• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 6 ۔ برکات الدعاء ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 6۔ برکات الدعا۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 6. Page: 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 1
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 2
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نمونہ ؔ دعائے مستجاب۱؂
انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض
اس اخبار کا پرچہ مطبوعہ ۲۵ مارچ ۱۸۹۳ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھرام پشاوری کے بارے میں میں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گذرا ہے اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا میرا اس میں دخل نہیں ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہوگی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے میں اس بات کا خود ہی اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں پس اس صورت میں بلاشبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت
۱؂ یہ ’’نمونہ دعائے مستجاب‘‘ پہلے ایڈیشن میں صفحہ ۲، ۳، ۴ سرورق پر شائع ہوا ہے۔ شمسؔ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 3
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور ہیبت دنوں اوروقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حدمقرر کردینا کافی ہے پھر اگرؔ پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہورپذیر ہوتو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اوریہ سارے خیالات اوریہ تمام نکتہ چینیاں جوپیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہوجاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں۔ ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے اگرمیری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طورپر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کراور اٹکل سے کام لیکریہ پیشگوئی شائع کی ہے توجس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی توایسا کرسکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں معیاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے لیکھرام کی عمراس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تیس برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کاآدمی ہے اور اس عاجز کی عمراس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اوردائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھرباوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہوجائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اورکونسی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے۔ اور معترض کا یہ کہناکہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے جواکثر لوگ منہ سے بول دیاکرتے ہیں میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کیلئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شائد اسکی نظیرپہلے زمانوں میں کوئی بھی نہ مل سکے۔ ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اورمکر مخفی نہیں رہ سکتامگر یہ تو را ستبازوں کیلئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اورسچ میں فرق کرنا جانتاہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اوربخوشی اور دوڑکر سچائی کو قبول کرلیتا ہے اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرالیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ زمانہ صدہاایسیؔ نئی باتوں کو قبول کرتاجاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں اگر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 4
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے زمانہ بیشک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن اور یہ کہنا کہ زمانہ عقلمند ہے اور سیدھے سادے لوگوں کا وقت گذر گیا ہے یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمّت ہے گویا یہ زمانہ ایک ایسا بد زمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پاکر پھر اس کو قبول نہیں کرتا لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض ان میں سے بی اے اور ایم اے تک پہنچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نو مسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گروہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کیلئے کافی ہیں آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھاویں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہوگی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا توہین سے یاد کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے۔
وَالسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 5
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 5
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بسمؔ اللہ الرحمن الرحیم
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیّد احمد خان صاحب کے۔ سی۔ ایس ۔آئی ۔کے رسالہ
الدعا والاستجابۃ اور رسالہ تحریر فی اصول التفسیر پر ایک نظر
اے اسیرِ عقل خود برہستی خود کم بناز
کین سپہر بوالعجائب چون تو بسیار آورد
غیر را ہرگز نمی باشد گزر در کوئ حق
ہر کہ آید ز آسمان او رازِ آن یار آورد
خودبخود فہیمدنِ قرآن گمانِ باطل است
ہر کہ از خود آورد او نجس و ُ مردار آورد
سیّد صاحب اپنے رسالہ مندرجہ عنوان میں دعا کی نسبت اپنا یہ عقیدہ ظاہر کرتے ہیں کہ استجابت دعا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیا ہے وہ دیا جائے کیونکہ اگر استجابت دعا کے یہی معنے ہوں کہ وہ سوال بہرحال پورا کر دیا جائے تو دو مشکلیں پیش آتی ہیں اوّل یہ کہ ہزاروں دعائیں نہایت عاجزی اور اضطراری سے کی جاتی ہیں مگر سوال پورا نہیں ہوتا جس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ خدا نے استجابت دعا کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں وہ مقدّر ہیں اور جو نہیں ہونے والے وہ بھی مقدّر ہیں۔ اُن مقدّرات کے برخلاف ہرگز نہیں ہو سکتا پس اگر استجابت دعا کے معنے سوال کا پورا کرنا قرار دئیے جائیں تو خدا کا یہ وعدہ کہ ۱؂ ان سوالوں پر جن کا ہونا مقدّر نہیں ہے صادق نہیں آ سکتا یعنی ان معنوں کی رو سے یہ عام وعدہ استجاؔ بت دعا کا باطل ٹھہرے گا کیونکہ سوالوں کا وہی حصہ پورا کیا جاتا ہے جس کا پورا کیا جانا مقدّر ہے۔ لیکن استجابت دعا کا وعدہ عام ہے جس میں کوئی بھی استثناء نہیں پھر جس حالت میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 6
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 6
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بعض آیتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ جن چیزوں کا دیا جانا مقدّر نہیں وہ ہرگز دی نہیں جاتیں اور بعض آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی دعا رد نہیں ہوتی اور سب کی سب قبول کی جاتی ہیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ کرلیا ہے جیسا کہ آیت ۱؂ سے ظاہر ہے پھر اس تناقض اور تعارض آیات سے بجز اس کے کیونکرَ مخلصی حاصل ہو کہ استجابت دعا سے عبادت کا قبول کرنا مراد لیا جائے یعنی یہ معنے کئے جائیں کہ دعا ایک عبادت ہے اور جب وہ دل سے اور خشوع اور خضوع سے کی جائے تو اُس کے قبول کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے پس استجابت دعا کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ دعا ایک عبادت متصور ہو کر اس پر ثواب مترتب ہوتا ہے ہاں اگر مقدّر میں ایک چیز کا ملنا ہے اور اتفاقاً اس کے لئے دعا بھی کی گئی تو وہ چیز مل جاتی ہے مگر نہ دعا سے بلکہ اس کاملنا مقدّر تھا اور دعا میں بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب دعا کرنے کے وقت خدا کی عظمت اور بے انتہا قدرت کا خیال اپنے دل میں جمایا جاتا ہے تو وہ خیال حرکت میں آکر ان تمام خیالات پر جن سے اضطرار پیدا ہوا ہے غالب ہو جاتا ہے اور انسان کو صبر اور استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور ایسی کیفیت کا دل میں پیدا ہو جانا لازمہ عبادت ہے اور یہی دعا کا مستجاب ہونا ہے پھر سیّد صاحب اپنے رسالہ کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ حقیقت دعا سے ناواقف اور جو حکمت اس میں ہے اس سے بے خبر ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ امر مسلم ہے کہ جو مقدّر نہیں ہے وہ نہیں ہونے کا تو دعا سے کیا فائدہ ہے یعنی جب کہ مقدّر بہرؔ حال مل رہے گا خواہ دعا کرو یا نہ کرو اور جس کا ملنا مقدّر نہیں اس کے لئے ہزاروں دعائیں کئے جاؤ کچھ فائدہ نہیں تو پھر دعا کرنا ایک امر عبث ہے اس کے جواب میں سیّد صاحب فرماتے ہیں کہ اضطرار کے وقت اِستمداد کی خواہش رکھنا انسان کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 7
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 7
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
فطرت کا خاصہ ہے سو انسان اپنے فطرتی خاصہ سے دعا کرتا ہے بلا خیال اس کے کہ وہ ہوگا یا نہیں اور بمقتضائے اس کی فطرت کے اس کو کہا گیا ہے کہ خدا ہی سے مانگو جو مانگو۔
اس تمام تحریر سے جس کو ہم نے بطور خلاصہ اوپر لکھ دیا ہے ثابت ہوا کہ سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ دعا ذریعہ حصولِ مقصود نہیں ہو سکتی اور نہ تحصیل مقاصد کے لئے اس کا کچھ اثر ہے اور اگر دعا کرنے سے کسی داعی کا فقط یہی مقصد ہو کہ بذریعہ دعا کوئی سوال پورا ہوجائے تو یہ خیال عبث ہے کیونکہ جس امر کا ہونا مقدّر ہے اسکے لئے دعا کی حاجت نہیں اور جس کا ہونا مقدّر نہیں ہے اسکے لئے تضرع و ابتہال بے فائدہ ہے۔ غرض اس تقریر سے بتمام تر صفائی کھل گیا کہ سیّد صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دعا صرف عبادت کیلئے موضوع ہے اور اس کو کسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے۔
اب واضح ہو کہ سیّد صاحب کو قرآنی آیات کے سمجھنے میں سخت دھوکا لگا ہوا ہے مگر ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس دھوکے کی کیفیت کو اس مضمون کے اخیر میں بیان کریں گے اس وقت ہم نہایت افسوس سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر سیّد صاحب قرآن کریم کے سمجھنے میں فہم رسا نہیں رکھتے تھے تو کیا وہ قانونِ قدرت بھی جس کی پیروی کا وہ دم مارتے ہیں اور جس کو وہ خدا تعالیٰ کی فعلی ہدایت اور قرآن کریم کے اسرار غامضہ کا مفسر قرار دیتے ہیں اس مضمون کے لکھنے کے وقت ان کی نظر سے غائب تھا؟ کیا سیّد صاحب کو معلوم نہیں کہ اگرچہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدّر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اسکے حصول کیلئے ایسے اسباب مقررؔ کر رکھے ہیں جن کے صحیح اور سچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں مثلاً اگرچہ مقدّر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دُعا یا ترکِ دُعا مگر کیا سیّد صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا۔ پھر اگر سیّد صاحب باوجود ایمان بالتقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالیٰ کے یکساں اور متشابہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 8
