• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 9 ۔معیار المذاہب ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد9۔ معیار المذاہب۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 9. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
رساؔ لہ معیار المذاہب
فطرتی معیار سے مذاہب کا مقابلہ
اور گورنمنٹ انگریزی کے احسان کا کچھ تذکرہ
میرے
خیال میں مذاہب کے پرکھنے اور جانچنے اور کھرے کھوٹے میں تمیز کرنے کے لئے اس سے بہتر کسی ملک کے باشندوں کو موقعہ ملنا ممکن نہیں جو ہمارے ملک پنجاب اور ہندوستان کو ملا ہے اس
موقع کے حصول کے لئے پہلا فضل خدا تعالیٰ کا گورنمنٹ برطانیہ کا ہمارے اس ملک پر تسلّط ہے۔ ہم نہایت ہی ناسپاس اور منکر نعمت ٹھہریں گے اگر ہم سچے دل سے اس محسن گورنمنٹ کا شکر نہ
کریں جس کے بابرکت وجود سے ہمیں دعوت اور تبلیغ اسلام کا وہ موقعہ ملا جو ہم سے پہلے کسی بادشاہ کو بھی نہ مل سکا کیونکہ اس علم دوست گورنمنٹ نے اظہار رائے میں وہ آزادی دی ہے جس
کی نظیر اگر کسی اور موجودہ عملداری میں تلاش کرنا چاہیں تو لاحاصل ہے کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہم لنڈن کے بازاروں میں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دین اسلام کی تائید کے لئے وہ وعظ کرسکتے ہیں جس کا خاص مکہ معظمہ میں میسر آنا ہمارے لئے غیر ممکن ہے اور اس
گورنمنٹ نے نہ صرف اشاعت کتب اور اشاعت مذہب میں ہریک قوم کو آزادی دی بلکہ خود بھی ہر یک فرقہ کو بذریعہ اشاعت علوم و فنون کے مدد دی اور تعلیم اور تربیت سے ایک دنیا کی آنکھیں کھول
دیں۔ پس اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا یہ احسان بھی کچھ تھوڑا نہیں کہ وہ ہمارے مال اور آبرو اور خون کی جہاں تک طاقت ہے سچے دل سے محافظت کررہی ہے اور ہمیں اس آزادی سے فائدہ پہنچا
رہی ہے جس کے لئے ہم سے پہلے بہتیرے نوع انسان کے سچے ہمدرد ترستے گذر گئے۔ لیکن یہ دوسرا احسان گورنمنٹ کا اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ وہ جنگلی وحشیوں اور نام کے انسانوں کو انواع
و اقسام کی تعلیم کے ذریعہ سے اہل علم و عقل بنانا چاہتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اس گورنمنٹ کی متواتر کوششوں سےؔ وہ لوگ جو قریب قریب مویشی اور چارپایوں کے تھے کچھ کچھ حصہ انسانیت
اور فہم و فراست کا لے چکے ہیں اور اکثر دلوں اور دماغوں میں ایک ایسی روشنی پیدا ہوگئی ہے جو علوم کے حصول کے بعد پیدا ہوا کرتی ہے۔ معلومات کی وسعت نے گویا یک دفعہ دنیا کو بدل دیا ہے
لیکن جس طرح شیشے میں سے روشنی تو اندر گھر کے آسکتی ہے مگر پانی نہیں آسکتا۔ اسی طرح علمی روشنی تو دلوں اور دماغوں میں آگئی ہے۔ مگر ہنوز وہ مصفّا پانی اخلاص اور رو بحق ہونے کا
اندر نہیں آیا جس سے روح کا پودہ نشوونما پاتا اور اچھا پھل لاتا لیکن یہ گورنمنٹ کا قصور نہیں ہے بلکہ ابھی ایسے اسباب مفقود یا قلیل الوجود ہیں جو سچی روحانیت کو جوش میں لاویں۔ یہ عجیب
بات ہے کہ علمی ترقی سے مکر اور فریب کی بھی کچھ ترقی معلوم ہوتی ہے اور اہل حق کو
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ناقابل برداشت وساوس کا سامنا ہے ایمانی سادگی بہت گھٹ گئی ہے اور فلسفیانہ خیالات نے جن کے ساتھ دینی معلومات ہمقدم
نہیں ہیں۔ ایک زہریلا اثر نو تعلیم یافتہ لوگوں پر ڈال رکھا ہے جو دہریت کی طرف کھینچ رہا ہے اور واقعی نہایت مشکل ہے کہ اس اثر سے بغیر حمایت دینی تعلیم کے لوگ بچ سکیں۔ پس وائے برحال اس
شخص کے جو ایسے مدرسوں اور کالجوں میں اس حالت میں چھوڑا گیا ہے جبکہ اس کو دینی معارف اور حقائق سے کچھ بھی خبر نہیں۔ ہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس عالی ہمت گورنمنٹ نے جو نوع
انسان کی ہمدرد ہے۔ اس ملک کے دلوں کی زمین کو جو ایک بنجر پڑا ہوا تھا اپنے ہاتھ کی کوششوں سے جنگلی درختوں اور جھاڑیوں اور مختلف اقسام کے گھاس سے جو بہت اونچے اور فراہم ہوکر
زمین کو ڈھک رہے تھے پاک کر دیا ہے اور اب قدرتی طور پر وہ وقت آگیا ہے جو سچائی کا بیج اس زمین میں بویا جائے اور پھر آسمانی پانی سے آبپاشی ہو۔ پس وہ لوگ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس
مبارک گورنمنٹ کے ذریعہ سے آسمانی بارش کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس گورنمنٹ کے وجود کو خداتعالیٰ کا فضل سمجھیں اور اس کی سچی اطاعت کے لئے ایسی کوشش
کریں کہ دوسروں کے لئے نمونہ ہو جائیں۔ کیا احسان کا عوض احسان نہیں۔ کیا نیکی کے بدلہ نیکی کرنا لازم نہیں سو چاہیے کہ ہریک شخص سوچ لے اورؔ اپنا نیک جوہر دکھلاوے۔ اسلامی شریعت کسی
کے حق اور احسان کو ضائع کرنا نہیں چاہتی۔ پس نہ منافقانہ طور پر بلکہ دل کی سچائی سے اس محسن گورنمنٹ سے اطاعت کے ساتھ پیش آنا چاہئے کیونکہ ہمارے دین کی روشنی پھیلانے کے لئے
پہلی تقریب
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
خدا تعالیٰ نے یہی قائم کی ہے۔
پھر دوسرا ذریعہ جو مذاہب کے شناخت کرنے کا ہمارے ملک میں پیدا ہوگیا چھاپے خانوں کی
کثرت ہے کیونکہ ایسی کتابیں جو گویا زمین میں دفن تھیں ان چھاپہ خانوں کے ذریعہ سے گویا پھر زندہ ہو گئیں یہاں تک کہ ہندوؤں کا وید بھی نئے اوراق کا لباس پہن کر نکل آیا گویا نیا جنم لیا اور حمقاء
اور عوام کی بنائی ہوئی کہانیوں کی پردہ دری ہوگئی۔
تیسرا ذریعہ راہوں کا کھلنا اور ڈاک کا احسن انتظام اور دور دور ملکوں سے کتابوں کا اس ملک میں آجانا اور اس ملک سے ان ملکوں میں جانا یہ
سب وسائل تحقیق حق کے ہیں جو خدا کے فضل نے ہمارے ملک میں موجود کر دیئے جن سے ہم پوری آزادی کے ذریعہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ سب فوائد اس محسن اور نیک نیت گورنمنٹ کے ذریعہ
سے ہمیں ملے ہیں جس کے لئے بے اختیار ہمارے دل سے دعا نکلتی ہے لیکن اگر یہ سوال ہو کہ پھر ایسی مہذب اور دانا گورنمنٹ ایسے مذہب سے کیوں تعلق رکھتی ہے جس میں انسان کو خدا بنا کر
سچے خدا کے بدیہی اور قدیم اور غیر متغیر اور جلال کی کسر شان کی جاتی ہے۔ تو افسوس کہ اس سوال کا جواب بجز اس کے کچھ نہیں کہ سلاطین اور ملوک کو جو ملک داری کا خیال واجبی حد سے
بڑھ جاتا ہے لہٰذا تدبر اور تفکّر کی تمام قوتیں اسی میں خرچ ہوجاتی ہیں اور قومی حمایت کی مصلحت آخرت کے امور کی طرف سر اٹھانے نہیں دیتی اور اسی طرح ایک مسلسل اور غیر منقطع دنیوی
مطالب کے نیچے دب کر خدا شناسی اور حق جوئی کی روح کم ہوجاتی ہے اور باایں ہمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نومیدی نہیں کہ وہ اس باہمت گورنمنٹ کو صراط مستقیم
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کی طرف توجہ دلاوے۔ ہماری دعا جیسا کہ اس گورنمنٹ کی دنیوی بھلائی کے لئے ہے ایسا ہی آخرت کے لئے بھی ہے پس کیا
تعجب ہے کہ دعا کا اثر ہم دیکھ لیں۔
اسؔ زمانہ میں جبکہ حق اور باطل کے معلوم کرنے کے لئے بہت سے وسائل پیدا ہوگئے ہیں ہمارے ملک میں تین بڑے مذہب بالمقابل کھڑے ہوکر ایک دوسرے
سے ٹکرا رہے ہیں ان مذاہب ثلاثہ میں سے ہر یک صاحب مذہب کو دعویٰ ہے کہ میرا ہی مذہب حق اور درست ہے اور تعجب کہ کسی کی زبان بھی اس بات کے انکار کی طرف مائل نہیں ہوتی کہ اس کا
مذہب سچائی کے اصولوں پر مبنی نہیں لیکن میں اس امر کو باور نہیں کرسکتا کہ جیسا کہ ہمارے مخالفوں کی زبانوں کا دعویٰ ہے۔ ایسا ہی ایک سیکنڈ کے لئے ان کے دل بھی ان کی زبانوں سے اتفاق
کرسکتے ہیں۔ سچے مذہب کی یہ ایک بڑی نشانی ہے کہ قبل اس کے جو ہم اس کی سچائی کے دلائل بیان کریں خود وہ اپنی ذات میں ہی ایسا روشن اور درخشان ہوتا ہے کہ اگر دوسرے مذاہب اس کے
مقابل پر رکھے جائیں تو وہ سب تاریکی میں پڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور اس دلیل کو اس وقت ایک دانشمند انسان صفائی سے سمجھ سکتا ہے جبکہ ہریک مذہب کو اس کے دلائل مخترعہ سے علیحدہ
