• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 9 ۔ضیا ء الحق ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 9۔ ضیاء الحق۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 9. Page: 249
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 249
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 250
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 250
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
اشتہار کتاب مننُ الرحْمٰن
یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض
پُر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی سو قرآن عظیم نے یہ بھی دنیا پر ایک بھاری احسان کیا ہے جو اختلاف لغات کا اصل فلسفہ بیان کر دیا اور ہمیں اس دقیق حکمت پر مطلع فرمایا کہ انسانی بولیاں کس
منبع اور معدن سے نکلی ہیں اور کیسے وہ لوگ دھوکہ میں رہے جنہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا۔ جو انسانی بولی کی جڑھ خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اور واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رو
سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہیجو
اُمّ الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے یہ بات ظاہر ہے کہ الٰہی
کتاب کی تمام تر زینت اور فضیلت اسی میں ہے جو ایسی زبان میں ہو جو خدا تعالیٰ کے منہ سے اور اپنی خوبیوں میں تمام زبانوں سے بڑھی ہوئی اور اپنے نظام میں کامل ہو اور جب ہم کسی زبان میں وہ
کمال پاویں جس کے پیدا کرنے سے انسانی طاقتیں اور بشری بناوٹیں عاجز ہوں اور وہ خوبیاں دیکھیں جو دوسری زبانیں ان سے قاصر اور محروم ہوں اور وہ خواص مشاہدہ کریں جو بجز خدا تعالیٰ کے
قدیم اور صحیح علم کے کسی مخلوق کا ذہن ان کا موجد نہ ہوسکے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ زبان خدا تعالیٰ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 251
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 251
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
حمد و شکر آن خدائے کرد گار
کز وجودش ہر وجودے آشکار
این جہان آئینہِ دارِ روئے او
ذرّہ ذرّہ رہ نماید سوئے
او
کرد در آئینہِ ارض و سما
آن رخ بے مثل خود جلوہ نما
ہر گیاہے عارفِ بنگاہ او
دست ہر شاخے نماید راہ او
نور مہر و مہ ز فیضِ نور اوست
ہر ظہورے تابعِ منشورِ اوست
ہر
سرے سرّے ، زخلوت گاہ اُو
ہر قدم جوید ، درِ با جاہ اُو
مطلبِ ہر دل جمالِ روئے اوست
گمرہی گرہست، بہر کوئی اوست
مہر و ماہ و انجم و خاک آفرید
صد ہزاران کرد ، صنعت ہا
پدید
این ہمہ صُنعش کتابِ کار اوست
بے نہایت ، اندر ین اسرار اوست
این کتابے پیش چشم ما نہاد
تا ازو راہ ہدی داریم یاد
تاشناسی آن خدائے پاک را
کو نماند خاکیان و خاک را
تا
شود معیار بہر وحی دوست
تا شناسی از ہزاران آنچہ زوست
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 252
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 252
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تا خیانت را نماند ہیچ راہ
تا جدا گردد سفیدی از سیاہ
بس ہمان شد آنچہ آن دادار خواست
کار دستش شاہد گفتار
خاست
مشرکان و انچہ پوزش مے کنند
این گواہان تیر دوزش مے کنند
گر بگوئی غیر را رحمان خدا
تف زند بر روئے تو ، ارض و سما
در تراشی ، بہر آن یکتا ، پسر
بر تو بارد ، ***ِ
زیر و زبر
با زبانِ حال گوید ، این جہان
کان خدا ، فرد است و قیوم و یگان
نے پدر دارد ، نہ فرزند و نہ زن
نے مبدّل شد زِ ایّام کُہن
یک دمے گر رشح فیضش کم شود
این ہمہ خلق و جہان
برہم شود
یک نظر ، قانون قدرت را بہ بین
تا شناسی شانِ ربُّ العالمین
کاخ دنیا را چہ دید استی بنا
کز پئے آن میگذاری صدق را
عابدآن باشد ، کہ پیشش فانی است
عارف آن کو گویدش
لاثانی است
ترک کن ناراستی ، ہم عذر خام
میل سوئے راستی چوں شد حرام
راہِ بد را نیک اندیشیدۂ
اے ہداک اللّٰہ چہ بد فہمیدۂ
روئے خود ، خود مے نماید آن یگان
تو کشی تصویر او ،
چوں کودکان
آن رخے کان فعل حق بنمودہ است
درحقیقت روئے حق آن بودہ است
وانچہ خود کردی بتے داری براہ
بت پرستی ہا کنی شام و پگاہ
اے دو چشمے بستہ از انوار اُو
چون نہ
بینی روئے او درکار او
این چنین در افتراہا چون پری؟
یا مگر از ذات بے چون منکری
دل چرا بندی درین دنیائے دون
ناگہان خواہی شدن زین جابرون
از پئے دنیا بریدن از خدا
بس ہمین
باشد نشانِ اشقیا
چون شود بخشائش حق بَر کسے
دل نمے ماند بدنیائش بسے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 253
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 253
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
لیک ، ترکِ نفس کے آسان بود
مردن و از خود شدن یکسان بود
آن خدا خود را نمود از کار خویش
کرد قائم شاہد گفتارِ
خویش
ہرچہ او را بود از حُسن مزید
حلیۂ آن پیش چشمِ ماکشید
تو کشی از پیش خود تصویر اُو
خالق او مے شوی اے تیرہ خو
آنکہ خود ، از کارِ خود جلوہ نما است
آن خدا نے آنکہ خود
از دست ماست
اے ستمگر این ہمہ مولائے ماست
آنکہ قرآن مادحِ اُو جا بجا است
ہر چہ قرآن گفت مے گوید سما
چشم بکشا تا بہ بینی این ضیا
بس ہمیں فخرے بُود ، اسلام را
کو نماید ،
آن خدائے تام را
گوئدش ز انسان کہ از صُنعش عیاں
نے تراشد ، از خودش چون دیگران
غیر مسلم ، خود تراشد پیکرش
خود تراشد ، قامت و پا و سرش
خود تراشیدہ ، نمیگردد خدا
ہمچو
طفلان ، بازی است و افترا
زین تراشیدن جہانے شد تباہ
کم کسے ، سوئے خدا بر دست راہ
چون تو کورے نیستی ، چشمے کُشا
بین ، چہ ظاہر مے کند ارض و سما
ہر طرف بشنو صدائے
القدیر
ذوالجلال و ذوالعلٰی نورے منیر
ہیچ مخلوقے خدائے خود مگیر
کے شود ، یک کر مکے چون آن قدیر
پیش او لرزد زمین و آسمان
پس تو مشت خاک را مثلش مدان
گر خدا گوئی
ضعیفے را بزور
جان تو گوید کہ کذّابی و کور
دل نمے داند خدا جز آن خدا
این چنین افتاد فطرت ز ابتدا
از رہِ کین و تعصب دور شو
یک نظر از صدق کن پُر نور شو
کین ریاض عقل را
ویران کند
عاقلان را گمراہ و نادان کُند
کے بشر گردد خدائے لایزال
داوری ہا کم کن اے صید ضلال
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 254
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 254
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
آبِ شور اندر کَفت ہست اے عزیز
نازہا کم کن ، اگر داری تمیز
تو ہلاکی ، گر نجوئی آن خدا
آنکہ بنمائد تُرا ارض و
سما
ہم بقرآن بین ، جمال آن قدیر
قول و فعلِ حق ، زُلالِ یک غدیر
مردُم اندر ، حسرتِ این مدّعا
چون نمے خواہند خلق ، این چشمہ را
ہست قرآن ، در رہِ دین رہ نما
در ہمہ حاجاتِ دین ،
حاجت روا
آن گروہِ حق ، کہ از خود فانی اند
آب نوش ، از چشمۂ فرقانی اند
فارغ اُفتادہ ، زِ نام عزّ و جاہ
دل ز کف ، و از فرق افتادہ کُلاہ
دور تر از خود بیار آمیختہ
آبرو ، از بہر
روئے ریختہ
از برون چون اجنبی ، دل پُر زِ یار
کس نداند رازِ شان جز کردگار
دیدنِ شان میدہد یاد از خدا
صدق ورزان در جناب کبریا
آن ہمہ را بود ، فرقان رہ برے
ہر یکے زان درشدہ
ہمچون درے
آن ہمہ زان دلبرے جان یافتند
جان چہ باشد روئے جانان یافتند
چشم شان شد پاک از شرک و فساد
شد دل شان ، منزل ربّ العباد
سیّد شان ، آنکہ نامش مصطفٰے است
رہبرِ ہر
زمرۂ صدق و صفا است
مے درخشد روئے حق در روئے او
بوئے حق آید ز بام و کوئے او
ہر کمال رہبری بر وے تمام
پاک روی و پاک رویان را امام
اے خدا ، اے چارۂ آزار ما
کن
شفاعت ہائے او در کار ما
ہرکہ مہرش در دل و جانش فتد
ناگہان جانے در ایمانش فتد
کے ز تاریکی بر آید آن غراب
کورمدزیں مشرقِ صدق و صواب
آنکہ او را ظلمتے گیرد براہ
نیستش چون روئے احمد مہرو ماہ
تابعش بحرِ معانی مے شود
از زمینی آسمانی مے شود
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 255
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 255
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہر کہ در راہ محمدؐ زد قدم
انبیاء را شد مثیل آن محترم
تو عجب داری ز فوزِ این مقام
پائے بند نفس گشتہ صبح و شام
اے کہ فخر و ناز بر عیسیٰ تراست
بندۂ عاجز بچشمِ تُو خدا ست
شد فراموشت خداوندے ودود
پیش عیسیٰ او فتادی در سُجود
من ندانم این چہ عقل ست و ذکا
بندۂ را ساختن ربُّ
السَّما
فانیان را نسبتے با او کُجا
از صفاتِ او کمال است و بقا
چارہ سازِ بندگان قادر خدا
آنکہ ناید تا ابد بر وے فنا
حافظ و ستار و جوّاد و کریم
بیکسان را یارورحمان و رحیم
تو چہ
دانی آن خدائے پاک را
آن جلال و ، تُو دادی خاک را
ہان دمے ہردم زِ کفّارہ زنی
پس نہ مرد استی کہ کمتر از زنی
نسخۂ سہل است گر یابد سزا
زید ، و گردد بکر زان فعلش رہا
لیک زین
نُسخہ نمے یابی نشان
در ورق ہائے زمین و آسمان
تا خدا بنیاد این عالم نہاد
ظالمے ہم ننگ دارد زین فساد
چوں ندارد فاسقے آن را پسند
چون پسندد حضرتِ پاک و بلند
ماگنہ گاریم نالان
نیز ہم
او غیورے ہست رحمان نیز ہم
زہر و تریاق است ، در ما مُستتر
آن کشد این مے دہد جان دگر
زہر را دیدی ، نہ دیدی چارہ اش
آنکہ بودہ از ازل کَفّارہ اش
چوں دو چشمت دادہ اند
، اے بے خبر
پس چرا پوشی یکے وقتِ نظر
یک نظر بین سوئے این دنیائے دون
چون بگردی از پئے آن سرنگون
آنچہ داری ، از متاع و منزلت
بے مشقت ہا نگشتہ حاصلت
بایدت تا
مدتے جہدے دراز
تا خوری از کِشت خود نانے فراز
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 256
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 256
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چونؔ ہمین قانون قدرت اوفتاد
بس ہمیں یاد آر در کشتِ معاد
خوب گفت آن قادر ربّ الوریٰ
۱؂
ہم درین معنی ست
گر تو بشنوی
یادگار مولوی در مثنوی
’’گندم از گندم بروید جو زِ جو
از مکافاتِ عمل غافل مشو‘‘
آنکہ بر کفّارہ ہا خاطر نہاد
عقل و دین از دست خود یکسر بداد
دین و دنیا جہد خواہد
ہم تلاش
رو براہش جہد کن نادان مباش
اَمَّا بَعْد واضح ہو کہ اس رسالہ کی تحریر کا یہ باعث ہے کہ ہم نے پہلے اس سے چار قطعہ اشتہار آتھم صاحب کے بارے میں شائع کئے تھے جن میں
پادری صاحبان کو بخوبی سمجھایا گیا تھا کہ درحقیقت وہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے جو ہم نے مسٹر عبد اللہ آتھم کے بارے میں کی تھی لیکن افسوس کہ پادری صاحبوں نے ہمارے ان اشتہارات کو
توجہ سے نہیں پڑھا اور اب تک بدگوئی اور بے اعتدالی اور سب و شتم سے باز نہیں آتے۔ اور اس بے ہودہ بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ لیکن ہم نے جو ہمارے ذمہ فرض
تھا ادا کر دیا یعنی یہ کہ اگر آتھم صاحب نے رجوع بحق نہیں کیا جو پیشگوئی کی ضروری اور قطعی شرط تھی تو وہ جلسہ عام میں قسم کھا کر چار ہزار روپیہ بطور تاوان کے ہم سے لے لیں۔ مگر آتھم
صاحب نے قسم کھانے سے انکار کیا۔ اور ہم چار ہزار کے اشتہار میں ثابت کر چکے ہیں کہ یہ عذر ان کا کہ قسم ان کے مذہب میں منع ہے سراسر دروغ بے فروغ ہے۔ اور ان کے بزرگ ہمیشہ قسم
کھاتے رہے ہیں۔ مگر آتھم صاحب نے ان ثبوتوں کا کچھ جواب نہ دیا۔ ہاں ڈاکٹر
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 257
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 257
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مارٹن کلارک نے امرتسر سے ایک گندہ اشتہار جو اُن کی بدبودار فطرت کا ایک نمونہ تھا جاری کیا۔ جس کا خلاصہ مطلب یہی
تھا کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ایسا ہی منع ہے۔ جیسا کہؔ مسلمانوں میں سؤر کا گوشت کھانا۔ مگر افسوس کہ ان کو یہ خیال نہ آیا کہ اگر قسم کھانا سؤر کے گوشت کے برابر ہے۔ تو یہ سؤر قسم
کھانے کا پولوس صاحب اپنی تمام زندگی میں کھاتے رہے۔ پطرس نے بھی کھایا۔ تو پھر آتھم صاحب پر کیوں حرام ہوگیا۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ قسم کھانا عیسائیوں میں صرف جائز ہی نہیں بلکہ
بعض موقعوں میں واجبات سے ہے۔ انگریزی عدالتیں جو کسی شخص کو خلاف مذہب مجبور نہیں کرتیں انہوں نے بھی عیسائی مذہب کو قسم کھانے سے باہر نہیں رکھا۔ اور خود آتھم صاحب کا عدالتوں
میں قسم کھانا ثابت ہے۔ اس لئے چاہئے تھا کہ حضرات پادری صاحبان یا تو آتھم صاحب کو قسم کھانے پر مجبور کرتے یا ان سے نالش کرواتے تا اسی کے ضمن میں ان کو قسم کھانی پڑتی اور یا عام
اشتہار دیتے کہ درحقیقت آتھم صاحب ہی دروغ گو ہیں لیکن انہوں نے بجائے اس کے سراسر ہٹ دھرمی سے گالیاں دینی شروع کر دیں اور یہ نابکار عذر پیش کیا کہ آتھم کھلے کھلے کب اسلام لایا
مگر ایک سلیم طبع انسان سمجھ سکتا ہے کہ وہ شرط جو پیشگوئی میں درج ہے اس شرط کے یہ لفظ نہیں ہیں کہ اگر آتھم کھلے کھلے طور پر اسلام لے آوے گا تو وہ موت سے بچے گا ورنہ نہیں۔ بلکہ
پیش گوئی میں صرف رجوع کی شرط ہے اور رجوع کا لفظ پوشیدہ طور پر حق کے قبول کرنے پر بھی دلالت کرتا ہے پس اس صورت میں کھلے کھلے اسلام کا مطالبہ سراسر حماقت ہے۔
سوچنا
چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا اپنے الہام میں ان الفاظ کا ترک کرنا کہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 258
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 258
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
آتھم کھلے کھلے طور پر اسلام لے آئے گا اور اس کے مقابل پر رجوع کا لفظ استعمال کرنا جو ایک ادنیٰ حالت التفات الی الحق
پر بھی صادق آسکتا ہے۔ صاف یہ پیرایہ یہاں دلالت کر رہا تھا کہ کھلا کھلا اسلام لانا ضروری منشاء پیشگوئی کا
نہیں۔* اگر یہی ضروری ہوتا تو اصل الفاظ جن سے یہ مطلب بوضاحت ادا ہوتا ہے
کیوں چھوڑ دیئے جاتے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر ایک منصف کے لئے غور کرنے کی جگہ ہے۔ اور میں یقین نہیں کرتا کہ کوئی ؔ پاک دل آدمی ایک لحظہ بھی اس پر غور کر کے پھر شکوک و
شبہات کی مشکلات میں پڑے۔ مخالفوں کا سارا سیاپا تو اس بات پر ہے کہ آتھم نے اپنی زبان سے عام لوگوں میں اقرار اسلام کیوں نہ کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسے کھلے کھلے اسلام لانے کی
پیشگوئی میں شرط تھی کیا اس تحریر میں جس پر فریقین کے دستخط بروز مباحثہ ہوگئے تھے یہ درج تھا کہ عذاب نہ وارد ہونے کی یہ شرط ہے کہ آتھم کھلے کھلے طور سے مشرف باسلام ہو جائے۔
بلکہ کھلے کھلے تو کیا اس تحریر میں تو اسلام کا بھی کچھ ذکر نہیں تھا صرف رجوع الی الحق کی شرط ہے اور ظاہر ہے کہ رجوع کا لفظ جیسا کہ کبھی کھلے کھلے اسلام لانے پر بولا جاسکتا ہے
ایسا ہی کبھی دل میں تسلیم کرنے پر بھی اطلاق پاتا ہے اس سے تو یہی ثابت ہوا کہ آتھم کے کھلے کھلے اسلام لانے پر کوئی قطعی شرط نہ تھی غایت کار یہ کہ دو احتمالوں میں سے یہ بھی ایک احتمال
تھا پھر اسی پر زور دینا کیا ایمانداری
* نوٹ: خدائے علیم و حکیم کا پیشگوئی کی شرط میں کھلے کھلے اسلام کا ذکر نہ کرنا خود اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پوشیدہ طور پر رجوع کرے گا
فقط۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 259
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 259
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کا کام تھا۔ جبکہ ایک احتمال کی رو سے خود آتھم نے اپنی کنارہ کشی اور خوف زدہ حالت دکھلا کر پیشگوئی کی صداقت ظاہر کر
دی تو کیا یہ ایک بد ذاتی نہیں جو اس نتیجہ کو چھپایا جائے جو اس کی خود اپنی کنارہ کشی سے اور پُرخوف حالت سے پیشگوئی کی نسبت قائم ہوگیا۔ ہم نے کب اور کس وقت آتھم کے کھلے کھلے اسلام
لانے کی شرط درج کی تھی۔ پھر جنہوں نے کھلا کھلا اسلام لانا ضروری سمجھا۔ کیا انہوں نے سراسر بددیانتی سے حق پوشی نہیں کی۔ کیا انہوں نے ہمارے الفاظ کو نظر انداز کر کے مجرمانہ خیانت
کا ارتکاب نہیں کیا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یہ کہنا کہ بشرطیکہ کھلا کھلا لوگوں کے روبرو اسلام لے آوے اور یہ کہنا کہ حق کی طرف رجوع کر لے یہ دونوں فقرے ایک ہی وزن کی کیفیت نہیں
رکھتے اور یہ کہنا کہ زید جو ایک نصرانی ہے اس نے رجوع بحق کیا ہے ہرگز اپنی دلالت میں اس دوسرے قول کے مساوی نہیں کہ زید کھلے کھلے طور پر مشرف باسلام ہوگیا بلکہ رجوع بحق ہونے
کی خبر میں اس بات کا احتمال باقی ہے کہ بعض قرائن قویہ سے اسلام لانے کا نتیجہ نکالا گیا ہو اورؔ ہنوز کھلے کھلے طور پر زید مشرف باسلام نہ ہوا ہو اسی وجہ سے ایسی خبر کا سننے والا بارہا
سوال بھی کرتا ہے کہ کیا وہ کھلے کھلے طور پر مشرف باسلام ہوا یا ہنوز مخفی ہے۔ اور بارہا یہ جواب پاتا ہے کہ نہیں کھلے طور پر نہیں بلکہ بعض قرائن سے اس کا رجوع معلوم ہوا ہے پس اس
سے ثابت ہوا کہ رجوع کا لفظ کھلے کھلے اسلام لانے پر قطعی الدلالت نہیں بلکہ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں دونوں احتمالوں پر مشتمل ہے۔ اور ایک شق میں اس کو محصور کرنا ایسی بے ایمانی ہے
جس کو بجز ایک خبیث النفس کے اور کوئی شریف الطبع استعمال نہیں کرسکتا۔ ہاں ایسے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 260
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 260
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
موقعہ پر مخالف یہ حق رکھتا ہے کہ قرائن قویّہ کا مطالبہ کرے جن کی وجہ سے کہہ سکتے ہوں کہ ضرور اس نے در پردہ
رجوع بحق کیا گو زبان سے اس کا قائل نہیں۔ پس اس جگہ یہ سوال ضرور پیش ہوسکتا ہے کہ آتھم نے اپنے رجوع بحق ہونے کے کون سے قرائن ظاہر کئے جن سے پیشگوئی کا پورا ہونا ثابت ہوا۔ تو