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 8
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟ کیا سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خداتعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قوی اثر رکھے کہ انکی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلاً سم الفار اور بیش اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرّہ بھی اثر نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نظامِ الٰہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالیٰ نے دواؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا تھا وہ دعاؤں میں مرعی نہ ہو؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں ! بلکہ خود سیّد صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں اور ان کی اعلیٰ تاثیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القویٰ دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام حکم لگادے کہ اسمیں کچھ بھی تاثیر نہیں۔ افسوس ! صد افسوس کہ سیّد صاحب باوجودیکہ پیرانہ سالی تک پہنچ گئے مگر اب تک اُن پر یہ سلسلۂ نظام قدرت مخفی رہا کہ کیونکر قضا و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا گیا ہے اور کس قدر یہ سلسلہ اسبابؔ اور مسببات کا باہم گہرے اور لازمی تعلقات رکھتاہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس دھوکے میں پھنس گئے کہ انہوں نے خیال کرلیا کہ گویا بغیر ان اسباب کے جو قدرت نے روحانی اور جسمانی طور پر مقرر کر رکھے ہیں کوئی چیز ظہور پذیرہو سکتی ہے۔ یوں تو دنیا میں کوئی چیز بھی مقدّر سے خالی نہیں مثلاً جو انسان آگ اور پانی اور ہوا اور مٹی اور اناج اور نباتات اور حیوانات اور جمادات وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ سب مقدّرات ہی ہیں لیکن اگر کوئی نادان ایسا خیال کرے کہ بغیر ان تمام اسباب کے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں اور بغیر ان راہوں کے جو قدرت نے معیّن کر دی ہیں ایک چیز بغیر توسط جسمانی یا روحانی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 9
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 9
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وسائل کے حاصل ہو سکتی ہے تو ایسا شخص گویا خدا تعالیٰ کی حکمت کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ میں نہیں دیکھتا کہ سیّد صاحب کی تقریر کا بجز اس کے کچھ اور بھی ماحصل ہے کہ وہ دعا کو منجملہ ان اسباب مؤثرہ کے نہیں سمجھتے جن کو انہوں نے بڑی مضبوطی سے تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اس راہ میں حد سے زیادہ آگے قدم رکھ دیا ہے مثلاً اگر سیّد صاحب کے پاس آگ کی تاثیر کا ذکر کیا جائے تو وہ ہرگز اس سے منکر نہیں ہوں گے اور ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اگر کسی کا جلنا مقدّر ہے تو بغیر آگ کے بھی جل رہے گا تو پھر میں حیران ہوں کہ وہ باوجود مسلمان ہونے کے دعا کی تاثیروں سے جو آگ کی طرح کبھی اندھیرے کو روشن کر دیتی ہیں اور کبھی گستاخ دست انداز کا ہاتھ جلا دیتی ہیں کیوں منکر ہیں کیا ان کو دعاؤں کے وقت تقدیر یاد آجاتی ہے اور جب آگ وغیرہ کا ذکر کریں تو پھر تقدیر بھول جاتی ہے؟ کیا ان دونوں چیزوں پر ایک ہی تقدیر حاوی نہیں ہے؟ پھر جس حالت میں باوجود تقدیر ماننے کے وہ اسباب مؤثّرہ کو اس شدت سے مانتے ہیں کہ اسکے غلوّ میں وہ بدنام بھی ہوگئے تو پھر اس کا کیا موجب ہے کہ وہ نظام قدرت جس کو وہ تسلیمؔ کر چکے ہیں دعا میں ان کو یاد نہیں رہا یہاں تک کہ مکھی میں تو کچھ تاثیر ہے مگر دعا میں اتنی بھی نہیں۔ پس اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کوچہ سے بے خبر ہیں اور نہ ذاتی تجربہ اور نہ تجربہ والوں کی ان کو صحبت ہے۔
اب ہم فائدہ عام کے لئے کچھ استجابت دعا کی حقیقت ظاہر کرتے ہیں سو واضح ہو کہ استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں پس یہی سبب سیّد کی غلط فہمی کا ہے۔ اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے ربّ میں ایک تعلق مجاذبہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 10
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 10
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواصِ عجیبہ پیدا کرتا ہے سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمّت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوتِ جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جلّ شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کےؔ لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ اور اگر قحط کے لئے بد دعا ہے تو قاد رمطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات اربابِ کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہوچکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوتِ تکوین پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی بِاذنہٖ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤیّد مطلوب ہے۔ خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیا سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دُعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 11
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 11
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہؤا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا ؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اللھم صل و سلم و بارک علیہ وآلہ بعدد ھمہ و غمہ وحزنہ لھٰذہ الا مۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد۔اورؔ میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے۔ بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے ۔
اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دُعائیں خطا جاتی ہیں اور اُنکا کچھ اثرمعلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے ۔ کیا دوا ؤں نے موت کادروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کرسکتا ہے ؟یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے۔ مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا۔بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں۔مثلاََ اگر ایک بیمارکی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور میسّر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے۔ تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دُعا کا بھی ہے۔ یعنی دُعا کے لئے بھی تمام اسباب وشرائط
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 12
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 12
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادۂ الٰہی اُس کے قبول کرنے کا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے ۔ پس سیّد صاحب کی سخت غلطی ہے کہ وہ نظامِ جسمانی کا تو اقرار کرتے ہیں مگر نظامِ روحانی سے منکر ہو بیٹھے ہیں!
بالآخر مَیں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سیّد صاحب اپنے اس غلط خیال سے توبہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دُعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے۔ تو مَیں ایسی غلطیوؔ ں کے نکالنے کے لیے مامور ہوں ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دُعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سیّد صاحب کو اطلاع دونگا۔ اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دونگا۔ مگر سیّد صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرار کریں کہ وہ بعد ثابت ہوجانے میرے دعویٰ کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے ۔
سیّد صاحب کا یہ قول ہے کہ گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کاوعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دُعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ اُنکی سخت غلط فہمی ہے۔اور یہ آیت۱؂ اُن کے مدعا کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔کیونکہ یہ دُعا جو آیت ۲؂ میں بطور امر کے بجالانے کے لئے فرمائی گئی ہے۔ اس سے مراد معمولی دُعائیں نہیں ہیں۔بلکہ وہ عبادت ہے جو انسان پر فرض کی گئی ہے کیونکہ امر کا صیغہ یہاں فرضیت پر دلالت کرتاہے۔ اور ظاہر ہے کہ کُل دُعائیں فرض میں داخل نہیں ہیں۔ بلکہ بعض جگہ اللہ جَلّ شانہ نے صابرین کی تعریف کی ہے جو اِنَّالِلّٰہ پر ہی کفایت کرتے ہیں۔ اور اس دُعا کی فرضیت پر بڑا قرینہ یہ ہے کہ صرف امر پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ اس کو عبادت کے لفظ سے یاد کرکے بحالت نافرمانی عذابِ جہنم کی وعید اس کے ساتھ لگا دی گئی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 13
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 13
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور ظاہر ہے کہ دوسری دعاؤں میںیہ وعید نہیں۔ بلکہ بعض اوقات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو دُعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے چنانچہ ۱؂اس پر شاہد ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہر دُعا عبادت ہوتی تو حضرت نوح علیہ السلام کو لَا تَسْءَلْنِ۲؂ کا تازیانہ کیوں لگایا جاتا ! اور بعض اوقات اولیا اور انبیا دُعاکرنے کو سوء ادب سمجھتے رہے ہیں اور صلحاء نے ایسی دُعاؤں میں استفتاء قلب پر عمل کیا ہے یعنی ؔ اگر مصیبت کے وقت دل نے دُعا کرنے کا فتویٰ دیا تو دُعا کی طرف متوجہ ہوئے اور اگر صبر کے لئے فتویٰ دیا تو پھر صبر کیااور دُعا سے مُنہ پھیر لیا ۔ ماسوا اس کے اللہ تعالےٰ نے دوسری دُعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ صاف فرمادیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو ردّ کروں جیسا کہ یہ آیت قرآن کی صاف بتلا رہی ہے اور وہ یہ ہے ۳؂ سورۃ الانعام الجزء نمبر۷ اور اگر ہم تنزّلًا مان بھی لیں کہ اس مقام میں لفظ اُدْعُوْسے عام طور پر دُعا ہی مُرادہے تو ہم اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں دیکھتے کہ یہاں دُعا سے وہ دُعا مُراد ہے جو بجمیع شرائط ہو۔ اور تمام شرائط کو جمع کرلینا انسان کے اختیار میں نہیں جب تک توفیق ازلی یاور نہ ہو اور یہ بھی یاد رہے کہ دُعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے۔ بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دُعا کرتاہے یا جس کے لئے دُعا کی گئی ہے اُسکی دنیا اور آخرت کیلئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الٰہی بھی نہ ہو۔ کیونکہ بسا اوقات دُعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں۔ مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الٰہی ہوتی ہے۔ اور اس کے پُورا کرنے میں خیر نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاح اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑا یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دے۔ یا ایک
