• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1 تا 5 مکمل ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ


بِسْمِ اللّٰہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحیْـمْ
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہِ الکَرِیْم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود مع التسلیم
عرض حال
امام بخاری علیہ الرحمۃ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اعمال نیت سے ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنی نیت کے مطابق پھل پاتا ہے ۔
خاکسار مرزا بشیر احمد ؐ ابن حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارادہ کیا ہے واللّٰہ الموفّقکہ جمع کروں ان لوگوں کے واسطے جنہو ں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نہیں اُٹھائی اورنہ آپ کو دیکھا ہے ،آپ کے کلمات و حالات و سوانح اور دیگر مفید باتیں متعلق آپ کی سیرت اور خُلق و عادات وغیرہ کے ۔پس شروع کرتا ہوں میں ا س کام کو آج بروز بدھ بتاریخ ۲۵؍شعبان ۱۳۳۹ھ مطابق ۴؍مئی ۱۹۲۱ء بعد نماز ظہر اس حال میں کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیت الدعا میں بیٹھا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ مجھے صراط مستقیم پر قائم رکھے اور اس کتاب کے پورا کرنے کی توفیق دے اللّٰہم آمین ۔
میرا ارادہ ہے واللّٰہ الموفّق کہ جمع کروں اس کتاب میں تمام وہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں اور وہ جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں یا جو آئندہ پہنچیں اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں اور میں انشا ء اللہ تعالیٰ صرف وہی روایات تحریر کروں گا جن کو میں صحیح سمجھتا ہوں مگر میں الفاظ ِ روایت کی صحت کا دعویدار نہیں ہوں اور نہ لفظی روایت کا کماحقہ التزام کر سکتا ہوں نیز میں بغرض سہولت تمام روایات اردو زبان میں بیان کروں گا خواہ دراصل وہ کسی اور زبان میں روایت کی گئی ہوںاور فی الحال تمام روایات عموماً بغیر لحاظ معنوی ترتیب کے صرف اسی ترتیب میں بیا ن کروں گا جس میں کہ وہ میرے سامنے آئیں پھر بعد میں خدا نے چاہا اور مجھے توفیق ملی تو انہیں معنوی ترتیب سے مرتب کر دیا جاویگا ۔
اخذ روایات میں جن شرائط کو میں نے محفوظ رکھا ہے ان کا ذکر موجب تطویل سمجھ کر اس جگہ چھوڑتا ہوں۔ اللّٰھم وفق و اعن فا نک انت الموفق و المستعا ن -
خاکسار راقم آثم
مرزا بشیر احمد
قادیان






بسم اللہ الرحمن الرحیم

{ 1} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ ان سے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہ مجھے معلوم ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا فرمایا کہ بتایا گیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم بہت پڑھنا چاہئیے ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس وجہ سے آپ اسے بہت کثرت سے پڑھتے تھے حتیّٰ کہ رات کو بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے بھی یہی کلمہ آپ کی زبان پر ہوتا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے جب یہ روایت مولوی شیر علی صاحب سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے بھی دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سبحا ن اللّٰہ بہت پڑھتے تھے اور مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو استغفار پڑھتے کبھی نہیں سُنا ۔نیز خاکسار اپنا مشاہدہ عرض کر تا ہے کہ میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سبحا ن اللّٰہ پڑھتے سنا ہے ۔آپ بہت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر اور سکون اور اطمینان اور نرمی کے ساتھ یہ الفاظ زبان پر دہراتے تھے اس طرح کہ گویا ساتھ ساتھ صفات باری تعالیٰ پر بھی غور فرماتے جاتے ہیں ۔
{ 2} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر ہر وقت باوضو رہتے تھے جب کبھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے تھے وضو کر لیتے تھے سوائے اس کے کہ بیماری یا کسی اور وجہ سے آپ رُک جاویں ۔
{ 3} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز پنجگانہ کے سوا عام طور پر دو قسم کے نوافل پڑھا کر تے تھے ایک نماز اشراق (دو یا چار رکعات )جو آپ کبھی کبھی پڑھتے تھے اور دوسرے نماز تہجد( آٹھ رکعات ) جو آپ ہمیشہ پڑھتے تھے سوائے اس کے کہ آپ زیادہ بیمار ہوں لیکن ایسی صورت میں بھی آپ تہجد کے وقت بستر پر لیٹے لیٹے ہی دعا مانگ لیتے تھے ۔ اور آخری عمر میں بوجہ کمزوری کے عموماً بیٹھ کر نماز تہجد ادا کر تے تھے ۔
{ 4} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے تھے کیونکہ رات کا زیادہ حصّہ آپ جاگ کر گزارتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اوّل تو آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو آپ عموماًبہت دیر تک لکھتے تھے دوسرے آپ کو پیشاب کے لئے بھی کئی دفعہ اُٹھنا پڑتا تھا اس کے علاوہ نماز تہجد کے لئے بھی اُٹھتے تھے ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب مٹی کے تیل کی روشنی کے سامنے بیٹھ کر کام کرنا نا پسند کرتے تھے اور اس کی جگہ موم بتیاں استعمال کر تے تھے ۔ایک زمانہ میں کچھ عرصہ گیس کا لیمپ بھی استعمال کیا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ کئی کئی موم بتیاں جلا کر سامنے رکھوا لیتے تھے اگر کوئی بتی بجھ جاتی تھی تو اس کی جگہ اور جلا لیتے تھے اور گھر میں عموماً موم بتیوں کے بنڈل منگوا کر ذخیرہ رکھوا لیتے تھے ۔خاکسار کو یاد ہے کہ ایک دفعہ اس دالان میں جو بیت الفکر کے ساتھ ملحق شمال کی طرف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام شمالی دیوار کے پاس پلنگ پر بیٹھے ہوئے شاید کسی کام میں مصروف تھے اور پاس موم کی بتیاں جلی رکھی تھیں ۔حضرت والدہ صاحبہ بتیوں کے پاس سے گزریں تو پشت کی جانب سے ان کی اوڑ ھنی کے کنارے کو آگ لگ گئی اور ان کو کچھ خبر نہ تھی ۔حضرت مسیح موعود نے دیکھا تو جلدی سے اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے آگ بجھائی ۔اس وقت والدہ صاحبہ کچھ گھبرا گئی تھیں ۔
{ 5} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے ۔ خاکسارنے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کر تے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عموماً خفیف پڑھتے تھے۔
{ 6} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے باغ میں پھر رہے تھے جب آپ سنگترہ کے ایک درخت کے پاس سے گزرے تو میں نے (یعنی والدہ صاحبہ نے) یا کسی اور نے کہا کہ اس وقت تو سنگترہ کو دل چاہتا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کیا تم نے سنگترہ لینا ہے ؟ والدہ صاحبہ نے یا اس شخص نے کہا کہ ہاں لینا ہے ۔اس پر حضرت صاحب نے اس درخت کی شاخوں پر ہاتھ مارا اور جب آپ کا ہاتھ شاخوں سے الگ ہو ا تو آپ کے ہاتھ میں ایک سنگترہ تھا اور آپ نے فرمایا یہ لو۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ وہ سنگترہ کیسا تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا زرد رنگ کا پکا ہوا سنگترہ تھا ۔ میںنے پوچھا۔ کیا پھر آپ نے اسے کھا یا ؟والدہ صاحبہ نے کہا یہ مجھے یاد نہیں۔میں نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نے کس طرح ہاتھ مارا تھا؟ اس پر والدہ صاحبہ نے اس طرح ہاتھ مار کر دکھایااور کہا کہ جس طرح پھل توڑ نے والے کا ہاتھ درخت پرٹھہرتا ہے اس طرح آپ کا ہاتھ شاخوں پر نہیں ٹھہرا بلکہ آپ نے ہاتھ مارا اور فوراً لوٹا لیا ۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت سنگترہ کا موسم تھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرما یا کہ نہیں اور وہ درخت بالکل پھل سے خالی تھا ۔خاکسار نے یہ روایت مولوی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہ روایت حضرت خلیفہ ثانی ؓسے بھی سنی ہے ۔آپ بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے میرے کہنے پر ہاتھ مارا اور سنگترہ دیا تھا ۔
