• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 3 ۔فتح اسلام ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 3۔ فتح اسلام۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 3. Page: 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اعلان
یہ کتاب فتح اسلام سات سو جلدیں چھپی ہیں اِن میں سے تین سو جلد محض للہ اُن لوگوں کے لیے وقف کردی ہے جو اسلامی واعظین کے گروہ میں سے یا نادار شائقین میں سے یا عیسائیوں یا ہندوو ¿ں کے علماءمیں سے ہیں۔ باقی چار سو جلد ایسے لوگوں کو جو قیمت ادا کرنے کی مقدرت رکھتے ہیں فی جلد ۸ کی قیمت پر دی جائیگی۔ محصول ڈاک علاوہ ہے۔ جو شخص مفت لینے والوں میں سے ہو یعنی واعظوں یا نادار لوگوں وغیرہ کے گروہ میں سے ہو اُس پر لازم ہے کہ صرف آدھ آنہ کا ٹکٹ بھیج دیوے کتاب روانہ کی جائے گی۔
المعلن
خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ از قادیان
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِس ´مِ اللّٰہِ الرَّح ´مٰنِ الرَّحِی ´مِ
نَح ´مُدُہ ¾ وَ نُصَلِّی ´
فتح اسلام اور خدا تعالیٰ کی تجلّی خاص کی بشارت اور اُس کی پیروی کی راہوں اور اس کی تائید کے طریقوں کی طرف دعوت
رَبِّ ان ´فُخ ´ رُو ´حَ بَرَکَةٍ فِی ´ کَلَامِی ´ ھٰذَا وَ اج ´عَل ´ اَف ´ئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَھ ´وِی ´ اِلَی ´ہِ
اے ناظرین ! عافاکم اللّٰہ فی الدنیا والدین۔ آج یہ عاجز ایک مدّت مدید کے بعد اُس الٰہی کارخانہ کے بارے میں جو خدا تعالیٰ نے دین اسلام کی حمایت کے لئے میرے سپرد کیا ہے ایک ضروری مضمون کی طرف آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہے اور میں اس مضمون میں جہاںتک خدا تعالیٰ نے اپنی طرف سے مجھے تقریر کرنے کا مادہ بخشا ہے اس سلسلہ کی عظمت اور اس کارخانہ کی نُصرت کی ضرورت آپ صاحبوں پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں تا وہ حق تبلیغ جو مجھ پر واجب ہے اُس سے مَیں سبکدوش ہو جاﺅ ں۔ پس اس مضمون کے بیان کرنے میں مجھے اس سے کچھ غرض نہیں کہ اس تحریر کا دلوں پر کیا اثر پڑے گا۔ صرف غرض یہ ہے کہ جو بات مجھ پر فرض ہے اور جو پیغام پہنچانامیرے پر قرضہ لازمہ کی طرح ہے وہ جیسا کہ چاہیئے مجھ سے ادا ہو جائے خواہ لوگ اُس کو بسمع رضا سنیں اور خواہ کراہت اور قبض کی نظر سے دیکھیں اور خواہ میری نسبت نیک گمان رکھیں اور یا بد ظنّی کو اپنے دلوں میں جگہ دیں۔ وَاُفَوِّضُ اَم ´رِی ´ اِلَی اللّٰہَ وَ اللّٰہُ بَصِی ´ر µ بِال ´عِبَادِ ۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اب میں ذیل میںوہ مضمون جس کا اُوپر وعدہ دیا ہے لکھتا ہوں۔
اے حق کے طالبو اور اسلام کے سچے محبّو! آپ لوگو ں پر واضح ہے کہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ زندگی بسر کررہے ہیں یہ ایک ایسا تاریک زمانہ ہے کہ کیا ایمانی اور کیا عملی جس قدر امور ہیں سب میں سخت فساد واقع ہو گیا ہے اور ایک تیز آندھی ضلالت اور گمراہی کی ہر طرف سے چل رہی ہے۔ وہ چیز جس کو ایمان کہتے ہیں اسکی جگہ چند لفظوں نے لے لی ہے جن کا محض زبان سے اقرار کیا جاتا ہے اور وہ امور جن کا نام اعمال صالحہ ہے اُن کا مصداق چند رسوم یا اسراف اور ریا کاری کے کام سمجھے گئے ہیں اور جو حقیقی نیکی ہے اُس سے بکلّی بے خبری ہے۔ اس زمانہ کا فلسفہ اور طبیعی بھی روحانی صلاحیّت کا سخت مخالف پڑا ہے۔ اُ س کے جذبات اُس کے جاننے والوں پر نہایت بد اثر کرنیوالے اور ظلمت کی طرف کھینچنے والے ثابت ہوتے ہیں۔ وہ زہریلے مواد کو حرکت دیتے اور سوئے ہوئے شیطان کو جگا دیتے ہیں اِن علوم میں دخل رکھنے والے دینی امور میں اکثر ایسی بد عقیدگی پیدا کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اصولوں اور صوم وصلوٰةوغیرہ کے عبادت کے طریقوں کو تحقیر اور استہزا کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اُنکے دلوں میں خدا تعالیٰ کے وجود کی بھی کچھ وقعت اور عظمت نہیں بلکہ اکثر ان میں سے الحاد کے رنگ سے رنگین اور دہریّت کے رگ وریشہ سے پُر اور مسلمانوںکی اولاد کہلا کر پھر دشمنِ دین ہیں۔ جو لوگ کالجوں میں پڑھتے ہیں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہنوز وہ اپنے عُلوم ضروریّہ کی تحصیل سے فارغ نہیں ہوتے کہ دین اور دین کی ہمدردی سے پہلے ہی فارغ اور مستعفی ہو چکتے ہیں۔ یہ میں نے صرف ایک شاخ کا ذکر کیا ہے جو حال کے زمانہ میں ضلالت کے پھلوں سے لدی ہوئی ہے۔ مگر اس کے سوا صدہا اور شاخیں بھی ہیں جو اس سے کم نہیں ©! عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ دنیا سے امانت اور دیا نت ایسی اُٹھ گئی ہے کہ گویا بکلّی مفقود ہو گئی ہے۔ دنیا کمانے کے لئے مکر اور فریب حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ جوشخص سب سے زیادہ شریر ہو وہی سب سے زیادہ لائق سمجھا جاتاہے۔ طرح طرح کی ناراستی ،بددیانتی ،حرام کاری ،دغابازی ،دروغ گوئی اور نہایت درجہ کی رُوبہ بازی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 5
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 5
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور لالچ سے بھرے ہوئے منصوبے اور بدذاتی سے بھری ہوئی خصلتیں پھیلتی جاتی ہیں اور نہایت بے رحمی سے ملے ہوئے کینے اور جھگڑے ترقی پر ہیں۔ اور جذبات بہیمیّہ اور سَبعیّہ کا ایک طوفان اُٹھا ہوا ہے اور جس قدر لوگ اِ ن علوم اور قوانین مروّجہ میں چُست و چالاک ہوتے جاتے ہیں اُسی قدر نیک گوہری اور نیک کرداری کی طبعی خصلتیں اور حیا اور شرم اور خدا ترسی اور دیانت کی فطرتی خاصیتیں اُن میں کم ہوتی جاتی ہیں۔
عیسائیوں کی تعلیم بھی سچائی اور ایمانداری کے اُڑانے کے لیے کئی قسم کی سرنگیں طیار کر رہی ہے اور عیسائی لوگ اسلام کے مٹادینے کے لئے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک باتوں کو نہایت درجہ کی جانکاہی سے پیدا کرکے ہر ایک رہزنی کے موقع اور محل پر کام میں لارہے ہیں اور بہکانے کے نئے نئے نسخے اور گمراہ کرنے کی جدید جدید صورتیں تراشی جاتی ہیں اور اس اِنسانِ کامل کی سخت توہین کررہے ہیں جو تمام مقدّسوں کا فخر اور تمام مقرّبوں کا سرتاج اور تمام بزرگ رسولوں کا سردار تھا۔ یہاں تک کہ ناٹک کے تماشاﺅں میں نہایت شیطنت کے ساتھ اسلام اور ھادی ¿ پاک اسلام کی برُے برُے پیرائیوں میں تصویریں دکھلائی جاتی ہیں اور سوانگ نکالے جاتے ہیں اور ایسی افترائی تہمتیں تھیئٹر کے ذریعہ سے پھیلائی جاتی ہیں جن میں اسلام اور نبی پاک کی عزّت کو خاک میں ملا دینے کے لئے پوری حرام زدگی خرچ کی گئی ہے۔
اَب اے مسلمانو سنو ! اور غور سے سنو ! کہ اسلام کی پاک تاثیروں کے روکنے کے لئے جس قدر پیچیدہ افترا اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور پُر مکر حیلے کام میں لائے گئے اور اُن کے پھیلانے میں جان توڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے بھی جن کی تصریح سے اس مضمون کو منزّہ رکھنا بہتر ہے اِسی راہ میں ختم کئے گئے۔ یہ کرسچن قوموں اور تثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں کہ جب تک اُن کے اِس سحر کے مقابل پر خدا تعالیٰ وہ پُر زور ہاتھ نہ دکھاوے جو معجزہ کی قدرت اپنے اندر رکھتا ہو اور اُس معجزہ سے اِس طلسمِ سحر کو پاش پاش نہ کرے تب تک اس جادُو ئے فرنگ سے سادہ لوح دلوں کو َمخلصی حاصل ہونا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 6
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 6
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بالکل قیاس اور گمان سے باہر ہے۔ سو خدا تعالیٰ نے اس جادو کے باطل کرنے کے لئے اِس زمانہ کے سچے مسلمانوں کو یہ معجزہ دیا کہ اپنے اس بندہ کو اپنے الہام اور کلام اور اپنی برکاتِ خاصّہ سے مشرف کر کے اور اپنی راہ کے باریک علوم سے بہرہ ¿ کامل بخش کر مخالفین کے مقابل پر بھیجا اور بہت سے آسمانی تحائف اور علوی عجائبات اور اور روحانی معارف و دقائق ساتھ دیئے تا اس آسمانی پتھر کے ذریعہ سے وہ موم کا بُت توڑ دیا جائے جو سحر فرنگ نے تیار کیا ہے۔ سو اے مسلمانوں !اس عاجز کا ظہور ساحرانہ تاریکیوںکے اُٹھانے کی لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے۔ کیا ضرور نہیں تھا کہ سحر کے مقابل پر معجزہ بھی دنیا میں آتا۔ کیا تمہاری نظروں میں یہ بات عجیب اور ان ہونی ہے کہ خدا تعالیٰ نہایت درجہ کے مکروں کے مقابلہ پر جو سحر کی حقیقت تک پہنچ گئے ہیں ایک ایسی حقانی چمکار دکھاوے جو معجزہ کا اثر رکھتی ہو۔
اے دانشمندو!تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحتِ عام کے لئے خاص کرکے بغرض اعلائے کلمہ ¿ اسلام واشاعت ِ نُور حضرت خیرالانام اور تائید مسلمانوںکے لئے اورنیزاُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنیا میں بھیجا۔تعجب تو اس بات میں ہو تاکہ وہ خدا جو حامی دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا اور اسے سرد اور بے رونق اور بے نُور نہیں ہونے دُوں گا۔ وہ اس تاریکی کو دیکھ کر اور اِن اندرونی اور بیرونی فسادوں پر نظر ڈال کر چُپ رہتا اور اپنے اُس وعدہ کو یاد نہ کرتا جس کو اپنے پاک کلام میں مو ¿کّد طور پربیان کر چکا تھا۔ پھر میں کہتا ہوں کہ اگر تعجب کی جگہ تھی تو یہ تھی کہ اُس پاک رسول کی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اسکے دین کی تجدید کریگا ٭ سو یہ تعجب کا مقام نہیں
صرف رسمی ا ور ظاہری طور پر قرآن شریف کے تراجم پھیلانا یا فقط کتب دینیہ اور احادیث نبویہ کو اُردو یا فارسی میں ترجمہ کر کے رواج دینا یا بد عات سے بھرے ہوئے خشک طریقے۔جیسے زمانہ حال کے اکثر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 7
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 7
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بلکہ ہزار در ہزار شکر کا مقام اور ایمان اور یقین کے بڑھانے کا وقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کو پورا کر دیا اور اپنے رسول کی پیشگوئی میں ایک منٹ کابھی فرق پڑنے نہیں دیا اور نہ صرف اس پیشگوئی کو پورا کرکے دکھلایا بلکہ آئندہ کے لئے بھی ہزا روں پیشگوئیوں اور خوارق کا دروازہ کھول دیا۔ اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لاﺅ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آبا ءگزرگئے اور بیشمار روحیں اُس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پا لیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اِس کے اظہار سے مَیں
مشائخ کا دستور ہو رہا ہے سکھلانا یہ امور ایسے نہیں ہیں جن کو کامل اور واقعی طور پر تجدید دین کہا جائے بلکہ مو خرالذکر طریق تو شیطانی راہوں کی تجدید ہے اور دین کا رہزن۔ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کو دنیا میں پھیلانابے شک عمدہ طریق ہے مگر رسمی طور پر اور تکلف اور فکر اور خوض سے یہ کام کرنا اور اپنا نفس واقعی طور پر حدیث اور قرآن کا مورد نہ ہونا ایسی ظاہری اور بے مغز خدمتیں ہر ایک باعلم آدمی کر سکتا ہے اور ہمیشہ جاری ہیں۔ ان کو مجددیت سے کچھ علاقہ نہیں یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے نزدیک فقط استخوان فروشی ہے اس سے بڑھکر نہیں۔اللہ جلشانہ فرماتا ہے
اندھا اندھے کو کیا راہ دکھاوےگا اور مجذوم دوسروں کے بدنوں کو کیا صاف کرےگا۔ تجدید دین وہ پاک کیفیت ہے کہ اوّل عاشقانہ جوش کے ساتھ اس پاک دل پر نازل ہوتی ہے کہ جو مکالمہ الٰہی کے درجہ تک پہنچ گیا ہو پھر دوسروں میں جلد یا دیر سے اسکی سرایت ہوتی ہے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیّت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور انکی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل کو شیدن۔ اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے۔ اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلّی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور انکی گفتار اور کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ بکلّی مصفّا کئے گئے اوربتمام و کمال کھینچے گئے ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 8
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 8
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
رُک نہیں سکتا کہ مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے۔میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اﷲ مردخدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیرو ڈیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ سوجب دوسرا کلیم اﷲ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سیّدالانبیاءہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے ۱ تو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اوّل کا مثیل مگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل المسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل المسیح قوت اور طبع اور خاصیت مسیح ابن مریم کی پا کر اسی زمانہ کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیم اول کے زمانہ سے مسیح ابن مریم کے زمانہ تک تھی یعنی چودھویں صدی میںآسمان سے اُترا اور وہ اُترنا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اﷲکی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے اورسب باتوں میں اُسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اُترا جو مسیح ابن مریم کے اُترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لئے نشان ہو۔ ٭ پس ہر ایک کو چا ہیئے کہ اس سے انکار کرنے میں جلدی نہ کرے
یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ ظاہر پرستی اور روح اور حقیقت سے دُوری اور دیانت اور امانت سے محرومی اور سچائی اور اخلاقی پاکیزگی سے مہجوری اور لالچ اور بُخل اور حُبّ ِ دنیا سے معموری اس زمانہ میں عام طور پر ایسی ہی پھیل گئی ہے کہ جیسے حضرت مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ پس جیسے یہودی لوگ اُس زمانہ میں بکلّی حقیقی نیکی سے بے خبر ہو گئے تھے۔ صرف رسوم اور عادات کو نیکی سمجھتے تھے اور علاوہ اس کے دیانت اور امانت اور اندرونی صفائی اور عدالت اُن میںسے بالکل اٹھ گئی تھی۔ سچی ہمدردی اور سچے رحم کا نام و نشان نہیں رہا تھا اور انواع واقسام کی مخلوق پرستی نے معبود حقیقی کی جگہ لے لی تھی۔ ایسا ہی اس زمانہ میں یہ تمام بلائیں ظہور میں آگئی ہیں۔ حلال چیزوں کو شکر اور مشکورانہ فروتنی کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاتا۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 9
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 9
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تا خد ا تعالیٰ سے لڑنے والا نہ ٹھہرے۔ دنیا کے لوگ جو تاریک خیال اور اپنے پُرانے تصوّرات پر جمے ہوئے ہیں وہ اس کو قبول نہیں کریں گے مگر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جو اُن کی غلطی اُن پر ظاہر کردے گا۔ ” دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دیگا۔“ یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور ربِّ جلیل کا کلا م ہے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اُن حملوں کے دن نزدیک ہیں۔ مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اترے گی اور یہودیوں سے سخت لڑائی ہوگی۔ وہ کون ہیں ؟ اس زمانہ کے ظاہر پرست لوگ جنہوں نے بالا تفاق یہودیوں کے قدم پر قدم رکھا ہے اُن
حرام کے ارتکاب سے کو ئی کراہت اور نفرت باقی نہیں رہی خدا تعالیٰ کے بزرگ حکم تاویلوں کے ساتھ ٹال دئے جاتے ہیں۔ ہمارے اکثر علماءبھی اُس وقت کے فقیہوں اور فریسیوں سے کم نہیں۔ مچھر چھانتے اور اونٹ کو نگل جاتے ہیں۔آسمان کی بادشاہت لوگوں کے آگے بندکرتے ہیں نہ تو آپ اس میں جاتے ہیں اور نہ جانے والوں کو جانے دیتے ہیں۔ لمبی چوڑی نمازیں پڑھتے ہیں مگرمیں اُس معبود حقیقی کی محبت ا ورعظمت نہیں۔ منبروں پر بیٹھ کر بڑی رقّت آمیز وعظ کرتے ہیں مگر اُن کے اندرونی کام اَور ہی ہیں۔عجیب ہیں اُن کی آنکھیں کہ باوجود اُن کے دلوں کی سرکشی اور مفسدانہ ارادوں کے رونے کا بہت ملکہ رکھتی ہیں۔ اور عجیب ہیں انکی زبانیں کہ باوجود سخت بیگانہ ہونے دلوں کے آشنائی کا دم بھرتی ہیں۔ اسی طرح یہودیت کی خصلتیں ہر طرف پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔تقویٰ اور خدا ترسی میں بڑا فرق آگیا ہے۔ ایمانی کمزوری نے الٰہی محبت کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔ دنیا کی محبت میں لوگ دبے جاتے ہیں اورضرور تھا کہ ایساہی ہوتا کیونکہ حضرت عالی سیّدنا و مولانا صلی اللہ علیہ وسلم بطور پیشگوئی فرماچکے ہیں کہ” اس اُمّت پر ایک زمانہ آنیوالا ہے جس میں وہ یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلیگی اور وہ سارے کام کردکھائے گی جو یہودی کرچکے ہیںیہاں تک کہ اگر یہودی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 10
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 10
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سب کو آسمانی سیف اللہ دو ٹکڑے کرے گی اور یہودیّت کی خصلت مٹا دی جائے گی اور ہر ایک حق پوش دجّال دنیا پرست یک چشم جو دین کی آنکھ نہیں رکھتا ُحجت قاطعہ کی تلوار سے قتل کیا جائے گااور سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اُ س تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے ؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر
چوہے کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو وہ بھی داخل ہوگی۔ تب فارس کی اصل میں سے ایک ایمان کی تعلیم دینے والا پیدا ہوگا۔ اگر ایمان ثریّا میں معلّق ہوتا تو وہ اُسے اُس جگہ سے بھی پالیتا“۔ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جس کی حقیقت الہامِ الٰہی نے اس عاجز پر کھول دی اور تصریح سے اسکی کیفیت ظاہر کر دی اور مجھ پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ سے کھول دیا کہ حضرت مسیح ابن مریم بھی در حقیقت ایک ایمان کی تعلیم دینے والاتھا جو حضرت موسیٰ سے چودہ ۰۰۴۱ سو برس بعد پیدا ہوا۔ اس زمانہ میں جبکہ یہودیوں کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہو گئی تھی اور وہ بوجہ کمزوری ایمان کے اُن تمام خرابیوں میں پھنس گئے تھے جو در حقیقت بے ایمانی کی شاخیں ہیں۔ پس جبکہ اس اُمت کو بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عہد پر چودہ ۰۰۴۱ سو برس کے قریب مدّت گزری تو وہی آفات اِن میں بھی بکثرت پیدا ہو گئیں جو یہودیوں میں پیدا ہوئی تھیں تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو اُن کے حق میں کی گئی تھی۔ پس خدا تعالیٰ نے اِن کے لئے بھی ایک ایمان کی تعلیم دینے والا مثیل مسیح اپنی قدرت کاملہ سے بھیج دیا۔ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔ جس کسی کے کان سُننے کے ہوں سُنے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور لوگوں کی نظر میں عجیب۔ اور اگر کوئی اس امر کی تکذیب کرے تو پہلے راستبازوں کی بھی تکذیب ہوچکی ہے۔یو حنا یعنی یحییٰ کو
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 11
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 11
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اَب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ مہم عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے
موثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اُس حکیم وقدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے
جو زکریا کا بیٹا تھا یہودیوں نے ہر گز قبول نہیں کیا حالانکہ مسیح نے اس کے بارے میں شہادت دی کہ یہ وہی ہے جو آسمان پر اُٹھایا گیا تھا جس کے پھر آسمان سے اُترنے کا پاک نوشتوں میں وعدہ تھا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ استعاروں سے کام لیتا ہے اور طبع اور خاصیّت اور استعداد کے لحاظ سے ایک کا نام دوسرے پر وارد کر دیتا ہے۔ جو ابراہیم کے دل کے موافق دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیم ہے اور جو عمر فاروق کا دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عمر فاروق ہے۔ کیا تم یہ حدیث پڑھتے نہیں کہ اگر اس اُمت میں بھی محدّث ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے تو وہ عمر ہے۔ اب کیا اِس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ محدثیّت حضرت عمر پر ختم ہو گئی۔ ہر گز نہیں۔ بلکہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ جس شخص کی روحانی حالت عمر کی روحانی حالت کے موافق ہو گئی وہی ضرورت کے وقت پر محدّث ہوگا۔ چنانچہ اس عاجزکو بھی ایک مرتبہ اِس بارے میں الہام ہوا تھا فِی ±کَ مَادَة µ فَارُو ±قِیّة µ۔ سو اس عاجز کو اور بزرگوں کی فطرتی مشابہت سے علاوہ جس کی تفصیل براہین احمدیہ میں بہ بسط تمام مندرج ہے حضرت مسیح کی فطرت سے ایک خاص مشابہت ہے اوراسی فطرتی مشابہت کی وجہ سے مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اُترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔ جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کریگا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چُپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رُکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور اُنکے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دئے گئے ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 12
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 12
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا۔ چنانچہ منجملہ ا ن شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اِس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صر ف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں اور انسانی تکلّف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کر دیئے گئے۔
شاید کوئی بے خبر اس حیرت میں پڑے کہ فرشتوں کا اُترنا کیا معنی رکھتا ہے۔ سو واضح ہو کہ عادت اللہ اِس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدّث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اُترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اُترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوںمیں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اُترتے رہتے ہیں جب تک کفرو ضلالت کی ظلمت دُور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح صادق نمودار ہو جیسا کہ اللہ جلّشانہ ¾ فرماتاہے ۔ ۱ سو ملائکہ اور روح القدس کا تنزّل یعنی آسمان سے اُترنا اُسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعتِ خلافت پہن کراور کلامِ اِلٰہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے روح القدس خاص طور اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تما م دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں۔ تب دنیا میں جہاں جہاں جوہر قابل پائے جاتے ہیںسب پر اُس نور کا پر تَو ہ پڑ تا ہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخوددلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سیدھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مُدّعااور مقصد کو مدد دیتی ہے ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خودبخود لوگ صلاحیت کی طرف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے۔ تب ناسمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخود راستی کی طرف
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 13
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 13
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دوسری شاخ اس کارخانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکمِ الٰہی اتمامِ حجّت کی غرض سے جاری ہے اور اب تک بیس ۰۲ ہزار سے کچھ زیادہ اشتہارات اسلامی حجّتوں کو غیر قوموں پر پورا کرنے کے لئے شائع ہو چکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔
پلٹا کھایا ہے لیکن درحقیقت یہ کام اُن فرشتوں کاہوتا ہے کہ جو خلیفة اللہ کے ساتھ آسمان سے اُترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں۔ سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیتے ہیں اور مستوں کو ہشیار کرتے ہیں اور بہروں کے کان کھولتے ہیں اور مُردوں میں زندگی کی رُوح پُھونکتے ہیں اور اُن کو جو قبروں میں ہیں باہر نکال لاتے ہیں۔ تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور اُن کے دلوں پر وہ باتیں کُھلنے لگتی ہیں جو پہلے مخفی تھیں۔ اور درحقیقت یہ فرشتے خلیفة اللہ سے الگ نہیں ہوتے اُسی کے چہرہ کا نور اور اُسی کی ہمّت کے آثارِ َجلِیّہ ہوتے ہیں جو اپنی قوتِ مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طور پر نزدیک ہو یا دُور ہو اور خواہ آشنا ہو یا بکلّی بیگانہ اور نام تک بے خبر ہو۔غرض اُس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خوا وہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں درحقیقت انہیں فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفة اللہ کے ساتھ اُترتے ہیں ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ یہ الٰہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیںپاﺅ گے اور بہت صاف اور سریع الفہم ہے۔ اور تمہاری بد قسمتی ہے اگر تم اس پر غور نہ کرو۔ چونکہ یہ عاجز راستی اور سچائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اس لئے تم صداقت کے نشان ہریک طرف سے پاﺅ گے۔ وہ وقت دور نہیں بلکہ بہت قریب ہے کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اُترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھوگے۔یہ تم قرآن شریف سے معلوم کر چکے ہو کہ خلیفة اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 14
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 14