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 14
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 14
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
زہر جو بظاہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس کو کھلا دے تو یہ سوال اس بچہ کا ہرگز اُس کی ماں پورا نہیں کرے گی۔ اور اگر پورا کردیوے اور اتفاقاََ بچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بے کار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شاکیؔ ہوگا اور بجز اسکے اور بھی کئی شرائط ہیں کہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اُسوقت تک دُعا کو دُعا نہیں کہہ سکتے۔ اور جب تک کسی دُعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لئے دعا کی گئی ہے اور جو دُعا کرتا ہے ان میں استعدادِ قریبہ پیدا نہ ہو تب تک توقع اثرِدعا امید موہوم ہے۔ اور جب تک ارادۂ الٰہی قبولیت دُعا کے متعلق نہیں ہوتاتب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیں۔ اور ہمتیں پوری توجّہ سے قاصر رہتی ہیں۔ سیّد صاحب اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ دارِ آخرت کی سعادتیں او رنعمتیں اور لذّتیں اور راحتیں جن کی نجات سے تعبیر کی گئی ہے ایمان او رایمانی دُعاؤں کا نتیجہ ہیں پھر جبکہ یہ حال ہے تو سیّد صاحب کو ماننا پڑا کہ بلاشبہ ایک مومن کی دُعائیں اپنے اندر اثر رکھتی ہیں اور آفات کے دُور ہونے اور مرادات کے حاصل ہونے کا موجب ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر موجب نہیں ہوسکتیں تو پھر کیا وجہ کہ قیامت میں موجب ہوجائیں گی ۔ سوچو اور خوب سوچو کہ اگر درحقیقت دُعا ایک بے تاثیر چیز ہے اور دُنیا میں کسی آفت کے دور ہونے کا موجب نہیں ہو سکتی تو کیا وجہ کہ قیامت کو موجب ہوجائے گی؟ یہ بات تو نہایت صاف ہے کہ اگر ہماری دُعاؤں میں آفات سے بچنے کے لئے درحقیت کوئی تاثیر ہے تو وہ تاثیر اس دُنیا میں بھی ظاہر ہونی چاہیئے تا ہمارا یقین بڑھے اور امید بڑھے اور تا آخرت کی نجات کے لئے ہم زیادہ سرگرمی سے دُعائیں کریں ۔ اور اگر درحقیقت دُعا کچھ چیز نہیں صرف پیشانی کا نوشتہ پیش آنا ہے تو جیسا دنیا کی آفات کیلئے بقول سیّد صاحب! دُعا عبث ہے اسی طرح آخرت کے لئے بھی عبث ہوگی اور اس پر اُمید رکھنا طمع خام۔اب میں اس بارے میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 15
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 15
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/15/mode/1up
ناظرین باانصاف میرے اس بیان کو غور سے پڑھ کر سمجھؔ سکتے ہیں کہ میں نے سیّد صاحب کی غلط فہمی کا ثبوت کافی دے دیا ہے۔ ماسوا اس کے اگر سیّد صاحب اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آویں تو ایک دوسرا طریق بھی اُن پر حجت پورا کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ اگر وہ طالب حق ہونگے تو اعراض نہیں کریں گے ۔ اور سیّد صاحب کی دوسری کتاب جسکا نام تحریر فی اصول التفسیر ہے۔ اُن کی اس کتاب سے بالکل مناقض اور مغائر پڑی ہوئی ہے ۔ گویا سیّد صاحب نے کسی مدہوشی کی حالت میں یہ دونوں رسالے لکھے ہیں ۔کیونکہ سیّد صاحب استجابت دُعا کے رسالہ میں تو تقدیر کو مقدّم رکھتے ہیں۔ اور اسباب عادیہ کو گویا ہیچ خیال کرتے ہیں اور اسی بنا پر استجابت دُعا سے انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ دُعا منجملہ اسباب عادیہ کے ہے۔ جس پر ایک لاکھ سے زیادہ نبی اور کئی کروڑ ولی گواہی دیتا چلا آیا ہے* اور نبیوں کے ہاتھ میں بجُز دُعا کے اور کیا تھا۔
: قطب ربانی و غوث سبحانی سیّد عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے جس قدر اپنی کتاب فتوح الغیب میں کامل کی توجّہ اوردُعا کا اثر اپنے تجارب کے رو سے لکھا ہے۔ ہم عام فائدہ کے لئے وہ عبارتیں معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں ۔ اس تحریر سے مطلب یہ ہے کہ ہر ایک فن میں اسی شخص کی شہادت معتبر سمجھی جاتی ہے جو اس فن کا محقق ہوتا ہے ۔ پس اس بنا پر استجابت دُعاء کی فلاسفی اس شخص کو سچے طور پر معلوم ہوسکتی ہے جس کو خدا وند تعالےٰ سے سچّے تعلقات صدق اور محبت کے حاصل ہوں ۔ پس سیّد احمد خان صاحب سے اس پاک فلاسفی کا دریافت کرنا ایسا ہے جیسے ایک بَیطار سے کسی انسان کی مرض کا علاج پوچھنا۔ سیّد صاحب اگر کسی دنیوی گورنمنٹ کے تعلقات اُن کی رعایا کے ساتھ بیان کریں تو بلا شبہ وہ اس بات کے لائق ہیں۔ مگر خدا تعالےٰ کی باتیں خدائی لوگ جانتے ہیں۔ اور وہ عبارت یہ ہے :۔ فاجعل انت جملتک واجزاء ک اصنامًا مع سائر الخلق ولا تطع شیءًا من ذالک ولا تتبعہ جملۃ فتکون کبریتًا احمر فلا تکاد تری فحینئذٍ تکون وارؔ ث کل نبی و رسول و بک تختم الولایۃ و تنکشف الکروب و بک تسقی الغیوث و بک تنبت الزروع و بک تدفع البلایا والمحن عن الخاص والعام واھل الثغور و تقلبک ید القدرۃ ویدعوک لسان الازل وتنزل منازل من سلف من اولی العلم و یرد علیک التکوین و خرق العادات وتؤمن علی الاسرار والعلوم اللّدنیۃ وغرائبھا ۔ ترجمہ :۔ یعنی اگر تو خدا تعالیٰ کا مقبول بننا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 16
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 16
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/16/mode/1up
اور دوسرے رسالہ میں گویا سیّد صاحب تقدیر کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے کیونکہؔ تمام اشیاء کو انہوں نے ایک مستقل وجود قرار دے دیا ہے کہ گویا وہ تمام چیزیں خدا تعالےٰ کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ اب اس کو ان کی تبدیل اور تغییر پر کچھ بھی اختیار نہیں۔ اورگویا اُس کی خدائی فقط ایک تنگ دائرہ میں محدود ہے اور اُس کے قادرانہ تصرفات آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ اور جو اشیاء پر حالت وارد ہے وہ اُس کی تقدیر نہیں بلکہ اب وہ مخلوقات کی ایک ذاتی خاصیت ہے جو
بقیہ حاشیہ : چاہتا ہے تو اس بات پر یقین کرلے اور ایسا سمجھ لے کہ تیرے ہاتھ تیرے پاؤں تیری زبان تیری آنکھ اور تیرا سارا وجود اور اس کے تمام اجزاء تیری راہ میں بُت ہی ہیں ۔ اور مخلوق میں سے دوسری تمام چیزیں بھی تیری راہ میں بُت ہیں ۔تیرے بچّے تیری بیوی اور ہریک دنیا کی مراد جو تو چاہتا ہے اور دنیا کا مال اور دنیا کی عزت اور دنیا کا ننگ وناموس اور دنیا کا رجاء اور خوف اور زید و بکر پر توکل یا خالد و ولید کی ضرر رسانی کا خوف یہ سب تیری راہ میں بُت ہیں ۔ سو تو اِن بتوں میں سے کسی کا فرمانبرؔ دار مت ہو اور سارا اسی کی پیروی میں غرق نہ ہو جا۔ یعنی صرف بقدر حقوق شرعیہ اور سُنن صالحین اس کی رعایت رکھ ۔پس اگر تو نے ایسا کر لیا تو تو کبریت احمرہوجائیگا اور تیرا مقام نہایت رفیع ہوگا۔ یہا ں تک کہ تو نظر نہیں آئے گا۔ اور خداتعالےٰ تجھے اپنے نبیوں اور رسولوں کا وارث بنادے گا یعنی اُن کے علوم و معارف اور برکات جو مخفی اور ناپدید ہوگئے تھے۔ وہ از سرِ نو تجھ کو عطا کئے جائیں گے اور ولایت تیرے پر ختم ہوگی یعنی تیرے بعد کوئی نہیں اُٹھے گا جو تجھ سے بڑا ہو۔ اور تیری دعاؤں اور تیری عقد ہمّت اور تیری برکت سے لوگوں کے سخت غم دُور کئے جائیں گے اور قحط زدوں کے لئے بارشیں ہوں گی ۔ اور کھیتیاں اُگیں گی اور بلائیں اور محنتیں ہریک خاص وعام کی یہاں تک کہ بادشاہوں کی مصیبتیں تیری توجّہ اور دُعا سے دور ہوں گی ۔ اور ید قدرت تیرے ساتھ ہوگا۔ اور جس طرف وہ پھرے اسی طرف تو پھرے گا۔ اور لسان الازل تجھے اپنی طرف بلائے گی۔ یعنی جو کچھ تیری زبان پر جاری ہوجائیگا وہ ؔ خدا وند تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اور اس میں برکت رکھی جائے گی اور تُو ان تمام راستبازوں کا قائم مقام کیاجائے گا جن کو تجھ سے پہلے علم دیا گیا ۔ اور تکوین تیرے پر ردّ کی جائے گی۔ یعنی تیری دُعاء ا ور تیری توجّہ عالم میں تصرف کرے گی۔ اور پھر اگر تو معدوم کو موجود کرنا یا موجود کو معدوم کرنا چاہے گا تو وہی ہو جائے گا اور امور خارق عادت تجھ سے ظاہر ہوں گے۔ اور تجھ کو اسرار اور علوم لدنیہ اور معارف غریبہ عطا ہوں گے۔ جن کے لئے تو امین اور مستحق سمجھا جائے گا۔ مِنہُ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 17
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 17
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/17/mode/1up
قابل تغیر و تبدیل نہیں کیونکہ تقدیر کے مفہوم کو اختیار مقدّر لازم پڑا ہؤا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جن خواص پر خدا تعالیٰ کا کچھ بھی اختیار باقی نہیں رہا۔ تو پھر اُن خواص کو اُس کی تقدیر کیونکر کہنا چاہیئے اور اگر اختیار ہے تو پھر امکان تبدیل باقی ہے ۔غرض سیّد صاحب نے اس دوسرے رسالہ میں مقدّر حقیقی کی حکومت تمام چیزوں کے سر پر سے ایسی اُٹھا دی ہے کہ وہ اپنے خواص میں (بقول سیّد صاحب ) تابع مرضی مالک نہیں رہیں۔ بلکہ ایکٹ مزارعان کی پانچویں دفعہ کے موروثیوں کے لئے جو حقوق انگرؔ یزوں نے قائم کئے ہیں۔ یعنی یہ کہ مالک کو کسی قسم کے تصرف کا اُن پر اختیار نہیں ہوگا۔ اسی قسم کے موروثی سیّد صاحب نے بھی تمام چیزوں آگ وغیرہ کو ٹھہرا دیا ہے۔ بلکہ سیّد صاحب کے قانون میں انگریزوں کے قانون سے زیادہ تشدّد ہے کیونکہ انگریزوں نے پانچویں دفعہ کے موروثی کے اخراج کے لئے ایک صورت قائم بھی کر دی ہے اور وہ یہ کہ جب موروثی ایک سال تک لگان واجب کا ایک حصّہ خواہ ۲؍(دو آنہ) بھی ہوں ادا نہ کرے تو خارج ہوسکتا ہے۔ مگر سیّد صاحب نے تو ہر حال میں حقوق مالک کو تلف کردیا۔ اور یہ ظلم عظیم ہے ۔
اور سیّد صاحب نے جو اپنے دوست حریف سے تفسیر قرآن کریم کا معیار مانگا ہے سو میں نے مناسب سمجھا کہ اس جگہ بھی سیّد صاحب کی کسی قدر میں ہی خدمت کردوں کیونکہ بھولے کو راہ بتانا سب سے پہلے میرا فرض ہے ۔ سو جاننا چاہیئے کہ سب سے اوّلؔ معیارتفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں ۔ یہ بات نہایت توجّہ سے یاد رکھنی چاہیئ کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو ۔ وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے ۔ اس کی کوئی صداقت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 18