اس کا یہ جواب ہے کہ آتھم کا باوجود سخت اصرار عیسائیوں کے نالش نہ کرنا جس کے ضمن میں اس کو ہمارے مطالبہ سے قسم کھانا بھی پڑتا اول قرینہ اس کے رجوع بحق ہونے کا ہے۔ اور پھر بعد
اس کے اس کا ڈرتے رہنے کا اپنی زبان سے رو رو کر اقرار کرنا یہ دوسرا قرینہ ہے۔ اور پھر ایک خوفناک حالت بنا کر اور سراسیمہ ہو کر شہر بشہر اس کا بھاگتے پھرنا یہ تیسرا قرینہ ہے۔ اور پھر
یہ کہنا کہ خونی فرشتوں نے تین مقام پر تین حملے میرے پر کئے یہ چوتھا قرینہ ہے۔ اور پھر باوجود چار ہزار روپیہ پیش کرنے کے قسم نہ کھانا یہ پانچواں قرینہ ہے اور تفصیل ان کی حسب ذیل
ہے۔
(۱) اوّل یہ کہ آتھم نے اپنے اس خوف زدہ ہونے کی حالت سے جس کا اس کو خود اقرار بھی ہے جو نور افشاں میں شائع ہو چکا ہے۔ بڑی صفائی سے یہ ثبوت دے دیا ہے کہ وہ ضرور ان
ایام میں پیشگوئی کی عظمت سے ڈرتا رہا یعنی اس نے اپنی مضطربانہ حرکات اور افعال سے ثابت کر دیا کہ ایک سخت غم نے اس کو گھیر لیا ہے اور ایک جان کا اندیشہ ہر وقت ہر دم اس کے دامنگیر
ہے جس کے ڈرانے والے تمثلات نے آخر اس کو امرتسر سے نکال دیا۔
واضح ہو کہ یہ انسان کی ایک فطری خاصیت ہے کہ جب کوئی سخت خوف اور گھبراہٹ اس کے دل پر غلبہ کر جائے اور
غایت درجہ کی بے قراری
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 261
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 261
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور بے تابی تک نوبت پہنچ جائے تو اس خوف کے ہولناک نظارے طرح طرح کے تمثلات میں اس پر وارد ہونے شروع ہو جاتے
ہیںؔ اور آخر وہ ڈرانے والے نظارے مضطربانہ حرکات اور بھاگنے کی طرف مجبور کرتے ہیں۔ اسی کی طرف توریت استثنا میں بھی اشارہ ہے کہ قوم اسرائیلی کو کہا گیا کہ جب تو نافرمانی کرے
گا اور خدا تعالیٰ کے قوانین اور حدود کو چھوڑ دے گا تو تیری زندگی تیری نظر میں بے ٹھکانہ ہو جائے گی۔ اور خدا تجھ کو ایک دھڑکا اور جی کی غمناکی دے گا اور تیرے پاؤں کے تلوے کو قرار نہ
ہوگا۔ اور جا بجا بھٹکتا پھرے گا۔ چنانچہ بارہا ڈرانے والے تمثلات بنی اسرائیل کی نظر کے سامنے پیدا ہوئے اور خوابوں میں دکھائی دیئے جن کے ڈر سے وہ اپنے جینے سے ناامید ہوگئے۔ اور
مجنونانہ طور پر شہر بشہر بھاگتے پھرے۔
غرض یہ ہمیشہ سے سنت اللہ ہے کہ شدت خوف کے وقت کچھ کچھ ڈرانے والی چیزیں نظر آجایا کرتی ہیں۔ اور جیسے جیسے بے آرامی اور خوف
بڑھتا جاتا ہے وہ تمثلات شدّت اور خوف کے ساتھ ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ اب یقیناً سمجھو کہ آتھم کو انذاری پیشگوئی سننے کے بعد یہی حالت پیش آئی۔
جلسہ مباحثہ کے بافراست حاضرین پر یہ بات
پوشیدہ نہیں کہ پیشگوئی کے سننے کے ساتھ ہی آتھم کے چہرہ پر ایک خوفناک اثر پیدا ہوگیا تھا اور اس کے حواس کی پریشانی اسی وقت سے دکھائی دینے لگی تھی کہ جب وہ پیشگوئی اس کو سنائی
گئی۔ پھر وہ روز بروز بڑھتی گئی۔ اور آتھم کے دل و دماغ پر اثر کرتی گئی۔ اور جب کمال کو پہنچ گئی۔ جیسا کہ نور افشاں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 262
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 262
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/262/mode/1up
میں آتھم نے خود شائع کرا دیا تو ڈرانے والی تمثلات کا نظارہ شروع ہوگیا۔ اور ابتدا اس سے ہوئی کہ آتھم کو خونی سانپ نظر
آنے لگے پھر تو غیر ممکن تھا کہ سانپوں والی زمین میں وہ بود و باش رکھتا۔ کیونکہ سانپ کی ہیبت بھی شیر کی ہیبت سے کچھ کم نہیں ہوتی۔ پس اس نے ناچار ہوکر اس زمین سے جہاں سانپ دکھائی
دیا تھا جو اس کی نگاہ میں خاص اسی کے ڈسنے کے لئے آیا تھا کسی دور دراز شہر کی طرف کوچ کرنا قرین مصلحت سمجھا۔ یا یوں کہو کہ سانپ کی رویت کے بعد پیشگوئی کی تصویر ایک ایسی چمک
کے ساتھ اس کو نظر آئی کہ اس چمک کے مقابل پر وہ ٹھہر نہ سکا۔ اور اندرونی گھبراہٹ نے بھاگنے پر مجبور کیا اور آتھم صاحب کا یہ قول کہ وہ سانپ تعلیم یافتہ تھا اور ان کے ڈسنے کو ہماری
جماعت کے بعض لوگوں نے چھوڑا تھا اس کی بحث ہم جدا بیان کریں گے۔ بالفعل یہؔ بیان کرنا ضروری ہے کہ بموجب اقرار آتھم صاحب کے امرتسر چھوڑنے کا باعث وہ سانپ ہی تھا۔ جس نے آتھم
صاحب کو خوفناک صورت دکھا کر عین گرمی کے موسم میں ان کو سفر کرنے کی تکلیف دی اور بڑی گھبراہٹ کے ساتھ بیوی بچوں سے انہیں علیحدہ کر کے لدھیانہ میں پہنچایا۔ مگر افسوس کہ وہ
سانپ نہ مارا گیا۔ اور نہ اس کا کوئی چھوڑنے والا پکڑا گیا۔ کیونکہ وہ صرف نظر ہی آتا تھا اور کوئی جسمانی وجود نہ تھا۔ غرض کہ سانپ کی قہری تجلی اور اس کو دیکھ کر آتھم صاحب کا امرتسر
کو چھوڑنا ایک ایسا امر ہے کہ ایک منصف حق جو کے سب عقدے اسی سے حل ہو جاتے ہیں۔ دنیا سب اندھی نہیں ہر ایک باتمیز سمجھ سکتا ہے کہ یہ الزام کہ گویا ہم نے آتھم صاحب کو ڈسنے کے لئے
ایک تعلیم یافتہ سانپ ان کی کوٹھی میں چھوڑ دیا تھا۔ عند العقل اصل
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 263
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 263
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/263/mode/1up
حقیقت کیا رکھتا ہے۔ غرض یہ پہلا الزام ہے یا یوں کہو کہ یہ وہ پہلا غیبی حملہ ہے جس کے معنے ہم میں اور عیسائیوں میں
متنازعہ فیہ ہیں۔ جس میں ہمارے مخالف مولوی اور ان کے اوباش چیلے بھی عیسائیوں کے ساتھ ہیں۔
مگر آتھم صاحب نے اس تعلیم یافتہ سانپ کا اور نیز اس بات کا کہ وہ ہماری طرف سے چھوڑا
گیا تھا اب تک کوئی ثبوت نہیں دیا۔ اور ہم ابھی معقولی طور پر بیان کر چکے ہیں کہ یہ سانپ ہرگز باہر سے نہیں آیا۔ بلکہ آتھم صاحب کے ہی دل و دماغ سے نکلا تھا۔
چونکہ آتھم صاحب کے دل پر
پیشگوئی کا نہایت قوی اثر ہو چکا تھا اور ہر وقت ایک شدت خوف اس کی نظر کے سامنے رہتا تھا۔ اس لئے ضرور تھا کہ کوئی خوفناک نظارہ بھی ان کی آنکھوں کے سامنے پھر جائے لہٰذا ان کی دہشت
زدہ متخیلہکو خونی سانپ نظر آگیا جس کو عربی میں حَیَّہ کہتے ہیں۔ کیونکہ سانپ انسان کی نسل کا پہلا اور ابتدائی دشمن ہے اور بزبان حال کہتا ہے کہ حَیَّ عَلَی الْمَوتِ یعنی موت کی طرف آجا اس
لئے اس کا نام حَیَّہ ہوا۔
پس چونکہ سانپ موت کا اوتار ہے اس لئے آتھم صاحب کو پہلے یہی دکھائی دیا جس کا آتھم صاحب نے نور افشاں میں رو رو کر اقرار کیا ہے کہ ضرور میں موت سے ڈرتا
رہا پس ایسے ڈرنے والے کو اگر سانپ نظر آگیا تو کوئی حقیقت شناس اس سے تعجب نہیں کرے گا۔ اور ایسا نظارہ آتھم صاحب پر ہی کچھ حصر نہیں رکھتا بلکہ یہ تو عام قانون قدرت ہے کہ شدت
خوف کے وقت ایسےؔ اعجوبے ضرور دکھائی دیا کرتے ہیں بھلا یہ تو سانپ ہے بعض لوگ کمال خوف کے وقت جب وہ اندھیری رات میں اکیلے چلتے ہیں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 264
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 264
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/264/mode/1up
بھوت کو بھی دیکھ لیتے ہیں ۔ اور حقیقت یہ ہوتی ہے کہ جب اندھیری رات اور تنہائی اور قبرستان کے بیابان میں دل پر خوف
غالب ہوا اور پُردہشت تخیلات زمانہ آتش کی طرح اڑنے لگے تو پھر کیا تھا فی الفور آنکھوں کے سامنے ایک دیو مہیب شکل کے ساتھ حاضر ہوگیا۔ اور شکل یہ دکھائی دی کہ گویا ایک کالا بھوت دور
سے دوڑا چلا آتا ہے جس کی شکل نہایت ہولناک ایک پہاڑ کا پہاڑ کوتہ گردن سیاہ رنگ چوٹی آسمان پر پیر زمین پر موٹے موٹے ہونٹ زرد زرد دانت اور پھر بہت لمبے اور باہر نکلے ہوئے چپٹی ناک دبا
ہوا ماتھا۔ سرخ سرخ آنکھیں باہر نکلی ہوئیں۔ سر پر لمبے دو سینگ مونہہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ پس جبکہ ایسی حالتوں میں بھوت بھی نظر آجایا کرتے ہیں۔ پھر اگر آتھم صاحب نے سانپ دیکھ
لیا تو کیا غضب ہوا۔ ایسا سانپ دیکھنے سے کون انکار کرے گا کلام تو اس میں ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ سانپ کسی انسان نے چھوڑا تھا۔ جو آتھم صاحب کی شکل و شباہت سے خوب واقف تھا۔ افسوس کہ
آتھم صاحب نے اس کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ کاش وہ قسم ہی کھا لیتے تا وہ اسی طرح اپنے تئیں اس الزام سے بَری کرتے جو ان بناوٹ کی باتوں سے ان پر عائد ہوگیا ہے۔ مگر خیر ہم اب بھی ان کے بکلّی
مکذّب نہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ ضرور ان کو سانپ نظر آیا تھا۔ مگر یہ سانپ انہیں کے تخیلات کا نتیجہ تھا۔ اور اس بات پر قطعی دلیل تھا کہ پیشگوئی کی پوری عظمت ان کے دل پر طاری ہوگئی
تھی۔
یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح یونسکی قوم کو ملائک عذاب کے تمثلات میں دکھائی دیتے تھے۔ اسی طرح ان کو بھی سانپ وغیرہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 265
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 265
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/265/mode/1up
تمثلات دکھائی دئے۔ مگر ساتھ ہی ضروری طور پر اس بات کو ماننا پڑتا ہے کہ جس شخص کا خوف ایک مذہبی پیشگوئی سے اس
حد تک پہنچ جائے کہ اس کو سانپ وغیرہ ہولناک چیزیں نظر آویں یہاں تک کہ وہ ہراساں اور ترساں اور پریشان اور بے تاب اور دیوانہ سا ہوکر شہر بشہر بھاگتا پھرے۔ اور سراسیموں اور خوف زدوں
کی طرح جابجا بھٹکتا پھرے۔ ایسا شخص بلاشبہ یقینی یا ظنی طور پر اس مذہب کا مصدق ہوگیا ہے جس کی تائید میں وہ پیشگوئی کی گئی تھی۔ اور یہی معنی رجوع الی الحق کے ہیں۔ اور یہی وہ حالت
ہے جس کو بالضرور رجوع کے مراتب میں سے کسیؔ مرتبہ پر محمول کرنا چاہئے اور میں جانتا ہوں کہ آتھم صاحب کا اس پیشگوئی سے جو دین اسلام کی سچائی کے لئے کی گئی تھی جس کے ساتھ
رجوع بحق کی شرط بھی تھی اس قدر ڈرنا کہ سانپ نظر آنا اور نیزوں اور تلواروں والے دکھائی دینا یہ ایسے واقعات ہیں جو ہر ایک دانشمند جو ان کو نظر یکجائی سے دیکھے گا وہ بلاتامل اس نتیجہ تک
پہنچ جائے گا کہ بلاشبہ یہ سب باتیں پیشگوئی کے پُرزور نظارے ہیں۔ اور جب تک کسی کے دل پر ایسا خوف مستولی نہ ہو جو کمال درجہ تک پہنچ جائے تب تک ایسے نظاروں کی ہرگز نوبت نہیں آتی
جو شخص مکذب اسلام ہو۔ اور حضرت عیسٰیؑ کے دور تک ہی الہام پر مہر لگا چکا ہو کیا وہ اسلامی پیشگوئی سے اس قدر ڈر سکتا ہے بجز اس صورت کے کہ اپنے مذہب کی نسبت شک میں پڑ گیا ہو
اور عظمت اسلامی کی طرف جھک گیا ہو۔
اگر باوجود ان قرائن کے پھر بھی آتھم صاحب کو ان کی حق پوشی پر نہ پکڑا جائے اور بہت ہی نرمی کی جاوے تاہم یہ مطالبہ انصافاًاُن کے ذمہ باقی رہتا
ہے۔ کہ جب کہ وہ اپنے خوف کے وجوہات کو یعنی تین حملوں کو اس
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 266
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 266
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/266/mode/1up
پہلو پر ثابت نہیں کرسکے جس سے وہ تمام حملے انسانی حملے سمجھے جاتے۔ تو اب اس سوال سے بچنے کے لئے کہ کیوں
یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ بعید ازقیاس مشاہدات ان کے جن میں سے سب سے پہلے سانپ کے حملے کا مشاہدہ ہے۔ انہیں کے پُرخوف تخیلات کا نتیجہ اور انہیں کے خوف زدہ دماغ سے متمثل ہوگئے
ہیں کم سے کم یہ ضروری تھا کہ وہ اس قریب العقل الزام سے اپنی بریت ظاہر کرنے کے لئے قسم کھا جاتے۔
یعنی جلسہ عام میں قسماً یہ بیان کر دیتے کہ وہ الہام کو منجانب اللہ الہام سمجھ کر
نہیں ڈرے اور نہ حقیّت اسلام کی ان کے دل میں سمائی بلکہ واقعی طور پر تعلیم یافتہ سانپ سے لے کر اخیر تک تین متواتر حملے ہماری جماعت کی طرف سے ان پر ہوئے جن سے وہ ڈرتے رہے۔
کیونکہ اس مقدمہ کی صورت ایسی ہے کہ صرف ہمارا ہی الہام ان کو ملزم نہیں کرتا بلکہ ساتھ اس کے ان کو انہیں کا قول و فعل بھی ملزم کررہا ہے۔
اور یہ یاد رہے کہ یہ وہی آتھم صاحب ہیں
جنہوں نے بحث سے پہلے ایک اپنی دستخطیؔ نوشت ہم کو دے دی تھی کہ کوئی نشان دیکھنے پر ضرور میں اپنے مذہب کی اصلاح کر لوں گا جس سے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ کسی قدر اصلاح کی
اپنے اندر جرأت بھی رکھتے تھے سو خوفناک نظارے جو ان کے لئے نشان کے حکم میں تھے اس پوشیدہ رجوع کے محرک ہوگئے۔
(۲) پھر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ جب آتھم صاحب امرتسر سے
تعلیم یافتہ سانپ کے حملہ سے ڈر کر بھاگے اور لدھیانہ میں اپنے داماد کے پاس پناہ گزین ہوئے تو اس جگہ بھی شدید خوف کے دورہ کے وقت وہی تمثلّی نظارہ آتھم صاحب کی آنکھوں کے آگے پھر گیا
جو غلبہ خوف کے وقت پھرا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 267
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 267
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/267/mode/1up
کرتا ہے۔ مگر اب کی دفعہ ان کو سانپ دکھائی نہیں دیا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک خوفناک حالت پیدا ہوئی یعنی یہ کہ بعض
مسلّح آدمی نیزوں کے ساتھ ان کو دکھائی دیئے کہ گویا وہ ان کے احاطہ کوٹھی کے اندر آکر بس قریب ہی آپہنچے ہیں اور قتل کرنے کے لئے مستعد ہیں۔ ہمیں معتمد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس
حملہ کے بعد آتھم صاحب اپنی کوٹھی میں بہت روتے رہے اور کبھی یہ بیان نہیں کیا کہ کسی انسان نے حملہ کیا بلکہ ہر وقت ایک پوشیدہ ہاتھ کا خوف ان کے چہرہ پر نمایاں تھا اور وہ خوف اور بے
آرامی بڑھتی گئی اور دل کی غمناکی اور دھڑکا زیادہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ قہر زدہ یہودیوں کی طرح پاؤں کے تلوہ نے پھر بے قراری ظاہر کی۔ اور وہ کوٹھی بھی کچھ ڈراؤنی سی معلوم ہوئی۔ اور سچ
بھی تھا کہ جس کوٹھی کے احاطہ میں ایسے مسلّح پیادے یا سوار گھس آئے کہ باوجود سخت انتظام اور اہتمام پولیس کے لوگوں کے جو حفاظت کے لئے دن رات وہیں جمے رہتے تھے پکڑے نہ گئے۔
اور نہ ان کا حلیہ دریافت ہوسکا۔ اور نہ یہ پتہ لگا کہ کس راہ سے آئے اور کس راہ سے چلے گئے اس خوفناک کوٹھی میں آتھم صاحب کیونکر رہ سکتے تھے۔
انسان فطرتاً یہ عادت رکھتا ہے کہ
جس جگہ سے ایک مرتبہ اس کو خوف آوے تو پھر اسی جگہ رات رہنا پسند نہیں کرتا۔ غرض انہیں وجوہ سے آتھم صاحب کو لدھیانہ بھی چھوڑنا پڑا۔
لیکن اب بحث یہ ہے کہ کیا حقیقت میں کوئی
جماعت نیزوں یا تلواروں والی بمقام لدھیانہ آتھم صاحب کی کوٹھی میں گھس آئی تھی؟
اس بحث کو ہم صرف ان دو کلموں سے طے کر سکتے ہیں کہ اگر بمقام امرتسر آتھمؔ صاحب پر فی الحقیقت
کسی تعلیم یافتہ سانپ نے حملہ کیا تھا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 268
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 268
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/268/mode/1up
تو پھر اس جگہ بھی نیزوں تلواروں والے آتھم صاحب پر ضرور آ پڑے ہوں گے اور اگر آتھم صاحب اس پہلے حملے کے بیان
کرنے میں صادق ہیں تو اس دوسرے حملہ میں بھی صادق ہوں گے۔
لیکن افسوس تو یہ ہے کہ جیسے آتھم صاحب بمقام امرتسر سانپ پکڑنے سے ناکام رہے اور اس کو مار بھی نہ سکے یہی ناکامی
آتھم صاحب کو اس جگہ بھی نصیب ہوئی۔باوجودیکہ پولیس کا انتظام اور داماد کی احتیاطیں امرتسر سے زیادہ تھیں۔
اور یہ افسوس اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ آتھم صاحب
جیسا ایک تجربہ کار سرکاری ملازم پنشنر جو مدت دراز تک اکسٹرا اسسٹنٹی کا کام کرتا رہا کیا وہ اس فوجداری قانون سے ناواقف تھا۔ کہ جب اس اقدام قتل تک نوبت پہنچی تھی تو وہ بذریعہ عدالت
باضابطہ ہمارا مچلکہ تحریر کروا کر امن سے لدھیانہ میں لیٹا رہتا۔
یہ بات کچھ تھوڑی نہیں تھی کہ بقول ان کے جو بعد میں بنائی گئی ہے کہ اقدام قتل کے لئے ان پر حملہ ہوا۔ مگر ان سے تو اتنا
بھی نہ ہوسکا کہ اس ظالمانہ واقعہ کو چند اخباروں میں ہی درج کروا دیتے۔ بلکہ بقول شخصے کہ ’’مشتے کہ بعداز جنگ یاد آید بر کلہ خود بائد زد۔‘‘ ان باتوں کو اس وقت ظاہر کیا جب وہ وقت ہی
گذر گیا۔ اور پند۱۵رہ مہینے کی میعاد منقضی ہوگئی۔ پھر بھی یاروں دوستوں نے بہت زور مارا کہ آتھم صاحب اب بھی نالش کر دیں۔ مگر چونکہ وہ اپنے دل میں جانتے تھے کہ یہ سب آسمانی امور ہیں
اور سمجھتے تھے کہ نالش کرنا تو آپ اپنے ہاتھ سے ہلاکت کا سامان جمع کرنا ہے۔ اور خود اس قدر شوخی بھی خطرناک ہے کہ اپنے خوف اور رجوع کو اور پہلو میں لاکر چھپا دیا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 269
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 269
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/269/mode/1up
اور خدا تعالیٰ کے احسان کو یاد نہ رکھا!!! اس لئے انہوں نے باوجود ڈاکٹر کلارک کے بہت سے سیاپے کے نالش نہ کی۔
اور یہ بھی انہیں معلوم تھا کہ نالش کی تقریب پر قسم بھی دی جائے گی۔ پس اسی خرخشہ سے جو ان کی جان پر وبال لاتا تھا کنارہ کیا۔
مگر تاہم یہ کنارہ کشی بے سود ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ مجرم
کو بے سزا نہیں چھوڑتا۔ نادان پادریوں کی تمام یا وہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے۔
اگرؔ چہ آتھم نے نالش اور قسم سے پہلوتہی کر کے اپنے اس طریق سے صاف بتلا دیا کہ ضرور رجوع بحق کیا۔
اور تین۳ حملوں کی طرز وقوع سے بھی بتلا دیا کہ وہ حملے انسانی حملے نہیں تھے۔ مگر پھر بھی آتھم اس جرم سے بری نہیں ہے کہ اس نے حق کو علانیہ طور پر زبان سے ظاہر نہیں کیا!!!