کرکے صرف اس کے اصل الاصول پر نظر کرے یعنی ان مذاہب کے طریق خدا شناسی کو فقط ایک دوسرے کے مقابل پر رکھ کر جانچے اور کسی مذہب کے عقیدہ خدا شناسی پر بیرونی دلائل کا حاشیہ
نہ چڑھاوے بلکہ مجرد عن الدلائل کرکے اور ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے مقابل پر رکھ کر پرکھے اور سوچے کہ کس مذہب میں ذاتی سچائی کی چمک پائی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جاتی ہے اور کس میں یہ خاصیت ہے کہ فقط اس کے طریق خدا شناسی پر ہی نظر ڈالنا دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے مثلاً وہ
تین مذہب جن کا میں ابھی ذکر کر چکا ہوں۔ یہ ہیں۔ آریہ۱۔ عیسائی۲۔ اسلام۳۔ اگر ہم ان تینوں کی اصل تصویر دکھلانا چاہیں تو بتفصیل ذیل ہے۔
آریہ مذہب کا ایک ایسا خدا ہے جس کی خدائی اپنی ذاتی
قوت اور قدرت پر چلنا غیر ممکن ہے اور اس کی تمام امیدیں ایسے وجودوں پر لگی ہوئی ہیں جو اس کے ہاتھ سے پیدا نہیں ہوئے۔ حقیقی خدا کی قدرتوں کا انتہا معلوم کرنا انسان کا کام نہیں مگر آریوں
کے پرمیشر کی قدرت انگلیوںؔ پر گن سکتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کم سرمایہ پرمیشر ہے کہ اس کی تمام قدرتوں کی حد معلوم ہوچکی ہے اور اگر اس کی قدرتوں کی بہت ہی تعریف کی جائے تو اس سے
بڑھ کر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے جیسی قدیم چیزوں کو معماروں کی طرح جوڑنا جانتا ہے اور اگر یہ سوال ہو کہ اپنے گھر سے کون سی چیز ڈالتا ہے تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ
کچھ نہیں۔ غرض اس کی طاقت کا انتہائی مرتبہ صرف اس حد تک ہے کہ وہ موجودہ روحوں اور اجسام صغار کو جو قدیم اور اس کے وجود کی طرح انادی اور واجب الوجود ہیں جن کی پیدائش پر اس
کے وجود کا کچھ بھی اثر نہیں باہم پیوند کر دیتا ہے لیکن اس بات پر دلیل قائم ہونا مشکل ہے کہ کیوں ان قدیم چیزوں کو ایسے پرمیشر کی حاجت ہے جبکہ کل چیزیں خود بخود ہیں ان کے تمام قویٰ بھی
خود بخود ہیں اور ان میں باہم ملنے کی استعداد بھی خود بخود ہے اور ان میں قوت جذب اور کشش بھی قدیم سے ہے اور ان کے تمام خواص جو ترکیب کے بعد بھی ظاہر ہوتے ہیں خود بخود ہیں تو پھر
سمجھ میں نہیں آتا کہ کس دلیل سے اس ناقص اور ناطاقت پرمیشر کی ضرورت ثابت ہوتی ہے اور اس میں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور اس کے غیر میں مابہ الامتیاز بجز زیادہ ہوشیار اور ذہین ہونے کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آریوں کا
پرمیشر اُن بے انتہا قدرتوں سے ناکام ہے جو الوہیت کے کمال کے متعلق ہیں اور یہ اس فرضی پرمیشر کی بدقسمتی ہے کہ اس کو وہ کمال تام میسر نہ ہوسکا جو اُلوہیت کا پورا جلال چمکنے کے لئے
ضروری ہے۔ اور دوسری بدنصیبی یہ ہے کہ بجز چند ورق وید کے قانون قدرت کی رو سے اس کے شناخت کرنے کی کوئی بھی راہ نہیں کیونکہ اگر یہی بات صحیح ہے کہ ارواح اور ذرات اجسام معہ
اپنی تمام قوتوں اور کششوں اور خاصیتوں اور عقلوں اور ادراکوں اور شعوروں کے خود بخود ہیں تو پھر ایک عقل سلیم ان چیزوں کے جوڑنے کے لئے کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں سمجھتی
وجہ یہ کہ اس صورت میں اس سوال کا جواب دینا امکان سے خارج ہے کہ جو چیزیں اپنے وجود کی قدیم سے آپ ہی خدا ہیں اور اپنے اندر وہ تمام قوتیں بھی رکھتی ہیں جو ان کے باہم جوڑنے کے لئے
ضروری ہیں تو پھر جس حالت میں ان کو اپنے وجود کے لئے پرمیشر کی حاجت نہیں ہوئی اور اپنی قوتوؔ ں اور خاصیتوں میں کسی بنانے والے کی محتاج نہیں ٹھہریں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ان کو
باہم تعلق کے لئے کسی دوسرے جوڑنے والے کی حاجت پڑ گئی حالانکہ روحوں کے ساتھ ان کے قویٰ کا جوڑنا اور ذرات اجسام کے ساتھ ان کی قوتوں کا جوڑنا یہ بھی ایک جوڑنے کی قسم ہے پس اس
سے تو یہ ثابت ہی ہوگیا کہ ان قدیم چیزوں کو جیسا کہ اپنے وجود کے لئے کسی خالق کی ضرورت نہیں اور اپنی قوتوں کے لئے کسی موجد کی حاجت نہیں ایسا ہی باہم جوڑ پیدا ہونے کے لئے کسی
صانع کی حاجت نہیں اور یہ نہایت بے وقوفی ہوگی کہ جب اول خود اپنی ہی زبان سے ان چیزوں کی نسبت مان لیں کہ وہ اپنے وجود اور اپنی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
قوتوں اور اپنے باہم جوڑ کے لئے دوسرے کے محتاج نہیں تو پھر اسی منہ سے یہ بھی کہیں کہ بعض چیزوں کے جوڑنے کے
لئے ضرور کسی دوسرے کی حاجت ہے۔ پس یہ تو ایک دعویٰ ہوگا جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ غرض اس عقیدہ کی رو سے پرمیشر کا وجود ہی ثابت کرنا مشکل ہوگا سو اس انسان سے زیادہ کوئی
بدقسمت نہیں جو ایسے پرمیشر پر بھروسہ رکھتا ہے جس کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے بھی بباعث کمی قدرت کے کوئی عمدہ اسباب میسر نہیں آسکے۔ یہ تو ہندوؤں کے پرمیشر میں خدائی کی
طاقتیں ہیں اور اخلاقی طاقتوں کا یہ حال ہے کہ وہ انسانوں کی طاقتوں سے بھی کچھ گری ہوئی معلوم ہوتی ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نیک دل انسان بارہا ایسے قصور واروں کے قصور بخش دیتا
ہے جو عجز اور نیاز کے ساتھ اس سے معافی چاہتے ہیں اور بارہا اپنے کرم نفس کی خاصیت سے ایسے لوگوں پر احسان کرتا ہے جن کا کچھ بھی حق نہیں ہوتا لیکن آریہ لوگ اپنے پرمیشر کی نسبت
یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں قسموں کے خلقوں سے بھی بے نصیب ہے اور ان کے نزدیک ہریک گناہ کروڑہا جونوں کا موجب ہے اور جب تک کوئی گنہگار بے انتہا جونوں میں پڑ کر پوری سزا نہ پا
لے تب تک کوئی صورت مَخلصی نہیں اور ان کے عقیدہ کی رو سے یہ امید بالکل بے سود ہے کہ انسان کی توبہ اور پشیمانی اور استغفار اس کے دوسرے جنم میں پڑنے سے روک دے گی یا حق کی
طرف رجوع کرنا گذشہ ناحق کے اقوال و اعمال کی سزا سے اسے بچاؔ لے گا بلکہ بے شمار جونوں کا بھگتنا ضروری ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا اور کرم اور جود کے طور پر کچھ بخشش کرنا
تو پرمیشر کی عادت ہی نہیں۔ جو کچھ انسان یا حیوان کوئی عمدہ حالت رکھتا ہے یا کوئی نعمت پاتا ہے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وہ کسی پہلی جون کا پھل ہے مگر افسوس کہ باوجود یکہ آریوں کو وید کے اصولوں پر بہت ہی ناز ہے مگر پھر بھی یہ وید کی
باطل تعلیم ان کی انسانی کانشنس کو مغلوب نہیں کرسکی اور مجھے ان ملاقاتوں کی وجہ سے جو اکثر اس فرقہ کے بعض لوگوں سے ہوتی ہیں یہ بات بارہا تجربہ میں آچکی ہے کہ جس طرح نیوگ کے
ذکر کے وقت ایک ندامت آریوں کو دامن گیر ہوجاتی ہے اسی طرح وہ نہایت ہی ندامت زدہ ہوتے ہیں جبکہ ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پرمیشر کی قدرتی اور اخلاقی طاقتیں کیوں ایسی محدود ہوگئیں
جن کی شامت سے اس کی خدائی بھی عند العقل ثابت نہیں ہوسکتی اور جس کی وجہ سے بدنصیب آریہ دائمی نجات پانے سے محروم رہے۔ غرض ہندوؤں کے پرمیشر کی حقیقت اور ماہیت یہی ہے کہ
وہ اخلاقی اور الوہیت کی طاقتوں میں نہایت کمزور اور قابل رحم ہے اور شاید یہی سبب ہے کہ ویدوں میں پرمیشر کی پرستش چھوڑ کر اگنی اور وایو اور چاند اور سورج اور پانی کی پرستش پر زور
ڈالا گیا ہے اور ہر یک عطا اور بخشش کا سوال ان سے کیا گیا ہے کیونکہ جب کہ پرمیشر آریوں کو کسی منزل تک نہیں پہنچا سکتا بلکہ خودپوری قدرتوں سے محروم رہ کرنامرادی کی حالت میں زندگی
بسر کرتا ہے تو پھر دوسرے کا اس پر بھروسہ کرنا صریح غلطی ہے۔ ہندوؤں کے پرمیشر کی کامل تصویر آنکھوں کے سامنے لانے کے لئے اسی قدر کافی ہے جو ہم لکھ چکے ۔
اب دوسرا مذہب