{ 7} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر سے واپس قادیان آرہا تھا تو میں نے بٹالہ پہنچ کر قادیان کے لئے یکہ کرایہ پر کیا ۔اس یکہ میں ایک ہندو سواری بھی بیٹھنے والی تھی جب ہم سوار ہونے لگے تو وہ ہندو جلدی کر کے اُس طرف چڑھ گیا جو سورج کے رُخ سے دوسری جانب تھی اور مجھے سورج کے سامنے بیٹھنا پڑا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب ہم شہر سے نکلے تو نا گاہ بادل کا ایک ٹکڑا اُٹھا اور میرے اور سورج کے درمیان آگیا اور ساتھ ساتھ آیا ۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیاوہ ہندو پھر کچھ بولا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا یاد پڑتا ہے کہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ پھر اس ہندو نے بہت معذرت کی اور شرمندہ ہوا ۔والدہ صاحبہ نے فرما یا کہ وہ گرمی کے دن تھے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی روایت مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بھی بیان کی ہے ۔انہوں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ واقعہ سنا تھا ۔صرف یہ اختلاف ہے کہ مولوی صاحب نے بٹالہ کی جگہ امرتسر کا نام لیا اور یقین ظاہر کیا اس بات پر کہ اس ہندو نے اس خارق عادت امر کو محسوس کیا تھا اور بہت شرمندہ ہوا تھا ۔
{ 8} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایاکہ ایک دفعہ کسی مقدمہ کے واسطے میں ڈلہوزی پہاڑ پر جا رہا تھا راستہ میں بارش آگئی مَیں اور میرا ساتھی یکہ سے اُترآئے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا ۔ میرے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا اس پر ان کی باہم تکرار ہو گئی اور مالک مکان تیز ہو گیا اور گالیاں دینے لگا ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں یہ تکرار سن کر آگے بڑھا ۔جونہی میری اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اسکے کہ میں کچھ بولوں اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وہ ایک اجنبی آدمی تھا نہ میں اسے جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا ۔
{ 9} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر میں تھا ۔رات کے وقت ہم کسی مکان میں دوسری منزل پر چوبارہ میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔اسی کمرے میں سات آٹھ اور آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے ۔جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصّہ گذر گیا تو مجھے کچھ ٹک ٹک کی آواز آئی اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس کمرے کی چھت گرنے والی ہے ۔اس پر میں نے اپنے ساتھی مسیتا بیگ کو آواز دی کہ مجھے خدشہ ہے کہ چھت گرنے والی ہے ۔اس نے کہا میاں یہ تمہارا وہم ہے نیا مکان بنا ہوا ہے اور بالکل نئی چھت ہے آرام سے سو جائو ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی ڈر میرے دل پر غالب ہو ا میں نے پھر اپنے ساتھی کو جگا یا مگر اس نے پھر اسی قسم کا جواب دیا میں پھر ناچار لیٹ گیا مگر پھر میرے دل پر شدت کے ساتھ یہ خیال غالب ہو ااور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا شہتیر ٹوٹنے والا ہے ۔ میں پھر گھبرا کر اُٹھااور اس دفعہ سختی کے ساتھ اپنے ساتھی کو کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ چھت گرنے والی ہے اُٹھو ۔ تو تم اُٹھتے کیوں نہیں ۔اس پر ناچار وہ اُٹھااور باقی لوگوں کو بھی ہم نے جگا دیاپھر میں نے سب کو کہا کہ جلدی باہر نکل کر نیچے اُتر چلو۔دروازے کے ساتھ ہی سیڑھی تھی میں دروازے میں کھڑا ہوگیا اور وہ سب ایک ایک کر کے نکل کر اُترتے گئے ۔جب سب نکل گئے تو حضرت صاحب فرما تے تھے کہ پھر میں نے قدم اُٹھایا ابھی میرا قدم شاید آدھاباہر اور آدھا دہلیز پر تھا کہ یک لخت چھت گری اور اس زور سے گری کہ نیچے کی چھت بھی ساتھ ہی گر گئی حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ جن چارپائیوں پر ہم لیٹے ہوئے تھے وہ ریزہ ریزہ ہوگئیں ۔خاکسار نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ مسیتا بیگ کون تھا ؟ والد ہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ تمہارے دادا کا ایک دور نزدیک سے رشتہ دار تھا اور کا رندہ بھی تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اس روایت کو ایک دفعہ اس طرح پر بیان کیا تھا کہ یہ واقعہ سیالکوٹ کا ہے جہاں آپ ملازم تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ چھت بس میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے اور نیز حضرت خلیفۃالمسیح ثانی نے بیان کیا کہ اس کمرہ میں اس وقت چند ہندو بھی تھے جو اس واقعہ سے حضرت صاحب کے بہت معتقد ہو گئے ۔
{ 10} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود ؑ نے بیان فرمایا کہ جب بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود کے والد صاحب ) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایسا ہو ا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی ۔دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ تمہارے دادا کشمیر سے اپنے آدمی کو چند ماہ کے بعد خط اور روپیہ دے کر بھیجا کر تے تھے ۔نقدی وغیرہ چاندی سونے کی صورت میں ایک گدڑی کی تہہ کے اندر سلی ہوئی ہوتی تھی جو وہ آدمی راستہ میں پہنے رکھتا تھا اور قادیان پہنچ کر اتار کر اندر گھر میں بھیج دیتا تھا ۔گھر والے کھول کر نقدی نکال لیتے تھے اور پھر گدڑی واپس کر دیتے تھے ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا کشمیر میں صوبہ تھے ۔اس وقت حضرت خلیفۃالمسیح ثانی بھی اوپر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ جس طرح انگریزوں میں آجکل ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح کشمیر میں صوبے گورنر علاقہ ہوتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہماری دادی صاحبہ یعنی حضرت مسیح موعود کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا وہ دادا صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھیں ۔ان کو حضرت صاحب سے بہت محبت تھی اور آپ کو ان سے بہت محبت تھی ۔میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جب آپ ان کا ذکر فرماتے تھے تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں ۔
{ 11} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔نیز بیان کیا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے کہ جب مبارکہ بیگم (ہماری ہمشیرہ ) پید اہونے لگی تو منگل کا دن تھا اسلئے حضرت صاحب نے دعا کی کہ خدا اُسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن توام پیدا ہوئے تھے اور فوت ہوئے منگل کے دن ۔اور جاننا چاہئے کہ زمانہ کی شمار صرف اہل دنیا کے واسطے ہے اور دنیا کے واسطے واقعی آپ کی وفات کا دن ایک مصیبت کا دن تھا ۔
