• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 4 ۔الحق دہلی ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 4۔ الحق دہلی ۔ یونی کوڈ


Ruhani Khazain Volume 4. Page: 129
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 129
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 130
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 130
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 131
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 131
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمِؔ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَ بِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیْ
الصادق المصدوق المطاع الامین ۔
دہلی کے مباحثہ کے شیوع میں امید سے زیادہ توقف ہوا اس عرصہ میں بیقرار اور منتظر شائقین کو فرط تحیر سے طبعًا طرح طرح کے ظنون و اوہام کے پنجہ میں اسیر ہوناپڑا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس التوا و توقف میں بھی بڑی مصلحتیں ثابت ہوئیں اور اب یہ دنیا میں اپنی پوری تجلّی کے ساتھ آفتاب نصف النہار کی طرح چمکا ہے ۔ بیشک ایک عالم کو انتظار لگ رہا تھا کہ اس جلیل اور با ہیبت دعوے کے مقابلہ پر جو مرسل یزدانی امام ربّانی حضرت غلام احمدؐ قادیانی نے کیا ہے مستند اور مسلم فضلاء سے کوئی شخص کھڑا ہو اور مسلمانوں کودلی شوق تھا کہ قدیم بغل پروردہ عقیدہ کو نہ چھوڑیں جب تک کسی زبردست مقابلہ کی محک پر کس کر اس کا ناسرہ ہونا ثابت نہ ہوجائے ۔ لودیانہ کے مباحثہ سے جو اصل دعویٰ مسیح موعود سے بالکل اجنبی واقع ہوا تھا مسلمانوں کی پیاس کو ایک قطرۂ آب بھی ہونٹ تر کرنے کیلئے نہ ملا تھا۔ گو ایک وجہ سے اہلِ حق مبصّر کو اس سے بھی حضرت مرزا صاحب کا مویّد من اللہ ہونا صاف طور پر ثابت ہو چکا تھا۔ مگر عام لوگ جنکی نگاہیں مبادی سے متجاوز ہو کر مقاصد کی تہ درتہ باریکیوں پر پہنچ نہیں سکتیں کھلا کھلا ثبوت اور بیّن حجّت کا ظہور چاہتے تھے سو رحیم کریم اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو حیرت و تردد کی ظلمتوں میں ابتلا کے وقت اپنی خاص رحمت سے چراغ ہدایت ہاتھ میں دیتا ہے اپنی دائمی سنت کے موافق اب بھی تقاضا فرمایا کہ ان فطری سعیدوں کوجن پر بعض بواعث سے آنی حجاب پڑگئے ہیں اورجنہیں حقیقۃً قبول حق کی سچی اور پُر جوش تڑپ تو لگی ہوئی ہے مگر وہ صدیقی ایمان کے خلاف قاطع حجت اور باہر دلیل دیکھ کر ایمان لانا پسند کرتے ہیں ۔ اپنی مرضیات کی راہیں دکھانے کیلئے ایک خاص امر فارق بین الحق والباطل دکھلائے۔ اس حکیم حمید اللہ تعالیٰ نے اپنی زبردست حکمت کے پورا کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود کے دل میں سفر دہلی کا ارادہ القا کیا۔ آپ ۲۸ ستمبر کو مع الخیر وارد دہلی ہوئے۔ کل پنجاب اور ہندوستان کی آنکھیں بڑی بے صبری سے دہلی کی کارروائیوں کو دیکھنے لگیں ۔ ان کا یہ موروثی اعتقاد چلا آتا تھا کہ دہلی بڑے بڑے نامی علماء اور اجلہ اولیاء کامسکن و ماویٰ ہے اس لئے وہاں کما ینبغی احقاق حق اور ابطال باطل ہو جائیگا مگر افسوس وہ نہ جانتے تھے کہ ان کے حسن اعتقاد کے محرک ومرجع جن کی پاک اور برگزیدہ تصنیفات و تالیفات انکی دلکش تصاویر کے مرقع کی بجا قائم مقامی کر کے پڑھنے والوں کے دل میں سو سو حسرتیں چھوڑتی ہیں قبروں میں سو رہے ہیں اور انکے سینوں کو روندنے والے اتر ااترا کر چلنے والے وہ لوگ ہیں جو

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 132
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 132
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کےؔ پورے مصداق ہو رہے ہیں۔ بے شک بعض اب بھی ہیں جنہیں مقدس اسلاف کی سچی یادگاریں کہنا کچھ بھی مبالغہ نہیں۔ الغرض حضرت مرزا صاحب اپنے مخدوم آقا اپنے مقتدا جناب ہادئ کامل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرح جبکہ وہ اہلِ مکہ سے ایذائیں سہہ کر طائف ایسے مہذب و شاداب شہر کو تشریف لے گئے تھے کہ کہیں ان میں ہی کوئی طالب حق مل جائے ہندوستان کے مہذب شہر دہلی میں آئے۔ مگر کیا ہمیں اس بات کے اظہار پر دلی رنج مجبور نہیں کرتا کہ اہلِ دہلی نے ( الّاماشاء اللہ ومن شاء عصمہ) شاید اہلِ طائف کی تاریخ پڑھ کر اور اپنی پر زور نخوت و رعونت پر اعتماد کر کر نہ چاہا کہ وہ ایک مرد خدا کے ساتھ بد سلوکی کرنے میں ان گذشتہ مخالفان راستی سے کوئی قدم پیچھے رہ جائیں خیر جو کچھ ان سے بن پڑا انہوں نے کہا اور کیا اور ایک با امن۔ رحیم ۔ مہذب اور پکی بے طرف دار گورنمنٹ کے پر سطوت و بارعب وقت میں جس قدر مخالفت کا وہ حوصلہ رکھتے تھے انہوں نے کی مگر ان کی متفق کوششوں سے نور اللہ بُجھ نہ سکا بلکہ آخر اُنہی کے ہاتھوں اُنہی کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے اس نور کی ترقی کاموجب بنایا مگر انہوں نے سخت غفلت کی وجہ سے نہ سمجھا شاید اب بہتیرے سمجھ جائیں ۔ یہاں ہمیں ضرورت معلوم نہیں ہوتی کہ ہم دہلی کی کارروائی کے جزوی و کلی حالات مفصلًا لکھنے کی تکلیف اٹھائیں۔ اس امر کو ہمارے مکرم دوست منشی غلام قادر صاحب فصیح ضمیمہ پنجاب گزٹ مورخہ۱۴؍ نومبر میں بڑی وضاحت اور صداقت سے شائع کر چکے ہیں ہمارے نزدیک اتنا ہی کہنا ایک جامع مضمون کے قائم مقام ہے کہ ان لوگوں نے ایک مسلم انسان کے ساتھ برتاؤ کرنے میں حقوق العباد میں سے کسی ایک حق کی بھی رعایت نہ کی لیکن اللہ تعالےٰ کو منظور تھا کہ بہر نہج ان پر حجت تمام کر دے گو میاں مولوی سید نذیر حسین صاحب اور انکے لشکروں نے اللہ تعالیٰ کے اتمام حجت کی راہ میں عمدًا بڑی بڑی چٹانیں ڈالدیں اور ہر طرح ہاتھ پاؤں مارے کہ انکا لشکر قیام بیّنہ سے ہلاک نہ ہونے پائے اور جوں توں کر کے وہ پیالہ اُن سے ٹل جائے مگر اللہ تعالیٰ نے مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کو ایک دوست کی صورت میں ان کا خانہ برانداز دشمن بھیج دیا یہ کہنا نا درست نہیں کہ مولوی صاحب کو دہلی کے بعض پیروانِ میاں صاحب نے جو میاں صاحب سے بوجہ شدّتَ ھرَم ا ور دیگر ملاؤں سے بوجہ فقدان قابلیت مایوس ہو چکے تھے بڑے شوق سے بلایا اور یہ بھی بالکل حق ہے کہ مولوی محمد بشیر صاحب کو باغراض شتیّٰ خود بھی خواہش تھی کہ حضرت مرزا صاحب سے مباحثہ کریں بہر حال اس سادہ دل مولوی نے میاں سید نذیر حسین صاحب اور انکے تابعین کے رحم انگیز زار نالے اور سخت سر زنش پر بھی مطلق کان نہ دھر کے بڑی جرأت سے حیاتِ مسیح علیہ السلام کا دعویٰ کیا اوراس دعوےٰ کو کیونکر نباہا ناظرین اِن مضامین کو پڑھ کر خود ہی سمجھ لیں گے گو


Ruhani Khazain Volume 4. Page: 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مولوؔ ی محمد بشیر صاحب نے کسی نیت پر اس میدان میں قدم رکھا ہو مگر ہم انھیں مبارک دیتے ہیں کہ انہوں نے ہند و پنجاب کے علماء کی طرف سے اپنے تئیں فدیہ دیا ہے واقعی وہ ایک زبردست کفارہ اپنے ہم پیشہ لوگوں کی طرف سے ہوئے ہیں اللہ تعالےٰ نے انھیں اس لق و دق بیابان میں جہاں کوئی جادہ نہ ملتا تھا اور نہ جہاں کوئی نقش پائے رہ رواں ہی نظر آتا تھا اس نشان کی طرح کھڑا کیاجس سے مسافر سمت کا پتہ لگاتے ہیں اگرچہ اس میل( نشان) کو شعور نہ ہو کہ اس کا وجود اتنے بڑے فائدہ کا موجب ہے مگر ہم امید رکھتے ہیں کہ شاید شاکر علیم خدا اُن کو بوجہ دال علی الخیر ہونے کے واقعی فہم بھی عطاکر دے تو کہ وہ اس فرستادہ خدا وندی کو طوعًا قبول کریں میرا پکا ارادہ تھا کہ میں معمولًا ان مضامین پر کچھ نوٹ یا ایک مختصر ریویو کرتا مگر میرے دلی دوست بلکہ مخدوم معظم مولوی سید محمد احسن صاحب نے مجھے اس فرض سے سبکدوش کر دیا انھوں نے جیسا اس خدمت کو ادا کیا ہے درحقیقت اُنہی جیسے فاضل اجل کا حصہ تھا۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء میرا یقین ہے کہ یہ ایسا نیک کام ان کے مبارک ہاتھ سے پور اہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے رفع درجات کے لئے ایک یہ ہی بس ہے مگر قوی امید ہے کہ ہمارے حضرت سیّد صاحب موصوف روح قدس سے مویّد ہو کر اور بھی بڑے مفید اور منتج ثواب کام کریں گے۔
الغرض مولوی محمدبشیر صاحب کے وجودکوہم مغتنم سمجھتے ہیں جنہوں نے غیرضروری مباحث اور بخلاف ایک پنجابی ملا کے لاطائل اصول موضوعہ کو چھوڑکر اصل امرکو بحث کاتختہ مشق بنایا اور یوں خلق کثیر کے ہر روزہ انتظار جان کاہ کو رفع کر دیا گو اسپر بھی اس بات کے کہنے سے چارہ نہیں کہ ہدایت ایک منجانب اللہ امر ہے اور وہ سچا ہادی لامعلوم اسباب کے وسایط سے سعید ان ازلی کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے مگر کہنے کو کہاجاسکتا ہے کہ راہ خوب صاف ہوگئی اور اس مضمون حیات وممات مسیح ؑ کی بحث کی حجت قطعًا و حکمًا تمام ہو گئی۔
ہم کمال ہمدردی اور اسلامی اخوت کی راہ سے اہل دہلی کو اتنا کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ ناحق کی ضد کو چھوڑکر اس مامور من اللہ کو قبول کریں ورنہ ان کا انجام خطرناک معلوم ہوتاہے۔ میں کانپتے ہوئے دل سے انھیں اتنا کہنے سے رک نہیں سکتا کہ ان کاجامع مسجد دہلی میں حضرت مسیح موعود کے برخلاف چھ سات ہزار آدمی کامجمع کر کے طرح طرح کی ناسزا حرکا ت کا مرتکب ہونا دیکھ کر مجھے یاد آگیا حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا وہ واقعہ جو کمالات عزیزی مطبوعہ دہلی میں لکھا ہے ’’جناب مولانا شاہ عبد العزیزجو واسطے نماز جمعہ کے جامع مسجد میں تشریف لے جاتے تو عمامہ آنکھوں پر رکھتے۔ ایک شخص فصیح الدین نام جو اکثر حضور میں حاضر رہتے تھے انہوں نے عرض کیا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کہؔ حضرت اس کی کیا وجہ ہے جو آپ ا س طرح رہتے ہیں آپ نے کلاہ اتار کرانکے سر پر رکھدی ایک دفعہ ہی بے ہوش ہو گئے جب دیر میں افاقہ ہوا عرض کیا سو سوا سو کی شکل آدمی کی تھی اور کوئی ریچھ اور کوئی بندر اور کوئی خنزیر کی شکل تھا اور اُس وقت مسجد میں پانچ چھ ہزار آدمی تھے حضرت نے فرمایاکہ میں کس کی طرف دیکھوں اس باعث سے تو نہیں دیکھتا ۔ ‘‘
دہلی والو خدا کیلئے اس واقعہ سے عبرت پکڑو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اسوقت بھی تم نے اپنی حرکات سے ثابت کر دیا ہے کہ تم میں بہت ہی تھوڑے ہیں جو اصلی انسانی صورت پر ہیں اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے۔ اے اہلِ پنجاب ! موقعہ ہے کہ تم اس دہلی کے واقع کو سنکر پوری نصیحت حاصل کرو۔ سعادت مند وہ ہے جو دوسروں کا حال دیکھ کر عبرت پاتا ہے تم ان تکفیر باز خشک ملاؤں کو انکی اپنی غضب و حسد کی دہکتی ہوئی بھٹی میں جلنے دو۔ ان سنگدل حقد مجسم صاحبان غرض کو کبھی بھی خلوصًا حق سے سرو کارہوا ہے جو اب ہوگا؟۔ اے علم خیز سر زمین لاہور کے رہنے والو ہوشیار ہو جاؤ تمہارایہ بزرگ خطہ ساری پنجاب کا مرجع ہے۔ دیکھنا وہ پتھر جسے خود تم نے بڑی کوششوں کے ساتھ اپنی راہ سے ہٹایا ہے وہ پھر تمہاری ٹھوکرکا باعث نہ ہو۔ تم خوب جانتے ہو وہ شاخ کس جڑ سے پھوٹی ہے کس زمین میں اسکا نشوو نما ہوا ہے۔ دیکھنا دیکھنا ! بُھولے سے بھی تمہارے ہاتھ سے پھر اس کی آبیاری نہ ہو!۔ ایسا نہ ہوکہ دِلّی کا اُلّو تمہاری دیواروں پر بھی بولنے لگے۔ اے دانشمندو! تم ان کاغذی گڑیوں پر کیوں فریفتہ ہوتے ہو کیا یہ کفر کے فتوے غیر معصوم ہاتھوں کے لکھے ہوئے اور ظالم دلوں کے نتائج نہیں؟ کیا یہ ناشدنی سیاہ کارروائی کرنیوالے خود بھی کاغذی پیراہن پہن کر داد خواہ نہیں ہوئے کہ ان پر ناحق کفرکا فتویٰ لگایاگیا؟ پس یہ مسلسل کافر بھی کیا کسی دوسرے کو کافر بنانے کا استحقاق رکھتے ہیں ؟ یہ دھوکے کی ٹٹی ہے جو ان ملاؤں نے کھڑی کررکھی ہے ۔ اے صاف باطن حق کے طالبو اسکو پھاندکر آگے بڑھو اور دیکھوکہ وہ جسے یہ حاسد سیاہ غول ثابت کرنا چاہتے اور ڈہٹ بندی کر کے لوگوں کو ایک ڈراؤنی مورت دکھاتے ہیں وہ درحقیقت ایک عظیم الشان روشنی کا فرشتہ ہے۔ اے خدا اے ہدایت کے مالک خدا تو ان لوگوں کو توفیق عنایت فرما کہ وہ تیرے اس بندہ کو پہچانیں ! آخر میں اس دل لبھانے والے عربی قصیدہ کی نسبت جسکی اشاعت کو بڑا ضروری اور مفید سمجھاگیا ہے مَیں اتنا کہنا چاہتاہوں کہ یہ ہمارے ایک نہایت برگزیدہ دوست کا لکھا ہوا ہے جسکے وجود کو ہم اپنے درمیان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت سمجھتے ہیں۔ ہم کسی وقت بشرط ضرورت اُنکا حال بھی لکھیں گے۔ امید ہے کہ اس قصیدہ کے اردو ترجمہ کو جو اکثر جگہ حاصل مطلب کے طورپر کیا گیا ہے دلچسپی سے خالی نہ پائیں گے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اب ؔ ہم ان تکفیر بازوں کو حضرت امام ابن قیّم کے چند شعر سنا دیتے ہیں شاید ان میں کوئی خدا ترس بات کی تہ کو پہنچ کر اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے۔
(۱)
وَمِنَ الْعَجَاءِبِ أنَّکُمْ کَفّرْتُمْ
أَھْلَ الحَدِیثِ وَ شِیعَۃَ الْقُرْآنِ
(۲)
اَلْکُفْرُحَقُّ اللّٰہِ ثمَّ رَسُوْلِہِ
بِالنَّصِّ یَثْبِتُ لَا بِقَوْلِ فُلَانِ
(۳)
مَنْ کَانَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَعَبْدُہُ
قَدْ کَفَّراہُ فَذَاکَ ذُو الکُفْرَانِ
(۴)
فَھَلُمَّ وَیَحْکُمُ نُحَاکِمْکُمْ اِلَی النْ
نَصَّین مِنْ وَحْیٍِ وَمِنْ قُرْآنِ
(۵)
وَھُنَاکَ یُعْلَمُ أیُّ حِزْبَیْنَا عَلَی الْ
یکُفْرَانِ حَقّاً أوْ عَلَی الْاِیْمَانِ
(۶)
فَلْیَہْنِکُمْ تَکفِیْرُمَنْ حَکَمَتْ بِاِسْ
یلاَمٍ وَ اِیْمَانٍِ لَہُ النَّصَّانِ
(۷)
اِنْ کَانَ ذَاکَ مُکَفِّرًا یَا اُمَّۃَ الْ
یعُدْوَانِ مَنْ ھَذَا عَلَی الْاِیْمَانِ
(۸)
کَفَّرْتُمْ وَاللّٰہِ مَنْ شَھِدَ الرَّسُوْ
لُ بِأَنَّہُ حَقًّا عَلَی الْاِیْمَانِ
(۹)
کَمْ ذَا التَّلَاعُبُ مِنْکُمْ بِالدّیْنِ وَالْ
اِیْمَانِ مِثْلَ تَلَاعُبِ الصِّبْیَانِ
(۱۰)
خُسِفَتْ قُلُوْبُکُمْ کَمَا خُسِفَتْ عُقُو
لُکُمْ فَلاَ تَزْکُو عَلَی القُرْآنِ
(۱۱)
یَا قَوْمُ فانْتَبِھُوْا لِاَ نْفُسِکُمْ وَخَلْ
لُوا الْجَھْلَ وَالدَّعْوَی بِلَا بُرْھَانِ
(۱)
بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ تم نے اہلِ حدیث اور اہلِ قرآن کی تکفیر کی۔
(۲)
تکفیر تو اللہ اور اسکے رسول کا حق ہے (تمہیں کافربنانے کا منصب کس نے دیا) وہ نص سے ثابت معلوم ہوتا ہے نہ فلاں وبہماں کے قول سے ۔
(۳)
جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کافر کہیں وہی کافرہے۔
(۴)
افسو س تم لوگوں پر ! تو اب آؤ ہم تم کتاب و سنت پر اپنے مقدمہ کو عرض کرتے ہیں۔
(۵)
وہاں چل کر کھل جائے گا کہ واقعی ایمان پر کون ہے اور کفر پر کون۔
(۶)
اُن لوگوں کا کافر کہنا جنکے ایمان و اسلام پر کتاب و سنت گواہی دیں تمہیں مبارک ہو۔
(۷)
سرکشو! اگر ایسے برگزیدہ لوگ عاملین بہ کتاب اللہ کافر ہیں تو پھر مومن کون ہے۔
(۸)
اللہ کی قسم تم دلیری کرکے ایسے کی تکفیر کر رہے ہو جس کی نسبت رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام گواہی دیتے ہیں کہ وہ واقعی مومن ہے۔
(۹)
آؤ خدا کاخوف کرو کب تک بچوں کی طرح دین کو بازیچہ بنا رکھو گے؟
(۱۰)
تمہارے دل اور عقلیں گہنائی گئیں ہیں اب قرآن پر تو زیادت نہ کرو ۔
(۱۱)
اے لوگواپنی جان کے بچاؤ کے لئے بیدار ہوجاؤ اور اس جہل اور دعویٰ بلادلیل کو چھوڑ دو۔
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین والصّلٰوۃ والسلام علی السید الامین وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔ عبدالکریم

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
قصیدہ
یتشرف المَنْظُوْمُ بِلَثْمِ کف الاِمام الجلیل والھامُ النّبیل المجدد الممجَّد
میرزا غُلام احمدؐ قادیانی ادام اللّٰہ تعالٰی ظلہ‘
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الی کم تمادی الھجر یلعب بالصَّبِّ
۱
وحتّام یَبْلوہ الزّمان بذا النَکبٖ
فھل للمعنّی زورۃ ینطفی بھا
۲
تباریح وَجْدٍ توقد النّار فی الجنب
الا ھل علمتم ما حملت بحبّکم
۳
واوزارہ من بعدکم انقضت صُلبی
اَبیتُ علی جمر الغضامتقرّعًا
۴
ودمعی طویل اللیل یشرح لِلغربٖ
حرامٌ علی جفنی الکری فاسألوا بہٖ
۵
نجوم الدُّجیٰ والھدبُ یجفو عن الھدبٖ
(0) نہیں معلوم ہجر کی درازی کب تک عاشق کو ستاتی رہے گی ۔ اور زمانہ اُسکو ان دکھوں میں کب تک مبتلا رکھے گا۔
(۲) کبھی دکھ سہنے والے (عاشق) کو بھی ایک بار ملاقات میسر ہو گی۔ جس سے وہ عشق کی اس جلن کو بُجھا سکے جس نے اس کے پہلو میں آگ مشتعل کر رکھی ہے۔
(۳) ہائے تمہیں کیا خبر ہے؟ کہ میں نے تمہارے عشق میں کیا کیا اُٹھایا۔ اُس کے بوجھوں نے تمہاری جدائی میں میری پیٹھ توڑ دی۔
(۴) میں چوب غضا کے دہکتے کوئلوں پر کروٹیں بدلتے بدلتے راتیں کاٹتا ہوں اور میرے آنسو رات بھر رگ آب چشم کو کھولتے رہتے ہیں۔
(۵) نیند میری آنکھوں پر حرام ہے تم اُسکی بابت تاریکی کے ستاروں سے دریافت کر لو کیامجال جو پلک سے پلک لگی ہو۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کذؔ ا حال مسلوب القرار متیّمٍ
۶
عدیم اصطبارٍ وامق فی الھوی صلبٖ
حلیف الضنی مستوحشٍ ذی کآبۃٍ
۷
طویل اغتراب نازح الاھل والحبٖ
ھل العیش الا فی وصال احبّۃٍ
۸
نأت دارھم لکن عن الجسم لا القلبٖ
فان بعد وا عنی فان حدیثھم
۹
یخفف اشجانی وینہیٰ عن النَّحْبٖ
بلانی اللّیالی ویلھا من صروفھا
۱۰
بما صرت فیہ حآئرالفکر و اللُّبٖ
والٰھی عن الانشآء والشعربعدما
۱۱
تعوّدت شعرًا والکتابۃ من طلبیٖ
کانی ماکنت امرأ ذافطانۃ
۱۲
ولا ورثت نفسی الفصاحۃ من کعبٖ
ھموم و تنکیدٌ و اَسرٌ وغربۃ
۱۳
وفی سفھاء الناس دارٌ وھم کَرْبیٖ
فقدت سروری مذ فقدت احبتی
۱۴
کرام اُناسٍ خلّفوا الھَمَّ فی العَقْبٖ
۶۔ عاشق بے قرار ۔ سوختہ دل۔ بے صبر۔ شیدا اور عشق میں ثابت قدم کا ایسا ہی حال ہوا کرتا ہے۔
۷۔ وہ عاشق جس نے بیماری سے دائمی دوستی کا عہد باندھ رکھا ہے۔ لوگوں کی صحبت سے گریزاں ۔ دکھی۔ مدتوں کامسافر۔ اہل و عیال اور دوستوں سے جدا ہے۔
۸ ۔ زندگی کا لطف تو بس ان پیاروں کی صحبت میں ہے جن کا وطن جسم سے دور پر قلب کے نزدیک ہے۔
۹۔ وہ جو مجھ سے دور ہیں تو مضائقہ ہی کیا ہے کیونکہ ان کی پیاری باتیں میر ے دکھ درد کو ہلکا کرتی اور مجھے گریہ و زار ی سے روکتی ہیں۔
۱۰۔ مجھے جدائی کی راتوں نے سخت ستایا۔ انکی گردشوں اور حادثوں پر افسوس ! میری تو اسمیں عقل و فکر چکّر کھا گئی ہے۔
۱۱ ۔ مجھے انشاء اور شعر گوئی سے بالکل غافل کر دیا حالانکہ شعرگوئی اور اعلیٰ درجہ کا لٹریچر لکھنا تو میری عادت تھی۔
۱۲ ۔ اب میری یہ حالت ہے کہ گویا مَیں کبھی بھی زیرک شخص نہ تھا اور جیسے میں کعب (صاحب قصیدہ بانت سعاد) سے فصاحت کا وارث ہی نہیں ہوا۔
۱۳ ۔ رنج و غم ۔ گرفتاری اور سفر میں مبتلا۔ بیوقوف لوگوں میں مکان ہے جنکے ہاتھوں دُکھ سہہ رہا ہوں۔
۱۴ میری خوشی اور عیش مفقود ہوگئی جب سے اپنے پیارے دوستوں سے جدا ہوا۔ وہ کیا ہی برگزیدہ لوگ تھے۔ ان کے پیچھے میرے حصہ میں تو اب غم ہی غم ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
حفاؔ لتھم ابقیتُ فِیْھَا اِذَا مَضَوْا
۱۵
فامسیتُ احیی بالطغام وبالقحبٖ
بُلیتُ باھل الجھل ویل لاُمھم
۱۶
مضرتھم ادھی من الذئب والکلبٖ
یعادون اھل العلم والعلم کلہ
۱۷
لما ھمّھم فی لذۃ الفرج والشربٖ
اقاسی الاذی من جھلھم ومراۂم
۱۸
وشدتہم بالسبع کالطعن والخلبٖ
علی غربۃ فیھا ھموم و کربۃ
۱۹
و انواع اسقام و فقد اخی الحبّٖ
ومالاقنی فی ذی البلاد مواسِیًا
۲۰
ولم یتیسّر اٰسیًا من فتًی نَدبٖ
وحید واصناف الخُطوب ینوبنی
۲۱
تعددت البلویٰ علٰی عادم الصحبٖ
ارانی مع الاوغاد یستصحبوننی
۲۲
اُعَلّم غیر الاھل کَالْقرد و الدُّبّٖ
لقدضاق صدری بالاقامۃ عندھم
۲۳
وسُوء جوار العابس الوجہ ذی قطب
۱۵ ۔ وہ برگزیدے تو چلے گئے اور میں ردی سا پیچھے رہ گیا۔ اب کمینوں قلاشوں میں مجھے زندگی بسرکرنی پڑگئی۔
۱۶ ۔جاہلوں سے میراپالا پڑگیا۔ اُن کی جننے والی پر افسوس۔ یہ تو کتوں اور بھیڑیوں سے بھی بڑھ کر موذی ہیں۔
۱۷ ۔ فسق وفجور اور مے خواری کے دل دادہ ہیں اس لئے علم اور اہلِ علم سے بَیر رکھتے ہیں۔
۱۸ ۔ مجھے ان کے ناحق کے جھگڑے ۔ جہالت اور گالی گلوچ سے سدا تکلیف رہتی ہے۔
۱۹ ۔ مزیدے برآں پردیس ۔ اور پھر ہر طرح کے رنج و غم اور بیماریاں اور محبوں کا نہ ہونا۔
۲۰ ۔ افسوس ان دیسوں میں مجھے کوئی غمخوار نہ ملا اور نہ کوئی جوانمرد فیاض غمگسار ہاتھ آیا۔
۲۱ ۔ میں اکیلا ہوں او راس پر طرح طرح کے مصائب مجھ پر پڑگئے ہیں۔ جس کے دوست نہ ہوں اُس پر بہت سی مصیبتیں وارد ہوا ہی کرتی ہیں۔
۲۲۔ میرا یہ حال ہو رہا ہے کہ فرومایہ لوگوں سے سنگت نصیب ہو رہی ہے۔ اور بندروں اورریچھوں کے ایسے نااہلوں کا معلم بنا ہوا ہوں۔
۲۳ ۔ ان بدمزاج ۔ بد خو۔ ترش رو ہم نشینوں میں رہنے اور اُن کی سنگت سے میر ادل اُکتا گیاہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
الیؔ اللہ أشکو قارعاتٍ تصیبنی
۲۴
من الدھر قد ضاقت بہا سَعَۃ اللَّحْبٖ
ومن مفترٍیرمی بانواع تھمۃ
۲۵
وتلبیس مُغتابٍ ومستہزءٍ سبّٖ
وعلماء۱؂ السُّوْءِ یدعون اسوۃ
۲۶
علٰی فرط جھل بالحقائق والکتبٖ
عمآئم والجبات والقمص واللحیٰ
۲۷
بھا فخرھم لکنہا الجھل لا تخبی
یبکم سمع الیلمحیّ حدیثھم
۲۸
ورؤیتھم تقذی بہا عین ذی لُبّٖ
فواللّہ انی ما ھجرت خلاطھم
۲۹
لغیر جفآء لیس من شیمۃ النُّحْبٖ
وجھلھم المُزری بعلمی ولومھم
۳۰
ورغبتہم فیما یناسب بالوغبٖ
یلوموننی انی اعاف لقآءھم
۳۱
وکیف اُلاقی جاھلا لیس من حزبی
فکم بین ذی لبّ ادیب وجاھل
۳۲
وشتان بین الماجد الحرّ والوشبٖ
من الجھل ان تلقی و تکرم جاھلا
۳۳
للحیتہٖ اوجبۃ او عظم السِبّٖ
عذیری من الایام من جوراھلھا
۳۴
اقاموا جبال الفادحات علٰی قلبی
۲۴ ۔زمانہ کے مصائب سے جنہوں نے میرے وسیع سینہ کو بھی تنگ کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں شکوہ کرتا ہوں۔
۲۵ ۔ اور اس مفتری سے جو طرح طرح کی تہمتیں لگاتا ہے اور غیبت کرنیوالے کے دھوکے اور ٹھٹھہ باز گالی دینے والے سے۔
۲۶۔ اور برے عالموں سے جو باوجود حقائق و معارف و علوم کے نہ جاننے کے اپنے تئیں نمونے سداتے ہیں۔
۲۷۔ آجاکے انکا مایہ ناز عمامے۔ جبے ۔ قمیصیں اور ڈاڑھیاں ہیں۔ مگر ان سے جہل کیونکر چھپ جائے۔
۲۸ ۔ سمجھدار ان کی گفتگوکو سننا گوارا نہیں کرتا۔ اور دانشمندان کے دیکھنے سے گھن کرتا ہے۔
۲۹۔ بخدا میں نے جو ان سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تو ان کی جفا کے باعث جو شریفوں کا شیوہ نہیں۔
۳۰ ۔ اور ان کے جہل کے باعث جس کی وجہ سے وہ میرے علم کو حقیر جانتے اور ان کی فرومائیگی اور رذیلوں کیسی عادات سے مانوس ہونے کے باعث۔
۳۱۔ وہ مجھے ملامت کرتے ہیں کہ میں انہیں دیکھنا رو انہیں رکھتا ۔ سچ ہے۔ مَیں کیونکر جاہل سے ملوں جو میری جماعت سے نہیں۔
۳۲ ۔ دانا۔ ادیب ۔ اور جاہل۔ نجیب و شریف اور کمینے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
۳۳ ۔ کسی جاہل سے ملنا او ر اسکی بڑی پگڑی او رلمبی ڈاڑھی او رجبہ کے باعث اس کی عزت کرنا بھی جاہل ہی کاکام ہے۔
۳۴ ۔ زمانہ ا ور اہل زمانہ کے جورو جفا سے جو میں شکوہ کروں تو مجھے معذور رکھنا چاہیئے کیونکہ انہوں نے میرے دل پر مصائب کے پہاڑ رکھ دیئے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
شرؔ قت بایذآء اللئام وشرّھم
۳۵
وفتنتھم لا بالملام ولا العَتْبٖ
لعمری ھٰذی ا لنآئبات اخفھا
۳۶
اشد علی الانسان من وقعۃ القضبٖ
رعی اللہ طیفا قد اتانی بفرحۃٍ
۳۷
تکاد بھا انجو من الھم والنّصبٖ
فانی بلیل بین ھدءٍ ورقدۃٍ
۳۸
اذا شیم برق الشرق فی اسرع الوثبٖ
اضاء ت بہ الاٰفاق والارض کلھا
۳۹
وحار البرایا فیہ خوفامن الخطبٖ
ففاھوا بما شآء وا ولم یتفکّروا
۴۰
لفرط اختباط بالضجیج وبالصّخبٖ
وکم مدع للعلم من فرط جھلہ
۴۱
تاوّلہ بالھرج والطعن والضربٖ
تانّقتُ فیہ غیر یوم و لیلۃ
۴۲
اراقب ما یبدے الزمان من العَجْبٖ
وقد اجتلی اٰثار خیر ورحمۃ
۴۳
من الجانب الشرقی مستوطن الخصبٖ
وانشق من ریح الصّبا کل سُحرۃٍ
۴۴
روایح تروی القلب کا لغصن الرطبٖ
۳۵ ۔ میں خبیث طینت لوگوں کے شر و فتنہ سے نہ انکی ملامت وعتاب سے سخت تنگ آگیاہوں۔
۳۶۔ بخدا یہ ایسی مصیبتیں ہیں کہ ان میں سے ہلکی سے ہلکی بھی انسان پرتلوار کی ضرب سے زیادہ شدید ہیں۔
۳۷۔ اللہ تعالیٰ اس خیال کا حافظ و ناصر ہو جو میرے پاس ایسی بشارت لایا جس سے امید پڑتی ہے کہ میں غم والم سے نجات پاجاؤں گا۔
۳۸۔ اس کا واقعہ یوں ہے کہ میں ایک رات کچھ بیداری اور نیند کے درمیان تھا کہ شرقی بجلی اس زور سے
َ کوندتی نظر آئی۔
۳۹۔ کہ ساری دنیا اسکی روشنی سے منور ہو گئی اور لوگ حیران ہو کر کہنے لگے کہ کوئی بڑاحاد ثہ واقع ہوا چاہتا ہے۔
۴۰۔ جو کچھ کسی کے منہ میں آیا بولتا رہا۔ مگر کسی کو بھی شدت اضطراب اور شور و غل کی وجہ سے سوچنے کاموقع نہ ملا۔
۴۱۔ بعض مدعیان علم نے بڑی جہالت سے اسکی یہ تاویل کی کہ کوئی بڑا فتنہ اور جنگ ہونے والی ہے۔
۴۲ ۔ میں بھی اس امر میں کئی رات دن غور کرتا رہا اور منتظر تھا کہ زمانہ کیا عجیب واقعہ ظاہر کیاچاہتاہے۔
۴۳۔ مگر میں اپنے زعم میں مبارک سرزمین مشرق کی طرف سے رحمت وخیر کے آثار کا منتظر تھا۔
۴۴۔ اور مشرقی ہواسے ہر سحر مجھے ایسی خوشبو آتی۔ جو شاخ تر کی طرح دل کو تر و تازہ کر جاتی۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وتُھدؔ ی لہ من نفحۃٍ عنبریّۃٍ
۴۵
فَحَنَّ لذکر الشرق شوقا الی القربٖ
واُلقی فیہ انّ بالشرق قدوۃ
فقد جآء نا من قادیانَ مُبشِرٌ
۴۶
۴۷
تفوّح انفاس لہ موجب الجذبٖ
بخیر امام انتظرناہ مُذحقبٖ
واخبر ان اضحٰی غلامٌ لاحمدٍ
امامٌ ھمامٌ نائب الشرع مُلْھَمٌ
۴۸
۴۹
خلیفتہ فینا ومنا بلاذبّٖ
من اللہ رب العرش عافٍ عن الذنْبٖ
مجدد دین اللّٰہ فی امّۃٍ غَوَت
۵۰
وصاحب ھذا العصر حقا بلا کذبٖ
جلیل جمیل احسن الناس کُلِّھِم
۵۱
کریم المحیّا اسمر اللون ذوالرّعب
وقور حلیم ربعۃ رب وفرۃٍ
سمی صفی بین الوصف ماجد
۵۲
۵۳
لہ شعر سبط کما قال من نبیّ
حمید السجایا وافر العلم واللبٖ
ھو الحجۃ البیضاء للہ فی الوریٰ
۵۴
کشمس الضُّحٰی قد ضآء شرقا الٰی غربٖ
۴۵۔ اور اسے بُوئے عنبر تحفہ دیتی جس سے میرے دل کو یاد شرق اور اس کے قرب کا اشتیاق لگ گیا۔
۴۶۔ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ مشرق میں ایک برگزیدہ ہے جسکے دم مبارک کی ہوا یہ کشش کر رہی ہے۔
۴۷۔ اتنے میں قادیاں سے ایک بشارت دینے والا آیا کہ جس برگزیدہ امام کا تم برسوں سے انتظار کرتے تھے وہ آگیا۔
۴۸۔ اور اس نے اطلاع دی کہ احمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کا ایک خادم و غلام ہم میں اور ہم میں سے اس کا جانشین ہوا ہے۔
۴۹۔ مبارک امام۔ نائب شرع اور اللہ رب عرش کی طرف سے ملہم اور گناہوں سے پاک۔
۵۰۔ بہک گئی ہوئی امت میں از سرِ نو اللہ کے دین کو بحال کرنے والا اور لا ریب اس زمانہ کا صاحب۔
۵۱۔ صاحب جلال و جمال اور حسن میں سے لوگوں میں سے برتر ۔ کریمانہ بشرہ والا۔ گندم گوں اور صاحب رعب۔
۵۲ ۔ باوقار۔ حلیم۔ میانہ قد اور بڑا سخی ہے۔ اسکے نیچے لٹکنے والے بال ہیں جیسے کہ جناب نبوت مآب نے خبر دی۔
۵۳ ۔ عالی قدر۔ برگزیدہ۔ جس کی وصف عیاں ہے۔ بڑی شرافت والا۔ جس کی تمام عادتیں ستودہ ہیں۔بڑے علم و دانش والا۔
۵۴۔ وہ جہان میں اللہ تعالیٰ کی روشن حجت ہے۔ آفتاب نیمروز کی طرح شرق و غرب میں درخشاں ہے۔
۵۵۔ شریعت کے اسرار کاجاننے والا۔ فرض و ندب میں شریعت کے موجبات پر عمل کرنے والا۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
علیمؔ باسرار الشریعۃ عاملٌ
۵۵
بموجبہا فی محکم الفرض والندبٖ
بشیر بفوز بالمُنٰی لمن اقتدیٰ
۵۶
نذیر لمن ولی من البوس والکربٖ
قوی مھیب اشجع القوم باسلٌ
۵۷
شدید علی الکفار کالصارم العضبٖ
محب لمن ود الرسول وصحبہ
۵۸
عدو لاھل الغی والجبت والنصبٖ
عفیف تقیّ اودع الناس خیرھم
۵۹
واصدقھم فیما یقول وما یُنْبی
حیيٌّ ستیر ذوالمروۃ والوفا
۶۰
عفوّ صبورٌ ھیّن لیّن القلبٖ
وضییءٌ طلیق الوجہ برٌّ مبارک
۶۱
کریم رحیب الباع ذوالمنزل الرَّحبٖ
سریع الی الحسنی نفور عن الخنا
۶۲
بعید من الایذآء والزجر والسبّٖ
امین علٰی حقٍ مطاع مُحَدَّثٌ
۶۳
بکل الذی یقضی ویسطر فی الکتبٖ
یعین بنی الاٰمال بالمال والعطا
۶۴
و یغنی ذوی الافلاس بالجود والوھبٖ
۵۵۔ شریعت کے اسرار کاجاننے والا۔ فرض و ندب میں شریعت کے موجبات پر عمل کرنے والا۔
۵۶۔ اپنے پیرو کو حصول آرزو کی بشارت دینے والا۔ اور منکر کو دکھ درد سے ڈرانے والا۔
۵۷۔ زبردست۔باہیبت۔ شجاع ترین قوم۔ جواں مرد۔ کافروں پر شمشیر تیز سے زیادہ تیز ۔
۵۸۔ جناب رسول ؐ اور انکے دوستوں کے دوست کادوست۔ گمراہوں اور غیر اللہ کے پوجنے والوں کا دشمن۔
۵۹ ۔ پاکدامن‘ تقویٰ شعار سب لوگوں سے برگزیدہ اور پرہیز گار اور اپنی تمام باتوں اور پیشگوئیوں میں سچا۔
۶۰۔ بڑی حیا و شرم والا۔بڑی مروت و وفا والا۔ درگذر کرنے والا۔ برداشت کرنے والا۔ بڑا ہی نرم دل۔
۶۱۔ روشن رو۔ کشادہ بشرہ والا۔ نیکی رساں مبارک ۔کریم بڑا ہی مہمان نواز جس کا مکان سدامہمانوں کیلئے کھلارہتاہے۔
۶۲۔ نیکی کرنے میں جلد باز۔ اور بدکاری سے بھاگنے والا۔ کسی کو سرزنش کرنے ‘دکھ دینے اور دشنام دہی سے کوسوں دور۔
۶۳۔ ماناگیا۔ خدا کی ہم کلامی سے مشرف اورجو کچھ اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھتا ہے اس سب میں امین برحق۔
۶۴۔ امیدواروں کی داد و دہش سے اعانت کرتا ہے ۔ اور مفلسوں کو جود و کرم سے غنی کرتا ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یضیف مساءً وافدیہ وغدوۃً
۶۵
ویدعی اباالاضیاف فی الخصب والجدبٖ
تسیر الیہ الوفد من کل وجھۃ
۶۶
ویقصدہ الرّکبان رکبًا علیٰ رکبٖ
حلیف التقی یھدی الانام الی التقی
۶۷
ویسعٰی لمرضاۃ المہیمن والقربٖ
طبیب بامراض القلوب مُبَصرٌ
۶۸
ینقی من الاھوآء والدرن والثلبٖ
مشید قصر الدین من بعد ما وھت
۶۹
اساطینہ فینا عن الثلم والشعبٖ
تصدی لاصلاح المفاسد فی الوریٰ
۷۰
بمنفعۃٍ تدعوا لی السلم لا الحربٖ
واذن انی قد بعثت مؤیَّدًا
۷۱
بارشاد من فی الحضر منہم وفی السَّھْبٖ
یصنف فی ھذا رسایل جمّۃً
۷۲
ویرسلھا جھرًا الی العُجْم و العُرْبٖ
واعلن فی الاٰفاق دعوۃ بیعۃ
۷۳
فشدوا الیہ الرحل حزبا علی حزبٖ
یزفون من بَدْوٍ الیہ وحَضرۃ
۷۴
ثباتًا واشتاتًا من الشِیبِ والشبّٖ
۶۵۔ صبح و شام مہمانوں کی مہمانی میں مصروف رہتا ہے۔ اسی لئے گرانی اور ارزانی میں اسے مہمانوں کا باپ کر کے پکارا جاتاہے۔
۶۶ ۔ہر سمت سے جماعتوں کی جماعتیں اسکے پاس آتی ہیں اور گروہ در گروہ ٹرینوں میں بھر کر اس کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔
۶۷۔ بڑا ہی پرہیز گار اور پرہیز گاری کی راہ خلقت کو دکھانے والا۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور قرب میں کوشش کرتا رہتا ہے۔
۶۸ ۔ دل کی بیماریوں کا طبیب۔ بڑی پہچان والا جو ہر قسم کے عیب۔ زنگ اور ُ بری خواہشوں سے پاک صاف کرتا ہے۔
۶۹ ۔ دین کی عمارت کا مضبوط کرنیوالا۔ جب کہ رخنے پڑ پڑ کر اس کی دیواریں ڈَھینے پر آرہی تھیں۔
۷۰ ۔ خلقت کے بگاڑوں کی اصلاح کا بیڑ ا ایسی نفع رسانی کی بنا پر اٹھایا ہے جس کی بلاہٹ صلح کی جانب ہے نہ لڑائی کی طرف۔
۷۱ ۔ اور اشتہار پر اشتہار دیئے ہیں کہ میں تائید یافتہ از خدا آیاہوں تو کہ ان سب کو جو د یہاتوں اور شہروں میں رہتے ہیں راہ حق دکھاؤں۔
۷۲ ۔ اس بارہ میں متعدد رسالے تصنیف کرکے علانیہ طو رپر اطراف و اکناف عالم میں بھیجتاہے۔
۷۳ ۔ عالم میں بیعت کی دعوت کا اعلان دے دیا ہے اور جوق جوق لوگ تیاریاں کر کر اسکے قدموں میں حاضر ہوتے ہیں۔
۷۴ ۔ دیہات سے ‘شہر سے ہر سمت سے الگ الگ اور مل مل کر زائرین اس کے حضور میں حاضر ہوتے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یباؔ یعہ من کل حزبٍ عریفہ
۷۵
علی طاعۃ الرحمٰن فے السہل والصَّعْبٖ
تراھم خضوعًا خاشعین لربّھم
۷۶
قلوبھم ملآی من الشوق والحُبّٖ
نفوع یفید الناس من نفثاتہٖ
۷۷
ویسبی قلوب الخلق من خلقہ العذبٖ
رحیم بھم کالوالد البر مشفِقٌ
۷۸
ینفس عنہم کربۃ الجھل والعُجبٖ
وبحر علوم یقذف الدرّموجہ
۷۹
الی الناس طرًا لایذود عن النَھْبٖ
یحلق اھل العلم والفضل عندہٗ
۸۰
صباحًا مساءً وھوکالبدر فی الشھبٖ
قعودًا لدیہ تسقط الطیر فوقھم
۸۱
کانھم استولت علیہم ید الرُّھبٖ
یدورون فی اخذ المکارم حولہ
۸۲
مثال النجوم الدایرات علی القطبٖ
وکم من کتاب جآء نا منہ معجب
۸۳
لہ درجات عالیات علی الکتبٖ
براھینہ تھدی البرایا و ۱؂ کحلہ
۸۴
یجلی عیون الشک والجھل والعَصْبٖ
۷۵۔ ہر گروہ کے شناساآدمی اس سے بیعت کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں راحت و رنج میں اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار رہیں گے۔
۷۶۔ ان بیعت کرنیوالوں کو تم دیکھو(وہ کیسے ہیں !) وہ اپنے رب کے آگے گڑ گڑا نے والے ہیں۔ ان کے دل شوق و محبت الٰہی سے بھرپور ہیں۔
۷۷۔ وہ نفع رساں ہے۔ خلقت کو اپنے کلام سے فائدہ بخشتا ہے اور اپنے خلق شیریں سے خلقت کے دل مٹھی میں کرلیتاہے۔
۷۸۔ان پر مہربان باپ کی طرح رحیم ومشفق ہے۔ اور جہل اورخود بینی کی بلاؤں کو ان پر سے ٹالتاہے۔
۷۹۔وہ علوم کا سمندر ہے جس کی موجیں تمام لوگوں کی طرف موتی پھینکتی ہیں اور پھر لوٹنے سے کسی کو روکتا نہیں۔
۸۰ ۔ صبح و شام اہل علم و فضل اس کے گرد حلقہ کئے رہتے ہیں اور وہ ان میں ایسا ہے جیسے ستاروں میں بدر۔
۸۱ ۔ وہ اہل علم اس کے حضور میں ایسے محو ہوکر بیٹھے رہتے ہیں کہ انہیں بے جان خیال کر کے پرندے ان پر بیٹھ جاتے ہیں گویا ہیبت کا ہاتھ ان لوگوں پر غالب ہے۔
۸۲ ۔ جس طرح بنات النعش قطب کے گرد گھومتے ہیں اسی طرح یہ اہل علم تحصیل معارف کیلئے اسکے گرد گھومتے ہیں۔
۸۳۔ اسکی کئی بڑی بڑی عجیب کتابیں بھی ہمیں ملیں جنہیں اور کتابوں پر بڑی بھاری فضیلت او رترجیح ہے۔
۸۴ ۔ اسکی براہین (احمدیہ) خلقت کی ہادی ہے اور سرمہ چشم آریہ جہل شک اور تعصب کی آنکھوں کو جلا دیتا ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 145
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 145
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وتوؔ ضیحہ تجلو ظلام غوایۃ
۸۵
وماالفتح الا مفتح الفتح والغلبٖ
وکم معجزات النظم قد تبھر النھی
۸۶
تغادر من باراہ احیر من ضبّٖ
یروق عیونا حسنہا ونظامھا
۸۷
وتکسو نفوسًا کلھا نشوۃ الشربٖ
قصآئد فیہا النور والصدق والھدی
۸۸
تدل علی الاحسان والفوز بالقربٖ
تکاد النجوم الزاھرات من السما
۸۹
تخر الیہا ساجداتٍ علی التُربٖ
یلذ علی الاسماع حر کلامہ
۹۰
ولطف معان فیہ اَلْبَابَنَا یَسْبِیْ
نفیس ارانا من نفایس سرّہ
۹۱
دقایق علم لا ینال عن الکسبٖ
واعجز من اعجاز انفاسہ العدی
۹۲
وقدباء من احداہ۱؂ بالخسر والتَّبٖ
شیاطین انس منہ فروّا و جنّۃٍ
۹۳
کان لھم انفاسہ شھب الثقبٖ
اقر لہ الاعداء بالفضل والعلٰی
۹۴
وذل لدیہ کل ذی العزل والنصبٖ
۸۵۔ توضیح مرام گمراہی کی تاریکی کوکھول دیتی ہے۔ اور فتح اسلام تو فتح وغلبہ کی کنجی ہے۔
۸۶۔ اورآپ کی منظومات کے معجزے عقل کو حیران کردیتے اور مقابلہ کرنے والے کو سوسمار سے بھی زیادہ سراسیمہ کر ڈالتے ہیں۔
۸۷۔ ان کا حسن و نظام آنکھوں کو سرور بخشتا اورسخن فہموں کے دلوں کو سرشار بھی کر دیتا ہے۔
۸۸ ۔ قصائد میں تونور۔ صدق ۔ہدایت ۔توحید ۔ اور قرب الٰہی کے حصول کی باتیں بھری ہوئی ہیں۔
۸۹۔ کچھ عجب نہیں جو آسمان کے نورانی تارے ان قصائد کے آگے سجدہ کرنے کیلئے زمین پر آر ہیں۔
۹۰۔ آپ کالطیف کلام کانوں کو لذت دیتااور اسکے معانی کی خوبی تو ہماری دانشوں کو اسیر ہی کر لیتی ہے۔
۹۱۔ آپ کی ذات مبارک نے عجائبات اسرار الٰہیہ سے ہمیں ایسے دقائق معارف دکھلائے ہیں جو کسب سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
۹۲۔ اپنے کلمات طیبات سے مخالفوں کو عاجز کر دیا ہے او رمعارضہ کرنیوالے کے پلّے زیاں اور وبال کے سوا کچھ نہیں پڑا۔
۹۳۔ تمام شیاطین انس و جن اُسکے ظہور سے رفو چکر ہوگئے ہیں گویاآپ کے انفاس انکے حق میں شہاب ثاقب ہو گئے۔
۹۴۔ دشمن بھی آپ کی فضیلت کا اقرارکرچکے ہیں اور بڑے بڑے صاحب اختیار لوگ بھی آپ کے سامنے سر نیچا کر دیتے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 146
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 146
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/146/mode/1up
دعاؔ امۃ من ھٰھنا ثم ھٰھنا
۹۵
فقال سویداء القلوب لھا لَبِّی
یؤثر فی اتباعہ مایقولہ
۹۶
ویکثرھم یومًا فیومًا ولایکبی۱؂
ویحمدہ من شط منہ ومن دَنا
۹۷
سوی من یری فی الدین غیر اولی الاربٖ
وکم من کبیر القوم اصغی وانَّما
۹۸
حذارًا علی الدنیا ناٰی عنہ بالجنبٖ
فلم یبق الا من تعدّٰی بجھلہ
۹۹
یماری مراءً عن غوایتہ یُنَبِّیٖ
اذا قیل برز وَ اختبرہ منا ظرًا
۱۰۰
یفرویھذی بالوقاحۃ والجھبٖ
واکبر من اَغراہ نشوۃ جَھلہ
۱۰۱
بانکارہ من یدعی العلم عن کذبٖ
یمیل الی الطاغوت طورًا وتارۃ
۱۰۲
الی الرفض ثم الی النیجر الکفر کا لصَّبٖ۲؂
ومتبع طورًا و وقتًا مقلد
۱۰۳
وعبد النصاری مرۃ ناصرا لصلبٖ
تزبا بزی الکفر یشری بہ الھدیٰ
۱۰۴
ویبغی رضی الکفار فی سخط الربٖ
۹۵۔ اس نے قوم کو ہر سمت سے آواز دی جسے سن کر سویدائے دل نے کہا کہ اسے مان ہی لو۔
۹۶۔ آپکا کلام معجزنظام پیروؤں کے دلوں میں پور ی تاثیرکرتاہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انہیں روز افزوں ترقی نصیب ہو رہی ہے۔ تنزل نہیں۔
۹۷۔ سب ہی نزدیک و دور آپ کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ سوائے اس بدقسمت کے جسے دین سے کوئی غرض واسطہ نہ ہو۔
۹۸۔بڑے بڑے سرداران قوم کو آپکی باتیں دل میں لگ جاتی ہیں۔ مگر پھر دنیا سے ڈرکر آپ سے الگ ہوجاتے ہیں۔
۹۹۔ اب سوائے جاہل بے اندام کے اور کوئی نہیں رہا جو ناحق کے جھگڑوں سے اپنی گمراہی کاثبوت دیتا ہے۔
۱۰۰۔ جب اسے کہو میدان میں نکل اور مناظرہ کر کے حضرت مثیل کو آزما لے تو نوک دم بھاگتا اور ناگفتنی باتیں منہ پر لاتاہے۔
۱۰۱۔ اور سب سے بڑھ کر ایک جاہل ہے جو نادانی کے نشے میں چو ر ہو کر انکارپرکھڑا اور علم کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے۔
۱۰۲ ۔ کبھی تو وہ پاگل آدمی کی طرح طاغوت کی طرف جھک پڑتا ہے۔ کبھی رافضی بن جاتا او رکبھی فرقہ ضالہ نیچریہ کا پہلو اختیار کر لیتاہے۔
۱۰۳۔ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ کبھی کبھی نصار ٰ ی کا غلام صلیب کا حامی بھی بن جاتاہے۔
۱۰۴ ۔ کفر کا لبا س پہنکر دین کو بیچتاہے او ر اپنے مولا کی ناراضی میں کفارکو خو ش کرناچاہتاہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 147
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 147
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/147/mode/1up
وماؔ ھاجہ شیءٌ سوی حسد لہ
۱۰۵
وذلک داء لا یعالج بالطبٖ
اذا بھت المرتاب عند حجاجہ
۱۰۶
تبادر للبھتان والشتم والقشبٖ
ولم یدر ان اللہ ینصر عبدہ‘
۱۰۷
علی الجاھل المرتاب والمبطل الخبٖ
ومن یخذل المبعوث یخذلہ ربّہ
۱۰۸
ویجعلہ فی خلقہ عالی الکعبٖ
ومن لم یعاونہ سیبک تأَسفا
۱۰۹
ویلق اثامًا بالمذلّۃ والکبٖ
ھلموا عباد اللّٰہ و استمعوا لہ
۱۱۰
وقوموا جمیعًا قومۃ الجحفل اللجبٖ
اعینوہ بالاموال و افدوہ بالنفوس
۱۱۱
تنجوا من الافات فی الخلف و الشجبٖ
علیکم علیکم باتباع امامکم
۱۱۲
فنعم امام جاء فیکم من الربٖ
یقودکم نحو الھدی فاقتدوا بہ
۱۱۳
ووالوہ بالاخلاص والصدق و الرغبٖ
اتاکم ببرھان ومافیہ مریۃ
۱۱۴
فلا تبطلوہ بالمماراۃ والشغبٖ
۱۰۵ ۔ اس کی مخالفت کی اور کوئی وجہ سوائے حسد کے نہیں۔ اور اس بیماری کا علاج تو ِ طب میں بھی نہیں ۔
۱۰۶ ۔ جب وہ اللہ کی باتوں میں شک لانے والامباحثہ میں ہارکر بغلیں جھانکنے لگا تب گالی گلوچ جھوٹ اور بہتان بولنے لگا۔
۱۰۷ ۔ اور یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ بہ مقابلہ جاہل شکی مبطل دھوکے باز کے اپنے بندہ کا ناصرہے۔
۱۰۸۔ اصل یہ ہے کہ جس نے بھیجے ہوئے کو چھوڑا اس کو اس کا رب بھی ضرو ر چھوڑے گا اور وہ اسے خلقت میں ذلیل کرے گا۔
۱۰۹۔ جس نے آج اسکی مدد نہ کی کل وہ افسوس کھا کر روئے گا۔اوربڑی ذلت ورسوائی کے علاوہ سخت گنہ گار ہوگا۔
۱۱۰ ۔ آؤ ۔ اے خداکے بندو! اس کی باتیں سنو اور جرّ ار لشکر کی طرح سب کے سب اٹھ کھڑے ہو۔
۱۱۱۔ مالوں سے اسکی مدد کرو۔ جانوں کو اس پر فدا کرو تو تم تمام دکھ درد کی آفتوں سے نجات پاؤگے۔
۱۱۲ ۔ اس اپنے امام کی پیروی کو فرض سمجھو۔ کیونکہ رب تعالےٰ کی طرف سے یہ خوب امام تم میں آیا ہے۔
۱۱۳۔ وہ تمہیں ہدایت کی طرف چلاتاہے اسکے پیچھے آؤ اور اخلاص صدق اور رغبت سے اسکو پیار کرو۔
۱۱۴ ۔ تمہارے پاس واضح برہان لایا ہے جس میں شک کی گنجایش نہیں۔ اب ناحق کے جھگڑوں فسادوں سے اس کا ابطال نہ کرو۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 148
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 148
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/148/mode/1up
ھوؔ النعمۃ العظمٰی من اللہ فاشکروا
۱۱۵
و لا تکفرواھا بالتمرد و النکبٖ
ھو الغیث فیکم فاقدروا حق قدرہ
۱۱۶
یروی البرایا کالصبیب من السحبٖ
ھو النور بین الرشد و الغی فی الوری
۱۱۷
بہ تنجلی سود الاساء ۃ والذنبٖ
وللہ عینا من راٰہ فانہ
۱۱۸
علی شرف اعلی وقد فاز بالحِسبٖ
عجبت لمن لم یستبن بعد امرہ
۱۱۹
وقد بلغ الابکار فی الخدر والحجبٖ
ویاعجبی ممن اساء ظنونہ
۱۲۰
بہ وھو یھدیہم الی خالص الحبٖ
ابی اللہ الاان یزید اعتلاءَ ہ
۱۲۱
ومن یتحی ما شاء للمحو والقلبٖ
ابی اللّٰہ الا ان یضییءَ سراجہ
۱۲۲
ومن ذا الذی یطفیہ بالنفخ والحصبٖ
لحی اللہ من ولاہ بالبغي مدبرا
۱۲۳
یثیر رعاع الناس بالویل والحربٖ
لک اللہ قد ارسلت فینا مکرمًا
۱۲۴
فاھلا وسھلًا مرحبا بک یا مُحبی
۱۱۵ ۔ وہ اللہ کی طرف سے بڑی نعمت ہے۔ اسکی قدر کرو۔ سرکشی اور رو گردانی سے کفران نعمت کے ملزم نہ ہو۔
۱۱۶۔ وہ تم میں ابر رحمت ہے اس کی پور ی قدر کرو۔ یہ آسمانی باراں کی طرح مخلوقات کو سیراب کرتاہے۔
۱۱۷ ۔ وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کے لئے عالم میں ایک نور ہے اسی سے بدکاریوں اور گناہوں کی تاریکی دور ہوگی۔
۱۱۸۔ مبارک ہو وہ آنکھ جس نے اسے دیکھا۔ کیونکہ اسے بڑا ہی شرف اور بڑاہی اجر حاصل ہوا۔
۱۱۹۔ مجھے اس شخص پر تعجب آتا ہے جس پر اب تک اس امام کا مشن واضح نہیں ہوا حالانکہ پردہ نشین کنواریوں تک تو یہ دعوت پہنچ گئی ہے۔
۱۲۰ ۔ اس پر تو بڑا ہی تعجب ہے جو اب تک اس پر بدظنی رکھتا ہے حالانکہ وہ تو خالص حُبِّ الٰہی کی انھیں راہ دکھاتا ہے۔
۱۲۱۔ اللہ تعالیٰ قطعی فیصلہ کر چکا ہے کہ اس امام کی عظمت وقدر بڑھے گی اور جسے خداقائم رکھنا چاہے اسے کو ن میٹ سکے یا ادل بدل کر سکے۔
۱۲۲۔ اللہ تعالیٰ ضرور اسکے چراغ کو منور رکھنے والاہے۔ کون ہے جو پھونکوں اورکنکروں سے اسے بُجھادے؟۔
۱۲۳۔ خدا کی پھٹکار اس پر جو اس سے روگرداں ہوتا اور سفلہ لوگوں کو اس کے مقابلہ کے لئے جوش دلاتاہے۔
۱۲۴۔ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ ہو! تو ہم میں مکرّم ومعظّم بھیجا گیا ہے۔ آئیے آئیے اے فیاض کریم ہمارے سر آنکھوں پر بیٹھئے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 149
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 149
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/149/mode/1up
واشقٰی عباد اللہ من صار جاحدًا
۱۲۵
لفضلک واستھواہ ابلیس فی الشقبٖ
فاخزاہ فی الدنیا وسود وجھہ
۱۲۶
وقدامہ یوم الندامۃ والسَحْبٖ
دعانی الی ذاالنظم صدق مودّۃٍ
۱۲۷
وفرط اشتیاق کان مستوطن القلبٖ
فھاک امام المؤْمنین حدیقۃ
۱۲۸
منضرۃ الاشجار مخضرۃ القضبٖ
ودونک منی روضۃ مستطابۃ
۱۲۹
سقاھا الحجٰی سقی السحائب لا الغربٖ
یروق عیون الناظرین ابتسامھا
۱۳۰
اذا سرحت فیہا قلوبھم یطبی
قوافٍ تزید السامعین اشتیاقکم
۱۳۱
اذا اُنشدوھا نحوا عتابکم یصبی
احن الیکم والدیار بعیدۃ
۱۳۲
وشوق لقاء ینجد العین بالسکبٖ
تھز النسیم القلب حین ھبوبھا
۱۴۴
کھزّلسانٍ بالثنا دایما رَطبٖ
سقام وبعدثم عذرووحدۃ
۱۳۴
فکیف الحدور السہل فی المرتقی العَصبٖ
۱۲۵ ۔بڑا ہی شقی بندہ ہے جو تیری فضیلت کا منکر ہوا ۔ اور اسے شیطان نے وادئ ضلالت میں پھینک دیا۔
۱۲۶۔ خدا نے اسے دنیا میں ذلیل اور رو سیاہ کر دیا او رعاقبت میں اسکے سامنے دخول جہنم اورندامت ہے۔
۱۲۷۔ میں نے یہ قصیدہ مدحیہ محض اخلاص محبت اورکمال اشتیاق سے جو میرے دل میں جاگزین ہے لکھا ہے۔
۱۲۸ ۔ اے امام المومنین!لیجئے یہ ایک باغ ہے جس کی شاخیں اور درخت سب سر سبز ہیں۔
۱۲۹۔ میری طرف سے یہ باغ عجیب تحفہ قبول فرمائیے۔ یہ باغ سدا سرسبز رہنے والا ہے اور کبھی خزاں کامنہ نہ دیکھے گا۔
۱۳۰۔ اس کی شگفتگی ناظرین کی آنکھوں کو خنک کر دیتی ہے اور جب انکے دل اس میں سیر و تفریح کریں تو انہیں خوش و خرم کرتی ہے۔
۱۳۱۔ یہ ایسے اشعار ہیں کہ جب پڑھے جائیں گے تو سامعین کے دلوں میں اشتیاق پیدا کرینگے پھر وہ شوق حضورکی آستان بوسی کی طرف انھیں مائل کرے گا۔
۱۳۲۔ میں آپ کا مشتاق ہو رہا ہوں۔ ملک بہت دور ہے اور شوق ملاقات میں میری آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں۔
۱۳۳۔ جب نسیم چلتی ہے میرے دل کو جنبش دے جاتی ہے جسطرح میری زبان حضورکی مدح و ثنا میں ہمیشہ حرکت کرتی رہتی ہے۔
۱۳۴۔ بیماری۔ دوری۔ عذر اور تنہائی اور اس پر دشوارگزار بیابان اورکٹھن منزلیں میری راہ میں حائل ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 150
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 150
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/150/mode/1up
واشکو عدوًا لا یزال بمرصد
۱۳۵
یراقبنی فیما اقول وما انبی
مداج یھیج الشر من ای وجھۃ
۱۳۶
ویرشقنی ارشاق من ریع بالسَلْبٖ
یحرق انیابًا علیّ عداوۃ
۱۳۷
کانی اوجعت المنافق بالغَصْبٖ
بمقدمک المیمون طابت بشارۃ
۱۳۸
واسفرت الدنیا لکل اخی لُبّٖ
وزالت بھا الاتراح عن قلب مکمدٍ
۱۳۹
وقام بہٖ داعی المسرّۃ و الرَّحْبٖ
فلازلت للاسلام عونا وعزّۃ
۱۴۰
یھابک من یأْباہ فی الشرق والغرب
۱۳۵۔ میں ایک دشمن کی شکایت کرتاہوں جو برابر گھات میں لگا ہوا میرے اقوال کو تاکتا رہتاہے۔
۱۳۶ ۔ وہ ایک منافق ہے جو ہر طرح شر اٹھاتا رہتا ہے اور مجھے یوں تیر مارتا ہے جیسے وہ شخص جسے اسکا اسباب لوٹنے کی دھمکی دیجاوے۔
۱۳۷ ۔ وہ مارے بغض کے مجھ پر دانت پیستا رہتا ہے جیسے میں نے اسکاکچھ چھین کر اسے ستایاہے۔
۱۳۸ ۔ حضور کے قدوم مبارک سے دنیا بشارت پا کرخوش ہوگئی ہے اور عقلمندوں کو روشن نظرآنے لگی ہے۔
۱۳۹۔ اس بشارت کو پاکر آزردہ دلوں کے رنج دور ہو گئے اور بجائے اس کے دلوں میں خوشی اور فراخی کے ولولے پیدا ہوگئے۔
۱۴۰ ۔ میری دعاہے کہ حضور اسلام کے مددگار اور باعث عزّت رہیں ! او رمنکرانِ اسلام شرق و غرب سے آپ سے خوف کھاتے رہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 151
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 151
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/151/mode/1up
مباؔ حثہ
مابین
حضرت اقدس ؑ مرزا غلام احمدؐ قادیانی مسیح موعودؑ
اور
مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی
دہلی میں
پرچہ نمبر(۱)
مولوی محمد بشیر صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد للّٰہ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰیامابعد ارباب علم و دین پر مخفی نہ رہے کہ اصل دعویٰ جناب مرزا صاحب کا مسیح موعود ہونے کا ہے لیکن جناب ممدوح کے محض اصرار بلیغ سے مباحثہ حیات و وفات مسیح علیہ السلام میں منظور کیا گیا ہے اور اس مسئلہ میں بھی اصل منصب جناب مرزا صاحب کا مدعی کاہے لیکن صرف جناب ممدوح کے اصرار سے ہی یہ بھی قبول کیا گیا کہ پہلے یہ عاجز اَدِلَّہ حیات مسیح علیہ السلام تحریر کرے اور اس میں بحث صعود و نزول وغیرہ کا خلط نہ کیا جائے فاقول بحول اللّٰہ و قوتہ وما توفیقی الا باللّٰہِ علیہ توکلت والیہ اُنیب۔جاننا چاہئے کہ دلیلیں حیات مسیح علیہ السلام کی پانچ آیتیں ہیں۔ دلیل اول یہ ہے۔قال اللّٰہ تعالی فی سورۃ النّساء ۱؂ وجہ استدلال کی یہ ہے کہ لیؤمنن میں نون تاکید کا آیا ہے اور نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے ۔ ماضی اور حال کی تاکید کے لئے نون نہیں آتا ہے ازہری تصریح میں لکھتا ہے۔ ولایوکد بہما الماضی لفظًا و معنی مطلقًا لا نہما یخلصان مدخو لہما للاستقبال وذالک ینافی المضی انتہی اور دوسری جگہ لکھتا ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 152
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 152
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/152/mode/1up
ولاؔ یجوز تاکیدہ بھما اذا کان منفیا اوکان المضارع حالاکقراء ۃ ابن کثیر لاقسم بیوم القیمۃ۔ و قول الشاعر یمینا لا بغض کل امرئ یزحزف قولا ولا یفعل۔ فاقسم فی الاٰیۃ والبغض فی البیت معناھما الحال لدخول اللّام علیہما وانما لم یؤکد ا بالنون لکونھا تخلص الفعل للاستقبال وذلک ینافی الحال انتہی۔ فوائد ضیائیہ میں ہے تختص ای النون بالفعل المستقبل فی الامر و النھی والاستفہام والتمنی والعرض والقسم وانما اختصت ھذہ النون بھذہ المذکورات الدّالۃ علی الطلب دون الماضی والحال لانہ لایؤکد الا مایکون مطلوبا انتہی۔ عبدالحکیم تکملہ میں لکھتے ہیں لان النون تخلص المضارع للاستقبال فکرھوا الجمع بین حرفین لمعنی واحد فی کلمۃ واحدۃ ۔مغنی میں ہے ولایوکد بھما الماضی مطلقا و اما المضارع فان کان حالا لم یوکد بھما و ان کان مستقبلا اکدبھما وجوبا فی نحو واللہ لاکیدن اصنامکم انتہٰی۔ شیخ زادہ حاشیہ بیضاوی میں لکھتا ہے۔ و اعلم ان الاصل فی نون التاکید ان تلحق باٰخر فعل مستقبل فیہ معنی الطلب کالامروالنہی والاستفہام والتمنی والعرض نحواضربن زیدا ولاتضربن وھل تضربنہ ولیتک تضربن مثقلۃ ومخففۃ واختص بما فیہ معنی الطلب لان وضعہ للتاکید و التاکید انما یلیق بما یطلب حتی یوجد ویحصل فیغتنم ھوبوجدان المطلوب ولایلیق بالخبرالمحض لانہ قد وجد وحصل فلایناسبہ التاکید واختص بالمستقبل لان الطلب انما یتعلق بمالم یحصل بعد لیحصل وھو المستقبل بخلاف الحال والماضی لحصو لھما والمستقبل الذی ھو خبر محض لا تلحق نون التاکید باٰخرہ الا بعد ان یدخل علی اول الفعل مایدل علی التاکید کلام القسم وان لم یکن فیہ معنی الطلب لان الغالب ان المتکلم یقسم علی مطلوبہ انتہٰی ۔اور ایسا ہی بلا خلاف تمام کتب نحو میں مرقوم ہے۔ قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں بھی نون بہت مواضع میں خاص مستقبل کیلئے آیا ہے اور ماضی اور حال کیلئے ایک جگہ بھی پایا نہیں جاتا۔ اس مقام پر چند آیات نقل کی جاتی ہیں سورہ بقر میں ہے ۱؂ ا ور بھی اسی میں ہے ۲؂ اور بھی اسی میں ہے ۳؂ سورہ آل عمران میں ہے ۴؂ اور بھی اسی میں ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 153
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 153
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/153/mode/1up
۱؂ اور بھی اسی میں ہے۔ الایۃ ۲؂ اور بھی اسی میں ہے۔ ۳؂ سورہ نساء میں ہے ۴؂ سورہ مائدہ کے رکوع گیارہویں میں ہے۔ ۵؂ اسی سورہ کے تیرہویں رکوع میں ہے ۶؂ سورہ انعام کے دوسرے رکوع میں ہے ۷؂ سورہ اعراف کے پہلے رکوع میں ہے ۸؂ اسی سورہ کے چودہویں رکوع میں ہے ۹؂ اسی سورہ کے اکیسویں رکوع میں ہے ۱۰؂ سورہ ابراہیم کے دوسرے رکوع
میں ہے ۱۱؂ سورہ ابراہیم کے تیسرے رکوع میں ہے ۱۲؂ سورہ نحل کے تیرہویں رکوع میں ہے۔ ۱۳؂ اسی میں ہے۱۴؂ اسی میں ہے ۱۵؂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں ہے۔ ۱۶؂ سورہ حج کے چھٹے رکوع میں ہے ۱۷؂ سو رہ نور کے ساتویں رکوع میں ہے۔ ۱۸؂ سورہ نمل کے دوسرے رکوع میں ہے۔ ۱۹؂ سورہ عنکبوت کے ساتویں رکوع میں ہے ۲۰؂ سورہ محمد کے ۴ رکوع میں ہے۲۱؂ تغابن کے پہلے رکوع میں ہے ۲۲؂ انشقت میں ہے ۲۳؂ اگر جناب مرزا صاحب ایک آیت یا ایک حدیث یا کوئی کلام عرب عربا کا ایسا پیش کریں کہ اس میں نون تاکید حال یا ماضی کیلئے یقینی طورپر آیا ہو یا کوئی عبارت کسی معتبر کتاب نحو کی جس میں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 154
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 154
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/154/mode/1up
تصرؔ یح امر مذکور کی ہو تو میں اپنے اس مقدمہ کو غیر صحیح تسلیم کر لوں گا بعد اس تمہید کے میں کہتا ہوں کہ لفظی ترجمہ اس آیت کا یہ ہوا اور نہیں ہو گا اہل کتاب میں سے کوئی مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ حضرت عیسیٰ کے پہلے مرنے حضرت عیسیٰ سے اور حاصل ترجمہ یہ ہے کہ آئندہ زمانے میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ سب اہل کتاب اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے مرنے سے پہلے ایمان لاویں گے یہی ایک معنی اس آیت کے موافق محاورۂ عرب و قواعد نحو اور محاورہ کتاب و سنت کے صحیح ہیں اور اس کے ماعدا جتنے معنے ہیں سب غلط اور باطل ہیں کیونکہ کسی معنی کی بنا پر لیومنن کا لفظ خالص استقبال کیلئے نہیں باقی رہتا وہ چار معانی ہیں۔ اول وہ جو عامہ تفاسیر میں منقول ہے کہ موتہ کے ضمیر کتابی کی طرف عائد ہے اور معنے یہ ہیں کہ نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر البتہ ایمان لاتاہے حضرت عیسیٰ پر اپنے مرنے سے پہلے یعنی نزع روح کے وقت اس تقدیر پر لیومنن کا خالص استقبال کیلئے نہ ہونا ظاہر ہے اس لئے یہ معنے باطل ہیں۔ دوسرے معنے وہ ہیں جو جناب مرزا صاحب نے کشفی طور پر ازالہ اوہام کے صفحہ ۳۷۲ میں لکھے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر اہل کتاب ہمارے اس بیان مذکورہ بالا پر جو ہم نے اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کیا ہے ایمان رکھتا ہے قبل اس کے کہ وہ ایمان لاوے کہ مسیح اپنی موت سے مر گیا فقط۔ یہ معنے بھی بسبب اس کے کہ اس تقدیر پر لیؤمنن خالص استقبال کیلئے نہیں رہتا ہے باطل ہیں اور اس معنے کشفی کے بطلان کے اور بھی وجوہ ہیں مگر ان کو اس بحث سے علاقہ نہیں ہے اس لئے ہم ان کو یہاں بیان نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان وجوہ کا ذکر ازالہ اوہام کے رد میں بہ بسط بسیط کیا جائے گا۔ تیسر ے وہ معنی ہیں جو جناب مرزا صاحب نے ازا لۃ الاوہام کے صفحہ ۳۸۵ میں لکھے ہیں وہ یہ ہیں کہ مسیح تو ابھی مرا بھی نہیں تھا کہ جب سے یہ خیالات شک و شبہ کے یہود و نصاریٰ کے دلوں میں چلے آتے ہیں فقط۔ یہ معنی بھی اسی وجہ سے باطل ہیں کہ لیؤمنن اس تقدیر پر خالص استقبال کیلئے نہیں رہتا بلکہ ماضی کیلئے ہوجاتا ہے چوتھے وہ ہیں جو مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی مرید مخلص مرزا صاحب نے القول الجمیل کے صفحہ ۲۸ میں لکھے ہیں وہ یہ ہیں اور ان اہل کتاب میں سے ہر ایک شخص کیلئے ضروری ہے کہ اس بات کو اپنے مر جانے کے پیشتر ہی تسلیم کرے فقط۔ اس عبارت کا مطلب اگر یہ ہے کہ ان اہل کتاب میں سے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ اس بات کو اپنے مرنے سے پہلے ہی تسلیم کرے یعنی یہ جملہ انشائیہ ہے جیسا کہ بعض عبارات القول الجمیل اس پر قرینہ ہے تو اس معنے کے غلط ہونے کی یہ وجہ ہے کہ صاحب القول الجمیل اس مقام پر غلط فاحش

