلیس معناہ رفع الجسم مع الروح۔ والدلیل علیہ ذکرُ التوفّی قبل الرفع، وإنّ ہٰذا الرفع حقُّ کل مؤمنٍ بعد الممات، وہو ثابت من القرآن والأحادیث والروایات۔ وإن الیہود کانوا مُنکرین برفع عیسٰی، ویقولون إنّ عیسٰی لا یُرفَع کمثل المؤمنین ولا یُحیٰی، وذالک بأنّہم کانوا یُکفّرونہ ولا یحسبونہ من المؤمنین۔ فردّ اللّٰہ علیہم فی ہذہ الآیۃ، وکذالک فی آیات أخری وقال:3 ۳؂ وإنّہم من الکاذبین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 646

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 646

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/646/mode/1up


أ تکفرون بکتاب اللّٰہ بعد إیمانکم، ولا تتّقون اللّٰہ وتبغون مرضاۃ إخوانکم؟ أتعادون من أُرسل علی رأس الماءۃ، وہو منکم ومن ہذہ الأمّۃ، وجاء فی وقت الضرورۃ، وعند فتن النصرانیّۃ، ووافی دروب صحف اللّٰہ بالحقّ والحکمۃ، وشہد اللّٰہ علٰی صدقہ بالآیات المنیرۃ۔ ما لکم تردّون رحمۃ اللّٰہ بعد نزولہا، ولا تکونون من الشاکرین؟ غشی الإسلامَ لیلُکم، وانہمر إلیہ سیلُکم، وتَحْسَبون أنکم تحسنون؟ ما لکم لا تنظرون إلی الزمان وآفاتہ، وإلی طوفان الکفر وسطواتہ؟ أ لیس فیکم رجل من المتفرّسین؟ فعجِبْنا واللّٰہ، کلّ العجب، وحَیَّرَنا ما تقولون وما تفعلون، وما تصنعون بحذاء الکافرین، وما أعددتم فی جواب المتنصّرین؟ إنکم تقطعون أصلکم بأیدیکم، وتنصرون بأقوالکم أعداء الدّین۔ إن اللّٰہ أرسل عبدًا عند ہٰذا الطوفان، وأنتم تُکفّرونہ وتخرجونہ من دائرۃ الإیمان، وقد جاء بنورٍ تجلَّی، وبالمعارف تحلَّی، لیکون حجّۃ اللّٰہ علی صدق الإسلام، ولتخرج شمس الدّین من الظلام، ولیدافع اللّٰہ عنہ الضرَّ، والزمنَ المُرَّ، ولیمدّ ظلّہ ویکثر ثمارہ، ویُری الخلْقَ أنوارہ، ولیشاہد الناس أنہ أزید من کلّ دینٍ، فی کیفٍ وکمٍّ وثَمٍّ ورَمٍّ، ثم أنتم تکفرون بہ، بل أنتم أوّل المعادین۔ وظنَنَّا أنکم صَفْو الزّمان، وعینٌ جاریۃ للظمْآن، فظہر أنکم ماء کدر لا یوجد فی الکدورۃ مثلکم فی البلدان۔ وجادلتم، فأکثرتم جدالکم حتی سبقتم السابقین، وجاوزتم الحدود، ونقضتم العہود، وکفّرتم المسلمین۔

أَلا ترون أنی کنت عبدًا مستورًا فی زاویۃ الخمول، بعیدا من الإعزاز والقبول، لا یُؤْمیٰ إلیّ ولا یشار، ولا یرجیٰ منی النفع ولا الضرار، وما کنت من المعروفین۔ فأوحی إلیّ ربّی وقال: إنی اخترتک وآثرتک، فقُلْ إنّی أُمرت وأنا أوّل المؤمنین۔ وقال: أنت منّی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی، فحان أن



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 647

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 647

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/647/mode/1up


تعان وتُعرَف بین النّاس۔ یأتون من کلّ فجٍّ عمیق۔ ینصرک رجال نوحی إلیہم من السّماء ۔ یأتیک من کلّ فجٍّ عمیق۔ ہٰذا ما قال ربّی، فأنتم ترون کیف أری العَون۔ إن النّاس أتتْنی أفواجًا، وانثالتْ علیّ الہدایا کأنّہا بحر تہیج فی کل آن أمواجًا۔ ہذہ آیات اللّٰہ لا تنظرون إلٰی نورہا، وتنکرون بعد ظہورہا۔ ألا تفکّرون فی أمری؟ أسمعتم اسمی قبل ما أنبأ بہ ربّی؟ فإنّی کنت مستورًا کأحدٍ من الأنام، غیر مذکور فی الخواصّ ولا العوامّ۔ ومضٰی علیّ دہرٌ ما کنت شیءًا مذکورًا، وکنت أعیش کرجل اتّخذہ النّاس مہجورًا؛ وکانت قریتی أبْعَدَ من قصدِ السیّارۃ، وأحقَرَ فی عیون النظّارۃ، درستْ طلولہا وکُرِہَ حلولہا، وقلّت بر!کاتہا وکثرت مضرّاتہا ومعرّاتہا؛ والذین یسکنون فیہا کانوا کبہائم، وبذِلَّتِہم الظاہرۃ یدعون اللا ئم؛ لا یعلمون ما الإسلام، وما القرآن وما الأحکام۔ فہٰذا من عجائب قضاء اللّٰہ وغرائب القدرۃ، أنہ بعثنی من مثل ہذہ الخربۃ، لأکون علی أعداء الدین کالحَرْبۃ۔ وبشّرنی فی زمن خمولی وأیّام قبولی بأنی سَأکُون مرجع الخلا ئق، ولِصَولِ الکفرۃ کالسدّ العائق، وأُجلَسُ علی الصدر، وأُجعل للقلوب کالصدر۔ یأتوننی من کلّ فجّ عمیق، بالہدایا وبکلّ ما یلیق۔ ہٰذا و!حی من السّماء ، من حضرۃ الکبریاء ، ما کان حدیثًا یُفتریٰ، ولا کلامًا ینسج من الہوی، بل وعد من ربّی الأعلٰی۔ وکُتب وطُبع وأُشیع قبل ظہورہ فی الوریٰ، وأُرسل فی المدائن والقُریٰ، ثم ظہر کشمس الضحیٰ۔ وترون الناس یجیؤننی فوجًا بعد فوج مع الہدایا التی لا تعدّ ولا تحصٰی۔ ألیس فی ذالک آیۃٌ لأولی النہی؟ وإن کنتَ تحسبنی کاذبا فأَرِ الخلْق سرّی، واکشِفْ ستری، واسئلْ من أہل ہذہ القریۃ، لعلک تُنصَر من العدا۔ وإنما حدّثتک بہٰذا الحدیث لعلک تفتّش وتہدیٰ۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 648

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 648

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/648/mode/1up


فإن کنت لا تخاف اللّٰہ فامْضِ علٰی وجہک، یأتی اللّٰہ بعوضک۔ وإن کنت تتّقیہ، فالبرہان بیّنٌ والأمر ہیّنٌ۔ قد رأی الإسلام صدمات الخریف، فانظُرْ۔۔ ألم یأن وقت الربیع والنسیم اللطیف؟ وتری أن القلوب فی زمننا ہذا أجدبت، وطلّقہا المبسرات وترکت، فجاء ت رحمۃ اللّٰہ بجَودہا، وتدارکت وأجادت۔ وأراد اللّٰہ فی ہٰذہ الأیام أن یمیط شوکًا تجرّح أقدام الإسلام، ویقطع کلّ قتاد وقع فی سبیلہ، ویُطہّر الأرض من اللئام۔ فتقبّلْ أو لا تقبّلْ۔۔ إنی أنا مطر الربیع، وما ادعیتُ بہوی النفس بل أُرسلت من اللّٰہ البدیع، لأطہّر الدّنیا من أوثانہا، وأزکّی النفوس من الشہوات وشیطانہا۔ ألا تری ما نزل علی ہذہ الملّۃ؟ وکیف زادتْ علل علی العلّۃ؟ وتجاوز الوباء مِن أہل دارٍ، إلی مَن کان فی جوارٍ، ودعا الحَینُ أخاہ، بمثل ما دعاہ۔ ووُطِئَ الدّین تحت أقدام عَبَدَۃِ إنسانٍ، وصال الأعداء علیہ کثعْبان، حتی صار کقریۃ یُطرِّقہا السَّیل، أو کأرض تعدو علیہا الخَیْل۔ ہناک رأی اللّٰہ أن الأرض خربت، وخیالات الناس فسدت، وما بقی فیہم إلَّا أمانی الدُّنیا وأہواؤہا، وتمایَلَ علیہا أبناؤہا۔ فعند ذالک أقامنی فیکم لتجدید الدین، وإصلاح الملّۃ والتزیین۔ فانظروا، رحمکم اللّٰہ، أجئتکم فی غیر المحلّ کالمفترین، أو أدرکتُکم عند نہبِ الشیاطین؟

واعلموا، ہداکم اللّٰہ، أن ہذا الأمر بقضاء من اللّٰہ وقدرہ، وہذا النور لیس من ظلمۃٍ بل من بدرہ۔ وکم من ذئبٍ افترس عباد اللّٰہ، أفلا تنظرون؟

وکم من لصٍّ نہب أموال الدِّین، أفلا تشاہدون؟ فما زعمکم۔۔ ألم یأْنِ

وقت نصرۃ الرحمٰن؟ کلَّا۔۔ بل جاء ت أیّام فضل اللّٰہ والإحسان۔

وما جئتکم من غیر سلطان مبین، وعندی شہادات من اللّٰہ تزید



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 649

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 649

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/649/mode/1up


یقینًاعلی یقین۔ وکنتُ فی حَیّۃِ قومی کمَیْتٍ، وبیت کلا بیت۔ وکنتُ مستورًا غیرمعروفٍ، لا یعرفنی أحد فی القریۃ، إلَّا قلیل من الطائفۃ۔ وکنت أعیش فی زاویۃ الکتمان، لا یجیئنی أحد من الرجال والنسوان۔ وکنت مخفیًّا من أہل الزمان، ما قصدت بلدۃً من البلدان، وما جُبْتُ الآفاق، وما رأیت العرب وما تقصّیتُ العراق۔ وما کان لی، واللّٰہ، سعۃ المال، وما ارتضعت من الدّہر إلَّا ثدْیَ عقیمٍ لا یُرجیٰ منہ لبن الکمال، وما رکبتُ إلَّا ظہر بہیمٍ لیس فیہ شِیَۃُ یُسْرِ الحال۔ فبشّرنی ربّی فی تلک الزمن بأنہ سیکفینی فی جمیع المہمّات، ویفتح علیّ باب کلّ نعمۃ من التفضّلات۔ وکما ذکرت، کان ذالک الوقت وقتَ العُسرِ وأنواعِ الحاجات، وبشّرنی ربّی بتسہیل أموری وتیسیر مناہجی، وتکفُّلِہ بکلّ حوائجی۔ فعند ذالک وفی زمنٍ أبعد مِن أمنٍ أمرت أن یُصنَع خاتمٌ فیہ نقوش ہٰذہ الأنباء ، لیکون عند ظہورہا آیۃ للطُّلباء ، وحُجّۃ علی الأعداء ۔ والخاتم موجود وہذا نقشہ:3 یا أہل الآراء ۔* ثم فَعَلَ اللّٰہ کما وَعَدَ، ومَطَرَ سحابُ فضلہ کما رَعَدَ، وجعل اللّٰہُ حبّۃً صغیرۃ أشجارًا باسقۃ وأثمارًا یانعۃ۔ ولا سبیلَ إلی الإنکار، ولو اتّفق فِرَق الکفّار، فإن شہادۃ الشہداء تُسوّد وجہَ مَن أبٰی، وکیف الإنکار مِن شمس الضّحٰی؟ ثم إذا تمّتْ کلمۃ ربّی

وملأ اللّٰہُ جِرابی، تبادَرَ القومُ بابی، وصرت من القطرۃ کالبحار، ومن الذرّۃ کالجبال الکبار، ومِن زرع صغیر کالأشجار المملوّۃ من الثمار، ومن دودۃ ککُمَاۃِ المضمار، إن فی ذالک لآیۃ لأولی الأبصار۔وکذالک بشّرنی ربّی بطول عمری

قد مضی علی صُنْعِ ہٰذا الخاتم أزیَدُ من ثلا ثین سنۃ، وما ضاع إلی ہذا الوقت فضلًا من اللّٰہ ورحمۃً۔ وما کان فی ذالک الزمن أثرٌ من عزّتی، ولا ذکرٌ من شہرتی، وکنتُ فی زاویۃ الخمول، محروما من الإعزاز والقبول۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 650

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 650

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/650/mode/1up


فی بدْء أمری وقال: تری نسْلًا بعیدًا۔ فعمّرنی ربّی حتی رأیت نسلی ونسل نسلی، ولم یتر!کنی کالأبتر الذی لم یُرزق ولیدًا، وتکفی ہٰذہ الآیۃ سعیدا۔ فأفتونی أیہا العلماء والمحدّثون والفقہاء ۔۔ أتجوّز عقولکم أنّ تلک المعاملات کلّہا یعامل اللّٰہ برجل یعلم أنہ یفتری علیہ، ویکذب أمام عینیہ؟ وہل تجدون فی سنّۃ اللّٰہ أنہ یُظہر علی غیبہ إلی عمر طویل أحدا من المفترین؟ ویتمّ علیہ کلّ نعمتہ کالنبیّین الصادقین؟ وینصرہ فی کلّ موطن بإکرامٍ مبین؟ ویمہّلہ مع ہٰذا الافتراء حتی یبلغ الشیبَ من الشباب، ویُلحق بہ ألوفا من الأصحاب، ویعینہ ویطرد أعداء ہ المؤذین کالکلاب؟ ویؤتیہ ما لم یؤتَ أحد من المعاصرین، ویُہلِک من باہلہ أمام عینیہ أو یخزی ویہین؟ ومن کان علی الدنیا مُکِبًّا ولزینتہا محبًّا، ومن أہل الافتراء والفریۃ۔۔ أرأیتم نصرتہ کہذہ النصرۃ؟ أو أحسستم لہ عونۃَ اللّٰہ کہٰذہ العونۃ؟ ما لکم لا تفکّرون کالمتّقین؟ ہداکم اللّٰہ! إلام تُکفّرون عباد اللّٰہ المؤیّدین؟ وإنکم تکذّبوننی، ولا أعلم بم تکذّبون! أَکَفرتُ بکتاب اللّٰہ، أو أنکرتُ ما جاء بہ المرسلون؟ أو ما رأیتم آیات اللّٰہ فلذالک ترتابون؟ أو جئتکم فی غیر الوقت فقلتم جاء کما یجیء المزوّرون؟ ما لکم لا تعرفون الحقّ ولا تبصرون؟ انظروا إلی الأمم الخالیۃ من المفترین، والخلیقۃ الفانیۃ من المتقوّلین۔۔ کیف انتسفہم اللّٰہ لافتراۂم، وأہلکہم وما أبقی شیءًا من نبۂم، ومحا آثارہم، وأفنٰی أنصارہم، لما کانوا کاذبین، وللصادقین منافسین۔ ولو لا تفریق اللّٰہ بین الحق والباطل لارتفع الأمان، وتشابہَ الخبیث والطیب والخرب والعمران، ولم یبْق فرق بین المقبولین والمردودین۔

اعلموا رحمکم اللّٰہ أن عمر الافتراء قلیل والمفتری فی آخر عمرہ ذلیل۔ ثم المفترون قوم مخذولون لا ینصرہم ربٌّ علَّام، ولا یشہد اللّٰہ لہم ولیست فی کنانتہم سہامٌ،



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 651

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 651

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/651/mode/1up


ولیس متاعہم إلَّا کلام، ولا یؤیَّدون ولا یبارکون کالمقبولین۔ ومن سنن اللّٰہ أنّہ إذا بارز أحد من المکذّبین صادقا وقام للمنازعۃ، أو اشتبک معہ بنیّۃِ المباہلۃ، صر!عہ اللّٰہ بالخزی والذلّۃ، وکذالک جرتْ عادۃ حضرۃ الأحدیّۃ، لیفرّق بین الصدّیقین والمزوّرین۔ إنّ المزوّرین لا یُنصرون من اللّٰہ، ولا یؤیَّدون بروح منہ، ولا توافیہم نور من السماء ، ولا تُقدَّم إلیہم مائدۃ الصلحاء ، وما ہم إلَّا کلاب الدُّنیا، تجدہم علیہا متمایلین، وتجد صدورہم مملوّۃ من شحّہا وہم علی أنفسہم من الشاہدین۔ ویُخزَون فی مآل أمرہم، وہناک یُعرَف وجود ممیّز یمیّز الخبیث من الطیّبین۔ والّذین صدقوا عند ربّہم قد ثنی اللّٰہ تعالٰی عن الدُّنیا عِنانَہم، وعطف إلیہ جنانہم، فاختاروا لہ الیوم الأسود والموت الأحمر، وأعطَوہ الظاہر والمضمَر، وسعوا إلیہ بوجدہم، وقضوا مناسک عشقہم، وأتمّوا طواف محبّتہم، أولئک لا یُخْزون فی ہٰذہ وفی یوم الدّین، وسیسکنون فی مقاصر عزّ ورفعۃ۔ لا یرون تجاہَ العدا مِن عثرۃٍ، ویحفظہم اللّٰہ من کلّ صرعۃٍ، ویقیلہم وینعشہم عند کلّ سقطۃ، فیعیشون محفوظین۔والفرق بینہم وبین المفترین کشمس الضحٰی واللّیلِ إذا سجٰی، أو کحلیبٍ لطیفٍ وخلّ ثقیف۔ یتراء ی نور جبْہتہم للناظرین۔ إنہم سرّحوا امرأۃ الدُّنیا وزینتہا، واختاروا الآخرۃ وذاقوا سکینتہا، واستراحوا مع اللّٰہ بعد ترک أہواۂم، وخرّوا علی حضرۃ اللّٰہ وفرّوا إلیہ منقطعین، وقنِعوا من الدنیا بثوبٍ کثیفٍ، وبقلٍ قطیفٍ، فاعطی أرواحہم حللًا کبرقٍ مع غذاءٍ لطیفٍ، ورُدّ إلیہم ما تر!کوا وکذالک یفعل اللّٰہ بالمخلصین۔ ونظر اللّٰہ إلیہم فوجدہم الطیّبین الطاہرین، ورأی أنہم یؤثرونہ علی غیرہم* ، فآثرہم علی الأغیار، ورأی أنہم کانوا لہ فکان لہم، وجعلہم مہبط الأنوار، وکذالک جرت سنّتہ من الأوّلین إلی الآخرین۔ وکم بءْر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 652

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 652

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/652/mode/1up


تُحفَر لہم، فیخر!جہم اللّٰہ بأیدیہ، ولا تصیبہم مصیبۃ لیہلکوا، بل لیری اللّٰہ بہا کرامتہم، ولا تنزل علیہم آفۃ لیدمَّروا بل لیثبّت اللّٰہ بہا أنہم من المؤیَّدین۔ أولئک رجال صافاہم حِبُّہم۔ ولا یخزی اللّٰہ قوما إلَّا بعد أن یتألّم قلوبہم بإیذاء تلک الخبیثین، کذالک جرت سنّۃ اللّٰہ فی المخلوقین۔ وإذا أقبلوا علی اللّٰہ سُمع لہم، وإذا استفتحوا فخاب کلّ ظَلَّام ضنین۔ یعیشون تحت رداء اللّٰہ۔۔ تراہم أحیاءً وہم من الفانین۔ أ تظُنّ أن ہذا القوم قد خلوا من قبل ولا یرید اللّٰہ أن یخلق مثلہم فی الآخرین؟ ثقلتک* أُمّک! إنْ ہذا إلَّا خطأ مبین۔ یا عافاک اللّٰہ۔۔ بعدتَ بُعدًا عظیمًا من سنن اللّٰہ ربّ العالمین۔ لو لا و!جودہم لفسدت الأرض ومن فیہا، فلذالک وجب وجودہم إلٰی یوم الدین۔

وما أرسلنی ربّی إلَّا لیکفّ عنکم أیدی الکفّار، ویُہیّئکم لنزول الأنوار، فما لکم لا تشکرون بل تعرضون عن الہُدیٰ؟ أتعلمون أنکم تُترَکون سُدیٰ؟ وإنّ مع الیوم غدا۔ وما جئتکم من ہوی النفس، وما کنت مشتاق الظہور، بل کنت أحبّ أن أعیش مکتومًا کأہل القبور، فأخر!جنی ربّی علی کراہتی من الخروج، وأضاء اسمی فی العالم مع ہربی من الشہرۃ والعروج، ولبثتُ عمرًا کالسرّ المستور، أو القنفذ المذعور، أو کرمیم فی التراب، أو کفتیل خارج من الحساب۔ ثم أعطانی ربّی ما یحفظ العدا، ومنَّ علیّ بو!حی أجلٰی۔ فاشتعل السُّفہاء وظلموا، وکان بعضہم من البعض أطْغٰی، وسفَتْ منہم علیّ الأعاصرُ والصراصر العظمٰی، فرأیتم مآلہم یا أولی النہٰی۔ ثم بعدہم أدعو!کم إلی اللّٰہ، فإن تقبلوا فاللّٰہ حسبکم، وإن تکفروا فاللّٰہ حسیبکم، والسَّلام علٰی من اتّبع الہُدیٰ۔

یا فتیان رحمکم اللّٰہ۔ ترون انقلابًا عظیمًا فی العالم، وتشاہدون



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 653

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 653

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/653/mode/1up


من أنواع المعالم۔ وأشقی النّاسِ فی ہذا الزمن المسلمون۔ نُہب دُنیاہم، وکثیر منہم من الدین یرتدّون۔ لا ینزل بلاءٌ إلَّا علیہم، ولا تُہلِک داہیۃ إلَّا قومہم۔ ما حدثتْ بدعۃ إلَّا ولَجتْ بینہم، وما عرَضتْ علیہم الدُّنیا عینَہا إلَّا فقأتْ بہا عینہم۔ نری شبّانہم تر!کوا شعار الملّۃ الإسلامیۃ، ومحوا آثار سنن النبویّۃ۔ یحلقون اللُّحی، ویعظّمون السبال، ویطوّلون الشوارب، مع تلبُّس الحلل النصرانیۃ۔ فہم فی ہذا الزمن أشقٰی مَن أظلّتْہ السّماء ، وآوتْہ الغبراء ۔ یعرضون عن فضل اللّٰہ إذا أتٰی، ویفرّون من رحم اللّٰہ إذا وافٰی۔ تَنحَّوا عن خِوان اللّٰہ إذا دنا، واتّبعوا طرقًا أُخریٰ۔ لا یخافون حرّ النار واللّظی، ویخافون مرارۃ ہٰذہ الدّنیا، والطریق الذی ما نصّفہ الشیطان وطؤا کلّہ، فسبقوا الخنّاس الأطغٰی۔ ومنہم قوم یقولون إنا نحن العلماء ، ویتکلّمون کما یتکلّم السفہاء ، یضلّون النّاس بغیر علم وہُدیٰ، ویعرضون عن الحقّ الذی حصْحص وتجلّٰی۔ ویُدفنون خیرَ الرسل فی التراب، ویُصعِدون عیسٰی إلی السماوات العلٰی۔ فتلک إذًا قسمۃٌ ضیزیٰ ! یبصرون ثم لا یبصرون، یرون الحقّ ثم یتعامون وہم یعلمون، ویکتمون الحقّ الذی ظہر کشمس الضحٰی۔ ألا یرون نصر اللّٰہ کیف أتٰی؟ ویُریہم اللّٰہ کلّ سنۃٍ ما یکرہونہا من آیاتٍ عظمٰی*، ثم یمرّون کأنّہم ما رأوا

* إنی کتبت غیر مرّۃ أنّ من أعظم آی اللّٰہ ما أنبأنی بکثرۃ الجماعۃ، ورجوع الناس إلیّ فوجا بعد فوج، ودخولہم فی ہذہ السلسلۃ۔ وکان ہذا الوحی فی زمن کنت فیہ رجلا خاملا لا یعرفنی أحد، لا من الخواصّ ولا من العامّۃ۔ ثم بعد ذالک زادت جماعتی إلی حدّ لا یعرف عددہم علی الوجہ الکامل إلَّا عالم الغیب والشہادۃ، وانتشروا فی ہذہ البلاد وبلادٍ أخریٰ کصیّب یعمّ کلّ أقطار البلدۃ۔ ففکّروا۔۔ ألیس ذالک من الآیات العظیمۃ؟ وقد أیّد کلامی ہذا المکتوب الذی بلغنی الیوم فی آخر جنوری سنۃ ۱۹۰۷ء من أرض مصر، فأکتب منہ السطرین لملاحظۃ أہل النّصفۃ، وہو ہذا: إلی ذی الجلال والاحترام المسیح الموعودؑ میرزا غلام أحمد القادیانی الہندی الفنجابی، بعد التحیّۃ، لقد کثرت أتباعکم فی ہذہ البلاد وصارت عدد الرمل والحصا، ولم یبق أحد إلَّا وعمل برأیکم واتّبع أنصارکم۔

الراقم: أحمد زہری بدر الدین، من إسکندریۃ، ۱۹ دسمبر سنۃ ۱۹۰۶ء۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 654

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 654

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/654/mode/1up


ویتحامون عن طرق التقویٰ، کأنّ أسدًا یفترس فیہا أو تأخذہم آفاتٌ أُخریٰ۔ أیظُنّون أنہم لا یُسألون ویُترکون کشیء یُنسٰی؟ ألا یرون الآیات من ربّی، أو رأوا کمثلہ معاملۃ اللّٰہ برجل افتریٰ؟ ما لہم لا یتر!کون عادۃ الإیذاء ، والسبّ والازدراء ؟ أأقْسموا وآلوا وعاہدوا علیہ؟ واللّٰہ یسمع ویریٰ۔ یا حسرات علیہم! إنّہم جاوزوا حدّ التُّقٰی، وطُبع علی القلوب فآثروا العَشا والعمیٰ۔ یخافون الخَلْق ولا یخافون اللّٰہ، ولا یتّقون حرّ النّار واللَّظیٰ۔ وقد أوتوا مفاتیح دار الدّین فما دخلوہا، وما رضوا بأن یدخلہا زمرٌ أخریٰ۔ أ یُرْجیٰ منہم أن یؤمنوا بإمام وقتہم، بل یقولون کذّابٌ یُضلّ الوریٰ، أریٰ نفسَہ فی زیّ المسلمین ولا یؤمن باللّٰہ ورسولہ المصطفٰی۔ وما شَقّوا صدری، فما أعثرہم علی کفر یُخفٰی؟ وقد رأوا آیاتٍ إن رآہا قوم أُہلکوا فی قرونٍ أولٰی ما عُذّبوا فی الدنیا ولا فی العُقبٰی۔ فہٰذہ شقْوتہم۔۔ طلعت الشمس علیہم وأضحٰی، وہم یختفون فی الغار ویؤثرون الدُّجٰی۔ لا یفرّقون بین خائنٍ وأمینٍ، وبین نہارٍ ولیلٍ سجٰی۔ یریدون أن یطفؤا نورًا نزل من اللّٰہ ذی الجلال، واللّٰہ غالب علٰی أمرہ وإن کان مکرہم تزول بہ الجبال۔ أیحسبون أنہم قومٌ لیس لہم زوال؟ وسیبطل اللّٰہ کیدہم، وإن کان کیدہم کحلیبٍ أَجریٰ فی الحلوق، وأمضٰی فی العروق، أو کغذاء أخریٰ ہی ألطف وأَحْلٰی۔ أیستطیعون أن یردّوا قضاء ہ؟ سبحان ربّنا الأعلٰی! إنہ یَغلِب ولا یُغْلَب، وینفذ أمرہ من السّماء إلٰی تحت الثریٰ۔ فہل من فتی یخافہ ولا یطغی؟ وہل من حُرّ یطیعہ ولا یأبٰی؟ أیتّکؤن علی آراء آباۂم الأوّلین؟ ولیس لآراۂم ثبات وتجدہم فیہا مختلفین، وما زالت النویٰ تطرح برأیہم کلَّ مطرح، فلا یثبت ولیس لہ قرار ویتبدّل کلّ حین۔ وواللّٰہ، إنّی صادق



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 655

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 655

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/655/mode/1up


وجحدوا بما جئت بہ بغیر علم ولا بُرہان مبین۔ وإنّی أعرض نفسی للذبح فما دونہ إن کانوا من الصادقین۔ إن یقولون إلَّا رجمًا بالغیب، ولیسوا علی الحق مُعْثرین۔ ویقولون إن الزلازل والطاعون ما جائت إلَّا بنحوسۃ ہٰؤلاء ، وإنّہم قوم منحوسون۔ انظرْ إلٰی أقوالہم کیف یہذَرون! یا أعداء الکتاب والرسول، بماذا تَطیَّرون؟ أجاء العذاب بما أرسل اللّٰہ عبدہ لیتمّ بہ حجّتہ ولینذر قومًا غافلین؟ ویلٌ لکم ولما تزعمون! وقد أنبأ اللّٰہ بہا قبل ظہورہا ثم أنتم باللّٰہ ورسلہ تستہزؤ ون۔ وإن اللّٰہ یریٰ کلّ ما تصنعون۔ ترون لیالی الکفر وظُلماتہا، وتُحسّون حاجۃَ مرسل وأماراتہا ثم أنتم تعرضون کأنکم قوم عمون۔ وإذا ابتسم ثغرُ صبح الإسلام، وأراد اللّٰہ أن یجیح الشرک بآیاتہ العظام، فلکم مکرٌ فی آیاتہ لعل الناس إلی الحق لا یرجعون۔ وتقرؤون فی سورۃ النور من غیر الشکّ والغُمّۃ، أن الخلفاء کُلّہم یأتون من ہٰذہ الأُمّۃ، ثم تلتمسون عیسی الذی ہو من بنی إسرائیل، وتنسون ما فیہم قیل۔ وتقرؤون فی حدیث نبیّ اللّٰہ إِمَامُکُمْ مِنْکُمْ، ثم أنتم تتجاہلون۔أ تکفرون بمن جاء من الرحمٰن بالآیات البیّنات والبرہان، وترون الکفّار کیف جرّحوا دینکم الذی ہو خیر الأدیان؟ وہمّوا بأن ترتدّوا وتکونوا کمثلہم حزب الشیطان۔ فاعلموا رحمکم اللّٰہ أنّ غیرۃ اللّٰہ قد اقتضت فی ہذا الزمان، أن یرسل عبدہ وینجز وعدہ، وینجی حِزبہ من أہل العُدوان۔ فأنا ہو العبد المأمور، والوقت ہو الوقت المسطور، فہل أنتم تؤمنون؟ والحقّ قد تبیّن، والوقت قد تعیّن، فما لکم لا تفہمون؟ یا حسراتٍ علیکم، إنکم صرتم أوّل کافرٍ بی، وکنتم من قبل تنتظرون۔ ألا ترون کیف شاع الشرک فی أعطاف الأرض وأطرافہا، وأقطار البلدۃ وأکنافہا؟ أتکفرون بما أنزل اللّٰہ وأنتم تعلمون؟



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 656

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 656

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/656/mode/1up


یا عُلماء القوم، لا تَعمّدوا لقداح النوم، واللّٰہ یوقظکم بحوادث کُبریٰ، وینبّئکم بدواہی عُظمٰی۔ فأین الخوف کالأبرار، وأین ماء الدموع بذکر اللّٰہ القہّار؟ کنتم إناء الدین، فترشّح الکفر منہ وفاضَ، فأعجبنی أن طیر نفسکم ما فرّخ وما باض۔ أخُلِقتم لأکل رغیف، مع شواء صفیفٍ، علی خوانٍ نظیفٍ، أیہا المُسرفون؟ وقد قال اللّٰہ تعالی:333۱؂ وما قال ’’إلَّا لیأکلون‘‘۔ یا سبحان اللّٰہ! أیّ طریق اخترتم، وأیّ نہج آثرتم؟ أ تعیشون إلی آخر الدُّنیا ولا تموتون؟ وتقطفون ثمارہا خالدین فیہا أبدا، ولا تہلکون؟ إن الدنیا قد انتہت إلی آخرہا فلم لا تستیقظون؟ وقد حلّ أرضَکم ہذہ وباءُ الطاعون، وآفات أُخری ألا تنظرون؟ وإن اشْتیتم أو أصَفْتم، فہی معکم ولا تفارقکم، ألا تبصرون؟ أأخذکم العَشا، أم أنتم قومٌ عمون؟ وعنّت أمامکم مصائب شتّی، حتّی صُبّت علٰی أنفسکم وأولادکم ونسائکم وذوی القُرْبٰی، وتفارقکم کلَّ سنۃ أَعِزّتُکم بموتہم، فلا تستطیعون غیر أن یفزع ویبکیٰ۔ وما کان اللّٰہ معذّب قوم حتّی یبعث رسولًا، لیتمّ الحجّۃ، والأمر یُقْضٰی۔ ہٰکذا قال اللّٰہ فی کتابہ وہٰکذا خلت سُنّتہ فی أمم أولٰی۔ فما لکم لا تعرفون إمامًا أُرسل إلیکم، ولا تتّبعون داعیًا أقیم فیکم؟ ألا تعلمون مآل من کذّب وأبٰی؟ أرضِیتم أن تموتوا میتۃ الجاہلیۃ ثم تُسألوا فی العُقْبٰی؟ وأنتم تُہدَون إلی الطیّب من القول، فما لکم تؤثرون الکدر وتترکون الأصفٰی؟ تَدَعون من جاء! کم، وتَدْعون المیّت من السماوات العلٰی۔ وتسبّون وتشتمون، وتقولون ما تقولون، ولا تخافون یومًا تحضر فیہ کلّ نفسٍ لتجزیٰ۔ ولیس نبیّ ذلیلًا إلَّا فی وطنہ، فسُبّوا واشْتموا واللّٰہ یسمع ویریٰ۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 657

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 657

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/657/mode/1up


یا قوم لم تتعامون وأنتم تبصرون؟ ولم تتجاہلون وأنتم تعلمون؟ أما علمتم عاقبۃ الذین کانوا یستہزؤون؟ تلدغون کالزّنْبور، وتؤذون رجلا اِعْتمّ کالسراج بالنّور، وتَہرّون برؤیۃ البدور۔ وأبدرَ الصلحاءُ وأنتم تُظلمون، وجاء الناس وأنتم تہربون۔ وکَمْ من مُستہزءٍ أخبروا بموتی کأنہم أُلہموا من اللّٰہ العلاَّم، وأصرّوا علیہ وأشاعوہ فی الأقوام، فإذا الأمر بالضدّ، وردّ اللّٰہ مزاحہم علیہم کالجِدّ، وماتوا فی أَسْرع وقت بعد إلہامہم، وتر!کوا حشیش ندامۃ وذلّۃ لاَنعامہم۔

ورُبَّ مؤذٍ ما آذَونی إلَّا لیظہر اللّٰہ بہم بعض الآیات، وقد قصصْنا قصصہم فی ’’حقیقۃ الوحی‘‘ لتکون تبصرۃً للطالبین والطالبات۔ وأقرب القصص من ہذا الوقت قصّۃ رجلٍ مات فی ذی القعدۃ، وکان یلعننی ویسبّنی، وکان اسمہ سعد اللّٰہ، وکان سبُّہ کالصَّعْدۃ۔ وإذا بلغ شتمہ إلی منتہاہ، وسبق فی الإیذاء کلّ من سواہ، أو!حیٰ إلیّ ربّی فی أمر موتہ وخِزْیہ وقطع نسلہ بما قضاہ، وقال: إن شانئک ہو الأبتر، فأشعتُ بین الناس ما أوحی ربی الأکبر۔ ثم بعد ذالک صدّق اللّٰہ إلہامی، فأردتُّ أن أفصّلہ فی کلامی، وأشیع ما صنع اللّٰہ بذالک الفتّان، وعدوّ عباد اللّٰہ الرحمٰن۔ فمنعنی من ذالک و!کیلٌ کان من جماعتی، وخوّفنی من إرادۃ إشاعتی، وقال: لو أشعتہا لا تأمَن مَقْتَ الحکّام، ویجُرّک القانون إلی الاَثام، ولا سبیل إلی الخلاص، ولات حین مناص، وتلزمک المصائب ملازمۃ الغریم، والمآل معلوم بعد التعب العظیم، ولیست الحکومۃ تارکَ المجرمین، فالخیر فی إخفاء ہذا الوحی کالمحتاطین۔ فقلت

إنی أری الصواب فی تعظیم الإلہام، وإن الإخفاء معصیۃ عندی ومن سیر اللئام، وما کان لأحد أن یضرّ من دون باریء الأنام، ولا أبالی بعدہ تہدید الحُکّام،



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 658

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 658

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/658/mode/1up


وندعو ربّنا الذی ہو منبت الفضل، وإن لم یستجبْ فنرضی بالعیش الرذل۔ وواللّٰہ، إنہ لا یسلّط علیّ ہٰذا الشریر، وینزل علیہ آفۃً وینجی عبدہ المستجیر۔ فسمع کلامی بعض زبدۃ المخلصین۔۔ الفاضل الجلیل فی علم الدین۔۔ أعنی محبّنا المولوی الحکیم نورُ الدِّین، فجری علی لسانہ حدیث: ’’رُبَّ أَشْعَثَ أَغْبَرَ‘‘، واطمأنّ القلوب بقولی وقولہ، وخطّأوا المحذِّر، واستضعفوا بناء ہولہ۔ ثم دعوت علی ’’سعد اللّٰہ‘‘ إلی ثلا ثۃ أیّام، وتمنّیت موتہ من ربّ علَّام۔ فأوحی إلیّ: رُبَّ أشعَثَ أَغْبَرَ لَو أقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لأبرَّہ، یعنی إنہ تعالٰی یدافع عنک شرّہ۔ فواللّٰہ، ما مضی علیّ إلَّا لیالی حتی جاء نی نعی موتہ، فالحمد للّٰہ علی ما ضرب العدوّ بسوطہ۔

أیہا الناس۔۔ إنّی جئتُ من ربّی بمائدۃٍ لأطعم البائس الفقیر، فہل فیکم من یأخذ ہذا الخوان ویأمن الجوع المبیر؟ ومن لم یوافقہ ہذا الغذاءُ فہو من قوم یقال لہم أشقیاء ، ومن أکلہ فلہ فی ہٰذہ أجر کبیر، ثم وراء ہا فضل کثیر۔ یرید اللّٰہ لیحطّ عنکم الأثقال، ویضع السلاسل والأغلال، وینقلکم من الأرض المُجْدبۃ، إلی بلدۃ النعمۃ والرفاہۃ، وینجیکم من ظلمات اشتدّت فیہا الریح، ویبلّغکم إلٰی مقاصر أُشعلت فیہا المصابیح، و یطہّر!کم من الذنب والزور، لتکونوا کالذی قفل من الحجّ المبرور۔ ولٰکِنّکم رضیتم بأن تتّسخ

ابدانکم بوسخ الذنوب، وأن تبعدوا أبدًا من دیار المحبوب۔

وإنّی عرضت علیکم ماء الحیاۃ، فآثرتم کأس الممات، ودعوتکم

إلی البیت العتیق، ففررتم إلی الغرانیق۔ وإنکم تسبّون و إنّا نقاسی

لکم الضجر والکرْبۃ، وندعو لکم فی ظلمات الغمّ کأنّا نصلّی العتمۃَ۔

وإنّ الأمر فی ید اللّٰہ یفعل ما یشاء ، وفی یدہ القضاء ، ویأتی یوم یلین ذالک



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 659

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 659

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/659/mode/1up


الحجر، وإلی متٰی ہٰذا الضَّجَر؟ أیہا الناس لا تَمایلوا علی قول العامّۃ، وإنہم قد أعرضوا عن طرق السلامۃ۔ وإن عجبتم فما أعجب من قولہم إنّ عیسٰی حیٌّ مع الجسم فی السّماوات، ثم مع ذالک لحِق بالأموات، ودخل معہم فی الجنّات! ویقولون إنہ یترک صحبۃ الموتٰی فی آخر الأیام، وینزل إلٰی بعض أرضین، ویمکث إلی أربعین، ثم یرحل من ہٰذا المقام، ویلحق بالأموات إلی الدوام۔ ہذہ خلاصۃ اعتقاداتہم، وملخّص خرافاتہم۔ فبقینا متحیّرین من ہٰذا البیان، مع ہٰذا الہذیان۔ لا أعلم أجَرَّتْہم إلیہ الأہواء ، أو غلبت علیہم السوداء؟ ما لہم إنہم مع طول الزمان، وتلاوۃ القرآن، ما اہتدوا إلی الحق إلٰی ہٰذا الأوان؟ فما أفہم مِن أیّ قسمٍ ہٰذا الجنون، وقد مضتْ علیہ القرون؟ فواللّٰہ، قد حیّرنی إصرارہم علٰی أمرٍ یخالف القرآن، ویجیح الإیمان۔ وقد جاء!ہم حَکَمٌ من اللّٰہ بالحق والحکمۃ علٰی رأس الماءۃ، وعند غلبۃ کلِّ نوع البدعۃ وغلبۃ الکَفَرۃِ، فأعجبنی أنہم لأیّ سبب أنکروہ، وہو یدعو الزمان والزمان یدعوہ۔ وواللّٰہ، إنّی أنا المسیح الموعودُ، وأعطانی ربّی سلطانًا مبینًا، وإنّی علٰی بصیرۃ من ربّی، ولو رُفع الحجاب لما ازددتُ یقینًا۔ إن اللّٰہ رأی نفوسًا عاصیۃوزمنًا کلیلۃٍ قاسیۃ، فأرسلنی لعلہم یتوبون۔ وکیف ننصح لہم وإنہم قوم لا یسمعون، وإنہم عن صراط الحقّ لناکبون؟ فرّوا من مائدۃ اللّٰہ

ورُغفانہا، وانتشروا وبقیت الخوانُ علی مکانہا، وآثروا عصیدۃ الدنیا

وتحلّبتْ لہا أفواہہم، وتلمّظَتْ لہا شفاہہم، فأقلّ ما یکون فی

صدقی أن یصیبہم بعض الذی أَعِدُہم، فما لہم لا ینتظرون؟ وقالوا إن

عیسی حیٌّ، وذالک لقلّۃِ عِلْمہم بالقرآن والآثار، فینکرون موت عیسٰی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 660

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 660

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/660/mode/1up


أشدّ الإنکار، وعلٰی حیاتہ یصرّون۔ وتلک کلمۃ بہا یموتون۔ فاجتنِبْ ذالک إن کنت من الذین یؤمنون بالفرقان ولا یکفرون۔ ولا تکنْ کمثل الذین ترکوا کلام اللّٰہ وراء ظہورہم فلا یبالون۔ ویقولون إن المسلمین أجمعوا علی حیاتہ۔۔ کلا، بل ہم یکذبون۔ وأین الإجماع وفیہم المعتزلُون؟ وإذا قیل لہم ألا تفکّرون فی قول ربّکم :3 أو بہ لا تؤمنون؟ فلیس جوابہم إلَّا أن یحرّفوا آیات اللّٰہ ویقولوا إنّ معنی التوفّی رفْع الروح مع الجسم العنصریّ۔ انظرْ کیف عن الحقّ یعدلون! ویعلمون أنّ ہٰذا القول قول یجیب بہ عیسٰی بحضرۃ العزّۃ یوم القیامۃ إذ یسألہ اللّٰہ عن ضلالۃ الأمّۃ، وکذالک فی الفرقان تقرؤون۔ فعجبت، واللّٰہ، کلّ العجب من شأنہم، ومن عقلہم وعرفانہم! ألا یعلمون أنہ ما کان لبشر أن یحضر یوم النشور، من قبل أن یُقبَض روحہ ویکون من أصحاب القبور؟ ما لہم لا یتدبّرون؟ وقد حثا الصحابۃ التراب فوق خیرالبریّۃ، ومزارہ موجود إلی ہٰذا الوقت فی المدینۃ المنوّرۃ۔ فمِن سوء الأدب أن یقال إن عیسٰی ما مات، وإنْ ہو إلَّا شرک عظیم۔۔ یأکل الحسنات ویخالف الحصاۃ۔ بل ہو تُوفّی کمثل إخوانہ، ومات کمثل أہل زمانہ۔ وإنّ عقیدۃ حیاتہ قد جاء تْ فی المسلمین من الملّۃ النصرانیۃ، وما اتّخذوہ إلٰہًا إلَّا بہٰذہ الخصوصیّۃ، ثم أشاعہا النصاریٰ ببذل الأموال فی جمیع أہل البدْو والحضر، بما لم یکن أحد فیہم من أہل الفکر والنظر۔ وأما المتقدّمون من المسلمین فلم یصدر منہم ہٰذا القول إلَّا علٰی طریق العثار والعثرۃ، فہم قوم معذورون عند الحضرۃ، بما کانوا خاطئین غیر متعمّدین۔ وما أخطأوا إلَّا من وجہ الطبایع الساذجۃ، واللّٰہ یعفو عن کلّ مجتہد یجتہد بصحّۃ النیّۃ، ویؤدّی حقّ التحقیق من غیر خیانۃ علی قدر الاستطاعۃ۔ إلَّا الذین جاء ہم الإمام الحَکَم مع البیّنات



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 661

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 661

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/661/mode/1up


من الہُدیٰ، وفرّق الرُّشد من الغیّ وأظہر ما اختفٰی، ثم أعرضوا عن قولہ وما وافَوا دروب الحقّ بل منعوا من وافٰی۔ وخالفوہ وماتوا علٰی عناد وفساد کالعدا، وفرحوا بہٰذہ ونسوا غدا۔ أینکرون ما أنذر اللّٰہ بہ، ولا یجاوزون حَدَّ مصرعہم إذا القدر أتٰی، وتریٰ کلُّ نفس ما عمل من الہویٰ۔ ومن أتی اللّٰہ بقلب سلیم فنُجّی من اللّظی، وأمّا المعرض الأثیم فلہ الجحیم، لا یموت فیہ ولا یحییٰ۔ وإنّا نُصبح ونمسی فی ہٰذا الانتظار، ونُجیل طَرْفَنا فی کلّ طرفۃٍ إلی الأقدار۔ وإنّ عذاب اللّٰہ قد قرع بابکم، وکسّر أنیابکم، أفلا تنظرون؟ وإنّ نفوسکم قد قربت أَسَد الممات فی الفلوات، فأَعِدّوا لہا حصنَ النجاۃ، ولا تہلکوا أنفسکم بأیدیکم أیہا الغافلون۔ إن حیاتکم بالإیمان والدّین، لا بالرُّغفان والماء المعین۔ وإذا ذہب الدین فلا حیات، والذی ضاع دینہ یشابہ الأموات۔ وترون أنّ الکُفر کسّر ضلوع الإسلام، وما بقی منہ إلَّا اسم علٰی أَلْسُنِ العوامّ۔ وواللّٰہ، إنّ ہٰذا الأسد قد جُرّح من الکلاب، ورضی من الافتراس بالإیاب، وقعد من الفُلْکِ بمثابۃ الہُلْک، ولذالک مسّکم مِن کلّ طرفٍ ضُرٌّ، وعیش مُرٌّ، والآفات اختارتْکم صَحْبًا، کأنہا وجدتْ فناء کم رَحْبًا، وإنکم تحتہا کلّ یومٍ تکسَّرون۔ وترون أنّ الآفات تنزّل علیکم تَتْرًا، وتبتُر بَتْرًا، ولا تسقط علیکم آفۃ إلَّا وہی أکبر من أُختہا، ثم لا تخافون۔

وقد رأیتم ما نزل من الآفات، وبعضہا نازل بعدہا فی أسرع الأوقاتِ، فتوبوا إلی بارئکم لعلکم تُفلحون۔ وکیف تُرجیٰ منکم التوبۃ وما تأتیکم آیۃٌ إلَّا عنہا تُعرِضُون؟ فسوف تأتیکم أنباءُ ما کنتم بہ تستہزؤون۔ومن الآفات أن قومًا یدعونکم إلی الکفر، إطماعًا فی نجار الصُّفْر، ویعرِضون ذہبًا علٰی کلّ ذاہبٍ لعلّہم یتنصّرون۔ وإنّہم أولو الطَّول وأنتم الفقراء ، وفُتح علیہم أبواب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 662

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 662

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/662/mode/1up


الدّنیا وأنتم فی البؤس تصبحون وتُمسُون۔ وتلک فتنۃ أکبر من کلّ فتنۃٍ، وبلیّۃٌ أشدّ من کلّ بلیّۃ، فإنکم تحتاجون إلی رُغفانہم وہم لا یحتاجون۔ وحلّوا أرضکم وملکتْہا ملو!کہم، فلا بدّ من تأثّرٍ کما تشاہدون۔ ثم من إحدی المصائب أنّ أمرائکم علی الدّین یستہزؤون، وفقرائکم علی الدنیا یتجانؤون، فلا نجد قرّۃ العین من أولئکم ولا من ہؤلاء ، وإنّا من کلٍّ آیسون۔ وسَرّحْنا الطرْف فی الطرفین، فأَخَذَنا ما یأخذ السقیم عند آثار المنون۔ وما کان لکافرٍ أن یہزمکم، ولٰکن ذنوبکم ہزمتکم، وتر!کتم الحضرۃ وکذالک تُتر!کون۔ وإنّ اللّٰہ نظر إلٰی قلوبکم، فما آنس فیہا تُقاۃً، فسلّط علیکم قومًا عُصاۃً، وأعطاہم لتعذ یبکم قناۃ، فہل أنتم منتہون؟ 33333۱؂ فہل أنتم مغیّرون؟ و 33333۲؂ فہل أنتم مؤمنون؟

أأنتم تظنّون أنکم أحیاءٌ بہٰذا الذنب الدائم، والموت خیر للفتٰی من عیشہ عیش البہائم، فما لکم لا تتنبّہون؟ وإنّ النصرانیۃ تأکُلکم کلّ یوم کما تأکل النار الحطب، لیتمّ ما قدّر اللّٰہ وکتب۔ وواللّٰہ، إن ہٰذا الوباء أکبر من کلّ وباءٍ، وہذہ الزلزلۃ أکبر من کلّ زلزلۃ، وما نزل علیکم ما نزل إلَّا من ذنوبکم أیّہا الفاسقون۔ وإن الآفات الجسمانیۃ لا تُہلک إلَّا جسمًا، وأمّا الآفات الروحانیۃ فیُہلک الجسم والروح والإیمان معًا۔ فلا تسبّوا أعداء! کم، وسُبّوا أنفسکم إن کنتم تعقلون۔ ما لکم لا تنظرون إلی السماء ، وصرتم بنی الغبْراء ، وإن اللّٰہ عرض علیکم حلیب الدّین فأنتم تعافون، ثم قدّم قومٌ إلیکم لحمَ الخنازیر فأنتم بالشوق تتمشّشون۔ ومن دخل منہم فی دینکم فلا یدخل إلَّا کأہل النفاق، ویطوف طامعًا فی الأسواق، مکدّیًا بالأوراق، وہم یکثرون وأنتم تقلّون۔

فإلام ہٰذہ الحیاۃ أیہا الجاہلون؟ تتمایلون علی أموال الدنیا،



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 663

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 663

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/663/mode/1up


وما تبصرون من أین تقتنؤن۔ ء وترون الخوان وما ترون المُضلّ الخوّان، کأنکم قوم عمون۔ وتترکون العِشاء ، وبالندامی تَغْتَبِقُون۔ وتعیشون کُسالٰی، ولا تمسّون الدّین بإصبع ولا لہ تتألّمون۔ ثم تقولون إنّا بذلنا الجہد حقّ الجہد وإنّا مستفرغون۔ فکّروا یا فتیان، ألم یأن أن یرسل اللّٰہ إمامًا فی ہذہ العمران؟ وإنکم تنقضون عہد اللّٰہ وتقطعون ما أمر اللّٰہ بہ أن یوصل وفی الأرض تفسدون۔ وواللّٰہ، إن الوقت ہٰذا الوقت فما لکم لا تتقبّلون؟

وإنّی، واللّٰہ، فی ہٰذا الأمر کعبۃ المحتاج، کما أن فی مکّۃ کعبۃ الحجّاج، وإنّی أنا الحجر الأسود الذی وُضع لہ القبول فی الأرض والنّاس بمسّہ یتبرّکون*۔ لعن اللّٰہ قومًا یقولون إنہ یرید الدنیا، وإنّا من الدُّنیا مُبْعَدون۔ وجئتُ لاُقیم الناس علی التوحید والصلٰوۃ، لا لإقناء أنواع الصِّلاۃ۔ واللّٰہ یعلم ما فی قلبی، ویشہد بآیاتہ أنہم کاذبون۔ ما کان حدیث یفتریٰ، بل جئت بالحق، وبالحق أرسلت، فما لکم لا تعرفون۔ وإنّی أنا ضالّتکم، لا مضلّکم

أیہا المسلمون۔ فہل فیکم من یقبل دعوتی، وینظر بحسن الظنّ إلی کلمتی؟ ألیس فیکم رجل رشید أیہا المستکبرون؟ ولو لم أُبْعَث، یا فتیان،

فی ہٰذا الزمان، لوطّأ الدِینَ أہلُ الصلبان۔ وإنّ ہٰذا السَّیلَ بلغ الرؤوس،

وأفنی النفوس، أَلا تعلمون القسوس کیف یُضلّون؟ وما أُرسلتُ إلَّا عند ضلالٍ نجّس الأرض وأہلک أہلہا، فما لکم لا تفہمون؟ وواللّٰہ، لیس فی الدہر أعجب من حالکم! کیف طال إعراضکم وصَفْحُکم عنی، وقد رأیتم الآیات وأُعطیتم البیّنات فنبذتموہا کالحصات۔ وفُتح لکم باب الحسنات، فغلّقتم

ہٰذا خلاصۃُ ما أوحی اللّٰہ إلیّ، وہذہ استعارۃ من اللّٰہ الکریم۔ وکذالک قال المعبّرون أن المراد من الحجر الأسود فی علم الرؤیا المرء العالم الفقیہ الحکیم۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 664

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 664

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/664/mode/1up


أبوابکم، لئلا تدخل فی العرصات۔ ما لکم لا تتّقون حرمات اللّٰہ وللتکذیب تعجلون؟ وإن اللّٰہ سیّاف یسلّ سیفہ علی الذین یعتدون۔