صرف اس کے افعال پر غور کرنے سے عقلمندوں پر حقیقت ظاہر ہوگئی۔
(۳) تیسرا قرینہ یہ ہے کہ جب آتھم صاحب لودیانہ میں بھی آسمانی سلاح پوشوں کا مشاہدہ کرچکے تو اُن کا دل وہاں
رہنے سے بھی ٹوٹ گیا۔ اور حق کے رعب نے ان کو دیوانہ سا بنا دیا۔ تب وہ اپنے دوسرے داماد کی طرف دوڑے جو فیروز پور میں تھا۔ شاید اس سے یہ غرض ہوگی کہ وہ اپنے ان عزیزوں کی آخری
ملاقاتیں سمجھتے ہوں گے کہ شاید پوشیدہ رجوع معتبر نہ ہو اور دل میں ٹھان لیا ہوگا کہ اگر میں باوجود اندرونی توبہ اور رجوع کے پھر بھی بچ نہ سکوں تو بارے اپنی لڑکیوں اور عزیزوں کو تو مل
لوں۔ بہرحال وہ افتان خیز ان فیروز پور پہنچے اور پیشگوئی کی عظمت نے ان کی وہ حالت بنا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 270
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 270
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/270/mode/1up
رکھی تھی جس سے ہراس اور ترس اور پریشانی ہر وقت مترشح ہو رہی تھی اور حق سے خائف ہونے کی حالت میں جو جو
دہشتیں اور قلق اس شخص پر وارد ہوتا ہے جو یقین رکھتا ہے یا ظن رکھتا ہے کہ شائد عذاب الٰہی نازل ہو جائے یہ سب علامتیں ان میں پائی جاتی تھیں۔
چنانچہ جب خوف اس جگہ بھی اپنی نہایت کو
پہنچا تو دوری مرض کی طرح وہی نظارہ پھر نظر آیا جو لدھیانہ میں نظر آیا تھا۔ مگر اب کی دفعہ وہ کرشمہ قدرت نہایت ہی جلالی تھا جس نے آتھم صاحب کے دل پر بہت ہی کام کیا۔
چنانچہ وہ
لکھتے ہیں کہ پھر میں نے فیروز پور میں دیکھا کہ بعض آدمی تلواروں یا نیزوں کے ساتھ آپڑے۔
غرض معتبر وسائل سے معلوم ہوا ہے کہ اب کی دفعہ ان پر خطرناک خوف طاری ہوا۔ اور خواب میں
بھی ڈرتے رہے اور اس عرصہ میں ایک حرف بھی اسلام کے برخلاف منہ سے نہیں نکالا۔ اور نہ کسی کے پاس یہ شکایت پیش کی کہ میرے پر یہ تیسری مرتبہ حملہ ہوا۔
انؔ تمام حملوں پر نظر
غور ڈالنے سے ہر ایک پہلو سے آتھم صاحب قابل الزام ٹھہر گئے ہیں۔ کیونکہ باوجودیکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تین۳ حملے ہوئے جن میں سے پہلا حملہ تعلیم یافتہ سانپ کا حملہ ہے مگر آتھم صاحب
نے نہ تو حملہ کرنے والوں کو پکڑا اور نہ حسب ضابطہ کسی تھانہ میں رپورٹ لکھوائی اور نہ کسی عدالت میں نالش کی اور نہ امن حاصل کرنے کے لئے عدالت کے ذریعہ سے ہمارا مچلکہ لکھوایا۔
اور نہ مجرموں کے پکڑنے کے لئے اندھی پولیس نے کچھ مدد دی اور نہ مجلسوں میں اس بات کا تذکرہ کیا۔ اور نہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 271
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 271
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/271/mode/1up
اخباروں میں ان متواتر تین۳ واقعات کو قبل گزرنے میعاد کے چھپوایا۔ اور نہ مجرموں کا کوئی حلیہ بیان کیا۔ اور نہ ان کے
بھاگنے کے وقت کوئی کپڑا وغیرہ ان کا چھین لیا۔
یہ تمام وہ امور ہیں جو آتھم صاحب کو جو اکسٹرا اسسٹنٹی وغیرہ کرتے بوڑھے ہوگئے کامل طور پر ملزم کر رہے ہیں ان کو چاہیے تھا کہ ان
الزاموں سے بریّت ثابت کرانے کے لئے اگر پہلے نہیں ہو سکا تو بعد میں ہی نالش کر دیتے۔ اور تین۳ حملوں کا عدالت میں ثبوت دے کر ایک تو جھوٹی پیشگوئی کی سزا دلواتے۔ اور دوسرے اقدام قتل
کی سزا سے بھی خالی نہ چھوڑتے لیکن وہ ایسے چپ ہوئے کہ ان کی طرف سے آواز نہ اٹھی۔
بعض اخبار والوں نے بھی بہت سیاپا کیا مگر انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ ڈاکٹر کلارک مارٹن سر کھپا
کھپا کر رہ گیا مگر انہوں نے اس کے جواب میں بھی دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے حالانکہ عقلاً و انصافاًو قانوناً ان کا دامن اسی حالت میں پاک ہوسکتا تھا۔ جبکہ وہ اپنے ان دعووں کو جن پر خوف کی بنیاد
رکھی گئی تھی بذریعہ نالش یا جس طرح چاہتے ثابت کر دکھاتے۔
اور ان کی یہ تین۳ حالتیں کہ ایک۱ طرف تو انہوں نے اپنے اقرار اور اپنے افعال و حرکات سے اثناء پیشگوئی میں اپنا سخت درجہ
پر ڈرتے رہنا ظاہر کیا۔ اور دو۲سرے یہ کہ اس ڈر کی وجہ تین۳ حملے بتلائے جو بغیر پورے ثبوت کے کسی عقلمند کے نزدیک قابل تسلیم نہیں ہیں بلکہ قیاس اور عقل سے بھی دور ہیں۔ اور تیسر۳ے
یہ کہ ان تین۳ حملوں اور
بے جا الزاموں کا کچھ بھی ثبوت نہیں دیا نہ عدالت کے ذریعہ سے نہ دوسرے کسی طریق سے۔ یہ تینوں حالتیں ان کو اس بات کی طرف مجبور کرتی تھیں کہ اگر ان کے
پاس
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 272
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 272
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/272/mode/1up
ان بے جا الزاموں کا کوئیؔ بھی ثبوت نہیں تو وہ قسم ہی کھا لیتے۔
پس ان کے دروغ گو اور ناحق ہونے پر چو۴تھا قرینہ
یہی ہے کہ وہ قسم سے بھی گریز کرگئے۔ اور چار ہزار روپیہ ان کے لئے نقد پیش کیا گیا۔ مگر مارے خوف کے انہوں نے دم نہ مارا۔
ہمارا قسم لینے سے کیا مدعا تھا یہی تو تھا کہ جس ڈر کے وہ
اقراری ہوکر پھر خلاف واقعہ اور خلاف قیاس یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ وہ ڈر تین۳ متواتر حملوں کی وجہ سے تھا یہ غیرمعقول عذر انہوں نے ثابت نہیں کیا۔ اور نہ یہ ثابت کر سکے کہ یہ عاجز
کوئی مشہور ڈاکو اور خونی ہے جو ان سے پہلے بھی کئی خون کر چکا ہے۔ لہٰذا انصافاًان پر لازم تھا کہ ایسی بے جا تہمتوں کے بعد جو قانوناً بھی ایک سخت جرم کی صورت رکھتی ہیں۔ قسم کھانے
سے ہرگز دریغ نہ کرتے۔ اگر واقعی طور پر ان کے مذہب میں قسم کھانے کی ممانعت ہوتی تو ہم سمجھتے کہ مذہب نے ان کو قسم سے جو بریت کا مدار تھا محروم رکھا۔ لیکن ہم نے تو اپنے اشتہار
چہارم میں ان کی بائیبل ان کے سامنے کھول کر رکھ دی اور ثابت کر دیا کہ ان کے عام بزرگ قسم کھاتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا پولوس رسول بھی جس کے اجتہاد اور طریق سے منہ پھیرنا ایک
عیسائی کے لئے کفر اور بے ایمانی میں داخل ہے۔ وہ بھی قسم کھانے سے نہیں بچ سکا (دیکھو قرنتیان ۱۵ باب ۳۱ آیت)
ان قسموں کی تفصیل کے لئے ہمارا اشتہار چہا۴رم مورخہ ۲۷؍اکتوبر
۱۸۹۴ ؁ء پڑھنا چاہئے۔ تامعلوم ہو کہ جواز قسم میں ہم نے کس قدر ثبوت دیا ہے۔ اور نہ صرف انجیل بلکہ تمام بائبل کے حوالے دیئے ہیں مگر آتھم صاحب نے اپنی انجیل کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی۔
وجہ یہ کہ وہی آسمانی رعب ان کے دل
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 273
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 273
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/273/mode/1up
پر غالب ہوا جس نے تین ۳حملوں کا نظارہ دکھلایا تھا تب پادریوں کو فکر پڑی کہ آتھم نے ہمارے منہ پر سیاہی کا دھبہ لگایا اس
لئے ڈاکٹر کلارک نے سراسر بے ایمانی کا طریق اختیار کر کے ایک گندہ اشتہار نکالا جس کا حاصل مطلب یہ تھا کہ مذہب عیسائی میں قسم کھانا ایسا ہی حرام ہے جیسا کہ مسلمانوں میں خنزیر کا
گوشت کھانا۔ مگر اس حیا کے دشمن کو ذرہ بھی انجیل اور پطرس اور پولوس کی عزت کا خیال نہ آیا اور نہؔ یہ سوچا کہ اگر یہی مثال سچ ہے تو پھر پولس رسول کو ایماندار کہنا بے جا ہے جس نے
سب سے پہلے اس ناپاک چیز کا استعمال کیا۔
جس حالت میں ایک مسلمان خنزیرکو حلال سمجھنے والا تمام فرقوں کے اتفاق سے کافر ہو جاتا ہے اور اس کو کھانے والا پرلے درجے کا فاسق بدکار
کہلاتا ہے۔ تو پھر ہمیں ڈاکٹر کلارک صاحب اس بات کا ضرور جواب دیں کہ وہ اپنے حضرت پولس کی نسبت ان دونوں خطابوں میں سے کس خطاب کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔
سچی بات کو چھپانا بے
ایمانوں اور لعنتیوں کا کام ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کہ پولس نے قسم کھائی پطرس نے قسم کھائی۔ اور زبور میں لکھا ہے کہ جو جھوٹا ہے وہی قسم نہیں کھاتا (دیکھو زبور ۶۳ آیت ۱۱)
کیا! ہم
تسلیم کریں کہ فقط آتھم صاحب ہی قسم کھانے سے بچے۔ اور دوسرے تمام بزرگ عیسائی قسم کا خنزیرکھاتے رہے اور اب بھی بجز اس قسم کے خنزیر کھانے کے کوئی اعلیٰ درجہ کی ملازمت جو
متعہد عہدہ داروں کو ملتی ہے کسی عیسائی کو نہیں مل سکتی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 274
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 274
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/274/mode/1up
اور طرفہ تر یہ کہ آتھم صاحب کا دو مرتبہ عدالت میں قسم کھانا ثابت ہوچکا ہے اگر وہ انکار کریں تو ہم نقل لے کر
دکھلاویں۔
سچ تو یہ ہے کہ ان عیسائیوں میں سے شاید شاذ و نادر کوئی ایسا ہو جس کو قسم کھانے کا اتفاق نہ ہوا ہو۔ بلکہ انگریزی قانون نے قسم کھانا عیسائیوں کے لئے خاص حق رکھا ہے اور
دوسروں کے لئے اقرار صالح۔
اب ہم منصفین سے پوچھتے ہیں کہ جن لوگوں نے قسم سے گریز کرنے کے لئے عمداً اپنے سوانح کو چھپایا اور وہ جانتے تھے کہ پہلے اس سے ہم کئی دفعہ قسمیں
کھا چکے ہیں مگر ارادتاً ان قسموں کو پوشیدہ رکھا اور ایک نہایت مکروہ جھوٹ بولا اور کہاکہ قسم ہمارے مذہب میں ایسا ہی بدکاری کا کام ہے کہ جیسے مسلمانوں میں خنزیر۔ اور اپنے بزرگوں کو اپنی
زبان سے فاسق فاجر قرار دیا۔ کیا ان کے اس طریق سے اب تک ثابت نہ ہوا کہ اگر وہ اپنے تئیں حق پر جانتےؔ تو اس ذلت اور رسوائی کو ہرگز ہرگز اختیار نہ کرتے۔
پس یہ پانچو۵اں قرینہ ہے
کہ ان لوگوں نے ایک سچائی کے چھپانے کے لئے اپنے پولس رسول کو ایک ایسے آدمی سے تشبیہ دی کہ جو مسلمان کہلا کر پھر سؤر کھاوے اسی بات سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ در پردہ آتھم
اور اس کے دوستوں کو کس بات کا رعب کھا گیا کہ انہوں نے بے ہودہ حیلہ بازیوں اور رسوائی والے طریق کو اختیار کیا مگر آتھم قسم کھانے سے ایسا ڈرا کہ گویا وہ کھا جانے والا بھیڑیا ہے۔
دانشمندوں کو چاہئے کہ بار بار ان باتوں کو ذہن میں لاویں کہ کیونکر اول آتھم صاحب نے رو رو کر یہ اقرار کیا کہ میں ضرور پیشگوئی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 275
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 275
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/275/mode/1up
کی میعاد میں ڈرتا رہا۔اور پھر سوچیں کہ جس پیشگوئی کو بے ہودہ سمجھا گیا تھا اس سے اس قدر ڈرنا کیا معنی رکھتا تھا۔
بہتیری بے ہودہ باتیں انسان سنتا ہے مگر ان کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا۔ پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ امرتسر میں کسی تعلیم یافتہ سانپ نے اس پر حملہ کیا تھا تو اس قدر بے حواسی اور سراسیمگی
دکھلانا اور شہر بشہر پھرنا کیا ضروری تھا۔ کوئی قانونی تدبیر کی ہوتی جس سے امن کے ساتھ امرتسر میں بیٹھے رہتے کیا امرتسر کی پولیس ناکافی تھی۔ یا تمام قانونی علاج مسدود تھے۔ جو اس قدر
خرچ اخراج کر کے شدت دھوپ کے دنوں میں پیرانہ سالی میں اپنی آرام گاہ کو چھوڑا اور لطف یہ کہ وہ چھوڑنا بھی بے سود رہا۔ امرتسر میں سانپ نظر آیا۔ لدھیانہ میں نیزوں والے دکھائی دیئے۔
فیروز پور میں تلوار کے ساتھ حملہ ہوا یہ بیانات بہت ہی غور کے لائق ہیں۔
ناظرین! ان تین۳ حملوں کو سرسری نظر سے نہ دیکھیں اور خوب سوچیں۔ کیا
فی الحقیقت سچ ہے کہ پہلا نظر آنے
والا فی الحقیقت ایک تعلیم یافتہ سانپ تھا جس پر کسی کا سوٹا چل نہ سکا۔ اور وہ پچھلی مرتبوں میں جو نظر آئے وہ جنگ آزمودہ ہماری جماعت کے سپاہی تھے جن کو کسی موقع پر آتھم صاحب پکڑ نہ
سکے۔ اور نہ ان کے دامادوں کا ان پر ہاتھ دراز ہو سکا نہ پولس کے نالائق کانسٹیبل ان کے مقابلہ کی جرأت کر سکے۔ پھر عجیب پر عجیب یہ کہ یہ لوگ ناجائز ہتھیاروں کے ساتھ کئی مرتبہ ریل پر
سوار ہوئے۔ بازاروں میں ہوکر نکلے آتھم صاحب کے احاطہ میں اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔ مگر بجز آتھم صاحب کے کوئی بھی ان کو دیکھ نہ سکا۔ کیا ان تمام قرینوں سے ثابت نہیںؔ ہوتا کہ درحقیقت یہ
تمام روحانی نظارہ تھا جس نے آتھم صاحب کے دل کو
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 276
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 276
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/276/mode/1up
حق کی طرف رجوع دلایا اور ان کا دل خوف سے بھر گیا۔ اور منہ پر مہر لگ گئی۔ ان کا فرض تھا کہ پہلے حملہ میں ہی تھا نہ
میں رپورٹ کرتے گورنمنٹ کو اطلاع دیتے اور حلیہ لکھواتے اور صورت شکل اور وردی اور تمام قرائن سے حکام کو مطلع کرتے۔ تا گورنمنٹ اشتہار دے کر ایسے بدمعاشوں کو ماخوذ کرتی اور
ایسے پلید مجرموں کو واجبی سزا کا مزہ چکھاتی۔ اور کم سے کم یہ تو چاہئے تھا کہ وکیلوں کے مشورہ سے ایک عرضی دے کر مجرموں کو سزا دلاتے۔ یا احتیاطی طور پر اس عاجز سے اس مضمون
کا مچلکہ لکھواتے کہ اگر آتھم پیشگوئی کی میعاد میں مارا گیا تو یہ جرم قتل عمد تمہارے ذمہ لگایا جائے گا۔ کیونکہ جو شخص پہلے ان کی موت کی جھوٹی پیشگوئی کر چکا اور پھر اس کی جماعت
کی طرف سے قتل کرنے کے لئے تین حملے بھی ہوئے کیا ایسے شخص کا مچلکہ لینے سے گورنمنٹ کو کچھ تامل ہوسکتا ہے۔
کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ آتھم صاحب پندرہ ماہ تک ایک جلتے ہوئے
تنور میں پڑے رہے اور بار بار خوفناک حملوں سے کچلے گئے۔ مگر انہوں نے کسی مقام پر باضابطہ تحقیقات نہ کرائی۔ امرتسر سے سانپ کے حملہ پر چپکے ہی نکل آئے۔ پھر لدھیانہ پہنچے اور
ساتھ ہی حملے والے بھی پہنچ گئے اور مارنے میں کچھ بھی کسر نہ رکھی۔ تب بھی آتھم صاحب نے گورنمنٹ میں جاکر سیاپا نہ کیا کہ یہ دشمن میرے قتل کے درپے ہیں۔ میری کوٹھی پر مسلح ہوکر
آئے سرکار ان کا مچلکہ لے اور مجھ کو ان کے شر سے بچالے۔ بلکہ ان کو چاہیے تھا کہ تعلیم یافتہ سانپ کے حملہ پر ہی دہائی دیتے کہ لوگو دیکھو پیشگوئی کی حقیقت معلوم ہوئی۔
اب اے ہمارے
ناظرین! اے اخباروں کے ایڈیٹرو!