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 155
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 155
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/155/mode/1up
کا مصدر ہوا ہے کیونکہ لیومنن میں لام مکسورہ‘ لام الامر سمجھا ہے حالانکہ قرآن خواں اطفال بھی جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں لام مفتوحہ لام تاکید ہے اور اگر یہ معنی ہیں کہ ان اہل کتاب میں سے ہر ایک شخص اس بات کو اپنے مرنے سے پہلے تسلیم کر لیتا ہے یعنی یہ جملہ خبر یہ ہے تو اس وقت لیؤمنن خالص استقبال کیلئے نہیں رہتا ہے اس لئے یہ معنے غلط ہوئے اور وہ معنے اس آیت کے جو خاکسار نے اول بیان کئے سلف میں سے ایک جماعت کثیر اسی طرف گئی ہے ان میں سے ہیں ابوہریرہ اور ابن عباس اور ابو مالک اور حسن بصری وقتادہ و عبدالرحمان بن زید بن اسلم۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے حدثنا ابن بشار حدثنا عبدالرحمن عن سفیان عن ابی حسین عن سعید بن جبیر عن ابن عباس وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسٰی بن مریم وقال العوفی عن ابن عباس مثل ذلک قال ابومالک فی قولہ الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال ذلک عند نزول عیسی بن مریم علیہ السلام لایبقی احد من اھل الکتاب الا اٰمن بہ وقال الضحاک عن ابن عباس وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ قبل موتہ یعنی الیہود خاصۃ وقال الحسن البصری یعنی النجاشی و اصحابہ رواھما ابن ابی حاتم وقال ابن جریر حدثنی یعقوب حدثنا ابن علیۃ حدثنا ابورجاء عن الحسن وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسٰی وانہ لحیٌّ الآن عند اللہ و لکن اذا نزل آمنوا بہ اجمعون و قال ابن ابی حاتم حدثنا ابی حدثنا علی بن عثمان اللاحقی حدثنا جریریۃ بن بشیر قال سمعت رجلا قال للحسن یا ابا سعید قول اللہ عزّوجل وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسٰی ان اللہ رفع الیہ عیسٰی وھو باعثہ قبل یوم القیٰمۃ مقاماً یومن بہ البرو الفاجروکذا قال قتادۃ وعبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیر واحد وھذا القول ھو الحق کما سنبینّہ بعد بالدلیل القاطع انشاء اللہ و بہ الثقۃ وعلیہ التکلان انتہٰی۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اس طرف جانا حدیث صحیحین سے ظاہر ہے مخفی نہ رہے کہ جناب مرزا صاحب نے اس معنی پر جس کو ہم نے صحیح اور حق کہا ہے۔ ازالۃ الاوہام کے صفحہ ۳۶۸۔ اور صفحہ ۳۶۹ میں چار اعتراض کئے ہیں ان سب کا جواب مسکت بفضلہ تعالیٰ ہمارے پاس موجود ہے۔ اعتراض اول آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تعمیم کا دے رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں جو مسیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے اور آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانے سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو۔ فقط جواب اس کا بدو وجہ ہے اول یہ کہ آیت میں نون تاکید ثقیلہ موجود ہے جو آیت کو خاص زمانہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 156
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 156
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/156/mode/1up
مستقبل سے وابستہ کرتا ہے۔ دوم یہ کہ اس تعمیم کے موافق آپ کے معنی اول جو ازا لۃ الاوہام میں لکھے گئے ہیں بھی باطل ہوئے جاتے ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک لفظ اہل کتاب کا آیت موصوفہ میں ان سب اہل کتاب کو بھی شامل ہے جو مسیح کے وقت میں ان کو صلیب پر چڑھانے سے پہلے موجود تھے حالانکہ ان کا بیان مذکورہ بالا پر ایمان رکھنا قبل اس کے کہ وہ اس پر ایمان لاویں کہ مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا غیر متصور ہے اور ایسا ہی آپ کے دوسرے معنے بھی باطل ہوئے جاتے ہیں۔ وھٰذا غیر خفی علی من لہ ادنی تامل۔
اعتراض دوم احادیث صحیحہ بآواز بلند پکار رہی ہیں کہ مسیح کے دم سے اس کے منکر خواہ وہ اہل کتاب ہیں یا غیر اہل کتاب کفر کی حالت میں مریں گے فقط جواب اس کا بدو وجہ ہے۔ اول یہ کہ آیت میں کہیں تصریح اس امر کی نہیں ہے کہ مسیح کے آتے ہی سب اہل کتاب مسیح پر ایمان لے آویں گے بلکہ آیت میں تو صرف اسی قدر ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آویں گے۔ پس ہوسکتا ہے کہ جن کفار کا علم الٰہی میں مسیح کے دم سے کفر کی حالت میں مرنا مقدر ہو ان کے مرنے کے بعد سب اہل کتاب ایمان لے آویں۔ دوم ہوسکتا ہے کہ مراد ایمان سے یقین ہو نہ ایمان شرعی جیسا کہ آپ کے دونوں معنے کے موافق ایمان سے مراد ایمان شرعی نہیں ہے بلکہ یقین مراد ہے۔ اعتراض سوم۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ مسلمہ ہے کہ دجال بھی اہل کتاب میں سے ہوگا اور یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان نہیں لائے گا فقط اس کا جواب بھی انہیں دو وجہوں سے ہے جو اعتراض دوم کے جواب میں لکھی گئیں اعادہ کی حاجت نہیں۔ اعتراض چہارم۔ مسلم میں موجود ہے کہ مسیح کے بعد شریر رہ جائیں گے پھر قیامت آئے گی اگر کوئی کافر نہیں رہے گا تو وہ کہاں سے آجاویں گے فقط۔ یہ اعتراض جناب مرزا صاحب کی شان سے نہایت مستبعد ہے کیا مرزا صاحب یہ نہیں خیال فرماتے کہ یقیناً دنیا میں ابتداءً ایک ایسا زمانہ بھی ہوچکا ہے کہ کوئی کافر نہ تھا پھر یہ کفار جو اب تک موجود ہیں کہاں سے آگئے جیسے یہ کفار ہوگئے ایسا ہی بعد عیسیٰ علیہ السلام کے بھی ہوجائیں گے۔ دلیل دوسری یہ آیت سورہ آل عمران کی ہے۔ ۱؂ ا س آیت سے علماء نے استدلال حیات مسیح پر کیا ہے تفسیر ابو السعود میں ہے و بہ استدل علی انہ علیہ السلام سینزل من السماء لما انہ علیہ السلام رفع قبل التکھل قال ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ ارسلہ اللّٰہ تعالی وھو ابن ثلا ثین سنۃ ومکث فی رسالۃ ثلثین شہرا ثم رفع اللّٰہ تعالی الیہ تفسیر کبیر میں ہے قال الحسین بن الفضل

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 157
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 157
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/157/mode/1up
وفی ھذہ الآیۃ نصّ فی انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام سینزل الی الارض۔ بیضاوی میں ہے۔ وبہ استدل علی انہ سینزل فانہ رفع قبل ان اکتھل۔جلالین میں ہے یفید نزولہ قبل الساعۃ لانہ رفع قبل الکھولۃ معالم میں ہے وقیل للحسین بن الفضل ھل تجدنزول عیسٰی فی القرآن قال نعم قولہ وکھلا وھولم یکتہل فی الدنیا وانما معناہ وکھلا بعد نزول من السماء انتہٰی۔ یہ آیت اگرچہ فی نفسہا قطعیۃ الدلالۃ حیات مسیح پر نہیں ہے مگر بانضمام آیہ ۱؂ کے قطعی الدلالۃ ہوجاتی ہے اور اس بنا پر ایک حسن اس آیت میں یہ ہوتا ہے جیسا کہ کلام فی المہد ایک آیت اور معجزہ ہے ایسا ہی کلام فی الکہولۃ معجزہ ٹھہرتا ہے کیونکہ اس زمان دراز تک جسم کا بغیر طعام و شراب کے زندہ رہنا اور اس میں کچھ تغیر نہ آنا خارق عادت ہے ورنہ کلام فی الکہولۃ تو سب ہی کہول کیا کرتے ہیں حضرت مسیح کا اس میں کیا کمال ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے فہرست نعم جلیلہ میں ذکر فرمایا ہے۔
دلیل سوم۔ سورہ نساء میں ہے ۔ ۲؂ یہ آیت بھی فی نفسہا اگرچہ قطعی الدلالۃ حیات مسیح پر نہیں ہے مگر ظاہر اس سے رفع الروح مع الجسد ہے کیونکہ ماقتلوہ اول و ثانی اور ماصلبوہ کے ضمیر منصوب کا مرجع تو قطعاً روح مع الجسد ہے پس یہ امر دال ہے اس پر کہ مرجع رفعہ کے ضمیر منصوب کا بھی روح مع الجسد ہے علی الخصوص جب آیت اس کے ساتھ ضم کی جاوے تو یہ بھی قطعی الدلالت ہوجاتی ہے۔ دلیل چہارم۔ سورہ زخرف میں ہے ۳؂ یہ آیت بھی فی نفسہا اگرچہ قطعی الدلالۃ حیات مسیح پر نہیں ہے مگر ظاہر یہی ہے کیونکہ ارجاع ضمیر انہ کا طرف قرآن مجید کے بالکل خلاف سیاق و سباق ہے پس ضرور مرجع عیسیٰ علیہ السلام ہوئے اب یہاں تین احتمال ہیں یا حدوث مقدر مانا جاوے یا ارادہ معجزات یا نزول اول باطل ہے اس لئے کہ ہمارے آنحضرت صلعم کا حدوث علامت قریبہ قیامت کے ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہے بعثت انا والساعۃ کہاتین پس حضرت عیسی علیہ السلام کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں اور ایسا ہی احتمال دوم بھی باطل ہے کیونکہ معجزات سب دلالت علیٰ قدرۃ اللہ تعالیٰ میں برابر ہیں تخصیص معجزات عیسویہ کی کیا ہے پس متعین ہوا کہ مراد نزول ہے خاص کر جب کہ آیت جو قطعی الدلالۃ ہے اور احادیث صحیحہ بخاری و مسلم اس کی تفسیر واقع ہوگئی ہیں تو اس حیثیت سے یہ آیت بھی قطعی الدلالت حیات مسیح پر ہوگئی دلیل پنجم آیت ۴؂

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 158
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 158
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/158/mode/1up
ہےؔ موافق اس آیت کے جو احادیث صحیحہ کی طرف رجوع کی گئی تو بکثرت اس باب میں احادیث صحیحہ موجود ہیں جن کا تو اتر جناب مرزا صاحب نے ازالۃ الاوہام کے صفحہ ۵۵۷ میں تسلیم فرمایا ہے ان میں سے حدیث متفق علیہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتی لایقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا وما فیھا ثم یقول ابوھریرۃ فاقرءُ وا ان شئتم وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ اآایۃ معنے حقیقی ابن مریم کے عیسیٰ بن مریم ہیں اور صارف یہاں کوئی موجود نہیں بلکہ آیت اس معنی کی تعیین کررہی ہے پس نزول عیسیٰ علیہ السلام متعین ہوگیا۔ اس سے ظاہر یہی ہے کہ وہ زندہ ہیں ابن کثیر میں ہے ۔وقال ابن ابی حاتم حدثنا ابی حدثنا احمد بن عبدالرحمن حدثنا عبداللہ بن جعفر عن ابیہ حدثنا الربیع بن انس عن الحسن انہ قال فی قولہ تعالی انی متوفیک یعنی وفاۃ المنام رفعہ اللّٰہ فی منامہ قال الحسن قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للیھود ان عیسٰی لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیمۃ۔ یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے لیکن آیت اس کی صحت کی عاضد ہے یہ اخیر چار آیات اگرچہ ہر واحد ان میں سے بنفسہا دلیل قطعی حیاتِ مسیح علیہ السلام پر نہیں ہے مگر تاہم بہ نسبت ان تیس آیات کے جو جناب مرزا صاحب نے ازالۃ الاوہام میں واسطے اثبات وفات مسیح علیہ السلام کے لکھی ہیں ۔یہ آیات قوی الدلالت حیاتِ مسیح پر ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ جناب مرزا صاحب نے تیس آیات واسطے اثباتِ وفات مسیح علیہ السلام کے لکھی ہیں سو ان کا جواب اجمالی یہ ہے کہ یہ آیات تین قسم کی ہیں اول وہ جن میں لفظ تو فی بالتخصیص حضرت مسیح کی نسبت واقع ہوا ہے۔ دوم وہ آیات جو عموماً سب انبیاء گزشتہ کی وفات پر دلالت کرتی ہیں سوم وہ آیات کہ نہ ان میں حضرت مسیح کی وفات کا خصوصاً ذکر ہے نہ عموماً صرف جناب مرزا صاحب نے ان سے محض اجتہاداً استنباط وفات کیا ہے قسم اول کا جواب یہ ہے کہ بعض فرض و تسلیم اس کے لفظ توفّٰی کے معنے حقیقی موت و قبض روح کے ہیں اور دوسرے معنے مجازی ہیں ہم کہتے ہیں کہ آیۃ ۱؂ سے جو قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ ہے حیات حضرت مسیح علیہ السلام کی ثابت ہوگئی تو اب
یہ آیت صارف ہوگئی آیات مذکورہ کی معنی حقیقی سے اس لئے آیات تو فّٰی معنی مجازی پر محمول
کی جاویں گی اور وہ معنی مجازی جو یہاں مراد ہوسکتے ہیں وہ اخذ تام و قبض ہے جس کو اردو

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 159
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 159
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/159/mode/1up
میںؔ پورا لینا کہتے ہیں اور توفّی کا استعمال اخذ تام و قبض لغت سے ثابت ہے قاموس میں ہے واوفی علیہ اشرف وفلانا حقہ اعطاہ وافیا توفاہ واوفاہ فاستوفاہ و تو فاہ اور صحاح میں ہے اوفاہ حقہ ووفاہ بمعنی ای اعطاہ حقہ وافیا و استوفی حقہ و توفّاہ بمعنًی۔ مصباح المنیر میں ہے وتوفیتہ واستوفیتہ بمعنیً ۔مجمع البحار میں ہے واستوفیت حقِّی ای اخذتہ تاما۔ صراح میں ہے۔ ایفاء گزار دن حق کسے بتمام ویقال منہ اوفاہ حقہ ووفاہ استیفاء۔ تو فی تمام گرفتن حق۔ اور قسطلانی میں ہے التوفی اخذ الشیء وافیاوالموت نوع منہ انتہٰی ۔اور دوسرے معنے مجازی انامت ہیں جن کو اردو میں سلانا کہتے ہیں اور تو فیبمعنی انامت قرآن مجید سے ثابت ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورہ زمر میں ۱؂ اور فرمایا سورہ انعام میں ۲؂ ا ور قسم دوم کا جواب بعد تسلیم عمومات کے یہ ہے کہ آیت جو قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ ہے ان آیات کی مخصص واقع ہوئی ہے اور قسم سوم کا جواب یہ ہے کہ اگر بالفرض تسلیم کیا جاوے کہ الفاظ فی نفسہا ان معانی کے بھی متحمل ہیں جو جناب مرزا صاحب نے بیان کئے ہیں لیکن آیت جو قطعی الثبوت وقطعی الدلالۃ ہے ان احتمالات کو ردکرتی ہے لہٰذا وہ معانی باطل ہوئے صحیح معانی ان آیات کے وہ ہیں جو تفاسیر معتبرہ میں مذکور ہیں اور وہ موافق ہیں آیت کے اور جواب تفصیلی ان آیات کا جن کو مرزاصاحب نے واسطے ثبوت وفات پیش کیا ہے ازالۃ الاوہام کے جواب میں انشاء اللہ
بہ بسط بسیط لکھا جاوے گا۔ واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العلمین
والصلوٰۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ وسلم۔
۱۹ ربیع الاول ۱۳۰۹ ہجری روز جمعہ
محمد بشیر عفی عنہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 160
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 160
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/160/mode/1up
حضرؔ ت اقدس مرزا صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدَہ‘ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہ الْکَرِیْم
۱؂۔ اما بعد چونکہ مولوی محمد بشیر صاحب نے اس عاجز سے سلسلہ بحث کا جاری کر کے بارادہ اثبات حیات حضرت مسیح ابن مریم ؑ ایک طولانی تقریر لکھی ہے اس لئے میرے پر بھی واجب ہوا کہ اظہار حق کی غرض سے اس کا جواب لکھوں۔
سو پہلے میں صفائی بیان کیلئے اس قدر لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کہ جیسا کہ حضرت مولوی صاحب موصوف کا خیال ہے یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ مسئلہ وفات حیات مسیح میں بار ثبوت اس عاجز کے ذمہ ہو یہ طے شدہ بات ہے کہ دعویٰ کا ثبوت مدعی کے ذمہ ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب کسی کی وفات یا حیات کی نسبت جھگڑا ہو تو مدعی اس کو قرار دیا جائے گا جو امور مسلّمہ فریقین کو چھوڑ کر ایک نئی بات کا دعویٰ کرے مثلاً یہ بات فریقین میں مسلم ہے کہ عام قانون قدرت خدا تعالیٰ کا یہی جاری ہے کہ اس عمر طبعی کے اندر اندر جو انسانوں کیلئے مقرر ہے ہریک انسان مر جاتا ہے اور خدا تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کے کئی مواضع میں اس بات کو بتصریح بیان کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۲؂ یعنی تم پر دو ہی حالتیں وارد ہوتی ہیں ایک یہ کہ بعض تم میں سے قبل از پیرانہ سالی فوت ہوجاتے ہیں اور بعض ارذل عمر تک پہنچتے ہیں یہاں تک کہ صاحب علم ہونے کے بعد محض نادان ہوجاتے ہیں۔ اب اگر خلاف اس نص صریح کے کسی کی نسبت یہ دعویٰ کیا جائے کہ باوجود اس کے کہ عمر طبعی سے صدہا حصے زیادہ اس پر زمانہ گذر گیا مگر وہ نہ مرا اور نہ ارذل عمر تک پہنچا اور نہ ایک ذرہ امتداد زمانہ نے اس پر اثر کیا تو ظاہر ہے کہ ان تمام امور کا اس شخص کے ذمہ ثبوت ہوگا جو ایسا دعویٰ کرتا ہے یا ایسا عقیدہ رکھتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے تو کسی جگہ انسانوں کیلئے یہ ظاہر نہیں فرمایا کہ بعض انسان ایسے بھی ہیں جو معمولی انسانی عمر سے صدہا درجہ زیادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور زمانہ ان پر اثر کر کے ان کو ارذل عمر تک نہیں پہنچاتا اور ننکسہ فی الخلقکا مصداق نہیں ٹھہراتا پس جب کہ یہ عقیدہ ہمارے آقا و مولیٰ کی عام تعلیم سے صریح مخالف ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اس کا مدعی ہو ثبوت اسی کے ذمہ ہے۔ غرض حسب تعلیم قرآنی عمر طبعی کے اندر اندر مرجانا اور زمانہ کے اثر سے عمر کے مختلف حصوں میں گوناگوں تغیرات کا لحا ظ ہونا یہاں تک کہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 161
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 161
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/161/mode/1up
بشرؔ ط زندگی ارذل عمر تک پہنچنا یہ ایک فطرتی اور اصلی امر ہے جو انسان کی فطرت کو لگا ہوا ہے جس کے بیان میں قرآن کریم بھرا ہوا ہے۔ سو جو شخص اس اصلی امر کے مخالف کسی کی نسبت دعویٰ کرتا ہے اثبات دعویٰ اس کے ذمہ ہے مثلاً زید جو تین سو برس سے مفقود الخبر ہے اس کی نسبت دو شخصوں کی کسی قاضی کی عدالت میں یہ بحث ہو کہ ایک اس کی نسبت یہ بیان کرتا ہے کہ وہ فوت ہوگیا اور دوسرا یہ بیان کرتا ہے کہ اب تک زندہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ قاضی ثبوت اس سے طلب کرے گا جو خوارق عادت زندگی کا قائل ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو شرعی عدالتوں کا سلسلہ درہم برہم ہوجائے اب ہمارے اس تمام بیان سے ظاہر ہے کہ دراصل ہمارے ذمہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ وفات جو ہریک انسان کیلئے حد مقررہ فطرت تک ایک طبعی امر ہے اس کا ثبوت دیں بلکہ ہمارے فریق مخالف کے ذمہ یہ بار ثبوت ہے کہ ایک شخص حد مقررہ فطرت اللہ تک فوت نہیں ہوا بلکہ دراصل اب تک زندہ ہے اور صدہا برس کے مرو ر زمانہ نے اس پر ذرہ اثر نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں کئی انبیاء وغیرہ کا ذکر کر کے ان کی موت کا کچھ بیان نہیں کیا تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ ابتک زندہ ہیں بلکہ زندگی کسی کی جب ہی ثابت ہوگی کہ جب زندگی کا ثبوت دیا جائے گا ورنہ موت و حیات کے ترک ذکر سے موت ہی سمجھی جائے گی۔
اب جب کہ یہ بات فیصلہ پاچکی ہے کہ ہمارے ذمہ یہ بار ثبوت نہیں کہ مسیح ابن مریم جواوروں کی طرح انسان تھا وہ کیوں اور انسانوں کی طرح عمر طبعی کے دائرے کے اندراندر فوت ہوگیا بلکہ حضرت مولوی صاحب کے ذمہ یہ بارِثبوت ہے کہ مسیح ابن مریم انسان ہوکر اور تمام انسانوں کے خواص اپنے اندر رکھ کر ابتک برخلاف نصوص عامہ قرآنیہ وحدیثیہ وبرخلاف قانون فطرت مرنے سے بچا ہوا ہے اور زمانہ نے اس پر اثر کرکے ارذل عمر تک بھی نہیں پہنچایا۔ تو اب دیکھنا چاہئے کہ مولوی صاحب نے اس بارہ میں کیا ثبوت دیا ہے۔ اور کن آیات قطعیۃ الدلالۃ اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ کے کھلے کھلے منطوق سے اس عظیم الشان دعویٰ کو بپا یہ ثبوت پہنچایا ہے۔ سو واضح ہو کہ مولوی صاحب نے سب سے پہلے یہ دلیل پیش کی ہے کہ سورۃ النساء کی یہ آیت کہ ۱؂ حضرت مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی پر شاہد ناطق ہے اور چونکہ حضرت مولوی صاحب موصوف کے دل میں یہ دھڑکا تھا کہ یہ آیت تو ذوالوجوہ ہے اور تمام مفسر کئی کئی معنی اسکے کرگئے ہیں اور کسی مبسوط تفسیر میں اس کو ایک ہی معنے میں محدود نہیں رکھا گیا لہٰذا حضرت مولوی صاحب نے اس کو قطعیۃ الدلالۃ بنانے کیلئے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 162
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 162
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/162/mode/1up
بہتؔ سی کوشش کی ہے اور پوری جانفشانی سے ناخنوں تک زور لگایا ہے لیکن افسوس کہ وہ اس قصد میں ناکام رہے اور قطعیۃ الدلالۃ نہ بنا سکے بلکہ اور بھی شبہات ڈال دیئے۔
مولوی صاحب نے اس کامیابی کی امید پر کہ کسی طرح آیت موصوفہ بالاقطعیۃ الدلالۃ ہوجائے یہ ایک جدید قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ آیت کے لفظ لیومنن میں نون تاکید ہے اور نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کیلئے کردیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خیال میں اس مدعا کے اثبات کیلئے قرآن کریم سے نظیر کے طور پر کئی ایسے الفاظ نقل کئے ہیں جن کی وجہ سے ان کے زعم میں مضارع استقبال ہوگیا ہے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے اس تفتیش میں ناحق وقت ضائع کیا کیونکہ اگر فرض کے طور پر یہ مان لیا جائے کہ آیت موصوفہ میں لفظ لیومنن استقبال کے ہی معنی رکھتا ہے پھر بھی کیونکر یہ آیت مسیح کی زندگی پر قطعیۃ الدلالۃ ہوسکتی ہے کیا استقبالی طور پر یہ دوسرے معنے بھی نہیں ہوسکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا دیکھو یہ بھی تو خالص استقبال ہی ہے کیونکہ آیت اپنے نزول کے بعد کے زمانہ کی خبر دیتی ہے بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت صریحہ ہے اس واسطے کہ دوسری قراء ت میں یوں آیا ہے جو بیضاوی وغیرہ میں لکھی ہیں الالیومنن بہ قبل موتھم جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے مسیح ابن مریم پر ایمان لے آویں گے اب دیکھئے کہ قبل موتہٖ کی ضمیر جو آپ حضرت مسیح کی طرف پھیرتے تھے دوسری قراء ت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ حضرت مسیح کی طرف نہیں بلکہ اہل کتاب فرقہ کی طرف پھرتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ قراء ت غیر متواترہ بھی حکم حدیث احاد کا رکھتی ہے اور آیات کے معنوں کے وقت ایسے معنے زیادہ تر قبول کے لائق ہیں جو دوسری قراء ت کے مخالف نہ ہوں۔ اب آپ ہی انصاف فرمایئے کہ یہ آیت جس کی دوسری قراء ت آپ کے خیال کو بکلی باطل ٹھہرا رہی ہے۔ کیونکر قطعیۃ الدلالۃ ٹھہر سکتی ہے۔
ماسوا اس کے آپ نے جو نون ثقیلہ کا قاعدہ پیش کیا ہے وہ سراسر مخدوش اور باطل ہے۔ حضرت ہرایک جگہ اور ہرایک مقام میں نون ثقیلہ کے ملانے سے مضارع استقبال نہیں بن سکتا۔ قرآن کریم کیلئے قرآن کریم کی نظیریں کافی ہیں اگرچہ یہ سچ ہے کہ بعض جگہ قرآن کریم کے مضارعات پرجب نون ثقیلہ ملا ہے تو وہ استقبال کے معنوں پرمستعمل ہوئے ہیں۔ لیکن بعض جگہ ایسی بھی ہیں کہ حال کے معنے قائم رہے ہیں یاحال اوراستقبال بلکہ ماضی بھی اشتراکی طورپر ایک سلسلہ متصلہ ممتدہ کی طرح مرادلئے گئے ہیں۔ یعنی ایسا سلسلہ جوحال یاماضی سے شروع ہوا اوراستقبال کی انتہاتک بلاانقطاع برابر چلاگیا۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 163
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 163
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/163/mode/1up
پہلی آیات کی نظیر یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۱؂ اب ظاہر ہے کہ اس جگہ حال ہی مراد ہے کیونکہ بمجرد نزول آیت کے بغیر توقف اور تراخی کے خانہ کعبہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم ہوگیا یہاں تک کہ نماز میں ہی منہ پھیر دیا گیا۔ اگر یہ حال نہیں تو پھر حال کس کو کہتے ہیں۔ استقبال تو اس صورت میں ہوتا کہ خبر اور ظہور خبر میں کچھ فاصلہ بھی ہوتا سو آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم تجھ کو اس قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں جس پر تو راضی ہے سو تو مسجد حرام کی طرف منہ کر اور ایسا ہی یہ آیت ۲؂ الخ یعنی اپنے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو معتکف تھا کہ اب ہم اس کو جلاتے ہیں۔ اس جگہ بھی استقبال مراد نہیں۔ کیونکہ استقبال اور حال میں کسی قدر ُ بعد زمان کا ہونا شرط ہے۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو یہ کہے کہ میں تجھے دس روپیہ دیتا ہوں سو لے مجھ سے دس روپیہ تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ اس نے استقبال کا وعدہ کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے گا کہ یہ سب کارروائی حال میں ہی ہوئی۔
اور دوسری آیات جو حال اور استقبال کے سلسلہ متصلہ ممتدہ پر اشتراکی طور پر مشتمل ہیں ان کی نظیر ذیل میں پیش کرتا ہوں۔(۱) پہلی یہ آیت ۳؂ یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور کریں گے ہم ان کو اپنی راہیں دکھلا رہے ہیں اور دکھلائیں گے- صاف ظاہر ہے کہ اگر اس جگہ مجرد استقبا ل مراد لیا جائے تو اس سے معنے فاسد ہوجائیں گے اور یہ کہنا پڑے گا کہ یہ وعدہ صرف آئندہ کیلئے ہے اور حال میں جو لوگ مجاہدہ میں مشغول ہیں یا پہلے مجاہدات بجا لاچکے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی راہوں سے بے نصیب ہیں۔ بلکہ اس آیت میں عادت مستمرہ جاریہ دائرہ میں الازمنۃ الثلثہ کا بیان ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ ہماری یہی عادت ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہیں دکھلادیا کرتے ہیں۔ کسی زمانہ کی خصوصیت نہیں بلکہ سنت مستمرہ دائرہ سائرہ کا بیان ہے جس کے اثر سے کوئی زمانہ باہر نہیں۔
(۲) دوسری یہ آیت ۴؂ یعنی خدا مقرر کرچکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوتے رہیں گے- یہ آیت بھی ہر ایک زمانہ میں دائر اور عادت مستمرہ الٰہیہ کا بیان کررہی ہے۔ یہ نہیں کہ آئندہ رسول پیدا ہوں گے اور خدا انہیں غالب کرے گا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی زمانہ ہوحال یا استقبال یا گزشتہ سنت اللہ یہی ہے کہ رسول آخر کار غالب ہی ہوجاتے ہیں۔
(۳) تیسری آیت یہ ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 164
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 164
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/164/mode/1up
۱؂ یعنی ہماری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ جو شخص عمل صالح بجا لاوے مرد ہو یا عورت ہو اور وہ مومن ہو ہم اس کو ایک پاک زندگی کے ساتھ زندہ رکھا کرتے ہیں اور اس سے بہتر جزا دیا کرتے ہیں جو وہ عمل کرتے ہیں۔ اب اگر اس آیت کو صرف زمانہ مستقبلہ سے وابستہ کردیا جائے تو گویا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گزشتہ اور حال میں تو نہیں مگر آئندہ اگر کوئی نیک عمل کرے تو اس کو یہ جزا دی جائے گی۔ اس طور کے معنوں سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت کے نزول کے وقت تک کسی کو حیٰو ۃ طیبہ عنایت نہیں کی تھی فقط یہ آئندہ کیلئے وعدہ تھا۔ لیکن جس قدر ان معنوں میں فساد ہے وہ کسی عقل مند پر مخفی نہیں۔(۴) چوتھی آیت یہ ہے ۲؂ یعنی وہ جو خدا تعالیٰ کی مدد کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے۔ اب حضرت دیکھئے اس آیت کے لفظ لینصرنّ کے آخر میں بھی نون ثقیلہ ہے۔ لیکن اگر اس آیت کے یہ معنی کریں کہ آئندہ کسی زمانہ میں اگر کوئی ہماری مدد کرے گا تو ہم اس کی مدد کریں گے تو یہ معنے بالکل فاسد اور خلاف سنت مستمرہ الہٰیہ ٹھہریں گے۔ کیونکہ اللہ جلّشانہٗ کی توقدیم سے اور اسی زمانہ سے کہ جب بنی آدم پیدا ہوئے یہی سنت مستمرہ ہے کہ وہ مدد کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ یوں کیونکر کہا جائے کہ پہلے تو نہیں مگر آئندہ کسی نامعلوم زمانہ میں اس قاعدہ کا پابند ہوجائے گا اور اب تک تو صرف وعدہ ہی ہے عمل درآمد نہیں۔ سُبحانہٗ ھٰذابھتان عظیم۔
(۵) پانچویں آیت یہ ہے ۳؂ یعنی ہماری یہی سنت مستمرہ قدیمہ ہے کہ جوجو لوگ ایمان لاویں اور عمل صالح کریں ہم ان کو صالحین میں داخل کر لیا کرتے ہیں۔ اب حضرت مولوی صاحب دیکھئے کہ لندخلنّھم میں بھی نون ثقیلہ ہے۔ لیکن اگر اس جگہ آپ کی طرز پر معنی کئے جائیں تو اس قدر فساد لازم آتا ہے جو کسی پر پوشیدہ نہیں کیونکہ اس صورت میں ماننا پڑتا ہے کہ یہ قاعدہ آئندہ کیلئے باندھا گیا ہے اور اب تک کوئی نیک اعمال بجا لا کر صلحاء میں داخل نہیں کیا گیا۔ گویا آئندہ کیلئے گنہگار لوگوں کی توبہ منظور ہے اور پہلے اس سے دروازہ بند رہا ہے۔ سو آپ سوچیں کہ ایسے معنے کرنا کس قدر مفاسد کو مستلزم ہے۔ حضرت قرآن کریم میں اس کے بہت نمونے ہیں کہ نون ثقیلہ کے ساتھ مضارع کو بیان کر کے از منہ ثلاثہ اس سے مراد لئے گئے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ اس سے انکار کر کے بحث کو طول نہیں دیں گے کیونکہ یہ تو اجلٰی بدیہات میں سے ہے انکار کی کوئی جگہ نہیں۔
اب میں آپ کے اس قاعدہ کو توڑ چکا کہ نون ثقیلہ کے داخل ہونے سے خواہ نخواہ اور ہر ایک

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 165
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 165
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/165/mode/1up
جگہؔ خالص طور پر استقبال کے معنے ہی ہوا کرتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ تمام مفسر قدیم و جدید جن میں عرب کے رہنے والے بھی داخل ہیں لیؤمننّ کے لفظ میں حال کے معنے بھی کرتے ہیں۔ معالم وغیرہ تفسیریں آپ کو معلوم ہیں حاجت بیان نہیں وہ لوگ بھی تو آخر قواعد دان اور علم ادب اور محاورہ عرب سے واقف تھے۔ کیا وہ آپ کے اس جدید قاعدہ سے بے خبر رہے۔ اور آپ نے تفسیر ابن کثیر کے حوالہ سے جو لکھا ہے کہ نزول عیسیٰ ہوگا اور کوئی اہل کتاب میں سے نہیں ہوگا جو اس کے نزول کے بعد اس پر ایمان نہیں لاوے گا یہ بیان آپ کیلئے کچھ مفید نہیں۔ اول تو آپ سے آیات قطعیۃ الدلالۃ اور احادیث صحیحہ متصلہ مرفوعہ کا مطالبہ ہے اور پھر اس قول کو مانحن فیہ سے تعلق کیا ہے نزول سے کہاں سمجھا جاتا ہے جو آسمان سے نزول ہو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ۱؂ کہ ہم نے لوہا اتارا ہم نے لباس۲؂ اتارا ہم نے یہ نبی ۳؂ اتارا ہم نے چار پائے ۴؂ گھوڑے گدھے وغیرہ اتارے۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ یہ سب آسمان سے ہی اترے تھے۔ کیا کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ سب درحقیقت آسمان سے ہی اترے ہیں۔ پھر ہم نے تسلیم کیا کہ بخاری و مسلم وغیرہ میں نزول کا لفظ آیا ہے۔ مگر حضرت میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ اس لفظ سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں مسافر کے طور پر جو ایک شخص دوسری جگہ جاتا ہے اس کو بھی نزیل ہی کہتے ہیں۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ آپ اس عاجز کے اعتراضات کو جو ازالہ اوہام میں آیا تھا موصوفہ بالا کے ان معنوں پر وارد ہوتے ہیں جو آپ کرتے ہیں اٹھا نہیں سکے بلکہ رکیک عذرات سے میرے اعتراضات کو اور بھی ثابت کیا۔ آپ کے نون ثقیلہ کا حال تو معلوم ہوچکا اور لیؤمننّ کے لفظ کی تعمیم بدستور قائم رہی اب فرض کے طور پر اگر آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت جس قدر اہل کتاب ہوں گے سب مسلمان ہوجائیں گے جیسا کہ ابو مالک سے آپ نے روایت کیا ہے تو مجھے مہربانی فرما کر سمجھادیں کہ یہ معنے کیونکر درست ٹھہر سکتے ہیں۔ آپ تسلیم کرچکے ہیں کہ مسیح کے دَم سے اس کے نزول کے بعد ہزارہا لوگ کفر کی حالت میں مریں گے۔ اب اگر آپ ان کفار کوجو کفر پر مر گئے مومن ٹھہراتے ہیں یا اس جگہ ایمان سے مراد یقین رکھتے ہیں تو اس دعوے پر آپ کے پاس دلیل کیا ہے۔ حدیث میں تو صرف کفر پر مرنا ان کا لکھا ہے یہ آپ نے کہاں سے اور کس جگہ سے نکال لیا ہے کہ کفر پر تو مریں گے مگر ان کو حضرت عیسیٰ کی رسالت پر یقین ہوگا اورکس نص قرآن یا حدیث سے آپ کو معلوم ہوا کہ اس جگہ ایمان

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 166
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 166
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/166/mode/1up
سےؔ مراد حقیقی ایمان نہیں بلکہ یقین مراد ہے ظاہر لفظ ایمان کا حقیقی ایمان پر دلالت کرتا ہے اور صرف عن الظاہر کیلئے کوئی قرینہ آپ کے پاس چاہئے۔ جب کہ لفظ لفظ آیت میں یہ شبہات ہیں تو پھر آیت قطعیۃ الدلالت کیونکر ہوئی اگر آپ لیؤمننّ سے بغیر کسی قرینہ کے مجازی ایمان مراد لیں گے تو آپ کے مخالف کا حق ہوگا کہ وہ حقیقی معنی مراد لیوے آپ کو سوچنا چاہئے کہ ایسے ایمان سے فائدہ ہی کیا ہے اور مسیح کی خصوصیت کیا ٹھہری ایسا تو ہر ایک نبی کے زمانہ میں ہوا کرتا ہے کہ بدبخت لوگ زبان سے اس کے منکر ہوتے ہیں اور دل سے یقین کر جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی نسبت اللّٰہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۱؂ یعنی انہوں نے موسیٰ کے نشانوں کا انکار کیا۔ لیکن ان کے دل یقین کر گئے اور ہمارے سید و مولٰے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت فرماتا ہے ۲؂ یعنی کافر لوگ جو اہل کتاب ہیں ایسے یقینی طور پر اس کو شناخت کرتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پس اگر ایمان سے مراد ایسا ہی ایمان ہے جو کا مصداق ہے تو پھر ہمارے علماء نے کیوں شور مچا رکھا ہے کہ اس وقت اسلام ہی اسلام ہوجائے گا بلاشبہ قرآن شریف کا یہ منشاء نہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس تاویل کو خود رکیک سمجھ کر اسی وجہ سے یہ دوسرا جواب دیا ہے کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ مسیح کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا آوے گا کہ اس زمانہ کے اہل کتاب ان پر ایمان لے آویں گے اور اس زمانہ سے پہلے کفر پر مرنے والے کفر پر مریں گے۔ اب حضرت آپ انصافاًفرماویں کہ ان معنوں کو آپ کے ان معنوں سے جو آیت لیومنن کی نسبت آپ بیان فرماتے ہیں موافقت ہے یا مخالفت ابھی آپ قبول کرچکے ہیں کہ مسیح کے نزول کے بعد تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آویں گے اور اب آپ نے اس قبول کردہ بات سے رجوع کر کے یہ نئے معنے نکالے کہ نزول کے بعد ضروری نہیں کہ تمام کفار ایمان لے آویں بلکہ بہتیرے کفر پر بھی مریں گے حضرت آپ اس جگہ خود سوچیں کہ اِنْ کا حرف کل اہل کتاب کو ایمانداروں میں شامل کرتا ہے یاکسی کو باہر رکھتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اِنْ کا لفظ تو ایسا کامل حصر کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک فرد بھی باہر رہ جائے تو یہ لفظ بیکار اور غیر مؤثر ٹھہرتا ہے۔ اول تو آپ نے اِنْ کے لفظ سے زمانہ قبل از نزول کو باہر رکھا پھر آپ نے زمانہ بعد از نزول میں بھی اسکا پورا پورا اثر ہونے سے انکار کیا۔ تو پھر اس لفظ لانے کا فائدہ کیا تھا اور یہ تاویلیں آپکو کسی حدیث یا آیت سے ملیں یا حضرت کا اپنا ہی ایجاد ہے۔
یا حضرت آپ ان آیتوں پر متوجہ ہوں شاید خداتعالیٰ انہیں کااثر آپکے دل پر ڈالے۔ اللّٰہ جلّشانہٗ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 167
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 167
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/167/mode/1up
فرماؔ تاہے۔ ۱؂ اب دیکھئے کہ قرآن کریم میں اللّٰہ جلّ شانہٗ کا صاف وعدہ ہے کہ قیامت کے دن تک دونوں فرقے متبعین اور کفار کے باقی رہیں گے- پھر کیونکر ممکن ہے کہ درمیان میں کوئی ایسا زمانہ بھی آوے کہ کفار بالکل زمین پر سے نابود ہوجائیں۔ پھر اللّٰہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ ۲؂ یعنی قیامت کے دن تک ہم نے یہود اور نصاریٰ میں عداوت ڈال دی ہے اب ظاہر ہے کہ اگر قیامت سے پہلے بھی ایک فرقہ ان دونوں میں سے نابود ہوجائے تو پھر عداوت کیونکر قائم رہے گی۔ حضرت ان نصوص صریحہ بیّنہ سے تو صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کفر کو اختیار کرنے والے قیامت کے دن تک رہیں گے- پھر اس کے یہ معنی کیونکر درست ٹھہر سکتے ہیں۔ کچھ سوچ کر جواب دیں۔
دوسری دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے کہ ۳؂ اور آپ کہل کے لفظ سے درمیانی عمر کا آدمی مراد لیتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں دیکھئے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے اس میں کہل کے معنے جو ان مضبوط کے لکھے ہیں اور یہی معنے قاموس اور تفسیر کشاف وغیرہ میں موجود ہیں اور سیاق سباق آیات کا بھی انہیں معنوں کو چاہتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ کا اس کلام سے مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم نے خورد سالی کے زمانہ میں کلام کر کے اپنے نبی ہونے کا اظہار کیا پھر ایسا ہی جوانی میں بھر کر اور مبعوث ہو کر اپنی نبوت کا اظہار کرے گا سو کلام سے مراد وہ خاص کلام ہے جو حضرت مسیح نے ان یہودیوں سے کیا تھا جو یہ الزام ان کی والدہ پر لگاتے تھے اور جمع ہو کر آئے تھے کہ اے مریم تو نے یہ کیا کام کیا۔ پس یہی معنے منشاء کلام الٰہی کے مطابق ہیں اگر ادھیڑ عمر کے زمانہ کا کلام مراد ہوتا تو اس صورت میں یہ آیت نعوذ باللہ لغو ٹھہرتی گویا اس کے یہ معنے ہوتے کہ مسیح نے خورد سالی میں کلام کی اور پھر پیرانہ سالی کے قریب پہنچ کر کلام کرے گا اور درمیان کی عمر میں بے زبان رہے گامطلب تو صرف اتنا تھا کہ دو مرتبہ اپنی نبوت پر گواہی دے گا منصف کیلئے صرف ایک بخاری کا دیکھنا ہی کافی ہے۔ پھر جس حالت میں آپ خود مانتے ہیں کہ یہ آیت قطعیۃ الدلالت نہیں اور جس آیت کا سہارا اس کو دیا گیا تھا وہ آپ کی مخالف ثابت ہوگئی تو پھر یہ آیت جو خود آپ کے اقرار سے قطعیۃ الدلالت نہیں کیا فائدہ آپ کو پہنچا سکتی ہے۔
تیسری دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے کہ سورت نساء میں ہے ۴؂ آپ اس میں بھی قبول کرتے ہیں کہ یہ آیت قطعیۃ الدلات نہیں مگر باوجود

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 168
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 168
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/168/mode/1up
اسؔ کے آپ کے دل میں یہ خیال ہے کہ اس رفع سے رفع مع الجسد مراد ہے کیونکہ ۱؂کے ضمیر کا مرجع بھی روح مع الجسد ہے۔ لیکن حضرت آپ کی یہ سخت غلطی ہے۔ نفی قتل اور نفی مصلوبیت سے تو صرف یہ مدعا اللّٰہ جلّ شانہٗ کا ہے کہ مسیح کو اللّٰہ جلّ شانہ ٗنے مصلوب ہونے سے بچا لیا اور آیت ۲؂ اس وعدہ کے ایفا کی طرف اشارہ ہے جو دوسری آیت میں ہوچکا ہے اور اس آیت کے ٹھیک ٹھیک معنے سمجھنے کیلئے اس آیت کو بغور پڑھنا چاہئے۔ جس میں رفع کا وعدہ ہوا تھا اور وہ آیت یہ ہے ۳؂ حضرت اس رافعک اليّ میں جو رفع کا وعدہ دیا گیا تھا یہ وہی وعدہ ہے جو آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ میں پورا کیا گیا اب آپ وعدہ کی آیت پر نظر ڈال کر دیکھئے کہ اس کے پہلے کون لفظ موجود ہیں تو فی الفور آپ کو نظر آجائے گا کہ اس سے پہلے انِّی متوفّیک ہے اب ان دونوں آیتوں کے ملانے سے جن میں سے ایک وعدہ کی آیت اور ایک ایفاء وعدہ کی آیت ہے آپ پر کھل جائے گا کہ جس طرز سے وعدہ تھا اسی طرز سے وہ پورا ہونا چاہئے تھا یعنی وعدہ یہ تھا کہ اے عیسیٰ میں تجھے مارنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اس سے صاف کھل گیا کہ ان کی روح اٹھائی گئی ہے کیونکہ موت کے بعد روح ہی اٹھائی جاتی ہے نہ کہ جسم۔ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ میں تجھے آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جو لوگ موت کے ذریعہ سے اس کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اسی قسم کے لفظ ان کے حق میں بولے جاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے یا خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر گئے جیسا کہ اس آیت میں بھی ہے ۴؂ اور جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے اِنّا للّٰہ واِنّا اِلیہ راجعون۔
چوتھی دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے کہ اللّٰہ جلّ شانہٗ فرماتاہے ۵؂ ا س جگہ بھی آپ مان گئے ہیں کہ یہ آیت آپ کے مطلب پر قطعیۃ الدلالت نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کو محض للہ یاد دلاتا ہوں کہ اس آیت کو حضرت مسیح کے دوبارہ نزول سے شکی طور پر بھی کچھ تعلق نہیں بات یہ ہے کہ حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں ایک فرقہ صدوقی نام تھا جو قیامت سے منکر تھے پہلی کتابوں میں بطور پیشین گوئی کے لکھا گیا تھا کہ ان کو سمجھانے کے لئے مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوگی اور یہ ان کے لئے ایک نشان قرار
دیا گیا تھا جیسا کہ اللّٰہ جلّ شانہٗ دوسری آیت میں فرماتا ہے ۶؂

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 169
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 169
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/169/mode/1up
اسؔ جگہ النّاس سے مراد وہی صدوقی فرقہ ہے جو اس زمانہ میں بکثرت موجود تھا چونکہ توریت میں قیامت کا ذکر بظاہر کسی جگہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے یہ فرقہ مردوں کے جی اٹھنے سے بکلی منکر ہوگیا تھا۔ اب تک بائیبل کے بعض صحیفوں میں موجود ہے کہ مسیح اپنی ولادت کے رو سے بطور علم الساعۃ کے ان کیلئے آیا تھا۔ اب دیکھئے اس آیت کو نزول مسیح سے تعلق کیا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ مفسرین نے کس قدر جدا جدا طور پر اس کے معنے لکھے ہیں ایک جماعت نے قرآن کریم کی طرف ضمیر اِنَّہٗ کی پھیر دی ہے کیونکہ قرآن کریم سے روحانی طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں اور اگر خواہ نخواہ تحکم کے طور پر اس جگہ نزول مسیح مراد لیا جائے اور وہی نزول ان لوگوں کیلئے جو آنحضرت صلعم کے عہد میں تھے نشان قیامت ٹھہرایا جائے تو یہ استدلال وجود قیامت تک ہنسی کے لائق ہوگا اور جن کو یہ خطاب کیا گیا کہ مسیح آخری زمانہ میں نزول کر کے قیامت کا نشان ٹھہرے گا۔ اب تم باوجود اتنے بڑے نشان کے قیامت سے کیوں انکاری ہوئے۔ وہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ دلیل تو ابھی موجود نہیں پھر یہ کہنا کس قدر عبث ہے کہ اب قیامت کے وجود پر ایمان لے آؤ شک مت کرو۔ ہم نے دلیل قیامت کے آنے کی بیان کردی۔ دلیل پنجم آپ نے بیان فرمائی ہے کہ حدیث بخاری اور مسلم میں مسیح کے نزول کے بارے میں لکھا ہے اور ابوہریرہ نے اس تقریب پر فرمایا ہے فاقرء وا ان شئتم وان من اھل الکتب الخ۔ حضرت یہ کچھ دلیل نہیں نزول مسیح موعود سے کس کو انکار ہے اور فہم ابوہریرہ حجت کے لائق نہیں اور ابوہریرہ نے فاقرء وا ان شئتم میں شک کا لفظ استعمال کیا ہے- حضرت ابوہریرہ وہی صحابی ہیں جو حدیث دخول فی النار کو سن کر اس دھوکہ میں پڑے رہے جو ہم میں سے سب سے آخر مرنے والا دوزخ میں پڑے گا۔ پیش گوئی کو اجتہادی طور پر سمجھنے میں انبیاء نے بھی غلطی کھائی فذھب وھلی کی حدیث آپ کو یاد ہوگی پھر ابوہریرہ نے اگر غلطی سے پیشگوئی کے الٹے معنے سمجھ لئے تو کیا حجت ہوسکتی ہے۔
پھر آپ ابن کثیر سے یہ نقل کرتے ہیں کہ حسن سے روایت ہے کہ ان عیسی لم یمت وانہ راجع الیکم یہ حدیث مرسل ہے پھر کیونکر قطعیۃ الدلالت ہوگی ماسوا اس کے یہ بخاری کی حدیث صحیح مرفوع متصل سے جو حضرت عیسیٰ کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور نیز قرآن کی تعلیم سے مخالف ہے۔ پھر کیونکر سندکے لائق ہے۔
بعد اس کے آپ نے میرے دلائل وفات مسیح پر جرح کیا ہے۔ یہ جرح سراسر آپ کی عدم توجہ پر دلالت کرتی ہے میں اس وقت ایسے دلائل پیش کرنا نہیں چاہتا۔ آپ کے دلائل حیات مسیح کا فیصلہ کر کے پھر پیش کروں گا۔ والحمد لِلّٰہ اولا واٰخرًا وظاہرًا وباطنًا کل شیء فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 170
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 170
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/170/mode/1up
پرچہؔ نمبر ۲ مولوی محمد بشیر صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حامدًا ومصلّیًا مسلمًا۔ اللھم انصرمن نصر الحق وخذل الباطل واجعلنا منھم واخذل من خذل الحق ونصر الباطل ولاتجعلنا منھم۔ اما بعد واضح ہو کہ جناب مرزا صاحب نے بہت امور کا جواب اپنی تحریر میں نہیں دیا ہے۔ ناظرین کو مطالعہ سے معلوم ہوجائے گا اور اصل اور عمدہ بحث خاکسار کی تحریر میں نون تاکید کی ہے۔ جناب مرزا صاحب نے اس کے جواب میں نہ کوئی عبارت کسی کتاب نحو کی نقل کی اور نہ ان عبارات میں جو خاکسار نے نقل کی تھیں کچھ جرح کی فقط۔ اور یہ امر بھی مخفی نہ رہے کہ میری اصل دلیل حیات مسیح علیہ السلام پر آیت اولیٰ ہے میرے نزدیک یہ آیت اس مطلوب پر دلالت کرنے میں قطعی ہے۔ دوسری آیات محض تائید کے لئے لکھی گئی ہیں۔ جناب مرزا صاحب کو چاہئے کہ اصل بحث آیت اولیٰ کی رکھیں دوسری ابحاث کو تبعی واستطرادی تصور فرماویں فقط۔
قولہ۔ یہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ مسئلہ وفات حیات مسیح میں بار ثبوت اس عاجز کے ذمہ ہو۔
اقول۔ اس میں کلام ہے بچند وجوہ۔ اول یہ کہ جب حسب ارشاد آپ کے بار ثبوت حیات خود خاکسار نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ تو اب یہ بحث بے فائدہ ہے۔ دوم بار ثبوت وفات کا آپ کے ذمہ نہ ہونا خاکسار کی سمجھ میں نہیں آتا ہے کیونکہ آپ نے توضیح مرام میں دعویٰ کیا ہے کہ حضرت مسیح دنیا میں نہ آویں گے اور جو دلیل اس پر پیش کی ہے حاصل اس کا یہ ہے کہ مسیح وفات پاچکے اور جو کوئی وفات پاچکتا ہے وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور جو جنت میں داخل ہوجاتا ہے وہ جنت سے نکالا نہیں جاتا۔ پس یہ دلیل متضمن تین مقدموں کو ہے اور دلیل کے ہر مقدمہ کا بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہوتا ہے۔ سوم آپ نے اپنے خط موسومہ مولوی محمد حسین صاحب نمبر۲ا میں لکھا ہے۔ جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصل امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یا حیات ہے اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے کیونکہ الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ پس وفات مسیح ابن مریم آپ کا مستقل دعویٰ ہے اس لئے بار ثبوت وفات آپ کے ذمہ ہے۔ بالجملہ بار ثبوت وفات دو حیثیت سے آپ کے ذمہ ہے۔ ایک اس حیثیت سے کہ یہ اصل دعویٰ آپ کا ہے۔ دوسرے اس حیثیت سے کہ مسیح موعود ہونے کے دعویٰ کی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 171
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 171
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/171/mode/1up
دلیلؔ کا یہ ایک مقدمہ ہے۔ چہارم اگر بار ثبوت آپ کے ذمہ نہیں ہے تو یہ کام عبث آپ نے کیوں کیا کہ آپ نے ادلّہ وفات مسیح توضیح مرام وازا لۃ الاوہام میں بہ بسط تمام بیان کئے۔
قولہ۔ مولوی صاحب نے اس کامیابی کی امید پر کہ کسی طرح آیت موصوفہ بالا قطعیۃ الدلالت ہوجاوے یہ ایک جدید قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ آیت کے لفظ لیومنن میں نون تاکید ہے۔ اور نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کیلئے کر دیتا ہے۔ اقول اس قاعدہ کو جدید قاعدہ کہنا نہایت محل استبعاد ہے۔ اگر مرزا صاحب میری ہی تحریر کو غور سے پڑھ لیتے تو معلوم ہوجاتا کہ ازہری اور ملا جامی اور عبدالحکیم اور صاحب مغنی اور شیخ زادہ نے اس قاعدہ کی تصریح کی ہے اور سب کتب نحو میں یہ قاعدہ مرقوم ہے کسی نے اس میں خلاف نہیں کیا یہاں تک کہ میزان خوان اطفال بھی جانتے ہیں کہ نون تاکید مضارع کو بمعنی استقبال کردیتا ہے۔ قولہ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خیال میں اس مدعا کے اثبات کیلئے قرآن کریم سے نظیر کے طور پر ایسے الفاظ نقل کئے ہیں جن کی وجہ سے ان کے زعم میں مضارع استقبال ہوگیا ہے۔ اقول۔ خاکسار کی اصل دلیل اتفاق ائمہ نحات کا ہے اس قاعدہ پر اس کا جواب مرزا صاحب نے مطلق نہیں دیا۔ ہاں آیات اس قاعدہ کی تائید کیلئے البتہ لکھی گئی ہیں۔ مرزا صاحب پر واجب ہے کہ اس قاعدہ کے توڑنے کیلئے کوئی عبارت کسی کتاب معتبر نحو کی پیش کریں۔ قولہ۔ کیا استقبال کے طور پر یہ دوسرے معنے بھی نہیں ہوسکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔اقول۔ مخفی نہ رہے کہ اس معنے کا مناط اس پر ہے کہ احتضارکے وقت ہر شخص پر وہ حق کھل جاتا ہے جس کو وہ نہ جانتا تھا جیسا کہ تفسیر ابن کثیروغیرہ میں لکھا ہے اور یہ امر نفس الامر میں تینوں زمانوں کو شامل ہے یعنی نزول آیت کے قبل کے زمانہ اور وقت نزول کا زمانہ اور بعد کا زمانہ اب آیت اگر خالص استقبال کیلئے کیجئے گا تو یہ شبہ ہوگا کہ یہ امر زمانہ ماضی و حال کو شامل نہیں ہے اور یہ خلاف نفس الامر ہے پس اس کلام میں یہ عیب ہوا کہ خلاف نفس الامر کا موہم ہے اور فائدہ کوئی نہیں ہے کہ اگر کہا جاوے کہ اس آیت میں وعید ہے اہل کتاب کے لئے اور تحریض ہے ان کو ایمان لانے پر قبل اس کے کہ مضطر ہوں اس کی طرف جیسا کہ بیضاوی وغیرہ میں لکھا ہے اور اس وعید و تحریض سے وہی اہل کتاب منتفع ہوسکتے ہیں جو بعد نزول آیت کے مرنے والے ہیں نہ وہ جو پہلے مرچکے اور نہ وہ جو وقت نزول کے زہوق روح کی حالت میں تھے اس فائدہ کیلئے تخصیص استقبال کی گئی تو جواب یہ ہے کہ اگر ایسا لفظ اختیار کیا جاتا جو تینوں زمانوں کو شامل ہوتا تو یہی و عید وتحریض ان اہل کتاب کی حاصل ہوتی جو بعد نزول آیت کے مرنے والے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 172
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 172
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/172/mode/1up
اورؔ خلاف نفس الامر کا بھی موہم نہ ہوتا۔ یعنی بجائے لیومننّ کے لفظ یؤمن اختیار کیا جاتا۔ یعنی یوں کہا جاتا وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا یؤمن بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ یہ عبارت ایسی عمدہ ہے کہ اس میں وعید و تحریض جو مطلوب ہے وہ بھی حاصل ہے اور موہم خلاف نفس الامر بھی نہیں ہے اور اختصار بھی حاصل ہے یعنی لام ونون نہیں ہے پس قرآن مجید کی بلاغت کی جو حد اعجاز کو پہنچ گئی ہے خلاف ہے کہ ایسی عمدہ عبارت چھوڑ کر بجائے اس کے لیومنن اختیار کیا جاوے کہ جس میں ایہام خلاف نفس الامر ہے اور اطناب بلا فائدہ اور یہ سب محذور خالص معنے استقبال پر حمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ محصل کلام اس مقام پر یہ ہے کہ معنے دوم آیت کے بہر تقدیر باطل ہیں اگر خالص استقبال پر محمول کیجئے تو کلام حق تعالیٰ جو بلاغت میں حد اعجاز کو پہنچ چکا ہے بلاغت سے گرا جاتا ہے اور اگر خالص استقبال پر محمول نہ کیجئے تو مخالف ہوتا ہے قاعدہ مجمع علیہا نحاۃ کے۔
قولہ۔ بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت صریحہ ہے اس واسطے کہ دوسری قراء ت میں یوں آیا ہے جو بیضاوی وغیرہ میں لکھا ہے۔ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِھِمْ ۔اقول۔ اس میں کلام ہے بچند وجوہ۔اول یہ کہ اس قراء ت کی بناء پر بھی معنی دوم صحیح نہیں ہوتے ہیں کیونکہ لیؤمننّ کو یاتو خالص استقبال پر محمول کیا جائے گا تو کلام حق تعالیٰ جو بلاغت میں حد اعجاز کو پہنچ گیا ہے۔ بلاغت سے نازل ہواجاتا ہے اور اگر خالص استقبال پر محمول نہ کیجئے تو مخالف ہوتا ہے قاعد ہ مجمع علیہا نحاۃ کے۔ دوم یہ کہ یہ قراء ت ہمارے معنے کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اس قراء ت پر یہ معنی ہیں کہ ہر اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے زمانہ آئندہ میں مسیح پر ایمان لاوے گا اور یہ معنے معنے اول کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں اس طرح پرکہ زمانہ آئندہ سے زمانہ نزول حضرت عیسٰی علیہ السلام مراد لیا جاوے۔ سوم یہ کہ یہ قراء ت غیر متواترہ ہے اور قراء ت غیر متواترہ عموماً قابل احتجاج نہیں ہے بلکہ جب بسند صحیح متصل منقول ہو اور یہاں سند متصل صحیح اسکی مرزا صاحب نے تحریر نہیں فرمائی۔ مرزا صاحب پر واجب ہے کہ اسکی سند بیان فرماویں اور اس کے سب رجال کی توثیق کریں-ودونہ خرط القتاد۔ چہارم یہ کہ مرزا صاحب نے قبل موتہٖ کی ضمیر توضیح المرام اور ازالۃ الاوہام میں جو الہامی ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع کی ہے اور یہ قراء ت اس خیال کو بکلی باطل ٹھہرا رہی ہے۔ مرزا صاحب یہ تو خیال فرماویں کہ وہ معنے کہ جس کی تصحیح و تقویت کے وہ آپ درپے ہیں۔ اور یہ محض بغرض توڑنے دعویٰ اس خاکسار کے ہے وہ خودنفس الامر میں ان کے نزدیک غیر صحیح ہیں کیونکہ اس تقدیر پر استدلال ان کا موت مسیح پر آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ سے مطلق غیر صحیح ٹھہرتا ہے پس کیا یہی مقتضائے دیانت وانصاف ہے کہ جس چیز کو وہ خود نفس الامر

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 173
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 173
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/173/mode/1up
میںؔ غیر صحیح جانتے ہیں اس کو بمقابلہ خصم صحیح بناویں یہ تو مناظرہ نہ ہوا محض مجادلہ ٹھہرا۔
قولہ۔ پہلی آیات کی نظیریہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ ۱؂ اب ظاہر ہے کہ اس جگہ حال مراد ہے۔ اقول قرآن مجید میں فلنولینک ہے نہ ولنولینّک جیسا کہ مرزا صاحب لکھتے ہیں یہاں ارادہ حال غلط محض ہے بلکہ یہاں خالص مستقبل مراد ہے بچند وجوہ۔ اول یہ کہ بیضاوی میں مرقوم ہے فول وجھک اصرف وجھک شطر المسجد الحرام نحوہ۔عبدالحکیم اصرف وجھک کے تحت میں لکھتے ہیں ولم یجعلہ من المتعدی الی المفعولین بان یکون شطر مفعولہ الثانی تربتہ بالفاء وکونہ انجاز اللوعد بان اللہ تعالٰی یجعل النبی مستقبلا القبلۃ او قریبا من سمتھا بان یامر بالصلٰوۃ الیھا یناسبہ ان یکون النبی مامورا بصرف الوجہ الیھالا بان یجعل نفسہ مستقبلا ایاھا اوقریبا من جھتھا۔ انتہٰی ۔اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے قول فلنولّینّک میں وعدہ فرمایا۔ اور فولّ وجھک کے ساتھ اس کا انجاز کیا۔ دوم یہ کہ اگر یہاں حال مراد لیا جائے تو فلنولینّک کے یہ معنے ہوں گے پس البتہ پھیرتے ہیں ہم تجھ کو اور پھیر نے سے یہ تو مراد ہی نہیں کہ ہم تجھ کو ہاتھ پکڑ کے قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم تجھ کو قبلہ کی طرف پھیرنے کا حکم کرتے ہیں۔ اس تقدیر پر قول اللہ تعالیٰ کا فول وجھک زاید ولا طایل ہوگا۔ سوم یہ کہ شاہ ولی اللہ صاحب وشاہ رفیع الدین صاحب و شاہ عبدالقادر صاحب نے ترجمہ اس لفظ کا بمعنے مستقبل کیا ہے۔ عبارت شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ ہے۔ پس البتہ متوجہ گر دانیم ترابآں قبلہ کہ خوشنودشوی۔ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کا یہ ہے۔ پس البتہ پھیریں گے ہم تجھ کو اس قبلہ کو کہ پسند کرے اس کو۔ لفظ شاہ عبدالقادر کا یہ ہے۔ سو البتہ پھیریں گے تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے۔قولہ اور ایسا ہی یہ آیت ۲؂ اقول ارادہ حال اس آیت میں غلط ہے بد ووجہ اوّل یہ کہ آیت میں وعید ہے اور جس چیز کی وعید کی جاتی ہے وہ اس کے بعد متحقق ہوتی ہے۔ پس استقبال یہاں متعین ہوا۔ دوم یہ کہ تراجم ثلاثہ سے معنے استقبال واضح ہیں۔ عبارت شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ ہے۔ البتہ بسوز انیم آنراپس پراگندہ سازیم آنرا۔ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کا یہ ہے۔ ابھی جلا دیں گے ہم اس کو پھر اڑاویں گے ہم اس کو۔ لفظ شاہ عبدالقادر صاحب کا یہ ہے ہم اس کو جلا دیں گے پھر بکھیر یں گے۔ ان دونوں آیتوں میں جو مرزا صاحب نے حال کے معنی سمجھے تو منشاء غلط یہ معلوم ہوتا ہے کہ استقبال دو طرح کا ہوتا ہے ایک استقبال قریب دوسرا استقبال بعید مرزا صاحب استقبال قریب کو قرب کی وجہ سے حال سمجھ گئے ہیں وھٰذا بعید من

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 174
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 174
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/174/mode/1up
شاؔ ن المحصلین۔واضح ہو کہ آپ نے جو آیات مذکورہ میں سے بعض کو حال پر اور بعض کو استمرار پر محمول کیا ہے اس میں آپ متفرد ہیں اور محض اپنی رائے سے فرماتے ہیں یا سلف و خلف امت میں سے کسی نے یہ معنے کئے ہیں۔ بیّنوا توجروا۔قولہ اور دوسری آیات جو حال اور استقبال کے سلسلہ متصلہ ممتدہ پر استمرار کے طور پر مشتمل ہیں۔ ان کی نظیر ذیل میں پیش کرتا ہوں پہلی یہ آیت ۱؂ ۔اقول اس میں کلام ہے بدووجہ اوّل یہ کہ یہ امر مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت مستمرہ ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہیں دکھلایا کرتا ہے لیکن یہاں اس عادت کا بیان مقصود نہیں۔ مقصود بالذّات صرف وعدہ ہے اور امر موعود وعدہ کے بعد متحقق ہوتا ہے جیسا کہ خود مرزا صاحب نے آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ کے معنے دوم کی تائید میں تصحیح خالص استقبال کی کی ہے حالانکہ اہل کتاب کا زہوق روح کے وقت ایمان لانا امر مستمر ہے خصوصیت کسی زمانہ کی اس میں نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ تراجم ثلاثہ تعین استقبال کرتے ہیں لفظ شاہ ولی اللہ صاحب کا یہ ہے۔ وآنا نکہ جہاد کردند در راہ ما البتہ دلالت کنیم ایشاں رابراہہائے خود۔ عبارت شاہ رفیع الدین کی یہ ہے۔ اور جن لوگوں نے کہ محنت کی بیچ راہ ہمارے کے البتہ دکھاویں گے ہم ان کو راہیں اپنی۔ عبارت شاہ عبدالقادر صاحب کی یہ ہے اور جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم سمجھادیں گے ان کو اپنی راہیں۔ قولہ دوسری یہ آیت ۲؂ اقول یہاں ارادہ استمرار قطعاً باطل ہے اور ارادہ استقبال متعین بدووجہ۔ اول یہ کہ بیضاوی میں لکھا ہے کَتَبَ اللّٰہُ فِی اللَّوْحِ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ۔بالحجۃ ظاہر ہے کہ لوح محفوظ میں جب لکھا ہے اس وقت اور اس سے پہلے غلبہ متصور نہیں ہے کیونکہ غلبہ کیلئے غالب و مغلوب ضروری ہے اس وقت نہ رسل تھے نہ ان کی امت تھی یہ سب بعد ان کے ہوئے ہیں۔ دوم تراجم ثلاثہ استقبال پر دلالت کرتے ہیں۔ لفظ شاہ ولی اللہ صاحب کا یہ ہے حکم کرد خدا البتہ غالب شوم من و غالب شوند پیغمبر ان من۔ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کا یہ ہے لکھ رکھا ہے خدا نے البتہ غالب آؤں گا میں اور پیغمبر میرے۔ لفظ شاہ عبدالقادر صاحب کا یہ ہے۔ اللہ لکھ چکا کہ میں زبر ہوں گا اور میرے رسول۔قولہ تیسری آیت یہ ہے ۳؂۔اقول اس آیت میں بھی استقبال مراد ہے بچند وجوہ اول یہ کہ یہ وعدہ ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں مرقوم ہے ھذا وعد من اللّٰہِ تعالی فمن عمل صالحا وھو العمل المتابع لکتاب اللہ و سنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 175
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 175
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/175/mode/1up
منؔ ذکر اوانثی من بنی آدم و قلبہ مومن باللہ ورسولہ وان ھذا العمل المامور بہ مشروع من عند اللہ بان یحي اللہ حیوۃ طیبۃ فی الدنیا وان یجزیہ باحسن ماعملہ فی الدار الاخرۃ۔ انتہی۔ اور جس کا وعدہ ہوتاہے وہ چیز وعدہ کے بعد پائی جاتی ہے۔ دوم تراجم ثلاثہ سے استقبال معلوم ہوتا ہے۔ لفظ شاہ ولی اللہ صاحب کا یہ ہے ہر کہ عمل نیک کرد مرد باشد یازن واُو مسلمان است ہرانیہ زندہ کنمش بزندگانی پاک۔ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کا یہ ہے جو کوئی کرے اچھا مردوں سے یا عورتوں سے اور وہ ہو ایمان والا پس البتہ زندہ کریں گے ہم اس کو زندگی پاکیزہ۔ عبارت شاہ عبدالقادر صاحب کی یہ ہے جس نے کیا نیک کام مرد ہو یا عورت ہو اور وہ یقین پر ہے تو اس کو ہم جلا دیں گے ایک اچھی زندگی۔ قولہ۔ چوتھی آیت یہ ہے ۱؂ اقول یہاں استقبال مراد ہے بچند وجوہ۔ اول یہ کہ یہ وعدہ مہاجرین و انصار سے ہے قال البیضاوی وقد انجز وعدہ بان سلط المھاجرین والانصار علی صنادید العرب واکاسرۃ العجم و قیاصرتھم و اورثھم ارضھم و دیارھم انتہی۔ اور جس کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ چیز بعد زمانہ وعدہ کے پائی جاتی ہے۔ دوم یہ کہ تراجم ثلاثہ میں استقبال مصرح ہے۔ عبارت شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ ہے۔ والبتہ نصرت خواہد داد خدا کسے راکہ قصد نصرت دین وے کند۔ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کا یہ ہے۔ اور البتہ مدد دیوے گا اللہ اس کو کہ مدد دیتا ہے اس کو۔ لفظ شاہ عبدالقادر صاحب کا یہ ہے۔ اور اللہ مقرر مدد کرے گا اس کی جو مدد کرے گا اس کی۔ قولہ۔ پانچویں آیت یہ ہے ۲؂ اقول۔ یہاں بھی مستقبل مراد ہے بدووجہ اول یہ کہ یہ وعدہ ہے اور جس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ وقت وعدہ کی متحقق نہیں ہوتی ہے بعد کو پائی جاتی ہے۔ دوم ۔ تراجم ثلاثہ اس پر دال ہیں۔ عبارت شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ ہے وآنانکہ ایمان آوردندوکارہائے شائستہ کردند۔ البتہ درآریم ایشاں را درزمرۂ شائستگان۔ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کا یہ ہے۔ اور وہ لوگ کہ ایمان لائے اور کام کئے اچھے البتہ داخل کریں گے ہم ان کو بیچ صالحوں کے۔ لفظ شاہ عبدالقادر صاحب کا یہ ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور بھلے کام کئے ہم ان کو داخل کریں گے نیک لوگوں میں۔ آپ کا محذور جب لازم آوے کہ یہ بیان ہو عادت کا بلکہ یہ تو وعدہ ہے۔ قولہ۔ اب میں آپکے اس قاعدہ کو توڑ چکا کہ نون ثقیلہ کے داخل ہونے سے خواہ نخواہ اور ہر ایک جگہ خاص طورپر استقبال کے معنے ہی ہواکرتے ہیں۔ اقول بالا معلوم ہوا کہ آپ نے جتنی آیتیں ذکر کی ہیں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 176
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 176
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/176/mode/1up
سبؔ میں مراد صرف معنے مستقبل ہیں نہ حال اور نہ استمرار۔ قولہ اور آپ کو معلوم ہے کہ تمام مفسرین قدیم و جدید جن میں عرب کے رہنے والے بھی داخل ہیں لیومنن کے لفظ کے حال کے معنے بھی کرتے ہیں۔ اقول۔ ان لوگوں کے کلام میں کہیں تصریح حال کی نہیں ہے محتمل ہے کہ ان کی مراد استقبال ہو جیسا کہ آپ خود اوپر لکھ چکے ہیں۔ کیا استقبال کے طور پر دوسرے معنے بھی نہیں ہوسکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا دیکھو یہ بھی تو خالص استقبال ہی ہے۔ اگر کوئی شبہ کرے کہ پھر اس دوسرے معنے کا رد قاعدہ مقررہ نحاۃکے موافق کیسے ہو گا۔ تو جواب یہ ہے کہ بے شک اس صورت میں قاعدہ مقررہ کی بنا پر البتہ رد نہ ہو سکے گا بلکہ اس کا رد منوط ہوگا۔ امر آخر پر جس کا ذکر اوپر ہوچکا یعنی یہ کہ اس صورت میں کلام الٰہی اعلیٰ درجہ بلاغت سے نازل ہوا جاتا ہے۔فلیتأمل فانہ احریٰ بالتأمل۔ قولہ اور آپ نے تفسیر ابن کثیر کے حوالہ سے جو لکھا ہے کہ نزول عیسیٰ ہوگا اور کوئی اہل کتاب میں سے نہیں ہوگا جو اس کے نزول کے بعد اس پر ایمان نہیں لائے گا۔ یہ بیان آپ کیلئے کچھ مفید نہیں الی قولہ اور پھر اس قول کو مانحن فیہ سے تعلق کیا ہے۔ اقول اس مقام پر آپ نے میرے کلام کو غور سے ملاحظہ نہیں فرمایا۔ میرا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں میرا مطلب تو عبارت ابن کثیر کی نقل سے صرف اس قدر ہے کہ یہ معنے جو میں نے اختیار کئے ہیں اس طرف ایک جماعت سلف میں سے گئی ہے اور یہ امر میری تحریر میں مصرح ہے۔ چنداں غور کا بھی محتاج نہیں ہے۔ قولہ واضح رہے کہ آپ اس عاجز کے اعتراضات کو جو ازالہ اوہام میں آیت موصوفہ بالا کے ان معنوں پر وارد ہوتے ہیں جو آپ کرتے ہیں اٹھا نہیں سکے بلکہ رکیک عذرات سے میرے اعتراضات کو اور بھی ثابت کردیا۔ اقول میرے ادلّہ کا قوی ہونا ابھی ثابت ہوچکا۔ پس یہ آپ کا فرمانا بجائے خود نہیں ہے۔ قولہ آپکے نون ثقیلہ کا حال تو معلوم ہوچکا ۔اقول آپ نے نون ثقیلہ کے بارہ میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ سب ہباء منبثا ہوگیا۔ قولہ اور لیؤمننّ کے لفظ کی تعمیم بدستور قائم رہی۔ اقول جب یہ امر ثابت ہوگیا کہ نون مضارع کو خالص استقبال کیلئے کردیتا ہے تو اب تعمیم کہاں قائم رہی۔ قولہ اب فرض کے طور پر اگر آیت کے یہ معنے لئے جاویں کہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت جس قدر اہل کتاب ہوں گے سب مسلمان ہوجائیں گے۔ جیسا کہ ابو مالک سے آپ نے روایت کیا ہے تو مجھے مہربانی فرما کر سمجھا دیں کہ یہ معنے کیونکر درست ٹھہر سکتے ہیں۔ ا قول آپ نے اس معنے کی تقریر میں جو میرے نزدیک متعین ہیں تھوڑی سی خطا کی ہے۔ آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ کے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 177
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 177
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/177/mode/1up
نزوؔ ل کے وقت جس قدر اہل کتاب ہوں گے سب مسلمان ہوجائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد اور ان کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا ضرور ہوگا کہ اس وقت کے اہل کتاب سب مسلمان ہوجائیں گے اور ابو مالک کے کلام کا بھی یہی مطلب ہے ذرا غور سے ملاحظہ فرمایئے۔ قولہ آپ تسلیم کرچکے ہیں الی قولہ تو پھر اس لفظ کے لانے سے فائدہ کیا ہے۔اقول حضرت من اس مقام پر بھی آپ نے میرے مطلب پر مطلق غور نہیں کیا اسلئے میں پھر اس کی تقریر کا اعادہ کرتا ہوں امید ہے کہ اگر آپ توجہ فرمائیں گے تو سمجھ میں آجائے گا اور تسلیم بھی کر لیجئے گا۔ حاصل میری کلام کا یہ ہے کہ آپ کے اعتراض کا جواب بدوطور ہے اول یہ کہ آیت سے یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ مسیح کے نزول کے بعد فوراً سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے بلکہ یہ کہ بعد نزول مسیحؑ اور قبل موت مسیح ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ میں سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے۔ پس احادیث صحیحہ اس کی منافی نہ ہوئیں کیونکہ جو کفار مسیح کے دم سے مرنے والے ہوں گے وہ پہلے مریں گے باقی ماندہ سب ایمان لے آویں گے۔ دوم یہ کہ مراد ایمان سے یقین ہو نہ ایمان شرعی۔ اس تقدیر پر بھی احادیث صحیحہ آیت کے اس معنی کی معارض نہیں ٹھہرتی ہیں الحاصل مقصود دفع تعارض ہے جو آپ نے آیت کے معنے اور احادیث صحیحہ میں بیان فرمایا ہے آپ معلوم نہیں کہ کہاں سے کہاں چلے گئے غور کر کے جواب لکھا کیجئے۔ اب یہ انصاف سے غور کر کے فرمایئے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ انْ کا لفظ تو ایسا کامل حصر کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک فرد بھی باہر رہ جاوے تو یہ لفظ بے کار اور غیر مؤثر ٹھہرتا ہے کیسا بے محل ہے۔ کیونکہ جس زمانہ کے لئے یہ حصر کیا گیا ہے اس کی نسبت پورا حصر ہے اور ایسا ہی یہ فرمانا کہ اول تو آپ نے اِنْ کے لفظ سے زمانہ قبل از نزول کو باہر کیا۔ پھر اب زمانہ بعد از نزول میں بھی اس کا پورا پورا اثر ہونے سے انکار کیا تو پھر اس لفظ کے لانے سے فائدہ ہی کیا تھا محض بے موقع ہے کیونکہ خاکسار نے از خود زمانہ قبل از نزول کو باہر نہیں رکھا اور نہ زمانہ بعد از نزول میں پورا پورا اثر ہونے سے انکار کیا بلکہ یہ تو مقتضٰی نون ثقیلہ و لفظ بعد موتہٖکا ہے جو کلام الٰہی میں واقع ہوا ہے اور ایسا ہی آپ کا یہ فرمانا کہ اب اگر ان کفار کو جو کفر پر مر گئے مومن ٹھہراتے ہیں یا اس جگہ ایمان سے مراد یقین رکھتے ہیں تو اس دعوے پر آپ کے پاس دلیل کیا ہے۔ محض بے ربط ہے۔ کیونکہ خاکسار اس مقام پر نہ مدعی ان کے ایمان کا ہے اور نہ مدعی اس امر کا ہے کہ مراد ایمان سے یقین ہے۔مقصود اس مقام پر صرف رفع تناقض ہے جو آپ نے درمیان آیت و احادیث کے سمجھا ہے اس امر