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرّقہ سے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کار خانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیّتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں۔ یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ۰ ۶ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے۔
نازل ہونا ضروری ہے تا دلوں کو حق کی طرف پھیریں سو تم اس نشان کے منتظر رہو۔ اگر فرشتوں کا نزول نہ ہوا اور اُن کے اُترنے کی نمایاں تاثیریں تم نے دنیا میں نہ دیکھیں اور حق کی طرف دلوںکی جنبش کو معمول سے زیادہ نہ پایا تو تم نے یہ سمجھنا کہ آسمان سے کوئی نازل نہیں ہوا۔ لیکن اگر یہ سب باتیں ظہور میں آگئیں تو تم انکار سے باز آو ¿ تا تم خدا تعالیٰ کے نزدیک سر کش قوم نہ ٹھہرو۔
دوسرا نشان یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو اُن نوروں سے خاص کیا ہے جو برگزیدہ بندوں کو ملتے ہیں جن کا دوسرے لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پس اگر تم کو شک ہو تو مقابلہ کے لئے آو ¿ اور یقینا سمجھو کہ تم ہر گز مقابلہ نہیں کر سکو گے۔ تمہارے پاس زبانیں ہیں مگر دل نہیں۔ جسم ہے مگر جان نہیں۔ آنکھوں کی پُتلی ہے مگر اُس میں نور نہیں۔ خدا تعالیٰ تمہیں نور بخشے تا تم دیکھ لو۔
تیسرا نشان یہ ہے کہ وہ بر گزیدہ نبی جس پر تم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو اس پاک نبی علیہ السلام نے اس عاجز کے بارے میں لکھا ہے جو تمہاری صحاح میں موجود ہے جس پر آج تک تم نے کبھی غور نہیں کی۔ سو تم دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہانی دشمن ہو کہ اُن کی تصدیق کے لئے نہیں بلکہ تکذیب کے لئے فکر کر رہے ہو۔ اب بہتیرے تم میں سے کفر کا فتویٰ لکھیں گے اور اگر ممکن ہوتا تو قتل کردیتے۔ لیکن یہ حکومت اس قوم کی حکومت نہیں جو اشتعال میں بہت زیادہ اور سمجھنے میں بہت نالائق اور اخلاقی بُردباری سے بہت پیچھے رہی ہو اور یہودیت کی رُوح کو زندہ کر کے دکھلارہی ہو۔ یہ حکومت اگرچہ ایمانی فضیلتوں اور برکتوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھتی تا ہم ہیرو ڈیس کے عہد حکومت سے جس کے ساتھ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 15
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 15
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور اُن کی کمزوری کو دور کر دیا گیا اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ زبانی تقریریں جو سائلین کے سوالات کے جواب میں کی گئیں یا کی جاتی ہیں یا اپنی طرف سے محل اور موقعہ کے مناسب کچھ بیان کیا جاتا ہے یہ طریق بعض صورتوں میں تالیفات کی نسبت نہایت مفید اورمو ¿ ثر اور جلد تر دلوں میں بیٹھنے والا ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام نبی اس طریق کو ملحوظ رکھتے رہے ہیں اور بجُز خدا تعالیٰ کے کلام کے جوخاص طور پر بلکہ قلم بند ہو کر شائع کیا گیا باقی جس قدر مقالات انبیاءہیںوہ اپنے اپنے محل پر تقریروں کی طرح پھیلتے رہے ہیں۔ عام قاعدہ
حضرت مسیح ابن مریم کا معاملہ پڑا تھا بدرجہا بہتر اور حال کی ا سلامی ریا ستوں سے بلحاظ امن اور عام رفاہیت کے پھیلانے اور آزادی بخشنے اور حفاظت اور تربیت رعایا اور انتظام قانون معدلت اور سرکوبی مجرموں کے بمراتب افضل ہے۔ خدا تعالیٰ کی عمیق حکمت نے جیسا کہ مسیح کو یہودیوں کے ایام حکومت میں اور اُن کی گورنمنٹ کے ماتحت مبعوث نہیں فرمایا تھا۔ ایسا ہی اس عاجز کی نسبت بھی یہی مصلحت مرعی رکھی گئی تاسمجھنے والوں کے لئے نشان ہو۔ اگر زمانہ حال کے منکر میرے ساتھ باستہزاءپیش آویں تو افسوس کا مقام نہیں۔ کیونکہ ان سے پہلے جو گزرے ہیں انہوں نے اِن سے بد تر اپنے وقت کے نبیوں کے ساتھ سلوک کیا مسیح سے بھی بہت مرتبہ ہنسی ٹھٹھا ہوا۔ ایک دفعہ بھائیوں نے ہی جو ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے چاہا کہ اس کو دیوانہ قرار دے کر قید خانہ میں مقیّد کرادیں۔ اور بیگانوں نے تو کئی دفعہ اُس کو جان سے مار دینے کا ارادہ کیا اور اُس پر پتھر چلائے اور نہایت تحقیر کی نظر سے اُس کے مُنہ پر ُتھوکا۔ بلکہ ایک دفعہ اس کو اپنے زعم میں صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا۔ مگر چونکہ ہڈی نہیں توڑی گئی تھی اس لئے وہ ایک خوش اعتقاد اور نیک آدمی کی حمایت سے بچ گیا اور بقیہ ایامِ زندگی بسر کر کے آسمان کی طرف اُٹھایا گیا۔ مسیح کے ارادت مندوں اور دن رات کے دوستوں اور رفیقوں نے بھی لغزش کھائی۔ ایک نے تیس روپے رشوت لے کر اس کو پکڑوا دیا اور ایک نے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 16
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 16
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/16/mode/1up
نبیوں کا یہی تھا کہ محل شناس لیکچرار کی طرح ضرورتوں کے وقتوں میں مختلف مجالس اور محافل میں اُن کے حال کے مطابق روح سے قوّت پا کر تقریر کرتے تھے۔ مگر نہ اِس زمانہ کے متکلّموں کی طرح کہ جن کو اپنی تقریر سے فقط اپنا علمی سرمایہ دکھلانا منظور ہوتا ہے۔ یا یہ غرض ہوتی ہے کہ اپنی جھوٹی منطق اور سو فسطائی حُجّتوں سے کسی سادہ لوح کو اپنے پیچ میں لاویں اور پھر اپنے سے زیادہ جہنّم کے لائق کریںبلکہ انبیاءنہایت سادگی سے کلام کرتے اور جو اپنے دل سے اُبلتا تھا وہ دوسروں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔اُن کے کلمات قدسیّہ عین محل اور حاجت کے وقت پر ہوتے تھے اور مخا طبین کو شغل یا افسانہ کی طرح کچھ نہیں سُناتے تھے بلکہ اُن کو بیمار دیکھ کر اور طرح طرح کے آفات ِ روحانی میں مبتلا پا کر علاج کے طور پر اُن کو نصیحتیں کرتے تھے یا حُججِ قاطعہ سے اُن کے اوہام کو رفع فرماتے تھے۔ اور اُن کی گفتگو میں الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے تھے۔ سو یہی قاعدہ یہ عاجز ملحوظ رکھتا ہے اور وار دین اور صادرین کی استعداد کے موافق اور اُن کی
اس کے سامنے اس کی طرف اشارہ کر کے اُس پرلعنت کی اور باقی حواری جو بڑی دوستی کادم بھرتے تھے بھاگ گئے اوراپنے دلوں میں مسیح کی نسبت کئی طرح کے شک انہوں نے پیدا کر لئے۔ لیکن چونکہ وہ راستباز تھا اس لئے خدا نے پھر اس کے کارخانہ کو مرنے کے بعد زندہ کیا۔ مسیح کی دوبارہ زندگی جو عیسائیوں کے خیال میں جمی ہوئی ہے درحقیقت یہ اس کے مذہب کی زندگی کی طرف اشارہ ہے جو مرنے کے بعد پھر زندہ کیا گیا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بشارت دی کہ موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا۔ اور فرمایا کہ جو لوگ خدا کے مقرب ہیں وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجایا کرتے ہیں اور فرمایا کہ میں اپنی چمکار دکھلاو ¿ں گا اور اپنی قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاو ¿ں گا۔ پس میری اس دوبارہ زندگی سے مراد بھی میرے مقاصد کی زندگی ہے مگر کم ہیں وہ لوگ جو ان بھیدوں کو سمجھتے ہیں۔ فقط منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 17
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 17
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/17/mode/1up
ضرورتوں کے لحاظ سے اور اُن کے امراض لاحقہ کے خیال سے ہمیشہ باب ِ تقریر کھلا رہتا ہے٭کیونکہ بُرائی کو نشانہ کے طور پردیکھ کر اس کے روکنے کے لئے نصائح ضروریہ کی تیر اندازی کرنا اور بگڑے ہوئے اخلاق کو ایسے عضو کی طرح پا کر جو اپنے محل سے ٹل گیا ہو اپنی حقیقی صورت اور محل پر لانا جیسے یہ علاج بیمار کے رُوبرو ہونے کی حالت میں متصوّر ہے اور کسی حالت میں کماحقّہ ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے چندیں ہزار نبی اور رسول بھیجے اور انکی شرفِ صحبت میں مشرّف ہونے کا حکم دیاتا ہر ایک زمانہ کے لوگ چشم دید نمونوں کو پا کر اور ان کے وجود کو
اس جگہ یہ عجیب قصہ لکھنے کے لائق ہے کہ ایک دفعہ مجھے علیگڑھ میں جانے کا اتفاق ہوا اور مرض ضعف دماغ کی وجہ سے جس کا قادیان میں بھی کچھ مدت پہلے دورہ ہو چکا تھا میں اس لائق نہیں تھا کہ زیادہ گفتگویا اور کوئی دماغی محنت کا کام کر سکتا اور ابھی میری یہی حالت ہے کہ میں زیادہ بات کرنی یا حد سے زیادہ فکر اور خوض کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں علیگڑھ کے ایک مولوی صاحب محمد اسمٰعیل نام مجھ سے ملے اور انہوں نے نہایت انکساری سے وعظ کے لئے درخواست کی اور کہا کہ لوگ مدت سے آپکے شایق ہیں۔ بہتر ہے کہ سب لوگ ایک مکان میں جمع ہوں اور آپ کچھ وعظ فرماویں۔ چونکہ مجھے ہمیشہ سے یہی عشق اور یہی دلی خواہش ہے کہ حق باتوں کو لوگوں پر ظاہر کروں اس لئے میں نے اس درخواست کو بشوق دل قبول کیا اور چاہا کہ لوگوں کے عام مجمع میں اسلام کی حقیقت بیان کروںکہ اسلام کیا چیز ہے اور اب لوگ اُس کو کیاسمجھ رہے ہیں اور مولوی صاحب کو کہا بھی گیا کہ انشاءاللہ اسلام کی حقیقت بیان کی جائیگی۔ لیکن بعد اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے روکا گیا۔مجھے یقین ہے کہ چونکہ میری صحت کی حالت اچھی نہیں تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ زیادہ مغز خواری کر کے کسی جسمانی بلامیں پڑوں اس لئے اُس نے وعظ کرنے سے مجھے روک دیا۔ایک دفعہ اس سے پہلے بھی ایسا ہی اتفاق ہوا تھا کہ میری ضعف کی حالت میں ایک نبی گزشتہ نبیوں میں سے کشفی طور پر مجھ کو ملے اور مجھے بطور ہمدردی اور نصیحت
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 18
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 18
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/18/mode/1up
مجسم کلام الٰہی مشاہدہ کر کے اُن کی اقتدا کے لئے کوشش کریں۔ اگر صحبت صادقین میں رہنا واجبات دین میں سے نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اپنے کلام کو بغیر بھیجنے رسولوں اور نبیوں کے اور طور پر بھی نازل کر سکتا تھا یا صرف ابتدائی زمانہ میں ہی رسالت کے امر کو محدود رکھتا اور آئندہ ہمیشہ کے لئے سلسلہ ¿ نبوّت اور رسالت اور وحی کا منقطع کر دیتا لیکن خدا تعالیٰ کی عمیق حکمت اور دانائی نے ہر گز ایسا منظور نہیں رکھا اور ضرورت کے وقتوں میں یعنی جب کبھی محبت الٰہی اور خدا پرستی اور تقویٰ طہارت وغیرہ امور واجبہ میں فرق آتا رہاہے مقدس لوگ خدا تعالیٰ سے
ے کہا کہ اس قدر دماغی محنت کیوں کرتے ہو اس سے تو تم بیمار ہوجاو گے¿
بہر حال خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک روک تھی جس کا مولوی صاحب کی خدمت میں عذر کر دیا گیا اور یہ عذر واقعی سچا تھا۔ جن لوگوں نے میری اس بیماری کے سخت سخت دورے دیکھے ہیں اور کثرت گفتگو یا خوض و فکر کے بعد بہت جلد اس بیماری کا برانگیختہ ہونا بچشم خود مشاہدہ کیا ہے وہ اگرچہ بباعث ناواقفیت میرے الہامات پر یقین نہ رکھتے ہوں لیکن ان کو اس بات پر بکلّی یقین ہو گاکہ مجھے فی الواقعہ یہی مرض لاحق حال ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین خان صاحب جو لاہور کے آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں اور اب تک میرا علاج کرتے ہیں اُن کی طرف سے ہمیشہ یہی تاکید ہے کہ دماغی محنتوں سے تا قیام مرض بچنا چاہی ¿ے اور ڈاکٹر موصوف میری اس حالت کے شاہد اوّل ہیں اور میرے اکثر دوست جیسے اخویم مولوی حکیم نوردین صاحب طبیب ریاست جموں جو ہمیشہ میری ہمدردی میں بدل وجان ومال مشغول ہیں اور منشی عبدالحق صاحب اکونٹنٹ جو خاص لاہور میں سکونت اور تعلق ملازمت رکھتے ہیں جنھوں نے میری اس بیماری کے دنوں میں خدمت کا وہ حق ادا کیا جس کا بیان میری طاقت سے باہر ہے۔یہ سب میرے مخلص میری اس حالت کے گواہ ہیں مگر افسوس کہ باوجودیکہ ہر ایک مومن حسن ظن کے لئے مامور ہے مولوی صاحب نے میرے اس عذر کو نیک ظنی سے دل میںجگہ نہیں دی بلکہ غایت درجہ کی بد گمانی کر کے دروغگوئی پر حمل کیا چنانچہ اُن کی ساری وہ تقریر جس کو ایک ڈاکٹر جمال الدین نام اُن کے دوست نے انکی اجازت سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 19
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 19
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/19/mode/1up
وحی پا کر نمونہ کے طور پر دنیا میں آتے رہے ہیں اور یہ دونوں قضئے باہم لازم ملزوم ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کو ہمیشہ کے لیے اصلاحِ خلائق کی طرف توجہ ہے تو یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ایسے لوگ بھی ہمیشہ کی لئے آتے رہیں کہ جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص توجہ سے بینائی بخشی ہو اور اپنی مرضیات کی راہ پرثابت قدم کیا ہو۔ بلاشبہ یہ بات یقینی اور امور مسلّمہ میں سے ہے کہ یہ مہم عظیم اصلاح خلائق کی صرف کاغذوں کے گھوڑے دوڑانے سے روبراہ نہیں ہو سکتی۔ اسکے لئے اِ سی راہ پر قدم مارنا ضروری ہے جس پر قدیم سے خدا تعالیٰ کے پاک نبی مارتے رہے ہیں۔ اور اسلام نے
تحریر کر کے لوگوں میںپھیلایا۔ ذیل میں معہ اس کے جواب کے لکھتا ہوں۔