یعنی عیسائی باقی ہے جس کے حامی نہایت زورو شور سے اپنے خدا کو جس کا نام انہوں نے یسوع مسیح رکھا ہوا ہے بڑے مبالغہ سے سچا خدا سمجھتے ہیں اور عیسائیوں کے خدا کا حلیہ یہ ہے کہ
وہ ایک اسرائیلی آدمی مریم بنت یعقوب کا بیٹا ہے جو ۳۲ برس کی عمر پاکر اس دارالفنا سے گذر گیا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جب ہم سوچتے ہیں کہ کیونکر وہ گرفتار ہونے کے وقت ساری رات دعا کرکے پھر بھی اپنے مطلب سے نامراد رہا اور ذلت کے
ساتھ پکڑا گیا۔ اورؔ بقول عیسائیوں کے سولی پر کھینچا گیا اور ایلی ایلیکرتا مر گیا تو ہمیں یک دفعہ بدن پر لرزہ پڑتا ہے کہ کیا ایسے انسان کو جس کی دعا بھی جناب الٰہی میں قبول نہ ہوسکی اور نہایت
ناکامی اور نامرادی سے ماریں کھاتا کھاتا مر گیاقادر خدا کہہ سکتے ہیں۔ ذرا اس وقت کے نظارہ کو آنکھوں کے سامنے لاؤ جب کہ یسوع مسیح حوالات میں ہوکر پلاطوس کی عدالت سے ہیرودوس کی
طرف بھیجا گیا کیا یہ خدائی کی شان ہے کہ حوالات میں ہوکر ہتکڑی ہاتھ میں زنجیر پیروں میں چند سپاہیوں کی حراست میں چالان ہوکر جھڑکیاں کھاتا ہوا گلیل کی طرف روانہ ہوا اور اس حالت پُر
ملالت میں ایک حوالات سے دوسری حوالات میں پہنچا۔ پلاطوس نے کرامت دیکھنے پر چھوڑنا چاہا اس وقت کوئی کرامت دکھلا نہ سکا۔ ناچار پھر حراست میں واپس کرکے یہودیوں کے حوالہ کیا گیا
اور انہوں نے ایک دم میں اس کی جان کا قصہ تمام کر دیا۔
اب ناظرین خود سوچ لیں کہ کیا اصلی اور حقیقی خدا کی یہی علامتیں ہوا کرتی ہیں۔ کیا کوئی پاک کانشنس اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ
جو زمین و آسمان کا خالق اور بے انتہا قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہے وہ اخیر پر ایسا بدنصیب اور کمزور اور ذلیل حالت میں ہو جائے کہ شریر انسان اس کو اپنے ہاتھوں میں مل ڈالیں۔ اگر کوئی ایسے
خدا کو پوجے اور اس پر بھروسہ کرے تو اسے اختیار ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اگر آریوں کے پرمیشر کے مقابل پر بھی عیسائیوں کے خدا کو کھڑا کر کے اس کی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
طاقت اور قدرت کو وزن کیا جائے تب بھی اس کے مقابل پر بھی یہ ہیچ محض ہے کیونکہ آریوں کا فرضی پرمیشر اگرچہ پیدا
کرنے کی کچھ بھی طاقت نہیں رکھتا لیکن کہتے ہیں کہ پیدا شدہ چیزوں کو کسی قدر جوڑ سکتا ہے مگر عیسائیوں کے یسوع میں تو اتنی بھی طاقت ثابت نہ ہوئی جس وقت یہودیوں نے صلیب پر کھینچ کر
کہا تھا کہ اگر تو اب اپنے آپ کو بچائے تو ہم تیرے پر ایمان لاویں گے تو وہ ان کے سامنے اپنے تئیں بچا نہ سکا ورنہ اپنے تئیں بچانا کیا کچھ بڑا کام تھا صرف اپنی روح کو اپنے جسم کے ساتھ جوڑنا
تھا۔ سو اس کمزور کو جوڑنے کی بھی طاقت نہ ہوئی ۔ پیچھے سے پردہ داروں نےؔ باتیں بنا لیں کہ وہ قبر میں زندہ ہوگیا تھا مگر افسوس کہ انہوں نے نہ سوچا کہ یہودیوں کا تو یہ سوال تھا کہ ہمارے
روبرو ہمیں زندہ ہوکر دکھلاوے پھر جبکہ ان کے روبرو زندہ نہ ہوسکا اور نہ قبر میں زندہ ہوکر ان سے آکر ملاقات کی تو یہودیوں کے نزدیک بلکہ ہریک محقق کے نزدیک اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ
حقیقت میں زندہ ہوگیا تھا اور جب تک ثبوت نہ ہو تب تک اگر فرض بھی کر لیں کہ قبر میں لاش گم ہوگئی تو اس سے زندہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ عند العقل یقینی طور پر یہی ثابت ہوگا کہ درپردہ کوئی
کرامات دکھلانے والا چُرا کر لے گیا ہوگا۔ دنیا میں بہتیرے ایسے گذرے ہیں کہ جن کی قوم یا معتقدوں کا یہی اعتقاد تھا کہ ان کی نعش گم ہو کر وہ معہ جسم بہشت میں پہنچ گئی ہے تو کیا عیسائی قبول
کرلیں گے کہ فی الحقیقت ایسا ہی ہوا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہوگا مثلاً دور نہ جاؤ بابا نانک صاحب کے واقعات پر ہی نظر ڈالو کہ ۱۷ لاکھ سکھ صاحبوں کا اسی پر اتفاق ہے کہ درحقیقت وہ
مرنے کے بعد معہ اپنے جسم کے بہشت میں پہنچ گئے اور نہ صرف اتفاق بلکہ ان کی معتبر کتابوں میں جو اسی زمانہ میں تالیف ہوئیں یہی لکھا ہوا ہے۔ اب کیا عیسائی صاحبان قبول کرسکتے ہیں کہ
حقیقت میں بابا نانک صاحب معہ جسم بہشت میں ہی چلے گئے ہیں۔ افسوس کہ عیسائیوں کو دوسروں کے لئے تو فلسفہ یاد آجاتا ہے مگر اپنے گھر کی نامعقول باتوں سے فلسفہ کو چھونے بھی نہیں
دیتے۔ اگر عیسائی صاحبان کچھ انصاف سے کام لینا چاہیں تو جلد سمجھ سکتے ہیں کہ سکھ صاحبوں کے دلائل بابا نانک صاحب کی نعش گم ہونے اور معہ جسم بہشت میں جانے کے بارے میں عیسائیوں
کے مزخرفات کی نسبت بہت ہی قوی اور قابل توجہ ہیں اور بلاشبہ انجیل کے وجوہ سے زبردست ہیں کیونکہ اول تو وہ واقعات اسی وقت بالا والی جنم ساکھی میں لکھے گئے مگر انجیلیں یسوع کے
زمانہ سے بہت برس بعد لکھی گئیں پھر ایک اور ترجیح بابا نانک صاحب کے واقعہ کو یہ ہے کہ یسوع کی طرف جو یہ کرامت منسوب کی گئی ہے تو یہ درحقیقت اس ندامت کی پردہ پوشی کی غرض
سے معلوم ہوتی ہے جو یہودیوں کے سامنے حواریوں کو اٹھانی پڑی کیونکہ جب یہودیوں نے یسوع کو صلیب پر کھینچ کر پھر اس سے یہ معجزہ چاہا کہ اگر وہ اب زندہ ہو ؔ کر صلیب پر سے اتر
آئے تو ہم اس پر ایمان لائیں گے۔ تو اس وقت یسوع صلیب پر سے اتر نہ سکا۔ پس اس وجہ سے یسوع کے شاگردوں کو بہت ہی ندامت ہوئی اور وہ یہودیوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
لہٰذا ضرور تھا کہ وہ ندامت کے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چھپانے کے لئے کوئی ایسا حیلہ کرتے۔ جس سے سادہ لوحوں کی نظر میں اس طعن اور ٹھٹھے اور ہنسی سے بچ جاتے۔ سو
اس بات کو عقل قبول کرتی ہے کہ انہوں نے فقط ندامت کا کلنک اپنے منہ پر سے اتارنے کی غرض سے ضرور یہ حیلہ بازی کی ہوگی کہ رات کے وقت جیسا کہ ان پر الزام لگا تھا یسوع کی نعش کو
اس کی قبر میں سے نکال کر کسی دوسری قبر میں رکھ دیا ہوگا اور پھر حسب مثل مشہور کہ خواجہ کا گواہ ڈڈوکہہ دیا ہوگا کہ لو جیسا کہ تم درخواست کرتے تھے یسوع زندہ ہوگیا مگر وہ آسمان پر
چلا گیا ہے لیکن یہ مشکلیں بابا نانک صاحب کے فوت ہونے پر سکھ صاحبوں کو پیش نہیں آئیں اور نہ کسی دشمن نے ان پر یہ الزام لگایا اور نہ ایسے فریبوں کے لئے ان کو کوئی ضرورت پیش آئی اور
نہ جیسا کہ یہودیوں نے شور مچایا تھا کہ نعش چرائی گئی ہے کسی نے شور مچایا سو اگر عیسائی صاحبان بجائے یسوع کے بابا نانک صاحب کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے تو کسی قدر معقول بھی تھا مگر
یسوع کی نسبت تو ایسا خیال صریح بناوٹ اور جعلسازی کی بدبو سے بھرا ہوا ہے۔
اخیر عذر یسوع کے دکھ اٹھانے اور مصلوب ہونے کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ خدا ہوکر پھر اس لئے سولی پر
کھینچا گیا کہ تااس کی موت گناہگاروں کے لئے کفارہ ٹھہرے لیکن یہ بات بھی عیسائیوں کی ہی ایجاد ہے کہ خدا بھی مرا کرتا ہے گو مرنے کے بعد پھر اس کو زندہ کر کے عرش پر پہنچا دیا اور اس
باطل وہم میں آج تک گرفتار ہیں کہ پھر وہ عدالت کرنے کے لئے دنیا میں آئے گا اور جو جسم مرنے کے بعد اس کو دوبارہ ملا وہی جسم خدائی کی حیثیت میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا مگر عیسائیوں
کا یہ مجسم خدا جس
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پر بقول ان کے ایک مرتبہ موت بھی آچکی ہے اور خون گوشت ہڈی اور اوپر نیچے کے سب اعضا رکھتا ہے۔ یہ ہندوؤں کے ان
اوتاروں سے مشابہ ہے جن کو آج کل آریہ لوگ بڑے جوش سے چھوڑتے جاتے ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ عیسائیوں کے خدا نے تو صرف ایک مرتبہ مریمؔ بنت یعقوب کے پیٹ سے جنم لیا۔ مگر ہندوؤں
کے خدا بشن نے نو مرتبہ دنیا کے گناہ دور کرنے کے لئے تولد کا داغ اپنے لئے قبول کر لیا۔ خصوصاً آٹھویں مرتبہ کا جنم لینے کا قصہ نہایت دلچسپ بیان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ جب زمین