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 277
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 277
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/277/mode/1up
اے رسالوں کے شائع کرنے والو! آپ لوگوں نے آتھم صاحب کی ہمدردی تو بہت کی بلکہ بعض نے لکھا کہ آتھم صاحب خلق
اللہ پر بہت ہی احسان کریں گے اگر ایسے کذاب پر نالش کر کے اس کو سزا دلائیں گے مگر اب آنکھیں کھول کر دیکھو کہ قرائن قویہ کس کو کذاب ثابت کرتے ہیں۔
ہم تم سے اسلام کی ہمدردی نہیں
چاہتے ہم تم کو یہ الزام نہیں دیتے کہ مسلمانوں کی اولاد کہلا کر پھر پادریوں کی ناحق کی حمایت کیوں کی۔ کیونکہ یہ بات کہنے والا اور پوچھنے والا ایک ہی ہے۔ جو مطالبہ کے دن میں ظالم کو بے
سزا نہیں چھوڑے گا۔
ہمؔ تمہاری گالیوں اور لعنتوں سے بھی ناراض نہیں۔ کیونکہ بہ نسبت پہلے راست بازوں کے یہ بہت ہی تھوڑا دکھ ہے جو ہم کو تم سے پہنچا ہے لیکن اگر ہمیں افسوس ہے تو
صرف یہی کہ تم نے دین کی سچی حمایت کو بھی چھوڑا اور پادریوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملائی۔ مگر آخری نتیجہ تمہارے لئے اس ندامت کا حصہ ہوا جس کو دوسرے لفظوں میں خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃ
کہتے ہیں۔ اس بات کا ہم کو بھی افسوس ہے کہ باوجودیکہ دین کو تم نے اس طرح پھینک دیا کہ جس طرح ایک ناکارہ تنکا پھینکا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی تم کسی ایسی تعریف کے لائق نہ ٹھہرے جو کسی
عقلمند عمیق الرائے کے بارہ میں ہوسکتی ہے بلکہ وہ خفت اور خجالت اٹھائی جو ہمیشہ جلد باز اور شتاب کار اٹھایا کرتے ہیں درحقیقت جو شخص نفسانی جوش میں آکر یا جلد بازی کی وجہ سے اللہ
اور رسول کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتا اس کو ایسے دن دیکھنے پڑتے ہیں۔
کیا کبھی تم نے سنا کہ کسی ایسے مباحثہ میں کہ جس کی حمایت
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 278
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 278
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/278/mode/1up
میں عیسائی مذہب کو کوئی زد پہنچتی ہو یا کسی فرد کی نظر میں اس مذہب کی بیخ کنی ہوتی ہو کوئی پادری تمہارے ساتھ ہوگیا
ہو بلکہ وہ تو باوجود صدہا اندرونی اختلافات کے اپنی ہوا نکلنے نہیں دیتے۔ پھر تم پر افسوس کہ تم نے چند خود غرض مولویوں کے پیچھے لگ کر ایک دینی معاملہ میں پادریوں کی وہ حمایت کی اور اہل
حق کو وہ گالیاں دیں جس کی نظیر کسی قوم میں نہیں پائی جاتی۔ سو اب بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ توبہ کرو اور پاک دل اور بے لوث نظر کے ساتھ اس پیشگوئی کو دیکھو اور تمام امور کو یک جائی
نظر سے تصور میں لاکر وہ سچی رائے ظاہر کرو جو تمہاری پہلی جلد بازیوں کا کفارہ ہو جائے یقیناً سمجھو کہ دین اسلام ہی حق ہے اور ہر ایک انسان کو اپنے ان تمام خیالات کا حساب دینا پڑے گا
جن کو وہ ردی اور ناپاک پاکر پھر بھی اپنے سینہ سے باہر نہیں پھینکتا۔ اور بخل اور تعصب سے اپنی طبیعت کو الگ نہیں کرتا۔
سو اٹھو اور جاگو اور پھر دوبارہ ایک حق طلب اور سوچنے والا دل
لے کر آتھم والی پیشگوئی پر نظر ڈالو۔ پیشگوئی میں کوئی بھی تاریکی نہیں تھی تمہاری اپنی ہی تاریکی اور موٹی عقل اور جلد بازی نے ایک تاریکی پیدا کر لی۔ اور وہ صریح شرط تمہاری آنکھوں سے
نظر انداز کی گئی جو حکیم ازلی نے تمہاری آزمائش کے لئے پہلے ہی الہامی عبارت میں داخل کی تھی یہ فعل بھی اسی حکیم مطلق کا ہے تاوہ تمہیں جانچے اور آزماوے اور تم پر ظاہر کرے کہ کس
قدر تم تدبر اور تقویٰ اور اخوت اسلامی سے دورؔ جا پڑے۔ بھائیو جلد توبہ کرو تا ہلاک نہ ہو جاؤ۔ کیونکہ کوئی عمل بد نہیں جس پر مواخذہ نہ ہوگا اور کوئی بددیانتی نہیں جس کی وجہ سے انسان پکڑا
نہ جائے جس نے کسی بخل کی وجہ سے اپنا دین خراب کر لیا۔ اور کسی تعصب کی وجہ سے حق کو چھوڑدیا وہ کیڑا ہے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 279
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 279
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/279/mode/1up
نہ انسان اور درندہ ہے نہ آدمی۔ لیکن نیک آدمی ایک پاک خیال کے ساتھ سوچتا ہے۔ اور اس کا حکمت اور حق کے ساتھ کلام ہوتا
ہے نہ ٹھٹھے اور ہنسی کے رنگ میں اور وہ صداقت اور انصاف کے پاک جذب سے بولتا ہے نہ غضب اور غصہ کی کشش سے اس لئے خدا اس کی مدد کرتا ہے اور روح القدس اس کے دل پر روشنی
ڈالتا ہے لیکن ناپاک دل اور گندی طبیعت والا سچائی کے استخراج کے لئے کچھ بھی کوشش نہیں کرتا اور ایک دھوکا جو پہلے دن سے ہی اس کو لگ جاتا ہے اس کی پیروی کرتا چلا جاتا ہے اور پھر
تعصب اور کج بحثی کی وجہ سے خدا تعالیٰ اس کے دل کا نور چھین لیتا ہے اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
مگر نیک سرشت آدمی اپنی رائے کے بدلنے سے ہرگز نہیں ڈرتا۔
جب دیکھتا ہے کہ ایک صداقت کی تکذیب میں مجھ سے غلطی ہوئی تو اس کا بدن کانپ جاتا ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ اور سچائی کے خون سے اس مجرم سے زیادہ ڈرتا ہے جس نے ایک بے
گناہ اور معصوم بچہ کو ناحق قتل کر دیا ہو۔ سو خدا جو کریم و رحیم ہے اسے قبول کر لیتا ہے اور اس کی عظمت دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ مجلس میں ایک شخص
بہادر دل کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور بلند آواز سے بولا کہ صاحبو میں فلاں امر میں غلطی پر تھا۔ اور جو کچھ میں نے ایک مدت تک بحثیں کیں یا جو کچھ میں نے مخالفت ظاہر کی وہ سب نادرست امر تھا۔
اب میں اس سے محض للہ رجوع کرتا ہوں۔ ایسے شخص کی ایک ہیبت دلوں میں طاری ہو جاتی ہے۔ اور ولایت کا نور اس کے چہرہ پر دکھائی دیتا ہے اور دل بول اٹھتا ہے کہ یہ شخص متقی اور قابل
تعظیم ہے۔
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 280
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 280
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/280/mode/1up
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ان سے پیار کرتا ہوں کہ جو گناہ اور خطا کا طریق چھوڑ کر حق کی طرف قدم اٹھاتے ہیں۔ پس جس
سے خدا پیار کرے ضرور اس سے تمام نیک بندے پیار کریں گے۔ کیونکہ نیک روحوں کا پیار خدا کے پیار کے تابع ہے۔ سو مبارک وہ جو خدا تعالیٰ کی مرضی کی راہیں ڈھوؔ نڈے۔ اور زید و بکر کی بک بک
کی کچھ پرواہ نہ رکھے۔
اب میرے دوستو ذرہ نظر اٹھا کر دیکھو اور اپنی کانشنس اور نرم قلب سے فتویٰ لو اور ذرا نظر اور فکر کو ہشیاری اور بردباری کے ساتھ دوڑا کر دیکھو کیا آتھم کا طریق
اور روش اس کی سچائی پر دلالت کر رہا ہے۔ کیا تمہارے دل ان باتوں کو قبول کرتے ہیں کہ ضرور آتھم پر بمقام امرتسر کسی تعلیم یافتہ سانپ نے حملہ کیا تھا۔ اور ضرور ہماری جماعت کے بعض
لوگ تلواروں اور نیزوں کے ساتھ لدھیانہ اور فیروز پور میں اس کی کوٹھی میں قتل کرنے کے لئے جا گھسے تھے۔
کیا آپ لوگوں کی روحیں اس بات کو مانتی ہیں کہ باوجود اس مذہبی مقدمہ کے جس
کی بنیاد پر یہ مباحثہ شروع ہوا تھا۔ یعنی ایک شخص اسماعیل نام کا عیسائی ہونے سے رک جانا اور اس اشتعال سے عیسائیوں کا مباحثہ کرنا اور پھر پیشگوئی کی صداقت مٹانے کے لئے یہ جھوٹی
تاویلیں کرنا کہ ڈاکٹر کی قطعی رائے ہے کہ چھ۶ مہینے کے اندر آتھم مر جائے گا۔ ایسے لوگ جنہوں نے مذہبی ہار جیت کے خیال سے پہلے ہی جھوٹی تاویلیں شروع کردیں اور فتح کے حریص رہے
وہ واقعی طور پر تین حملے ہماری جماعت کی طرف سے دیکھیں اور حملے بھی وہ جو ایسے شخص کے قتل کرنے کے ارادہ سے ہوں جو عیسائی پارٹی کا سر ہو۔ اور پھر یہ حضرات
عیسائیاں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 281
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 281
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/281/mode/1up
خاموش رہیں۔ نہ گورنمنٹ میں ان حملوں کی شکایت لے جائیں۔ اور نہ تھانہ میں رپورٹ دیں۔ اور نہ حاکم ضلع کے پاس نالش
کریں اور نہ ہمارا مچلکہ عدالت میں داخل کرائیں۔ اور نہ میعاد کے اندر اخباروں میں اس موقعہ کا اشتہار دیں اور نہ باوجود ہمارے چار ہزار روپیہ نقد پیش کرنے کے قسم کھاویں اور نہ چار ہزار
روپیہ لے کر ہمیں سزا دیں۔ صاحبو آپ للہ سوچو کہ آخر مر جانا اور اس نابکار دنیا کو چھوڑ جانا ہے اور ذرہ غور کرو کہ جس شخص پر یہ ظلم ہو کہ موت کی خبر سنا کر ناحق اس کا دل ستایا جائے
اور پھر اسی دل آزاری پر کفایت نہ ہو بلکہ برابر اس پر تین حملے بھی ہوں۔ اور معاملہ مذہبی ہو جس میں بالطبع تعصب بڑھ جاتے ہیں کیا ایسی صورت میں آپ قبول کر لیں گے کہ یہ سب کچھ واقعہ
ہوا مگر آتھم اور اس کے دوستوں نے نہ چاہا کہ بدی کے مقابل پر بدی کریں۔ پھر صاحبو یہ بھی سوچو کہ دنیا میں کوئی دعویٰ بغیر ثبوت کے قابل پذیرائی نہیں ہوتا۔ پس ایسا دعویٰ جو خلاف قیاس اور
غیر معقول ہو اور جس کے افترا کرنے کے لئے عیسائیوںؔ کو ضرورتیں پیش آئی تھیں وہ کیوں بغیر ثبوت پیش کرنے کے قبول کیا جاتا ہے۔
آتھم صاحب نالش نہیں کرتے کہ یہ نیک بختی کا
تقاضا نہیں قسم نہیں کھاتے کہ مذہب میں ہمارے قسم ایسی ہے جیسے مسلمانوں میں خنزیر کھانا۔ کوئی اور ثبوت نہیں دیتے کہ ہم اب لڑنا اور جھگڑنا نہیں چاہتے پس کیا اب یہ تمام بے ثبوت باتیں آتھم
صاحب کی قبول کر لو گے اور کیا آپ کی یہ رائے ہے کہ ہماری سب باتیں جھوٹی اور آتھم صاحب کی یہ ساری کہانیاں سچی ہیں۔ اگر یہی بات ہے تو ہم آپ لوگوں سے اعراض کرتے ہیں جب تک کہ
وہ دن آوے کہ رب العرش کے سامنے ہم سب لوگ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 282
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 282
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/282/mode/1up
کھڑے ہوں گے۔
صاحبو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ جھگڑا دنیوی جھگڑوں کی طرح چیف کورٹ یا ہائی کورٹ کے
اجلاس میں پیش ہوتا تو آخر بغور دیکھے جانے کے بعد ہمارے ہی حق میں فیصلہ ہوتا۔
عزیزو! آپ لوگوں پر لازم تھا کہ اس نور ایمان سے کام لے کر جو حضرت سیدنا مولانا محمد مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک سچے ایماندار کو خداتعالیٰ کی طرف سے عطا کیا ہے۔ آتھم کے اس منصوبہ پر جو گویا اس پر تین حملے ہوئے نظر غور کرتے اور اس کو ملزم کرتے کہ جب تک وہ تعلیم یافتہ
سانپ اور مسلح قاتلوں کا پتہ نہ لگاوے یا عدالت میں نالش نہ کرے یا قسم نہ کھاوے تب تک وہ قانون انصاف کی رو سے دروغ گو اور حق پوش ہے۔
اور ہماری جماعت کے لئے توتین حملوں کا الزام
موجب زیادت ایمان اور یقین اور آتھم کے جھوٹے ہونے کا بدیہی ثبوت ہے۔ کیونکہ ہر ایک شخص ہماری جماعت میں سے یقین دل سے جانتا ہے کہ ایسے حملوں کی مجھے تعلیم نہیں ہوئی۔ اور نہ ایسا
پلید مشورہ کبھی اس جماعت میں ہوا۔ ہم اپنی تمام جماعت کو فرد فرد کر کے اس وقت مخاطب کرتے ہیں کہ کیا ان کو ایسی صلاح دی گئی کہ تم کوئی زہریلا اور کالا سانپ لے کر اور اس کو خوب تعلیم
دے کر آتھم کو ڈسنے کے لئے اس کی کوٹھی میں چھوڑ دو۔ اگر وہاں موقعہ نہ پاؤ تو پھر لودھیانہ میں جاکر اور اگر وہاں بھی موقعہ نہ ملے تو پھر فیروز پور میں جاکر کام تمام کردو۔
ہم پھر کہتے
ہیں کہ اگر کسی نے کبھی ایسا مشورہ دیا ہے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 283
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 283
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/283/mode/1up
تو سخت بے ایمانی ہوگی کہ وہ اس کو ظاہر نہ کرے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ مرشد پر مریدوں کا اسی وقت سچا اعتقاد رہ سکتا ہے
کہؔ جب تک اس کو راست باز اور صادق اور حق گو یقین کریں اور دروغگو اور متفنی اور منصوبہ باز ہونا اس کا ثابت نہ ہو اور جبکہ یہ بات ہے تو ہمارے مریدوں میں سے ہر ایک شخص اپنے دل میں
سوچے کہ کیا کوئی ان سے ہمارے کہنے سے یا خود بخود آتھم پر حملہ کرنے کے لئے امرتسر اور لودھیانہ اور فیروز پور گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ سب کا یہی جواب ہوگا کہ میں نہیں گیا اور نہ ایسی
گندی تعلیم مجھ کو ہوئی۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگر اس چھوٹی سے جماعت میں کوئی ایسا پلید مشورہ ہوتا تو جماعت کے کل یا اکثر افراد کو ضرور اس کی خبر ہوتی خاص کر جب کہ اس
جماعت کے بہت سے فاضل احباب اس جگہ جمع رہتے ہیں۔ اور بعض وقت سو کے قریب یا زیادہ ہوتے ہیں وہ تو ضرور اس پردہ کی بات کو پا جاتے اور توبہ پر توبہ کرتے کہ ہم نے اس مکار آدمی
کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے ایمان کو ضائع کیا۔ پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بتلائی اور اب کہتا ہے کہ کوئی تم میں سے آتھم کو قتل کر دے تا کسی طرح پیشگوئی پوری ہو۔ اس وقت ہم اپنے فاضل
دوست مولوی حکیم نور دین صاحب کو جنہوں نے اپنے وطن سے ہجرت کر کے کئی برس سے مع اہل و عیال دائمی رہائش میرے پاس اور میرے مکان کے ایک حصہ میں اختیارکی ہے۔ اور احباب کے
ہر ایک نیک اور پاک مشورہ میں صدر نشین ہیں اور صرف نیک ظن کی وجہ سے اپنی جان مال سے حاضر ہیں مخاطب کر کے پوچھتے ہیں کہ کیا کبھی ایسے پلید مشورہ کا آپ سے ذکر آیا ۔
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 284
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 284
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/284/mode/1up
ایسا ہی ہم اپنے تمام دوستوں کو مخاطب کر کے پوچھتے ہیں کہ کیا کسی ایسے نالائق مشورہ میں آپ لوگ بھی شریک ہوئے یا
کوئی صاحب آپ لوگوں میں سے آتھم صاحب کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ یقیناً آپ لوگوں کے دل بول اٹھیں گے کہ ہماری طرف ان باتوں کا منسوب کرنا سراسر افترا ہے اور یقیناً اس بے اصل
منصوبہ کے تصور سے آپ لوگوں کا ایمان زیادہ ہوگا لیکن غیروں کو بباعث اجنبیت یہ حق الیقین نصیب نہیں۔
مگر افسوس تو یہ ہے کہ وہ ان قرائن قویہ سے بھی کنارہ کشی کرتے ہیں جو صریح
آتھم کو ملزم ٹھہراتے ہیں وہ نہیں سوچتے کہ جس حالت میں آتھم نے اپنے خوف کی تین حملوں پر بنا رکھی اور اس بات سے انکار کیا کہ وہ خوف اور گریہ و زاری اسلام کے رعب سے تھا تو ان تین
حملوں کا کچھ ثبوت بھی تو پیش کرنا چاہئے تھا کیونکہ خوف کو پیشگوئی کی طرف منسوب کرنے کے وقت تو قرائنؔ موجود ہیں۔ وجہ یہ کہ پیشگوئی نہایت زور سے کی گئی تھی۔ اور نہ صرف آتھم
بلکہ اسی وقت اس مجلس کے تمام عیسائیوں پر اس کا اثر ہوگیا تھا۔ اور پیش بندی کے طور پر اسی دم کہنا شروع کر دیا تھا کہ آتھم کے مرنے کی تو ایک ڈاکٹر نے بھی خبر دے رکھی ہے کہ چھ۶ ماہ
تک مر جائے گا ظاہر ہے یہ تمام باتیں پیشگوئی کا رعب قبول کرنے سے منہ سے نکلی تھیں۔ اور آتھم صاحب کے دل پر ایک بھاری مؤثر کام کر رہا تھا اور یہ تمام قرائن چاہتے تھے کہ آتھم صاحب سے
وہ حرکتیں صادر ہوں جو شدت
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 285
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 285
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/285/mode/1up
خوف کے وقت صادر ہوا کرتی ہیں۔ اور وہ نظارے ان کو نظر آویں جو شدت خوف کے وقت نظر آیا کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے
انسانی حملوں کا کیا ثبوت دیا جو اب ان کی خوف کی بنیاد قرار دیئے گئے ہیں۔
پھر جس حالت میں کچھ بھی ثبوت نہیں دیا تو کیا یہ بے جا مطالبہ تھا کہ وہ اپنی بریت ظاہر کرنے کے لئے قسم کھا
لیتے سو اب وہ دنیا پرست مولوی جو عیسائیوں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ہمیں جواب دیں کہ انہوں نے کیوں ہماری عداوت کے لئے اپنا منہ کالا کیا۔ کیا یہی منہ کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو دکھائیں گے جن کے دین کی تکذیب کے لئے ناحق بے موجب وہ شریک ہوئے۔ کیا وہ قسم کھا سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک آتھم ہی سچا ہے۔ ایسے معرکہ کے مطالبہ میں آتھم کا قسم نہ کھانا ایک
قسم کی موت تھی جو اس پر وارد ہوگئی۔ اور وہ بیّنہ کے ساتھ بے شک ہلاک ہوگیا اور جو بار ثبوت اس کے ذمہ تھا وہ اس سے سبکدوش نہ ہو سکا اور جسمانی موت بھی شوخی کے بعد ٹل نہیں سکتی
3۱؂۔
افسوس کہ ہمارے بعض مولویوں اور ان کے نالائق چیلوں نے جو نام کے مسلمان تھے اس جگہ اپنی فطرتی بد ذاتی سے بار بار حق کی تکذیب کی اور اسلام کی مخالفت میں یہ سیاہ دل اور
شریر مولوی عیسائیوں سے کچھ کم نہ رہے۔ اور بہت ہی زور لگایا کہ کسی طرح اسلام کو سُبکی پہنچے اور جاہل مسلمان جو چارپایوں کی طرح تھے ان کے دلوں میں جما دیا کہ اس شخص یعنی اس
عاجز نے اسلام کو بدنام کیا اور شکست دلوائی۔
ناظرین! اب یہ تمام مقدمات اور واقعات آپ لوگوں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 286
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 286
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/286/mode/1up
کی نظر کے سامنے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ صرف مذہبی حمایت اور بے جا تعصب سے ہمیں سچا ٹھہرا دو۔ اور عیسائیوں اور
ان کے ہم مادہ نیم عیسائی مولویوں کو جھوٹا قرار دو بلکہ مقدمات موجودہ پر ایک گہری اور عمیق نظر ڈالو پھر ان سے وہ ؔ نتیجہ نکالو جو عقل اور انصاف کے پورے استعمال کے بعد نکلنا چاہئے۔ ہم
اس بات کو قبول کرتے اور مانتے ہیں کہ اگر آتھم صاحب اس پیشگوئی کے بعد اپنی جگہ پر استقامت کے ساتھ بیٹھے رہتے اور اپنی جا بجا کی مجنونانہ گردش سے اپنی سراسیمگی اور خوف زدہ حالت
کو ظاہر نہ کرتے اور یہ باتیں میعاد کے بعد منہ پر نہ لاتے کہ اس جماعت کے بعض لوگ تین دفعہ تین مختلف شہروں میں نیزوں اور تلواروں اور سانپوں کے ساتھ میرے احاطہ کوٹھی میں گھس آئے