( اس روایت سے یہ مراد نہیں ہے کہ منگل کا دن کوئی منحوس دن ہے بلکہ جیسا کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۱۱،۳۲۲ و ۳۶۰میں تشریح کی جا چکی ہے۔ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ منگل کا دن بعض اجرام سماوی کے مخفی اثرات کے ماتحت اپنے اندر سختی اور تکلیف کا پہلو رکھتا ہے۔ چنانچہ منگل کے متعلق حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول آتا ہے کہ منگل وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ نے پتھریلے پہاڑ اور ضرر رساں چیزیں پیدا کی ہیں۔ دیکھو تفسیر ابن کثیر آیت خلق الارض فی یومین الخ )
{ 12} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری بیماری بیمار ہوئے اور آپ کی حالت نازک ہوئی تو میں نے گھبرا کر کہا ’’اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ‘‘ اس پر حضرت صاحب نے فرمایا ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا ‘‘خاکسار مختصراً عر ض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے مکان میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔میں اپنے بستر پر جاکر لیٹ گیا اور پھر مجھے نیند آگئی ۔رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگا یا گیا یا شاید لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آوازسے میں خود بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے اور اِدھر اُدھرمعالج اور دوسرے لوگ کام میںلگے ہوئے ہیں ۔جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود ؑ کے اوپر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا۔کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ دیکھی تھی اور میرے دل پر یہی اثر پڑا کہ یہ مرض الموت ہے ۔اس وقت آپ بہت کمزور ہو چکے تھے ۔اتنے میں ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد ۔سب سمجھے کہ وفات پاگئے اور یکدم سب پر ایک سناٹا چھا گیا مگر تھوڑی دیر کے بعد نبض میںپھر حرکت پید اہوئی مگر حالت بد ستور نازک تھی اتنے میں صبح ہوگئی اور حضرت مسیح موعود کی چارپائی کو باہر صحن سے اُٹھا کر اند ر کمرے میں لے آئے جب ذرا اچھی روشنی ہوگئی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے پوچھا کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟ غالباً شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی نے عرض کیا کہ حضور ہو گیا ہے ۔آپ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کیا اور لیٹے لیٹے ہی نماز شروع کر دی مگر آپ اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہوگئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے آپ نے پھر نیت باندھی مگر مجھے یا دنہیں کہ نماز پوری کر سکے یا نہیں ۔اس وقت آپ کی حالت سخت کرب اور گھبراہٹ کی تھی ۔غالبًا آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ڈاکٹر نے پوچھا کہ حضور کو خاص طور پر کیا تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔مگر آپ جواب نہ دے سکتے اس لئے کاغذ قلم دوات منگوائی گئی اور آپ نے بائیں ہاتھ پر سہارا لے کر بستر سے کچھ اُٹھ کر لکھنا چاہا مگر بمشکل دوچار الفاظ لکھ سکے اور پھر بوجہ ضعف کے کاغذ کے اوپر قلم گھسٹتا ہو ا چلا گیا اور آپ پھر لیٹ گئے ۔یہ آخری تحریر جس میں غالباً زبان کی تکلیف کا اظہار تھا اور کچھ حصّہ پڑھا نہیں جاتا تھا جناب والدہ صاحبہ کو دے دی گئی ۔نو بجے کے بعد حضرت صاحب کی حالت زیادہ نازک ہو گئی اور تھوڑی دیر کے بعد آپ کو غر غرہ شروع ہو گیا ۔غر غرہ میں کوئی آواز وغیر ہ نہیں تھی بلکہ صرف سانس لمبا لمبا اور کھچ کھچ کر آتا تھا خاکسار اس وقت آپ کے سرہانے کھڑا تھا ۔ یہ حالت دیکھ کر والدہ صاحبہ کو جو اس وقت ساتھ والے کمرے میں تھیں اطلاع دی گئی وہ مع چند گھر کی مستورات کے آپ کی چارپائی کے پاس آکر زمین پر بیٹھ گئیں ۔اس وقت ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب لاہوری نے آپ کی چھاتی میںپستان کے پاس انجکشن یعنی دوائی کی پچکاری کی جس سے وہ جگہ کچھ اُبھر آئی مگر کچھ افاقہ محسوس نہ ہوا بلکہ بعض لوگوں نے بُرا منایا کہ اس حالت میں آپ کو کیوں یہ تکلیف دی گئی ہے ۔ تھوڑی دیر تک غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اورہر آن سانسوں کے درمیان کا وقفہ لمبا ہو تا گیا حتّٰی کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا او ر آپ کی روح رفیق اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی ۔ اللھم صل علیہ و علٰی مطاعہ محمد ؐ و بارک وسلم ۔
خاکسار نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت جو شروع میں درج کی گئی ہے جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی اور حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا ذکر آیا تو والدہصاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا مگر اس کے بعد تھوڑی دیر تک ہم لوگ آپ کے پائوں دباتے رہے اور آپ آرام سے لیٹ کرسو گئے ۔اور میں بھی سو گئی لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور غالباً ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے ۔اس کے بعد آپ نے زیادہ ضعف محسوس کیا تو اپنے ہاتھ سے مجھے جگایا ۔میں اٹھی تو آپ کو اتنا ضعف تھا کہ آپ میری چارپائی پر ہی لیٹ گئے اور میں آپکے پائوں دبانے کے لئے بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا تم اب سو جائو ۔میں نے کہا نہیں میں دباتی ہو ں ۔اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے اسلئے میں نے چارپائی کے پاس ہی انتظام کر دیا اور آپ وہیں بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اُٹھ کر لیٹ گئے اور میں پائوں دباتی رہی مگر ضعف بہت ہوگیا تھا اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی ۔جب آپ قے سے فارغ ہو کر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگر گوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا ’’ اللہ یہ کیا ہو نے لگا ہے ‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا ‘‘خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کیا آپ سمجھ گئی تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشا ء ہے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ’’ہاں‘ ‘والدہ صاحبہ نے یہ بھی فرمایا کہ جب حالت خراب ہوئی اور ضعف بہت ہوگیا تو میں نے کہا مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب ) کو بلالیں ؟ آپ نے فرمایا بلا لو نیز فرمایا محمود کو جگا لو ۔پھر میں نے پوچھا محمد علی خان یعنی نواب صاحب کو بلا لوں؟ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ مجھے یا دنہیں کہ حضرت صاحب نے اس کا کچھ جواب دیا، یا نہیں اور دیا تو کیا دیا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مرض موت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سخت کرب تھا اور نہایت درجہ بے چینی اور گھبراہٹ اور تکلیف کی حالت تھی اور ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا بھی بوقت وفات قریباً ایسا ہی حال تھا ۔یہ بات ناواقف لوگوں کے لئے موجب تعجب ہو گی کیونکہ دوسری طرف و ہ یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ صوفیا اور اولیاء کی وفات نہایت اطمینان اور سکون کی حالت میں ہوتی ہے ۔سودراصل بات یہ ہے کہ نبی جب فوت ہونے لگتا ہے تو اپنی امت کے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں اس کے سامنے ہو تی ہیں اور ان کے مستقبل کا فکر مزید برآں اسکے دامن گیر ہو تا ہے ۔تمام دنیا سے بڑھ کر اس بات کو نبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ موت ایک دروازہ ہے جس سے گذر کر انسان نے خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہے پس موت کی آمد جہاں اس لحاظ سے اس کو مسرور کر تی ہے کہ وصال محبوب کا وقت قریب آن پہنچا ہے وہاں اس کی عظیم الشان ذمہ داریوں کا احساس اور اپنی امت کے متعلق آئندہ کا فکر اسے غیرمعمولی کر ب میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر صوفیا اور اولیاء ان فکروں سے آزاد ہو تے ہیں ۔ان پر صرف ان کے نفس کا بار ہوتا ہے مگر نبیوں پر ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسانوں کا بار ۔پس فرق ظاہر ہے