دیئتوں کی طاقت سے مغلوب ہوگئی تو بشن نے آدھی رات کو کنواری لڑکی کے پیٹ سے پیدا ہوکر اوتار لیا اور جو پاپ دنیا میں پھیلے ہوئے تھے ان سے لوگوں کو چھڑایا۔ یہ قصہ اگرچہ عیسائیوں کے
مذاق کے موافق ہے مگر اس بات میں ہندوؤں نے بہت عقلمندی کی کہ عیسائیوں کی طرح اپنے اوتاروں کو سولی نہیں دیا اور نہ ان کے *** ہونے کے قائل ہوئے۔ قرآن شریف کے بعض اشارات سے
نہایت صفائی کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو خدا بنانے کے موجد پہلے آریہ ورت کے برہمن ہی ہیں۔ اور پھر یہی خیالات یونانیوں نے ہندوؤں سے لئے۔ آخر اس مکروہ اعتقاد میں ان دونوں قوموں
کے فضلہ خوار عیسائی بنے۔ اور ہندوؤں کو ایک اور بات دور کی سوجھی جو عیسائیوں کو نہیں سوجھی اور وہ یہ کہ ہندو لوگ خدائے ازلی ابدی کے قدیم قانون میں یہ بات داخل رکھتے ہیں کہ جب کبھی
دنیا گناہ سے بھر گئی تو آخر ان کے پرمیشر کو یہی تدبیر خیال میں آئی کہ خود دنیا میں جنم لے کر لوگوں کو نجات دیوے۔ اور ایسا واقعہ صرف ایک دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ ضرورت کے وقتوں میں
ہوتا رہا۔ لیکن گو عیسائیوں کا یہ تو
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/474/mode/1up
عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ قدیم ہے اور گذشہ زمانہ کی طرف خواہ کیسے ہی اوپر سے اوپر چڑھتے جائیں اس خدا کے وجود کا
کہیں ابتدا نہیں اور قدیم سے وہ خالق اور ربّ العالمین بھی ہے لیکن وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ سے اور غیر متناہی زمانوں سے اپنے پیارے بیٹوں کو لوگوں کے لئے سولی پر چڑھاتا رہا
ہے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ تدبیر ابھی اس کو کچھ تھوڑے عرصہ سے ہی سوجھی ہے اور ابھی بڈھے باپ کو یہ خیال آیا ہے کہ بیٹے کو سولی دلا کر دوسروں کو عذاب سے بچاوے یہ تو ظاہر ہے کہ
اس بات کے ماننے سے کہ خدا قدیم اور ابد الآباد سے چلا آتا ہے۔ یہ دوسری بات بھی ساتھ ہی ماننی پڑتی ہے کہ اس کی مخلوقات بھی بحیثیت قدامت نوعی ہمیشہ سے ہی چلی آئی ہے اورؔ صفات قدیمہ
کے تجلیات قدیمہ کی وجہ سے کبھی ایک عالم ممکن عدم میں مختفی ہوتا چلا آیا ہے اور کبھی دوسرا عالم بجائے اس کے ظاہر ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا شمار کوئی بھی نہیں کرسکتا کہ کس قدر عالموں کو
خدا نے اس دنیا سے اٹھا کر دوسرے عالم بجائے اس کے قائم کئے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فرما کر کہ ہم نے آدم سے پہلے جان کو پیدا کیا تھا۔ اسی قدامت نوع عالم کی طرف اشارہ
فرمایا ہے۔ لیکن عیسائیوں نے باجود بدیہی ثبوت اس بات کے کہ قدامت نوع عالم ضروری ہے پھر اب تک کوئی ایسی فہرست پیش نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ ان غیر محدود عالموں میں جو ایک
دوسرے سے بالکل بے تعلق تھے کتنی مرتبہ خدا کا فرزند سولی پر کھینچا گیا کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ بموجب اصول عیسائی مذہب کے کوئی شخص بجز خدا کے فرزند کے گناہ سے خالی نہیں۔ پس
اس صورت میں تو یہ سوال ضروری ہے کہ وہ مخلوق جو ہمارے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/475/mode/1up
اس آدم سے بھی پہلے گذر چکی ہے جن کا ان بنی آدم کے سلسلہ سے کچھ تعلق نہیں ان کے گناہ کی معافی کا کیا بندوبست ہوا
تھا اور کیا یہی بیٹا ان کو نجات دینے کے لئے پہلے بھی کئی مرتبہ پھانسی مل چکا ہے یا وہ کوئی دوسرا بیٹا تھا جو پہلے زمانوں میں پہلی مخلوق کے لئے سولی پر چڑھتا رہا جہاں تک ہم خیال کرتے
ہیں ہمیں تو یہ سمجھ آتا ہے کہ اگر صلیب کے بغیر گناہوں کی معافی نہیں تو عیسائیوں کے خدا کے بے انتہا اور اَن گنت بیٹے ہوں گے۔ جو وقتاً فوقتاً ان معرکوں میں کام آئے ہوں گے۔ اور ہریک اپنے
وقت پر پھانسی ملا ہوگا۔ پس ایسے خدا سے کسی بہبودی کی امید رکھنا لاحاصل ہے۔ جس کے خود اپنے ہی نوجوان بچے مرتے رہے۔
امرت سر کے مباحثہ میں بھی ہم نے یہ سوال کیا تھا کہ
عیسائی یہ اقرار کرتے ہیں کہ ان کا خدا کسی کو گناہ میں ہلاک کرنا نہیں چاہتا۔ پھر اس صورت میں ان پر یہ اعتراض ہے کہ اس خدا نے ان شیاطین کی پلید روحوں کی نجات کے لئے کیا بندوبست کیا
جن پلید روحوں کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔* کیا کوئی ایسا بیٹا بھی دنیا میں آیا جس نے شیاطین کے گناہوں کے لئےؔ اپنی
اسلامی تعلیم سے ثابت ہے کہ شیاطین بھی ایمان لے آتے ہیں چنانچہ
ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماؔ یا کہ میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے۔ غرض ہرایک انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے اور مطہر اور مقرب انسان کا شیطان ایمان لے آتا ہے مگر
افسوس کہ یسوع کا شیطان ایمان نہیں لاسکا بلکہ الٹا اس کو گمراہ کرنے کی فکر میں ہوا اور ایک پہاڑی پر لے گیا اور دنیا کی دولتیں دکھلائیں اور وعدہ کیا کہ سجدہ کرنے پر یہ تمام دولتیں دے دوں گا
اور شیطان کا یہ مقولہ حقیقت میں ایک بڑی پیشگوئی تھی اور اس بات کی طرف اشارہ بھی تھا کہ جب عیسائی قوم اس کو سجدہ کرے گی تو دنیا کی تمام دولتیں ان کو دی جاویں گی۔ سو ایسا
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/476/mode/1up
جان دی ہو یا شیاطین کو گناہ سے باز رکھا ہو اگر ایسا کوئی انتظام نہیں ہوا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس
بات پر ہمیشہ راضی رہا ہے جو شیاطین کو جو عیسائیوں کے اقرار سے بنی آدم سے بھی زیادہ ہیں ہمیشہ کی جہنم میں جلا وے پھر جبکہ ایسے کسی بیٹے کا نشان نہیں دیا گیا تو اس صورت میں تو
عیسائیوں کو اقرار کرنا پڑا کہ ان کے خدا نے شیاطین کو جہنم کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ غرض بے چارے عیسائی جب سے ابن مریم کو خدا بنا بیٹھے ہیں بڑی بڑی مصیبتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی
ایسا دن نہیں ہوگا کہ خود انہیں کی روح ان کے اس اعتقاد کو نفرت سے نہیں دیکھتی ہوگی۔ پھر ایک اور مصیبت ان کو یہ پیش آئی ہے کہ اس مصلوب کی علّت غائی عند التحقیق کچھ ثابت نہیں ہوتی
اور اس کے صلیب پر کھینچے جانے کا کوئی ثمرہ بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا۔ کیونکہ صورتیں صرف دو ہیں۔
(۱) اوّل یہ کہ اس مرحوم بیٹے کے مصلوب ہونے کی علّتِ غائی یہ قرار دیں کہ تا اپنے
ماننے والوں کو گناہ کرنے میں دلیر کرے اور اپنے کفارہ کے سہارے سے خوب زور شور سے فسق و فجور اور ہر یک قسم کی بدکاری پھیلاوے۔ سو یہ صورت تو ببداہت نامعقول اور شیطانی طریق ہے
اور میرے خیال میں دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا کہ اس فاسقانہ طریق کو پسند کرے اور ایسے کسی مذہب کے بانی کو نیک قرار دے جس نے اس طرح پر عام آدمیوں
ہی ظہور میں آیا جن کے
پیشوا نے خدا کہلا کر پھر شیطان کی پیروی کی یعنی اس کے پیچھے ہولیا ان کا شیطان کو سجدہ کرنا کیا بعید تھا۔ غرض عیسائیوں کی دولتیں درحقیقت اسی سجدہ کی وجہ سے ہیں جو انہوں نے شیطان
کو کیا اور ظاہر ہے کہ شیطانی وعدہ کے موافق سجدہ کے بعد عیسائیوں کو دنیا کی دولتیں دی گئیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/477/mode/1up
کو گناہ کرنے کی ترغیب دی ہو۔ بلکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس طرح کا فتویٰ وہی لوگ دیتے ہیں جو درحقیقت ایمان اور
نیک چلنی سے محروم رہ کر اپنے اغراض نفسانی کی وجہ سے دوسروں کو بھی بدکاریوں کے جنم میں ڈالنا چاہتے تھے۔ اور یہ لوگ درحقیقت ان نجومیوں کے مشابہ ہیں جو ایک شارعؔ عام میں بیٹھ کر