اور اپنے منہ سے رو رو کر یہ اقرار نہ کرتے کہ حقیقت میں میعاد کے اندر میں ڈرتا رہا۔ اور پھر قسم پر بلانے کے لئے بلا توقف حاضر ہو جاتے تو بے شک ہم ہر ایک مخالف اور موافق کی نظر میں
جھوٹے ٹھہرتے۔ اور ہمارا آخری الہام کہ شرط رجوع کی پوری ہونے کی و جہ سے عذاب الٰہی ٹل گیا ایک بہانہ سا یا باطل تاویل سب کو دکھائی دیتا۔
پیارے ناظرین! آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس
پیشگوئی میں بتصریح یہ شرط موجود تھی کہ اس حالت میں عذاب نازل ہوگا کہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اور میں اس مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ لفظ رجوع کھلے کھلے اسلام لانے کا ہم وزن اور
ہم پایہ نہیں بلکہ ادنیٰ استعداد کا آدمی بھی جانتا ہے کہ کبھی یہ لفظ کھلے کھلے اسلام پر بولا جاسکتا ہے۔ اور کبھی جب انسان پوشیدہ طور پر کسی قدر اپنی اصلاح کرے تب بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ
میں نے رجوع بحق کیا۔ اور پیشگوئیوں میں یہی قاعدہ قدیم سے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 287
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 287
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/287/mode/1up
ہے کہ اگر کوئی لفظ دو معنوں کا متحمل ہو تو پیشگوئی کے انجام کے بعد جو معنے واقعات موجودہ سے ظاہر ہوں وہی لئے
جائیں گے۔
سو واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ آتھم صاحب نے پوشیدہ طور پر اسلام کا خوف اپنے دل پر غالب کیا۔ اور اپنے عیسائی تعصب کی اندر ہی اندر اصلاح کی۔ اور اندر ہی اندر رجوع بحق کیا۔
اس لئے وہ شرط پوری ہوگئی جو عذاب کے عدم نزول کے لئے بطور روک کے تھی۔ کیا ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی شرطوں کا لحاظ رکھتا۔
چونکہ ہمارے اس الہام میں صریح اور صاف شرط
تھی کہ حق کی طرف رجوع کرنے سے عذاب ٹل جائے گا۔ اور آتھم کی حرکات مذکورہ بالا نے رجوع کے مفہوم کو پورا کر دیا اس لئے پیشگوئی حقاً و صدقاً پوری ہوگئی۔
آتھمؔ کا یہ بیان تھا کہ
میں ڈرتا تو ضرور رہا مگر پیشگوئی کی سچائی سے نہیں بلکہ مجھے بار بار خونی فرشتے نیزوں اور تلواروں کے ساتھ نظر آتے رہے۔ پس یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ ڈر کا صاف اقرار آتھم کے منہ
سے نکل گیا۔ لیکن آتھم نے اس بات کا کچھ بھی ثبوت نہیں دیا۔ کہ ہماری جماعت نے فی الحقیقت نیزوں اور تلواروں اور سانپوں کے ساتھ تین مرتبہ اس پر حملہ کیا۔ اور خوف کرنے کا دوسرا پہلو اسی
بات پر مبنی تھا کہ آتھم معتبر شہادتوں سے اس بات کا ثبوت دیتا کہ ہماری جماعت کا فلاں فلاں آدمی نیزوں اور تلواروں کے ساتھ تین شہروں میں اس کی کوٹھی پر پہنچا تھا۔ یا گورنمنٹ کے ذریعہ سے
اس بات کو ثابت کرتا۔ اور ہم پر اس بارے میں نالش کرتا۔ مگر آتھم اس ثبوت کے دینے سے عاجز رہا۔ بلکہ ہم نے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 288
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 288
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/288/mode/1up
سنا ہے کہ بعض اس کے دوستوں نے بھی کہا کہ غلبہ خوف کی و جہ سے کچھ اپنے ہی خیالات نظر آئے ہوں گے جو سانپ یا
سواروں یا پیادوں کی شکل پر دکھائی دیئے۔ ورنہ تین مرتبہ تین مختلف مقاموں میں نظر آنا اور پکڑا نہ جانا بلکہ کچھ بھی پتہ نہ لگنا۔ اور پھر ہر دفعہ صرف آتھم کا ہی مشاہدہ ہونا۔ ایک ایسا امر ہے جس
کو عقل سلیم تجویز نہیں کرسکتی۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو ان کے بعض ہم مذہب اور گھر کے بھیدی ہی اپنی مجالس میں ذکر کرتے اور آتھم صاحب کے خوفوں کو ہنسی ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں۔ بلکہ اس سے
بڑھ کر اور بعض خبریں فیروزپور کی ایک میم کی روایت سے مشہور ہوئیں۔ اور لاہور میں پھیل گئیں۔ لیکن اس وقت ہم ناظرین کے سامنے صرف یہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ آتھم نے اپنا خوف زدہ ہونا بیان
کر کے بلکہ اپنے افعال اور حرکات سے اپنی سراسیمگی دکھلا کر پھر یہ ثابت نہ کیا۔ کہ وہ تین حملے جن کی رو سے وہ اپنا ڈرنا بیان کرتے ہیں کبھی ہماری طرف سے ان پر ہوئے بھی تھے؟ اور جب
وہ ثابت نہ کر سکے بلکہ یہ بھی ثابت نہ کر سکے کہ ایسی بدچلنی کی پلید عادات کبھی پہلے اس سے بھی ہم سے ظہور میں آئے تھے۔ تو وہ ڈرنا پیشگوئی کے اثر کی طرف منسوب ہوگا کیونکہ
پیشگوئی جس قوت اور شدت کے ساتھ کی گئی تھی عیسائی ایمان جو ایک مخلوق کو خدا بناتا ہے ہرگز اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے ہی ڈرا۔
اور ہماری جماعت میں سے کوئی نیزہ باز اور تیغ کش اس کی کوٹھی پر ہرگز نہیں پہنچا۔ پس چونکہ ڈرنا خود اس کے اقرار اور قول اور فعل سے ثابت اور ایسی شدید الرعب پیشگوئی سے کسیؔ
مشرک مخلوق پرست کا ڈرنا قرین قیاس بھی ہے تو یہ عذر کہ ہماری جماعت کے تین حملے نیزوں تلواروں سانپوں کے ساتھ اس پر ہوئے سراسر دروغ بے فروغ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 289
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 289
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/289/mode/1up
ہے جس کو آتھم ایک ذرہ بھی ثابت نہیں کرسکا۔ اور جب ہم نے آتھم کے ہی فائدہ کے لئے یہ ثبوت حلف کے ذریعہ سے اس سے
لینا چاہا تو ایک دوسرا جھوٹ بول کر جو ہمارے مذہب میں قسم کھانا ہرگز جائز نہیں! گریز اختیار کی۔ غرض نہ اس نے نالش کے ذریعہ سے جس کا اس کو اس کے بیان کے موافق حق پہنچتا تھا
خوف کی بنا یعنی تین حملوں کو ثابت کیا اور نہ چند گواہوں کے ذریعہ سے اس بنا کو بپایۂ ثبوت پہنچایا۔ اور نہ ہماری درخواست قسم سے جو سراسر اسی کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے تھی باوجود
چار ہزار روپیہ پیش کرنے کے کچھ بھی توجہ کی۔
تو اب اے ایماندارو۔ اے منصفو۔ اے خدا ترس بندو۔ اے عقل سلیم والو۔ ذرہ سوچو کہ کیا وہ اس بار ثبوت سے سبکدوش ہو سکا جس کے نیچے وہ
اب تک دبا ہوا ہے۔ کیا اس خوف کا اقرار کر کے جو ہماری شرط کا مؤید تھا وہ اس بات سے عہدہ برا ہو سکا کہ وہ خوف ان حملوں کی و جہ سے تھا جو اس پر وارد ہونے شروع ہوگئے تھے۔ پھر
عزیزو! کیا اب تک وہ شرط پوری نہ ہوئی جس میں نرم الفاظ میں رجوع بحق کی شرط تھی کھلے کھلے اسلام کا تو ذکر نہ تھا۔ اے صداقت کے دوستو کیا ان باتوں سے کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا کہ آتھم
نے اپنے قول و فعل سے خوف زدہ ہونا ظاہر کیا۔ اور جو خوف کی بنا قائم کی تھی یعنی ہماری جماعت کے تین حملے ان کو وہ ثابت نہ کر سکا۔ نہ نالش کے ذریعہ سے نہ شہادت سے نہ قسم کھانے
سے۔ بہتر تھا کہ شیخ بتالوی یا اس کے دوست ہندو زادہ لودھیانوی کو جو سیہ دلی سے عیسائیت کے قریب قریب جا پہنچے ہیں اپنے مکان پر بٹھا رکھتا۔ اور جب سانپ تعلیم یافتہ اس کے ڈسنے کو یا
نیزوں اور تلواروں والے اس کے قتل
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 290
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 290
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/290/mode/1up
کرنے کو اس پر حملہ آور ہوتے تو ان دونوں کو دکھلا دیتا تاکہ اس کمبخت فرقہ کا ایمان عیسائیوں کی حمایت میں مفت ضائع نہ
جاتا۔ اور فخر کے ساتھ ایسے منحوس مکانوں میں بیٹھ کر قسم کے ساتھ کہہ سکتے کہ درحقیقت اس شخص مکار یعنی اس عاجز نے اسلام کو سبکی اور شکست دلائی۔ اور ہم بچشم خود دیکھ آئے ہیں کہ
ایک تعلیم یافتہ سانپ جو ان کی جماعت نے چھوڑا تھا آتھم کو کاٹنے کے لئے بے شک اس کی کوٹھی میں گھس گیا تھا۔ اگرؔ ہم نہ ہوتے تو وہ ضرور اس کو نگل ہی تو جاتا۔ ہم نے نیم عیسائیت کے لحاظ
سے برادر آتھم کو بچا لیا تا کچھ تو برادری کا حق ادا ہو۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مولوی حکیم نور الدین اور مولوی سید محمد احسن امروہوی اور حکیم فضل الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ سوداگر
اور منشی غلام قادر صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور حاجی سیٹھ عبد الرحمان صاحب تاجر مدراس اور مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری اور میر مردان علی صاحب حیدر آبادی
اور ایسے ہی اور بہت سے مردان کار زار اس جماعت کے نیزے ہاتھوں میں لئے ہوئے اور تلواریں حمائل کئے ہوئے آتھم کی کوٹھی پر موجود تھے۔ اور نہ ایک دفعہ بلکہ تین۳ دفعہ ان مسلح سواروں کا
آتھم پر حملہ ہوا۔ آتھم بے چارہ ان حملوں سے ڈرتا اور بھاگتا رہا۔ اور خوف کے مارے اَتھم ہوگیا جو کسی جگہ تھم نہ سکا۔
اگر مولوی ایسا کرتے تو بے شک ان کی گواہی کے بعد آتھم کا کام کچھ بن
جاتا۔ مگر افسوس کہ اب ان بدبخت دین فروشوں کا مفت میں ایمان بھی گیا اور آتھم بھی وہی خسر الدنیا والآخرۃ رہا۔
غضب کی بات ہے کہ یہ لوگ اس طرح صداقت کا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 291
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 291
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/291/mode/1up
خون کر رہے ہیں یہ خوب جانتے ہیں کہ آتھم اس اقرار کے بعد کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا۔ بلکہ ہماری جماعت
کے حملوں سے ڈرا قانونی اور شرعی طور پر اس مواخذہ کے قابل ٹھہر گیا تھا کہ اپنے اس دعویٰ کو یا تو نالش کے ذریعہ سے ثابت کرتا یا شہادتوں سے۔ اور یا بالآخر قسم کھا کر اپنی صفائی ظاہر
کرتا۔ پھر جبکہ اس نے خوف کا اقرار کئی دفعہ رو رو کر کیا۔ مگر تین حملوں کا ثبوت کچھ بھی نہ دے سکا تو کیا اب تک ان کی نظر میں آتھم بری الذمہ اور پاک دامن رہا۔ کیا ان کے دل قبول کرتے ہیں
کہ ہماری جماعت ہتھیار باندھ کر تین دفعہ آتھم کے قتل کرنے کے لئے گئی تھی۔ کیا ان کا کانشنس اس بات کو صحیح سمجھتا ہے کہ ہم نے آتھم پر ایک تعلیم یافتہ سانپ چھوڑا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ ہرگز
ان کا دل یقین نہیں کرتا ہوگا۔ گو یہ تو امید نہیں کہ منہ کی بک بک مرتے دم تک بھی چھوڑیں مگر ان کا دل ضرور ان باتوں کو جھوٹا منصوبہ سمجھے گا۔ کیونکہ اس قدر ناپاک جھوٹ خبیث سے خبیث
انسان قبول نہیں کر سکتا۔ تو اب جب خوف کا اقرار موجود اور وجوہات پیش کردہ آتھم کے باطل ٹھہرے تو ایسے وقت میں تو ہمارے مخالف مولویوں کی ایمانداری کو بھی ذرہ ترازو میں رکھ کر کروزن
کر لو کہ ایک عیسائی کے بدیہی جھوٹ کو سچے کر کے ظاہر کرنااور پادریوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملانا اور اسلام کا دعویٰ کر کے نصرانیت کاؔ حامی ہونا کیا یہ نیک بختوں کا کام ہے۔ یا ان کا جو
آخری زمانہ کے دین فروش ہیں۔
اے شریر مولویو! اور ان کے چیلو اور غزنی کے ناپاک سکھو! تمہاری حالت پر افسوس اگر تم اس سے پہلے مر جاتے تو کیا اچھا ہوتا۔ مسلمانوں کو تم نے کافر
بنایا! عیسائیوں کو تم نے سچا ٹھہرایا اور پادریوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملائی۔ اور آخر ہر ایک بات میں جھوٹے اور روسیہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 292
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 292
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/292/mode/1up
نکلے۔ کیا ایسا کرنا عقل یا شرافت یا ایمان کا کام تھا۔
ہم اپنے پہلے اشتہاروں میں آثار نبویہ کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ
یہ فتنہ اور مکر جو عیسائیوں کا ہوا یہ مہدی موعود کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ صاف اشارہ کرتے ہیں کہ مہدی کے وقت میں مسلمانوں
کا عیسائیوں کے ساتھ کچھ مناظرہ واقعہ ہوگا اور پہلے تھوڑا ہوگا اور پھر اس کو طول ہوکر ایک فتنۂ عظیمہ ہو جائے گا۔ اس وقت آسمان سے یہ آواز آئے گی۔ کہ ’’حق آل مہدی میں ہے۔‘‘ اور
شیطان سے یہ آواز کہ ’’حق آل عیسیٰ کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی عیسائی سچے ہیں۔ یہ حدیث صاف بتلا رہی ہے کہ اس فتنہ کے وقت جس قدر لوگ عیسائیوں کا ساتھ دیں گے وہ شیطان کی ذریات ہیں
اور ان کی آواز شیطان کی آواز ہے اور اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انہیں دنوں میں خسوف کسوف بھی رمضان میں ہوگا۔ چنانچہ ایک خسوف کسوف تو مباحثہ کے بعد ہوا اور ایک خسوف
کسوف رمضان میں اس فتنہ کے بعد اب امریکہ میں ہوگیا۔ یہ دوبارہ خسوف کسوف ایک قطعی علامت ظہور مہدی کی تھی جو کبھی کسی مدعی کے ساتھ جب سے کہ دنیا کی بنیاد ڈالی گئی جمع نہیں ہوا
اور یہ آسمانی آواز تھی جو مصدق مہدی موعود تھی۔
اب بٹالوی اور لدھیانوی ہندو زادہ کچھ حیا اور شرم کو کام میں لاکر کہیں کہ ان کی یہ آوازیں جو عیسائیوں کی حمایت میں ہوئیں جن کا باطل ہونا
ہم نے ظاہر کر دیا ہے۔ یہ سب شیطانی آوازیں ہیں یا نہیں۔ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ان آوازوں میں انہوں نے سچائی کو ترک کر دیا اور حرف حرف میں ظلم اور خیانت سے کام لیا اور عیسائیوں کی ہاں
میں ہاں ملائی تو
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 293
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 293
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/293/mode/1up
بلاشبہ وہ اس حدیث کا مصداق ٹھہر گئے۔ غرض اس واقعہ کی صحت کی یہ حدیث بھی ایک گواہ ہے جو گیارہ سو برس سے
کتابوں میں درج ہوچکی ہے۔
اورؔ اسی موقعہ پر ایک اور گواہ ہے یعنی ہمارا وہ الہام جو براہینمیں درج ہے جس کو قریباً سولہ برس گذر چکے ہیں اور اس کی عبارت یہ ہے وَ لَنْ تَرْضیٰ عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَ
لَا النَّصَارٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَدٌ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ۔ تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّ مَا کَانَ لَہُ
اَنْ یَّدْخُلَ فِیْھَا اِلَّا خَاءِفًا وَ مَا اَصَابَکَ فَمِنَ اللّٰہِ یعنی یہود [ان سے مراد اس جگہ یہودی صفت علماء ہیں]اور نصاریٰ جن پر ہر ایک فتنہ آخری زمانہ کا ختم ہوا ہرگز تجھ سے راضی نہ ہوں گے جب تک تو
انہیں کے خیالات کا تابع نہ ہو، ان کو کہہ دے کہ خدا ایک ہے اس کی ذات اور صفات کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں نہ اس طرح پر جو عیسائی کہتے ہیں اور نہ اس طرح پر کہ جو یہودی صفت
مسلمان مسیح میں غلو کرکے کہتے ہیں نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا نہ اس کا کوئی ہم کفو اور یہ مسلمان یہودی صفت اور نیز عیسائی آئندہ تجھ سے ایک مکر کریں گے اور خدا بھی ان سے ایک
مکر کرے گا اور خدا کا مکر بہتر یعنی چل جانے والا ہے۔ اس وقت ان یہودی صفت مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرف سے بالاتفاق ایک فتنہ ہوگا سو تو اس وقت صبر کر جیسا کہ اولو العزم رسول صبر
کرتے رہے۔ ابو لہب کے ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس فتنہ کے درمیان آتا، مگر ڈرتا ڈرتا۔ ابو لہب سے مراد وہ شخص ہے جس نے فتنہ کی آگ کو مسلمانوں میں
بھڑکایا اور اہل اسلام کو کافر قرار دیا اور عیسائیوں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 294
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 294
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/294/mode/1up
کی تائید کی۔ پس چونکہ اس کا کام آگ کا بھڑکانا اور مسلمانوں کو دھوکہ میں ڈالنا تھا اس لئے اس کا نام ابو لہب ہوا، کیونکہ لَھَبْ
زبانۂ آتش کو کہتے ہیں اور لسان عرب میں ایک چیز کے موجد کو اس کا باپ قراردے دیتے ہیں پس چونکہ فتنہ کی آتش کا زبانہ اس شخص سے پیدا ہوا ہے جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے اس لئے وہ اس
زبانہ آتش کا باپ ہوا اور ابو لہبکہلایا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس جگہ ابو لہب سے مراد شیخ محمد حسین بٹالوی ہے واللّٰہ اعلم۔ کیونکہ اس نے کوشش کی کہ فتنہ کو بھڑکاوے۔ اور یہ جو فرمایا
کہ اگر دخل دیتا تو چاہیے تھا کہ ڈرتے ڈرتے دخل دیتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی بات کسی مجدد وقت کی کسی کو سمجھؔ نہ آوے تو کچھ مضائقہ نہیں کہ ڈرتے ڈرتے نیک نیتی اور
پاک دل کے ساتھ اس مسئلہ میں بحث کرے۔ مگر عداوت اور بد زبانی تک اس معاملہ کو نہ پہنچاوے کہ انجام اس کا سلب ایمان اور اَبُوْ لَہَبْ کا خطاب ہے۔ اور پھر فرمایا کہ اس فتنہ میں جو تجھے ایذا
پہنچے گی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے۔ کیونکہ ہمیشہ ترقی مدارج ابتلا ہی سے ہوتی ہے، ضرور ہے کہ مومن آزمایا جائے اور اس کو دکھ دیں اور طرح
طرح کی باتیں اس کے حق میں کہیں اور اس سے ہنسی اور ٹھٹھہ ہو، جب تک کہ تقدیر اپنے وقت مقدر تک پہنچ جائے۔
اب حضرات منصفین اس پیشگوئی پر بھی انصافاًنظر ڈالیں کہ یہ قریباً سولہ
برس سے کتاب بَرَاہِیْن اَحْمَدِیَّہ میں چھپ کر تمام پنجاب ہندوستان اورعرب تک شائع ہوچکی ہے۔ کیا یہ صاف اور صریح لفظوں میں اس واقعہ کی خبر نہیں دیتی جس میں عیسائیوں کے ساتھ یہودی صفت
علماء نے اپنے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 295
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 295
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/295/mode/1up
مکر کا پیوند کیا، کیا یہ پیشگوئی اس واقعہ عظیمہ کی خبر نہیں دیتی جس کی طرف حدیث نے اشارہ کیا تھا۔
پس ایک عقلمند
کے لئے آثار نبویّہ اور یہ الہام حق الیقین تک پہنچانے والا ہے۔ اور جو شرط آتھم کے مقابلہ پر الہام میں درج کی گئی۔ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس غرض سے تھی کہ وہ دلوں کو پرکھے اور
آزماوے اور انسانی عقلوں کا غرور توڑے اور تاوہ پیشگوئی پوری ہو جائے جو تیرہ سو برس پہلے اس زمانہ سے ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اور تاوہ الہام بھی پورا ہو