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 18
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/18/mode/1up
ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا بیس شاہد اس کے خود اُسی میں موجود نہ ہوں ۔ سو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ان معنوں کی تصدیق کیلئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں ۔ اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنوں کے دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ معنی بالکل باطل ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو۔ اور سچّے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد بینہ کا اس کا مصدق ہو۔
دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تفسیر ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے معنے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم تھے ۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلادغدغہ قبول کرؔ ے نہیں تو اُس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی ۔
تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے ۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علمِ نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا تعالیٰ کا اُن پر بڑا فضل تھا اور نصرتِ الٰہی اُن کی قوتِ مدرکہ کے ساتھ تھی۔ کیونکہ اُن کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا۔
چوتھا معیار خود اپنا نفسِ مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے۔ کیونکہ نفسِ مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے ۔اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے لَا ۱؂ یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف اُن پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں۔ کیونکہ مطہر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ اُن کو شناخت کرلیتا ہے اور سُونگھ لیتا ہے۔ اور اُس کا دل بول اُٹھتا ہے۔ کہ ہاں یہی راہ سچّی ہے۔ اور اُس کا نورِ قلب سچائی کی پرکھ کیلئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے ۔ پس جب تک انسان صاحبِ حال نہ ہو اور اِس تنگ راہ سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 19
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 19
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/19/mode/1up
گزرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں ۔تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبّر کی جہت سے مفسّرالقرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مَنْ فَسَّرَ الْقُرْاٰنَ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ یعنی جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی۔ اور اپنے خیال میں اچھی کی۔ تب بھی اُس نے بُری تفسیر کی ۔
پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کردیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادتِ بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغتؔ کھودنے سے توجہ پیدا ہوجاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے ۔
چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے۔ کیونکہ خداوند تعالےٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلّی تطابق ہے ۔
ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفاتِ محدثین* ہیں اور یہ معیار گویا
* حاشیہؔ معیار ہفتم ۔سیّد صاحب نے اپنی کسی کتاب میں وحی کو معیار صداقت نہیں ٹھہرایا اور نہ ٹھہرانا چاہتے ہیں اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ وحی کو خواہ وہ وحئ نبوت ہو یا وحئ ولایت نظر عزت سے نہیں دیکھتے بلکہ اُس کو صرف ملکۂ فطرت خیال کرتے ہیں سو اُن کی اس رائے کی نسبت بھی اس جگہ کسی قدر بیان کرنا قرین مصلحت ہے سو واضح ہو کہ سیّد صاحب کی یہ بڑی غلط اور سخت فتنہ انداز اور حق سے دُور ڈالنے والی رائے ہے کہ وحی اللہ کو صرف ملکۂ فطرت خیال کرتے ہیں ۔ یہ بات ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت میں کئی قسم کے ملکات ہوتے ہیں اور تمام ملکات اس قسم کے ہیں کہ ایک کی طرز اور وضع دوسرے کی طرز اور وضع پر شاہد ہے مثلاََ بعض کی فطرت علمِ حساب اور ہندسہ سے ایک مناسبت رکھتی ہے اور بعض کی علم طب سے اور بعض کی علم منطق اور کلام سے لیکن خودبخود یہ استعداد مخفیہ کسی کو محاسب اور مہندس یا طبیب اور منطقی نہیں بناسکتی بلکہ ایسا شخص تعلیم استاد کا محتاج ہوتا ہے ، اور پھر دانا استاد جب اس شخص کی طبیعت کو ایک خاص علم سے مناسبت دیکھتا ہے تو اس کے پڑھنے کی اس کو رغبت دیتا ہے اسکے مناسب یہ شعر ہے کہ
ہر کسے را بہر کارے ساختند
میل طبعش اندران انداختند
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 20
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 20
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/20/mode/1up
تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتاہے اور بغیر نبوّت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اُس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اُس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اُس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہوجاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں۔ سو اس کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے۔ اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ
بقیہ حاشیہ۔ اس تعلیم یابی کے بعد وہ ملکہ جو تخم کی طرح چھپا ہو ا تھا بھڑک اُٹھتا ہے اور طرح طرح کی باریکیاں اس علم کی اُس کوسُوجھتی ہیں اور جو کچھ اس فن کے متعلق نئے نئے امور من جانب اللہ اسکے دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر اُن کا الہام اور القا نام رکھیں تو کچھ بعید نہیں ہوتا کیونکہ بلاشبہ وہ تمام عمدہ باتیں جن سے انسانوں کو نفع پہنچتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالی جاتی ہیں جیسا کہ اللہ جلّ شانہ بھی درحقیقت اسی کی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے ۱؂ یعنی بُری باتیں اور نیک باتیں جو انسانوں کے دلوں میں پڑتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی الہام ہوتی ہیں اچھا آدمی اپنی اچھی طبیعت کی وجہ سے اس لائق ہوتا ہے کہ اچھی باتیں اس کے دل میں پڑیں اور بُرا آدمی اپنی بُری طبیعت کی وجہ سے اس لائق ٹھہرتا ہے کہ بُرے خیالات اور بد اندیشی کی تجویزیں اُس کے دل میں پید اہوتی رہیں اور درحقیقت نیک انسان اس قسم کے الہامات کے حاصل کرنے کے لئے فطرتاََ ایک نیک ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے اور بُرا انسان فطرتاََ ایک بُرا ملکہ رکھتا ہے چنانچہ اسی ملکہ فطرتی کی و جہ سے بہت سے لوگ اچھی اور بُری تالیفیں اور پاک اور ناپاک ملفوظات اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی وحی کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ بھی درحقیقت ایک ملکہ فطرت ہے جو اس قسم کے القاء سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے جس کی تفصیل ابھی بیان ہوئی ہے اگر صرف اتنی ہی بات ہے تو حقیقت معلوم شد کیونکہ انبیاء کی وحی کو صرف ایک ملکۂ فطرت قرار دے کر پھر انبیاء اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں میں مابہ الامتیاز قائم کرنا نہایت مشکل ہے ۔ شاید سیّد صاحب اس جگہ یہ فرماویں کہ ہم وحی متلو کے قائل ہیں یعنی قرآن کریم بالفاظ وحی ہے مگر میں سیّد صاحب کی اس حکمت عملی کو خوب سمجھتا ہوں وہ اس وحی متلو کے ہرگز قائل نہیں جس کے ہم لوگ قائل ہیں ظاہر ہے کہ یوں تو کوئی القا الفاظ کے بغیر نہیں ہوتا اور ایسے معانی جو الفاظ سے مجرد ہوں ذہن میں آہی نہیں سکتے لیکن پھر خود قرآن اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میں بھی ایک فرق ہے اور اُسی فرق کی بنا پر حدیث کے الفاظ کو اس چشمہ سے نکلا ہؤا قرار نہیں دیتے جس چشمہ سے قرآن کے الفاظ نکلے ہیں گو عام القا اور الہام کا مفہوم مدّنظر رکھ کر حدیث کے الفاظ بھی من جانب اللہ ہیں چنانچہ آیت۲؂
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 21
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 21
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/21/mode/1up
اس اُمت کیلئے کھلی ہے ایساہرگز نہیں ہو سکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دُنیا کے جاہ و جلال اور ننگ وناموس میں مبتلا ہے وہی وارث علم نبوّت ہو کیونکہ خداتعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجز مطہرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ تو اس پاک علم سے بازی کرنا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی ایک سخت جہالت ہے کہ ان وارثوں کے وجود سے انکار کیا جائے اور یہ
بقیہ حاشیہ۔ اس پر شہادت دے رہی ہے ۔ یہ بات تو ہم دوبارہ یاد دلادیتے ہیں کہ گو کسی قسم کا القا ہو الفاظ ہمیشہ ساتھ ہونگے مثلاً ایک شاعر جو ایک مصرعہ کے لئے دوسرا مصرعہ تلاش کر رہا ہے تو جب اس کے ذہن پر منجانب اللہ کوئی القاء ہوگا تو الفاظ کے ساتھ ہی ہوگا۔
اب جبکہ یہ بات پختہ طور پر فیصلہ پاگئی کہ حکماء اور عرفاء اور شعراء کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی القاء ہوتا ہے اور وہ بھی الہام متلو ہی ہوتا ہے اور ان میں سے راستبازوں کو راستی کااور بدوں کوبدی کا ایک ملکہ عطا کیا جاتا ہے اور مناسب حال اس ملکہ کے وقتاًفوقتاً ان کو الہام ہوتا رہتا ہے مثلاً جسؔ نے ریل ایجاد کی اس کو بھی القاء ہی ہؤاتھا او رجو تار برقی کا موجد گزرا ہے وہ بھی ان معنوں کر کے ملہم ہی تھا تو وہی اعتراض جس کا ذکر ہم کرچکے ہیں سیّد صاحب پر وارد ہوگا ۔ اگرسیّد صاحب یہ جواب دیں کہ درحقیقت نفسِ القا میں تو انبیاء اور حکماء بلکہ کافر اور مومن برابر ہیں مگر فرق یہ ہے کہ انبیاء کا القاء ہمیشہ صحیح ہوتا ہے تو ایسے جواب میں سیّد صاحب کو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ وحی نبوت کفار کے الہام سے کوئی ذاتی امتیاز نہیں رکھتی صرف یہ زائد امر ہے کہ انبیاء کی وحی غلطی سے پاک ہوتی ہے اور ارسطو اور افلاطون وغیرہ حکماء کی وحی غلطی سے پا ک نہیں تھی لیکن یہ دعویٰ بے دلیل ہے بلکہ سراسر تحکم ہے کیونکہ اس صورت میں ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ حصّہ کثیر حکماء کے مواعظ اور نصائح اور اخلاقی باتوں کا جو غلطیوں سے پاک اور قرآن کے موافق ہے اُس کو بلاشبہ کلام الٰہی سمجھیں اور فرقان حمید کے برابر قرار دے دیں اور اس کی وحی متلو ہونے پر ایمان لاویں اور دوسرا حصّہ جس میں غلطی ہو اس کو اُسی طرح اجتہادی غلطیوں کی َ مد میں داخل کر دیں جیسا کہ انبیاء سے بھی کبھی اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے اور پھر اس اصول کے لحاظ سے ایسے حکماء بلکہ کفار کو بھی نبی سمجھ لیں۔ اب ظاہر ہے کہ درحقیقت یہ ایسا خیال ہے کہ قریب ہے کہ سیّد صاحب کا ایمان اس سے ضائع ہوجائے بلکہ شاید کسی موقعہ پر نیوتن وغیرہ حکماء کی وحی کو قرآن کی وحی سے اعلیٰ سمجھنے لگیں ۔ افسوس کہ اگر سیّد صاحب قرآن کے معنے سمجھنے کے لئے قرآن کو ہی معیار ٹھہراتے تو اس ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچ جاتے ۔ قرآن نے کسی جگہ اپنی وحی کی یہ مثال پیش نہیں کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 22