وإنی أنا المسیح الموعود، وأنتم تکذّبوننی وتسبّون وتقولون إنّ ہٰذا الدعویٰ باطلٌ وقولٌ خالفہ الأوّلون۔ فأعجبنی قولکم ہٰذا مع دعاوی العلم والفضل! أتقولون ما یخالف القرآن وأنتم تعلمون؟ وإن دعوی الإجماع بعد الصحابۃ دعوی باطل وکذب شنیع لا یصرّ علیہ إلَّا الظالمون۔ وأَنَّی الإجماع؟ أتنسون ما قال المعتزلون؟ أتزعمون أنہم لیسوا من المسلمین وأنتم قوم مسلمون؟ فثبت أنّ قولکم لیس قولًا واحدًا، بل ادّارَءْ تُم فیہا، فالآن یحکم اللّٰہ فیما کنتم فیہ تختلفون۔ وعندی شہادات من ربّی وآیات رأیتموہا أأنتم تنکرون؟ إن الذین خلوا من قبلی لا إثم علیہم وہم مبرّؤون، والذین بلغتْہم دعوتی، ورأوا آیاتی، وعرفونی وعرّفْتُہم بنفسی، وتمّتْ علیہم حُجّتی، ثم کفروا بآیات اللّٰہ وآذونی۔۔ أولٰئک قوم حقّ علیہم عقاب اللّٰہ، بأنہم لا یخافون اللّٰہ، وبآی اللّٰہ ورسلہ یستہزؤون۔ وما جئتہم من غیر بیّنۃٍ، بل أراہم ربّی آیۃً علٰی آیۃٍ، ومعجزۃ علی معجزۃ، وأقیمت الحجّۃ، وقُضی التنازع والخصومۃ، ثم علی الإنکار یصرّون۔ أ یحاربون اللّٰہ بما أنہ جعلنی المسیح الموعود والمہدی المعہود، ولہ الأمر ولہ الحکم، لا یُسأل عمّا یفعل وہم یُسألون۔ وتنحّی بعضہم عن ہٰذا النزاع خجلًا وجلًا ورجعوا إلیّ تائبین، وأکثرہم قاسطون۔

أ یصرّون علی حیاۃ عیسٰی، ویخفون إجماعًا اتفق علیہ الصحابۃ کلّہم أجمعون؟ ویتّبعون غیر سبیل قوم أدرکوا صحبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 665

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 665

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/665/mode/1up


وکلّ واحدٍ منہم استفاض من النبیّ وتعلّمَ، وانعقد إجماعہم علٰی موت عیسٰی، وہو الإجماع الأوّل بعد رسول اللّٰہ ویعلمہ العالمون۔ أنسیتم قول اللّٰہ:333 ۱؂ أو أنتم للکفر متعمّدون؟ وقد مات علٰی ہٰذا الإجماع من کان من الصّحابۃ، ثم صرتم شیعًا، وہبّتْ فیکم ریح التفرقۃ، وما أوتیتم سلطانًا علی حیاتہ، وإن أنتم إلَّا تظنّون۔ وقد قال اللّٰہ حکایۃً عن عیسٰی:3

فلا تفکّرون فی قول اللّٰہ ولا تتوجّہون۔3۲؂ أو تقولون ما لا تعلمون؟

ثم اعلموا أنّ حقّ اللفظ الموضوع لمعنی أن یوجد المعنی الموضوع لہ فی جُمْعِ أفرادہ من غیر تخصیص وتعیین، ولٰکنّکم تخصّصون عیسٰی فی المعنی الموضوع للتوفّی عندکم، وتقولون لا شریک لہ فی ذالک المعنی فی العالمین، کأنّ ہٰذا المعنی تولّد عند تولّد ابن مریم، وما کان وجودہ قبلہ ولا یکون بعدہ إلی یوم الدین! وہَبْ، یا فتٰی، أن عیسٰی لم یتولّدْ ولم یُرزَق الوجود من الحضرۃ، فبقی ہٰذا اللفظ کعاطلٍ محرومۃ من الحلیۃ۔ فتفکّرْ ولا تُرِنا الأنیاب، واتّق اللّٰہ التوّاب۔ أ تزعم أنّ ہٰذا المعنٰی بساطٌ ما وطّأہ إلَّا ابن مریم، أو سِماطٌ ما أَمَّہم إلَّا ہٰذا الملک المکرّم؟ ولو فرضْنا أنّ معنی التوفّی فی آیۃ: 3 لیس إلَّا الرفع مع الجسم العنصریّ إلی السماء ، ثم مع فرض ہٰذا المعنی یکذّب ہٰذہ الآیۃ نزول عیسٰی إلی الغبْراء ، ولا یحصل مقصود الأعداء ، بل یبقی أمر عدم النزول علی حالہ کما لا یخفی علی العقلاء ۔ فإن عیسٰی یجیب بہٰذا الجواب یوم الحساب یعنی یقول: 3 فی یوم یبعث الخلق ویحضرون، کما تقرؤون فی القرآن أیہا العاقلون۔ وخلاصۃ جوابہ أنّہ یقول إنی تر!کتُ أمّتی علی التو!حید والإیمان باللّٰہ الغیور، ثم فارقتہم إلٰی یوم القیامۃ وما رجعتُ إلی الدنیا إلی یوم البعث والنشور، فلذالک لا أعلم ما صنعوا بعدی من



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 666

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 666

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/666/mode/1up


الشرک والفجور، ولستُ من الملومین۔ فلو کان رجوعہ إلی الدنیا أمرًا حقًّا قبل یوم القیامۃ فیلزم منہ أنہ یکذب کذبًا شنیعًا عند سؤال حضرۃ العزّۃ۔ وہٰذا باطلٌ بالبداہۃ۔ فالنزول باطلٌ من غیر الشکّ والشبہۃ۔ فاستیقظوا یا فتیان! أین أنتم من تعلیم القرآن؟ بل مات عیسٰی کما ما!تت إخوانہ من النبیّین، ولحق بہم کما تقرؤون فی أخبار خیر المرسلین۔ أقرأتم فی حدیث سیّد الکائنات أنّہ فی السماء فی حجرۃ عَلٰی حِدَۃٍ من الأموات؟ کلَّا بل ہو میّت، ولا یعود إلی الدنیا إلی یوم یبعثون۔ ومن قال متعمّدا خلاف ذالک فہو من الذین ہم بالقرآن یکفرون۔ إلَّا الذین خلوا مِن قَبْلی فہم عند ربّہم معذورون۔ ویشہد القرآن أنہ یقول یوم القیامۃ إنّی ما کنت مطّلعًا علی ارتداد الأمّۃ، ولا أعلم أنہم اتّخذونی إلٰہًا من دون ربّ البریّۃ، وکذالک یبرّء نفسہ من علم فساد النصاری ووقوعہم فی الضلالۃ۔ فلو کان نازلًا قبل القیامۃ لکان من شأنہ أن یصدق بحضرۃ اللّٰہ کما ہو طریق البررۃ، بل ہو من حُلل الرسالۃ والإمامۃ۔ فکیف یُظَنّ أنہ یختار الکذب ویرتکب جُرْم إخفاء الشہادۃ، ویقول: یا ربّ، ما عُدتُ إلی الدنیا، ولیس لی علم بأحوال أُمّتی، ولا أعلم ما صنعوا بعدی۔ فإنّ ہٰذا کذب شنیع تقشعرّ منہ الجلدۃ، وتأخذ منہ الرعدۃ*۔ ولو فرضنا أنہ یقول کمثل ہذہ الأقوال، ویُخفی متعمّدًا زمن عودہ إلی الدنیا عند سؤال اللّٰہ ذی الجلال

* روی الإمام البخاری عن المغیرۃ بن النعمان قال، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنہ یجاء برجالٍ من أمّتی (یعنی یوم القیامۃ)، فیؤخذ بہم ذات الشمال، فأقول:

یا ربّ أصیحابی، فیقال: إنک لا تدری ما أحدثوا بعدک۔ فأقول کما قال العبد الصالح (یعنی عیسٰی) 33333 وکذالک روی البخاریّ فی معنی التوفّی عن ابن عباس قال: متوفّیک: ممیتک۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 667

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 667

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/667/mode/1up


ویُخفی حقیقۃ اطّلاعہ علی کفر أُمّتہ وإصرارہم علی طریق الضلال، فلا شکّ أن اللّٰہ یقول لہ: یاعیسٰی، ما لک لا تخاف عزّتی وجلالی، وتکذب أمام وجہی عند سؤالی؟ ألستَ ذہبت إلی الدنیا عند رجْعتک، وأعثرت علی شرک أمّتک؟ ألم تر الذین اتّخذوک إلہًا انتشروا فی جمیع البلاد، ونسلوا من کلّ حدب کالجیاد، وأنت حاربْتہم وکسرت صلیبہم بجہدک وطاقتک، ثم تنکر الآن من نزولک، فأعجبنی کذبک وفریتک۔

فخلاصۃ الکلام أنّ قولکم برفع عیسٰی باطل، ومضرّ للدّین کأنہ قاتل۔ وتقولون: لفظ الرفع فی القرآن موجود۔ نعم، موجود، ولٰکن معناہ مِن

لفظ 3 مشہود، بل جمیع کَلِمِ الآیۃ علی الرفع الروحانی شہود۔ أتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض؟ أہٰذا إسلامکم أو کفر وعنود؟

أو تریدون أن تحرّفوا کتاب اللّٰہ کما حرّف الیہود؟ ألا ترون أن لفظ 3 مقدَّم علٰی لفظ الرفع وفی القرآن موجود؟ فما لکم تترکون رعایۃ الترتیب، وتختارون ما یضرّکم، وتعرضون عمّا ینفعکم، وتجاوزون الحدود؟ ألم یَنْہَکم اللّٰہ أن تحرّفوا معنی القرآن، ولا تتّبعوا سبل الشیطان؟ وواللّٰہ،

ثم واللّٰہ، ما صرفکم عن الحقّ إلَّا التعصّب والعناد، وحسبتم الفساد الکبیر کأنّ فیہ رفْع الفساد۔ وتقولون لی: أنت کَفّرت أہل القبلۃ، وخالفت قول خیرالبریّۃ۔ یا سبحان اللّٰہ! کیف نسیتم فتاواکم بہذہ العجلۃ؟ وما ابتدرنا بالتکفیر وما بدأْنا بالتحقیر۔ أما أشعتم کُفْرنا فی ہذہ الدیار وفی الآفاق

وفی السِّکَکِ والأسواق؟ أنسیتم قرطاس الإفتاء ، وما قلتم وما تقولون

بترک الحیاء ؟ وجاہدتم کُلّ الجہد لتنقضوا ما عقدْنا، ولتبطلوا ما أردْنا، وکذالک مکرتم کلّ المکر إلٰی عشرین حِجّۃً بل أزید من ذالک عِدّۃ، وأثرتم من کلّ نوعٍ فتنۃً، وقُلتم کلّ ما أردتم فی شأنی من السبّ والشتم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 668

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 668

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/668/mode/1up


ثم أشعتموہ فی الأغیار والأحباب، کَاَنَّکم مبرَّؤون من المؤاخذۃ والحساب۔ ولٰکن اللّٰہ أتمّ نورًا أردتم إطفاء ہ، وملأ بحرًا تمنّیتم أن تغیض ماؤہ، ودعوتم لنا أرضًا جدبۃ، فآوانا اللّٰہ إلی ربوۃ*، ووادٍ خضرٍ وروضۃ، ورزقنا نعماءً ا وآلاءًا وبر!کاتٍ ما رأیتموہا ولا آباؤکم۔ أہٰذا جزاء الفریۃ؟ أأعثرتم علی مثلہ فی زمان من الأزمنۃ؟

فاعلموا، رحمکم اللّٰہ، أن صدق دعوای وموت عیسٰی ما کان أمرًا متعسّرَ المعرفۃ، ولکن طوّعَتْ لکم أنفسکم تکذیب إمامکم، فزاغت قلوبکم، وما فکّرتم حقّ الفکرۃ۔ وقد جئتکم بالآیات والشواہد والبیّنات، وقد فتح اللّٰہ علیّ أمرًا أخفاہ علیکم فی ابن مریم، وذالک فضلہ أنہ فہّمنی أمرًا ما أعثرکم علیہ وما فہّم۔ أم حسبتم أن أصحاب الکہف والرقیم کانوا من آیاتنا عجبًا۔228 إن اللّٰہ أخفانا من أعینکم إلی قرون، وأَسْبَلَ علیہا حجبا، فکنتم تنتظرون نزول المسیح من السماء ، وصرف اللّٰہ أفکار!کم عن الحقیقۃ الغرّاء ، لیظہر علیکم عجز!کم فی أسرار حضرۃ الکبریاء ۔ ذالک من سنن اللّٰہ لیعلّمکم أدبًا عند إظہار الآراء ۔ فما تشابہ الأمر علیکم إلَّا من فتنۃ أراد اللّٰہ لیبتلیکم بہا، فأظہرہا بعد ہٰذا الإخفاء ۔



* قد قال اللّٰہ عزّوجلّ فی القرآن: 333333 ۱؂ ولمّا جعلنی اللّٰہ مثیل عیسٰی جعل لی السلطنۃ البرطانیۃ ربوۃَ أمنٍ وراحۃٍ ومستقرًّا حسنًا۔ فالحمد للّٰہ مأوی المظلومین۔ ولِلّٰہ الحِکَم والمصالح، ما کان لأحدٍ أن یؤذی من عصمہ اللّٰہ، واللّٰہ خیر العاصمین۔ منہ

228 ہذا ما أوحیٰ إلیّ ربی بوحی القرآن، وکذالک أخفانی ربی کما أخفی أصحاب الکہف، وإن ذالک من سنن اللّٰہ أنہ یخفی بعض أسرارہ من أعین الناس لیعلموا أن علمہم قاصر، ولیبتلی اللّٰہ عبادہ، ولیری المؤمنین منہم والمجرمین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 669

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 669

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/669/mode/1up


وأیّ ذنب أکبر من ذالک أن اللّٰہ یخبر فی القرآن بموت عیسٰی ویخبر بأن عیسٰی یقرّ یوم القیامۃ بموتہ قبل کُفْر أمّتہ وعدم علْمہ بہ کما مضٰی، والنبیّ یقول إنی رأیتہ لیلۃ المعراج فی الموتٰی عند یحیٰی، ثم أنتم ترفعونہ مع الجسم إلی السّماء ؟ فما رأینا أعجب من ہٰذا۔ فما لکم لا تفقہون حدیثا؟ وإنّ قولی قولٌ فیصل، فلن تجدوا عنہ محیصا۔ تصرّون علی حیاتہ، ولا تؤتون علیہ دلیلا، 3 ۱ ؂؟

ولیس جوابکم من أن تقولوا إنّ آباء نا کانوا علی ہٰذا الاعتقاد، وإن کان آباؤکم عدلوا عن طریق السداد۔ وأیّ شیءٍ خیالاتُ أُناسٍ ظہروا بعد الصحابۃ بل بعد القرون الثلا ثۃ ؟ وما کان حقّہم أن یُؤَوّلوا أنباء اللّٰہ قبل وقوعہا، بل کان من حسن الأدب أن یفوّضوا إلی اللّٰہ مجاری ینبوعہا، وکذالک کانت سیرۃ کبراء الأمّۃ۔ إنّہم کانوا لا یصرّون علٰی معنی عند بیان الأنباء الغیبیّۃ، بل کانوا یؤمنون بہا ویفوّضون تفاصیلہا إلٰی عالم الحقیقۃ۔ وہٰذا ہو المذہب الأحوط عند أہل التقوی وأہل الفطنۃ۔ ثم خلَف مِن بعدہم خلفٌ جاوزوا حدّ علمہم وحدّ المعرفۃ، ونسوا ما قیل: 3 ۲؂ وطفَروا فی کلّ موطن طَفْرَ البقّۃ، وأصرّوا علی أمرٍ ما أحاطوہ حقّ الإحاطۃ۔ یا حسراتٍ علیہم وعلٰی جرأتہم ! قد أصابت الملّۃ منہم صدمۃٌ ہی أُخت صدمۃ النصرانیۃ، وما ہم إلَّا کجدْب لسنوات الملّۃ۔ یرفعون عیسٰی مع جسمہ إلی السماء ، ولا یتدبّرون قولہ تعالٰی:3 * بل یزیدون فی البغض والشحناء ۔یا فتیان أین أنتم

* أعنی آیۃ: 3۳؂ فلا شک أن ہذہ الآیۃ دلیل واضحٌ علی امتناع صعود بشرٍ إلی السماء مع جسمہ العنصریّ، ولا ینکرہ إلا الجاہلون۔ وفی قولہ تعالٰی 3 إشارۃ إلی آیۃ:3۴؂ فإن رفع بشرٍ إلی السماء أمرٌ ینقض ہذا العہد، فسبحانہ وتعالٰی عمّا ینقض عہدہ، ففکّروا أیہا العاقلون۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 670

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 670

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/670/mode/1up


من تلک الآیات، ولِمَ تتّبعون ما تشابہ من القول وتترکون البیّنات المحکمات؟ ألا تعلمون أنّ الکفّار طلبوا فی ہٰذہ الآیۃ معجزۃ الصعود إلی السماء ، من نبیّنا خیر الأنبیاء وزُبدۃ الأصفیاء ، فأجابہم اللّٰہ أنّ رفع بشرٍ مع جسمہ لیس من عادتہ، بل ہو خلاف مواعیدہ وسنّتہ۔ ولو فُرض أن عیسٰی رُفع مع جسمہ إلی السّماء الثانیۃ، فما معنی ہٰذا المنع فی ہٰذہ الآیۃ؟ ألم یکن عیسٰی بشرًا عند حضرۃ العزّۃ؟ ثم أیّ حاجۃ اشتدّت لرفعہ إلی السَّماوات العُلٰی؟ أأَرْہَقَتْہ الأرض بضیقہا، أو ما بقی مفرّ من أیدی الیہود فیہا، فرُفع إلی السّماء لیُخفٰی؟

أیُّہا النّاس۔۔ لا تجاوزوا حدود النہج القویم، وزِنوا بالقسطاس المستقیم۔ وواللّٰہ، إنّ موت عیسٰی خیر للإسلام من حیاتہ، وکلّ فتح الدّین فی مماتہ۔ أتستبدلون الذی ہو شرّ بالذی ہو خیر، ولا تُفرّقون بین النفع والضَّیر؟ وواللّٰہ، لن یجتمع حیاۃ ہٰذا الدین وحیاۃ ابن مریم، وقد رأیتم ما عَمَّرَ حیاتُہ إلٰی ہٰذا الوقت وما ہدّم، وترون کیف نصَر النصاریٰ حیاتُہ وقدّم، وجرّح الدّینَ الأقوم۔ ولما ثبت ضیرہ فیما بین یدینا، فکیف یُتوقّع خیرہ فیما خَلْفَنا؟ وإذا جرّبنا إلٰی طول الزمان مضرّات حیاتہ، فأیّ خیر یرجٰی من ہٰذہ العقیدۃ بعد ذالک مع ثبوت معرّاتہ؟ والعاقل لا یعرض عن مجرّباتہ۔ وإن اللّٰہ یوافی دروب الحکمۃ، ویر!حم عبادہ ویعصمہم من أبواب الضلالۃ۔ ولا شکّ أنّ حیاۃ عیسٰی وعقیدۃ نزولہ باب من أبواب الإضلال، ولا یتوقّع منہ إلَّا أنواع الوبال۔ ولِلّٰہ فی أفعالہ حِکَم لا تعرفونہا، ومصالح لا تمسّونہا۔ ففکّروا، رحمکم اللّٰہ۔۔ إن عقیدۃ حیاۃ عیسٰی کما تصرّون علیہ إلٰی ہٰذا الآن، ثم عقیدۃ نزولہ فی آخر الزمان، أمرٌ ما أفادکم مثقال ذرّۃ، وما أیّد دیننا الذی ہو خیر الأدیان، بل أیّد دین النصاریٰ وأدخل أفواجا من المسلمین فی أہل الصّلبان۔ فلا أدری أیّ حاجۃ أحسستم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 671

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 671

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/671/mode/1up


لنزولہ یا معشر المسلمین؟ وإن حیاتہ یضرّکم ولا ینفعکم۔ أما رأیتم ضررًا فیما مضی من السنین؟ أنفعتْکم ہٰذہ العقیدۃ فیما مرّ من الزمان؟ بل ما زادتْکم غیر تتبیب وارتداد الرجال والنسوان۔ فأیّ خیر یُرجٰی منہ بعدہ یا فتیان؟ ورأیتم المتنصّرین ما جُذبوا إلی القسیسین إلَّا بہٰذہ الحبال، وہٰذا ہو اللِّصّ الذی ألقاہم فی بئر الضلال۔ وکانوا ذراری ہذہ الملّۃ، ثم صاروا کالحَیَوات أو کسباع الأجمۃ۔ وعادَوا الإسلام وسبّوہ بأنْکرِ أصواتِ نہیقٍ، وترکوا أقاربہم ووالدیہم فی زفیرٍ وشہیق، ووقفوا نفوسہم علی سبّ خیر البریّۃ وتوہینِ کتابٍ ہو أکمل من الکتب السّابقۃ، وقالوا: قریضٌ، وأیّ رجل منہ مستفیض؟ واتّخذوا دیننا سُخرۃ، ولا یذکرونہ إلَّا طعنۃ۔ وقالوا إنْ مِتُّم علٰی ہٰذا الدین دخلتم النار بالیقین۔ فاعلمْ، وفّقک اللّٰہ للصواب، وجنّبک طرق العتاب، أنّ ہٰذہ الفتنۃ التی حسبتموہا ہیّنًا ہی عند اللّٰہ عظیم، وقد أہلکت أفواجًا منکم وأدخلتہا فی نار الجحیم، ولذالک ذکرہا اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی فی مواضع من کتابہ الکریم، ونسب إلیہا تفطُّرَ السّماء وخرَّ الجبالِ وظہور آثار الغضب العظیم۔ فواللّٰہ، إنّی أعجب کلّ العجب من أنّ المسلمین نصروا النصاریٰ بقول یخالف قول حضرۃ الکبریاء، وقالوا إنّ عیسٰی رُفع مع جسمہ العنصریّ إلی السماء ، ثم ینزل فی زمانٍ إلی الغبراء ۔ وہٰذا ہو الدلیل الأعظم عند النصاریٰ علی اتّخاذہ إِلٰہًا،

وبہ یُضلّون کثیرًا من الجُہلاء ۔ والحَقُّ أنہ مات ولحق الأموات، وعلٰی ذالک دلایل کثیرۃ من الکتاب والسنّۃ، وقد ذکر القرآن موتہ فی المقامات المتعدّدۃ، ورآہ نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الموتٰی لیلۃ المعراج عند یحیٰی فی السماء الثانیۃ۔ وأیّ شہادۃ أکبر وأعظم من ہذہ الشہادۃ؟ ثم مع ذالک یصول الجہلاء علیّ عند سماع ہٰذہ الکلمۃ، ویقولون: لو کان السیف لقتلْناک۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 672

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 672

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/672/mode/1up


وإنّ سیف اللّٰہ أَحَدُّ من سیوف ہٰذہ الفرقۃ۔ ألم یر بعضہم ضرْب سیفہ عند المباہلۃ؟ وقد تکرّر فی القرآن ذکر موت عیسٰی، وذکر إیواۂٖ إلٰی ربوۃٍ ذات قرار ومعین۔ وثبت بدلایل أُخریٰ أنہا أرض کاشمیر بالیقین۔ ووُجد فیہا قبر عیسٰی، ووُجد ہٰذہ القصّۃ فی کتب قدیمۃ لا بُدّ من قبولہا، وحصحص الحقّ، فالحمد للّٰہ ربّ العالمین۔ وشہد سکّان ہٰذہ الأرض أنہ قبر نبیّ کان من بنی إسرائیل، وکان ہاجر إلٰی ہٰذہ الأرض بعد إیذاء قومہ، ومرّ علیہ قریب من الألفین بالتخمین۔ فملخّص الکلام أنّ موت عیسٰی ثابت بالبرہان، ولا ینکرہ إلَّا من أنکر نصوص الحدیث والقرآن۔ ولو شاء اللّٰہ لفہّم من أنکرہ، ولٰکنّہ یضلّ من یشاء ، ویہدی من یشاء ، وإلیہ یرجعون۔ وإنْ یتّبعون إلَّا ظنًّا، وما نریٰ فی أیدیہم حُجّۃ بہا یتمسّکون۔ والتمسّک بالأقوال الظنیۃ تجاہ النصوص التی ہی قطعیّۃ الدلالۃ خیانۃ وخروج من طریق التقویٰ۔ فویلٌ للّذین لاینتہون۔ سیقول الذین لا یتدبّرون إنّ عیسٰی علم للساعۃ ، 333 ۱؂ ذالک قول سمعوا من الآباء ، وما تدبّروہ کالعقلاء ۔ ما لہم لا یعلمون أن المراد من العلم تولّدہ من غیر أبٍ علی طریق المعجزۃ، کما تقدّم ذکرہ فی الصحف السابقۃ، ولا ینکرہ أحد من أہل العلم والفطنۃ۔ وأما إیمان أہل الکتاب کلّہم بعیسٰی کما ظنّوا فی معنی الآیۃ المذکورۃ، فأنت تعلم حقیقۃ إیمانہم، لا حاجۃ إلی التذکرۃ۔ وتعلم أنّ

أفواجًا من الیہود قد ماتوا ولم یؤمنوا بہ، فلا تُحرِّف کلام اللّٰہ

لعقیدۃ ہی باطلۃ بالبداہۃ۔ وقد قال اللّٰہ تعالٰی 3333 ۲؂ فکیف العداوۃ بعد الإیمان بعیسٰی؟ أ لم یبق



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 673

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 673

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/673/mode/1up


فی رأسکم ذرّۃ من الفطنۃ؟ ألیس فی ہٰذہ الآیۃ ردٌّ علی من زعم أن جمیع فرق الیہود یؤمنون بعیسٰی؟ فما لکم تخالفون النصّ الذی ہو أظہر وأجلٰی؟ فأیّ آیۃ بقیتْ فی أیدیکم بہا تتمسّکون؟ فأعجبنی حالکم! بأیّ دلیل تخاصمون؟ وإن اللّٰہ ذکر موت عیسٰی غیر مرّۃ فی القرآن، فما لکم لا تتذکّرون؟ ویستحیل التناقض فی کلام اللّٰہ ربّ العالمین۔ ما لکم إنکم تعاندون المعقول، وتکذّبون المنقول، ونَعرض علیکم کلام اللّٰہ ثم تمرّون معرضین۔ وتعلمون أنّ نزول المسیح الموعود بدون تخصیصٍ أمرٌ نؤمن بہ وتؤمنون بہ من غیر خلاف۔ فأصل النزاع بیننا وبینکم فی نزول ابن مریم من السّماء ، فقضی اللّٰہ ہٰذا النزاع بإخبار موتہ فی صُحفہ الغرّاء ۔ فمن یُرِدِ اللّٰہ أن یہدیہ یشرَحْ صدرہ لبیان القرآن۔ وأیّ کتابٍ عندنا أو عندکم یُتمسّک بہ بعد الفرقان؟ یا حسراتٍ علیکم۔۔ لا تحضرون للمناظرۃ ولا تجیؤن للمباہلۃ، ومِن بعید تطعنون۔ وعندنا دلائل کثیرۃ من کتاب اللّٰہ وسنّۃ رسولہ فکیف نَعرض علی الذین یُعرضون؟ ألا یعلمون أن المبتدعین والکافرین لا یؤیَّدون من اللّٰہ ولا ہم یُنصرون؟ ولا قبول لہم عند اللّٰہ، ولا ہُم کالأبرار یؤثَرون؟ وأیّ ذنب ینسبون إلیّ من غیر أنی نعیت إلیہم بموت عیسٰی، وقد ماتتْ من قبلہ النبیّون۔ أیُعرضون عن الإجماع المستند إلی النصّ الجَلِیّ، أم ہم الحاکمون؟ واللّٰہ، إن عیسٰی مات، وإنہم یعاندون الحقّ الصریح، ویقولون ما یخالف القرآن وما یخافون۔ وأیّ إشکال یأخذہم فی موت عیسٰی، بل ہم قوم مسرفون۔ یخصّصونہ بصفۃ لا توجد فی أحدٍ من النّاس، ویؤیّدون النصاری وہم یعلمون۔ وکیف تقبل غیرۃُ اللّٰہ أن یُخصَّص أحد بصفۃ لا شریک لہ فیہا من بدء الدنیا إلٰی آخرہا، وأیّ عقیدۃ أقرب إلی الکفر منہا، لو کانوا یتدبّرون۔ فإن التخصیص



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 674

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 674

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/674/mode/1up


أساس الشرک، وأیّ ذنب أکبر من الشرک أیّہا الجاہلون؟ وإذ قالت النصاری إن عیسٰی ابن اللّٰہ بما تولّد من غیر أبٍ، وکانوا بہ یتمسّکون، فأجابہم اللّٰہ بقولہ: 333۱؂ ولکنا لا نریٰ جوابَ خصوصیۃِ رفعِ عیسٰی ونزولہ فی القرآن، مع أنہ أکبر الدلایل علٰی ألوہیّۃ عیسٰی عند أہل الصُّلبان۔ فلوکان أمر صعود عیسٰی وہبو!طہ صحیحًا فی علم ربّنا الرحمٰن، لکان من الواجب أن یذکر اللّٰہ مثیل عیسٰی فی ہٰذہ الصفۃ فی الفرقان، کما ذکر آدم لیبطل بہ حُجّۃ أہل الصلبان۔ فلا شک أن فی ترک الجواب إشعار بأن ہٰذہ القصّۃ باطلۃ لا أصل لہا ولیس إلَّا کالہذیان۔ أتعلمون أیّ مصلحۃ منعت اللّٰہ من ہٰذا الجواب؟ وقد کان حقًّا علی اللّٰہ أن یجیب ویجیح زعم النصاریٰ بالاستیعاب۔ وإن علماء النصاریٰ قوم یزیدون کلّ یوم فی غلوّہم، ولا یلتفتون إلی الحقّ من تکبّرہم وعلوّہم۔ وإنّی أتممت علیہم حجّۃ اللّٰہ لتأیید الإسلام، وألّفت فیہا کُتبًا وأشعتہا إلٰی دیار بعیدۃٍ لنفع الأنام۔ فلمّا جرّ الجدال فینا ذیلہ، وما رأیت أحدًا أن یُظہر إلی الإسلام میلہ، فہمت أن الأمر محتاج إلٰی نصرۃ اللّٰہ المنّان، ولست بشیءٍ حتّی یدر!کنی رحمۃ الرحمٰن۔ فخررت علی الحضرۃ سائلًا للنصرۃ، وما کنت إلَّا کالمیّت۔ فأحیانی ربّی بالکلمتین، ونَوّر العینین، وقال:

یا أحمدُ بارک اللّٰہ فیک۔ الرّحمٰن علّم القرآن۔ لتنذر قومًا ما أُنذرَ آباؤہم، ولتستبین سبیل المجرمین۔ قُلْ إنّی أُمرت وأنا أوّل المؤمنین۔* وبشّرنی

* إن الأعداء من أہل القبلۃ یسمّوننی أوّل الکافرین، فسبق القول من اللّٰہ لردّہم فی کتابی ’’البراہین‘‘ وقال: قُلْ إنی أُمرتُ وأنا أوّل المؤمنین۔ وقالوا لا یُدفن ہذا الرجل فی مقابر المسلمین، فسبق القول من الرسول لردّہم، وقال إن المسیح الموعود یُدفن فی قبری، وإنہ یُبعث



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 675

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 675

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/675/mode/1up


بأنّ الدّین یُعلٰی ویشاع، ومثلک دُرٌّ لا یضاع۔ وکان ہٰذا أوّل ما أُوحِیَ إلٰی ہٰذا الحقیر، من اللّٰہ القدیر النصیر۔ وبشّرنی ربّی بأنہ یُظہر لی آیاتٍ باہراتٍ، وینصرنی بتأییداتٍ متواتراتٍ، لیحقّ الحقّ ویُبطل الباطل، بالحجج القاہرۃ، والمعجزات الباہرۃ۔ ثم بعد ذالک دعوتُ القسّیسین والنصاری والمتنصّرین وغیرہم من البراہمۃ والمشرکین، وقلت: جرِّبوا الحقّ بآیات اللّٰہ ونصرتہ، لیظہر من یُنصر من اللّٰہ ومن یکون محلّ لعنتہٖ۔ فما بارزوا لہٰذا النضال کالکُماۃ، واختفَوا فی الوُکنات۔ وواللّٰہ، لو بارزوا لما رمٰی ربّی إلَّا صایبًا، وما رجع أحد منہم إلَّا خاسرًا وخایبًا۔وواللّٰہ، إن فتّشتَ لرأیت الإسلام کَنْزَ الآیات ومدینتہا، وتجد فیہ نورًا یہب لکلّ نفس سکینتہا۔ فیا حسرۃ علی قوم یکفرون بدفائنہ، ولا یتوجّہون إلٰی خزائنہ، ویحسبون الإسلام کالعظام الرمیمۃ، لا مملوًّا من النعم العظیمۃ۔ أولئک قوم لا یؤمنون بأن یکلّم اللّٰہ أحدًا بعد


معی یوم الدین۔ وما کان ہٰذا إلَّا جواب المکفّرین الذین یحسبوننی من أہل جہنم، وإن کنتَ فی شکّ فاسأل المفتین۔ ومن عجائب عالم البرزخ أنّ بعض الناس بعد موتہم یقرَّبون إلٰی روضۃ النبیّ الّتی تحتہا الجنّۃ، وبعضہم یُبعَدون منہا، فأخبر لی رسُولی أنی من المقرّبین۔ وہذا ردّ علٰی من قال إنہ من جہنّمیین۔ وہٰذا الدفن الذی یکمّلہ اللّٰہ علی الطریقۃ الروحانیۃ أمرٌ یوجد فی کتاب اللّٰہ وقول رسولہ أثرہ، واتفق علیہ طائفۃ قوم روحانیین۔ وکذالک قالوا إنّ جماعۃ ہٰذا الرجل قوم کافرون لا من المؤمنین، فلا تدفنوا موتاہم فی مقابر المسلمین، فإنّہم شرّ الکافرین۔ فأوحی إلیّ ربّی وأشار إلی أرض وقال إنہا أرض تحتہا الجنّۃ، فمن دُفن فیہا دخل الجنۃ، وإنہ من الآمنین۔ فلولا أقوال الأعداء ما کان وجود ہذہ الآلاء ۔ فہیّج غضبہم رحمۃ اللّٰہ، فالحمد للّٰہ ربّ العالمین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 676

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 676

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/676/mode/1up


سیّدنا المصطفٰی، ویقولون قد خُتم علی المکالمۃ بعد خیر الوریٰ۔ فکأنّ اللّٰہ فقد فی ہٰذا الزمن صفۃ الکلام، وبقی صفۃ السّمع فقط! ولعلّہ یفقد صفۃ السّمع أیضًا بعد ہٰذہ الأیّام۔ وإذا تعطّلتْ صفۃ التکلّم وصفۃ سماع الدعوات، فلا یُرْجٰی عافیۃ الباقیات، أعنی عند ذالک ارتفع الأمان من جمیع الصفات۔ فمن أنکر أبدیّۃ أحد من صفات حضرۃ العزّۃ فکأنما أنکر جمیعہا ومال إلی الدہریّۃ۔ فما تقولون فیہ یا أہل الفطنۃ: ہل ہو مسلِمٌ أو خرّ من منار الملّۃ؟

أ تظنّون أن الإسلام مرادٌ من قصصٍ معدودۃ، ولیست فیہ آیات مشہودۃ؟ أأعرض عنّا ربّنا بعد وفاۃ سیّدنا خیر البریّۃ؟ فأیُّ شیءٍ یدلّ علی صدق ہٰذہ الملّۃ ؟ أ نسی اللّٰہ وعد الإنعام الذی ذکرہ فی سورۃ الفاتحۃ۔۔ أعنی جعْل ہٰذہ الأمّۃ کأنبیاء الأمم السابقۃ؟ ألسنا بخیر الأمم فی القرآن؟ فأیُّ شیءٍ جَعَلَنا شرَّ الأمم علی خلاف الفرقان؟ أیجوّز العقل أن نجاہد حقّ الجہاد لمعرفۃ اللّٰہ ثم لا نوافی دروبہا، ونموت لنسیم الرحمۃ ثم لا نُرزَق ہبوبہا؟ أہٰذا حَدُّ کمال ہٰذہ الأُمّۃ، وقد وافت شمس عمر الدُّنیا غروبہا؟ فاعلموا أنّ ہٰذا الخیال کما ہو باطل عند الفطنۃ التامّۃ، کذالک ہو باطل نظرًا علی الصُّحف المقدّسۃ۔

وأیّ موتٍ ہو أکبر من موت الحجاب؟ وأیّ عمًی أشدّ أذًی من عدم

رؤیۃ وجہ اللّٰہ الوہاب؟ ولو کانت ہٰذہ الأُمّۃ کالأبکم والأصمّ، لمات العشّاق من ہٰذا الہمّ، الذین یُذیبون وجودہم لو!صال المحبوب، وما کانت مُنْیتہم فی الدنیا إلَّا وصول ہٰذا المطلوب، فمع ذالک کیف یتر!کہم حِبّہم فی لظی الاضطرار، وفی نار الانتظار؟ ولو کان کذالک لکان ہٰذا القوم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 677

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 677

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/677/mode/1up


أشقی الأقوام، لا تُسفر صباحہم، ولا تُسمع صیاحہم، ویموتون فی بکاء وأنین۔ کلا۔۔ بل اللّٰہ أرحم الراحمین۔ و إنّہ ما خلق جوعًا إلَّا خلق معہ طعامًا للجوعان، وما خلق غلیلًا إلَّا خلق معہ ماءً للعطشان، وکذالک جرت سنّتہ لطُلباء العرفان۔ وإنی عاینتہا فکیف أنکرہا بعد المعاینۃ، وجرّبتہا فکیف أشکّ فیہا بعد التجربۃ۔

ولا بدّ لنا أَنْ ندعو الناس إلٰی ما وجدناہ علی وجہ البصیرۃ۔ فوجب علٰی کلّ من یؤمن باللّٰہ الوحید، ولا یأنف من کلمۃ التوحید، أن لا یقنع بِالأَطْمار، ویطلب السابغات من حلل الدین، ویرغب فی تکمیل الدثار والشعار، ویقرع باب الکریم بکمال الصدق والاضطرار۔ وإنہ جوّاد لا یَسْأم من سؤال الناس، وإنّ خزائنہ خارجۃ من الحدّ والقیاس۔ فمن زاد سؤالًا زاد نوالًا۔ فمِن حُسن الإیمان أن لا ییأس العبد من عطاۂ، ولا یحسب بابہ مسدودًا علی أحبّاۂ۔ وإنّکم أیّہا الناس تحتاجون إلٰی نعم اللّٰہ وآلاۂ، فمن الشقوۃ أن تردّوا نعمہ بعد إعطاۂ۔ وأیّ جوعانٍ أشقٰی من جائع أشرف علی الموت، وإذا عُرض علیہ طعام لذیذ ورغیف لطیف ردّہ وما أخذہ وما نظر إلیہ، وہو فَلُّ الجوعِ وطریدہ، ومع ذالک لا یریدہ۔

فاعلموا أیہا الإخوان، رحمکم اللّٰہ الرحمٰن۔۔ إنی جئتکم بطعام من السّماء ، وقد حقّق اللّٰہ لکم آمالکم علٰی رأس ہٰذہ الماءۃ، وکنتم تطلبونہا بالدعاء ، ففتح علیکم أبواب الآلاء ، فہل أنتم تقبلون؟ وأعلم أنکم لن ترضوا عنی حتی أتّبع عقائدکم، وکیف أترک وحی ربی وأتّبع أہوائکم، وہو القاہر فوق عبادہ وإلیہ ترجعون۔

وإنّی أُعطیتُ آیاتٍ وبر!کات، وأنواع النصرۃ وتأییدات، وإن الکاذبین



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 678

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 678

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/678/mode/1up


لا یُفتح لہم ہٰذا الباب، ولو لم یبق منہم بالمجاہدۃ إلَّا الأعصاب۔ أتظنّون أن اللّٰہ یحبّ خوّانًا أثیمًا؟ وإنی جئتُ لنصرتکم من جنابہ، کأسد یطلع من غابہ، ویصول کاشرا عن أنیابہ، فأرُونی رجلا من القسیسین والملحدین والمشرکین، من یبارزنی فی ہٰذا المضمار، ویناضلنی بآیات اللّٰہ القہّار۔ وواللّٰہ إنّ کلّہم صیدی، وسدَّ اللّٰہ علیہم طریق الفرار، لا یؤویہم أجمۃ، ولا بحر من البحار، ونحن نفری الأرض مسارعین إلیہم ونبریہا بسرعۃ کالمنتہبین، وإنّا إن شاء اللّٰہ نصل إلیہم فاتحین فائزین۔*

وإنّہم ما کانوا لیغلبو!کم، ولکن ذہبتم إلی الفلاۃ من الحُماۃ، وإلی الموامی مِن حِمی الحامی، وأنفدتم زاد العلوم، وصرتم کالبائس المحروم، وجعلتم أنفسکم کشیخ مفنّد لا رأی لہ ولا عقل، أو کبہیمۃ لا تدری إلَّا البقل۔ لا تقبلون سلاحًا نزل من السّماء من حضرۃ الکبریاء ، أما أسلحۃ الدُّنیا فلیست بشیءٍ بمقابلۃ ہؤلاء الأعداء ۔ فالآن مَسکنکم فلاۃٌ عوراء ، ودَشْتٌ لیس ہنالک الماء ۔ وإنکم تتر!کون متعمّدین عیونا جاریۃً تروی العطشان، وتختارون موامی ولا تخافون الغیلان، وقد ذابت الہاجرۃ الأبدان۔ ما لکم لا تَأْوون إلٰی ہٰذا الظل الرحب الذی ینجیکم من الحرور، ویہدیکم إلٰی ماءٍ عذبٍ، ویبعدکم عن حُفر القبور؟ وإن أکبر الدلایل علٰی صدق من ادّعی الرسالۃ، ہو وجود زمانٍ کمَّل الضلالۃ۔ وإن کنتم فی شک من أمری فاصبروا حتّی یحکم اللّٰہ بیننا وہو خیر الحاکمین۔ ألم یکفِکم أنہ جعل لنا فرقانًا بعد ما باہل العدا، وقالوا إنّ لنا الغلبۃ من الحضرۃ، فأہلک اللّٰہ من ہلک عن البیّنۃ، ومکرتم ومکر اللّٰہ، واللّٰہ خیر الماکرین۔

وترون کیف تخیّم الأعداء حولکم، وکیف نزل علیکم البلاء ، وتذللتم لہم


* أوحی إلیّ ربّی وقال: أَستجیب فی ہٰذہ اللیلۃ کلّ ما دعوت، ومنہا قوّۃ الإسلام وشو!کتہ، وکان ۱۶ مارچ سنۃ ۱۹۰۷ء۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 679

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 679

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/679/mode/1up


من ضعف أنفسکم وجَذبَتْکم إلیہم الأہواء ، وقد نحتوا حیلًا حیّرت البصائر والأبصار، فما لکم لا ترون إعصارًا أجاحت الأشجار؟ إنہم قوم یریدون لکم ارتدادا وضلالًا، ولا یألونکم خبالًا۔ وقد غلبوا أہلَ الأرض وجعلوہم کالغلمان والإماء ، وکادوا أن یرموا سہامہم إلی السماء ۔ وواللّٰہ لا قِبل لکم بہم، وإنْ أنتم عندہم إلَّا کالہباء ۔ فقولوا أأَغْضَبُ علیکم أو لا أغضب؟ لم تنامون فی ہٰذا الأوان؟ أرضِیتم بالحیٰوۃ الدنیا من الآخرۃ، فاثّاقلتم إلی الأرض کالسکران؟ وأیّ شیءٍ أنامکم، وقد صرتم غرض الخُسران؟ وأیّ طاقۃٍ بقیتْ لکم یا فتیان؟ وواللّٰہ ما بقی إلَّا ربّنا المنّان۔ فلا أدری ما صنعتم وما تصنعون بالأسباب۔ وکیف ینصرکم عقلکم الذی لیس إلَّا کالذباب؟ وأیّ زینۃ تُظہرون بہٰذہ الثیاب؟ وَلمّا قُمتُ فیکم وقلتُ إنّی من اللّٰہ الکریم اشتعلتم غضبًا وسخطًا، وقلتم رجل افتری، وحسبتمونی کالشیطان الرجیم۔ وما نظرتم إلی الوقت۔۔ ہل الوقت یقتضی دجّالًا یُشیع الضلال، أو مصلحًا یحیی الدین، ویردّ إلیکم ما زال؟ وإنّی أشہد اللّٰہ علٰی ما فی قلبی، وواللّٰہ إنّی منہ، ولست فعلت أمرًا من تزویری، وقد ظلمتم إذ عمدتم إلٰی تکفیری وتحقیری، وما نظرتم إلٰی ما صُبَّ علی الإسلامِ فی ہٰذہ الأیام۔ فنبکی علیکم بدموعٍ جاریۃ، وعبرات متحدّرۃ، کما تضحکون علینا وتستہزؤُوْن۔ ما لکم لا تفکّرون فی أنفسکم ولا تنظرون فی ضعف الإسلام؟ أما شبعتم من الدجاجلۃ، وتتمنّون دجالًا آخر فی ہٰذا الوقت المخوفۃ وفی ہٰذہ الأیام المنذرۃ؟ وقد جئتکم علٰی رأس الماءۃ، وعند الضرورۃ الحقّۃ، وشہد علٰی صدقی الکسوف والخسوف والزلازل والطاعون۔ فأعجبنی أنکم ترون الآیات ثم لا تزول الظنون! أہٰذہ فراستکم أیّہا العالمون؟ بل حال بینکم وبین تقواکم کِبرٌ کنتم تخفونہ وتکتمون۔ وعمِیتْ عینکم فلا تری فتن الأعداء ، وتسمّوننی دجّالًا ولا تبصرون۔ وتفتون بأنی کافر بل أکفر مِن کلّ مَنْ کفر بالأنبیاء ، فمرحبًا بکم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 680

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 680

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/680/mode/1up


بہٰذا الإفتاء۔ والعجب کل العجب أن الذین یریدون أن یجیحوا الدّین من أہل الصلبان والمشرکین لیسوا عندکم دجّالین، وأنا دجّال بل أکبر المفسدین! فلا نشکو إلَّا إلی اللّٰہ ربّ العالمین۔ ولما صرْتُ عندکم کافرًا۔۔ کیف یُرْجی أن ینفعکم موعظۃ من الکفّار؟ ولٰکنّی أردت أن أذکر ما أُوذیت فی اللّٰہ فلذالک أفْضی بنا الکلام إلٰی ہٰذہ الأذکار۔

رحمکم اللّٰہ۔۔ ما لکم لا تترکون ظُلمًا وعدوانا، ولا تخافون علیمًا دیّانا؟ أیُّہا النّاس۔۔ جئنا من اللّٰہ علٰی میقاتہ، ونطقْنا بإنطاقہ، نبلّغ إلیکم الدعوۃ، وتنالنا عنکم اللعنۃ! فما أدری ما ہٰذہ الدناء ۃ؟ إنکم حاذیتم الیہود حتی صکّتِ النعال بالنعال، وتشابہت الأقوال بالأقوال۔ إنہم کانوا لِبُخْلہم یسمّون نبیّ اللّٰہ عیسٰی دجّالًا، وکذالک سُمّیت منکم بہٰذا الاسم، فضاہَیْتم بہم أفعالًا وأقوالًا۔ ولولا سیف الحکومۃ لأری منکم ما رأی عیسٰی من الکفرۃ۔ ولذالک نشکر ہٰذہ الحکومۃ لا بسبیل المداہنۃ، بل علٰی طریق شکر المنّۃ۔ وواللّٰہ إنّا رأَینا تحت ظلّہا أَمْنًا لا یرجیٰ من حکومۃ الإسلام فی ہٰذہ الأیام، ولذالک لا یجوز عندنا أن یُرفَع علیہم السیف بالجہاد، وحرام علٰی جمیع المسلمین أن یحاربوہم ویقوموا للبغاوۃ والفساد۔ ذالک بأنہم أحسنوا إلینا بأنواع الامتنان، وہل جزاء الإحسان إلَّا الإحسان؟ ولا شکّ أن حکومتہم لنا حمی الأمن، وبہا عُصِمْنا من جَوْر أہل الزمن۔ ومع ذالک لا نخفی أنّا نخالف القسیسین، بل إنّا لہم أوّل المخالفین۔ ذالک بأنہم یجعلون عبدًا ضعیفًا عاجزًا ربّ العالمین، وترکوا خالق السماوات والأرضین۔ واللّٰہ یعلم أنہم من الکاذبین المفترین، والدجّالین المُحرّفین۔ ونعلم أن الحکومۃ لیست معہم، ولا تُغریہم بہٰذا الأمر ولا من المعاونین، بل إنہم لیسوا بالنصاریٰ إلَّا بأفواہہم۔ نحتوا القوانین



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 681

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 681

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/681/mode/1up


من عند أنفسہم، وترکوا الإنجیل وراء ظہورہم، فکیف نقول إنّہم النصاریٰ، بل ہم قوم آخرون، وسلکوا مسالک أُخریٰ، ولا یدرسون الأناجیل، ولا یعملون بأحکامہا، ولا إلیہا یتوجّہون۔ ونجد فیہم عدلًا وإنصافًا عند الخصومات، وإنی جرَّبْتُ بعضہم فی بعض المخاصمات، ورأیتہم أنہم أقرب مودّۃً إلینا، ولا یریدون الظلم ولا یتعمّدون۔ وإن اللَّیل تحت ظلّہم خیر من نہارٍ رأینا تحت ظلّ المشرکین، فوجب علینا شکرہم وإن لم نشکر فإنّا مذنبون۔

فخلاصۃ الکلام۔۔ إنّا وجدنا ہٰذہ الحکومۃ من المحسنین، فأوجب کتاب اللّٰہ علینا أن نکون لہا من الشاکرین، فلذالک نشکرہم ولا نبغی لہم إلَّا خیرا۔ وندعو اللّٰہ أن یہدیہم إلی الإسلام، وینجّیہم من عبادۃ عبد ہو کمثلہم فی المصائب والآلام، ویفتح عیونہم لدینہ، ویُوَجّہہم إلٰی خیر الأدیان، ویحفظہم فی الدین والدُّنیا من الخُسران۔

ہٰذا دعاؤنا، وہل جزاء الإحسان إلَّا الإحسان؟ ولا یجازی الحسنۃ بالسیءۃ إلَّا الذی آثم قلبہ وصار کالشیاطین، فلا نرید طریق القاسطین۔ ولیس وجہ کلامنا فی ہٰذہ الرسالۃ إلَّا إلٰی علماء النصاریٰ والقِسِّیسین، الذین حسبوا سبّ الإسلام وتوہین سیّدنا خیر الأنام فَرْضَ مذہبہم، فقمنا لدفعہم وذبِّہم من اللّٰہ تعالٰی، وہو ناصر دینہ وہو خیر النّاصرین۔

وقد خاطبنی ربّی لنصرۃ دینہ بکلمۃ أجد فیہا وعدًا کبیرًا، وقال: بَشِّرْھم بأیّام اللّٰہ وذَکِّرْہم تذکیرا۔ فنعلم مطمئنین مستیقنین أن اللّٰہینصر دینہ ویعصمہ من الأعداء ، ویظہرہ علی الأدیان کلّہا من السماء ، ولٰکن لا بالحرب والجہاد، بل بآیات قاہرۃ، ویَدٍ تدق قِحْفَ الأعداء ۔ وکذالک وجدنا فی کتابہ، ثم کمثلہ أوحیٰ إلیّ ربّی، وہٰذا ملخص الإیحاء ۔ فلن یخلف اللّٰہ وعدہ، ویری الذین



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 682

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 682

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/682/mode/1up


ظلموا جزاء ہم أتمّ الجزاء ۔

وکذالک ظہرت الآثار فی ہٰذا الزمان، وتجلّی ربّنا لأہل الأرض بتجلٍّی قہریّ، فأری آیاتِ قہرہ فی جمیع البلدان۔ وکثیر من الناس أفناہم الطاعون، وکثیر منہم انتسفتْہم الزلازل وتلقّاہم المنون۔ والذین کانوا فی البار!حۃ ینومون فی القصور، الیوم تراہم میّتین فی القبور۔ أقفر!ت منہم مجالس، وعُطّلت مقاصر، وحَلّوا بدارٍ لا تتر!کہم أن یرجعوا إلٰی إخوانہم، أو ینزعوا دُوَرہم عن جیرانہم۔ وتری الناس لا یملکون الفرار من ہٰذا الوباء ، وما بقی لہم مفرّ تحت السماء ۔ ولا یُحمَل ہٰذا البلاء علی البَخْت والاتفاق، کما زعم أہل الشقاق، فالسعید ہو الذی عرف ہٰذہ الآیات، وولج شعب تلک الحرّات۔

فاعلموا، رحمکم اللّٰہ۔۔ أن ہٰذہ المصائب من الأقدار التی ما رأیتم قبل ہٰذا الزمان، ولا آباؤکم فی حین من الأحیان، وإنّما ہی آیات لرجل بُعث فیکم من اللّٰہ المنّان، لیجدّد اللّٰہ دینہ ویظہر براہینہ، ویُخَضِّر بساتینہ، ویثمّر أشجارہ من الثمرات الطیّبات، ولیجعل حطبہ کالغصون الناعمات۔ کذالک لیعرف الناس دین اللّٰہ القویم، ویمیلوا کل المیل إلٰی ربّہم الرّحیم، وینفروا

عن الدنیا نفورَ طبع الکریم۔ ولمّا أَسْفر صُبح الدین، وأری شعاع البراہین، غضَّ أکثرُہم أبصارہم لئلَّا یبصروا، وعافوا دعوۃ اللّٰہ وہم یعلمون۔

یا حسرۃ علیہم۔۔ من الخیر یفرّون، وعلی الضیر یتمایلون۔ قد حان أن

یُفتَح الباب، فمن القارع المنتاب؟ وقد جرت العین لمن کانت لہ العین۔

واللّٰہ غفور رحیم، لا یردّ من جاء بقلب سلیم، ومن زاد سؤالًا یزِدْہ نوالًا۔ والعجب أن القوم جمعوا خصاصۃً جسمانیۃً مع خصاصۃ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 683