جو اس وقت سے سولہ برس پہلے براہین احمدیہ میں درج اور شائع ہو چکا تھا۔
پس دانشمندوں کے لئے یہ خوشی کا موقعہ تھا کہ آتھم کے مقابلہ پر جو پیشگوئی کی گئی۔ اس کی تقریب سے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بھی پوری ہوئی۔
منصفو! اب پھر نظر اٹھاؤ اور سوچ لو کہ جبکہ پیشگوئی میں رجوع الی الحق کی صریح شرط موجود تھی اور آتھم سے وہ بد حواسی وہ
سراسیمگی وہ سرگردانی اور خوف زدہ حالت ظہور میں آئی تھی کہ وہ اس مواخذہ کے نیچے آگیا تھا کہ کیوں اس قدر قلق اور کرب اس نے ظاہر کیا اور اس قدر اس کے ہراساںؔ ہونے کی جابجا
شہرت پھیل گئی تھی کہ آخر میعاد گذرنے کے بعد خود اس کو فکر پڑ گئی کہ میں اس خوف اور گریہ و زاری اور جزع فزع کو کسی طرح چھپا نہیں سکتا جو مجھ سے میعاد کے اندر ظاہر ہوتا رہا۔ اس
لئے نہ خوشی اور آزادی سے بلکہ مجبور ہوکر اس کو خوف کا اقرار کرنا پڑا اور اس حد تک تو اس نے سچ بولا کہ مجھ کو تین نظارے نظر آئے۔ مگر آگے چل کر قوم کی رعایت سے
جھوٹ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 296
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 296
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/296/mode/1up
بول گیا کہ وہ انسانی حملے تھے مگر وہ اس جھوٹے منصوبہ کو ثابت نہ کرسکا۔
پس اگر ہمارے مولویوں اور اخبار نویسوں
میں کچھ بھی دیانت اور حمایت دینی کا جوش ہوتا تو وہ ایسی بے ثبوت تہمت پر اس کو پکڑ لیتے اور سمجھ جاتے کہ اس مکار دنیا پرست نے یہ جھوٹ محض اس لئے باندھا ہے کہ تا اس خوف کو جس
کو وہ چھپا نہیں سکتا تھا ان تاویلوں سے پوشیدہ کر لے۔ لیکن یہ اندھے مولوی اور جاہل اخبار نویس تو دیوانہ درندوں کی طرح اپنے ہی گھر کے مسمار کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگر ذرہ ہوش
سنبھال کر الہام کی شرط کو دیکھتے اور ایک بافراست دل لے کر آتھم کے ان حالات پر نظر ڈالتے جو اس نے میعاد کے اندر ظاہر کئے تو ان پر کھل جاتا کہ ضرور پیشگوئی پوری ہوگئی۔ لیکن بدبخت
انسان ہمیشہ شتاب کاری سے اپنی عاقبت خراب کرتے رہے ہیں۔ افسوس ان لوگوں نے نہ سوچا کہ کیا عیسائی قوم ایسی راستباز قوم ہے جس کی ہر ایک بات خواہ نخواہ تسلیم ہی کر لینی چاہئے۔
جب
بقول آتھم امرتسر میں اس پر حملہ ہوا یعنی ایک تعلیم یافتہ سانپ نے اس کو ڈس کر ہلاک کرنا چاہا اس پر آتھم کا یہ جواب ہے کہ چونکہ عیسائی نہایت ہی نیک طینت اور راستباز ہیں۔ اس لئے اس حملہ
کے بارہ میں گورنمنٹ میں شکایت نہیں کی گئی اور نہ عدالت میں کوئی نالش ہوئی بلکہ دیدہ و دانستہ مجرموں کو چھوڑ دیا کیونکہ عیسائی بُردباری ایسی ہی مروت اور درگذر کو چاہتی تھی۔
پھر
بقول اُس کے دوسری دفعہ ہماری جماعت کے بعض لوگوں نے بمقام لودیانہ نیزوں کے ساتھ اس پر حملہ کیا۔ مگر بقول اس کے اب بھی اس کی صاف دلی جو پولس رسول سے بطور وراثت چلی آتی ہے
انتقام
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 297
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 297
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/297/mode/1up
لینے اور مجرموں کے پکڑنے سے مانع ہوئی۔ اس لئے اس مرتبہ بھی اس نے اپنے خونی دشمنوں کو عمداً چھوڑ دیا اور کہا کہ
چلو ان سے تو ہوا مگر ہم سے نہ ہوا۔ لیکن بدذات دشمنوںؔ نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا اور اس بوڑھے نیک بخت محسن کی اتنی بڑی نیکی کا ذرہ بھی پاس نہ کیا بلکہ جب یہ فیروز پور چھاؤنی میں گیا
تو وہاں بھی سایہ کی طرح پیچھے پیچھے پہنچ گئے اور جان ستانی کے لئے تلواروں کے ساتھ احاطہ کوٹھی میں جا موجود ہوئے۔ مگر چونکہ وہ بوڑھا نہایت ہی پاک دل کم آزار اور پوری تصویر پولس
رسول کی اپنے اندر رکھتا تھا اس لئے اس نے اب کی دفعہ بھی نہ پکڑا !اور نہ پولس کے لوگوں کو پکڑنے دیا اور کہا کہ میں مسلمانوں کی طرح نہیں میں بدی کے عوض ہرگز بدی نہ کروں گا اور وہ
اوباش بھی کیسے خوش قسمت کہ اس مجرمانہ حالت میں کسی بازاری آدمی اور رہگذر نے بھی ان کو آتے جاتے ہتھیاروں کے ساتھ نہ دیکھا اور آتھم صاحب وہ عالی حوصلہ کہ یہ تو برکنار کہ
گورنمنٹ میں ان خونی دشمنوں کی اطلاع دیتے یا عدالت فوجداری میں باضابطہ نالش کر کے اس عاجز کا مچلکہ لکھواتے انہوں نے میعاد پیشگوئی میں اخباروں میں بھی یہ مضمون نہیں چھپوایا کہ
شاید یہ بھی گناہ میں داخل نہ ہو۔
اے حضرات مولویو! اور اخبار نویسو کیا آپ کا یہ گمان ہے کہ یہ مرتدین متنصّرین کا فرقہ ایسا ہی نیک بخت ہے اور ایسے ہی دیانت دار ہیں کہ کبھی جھوٹ منہ
سے نہیں نکلتا اور نہیں جانتے کہ مکر اور منصوبہ بازی کیا شے ہے۔ اور چھل، فریب اور جعل کس کو کہتے ہیں۔ مگر میں جانتا ہوں کہ تمام دیانتیں شعبہ ایمان ہیں۔ جن لوگوں نے پیسہ پیسہ کے لئے
یا عورتوں کی خواہش سے اپنا دین بیچ ڈالا اور اسلام سے باہر نکل کر راست بازی کے چشمہ کی توہین کی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 298
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 298
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/298/mode/1up
ہے ان کو نیک سمجھنا نہایت پلید طبع انسان کا کام ہے۔
اے پیارے دوستو! آپ لوگ اس قوم کو اور اس قوم کی جعلسازیوں کو
خوب جانتے ہو کہ کہاں تک ان لوگوں کو جھوٹ کی بندشوں میں کمال ہے۔ پورت صاحب اپنی کتاب مؤیّد الاسلام میں پادریوں کی مکّاریاں نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں۔ کہ ایک بزرگ پادری نے آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح میں ایک کتاب لکھی اور اس میں ایک موقعہ پر بیان کیا کہ گویا نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کبوتر ہلایا ہوا تھا کہ وہ آنجناب کے کانوں پر آکر اپنا منہ
رکھ دیتا تھا اور یہ حرکت اس لئے سکھلائی گئی تالوگ سمجھیں کہ یہ روح القدس ہے کہ وحی پہنچاتا اور خدا تعالیٰ کا پیغام لاتا ہے۔ مگر جب اس پادری کو لوگوں نے سخت پکڑا کہ یہ قصہ توؔ نے
کہاں سے نقل کیا ہے تو اس نے صاف اقرار کیا کہ میں نے عمداً جھوٹ بنایا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس شریر پادری کو اس کبوتر کی نسبت شک ہوگا جو انجیل میں بیان کیا گیا ہے جو تمام عمر میں
صرف ایک دفعہ حضرت مسیح پر نازل ہوا تھا۔ اور پھر کبھی منہ نہ دکھلایا اور کہتے ہیں کہ دراصل وہ کبوتر نہیں تھا بلکہ روح القدس تھا۔ خیر اس جھگڑے سے تو ہمیں کچھ علاقہ نہیں صرف یہ
دکھلانا منظور ہے کہ اس بدطینت پادری نے یہ افترا اُسی انجیلی قصّہ کے تصور سے تراش لیا تھا اگر ایسا خیال حضرت عیسیٰ کی نسبت اس کو پیدا ہوتا تو کچھ بے جا نہ تھا۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ
کی نسبت ایسا بے ہودہ قصہ انجیلوں میں موجود ہے۔ جس کا کوئی ثبوت اب تک کسی عیسائی نے نہیں دیا اور نہ وہ کبوتر محفوظ رکھا۔ اور پادری صاحبوں کی جعلسازیاں صرف اسی پر بس نہیں بلکہ یہ
وہی حضرات ہیں جنہوں نے کئی جعلی انجیلیں بنا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 299
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 299
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/299/mode/1up
ڈالیں اور خدا تعالیٰ پر بھی افترا کرنے سے نہ ڈرے۔ ابھی حال میں ایک نئی انجیل کسی بزرگ عیسائی نے تبت کے ملک سے
برآمد کی ہے جس کی بہت جوش سے خریداری ہورہی ہے اور ان میں سے ایک بڑے مقدس کا یہ قول ہے کہ دین کی ترقی اور حمایت کے لئے جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ذریعہ نجات ہے اس قوم کا
جھوٹ سے پیار کرنا اپریل فول کی رسم سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اپریل کی تحریروں اور اخباروں میں خلاف واقعہ باتیں اور خلاف قیاس امور شائع کئے جائیں تو کچھ مضائقہ
نہیں۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ غالباً بہت سا حصہ انجیل کا اپریل میں ہی لکھا گیا ہے اور یقیناً تثلیث کے مسئلہ کی جڑ بھی یہی مہینہ ہے جس میں بے دھڑک جھوٹ بولا جاتا ہے اور خلاف قیاس باتیں
شائع کی جاتی ہیں۔ غرض ان لوگوں کے نزدیک کسی ضرورت کے وقت جھوٹ کا استعمال کرنا کچھ کراہت کی بات نہیں، جب دیکھتے ہیں کہ کوئی پردہ دری ہونے لگی ہے تو فی الفور جھوٹ سے کام
لیتے ہیں۔
عَبْدُ الْمَسِیْح اور عَبْدُ اللّٰہ ہاشمی کا کیسا جھوٹا قصہ بنا لیا۔ کیا ہَارُوْن اور مَامُوْن کے وقت میں پروٹسٹنٹ کا نام و نشان بھی تھا جس کی تائید میں دو فرضی شخصوں کا عربی زبان میں مباحثہ
لکھا گیا۔ پس جو لوگ کلوں کی ایجاد کی طرح آئے دن نئے نئے جھوٹ بھی ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ کسی پیچ میں پھنس کر کیوں جھوٹ نہیں بولیں گے۔ یہ ایک ثابت شدہ امرؔ ہے کہ ناحق جھوٹ بول دینا
انہی لوگوں کا خاصہ ہے۔ دیکھو نور افشاں ۲۵؍ جنوری ۱۸۹۵ ؁ء کے پرچہ میں بے چارے اَکْبَرْ مَسِیْح کو عناد مذہبی کی وجہ سے زندہ درگور کر دیا۔ چنانچہ پرچہ مذکورہ میں چھپ گیا کہ اکبر مسیح
تثلیث کا دشمن ریل کے صدمہ سے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 300
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 300
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/300/mode/1up
جاں بحق ہوا۔ اور مرتے وقت وہ ایک پادری صاحب کی ہدایت سے تائب ہوا۔ اور حضرت مسیح کی خدائی کا قائل ہوکر مرا اور
اپنی مخالفانہ کتابیں جلا دیں اور توبہ کر کے بہت رویا اور قائل ہوا کہ اب میں سمجھا کہ درحقیقت حضرت مسیح خدا ہی ہیں!!! حالانکہ نہ اس کو کوئی ریل کا صدمہ پہنچا اور نہ وہ مرانہ توبہ
کی نہ کتابیں جلائیں نہ حضرت مسیح کی خدائی کا قائل ہوا بلکہ زندہ موجود اور اب تک تثلیث کا دشمن ہے۔ ناحق ایک بدذات عیسائی نے اس بے چارے کے عیال اور دوستوں کو مصیبت میں ڈالا۔ افسوس
کہ ہمارے بخیل طبع مولویوں کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ آتھم بھی اسی دروغ باف قوم میں سے ہے۔ اور یہ وہی ناپاک طبع ہے جس نے پہلے اس سے ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم
کو نعوذباللہ اپنی کتاب میں دجال کے نام سے موسوم کیا لَعْنَتُ اللّٰہ عَلٰی قائلہ اِلٰی یَوْمِ القِیَامَۃ پھر اس کے بے ثبوت ہذیان کو باور کرنے والا بھی دجال سے کم نہیں۔ کیا عقلا اور انصافاًاس پر یہ الزام قائم
نہیں ہوا کہ وہ میعاد پیشگوئی میں اپنے ڈرنے کا اقرار کر کے پھر ان بے ہودہ جعلسازیوں کا ثبوت نہیں دے سکا کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے نہیں بلکہ سانپ وغیرہ کے حملوں کی وجہ سے ڈرتا رہا۔
وہ ان باتوں کو بذریعہ نالش ثابت نہ کر سکا۔ جو ڈر کی بنیاد اس نے قائم کی تھی یعنی تین حملے۔ اور اس نے یہ بھی نہ چاہا کہ قسم کھا کر اپنی صفائی کرے اور جب اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے
عذرات کے پیش ہونے پر کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ تین حملوں کا منصوبہ محض اسی غرض سے گھڑا گیا ہے کہ تا اس خوف اور جزع فزع کی کچھ پردہ پوشی کی جائے جس سے آتھم خواب
سے بھی چیخیں مار کر اٹھتا رہا ہے اور امرتسر کے مقام میں بھی بیماری کی شدت میں اس نے ایک چیخ ماری اور کہا کہ ہائے میں پکڑا گیا تو ان باتوں کا کوئی جواب اس
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 301
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 301
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/301/mode/1up
نے صفائی سے نہیں دیا۔ آخر اسی و جہ سے قسم کی ضرورت پیش آئی۔ مگر اس نے ایک جھوٹے عذر سے قسم کو بھی ٹال دیا۔
ہمارے مولویوں اور اخبار نویسوں میں اگر حق کی تائید کا کچھ مادہ ہوتا تو وہ اسی وقت دین کی تائید میں نتیجہ نکال لیتے جبکہؔ آتھم نے اپنے ڈرتے رہنے کی یہ و جہ بیان کر دی تھی کہ میرے پر تین
حملے ہوئے اور اگر اس پر تسلی نہ پکڑ سکتے تو آتھم کو قسم پر مجبور کرتے۔ کیونکہ جب آتھم اپنے قول وفعل سے خوف شدید کا قائل ہوچکا تھا تو یہ مطالبہ قانونًا و شرعًا اس سے واجب تھا، کہ کیوں
یہ یقین نہ کیا جائے کہ وہ تمام خوف پیشگوئی کی و جہ سے تھا خاص کر جب کہ وہ وجوہ خوف جو بیان کئے گئے بالکل جھوٹے اور نکمے اور بدبودار اور بناوٹی ثابت ہوئے اور یہ اسکی نہایت ہی
رعایت کی گئی تھی کہ باوجودیکہ اس کی دروغ گوئی پر قرائن قویہ قائم ہوچکے تھے اور نامعقول عذروں سے جرم بپایہ ثبوت پہنچ گیا تھا پھر بھی ہم نے اس سے قسم کا مطالبہ کرکے وعدہ کیا کہ ہم
اس کو قسم کے بد نتائج نہ پیدا ہونے پر راست باز سمجھ لیں گے اور نہ صرف یہی بلکہ چار ہزار روپیہ نقد دیں گے مگر وہ پھر بھی بھاگ گیا اور قسم نہ کھائی۔ مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ اس کے
ایسے کھلے کھلے گریز پر فتح کا نقارہ بجاتے نہ کہ عیسائیوں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے لیکن جب تک انسان بخل سے خالی نہ ہو تب تک حقیقت میں اندھا ہوتا ہے۔
اور عیسائیوں کی حالت پر نہایت
تعجب ہے کہ اس پیشگوئی پر جو ایسی صفائی سے اپنی شرط کے پہلو پر پوری ہوگئی انہوں نے محض شرارت سے وہ شور اور شر کیا اور وہ توہین اور گندی گالیاں دیں اور کوچوں بازاروں میں
شیطانی بہروپ دکھلائے جو اپنی ساری فطرت کے پردے کھول دیئے، حالانکہ پیشگوئی میں ایک صاف شرط موجود تھی اور قرائن قویہ کی رو سے وہ شرط پوری ہوچکی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 302
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 302
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/302/mode/1up
تھی۔ اور ہر ایک بات میں قابل الزام آتھم تھا اور اس کی گفتار سے اس کا مکار اور جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا تھا۔ افسوس کہ انہوں نے
اس روشن پیشگوئی سے تو انکار کیا۔ مگر ان کو حضرت مسیح کی وہ پیشگوئیاں یاد نہ رہیں جو اپنے ظاہری معنوں میں پوری نہ ہوئیں بلکہ ان کا خلاف واقعہ ہونا ایسے طور سے کھلا کہ کوئی تاویل بھی
وہاں پیش نہیں کی جا سکتی۔ دیکھو حضرت مسیح کا کس زور سے دعویٰ تھا کہ اس زمانہ کے بعض لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ میں پھر آجاؤں گا۔ لیکن وہ سب مر گئے اور اس پر اٹھارہ سو برس اور
بھی گذر گئے۔ اور وہ جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے اب تک نہ آسکے!!! پھر اس سے عجیب تر یہ کہ پہلی کتابوں میں حضرت مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی درج تھی کہ ’’ضرور ہے کہ پہلے اس
سے ایلیا آوے یعنیؔ وہ نبی ایلیا نام جو اس جہاں سے مدت پہلے گذر چکا تھا۔ لیکن ایلیا نہ آیا اور یہودیوں نے حضرت مسیح کو الزام دیا کہ ایلیا تو ابھی آسمان سے اترا ہی نہیں آپ کیونکر نبی
ہوسکتے ہیں۔ اس کا جواب حضرت مسیح کچھ بھی نہیں دے سکے بجز اس کے کہ یحییٰ زکریا کا بیٹا ہی ایلیا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ جواب تو ایک تاویل ہے جو پیشگوئی کے ظاہر الفاظ سے بالکل
مخالف پڑی ہے۔ اگر ایسی ہی تاویل سے کوئی پیشگوئی پوری ہو سکتی تھی تو ہر ایک شخص ایسی تاویل کر سکتا تھا۔ اور تعجب تو یہ کہ حضرت یحییٰ کو ایلیا ہونے سے انکار ہے۔ اب اس انکار سے وہ
تاویل بھی بے ہودہ ہو گئی اور جبکہ تمام مدار حضرت مسیح کے سچا نبی ہونے کا اسی پیشگوئی کے پورا ہونے پر تھا اور یہ پوری نہ ہوئی تو حضرات پادری صاحبان تو حضرت مسیح کی خدائی کو
روتے ہیں اور یہاں نبوت بھی ہاتھ سے گئی۔ بلکہ کاذب اور مفتری ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ایلیا کے آنے سے جو شخص پہلے مسیح ہونے کا دعویٰ کرے وہ دعویٰ اس کا صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ
یہودی اب تک یہی حجت پیش کرتے ہیں اور ظواہر
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 303
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 303
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/303/mode/1up
نص کتاب اللہ یہودیوں کے ساتھ ہیں۔ ان کی یہ حجت ہے کہ اگر ایلیا سے کوئی اور شخص مراد ہوتا تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو
دھوکا نہ دیتا بلکہ صاف لفظوں سے کہہ دیتا کہ ایلیا تو آسمان سے دوبارہ نہیں اترے گا۔ بلکہ اس کی جگہ یحییٰ زکریا کا بیٹا پیدا ہوگا اسی کو ایلیا سمجھ لینا۔ یہ پیشگوئی عیسائی مذہب کو نہایت
اضطراب میں ڈالتی ہے۔ اگر قرآن حضرت مسیح کی نبوت کا مصدق ہوکر حضرت ابن مریم کو نبیوں میں داخل نہ کرتا تو کیا کوئی عقلمند قبول کر سکتا تھا کہ عیسیٰ بھی درحقیقت نبی ہے۔ کیونکہ کھلی
کھلی نص کتاب اللہ کی یہودیوں کے ہاتھ میں ہے جس سے حضرت مسیح کسی طرح سچے نہیں ٹھہر سکتے۔
بعض مسلمان جہالت سے کہتے ہیں کہ شاید وہ پیشگوئی محرف ہوگئی ہوگی۔ مگر ایسا
خیال کرنے والے سخت احمق ہیں۔ تحریف تو بے شک بعض مقامات بائبل میں ہوئی ہے۔ مگر جس مقام کو خود حضرت مسیح نے غیر محرف ٹھہرا دیا ہے وہ مقام بلاشبہ حضرت مسیح اور یہود کے
اتفاق سے تحریف کے الزام سے پاک ہے اور قرآن کریم اور حدیث میں اس قصہ کا کچھ ذکر ہی نہیں۔ تاہم یہ کہہ سکیں کہ یہ قصہ احادیث اور قرآن کریم کے مخالف پڑا ہے پس ہم بہرحال اس قصہ کی
تکذیب کے مجاز نہیں ہیں۔ اتنا کہنا ہمیں ضروری ہے کہ گو نص کتاب اللہ کےؔ ظاہر الفاظ یہودیوں کے عذر کے مؤیّد ہیں۔ اور اگر ظاہر پر فیصلہ کریں تو بے شک حضرت مسیح کی نبوت ثابت نہیں
ہوسکتی۔ بلکہ کذب اور افترا ثابت ہوتا ہے۔ اور کذب بھی ایسا کذب کہ جس کو ایلیا قرار دیا گیا وہ خود ایلیا ہونا منظور نہیں کرتا۔ اور مدعی سُست اور گواہ چُست کا معاملہ نظر آتا ہے۔ مگر چونکہ قرآن
کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کر دی ہے اس لئے ہم بہرحال حضرت مسیح کوسچا نبی کہتے اور مانتے ہیں اور انکی نبوت سے انکار کرنا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 304
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 304
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/304/mode/1up