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 178
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 178
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/178/mode/1up
کےؔ فیصلہ کیلئے خاکسار آپ کے دو معتقد خاص حکیم نور الدین صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کو حکم تسلیم کرتا ہے کہ آپ میری اس کلام کا مطلب بالکل نہیں سمجھے ۔ قولہیا حضرت آپ ان آیتوں پر متوجہ ہوں الی قولہ اب دیکھئے کہ قرآن مجید میں اللہ جلّ شانہٗ کا صاف وعدہ ہے کہ قیامت کے دن تک دونوں فرقے متبعین اور کفار باقی رہیں گے۔اقول اس میں کلام ہے بدووجہ اوّلیہ کہ آیت ۱؂ میں صاف وعدہ ہے کہ قبل موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سب اہل کتاب مومن ہوجائیں گے پس یہ آیت مخصص ہے آیت ۲؂کے۔ دوم احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قبل قیامت سب شریر رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہوگی۔ پس معلوم ہوا کہ آیت عام مخصوص البعض ہے۔ قولہ پھر اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ ۳؂ اب ظاہر ہے کہ اگر قیامت کے پہلے ہی ایک فرقہ ان دونوں میں سے نابود ہوجاوے تو پھر عداوت کیونکر قائم رہے گی ۔اقول یہ آیت بھی عام مخصوص البعض ہے۔ مخصص اس کی آیت ہے۔ قولہ۔ دوسری آیت آپ نے پیش کی ہے ۔کہ ۴؂ اقولکہلکے معنے میں فی الواقع اہل لغت نے اختلاف کیا ہے۔ اسی واسطے اس آیت کو قطعیۃ الدلالۃ لذاتھا نہیں کہا گیا بلکہ قطعیۃ الدلالۃ لغیرھا کہا گیا یعنی بانضمام آیت جو قطعیۃ الدلالت ہے یہ بھی قطعی ہوجاتی ہے اور آپ نے جو شبہ کے قطعیۃ الدلالت ہونے میں کیا ہے وہ بالکلیہ مرتفع ہوگیا۔ قولہ صحیح بخاری میں دیکھئے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے اس میں کھل کے معنے جو ان مضبوط کے ہیں۔اقول عبارت بخاری یہ ہے وقال مجاھد الکہل الحلیم انتھی۔ آپ پر واجب ہے کہ یہ امر ثابت کیجئے کہ اس سے جوان مضبوط کس طرح سمجھا جاتا ہے۔ قولہ حضرت اس رَافِعُکَ اِلَیَّ میں جو رفع کا وعدہ دیا گیا ہے یہ وہی وعدہ تھا جو آیت بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ میں پورا کیا گیا۔اقول مسلم ہے کہ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ میں جو وعدہ تھا وہ آیت بل رفعہ اللہ میں پورا کیا گیا۔ لیکن انی متوفیک میں موت مراد ہونا غیر مسلم ہے جیسا کہ اس کی تقریر تحریر اول میں لکھ چکا ہوں اور آپ نے اس کا کچھ جواب نہیں دیا۔ قولہ نزول مسیح موعود سے کس کو انکار ہے۔ اقول آپ کو نزول عین عیسیٰ ابن مریم سے انکار ہے اور حالانکہ تحریر اول میں لکھا گیاہے کہ حدیث میں لفظ ابن مریم جس کے معنے حقیقی عین ابن مریم ہے موجود ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 179
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 179
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/179/mode/1up
اور ؔ صارف یہاں کوئی پایا نہیں جاتا ہے۔ آپ نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔قولہ اور فہم ابوہریرہ حجت کے لائق نہیں۔ اقولفہم ابوہریرہ کو میں حجت نہیں کہتا ہوں استدلال تو لفظ ابن مریم سے ہے جو حدیث میں واقع ہے۔ قولہ یہ حدیث مرسل ہے۔ پھر کیونکر قطعیۃ الدلالت ہوگی۔اقول اس حدیث کو قطعیۃ الدلالت نہیں کہا گیا ہے صرف تائید کیلئے لائی گئی ہے۔قولہ یہ بخاری کی حدیث صحیح مرفوع متصل سے جو حضرت مسیح کی وفات پر دلالت کرتی ہے اور نیز قرآن کی تعلیم سے مخالف ہے۔
اقول۔ آپ وہ حدیث صحیح مرفوع متصل بیان فرمایئے تاکہ اس میں نظر کی جاوے اور مخالفت تعلیم قرآن غیر مسلم ہے ومن یدعی فعلیہ البیان واخر دعوٰینا ان الحمد للّٰہ رب العلمین والصلٰوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ اجمعین۔
محمد بشیر عفی عنہ تاریخ ۲۵؍اکتوبر ۱۸۹۱ء
نمبر۲ حضرت اقدس مرزا صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آمین۔
اما بعد واضح ہو کہ حضرت مولوی محمد بشیر صاحب نے اپنے جواب الجواب میں باوجود اس کے کہ اپنے ذمہ بار ثبوت حیات مسیح علیہ السلام قبول فرماچکے تھے۔ پھر اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ وفات ابن مریم علیہ السلام کا بار ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ کیونکہ آپ کی طرف سے یہ مستقل دعویٰ ہے کہ حضرت مسیح وفات پاچکے اور اصل امر آپ کے الہام میں یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ اور اگر آپ کے ذمہ بار ثبوت نہیں تھا تو یہ عبث کام آپ نے کیوں کیا کہ توضیح مرام وازالہ اوہام میں دلائل وفات مسیح بہ بسط تمام بیان کئے۔
میں کہتا ہوں کہ اس بات کو ادنیٰ استعداد کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بار ثبوت کسی امر متنازعہ فیہ کی نسبت اس فریق پر ہوا کرتا ہے کہ جو ایک امر کا کسی طور سے ایک مقام میں اقرار

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 180
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 180
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/180/mode/1up
کرؔ کے پھر کسی دوسری صورت اور دوسرے مقام میں اسی امر قبول کردہ کا انکار کردیتا ہے سو وہ اپنے پہلے اقرار سے ہی پکڑا جاتا ہے اور اس مواخذہ کے لائق ٹھہر جاتا ہے کہ جس امر کو وہ کسی دوسری صورت یا دوسرے وقت اور مقام میں آپ ہی مانتا اور قبول کرتا تھا اب اس سے کیوں انکار کر کے ایک مستحدث اور نئے دعوے کی طرف رجوع کر گیا ہے سو واقعی اور حقیقی طور پر مدعی کا لفظ اس شخص پر بولا جاتا ہے جو اپنے پہلے اقرار سے منحرف ہو کر ایک نئے اور جدید امر کا دعویٰ کرتا ہے اور اسی وجہ سے بار ثبوت اس پر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے منہ کے اقرار سے ہی اپنی جدت دعویٰ کا قائل ہوتا ہے۔ یعنی اس نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہوا ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ اس کا نیا ہے اور اس کے اس قدیم اقرار سے قطعاً مخالف ہے جس سے اب بھی اس کو انکار نہیں- اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی کسی عدالت میں دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ہزار روپیہ قرضہ لینا ہے اور خود اس بات کا اقرار کردیتا ہے کہ فلاں تاریخ میں نے اس کو بطور قرضہ روپیہ دیا تھا اور اس تاریخ سے پہلے میرا اس سے کچھ واسطہ نہیں تھا اور یہ میرا دعویٰ نیا ہے جو فلاں تاریخ سے پیداہوا سو اسی وجہ سے وہ مدعی کہلاتا ہے اور ثبوت اس کے ذمہ ہوتا ہے کہ وہ بعد اس اقرار کے کہ فلاں تاریخ سے پہلے فلاں شخص میرا قرض دار نہیں تھاپھر مخالف اپنے اس پہلے بیان کے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں تاریخ سے وہ میرا قرض دار ہے پس اس سے عدالت اسی وجہ سے ثبوت مانگتی ہے کہ وہ اپنے پہلے بیان کے مخالف دوسرا بیان کرتا ہے اور اس کے دعوے میں ایک جدت ہے جس کاوہ آپ ہی قائل ہے کیونکہ وہ خود قبول کرچکا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گذرا ہے جب کہ وہ شخص جس کو اب مقروض ٹھہرایا گیا ہے مقروض نہیں تھا۔ سو اس اقرار کے بعد انکار کر کے وہ اپنی گردن پر آپ بار ثبوت لے لیتا ہے۔ غرض واقعی اور حقیقی طور پر اسی شخص کو مدعی کہتے ہیں جو ایک صورت میں ایک بات کا اقرار کر کے پھر اسی بات کا انکار کرتا ہے اور بار ثبوت اس پر اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے پہلے اقرار کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے تمام عدالتیں اسی اصول محکم کو پکڑ کر مدعی اور مدعا علیہ میں تمیز کرتے ہیں اگر یہ اصول مدنظر نہ ہو تو ایسا حاکم اندھے کی طرح ہوگا اور اس کو معلوم نہیں ہوگا کہ واقعی طور پر مدعی کون ہے اور مدعا علیہ کون۔ خلاصہ کلام یہ کہ مدعی ہونے کی فلاسفی یہی ہے جو ہم نے اس جگہ بیان کردی ہے اور ظاہر ہے کہ بار ثبوت اسی پر ہوگا جو واقعی اور حقیقی طور پر مدعی ہو یعنی ایسی حالت رکھتا ہو کہ ایک صورت میں ایک بات کا اقرار کر کے پھر دوسری صورت میں برخلاف اس اقرار کے بیان کرے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 181
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 181
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/181/mode/1up
ابؔ اس معیار کو نظر کے سامنے رکھ کر ہریک منصف دیکھ لے کہ کیا واقعی طور پر حضرت مسیح ابن مریم کی وفات کے بارے میں اس عاجز کا نام مدعی رکھنا چاہئے یا حضرت مولوی محمد بشیر صاحب اور ان کے ہم خیال مولوی سید محمد نذیر حسین صاحب وغیرہ حیات جسمانی مسیح ابن مریم کے بارے میں مدعی ٹھہرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو ہم مدعی کی تعریف ابھی بیان کرچکے ہیں یعنی یہ کہ حقیقی اور واقعی مدعی کیلئے ایسی حالت کا پایا جانا ضروری ہے کہ ایک صورت میں ایک بات کا علیٰ وجہ بصیرت ہمیشہ کیلئے اقرار کر کے پھر دوسری صورت میں اسی بات کا انکار کرے۔ یہ تعریف میرے پر صادق نہیں آسکتی کیونکہ میرا بیان تو اس طرز پر نہیں کہ پہلے میں حضرت مسیح ابن مریم کی یہ غیر طبعی حیات قبول کرکے پھر اس سے انکار کر گیا ہوں تا بوجہ جدت دعویٰ اور مخالفت پہلے اقرار کے بار ثبوت میرے پر ہو لیکن مدعی ہونے کی یہ تعریف حضرت مولوی محمد بشیر صاحب اور ان کے گروہ پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ پہلے ان کو اب تک اس بات کا اقرار ہے کہ یہ حیات مسیح کی جس کی نسبت دعویٰ ہے ایک غیر طبعی حیات ہے جو اللہ تعالیٰ کے عام قانون قدرت اور دائمی سنت اللہ سے مغائر و مخالف پڑی ہوئی ہے اور نہ صرف سنت اللہ کے مخالف بلکہ نصوص صریحہ بینہ قطعیہ قرآن کے بھی مخالف ہے کیونکہ قرآن کریم نے جو عام طور پر انسان کی بے ثبات ہستی کے بارے میں ہدایت فرمائی ہے وہ یہی ہے جو انسان اپنی عمر طبعی کی حد کے اندر مر جاتا ہے اور اگر جوانی اور درمیانی حالت میں نہیں تو ارذل عمر تک پہنچ کر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور زمانہ اس پر اثر کر کے اور انواع اقسام کے تغیرات اس پر وارد کرکے ارذل عمر تک اس کو پہنچاتا ہے یا وہ شخص پہلے ہی مرجاتا ہے۔ اس اقرار کے بعد مولوی صاحب موصوف اور ان کے گروہ کا یہ بیان ہے کہ مسیح ابن مریم جو انسان تھا اور انسانوں میں بلا کم و بیش داخل تھا اب تک نہیں مرا بلکہ صدہا برس سے زندہ چلا آتا ہے بڈھا بھی نہیں ہوا اور نہ ارذل عمر تک پہنچا اور نہ زمانہ نے کچھ بھی اس پر اثر کیا سو مولوی صاحب موصوف نے پہلے جس بات کا اقرار کیا تھا اسی بات کا پھر انکار کردیا۔ اس لئے حسب قاعدہ متذکرہ بالا حقیقی اور واقعی طور پر وہ مدعی ٹھہرگئے۔ کیونکہ میں بیان کرچکا ہوں کہ حقیقی اور واقعی طور پر مدعی اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ کسی امر کی نسبت ایک صورت میں اقرار کر کے پھر دوسری صورت میں اسی امر کا انکار کردیوے۔ کیا مولوی صاحب فقہ کے قوانین پر نظر ڈال کر یا دنیوی عدالتوں کے مقدمات پر نگاہ کر کے کوئی نظیر پیش کرسکتے ہیں کہ کسی شخص کو حقیقی طور پر مدعی تو کہا جائے مگر وہ اس تعریف سے باہر ہو۔ اور اگر اس عاجز نے مسیح ابن

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 182
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 182
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/182/mode/1up
مریمؔ کی وفات پر دلائل لکھے ہیں یا اس کی وفات کی نسبت اپنا الہام بیان کیا ہے تو اس کو حقیقی طور پر مدعی ہونے سے کیا تعلق ہے۔ وہ تمام دلائل تومحض بطریق تنزل لکھے گئے جیسے ایک مدعا علیہ کسی مدعی کا افترا ظاہر کرنے کیلئے کسی عدالت میں ایسی سند پیش کردیوے جس سے اور بھی اس مدعی کی پردہ دری ہو تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ درحقیقت اس پر وہ تمام ثبوت پیش کرنا واجب ہوگیا جو ایک واقعی اور حقیقی مدعی پر واجب ہوتا ہے۔ افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے اس مسئلہ شناخت مدعی و مدعا علیہ پر نظر غور نہیں کی۔ حالانکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو قاضیوں اور حکام اور علماؤں کو دھوکوں اور لغزشوں سے بچاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مولوی صاحب نے یہ دعویٰ تو کردیا کہ ہم حیات جسمانی مسیح ابن مریم آیات قطعیۃ الدلالت سے پیش کریں گے۔ لیکن بحث کے وقت اس دعوے سے نومیدی پیدا ہوگئی اس لئے اب اس طرف رخ کرنا چاہتے ہیں کہ دراصل مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی ثابت کرنا ہمارے ذمہ نہیں۔لہٰذا مولوی صاحب کو یاد رہے کہ جیسا کہ میں ابھی بیان کرچکا ہوں۔ حقیقی اور واقعی طریق عدالت یہی ہے کہ جو شخص حیات غیر طبعی مسیح ابن مریم کا مدعی ہے اسی پر واجب ہے کہ وہ آیات قطعیۃ الدلالت اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے حضرت مسیح کی حیات جسمانی ثابت کرے اور اگر ثابت نہ کرسکے تو یہ اول دلیل ہوگی کہ مسیح فوت ہوگیا بلاشبہ قوانین عدالت کے رو سے حقیقی اور واقعی طور پر آپ مدعی ہیں کیونکہ طبعی اور مسلّم امر کو چھوڑ کر ایک ایسا عقیدہ آپ نے اختیار کیا ہے جس کا ماننا اور قبول کرنا محتاج دلیل ہے۔ لیکن کسی انسان کا اپنی عمر طبعی تک مرجانا اور صدہا برس تک زندہ نہ رہنا محتاج دلیل نہیں بلکہ اس کے مرنے پر قانون قدرت اور سنت اللہ خود محکم دلیل ہے۔ غور فرماویں کہ اگر مثلاً کسی مفقود الخبر کی اٹھارہ سو برس تک خبر نہ ملے کہ وہ مرا ہے یا نہیں تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اب تک زندہ ہے اور کیا شریعت غرّا محمدیہ کسی تنازع کے وقت اس کی نسبت وہی احکام صادر کرے گی جو ایک زندہ کی نسبت صادر کرنے چاہئے۔ بیّنوا تُوجروا۔
پھر اس کے بعد آپ نے نصوص صریحہ بیّنہ قرآن اور حدیث سے نومید ہوکر دوبارہ آیت لیؤمننّ کے نون ثقیلہ پر زور مارا ہے اور جمہور مفسرین اور صحابہ اور تابعین سے تفرد اختیار کر کے محض اپنے خیال خام کی وجہ سے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ آیت بوجہ نون ثقیلہ کے خالص استقبال کیلئے ہوگئی ہے جس کے فقط یہی ایک معنے ہوسکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد کسی خاص زمانہ کے لوگ سب کے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 183
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 183
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/183/mode/1up
سبؔ ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان معنوں پر زور دینے کے وقت آپ نے اپنی اس شرط کا کچھ خیال نہیں رکھا جو پہلے ہم دونوں کے درمیان قرار پاچکی تھی جو قال اللّٰہ اور قال الرَّسول سے باہر نہیں جائیں گے اور نہ ان بزرگوں کی عزت اور مرتبت کا کچھ پاس کیا جو اہل زبان اور صرف اور نحو کو آپ سے بہتر جاننے والے تھے- صرف اور نحو ایک ایسا علم ہے جس کو ہمیشہ اہل زبان کے محاورات اور بول چال کے تابع کرنا چاہئے اور اہل زبان کی مخالفانہ شہادت ایک دم میں نحو وصرف کے بناوٹی قاعدہ کو رد کردیتی ہے۔ ہمارے پر اللہ اور رسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف و نحو کو اپنے لئے ایسا رہبر قرار دیدیں کہ باوجودیکہ ہم پر کافی اور کامل طور پر کسی آیت کے معنے کھل جائیں اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت بھی مل جائے تو پھر بھی ہم اس قاعدہ صرف یا نحو کو ترک نہ کریں اس بدعت کے الزام کی ہمیں حاجت کیا ہے۔ کیا ہمارے لئے کافی نہیں کہ اللہ اور رسول اور صحابہ کرام ایک صحیح معنے ہم کو بتلاویں۔ نحو اور صرف کے قواعد اطراد بعد الوقوع ہے اور یہ ہمارا مذہب نہیں کہ یہ لوگ اپنے قواعد تراشی میں بکلی غلطی سے معصوم ہیں اور ان کی نظریں ان گہرے محاورات کلام الٰہی پر پہنچ گئی ہیں جس سے آگے تلاش اور تتبع کا دروازہ بند ہے میں جانتا ہوں کہ آپ بھی ان کو معصوم نہیں سمجھتے ہوں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں ۱؂ بھی آیت موجود ہے ۔لیکن کیا آپ نظیر کے طور پر کوئی قول عرب قدیم کا پیش کرسکتے ہیں جس میں بجائے ان ہذین کے ان ہذان لکھا ہو۔ کسی نحوی نے آج تک یہ دعویٰ بھی نہیں کیا کہ ہم قواعد صرف و نحو کو ایسے کمال تک پہنچا چکے ہیں کہ اب کوئی نیا امر پیش آنا یا ہماری تحقیق میں کسی قسم کا نقص نکلنا غیر ممکن ہے۔ غرض التزام قواعد مخترعہ صرف و نحو کا حُجَجِ شرعیہ میں سے نہیں۔ یہ علم محض از قبیل اطراد بعد الوقوع ہے اور ان لوگوں کی معصومیت پر کوئی دلیل شرعی نہیں مل سکتی۔ خواص علم لغت ایک دریا ناپیدا کنار ہے۔ افسوس کہ ہماری صرف و نحو کے قواعد مرتب کرنے والوں نے بہت جلد ہمت ہار دی اور جیسا کہ حق تفتیش کا تھا بجا نہیں لائے۔ اور کبھی انہوں نے ارادہ نہیں کیا اور نہ کرسکے کہ ایک گہری اور عمیق نظر سے قرآنی وسیع المفہوم الفاظ کو پیش نظر رکھ کر قواعد تامہ کاملہ مرتب کریں اور یوں ہی ناتمام اپنے کام کو چھوڑ گئے ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ ہم کسی طرح قرآن کریم کو ان کا تابع نہ ٹھہراویں بلکہ جیسے جیسے خواص وسیع المفہوم قرآن کریم کے الفاظ کے کھلنے چاہئیں اسی کے مطابق اپنی پرانی اور ناتمام نحو کو بھی درست کر لیں۔ یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر یک زبان ہمیشہ گردش میں رہتی ہے اور گردش میں رہے گی۔ جو شخص اب

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 184
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 184
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/184/mode/1up
ملکؔ عرب میں جا کر مشاہدہ کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ کس قدر پہلی زبانوں سے اب عربی زبان میں فرق آگیا ہے یہاں تک کہ اقعد کی جگہ اگد بولا جاتا ہے ایسا ہی کئی محاورات بدل گئے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ جس زمانہ میں صرف و نحو کے قواعد مرتب کرنے کیلئے توجہ کی گئی وہ زمانہ کس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے فرق کر گیا تھا اور کیا کچھ محاورات میں تبدل واقعہ ہوگیا تھا۔نحوی اور صرفی اس بات کے بھی تو قائل ہیں کہ باوجود ترتیب قواعد کے ایک حصہ کثیرہ خلاف قیاس الفاظ اور خلاف قیاس ترتیب الفاظ کا بھی ہے۔ جس کی حد ابھی غیر معلوم ہے جو ابھی تک کسی قاعدہ کے نیچے نہیں آسکا۔ غرض یہ صرف اور نحو جو ہمارے ہاتھ میں ہے صرف بچوں کو ایک موٹی قواعد سکھلانے کیلئے ہے اس کو ایک رہبر معصوم تصور کر لینا اور خطا اور غلطی سے پاک سمجھنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو بجز اللہ اور رسول کے کسی اور کو بھی معصوم قرار دیتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہٗ نے ہمیں یہ فرمایا ہے ۱؂ یعنی اگر تم کسی بات میں تنازع کرو تو اس امر کا فیصلہ اللہ اور رسول کی طرف رد کرو۔ اور صرف اللہ اور رسول کو حَکم بناؤ نہ کسی اور کو۔ اب یہ کیونکر ہوسکے کہ ناقص العلم صرفیوں اور نحویوں کو اللہ اور رسول کو چھوڑ کر اپنا حَکم بنایا جائے۔ کیا اس پر کوئی دلیل ہے۔ تعجب کہ متبع سنت کہلا کر کسی اور کی طرف بجز سر چشمہ طیبہ مطہرہ اللہ رسول کے رجوع کریں۔ آپ کو یاد رہے کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قواعد موجودہ صرف و نحو غلطی سے پاک ہیں یا بہمہ وجوہ متمم و مکمل ہیں۔ اگر آپ کا یہ مذہب ہے تو اس مذہب کی تائید میں تو کوئی آیت قرآن کریم پیش کیجئے یا کوئی حدیث صحیح دکھلائیے ورنہ آپ کی یہ بحث بے مصرف فضول خیال ہے حجت شرعی نہیں میں ثابت کرتا ہوں کہ اگر فی الحقیقت نحویوں کا یہی مذہب ہے کہ نون ثقیلہ سے مضارع خالص مستقبل کے معنوں میں آجاتا ہے اور کبھی اور کسی مقام اور کسی صورت میں اس کے برخلاف نہیں ہوتا تو انہوں نے سخت غلطی کی ہے۔ قرآن کریم ان کی غلطی ظاہر کررہا ہے اور اکابر صحابہ اس پر شہادت دے رہے ہیں۔ حضرت انسانوں کی اور کوششوں کی طرح نحویوں کی کوششیں بھی خطا سے خالی نہیں آپ حدیث اور قرآن کو چھوڑ کر کس جھگڑے میں پڑ گئے۔ اور اس خیال خام کی نحوست سے آپ کو تمام اکابر کی نسبت بدظنی کرنی پڑی کہ وہ سب تفسیر آیت لیؤمننّ بہٖ میں غلطی کرتے رہے ابھی میں انشاء اللہ القدیر آپ پر ثابت کروں گا کہ آیت لَیؤمننّ بہٖ آپ کے معنوں پر اس صورت میں قطعیۃ الدلالت ٹھہر سکتی ہے کہ ان سب بزرگوں کی قطعیۃ الجہالت ہونے پر فتویٰ لکھا جائے اور نعوذ باللہ نبی معصوم

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 185
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 185
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/185/mode/1up
کوؔ بھی ان میں داخل کردیا جائے ورنہ آپ کبھی اور کسی صورت میں قطعیت کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتے اور کوئی تقویٰ شعار علماء میں سے اس قطعیت کے دعوے میں آپ کے ساتھ شریک نہیں ہوگا اور کیونکر شریک ہو۔ شریک تو تب ہو کہ بہت سے بزرگوں اور صحابہ کو جاہل قرار دیوے اور نبی صلعم پر بھی اعتراض کرے۔ سُبحانہٗ ھٰذا بُھتان عظیم۔
اب میں آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اکابر مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ کے نزول کیلئے قطعیۃ الدلالت قرار دیا ہے یا کچھ اور ہی معنے لکھے ہیں۔ سو واضح ہو کہ کشّاف صفحہ ۱۹۹ میں لیؤمننّ بہٖ کی آیت کے نیچے یہ تفسیر ہے جملۃ قسمیۃ واقعۃ صفۃ لموصوف محذوف تقدیرہ وان من اھل الکتٰب احد الّا لیؤمننّ بہ قبل موتہ بعیسٰی وبانہ عبداللہ و رسولہ یعنی اذا عاین قبل ان تزھق روحہ حین لاینفعہ ایمانہ لانقطاع وقت التکلیف وعن شھر بن حو شب قال لی الحجاج ٰایۃ ما قراء تھا الا تخالج فی نفسی شیء منھا یعنی ھٰذہ الآیۃ انی اضرب عنق الا سیرمن الیھود والنصارٰی فلا اسمع منہ ذالک فقلت ان الیھودی اذا حضرہ الموت ضربت الملا ئکۃ دبرہ ووجھہ وقالوا یاعدواللہ اتاک عیسٰی نبیا فکذبت بہ فیقول آمنت انہ عبد نبی و تقول للنصرانی اتاک عیسیٰ نبیا فزعمت انہ اللّٰہ اوابن اللّٰہ فیومن انہ عبداللہ و رسولہ۔ و عن ابن عباس انہ فسرہ کذٰلک فقال لہ عکرمۃ فان اتاہ رجل فضرب عنقہ۔ قال لا تخرج نفسہ حتی یتحرک بھا شفتیہ قال عکرمۃ وان خرمن فوق بیت اواحترق اواکلہ سبع قال یتکلم بھا فی الھواء ولا تخرج روحہ حتی یومن بہ و تدل علیہ قراء ۃ اُبَیّ الا لیومننّ بہ قبل موتہم بضم النون علی معنی وان منھم احد الا لیومننّ قبل موتھم۔ وقیل الضمیران لیعسٰی یعنی وان منھم احدالالیومننّ یعنی قبل موت عیسٰی اھم اھل الکتٰب الذین یکونون فی زمان نزولہ۔ روی انہ ینزل فی اٰخر الزمان فلایبقٰی احد من اھل الکتب الایومن بہ حتی تکون ملۃ واحدۃ وھی ملۃ الاسلام و قیل الضمیر فی بہ یرجع الی اللہ تعالٰی وقیل الٰی محمدصلی اللہ علیہ و سلم۔
ترجمہ۔ یعنی لیومنن بہ جملہ قسمیہ ہے اور آیت موصوف محذوف کے لئے صفت ہے اور محذوف کو ملانے کے ساتھ اصل عبارت یوں ہے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے عیسیٰ پر ایمان نہ لا وے اور نیز اس بات پر ایمان لاوے کہ وہ اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہے یعنی جس وقت جان کندن

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 186
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 186
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/186/mode/1up
کا وؔ قت ہو جب کہ ایمان بوجہ انقطاع وقت تکلیف کے کچھ نفع نہیں دیتا۔ اور شہر بن حو شب سے روایت ہے کہ مجھے حجاج نے کہا کہ ایک آیت ہے کہ جب کبھی میں نے اس کو پڑھا تو اس کی نسبت میرے دل میں ایک خلجان گذرا یعنی یہی آیت اور خلجان یہ ہے کہ مجھے کتابی اسیر قتل کرنے کیلئے دیا جاتا ہے اور میں یہود یا نصاریٰ کی گردن مارتا ہوں اور میں اس کے مرنے کے وقت یہ نہیں سنتا کہ میں عیسٰی پر ایمان لایا۔ ابن حو شب کہتا ہے کہ میں نے اس کو کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب یہودیوں پر جان کندن کا وقت آتا ہے تو فرشتے اس کے منہ پر اور پیچھے مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے دشمن خدا تیرے پاس عیسیٰ نبی آیا اور تو نے اس کی تکذیب کی پس وہ کہتا ہے کہ اب میں عیسیٰ پر ایمان لایا کہ وہ بندہ اور پیغمبر ہے اور نصرانی کو فرشتے کہتے ہیں کہ تیرے پاس عیسیٰ نبی آیا اور تونے اس کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا تب وہ کہتا ہے کہ اب میں نے قبول کیا کہ وہ خدا کا بندہ اور رسول ہے۔ اور ابن عباس سے روایت ہے کہ اس نے ایک موقعہ پر یہی تفسیر کی تب عکرمہ نے اس کو کہا کہ اگر ناگاہ کسی شخص کی گردن کاٹ دی جائے تو کس وقت اور کیونکر وہ عیسیٰ کی نبوت کااقرار کرے گا۔ تب ابن عباس نے کہا کہ اس کی اس وقت تک جان نہیں نکلے گی جب تک اس کے لبوں پر کلمہ اقرار نبوت مسیح کا جاری نہ ہو لے پھر عکرمہ نے کہا کہ اگر وہ گھر کی چھت پر سے گرے یا َ جل جائے یا کوئی درندہ اس کو کھا لیوے تو کیا پھر بھی اقرار نبوت عیسیٰ کا اس کو موقعہ ملے گا تب ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ گرتے گرتے ہوا میں یہ اقرار کردے گا۔ اور جب تک یہ اقرار نہ کر لے تب تک اس کی جان نہیں نکلے گی اور اسی پر دلالت کرتی ہے قراء ت اُبَی بن کعب کی۔ الّا لَیُؤْمِنَنَّ بہٖ قبل موتھم بِضَمِّ النُّون یعنی دوسری قراء ت میں بجائے قبل موتہ کے قبل موتھم لکھا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے نہ حضرت عیسیٰ کی طرف۔ اور ایک قول ضعیف یہ بھی ہے کہ دونوں ضمیریں بہٖاور موتہٖ کی حضرت عیسٰی کی طرف پھرتی ہیں جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ کے نزول کے بعد تمام اہل کتاب ان کی نبوت پر ایمان لے آویں گے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ضمیر بہ ٖ کی اللہ تعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ضمیر بہٖ کی پھرتی ہے۔
پھر نووی میں یہ عبارت لکھی ہے ذھب کثیرون بل اکثرون الی ان الضمیر فی ٰایۃ الا لیؤمننّ بہٖ یعود الی اھل الکتب ویویّد ھٰذا ایضًا قراء ۃ من قرأ قبل موتہم۔ یعنی بہت سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 187
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 187
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/187/mode/1up
لوگؔ بلکہ نہایت کثرت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ آیت اِلّا لیؤمننّ بہٖ میں موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے اور اسی کی مؤید قراء ت قبل موتہم ہے۔
پھر تفسیرمدارک میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے والمعنی مامن الیھود والنصارٰی احد الا لیؤمننّ قبل موتہ بعیسٰی وبانہ عبداللہ و رسولہ وروی ان الضمیر فی بہ یرجع الی اللّٰہ اوالی محمد صلی اللہ علیہ و سلم والضمیر الثانی الی الکتابییعنی اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جو اپنی موت سے پہلے عیسیٰ پر ایمان نہ لاوے اور اس کی رسالت اور عبدیت کو قبول نہ کرے اور یہ بھی روایت ہے کہ ضمیر بہٖکی اللہ کی طرف پھرتی ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے۔ ایسا ہی بیضاوی میں زیر آیت لیؤمننّ بہٖ یہ تفسیر کی ہے۔ والمعنٰی مامن الیھود و النصارٰی احد الا لیؤمننّ بان عیسٰی عبد اللہ و رسولہ قبل ان یموت ویؤیّد ذالک ان قریء الا لیومنن بہ قبل موتھم وقیل الضمیران لعیسٰی ۔ یعنی اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ میں سے ایسا کوئی نہیں جو اپنی موت سے پہلے عیسیٰ پر ایمان نہ لاوے اور قبل موتہم کی قراء ت انہیں معنوں کی مؤید ہے اور ایک قول ضعیف یہ بھی ہے کہ دونوں ضمیریں عیسیٰ کی طرف پھرتی ہیں۔
اور تفسیر مظہری کے صفحہ ۷۳۱ اور ۷۳۲ میں زیر آیت موصوفہ یعنی لیومنن بہ کے لکھا ہے۔روی عن عکرمۃ ان الضمیر فی بہ یرجع الی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وقیل راجعۃ الی اللّٰہ عزّوجل والمآل واحد فان الایمان باللّٰہ لا یعتد مالم یؤمن بجمیع رسلہ والایمان بمحمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم یستلزم الایمان بعیسٰی علیہ السلام۔ قبل موتہٖ ای قبل موت ذالک الاحد من اھل الکتٰب عند معائنۃ ملائکۃ العذاب عند الموت حین لاینفعہ ایمانہ۔ ھذا روایۃ علی بن طلحۃ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال فقیل لابن عباس أَرَأَیْتَ ان خرمن فوق بیت قال یتکلم فی الھواء فقیل أَرَأَیْتَ ان ضرب عنقہ قال تلجلج لسانہ والحاصل انہ لایموت کتابی حتی یومن باللّٰہ عزّوجل وحدہ لاشریک لہ وان محمدا صلی اللہ علیہ و سلم عبدہ و رسولہ وان عیسی عبداللہ و رسولہ قیل یومن الکتابی فی حین من الاحیان ولو عند معاینۃ العذاب۔ وقال الضمیران لعیسٰی والمعنی انہ اذا نزل امن بہ اھل الملل اجمعون ولایبقٰی احد الا لیومننّ بہٖ وھٰذا التاویل مروی عن ابی ھریرۃ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 188
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 188
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/188/mode/1up
لٰکنؔ کونہ مستفادًا من ھذہ الاٰیۃ و تأویل الاٰیۃ بارجاع الضمیر الثانی الی عیسٰی ممنوع انماھوزعم من ابی ھریرۃ لیس ذٰلک فی شیءٍ من الاحادیث المرفوعۃ و کیف یصح ھذا التاویل مع ان کلمۃ ان من اھل الکتاب شامل للموجودین فی زمن النبی صلی اللہ علیہ و سلم البتۃ سواء کان ھٰذا الحکم خاصًا بھم اولا فان حقیقۃ الکلام للحال ولا وجہ لان یراد بہٖ فریق من اھل الکتاب یوجدون حین نزول عیسٰی علیہ السلام فالتأویل الصحیح ھوالاول و یویدہ قراء ۃ اُبَی بن کعب اخرج ابن المنذرعن ابی ھاشم و عروۃ قال فی مصحف ابی بن کعب وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتھم۔
ترجمہ۔ عکرمہ سے روایت ہے آیت لیؤمننّ بہٖ میں۔ بہٖ کی ضمیر حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ کی طرف راجع ہے اور مآل واحد ہے کیونکہ ایمان باللہ معتبر نہیں جب تک تمام رسولوں پر ایمان نہ لایا جائے اور محمد مصطفیٰ صلعم پر ایمان لانا عیسیٰ پر ایمان لانے کو مستلزم ہے۔ اور قبل موتہٖ کی یہ تفسیر ہے کہ ہر (ایک) کتابی اپنی موت سے پہلے عذاب کے فرشتوں کے دیکھنے کے بعد رسول اللہ صلعم پر ایمان لائے گا جب کہ اس کو ایمان کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ یہ علی بن طلحہ کی روایت ابن عباس سے ہے رضی اللہ عنہما۔ علی بن طلحہ کہتا ہے کہ ابن عباس کو کہا گیا کہ اگر کوئی چھت پر سے گر پڑے تو پھر وہ کیونکر ایمان لائے گا۔ ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ ہوا میں اس اقرار کو ادا کرے گا پھر پوچھا گیا کہ اگر کسی کی گردن ماری جاوے تو وہ کیونکر ایمان لاوے گا تو ابن عباس نے کہا کہ اس وقت بھی اس کی زبان میں اقرار کے الفاظ جاری ہوجائیں گے۔ حاصل کلام یہ کہ کتابی نہیں مرے گا جب تک اللّٰہ جلّ شانہٗ اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم اور عیسٰی پر ایمان نہ لاوے بعض کہتے ہیں کہ کتابی فی حین من الاحیان ایمان لائے گا اگرچہ عذاب کے معائنہ کے وقت ہو اور بعض کہتے ہیں کہ دونوں ضمیریں عیسیٰ کی طرف پھرتی ہیں۔ اور یہ معنے لیتے ہیں کہ جب عیسیٰ نازل ہوگا تو تمام اہلِ ِ ملل اس پر ایمان لے آئیں گے اور کوئی منکر باقی نہیں رہے گا اور یہ تاویل ابوہریرہ سے مروی ہے لیکن آیت لیومننّ بہٖ سے یہ معنے جو ابوہریرہ نے خیال کئے ہیں ہرگز نہیں نکلتے اور قبل موتہٖ کی ضمیر عیسیٰ کی طرف کسی طرح پھر نہیں سکتی یہ صرف ابوہریرہ کا گمان ہے۔ احادیث مرفوعہ میں اس کا کوئی اصل صحیح نہیں پایا جاتا اور کیونکر یہ تاویل صحیح ہوسکتی ہے باوجودیکہ کلمہ اِنْ موجودین کو بھی تو شامل ہے یعنی ان

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 189
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 189
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/189/mode/1up
اہلؔ کتاب کو جو آنحضرت صلعم کے زمانہ میں موجود تھے۔ خواہ یہ کلمہ انہیں سے خاص ہویا خاص نہ ہو لیکن حقیقت کلام کا مصداق ٹھہرانے کیلئے حال سب زمانوں سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے اور کوئی وجہ اس بات کی نہیں پائی جاتی کہ کیوں وہی اہل کتاب خاص کئے جائیں جو حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت موجود ہوں گے پھر صحیح تاویل وہی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں یعنی ضمیربہٖ کی عیسیٰ کی طرف نہیں پھرتی بلکہ کتابی کی طرف پھرتی ہے اور اسی کے قراء ت ابی بن کعب مؤید ہے جس کو ابن المنذر نے ابی ہاشم سے لیا ہے اور نیز ُ عروہ سے بھی۔ اور وہ قراء ت یہ ہے۔ وان من اھل الکتب الا لیؤمننّ بہٖ قبل موتھم۔یعنی اہل کتاب اپنی موت سے پہلے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و سلم اور عیسیٰ پر ایمان لاویں گے۔ اسی کے قریب قریب ابن کثیر اور تفسیر کبیر اور فتح البیان و معالم التنزیل وغیرہ تفاسیر میں لکھا ہے۔ اب دیکھئے کہ حضرت عکرمہ اور حضرت ابن عباس اور علی بن طلحہ رضی اللہ عنہم یہی تأویل لیؤمننّ بہٖ کی کرتے ہیں کہ پہلی ضمیر محمدمصطفی صلعم اور عیسیٰ کی طرف پھرتی ہے اور دوسری ضمیر قبل موتہٖ اہل کتاب کی طرف پھرتی ہے اور قراء ت قبل موتہم کس قدر وثوق سے ثابت ہوتی ہے پھر باوجودیکہ یہ تاویل صحابہ کرام کی طرف سے ہے اور بلاشبہ قراء ت شاذہ حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے مگر آپ اس کو نظر انداز کر کے اور نحوی قواعد کو اپنے زعم میں اس کے مخالف سمجھ کر تمام بزرگ اور اکابر قوم اور صحابہ کرام کی صریح ہجو اور توہین کررہے ہیں گویا آپ کے نحوی قواعد کی صحابہ کو بھی خبر نہیں تھی اور ابن عباس جیسا صحابی جس کیلئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے فہم قرآن کی دعا بھی ہے وہ بھی آپ کے ان عجیب معنوں سے بے خبر رہا۔ آپ پر قراء ت قبل موتہم کا بھی وثوق کھل گیا ہے اب فرض کے طور پر اگر قبول کر لیں کہ ابن عباس اور علی بن طلحہ اور عکرمہ وغیرہ صحابہ ان معنوں کے سمجھنے میں خطا پر تھے اور قراء ت اُبیَ بن کعب بھی یعنی قبل موتھم کامل درجہ پر ثابت نہیں تو کیا آپ کے دعویٰ قطعیۃ الدلالت ہونے آیت لیؤمننّ بہٖ پر اس کا کچھ بھی اثر نہ پڑا۔ کیا وہ دعوے جس کے مخالف صحابہ کرام بلند آواز سے شہادت دے رہے ہیں اور دنیا کی تمام مبسوط تفسیریں باتفاق اس پر شہادت دے رہی ہیں اب تک قطعیۃ الدلالت ہے۔یاأخی اتّق اللّٰہ۔ ۱؂ اور جب ان روایتوں کے ساتھ وہ روایتیں بھی ملادیں جن میں انّی متوفّیک کے معنے ممیتک لکھے ہیں جیسے ابن عباس کی روایت اور وہب اور محمد بن اسحاق کی روایت کے کوئی ان میں سے عام طور پر حضرت مسیح کی موت کا قائل ہے اور کوئی کہتا ہے کہ تین گھنٹہ تک مر گئے تھے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 190
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 190
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/190/mode/1up
اورؔ کوئی سات گھنٹہ تک ان کی موت کا قائل ہے اور کوئی تین دن تک جیسا کہ فتح البیان اور معالم التنزیل اور تفسیر کبیر و غیرہ تفاسیر سے ظاہر ہے تو پھر اس صورت میں اس وہم کی اور بھی بیخ کنی ہوتی ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے۔ غرض آپ کا نور قلب شہادت دے سکتا ہے کہ جس قدر میں نے لکھا ہے آپ کے دعوے قطعیۃ الدلالت کے توڑنے کیلئے کافی ہے قطعیۃ الدلالت اس کو کہتے ہیں جس میں کوئی دوسرا احتمال پیدا نہ ہوسکے مگر آپ جانتے ہیں کہ اکابر صحابہ اور تابعین کے گروہ نے آپ کے معنے قبول نہیں کئے اور مفسرین نے جابجا اس آپ کی تاویل کو قِیْلَ کے لفظ سے بیان کیا ہے جو ضُعف روایت پر دلالت کرتا ہے۔ عام رائے تفسیروں کی یہی پائی جاتی ہے کہ قراء ت قبل موتہم کے موافق معنے کرنے چاہئیں اور ضمیر بہٖ کا نہ صرف حضرت عیسیٰ کی طرف بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ جلّ شانہٗ کی طرف پھیرتے ہیں۔ اب آپ کی رائے کی قطعیت کیونکر باقی رہ سکتی ہے۔ برائے خدا خوف الٰہی کو ہاتھ سے نہ دیں آپ کے منہ کی طرف صدہا آدمی دیکھ رہے ہیں اس زمانہ میں تمام لوگ اندھے نہیں فریقین کے بیانات شائع ہونے کے بعد پبلک خود فیصلہ کرلے گی لیکن جن لوگوں کے دلوں پر آپ کی رائے کا اثر پڑے گا اس کے ذمہ دار اور اس کے مؤاخذہ کے جوابدہ آپ ٹھہریں گے۔ اور میں نے جو آپ کے قاعدہ نون ثقیلہ کا نام جدید رکھا تو اس کی یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کا یہ قاعدہ تسلیم کر لیا جائے تو نعوذ باللہ بقول آپ کے ابن عباس جیسے صحابی کو جاہل و نادان قرار دینا پڑتا ہے۔ اور قراء ت قبل موتہم کو خواہ نخواہ افترا قرار دینا پڑے گا اور آپ کے نحویوں کو معصوم عن الخطا ماننا پڑے گا آپ تو اللہ رسول کے متبع تھے۔ سیبویہ اور خلیل کے کب سے متبع ہوگئے اب میں آپ کے اقوال باقی ماندہ کو بطرز قولہ اقول کے رد کرتا ہوں۔
قولہ ایسے معنے کرنا فاسد ہے کہ یہ کہا جائے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔ کیونکہ یہ معنے نفس الامر میں تینوں زمانوں پر شامل ہیں۔
اقول جب کہ یہ معنی ابن عباس اور عکرمہ اور علی بن طلحہ وغیرہ صحابہ و تابعین کرتے ہیں اور قرآن ابی بن کعب انہی معنوں کے مطابق ہے تو کیا آپ کا یہ نحوی قاعدہ انکا اکابر کو جاہل قرار دے سکتا ہے اور کیا صدہا مفسرین بلکہ ہزارہا جو اب تک یہ معنے کرتے آئے وہ جاہل مطلق اور آپ کی نحو سے غافل تھے۔ جب تک ان ہزاروں اکابر کا نام آپ قطعی طور پر جاہل نہ قرار دے دیں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 191
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 191
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/191/mode/1up
تبؔ تک آپ کے یہ معنے جس میں آپ منفرد ہیں کیونکر قطعی بن سکتے ہیں کوئی مبسوط تفسیر تو پیش کرو جو ان معنوں سے خالی ہے یا جس نے ان معنوں کو سب سے مقدم رکھا۔ تیرہ سو برس کی تفسیریں اکٹھی کرو اور ان پر نظر ڈال کر دیکھو کیا کوئی بھی آپکی طرح ان معنوں کو ناجائز ٹھہراتا ہے بلکہ سب کے سب آپ ہی کے معنوں کو خفیف ٹھہراتے ہیں۔قولہ قبل موتہم کی قراء ت پر بھی معنے دوم صحیح نہیں ہوتے اور یہ قراء ت ہمارے معنے کے مخالف بھی نہیں ہے کیونکہ اس قراء ت پر یہ معنے ہونگے کہ ہریک اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے زمانہ آئندہ میں مسیح پر ایمان لائے گا اور یہ معنے معنے اول کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ زمانہ آئندہ سے زمانہ نزول مسیح مراد لیا جاوے گا۔ اقول حضرت اس قراء ت سے مسیح ابن مریم کی زندگی کیونکر اور کہاں ثابت ہوئی آپ تو قبل موتہٖ کے ضمیر سے مسیح کی زندگی ثابت کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ مسیح کی موت سے پہلے لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے اب جب کہ قبل موتہٖ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف پھیری گئی تو مسیح کی زندگی جس کا ثابت کرنا آپکا مدعا تھا کہاں اور کن الفاظ سے ثابت ہوئی مجرد ایمان لانے میں تو بحث نہیں بحث تو اس امر میں ہے کہ مسیح ابن مریم زندہ ہے یا نہیں۔ قولہ قراء ت قبل موتہم غیر متواترہ ہے۔ اقول ہم نے تفاسیر معتبرہ کے ذریعہ سے اس کی سند پیش کردی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اسی کے موافق کہتے ہیں جمہور علماء کا اسی کو مقدم رکھتا آیا ہے یعنے اسی کے مطابق معنے کرتا چلا آیا ہے۔ پس اسی قدر ثبوت آپکے دعوے قطعیۃ الدلالت توڑنے کیلئے کافی ہے بھلا اگر آپ حق پر ہیں تو تیرہ سو برس کی تفسیروں میں سے کوئی ایسی تفسیر تو پیش کیجئے جو ان معنوں کی صحت پر معترض ہو تفسیر مظہری کا بیان آپ سن چکے ہیں۔ الہامی معنے جو میں نے کئے ہیں وہ درحقیقت ان معنوں کے معارض نہیں اگرچہ وہ بجائے خود ایک معنے ہیں چونکہ آیت ذوالوجوہ ہے اس لئے جب تک سخت تعارض نہ ہو ہریک معنی قبول کے لائق ہیں۔
قولہ آیت فلنولینّک میں پڑھنے سے یہ مراد نہیں کہ ہم تجھ کو ہاتھ پکڑ کر قبلہ کی طرف پھیرتے ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم تجھ کو قبلہ کی طرف پھیرنے کا حکم کرتے ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب وشاہ رفیع الدین صاحب وشاہ عبدالقادر صاحب نے ترجمہ اس لفظ کا بمعنی مستقبل کیا ہے۔ مگر مستقبل قریب ہے۔
اقول۔ آپ اس بات کے تو قائل ہوگئے کہ یہ مستقبل بعید نہیں ہے بلکہ قریب ہے اور ایسا قریب کہ ایک طرف حکم ہوا اور ساتھ ہی اس کے عمل بھی ہوگیا تو گویا آپ ایک صورت سے ہمارے بیان کو مان گئے کیونکہ ہمارے نزدیک حال کسی ٹھہرنے والے زمانہ کا نام نہیں اور نہ زمانہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ ٹھہر سکے بلکہ وقت

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 192
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 192
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/192/mode/1up
مقدؔ ار غیر قار کا نام ہے۔ پھر حال اپنے حقیقی معنوں کے رو سے کیونکر متحقق ہو کیونکہ جب زمانہ غیر قار ہے تو ماضی کے بعد ہر دم استقبال ہی استقبال ہے لیکن جب حال بولا جاتا ہے تو اس کے معنے ہرگز حقیقی نہیں لئے جاتے۔ کیونکہ حقیقی معنوں کا مراد رکھنا محال ہے اس وقت تک کہ ہم حال کا لفظ زبان پر جاری کریں کئی باریک حصے زمانہ کے گذر جاتے ہیں پھر حال کا وجود کہاں اور کیونکر متحقق ہے بلکہ حال سے مراد مجازی طور پر وہ زمانہ لیا جاتا ہے جو ہماری نظر کے سامنے واقع ہے جو کسی دوسرے حصہ زمانہ میں تصور نہیں کیا گیا۔ اس صورت میں تو ہماری اور آپ کی نزاع لفظی ہی نکلی اور جس زمانہ کا نام ہم حال رکھتے ہیں اسی کا نام آپ نے مستقبل قریب رکھ لیا۔ اوراس اتفاق رائے سے ہمارا مدعا ثابت ہوگیا۔ ہاں اگر آپ کے نزدیک کوئی زمانہ حقیقی معنوں کے رو سے بھی حال ہے۔ تو پہلے مہربانی فرما کر وقت کی تعریف فرمایئے میں تو ابتدا سے یہ سنتا آیا ہوں کہ وقت کی تعریف یہی ہے کہ الوقت مقدار غیر قار۔ یعنے وقت اسی مقدار کا نام ہے جس کو ذرہ قرار نہیں اب جب کہ وقت کو قرار نہیں تو حقیقی طور پر حال کیونکر پیدا ہوا۔ آپ سوچ کر جواب دیں اور شاہ ولی اللہ وغیرہ صاحبوں کا ترجمہ جو آپ نے پیش کیا ہے یہ ہمارے کچھ مضر نہیں۔ جب آپ خود مستقبل قریب کے قائل ہوگئے اسی طرح وہ بھی قائل ہیں اور آیت ۱؂ میں وہی ہماری طرف سے جواب ہے جو اس میں جواب ہے۔قولہ آیت ۲؂ استمراری معنے پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ اس جگہ عادت مستمرہ کا بیان کرنا مقصود نہیں یہ تو صرف وعدہ ہے اور امر موعود وعدہ کے بعد متحقق ہوتا ہے۔ اقول۔ یہ تو ہم نے تسلیم کیا کہ وعدہ ہے بلکہ یہ کہاں سے ثابت ہے کہ یہ وعدہ آنے والے لوگوں کیلئے ہی خاص ہے اور اس نعمت سے وہ لوگ بے نصیب ہیں جو پہلے گذر چکے ہیں یا حال میں مجاہدہ میں لگے ہوئے ہیں حضرت یہ وعدہ بھی استمراری ہے جو از منہ ثلاثہ پر مشتمل ہے۔ اس میں آپ ضد نہ کیجئے اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو اس کے اس قانون قدرت سے جو مجاہدہ کرنے پر ضرور ہدایت مترتب ہوتی ہے محروم تصور نہ فرمایئے ورنہ مطابق آپ کے معنوں کے ہر یک زمانہ جو حال کے نام پر موسوم ہوگا اس نعمت سے بکلی محروم قرار دینا پڑے گا مثلاً ذرا غور کر کے دیکھئے کہ اس آیت کو نازل ہوئے تیرہ سو برس گذر گیا ہے اور کچھ شک نہیں کہ برطبق مضمون اس آیت کے ہر یک جو اس عرصہ میں مجاہدہ کرتا رہا ہے وہ وعدہ لنھدینّھم سے حصہ مقسومہ لیتا رہا ہے اور اب بھی لیتا ہے اور آئندہ بھی لے گا پھر آپ اس آیت کے استمراری معنوں سے جواز منہ ثلاثہ پر اپنا اثر ڈالتی چلی آئی ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 193
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 193
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/193/mode/1up
کیوؔ نکر منکر ہوتے ہیںیہی میرا بیان باقی آیات پیش کردہ میری کے متعلق ہے۔ علیحدہ لکھنے کی حاجت نہیں پبلک خود فیصلہ کر لے گی اور یاد رکھنا چاہئے یہ ترجمے کوئی توقیفی نہیں ہیں۔* آپ کے نون ثقیلے ہرگز آپ کو وہ فائدہ نہیں پہنچا سکتے جس کی آپ کو خواہش ہے۔قولہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد اور ان کی موت سے پہلے ایک زمانہ ایسا ضرور ہوگا کہ اس وقت اہل کتاب سب مسلمان ہوجائیں گے۔ اقول حضرت آپ کیوں تکلفات رکیکہ کررہے ہیں آپ کے ان تکلفات کو کون تسلیم کرے گا قرآن کریم اس بات کا گواہ ہے کہ سلسلہ کفر کا بلا فصل قیامت کے دن تک قائم رہے گا اور یہ کبھی نہیں ہوگا کہ سب لوگ ایک ہی مذہب پر ہوجائیں اور اختلاف کفر اور ایمان اور بدعت اور توحید کا درمیان سے اُٹھ جائے چنانچہ اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ضروری الوجود انسانوں کی فطرت کیلئے قرار دیتا ہے اور کفر کا تخم قیامت تک قائم رہنے کیلئے یہ آیات صریحۃ الدلالت ہیں جو پہلے پرچہ میں لکھ چکا ہوں یعنے ۱؂ اور آیت ۲؂ اب دیکھئے کہ ان آیات سے ہی آپ کا دعویٰ قطعیۃ الدلالت ہونا آیت لیؤمننّ بہٖ کا کس قدر باطل ثابت ہوتا ہے ہریک طرف سے آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی آپ پر زَد ہے پھر بھی آپ اس خیال کو نہیں چھوڑتے۔ آپ نے جب دیکھا کہ مسیح کے دم سے بہت لوگ کفر پر مریں گے تو آپ پہلے دعوے سے کھسک گئے لیکن آیات موصوفہ بالا سے آپ کسی طرح پیچھا چھڑا نہیں سکتے۔ آپ نے جو اس بارے میں جواب دیا ہے خود منصف لوگ دیکھیں گے حاجت اعادہ کی نہیں۔ قولہ آپ پر واجب ہے کہ آپ ثابت کریں کہ حلیم کے لفظ سے جو ان مضبوط کیونکر سمجھا جاتا ہے۔ اقول حضرت حلیم وہ ہے جو یبلغ الحلم کا مصداق ہو اور جو حلم کے زمانہ تک پہنچے وہ جو ان مضبوط ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ خورد سال کے کچے اعضا شدت اور صلابت کے ساتھ بدل جاتے ہیں قاموس بھی ملاحظہ ہو اور کشّاف وغیرہ بھی اور بالغ عاقل کیلئے بھی یہی لفظ آیا ہے۔قولہ انّی متوفّیک میں موت مراد ہونا غیر مسلّم ہے۔ اقول غیر مسلّم ہے تو میرے اشتہار ہزار روپیہ کا جواب دیجئے جو ازالہ اوہام کے آخر میں ہے۔ کیونکہ اس اشتہار میں غیرمسلّم ثابت کرنے والے کیلئے ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ہے۔ قولہ نزول عیسیٰ ابن مریم سے آپ کو انکار ہے۔ اقول جب کہ عیسیٰ ابن مریم کی حیات ثابت نہیں ہوتی اور موت ثابت ہورہی ہے۔ تو عیسیٰ کے حقیقی معنے کیونکر مراد ہوسکتے ہیں۔واطلاق اسم الشیء علی ما

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 194
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 194
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/194/mode/1up
یشاؔ بھہ فی اکثر خواصہ وصفاتہ جائز حسن تفسیر کبیرصفحہ ۶۸۹ جب آپ حیات مسیح کو ثابت کر دکھائیں گے تو پھر ان کا نزول بھی مانا جائے گا ورنہ بخاری میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن میں ابن مریم کا ذکر کر کے اس سے مراد اس کا کوئی مثیل لیا گیا ہے۔قولہ آپ بخاری کی وہ حدیث مرفوع متصل بیان فرمایئے جس سے مسیح ابن مریم کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ اقول میں تو وہ حدیث ازالہ اوہام میں لکھ چکا اور آخری پرچہ میں تنزلاً ثبوت وفات کے وقت وہ حدیث بھی لکھوں گا ابھی تو دیکھ رہا ہوں کہ آپ مسیح کی حیات کے بارے میں کون سی آیت قطعیۃ الدلالت پیش کرتے ہیں افسوس کہ اب تک آپ کچھ پیش نہ کرسکے۔
فقط مرزا غلام احمد

پرچہ نمبر(۳)
مولوی محمد بشیر صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ حامدًا مصلّیًا مسلمًا
۔
قولہ۔ میں کہتا ہوں کہ اس بات کو ادنیٰ استعداد کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ بار ثبوت کسی امر متنازع فیہ کی نسبت اس فریق پر ہوا کرتا ہے کہ جو ایک امر کا کسی طور سے ایک مقام میں اقرار کر کے پھر کسی دوسری صورت اور دوسرے مقام میں اسی امر قبول کردہ کا انکار کردیتا ہے۔
اقول۔یہاں کلام ہے بچند وجوہ اول یہ کہ آپ قبل ادعاء مسیحیت براہین احمدیہ میں اقرار حیات مسیح کا کرچکے ہیں اور اب آپ حیات کا انکار کرتے ہیں تو موافق اپنی تعریف کے آپ مدعی ٹھہرے دوم خاکسار آپ سے ایک سوال کرتا ہے ایماناً اس کا جواب دیجئے وہ یہ ہے کہ آپ کا یہ خیال کہ مسیح علیہ السلام وفات پاچکے بعد آپ کے اس الہام کے پیدا ہوا ہے کہ مسیح فوت ہوگیا یا قبل اسکے اگر بعد پیدا ہوا ہے تو گویا یہ کہنا ہوا کہ الہام سے پہلے میرا اس خیال سے کچھ واسطہ نہ تھا اور یہ میرا دعویٰ نیا ہے جو وقت الہام کے پیدا ہوا سو اس وجہ سے آپ مدعی ہوئے اور ثبوت آپ کے ذمہ ہوا کہ آپ بعد اس اقرار کے کہ الہام سے پہلے مجھ کو اس خیال سے کچھ واسطہ نہ تھا پھر مخالف اپنے اس پہلے بیان

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 195
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 195
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/195/mode/1up
کے ؔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وقت الہام سے مجھ کو یہ خیال ہے کہ مسیح فوت ہوگیا پس اسی وجہ سے آپ سے ثبوت مانگا جاتا ہے کہ آپ اپنے پہلے بیان کے مخالف دوسرا بیان کرتے ہیں اور اس دعوے میں ایک جدّت ہے جسکے آپ خود قائل ہیں اور اگر قبل سے یہ خیال تھا تو اس خیال کا یقین قانون قدرت یعنی سنت اللہ وآیات قرآن کریم سے آپ کو حاصل ہوگیا تھا یانہیں۔ بر تقدیر اوّل آپ نے قبل الہام مذکور براہین وغیرہ میں اسکو کیوں نہیں ظاہر فرمایا اور اپنے پرانے باطل خیال پر باوجود یقین بطلان کے کیوں اڑے رہے اور برتقدیر ثانی بعد الہام کے اس خیال کا یقین آپ کو حاصل ہوا یا نہیں اگر نہیں ہوا تو صرف ایک ظنی یا شکی یا وہمی بات پر اصرار خلاف دیانت ہے اور اگر بعد الہام کے یقین اس خیالی وفات کا آپکو حاصل ہوا تو ظاہر ہے کہ مفید یقین اس وقت آپکا الہام ہوا نہ سنت اللہ و آیات قرآن کریم اور آپکا ملہم ہونا ابھی تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا اس تقدیر پر آپ پر واجب ہے کہ پہلے اپنا ملہم ہونا ثابت کیجئے پھر ہر الہام کا حجت ہونا ملہم وغیر ملہم پر ثابت کیجئے بعد اثبات ان دونوں امر کے دعویٰ وفات مسیح اور اپنے مسیح موعود ہونے کا پیش کیجئے بغیر اسکے آپکا دعویٰ وفات مسیح و مسیح موعود ہونے کا عندالعقلاء ہرگز لائق سماعت نہیں ہے۔ سیوم اس مقام پر نصوص قرآنیہ قطعی طور پر وفات مسیح پر دلالت کرتی ہیں یانہیں بر تقدیر ثانی آپکا انکو صریحہ بینہ قطعیہ کہنا باطل ہے اور برتقدیر اول لازم آتا ہے کہ آپکے نزدیک وہ سب صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور تمام مسلمین الٰی یومنا جو حیات مسیح کے قائل ہیں اعاذنا اللّٰہ منہ کافر ہوں اور آپ خود بھی جس زمانہ میں اعتقاد حیات مسیح کا رکھتے تھے کافر ہوں۔ کیونکہ منکر نصوص صریحہ بینہ قطعیہ کا کافر ہوتا ہے۔ چہارم آپ نے جو تعریف مدعی کی بیان کی ہے یہ محض اپنی رائے سے بیان کی ہے یا کوئی دلیل کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اس کیلئے ہے یہ نہ سہی کوئی قول کسی صحابی یا تابعی یاکسی مجتہد یا کسی محدث یا کسی فقیہ کا اسکے ثبوت کیلئے پیش کیجئے۔ پنجم یہ تعریف مدعی کے مخالف ہے اسکے جسکو علماء مناظرہ نے لکھا ہے۔ رشیدیہ میں ہے والمدعی من نصب نفسہ لاثبات الحکم ای تصدی لان یثبت الحکم الجزی الذی تکلم بہ من حیث انہ اثبات بالدلیل اوالتنبیہ مولانا عصام الملۃ والدین نے شرح رسالہ عضدیہ میں لکھا ہے المدعی من یفید مطابقۃ النسبۃ للواقع اور یہ دونوں تعریفیں آپ پر صادق آتی ہیں اور آپکی تعریف مخالف ہے ان دونوں تعریفوں کے۔(قولہ) معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مولوی صاحب نے یہ دعویٰ تو کردیا کہ ہم حیات جسمانی مسیح ابن مریم آیات قطعیۃ الدلالت سے پیش کریں گے لیکن بحث کے وقت اس دعویٰ سے ناامیدی پیدا ہوگئی اسلئے اب اس طرف رخ کرنا چاہتے ہیں کہ دراصل مسیح ابن مریم کی حیات جسمانی ثابت کرنا ہمارے ذمہ نہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 196
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 196
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/196/mode/1up
(اقوؔ ل) یہ آپ کا سوء ظن ہے اور ہر مسلم مامور ہے اپنے بھائی کے ساتھ حسن ظن کرنے کیلئے چہ جائیکہ آپ سا شخص مدعی الہام ومجددیت و مسیحیت آپ کو بالاولیٰ حسن ظن چاہئے میں نے صرف ایک امر نفس الامری کا اظہار کردیا ورنہ میں تو بار ثبوت حیات اپنے ذمہ لے چکا ہوں اور اس کا ثبوت ایک قاعدہ نحویہ اجماعیہ کی بناء پر آپ کے روبرو پیش کیا گیا مگر افسوس کہ آپ نے اس قاعدہ اجماعیہ کے انکار میں کچھ حیاء کو کام نہ فرمایا اب میں اس قاعدہ سے قطع نظر کر کے عرض کرتا ہوں۔ بفضلہ تعالیٰ میرا دعویٰ حیات مسیح آپ کے اقرارسے قطعی طور پر ثابت ہے۔ بیان اس کا یہ ہے کہ آپ نے توضیح المرام وازالۃ الاوہام میں اس امر کا اقرار کیا ہے کہ ضمیر موتہٖ کی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے راجع ہے اب آپ کو چاہئے قاعدہ نحویہ اجماعیہ کو مانئے یا نہ مانئے ہر طرح میرا مدعا ثابت ہے کیونکہ یا تو آپ لیؤمننّکو بمعنے استقبال لیجئے گا یا بمعنے حال یا بمعنی استمرار یا بمعنی ماضی۔ شق اول میں تو میرے مطلوب کا حاصل ہونا محتاج بیان نہیں ہے۔ شق ثانی اول تو بدیہی البطلان ہے سو ااس کے مطلوب میرا اس سے بھی حاصل ہے کیونکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ نزول آیت میں سب اہل کتاب حضرت عیسیٰ عم پر قبل ان کی موت کے ایمان لاتے تھے پس معلوم ہوا کہ زمان نزول آیت تک زندہ تھے اور رفع یقیناً اس سے پہلے ہوا تو معلوم ہوا کہ زندہ اٹھائے گئے وہو المطلوب ۔ شق ثالث اول تو بدیہی البطلان ہے سوا اس کے اس شق مدعا کا ثبوت پر شق اول سے بھی زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اس تقدیر پر یہ معنے ہوں گے کہ سب اہل کتاب زمانہ گزشتہ و حال و استقبال میں حضرت عیسیٰ پر ان کے مرنے سے پہلے ایمان لاتے ہیں پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ زمانہ ماضی و حال میں زندہ تھے اور استقبال میں بھی ایک زمانہ تک زندہ رہیں گے رفع کے وقت زندہ تھے رابع باطل ہے اسلئے کہ ایسا مضارع کہ اس کے اول میں لام تاکید اور آخر میں نون تاکید ہو بمعنی ماضی کہیں نہیں آیا۔ آپ قواعد نحو کو مانتے ہی نہیں ہیں ایسے مضارع کا بمعنی ماضی آنا قرآن یا حدیث صحیح سے ثابت کیجئے و دونہ خرط القتاد افسوس کہ آپکو جب الزام موافق قواعد نحویہ اجماعیہ کے دیا جاتا ہے تو اس کو آپ تسلیم نہیں کرتے اور اگر آپ کے مسلمات سے آپکو الزام دیا جاتا ہے تو بھی آپ قبول نہیں کرتے یہ امر اول دلیل ہے اس بات پر کہ آپکو احقاق حق اور اظہار صواب ملحوظ نظر نہیں ہے۔ قولہ پھر اس کے بعد آپ نے نصوص صریحہ بینہ قرآن وحدیث سے نوامید ہوکر دوبارہ آیت لیؤمننّکے نون ثقیلہ پر زور دیا ہے۔اقول خود آیت وان من اھل الکتاب صریح و بین ہے۔ اور نون ثقیلہ کا بمعنی استقبال کردینا اس کے قطعیت میں مخل نہیں ہے۔قولہ اور جمہور مفسرین صحابہ اور تابعین سے تفرد اختیار کرکے محض اپنے خیال خام کی وجہ سے اس بات پر زور دیا ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 197
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 197
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/197/mode/1up
کہؔ آیت بوجہ نون ثقیلہ کے خالص استقبال کیلئے ہوگئی ہے۔ اقول یہ قول غلط محض ہے جمہور مفسرین صحابہ اور تابعین نے اس آیت کو ہرگز بمعنی حال یا استمرار نہیں لیا ہے اگر سچے ہو تو ثابت کرو رہی یہ بات کہ بعض مفسرین نے ضمیر کتابی کی طرف راجع کی ہے اس سے معنی حال یا استمرار لینا کسی طرح لازم نہیں آتا ہے سوائے آپ کے کوئی اہل علم ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتا علاوہ ازیں اس تقدیر پر بھی استقبال ہوسکتا ہے جیسا کہ آپ پہلی تحریر میں اقرار کرچکے ہیں۔قولہ ان معنوں پر زور دینے کے وقت آپ نے اس شرط کا کچھ خیال نہیں رکھا جو پہلے ہم دونوں کے درمیان قرار پاچکی تھی کہ قال اللّٰہ وقال الرسول سے باہر نہیں جائیں گے۔اقول ایک قاعدہ نحویہ اجماعیہ کو قال اللّٰہ میں جاری کرنا قال اللّٰہ سے کسی کے نزدیک خارج ہونا نہیں یہ صرف آپ کا اجتہاد ہے جس کا کوئی ثبوت آپ نہیں دے سکتے بلکہ یہ خروج بقول آپ کے آپ پر لازم آگیا کیونکہ آپ خود ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۰۲ میں اسکے مرتکب ہوئے ہیں عبارت آپ کی یہ ہے۔ وہ نہیں سوچتے کہ آیت فلما توفیتنیسے پہلے یہ آیت ہے ۱؂ الخظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اسکے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے انتہیٰ۔ ۲؂ ۔قولہ اور نہ ان بزرگوں کی عزت و مرتبت کا کچھ پاس کیا جو اہل زبان اور صرف اور نحو کو آپ سے بہتر جاننے والے تھے۔ اقول آپ ایسی باتیں کرنے سے لوگوں کو مغالطہ دینا چاہتے ہیں بھلا صاحب اس قاعدہ کے جاری کرنے سے ان بزرگوں کی عزت و مرتبت میں معاذ اللہ کس طرح نقصان آسکتا ہے ان کے کلام میں تصریح حال یا استمرار کی کہاں ہے یہ تو صرف آپ کا اجتہاد ہے۔ آپ اپنے ساتھ ان بزرگوں کو ناحق شریک کرتے ہیں۔قولہہمارے اوپر اللہ و رسول نے یہ فرض نہیں کیا کہ ہم انسانوں کے خود تراشیدہ قواعد صرف و نحو کو اپنے لئے ایسا رہبر قرار دیں کہ باوجودیکہ اس پر کافی و کامل طور پر کسی آیت کے معنی کھل جائیں اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت بھی مل جائے تو پھر بھی ہم اس قاعدہ صرف و نحو کو ترک نہ کریں- اقول یہ بات بھی آپ کی سراسر مغالطہ دہی پر مبنی ہے۔ کافی و کامل طور پر آیت کے معنے کا کھل جانا اور اس پراکابر مومنین اہل زبان کی شہادت کا ملنا غیر مسلم ہے ووجھہ مرانفا فتذکر علاوہ اسکے آپ نے جو باوجود نہ کھلنے معنے آیت کے اور عدم شہادت اکابر مومنین اہل زبان کے ایک قاعدہ نحویہ اجماعیہ کا محض اپنی بات بنانے کی غرض سے انکار کیا ہے اس سے یہ احتمال قوی پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ کو الزام علوم لغت و صرف و نحوو معانی اصول فقہ و اصول حدیث سے جو کہ خادم کتاب سنت ہیں دیا جاوے گا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 198
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 198
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/198/mode/1up
تو ؔ آپ فوراً اس قاعدہ کا انکار کر جائیں گے اور یہ بات آپ کی علم و دیانت سے خلاف ہے کیونکہ اہل علم کو ان علوم سے چارہ نہیں ہے اور ہم کو الفاظ قرآن و حدیث کے معانی موافق لغت و محاورہ عرب کے سمجھنا ضروری امر ہے ورنہ کسی مسئلہ پر استدلال نہیں ہوسکتا ہے اور یہ امر فی زماننا غیر ممکن ہے کہ خود عرب میں جا کر ہر لغت و محاورہ اور جمیع قواعد صرف و نحو و معانی وغیرہ کی تحقیق کی جاوے پس اگر آپ کو کسی اہل اسلام سے مباحثہ کرنا منظور ہے تو پہلے ان دو کاموں سے ایک کام کیجئے اور اگر ایک بھی آپ قبول نہ کریں گے تو یہ امر آپ کی گریز پر محمول ہوگا یا تو لغت صرف و نحو ومعانی و اصول فقہ و اصول حدیث کی اجماعی باتوں کی تسلیم کرنے کا اقرار کیجئے یا بالفعل مناظرہ سب اہل اسلام سے موقوف کر کے ایک الگ کتاب علوم مذکورہ میں تصنیف فرمایئے اور جو کچھ اول علموں میں آپ کو ترمیم کرنا ہو وہ کر لیجئے اس کے بعد مباحثہ کیجئے تاکہ آپ کی مسلمات سے آپ کو الزام دیا جاوے ورنہ موافق اس طریقہ کے جو آپ نے اختیار کیاہے کوئی عاقل کسی عاقل کو الزام نہیں دے سکتا ہے۔قولہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں ۱؂ آیت موجود ہے۔ اقولاس کا جواب عامہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ عبارت بیضاوی کی اس مقام پر نقل کی جاتی ہے وھذان اسم ان علی لغۃ بلحارث ابن کعب فانھم جعلوا الالف للتثنیۃ واعربوا المثنی تقدیرا وقیل اسمھا ضمیر الشان المحذوف و ھذان لساحران خبرھا وقیل ان بمعنی نعم ومابعد ھامبتداء و خبر فیہما ان اللام لا یدخل خبر المبتداء و قیل اصلہ انہ ھذان لھما ساحران فحذف الضمیر و فیہ ان الموکد بالام لا یلیق بہ الحذف انتہی ۔قولہ جس میں بجائے ان ھذان کے ان ھذین لکھا ہو۔ا قول یہ خطائے فاحش ہے صواب یہ ہے کہ جس میں بجائے ان ھذین کے ان ھذان لکھا ہو قولہ آپ کو یاد ہے کہ میرا یہ مذہب نہیں ہے کہ قواعد موجودہ صرف و نحو غلطی سے پاک ہیں یا بہمہ وجوہ متمم و مکمل ہیں۔ اقول یہ بات اگر قواعد اختلافیہ کی نسبت کہی جاوے تو مسلم ہے لیکن قواعد اجماعیہ کی نسبت ایسا کہنا گویا دروازہ الحاد کا کھولنا اور سب احکام شرعیہ کا باطل کرنا ہے کیونکہ قواعد جب غلط ٹھہرے خود عرب میں جا کر فی زماننا تحقیق لغت و قواعد صرف و نحو غیر ممکن۔ پس پابندی قواعد کی باقی نہ رہے گی ہر شخص اپنی ہوا کے موافق قرآن و حدیث کے معنے کرے گا آپ کو چاہئے کہ قواعد اجماعیہ کے تسلیم کا جلد اشتہار دے دیجئے یا کوئی کتاب لغت و قواعد صرف و نحو موافق قرآن و حدیث کے اپنے اجتہاد سے بنا کر جلد شائع کیجئے تاکہ انہی قواعد کی بنا پر آپ سے بحث کی جاوے ۔ قولہ قرآن کریم ان کی غلطی ظاہر کرتا ہے اور اکابر صحابہ اس پر شہادت دے رہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 199
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 199
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/199/mode/1up
ہیںؔ ۔ اقول ۱؂ قولہ اور اس خیال خام کی نحوست سے آپ کو تمام اکابر کی نسبت بدظنی کرنی پڑی۔ اقول ۔آپ ان اکابر کا مطلب نہیں سمجھے ہیں فَافہم۔ قولہ ابھی میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ آپ پر ثابت کردوں گا کہ آیت لیؤمننّ بہٖ آپ کے معنوں پر اس صورت میں قطعیۃ الدلالۃ ٹھہر سکتی ہے جب ان سب بزرگوں کے قطعی الجہالت ہونے پر فتویٰ لکھا جاوے اور نعوذ باللہ نبی معصوم کو بھی اس میں داخل کردیا جاوے۔اقول توضیح المرام سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ۲؂ بتصریح وفات مسیح پر دلالت کرتی ہے صفحہ ۸ میں مرقوم ہے اور قرآن شریف میں اگرچہ حضرت مسیح کے بہشت میں داخل ہونے کا بتصریح کہیں ذکر نہیں لیکن ان کے وفات پاجانے کا تین جگہ ذکر ہے حاشیہ میں وہ تین آئتیں آپ نے لکھی ہیں ان میں سے آیت بھی ہے ازالۃ الاوہام کے صفحہ ۳۸۵ میں ہے۔ غرض قرآن شریف میں تین جگہ مسیح کا فوت ہو جانا بیان کیا گیا ہے۔ ازالۃ الاوہام صفحہ ۳۰۶ میں ہے۔چوتھی آیت جو مسیح کی موت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ آیت ہے کہ’’ ‘‘ انتہی۔ جاننا چاہئے کہ آپ کی یہ تقریر بادنیٰ تغیر آپ پر منعکس ہو جاتی ہے۔ تقریر اس کی یہ ہے کہ آیت لیؤمننّ کی وفات مسیح پر اس وقت صریحۃ الدلالۃ ٹھہر سکتی ہے کہ ان سب بزرگوں کی جہالت پر فتویٰ لکھا جاوے نعوذ باللہ نبی معصوم کو بھی ان میں داخل کیا جاوے۔ ورنہ آپ کبھی اور کسی صورت میں دلالت کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ قولہ اب میں آپ پر واضح کرتا ہوں کہ کیا اکابر مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ کے نزول کیلئے قطعیۃ الدلالۃ قرار دیا ہے یا کچھ اور بھی معنے لکھے ہیں۔اقول یہ طعن بادنیٰ تغیر آپ پر بھی وارد ہوتے ہیں بلکہ جو آپ نے طعن کی ہے اس سے اشد ہے یعنے آپ نے فرمایا ہے کہ آیت موت مسیح پر دلالت کرتی ہے اور آپ کی بعض عبارات سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہ دلالت صریحی ہے۔ پس کیا اکابر مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ کی وفات پر دلیل ٹھہرایا ہے۔ ایک نے بھی نہیں۔قولہ کشّاف صفحہ ۱۹۹ میں لیومنن بہ کی آیت کے نیچے یہ تفسیر ہے آہ اقول اس عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مفسرین نے قطعیۃ الدلالۃ ہونے کی تصریح نہیں کی اسکے معنے لکھے ہیں لیکن مفسرین کا قطعیۃ الدلالۃ تصریح نہ کرنا قطعیتکو باطل نہیں کرتا ہے آپ کے نزدیک انی متوفیک اور لمَّا توفَّیتنی‘ قطعیۃ الدلالۃ ہے موت حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حالانکہ مفسرین نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ کی موت