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 683

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/683/mode/1up


روحانیۃٍ، ثم یحسبون أنّہم لیسوا بمحتاجین إلٰی مصلح من اللّٰہ الکریم! وسُدّ علیہم کلّ بابٍ ثم یظنّون أنّہم رُزِقوا من کلّ نوع النعیم! قد رضوا بأن یعیشوا کالأنعام، معرضین عن آلاء اللّٰہ والإنعام۔ فنتعجّب من قعود ہمّتہم، وخِسّۃ حالتہم، ونسأل اللّٰہ إصلاحہم، حتّٰی یُرزقوا فلاحہم، ووقَفْنا علی الدعاء لہم أکثرَ أوقاتنا ووقتَ الأسحار، والعینَ التی لا یملکہا غُمضٌ من ہٰذہ الأفکار۔ وواللّٰہ إنّی أخبرتہم بأیام الطاعون قبل ظہورہا، وما نطقتُ إلَّا بعد ما أنطقنی ربی وأعثرنی علٰی مستورہا۔ ثم بعد ذالک أخذہم الطاعون، ونزل بہم المنون۔ وکان ہٰذا الخبر فی وقت ما اہتدی إلیہ رأی الأطبّاء ، وما نطق بہ أحد من العقلاءِ، فوقع کما أخبر ربّی، وکان ہٰذا برہانًا عظیمًا من ربّ السماء ۔ ولٰکنّ النّاس ما سرّحوا الطرْف إلیہ، وما أفاض رجل ماء الدموع من عینیہ، وما بادروا إلی التوبۃ والأعمال الحسنۃ، بل زادوا فی المعاصی والسیءۃِ۔ وکذّبونی وکفّرونی، وقالوا دجّال لئیم، وما آنسنی فی و!حدتی إلَّا ربّی الرحیم۔ واجتمعوا علیّ سبًّا وشتمًا، ولزمونی ملازمۃ الغریم، وما عرفونی لبغضہم القدیم، فاختفینا من أعینہم کأصحاب الکہف والرقیم۔ وجحدوا بآیات اللّٰہ 333 ۱؂ فما أمکنہم الرجوع بعد ما أروا تشدّدًا وغُلُوًّا۔ وواللّٰہ إن الآیات قد نزلت کصیّب من السماوات۔ أشعلت المصابیح فما زالت ظلماتہم، وکثر الإنذار والتنبیہ فما قلّت سیّئاتہم۔ عکفوا علٰی حطبٍ، وأعرضوا عن أشجار باسقۃٍ، وأثمار یانعۃٍ، وأزہار منوّرۃ۔ وواللّٰہ لا أدری لِمَ أعرضوا عنّیمع ہٰذہ الآیات البیّنات، وقد أتمّ اللّٰہ حجّتہ علیہم وعلٰی کلّ من

کان فی الظلمات۔ ولمّا راعنی منہم ما یروع الوحیدَ، أدرکنی عون ربّی



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 684

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 684

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/684/mode/1up


وکلَّ یومٍ زِیْدَ۔ وما زلت أُنصر وأُؤَیَّد، حتّی تمّت الحجّۃ، وتواترت النصرۃ، وبلغت الآیات إلٰی حدّ لا أستطیع أن أُحْصیہا، ولکنی رأیت أن أکتب آیۃ منہا فی آخر ہٰذہ الرسالۃ، لعلّ اللّٰہ ینفع بہا أحدًا من الطبایع السعیدۃ، ویعلم الناس أن نصرۃ اللّٰہ قد أحاطت مشارق الأرض ومغاربہا، وشاعت تغلغلہا فی أخیار العباد وعقاربہا، حتی بلغت أشعّۃ ہٰذہ الآیات إلٰی بلاد أمریکۃ التی ہی أبعد البلاد۔

وکلّ ما أوحی اللّٰہ إلیّ من الآیات المنیرۃ، والبراہین الکبیرۃ، إنہا لیست لی بل لتصدیق الإسلام، وما أنا إلَّا أحد من الخدّام۔ وأعجبنی حال المنکرین۔۔ إنہم أصرّوا علی التکذیب حتی صاروا أوّل المعتدین! وکلٌّ جَہَدَ جہدَہ، وبذل ما عندہ لِیُطْفِئَ نورًا نزل من السّماء ، فزاد اللّٰہ نورہ، وما کان جہدہم إلَّا کالہباء ۔ ورأینا فتنتہم کالبحر إذا ماج، والسیل إذا ہاج، ولکن کان مآل الأمر فَتْحُنَا وہزیمتہم، وعزّتنا وذلّتہم۔ ولو کان ہٰذا الأمر من غیر اللّٰہ لمزّقونی کلّ ممزّق، ولمَحَوا نقشی من الأحیاء ، ولکن کانت ید اللّٰہ تحفظنی من شرّ الأعداء ، حتّٰی بلغت آیاتی إلٰی أقصی البلاد، فما کان ہٰذا إلَّا فعل رب العباد۔ والآن نکتب آیۃ ظہرت فی بلاد أمریکہ، وطلعتْ شمسنا من المشرق حتّٰی أرت بریقَہا أہلَ المغرب بصُوَرٍ أنیقۃٍ۔ فہٰذا فضل اللّٰہ ورحمتہ وعنایۃ اللّٰہ ومنّتہ وبُشریٰ لقومٍ یعرفونہ

وطوبٰی لعبادٍ یَقْبَلُونَہ۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 685

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 685

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/685/mode/1up


اعلموا، رحمکم اللّٰہ، أن من نموذج نصرتہ تعالٰی، ومن شہاداتہ علٰی صدقی، آیۃ أظہرہا اللّٰہ تعالٰی لتأییدی، بإہلاک رجل اسمہ ڈوئی۔ وتفصیل ہٰذہ الآیۃ الجلیلۃ، والمعجزۃ العظیمۃ، أنّ رجلًا مسمّی بڈوئی، کان فی أمریکہ من النصاری المتموّلین، والقسیسین المتکبّرین۔ وکان معہ زہاء ماءۃِ ألفٍ من المریدین، وکانوا یُطیعونہ کالعباد والإماء علٰی منہج الیسوعیّین۔ وکان کثیر الشہرۃ فی قومہ وغیر قومہ، حتی طَبّق الآفاق ذکرُہ، وسخّر فوجًا من النصاریٰ سِحْرُہ۔ وکان یدَّعی الرسالۃ والنبوّۃ، مع إقرار ألوہیّۃ ابن مریم، ویسبّ ویشتم رسولنا الأکرم، وکان

یدَّعی مقامات فائقۃ ومراتب عالیۃ، ویحسب نفسہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 686

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 686

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/686/mode/1up


من کلّ نفس أشرف وأعظم۔ وکان یزید یومًا فیومًا فی المالِ والشہرۃ والتابعین، وکان یعیش کالملوک بعد ما کان کالشحّاذین۔ فالناظر من المسلمین فی ترقّیاتہ، مع افتراۂ وتقوُّلہ، إن کان ضعیفًا۔۔ ضلّ وحارَ، وإن کان عَرِیفًا لم یأمَن العثارَ۔ وذالک أنہ کان عدوّ الإسلام، وکان یسبّ نبیَّنا خیرَ الأنام، ثمّ مع ذالک صعد فی الشہرۃ والتموّل إلٰی أعلی المقام، وکان یقول إنی سأقتل کلّ من کان من المسلمین، ولا أترک نفسًا من المو!حّدین المؤ!منین۔ وکان من الذین یقولون ما لا یفعلون، وعلا فی الأرض کفر!عون ونسی المنون۔ وکان یجعل النہارَ لنہب أموال الناس، واللیلَ للکاس، واجتمع إلیہ جہّال الیسوعیّین، وسفہاء المسیحیّین، فما زالوا یتعاطون أقداح الضلالۃ، ویصدّقون من جہلہم دعوی الرسالۃ۔ وکان ہو عَبْدَ الدنیا لا کَحُرٍّ، وکصدفٍ بلا دُرٍّ، ومع ذالک کان شیطانَ زمانہ، وقرینَ شیطانہ، ولکن اللّٰہ مہَّلہ إلٰی وقتٍ

دعوتُہ للمباہلۃ، ودعوتُ علیہ فیحضرۃ العزّۃ۔

وکنتُ أجد فیہ ریح الشیطان، ورأیت أنہ صریع الطاغوت وعدوّ عباد الرحمٰن، نجّس الأرض ونجّس أنفاس



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 687

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 687

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/687/mode/1up


أہلہا من أنواع خباثۃ الہذیان، وما رأیتُ کمثلہ عِمِّیتًا ولا عِفریتًا فی ہٰذا الزمان۔ کان مجنونَ التثلیث، وعدوَّ التوحید، ومصرًّا علی الدّین الخبیث، وکان ینظر مضرّاتِہ کحسنۃٍ، ومعرّاتِہ کأسباب راحۃٍ۔ واجتمع الجہّال علیہ من الأُمراء وأہل الثروۃ، ونصروہ بمالٍ لا یوجد إلَّا فی خزائن الملوک وأرباب السلطنۃ۔ وکان یساق إلیہ قناطیرُ الدولۃ، حتی قیل إنّہ ملک ویعیش کالملوک بالشأن والشو!کۃ۔ ولما بلغت دولتہ منتہاہا، تبع نفسَہ الأمّارۃ وما ز!کَّاہا۔ وادّعی الرسالۃ والنبوّۃ من إغواء الشیطان، وما تحامی عن الافتراء والکذب والبہتان۔ وظنّ أنہ أمرٌ لا یُسأل عنہ، ویُزجّی حیاتہ فی التنعّم والرفاہۃ، ویزید فی العظمۃ والنباہۃ، بل سلک معہ طریقَ الکبر والنخوۃ،

وما خاف عذاب حضرۃ العزّۃ۔ ولا شکّ أنّ المفتری یؤخذ فی مآل أمرہ ویُمنع من الصعود، وتفترسہ غیرۃ اللّٰہ کالأُسُود، ویری یوم الہلاک والدّمار الموعود فی کتاب اللّٰہ العزیز الودُود۔ إن الذین یفترون علی اللّٰہ ویتقوّلون، لا یعیشون إلَّا قلیلًا ثم یؤخذون، وتتبعہم لعنۃ اللّٰہ فی ہٰذہ وفی الآخرۃ،



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 688

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 688

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/688/mode/1up


ویذوقون الہوان والخزی ولا یُکرَمون۔ ألم یبلغک ما کان مآل المفترین فی الأوّلین؟ وإن اللّٰہ لا یخاف عقبی المتقوّلین، ویہزّ لہم حُسامہ، فیجعلہم من الممزَّقین۔

ولمّا اقترب یوم ہلاکہ دعوتُہ للمباہلۃ، وکتبتُ إلیہ أنّ دعواک باطلٌ ولستَ إلَّا کذّابًا مفتریًا لجِیفۃِ الدنیا الدنیّۃ، ولیس عیسٰی إلَّا نبیًّا، ولستَ إلَّا متقوّلًا، ومن العامّۃ والفِرق الضالّۃ المضلّۃ۔ فاخْشَ الذی یری کذبک، وإنّی أدعوک إلی الإسلام والدّین الحقّ والتوبۃ إلی اللّٰہ ذی الجبروت والعزّۃ۔ فإن تولّیتَ وأَعْرضتَ عن ہٰذہ الدعوۃ، فتعالَ نباہلْ ونجعلْ لعنۃ اللّٰہ علی الذی ترک الحقّ، وادّعی الرسالۃ والنبوّۃ علٰی طریق الفِریۃ۔ وإن اللّٰہ یفتح بینی وبینک، ویہلک الکاذب فی زمن حیاۃ الصادق، لیعلم الناس مَنْ صدق ومَنْ کذب، ولینقطع النزاع بعد ہٰذہ الفیصلۃ۔ وواللّٰہ، إنّی أنا المسیح الموعود الذی وُعد مجیۂ فی آخر الزمن وأیام شیوع الضلالۃ۔

وإنّ عیسٰی قد ماتَ، وإن مذہب التثلیث باطل،

وإنک تفتری علی اللّٰہ فی دعوی النبوّۃ۔ والنبوّۃ قد

انقطعت بعد نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ولا کتاب



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 689

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 689

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/689/mode/1up


بعد الفرقان الذی ہو خیر الصحف السابقۃ، ولا شریعۃ بعد الشریعۃ المحمدیّۃ، بَیْدَ أنی سُمّیتُ نبیًّا علٰی لسان خیر البریّۃ، وذالک أمر ظلّی مِنْ بر!کات المتابعۃ، وما أری فی نفسی خیرًا، ووجدتُ کُلّ ما وجدت من ہٰذہ النفس المقدّسۃ۔ وما عنی اللّٰہ من نبوّتی إلَّا کثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ، ولعنۃ اللّٰہ علٰی من أراد فوق ذالک، أو حسب نفسہ شیءًا، أو أخرج عنقہ من الرِّبْقۃ النبویّۃ۔ وإن رسولنا خاتم النبیین، وعلیہ انقطعتْ سلسلۃ المرسلین۔ فلیس حقّ أحدٍ أَن یدّعی النبوّۃ بعد رسولنا المصطفٰی علی الطریقۃ المستقلّۃ، وما بقی بعدہ إلَّا کثرۃ المکالمۃ، وہو بشرط الاتّباع لا بغیر متابعۃ خیر البریّۃ۔ وواللّٰہ، ما حصل لی ہٰذا المقام إلَّا من أنوار اتّباع الأشعّۃ المصطفویّۃ، وسُمِّیتُ نبیّا من اللّٰہ علٰی طریق المجاز لا علٰی وجہ الحقیقۃ۔ فلا تہیج ہٰہنا غیرۃ اللّٰہ ولا غیرۃ رسولہ، فإنی أُربَّی تحت جناح النبیّ، وقدمی ہٰذہ تحت الأقدام النبویّۃ۔ ثم ما قلتُ من نفسی شیءًا، بل اتّبعتُ ما أُوحی إِلیّ من ربّی۔ وما أخاف بعد ذالک تہدید الخلیقۃ، وکلّ أحدٍ یُسأل عن عملہ یوم القیامۃ، ولا یخفی علی اللّٰہ خافیۃ۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 690

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 690

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/690/mode/1up


وقُلتُ لذالک المفتری۔۔ إن کنتَ لا تباہل بعد ہٰذہ الدَّعْوۃ، ومع ذالک لا تتوب مما تفتری علی اللّٰہ بادّعاء النبوّۃ، فلا تحسبْ أنّک تنجو بہٰذہ الحیلۃ، بل اللّٰہ یہلکک بعذابٍ شدیدٍ مع الذلّۃ الشدیدۃ، ویخزیک ویذیقک جزاء الفریۃ۔ وکان یراقب موتی وأراقب موتہ، وکنتُ أ!تو!!کّل علی اللّٰہ ناصر الحقّ وحامی ہٰذہ الملّۃ۔

ثم أشعتُ ما کتبتُ إلیہ فی ممالک أمریکۃ إشاعۃً تامّۃً کاملۃً، حتی أُشیعَ ما کتبت إلیہ فی أکثر جرائد أمریکۃ، وأظنّ أنّ ألوفا من الجرائد أشاعتْ ہٰذا التبلیغ، وبلغت الإشاعۃ إلٰی عِدّۃ ما أستطیع أن أُحصیہا، ولیس فی القر!طاس سعۃ أَنْ أُمْلیہا۔ وأمّا ما أُرْسِلَ إلیّ من جرائد أمریکۃ التی فیہا ذکرُ دعوتی وذکر المباہلۃ وذکر دعائی علٰی ڈوئی لطلب الفیصلۃ، فرأیتُ أن أکتب فی الحاشیۃ أسماء بعضہا، لیعلم الناس أنّ ہٰذا الأمر ما کان مکتومًا مخفیًّا، بل أشیع فی مشارق الأرض ومغاربہا، وفی أقطار الدنیا وأعطافہا کلّہا، شرقًا وغربًا وشمالًا وجنوبًا۔ وکان سبب ہٰذہ الإشاعۃ أنّ ڈوئیکان کالملوک العظام فی الشہرۃ، وما کان رجل فی أمریکۃ ولا فی یورُب من الأکابر والأصاغر إلَّا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 691

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 691

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/691/mode/1up


کان یعرفہ بالمعرفۃ التامّۃ۔ وکانت لہ عظمۃ ونباہۃ کالسلاطین فی أَعْیُن أہل تلک البلاد، ومع ذالک کان کثیر السیاحۃ، یصطاد الناس بوعظہ کالصیاد۔ فلذالک ما أبٰی أحدٌ من أہل الجراید أن یطبع ما أُرْسل إلیہ فی أمرہ من مسألۃ المباہلۃ، بل ساقہم حرص رؤیۃ مآل المصارعۃ إلی الطبع والإشاعۃ۔ والجرائد التی طُبعتْ فیہا مسألۃ مباہلتی ودُعائی علٰی ڈوئی ہی کثیرۃ من جرائد أمریکۃ، ولکنّا نذکر علٰی طریق النموذج شیءًا منہا فی حاشیتنا ہذہ*۔



نمبر

اسم الجریدۃ وتاریخہ

ترجمۃ خلاصۃ مضمونھا

۱

شکاگو إنٹرپریٹر

۸جون ۱۹۰۳ء

إن المیرزا غلام أحمد رجلٌ من الفنجاب، وہو یدعو ’’ڈوئی‘‘ للمباہلۃ۔ أیُظَنُّ أنہ یخرج فی ہذا المیدان؟ وإن المیرزا یکتب أن "ڈوئی‘‘ مفتری کذّابٌ فی دعوی النبوّۃ، وإنی أدعو اللّٰہَ أن یُہلکہ ویستأصلہ کل الاستیصال۔ ویقول: إنی علی الحق، وإن ڈوئی علی الباطل، فاللّٰہ یحکم بیننا بأنہ یُہلک الکاذبَ، ویستأصلہ فی حین حیاۃ الصادق۔ وإن المیرزا غلام أحمد یقول: إنی أنا المسیح الموعود وإن الحق فی الإسلام۔

۲

ٹیلیگراف ۵ جولائی ۱۹۰۳ء

مطابقٌ بما سبق بأدنٰی تغیُّر الألفاظ۔

۳

أرگوناٹ

سان فرانسسکو ۔

یکم دسمبر ۱۹۰۲ء

مطابقٌ بما سبق بأدنی تغیُّر الألفاظ، ومع ذالک قال إن ہٰذا الطریق طریق معقول ومبنی علی الإنصاف۔ ولا شک أن الرجل الذی یُستجاب دعاؤہ فہو علی الحق من غیر شبہۃٍ۔

۴

لٹریری ڈایجسٹ نیویارک۔۲۰جون ۱۹۰۳ء

ذَکَرَ مفصّلًا کلَّ ما دعوتُ بہ ’’ڈوئی‘‘ للمباہلۃ، وطَبَعَ عَکْسَ صورتی وصورتہ، والباقی مطابقٌ بما سبق۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 692

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 692

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/692/mode/1up


وخلاصۃ الکلام أنّ ڈوئی کان شرّ النّاس، وملعون القلب، ومثیل الخنّاس، وکان عدوّ الإسلام بل أخبث الأعداء ، وکان یرید أن یجیح الإسلام حتّی لا یبقی اسمہ تحت السّماء۔ وقد دعا مرارًا فی جریدتہ الملعونۃ علٰی أہل الإسلام والملّۃ الحنیفیۃ، وقال: اللّٰہمّ، أَہْلِک المسلمین کلّہم، ولا تُبْقِ منہم فردًا فی إقلیم من الأقالیم، وأَرِنی زوالہم واستیصالہم

وأَشِعْ فی الأرض کلّہا مذہب التثلیث وعقیدۃ الأقانیم۔

نمبر

اسم الجریدۃ وتاریخہ

ترجمۃ خلاصۃ المضمون

۵ ؔ

نیویارک میل أینڈ ایکسپریس ۔ ۲۸ جون ۱۹۰۳ء

عنوانٌ ذَکرَہ: "مباہلۃُ المدّعیین"، وذَکَرَ دعائی علٰی "ڈوئی"، ثم ذَکَرَ أن الأمر الفیصل ہلاکُ الکاذب فی حین حیاۃ الصادق۔ والباقی مطابقٌ بما سبق۔

۶

ہیرلڈ روچسٹر

۲۵جون ۱۹۰۳ء

ذکر أن ’’ڈوئی‘‘ دُعی للمباہلۃ، ثم ذکر تفصیلا ما سبق من البیان۔

۷

ریکارڈ بوسٹن ۔۲۷جون ۱۹۰۳ء

مطابقٌ لما سبق۔

۸

أیڈورٹائزر ۔ ۲۵جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۹

پایلاٹ بوسٹن

۲۷جون ۱۹۰۳ء

ذکرنی وذکر "ڈوئی"، ثم ذکر دعاءَ المباہلۃ۔

۱۰

پاتھ فائینڈر واشنگٹن

۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء

ذَکَرَ کمثل ما سبق۔

۱۱

إنٹراوشن شکاگو

۲۷ جون ۱۹۰۳ء

ذَکَرَ کمثل ما سبق۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 693

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 693

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/693/mode/1up


وقال أَرْجُو أَنْ أریٰ موت المسلمین کلّہم وقَلْعَ دین الإسلام، وہٰذا أعظم مراداتی فی حیاتی، ولیس لی مراد فوق ہٰذا المرام۔ وکلّ ہٰذہ الکلمات موجودۃ فی جرائدہ الّتی موجودۃ عندنا فی اللسان الإنکلیزیۃ، ویعلمہا من قرأہا من غیر الشکّ والشبہۃ۔ فکفاکَ أیُّہا النّاظر لتخمین خُبث ہٰذا المفتری ہٰذہ الکلماتُ، ولذالک سمّاہ النبیّ صلی اللّٰہ علیہ خنزیرًا

نمبر

اسم الجریدۃ وتاریخہ

ترجمۃ خلاصۃ المضمون

۱۲ ؔ

ڈیموکریٹ کرانیکل روچسٹر

۲۵ جون ۱۹۰۳ء

عنوانٌ ذکرہ للمباہلۃ، والباقی مطابق لما سبق۔

۱۳

شکاگو

؍؍

۱۴

برلنگٹن فری پریس۔ ۲۷؍ جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۱۵

روسٹر سپائی ۔ ۲۸ جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۱۶

شکاگو اِنٹراوشن ۔۲۸جون ۱۹۰۳ء

ذکر دعاء المباہلۃ

۱۷

ألبنی پریس۲۵ جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۱۸

جیکسنول ٹائمز ۔۲۸ جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۱۹

بالٹی مور أمریکن ۔۲۵جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۲۰

بفلو ٹایمز ۔۲۵جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۲۱

نیویارک میل ۔۲۵جون ۱۹۰۳ء

؍؍

۲۲

بوسٹن ریکارڈ ۲۷جون ۱۹۰۳ء

؍؍



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 694

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 694

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/694/mode/1up


بما ساء تْ ہٰذا الخبیث الطیّباتُ، وسرّتْہ نجاسۃ الشرک والمفتریات۔ وقد عرف الناظرون فی کلامہ توہین الإسلام فوق کلّ توہین، وشہد الشاہدون علٰی ملعونیّتہ فوق کل لعین، حتّی إنہ صار مثلًا بین الناس فی الشتم والسبّ، وما کان منتہیًا من المنع والذبّ۔ وإذا باہلتُہ ودعوتہ للمباہلۃ

لیَظہَر بموت الکاذب صدق الصادق من حضرۃ العزّۃ،

نمبر

اسم الجریدۃ وتاریخہ

ترجمۃ خلاصۃ المضمون

۲۳

ڈیزرٹ إنگلش نیوز ۔۲۷جون ۱۹۰۳ء

ذکر دعاء المباہلۃ

۲۴

ہیلینا ریکارڈ ۔ یکم جولائی ۱۹۰۳ء

؍؍

۲۵

گروم شایر گزٹ۔ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء

؍؍

۲۶

نونیٹن کرانیکل ۔ ۱۷جولائی ۱۹۰۳ء

؍؍

۲۷

ہؤسٹن کرانیکل۔۳ ؍؍ ؍؍

؍؍

۲۸

سونا نیوز ۔ ۲۹جون ؍؍

؍؍

۲۹

رچمنڈ نیوز۔ یکم جولائی ۱۹۰۳ء

؍؍

۳۰

گلاسگو ہیرلڈ ۔ ۲۷؍ أکتوبر ۱۹۰۳ء

؍؍

۳۱

نیویارک کمرشل أیڈورٹائیزر ۔۲۶؍ أکتوبر ۱۹۰۳ء

؍؍

۳۲

دی مارننگ ٹیلگراف ۔۲۸؍ أکتوبر ۱۹۰۳ء

ذکر دعاء المباہلۃ وذکر دوئی۔

منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 695

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 695

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/695/mode/1up


فقال قائل من أہل أمریکۃ وطبع کلامہ فی جریدتہ، وتکلّم بلطیفۃٍ رائقۃٍ ونُکتۃٍ مضحکۃٍ فی أمر ڈوئی وسیرتہ، فکتب أنّ ڈوئی لن یقبل مسألۃ المباہلۃ، إلَّا بعد تغییر شرائط ہٰذہ المصارعۃ، فیقول: لا أقبل المباہلۃ، ولکن ناضِلونی فی التشاتم والتسابّ، فمن فاق حریفہ فی کثرۃ السبّ وشدّۃ الشتم فہو صادق، وحریفہ کاذبٌ من غیر الارتیاب۔ وہٰذا قول صاحب جریدۃٍ کان تقصّٰی أخلاقَہ، وجَرّب ما یخرج من لسانہ وذاقَہ۔ وکذالک قال کثیر من أہل الجرائد، وإنّہم من أعزّۃ أہل أمریکۃ ومن العمائد۔ ثم مع ذالک إنّی جرّبتُ أخلاقہ عند مسألۃ المباہلۃ، فإذا بلغہ مکتوبی غضب غضبًا شدیدًا واشتعل من النَّخْوۃ، وأری أنیابَ ذیاب الأجمۃِ، وقال: ما أری ہٰذا الرجلَ إلَّا کبعو!ضۃ بل دونہا، وما دعتنی البعوضۃ بل دعت منونہا۔ وأشاع ہٰذا القول فی جریدتہ، وکفاک ہٰذا لرؤیۃ کبرہ ونخوتہ، فہٰذا الکبر ہو الذی حثّنی علی الدعاء والابتہال، متو!کّلا علی اللّٰہ ذی العزّۃ والجلال۔

وکان ہٰذا الرجل صاحب الدولۃ العظیمۃ قبل أن أدعوہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 696

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 696

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/696/mode/1up


إلی المباہلۃ، وکنت دعوت علیہ لیُہلکہ اللّٰہ بالذلّۃ والمَتربۃ والحَسرۃ۔ وإنّہ کان قبل دعائی ذا السطوۃ السلطانیۃ، والقوّۃ والشوکۃ، والشہرۃ الجلیلۃ، التی أحاطت الأرض کالدائرۃ۔ وکان صاحب الدُّور المنجّدۃ، والقصور المُشیّدۃ۔ وما رأی داہیۃ فی مُدّۃ عمرہ، ورأی کلّ یوم زیادۃ زمرہ۔ وکان لہ حاصلًا ما أمکن فی الدّنیا من الآلاء والنعماءِ، وکان لا یعلم ما یوم البأساءِ وما ساعۃ الضرّاءِ۔ وکان یلبس الدیباج، ویر!کب الہِمْلاج، وکان یظنّ أنہ یرزق عمرًا طویلًا غافلًا من سہم المنایا، وکان یزجّی النہار کالمسجودین والمعبودین والمعظَّمین، ویفترش الحشایا بالعشایا۔ وإذا أنزل اللّٰہ قدرہ لیُصدّق ما قلتُ فی مآل حیاتہ، فانقلبت أیّام عیشہ ومسرّاتہ، وأراہ اللّٰہ دائرۃ السَّوء ، ولُدغ کلَّ لَدْغٍ مِن حَیَواتہ، أعنی أفاعی أعمالِہ وسیّآتہ۔ فعاد الہِمْلاجُ* قَطُوفًا228، وانقلب الدیباج صوفًا، وہلمّ جرّا إلٰی أنّہ أُخرج من بلدتہ التی بناہا بصرف الخزائن، وحُرّم علیہ کلّ ما شَیّد من المقاصر ببذل الدفائن،


* الِہمْلاجُ: الدابۃ الحسنۃ السیر فی سرعۃ وسہولۃ۔ ۱۲

228 القَطُوف: الدابۃ الضیّقۃُ الخُطٰی البطیءۃُ السیر۔۱۲



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 697

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 697

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/697/mode/1up


بل ما کفی اللّٰہ علٰی ہٰذا، وأنزل علیہ جمیع قضاۂ وقدرہ، وحطّ سائر وجوہ شأنہ وقدرہ، وانتقل إلٰی رجلٍ آخر کلُّ ما کان فی قبضتہ، وجمعتْ غیاہبَ البُؤْسِ ریاحُ نخوتہ، حتّی یئس من ثروتہ الأولی، وارتضع من الدہر ثدیَ عقیمٍ،

ورکب من الفقر ظہرَ بہیمٍ۔ ثمّ أخذہ بعض الورثاء

کالغرماء ، ورأی خِزیًا کثیرًا من الزوجۃ والأحباب والأبناء ، حتی إنّ أباہ أشاع فی بعض جرائد أمریکۃ أنہ زنیمٌ ولدُ الزنا ولیس من نُطفتہ۔ وکذالک انتسفتْہ رِیَاحُ الإدبار والانقلاب، وکمّل لہ الدہرُ جمیعَ أنواع الذلّۃ، فصار کرمیم فی التراب

أو کسلیم غَرض التباب، وصار کنکرۃ لا یُعرف، بعد ما کان بکلّ وجاہۃ یوصف۔ وانتشر کلُّ مَن کان معہ من الأتباع،

وما بقی شیء فی یدہ من النقد والعَقار والضِّیاع،

وبرز کالبائس الفقیر، والذلیل الحقیر۔ غِیضتْ حیاضہ، وجَفَّتْ ریاضہ، وخَلَتْ جِفانہ، ونحُس مکانہ، وطُفِئَ مصباحہ، ورُفعت صیاحہ، ونُزعت عنہ البساتین وعیونہا،



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 698

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 698

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/698/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 699

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 699

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/699/mode/1up



ھٰذا عکس صورۃ ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی التی کانت فی ایام صحتہ




ھٰذا عکس صورۃ ڈاکٹر ڈوئی بعد ما فُلج




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 700

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 700

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/700/mode/1up


والخیل ومتونہا، وضاق علیہ سہلُ الأرض وحُزونہا، وعادتہ الأودیۃ وبطونہا، وسُلِبت منہ الخزائن التی ملک مفاتحہا، ورأی حروب العدا ومضائقہا۔ ثم بعد کلّ خزی وذلّۃ فُلج من الرأس إلی القدم، لیر!حّلہ الفالج من الحیاۃ الخبیث إلی العدم۔ وکان یُنقل من مکان إلٰی مکان فوق ر!کاب الناس، وکان إذا أراد التبرّز یحتاج إلی الحقنۃ من أیدی الأناس۔ ثمّ لَحِقَ بہ الجنون، فغلب علیہ الہذیان فی الکلمات، والاضطراب فی الحر!کات والسکنات، وکان ذالک آخر المخزیات۔ ثم أدرکہ الموت بأنواع الحسرات، وکان موتہ فی تاسع من مارج

سنۃ ۱۹۰۷ء، وما کانت لہ نوادب، ولا من یبکی علیہ

بذکر الحسنات۔

وأوحی إلیّ ربّی قبل أن أسمع خبر موتہ وقال:

إنّی نَعَیتُ۔ إنّ اللّٰہ مع الصادقین۔ ففہمت أنّہ أخبرنی

بموت عدوّی وعدوّ دینی من المباہلین۔ فکنتُ بعد

ہٰذا الو!حی الصریح من المنتظرین، وقد طُبع قبل وقوعہ فی جریدۃ بَدْر والحَکَم لیزید عند ظہورہ إیمان المؤمنین۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 701

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 701

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/701/mode/1up


فإذا جاء وعد ربّنا مات ڈوئی فجأۃً، وزہق الباطل، وعلا الحقّ، فالحمد للّٰہ ربّ العالمین۔ ووَاللّٰہِ لو أُوتیتُ جَبلًا من الذہب أو الدُّررِ والیاقوت ما سرّنی قطّ کمثل ما سرّنی خبرُ موت ہٰذا المفسد الکذّاب۔ فہل من مُنصف ینظر إلٰی ہٰذا الفتح العظیم من اللّٰہ الوہّاب؟ ہٰذا ما نزل علی العدوّ اللئیم، من العذاب الألیم، وأمّا أنا فحقّق اللّٰہ کلّ مقصدی بعد المباہلۃ، وأری آیات کثیرۃ لإ!تمام الحُجّۃ، وجذب إلیّ فوجًا عظیمًا من النفوس البررۃ، وساق إلیّ القناطیر المقنطرۃ من الذہب والفضّۃ، ورزقنی فتحًا عظیمًا علٰی کلّ من باہلنی من المبتدعین والکفرۃ۔ وأنزل لِیْ آیاتٍ*منیرۃ، لا أستطیع أَنْ أحصیہا، ولا أقدر أن أملیہا، فاسألوا أہل أمریکۃ ما صنع اللّٰہ بڈوئی بعد دعائی، وتعالوا أُریکم آیات ربّی ومولائی، وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

المشتہر

المیرزا غلام أحمدؐ المسیح الموعود

من مقام قادیان، ضلع گورداسپور، پنجاب

۱۵؍ اپریل سنۃ ۱۹۰۷ء



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 702

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 702

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/702/mode/1up


الحاشیۃ المتعلقۃ بصفحۃ ۷۵۔ السطر العاشر

إن اللّٰہ أخبرنی بموت ڈوئی مرارًا، وہی بشارات کثیرۃ، وکلُّہا طُبع قبل موتہ وقبل نزول الآفات علیہ فی جریدۃ مُسمّی ببدر وجریدۃٍ أخری مُسمّی بالحکم، فلیرجع الناظر إلیہما۔ فمنہا ما أُوحِیَ إلیّ فی ۲۵ دسمبر سنۃ ۱۹۰۲ء حکایۃً عنی وہو ہذا: إنی صادق صادق وسیشہد اللّٰہ لی۔ ومنہا ما أُوحِیَ إلیّ فی ۲ فروری سنۃ ۱۹۰۳ء وہو ہذا: سنُعْلِیک۔ سأُکرمک إکرامًا عجبًا۔ سُمِع الدعاء ۔ إنّی مع الأفواج آتیک بغتۃً۔ دعاؤک مستجاب۔ وأُوحِیَ فی ۲۶؍ نومبر سنۃ ۱۹۰۳ء: لک الفتح، ولک الغلبۃ۔ وأُوحِیَ فی ۱۷؍دسمبر سنۃ ۱۹۰۳ء : تری نصرًا من عند اللّٰہ۔ إن اللّٰہ مع الذین اتّقوا والذین ہم محسنون۔ وأُوحِیَ إلیّ فی ۱۲جون سنۃ ۱۹۰۴ء : کَتَبَ اللّٰہ لأغلبن أنا ورُسلی۔ کمثلک دُرٌّ لا یُضاع ۔ لا یأتی علیک یومُ الخسران۔ وأُوحِیَ إلیّ فی ۱۷؍دسمبر سنۃ ۱۹۰۵ء : قال ربُّک إنہ نازلٌ من السماء ما یُرضیک، رحمۃً منّا، وکان أمرًا مقضیّا۔ وأُوحِیَ إلیّ فی ۲۰؍ مارچ سنۃ ۱۹۰۶ء : المراد حاصل۔ وأُوحِیَ إلیّ فی ۹؍ أپریل سنۃ ۱۹۰۶ء: نصرٌ من اللّٰہ وفتح مبین۔ ولا یُرَدّ بأسہ عن قومٍ یعرضون۔ وأوحی إلیّ فی ۱۲؍أپریل سنۃ ۱۹۰۶ء: أراد اللّٰہ أن یبعثک مقامًا محمودًا۔ یعنی مقامَ عزّۃٍ وفتح تُحمد فیہ۔ وأُوحِیَ فی الہندیۃ (ترجمۃ): أُرِیْ ما ینسخ طاقۃَ الدیر یعنی أُرِی آیۃً تکسر قوۃ دیر الیسوعیین۔ وأُوحِیَ فی الہندیۃ فی ۷؍جون سنۃ ۱۹۰۶ء ( ترجمۃ): تظہر الآیتان۔ إنّی أُریک ما یُرضیک۔ وأُوحِیَ فی ۲۰؍جنوری سنۃ ۱۹۰۶ء: وقالوا لستَ مرسلا۔ قل کفی باللّٰہ شہیدًا بینی وبینکم، ومَنْ عندہ علمُ الکتاب۔ وأُوحِی فی ۱۰؍جولائی سنۃ ۱۹۰۶ء: (ترجمۃ الہندی) انظُرْ.۔ إنی أُمطر لک من السماء ، وأُنبت من الأرض، وأما أعداؤک فیؤخذون۔ وأُوحِیَ فی ۲۳؍ أگست سنۃ ۱۹۰۶ء : (ترجمۃ الہندی): ستظہر آیۃ فی أیام قریبۃ لیقضی اللّٰہ بیننا۔ وأُوحِی فی ۲۷؍ستمبر سنۃ ۱۹۰۶ء: ( ترجمۃ الہندی): السلام علیک أیّہا المظفّر۔ سُمع دعاؤک۔ بلجَتْ آیاتی، وبَشِّرِ الذین آمنوا بأن لہم الفتح۔ وأُوحِیَ فی ۲۰ أکتوبر سنۃ ۱۹۰۶ء: (ترجمۃ الہندی): اللّٰہ عدوّ الکاذب، وإنہ یوصلہ إلٰی جہنّم۔ أُغرِقَت سفینۃُ الأذلّ۔ إن بطشَ ربک لشدید۔ وأوحی فی ۱؍فروری سنۃ ۱۹۰۷ء: (ترجمۃ الہندی): الآیۃ المنیرۃ وفتحُنا۔ وأُوحِیَ فی ۷ فروری سنۃ ۱۹۰۷ء: العید الآخر۔ تنال منہ فتحًا عظیمًا۔ دَعْنِی أقتُلْ من آذاک۔ إن العذاب مُربَّعٌ ومُدَوّرٌ ۔ وإنْ یّروا آیۃً یُعرضوا ویقولوا سحرٌ مستمِرٌّ۔ وأُوحِیَ فی سابع مارچ سنۃ ۱۹۰۷ء: یأتون بنعشہ ملفوفاً.۔ نعیتُ.۔ من سابع مارچ إلی آخرہ: یعنی یُشاع موتُ ذالک الرجل إلٰی ہذا الوقت۔ إن اللّٰہ مع الصادقین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 703

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 703

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/703/mode/1up


وقع فی نفسی أن أکتب شیءًا من سوانحی وسوانح آبائی فی ہٰذہ الرسالۃ، لأعرّف بہ النّاسَ أمری، لعلّ اللّٰہ ینفعہم، ویزیدہم قوّۃ لِرفع الضلالۃ، ولعلّہم یفکّرون فی أصل الحقیقۃ، ویمیلون إلی العدل والنّصفۃ۔

فاعلموا، رحمکم اللّٰہ، أنی أنا المسمی بغلام أحمد بن میرزا

غلام مرتضٰی، ومیرزا غلام مرتضٰی بن میرزا عطا محمد، ومیرزا عطا محمد بن میرزا گل محمد، ومیرزا گل محمد بن میرزا فیض محمد، ومیرزا

فیض محمد بن میرزا محمد قائم، ومیرزا محمد قائم بن میرزا محمد أسلم، ومیرزا محمد أسلم بن میرزا دلاور بیک، ومیرزا دلاور بیک بن میرزا

إلہ دین، ومیرزا إلہ دین بن میرزا جعفر بیک، ومیرزا جعفر بیک بن میرزا محمد بیک، ومیرزا محمد بیک بن میرزا محمد عبد الباقی، ومیرزا محمد عبد الباقی بن میرزا محمد سلطان، ومیرزا محمد سلطان بن میرزا ہادی بیک۔

ثم اعلموا أنّ مسکنی قریۃٌ سُمّیت ببلدۃ الإسلام، ثم اشتہر باسم ’’قادیان‘‘ فی ہٰذہ الأیّام۔ وہی واقعۃ فی الفنجاب بین النہرین "الراوی" و"البیاس"، إلٰی جانب المشرق مائلًا إلی الشمال من "لاہور" الذی ہو صدر الحکومۃ ومرکز البلاد الفنجابیۃ۔ وإنی قرأتُ فی کتب سوانح آبائی وسمعت من أبی أن آبائی کانوا من الجرثومۃ المُغْلیّۃ۔ ولکن اللّٰہ أوحی إلیّ أنّہم کانوا من بنی فارس لا من الأقوام التر!کیّۃ۔ ومع ذالک أخبرنی ربّی بأنّ بعض أمہاتی کُنَّ من بنی الفاطمۃِ، ومن أہل بیت النُّبوّۃِ، واللّٰہ جمع فیہم نسل إسحاق وإسماعیل من کمال الحکمۃ والمصلحۃ۔

وسمعتُ من أبی وقرأت فی بعض سوانحہم أنّہم کانوا فی بدء أمرہم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 704

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 704

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/704/mode/1up


یسکنون فی بلدۃ سمرقند، قبل أن یرحلوا إلی الہند، وکانوا من أمراء تلک الأرض ووُلاتہا، ومن أنصار الملّۃ وحُماتہا۔ ثم طر!حتْہم النوی مَطار!حَہا، وبسطتْ إلیہم سیول السفر جوارحَہا، حتی إذا وطؤا أرض ہٰذہ البلدۃ التی تسمّی بقادیان ورأوا ہٰذہ الخِطّۃ المبارکۃ، والتُّربۃ الطیبۃ، سرّتْہم ریحہا وماؤہا، وسوادہا وخضراؤہا، فألقَوا فیہا عصا التّسْیار، وکانوا یرجّحون البدو علی الأمصار، ورُزقوا فیہا من اللّٰہ ضیعۃً وعقارًا، وملکوا قرًی وأمصارًا۔ ثم إذا مضی زمانٌ علٰی ہٰذہ الحالۃ، ونزل قضاء اللّٰہ وقدرہ علی السلطنۃ المغلیّۃِ، أمّرہم اللّٰہ فی ہٰذہ الناحیۃ، وانتہی الأمر إلٰی أَنّہم صارُوا کمَلِکٍ مستقل فی ہٰذہ الخِطّۃ، وکان فی یدہم مِن کل نہجٍ عِنانُ الحکومۃ، وقضی اللّٰہ وطرہم من الفضل والرحمۃ۔ وبعد ما زجّوا زمانًا طویلًا فی النّعمۃ والرفاہۃِ، والشرف والنباہۃ، أخرج اللّٰہ بمصالحہ العمیقۃ وحِکمہ الدقیقۃ قومًا یقال لہ الخالصہ، وکانوا قسیّ القلب لا یکرمون الشرفاء ، ولا یرحمون الضعفاء ، وکُلّما دخلوا قریۃً أَفْسدوہا، وجعلوا أعِزّۃَ أہلہا أذِلّۃ، فصارت مِن جورہم بُدُورُ الإسلام کالاَہِلّۃ۔ وکانوا من أعادی الإسلام، وأکبر أعداء ملّۃ خیر الأنام۔ ففی تلک الأیام صُبّت علٰی آبائی المصائب من أیدی تلک اللئام، حتی أُخرجوا من مقام الریاسۃ، ونُہبت أموالہم من أیدی الکفرۃ، ونُطحوا من جُیُودٍ، وہُجّروا من ظلٍّ ممدودٍ، ولبثوا فی أرض الغُربۃ إلٰی سنین، وأُوذوا إیذاءً شدیدًا من الظالمین، وما رحمہم أحد إلَّا أرحم الراحمین۔ ثم ردّ اللّٰہ إلٰی أبی بعضالقُریٰ فی عہد الدولۃ البرطانیۃ، فوجد قطرۃً أو أقلّ منہا من بحر الأملاک الفانیۃ۔

فخلاصۃ الکلام أنّ آبائی ماتوا بمرارۃ الخیبۃ والحسرات، بعد ما کانوا کشجرۃٍ مملوّۃٍ من الثمرات، وبعد أیامٍ کانت کالعذاری المتبرّجات۔ فو!جدتُ قصصہم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 705

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 705

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/705/mode/1up


محلَّ عبرۃٍ تسیل بذکرہا العبرات، ولا ترقأ عند تصوّرہا الدموع الجاریات۔ ولمّا رأیتُ ما رأیتُ، أخذتنی الرقّۃ فبکیتُ، وناجیتُ نفسی بأن ہٰذہ الدّنیا لیست إلَّا کغدّار، ولیس مآلہا إلَّا مرارۃُ خیبۃٍ وتبارٍ۔ وأرہقتنی دار الدنیا بضیقہا، وأُلقی فی قلبی أن أعاف بریقہا، فصرف اللّٰہ عنّی حبّ الدّنیا ورؤیۃ زینتہا، والتمایل علٰی شجرتہا وثمرتہا۔ وکنت أحبّ الخمول، وأؤثر زاویۃ الاختفاء ، وأفرّ من المجالس ومواقع العُجْب والریاء ۔ فأخرجنی اللّٰہ من حجرتی، وعَرّفنی فی النَّاس، وأنا کارہٌ من شہرتی، وجعلنی خلیفۃ آخر الزمان، وإمام ہٰذا الأوان، وکلّمنی بکلماتٍ نذکر شیئا منہا فی ہٰذا المقام، ونؤمن بہا کما نؤمن بکتب اللّٰہ خالق الأنام۔

وہی ہٰذہ

یا أحمد، بارک اللّٰہ فیکَ۔ ما رمیتَ إذ رمیتَ، ولکنّ اللّٰہ رمیٰ۔ الرحمٰن علّم القرآن۔ لتنذر قومًا ما أُنذر آباؤہم، ولتستبین سبیل المجرمین۔ قُل إنّی أُمِرت وأنا أوّلُ المؤمنین۔ قل جاء الحق وزہق الباطل، إن الباطل کان زہوقا۔ کلّ برکۃٍ من محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فتبارک من علّم وتعلّم۔ وقالوا إنْ ہٰذا إلَّا اختلاق۔ قل اللّٰہ، ثم ذَرْہم فی خوضہم یلعبون۔ قُلْ إنِ افتریتُہ فعلیّ إجرام شدید۔ ومن أظلم ممّنِ افتری علی اللّٰہ کذبا۔ ہو الذی أرسل رسولہ بالہُدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدّین کلّہ۔ لا مبدِّلَ لکلماتہ۔ یقولون أَنَّی لک ہٰذا، إنْ ہٰذا إلَّا قول البشر، وأعانہ علیہ قومٌ آخرون۔ أفتأتون السّحر وأنتم تبصرون۔ ہیہاتَ ہیہاتَ لما تُوعدونَ۔ من ہٰذا الذی ہو مَہینٌ جاہل أو مجنون۔ قل عندی شہادۃ من اللّٰہ فہل أنتم مُسلمون۔ قل عندی شہادۃ من اللّٰہ فہل أنتم مؤمنون۔ ولقد لبثتُ فیکم عمرًا من قبلہ أفلا تعقلون۔ ہٰذا من رحمۃ ربّک، یتمّ نعمتہ علیک۔ فبشّر، وما أنت بنعمۃ ربّک بمجنون۔ لک درجۃ فی السّماء وفی الذین ہم یُبْصرون۔ ولک نُری آیاتٍ، ونہدم ما یعمرون۔ الحمد للّٰہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 706

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 706

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/706/mode/1up


الذی جعلک المسیح ابن مریم، لا یُسأل عمّا یفعل وہم یُسألون۔ وقالوا أتجعل فیہا من یفسد فیہا۔ قال إنّی أعلمُ ما لا تعلمون۔ إنّی مُہینٌ من أراد إہانتک۔ إنّی لا یخاف لدیّ المرسلون۔ کتب اللّٰہ لأغلبنّ أنا ورسلی۔ وہم من بعد غلبہم سیغلبون۔ إن اللّٰہ مع الذین اتّقَوا والذین ہم محسنون۔ أریک زلزلۃ الساعۃ۔ إنّی أحافظ کلّ من فی الدار۔ وامتازوا الیوم أیّہا المجرمون۔ جاء الحق وزہق الباطل۔ ہٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ بشارۃ تلقّاہا النّبیّون۔ أنت علٰی بیّنۃٍ من ربک۔ کفیناک المستہزئین۔ ہل أُنبّئکم علٰی من تَنزَّلُ الشیاطین، تَنزَّلُ علٰی کلّ أفّاکٍ أثیم۔ ولا تیأس من روح اللّٰہ۔ أَلا إنّ روح اللّٰہ قریب۔ ألا إنّ نصر اللّٰہ قریب۔ یأتیک من کلّ فجّ عمیق۔

یأتون من کل فجّ عمیق۔ ینصرک اللّٰہ من عندہ۔ ینصرک رجال نوحی إلیہم

من السّماء۔ لا مبدّل لکلمات اللّٰہ۔ قال ربّک إنہ نازل من السّماء ما یرضیک۔

إنا فتحنا لک فتحًا مبینا۔ فتحُ الولیّ فتحٌ، وقرّبناہ نجیّا۔ أشجَعُ الناسِ۔ ولو کان الإیمان مُعلّقًا بالثریّا لنالہ۔ أنار اللّٰہ برہانہ۔کنتُ کنزًا مخفیّا فأَحْبَبْتُ أن أُعرَف۔ یاقمر یا شمس، أنت منی وأنا منک۔ إذا جاء نصر اللّٰہ، وانتہی أمر الزمان إلینا، وتمّت کلمۃ ربّک۔ ألیس ہٰذا بالحق۔ ولا تصعّر لخلق اللّٰہ ولا تسأم من الناس۔ ووسِّعْ مکانک۔ وبشِّرِ الذین آمنوا أن لہم قدم صدق عند ربّہم۔ واتل علیہم

ما أوحی إلیک من ربّک۔ أصحاب الصفّۃ، وما أدراک ما أصحاب الصفّۃ۔ تری أعینہم تفیض من الدمع۔ یصلّون علیک، ربّنا إنّنا سمعنا منادیًا ینادی للإیمان، وداعیًا إلی اللّٰہ وسراجًا منیرًا۔ یا أحمد فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک۔ إنّک بأَعْیننا۔ سمّیتک المتوکّل۔ یرفع اللّٰہ ذکرک، ویتمّ نعمتہ علیک فی الدُّنیا والآخرۃ۔ بورکت یا أحمد، وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقّا فیک۔ شأنک عجیب، وأجرک قریب۔ الأرض والسماء معک کما ہو معی۔ أنت وجیہ فی حضرتی، اخترتک لنفسی۔ سبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی۔ زاد مجدک۔ ینقطع آباؤک، ویبدأ منک۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 707

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 707

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/707/mode/1up


وما کان اللّٰہ لیتر!کک حتی یمیز الخبیث من الطیّب۔ إذا جاء نصر اللّٰہ والفتح، وتمّت کلمۃ ربّک۔ ہٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ أردتُ أن أستخلف فخلقتُ آدم۔ دنا فتَدلّی فکان قاب قوسین أو أدنٰی۔ یُحیی الدّین ویقیم الشریعۃ۔ یا آدم اسکن أنت وزَوْجک الجنّۃ۔ یا مریم اسکن أنت وزوجک الجنّۃ۔ یا أحمد اسکن أنت وزوجک الجنّۃ۔ نُصرت، وقالوا لاتَ حین مناص۔ إنّ الذین کفروا وصدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیہم رجل من فارس۔ شکر اللّٰہ سعیہ۔ أم یقولون نحن جمیع منتصر، سیُہْزَم الجَمْع ویولّون الدُّبر۔ إنّک الیوم لدینا مکین أمین، وإنّ علیک رحمتی فی الدُّنْیا والدّین، وإنک من المنصورین۔ یحمدک اللّٰہ ویمشی إلیک۔ سبحان الذی أسریٰ بعبدہ لیلا۔ خلق آدم فأکرمہ۔ جَرِیُّ اللّٰہِ فی حلل الأنبیاء ۔ بشریٰ لک یا أحمدی،

أنت مرادی ومعی، سِرُّک سِرِّی۔ إنّی ناصرک، إنّی حافظک، إنّی جاعلک للنّاس إمامًا۔ أکان للناس عجبًا، قل ہو اللّٰہ عجیب۔ لا یُسأل عما یفعل وہم یسألون۔ وتلک الأیام نداولہا بین الناس۔ وقالوا إن ہٰذا إلَّا اختلاق۔ قل إن کنتم تحبّون اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ۔ إذا نصَر اللّٰہ المؤمن جعل لہ الحاسدین فی الأرض۔ ولا رادَّ لفضلہ۔ فالنار موعدہم۔ قل اللّٰہ ثم ذرہم فی خوضہم یلعبون۔ وإذا قیل لہم آمنوا کما آمن الناس قالوا أنؤمِن کما آمن السفہاء ، ألا إنّہم ہُمُ السفہاء ولکن لا یعلمون۔ وإذا قیل لہم لا تفسدوا فی الأرض قالوا إنّما نحن مصلحون۔ قل جاء کم نور من اللّٰہ فلا تکفروا إن کنتم مؤمنین۔ أم تسألہم مِن* خَرْجٍ، فہم من مغرمٍ مُثقَلون۔ بل أتیناہم بالحق فہم للحق کارہون۔ تَلطَّفْ بالناس وتَرحَّمْ علیہم، أنت فیہم بمنزلۃ موسٰی، واصبر علٰی

* لفظُ ’’مِن‘‘ لیس فی القرآن الکریم، ولٰکن جاء لفظ ’’من‘‘ فی الإلہام۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 708