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 22
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/22/mode/1up
اعتقاد رکھا جائے کہ اسرار نبوت کو اب صرف بطور ایک گذشتہ قصّہ کے تسلیم کرنا چاہئے۔ جن کا وجود ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے اور نہ ہونا ممکن ہے اور نہ ان کا کوئی نمونہ موجود ہے ۔ بات یوں نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اسلام زندہ مذہب نہ کہلا سکتا بلکہ اور مذہبوں کی طرح یہ بھی مُردہ مذہب ہوتا اور اس صورت میں اعتقاؔ د مسئلہ نبوت بھی صرف ایک قصہ ہوتا جس کا گذشتہ قرنوں کی طرف حوالہ دیا جاتا۔ مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ
بقیہ حاشیہ۔ کہ وہ اس چشمہ کی مانند ہے کہ جو زمین سے جوش مارتا ہے بلکہ ہر جگہ یہی مثال پیش کی کہ وہ اُس بارش کی مانند ہے کہ جو آسمان سے نازل ہوتی ہے ۔ اور اگر سیّد صاحب لکھنے کے وقت کسی صاحب حال سے پوچھ لیتے کہ وحی اللہ کیاشے ہے اور کیونکر نازل ہوتی ہے تو تب بھی اس لغزش سے بچ جاتے ۔ اس ٹھوکر سے سیّدصاحب نے ایک جماعت کثیر ہ مسلمان کو تباہ کر دیا اور قریب قریب الحاد اور دہریت کے پہنچا دیا اور وحئ نبوت کی عزت کو کھوکر اس فطرتی ملکہ تک محدود کر دیا جس میں کافر اور بے ایمان بھی شریک ہیں۔
اس وقت میں محض لِلّٰہ اپنی ذاتی شہادت سیّد صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں شاید خدا تعالےٰ اُن پر فضل کرے ۔ سو اے عزیز سیّد !مجھے اس جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گِرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر ۔ میں ہر روز دیکھتاہوں کہ جب مکا لمۂ الٰہیہ کا وقت آتا ہے تو اوّل یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہوجاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گوبگفتن باقی ہوتا ہے مگر اُس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تما م وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اُس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اُسکا ہے جب یہ حالت ہوجاتی ہے تو اُس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے اُن خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتاہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہوگا یا نہ ہوگا تو جھٹ اُس پرایک ٹکڑا کلامِ الٰہی کا ایک شعاع کی طرح گِرتا ہے اور بسا اوقات اُس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے پھر وہ مقدمہ طے ہو کر دوسرا خیال سامنے آتا ہے ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور ادھر ساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اُس پر گِرا جیسا کہ ایک تیر انداز ہر یک شکار کے نکلنے پر تیر مارتا جاتا ہے اور عین اس وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ خیالات کا ہمارے ملکۂ فطرت سے پیدا ہوتا ہے اور کلام جو اُس پر گرتا ہے وہ اوپر سے نازل ہوتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 23
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 23
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/23/mode/1up
اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور نبوت کی یقینی حقیقت جو ہمیشہ ہر ایک زمانہ میں منکرین وحی کو ساکت کرسکے اُسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے کہ سلسلہ وحی برنگ محدثیت ہمیشہ کیلئے جاری رہے ۔ سو اُس نے ایسا ہی کیا ۔ محدّث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الٰہی سے مشرف
بقیہ حاشیہ۔ اگرچہ شعراء وغیرہ کو بھی سوچنے کے بعد القا ہوتا ہے مگر اس وحی کو اس سے مناسبت دینا سخت بے تمیزی ہے کیونکہ وہ القا خوض اور فکر کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اور ہوش و حواس کی قائمی اور انسانیت کی حد میں ہونے کی حالت میں ظہور کرتا ہے لیکن یہ القا صرف اس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تصرف میں آجاتا ہے اور اپناہوش اور اپنا خوض کسی طور سے اُس میں دخل نہیں رکھتا اُسوقت زبان ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا یہ اپنی زبان نہیں اور ایک دوسری زبردست طاقت اس سے کام لے رہی ہے ۔ اور یہ صورت جو میں نے بیان کی ہے اس سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ فطرتی سلسلہ کیا چیز ہے اور آسمان سے کیا نازل ہوتا ہے؟ بالآخر میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس منحوس نیچریت کو مسلمانوں کے دلوں سے ایسا دھو دیوے کہ کوئی داغ اس کا باقی نہ رہے کیونکہ اسلام کی برکتیں جس آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں وہ آنکھ تب تک نہیں کھلے گی جب تک کہ یہ دُخان آگے سے دُور اور دفع نہیں ہوگا ۔
اے نیچر شوخ اِین چہ ایذاست
از دستِ تو فتنہ ہر طرف خاست
آن کس کہ رہِ کَجَت پسندِید
دیگر نہ گُزید جانبِ راست
لیکن چو زِ غور و فکر بِینیم
از ماست مصیبتے کہ بر ما است
متروک شد است درسِ فرقان
زان روز ہجوم این بلاہا است
نیچر نہ باصلِ خویش بَد بُود
دینِ گم شُد و نُورِ عقل ہا کاست
برقطرہ نگون شُدند یک بار
رو تافتہ زان طرف کہ دریا است
برجنت و حَشَر و نَشَر خَندند
کین قصّۂ بعید از خِرَدہا است
چوں ذِکرِ فرشتگان بیائد
گوید خلافِ عقلِ دانا است
اے سیّدِ سرگروہ این قوم
ہُشدار کہ پائے تو نہ بر جا است
پِیرانہَ سر ایں چہ در سر افتاد
رو توبہ کُن ایں نہ راہِ تقواست
تَرسم کہ بدینِ قیاس یک روز
گوئی کہ خدا خیال بیجا است
اے خواجہ برو کہ فکرِ انسان
درکارِ خدا ز نوعِ سودا است
آخر ز قیاس ہا چہ خیزد
بنشین کہ نہ جائے شور و غوغا است
اے بندۂ بصیرت از خدا خواہ
اسرار خدا نہ خوان یغما است
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 24
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 24
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/24/mode/1up
ہوتے ہیں اور اُن کا جوہر نفس انبیاء کے جوہر نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے۔ اور وہ خواص عجیبہ نبوّت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصّہ کے نہ ہوجائے اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہم السلام دُنیا سے بے وارث ہی گذر گئے اور اب اُن کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بجز قصّہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک صدی میں ضرورت کے وقت اُن کے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس صدی میں یہ عاجز ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس زمانہ کی اصلاح کیلئے بھیجاہے تا وہ غلطیاں جو بجز خدا تعالیٰ کی خاص تائید کے نکل نہیں سکتی تھیں وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں اور منکرین کو سچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے سو یہی ہو رہا ہے۔ قرآن کریم کے معارف ظاہر ہو رہے ہیں لطائف اور دقائق کلام رباّنی کھل رہے ہیں نشان آسمانی اور خوارق ظہور میں آ رہے ہیں اور اسلام کے حسنوں اور نوروں اور برکتوں کاؔ خدا تعالیٰ نئے سرے جلوہ دکھا رہا ہے جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہیں دیکھے اور جس میں سچا جوش ہے وہ طلب کرے اور جس میں ایک ذرّہ حبّ اللہ اور رسول کریم کی ہے وہ اُٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہووے جس کی بنیادی اینٹ اُس نے اپنے پاک ہاتھ سے رکھی ہے ۔ اور یہ کہنا کہ اب وحی ولایت کی راہ مسدود ہے اور نشان ظاہر نہیں ہو سکتے اور دُعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ ہلاکت کی راہ ہے۔ نہ سلامتی کی۔ خدا تعالیٰ کے فضل کو ردّ مت کرو اُٹھو آزماؤ اور پرکھو پھر اگر یہ پاؤ کہ معمولی سمجھ اور معمولی عقل اور معمولی باتوں کا انسان ہے تو قبول نہ کرو لیکن اگرکرشمہ قدرت دیکھو اور اُسی ہاتھ کی چمک پاؤ جو مؤیدانِ حق اورمکلمانِ الٰہی میں ظاہر ہوتا رہا ہے تو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 25
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 25
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/25/mode/1up
قبول کرلو اور یقیناًسمجھو کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسلام کو مُردہ مذہب رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ یقین اور معرفت اور الزام خصم کے طریقوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہے ۔ بھلا تم آپ ہی سوچو کہ اگر کوئی وحی نبوت کا منکر ہو اور یہ کہے کہ ایسا خیال تمہارا سراسر وہم ہے تو اس کے منہ بند کرنے والی بجز اس کے نمونہ دکھلانے کے اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے؟ کیا یہ خوشخبری ہے یا بد خبری کہ آسمانی برکتیں صرف چند سال اسلام میں رہیں اور پھر وہ خشک اور مُردہ مذہب ہوگیا ؟ اور کیا ایک سچّے مذہب کے لئے یہی علامتیں ہونی چاہئیں!!!
غرض صحیح تفسیر کے لئے یہ معیار ہیں۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ سیّد صاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروں سے اپنے اکثر مقامات میں محروم و بے نصیب ہے۔ اور اسوقت اس سے تعرض کرنا ہمارا مقصود نہیں۔ سیّد صاحب کو قانون قدرت پر بڑاؔ ہی ناز تھا مگر اپنی تفسیر میں وہ قانون قدرت کا لحاظ بھی چھوڑ گئے ۔مثلاََ اُن کا یہ اعتقاد کہ وحی نبوت بجز اپنے ہی فطرت کے ملکہ کے اور کچھ چیز نہیں اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں ملائکہ کا واسطہ نہیں۔ کس قدر خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے مخالف ہے ۔ ہم صریح دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے جسمانی قویٰ کی تکمیل کے لئے آسمانی توسط کے محتاج ہیں ۔ ہمارے اس بدنی سلسلہ کے قیام اور اغراض مطلوبہ تک پہنچانے کے لئے خدا تعالےٰ نے آفتاب اور مہتاب اور ستاروں اور عناصر کو ہمارے لئے مسخر کیا ہے۔ او رکئی وسائط کے پیرایہ میں ہو کر اس علت العلل کا فیض ہم تک پہنچتا ہے اور بے واسطہ ہر گز نہیں پہنچتا۔ مثلاً اگرچہ ہماری آنکھوں کو تو نور خدا وند تعالیٰ ہی سے ملتا ہے کیونکہ وہی تو علت العلل ہے۔ مگر وہ آفتاب کے واسطے سے ہماری آنکھوں تک پہنچاتا ہے ہم ایک چیز بھی نظام ظاہری میں ایسی نہیں دیکھتے جسکو خدا تعالیٰ بلاواسطہ آپ ہی اپنا مبارک ہاتھ لمبا کرکے ہمیں دیدے ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 26