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 200
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 200
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/200/mode/1up
کےؔ لئے قطعیۃ الدلالۃ نہیں قرار دیا ہے کچھ اور ہی معنی لکھے ہیں۔قولہ پھر نووی میں یہ عبارت لکھی ہے ۔اقول نووی کی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ اکثروں نے ضمیر موتہٖ کی کتابی کی طرف راجع کی ہے اس سے آپ کے نزدیک بھی قطعیۃ الدلالۃ میں فرق نہیں ہوتا ہے کیونکہ آپ کے نزدیک آیت وانی متوفیک و آیت فلمّا توفّیتنی‘ قطعیۃ الدلالۃ ہے وفات مسیح پر۔ حالانکہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے وقال الاکثرون المراد بالوفاۃ ھٰذا النوم انتھٰی۔اور ایسا ہی آپ کے نزدیک آیت وان من اھل الکتاب دلیل صریح ہے وفات مسیح علیہ السلام پر اور حالانکہ وفات مسیح کا اس میں رایحہ بھی نہیں ہے نہ بر تقدیر اس قول کے جس کو نووی نے اکثرین کا قول قرار دیا ہے اور نہ برتقدیر قول آخر کے جو اس کا مقابل ہے اس کے بعد آپ نے عبارت مدارک اور بیضاوی و تفسیر مظہری کی نقل کی ہے اور ہر ایک کا ترجمہ کر کے اوراق کو بڑھایا ہے اور حالانکہ ان سب سے اور کسی امر جدید کا فائدہ نہیں ہے سوائے اسکے ضمیر موتہٖ میں اختلاف ہے اور اوپر ثابت ہوا کہ مجرد اختلاف معانی قطعیت و دلالت صریحہ کے مخالف نہیں ہے ورنہ چاہئے کہ آپ سے ادلہ وفات آیت انّی متوفّیک اور آیت فلمّا توفّیتنی اور آیت وان من اھل الکتاب ادلہ قطعیہ اور دلیل صریح نہ ہوں وھوخلاف ما ادعیتم اور تفسیر مظہری والے کا یہ قول وکیف یصح ھذا التاویل ماان کلمۃ ان من اھل الکتاب شامل للموجودین فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔البتہ سواء کان ھذا الحکم خاصًا بھم اولا فان حقیقۃ الکلام للحال ولاوجہ لان یراد بہ فریق من اھل الکتاب یوجدون حین نزول عیسٰی علیہ السلام مخدوش ہے۔ اور مخالف ہے عامہ تفاسیر کے کیونکہ کلام کا حال کیلئے حقیقت ہونا اس تقدیر پر ہے کہ کوئی صارف نہ پایا جاوے اور یہاں نون تاکید صارف موجود ہے اور یہی وجہ ہے اس امر کی اہل کتاب سے ایک فریق خاص مراد لیا جاوے پس صاحب تفسیر مظہری کا یہ قول لاوجہ کوئی وجہ نہیں رکھتا اور یہ جو تفسیر مظہری میں ہے اخرج ابن المنذرعن ابی ھاشم و عروۃ قال فی مصحف ابی بن کعب وان من اھل الکتاب الا لیومننّ بہ قبل موتھم مخدوش ہے کہ تفسیر مظہری میں اس قراء ت کی پوری سند مذکور نہیں ابن کثیر نے اس قراء ت کو اس طرح پر روایت کیا ہے حدثنی اسحاق بن ابراھیم ابن حبیب الشھید حدثنا عتاب بن بشیر عن خصیف عن سعید بن جبیر عن ابن عباس وان من اھل الکتاب الا لیؤمننّ بہ قبل موتہ قال ھی فی قراء ت ابی قبل موتھم اس میں دوراوی مجروح ہیں اول خصیف دوم عتاب ابن بشیر۔ خصیفکے ترجمہ میں تقریب میں لکھا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 201
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 201
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/201/mode/1up
ہےؔ صدوق سیّیء الحفظ خلط بآخرہ رمی بالارجاء ۔میزان میں ہے ضعفہ احمد وقال ابوحاتم تکلم فی سوء حفظہ وقال احمد ایضاتکلم فی الارجاء وقال عثمان بن عبدالرحمٰن رأیت علی خصیف ثیابا سودا کان علی بیت المال انتھی ملخصًا۔عتاب کے ترجمہ میں میزان میں مرقوم ہے قال احمد أَتی عن خصیف بمناکیر اراھا من قبل خصیف قال النسائی لیس بذا ک فی الحدیث وقال ابن المدینی کان اصحابنا یضعفونہ وقال علی ضربنا علی حدیثہ انتہی ملخصًا۔قولہ اور بلاشبہ قراء ت شاذہ حکم صحیح حدیث کا رکھتی ہے۔ اقولعموماً یہ بات غلط ہے۔ ہاں قراء ت شاذہ جو بسند صحیح متصل کہ شذوذ ودیگر علل خفیہ غامضہ قادحہ سے خالی ہو البتہ حکم حدیث صحیح کا رکھتی ہے اور ابھی واضح ہوا کہ اس کی سند میں دو رجال مجروح ہیں ۔ قولہ اب فرض کے طور پر اگر قبول کر لیں کہ اگر ابن عباس اور علی ابن طلحہ اور عکرمہ وغیرہ صحابہؓ ان معانوں کی سمجھ میں خطا پر تھے اور قراء ت ابی ابن کعب بھی یعنے قبل موتہم کامل درجہ پر ثابت نہیں۔ تو کیا آپ کے دعوی قطعیۃ الدلالت ہونے آیت لیؤمننّ بہٖ پر اس کا کچھ بھی اثر ٹھہرا کیا وہ دعویٰ جس کے مخالف صحابہؓ کرام بلند آواز سے شہادت دے رہے ہیں اور دنیا کی تمام مبسوط تفسیریں باتفاق اس پر شہادت دے رہی ہیں اب تک قطعیۃ الدلالۃہے۔ اقول نہ صحابہ کا اتفاق خلاف پر ہے اور نہ تمام تفسیروں کا ہاں دو قول مرجع ضمیر قبل موتہ میں البتہ منقول ہیں اس سے قطعیۃ الدلالۃ اور صریح الدلالۃ ہونے میں فرق نہیں آتا ہے اس کے نظائر کتاب و سنت میں بکثرت موجود ہیں من شاء فلیرجع الیھماعلاوہ اس کے اس بنا پر آپ کے ادلہ وفات میں سے آیت انّی متوفّیک آیت فلمّا توفّیتنی وآیت وان من اھل الکتاب بھی نہ قطعیۃ الدلالت ٹھہرتی ہے نہ صریحۃ الدلالۃ کیونکہ ان آیات میں چند اقوال منقول ہیں فماھوجوابکم فھو جوابنا۔ قولہ مگر آپ جانتے ہیں کہ اکابر صحابہ اور تابعین سے کسی گروہ نے آپ کے معنے قبول نہیں کئے ہیں۔ اقول یہ کذب صریح ہے تحریر اول میں عبارت ابن کثیر نقل کی گئی ہے اس سے ابن عباس و ابومالک و حسن بصری وقتادہ وعبدالرحمان بن زید بن اسلم وغیر واحد کا اس معنی کو قبول کرنا ثابت ہے اور ابوہریرہؓ کا اس معنے کو قبول کرنا صحیحین میں مصرح ہے۔ ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہ معنے بدلیل قاطع ثابت ہیں اور بھی ابن کثیر میں ہے واولٰی ھذہ الاقوال بالصحۃ القول الاول وھوانہ لایبقٰی احد من اھل الکتاب بعد نزول عیسٰی علیہ السلام الاآمن بہٖ قبل موتہٖ ای قبل موت عیسٰی علیہ السلام ولاشک

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 202
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 202
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/202/mode/1up
انؔ ھذا الذی قالہ ابن جریر ھو الصحیح المقصود من سیاق الآی فی تقریر بطلان ماادعتہ الیہود من قتل عیسٰی و صلبہ و تسلیم من سلم لھم من النصارٰی الجھلۃ ذالک۔ انتھٰی۔ قولہ اور میں نے جو آپ کے قاعدہ نون ثقیلہ کا نام جدید رکھا تو اس کی یہ وجہ ہے کہ اگر آپ کا یہ قاعدہ تسلیم کر لیا جاوے نعوذ باللہ بقول آپ کے ابن عباس جیسے صحابی کو جاہل نادان قرار دینا پڑتا ہے۔اقول میں نے تو وہی معنے جو تمام صحابہ و تابعین و غیر ھم سے منقول ہیں اور وہی قاعدہ جو عامہ مسلمین کامعمول رہا ہے لکھے ہیں البتہ آپ کے مسائل مخترعہ کی بنا پر سارے صحابہ کو جاہل ماننا پڑتا ہے فما ہو جو ابکم فہو جوابی علاوہ اس کے اول صحابہ کے کلام میں کہیں تصریح معنے حال کی نہیں ہے ان کا کلام معنے مستقبل پر بھی محمول ہوسکتا ہے جیسا کہ آپ تحریر اول میں اس کا اعتراف کر چکے ہیں باقی رہا یہ امرکہ جن لوگوں نے ضمیر کتابی کی طرف پھیری ہے وہ اس امر میں خطا پر ہیں یہ کوئی مقام استبعاد نہیں۔ آپ بہت سے صحابہ کو اکثر مسائل میں خطا پر جانتے ہیں۔قولہ اور قراء ت قبل موتہمکو خواہ نخواہ افترا قرار دینا پڑے گا۔ اقول خواہ نخواہ چہ معنے دارد۔ قراء ت مذکورہ فی الواقع ضعیف ہے لائق احتجاج نہیں۔کما مربیانہ اٰنفا۔قولہ کیا آپ کا یہ نحوی قاعدہ ان اکابر کو جاہل قرار دے سکتا ہے اور کیا صدہا مفسرین کو بلکہ ہزارہا جواب تک یہ معنے کرتے آئے وہ جاہل مطلق اور آپ کے نحو سے غافل تھے۔ اقول سراسر مبنی سوء فہم پر ہے معنے مذکور کا فساد اس وجہ سے نہیں کہ وہ مخالف ہے قاعدہ نحو کے بلکہ یہ معنے تو سراسر موافق ہیں قاعدہ نحو کے کیونکہ اس معنے پر تو مضارع صریح بمعنے استقبال کیا گیا ہے ذرا سوچ کر جواب دیجئے۔ قولہ کوئی مبسوط تفسیر تو پیش کرو جوان معنوں سے خالی ہے یاجس نے ان معنوں کو سب سے مقدم نہ رکھا اِلٰی قَولہٖ بلکہ سب کے سب آپ ہی کے معنوں کو ضعیف ٹھہراتے ہیں ۔ اقول دو بڑی تفسیریں معتبر پرانی پیش کرتا ہوں ایک تفسیر ابن کثیر دوسری تفسیر ابن جریر کہ ان دونوں نے معنے مذکور کو مقدم نہیں رکھا اور نہ میرے معنے کو ضعیف کہا بلکہ صحت کی تصریح کی ہے۔ پس اس مقام پر کذب اس قول کا کَالشّمس فی نصف النھارظاہر ہوگیا۔ قولہ حضرت اس قراء ت سے حضرت مسیح ابن مریم کی زندگی کیونکر اور کہاں ثابت ہوئی اب تو قبل موتہٖ کے ضمیر سے مسیح کی زندگی ثابت کرنی تھی۔ اقول یہ قول بھی سوء فہم پر مبنی ہے میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ قراء ت مذکورہ سے مسیح بن مریم کی زندگی ثابت ہے میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ قراء ت مذکورہ مخالف ہمارے معنے کے نہیں بالجملہ مقصود رفع مخالفت ہے نہ اثبات دعویٰ وبینہما فرق ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 203
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 203
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/203/mode/1up
قوؔ لہ ہم نے تفاسیر معتبرہ کے ذریعہ سے اس کی اسناد پیش کردی ہیں۔ اقول سند میں جو جرح ہے وہ میں نے اوپر بیان کردی فتذکر۔ قولہ بھلا اگر آپ حق پر ہیں تو تیرہ سو برس کی تفسیروں میں سے کوئی ایسی تفسیر تو پیش کیجئے جو ان معنوں کی صحت پر معترض ہو ۔اقول تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر اس معنی کی صحت پر معترض ہیں۔قولہ الہامی معنے جو میں نے کئے ہیں وہ درحقیقت ان معنوں کے معارض نہیں۔ اقول یہ محض غلط ہے کیونکہ الہامی معنے کا مدار اس پر ہے کہ ضمیر موتہٖ کی راجع طرف عیسیٰ عم کے ہے اور معنی مذکور کا مدار اس پر ہے کہ ضمیر موتہٖ کی راجع طرف کتابی کے ہے پس سخت تعارض و بین تخالف موجود ہے۔ مجھ کو سخت تعجب ہے آپ کی دیانت سے کہ آپ باوجودیکہ ضمیر موتہٖ کا مرجع عیسیٰؑ ہونا اپنی کتب میں تسلیم کرچکے ہیں اور آیت وان من اھل الکتاب کو صریحۃالدلالۃ وفات عیسیٰؑ پر کہتے ہیں پھر اس اقراری حق سے کیوں اعراض کرتے ہیں اور ۱؂ کے وعید سے نہیں ڈرتے۔قولہ کیونکہ ہمارے نزدیک حال کسی ٹھہرنے والے زمانہ کا نام نہیں ہے۔ اقولیہ امر مسلم ہے بے شک زمانہ نام مقدار غیر قارکا ہے اور حال ایک فرد ہے زمانہ کا اور حد حقیقی حال کے باعتبار عرف کے یہی ہے کہ تکلم فعل کے پہلے کا زمانہ تو ماضی ہے اورتکلم فعل کے بعد کا زمانہ مستقبل ہے اور تکلم فعل کے مبدا سے منتہٰی تک زمانہ حال ہے اس بنا پر ظاہر ہے کہ استقبال قریب ہرگز حال نہیں ہوسکتا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فَوَلِّکے تکلم کا زمانہ بعد ہے زمانہ تکلم فَلَنُوَلِّیَنَّک سے پس اس کے استقبال ہونے میں کیا شک ہے۔ قولہ جب آپ خود مستقبل قریب کے قائل ہوگئے اسی طرح وہ بھی قائل ہیں ۔اقول فرق نہ کرنا درمیان مستقبل قریب و حال کے محصلین سے بعید ہے جیسا کہ ماہر علم نحو پر بلکہ قاصر پر بھی مخفی نہیں ہے۔قولہ یہ تو ہم نے تسلیم کیا کہ وعدہ ہے مگر یہ کہاں سے ثابت ہے کہ وعدہ آنے والے لوگوں کیلئے خاص ہے ۔اقول یہ کس نے کہا کہ یہ وعدہ آنے والے لوگوں کیلئے ہی خاص ہے بلکہ یہ کہا گیاہے کہ اس کا ایفاء زمانہ آئندہ ہی میں ہوسکتا ہے نہ حال میں اور اس بات میں جو آپ نے طول کیا ہے اس کو اصل مطلب سے کچھ علاقہ نہیں اور ہم کو اس سنت اللہ سے ہرگز انکار نہیں کہ مجاہدہ کرنے پر ضرور ہدایت مرتب ہوتی ہے صرف بحث اس میں ہے کہ یہ سنت اللہ ان آیات وعدو و عید سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے دوسری آیات دلیل ہیں۔قولہ اب دیکھئے کہ ان آیات سے بھی آپ کا دعویٰ قطعیۃ الدلالت ہونا آیت لیؤمننّ بہٖ کا کس قدر باطل ثابت ہوتا ہے۔ اقول آیات منافی قطعیۃ الدلالت ہونے آیت لیؤمننّ کے نہیں بلکہ آیت لیؤمننّ آیات مذکورہ کے مخصص واقع ہوئی ہے۔قولہ حلیم وہ ہے جو یبلغ الحلم کا مصداق ہو۔ اقولیہ حصر غیر مسلم ہے کیونکہ حلیم قرآن مجید میں صفت غلام کی آئی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ۲؂ اور غلام کے معنے کودک صغیر کے ہیں کما فی الصراح پس محتمل ہے کہ حلیم اس مقام پر ماخوذ حلم سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 204
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 204
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/204/mode/1up
ہوؔ جو آہستگی و بردباری کے معنے میں ہے کما فی الصراح ۔ قاموس میں ہے والحلم بالکسر الاناء ۃ والعقل جمعہ احلام و حلوم و منہ ام تامرھم احلامھم وھو حلیم جمع حلماء و احلامًا۔قولہجب کہ عیسٰے بن مریم کی حیات ہی ثابت نہیں ہوتی اور موت ثابت ہورہی ہے تو عیسیٰ کے حقیقی معنے کیونکر مراد ہوسکتے ہیں ۔اقول اس کلام میں بدووجہ شک ہے شک اول یہ کہ آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ سے آپ کے اقرار سے صراحتاً موت ثابت ہے کیونکہ آپ نے توضیح المرام و ازالۃ الاوہام میں اقرار کیا ہے کہ ضمیر موتہٖ کا عیسیٰ کی طرف راجع ہے اور بعد اقرار اس امر کے حیات کا اقرار لازم آتا ہے کمامرّ تقریرہ بحیث لایحوم حولہ۔شک دوم برتقدیر موت بھی نزول خود حضرت عیسیٰ کا نہ محال عقلی ہے اور نہ محال عادی اور جو چیز محال عادی و عقلی نہ ہو اور مخبر صادق اس کی خبر دے تو اس سے انحراف جائز نہیں اور احادیث صحیحہ میں نزول عیسیٰ ؑ کی خبر متواتر موجود ہے۔قولہ جب آپ حیات مسیح کو ثابت کر دکھائیں گے تو پھر ان کا نزول بھی مانا جائے گا ۔ اقولاس میں کچھ ملازمۃ نہیں برتقدیر وفات بھی نزول کے نہ ماننے کی کوئی وجہ معقول نہیں ہے۔ قولہ ورنہ بخاری میں وہ حدیثیں بھی ہیں جن میں ابن مریم کا ذکر کرکے ان سے مراد کوئی مثیل لیا گیا ہے ۔اقولظاہر اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوائے احادیث نزول کے دیگر احادیث بھی بخاری میں ایسی ہیں جن میں ابن مریم کا ذکر کر کے اس سے مراد اس کا کوئی مثیل لیا گیا ہے پس آپ کو چاہئے کہ براہِ عنایت ان احادیث کو نقل فرمایئے تاکہ اس میں نظر کی جاوے کہ وہاں مثیل مراد لیا گیا ہے یا نہیں ۔ قولہ افسوس کہ اب تک آپ کچھ پیش نہ کرسکے۔ اقول ۔افسوس کہ باوجود اسکے کہ آپ کے اقرار سے حیات مسیح آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کے صراحۃً ثابت ہوگئی پھر بھی آپ ایسا فرماتے ہیں۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون والی اللّٰہ المشتکی اب سنئے یہ تو آپ کی تحریر کا جواب ترکی بترکی ہوا اب ایک نہایت منصفانہ اور فیصلہ کرنے والا جواب دیا جاتا ہے آپ اگر انصاف کے مدعی اور حق کے طالب ہیں تو اسی جواب کا جواب دیں اور جواب ترکی بترکی سے تعارض نہ کریں ایسا کریں گے تو یقیناً سمجھا جائے گا کہ آپ فیصلہ کرنا نہیں چاہتے اور اِحقاق حق سے آپ کو غرض نہیں ہے وہ جواب یہ ہے کہ مرزا صاحب! میں نے کمال نیک نیتی سے اِحقاق حق کی غرض سے اپنے ان جملہ دلائل کو جن کو میں اس وقت پیش کرنا چاہتا تھا یکبارگی قلم بند کر کے آپ کی خدمت میں پیش کردیا اور اسکے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرا اصل متمسک اور مستقل دلیل پہلی آیت ہے اور اسکے قطعیۃ الدلالت کے ثبوت میں قواعد نحویہ اجماعیہ کو پیش کیا آپ بھی نیک نیت اور طالب حق ہوتے تو اسکے جواب میں دوصورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرتے یا تو میرے جملہ دلائل و جوابات سے تعرض کرتے اور ان میں سے ایک بات کا جواب بھی باقی نہ چھوڑتے یا صرف میری اصل دلیل سے تعرض فرماتے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 205
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 205
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/205/mode/1up
اسکےؔ سوا کسی بات کے جواب سے معترض نہ ہوتے آپ نے نہ پہلی صورت اختیار کی نہ دوسری بلکہ میری اصلی دلیل کے علاوہ اور باتوں سے بھی تعرض کیا مگر ان کو بھی ادھورا چھوڑا اور بہت سی باتوں کا حوالہ آئندہ پر چھوڑا اور ان کے مقابلہ میں اپنے دلائل احادیث بخاری وغیرہ کے بیان کو بھی آپ نے آئندہ پرچہ پر ملتوی کیا اور جو کچھ بیان کیا ایسے انداز سے بیان کیا کہ اصل دلیل سے بہت دور چلے گئے اور اپنے بیان کو ایسے پیرایہ میں ادا کیا کہ اس سے عوام دھوکہ کھائیں اور خواص ناخوش ہوں اس کی ایک مثال آپ کی یہ بحث ہے کہ آپ مدعی نہیں ہیں۔ صاحب من جس حالت میںَ میں خود مدعی ہو کر دلائل پیش کرچکا تھا تو آپ کو اس بحث کی کیا ضرورت تھی۔ دوسری مثال یہ ہے کہ حضرت شیخنا و شیخ الکلکی رائے کا ذکر بے موقع کر کے لوگوں کو پھر جتانا چاہا کہ حضرت شیخ الکل بھی اس بحث میں آپ کے مخاطب ہیں حالانکہ شیخ الکل کی بحث سے فرار اختیار کر کے آپ نے مجھے مخاطب بحث بنایا تھا لہٰذا شیخ الکل کا ذکر میرے خطاب میں محض اجنبی و نامناسب تھا۔
تیسری مثال یہ ہے کہ آپ نے چند تفاسیر کی عبارات و اقوال بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم نقل کرکے عوام الناس کو یہ جتانا چاہا ہے کہ تمام مفسرین اور عامہ صحابہ و تابعین مسئلہ حیات وفات مسیح میں آپ کے موافق اور ہمارے مخالف ہیں اور یہ محض مغالطہ ہے کوئی صحابی کوئی تابعی کوئی مفسر اس بات کا قائل نہیں ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام اس وقت زندہ نہیں ہیں۔
چوتھی مثال آپ کا عوام الناس کو یہ جتانا ہے کہ نون لیؤمننّکو استقبال کے لئے ٹھہرانا تمام صحابہ و مفسرین کو جاہل قرار دینا ہے جو سراسر آپ کا دھوکا و مغالطہ ہے آپ کی اس قسم کی باتوں کا میں تین دفعہ تو جواب ترکی بترکی دے چکا آئندہ بھی یہ ہی طریق جاری رہا تو اس سے آپ کو یہ فائدہ ہوگا کہ اصل بات ٹل جائے گی اور آپ کی اتباع میں آپ کی جواب نویسی ثابت ہوجائے گی مگر اس میں مسلمانوں کا یہ حرج ہوگا کہ ان پر نتیجہ بحث ظاہر نہ ہوگا اور آپ کا اصل حال نہ کھلے گا کہ آپ لاجواب ہوچکے ہیں اور اعتقاد وفات مسیح میں خطا پر ہیں اور بات کو ادھر ادھر لیجا کر ٹلا رہے ہیں لہٰذا آئندہ آپ کو اس پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر آپ کو بحث منظور اور الزام فرار سے احتراز مدنظر ہے تو زائد باتوں کو چھوڑ کر میری اصل دلیل پر کلام و بحث کو محدود و محصور کریں اور جو میں نے یہ شہادت قواعد نحویہ اجماعیہ مضمون آیت کا زمانہ استقبال سے مخصوص ہونا اور بصورت صحت تخصیص اس مضمون کا وقت نزول مسیح سے مخصوص ہونا ثابت کیا ہے اس کا جواب در صورت عدم تسلیم قواعد نحویہ اجماعیہ دو حرفی یہ دیں کہ تمام قواعد نحوی بیکار و بے اعتبار ہیں یا خاص کر یہ قاعدہ غلط ہے اور اس کو فلاں شخص نے غلط قرار دیا ہے اور اس کی غلطی پر قرآن یا حدیث صحیح یا اقوال

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 206
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 206
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/206/mode/1up
عرؔ ب عرباء سے یہ دلیل ہے اور بجائے اسکے قاعدہ صحیحہ فلاں ہے یا یہ کہ فہم معنی قرآن کیلئے کوئی قاعدہ مقرر نہیں ہے جس طرح کوئی چاہے قرآن کے معنے گھڑ سکتا ہے اور در صورت تسلیم قاعدہ اور تسلیم تخصیص مضمون آیت بزمانہ استقبال اس مضمون کے تخصیص زمانہ نزول مسیح سے فلاں دلیل کی شہادت سے باطل ہے یا اس تخصیص سے جو فائدہ بیان کیا گیا ہے وہ اور صورتوں اور معنی سے بھی جو بیان کئے گئے ہیں حاصل ہوسکتا ہے اور اگر مجرد اختلاف مفسرین تفسیر آیت میں اس تخصیص کا مبطل ہوسکتا ہے اور مجرد اقوال مفسرین آپ کے نزدیک لائق استدلال و استناد ہیں تو آپ مفسرین صحابہ و تابعین کے ان اقوال کو جو درباب حیات مسیح وارد ہیں قبول کریں یا ان کے ایسے معنے بتاویں جن سے وفات مسیح ثابت ہو۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ جہان کے مفسرین اور جملہ صحابہ و تابعین ہمارے ساتھ ہیں ان میں کوئی اس کا قائل نہیں مسیح ابن مریم اب زندہ نہیں ہیں آپ ایک صحابی یا ایک تابعی یا ایک امام مفسر سے بہ سند صحیح اگر یہ ثابت کردیں کہ حضرت مسیح اب زندہ نہیں ہیں تو ہم دعویٰ حیات مسیح سے دست بردار ہوجائیں گے۔ لیجئے ایک ہی بات میں بات طے ہوتی ہے اور فتح ہاتھ آتی ہے اب اگر آپ یہ ثابت نہ کرسکے تو ہم سے جملہ مفسرین و صحابہ و تابعین کے اقوال سنیں جن کو ہم آئندہ پرچہ میں نقل کریں گے آپ مانیں یا نہ مانیں عام ناظرین تو اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور اس سے نتیجہ بحث نکالیں گے آپ سے ہم کو امید نہیں رہی کہ آپ اصل مدعا کی طرف آئیں اور زائد باتوں کو چھوڑ کر صرف وہ دو حرفی جواب دیں جو اس منصفانہ جواب میں آپ سے طلب کیا گیا ہے۔ واخر دعواناان الحمد للّٰہ رب العلمین والصلٰوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔
دستخط محمد بشیر عفی عنہ ۲۷ ؍اکتوبر ۱۸۹۱ء
نمبر ۳
حضرت اقدسؑ مرزا صاحب
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدَہ‘ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
سبحانک مااعظم شانک تھدی من تشاء و تضل من تشاء و تعلم من تشاء من لّدنک عِلْمًا۔ اما بعد اے ناظرین آپ صاحبوں پر واضح ہے کہ حضرت مولوی محمد بشیر صاحب نے مجھ سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 207
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 207
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/207/mode/1up
تحریرؔ ی مباحثہ شروع کر کے اس بات کا ثابت کرنا اپنے ذمہ لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم زندہ اپنے خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور آسمان پر اسی خاکی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں۔ اب اے ناظرین یہ عاجز آپ صاحبوں کی خدمت میں صاف اور سہل اور مختصر طور پر اس بات کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے اپنے اس دعویٰ کا اپنے تین پرچوں میں کیا ثبوت دیا اور میری طرف سے اس ثبوت کے باطل اور ہیچ اور لغو محض ہونے پر اپنے اس تیسرے پرچہ تک کیا کیا ثبوت پیش ہوا ہے تا آپ لوگ خود منصف بن کر دیکھ لیں کہ کیا درحقیقت مولوی صاحب نے کسی قطعیۃالدلالت آیت سے جیسا کہ ان کا دعویٰ تھا حضرت مسیح ابن مریم کا خاکی جسم کے ساتھ زندہ ہونا ثابت کر دکھایا ہے یا وہ ایسے قطعی ثبوت پیش کرنے سے ناکام رہے اور کوئی ایسی آیت پیش نہ کرسکے کہ جو یقینی اور قطعی طور پر حضرت مسیح کی جسمانی زندگی پر دلالت کرتی ہو اور بنظر تحقیق کوئی دوسرے معنی مخالف ان معنوں کے اس سے نکل نہ سکتے ہوں۔
سو میں آپ صاحبوں کو سناتا ہوں کہ اول حضرت مولوی صاحب نے اپنے اس دعوے کی تائید میں کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہیں پانچ آیتیں اپنی طرف سے پیش کی تھیں پھر چار آیتوں کو تو خود اس اقرار کے ساتھ چھوڑ دیا کہ ان سے حضرت مسیح کا جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہونا قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا یعنی یہ کئی احتمال رکھتی ہیں اور قطعیۃ الدلالت نہیں ہیں اور تمام مدار اپنے دعوے کا اس آیت پر رکھا کہ جو سورت النساء میں موجود ہے اور وہ یہ ہے ۲پ۶ مولوی صاحب اس آیت کو حضرت عیسیٰ کی جسمانی زندگی پر قطعیۃ الدلالت قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس آیت کے قطعی طور پر یہی معنے ہیں کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں کہ جو عیسیٰ پر اس کی موت سے پہلے ایمان نہیں لائے گا۔ اور چونکہ اب تک تمام اہل کتاب کیا عیسائی اور کیا یہودی حضرت عیسیٰ پر سچا اور حقیقی ایمان نہیں لائے بلکہ کوئی ان کو خدا قرار دیتا ہے اور کوئی ان کی نبوت کا منکر ہے اسلئے ضروری ہے کہ حسب منشاء اس آیت کے حضرت عیسیٰ کو اس زمانہ تک زندہ تسلیم کر لیا جائے جب تک کہ سب اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں۔ مولوی صاحب اس بات پر حد سے زیادہ ضد کررہے ہیں کہ ضرور یہ آیت موصوفہ بالا حضرت مسیح کی جسمانی زندگی پر قطعی طور پر دلالت کرتی ہے اور یہی صحیح معنے اسکے ہیں کسی دوسرے معنے کا احتمال اس میں ہر گز نہیں اور اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ گو بعض صحابہ اور تابعین اور مفسرین نے اور بھی کتنے معنے اس آیت کے کئے ہیں مگر وہ معنے صحیح نہیں ہیں۔ کیوں صحیح نہیں ہیں؟ اس کا سبب یہ بتلاتے ہیں کہ اس جگہلیؤمننّ کا صیغہ نون ثقیلہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 208
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 208
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/208/mode/1up
کےؔ لگنے کی وجہ سے خالص استقبال کے معنوں میں ہوگیا ہے اور خالص استقبال کے معنے صرف اسی طریق بیان سے محفوظ رہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا کسی آئندہ زمانہ میں نازل ہونا قبول کر کے پھر اس زمانہ کے اہل کتاب کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ سب کے سب حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آویں گے اور فرماتے ہیں کہ جو حضرت ابن عباس وغیرہ صحابہ نے اسکے مخالف معنے کئے ہیں اور قبل موتہٖ کی ضمیر کتابی کی طرف پھیر دی ہے یہ معنے ان کی نحو کے اجماعی قاعدہ کے مخالف ہیں۔ کیوں مخالف ہیں؟ اس وجہ سے کہ ایسے معنوں کے کرنے سے لفظ لیؤمننّ کا خالص استقبال کیلئے مخصوص نہیں رہتا۔ سو مولوی صاحب کی اس تقریر کا حاصل کلام یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابن عباس اور عکرمہ اور ابی ابن کعب وغیرہ صحابہ نحو نہیں پڑھے ہوئے تھے اور نحو کے وہ اجماعی قواعد جو مولوی صاحب کو معلوم ہیں انہیں معلوم نہیں تھے اسلئے وہ ایسی صریح غلطی میں ڈوب گئے جو انہیں وہ قاعدہ یاد نہ رہا جس پر تمام نحویوں کا اجماع اور اتفاق ہوچکا تھا بلکہ انہوں نے اپنی زبان کا قدیمی محاورہ بھی چھوڑ دیا جس کی پابندی طبعاً ان کی فطرت کے لئے لازم تھی۔ ناظرین برائے خدا غور فرماویں کہ کیا مولوی صاحب اس بات کے مجاز ٹھہر سکتے ہیں کہ ابن عباس جیسے جلیل الشان صحابی کو نحوی غلطی کا الزام دیویں۔ اور اگر مولوی صاحب نحوی غلطی کا ابن عباس پر الزام قائم نہیں کرتے تو پھر کیا کوئی اور بھی وجہ ہے جس کے رو سے مولوی صاحب کے خیال میں ابن عباس کے وہ معنے اس آیت متنازع فیہ میں رد کے لائق ہیں جن کی تائید میں ایک قراء ت شاذہ بھی موجود ہے یعنی قبل موتھم۔ فرض کرو کہ وہ قراء ت بقول حضرت مولوی صاحب ایک ضعیف حدیث ہے مگر آخر حدیث تو ہے۔ یہ تو ثابت نہیں ہوا کہ وہ کسی مفتری کا افترا ہے پس وہ کیا ابن عباس کے معنوں کو ترجیح دینے کیلئے کچھ بھی اثر نہیں ڈالتی یہ کس قسم کا تحکم ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ ابن عباس کے یہ معنے نحوی قاعدہ کے مخالف ہیں اور قراء ت قبل موتہم کسی راوی کا افترا ہے۔ ابن عباس اور عکرمہ پر یہ الزام دینا کہ وہ نحوی قاعدہ سے بے خبر تھے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مولوی صاحب یا کسی اور کا حق ہے کہ ان بزرگوں پر ایسا الزام رکھ سکے جن کے گھر سے ہی نحو نکلی ہے۔ ظاہر ہے کہ نحو کو ان کے محاورات اور ان کے فہم کی تابع ٹھہرانا چاہئے نہ کہ ان کی بول چال اور ان کے فہم کا محک اپنی خود تراشیدہ نحو کو قرار دیا جائے۔
اب اگر مولوی صاحب اپنی ضد کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتے اور ابن عباس اور عکرمہ کو

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 209
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 209
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/209/mode/1up
نحوؔ کے اجماعی قاعدہ سے بے خبر ٹھہراتے ہیں اور قراء ت ابیّ بن کعب کو بھی جو قبل موتہم ہے بکلی مردود اور متحقق الافترا خیال کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ صرف ان کے دعوے سے ہی یہ ان کا بہتان قابل تسلیم نہیں ٹھہر سکتا بلکہ اگر وہ اپنے معنوں کو قطعیۃ الدلالت بنانا چاہتے ہیں تو ان پر فرض ہے کہ ان دونوں باتوں کا قطعی طور پر پہلے فیصلہ کر لیں۔ کیونکہ جب تک ابن عباس اور عکرمہ کے مخالفانہ معنوں میں احتمال صحت باقی ہے اور ایسا ہی گو حدیث قراء ت شاذہ بقول مولوی صاحب ضعیف ہے مگر احتمال صحت رکھتی ہے تب تک مولوی صاحب کے معنے باوجود قائم ہونے ان تمام احتمالات کے کیونکر قطعی ٹھہر سکتے ہیں۔ ناظرین آپ لوگ خود سوچ لیں کہ قطعی معنے تو انہی معنوں کو کہا جاتا ہے جن کی دوسری وجوہ سرے سے پیدا نہ ہوں یا پیدا تو ہوں۔ لیکن قطعیت کا مدعی دلائل شافیہ سے ان تمام مخالف معنے کو توڑ دے۔ لیکن مولوی صاحب نے اب تک ابن عباس اور عکرمہ کے معنوں اور قبل موتہم کی قراء ت کو توڑ کر نہیں دکھلایا ان کا توڑنا تو صرف ان دو باتوں میں محدود تھا اول یہ کہ مولوی صاحب صاف بیان سے اس بات کو ثابت کردیتے کہ ابن عباس اور عکرمہ ان کے اجماعی قاعدہ نحو سے بکلّی بے خبر اور غافل تھے اور انہوں نے سخت غلطی کی کہ اپنے بیان کے وقت نحو کے قواعد کو نظر انداز کردیا۔ دوسرے مولوی صاحب پر یہ بھی فرض تھا کہ قراء ت شاذہ قبل موتہم کے راوی کا صریح افترا ثابت کرتے اور یہ ثابت کر کے دکھلاتے کہ یہ حدیث موضوعات میں سے ہے۔ مجرد ضعف حدیث کا بیان کرنا اس کو بکلی اثر سے روک نہیں سکتا۔ امام بزرگ حضرت ابوحنیفہ فخر الائمہ سے مروی ہے کہ میں ایک ضعیف حدیث کے ساتھ بھی قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اب کیا جس قدر حدیثیں صحاح ستہ میں بباعث بعض راویوں کے قابل جرح یا مرسل اور منقطع الاسناد ہیں وہ بالکل پایۂ اعتبار سے خالی اور بے اعتبار محض ہیں؟ اور کیا وہ محدثین کے نزدیک موضوعات کے برابر سمجھی گئی ہیں؟
ناظرین متوجہ ہو کر سنو اب میں اس بات کا بھی فیصلہ کرتا ہوں کہ اگر فرض کے طور پر ابن عباس اور عکرمہ اور مجاہد اور ضحاک وغیرہ کے معنے جو مخالف مولوی صاحب کے معنوں کے ہیں غلط ٹھہرائے جاویں اور قبول کیا جائے کہ یہ تمام اکابر اور بزرگ مولوی صاحب کے اجماعی قاعدہ نحو سے عمداً یا سہواً باہر چلے گئے تو پھر بھی مولوی صاحب کے معنے قطعیۃ الدلالت نہیں ٹھہر سکتے۔ کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس کی وجوہ ذیل میں لکھتا ہوں۔
(۱) اول یہ کہ مولوی صاحب کے ان معنوں میں کئی امور ہنوز قابل بحث ہیں جن کا وہ یقینی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 210
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 210
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/210/mode/1up
طورؔ پر فیصلہ نہیں کرسکے اور نہ ان کا ایک ہی معنوں پر قطعیۃ الدلالت ہونا بپایہ ثبوت پہنچا چکے ہیں۔ ازانجملہ ایک یہ کہ اہل الکتاب کا لفظ اکثر قرآن کریم میں موجودہ اہل کتاب کیلئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود تھے بیان فرمایا گیا ہے اور ہر یک ایسی آیت کا جس میں اہل کتاب کا ذکر ہے وہی مصداق اور شان نزول قرار دیئے گئے ہیں۔ پھر مولوی صاحب کے پاس باوجود اس دوسرے معنے ابن عباس اور عکرمہ کی کونسی قطعی دلیل اس بات پرہے کہ اس ذکر اہل کتاب سے وہ لوگ قطعاً باہر رکھے گئے ہیں اور کون سی حجت شرعی یقینی قطعیۃ الدلالت اس بات پر ہے کہ اہل کتاب سے مراد اس زمانہ نامعلوم کے اہل کتاب ہیں جس میں تمام وہ لوگ حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے۔
ازانجملہ ایک یہ کہ مولوی صاحب نے تعیین مرجع لیؤمننّ بہٖمیں کوئی قطعی ثبوت پیش نہیں کیا۔ کیونکہ تفسیر معالم التنزیل وغیرہ تفاسیر معتبرہ میں حضرت عکرمہ وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ بھی روایت ہے کہ ضمیر بہٖ کی جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے اور یہ روایت قوی ہے کیونکہ مجرد مسیح ابن مریم پر ایمان لانا موجب نجات نہیں ٹھہر سکتا۔ ہاں خاتم الانبیاء پر ایمان لانا بلاشبہ موجب نجات ہے کیونکہ وہ ایمان تمام نبیوں پر ایمان لانے کو مستلزم ہے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ کو بِہٖکے ضمیر کا مرجع ٹھہرایا جائے تو اس کا فساد ظاہر ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اہل کتاب شرک سے توبہ کر کے صرف حضرت عیسیٰ کی رسالت اور عبدیت کا قائل ہو۔ لیکن ساتھ اسکے ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت سے قطعاً منکر ہو تو کیا وہ اسی ایمان سے نجات پاسکتا ہے ہرگز نہیں۔ پھر یہ ضمیر بِہٖ کی حضرت عیسیٰ کی طرف آپ کے معنوں کے رو سے کیونکر پھر سکتی ہے۔ اگر یہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی تو ہم یہ خیال کر لیتے اس میں حضرت عیسیٰؑ بھی داخل ہیں لیکن ضمیر تو واحد کی ہے صرف ایک کی طرف پھرے گی اور اگر وہ ایک بجز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کوئی دوسرا ٹھہرایا جائے تو معنے فاسد ہوتے ہیں۔ لہٰذا بالضرورت ماننا پڑا کہ اس ضمیر کا مرجع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اس صورت میں مَوتہٖ کی ضمیر کتابی کی طرف پھیری جائے گی۔
اگر آپ اس جگہ یہ اعتراض کریں کہ ایسے معنوں سے لیؤمننّ کا لفظ استقبال کے خالص معنوں میں کیونکر رہے گا تو میں اس کا یہ جواب دیتا ہوں کہ جیسے آپ کے معنوں میں رہا ہوا ہے۔ اس وقت ذرہ آپ متوجہ ہو کر بیٹھ جائیں اور اس قادر سے مدد چاہیں جو سینوں کو کھولتا اور دلوں میں سچائی کا نور

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 211
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 211
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/211/mode/1up
نازؔ ل کرتا ہے۔ حضرت سنیئے آپ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ ایک زمانہ قبل موت عیسیٰ ؑ کے ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب سب کے سب حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور بموجب روایت عکرمہ برعایت آپ کے نحوی قاعدہ کے یہ معنے ٹھہریں گے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب سب کے سب نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی موت سے پہلے ایمان لے آئیں گے جس ایمان کے طفیل مسیح ابن مریم پر بھی ایمان لانا انہیں نصیب ہوجائے گا۔ اب حضرت اللّٰہ جلّشانہٗ سے ڈر کر فرمایئے کہ کیا آپ کے قطعیۃ الدلالت ہونے کا دعویٰ بکلی نابود ہوگیا۔ یا ابھی کچھ کسر باقی ہے۔ آپ خوب سوچ کر اور دل کو تھام کر بیان فرماویں۔ کہ آپ کی طرز تاویل میں کونسی خالص استقبال کی علامت خاص طور پر پائی جاتی ہے جو اس تاویل میں وہ نہیں پائی جاتی۔ ناظرین برائے خدا آپ بھی ذرا سوچیں۔ بہت صاف بات ہے ذرہ توجہ فرماویں۔ اے ناظرین آپ لوگ جانتے ہیں کہ کئی دن سے مولوی صاحب کی یہی بحث لگی ہوئی تھی اور فقط اسی بات پر ان کی ضد تھی کہ لفظ لیؤمننّ لام اور نون ثقیلہ کی وجہ سے خالص استقبال کے معنوں میں ہوگیا ہے۔ اور مولوی صاحب اپنے گمان میں یہ سمجھ رہے تھے کہ خالص استقبال صرف اس طور کے معنے کرنے سے متحقق ہوتا ہے کہ قبل موتہٖ کی ضمیر مسیح ابن مریم کی طرف پھیریں اور اس کی حیات کے قائل ہوجائیں۔ اور اب اے بھائیو میں نے ثابت کر کے دکھلا دیا کہ خالص استقبال کیلئے یہ ضروری نہیں کہ قبل موتہٖ کی ضمیر حضرت عیسیٰ کی طرف پھیری جائے بلکہ اس جگہ حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف ضمیر بِہٖ اور ضمیر قبل موتہٖپھیرنے سے معنے ہی فاسد ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ فقط عیسیٰ ؑ پر ایمان لانا نجات کے لئے کافی نہیں۔ بلکہ سچے اور واقعی معنے اس طرز پر یہی ہیں کہ ضمیر بہٖ کی ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھیری جائے اور ضمیر قبل موتہٖ کی کتابی کی طرف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ضمن میں خود حضرت عیسیٰ ؑ وغیرہ انبیاء سب ہی آجائیں گے ؂ نام احمد نام جملہ انبیا است چونکہ صد۱۰۰ آمد نو د۹۰ہم نزدماست۔ بھائیو برائے خدا خود سوچ لوکہ ان معنوں میں اور حضرت مولوی صاحب کے معنوں میں خالص مستقبل ہونے میں برابری کا درجہ ہے یا ابھی کچھ کسر باقی ہے۔ بھائیو میں محض ِ للہ آپ لوگوں کے سمجھانے کیلئے پھر دوہرا کر کہتا ہوں کہ مولوی صاحب آیت لیؤمننّ بہٖ کے معنے یوں کرتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے موجودہ اہل کتاب حضرت عیسیٰؑ کی موت سے پہلے سب کے سب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ اور میں حسب روایت حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ جیسا کہ معالم وغیرہ میں لکھا ہے۔ مولوی صاحب

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 212
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 212
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/212/mode/1up
کیؔ ہی طرز پر یہ معنے کرتا ہوں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب موجودہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے ہمارے نبی کریم صلعم پر ایمان لے آئیں گے۔ بھائیو برائے خدا ذرہ نظر ڈال کر دیکھو کہ کیا خالص استقبال میری تاویل اور مولوی صاحب کی تاویل میں برابر درجہ کا ہے یا ابھی فرق رہا ہواہے۔ اب بھائیو انصافاًدیکھو کہ ان معنوں میں بہ نسبت مولوی صاحب کے معنوں کے کس قدر خوبیاں جمع ہیں۔وہ اعتراض جو مولوی صاحب کی طرز پر ضمیر بِہٖ کے تعین مرجع میں ہوتا تھا۔ وہ اس جگہ نہیں ہوسکتا۔ قراء ت شاذہ اس تاویل کی مؤیّد ہے۔ اور بایں ہمہ خالص استقبال موجود ہے۔ اب اے حاضرین مبارک۔ مولوی صاحب کے دعویٰ قطعیّت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ مگر تعصب اور طرف داری سے خالی ہو کر غور کرنا۔ مولوی صاحب نے اس بحث حیات مسیح کا حصر پانچ دلیلوں پر کیا تھا۔ چار دلیلوں کو تو انہوں نے خود چھوڑ دیا اور پانچویں کو خدا تعالیٰ نے حق کی تائید کر کے نیست و نابود کیا۔ ۱؂ ۹؍۱۵اب اے حاضرین۔ اے خدا تعالیٰ کے نیک دل بندو ۔سو چ کر دیکھو اور ذرہ اپنے فکر کو خرچ کر کے نگاہ کرو کہ حضرت مولوی محمدبشیر صاحب کا کیا دعویٰ تھا۔ یہی تو تھا کہ آیت لیومنن بہٖ کے وہ سچے اور صحیح معنے ٹھہر سکتے ہیں جن میں لفظ لیؤمننّ کو خالص مستقبل ٹھہرایا جائے اور مولوی صاحب نے اپنے مضمون کے صفحوں کے صفحے اسی بات کے ثابت کرنے کیلئے لکھ مارے کہ نون ثقیلہ مضارع کے آخر مل کر خالص مستقبل کے معنوں میں لے آتا ہے۔ اسی دھن میں مولوی صاحب نے حضرت ابن عباس کے معنوں کو قبول نہیں کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ وہ معنے بھی نحویوں کے اجماعی عقیدہ کے برخلاف ہیں۔ سو ہم نے مولوی صاحب کی خاطر سے ابن عباس کے معنوں کو پیش کرنے سے موقوف رکھا اور روایت عکرمہ کی بنا پر وہ معنے پیش کئے جو خالص مستقبل ہونے میں بکلی مولوی صاحب کے معنوں سے ہمرنگ اور ان نقصوں سے مبرا ہیں جو مولوی صاحب کے معنوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ مسیح پر ایمان لانے کے وقت ہمارے سید و مولا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانا ضروری ہے اور اسکے ضمن میں ہریک نبی پر ایمان لانا داخل ہے۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ اس ایمان کیلئے حضرت مسیح کو آسمانوں کے دارالسرور سے اس دارالابتلا میں دوبارہ لایا جائے۔ مثلاً دیکھئے کہ جو لوگ بقول آپ کے آخری زمانہ میں آنحضرت صلعم پر ایمان لائیں گے یا اب ایمان لاتے ہیں۔ کیا ان کے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 213
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 213
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/213/mode/1up
ایماؔ ن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود تشریف لے آویں۔ پس ایسا ہی یقین کیجئے کہ حضرت مسیح پر ایمان لانے کیلئے بھی دوبارہ ان کا دنیا میں آنا ضروری نہیں اور ایمان لانے اور دوبارہ آنے میں کچھ تلازم نہیں پایا جاتا۔ اور اگر آپ اپنی ضد نہ چھوڑیں اور ضمیر لیؤمننّ بہٖ کو خواہ نخواہ حضرت عیسیٰؑ کی طرف ہی پھیرنا چاہیں باوجود اس فساد معنے کے جس کا نقصان آپ کی طرف عائد ہے۔ ہماری طرز بیان کا کچھ بھی حرج نہیں۔ کیونکہ ہمارے طور پر برعایت خالص استقبال کے پھر اسکے یہ معنے ہوں گے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس زمانہ کے سب اہل کتاب اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰؑ پر ایمان لے آویں گے۔ سو یہ معنے بھی خالص استقبال ہونے میں آپ کے معنے کے ہم رنگ ہیں۔ کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ ابھی تک وہ زمانہ نہیں آیا جو سب کے سب موجودہ اہل کتاب حضرت عیسیٰؑ پر یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے ہوں۔ لہٰذا خالص استقبال کے رنگ میں اب تک یہ پیشگوئی موافق ان معنوں کے چلی آتی ہے۔ اب اگر ہماری اس تاویل میں آپ کوئی جرح کریں گے تو وہی جرح آپ کی تاویل میں ہوگی۔ یہاں تک کہ آپ پیچھا چھڑا نہیں سکیں گے۔ جن باتوں کو آپ اپنے پرچوں میں قبول کر بیٹھے ہیں انہیں کی بنا پر میں نے یہ تطبیق کی ہے۔ اور جس طرز سے آپ نے آخری زمانہ میں اہل کتاب کا ایمان لانا قرار دیا ہے اسی طرز کے موافق میں نے آپ کو ملزم کیا ہے۔ اور اسے خالص استقبال کے موافق خالص استقبال پیش کردیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ صحابہ کے وقت سے اس آیت کو ذوالوجوہ قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ ابن کثیر نے زیر ترجمہ اس آیت کے یہ لکھا ہے قال ابن جریر اختلف اھل التاویل فی معنی ذٰلک فقال بعضہم معنی ذٰلک وان من اھل الکتاب الا لیؤمننّ بِہٖ قبل موتہٖ ۶۲ یعنی قبل موت عیسٰی وقال اخرون یعنی بذلک وان من اھل الکتاب الا لیومنن بعیسی قبل موت الکتابی ذکر من کان یوجہ ذٰلک الی انہ اذا عاین علم الحق من الباطل۔ قال علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس فی الاٰیۃ قال لایموت یہودی حتی یومن بعیسٰی وکذاروی ابوداؤد الطیالسی عن شعبۃ عن ابی ھارون الغنوی عن عکرمۃ عن ابن عباس فھٰذہ کلھا اسانید صحیحۃ الی ابن عباس وقال اٰخرون معنی ذٰلک وان من اھل الکتاب الّا لیؤمننّ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 214
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 214
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/214/mode/1up
بمحمدؐ قبل موت الکتابی یعنی اس آیت کے معنے میں اہل تاویل کا اختلاف چلا آیا ہے۔ کوئی ضمیر قبل موتہ کی عیسیٰؑ کی طرف پھیرتا ہے اور کوئی کتابی کی طرف اور کوئی بہٖکی ضمیر حضرت عیسیٰؑ کی طرف پھیرتا ہے اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف۔ پس گو ابن جریر یا ابن کثیر کا اپنا مذہب کچھ ہو یہ شہادت توانہوں نے بڑی بسط سے بیان کردی ہے کہ اس آیت کے معنے اہل تاویل میں مختلف فیہ ہیں اور ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں کہ مسیح ابن مریم کے نزول اور حیات پر قطعی دلالت اس آیت کی ہرگز نہیں اور یہی ثابت کرنا تھا۔
اب بعد اس کے کسی قدر بطور نمونہ مسیح ابن مریم کی وفات پر دلائل لکھے جاتے ہیں واضح ہو کہ قرآن کریم میں ۱۴؍۳ موجود ہے۔ قرآن کریم کے عموم محاورہ پر نظر ڈالنے سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تمام قرآن میں توفّی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ یعنی اس قبض روح میں جو موت کے وقت ہوتا ہے دو جگہ قرآن کریم میں وہ قبض روح بھی مراد لیا ہے جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے۔ لیکن اس جگہ قرینہ قائم کردیا ہے جس سے سمجھا گیا ہے کہ حقیقی معنے تو فّی کے موت لئے ہیں۔ اور جو نیند کی حالت میں قبض روح ہوتا ہے وہ بھی ہمارے مطلب کے مخالف نہیں۔ کیونکہ اسکے تو یہی معنے ہیں کہ کسی وقت تک انسان سوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی روح کو اپنے تصرف میں لے لیتا ہے اور پھر انسان جاگ اٹھتا ہے سو یہ وقوعہ ہی الگ ہے اس سے ہمارے مخالف کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ بہرحال جب کہ قرآن میں لفظ تو فّی کا قبض روح کے معنوں میں ہی آیا ہے اور احادیث میں ان تمام مواضع میں جو خدا تعالیٰ کو فاعل ٹھہرا کر اس لفظ کو انسان کی نسبت استعمال کیا ہے جا بجا موت ہی معنے لئے ہیں۔ تو بلاشبہ یہ لفظ قبض روح اور موت کیلئے قطعیۃ الدلالت ہوگیا۔ اور بخاری جو اصح الکتب ہے اس میں بھی تفسیر آیت فلمّا توفّیتنیکی تقریب میں متوفّیک کے معنے ممیتک لکھا ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ موت اور رفع میں ایک ترتیب طبعی واقع ہے ہریک مومن کی روح پہلے فوت ہوتی ہے پھر اس کا رفع ہوتا ہے۔ اسی ترتیب طبعی پر یہ ترتیب وضعی آیت کی دلالت کررہی ہے کہ پہلے انّی متوفّیک فرمایا اور پھر بعد اسکے رافعک کہا اور اگر کوئی کہے کہ رافعک مقدم اور متوفّیک مؤخر ہے۔ یعنی رافعک آیت کے سر پر اور متوفّیک فقرہ ۲؂ کے بعد اور بیچ میں یہ فقرہ محذوف ہے ثم منزّلک الی الارض سو یہ ان یہودیوں کی طرح تحریف ہے جن پر بوجہ تحریف کے *** ہوچکی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اس

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 215
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 215
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/215/mode/1up
آیتؔ کو اس طرح پرزیر و زبر کرنا پڑے گا۔ یاعیسی انی رافعک الی السماء و مطھرک من الذین کفروا وجاعل الّذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیٰمۃ ثم منزلک الی الارض و متوفّیکاب فرمایئے کیا اس تحریف پر کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے۔ یہودی بھی تو ایسے ہی کام کرتے تھے کہ اپنی رائے سے اپنی تفسیروں میں بعض آیات کے معنے کرنے کے وقت بعض الفاظ کو مقدم اور بعض کو مؤخر کردیتے تھے جنکی نسبت قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ ۱؂ ان کی تحریف ہمیشہ لفظی نہیں تھی بلکہ معنوی بھی تھی۔ سو ایسی تحریفوں سے ہریک مسلمان کو ڈرنا چاہئے۔ اگر کسی حدیث صحیح میں ایسی تحریف کی اجازت ہے تو بسم اللہ وہ دکھلایئے۔ غرض آیت یَاعیسٰی اِنّی متوفیک میں اگر قرآن کریم کا عموم محاورہ ملحوظ رکھا جائے اور آیت کو تحریف سے بچایا جائے تو پھر موت کے بعد اور دوسرے معنے کیا نکل سکتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ آیت میں رَافِعُکَ اِلَیَّ وارد ہے رافعک اِلَی السَّمَآء وارد نہیں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ روح کوئی مکانی چیز نہیں ہے بلکہ اسکے تعلقات مجہول الکنہ ہوتے ہیں۔ مرنے کے بعد ایک تعلق روح کا قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور کشف قبور کے وقت ارباب مکاشفات پر وہ تعلق ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب قبور اپنی اپنی قبروں میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ ان سے صاحب کشف کے مخاطبات و مکالمات بھی واضح ہوجاتے ہیں ۔یہ بات احادیث صحیحہ سے بھی بخوبی ثابت ہے۔ صلٰوۃ فی القبر کی حدیث مشہور ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ مردے جوتی کی آواز بھی سن لیتے ہیں اور السّلام علیکم کا جواب دیتے ہیں باوجود اسکے ایک تعلق ان کا آسمان سے بھی ہوتا ہے اور اپنے نفسی نقطہ کے مکان پر ان کا تمثل مشاہدہ میںآتا ہے اور ان کا رفع مختلف درجات سے ہوتا ہے بعض پہلے آسمان تک رہ جاتے ہیں بعض دوسرے تک بعض تیسرے تک لیکن موت کے بعد رفع روح بھی ضرور ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث صحیح اور آیت ۲؂ صریح اشارہ کررہی ہے۔ لیکن ان کا آسمان پر ہونا یا قبروں میں ہونا ایک مجہول الکنہ امر ہے۔ عنصری خاکی جسم تو ان کے ساتھ نہیں ہوتا کہ خاکی اجسام کی طرح ایک خاص اور حیز اور مکان میں ان کا پایا جانا ضروری ہو۔ اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے رَافِعُکَ اِلَیَّ فرمایا رَافِعُکَ اِلَی السَّمَآءِ نہیں کہا۔ کیونکہ جو لوگ فوت ہوجاتے ہیں وہ خاص طور پر

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 216
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 216
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/216/mode/1up
کسی ؔ مکان کی طرف منسوب نہیں ہوسکتے بلکہ ۱؂ ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ان کا کوئی خاص مکان ہے تو یہی مکان ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کا مکان جو حسب استعداد ان کو ملتا ہے اب جب کہ قرآن کریم میں رافعک اِلَیَّ ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ اگر جسمانی طور پر رفع مراد لیا جائے تو سخت اشکال پیش آتا ہے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح معہ اپنے خالہ زاد بھائی کے دوسرے آسمان پر ہیں۔ تو کیا خدا تعالیٰ دوسرے آسمان میں بیٹھا ہوا ہے تا دوسرے آسمان میں ہونا رافعک اِلَیَّ کا مصداق ہوجائے۔ بلکہ اس جگہ روحانی رفع مراد ہے جس کا حسب مراتب ایک خاص آسمان سے تعلق ہے۔ بخاری میں حدیث معراج کی پڑھو اور غور سے دیکھو۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ ان تمام وجوہات کی رو سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰؑ وفات پا گئے ہیں بلاشبہ آیت اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ حضرت عیسیٰؑ کی وفات پر قطعیۃ الدلالت ہے۔ عموم محاورہ قرآن شریف کا اسی پر دلالت کرتا ہے۔ بخاری میں حضرت ابن عباس کی روایت سے متوفّیک کے معنے ممیتک لکھے ہیں اور بخاری نے کسی صحابی کی روایت سے کوئی دوسرے متوفّیک کے معنے ہرگز اپنی صحیح میں نہیں لکھے اور نہ مسلم نے لکھے ہیں۔ بلکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ کہ خدا تعالیٰ کے فاعل ہونے اور انسان کے مفعول ہونے کی حالت میں بجز قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں ہوسکتے۔ اسی بنا پر میں نے ہزار روپیہ کا اشتہار بھی دیا ہے۔ اب اگر یہ آیت مسیح ابن مریم کی وفات پر قطعیۃ الدلالت نہیں تو دلائل مذکورہ بالا اور نیز دلائل مفصلہ مبسوطہ ازالہ اوہام کا جواب دینا چاہئے تا آپ کو ہزار روپیہ بھی مل جائے اور اپنے بھائیوں میں علمی شہرت بھی حاصل ہوجائے۔
دوسری دلیل مسیح ابن مریم کی وفات پر خود جناب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے جس کو امام بخاری اپنی کتاب التفسیر میں اسی غرض سے لایا ہے کہ تا یہ ظاہر کرے کہ لمّا توفّیتنی کے معنے لَمَّا اَمَتَّنِیْ ہے اور نیز اسی غرض سے اس موقعہ پر ابن عباس کی روایت سے متوفّیک مُمِیتک کی بھی روایت لایا ہے تا ظاہر کرے کہ لمّا توفّیتنی کے وہی معنی ہیں جو انی متوفیک کے معنی ابن عباس نے ظاہر فرمائے ہیں۔ اس مقام پر بخاری کو غور سے دیکھ کر ادنیٰ درجہ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ توفّیتنی کے معنی امتّنی ہیں یعنی تو نے مجھے مار دیا۔ اس میں تو کچھ شبہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 217
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 217
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/217/mode/1up
نہیںؔ کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کا مزار موجود ہے۔ پھر جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی لفظ فلمّا توفّیتنی کا حدیث بخاری میں اپنے لئے اختیار کیا ہے اور اپنے حق میں ویسا ہی استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ حضرت عیسیٰ کے حق میں مستعمل تھا تو کیا اس بات کو سمجھنے میں کچھ کسر رہ گئی کہ جیسا کہ آنحضرت صلعم وفات پا گئے ویسا ہی حضرت مسیح ابن مریم بھی وفات پا گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی آیات اور مفہوم آیات میں کسی طور سے تحریف جائز نہیں۔ اور جو کچھ اصل منشاء اور اصل مفہوم اور اصل مراد ہریک لفظ کی ہے اس سے عمداً اس کو اور معنوں کی طرف پھیر دینا ایک الحاد ہے جس کے ارتکاب کا کوئی نبی یا غیر نبی مجاز نہیں ہے اسلئے کیونکر ہوسکتا ہے کہ نبی معصوم بجز حالت تطابق کلی کے جو فی الواقع مسیح کی وفات سے اس کی وفات کو تھی لفظ فلمّا توفّیتنی کو اپنے حق میں استعمال کرسکتا اور نعوذ باللہ تحریف کا مرتکب ہوتا بلکہ ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ و سلم امام المعصومین و سید المحفوظین نے(روحی فداء سبیلہ) لفظ فلمّا توفّیتنی کا نہایت دیانت و امانت کے ساتھ انہیں مقررہ معینّہ معنوں کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا ہے کہ جیسا کہ وہ بعینہٖ حضرت عیسیٰؑ کے حق میں وارد ہے۔ اب بھائیو اگر حضرت سیدو مولانا بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور فوت نہیں ہوئے اور مدینہ میں ان کا مزار مطہر نہیں تو گواہ رہو کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ ایسا ہی حضرت عیسیٰ ؑ بھی آسمان کی طرف بجسدہ العنصری اٹھائے گئے ہوں گے اور اگر ہمارے سیدو مولیٰ و سید الکل ختم المرسلین افضل الاولین و الاٰ خرین اول المحبوبین والمقربین درحقیقت فوت ہوچکے ہیں تو آؤ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور فلما توفیتنی کے پیارے لفظوں پر غور کرو جو ہمارے سیدو مولیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے میں اور اس عبد صالح میں مشترک بیان کئے۔ جس کا نام مسیح ابن مریم ہے بخاری اس مقام میں سورۂ
آل عمران کی یہ آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کیوں لایا اور کیوں ابن عباس سے روایت کی کہ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ اس کی وجہ بخاری کے صفحہ ۶۶۵ میں شارح بخاری نے یہ لکھی ہے۔ ھٰذہِ الاٰیۃ مُتَوَفِّیْکَ من سورۃ ال عمران ذکر ھہنا لمناسبۃ فلمّا توفّیتنی یعنی یہ آیت اِنِّی مُتَوَفِّیْک سورت آل عمران میں ہے اور بخاری نے جو اس جگہ اس آیت کے ابن عباس سے یہ معنے کئے کہ متوفّیک مُمِیْتُک تو اس کا یہ سبب ہے کہ بخاری نے فلمّا توفّیتنی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 218
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 218
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/218/mode/1up
کےؔ معنی کھولنے کیلئے بوجہ مناسبت یہ فقرہ لکھ دیا ورنہ آل عمران کی آیت کو اس جگہ ذکر کرنے کا کوئی محل نہ تھا۔ اب دیکھئے شارح نے بھی اس بات کو قبول کر لیا ہے کہ امام بخاری اِنِّی متوفّیک مُمِیتک کے لفظ کو شہادت کے طور پر بہ تقریب تفسیر آیت فلما توفیتنی لایا ہے اور کتاب التفسیر میں جو بخاری نے ان دونوں متفرق آیتوں کو جمع کر کے لکھا ہے تو بجز اس کے اس کا اور کیا مدعا تھا۔ کہ وہ حضرت عیسٰی ؑ کی وفات خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول سے ثابت کرچکا ہے۔ اب جب کہ اصح الکتاب کی حدیث مرفوع متصل سے جس کے آپ طالب تھے حضرت عیسٰی ؑ کی وفات ثابت ہوئی۔ اور قرآن کی قطعیۃ الدلالت شہادت اس کے ساتھ متفق ہوگئی۔ اور ابن عباس جیسے صحابی نے بھی موت مسیح کا اظہار کردیا۔ تو اس دوہرے ثبوت کے بعد اور کس ثبوت کی حاجت رہی۔ میں اس جگہ اور دلائل لکھنا نہیں چاہتا۔ میری کتاب ازالہ اوہام موجود ہے آپ اس کو ردّ کر کے دکھلاویں۔ خود حق کھل جائے گا۔ حضرت عیسٰیؑ وفات پاچکے اب آپ کسی طور سے ان کو زندہ نہیں کرسکتے۔
اب میں نے حضرت! اصل مدعا کا فیصلہ کردیا۔ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ جب میری اور آپکی تحریریں شائع ہونگی۔ منصف لوگ خود دیکھ لیں گے۔ آپ نے ایک ذوالوجوہ آیت کو جس کے قطعی طور پر ایک معنے ہرگز قائم نہیں ہوسکتے۔ قطعیتہ الدلالۃ ٹھہرانا چاہا تھا۔ میں نے اس طرح کہ جیسے دن چڑھ جاتا ہے۔ آپکو دکھلا دیا کہ وہ آیت حضرت عیسٰی ؑ کی زندگی پر ہرگز ہرگز قطعیۃ الدلالت نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اسکے ضمیروں میں ہی کسی قدر گڈمڈ پڑا ہوا ہے۔ کوئی کسی طرف پھیرتا ہے اور کوئی کسی طرف۔ نہ حال کے ایک معنے ٹھہر سکتے ہیں اور نہ خالص استقبال کے ایک معنے۔ پھر وہ قطعیتہ الدلالت کیونکر ہوگئی؟ کیا قطعیۃ الدلالت اسی کو کہتے ہیں کہ کوئی اسکی ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف پھیرے اور کوئی ہمارے سید ومولانبی عربی خاتم الانبیاءؐ کی طرف اور کوئی حضرت عیسٰی ؑ کی طرف اور کوئی قبل موتہٖ کی ضمیر حضرت عیسیٰؑ کی طرف پھیرے اور کوئی کتابی کی طرف جب کہ تعین مرجع میں ہی ابتداء سے یہ تفرقہ چلا آیا ہے۔ اور پھر اہل کتاب کے لفظ میں بھی تفرقہ اور اختلاف ہے کہ وہ کس زمانہ کے اہل کتاب میں ہیں۔ اور پھر بقول آپ کے ایمان لانے والوں کا زمانہ بھی ایک نشاندہی کے ساتھ مقرر اور معین نہیں۔ تو پھر انصافاًفرمایئے کہ باوجود ان سب آفتوں کے یہ آیت قطعیۃ الدلالت کیونکر ٹھہرے گی۔ قرآن کریم کے کئی مقامات سے ثابت ہورہا ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 219
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 219
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/219/mode/1up
کہؔ اس دنیا کے زوال تک کفار اہل کتاب باقی رہیں گے پھر یہ تاویل کہ کسی وقت قیامت سے پہلے پہلے کل اہل کتاب مسلمان ہوجائیں گے کس طور سے صحیح ٹھہر سکتی ہے۔ کیا کوئی اور بھی آیت اپنے کھلے کھلے اور بیّن منطوق سے اس بات کی مصدق ہے کہ ضرور ہے کہ آخری وقت میں قیامت سے پہلے تمام اہل کتاب مسلمان ہوجائیں گے۔ قرآن کریم کی نصوص بینہ قطعیۃ الدلالت کو محض ایک ذوالوجوہ اور متشابہ آیت پر نظر رکھ کر ردّ کر دینا دیانت کا کام نہیں ہے۔ اللہ جلّشانہ فرماتا ہے کہ متشابہات کا اتباع وہ کرتے ہیں جن کے دل میں کجی ہے اور صراط مستقیم کے پابند نہیں ہیں۔ پھر وہب اور محمد بن اسحاق اور ابن عباس واقع موت کے قائل ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم موت مسیح پر صریح شہادت دیتے ہیں اور امام بخاری خود اپنا مذہب یہی ظاہر کرتے ہیں تو پھر باوجود ان مخالفانہ ثبوتوں کے قَبل موتہٖ کی ضمیر کیونکر قطعی طور پر حضرت عیسٰی ؑ کی طرف پھر سکتی ہے۔ اور میں نے آپ کے خالص مستقبل کا بھی پورا پورا فیصلہ کردیا ہے طالب حق کیلئے کافی ہے۔
پھر آپ اپنے پرچہ کے اخیر میں فرماتے ہیں کہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جہان کے مفسرین و جملہ صحابہ و تابعین مسیح ابن مریم کی موت سے منکر اور حیات جسمانی کے قائل ہیں اس کے جواب میں عرض کیا جاتا ہے۔ کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی عامی اور بے خبر مفسر ہوگا۔ ہمارے ساتھ اللہ جلّ شانہٗ اور اس کا پیارا اور برگزیدہ رسول ہے۔ کیا اس حدیث کے موافق جو کتاب التفسیر میں امام بخاری نے لکھی ہے۔ اور ابن عباس کا قول اسکی تائید میں ذکر کیا ہے۔ آپکے پاس اس پایہ کی کوئی حدیث ہے جسکے الفاظ متنازعہ فیہ کے بارے میں ابن عباس جیسے صحابی کی شرح ہی ہو تو وہ حدیث آپکو شائع کرنی چاہئے اور جیسا کہ اصح الکتب بخاری میں ابن عباس سے اِنِّی متوفّیک کی شرح اِنِّی مُمیتک منقول ہے۔ بھلا ایسی اصح الکتب میں سے کسی اور صحابی کے حوالہ سے متوفّیک کے کوئی اور معنے بھی تو ثابت کرکے دکھلاویں۔ آپ جانتے ہیں کہ بخاری تنقید میں اول درجہ پر ہے اور وہ حضرت عیسٰیؑ کی وفات بیان کرچکا ہے اور اسکے صفحہ ۶۶۵ میں ایک جلیل الشان صحابی ابن عم رسول اللہ متوفّیک کے معنے مُمیتک بتلا رہا ہے۔ اور جو آنکھیں رکھتا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ امام بخاری اس آل عمران کی آیت کو برموقعہ تفسیر فلمّا توفّیتنی کیوں لایا۔ اور ابن عباس کا قول کیوں پیش کیا۔ اور آیت فلمّا توفّیتنی کو کتاب التفسیر میں کیوں درج کیا۔ میں نے تو صحابی کیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمودہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیا۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 220
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 220
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/220/mode/1up
اورؔ صحابی بھی پیش کردیا۔ آپ اگر سچے ہوں تو اسی کتاب اصح الکتب سے کوئی حدیث اس پایہ کی پیش کریں جس سے حضرت مسیح کی زندگی جسمانی ثابت ہوتی ہو لیکن ایسا نہ کریں کہ آیت لیؤمننّ کی طرح کوئی ذوالوجوہ اور محجوب المفہوم حدیث پیش کردیں آپ جانتے ہیں کہ آیت لیؤمننّ کے متعلق چند روز کسی قدر ہم دونوں کا وقت ضائع ہوا۔ اور آخر آپ کا دعویٰ قطعیۃ الدلالت صریح باطل نکلا اور آپ نے جن پانچ دلیلوں پر حصر کیا تھا وہ ہباءً منثورًا کی طرح نابود ہوگئیں۔ حضرت آپ ناراض نہ ہوں۔ اگر پہلے سے آپ سوچ لیتے تو میرا عزیز وقت ناحق آپ کے ساتھ ضائع نہ ہوتا۔ اب جب کہ آپ کے ان اول درجہ کے دلائل کی جن کو آپ نے تمام ذخیرہ سے چن کر پیش کیا تھا۔ آخر میں یہ کیفیت نکلی تو میں کیونکر اعتبار کروں کہ آپ کے دوسرے دلائل میں کچھ جان ہوگی۔ اور آج جیسا کہ آپ کی طرف سے تین پرچے لکھے جاچکے ہیں میری طرف سے بھی تین پرچے ہوگئے- اب یہ چھ پرچے ہم دونوں کی طرف سے بجنسہٖ چھپ جانے چاہئیں پبلک خود فیصلہ کرلے گی کہ میں نے آپ کے دلائل پیش کردہ کو توڑ دیا ہے یا نہیں۔ اور آپ کی پیش کردہ آیت کیا درحقیقت قطعیۃ الدلالت ہے یا ذوالوجوہ بلکہ آپ کے طور پر معنے کرنے سے قابل اعتراض ٹھہرتی ہے یا نہیں۔ چونکہ مساوی طور پر ہم دونوں کے پرچے تحریر ہوچکے ہیں۔ تین آپ کی طرف سے اور تین میری طرف سے۔ اس لئے یہی پرچے بلا کم و بیش چھپ جائیں گے اور ہم دونوں میں سے کسی کو اختیار نہ ہوگا کہ غائبانہ طور پر کچھ اور زیادہ یا کم کرے۔ یہ پھر یاد رہے کہ تین پرچوں پر طبعی طور پر فریقین کے بیانات ختم ہوگئے ہیں اور اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جب پبلک کی طرف سے منصفانہ رائیں شائع ہوں گی اور ثالثوں کے ذریعہ سے صحیح رائے جو حق کی مؤ یّد ہو پیدا ہوجائے گی۔ تو اس تصفیہ کیلئے آپ تحریری طور پر دوسرے امور میں بھی بحث کرسکتے ہیں۔ لیکن اس تحریری بحث کیلئے میرا اور آپ کا دہلی میں مقیم رہنا ضروری نہیں۔ جب کہ تحریری بحث ہے تو دور رہ کر بھی ہوسکتی ہے۔ میں مسافر ہوں اب مجھے زیادہ اقامت کی گنجائش نہیں۔
ملاحظہ:۔اس مباحثہ سے متعلق مولوی محمد بشیر صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب کے مابین جو مراسلت ہوئی اور’’ الحق ‘‘میں طبع شدہ ہے ذیل میں اس غرض سے شائع کی جاتی ہے کہ تا اس زمانہ کے مولویوں کی طرز مناظرہ اور ان کی علوم رسمیہ سے وابستگی اور علم قرآن مجید سے بیگانگی پوری طرح آشکارا ہوجائے۔ شمس