(اس روایت میں حضرت والدہ صا حبہ نے جو یہ بیان کیا ہے کہ ان کی گھبراہٹ کے اظہار پر حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ فرمایا کہ ’’ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ ‘‘ اس کے متعلق میں نے حضرت والدہ صا حبہ سے دریافت کیا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے جس پر انہوں نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی یہ مراد تھی کہ جیسا کہ میں کہا کرتا تھا کہ میری وفات کا وقت قریب ہے ۔ سو اب یہ وہی موعود وقت آگیا ہے اور والدہ صا حبہ نے فرمایا کہ ان الفاظ میں گویا حضرت صاحب نے مجھے ایک رنگ میں تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ وہی مقدر وقت ہے جس کے متعلق میں خدا سے علم پاکر ذکر کیا کرتا تھا اور جس طرح خدا کا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے۔ اسی طرح خدا کے دوسرے وعدے بھی جو میرے بعد خدائی نصرت وغیرہ کے متعلق ہیں۔ پورے ہوں گے اور خدا تم سب کا خود کفیل ہو گا ۔ نیز حضرت والدہ صا حبہ نے فرمایا۔ کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر ہو جایا کرتی تھی۔ جس سے بعض اوقات بہت کمزوری ہو جاتی تھی…… اور آپ اسی بیماری سے فوت ہوئے۔)
{ 13} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ الوصیت لکھ رہے تھے ایک دفعہ جب آپ شریف (یعنی میرے چھوٹے بھائی عزیزم مرزا شریف احمد ؐ) کے مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے ۔آپ نے مجھ سے کہا کہ مولوی محمدؐ علی سے ایک انگریز نے دریافت کیا تھا کہ جس طرح بڑے آدمی اپنا جانشین مقرر کیا کرتے ہیں مرزا صاحب نے بھی کو ئی جانشین مقرر کیا ہے یا نہیں ؟ اس کے بعد آپ فرمانے لگے تمہارا کیا خیال ہے ۔کیا میں محمود ( خلیفۃ المسیح ثانی ) کو لکھ دوں یا فرمایا مقرر کر دوں ؟والدہ صاحبہ فرماتی ہیں میں نے کہا کہ جس طرح آپ مناسب سمجھیں کر یں ۔
{ 14} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جن کو دنیوی شان و شوکت کا خیال ہے کہ محکمے ہوں، دفاتر ہوں، بڑی بڑی عمارتیں ہوں وغیرہ وغیرہ ۔دوسرے وہ ہیں جو کسی بڑے آدمی مثلاً مولوی نورالدین صاحب کے اثر کے نیچے آکر جماعت میں داخل ہو گئے ہیں اور انہی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ تیسری قسم کے وہ لوگ ہیںجن کو خاص میری ذات سے تعلق ہے اور وہ ہر بات میں میری رضا اور میری خوشی کو مقدم رکھتے ہیں ۔
{ 15} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب اس کمرہ میں موجود نہیں تھے جس میں آپ نے وفات پائی ۔ جب حضرت مولوی صاحب کو اطلاع ہو ئی تو آپ آئے اور حضرت صاحب کی پیشانی کو بو سہ دیا اور پھر جلد ہی اس کمرے سے باہر تشریف لے گئے ۔جب حضرت مولوی صاحب کا قدم دروازے کے باہر ہو ا اس وقت مولوی سیّد محمد ؐاحسن صاحب نے رقّت بھری آواز میں حضرت مولوی صاحب سے کہا ’’انت صدّیقی‘‘ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا۔مولوی صاحب یہاںاس سوال کو رہنے دیں قادیان جاکر فیصلہ ہوگا ۔خاکسار کا خیال ہے کہ اس مکالمہ کو میرے سوا کسی نے نہیںسنا ۔
{ 16} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاںتھیں۔ ایک اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی جس کا آپ نے کئی جگہ اپنی تحریر ات میں ذکر کیا ہے یہ سب سے پہلی انگوٹھی ہے جو دعویٰ سے بہت عرصہ پہلے تیار کرائی گئی تھی ۔دوسری وہ انگوٹھی جس پر آپ کا الہام غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ الخ درج ہے ۔یہ آپ نے دعویٰ کے بعد تیار کروائی تھی اور یہ بھی ایک عرصہ تک آپ کے ہاتھ میں رہی ۔ الہام کی عبارت نسبتاً لمبی ہونے کی وجہ سے اس کا نگینہ سب سے بڑا ہے ۔تیسری وہ جو آخری سالوں میںتیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی ۔یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوںاس پر کیا لکھوائوںحضورنے جواب دیاـ’’ مولا بس ‘‘ چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کرانگوٹھی آپ کو پیش کر دی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی ۔حضر ت مسیح موعود کی وفات کے ایک عرصہ بعد والد ہ صاحبہ نے ان تینوںانگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوںبھا ئیوںکے لئے قرعہ ڈالا ۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے نام نکلی ۔ غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ (تذکرہ صفحہ۴۲۸حاشیہ مطبوعہ۲۰۰۴ئ)والی خاکسارکے نام اور ’’مولا بس‘‘ والی عزیزم میاںشریف احمدصاحب کے نام نکلی ۔ہمشیرگان کے حصّہ میںدو اور اسی قسم کے تبرک آئے ۔
{ 17} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر فرمایا کہ ایک دفعہ میںکسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا ۔عدالت میں اور اورمقدمے ہوتے رہے اور میںباہر ایک درخت کے نیچے انتظار کر تا رہا۔چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھااس لئے میںنے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی ۔ مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑنی شروع ہوگئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا۔جب میں نماز سے فارغ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرا کھڑا ہے ۔سلام پھیرتے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں۔
{ 18} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میںمجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کر نے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں ۔فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگا تار روزے رکھے اور گھر میںیا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میںروزہ رکھتا ہوں ۔صبح کا کھانا جب گھرسے آتا تھاتو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اورشام کا خود کھا لیتا تھا۔میںنے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخرعمر میںبھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ آخر عمر میںبھی آپ روزے رکھا کر تے تھے خصوصًاشوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے ہاںمگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیںرکھ سکتے تھے ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے)