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 26
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/26/mode/1up
بلکہ ہر ایک چیز وسائط کے ذریعہ سے ہی ملتی ہے ۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے ظاہری قویٰ کی خلقت تام نہیں ہے یعنی ایسانہیں ہے کہ مثلاََ مستقل طور پر روشن ہوں اور آپ کے مجوزہ ملکہ وحی کی طرح ایسا اُن میں ملکہ موجود ہو جو آفتاب کے واسطہ سے ہم کو مستغنی کردے۔ پھر اس نظام کے برخلاف بے اصل باتیں آپ کی کیونکر صحیح ٹھہرسکیں ۔ ماسوا اس کے ذاتی تجارب کی شہادت جو سب شہادتوں سے بڑھ کر ہے آپ کی ا س رائے کی سخت تکذیب کرتی ہے کیونکہ یہ عاجز قریباََ گیارہ برس سے شرف مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہے اور اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ کہ وحی درحقیقت آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے ۔ وحی کی مثال اگر دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کے ساتھ دی جائے۔ تو شاید کسی قدر تار برقی سےؔ مشابہ ہے جو اپنے ہر یک تغیر کی آپ خبر دیتی ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس وحی کے وقت جو برنگ وحی ولایت میرے پرنازل ہوتی ہے۔ ایک خارجی اور شدید الاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا ہے کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایسا دبا لیتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اُس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سُنتا ہوں ۔ بعض وقت ملائکہ کو دیکھتاہوں*اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے۔ جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے ۔ اب اس سے انکار کرنا ایک کھلیکھلی صداقت کا خون کرنا ہے ۔
مناسب ہے کہ سیّد صاحب موت سے پہلے اس صداقت کو آج مان لیں ۔ اور آسمانی وحی کی توہین نہ کریں ۔ تعجب ہے کہ وہ نظامِ ظاہری کو تو دیکھتے ہیں اور پھر نظام باطنی کا
*نوٹ :۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ ملائک بعض وقت نظر آتے ہیں بلکہ بسا اوقات ملائک کلام میں اپنا واسطہ ہونا ظاہر کر دیتے ہیں ۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 27
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 27
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/27/mode/1up
اس پر قیاس نہیں کرتے۔ نہیں سمجھتے کہ وہ خدا جس نے ہمارے نظام جسمانی کو اس طرح بنایا کہ آسمان سے ظاہری روشنی ہمارے لئے اترتی ہے اور حقیقی مؤثر آسمانی وسائط کے ذریعہ سے ہمارے جسمانی قویٰ پر اپنا فیض نازل کرتا ہے۔ اور بغیر واسطہ علل کے کوئی فیض نازل کرنا اس کی عادت ہی نہیں تو پھر کیونکر وہ خدا ہمارے روحانی نظام میں اس سلسلۂ وسائط سے بالکل ہم کو منقطع کر دیوے۔ کیا جسمانی طور سے ہم اس سلسلہ سے منقطع ہیں۔ یا درحقیقت ایک سلسلہ وسائط میں بندھے ہوئے ہیں جو علت العلل سے شروع ہو کر ہم تک پہنچتا ہے۔ اس بحث پر غور کرنے کے لئے ہماری کتاب توضیحؔ مرام اور آئینہ کمالات اسلام دیکھنی چاہئے خاص کر فرشتوں کی ضرورت میں جس قدر مبسوط بحث آئینہ کمالات اسلام میں ہے اس کی نظیر کسی دوسری کتاب میں نہیں پاؤ گے۔ اور سیّد صاحب کی خدا شناسی کا اندازہ معلوم کرنے کے لئے یہ ان کے اقوال کافی ہیں۔ کہ وہ مخلوقات کو مقدّر حقیقی کے تصرفوں اور حکومتوں سے بے نیاز کر بیٹھے ہیں۔ نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی خدائی اس کی قدرت کاملہ سے وابستہ ہے۔ اور قدرت اِسی کا نام ہے کہ اُس کے تصرفات اُس کی مخلوقات پر ہر آن غیر محدود ہوں۔ بلاشبہ یہ سچ ہے کہ اگر اس مخلوقات کو اس نے پیدا کیا ہے تو اپنی غیر محدود ذات کی طرح غیرمحدود تصرفات کی گنجائش بھی رکھ لی ہوگی۔ تا کسی درجہ پر اس کی خدائی کا تعطل لازم نہ آوے* اور اگر نعوذؔ باللہ آریہ ہندوؤں کا قول صحیح ہے
* حاشیہ:۔ اگریہ اعتراض کیا جائے کہ اس بات کے ماننے سے کہ خداتعالیٰ کی غیرمتناہی حکمت استحالات غیرمتناہیہ پر قادر ہے۔ حقائق اشیاء سے امان اٹھ جاتا ہے۔ مثلاً اگر خداتعالیٰ اس بات پرقادر سمجھاجائے کہ پانی کی صورت نوعیہ کو سلب کرکے ہوا کی صورت نوعیہ اس جگہ رکھ دے یاہوا کی صورت نوعیہ کو سلب کرکے آگ کی صورت نوعیہ اس کی قائم مقام کردے یا آگ کی صورت نوعیہ کو سلب کرکے ان مخفی اسباب سے جو اس کے علم میں ہیں پانی کی صورت نوعیہ میں لے آوے یامٹی کو کسی زمین کی تہ میں تصرفات لطیفہ سے سونا بنادے یا سونے کو مٹی بنا دے تو اس سے امان اٹھ جائے گا اور علوم و فنون ضائع ہو جائیں گے۔ تو اس سوال کاجواب یہ ہے کہ یہ خیال سراسر فاسد ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 28
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 28
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/28/mode/1up
کہ پرمیشور ارواح اور ذرات عالم کا پیدا کرنے والا نہیں تو اس صورت میں بلاشبہ ایسا کمزور پرمیشور کسی حد تک کچھ ضعیف سی حکومت کر کے پھر ٹھہر جائے گا۔ اور ایک رسوائی کے ساتھ اس کی پردہ دری ہوگی۔ مگر ہمارا خداوند قادر مطلق ایسا نہیں ہے۔ وہ تمام ذرات عالم اور ارواح اور جمیع مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے۔ اس کی قدرت کی نسبت اگر کوئی سوال کیا جائے تو بجز اُن خاص باتوں کے جو اسکی صفات کاملہ اور مواعید صادقہ کے منافی ہوں۔ باقی سب امور پر وہ قادر ہے
بقیہ حاشیہ : خدا تعالیٰ اپنی مخفی حکمتوں کے تصرف سے عناصر وغیرہ کو صدہا طور کے استحالات میں ڈالتا رہتا ہے ایک زمین کو ہی دیکھو کہ وہ انواع اقسام کے استحالات سے کیا کچھ بنتی رہتی ہے اسی سے سم الفار نکل آتا ہے اور اسی سے فاذ زہر اور اسی سے سونا اور اسی سے چاندی اور اسی سے طرح طرح کے جواہرات اور ایسا ہی بخارات کا صعود ہوکر کیا کیا چیزیں ہیں جو جَوّ آسمان میںؔ پیدا ہو جاتی ہیں انہیں بخارات میں سے برف گرتی ہے اور انہیں سے اولے بنتے ہیں اور انہیں میں سے برق اور انہیں میں سے صاعقہ اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کبھی جَوّ آسمان سے راکھ بھی گرتی ہے تو کیا ان حالات سے علم باطل ہو جاتے ہیں یا امان اٹھ جاتا ہے اور اگر یہ کہو کہ ان چیزوں میں تو خداتعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کی فطرت میں ان تمام استحالات کا مادہ رکھا ہے تو ہمارا یہ جواب ہوگا کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا ہے کہ اشیاء متنازعہ فیہا میں ایسا مادّہ متشارکہ نہیں رکھا گیا بلکہ صحیح اور سچا مذہب تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو اپنی ذات میں واحد ہے تمام اشیاء کو شئے واحد کی طرح پیدا کیا ہے تا وہ موجد واحد کی وحدانیت پر دلالت کریں۔ سو خدا تعالیٰ نے اسی وحدانیت کے لحاظ سے اور نیز اپنی قدرت غیر محدودہ کے تقاضا سے استحالات کا مادہ اُن میں رکھا ہے اور بجز اُن روحوں کے جو اپنی سعادت اور شقاوت میں ؔ ۱؂کے مصداق ٹھہرائے گئے ہیں اور وعدہ الٰہی نے ہمیشہ کے لئے ایک غیر متبدل خلقت ان کے لئے مقرر کر دی ہے باقی کوئی چیز مخلوقات میں سے استحالات سے بچی ہوئی معلوم نہیں ہوتی بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو ہر وقت ہر یک جسم میں استحالہ اپنا کام کر رہا ہے یہاں تک کہ علم طبعی کی تحقیقاتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تین برس تک انسان کا جسم بدل جاتا ہے اور پہلا جسم ذرات ہوکر اڑ جاتا ہے۔ مثلاً اگر پانی ہے یا آگ ہے تو وہ بھی استحالہ سے خالی نہیں اور دو طور کے استحالے ان پر حکومت کر رہے ہیں ایک یہ کہ بعض اجزا نکل جاتے ہیں اور بعض اجزا جدیدہ آملتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو اجزا نکل جاتے ہیں وہ اپنی استعداد کے موافق دوسرا جنم لے لیتے ہیں۔ غرض اس فانی دنیا کو استحالات کے چرخ پر چڑھائے رکھنا خدا تعالیٰ کی ایک سنت ہے اور ایک باریک نگاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 29
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 29
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/29/mode/1up
اور یہ بات کہ گو وہ قادر ہو مگر کرنا نہیں چاہتا یہ عجیب بے ہودہ الزام ہے جب کہ اس کی صفات میں۱؂ بھی داخل ہے۔ اور ایسے تصرفات کہ پانی سے برودت دور کرے۔ یا آگ سے خاصیت احراق زائل کر دیوے اس کی صفات کاملہ اور مواعید صادقہ کی منافی نہیںؔ ہیں تو پھر کیوں تحکم کی راہ سے کہا جائے کہ ہمیشہ کے لئے اس پر لازم ہوگیا ہے کہ
بقیہ حاشیہ : یہ سب چیزیں بوجہ وحدت مبدء فیض اپنی اصل ماہیت میں ایک ہی ہیں گو ان چیزوں کا کامل کیمیا گر انسان نہیں بن سکتا اور کیونکر بنے حکیم مطلق نے اپنے اسرار حکمیہ غیر متناہیہ پر کسی دوسرے کو محیط نہیں کیا۔ اور اگر یہ کہو کہ اجرام علوی میں استحالات کہاں ہیں تو میں کہتاؔ ہوں کہ بیشک ان میں بھی استحالات اور تحلیلات کا مادہ ہے گو ہمیں معلوم نہ ہو تبھی تو ایک دن زوال پذیر ہو جائیں گے۔ ماسوا اسکے ہزار ہا چیزوں کے استحالات پر نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ کوئی چیز استحالہ سے خالی نہیں۔ سو تم پہلے زمین کے استحالات سے انکار کرلو پھر آسمان کی بات کرنا ۔
تو کار زمین را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
غرض جب انواع اقسام کے استحالات ہر روز مشاہدہ میں آتے ہیں اور وحدت ذاتی الہٰی کا یہ تقاضا بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا منبع اور مبدء ایک ہو اور خدا تعالیٰ کی الوہیت تامہ بھی تبھی قائم رہ سکتی ہے کہ جب ذرہ ذرہ پر اس کا تصرف تام ہو تو پھر یہ استبعاد اور یہ اعتراض کہ ان استحالات سے امان اٹھ جائے گا اور علوم ضائع ہوں گے اگر سخت غلطی نہیں تو اور کیا ہے اور ہم جو کہتے ہیں کہ اللہ جلّ شانہ قادر ہے کہ پانی سے آگ کا کام لیوے یا آگ سے پانی کا کام تو اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ اپنی حکمت غیر متناہی کو اس میں دخل نہ دے یونہی تحکم سے کام لے لیوے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل آمیزش حکمت سے خالی نہیں اور نہ ہونا چاہئے بلکہ ہمارا یہ مطلب ہے کہ جس وقت وہ پانی سے آگ کا کام یا آگ سے پانی کا کام لینا چاہے تو اس وقت اپنی اس حکمت کو کام میں لائے گا جو اس عالم کے ذرہ ذرہ پر حکومت رکھتی ہے گو ہم اس سے مطلع ہوں یا نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ جو حکمت کے طور پر کام ہو وہ علوم کو ضائع نہیں کرتا بلکہ علوم کی اس سے ترقی ہوتی ہے۔ دیکھو مصنوعی طور پر پانی کی برف بنائی جاتی ہے یا برقی روشنی پیداؔ کی جاتی ہے۔ تو کیا اس سے امان اٹھ جاتا ہے یا علم ضائع ہو جاتے ہیں۔
اس جگہ ایک اور سرّ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ اولیاء سے جو خوارق کبھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 30