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 221
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 221
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/221/mode/1up
مرؔ اسلت نمبر(۱)
مابین
مولوی محمد ؐ بشیر صاحب
اور
مولوی سید محمدؐ احسن صاحب
مولوی محمد بشیر صاحب
حامداً مصلیاً مبسملًا
مکرم معظم بندہ جناب مولوی محمد احسن صاحب دام مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ عنایت نامہ مورخہ ۲؍ ربیع الثانی پہنچا۔ مشرف فرمایا مندرجہ پر آگاہی حاصل ہوئی چونکہ بحث حیات و وفات مسیح علیہ السلام کی مبنی ادلہ شرعیہ پر ہے الہام کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ اور گو جناب مرزا صاحب کوالہام میں کیسا ہی ید طولیٰ ہو لیکن خاکسار کے زعم میں علوم رسمیہ میں آپ کو ان پر ترجیح ہے اس لئے آپ کو میں احق بالمباحثہ جانتا ہوں۔ علاوہ اس کے خاکسار کے اور آپ کے درمیان میں جو علاقہ محبت قبل اس کے کہ آپ جناب مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کے معتقد ہوں مستحکم تھا وہ اظہر من الشمس ہے۔ گویا ہم دونوں مصداق اس شعر کا تھے۔ ؂ وکنّاکندمانی جذیمۃ حقبۃ+ من الدھرحتّٰی قیل لن یتصدعا۔ اور یہ محبت محض دینی تھی نہ دنیوی اور جب سے آپ جناب مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کے معتقد ہوئے ہیں۔ جب سے ہم دونوں مصداق اس شعر کا ہیں ؂ فلما تفرقنا کانی ومالکا لطول اجتماع لمؔ نبت لیلۃ معا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 222
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 222
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/222/mode/1up
اور یہ ہجر ان بھی محض دین کیلئے ہے نہ کسی غرض دنیوی سے اور اس مرض ہجران کا علاج میرے نزدیک کوئی نہیں ہے۔ سوا اس کے کہ میرے اور آپ کے درمیان میں مباحثہ تحریر حیات و وفات مسیح علیہ السلام میں محض اظہارًا للصواب واقع ہوجاوے کیونکہ میں سچے دل سے آپ سے کہتا ہوں کہ اگر وفات میرے نزدیک ثابت ہوجاوے گی تو میں بے تامل اپنے قول سے رجوع کر لوں گا۔ واللّٰہ علی ما اقول وکیل اور آپ کے ساتھ بھی مجھ کو حسن ظن یہی ہے۔ پس امید قوی ہے کہ بعد مباحثہ کے سبب مرض انشاء اللہ تعالیٰ زائل ہوجائے گا۔ رہے لوازم بشریت و ظہور فساد فی البر و البحر سو اگر میں اور آپ تہذیب عقلی و نقلی کا التزام کر لیں تو ان کے مفاسد و شرور سے بچنا آسان امر ہے اور طریقۂ مناظرہ مستحسن یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہم میں سے مدعی بنے اور دوسرا مجیب اور مدعی کی تین تحریریں ہوں نہ کم نہ زیادہ اور مجیب کی دو تحریریں ہوں نہ کم نہ زیادہ۔ اس کے بعد عکس الامر ہو یعنی جو مجیب تھا وہ مدعی بنے اور مدعی مجیب اور یہاں بھی مدعی کی تین تحریریں ہوں نہ کم نہ زیادہ۔ اور مجیب کی دو تحریریں ہوں نہ کم نہ زیادہ۔ اس طریقہ میں فائدہ یہ ہے کہ بحث اس امر کی اٹھ جائے گی کہ دراصل کون مدعی ہے اور کون مجیب اور ہر ایک کو اپنے دعوے کی دلیل بیان کرنے اور مخالف کی دلیل کے رد کرنے کا علیٰ سبیل المساوات خوب موقع ملے گا۔ اور پرچے بھی دونوں کے مساوی العدد ہوجائیں گے- خاکسار کی جانب سے آپ کو اختیار ہے چاہے پہلے مدعی بنئے چاہے مجیب۔ امید کہ جو اب رقعہ ھٰذا سے جلد اور ضرور مشرف فرمایئے والسلام خیر الختام۔ مورخہ ۷؍ ربیع الثانی ۱۳۰۹ ؁ھ
محمدؐ بشیر عفی عنہ
مولوی سید محمدؐ احسن صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مبسملًا محمدلًا مصلیّاً مسلمًا۔ مخدوم ومکرم جناب مولوی محمد بشیر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ نامہ نامی عزثانی نے مذاق و چاشنی قند مکرر عطا فرما کر سرفراز و ممتاز فرمایا اور درخواست مکرر مباحثہ کو دیکھ کر حیران ہوا کہ مولانا صاحب تو معرکۃ العلماء میں دہلی سے بقول خود فتح عظیم حاصل کر کے تشریف لائے ہیں۔ اور

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 223
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 223
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/223/mode/1up
ایکؔ ایسے نامی گرامی شخص کو جو دنیا بھر میں معروف و مشہور ہے شکست دی ہے پھر اس ہیچمدان و نالائق سے درخواست مباحثہ کیوں ہے۔ من المثل السائر فی الورٰی وکل الصید فی جوف الفرٰی یہ امر مجرب ہے۔ کہ اعالی پر فتح پا کر ادنیٰ کی طرف توجہ نہیں رہتی۔ یا الٰہی! یہ عالم رؤیا ہے یا یقظہکیونکہ جناب کا صرف درخواست مباحثہ کرنا اس ہیچمدان سے خصوصاً کل بروز جمعہ جلسہ وعظ میں باعث نہایت عزت اور فخر کا ہے اگرچہ روبرو جناب کے ہیچمدان محض ساکت و صامت ہی ہوجاوے تو بھی باعث فخر ہے اکھاڑے میں نامی پہلوان سے بھاگے ہوئے کو بڑی عزت حاصل ہوجاتی ہے۔ کاش اگر یہ درخواست مباحثہ قبل اس فتح عظیم کے واقع ہوتی تو بھی شائد اپنے موقع اور محل پر ہوتی۔ یاالٰہی یہ ترقی معکوس کیسی ہے۔ ؂ اینکہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بخواب۔ ہر حال اس خواب کی تعبیر جو خیال ناقص میں آئی ہیخیرلنا وشر لا عدائنا پھر عرض کروں گا۔ جواب عنایت نامہ گذارش کرتا ہوں۔
گذارش اول
جناب والا نے بروقت تشریف آوری کے دہلی سے جب نیاز مند خدمت مبارک میں حاضر ہوا تو زبان فیض ترجمان سے یہ مضمون ارشاد فرمایا تھا الفاظ کچھ ہوں مگر مطلب یہی تھا کہ یہ مباحثہ میرا علی الرغم مولانا سید نذیرحسین صاحب و محمد حسین وغیرہ کے واقع ہوا ہے بلکہ ان علماء نے بہ سبب نہ شریک کرنے انکے کے مباحثہ میں حتیّٰ کہ جلسہ بحث میں بھی جب شریک نہ کیا تو بخدمت حضرت مرزا صاحب سلمہ ان علما نے یہ تحریر کر بھیجا کہ اس مباحثہ کی فتح وشکست کا اثر ہم پر نہ پہنچے گا۔ اور یہ خبر سب دہلی میں بھی مشہور ہوگئی تھی اور یہ بات علاوہ ہے کہ یہ درخواست فریق ثانی کی تھی مگر آپکی رائے عالی بھی یہی تھی۔ اسی ضمن میں اور بھی چند باتیں ارشاد فرمائیں جن کو پھر عرض کروں گا۔ آخر اسی جلسہ میں یہ بھی فرمایا کہ بشرط اسکے کہ تم ہماری تحریر میں کوئی نقص و جرح نہ کرو تو ہم اسکو سنا بھی دیویں گے۔ اس پر اٰمنّا وسلّمناکہا گیا اور وعدہ یہ قرار داد پایا کہ غریب خانہ پر بوقت صبح آپ تشریف لاویں گے اور خلوت میں سب سنادیا جاوے گا۔ صبح کو ہیچمدان منتظر رہا کہ مولوی صاحب حسب الوعدہ اب تشریف لاتے ہوں گے الکریم اذا وعد وفا لیکن یہ امید مبدل بیاس ہوگئی ؂ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔صرف نوازش نامہ صادر ہوا جس میں چند امور تحریر فرمائے گئے تھے منجملہ ان کے خلف وعدہ کا یہ عذر تھا۔ کہ یہ مباحثہ تم کو تمہارے مکان پر سنانا وجتانا خلاف مصلحت ہے کیونکہ خدا خدا کرکرتو مجھ پرسے الزام و اتہاؔ م

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 224
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 224
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/224/mode/1up
رفع ہوا ہے۔اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مولوی صاحب ایسے مباحثہ کا اس ہیچمدان سے اخفا کرنا جس کی نسبت سنتا ہوں کہ ہمارے مولوی صاحب کو فتح ہوئی اور حضرت مرزا صاحب کی شکست اور برملا ایک شہر کلاں دہلی میں واقع ہوا۔ ہر ایک تحریر پر فریقین کے دستخط ہوئے۔ جس میں تحریف و تبدیل کی گنجائش نہیں اور عنقریب بذریعہ طبع اس کو آپ شائع بھی کرنے والے ہیں خواہ ادھر سے شائع ہو یا نہ ہو پھر اس کے اخفا میں کیا مصلحت تھی ؂ نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفلہا۔ اگر کوئی مقدمہ اس کا بطور مقاصد کے لکھا جارہا ہے جیسا کہ سننے میں آیا ہے تو وہ بعد از جنگ یا د آید کا مصداق ہے۔ اصول مقاصد مباحثہ میں اس کو دخل ہی کیا ہے ۔جملہ مقدمات مقاصد جو مناط اور مدار استدلال ہیں سب اس میں موجود اور مرتب ہوچکے ہوں گے پھر اس کے اخفا میں کبھی تو یہ عذر فرمانا کہ وہ تحریرات ابھی پراگندہ ہیں اس لئے بالفعل بھیج نہیں سکتا ہوں اور کبھی اس کے اخفا میں کسی مصلحت کی رعایت فرمانا فہم ناقص میں نہیں آتا خصوصاً ایسی حالت میں کہ ہیچمدان آپ کو اظہار حق و صواب میں ایک شمشیر برہنہ تصور کرتا ہے۔ الحاصل جب کہ اس ہیچمدان کی نسبت زبانی یہ تاکید تھی کہ یہ مباحثہ تجھ کو جب سنایا جاوے گا کہ تو اس میں بالکل خاموش رہے اور پھر باوجود قبول کر لینے اس شرط کے وہ سنایا بھی نہ گیا کہ مصلحت کے خلاف تھا تو اب احقر کو واسطے مباحثہ کے امر فرمانا مناقض اس امر کے ہے جس کا حکم اول ہوچکا ہے امور متناقضہ کے ساتھ کسی مجھ سے عاجز ناتوان یا ہیچمدان کا مکلف کرنا تکلیف مالا یطاق ہے ۱؂ اب اگر مباحثہ ہی مطلوب ہے تو اول وہی مباحثہ دہلی واسطے مطالعہ کے روانہ فرمادیا جاوے اسی پر نظر عاجز ہوسکتی ہے۔
گذارش ثانی
مدت تخمیناً سات آٹھ ماہ کی گذری ہوگی کہ جب حضرت مرزا صاحب کے بارے میں فیمابین احقر و جناب کے تذکرہ ہوا کرتا تھا تو جناب نے اس ہیچمدان کو مشورہ بدیں خلاصہ مضمون دیا کہ اس بارہ میں برملا گفتگو ہونا مناسب نہیں عوام بھڑک جاتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ خلوت میں ہی گفتگو ہوا کرے احقر نے بھی اس کو مصلحت سمجھ کر قبول کیا اور یہ قرار داد ہوا کہ تمہارے ہی مکان میں یہ جلسہ ہوا کرے گا۔ چنانچہ خلوت میں تین جلسے ہوئے اور ہیچمدان نے اللہ تعالیٰ کو شاہد کر کر اول بدیں خلاصہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 225
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 225
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/225/mode/1up
مضموؔ ن اقرار کیا کہ چونکہ یہ جلسہ خالصاًللہ ہے اس واسطے میں عہد کرتا ہوں کہ جو امر احقر کے فہم ناقص میں صواب ہو اور نفس الامر میں غلط تو اللہ کے واسطے آپ اس کو ضرور ردّ فرماویں گے اور میں اس کو قبول کروں گا۔ علیٰ ھٰذا القیاس جناب والا نے بھی احقر کے اس اقرار کے بعد خود اللہ تعالیٰ کو گواہ قرار دے کر یہ مضمون ارشاد فرمایا کہ میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ اس میں سر موتجاوزنہ ہوگا۔ مطلب یہی تھا الفاظ گو اور ہوں۔ بعد اس عہد و پیمان کے احقر نے مسودہ اعلام الناس حصہ اول جناب والا کو سنانا شروع کیا۔ جس جگہ جناب نے اس میں بطور تائید کے کوئی مضمون ارشاد فرمایا اس کو بھی میں نے درج کر لیا۔ اور مجھ کو خوب یاد ہے کہ کسی مضمون پر آپ نے جرح نہیں کیا بلکہ تائیداً کچھ ارشاد فرمایا۔ شائد ایک جگہ جرح کیا تھا اس کو میں نے کاٹ دیا تھا اور اس پر بڑی دلیل ایک یہ ہے کہ حصہ اول اعلام کو شائع ہوئے عرصہ تخمیناً سات آٹھ ماہ کا ہوا ہوگا اور جناب کے پاس بھی نسخہ مطبوعہ اس کا پہنچ گیا ہے جو مضمون تائیداً آپ کی طرف سے اس میں لکھا گیا ہے اس کی تکذیب آپ نے اب تک شائع نہیں فرمائی اگر آپ مقام توقف میں نہ ہوتے تو اب تک ضرور اس کی تکذیب کا اشتہار دے دیتے۔ الحاصل تین جلسے متفرق ہوچکے تھے جو عوام نے جناب پر اتہام اور الزام لگانے شروع کئے پھر جلسہ خلوت کا نہ ہوا ؂ آں قدح بشکست وآں ساقی نماند۔ پس جب کہ حصہ اول میں تخمیناً دو ایک ورق سنانے سے باقی رہ گئے ہیں یا شاذو نادر کوئی ایک آدھ مضمون بھی رہ گیا ہو جو بروقت نظرثانی کے درج کیا گیا ہو۔ غرض کہ حصہ اول آپ کا سنا ہوا ہے۔وللاکثرحکم الکل پھر مولانا میرا کیا قصور ہے۔ مثل مشہور ہے کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ ان سب واقعات سے مجھ کو پوری جرأت ہوگئی تب حصہ اول کو احقر نے حق سمجھ کر شائع کردیا پھر اگر تدارک مافات کرنا ہے تو حصہ دوم بھی شائع ہوچکا ہے جس کو جناب نے ابھی شاید مطالعہ نہیں فرمایا ہوگا اور مدت ہوئی کہ حصہ اول تو حسب الطلب خدمت اقدس میں حاضر کیا گیا ہے جس جس جگہ دونوں حصوں میں جناب کو کلام ہو جواب و رد تحریر فرمایئے انشاء اللہ تعالیٰ اگر حق ہوگا تو قبول کرلوں گا اور بڑا باعث حصہ دوم کی اشاعت کا یہ بھی ہوا کہ ایک روز اثنائے راہ میں جناب نے چپکے سے یہ مضمون فرمایا کہ حیات مسیح فی الحقیقت ثابت نہیں اگرچہ خلاف مذہب جمہور ہے مگر اس کو کسی سے تم کہو مت۔ مطلب یہی تھا الفاظ گو اور ہوں۔ جب چاروں طرف سے آپ پر عوام الزام لگانے لگے تب آپ نے وعظ میں حضرت اقدس مرزا صاحب کو دجال کذاب تعریضاً یا کنایتاً فرمایا۔ جب بھوپال میں اس وعظ کی خبر مشہور ہوئی تو ایک روز میرے ایک محب مکرم احقر سے اثنائے راہ محلہ نظر گنج میں فرمانے لگے کہ مولوی محمد بشیر صاحب تو حضرت مرزا صاحب کو دجال کذاب کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ آج کل کی روایات کا کیا اعتبار ہے مولوی صاحب سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 226
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 226
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/226/mode/1up
بالمشاؔ فہ دریافت کر لیا جاوے۔ احقر اور محب ممدوح آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور محب ممدوح نے اس بارے میں بطور خود خواہ کن ہی الفاظ سے ہو جناب سے استفسار کیا۔ جناب نے احقر کے سامنے در جواب یہ مضمون ارشاد فرمایا کہ میں نے دجال کذاب نہیں کہا۔ مرزا صاحب کو اس امر میں خطا پر جانتا ہوں۔ خواہ خطا الہامی ہو یا خطاء اجتہادی یا خطاء عمدی۔ الفاظ کچھ ہوں مطلب یہی تھا۔ ان واقعات کا افشاء احقر نے آج تک نہیں کیا تھا۔ لیکن جب خدام جناب احقر کو بہت تاکید سے کسی مصلحت کے سبب مباحثہ پر مجبور فرماتے ہیں تب مجبور ہوکر یہ اسرار مخفیہ اظہاراً للصواب ظاہرکئے جاتے ہیں پھر مع ھٰذا ہیچمدان کومباحثہ سے احقاق حق اور اظہار صواب کی امید ہو تو کیونکر ہو اس کی کیا سبیل ہے وہ ارشاد ہو تو بعد اس کے تعمیل ارشاد کے لئے حاضر ہوں۔
گذارش سوم
عنایت نامہ میں الہام کو جو جناب نے ادلہ شرعیہ سے خارج فرمایا ہے یہ مسئلہ بھی درمیان فحول علماء کے طویل الذیل ہے اور ہیچمدان اس کی بحث سے اعلام الناس حصہ دوم میں بطور استدلال علوم رسمیہ کے اپنے زعم میں فارغ ہوچکا ہے۔ پس یہ بھی ضرور ہے کہ جناب اس پر قبولاً یا رداً نظر فرمالیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہیچمدان اعلام الناس میں یہ سب ابحاث درج کر کر فارغ ہوچکا ہے۔ بلکہ حضرت اقدس مرزا صاحب سلمہ ازالہ اوہام میں تمام ابحاث متعلقہ مسئلہ متنازعہ فیہا کو درج فرماچکے ہیں اور جملہ مراتب مندرجہ عنایت نامہ( کہ کبھی مدعی کو منصب مجیب کا دیدینا چاہئے اور کبھی مجیب کو منصب مدعی کا)طے فرماچکے ہیں پس جو جو امور کہ جناب کی رائے کے خلاف ہیں خواہ ازالہ اوہام میں ہوں یا اعلام الناس میں اولا اظہارًا للصواب واحقاقا للحق بطور مناظرہ حقہ کے ان میں بھی نظر فرما لیجئے۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ جناب نے اثناء مباحثہ دہلی میں مکرر سہ کرر یہ وعدہ بھی فرمایا ہے کہ ازالہ کا رد میں خوب بسط سے کروں گا۔ پس اول ان سب رسائل کا جواب ہوجانا بھی ضرور ہے اس کے بعد اگر احقر نے آپ کے جوابات کو تسلیم کر لیا۔ فہو المراد ورنہ ہیچمدان کی نظر اظہارًا للصواب بشرائط مفیدہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اس جانب سے تو اپنے زعم میں صحیح ہو یا خلاف پورا اتمام حجت کردیا گیا ہے۔
گذارش چہارم
یہ جو ارشاد فرمایا گیا کہ مرزا صاحب کو الہام میں کیسا ہی یدطولیٰ حاصل ہو لیکن جناب کے زعم

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 227
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 227
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/227/mode/1up
میںؔ علوم رسمیہ میں اس ہیچمدان کو ان پر ترجیح ہے۔ یہ ہیچمدان احق بالمباحثہ ہے۔جن علماء واولیا کے نفوس قدسیہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو الہام میں یدطولیٰ حاصل ہو ان کو علوم رسمیہ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ بھی فحول علما کا تسلیم کیا ہوا ہے اور اپنے محل پر ثابت ہے۔ یہاں تک کہ رسائل منطق اور ان کے حواشی میں علماء متقشفہ نے بھی اس مسئلہ کو مسلم کر کر لکھ دیا ہے کہ فنون منطق وغیرہ علوم رسمیہ کی حاجت نفوس قدسیہ کو ہرگز نہیں ہوتی اور جملہ قواعد صحیحہ اور اصول حقہ ان علوم کے ان کے اذہان میں ایسے مرکوز ہوتے ہیں کہ کوئی مسئلہ علمی متعلق ان فنون رسمیہ کے ان سے خلاف صادر نہیں ہوتا۔ پس اگر تسلیم بھی کیا جاوے کہ حضرت مرزا صاحب کو علوم رسمیہ میں مزاولت کم ہے تو ان کو باوجود حاصل ہونے یدطولیٰ کے الہام میں اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور اسی وجہ سے ایسے علماء صاحب نفوس قدسیہ ملہمین کا کوئی عالم علوم رسمیہ کا مقابل و ردیف نہیں ہوسکتا ومن المثل السائر فی الوری۔ ومن الردیف و قد رکبت غضنفرا مولوی شاہ ولی اللہ صاحب حکیم امت رحمۃ اللہ علیہ علوم حدیثیہ اسماء الرجال و اصول فقہ و اصول حدیث کی نسبت حجۃ اللہ میں ارشاد فرماتے ہیں۔ وھذا بمنزلۃ اللب والدر عند عامۃ العلماء و تصدی لہ المحققون من الفقہاء ھذا۔ وان ادق العلوم الحدیثیۃ باسرھا عندی واعمقھا محتدا وارفعھا منارا و اولی العلوم الشرعیۃ عن اٰخرھا فیما اری واعلاھا منزلۃ واعظمھا مقدارا ھو علم اسرار الدین الباحث عن حکم الاحکام ولمیاتھا واسرار خواص الاعمال و نکاتھا فھو واللّٰہ احق العلوم بان یصرف فیہ من اطاقہ نفائس الاوقات ویتخذہ عدۃ لمعادہ بعد مافرض علیہ من الطاعات الی ان قال ولا تبین اسرارہ الالمن تمکن فی العلوم الشرعیّۃ باسرھا واستبد فی الفنون الالٰھیۃ عن اخرھا ولا یصفوا مشربہ الا لمن شرح اللہ صدرہ لعلم لدنی وملاء قلبہ بسر وھبی وکان ما ذلک وقادالطبیعۃ سیال القریحۃ حاذقافی التقریر والتحریر بارعا فی التوجیہ و التحبیر الٰی اٰخرہ اور اس احقر کو جو جناب نے حسن ظن فرما کر ایسا بڑھا دیا کہ مرزا صاحب سے احق بالمباحثہ قرار دیا یہ حسن ظن خلاف واقعہ ہے اور عکس القضیہ ؂ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ ایسا حسن ظن تو وضع الشیء فی غیر محلّہٖ ہے اور اگر جناب والا کے نزدیک یہ حسن ظن فی محلہ ٖ ہے تو وہی مباحثہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 228
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 228
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/228/mode/1up
دہلیؔ واسطے مطالعہ کے روانہ فرمایا جاوے اس پر بغو رو امعاون نظر کرلوں گا۔
گذارش پنجم
ایک مشورہ ضروری خدمت مبارک میں عرض کرتا ہوں کہ آیت ۱؂ کو جناب نے حیات مسیح میں قطعی الدلالت بڑے زور و شور سے ثابت کیا ہے۔ علماء دہلی حضرت میاں صاحب مدظلہ وغیرہ و نیز مولوی محمد حسین بٹالوی اس آیت کو حیات مسیح میں قطعی الدلالت نہیں سمجھتے۔ چنانچہ جناب نے بھی بروقت ملاقات اس ہیچمدان سے یہ امر بیان فرمایا تھا اور نیز بذریعہ تحریرات آمدہ از دہلی یہ امر احقر کو معلوم ہوا تھا اور نیز مولوی محمد حسین نے اشاعہ میں صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ آیت مطلوب میں اشارہ کرتی ہے۔ اندریں صورت یہ سب علماء استدلال میں آپ سے مخالف ہیں اگر اولاً مباحثہ جناب ان علماء سے ہوجاوے اور پہلے باہمی آپس میں اس کا تصفیہ کر لیا جاوے تو بہتر ہے کہ اس کا ثمرہ عظیم حاصل ہوگا۔ احقر بھی اس امر خاص میں ان علماء کا موافق ہے جب تک کہ وہ حق پر رہیں بعد تصفیہ باہمی کے جو امر حق ہوگا احقر تک بھی پہنچ جائے گا اور اگر یہ مشورہ پسند خاطر عاطر نہ ہو تو وہی مباحثہ دہلی روانہ فرما دیا جاوے- انشاء اللہ تعالیٰ احقا قاً للحق اس پر بہت غور وا معان سے نظر کر لوں گا۔
گذارش ششم
علاقہ محبت اور ہجران کی نسبت جو جناب نے فرمایا اس کی نسبت یہ گذارش ہے کہ فی الحقیقت احقر کو تو جناب کی خدمت میں اب تک ویسی ہی محبت ہے جیسا کہ سابق میں تھی اس وجہ سے جو اشعار عربی جناب نے لکھے ہیں ان کو بار بار پڑھتا ہوں اور دل نیاز منزل پر ایک حالت رقت کی طاری ہوتی ہے اور ان کے ساتھ ان اشعار کو بھی ضم کرتا ہوں ؂
ولقد ندمت علی تفرق شملنا
ندما افاض الدمع من اجفانی
ونذرت ان عاد الزمان یلمنا
ماعدت اذکر فرقہ بلسانی
واقول للحساد موتوا حسرۃ
واللہ انی قد بلغت امانی
طفح السرور علیّ حتّٰی انہ
من فرط ما قد سرنی ابکانی
یاعین ما بال البکالک عادۃ
تبکین فی فرح وفی احزانی
اور عبارت جناب میں یہ جو منطوق بالمفہوم ہے کہ جب سے اس مسئلہ کو تم نے تسلیم کیا ہے۔ تب سے ہجران

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 229
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 229
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/229/mode/1up
اختیاؔ ر کیا گیا ہے یہ امر نفس الامر کے خلاف معلوم ہوتا ہے شاید واسطے خاطر داری اور مدارات عوام کے مصلحتاً یہ جتلانا منظور ہے کہ ہم ابتدا سے اس مسئلہ میں مخالف ہیں۔ نہ متوقف۔ کیونکہ جس روز تک جناب والا دہلی سے واپس تشریف لائے ہیں اس روز تک تو ہجران کی ہاء ہوز بھی موجود نہ تھی حتیّٰ کہ بنا برمدارات احقر کے کسی قدر علماء دہلی کی شکایت غیر مہذبی اور مرزا صاحب کی ثناء تہذیب احقر سے بیان فرمائی اور مباحثہ کے سنانے کا بھی وعدہ غریب خانہ احقر پر تشریف لا کر فرمایا گیا اور دہلی سے ایک عنایت نامہ بنام احقر درجواب عریضہ ارسال ہوا جس میں کچھ تذکرہ مجمل مباحثہ کا تھا۔ اور اس سے پہلے وقت تشریف بری دہلی کے جناب والا نے بمعیت چند اشخاص معزز و مہذب اس احقر کے پاس قدم رنجہ فرمایا اور ارادہ جانے کا دہلی کو بغرض مباحثہ ظاہر فرمایا گیا گویا احقر سے رخصت ہو کر دہلی تشریف لے گئے اور اس سے پہلے جب مولوی محمد حسین صاحب اور جناب سے کسی مسئلہ میں کچھ مباحثہ ہوا تھا اور احقر خدمت مبارک میں حاضر ہوا تو جناب والا نے اپنی زبان فیض ترجمان سے اس کل مباحثہ کی زبانی نقل فرمائی اور یہ بھی ارشاد کیا کہ بعد اللّتیا والّتی میں نے تو مولوی محمد حسین صاحب کو دجال کذاب کہہ دیا۔ یہ سب حال سن کر احقر کو اس امر سے نہایت رنج ہوا اور بعض احباب سے اس رنج کو احقر نے ظاہر بھی کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ جو علماء مشہورین میں سے ہیں ایسا معاملہ و مکالمہ مناسب نہیں تھا یہ سب واقعات اس امر کے شواہد ہیں کہ جناب والا کو مرزا صاحب کے امر میں بسبب اس کے کہ ان کے دعاوی حیّزامکان میں ہیں توقف تھا اور حیّز امتناع میں نہ سمجھے گئے تھے۔ چنانچہ روایت ثقات سے یہ امر بھی معلوم ہوا تھا کہ جناب نے حصہ اول اعلام کی نسبت ارشاد فرمایا کہ اس میں جو ادلّہ مندرج ہیں وہ ادلّہ امکان کے اچھے لکھے ہیں۔ خلاصہ سب معروضات کا یہ ہے کہ سابق اس سے دعاوی مرزا صاحب آپ کے نزدیک سلسلہ ممکنات شرعیہ میں داخل تھے نہ ممتنعات شرعیہ مین۔ اسی واسطے جناب کو توقف تھا اور یہ واقعات سب کے دیکھے ہوئے اور سنے ہوئے ہیں۔ اب اس کے خلاف کے اظہار میں جناب کی کوئی مصلحت ہے تو احقر کو اس میں کچھ کلام نہیں۔ صرف اظہاراً للصواب ایک امر حق ظاہر کیا گیا اور یہ بطور مبتدا ئالحقّ کہا گیا ہے اب دیکھئے خبر اس کی مُرٌّ واقع ہوتی ہے یا حُلْوٌ۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 230
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 230
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/230/mode/1up
گذؔ ارش ہفتم
۱؂ کے اثر سے محفوظ رہنے کی نسبت جو ارشاد ہوا۔ وہ اگرچہ آپ کی ذات محبت سمات سے متوقع ہے مگر آپ کے معتقدین اور متعظمین سے کیونکر متوقع ہو۔ جناب کو اگر اپنے دل پر پورا قابو ہے تو دوسروں پر کیا قدرت و اختیار ہے قلب المؤمن بین اصبعین من اصابع الرحمٰن۔ بذرائع معتبر میں نے سنا کہ ایک جلسہ میں جو حال میں منعقد ہوا تھا اس میں میرے سچے دوست مجمع البر والخیر اسم بامسمّٰے مولوی خیر اللہ صاحب وغیرہ نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ مولوی محمد احسن یا تو اس مسئلہ سے توبہ کریں یا مباحثہ کر لیں ورنہ سلام کلام جملہ حقوق اسلام ان سے ترک کئے جاویں اور زمرہ اہلحدیث سے خارج۔ اس کا تدارک جناب والا کی طرف سے کیا واقع ہوا ان کے مشورہ کے بموجب ایک عنایت نامہ واسطے طلب مباحثہ کے تحریر فرمایا گیا جس سے بسبب ایسے شرور و فساد کے نیاز مند کوسوں بھاگتا ہے اور کل بروز جمعہ بھی جلسہ وعظ میں بھی یہی اعلان کیا گیا۔ پھر احقر کو اظہار صواب اور احقاق حق کی امید باوجود دخل دینے ایسے مجمع الخیروں کے کیونکر ہو اس کی کیا سبیل ہے۔
گذارش ہشتم
طرز مناظرہ جو تبدیل فرمایا گیا ہے اور یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ایک میعاد کے بعد مدعی مجیب بن جاوے اور مجیب مدعی۔ یہ بھی رائے ناقص میں مستحسن نہیں معلوم ہوتا۔ اگرچہ جناب نے اس کو بہت غور اور فکر سے ایجاد کیا ہو کیونکہ ایسا انقلاب اور تبدیل بحث آداب مناظرہ سے رائے ناقص میں بالکل خلاف ہے غصب منصب جو علماء و نظار کے نزدیک مذموم ہے ایسی صورت میں اس کا ارتکاب کرنا پڑ جاوے گا۔ علاوہ بریں یہ عرض ہے کہ مباحثہ تو حیات و ممات ہی میں ہے اور جناب والا مدعی حیات کے ہیں پس جب کہ جناب مدعی حیات کے نہ رہیں گے۔ اور اس دعوے سے دستبردار ہوجاویں گے تو بحث ختم ہوچکی۔ آپ خودبخود قائل ممات کے ہوگئے۔ کیونکہ حیات و ممات میں کوئی واسطہ تو ہے ہی نہیں جو بحث باقی رہے۔ اجتماع الضدّین تو محالات میں سے ہے حیات بھی نہ ہو اور ممات بھی نہ ہو اس کے کیا معنے۔ ہاں اہل دوزخ کے واسطے ایسا کچھ ارشاد ہوا ہے کہ ۲؂ حیات و ممات میں ایسا تضاد ہے جیسا کہ وجود و عدم میں۔ پھر یہ بات فہم ناقص میں نہیں آتی کہ جناب والا ایک میعاد کے بعد دعویٰ حیات سے بھی دست بردار ہوجاویں۔ اور پھر بھی ممات کے قائل نہ ہوں۔ اور بحث جاری رہے اس میں جناب والا کو کیا اظہار حق و صواب مرکوز خاطر عاطر ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 231
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 231
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/231/mode/1up
اندرؔ یں صورت فریقین کے پرچہ مساوی نہ رہیں گے۔ ۱؂ جناب والا نے یہ مسئلہ علمیہ عنایت نامہ میں ایسا مندرج فرمایا ہے کہ ہیچمدان کی سمجھ میں نہیں آتا اور اغلب کہ دیگر ہمہ دانوں کی سمجھ میں بھی نہ آوے گا پس طرز جدید رائے ناقص میں مستحسن نہیں ہے۔ وہی طرز اور وہی مباحثہ محررہ جناب جس سے دہلی میں فتح ہوئی ہے کافی ہے کیونکہ مجرب بھی ہوچکا ہے اندریں صورت وہی مباحثہ دہلی ہیچمدان کے پاس روانہ فرمادیجئیے۔ حق ہوگا تو قبول کرلوں گا ورنہ نظر کر کر کچھ عرض کروں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
گذارش نہم
جناب والا جب دہلی سے واپس تشریف لائے تو بروقت ملاقات کے احقر سے فرمایا تھا کہ جب حضرت میاں صاحب مدّظلّہٗ نے بہت سا کچھ اصرار کیا کہ اگر مباحثہ کرتے ہو تو اس میں مولوی محمد حسین صاحب وغیرہ سے ضرور بالضرور مشورہ کر لو کیونکہ تلاحق افکار سے علم میں ترقی ہوجاتی ہے تب آپ نے میاں صاحب سے کہا کہ مجھ کو اپنی ادلّہ پر ایسا وثوق ہے کہ حاجت اعانت اور مشورہ کی ہرگز نہیں ہے مطلب یہی تھا گو الفاظ اور ہوں۔ یہ سب قصہ جب سے احقر نے آپ کی خاص زبان فیض ترجمان سے سنا ہے اگرچہ بذریعہ آمد خطوط بھی معلوم ہوا تھا تب سے احقر نہایت مضطرب اور بے قرار ہے کہ وہ ادلّہ قطعیہ دفعتاً کیونکر غیب الغیب سے عالم شہود میں پیدا و ظاہر ہوگئیں کہ نہ حضرت شیخ الکل مدّظلّہٗ کے خیال میں آئیں اور نہ مولوی محمد حسین وغیرہ کی قوت متخیلہ میں گذریں اور تعجب پر تعجب یہ ہے کہ روایت عدول و ثقات سے سنا گیا کہ چند روز قبل تشریف بری دہلی کے آپ نے بھی برملا فرمایا تھا کہ حیات مسیح پر کوئی دلیل قطعی نہیں معلوم ہوتی۔ شرق سے غرب تک بھی اگر کوئی تفحص کرے تو بھی ایسی دلیل نہ ملے گی پس جب کہ وہ ادلّہ قطعیہ دفعتاً غیب الغیب سے عالم شہود میں آگئی ہیں اور مباحثہ دہلی میں پیش ہوکر صورت فتح وغلبہ بھی پیدا ہوگئی ہے تو وہ ادلّہ قطعیہ محررہ پیش شدہ بعینہا ہیچمدان کے پاس روانہ فرمادی جاویں۔ بھلا جب وہ ادلّہ قطعی الدلالت ہوں گی تو احقر انکو کیونکر قبول نہ کریگا۔ اور جو مقدمہ اسکا لکھا جارہا ہے اگر آپ چاہیں تو اسکو نہ دکھلایئے کیونکہ وہ مقدمہ غایت الامر یہ ہے کہ بطور مبادی کے ہوگا۔ نہ بطور مقاصد اور اصول مطالب کے کیونکہ ایسے اصول و مقدمات مقاصد سب قبل ہی سے ممہد ہوچکے ہوں گے اصول مقاصد میں اسکو دخل ہی کیا ہے۔
گذارش دہم
جناب کو معلوم ہے کہ یہ احقر دس بجے سے شام تک کچہری میں کام سرکاری کرتا ہے صبح سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 232
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 232
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/232/mode/1up
دسؔ بجے تک کچھ سبق گھر پر پڑھاتا ہے۔ کچھ تلاوت قرآن مجید کی بطور نذر کے اپنے اوپر لازم اور واجب کر لی ہے۔ بقیہ وقت حوائج خورد و نوش اور حقوق وغیرہ میں صرف ہوجاتا ہے اور دس بج جاتے ہیں۔ اور اوقات جناب کے بالکل فارغ۔ احقر کا یہ حال کہ کبھی تعطیل ہوگئی تو ایک گھنٹہ کی مجھ کو فرصت مل گئی جس میں کچھ لکھ لکھا لیا یا کسی کتاب وغیرہ کا مطالعہ کر لیا۔ چنانچہ یہ ملتمسہ جمعہ کے روز لکھنے بیٹھا تھا اس میں بعض احباب آگئے ملتوی رکھا گیا۔ لیکن اتفاقاً آج بتاریخ یا زدہم ربیع الثانی بروز ہفتہ بھی تعطیل تھی لہٰذا اس کو پورا کر لیا۔ ورنہ اگر تعطیل نہ ہوتی تو آج پورا بھی نہ ہوتا۔ یہ احوال اوقات احقر کا جناب کو معلوم ہے۔ لیکن بمزید احتیاط اس واسطے التماس کیا گیا کہ اگر مباحثہ دہلی احقر کے پاس واسطے مطالعہ کے روانہ کیا جاوے تو اس پر نظر اوقات فرصت میں کروں گا۔ جناب والا کی طرف سے تعجیل نہ فرمائی جاوے کیونکہ تعجیل کی کچھ ضرورت بھی ایسی نہیں معلوم ہوتی۔ سب کام تامل اور تانی سے اچھا ہوتا ہے۔ ہاں البتہ جناب والا نے جو طرز مباحثہ دہلی تجویز کیا ہے احقر کو بہت مستحسن معلوم ہوتا ہے۔ دعویٰ حیات سے جس وقت دست برداری ہوگئی اس وقت ممات ثابت ہوجاوے گی اس میں تضیع اوقات بہت کم ہوگی۔ کیونکہ پھر بحث کی کچھ حاجت ہی نہ رہے گی۔ اس تجویز کے استحسان میں احقر بالکل آپ کا موافق ہے البتہ اتنا امر اس پر مزید عرض کرتا ہوں کہ وہی مباحثہ دہلی بعینہا مرحمت ہو اسی پرنظر کرلوں گا۔ تبدیل طرز مناظرہ کی کوئی ضرورت نہیں اور غیر مقبول ہے۔ مورخہ دہم ربیع الثانی روز جمعہ وقت شام مطابق سیزدہم نومبر ۱۸۹۱ء۔
طرز استدلال مباحثہ دہلی پر نظر
حامدًا و مصلّیا و مسلما اس نیاز نامہ کا جواب مولوی صاحب نے جو بھیجا تو اس میں گذارشہائے دہ گانہ مندرجہ اخلاص نامہ کو تصدیق فرمایا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تحریر کیاکہ کلمۃ حق ارید بھا الباطل اور کچھ عذرات باردہ ایسے تحریر فرمائے کہ احقر ان کو بالفعل شائع نہیں کرتا۔ کیونکہ عوام کو ان سے تلون طبع کا اور ثبوت مل جاوے گا اور طرز استدلال مباحثہ دہلی کا کچھ تبدیل فرما کر صرف آیت لیؤمننّ بہٖ قبل موتہٖ استدلال کیا۔ اور آخر میں یہ بھی لکھا کہ ادلّہ حیات مسیح میرے پاس اور بھی بہت ہیں وہ پھر لکھی جاویں گی اور مطاوی تحریر میں بعض ایسے الفاظ تحریر فرمائے جو مولوی صاحب کی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 233
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 233
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/233/mode/1up
شانؔ سے بعید تھے۔ اور طرز استدلال کی نسبت فرمایا کہ یہ وہی طرز ہے جو مباحثہ دہلی کا تھا احقر نے اس عنایت نامہ حال کو تین نوٹ بدیں خلاصہ مضمون دے کر بجنسہا واپس کردیا۔
خلاصہ مضمون نوٹ اول
الفاظ خلاف تہذیب کے خطوط احقر اور جناب کی تحریر میں آنا مناسب نہیں ورنہ مباحثہ نہ ہوگا۔
خلاصہ مضمون نوٹ دوم
اس تحریر کا مقابلہ اصل مباحثہ سے کرادیا جاوے۔
خلاصہ مضمون نوٹ سوم
کل ادلّہ حیات مسیح اس تحریر میں جمع کردی جاویں۔ بار بار ایک دعو ٰے پر وقتاً فوقتاً متفرق ادلّہ کا پیش کرنا کچھ ضرور نہیں ہے ہاں فریقین کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں نقص و جرح ادلّہ میں یا تائید ان کی میں وقتاً فوقتاً تحریر کریں۔ اس کا جواب آج کی تاریخ تک مولوی صاحب کی طرف سے صادر نہیں ہوا لہٰذا بعد انتظار بسیار احقر اب اس وعدہ کا ایفا کرتا ہے جو آغاز اخلاص نامہ میں نسبت تعمیر ؂ (اینکہ می بینم بہ بیداریست یارب یابخواب) کے کیا گیا تھا۔
تعبیر
تعبیر اس کی یہ ہے کہ مولوی صاحب کو مباحثہ دہلی میں فتح اور کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جیسا کہ مشہور کررکھا ہے۔ بلکہ ناکامی ہوئی ہے جس کو احقر بعونہ ٖ تعالیٰ ناظرین کو ثابت کردکھاوے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ناظرین کو مباحثہ کے معائنہ سے واضح ہوا ہوگا کہ جن علوم رسمیہ کی اعانت سے علماء ظاہر ایسے مسائل میں بحث و نظر کرتے ہیں ان علوم میں سے سوائے نحو کے اور وہ بھی ادھورے طور پر مولوی صاحب نے کسی ایک علم سے بھی مدد نہیں لی۔ مثلاً دارمدار علماء نظار کا ایک علم اصول فقہ ہے مولوی صاحب نے اس کی طرف بالکل توجہ نہیں فرمائی۔ ورنہ تین چار سطروں میں مباحثہ ختم تھا ہیچمدان بطور نمونہ کے بعض علوم رسمیہ کی اعانت سے مجملاً کچھ کچھ عرض کرتا ہے اگر مولوی صاحب بھی ان علوم رسمیہ کی اعانت سے مباحثہ فرماویں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ ہیچمدان بھی تفصیل سے عرض کرے گا۔
علم اصول فقہ
مولوی صاحب نے اس علم کی طرف بالکل توجہ نہیں فرمائی۔ اگرچہ احقر کا منصب مدعی کا نہیں ہے لیکن اس غرض سے کہ مولوی صاحب اس علم کی طرف توجہ فرماویں کچھ عرض کرتا ہے کہ وفات عیسیٰ بن مریم آیت انِّی متوفّیک سے بروایت صحیح بخاری

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 234
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 234
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/234/mode/1up
عنؔ ابن عباس أَعنی مُمیتک کے بطور عبارت النص کی ثابت ہے اور مولوی صاحب اگر تمام توغل اپنا جو علم اصول میں ان کو ہے صرف فرماویں گے تو اس کا نتیجہ شائد اس قدر حاصل ہو کہ حیات عیسیٰ بن مریم آیت ۱؂سے بطور اشارۃ النص کے ثابت کی جاوے لیکن یہ مسئلہ تمام کتب میں مندرج ہے کہ ترجح العبارۃ علی الاشارۃ وقت التعارض پس وفات ثابت رہی۔ اور حیات ساقط الاعتبار ٹھہری اور مباحثہ ختم ہوا۔
طرز دوم ازروئے علم اصول فقہ
دوسرے طور پر آیت انّی متوفّیک حسب روایت صحیح بخاری کے وفات عیسیٰ ابن مریم میں محکم ہے۔ کیونکہ تعریف محکم کی کتب اصول فقہ اور نیز حضرت نواب صاحب بہادر مرحوم و مغفور نے حصول المامول وغیرہ میں یہ لکھی ہے المحکم مالہ دلالۃ واضحۃ اور بفرض تسلیم لفظ قبل موتہٖ حیات مسیح پر اگر دلالت بھی کرے تو یہ دلالت واضح نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں ضمائر وغیرہ ذوالوجوہ ہیں اور روایتاً و درایتاً مفسرین کا ان میں بہت سا کچھ اختلاف ہے اور اسی کو متشابہ کہتے ہیں۔ پس یہ لفظ متشابہ ہوا۔ اسی حصول المامول میں لکھا ہے والمتشابہ مالہ دلالۃ غیر واضحۃ اب ظاہر ہے کہ ہوتے محکم کے متشابہ کی طرف کیونکر رجوع ہوسکتا ہیلقولہٖ سبحانہٖ تعالی ۲؂ اسی طرح پر اگر دیگر قواعد علم اصول کی طرف رجوع کیا جاوے تو مباحثہ چار پانچ سطروں میں ختم ہوسکتا ہے مگر آپ احقر کو اس تقریر سے مدعی نہ قرار دے لیویں یہ تقریر تو بطور نقض یا معارضہ کے عرض کی گئی ہے اور یہی سائل کا منصب ہے۔
طرز استدلال از روئے اصول حدیث
مولوی صاحب نے اس علم کی طرف بھی توجہ نہیں فرمائی ورنہ چار پانچ سطروں میں فیصلہ ہوجاتا تقریر اس کی بطور نمونہ مجملاً یہ ہے کہ صحیحین کی حدیثوں سے جو ازا لۃ الاوہام میں لکھی ہیں وفات عیسیٰ بن مریم ثابت ہوتی ہے اور اگر بعض روایات مرسل یا ضعیف وغیرہ سے حیات مسیح بن مریم ثابت کی جاوے تو اس کو علم اصول حدیث کب تسلیم کرے گا۔ وہ تو بآواز بلند پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ احادیث متفق علیہا جملہ احادیث پر مقدم ہیں۔ پس وقت تعارض کے احادیث متفق علیہا جملہ احادیث پر مقدم رہیں گی۔ وھو المطلوب۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 235
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 235
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/235/mode/1up
استدؔ لال ازروئے علم منطق
مولوی صاحب نے اس مباحثہ میں علم منطق سے بھی کام نہیں لیا اور نہ شکل اول بدیہی الانتاج سے ایک دو سطر میں فیصلہ ہوجاتا۔ مگر یاد رہے کہ میں مدعی نہیں ہوں بلکہ ناقض اور معارض ہوں۔ بطور نمونہ کے تقریر اس کی یہ ہے۔ عیسٰی بن مریم کان نبیامن الناس ومات الناس حتَّی الانبیاء یعنی کلہم ماتو افعیسَی بن مریم ایضًا مات مقدمہ صغریٰ تو مسلّم ہی ہے اور مقدمہ کبریٰ ایسا مشہور ہے کہ اطفال مکتب لفظ حتّٰی کی مثال میں پڑھا کرتے ہیں۔ پس وہ بھی مسلّم ہے۔ اور اگر مسلّم نہ ہو تو آیت قرآن مجید موجود ہے۔ ۶پ۴ ۱؂ وغیر ذٰلک من الآیات تنبیہ جامع مسجدوں میں اثناء خطب منظومہ اردو میں ائمہ مساجد پڑھا کرتے ہیں ۔ ؂
آدمؑ کہاں حواؑ کہاں مریمؑ کہاں عیسٰی ؑ کہاں
ہارونؑ اور موسیؑ کہاں اس بات کا ہے سب کو غم
ایضاً
حضرت آدمؑ نبی نیچے زمیں کے چل بسے
نوحؑ کشتی بان عالم بھی یہاں سے چل بسے
یوسف ؑ و یعقوبؑ و اسماعیل ؑ و اسحقؑ و خلیل ؑ
اور سلیمانؑ آسمانی مہر والے چل بسے
ہودؑ اور ادریس ؑ و یونس ؑ شیثؑ و ایوبؑ و شعیبؑ
دعوت اسلام کر کے ٹھہرے چندے چل بسے
حضرت عیسیٰ ؑ نبی داؤد ؑ و موسیٰ ؑ خاک میں
لے کے توریت و زبور انجیل حق سے چل بسے
واسطے جن کے زمین و آسمان پیدا ہوا
جنت الفردوس میں وہ حق کے پیارے چل بسے
الٰی آخر ما قال۔
استدلال ازروئے علم بلاغت
اس علم کی طرف بھی مولوی صاحب نے رخ تک نہیں کیا ورنہ بہت آسانی سے فیصلہ ہوسکتا تھا مطول اور اس کے حواشی میں لکھا ہے وتقدیم المسند الیہ للدلالۃ علی انّ المطلوب انماھو اتصاف المسند الیہ بالمسند علی الاستمرار لامجرد الاخبار بصدورہ عنہ کقولک الزاھد یشرب و یعزب دلالۃ علے انہ یصدر الفعل عنہ حالۃ فحالۃ علی سبیل الاستمرار قال السید السند علی قول العلامۃ۔ انّما یدلّ علیہ الفعل

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 236
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 236
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/236/mode/1up
المضاؔ رع۔ قد یقصد بالمضارع الاستمرار علی سبیل التجدد و التقضٰی بحسب المقامات و وجہ المناسبۃ ان الزمان المستقبل مستمر یتجدد شیءًا فشیءًا فناسب ان یراد بالفعل الدال علیہ معنٰی یتجدّد علی نحوہ بخلاف الماضی لانقطاعہ و الحال لسرعۃ زوالہ الی آخر العبارۃ۔ حاصل مطلب اس کا یہ ہے کہ تقدیم مسند الیہ کی کبھی دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ مسند الیہ مسند کے ساتھ بطور استمرار کے متصف ہے اور وہاں پر صرف یہی مطلوب نہیں ہوتا کہ مسند کے صادر ہونے کی مسند الیہ سے خبر دی جاوے جیسا کہ زاہد شراب پیتا ہے اور طرب و خوشی کرتا ہے۔ السید السند فرماتے ہیں کہ مضارع سے استمرار کا قصد علیٰ سبیل التجدد اور تقضی کے بحسب مقامات کے قصد کیا جاتا ہے اور صیغہ مضارع کا جو واسطے دلالت کرنے کے اوپر استمرار کے خاص کیا گیا اور ماضی و حال کو استمرار کے واسطے مقرر نہ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ زمانہ مستقبل ایک ایسی شے مستمر ہے جو چیز ے چیزے متجدد ہوتی رہتی ہے۔ پس جو فعل کہ اس زمانہ متجدد پر دلالت کرے اسی کو دوام تجددی کے واسطے مقرر رکھا گیا اور یہی مناسب تھا۔ بخلاف ماضی کے کہ وہ منقطع ہو چکا اور حال سریع الزوال ہے۔ السید السند دوسری جگہ ہو امش مطول میں لکھتے ہیں وقد یقصد فی المضارع الدوام التجددی وقد سبق تحقیقہ ۔ دوسری جگہ مطول میں لکھا ہے۔ کما فی قولہ تعالیٰ ۱؂ بعد قولہ تعالیٰ ۲؂ حیث لم یقل اللہ مستھزئ بِھِمْ بلفظ اسم الفاعل قصداً الی حدوث الاستھزاء و تجددہ وقتا بعد وقت الی قولہ و ھکذا کانت نکایات اللہ فی المنافقین و بلایا النازلۃ بھم یتجدد وقتا فوقتا و تحدّث حالا فحالا انتھی و ایضا قال کما ان المضارع المثبت یفید استمرار الثبوت یجوز ان یفید المنفی استمرار النفی وغیر ذٰلک من العبارات الصریحۃ۔ پھر اس صیغہ مستقبل کے دوام تجددی کے واسطے مستعمل ہونے میں کسی کا خلاف بھی نہیں معلوم ہوتا ایک مسئلہ اتفاقیہ ہے۔ پس اگر حضرت مرزا صاحب نے حسب مقتضائے مقامات قرآن مجید میں مستقبل سے معنے دوام تجددی کی مراد لی تو کونسا محذور لازم آیا بیّنوا توجروا ! مباحثہ ایک صفحہ میں ختم ہو گیا۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 237
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 237
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/237/mode/1up
علمؔ اسماء الرجال
اس علم کی طرف مولوی صاحب نے صرف اسقدر توجہ فرمائی ہے کہ رجال اسناد قراء ت قبل موتھم کی توثیق و تعدیل حضرت مرزا صاحب سے دریافت فرمانے لگے مگر جو روات کہ مولوی صاحب کی روایات مندرجہ مباحثہ میں قابلِ تنقید واقع ہوئی ہیں ان کا کچھ بھی احوال تحریر نہ فرمایا۔ پھر حضرت مرزا صاحب سے رواۃ اسناد اس قراء ت کی توثیق جو تفاسیر معتبرہ میں بحوالہ مصحف ابی بن کعب لکھی ہے یہ بعد تسلیم کر لینے اس قرأ ت کے مصحف ابی میں توثیق رجال کیوں دریافت فرمائی گئی۔ ۱؂۔ علم اسماء الرجال میں کمال تو یہ ہوتا کہ جو راوی کی زبان سے نکلتا اس کی دفیات وسنین ولادت اور اعمار اور سوانح عمری اور کئی اور القاب اور جملہ اسباب قادحہ خفیہ غیرخفیہ زبانی بیان فرمادئے جاتے ورنہ اب تو اکثر کتب حدیث کے حواشی پر اسماء الرجال چڑھا ہوا ہے۔ ادنیٰ طالب علم نقل کر سکتا ہے۔ مولوی صاحب کی اس میں خصوصیت کیا ہے پس کوئی کمال علم اسماء الرجال میں مولوی صاحب نے یہاں پر ظاہر نہیں فرمایا شاید کسی اور وقت کے لئے رکھ چھوڑا ہو۔
علم قراء ت
اس علم کی طرف مولوی صاحب نے بالکل توجہ نہیں فرمائی۔ ورنہ چند سطور میں فیصلہ ہو جاتا۔ بطور نمونہ کے تقریر اس کی مجملاً یہ ہے کہ اگر تسلیم کیا جاوے کہ قراء ت مندرجہ مصحف ابی بن کعب بالکل قراء ت شاذہ ہے تو قراء ت مشہورہ کے لئے اس کے مبین و مفسر ہونے میں کیا کلام ہے۔ یہ مسئلہ بھی قرّاء وغیرہ کے نزدیک مسلم ہے۔ اتقان وغیرہ میں لکھا ہے۔ وقال ابوعبیدۃ فی فضائل القرآن المقصد من القراء ۃ الشاذۃ تفسیر القراء ۃ المشھورۃ و تبیین معانیھا الی قولہ فھذہ الحروف و ماشاکلھا قد صارت مفسرۃ للقران وقد کان یروی مثل ھذا عن التابعین فی التفسیر فیستحسن فکیف اذا روی عن کبارالصحابۃ ثم ھار فی نفس القراء ۃ فھو اکثر من التفسیر واقوی فادنٰی ما یستنبط من ھذہ الحروف معرفۃ صحۃ التاویل۔ انتھیٰ۔چونکہ متعلق علم قراء ت کے مولوی صاحب نے کچھ بھی تحریر نہیں فرمایا لہٰذا زیادہ طول نہیں کیا گیا۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 238
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 238
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/238/mode/1up
جبؔ مولوی صاحب کچھ تحریر فرماویں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خاص اس قراء ت کی نسبت بہ تفصیل اور بھی لکھا جاوے گا۔ واضح ہو کہ ابی بن کعب وہ صحابی جلیل القدر ہیں جن کی نسبت حضرت صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں وَأَقْرَأُ کُمْ اُبَیّ وایضا قال قال رسول صلی اللہ علیہ و سلم لابیّ بن کعب ان اللہ امرنی ان اقرأ علیک القراٰن قال اللّٰہ سمّانی لک قال نعم قال و قد ذکرت عند رب العٰلمین قال نعم فذرفت عیناہ متفق علیہ اور ان حضرت ابیّ کا ایک مصحف بھی ہے جس کی ترتیب سور اتقان وغیرہ میں لکھی ہے۔
علم تفسیر
مولوی صاحب نے اس علم کی طرف صرف اس قدر توجہ فرمائی ہے کہ بعض تابعین کے اقوال دربارہ ترجیح اپنی معنی مختار کے تفسیرابن کثیر سے نقل کئے ہیں اور حضرت ابوہریرہ کا فہم اور کچھ حضرت ابن عباس سے ایک آدھ قول نقل فرمایا ہے۔ اور پرچہ ثانی میں مولوی صاحب نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ اس میرے معنی کی طرف ایک جماعت سلف میں سے گئی ہے یعنی اس آیت کی تفسیر مختلف فیہ اور ذوالوجوہ ہے اجماعی طور پر ایک معنے نہیں ہیں۔ اور یہ بھی اقرار ہے کہ فہم صحابی کو میں حجت نہیں جانتا۔ باوجود اس کے مولوی صاحب نے فن تفسیر کی طرف بالکل توجہ نہیں فرمائی۔ فن تفسیر کے رو سے کسی ایسی آیت کے معنی میں جس میں تعلق کسی پیشین گوئی کا ہو واقع ہونے پیشین گوئی تک قطعی کچھ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ صرف ایک اجتہادی امر ہے کیونکہ حقیقت پیشین گوئی کی لاعلم لنا میں داخل ہے بخلاف دیگر مطالب ضروریہ تفسیریہ کے کہ وہ علمتنامیں داخل ہوسکتے ہیں اور قطعی فیصلہ بھی ہوسکتا ہے۔ مولوی صاحب باوجودیکہ اس آیت کو متعلق پیشین گوئی قرار دیتے ہیں پھر بھی ۱؂ کا کچھ خوف نہ کیا اور آیت کی تفسیر میں اقوال رجال غیر معصومین سے یہ بات قطعی طور پر یقین کر لی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ بعد نزول عیسیٰ ؑ بن مریم کے اور قبل موت اس کی کے جس میں سب اہل کتاب حضرت عیسٰی ؑ پر ایمان لے آویں گے جب کہ آیت ذوالوجوہ اور متشابہ ہے اور مولوی صاحب کے نزدیک اس کا تعلق بھی پیشین گوئی سے ہے تو معہٰذا قطعی اور یقینی طورپر مولوی صاحب کون سے علم سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ نے بھی شکی طور پر اپنے فہم کو ترجیح دی تھی و بس۔ کیا مولوی صاحب کو علم غیب ہے؟ یا اس آیت کی تفسیر میں کسی حدیث صحیح مرفوع

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 239
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 239
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/239/mode/1up
متصلؔ سے یہ ثابت ہے کہ معنی آیت کے یہی ہیں جو مولوی صاحب نے کئے ہیں۔ پیشین گوئی کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب تو دیگر مطالب تفسیریہ کی نسبت یہی تحریر فرماتے ہیں۔
پیش ایں فقیر محقق شدہ است کہ صحابہ و تابعین بسیار بودکہ نزلت الایۃ فی کذاوکذامے گفتند و غرض ایشاں تصویر ماصدق آں آیت بود و ذکر بعض حوادث کہ آیت آں را بعموم خود شامل شدہ است خواہ ایں قصہ متقدم باشد یا متاخر اسرائیلی باشدیا جاہلی یا اسلامی تمام قیود آیت راگر فتہ باشدیا بعض آں را واللّٰہ اعلم ازیں تحقیق دانستہ شدکہ اجتہاد ر ادریں قسم دخلے ہست و قصص متعددہ را آنجا گنجائش ہست پس ہرکہ ایں نکتہ مستحضرد اردحل مختلفات سبب نزول باد نیٰ عنایت مے تو اں نمود۔ انتہیٰ۔
ہاں مولوی صاحب کو صرف اتنا اختیار تھا کہ اپنے ان معنے مختار کو ترجیح دیتے نہ یہ کہ ان کو قطعیۃ الدلالت فرماتے اور نہ ایسا کلمہ کہتے کہ مصداق ہو۔ ۱؂ کا اس معنے کے ماعد اجتنے معنے تمام دنیا بھر کی تفسیروں میں لکھے ہیں سب غلط اور باطل ہیں اے مولوی صاحب اتق اللّٰہ ؂
نام نیک رفتگان ضائع مکن تابماند نام نیکت یادگار
یہ قضیہ بھی تو مسلمہ مفسرین ہے کہ فمتی اختلف التابعون لم یکن بعض اقوالھم حجۃ علی بعض۔ پھر مولوی صاحب کا تمام دنیا بھر کے مفسرین کو باطل اور غلطی پر قرار دینا اور اپنے معنی کو حجت قطعی گرداننا کیا یہی تقویٰ اور دیانت اور اظہار حق و صواب ہے؟ بینوا توجروا۔
علم زبان فارسی
مولوی صاحب نے جو ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب کی طرف توجہ فرمائی تو بسبب غلبہ خیال نون ثقیلہ کے جو جو صیغے کہ فارسی میں واسطے مضارع کے آتے ہیں ان کو خالص استقبال کے واسطے اپنی طرف سے خلاف قواعد فرس قرار دے لیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب کے الفاظ ترجمہ یہ ہیں۔ پس۱ البتہ متوجہ گردانیم ترابآں قبلہ کہ خوشنودشوی۔ والبتہ۲ بسوزانیم آں را پس۳ پراگندہ سازیم آں را۔ والبتہ۴ دلالت کنیم ایشاں رابراہہائے خود۔ والبتہ۵ غالب شوم منو۶ غالب شوند پیغمبران منو۷البتہ زندہ کنمیش بزندگانئپاک ودر۸اریم ایشاں رادرزمرہ شائستگاں۔ ایہا الناظرین اطفال دبستان بھی اس قاعدہ کو خوب جانتے ہیں کہ علامت خالص استقبال کی خواہد۔ خواہند۔ خواہی۔ خواہید۔ خواہم ہے اور علامت خالص حال کی لفظ مے کا مضارع پر داخل ہونا ہے۔ اور یہ الفاظ مندرجہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 240
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 240
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/240/mode/1up
ترجمہؔ سب کے سب صیغے مضارع کے ہیں نہ خالص استقبال کے۔ اس پر علاوہ یہ ہوا ہے کہ اردو میں لفظ ابھی کا جو خالص حال کے واسطے آتا ہے۔ مولوی صاحب نے اس کو ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب میں یعنی ابھی جلا ویں گے ہم اس کو۔ خالص استقبال کے واسطے مقرر فرمایا ہے۔ اب ناظرین انصاف فرماویں کہ مولوی صاحب کا اس جگہ پر حضرت مرزا صاحب کی نسبت یہ فرمانا کہ ھٰذا بعید من شان المحصلین۔کیسا اپنے موقع اور محل پر واقع ہوا ہے۔ سبحان اللہ۔
علم مناظرہ
مولوی صاحب نے علم مناظرہ کی طرف صرف اس قدر توجہ فرمائی کہ حضرت مرزا صاحب نے جو تعریف مدعی کی لکھی۔ اور اس کی فلاسفی بیان فرمائی اس پر جھٹ اعتراض کردیا کہ یہ تعریف لفظ مدعی کی مخالف ہے اس کے جس کو علماء مناظرہ نے لکھا ہے اور رشیدیہ سے یہ عبارت نقل فرمادی کہ:۔
المدعی من نصب نفسہ لاثبات الحکم ای تصدی لان یثبت الحکم الخبری الذی تکلم بہ من حیث انہ اثبات بالدلیل اوالتنبیہ۔مگر یہ نہ سوچا کہ حضرت مرزا صاحب نے جو ِ سرّ اورُ گر مدعی ہونے کا بہ تفصیل وبسط کلام بتلایا ہے اور اس پر ایک دلیل عقلی قطعی بھی قائم کردی ہے۔ وہی سرمن حیث انہ اثبات بالدلیل کی حیثیت سے بخوبی سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ رشیدیہ میں اسی تعریف کے آگے اس قید حیثیت کا فائدہ یہ لکھا ہے۔ فلایرد ما قیل انہ یصدق ھذا التعریف علی الناقض بالنقض الاجمالی والمعارض وھمالیس بمدعیین فی عرفھم لانھمالم یتصدیا لاثبات الحکم من حیث انہ اثبات بل من حیث انہ نفی لاثبات حکم تصدی باثباتہ الخصم من حیث انہ معارضۃ لدلیلہ۔
مگر مولوی صاحب نے تو سوائے ایک نون ثقیلہ کے جس کا حال انشاء اللہ تعالیٰ بیان علم نحو میں آئے گا کسی طرف توجہ ہی نہیں فرمائی۔ نہ تو اس قید حیثیت پر نظر فرمائی جو خود تحریر نہیں فرمائی تھی اور نہ اس عبارت رشیدیہ کی طرف غور فرمایا جو لکھی گئی۔ اور حضرت مرزا صاحب نے تو جہاں جہاں اپنے رسائل میں بطور معارضہ کے وفات عیسٰی ؑ بن مریم ثابت کی ہے یا نقض اجمالی یا نقض تفصیلی کیا ہے یا دلیل حیات میں کوئی فساد بیان فرمایا ہے اور یا دلیل مدعی حیات کو باطل کیا ہے تو اس بیان نقض و معارضہ سے حضرت اقدس سلمہٗ مدعی نفس الامری کیونکر ہوسکتے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 241
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 241
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/241/mode/1up
لاناؔ لانسلم ان الناقض والمعارض متصدیان لاثبات الحکم من حیث انہ اثبات بل من حیث انہ نفی لاثبات حکم تصدی باثباتہ الخصم من حیث انہ معارضۃ اونقض لدلیلہ۔
ناتمامی تقریب ازروئے علم مناظرہ
اور علم مناظرہ کے رو سے تقریب مولوی صاحب کی دلیل کی محض ناتمام ہے بیان اس کا چہارسطری یہ ہے۔ مدعا مولوی صاحب کا منقح ہو کر یہ رہا ہے کہ بعد نزول عیسٰی بن مریم اور قبل موت ان کی کے ایسا زمانہ آوے گا کہ سب اہل کتاب مومن ہوجاویں گے یعنی اسلام میں داخل ہوجاویں گے۔ اور دلیل مولوی صاحب کی مستلزم اس مدعا کو نہیں ہے۔ کیونکہ مولوی صاحب کا اقرار پرچہ ثانی میں مندرج ہے کہ مراد ایمان سے یقین ہوسکتا ہے نہ ایمان شرعی ۔پس دلیل سے سب اہل کتاب کا ایمان شرعی کے ساتھ مومن ہونا اور اسلام میں داخل ہونا ثابت نہ ہوا اور تقریب محض ناتمام رہی ایہاالناظرین ذرہ انصاف کرو کہ اس مشکل مسئلہ مناظرہ کو حضرت اقدس نے کس آسانی اور سہولت اور حسن اسلوب سے بیان کیا ہے کہ ہر ایک قاصی و دانی اس کو سمجھ سکتا ہے لیکن افسوس کہ حضرت مولوی صاحب نے اس پر ذرہ بھر خیال نہ فرمایا۔اِنَّا لِلَّہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
فقہ حدیث
اس مباحثہ میں فقہ حدیث مولوی صاحب کا یہ ہے کہ مااٰتاکم الرسول کا مصداق حضرت ابوہریرہ کا قول اور فہم مشکوک مندرجہ فاقرء وا ان شئتم ۱؂ کو ٹھہرا دیا ہے اور طرفہ اس پر یہ ہے کہ یہ بھی اقرار ہے کہ فہم صحابی کو میں حجت نہیں جانتا۔ مولانا صاحب جب کہ قول و فہم صحابی حجت نہیں ہے تو اقوال تابعین وغیرہ جو جناب نے اپنے معنے کی تائید میں نقل فرمائے ہیں وہ کیونکر حجت قطعی ہوگئے۔ ۲؂ اگر فقہ حدیث کی طرف مولوی صاحب توجہ فرماتے تو فیصلہ اس مباحثہ کا بہت آسان تھا۔ بیان اس کا بطور نمونہ کے مجملاً یہ ہے کہ صاحب صحیح مسلم نے روایتاً و درایتاً اس امر کا فیصلہ کردیا ہے۔ وامامکم منکم جو صحیحین کی حدیث میں ایک جملہ واقع ہے اس سے کوئی دوسرا امام سوا ابن مریم کے مراد نہیں ہے۔ بلکہ یہ جملہ یا تو بطور صفت کے اسی ابن مریم کا وصف واقع ہوا ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 242
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 242
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/242/mode/1up
یاحاؔ ل ہے فاعل نَزَلَ یا یَنْزِلُ سے جس کا عامل وہی نَزَلَیا یَنْزِلُ ملفوظ ہے اور اس مطلب کو امام مسلم نے چند روایت سے ثابت کیا ہے اول روایت ابن عیینہ سے چنانچہ لکھتے ہیں وفی روایۃ ابن عیینہ اماماً مقسطًا حکمًا عدلًا پھر بروایت حضرت ابی ہریرہ یہ الفاظ نقل کئے ہیں قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم فامّکم۔ ناظرین غور فرماویں کہ اس روایت میں کس تنصیص اور تصریح سے موجود ہے کہ وہی ابن مریم تمہاری امامت کرے گا نہ یہ کہ کوئی دوسرا اس کے وقت میں امام ہو۔ پھر بروایت حضرت ابی ہریرہ دوسری اسناد سے لکھتے ہیں کیف انتم اذانزل فیکم ابن مریم فامکم منکم اس روایت سے تمام شبہات و شکوک شاکین دفع کردیئے گئے ہیں۔ پھر آگے چل کر فرماتے ہیں فقلت لابن ابی ذئب ان الا وزاعی حدثنا عن الزھری عن نافع عن ابی ھریرۃ وامامکم منکم قال ابن ابی ذئب أتدری ماامّکم منکم فقلت تخبرنی قال فامکم بکتاب ربکم تبارک و تعالٰی و سنۃ نبیکم صلی اللہ علیہ و سلم ۔ اب تو کوئی بھی شک باقی نہیں رہا جس کا دفع امام مسلم صاحب نے نہ فرمایا ہو کہ امامکم منکم حال یا صفت اسی مسیح بن مریم کی واقع ہے نہ کسی دوسرے شخص کی خواہ امام مہدی ہوں یا اور کوئی۔ اب کہاں ہیں وہ اہلحدیث جو دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ احادیث صحیحین سب حدیثوں سے مقدم ہیں اور مع ہٰذا یہ بھی کہے چلے جاتے ہیں کہ امامکم منکم تو سواء ابن مریم کے کوئی دوسرا امام مہدی وغیرہ ہوگا۔ ایہاالناظرین یہ ہے مصداق مَااٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ کا یا وہ جو مولانا صاحب نے فہم مشکوک بلفظ اِنْ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا لکھا؟
علم نحو
مولوی صاحب نے اس مباحثہ میں علم نحو سے بڑی اعانت لی ہے اور دارومدار کل اپنی استدلال کا اور مناط قطعیۃ الدلالت ہونے اپنی دلیل کا اسی مسئلہ نون ثقیلہ کو گردانا ہے مگر دانست ناقص میں یہ مسئلہ نحویہ نون ثقیلہ کا ایک نہایت مقدمہ خفیفہ ہے جس سے بجز خفت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ بیان اس کا یہ ہے۔ اول تو مولوی صاحب نے اس مسئلہ کو ایسی کتابوں سے نقل فرمایا ہے کہ ان سے ہر ایک طالب علم نقل کرسکتا ہے۔ مولوی صاحب کو اس میں کوئی مابہ الامتیاز خصوصیت جیسا کہ ان کی شان عالی ہے۔ حاصل نہیں ہوئی۔ کاش اگر ائمہ کبارنحو میں مثل زجاج جوہری۔سیرافی۔ ابوعلی فارسی۔ خلیل ابن احمد۔ اخافشِ ثلاثہ۔ اصمعی۔ کسائی۔ سیبویہ۔ مبرد