{ 19} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا دورہ بشیراوّل (ہمارا ایک بڑا بھائی ہوتا تھا جو۱۸۸۸ء میںفوت ہوگیاتھا ) کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا ۔رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آ یا اور پھر اس کے بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا۔پھر اس کے کچھ عرصہ بعدآپ ایک دفعہ نماز کیلئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خرا ب ہے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے مخلص خادم تھے اب فوت ہو چکے ہیں ) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم کر دو۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میںسمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی چنانچہ میں نے کسی ملازم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو میاںکی طبیعت کا کیا حال ہے ۔شیخ حامدعلی نے کہا کہ کچھ خراب ہوگئی ہے ۔میںپردہ کر اکے مسجد میں چلی گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے میںجب پاس گئی تو فرمایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن اب اِفاقہ ہے ۔میں نماز پڑھا رہاتھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اُٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میںچیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہو گئے ۔ خاکسارنے پوچھا دورہ میں کیا ہوتا تھا ۔والدہ صاحبہ نے کہا ہاتھ پائوںٹھنڈے ہو جاتے تھے اوربدن کے پٹھے کھچ جاتے تھے خصوصاً گردن کے پٹھے اور سر میںچکر ہوتا تھا اور اس وقت آپ اپنے بدن کو سہار نہیں سکتے تھے ۔شروع شروع میں یہ دورے بہت سخت ہوتے تھے پھر اس کے بعد کچھ تو دوروں کی ایسی سختی نہیں رہی اور کچھ طبیعت عادی ہوگئی ۔خاکسار نے پوچھا اس سے پہلے تو سر کی کوئی تکلیف نہیں تھی ؟ والدہ صاحبہ نے فرما یا پہلے معمولی سر درد کے دورے ہو ا کرتے تھے ۔خاکسار نے پوچھا کیا پہلے حضرت صاحب خود نماز پڑھاتے تھے والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاںمگر پھر دوروںکے بعد چھوڑ دی ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ مسیحیت کے دعویٰ سے پہلے کی بات ہے ۔
(اس روایت میں جو حضرت مسیح موعود ؑکے دوران سر کے دوروں کے متعلق حضرت والدہ صا حبہ نے ہسٹیریا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سے وہ بیماری مراد نہیں ہے جو علم طب کی رو سے ہسٹیریا کہلاتی ہے۔ بلکہ یہ لفظ اس جگہ ایک غیر طبی رنگ میں دوران سر اور ہسٹیریا کی جزوی مشابہت کی و جہ سے استعمال کیا گیا ہے۔ ورنہ جیسے کہ حصہ دوم کی روایت نمبر۳۶۵ و ۳۶۹میں تشریح کی جا چکی ہے۔ حضرت مسیح موعود کو حقیقتًا ہسٹیریا نہیں تھا چنانچہ خود حضرت مسیح موعود نے جہاں کہیں بھی اپنی تحریرات میں اپنی اس بیماری کا ذکر کیا ہے ۔ وہاں اس کے متعلق کبھی بھی ہسٹیریا وغیرہ کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی علم طب کی رو سے دوران سر کی بیماری کسی صورت میں ہسٹیریا یا مراق کہلا سکتی ہے۔ بلکہ دوران سر کی بیماری کے لئے انگریزی میں غالباً ورٹیگو کا لفظ ہے جو غالباً سردرد ہی کی ایک قسم ہے جس میں سر میں چکر آتا ہے اور گردن وغیرہ کے پٹھوں میں کھچاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اور اس حالت میں بیمار کے لئے چلنا یا کھڑے ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ لیکن ہوش و حواس پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا۔ چنانچہ خاکسار راقم الحروف نے متعدد دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کو دورے کی حالت میں دیکھا ہے اور کبھی بھی ایسی حالت نہیں دیکھی۔ جس میں ہوش و حواس پر کوئی اثر پڑا ہو اور حضرت مسیح موعود کی یہ بیماری بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کے مطابق تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ مسیح موعود دو زرد چادروں (یعنی دو بیماریوں) میں لپٹا ہوا نازل ہو گا۔ دیکھو مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ بحوالہ مسلم وغیرہ۔ اور روایت میں جو یہ لفظ آتے ہیں کہ پہلے دورے کے وقت آپ نے کوئی کالی کالی چیز آسمان کی طرف اٹھتی دیکھی۔ سو دوران سر کے عارضہ میں یہ ایک عام بات ہے کہ سر کے چکر کی وجہ سے اردگرد کی چیزیں گھومتی ہوئی اوپر کو اٹھتی نظر آتی ہیں اور بوجہ اس کے کہ ایسے دورے کے وقت مریض کا میلان آنکھیں بند کر لینے کی طرف ہوتا ہے۔ عموماً یہ چیزیں سیاہ رنگ اختیار کر لیتی ہیں اور دورے میں غشی کی سی حالت ہو جانے سے جیسا کہ خود الفاظ بھی اسی حقیقت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ حقیقی غشی مراد نہیں بلکہ بوجہ زیادہ کمزوری کے آنکھیں نہ کھول سکنا یا بول نہ سکنا مراد ہے۔ واللہ اعلم) مزید بصیرت کے لئے روایات نمبر ۸۱ ، ۲۹۳ اور ۴۵۹ بھی ملاحظہ کی جائیں جن سے اس سوال پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
{ 20} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لدھیانہ میں لی تھی ۔پہلے دن چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی پھر جب آپ گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بیعت کی ۔سب سے پہلے مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب ) نے بیعت کی تھی ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ نے کب بیعت کی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا میرے متعلق مشہور ہے کہ میں نے بیعت سے تو قف کیا اور کئی سال بعد بیعت کی ۔یہ غلط ہے بلکہ میں کبھی بھی آپ سے الگ نہیں ہو ئی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہی اور شروع سے ہی اپنے آپ کو بیعت میں سمجھا اور اپنے لئے باقاعدہ الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابتدائی بیعت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسیحیّت اور مہدویّت کا دعویٰ نہ تھا بلکہ عام مجددانہ طریق پر آپ بیعت لیتے تھے ۔خاکسار نے والد ہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت مولوی صاحب کے علاوہ اور کس کس نے پہلے دن بیعت کی تھی ؟ والدہ صاحبہ نے میاں عبداللہ صاحب سنوری اور شیخ حامد علی صاحب کا نام لیا۔
{ 21} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعویٰ مسیحیت شائع کر نے لگے تو اس وقت آپ قادیان میں تھے آپ نے اس کے متعلق ابتدائی رسالے یہیں لکھے پھر آپ لدھیانہ تشریف لے گئے اوروہاں سے دعویٰ شائع کیا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا دعویٰ شائع کرنے سے پہلے آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میں ایسی بات کا اعلان کر نے لگاہوںجس سے ملک میں مخالفت کا بہت شور پید اہوگا ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا اس اعلان پر بعض ابتدائی بیعت کرنے والوں کو بھی ٹھوکر لگ گئی ۔