قولہ میں نے اُن سے (یعنی اس عاجز سے بمقام علیگڑھ )کہا کہ کل جمعہ ہے وعظ فرمائیے۔ اس کا انہوں نے وعدہ بھی کیا مگر صبح کو رقعہ آیا کہ میں بذریعہ الہام وعظ کہنے سے منع کیا گیا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ بہ سبب عجز بیانی و خوف امتحانی انکار کر دیا۔
اقول مولوی صاحب کا یہ خیال بجُز بد گمانی کے جو سخت ممنوعات شرعیہ میں سے ہے اور نیک سرشت آدمیوں کا کام نہیں اور کوئی اصلیّت اور حقیقت نہیں رکھتا۔ اگر میں صرف علیگڑھ میں آکر خاص اسی موقعہ پر الہام کا مدعی بنتا توبےشک بد ظنّی کرنے کے لئے ایک وجہ ہو سکتی تھی اور بے شک خیال کیا جاسکتا تھاکہ میں مولوی صاحب کے علمی مرتبہ کی علوّ شان دیکھ کر اور اُن کے کمالات کی عظمت اور ہیبت سےمتاثر ہو کر گھبرا گیا اور عذر پیش کرنے اور ایک حیلہ تراشنے سے اپنا پیچھا چھڑایا لیکن میں تو اس دعوئے الہام کو علیگڑھ کے سفر سے چھ سات سال پہلے تمام ملک میں شائع کر چکا ہو ں اور براہین احمدیہ کے اکثر مقامات اس سے پُر ہیں۔ اگر میں تقریر کرنے سے عاجز ہوتا تو وہ کتابیں جو میری طرف سے تقریری طور پر عین مجلس میں اور ہزارہا موافقین اور مخالفین کے جلسہ میں قلمبند ہو کر شائع ہوئی ہیں جیسے ُسرمہ چشم آریہ وہ کیوں کر میری ایسی ضعیف قوت ناطقہ سے نکل سکتی تھیں اور کیوں کر میرا عالی شان سلسلہ زبانی تقریروں کا جس میں ہزاروں مختلف طبع اور استعداد آدمیوں کےساتھ ہمیشہ مغز خواری کرنی
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 20
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 20
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/20/mode/1up
اپناقدم رکھتے ہی اس موثر طریق کو ایسی مضبوطی اور استحکام سے رواج دیا ہے کہ اُس کی نظیر دوسرے مذہبوں میں ہر گز نہیں پائی جاتی۔ کون اس جماعت کثیر کا دوسری جگہ وجود دکھلا سکتا ہے جو تعداد میں دس ہزار سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی اور کمال اعتقاد اور انکسار ااور جانفشانی اور پوری محویّت سے سچائی کے حاصل کرنے اور راستی کے سیکھنے کے لئے آستانہ نبوی پر دن رات پڑی رہتی تھی بے شک حضرت موسیٰ کو بھی ایک جماعت ملی تھی مگر وہ کیسی اور کس قدر سر کش اور متمرّد اور روحانی صحبت اور صدق قدم سے دُور اورمہجور رہنے والی تھی اس بات کو بائبل کے پڑھنے والے
پڑتی ہے آج تک چل سکتا۔ افسوس ہزار افسوس اس زمانہ کے اکثر مولویوں پر کہ آتش حسد اندر ہی اندراُن کو کھا گئی ہے۔ لوگوں کو تو ایمانی خصائل اور برادرانہ برتاو ¿ اور باہم نیک ظنّی کا ہمیشہ سبق دیتے ہیں اور منبروں پر چڑھ کراس بارے میں کلام الٰہی کی آیات سُناتے ہیں مگر آپ ان حکموں کو چُھوتے بھی نہیں۔ اے حضرت خدا تعالیٰ آپ کی آنکھ کھولے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے کسی ملہم بندہ کو کسی مصلحت کی وجہ سے ایک کام کرنے سے روک دیوے اور شاید اس روک کا دوسرا سبب یہ بھی ہوگاکہ تا آپ کی اندرونی خاصیّتوں کا امتحان ہو جائے اور جو لوگ آپ کے ہمرنگ اور آپ کے ہم ظرف ہیں اُن کے مواد خبیثہ بھی اس تقریب سے باہر نکل آویں۔ رہی یہ بات کہ آپکی عالمانہ عظمت اور ہیبت سے میں ڈر گیا تو اس کے جواب میں آپ یقینا سمجھیں کہ جو لوگ تاریکی اور نفسانی ظلمتوں میں مبتلا ہیں اگر وہ دنیا کے تمام فلسفہ اور طبعی کے جامع بھی ہوں تب بھی میری نگاہ میں ایک مرے ہوئے کیڑے سے ان کی زیادہ وُقعت نہیں۔ مگر آپ اُس مرتبہ علم کے آدمی بھی نہیں۔ صرف پورانے خیالات کے ایک خشک مُلّا ہیں اور وہی کمینگی جو تاریک خیال مُلّاو ¿ں میں ہوا کرتی ہے آپ کے اندر موجود ہے۔ اور آپ کو یاد رہے کہ اکثر میرے پاس ایسے محقق اور جامع فنون اور معلومات وسیع رکھنے والے آتے اور اسرار معارف سے فائدہ اُٹھاتے رہتے ہیں کہ اگر میں اُن کے مقابل پر آپکو طفل مکتب بھی کہوں تو اسقدر کلمہ سے بھی آپکو وہ عزّت دُوں گا جس کے آپ مستحق نہیں۔
اب بھی اگر آپ کی قوت واہمہ فرو ہونے میں نہ آوے اور بد ظنی کے جذبات کم نہ ہوں تو پھر میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 21
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 21
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/21/mode/1up
اور یہودیوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے والے خوب جانتے ہیں مگر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے اپنے رسول مقبول کی راہ میں ایسا اتحاد اور ایسی روحانی یگانگت پیدا کر لی تھی کہ اسلامی اخوت کی رُو سے سچ مچ عضو واحد کی طرح ہو گئی تھی اور اُن کے روزانہ برتاﺅ اور زندگی اور ظاہر و باطن میں انوارِ نبوّت ایسے رَچ گئے تھے کہ گویا وہ سب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی عکسی تصویریں تھے۔ سو یہ بھاری معجزہ اندرونی تبدیلی کا جس کے ذریعہ فحش بُت پرستی کرنے والے کامل خدا پرستی تک پہنچ گئے اور ہر دم دنیا میں غرق رہنے والے محبوب حقیقی سے ایسا تعلق پکڑ گئے کہ اس کی راہ میں
خدا تعالیٰ کی مدد اور رحمت سے آپ کے مقابل پر تقریر کرنے کو بھی حاضر ہوں۔ میں بباعث بیماری اب کوئی سفر دور دراز تو نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر آپ راضی ہوں تو اپنے کرایہ سے لاہور جیسے پنجاب کے صدر مقام میں آپ کو اس کام اور اس امتحان کے لئے تکلیف دے سکتا ہوں اور یہ عہد پختہ عزم سے کرتا ہوں ؟ اور آپ کے جواب کامنتظر ہوں۔
قولہ یہ شخص محض نالائق ہے علمی لیاقت نہیں رکھتا۔
اقول اے حضرت مجھے دنیا کی کسی حکمت اور دانائی کا دعویٰ نہیں۔ اس جہان کی دانائیوں اور چالاکیوں کو میں کیا کروں کہ وہ روح کو منور نہیں کر سکتیں۔ اندرونی غلاظتوں کو وہ دھو نہیں سکتیں۔ عجز اور خاکساری کو پیدا نہیں کر سکتیں بلکہ زنگ پر زنگ چڑ ھاتی اور کفر پر کفر بڑھاتی ہیں۔میرے لئے یہ بس ہے کہ عنایت الٰہی نے میری دستگیری کی اور وہ علم بخشا کہ مدارس سے نہیں بلکہ آسمانی معلّم سے ملتا ہے۔ اگر مجھے اُمّی کہا جائے تو اس میں میری کیا کسر شان ہے بلکہ جائے فخر۔کیونکہ میرا اور تمام خلق اللہ کا مقتدا جو عامہ خلائق کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا وہ بھی اُمّی ہی تھا۔ میں اس کھوپڑی کو ہرگز قدر کے لائق نہیں سمجھو ں گا جس میں علم کا گھمنڈ ہے مگر اس کا ظاہر و باطن تاریکی سے بھرا ہوا ہے۔ قرآن شریف کو کھول کر گدھے کی مثال پر غور کرو کیا یہ کافی نہیں؟
قولہ میں نے الہام کے بارے میں اس سے چند سوال کئے کسی قدر بے معنی جواب دیکر سکوت اختیار کیا۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 22
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 22
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/22/mode/1up
پانی کی طرح اپنے خونوں کو بہا دیا یہ دراصل ایک صادق اور کامل نبی کی صحبت میں مخلصانہ قدم سے عمر بسر کرنے کا نتیجہ تھا۔ سو اِسی بنا پر یہ عاجز اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صحبت میں رہنے والوں کا سِلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے اور ایسے لوگ دن رات صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین کے بڑھانے کے لیے شوق رکھتے ہوں اور اُن پر وہ انوار ظاہر ہوں کہ جو اس عاجز پر ظاہر کئے گئے ہیں اور وہ ذوق اُن کو عطا ہو جو اس عاجز کو عطا کیا گیا ہے تا اسلام کی روشنی عام طور پر دنیا میں پھیل جائے
اقول مجھے یاد ہے کہ بہت پُر معنی جواب دیا گیا تھا اور ایسے شخص کے لئے کہ جو کسی قدر عقل اور انصاف رکھتا ہو کافی تھا۔ مگر آپ نے نہ سمجھا اس میں کس کی پردہ دری ہے آپ کی یا کسی اور کی۔ وہی سوال کسی اخبار میںشائع کیجئے اور دوبارہ اپنی خوش فہمی کی آزمائش کرائیے۔
قولہ ہر گز یقین نہیں ہو سکتاکہ ایسی عمدہ تصانیف کے یہی حضرت مصنف ہیں۔
اقول آپ کیا یقین کریں گے یہ یقین تو اُن کفار کو بھی میسّر نہ آیا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بچشم خود دیکھا تھا اور بباعث سخت محجوب ہونے کے کمالات نبوی اُن پر نہ کھل سکے اور یہی کہتے رہے کہ یہ بلیغ کلمات جو اس کے مُنہ سے نکلتے ہیں اور یہ قرآن جو خلق اللہ کو سُنایا جاتا ہے یہ تمام عبارتیں درحقیقت بعض اور لوگوں کی تالیف ہیں جو پوشیدہ طور پر صبح اور شام اُس کو سکھلائے جاتے ہیں اور ایک طور سے اُن کفار نے بھی سچ کہا اور مولوی صاحب کے مُنہ سے بھی سچ ہی نکلا کیونکہ بلاشبہ قرآن شریف کا کلام بلاغت اور حکمت میں آنحضرت کی طاقت ذہنی سے بہت بلند بلکہ تمام مخلوقات کی طاقت سے برترو اعلیٰ ہے اور بجُز علیم مطلق اور قادر مطلق کے اور کسی سے وہ کلام بن نہیں سکتا۔ ایسا ہی وہ کتابیں جو اس عاجز نے تالیف کر کے شائع کی ہیں درحقیقت یہ تمام غیبی مدد کا نتیجہ ہے اور اس عاجز کی استعداد اور لیاقت سے بر تر اور شکر کا مقام ہے کہ مولوی صاحب کی اس نکتہ چینی سے ایک پیشگوئی بھی جو براہین احمدیہ میں درج ہے پوری ہوئی کہ بعض لوگ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 23
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 23
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/23/mode/1up
اور حقارت اور ذلّت کا سیہ داغ مسلمانوں کی پیشانی سے دھویا جائے۔ اِسی کی بشارت دیکر خداوند خدا نے مجھے بھیجا اور کہا کہ بخرام کہ وقت تونزدیک رسیدو پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم اُفتاد۔چوتھی شاخ اس کارخانہ کی وہ مکتوبات ہیں جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں۔ چنانچہ اب تک عرصہ مذکورہ بالا میں نوے۰۹ ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہوں گے جن کا جواب لکھا گیا بجز بعض خطوط کے جو فضول یا غیر ضروری سمجھے گئے اور یہ سلسلہ بھی بدستور
اس تالیف کوپڑھ کر کہیں گے کہ یہ کتاب اس شخص کی تالیف نہیں بل اعانہ علیہ قوم اٰخرون (دیکھو براہین احمدیہ کا صفحہ ۹۳۲)
قولہ سید احمد عرب جن کو میں ثقہ جانتا ہوں وہ مجھ سے بلا واسطہ بیان کرتے تھے کہ میں دو ماہ تک اُن کے پاس اُن کے معتقدین خاص کے زُمرہ میں رہا اور وقتاًً فوقتاًً بنظر تجسّس و امتحان ہر ایک وقت خاص پر حاضر رہ کر جانچا تو معلوم ہوا کہ درحقیقت اُن کے پاس آلاتِ نجوم موجود ہیں وہ اُن سے کام لیتے ہیں۔
اقول ۔ ۱ میری طرف سے درحقیقت یہی جواب ہے جو میں نے آیات رباّنی کے ذریعہ سے لکھ دیا اور مجھے ہر گز یاد نہیں کہ وہ سیّد احمد صاحب کون بزرگ تھے کہ جو دو ماہ تک میرے پاس رہے۔ اس بات کا بار ثبوت مولوی صاحب کے ذمہ ہے کہ اُن کو میرے روبرو پیش کریں تا پوچھا جائے کہ انہوں نے کن آلات کو مشاہدہ کیا تھا اور جبکہ میں ابھی تک زندہ موجود ہوں اس حالت میں مولوی صاحب دو ماہ تک آپ ہی رہ کر دیکھ لیں کسی دوسرے عربی یا عجمی کے توسط کی کیا ضرورت ہے۔
قولہ مجھے فقرات الہام پر غور کرنے سے ہر گز یقین نہیں آتا کہ وہ الہام ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 24
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 24
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/24/mode/1up
جاری ہے اور ہر ایک مہینے میں غالباً تین سو ۰۰۳ سے سات سو ۰۰۷ یا ہزار تک خطوط کی آمد ورفت کی نوبت پہنچتی ہے۔
پانچویں شاخ اس کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ نے اپنی خاص وحی اور الہام سے قائم کی مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ ہے۔ چنانچہ اُس نے اس سلسلہ کے قائم کرنے کے وقت مجھے فرمایا کہ زمین میں طوفانِ ضلالت برپا ہے تو اس طوفان کے وقت میںیہ کشتی طیار کر جو شخص اس کشتی میں سوا رہو گا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا اور جو
اقول اُن لوگوں کو بھی یقین نہیں آیا تھا جن کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فرعون کو یقین نہ آیا۔ یہودیوں کے فقیہوں فریسیوں کو یقین نہ آیا۔ ابو جہل ابو لہب کو یقین نہ آیا۔ مگر اُن کو آیا جو دل کے غریب اور نفس کے پاک تھے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
قولہ مدعی ہونا کرامات کے خلاف ہے اور یہ کہنا کہ جس کو انکار ہو آکر دیکھے یہ دعاوی باطلہ ہیں۔
اقول یہ باتیں انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف سے ہیں جس کو ہر ایک دعوےٰ پہنچتا ہے پھر کون حق پرست ان کو باطل کہہ سکتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ادّعا کسی فوق القدرت بات کا کوئی نبی بھی نہیں کر سکتا مگر کیا ایسا ادّعا بتوسط کسی نبی یا رسول یا محدّث کے خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی جائز نہیں۔
قولہ میں ملاقات کرنے سے بالکل بے عقیدہ ہوگیا ہوں میری رائے میں جو موحد اُن سے ملاقات کرے گااُن کا مُعتقد نہ رہے گا۔ نماز اُن کی اخیر وقت میں ہوتی ہے جماعت کے پابند نہیں۔
اقول مولوی صاحب کی بے عقیدگی کی تو مجھے پروا نہیں مگر اُن کے جھوٹ اور افترا اور غایت درجہ کی بد ظنیّوں پر سخت تعجب ہے۔ اے خداوند کریم اس اُمّت پر رحم کر جس کے رہنما اور
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 25
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 25
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/25/mode/1up