راہ چلتے لوگوں کو پھسلاتے اور فریب دیتے ہیں اور ایک ایک پیسہ لے کر بے چارے حمقاء کو بڑے تسلی بخش الفاظ میں خوشخبری دیتے ہیں کہ عنقریب ان کی ایسی ایسی نیک قسمت کھلنے والی ہے
اور ایک سچے محقق کی صورت بنا کر ان کے ہاتھ کے نقوش اور چہرہ کے خط و خال کو بہت توجہ سے دیکھتے بھالتے ہیں گویا وہ بعض نشانوں کا پتہ لگا رہے ہیں اور پھر ایک نمائشی کتاب کے
ورقوں کو جو صرف اسی فریب دہی کے لئے آگے دھری ہوتی ہے الٹ پلٹ کر یقین دلاتے ہیں کہ درحقیقت پوچھنے والے کا ایک بڑا ہی ستارہ قسمت چمکنے والا ہے غالباً کسی ملک کا بادشاہ ہو جائے گا
ورنہ وزارت تو کہیں نہیں گئی۔ اور یا یہ لوگ جو کسی کو باوجود اس کی دائمی ناپاکیوں کے خدا کا مورد فضل بنانا چاہتے ہیں ان کیمیا گروں کی مانند ہیں جو ایک سادہ لوح مگر دولت مند کو دیکھ کر
طرح طرح کی لاف زنیوں سے شکار کرنا چاہتے ہیں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے کرتے پہلے آنے والے کیمیا گروں کی مذمت کرنا شروع کردیتے ہیں کہ جھوٹے بدذات ناحق اچکّوں کے طور پر
لوگوں کا مال فریب سے کھسکا کر لے جاتے ہیں اور پھر آخر بات کو کشاں کشاں اس حد تک پہنچاتے ہیں کہ صاحبو میں نے اپنے پچاس یا ساٹھ برس کی عمر میں جس کو کیمیا گری کا مدعی دیکھا
جھوٹا ہی پایا۔ ہاں میرے گورو بیکنٹھ باشی سچے رسائنی تھے کروڑہا روپیہ کا دان کر گئے مجھے خوش نصیبی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/478/mode/1up
سے باراں برس تک ان کی خدمت کا شرف حاصل ہوا اور پھل پایا۔ پھل پانے کا نام سن کر ایک جاہل بول اٹھتا ہے کہ باباجی تب تو
آپ نے ضرور رسائن کا نسخہ گورو جی سے سیکھ لیا ہوگا یہ بات سن کر بابا جی کچھ ناراض ہوکر تیوری چڑھا کر بولتے ہیں کہ میاں اس بات کا نام نہ لو ہزاروں لوگ جمع ہو جائیں گے ہم تو لوگوں
سے چھپ کر بھاگتے پھرتے ہیں۔ غرض ان چند فقروں سے ہی جاہل دام میں آجاتے ہیں پھر تو شکار دام افتادہ کو ذبح کرنے کیلئے کوئی بھی دقّت باقی نہیں رہتی خلوت میں راز کے طور پر سمجھاتے
ہیں کہ درحقیقت تمہاری ہی خوش قسمتی ہمیں ہزاروں کوسوں سے کھینچ لائی ہے اور اس بات سے ہمیں خود بھی حیرانی ہے کہ کیونکر یہ سخت دل تمہارے لئے نرم ہوگیا اب جلدی کرو اور گھر سے
یا مانگ کر دس ہزار کا طلائی زیور لے آؤ ایک ہی رات میں دہ چند ہو جائے گا مگر خبر دار کسی کو میریؔ اطلاع نہ دینا کسی اور بہانہ سے مانگ لینا قصہ کو تاہ یہ کہ آخر زیور لے کر اپنی راہ لیتے
ہیں اور وہ دیوانے د۱۰ہ چند کی خواہش کرنے والے اپنی جان کو روتے رہ جاتے ہیں یہ اس طمع کی شامت ہوتی ہے جو قانون قدرت سے غفلت کرکے انتہاء تک پہنچائی جاتی ہے مگر میں نے سنا ہے
کہ ایسے ٹھگوں کو یہ ضرورہی کہنا پڑتا ہے کہ جس قدر ہم سے پہلے آئے یا بعد میں آویں گے یقیناً سمجھو کہ وہ سب فریبی اور بٹمار اور ناپاک اور جھوٹے اور اس نسخہ سے بے خبر ہیں۔ ایسا ہی
عیسائیوں کی پٹری بھی جم نہیں سکتی جب تک کہ حضرت آدم سے لے کر اخیر تک تمام مقدس نبیوں کو پاپی اور بدکار نہ بنالیں * ۔
*نوٹ: عیسائیوں کی عقل اور سمجھ پر افسوس ہے کہ انہوں
نے اپنے یسوع کو خدا بنا کر اس کی ذات کو کچھ فائدہ نہیں
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/479/mode/1up
(۲) دوسری صورت اس قابل رحم بیٹے کے مصلوب ہونے کی یہ ہے کہ اس کے سولی ملنے کی یہ علّت غائی قرار دی
جائے کہ اس کی سولی پر ایمان لانے والے ہریک قسم کے گناہ اور بدکاریوں سے بچ جائیں گے اور ان کے نفسانی جذبات ظہور میں نہ آنے پائیں گے مگر افسوس کہ جیسا کہ پہلی صورت خلاف تہذیب
اور بدیہی البطلان ثابت ہوئی تھی ایسا ہی یہ صورت بھی کھلے کھلے طور پر باطل ہی ثابت ہوئی ہے کیونکہ اگر فرض کیا جائے کہ یسوع کا کفارہ ماننے میں ایک ایسی خاصیت ہے کہ اس پر سچا ایمان
لانے والا فرشتہ سیرت بن جاتا ہے اور پھر بعدازاں اس کے دل میں گناہ کا خیال ہی نہیں آتا تو تمام گذشتہ نبیوں کی نسبت کہنا پڑے گا کہ وہ یسوع کی سولی اور کفارہ پر سچا ایمان نہیں لائے تھے
کیونکہ انہوں نے تو بقول عیسائیاں بدکاریوں میں حد ہی کر دی۔ کسی نے ان میں سے بت پرستی کی اور کسی نے ناحق کا خون کیا اور کسی نے اپنی بیٹیوں سے بدکاری کی اور بالخصوص یسوع کے دادا
صاحب داؤد نے تو سارے بُرے کام کئے ایک بے گناہ کو اپنی شہوت رانی کے لئے فریب سے قتل کرایا اور دلالہ عورتوں کو بھیج کر اس کی جورو کو منگوایا اور اس کو شراب پلائی اور اس سے زنا
کیا اور بہت سا مال حرام کاری میں ضائع کیا اور تمام عمر سو۱۰۰ تک بیوی رکھی اور یہ حرکت بھی بقول عیسائیاں زنا میں داخل تھی اور عجیب تریہ کہ روح القدس بھی ہر روز اس پر نازل ہوتا تھا
اور زبور بڑی سرگرمی سے اتر رہی تھی مگر
پہنچایا بلکہ راستبازوں کے سامنے اس کو شرمندہ کیا بہتر تھا کہ اس کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے صدقہ دیتے اس کے لئے دعائیں کرتے تا
اس کی عاقبت کے لئے بھلائی ہوتی۔ مشت خاک کو خدا بنانے میں کیا حاصل تھا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/480/mode/1up
افسوس کہ نہ تو روح القدس نے اور نہؔ یسوع کے کفارہ پر ایمان لانے نے بدکاریوں سے اس کو روکا آخر انہیں بدعملیوں میں
جان دی اور اس سے عجیب تر یہ کہ یہ کفارہ یسوع کی دادیوں اور نانیوں کو بھی بدکاری سے نہ بچا سکا حالانکہ ان کی بدکاریوں سے یسوع کے گو ہر فطرت پر داغ لگتا تھا اور یہ دادیاں نانیاں صرف
ایک دو نہیں بلکہ تین ہیں۔ چنانچہ یسوع کی ایک بزرگ نانی جو ایک طور سے دادی بھی تھی یعنی راحاب کسبی یعنی کنجری تھی دیکھو یشوع ۲۔۱۔ اور دوسری نانی جو ایک طور سے دادی بھی تھی۔ اس کا
نام تمر ہے۔ یہ خانگی بدکار عورتوں کی طرح حرام کار تھی۔ دیکھو پیدائش ۳۸ ۔ ۱۶ سے ۳۰۔ اور ایک نانی یسوع صاحب کی جو ایک رشتہ سے دادی بھی تھی بنت سبع کے نام سے موسوم ہے۔ یہ وہی
پاک دامن تھی جس نے داؤد کے ساتھ زنا کیا تھا۔ * دیکھو ۲سموئیل ۱۱۔۲
اب ظاہر ہے کہ ان دادیوں اور نانیوں کو یسوع کے کفارہ کی ضرور اطلاع دی گئی ہوگی اور اس پر ایمان لائی ہوں گی
کیونکہ یہ تو عیسائیوں کا اصول ہے کہ پہلے نبیوں اور ان کی امت کو بھی یہی تعلیم کفارہ کی دی گئی تھی اور اسی
پر ایمان لاکر ان کی نجات ہوئی۔ پس اگر یسوع کے مصلوب ہونے کا یہ
اثر
سمجھا جائے کہ اس کی مصلوبیت پر ایمان لاکر گناہ سے انسان بچ جاتا ہے تو
ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری والدہ سے لے کر حوّا تک میری ماؤں
کے سلسلہ میں کوئی عورت بدکار اور زانیہ نہیں اور نہ مرد زانی اور بدکار ہے لیکن بقول عیسائیوں کے ان کے خدا صاحب کی پیدائش میں تین زنا کار عورتوں کا خون ملا ہوا ہے۔ حالانکہ توریت میں
جو کچھ زانیہ عورتوں کی اولاد کی نسبت لکھا ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/481/mode/1up
چاہئے تھا کہ یسوع کی دادیاں اور نانیاں زنا کاریوں اور حرام کاریوں سے بچائی جاتیں مگر جس حالت میں تمام پیغمبر
باوجودیکہ بقول عیسائیاں یسوع کی خودکشی پر ایمان لاتے تھے بدکاریوں سے نہ بچ سکے اور نہ یسوع کی دادیاں نانیاں بچ سکیں تو اس سے صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ یہ جھوٹا کفارہ کسی کو نفسانی
جذبات سے بچا نہیں سکتا اور خود مسیح کو بھی بچا نہ سکا
دیکھو ؔ وہ کیسے شیطان کے پیچھے * پیچھے چلا گیا۔ حالانکہ اس کو جانا مناسب نہ تھا اور غالباً یہی
آج کل کے یورپین فلاسفر
باوجود عیسائی ہونے کے اس بات کو نہیں مانتے کہ درحقیقت یسوع کو شیطان پھسلا کر ایک پہاڑی پر لے گیا تھا کیونکہ وہ لوگ شیطان کے تجسم کے قائل نہیں بلکہ خود شیطان کے وجود سے ہی منکر
ہیں لیکن درحقیقت علاوہ خیالات ان فلاسفروں کے ایک اعتراض تو ضرور ہوتا ہے کہ اگر یہ واقعہ شیطان کی رفاقت کا یہودیوں کے پہاڑوں اور گذر گاہوں میں ہوتا تو ضرور تھا کہ نہ صرف یسوع بلکہ