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 243
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 243
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/243/mode/1up
زمخشرؔ ی وغیرہ سے کچھ اقوال اس بارہ میں نقل فرماتے تو یہ مباحثہ نحوی مولوی صاحب کا کس قدر مابہ الامتیاز ہوجاتا۔ اگرچہ بمقابل حضرت اقدس مرزا صاحب جیسے مؤید من اللہ کے ان ائمہ کبار کی نقل اقوال بھی کچھ وقعت نہیں رکھتی ملاحظہ فرماؤ کتبِ قُرّا اگر وہ میسر نہ ہوں تو مطالعہ کرو کتب مولانا شاہ ولی اللہ صاحب اگر وہ بھی بالفعل نہ ملیں تو دیکھو فوز الکبیر۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اس میں لکھتے ہیں۔
ودر نحو قرآن خللے عجیب راہ یافتہ است وآں آنست کہ جماعتے مذہب سیبویہ را اختیار کردہ اندوہرچہ موافق آں نیست آں راتاویل مے کنند۔ تاویل بعید باشد یا قریب وایں نزد من صحیح نیست اتباع اقوے و اوفق بسیاق و سباق بایدکرد۔ مذہب سیبویہ باشد یا مذہب فراء درمثل ۱؂ حضرت عثمان گفتہ اند ستقیمھا العرب بالسنتھاوتحقیق این حکم نزدیک فقیر آنست کہ مخالف روز مرہ مشہورہ نیز روزمرہ است و عرب اول را دراثناء خطب محاورات بسیار واقع مے شد کہ خلاف قاعدہ مشہورہ بزبان گذشتے۔ اگر احیاناً بجائے واویا آمدہ باشد یا بجائے تثنیہ مفرد یا بجائے مذکر مؤنث چہ عجب۔ پس آنچہ محقق است آنست کہ ترجمہ بمعنے مرفوع باید گفت واللہ اعلم۔
اگر مولوی صاحب قواعد نحو مندرجہ شرح ملا وحواشی اس کے ایسے پابند ہیں کہ سر موتجاوز نہیں ہوسکتا تو سوال ذیل کا جواب مرحمت فرماویں۔ انہیں کتابوں میں لکھاہے کہ نون التاکید لا یوکد الامطلوبا والمطلوب لا یکون ماضیا ولا حالا ولا خبرا مستقبلا اس سے ثابت ہوا کہ لیومنن بہ قبل موتہ جملہ خبر یہ نہیں ہے بلکہ جملہ قسمیہ انشائیہ ہے چنانچہ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی واللّٰہ کو پہلے لیؤمننّ کے مقدر مانا ہے اور جملہ قسمیہ انشائیہ ہی قرار دیا ہے اور جب کہ جملہ قسمیہ انشائیہ ہوا تو پیشین گوئی یعنی خبر مستقبل کیونکر ہوسکتا ہے کجا جملہ خبر یہ اور کجا جملہ انشائیہ ؂ بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔ اور پھر ایک فساد اس میں اور بھی پیدا ہوگیا وہ یہ ہے کہ تمام اہل کتاب سے جو ایمان لانا حضرت عیسٰی ؑ پر مطلوب الٰہی ہے وہ قبل ان کی موت کے ہے کیونکہ تقئید بقید قبل موتہ محض بیکار تو ہے ہی نہیں۔ مطول
وغیرہ کو دیکھو جملہ مقیدات میں بموجب قواعد علم بلاغت کے لحاظ قید کا ضروری ہوتا ہے ورنہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 244
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 244
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/244/mode/1up
قیدؔ محض لغو اور بے فائدہ ہوجائیگی۔ قواعد جو علم بلاغت کی رعایت سے بعید ہے اگر کاش بجائے قبل موتہ کے من قبل موتہ بھی ہوتا تو کسی قدر منافی مدعا نہ ہوتا۔ یہاں پر تو طلب ایمان کا ظرف زمان قبل موتہٖ واقع ہوا ہے نہ من قبل موتہٖ۔ قال فی المطول و مختصرہ ما حاصلہ واماتقیید الفعل ومایُشبہہ من اسم الفاعل والمفعول وغیرھما بمفعول مطلق اوبہ اوفیہ۔ اولہ۔ اومعہ۔ ونحوہ۔ من الحال والتمیز والاستثناء فلیترتب الفائدہ لان الحکم کلمازاد خصوصا زادغرابۃ وکلمازادغرابۃ زاد افادۃ۔ کما یظہر بالنظر الی قولنا شیء ماموجود و فلان بن فلان حفظ التوراۃ سنۃ کذافی بلدۃ کذا۔اس حیات سے تو حضرت عیسیٰ کی وفات مثل دیگر انبیاء کے ہی اچھی ہوتی۔ اگر حالت حیات و نیز ممات ان کی میں سب اہل کتاب کو ان پر ایمان لانا مطلوب الٰہی ہوتا اور اب تو بعد ان کی موت کے ان پر ایمان لانا اس جگہ مطلوب الٰہی نہیں رہا۔ ان ھذا لشیء عجاب بل ھو عین الفساد۔
بحث ترکیب نحوی
الا لیؤمننّ بہ ترکیب نحوی میں کیا واقع ہوا ہے۔ اگر اَحَدٌ مقدر کی صفت ہے اور اَحَدٌ مبتدامقدم الخبر ہے یعنی من الکتاب اس کی خبر واقع ہوئی ہے تو یہ معنے بھی بہ بداہت فاسد ہیں۔ کیونکہ حاصل معنے یہ ہوئے کہ جو شخص ایسا ہو کہ ایمان لاوے عیسٰی ؑ پر قبل ان کی موت کے وہ شخص اہل کتاب میں سے نہیں ہے حالانکہ یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ اس شخص مومن کا موافق جناب کی مسلک کے اہل کتاب میں سے ہونا کچھ ضرور نہیں۔ سواء اہل کتاب کے دیگر کفار بھی مسیح ابن مریم کے وقت میں اسلام میں داخل ہوں گے اور اگر الا لیومنن محل خبر میں ہے اور من اھل الکتاب صفت ہے اَحدٌ مقدر کی اور اَحَدٌ معہ اپنی صفت کے مبتدا ہے تو بھی معنے فاسد ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں بھی تخصیص و تقیید اہل کتاب کی موہم اس کی ہے کہ سوائے اہل کتاب کے اور ملت والے حضرت عیسٰی ؑ پر ایمان نہ لاویں اور اسلام میں داخل نہ ہوں وھذا خلاف دعواکم۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 245
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 245
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/245/mode/1up
مرجعؔ ضمیر قبل موتہٖ
مرجع ضمیر قبل موتہ میں ازروئے نحو کے یہ بحث ہے کہ آیت مذکورہ مدعائے مولوی صاحب میں حسب فہم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بطور شک کے بھی تب دلالت کرے گی کہ ضمیر قبل موتہ کا مرجع صرف حضرت عیسٰی ؑ کا ہونا ازروئے قواعد نحو کے واجب و لازم ہو اور کتابی ما اَحَدٌ کا مرجع ہونا ازروئے نحو کے بطور قطعی کے محض باطل اور ممتنع ثابت کیا جاوے حالانکہ وہ وجوب اور یہ امتناع ازروئے قواعد نحو کے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ عام مفسرین نحو یین نے راجح اور اولیٰ قول بموجب قواعد نحو کے یہی اختیار کیا ہے۔ کہ ضمیر قبل موتہ کی راجع ہے طرف کتابی کے جو لفظ اہل کتاب سے سمجھا گیا یا اَحَدٌ مقدر ہے جس کا مقدر ماننا بسبب استثناء کے ضروریات سے ہے۔ اور اگر جناب والا یہ وجوب اور امتناع ثابت کریں گے تو تمام مفسرین کا اجماع ایک امر ممتنع نحوی پر لازم آتا ہے واللازم باطل فالملزوم مثلہ فھذا الدعوی تقول علی اللہ وفاسد بالقطع ولایقول بہ الامن رضی بتاسیس بناۂ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ھَارٍفَانْھَارَ بِہٖ۔
بحث سیاق وسباق آیہ ازروئے نحو
نحو میں سیاق اورسباق کلام کی رعایت بھی بہت کیا کرتے ہیں لہٰذا اگر آیت مذکورہ سے یہ پیشینگوئی جو مدعا مولوی صاحب ہے مراد الٰہی ہو تو سباق کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ اوپر ہی عنقریب اس آیہ کے یہ پیشینگوئی موجود ہے ۱؂ اور اس کے جملہ خبر یہ ہونے میں کوئی کلام اور بحث نحوی بھی نہیں ہے بخلاف آیت پیش کردہ مولوی صاحب کے کہ بموجب ہو امش شرح جامی وغیرہ کے اس کے جملہ خبر یہ ہونے میں بموجب مسلک مولوی صاحب کے کلام گذر چکا پس ایسا اختلاف سیاق و سباق جس کو کوئی نحوی پسند نہ کرے گا کلام الٰہی میں کیونکر ہوسکتا ہے۔ صدق اللہ تعالی وَ لَوْ کَانَ ۸؍۵ ۲؂
سیاق
بیان سیاق یہ ہے کہ آیت ۲؍۶ ۳؂ بھی اس معنے کے مخالف پڑتی ہے مجملاً بیان اس کا یہ ہے کہ یہ مسئلہ بکتاب اللہ و سنت صحیحہ ثابت ہوچکا ہے کہ پچھلی تمام امم ماضیہ پر یہ امت مرحومہ شہید و گواہ ہوگی اور اس امت مرحومہ پر رسول مقبول صلی اللہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 246
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 246
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/246/mode/1up
علیہؔ وسلم (روحی فداہ )شہید وگواہ ہوں گے۔قال اللّٰہ تعالٰی ۱ ؂ ۱؍۲ واخرج احمد والبخاری والترمذی والنسائی وغیرھم عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یدعی نوح یوم القیامۃ فیقال لہ ھل بلغت فیقول نعم فیدعی قومہ فیقال لھم ھل بلغکم فیقولون ما اتانا من نذیر و مااتانا من احد فیقال لنوح من یشھد لک فیقول محمد وامتہ ذٰلک قولہ یعنی ھٰذہِ ا لایۃ فیشھدون لہ بالبلاغ واشھد علیکم پس اب دریافت کیا جاتا ہے کہ ضمیر علیہم کا مرجع بھی اہل کتاب جو ایمان لے آویں گے اور اسلام میں داخل ہوکر ہمارے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں داخل ہوجاویں گے تو بالضرور ان کے شہید و گواہ بجز رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے حضرت عیسٰیؑ کیونکر ہوسکتے ہیں حضرت عیسٰی ؑ کا غایت درجہ تو یہ ہے کہ اپنی امت کے شہید ہوں فرمایا اللہ تعالیٰ نے ۲؂ ۷؍۷ اور اگر کہو کہ یہ منصب جو ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ وہ بعد نزول حضرت عیسیٰؑ کے حضرت عیسیٰؑ کو مل جاوے گا۔ تو نعوذ باللہ لازم آتا ہے کہ ختم نبوت نہیں ہوا واللازم باطل فالملزوم مثلہ اور گر کہو کہ مرجع ضمیر علیہم کا وہ اہل کتاب ہیں جن کا ذکر یہاں سے ایک کوس بھر کے فاصلہ پر ہوا ہے تو یہ استفسار ہے کہ اس قدر بعید مرجع کا ماننا کس کا مذہب ہے فرّاء کا یا سیبویہ کا۔ بینوا توجروا۔
بحث نحوی بابت زمانہ حال
یہ جو بعض کتب نحو میں لکھا گیا ہے کہ زمانہ حال کا ایسا نہیں ہے کہ اس میں کوئی فعل واقع ہوسکے۔ اور اسی بنا پر مولوی صاحب نے زمانہ استقبال کی دو قسمیں فرمائیں اول استقبال قریب و دوم استقبال بعید۔ اگرچہ مطلب ہمارا اسی سے حاصل ہوگیا کہ مولوی صاحب جس کو استقبال قریب کہتے ہیں ہم اس کو حال کہیں گے صرف ایک نزاع لفظی رہ گئی مگر علاوہ اس کے یہ گذارش ہے کہ یہ ایک تدقیق متکلمین کی ہے۔ ہم کو کیا ضرورت ہے کہ ایسی تدقیق جو بالکل خلاف عرف اہل عربیت کے ہے اس پر اَڑ جاویں دیکھو مطول اور اس کے ہوامش میں لکھا ہے وھذا یعنی الزمان الحال امر عرفی کما

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 247
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 247
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/247/mode/1up
یقاؔ ل زید یصلّی والحال ان بعض صلٰوتہ ماض وبعضھا باق فجعلوا الصلٰوۃ الواقعۃ فی الاٰنات الکثیرۃ المتعاقبۃ واقعۃ فی الحال و تعیین مقدار الحال مفوض الی العرف بحسب الا فعال ولایتعین لہ مقدار مخصوص فانہ یقال زید یاکل ویمشی ویحج ویکتب القرآن ویعدکل ذٰلک حالا ولا شک فی اختلاف مقادیر ازمنتھا۔اور السید السند ایسی ہی تدقیقات کی نسبت حواشی مطول میں تحریر فرماتے ہیں۔والحق انھا مناقشات واھیۃ لان ھذہ التعریفات بیّنات یفھم اھل اللّغۃ منہا ومن تلک العبارات ماھو المقصود بھا ولایخطر ببالھم شیء مماذکروا أما التدقیق فیھا فیستفاد من علوم اخر یلاحظ فیھا جانب المعنی دون القواعد اللفظیۃ المبنیۃ علی الظواھر انتھٰی موضع الحاجۃ ۔
بحث طرز دیگر بابت مرجع ضمیر قبل موتہٖ
اگر ضمیر قبل موتہٖ کی حضرت عیسیٰؑ کی طرف رجوع کر کر وہ معنے لئے جاویں جو مولوی صاحب لیتے ہیں تو ایک اور فساد لازم آتاہے اور وہ یہ ہے کہ بالاتفاق حضرت عیسٰی ؑ نبوت سے معزول و عاری اور حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں شامل ہو کر آویں گے اور سب کو یہ دعوت کریں گے کہ اسلام لا کر حضرت خاتم النبییّن صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں داخل ہوجاؤ۔ مگر یہاں پر عکس القضیہ ہوا جاتا ہے۔ حضرت خاتم النبین پر ایمان لانے کا تو کچھ ذکر نہ ہوا اور ایک شخص امتی پر ایمان لانے کا ذکر فرمایا گیا۔ لیکن کسی امتی پر ایمان لانے کے کوئی عمدہ معنے قابل التفات نہیں معلوم ہوتے۔ اور اگر کہو کہ حضرت عیسٰی ؑ ٰؑ پر ایمان لانا مستلزم ہے۔ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کے واسطے تو یہ گذارش ہے کہ سلمنا۔ لیکن یہ ایمان ضمن میں ایمان بعیسٰی کے بالتبع حاصل ہوا نہ بالاصل جو مقصود اصلی اللہ تعالیٰ کا ہے۔ پس مقصود اصلی کو ترک کرنا اور غیر مقصود کو اختیار کرنا جس سے طرح طرح کے توہمات ختم نبوت میں پیدا ہوتے ہیں کیا ضرورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تو وہ مرتبہ ہے کہ تمام انبیاء کو بہ تاکید تمام حکم ہوا ہے۔ اور ان سے اقرار و میثاق لیا گیا ہے کہ وہ سب حضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 248
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 248
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/248/mode/1up
لاوؔ یں۔ قال اللّٰہ تعالٰی ۔ ۱؂ ۔ مولانا صاحب یہی گُر تھا کہ حضرت میاں صاحب مدّظلّہٗ اور محمد حسین نے جناب والا کو بہت فہمایش کی کہ یہ آیت مطلوب میں قطعی الدلالت نہیں اس آیت کو آپ بمقابل مرزا صاحب ہرگز پیش نہ کریں کیونکہ یہ دونوں صاحب اس آیہ کے نشیب و فراز سے واقف تھے مگر جناب نے ان کی فہمایش کو قبول نہ فرمایا اور تفسیر ابن کثیر پر تکیہ کر لیا۔ آپ کے شان محققی سے یہ امر نہایت بعید ہے۔
بحث لام تاکید بانون تاکید ثقیلہ
ازہری وغیرہ نے تصریح میں تصریح کی ہے کہ لام تاکید کا حال کے واسطے آتا ہے۔ اب تسلیم کیا کہ فقط نون تاکید صرف استقبال کے واسطے ہے لیکن جب کہ کسی صیغہ میں لام تاکید بھی ہو۔ جو حال کے واسطے آتا ہے اورنون تاکید بھی ہو۔ چنانچہ ما نحن فیہ میں ہے تو وہاں پر خالص استقبال بالضرور ہونے کی کیا وجہ۔ اس کی کوئی دلیل مولوی صاحب نے نحو سے ارشاد نہیں فرمائی۔ اور تقریب دلیل محض ناتمام رہی ہے۔ یہ مانا کہ صرف نون تاکید استقبال کے واسطے نحو میں لکھا ہے۔ امر۔نہی۔ استفہام۔ تمنی ۔عرض وغیرہ ان میں صرف نون تاکید ہوتا ہے۔ بغیر لام تاکید کے۔ پس ان صیغوں میں صرف استقبال ضرور مراد ہوسکتا ہے۔ لیکن جس صیغہ میں لام تاکید بھی ہو اور نون تاکید بھی اس میں خالص ہونے استقبال کی کیا دلیل ہے۔ شاید مولوی صاحب نے ازہری کی اس عبارت سے یہ بات سمجھی ہے کہ لانھما تخلصان مدخولھما للاستقبال۔ ہم کہتے ہیں کہ یہاں پر استقبال سے صرف صیغہ استقبال مراد ہے جس کی نسبت السنہ اطفال پر جاری ہے کہ صیغہ حال ہمچو صیغہ استقبال است اور یہ بات خود ازہری کی عبارت سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ذٰلک ینافی المضی اگر مراد ازہری کی خالص زمانہ استقبال ہوتی تو کہتا کہ وذٰلک ینافی المضی والحال اور اسی واسطے قسم کے جواب مثبت میں کوئی شرط زمانہ استقبال کی نہیں رہتی صرف صلاحیت تامہ فعلی کے واسطے دخول نون کی تمام کتب نحو میں لکھی ہے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 249
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 249
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/249/mode/1up
اورؔ اسی وجہ سے اکثر نحویین نے لفظ مستقبل مثبت کی جگہ لفظ مضارع مثبت کا اختیار کیا ہے اور اکثر نے صرف لفظ فعل مثبت کاکمالا یخفی علی من دارس کتب النحو۔ شرح ملا اور ہوامش اسکے میں لکھا ہے ولزمت ای نون التاکید فی مثبت القسم ای فی جوابہ المثبت لان القسم محل التاکید فکرہوا ان یؤکد وا الفعل بامر منفصل عنہ و ہو القسم من غیر ان یؤکدوہ بما المتصل بہ و ہو النون بعد صلاحیتہ لہ ای صلاحا تاما و احترز عما لایصلح اصلاکالجملۃ الاسمیۃ والفعل الماضی المثبت ومافیہ مانع کما سیجیء و عما لا یصلح صلاحا تاما کالمستقبل المنفی الی اٰخر العبارۃ۔
تفصیل حال جواب قسم فعلِ مثبت
تفصیل حال جواب قسم فعل مثبت کی تفصیل مقام یہ ہے کہ جب قسم کا جواب مثبت جملہ فعلیہ واقع ہو تو باعتبار زمانہ کے اُس کی پانچ صورتیں ہوسکتی ہیں یا تو خالص ماضی مراد متکلم کی ہو۔ اس صورت میں لام اور قد کے ساتھ اکثر جواب قسم آتا ہے جیسا کہ واللّٰہ لقد قام زید۔ یا جواب قسم میں مراد متکلم کی صرف حال ہو تو اندریں صورت جواب قسم میں صرف لام آویگا جیسا کہ
؂ یمینا لا یغض کل امرأ یزخرف قولا ولا یفعل
اور یا صرف استقبال مراد متکلم کے ہواس صورت میں لام تاکید نون تاکید کے ساتھ جواب قسم کا آنا لازم ہے جیسا کہ ۱؂ ۵؍۱۷ ان صورتوں کی تصریح تو جملہ کتب نحو صغیر و کبیر میں لکھی ہے مولانا عبد الحکیم تکملہ میں لکھتے ہیں۔ قولہ فالام آہ ھذہ اللام لام الابتداء المفیدۃ للتاکید لا فرق بینہا و بین انّ الا من حیث العمل و تفصیل الکلام فی ھذاالمقام ان القسم الذی لغیر السوال جوابہ اما جملۃ اسمیۃ مثبتۃ فیلزمھا انّ او اللام و قد یجمع بینھما و حینئذٍ یدخل اللّام علی الخبر فلا یستغنی الاسمیۃ عنھما من دون استطالۃ الا نادرًا و امّا جملۃ اسمیۃ منفیۃ فیلزمھا ما اولا او ان النافیۃ و اما جملۃ فعلیۃ فان کان فعلھا ماضیا غیر منصرف او منصرفًا فی معنی التعجب او المدح یلزمھا اللّام و ان کان ماضیا منصرفا لا فی معنی التعجب او المدح یلزمھا مع اللّام

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 250
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 250
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/250/mode/1up
قدؔ اومأَ فی معناہ مثل ربما و قد یقدر قد و یکتفی بالام باللفظ ولا یکتفی بقد الا اذا طال القسم او کان فی ضرورۃ الشعر نحو قولہ تعالی ۱؂ و ان کان مضارعا استقبالیا یلزمھا اللام مع نون التاکید و ان دخلت اللام علی نفس المضارع الا نادرا ولا یکتفی عن الام بالنون الا فی ضرورۃ الشعر واذا لم یدخل الام علی نفس المضارع یکتفی بالام نحن لان متم او قتلتم لا الی اللہ تحشرون و ان کان مضارعا حالیا یکون بالام من غیر النون و اما جملۃ فعلیۃ منفیۃ فیلزمھا فی الماضی ما اولا و یلزم تکرار لاھٰھنا لان الماضی ینقلب فی الجواب مع لامستقبلا و فی المضارع استقبالیا کان او حالیا ما اولا مع النون او بدونھا۔ الخ۔اب اگر قسم کے جواب مثبت فعلی میں مراد متکلم کے دوام تجددی ہو یا حال و استقبال دونوں مراد ہوں جو چوتھی اور پانچویں صورت ہے تو اسکے واسطے بھی وہی صیغہ مضارع کا مؤکد بلام تاکید و نون تاکید بولیں گے اگر مولوی صاحب اسکو ناجائز فرماویں تو بحوالہ ائمہ کبار نحو کے جو سابق مذکور ہوچکے اس مراد کے واسطے کوئی صیغہ استخراج فرماویں ورنہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایسے مافی الضمیر کے لئے کوئی صیغہ اور پتہ نشان عرب میں موجود نہ ہو۔ بینوا توجروا۔
حاصل یہ ہے کہ قسم کے جواب کے واسطے صرف استقبال کا ہونا کچھ واجب اور لازم نہیں ہے بلکہ جواب قسم کبھی ماضی ہوتا ہے کبھی حال کبھی استقبال کبھی استمرار اور دوام تجددی اور نیز سابق ازیں علم بلاغت سے ثابت ہوچکا کہ صیغہ مستقبل کا واسطے استمرار اور دوام تجددی کے مستعمل ہوتا ہے۔ پس اگر جواب قسم کا صیغہ مستقبل مؤکد بلام تاکید و نون تاکید ہووے تو اس کی امتناع دوام تجددی کے لئے ہونے میں یا حال و استقبال دونوں مراد ہونے میں کونسی دلیل نحوی قائم کی گئی ہے باوجود یکہ لام تاکید بھی جو حال کے واسطے آتا ہے اسمیں موجود ہے اگر کوئی ایسی دلیل اکابر ائمہ نحو یین سے بطور اجماع کے منقول ہوئی ہو تو بیان کی جاوے اُس میں نظر کی جاویگی۔ بلکہ جو آیات کہ جناب نے بطور شواہد کے اپنے مدعا کے واسطے لکھی ہیں۔ ان میں اکثر آیات واسطے استمرار اور دوام تجددی کیلئے اور حال و استقبال دونوں زمانوں کے واسطے ہوسکتی ہیں کوئی محذور

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 251
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 251
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/251/mode/1up
نحوی لازم نہیں آتا۔ البتہ آیت اول میں چونکہ صرف نون تاکید ہے لام تاکید نہیں لہٰذا وہ صرف استقبال کے واسطے ہے۔ اور آیت دوم ۱؂ ۱؍۲ میں لام تاکید معہ نون تاکید موجود ہے۔ پس اسکے حال و استقبال ہونے میں کوئی محذور نہیں ہے علیٰ ھٰذا القیاس۔ آیت سوم ۲؂ ۳؍۲ میں حال و استقبال دونوں مراد ہوسکتے ہیں۔ اور اگر کسی تفسیر میں ان آیات کو صرف استقبال پر حمل کیا ہو تو ہم کو کچھ مضر نہیں۔ اور آیت چہارم ۳؂ ۱۷؍۲میں حال و استقبال دنوں مراد ہو سکتے ہیں اور ہم یہ کب کہتے ہیں کہ ہر جگہ حال ہی مراد ہوا کرے اور لَتَنْصُرُنَّہٗ میں صرف استقبال ہی مراد ہونا ہم کو کچھ مضر نہیں۔ آیت پنچم ۴؂ ۱۰؍۴میں لام تاکید معہ نون تاکید موجود ہے حال و استقبال دونوں مراد ہوسکتے ہیں اور اگر کسی تفسیر میں صرف استقبال کا مراد ہونا ان آیات میں لکھا ہوتو ہمکو کچھ مضر نہیں۔ اور آیت نمبر ۴ ۵؂ اگر خبر بمعنے انشاء کے ہے اور اس واسطے صرف استقبال مراد ہے تو ہم کوکچھ مضر نہیں۔ آیت ششم ۶؂ میں دونوں زمانہ مراد ہوسکتے ہیں کوئی محذور لازم نہیں آتا آیت ہفتم ۷؂ میں لام تاکید مع نون تاکید موجود ہے۔ حال و استقبال دونوں مراد ہیں۔ ورنہ اس کے کیا معنے کہ وہ مہاجرین اللہ تعالیٰ کے راہ میں قتل تو کئے گئے اور اُس کی راہ میں تکلیفیں اُٹھا چکے اور ابھی تک جنت میں داخل نہیں ہوئے اور ہزاروں برس کے بعد کہیں جنت میں داخل ہونگے بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ نزول آیت کے وقت میں بھی داخل ہوئے اور ہونگے اور داخل ہوتے چلے جاتے ہیں یاد کرو القبر روضۃ من ریاض الجنّۃالخ۔ آیت ہشتم ۸؂ کے بھی مضارع ہونے میں کوئی محذور نہیں۔ ابلیس کا اضلال حضرت آدم کے وقت دخول جنت سے متحقق ہے۔ آیت نہم ۹؂ میں بھی دونوں زمانے مراد ہوسکتے ہیں۔ کونسا محذور لازم آتا ہے بیان کیا جاوے اس میں نظر کی جاوے گی۔ آیت دہم۔ ۱۰؂ میں بھی خالص استقبال کا بطور وجوب و لزوم کے مراد ہونا کچھ ضرور نہیں و من ادعی فعلیہ البیان۔ آیت یاز دہم۔ ۱۱؂ میں بھی دونوں زمانہ مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ مرتے جاتے ہیں۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 252
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 252
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/252/mode/1up
اورؔ جمع ہوتے جاتے ہیں اور یہ جمع قیامت تک رہے گا۔ قیامت اُسکی انتہا ہے کیونکہ الٰی انتہا کے واسطے آتا ہے آیت ۱؂ میں صیغہ فلنسئلن مضارع ہوسکتا ہے کیونکہ لام تاکید معہ نون تاکید کے اُس میں موجود ہے اور دوام تجددی بھی مراد ہوسکتا ہے۔ شروع سوال وقت موت سے ہی برزخ میں بھی ہوتا ہے اور حشر و نشر اجساد میں بھی رہے گا تا دخول جنت یا نار۔ شاہ عبدالقادر صاحب ترجمہ اسکا زمانہ حال کے ساتھ فرماتے ہیں سو ہم کو پُوچھنا ہے اُن سے جن پاس رسول بھیجے تھے اور ہم کو پُوچھنا ہے رسُولوں سے۔ آیت ۲؂ میں حال و استقبال دونوں مراد ہوسکتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ترجمہ بلفظ مضارع کیا ہے۔ البتہ ببرم دستہائے شمارا و پاہائے شمارا۔ آیت ۳؂ میں بھی دونوں زمانے مراد ہوسکتے ہیں اور کوئی محذور لازم نہیں آتا۔ کیونکہ وقت نزول آیہ سے یعنی حضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت سے یہود پر عذاب نازل ہونا شروع ہوگیا اور یہ عذاب اُن پر قیامت تک نازل رہے گا۔ اسی واسطے ترجمہ اس آیہ کا حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے بلفظ مضارع کیا ہے ؂ ویاد کُن چُوں آگاہ گردانید پروردگار تو کہ البتہ بفرستد برایشاں تاروز قیامت۔ آیت ۴؂ میں حال و استقبال دونوں مراد ہیں کیونکہ اسکے کیا معنے کہ کفار پیغمبروں کو اذیت تو دے چکے یا دیتے ہیں۔ اور اُن پیغمبروں نے ابھی تک صبر نہیں کیا کسی آئندہ زمانہ میں صبر کرینگے اور زمانہ حال میں بے صبر ہیں ۵؂ آیت ۶؂ الایہ میں بھی حال و استقبال دونوں مراد ہوسکتے ہیں۔ کوئی محذور لازم نہیں آتا۔ خصوصا جبکہ لحاظ کی جاوے تعریف زمانہ حال کی جو اوپر گذر چکی کہ زمانہ حال ایک امر عرفی ہے اور اُسکی مقدار بلحاظ افعال کے مختلف ہے اور وہ مفوض الی العرف ہے۔ آیت ۷؂ میں تسلیم کیا کہ صرف زمانہ استقبال مراد ہے مگر ہم کو یہ کچھ مضر نہیں ۔ہم یہ کب کہتے ہیں کہ ایسے صِیَغ میں زمانہ حال ضرور بالضرور مراد ہی ہوتا ہے اور آیت مذکورہ میں ایک صارف بھی موجود ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 253
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 253
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/253/mode/1up
کہؔ جسکے سبب سے زمانہ حال مراد نہیں ہوسکتا کہ وہ لفظ یوم القیامۃ کا ہے مگر مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے ترجمہ اسکا بلفظ مضارع کیا ہے۔ و البتہ بیاں کند برائے شما روز قیامت آنچہ دراں اختلاف مے نمودید۔ شاید حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے ترجمہ بلفظ مضارع اسواسطے کیا ہے کہ من مات فقد قامت قیامتہٗ، حدیث صحیح ہے پس یہ بیان بطور استمرار کے ہمیشہ جاری ہے قیامت تک یعنی حشر اجساد تک۔ آیت ۱؂ میں دونوں زمانے حال و استقبال مراد ہوسکتے ہیں۔ کوئی محذور لازم نہیں آتا۔ شاہ عبد القادر صاحب نے ترجمہ آیت کا برعایت زمانہ حال کیا ہے۔ یعنے اور تم سے پُوچھ ہونی ہے جو کام تم کرتے تھے۔ یہاں تک جس قدر آیتیں مولوی صاحب نے لکھیں وہ سب مناقض اور منافی دعوٰے مولوی صاحب کے ہیں اور مؤید حضرت اقدس مرزا صاحب کے ولنعم ما قیل
؂ عدو شود سبب خیر گر خدا خواہد
خمیر مایۂ دوکان شیشہ گرسنگ است
اس مقام پر ہیچمدان کو وہ مثل یاد آئی جسکو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی آیت کے رکوع میں بیان فرمایا ہے قال اللہ تعالیٰ ۔ ۲؂ ۱۹؍۱۴آیت ۳؂ میں حال و استقبال بلکہ استمرار مراد ہے کوئی محذور لازم نہیں آتا۔ اور شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی ترجمہ اسکا بلفظ مضارع کیا ہے۔ ہر آئینہ زندہ کنیمش بزندگانئ پاک و بدہیم آنجماعہ را مزد ایشاں۔ اور شاہ عبد القادر صاحب فائدہ میں لکھتے ہیں اچھی زندگی قیامت کو جِلا دینگے یا دنیا میں اللہ کی محبت اور لذت میں۔ آیت ۴؂ ۱؍۱۵میں اگر زمانہ استقبال ہی مراد ہے تو حضرت مرزا صاحب کو کچھ مضر نہیں کیونکہ حضرت اقدس اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ کسی جگہ ان صِیَغ میں خالص زمانہ استقبال مراد نہیں ہوسکتا بلکہ وہ تو یہ فرماتے ہیں کہ بحسب مقامات ایسے صیغ میں کہیں تو دوام تجددی مراد ہوتا ہے جیسا کہ حواشی مطول سے صیغہ مستقبل کا ہونا دوام تجددی کے واسطے نقل ہوچکا اور کہیں حال و استقبال مراد ہوتا ہے اور کہیں خالص استقبال چونکہ یہاں پر سیاق آیہ میں چند قرائن صارفہ عن ارادۃ الحال موجود ہیں اسواسطے حال مراد نہیں خالص استقبال مراد ہے۔ لیکن مولوی صاحب کا استقبال تو یہاں پر بھی موجود نہیں کیونکہ نزول آیت سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 254
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 254
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/254/mode/1up
بہتؔ پہلے دونوں مرتبہ فساد بھی اسرائیل کے زمانہ ماضی میں ہوچکے ہیں۔ اول فساد کی سزا میں جالوت غالب ہؤا اور دوسرے فساد کی جزا میں بخت نصر غالب ہوچکا۔ آیت ۱ ؂ میں دونوں زمانہ حال و استقبال مراد ہیں اور کوئی محذور نہیں بلکہ یہاں پر مضارع ہونا ضروری ہے بلکہ دوام تجدد ہی کا مراد ہونا انسب ہے۔ کیونکہ جوشخص جس وقت سے ارادہ نصرت الٰہی کرتا ہے اُسی وقت سے نصرت الٰہی شامل حال اسکے ہونے لگتی ہے اگرچہ دوسروں کو محسوس نہ ہو۔ آیت:- ۲؂ میں دونوں زمانہ حال و استقبال مراد ہوسکتے ہیں کیونکہ لفظ استخلاف کا عام ہے شامل ہے استخلاف رُوحانی اور جسمانی دونوں کو ۔پھر رُوحانی استخلاف تو وقت بعثت سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ سلمنا کہ استخلاف جسمانی و ظاہری ہی مراد ہے تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خلیفۃ اللہ نہیں تھے۔ بلکہ ان سب وعدوں مندرجہ آیت کا ایفا تو حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت سے شروع ہوگیا تھا۔ پھر اگر آیت مذکورہ میں زمانہ حال بھی مراد ہو تو کونسا محذور نحوی لازم آتا ہے۔ خصوصاً اُس حالت میں کہ مطول وغیرہ سے تصریح ہوچکی کہ زمانہ حال کا ایک امر عرفی ہے اور اس کی مقادیر مختلف ہیں جو مفوض ہیں اہلِ عرف پر۔ آیت ۳؂ دونوں زمانہ حال و استقبال مراد ہوسکتے ہیں مقدار زمان الحال مفوض الی العرف۔ اسی واسطے شاہ ولی اللہ صاحب نے ترجمہ اس آیت کا ساتھ لفظ مضارع کے کیا ہے۔ ہر آئینہ عقوبت کنم اور اعقوبتِ سخت۔ اور اگر خالص استقبال ہی مراد ہو تو حضرت اقدس مرزا صاحب کو کچھ مضر نہیں ہے۔ وہ کب قائل ہیں کہ ایسے صِیَغ میں زمانہ حال التزاماً مراد ہوتا ہے۔ آیت ۴؂ میں حال و استقبال بلکہ دوام تجددی اور استمرار مراد ہے اسمیں کونسا محذور نحوی لازم آتا ہے۔ خود ۵؂ اس کی دلیل ہے جو متضمن شرط کو ہے اگر یہ شرط زمانہ ماضی میں واقع ہوچکی تو جزا اُسکی بھی زمانہ ماضی میں واقع ہوچکی اور اگر یہ شرط زمانہ حال میں متحقق ہو تو جزا اس کی زمانہ حال میں متحقق ہوتی ہے اور اگر شرط زمانہ استقبال میں واقع ہو گی تو جزا اس کی بالضرور زمانہ استقبال میں متحقق ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت بمنزلہ قضیہ شرطیہ فیصلہ لزومیہ کے ہے۔ مولوی صاحب اس بارہ میں جب کچھ مباحثہ منطقیہ بیان فرماوینگے تو ہیچمدان بھی انشاء اللہ تعالیٰ کلام کو بسط کردیگا۔ آیت ۶؂ میں دونوں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 255
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 255
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/255/mode/1up
زماؔ نہ حال و استقبال مراد الٰہی ہیں زمانہ استقبال کی کوئی تخصیص ضروری نہیں ہے اسی واسطے ترجمہ اسکا مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے بلفظ مضارع کیا ہے۔ و البتہ بشناسی ایشاں را دراسلوب سخن۔ آیت ۱؂ ا گر صرف زمانہ استقبال ہی مراد مان لیا جائے تو حضرت اقدس مرزا صاحب کو کچھ مضر نہیں زمانہ حال کا ارادہ اُنکے نزدیک لازم اور واجب نہیں اور اس آیہ میں جو خالص زمانہ استقبال مراد ہوا تو اس کا سبب یہ ہے کہ سیاق آیت میں قرائن صارفہ عن ارادۃ الحال موجود ہیں کیونکہ یہ آیت جو اب ہے زعم کفارکا کہ بعث ہرگز نہ ہوگا لہٰذا جواب میں بھی صرف استقبال مراد ہوا۔ قال اللہ تعالیٰ۔ ۲؂ ۱۵؍۲۸ ظا ہر ہے کہ لن مضارع کو خالص استقبال کے واسطے کردیتا ہے پس جبکہ زعم کفار صرف نفی بعث استقبال کے واسطے تھا تو جواب اور اُن کی رد میں بھی صرف استقبال ہی مراد لیا گیا۔ پس یہاں پر ایک قرینہ صارفہ عن ارادۃ زمان الحال موجود ہے۔ اور اگر آغاز بعث کا وقت موت سے لیا جاوے اور انتہا اس کا یوم النشور اور حشر اجساد تک ہو بلحاظ حدیث صحیح کے کہ من مات فقد قامت قیامتہ وارد ہے تو زمانہ حال بھی مراد ہو سکتا ہے۔ آیت ۳؂ میں لام تاکید جو حال کے واسطے آتا ہے معہ نون تاکید ثقیلہ کے موجود حال و استقبال دونوں زمانہ مراد ہیں۔ نہیں معلوم مولوی صاحب نے اکثر آیات گزشتہ جن میں بحسب مقامات کہیں حال و استقبال دونوں مراد ہیں اور کہیں دوام تجددی مراد ہے۔ خصوصاً آیت ھٰذا کو خالص استقبال کے واسطے کیوں قرار دیا ہے۔ آیت ھٰذا کی تفسیرملخصاً فتح البیان سے لکھی جاتی ہے تاکہ ناظرین کو ثابت ہو کہ خالص استقبال کا التزاماًمراد ہونا اس آیہ میں محض غلط اور باطل ہے اور مخالف ہے تفسیر حضرت تتمہ محدثین حضرت نواب صاحب بہادر مغفور و مرحوم کے ۔حضرت مرحوم نے تفسیر آیت مذکورہ میں جو لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے۔ حالًا بعد حالٍ قالی الشعبی و مجاھد لترکبنّ یا محمدؐ سماءً بعد سماءٍ قال الکلبی یعنی تصعد فیھا و ھذا علی القراء ۃ الاولی و قیل درجۃ بعد درجۃ و رتبۃ بعد رتبۃ فی القرب من اللّٰہ و رفعۃ المنزلۃ و قیل المعنی لترکبن حالا بعد حال کل حالۃ منھا مطابقۃ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 256
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 256
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/256/mode/1up
لاختھا فی الشدۃ و قیل المعنی لترکبن ایھا الانسان حالاً بعد حال من کونک نطفۃ ثم علقۃ ثم مضغۃ ثم حیًّا و میتًا و غنیًا و فقیرًا۔ قال مقاتل طبقا عن طبق یعنی الموت و الحیٰوۃ و قال عکرمۃ رضیع ثم فطیم ثم غلام ثم شاب ثم شیخ و عن ابن مسعود قال یعنی السّماء تنفطر ثم تنشق ثم تحمر و قیل یعنی الشدائد واھوال الموت ثم البعث ثم العرض و قیل لترکبن سنن من کان قبلکم کما ورد فی الحدیث الصحیح انتہی حاصلہ و ملخصہ۔ بالآخر اب ناظرین کی خدمت میں ایک گذارش ضروری یہ ہے کہ جناب
مولوی صاحب نے پرچہ نمبر دوم میں فرمایا ہے۔ ’’ کہ بیضاوی میں لکھا ہے کتب اللّٰہ لاغلبن انا و رسلی بالحجۃ ‘‘ ظاہر ہے کہ لوح محفوظ میں جب لکھا تھا اسوقت اور اس سے پہلے غلبہ متصور نہ تھا کیونکہ غلبہ کے لیے غالب مغلوب ضروری ہیں اُسوقت نہ رسل تھے نہ اُنکی امت تھی یہ سب بعد اس کے ہوئے ہیں‘‘ انتہٰی ۔ یہ ہیچمدان مولوی صاحب کے قول کی اور تائید کرتا ہے کہ جناب نے بیضاوی کا حوالہ جسکی تفسیر کو آیت لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ میں آپ محض باطل اور غلط فرما چکے ہیں ناحق تحریر فرمایا۔ خود قرآن شریف میں موجود ہے ۱؂ ظاہر ہے کہ کتابت لوح محفوظ کی سب سے سابق ہے زمانہ ماضی و حال و استقبال جملہ ازمنہ ثلاثہ کتابت لوح محفوظ سے زمانہ استقبال میں واقع ہیں فیصلہ شد۔ مولوی صاحب نے تمام نزاع استمرار و ماضی و حال حضرت اقدس مرزا صاحب کا ختم کردیا ۔ و للّٰہ الحمد ۔ ؂
ہوئی ماضی و یا کہ حال ہوا
چلو جھگڑا ہی انفصال ہوا
چونکہ مولوی صاحب کا اقرار پرچہ ثانی میں بدیں خلاصہ مضمون مندرج ہوچکا ہے کہ اصل اور عمدہ بحث کل ابحاث مندرجہ پرچہ ہائے ثلاثہ کی بحث نون تاکید کی ہے پس جبکہ نون تاکید کا نزاع ہی سب ختم ہوچکا۔ لہٰذا کل پرچہ ہائے ثلاثہ کا جواب بھی ختم ہوگیا۔ مگر بفرمائش بعض احباب بطور قال و اقول کے بھی جواب دیا جاتا ہے۔ قالاگر جناب مرزاصاحب الی قولہ تو میں اپنے اس مقدمہ کو غیر صحیح تسلیم کرلونگا ۔ اقول حضرت اقدس مرزا صاحب تفاسیر معتبرہ اور آیات بینات سے یہ بات ثابت فرماچکے کہ فان حقیقۃ الکلام للحال و لا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 257
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 257
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/257/mode/1up

وجہؔ لان یراد بہ فریق من اھل الکتٰب یوجدون حین نزول عیسٰی علیہ السلام۔وقال الزجاج ھٰذا القول بعید بعموم قولہ تعالٰی ۱؂ والذین یبقون یومئذ یعنی عند نزولہ شرذمۃ قلیلۃ منھم ۔کذا فی فتح البیان۔ اور اس ہیچمدان کے بیان سے بحوالہ مطول و ہوامش وغیرہ اُسکے کے دوام تجددی اور حال و استقبال کا مراد ہونا بحسب مقامات مناسبہ ثابت ہوچکا ۔ پس اب مولوی صاحب کو لازم ہے کہ بہ تقاضائے اتقا و خشیۃ الٰہیہ کے حسب اقرار خود اس اپنے مقدمہ کو غیر صحیح تسلیم فرماویں قال اور حاصل ترجمہ یہ ہے۔ اقول حضرت اقدس مرزا صاحب آیات بینات سے یہ امر بخوبی ثابت فرماچکے کہ ایسا زمانہ قیامت تک کبھی نہیں آسکتا کہ بسیط الارض پر کوئی فرقہ کفرہ فجرہ کا باقی نہ رہے۔ ہاں البتہ غلبہ اور ظہور اہل اسلام کا کبھی جسمانی طور پر اور کبھی رُوحانی طور پر اور کبھی براہین احمدیہ کے رُو سے بالضرور ہو گا ۔خو د آیت ۲؂ ۱۱؍۱۰ جو مفسرین نے زمانہ مسیح بن مریم کے واسطے لکھی ہے یہی مضمون بآواز بلند ند ا کررہی ہے اور جمیع ما فی الارض کی ہدایت تو مشیت الٰہیہ کے محض خلاف ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ ۳؂ ۱۵؍۲۱ ایضا قال تعالیٰ ۴؂۱۰؍۱۲ و غیر ذٰلک من الاٰیات الکثیرۃ المصرحۃ بذالک۔ قولہ تو اس معنے کے غلط ہونے کی یہ وجہ ہے کہ صاحب القول الجمیل سلمہ اس مقام پر غلط فاحش کا مصدر ہؤا ہے الی قولہ اسلئے یہ معنے غلط ہے ۔ اقول مولانا صرف صاحب قول الجمیل سلمہ نے ہی اس جملہ کو جملہ انشائیہ نہیں قرار دیا بلکہ جملہ نحو یین ایسے جملہ کو جو مصدر بقسم ہو خواہ وہ قسم مقدر ہو یا ملفوظ جملہ انشائیہ کہتے ہیں۔ اور حصر جملہ انشائیہ کا صرف صیغہ امر میں یہ جناب والا کا ہی ایجاد ہے۔ جملہ انشائیہ کی اقسام تو سوا امر کے اور بہت ہیں جو ہر ایک کتاب صغیر و کبیر نحو میں مذکور ہیں۔اس مسئلہ کو نحو میر خوان اطفال بھی جانتے ہیں۔ صاحب القول الجمیل سلّمہ نے لیؤمننّ کو ہرگز ہرگز صیغہ امر کا نہیں سمجھا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 258
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 258
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/258/mode/1up
بلکہؔ تحریض سمجھی ہے۔ جو بیضاوی وغیرہ میں لکھی ہے اُسی تفسیر کے موافق معنے آیت کے صاحب القول الجمیل نے لکھے ہیں ۔ پس یہ اعتراض جناب کا صاحب القول الجمیل سلمہ پر اپنے موقع پر نہیں ہے۔ اور یہ بات تو ثابت ہوچکی کہ خالص استقبال کا مراد ہونا اس مقام پر کچھ ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ زمانہ حال کا مراد ہونا بھی یہاں پر ضروری ہے۔ قولہ اُن میں سے ہیں ابوہریرہ الٰی قولہ۔ و ھٰذا القول ھو الحق کما سنبینہ بعد بالدلیل القاطع انشاء اللّٰہ تعالٰی۔ اقول اِس قول میں جسقدر تابعین وغیرہ کا اس طرف جانا مولوی صاحب نے ذکر فرمایا کوئی قول انکا ایسا نقل نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ جس طرح مولوی صاحب اس آیہ کو قطعی الدلالت فرماتے ہیں اسی طرح یہ جماعت بھی اس آیہ کو قطعی الدلالت کہتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو خود بطور شک کے جس پر حرف اِنْ دلالت کرتا ہے یہ فہم اپنا مشکوک قرار دیتے ہیں پھر اور کسی تابعی وغیرہ کا ذکر ہی کیا ہے۔ پس تقریب مولوی صاحب کی محض ناتمام ہے۔ اور مستلزم مدعا کو نہیں اور پھر اس پر مولوی صاحب کا یہ فرمانا کہ ایک جماعت کثیر سلف میں سے اسی طرف گئی ہے کیسا اپنے محل اور موقعہ پر ہے ناظرین ذرا ملاحظہ فرماویں۔ اور صاحب تفسیر ابن کثیر جو فرماتے ہیں۔ کہ و ھٰذا القول ھو الحقّ الخ ۔ تو اُن سے مطالبہ دلیل قاطع کا ہے۔ وہ دلیل قاطع بیان فرمائی جائے۔ نون ثقیلہ کی دلیل تو بہت ہی خفیفہ ہوگئی۔ قولہ اول یہ کہ آیت میں نون تاکید ثقیلہ موجود ہے الٰی قولہ غیر متصور ہے۔ اقول مقدمہ نون ثقیلہ کا بسبب لام تاکید مفتوحہ کے بالکل خفیفہ ہوگیا اور ایسی تعمیم کہ (جو اہل کتاب قبل چڑھائی جانے مسیح کے صلیب پر دُنیا میں موجود تھے۔ آیت لیؤمننّ بہ انکو بھی شامل ہو) کچھ ضروری نہیں۔ سباق آیہ میں اہل کتاب موجودین قبل واقع صلیب کے کب مراد ہیں جو یہانپر بھی وہ مراد ہوں۔ دیکھو سب جملوں ماسبق آیت کو وَ ۱؂ ۲؍۶ و غیر ذٰلک من الجمل۔ قولہ اور ایسا ہی آپ کے دوسرے معنے بھی باطل ہوئے جاتے ہیں الخ۔ اقولجبکہ مقدمہ نون ثقیلہ کا بسبب موجود ہونے لام تاکید مفتوحہ کے بالکل خفیفہ ہوگیا تو اب یہ معنے کیونکر باطل ہوسکتے ہیں اور اگر اَور وجوہ اُسکے ابطال کی آپ کے نزدیک موجود ہوں بیان فرمائی جاویں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ان میں نظر کی جاوے گی۔ قولہ جواب اعتراض دوم بدووجہ ہے اول یہ کہ الٰی قولہ بلکہ یقین مراد ہے۔ اقول جبکہ آیت میں کہیں تصریح اس امر کی نہیں تھی کہ مسیح کے آتے ہی سب اہل کتاب مسیح پر ایمان لے آویں گے تو جناب نے واسطے اثبات اپنے دعوے کے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 259
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 259
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/259/mode/1up
یہ قوؔ ل ابو مالک کا کیوں نقل فرمایا ہے قال ابو مالک فی قولہ ۱؂ قال ذٰلک عند نزول عیسٰی بن مریم علیہ السلام لا یبقٰی احد من اھل الکتٰب الا اٰمن بہ اور پھر اس پر علاوہ یہ ایک لطیفہ اَور ہے کہ قول حسن کا بھی واسطے استدلال اپنے مدعا کے نقل فرمایا ہے وقال الحسن البصری یعنی النجاشی و اصحابہ ۔ بھلا کہاں نجاشی اور کہاں اس کے اصحاب اور کہاں نزول عیسیٰ بن مریم اورکجا وہ اہل کتاب جو عند نزول عیسےٰ بن مریم ایمان لاوینگے۔ ؂ بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابکجا۔ اور پھر یہ قول بھی نقل فرمایا گیا ہے۔ وقال الضحاک عن ابن عباس وان من اھل الکتٰب لیؤمنن بہٖ قبل موتہٖ۔یعنی الیھود خاصۃ۔ یہ کیسا تناقض اور اختلاف ہے۔ صدق اللہ تعالیٰ ۲؂ اور پھر باب اعتقادیات میں بطور امکان کے یہ فرما نا آپ کا ( پس ہو سکتا ہے کہ جن کفار کا علم الٰہی میں مسیح ؑ کے دم سے کفر کی حالت میں مرنا مقدر ہو انکے مرنے کے بعد سب اہلِ کتاب ایمان لے آویں) کیسا اپنے محل اور موقع پر ہے باب عقائد میں ایسے ہی ادلّہ قطعیۃ الدلالت ہونے چاہئیں۔ اورپھر جبکہ ایمان سے مراد ایمان شرعی نہ ہؤا بلکہ مراد اُس سے یقین ہوا تو کہاں گیا وُہ مدعی کہ بعد نزول اور قبل موت عیسےٰ بن مریم کے ایک زمانہ ایسا آویگا کہ سب اہل کتاب اسلام میں داخل ہو جاوینگے۔ مولانا ۳؂ قولہ اعتراض سوم کا جواب بھی انہیں وجہوں سے ہے الخ۔اقول ان دونوں وجہوں کا غیر موجود ہونا معلوم ہو چکا کوئی اور وجہ نون خفیفہ وغیرہ کی بیان فرمائی جاوے قولہ یہ اعتراض جناب مرزا صاحب کی شان سے نہایت مستبعد ہے۔ الٰی آخر العبارۃ۔ اقول مولانا وہ کونسا زمانہ ہو چکا ہے جسمیں کوئی کافر نہ تھا۔ اگر فرماؤ حضرت آدم کے اوائل وقت میں تو گذارش یہ ہے کہ حضرت ابلیس علیہ اللعن سب سے بڑے کافر موجود تھے ۔ اور بعد ہونے اولاد کے قابیلؔ و ہابیلؔ کا قصّہ خود قرآن مجید میں موجودہے اور اگر کہو کہ قبل حضرت آدم کے۔ تو گذارش یہ ہے کہ اس زمانہ سے بحث ہی کب ہے اور اگر خواہ مخواہ آپ اس زمانہ کو ہی مصداق اس کا قرار دیویں اورفرماویں کُل ملائکہ مومنین ہی تھے۔ تو ہم کہیں گے کہ جنّات کفار بھی موجود تھے پھر وہ کونسا زمانہ تھا جس میں کوئی کافر موجود نہ تھا ۔ قال اللّٰہ تعالٰی حکایتًا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 260
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 260
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/260/mode/1up
عنؔ ابلیس ۔ ۱؂ مولا نا صاحب صیغہ لاغوینّھم اجمعین میں آپکا نون ثقیلہ بھی موجود ہے اور قرائن الیٰ یوم یبعثون اور الیٰ یوم الوقت المعلوم وغیرہ بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے یہاں پر خالص زمانہ استقبال مراد ہے۔ الحاصل خلا ف مشیّت الٰہیّہ ایسا زمانہ کیونکر ہو سکتا ہے جس میں سب لوگ ہدایت پر ہو جاویں اورکوئی گمراہ و کافر بسیط الارض پر موجود نہ رہے پس میری دانست ناقص میں ایسا کچھ فرمانا آپ کے شان سے نہایت مستبعد ہے نہ حضرت مرزا صاحب کا فرمانا۔ انصاف کو ہاتھ سے نہ دیجئے۔ مثل مشہور ہے الانصاف احسن الاوصاف قولہ دلیل دُوسری الخ۔ اقول مولانا اوّل تو یہ گذارش ہے کہ کہلؔ کے معنے میں کسی لغت کی کتاب میں دو ہزار برس کا یا زیادہ کا زمانہ بھی لکھا ہے یا نہیں اگر کسی کتاب میں لکھا ہو تو نقل فرمایاجاوے اور اگر کہیں نہیں لکھا تو پھر دو ہزار برس یا زیادہ کا زمانہ اسکے مفہوم میں کیونکر معتبر ہو سکتا ہے۔ ثانیًا جس قدر کتب تفاسیر کی عبارات سے جناب نے استدلال کیا ہے کسی تفسیر میں رفع قبل التکہل بجسدہ العنصری علی السماء کا ثبوت کسی آیت یا حدیث صحیح مرفوع متصل سے نہیں دیا پھر جب تک کہ رفع کذائی قبل التکہل دلیل قطعی سے ثابت نہ ہو لے تو دلیل آپکی مستلزم مدعی کو کیونکر ہو سکتی ہے۔ فتح البیان میں لکھا ہے۔ واورد علیٰ ھٰذا عبارۃ المواھب مع شرحھا للزرقانی وانما یکون الوصف بالنبوۃ بعد بلوغ الموصوف بہا اربعین سنۃ اذھو سن الکمال ولھا تبعث الرسل ومفاد ھٰذا الحصر الشامل لجمیع الانبیاء حتّٰی یحيٰ وعیسٰی ھو الصحیح ففی زاد المعاد للحافظ ابن القیم ما یذکر ان عیسٰی رفع وھو ابن ثلٰث وثلٰثین سنۃ لا یعرف بہ اثر متصل یجب المصیر الیہ قال الشّامی وھو کما قال فان ذٰلک انمایروی عن النصاریٰ و المصرح بہٖ فی الاحادیث النبویّۃ انہ انما رفع وھو ابن ماءۃ وعشرین سنۃ ثم قال الزّرقانی وقع للحافظ الجلال السیوطی فی تکملۃ تفسیر المحلّٰی وشرح النقایۃ وغیرھما من کتبہ الجزم بان عیسٰی رفع وھو ابن ثلٰث و ثلٰثین سنۃ و یمکث

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 261
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 261
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/261/mode/1up
بعدؔ نزولہ سبع سنین ومازلت التّعجب منہ مع مزید حفظہ واتقانہ وجمعہ للمعقول والمنقول حتّٰی رأیتہ فی مرقاہ الصعود رجع عن ذٰلک انتہیٰ ۔ اورحسین ابن الفضل سے جو یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وفی ھٰذہ الاٰیۃ نص فی انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام سینزل الی الارض۔ اگر نص سے مراد وہی نص ہے جو مصطلح اہلِ اصول ہے تو آپ ہی فرماویں کہ کلام فی الکہولت واسطے نزول من السماء بجسدہ العنصری کے کیونکر نص ہو گیا۔ اور اگر نص سے کچھ اور مراد ہے تو بیان ہو اس میں نظر کی جاوے گی۔ اورپھر یہ گذارش ہے کہ جناب والا نے آغاز پرچہ اوّل میں یہ اقرار و عہد کیا ہے کہ اس مباحثہ میں بحث صعود و نزول وغیرہ کاخلط نہ کیاجاویگا۔ پھر یہاں پر اس اقرار وعہد کا نقض آپکی جانب سے کیوں ہوا۔ ۱؂ ثالثًا کیا ایسی پیشین گوئیوں کی حقیقت کما ینبغی ایسی ہی اجتہادات اور اقوال علماء سے قبل از وقوع محقق طورپر اور قطعی و یقینی معلوم ہو سکتی ہے۔ جیسے اقوال کہ جناب نے اس دلیل دوم میں بیان فرمائے ہیں۔ نہیں نہیں مجھ کو خوب یاد آیا مولاناصاحب تو خود اس دلیل دوم کی نسبت فرما چکے ہیں کہ یہ دلیل فی نفسہٖ قطعیۃ الدلالت حیات مسیح پر نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہاں پر ایک استفسار باقی رہا وہ یہ ہے کہ جناب والا یہ بھی فرماتے ہیں کہ (مگر بانضمام آیہ ۲؂ کے قطعیۃ الدلالت ہو جاتی ہے ) اب استفسار یہ ہے کہ اصول حدیث کے رُو سے صحیح لذاتہ و صحیح لغیرہ یا حسن لذاتہ و حسن لغیرہ ۔ تو بالضرور ایک اصطلاح مقررہ اصول حدیث کی ہے ۔ شائد اسی بناء پر جناب نے قطعی الدلالت کی دو قسمیں ارشاد فرمائیں اوّل قطعیۃ الدلالت فی نفسہٖ ۔دوم قطعیۃ الدلالت لغیرہٖ۔یہ اصطلاح یا علم مناظرہ کی ہو گی یا شائد علم اصول فقہ کی ہو۔ لہٰذا گذارش ہے کہ جس کتاب علم مناظرہ یا اصول فقہ میں دلیل کی یہ دونوں قسمیں لکھی ہوں بہ تصحیح نقل ارشاد فرمائی جاویں۔ کیونکہ ہیچمدان کو یہ اصطلاح نہیں معلوم۔ نظار نے تو تعریف دلیل کی یہ لکھی ہے۔ والدلیل ھو المرکب من قضیتین للتادی الی مجہول نظری۔ اور بعض نے یہ لکھی ہے ما یلزم من العلم بہ العلم بشیء اٰخر یا ما یلزم من التصدیق بشیء اٰخر بطریق الا کتساب۔ رشیدیہ میں لکھا ہے فان حمل ذٰلک التعریف علی تعریف الدلیل القطعی البین الانتاج

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 262
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 262
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/262/mode/1up
ومعنی الاستلزام ظاھرواِن ارید بہ التعمیم کما ھو الظاھر حمل الاستلزام علی المناسبۃ المصححۃ للانتقال لا علی امتناع الانفکاک۔ اور اصولیین نے تعریف دلیل کی یہ لکھی ہے ھو ما یمکن التوصل لصحیح النظر فی احوالہ الیٰ مطلوب خبری کا لعالم مثلًا فانہ من تامّل فی احوالہ لصحیح النظر بان یقول انہ متغیر وکل متغیر حادث وصل الی مطلوب خبری وھو قولنا العالم حادث فعند الاصولیین العالم دلیل وعند الحکماء مجموع العالم متغیر وکل متغیر حادث۔
واضح خاطر ناظرین ہو کہ مولوی صاحب نے اوّل دلیل کا نام تو قطعیۃ الدلالت فی نفسہٖ رکھا ہے اور بقیہ اربعہ کا نام ظنّی رکھ کر قطعیۃ الدلالت لغیرہٖ فرمایا ہے اور غیر سے مراد وہی دلیل اوّل ہے ۔ پس یہ دلائل اربعہ ظنّیہ دلیل اوّل کے انضمام سے قطعیۃ الدلالت کیونکر ہو گئیں۔ اگر دلیل اوّل ان دلائل کے واسطے بمنزلہ مقدمہ دلیل کے گردانی گئی ہے کہ المقدمۃ ما یتوقف علیہ صحۃ الدلیل اعم من ان یکون جزء امن الدلیل اولا۔ تو اس صور ت میں دلیل اوّل دلیل نہ رہی بلکہ مقدمہ دلائل اربعہ ہو گئی۔ ہاں اسکا ترتیب کرنا جناب پر باقی رہا اور خواہ جناب اس کو مرتب فرماویں یا نہ فرماویں ہم تو اُس پر نقض تفصیلی کر چکے۔ اور اگر وہ خود فی نفسہٖ ایک دلیل جُداگانہ ہے تو یہ دلائل نہ ر ہے بلکہ حسب اصطلاح نظار کے امارت ہو گئے۔ لانہ یقال لملزوم الظن امارۃ لادلیل اور یہ اصطلاح جناب کی حسب اصطلاح اصول فقہ کے بھی درست نہیں معلوم ہوتی۔ اگر درست ہوتی تو مثلًا خفی کو جو ظاہر کے مقابل ہے ظاہر لغیرہٖ اور مشکل کوجو نص کے مقابل ہے نص لغیرہٖ اورمجمل کوجو مفسر کے مقابل ہے مفسر لغیرہٖ اور متشابہ کو جو محکم کے مقابل ہے محکم لغیرہٖ بھی کہہ دیا کرتے اور تمام اقسام نظم قرآن مجید کے جو اصولیین نے لکھے ہیں انکا رجوع کسی جگہ پر ایک قسم کی طرف ہو جایا کرتا۔ اگر اس قسم کا مسئلہ اصول فقہ میں مندرج ہو تو ازراہ عنایت ذرہ وضاحت سے بیان فرما دیا جاوے تاکہ ہیچمدان کی سمجھ میں آجاوے اور جو حُسن کہ جناب نے اپنے معنے کے بموجب کلام فی الکہولت میں ارشاد فرمایا ہے وہ حُسن تو سب کچھ سہی مگر اُس حُسن کا ثبوت ایسے مقام پر کتا ب و سنت صحیحہ سے بھی تو ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ایک خیالی حُسن ہوگا جیسے شعراء کو اپنے خیالات اور مضامین شاعری کا حُسن معلوم ہوا کرتا ہے اور اس کلام فی الکہولت کی نسبت

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 263
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 263
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/263/mode/1up
جو ؔ حسن حضرت اقدس مرزا صاحب نے بدلیل بیان فرمایا ہے وہ کیاتھوڑا ُ حسن ہے جو اس خیالی حسن کو واقعی خیال کر لیا جاوے۔ قولہ دلیل سوم الیٰ آخرہ الدلیل۔ اقول مولانا صاحب ۱؂ کی ضمیر کا مرجع جو جناب نے رُوح مع الجسد کو قرار دیا۔یہ مرجع ضمیر تو آپ ہی کے ما فی الضمیر میں ہے۔ ہیچمدان نے تو ما قبل اس آیہ کے تمام رکوع میں تفحص کیا ۔ مگر کسی جگہ رُوح مع الجسد مذکُور نہیں۔ یہ کیا معمّا جناب نے ارشاد فرمایا۔ البتہ مسیح عیسیٰؑ بن مریم تو مذکور ہے اور وُہی مرجع کی ضمیر کا ہے اور وہی مرجع ۲؂ کا۔ ظاہر ہے کہ اعلام و اسماء کا اطلاق جیسا کہ روح مع الجسد پر ہوتا ہے ویسا ہی صرف روح بلا جسد پر بھی ہوتا ہے بلکہ حقیقت انسانیہ کا مصداق تو وُہی رُوح انسانی ہے۔ ولنعم ما قال المولوی
؂ آں توئی کہ بے بد ن داری بدن پس مترس از جسم جاں بیرون شدن
معنے آیت کے یہ ہوئے کہ اُٹھا لیا اللہ تعالیٰ نے عیسیٰؑ کو اپنی طرف یعنی اسکی رُوح کو اُٹھا لیا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایاتھا کہ۳؂ پس اس آیت کو خواہ آیت اوّل کے ساتھ انضمام کیجئے یا نہ کیجئے مدعا کو ہرگز مستلزم نہیں اور تقریب دلیل کی محض نا تمام ہے بلکہ اس آیہ سے تو عکس مُدّعا جناب کا ثابت ہو تا ہے جیسا کہ حضرت اقدس مرزا صاحب سلمہ‘ نے مفصلًا بیان فرمایا ہے۔ قولہ دلیل چہارم الیٰ آخر الدلیل۔ اقول مولانا صاحب جناب کا اقرار پرچہ اوّل میں مندرج ہے کہ اس مباحثہ میں بحث صعود و نزول عیسیٰ ؑ وغیرہ کا خلط نہ کیا جاویگا پھر یہاں پر مناط استدلال خودنزول کو کیوں قرار دیا گیا۔ اور یہ کیوں فرمایا گیا کہ ( پس متعین ہوا کہ مراد نزول ہے) سلمنا کہ نزول ہی مراد ہے لیکن نزول بار ثانی مراد ہونے کی وجہ وجیہ نہیں ہے وہی نزول بار اوّل کیوں نہ مراد ہو جس کو جناب نے حدوث سے تعبیر کیا ہے اور اس احتمال حدوث کو جن وجوہ سے جناب نے باطل کیا ہے ان وجوہ کو حضرت اقدس مرزا صاحب نے بدلائل باطل کر دیا مطالعہ فرمائی جاویں تحریرات۔ان کی حاجت اعادہ ذکر کی نہیں اور تمام قرآن مجید میں لفظ نزول سے نزول بار اوّل یعنے حدوث مراد لیا گیا ہے ملاحظہ فرماؤ۔ ازالہ اوہام اور اعلام الناس کو۔ قولہ معنے حقیقی ابن مریم کے عیسیٰ ؑ بن مریم کے ہیں اور صارف یہاں پر کوئی موجود نہیں۔ اقول جناب مولانا صاحب ایک صارف کا کیا ذکرہے متعدد صارف موجود ہیں۔ یاد کرو فامّکم منکم وامامکم منکم وغیرہ جو سابق میں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 264
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 264
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/264/mode/1up
یہؔ ہیچمدان شرح اس کی مفصل لکھ چکا اور حضرت اقدس مرزا صاحب نے ازالہ اوہام میں اور نیزان پرچوں میں بکثرت مذکور فرمائے ہیں وہ ملاحظہ فرمائے جاویں پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ باوجود موجود ہونے صوارف کثیرہ کے حقیقی ہی معنے مراد لئے جاویں اور حدیث مرسل جو یہ لکھی گئی کہ قال الحسن قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم للیھود ان عیسٰی لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یَوم القیامۃ۔ اسکی نسبت یہ گذارش ہے کہ اوّلًا تو اس حدیث کی تخریج فرمادی جاوے کہ یہ حدیث کس کتاب حدیث میں لکھی ہے۔ ثانیًا تعدیل و توثیق اسماء الرجال سب رواۃ اسناد کی کی جاوے۔ ثالثًا بعد طے کرنے ان مراتب کے یہ حدیث مرسل ٹھہرے گی جو بمقابل احادیث صحاح متصل مرفوع کے جو ازالہ وغیرہ میں لکھی ہیں ساقط الاعتبار رہے گی۔ رابعًا اگر کوئی حدیث صحیح متصل مرفوع اسکی معارض بھی نہ ہو تو بھی بعد طے کرنے ان مدارج اربعہ کے حدیث مرسل کے خود حجت ہونے میں کلام ہے۔ سب اصول کی کتابوں میں لکھا ہے فذھب الجمھور الی ضعفہ وعدم قیام الحجۃ یہ نہیں معلوم مولانا صاحب نے اس حدیث کو ایسے مقام میں جہاں دلیل قطعیۃ الدلالت مطلوب ہے اور اسی کی بحث ہو رہی ہے کیوں مذکور فرمایا ہے۔ ایسے اقوال یا احادیث ضعیفہ جو بعض تفاسیر وغیرہ میں لکھے ہیں تو اُن کو باب اعتقادیات میں کیا دخل ہے۔ ہیچمدان کے ایک محب مکرّم اخونا المعظم جناب حکیم نور الدین صاحب کو ایک خط موسومہ احقر میں تحریر فرماتے ہیں کہ امام شعرانی نے طبقات کبریٰ جلد دوم صفحہ ۴۴ میں لکھاہے۔وکان یقول ان علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع کما رفع عیسیٰ علیہ السلام وسینزل کما ینزل عیسٰی علیہ السلام ثم قال الشعرانی ھٰکذا کان یقول سیّدی علی الخواصؓ پس جومعنے نزول علی بن ابی طالب کے ہیں وُہی معنے نزول عیسیٰ ؑ بن مریم کے ہیں وعلٰی ہٰذا القیاس رفع کو سمجھنا چاہیئے۔ قولہ تو اب یہ آیت صارف ہو گئی آیات مذکورہ کے معنے حقیقی سے۔ اقول یہ امر ثابت ہو چکا کہ آیات اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اور فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ وغیرہ وفات مسیح بن مریم میں نص صریح اور محکم ہیں۔ اور آیت لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ بسبب چند در چند ذو الوجوہ ہونے کے متشابہ ہے اور متشابہ کسی طرح پر محکم کے صارف عن الاحکام نہیں ہو سکتے اور اشارۃ النص بھی بمقابل عبارۃ النص کے وقت تعارض کے ساتھ ساقط ہو جاتی ہے اورکتب لغت سے تَوَفّٰی کے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 265
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 265
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/265/mode/1up
معنے ؔ جو لکھے گئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اصل معنے توفی کے پُورا حق لے لینے کے ہیں۔ تو اس سے مدعا جناب کا کب ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کونسا حق اپنا حضرت عیسیٰ ؑ سے پورا لیا تھا۔ جس کی نسبت فرمایا گیا کہ یا عیسٰی انّی متوفّیک یعنے اے عیسیٰ ؑ مَیں تجھ سے اپنا حق پورا لینے والا ہوں۔ یا حضرت عیسیٰ ؑ نے جویہ فرمایا کہ فلمّا توفّیتنی یعنی جبکہ تو نے اپنا حق پُورا لے لیا۔ یہ معنے ہیچمدان کی سمجھ میں بالکل نہیں آتے اور ایک تحریف سی معلوم ہوتی ہے۔ اوراگر کہاجاوے کہ توفی کے معنے میں جو لفظ حق کا لکھا ہے اُس سے تجریدکر لی گئی ہے اور قبض تام کے معنے بھی آتے ہیں۔ چنانچہ قسطلانی سے ہم نے نقل کیا کہ اخذ الشئ وافیًا تو یہاں پر یہ معنے ہوئے کہ حضرت عیسٰی ؑ کو رُوح مع الجسد سے پُورا لے لیا۔ تو یہ گذارش ہے کہ نص میں اس تاویل رکیکہ کی ضرورت ہی کیاہے علاوہ یہ کہ قسطلانی نے بھی خود اقرار کر لیا کہ والموت نوع منہ اس اقرار سے تو صاف و صریح ثابت ہو گیا کہ موت میں بھی قبض تام ہوتاہے وھٰذا یخالف دعواکم پس قسطلانی سے بھی یہی ثابت ہؤا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات ہو چکی رُوح مع الجسد کا اُٹھایاجانا تو کسی لغت سے بھی ثابت نہ ہؤا۔ اور سلّمناکہ توفی بمعنے اِنامت یعنے سُلا دینے کے قرآن مجید سے ثابت ہے مگر اس معنی کے اثبات سے ما نحن فیہ میں جناب کا کیامطلب ہے بلکہ جو آیات کہ جناب نے واسطے اثبات اس اپنے مطلب کے ذکر فرمائی ہیں وہ بھی مدعا جناب کے مخالف ہیں کیونکہ بموجب ان آیات کے معنے توفّی کے اگر انامت کے ما نحن فیہ میں تسلیم بھی کئے جاویں تو پھر بھی آیات مدعا جناب کو نفی بھی کرتی ہیں کیونکہ اگر حضرت عیسٰی ؑ کی توفی بطور انامت کے واقع ہوئی ہوتی تو ضرور تھا کہ پہر دو پہر میں حد درجہ ایک دو دن میں جاگ اُٹھتے اور ۱؂ کا مضمون پَیدا ہو جاتا یہ کیسے اِنَامت ہوئی۔ کہ قریب دو ہزار برس کے ہو گئے ابھی تک۲؂ کا مضمون واقع نہیں ہؤا۔ اس سے تو صریح یہی معلوم ہوا کہ۳؂ کا ہی مضمون واقع ہو چکا ہے ۔ آیت میں دو صورتیں مذکور ہیں ایک ارسال دُوسری امساک در صورت انامت کے ارسال واقع ہوتا ہے اور در صورت موت کے امساک جب ہم دیکھتے ہیں کہ قریب دو ہزار برس سے امساک ہی امساک ہے اور ارسال نہیں ہے تو بالضرور ماننا پڑے گا اسی صورت کو جس میں امساک ہوتا ہے اور وہ مَوت ہے نہ انامت۔ اور سورہ انعام کی آیت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اُس میں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 266
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 266
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/266/mode/1up
بھیؔ توفّی بطورانامت کے جو مذکور ہے وہ رات بھر تک ہوتی ہے نہ دو ہزار برس تک بلکہ اُسمیں تو تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ رات میں سُلادیتا ہے اور دن میں اُٹھا دیتاہے ۱۳؍۷ ۱؂ اوراگر بطور حکماء کے بھی اس بارہ میں نظر کی جاوے تو بھی یہی مطلب جو ہم نے تفسیر آیات مذکور ہ میں لکھا ثابت ہوتا ہے چنانچہ حواشی بیضاوی میں لکھا ہے ۔ قال الزعفرانی ناقلا عن الامام النفس الانسانیۃ جوھر مشرق روحانی اذا تعلق بالبدن حصل ضوء ہ فی جمیع الاعضاء وھو الحیٰوۃ ففی وقت الوفات ینقطع ضوء ہٗ عن ظاھر البدن وباطنہ وذٰلک ھو الموت و اما فی وقت النوم فینقطع ضوء ہٗ عن ظاھر البدن من بعض الوجوہ ولا ینقطع عن باطنہ فثبت ان النوم والموت من جنس واحد لٰکن الموت انقطاع تام والنوم انقطاع ناقص انتہٰی ۔ پس اگر انقطاع ناقص ہوتا تو ضرو ر بحکم وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی کے حضرت عیسیٰ ؑ جاگ اُٹھتے۔ جبکہ دو ہزار برس سے ابھی تک نہیں جاگے تو معلوم ہوا۔ کہ ۲؂کے مصداق ہو گئے ہیں اور انقطاع تام ہو چکاہے۔قولہ اور قسم دوم کا جواب الیٰ قولہ ان آیات کی مخصص واقع ہوئی ہے۔ اقول اس آیت کا حال تو معلوم ہو چکا غایت الامر یہ ہے کہ حیاتِ مسیح میں متشابہ ہے پھر کیونکر مخصص ہو سکتی ہے۔ علاوہ یہ کہ جب وفات عیسیٰ ؑ بن مریم بطور اخبار کے ثابت ہو چکی تو اب اس آیت یاکسی اور آیت سے حیات کیونکر ثابت ہو گی یہ تو اخبار ماضیہ کا نسخ ہوا جاتا ہے اور بموجب قواعد اصول کے اخبار میں نسخ ہرگز جائز نہیں ہے کیونکہ ایسے نسخ سے کلام باری تعالیٰ میں کذب صریح لازم آتاہے۔ واللّازم باطل فالملزوم مثلہ۔ قولہ صحیح معانی ان آیات کے وہ ہیں جو تفاسیر معتبرہ میں مذکور ہیں۔ الخ اقول جو معانی ان آیات کے حضرت اقدس مرزا صاحب نے تحریر فرمائے ہیں وہ تفاسیرمعتبرہ میں لکھے ہوئے ہیں۔ معہذا علوم رسمیہ جو خادم کتاب ہیں اُن کے بھی موافق ہیں۔ جب جناب جواب تفصیلی ازالۃ الاوہام کا تحریر فرماوینگے اور اُن معانی حقہ کا ابطال کرینگے تو انشاء اللہ تعالیٰ مفصلًا و مشرحًا احقاق حق کیاجاوے گا۔ وَاٰخِرُ دَعْوانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 267
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 267
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/267/mode/1up
مولوؔ ی محمدؐ بشیر صاحب کے
پرچہ ثانی پر سرسری نظر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد لولیّہ والصّلٰوۃ علی نبیّہ۔ امابعد واضح خاطر عاطر ناظرین ہو کہ پرچہائے ثلاثہ محررہ مولوی صاحب کا جواب جو حضرت اقدس مرزا صاحب سلمہ نے اپنے پرچوں میں دیا ہے وہ ایسا کافی و شافی ووافی ہے کہ ہوتے اسکے اب کسی کے جواب کی حاجت نہیں رہی۔ ناظرین جب انصاف سے ملاحظہ فرماویں گے تو یہ امر ان پر خودبخود واضح ہوجاوے گا۔ کسی کے جتلانے اور بتلانے کی کیا حاجت ہے۔ مثل مشہور ہے مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطا رگوید۔ لیکن چونکہ مولوی صاحب نے بھوپال میں واپس تشریف لا کر اپنی فتح یابی کا اعلان کیا اور اس پرُ طرّہ یہ ہوا کہ مکررسہ کرر اس ہیچمدان سے درخواست مباحثہ فرمائی گئی اور مجالس وعظ میں ہل من مبارز کا ڈنکابجایا گیا اور اس عاجز ہیچمدان کا نام لے لے کر طلب مباحثہ کیا گیا تو اس عاجز پر بھی واجب ہوگیا کہ مولانا صاحب کے امر واجب الاذعان کی اطاعت کرے اور مولوی صاحب کی فتح یابی پر کچھ نظر کرے کہ فی الحقیقت وہ فتح یابی ہے یا محض آب سرابی ہی ہے اس میں دونوں امر مذکورہ حاصل ہوتے ہیں ؂ چہ خوش بود کہ برآید بیک کرشمہ دوکار۔ لہٰذا مولوی صاحب کے پرچہ ثانی پر کچھ اندکے نظر کرتا ہوں۔ قولہ واضح ہو کہ جناب مرزا صاحب نے بہت امور کا جواب اپنے پرچہ میں نہیں دیا الخ۔ اقول حضرت اقدس مرزا صاحب نے آپ کے مضمون کا جواب ایسا کافی و شافی دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر بجز طوالت ُ پر ملامت کے اور کچھ متصور نہیں۔ ناظرین صورت الحال کو دیکھ کر خودبخود انصاف فرما لیویں گے ۔مثل مشہور ہے کہ اصدق المقال مانطقت بہ صورۃ الحال اور آپ کی ابحاث ثلاثہ میں جو اصل اور عمدہ بحث تھی یعنے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 268
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 268
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/268/mode/1up
نونؔ تاکید۔ اس کو تو حضرت اقدس نے ایسا توڑا ہے کہ اس سے زیادہ ہرگز متصور نہیں کیونکہ اس بات کو سب علماء وطلبہ جانتے ہیں کہ تمام اصول علوم رسمیہ کے اور جملہ قواعد اور فنون درسیہ کے جو کتب فن میں ممہد اور مشید کئے جاتے ہیں ان کے اثبات اور استحکام کے واسطے شواہد قرآن مجید سے بڑھ کر اور کوئی شاہد نہیں ہے نہ امثال و اشعار جاہلیت کا وہ مرتبہ ہے اورنہ اقوال عرب عرباء کا وہ رتبہ مثل مشہور ہے کہ اذاجاء نھر اللّٰہ بطل نھر معقل جس قاعدہ کے واسطے کوئی آیت قرآن مجید کی شاہد مل جاوے تو پھر اس میں نہ سیبویہ کی حاجت ہے نہ اخفش کی نہ فرّا کی ضرورت ہے نہ زجّاج کی اس جگہ سب فَرَّ یَفِرُّ ہوجاتے ہیں اور اسکے مقابل میں زجاجِ زجاّج بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے اور قول مبرد بھی محض بارد ہوجاتا ہے الصباح یغنی عن المصباح کا مضمون صادق آتا ہے۔ قرآن مجید میں جب کہ بقراء ت متواترہ ۱ ؂ بجائے والمقیمون الصلٰوۃ واردہو گیا اور ۲؂ بجائے ان ھذین لساحرین اور ۳؂ بجائے والصابئین قراء ت متواترہ میں آگیا۔ تو نہ فرّا کی چلی نہ اخفش کی۔ سب کے سب تاویلات رکیکہ بنارہے ہیں اور کچھ نہیں ہوسکتا اور اصل وہی ہے جو حکیم امت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے فرمایا کہ مخالف روزمرہ مشہورہ ہم روز مرہ است الحاصل یہ جناب والا کا بھی اقرار ہے جو پرچہ ثالث میں مندرج ہے کہ اصول فقہ اور اصول حدیث جملہ علوم خادم کتاب و سنت کے ہیں اور کتاب اللہ سب کی مخدوم ہے۔ اب یہ گذارش ہے کہ باوجودیکہ حضرت اقدس مرزا صاحب نے متعدد آیات قرآن مجید اور عبارت تفاسیر معتبرہ سے واسطے جرح کرنے آپ کے نون تاکید کے تحریر فرمائی ہیں۔ پھر آپ یہ کیا معمے فرماتے ہیں کہ جناب مرزا صاحب نے نہ تو کوئی عبارت کسی کتاب نحو کی نقل کی اور نہ ان عبارات میں جو خاکسار نے نقل کی تھیں کچھ جرح کی۔ ۴؂ قولہ اور یہ امر بھی مخفی نہ رہے کہ میری اصل دلیل الٰی قولہ دوسری آیات محض تائید کیلئے لکھی گئی ہیں الخ ۔ اقول جب کہ آیت ۵؂ جناب کے نزدیک قطعی الدلالت ہے تو دیگر مویدات کے پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے اسی سے ثابت ہوا کہ آیت مذکور جناب کے نزدیک قطعی الدلالت نہیں ہے ورنہ تائید کی کیا ضرورت ہوتی ہذا خلف۔ خلاصہ یہ کہ اگر آیت مذکورہ کو قطعیۃ الدلالت کہتے ہو تو دیگر مویدات کی ضرورت نہیں اور اگر تائید اس کی دوسری آیات سے کرتے ہو تو خود وہ آیت