انکار میں رہے گا اس کے لئے موت درپیش ہے۔ اور فرمایا کہ جوشخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گااُس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا۔ اور اُس خداوند خدا نے مجھے بشارت دی کہ میں تجھے وفات دُوں گا اور اپنی طرف اُٹھا لوں گا مگر تیرے سچے متبعین اور محبیّن قیامت کے دن تک رہیں گے اور ہمیشہ منکرین پر اُنہیں غلبہ رہے گا۔
یہ پانچ طور کا سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا اگرچہ ایک سرسری نگاہ والا آدمی صرف تالیف کے سلسلہ کو ضروری سمجھے گا اور دوسری شاخوں کو غیر ضروری اور
ہادی اور سرپرست ایسے ایسے مولوی سمجھے گئے ہیں۔ اب ناظرین اس اعتراض پر بھی غور کریں جو بُخل اور حسد کے جوش سے مولوی صاحب کے مُنہ سے نکلا ظاہر ہے کہ یہ عاجز صرف چند روز تک مسافرانہ طور پر علیگڑھ میں ٹھہرا تھا اور جو کچھ مسافروں کے لئے شریعت اسلام نے رخصتیں عطاکی ہیں اوراُن سے دائمی طور پر انحراف کرنا ایک الحاد کا طریق قرار دیا ہے ان سب امور کی رعایت میرے لئے ایک ضروری امر تھا سو میں نے وہی کیا جو کرنا چاہیئے تھا۔ اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اُس چند روزہ اقامت کی حالت میں بعض دفعہ مسنون طور پر دو نمازوں کو جمع کر لیا ہے اور کبھی ظہر کے اخیر وقت پر ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو اکٹھی کر کے پڑھا ہے۔ مگر حضرات موحدین تو کبھی کبھی گھر میں بھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے ہیں اور بلا سفرِِ و مطرِِ پر عملدرآمد رہتا ہے۔ میں اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اِ ن چند دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے کا بکلّی التزام نہیں کیا مگر باوجود اپنی علالت طبع اور سفر کی حالت کے بکلی ترک بھی نہیں کیا۔ چنانچہ مولوی صاحب کو معلوم ہوگا کہ اُن کے پیچھے بھی جمعہ کی نماز پڑھی تھی جس کے ادا ہوجانے میں اب مجھے شک پڑ گیا ہے۔ یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ میں ہمیشہ اپنے سفر کے دنوں میں مسجدوں میں حاضرہونے سے کراہت ہی کرتا ہوں مگر معاذ اللہ اس کی وجہ کسل یا استخفاف احکام الٰہی نہیں۔ بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے ملک کی اکثر مساجد کا حال نہایت ابتر اور قابل افسوس ہو رہا ہے اگر ان مسجدوں میں جا کر آپ امامت کا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 26
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 26
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/26/mode/1up
فضول خیال کرے گا مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سب ضروری ہیں اور جس اصلاح کے لئے اُس نے ارادہ فرمایا ہے وہ اصلاح بجُزاستعمال اِ ن پانچوں طریقوں کے ظہور پذیر نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ یہ تمام کارو بار خدا تعالیٰ کی خاص امداد اور خاص فضل پر چھوڑا گیا ہے اور اس کے انجام پہنچانے کے لئے وہی کافی اور اُسی کے مبشّرانہ وعدے اطمینان بخش ہیں لیکن اُسی کے حکم اور تحریک سے مسلمانوں کو امداد کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کے تمام نبی جو گذر چکے ہیں مشکلات پیش آمدہ کے وقت پر توجہ دلاتے رہے ہیں سو اُسی توجہ دہی کی غرض سے کہتا ہوں
ارادہ کیا جائے تو وہ جو امامت کامنصب رکھتے ہیں از بس ناراض اور نیلے پیلے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر اُن کا اقتدا کیا جائے تو نماز کے ادا ہوجانے میں مجھے شبہ ہے کیونکہ علانیہ طور پر ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے امامت کاایک پیشہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ پانچ وقت جا کر نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دو کان ہے کہ ان وقتوں میں جا کر کھولتے ہیں اور اسی دوکان پر اُن کا اور اُن کے عیال کا گزارہ ہے چنانچہ اس پیشہ کے عزل و نصب کی حالت میں مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے اور مولوی صاحبان امامت کی ڈگری کرانے کے لئے اپیل در اپیل کرتے پھرتے ہیں۔ پس یہ امامت نہیں یہ تو حرا م خوری کا ایک مکروہ طریقہ ہے۔ کیا آپ بھی ایسے نفسانی پیچ میں پھنسے ہوئے نہیں۔ پھر کیوں کر کوئی شخص دیکھ بھال کر اپنا ایمان ضائع کرے۔مساجد میں منافقین کا جمع ہونا جو احادیث نبویہ میں آخری زمانہ کے حالات میں بیان کیا گیا ہے وہ پیشگوئی انہیں مُلاّصاحبوں سے متعلق ہے جو محراب میں کھڑے ہو کر زبان سے قرآن شریف پڑھتے ہیں اور دل میں روٹیاں گنتے ہیں۔اور میں نہیں جانتا کہ ظہراور عصر یا مغرب اور عشا کو سفر کی حالت میں جمع کرنا کب سے منع ہوگیا۔ اور کس نے تاخیر کی حُرمت کا فتویٰ دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ آپ کے نزدیک اپنے بھائی مردہ کا گوشت کھاناتو حلال ہے مگر سفر کی حالت میں ظہر اور عصر کو ایک جگہ پڑھنا قطعاََ حرام ہے۔ اتقوا اللّٰہ ایھا الموحدون فان الموت قریب واللّٰہ یعلم ما تکتمون۔ منہ۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 27
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 27
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/27/mode/1up
کہ یہ بات ظاہر ہے کہ اِن پنجگانہ شاخوں کے احسن طریق اور وسیع طورپر جاری رہنے کے لئے کس قدر مسلمانوں کی جمہوری امداد درکار ہے۔ مثلاً ایک تالیف کے ہی سلسلہ کو غور کر کے دیکھو کہ اگرہم پوری پوری اشاعت کی غرض سے اس خدمت کو اپنے ذمّہ لیں توا س کی تکمیل کے لئے کیا کچھ مالی وسائل کی ہمیں ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر درحقیقت تکمیل اشاعت ہی ہماری غرض ہے تو ہمارا مدعا یہ ہونا چاہیئے کہ ہماری دینی تالیفات جو جواہرات تحقیق اور تدقیق سے پُر اور حق کے طالبوں کو راہ راست پر کھینچنے والی ہیں جلدی سے اور نیز کژت سے ایسے لوگوں کو پہنچ جائیں جو بُری تعلیموں سے متاثر ہو کر مہلک بیماریوں میں گرفتار یا قریب قریب موت کے پہنچ گئے ہیں اور ہر وقت یہ امر ہماری مدّ ِ نظر رہنا چاہیئے کہ جس ملک کی موجودہ حالت ضلالت کے سمِّ قاتل سے نہایت خطرہ میں پڑ گئی ہو بلا توقف ہماری کتابیں اس ملک میں پھیل جائیں اور ہر ایک متلاشی حق کے ہاتھ میں وہ کتابیں نظر آویں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس مدعا کا بوجہ اکمل و اتم اس طور سے حاصل ہونا ہر گز ممکن نہیں کہ ہم ہمیشہ یہی امر پیش نہاد خاطر رکھیں کہ ہماری کتابیں فروخت کے ذریعہ سے شائع ہوتی رہیں۔اور محض فروخت کے طور پر کتابوں کو شائع کرنا اور نفسانی ملونی کیوجہ سے دین کو دنیا میں گھسیڑ دینا نہایت نکمّا اور قابل اعتراض طریق ہے جس کی شامت کی وجہ سے نہ ہم جلدی سے اپنی کتابیں دنیا میں پھیلا سکتے ہیںاور نہ کثرت سے وہ کتابیں لوگوں کودے سکتے ہیں۔ بلا شبہ یہ بات سچ اوربالکل سچ ہے کہ جس طرح ہم مثلاً ایک لاکھ کتاب کو مفت تقسیم کرنے کی حالت میں صرف بیس روز میں وہ سب کتابیں دُور دُور ملکوں میں پہنچا سکتے ہیں اور عام طور پر ہر ایک فرقہ میں اور ہر جگہ پھیلا سکتے ہیں اور ہر ایک حق کے طالب اور راستی کے متلاشی کو دے سکتے ہیں ایسی اور اس طرح کی اعلیٰ درجہ کی کارروائی قیمت پر دینے کی حالت میں شاید بیس برس کی مدت تک بھی ہم نہیں کر سکیں گے۔ فروخت کی حالت میں کتابوں کو صندوقوں میں بند کر کے ہم کو خریداروں کی راہ دیکھنا چاہیئے کہ کب کوئی آتا ہے یا خط بھیجتا ہے اور ممکن ہے کہ اس انتظار دراز کے زمانہ میں ہم آپ ہی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں اور کتابیں صندوقوں میں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 28
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 28
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/28/mode/1up
بند کی بند ہی رہیں ! سو چونکہ فروخت کا دائرہ نہایت تنگ اور اصل مدعا کا سخت حارج اور چند سال کے کام کو صد ہا برسوں پر ڈالتا ہے۔ اور مسلمانوں میں سے ایسا کوئی فراخ حوصلہ اور عالی ہمّت امیر بھی اب تک اس طرف متوجہ نہیں ہوا کہ ہماری تالیفاتِ جدیدہ کے بہت سے نسخے خرید کر کے محض للہ تقسیم کیا کرتا۔ اور اسلام میں عیسائی مشن کی طرح کوئی ایسی سوسائٹی بھی نہیں جو اس کام کے لئے مدد دے سکے ٭ اورعمرکا بھی اعتبار نہیں۔ تاہم لمبی عمر کی امید پر کسی دور دراز وقت کے منتظر رہیں۔ لہذا میں نے اپنی تمام تالیفات میں ابتدا سے التزامی طور پر یہی مقررکر رکھا ہے کہ جہاں تک بس چل سکتا ہے بہت سا حصہ کتابوں کا مفت تقسیم کر دیا جائے تاجلدی سے اور عام طور پر یہ کتابیں جو سچائی کے نُور سے بھری ہوئی ہیں دنیا میں پھیل جائیں۔ مگر چونکہ میری ذاتی مقدرت ایسی نہیں تھی کہ میں اس بارِ عظیم کو تن تنہا اُٹھا سکتا اور دوسری شاخوں کے مصارف عظیمہ بھی اس شاخ کے ساتھ لاحق تھے اس لئے یہ کام طبع تالیفات کا ایک حد تک چل کر آگے رُک گیا جو آج تک رُکا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کی تمام شاخوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا ہے اور بنظر مساوات ان سب کی تکمیل اور ان سب کا قیام چاہتا ہے لیکن ان پنجگانہ شاخوں کے مصارف اس قدر ہیں کہ جن کے لئے مخلصین کی خاص توجہ اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔ اگر مَیں اِن دینی مصارف کی مفصّل حقیقت لکھوں تو بہت طول ہو جائے گا۔ مگر اے بھائیو! تم نمونہ کے طور پر صرف واردین اور صادرین کے ہی سلسلہ پر نظر ڈال کردیکھو کہ اب تک سات سال کے عرصہ میں ساٹھ ہزار کے قریب یا اس سے کچھ زیادہ مہمان آیا ہے۔ اب تم اندازہ کر سکتے ہو
بیان کیا جاتا ہے کہ برٹش اور فارن بائبل سوسائٹی نے ابتدا قیام سے یعنی گذشتہ اکیس ۱۲ سال کے عرصہ میں عیسائی مذہب کی تائید میں سات کروڑ سے کچھ زیادہ اپنی مذہبی کتابیں تقسیم کر کے دنیا میں پھیلائی ہیں۔ اس وقت کے ذی مقدرت مگر کاہل مسلمانوں کو یہ مضمون جو اکتوبر اور نومبر ۰۹۸۱ئکے اخبارات میں چھپ کر شائع ہوا ہے بہ نظر غورو شرم پڑھنا چاہیئے۔ کیا یہ کتابیں بیچنے والوں کے ہاتھ سے شائع ہو ئی ہیں یا ایک قوم کی سر گرم سو سائٹی نے اپنے دین کی امداد میں مفت بانٹی ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 29
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 29
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/29/mode/1up
کہ ان عزیز مہما نوں کی خدمت اور دعوت اور ضیافت میں کیا کچھ خرچ ہوا ہو گا اور اُن کے سرما اور گرما کے آرام کے لئے ضروری طور پر کیا کچھ بنانا پڑا ہوگا۔ بے شک ایک دور اندیش آدمی تعجب میں پڑے گا کہ اس قدر گروہ کثیرکی مہمانداری کے تمام لوازم اور مراتب وقتاًفوقتاً کیوں کر انجام پذیر ہوئے ہوں گے اور آئندہ کس بنا پر ایسا بڑا کام جاری ہے۔ ایسا ہی وہ بیس ہزار اشتہار جو انگریزی اور اُردو میں چھاپے گئے۔ اور پھر بارہ ہزار سے کچھ زیادہ مخالفین کے سرگروہوں کے نام رجسٹری کراکر بھیجے گئے اور ملک ہند میں ایک بھی ایسا پادری نہ چھوڑا جس کے نام وہ رجسٹری شدہ اشتہار نہ بھیجے گئے ہوں۔ بلکہ یورپ اور امریکہ کے ممالک میں بھی یہ اشتہار ات بذریعہ رجسٹری بھیج کر حجت کو تمام کر دیا گیا۔ کیا اِن اخراجات پر غور کرنے سے یہ تعجب کا مقام نہیں کہ اس بضاعت مزجاة کے ساتھ کیوں کرتحمل اِن مصارف کا ہو رہا ہے اور یہ تو بڑے بڑے اخراجات ہیں۔اگر ان اخراجات کو ہی جانچا جائے کہ جو ہر مہینہ میں خطوط کے بھیجنے میں اُٹھانے پڑتے ہیں تو وہ بھی ایسی رقم کثیر نکلے گی جس کے مسلسل جاری رہنے کے لئے ابھی تک کوئی امدادی سبیل نہیں۔ اورجو لوگ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر حق کی طلب کی غرض سے اصحاب الصّفّہ کی طرح میرے پاس ٹھہرنا چاہتے ہیں اُن کے گزارہ کے لئے بھی مجھے آسمان کی طر ف نظر ہے اور میں جانتا ہوں کہ اِ ن پنجگانہ شاخوں کے قائم رکھنے کی سبیل آپ وہ قادر مطلق نکال دے گا جس کے ارادہ خاص سے اس کارخانہ کی بنا ہے مگر بنظر تبلیغ ضروری ہے کہ قوم کو اس سے مطلع کر دیں۔ میں نے سُنا ہے کہ بعض ناواقف یہ الزام میری نسبت شائع کرتے ہیں کہ کتاب براہین احمدیہ کی قیمت اورکسی قدر چندہ بھی قریب تین ہزار روپیہ کے لوگوں سے وصول ہوا۔ مگر اب تک کتاب بتمام وکمال طبع نہیں ہوئی۔ میں اِس کے جواب میں اُن پر واضح کرتا ہوں کہ روپیہ جو لوگوں سے وصول ہوا وہ صرف تین ہزار نہیں بلکہ علاوہ اس کے اور روپیہ بھی شاید قریب دس ۰۱ ہزار کے آیا ہوگاکہ جو نہ کتاب کے لئے چندہ تھا اور نہ کتاب کی قیمت میں دیا گیا تھا بلکہ بعض دعا کے خواستگاروں نے محض نذر کے طور پر دیا یا بعض
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 30
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 30
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/30/mode/1up