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 30
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/30/mode/1up
ان چیزوں کی خاصیت میں کبھی تصرف نہ کرے!!! اس لزوم پر دلیل کیا ہے۔ اور وجہ کیا اور خدا تعالیٰ کو اس بے وجہ التزام کی جو اس کی خدائی کو بھی داغ لگاتا ہے ضرورت کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس رسالہ میں سیّد صاحب بھی اس کمزور خیال کے بودے پن کو سمجھ گئے ہیں اس لئے اپنے رکیک قول کے قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ایک اور رکیک عذر پیش کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی جگہ آگ کے گرم ہونے
بقیہ حاشیہ : اس قسم کے ظہور میں آتے ہیں کہ پانی ان کو ڈبو نہیں سکتا اور آگ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اس میں بھی دراصل یہی بھید ہے کہ حکیم مطلق جس کی بے انتہا اسرار پر انسان حاوی نہیں ہو سکتا اپنے دوستوں اور مقربوں کی توجّہ کے وقت کبھی یہ کرشمہ قدرت دکھلاتا ہے کہ وہ توجّہ عالم میں تصرف کرتی ہے اور جن ایسے مخفی اسباب کے جمع ہونے سے مثلاً آگ کی حرارت اپنے اثر سے رک سکتی ہے خواہ وہ اسباب اجرام علوی کی تاثیریں ہوں یا خود مثلاً آگ کی کوئی مخفی خاصیت یا اپنے بدن کی ہی کوئی مخفی خاصیت یا ان تمام خاصیتوں کا مجموعہ ہو وہ اسباب اس توجّہ اور اس دعا سے حرکت میں آتی ہیں۔ تب ایک امر خارق عادت ظاہر ہوتا ہے مگر اس سے حقائق اشیاء کا اعتبار نہیں اٹھتا اور نہ علوم ضائع ہوتے ہیں بلکہ یہ تو علوم الٰہیہ میں سے خود ایک علم ہے اور یہ اپنے مقام پر ہے اور مثلاً آگ کا محرق بالخاصیت ہونا اپنے مقام پر۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ روحانی مواد ہیں جو آگ پر غالب آکر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور اپنے وقت اور اپنے محل سے خاص ہیں۔ اس دقیقہ کو دنیا کی عقل نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کامل خداتعالیٰ کی روحؔ کا جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جب کبھی کامل انسان پر ایک ایساوقت آجاتا ہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتا ہے تو اس وقت ہر یک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ خداتعالیٰ سے۔ اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال دو ، آگ میں ڈال دو وہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس وقت خداتعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے اور ہریک چیز کا عہد ہے کہ اس سے ڈرے۔ یہ معرفت کا اخیری بھید ہے جو بغیر صحبت کاملین سمجھ میں نہیں آسکتا۔ چونکہ یہ نہایت دقیق اور پھر نہایت درجہ نادر الوقوع ہے اس لئے ہرایک فہم اس فلاسفی سے آگاہ نہیں مگر یاد رکھو کہ ہریک چیز خداتعالیٰ کی آواز سنتی ہے ہر یک چیز پر خداتعالیٰ کا تصرف ہے اور ہریک چیز کی تمام ڈوریاں خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑ تک پہنچی ہوئی ہے اورہر یک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں۔ جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 31
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 31
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/31/mode/1up
کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور کسی جگہ پانی کے سَرد ہونے کی طرف ایما فرمایا ہے ۔ اور کبھی کہا ہے کہ سُورج مشرق سے مغرب کی طرف جاتا ہے۔ تو یہ بیانات جو حالات موجودہ کے اظہار کے لئے ہیں سیّد صاحب کی نظر میں بطور وعدہ کے ہیںؔ جن میں تغییر تبدیل ممکن نہیں اگر استخراجِ دلائل کا یہی طریق ہے تو سیّد صاحب پر بڑی مشکل پڑے گی اور اُن کو ماننا پڑے گا کہ تمام بیانات قرآن کریم کے مواعید میں داخل ہیں ۔ مثلاً خدا تعالیٰ نے جو حضرت زکریاکو بشارت دیکر فرمایا3 ۱؂ تو بموجب قاعدہ سیّد صاحب کے چاہیئے تھا کہ حضرت یحیی ہمیشہ غلام یعنی لڑکے ہی رہتے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت یحیی کو غلام کر کے پکارا ہے۔ اور یہ وعدہ ہوگیا۔ایسی ہی اور بیسوں مثالیں ہیں سب کو بیان کرنا صرف وقت ضائع کرنا ہے ۔ اگر سیّد صاحب کی نظر میں واقعات موجودہ کے بیان کرنے سے آئندہ کے لئے اور ہمیشہ کے لئے کوئی وعدہ لازم آجاتا ہے تو ان سے ڈرنا چاہیئے کہ ایسا ہی وہ بات بات میں انسانوں پر الزام لگائیں گے۔ اور ایک موجودہ واقعہ کے بیان کرنے کو وہ ایک دائمی وعدہ سمجھ لیں گے ۔ میرے نزدیک بہتر ہے کہ سیّد صاحب اپنےؔ آخری دن کو یادکرکے چند ماہ اس عاجز کی صحبت میں رہیں ۔ اور چونکہ میں مامور ہوں اور مبشّر ہوں اس لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ سیّد صاحب کے اطمینان کے لئے توجّہ کروں گا۔ اور اُمید رکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کوئی ایسا نشان دکھلائے کہ سیّد صاحب کے مجوزہ قانون قدرت
بقیہ حاشیہ: ۲؂ کے مصداق ہیں۔ اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتاً فوقتاً کھینچا جاتا ہے وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سرّ ہے۔
بر کاروبار ہستی اثری صد عارفان را
زجہان چہ دید آن کس کہ ندید این جہان را
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 32
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 32
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/32/mode/1up
کو ایک دم میں خاک میں ملادیوے اور اس قسم کے کام اب تک بہت ظہور میں آئے ہیں کہ جو سیّد صاحب کی نظر میں قانون قدرت کے مخالف ہیں۔ مگر اُن کا بیان کرنا بے فائدہ ہے کہ سیّدصاحب اس کو ایک قصّہ سمجھیں گے ۔ سیّد صاحب وحئ ولایت کی ایسی پیشگوئیوں سے بھی تو منکر ہیں جو بذریعہ الہام اولیا ء اللہ کو معلوم ہوتے ہیں۔ اور اُن کی نظر میں وہ ایسی ہی خلافِ قانون قدرت ہیں جیسا کہ آگ کا اپنی خاصیتِ احراق کو چھوڑ دینا ۔ ایساؔ ہی دُعا کی ذاتی تاثیرات بھی جن کے ذریعہ سے وہ مطلب حاصل ہوجاتا ہے۔ جس کیلئے دُعا کی گئی سیّد صاحب کی نظر میں خلاف قانون قدرت ہیں ۔ سو اگر سیّد صاحب میرے پاس آ نہیں سکتے تو ان دونوں باتوں میں ہی وعدہ قبولِ حق کر کے مجھ کو اجازت دیں کہ اُن کی نسبت جناب الٰہی میں توجّہ کر کے جو کچھ ظاہر ہو وہ شائع کروں اس سے عام لوگوں کو فائدہ ہوجائیگا ۔اگر سیّد صاحب کی رائے درحقیقت درست ہے ، تو میں اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہوں گا ۔ورنہ عقلمند لوگ سیّد صاحب کے خراب عقیدوں سے نجات پا کر پھر اپنے عظیم الشان خدا تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور محبت سے اُس کی طرف رجوع کریں گے۔ اور دُعا کے وقت اُس کی رحمتوںؔ سے نااُمید نہیں ہونگے۔ اور ہاتھ اُٹھانے کے وقت لذّت اٹھا ئینگے۔ اور خدا تعالیٰ کے وجود کا فائدہ بھی تو یہی ہے کہ ہماری دُعائیں سُنے اور آپ اپنے وجود سے ہمیں خبر دے۔ نہ کہ ہم ہزار ہزار تکلیف سے ایک بُت کی طرح ایک فرضی خدا دل میں قائم کریں۔ جس کی ہم آواز نہیں سُن سکتے۔ اور اُس کی نمایاں قدرت کا کوئی جلوہ نہیں دیکھ سکتے ۔ یقیناًسمجھو کہ وہ قادر خدا موجود ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ وما غلت ایدیہ بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء و یفعل مایرید۔ و ھو علی کل شیء قدیر۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 33
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 33
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/33/mode/1up
رُوئے دلبر از طلبگاراں نمی دارد حجاب
می درخشَددر خورو می تابد اندر ماہتاب
لیکن آن روئے حَسِین از غافلاں مانَد نہاں
عاشقی باید کہ بردارند از بہرش نقاب
دامنِ پاکش زِنَخْوت ہا نمی آید بَدَست
ہیچ راہی نیست غَیر از عجزودرد و اِضطراب
بس خطرناک است راہِ کُوچۂ یارِ قدیم
جاں سلامت بایدت از خودروی ہا سربتاب
تا کلامش فہم و عقلِ ناسزایاں کم رَسَد
ہر کہ از خود گم شود اویا بداں راہِ صواب
مشکلِ قرآن نہ از ابناء دُنیا حل شود
ذوق آں می داندآں مستی کہ نوشدآں شراب
اَیکہ آگاہی ندادندت ز انوارِ دروں
درحقِ ماہر چہ گوئی نیستی جائے عتاب
از سرِ وعظ و نصیحت این سخن ہا گفتہ ایم
تا مگر زین مرہمی بہ گردد آں زخمی خراب
از دعا کن چارۂ آزارِ انکارِ دُعا
چون علاج می زمی وقتِ خُمارو اِلتہاب
اَیکہ گوئی گر دُعاہا را اثربودے کجاست
سوئی من بشتاب بنمایم ترا چون آفتاب
ہان مکن انکار زین اسرار قدرت ہائے حق
قِصہ کوتہ کن بہ بیں ازمادُعائے مستجاب
دیکھوصفحہ ۲۔۳۔۴ سرورق *
لیکھرؔ ام پشاوری کی نسبت ایک اورخبر
آج ۲۔ اِپریل ۱۸۹۳ء ؁ مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ؁ ہے صبح کے وقت تھوڑی غنودگی کی حالت میں َ میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہو ا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں ۔ اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اُس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شدّا د غلاظ میں سے ہے اور اسکی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُسکو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب میں نے اُسوقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کیلئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یقینی طور پر یاد ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یکشنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 34
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 34
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/34/mode/1up
اسؔ کو غور سے پڑھو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے خوشخبری ہے
بخدمت امراء و رئیسان وُ منعمان ذی مقدرت و والیان
ارباب حکومت ومنزلت
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الِکَرِیْمِ
اے بزرگانِ اسلام خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کاسچا خادم بناوے ۔ میں اس وقت محض لِلّٰہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں سو یہ کام برابر دس برس سے ہو رہا ہے لیکن چونکہ وہ تمام ضرورتیں جو ہم کو اشاعتِ اسلام کیلئے درپیش ہیں بہت سی مالی امدادات کی محتاج ہیں اس لئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ بطور تبلیغ آپ صاحبوں کو اطلاع دوں سو سنو اے عالیجاہ بزرگو۔ہمارے لئے اللہ جلّ شانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی راہ میں یہ مشکلات درپیش ہیں کہ ایسی تالیفات کے لئے جو لاکھوں آدمیوں میں پھیلانی چاہیئے بہت سے سرمایہ کی حاجت ہے اور اب صورت یہ ہے کہ اوّل تو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 35
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 35
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/35/mode/1up