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 708

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/708/mode/1up


ما یقولون۔ لعلّک باخع نفسک ألَّا یکونوا مؤمنین۔ لا تقفُ ما لیس لک بہ علمٌ، ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا إنہم مغرقون۔ واصنَعِ الفُلکَ بأعیننا ووحینا۔ إن الذین یبایعونک إنما یبایعون اللّٰہ، ید اللّٰہ فوق أیدیہم۔ وإذ یمکر بک الذی کفر۔ أَوقِدْ لی یا ہامانُ لعلّی أطّلع إلٰی إلٰہ موسٰی، وإنی لأظنّہ من الکاذبین۔ تبّت یدا أبی لہب وتبّ۔ ما کان لہ أن یدخل فیہا إلَّا خائفا۔ وما أصابک فمن اللّٰہ۔ الفِتْنۃ ہٰہنا، فاصبر کما صبر أولو العزم۔ أَلا إنّہا فتنۃٌ من اللّٰہ، لیحبّ حبّا جمّا، حبًّا مِن اللّٰہ العزیز الأکرم۔ شاتانِ تُذبحانِ، وکلّ من علیہا فان۔ ولا تہنوا ولا تحزنوا۔ ألیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ ألم تعلم أن اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر۔ وإنْ یتّخذونک إلَّا ہزوا، أہٰذا الذی بعث اللّٰہ؟ قل إنما أنا بشر مثلکم یوحی إلیّ أنّما إِلٰہکم إِلہٌ واحد۔ والخیر کلّہ فی القرآن، لا یمسّہ إلَّا المطہَّرون۔ قل إنّ ہدی اللّٰہ ہو الہدیٰ۔ وقالوا لولا نُزّل علٰی رجل من القریتین عظیم۔ وقالوا أَنَّی لک ہٰذا، إنّ ہٰذا لمکر مکرتموہ فی المدینۃ۔ ینظرون إلیک وہم لا یبصرون۔ قُل إن کنتم تحبّون اللّٰہ فاتّبعونی یحببکم اللّٰہ۔ عسٰی ربّکم أن یرحمکم، وإن عدتم عُدْنا، وجعلنا جہنّم للکافرین حصیرًا۔ وما أرسلناک إلَّا رحمۃً للعالمین۔ قل اعملوا علٰی مکانتکم، إنّی عامل، فسوف تعلمون۔ لا یُقْبَل عملٌ مثقال ذرّۃ من غیر التقوی۔ إنّ اللّٰہ مع الذین اتّقَوا والذین ہم محسنون۔ قل إن افتریتہ فعلیّ إجرامی، ولقد لبثتُ فیکم عمرًا من قبلہ أفلا تعقلون۔ ألیس اللّٰہ بکاف عبدہ، ولنجعلہ آیۃ للناس ورحمۃ منّا، وکان أمرًا مقضیّا۔ قول الحق الذی فیہ تمترون۔ سلام علیک۔ جُعِلتَ مبارکا۔ أنت مبارک فی الدنیا والآخرۃ۔ أمراض الناس وبرکاتہ۔ تَبَخْتَرْ فإن وقتک قد أتی، وإنّ قدم المحمدیّین وَقَعَتْ علی المنارۃ العلیا۔ إن محمدًا سیّد الأنبیاء ، مطہَّر



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 709

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 709

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/709/mode/1up


مصطفٰی۔ إنّ اللّٰہ یصلح کلّ أمرک، ویعطیک کلّ مراداتک۔ ربُّ الأفواج یتوجّہ إلیک، کذالک یری الآیات لیُثْبتَ أنّ القرآن کتاب اللّٰہ وکلمات خرجت من فوہی۔ یا عیسٰی إنّی متوفّیک ورافعک إلیّ وجاعل الذین اتّبعوک فوق الذین کفروا إلٰی یوم القیامۃ۔ ثلّۃ من الأوّلین، وثلّۃ من الآخرین۔ إنّی سأری بریقی، وأرفعک من قدرتی۔ جاء نذیر فی الدنیا، فأنکروہ أہلہا وما قبلوہ، ولکن اللّٰہ یقبلہ، ویُظہر صدقہ بصولٍ قویٍّ شدیدٍ صول بعد صولٍ۔ أنت منّی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی، فحان أن تعان وتُعرَف بین الناس۔ أنت منّی بمنزلۃ عرشی، أنت منی بمنزلۃ ولدی*، أنت منّی بمنزلۃٍ لا یعلمہا الخَلْقُ۔ نحن أولیاؤکم فی الحیاۃ الدنیا والآخرۃ۔ إذا غضبتَ غضبتُ، وکلّ ما أحببتَ أحببتُ۔ من عادیٰ لی ولیًّا فقد آذنتہ للحرب۔ إنّی مع الرسول أقوم، وألوم من یلوم، وأعطیک ما یدوم۔ یأتیک الفرج۔ سلامٌ علٰی إبراہیم228۔ صافیناہ ونجّیناہ من الغمّ۔ تفرّدنا بذالک، فاتّخِذوا من

مقام إبراہیم مصلّی۔ إنّا أنزلناہ قریبًا من القادیان۔ وبالحقّ أنزلناہ وبالحق نزل۔ صدق اللّٰہ ورسولہ، وکان أمر اللّٰہ مفعولًا۔ الحمد للہ الذی جعلک المسیح

ابن مریم۔ لا یُسأل عمّا یفعل وہم یُسألون۔ آثرک اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ۔ نزلت

سُرُرٌ من السّماء ، ولٰکن سریرک وُضع فوق کل سریر۔ یریدون أن یطفؤا

نور اللّٰہ، ألا إنّ حزب اللّٰہ ہم الغالبون۔ لا تخَفْ إنّک أنت الأعلٰی۔


* سبحان اللّٰہ وتعالٰی مما أن یکون لہ ولد، ولٰکن ہذا استعارۃ کمثل قولہ تعالی: 33 ۱؂، والاستعارات کثیرۃٌ فی القرآن، ولا اعتراض علیہا عند أہل العلم والعرفان۔ فہذا القول لیس بقولٍ منکَر، وتجد نظائرہ فی الکتب الإلٰہیۃ وأقوال قومٍ رُوحانیین یُسمَّون بالصوفیۃ، فلا تعجِلوا علینا یا أہل الفطنۃ۔ منہ

228 سمّانی ربّی إبراہیم، وکذالک سمّانی بجمیع أسماء الأنبیاء من آدم إلٰی خاتَمِ الرسل وخیرِ الأصفیاء ، وقد ذکرتہ فی کتابی "البراہین"، فلیرجعْ إلیہ من کان من الطالبین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 710

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 710

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/710/mode/1up


لا تخف، إنی لا یخاف لدیّ المرسلون۔ یریدون أن یطفؤا نور اللّٰہ بأفواہہم، واللّٰہ متمّ نورہ ولو کرہ الکافرون۔ ننزل علیک أسرارا من السّماء ، ونمزّق الأعداء کلّ ممزّق۔ ونری فرعون وہامان وجنودہما ما کانوا یحذرون۔

فلا تحزن علٰی ما قالوا، إنّ ربّک لبالمرصاد۔ ما أُرسل نبیّ إلَّا أخزی بہ اللّٰہ قومًا لا یؤمنون۔ سننجیک، سنعلیک، سأُکرمک إکرامًا عجبا۔ أُریحک

ولا أُجیحک، وأُخرج منک قومًا۔ ولک نری آیات، ونہدم ما یعمرون۔

أنت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ۔ کمثلک دُرٌّ لا یضاع۔ لک درجۃ فی السماء وفی الذین ہم یبصرون۔ یُبدی لک الرحمٰن شیئا۔ یخرّون علی المساجد۔ یخرّون علی الأذقان۔ ربّنا اغفِرْ لنا ذنوبنا إنّا کنّا خاطئین۔ تاللّٰہ لقد آثرک اللّٰہ علینا وإنْ کنّا لخاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم، یغفر اللّٰہ لکم وہو أرحم الراحمین۔ یعصمک اللّٰہ من العدا، ویسطو بکل من سَطا، ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ ألیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ۔ یا جبال أَوِّبی معہ والطّیر۔

سلام قولًا من ربّ رحیم، وامتازوا الیوم أیہا المجرمون۔ إنی مع الروح معک ومع أہلک، لا تخف إنّی لا یخاف لدیّ المرسلون۔ إن وعد اللّٰہ أتٰی، ور!کل ور!کیٰ، فطوبٰی لمن وجد ورأی، أمم یَسَّرْنا لہم الہُدیٰ، وأمم حقّ علیہم العذاب۔ وقالوا لست مرسلا، قل کفی باللّٰہ شہیدًا بینی وبینکم ومن عندہ علم الکتاب۔ ینصرکم اللّٰہ فی وقت عزیز۔ حُکْمُ اللّٰہ الرحمٰن لخلیفۃ اللّٰہ السلطان۔ یؤتٰی لہ الملک العظیم، وتُفتح علٰی یدہ الخزائن۔ ذالک فضل اللّٰہ وفی أعینکم عجیب۔ قل یا أیہا الکفّار إنّی من الصادقین۔ فانتظروا آیاتی حتّی حین۔ سنُریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم۔ حُجّۃ قائمۃ وفتح مبین۔ إن اللّٰہ

یفصل بینکم، إنّ اللّٰہ لا یہدی من ہو مسرف کذّاب۔ وَضَعْنا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 711

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 711

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/711/mode/1up


عنک وزرک الذی أنقض ظہرک، وقُطع دابر القوم الّذین لا یؤمنون۔ قل اعملوا علٰی مکانتکم إنی عاملٌ فسوف تعلمون۔ إن اللّٰہ مع الذین اتّقوا والذین ہم محسنون۔ ہل أتاک حدیث الزلزلۃ۔ إذا زلزلت الأرض زلزالہا، وأخرجت الأرضُ أثقالہا، وقال الإنسان ما لہا، یومئذ تحدّث أخبارہا، بأن ربّک أوحی لہا۔ أحسب النّاس أن یترکوا۔ وما یأتیہم إلَّا بغتۃ۔ یسألونک أحقٌّ ہو؟ قل إی وربّی إنّہ لحقٌّ، ولا یُرَدّ بأسہ عن قوم یعرضون۔ الرحی تدور، وینزل القضاء ۔ لم یکن الذین کفروا من أہل الکتاب والمشرکین منفکّین حتی تأتیہم البیّنۃ۔ لو لم یفعل اللّٰہ ما فعل لأحاطت الظلمۃ علی الدنیا جمیعہا۔ أریک

زلزلۃ الساعۃ۔ یریکم اللّٰہ زلزلۃ الساعۃ۔ لمن الملک الیوم؟ لِلّٰہ الواحد القہّار۔ أری بریق آیتی ہٰذہ خمس مرّاتٍ، ولو أردت لجعلت ذالک الیوم یوم

خاتمۃ الدُّنیا۔ إنّی أحافظ کلّ من فی الدار۔ أریک ما یرضیک۔ قل لرفقائک إنّ وقت إظہار العجائب بعد العجائب قد أتٰی۔ إنّا فتحنا لک فتحا مبینا

لیغفر لک اللّٰہ ما تقدّم من ذنبک وما تأخّر۔ إنّی أنا التوّاب۔ من جاء ک

جاء نی۔ سلام علیکم طبتم۔ نحمدک ونصلّی صلاۃ العرش إلی الفرش۔

نزلتُ لک، ولک نُرِی آیاتٍ۔ الأمراض تشاع والنفوس تضاع۔ إنّ اللّٰہ

لایغیّر ما بقوم حتی یغیّروا ما بأنفسہم۔ إنّہ أوی القریۃ۔ لولا الإکرام

لہلک المقام۔ إنی أحافظ کل من فی الدار۔ ما کان اللّٰہ لیعذبہم وأنت

فیہم۔ أمنٌ فی دارنا التی ہی دار المحبّۃ۔ تزلزل الأرض زلزالًا شدیدًا

ویجعل عالیہا سافلہا۔ یوم تأتی السّماء بدخان مبین، وتری



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 712

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 712

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/712/mode/1up


الأرض یومئذٍ خامدۃ مصفرّۃ۔ أکرمک بعد توہینک۔ یتمنّون ألَّا یتمّ أمرک، واللّٰہ یأبی إلَّا أن یتمّ أمرک۔ إنّی أنا الرحمن، سأجعل لک سہولۃ فی کل أمر۔ أریک برکات من کلّ طرف۔ نزلت الرحمۃ علٰی ثلاث: العین وعلی الأُخْریَیْن۔ تُرَدّ إلیک أنوار الشباب۔ تری نسلًا بعیدًا۔ إنّا نبشّرک بغلامٍ مَظہَرِ الحقّ والعُلٰی، کأنّ اللّٰہ نزل من السّماء ۔ إنّا نبشّرک بغلام نافلۃ لک۔ سبّحک اللّٰہ ورافاک، وعلّمک ما لم تعلم۔ إنہ کریم تمشّی أمامک، وعادی لک من عادی۔ وقالوا إنْ ہٰذا إلَّا اختلاق۔ ألم تعلم أن اللّٰہ علٰی کل شیءٍ قدیر۔ یلقی الرّوح علٰی من یشاء من عبادہ۔ کلّ برکۃ من محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فتبارک من علّم وتعلّم۔ إنّ علم اللّٰہ وخاتمہ فعَل فعلًا عظیما۔

إنی معک ومع أہلک ومع کلّ من أحبّک۔ برق اسمی لک، وکُشف العالم الروحانی علیک، فبصرک الیوم حدید۔ أطال اللّٰہ بقاء ک۔ تعیش ثمانین حولا أو تزید علیہ خمسۃ أو أربعۃ أو یقّل کمثلہا۔ (ترجمۃ الہندی):

وإنی أبارکک ببرکاتٍ عظیمۃ حتّی إن الملوک یتبرّکون بثیابک۔

(ترجمۃ الہندی): لک برق اسمی، وإنی أریک خمسین أو ستّین آیۃ

سوی آیات أَریتہا۔ إن للمقبولین أنواع نموذج وعلاماتٍ، ویعظّمہم

الملوک وذوو الجبروت، ویقال لہم أبناء ملوک السّلامۃ۔ أیّہا العدو

إنّ سیف الملا ئکۃ مسلول أمامک، لٰکنّک ما عَرفتَ الوقت۔ لیس الخیر

فی أن یحارب أحد مَظہَرَ اللّٰہ۔ رَبِّ فَرِّق بین صادق وکاذب، أنتَ تری

کلّ مصلح وصادق۔ ربّ کلّ شیءٍ خادمک، ربّ فاحفَظْنی وانصرنی وارحمنی۔ قاتلک اللّٰہ (أیّہا العدو)، وحفظنی من شرّک۔ جاء ت الزلزلۃ، قوموا لنصلّی ونری نموذج القیامۃ۔ یُظہرک اللّٰہ ویثنی علیک۔ لولاک لما



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 713

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 713

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/713/mode/1up


خلقتُ الأفلاک۔ ادعونی أستجب لکم۔ (ترجمۃ الفارسی): الید یدک، والدعاء دعاؤک، والترحّم من اللّٰہ۔ واقعۃ الزلزلۃ۔ عفَتِ الدیار محلُّہا ومقامُہا، تتبعہا الرادفۃ۔ (ترجمۃ الفارسی): عاد الربیع وتمّ قول اللّٰہ مرّۃً أُخری۔ (أیضا): عاد الربیع وجاء ت أیّام الثلج وکثرۃ المطر۔ ربّ أَخِّرْ وقت ہٰذا۔ أخَّرہ اللّٰہ إلٰی وقت مسمّی۔ تری نصرًا عجیبًا۔ ویخرّون علی الأذقان۔ ربّنا اغفر لنا ذنوبنا إنّا کنّا خاطئین۔ یا نبیَّ اللّٰہ کنتُ لا أعرفک۔ لا تثریب علیکم الیوم، یغفِر اللّٰہ لکم، وہو أرحم الراحمین۔ تَلطَّفْ بالنّاس وترحَّمْ علیہم، أنت فیہم بمنزلۃ موسی، یأتی علیک زمنٌ کمثل زمن موسٰی۔ إنّا أرسلنا إلیکم رسولًا شاہدًا علیکم کما أرسلنا إلٰی فرعون رسولا۔ (ترجمۃ الہندی): نزل من السماء لبن کثیر فاحفظوہ۔ إنی آثرتک واخترتک۔ (ترجمۃ الہندی): اعدت لک حیاۃ طیّبۃ۔ واللّٰہ خیر من کلّ شیء ۔ عندی حسنۃ ہی خیر من جبل۔ (ترجمۃ الہندی): علیک سلام کثیر منّی۔ إنّا أعطیناک الکوثر۔ إنّ اللّٰہ مع الذین اہتدوا، والذین ہم صادقون۔ إن اللّٰہ مع الذین اتّقوا والذین ہم محسنون۔ أراد اللّٰہ أن یبعثک مقامًا محمودا۔

(ترجمۃ الہندی): ستظہر آیتان۔ وامتازوا الیوم أیہا المجرمون۔ یکاد البرق یخطف أبصارہم۔ ہٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ یا أحمد، فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک۔کلام أُفصِحتْ من لدُنْ ربّ کریم۔ (ترجمۃ الفارسی): إن فی کلامک شیء لا دخل فیہ للشعراء ۔ ربّ عَلِّمْنی ما ہو خیر عندک۔ یعصمک اللّٰہ

من العدا، ویسطو بکل من سطا۔ برز ما عندہم من الرماح۔ سأخبرہ فی آخرالوقت* أنّک لست علی الحق۔ إن اللّٰہ رؤوف رحیم۔ إنا ألنّا لک


* ہٰذا ما أوحیٰ إلیّ ربّی فی رجل خالَفَنی وکفرنی وہو من علماء الہند المسمّی بأبی سعید محمد حسین البتالوی۔ منہ




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 714

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 714

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/714/mode/1up


الحدید۔ إنّی مع الأفواج آتیک بغتۃ۔ إنی مع الرسول أجیب، أخطی* وأصیب۔ وقالوا أَنَّی لک ہٰذا؟ قل ہو اللّٰہ عجیبٌ۔ جاء نی آیل228 واختار، وأدار إصبعہ وأشار۔ إنّ وعد اللّٰہ أتٰی، ور!کل ور!کی، فطوبٰی لمن وجد ورأی۔

الأمراض تشاع والنفوس تضاع۔ إنّی مع الرسول أقوم، أفطرز وأصوم، ولن أبرح الأرض إلی الوقت المعلوم، وأجعل لک أنوار القدوم، وأقصدک وأروم، وأعطیک ما یدوم۔ إنّا نرث الأرض نأکلہا من أطرافہا۔ ونُقلوا إلی المقابر۔ ظفر من اللّٰہ وفتح مبین۔ إن ربی قویّ قدیر، إنہ قویّ عزیز۔ حلّ غضبہ علی الأرض۔ إنّی صادق صادق، وسیشہد اللّٰہ لی۔ (ترجمۃ الہندی): اٰتنا یاربَّنا الأزلیّ الأبدیّ آخذًا للسلاسل۔ ضاقت الأرض بما رحبت۔ ربِّ إنی مغلوب فانتصِرْ، فسَحِّقْہم تسحیقًا۔ (ترجمۃ الہندی): قوم بعدوا من طریق الحیاۃ الإنسانیۃ۔ إنّما أمرک إذا أردت شیئا أن تقول لہ کن فیکون۔ (ترجمۃ الہندی): لمّا کنتَ تدخل فی منزلی مرّۃ بعد مرّۃ، فانظر ہل مطَر سحاب الرحمۃ أو لا۔ إنّا أمَتْنا أربعۃ عشر دوابًّا۔ ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون۔ (ترجمۃ الفارسی): إنّ مآل الجاہل جہنم، فإن الجاہل قلّ أن تکون لہ عاقبۃ الخیر۔ حصل لی الفتح، حصل لی الغلبۃ۔ إنی أُمّرتُ من الرحمٰن، فأْتونی،


* سبحانہ وتعالی من أن یخطی، فقولُہ ’’أخطی‘‘ قد ورد علٰی طریق الاستعارۃ کمثل لفظ التردد المنسوب إلی اللّٰہ تعالٰی فی الأحادیث۔ منہ

228 المراد من الآیل جبرئیلُ علیہ السلام، وکذالک فہّمنی ربّی، ولمّا کان الأَوْل والإیابُ من صفات جبرئیل علیہ السلام فلذالک سُمّی بالآیل فی کلام اللّٰہ تعالٰی۔ منہ

ز فیہ إشارۃٌ إلٰی عذاب الطاعون إلٰی وقتٍ، ثم تأخیرِہ إلٰی وقت، کأنّ اللّٰہ یُفطر ویصوم۔

منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 715

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 715

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/715/mode/1up


إنی حمی الرحمٰن۔ إنّی لأجد ریح یوسف لولا أَنْ تفنّدونِ۔ ألم تر کیف فعل ربّک بأصحاب الفیل، ألم یجعل کیدہم فی تضلیل۔ إنّا عفونا عنک۔ لقد نصرکم اللّٰہ ببدر وأنتم أذلّۃ۔ وقالوا إن ہٰذا إلَّا اختلاق۔ قل لو کان من عند غیر اللّٰہ لو!جدتم فیہ اختلافًا کثیرا۔ قل عندی شہادۃ من اللّٰہ فہل أنتم مؤمنون۔ یأتی قمر الأنبیاء ، وأمرُک یتأتَّی۔ وامتازوا الیوم أیہا المجرمون۔ (ترجمۃ الہندی): تقع زلزلۃ فتشتدّ کلّ الشدّۃ، وتُجعل عالی الأرض سافلہا۔ ہٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ إنّی أحافظ کُلّ من فی الدّار۔ سفینۃ وسکینۃ۔ إنّی معک ومع أہلک۔ أرید ما تریدون۔ الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصّہر والنسب۔ الحمد للّٰہ الذی أذہب عنّی الحزن، وآتانی ما لم یؤتَ أحد من العالمین۔ یٰسٓ إنّک لمن المرسلین، علٰی صراط مستقیم، تنزیل العزیز الرحیم۔ أردت أن أستخلف فخلقت آدم۔ یُحیی الدّین ویقیم الشریعۃ۔ (ترجمۃ الفارسی): إذا جاء زمان السُّلطان، جدّد إسلام المسلمین۔ إن السماوات والأرض کانتا رتقًا ففَتَقْناہما۔ قرب أجلک المقدّر۔ إنّ ذا العرش یدعوک۔ ولا نُبقی لک من المخزیات ذکرا۔ قَلَّ میعاد ربّک ولا نبقی لک من المخزیات شیءًا۔ (ترجمۃ الہندی): قلّت أیّام حیاتک، ویومئذ تزول السکینۃ من القلوب، ویظہر أمرٌ عجیب بعد أمرٍ عجیب وآیۃ بعد آیۃ، ثم بعد ذالک یتوفّاک اللّٰہ۔ جاء وقتک ونبقی لک الآیات باہرات۔ جاء وقتک ونبقی لک الآیات بیّنات۔ ربِّ توفَّنی مسلمًا، وأَلْحِقْنی بالصالحین۔ آمین



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 716

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 716

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/716/mode/1up


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

عِلمی مِنَ الرحمٰن ذی الآلاءِ

باللّٰہ حُزْتُ الفضلَ لا بِدَہَاءِ

علم من از خدا تعالیٰ است کہ خداوند نعمت ہاست

وبذریعہ خدا فضیلت را جمع کردم نہ بذریعہ عقل

کَیفَ الوصُول إلٰی مَدارجِ شکرہِ

نثنی عَلَیہ ولَیْس حولُ ثناءِ

چگونہ تامدارج شکر او توانیم رسید

تعریف او می کنیم و نتوانیم کرد

اللّٰہ مَولانا وکَافلُ أمرنا

فی ہٰذہ الدّنیا وبَعْد فناءِ

خدا مولائے ما ومتکفل امرما ست

چہ درین دنیا و چہ در آخرت

لولا عنایتہ بزمنِ تطَلُّبی

کادت تُعفِّینی سیولُ بکائی

اگر عنایت او در زمانہ پیاپی جستن من نبودے

نزدیک بود کہ سیل ہائے گریہ مرا نابود کردندے

بشری لنا إنا وجدْنا مُونسًا

ربًّا رحیمًا کاشِفَ الغَمّاءِ

مارا خوشخبری باد کہ مامونسے یافتیم

کہ رب رحیم دور کنندہ غم ہاست

أُعطیتُ مِن إِلْفٍ معارفَ لُبَّہَا

أُنزلتُ مِن حِبٍّ بدار ضیاءِ

از دوستے من معارف دادہ شدہ ام

و از محبوبے درجائے روشنی فرود آمدہ ام

نتلو ضیَاءَ الحقّ عند وضوحہِ

لَسْنا بمبتاع الدجیٰ بِبَراءِ

ما روشنی حق را بعد ظہور او پیروی مے کنیم

و تاریکی را بعد طلوع ماہ نتوانیم خرید

نفسی نَأَتْ عن کل ما ہو مظلمٌ

فأنختُ عند منوِّری وَجْنائی

نفس ما از ہمہ تاریکی ہا دورشد

وناقہ خود را برآستانہ آنکس خوابانیدم کہ روشنی بخشندہ من است

غلبَتْ علٰی نفسی محبّۃُ وَجہِہٖ

حتّی رَمَیتُ النفسَ بالإلغاءِ

برنفس من محبت او غالب شد

تاآنکہ نفس را از میان افگندم

لمّا رأیتُ النفسَ سدّتْ مُہْجَتی

ألقیتُہا کالمَیْتِ فی البَیْداءِ

چون دیدم کہ نفس من سد راہِ من است

پس او را ہمچو مردہ در بیابانے انداختم

اللّٰہ کہفُ الأرض والخضراءِ

ربٌّ رحیم ملجأُ الأشیاءِ

خدا پناہ زمین و آسمان است

خدائے رحیم جائے پناہ چیزہا



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 717

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 717

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/717/mode/1up



بَرٌّ عَطوف مأمَنُ الغرماءِ

ذو رحمۃٍ و تبرُّعٍ وَ عَطاءِ

نیکی کنندہ مہربان جائے امن مصیبت زدگان

صاحب رحمت واحسان وبخشش

أحدٌ قدیم قائم بوجودہِ

لَم یتخذْ وَلَدًا ولا الشرکاءِ

یکے است وقدیم است وقائم بالذات است

نہ پسرے گرفت و نہ شریکے دارد

ولہ التفرّد فی المَحَامد کلّہا

ولہ علاء فوق کلّ علاءِ

واو را در تمام صفات یگانگی است

واو را بلندی برہر بلندی است

العَاقلون بعَالَمین یَرونہُ

وَالعَارفونَ بہ رأوا الأشیاءِ

عقلمندان بذریعہ مصنوعات او را می بینند

وعارفان بذریعہ او مصنوعات را مشاہدہ می نمایند

ہذا ہو المعبود حقًّا لِلْوَرٰی

فَردٌ وَحیْد مَبدء الأضواءِ

ہمیں معبود حق برائے مخلوقات است

فردست یگانہ و ابتدائے ہمہ نورہا ازوست

ہذا ہو الحِبُّ الذی آثرتُہُ

ربُّ الوری عین الہدیٰ مولائی

این ہمان محبوب است کہ اورا اختیار کردہ ام

ربّ مخلوقات چشمہ ہدایت مولائے من

ہاجتْ غمامۃُ حُبّہ فکأنّہا

رکبٌ علٰی عُسْبُورۃِ الحَدْواءِ

ابرمحبت او برانگیخت پس گویا آن ابر

بر ناقہ بادِ شمال سواران ہستند

ندعوہ فی وقت الکروب تضرّعًا

نرضی بہ فی شدّۃ و رخاءِ

در وقت بیقراری ہا ما اورا مے خوانیم

ودر نرمی و سختی با او خوشنود ہستیم

حَوجاءُ* أُ لْفتہ أثارت حُرّتی

ففدَی جَنانی صولۃَ الحَوجاء*

بادگرد الفت او خاک ما پرانید

پس دل من برحملہ آن بادگرد قربان شد

أعطی فما بقیَتْ أمانی بَعْدہُ

غمَرت أیادی الفیض وجہَ رجائی

مرا چندان داد کہ آرزوئے دیگر نماند

ودست ہائے فیض او روئے امید مرا بپوشید

إنّا غُمِسنا مِن عنایۃ ربّنا

فی النور بَعْد تمزُّق الأہواءِ

ما از عنایت رب خود

در نور غوطہ دادہ شدیم و ہوا و ہوس پارہ پارہ شد

إنّ المحبّۃ خُمِّرت فی مُہْجتی

وأری الودادَ یلُوح فی أہبائی

محبت در جان من خمیر کردہ شد

ومی بینم کہ دوستی در دل من می درخشد

إنی شربت کؤوس موت للْہُدیٰ

فوجدتُ بعد الموت عینَ بقاءِ

من برائے ہدایت کاسہ ہائے موت نوشیدم

پس بعد از موت چشمۂ بقا یافتم



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 718

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 718

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/718/mode/1up


إنی أُذِبتُ مِنَ الوداد و نارہِ

فأری الغروبَ یسیل من إہرائی

من از آتش محبت گداختہ شدہ ام

پس اشکہا را می بینم کہ از گدازش من روان شدہ اند

الدمع یجری کالسیول صبابۃً

والقلب یُشوَی من خیال لقاءِ

اشک مثل سیل ہا از شوق روان است

ودل از خیال دیدار بریان مے شود

وأری الوداد أنارَ بَاطِنَ بَاطِنی

وأری التعشّق لاحَ فی سِیمائی

ومی بینم کہ دو ستے باطن باطن مرا روشن کردہ است

وعشق در سیمائے من ظاہر شدہ است

الخَلقُ یبغُون اللّذاذۃَ فی الہویٰ

ووجدتُہا فی حُرقۃٍ وَ صَلاءِ

مردم لذات را در ہوا و ہوس می جویند

ومن لذت را در سوزش وسوختن یافتم

اللّٰہ مقصد مُہْجَتی و أریدہ

فی کل رشحِ القلم و الإملاءِ

خدا مقصود جان من است ومن اورا

بہر قطرہ قلم واملا می خواہم

یا أیّہا الناس اشربوا من قِربتی

قد مُلِ أَمن نور المفیض سِقائی

اے مردمان ازمشک من بنوشید

کہ از نور فیاض حقیقی مشک من پُراست

قوم أطاعونی بصدق طویّۃٍ

والآخرون تکبّروا لغطاءِ

قومے است کہ از صدق مرا اطاعت کردند

و قومے دیگر است کہ از پردہ نفس تکبر ورزیدند

حسدوا فسبّوا حاسدین ولم یزلْ

حسَدتْ لئامٌ کلَّ ذی نعماءِ

حسد کردند پس دشنام دادن وہمیشہ چنین است

کہ لئیمان خداوند انِ نعمت را حسد می کنند

مَن أنکر الحقَّ المبین فإنّہُ

کلبٌ وعَقب الکلبِ سِرْبُ ضِراءِ

ہر کہ از حق ظاہر انکار کند او سگے است نہ انسان

وپس آن سگ سگ بچگان ہستند کہ پیروی او می کنند

آذَوا وسبّونی و قالوا کافرٌ

فالیوم نقضی دَینَہم برِباءِ

مرا ایذا دادند وسقط گفتند وگفتند کہ کافرے است

پس امروز ما قرض ایشان بچیزے زیادہ ادامی کنیم

واللّٰہِ نحن المسلمون بفضلہِ

لٰکن نَزٰی جہلٌ علی العلماءِ

وبخدا کہ ما از فضل او مسلمانان ہستیم

لیکن برعلماء جہالت حملہ کردہ است

نختار آثار النَّبیِّ وأَمْرَہُ

نقفو کتابَ اللّٰہ لا الآراءِ

ماآثار نبی صلی اللہ علیہ وسلم را اختیار مے کنیم

و پیروی کتاب اللہ رامے کنیم نہ پیروی رائے دیگر

إنّا بَراءٌ فی مناہج دینہِ

مِن کلّ زندیق عدوِّ دَہاءِ

ما در دین او و راہ دین او از ہر ملحدے

بیزاریم کہ دشمن عقل است



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 719

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 719

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/719/mode/1up


إنّا نطیع محمّدًا خیرَ الوریٰ

نورُ المُہَیمن دَافِع الظَّلماءِ

ما محمدصلی اللہ علیہ وسلم را پیروی می کنیم

کہ نور خدا ودافع ظلمات است

أفنحن من قوم النصاریٰ أکفَرُ

وَیلٌ لکم ولہذہ الآراءِ

آیا چہ ما از نصاریٰ کافر تر ہستیم

ویل خدا برشما وبر رائے ہائے شما

یا شیخَ أرضِ الخبث أرضِ بطالۃٍ

کفّرتنی بالبغض والشّحناءِ

اے شیخ زمین پلید زمین بطالت

مرا از روئے کینہ وبغض کافر قرار دادی

آذیتَنی فَاخْشَ العواقب بعدہُ

والنّار قد تبدو من الإیراءِ

مرا آزار رسانیدی پس از انجام بدخود بے خوف مباش

وسنت الٰہی است کہ آتش از افروختن مے افروزد

تبّتْ یداک تبِعتَ کلَّ مفاسدٍ

زلّتْ بِکَ القدمانِ فی الأنحاءِ

ہر دودست تو ہلاک شود تو فساد ہا را پیروی کردی

وبگوناگون قدم ہائے تو لغزیدند

أودیٰ شَبَابُکَ والنوائبُ أخرفتْ

فالوقت وقت العجز لا الخیلاءِ

جوانی تو ہلاک شد و حوادث ترا قریب بہ پیرشدن کرد

پس وقت تو وقت عجز است نہ وقت تکبر وناز

تبغیْ تباریْ والدوائرَ مِن ہوٰی

فعلیکَ یسقُط حجرُ کلّ بلاءِ

تو ہلاکت من وگرد شہا برمن ازہوائے نفس خود میخواہی

پس بر تو سنگ ہر بلا مے افتد

إنّی من المَولٰی فکیف أُ تَبَّرُ

فاخْشَ الغُیُور ولا تَمُتْ بجفاءِ

من از جانب خدا ہستم پس چگونہ ہلاک شوم

پس از غیرت آن غیور بترس وبظلم خود موت را اخیتار مکن

أ فتضرِبنَّ علی الصَّفاۃ زُجاجۃً

لا تنتھرْ* واطلبْ طریق بقاءِ

آیا برسنگ شیشہ را می زنی

خودکشی مکن وطریق باقی ماندن بجو

اُتْرُکْ سبیل شرارۃ وخباثۃٍ

ہَوِّنْ علیک ولا تمُتْ بعناءِ

راہ شرارت وخباثت را بگذار

برحال خود نرمی کن واز رنج ممیر

تُبْ أیّہا الغالی وتأتی ساعۃٌ

تمسی تعُضّ یمینَک الشلّاءِ

اے غلو کنندہ توبہ کن وساعتے می آید

کہ دست راست خود را کہ خشک شدہ است خواہی گزید

یا لیت ما ولدتْ کمثلک حامِلٌ

خفّاش ظلماتٍ عدوّ ضیاءِ

کاش مادرے پسرے ہمچو تو نہ زادے

کہ خفاش تاریکی و دشمن روشنی است

تسعٰی لتأخذنی الحکومۃُ مجرمًا

ویلٌ لکلّ مزوِّر وَشّاءِ

تو کوشش می کنی کہ حکومت مرا ہمچو مجرمے بگیرد

بر ہر دروغ آرایندہ عیب چین و نمّام واویلاست



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 720

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 720

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/720/mode/1up


لو کنتُ أُعطیتُ الوِلاءَ لعفتہ

ما لی ودنیاکم؟ کفانِ کِسائی

اگر حکومت مرا دہندی ہر آئینہ کراہت کردمی

مرا بدنیائے شماچہ تعلق است مرا گلیم خود کافی است

متنا بموت لا یراہ عدوُّنا

بعُدتْ جنازتنا من الأحیاءِ

مابمرگے بمردیم کہ دشمن ماحقیقت آن نمی داند

جنازۂ ما از زندگان دور افتادہ است

تُغری بقولٍ مفترًی و تخرّص

حکّامَنا الظانین کالجہلاءِ؟

بقول درہم بافتہ حکام را می انگیزی

وحکام کسانے ہستند کہ ہمچو جاہلان بدگمان ہستند؟

یا أیّہا الأعمٰی أ تُنکر قادرًا

یحمی أحبّتَہ من الإیواءِ

اے کور آیا تو وجود آن خدا را تسلیم نمی کنی

کہ محبان خود را خود نزد خود جا دادہ نگہ می دارد

أنَسیتَ کیف حمَی القدیر کلیمَہُ

أو ما سمعتَ مآلَ شمسِ حِراءِ

آیا فراموش کردی کہ چگونہ خدا موسیٰ علیہ السلام رانگہ داشت

یا انجام کارآن مرد کہ آفتاب مطلع حراء است نشنیدی

نحو السّماء و أمرِہا لا تنظُرَنْ

فی الأرض دُسَّتْ عینُک العَمْیاءِ

چشم تو سوئے آسمان وحکم آسمان نیست

بلکہ چشم نابینائے تو در زمین فرو رفتہ

غرّتْک أقوالٌ بغیر بصیرۃٍ

سُتِرتْ علیک حقیقۃ الأنباءِ

چند اقوال بغیر بصیرت ترا مغرور کرد

وحقیقت خبرہا بر تو پوشیدہ ماند

أدخلتَ حزبک فی قلیبِ ضلالۃٍ

أفہذہ من سیرۃ الصلحاءِ

گروہ خود را در چاہ ضلالت افگندی

آیا ہمین سیرت نیکان است

جاوزتَ بالتکفیر من حدّ التقٰی

أشَقَقْتَ قلبی أو رأیتَ خفائی

در کافر قراردادن از حد تقویٰ در گزشتی

آیا دل مرا بشگافتی یا حال پنہان مرا دیدی

کَمِّلْ بخُبثک کلَّ کَیدٍ تقصدُ

واللّٰہُ یکفی العبدَ للإرزاءِ

ہمہ مکرے کہ میداری بکمال رسان

وبندہ را برائے پناہ دادن اللہ کافی است

تأتیک آیاتی فتعرف وَجْہَہَا

فاصبِرْ ولا لتترُکْ طریق حیاءِ

نشانہائے من ترا خواہند رسیدپس آنہا را خواہی شناخت

پس صبر کن وطریق حیا را از دست مدہ

إنی کتبتُ الکتبَ مثلَ خوارقٍ

اُنظُرْ أ عندک ما یصوب کمائی

من کتابہا مثل خوارق نوشتہ ام

آیا نزد تو چیزے است کہ ہمچو آب من بیارد

إن کنت تقدر یا خصیم کقدرتی

فاکتُبْ کمثلی قاعدا بحذائی

اے خصومت کنندہ اگر ترا قدرت مثل قدرت من است

پس بمقابلہ من نشستہ بنویس



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 721

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 721

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/721/mode/1up


ما کنتَ ترضی أن تُسمَّی جاہلًا

فالآن کیف قعدتَ کاللَّکْناءِ

تو آن نبودی کہ بجہل خود راضی گشتے

پس اکنون ترا این چہ شدکہ ہمچوزن ژولیدہ زبان نشستۂ

قد قلتَ للسّفہاء إنّ کتابہُ

عَفصٌ یُہِیج القیءَ من إصغاءِ

تو سفیہان را گفتی کہ کتاب او

بد مزہ است از شنیدن قے می آید

ما قلتَ کالأدباء قُلْ لِیْ بعدما

ظَہَرتْ علیک رسائلی کقُیاءِ

بگو تو مثل ادیبان چہ گفتی

بعد زانکہ رسائل من تراقے آرندہ معلوم شدند

قد قلتَ إنی باسل متوغلٌ

سَمَّیتَنی صیدًا من الخیلاءِ

تو می گفتی کہ من دلاور ودرعلم توغل ہا دارم

ونام من شکار نہادہ بودی

الیَوم منّی قد ہرَبتَ کأرنبٍ

خوفًا مِنَ الإخزاء والإعراءِ

امروز از من ہمچو خرگوشے بگریختی

ازین خوف کہ رسوا خواہی شد وبرہنہ خواہی شد

فَکِّرْ أما ہذا التخوّف آیۃ

رعبًا من الرحمٰن للإدراءِ

فکر کن آیا این نشان خدا تعالیٰ نیست

کہ بر تو رعب انداخت تاترا آگاہ کند

کیف النضال وأنتَ تہرُب خشیۃً

اُنظُرْ إلٰی ذلٍّ من اسْتعلاءِ

تو چگونہ بامن معارضہ توانی کرد واز خوف می گریزی

این پاداش تکبر وناز کردن است

إنّ المہَیمِن لا یحبّ تکبّرًا

مِن خَلْقہ الضعفاء دود فناءِ

خدا تعالیٰ از آفریدگان خود کہ ضعیف و کِرمِ نیستی

ہستند تکبر پسند نمی کند

عُفِّرتَ مِن سہمٍ أصَابک فاجءًا

أصبحتَ کالأموات فی الجَہْراءِ

از تیرے درخاک غلطانیدہ شدی کہ بناگاہ ترارسید

ودر بیابان ہمچو مُردگان صبح کردی

الآن أین فررتَ یا ابنَ تصلّفٍ

قد کنتَ تحسبنا مِن الجہلاءِ

اکنون اے پسر لاف ہا کجا گریختی

وتو مارا از جہلاء می پنداشتی

یا مَن أہاج الفتن قُمْ لِنضالنا

کنّا نعدّک نَوْجۃَ الحَثْواءِ

اے آنکہ فتنہ ہا انگیخت برائے پیکار ما برخیز

ماترا گردباد جائے غبار می پنداشتیم

نطقی کَمَوْلِیِّ الاءَسِرَّۃِ جَنّۃٍ

قولی کقِنْوِ النخل فی الخَلْقاءِ

نطق من مثل آن باغیست کہ بروادئ او باران دوم باریدہ باشد

وسخن من چون خوشہ نخل است کہ در زمین نرم باشد

مُزِّقتَ لٰکنْ لا بضرب ہَراوۃٍ

بل بالسیوف الجاریات کماءِ

تو پارہ پارہ کردہ شدی مگر نہ بضرب عصا

بلکہ بہ شمشیر ہا کہ ہمچو آب روان بودند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 722

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 722

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/722/mode/1up


إن کنت تحسدنی فإنی باسِلٌ

أُصلِی فؤاد الحاسد الخطّاءِ

اگر تو بامن حسدمی کنی پس من مردے دلاورم

دل حاسدان خطا کاران رامے سوزم

کذّبتَنی کفّرتنی حقّرتنی

وأردتَ أن اُسفیٰ کمثل عَفاءِ

تومرا دروغگو قرار دادی تو مرا کافر گفتی تو تحقیر من کردی

وخواستی کہ ہمچو خاک پرایندہ شوم

ہٰذا إرادتک القدیمۃ مِن ہوَی

واللّٰہُ کہفی مُہلِکُ الأعداءِ

این قدیم ارادہ تو در دل تو ماندہ

وخدا پناہ من وہلاک کنندہ دشمنان است

إنّی لشرُّ النّاس إن لم یأتِنی

نصرٌ من الرحمٰن للإعلاءِ

من بدترین مخلوقاتم اگر مدد خدا مرا نہ رسد

ازخدائے کہ رحمن وبلند کنندہ است

ما کان أمر فی یدیک و إنّہُ

ربٌّ قدیر حافظُ الضعفاءِ

ہیچ امرے در دست تو نیست

وخدائے من رب قدیر است کہ نگہدارندۂ کمزوران است

الکبر قد ألقاک فی درکِ اللظٰی

إنّ التکبّر أردأُ الأشیاءِ

این تکبر است کہ ترا درجہنم انداخت

بلاشبہ تکبر از ہمہ چیزہا ردّی تراست

خَفْ قہرَ ربٍّ ذی الجلال إلٰی متٰی

تقفو ہواک وتَنزُوَنْ کظِباءِ

از قہر خدائے بزرگ بترس وتاکجا

خواہش خود را پیروی خواہی کرد وہمچوآہوان خواہی جست

تبغیْ زوالیْ والمہَیمن حافظی

عادیتَ ربًّا قادرًا بمِرائی

تو زوال من می خواہی وخدا نگہبان من است

از دشمنی من خدا را دشمن گرفتی

إنّ المقرَّب لا یضاع بفتنۃٍ

والأجر یُکتب عند کُلّ بلاءِ

ہر کہ مقرب حق باشد بہ ہیچ فتنہ برباد نمی شود

ونزد ہر بلا برائے او اجرمی نویسند

ما خاب مَن خاف المہیمنَ ربَّہُ

إنّ المہیمن طالبُ الطلباءِ

ہرکہ از خدا بترسد ہرگز زیان نمی بردارد

بہ یقین بدان کہ خدا جویندۂ جویندگان است

ہل تطمَع الدنیا مذلّۃَ صادقٍ

ہیئات ذاک تخیُّل السفہاءِ

آیا دنیا این طمع می دارد کہ صادقے ذلیل گردد

این کجا ممکن است بلکہ این خیال سادہ لوحان است

إنّ العواقب للّذی ہو صالحٌ

والکَرّۃ الأولٰی لأہل جفاءِ

انجام پیکارہا برائے نیکو کاران است

وغلبہ اول برائے ظالمان است

شہدتْ علیہ، خصیمِ، سُنّۃُ ربِّنا

فی الأنبیاءِ و زمرۃِ الصلحاءِ

براین دعویٰ اے دشمن من سنت خدا گواہ است

کہ در انبیاء ونائبان انبیاء ماندہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 723

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 723

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/723/mode/1up


مُتْ بالتغیظ واللَّظَی یا حاسدی

إنّا نموت بعزّۃٍ قَعْساءِ

اے حاسد من بغضب ونائرہ آتش بمیر

کہ ما باعزت پائیدار خواہیم مُرد

إنّا نریٰ کلَّ العلٰی مِن ربّنا

والخَلْقُ یأتینا لبَغْیِ ضیاءِ

ماہمہ بلندی ہا از خدائے خود خواہیم دید

ومردم برائے طلب روشنی نزدما خواہند آمد

ہم یذکرونک لاعنینَ وذِکرُنا

فی الصّالحات یُعَدُّ بعد فناءِ

اوشان ترا بہ *** یاد خواہند کرد

وذکر خیر ما از جملہ نیکی ہا شمار کردہ خواہد شد

ہل تَہْدِمَنَّ القصرَ قصرَ إلٰہنا

ہل تُحرِقَنْ ما صنَعہُ بنّائی

آیا تو محل خدا را مسمار خواہی کرد

آیا تو چیزے را خواہی سوخت کہ ساختہ بانیء من است

یرجون عثرۃَ جَدّنا حسداؤُنا

ونذوق نعماءً ا علٰی نعماءِ

حاسدان می خواہند کہ بخت ما بسرد ر افتد

حالانکہ مانعمت ہا بر نعمت ہا می چشیم

لا تحسبنْ أمری کأَمْرٍ غُمّۃٍ

جاء ت بک الآیات مثل ذُکاءِ

امر مرا امرے مشتبہ مدان

وہمچو آفتاب ترا نشانہا رسیدہ اند

جاء ت خیارُ الناس شوقًا بعدما

شمُّوا ریاحَ المِسک من تلقائی

مردمان نیک نزدم آمدند

بعد ازانکہ خوشبوئے مشک از جانب من شمیدند

طاروا إلیّ بألفۃ وإرادۃٍ

کالطَّیرِ إذْ یَأْوی إلی الدَّفْواءِ

سوئے من بالفت وارادت پرواز کردند

مثل آن پرندہ کہ سوئے درخت بزرگ پناہ می گیرد

لفَظتْ إلیّ بلادُنا أکبادَہا

ما بقی إلا فضلۃ الفضلاءِ

دیار ما جگر گوشہ ہائے خود سوئے ما افگند

وبجز آن مردم دیگری نماند کہ فاضلان را ہمچو فضلہ اند

أو مِن رجال اللّٰہ أُخْفِیَ سرُّہمْ

یأْ توننی من بعدُ کالشہداءِ

یا آن مردانے کہ ہنوز راز ایشان پوشیدہ داشتہ اند

ایشان بعد ازین مثل گواہان خواہند آمد

ظہرتْ من الرحمٰن آیات الہُدیٰ

سجدتْ لہا أمم من العرفاءِ

از خدا تعالیٰ نشانہا ظاہر شدند

و عارفان بمشاہدہ آن خدا را سجدہ کردند

أما اللئام فینکرون شقاوۃً

لا یھتدون بھٰذہ الاضواء

مگر لئیمان از بدبختی انکار می کنند

باین روشنی ہا ہدایت نمے پذیرند

ہم یأْکلون الجِیْفَ مثل کلابنا

ہم یشرَہون کأَنْسُرِ الصحراءِ

اوشان ہمچو سگ ہائے ما مُردار می خورند

اوشان حریص مُردار ہمچو کرگس بیابان ہا اند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 724

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 724

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/724/mode/1up


خَشَّوا ولا تخشی الرجالُ شجاعۃً

فی نائبات الدّہر والہیجَاءِ

مراترسانیدند ومردان بہادر نمی ترسند

اگرچہ حوادث باشند یا جائے پیکار

لما رأیتُ کمالَ لطفِ مہیمنی

غاب البلاء فما أحسُّ بلائی

ہرگاہ کمال لطف خدائے خود دیدم

بلا رفت پس بوجود بلا ہیچ احساس نہ کردم

ما خاب مثلی مؤمن بل خصمُنا

قد خاب بالتکفیر و الإفتاءِ

مثل من شخصے ہرگز خائب وخاسر نمی گردد بلکہ دشمنے

کہ برائے تکفیر فتویٰ تیار کرد خائب و خاسر خواہد شد

الغَمْرُ یبدو* ناجذیہ تغیّظًا

اُنظُرْ إلی ذی لوثۃ عَجْماءِ

جاہلے دندان خود را از دشمنی آشکارا مے کند

سوئے این غبی کہ مثل چار پایہ است نگہ کن

قد أسخطَ المولٰی لیُرضی غیرہُ

واللّٰہُ کان أحقَّ للإرضاءِ

برائے رضائے اغیار خدا را ناراض کرد

وخدا برائے راضی کردن احق واولیٰ بود

کسّرتُ ظرف علومہم کزجاجۃٍ

فتطایروا کتطایر الوَقْعاءِ

من ظرف علوم ایشانرا ہمچو شیشہ شکستہ ام

پس ہمچو غبارے کہ برخیزد پرواز کردند

قد کفّروا مَن قال إنّی مُسلمٌ

لمقالۃ ابن بطالۃٍ وعُواءِ

آن کسے را کافر قرار دادند کہ میگوید کہ من مسلمانم

این ہمہ از سخن بٹالوی عوعو کنندہ است

خوف المہیمن ما أریٰ فی قلبہم

فارت عُیونُ تمرُّدٍ و إباءِ

خوف خدا در دل ایشان نمی بینم

چشمہ ہائے سرکشی در جوش اند

قد کنتُ آمل أنّہم یخشونہ

فالیوم قد مالوا إلی الأہواءِ

من امیدمی داشتم کہ ایشان از و خواہند ترسید

پس امروز سوئے ہوا وہوس میل کردند

نَضّوا الثیاب ثیابَ تقوی کلّہمْ

ما بقی إلَّا لِبْسۃ الإغواءِ

ہمہ جامہائے پرہیز گاری را از خود برکشیدند

وہیچ جامہ بجز جامۂ اغوا نزدشان نماند

ہل من عفیف زاہدٍ فی حِزبہمْ

أو صالحٍ یخشٰی زمان جزاءِ

آیا ہیچ پرہیز گاری زاہدے درگروہ ایشان موجود است؟

یا نیکو کاری موجود است کہ از روز پاداش می ترسد

واللّٰہ ما أدری تقیًّا خائفًا

فی فِرقۃ قاموا لہدم بنائی

بخدا کہ من ہیچ پرہیز گارے خائفے درین فرقہ نمی بینم

کہ برائے ہدم بنیانِ من برخاستہ اند

ما إنْ أریٰ غیرَ العمائم واللُّحٰی

أو آنُفًا زاغت من الخیلاءِ

من بجز عمامہ ہا وریش ہا نمی بینم

یا بینی ہا می بینم کہ از تکبر کج شدہ اند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 725

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 725

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/725/mode/1up


لا ضیرَ إنْ ردّوا کلامی نخوۃً

فسیَنجَعَنْ فی آخَرین ندائی

ہیچ مضائقہ نیست اگر کلام مرا از تکبر خود رد کردند

عنقریب این کلام در دلہائے دیگران اثر خواہد کرد

لا تنظُرَنْ غَرْوًا إلٰی افتاۂمْ

غُسٌّ تلا غُسًّا بنَقْعِ عَمَاءِ

سوئے فتویٰ ہائے ایشان نگہ مکن

احمقے احمقے را در گرد و غبار کوری پیروی کرد

قد صار شیطان رجیم حِبَّہُمْ

یمسی ویُضحی بینہم للقاءِ

شیطان راندہ محبوب شان شدہ است

برائے ملاقات شان شام می آید وصبح می آید

أعمٰی قلوبَ الحاسدین شرورُہمْ

أعریٰ بواطنَہم لباسُ رِیاءِ

دل حاسدان را شرارت ایشان کور کرد

وجامہ ریا باطن ایشان را برہنہ نمود

آذَوا وفی سُبل المہَیمن لا نریٰ

شیءًا ألذَّ لنا من الإیذاءِ

مرا ایذا دادند ودر راہ خدا

ہیچ چیزے لذیذ تر از اذیّت مرا نیست

ما إنْ أریٰ أثقالہم کجدیدۃٍ

إنّی طلیح السَّیح والأعباءِ

بار ہائے ایشان نزد من بارنو نیست

من فرسودہ سفر و فرسودۂ بارہا ہستم

نفسی کعُسْبُرۃٍ فأُحْنِقَ صَلْبُہا

مِن حمل إیذاء الوریٰ وجفاءِ

نفس من مثل ناقہ است پس کمر آن ناقہ

از ایذا ہا وجفاہا لاغر شدہ است

ہذا ورَبِّ الصادقین لأَجْتَنِی

نِعم الجنا مِن نخلۃ الآلاءِ

من ہمین اصول دارم مگر قسم بخدائے راستبازان

کہ ہمیشہ من از درخت نعمت ہا میوہ می چنیم

إنّ اللئام یحقِّرون وذمُّہمْ

ما زادنی إلَّا مقام سَناءِ

لئیمان تحقیر من بمذ ّ مت خود می کنند

مگر خدائے من مرا بلندی ہا داد

زَمَعُ الأناس یحملقون کثعلبٍ

یؤذوننی بتحوُّب ومُواءِ

مردمان سفلہ بر من ہمچو روباہ حملہ می کنند

و از آواز روباہ و آواز گربہ مرا ایذا می دہند

واللّٰہِ لیس طریقہم نہج الہدیٰ

بل مُنْیۃٌ نشأت من الأہواءِ

بخدا این راہ شان راہ ہدایت نیست

بلکہ آرزوئے نفسانی است کہ از ہوا وہوس پیدا شدہ است

أعرضتُ عن ہذیانہم بتصامُمٍ

وحسبتُ أن الشرّ تحت مِراءِ

من از ہذیان ایشان دانستہ خود را بہرہ کردہ کنارہ کردم

ودانستم کہ زیر مجادلہ شراست

انا صبرنا عند ایذاء العدا

فعَلَوا کمِثل الدُّخِّ مِن إغضائی

بروقت ایذاء دشمنانِ ما صبر کردیم

پس بتکبر برآمدند ومثل دود از چشم خوابیدن من بلند شدند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 726