دوستوں نے محض محبت کی راہ سے خدمت کی۔ سو وہ سب اس کارخانہ کے لابدی اور پیش آمدہ کاموں میں وقتاًفوقتاًخرچ ہوتا رہا اور چونکہ حکمت الٰہی نے سلسلہ تالیف کتاب کو تاخیر میں ڈالا ہوا تھااِس واسطے اُس کے لئے دوسری اہم شاخوں سے جو بامرالٰہی قائم تھیں کچھ بچت نکل نہ سکی اور تاخیرطبع کتاب میں حکمت یہی تھی کہ تا اس فترت کی مدّت میں بعض دقائق و حقائق مولّف پر کامل طور سے کھل جائیں اور نیز مخالفین کا سارا بخار باہر نکل آوے۔ اَب جو ارادہ الٰہی پھر اس طرف متعلق ہوا کہ بقیہ تالیفات کی تکمیل ہو تو اُس نے اِس مضمون دعوت کے لکھنے کی طرف مجھے توجہ دی۔ سو اس وقت مجھ کو تکمیل تالیفات کی سخت ضرورت ہے۔ براہین کا بہت ساحصہ ہنوز طبع کے لائق ہے۔ اگر وہ طیا ر ہو جائے تو خریداروں کو اور اُن سب کو پہنچایا جائے جن کو محض للہ پہلے حصّے دیئے گئے ہیں اور آئندہ دینے کا وعدہ ہے۔ ایسا ہی دوسرے رسائل جیسے اَشعةُالقرآن ،سراج منیر، تجدید دین ، اربعین فی علامات المقربین اور قرآن شریف کی ایک تفسیر لکھنے کا بھی ارادہ ہے اور یہ بھی دل میں جوش ہے کہ عیسائی وغیرہ مذاہب باطلہ کے رد میں اور اُن کے اخبارات کے مقابل پر ماہواری ایک رسالہ نکلا کرے۔ اوران سب کاموں کے مسلسل اجراءکے لئے بجُز انتظام سرمایہ اور مالی امداد کے اور کوئی روک درمیان نہیں۔ اگر ہم کو یہ میسّر آ جائے کہ ایک مطبع ہمارا ہو اور ایک کاپی نویس ہمیشہ کے لئے ہمارے پاس رہے اور تمام ضروری مصارف کی وجوہ ہمیں حاصل ہوں یعنی جو کچھ کاغذات اورچھپوائی اور کاپی نویسوں کی تنخواہ میں خرچ ہوتا ہے وہ سارے اخراجات وقتاًفوقتاًبہم پہنچتے رہیں تو ان پنج شاخوں میں سے اس ایک شاخ کی پورے طور پر نشوونما پانے کا کافی انتظام ہو جائے گا۔
اے ملک ہند کیا تجھ میں کوئی ایساباہمّت امیر نہیں کہ اگر اور نہیں تو فقط اِسی شاخ کے اخراجات کامتحمل ہو سکے۔ اگر پانچ مومن ذی مقدرت اس وقت کو پہچان لیں تو اِن پانچ شاخوں کا اہتمام اپنے اپنے ذمہ لے سکتے ہیں۔ اے خدا وند خدا تُو آپ اِن دلوں کو جگا۔اسلام پر ابھی ایسی مفلسی طاری نہیں ہوئی۔ تنگدلی ہے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 31
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 31
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/31/mode/1up
ایسی تنگدستی نہیں۔ اور وہ لوگ جو کامل استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی اس طور پر اس کارخانہ کی مدد کر سکتے ہیں جو اپنی اپنی طاقت مالی کے موافق ماہواری امداد کے طور پر عہد پختہ کے ساتھ کچھ کچھ رقوم نذر اس کارخانہ کی کیا کریں۔ کسل اور سردمہری اور بدظنّی سے کبھی دین کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ بدظنّی ویران کرنے والی گھروں کی اور تفرقہ میں ڈالنے والی دلوں کی ہے۔ دیکھو جنہوں نے انبیاءکا وقت پایا انہوں نے دین کی اشاعت کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں کیں جیسے ایک مالدار نے دین کی راہ میں اپنا پیارا مال حاضر کیا ایسا ہی ایک فقیر دریوزہ گر نے اپنی مرغوب ٹکڑوں کی بھری ہوئی زنبیل پیش کر دی۔ اور ایسا ہی کئے گئے جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فتح کا وقت آگیا۔ مسلمان بننا آسان نہیں۔ مومن کا لقب پانا سہل نہیں۔ سو اے لوگو اگر تم میں وہ راستی کی روح ہے جو مومنوں کو دی جاتی ہے تو اس میری دعوت کو سرسری نگاہ سے مت دیکھو۔ نیکی حاصل کرنے کی فکر کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں آسمان پر دیکھ رہا ہے کہ تم اس پیغام کو سُن کر کیاجواب دیتے ہو۔
اے مسلمانو ! جو اولوالعزم مومنوں کے آثار باقیہ ہو اور نیک لوگوں کی ذرّیت ہو انکار اور بدظنّی کی طرف جلدی نہ کرو اور اس خوفناک وبا سے ڈرو جو تمہارے اردگر پھیل رہی ہے اور بے شمار لوگ اس کے دامِ فریب میںآگئے ہیں۔ تم دیکھتے ہو کہ کس قدر زور سے دین اسلام کے مٹانے کے لئے کوشش ہو رہی ہے۔ کیا تم پر یہ حق نہیں کہ تم بھی کوشش کرو۔ اسلام انسان کی طرف سے نہیں کہ تا انسانی کوششوں سے برباد ہو سکے مگر افسوس اُن پر ہے کہ جو اس بیخ کنی کے لئے درپے ہیں اور پھر دُوسرا افسوس اُن پر ہے جو اپنی عورتوں اور اپنے بچوں اور اپنے نفس کی عیّاشیوں کے لئے تو اُن کے پاس سب کچھ ہے مگر اسلام کے حصّہ کا اُن کی جیب میں کچھ نہیں۔ کاہلو تم پر افسوس !کہ آپ تو تم اعلاءکلمہ اسلام اور دینی انوار کے دکھلانے کی کچھ قوت نہیںرکھتے مگر خدا تعالیٰ کے قائم کردہ کارخانہ کو بھی جو اسلام کی چمکار ظاہر کرنے کے لئے آیا ہے شکر کے ساتھ قبول نہیں کر سکتے۔آج کل اسلام اس چراغ کی طرح ہے جو ایک صندوق میں بند کر دیا جائے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 32
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 32
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/32/mode/1up
یا اُس چشمہ شیریں کی طرح ہے جو خس وخاشاک سے چھپا دیا جائے۔ اِسی وجہ سے اسلام تنزّل کی حالت میں پڑا ہے۔ اُس کا خوبصورت چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا دلکش اندام نظر نہیں آتا۔مسلمانوں کا فرض تھا کہ اس کی محبوبانہ شکل دکھلانے کے لئے جان توڑ کر کوشش کرتے اور مال کیا بلکہ خون کو بھی پانی کی طرح بہاتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اپنی غایت درجہ کی نادانی سے اس غلطی میں بھی پھنسے ہوئے ہیں کہ کیا پہلی تالیفات کافی نہیں۔ نہیں جانتے کہ جدید فسادوں کے دُور کرنے کے لئے جو جدید در جدید پیرائیوں میں ظاہر ہوتے جاتے ہیں مدافعت بھی جدید طور کی ہی ضروری ہے اور نیز ہر ایک زمانہ کی تاریکی پھیلنے کے وقت میں جو نبی اور رسول اور مصلح آتے رہے کیا اُس وقت پہلی کتابیں نہیں تھیں۔ سو بھائیو یہ تو ضروری ہے کہ تاریکی پھیلنے کے وقت میں روشنی آسمان سے اُترے۔ میں اِسی مضمون میں بیان کر چکا ہوں کہ خداتعالےٰ سورة القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اُس کا کلام اور اس کا نبی لیلة القدر میں آسمان سے اُتارا گیا ہے اور ہر ایک مصلح اور مجدّد جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلة القدر میں ہی اُترتا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ لیلة القدر کیا چیز ہے؟ لیلة القدر اُس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس لئے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دُور کرے۔ اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلةالقدر رکھا گیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ رات نہیں ہے۔ یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے۔ نبی کی وفات یا اُس کے روحانی قائم مقام کی وفات کے بعد جب ہزار مہینہ جو بشری عمر کے دَور کو قریب الا ختتام کرنے والا اور انسانی حواس کے الوداع کی خبر دینے والا ہے گذر جا تا ہے تو یہ رات اپنا رنگ جمانے لگتی ہے۔تب آسمانی کارروائی سے ایک یا کئی مُصلحوں کی پوشیدہ طو ر پر تخم ریزی ہوجاتی ہے جو نئی صدی کے سر پر ظاہر ہونے کے لئے اندر ہی اندر طیار ہو رہتے ہیں اسی کی طرف اللہ جلّشانہ اشارہ فرماتا ہے کہ ٍ۱۔ یعنی اس لیلة القدرکے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 33
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 33
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/33/mode/1up
شرف حاصل کرنے والا اس اسّی ۰۸ برس کے بڈھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کونہیں پایا اور اگر ایک ساعت بھی اس وقت کو پا لیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جو پہلے گذر چکے۔ کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اس لیلة القدر میں خدا تعالیٰ کے فرشتے اور رُوح القدس اس مصلح کے ساتھ ربِّ جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لئے کہ تامستعد دلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی راہیں کھولیں۔ سو وہ تمام راہوں کے کھولنے اور تمام پردوں کے اٹھانے میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ ظلمتِ غفلت دور ہو کر صبح ہدایت نمودار ہو جاتی ہے۔
اب اے مسلمانو غور سے اِن آیات کو پڑھو کہ کس قدر خدا تعالیٰ اس زمانہ کی تعریف بیان فرماتا ہے جس میں ضرورت کے وقت پر کوئی مصلح دنیا میں بھیجتا ہے کیا تم ایسے زمانہ کا قدر نہیں کرو گے کیا تم خدا تعالیٰ کے فرمودوں کو بنظر استہزاءدیکھوگے ؟
سو اے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو !میں یہ پیغام آپ لوگو ں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہیئے اور اس کے سارے پہلوﺅں کو بنظرِ عزّت دیکھ کر بہت جلد حقِ خدمت ادا کرنا چاہیئے۔ جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دَین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضہ کو خالصةً للّٰہ نذرمقرر کر کے اُس کے ادا میں تخلّف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھے۔ اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے لیکن یاد رہے کہ اصل مدّعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ سچّے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرالیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں۔ ہاں جس کواللہ جلّشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 34
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 34
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/34/mode/1up
ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ہمّت اور اندازہ مقدرت کے موافق یک مشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے۔ اور تم اے میرے عزیزو ! میرے پیارو !میرے درختِ وجود کی سر سبز شاخو ! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی اپنا آرام اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اُسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہا تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کروگے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں۔ میرا دوست کون ہے ؟ اورمیرا عزیز کون ؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہنچاتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں۔ اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصّہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑ تا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بد گمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جا ئے گا۔ اس زمانہ کا حِصنِ حصین میَں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزّاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے ! اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے ؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندئہ مطیع بن جاتاہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور مَیں اُس میں ہوں۔ مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مزکی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے۔ تب وہ اُس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پَیر رکھ دیتا
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 35
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 35
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/35/mode/1up
ہے تووہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اُس میں کبھی آگ نہیں تھی۔ تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اُس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلّی خاص کے ساتھ رَبُّ العَالَمِین کا استویٰ اس کے دل پر ہوتا ہے تب پورانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اُس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اُس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اسی عالم میں اُس کو مل جاتا ہے۔
اِ س جگہ میَں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر رہ نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہو نیوالے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں۔ نہ مَیں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں۔ سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نُورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے میں اُن کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاءکلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں۔ اُن کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اُس کے تصّور سے قدرت الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسّر ہیں ہر وقت اللہ رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں اور میں تجربہ سے نہ صرف حُسن ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ اُنہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں۔ اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میںفدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے۔ اُن کے بعض خطوط کی چند سطریں بطورنمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور الدین بھیروی معالج ریاست جمّوں نے محبت اور اخلاص
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 36
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 36