انؔ بڑے بڑے مقاصد کے لئے کچھ بھی سرمایہ کا بندوبست نہیں اور اگر بعض پُرجوش مردانِ دین* کی ہمت اور اعانت سے کوئی کتاب تالیف ہو کر شائع ہو تو بباعث کم توجہی اور غفلت زمانہ کے وہ کتاب بجز چند نسخوں کے زیادہ فروخت نہیں ہوتے اور اکثر نسخے اس کے یا تو سالہا سال صندوقوں میں بند رہتے ہیں یا ِ للہ مفت تقسیم کئے جاتے ہیں اور اس طرح اشاعتِ ضروریاتِ دین میں بہت سا حرج ہورہا ہے اور گو خدا تعالیٰ اس جماعت کو دن بدن زیادہ کرتا جاتا ہے مگر ابھی تک ایسے دولتمندوں میں سے ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں کہ کوئی حصّہ معتدبہ اس خدمتِ اسلام کا اپنے ذمہ لے لے اور چونکہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر تجدید دین کے لئے آیا ہے اور مجھے اللہ جلّ شانہٗ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اُس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دُونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔ سو اسی بنا پر آج مجھے خیال آیا کہ میں ارباب دولت اور مقدرت کو اپنے کام کی نصرت کے لئے تحریک کروں۔
اور چونکہ یہ دینی مدد کا کام ایک عظیم الشان کام ہے اور انسان اپنے شکوک اور شبہات اور وساوس سے خالی نہیں ہوتا اور بغیر شناخت وہ صدق بھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ایسی بڑی مددوں کا حوصلہ ہوسکے اس لئے میں تمام امراء کی خدمت میں بطور عام اعلان کے لکھتا ہوں کہ اگر ان کو بغیر آزمائش ایسی مدد میں تامل ہو تو وہ اپنے بعض مقاصد اور مہمات اور مشکلات کو اس غرض سے میری طرف لکھ بھیجیں کہ تا میں اُن مقاصد کے پورا ہونے کے لئے دعا کروں۔ مگر اس بات کو تصریح سے لکھ بھیجیں کہ وہ مطلب کے پورا ہونے کے وقت کہاں تک ہمیں اسلام کی راہ میں مالی مدد دیں گے اور کیا انہوں نے اپنے دلوں
* پُرجوش مردانِ دین سے مراد اس جگہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی ہیں جنہوں نے گویا اپنا تمام مال اسی راہ میں لٹا دیا ہے۔ اور بعد ان کے میرے دلی دوست حکیم فضل الدین صاحب اور نواب محمدعلی خانصاحب کوٹلہ مالیر اور درجہ بدرجہ تمام وہ مخلص دوست ہیں جو اس راہ میں فدا ہورہے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 36
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 36
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/36/mode/1up
میںؔ پختہ اور حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ ضرور وہ اس قدر مدد دینگے اگر ایسا خط* کسی صاحب کی طرف سے مجھ کو پہنچا تو میں اُسکے لئے دُعا کرونگا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ بشرطیکہ تقدیر مبرم نہ ہو ضرور خدا تعالیٰ میری دُعا سُنے گا اور مجھ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے گا ۔ اس بات سے نومید مت ہو کہ ہمارے مقاصد بہت پیچیدہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے بشرطیکہ ارادہ ازلی اُس کے مخالف نہ ہو۔ اور اگر ایسے صاحبوں کی بہت سی درخواستیں آئیں تو صرف اُنکو اطلاع دی جائے گی جن کے کشود کار کی نسبت از جانب حضرتِ عزّو جل خوشخبری ملے گی۔ اور یہ امور منکرین کیلئے نشان بھی ہونگے اور شاید یہ نشان اس قدر ہو جائیں کہ دریا کی طرح بہنے لگیں ۔ بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتًا کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصّہ پاؤ ۔ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجدد کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کروگے ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اُسوقت کے علماء کی ناسمجھی اُس کی سدِّ راہ ہوئی آخرجب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لا سکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتاجو خاصوں کو دی جاتی ہیں ۔ اے لوگو ! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے ا و راعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہوگیا ہے ایسے وقت میں ہمدردی
*چاہیئے کہ خط نہایت احتیاط سے بذریعہ رجسٹری سر بمہر آوے اور اس راز کو قبل از وقت فاش نہ کیا جاوے اور اس جگہ بھی پوری امانت کے ساتھ وہ راز مخفی رکھا جائیگا اور اگر بجائے خط کوئی معتبر کسی امیر کا آوے تو یہ امر اور بھی زیادہ مؤثر ہوگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 37
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 37
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/37/mode/1up
سےؔ اپنا ایمان دکھاؤ اور مردانِ خدا میں جگہ پاؤ ۔ والسلام علٰی من اتبع الھدٰی
بیکسے شد دین احمد ؐ ہیچ خویش و یارنیست
ہر کسے درکار خود بادین احمدؐ کارنیست
ہر طرف سیلِ ضلالت صد ہزاران تن ربود
حیف بر چشمے کہ اکنون نیز ہم ہشیار نیست
اے خدا وندانِ نعمت ایں چنیں غفلت چراست
بیخود از خوابید یا خود بختِ دین بیدار نیست
اے مسلمانان خدا را یک نظر برحالِ دین
آنچہ می بینم بلاہا حاجتِ اظہار نیست
آتش افتاد است دررختش بخیزید اے یلان
دید نش از دور کارِ مردمِ دیندار نیست
ہر زمان از بہرِ دین درخون دلِ من می تپد
محرمِ این درد ماجز عالمِ اسرار نیست
آنچہ برما می رود از غم کہ داند جُز خدا
زہر می نوشیم لیکن زہرہء گفتار نیست
ہر کسے غمخواری اہل و اقارب می کند
اے دریغ این بیکسی راہیچ کس غمخوار نیست
خونِ دین بینم روان چون کشتگانِ کربلا
اے عجب ایں مرد مان رامہرآن دلدار نیست
حیر تم آید چو بینم بذل شان درکار نفس
کاین ہمہ جود و سخاوت در رہِ دا دار نیست
اے کہ داری مقدرت ہم عزم تائیداتِ دیں
لُطف کن مارا نظر براندک و بسیار نیست
بین کہ چون درخاک می غلطدز جورِ ناکساں
آنکہ مثل او بزیر گنبدِ دوّار نیست
اندرین وقتِ مصیبت چارۂ ما بیکساں
جُز دُعاء بامداد و گریۂ اسحار نیست
اے خدا ہر گز مکن شادآن دلِ تاریک را
آنکہ او را فکرِ دینِ احمدِؐ مختار نیست
اے برادرپنج روز ایّام عشرت ہا بود
دائمًا عیش و بہار گلشن و گلزار نیست
راقم مرزا غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 38
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 38
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/38/mode/1up
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم صل علی محمد و اٰ ل محمد افضل الرسل و خاتم النبیین
اشتہار
کتاب براہین احمدیہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیاہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں منجانب اللہ و سچا مذہب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کو ہریک عیب اور نقص سے َ بری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں پر دِلی یقین سے ایمان لاتا ہے وُہ فقط اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے اُن کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں اور نہ اُن پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الٰہی مل سکتی ہے بلکہ اُن کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیاہ دل ہو جاتاہے جس کی شقاوت پر اسی جہان میں نشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیاگیا ہے ۔ (۱) اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالفِ اسلام ان دلائل کو توڑدے تو اُس کو دس ہزار روپیہ دینے کااشتہار دیا ہوا ہے اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے۔ (۲) دوم اُن آسمانی نشانوں سے کہ جو سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ اس امر دوم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 39
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 39
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/39/mode/1up
دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہوجائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں ۔ اوّل ۱ وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دُعا اور توجّہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مؤلف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے ۔ دوم ۲ وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر یک عام و خاص پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا ۔ سوم۳ و ہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسولؐ بر حق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتی ہیں جن کے اثبات میں اس بندۂ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادرِ مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچّے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیّہ اور اسرار لدنیہ اور کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کہ جو خود اس خادمِ دین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے) بشہادت رویت گواہ ہیں کتاب موصوف میں درج کئے ہیں اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیحبن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض ببرکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد و حرمان ہے یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے جو منجملہ تین۳۰۰ سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 40
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- بَرَکاتُ الدُّعا: صفحہ 40
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/40/mode/1up
چکی ہے ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے۔ وَ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَلَا فَخْرَ ۔ وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے رُوبرو اُس کو جواب دینا پڑے گا ۔ بالآخر اس اشتہار کو اس دُعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلّم اور تیرے کامل ومقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اُس کے حکموں پر چلیں تا اُن تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہوجاویں کہ جو سچّے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جونہ صرف عقبیٰ میں حاصل ہوسکتی ہے بلکہ سچے راستباز اسی دُنیا میں اس کو پاتے ہیں بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتابِ صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جن کی شائستہ اور مہذّب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملت سے ممنون کر کے اس بات کیلئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم اُن کے دُنیا و دین کے لئے دِلی جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں تا اُن کے گورے و سپید مُنہ جس طرح دُنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منور ہوں ۔ فنسأل اللہ تعالٰی خیرھم فی الدنیا والاخرۃ اللھم اھدھم بروح منک و اجعل لھم حظًا کثیرًا فی دینک و اجذبھم بحولک و قوتک لیؤمنوا بکتابک و رسولک و یدخلوا فی دین اللہ افواجًا۔ اٰمین ثم اٰمین والحمدللّٰہ رب العالمین۔
المشتھر
خاکسار
مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ ۔ ملک پنجاب
 
Last edited:
Top