کئی یہودی بھی اس شیطان کو دیکھتے اور کچھ شک نہیں کہ شیطان معمولی انسانوں کی طرح نہیں ہوگا بلکہ ایک عجیب و غریب صورت کا جاندار ہوگا جو دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈالتا ہوگا۔ پس اگر
درحقیقت شیطان یسوع کو بیداری میں دکھائی دیا تھا تو چاہئے تھا کہ اس کو دیکھ کر ہزارہا یہودی وغیرہ اس جگہ جمع ہو جاتے اور ایک مجمع اکٹھا ہو جاتا لیکن ایسا وقوع میں نہیں آیا۔ اس لئے یورپین
محقق اس کو کوئی خارجی واقعہ قبول نہیں کرسکتے بلکہ وہ ایسے ہی بے ہودہ تخیلات کی وجہ سے جن میں سے خدائی کا دعویٰ بھی ہے انجیل کو دور سے سلام کرتے ہیں چنانچہ حال میں ایک یورپین
عالم نے عیسائیوں کی انجیل مقدس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی ہے کہ میری رائے میں کسی دانشمند آدمی کو اس بات کے یقین دلانے کو کہ انجیل انسان کی بناوٹ بلکہ وحشیانہ ایجاد ہے صرف اسی
قدر ضرورت ہے کہ وہ انجیل کو پڑھے پھر صاحب بہادر یہ فرماتے ہیں کہ تم انجیل کو اس طرح پڑھو جیسے کہ تم کسی اور کتاب کو پڑھتے ہو۔ اور اس کی نسبت ایسے خیالات کرو جیسے کہ اور
کتابوں کی نسبت کرتے ہو اپنی آنکھوں سے تعظیم کی پٹی نکال دو اور اپنے دل سے خوف کے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/482/mode/1up
حرکت تھی۔ جس کی وجہ سے وہ ایسا نادم ہوا کہ جب ایک شخص نے نیک کہا تو
بھوت کو بھگا دو اور دماغ اوہام سے خالی
کرو تب انجیل مقدس کو پڑھو تو تم کو تعجب ہوگا کہ تم نے ایک لحظہ کے لئے بھی کیونکر اس جہالت اور ظلم کے مصنف کو عقلمند اور نیک اور پاک خیال کیا تھا ایسا ہی اور بہت سے فلاسفر سائنس
کے جاننے والے جو انجیل کو نہایت ہی کراہت سے دیکھتے ہیں وہ انہیں ناپاک تعلیموں کی وجہ سے متنفر ہوگئے *جن کو ماننا ایک عقلمند کے لئے درحقیقت نہایت درجہ جائے عار ہے۔ مثلاً یہ ایک
جھوٹا قصہ کہ ایک باپ ہے جو سخت مغلوب الغضب اور سب کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور ایک بیٹا ہے جو نہایت رحیم ہے جس نے باپ کے مجنونانہ غضبؔ کو اس طرح لوگوں سے ٹال دیا ہے کہ آپ
سولی پر چڑھ گیا اب بے چارے محقق یورپین ایسی بے ہودہ باتوں کو کیونکر مان لیں ایسا ہی عیسائیوں کی یہ سادہ لوحی کے خیال کہ خدا کو تین جسم پر منقسم کر دیا۔ ایک وہ جسم جو آدمی کی شکل میں
ہمیشہ رہے گا جس کا نام ابن اللہ ہے۔ دوسرے وہ جسم جو کبوتر کی طرح ہمیشہ رہے گا جس کا نام روح القدس ہے۔ تیسرے وہ جسم جس کے داہنے ہاتھ بیٹا جا بیٹھا ہے۔ اب کوئی عقلمند ان اجسام ثلاثہ
کو کیونکر قبول کرے لیکن شیطان کی ہمراہی کا الزام یورپین فلاسفروں کے نزدیک کچھ کم ہنسی کا باعث نہیں۔ بہت کوششوں کے بعد یہ تاویلیں پیش ہوتی ہیں کہ یہ حالات یسوع کے دماغی قویٰ کے اپنے
ہی تخیلات تھے اور اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ تندرستی اور صحت کی حالت میں ایسے مکروہ تخیلات پیدا نہیں ہوسکتے۔ بہتوں کو اس
عیسائیوں میں جس قدر کوئی فلسفہ کے مینار پر پہنچتا ہے
اسی قدر انجیل اور عیسائی مذہب سے بیزار ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان دنوں میں ایک میم صاحبہ نے بھی عیسائی عقیدہ کے رد میں ایک رسالہ شائع کیا ہے مگر اسلامی فلاسفروں کا اس کے برعکس حال
ہے۔ بو علی سینا جو رئیس فلاسفہ اور بدمذہب اور ملحد کر کے مشہور ہے وہ اپنی کتاب اشارات کے اخیر میں لکھتا ہے کہ اگرچہ حشر جسمانی پر دلائل فلسفیہ قائم نہیں بلکہ اس کے برعکس پر قائم
ہوتے ہیں مگر چونکہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/483/mode/1up
اس نے روکا کہ مجھے کیوں نیک کہتا ہے۔ حقیقت میں ایسا شخص جو شیطان کے
بات کی ذاتی تحقیقات ہے کہ مرگی کی
بیماری کے مبتلا اکثر شیاطین کو اسی طرح دیکھا کرتے ہیں وہ بعینہٖ ایسا ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ ہمیں شیطان فلاں فلاں جگہ لے گیا اور اور یہ یہ عجائبات دکھلائے اور مجھے یاد ہے کہ شاید
چونتیس برس کا عرصہ گذرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بدصورت کھڑا ہے۔ اول اس نے میری طرف توجہ کی اور میں نے اس کو منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ
دور ہو اے شیطان تیرا مجھ میں حصہ نہیں اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کر لیا اور جس کو ساتھ کر لیا اس کو میں جانتا تھا اتنے میں آنکھ کھل گئی اسی دن یا اس کے بعد
اس شخص کو مرگی پڑی جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کر لیا تھا اور صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا اس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی
ہے پس یہ نہایت لطیف نکتہ اور بہت صاف اور عاقلانہ رائے ہے کہ یسوع دراصل مرگی کی بیماری میں مبتلا تھا اور اسی وجہ سے ایسی خوابیں بھی دیکھا کرتا تھا اور یہودیوں کا یہ الزام کہ تو بعل
زبول کی مدد سے ایسے کام کرتا ہے اس رائے کا مؤید اور بہت تسکین بخش ہے کیونکہ بعل زبول بھی شیطان کا نام ہے اور یہودیوں کی بات اس وجہ سے بھی درست اور قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہؔ
جن لوگوں کو شیطان کا سخت آسیب ہوجاتا ہے اور شیطان ان سے محبت کرنے لگتا ہے تو گو ان کی اپنی مرگی وغیرہ اچھی نہیں ہوتی مگر دوسروں کو اچھا کر سکتے ہیں کیونکہ شیطان ان سے محبت
کرتا ہے اور ان سے جدا ہونا نہیں چاہتا مگر نہایت محبت کی وجہ سے ان کی باتیں مان لیتا ہے اور دوسروں کو ان کی خاطر سے شیطانی مرضوں سے نجات دیتا ہے اور ایسے عامل ہمیشہ شراب اور
پلید چیزیں استعمال کرتے رہتے ہیں اور اول درجہ کے شرابی اور کھاؤ پیو ہوتے ہیں۔ چنانچہ تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ ایک شخص اسی طرح مرض بے ہوشی میں گرفتار تھا اور کہتے ہیں کہ وہ
دوسرے لوگوں کے جنات کو نکال دیا کرتا تھا۔ غرض یسوع کا یہ واقعہ شیطان کے ہمراہ کا مرض صرع پر صاف دلیل ہے اور ہمارے پاس کئی وجوہ ہیں جن کے مفصل لکھنے کی ابھی ضرورت نہیں
اور یقین ہے کہ محقق عیسائی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/484/mode/1up
پیچھے پیچھے چلا گیا کیونکر جرأت کرسکتا ہے کہ اپنے تئیں نیک کہے یہ بات یقینی ہے کہ یسوع نے اپنے خیال سے اور
بعض اور باتوں کی وجہ سے بھیؔ اپنے تئیں نیک کہلانے سے کنارہ کشی ظاہر کی مگر افسوس کہ اب عیسائیوں نے نہ صرف نیک قرار دے دیا بلکہ خدا بنا رکھا ہے۔ غرض کفارہ مسیح کی ذات کو
بھی کچھ فائدہ نہ پہنچا سکا اور تکبر اور خودبینی جو تمام بدیوں کی جڑ ہے وہ تو یسوع صاحب کے ہی حصہ میں آئی ہوئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس نے آپ خدا بن کر سب نبیوں کو رہزن اور بٹمار اور
ناپاک حالت کے آدمی قرار دیا ہے حالانکہ یہ اقرار بھی اس کے کلام سے نکلتا ہے کہؔ وہ خود بھی نیک نہیں ہے مگر افسوس کہ تکبر کا سیلاب اس کی تمام حالت کو برباد کر گیا ہے کوئی بھلا
آدمی
جو پہلے ہی ہماری اس رائے سے اتفاق رکھتے ہیں انکار نہیں کریں گے اور جو نادان پادری انکار کریں تو ان کو اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ یسوع کا شیطان کے ہمراہ جانا درحقیقت
بیداری کا ایک واقعہ ہے* اور صرع وغیرہ کے لحوق کا نتیجہ نہیں مگر ثبوت میں معتبر گواہ پیش کرنے چاہئیں جو رویت کی گواہی دیتے ہوں اور معلوم ہوتا ہے کہ کبوتر کا اترنا اور یہ کہنا کہ تو
میرا پیارا بیٹا ہے درحقیقت یہ بھی ایک مرگی کا دورہ تھا جس کے ساتھ ایسے تخیلات پیدا ہوئے بات یہ ہے کہ کبوتر کا رنگ سفید ہوتا ہے اور بلغم کا رنگ بھی سفید ہوتا ہے اور مرگی کا مادہ بلغم ہی ہوتا
ہے سو بلغم کبوتر کی شکل پر نظر آگئی اور یہ جو کہا کہ تو میرا بیٹا ہے۔ اس میں بھید یہ ہے کہ درحقیقت مصروع مرگی کا بیٹا ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے مرگی کو فن طبابت میں ام الصبیان کہتے ہیں یعنی