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/36/mode/1up
کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے اور وہ سطریں یہ ہیں۔
مولٰنا مرشدنا امامنا السلام علیکم ورحمة اللہ و بر کاتہ‘۔ عالی جناب میری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں اور امام زمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدّد کیا گیا وہ مطالب حاصل کروں۔ اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے استعفا دے دُوں اور دن رات خدمت عالی میں پڑا رہوں یا اگر حکم ہو تو اس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طر ف بلاﺅں اور اسی راہ میں جان دُوں۔ میں آپ کی راہ میں قربان ہوں۔ میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے۔ حضرت پیرو مرشد مَیں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال ودولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا۔ اگر خریدار براہین کے توقف طبع کتاب سے مضطرب ہوں تو مجھے اجازت فرمائیے کہ یہ ادنیٰ خدمت بجالاﺅں کہ اُن کی تمام قیمت ادا کر دہ اپنے پاس سے واپس کر دُوں۔ حضرت پیرو مرشد نابکار شرمسار عرض کرتا ہے اگر منظور ہو تو میری سعادت ہے۔ میرا منشاءہے کہ براہین کے طبع کاتمام خرچ میرے پر ڈال دیا جائے پھر جو کچھ قیمت میں وصول ہو وہ روپیہ آپ کی ضروریات میں خرچ ہو۔ مجھے آپ سے نسبت فاروقی ہے اور سب کچھ اس راہ میں فدا کرنے کے لئے طیّار ہوں۔ دعا فرماویں کہ میری موت صدّیقوں کی موت ہو۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 37
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 37
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/37/mode/1up
مولوی صاحب ممدوح کا صدق اور ہمّت اور اُن کی غمخواری اور جان نثاری جیسے اُن کے قال سے ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اُن کے حال سے اُن کی مخلصانہ خدمتوں سے ظاہر ہو رہا ہے اور وہ محبت اور اخلاص کے جذبہ کاملہ سے چاہتے ہیں کہ سب کچھ یہاں تک کہ اپنے عیال کی زندگی بسر کرنے کی ضروری چیزیں بھی اسی راہ میں فدا کر دیں۔ اُن کی رُوح محبت کے جوش اور مستی سے اُن کی طاقت سے زیادہ قدم بڑھانے کی تعلیم دے رہی ہے اور ہر دم اور ہر آن خدمت میں لگے ہوئے ہیں ٭ لیکن یہ نہایت درجہ کی بے رحمی ہے کہ ایسے جان نثار پر وہ سارے فوق الطاقت بوجھ ڈال دیئے جائیں جن کو اُٹھانا ایک گروہ کا کام ہے۔ بیشک مولوی صاحب اس خدمت کو بہم پہنچانے کے لئے تمام جائداد سے دست بردار ہوجا نا اور ایّوب نبی کی طرح یہ کہنا کہ ”میں اکیلا آیا اور اکیلا جاﺅں گا“قبول کر لیں گے لیکن یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے کہ اس پُر خطر اور پُرفتنہ زمانہ میں کہ جو ایمان کے ایک نازک رشتہ کو جو خدا اور اُس کے بندے میں ہونا چاہیئے بڑے زور شور کے ساتھ جھٹکے دے کر ہلا رہا ہے اپنے اپنے حُسن خاتمہ کی فکر کریں اور وہ اعمال صالحہ جن پر نجات کا انحصار ہے اپنے پیارے مالوں کے فدا کرنے اور پیارے وقتوں کو خدمت میں لگانے سے حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کے اُس غیر متبّدل اور مستحکم قانون سے ڈریں جو وہ اپنے کلام عزیز
حضرت مولوی صاحب علوم فقہ اور حدیث اور تفسیر میں اعلیٰ درجہ کے معلومات رکھتے ہیں۔ فلسفہ اور طبعی قدیم اور جدید پر نہایت عمدہ نظر ہے۔ فن طبابت میں ایک حاذق طبیب ہیں ہر ایک فن کی کتابیں بلاد مصر و عرب و شام و یورپ سے منگوا کر ایک نادر کتب خانہ طیار کیا ہے اور جیسے اور علوم میں فاضل جلیل ہیں مناظرات دینیہ میں بھی نہایت درجہ نظر وسیع رکھتے ہیں۔ بہت سی عمدہ کتابوں کے مو ¿لف ہیں۔ حال میں کتاب تصدیق براہین احمدیہ بھی حضرت ممدوح نے ہی تالیف فرمائی ہے جو ہر ایک محققانہ طبیعت کے آدمی کی نگاہ میں جواہرات سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 38
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 38
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/38/mode/1up
میں فرماتا ہے یعنی تم حقیقی نیکی کو جو نجات تک پہنچاتی ہے ہر گز پا نہیں سکتے بجز اس کے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں وہ مال اور وہ چیزیں خرچ کرو جو تمہاری پیاری ہیں۔
اِس جگہ میں اپنے چنداور دلی دوستوں کا بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو اس الٰہی سلسلہ میں داخل اور میرے ساتھ سرگرمی سے دلی محبت رکھتے ہیں۔ از آں جملہ اخویم شیخ محمد حسین مراد آبادی ہیں جو اس وقت مراد آباد سے قادیان میں آ کر اس مضمون کی کاپی محض للہ لکھ رہے ہیں۔ شیخ صاحب ممدوح کا صاف سینہ مجھے ایسا نظر آتا ہے جیسا آئینہ۔ وہ مجھ سے محض للہ غایت درجہ کا خلوص و محبت رکھتے ہیں اُن کا دل حُبّ للہ سے پُر ہے اور نہایت عجیب مادہ کے آدمی ہیں۔ مَیں اُنہیں مراد آباد کے لئے ایک شمع منوّر سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ محبت اور اخلاص کی روشنی جو اُن میں ہے وہ کسی دن دوسروں میں بھی سرایت کرے گی۔ شیخ صاحب اگرچہ قلیل البضاعت ہیں مگر دل کے سخی اور منشرح الصدر ہیں۔ ہر طرح سے اس عاجز کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں اور محبت سے بھرا ہوا اعتقاد اُن کے رگ وریشہ میں رچا ہوا ہے۔
از آںجملہ اخویم حکیم فضل دین بھیروی ہیں۔ حکیم صاحب ممدوح جس قدر مجھ سے محبّت اور اخلاص اور حُسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے ہیں میں اُس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ وہ میرے سچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں۔ بعد اس کے جو خدا تعالیٰ نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجھے توجہ دی اور اپنے الہامات خاصہ سے امیدیں دلائیں میں نے کئی لوگوں سے اس اشتہار کے لکھنے کا تذکرہ کیا کوئی مجھ سے متفق الرائے نہیں ہوا۔ لیکن میرے یہ عزیز بھائی بغیر اس کے کہ مَیں اِن سے ذکر کرتا خود مجھے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے محرک ہوئے اور اس کے اخراجات کے واسطے اپنی طرف سے سو ر وپیہ دیا۔مَیں ان کی فراست ایمانی سے متعجب ہوں کہ اُن کے ارادہ کو خدا تعالیٰ کے ارادہ سے توارد ہو گیا۔ وہ ہمیشہ در پردہ خدمت کرتے رہتے ہیں اور کئی سو روپیہ پوشیدہ طور پر
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 39
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 39
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/39/mode/1up
محض ابتغائًً لمرضات اللّٰہ اس راہ میں دے چکے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُنہیں جزائے خیر بخشے۔
از آنجملہ میرے نہایت پیارے بھائی اپنی جدائی سے ہمارے دل پر داغ ڈالنے والے میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم و مغفور رئیس سا مانہ علاقہ پٹیالہ کے ہیں جو دوسری ربیع الثانی ۸۰۳۱ھ میں اس جہانِ فانی سے انتقال کر گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔ اَلعَینُ تَدمَعُ وَ القَلبُ یَحزُنُ وَ اِنَّا بِفِرَاقِہ لَمَحزُونُونَ میرزاصاحب مرحوم جس قدر مجھ سے محض للہ محبّت رکھتے اور جس قدر مجھ میں فنا ہو رہے تھے مَیں کہاں سے ایسے الفاظ لاﺅں تا اُس عشقی مرتبہ کو بیان کر سکوں اور جس قدر اُن کی بے وقت مفارقت سے مجھے غم اور اندوہ پہنچا ہے میں اپنے گذشتہ زمانہ میں اُس کی نظیر بہت ہی کم دیکھتا ہوں۔ وہ ہمارے فرط اور ہمارے میرِ منزل ہیں جو ہمارے دیکھتے دیکھتے ہم سے رخصت ہو گئے۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے اُن کی مفارقت کا غم ہمیں کبھی نہیں بھولے گا ۔
دردیست دردلم کہ گر از پیش آب چشم
بردارم آستین برود تا بدامنم
اُن کی مفارقت کی یاد سے طبیعت میں اُداسی اور سینہ میں قلق کے غلبہ سے کچھ خلش اور دل میں غم اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اُن کا تمام وجود محبت سے بھر گیا تھا۔ میرزا صاحب مرحوم محبّانہ جوشوں کے ظاہر کرنے کے لئے بڑے بہادر تھے۔ اُنہوں سے اپنی تمام زندگی اسی راہ میں وقف کررکھی تھی۔ مجھے امید نہیں کہ اُنہیں کوئی اَور خواب بھی آتی ہو۔ اگرچہ میرزا صاحب بہت قلیل البضاعت آدمی تھے مگر اُن کی نگاہ میں دینی خدمتوں کے محل پر جو ہمیشہ کرتے ر ہتے تھے خاک سے زیادہ مال بے قدر تھا۔اسرارِ معرفت کے سمجھنے کے لئے نہایت درجہ کا فہم سلیم رکھتے تھے محبت سے بھرا ہوا یقین جو اس عاجز کی نسبت وہ رکھتے تھے خدا تعالیٰ کے تصّرف تام کا ایک معجزہ تھا اُن کے دیکھنے سے طبیعت ایسی خوش ہوجاتی تھی جیسے ایک پھولوں اور پھلوں سے بھرے ہوئے باغ کو دیکھ کر طبیعت خوش ہو تی ہے۔ وہ بنظر ظاہر اپنے پس ماندوں او ر اپنے خورد سالہ بچہ کو نہایت ضعف اور ناداری
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 40
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 40
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/40/mode/1up
اور بے سامانی کی حالت میں چھوڑ گئے۔ اے خداوند قادر مطلق تُواُن کا متکفل اور متولّی ہو۔ اور میرے محبین کے دلوں میں الہام ڈال کہ اپنے اس یک رنگ بھائی کے پس ماندوں کے لئے جو بے کس اور بے سامان رہ گئے کچھ ہمدردی کا حق بجالاویں۔
اے خدا اے چارہ سازِ ہر دل اندوہگیں
اے پناہ عاجزان آمرز گارِمُذنبین
از کرم آں بندخودرا بہ بخشش ہا نواز
ایں جُدا افتاد گاں را ازترحم ہا بہ بین
میں نے بطور نمونہ اس جگہ چند دوستوں کا ذکر کیا ہے اور اسی رنگ اور اسی شان کے میرے اور دوست بھی ہیں جن کا مفصّل ذکر انشاءاللہ ایک مستقل رسالہ میں کروں گا۔ اب مضمون طول ہوا جاتا ہے اسی پر بس کرتاہوں۔
اور میں اس جگہ اس بات کا اظہار بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ جس قدر لوگ میرے سلسلہ ¿ بیعت میں داخل ہیں وہ سب کے سب ابھی اس بات کے لائق نہیں کہ میں اُن کی نسبت کوئی عمدہ رائے ظاہر کرسکوں۔ بلکہ بعض خشک ٹہنیوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ جن کو میرا خداوند جو میرا متولّی ہے مجھ سے کاٹ کر جلنے والی لکڑیوں میں پھینک دے گا۔بعض ایسے بھی ہیں کہ اوّل اُن میں دلسوزی اور اخلاص بھی تھا مگر اب اُن پر سخت قبض وارد ہے اور اخلاص کی سرگرمی اور مُریدانہ محبت کی نُورانیت باقی نہیں رہی بلکہ صرف بَلعَم
کی طرح مکّاریاں باقی رہ گئی ہیں اور بوسیدہ دانت کی طرح اب بجُزاس کے کسی کام کے نہیں کہ مُنہ سے اُکھاڑ کر پیروں کے نیچے ڈال دئیے جائیں وہ تھک گئے اور درماندہ ہوگئے۔ اور نابکار دنیا نے اپنے دام تزویر کے نیچے اُنہیں دبا لیا۔ سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عنقریب مجھ سے کاٹ دئیے جائیں گے بجُز اس شخص کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل نئے سرے اُس کا ہاتھ پکڑ لیوے۔ایسے بھی بہت ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے مجھے دیا ہے اور وہ میرے درختِ وجود کی سر سبز شاخیں ہیں اور میں انشاءاللہ کسی دوسرے وقت میں اُن کا تذکرہ لکھوں گا۔
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 41
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 41
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/41/mode/1up
اس جگہ میں بعض اُن لوگوں کا وسوسہ بھی دُور کر نا چاہتا ہوں جو ذی مقدرت لوگ ہیں اور اپنے تئیں بڑا فیاض اور دین کی راہ میں فدا شدہ خیال کرتے ہیں لیکن اپنے مالوں کو محل پر خرچ کرنے سے بکلّی منحرف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی صادق مویّد مِنَ اللہ کا زمانہ پاتے جو دین کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوتا تو ہم اُس کی نصرت کی راہ میں ایسے جھکتے کہ قربان ہی ہو جاتے۔ مگر کیا کریں ہر طرف فریب اور مکر کا بازار گرم ہے۔ مگر اے لوگو تم پر واضح رہے کہ دین کی تائید کے لئے ایک شخص بھیجا گیا لیکن تم نے اُسے شناخت نہیں کیا۔ وہ تمہارے درمیان ہے اور یہی ہے جو بول رہا ہے۔ پر تمہاری آنکھوں پر بھاری پردے ہیں۔اگر تمہارے دل سچائی کے طلب گار ہوں تو جو شخص خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُس کا آزمانا بہت سہل ہے۔ اُس کی خدمت میں آﺅ۔اس کی صُحبت میں دو تین ہفتے رہو تا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو اُن برکات کی بارشیں جو اُس پر ہو رہی ہیں اور وہ حقانی وحی کے انوار جو اُس پر اُتر رہے ہیں اُن میں سے تم بچشم خود دیکھ لو۔ جو ڈھونڈتا ہے وہی پاتا ہے جو کھٹکھٹاتا ہے اُسی کے لئے کھولا جاتا ہے۔ اگر تم آنکھیں بند کر کے اور اندھیری کوٹھری میں چھپ کر یہ کہو کہ آفتاب کہاں ہے تو یہ تمہاری عبث شکایت ہے۔ اے نادان اپنی کوٹھری کے کواڑ کھول اور اپنی آنکھوں پر سے پردہ اُٹھا تا تجھے آفتاب نہ صرف نظر آوے بلکہ اپنی روشنی سے تجھے منو ّربھی کرے۔
بعض کہتے ہیں کہ انجمنیں قائم کرنا اور مدارس کھولنا یہی تائید دین کے لئے کافی ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ دین کس چیزکا نام ہے اور اس ہماری ہستی کی انتہائی اغراض کیا ہیں اور کیوں کر اور کن راہوں سے وہ اغراض حاصل ہو سکتے ہیں۔سو اُنہیں جاننا چاہیئے کہ انتہائی غرض اس زندگی کی خدا تعالیٰ سے وہ سچا اور یقینی پیوند حاصل کرنا ہے جو تعلقات ِنفسانیہ سے چھوڑ اکر نجات کے سر چشمہ تک پہنچاتا ہے۔ سو اس یقین کامل کی راہیں انسانی بناوٹوں اور تدبیروں سے ہر گز کھل نہیں سکتیں اور انسانوں کا گھڑا ہوا فلسفہ اس جگہ کچھ فائدہ نہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 42