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 269
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 269
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/269/mode/1up
قطعیۃؔ الدلالت فی نفسہ نہیں رہتی۔ لیکن اب گذارش یہ ہے کہ ہر چہار آیات کو تو چاروناچار خود جناب نے ادلہ ہونے سے خارج کیا اور آیت اولیٰ کو دنیا بھر کے مفسرین متشابہ اور ذوالوجوہ کہہ رہے ہیں وہ تو کسی طرح پر بھی حیات مسیح میں قطعیۃ الدلالت ہو ہی نہیں سکتیکما مرشرحہ۔ پس اب جناب کے پاس حیات مسیح پر کونسی دلیل باقی رہی۔ اگر موجود ہو تو پیش کیجئے۔ ورنہ چونکہ حیات و ممات میں کوئی واسطہ نہیں ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ سے خوف کرکر اب تو حیات مسیح کے دعوے سے رجوع فرمایئے۔ قولہ اس میں کلام ہے بچند وجوہ الی قولہٖ تو یہ کام عبث آپ نے کیوں کیا۔ اقول اناللہ وانا الیہ راجعون ۔جب کہ مولانا جیسے فاضل اجل قواعد علم مناظرہ کو قلم انداز فرماویں گے اور ملحوظ نظرنہ رکھیں گے تو اب اس ہیچمدان کو کس سے امید ہے کہ اس مباحثہ میں حسب اصول مناظرہ گفتگو کرے ؂ چو کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی۔ ایہا الناظرین ظاہر ہے کہ حضرت اقدس مرزا صاحب اس مباحثہ میں سائل اور مانع کا منصب رکھتے ہیں خصوصاً مولوی صاحب جیسے مدعی کے مقابلہ میں کہ دعویٰ بھی ان کا خلاف سنت اللہ اور فطرت اللہ کے واقع ہوا ہے پس اگر حضرت اقدس نے توضیح مرام وغیرہ میں یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح بسبب فوت ہوجانے کے دنیا میں نہ آویں گے اور اس منع پر کچھ سند وغیرہ بیان کی ہے تو کیا اس منع وغیرہ سے حضرت اقدس بموجب اصول مناظرہ کے مدعی حقیقی بن گئے۔ سائل اور مانع کا تو کام ہی یہی ہے کہ منع وغیرہ کا ایراد ادلہ مدعی پر کرے خواہ مناقضہ اور نقض تفصیلی کے طور پر ہو بلاسند یا مع السند کے یا معارضہ کے طور پر ہو یا نقص اجمالی کی طرز پر وغیرہ وغیرہ جس کی تفصیل رسائل صغیر و کبیر علم مناظرہ میں لکھی ہے پس اگر سائل ان طرق مناظرہ اور آداب مباحثہ سے بحث کرے تو کیا وہ فی الحقیقت مدعی ہوجاوے گا ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ رشیدیہ وغیرہ میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے۔السائل من نصب نفسہ لنفی الحکم الذی ادعاہ المدعی بلانصب دلیل علیہ وقد یطلق علی ماھو اعم وھوکل من تکلم علی ماتکلم بہ المدعی اعم من ان یکون مانعا اوناقضا اومعارضا۔اور اسی میں لکھا ہے المنع طلب الدلیل علی مقدمۃ معینۃ ویسمی ذلک مناقضۃ و نقضا تفصیلیا۔ والسند مایذکر لتقویۃ المنع ویسمی مستندا۔ اور اسی میں لکھا ہے۔ النقض ابطال الدلیل بعد تمامہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 270
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 270
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/270/mode/1up
متمسکا بشاھدیدل علی عدم استحقاقہ لاستدلال بہ وھواستلزامہ فسادا اما اعم من ان یکون تخلف المدلول عن الدلیل اوفسادًا اٰخر مثل لزوم المحال وغیرہ الی آخرہ پس اگر حضرت اقدس مرزا صاحب نے جو منصب سائل کا رکھتے ہیں یہ ابحاث اپنے رسائل میں درج فرمائی ہیں تو ان کے درج کرنے سے وہ مدعی کیونکر ہوگئے اور جو فرض منصب سائل کا ہے اگر اس کو حضرت اقدس بموجب آداب مناظرہ کے بجا لائیں تو یہ سب کام ان کا عبث کس اصل مناظرہ کے رو سے ہوگیا۔ اور اگر کہو کہ حضرت اقدس مرزا صاحب کے مقابل ان رسائل میں مدعی کون ہے جو مرزا صاحب سائل اور مانع ہوگئے تو جواب اس کا یہ ہے کہ وہ تمام مخالفین حضرت اقدس کے جو دعویٰ حیات مسیح کا کرتے ہیں وہی مدعی ہیں جن کے خلاف میں حضرت اقدس نے ان رسائل میں کلام کیا ہے اور یہی تعریف ہے سائل کی کہ السائل من تکلم علی ماتکلم بہ المدعی اعم من ان یکون مانعا اوناقضا اومعارضا۔ اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ بالجملہ بارثبوت وفات مسیح دو حیثیت سے آپ کے ذمہ ہے الخ یہ ایک التباس حق کا ساتھ غیر حق کے یا توقصداً کیا گیا ہے یا بسبب عدم امعان نظر کے اصول مناظرہ میں پیدا ہوا ہے اگر اصول مناظرہ میں امعان نظر فرمایا جاوے تو یہ التباس رفع ہوجاوے گا۔ مولانا صاحب گذارش یہ ہے کہ جب مانع اور سائل کسی مدعی کی دلیل کا نقض و منع کرے گا۔ اگر وہ منع بلا سند ہے تو صرف لا نسلم کہے گا اور اگر اس منع اور نقض کے ساتھ کوئی سند یا شاہد مذکور ہو تو وہ سند وغیرہ بالضرور مشتمل مقدمات پر بھی ہوگی لیکن وہ مانع یا ناقص و معارض اس اشتمال مقدمات سے حقیقتاً مدعی اس بحث متنازعہ فیہ میں نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ دعویٰ مدعی اول کا مخالف سنت اللہ کے ہو اور منع خصم کے موافق سنت اللہ کے جیسا کہ مانحن فیہ میں ہے پس وفات مسیح کو جو آپ اصل دعویٰ حضرت اقدس کا فرماتے ہیں بموجب آداب مناظرہ کے یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ اصل دعویٰ نہیں یہ تو اصل فطرۃ اللہ ہے جس کے قائل اور تمام جگہ آپ بھی ہیں اور نہ وفات مسیح کی حضرت اقدس کی دلیل کا کوئی ایسا مقدمہ ہے جس کے اثبات کی ان کو ضرورت ہو کیونکہ جو امر فطرت اللہ اور سنت اللہ کے موافق ہوتا ہے وہ ظاہر بمنزلہ بدیہی کے ہوتا ہے اسکے اثبات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب کہ آپ اس سنت اللہ کے ایک خاص مقام میں منکر ہوگئے ہیں تو بحیثیت انکار جناب کے وہ وفات مسیح ایک مقدمہ اعتباری

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 271
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 271
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/271/mode/1up
ہوگیا ہے۔ پس صرف اس لحاظ سے حضرت اقدس نے بحکم آنکہ خصم راتابخانہ بائد رسانید ۔دلائل وفات مسیح کی اپنے رسائل میں مذکور فرمادیئے ہیں اور وہ بھی بطور نقض و معارضہ و تخلف وغیرہ کے جو سائل کا ہی فرض منصب ہے آپ اصول مناظرہ میں غور فرمایئے اور خلط مبحث نہ کیجئے۔ غرض کہ حسب آداب مناظرہ حضرت اقدس کسی طرح پر مدعی حقیقی اس مسئلہ متنازعہ فیہ میں نہیں ہوسکتے ہاں البتہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ان کا ہے اور وہ اسکے مدعی ہیں اور بار ثبوت اس دعوے کا ان کے ذمہ ضرور ہے۔ جس کو ازالۃ الاوہام وغیرہ میں مفصلاً اور مشرحاً بہ براہین بیان فرمایا ہے۔ مگر جب بحث حیات وممات مسیح ختم ہوچکے گی تب آپ ثبوت اس دعوے کا ان سے طلب فرماسکتے ہیں مگر اس وقت اس بحث کا چھیڑنا خلط مبحث کرنا ہے وہ بعد اس بحث حیات وفات مسیح کے ان سے ہوسکتی ہے و بس۔ قولہ اس قاعدہ کوجدیدقاعدہ کہنا نہایت محل استبعاد ہے ۔الخ۔ اقول مولانا حضرت اقدس مرزا صاحب نے تو آپ کے اس قاعدہ کو جدید ہی فرمایا تھا مگر ہیچمدان نے اس کا اجدّ ہونا ثابت کردیا اور کوئی محل استبعاد کا بھی نہیں رہا۔ میزان خوان اطفال بھی جانتے ہیں کہ صرف نون تاکید البتہ مضارع کو خالص مستقبل کردیتا ہے لیکن جب لام تاکید بھی موجود ہو جو واسطے حال کے آتا ہے اور نون تاکید بھی تو ایسے صیغے میں نہ کوئی شیخ زادہ اس بات کا قائل ہے کہ خالص استقبال کا ہونا ضروری ہے اور نہ کوئی سید زادہ یہ کہتا ہے۔ ازہری جو لکھتا ہے کہ لانھما تخلصان مدخولھما للاستقبال تو یہاں پر استقبال سے مراد صیغہ استقبال ہے نہ زمانہ استقبال۔ اور یہ بات تو زبان اطفال میزان خوان پر بھی جاری ہے کہ صیغہ حال ہمچو صیغہ استقبال است۔ اور ازہری نے جو اس مسئلہ کی دلیل بیان کی ہے اس سے بھی مطلب ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر مراد اس کی زمانہ استقبال ہوتی تو کہتا کہ ذلک ینافی المضی والحال آگے ازہری نے جو یہ لکھا کہ ولایجوز تاکیدہ بھما اذاکان منفیا اوکان المضارع حالا۔ الخ۔ تو اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ اگر مضارع سے خالص حال مراد ہو اور استقبال مراد نہ ہو تو اس صورت میں صرف لام تاکید بغیر نون کے مضارع پر آوے گا اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اگر حال و استقبال دونوں مراد ہوں تو بھی لام تاکید اور نون تاکید سے اس مضارع کو موکد نہ کریں گے۔ خود فوائد ضیائیہ کے حواشی تکملہ عبدالحکیم وغیرہ میں اس بات کی تصریح کردی گئی ہے کہ مراد فعل مستقبل

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 272
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 272
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/272/mode/1up
سے ؔ یہاں پر فعل مستقبل اصطلاحی ہے ملاحظہ فرماؤ ہوا مش شرح جامی کی۔ علیٰ ھٰذا التباس جس قدر عبارات کتب نحو کی جناب نے نقل فرمائی ہیں ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس صیغہ میں لام تاکید معہ نون تاکید کے ہو تو وہ بالضرور خالص استقبال کے واسطے ہی آئے گا۔ ہاں البتہ اس قدر ثابت ہوتاہے کہ صرف نون تاکیدکے داخل ہونے سے صیغہ مضارع کا خالص استقبال کے لئے اکثر جگہ ہوجاتا ہے پس جب تک کہ اجماع اکابر ائمہ نحویین کا در صورت اجتماع لام تاکید معہ نون تاکید کے اس بات پر آپ ثابت نہ کریں گے کہ سوائے زمانہ استقبال کے زمانہ حال کا مراد ہونا ممتنع ہے تب تک تقریب دلیل جناب کی محض ناتمام رہے گی واین ھذا یثبت من تلک العبارات المنقولۃ اور بعد اس اثبات کے بھی یہ گذارش کیا جاوے گا کہ صیغہ مستقبل کا مستعمل ہونا واسطے دوام تجددی یا استمرار کے علم بلاغت سے ثابت ہوچکا ہے وھذا یناقض دعواکم پھر یہ قاعدہ جناب کا اجد نہیں تو کیا قدیم ہے۔ قولہ خاکسار کی اصل دلیل اتفاق ائمہ نحاۃ کا ہے اس قاعدہ پر الخ اقول اتفاق اور اجماع کا تو ذکر ہی کیا ہے کسی ایک امام نحو کا قول بھی آپ نے ایسا نقل نہیں فرمایا جس سے تقریب دلیل جناب کی تمام ہوتی۔ کما مرشرحہ۔اور حضرت اقدس مرزا صاحب نے آیات قرآن مجید کی جو ماخذ تمام علوم کا ہے اس بارہ میں تحریر فرمادیں اور تفاسیر معتبرہ مثل مظہری وغیرہ سے ثابت کردیا کہ فان حقیقۃ الکلام للحال۔ قولہ۔ہاں آیات اس قاعدہ کی تائید کیلئے لکھی ہیں۔ الخ۔ اقول۔ ایہاالناظرین آیات سے بڑھ کر اور کس کا قول ہوگا اذاجاء نھر اللہ بطل نھر معقل ۔قولہ۔ مخفی نہ رہے الخ۔ اقول مولانا یہ ایک اور دوسرا قاعدہ علم نحو میں اس پہلے قاعدہ سے بھی زیادہ اجد آپ نے ایجاد کیا۔ بھلا کون سے قاعدہ نحو سے الا یؤمن صیغہ تحریض کا بغیر حرف تخصیص کے لائے ہوئے ہوسکتا ہے اور قسم کے جواب مثبت میں جو باتفاق نحویین کے نون تاکید کا آنا بطور وجوب ولزوم کے لکھا ہے اس کو بھی آپ نے توڑ دیا۔ خود فوائد ضیائیہ میں لکھا ہے۔ولزمت ای نون التاکید فی مثبت القسم ای فی جوابہ المثبت لان القسم محل التاکید فکرھوا ان یوکدوا الفعل بامر منفصل عنہ وھوالقسم من غیر ان یوکدوہ بمایتصل بہ وھو النون بعد صلاحیۃ لہ انتھی موضع الحاجتاور پھر باوجود توڑ دینے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 273
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 273
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/273/mode/1up
اسؔ وجوب ولزوم نحوی کے آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ عبارت اِلَّا یُؤْمِنُ نہایت ہی عمدہ ہے ایسی عمدہ عبارت کو چھوڑ کربجائے اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ اختیار کرنا ہرگز نہیں چاہئے تھا۔ ان ھذا لشیءٌ عجاب اور اگر کوئی کہے۔ کہ لیؤمنن میں بھی حرف تحضیض موجود نہیں ہے۔ پھر اس کو بیضاوی وغیرہ نے صیغہ تحضیض کا کیوں قرار دیا ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو بیضاوی نے لیؤمنن کو صیغہ تحریض کا نہیں کہا صرف کالوعید والتحریض کہا ہے۔ ثانیاً وجہ اس کی یہ ہے کہ مضارع مصدر بحرف تحضیض میں جو تحضیض ہوتی ہے اس میں طلب ضرور ہوتی ہے۔ چنانچہ فوائد ضیائیہ میں لکھا ہے۔ومعناھا فی المضارع الحض علی الفعل والطلب لہ فھی فی المضارع بمعنی الامر۔اور نون تاکید بھی امر مطلوب کی ہی تاکید کرتا ہے تکملہ وغیرہ میں لکھا ہے کہ نون التاکید لایوکد الا مطلوبا۔ پس اس مناسبت سے بیضاوی نے صیغہ لیومنن کو کا لوعید والتحریض قرار دیاہے بخلاف صرف یؤمن کے کہ وہ کسی طرح پر صیغہ تحریض کا نہیں ہوسکتا ہے یہ مولانا صاحب کا بڑا تحکم ہے کہ ایک قاعدہ اپنی طرف سے ایجاد فرما کر پھر اسکے بموجب قرآن مجید میں اصطلاح لگائی جاتی ہے۔ باقی اس اقول کا مقولہ آخر تک جو بیان فرمایا گیا ہے وہ محض بناء فاسد علی الفاسد ہے جس کا جواب اظھارًا للصواب مکررسہ کرر گذر چکا ہے۔ اب ضرورت اعادہ جواب کی نہیں ہے قولہ اس میں کلام ہے بچند وجوہ اول یہ کہ الخ۔اقول جناب والا بار بار وہی ایک بات فرمائے جاتے ہیں جس کا ابطال حضرت اقدس مرزا صاحب بدلائل بیّنہ فرماچکے ہیں۔ قولہ دوم یہ کہ یہ قراء ت ہمارے معنے کے مخالف نہیں ہے۔ الخ۔ اقول اول تو زمانہ نزول کا مراد لینا آپ کے اقرار مندرجہ اول پرچہ کے خلاف ہے اقرار یہ ہے کہ اس بحث میں صعود و نزول وغیرہ کا خلط نہ کیا جاوے گا۔ ثانیاً آپ کی طرز استدلال کے بموجب صرف اسی آیت لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ کے قطعی الدلالت ہونے کی کیا وجہ ہے۔ تمام قرآن شریف کے وہ صیغے مندرجہ آیات جن میں ایمان لانے کاذکر یا کسی اور امر معروف کی پیشین گوئی زمانہ آئندہ میں ہے وہ سب آیات حیات مسیح پر قطعی الدلالت ہوگئیں۔ تقریر اس کی بموجب استدلال جناب کے یوں ہوسکتی ہے۔ کہ یہ معنے ہمارے معنے کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ اس صورت میں یہ معنے ہیں کہ ہر ایک شخص اپنے مرنے سے پہلے زمانہ آئندہ میں ایمان لے آوے گا اور یہ معنے اول کے ساتھ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 274
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 274
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/274/mode/1up
جمع ؔ ہوسکتے ہیں اس طرح پر کہ زمانہ آئندہ سے زمانہ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد لیا جاوے سبحان اللہ کیا عمدہ استدلال ہے۔ اے مخالفین حضرت مرزا صاحب! مولوی محمد حسین وغیرہ تم کو مبارک ہو کہ ہمارے حضرت مولوی صاحب نے کیا عمدہ طرز استدلال کا بموجب اصول موضوعہ جدیدہ علم مناظرہ کے ایجاد کردیا ہے کہ تمام قرآن مجید کے ایسے صیغے جن میں ایمان لانے کا ذکر یا کسی اور امر معروف کی پیشین گوئی زمانہ استقبال میں ہو حیات مسیح کے لئے دلائل قطعیۃ الدلالت ہوگئیں اب تم کو متعدد ایسے صیغے قرآن مجید میں مل جاویں گے جو مولوی صاحب کی طرز استدلال کی طرح پر وہ سب کے سب حیات مسیح پر قطعیۃ الدلالت ہوجاویں گی۔ اب جو مشکلات مولوی محمد حسین وغیرہ کو بمقابل حضرت اقدس کے اس بحث میں پیش آرہی تھیں ہمارے مولانا صاحب نے وہ سب حل فرمادیں۔ سبحان اللہ استدلال ہو تو ایسا ہو۔ یہ فتح عظیم تم کو مبارک مبارک مبارک ؂ ایں کار از تو آیدو مرداں چنیں کنند۔ اب میں دو تین آیتیں اور مولوی صاحب کی طرف سے دلیل قطعی حیات مسیح پر لکھے دیتا ہوں جو بموجب طرز استدلال مولوی صاحب کے قطعی الدلالت ہیں مثلاً آیت ۱؂ ۱۴۱۹ جو مولوی صاحب نے خالص استقبال کے واسطے اول پرچہ میں لکھی ہے وہ حیات مسیح میں قطعی الدلالت ہے۔ کیوں قطعیۃ الدلالت ہے۔ یوں ہے کہ جو شخص مرد ہو یا عورت نیک عمل کرے درحالیکہ وہ مومن بھی ہو تو ہم زمانہ آئندہ میں البتہ زندہ رکھیں گے اس کو ساتھ زندگی پاکیزہ کے اور البتہ بدلا دیں گے ہم ان کو ثواب ان کا یہ معنے مولوی صاحب کے معنوں کے کچھ مخالف نہیں اور مولوی صاحب کے معنوں کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں اس طرح پر کہ زمانہ آئندہ سے زمانہ نزول عیسیٰ علیہ السلام مراد لیا جاوے۔ پس یہاں تک دلیل قطعی الدلالت کی تقریب تمام ہوچکی۔ اور مثلاً آیت ۲؂ ۱۳؍۱۷ حیات مسیح پر بھی قطعی الدلالت ہے۔ کیوں قطعی الدلالت ہے۔ یوں ہے کہ نون ثقیلہ تو اس میں موجود ہی ہے جو خالص زمانہ استقبال کے واسطے آتا ہے۔ پس یہ نصرت الٰہیہ مومنین صالحین اور مومنات صالحات کو زمانہ آئندہ میں ہوگی اور یہ معنے مولوی صاحب کے معنوں کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں اس طرح پر کہ زمانہ آئندہ سے زمانہ نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد لیا جاوے۔ وہ تقریب دلیل کی تمام ہوگئی علیٰ ھٰذا القیاس۔ آیت ۳؂ جس کو مولوی صاحب نے واسطے اثبات قاعدہ نون ثقیلہ کے پرچہ اول میں لکھی ہے وہ بھی حیات مسیح پر بموجب طرز استدلال مولوی صاحب کے قطعی الدلالت ہوسکتی ہے۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 275
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 275
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/275/mode/1up
ہیچمدؔ ان نے یہ دو تین آیتیں واسطے توضیح قاعدہ استدلال مولوی صاحب کے بطور مثال کے لکھ دیں تاکہ ہر ایک ادنیٰ طالب علم جو ترجمہ خوان قرآن مجید ہو حیات مسیح پر قرآن شریف سے بہت سی آیات قطعی الدلالت استخراج کرسکے۔ قولہ سوم یہ کہ قراء ت غیر متواتر ہ ہے الخ اقول قراء ت غیر متواترہ سے احتجاج نہیں کیا گیا بلکہ قراء ت غیر متواترہ صرف واسطے تائید معنے قراء ت متواترہ کے حسب اصول مفسرین لائی گئی ہے چنانچہ تمام مفسرین محققین اس قراء ت غیر متواترہ کو واسطے تائید معنے قراء ت متواترہ کے اپنی تفاسیر میں لائے ہیں اسی طرح پر حضرت اقدس مرزا صاحب اس قراء ت غیر متواترہ کو واسطے تائید معنے قراء ت متواترہ کے لائے ہیں اور جناب والا نے جو روایات اس کل اپنے مباحثہ میں بیان و نقل فرمائی ہیں ان کی رجال اسانید کی کچھ بھی توثیق و تعدیل بیان نہیں فرمائی۔ کیا یہ وجوب حضرت مرزا صاحب پر ہی ہے آپ پر واجب نہیں کہ اس مقام تحقیق میں ان رجال اسانید کی توثیق و تعدیل حسب اصول علم اسماء الرجال بیان فرماتے ودونہ خرط القتاد۔ ۱؂ قولہ۔ چہارم یہ کہ مرزا صاحب الخ اقول آیت مذکورہ چونکہ ذوالوجوہ ہے اس واسطے حضرت اقدس نے اس کو دوسری وجہ سے بھی تفسیر فرمایا ہے یعنی قبل موتہ کی ضمیر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بھی راجع کر کر وہ تفسیر کی ہے اور وہ معنے بیان کئے ہیں کہ جن پر کسی طرح کا اعتراض وارد نہیں ہوتا ایسی آیات ذوالوجوہ کی تفسیر مختلف وجوہ سے کرنا ایک فقہ محمود ہے قال ابوالدرداء لایفقہ الرجل حتّٰی یجعل للقراٰن وجوھا۔اور جناب کی طرح حضرت اقدس نے ایسی آیت ذوالوجوہ کو ایک وجہ میں محصورکر کر قطعی الدلالت ایک وجہ پر نہیں فرمایا۔ اور در صورت ارجاع ضمیر کی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو معنے آیت کے آپ کرتے ہیں اس پر طرح طرح کے اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ پس کیا یہی مقتضائے دیانت و انصاف ہے کہ جو معنے انواع انواع اعتراضات کے مورد ہوں ان پر تو اصرار کیا جاوے اور جو معنے خالی از فساد ہوں ان کو تسلیم نہ کیاجاوے۔ الحاصل درصورت ارجاع ضمیر کی طرف حضرت عیسیٰ کے اگر آپ وہ معنے جو حضرت اقدس نے ازالہ میں تحریر فرمائے ہیں تسلیم و قبول فرماتے تو فنعم الوفاق سب نزاع طے ہوگیا ۔اور اگر ان معنے خالی از فساد کو آپ تسلیم نہیں فرماتے تو اس وجہ سے کہ آپ کے معنے مورد اعتراضات کثیرہ ہیں ارجاع ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بسبب ان فسادات کے نہیں ہوسکتا کتابی یا احدٌ مقدر کی طرف ضمیر رجوع ہووے گی۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 276
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 276
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/276/mode/1up
جسؔ کی تائید قراء ت غیر متواترہ کرتی ہے۔ بعد اللتیا والتی حضرت اقدس نے ارجاع ضمیر کو طرف کتابییا احدمقدر کی کسی جگہ اپنی تحریرمیں غیر صحیح نہیں فرمایا اگر آپ نے کسی تحریر میں دیکھا ہو تو بہ تصحیح نقل بیان فرمایا جاوے۔ آگے رہی یہ بات کہ موت مسیح پر استدلال حضرت اقدس نے اس آیہ سے کیا ہے اس کی نسبت یہ گذارش ہے کہ کسی جگہ اس استدلال کو قطعی الدلالت نہیں فرمایا۔ جب کہ آیت ذوالوجوہ ہے تو نہ حیات مسیح پر قطعی الدلالت ہوسکتی ہے اور نہ وفات مسیح پر ۔ادلہ وفات مسیح بطورتعین و قطع کے اور بہت ہیں جو اوپر سابق میں گذر چکیں اور ازالہ میں بہ تفصیل مذکور ہیں۔ مگر ایسی آیت ذوالوجوہ کو حیات مسیح پر قطعی الدلالت ٹھہرانا یہی تو مجادلہ ہے کہ جس میں مناظرہ کا رائحہ بھی موجود نہیں ہے۔ قولہ یہاں ارادہ حال غلط محض ہے بلکہ خالص مستقبل مراد ہے بچند وجوہ اقول یہاں پر تو مولانا صاحب نے کمال ہی کیا ہے کہ نون ثقیلہ کے غلبہ و ثقل خیال میں ترتیب آیات جو درایتاً و روایتاً مراد الٰہی ہے اس کو بھی غلط محض فرما دیا۔ درایتاً بیان اس کا یہ ہے کہ آیت ۱؂ میں مولوی صاحب کا نون ثقیلہ تو موجود ہے ہی نہیں جو خالص استقبال ہی مراد ہو اور حال مراد نہ ہوسکے۔ پس ہم کہتے ہیں کہ قد نرٰی میں زمانہ حال مراد ہے اور ۲؂ میں حرف فاداخل ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ قدنرٰی پر مترتب بلا مہلت ہووے۔ مسئلہ نحو مجمع علیہ ہے کہ الفاء للترتیب ای للجمع مع الترتیب بلامہلت پس فَلَنُوَلِّیَنَّکَ کابھی حال ہی ہوا۔ اور ۳؂ میں بھی وہی حرف فا موجود ہے جو باتفاق نحاۃ ترتیب بلا مہلت کے واسطے آتی ہے پس نظم و نسق آیات سے معلوم ہو اکہ قَدْ نَرٰی الا یہ پر فَلَنُوَلِّیَنَّکَ الایہ بلا مہلت مترتب ہوا اور فَلَنُوَلِّیَنَّکَ الایہ پر فول وجھک الایہ بلا مہلۃ متربت اور متسبب ہوا کوئی فاصلہ زمانہ دراز یا کوتاہ کا درمیان ان آیات کے واقع نہیں ہے جو فَلَنُوَلِّیَنَّکَ کو خالص زمانہ استقبال دراز یا کوتاہ کیلئے ہی قرار دیا جاوے۔ پس درایتاً ثابت ہوا کہ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ میں زمانہ حال مراد ہے جس کی مقدار مختلف اور مفوض الی العرف ہے اور روایتاً بیان اس کا یہ ہے حواشی بخاری شریف میں لکھا ہے۔ ثم اعلم ان الروایات اختلفت فی ان التحویل ھل کان خارج الصلٰوۃ بین الظھر والعصر او فی اثناء صلٰوۃ العصر فالظاھرمن حدیث البراء الذی سبق فی کتاب الایمان فی صفحہ ۱۰ انہ کان خارج الصلٰوۃ حیث قال انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اول صلٰوۃ صلہا الی الکعبۃ صلٰوۃ العصر الحدیث قال مجاھد وغیرہ نزلت

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 277
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 277
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/277/mode/1up
ھذہؔ الایۃ و رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی مسجد بنی سلمۃ و قدصلی باصحابہ رکعتین من صلٰوۃ الظھر فتحول فی الصلٰوۃ واستقبل المیزاب وحوّل الرجال مکان النساء والنساء مکان الرجال فسمّٰی ذٰلک المسجد مسجد القبلتین کذاذکرہ البغوی ثم قال وقیل کان التحویل خارج الصلٰوۃ بین الصلٰوتین ورجح الواقدی الاول وقال ھٰذا عندنا اثبت ذکرہ فی المظھری وقال فیہ ایضا فحدیث البراء محمول علی ان البراء لم یعلم صلٰوتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد بنی سلمۃ الظھر‘اوالمراد انہ اول صلٰوۃ صلہا کاملا الی الکعبۃ انتھٰی ۔واللّٰہ اعلم۔اور اگر مولوی صاحب اسی بیضاوی کی طرف جس سے یہاں پر کچھ تھوڑا سا نقل عبارت کیا آخر عبارت تفسیر آیت تک رجوع فرماتے تو یہ مطلب اسی سے واضح ہوجاتا۔ قال البیضاوی روی انہ علیہ السلام قدم المدینۃ فصلی نحوالبیت المقدس ستۃ عشر شھرا ثم وجھہ الی الکعبۃ فی رجب بعد الزوال قبل قتال بدر بشھرین و قد صلی باصحابہ فی مسجد بنی سلمۃ رکعتین من الظھر فتحول فی الصلٰوۃ واستقبل المیزاب و تبادل الرجال والنساء صفو فھم فسمی المسجد مسجد القبلتین۔اور ایسا ہی فتح البیان وغیرہ میں لکھا ہے۔ اور محشی عبدالحکیم نے جو فولّ وجھک کو انجاز وعد لکھا تو اس نے یہ کب کہا ہے کہ انجاز وعد میں فاصلہ قصیر یا طویل زمانہ کا واقع ہوا ہے ایفا ء وعدہ کو زمانہ حال جس کی مقدار مفوض الی العرف ہے کچھ منافی نہیں اور یہ جو آپ فرماتے ہیں کہ اس تقدیر پر فَوَلِّ وَجْھَکَ زاید ولاطائل ہوجاوے گا تو گذارش یہ ہے کہ آیت فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ متعدد جگہ موجود ہے آپ کے مسلک پر وہ بھی زاید ولاطائل ہوئی جاتی ہے۔ فماھو جوابکم فھو اوفکذاجوابنا اور شاہ ولی اللہ صاحب کے ترجمہ میں جو متوجہ گردانیم لفظ مضارع کیا گیا ہے وہ زمانہ حال و استقبال دونوں کو شامل ہے یہ جناب والا کا کمال فہم ہے کہ لفظ مضارع کو خالص استقبال کے واسطے فرماتے ہیں اور تراجم اردو میں جو ترجمہ بلفظ استقبال کیا گیا اس سے استقبال قریب مراد ہے جس کے آپ بھی قائل ہیں ہم اسی کو حال کہتے ہیں۔ کتب علم بلاغت سے ثابت ہوچکا کہ مقدار زمان الحال مختلف

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 278
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 278
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/278/mode/1up
بحسبؔ الافعال و مفوض الی العرف۔ قولہ ارادہ حال اس آیہ میں بھی غلط ہے الخ اقول درحالیکہ استقبال قریب کے آپ بھی قائل ہیں اور کتب علم بلاغت مطول وغیرہ سے ثابت ہوچکا کہ زمانہ حال ایک امر عرفی ہے اور اس کی مقدار باعتبار افعال کے مختلف ہے اور اسی وجہ سے مفوض الی العرف ہے تو بحث جناب کی ایک نزاع لفظی ہوگئی ہے جس کا بار بار تکرار کیا جاتا ہے جو آپ کی شان سے نہایت بعید ہے۔ اور میں حیران ہوں کہ ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب کو جوبلفظ مضارع ہے آپ کیوں اس کو خالص استقبال قرار دیتے ہیں اور ذرہ متنبہ نہیں ہوتے اور اس پر طُرّہ یہ ہے کہ لفظ شاہ رفیع الدین صاحب کو جو ابھی جلاویں گے ہم اس کو ہے خالص استقبال کس طرح فرماتے ہیں۔ لفظ ابھی تو خالص حال کے واسطے آتا ہے۔ ۱؂ لان ھذا الفہم بعید عن الصبی فضلا عن الفاضل الذی ھو نائب النبی قولہ واضح ہو الخ اقول حضرت اقدس مرزا صاحب ان معنوں کے لینے میں ہرگز منفرد نہیں تمام سلف و خلف امت بعض ان آیات کو حال پر اور بعض کو استمرار پر محمول کرتے چلے آتے ہیں کما مرّتفصیلہ قولہ اول یہ کہ الخ اقول جزاکم اللّٰہ فی الدّارین خیرا۔ کہ جناب نے اس امر کو تو تسلیم فرما لیا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت مستمرہ ہے کہ مجاہدہ کرنے والوں کو اپنی راہیں مدام دکھلایا کرتا ہے فقط۔ اور یہ مسئلہ کتب علم بلاغت سے ثابت ہوچکا ہے کہ صیغہ مستقبل کا بحسب مقامات مناسبہ کے دوام تجددی اور استمرار کے واسطے مستعمل ہوا کرتا ہے۔ پس اب گذارش یہ ہے کہ کیا وجہ کہ اس آیت کے ایسے ناقص اور ادھورے معنے کئے جاویں جو اس عادت مستمرہ کو شامل نہ ہوویں حالانکہ کتاب اللہ بلاغت میں طرف اعلیٰ حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے اور حضرت نبی علیہ السلام فرماتے ہیں اوتیت جوامع الکلم اور سلّمنا کہ آیت وعدہ ہے لیکن وعدہ کو زمانہ حال یا استمرار سے کچھ منافات نہیں ہے۔ کیونکہ وعدہ زمانہ حال کے واسطے بھی کیا جاتا ہے اور بطور استمرار کے بھی وعدہ ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت اقدس نے مشرحاً بیان فرمایا ہے۔ اور حضرت اقدس نے جو معنے دوم کی تائید میں تصحیح خالص استقبال کی کی ہے وہ صرف جناب کی خاطر سے کی ہے۔ بقول شخصے کہ خصم راتابخانہ باید رسانید۔ چنانچہ الفاظ حضرت اقدس کے اس پر دال ہیں جو جناب نے بھی نقل فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ کیا استقبال کے طور پر دوسرے معنے بھی نہیں ہوسکتے کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔ قولہ ۔ دوم یہ کہ الخ۔ اقول مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کے الفاظ مضارع

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 279
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 279
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/279/mode/1up
کوؔ خالص استقبال کے واسطے ٹھہرا نا زبان فرس میں ایک جدید قاعدہ کی تجدید کرنی ہے۔ باقی الفاظ ترجمتین کے جو بصیغہ مستقبل ہیں ان کی نسبت وہی گذارش ہے کہ صیغہ مستقبل کا دوام تجددی کے واسطے مستعمل ہونا کتب علم بلاغت سے ثابت ہوچکا ہے۔ قولہ یہاں ارادہ حال و استمرار قطعاً باطل ہے الخ۔ اقول مولانا صاحب صرف آیت ۱؂ کا لوح محفوظ میں مکتوب ہونا جو جناب نے بحوالہ بیضاوی تحریر فرمایا اس کی کچھ ضرورت نہیں تھی کیونکہ بیضاوی وغیرہ کی تفسیر کو تو آپ آیت لیومنن بہ قبل موتہ میں محض غلط اور باطل فرماچکے ہیں یہ ہیچمدان جناب کی تائید کے واسطے یہ عرض کرتا ہے کہ کل قرآن مجید لوح محفوظ میں مکتوب ہے۔ قال اللّٰہ تعالٰی ۲؂ مگر گذارش یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو ازمنہ ثلاثہ کا اعتبار کیا گیا ہے وہ وقت نزول سے کیا گیا ہے ورنہ اگر وقت کتابت لوح محفوظ کا لحاظ کیا جاوے تو تمام ازمنہ ثلاثہ ماضی و حال و استقبال بلکہ استمرار سب استقبال ہی میں داخل ہیں پھر جناب والا کی تمام بحث عمدہ اور اصل جو نون ثقیلہ کی نسبت ہے محض بیکار ہوئی جاتی ہے۔ پس اندریں صورت جو آیات کہ حضرت اقدس نے تحریر فرمائی ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا ہے اس بنا پر تو تمام صیغے ماضی و حال و استمرار مندرجہ قرآن مجید سب استقبال میں داخل ہیں اور یہ نزاع حال و استمرار کا محض بے سود۔ اگر آیت لیؤْمننّ بہ قبل موتہٖ میں حضرت اقدس نے استمرار مراد لیا تو کتابت لوح محفوظ سے بھی وہ استقبال میں داخل رہا اور اس آیت لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۳؂میں بھی اگر حال یا استمرار مراد لیا تو وہ بھی کتابت لوح محفوظ سے استقبال میں ہی ہوا پھر یہ جو آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ ارادہ استمرار قطعاً باطل ہے اسکے کیا معنے ہیں۔ استمرار بھی تو اس بنا پر استقبال ہی میں داخل ہے یہ تو ایسا استقبال ہے کہ کوئی زمانہ اس سے باہر رہ ہی نہیں سکتا اور ترجمہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب کو جو بلفظ مضارع ہے خالص استقبال کہنا جناب کا ہی کام ہے یہ ہیچمدان تو اس مسئلہ کو کہتے کہتے تھک گیا ؂
گفتہ گفتہ من شدم بسیار گو
ازشما یک تن نہ شد اسرارجو
ناظرین کو اب بخوبی معلوم ہوگیا ہوگا کہ حضرت اقدس مرزا صاحب کا بعد تین پرچوں کے بحث کا ختم کردینا نہایت ہی ضروری تھا ورنہ اپنی اوقات کو مکررسہ کرر صرف کرنا محض تضیع اوقات تھی کیونکہ مولوی صاحب کی اس بحث میں سواء اعادہ ان امور کے جن کا جواب شافی و کافی اول ہی پرچہ میں ہوچکا اور رہا سہا بلکہ مکرر دوسرے پرچہ میں بھی اتمام حجت کیا گیا اور پھر پرچہ ثالث میں بھی بپاس خاطر مولانا صاحب کے سہ کرر جو ابہائے شافی و کافی دیئے گئے معہذا اگر اب بھی بحث ختم نہ کی جاتی تو اس ہیچمدان کو یہ بتلایا جاوے کہ وہ کون سا امر جدید جواب طلب پیش کیا گیا ہے جس کا جواب مکررسہ کررنہ ہوچکا ہو

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 280
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 280
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/280/mode/1up
منؔ حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ کا مضمون بھی تو پیش نظر حضرت اقدس کے رہتا ہے اور اس پر بھی آخر پرچہ سوم میں یہ بھی تحریر فرما دیا گیا۔ کہ اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جب پبلک کی طرف سے منصفانہ رائیں شائع ہوں گی اور ثالثوں کے ذریعہ صحیح رائے جو حق کی موید ہو پیدا ہوجائے گی تو اس تصفیہ کے بعد آپ تحریری طور پر دوسرے امور میں بھی بحث کرسکتے ہیں لیکن اس تحریری بحث کیلئے میرا اور آپ کا دہلی میں مقیم رہنا ضروری نہیں جب کہ تحریری بحث ہے تو دور رہ کر بھی ہوسکتی ہے میں مسافر ہوں اب مجھے زیادہ اقامت کی گنجائش نہیں فقط۔ ایہا الناظرین باوجود اس کے مولوی صاحب کا بھوپال میں واپس تشریف لا کر برملا مجالس وعظ وغیرہ میں ہر کہ ومہ کے سامنے یہ اشتہار دینا کہ حضرت اقدس مرزا صاحب مقام دہلی سے میرے مقابل نہ ٹھہر سکے اور گریز کر گئے کیسا اپنے موقع اور محل پر ہے فاعتبروا یا اولی الابصارباقی ترجمتین کے الفاظ جو بلفظ استقبال ترجمہ کئے گئے ہیں ان سے مراد دوام تجدّدی ہوسکتا ہے کما مرغیرمرۃ قولہ اول یہ کہ الخ۔ اقول آیت میں حرف فاء جو واسطے ترتیب بلا مہلت کے آتا ہے موجود ہے۔ پس جس وقت کوئی شخص مرد ہو یا عورت عمل نیک کرے در حالیکہ وہ مومن ہو تو اسکے واسطے بلامہلت حیٰوۃ طیّبۃ متحقق ہوجاتی ہے ورنہ حرف فاء لغو ہوجاوے گا۔ تفسیر ابن کثیر سے جو آپ نے معنے نقل فرمائے وہ بھی اسی مطلب کو ثابت کررہے ہیں دیکھو اس میں صاف لکھا ہے کہ بان یحیی اللّٰہ حیٰوۃ طیبۃ فی الدنیا ہاں البتہ لَنَجْزِ یَنَّھُمْ کو صاحب تفسیر ابن کثیر نے واسطے حاصل ہونے تاسیس کے آخرۃکے واسطے لکھا کیونکہ یہ ایک مسئلہ علم بلاغت کا ہے کہ التّاسیس خیر من التاکید ہم بھی یہاں استقبال ہی تسلیم کرتے ہیں مگر یہ حضرت مرزا صاحب کو کچھ مضر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے قاعدہ نون ثقیلہ کے نقض کے واسطے تو صرف ایک صیغہ قرآن مجید کا جو واسطے حال یا استقبال یا استمرار کے آیا ہو کافی ہے کیونکہ آپ التزاماً ہر جگہ ایسے صیغے میں استقبال مراد لیتے ہیں پس موجبہ کلیہ کا نقیض سالبہ جزئیہ ہی آتا ہے جو یہاں صادق ہے پس موجبہ کلیہ غیر صادق ہوگا۔ اور حضرت مرزا صاحب ایسے صیغے میں صرف زمانہ حال یا خالص استقبال یا فقط استمرار التزاماً ہرجگہ مراد نہیں لیتے بلکہ بحسب مقتضائے مقامات مناسبہ کہیں حال مراد ہوتا ہے اور کہیں استقبال اور کسی جگہ دوام تجدّدی مراد ہوتا ہے پس اس مسلک کے نقص کے واسطے کتنے ہی صیغے آپ ایسے نقل فرمائیں جن میں خالص استقبال مراد ہو تو حضرت اقدس کے صراط مستقیم کو کچھ مضر نہیں کیونکہ وہ التزاماً کوئی خاص ایک زمانہ ایسے صیغے میں ہر جگہ مراد نہیں لیتے۔قولہ یہاں استقبال مراد ہے بچند وجوہ اول یہ کہ الخ۔ اقول لا نسلم اما اولا آنکہ العبرۃ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 281
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 281
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/281/mode/1up
لعموم اللفظ لالخصوص السبب۔قاعدہ مسلمہ اہل اصول کا ہے پس کیا ضرورت ہے کہ اس آیت سے سوائے مہاجرین و انصار کے اور کوئی ناصر مراد نہ ہوسکے۔ ثانیاً آنکہ سلمنا کہ مہاجرین و انصار ہی مراد ہیں لیکن جس وقت سے کہ مہاجرین و انصار نے اللہ اور اسکے رسول کی نصرت کرنی شروع کی اسی وقت سے نصرت الہٰیہ شامل حال ان کے ہوگئی تھی اگرچہ نصرت تامہ و کاملہ الہیہ کا ظہور تامہ کسی قدر زمانہ کے بعد عوام پر ظاہر ہوا ہو۔ ثانیاً آنکہ یہ جو جناب فرماتے ہیں کہ جس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ چیز بعد زمانہ وعدہ کے پائی جاتی ہے۔ سلمنا لیکن یہ کیا ضرور ہے کہ بعدیّت منفصلہ ہی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ بعدیّت متصلہ ہو۔ تقدم ذاتی اور تاخر ذاتی کا مسئلہ جو بین المنطقین مشہور و معروف ہے۔ بنظر و لحاظ فضل و رحم ارحم الراحمین کے یہاں پر کیوں نہیں مراد ہوسکتا۔ حرکتِ مفتاح اگرچہ حرکتَِ ید کے بعد متحقق ہوتی ہے لیکن ان ددنوں حرکتوں میں کوئی فاصلہ زمانہ دراز کا نہیں ہوتا معہٰذا کہتے ہیں کہ حرکت ید مقدم ہے اور حرکت مفتاح متاخر اگر ایسی ہی قبلیۃ و بعدیۃ آپ کی مراد ہے تو پھر یہ سب ایک نزاع لفظی ہوا جو حضرت اقدس مرزا صاحب کو کچھ بھی مضر نہیں ہے اور تراجم ثلاثہ کی کیفیت ناظرین کو پہلے معلوم ہوچکی۔ قولہ یہاں بھی مستقبل مراد ہے الخ۔ اقول وعد اور موعود میں جو قبلیۃ اور بعدیۃ ہے اس کا حال معلوم ہوچکا اور تراجم ثلاثہ کا حال بھی مکررسہ کرر لکھا جاچکا حاجت اعادہ کی نہیں ہے اور یہاں عادت مستمرہ ہونے میں کون سا محذور لازم آتاہے بیان فرمایا جاوے۔قولہ بالا معلوم ہوچکا۔ اقول نہ کچھ بالا معلوم ہوا اور نہ کچھ زیر معلوم ہوا بلکہ قاعدہ نون ثقیلہ کا بالکل ہوچکا۔ قولہ ان لوگوں کی کلام میں کہیں تصریح حال کی نہیں الخ اقول آپ تمام قرآن مجید میں سے ایک ہی صیغہ ایسا بتلاویں جس میں اللہ تعالیٰ نے یارسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح کردی ہو کہ اس صیغہ میں سوائے استقبال کے اور کوئی زمانہ مراد نہیں تو پھر ہم بھی ایسی تصریح کہیں تلاش کریں گے مولانا صاحب اہل لسان جو صیغے مضارع وغیرہ کو اپنی کلام میں استعمال کرتے ہیں اس کلام میں کہیں یہ تصریح نہیں ہوتی ہے کہ یہاں پر ہماری مراد حال ہے یا استقبال یہ فہم تو اہل لِسان اپنے اپنے محاورات کے بموجب سمجھ لیتے ہیں اور غیر اہل لسان حسب قواعد صرف و نحو و علم بلاغت وغیرہ سمجھتے ہیں اور ہم نے اوپر ان سب علوم سے ثابت کردیا کہ ان صیغوں میں حال بھی مراد ہوسکتا ہے اور استمرار بھی مظہری وغیرہ سے مصرحاً گذر چکا کہ فان حقیقۃ الکلام للحال اور حضرت اقدس نے جو اس آیہ میں معنی استقبال بطور امکان کے تجویز فرمائے ہیں تو صرف الزاماً افحام مخالفین کیلئے تجویز کئے ہیں قولہ تو جواب یہ ہے کہ بے شک اس صورت میں قاعدہ مقرر کی بنا پر الخ اقول یہاں پر یہ تو جناب نے اقرار فرما لیا کہ بے شک اس صورت میں قاعدہ مقرر کی بنا پر البتہ ردّ نہ ہوسکے گا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 282
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 282
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/282/mode/1up
مگرؔ ثانیاً آپ جو فرماتے ہیں کہ اس کا ردّ منوط ہوگا۔ قولہ امر آخر پر جس کا ذکر اوپر ہوچکاالخ۔ اقول اس رد کا جواب ہیچمدان کی تقریر سے اوپر ہوچکا پس فیصلہ شد۔ قولہ میرا مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں الخ۔اقول آپ کی خاطر سے ہم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ آپ کا مطلب صرف اس قدر ہی ہے کہ یہ معنی جو میں نے اختیار کئے ہیں اس طرف ایک جماعت سلف میں سے گئی ہے مگر یہ تو ارشاد ہو کہ جب آپ کے معنے کی طرف صرف ایک ہی جماعت گئی ہے اور دیگر جماعات صحابہ و تابعین اور ہزارہا مفسرین محققین دوسرے معنوں کی طرف گئے ہیں اور ان معنوں کو بہ براہین مبرہن کیا ہے اور آپ کے معنوں کو مرجوح طور پر بیان کرتے ہیں تو کیا آپ کے اختیار کر لینے سے ایک معنے مرجوح کو وہ معنے قطعی الدلالت ہوسکتے ہیں جو آپ کے غیر پرحجت قطعی ہوسکیں ایسے معنی مرجوح کو اختیار کر کر اپنے غیر پر حجت قطعی گرداننا یہ تو صریح ایک تحکم ہے۔قولہ۔ میری ادلہ کا قوی ہونا الخ۔ اقول ان ادلّہ کا اَوْھَنُ مِنْ بَیْتِ الْعَنْکَبُوْت ہونا ثابت ہوچکا۔ پس یہ آپ کا فرمانا بجائے خود نہیں ہے۔ قولہ آپ نے نون ثقیلہ کے بارہ الخ۔ اقول آیات محکمات جو نون ثقیلہ کے بارہ میں لکھی گئی ہیں معہ حوالہ تفاسیر کے وہ قیامت تک قائم رہیں گی اور جو کوئی ان کا مقابلہ کرے گا وہ ھَبَاءً مَّنْثُوْرًا ہوجاوے گا۔ قال اللّٰہ تعالٰی ۱؂ قولہ جب یہ امر ثابت ہوگیا الخ اقولیہ امر ثابت نہیں ہوا کہ نون تاکید جو معہ لام تاکید کے مضارع میں داخل ہوالتزاماً وہ خالص زمانہ استقبال کیلئے کردیتا ہے تو پھر تعمیم کیونکر قائم نہ رہے گی۔ قولہ آپ نے ان معنے کی تقریر میں جو میرے نزدیک متعین ہیں تھوڑی سی خطا کی ہے الخ اقول یہ معنی غیر صحیح ہیں کیونکہ اس صورت میں ایک ایسے لفظ کی تخصیص جس میں عموم در عموم بلا وجود مخصص کے کرنی پڑتی ہے اول تو لفظ اہل کتاب کا ایک ایسا عام لفظ ہے جو ہر زمانہ کے اہل کتاب کو شامل ہے جو اہل کتاب کہ اس بات کے قائل تھے کہ ۲؂ اور جو مصداق ہیں اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ۳؂ ان سے لے کر آنحضرت صلعم کے وقت کے اہل کتاب اور جو قیامت تک موجود ہوں گے سب کو شامل ہے ایک عموم تو یہ ہوا اور دوسرا عموم یہ ہے کہ من اہل الکتاب ترکیب نحوی میں صفت واقع ہوا ہے اَحَدٌ مقرر کی پھر اَحَدٌجونکرہ محضہ ہے خبر نفی میں واقع ہوا ہے جو مفید استغراق ہے ارشاد الفحول میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ النکرۃ فی النفی تعم سواء دخل حرف النفی علی فعل نحومارأیت رجلا اوعلی الاسم نحو لارجل فی الدار ولولم یکن لنفی العموم لماکان قولنا لا الٰہ الّا اللّٰہ نفیا لجمیع الآلھۃ سوی اللّٰہ سبحٰنہ فتقرر ان المنفیۃ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 283
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 283
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/283/mode/1up
بماؔ اولن اولم اولیس اولا مفیدۃ للعموم۔ والنکرۃ المنفیۃ ادلّ علی العموم منہا اذا کانت فی سباق النفی۔ والصفی الھندی قدم النکرۃ علی الکل یعنی علی کل صیغۃ العام اور طرق قصر سے طریق نفی واستثناء بھی اس میں موجود ہے جو ایک مسئلہ علم بلاغت کا ہے۔ پس ایسے لفظ عام کوجس میں اس قدر عموم در عموم مراد الٰہی ہے ایک شر ذمہ قلیلہ اہل کتاب کے ساتھ بلاوجودمخصص کے مخصوص کرنا کوئی وجہ نہیں رکھتا اگر یہ عموم مراد الٰہی نہ ہوتا تو کلام مجید جو بلاغت میں حد اعلیٰ اعجاز کو پہنچ گیا ہے ایسے خاص معنے و مراد کو ایسے الفاظ عامہ سے بیان نہ فرماتا اور ابومالک کے قول کی توجیہ جو جناب فرماتے ہیں وہ مصداق ہے توجیہ القول بمالا یرضی بہ قائلہ کے۔ کیونکہ الفاظ قول ابو مالک کے یہ ہیں ذلک عند نزول عیسٰی بن مریم علیہ السلام لایبقی احد من اھل الکتب الا امن بہ۔ اس قول میں تو تصریح ہے۔ عند نزول کی یعنے نزدیک وقت نزول کے جملہ اہل کتاب ایمان لے آویں گے۔ جناب ذرہ غور سے ملاحظہ فرماویں۔ قولہ حاصل میری کلام کا یہ ہے الخ اقول جب کہ آیت سے جناب کے نزدیک یہ نہیں ثابت ہوتا کہ مسیح کے نزول کے بعد فوراً سب اہل کتاب ایمان لے آویں گے تو پھر یہ قول ابو مالک کا آپ نے واسطے احتجاج اپنے مدعا کے کیوں نقل فرمایا ہے۔ کہ ذٰلک عند نزول عیسی بن مریم علیہ السلام اور ایسے زمانہ کا آنا جس میں بسیط الارض پر کوئی کافر نہ رہے آیات بیّنات قرآن مجید کی جو سابق مذکور ہوئیں اس کو رد کررہی ہیں قولہ دوم یہ کہ الخ اقول جب کہ ایمان سے مراد ایمان شرعی نہیں بلکہ یقین مراد ہے تو پھر کہاں گیا وہ دعویٰ کہ جملہ اہل ملل و نحل عیسیٰ بن مریم کے وقت میں اسلام میں داخل ہوجاویں گے اور دفع تعارض جو کیا کرتے ہیں تو ایسی وجوہ سے کہ مناقض مدعا نہ ہوں وہ کیا دفع تعارض ہوا کہ جس سے اور مفاسد دیگر پیدا ہوجاویں دفع تعارض کے واسطے آپ کہاں سے کہاں چلے جاتے ہیں ذرہ غورکر کے دفع تعارض فرمایا کیجئے قولہ جس زمانہ کیلئے یہ حصر کیا گیا ہے الخ۔ اقول مولانا بحث تو اس میں ہے کہ جو لفظ ایسا عام ہو کہ جس کا عموم کئی وجوہ سے بیان کیا گیا ہو۔کما مربیانہ وہ عام تمام اپنے افراد کو شامل ہوتا ہے جب تک کہ کوئی مخصص اس کا پیدا نہ ہو یہاں پر صرف ایک نون ثقیلہ پیدا ہوا تھا اگر وہ خفیفہ نہ ہوجاتا تو شاید کسی وجہ سے کسی قدر تخصیص حاصل ہوسکتی مگر اس نون ثقیلہ کی کیفیت خفت معلوم ہوچکی تو اب کوئی بھی مخصص باقی نہ رہا۔ پس اندریں صورت تخصیص کی کیا وجہ ہے کہ مراد تو ہوں ایک زمانہ نامعلوم کے اہل کتاب اور ان کو ایسے صیغہ عام در عام سے بیان فرمایا جاوے۔ حصول المامول میں لکھا ہے ولاشک ان الاصل عدم التخصیص پس ایسی تخصیص کی کیا وجہ ہے کہ مخاطب تخصیص کرتے کرتے بھی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 284
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 284
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/284/mode/1up
تھکؔ جاوے اور پھر مع ھٰذا اس تخصیص در تخصیص کا نام پورا حصر رکھا جاوے پورے حصر کے معنے تو استغراق جمیع افراد سے حاصل ہوتے ہیں نہ تخصیص در تخصیص سے یہ بھی ایک اصطلاح جدید علم اصول فقہ کی جناب نے پیدا کی ہے ۱؂ قولہ بلکہ یہ تو مقتضی نون ثقیلہ و لفظ بعد موتہ کا ہے جو کلام الٰہی میں واقع ہوا ہے الخ۔ اقول مولانا اب تو سرے سے مقتضی ہی نہ رہا۔ پھر مقتضی کہاں ہوسکتا ہے اور پھر یہ کیونکر ہوسکے گا کہ اِدھر تو الفاظ عموم در عموم کے بیان کئے جاویں اور اُدھر خصوص در خصوص مراد ہو یہ تو تناقض ہوا جاتا ہے وتعالٰی کلام اللّٰہ عن ذٰلک علوًّا کبیرًا۔واضح ہو کہ مولوی صاحب کی عبارت میں لفظ بعد موتہٖ غلط لکھا گیا ہے قرآن مجید میں قبل موتہٖ ہے اور چونکہ لفظ احد کامل درجہ کا نکرہ ہے لہٰذا اس کی نفی حسب قواعد نحو و علم بلاغت کے بحرف اِنْ کامل استغراق کو ہوگی جو جناب کے مدعا کے مخالف ہیقولہ اور ایسا ہی ان کا یہ فرماناالخ۔ اقول مولانا صاحب ظاہر ہے کہ آیت۲؂ واسطے حیات مسیح کے مسوق نہیں ہے جو حیات میں نص ہو بلکہ حیات کا تو اس میں ذکر بھی نہیں موت کا ہی ذکر ہے پس جناب کا استدلال کرنا اس آیہ سے بطور اشارۃ النص وغیرہ کے ہوگا۔ پس جملہ اہل کتاب کا ایمان لانا قبل موت مسیح بن مریم کے آپ کے استدلال کا ایک مقدمہ ہوا اور اس مقدمہ کی نسبت اب آپ ایسا کچھ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس مقام پر نہ میں مدعی ان کے ایمان کا ہوں اور نہ مدعی اس امر کا کہ مراد ایمان سے یقین ہے مقصود اس مقام پر صرف رفع تناقض ہے جو آپ نے درمیان آیت و احادیث کے سمجھا ہے۔ فقط اقول مولانا یہ تو سب آپ کی دلیل کے مقدمات تھے جب کہ اثبات مقدمات اپنی دلیل سے دست بردار ہوگئے تو پھر دلیل دلیل کب قائم رہ سکتی ہے کیونکہ دلیل موقوف اثبات مقدمات پر ہوتی ہے مثل ثبت العرش ثم انقش۔ اور رفع تناقض اگر منظور تھا تو ایسی وجوہ سے رفع فرمایا جاتا جس میں اور مفاسد پیدا نہ ہوتے۔ یہاں پر تو آپ کی رفع تناقض سے اور مفاسد پیدا ہوگئے حتیّٰ کہ بسبب انہیں مفاسد کے آپ خود اثبات مقدمات دلیل اپنی سے دست بردار ہوگئے پھر دلیل کیونکر دلیل باقی رہی کہ المقدمۃ ما یتوقف علیہ صحۃ الدلیل اعم من ان یکون جزءً ا من الدلیل ام لا۔ اب آپ ہی انصاف سے فرمایئے کہ آپ جو اس جگہ ہیچمدان اور حکیم نور الدین صاحب کو حَکَمْ تسلیم کرتے ہیں تو اب یہ ہیچمدان اور حکیم نور الدین کیا فیصلہ کریں گے بجز اسکے کہ جو آپ نے خود ارشاد فرما دیا اور اپنے مقدمہ دلیل سے دستبردار ہوگئے۔ پس دلیل بھی دلیل نہ رہی۔قولہ اول یہ کہ آیت وَاِنْ مّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ میں صاف وعدہ ہے الخ اقول مولوی صاحب نے مسئلہ نسخ اور تخصیص میں خلط ملط کردیا لہٰذا اولاً یہ ہیچمدان تعریف عام و خاص کی اور جو تخصیص و نسخ میں فرق ہے علم اصول سے لکھتا ہے تاکہ ناظرین کی سمجھ میں بخوبی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 285
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 285
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/285/mode/1up
آجاؔ وے کہ یہاں پر تخصیص مطلوب مولوی صاحب کی جاری نہیں ہوسکتی۔ ارشاد الفحول میں لکھا ہے ۔ وفی الاصطلاح العام ھو اللفظ المستغرق لجمیع مایصلح لہ بحسب وضع واحد دفعۃ والخاص ھواللفظ الدال علی مسمی واحداعم من ان یکون فردًا اونوعًا اوصنفا و قیل ما دل علی کثرۃ مخصوصۃ ومن الفروق بین النسخ والتخصیص ان التخصیص لا یکون الا لبعض الافراد و النسخ یکون لکلھا۔ اب گذارش یہ ہے کہ آیات بینات سے بطور اخبار کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں قیامت تک کچھ نہ کچھ کافربھی موجود رہیں گے۔ قال اللّٰہ تعالی ۱؂ ایضًا قال۔ ۲؂ اب باوجود اس اخباراللہ تعالیٰ کے آپ یہ فرماتے ہیں کہ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ میں صاف وعدہ ہے کہ قبل موت حضرت عیسٰی ؑ کے سب اہل کتاب مومن ہوجاویں گے۔ اور یہ آیت مخصص واقع ہوئی ہے ان آیات بینات کی۔ مولانا صاحب اگر آپ ان دونوں آیتوں میں واسطے توفیق مفاہیم مختلفہ کے تخصیص کے قائل ہیں تو ظاہر یہ ہے کہ جناب کے معنے عام ہیں العام ھو اللفظ المستغرق لجمیع ما یصلح لہ الخ۔ اور مفہوم الآیہ کا خاص ہے کہ الخاص مادل علی کثرۃ مخصوصۃ او کما قیل پس بموجب فروق مذکورہ بالا کے مفہوم آیت الآیہ کا جو خاص ہے آپ کے معنے عام کا مخصص ہوسکتا ہے نہ برعکس لان التخصیص لایکون الالبعض الا فرادلیکن اندریں صورت اس تخصیص سے کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوتا کیونکہ اس تخصیص کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ ایک خاص زمانہ میں بعض اہل کتاب ایمان لے آویں گے حالانکہ بعض اہل کتاب تو ہر زمانہ میں ایمان لائے ہوئے ہیں۔ علاوہ یہ کہ اگر اسکے برعکس تخصیص مانی جاوے تو وہ نسخ ہوا جاتا ہے تخصیص نہیں رہتی اور نسخ اخبار میں عند الاصولیین درست نہیں ہے۔ ایہا الناظرین مولوی صاحب نے اس مسئلہ میں غور نہیں فرمایا اس واسطے اشتباہ والتباس واقع ہوگیا کہ جو آیت خاص تھی اور مخصص ہوسکتی تھی اس کو عام قرار دے دیا اور جو آیت کہ عام تھی اس کو خاص یا مخصوص فرما دیا۔ فتأملوا وانظروا واعتبروا یااولی الابصار۔ قولہ دوم احادیث صحیح سے ثابت ہے الخ۔ اقول۔ مولوی صاحب آیت کا تو یہ مفہوم ہے کہ مومنین متبعین قیامت تک فائق رہیں گے اور کافر قیامت تک مغلوب رہیں گے اور مضمون احادیث کا یہ ہے کہ وقت قیام قیامت کے سب شر یر رہ جاویں گے ان دونوں مفہوموں میں کسی طرح کا تعارض نہیں معلوم ہوتا جو تخصیص یانسخ کے طور پر ان دونوں مفہوموں میں توفیق کی جاوے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ دفعۃً واحدۃ جملہ مومنین متبعین کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف اٹھالے اور بقیہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 286
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 286
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/286/mode/1up
شراؔ ر الناس پر اس وقت سے قیامت قائم ہوجاوے چنانچہ اس درایت کی روایت صحیح بھی مؤید ہے۔ ثم یبعث اللّٰہ ریحاطیبۃً فتوفی کل من فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من ایمان فیبقی من لاخیر فیہ فیرجعون الی دین اٰبآءھم۔ رواہ مسلم پس آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ مومنین متبعین کا وجود جب تک دنیا میں رہے گا قیامت تک ساتھ غلبہ کے رہے گا اور کافر مغلوب رہیں گے اور جب کہ مومنین متبعین کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف اٹھا لے گا تب اس وقت سے بقیہ شر ذمہ کفار پر قیامت قائم ہوگی۔ پس ثابت ہوگیا کہ وجود کفار بھی اِلیٰ یوم القیامہ رہے گا۔ جن پر قیامت قائم ہوگی اور وجود مومنین متبعین بھی جو کفار پر وقت قیام قیامت غالب رہیں گے رہے گا اور نزدیک قیام قیامت کے کچھ قبل اسکے ریح طیّبہ سے مومنین اٹھائے جاویں گے اس میں کوئی تناقض نہیں۔ ثانیاً یہ گذارش ہے کہ سلّمنا کہ آیت عام مخصوص البعض ہے اور احادیث صحیحہ مثل لا تقوم الساعۃ الاعلی شرار الخلق وغیرہ اس کی مخصص ہیں لیکن چونکہ آیت مستغرق تھی کل افراد زمانوں کے واسطے اور حدیث خاص ہے واسطے وقت قیام ساعت کے پس یہ احادیث خاص اس آیت عام کی مخصص ہوگئیں لیکن اس تخصیص سے مدعا کو کیا فائدہ ہوا مانا کہ آیت مخصوص البعض ہے لیکن بعد اس تخصیص کے بقیہ افراد ازمنہ کو جس میں مسیح بن مریم کا زمانہ بھی داخل ہے شامل رہے گی ااور شمول و عموم اس کا زمانہ مسیح بن مریم کے واسطے حجت رہے گا کتب اصول میں یہ مسئلہ مصرح کیا گیاہے حصول المأمول مؤلفہ حضرت نواب صاحب بہادر مرحوم و مغفور کی عبارت یہاں پر نقل کی جاتی ہے۔ واما اذا کان التخصیص بمبین فقداختلفوا فی ذلک علی اقوال ثمانیۃ منھا انہ حجۃ فی الباقی والیہ ذھب الجمھور واختارہ الامدی وابن الحاجب وغیرھما من محققی المتأخرین وھو الحق الذی لا شک فیہ ولاشبھۃ لان اللفظ العام کان متناولا للکل فیکون حجۃ علٰی کل واحد من اقسام ذالک الکل و نحن نعلم بالضرورۃ ان نسبۃ اللفظ اِلٰی کل الاقسام علی السویۃ فاخراج البعض منھا بمخصص لا یقتضی اھمال دلالہ اللفظ علی مابقی ولا یرفع التعبد بہ وقد ثبت عن سلف ھذہ الامۃ ومن بعدھم الاستدلال بالعمومات المخصوصۃ وشاع ذٰلک وذاع وقد قیل انہ مامن عموم الاوقد خص وانہ لایوجد عام غیر مخصوص فلو قلنا انہ غیر حجۃ فی مابقی للزم ابطال کل عموم و نحن نعلم ان غالب ھذہ الشریعۃ المطھرۃ انما تثبت بعمومات۔ پس اس تخصیص سے کہاں ثابت ہوتا ہے وہ دعویٰ کہ مسیح بن مریم کے وقت میں سب اہل ملل و نحل اسلام میں داخل ہوجاویں گے قولہ یہ آیت بھی عام مخصوص البعض ہے الخ اقول حسب قواعد علم اصول فقہ کے جو عام و خاص میں بظاہر ایک قسم کا

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 287
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 287
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/287/mode/1up
تعارؔ ض ہوا کرتاہے لہٰذا واسطے توفیق کے عام کو عام مخصوص البعض کر لیا کرتے ہیں۔ اور و اضح ہو کہ تعارض کے واسطے یہ بھی شرط ہے کہ ہر دواَدِلّہ بہمہ وجوہ درجہ مساوی پر ہوں یہ مسئلہ بھی کتب اصول میں مبین ہے۔ پس اب گذارش یہ ہے کہ آیت لیؤمنن بہ قبل موتہٖ بچندوجوہ ذوالوجوہ ٹھہر چکی ہے تو اندریں صورت کیونکر مخصص ہوسکتی ہے اُس آیہ کے جو ذوالوجوہ نہیں یعنے مثلاً یہ آیت ۱ ؂ ا ور اگر تخصیص بھی مابین ان دونوں آیتوں کے تسلیم کی جاوے تو چونکہ آیت وان من اھل الکتبعام تھی اور آپ بھی اسکے عموم کے واسطے ایک زمانہ کے قائل ہیں اور آیت وغیرہ کا مخصوص خاص ہے کہ الخاص مادل علی کثرۃ مخصوصۃ اندریں صورت خاص یعنی آیت ثانی عام یعنے آیت اول کی مخصوص ہووے گی نہ برعکس کہ عکس القضیہ ہوا جاتاہے کمامرّ۔قولہ اسی واسطے اس آیہ کو قطعی الدلالۃ لذاتہا نہیں کہا گیا۔ اقول جب کہ جناب والا بسبب ذوالوجوہ ہونیکے آیت ۲؂ کو قطعی الدلالت لذاتھا نہیں کہتے تو پھر آیت لیؤمننّ بہ قبل موتہٖ کو کیوں قطعی الدلالت فرماتے ہو کیونکہ آیت لیومنن بہ قبل موتہ بہ نسبت لفظ کہل کے زیادہ تر ذوالوجوہ ہے اول تو ضمیر بِہٖ میں روایتاً و درایتاً بہت سا کچھ اختلاف ہے پھر ضمیر قبل موتہ میں اختلاف کثیر ہے پھر لفظ اہل کتاب میں بھی بہت اختلاف ہے پھر یہ آیت کیونکر قطعی الدلالت ہوگئی اور وہ نہ ہوئی لان ھذا ترجیح بلا مرجّح۔ اور دلیل کی دو قسمیں جو باعتبار دلالت کے آپ کرتے ہیں۔ ایک قطعی الدلالت فی نفسہا اور دوسری قطعی الدلالت لغیرہا یہ ایک اصطلاح جدید ہے جو دوسرے پر حجت نہیں کمامرّ غیر مرّۃ۔قولہ مسلّم ہے کہ آیت اِنِّی مُتَوَفِّیْک الخ اقول آپ خود قسطلانی سے نقل فرما چکے ہیں کہ التوفّی اخذالشیء وافیا والموت نوع منہ اسی سے معلوم ہوا کہ موت میں بھی اخذ شیء وافیا ہوا کرتا ہے کیونکہ والموت نوع منہ۔قولہ آپ کو نزول عین عیسیٰ بن مریم سے الخ اقول مولانا مجھ کو یہ افسوس آتا ہے کہ آپ ہمیشہ وعدہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اگر مباحثہ کروں گا۔ توبعد دیکھنے تمام ازالہ اوہام کے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ نے ازالہ اوہام کو اول سے آخر تک مطالعہ نہ فرمایا۔ سرسری طور پر دو ایک مقام دیکھ لئے اور مباحثہ قائم کر لیا۔ جسکا انجام یہ ہواکہ بہت سے امور کی بحث آپکی جانب سے ایک تکرار بے سود رہی۔ ازالہ اوہام اگر آپ مطالعہ فرماویں تو جناب کو صدہا صوارف ایسے قوی مل جاویں کہ معنے حقیقی ابن مریم کے ان صوارف کی وجہ سے ہرگز نہیں لے سکتے۔ مثلاً ایک صارف یہ ہیچمدان سابق لکھ چکا کہ خود صحیحین کی حدیث میں اس مسیح بن مریم کی صفت وامامکم منکمواقع ہوا اور صحیح مسلم میں باسانید صحیحہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 288
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 288
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/288/mode/1up
فاؔ مکم منکم بھی ہے جو سب احتمالات کو قطع کرتا ہے کمامرّ سابقا قولہ اس حدیث کو قطعی الدلالت نہیں کہا گیا صرف تائید کیلئے لائی گئی ہے اقول جب کہ اس حدیث کی معارض احادیث متفق علیہ موجود ہیں تو پھر یہ حدیث بمقابلہ احادیث متفق علیہ کے ساقط رہے گی پھر تائید کے کیا معنے۔ خصوصاً اس حالت میں کہ در صورت عدم مخالفت و تعارض احادیث متفق علیہ کے بھی فی نفسہ وہ حجت نہیں ہوسکتی ہے۔ کمامرّ قولہ آپ وہ حدیث صحیح مرفوع متصل الخ۔اقول۔ آپ ملاحظہ فرمایئے ازالہ اوہام اور نیز جو اس میں افادات البخاری لکھے ہیں ان کو مطالعہ فرمایئے تاکہ مخالفت تعلیم قرآن بھی ثابت ہوجاوے۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلٰمِیْنَ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ
تمّت
مولوی محمد بشیر صاحب کے پرچہ ثالث پر سرسری نظر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلّی اللّٰہ عَلٰی سَیِّدِنَا محمّد واٰلہٖ وَاصْحَابِہٖ اجْمَعِیْن وَ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ۔ امابعد واضح خاطر عاطر ناظرین منصفین ہو کہ پرچہائے ثلاثہ مولوی صاحب کے جوابات حضرت اقدس مرزا صاحب کی طرف سے ایسے شافی و کافی دیئے گئے ہیں کہ اب حاجت جواب دینے کی باقی نہیں رہی کیونکہ مولانا صاحب نے اس پرچہ ثالث میں بھی اعادہ انہیں ابحاث کا کیا ہے جن کا جواب حضرت اقدس کی طرف سے مکرر ہوچکا لیکن چونکہ مولوی صاحب کی طرف سے مکررسہ کرر درخواست مباحثہ از ہیچمدان اس اقرار سے واقع ہوئی کہ اگر مجھ کو اس مسئلہ متنازعہ فیہا کا حق ہونا اب بھی ثابت ہوجاوے گا تو میں بالضرور قبول کر لوں گا۔ لہٰذا ادھر سے بھی اظہار اللحق والصواب جو ابہائے شافی و کافی بامید مضمون اذا تکرر تقرر کر کے مکررسہ کرردیئے جاتے ہیں شائد کہ مولانا صاحب حسب اقرار خود اس حق کو قبول فرمالیں۔ اول میں ان تمام احادیث کا فیصلہ قطعی مجملاً چند سطور میں کرنا چاہتا ہوں جو اس وقت بعض سائلین نے پیش کی ہیں بعدہٗ جواب بطور قولہ و اقول کے اس پرچہ ثالث کا لکھا جاوے گا۔ فیصلہ بعض احادیث متفق علیہ دربارہ نزول مسیح بن مریم ساتھ قید منکم کے وارد ہیں چنانچہ وامامکم منکم اور صحیح مسلم میں فامّکم منکم یعنی امّکم بکتاب اللّٰہ و سنۃ رسولہ۔ اب جس قدر احادیث کہ اس قید سے مطلق آئی ہیں خواہ ہزاروں ہی ہوں وہ سب احادیث