بچوں کی ماں۔ اور ایک مرتبہ یسوع کے چاروں حقیقی بھائیوں نے اس وقت کی گورنمنٹ میں درخواست بھی دی تھی کہ یہ شخص دیوانہ ہوگیا ہے اس کا کوئی بندوبست کیا جاوے یعنی عدالت کے جیل
خانہ میں داخل کیا جاوے تاکہ وہاں کے دستور کے موافق اس کا علاج ہو تو یہ درخواست بھی صریح اس بات پر دلیل ہے کہ یسوع درحقیقت بوجہ بیماری مرگی کے دیوانہ ہو گیا تھا۔ منہ
*سوال یہ
ہے کہ شیطان کو کس کس نے یسوع کے ساتھ دیکھا ۔
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/485/mode/1up
گذشتہ بزرگوں کی مذمت نہیں کرتا لیکن اس نے پاک نبیوں کو رہزنوں اور بٹماروں کے نام سے موسوم کیا ہے اس کی زبان پر
دوسروں کے لئے ہر وقت بے ایمان حرام کار کا لفظ چڑھا ہوا ہے کسی کی نسبت ادب کا لفظ استعمال نہیں کیا کیوں نہ ہو خدا کا فرزند جو ہوا۔ اور پھر جب دیکھتے ہیں کہ یسوع کے کفارہ نے حواریوں
کے دلوں پر کیا اثر کیا۔ کیا وہ اس پر ایمان لاکر گناہ سے باز آگئے تو اس جگہ بھی سچی پاکیزگی کا خانہ خالی ہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ لوگ سولی ملنے کی خبر کو سن کر ایمان لاچکے
تھے لیکن پھر بھی نتیجہ یہ ہوا کہ یسوع کی گرفتاری پر پطرس نے سامنے کھڑے ہوکر اس پر *** بھیجی باقی سب بھاگ گئے اور کسی کے دل میں اعتقاد کا نور باقی نہ رہا۔ پھر بعد اس کے گناہ سے
رکنے کا اب تک یہ حال ہے کہ خاص یورپ کے محققین کے اقراروں سے یہ بات ثابت ہے کہ یورپ میں حرام کاری کا اس قدر زور ہے کہ خاص لنڈن میں ہر سال ہزاروں ّ*** بچے پیدا ہوتے ہیں
اور اس قدر گندے واقعات یورپ کے شائع ہوئے ہیں کہ کہنے اور سننے کے لائق نہیں۔ شراب خواری کا اس قدر زور ہے کہ اگر ان دوکانوں کو اؔ یک خط مستقیم میں باہم رکھ دیا جاوے تو شاید ایک
مسافر کی دو منزل طے کرنے تک بھی وہ دوکانیں ختم نہ ہوں۔ عبادات سے فراغت ہے۔ اور دن رات سوا عیاشی اور دنیاپرستی کے کام نہیں پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یسوع کے مصلوب
ہونے سے اس پر ایمان لانے والے گناہ سے رک نہیں سکے* بلکہ جیسا کہ بند ٹوٹنے
یسوع کا مصلوب ہونا اگر اپنی مرضی سے ہوتا تو خود کشی اور حرام کی موت تھی اور خلاف مرضی کی
حالت میں کفارہ نہیں ہو سکتا اور یسوع اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں لکھ سکا کہ لوگ جانتے تھے
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/486/mode/1up
سے ایک تیز دھار دریا کا پانی اردگرد کے دیہات کو تباہ کر جاتا ہے۔ ایسا ہی کفارہ پر ایمان لانے والوں کا حال ہورہا ہے اور
میں جانتا ہوں کہ عیسائی لوگ اس پر زیادہ بحث نہیں کریں گے کیونکہ جس حالت میں ان نبیوں کو جن کے پاس خدا کا فرشتہ آتا تھا یسوع کا کفارہ بدکاریوں سے روک نہ سکا تو پھر کیونکر تاجروں اور
پیشہ وروں اور خشک پادریوں کو ناپاک کاموں سے روک سکتا ہے غرض عیسائیوں کے خدا کی کیفیت یہ ہے جو ہم بیان کر چکے ۔
تیسرا مذہب ان دو مذہبوں کے مقابل پر جن کا ابھی ہم ذکر کر چکے
ہیں اسلام ہے اس مذہب کی خدا شناسی نہایت صاف صاف اور انسانی فطرت کے مطابق ہے اگر تمام مذہبوں کی کتابیں نابود ہوکر ان کے سارے تعلیمی خیالات اور تصورات بھی محو ہو جائیں تب بھی وہ
خدا جس کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے آئینہ قانون قدرت میں صاف صاف نظر آئے گا اور اس کی قدرت اور حکمت سے بھری ہوئی صورت ہریک ذرّہ میں چمکتی ہوئی دکھائی دے گی۔ غرض وہ خدا
جس کا پتہ قرآن شریف بتلاتا ہے اپنی موجودات پر فقط قہری حکومت نہیں رکھتا بلکہ موافق آیت کریمہ۱؂
کے ہریک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے اس کی طرف
جھکنے کے لئے ہریک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے
کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتدا ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ خدا ئی کا دعویٰ
شراب خواری کا ایک بد نتیجہ ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/487/mode/1up
اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں اور یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ ہریک چیز کا خالق ہے کیونکہ نور قلب اس بات
کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کے لئے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلاشبہ اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ قرآن شریف نے اس آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ۱؂
یعنی ہریک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے۔ اگر خدا ان چیزوں کا خالق نہیں تھا تو ان چیزوں میں خدا کی طرف کشش کیوں پائی جاتی ہے۔ ایکؔ غور کرنے والا انسان ضرور اس
بات کو قبول کر لے گا کہ کسی مخفی تعلق کی وجہ سے یہ کشش ہے پس اگر وہ تعلق خدا کا خالق ہونا نہیں تو کوئی آریہ وغیرہ اس بات کا جواب دیں کہ اس تعلق کی وید وغیرہ میں کیا ماہیت لکھی ہے
اور اس کا کیا نام ہے۔ کیا یہی سچ ہے کہ خدا صرف زبردستی ہریک چیز پر حکومت کررہا ہے اور ان چیزوں میں کوئی طبعی قوّت اور شوق خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کا نہیں ہے۔ معاذ اللہ ہرگز ایسا
نہیں بلکہ ایسا خیال کرنا نہ صرف حماقت بلکہ پرلے درجہ کی خباثت بھی ہے مگر افسوس کہ آریوں کے وید نے خدا تعالیٰ کی خالقیت سے انکار کر کے اس روحانی تعلق کو قبول نہیں کیا جس پر
طبعی اطاعت ہریک چیز کی موقوف ہے اور چونکہ دقیق معرفت اور دقیق گیان سے وہ ہزاروں کوس دور تھے۔ لہٰذا یہ سچا فلسفہ ان سے پوشیدہ رہا ہے کہ ضرور تمام اجسام اور ارواح کو ایک فطرتی
تعلق اس ذات قدیم سے پڑا ہوا ہے اور خدا کی حکومت صرف بناوٹ اور زبردستی کی حکومت نہیں بلکہ ہریک چیز اپنی روح سے اس کو سجدہ کر رہی ہے کیونکہ ذرہ ذرہ اس کے بے انتہا احسانوں میں
مستغرق اور اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا ہے مگر
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/488/mode/1up
افسوس کہ تمام مخالف مذہب والوں نے خدا تعالیٰ کے وسیع دریائے قدرت اور رحمت اور تقدس کو اپنی تنگ دلی کی وجہ سے
زبردستی روکنا چاہا ہے اور انہیں وجوہ سے ان کے فرضی خداؤں پر کمزوری اور ناپاکی اور بناوٹ اور بے جا غضب اور بے جا حکومت کے طرح طرح کے داغ لگ گئے ہیں لیکن اسلام نے خدا تعالیٰ
کی صفات کاملہ کی تیز رو دھاروں کو کہیں نہیں روکا وہ آریوں کی طرح اس عقیدہ کی تعلیم نہیں دیتا کہ زمین و آسمان کی روحیں اور ذرات اجسام اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں اور جس کا
پرمیشر نام ہے وہ کسی نامعلوم سبب سے محض ایک راجہ کے طور پر ان پر حکمران ہے اور نہ عیسائی مذہب کی طرح یہ سکھلاتا ہے کہ خدا نے انسان کی طرح ایک عورت کے پیٹ سے جنم لیا اور
نہ صرف نو مہینہ تک خون حیض کھا کر ایک گنہگار جسم سے جو بنت سبع اور تمر اور راحاب جیسی حرام کار عورتوں کے خمیر سے اپنی فطرت میں ابنیت کا حصہ رکھتا تھا خون اور ہڈی اور
گوشت کو حاصل کیا بلکہ بچپن کے زمانہ میں جو جو بیماریوں کی صعوبتیں ہیں جیسے خسرہ چیچک دانتوں کی تکالیف وغیرہ تکلیفیں وہ سب اٹھاؔ ئیں اور بہت سا حصہ عمر کا معمولی انسانوں کی
طرح کھو کر آخر موت کے قریب پہنچ کر خدائی یاد آگئی مگر چونکہ صرف دعویٰ ہی دعویٰ تھا اور خدائی طاقتیں ساتھ نہیں تھیں اس لئے دعویٰ کے ساتھ ہی پکڑا گیا بلکہ اسلام ان سب نقصانوں اور
ناپاک حالتوں سے خدائے حقیقی ذوالجلال کو منزہ اور پاک سمجھتا ہے اور اس وحشیانہ غضب سے بھی اس کی ذات کو برتر قرار دیتا ہے کہ جب تک کسی کے گلے میں پھانسی کا رسہ نہ ڈالے تب تک
اپنے بندوں کے بخشنے کے لئے کوئی سبیل اس کو یاد نہ آوے اور خدا تعالیٰ کے وجود اور
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 489