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 42
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/42/mode/1up
پہنچاتا بلکہ یہ روشنی ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ سے ظلمت کے وقت میں آسمان سے نازل کرتا ہے اور جو آسمان سے اُترا وہی آسمان کی طرف لے جاتا ہے۔ سو اے وے لوگو جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے ا ورشکوک و شہبات کے نتیجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو صرف اِسمی اور رَسمی اسلام پر ناز مت کرو اور اپنی سچی رفاہیت اور اپنی حقیقی بہبودی اور اپنی آخری کامیابی انہی تدبیروں میں نہ سمجھو جو حال کی انجمنوں اور مدارس کے ذریعہ سے کی جاتی ہیں۔یہ اشغال بنیادی طور پر فائدہ بخش تو ہیں اور ترقیات کا پہلا زینہ متصوّر ہو سکتے ہیں مگر اصل مدّعا سے بہت دور ہیں۔ شاید ان تدبیروں سے دماغی چالاکیاں پیدا ہوں یا طبیعت میں پُرفنی اور ذہن میں تیزی اور خشک منطق کی مشق حاصل ہو جائے یا عالمیّت اور فاضلیّت کا خطاب حاصل کر لیا جائے اور شاید مدّت دراز کی تحصیل علمی کے بعد اصل مقصود کے کچھ ممد بھی ہو سکیں۔مگر تا تر یاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود۔ سو جاگو اور ہوشیار ہوجاﺅ ایسا نہ ہو کہ ٹھوکر کھاﺅ۔ مبادا سفر آخرت ایسی صورت میں پیش آوے جو درحقیقت الحاد اور بے ایمانی کی صورت ہو یقینا سمجھو کہ فلاح عاقبت کی امیدوں کا تمام مدارو انحصار اِن رسمی علوم کی تحصیل پر ہر گز نہیں ہو سکتا اور اُس آسمانی نُور کے اُترنے کی ضرورت ہے جو شکوک و شہبات کی آلائشوں کو دُور کرتا اور ہوا و ہوس کی آگ کو بجھاتااور خدا تعالیٰ کی سچی محبت اور سچے عشق اور سچی اطاعت کی طرف کھینچتا ہے۔ اگر تم اپنی کانشنس سے سوال کرو تو یہی جواب پاﺅ گے کہ وہ سچی تسلّی اور سچا اطمینان کہ جو ایک دم میں روحانی تبدیلی کا موجب ہوتا ہے وہ ابھی تک تم کو حاصل نہیں۔ پس کمال افسوس کی جگہ ہے کہ جس قدر تم رسمی باتوں اور رسمی علوم کی اشاعت کے لئے جوش رکھتے ہو اس کا عشر عشیر بھی آسمانی سلسلہ کی طرف تمہارا خیال نہیں۔ تمہاری زندگی اکثر ایسے کاموں کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اوّل تو وہ کام کسی قسم کا دین سے علاقہ ہی نہیں رکھتے اور اگر ہے بھی تو وہ علاقہ ایک ادنیٰ درجہ کا اور اصل مدّعا سے بہت پیچھے رہا ہوا ہے۔ اگر تم میں وہ حواس ہوں اور وہ عقل
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 43
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 43
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/43/mode/1up
جو ضروری مطلب پر جا ٹھہرتی ہے تو تم ہر گز آرام نہ کرو جب تک وہ اصل مطلب تمہیں حاصل نہ ہو جائے۔ اے لوگو تم اپنے سچے خداوند خدا اپنے حقیقی خالق اپنے واقعی معبود کی شناخت اور محبت اور اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ پس جب تک یہ امر جو تمہاری خِلقت کی علّت غائی ہے بیّن طور پر تم میں ظاہر نہ ہو تب تک تم اپنی حقیقی نجات سے بہت دُور ہو۔ اگر تم انصاف سے بات کرو تو تم اپنی اندرونی حالت پر آپ ہی گواہ ہو سکتے ہو کہ بجائے خدا پرستی کے ہر دم دنیا پرستی کا ایک قوی ہیکل بُت تمہارے دل کے سامنے ہے جس کو تم ایک ایک سکنڈ میں ہزارہزار سجدہ کر رہے ہو اور تمہارے تمام اوقات عزیز دنیاکی جق جق بک بک میں ایسے مستغرق ہو رہے ہیں کہ تمہیں دوسری طرف نظر اُٹھانے کی فرصت نہیں۔ کبھی تمہیں یاد بھی ہے کہ انجام اس ہستی کا کیا ہے۔ کہاں ہے تم میں انصاف !کہاں ہے تم میں امانت !کہاں ہے تم میں وہ راستبازی اور خدا ترسی اور دیانتداری اور فروتنی جس کی طرف تمہیں قرآن بلاتا ہے تمہیں کبھی بھولے بسرے برسوں میں بھی تو یاد نہیں آتا کہ ہمار اکوئی خدا بھی ہے۔ کبھی تمہارے دل میں نہیں گذرتا کہ اُس کے کیا کیا حقوق تم پر ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے کوئی غرض کوئی واسطہ کوئی تعلق اُس قیّوم حقیقی سے رکھا ہوا ہی نہیں اور اُس کا نام تک لینا تم پر مشکل ہے۔ اب چالاکی سے تم لڑ وگے کہ ایسا ہر گز نہیں لیکن خدا تعالیٰ کا قانون قدرت تمہیں شرمندہ کرتا ہے جبکہ وہ تمہیں جتلاتا ہے کہ ایمانداروں کی نشانیاں تم میں نہیں۔اگرچہ تم اپنی دنیوی فکروں اور سوچوں میں بڑے زور سے اپنی دانشمندی اور متانتِ رائے کے مدعی ہو۔ مگر تمہاری لیاقت تمہاری نکتہ رسی تمہاری دُور اندیشی صرف دنیا کے کناروں تک ختم ہو جاتی ہے اور تم اپنی اس عقل کے ذریعہ سے اُس دوسرے عالم کا ایک ذرہ سا گوشہ بھی نہیں دیکھ سکتے جس کی سکونت ابدی کے لئے تمہاری روحیں پیداکی گئی ہیں۔ تم دنیا کی زندگی پر ایسے مطمئن بیٹھے ہو جیسے کوئی شخص ایک چیز ہمیشہ رہنے والی پر مطمئن ہو تا ہے۔ مگر وہ دوسرا عالم جس کی خوشیاں سچے اطمینان کے لائق اور دائمی ہیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 44
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 44
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/44/mode/1up
وہ ساری عمر میں ایک مرتبہ بھی تمہیں یا دنہیں آتا۔ کیا بد قسمتی ہے کہ ایک بڑے امرِاہم سے تم قطعاًً غافل اور آنکھیں بند کئے بیٹھے ہو اور جو گزشتنی گزاشتنی امور ہیں اُن کی ہوس میں دن رات سرپٹ دوڑ رہے ہو تمہیں خوب خبر ہے کہ بلاشبہ وہ وقت تم پر آنے والا ہے کہ جو ایک دم میں تمہاری زندگی اور تمہاری ساری آرزووں کا خاتمہ کر دے گا مگر یہ عجیب شقاوت ہے کہ باوجود علم کے پھر اپنے تمام اوقات دنیا طلبی میں ہی برباد کر رہے ہو۔ اور دنیا طلبی بھی صرف وسائل جائزہ تک محدود نہیں بلکہ تمام ناجائز وسیلے جھوٹ اور دغا سے لے کر ناحق کے خون تک تم نے حلال کر رکھے ہیں۔اور اِن تمام شرمناک جرائم کے ساتھ جو تم میں پھیلے ہوئے ہیں کہتے ہو کہ آسمانی نوراور آسمانی سلسلہ کی ہمیں ضرورت نہیں بلکہ اس سے سخت عداوت رکھتے ہو اور تم نے خدا تعالیٰ کے آسمانی سلسلہ کو بہت ہلکا سمجھ رکھا ہے یہاں تک کہ اُس کے ذکر کرنے میں بھی تمہاری زبانیں کراہت سے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ اور بڑی رعونت اور ناک چڑھانے کی حالت میں ہجو کا حق ادا کرتی ہیں اور تم بار بار کہتے ہو کہ ہمیں کیوں کر یقین آوے کہ یہ سلسلہ منجانب اللہ ہے۔میں ابھی اس کا جواب دے چکا ہوں کہ اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اُس کی روشنی سے شناخت کروگے۔ میں نے ایک دفعہ یہ پیغام تمہیں پہنچادیا ہے۔ اب تمہارے اختیار میں ہے کہ اس کو قبول کرو یا نہ کرو اور میری باتوں کو یاد رکھو یا لوحِ حافظہ سے بُھلا دو۔
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی پیارو
یاد آئیں گے تمہیں میرے سخن میرے بعد
خاتمہ مشتمل بر مرثیہ تفرقہ حالت اسلام
مے سزد گر خوں ببار د دیدہ
ہر اہل دیں
بر پریشاں حالیِ اسلام و قحطُ المسلمین
دین ِ حق را گردش آمد صعبناک وسہمگیں
سخت شورے او افتاد اندر جہاں از کفرو کیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 45
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 45
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/45/mode/1up
آنکہ نفس او ست از ہر خیر وخوبی بے نصیب
مے تراشد عیب ہا در ذات خیر المرسلین
آنکہ در زندانِ ناپاکی ست محبوس وا سیر
ہست در شانِ امامِ پاکبازاں نکتہ چِیں
تیر بر معصوم مے بارد خبیثے بد گُہر
آسماں رامے سزد گر سنگ باردبر زمیں
پیش چشمانِ شما اسلام در خاک اُوفتاد
چیست عذرے پیش حق اے مجمع المتنعمین
ہر طرف کفر ست جو شاں ہمچو افواجِ یزید
دینِ حق بیمارو بیکس ہمچو زَینُ العابدین
مردمِ ذی مقدرت مشغولِ عشرت ہائے خویش
خُرّم و خنداں نشستہ بابُتانِ نازنین
عالماں را روزوشب باہم فساد
زاہداں غافل سراسر از ضرورت ہائے دیں
ہر کسے از بہر نفسِ دُونِ خود طرفے گرفت
طرفِ دیں خالی شدو ہر دشمنے جست از کمیں
اے مسلماناں چہ آثار ِ مسلمانی ہمیں ست
دیں چنیں ابتر شما در جیفئہ دنیا رہیں
کاخِ دنیا راچہ استحکام در چشم ِ شماست
یا مگر از دل بروں کر دید موتِ اوّلیں
دورِ موت آمد قریب اے غافلاں فکرش کنید
دَورِ مے تاکے بخوبانِ لطیف و مہ جبیں
نفس خود رابستہ دنیا مدار اے ہوشمند
ورنہ تلخی ہا بہ بینی وقتِ انفاسِ پسیں
دل مدِہ اِلاّ بدلدارے کہ حُسنش داےم ست
تا سرورِ دائمی یابی ز ِخیر المحسنین
آن خرد مندے کہ او دیوانہ
راہش بود
ہوشیارے آنکہ مستِ روئے آن یارِ حسیں
ہست جامِ عشق اُو آبِ حیاتِ لازوال
ہر کہ نوشید ست اُو ہر گز نہ میردبعدا زیں
اے برادر دل َمنہِ در دولتِ دنیائِ دُوں
زہر خوں ریزست در ہر قطرہ
ایں انگبیں
تاتوانی جہد کُن از بہر ِ دیں باجان و مال
تا زِ ربّ العرش یابی خلعتِ صد آفریں
از عمل ثابت کن آں نورے کہ در ایمانِ تُست
دل چو دادی یوسفے را راہِ کنعاں را گزیں
یاد ایاّمیکہ ایں دیں مرجع ہر کیش بود
عالمے را وارہانید از رہِ دیو لعیں
بر زمیں گسترد ظلِ تربیت از نورِ علم
پائے خود مے زد زعزّو جاہ بر چرخِ بریں
این زمانے آنچناں آمد کہ ہر ابن الجَہول
از سفاہت میکند تکذیب ایں دینِ متیں
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 46
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 46
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/46/mode/1up
صد ہزاراں ابلہاں از دیں بُروں بر دند رخت
صد ہرزاراں جاہلاں گشتند صید الماکریں
بر مسلماناں ہمہ ادبار زِیں رہ اوفتاد
کزپے
دیں ہمّت ِ شاں نیست باغیرت قریں
گربگردد عالمے از راہِ دین ِ مصطفےٰ
از رہِ غیرت نمے جنبند ہم مثلِ جنیں
فکر ایشاں غرق ہر دم در رہِ دنیائے دُوں
مال ایشاں غارت اندر راہِ نسوان وبنیں
ہرکجا در مجلسے فسق ست ایشاں صدرِ شاں
ہر کجا ہست از معاصی حلقہِ
ایشاں نگیں
باخرابات آشنا بیگانہ از کوئے ہُدیٰ
نفرت از ار بابِ دیں بامےَ پرستاں ہم نشیں
رُو بگر دانید دلدارے کہ صد اخلاص داشت
چوں ندید اندر دل ایں قوم صدق المخلصیں
آں زمانِ دولت واقبال ِ ایشاں در گزشت
شومئے اعمالِ شاں آوُرد ایامے ُچنیں
از رہِ دِیں پر وری آمد عروج اندرنخست
باز چوں آید بیا ید ہم ازیں رہ بالیقیں
یاالٰہی باز کے آید زِ تو وقتِ مدد
باز کے بینیم آں فرخندہ ایاّم وسنیں
اےں دو فکرِ دینِ احمد مغزِ جانِ ماگداخت
کثرت ِ اَعدائے ملّت قلّت ِ انصارِ دیں
اے خدا زود آوبرما آب ِ نصرت ہا ببار
یامرا بردار یا ربّ زِیں مقامِ آتشیں
اے خدا نورِ ہُدیٰ از مشرق رحمت برار
گُمر ہاں را چشم کن روشن ز آ یاتے مبیں
چوں مرا بخشیدہ
صدق اندریں سوزوگداز
نیست اُمیدم کہ ناکامم بمیرانی دریں
کاروبار صادقاں ہر گز نماند ناتمام
صادقاں را دستِ حق باشد نہاں درآستیں
اشتہار عام معترضین کی اطلاع کے لئے
ہم نے ارادہ کیا ہے کہ موجودہ زمانہ میں جس قدر مختلف فرقے اور مختلف رائے کے آدمی اسلام پر یا تعلیم قرآنی پر یا ہمارے سیّد ومولیٰ جناب عالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں یا جو کچھ ہمارے ذاتی امور کے متعلق نکتہ چینیاں کر رہے یا جو کچھ ہمارے الہامات او رہمارے الہامی دعاوی کی نسبت اُن کے دلوں میں شبہات اور وساوس ہیں اُن سب
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 47
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 47
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/47/mode/1up
اعتراضات کو ایک رسالہ کی صورت پر نمبروار مرتب کر کے چھاپ دیں اور پھر اُنہیں نمبروں کی ترتیب کے لحاظ سے ہر ایک اعتراض اور سوال کا جواب دینا شروع کریں۔ لہذا عام طور پرتمام عیسائیوں اور ہندووں اور آریوں اور یہودیوں اور مجوسیوں اور دہریوں اور برہمیوں اور طبیعوں اور فلسفیوں اور مخالف الرّائے مسلمانوں وغیرہ کو مخاطب کر کے اشتہار دیا جاتا ہے کہ ہر ایک شخص جو اسلام کی نسبت یا قرآن شریف اور ہمارے سیّداور مقتدا ءخیر الرّسل کی نسبت یا خود ہماری نسبت ہمارے منصب خداداد کی نسبت ہمارے الہامات کی نسبت کچھ اعتراضات رکھتا ہے تو اگر وہ طالبِ حق ہے تو اس پر لازم و واجب ہے کہ وہ اعتراضات خوشخط قلم سے تحریر کر کے ہمارے پاس بھیج دے تا وہ تمام اعتراضات ایک جگہ اکٹھے کر کے ایک رسالہ میں نمبروار ترتیب دے کر چھاپ دیئے جائیں اور پھر نمبروار ایک ایک کا مفصّل جواب دیا جائے۔
وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی
المشتھر
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گور داسپور پنجاب
۰۱ جمادی الثانی ۸۰۳۱ ہجری
Ruhani Khazain Volume 3. Page: 48
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- فتح اسلام: صفحہ 48
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=3#page/48/mode/1up
اعلان
اس رسالہ کے ساتھ دو اور رسالے تالیف کیے گئے ہیں جو درحقیقت اسی رسالہ کے جزو ہیں چنانچہ اس رسالہ کا نام فتح اسلام اور دوسرے کا نام توضیح مرام اور تیسرے کا نام ازالہ اوہام ہے۔
المعلن
میرزا غلام احمد از قادیاں
 
Last edited:
Top