کفر صریح قرار دیتے ہیں۔
اور ایلیا کے قصہ میں یہودیوں کی یہ حجت کہ اگر یہی شخص درحقیقت مسیح موعود تھا تو ایلیا
کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کیوں دھوکہ دیا۔ اس طرح پیشگوئی کے الفاظ کیوں نہ لکھے کہ ضرور ہے کہ مسیح سے پہلے یحییٰ بن زکریا آوے اور جبکہ نص کتاب اللہ
کے ظاہر الفاظ پر ایمان لانا ضروری ہے تو ایسے موقعہ پر تاویلیں کرنا کفر ہے۔ یہ وہ حجت ہے جو اب تک یہودی لوگ انکار نبوت مسیح میں پیش کرتے ہیں۔
لیکن اب ہم قرآنی معارف سے قوت پاکر
کہہ سکتے ہیں کہ جبکہ مسیح کی نبوت قرآن کے نزول سے بپایہ صداقت پہنچ گئی ہے تو گو ظاہر الفاظ پیشگوئی کے کیسے ہی ان کے مخالف پڑے ہوں۔ تب بھی ہمیں ان کی تاویل کر لینی چاہیے۔
چونکہ پیشگوئیوں میں اکثر استعارات بھی ہوتے ہیں جن سے خلق اللہ کا ابتلا منظور ہوتا ہے۔ تو کیوں ایلیا کی پیشگوئی کو بھی استعارات کی قبیل سے نہ سمجھا جائے۔ یہودی لوگ خدا تعالیٰ کی ان سنتوں
سے اچھی طرح واقفیت نہیں رکھتے تھے کہ کبھی الٰہی پیشگوئیوں میں اس طور کے استعارات بھی واقع ہو جاتے ہیں کہ نام کسی کا لیا جاتا ہے اور قرائن کی رو سے مراد کوئی اور ہوتا ہے۔ لیکن قرآن
کریم نے اس امت پر احسان کیا کہ یہ تمام معارف اور سنن اللہ سمجھا دیئے بلکہ ان طریقوں کو کئی مواضع میں آپ اختیار کرکے بخوبی تفہیم کر دی۔ دیکھو کیونکر اپنے زمانہ کے یہودیوں کو ملزم کیا
کہ تم نے موسیٰ کی نافرمانی کی۔ ہَارُوْن کا مقابلہ کیا۔ حالانکہ اس جرم کے مجرم وہ تو نہیں تھے۔ بلکہ ان کے باپ دادے تھے اور بخوبی بار بار سمجھا دیا کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا میں نہیں آیا کرتا۔
مگر یہ سمجھ یہودیوں کو نہیں دی گئی تھی اور توریت کے طرز و طریق نے ان کو قیامت کی نسبت بھی شک و شبہ میں رکھا تھا اور قرآن شریف
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 305
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 305
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/305/mode/1up
کی طرح نصوص صریحہ توریت سےؔ ان پر نہیں کھلا تھا کہ کوئی شخص اس جہان سے گذر کر پھر اس دنیا میں آباد ہونے
کے لئے نہیں آسکتا اس لئے وہ اس گرداب میں پڑے اور ان کا اس بات پر زور دینا سراسر حماقت تھا کہ سچ مچ حضرت ایلیا علیہ السلام دوبارہ آسمان پر سے مسیح موعود سے پہلے تشریف لے آئیں
گے اور ان کے پاس اس طرح دوبارہ آجانے کی کوئی نظیر بھی نہیں تھی۔ ہاں آج کل کے ظاہری نیم ملاؤں کی طرح صرف الفاظ پر زور تھا۔ اور ایک نادان کی نظر میں بظاہر یہودیوں کی حجت ایلیا کے
دوبارہ آنے کی پیشگوئی میں قوی معلوم ہوتی تھی اور حضرت عیسیٰ کی تاویل کچھ رکیک اور بودی سی پائی جاتی تھی۔ کیونکہ ظاہر نص یہودیوں کا مؤیّد تھا۔ لیکن اس سنت اللہ پر نظر ڈالنے کے بعد جو
قرآن کریم سے مفصل معلوم ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں کسی کے دوبارہ آنے اور دنیا میں دوبارہ آباد ہونے کے بارے میں یہ کتاب کریم صاف فیصلہ کرتی ہے کہ ایسا ہونا
سنت اللہ کے خلاف ہے۔
پس جبکہ دوبارہ آنا دنیا میں ممتنع ہوا تو پھر حضرت ایلیا علیہ السَّلام کا آسمان سے نازل ہونا اور یہودیوں کے دلوں کو مسیح موعود سے پہلے آکر درست کرنا بدیہی
البطلان ہوا۔ ہاں یہ مسئلہ بغیر قرآن کریم پر ایمان لانے کے سمجھ میں نہیں آتا اور اگر توریت پر ہی حصر رکھا جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسیح ہرگز نبی صادق نہیں تھا!!! ایک
مصیبت تو مسیح کے بارے میں یہی پیش آئی تھی۔ دوسرے ظالم عیسائیوں نے اپنے ہاتھوں سے مسیح کو توریت استثنا باب ۱۳ کا مصداق ٹھہرا کر سچے نبیوں کے طریق اور شان سے بکلّی بے نصیب
اور محروم کر دیا۔
اور یاد رہے کہ نظر عمیق کے بعد حضرت مسیح کی تاویل یہودیوں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 306
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 306
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/306/mode/1up
کے تمسک بالظاہر پر غالب ہے۔ گو ایک جلدباز اور دھوکا کھانے والا حضرت مسیح کی تاویل پر ٹھٹھا اور ہنسی کرے گا کہ اپنی
نبوت کے ثابت کرنے کیلئے تاویلات رکیکہ سے کام لیا ہے۔ لیکن جو شخص قرآن کا علم رکھتا ہے۔ اور سنت اللہ کے سلسلہ پر اس کو نظر ہے وہ خوب جانتا ہے کہ حتمی وعدہ خدا تعالیٰ کا یہی ہے کہ
اس جہان سے گذرنے والے پھر آسمان سے نہیں اترا کرتے وہ نہ صرف حضرت مسیح کی تاویل کو قبول کرے گا بلکہ اس تاویل سے لذت بھی اٹھائے گا۔ کیونکہ وہ تاویل عہد قدیم کے مطابق ہے۔
اگرچہ نابکار یہودی اب تک یہی روتے ہیں کہ مسیح نے اپنی جھوٹی نبوتؔ کو لوگوں میں جمانے کے لئے پاک کتابوں کی ظاہر نص کو چھوڑ دیا ہے اور جب ان سے کبھی گفتگو کا اتفاق پڑے تو یہی
دھوکا دینے والا عذر پیش کرتے ہیں اور ایک ناواقف آدمی جب ان کے اس عذر کو سنے تو ضرور وہ حضرت مسیح کی نبوت کی نسبت کچھ متذبذب ہو جائے گا اور قریب ہے جو ان کو فریبی اور جھوٹا
کہہ کر اپنے تئیں ہلاک کرے۔ اور غالباً یہ اعتراض حال کے ملحدوں نے یہودیوں سے ہی لیا ہے کہ جس حالت میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح مردے زندہ کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ تو تمام
مردے اور تمام مقدس نبی زندہ ہوکر شہر میں بھی آگئے تھے تو وہ ایلیا عَلَیہِ السَّلام جن کے نہ دوبارہ آنے کی وجہ سے حضرت مسیح نے ناچار ہوکر تاویلات رکیکہ سے کام لیا۔ کیوں ان کو اپنی
تصدیق نبوت کے لئے کیوں یہودیوں کو دکھلا کر اس جھگڑے کو طے نہ کر لیا۔ اور کیوں تاویلات رکیکہ کی مصیبت میں پڑے۔ جو شخص اپنے اقتدار سے مردہ کو آپ زندہ کرسکتا تھا چاہئے تھا کہ
پیشگوئی کی علامت پوری کرنے کے لئے زندہ کرتا یا آسمان سے ہی اتارا ہوتا۔ خدائی کے کام تو کُنْ فَیَکُوْنُ سے چلتے ہیں۔ مگر اس خدا کو کیا پیش آیا کہ شریر یہودی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 307
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 307
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/307/mode/1up
اس پر غالب ہوگئے اور ان کی حجت کو توڑ نہ سکا اور ظاہر نص کو چھوڑ کر کیوں ایک تاویل سے جہان کو تباہی اور فتنہ میں
ڈال دیا تاکہ کسی طرح مسیح موعود بن جائے جس شخص کے ہاتھ میں زندہ کرنا ہو بلکہ اس کا معجزہ ہی احیاء موتٰیہو اس پر کیا مشکل تھا کہ فی الفور ایلیا نبی کو زندہ کر کے یا آسمان سے اتار کر
یہودیوں پر ظاہر الفاظ نص کے موافق اپنی حجت پوری کر دیتا۔ مگر ایسے اعتراض وہی کرے گا جو اپنی جہالت سے دنیا میں دوبارہ مردوں کے آنے کا قائل ہوگا۔
ہمارے اس وقت کے نام کے مولوی
جو رجمًابالغیب کہتے ہیں جو شاید ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کا قصّہ محرف ہو یہ سراسر ان کی خیانت ہے۔ جس قصّہ کی حضرت عیسیٰ نے تصدیق کی۔ اور تمام یہودیوں کا اس پر اتفاق ہے وہ کیونکر
محرف ہوسکتا ہے اور پھر بطریق تنزل ہم کہتے ہیں کہ اللہ اور رسول نے اس کی تحریف کی ہم کو خبر نہیں دی۔ لہٰذا ہم بموجب حدیث صحیح کے تکذیب کرنے کے مجاز نہیں ہیں اگر لَا تُصَدِّقُوْا پر نظر
ہے تو لَا تُکَذِّبُوْا بھی ساتھ یاد رکھو۔ لیکن اس قصہ میں تو ہمارے مولویوں کو یہ دھڑکہ شروع ہوا۔ کہ اگر حضرت عیسیٰ کی اس تاویل کو تسلیم کر لیں اور قصہ کو صحیح سمجھیں تو پھر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے دوبارہ آنے سے بھی ہاتھ دھو لینا چاہئے۔ جب ایک مرتبہ فیصلہ ہوچکا تو وہی مقدمہ پھر اٹھانا یہودی بن جانا ہے۔ مومن وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے حال سے عبرت پکڑے۔ اگر نزول کا
لفظ احادیث میں موجود ہے تو موت عیسیٰ کے الفاظؔ قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہیں اور توفّیکے معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے بجز مار دینے کے اور ثابت نہیں ہوئے۔
پس جب اصل مسئلہ کی حقیقت یہ کھلی تو نزول اس کی فرع ہے اس کے وہی معنے کرنے چاہئیں جو اصل کے مطابق ہوں۔ اگر تمام دنیا کے مولوی متفق ہو کر
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 308
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 308
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/308/mode/1up
آیت ۱؂ اور آیت ۲؂ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے بجز مار دینے کے کوئی اور معنے ثابت کرنے
چاہیں تو ان کے لئے ہرگز ممکن نہیں۔ اگرچہ اس غم میں مر جائیں۔ اسی وجہ سے امام ابن حزم اور امام مالک اور امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے اکابر کا یہی مذہب ہے کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ
فوت ہوچکے ہیں۔ افسوس کہ جاہل مولویوں نے ناحق شور مچایا اور آخر حضرت عیسیٰ کی موت ثابت ہی ہوئی جس کے ثبوت سے وہ ایسے نادم ہوئے کہ بس مرگئے۔ وحی اللہ پر کم توجہ رکھنے سے
یہ تمام مصیبتیں ان پر پڑیں۔ مولویوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ خدا تعالیٰ نے آج سے سو۱۶لہ برس پہلے الہام مندرجہ براہین احمدیہ میں اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا ہے کیا انسان اتنا لمبا منصوبہ کر
سکتا ہے کہ جو افترا سو۱۶لہ برس کے بعد کرنا تھا اس کی تمہید اتنی مدت پہلے ہی جما دی اور خدا نے بھی اس قدر لمبی مہلت دے دی جس کی دنیا میں جب سے دنیا شروع ہوئی کوئی نظیر نہیں پائی
جاتی۔ والسّلام علٰی من اتبع الہدیٰ۔
وحی حق پُر از اشارات خداست
گر نفہمد جاہلے کج دل رواست
چشمۂ فیض است وحی ایزدی
لیکن آن فہمد کہ باشد مہتدی
وحی قرآن رازہا دارد
بسے
نسبتے باید کہ تا فہمد کسے
واجب آمد نسبت اندر دین نخست
کار بے نسبت نمے آید درست
آن سعیدے کش ابوبکر است نام
نسبتے مے داشت با خیرالانام
زیں نشد محتاج تفتیش
دراز
جان او بشناخت روئے پاک باز
ہست فرقے در نظرہا اے سعید!
آنچہ ہارون دید آن قاروں ندید
بودہارون پاک و ایں کِرمے پلید
کے بماند با یزیدے بایزید
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 309
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 309
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/309/mode/1up
گرنباشد نسبتے درجائے گاہ
ظلمتے در ہر قدم گیرد براہ
آن یکے رامہ عیان پیشِ نظر
دیگرے را ابر کردہ کور و کر
آن نشستہ بانگارِ دل رُبا
این ز کوری ہا در اِنکار و اِبا
مہ نمے آید نظر در وقتِ ابر
ہمچنین صدّیق در چشمان گبر
اے برادر از تامل کن تلاش
ہان مرد چوں تو سنے آہستہ باش
اے پئے
تکفیر ما بستہ کمر
خانہ ات ویران تو در فکرِ دگر
صد ہزاراں کفر در جانت نہان
رو چہ نالی بہر کفر دیگراں
خیزد اول خویشتن را کُن درست
نکتہ چیں را چشم می باید نخست
*** گر
لعنتے برما کند
او نہ بر ما خویش را رسوا کند
***ِ اہل جفا آسان بود
*** آن باشد کہ از رحمان بود
الراقم
خاکسار مرزا غلام احمد قادیانی
ماہ مئی؍ ۱۸۹۵ ؁ء
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 310
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 310
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/310/mode/1up
ضیاؔ ءُ الحق
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
رسالہ ضیاء الحق کی نسبت ہمارا یہ ارادہ تھا
کہ منن الرحمن کے ساتھ اس کو شائع کریں اور اُسی کے حصوں میں سے ایک حصّہ اس کو ٹھہرا ویں لیکن بالفعل ہم نے رسالہ مذکورہ کی چند کاپیوں کا شائع کرنا اس لئے مناسب سمجھا کہ بعض
ناواقف اور متعصب اب تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ گویا وہ پیشگوئی جو آتھم کی نسبت کی گئی تھی وہ غلط نکلی۔ سو جس قدر ضیاء الحق کی کاپیاں اب ہم اپنے ہاتھ سے روانہ کرتے ہیں۔ اس کے
سوا کسی کی درخواست پر ہرگز یہ رسالہ روانہ نہیں ہوگا۔ مگر اس صورت میں کہ درخواست کنندہ منن الرحمن کی خریداری کی درخواست کرے کیونکہ یہ رسالہ اسی کتاب کا ایک حصّہ کیا گیا ہے
اور کتاب منن الرحمٰنانشاء اللہ تعالیٰ دسمبر ۱۸۹۵ئتک چھپ جائے گی تب اس کے نکلنے کے وقت یہ رسالہ بھی ایک حصہ اس کا متصور ہوکر شائع کیا جائے گا۔ بالفعل ہم چند نسخے جو پچاس سے
زیادہ نہیں محض اس غرض سے شائع کرتے ہیں کہ تا آتھم کے مقدمہ میں ان لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی جلد تر اس غلط فہمی کے گڑھے سے نکالیں کیونکہ ہمارے اندھے
مخالف اب تک اس سچائی کو دیکھ نہیں سکے جو پیشگوئی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 311
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 311
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/311/mode/1up
میں چمک رہی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ہم نے نور افشاں ۱۳ ؍ستمبر ۱۸۹۵ ؁ء میں پرچہ بھارت سدھار ۲۴؍ اگست
۱۸۹۵ ؁ء کا ایک مضمون پڑھا ہے جس میں صاحب پرچہ یہ لکھتا ہے کہ ایک سال اور بھی گذر گیا اور عبد اللہ آتھم اب تک زندہ موجود ہیں فقط۔ جو لوگ ایسےؔ خیالات شائع کرتے ہیں۔ ان کی حالت
دو صورتوں سے خالی نہیں ایک تو یہ کہ شاید اب تک انہوں نے ہمارے رسالہ انوار الاسلام کو بھی نہیں دیکھا جس میں ان تمام وساوس کا جواب مفصل موجود ہے اور دوسری یہ کہ گو انہوں نے رسالہ
انوار الاسلام کو دیکھا ہو بلکہ دوسرے تمام اشتہاروں کو بھی دیکھ لیا ہو مگر وہ تعصّب جو آنکھوں کو اندھا کر دیتا اور دل کو تاریک کر دیتا ہے اس نے دیکھا ہوا بھی اَن دیکھا کر دیا ہائے افسوس ان لوگوں
کی عقل پر انہوں نے تو انسان بن کر انسانیت کو بھی داغ لگایا۔ بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا تھا کہ اگر عبد اللہ آتھم ہماری درخواست پر ہمارے سامنے وہ قسم نہیں کھائے
گا جس کے الفاظ بارہا ہم نے اپنے اشتہاروں میں شائع کئے ہیں تب بھی وہ ضرور ایک سال تک مر جائے گا اور جب کہ ہم نے ایسا اشتہار کوئی شائع نہیں کیا بلکہ اس کا سال کے اندر فوت ہو جانا قسم
کے ساتھ مشروط رکھا تھا۔ پس اس صورت میں تو اس کے ایک سال تک نہ مرنے کی وجہ سے ہماری ہی سچائی ثابت ہوئی کیونکہ اس نے اپنی اس گریز سے جو رجوع الی الحق پر ایک واضح دلیل تھی۔
کھلا کھلا فائدہ اٹھا لیا یہ الزام تو اس وقت زیبا تھا کہ وہ ہمارے مقابل پر میدان میں آکر اس قسم کو بالفاظہٖ کھا لیتا جو ہم نے پیش کی تھی اور پھر سال کے اندر فوت نہ ہوتا ہم نے تو چار ہزار روپیہ
پیش کر کے صاف صاف یہ کہہ دیا تھا کہ آتھم صاحب شرطی روپیہ پہلے جمع کرا لیں اور جلسہ عام میں تین مرتبہ یہ قسم کھاویں کہ پیشگوئی کے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 312
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 312
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/312/mode/1up
دنوں میں ہرگز میں نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور ہرگز اسلام کی عظمت میرے دل پر مؤثر نہیں ہوئی اور اگر میں
جھوٹ کہتا ہوں تو اے قادر خدا ایک سال تک مجھ کو موت دے کر میرا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر۔ یہ مضمون تھا جو ہم نے نہ ایک مرتبہ بلکہ کئی مرتبہ شائع کیا اور ہم نے ایک ہزار سے چار ہزار تک
انعام کی نوبت پہنچائی اور کئی دفعہ کہہ دیا تھا کہ یہ زبانی دعویٰ نہیں پہلے روپیہ جمع کرا لو اور پھر قسم کھاؤ اور اگر ہم روپیہ داخل نہ کریں اور صرف فضول گوئی ثابت ہو۔ تو پھر ہمارے جھوٹے
ہونے کے ؔ لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں۔ لیکن کوئی ہمیں سمجھا دے کہ آتھم نے ان باتوں کا کیا جواب دیا کیا وہ میدان میں آیا کیا اس نے قسم کھا لی۔ کیا اس نے ہم سے روپیہ کا مطالبہ کیا۔ کیا
اس نے اپنے اس بیان کو بپایۂ ثبوت پہنچا دیا کہ میں ایام پیشگوئی میں ڈرتا تو ضرور رہا مگر اسلام کی عظمت سے نہیں بلکہ تین حملے بندوقوں اور تلواروں والوں نے میرے پر کئے جن میں سے پہلا
حملہ تعلیم یافتہ سانپ کا تھا جس نے امرتسر سے نکالا آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس الہام کا صاف یہ مطلب تھا کہ صرف اس صورت میں آتھم صاحب پندرہ مہینہ میں ہاویہ میں گرائے جائیں گے کہ جب
وہ حق کی طرف رجوع نہیں کریں گے اور آپ لوگوں کو اس بات کا بھی اقرار کرنا عقلًا و انصافًاضروری ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے کہ انہوں نے رجوع بحق کیا تھا تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا
کہ وہ مرنے سے محفوظ رکھا جاتا کیونکہ اگر تب بھی مر جاتا تو اس میں کیا شک ہے کہ اس صورت میں پیشگوئی کی شرط جھوٹی ٹھہرتی بلکہ پیشگوئی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 313
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/313/mode/1up
ہی باطل ثابت ہوتی وجہ یہ کہ پیشگوئی کا مفہوم یہی چاہتا تھا کہ شرط کے پوری کرنے کی حالت میں ضرور آتھم میعاد معینہ
میں زندہ رہے۔ اب جب کہ یہ امر طے ہوگیا کہ پیشگوئی صرف موت کی ہی خبر نہیں دیتی تھی بلکہ اپنے دوسرے پہلو سے آتھم کو اس کی حیات کی بھی خوشخبری دیتی تھی اور شرط کے بجا لانے
کے وقت اس کا زندہ رہنا ایسا ہی پیشگوئی کی سچائی پر دلالت کرتا تھا جیسا کہ اس صورت میں دلالت کرتا کہ وہ بوجہ عدم پابندی شرط فوت ہو جاتا تو پھر یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ پیشگوئی کی
شرط کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور نہ خدا سے ڈرتے ہیں اور نہ اس ذلت سے جو انصاف کو چھوڑنے کی حالت میں *** کی طرح دامن گیر ہو جاتی ہے۔ صاحبو اگر پہلے نہیں سمجھا تو اب سمجھ لو
کہ یہ پیشگوئی درحقیقت دو پہلو رکھتی تھی جس کی تاثیر نہ صرف مرنا تھا بلکہ دوسرے پہلو کے لحاظ سے زندہ رہنا اور موت سے بچ جانا بھی اس کی ضروری تاثیر تھی۔ پھر اگر ہمارے مخالفوں
اور جلد بازوں کے دلوں میں انصاف ہوتا تو صرف عدم موت پر سیاپا نہ کیا جاتا بلکہ شرط کے مفہوم کو تنقیح طلب امر ٹھہراتے یعنی یہ امر کہ آیا آتھم نےؔ حق کی طرف رجوع کیا یا نہیں پھر اگر