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 726

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/726/mode/1up


ما بقِی فیہم عِفّۃٌ وزہادۃٌ

لا ذرّۃٌ مِن عیشۃٍ خَشْناءِ

در ایشان ہیچ عفت وپرہیز گاری نماندہ است

ونہ یک ذرہ زندگی مجاہدانہ

مالوا الی الدنیا الدنیّۃ مِن ہَوًی

فرّوا من البأساءِ والضرّاءِ

سوئے دنیا کہ ہیچ و کمینہ است مائل شدند

واز سختی ہا وگزندہا گریختند

صالُوا من الأوباش حزب أرازلٍ

فکأنہم کالخِثْیِ للإحماءِ

چند کمینہ از اوباش حملہ کردند

پس گویا اوشان سرگین خشک اندکہ برائے گرم کردن است

لما کتبتُ الکتب عند غُلوّہمْ

ببلاغۃ و عذوبۃ و صفاءِ

ہرگاہ کتاب ہا بروقت غلو ایشان نوشتم

وہمہ آن کتاب ہا ببلاغت وعذوبت وصفا پُر بودند

قالوا قرأنا لیس قوً لا جیّدًا

أو قولُ عاربۃٍ من الأدباءِ

گفتند خواندیم سخنے خوب نیست

یا قول کسے است کہ از گروہ برگزیدہ عرب وادیبان است

عربٌ أقام ببیتہ متستّرًا

أملَی الکتابَ ببکرۃٍ ومساءِ

یک عرب بطور پوشیدہ درخانہ او قیام کردہ است

ہمان عرب کتاب را صبح و شام نوشتہ

اُنظُرْ إلٰی أقوالہم وتناقُضٍ

سَلَب العنادُ إصابۃ الآراءِ

سخن ہائے ایشان بہ بین وتناقض را بہ بین

عنادے کہ میدارند رائے صائب را سلب کرد

طَورًا إلی عربٍ عزَوہ و تارۃ

قالوا کلام فاسد الإملاءِ

وقتے کلام مرا سوئے عرب منسوب کردند

ووقت دیگر گفتند کہ این کلام خراب املا دارد

ہٰذا مِنَ الرّحمٰن یا حزبَ العِدا

لا فِعْل شامیٍّ ولا رفقائی

این املا از خدا تعالیٰ است اے گروہ دشمنان

نہ کار شامی است ونہ کارِ رفیقانِ من

أعلی المہیمنُ شأنَنا وعلومنا

نَبْنِی منازلَنا علی الجَوزاءِ

خدا تعالیٰ شان مارا وعلوم مارا بلند کرد

ما منازل خود را بر جوزا بنامی کنیم

خَلُّوا مقامَ المولویّۃِ بعدَہُ

وتَستّروا فی غَیہَبِ الخَوقاءِ

بعد زین مقام مولویت را خالی کنید

ودر تاریکی چاہے پوشیدہ شوید

قد حُدّدتْ کالمرہفات قریحتی

ففہِمتُ ما لم یفھموا أعدائی

ہمچو شمشیر ہائے تیز طبیعت من کردہ شداست

پس آن چیزہا فہمیدم کہ دشمنان نہ فہمیدند

ہذا کتابی حازَ کلَّ بلاغۃ

بہَر العقولَ بنضرۃ و بہاءِ

این کتاب من ہر نوع بلاغت جمع کردہ است

دانش ہا را بتازگی وخوبی حیران کرد



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 727

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 727

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/727/mode/1up


اللّٰہ أعطانی حدائقَ علمہِ

لولا العنایۃ کنتُ کالسّفہاءِ

خدا تعالیٰ مرا باغہائے علم خود عطا فرمود

اگر عنایت الٰہی نبودے من ہمچو بے خبردان بودی

إنی دعوت اللّٰہ ربًّا محسنًا

فأریٰ عیونَ العلم بعد دعائی

من از خدائے خود خواستم کہ رب محسن است

پس چشمہ ہائے علم بعد از دعا مرا نمود

إنّ المہیمن لا یُعِزّ بنخوۃٍ

إنْ رُمْتَ اعزازًا فکُنْ کعَفاءِ

بہ تحقیق خدا متکبر را عزت نمی دہد

اگر می خواہی کہ ترا عزت دادہ شود پس ہمچو خاک باش

واللّٰہِ قد فرّطتَ فی أمری ہوًی

وأبیتَ کالمستعجل الخطّاءِ

بخدا کہ درامر من از روئے ہوا وہوس تقصیر کردی

ومثل جلد باز خطا کنندہ انکار کردی

الحُرّ لا یستعجِلنْ بل إنّہُ

یرنو بإمعان وکشفِ غطاءِ

آنکہ آزاد از تعصب ہا است او جلدی نمی کند

بلکہ بغور دل می نگرد وازمیان پردہ می بردارد

یخشی الکرامُ دعاءَ أہل کرامۃٍ

رُحمًا علی الأزواج والأبناءِ

نیک مردان ازدعائے اہل کرامت می ترسند

وبر زنان وپسران خود ازین خوف رحم می کنند

عندی دعاء خاطفٌ کصواعقٍ

فحَذارِ ثم حذارِ مِن أرجائی

نزد من دعائے است کہ ہمچو صاعقہ می جہد

پس از کنارہ ہائے من دور باش دور باش

واللّٰہ إنّی لا أرید إمامۃً

ہذا خیالک مِن طریق خطاءِ

بخدا من ہیچ پیشوائی را نمی خواہم

این خیال تو از راہِ خطاست

إنّا نرید اللّٰہ راحۃَ روحِنا

لا سُؤددًا وریاسۃ وعلاءِ

ماخدا را می خواہیم کہ آرام روحِ ماست

وریاست وبلندی را نمی خواہیم

إنا توکّلْنا علی خَلَّا قِنَا

معطی الجزیل وواہب النعماءِ

مابرخدائے خود توکل کردیم

کہ بخشند ۂنعمت ہا وعطا کنندہ است

من کان للرَّحمٰن کان مکرَّمًا

لا زال أہلَ المجد والآلاءِ

ہر کہ خدارا باشد بزرگی مے یابد

ہمیشہ در بزرگی ونعمت ہا می ماند

إن العدا یؤذوننی بخباثۃٍ

یؤذون بالبہتان قَلْبَ بَراءِ

دشمنان از راہ خباثت مرا ایذا می دہند

از روئے بہتان دلِ بَری را می آزارند

ہم یُذعِرون صیحۃ و نعُدّہم

فی زُمرِ موتٰی لا من الأحیاءِ

ایشان مے ترسانند

وما ایشان را از گروہ مُردگان می شماریم نہ از زندگان



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 728

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 728

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/728/mode/1up


کیف التخوف بعد قربِ مُشجِّعٍ

مِن ہذہ الأصوات والضوضاءِ

بعد قرب دلیر کنندہ چگونہ بترسیم

چگونہ ازین آواز ہا وشور آواز ہا خوف پیدا شود

یسعی الخبیث لِیُطفِئنْ أنوارَنا

والشمس لا تخفَی من الإِخفاءِ

پلیدے کوشش می کند کہ تانور ما بمیراند

وآفتاب از پوشیدہ کردن پوشیدہ نمی شود

إن المہیمن قد أتمَّ نوالَہُ

فضلًا علیّ فصرتُ مِن نُحَلاءِ

خدا تعالیٰ برمن بخشش خود بکمال رسانیدہ است

ازروئے فضل۔ پس من از بخشندگان شدم

نعطی العلومَ لدفعِ متربۃِ الوریٰ

طالتْ أیادینا علی الفقراءِ

مابرائے دفع درویشی مردم مال علم می بخشیم

دست بخشش مابر فقیران دراز است

إن شئتَ لیست أرضُنا ببعیدۃ

مِن أرضک المنحوسۃ الصَّیداءِ

اگر تو چیزے بخواہی زمین ما

از زمین منحوس تو دور نیست

صعبٌ علیک زمانُ سُؤْلِ محاسِبٍ

إنْ متَّ یا خصمی علی الشحناءِ

بر تو آن ساعت بسیار سخت است کہ پرسیدہ خواہی شد

اگر تو بر ہمین کینہ بمردی اے دشمن من

ما جئتُ مِن غیر الضرورۃ عابثًا

قد جئتُ مثلَ المُزْنِ فی الرَّمْضاءِ

من بے ضرورت ہمچو بازی کنندگان نیامدم

من مثل باران آمدم کہ برزمین سوختہ بیفتد

عینٌ جرتْ لعِطاشِ قومٍ أُضجروا

أو ماءُ نَقْعٍ طافِحٍ لظِماءِ

برائے تنگ دلان کہ سخت تشنہ بودند چشمہ جاری شد

یاآب بسیار صافی برائے تشنگان

إنی بأفضال المہیمن صادق

قد جئتُ عند ضرورۃ و وباءِ

من بفضل خدا تعالیٰ صادقم

بروقت ضرورت و وبا آمدہ ام

ثم اللئام یکذّبون بخبثہم

لا یقبَلون جوائزی و عطائی

باز لئیمان از خباثت ایشان تکذیب می کنند

وعطاہائے مرا قبول نمی کنند

کَلِمُ اللئام أسنّۃٌ مذروبۃٌ

وصدورہم کالحَرّۃ الرَّجْلاءِ

سخن ہائے لئیمان نیزہ ہائے تیز ہستند

وسینہ ہائے اوشان مثل زمین بے نبات خشک افتادہ اند

من حارب الصدّیقَ حارب ربَّہُ

ونبیَّہ وطوائفَ الصلحاءِ

ہر کہ باصدیق جنگ کرد باخدا جنگ کرد

وبا پیغمبر خدا جنگ کرد و باتمام صلحاء جنگ کرد

واللّٰہِ لا أدری وُجوہَ کُشاحۃٍ

مِن غیر أنّ البخل فارَ کماءِ

بخدا من وجہ دشمنی ایشان ہیچ نمی یابم

بجز اینکہ بخل اوشان مانند آب جوش کردہ است



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 729

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 729

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/729/mode/1up


ما کنتُ أحسب أنہم بعداوتی

یذَرون حُکْمَ شریعۃٍ غرّاءِ

من گمان نمی کردم کہ اوشان بباعث عداوت من

حکم شریعت غرّا را خواہند گذاشت

عادیتُہم للّٰہِ حین تلاعبوا

بالدِّین صوّالین مِن غُلواءِ

ایشان را دشمن گرفتم چون بادین

بازی کردند واز تجاوز حملہ کردند

رُبِّیْتُ مِن دَرِّ النبیِّ وعینِہ

أُعطیتُ نورًا منْ سراجِ حِراءِ

من از شیر نبی علیہ السلام پرورش یافتم واز چشمہ او مر اپرو ریدند

من ازان آفتاب نور گرفتم کہ از غار حرا طلوع کردہ بود

الشمس أُمٌّ والہلال سلیلُہا

ینمو و ینشأ مِن ضیاء ذُکاءِ

آفتاب مادر است وہلال پسراو

آن پسر از روشنی آفتاب نشوونما می یابد

إنی طلعتُ کمثل بدرٍ فانظروا

لا خیر فی مَن کان کالکَہْمَاءِ

من مانند بدر طلوع کردم پس بتامل بہ بینید

درآن شخص ہیچ خیر نیست کہ چون زن کور مادر زاد باشد

یا ربّ أیِّدْنا بفضلک و انتقِمْ

ممَّنْ یدُعُّ الحقَّ کالغُثّاءِ

اے خدائے ما تائید مابکن وازان شخص انتقام بگیر

کہ حق را چون خس و خاشاک دفع کردن می خواہد

یا ربّ قومی غلَّسوا بجہالۃٍ

فارحَمْ وأنزِلْہم بدار ضیاءِ

اے رب من قوم من از جہالت بتاریکی می روند

پس رحم کن و او شان را درخانہ روشنی فرود آر

یا لائمی إن العواقب للتُّقیٰ

فاربَأْ مآلَ الأمر کالعقلاءِ

اے ملامت کنندہ من انجام کار برائے پرہیز گاران است

پس ہمچو دانشمندان مآل کار را منتظر باش

اللّٰہُ أیّدنی وصافا رحمۃً

و أمدّنی بالنعم و الآلاءِ

خدا مرا تائید کردو از روئے رحمت مرا دوست گرفت

ومرا با گونا گون نعمت ہا مدد داد

فخرجتُ مِن وَہْدِ الضلالۃ والشقا

ودخلتُ دار الرشد والإدراءِ

پس من از مغاک گمراہی بیرون آمدم

ودرخانہ رشد وآگاہیدن داخل شدم

واللّٰہِ إن النّاس سَقطٌ کُلّہم

إلا الذی أعطاہ نعمَ لقاءِ

وبخدا کہ مردم ہمہ ردی وبیکار اند

مگر آن شخص کہ خدا تعالیٰ اورا نعمت لقابہ بخشد

إنّ الذی أروی المہیمنُ قلبَہُ

تأتیہ أفواج کمثل ظِماءِ

آن شخص کہ خدا تعالیٰ دل اورا از معارف سیراب کرد

نزد او فوج ہا مثل تشنگان می آیند

ربّ السماء یُعِزّہ بعنایۃ

تعنو لہ أعناق أہل دہاءِ

خدائے آسمان او را از عنایت خود عزّت می دہد

وبرائے او گردن ہائے عقلمندان خمیدہ می شوند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 730

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 730

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/730/mode/1up


الأرض تُجعَل مثلَ غلمان لہُ

تأتی لہ الأفلاک کالخدماءِ

زمین ہمچو غلامان برائے او کردہ مے شود

وآسمانہا برائے او ہمچو خادمان مے آیند

مَن ذا الذی یُخزی عزیزَ جنابِہِ

الأرض لا تُفنی شموسَ سماءِ

آن کیست کہ عزیز جناب الٰہی را ذلیل کند

زمین آفتاب ہائے آسمان را نابود نتواند کرد

الخَلْقُ دودٌ کلہم إلَّا الذی

زکّاہ فضلُ اللّٰہ من أہواءِ

ہمہ مردم کرمان ہستند

مگر آنکہ خدا تعالیٰ اورا از ہوا و ہوس نجات داد

فانہَضْ لہ إن کنتَ تعرف قدرہُ

واسبِقْ ببذل النفس والاعداءِ

پس برائے او برخیز اگر قدرِ او می دانی

واز ہمہ مردم در بذل نفس وشتافتن سبقت کن

إن کنت تقصد ذُلَّہ فتُحقَّرُ

و ستَخْسَأَنْ کالکلب یوم جزاءِ

اگر تو ذلت اومی خواہی پس خود ذلیل خواہی شد

وہمچو سگ در روز جزا راندہ خواہی شد

غلبتْ علیک شقاوۃٌ فتحقِّرُ

مَن کان عند اللّٰہ من کرماءِ

برتو بدبختی غالب آمدہ است

ازین سبب تو تحقیر شخصے میکنی کہ نزد خدا تعالیٰ از بزرگی یابندگان است

صعبٌ علیک سراجنا وضیاؤنا

تمشی کمشی اللُّصّ فی اللَّیلاءِ

بر تو چراغ ما وروشنی مابسیار گران آمد

ہمچو دزدان درشب تاریک می گردی

تہذی وأَیْمُ اللّٰہِ ما لک حیلۃ

یومَ النشور وعند وقت قضاءِ

بیہودہ گوئی ہا میکنی وبخدا ترا ہیچ حیلہ نیست

وہیچ عذرے در روز فیصلہ نیست

برق من المولٰی نریک وَمِیْضَہ

فَاصبِر کصبر العاقل الرَّنّاءِ

این از خدا تعالیٰ روشنی است درخش آن خواہیم نمود

پس ہمچو عاقلان دور اندیش صبر کن

وأری تغیُّظَکم یفور کلُجَّۃٍ

موج کموج البحر أو ہَوجاءِ

ومی بینم کہ غضب شما ہمچو دریا در جو ش است

وموج آن مثل موج دریا یا موج باد سخت است

واللّٰہ یکفی مِن کُماۃِ نضالِنا

جَلدٌ من الفتیان للأعداءِ

بخدا از بہادران ما

دشمنان را یک جوان کافی ست

إنا علٰی وقت النوائب نصبرُ

نُزجی الزمانَ بشدّۃ و رخاءِ

مادر وقت حوادث صبر مے کنیم

و زمانہ را بہ تنگی و فراخی می گذرانیم

فِتن الزمانِ ولدنَ عند ظہورکُمْ

والسَّیل لا یخلو من الغُثّاءِ

از ظاہر شدن شما فتنہ ہا ظاہر شدہ اند

وہیچ سیلابے از خس و خاشاک خالی نمی باشد



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 731

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 731

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/731/mode/1up


عفْنا لُقیّاکم ولا أستکرہُ

لو حلَّ بیتی عاسِلُ البَیداءِ

ما از ملاقات شما کراہت مے داریم

وما ہیچ کراہت نداریم اگر گرگ دشتی بخانہ ما دراید

الیوم أنصحکم وکیف نصاحتی

قومًا أضاعوا الدین للشحناءِ

امروز شما را نصیحت می کنم ونصیحت من

آن قوم راچہ فائدہ بخشد کہ از کینہ دین را ضائع کردہ اند

قُلنا تعالوا للنضال وناضِلوا

فَتَکنّسوا کالظبی فی الأفلاءِ

ماگفتیم کہ برائے مقابلہ بیائید ودر عربی مباحثہ کنید

پس ہمچو آہو ان در بیابان ہا پوشیدہ شدند

لا یبصرون ولا یرون حقیقۃً

و تَہالکوا فی بخلہم و ریاءِ

نہ مے بینند ونہ حقیقت را دریافت می کنند

ودر بخل و ریا بمردند

ہل فی جماعتہم بصیرٌ ینظرُ

نحوی کمثل مبصّر رنّاءِ

آیا درجماعت اوشان بینندہ است کہ سوئے من

مثل مبصر غور کنندہ بہ بیند

ما ناضلونی ثم قالوا جاہلٌ

اُنظُرْ إلٰی إیذاءِہم وجفاءِ

بامن مقابلہ نکردند باز گفتند کہ جاہل است

ایذاء ایشان بہ بین وجفاء ایشان بہ بین

دعوی الکُماۃِ یلوح عند تقابُلٍ

حدُّ الظُباتِ ینیر فی الہیجاءِ

دعوئ بہادران وقت مقابلہ ظاہر می گردد

تیزی شمشیرہا درجنگ روشن مے شود

رجلٌ ببطنِ بَطَالۃ بَطّالۃٌ

تعلی* عداوتہ کرعدِ طَخاءِ

در شہر بٹالہ کہ از بطالت پُر است

مردیست کہ دشمنی او ہمچو رعد ابر در جوش است

لا یحضر المضمارَ مِن خوفٍ عرَا

یہذی کنسوان بحجب خفاءِ

از خوف کہ می دارد بمیدان نہ مے آید

وہمچو زنان در پردہ ژاژ مے خاید

قد آثر الدنیا وجِیفۃَ دَشْتِہا

و الموت خیر من حیاۃ غطاءِ

دنیا ومردار آ ں را اختیار کردہ است

ومردن از زندگی پردہ بسیار نیکو است

یا صیدَ أسیافی إلٰی ما تأبِزُ

لا تُنجِینّک سیرۃُ الأطلاءِ

اے شکار شمشیر ہائے من تابکے جست خواہی کرد

ترا سیرت بچگان آہو نجات نخواہد داد

نجسّتَ أرضَ بطالۃ منحوسۃ

أرض محربِءۃٌ من الحِرباءِ

تو زمین بٹالہ را خراب کردی

از وجود یک حربا تمام زمین از حربا پُراست

إنی أریدک فی النضال کصائدٍ

لا یرکَنَنْ أحد إلی إرزاءِ

من ترا در روز مناضلہ مثل شکار جویندہ می خواہم

پس باید کہ ہیچکس ترا پناہ ندہد



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 732

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 732

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/732/mode/1up


صدرُ القناۃ ینوش صدرَک ضربُہُ

ویریک مُرَّانی بحارَ دماءِ

سر نیزہ ترا پارہ پارہ خواہد کرد

ونیزہ در گذرندہ من ترا دریاہائے خون خواہد نمود

جاشت إلیک النفس من کلماتنا

خوفًا فکیف الحال عند مِرائی

جان تو از گفتار من بلب رسید

پس در وقت پیکار حال توچہ خواہد شد

أُعطیتُ لُسْنًا کاللقوع مُروِّیًا

وفصیلُہا تأثیرہا ببہاءِ

من مثل ناقہ بسیار شمشیر زبان دادہ شدہ ام

وبچہ آن ناقہ تاثیر سخن من است

إن شئتَ کِدْ کلَّ المکائد حاسدًا

البدر لا یغسو بلَغْیِ ضِراءِ

اگر بخواہی ہر مکرے کہ داری ازروئے حسد بکن

وخوب یاد دار کہ از شور سگ بچگان نقصان ماہتاب نیست

کذّبتَ صدّیقًا وجُرْتَ تعمّدًا

ولئن سطا فیُریک قعرَ عَفاءِ

تو صدیقے را بہ دروغے منسوب کردی و از حد درگزشتی

واگر آن صدیق بر تو حملہ کند ترامغاک خواہد نمود

ما شمَّ أنفی مرغمًا فی مشہدٍ

وأثَرتُ نقعَ الموت فی الأعداءِ

بینی من درہیچ جنگے ذلت ندیدہ است

ودر دشمنان از موت غبار انگیختہ ام

واللّٰہِ أخطأتم لنکبۃِ بَخْتِکمْ

باریتُمُ ابنَ کریہۃٍ فَجّاءِ

بخدا شما از بدبختی طالع خود سخت خطا کردہ اید

کہ باآن شخص جنگ شروع کردہ ایدکہ تجربہ کارجنگ وبناگاہ کشندہ است

إنی بحقدک کلَّ یوم أُرفَعُ

أنمٰی علَی الشحناء والبغضاءِ

من بکینہ تو ہر روز مراتب بلند مے یابم

واز کینہ وبغض شما بخت من در نشوونما ست

نلنا ثریّاء السّماء وسَمْکہ

لنردّ إیمانًا إلی الغبراءِ

ماتا ثریا آسمان رسیدہ ایم

تاایمان را سوئے زمین فرود آریم

اُنظُرْ إلی الفتن التی نیرانہا

تجری دموعًا بل عیون دماءِ

آن فتنہ ہا را بہ بین کہ آتش آن فتنہ

اشک ہا جاری می کند بلکہ چشمہ ہائے خون می برآرد

فأقامنی الرحمٰن عند دخانہا

لفلاح مُدّلجین فی اللیلاءِ

پس خدا تعالیٰ مرا بروقت دخان آن فتنہ ہا قائم کرد

تا آن را کہ درشب می روند نجات بخشد

وقد اقتضتْ زفراتُ مرضٰی مقدمی

فحضرتُ حمّالًا کؤسَ شفاءِ

ونعرہ ہائے مریضان آمدن مرا تقاضا کرد

پس من باجا مہائے شفا نزد اوشان حاضر شدم

لما أتیتُ القوم سبُّوا کالعدا

وتخیّروا سُبل الشقا بإباءِ

ہرگاہ آمدم قوم مرا دشنامہا دادند

واز راہ انکار طریقت شقاوت را اختیار کردند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 733

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 733

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/733/mode/1up


قالوا کذوب کَیْذُبانٌ کاذبٌ

بل کافر و مزوِّر و مُراءِی

گفتند کہ این شخص کاذب وکذاب است

بلکہ کافر و دروغ آرایندہ وریاء کار است

مَن مُخبِرٌ عن ذلّتی ومصیبتی

مولای خَتْمَ الرسل بحرَ عطاءِ

آن کیست کہ این ذلت من ومصیبت من

مولائے مرا رساند کہ خاتم الانبیاء ودریائے بخشش ہاست

یا طیّبَ الأخلاق و الأسماءِ

أفأنت تُبعدنا من الآلاءِ

اے پاک اخلاق وپاک نام ہا

آیا تو مارا از نعمت ہائے خود رد مے کنی

أنت الذی شغَف الجَنانَ محبّۃً

أنت الذی کالرُّوح فی حَوبائی

تو آن ہستی کہ محبت او درقعردل من فرو رفتہ است

تو آن ہستی کہ درتن من مانند جان است

أنت الذی قد جذب قلبی نحوہ

أنت الذی قد قام للإصباءِ

تو آن ہستی کہ سوئے او دل من کشیدہ شدہ است

تو آن ہستی کہ برائے دلبرے من ایستاد

أنت الذی بودادہ و بحبّہِ

أُیِّدت بالإلہام و الإلقاءِ

تو آن ہستی کہ ببرکت محبت او و دوستی او

از الہام والقاء الٰہی تائید یافتم

أنت الذی أعطی الشریعۃ والہدی

نجَّا رقاب النّاس من أعباءِ

تو آن ہستی کہ شریعت وہدایت را بما رسانید

وگرد نہائے مردم را از بار گران نجات داد

ہیھات کیف نفرّ منک کمفسدٍ

روحی فدَتْک بلوعۃٍ و وفاءِ

این کجا ممکن است کہ ماہمچو مفسدے از تو بگریزیم

جان من بسوزش عشق ووفا بر تو قربان است

آمنتُ بالقرآن صُحفِ إِلٰہنا

وبکل ما أخبرتَ من أنباءِ

من بقرآن شریف ایمان آور دم کہ کتاب خدائے ما است

وبا آن ہمہ خبرہا ایمان آوردم کہ تو خبر دادی

یا سیّدی یا موئلَ الضعفاءِ

جئناک مظلومین من جہلاءِ

اے سردار من اے جائے بازگشت ضعیفان

ما بجناب تو از جور جاہلان رسیدیم

إنّ المحبّۃ لا تضاع وتشتری

إنّا نحبّک یا ذُکاءَ سخاءِ

محبت ضائع کردہ نمی شود وکریمان آن را می خرند

ما با تو اے آفتاب سخاوت محبت می داریم

یا شمسَنا انظُرْ رحمۃً وتحنّنًا

یَسْعیٰ إلیک الخلق للإرکاءِ

اے آفتاب ماسوئے من برحمت بنگر

مردم سوئے تو برائے پناہ گرفتن مے دوند

أنت الذی ہو عینُ کلّ سعادۃٍ

تَہوی إلیک قلوب أہل صفاءِ

تو آن ہستی کہ چشمہ ہر سعادت است

سوئے تو دلہائے اہل صفا مائل ہستند



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 734

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 734

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/734/mode/1up


أنت الذی ہو مبدء الأنوارِ

نوَّرتَ وَجہ المُدن وَ البَیْدَاءِ

تو آن ہستی کہ مبدء نورہا ست

تو روئے شہر ہا وبیابان ہا روشن کردی

إنی أریٰ فی وجہک المتہللِ

شأنًا یفوق شیونَ* وجہِ ذُکاءِ

من در روئے روشن تو

شانے مے بینم کہ برشان آفتاب فوقیت ہا دارد

شَمْسُ الہُدی طلعتْ لنا من مکّۃٍ

عین الندا نبَعتْ لنا بحِراءِ

آفتاب ہدایت از مکہ برما طلوع کرد

چشمہ بخشش از غار حرا برائے ما بجوشید

ضَاہَتْ أَیاۃُ الشمس بعضَ ضیاۂِ

فإذا رأیتُ فہاجَ منہ بکائی

بعض روشنی ہائے او بہ روشنی آفتاب مے ماند

پس چون دیدم بے اختیار مرا گریہ آمد

نَسْعی کَفِتْیانٍ بدینِ مُحَمَّدٍ

لَسْنَا کرجُلٍ فاقِدِ الأعْضَاءِ

ہمچو مردان در دین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوشش می کنیم

ما مثل آن شخصے نیستم کہ بے دست و پاباشد

أَعْلَی المُہَیْمِنُ ہَمَّنا فی دِینہِ

نَبنِی مَنَازِلنا عَلَی الجَوْزَاءِ

خدا تعالیٰ در دین او ہمت ہائے مارا بلند کردہ است

منزلہائے خود را برجوزا بنامے نہیم

إنا جُعِلْنا کالسّیوف فندمَغُ

رأسَ اللِّءَام وَہَامَۃَ الأعْدَاءِ

ماہمچو شمشیرہا گردانیدہ شدہ ایم

پس سرلئیمان و دشمنان را مے کوبیم

ومِنَ اللّءَام أریٰ رُجَیْلًا فاسقًا

غُولًا لعینًا نُطْفَۃ السُّفَہَاءِ

واز لئیمان مرد کے بدکار را مے بینم

کہ شیطان ملعون از نطفہ سفیہان است

شَکسٌ خَبیثٌ مُفْسِدٌ ومزوّرٌ

نَحْسٌ یُسمَّی السَّعْد فِی الجُہَلاءِ

بدگو خبیث مفسد دروغ آرایندہ است

ومنحوس است ونام او جاہلان سعد اللہ نہادہ اند

ما فارقَ الکفرَ الذی ہو إرثہُ

ضاہَی أبَاہ وأُمَّہٗ بِعَمَاءِ

کفرے کہ وراثت او بود ازان علیحدہ نشدہ است

و در کوری مادر و پدر خود را مشابہ است

قد کان مِن دُود الہَنُودِ وزَرعہم

مِن عَبدۃ الأَصْنَام کالآباءِ

این شخص از ِ کرمان ہنود وتخم ایشان بود

ومثل پدر وجد خود از بت پرستان بود

فالآن قد غلَبتْ عَلَیْہِ شقاوۃٌ

کانت مُبِیدۃَ أُمِّہ العُمیاءِ

پس اکنون ہمان شقاوت بروئے غلبہ کرد

کہ مادر کور اورا ہلاک کردہ بود

إنّی أراہ مُکذِّبًا ومُکَفِّرًا

ومحقِّرًا بِالسَّبّ والإزراءِ

من اورا می بینم کہ او تکذیب من میکند ومرا کافر میگوید

وبا تحقیر کردن ودشنام دادن بہتانہا مے بندد



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 735

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 735

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/735/mode/1up


یُؤذِی فما نَشکو وما نَتَأَسّفُ

کَلْبٌ فیَغْلِی قلبہ لِعُواءِ

آزارمی دہد مگر ما نہ شکایت میکنیم ونہ افسوس میکنیم

زیراکہ او سگے است پس دل او برائے عوعو کردن مے جوشد

کَحَل العنادُ جفونَہ بعَجاجۃٍ

فالآن مَن یُحْمِیْہ من إقذاءِ

دشمنی پلک ہائے اورا بغبارکینہ سرمہ ساکردہ است

پس اکنون کیست کہ چشمہائے اورا از غبار پر ہاند

یا لاعِنی إنّ المہَیمِن یَنْظرُ

خَفْ قہرَ ربّ قادر مولائی

اے ملامت کنندہ من خدا تعالیٰ مے بیند

از قہر مولائے من کہ قادر است خوف کن

الحق لا یُصلَی بنار خدیعۃٍ

أَ نّٰی مِنَ الخفّاش خسرُ ذُکاءِ

راستی بآتش مکر سوختہ نمی شود

از نفرت شبپرہ ہیچ نقصان آفتاب نیست

إنی أراک تمیس بالخُیَلاءِ

أنَسیتَ یوم الطعنۃ النَّجْلاءِ

من می بینم کہ بہ ناز و تکبر خرامان مے روی

آیا آن روز را فراموش کردی کہ زخم فراخ خواہد کرد

لا تتّبِعْ أَہْواءَ نفسِک شقوۃً

یلقیک حُبُّ النّفس فی الخَوقاءِ

ہوائے نفس خود را از شقاوت پیروی مکن

ترا محبت نفس در چاہ خواہد انداخت

فرسٌ خَبِیْثٌ خَفْ ذُرَی صہواتِہِ

خَفْ أن تزلّک عدوُ ذی عُدَواءِ

نفس تو اسپ پلید است از بلندی پشتِ او بترس

ازین بترس کہ دویدن ناہموارا وترا برزمین افگند

إنّ السّمُوم لَشَرُّ ما فی العَالمِ

ومِنَ السّموم عَداوۃُ الصُّلحاءِ

در دنیا زہرہا بدترین چیزے است

واز زہرہا بدتر عداوت صالحان است

آذَیتَنی خبثًا فلَسْتُ بصادقٍ

إِنْ لم تَمُتْ بالخزی یا ابنَ بغاءِ*

مرا بخباثت خود ایذا دادی پس من صادق نیم

اگر تو اے نسل بدکاران بذلت نمیری

اللّٰہ یُخزی حزبَکم ویُعزّنی

حتی یجیءَ النّاس تحت لِوَاءِی

خدا تعالیٰ گروہ شمارا رسوا خواہد کرد ومرا عزت خواہد داد

تا بحدیکہ مردم زیر لوائے من خواہند آمد

یا ربَّنا افْتَحْ بیننَا بِکرامَۃٍ

یا مَن یریٰ قَلْبِی ولُبَّ لِحائی

اے خدائے ما درما بکرامت خود فیصلہ کن

اے آنکہ دل مرا ومغز پوست مرا می بینی

یا مَنْ أریٰ أبوابہ مفتوحۃ

لِلسَّائلین فلا ترُدّ دعائی

اے آنکہ در ہائے او را

برائے سائلان کشادہ می بینم دعائے مرارد مکن

آمین

* ثم بعد ذالک کان مآل ہٰذا العدوّ أنہ مات بالطاعون خاسرًا خائبًا، فاعتبروا یا أولی الأبصار۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 736

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 736

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/736/mode/1up



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 737

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 737

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/737/mode/1up


زلزلے کے متعلق پیشگوئی

(مندرجہ چشمہ مسیحی)


دوستو! جاگو کہ اب پھر زلزلہ آنے کوہے

پھر خدا قُدرت کو اپنی جلد دکھلانے کو ہے

وہ جوماہِ فروری میں تم نے دیکھا زلزلہ

تم یقیں سمجھو کہ وہ اِک زجر سمجھانے کو ہے

آنکھ کے پانی سے یارو کچھ کرو اِس کا علاج

آسماں اے غافلو! اب آگ برسانے کو ہے

کیوں نہ آویں زلزلے تقوےٰ کی رہ گم ہو گئی

اِک مسلماں بھی مسلمان صرف کہلانے کو ہے

کس نے مانا مجھ کو ڈر کرکس نے چھوڑا بغض و کیں

زندگی اپنی تواُن سے گالیاں کھانے کو ہے

کافرو دجّال اور فاسق مجھے سب کہتے ہیں

کون ایماں صدق اور اخلاص سے لانے کو ہے

جس کودیکھو بدگمانی میں ہی حدسے بڑھ گیا

گر کوئی پوچھے تو سو سو عیب بتلانے کو ہے

چھوڑتے ہیں دیں کو اور دُنیا سے کرتے ہیں پیار

سو کریں وعظ و نصیحت کون پچھتانے کو ہے

ہاتھ سے جاتا ہے دل دیں کی مصیبت دیکھ کر

پر خدا کا ہاتھ اب اس دل کو ٹھہرانے کو* ہے

اس لئے اب غیرت اس کی کچھ تمہیں دکھلائے گی

ہر طرف یہ آفت جاں ہاتھ پھیلانے کو ہے

موت کی رہ سے ملے گی اب تو دیں کو کچھ مدد

ورنہ دیں اے دوستو! اک روز مرجانے کو ہے

یا تو اِک عالم تھا قرباں اُس پہ یا آئے یہ دن

ایک عبد العبد بھی اس دیں کو جھٹلانے کو ہے


مشتھرہ۔ ۹؍مارچ ۱۹۰۶ء


*یعنی ہر ایک ملک میں زلزلے آئیں گے اور طاعون پھوٹے گی اورکئی قسم کے موت کے اسباب ظاہر ہونگے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 738

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 738

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/738/mode/1up


’’زلزلہ کی پیشگوئی منظوم‘‘


پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ آنے کے دن

زلزلہ کیا اِس جہاں سے کوچ کر جانے کے دن

تم تو ہو آرام میں پر اپنا قِصّہ کیا کہیں

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت گھبرانے کے دن

کیوں غضب بھڑکا خداکا مجھ سے پوچھو غافلو!

ہوگئے ہیں اِس کاموجب میرے جھٹلانے کے دن

غیر کیا جانے کہ غیرت اُس کی کیا دکھلائے گی

خود بتائے گا اُنہیں وہ یار بتلانے کے دن

وہ چمک دِکھلائے گا اپنے نشاں کی پنج *بار

یہ خُدا کا قول ہے سمجھوگے سمجھانے کے دن

طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں

اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دِکھلانے کے دن

وہ گھڑی آتی ہے جب عیسیٰ پکاریں گے مجھے

اب تو تھوڑے رہ گئے دجّال کہلانے کے دن

اے مِرے پیارے یہی میری دعاہے روز و شب

گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دل کھانے کے دن

کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں

فضل کا پانی پلا اُس آگ برسانے کے دن

اے مِرے یارِ یگانہ اے میری جاں کی پناہ

کر وہ دن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن

پھر بہارِ دیں کو دکھلا اے مرے پیارے قدیر

کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن

دِن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے

اے میرے سُورج دِکھا اِس دیں کے چمکانے کے دن

دِل گھٹا جاتاہے ہر دم جاں بھی ہے زیر وزبر

اِک نظر فرماکہ جلد آئیں تیرے آنے کے دن

چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا

کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن


خدا تعالیٰ کے اصل لفظ جو مجھ پر نازل ہوئے یہ ہیں ’’ چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار‘‘ یعنی پنج مرتبہ غیر معمولی طور پر زلزلہ آئے گا جو اپنی شدت میں نظیر نہیں رکھتا ہوگا۔



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 739

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 739

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/739/mode/1up


کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے

کیا مرے دلدار تو آئے گا مَرجانے کے دن

ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آ مرے اے ناخدا

آگئے اِس باغ پر اَے یار مُرجھانے کے دِن

تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو

ورنہ دیں میّت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن

اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہو گیا ہے بے نشاں

دل چلاہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دِن

میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا کچھ اثر

آگئے ہیں اب زمیں پرآگ بھڑکانے کے دن

جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے

طَور دنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دِن

چاند اورسُورج نے دکھلائے ہیں دو داغِ کسوف

پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب تھرّانے کے دِن

کون روتاہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا

لرزہ آیا اِس زمیں پر اُس کے چلّانے کے دن

صبر کی طاقت جو تھی مُجھ میں وہ پیارے اب نہیں

میرے دلبر اب دکھا اِس دل کے بہلانے کے دن

دوستو اُس یار نے دِیں کی مصیبت دیکھ لی

آئیں گے اِس باغ کے اب جلد لہرانے کے دِن

اِک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا

اب یقیں سمجھو کہ آئے کفرکو کھانے کے دِن

دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر درپیش ہے

پر یہی ہیں دوستو! اس یار کے پانے دن

دیں کی نصرت کے لئے اِک آسماں پر شور ہے

اب گیا وقتِ خزاںآئے ہیں پھل لانے کے دن

چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں

اب تو ہیں اے دل کے اندھو! دیں کے گن گانے کے دن

خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے ہو بغض و کیں سے وقت

اب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو! یہ پچھتانے کے دن


(مشتھرہ پیسہ اخبار۔ ۳۱؍مارچ ۱۹۰۶ء)



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 740

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 740

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/740/mode/1up
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 22. Page: 741

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 741

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


انڈیکس

روحانی خزائن جلدنمبر۲۲

مرتبہ:مکرم عبد الکبیر قمر صاحب

زیر نگرانی

سید عبدالحی


آیات قرانی۔۔۔۔۔۔ہ ۳

احادیث نبویہ۔۔۔۔۔۔ ۷

الہاماتحضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔۔۔۔۔۔ ۸

مضامین ۔۔۔۔۔۔ ۱۳

اسماء ۔۔۔۔۔۔ ۲۹

مقامات ۔۔۔۔۔۔ ۴۸

کتابیات۔۔۔۔۔۔۵۲




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 742

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 742

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 743

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 743

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


آیات قرآنیہ


الفاتحۃ

ایاک نعبد وایاک نستعین (۵) ۵۴

اھدنا الصراط المستقیم (۶) ۵۵،۱۳۴،۱۵۶

ولا الضالین (۷) ۹۱

البقرۃ

الم ذٰلک الکتاب ...(۲،۳) ۱۳۶،۱۴۰

ومما رزقنٰھم ینفقون (۴) ۱۳۹

فان لم تفعلوا ولن تفعلوا.....(۲۵) ۲۵۰

انی جاعل فی الارض خلیفۃ (۳۱) ۲۷

فانزلنا علی الذین ظلموا رجزًا(۶۰) ۵۴۲

ضربت علیھم الذلۃ ....(۶۲) ۳۱۲

ان الذین اٰمنواوالذین ھادوا

والنصارٰی ...... (۶۳) ۱۴۴،۱۷۲،۱۷۳

من کان عدوّاللّٰہ وملٰئکتہ ورسلہ...(۹۹) ۱۲۸

الم تعلم ان اللّٰہ علٰی کل شیء قدیر(۱۰۷) ۳۴۰،۵۷۱

بلیٰ من اسلم وجھہ ....(۱۱۳) ۱۷۳

ولنبلونکم بشیء من الخوف...(۱۵۶) ۲۱

فاذکروااللّٰہ کذکرکم اٰباء کم ...(۲۰۱)

۶۷،۵۸۲

ان اللّٰہ یحب التوابین (۲۲۳) ۵۸۲

فضلنا بعضھم علٰی بعض (۲۵۴) ۱۵۶

لا اکراہ فی الدین(۲۵۷) ۴۶۸

فلھم اجرھم عند ربھم (۲۷۵) ۱۴۹،۱۵۰

لایکلف اللّٰہ نفسًا(۲۸۷) ۱۵۶،۱۸۶

ٰال عمران

ان اللّٰہ لا یخلف المیعاد (۱۰) ۵۷۱

قل ان کنتم تحبون اللّٰہ...(۳۲،۳۳) ۶۵

جاعل الذین اتبعوک ...(۵۶) ۳۶، ۴۵۶

ان مثل عیسٰی عند اللّٰہ کمثل آدم ...(۶۰) ۴۳

لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین (۶۲) ۴۸۹

تعالوا الٰی کلمۃ سواء بیننا و بینکم(۶۵) ۱۷۳

لن تنالوا البرحتیٰ تنفقوا مما

تحبون ....(۹۳) ۱۳۹

ان اللّٰہ غنی عن العٰلمین(۹۸) ۱۱۷

مامحمّد الا رسول ....(۱۴۵)۳۲،۳۴،۱۲۶

ماکان لنفس ان تموت ....(۱۴۶) ۶۰۶

النساء

ومن یعص اللّٰہ ورسولہ...(۱۵) ۱۲۹

وما ارسلنا من رسول الا لیطاع

باذن اللّٰہ ....(۶۵) ۱۳۰

یایھاالذین اٰمنوا اٰمنوا باللّٰہ....(۱۳۷) ۱۲۹

ان المنافقین فی الدرک الاسفل.(۱۴۶) ۱۶۹

ان الذین یکفرون باللّٰہ ورسلہ (۱۵۱)

۱۳۰،۱۷۴

وما قتلوہ وماصلبوہ....(۱۵۸) ۳۸،۶۱

بل رفعہ اللّٰہ الیہ...(۱۵۹) ۳۷،۳۹

وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ..(۱۶۰)

۳۶،۱۴۹،۵۵۷،۵۵۸،۵۴۰

خالدین فیھا ابداً(۱۷۰) ۱۹۶

یایھا الناس قد جاء کم الرسول بالحق.. (۱۷۱) ۱۳۱



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 744

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 744

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


المائدۃ

نحن ابنآء اللّٰہ واحبآء ہ(۱۹) ۶۷

والقینا بینھم العداوۃ ....(۶۵) ۳۶

فلما توفیتنی .....(۱۱۸) ۳۳،۶۱،۱۲۶

الانعام

ومن اظلم ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذبًا (۲۲)

۵۷۹،۶۱۱

لاتدرکہ الابصار ....(۱۰۴) ۱۴۷

الاعراف

قال انظرنی الٰی یوم یبعثون(۱۵،۱۶) ۴۱

فمن اظلم ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذباً(۳۸) ۱۶۷

ولا تفتح لھم ابواب السمآء(۴۱) ۴۰

التوبۃ

وما منعھم ان تقبل منھم ....(۵۴) ۱۳۲

الم یعلموا انہ من یحادد اللّٰہ ورسولہ(۶۳) ۱۳۳

یتربص بکم الدوائر .....(۹۸) ۳۴۵

ضاقت علیھم الارض بما رحبت(۱۱۸)۲۷۹

یونس

لکل امۃ رسول.....(۴۸) ۴۲۳

ھود

الا ماشاء ربک ...(۱۰۸) ۱۹۶

ان الحسنات یذھبن السیاٰٰت (۱۱۵) ۱۳۹

الرعد

ان اللّٰہ لا یغیّرمابقوم....(۱۲) ۴۱۸

انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا (۴۲) ۱۶۶

یقول الذین کفروا لست مرسلًا...(۴۴)۵۴۹

الحجر

وان من شیء الا عندنا خزائنہ(۲۲) ۱۵۵

ان عبادی لیس لک علیھم سلطان(۴۳)۴۹۵

بنی اسرائیل

وما کنا معذبین حتّٰی نبعث رسولًا(۱۶)

۱۶۵،۲۶۸،۴۸۷،۴۹۹،۵۰۰

وقضیٰ ربک الا تعبدوا الاایاہ..(۲۴) ۲۱۳

لا تقف مالیس لک بہ علم(۳۷) ۵۸۰

ان من قریۃ الا نحن مھلکوھا...(۵۹)

۲۰۶،۴۲۱،۵۰۰

ان عبادی لیس لک علیھم

سلطان.... (۶۶) ۱۴۲

من کان فی ھذہ اعمیٰ....(۷۳) ۱۵۱

قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرًا رسولًا(۹۴)

۴۷،۲۱۱،۲۱۲

الکھف

فوجدا عبدًا من عبادنا...(۶۶) ۱۵۷

مریم

کٓھٰیٰعٓصٓ(۲) ۲۳۴

طٰہٰ

طٰہٰ (۲) ۲۳۴

ان ھٰذٰن لساحران (۶۴) ۳۱۷

الانبیاء

کل فی فلک یسبحون(۳۴) ۲۸

من کل حدب ینسلون (۹۷) ۴۹۶،۴۹۸

الحج

فانھا لا تعمی الابصار....(۴۷) ۲۰۵

ان یومًا عند ربک کالف سنۃ ....(۴۸) ۲۰۹، ۴۵۷

المؤمنون

واٰوینٰھما الی ربوۃ ذات قرار ومعین(۵۱) ۹۷

۱۰۴،۲۳۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 745

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 745

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


النور

قل اطیعوا اللّٰہ واطیعوالرسول(۵۵) ۱۲۸

کما استخلف الذین من قبلھم(۵۶) ۵۰۰

الفرقان

وقال الذین کفروا لو لا نزّل علیہ القرآن...(۳۳) ۳۵۷

الشعراء

لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین(۴) ۱۰۳، ۱۱۷

ھل انبئکم علی من تنزل الشیاطین(۲۲۲) ۱۴۲

وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون....(۲۲۸)

۳۵۷

القصص

وما کان ربک مھلک القریٰ....(۶۰) ۴۲۲

العنکبوت

آلم احسب الناس ان یترکوا...(۲،۳) ۱۵۰،۶۰۱

الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا(۷۰) ۱۱۷،

۱۳۴،۱۴۹

الروم

کل حزب بما لدیھم فرحون (۳۳) ۴۵

الاحزاب

وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اللہ و رسولہ...(۳۷) ۱۲۹

فاطر

وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر(۲۵) ۳۰۳

یٰس

یا حسرۃ علی العباد ......(۳۱) ۲۵۲، ۴۵۳

آ

مفتحۃ لھم الابواب(۵۱) ۴۰

الزمر

قل یاعبادی الذین اسرفوا علیٰ انفسھم..(۵۴)

۶۶، ۱۴۵،۱۷۳،۱۷۶

المؤمن

ادعونی استجب لکم (۴۱) ۲۱

ان یک کاذبًا فعلیہ کذبہ..(۲۹)

۱۹۷،۴۰۳،۵۶۷

الزخرف

قل ان کان للرحمن ولد....(۸۲) ۶۱۷

الدخان

فارتقب یوم تاتی السمآء...(۱۱،۱۲) ۴۲۱

یوم نبطش البطشۃ الکبرٰی.....(۱۷) ۴۲۲

الجاثیۃ

ویل لکل افاک اثیم...(۸،۹) ۴۸۹

محمد

والذین اٰمنوا وعملواالصّٰلحٰت(۳) ۱۳۳

الفتح

لیغفرلک اللّٰہ(۳) ۹۷

ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ (۱۱) ۶۶

الحجرات

یایھا الذین اٰمنوا لاتقدموا بین یدی اللّٰہ (۲) ۱۲۸

قالت الاعراب اٰمنا....(۱۵) ۱۶۸

انما المؤمنون الذین اٰمنوا باللّٰہ...(۱۶) ۱۳۲

القمر

سیھزم الجمع ویولون الدبر...(۴۶) ۲۳۴

المجادلۃ

کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی(۲۲) ۱۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 746

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 746

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


الحشر

فاعتبروا یٰاولی الابصار (۳) ۱۲۶

الجمعۃ

واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم (۴) ۴۰۷، ۵۰۲

التحریم

ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا.(۱۳)

۳۵۱

الملک

کلما القی فیھا فوج سألھم خزنتھا(۹) ۱۳۲

القلم

آ والقلم (۲) ۲۳۴

الحاقۃ

ولو تقول علینا بعض الاقاویل....(۴۵تا ۴۷)۲۱۳

الجن

فلا یظھر علٰی غیبہ احداً۔۔۔(۲۷،۲۸)

۳۴۹،۴۰۶،۴۳۵،۶۰۶

القیامۃ

فاذا برق البصر...(۸تا۱۳) ۲۰۴،۴۲۲

المرسلات

الم نجعل الارض کفاتاً(۲۶،۲۷) ۴۷

النازعات

یوم ترجف الراجفۃ(۷،۸) ۲۰۶

التکویر

واذا العشار عطلت (۵) ۲۰۶

واذا البحار سجرت (۷) ۲۰۶

واذا النفوس زوجت(۸) ۲۰۶

واذاالصحف نشرت(۱۱) ۲۰۶

المطففین

ویل یومئذ للمکذبین (۱۱) ۴۸۹

الفجر

یایتھا النفس المطمئنۃ ..(۲۸،۲۹) ۳۸

فادخلی فی عبادی وادخلی جنّتی (۳۰،۳۱) ۳۲۶

الضحیٰ

الم یجدک یتیماً فاٰوٰی(۷) ۹۷

اما بنعمتک ربک فحدث (۱۲) ۷۰

القدر

تنزل الملائکۃ والروح(۵،۶) ۶۹

الھمزۃ

ویل لکل ھمزۃ لمزۃ (۲) ۵۸۰

الکوثر

ان شائنک ھو الابتر (۴) ۳۴۸،۴۳۹

الاخلاص

لم یلد ولم یولد(۴) ۵۸۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 747

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 747

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



احادیث نبویہ


اسلم تسلم ۱۸۴

الطاعون وخذالجن ۵۷۹

اللھمّ ان اھلکت ھذہ العصابۃ .... ۵۷۲

علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل

لامھدی الا عیسیٰ ۴۴،۴۶۶ح

لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین ۴۶۷

لوکان الایمان معلقاً بالثریا...

۴۰۷،۵۰۰،۵۰۲

ما زنا زان وھو مومن .... ۱۶۹

من عادیٰ لی ولیاً.... ۵۸۰

یضع الحرب ۴۶۸

اس امت میں یہود پیدا ہونگے ۳۲

اگر کسی کے گھر کے دروازے کے آگے نہر ہو...... ۳۲۲

اگر کوئی رؤیا دیکھو اور اس کو خود پور ا کرسکتے ہو تو اپنی

کوشش سے اس خواب کو سچی کردو ۴۶۴

خد اتعالیٰ نے انسان کو اپنی صور ت پر بنایا ۲۷

عیسیٰ کی عمر ایک سو بیس سال تھی ۴۰

آخری زمانہ میں عیسائیوں کا غلبہ ہوگا ۹۱

مسیح موعود امتی ہوگا ۳۲





Ruhani Khazain Volume 22. Page: 748

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 748

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/748/mode/1up


الہامات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام

بلحاظ حروف تہجی


عربی الہامات

اجیب کل دعا ئک الا فی شر کا ئک ۲۵۴

ادعو نی استجب لکم ۹۰ ح

اذا جاء نصر اللّٰہ انتھی امرالزمان الینا ۶۲۵

اذکر نعمتی رئیت خدیجتی ۲۳۲

اراد اللہ ان یبعثک مقا ماً محمو داً ۷۰۲

اردت ان استخلف فخلقت اٰ دم ۲۶۹

اردت زما ن الز لز لۃ ۵۹۷

ار یک بر کا ت من کل طر ف ۲۶۳

اصلھا ثا بت و فر عھا فی السما ء ۳۰۷

اعینیناک ۶۱۰

افصحت من لدن رب کریم ۳۷۵

الا ان نصر اللّٰہ قریب ۲۶۱،۲۹۲

الامرا ض تشا ع و النفوس تضا ع ۲۷۵،۵۷۵،۶۲۸

الحمد للّٰہ الذی جعلک المسیح ابن مریم ۳۵۲

الحمد للہ الذی جعل لکم الصھر و النسب ۲۴۷

الر حمن علم القر ٰان ۔۔۔۔ ۳۵۷، ۴۸۵

الرحی تدور و ینزل القضا ء ۔۔۔۲۸۰،۵۱۰ح

السلام علیکم ۳۷۷

العید الاٰخر تنال من فتحًا عظیمًا ۵۱۰ح

القیت علیک محبۃ منی ..... ۲۳۹

الیس اللّٰہ بکا ف عبدہ ۲۱۹،۶۴۹

الیس ھذا بالحق ۶۲۵

المراد حا صل ۷۰۶

انت تریٰ کل مصلح وصادق ۴۱۱

انت منی بمنزلۃ تو حیدی و تفریدی۔فحا ن ان تعا ن و تعرف بین النا س ۱۷۰،۶۲۵،۶۴۶

ان تجا دلنا فا نقطع العدو واسبا بہ ۲۲۷

انت معی وانا معک ۲۸۱

انت منی بمنزلۃ اولادی.... ۵۸۱

انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی ۱۷۰

انت منی بمنزلۃ مو سیٰ ۵۲۰

ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فا تو ا بشفا ء من مثلہ ۹۰ ح

انا ارسلنا احمد الی قومہ.... ۲۸۱

انا اعطینک الکو ثر ......... ۲۷۱

ان الذین کفرواوصدو ا عن سبیل اللّٰہ ....