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 289
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 289
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/289/mode/1up
مطلقہؔ اس مقید پر محمول کی جاویں گی کیونکہ قاعدہ مجمع علیہ علم اصول کا ہے کہ مطلق مقید پر محمول ہوا کرتا ہے ارشاد الفحول میں لکھا ہے جس کی تلخیص حضرت نواب صاحب بہادر مرحوم ومغفور نے ان الفاظ سے کی ہے ۔الثانی ان یتفقا فی السبب والحکم فیحمل احدھما علی الاٰخر اتفاقا وبہ قال ابوحنیفۃ ور جح ابن الحاجب وغیرہ ان ھذا الحمل ھو بیان للمطلق ای دال علٰی ان المراد بالمطلق ھوالمقید وقیل انہ یکون نسخا والاول اولٰی و ظاھراطلاقھم عدم الفرق بین ان یکون المطلق متقدما اومتأخرا اوجہل السابق فانہ یتعین الحمل۔اور اگر کوئی کہے کہ مسیح بن مریم پر تعریف مطلق کی کب صادق آتی ہے جو اس میں تقید جاری ہو تو جواب اس کا یہ ہے کہ حضرت اقدس نے ازالہ میں اور نیز اخیر پرچہ ثالث میں اس بات کو بخوبی ثابت کردیا ہے کہ احادیث میں جو مسیح بن مریم مذکور ہے اس سے مراد مثیل مسیح ہے نہ عین عیسٰی بن مریم۔ چنانچہ آخر پرچہ ثالث میں تحریر فرماتے ہیں کہ اطلاق اسم الشیء علٰی مایشابھہ فی اکثر خواصہ وصفاتہ جائز حسن تفسیر کبیر صفحہ ۶۸۹۔ اور ظاہر ہے کہ لفظ مثیل مسیح کے مطلق ہونے میں کچھ شک نہیں جس کی تقئید ساتھ منکم کے احادیث متفق علیہ سے ثابت ہوچکی اور جس قدر احادیث مطلقہ واقع ہیں وہ سب محمول اس مقید پر ہوگئیں فیصلہ شد + اب ایک خواب جو مولانا صاحب نے دیکھا ہے اور وہ بشری ہے واسطے اطلاع و آگہی ناظرین کے لکھا جاتا ہے تاکہ مولانا صاحب اس مباحثہ میں اس خواب کی تعبیر کو بھی ملحوظ نظر رکھیں۔
خواب مولانا محمدؐ بشیر صاحب
بتاریخ ۱۶۔ ربیع الثانی مولوی عبدالکریم صاحب ساکن پاترہ نے ہیچمدان سے بیان کیا کہ مولانا محمدؐ بشیر صاحب نے خواب ذیل کو مجھ سے بیان کیا ۔کہ اندر مکان کے میں کھانا کھا رہا ہوں اور جسم پر لباس کسی قدرنہیں ہے اس اثناء میں معلوم ہوا کہ ڈپٹی امداد علی صاحب مرحوم آئے ہیں میں نے چاہا کہ ان کا استقبال مکان کے باہر سے ہی کروں۔ استقبال کے واسطے باہرکو آیا تو دیکھا کہ ڈپٹی صاحب ممدوح دروازہ صدرسے اندر آگئے ہیں میں نے معانقہ کرنے کا قصد کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم سے کیا معانقہ کریں تمہاری حالت وہیئت توجنوں کی سی ہورہی ہے۔ میں نے چاہا کہ کچھ جواب اس کا دوں لیکن ان کے لحاظ سے کچھ جواب نہیں دیا اور صرف یہ کہا کہ ہم سے قصور ہوامعاف کیجئے پھر ڈپٹی صاحب سے معانقہ ہوگیا فقط تعبیر اس خواب کی یہ احقر کچھ نہیں دیتا مولوی صاحب اس خواب کے مضمون پر خود غور فرماویں وبس۔ والعاقل تَکْفِیْہِ الاِشَارۃ۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 290
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 290
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/290/mode/1up
قوؔ لہ اول یہ کہ آپ قبل ادعائے مسیحیت براہین احمدیہ میں اقرار حیات مسیح کا کرچکے ہیں الخ۔ اقول۔ ادعائے مسیحیت بطور روحانی براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے اور ازالہ اوہام وغیرہ میں بھی وہی دعویٰ ہے کوئی دعویٰ جدید نہیں۔ آگے رہا اقرار حیات مسیح سو وہ بطور منطوق کے براہین میں نہیں لکھا گیا۔ ہاں البتہ مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا لکھا ہے جس سے حیات مسیح بطور مفہوم کے لازم آتی ہے اور یہ مسئلہ مقررہ علم اصول کا ہے کہ لازم القول یا لازم المذہب کا مذہب ہونا ضروری نہیں۔ معہذا اس سے جناب کو کیا فائدہ ہوا۔ کیونکہ مانا کہ حضرت مرزا صاحب کو حیات مسیح کا اقرار تھا۔ لیکن جب کہ بسبب عدم وجدان دلیل کے حیات مسیح پر حضرت مرزا صاحب حیات مسیح سے دستبردار ہوگئے اور دعویٰ حیات ثابت نہ ہوا تو وفات مسیح خودبخود ثابت ہوگئی کیونکہ حیات و وفات میں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مگر اس صورت میں بار ثبوت حضرت کے ذمہ کہاں رہا۔قولہ ۔ خاکسار ایک سوال کرتا ہے الیٰ آخرہ۔ اقول۔ مولانا صاحب نے اس جگہ پر بہت سی شقوق بطور منطقین کے جاری فرمائیں۔ مگر دانست ناقص میں طول عبث کیا ہے۔ لہٰذا جواب اس کا مختصر لکھا جاتاہے۔ اول ہم اس شق کو اختیار کرتے ہیں کہ خیال حیات مسیح بعد اس الہام کے پیدا ہوا ہے اور تسلیم کیا کہ الہام سے پہلے اس خیال سے کچھ واسطہ نہ تھامگر اس جدت سے حضرت مرزا صاحب ایسے مدعی نہیں ہوسکتے جس کے ذمہ بار ثبوت ہو تقریر اس کی وہی ہے کہ حضرت نے حیات پر کوئی دلیل اور ثبوت نہ پایا تو اس دعوے یا اقرار سے دستبردار ہوئے اور جب کہ اقرار حیات سے دستبردار ہوئے۔ تو بجز وفات کے اور کچھ نہیں ہے کیونکہ اجتماع الضدّ ین و ارتفاع الضدین محالات سے ہے پس اس تقریر سے کسی طرح پر بار ثبوت حضرت اقدس کے ذمہ نہیں ہوا اور وفات خود بخود ثابت ہوگئی۔ اب ہم اس شق کو بھی اختیار کرتے ہیں کہ قبل الہام سے بھی یہ خیال وفات تھا مگر اس کا یقین نہیں تھا اور بعد الہام کے یقین وفات ہوگیا اور یہ بھی تسلیم کر لیا کہ مفید یقین اس وقت میں الہام ہوا جس کی تائید نصوص نے بھی کی۔ اور اس وجہ سے کہ اکثر لوگوں کو ملہم ہونا حضرت اقدس کا پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچا اور ان کیلئے الہام حجت بھی نہیں تھا لہٰذا حضرت اقدس نے سنت اللہ وآیات قرآن مجید سے اس یقین کو ثابت کردکھایا تاکہ مخالفین اور منکرین الہام پر بھی حجت ہوجاوے اب مخالفین کو لازم ہے کہ یا تو ان نصوص و آیات کا جواب شافی دیویں ورنہ وفات مسیح کو تسلیم کریں پھر بعد تسلیم وفات مسیح کے مسیح موعود ہونے کی بحث ہوسکتی ہے قولہ سوم اس مقام پر نصوص قرآنیہ قطعی طور پر الخ۔ اقول یہاں پر بھی دوشقیں منطقین کے طور پر جاری فرمائی گئی ہیں لیکن حاصل ان کا کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا۔ ہم اس شق کو اختیار کرتے ہیں کہ نصوص

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 291
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 291
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/291/mode/1up
قرآؔ نیہ قطعی طور سے وفات مسیح پر دلالت کرتی ہیں۔ اور جو فساد اس شق پر بیان کیا گیا ہے اسکی نسبت ہم بھی مولوی صاحب سے یہاں پر صرف ایک سوال کرتے ہیں تاکہ طول لازم نہ آوے جو اس سوال کا جواب مولوی صاحب دیویں وہی جواب حضرت اقدس مرزا صاحب کی طرف سے تصور فرماویں۔ سوال یہ ہے کہ قرآنیّت ہر دو سورتوں معوّذ تین کی قطعی طور پر آپ کے نزدیک ثابت ہے یا نہیں برتقدیر ثانی آپ اس کا اشتہار دیں کہ میرے نزدیک یعنی مولوی صاحب کے نزدیک معوّ ذ تین قطعی قرآن نہیں ہیں اور بصورت ِ شک اول لازم آتا ہے کہ آپ کے نزدیک وہ صحابہ جنہوں نے ان ہر دو سورتوں کے قرآن ہونے کا انکار کیا تھا نعوذ باللہ کافر ہوں۔ کیونکہ منکر قرآن متواتر کا جو قطعی اور یقینی ہے کافر ہوتا ہے فماھو جوابکم عنہ فھو جوابنا۔قولہ چہارم آپ نے جو تعریف مدعی کی بیان کی ہے الخ اقولتعریف مدعی کی حضرت صاحب نے محض اپنی رائے سے نہیں بیان کی بلکہ فقہاء اور محدثین اور نظار جو تعریف مدعی کی بموجب اپنی اپنی اصطلاح کے کرتے ہیں اس کی تشریح اور توضیح بطور سِرّ اور گُر کے بیان کی ہے اور قرآن مجید سے بھی مستنبط ہے وکیف لا ؂ وکل العلم فی القرآن لٰکِن تقاصر عنہ افہام الرجال اس مقام پر مولاناصاحب نے کتاب الاقضیہ والشہادات کتب حدیث کو اور کتاب الدعویٰ کتب فقہ کو اور تمام آیات مخاصمہ و آیت مداینہ قرآن مجید کو غور و امعان سے نظر نہیں فرمایا جو ایسا کچھ فرماتے ہیں کہ یہ نہ سہی کوئی قول کسی صحابی یا تابعی یا کسی مجتہدیا کسی محدث یا فقیہ کا اسکے ثبوت کیلئے پیش کیجئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اگر مولوی صاحب کا اس فرمانے سے یہ مطلب ہے کہ جس عبارت اردو میں حضرت اقدس نے تعریف مدعی کی بیان کی ہے وہ کہیں مذکور نہیں تو البتہ یہ فرمانا مولانا صاحب کا کسی قدر درست اور راست ہے فی الحقیقت یہ عبارت اردو کی جو حضرت اقدس ؑ نے تعریف مدعی میں بیان کی نہ قرآن مجید میں مذکور ہے اور نہ کسی حدیث میں اور نہ کتب فقہ عربیہ میں کہیں لکھی ہے کیونکہ وہ عربی زبان میں ہیں اور بعینہا یہ الفاظ تو شائد کسی کتاب فقہ اردو میں بھی نہ نکلیں گے۔ لیکن اس بنا پر تو جناب مولوی صاحب کا سب وعظ و پند جو اردو میں ہوا کرتا ہے وہ بھی کہیں مذکور نہیں اندریں صورت وہ سب وعظ و پند محض رائے جناب کی ہوئی جاتی ہے ماھوجوابکم فھو جوابنااور اگر یہ مطلب نہیں صرف مطلب سے مطلب ہے تو لیجئے زیادہ طوالت تو اس تحریر مختصر میں کیا کی جاوے صرف بحوالہ حجت اللہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب ایک حدیث کی شرح لکھے دیتا ہوں۔ قال صلعم لویعطی الناس بدعواھم لادعی الناس دماء رجال واموالھم ولکن البینۃ للمدعی والیمین علی المدعی علیہ فالمدعی

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 292
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 292
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/292/mode/1up
ھوؔ الذی یدعی خلاف الظاھر ویثبت الزیادۃ والمدعی علیہ ھو مستصحب الاصل والمتمسک بالظاھر ولا عدل من ان یعتبر فیمن یدعی بینۃ فیمن یتمسک بالظاھر و یدرأ عن نفسہ الیمین اذالم تقم حجۃ الاٰخرو قد اشار النبی صلعم الٰی سبب مشروعیۃ ھذا الاصل حیث قال لویعطی الناس الخ یعنی کان سببا للتظالم فلا بدمن حجۃ انتہٰی۔ ایہاالناظرین اب ملاحظہ فرماؤ کہ جو تعریف اور فلاسفی مدعی ہونے کی حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب حکیم امت نے عربی عبارت میں بیان فرمائی اس کا مطلب وہی ہے جو حضرت اقدس نے اردو میں بیان فرمایا یاکچھ اور ہے۔ بَیِّنُوا تُوجرواقولہ پنجم یہ تعریف مدعی کی الخ۔ اقول ہم پہلے ثابت کرچکے کہ رشیدیہ میں قید من حیث انہ اثبات بالدلیل اوالتنبیہاسی بیان کا مجمل ہے جس کو حضرت اقدس نے شرح فرمایا ہے۔ فتذکروا۔ اور عصام الملۃ والدین کی مراد بھی وہی ہے جو رشیدیہ سے ثابت ہوچکی۔ پس جو تعریف مدعی کی حضرت اقدس نے لکھی ہے بالکل مطابق ہے اس تعریف کے جو علم مناظرہ میں لکھی ہے- علاوہ بریں یہ کہ اس مباحثہ میں جناب والا مدعی ہوچکے ہیں۔ مع ھٰذا اندریں صورت حضرت اقدس اس مباحثہ حیات و ممات میں مدعی کیونکر ہوسکتے ہیں۔قولہ آپ نے توضیح المرام اور ازالہ اوہام میں اس امر کا اقرار کیا ہے الخ۔ اقول۔ اگر حضرت اقدس نے بموجب قول ابوالدرداء کے لایفقہ الرجل حتّٰی یجعل للقراٰن وجوھاضمیر قبل موتہ ٖکی طرف حضرت عیسٰی ؑ کے راجع کی ہے تو اس صورت میں آیت کی تفسیر وہ ہو گی جو ازالۃ الاوہام میں لکھی ہے اُس کو ملاحظہ فرمائیے پھر آپ کا مدعا ہر طرح پر کیونکر ثابت ہو گا۔ یہ کیا ضرور ہے کہ درصورت ارجاع ضمیر موتہٖ کی طرف حضرت عیسیٰ ؑ کے وہی معنے ہوں جو آپ کے نزدیک ہیں۔ غایۃ الامریہ ہے کہ اس صورت میں جو معنے مورد اعتراض آپ کرتے ہیں وہ بھی ایک احتمال ضعیف کے طور پر ہوسکتے ہیں اندریں صورت آپ کے معنے قطعی کیونکر ہوجاویں گے اذاجاء الاحتمال بَطَلَ الاستدلالمثل مشہور و مقبول ہے۔ باقی جناب کے کل قول کا جواب شافی و کافی حضرت اقدس نے ایسا دیا ہے کہ خوبی اُس کی انصاف ناظرین منصفین پر موقوف ہے مگر اس کا کیا علاج ہے کہ نہ آپ اس کو قبول کریں اور نہ جواب شافی دیں۔ قولہ۔ خود آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ۱؂۔ الخ۔ اقول ہرگز ہرگز صریح نہیں بلکہ ذوالوجوہ ہے کمامر بیانہ قولہ رہی یہ بات کہ بعض مفسرین نے الخ۔ اقول یہ التباس حق کا ساتھ غیر حق کے کیا گیا ہے۔ کیونکہ جب ضمیر قبل موتہٖکی کتابی کی طرف راجع

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 293
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 293
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/293/mode/1up
ہو ؔ گی تو سوائے معنے مضارع کے جو دونوں زمانوں حال و استقبال کو شامل ہے۔ اور کیا معنے ہوں گے اور جملہ تفاسیر میں ضمیر قبل موتہٖ کی کتابی کی طرف راجع کی ہے حتّٰی کہ جلالین جو اخصر التفاسیر ہے اس میں بھی اول قول یہی لکھا ہے کہ ضمیر قبل موتہٖ کی کتابی کی طرف راجع ہے پھر اور تفاسیر کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ پھر کوئی اہل علم ایسی بات منہ سے نکال سکتا ہے کہ حال و استمرار کے معنے یہاں پر غلط محض ہیں۔ اور اگر حضرت اقدس نے اس تقدیر پر بھی معنے استقبال کا مراد ہونا ممکن فرمایا ہے تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ حال و استمرار کا مراد ہونا باطل ہے ایک وجہ کی امکان صحت سے دوسری وجوہ کا ابطال کیونکر لازم آگیا۔ قولہ بلکہ یہ خروج بقول آپ کے آپ پر لازم آگیا الخ اقول مولانا آپ نے ضرور اس شرط کا خیال و لحاظ نہیں کیا اور حضرت اقدس نے اس شرط کو پورا کردیا کیونکہ نون ثقیلہ کا جو استعمال صحیح صحیح تھا اس کو بھی قرآن مجید سے ہی ثابت کردیا اور جناب نے بمقابلہ قرآن مجید کے غیر کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف رجوع کیا اور اقوال اور فہم رجال سے جو خود بموجب آپ کے اقرار کے حجت نہیں استدلال کیا۔ اور ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۶ سے جو جناب نے حضرت اقدس کو الزام دیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے بچند وجوہ۔ اما اولاً آنکہ ازالہ اوہام کی تقریر کے وقت آپ کب مخاطب تھے اور فیمابین جناب اور مرزا صاحب کے ازالہ اوہام کی تحریر کے وقت یہ شرط کب ہوئی تھی کہ قال اللّٰہ اور قال الرسول سے باہر نہ جاویں گے۔ یہ شرط تو آپ سے اس مباحثہ میں ہوئی ہے۔ اور ازالہ اوہام جواب ہے سب مخالفین مختلف طبائع کا ہر شخص کو اس کے فہم کے بموجب الزام اور جواب دیا گیا ہے پھر اس مباحثہ میں یہ نقض و اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔ اما ثانیاً آنکہ حضرت اقدس نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۰۲ میں کس نحوی کے قول سے استناد کیا ہے وہاں پر بھی محاورہ قرآن مجید سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قَالَ صیغہ ماضی کا ہے اور اسکے اول میں اِذْ موجود ہے جو تمام محاورات قرآن مجید میں واسطے ماضی کے آتا ہے۔ پس عبارت مندرجہ صفحہ ۶۰۲۔ ازالہ میں غیر اللہ کے کلام سے کب استدلال کیا ہے بیّنوا توجروا۔ مولانا یہی تو حضرت اقدس کا کمال ہے جو دوسرے میں نہیں پایا جاتا کہ ہر ایک مطلب کو قرآن مجید سے ہی استخراج و استنباط فرماتے ہیں صدق اللّٰہ تعالٰی ۱؂ قولہآپ ایسی باتیں کرتے ہیں الخ اقول یہ تو آپ کا ہی مغالطہ ہے نہ حضرت اقدس کا ورنہ آپ پر لازم ہے کہ جن آیات میں آپ نے معنے استقبال کے لئے ہیں۔ اس استقبال کی تصریح یا تو قرآن مجید سے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 294
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 294
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/294/mode/1up
یا حدؔ یث صحیح سے یا قول صحابی سے ثابت کریں اور اس آیہ کو آپ بھی تو پیش نظر رکھیں کہ ۱؂ قولہ یہ بات بھی آپ کی سراسر مغالطہ دہی پر مبنی ہے الخ۔ اقول جناب نے بغیر سوچے اور تامل کئے اس مغالطہ کو جس کے مسند الیہ آپ ہی ہیں۔ حضرت اقدس کی طرف نسبت کیا ہے بیان اس کا یہ ہے کہ جو علماء عارف باللہ اور مؤید من اللہ ہوتے ہیں وہ بتائید روح القدس جملہ علوم کا استخراج قرآن مجید سے کرسکتے ہیں۔ قال اللّٰہ تعالٰی: ۲؂ ایضاً قال اللّٰہ تعالٰی ۳؂ وایضًا قال اللّٰہ تعالٰی: ۴؂ اور علماء ظاہر کو یہ بات نصیب نہیں ہوسکتی ان کو البتہ اشد احتیاج طرف علوم رسمیہ اور فنون درسیہ کی ہوتی ہے یہ مسئلہ اپنے محل پر ثابت کیا گیا ہے اور کافی و کامل طور پر آیت کے معنے کا کھل جانا اور اس پر اکابر مومنین اہل زبان کی شہادت مل جانا ثابت ہوگیا اب اس کا کوئی اہل علم انکار نہیں کرسکتا اور کوئی قاعدہ نحویہ اجماعیہ آپ نے ایسا بیان نہیں فرمایا جس کا ادھر سے انکار کیا گیا ہو۔ اور نون ثقیلہ کا حال تو آپ کو معلوم ہوچکا اور اب یہ بھی سنا جاتا ہے کہ سابق میں جس قدر شدّ و مدّ سے نون ثقیلہ کی بحث طلبہ کے روبرو بیان فرمایا کرتے تھے اب اس نون ثقیلہ کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ مثل مشہور ہے جولۃ غیر الحق ساعۃً وجولۃ الحق الی الساعۃ اور حضرت اقدس نے کسی علم میں آپ سے الزام نہیں کھایا۔ تمام علوم رسمیہ اور فنون درسیہ کے رو سے جناب پر ہی الزام عائد ہوگیا ہے۔ کمامرّ۔ اور ایسی باتیں کرنے سے جو آپکی یہ غرض ہے کہ حضرت اقدس کی ناواقفی علوم درسیہ سے لوگوں پر ثابت کریں یہ غرض ہرگز حاصل نہیں ہوگی۔ کیونکہ علاقہ پنجاب میں سب کو معلوم ہے کہ اوائل عمر میں سب مراحل اور جملہ منازل علوم درسیہ کے بھی آپ طے فرما چکے ہیں اور فی الحقیقت یہ سچ ہے کہ علماء ظاہر کو ان علوم سے چارہ نہیں پھر مع ھٰذا آپ نے جو علماء ظاہر میں سے ہیں ان علوم کو کیوں ترک فرما رکھا ہے۔ پس اگر جناب کو حضرت اقدس سے مباحثہ کرنا ہے تو پہلے ان دو کاموں میں سے ایک کام کیجئے اور اگر ایک بھی آپ قبول نہ کریں گے تو یہ امر اس بات پر محمول ہوگا جس کو آپ حضرت اقدس کی طرف منسوب فرماتے ہیں یا تو ان علوم درسیہ کی اجماعی باتوں کے تسلیم کرنے کا اقرار کیجئے یا بالفعل مناظرہ موقوف کر کے ایک کتاب ایسے قاعدوں کی رائج و شائع کیجئے جیسا نون ثقیلہ کا قاعدہ جناب نے ایجاد فرمایا ہے۔ مگر اسکے ساتھ یہ بھی ہو کہ ان قواعد نو ایجاد کو سب علمائے اسلام

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 295
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 295
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/295/mode/1up
قبو ؔ ل بھی کر لیں اور اگر سب علمائے اسلام نے قبول نہ کیا تو پھر ایسی ایجادوں سے کیا فائدہ ہوا۔ پس بموجب اس طریقہ کے جو جناب نے دربارہ نون ثقیلہ ایجاد کیا ہے کوئی عاقل کسی عاقل کو الزام نہیں دے سکتا جب آپ کسی علم میں ترمیم فرماویں گے تو دوسرا بھی ترمیم کرسکتا ہے قولہ اس کا جواب عامہ تفاسیر میں الخ۔ اقول یہ کون کہتا ہے کہ عامہ تفاسیر میں اس کا جواب بطور تاویلات رکیکہ اور توجیہات ضعیفہ کے نہیں لکھا مطلب تو یہ ہے کہ قواعد نحو جو کتب درسیہ نحویہ میں لکھی ہیں۔ قراء ت متواترہ اِنَّ ہٰذَان اس کے خلاف ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قواعد علوم تابع و خادم قرآن مجید ہیں۔ اور قرآن مجید سب کا متبوع اور مخدوم پس جملہ علوم کو تابع قرآن مجید کا کرنا ضرور ہے نہ برعکس۔ پس بمقابلہ و تعارض قرآن مجید کے کوئی قاعدہ ہو ساقط الاعتبار رہے گا۔ کما مربیانہ قولہ یہ خطا فاحش ہے اقول یہ خطا فاش ہے کیونکہ اِنَّ ھٰذَانِ قراء ت متواترہ کب ہے جو یوں لکھا جاتا کہ بجائے اِنَّ ہٰذَیْنِ کے اِنَّ ہٰذَانِلکھا ہو۔ اور لفظ فاش کو مولوی صاحب نے خلاف محاورہ فرس کے فاحش لکھا ہے یہ خطافاش محاورہ فرس و نیز محاورہ اردو کی ہے قولہ یہ بات اگر قواعد اختلافیہ کی نسبت الخ اقول جو مضارع موکد بہ لام تاکید معہ نون تاکید کے ہووے اس کا استعمال التزاماً خالص استقبال کیلئے ہونا کسی ایک امام نحو نے بھی نہیں لکھا۔ چہ جائیکہ اس پر اجماع ہوگیا ہو۔ ومن ادعی الان فعلیہ البیان اور میزان الصرف وغیرہ کے حاشیہ میں لکھی ہونے سے اجماع ائمہ نحات کا ثابت نہیں ہوسکتا۔لہٰذا آپ کو ضرور ہے کہ اشتہار اس بات کا دیویں کہ خالص استقبال کا مراد ہونا اور وہ بھی التزاماً ہر ایک صیغہ مضارع موکد بلام تاکید و نون تاکید میں جو ہم نے لکھا تھا اور اس کو منسوب با جماع ائمہ نحات کیا تھا وہ خلاف نفس الامر کے اور غیر صحیح تھا ہم نے اس سے رجوع کیا تاکہ کوئی آپ کا معتقد دروازہ الحاد کا نہ کھولنے پاوے۔ قولہ ۱؂ اقول ۔ التفاسیر المعتبرۃ تشھدبھا واللّٰہ الکریم۔ ۲؂ قولہ آپ ان اکابر کا مطلب الخ۔ اقول ۔ آپ ہی ان اکابر مفسرین کا مطلب بالکل نہیں سمجھے فافھم۔ قولہ۔ توضیح المرام سے معلوم ہوتا ہے الخ اقول۔ ایّھا الناظرین ذرا انصاف کرو اور برائے‘ خدا اللہ تعالیٰ سے ڈر کر توضیح المرام کو بھی دیکھو اور ازالۃ الاوہام کو بھی ملاحظہ کرو کہ حضرت اقدس نے کس جگہ پر آیت لیؤمننّ بہ قبل موتہٖ کو وفات مسیح پر قطعی الدلالت یقینی یا صریح الدلالت لکھا ہے جو مولوی صاحب بطور معارضہ کے فرماتے ہیں کہ آپ کی یہ تقریر بادنیٰ تغیر آپ پر منعکس ہوجاتی ہے الخ ہاں البتہ اگر حضرت اقدس آیت لیؤمننّ بہٖ قبل موتہٖ کو وفات مسیح پر قطعی الدلالت فرماتے جیسا کہ مولوی صاحب اس آیہ کو حیات مسیح پر

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 296
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 296
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/296/mode/1up
قطعیؔ الدلالت فرماتے ہیں تو بالضرور جو الزام مولوی صاحب پر عائد ہے وہ حضرت اقدس پر بھی عائد ہوجاتا واذ لا فلا آگے رہی یہ بات کہ کوئی ایسے معنے کسی آیت کے جو مفسرین سابقین پر مکشوف نہ ہوئے ہوں اور وہ حضرت اقدس مرزا صاحب پر مکشوف ہوں سو اس میں کوئی محذور لازم نہیں آتا کم ترک الاول للاٰخر مثل مشہور ہے کیونکہ یہ بات اپنے محل پر ثابت کی گئی ہے کہ معارف و اسرار قرآن مجید کے ایک خزائن لاانتہا ہیں جو وقتاً فوقتاً اولیاء اللہ اور علماء عارفین باللہ پر نازل ہوتے رہتے ہیں پچھلے مفسرین نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ جس قدر معارف و اسرار قرآن مجید کے تھے وہ سب ہم پر مکشوف ہوگئے اور اب آئندہ کوئی اسرار اور معارف باقی نہیں رہا۔ خصوصاً تفاصیل و تفاسیر ان پیشگوئیوں کی جو ابھی تک واقع نہیں ہوئیں ان کی نسبت تو سب کا یہ اقرار ہے کہ ۱؂ قال اللّٰہ تعالی: ۲؂ جب کہ ہر شے کی نسبت ایسا کچھ ارشاد فرمایا گیا تو قرآن مجید جو افضل الاشیاء ہے اس کے خزائن اسرار کا کیا ذکر ہے قولہ یہ طعن بادنیٰ تغیر آپ پربھی وارد ہوتے ہیں۔ اقول ۔ جوابہ مرّاٰنفا ۔قولہ اس عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے الخ۔ اقول ۔ جو معنے آیت لیؤمننّ بہ قبل موتہٖ کے آپ لیتے ہیں ان معنے کو تمام مفسرین محققین نے سوائے ابن جریر طبری ومن تبعہ کے بطور مرجوح قول ضعیف قرار دیا ہے اور قول اول اور راجح یہی لکھا ہے کہ ضمیر قبل موتہٖ کی طرف کتابی کے راجع ہے اور مانا کہ دونوں احتمال مساوی درجہ پر ہیں اور پھر یہ بھی تسلیم کیا کہ آپ کے نزدیک قول مرجوح تو راجح ہے اور قول راجح مرجوح ہے لیکن مع ھٰذا ایک قول کو قطعی الدلالت کہنا باطل ہے اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال۔ اور آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ بالضرور وفات مسیح میں صریح الدلالت ہے اور توفّی کے معنے میں سوائے وفات کے جو اور قول لکھے ہیں وہ غیر صحیح ہیں۔ اب اگر کہا جاوے کہ جب کہ تم نے آیت لیؤمننّ بہ قبل موتہٖ کو بسبب ذوالوجوہ اور ذو احتمالات ہونے کے متشابہ قرار دے دیا۔ اور تمہارے نزدیک صریح الدلالت نہ رہی تو پھر آیت متوفّیک اور فلمّا توفّیتنیبھی وفات مسیح میں صریح الدلالت نہ رہی کیونکہ وہ بھی ذوالوجوہ ہے اس واسطے کہ تفاسیر میں معنے توفّی کے سوائے موت کے اور کچھ بھی تو لکھے ہیں۔ تو جواب یہ ہے کہ احتمال کی دو قسمیں ہیں ایک تو احتمال ناشی عن الدلیل ہوتا ہے اور دوم احتمال غیر ناشی عن الدلیل۔ احتمال ناشی عن الدلیل مقبول ہوتا ہے اور جس

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 297
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 297
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/297/mode/1up
کلا ؔ م میں احتمال ناشی عن الدلیل پیدا ہو وہ کلام بالضرور ایک وجہ پر قطعی الدلالت نہیں رہتا۔ اور جو احتمال غیر ناشی عن الدلیل ہے وہ عند اولی الابصار ساقط الاعتبار ہوتا ہے۔ اگر ایسے احتمالات بعیدہ کا لحاظ کیا جاوے تو ہم کو ضروریات دین کا ثابت کرنا بھی مشکل ہوجاوے گا تفاسیر میں سب طرح کے اقوال ضعیفہ و رکیکہ و روایات موضوعہ مندرج ہیں اگر ان سب روایات موضوعہ اور اقوال رکیکہ کو تسلیم کیا جاوے تو پھر شرع اسلام میں ایک بڑا عذر برپا ہو جاوے گا اور اگر کوئی کہے کہ توفّی کے معنوں میں سوائے وفات و موت کے جو دوسرا احتمال مفید مخالفین ہے وہ بھی ناشی عند الدلیل ہے۔ تو گذارش یہ ہے کہ ایسے مدعی پر لازم ہے کہ ثبوت اس احتمال کا دلیل سے ثابت کرے اور انعام ایک ہزار روپیہ کا جو حضرت اقدس نے ازالۃ الاوہام میں ایسے شخص کے واسطے مشتہر کیا ہے وہ طلب کرے بعد طے کرنے اس مرحلہ کے یہ بات زبان پر لاوے کہ معنے توفّی میں سوائے موت وفات کے دوسرا احتمال بھی ناشی عن الدلیل ہے۔ ودونہ خرط القتاد قولہ نووی کی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے الخ۔ اقول جب کہ نووی جیسے شارح حدیث نے یہ امربدلیل ثابت کیا ہے کہ اکثر ائمہ تفسیر نے ضمیر موتہ ٖ کی کتابی کی طرف راجع کی ہے تو قطعی الدلالت ہونے میں آیت مذکورہ کے دربارہ حیات مسیح کیونکر فرق نہ آوے گا۔ آگے رہا آپ کا جرح جو نسبت قطعی الدلالت ہونے آیت متوفّیک وغیرہ کے کیا ہے اس کا جواب مختصرا بھی اوپر گذر چکا ہے اور تفسیر ابن کثیر میں جو یہ قول نقل کیا ہے کہ المراد بالوفاۃ ھہنا النوم یہ جناب کو کچھ مفید نہیں کیونکہ یہ رائے ہے ایک مفسر کی غایۃ الامر یہ کہ ایک جماعت قلیلہ کی رائے ہے جو غیر پر حجت نہیں۔ خصوصاً ایسی حالت میں جو صحیح بخاری کی معارض ہے بالفعل ہم اس رائے پر یہ جرح کرتے ہیں کہ اگر مراد توفّی سے انامت ہوتی تو فَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی کا مضمون واقع ہوجاتا یا اس کی نسبت کچھ ایسی تصریح ہوتی کہ یہ نوم ایک غیر معہود نوم ہے یہ کیسی نوم ہے کہ قریب دو ہزار برس کے گذر چکے اور ابھی تک فَیُرْسِلُ الاخرٰی واقع نہیں ہواکمامرّبیانہ سابقًا اور حضرت اقدس مرزا صاحب نے کسی جگہ پر آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبکو وفات مسیح میں قطعی الدلالت نہیں لکھا ومن ادعی فعلیہ تصحیح نقل قولہ۔ قولہ اور ایک ترجمہ کر کے اوراق کو بڑھایا ہے الخ اقول جب کہ اختلاف مع الدلیل ہے تو ثابت ہوچکا کہ منافی قطعیت ہے اور آیت اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اور فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ میں جو احتمال دوسرا معنے توفّی میں ہے وہ ناشی عن الدلیل نہیں لہٰذا وہ احتمال اس کے

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 298
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 298
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/298/mode/1up
قطعی الدلالت ہونے میں مضر نہیں ہوسکتا اور یہ چند مرتبہ گذر چکا کہ آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ کو حضرت اقدس نے دربارہ وفات مسیح قطعی الدلالت کہیں نہیں لکھا قولہ اور تفسیر مظہری والے کا یہ تقول الخ اقول مولانا صاحب قول صاحب تفسیر مظہری کا اگر آپ کے نزدیک تقول تھا اور مخدوش تھا اور مخالف تھا عامہ تفاسیر کی تو کسی تفسیر سے اس کا مخدوش ہونا ثابت کیا ہوتا بلاوجہ کسی مفسر کے قول مبرہن کو مخدوش اور تقول اور مخالف کہہ دینا دیانت اور انصاف کے خلاف ہے اور جو صارف معنے حال سے جناب نے نون ثقیلہ کو قرار دیا تھا وہ تو صارف رہا ہی نہیں پھر اگر کوئی طالب حق تفسیر مظہری کی طرف سے آپ کی خدمت میں یہ کہے کہ لام تاکید جو حال کے واسطے آتا ہے وہ صارف عن معنے الاستقبال ہے تو آپ اس کا کیا جواب دیویں گے اور طرفہ یہ ہے کہ جس تفسیر کی عبارت کو جناب نے دارمدار اپنے مباحثہ کا گردانا ہے اور مناط استدلال اس کو قرار دیا ہے اس عبارت میں خود جناب نے یہ قول بھی نقل کیا ہے۔وقال الحسن البصری یعنی النجاشی واصحابہ رواھما ابن ابی حاتم ۔اب آپ ہی انصاف فرماویں کہ جب حال کے معنے آپ کے نزدیک محض باطل تھے تو جناب نے قول حسن بصری کو جو مناقض آپ کے مدعا کے ہے کیوں نقل فرمایا اور اس کا ابطال بدلیل کیوں نہیں کیا یہ کیا بات ہے کہ جس معنے کو التزاماً آپ مراد لیتے ہیں اس پر استدلال قول مناقض سے کیا جاوے۔اِنْ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ اور رواۃ اسناد قراء ت ابی بن کعب کی جو تفسیر ابن کثیر میں درج ہیں اور جناب نے ان کی تضعیف کی ہے اور علم اسماء الرجال میں ہمہ دانی ظاہر فرمائی ہے اس کی نسبت یہ گذارش ہے کہ جناب کی تحریر میں خفیف بالفا لکھا ہوا ہے اور تقریب میں کسی جگہ خفیف کا ترجمہ نہیں لکھا اگر خصیب بصاد و با ہے تو جناب پر واجب تھا کہ اول تو بمقابل حضرت اقدس مرزا صاحب کے جو آپ کے نزدیک علم اسماء الرجال میں دخل نہیں رکھتے اور شائد اس علم میں حضرت اقدس کو توجہ والتفات نہ ہوا ہوکیونکہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی حجۃ اللہ میں اس علم کو قشر علوم حدیث فرمایا ہے اندریں صورت آپ ثابت کرتے کہ خصیب تین ہیں جن میں سے یہاں پر خصیب بصیغہ تصغیر معین ہے اور یہ ترجمہ اس کا جو مراتب اثنا عشر سے مرتبہ خامسہ پر واقع ہے کہ بموجب علم اصول حدیث کے اس مرتبہ خامسہ کا فلاں حکم ہے مثلاً یہ کہ حدیث اس کی اس مرتبہ فلاں کی ہوتی ہے۔ علٰی ہٰذَا القیاس۔ عتاب بن بشیر کا مرتبہ بھی مراتب اثنا عشر سے مرتبہ خامسہ پر ہے پس بمقابلہ ہم جیسے طلبہ کے جو علم اسماء الرجال سے بے خبر ہیں اس قدر تو آپ پر ضرور واجب تھا کہ رواۃ مرتبہ خامسہ کا حکم علم اصول حدیث سے بیان فرما دیتے تاکہ یہ معلوم ہوجاتا کہ ایسے رواۃ مرتبہ خامسہ کی روایت سے جو کوئی قراء ت آئی ہو اس سے تائید

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 299
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 299
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/299/mode/1up
کرناؔ کسی معنے قراء ت متواترہ کا جیسا کہ تمام مفسرین محققین نے کیا ہے درست نہیں ہے اب تھوڑی سی گذارش اور ہے کہ عتّاب بن بشیر سے بخاری۔ ابو داؤد ۔ ترمذی۔ نسائی نے تخریج کی ہے جیسا کہ تقریب میں بھی لکھا ہے کیا جناب کے نزدیک یہ عتّاب ساقط الاعتبار ہے۔ آگے رہا خصیب جن محدثوں نے اس سے تخریج کی ہے اس کو میں ابھی نہیں لکھتا کیونکہ تقریب میں بھی اس کے ترجمہ میں اس مقام پر کچھ نہیں لکھا دیکھ رہا ہوں کہ آپ عتّابکی نسبت کیا جواب دیتے ہیں یا اس ناچیز پر عتّاب ہی عتّابفرماتے ہیں۔ قولہ عموماً یہ بات غلط ہے۔ اقول اس اسناد کی رواۃ میں علل ظاہرہ تو جناب والا بیان فرما چکے لیکن علل خفیہ غامضہ سے اطلاع نہ فرمائی۔ شائد اس واسطے کہ ان کی پرکھ سوائے جناب والا کے اور کسی کو حاصل نہیں اسی واسطے تمام مفسرین محققین نے اس قراء ت سے بغیر تحقیق تائید معنے قراء ت متواترہ کے فرمائی ہے کیونکہ وہ ان علل خفیّہ غامضہ سے واقف نہ تھے اور جناب والا واقف ہیں۔ قولہ ہاں دو قول مرجح ضمیر قبل موتہٖ میں البتہ منقول ہیں الخ اقول جب کہ حسب اقرار جناب کے دو قول آیت کی تفسیر میں منقول ہیں اور یہ ثابت ہوچکا کہ تمام تفاسیر میں قول راجح بدلائل یہی لکھا ہے کہ ضمیر قبل موتہٖ کی کتابی کی طرف راجع ہے تو پھر جو معنے جناب لیتے ہیں ان کی قطعیت میں کیونکر فرق نہ آوے گا اور وماھو جوابکم فھوجوابناجو ارشاد ہے وہ یہاں پر نہیں ہوسکتا یہ تو قیاس مع الفارق ہے کیونکہ آیت اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ اورفَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی میں احتمال مخالف غیر ناشی عن الدلیل ہے یہ تو مقابلہ نص کا ہوا جاتا ہے۔ ساتھ قول کے بلکہ ترجیح قول کی اوپر نص کے ہوئی جاتی ہے اور یہی تو تقلید ناجائز ہے جس کو ہم اور آپ مدت سے چھوڑے بیٹھے ہیں ذوالوجوہ کلام میں خواہ کلام الٰہی ہو یا کلام رسول مقبول صلعم کسی معنے کو اقوال سے ترجیح ہوسکتی ہے اور نص کے مقابل قول کی ترجیح درست نہیں کتب اصول فقہ مسلم الثبوت وغیرہ کے یہ مسئلہ معتبر نہیں ہوچکا ہے بسبب عدم فرق کرنے کے ان دونوں امروں میں جناب والا کو اس مقام پر دھوکا ہوگیا ہے ذرا اس بارہ میں غور فرمایا جاوے پس ثابت ہوا کہ یہ قیاس جناب کا قیاس مع الفارق ہیقولہ یہ کذب صریح ہے اقول صحیح بخاری سے ثابت ہوچکا ہے کہ ابن عباس وفات مسیح کے قائل ہیں۔ پس بحکم قاعدہ اصول حدیث کہ صحیح بخاری مقدم ہے سب کتب حدیث پر اصحّ الکتب بعد کتاب اللّٰہ صحیح البخاری مسئلہ مسلمہ ہے پس سوائے اس کے جو قول مخالف ابن عباس کا ہے ساقط رہے گا پھر گذارش یہ ہے کہ بعض ائمہ دیگر بھی مثل ابن اسحاق اور وہب وغیرہ کے وفات مسیح کے قائل ہیں۔ اور جو معنے اس آیت کے ابومالک نے کئے ہیں کہ ذٰلک عند نزول عیسی بن مریم لایبقٰی احد من

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 300
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 300
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/300/mode/1up
اھل الکتاب الا من اٰمن بہٖ اس کو آپ فرماچکے ہیں کہ آیت سے یہ معنے یعنی وقت نزول ہرگز ثابت نہیں ہوتے اور حسن بصری کی طرف قبول ان معنے کا اسناد کرنا نہایت موجب تعجب ہے حسن بصری کا قول تو جناب نے یہ نقل کیا ہے یعنی النجاشی واصحابہ اس قول میں معنے استقبال سے کیا نسبت یہ تو خاص حال ہوگیا۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تو خود ان معنے کا قبول بطور شک کے فرماتے ہیں نہ مثل جناب کے کہ یہ آیت معنے مطلوب میں قطعی الدلالت لذ اتہا ہے اور ابن کثیر سے جو جناب نقل فرماتے ہیں کہ یہ معنی بدلیل قاطع ثابت ہیں الخ۔لہٰذا جناب سے مطالبہ دلیل قاطع کا ہے وہ دلیل قاطع بیان فرمائی جاوے ۔ ؂ نگفتہ ندارد کسی باتو کار۔ و لیکن چوگفتی دلیلش بیار
آگے رہا کسی قول کاکسی کے نزدیک اولیٰ ہونا یا اصح ہونا سو یہ چیز دیگر ہے اور قطعی الدلالت ہونا چیز دیگر وشتّان بینہما پس تقریب دلیل جناب کی محض ناتمام ہے قولہ میں تو وہی معنے جو تمام صحابہ و تابعین و غیر ہم سے الخ اقول۔ تمام صحابہ یا تابعین سے منقول ہونا ان معنی کا غیر صحیح ثابت ہوچکا اور آپ خود تسلیم فرماچکے کہ ہاں دو قول مرجع ضمیر قبل موتہٖ میں البتہ منقول ہیں انتہٰی قولکم پس ایسا کچھ فرمانا جناب کا اس اقرار کے مناقض ہے اور مسائل مستنبط کتاب و سنت کو مخترع فرمانا یہ ایک اختراع جدید ہے اور اہل لسان اپنی کلام میں ازمنہ ثلثہ کی تصریح کب کیا کرتے ہیں بلکہ عجم کے علماء اور غیر علماء بھی وقت تخاطب کے ایسی تصریحات نہیں کرتے یہ صرف عجم کے اطفال وقت پڑھنے میزان منشعب کے پڑھا کرتے ہیں کہ فَعَلَ کیا اس ایک مرد نے بیچ زمانہ گذرے ہوئے کے صیغہ واحد مذکر غائب کا بحث اثبات فعل ماضی معروف کی۔ اور حضرت اقدس مرزا صاحب نے جو زمانہ استقبال کو بھی تسلیم فرما کر معنے بیان فرمائے ہیں وہ تو یہ مضمون ہے کہ خصم راتابد روازہ بایدرسانید یہ جناب کو کیا مفید ہے اور یہ جو آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ جن صحابہ نے ارجاع ضمیر کا طرف کتابی کے کیا ہے وہ خطا پر ہیں اگر آپ کی اس تحظیہ صحابہ کو سرسری طور پر تسلیم بھی کر لیا جاوے تو حضرت مرزا صاحب جو عاشق رسول مقبول اور فریفتہ محبت صحابہ صلعم ہیں ہرگز اس آپ کی بات کو تسلیم نہ کریں گے کہ وہ صحابہ قطعی غلطی اور باطل پر ہیں جیسا کہ آپ پرچہ اول میں فرماچکے ہیں کہ جتنے معنے اس کے ماعدا ہیں سب غلط اور باطل ہیں ۱؂ پس کیونکر ہوسکتا ہے کہ یہ مقام استبعاد کا نہ ہو قولہ قراء ت مذکورہ فی الواقع ضعیف ہے الخ اقول جب تک کہ حکم ترجمہ عتّاببن بشیر اور خصیب کا بموجب علم اصول حدیث کے بیان نہ فرمایا جاوے اور یہ ثابت نہ کیا جاوے کہ ایسی رواۃ جو مرتبہ خامسہ میں واقع ہیں ان کی روایت سے جو قراء ت آئی ہو اس سے تائید معنی قراء ت کے درست نہیں تب تک یہ قول قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ تمام مفسرین محققین اس

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 301
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 301
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/301/mode/1up
قرأؔ ت کو واسطے تائید معنے قراء ت متواترہ کے لائے ہیں قولہ معنے مذکور کا فساد اس وجہ سے نہیں ہے الخ اقول جب کہ اس معنے کا فساد جو آپ کے معنے کے مخالف ہیں۔ اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ مخالف ہو قاعدہ نحو کے تو پھر اور کس وجہ سے وہ فساد ہے بیان فرمایا جاوے ہم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ آپ کے معنے قاعدہ نحو کے سراسر موافق ہیں لیکن اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسرے معنے جو حسب اقرار جناب کے مخالف قاعدہ نحو کے نہیں ہیں وہ فاسد اور باطل ہوں۔ یہ کیسا معما ارشاد فرمایا گیا ذرا سو چکر اور تامل فرما کر توضیح اس کی فرمائی جاوے قولہ پس اس قول کا کذب کالشمس فی نصف النہار ظاہر ہوگیا اقول یہ بات اپنے محل پر ثابت ہوچکی ہے کہ جب صرف اقوال رجال میں بحث آکر پڑتی ہے تو لحاظ کثرت اقوال کا کیا جاتا ہے نہ قلّت کا پس اگر تمام جہان کی تفسیروں میں سے ایک تفسیر ابن جریر جناب نے پیش فرمادی اور ابن کثیر اس کا تابع ہوا تو اس سے قطعیت معنے جناب کی کیونکر حاصل ہوگئی۔ ایک یا دو مفسرین تو ایک طرف اور تمام جہان کی تفسیریں دوسری طرف۔ اب آپ ہی انصاف سے فرماویں کہ کس کو ترجیح دی جاوے گی پھر اگر حضرت اقدس مرزا صاحب نے بموجب مثل مشہور و مقبول وللاکثر حکم الکل کے ایسا کچھ ارشاد فرمایا کہ سب کے سب آپ ہی کے معنے کو ضعیف ٹھہراتے ہیں تو اس قول کا کذب کالشمس فی نصف النہار کیونکر ظاہر ہوگیا۔ بحکم النادر کالمعدوم وللاکثرحکم الکل کے یہ تو عکس القضیہ ہے اور پھر یہ سب مضمون اس صورت میں ہے کہ معنے مطلوب جناب کے نصوص کے متعارض نہ ہوتے درصورتیکہ یہ معنے متعارض نصوص بیّنہ کے ہیں تو پھر ابن جریر کے قول سے جس کا تابع ابن کثیر بھی ہوگیا ہے قطعیت آپ کے معنے کی اور بطلان دوسرے معنے کا کیونکر ثابت ہوسکتا ہے بیّنوا توجروا قولہ بالجملہ مقصود رفع مخالفت ہے نہ اثبات دعویٰ۔ اقول بڑے تعجب کی بات ہے جب آپ کے معنے پر کوئی بڑا فساد لازم آتا ہے تب آپ دعوے ہی سے دست بردار ہوجاتے ہیں اور پھر بھی اپنے دعوے کو قطعی الثبوت فرمائے جاتے ہیں۔ جناب من اگر معنے قراء ت متواترہ کے وہ کئے جاویں جو قراء ت غیر متواترہ سے ثابت ہوتے ہیں تو پھر دعوے جناب پر اب کونسی دلیل باقی رہ گئی۔ مولانا رفع مخالفت جو آپ کیا کریں ذرہ سوچ کر اور تامل فرما کر کیا کریں وہ رفع مخالفت ہی کیا ہوا جس سے دعویٰ بالکل نیست و نابود ہوجاوے۔ ۱؂ قولہ سند میں جو جرح ہے وہ الخ ا قولکوئی ایسی جرح جناب نے بیان نہیں فرمائی جس سے تمام مفسرین محققین کا اس قراء ت غیر متواترہ

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 302
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 302
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/302/mode/1up

کو وؔ اسطے تائید معنے قراء ت متواترہ کے لانا باطل ثابت ہو اور اس کا جناب سے مطالبہ ہے قولہ تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن کثیر اس معنے کی صحت پر معترض ہیں اقول جواب اس کا مکررسہ کرر گذر چکا۔ بھلا تیرہ سو برس کی تفاسیر اس قدر کثیر کا مقابلہ صرف ایک تفسیر ابن جریر ومن تبعہ یعنے ابن کثیر کیا کرے گی وللاکثر حکم الکل والنادر کالمعدوم علاوہ یہ کہ اقوال مندرجہ ابن جریر معارض ہیں نصوص قرآن مجید اور حدیث شریف کے فتسقط لا محالۃ قولہ یہ محض غلط ہے ۱لخ اقول یہ ثبوت تعارض بین المعنیین کی کیا عمدہ دلیل ارشاد ہوئی ہے سبحان اللہ مگر یہ تو ارشاد ہو کہ یہ تعارض کونسا ہے آیا صرف تعارض عرفی بمعنے متعدد کے ہے یا بمعنے تناقض منطقی کے۔ بشق اول حضرت مرزا صاحب کو کچھ مضر نہیں دو متعدد معنے جمع ہوسکتے ہیں مثلت مثلاً یہ معنے کہ ہر ایک اہل کتاب کو قبل موت عیسیٰ بن مریم کے یہ خیالات شک و شبہ صلب و قتل کے حضرت عیسیٰ بن مریم کی نسبت چلے آتے ہیں جو اس آیت کے اوپر مذکور ہیں اور ان کو ان شبہات کے ہونے پر یقین ہے اور یہ معنے کہ ہر ایک اہل کتاب اپنے مرنے سے پہلے اس بیان مذکورہ بالا پر ایمان و یقین رکھتا ہے کہ مسیح بن مریم یقینی طور پر صلب و قتل کی موت سے نہیں مرا اس کے قتل یا صلب کی نسبت صرف شکوک و شبہات ہیں علٰی ہٰذا القیاس اور معانی جو حضرت اقدس نے ازالہ وغیرہ میں بہ سبب ذوالوجوہ ہونے آیت کے لکھے ہیں وہ متناقض نہیں جو باہم جمع نہ ہوسکیں۔ اور بشق ثانی ان دونوں معنوں میں تناقض ثابت فرمایا جاوے ورنہ حضرت مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ الہامی معنے ان معنوں کے مغائر نہیں بہت درست اور نہایت صحیح ہے۔ پھر سخت تعارض اور بین تخالف کیسا۔ یہ کیا ضرورت ہے کہ درصورت ارجاع اس ضمیر کی طرف کتابیکے ہونے میں ہم نے ان دونوں معنی کا غیر متناقض ہونا ثابت کردیا ورنہ جمع کیوں ہوسکتی اجتماع النقیضین تو درست ہے ہی نہیں اور حضرت مرزا صاحب یہ کب کہتے ہیں کہ ضمیر قبل موتہٖ کی طرف عیسیٰ بن مریم کے رجوع نہیں ہوسکتی وہ تو یہ کہتے ہیں کہ درصورت ارجاع ضمیر کے طرف عیسیٰ بن مریم کے وہ معنے جو آپ کرتے ہیں وہ مورد فساد ہیں اور اس وجہ سے قابل تسلیم نہیں ہیں اور آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ کو وفات مسیح میں مرزا صاحب نے کسی جگہ یقینی صریحۃ الدلالت اور قطعیۃ الدلالت نہیں لکھا ہاں وفات مسیح میں بطور اشارۃ النص کے لکھاہے اب آپ ہی انصاف فرمایئے کہ آیت ذوالوجوہ کا باوجود اقرار ذوالوجوہ ہونے کے ایک وجہ پر اصرار کر کر اس وجہ کو قطعی الدلالت کہہ دینا اور باقی وجوہ کا بلادلیل جحدو انکار کرنا ۱؂ کا مصداق ہے یا نہیں۔ قولہ یہ امر مسلم ہے الخ۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 303
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 303
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/303/mode/1up
اقوؔ ل یہ ایک نزاع لفظی ہے اور مرزا صاحب کو کچھ مضر نہیں۔ کسی کلمہ کے تکلم کے بعد متصلہ کا زمانہ آپ کے نزدیک استقبال قریب ہے اور اہل عربیہ کے نزدیک حال ہے۔ مطول اور ہوامش اس کے سے یہ مطلب ثابت ہوچکا اور ایسے مناقشات کرنے کی نسبت عرف اور اہل عربیہ کی طرف سے محشیان مطول وغیرہ یہ کہہ چکے کہ یہ مناقشات واہیہ ہیں قولہ فرق نہ کرنا الخ اقول فرق کرنا ایسی عرفی باتوں میں جو نہایت درجہ کی موشگافی ہے لاحاصل ولاطایل ہے جو منجملہ مناقشات واہیہ کے ہیں نہ داب محصلین جیسا کہ ماہر علم عربیہ و فنون بلاغت بلکہ قاصر پر بھی مخفی نہیں قولہ بلکہ کہا گیا ہے کہ اس کا ایفا الخ اقول اس کے کیا معنے کہ مجاہدہ تو کریں زمانہ حال میں اور ہدایت حاصل ہو کسی زمانہ نامعلوم آئندہ میں۔ اے مولانا مجاہدہ کے ساتھ ہی بطور اتصال لزومی کے ہدایت الٰہی فوراً اور معاً پہنچ جاتی ہے بلکہ مجاہدہ فی اللہ بھی خود ہدایت سے ہی ہوتا ہے۔ مجاہدہ اور ہدایت کا ایسا اتصال ہے جیسا طلوع شمس اور وجود نہار میں۔ اگر جناب کو اس میں کچھ کلام ہوگا تو انشاء اللہ تعالیٰ اس بارہ میں دلائل علمیہ کتاب و سنت سے پیش کی جاویں گی۔ بالفعل بطور تنبیہ کے مختصر عرض کیا گیا اور بڑی تعجب کی بات ہے کہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہم کو اس سنت اللہ سے ہرگز انکار نہیں کہ مجاہدہ کرنے پر ضرور ہدایت مرتب ہوتی ہے اور پھر بلاوجہ و بغیر دلیل یہ بھی فرماتے جاتے ہیں کہ اس آیت سے یہ مطلب ثابت نہیں ہوتا مولانا اس آیت سے تو یہ مطلب بطور عبارت النص کے ثابت ہوتا ہے اگرچہ دوسری آیات سے بھی ثابت ہو اور نون ثقیلہ کا حال تو ناظرین منصفین کو معلوم ہوچکا کہ اس نے اثبات مدعا جناب سے بالکل دست برداری کردی ہے اور وہ آیت کے پورے معنے کو ادھورا نہیں کرسکتا۔ پھر ہمیں کیا ضرورت واقع ہوئی ہے کہ کلام ابلغ البلغاء کو پورے معنے سے عاری کر کر ادھورے معنے پر محمول کریں قولہ یہ آیات منافی قطعی الدلالت الخ اقول آیت لیؤمننّ بہٖ آپ کے مسلک کے بموجب عام ہے اور مفہوم ان آیات کا خاص ہے اور یہ امر گذر چکا کہ خاص مخصص عام کا ہوا کرتا ہے نہ برعکس جو عکس القضیہ ہوا جاتا ہے ومرّتفصیلہ قولہ یہ حصر غیر مسلّم ہے الخ اقول خود آپ کا حصر ہی معنے غلام میں جو صرف بمعنے کودک صغیر کیا گیا ہے غیر مسلّم ہے قاموس وغیرہ کو ملاحظہ فرمایئے اور منتہی الارب میں بھی لکھا ہے غلام بالضم کودک ومردمیانہ سال ازلغات اضداداست یا از ہنگام ولادت تاآمد جوانی۔ پس اندریں صورت جو صراح وغیرہ سے نقل فرمایا گیا ہے جناب کو کچھ بھی مفید نہیں اور حضرت مرزا صاحب کو کچھ بھی مضر نہیں ہے قولہ اول یہ کہ آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ الخ۔ اقول۔ چند مرتبہ عرض ہوچکا کہ حضرت مرزا صاحب

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 304
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 304
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/304/mode/1up
اسؔ آیت کو وفات مسیح میں صریحۃ الدلالت اور قطعیۃ الدلالت نہیں کہتے جیسا کہ جناب اس آیہ کو حیات مسیح میں قطعیۃ الدلالت فرماتے ہیں۔ بموجب اقرار جناب کے آپ کے نزدیک بھی ضمیر قبل موتہٖ کی ذوالوجوہ ہے جس کو اہل اصول نے ایسی ضمیر کو متشابہ کی مثال میں لکھا ہے پھر اگر ایک وجہ کو تسلیم کر کر اس کے معنے صحیح اور سالم عن الفساد حضرت مرزا صاحب نے بیان فرمائے ہیں تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ دوسری وجہ غلط اور باطل ہوگئی قولہ دوم برتقدیر موت بھی الخ اقول اللہ تعالیٰ جو اصدق الصادقین ہے فرماتا ہے۔ ۱؂ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخبر صادق نے جو خبر دی ہے اس مسیح آنے والے کے واسطے ازروئے احادیث متفق علیہ کے یہ قید بھی لگادی ہے وامامکم منکم اور فامّکم منکم یعنی امّکم بکتاب اللہ تعالٰی وسنۃ رسولہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم پس جملہ احادیث مطلقہ جو درجہ تواتر معنوی کو پہنچی ہوئی ہیں ان سے مراد بھی یہی مقید ہوگا کما مرّتفصیلہ پس ثابت ہوا کہ مخبر صادق نے یہ خبر بھی نہیں دی کہ مسیح بن مریم جو اس امت میں آنے والا ہے وہی عیسیٰ بن مریم بنی اسرائیلی آوے گا جو نبی و رسول بنی اسرائیل کا تھا بلکہ یہ خبر دی ہے۔ وہ مسیح آنے والا تم میں سے ایک ایسا اور ایسا امام ہوگا اور اس کی امامت کتاب اللہ کے معارف و اسرار اور سنت رسول صلعم کے بیان دقائق و حقائق میں ہوگی جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی بحث واقع ہوچکی قولہ برتقدیر وفات بھی الخ اقول مولانا بڑی وجہ قوی اور معقول موجود ہے جس کا بیان مفصلاً ثابت ہوچکا یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم رسول اللہ جنت میں داخل ہوچکے قیل ادخل الجنۃ۔ وادخلی جنتی۔ وماھم عنہا بمخرجین+ قولہ ظاہر اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سوائے احادیث نزول کے دیگر الخ اقول ملاحظہ فرمایا جاوے ازالۃ الاوہام افادات البخاری صفحہ ۹۰۱ تاکہ جناب کو ثابت ہو کہ بخاری میں متعدد جگہ ابن مریم کا ذکر کرکے اس سے مراد کوئی مثیل لیا گیا ہے قولہ افسوس کہ باوجود الخ اقول باوجود اسکے کہ آپکے اقرار سے آیت وان من اھل الکتاب حیات و وفات میں ذوالوجوہ ہے پھر بھی آپ اس کو قطعی الدلالت حیات میں فرماتے ہیں * اناللہ واناالیہ راجعون والی اللّٰہ المشتکی اب سنیئے یہ تو آپ کی تحریر کا جواب ترکی بترکی ہوا اب ایک نہایت منصفانہ اور فیصلہ کرنے والا جواب دیا جاتا ہے آپ اگر انصاف کے مدعی اور حق کے طالب ہیں تو اسی جواب کا جواب دیں اور جواب ترکی بترکی سے تعارض نہ کریں ایسا کریں
گے تو یقیناً سمجھا جاوے گاکہ آپ فیصلہ کرنا نہیں چاہتے اور احقاق حق سے آپکو غرض نہیں

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 305
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 305
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/305/mode/1up
ہےؔ وہ جواب یہ ہے کہ مولوی صاحب میں نے کمال نیک نیتی سے احقاق حق کی غرض سے اپنے ان جملہ جوابوں کو جن کو میں اس وقت پیش کرنا چاہتا تھا یکبارگی قلمبند کر کے آپ کی خدمت میں پیش کردیا اور آپ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ میرا اصل تمسک اور مستقل دلیل پہلی آیت ہے مع ہذا اس کی قطعی الدلالت کے ثبوت میں قواعد نحویہ اجماعیہ کو پیش نہ کیا اگر آپ بھی نیک نیت اور طالب حق ہیں تو اس کے جواب میں دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کریں یا تو جملہ دلائل و جوابات سے تعرض کریں اور ان میں سے ایک بات کا جواب بھی باقی نہ چھوڑیں یا میری بات یعنی وفات مسیح سے جو سنت اللہ کے موافق ہے تعرض فرماویں۔ اس کے سوا کسی بات کے جواب سے متعرض نہ ہوں مگر افسوس کہ آپ نہ پہلی صورت اختیار کرتے ہیں نہ دوسری بلکہ میری اصل بات کے علاوہ اور باتوں سے بھی تعرض کرتے ہیں مگر ان کو بھی ادھورا چھوڑا اور بہت سی باتوں کے جواب کا حوالہ آئندہ پر چھوڑا کہ ازالہ کا جواب یوں بسط سے دیا جاوے گا اور وُوں تفصیل سے رد کیا جاوے گا اور ان کے مقابلہ میں اپنے دلائل وغیرہ کے بیان کو بھی اپنے آئندہ رد ازالہ اوہام پر ملتوی کیا اور جو کچھ بیان کیا وہ ایسے انداز سے بیان کیا کہ اصل دلیل سے بہت دور چلے گئے اور اپنے بیان کو ایسے پیرایہ میں ادا کیا کہ اس سے عوام دھوکا کھاویں اور خواص ناخوش ہوں۔ اس کی ایک مثال آپ کی یہ بحث ہے کہ آپ مدعی نہیں ہیں۔ صاحبِ من جس حالت میںآپ نے خودمدعی ہو کر دلائل بھی پیش نہ کئے اور یہ بھی فرماتے رہے کہ میرا منصب مدعی ہونے کا نہیں ہے تو آپ کو اس بحث کی کیا ضرورت تھی صرف دلائل قطعیۃ الدلالت پیش کردیتے۔ دوسری مثال یہ ہے کہ حضرت شیخنا و شیخ الکل کی رائے کے بھی آپ نے خلاف بے موقع کیا اور لوگوں کو یہ جتانا چاہا کہ حضرت شیخ الکل بھی اس بحث میںآپ سے علم کو کم رکھتے ہیں حالانکہ یہ امر خلاف ہے اور طرہ اس پر یہ ہے کہ وہ بھی ۔۔۔۔۔۔ اس بحث میںآپ کے مخاطب ہیں حالانکہ شیخ الکل نے اس بحث میں بسبب چند مصالح علمیت کے مناظرہ نہ فرمایا لہٰذا شیخ الکل کا ذکر آپ کے خطاب میں محض اجنبی و نامناسب تھا کیونکہ آپ کو شیخ الکل کی رائے سے مخالف ہونا نہیں چاہئے تھا اور نیز اپنے موافق مولوی محمد حسین صاحب سے بھی مخالفت مناسب نہیں تھی باوجودیکہ حضرت شیخ الکل نے فیما بین جناب اور مولوی صاحب بٹالوی ممدوح کے اس نزاع معلومہ کی بابت صلح بھی کرادی تھی پھر ان کے نہ شریک کرنے میں کیا مصلحت تھی تیسری مثال
حاشیہ صفحہ ۱۷۴
۱؂ عبارت زیر خط مولانا صاحب کی ہے اور کلمات غیر معلم بخطوط اس ہیچمدان کے ہیں ناظرین منصفین لطف اس معارضہ بالقلب کا حاصل کر کرداد انصاف دیں الانصاف احسن الاوصاف اور جو کلمات مولوی صاحب پر عائد ہوئے اور اس جگہ لکھے گئے ہیں وہ میری طرف سے نہیں مولوی صاحب کی ہی عبارت بعینہا ہے ؂ ایں جہان کوہست فعل ماند ا بازمی آید نداہارا صدا۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 306
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 306
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/306/mode/1up
یہ ؔ ہے کہ آپ نے نہ صرف ایک تفسیرابن جریر کی عبارت واقوال بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اور وہ بھی بطور شک کے جس پر اِنْ دلالت کرتا ہے نقل کر کے عوام الناس کو یہ جتانا چاہا ہے کہ تمام مفسرین اور عامہ صحابہ و تابعین مسئلہ حیات مسیح میں جو اس آیہ لیؤمننّ بہٖ قبل موتہٖ کو قطعی الدلالت نہیں کہتے محض غلطی اور باطل پر ہیں نعوذ باللہ منہ اور مع ھٰذا یہ بھی جتلانا چاہا ہے کہ وہ سب مرزا صاحب کے مخالف اور ہمارے موافق ہیں اور یہ محض مغالطہ ہے کوئی صحابی کوئی تابعی کوئی مفسر اس بات کا قائل نہیں ہے کہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی حیات اس آیہ سے بطور قطعی الدلالت کے ثابت ہوتی ہے اور ابن جریر اور ابن کثیر کا مطلب بھی یہ نہیں۔ ہاں البتہ انہوں نے اپنی رائے کو ترجیح دے کر یہ تقوّل مسامحتًا کردیا ہے کہ یہ رائے دلیل قاطع سے ثابت ہے چنانچہ اب جناب سے اسی دلیل قاطع کا مطالبہ ہے اگر موجود ہو تو بیان فرمائی جاوے چوتھی مثال آپ کا عوام الناس کو یہ جتانا ہے کہ نون لیؤمننّ کو باوجودلام تاکید کے التزاماً خالص استقبال کیلئے ٹھہرانا صحابہ و مفسرین کا مذہب ہے جو سراسر آپ کا دھوکا و مغالطہ ہے آپ کی اس قسم کی باتوں کا میں تین دفعہ جواب ترکی بترکی دے چکا آئندہ بھی اگر یہی طریق جاری رہا تو اس سے آپ کو تو یہ فائدہ ہوگا کہ اصل بات ٹل جاوے گی اور آپ کی اتباع میں آپ کی جواب نویسی ثابت ہوجاوے گی مگر اس میں مسلمانوں کا یہ حرج ہوگا کہ ان پر نتیجہ بحث ظاہر نہ ہوگا اور آپ کا اصل حال نہ کھلے گا کہ آپ لاجواب ہوچکے ہیں اور اعتقاد حیات مسیح میں خطا پر ہیں اور بات کو اِدھر اُدھر لے جا کر ٹلا رہے ہیں لہٰذا آئندہ آپ کو اس پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر بحث منظور اور الزام فرار سے احتراز مدنظر ہے تو زائد باتوں کو چھوڑ کر میری اصل بات یعنی وفات مسیح پر دلیل قطعی قائم کرنے میں کلام و بحث کو محدود و محصور کریں اور جو میں نے بہ شہادت قواعد نحویہ اجماعیہ و باستدلال قواعد علم بلاغت و اصول حدیث واصول فقہ و سائر علوم درسیہ رسمیہ کے مضمون آیت کا زمانہ استقبال کیلئے مخصوص نہ ہونا اور بصورت صحت تحقق اس مضمون کا وقت نزول سے مخصوص نہ ہونا ثابت کیا ہے اس کا جواب در صورت عدم تسلیم قواعد نحویہ اجماعیہ و علم بلاغت وغیرہ کے دو حرفی یہ دین کہ تمام قواعد نحوی و قواعد علم بلاغت وغیرہ بے کار و بے اعتبار ہیں یا خاص کر یہ قاعدہ یعنی صیغہ مستقبل کا واسطے دوام تجددی کے آنا غلط ہے اور اس کو فلاں شخص امام فن نے غلط قرار دیا ہے اور اس کی غلطی پر قرآن یا حدیث صحیح یا اقوال عرب عرباء سے یہ دلیل ہے اور بجائے اس کے قاعدہ صحیحہ فلاں ہے ۱؂ یایہ کہ فہم معنے قرآن کیلئے کوئی قاعدہ علم بلاغت و علم اصول فقہ و علم اصول حدیث وغیرہ کا مقرر نہیں ہے جس

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 307
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 307
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/307/mode/1up
طرؔ ح کوئی چاہے قرآن کے معنے گھڑ سکتا ہے اور در صورت تسلیم قاعدہ اور تسلیم تعمیم مضمون آیت بزمانہ حال و استقبال یا تجدد دوامی کے اس مضمون کی تخصیص زمانہ نزول سے فلاں دلیل کی شہادت سے ثابت ہے یا اس تعمیم سے جو فائدہ بیان کیا گیا ہے وہ اور صورتوں اور اورمعنے سے بھی جو بیان کئے گئے ہیں حاصل ہوسکتا ہے اور اگر مجرد اختلاف ایک دومفسرین کا تفسیر آیت میں اس تعمیم کا مبطل ہوسکتا ہے اور مجرد اقوال ایک دو مفسر کے آپ کے نزدیک لائق استدلال و استناد ہیں تو آپ مفسرین صحابہ و تابعین کے ان اقوال کو جو دربارہ وفات مسیح وارد ہیں اور صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہیں قبول کریں۔کیونکہ اصح الکتاب بعد کتاب اللّٰہ صحیح البخاری مسئلہ مسلمہ ہے یا ان کے ایسے معنے بتادیں جن سے حیات مسیح ثابت ہو ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جہان کے مفسرین اور جملہ صحابہ و تابعین ہمارے ساتھ ہیں ان میں کوئی اس کا قائل نہیں کہ مسیح بن مریم کی حیات اس آیہ سے بطور قطعیۃ الدلالت کے ثابت ہوتی ہے آپ ایک صحابی یا ایک تابعی یا ایک امام مفسر سے بہ سند صحیح اگر یہ ثابت کردیں کہ حضرت مسیح کی حیات اس آیت سے بطور قطعیۃ الدلالت کے ثابت ہے اور برہان قطعی اس کی یہ ہے تو ہم وفات مسیح سے دست بردار ہوجاویں گے لیجئے ایک ہی بات میں بات طے ہوتی ہے اور فتح ہاتھ آتی ہے۔اب اگر آپ یہ ثابت نہ کرسکے تو ہم سے تیس آیات قرآن شریف اوراحادیث صحیح بخاری وغیرہ اور صحابہ و تابعین کے اقوال سنیں جن کو ہم آئندہ بھی جواب ردازالہ اوہام میں انشاء اللہ تعالیٰ نقل کریں گے جیسا کہ بعض اب بھی بیان کئے گئے ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں عامہ ناظرین تو اس سے فائدہ اٹھاویں گے اور اس سے نتیجہ بحث نکالیں گے آپ سے ہم کو امید نہیں رہی کہ آپ اصل مدعا کی طرف آئیں اور زائد باتوں کو چھوڑ کر صرف وہ دو حرفی جواب دیں جو اس منصفانہ جواب میں آپ سے طلب کیا گیا ہے۔واٰخردعوانا ان الحَمدُلِلّٰہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد واٰلہ وأصحابہ اجمعین وعلٰی من اتبع الرشد والھدٰی من بعد ماتبین من الغی والطغوی ۔ محررہ سیم ربیع الثانی ۱۳۰۹ ؁ھ کتبہ محمد احسن۔ امروہی نزیل بھوپال۔

Ruhani Khazain Volume 4. Page: 308
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- الحق دلہی: صفحہ 308
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/308/mode/1up
نوٹ
الحق مباحثہ دہلی کا ایک حصہ ’’مراسلت نمبر۲‘‘جو ایڈیشن اول میں چھپ چکا ہے، روحانی خزائن کی تدوین کے وقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا۔ اب یہ حصہ اس جلد کے آخر میں صفحہ ۴۸۳ پر دیا جا رہا ہے۔
 
Last edited:
Top