{ 22} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر تھے اور سور ہے تھے میں نے آپ کی زبان پر ایک فقرہ جاری ہوتے سنا ۔میں نے سمجھا کہ الہام ہوا ہے پھر آپ بیدار ہوگئے تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ الہام ہو ا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم کو کیسے معلوم ہو ا؟ میں نے کہا مجھے آواز سنائی دی تھی ۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ الہام کے وقت آپ کی کیا حالت ہو تی تھی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑاپنے مکان کے چھوٹے صحن میں (یعنی جو والدہ صاحبہ کا موجود ہ صحن ہے ) ایک لکڑی کے تخت پر تشریف رکھتے تھے غالباً صبح یا شام کا وقت تھا آپ کو کچھ غنودگی ہو ئی تو آپ لیٹ گئے پھر آپ کے ہونٹوں سے کچھ آواز سنی گئی جس کو ہم سمجھ نہیں سکے پھر آپ بیدار ہو ئے تو فرما یا مجھے اس وقت یہ الہام ہوا ہے ۔مگر خاکسار کو وہ الہام یاد نہیںرہا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب آپ کو الہام ہوتا تھا تو اس کے بعد آپ غنودگی سے فوراً بیدار ہو جاتے تھے اور اسے تحریر کر لیتے تھے ۔اوائل میں اپنی کسی عام کتاب پر نوٹ کر لیا کرتے تھے ۔پھر آپ نے ایک بڑے سائز کی کاپی بنوالی اس کے بعد ایک چھوٹی مگر ضخیم نوٹ بک بنوالی تھی ۔خاکسار نے پوچھا کہ اب وہ نوٹ بک کہا ں ہے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی (بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں) کے پاس ہے اور خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی بیان کر تے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب کو الہام ہو تے دیکھا تھا۔
{ 23} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کا کام آخری زمانہ میں ٹیڑھے نب سے کیا کرتے تھے اور بغیر خطوط کا سفید کاغذ استعمال فرماتے تھے ۔آپ کی عادت تھی کہ کاغذ لے کر اس کی دو جانب شکن ڈال لیتے تھے تا کہ دونوں طرف سفید حاشیہ رہے اور آپ کالی روشنائی سے بھی لکھ لیتے تھے اور بلیو، بلیک سے بھی اور مٹی کا اُپلہ سا بنوا کر اپنی دوات اس میں نصب کروا لیتے تھے تا کہ گرنے کا خطرہ نہ رہے ۔آپ بالعموم لکھتے ہوئے ٹہلتے بھی جاتے تھے یعنی ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی اور دوات ایک جگہ رکھ دیتے تھے جب اس کے پاس سے گزرتے نب کو تر کر لیتے ۔اور لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے طور پر پڑھتے تھے تو آپ کے ہونٹوں سے گنگنانے کی آواز آتی تھی اور سننے والا الفاظ صاف نہیں سمجھ سکتا تھا ۔خاکسار نے مرزا سلطان احمد صاحب کو پڑھتے سنا ہے ان کا طریق حضرت صاحب کے طریق سے بہت ملتا ہے ۔آپ کی تحریر پختہ مگر شکستہ ہو تی تھی ۔جس کو عادت نہ ہو وہ صاف نہیں پڑھ سکتا تھا ۔لکھے ہوئے کو کاٹ کر بدل بھی دیتے تھے ۔ چنانچہ آ پ کی تحریر میں کئی جگہ کٹے ہوئے حصّے نظر آتے تھے اور آپکا خط بہت باریک ہوتا تھا ۔چنانچہ نمونہ درج ذیل ہے ۔
نقل خط علاوہ اسکے مجھے اپنی اولاد کے لئے یہ خیال ہے کہ ان کی شادیاں ایسی لڑکیوں سے ہو ں کہ انہوں نے دینی علوم اور کسی قدر عربی اور فارسی اور انگریزی میں تعلیم پائی ہو اور بڑے گھروں کے انتظام کرنے کے لئے عقل اور دماغ رکھتی ہوں سو یہ سب باتیں کہ علاوہ اور خوبیوں کے یہ خوبی بھی ہو ۔خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں پنجاب کے شریف خاندانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کی طرف اس قدر توجہ کم ہے کہ وہ بیچاریاں وحشیوں کی طرح نشوونما پاتی ہیں ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ایک خط سے لی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود ؑنے ۱۸۹۹ء میں مرزا محمود بیگ صاحب پٹی کو لکھا تھا ۔
{ 24} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تمہارے تایا (مرزا غلام قادر صاحب یعنی حضرت صاحب کے بڑے بھائی ) لاولد فوت ہوگئے تو تمہاری تائی حضرت صاحب کے پاس روئیں اور کہا کہ اپنے بھائی کی جائیداد سلطان احمد ؐ کے نام بطور متبنّٰے کے کرا دو وہ ویسے بھی اب تمہاری ہے اور اس طرح بھی تمہاری رہے گی ۔چنانچہ حضرت صاحب نے تمہارے تایا کی تمام جائداد مرزا سلطا ن احمد ؐ کے نام کر ا دی ۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے متبنّٰی کی صور ت کس طرح منظور فرمالی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا یہ تو یونہی ایک بات تھی ورنہ وفات کے بعد متبنّٰے کیسا ۔مطلب تو یہ تھا کہ تمہاری تائی کی خوشی کے لئے حضرت نے تمہارے تایا کی جائداد مرزا سلطان احمد کے نام داخل خارج کرا دی اور اپنے نام نہیں کرائی ۔کیونکہ اس وقت کے حالات کے ماتحت حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ ویسے بھی مرزا سلطان احمد ؐ کوآپ کی جائیداد سے نصف حصہ جانا ہے اور باقی نصف مرزا فضل احمد ؐ کو۔پس آپ نے سمجھ لیا کہ گویا آپ نے اپنی زندگی میں ہی مرزا سلطان احمد ؐ کا حصہ الگ کر دیا ۔
{ 25} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب مرزا فضل احمد ؐ فوت ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ تمہاری اولاد کے ساتھ جائیداد کا حصہ بٹانے والا ایک فضل احمدؐ ہی تھا سو وہ بے چارہ بھی گزر گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑکے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد ؐ تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب جو حضرت صاحب سے بڑے تھے ۔ ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گائوں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا چنانچہ ایک کا نام قادرآباد رکھا اور دوسرے کااحمد آباد ۔احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آباد رہ گیا ۔چنانچہ قادر آباد حضر ت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزاسلطان احمد ؐ صاحب کا حصہ آیا لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا واپس ہمارے پاس آگیا ہے اور اب وہ کلیتہً صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادرآباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال ہے ۔
{ 26} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے (جوخاکسار کے حقیقی ماموں ہیں ) کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ میں دعویٰ مسیحیت شائع کیا تو مَیں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا ۔مجھے اس دعویٰ سے کچھ اطلاع نہیں تھی ۔ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمہارے گھر میں ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں اور یہ کہ آنے والے مسیح وہ خود ہیں ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے حضرت عیسیٰ تو زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہو ں گے ۔خیر جب میں گھر آیا تو حضرت صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ میرایہ سوال سن کر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ اُٹھے اور کمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ کتاب فتح اسلام ( جو آپ کی جدید تصنیف تھی ) لا کر مجھے دے دیا اور فرمایا اسے پڑھو ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچے کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی ورنہ یونہی کو ئی بات کہہ کر ٹال دیتے ۔
{ 27} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میں حدیث میں یہ پڑھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال صحابہ برکت کے لئے رکھتے تھے اس خیال سے میں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے اپنے کچھ بال عنایت فرماویں ۔چنانچہ جب آپ نے حجامت کرائی تو مجھے اپنے بال بھجوادئیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پاس بھی حضرت صاحب کے کچھ بال رکھے ہیں ۔