۸۰ح،۵۰۱

ان اللّٰہ علی کل شی ء قدیر..... ۲۴۵

ان اللّٰہ لا یغیر ما بقو م ..... ۲۴۳

ان اللّٰہ مع الذین اتقو ا ..... ۲۸۱،۳۷۹



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 749

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 749

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/749/mode/1up


ان اللّٰہ مع الصا دقین ۵۲۰

ان المنا یا لا تطیش سھا مھا ۳۳۹،۴۵۸

انا تجادلنا فانقطع العدد واسبابہ ۲۲۷

انانبشر ک بغلام نا فلۃ لک ..... ۲۲۹

ان حبی قریب ۲۸۱

ان ربی لایضل ولاینسیٰ ۲۸۱

ان شا نئک ھو الا بتر ۳۷۷،۴۳۷،۴۵۰،۶۵۷

ان فر عو ن و ھا مان و جنو دھما کا نو ا خاطئین ۳۶۷

ان فضل اللّٰہ لاٰتٍ ... ۲۸۰

انک انت الا علی ۵۱۰ح

انک انت المجاز ۸۸،۲۲۹

ؐؐأٌان معی ربی سیھدین ۲۸۹

انہ قریب مستتر ۲۸۱

انی احا فظ کل من فی الدار ۸۷،۲۶۵،۵۴۷

انی اختر تک و ا ثر تک ۶۴۶

انی اذیب من یریب ۳۸۶

انی مھین من اراد اھا نتک ۷۰،۳۴۴،۳۳۵

۳۵۳،۳۶۴،۳۷۱،۳۷۲،۳۷۳،۵۴۶

انی نعیت ان اللّٰہ مع الصا دقین ۷۰۰

ایتھا المرأ ۃ تو بی تو بی فا ن البلا ء علی عقبک ۱۹۴،۴۰۲،۴۶۴،۵۷۰

بر ق طفلی بشیر ۸۹،۲۴۰

بشر ھم با یام اللّٰہ و ذکرھم تذکیرًا ۶۸۱

بلجت ا یا تی ۔تلک ایا ت ظھرت بعضھا خلف بعض۔۔۔ ۵۲۰ح

تبت یدا ابی لھب وتب ۳۶۸

تخرج الصدور الی القبور ۲۵۸

ترد الیک انوا ر الشباب ۳۱۹

تر ی نصرًا من عند اللّٰہ ۷۰۲

تری فخذاً الیمًا ۲۴۴

تری نسلاً بعیدًا ۹۸، ۶۵۰

تنشا ء فی الحلےۃ ۲۲۷

توثرون الحیوۃ الدنیا ۳۳۹،۳۴۰

ثلۃ من الاوّلین وثلۃ من الاخرین ۲۷۱

جری اللّٰہ فی حلل الا نبیا ء ۵۲۱

خذوا التو حید خذو ا التو حید .... ۸۱ ح

رب اشعث اغبر لو اقسم علی اللہ لا بر ہ۶۵۸

رب فرق بین صادق وکاذب ۴۱۱

رب کل شیء خا دمک ..... ۲۲۴،۳۹۵

رب لا تذ ر نی فر دًا و انت خیر الوا ر ثین

۲۴۹،۴۶۰

ربنا اغفرلنا اناکنا خاطئین ۲۷۰

سبحا ن اللّٰہ تبا رک و تعا لیٰ ..... ۲۶۴

ستذکرو ن ما اقو ل لکم ..... ۲۸۸

سلما ن منا اھل البیت ۸۱ح ح

سلام علیک یا ابرا ھیم ..... ۳۱۳

سلام قو لاً من رب رحیم ۳۵۹

سنعلیک سا کرمک اکرا ما عجبًا... ۷۰۲

سننجیک سنعلیک سنکرمک اکرامًا ۶۱۰

سیھزم الجمع و یو لون الدبر ۶۰۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 750

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 750

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/750/mode/1up


شا تا ن تذبحان و کل من علیھا فا ن ۲۷۴

ظفر مبین ۲۸۱

عجل جسد لہ خوا ر لہ نصب و عذا ب ۲۹۷،۳۰۰،۳۰۱

عفت الدیار محلھا ومقامھا ۲۳۱

فا جا ء ہ المخا ض الی جذع النخلۃ ۷۵ ح

فبرّ ا ہ اللّٰہ مما قا لوا .... ۲۴۳،۵۸۵

فحان ان تعان وتعرف بین الناس ۱۷۰،۶۲۵

فی شائل مقیاس ۲۹۲

قا ل ربک انہ نا زل من السما ء.... ۱،۷۰۲

قتل خیبۃ و زید ھیبۃ ۲۷۵

قریب مستقر ۲۸۰۔۲۸۱

قل اجر د نفسی من ضرو ب الخطا ب ۱۵۲

قل اللّٰہ ثم ذرہ فی غیہ یتمطی ۲۸۱

قل ان کنتم تحبو ن اللہ فا تبعو نی ... ۵۰۲

قل انی امرت وانا اوّل المؤمنین ۳۵۷

قل اِی وربی انہ لحق.. ۲۸۰

کتب اللّٰہ لا غلبن انا و رسلی ۷۰۲

کزر ع اخر ج شطأ ہ فاٰ زرہ .... ۲۴۱،۴۶۰

کلا م افصحت من لدن رب کریم ۲۳۵،۳۷۶

کلب یمو ت علی کلب ۵۷۴

کل بر کۃ من محمدؐ .... ۵۰۲

لاالٰہ الاھو ۲۸۱

لاتثریب علیکم الیوم ۲۷۰

لا تخف انک انت الا علیٰ ۳۱۴

لا تصعر لخلق اللّٰہ ولاتسئم من الناس ۲۶۱

لا تھنوا ولا تحزنوا ۲۷۵

لا تےئس من رو ح اللّٰہ ..... ۲۶۱

لا یصدق السفیہ الا سیفۃ الھلاک ... ۴۸۵

لک الفتح و لک الغلبۃ ۷۰۲

لو لا الکرام لھلک المقا م ۲۴۳

لو کان الا یمان معلقًا با لثریا .... ۸۰ ح

ماکان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا ۳۶۸

مبا ر ک و مبا رک و کل امر مبا رک

یجعل فیہ ۲۴۰

من ذ الذی یشفع عند ہ الا با ذنہ ۸۸،۲۲۹

منعہ ما نع من السما ء ۳۹۳

نزلت الر حمۃ علی ثلا ث العین والا خریین

۳۱۹،۳۷۷

نصر من اللّٰہ و فتح قریب۔۔۔.. ۷۰۲

نرید ان ننزل علیک اسرا رًا.... ۳۶۹

و اذا مر ضتُ فھو یشفینی ۲۴۷

و اذ یمکر بک الذی کفر ۔۔.. ۳۶۸

والسما ء والطا ر ق ۲۱۸

و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبد نا

فا توا بشفا ء من مثلہ ۹۰،۲۴۶

وانما یوخرھم الیٰ اجل مسمی ۲۸۱

وجعلوا یشھدون علیہ.... ۲۸۱

وحی من رب السمٰوٰت العلیٰ ۲۸۱

و کذ لک مننا علی یو سف.....۲۶۹،۲۷۰

ولا تصعر لخلق اللّٰہ ...... ۴۶۰،۶۲۵

ولا تھنو ولا تحزنو ا ۲۷۵



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 751

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 751

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/751/mode/1up


ولتستبین سبیل المجرمین ۳۵۷

و لما تجلّی ر بہ للجبل جعلہ دکًا.۲۵۰،۵۲۰

وما اصابک فمن اللّٰہ... ۳۶۸

و ما کا ن اللّٰہ لیعذ بھم و انت فیھم ۲۴۳

ومن ینکربہ فلیبارز للمباھلۃ ۵۰۳

ووسع مکانک للواردین ۶۲۵

وینزل ماتعجب منہ ۲۸۰

ھذا بما صلیت علی محمّدٍؐ ۱۳۱ ح

ھز الیک بجذع النخلۃ ..... ۳۵۰

یا احمد با رک اللّٰہ فیک ... ۳۵۷،۶۷۴

یاتون من کل فج عمیق

۲۶۱،۵۵۳ح،۶۰۶ح،۶۲۵

یا تی علی جھنم زمان لیس فیھا احد ۵۸۳

یا تیک من کل فج عمیق

۲۶۱، ۵۵۳،۶۰۶ح،۶۲۵

یا عیسی انی متوفیک ...... ۵۰۱

یا مسیح الخلق عدوانا ۲۷۵

یا نا ر کو نی بردًا و سلامًا ۲۷۷

یا یھا الناس اعبدو ا ربکم الذی خلقکم ۳۳۹

یخرو ن علی الا ذقا ن سجدًا ۲۷۰

یریدو ن ان یروا طمثک۔۔۔ ۵۸۱

یریدو ن ان یطفؤ ا نو راللّٰہ با فوا ھھم ..۲۴۱

یریدو ن ان یطفؤ ا نو رک ..... ۳۹۴

یسئلو نک عن شا نک ..... ۲۷۷

یعصمک اللّٰہ من عند ہ ..... ۲۴۲

یعلم کل شیء ویریٰ ۲۸۱

یغفر اللّٰہ لکم وھو ارحم الراحمین ۲۷۰

یمو ت قبل یو می ھذا..... ۳۱۳

ینصرک اللّٰہ فی موا طن ا۹۸

ینصرک اللّٰہ من عندہ ۲۶۱

ینصرک رجال نوحی الیھم..

۲۶۱، ۵۵۳ح، ۶۲۵

اردو الہاما ت

آ ریو ں کا با دشا ہ ۵۲۲

آسمان ٹوٹ پڑا ۴۹۰

آ گ سے ہمیں مت ڈراؤ.... . ۲۶۳،۵۸۴

اب ان کی دلجوئی ہوگی ۳۱۰

اب پچیس دن یا یہ کہ پچیس دن تک.... ۳۱۰،۵۱۷

اب یہ خاندان اپنا رنگ بدل لے گا ..... ۸۰ح

اس سفر میں کچھ نقصا ن ہو گا اور کچھ حر ج بھی ۲۵۶

اس کا نتیجہ سخت طا عو ن ہے جو ملک میں پھیلے گی .... ۶۱۰

ایک اور قیامت بر پا ہو گی ص ۵۹۵

ایک مو سیٰ ہے میں اس کو ظا ہر کرو نگا ....... ۵۱۹،۵۸۲

بدی کا بدلہ بدی ہے اسکو پلیگ ہو گئی...... ۶۰۹

بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے ..... ۲۸۶

پھر بہار آ ئی تو آ ئے ثلج کے آ نے کے دن ۴۷۱

پھر بہار آ ئی خدا کی بات پھر پور ی ہوئی ۲۳۱

پہلے بیہوشی ،پھر غشی ۔پھر موت ۲۲۳

تمام دعا ئیں قبو ل ہو گئیں ..... ۵۹۶

تو ایک نسل بعید کو دیکھے گا ۲۱۸

جنا زہ ۴۰۰

چل رہی ہے نسیم رحمت کی ..... ۳۹۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 752

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 752

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/752/mode/1up


خدا فر ما تا ہے کہ میں ایک تا زی نشا ن ظا ہر کرو نگا... ۵۱۰

خدا کا ارادہ ہی نہ تھا کہ اس کو اچھا کرے ... ۳۷۸

خدا کے مقبو لو ں میں قبو لیت کے نمو نے ..... ۴۱۱

ددرد ناک دکھ اور درد ناک وا قعہ ۴۳۴

دس دن کے بعد میں مو ج دکھا تا ہو ں...... ۲۹۲

دنیا میں ایک نذیر آ یا....... ۱۹۰،۲۷۲،۱۹۹،۴۸۶

دیکھو میں تیرے لئے آ سما ن سے بر سا ؤنگا ... ۲۵۴،۲۷۹

ڈگری ہو گئی ہے مسلما ن ہے ۔....... ۲۳۱،۲۷۳

زلزلہ کا دھکا ۲۳۱

سخت زلزلہ آیا اور آ ج با ر ش بھی ہو گی..... ۴۶۵،۴۸۹

سر کو بی سے اسکی عزت بچا ئی گئی...... ۴۷۰

سنتالیس سال کی عمر..... ۳۳۹،۴۵۸

عبد اللہ خا ن ڈیرہ اسما عیل خا ن .... ۲۷۵

قا د ر ہے وہ بار گہ ٹو ٹا کام بنا دے....... ۲۵۹

کفن میں لپیٹ گیا ۔۴۷ سال کی عمر...... ۳۳۹،۴۵۸

کھل جائیں گے ...... ۲۵۷

کئی بھاری دشمنوں کے گھر ویران ہوجائیں گے ۶۱۰

کئی نشان ظاہر ہونگے ۶۱۰

مخالفوں میں پھوٹ ۳۷۴

مضمون با لا رہا ۲۹۱

میری رحمت تجھ کو لگ جا ئے گی۔اللہ رحم کریگا ۶۱۰

میں اپنی چمکا ر دکھلا ونگا ....... ۲۷۲،۵۱۹

میں تجھے اپنے انعامات سے مالا مال کرونگا ۵۸۸

میں دنیا میں تجھے ایک بڑی عزت دونگا ۔.... ۲۵۳

میں دو نشان دکھلاؤں گا ۵۱۰ح

میں فنا کر دونگا ۔میں غا رت کر دونگا ........ ۳۸۶

میں یہاں تک تجھے برکت دوں گا .... ۴۵۱

نصرت اور غلبہ کے متعلق الہاما ت کا خلا صہ ۵۸۸

یہ خبر وفات صحیح نہیں ۳۹۸

فا ر سی الہاما ت

آ ثا ر زندگی ۳۳۸

از پے آ ن محمد احسن را.... ۳۴۶

الا اے دشمن نا دا ں و بے را ہ ..... ۳۰۱

امن است در مقا م محبت سرا ئے ما ۳۱۶

اے بسا خا نہ دشمن کہ تو ویرا ں کر دی ۲۳۶

اے عمی با زیء خویش کر دی و مرا افسو س بسیا ر دا دی ۲۳۳

بست ویک روپیہ ۳۱۸

بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید ..... ۳۴۷

؂ بر مقا م فلک شدہ یا رب ..... ۵۸۱

تو در منز ل ما چو بار بار آئی خدا بر رحمت ببا رید یا نے ۲۹۰

دخت کرام ۲۲۸

سلا مت بر تو اے مرد سلامت ۳۷۴

معنیٰ دیگر نہ پسندیم ما ۳۹۴

نصف ترا نصف عما لیق را ۲۵۵

؂ ہر چہ با ید نو عرو سی را ہمہ سا ما ں کنم ۲۴۷

انگریزی الہا مات

آئی ایم ود یو ۳۱۷

آئی شیل ہیلپ یو ۳۱۷

آئی کین واٹ آئی ول ڈو ۳۱۷

آئی لو یو ۳۱۶،۳۱۷

دن ول یو گو ٹو امرت سر ۲۹۲




Ruhani Khazain Volume 22. Page: 753

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 753

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/753/mode/1up


مضامین


الف

آریہ

آریوں کے مسلمہ عقائد پنڈت لیکھرام کے قلم سے ۳۲۸،۳۳۲

آریوں کے عقائد کا رد ۳۲۸ح

آریہ قوم اپنے ہاتھ سے فنا کا بیج بو رہی ہے ۵۹۳

آریوں کی تباہی کے متعلق الہامات ۶۰۷،۶۱۰

آریہ مذہب کے نابود ہونے کی پیشگوئی ۶۰۸

قادیان کے آریوں پر عذاب ۵۹۰

متعصب آریہ بھی مسیح موعودؑ کے نشانات کے گواہ ۲۶۱

ابتر

ابتر کے متعلق لغوی تحقیق ۴۳۸تا ۴۴۲

اتمام حجت

جس پر اتمام حجت ہوچکا وہ مواخذہ کے لائق ہے ۱۸۵

اتمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو ہے ۱۸۵

اجتہاد

انبیاء علیھم السلام کی اجتہادی خطاؤں کی مثالیں ۵۷۳

انبیاء سے اجتہادی غلطی ہونے میں حکمت ۵۷۳

علماء سلف کا حیات مسیح کا قائل ہونا اجتہادی غلطی تھا ۳۲ح

اجماع

اجماع کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا قول ۴۴

حیات مسیح کے بارے میں اجماع کہنا افتراء ہے ۳۲ح

امت کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر ہوا ۳۶،۳۷

استقامت

استقامت کی تعریف ۱۳۷

اسلام

اسلام ایک زندہ مذہب ہے ۱۸۱

خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا مذہب ۶۴

اسلام کی مابہ الامتیاز صفات ۶۴

اسلام کا خدا زندہ خدا ہے ۴۷۰

اسلام آسمانی نشانوں کا سمندر ہے ۴۶۸

اسلام فطرت کے موافق مذہب ہے ۱۸۰ح

ذرہ نیکی بھی اسلام میں داخل کرسکتی ہے ۱۵۰

اسلام کی سچائی ایک جاہل ہندو کو دو منٹ میں سمجھ آسکتی ہے ۱۸۰

اسلام کی حقیقت آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ہے ۱۱۳

اشاعت اسلام کے ذرائع ۴۶۸

اس زمانہ میں اشاعت دین کے سب سامان میسر ہیں ۱۷۱

اگر ایک مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہزار آتاہے ۱۲۷

اسلام پر عیسائیت کا حملہ اور اسلام کی کمزور حالت کا نقشہ ۶۴۲

اسلام کی جنگیں دفاعی تھیں ۱۶۰

اسلام نے آخری مسیح کا نام حکم رکھا ہے ۱۵۹

اشتہارات (حضرت مسیح موعود ؑ کے شائع فرمودہ )

تین ہزار روپے کا اشتہار دیا کہ سعد اللہ ابتر رہے گا ۴۵۰

’’خدا سچے کا حامی ہے‘‘ متعلق ڈاکٹر عبد الحکیم ۴۰۹

’’فتح عظیم ‘‘ ڈوئی کی ہلاکت کے متعلق ۵۰۴تا ۵۱۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 754

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 754

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/754/mode/1up


پنڈت بالمکند دہلی کا اشتہار کہ یہ زمانہ کرشن اوتا ر کا

ظہور کا ہے ۵۲۲تا ۵۲۴

بخدمت آریہ صاحبان جس میں خدا تعالیٰ کی ذات

اور صفات کا صحیح اسلامی تصور دیا گیا ہے ۶۱۴

عیسائیوں کو اسلام پر غور کرنے کی دعوت ۶۱۷تا ۶۲۰

اعتراضات اور ان کے جوابات

اعتراض کرنے والوں کی قسمیں ۱۱۱

اس اعتراض کا جواب کہ خدا کے الہام کے معنی اسی

وقت کیوں نہیں کھولے جاتے ۲۳۴

اس اعتراض کا جواب کہ مہدی موعود کی تمام علامتیں

پوری نہیں ہوئیں ۲۱۶

اس سوال جواب کہ تورات کی موجودگی میں انجیل

کی ضرورت کیوں تھی ؟ ۱۵۵

پادری کااعتراض کہ زلزلوں اور طاعون کا آنا

مسیح موعود ہونے کے لیے کوئی دلیل نہیں ۲۱۰

سعداللہ کی نسبت سخت زبان نہیں بلکہ واقعات کے

مطابق الفاظ ہیں ۴۵۱،۴۵۲

پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لیے کوشش قابل اعتراض

نہیں ۴۶۴ح

چاند سورج گرہن والی حدیث پراعتراضات کے

جوابات ۲۰۳،۲۰۴

افتراء

مفتری اور صادق کے حالات کا موازنہ ۶۵۰

افتراء کرنے والا تیئس سال مہلت نہیں پاتا ۲۱۳

اللہ

اللہ سے مراد وہ ذات جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے ۱۴۶

اسم’’ اللہ‘‘ تمام صفات اور افعال کا موصوف ہے ۱۷۶

خدا تعالیٰ کی ذات مخفی در مخفی ہے ۱۴۷

اللہ تعالیٰ غالب اورقادر ہے ۔اس کے متعلق دلائل ۴۷۰

انسان خدا کو اپنی قوت سے شناخت نہیں کرسکتا ۲

انسان کی طاقت نہیں کہ محض اپنی کوشش سے خدا کے

انوار الوہیت پر اطلاع پائے ۱۳۸

غیب کی خبر دینا خدا کاکام ہے ۲۷۲

اللہ تعالیٰ پر ایمان کے تقاضے ۱۳۱، ۱۳۸،۱۴۵

خدا تعالیٰ سے کامل تعلق کی علامت ۱۷،۱۷ح

خد اکے چہرے کا آئینہ اس کے رسول ہیں ۱۵۱

انسانی استعداد کے لحاظ سے خدا میں تبدیلیاں ۲۸

اللہ کے اجر کی علامت اسی دنیامیں ظاہر ہوتی ہے ۱۴۹

اگر تم کفر اختیار کرو تو خد ا کو تمہاری کیا پروا ہے ۱۳۲

خدا سے ہزار دفعہ سوال کریں توجواب مل جاتا ہے ۱۴۲

موسیٰ ، عیسیٰ پر قدرت الٰہی کی محدود تجلی کی وجوہات ۲۸تا ۲۹

غیر کی محبت سے خالی دل کو خدا تعالیٰ تجلیات حسن وجمال

کے ساتھ اپنی محبت سے پر کر دیتا ہے ۵۶

انسان کے صدق وصفا سے بڑھ کر خدا صدق وصفا

ظاہر کرتا ہے ۱۶

اسلام کا خدا کسی پر اپنے فیض کا دروازہ بند نہیں کرتا ۶۴

ہمارا خدا قادر خدا ہے ۵۷۱

اس کی محبت میں کھونے والے کو خدا عزت دیتا ہے ۵۴

زندہ خدا اور اس کی صفات کا صحیح تصور ۴۱۴،۴۱۶



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 755

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 755

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/755/mode/1up


نفی صفات باری نفی وجود باری کو مستلزم ہے ۱۷۵

خدا کے بیٹوں سے مراد ۶۵

خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا ۳۱۷

عذاب کے بارہ میں سنت اللہ ۲۰

اتمام حجت کا علم محض خدا تعالیٰ کو حاصل ہے ۱۸۵

ہندو مذہب میں اللہ تعالیٰ کا غلط تصور ۶۳

الہام

خدا کا الہام اقتداری وعدوں پر مشتمل ہوتا ہے ۱۴۳،۱۴۴

رحمانی الہام میں سچ کی کثرت ہوتی ہے ۱۴۳ح

ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا ۴۳۸

نبی کو الہام موجودہ حالات کے مطابق ہوتاہے اگر تبدیلی

حالات ہوتو تشریح تبدیل ہوجاتی ہے ۳۰۸،۳۰۹

تعلق رکھنے والوں کی نسبت بھی کبھی الہام ہوتا ہے ۲۳۳

نبی کو غیر زبان میں بھی الہام ہوتا ہے ۳۱۶تا ۳۱۸

شیطانی الہام فاسق اور ناپاک کو بھی ہوتا ہے ۱۴۳ح

شیطانی اور رحمانی خواب میں فرق ۴۲اتا ۱۴۴

شیطان قدرت کا اعلیٰ نمونہ اپنے الہام میں نہیں دکھا سکتا ۱۴۳

اس سوال کا جواب کہ شیطانی خواب میں بھی غیبی خبر ہو

سکتی ہے ۱۴۳

کسی شخص کی نسبت خوشنودی کا الہام بسا اوقات کسی

خاص وقت تک کے لئے ہوتا ہے ۳۰۸

امام جعفر کی زبان پر قرآن کریم کاالہاماً نازل ہونا ۱۴۱

غیر زبان میں الہام ہونا ۳۱۶

عیسائیوں میں وحی والہام پر مہر لگ گئی ۲۹

ایسے لوگوں کی سچی خوابیں جن کو خدا تعالیٰ سے کچھ

تعلق نہیں ہوتا ۱تا ۱۳

ایسے لوگوں کی رؤیا اور سچے الہامات جن کا خدا تعالیٰ

سے کچھ تعلق ہوتا ہے ۱۳تا۱۶

اکمل واصفیٰ وحی والہام ۱۶تا۵۸

من جانب اللہ کلام کے خواص ۱۷

من جانب اللہ کلام کی تین علامات ۳۳۵

کامل مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ پانے والے افراد کے خواص ۱۸

خدا کے خاص بندوں کے غیب اور عام لوگوں کی

خوابوں اور الہاموں میں چار امتیازات ۶۹

کامل شرف مکاملہ ومخاطبہ پانے والوں کی صفات اور

ان سے اللہ تعالیٰ کا سلوک ۵۵تا ۵۸

کامل الہام مقبولان الٰہی کو ہی ہوتاہے ۳ح

کس وقت الہام کو خد ا تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا چاہیے ۵۴۷

شیطانی الہام کی تین علامات ۱۴۳ح

ممکن ہے ایک الہام سچا ہو اور پھر بھی شیطان کی

طرف سے ہو ۳

رحمانی اور شیطانی الہامات کا مابہ الامتیاز ۱۴۲

صرف الہام کاپانا کسی خوبی پر دلالت نہیں کرتا ۲۶

وید کی رو سے خوابوں اور الہاموں پر مہر لگ گئی ہے ۵

امت محمدیہ

امت محمدیہ کی فضیلت ۱۵۶،۱۵۷

امت محمدیہ چودھویں صدی میں حکم کی محتاج ٹھہری ۴۹

سورۃ نور میں ہے کہ تمام خلفاء اسی امت میں سے ہونگے ۶۵۵

انسانی فطرتوں کے کمال کا دائرہ امت محمدیہ نے پورا کیا ۱۵۷

انجیل

انجیل عام اصلاح سے قاصر ہے ۲۹



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 756

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 756

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/756/mode/1up


انجیل نے عفو ودرگزر پر زور دیا ہے ۱۵۶

اس سوال کا جواب کہ تورات کی موجودگی میں انجیل کی

ضرورت کیوں تھی ؟ ۱۵۵

انسان

انسان کو پیدا کرنے کا مطلب ۷

خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے ۲۷

ہدایت پالینا انسان کی خاصیت ہے ۱۲۲ح

معرفت کاملہ تک پہنچنے کے لیے انسان کو دو قسم

کے قویٰ ملے ہیں ۸

انسانی دماغ کی ساخت میں معقولی اور روحانی حواس

رکھے گئے ہیں ۷،۸

انسانی کوشش بغیر خدا کے فضل کے بے کار ہے ۱۳۸،۱۳۹

بعض اشخاص فطرتاً خدا سے محبت کرتے ہیں ۶۸

بعض کی طبیعت معارف سے مناسبت رکھتی ہے ۱۲

اکثر انسانی فطرتیں حجاب سے خالی نہیں ۹

فطرتی ایمان ایک *** چیز ہے ۱۶۲

ا نفاق فی سبیل اللہ

انفاق فی سبیل اللہ میں تمام نعمتیں داخل ہیں ۱۴۰

مالی قربانی کا کمال کیا ہے ؟ ۱۳۹،۱۴۰

انگریز (حکومت برطانیہ )

صرف منہ کے عیسائی ہیں انجیل کو چھوڑ کر ملکی قوانین

بنائے ہیں ۶۸۰

ایمان

ایمان کی حقیقت ۱۳۸،۱۶۳

اللہ پر ایمان کے تقاضے ۱۳۱،۱۳۸،۱۴۵

سچے دل سے ایمان لانے والے کا ایمان ضائع

نہیں ہوتا ۱۴۹

فلسفیوں کے ایمان کا آخری نتیجہ *** ہوتا ہے ۱۶۲

اللہ پر پورا ایمان کب ہوگا ۱۳۳،۱۴۶،۱۷۳

خد اپر سچا ایمان رسولوں پر ایمان لانے کا موجب ۱۷۷

رسولوں پر ایمان لائے بغیر نجات نہیں ہوسکتی ۱۷۳تا۱۷۹

فطرتی ایمان ایک *** چیز ہے اس کی تشریح ۱۶۲،۱۶۳

بت پرستی کارد ۲۱۳

برہمو

دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں مگر نبیوں

کونہیں مانتے ۱۷۵

بنی اسرائیل

حضرت یعقوب کا لقب اور یہود کا دوسر انام ۴۶۵ح

بنی اسرائیل کے انبیاء کی نبوت میں موسیٰ کی پیروی کا

دخل نہیں تھا ۱۰۰

بنی اسرائیل میں اولیاء بہت کم ہوئے ہیں ۱۰۰

پیشگوئی

ہر چیز کی عظمت اس کی مقدار ،کیفیت حالات سے ہے ۱۶۳

اہل اللہ کی تمام خواہشیں،ناراضگی اور رضامندی

پیشگوئی کا رنگ پیدا کرلیتی ہیں ۱۹

کامل شرف مکالمہ ومخاطبہ پانے والوں کی ییشگوئیاں

وسیع اور عالمگیر ہوتی ہیں ۱۷

پیشگوئی کے معانی کس رنگ میں کرنے چاہیں ۴۳۷

پیشگوئیوں کی حقیقت ان کے زمانہ نزول میں واضح

ہوتی ہے ۴۶۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 757

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 757

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/757/mode/1up


پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا حرام نہیں ۴۶۴ح،۱۹۸

پیشگوئیوں میں امتحان ہوتا ہے ۴۶،۴۶۶،۴۶۷

پیشگوئیوں میں کوئی حصہ متشابہات اور کوئی بینات ہوتا ہے ۵۷۲

توریت اور انجیل کی پیشگوئیوں سے یہود اور نصاریٰ کا امتحان ۴۹

وعیدی پیشگوئیوں کے متعلق الٰہی قانون ۴۰۴

وعید کی پیشگوئی میں تخلف جائز ہے ۱۴۳ح،۴۶۳

صدقہ خیرات اور دعا سے رد بلا ہوسکتا ہے ۴۶۶

وعید کی پیشگوئیوں کا انجام معافی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے

۱۶۰،۱۸۲،۱۹۶

تضرع اور دعا سے پندرہ دن والی پیشگوئی پندر ہ سال

میں بدل گئی ۴۶۵ح

پیشگوئیوں میں اجتہادی خطا ۴۰۵

پیشگوئیوں میں کئی اسرار مخفی ہوتے ہیں ۲۱۷

حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں کی حقیقت ۱۶۳

حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئیوں پر تین قسم کے اعتراضات

۵۷۴،۵۷۵

مسیح موعودؑ کی بعض پیشگوئیوں پر اعتراضات ۱۹۳تا ۲۰۰

موسیٰ اور عیسیٰ کی بعض پیشگوئیاں جو پوری نہیں ہوئیں ۱۸۳

انگریزی زبان میں الہام او ران کا پورا ہونا ۳۱۶تا۳۱۷

جماعت کی غیر معمولی ترقی اور نشوونما کی پیشگوئی ۲۴۱

پیشگوئی کے مطابق جلسہ اعظم مذاہب میں

حضرت مسیح موعود ؑ کا مضمون بالا رہا ۲۹۱

پیشگوئی بابت زوجہ نواب محمدعلی خان پوری ہوئی ۴۳۴

صاحب نور مہاجر پیشگوئی کے مطابق فو ت ہوئے ۴۳۵

پیشگوئی کے مطابق فلر لفٹنٹ گورنر بنگال کا استعفا ۳۱۰

مرزا غلام قاد رکی وفات کی نسبت پیشگوئی ۲۳۳

بمطابق پیشگوئی موسم بہا رمیں برف باری ۴۷۲تا۴۸۰

اصحاب الصفہ کی نسبت پیشگوئی ۲۳۴

پانچ عظیم الشان زلزلوں کی پیشگوئی ۹۶ح

سخت زلزلہ کے متعلق پیشگوئی کو قبل از وقت سننے والے

احباب کے نام ۴۹۰تا ۴۹۲

زلزلہ کے متعلق پیشگوئی ۱۹۹،۲۰۰،۷۱۷

مختلف آفات ارضی وسماوی کی پیشگوئی ۲۶۸

نواب محمد حیات کے متعلق پیشگوئی کا پورا ہونا ۳۴۵

پیشگوئی عبد اللہ آتھم کے پورے ہونے کی تفصیل ۱۹۲تا۱۹۴

صدیق حسن خان کے حوالے سے پیشگوئی کا پورا ہونا۴۷۰

طاعون کے متعلق پیشگوئی ۲۳۵،۳۴۹

کرم دین جہلمی کے متعلق پیشگوئی ۲۲۴،۲۲۵

سرسید احمد خان کے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی ۲۴۸

عبدا لقادر کی ہلاکت سے پیشگوئی پوری ہوئی ۴۸۵

بشمبرداس کے حوالے سے پیشگوئی پوری ہوئی ۳۱۴،۳۱۵

شیخ مہر علی کی نسبت پیشگوئی جو پوری ہوئی ۲۳۳

چراغ دین پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا ۱۲۶،۲۳۱

پیشگوئی بابت تنزلی لالہ چند ولال ۲۲۴

پیشگوئی بابت اولاد آتما رام ۱۲۵،۲۲۶

دلیپ سنگھ کے بارے میں پیشگوئی پوری ہوئی ۲۴۸

بنگالہ کی نسبت پیشگوئی پورا ہونے کی تفصیل ۳۱۰،۳۱۱

مقدمہ مارٹن کلارک میں بریت پیشگوئی کے

مطابق ہوئی ۱۲۴

لیکھرام کے متعلق پیشگوئی کا پورا ہونا ۱۲۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 758

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 758

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/758/mode/1up


سعد اللہ پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا

۴۳۵،۴۳۶،۴۴۳تا۴۴۸

مولوی محمد حسن بھیں والا پیشگوئی کے مطابق مرا ۲۳۹

مرزا سردار بیگ یک طرفہ مباہلہ کرکے ہلاک ہوا ۲۳۸

پیشگوئی احمد بیگ کی تفصیل ۱۹۴تا ۱۹۸

گلاب شاہ جمالپوری کی پیشگوئی بابت حضرت مسیح موعود

جو ازالہ اوہام میں درج ہے ۲۱۰

ڈاکٹر عبد الحکیم کی پیشگوئی جھوٹی نکلی ۴۰۹

ت

تزکیہ نفس

انتہائی کوشش انسان کی تزکیہ نفس ہے ۵۳۵

وحی الٰہی کے انوار اکمل اور اتم طور پر قبول کرنے سے

تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۲۶

تزکیہ یافتہ نفس پر صفات الٰہیہ کا انعکاس پورے طور پر

ہوتا ہے ۲۵

تعبیر الرؤیا

خواب میں حضرت عیسیٰ دیکھنے کی تعبیر ۳۸ح

کسی کے گھر میں دشمن داخل ہونے کی تعبیر ۳۴۱

تقویٰ

بے اصل مخالفت تقویٰ سے دوری کی وجہ سے ہے ۴۳ح

توحید

توحید کا نور کب پیدا ہوتا ہے ۱۴۸،۱۸۰،۱۸۴

توحید خدا کے کلام کے ذریعہ سے ملتی ہے ۱۴۱

کامل توحیدبجز نبی کامل کی پیروی کے حاصل نہیں سکتی

۱۱۵،۱۱۸،۱۲۲،۱۲۸،۱۳۱،۱۴۱،۱۴۶،۱۴۷،۱۷۹،۱۸۰

توحید اور نجات کو ظاہر کرنے والا نبی ہی ہوتا ہے ۱۴۸،۱۸۰

انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد مخفی ہوتی ہے ۱۳۱

محض توحید پر ایمان مدار نجات نہیں ۱۱۲،۱۸۴

آنحضرت ﷺ دنیا سے گم توحید کو دوبارہ دنیا

میں لائے ۱۱۹

ج ،چ ،ح

جلسہ اعظم مذاہب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون پیشگوئی

کے مطابق بالا رہا ۲۹۱

جماعت احمدیہ

تبدیلی کے بعد جماعت کا ایک ایک فرد ایک ایک

نشان ہے ۲۴۹

سلسلہ کے لوگوں کی استقامت سچا ہونے کی علامت ۳۶۰

صحابہ کے بروز ۵۰۲

افراد جماعت کا مخلصانہ تعلق اور مالی قربانی ۲۴۰

جماعت کی ترقی کی پیشگوئی ۲۴۱،۶۵۳

بعض بادشاہوں کی جماعت میں داخل ہونے کی پیشگوئی ۹۴ح

ہماری جماعت کے پہلے شہید ۲۷۴

جنت

بہشت جسمانی اور روحانی نعمت کی جگہ ہے ۱۴۵

جہاد

اسلامی لڑائیاں خالصتاً مدافعت کے طور پر تھیں

۱۱۴،۱۴۰،۱۵۹،۱۶۲،۴۶۹،۴۶۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 759

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 759

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/759/mode/1up


مسیح موعود جہاد بالسیف نہیں کرے گا ۴۶۸،۴۶۷

عیسائی جبراً عیسائی بناتے تھے ۴۶۸

جہنم

جہنم ابدی نہیں ہے ۱۹۴ح

جہنم دائمی نہیں (حدیث ) ۱۹۶

بعض گہنگار مومنوں کو جہنم میں ڈالنے کی حکمت ۵۴۴

دوزخ جسمانی اور روحانی عذاب کی جگہ ہے ۱۴۵

چاند سور ج گرہن

ایک عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ۲۰۵ح

حجر اسو د

حجر اسود کی تعبیر عالم اور فقیہہ کے ہوتے ہیں ۶۶۳

حدیث

ائمہ اہل بیت نام بنام آنحضرت ﷺ تک حدیث پہنچانا

ضروری نہیں سمجھتے تھے ۲۰۴

حضرت عمرؓ نے ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے

ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنا دیئے تھے ۴۶۴

احادیث سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے

۴۶۵تا ۴۶۶

حکم

شریعت کااختلاف طبعاً چاہتاہے کہ تصفیہ کے لئے

کوئی شخص خد ا کی طرف سے آئے ۴۵

مسیح موعود اس امت کے لیے بطور حکم ہوگا ۴۶

حواری

مسیح کے حواریوں کا صحابہ کے نمونہ سے موازنہ ۱۰۲ح

خ

ختم نبوت

نادان مسلمان ختم نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس

سے آنحضرت ﷺ کی ہجو نکلتی ہے نہ کہ تعریف ۱۰۴ح

مستقل نبی آنحضرت ﷺ کے بعد نہیں آسکتا ۳۲،۳۱

مسیح موعود کونبی کانام دیئے جانے کی حکمت ۶۳۷ح

موسیٰ اور عیسیٰ کی قوت تاثیر کے کم ہونے کی وجہ ۱۰۱ح

خطبہ الہامیہ

مسیح موعود ؑ کافی البدیہہ اعجازی خطبہ ۳۷۵

خواب (رؤیا)

بطور تخمریز ی کبھی کبھی سچی خواب آنے کی حکمت ۹،۱۰

انسانی دماغ کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ بعض سچی

خوابیں دیکھ سکتا ہے ۲۲

سچی خواب دیکھنے کے لیے نیک بختی شرط نہیں ہے ۶۸

خواب کی تعبیریں مختلف ۴۵۸

بعض خوابیں ہر ایک فرقہ کی سچی بھی ہوجاتی ہیں ۵،۶

ایسے لوگوں کی سچی خوابیں جن کو خدا تعالیٰ سے کچھ

تعلق نہیں ہوتا ۱تا ۱۳

فرعون کوبھی سچی خواب آئی تھی ۱۹۲

بعض بدکا رعورتوں کو بھی سچی خواب آجاتی ہیں ۵

ممکن ہے کہ سچی خواب شیطان کی طر ف سے ہو ۳

نفس امارہ کے زیر اثر خوابیں ۱۵

دل کا تکبرخواب میں آجا تا ہے ۵۳۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 760

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 760

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/760/mode/1up


مسیح موعود علیہ السلام کی خوابیں

مرز اغلام قادر کی صحت یابی کے متعلق خواب ۲۶۶

آپ کا ایک رؤیا میں مولوی عبد اللہ غزنوی سے ملنا

اور ایک خواب کی تعبیر پوچھنا ۲۵۰

ایک رؤیا کہ یہ نان لو یہ تمہارے لئے اور تمہارے

درویشوں کیلئے ہے ۲۹۰

اہلیہ کی شفا یابی کے متعلق رؤیا ۲۹۰

سہج رام سررشتہ دار سیالکوٹ کی موت کے متعلق ایک

رؤیا جو اسی دن پورا ہوا ۳۰۹

میر عباس علی کے متعلق ایک رؤیا ۳۰۹

ایک فرشتہ کو خواب میں دیکھا جس نے آپ کے

دامن میں بہت سے روپے ڈالے ۳۴۶

د ، ذ ، ر ، ز

دجال

بعض مسلمانوں کے نزدیک ابن صیاد بھی دجال ہے ۴۴

دجال کی دو تعبیر یں اور قتل دجال سے مراد ۳۲۶

دجال سے مراد عیسائیت کا بھوت ہے ۴۱،۴۴،۴۵۶

احادیث میں دجال کے گرجے سے نکلنے کا ذکر ۴۵ح،۲۹۵

صحیح مسلم پادریوں کو دجال ٹھہراتی ہے ۲۹۶

فتنہ صلیب اور فتنہ دجال ایک ہے ۲۹۷

عیسائی آنحضرت کے زمانہ میں بھی دجال تھے مگر

اس زمانہ میں دجال اکبر ہیں ۴۹۷

قرآن شریف اس شخص کو جس کا نام حدیثوں میں دجال

ہے شیطان قرار دیتا ہے ۴۱

دجال کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے سے مراد ۳۲۳

تیس دجال آئیں گے تو تیس مسیح بھی آنے چاہیے ۲۱۲

درود شریف

درود شریف کی برکت ۱۳۱

دعا

مقبولین کابڑا معجزہ استجابت دعا ہی ہے ۲۰،۳۳۴

اگر قضاء مبرم اور اٹل نہ ہوتو مقبولین کی دعائیں

ضرور سنی جاتی ہیں ۲۰،۲۱

ایک دعا منظور نہ ہوتوکوئی اور دعا منظور ہوتی ہے ۳۴۰

دعاؤں کے بعض دفعہ قبول نہ ہونے کی حکمت ۲۰

تین باتوں میں معرفت کاحصول ۲۶۶

عبد الکریم کے لیے دعا کی معجزانہ شفا ۴۸۰تا ۴۸۲

نواب صدیق حسن خان کیلئے دعا کی گئی اور قبول ہوئی ۴۷۰

دنیا

عمر دنیا سات ہزار سال ہے اس کی تفصیل ۴۵۷،۴۵۸

ذوالسنین (دم دار ستارہ)

مسیح موعود ؑ کے ظہور کی علامت جو پوری ہوچکی ہے ۲۰۵

رسول

شریر لوگ رسول کے آنے کے وقت ہلاک ہوتے ہیں ۱۶۵

رفع

ہرایک مومن کا ایک جلالی جسم کے ساتھ رفع ہوتا ہے ۴۰

مسلمانوں کا نادانی سے رفع روحانی کو جسمانی بنا دینا ۴۰

روح

معرفت کامل تک پہنچنے کے لیے دو قسم کی قوتیں ۸

روحانی قوتوں کا منبع دل ہے ۸

تین روحانی مراتب ۲۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 761

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 761

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/761/mode/1up


زلزلہ

پانچ عظیم الشان زلزلوں کی پیشگوئی ۹۶ح

سان فرانسکو میں زلزلہ آنے کی وجہ ۱۴۰،۲۶۷

ایک سخت زلزلہ کی پیشگوئی کو قبل از وقت سننے والوں

کے اسماء ۴۹۰تا ۴۹۲

ایشیا کے مختلف مقامات میں زلزلوں کی پیشگوئی ۲۶۸

س ، ش ، ص

سورت

سورۃ الفاتحہ

سورۃ الفاتحہ میں انسانوں کے تین طبقوں کا ذکر ۵۶۲

سورہ فاتحہ کے اخیرمیں عیسائیت سے ڈرایا گیا ہے ۴۵ح

دجال کا ذکر نہیں مگر نصاریٰ کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم ۴۱

دجال سے بچنے کی تعلیم ۳۲۳

عیسائیت کے فتنہ سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ

مانگنے کی ہدایت ۴۹۷

سورۃ العصر

حروف حساب جمل کی رو سے عمر دنیا ۲۰۹،۴۵۷

سورۃ النور

آنے والے خلیفوں کا ذکر کہ اسی امت سے ہونگے

۵۰۲،۶۵۵

شفاعت

حضرت موسیٰ کی شفاعت سے عذاب کا منسوخ ہونا ۵۷۱

شہاب ثاقب

حضرت مسیح موعود ؑ کی تائیدمیں شہاب ثاقب کے نشان

کا ظہور ۵۱۷تا۵۳۲

شیطان

جو شخص خدا کا راستباز اور وفا دار بندہ بن گیا وہ شیطان

سے محفوظ ہو گیا ۱۴۲

شیطان کی نافرمانی انسان کی نافرمانی کی طرح نہیں ۱۲۲ح

شیطان کبھی کبھی سچی بات بتلا کر دھوکہ دیتا ہے ۳

شیطان اکمل وحی پانے والوں پر تصرف کرنے سے

محروم ہے ۱۸

شیطان جھوٹے مدعی کی تائید میں کوئی قدرت نمائی

کا الہام نہیں کر سکتا ۳ح

آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا دجال شیطان ہے ۴۱

شیعہ

امام غائب کے عقیدہ کا بیان ۴۴

صحابہؓ

آنحضرت ﷺ اور موسیٰ وعیسیٰ کے صحابہ کے اخلاص

واستقامت کا موازنہ ۱۰۱،۱۰۲ح

آنحضرت ﷺ کے وفات کے بعد اجماع صحابہ ۳۵

صدقہ

صدقہ اور توبہ سے بلا ٹل سکتی ہے ۱۹۵

صدیقیت

صدیقیت کی تعریف ۵۵

ط ، ع

طاعو ن

طاعو ن کا نام قرآن نے رجز رکھا ہے ۵۴۲

حدیث میں طاعو ن کا ذکر ۵۷۹



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 762

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 762

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/762/mode/1up


بباعث طاعون حج کا بند ہونا ۲۰۶

کبھی کوئی نبی یا رسول اور اول درجہ کا کوئی برگزیدہ

اس خبیث مرض میں مبتلا نہیں مرا ۵۴۸

طاعون کی پیشگوئی او ر اس کا وقوع ۲۳۰،۶۲۸

طاعون کا نشان اور مخالفین کی ہلاکت

۲۳۵تا ۲۳۹،۴۴۶،۴۴۷

ہدایت سے محروم مخالفین پرطاعون کا غلبہ ۲۳۵

الدار میں آنے والوں کی حفاظت کا وعدہ ۵۸۸

اس اعتراض کا جواب کہ جماعت کے بعض افراد بھی

طاعون سے ہلاک ہوئے ہیں ۵۶۸

طاعون سے جماعت کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۵۷۰

عیسیٰ اور مسیح موعود ؑ کے زمانہ کی طاعون کا موازنہ۱۶۳،۱۶۴

عبا د الرحمن

جو شخص خدا کا راستباز اور وفا دار بندہ بن گیا وہ شیطان

سے محفوظ ہو گیا ۱۴۲

عبادت

انسان خدا تعالیٰ کی تعبد ابدی کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۶۴

عابد کی صفات ۵۴

عذاب

کسی رسول کی بعثت کے وقت عذاب نازل ہونیکا فلسفہ ۱۶۴،۱۶۵

عذاب کس وقت نازل ہوتا ہے ۴۹۹

مرسل کی تکذیب عذاب نازل کرتی ہے ۱۶۶

آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تلوار کا عذاب ۱۶۰

توبہ واستغفار سے عذاب ٹل جاتا ہے ۴۶۳،۴۶۴

حضرت موسیٰ کی تکذیب کی وجہ سے مصر پر عذاب ۱۶۵

حضرت موسیٰ کی شفاعت سے عذاب منسوخ ہونا ۵۷۱

جہنم ابدی نہیں ہے ۱۹۴ح

جہنم دائمی نہیں (حدیث ) ۱۹۶

بعض گہنگار مومنوں کو جہنم میں ڈالنے کی حکمت ۵۴۴

دوزخ جسمانی اور روحانی عذاب کی جگہ ہے ۱۴۵

عربی زبان

عربی ام الالسنہ ہے اورتمام زبانیں اس سے نکلی ہیں ۶۳۲ح

*** اور لعان کی لغوی تحقیق ۵۵۲

حضرت مسیح موعود ؑ کا عربی منظوم کلام

اذا ماغضبنا غاضب اللہ صائلا ۲۳۶

انی من الرحمن عبد مکرم.... ۳۶۱تا۳۶۴

شربنا من عیون اللہ ماء..... ۳۱۲

وخذ رب من عادی الصلاح ومفسداً ۵

ومن اللئام اری رجیلا فاسقا.....۴۴۵،۴۴۶

یا ربنا افتح بینا ..... ۴۵۳۲۳

علم

علم تین قسم کا ہوتا ہے ۱۰ح

عمل

انسان خدا تعالیٰ تک پہنچنے کیلئے دو چیزوں کا محتاج ہے ۶۲

ایک نیک عمل دوسرے نیک عمل کی طاقت دیتا ہے ۱۷۷

عیسائیت

عیسائی مذہب میں معرفت الٰہی کا دروازہ بند ہے ۶۲

عیسائی قوم دوگنا بدقسمتی میں مبتلا ہے ۲۹

عیسائیوں کا خدا ان کا ایجاد کردہ ہے ۲ح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 763

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 763

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/763/mode/1up


حضرت عیسیٰ کو خدا اور ملعون بناتے ہیں ۴۲

عیسائیت کے ہر قدم میں خدا کی توہین ہے ۶۰

کفارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا ۲۹

اسلام پر سب سے بڑی مصیبت عیسائیت کی یلغار ہے ۶۲۲

مظہر اتم شیطان کا نصرانیت ہے ۴۱

دجال سے مراد عیسائیت کا بھوت ہے ۴۴

مسیحی صاحبان کو حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے

دعوت اسلام ۶۱۷تا ۶۲۰

آخر کا رمسیح کا دوبارہ آنے کا عقیدہ عیسائی چھوڑ دینگے ۳۱ح

آخری زمانہ میں مسیح صلیب کو توڑے گا ۲۰۲

انجیل عام اصلاح سے قاصر ہے ۲۹

انجیل نے عفو ودرگزر پر زور دیا ہے ۱۵۶

اس سوال کا جواب کہ تورات کی موجودگی میں انجیل کی

ضرورت کیوں تھی ؟ ۱۵۵

ف ، ق

فارسی زبان

مسیح موعود علیہ السلام کا فارسی منظوم کلام

آنکہ گوید ابن مریم چوں شدی ... ۳۵۲،۳۵۳

چہ شیریں منظری اے دلستانم ... ۳۵۵،۳۵۶

کس بہر کسے سرندہد جاں نفشاند ۲۱۲

از بندگان نفس رہ آ ں یگاں مپرس ۲۱۲

فتویٰ

مسیح موعودؑ کے خلاف سب سے پہلا فتویٰ ۲۵۸

احمدیوں کے خلاف مخالف علماء فتوے ۱۲۳

فتوؤں کی اشاعت کے بعد جماعت کی ترقی ۱۲۳

فطرت

انسانی فطرتوں کے کمال کا دائرہ امت محمدیہ نے پورا کیا ۱۵۷

بعض اشخاص فطرتاً خدا سے محبت کرتے ہیں ۶۸

بعض کی طبیعت معارف سے مناسبت رکھتی ہے ۱۲

اکثر انسانی فطرتیں حجاب سے خالی نہیں ۹

فطرتی ایمان ایک *** چیز ہے ۱۶۲

قرآن شریف

قرآن کریم کے علل اربعہ کی تفصیل ۱۳۶

ایک ہی کتاب ہے جو محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے ۲

متقیوں کے لیے کامل ہدایت ۱۳۶،۱۳۷ح

قرآن توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں ۱۵۵

قرآن یہود اور نصاریٰ کے اختلاف دور کرنیکے لیے

بطور حکم تھا ۳۹

خدا تعالیٰ کے کلام میں تناقض ممکن نہیں ۱۷۵

متشابہات اور محکمات کی تشریح ۱۷۴تا ۱۷۹

محکمات کی علامت ۱۷۴،۱۷۵

متشابہات کا علم راسخ فی القرآن لوگوں کو ہی دیا جاتا ہے ۱۷۴

مجمل آیا ت کے معنی آیات مفصلہ کے مخالف نہیں

کرنے چاہیں ۷۳ح

شیعوں کے نزدیک اصل قرآن غار میں پوشیدہ مہدی

کے پاس ہے ۴۴

قربانی

یہودی شریعت میں سوختنی قربانی کا حقیقی فلسفہ ۲۰۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 764

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 764

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/764/mode/1up


قصیدہ

مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصائد

انی من الرحمن عبد مکرم ۳۶۱

علمی من الرحمن ذی الالاء ۷۱۶

ک ، گ

کرامت

کرامت کی اصل فنا فی اللہ ہے ۵۳

کسوف وخسوف

مسیح موعود ؑ کیلئے کسوف وخسوف کے نشان کی تفصیل ۲۰۲

کشف

بعض انسانوں میں کشف کے حصول کے لیے فطرتی

استعدادہوتی ہے ۱۴

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کے کشوف

کثرت سے درود پڑھنے کے نتیجہ میں کشف ۱۳۱ح

تمثیلی طور پر خدا تعالیٰ کی زیارت اور سرخ چھینٹوں

والا واقعہ ۲۶۷

مرزا مبارک احمد مرحوم کی بیماری کے ایام میں انکی

صحت کے متعلق ایک کشف ۹۰ح

مرزا مبارک احمد مرحوم کے متعلق ایک کشف جو اسی

وقت پورا ہوا ۳۹۷،۳۹۹

ایک سخت دشمن کوکشف میں گالیاں دیتے ہوئے دیکھا

اور الہام ہوا ۶۰۹

پنڈت شونرائن کے خط کے مضمون پر بذریعہ کشف

اطلاع ۳۹۲

لیکھرام کے قتل کے متعلق ایک کشف ۲۹۷

کرم دین کے مقدمہ کے متعلق ایک کشف ۳۹۴

کفر

کفر کی دو اقسام ۱۸۵تا۱۸۸

بکلی بے خبر شخص کامواخذہ کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ۱۸۴

مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر بن جاتا ہے ۱۲۴،۱۶۸

حضرت مسیح موعودؑ کے انکار سے کافر ہوجانے کی تشریح

۱۶۷تا۱۶۹

کفارہ

کفارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا ۲۹

تردید کفارہ کے دلائل ۶۰،۶۱

گناہ

گناہوں سے نجات معرفت کامل پر موقوف ہے ۶۲

صوفیہ کا قول ہے اگر گناہ نہ ہوتا تو انسان کوئی ترقی نہ کرسکتا ۵۸۱

صرف گناہ سے پاک ہونا انسان کیلئے کمال نہیں ۶۲

ل ، م

لنگر خانہ مسیح موعود ؑ

اس زمانہ میں خرچ پندرہ سو روپے ماہوار تھا ۲۹۰

لیلۃ القدر

نبی اور رسول کا زمانہ لیلۃ القدر کا زمانہ ہوتا ہے ۶۹ح

مباہلہ

اگر نجران کے عیسائی مباہلہ کرتے تو ان کے

درختوں کے پرندے بھی مر جاتے ۵۵۲

حضرت مسیح موعود ؑ کا مخالفین کو مستقل طور پر مباہلہ کا

چیلنج دینا ۷۱



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 765

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 765

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/765/mode/1up


انجام آتھم میں مباہلہ کے لیے بلائے جانے والے

مولویوں میں سے صرف بیس زندہ ہیں ۳۱۳

انجام آتھم میں مباہلہ کے لئے بلائے گئے لوگوں میں

سے موت پانے والوں کی فہرست ۴۵۴

مسیح موعود کے ساتھ مباہلہ کرکے ہلاک ہونے

والے افراد ۶۲۶ح

بابو الٰہی بخش کے ساتھ ہونے والے مباہلہ کا متن ۵۸۴

چراغ دین جمونی کی دعائے مباہلہ (اصل)۳۸۸تا ۳۹۲

چراغ دین جمونی کی دعائے مباہلہ ۴۱۲تا ۴۱۷

عبد المجید دہلوی کی مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاکت ۵۹۷