دیکھتے کہ اس کے ان حالات سے جو اس نے پیشگوئی کے اثناء میں ظاہر کئے اور ان حالات سے جو مطالبہ قسم کے وقت اس نے دکھلائے رجوع ثابت نہیں ہوتا تو جس طرح چاہتے شور مچاتے لیکن
افسوس کہ ان ظالم بد اندیشوں نے اس طرف رخ بھی نہیں کیا ۔اے دنیا کے دانشمندو خدا کے لئے بھی کچھ عقل خرچ کرو اور ذرا سوچو کہ جس حالت میں پیشگوئی میں شرط موجود تھی اور آتھم نے نہ
صرف اپنے مضطربانہ افعال سے ثابت کیا کہ پیشگوئی کے اثنا میں عیسائیت کا استقلال اس سے الگ ہو گیا تھا۔ اور اسلامی عظمت نے ایک دیوانہ سا اس کو بنا دیا تھا بلکہ اس نے اپنی زبان سے بھی
اقرار کیا جو نور افشاں میں چھپ گیا کہ میں اثناء پیشگوئی میں ضرور ڈرتا رہا لیکن نہ اسلام سے بلکہ اس لئے کہ میرے پر
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 314
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/314/mode/1up
متواتر تین حملے ہوئے یعنی امرتسر اور لودھیانہ اور فیروز پور میں مگر وہ ان حملوں کو ثابت نہ کر سکا بلکہ مارٹن کلارک
وغیرہ نے نالش کے لئے اس کو بہت اٹھایا اور بہت ہی زور لگایا جس سے اس نے صاف انکار کر دیا اور میت کی طرح اپنے تئیں بنا لیا۔ اگر وہ سچا تھا تو سچائی کا جوش ضرور اس میں ہونا چاہئے
تھا اور اگر اپنے لئے نہیں تو اپنے دین کے لئے ضرور اس بات کا ثبوت دینا اس کے ذمہ تھا کہ جس ڈر کا اس کو اقرار ہے وہ محض تین حملوں کی وجہ سے تھا نہ اسلامی عظمت کی وجہ سے اور ہر
ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس نے اپنے اس دعویٰ کا ثبوت نہیں دیا جو بطور روک کے اس کی طرف سے پیش ہوا تھا بلکہ تین حملوں کا ڈر ایک بے ثبوت بناوٹ اور بے ہودہ روک
تھی جو واقعی ڈر کے مخفی رکھنے کے لئے پیش کی گئی تھی۔ اگر وہ سچا ہوتا تو ضرور نالش کر کے اس کو ثابت کرتا یا کسی اور طور سے اس واقعہ کو بپایہ ثبوت پہنچاتا۔ پس جبکہ اس نے خوف کا
اقرار تو کیا مگر ان وجوہ کو ثابت نہ کر سکا جو خوف کی بنیاد ٹھہرا لی تھی تو ضروری طور پر اس خوف کو پیشگوئی کی عظمت اور اسلام کے رعب کی طرف منسوب کرنا پڑا اس صورت میں ہمیں
کچھ ضرور نہیں تھا کہ کوئی انعامی اشتہار دیتے یا قسم کے لئے اس کو مجبور کرتے کیونکہ ان قرائن نے جو اس نے آپ ہی اپنےؔ اقوال اور افعال اور حرکات سے ظاہر کئے تھے اس بات کو بخوبی
ثابت کر دیا تھا کہ وہ ضرور اسلامی عظمت سے ڈرتا رہا اور قرآن کریم اور نیز عیسائیوں کی کتابوں کے موافق رجوع کے لئے اسی قدر بات کافی تھی کہ اس کے دل نے اسلامی عظمت کو مان لیا مگر
ہم نے صرف اس قراینی ثبوت پر اکتفا نہ کیا بلکہ متواتر چار اشتہار مع انعام رقم کثیر کے جاری کئے اور ان میں لکھا کہ وہ قرائن جو تم نے آپ ہی اپنے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 315
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/315/mode/1up
افعال اور اقوال اور حرکات سے پیدا کئے تمہیں اس امر کا ملزم کرتے ہیں کہ تم ضرور عظمت اسلامی سے ڈر کر اس شرط کو
پورا کرنے والے ٹھہرے جو پیشگوئی میں درج تھی پھر اگر تم سے بہت ہی نرمی کریں اور فرض کے طور پر ثابت امر کو مشتبہ تصور کر لیں تب بھی اس اشتباہ کا دور کرنا جو تم نے اپنے ہاتھوں سے
آپ پیدا کیا انصافاًو قانوناً تمہارے ہی ذمّہ ہے سو اس کا تصفیہ یوں ہے۔ کہ اگر وہ خوف جس کا تمہیں خود اقرار ہے۔ اسلام کی عظمت سے نہیں تھا بلکہ کسی اور وجہ سے تھا تو تم قسم کھا جاؤ اور
اس قسم پر تمہیں چار ہزار روپیہ نقد ملے گا اور ایک سال گذرنے کے بعد اگر تم سالم رہ گئے تو وہ سب روپیہ تمہارا ہی ہوجائے گا لیکن اس نے ہرگز قسم نہ کھائی۔ میں نے اس کو اس کے خدا کی بھی
قسم دی مگر حق کی ہیبت کچھ ایسی دل پر بیٹھ گئی تھی کہ اس طرف منہ کرنا بھی اس کو موت کے برابر تھا میں نے اس پر یہ بھی ثابت کردیا کہ عیسائی مذہب میں کسی نزاع کے فیصلہ کرنے کے
لئے قسم کھانا منع نہیں بلکہ ضروری ہے مگر آتھم* نے ذرہ توجہ نہ کی اب ایماناً سوچو کہ یہ امر تنقیح طلب جو سچی رائے ظاہر کرنے کا مدار تھا کس کے حق میں فیصلہ ہوا اور کون بھاگ
گیا۔
اے مخالف لوگو! کیا کوئی تم میں سے سوچنے والا نہیں! کیا ایک بھی نہیں؟ کیا کسی کو بھی خدا تعالیٰ کا خوف نہیں کیا کوئی بھی تم میں ایسا نہیں کہ جو سیدھے دل سے اس واقعہ میں غور
کرے۔ اس قدر افترا کیوں ہے کیوں دلوں پر ایسے پردے ہیں جو سیدھی بات سمجھ نہیں آتی۔ اس
* نوٹ:۔ آتھم نے قسم کھا کر اس شبہ کو دور نہ کیا جو ڈرتے رہنے کے اقرار سے اس کی نسبت جم
گیا تھا بلکہ قسم کھانے سے سخت گریز کر کے ایک اور شبہ اپنے پر قائم کر لیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 316
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/316/mode/1up
بات کو کہتے ہوئے کہ پیشگوئی غلطؔ نکلی کیوں تم کو خدا کا خوف نہیں پکڑتا کیوں تمہارا دل کانپ نہیں جاتا۔ کیا تم انسان ہو یا
بالکل مسخ ہوگئے۔ وہ آنکھیں کہاں گئیں جو حق کو دیکھتی ہیں۔ وہ دل کدھر چلے گئے جو سچائی کو فی الفور سمجھ لیتے ہیں، اس سے کوئی بے ایمانی بڑھ کر نہیں کہ جو سچی بات کو ناحق جھوٹ بنایا
جاوے اور نہ اس سے کوئی بد ذاتی زیادہ بدتر ہے جو جھوٹ پر خواہ نخواہ ضد کی جائے اب کون سے دلائل باقی ہیں جو ہم تمہارے پاس بیان کریں اور ثبوت میں کونسی کسر رہ گئی ہے جو وہ کسر
نکالی جاوے خدایا یہ کیسے اندھے ہیں کہ اس بات کو منہ پر لانے کے وقت کہ پیشگوئی غلط نکلی۔ پیشگوئی کی شرط کو بھول جاتے ہیں۔ یا الٰہی یہ کیسی بے ایمانی اور بدذاتی ہے جو ہمیں ناحق بار بار
ستایا جاتا ہے۔ اور کوئی بھلا مانس آتھم کو جاکر نہیں پوچھتا کہ تم اس ضروری قسم سے کیوں گریز کر گئے اور کیوں عیسائی مذہب پر سیاہی مل دی اور کیوں ایسی قسم نہ کھائی جو عقلاً و انصافاًو
قانوناً نہایت ضروری تھی اور تم پر واجب ہوچکی تھی۔
اے لوگو اس قدر غلو سے باز آجاؤ اور ڈرو کیونکہ وہ ہستی حق ہے جس کو تم بھولتے ہو اور وہ پاک ذات سچ ہے جس کی اس تعصب میں
تمہیں کچھ بھی پرواہ نہیں۔ اس سے ڈرو کیونکہ کوئی بے ہودہ بات نہیں جس کا حساب نہیں لیا جائے گا اور مجھے اسی کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آتھم اب بھی قسم کھانا چاہے
اور انہی الفاظ کے ساتھ جو میں پیش کرتا ہوں ایک مجمع میں میرے روبرو تین مرتبہ قسم کھاوے اور ہم آمین کہیں تو میں اسی وقت چار ہزار روپیہ اس کو دوں گا۔ اگر
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 317
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/317/mode/1up
تاریخ قسم سے ایک سال تک زندہ سالم رہا تو وہ اس کا روپیہ ہوگا۔ اور پھر اس کے بعد یہ تمام قومیں مجھ کو جو سزا چاہیں دیں
اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کریں تو میں عذر نہیں کروں گا۔ اور اگر دنیا کی سزاؤں میں سے مجھ کو وہ سزا دیں جو سخت تر سزا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا اور خود میرے لئے اس سے
زیادہ کوئی رسوائی نہیں ؔ ہوگی کہ میں ان کی قسم کے بعد جس کی میرے ہی الہام پر بنا ہے جھوٹا نکلوں۔
پس اے یاوہ گو لوگو بدذاتی کے منصوبوں کو چھوڑو اور کسی طرح آتھم صاحب کو اس
بات پر راضی کرو تا راستبازوں کے حق میں وہ فیصلہ ہو جائے جو ہمیشہ سنت اللہ کے موافق ہوا کرتا ہے اور اگر صرف گالیاں دینا مطلب ہے تو ہم تمہارا منہ پکڑ نہیں سکتے۔ اور نہ کچھ اس سے
غرض ہے کیونکہ قدیم سے یہی سنت اللہ ہے کہ ہمیشہ نابکار اور بد سرشت سچوں کو گالیاں دیا کرتے ہیں اور ہریک طرف سے دکھ دیا جاتا ہے اور آخر انجام ان کے لئے ہوتا ہے۔
میں آج تم میں
ظاہر نہیں ہوا بلکہ سولہ برس سے حق کی دعوت کر رہا ہوں تمہیں یہ بھی سمجھ نہیں کہ مفتری جلد ضائع ہو جاتا ہے اور خدا پر جھوٹ بولنے والا جھاگ کی طرح نابود کیا جاتا ہے جن کو لوگ اس
صدی کے لئے سچے مجدد کہتے تھے وہ مدت ہوئی کہ مر گئے* اور جو ان کی نظر میں جھوٹا ہے
* نوٹ: شیخ بٹالوی محمد حسین نے مولوی نواب صدیق حسن خان کو مجدد صدی چہار دہم
ٹھہرایا تھا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 318
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/318/mode/1up
وہ اب تک صدی کے باراں برس گذرنے پر بھی زندہ ہے پس اے مسلمان مخالفو! جو اپنے تئیں مسلمان سمجھتے ہو اپنی جانوں
پر رحم کرو کیونکہ یہ اسلام نہیں ہے جو تم سے ظاہر ہو رہا ہے۔ نئی صدی نے تمہیں ایک مجدد کی حدیث یاد دلائی تم نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی۔ کسوف خسوف نے تمہیں مہدی کے آنے کی
بشارت دی مگر تم نے اس کو بھی ایک بے ہودہ بات کی طرح ٹال دیا تمام بزرگوں کی فراستیں اور مکاشفات
مسیح موعود کے لئے ایک اجماعی قول کی طرح چودھویں صدی تک تم نے سن لیں پر تم نے
اس کو بھی رد کر دیا قرآن کو چھوڑا اور ان حدیثوں کو بھی ترک کر دیا جو قرآن کے مطابق ہیں مگر یاد رکھو کہ تم کاذب ہو ضرور تھا کہ تم اس آخری صادق کے مکذّب ہوتے کیونکہ جو کچھ اس پاک
نبی نے تمہارے حق میں فرمایا تھا ضرور تھا کہ وہ سب پورا ہو۔
بعض لوگ نہایت نا سمجھی سے کہا کرتے ہیں کہ اس طور سے پیشگوئی کے پورے ہونے میںؔ فائدہ کیا نکلا اور حق کے طالبوں کو
کیا فیض حاصل ہوا۔ سو اُنہیں اگر دانشمند ہیں تو ان تمام پیشگوئیوں کو نظر کے سامنے لے آنا چاہئے جو خدا کے پاک نبیوں کی معرفت پوری ہوئیں تامعلوم ہو کہ پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ کی ایک خاص
غرض نہیں ہوتی بلکہ بعض وقت قدرت کا ظاہر کرنا مدنظر ہوتا ہے اور بعض وقت ان علوم اور اسرار کا
بقیہ نوٹ: سو وہ صدی کے آتے ہی اس جہان سے گذر گئے اور بعض ملاؤں نے مولوی
عبدالحی لکھنوی کو اس صدی کا مجدد خیال کیا تھا۔ انہوں نے بھی پہلے ہی فوت ہو کر اپنے ایسے دوستوں کو شرمندہ کیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 319
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/319/mode/1up
ظاہر کرنا مقصود الٰہی ہوتا ہے جو پیشگوئیوں کے متعلق ہیں جن کو عوام نہیں جانتے اور بعض وقت ایک باریک پیشگوئی تو
لوگوں کے امتحان کے لئے ہوتی ہے۔ تاخدا تعالیٰ انہیں دکھلاوے کہ ان کی عقلیں کہاں تک ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ حدیث نبوی کی رو سے اس پیشگوئی میں کج دل لوگوں کا امتحان بھی منظور تھا۔
اس لئے باریک طور پر پوری ہوئی مگر اس کے اور بھی لوازم ہیں جو بعد میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ کشف ساق کی پیشگوئی اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
والسّلام علٰی من اتّبع الہُدٰی
راقم
میرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ
قادیان۔ گورداسپور
ہماری نئی تالیفات
ست بچن آریہ دھرم
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 320
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/320/mode/1up
بقیہ صفحہ ۲۵۰:کی طرف سے ہے سو کامل اور عمیق تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ زبان عربی ہے۔ اگرچہ بہت سے
لوگوں نے ان باتوں کی تحقیقات میں اپنی عمریں گذاریں ہیں اور بہت کوشش کی ہے جو اس بات کا پتہ لگاویں کہ جو اُمّ الاَلسنہ کون سی زبان ہے مگر چونکہ ان کی کوششیں خط مستقیم پر نہیں تھیں اور
نیز خدا تعالیٰ سے توفیق یافتہ نہ تھے اس لئے وہ کامیاب نہ ہو سکے اور یہ بھی وجہ تھی کہ عربی زبان کی طرف ان کی پوری توجہ نہیں تھی بلکہ ایک بخل تھا لہٰذا وہ حقیقت شناسی سے محروم رہ
گئے اب ہمیں خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک کلام قرآن شریف سے اس بات کی ہدایت ہوئی کہ وہ الہامی زبان اور اُمّ الالسنہ جس کے لئے پارسیوں نے اپنی جگہ اور عبرانی والوں نے اپنی جگہ اور آریہ
قوم نے اپنی جگہ دعوے کئے کہ انہیں کی وہ زبان ہے وہ عربی مبین ہے اور دوسرے تمام دعوے دار غلطی پر اور خطا پر ہیں۔ اگرچہ ہم نے اس رائے کو سرسری طور پر ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی جگہ
پر پوری تحقیقات کر لی ہے اور ہزارہا الفاظ سنسکرت وغیرہ کا مقابلہ کر کے اور ہریک لغت کے ماہروں کی کتابوں کو سن کر اور خوب عمیق نظر ڈال کر اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ زبان عربی کے
سامنے سنسکرت وغیرہ زبانوں میں کچھ بھی خوبی نہیں پائی جاتی بلکہ عربی کے الفاظ کے مقابل پر ان زبانوں کے الفاظ لنگڑوں۔ لولوں۔ اندھوں۔ بہروں۔ مبروصوں۔ مجذوموں کے مشابہ ہیں جو فطری
نظام کو بکلی کھو بیٹھے ہیں اور کافی ذخیرہ مفردات کا جو کامل زبان کے لئے شرط ضروری ہے اپنے ساتھ نہیں رکھتے لیکن اگر ہم کسی آریہ صاحب یا کسی پادری صاحب کی رائے میں غلطی پر ہیں
اور ہماری یہ تحقیقات ان کی رائے میں اس وجہ سے صحیح نہیں ہے کہ ہم ان
زبانوں سے ناواقف ہیں تو اول ہماری طرف سے یہ جواب ہے کہ جس طرز سے ہم نے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 321
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/321/mode/1up
اس بحث کا فیصلہ کیا ہے اس میں کچھ ضروری نہ تھا کہ ہم سنسکرت وغیرہ زبانوں کے املاء انشاء سے بخوبی واقف ہو جائیں
ہمیں صرف سنسکرت وغیرہ کے مفردات کی ضرورت تھی۔ سو ہم نے کافی ذخیرہ مفردات کا جمع کر لیا اور پنڈتوں اور یورپ کے زبانوں کے ماہروں کی ایک جماعت سے ان مفردات کے ان معنوں کی
بھی جہاں تک ممکن تھا تنقیح کر لی۔ اور انگریز محققوں کی کتابوں کو بھی بخوبی غور سے سن لیا اور ان باتوں کو مباحثات میں ڈال کر بخوبی صاف کر لیا۔ اور پھر سنسکرت وغیرہ کے زبان دانوں سے
مکرر شہادت لے لی جس سے یقین ہوگیا کہ درحقیقت ویدک سنسکرت وغیرہ زبانیں ان خوبیوں سے عاری اور بے بہرہ ہیں جو عربی زبان میں ثابت ہوئیں۔
پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی آریہ
صاحب یا کسی اور مخالف کو یہ تحقیقات ہماری منظور نہیں تو ان کو ہم بذریعہ اس اشتہار کے اطلاع دیتے ہیں کہ ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الالسنہ ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب
میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو بتفصیل ذیل ہیں
۱۔
عربی کی مفردات کا نظام کامل ہے۔
۲۔
عربی اعلیٰ درجہ کی علمی وجوہ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں۔
۳۔
عربی کا
سلسلہ اطراد مواد اتم و اکمل ہے۔
۴۔
عربی کی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں۔
۵۔
عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی
ہے۔
اب ہر یک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب کے چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے یا اس اشتہار
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 322
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 322
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/322/mode/1up
کے پہنچنے کے بعد ہمیں اپنے منشاء سے اطلاع دے کہ وہ کیونکر اور کس طور سے اپنی تسلی کرنا چاہتا ہے یا اگر اس کو ان
فضائل میں کچھ کلام ہے یا سنسکرت وغیرہ کی بھی کوئی ذاتی خوبیاں بتلانا چاہتا ہے تو بے شک پیش کرے ہم غور سے اس کی باتوں کو سنیں گے مگر چونکہ اکثر وہمی مزاج اس قسم کے بھی ہر یک قوم
میں پائے جاتے ہیں کہ یہ خدشہ ان کے دل میں باقی رہ جاتا ہے کہ شاید سنسکرت وغیرہ میں کوئی ایسے چھپے ہوئے کمالات ہوں جو انہیں لوگوں کو معلوم ہوں جو ان زبانوں کی کتابوں کو پڑھتے
پڑھاتے ہیں۔ اس لئے ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کر دیا ہے اور یہ پانچ ہزار روپیہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ کسی آریہ صاحب یا کسی اور صاحب کی
درخواست کے آنے پر پہلے ہی ایسی جگہ جمع کرادیا جائے گا جس میں وہ آریہ صاحب یا اور صاحب بخوبی مطمئن ہوں۔ اور سمجھ لیں کہ فتح یابی کی حالت میں بغیر حرج کے وہ روپیہ ان کو وصول
ہو جائے گا۔ مگر یاد رہے کہ روپیہ جمع کرانے کی درخواست اس وقت آنی چاہئے جبکہ تحقیق السنہ کی کتاب چھپ کر شائع ہو جائے اور جمع کرانے والے کو اس امر کے بارے میں ایک تحریری
اقرار دینا ہوگا کہ اگر وہ پانچ ہزار روپیہ جمع کرانے کے بعد مقابلہ سے گریز کر جائے یا اپنی لاف و گزاف
کو انجام تک پہنچا نہ سکے تو وہ تمام حرجہ ادا کرے جو ایک تجارتی روپیہ کے لئے
کسی مدت تک بند رہنے کی حالت میں ضروری الوقوع ہے۔
وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی
*
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- ضیاءُالحق: صفحہ 323
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/323/mode/1up
عبد الحق غزنوی کے مباہلہ کا بقیہ
عبد الحق غزنوی نے اپنے بیہودہ اشتہار میں مباہلہ میں فتح یاب ہونے کا بہت سوچ فکر
کے بعد یہ حیلہ نکالا تھا کہ بھائی کے مرنے سے اس کی بیوی میرے قبضہ میں آئے اور یہ بھی اشارہ کیا تھا کہ آئندہ لڑکا پیدا ہونے کی امید ہے۔ اس کے جواب میں ہم نے اپنے رسالہ انوار الاسلام
میں لکھ دیا تھا کہ بھائی کا مرنا اور اس کی ضعیفہ بیوہ کو نکاح میں لانا کوئی مراد یابی کی بات نہیں بلکہ اس کا ذکر کرنا ہی جائے شرم ہے وہ ضعیفہ جو اپنی جوانی کا اکثر حصہ کھا چکی تھی اس کو
نکاح میں لاکر تو ناحق عبد الحق نے روٹی کا خرچ اپنے گلے ڈال لیا۔ اب معلوم ہوا ہوگا کہ ایسے بے ہودہ نکاح سے دکھ خریدا یا خوشی ہوئی۔باقی رہا لڑکا پیدا ہونا اس کا عبد الحق نے اب تک کوئی
اشتہار نہیں دیا شاید وہ پیٹ کے اندر ہی اندر گم ہوگیا۔ یا بموجب آیت فرقانی لڑکی پیدا ہوئی اور منہ کالا ہوگیا۔ لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے عبد الحق کی یا وہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے
ایک لڑکا دیا جائے گا۔ جیسا کہ ہم اسی رسالہ انوار الاسلام میں اس بشارت کو شائع بھی کر چکے سو الحمد للّٰہ والمنۃ کہ اس الہام کے مطابق
۲۷ ذی قعد ۱۳۱۲ ؁ھ میں مطابق ۲۴؍ مئی ۱۸۹۵ ؁ء
میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شریف احمد رکھا گیا۔ والسّلام علٰی من اتبع الہُدٰی
راقم خاکسار غلام احمد عفی عنہ
 
Last edited:
Top