{ 28} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ جب مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) قادیان سے باہر گئے ہوئے تھے میں مغرب کی نماز میں آیا تو دیکھا کہ آگے حضرت مسیح موعود ؑ خود نماز پڑھا رہے تھے ۔قاضی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے چھوٹی چھوٹی دو سورتیں پڑھیں مگر سوزو درد سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں ۔جب آپ نے نماز ختم کرائی تو میں آگے ہوا مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا قاضی صاحب میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر آپ کو نہیں پایا ۔مجھے اس نماز میں سخت تکلیف ہوئی ہے ۔عشاء کی نماز آپ پڑھائیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہوگی ۔
{ 29} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جن دنوں میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کرم دین سے گورداسپور میں مقدمہ تھا اور آپ گورداسپور گئے ہوئے تھے ۔ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ سب لوگ کچہری میں چلے گئے یااِدھر اُدھرہو گئے اور حضرت صاحب کے پاس صرف مَیں اور مفتی صادق صاحب رہ گئے ۔حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سو رہے ہیں ۔اسی حالت میں آپ نے سر اُٹھایا او ر کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے لکھ لو۔اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت وہاںکوئی قلم دوات یا پنسل موجود نہ تھی آخر ہم باورچی خانہ سے ایک کوئلہ لائے اور اس سے مفتی صاحب نے کاغذ پر لکھا ۔ آپ پھر اسی طرح لیٹ گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر آپ نے الہام لکھایا ۔غرض اسی طرح آپ نے اس وقت چند الہامات لکھائے ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ان میں سے ایک الہام مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے ’’یسئلونک عن شانک قل اللہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون‘‘ ۔ یعنی تیری شان کے متعلق سوال کریں گے تو ان سے کہہ دے ’’اللہ ‘‘ پھر چھوڑ دے ان کو ان کی بیہودہ گوئی میں ۔دوسرے دن جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو وکیل مستغیث نے آپ سے منجملہ اور سوالات کے یہ سوال بھی کیا کہ یہ جو آپ نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں اپنے متعلق لکھا ہے اور اس نے اس کتاب سے ایک عبارت پڑھ کر سنائی جس میں آپ نے بڑے زور دار الفاظ میںاپنے علومرتبت کے متعلق فقرات لکھے ہیں۔ کیا آپ واقعی ایسی ہی اپنی شان سمجھتے ہیں ؟ حضرت مسیح موعود ؑنے فرمایا ہاںیہ اللہ کا فضل ہے یا کوئی ایسا ہی کلمہ بولا جس میں اللہ کی طرف بات کو منسوب کیا تھا ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو اس وقت خیال نہیں آیا کہ یہ سوال و جواب آپ کے الہام کے مطابق تھا ۔پھر جب آپ گورداسپور سے واپس قادیان آنے لگے تو میں نے راستہ میںموڑپر آکر آپ سے عرض کیا کہ حضور میرا خیال ہے کہ حضور کا وہ الہام اس سوال و جواب میں پورا ہوا ہے ۔حضرت صاحب بہت خوش ہوئے کہ ہاں واقعی یہی ہے آپ نے بہت ٹھیک سمجھا ہے ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ اس کے چند دن بعد مجھے شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب ایک اور موقعہ پر بھی ذکر فرماتے تھے کہ مولوی شیر علی نے اس الہام کی تطبیق خوب سمجھی ہے اور خوشی کا اظہار فرماتے تھے ۔
(اس روایت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب تحفہ گولڑویہ کا ذکر آتا ہے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحفہ گولڑویہ کی بجائے تریاق القلوب کا نام لکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سہو ہوا ہے اور درست یہی ہے کہ عدالت میں جس کتاب کے متعلق پوچھا گیا تھا وہ تحفہ گولڑویہ تھی نہ کہ تریاق القلوب۔ جیسا کہ حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۸۹میں مسل عدالت کے حوالہ سے ثابت کیا جا چکا ہے۔)
{ 30} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ ہر شخص کی خواب توجہ سے سنتے تھے اور بسا اوقات نوٹ بھی فرمالیتے تھے ۔چنانچہ ایک دفعہ جب مرزا کمال الدین وغیرہ نے مسجد کے نیچے کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کر دیا تھا اور احمدیوں کو سخت تکلیف کا سامنا تھا او ر آپ کو مجبورًاقانونی چارہ جوئی کر نی پڑی تھی۔ ( اس موقعہ کے علاوہ کبھی آپ نے کسی کے خلاف خود مقدمہ دائر نہیں کیا ) مَیں نے خواب دیکھا کہ وہ دیوار گرائی جارہی ہے اور مَیں اس کے گرے ہوئے حصے کے اوپر سے گذر رہا ہوں ۔ مَیں نے آپ کے پاس بیان کیا آپ نے بڑی توجہ سے سنا اور نوٹ کر لیا ۔اس وقت میں بالکل بچہ تھا ۔
{ 31} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں۱۹۰۵ء کا بڑا زلزلہ آیا تھا اور آپ باغ میں رہائش کے لئے چلے گئے تھے۔ مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے محمد منظور نے جواِن دنوں میں بالکل بچہ تھا خواب میں دیکھا کہ بہت سے بکرے ذبح کئے جارہے ہیں ۔ حضرت صاحب کو اس کی اطلاع پہنچی تو کئی بکرے منگوا کر صدقہ کروا دیئے اور حضرت صاحب کی اتبا ع میں اور اکثر لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا ۔میرا خیال ہے اس وقت باغ میں ایک سو سے زیادہ بکرا ذبح ہو ا ہو گا ۔
{ 32} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تو میں بچہ تھا اور نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان کے ساتھ ملحق حضرت صاحب کے مکان کا جو حصہ ہے اس میں ہم دوسرے بچوں کے ساتھ چارپائیوں پر لیٹے ہوئے سو رہے تھے ،جب زلزلہ آیا تو ہم سب ڈر کر بے تحاشا اُٹھے اور ہم کو کچھ خبر نہیں تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ صحن میں آئے تو اوپر سے کنکر روڑے برس رہے تھے ہم بھاگتے ہوئے بڑے مکان کی طرف آئے وہاں حضرت مسیح موعود ؑ اور والدہ صاحبہ کمرے سے نکل رہے تھے۔ ہم نے جاتے ہی حضرت مسیح موعودؑ کو پکڑ لیا اور آپ سے لپٹ گئے ۔آپ اس وقت گھبرائے ہو ئے تھے اور بڑے صحن کی طرف جانا چاہتے تھے مگر چاروں طرف بچے چمٹے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بھی۔ کوئی اِدھر کھینچتا تھا توکوئی اُدھر اور آپ سب کے درمیان میں تھے آخر بڑی مشکل سے آپ اور آپ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہم سب بڑے صحن میں پہنچے ۔اس و قت تک زلزلے کے دھکے بھی کمزور ہو چکے تھے ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ ہم کو لے کر اپنے باغ میں تشریف لے گئے ۔دوسرے احباب بھی اپنا ڈیرا ڈنڈا اُٹھا کر باغ میں پہنچ گئے ۔وہاں حسب ضرورت کچھ کچے مکان بھی تیار کروا لئے گئے اور کچھ خیمے منگوالئے گئے اور پھر ہم سب ایک لمباعرصہ باغ میں مقیم رہے ۔ان دنوں میں مدرسہ بھی وہیں لگتا تھا ۔گویا باغ میں ایک شہر آباد ہو گیا تھا ۔ اللہ اللہ کیا زمانہ تھا ۔