عبدا لحق غزنوی مباہلہ کرکے ذلیل ورسوا ہوا ۴۴۴

عبد الحکیم خان کو حضر ت مسیح موعود ؑ کی طرف سے مباہلہ

کی خصوصی دعوت ۷۲

سعد اللہ کو عربی اشعار میں مباہلہ کا چیلنج ۴۵۳

مباہلہ کے نتیجے میں مولوی غلام دستگیر اور چراغ دین

کی ہلاکت ۷۱ح

مولوی دستگیر کی دعائے مباہلہ ’’فتح رحمانی ‘‘میں ۳۴۳

پنڈت لیکھرام کا مسیح موعود ؑ سے مباہلہ ۳۲۶

مباہلہ کی وجہ سے ڈوئی کی ہلاکت ۵۵۳

عبد القادر یکطرفہ مباہلہ کرکے طاعون سے ہلاک ہوا ۴۸۲

ڈوئی کے متعلق دعائے مباہلہ اور اس کا انجام

۶۸۵تا ۷۰۲

فضل داد کا احمدیوں سے مباہلہ اور اس کی ہلاکت ۳۹۶

فیض اللہ کاایک احمدی سے مباہلہ ایک سال اندر

ہلاکت ۶۰۴

متشابہات

متشابہات اور محکمات کی تشریح ۱۷۴تا ۱۷۹

متشابہات کی طرف دوڑنے والوں کے دل میں نفاق ۱۳۶

مجدد

حدیث مجدد ین علماء امت میں مسلم ہے ۲۰۱

بعض اکابرین نے خود مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ۲۰۱

نواب صدیق حسن خان کے نزدیک سچا مجدد ۴۶۲

محکمات

متشابہات اور محکمات کی تشریح ۱۷۴تا ۱۷۹

مرہم عیسیٰ

مرہم عیسیٰ کا ذکرصدہا طبی کتابوں میں موجود ہے ۳۹

معتزلہ

حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں ۳۲ح،۴۵

معجزہ

حضرت مسیح موعودؑ کے معجزات آنحضرت ﷺ کے معجزات ہیں ۴۶۹

حضرت عیسیٰ کے معجزات کی حقیقت ۱۵۵

معراج

معراج میں حضرت عیسیٰ باقی انبیاء کی طرح نظر آئے

۴۰،۴۵۶،۴۶۶،۶۶۸

معرفت الٰہی

ضرورت صانع کو محسوس کرنا معرفت کامل نہیں ۸

کامل معرفت کس طرح حاصل ہوتی ہے ۵۳۶

معرفت الٰہی عام لوگوں کو نبیوں کے ذریعے ملتی ہے ۶۲

معرفت کامل تک پہنچنے کے لیے دو قسم کے قویٰ ۸



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 766

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 766

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/766/mode/1up


معرفت الہٰیہ مدار نجات ہے ۳۰

انسانی معرفت کب کامل ہوگی ۲۴

گناہوں سے نجات معرفت کامل پر موقوف ہے ۶۲

عیسائی مذہب میں معرفت کامل کا دروازہ بند ہے ۶۲

مغفرت

گناہوں سے مغفرت آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے

سے وابستہ ہے ۱۳۰

مقدمہ

مقدمہ دیوارکا تفصیلی واقعہ ۲۷۸

مقدمہ کرم دین سے بریت اوراس کا سزا پانا ۲۲۴،۲۲۵

مقدمہ ڈاک پیشگوئی کے مطابق پہلی پیشی پر خارج ۲۴۸

مومن

خدا کے نزدیک مومن کون لوگ ہیں ۱۳۲

مومن مرنے کے بعد کتنے روز تک زندہ رہتا ہے ۲۱۱

مہدی

مہدی معہود کا دعویٰ ۶۴۱

مسیح اور مہدی ایک ہی وجودہیں ۴ ۴

سنیوں میں مہدی کے متعلق مختلف فیہ اقوال ۴۴

مہدی کے متعلق روایات میں تناقضات ۲۱۷

مہدی کے متعلق شیعوں کا عقیدہ ۴۴

ن

نبوت

نبی کے آنے کی تمام علامتیں ظاہراً پوری نہیں ہوتی ۲۱۶

کسی نبی کی نسبت مقرر کردہ علامات پوری نہیں ہوئیں ۵۹۹

دنیا میں کبھی ایسا نبی نہیں آیا جس نے کبھی اجتہاد میں

غلطی نہیں کی ۵۷۳

انبیاء کے لیے اجتہادی غلطی رکھنے میں حکمت ۵۷۳

انبیاء اور عام انسان کی خواہشات میں فرق ۹ح

نبی

نبی کسے کہتے ہیں ۱۱۷

مجدد سرہندی کے بقول نبوت کی تعریف ۴۰۶

وقت کے نبی کو قبول نہ کرنا دوزخ میں جانا ہے ۱۳۲،۱۳۳

نبی کی بعثت کے ساتھ آفات اور زلازل آنے کی وجہ

۱۶۴تا ۱۶۷

نبوت اور توحید

توحید کا مظہر اتم نبی ہی ہوتا ہے ۱۱۶

رسول کا ماننا توحید کے ماننے کیلئے علت موجبہ کی طرح ہے ۱۲۲

خدا کے وجود کا پتا دینے والے نبی ہوتے ہیں ۱۱۴

خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے ۱۱۵

عام لوگوں معرفت الٰہی کو نبیوں کی معرفت ملتی ہے ۶۲

نجات کے لیے انبیاء کی نبوت پر ایمان لازمی ہے ۱۱۲،۱۶۳

نبوت اور انتشار روحانیت

نبی کا زمانہ لیلۃ القدر ہوتا ہے ۶۹ح

خدا کے رسولوں کو شہرت دی جاتی ہے ۱۷۰

نبی کی شہرت کے بعد لوگوں پر اتمام حجت ۱۷۰

نبیوں کے وجود سے بے خبر کا معاملہ خدا پر ہے ۱۳۲ح

امت محمدیہ میں نبوت

مستقل نبوت رسول کریم ﷺ پر ختم ہے ۳۰

نبی کے کمالات عظمیٰ میں سے ایک افاضہ بھی ہے ۶۳۷ح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 767

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 767

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/767/mode/1up


ظلی نبوت قیامت تک باقی رہے گی ۳۰

مسیح موعود ؑ کو صریح طور پر نبوت کا خطاب ۱۵۴

مسیح موعود کی نبوت کے متعلق نزاع لفظی ۶۳۷ح

امت موسویہ میں نبیوں کا براہ راست انتخاب

۳۰ح،۱۰۰ح

نجات

نجات دو امر پر موقوف ہے ۱۲۰

نجات کی جڑھ معرفت ہے ۱۵۱

یقین کامل کے ساتھ اطاعت بھی ضرور ی ہے ۱۴۷

قرآن نجات کو اطاعت رسول کے ساتھ وابستہ کرتا ہے

۱۲۸تا۱۳۹

نجات کے لیے آنحضرت ﷺ پر خاص ایمان ۲ ۱۱،۱۳۶

نبی کو الہام موجودہ حالات کے مطابق ہونااور حالات

تبدیل ہونے پر تشریح کاتبدیل ہونا ۳۰۸،۳۰۹

اس سوال کا جواب کہ نجات اخروی کیلئے آنحضرت ﷺ

پر ایمان لانا ضروری نہیں ۱۱۲تا ۱۱۴

نشان

خدا تعالیٰ کے پیاروں کے ستائے جانے پر نشان کا ظہور ۲۱

آسمانی نشانوں سے حصہ لینے والے افراد کی تین اقسام ۲۲تا۲۴

وعدہ کے موافق قادیان کا طاعون سے محفوظ رہنا

۲۴۳،۲۴۴

صاحبزادہ بشیر احمدؓ کی اعجازی شفا ۲۴۰

غلام دستگیر نے اپنے طور پربد دعاکی اور ہلا ک ہوا ۲۳۹

حضرت مسیح موعودؑ کی تائید میں ظاہر ہونے والے نشانات ۱۹۹

نفس امارہ

نفس امارہ کے زیر اثر خوابیں ۱۵

نماز

نماز کس طرح ادا کرنی چاہیے ۱۳۸

و ، ہ ، ی

والدین

والدین کی تعظیم کی نصیحت ۲۱۳

وحی

وحی حصول معرفت کی جڑ ہے ۳۰

وحی الٰہی میں دلی تسلی دینے کے لیے ایک ذاتی

خاصیت ہے ۲۲۰

وحی الٰہی کے نزول کے وقت غنودگی ۲۸۰

کسی شخص کی نسبت خوشنودی کا الہام بسا اوقات کسی

خاص وقت تک کے لئے ہوتا ہے ۳۰۸

خدا تعالیٰ انسانی محاورات کا پابند نہیں ہوتا ۳۱۷

امام جعفر کی زبان پر قرآن کریم کاالہاماً نازل ہونا ۱۴۱

غیر زبان میں الہام ہونا ۳۱۶

عیسائیوں میں وحی والہام پر مہر لگ گئی ۲۹

بعض انسانوں میں کشف کے حصول کے لیے فطرتی

استعدادہوتی ہے ۱۴

روحانی قوتوں کے کالعد م ہونے کی وجہ سے وحی نہیں ہوتی ۱۱

سچی خوابوں اور وحی کے تین درجے ۱تا ۵۸

ایسے لوگوں کی سچی خوابیں جن کو خدا تعالیٰ سے کچھ

تعلق نہیں ہوتا ۱تا ۱۳



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 768

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 768

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/768/mode/1up


ایسے لوگوں کی رؤیا اور سچے الہامات جن کا خدا تعالیٰ

سے کچھ تعلق ہوتا ہے ۱۳تا۱۶

اکمل واصفیٰ وحی والہام ۱۶تا۵۸

من جانب اللہ کلام کے خواص ۱۷

من جانب اللہ کلام کی تین علامات ۳۳۵

کامل مکالمہ ومخاطبہ الٰہیہ پانے والے افراد کے خواص ۱۸

خدا کے خاص بندوں کے غیب اور عام لوگوں کی

خوابوں اور الہاموں میں چار امتیازات ۶۹

کامل شرف مکاملہ ومخاطبہ پانے والوں کی صفات اور

ان سے اللہ تعالیٰ کا سلوک ۵۵تا ۵۸

وحی کے من جانب اللہ ہونے کیلئے دو شہادات ۴۹۴،۴۹۵

کامل الہام مقبولان الٰہی کو ہی ہوتاہے ۳ح

کس وقت الہام کو خد ا تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا چاہیے ۵۴۷

وحی الٰہی کو اکمل نفس ہی پاتا ہے ۲۵،۲۶

وحی کی دو قسم کی ہوتی ہے ۱۱

شیطانی الہام کی تین علامات ۱۴۳ح

ممکن ہے ایک الہام سچا ہو اور پھر بھی شیطان کی

طرف سے ہو ۳

رحمانی اور شیطانی الہامات کا مابہ الامتیاز ۱۴۲

صرف الہام کاپانا کسی خوبی پر دلالت نہیں کرتا ۲۶

ولایت

خدا کو اپنا حقیقی محبوب سمجھ کر پرستش کرنا یہی ولایت ہے ۵۴

وہابیت (امام محمد بن عبد الوہاب کے متبعین)

مسلمانوں کا ایک فرقہ ۴۷۰

وید

وید کی رو سے خوابوں اور الہاموں پر مہر لگ گئی ہے ۵

ہندومذہب

نہیں کہہ سکتے کہ ہندؤں کے پیشوا کاذب تھے ۳۰۳

ہندؤوں کے غلط عقائد ۶۳

وید کی رو سے خوابوں اور الہاموں پر مہر لگ گئی ہے ۵

یاجو ج ماجوج

عیسائیت دجال اور یاجوج ماجوج ایک ہی فتنہ کے تین

نام ہیں ۴۹۸

یہود

ایک سرکش قوم تھی ۲۰۷

یہود کتاب اللہ کے ظاہر الفاظ کے متمسک تھے ۴۹

یہود کا عقیدہ کہ دو مسیح ہونگے دوسرا افضل ہوگا ۱۵۸

یہود کا حضرت عیسیٰ کے متعلق موقف ۳۹

موحد یہود سے جنگوں کی وجوہات ۱۱۴

یہود حقیقی سوختنی قربانی ترک کرچکے ہیں ۲۰۷

یہود کا اصرار کہ خاتم الانبیاء بنی اسرائیل سے ظاہر ہوگا ۲۱۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 769

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 769

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/769/mode/1up


اسماء


آ ، الف

آتما رام اکسٹر ااسسٹنٹ

مقدمہ کرم دین میں مجسٹریٹ گورداسپور تھا ۲۲۴

کرم دین کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کوجرمانہ کیا ۱۲۴

پیشگوئی کے مطابق اس کے دو بیٹے فوت ہوئے ۲۲۶

آدم

آدم لفظ عبرانی نہیں عربی ہے ۶۳۲

آدم اوّل کا مہبط ہند وستان تھا ۶۳۲

چھٹے دن کے آخر میں پیدا کیے گئے ۲۰۹

ابراہیم علیہ السلام ۴۷،۵۲،۶۶،۹۰،۹۱

آپ ؑ کے لئے خدائی نصرت نازل ہوئی ۵۲تا ۵۴

ابن اشرف ۔کعب

اسلام اور آنحضرت ﷺ کا دشمن ۴۳۹،۴۴۱

ابن صیاد

بعض مسلمانوں کے نزدیک ابن صیاد ہی دجال ہے ۴۴

ابن صیاد کی موت اسلام پر ہوئی ۴۴

ابن صیاد نے حج بھی کیا ۴۴ح

ابن عبا س حضرت رضی اللہ عنہ ۴۳۹

ابو الحسن مولوی محمد جان

مؤلف فیض الباری شرح صحیح بخاری

کاذب کی موت کیلئے بددعا کیا اور خود ہی ہلاک ہوا ۵۹۸

ابوبکر رضی اللہ عنہ

تمام صحابہ کا تمام نبیو ں کی وفا ت پر اجماع ۳۴

ابو جہل ۲۳۴

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

بوجہ سادگی اکثر باتوں میں دھوکہ کھا جاتے تھے ۳۶

ابو لہب ۸۴

اچھر چند لالہ

طاعون سے بچنے کا دعویٰ اور پھر طاعون سے ہی ہلاکت

۵۹۰،۵۹۳ح

اچھر مل

قادیان کا ایک معاند ہندو ۶۰۸

احمد بن حنبل ؒ

اجماع کے بارے میں آپ کا موقف ۴۴

احمد بیگ مرزا

پیشگوئی کے مطابق موت ۱۸۲،۱۹۸،۲۳۱،۵۵۵،۵۶۶

ان کے داماد کی نسبت پیشگوئی شرطی تھی ۱۹۴،۴۶۳

احمد بیگ کے داماد اور بقیہ خاندان کا رجوع ۵۶۹

احمد بیگ کی موت کے بعد سربراہ خاندان محمود بیگ

کی بیعت ۵ ۵۵

پیشگوئی کے متعلق بعض اشکالات کا جواب ۴۰۲

احمد خان سرسید ۲۹۸۲۴۸،۲۹۹

آپ کی عمر کے متعلق مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی ۲۴۸

برکات الددعا میں آپ کو مخاطب کرکے ایک نظم ۲۹۸

احمد سرہندی۔ مجدد الف ثانی

آپ کا قول ہے کہ کثرت مکالمہ ومخاطبہ والا نبی

کہلاتا ہے ۴۰۶



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 770

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 770

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/770/mode/1up


احمد زہری بدر الدین اسکندریہ

حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ان کا ایک خط ۶۵۳ح

احمد نورسیدا فغان رضی اللہ عنہ

انہوں نے صاحبزادہ عبد اللطیفؓ کی لاش دفن کی ۲۱۱

ارباب محمد لشکر خان حاجی مردان

آپ کی طرف سے روپے آنے کی پیش خبری ۲۶۰

حضرت اسحاق علیہ السلام

عیسیٰ ؑ کے واقعہ کی اسحاق کے ذبیحہ سے مشابہت ۴۲،۶۶

اسماعیل علیہ السلام ۵۲،۶۶

اسماعیل مولوی آف علیگڑھ

مسیح موعود ؑ کا معاند ،مباہلہ کیا اور ہلاک ہوا

۳۴۲،۳۴۳،۶۲۶ح

اسود عنسی

ایک جھوٹا مدعی نبوت ۵۱۳

اصغر علی مولوی

مباہلہ کے نتیجہ میں اس کی ایک آنکھ نکل گئی ۴۵۵

افتخار احمد پیرلدھیانوی ۳۰۷

اللہ دتہ ملک ولد عمر سکنہ دوالمیال ۳۸۳

اللہ دتہ منشی سابق پوسٹماسٹر قادیان ۵۹۲ح

الیاس علیہ السلام ۶،۴۶

یہود خیال کہ زندہ جسم سمیت آسما ن پر موجود ہیں ۲۱۷

الٰہ دین میرزا ۸۱

الٰہی بخش بابو اکونٹنٹ ۳۱۹

پہلے بیعت کی پھر مخالف ہوا،موسیٰ ہونے کا دعوی دار، حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف کتاب عصائے موسیٰ لکھی ۲۶۰،۵۲۰،۵۳۳

طاعون سے ہلاک ہو ا ۵۳۳تا ۵۹۰

مسیح موعود ؑ کوان کے بارے میں ہونے والے الہامات

۵۸۰ تا ۵۹۰

ان کے ساتھ ہونے والے مباہلہ کامتن ۵۸۴

الٰہی بخش کے متعلق ایک نظم ۵۵۱

مسیح موعود ؑ کے متعلق ان کو ہونے والے تمام الہامات جھوٹے نکلے ۵۴۱تا۵۸۰

امام الدین مرزا

دین اسلام سے ذاتی بغض تھا ۲۷۹

مقدمہ دیوار کی تفصیلات ۲۷۸

امام بی بی ۲۵۵

امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنھا

الہام دختِ کرام کے مطابق ولادت ۲۲۸

امداد علی مصنف دُرّہ محمدی

اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں مسیح موعود ؑ کے خلاف بدعائیں لکھیں اوردوسرے حصہ کے شائع ہونے

سے قبل ہلاک ہوگیا ۵۹۹

امیر حسین قاضی

پیشگوئی زلزلہ ۱۹۰۷ء کے گواہ ۴۹۱

امین چند

لالہ شرمپت کا بیٹا جس کا بعد ازاں نام تبدیل کر دیا ۲۳۳

انجمن حمایت اسلام لاہور

کتاب امہات المومنین کے متعلق انجمن کا میموریل

اور حضرت مسیح موعود کی رائے ۲۸۸

ب

برہان الحق منشی شاہجہان پوری

ان پیش کردہ سوالات کے تفصیلی جوابات دیے گئے ۱۵۲



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 771

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 771

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/771/mode/1up


بشمبرداس

برادر شرمپت کھتری قادیان ۲۳۲،۳۱۴

مسیح موعود ؑ کی دعا سے اس کی سزا نصف ہوگئی

۲۳۲،۲۷۶،۳۱۴

بشن داس ۲۷۶

بشن سنگھ سردار

قادیان کے اردگرد دیہات کا نامی گرامی چور ۳۱۶

بشیر احمدمرزا۔ رضی اللہ عنہ

الٰہی بشارت کے مطابق ولادت ۲۲۷،۲۲۸،۲۴۰

بچپن میں آنکھوں کی بیماری اور حضرت مسیح موعود ؑ کی دعاسے شفا یابی ۸۹،۲۴۰

بلعم باعور ۱۵۷ح

بلعم کی طرح بد انجام ملہمین کی کتے سے تشبیہہ ۱۴

لفظ رفع اور بلعم باعور ۳۸

بلعم وحی الابتلاء کی وجہ سے ہلاک ہوا ۱۱

بنی اسرائیل

حضرت یعقوب کا لقب اور یہود کا دوسر انام ۴۶۵ح

بنی اسرائیل کے انبیاء کی نبوت میں موسیٰ کی پیروی کا

دخل نہیں تھا ۱۰۰

بنی اسرائیل میں اولیاء بہت کم ہوئے ہیں ۱۰۰

بہادر ملک ولد کرم سکنہ دوالمیال ۳۸۳

بہاؤلا نمبر دار ساکن دوالمیال ۳۸۳

بھگت رام

قادیان کا ایک معاندہندو ۶۰۸

پ

پطرس ۲۰۲

مسیح کے حواری مگر آپ کے روبرو *** بھیجی ۱۰۲ح

پولوس (St.Paul) ۲۲۲

پیر صاحب العلم سندھی

ان کا خواب بابت صداقت حضرت مسیح موعود ؑ ۲۱۰

پیسٹیؤر (Pasteur)ڈاکٹر

باؤلے کتوں کے کاٹنے والے مریضوں کے ہسپتال

کے ایک ڈاکٹر ۴۸۱،۴۸۲

ثناء اللہ امرتسری مولوی

اڈیٹر اخبار اہلحدیث ۴۳۶

پٹھانہ کملانہ

اس نے میاں نور احمد کے دوستوں کے خلاف جھوٹا

مقدمہ کیا ہوا تھا ۳۳۷

پیشگوئی بابت کرم دین پورا ہونے کاگواہ ۲۲۵

مسیح موعود ؑ کی ان کو مباہلہ کے لئے دعوت اور اس کی تفصیل ۴۶۲

سعد اللہ کے ابتر مرنے کی پیشگوئی پر اعتراض ۴۳۷

محمدی بیگم والی پیش گوئی پر اعتراض ۴۶۳،۴۶۴

ج ، چ ، ح ، خ

جبرائیل علیہ السلام ۱۲۸

جعفر بیگ میرزا ۸۱

جعفر صادق رضی اللہ عنہ امام

الہامی رنگ میں قرآن آپ کی زبان پر جاری ہوا ۱۴۱

جلال الدین رومی ۵۹،۳۵۸

جنت بی بی

مسیح موعود علیہ السلام کی توام بہن ۲۰۹



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 772

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 772

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/772/mode/1up



جیون داس لالہ

سیکرٹری آریہ سماج لاہور ۳۲۷

چراغ دین جمونی

پہلیمصدق پھر مکذب ہوااورپھر مباہلہ کے نتیجہ میں

ہلاک ہوا ۵۰،۷۱،۲۳۰،۲۳۶،۴۱۸،۶۲۶ح

ارتداد سے قبل حضرت مسیح موعود ؑ کی تائید میں اشتہار دیا

۴۱۸تا ۴۲۹،۴۲۹

مانتے تھے کہ مسیح موعود ؑ منصب امامت پر فائز ہیں ۴۲۰

اس کی ہلاکت کے متعلق الہامات ۳۸۶

چراغ دین کا مباہلہ ۳۸۷،۴۱۲،۴۱۴تا۴۱۷،۴۳۲

مباہلہ کی اصل عبارت مسیح موعود ؑ کے پاس محفوظ تھی ۴۳۴

ہلاکت کے بعد مباہلہ کیسے شائع ہوا ۴۳۳

جب تک مصدق تھا ہلاکت سے بچا رہا ۴۱۸

موصوف نے اپنے الہامات کا ذکر کیا ۴۱۸تا ۴۲۸

ان کو گمان تھا کہ ان کو خدا نے چن لیا ہے ۴۱۳،۴۱۴

مباہلہ کا کاغذ لکھا چند دن بعددو بیٹوں ساتھ ہلاک ہوا

۷۱ح،۱۲۶،۱۶۳،۲۳۰،۲۳۶،۴۳۲

اس کی ہلاکت میں احتمالات کے جوابات ۴۳۲،۴۳۳

اس کے عقائد کا ذکر ۴۱۳،۴۱۴

چندو لاللالہ مجسٹریٹ اکسٹر ااسسٹنٹ گورداسپور

جس کے تنزل کی پیشگوئی پوری ہوئی ۲۲۴،۲۲۶

حامد علی شیخ رضی اللہ عنہ

۲۳۸،۲۴۸،۲۵۵،۲۵۶،۳۹۸

ایک الہام پورا ہونے کے گواہ ۲۴۴

حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ

آنحضرت ﷺ کی وفات پر آپ کا مرثیہ لکھنا ۳۵تا ۳۷

خدا بخش منشی

ڈسٹرکٹ جج ۲۷۸

خدیجہ رضی اللہ عنھا ۲۳۲، ۵۷۸

خوشحال چند

پیشگوئی کے مطابق اس کی سزا میں تخفیف نہ ہوئی ۲۷۶

د ، ڈ ، ر ، ز

دانیال نبی

مسیح موعود کی بعثت کے متعلق دانیال نبی کی تفصیلی

پیشگوئی ۲۰۷،۲۰۸

مسیح موعود کے متعلق لکھنا کہ اس کا آنا خدا کا آنا ہے ۱۵۸

فرمایا کہ ’’شیطان آخری زمانہ میں قتل کیا جائے گا‘‘ ۴۱

داؤد علیہ السلام حضرت ۶۶

دلاور میرزاولد الہ دین مرزا ۸۱

دلیپ سنگھ (رنجیت سنگھ کا بیٹا)

اس کے متعلق ایک پیشگوئی اور اس کا وقوع ۲۴۸

دیانندپنڈت بانی آریہ سماج

ایک معاند اسلام اور آریوں کا بانی ۲۳۱،۶۰۷

پیشگوئی کے مطابق ایک سال کے اندر موت واقع ہوئی ۲۱۳

دھرم پال سابق عبد الغفور

اس کے اسلام سے مرتد ہونے کا واقعہ ۱۱۲،۱۷۳

ڈگلس کپتان ڈپٹی کمشنر ۱۸۹

ان کی عدالت میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف مقدمہ

دائر ہوا ۱۸۹،۲۲۶

ڈوئی جان الیگزینڈر

امریکہ کا ایک جھوٹا نبی حضرت مسیح موعود کے مقابل آیا

اور ہلاک ہوا ۲۲۶،۴۸۷،۵۰۴

ڈوئی کے عقاید ،اسلام کی مخالفت ،دعوت مباہلہ

پیشگوئی اور ہلاکت ۵۰۴تا ۵۱۰،۶۸۵تا ۷۰۲



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 773

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 773

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/773/mode/1up


اس کا اقرار کہ وہ ولد الزنا ہے ۶

مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر

کچھ بھی چیز نہ تھا ۵۱۳

ڈوئی کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات ۷۰۲

امریکہ کے اخبارات کی فہرست جنہوں نے دعوت مباہلہ

کو شائع کیا ۶۹۱تا ۶۹۴

ڈوئی کی قلمی تصویر ۶۹۹

ڈوئی کی وفات کی خبر ۴۹۲ح

قتل خنزیر کا مصداق ۵۱۳

رحیم بخش شیخ والد مولوی محمد حسین بٹالوی

عیادت کے لیے مسیح موعود ؑ کے پاس آئے تھے ۲۴۶

رستم (عزیز دوست میاں نورا حمد)

ان کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ دائر ہوا تھا حضورؑ

کی دعا سے بری ہوئے ۳۳۷،۳۳۸

رسل بابا امرتسری

الہام کے مطابق طاعون سے مرا ۳۱۲

رشید احمد گنگوہی مولوی ۳۱۳

سخت مخالف تھا اندھا ہو کر سانپ کے کاٹنے سے

ہلاک ہوا ۲۳۹،۴۵۴

رلیارام عیسائی وکیل امرتسر

اس نے مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف محکہ ڈاک

کے قانون کی خلاف ورزی کا مقدمہ دائر کیا ۲۴۸

زین العابدین مولوی مدرس انجمن احمایت اسلام لاہور

ایک احمدی سے مباہلہ کیا اور مع ۱۷ افراد کے مرا ۲۳۷

س ، ش

سردار خان ساکن راولپنڈی

مسیح موعود ؑ کی دعا سے ایک مقدمہ میں بریت ۳۳۷

سردار بیگ مرزا سیالکوٹی

سخت مخالف تھا طاعون سے ہلاک ہوا ۲۳۸

سرور خاں ولد محمد لشکر خان ہوتی ضلع مردان ۲۶۰

سلطان سیالکوٹی حافظ

مسیح موعود ؑ کا سخت مخالف جو طاعون سے ہلاک ہوا ۲۳۸

سنسار چند مجسٹریٹ جہلم

جس کی عدالت میں کرم دین نے مقدمہ کیا ۱۸۹

سعد اللہ لدھیانوی

گندہ دہن دشمن ۴۳۵،۴۵۲

اس کی رسو اکن موت اور قطع نسل کی پیشگوئی ۶۲۶

اس کے متعلق ۱۲ سال قبل انجام آتھم میں پیشگوئی ۴۵۰

اس کی موت کی پیشگوئی پر مشتمل عربی نظم ۴۴۵

اس نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف پیشگوئی کی ۴۴۸

پیشگوئی کے مطابق ہلاکت

۴۳۵،۴۳۶،۴۳۷،۴۴۴،۶۲۶

ابتر ہونے کی حالت میں ہلاکت ہوئی ۳۷۷،۶۵۷

ابتر کے ہر ایک معنی کی رو سے ہلاک ہوا ۴۴۳

سعدی مصلح الدین شیرازی رحمۃ اللہ علیہ

آپ کے اشعار اس کتاب میں درج ہیں ۱۳۳،۳۴۷

سلیمان علیہ السلام ۶۶

سومراج

قادیان کا رہائشی ایک ہندو معاند ۶۰۸

اخبار شبھ چنتک کا ایڈیٹر ۵۹۰

سہج رام سررشتہ دار

اسلام سے بغض رکھتا تھا اس کی موت کے متعلق رؤیا ۳۰۹

شاہ دین مولوی لدھیانوی ۲۳۹،۳۱۳



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 774

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 774

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/774/mode/1up


شاہ نواز خان حکیم

مسیح موعود ؑ کی دعا سے ان کی اپیل منظور ہوئی ۳۳۷

شرمپت لالہ کھتری از قادیان ۳۱۴

مسیح موعود کے الہامات کے پورا ہونے کا شاہد

۲۳۲،۲۳۳،۲۴۸،۲۶۰،۲۷۲،۲۷۶،۲۷۷،۶۰۷

اس کا جھوٹ بولنا کہ بشمبرداس بری ہوگیا ۳۱۵

لالہ ملاوامل اور ان سے قسم کا مطالبہ کہ ہم نے نشان نہیں دیکھے ۵۹۲

شریف احمدمرزا رضی اللہ عنہ

الٰہی بشارت کے مطابق ولادت ۲۲۷،۲۲۸،۳۶۶

طاعون کے زمانہ میں آپ کی شدید علالت اور شفایابی۸۷ح

شوگن چندر سوامی

جلسہ اعظم مذاہب ۱۸۹۶ء کے مجوز ۲۹۱

شیر علی حضرت رضی اللہ عنہ

حضرت مسح موعودؑ کے صحابی ۴۸۱،۴۸۲

ص ، ط ، ع

صاحب العلم پیرسند ھ

انہیں خواب میں آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود ؑ کی

صداقت سے مطلع کیا ۷۰،۲۱۰

صاحب نور مہاجر افغانستان

اس کے ذریعہ ایک پیشگوئی پوری ہوئی ۴۳۵

صدیق حسن خان نواب آف بھوپال

براہین احمدیہ چاک کرنے کی وجہ سے ابتلا ۴۶۷تا۴۷۰

ان کے متعلق قبولیت دعا کا نشان ۴۶۷تا ۴۶۹

طیطوس رومی (Titus)

جس کے ہاتھ سے ہزاروں یہودی مارے گئے ۶۰ح ، ۱۶۶

عاص بن وائل

مخالف رسول کریم ﷺ دشمن اسلام تھا ۴۳۹

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ۳۴

عباس علی میر لدھیانوی

پہلے راسخ العقیدہ تھا پھر الہام الٰہی کے مطابق برا

انجام ہوا ۳۰۷تا ۳۰۹

ان کے متعلق دو الہامات کی تشریح ۳۰۸

خوا ب میں ان کو سیا ہ کپڑے میں دیکھا ۳۰۹

عبد الباقی میرزا ۸۱

عبد الحق غزنوی

مسیح موعود ؑ سے مباہلہ کیا ۲۵۰،۲۵۱،۲۵۳،۳۶۵،۳۶۶

مباہلہ کے بعد ابتر رہا ۳۴۸،۳۶۵،۳۴۴

مباہلہ کرنے کے بعد ذلت کی موت مرا ۴۴۴ح

عبد الحق منشی

اکونٹینٹ لاہور ۲۴۷،۲۴۸

عبد الحکیم خان اسسٹنٹ سرجن پٹیالہ

۷۲، ۱۲۹،۱۳۳،۱۳۴،۱۳۵،۳۴۰۱۸۸،۴۱۰،۴۱۱

پہلے بیعت کی پھر مرتد ہوگئے ۔ ۷۲،۱۲۶،۱۲۷،۱۳۱،۲۰۰،۴۰۹،۴۱۰،۴۱۱

ارتداد اور ضلالت کا اصل باعث ۱۱۲،۱۴۴

تکبر وغرورمیں چراغدین جمونی سے بھی بڑھ کر ہے ۱۲۶

توحید کی حقیقت سے بے خبر ۱۱۹

اپنا الہام شائع کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ تین سال کے

اندر ہلاک ہونگے ۴۰۹،۴۱۰

مختلف جگہوں پرمخالفانہ جلسے کیے ۴۰۹

اس کے اس اعتراض کا جواب کہ نجات کے لئے

آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ۱۱۲،۱۳۵ح

اس کے اعتراضات کے جوابات ۱۵۲،۱۵۹،۱۶۲،۱۸۴،۱۹۷،۴۱۱ح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 775

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 775

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/775/mode/1up


عبد الحی میاں ابن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ

پیدائش سے قبل ان کے بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ

کی پیشگوئی ۲۳۰

عبد الرحمن عبد الکریم سگ گزیدہ کے والد

حیدرآباد کارہائشی جس کا بیٹا دعا سے اچھا ہوگیا ۴۸۰

عبد الرحمن ولد حاجی عمر ڈار کشمیر

موسم بہار میں کثرت سے برف پڑنے کی اطلاع دی ۴۷۲

عبد الرحمن سیٹھ مدراسی رضی اللہ عنہ

ایک مخلص صحابی ،تاجر مدراس ۳۳۸،۳۳۹،۳۴۰

آپ کی مالی حالات کے متعلق الہام ۹ ۲۵،۲۶۰

مسیح موعود ؑ کی دعا سے بیماری سے شفا یابی ۳۳۸،۳۳۹

عبد الرحمن صاحبزادہ رضی اللہ عنہ شہیدکابل

الہامات کے مطابق آپ کی شہادت ۳۵۸تا۳۶۰،۲۷۴

عبد الرحمن محی الدین لکھوکے والے

مسیح موعود ؑ کے خلاف الہامات کی اشاعت پھر طاعون سے ہلاک ہوا ۳۵۳،۶۲۶ح

ان کے مکتوب کا عکس جس میں مخالفانہ الہامات درج ہیں ۴۳۰

مسیح موعود ؑ کو ایک مکتوب میں فرعون قرار دیا ۳۶۶

اس کی اور اس کے خاندان کی ہلاکت وتباہی ۳۷۰

اپنے الہام کہ کاذب پر خدا کا عذاب نازل ہوگا کی اشاعت کے بعد ہلاک ہوا ۲۳۹

عبد الرحیم مولوی عبد اللہ ہوشیاپوری کے خاندان کا فرد

پیشگوئی متعلق احمد بیگ کے حوالے سے ذکر ۱۹۴

عبد الرحیم حاجی

ان کی لڑکی سے سعد اللہ کے لڑکے کی نسبت ہوئی تھی

۴۳۶،۴۴۴

عبد الرحیم خان ابن نواب محمد علی خانؓ

مسیح موعودؑ کی دعا سے تپ محرقہ سے شفاء کا معجزہ ۲۲۹

عبد الرحیم شیخ ساکن انبالہ چھاؤنی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمسفر ۲۵۷،۲۵۶

عبد العزیز مولوی لدھیانوی

مباہلہ کے نتیجہ میں حضرت اقدس ؑ کی زندگی میں وفات

۲۳۹،۲۵۹،۴۵۴

عبد الغفور

اسلام سے مرتد کر آریہ بنا ۱۱۲

عبد القادر جیلانی سید رحمۃ اللہ علیہ

آپ کا قول کہ قَدْ یُوعَدُ وَلَایُوفٰی ۱۸۳،۵۷۲

عبد القاد ر ساکن طالب پور پنڈ وری گورداسپور

سخت مخالف تھا یکطرفہ مباہلہ کرکے چند دنوں میں

ہلاک ہوگیا ۴۸۲تا ۴۸۸

اس کی مباہلہ والی نظم کا عکس ۴۸۷

عبد الکریم مولوی رضی اللہ عنہ

بوجہ سرطان وفا ت ہوئی ۔ان کی وفات کے

متعلق الہامات ۳۳۹،۳۹۸،۴۵۸

عبد الکریم (سگ گزیدہ)

ولد عبد الرحمن حیدر آباد ی طالبعلم مدرسہ احمدیہ

مسیح موعود ؑ کی دعا سے خارق عادت شفا یابی ۴۸۰

عبد اللہ

کسولی کے ہسپتال علاج سگ گزید گان میں ملازم ۴۸۲

عبداللہ آتھم ڈپٹی

ایک پادری جوپیشگوئی کے بعد ہلاک ہوا ۴۶۳ ،۵۵۴

آتھم کے متعلق پیشگوئی کی تفصیل

۱۸۲،۱۹۲،۱۹۳،۲۲۱،۲۱۶، ۲۲۳

۲۵۲۲۲۲،۲۵۳،۳۷۳،۴۵۱،۴۵۲



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 776

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 776

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/776/mode/1up


مباحثہ کے دوران آتھم کھڑا ہوجاتا تھا ۲۹۸

آتھم کی پیشگوئی میں شرط تھی ۵۶۶

پیشگوئی میں اشکالات کے جوابات ۲۵۲،۵۵۴

پیشگوئی میں آتھم کے مسلمان ہونے کا ذکر نہیں ۲۲۲

عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ۱۶۳

عبد اللہ بن ابی سرح

اس کے مرتد ہونے کا ذکر ۱۶۳

عبد اللہ خان اکسٹر ااسسٹنٹ ڈیرہ اسماعیل خان

الہام الٰہی کے مطابق ان کی طرف سے کچھ روپیہ

موصول ہوا ۲۷۶

عبد اللہ سنوریحضرت میاں رضی اللہ عنہ

ایک پیشگوئی پورا ہونے کے شاہد ۲۳۲

سرخی کے چھینٹوں والے کشف میں آ پ کا ذکر ۲۶۷

عبد اللہ غزنو ی مولوی

متقی تھے ۔مسیح موعود ؑ نے ان سے ملاقات کی ۲۵۰

عبد اللہ لدھیانوی مولوی ۱۹۴،۲۳۹

عبد اللطیف شہید صاحبزادہ ۴۳۵

انہوں نے خدا سے الہام پاکر مسیح موعود کی تصدیق کی ۲۱۲

قبول احمدیت اور شہادت کے واقعہ کا ذکر ۲۱۰،۲۱۲،۲۳۲

شاۃ کا لفظ صرف صالح انسان پر بولا جاتا ہے ۲۷۴

استقامت کا نمونہ اورآپ کی شہادت کی تفصیل

۱۷۲،۱۷۳،۲۱۰،۲۱۱،۲۷۴،۳۵۸تا۳۶۰

عبد المجید دہلوی مولوی

مباہلہ کیا ۔اور ہلاک ہوا ۴۵۵، ۵۹۷

عبد الواحدولد مولوی عبد اللہ

ہوشیار پور میں آپ کو ایک الہام سنانے کا ذکر ہے ۱۹۴

عطا محمدمرزا (حضرت مسیح موعود ؑ کے دادا ) ۸۱

عکرمہ بن ابی جہل ۲۳۴

علی محمد

ایک ملا ساکن قادیان ۳۱۴

علی محمد خان نواب رئیس لدھیانہ ۲۵۶،۲۵۷،۳۹۴

مالی وسعت کیلئے دعا کی درخواست کی جو قبول ہوئی ۱۷۳

عماد الدین پادری

مرتد ہونے کا ذکر ۱۷۳

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

کنجیوں والا کشف آپ کے ذریعے پورا ہوا ۹۴ح

آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی کوشش

کرنا ۱۹۸،۴۶۴

عمر ڈار حاجی رضی اللہ عنہ باشندہ کشمیر ۴۷۳

حضرت عیسیٰ علیہ السلام

۲۸،۲۹،۳۲،۹۲،۲۳۰،۳۱۲،۳۹۰

موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء تھے ۴۸۳

رفع ونزول

ان کی شخصیت اور واقعہ صلیب میں اختلاف کا فیصلہ

قرآن نے کیا ۳۹

ہم کتاب اللہ کے موافق روحانی رفع کے قائل ہیں ۲۱۱

جسم سمیت آسمان پر جانا حدیث سے ثابت نہیں ۴۳ح

حدیث سے آسمان سے نزول ثابت نہیں ۴۷ح،۴۶۵

جسم سمیت نزول اجماعی عقیدہ نہیں ۳۱،۳۲

صحابہؓ انکے دوبارہ آنے کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ۳۴

الیاس نبی کی طرح عیسیٰ امت میں پید ا ہو سکتا ہے

۴۶۵ح

عیسائیوں کی طرف حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے

کا مسئلہ گھڑنے کی مصلحت ۳۱ح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 777

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 777

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/777/mode/1up


صعود ونزول کو عقل او رقرآن جھٹلاتی ہے ۶۲۲

خواب میں حضرت عیسیٰ کو دیکھنے کی تعبیر ۳۸ح

وفات مسیح

قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کے دلائل

۳۳تا ۴۹،۴۵۶،۶۶۴

وفات مسیح اور رفع روحانی کااثبات ۶۶۰

وفات مسیح قبول نہ کرنا عیسیٰ کو خدا ٹھہرانا ہے ۳۵ح

صلحاء امت اجتہادی غلطی کی وجہ سے حیات مسیح کے

قائل تھے ۳۲

توفیتنی کے معنوں کی تعیین ۶۶۶

حدیث سے آپ ؑ کی عمر ایک سو بیس برس مقرر ۴۰

معراج میں دوسرے آسمان پر دیکھنا ۱۶۴

معراج میں حضرت عیسیٰ باقی انبیاء کی طرح نظر آئے

۴۰،۴۵۶،۴۶۶،۶۶۸

صحابہؓ کا وفات مسیح پر اجماع تھا ۳۷

ابن عباس کے نزدیک متوفیک کے معنی ۶۶۶

معتزلہ وفات مسیح کے قائل ہیں ۳۲ح،۴۵

مجھے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے سولی

دیئے جانے کی نسبت کوئی خواب دیکھی ہوگی ۲۸۷

حضرت عیسیٰ صلیبی موت پر راضی نہیں تھے ۶

صلیب سے بچنے کے لیے دعائیں کرنا ۴۲،۴۳

مرہم عیسیٰ کا ذکر صدہا طبی کتابوں میں موجود ہے ۳۹

واقعہ صلیب یونس ؑ اور اسحاق ؑ کے واقعہ کے مشابہ

نہیں تھا ۴۲

اگر صلیب مقدر تھی تو یہود پر غضب کیوں بھڑکا ۶۰ح

سری نگر کشمیر میں مسیح کی قبر ۱۰۴ح

الوہیت مسیح کا رد ۶۰،۱۷۹ح

الوہیت مسیح کا رد اور مقام بشریت کا اثبات ۲۸۷

الوہیت مسیح کا عقیدہ کانشنس اور عقل کے خلاف ہے ۱۷۹

خدا کا بیٹا کہلانے سے مراد ۶۶

معجزہ احیائے موتی اور خلق طیر کی حقیقت

۸۹،۱۵۵،۳۴۲،۴۰۵

عیسیٰ کی ہمت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدودتھی ۲۹

مسیح موعود کے متعلق حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی ۲۰۸

نبی بہادر ہوتے ہیں ذلیل یہودیوں کا انکو خوف نہ تھا ۲۸۷

حواریوں کی استقامت میں کمی ۱۰۲ح

اکثر پیشگوئیاں مسیح کی پوری نہیں ہوئی ۱۸۳

مسیح کی پیشگوئیاں معمولی نوعیت کی ہیں ۱۶۳

عیسیٰ ؑ پر یہود کے اعتراضات ۵۸۶

آپ کے مردے زندہ کرنے کی حقیقت ۱۵۵ح

عیسیٰ کی پیشگوئی بابت آنحضرت ﷺ بھی امتحان سے خالی نہ تھی ۴۶۶

غ

حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام

۳۷۵،۳۸۱،۳۸۲،۳۸۳،۳۸۵

مسیح موعود کے متعلق پیشگوئیاں

دانیال نبی کی پیشگوئی ۱۵۸،۲۰۷

مسیح موعودکے متعلق حضرت عیسیٰ کی پیشگوئی ۲۰۸

آدم کی طرح مسیح موعود بھی توام پیدا ہوگا ۲۰۹

محی الدین ابن عربی کی پیشگوئی کہ مسیح موعود توام پیدا ہوگا۲۰۹

دنیا کی عمر سات ہزار سال اور آخر پر مسیح موعود ؑ کی

پیدائش اس کی تفصیل ۲۰۸،۴۵۷،۴۵۸

خاندان

مسیح موعود ؑ کا خاندان فارسی خاندان ہے ۸۰ح،۸۱ح

اکثر مائیں اور دادیاں مغلیہ خاندان سے ہیں ۲۰۹

شجرہ نسب مرزا ہادی بیگ تک ۸۱ح

خاندانی حالات وشجرہ نسب ۷۰۳تا ۷۰۵



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 778

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 778

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/778/mode/1up


ظاہری بزرگی اور وجاہت والا خاندان ۷۹ح

مسیح موعود کی اولاد میں سے اس کا جانشین ہوگا

جو دین اسلام کی حمایت کرے گا ۳۲۵

ابتدائی حالات قبل از دعویٰ

ابتدائی حصہ میں ہی خدا سے محبت اور اسی سے تعلق ۵۹

مجھے قلب سلیم دیا گیا ۵۹

تمام مذاہب پر غور کرنے کے لیے عمر کا بڑا حصہ خرچ کیا ۶۳

وید کے تمام ترجمے شروع سے آخر تک دیکھے ہیں ۳۳۲

دعاوی اور مقام

۱۲۹۰ ہجری میں مکالمہ ومخاطبہ پاچکے تھے ۲۰۸

مجددین مسیح موعود اور مہدویت کا دعویٰ ۶۴۱

بعض صوفیوں کا مذہب کہ آنے والا امتی ہوگا ۴۵

ہر ایک نبی کی شان آپ میں پائی جاتی ہے ۵۲۱

حدیثوں سے آنے والے کا امتی ہونا پتہ لگتا ہے ۳۱

میں مسیح موعود ہوں ۶۴۱

میں خدا کا سچا مسیح ہوں ۵۰۲،۵۰۳

مسیح اور مہدی نام کی وجہ ۴۶

رجل من فارس والی حدیث مجھ پر وحی ہوئی ۴۰۷ح

رجل فارس والا دعویٰ پہلے کسی نے نہیں کیا ۵۰۰تا ۵۰۳

خدا تعالیٰ نے آپ کی عزا پرسی کی ۲۱۹

اس زمانہ کے مسلمانوں کی غلطی ۵۰۱

اہلسنت کے نزدیک مسیح موعود اس امت کا آخر ی مجدد ۲۰۱

میں دنیا کی آبادی کی اصلاح کیلئے مامور ہوا ہوں ۲۰۰

مسیح موعود خاتم الخلفاء ہے ۲۰۹

بکثرت امور غیبیہ ظاہر ہوئے ۴۰۶

وہ نعمت پائی جو انبیاء کو دی گئی ۶۴

دنیا میں شہرت کا الٰہی وعدہ ۱۰۰

خدا تعالیٰ نے تمام انبیاء کا مظہر ٹھہرایا ۷۶ح

دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۵۲۱

آدم سے مشابہت ۲۰۹،۲۶۹،۴۵۸

یوسف سے مشابہت ۲۷۰

خد انے میر انام موسیٰ رکھا ہے ۵۱۹

خدا نے میرانام ابن مریم رکھا ۵۲۰

مریم اور ابن مریم کہلانے کی تشریح ۷۵ح

مریمی اور عیسوی صفات کی تشریح ۳۵۰،۳۵۱

آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر اتم ہوں ۷۶ح

سلمان نام کی حکمت ۸۱ح ح

مثیل کرشن ہونے کا دعویٰ ۵۲۱

میرے ذریعے خدا ظاہر ہوا ۶۱۹

غرض بعثت

آپ کے آنے کی اغراض ۶۴۱

آپ کی آمد بے وقت نہیں ۲۸۶

مسح موعود جہاد نہیں کرے گا ۴۶۷،۴۶۸

کتاب امہات المومنین کا جواب لکھنے کا مشورہ ۲۸۸

فتنہ صلیب اور دجال ایک ہی چیز کے دو نام ۴۹۵تا ۴۹۷

نبوت

آنحضور ؐ کے غلاموں میں سے ایک ۲۸۶

صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیا ۱۵۴،۵۰۳

آنحضر ت ﷺ کی پیروی سے امتی نبی ہوا ۳۰ح

میں ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی ہوں ۴۰۶

اٰخرین منھم سے ثابت ہوا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا

بروز ہوگا ۵۰۲

خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے ۵۰۳

آنحضرت ﷺ کے افاضہ روحانیہ کا کمال ۱۵۴ح

مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں امتی نبوت کا دعویٰ ہے ۱۵۴ح

نبوت سے مراد ۶۳۷۵۰۳

حدیثوں میں نبی کے ساتھ امتی آیا ہے ۳۲

فضیلت

آپ پر خدا کی عنایات بارش کی طرح تھیں ۲۸۶



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 779

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 779

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/779/mode/1up


یقین تھا کہ زندگی میں ہی خدا تعالیٰ کے عجائبات

قدرت ظاہر ہونگے ۵۲۴

آخری مسیح پہلے مسیح سے افضل ہوگا (یہود،عیسائی) ۱۵۸

مسیح کو وہ فطرتی طاقتیں نہیں دی گئیں جو مجھے دی گئیں ۱۵۷

خدا اپنی زیادہ تجلی سے آپ پر ظاہر ہوا ۲۸۶

مسیح ناصری سے تمام شان میں افضل ہونیکی تفصیل ۱۵۲

مسئلہ حیات وفات مسیح اور مسیح ناصری سے افضل ہونے کے متعلق کلام میں تناقض کی وجہ ۱۵۴

اردو اشعار میں اپنی عاجز ی کا تذکرہ ہے ۴۹۳، ۵۵۱

مخالفت

مخالفین کی طرف سے فتویٰ تکفیر ۱۲۲،۱۲۳

مسیح موعود کو نہ ماننے والوں کی حیثیت ۱۶۷

مسیح موعود کا انکار کفر ہے کہ نہیں ۱۸۴تا۱۸۶

سعداللہ کی آپ کے خلاف پیشگوئی کرنا ۴۴۸

مقدمہ مارٹن کلارک میں مولویوں کا دعائیں کرنا ۱۲۴

آپ کے مخالفوں کا طاعون سے پکڑے جانا ۲۳۵

علامات

احادیث میں مذکور مسیح موعود کی علامات ۲۳۰

دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے سے مراد ۳۲۱

کسر صلیب اور قتل خنزیر سے مراد ۳۲۵

قتل خنزیر سے مراد ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت ۵۱۳

نشان

صداقت کے نشانات کی تفصیل ۷۰،۷۱

مسیح موعود ؑ کی صداقت کے۱۸۷ نشانات کا بیان ۲۰۰تا۴۰۰

تائیدات او ر صداقت کے نشانات ۶۲۷ تا ۶۳۰

وہ میری سچائی دنیا پر ظاہر کردے گا ۵۵۴

میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہزاروں نشان میری تصدیق کے ظاہر ہوئے ۴۸