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 489
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/489/mode/1up
صفات کے بارے میں قرآن کریم یہ سچی اور پاک اور کامل معرفت سکھاتا ہے کہ اس کی قدرت اور رحمت اور عظمت اور تقدس
بے انتہا ہے اور یہ کہنا قرآنی تعلیم کے رو سے سخت مکروہ گناہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرتیں اور عظمتیں اور رحمتیں ایک حد پر جاکر ٹھہر جاتی ہیں یا کسی موقعہ پر پہنچ کر اس کا ضعف اسے مانع
آجاتا ہے بلکہ اس کی تمام قدرتیں اس مستحکم قاعدہ پر چل رہی ہیں کہ باستثنا ان امور کے جو اس کے تقدس اور کمال اور صفات کاملہ کے مخالف ہیں یا اس کے مواعید غیر متبدلہ کے منافی ہیں باقی
جو چاہتا ہے کرسکتا ہے مثلاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے تئیں ہلاک کرسکتا ہے کیونکہ یہ بات اس کی صفت قدیم حیّ و قیّوم ہونے کے مخالف ہے۔ وجہ یہ کہ وہ پہلے ہی اپنے
فعل اور قول میں ظاہر کرچکا ہے کہ وہ ازلی ابدی اور غیر فانی ہے اور موت اس پر جائز نہیں۔ ایسا ہی یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی عورت کے رحم میں داخل ہوتا اور خون حیض کھاتا اور قریباً
نو ماہ پورے کر کے سیر ڈیڑھ سیر کے وزن پر عورتوں کی پیشاب گاہ سے روتا چلاتا پیدا ہو جاتا ہے۔ اور پھر روٹی کھاتا اور پاخانہ جاتا اور پیشاب کرتا اور تمام دکھ اس فانی زندگی کے اٹھاتا ہے اور
آخر چند ساعت جان کُندنی کا عذاب اٹھا کر اس جہان فانی سے رخصت ہو جاتا ہے کیونکہ یہ تمام امور نقصان اور منقصت میں داخل ہیں اور اس کے جلال قدیم اور کمال تام کے برخلاف ہیں۔
پھر یہ
بھی جاننا چاہیئے کہ چونکہ اسلامی عقیدہ میں درحقیقت خداتعالیٰ تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہی ہے ۔ اور کیا ارواح اور کیا اجسام سب اسی کے پیدا کردہ ہیں اور اسی کی قدرت سے ظہور پذیر
ہوئے ہیں لہٰذا ؔ قرآنی
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 490
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 490
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/490/mode/1up
عقیدہ یہ بھی ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کا خالق اور پیدا کنندہ ہے اسی طرح وہ ہر ایک چیز کا واقعی اور حقیقی طور
پر قیّوم بھی ہے یعنی ہر ایک چیز کا اسی کے وجود کے ساتھ بقا ہے اور اس کا وجود ہریک چیز کے لئے بمنزلہ جان ہے اور اگر اس کا عدم فرض کر لیں تو ساتھ ہی ہریک چیز کا عدم ہوگا۔ غرض ہریک
وجود کے بقا اور قیام کے لئے اس کی معیت لازم ہے لیکن آریوں اور عیسائیوں کا یہ اعتقاد نہیں ہے آریوں کا اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کو ارواح اور اجسام کا خالق نہیں جانتے اور ہریک چیز سے ایسا
تعلق اس کا نہیں مانتے جس سے ثابت ہو کہ ہریک چیز اسی کی قدرت اور ارادہ کا نتیجہ ہے اور اس کی مشیت کے لئے بطور سایہ کے ہے بلکہ ہریک چیز کا وجود ایسے طور سے مستقل خیال کرتے
ہیں جس سے سمجھا جاتا ہے کہ ان کے زعم میں تمام چیزیں اپنے وجود میں مستقل طور پر قدیم اور انادی ہیں پس جبکہ یہ تمام موجود چیزیں ان کے خیال میں خدا تعالیٰ کی قدرت سے نکل کر قدرت کے
ساتھ قائم نہیں تو بلاشبہ یہ سب چیزیں ہندوؤں کے پرمیشر سے ایسی بے تعلق ہیں کہ اگر ان کے پرمیشر کا مرنا بھی فرض کر لیں تب بھی روحوں اور جسموں کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ ان کا
پرمیشر صرف معمار کی طرح ہے اور جس طرح اینٹ اور گارہ معمار کی ذاتی قدرت کے ساتھ قائم نہیں تا ہریک حال میں اس کے وجود کا تابع ہو۔ یہی حال ہندوؤں کے پرمیشر کی چیزوں کا ہے سو
جیسا کہ معمار کے مر جانے سے ضروری نہیں ہوتا کہ جس قدر اس نے اپنی عمر میں عمارتیں بنائی ہوں وہ ساتھ ہی گر جائیں ایسا ہی یہ بھی ضرور نہیں کہ ہندوؤں کے پرمیشر کے مرجانے سے
کچھ بھی صدمہ دوسری چیزوں کو پہنچے کیونکہ وہ ان کا قیّوم *
* جو چیز قدرت کے سہارے سے پیدا نہیں ہوئی وہ اپنی بقا میں بھی قدرت کے سہارے کی محتاج نہیں۔
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 491
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 491
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/491/mode/1up
نہیں اگر قیوم ہوتا تو ضرور ان کا خالق بھی ہوتا کیونکہ جو چیزیں پیدا ہونے میں خدا کی قوت کی محتاج نہیں وہ قائم رہنے میں
بھی اس کی قوت کے سہارے کی حاجت نہیں رکھتیں اور عیسائیوں کے اعتقاد کی رو سے بھی ان کا مجسم خدا قیّوم الاشیاء نہیں ہوسکتا کیونکہ قیّوم ہونے کے لئے معیت ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ
عیسائیوں کا خدا یسوع اب زمین پر نہیں کیونکہ اگر زمین پر ہوتا تو ضرور لوگوں کو نظر آتا جیسا کہ اس زمانہ میں نظر آتا تھا جبکہ پلاطوس کے عہد میں اس کے ملک میں موجود تھا پس جبکہ وہ زمین
پر موجود نہیں تو زمین کے لوگوں کا قیّوؔ م کیونکر ہو۔ رہا آسمان سو وہ آسمانوں کا بھی قیّوم نہیں کیونکہ اس کا جسم تو صرف چھ سات بالشت کے قریب ہوگا پھر وہ سارے آسمانوں پر کیونکر موجود
ہوسکتا ہے تاان کا قیّوم ہو لیکن ہم لوگ جو خدا تعالیٰ کو ربّ العرش کہتے ہیں تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ وہ جسمانی اور جسم ہے اور عرش کا محتاج ہے بلکہ عرش سے مراد وہ مقدس بلندی کی جگہ
ہے جو اس جہان اور آنے والے جہان سے برابر نسبت رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کو عرش پر کہنا درحقیقت ان معنوں سے متراد ف ہے کہ وہ مالک الکونین ہے اور جیسا کہ ایک شخص اونچی جگہ بیٹھ
کر یا کسی نہایت اونچے محل پر چڑھ کر یمین و یسار نظر رکھتا ہے۔ ایسا ہی استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ بلند سے بلند تخت پر تسلیم کیا گیا ہے جس کی نظر سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں نہ اس
عالم کی اور نہ اس دوسرے عالم کی۔ ہاں اس مقام کو عام سمجھوں کے لئے اوپر کی طرف بیان کیا جاتا ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ حقیقت میں سب سے اوپر ہے اور ہریک چیز اس کے پیروں پر گری
ہوئی ہے تو اوپر کی طرف سے اس کی ذات کو مناسبت ہے مگر اوپر کی طرف وہی ہے جس کے نیچے دونوں عالم واقع ہیں اور وہ ایک
Ruhani Khazain Volume 9. Page: 492
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۹- میارالمذاہب: صفحہ 492
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=9#page/492/mode/1up
انتہائی نقطہ کی طرح ہے جس کے نیچے سے دو عظیم الشان عالم کی دو شاخیں نکلتی ہیں اور ہریک شاخ ہزارہا عالم پر مشتمل
ہے جن کا علم بجز اس ذات کے کسی کو نہیں جو اس نقطہ انتہائی پر مستوی ہے جس کا نام عرش ہے اس لئے ظاہری طور پر بھی وہ اعلیٰ سے اعلیٰ بلندی جو اوپر کی سمت میں اس انتہائی نقطہ میں
متصور ہو جو دونوں عالم کے اوپر ہے۔ وہی عرش کے نام سے عند الشرع موسوم ہے اور یہ بلندی باعتبار جامعیت ذات باری کی ہے تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ مبدء ہے ہریک فیض کا اور
مرجع ہے ہریک چیز کا اور مسجود ہے ہریک مخلوق کا اور سب سے اونچا ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور کمالات میں ورنہ قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہریک جگہ ہے جیسا کہ فرمایا 3۱؂ جدھر منہ
پھیرو ادھر ہی خدا کا منہ ہے اور فرماتا ہے 3۲؂ یعنی جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور فرماتا ہے 3۳؂ یعنی ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں۔ یہ تینوں تعلیموں کا نمونہ ہے۔
والسلام علٰی من اتبع الھدٰی
تمّت
بقلم خاکسار
یکم دسمبر ۱۸۹۵ ؁ء بروز یک شنبہ ہیچمدان
از مریدان حضرت مسیح موعود
غلام محمد امرتسر عفی اللہ عنہ
 
Last edited:
Top