میری تائید میں تین لاکھ سے زیادہ نشانات ظاہر ہوئے

۴۸،۷۰،۱۶۸

خارق عادت نشانات کا ظہور ۱۹۹،۶۲۷

آپ کے لیے تین لاکھ نشان ظاہر ہوئے ۵۰۳

انگریزی میں الہام ہونا نشان ہے ۲۹۴

تمام قوموں کو نشانات میں مقابلہ کرنے کا چیلنج ۱۸۱،۱۸۲

تمام قومیں آپ کے نشانوں کی گواہ ہیں ۲۷۷

نشانوں سے تسلی نہیں تو تسلی کروانے کا چیلنج ۴۰۱

گمنامی سے شہرت کا ملنا بھی ایک نشان ہے ۶۲۳

براہین احمدیہ کاتاخیر سے چھپنا تاکہ موعودہ نشان

پورے ہوجائیں ۔ ۳۵۶،۳۵۷

کسوف خسوف کے نشان کی تفصیل ۲۰۲

پیشگوئی کے مطابق شہاب ثاقب کا ظہور ۵۱۷،۵۲۵

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دفن ہونے کی حقیقت

۳۲۶،۶۷۴ح

زلزلوں کا آنا آپکی سچائی کیلئے بطور نشان ہے ۲۳۱

نشانات ہزار جز کتاب میں بھی سما نہیں سکتے ۲۰۰

صداقت

میں بے وقت نہیں آیا ۲۸۶

کاذب نہیں بلکہ صادق ہوں ۱۹۰

یہ امر خلاف عقل ہے کہ مفتری کو مہلت ملے ۶۳۰

کاذب کو مہلت نصیب نہیں ہوتی ۷۰

آیت ولو تقول علینا سے صداقت کا ثبوت ۲۱۵

مخالفین کے مزعومہ افتراء کے باوجود نصر ت الٰہی ۱۸۸

من جانب اللہ ہونے کی صداقت کا ثبوت ۲

مسیح موعود کی صداقت کے متعلق نشانات ۴۸،۴۵۹،۴۶۰

بشارات الٰہی کے مطابق اور نافلہ کا تفصیلی ذکر ۲۲۷،۲۲۸

دنیا میں شہرت کا الٰہی وعدہ ۱۷۰

گوشہ گمنامی میں تھا خدا نے دنیا کو متوجہ کیا ۲۲۰

ہر دن ترقی کا دن تھا ۲۱۵

عربی زبان میں فصاحت وبلاغت کا نشان ۲۳۵،۶۲۹

استجابت دعا کا معجزہ ۶۲۹



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 780

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 780

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/780/mode/1up


قبولیت دعا کے معجزات ۲۶۵،۲۶۶،۳۳۴

آپ کا گھر طاعون اور زلازل سے محفوظ رہیگا ۶۲۸

معجزہ شفاء الامراض میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ۹۱ح

روحانی اور جسمانی مریضوں کا آپ کے ہاتھ پر شفا

پانے کا معجزہ ۸۶،۸۷ح

ایسے مریدوں پر *** جو جھوٹی کرامت منسو ب کرے ۲۴۵

گمنامی سے مقبولیت کا معجزہ ۶۲۲،۶۲۳

سفر جہلم میں لوگوں کا آپ کی طرف رجوع اور بیعت ۲۶۴

ہر ماہ صدہا آدمی بیعت میں داخل ہوتے ہیں ۱۷۲

مبایعین کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ۱۲۳،۱۷۱

مباہلہ کے نتیجہ میں آ پکوکامیابی اور دشمن کو ناکامی ۴۵۴

مباہلہ کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے ہاں کئی لڑکے

پیدا ہونا اور ہر سو عزت ملنا ۴۴۴

لالہ شرمپت کا آپ کے الہام کی وجہ سے اپنے بیٹے کا

نام تبدیل کرنا ۲۳۳

آپکو عربی زبان عطا کی گئی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ۲۳۵

پیشگوئیاں

سچے ملہم کی دو نشانیاں ۴۹۴،۴۹۵

ملہم سے زیادہ کوئی الہام کو نہیں سمجھ سکتا ۴۳۸

آپ کی پیشگوئیوں کے کئی لاکھ گواہ ہیں ۴۰۰

پیشگوئیوں پر اعتراض کی تین اقسام ۵۷۴،۵۷۵

ہمارے نبی ؐ بھی اجتہادی غلطی سے محفوظ نہ تھے ۴۰۵

تضرع اور دعا سے پندرہ دن والی پیشگوئی پندرہ

سال میں بدل گئی ۴۶۵ح

براہین احمدیہ کے کئی الہامات کا پورا ہونا ۴۳۹،۴۶۰

پیشگوئی بابت زوجہ نواب محمد علی جو پوری ہوئی ۴۳۴

الٰہی نصرت کا وعدہ اور اس کا پورا ہونا ۳۱۶تا۳۱۸

انی مھین والا الہام پورا ہونا اس کی تفصیل ۳۵۳تا ۳۵۵

آپ کے والد کی وفات کی بذریعہ الہام خبر ملنا ۲۱۸،۲۱۹

پیشگوئی کے مطابق آپ کو اولاد کی اولاد دکھا دی ۲۱۸

مقدمات میں آپ کی فتح کی پیشگوئی جو پوری ہوئی ۲۳۴

بکثر ت لوگوں کے آنے کی پیشگوئی جو پوری ہوئی ۲۳۴

میاں احمدنور مہاجر کے ذریعے ایک پیشگوئی پور ا ہونا ۴۳۵

احمد بیگ کے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی ۴۶۳،۴۶۴

بمطابق پیشگوئی کئی مخلصین کا ہجرت کرکے قادیان آنا ۲۳۴

اپنی شادی کے متعلق پیشگوئی جو پوری ہوئی ۲۳۲

الدار میں طاعون سے محفوظ رہنے کی پیشگوئی ۲۲۹

لڑکی کے پیداہونے اور فوت ہونے کی پیشگوئی ۲۲۸

پیشگوئی کے مطابق شیخ مہر علی کا مصیبت میں گرفتا ر ہونا ۲۳۲

آپ کو دکھایا گیا کہ پنجاب میں طاعون کے سیاہ درخت لگائے گئے ۲۳۵

بشمبرداس کی نصف قید ہونے کے متعلق پیشگوئی ۲۳۲

مولوی نذیر حسین کے متعلق پیشگوئی ۲۳۳

میر عباس علی سے متعلق دو الہامات کی وضاحت۳۰۷تا۳۰۹

آتھم کے متعلق پیشگوئی پوری ہوئی ۲۱۶

سعداللہ کی ہلاکت سے قبل اس کی خبر دینا ۴۳۶،۴۳۷،۴۴۳،۴۴۶تا۴۴۸

آریہ مذہب کے نابود ہونے کی پیشگوئی ۶۰۸،۶۰۹

بابو الٰہی بخش کے متعلق الہامات ۵۸۰تا ۵۹۰

انوار الاسلام میں انعامی اشتہار کہ سعداللہ ابتر رہے گا۴۵۰

انجام آتھم میں سعداللہ کی نامرادی کی موت کا ذکر ۴۴۵

ان اعتراضات کے جوابات لکھے جو خوابوں کے نہ

سمجھنے سے پیدا ہوئے ۴۵۸

کشف

قوی ہیکل مہیب شکل شخص کا دیکھنا جو لیکھرام کے

قتل کے لیے آیا ۲۹۷

کشفاً دیکھا سرکاری سمن آیا ہے

آپ کی ایک خواب کا ذکر اور اسکی تفصیل ۳۹۴،۳۹۵

آپ نے ایک خواب دیکھا جس میں آپ کو

ایک نان دیا گیا ۲۹۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 781

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 781

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/781/mode/1up


خواب میں ایک شخص کا لنگر خانہ کے لیے پیسہ دینا ۳۴۶

کشفاً دیکھا کہ بشمبرداس کی قید آدھی کاٹ دی ۲۷۶

زمین دیے جانے کے حوالے سے کشف دکھایا گیا ۳۹۳

منظوم کلام

عربی

اذا ماغضبنا غاضب اللہ صائلا ۲۳۶

انی من الرحمن عبد مکرم.... ۳۶۱تا۳۶۴

شربنا من عیون اللہ ماء..... ۳۱۲

وخذ رب من عادی الصلاح ومفسداً ۵

ومن اللئام اری رجیلا فاسقا.....۴۴۵،۴۴۶

یا ربنا افتح بینا ..... ۴۵۳۲۳

اردو

کیوں نہیں لوگوتمہیں حق کا خیال .... ۳۵۵

فارسی

آنکہ گوید ابن مریم چوں شدی ... ۳۵۲،۳۵۳

چہ شیریں منظری اے دلستانم ... ۳۵۵،۳۵۶

کس بہر کسے سر ندہد جان نفشاند .... ۲۱۲

ا ز بندگان نفس رہ آں یگاں مپرس ... ۲۱۲

متفرق

لالہ ملاوامل کو انگوٹھی تیار کروانے کے لیے بھجوایا ۲۲۰

اللہ نے آپ کو اصحاب کہف کی طرح مخفی رکھا ۶۶۸ح

حقانیت اسلام کے بارہ میں ستر کے قریب کتب لکھیں ۱۷۱

مقابلہ پردنیاکی تمام قوتیں آئیں تو ناکام ہوں گی ۱۸۱،۱۸۲

حضرت عیسیٰ کی پیشگوئیوں سے موازنہ ۱۶۴

تمام مخالفین کو مستقل طور پر مباہلہ کا چیلنج ۷۱

رسالہ انجام آتھم میں جن۵۲ مولویوں کو مخاطب کیا گیا

اس میں صرف ۲۰ زندہ ہیں ۳۱۳

مارٹن کلارک کے مقدمہ کے حوالے سے مولویوں کی دعائیں کہ آپ کو پھانسی ہوجائے ۱۲۴

لیکھرام کے قتل ہوجانے کے بعد خانہ تلاشی ۳۷۴

مخالفین کے لیے سخت الفاظ استعمال کرنے کی وجہ ۴۵۲

توحیداور عظمت رسولؐکے لئے آپ کی دعا ۶۰۳

آپ کے الہامات کی مختلف ترتیب خدا کی طرف ہے ۷۲ح

آپ ؑ کے الہامات کا مجموعہ ۵ ۷۰تا ۷۱۵

امور وراثت کے متعلق الہامات ۲۵۴

آپ کے خلاف ہونے والے مقدمات کا ذکر ۱۸۹

جن شہروں میں خود جا کر پیغام پہنچایا ہے ۱۷۱

غلام دستگیر قصوری مولوی

۳۱۳،۲۳۹،۳۴۳،۳۴۴،۳۴۵

مکہ سے فتویٰ کفر منگوایا ۲۵۹

فتویٰ کفر لینے کے لئے خواجہ غلام فرید کے پاس گیا ۲۱۵

مباہلہ شائع کیا اور ہلاک ہوا

۳۴۳،۳۴۴،۳۵۳،۴۵۴،۶۲۶ح

غلام رسول مولوی عرف رسل بابا

باشندہ امرتسر ،مخالفت کے سبب ہلاک ہوا ۲۳۶،۳۱۲

لکھا کہ طاعون صداقت کا نشان ہے مجھے پکڑے ۳۱۳

مباہلہ کے نتیجہ میں طاعون سے ہلاک ہوا ۴۵۴

غلام رسول مولوی قلعہ والے ۲۳۷

غلام فریدخواجہ چاچڑاں والے

مسیح موعود کی تصدیق کی اس کی تفصیل

۷۰،۲۱۵،۲۱۶،۲۱۸

غلام قادر مرزابرادر اکبر حضرت مسیح موعود ؑ ۸۱،۲۳۳

تحصیلداری کے امتحان میں پاس ہوئے ۳۰۹

شدت بیماری اور دعا کے نتیجہ میں معجزانہ شفا ۲۶۵

آپ کی وفات کے متعلق الہام ۲۵۵،۴۰۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 782

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 782

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/782/mode/1up


غلام مرتضیٰ مرزا والد محترم حضرت مسیح موعود ؑ ۲۶۶

غلام نبی میاں سب پوسٹماسٹر ۳۹۷

ف ،ق ،ک ،گ

فتح خاں ساکن ہانڈو ضلع ہوشیار پور ۲۵۶

فرعون ۹۲،۱۶۶،۱۶۷

فرعون کا ایمان لانا ۱۹۹

فرعون کی غرقابی ۱۶۷

فضل دین حکیم ۲۷۸

فضل داد خان نمبر دار چنگا ۳۹۶،۳۹۷

فضل شاہ سید

ایک دیوانی مقدمہ متعلق الہامات قلمبند کیے ۲۷۹

فقیر مرزا دولمیالی

مدعی الہام تھا مخالفانہ پیشگوئی کی مگر خود ہی طاعون

سے ہلاک ہوا ۳۸۱،۶۲۶ح

فقیر مرزا کا اقرارنامہ ۳۸۲

فلر لیفٹیننٹ گورنر بنگال

جس کے استعفیٰ سے بنگال کے متعلق الہام الٰہی اہل

بنگالہ کی دلجوئی پورا ہوا ۳۱۰

فیض اللہ خاں قاضی ساکن جنڈیالہ گوجرنوالہ

ایک احمدی کے ساتھ مباہلہ کرکے طاعون سے ہلاک ۶۰۴

فیض محمد مرزا

حضرت مسیح موعود ؑ کے اجداد میں سے ۸۱

قاسم

میاں نور احمد کے عزیز دوست ۳۳۷،۳۳۸

قریش

آنحضرت ﷺکی قوم ۴۶۹

قیصر روم

اس کی طرف آنحضرت ﷺ نے خط لکھا ۱۸۴

کرشن علیہ السلام

ہندوستان کے ایک نبی کا نام ۴۷۵

مسیح موعود کو کرشن کانام دیا گیا ۵۲۱

کرشن اوتار کے ظہور کا یہی زمانہ ہے۔

ایک ہندو کا اشتہار ۵۲۲

کرم دادحکیم دوالمیال جہلم

آپ کا ایک خط مسیح موعود کے نام جس میں فقیر مرزا

کے مباہلہ اور ہلاکت کی تفصیلات ہیں ۳۸۰تا۳۸۲

مولوی کرم دین مولوی بھیں

کرم دین کے مقدمہ کے متعلق پیشگوئی کی تفصیل

۱۲۴،۱۸۹،۲۲۴،۲۶۳،۲۷۷،۳۵۶،۳۷۹،۳۹۴

کذّاب اور لئیم کے الفاظ کے معنی کی تعیین کے متعلق

الہام اور اپیل کا نتیجہ ۱۲۴،۳۹۴

کریم اللہ

انسپکٹر ڈاک خانہ جات حلقہ گوجرخاں ۳۹۷

کریم بخش

جو سخت بے ادبی اور گستاخی کرتا تھا ۲۳۸

کعب بن اشرف ۴۳۹،۴۴۱

کما ل الدینخواجہ

مقدمہ کرم دین میں ایک الہام کے پورا ہونیکے گواہ ۲۷۸

مقدمہ دیوار میں بحیثیت وکیل ۲۸۴

گلاب شاہ میاں ساکن جمال پور لدھیانہ

انہوں نے مسیح موعود کے متعلق نام لے کر خبر دی ۷۱،۲۱۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 783

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 783

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/783/mode/1up


گل محمد مرزا ۸۱

گوکل چند

لالہ شرمپت کا بیٹا ۲۳۳

ل

لعل

میاں نور احمد کے ایک دوست ۳۳۷،۳۳۸

لوط علیہ السلام حضرت ۳۱۲،۲۶۹

لیکھرام ۳۴۸

پیشگوئی کے بنیادی ماخذ ۲۹۴

لیکھرام کا مباہلہ قبول کرنا ا س کی تفصیل ۳۲۷

مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہونے کا ذکر ۶۲۶ح

لیکھرام کی دعائے مباہلہ کا متن ۳۲۸تا۳۳۳

اس نے خود قبول کیا کہ اسلام کے حق کوئی نشان ظاہر

ہوا تو اسلام قبول کر لونگا ۳۰۱

باوجود جوش کے سادگی بھی رکھتا تھا ۳۰۲

حضرت مسیح موعود کی ہلاکت کے متعلق لیکھرام کی پیشگوئیاں ۲۹۵،۲۹۵ح

پیشگوئی اور اس کے وقوعہ کی تفصیل ۱۲۴،۲۹۴

پیشگوئی کا عظیم الشان رنگ میں پورا ہونا ۱۹۷،۲۲۷

اگر رجوع کرتا تو بلا ٹل جاتی ۳۰۲

کسی مولوی کو خیال نہیں آیا کہ اسلامی نشان ظاہر ہوا ۱۲۴

م

مارٹن کلارک ۲۳۰

مقدمہ قتل اوراس بریت ۱۲۴تا ۱۲۶،۲۲۶

عبد اللہ آتھم کے رجوع کاگواہ ہے ۱۹۳

مبارک احمدمرز ا مرحوم (فرزند حضرت مسیح موعودؑ )

الٰہی بشارت کے مطابق ولادت ۲۲۸،۳۹۸،۳۹۹

دو برس کی عمر میں شدید بیماری پھر شفا یابی

۸۷ح،۹۰ح،۲۶۵،۳۶۵،۳۶۶،۳۹۸،۳۹۹

شفایابی احیاء موتٰی کا نمونہ ۲۶۵

مبارکہ بیگمؓ نواب(مسیح موعودؑ کی بڑی صاحبزادی )

الہام تنشاء فی الحلیۃ کے مطابق ولادت ۲۲۷

محبوب عالم منشی احمدی

لاہور کے رہنے والے تھے ۲۳۷

حضرت محمد مصطفی ﷺ

۳۰،۳۴،۶۴،۶۵،۶۷،۷۰

۸۶،۹۴،۹۵،۹۹،۱۰۰،۲۸۶،۴۳۷

خدا تعالیٰ کے محبوب نبی ۴۶۹

آپؐ کے رتبہ عالیہ کا ذکر ۱۱۸،۱۱۹

بعض پیشگوئیوں میںآپ کوخدا کرکے پکارا گیا ہے ۶۶

استعارۃً خدا کے بندوں کو آپ کے بندے قرار دیا گیا ۶۶

ہر ایک فضیلت کی کنجی آپ کو دی گئی تھیں ۱۱۹

ہر امت سے آپ کی آمد کے حوالے سے عہد لیا ۱۸۴

موسیٰ وعیسیٰ کی پیشگوئیوں میں امتحان ۴۶۶،۴۶۷

آپ انسانی فطرت کے انتہاء تک پہنچے ۱۵۶

ہمارا نبی موسیٰ سے افضل ہے ۱۵۷،۴۸۳ح

آنحضرت ﷺ کی حجت تمام دنیا پر پوری ہوچکی ہے ۱۸۳

قوم کو اعلیٰ روحانی مراتب پیدا کیے ۱۱۸

آپ ؐ مردوں کو زندہ کرتے ہیں ۶۳۸

آسمانی بارش کی طرح عظیم برکات نازل ہوئیں ۶۳۸

یہود کی بد چلنی کے زمانہ میں بعثت ہوئی ۲۰۷

آنحضرت ﷺ نے دین اسلام کو جبراً نہیں پھیلایا ۵۹

جنگیں خالصتاً دفاعی تھیں ۱۶۰



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 784

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 784

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/784/mode/1up


آنحضرتﷺ کی کفار کے ساتھ لڑائیوں کی حقیقت ۱۴۰

آپ ؐ کی تکذیب کی وجہ سے کفار پر عذاب ۱۶۶،۱۶۷

اس اعتراض کا جواب کہ نجات کیلئے توحید کافی ہے

آپ ؐ کی پیروی کی کیا ضرورت ہے ۱۱۲

انسانی نجات اطاعت رسول کے ساتھ وابستہ ہے

قرآن کریم سے ثبوت ۱۲۸

آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں سات برس کا قحط ۱۶۶

وحی کا ابتداء اور حضور کا فرمانا خشیت علی نفسی ۵۷۸

بعض اجتہادی خطائیں ۴۰۵

محمدمولوی لکھوکے والیصاحب کتاب ’’احوال الآخرت ‘‘

مسیح موعود کے زمانہ میں مقررہ تاریخوں میں کسوف وخسوف ہوگا ۲۰۵

محمد ابو الحسن

طاعون سے ہلاک ہوا ۵۹۸

محمد احسن امروہی مولوی

آپ کے متعلق الہام ’’تارک روز گار بینم ‘‘ ۳۴۶

حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کے گواہ ۴۳۵

محمد اسحق میر رضی اللہ عنہ

حضور کی دعا کے نتیجہ میںآپ کی شفا یابی ۳۴۱،۳۴۲

محمد اسلم میرزا

حضرت مسیح موعودؑ کے اجداد میں سے ۸۱

محمد اسماعیل میر سیدابن میر ناصر نواب صاحب

اسٹنٹ سرجن پٹیالہ ۳۹۷

محمد اسماعیل مولوی علی گڑھ

عداوت پر کمربستہ ہوا چنانچہ ہلاک ہوا ۳۴۲

محمد باقر امام

حدیث چاند سورج گرہن کے راوی ۲۰۲،۲۰۴

محمد بخش حجام ساکن قادیان ۲۴۶

محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ

طاعون سے ہلاکت ۲۳۶

محمد بوڑے خاں ڈاکٹر اسسٹنٹ سرجن قصور

مسیح موعود ؑ کے ایک مخلص دوست جن کی اچانک

وفات کی خبر الہام میں دی گئی تھی ۲۲۳

محمد بیگ میرزا ابن میرزا عبدالباقی حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کے اجداد میں سے ۸۱

محمد جان ابوالحسن مولوی

مخالفانہ کتاب شائع کی اور طاعون سے ہلاک ہوا ۵۹۸

محمد حسن بیگ مولوی (عبد الحکیم کا خالہ زاد)

مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوا ۱۹۰،۱۹۲

محمد حسن سید خلیفہ وزیر اعظم ریاست پٹیالہ

مسیح موعود ؑ کی پیشوائی کے لیے اسٹیشن پر تشریف لائے

۲۵۶،۲۵۸،۳۵۰

دعا کی درخواست اور اس پر الہام ۳۹۳

محمد حسن بھیں والامولوی

اعجاز المسیح پر *** لکھا ایک سال اندر ہلاک ہوا

۲۳۱،۲۳۶،۲۳۹،۳۵۶

محمد حسین سید

برادر خلیفہ محمد حسن وزیراعظم پٹیالہ ۲۵۶،۲۵۸

محمد حسین بٹالوی مولوی

۲۳۲،۲۴۶،۲۵۸،۲۵۹،۳۰۷،۴۵۳۴۵۳

نواب صدیق حسن خان کی عزت کی بحالی والی

پیشگوئی کے گواہ ۴۷۰

کفر کا استفتاء لکھا ۸۳ح



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 785

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 785

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/785/mode/1up


اس کے متعلق پیشگوئی الہامی الفاظ پر مشتمل نہ تھی بلکہ صرف دعا تھی ۱۹۵

پیشگوئی کے مطابق ذلت کے سامان ۴۰۳

محمد حیات خان نواب ڈویژنل جج

پیشگوئی کے مطابق بری ہوئے ۳۴۵

محمد دین حافظموضع ننکر تحصیل لاہو ر

مباہلہ کے الفاظ لکھنے کے بعد ہلاک ہوئے ۴۸۸

محمد شریف حکیم مولوی کلانوری

امرتسر میں طبابت کرتے تھے ۲۴۷

جن کے ذریعہ الیس اللہ بکاف عبدہ والی انگوٹھی

بنوائی گئی ۲۲۰،۲۴۷

محمد شفیع حکیمسیالکوٹ

بیعت کرکے مرتد ہوا آخر طاعون سے ہلاک ہوگیا ۲۳۸

محمد صادق مفتیرضی اللہ عنہ

ان کے ایک مکتوب کا ذکر ۲۶۵، ۲۸۸

حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی پورا ہونے کے گواہ ۳۱۶

محمد طاہرامام گجراتی

اپنے وقت میں جھوٹے مدعی سے مباہلہ کیا اور وہ

مدعی ہلاک ہوگیا ۳۴۴،۳۴۵،۳۵۳

محمد علی خا ن نواب رئیس مالیر کوٹلہ ۸۸ح،۲۲۹

مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کی اہلیہ کی وفات ۴۳۴

محمد علی مولوی ایم اے ۲۷۸،۳۱۶

طاعون کے زمانہ میں شدید بخار ۲۶۵

چراغ دین کے مباہلہ کا کاغذ کا فوٹو حاصل کیا ۴۳۳

محمد علی مولوی سیالکوٹی

جن سے مولوی زین العابدین نے مباہلہ کیا ۲۳۷

محمد مولوی ۲۵۹

اول درجہ کامخالف تھا ۲۳۹

محمد فضل مولوی چنگا تحصیل گوجر خاں

خط لکھا جس میں احمدیت کی صداقت کے

دو واقعات کا ذکر کیا ۳۹۶،۳۹۷

محمد قائم مرزا

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اجداد میں سے ۸۱

محمد کرم الدین ابو الفضل مولوی ۲۷۸

محمد مولوی لدھیانوی

مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاک ہوا ۴۵۴

محمد یوسف حافظ ضلعدار نہر

نواب صدیق حسن کے بارہ میں پیشگوئی کے گواہ ۴۷۰

محمود بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۲۲۸

پیدائش سے قبل آپ کا نام دیوار پر لکھا ہوا دیکھایا گیا ۲۲۷

بشیر اور محمود کا ذکر سبز اشتہار میں ہے ۳۷۴

محی الدین ابن عربی ؒ

لکھا کہ مسیح موعود توام اور صینی الاصل پیدا ہوگا ۲۰۹

محی الدین لکھوکے والے ۲۳۹،۳۵۳

چاند سورج گرہن کے متعلق آپ کا ایک پنجابی شعر ۲۰۵

مرلی دھرلالہ آریہ

سرمہ چشم آریہ میں اسے مباہلہ کی دعوت دی ۳۲۷

مریم علیہ السلام ۳۱،۱۰۴ح

مسیلمہ کذاب

اسکے مرتد ہونے کا ذکر ۱۶۳

معراج دین میاں لاہور ۲۳۷

مقوقس (شاہ مصر)

اسکی طرف آنحضرت ؐ نے دعوت اسلام کا خط لکھا ۱۸۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 786

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 786

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/786/mode/1up


ملاوامللالہ ۲۴۸،۲۶۰،۲۷۷

ہندو کھتری جوبہت سے نشانوں کا گواہ ہے ۲۲۰

مرض دق سے شفایابی کی دعا اور اس کی قبولیت ۲۷۷

ان سے قسم کامطالبہ کہ انہوں نے کبھی کوئی نشان

نہیں دیکھا ۵۹۲

منظورمحمد پیر

آپ کی بیوی محمد بیگم کے بطن ایک بچے کی پیدائش

کی خبر ۱۰۳،۱۰۹

موسیٰ علیہ السلام ۳۰ح،۳۵،۶۶،۸۴،۱۰۰

خد ا تعالیٰ کی نبی ۴۸۳

بلعم باعو ر آپ کا مقابلہ کرکے تحت الثریٰ میں ڈالا گیا ۱۵۷ح

موسیٰ پر تجلی قدرت الٰہی محدود رہی ۲۸

تکذیب کی وجہ سے مصر کے ملک پر آفتیں آئیں ۱۶۵،۱۶۶

موسیٰ کی امت سے انبیاء کا براہ راست انتخاب ۳۰ح

موسیٰ کی پیشگوئی میں امتحان موجود تھا ۴۶۶

بعض پیشگوئیاں جو پوری نہ ہوئیں ۱۸۳ح

توریت میں موسیٰ کے صحابہ کا نام مفسد قوم لکھا ہے ۱۰۱ح

آپ کی شفاعت سے عذاب منسوخ ہوا ۵۷۱

مہتاب علی احمدی جالندھری منشی

انہوں نے قاضی فیض اللہ سے مباہلہ کیا اور وہ ہلاک ہوا۶۰۴

مہدی حسین سید

اہلیہ کی بیماری اور دعا سے معجزانہ شفاء ۳۷۸

مہر علی شاہ گولڑوی ۲۷۸،۳۵۶

مقدمہ کرم دین میں اس کاسرقہ ثابت ہوا ۳۵۶

رسالہ اعجاز المسیح کا جواب نہ لکھ سکے ۳۹۳

مہر علیشیخ ہوشیاپوری

ایک پیشگوئی کا مورد اور گواہ ۲۳۳

میکائیل ۱۲۸

ن ، ہ ، ی

ناصر شاہسید اوور سیر بارہ مولا کشمیر

’’یہ نوجوان مخلص نہایت درجہ اخلاص رکھتا ہے ‘‘

۳۳۵،۳۳۶،۳۳۷،۲۴۰

ناصر نوابمیر

خسر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰،۳۴۱

نانک ؒ باوا

اخلاص کی وجہ سے قبولیت اسلام کی توفیق ملی ۱۵۰،۱۸۷

نجاشی شاہ حبشہ

اس کی طرف آنحضرت ؐ نے دعوت اسلام کا خط لکھا ۱۸۴

مولوی نذیر حسین دہلوی ۸۳،۲۵۸

تکفیر کی آگ بھڑکانے والا ہامان ۸۳ح،۲۳۳

مباہلہ کے نتیجہ میں ابتر فوت ہوا ۴۵۴

الہام الٰہی کے مطابق موت ۲۵۸

نصیر ا حمد مرحوم ابن حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمدؓ

پیشگوئی کے مطابق پیدا ہوئے ۲۲۹،۳۶۶

نظام الدین درزی ۳۹۷

نظام الدین مستریسیالکوٹ

استجابت دعا کے مورد ۳۳۶،۳۳۷

نعمت اللہ ولی

مسیح موعود کے بارے میں خبر دی ۷۱،۲۱۰،۶ ۳۴

نوح علیہ السلام

آپکے منکرین طوفان سے ہلاک ہوئے ۲۶۹،۴۸۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 787

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 787

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/787/mode/1up


نور احمد موضع بھڑی چٹھہ حافظ آباد

منشی محبو ب عالم لاہور والوں کے چچا تھے طاعون سے ہلاک ہوئے ۲۳۷

نور احمد میاں مدرس مدرسہ امدادی۔وریام کملانہ

ان کا خط کہ حضرت مسیح موعودؑ کی دعا قبول ہوئی ۳۳۷،۳۳۸

نور الدینؓ حضرت حکیم مولویخلیفۃ المسیح الاوّل

آپ کے فرزند عبد الحی کی الہام کے مطابق پیدائش ۲۳۰

اصحاب الصفہ میں سب سے اوّل ۲۳۴،۲۳۵

پیشگوئی بابت زوجہ نواب محمدعلی کے گواہ ۴۳۵

عبد الحکیم کا آپ کے نام خط جس میں حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف پیشگوئی درج تھی ۴۰۹،۴۱۰

وِب (Mr.Web)

امریکہ کا ایک عیسائی جو مسیح موعود ؑ کی دعوت پر

مسلمان ہوا ۱۷۱ح ،۵۱۱

وزیر سنگھ

پیشگوئی کے مطابق ایک روپیہ دیا ۳۱۸

ہادی بیگ میرزا ۸۱

ہامان ۸۳،۹۲

حافظ ہدایت علی تحصیلدار بٹالہ

حسب الہام مقدمہ میں خلاف فیصلہ دیا پرحق میں دیا ۲۷۳

انہوں نے بشمبرداس کی نصف قید کی خبر دی ۳۱۵

یحییٰ علیہ السلام

معراج کی رات عیسیٰ بن مریم کو آپ کے ساتھ

دکھایا جانا ۳۷،۳۹،۱۶۸

یعقوب علیہ السلام ۶۶

آپ کا لقب بنی اسرائیل ۴۶۵ح

یوسف علیہ السلام ۶۶،۲۷۰،۲۷۱

یوسف شاہ رئیس امرتسر

آتھم کے پیشگوئی سننے کے بعد آثار رجوع کے

وقت موجود تھا ۱۹۳

یونس علیہ السلام

اللہ کے برگزیدہ نبی ۹۲،۴۰۴

یونس کی پیشگوئی توبہ واستغفار سے ٹل گئی ۱۸۲،۱۹۴،۴۶۳

ان کے واقعہ کی واقعہ صلیب سے مشابہت ۴۲

یہودا اسکریوطی (مسیح کا حواری)

جس نے تیس روپے لیکر کو گرفتار کروا دیا ۱۰۲ح،۱۶۳،۳۶۱





Ruhani Khazain Volume 22. Page: 788

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 788

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/788/mode/1up


مقامات


آرمی نیوز(ہانگ کانگ) ۴۷۸

آسٹریا (یورپ) ۴۷۷

آسٹریلیا ۶

آگرہ ۴۷۵

اٹلی ۴۷۸

اجمیر ۶۰۷

الہ آباد ۵۱۱

امرت سر ۲۶۱،۱۷۱،۱۹۳،۲۴۷

۲۵۱،۲۹۲،۲۹۳،۴۷۰، ۴۷۵

عبد الحکیم نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف جلسہ کیا ۴۰۹

امریکہ

۲۲۶،۲۶۱،۴۷۲،۴۷۹،۴۸۶

۴۸۷،۴۹۲،۵۱۸،۵۵۳،۵۹۷

رمضان میں چاند سورج گرہن کا ذکر ۲۰۲

انبالہ ۲۵۶،۴۷۶

اوڑیسہ (ہندوستان کا ایک صوبہ ) ۴۷۷

ایشیا ۲۶۸،۲۶۹،۵۵۳

’’اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں‘‘ ۲۶۹

ایشیا کے مختلف مقامات میں زلزلہ کی پیشگوئی ۲۶۸

آفات کی پیشگوئی ۲۰۰

بارہ مولا (کشمیر ) ۲۴۰،۲۷۹

بازید چک (صوبہ سرحد) ۴۹۱

باسفورس

ایک آبنائے کانام ۴۷۸

بانڈہ ضلع ہوشیا پور ۲۵۶

بٹالہ (پنجاب) ۲۴۶،۲۷۲،۲۷۳،۳۱۵،۴۸۱

بخارا ۲۴۹

برطانیہ ۴۷۷

برلن (جرمنی) ۴۷۷

بستی وریام کملانہ ڈاک خانہ ڈب کلاں ۳۳،۳۳۸

بمبئی ۴۳۴

بنگال ۴۷۶

بنگال کی تقسیم اور مطابق الہام الٰہی اسکی منسوخی ۳۱۰

بھاکسو

کانگڑہ اور بھاکسو کے زلزلے ۱۶۶

بھڑی چٹھہ (حافظ آباد ) ۲۳۷

بھوپال ۳۸۶

بیت المقدس ۳۱،۲۰۷

بیلجیم ۴۷۷

پٹیالہ

۷۲، ۲۵۶،۲۵۸،۳۹۳،۳۹۷

عبد الحکیم پٹیالہ میں اسسٹنٹ سرجن تھے ۴۱۱

حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف یہاں لیکچر دیا ۴۰۹

پسرور (سیالکوٹ) ۵۲۵

پشاور

صوبہ سرحد کا دارالحکومت ۵۹۷



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 789

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 789

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/789/mode/1up


پنجاب ۸۵،۲۴۸،۲۴۹،۲۵۹،۲۶۲

۲۹۵،۳۸۱،۴۷۵،۴۷۹،۵۱۱،۶۰۷

پنجاب میں طاعون کی آفت ۴۱۸

زلزلے اور آفتیں آئیں گی ۲۰۰

سعداللہ گندہ زبان مخالف پنجاب کا رہنے والا تھا ۴۳۵

ڈاکٹر عبد الحکیم نے یہاں لیکچر دیا ۴۰۹

پنڈدادن خان (ضلع جہلم ) ۳۸۰،۵۲۶

پنوانہ (ضلع سیالکوٹ) ۵۲۵

پنیار چک (ضلع گجرات) ۴۹۱

جگہ کا نام

پیرس ۴۷۸

تھہ غلام نبی(ضلع گورداسپور )

حضرت شیخ حامد علی صاحب کا گاؤں ۲۴۴

جالندھر

جالندھر میں جلسہ ہونا ۱۷۱

جزائر ۲۶۹

جنڈیالہ باغوالہ (ضلع گوجرانوالہ) ۶۰۵

جموں ۲۳۰،۳۸۶،۵۹۶

چراغ دین ساکن جموں کے مباہلہ کا عکس ۴۱۷

جودھالہ (ضلع سیالکوٹ) ۵۲۶

جہلم ۲۶۳،۲۶۴،۲۷۸،۳۸۰،۵۲۶

حضرت مسیح موعود ؑ کا سفر جہلم ،لوگوں کاکثرت

سے بیعت کرنا ۲۶۴

جھنگ ۳۳۷،۳۳۸

چکوال ۲۷۸

چلی ۲۶۷

چنگا (تحصیل گوجرخان ضلع راولپنڈی ) ۳۹۷

حافظ آباد (ضلع گوجرانوالہ) ۲۳۷

حیدر آباد (دکن) ۴۸۰

خانہ کعبہ

حج بیت اللہ کے موقع پر اسلامی قربانیاں ۲۰۷

خیر آباد(صوبہ سرحد) ۵۹۷

دوالمیال ضلع جہلم ۳۸۰

دہلی ۸۶،۱۷۱،۴۷۶،۵۲۲

عبد المجید دہلی کے رہنے والے تھے ۵۹۷

ڈیرہ اسماعیل خاں ۲۷۶

ڈیرہ غازی خاں

پیشگوئی کے مطابق یہاں سے بیس روپے آئے ۳۱۸

ڈینیوب (دریا) ۴۷۷

راولپنڈی ۲۹۳،۳۳۷

روس ۴۷۷

روم ۳۰۲،۴۷۸

سان فرانسکو ۲۶۷

زلزلہ آنے کی وجہ ۱۶۴،۱۶۵

سرینگر شہر ۴۹۰

سندھ ۷۰

سیالکوٹ ۲۶۴،۲۳۸، ۳۰۹،۳۳۶،۳۳۷

شام ۲۴۹،۳۰۲

شادی چک (ضلع جہلم) ۵۲۶

شور کوٹ ۳۴،۳۳۷،۳۳۸



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 790

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 790

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/790/mode/1up


صیحون(Zoincity) امریکہ

ڈوئی کا بسایا ہوا شہر ۵۱۲

عرب ۲۴۹،۳۵۲

علیگڑھ ۳۴۲،۴۹۱

فارس ۳۰۲

فارموسا ۲۶۷

قادیان ۸۵،۸۷،۹۱،۹۷،۲۲۹،۲۵۰،۲۵۱

۲۵۵، ۲۵۹،۲۶۰،۲۶۲،۲۶۴،۲۷۳،۲۸۸

۲۹۱،۲۹۳،۳۰۱،۳۰۹،۳۱۴،۳۱۵،۴۸۱،۶۱۳،۶۲۰

قسطنطنیہ ۴۷۸

کابل ۲۴۹،۲۷۴

صاحبزادہ عبد اللطیفؓ کی شہادت کے بعد کابل

میں ہیضہ کی وباء ۳۶۴

کانہ (لاہور کے قریب ایک اسٹیشن کا نام) ۴۸۸

کانگڑہ ۱۶۶

کسولی (انڈیا) ۴۸۰،۴۸۱،۴۸۲

کشمیر ۴۷۲،۴۹۰

سری نگر کشمیر میں حضرت عیسیٰ کی قبر ۱۰۴ح

۱۹۰۷ء میں موسم بہار میں خارق عادت برف باری ۴۷۲

کلانور (ضلع گورداسپور) ۲۴۷

کلکتہ ۴۳۴

گجرات ۲۲۹،۲۶۴

گڑ گانوہ ۴۷۴

گلگت ۵۹۶

گوجرانوالہ ۲۶۴،۶۰۵

گوجرخاں ۳۹۶،۳۹۷

گورداسپور ۲۱۱، ۲۲۶،۲۷۲،۲۷۷،۲۷۸

لارنس پور ۳۷۵،۵۹۷

لاہور ۲۶۰،۲۶۴، ۲۸۷،۲۸۸،۲۸۹،۳۰۱

۳۴۱،۴۷۳،۴۷۶،۴۸۸،۴۹۰،۵۱۱

لاہور میں جاکر جلسہ ہونے کا ذکر ۱۷۱

ڈاکٹر عبد الحکیم حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف جلسہ کیا ۴۰۹

لدھیانہ ۷۱،۱۷۱،۲۵۵،۲۵۶،۲۵۷،۲۵۹،۳۰۷

مالیر کوٹلہ ۲۲۹

مدراس ۲۵۹،۴۳۴،۴۷۶

مدینہ منورہ ۸۵،۲۳۴،۴۹۶

مراد آباد(انڈیا) ۲۰۶،۴۷۵

مصر

مصر میں موسیٰ کے وقت آفات کا ذکر ۱۶۵،۱۶۶

تکذیب کی وجہ سے طرح طرح کی آفات نازل

ہوئیں ۱۶۵

مکہ مکرمہ ۸۵،۲۴۱،۲۵۹،۴۳۹،۴۶۹،۴۹۶

ایام حج میں مدینہ کی طرف اونٹنیوں پر سفر ہوتا تھا ۲۰۶

ملتان ۲۲۶،۳۸۶

ملکوال (ضلع گجرات) ۲۲۹

نجران

اگر نجران کے عیسائی مباہلہ کرتے تو ان پر تباہی آجاتی ۵۵۲

ننکر(لاہور کے قریب ایک جگہ کا نام) ۴۸۸

نیپلز ۴۷۸

وزیر آباد(پنجاب) ۲۶۴



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 791

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 791

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/791/mode/1up


ہانگ کانگ ۴۷۸

ہوشیار پو ر ۱۹۴

ہندوستان ۲۴۷،۲۴۹،۲۶۲،۴۷۹،۲۹۵،۵۱۱

آدم اوّل کا مہبط، مسیح موعود کا مقام خلافت ۶۳۱،۶۳۲

ہولناک دن مقدر ہے ۲۰۰

ہندوستان میں طاعون کی آفت ۴۱۸

ہنگری ۳۷۷

ہوتی مردان (صوبہ سرحد) ۲۶۰

یورپ ۲۶۸،۲۶۹،۴۷۲

۴۷۹،۴۸۶،۴۸۷،۵۵۳،۵۹۷

یورپ میں اسلامی کتب مسلمانوں سے زیادہ ہیں ۱۸۳

اہل یورپ اسلام سے بے خبر نہیں ۱۸۳

یورپ کے اخباروں میں بارہا میرے دعوے کاذکر ۴۸۷

الہام الٰہی کے مطابق خارق عادت برف باری ۴۷۷

مسیح موعود ؑ کا اشتہار شائع ہوا ۱۷۱

اے یورپ تو بھی امن میں نہیں ۲۶۹

آفات کی پیشگوئی ۲۰۰





Ruhani Khazain Volume 22. Page: 792

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 792

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/792/mode/1up


کتابیات


آریہ گزٹ ۳۳۲

آرمی نیوز (لدھیانہ کا ایک اخبار)

الہام کے بارے میں شہادتی بیان شائع کیا ۵۲۵

آزاد( انبالہ سے جاری اخبار کا نام) ۴۷۶

آئینہ کمالات اسلام

تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴،۲۹۵،۳۰۰

ابن ماجہ سنن

صحاح ستہ میں شامل ہے ۲۱۷

اتمام الحجۃ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۳۵ احوال الآخرۃ

مولوی محمد لکھوکے والے کی تصنیف ۲۰۵

اخبار عام (لاہور کا ایک اخبار) ۴۷۳،۴۹۰

ارگوناٹ سان فرانسسکو ۵۰۶

ازالہ اوہام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۶۹

الاستفتاء (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

اس رسالے کا مقصداتمام حجت ہے ۶۲۱تا ۷۱۶

اشارات فریدی مجموعہ ملفوظات خواجہ غلام فرید ؒ

اس میں جابجا مسیح موعود ؑ کی تصدیق ہے ۲۱۵

اعجاز احمدی

تصنیف حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام ۲۳۵،۲۳۶

اعجاز المسیح

تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵،۳۹۳

اعجاز محمدی تصنیف چراغ دین جمونی

حضرت اقدس ؑ کے خلاف لکھی گئی کتاب ۴۱۸

اس کتاب میں مباہلہ کا ذکر کیا ۴۳۲تا ۴۳۴

امر ت بازار پترکا(کلکتہ کا انگریزی اخبار) ۳۱۱

امہات المومنین

عیسائیوں کیطرف سے شائع ہونے والی

ایک دل آزار کتاب ۲۸۸،۲۸۹

انجام آتھم (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

۲۲۵،۳۱۳، ۳۶۴، ۳۶۵، ۴۴۵،۴۵۳

انجیل ۳۱،۴۲

اس کی تعلیم صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح تھی ۲۹

صرف ایک قوت عفو ودر گزر پر زور دیا ہے ۱۵۶

قرب قیامت میں قوموں کی ہلاکت کا ذکر ۴۲۲

طاعون سے ہلاکت کا ذکر ۴۲۱

انجیل کی پیشگوئی دانیال کی پیشگوئی کو قوت دیتی ہے ۲۰۷

اس سوال کاجواب کہ تورات کی موجودگی میں انجیل کی ضرورت کیوں تھی ؟ ۱۵۵



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 793

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 793

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/793/mode/1up


اندرونہ بائیبل (عبد اللہ آتھم کی تصنیف )

آنحضور ﷺ کے متعلق نازیبا الفاظ ۲۲۲،۵۶۶

انوار الاسلام (تصنیف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام )

۳۶۵،۳۶۶،۳۷۷

سعداللہ کے متعلق ہلاکت کی یپشگوئی درج ہے ۴۵۰

انیس ہند میرٹھ

لیکھرام کی پیشگوئی کے حوالے سے اعتراض کیا ۲۹۶

اخبار اہلحدیث (امرتسر)

مولوی ثناء اللہ ایڈیٹر تھے

سعداللہ کی ہلاکت کا ذکر ۴۳۶،۴۷۵

مصنف عصائے موسیٰ طاعون سے شہید ہوگئے ۵۴۶

بائیبل

مسیح موعود کا زمانہ چھٹے ہزار کا آخر استنباط کیا ۲۰۸،۲۱۰

قیامت کے قریب قوموں کی ہلاکت کا ذکر ۴۲۲

حبقوق،حزقی ایل،دانی ایل،زبور میں قوموں کی

ہلاکت کا ذکر ۴۲۲

تضرع اور دعاسے پیشگوئی بدل گئی ۴۶۵ح

بحرالجواہر

ابو الخیر یہودی کے قبول اسلام کا واقعہ درج ہے ۱۵۰

بخاری صحیح ۔جامع

حدیث کی معروف کتاب ۴۵۷،۴۹۵۴۶۸تا۴۹۷

البدر (اخبار ) قادیان

۲۲۸، ۲۳۱ ،۲۳۶ ،۲۵۸ ،۲۷۵،۲۸۷،۴۷۱،۳۷۹

۳۸۴،۴۷۲،۴۷۹،۴۹۰،۵۱۰،۵۱۷،۵۱۸،۵۸۲،۵۹۷

الہام بابت زوجہ نواب محمد علی خان صاحب شائع ہوا۴۳۴

نور مہاجر والی پیشگوئی شائع ہوئی ۴۳۵

براہین احمدیہ(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

۲۲۴،۲۳۲،۲۳۳،۲۳۵، ۲۳۹،۲۴۱،۲۴۲

۲۴۹،۲۶۱،۲۶۴،۲۶۹،۲۷۰،۲۷۱،۲۷۴

۲۹۲،۲۹۴، ۴۷۰، ۴۸۵،۵۰۱،۵۰۲،۶۰۲،۶۲۴

مسیح موعودؑ کی کتاب جس میں بے شمار الہامات

تذکرہ ہے ۵۱۹

سر ورق پر ’’یاغفور‘‘ شعر میں لکھا اس سے ۱۲۹۷عدد نکلے ۲۰۸

کئی الہامات کا تذکرہ جوپورے ہوئے ۴۵۹، ۴۶۰

براہین احمدیہ میرے لئے بطور بچہ کے تھی ۳۵۱

چاند سورج گرہن کی خبر کا بیان ۲۰۲

چار حصص کے بعد تاخیر میں مصلحت وحکمت الٰہی ۳۵۶

براہین احمدیہ حصہ پنجم

تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰

برکات الدعا(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام )

۲۹۴،۲۹۶،۲۹۷،۲۹۹،۳۰۰

بیان للناس

مولوی عبد المجید کی کتاب ۵۹۷

پائیونیر۔الہ آباد ۵۱۱

پبلک میگزین ۴۷۶

پیسہ اخبار لاہور ۴۷۶



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 794

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 794

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/794/mode/1up


التبلیغ (آئینہ کمالات اسلام کا عربی حصہ ) ۲۳۵

تحفہ بغداد (تصنیف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام) ۲۳۵

تحفہ گولڑویہ

تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸

تذکرۃ الاولیاء ۱۷۷

تذکرۃ الشہادتین

تصنیف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۶۰۸

ترغیب المومنین ۲۳۵

تریاق القلوب

تصنیف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۲۷۸،۴۰۰

تشحیذ الاذہان قادیان ۴۹۰

تعطیر الانام ۳۸

تکذیب براہین احمدیہ

مصنفہ پنڈت لیکھرام ۲۹۵

توریت (نیز دیکھئے بائیبل) ۲۸،۶۶

توریت کی تعلیم ناقص اور مختص القوم تھی ۱۵۵

جھوٹا مدعی نبوت ہلاک کیا جائیگا ۲۱۴

خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا ۲۷

تورات کی موجودگی میں انجیل کی ضرورت ۱۵۵

ٹیلی گراف( لندن)

ڈوئی کے متعلق مباہلہ کا چیلنج شائع ہوا ۵۰۶

جاسوس آگرہ ۴۷۵

حجۃ اللہ

تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵

حقیقۃ الوحیتصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام

تالیف کا مقصد ۶۱۶

حقیقہ الوحی دیر سے شائع ہونیکی وجہ ۴۳۴

الحکم اخبار

۲۲۸،۲۳۱،۲۳۶،۲۶۴۲۵۸،۲۷۵، ۲۸۳،۲۸۰،۳۱۳

۳۹۴،۳۹۵،۳۹۶،۴۷۱،۴۷۲،۴۷۹،۵۸۲ ،۵۹۷

الہام بابت زوجہ نواب محمد علی خان شائع ہوا ۴۳۴

صاحب نور مہاجر والی پیشگوئی شائع ہوئی ۴۳۵

رسالہ حکمت لاہور ۴۷۵

حمامۃ البشریٰ

تصنیف حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۲۳۴،۲۳۵

حیات المسیح (رسالہ)

مصنفہ مولوی رسل بابا امرتسری ۳۱۳

خبط احمدیہ

مصنفہ پنڈت لیکھرام ۳۲۷

خطبہ الہامیہ ۲۳۵،۳۷۶

حضرت مسیح موعود ؑ کافی البدیہہ اعجازی خطبہ تفصیل ۳۷۵

دار قطنی ۲۰۴

امام باقر کی روایت حدیث کسوف وخسوف درج ہے ۲۰۲

دافع البلاء ومعیار اھل الاصطفاء

تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ۵۰،۲۳۱،۲۳۷

چراغ دین جمونی کی ہلاکت کی پیشگوئی درج ہے ۵۰

دانیال ۹۹



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 795

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 795

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/795/mode/1up


در منثور

یونس نبی کی قوم کے واقع کی تفصیل درج ہے ۴۰۴

دی مارننگ ٹلی گراف نیویارک

مباہلہ اور ڈوئی پر بدعا کا ذکر ۵۰۸

ذکر الحکیم

عبد الحکیم کا رسالہ ۱۹۰

ریویو آف ریلیجنز

جماعت کا ایک رسالہ ۳۱۱، ۴۷۱،۴۷۲،۴۷۹،۵۸۸

ستیارتھ پرکاش

پنڈت دیانند کی کتاب ۶۰۷

سراج الاخبار ۳۸۴

سر الخلافہ تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ۲۳۵

سراج منیر تصنیف مسیح موعودعلیہ السلام ۲۷۵

سرمہ چشم آریہ

تصنیف مسیح موعودعلیہ السلام ۳۲۶

سما چار

لاہور سے جاری ہونے والا اخبار ۳۰۰، ۴۷۶

سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور (اخبار )

۲۹۱،۳۱۱،۴۷۶،۴۹۰،۵۱۱،۵۲۵،۵۹۷

سیرت الابدال ۲۳۵

سیف چشتیائی

مصنفہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی ۲۷۸،۳۵۶

شبھ چنتک

آریوں کا اخبار ۵۹۰تا۵۹۵

شفاء الاسقام ۲۸۹

شکاگو انٹرپریٹر

امریکہ کا ایک اخبار جس میں مباہلہ کا چیلنج درج ہے ۵۰۵

شہاب ثاقب

سعد اللہ کی کتاب جس میں مباہلہ کا ذکر ۴۴۶،۴۴۷

عصاء موسیٰ

بابو الٰہی بخش کی کتاب ۲۶۰،۲۶۱،۵۸۸

علامات المقربین

ملحقہ تذکرۃ الشہادتین ۲۳۵

فتح اسلام تصنیف حضر ت مسیح موعود ؑ ۳۴۲

فتح ربانی رسالہ

مصنفہ مولوی غلام دستگیر قصوری ۳۴۳،۳۵۴

فصوص

محی الدین ابن عربی کی تصنیف ۲۰۹

فیصلہ قرآن اور تکذیب قادیانی

حافظ محمد دین کی کتاب جو مباہلہ کرکے ہلاک ہوا ۴۸۸

فیض رحمانی

مولوی غلام رسول دستگیر کی تصنیف ۴۵۴

مباہلہ کو شائع کیا چند روز بعد مر گیا ۷۱ح

قادیان کے آریہ اور ہم

حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ۵۱۰،۵۹۰،۶۰۷،۶۰۸



Ruhani Khazain Volume 22. Page: 796

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۲- انڈیکس: صفحہ 796

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=22#page/796/mode/1up


قاموس

عربی لغت کی کتاب ۴۳۷

کرامات الصادقین

تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ۲۳۵،۲۹۴،۲۹۵،۲۹۹،۳۰۰

کشتی نوح تصنیف حضرت مسیح موعو د ؑ ۲۲۹

کلیات آریہ مسافر

لیکھرام کی کتاب ۲۹۵

لٹریری ڈائجسٹ نیویارک

ڈوئی کے متعلق مباہلہ کا چیلنج درج اور تصویر بھی ۵۰۷

لجۃ النور تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ۲۳۵

لسان العرب

عربی لغت کی کتا ب ۴۳۹،۴۴۰،۵۵۲

لیوز آف پیلنگ

ڈوئی کا اخبار ۵۰۵

مجمع بحا رالانوار

مؤلف محمد طاہر ۳۴۳،۳۵۳

مسلم صحیح

حدیث کی معروف کتاب ۴۵۷،۴۹۵،۴۹۶،۴۹۷

المسیح الدجال (رسالہ )

ڈاکٹر عبد الحکیم نے گندی زبان استعمال کی ۴۰۹

ملاکی ۴۷،۴۹

ملاکی نبی کی کتاب میں الیاس کی دوبارہ آمد کی پیشگوئی۴۶

منارۃ المسیح

چراغ دین کا رسالہ اس میں اپنے الہامات درج کیے ۱۲۶

حضرت مسیح موعود ؑ پر بہتان لگائے ۳۸۷،۴۳۳،۴۱۸

مواہب الرحمن

تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ۲۲۴،۲۳۵،۲۳۹

کرم دین کے مقدمہ اور اس کی سزا کا ذکر ۲۲۴،۲۲۵،۲۲۸

نبراس ۳۷۵

نجم الہدٰ ی ۲۳۵

نزول المسیح

تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰

نور افشاں(اخبار ) ۴۷۸

نور الحق حصہ اوّل ودوم

تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ۲۳۵،۲۳۹

نیر اعظم

مراد آباد سے جاری اخبار ۴۷۵

نیو یارک کمرشل ایدورٹائزر

ڈوئی سے متعلقہ مباہلہ درج کیا ۵۰۸

نیو یارک میل اینڈ ایکسپریس

مباہلہ کا چیلنج درج ہے ۵۰۷

وکیل

امرتسر سے جاری ہونے والا اخبار ۴۷۷

وید

وید کی رو سے خوابوں اور الہاموں پر مہر لگ گئی ہے ۵

الہُدی ۲۳۵

یسعیاہ (بائیبل)

قیامت کے قریب قوموں کی ہلاکت کا ذکر ۴۲۲
 
Top