{ 33} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ مَیں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میںقصر نماز عام حالات میںجائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائزہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل ) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا ۔ قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپورمیں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا ۔حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) اور مولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے مگر ظہر کی نمازکا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں ۔میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گابلکہ پوری پڑھوں گا تا اس مسٔلہ کا کچھ فیصلہ ہو ۔قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کر کے ہاتھ اٹھائے کہ قصر نہیںکروں گا حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے ۔ آپ نے فوراً قدم آگے بڑھاکر میرے کان کے پاس منہ کرکے فرمایا قاضی صاحب دوہی پڑھیں گے نا؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا ۔بس اس وقت سے ہمارا مسٔلہ حل ہوگیا اور میں نے اپناخیال ترک کردیا ۔
{ 34} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ میرا ایک لڑکا جو پہلی بیوی سے تھا۔ فوت ہو گیا۔اس کی ماںنے بڑا جزع فزع کیااور اس کی والدہ یعنی بچے کی نانی نے بھی اسی قسم کی حرکت کی ۔ مَیں نے ان کو بہت روکا مگر نہ باز آئیں ،جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لڑکے کا جنازہ پڑھنے آئے تو جنازہ کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور بہت دیر تک وعظ فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا قاضی صاحب اپنے گھر میں بھی میری یہ نصیحت پہنچا دیں ۔میں نے گھر آکربیوی کو حضرت صاحب کا وعظ سنایا پھر اس کے بعد اس کے دوتین لڑکے فوت ہوئے مگر اس نے سوائے آنسو گرانے کے کوئی اور حرکت نہیںکی ۔
{ 35} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے گورداسپور جاتے ہوئے بٹالہ ٹھہر ے وہاں کو ئی مہمان جو آپ کی تلاش میں قادیان سے ہوتا ہو ا بٹالہ واپس آیا تھا آپ کے پاس کچھ پھل بطور تحفہ لایا ۔ پھلوں میں انگور بھی تھے ۔آپ نے انگور کھائے اور فرمایا انگور میں ترشی ہوتی ہے مگر یہ ترشی نزلہ کے لئے مضر نہیں ہوتی ۔ پھر آپ نے فرمایا ابھی میرا دل انگو ر کو چاہتا تھا سو خدا نے بھیج دیئے ۔فرمایا کئی دفعہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جس چیز کو دل چاہتا ہے اللہ اسے مہیا کر دیتا ہے۔ پھر ایک دفعہ سنایا کہ مَیں ایک سفر میں جارہا تھا کہ میرے دل میں پونڈے گنّے کی خواہش پید اہوئی مگر وہاں راستہ میں کو ئی گنامیسر نہیں تھا مگر اللہ کی قدرت کہ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص ہم کو مل گیا جس کے پاس پونڈے تھے ،اس سے ہم کو پونڈے مل گئے ۔
{ 36} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سخت دورہ پڑا ۔کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کو بھی اطلاع دے دی اور وہ دونوں آگئے ۔پھر ان کے سامنے بھی حضرت صاحب کو دورہ پڑا ۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان احمد تو آپ کی چارپائی کے پاس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے ۔مگر مرزافضل احمد کے چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا اورایک رنگ جاتا تھا ۔اور وہ کبھی ادھر بھاگتا تھا اور کبھی اُدھر ۔کبھی اپنی پگڑی اُتار کر حضرت صاحب کی ٹانگوں کو باندھتا تھا اور کبھی پائو ں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے ۔
{ 37} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب محمد ی بیگم کی شادی دوسری جگہ ہوگئی اور قادیان کے تمام رشتہ داروں نے حضرت صاحب کی سخت مخالفت کی اور خلاف کوشش کرتے رہے اور سب نے احمد بیگ والد محمد ی بیگم کا ساتھ دیا اور خود کوشش کر کے لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرا دی تو حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد دونوں کو الگ الگ خط لکھا کہ ا ن سب لوگوں نے میری سخت مخالفت کی ہے ۔ اب ان کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور ان کے ساتھ اب ہماری قبریں بھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں لہٰذا اب تم اپنا آخری فیصلہ کرو اگر تم نے میرے ساتھ تعلق رکھنا ہے تو پھر ان سے قطع تعلق کر نا ہوگا اور اگر ان سے تعلق رکھنا ہے تو پھر میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہ سکتا ۔میں اس صورت میں تم کو عاق کرتا ہوں ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا مرزا سلطان احمد کا جواب آیا کہ مجھ پر تائی صاحبہ کے احسانات ہیں میں ان سے قطع تعلق نہیں کر سکتا ۔مگر مرزا فضل احمد نے لکھا کہ میرا تو آپ کے ساتھ ہی تعلق ہے ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اگر یہ درست ہے تو اپنی بیوی بنت مرزا علی شیر کو (جو سخت مخالف تھی اور مرزا احمد بیگ کی بھانجی تھی ) طلاق دے دو ۔ مرزافضل احمد نے فوراً طلاق نامہ لکھ کر حضرت صاحب کے پاس روانہ کر دیا ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ پھر فضل احمد باہر سے آکر ہمارے پاس ہی ٹھہرتا تھا مگر اپنی دوسری بیوی کی فتنہ پردازی سے آخر پھر آہستہ آہستہ ادھر جا ملا ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ فضل احمد بہت شرمیلا تھا ۔حضرت صاحب کے سامنے آنکھ نہیں اُٹھاتا تھا ۔حضرت صاحب اس کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ فضل احمد سیدھی طبیعت کا ہے اور اس میں محبت کا مادہ ہے مگر دوسروں کے پھسلانے سے اُدھر جا ملا ہے۔ نیز والدہ صاحبہ نے فرما یا کہ جب فضل احمد کی وفات کی خبر آئی تواس رات حضرت صاحب قریباً ساری رات نہیں سوئے اور دو تین دن تک مغموم سے رہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ کیا حضرت صاحب نے کچھ فرمایا بھی تھا ؟ والدہ صاحبہ نے کہا کہ صرف اس قدر فرمایا تھا کہ ہمارا اس کے ساتھ تعلق تونہیں تھا مگر مخالف اس کی موت کو بھی اعتراض کا نشانہ بنا لیں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چچا زاد بہن عمرا لنسا ء کی لڑکی ہے یعنی مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ کی حقیقی بھانجی ہے ۔ہماری تائی یعنی بیوہ مرزا غلام قادر صاحب محمدی بیگم کی سگی خالہ ہیں گویا مرزا احمد بیگ صاحب ہوشیارپوری جو محمد ی بیگم کا والد تھا مرزا امام الدین وغیرہ کا بہنوئی تھااس کے علاوہ اور بھی خاندانی رشتہ داریاں تھیں مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی حقیقی ہمشیرہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث صاحب کے ساتھ بیاہی گئی تھیں ۔یہ بہت پُرانی بات ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ تمام رشتہ دار پر لے درجہ کے بے دین اور لامذہب تھے اور اسلام سے ان کو کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ شریعت کی ہتک کرتے تھے ۔حضرت صاحب نے ان کی یہ حالت دیکھ کر خدا کی طرف توجہ کی کہ ان کے لئے کوئی نشان ظاہر ہو تا کہ ان کی اصلاح ہو یا کوئی فیصلہ ہو ۔اس پر خدا نے الہام فرمایا کہ احمدبیگ کی لڑکی محمد ی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کر ۔اگر انہوں نے منظور کر لیا اور اس لڑکی کی تیرے ساتھ شادی کردی تو پھر یہ لوگ برکتوں سے حصہ پائیںگے ۔اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا ۔اور ان کے گھربیوائوں سے بھر جائیں گے اور خاص لڑکی کے والد کے متعلق فرمایا کہ وہ تین سال کے اند ر بلکہ بہت جلدی مر جائے گا اور جس شخص کے ساتھ لڑکی کا نکاح ہو گا وہ بھی اڑھائی سال کے اند ر مرجائے گا ۔ا ن دو مؤخر الذکر شخصوں کے متعلق جس طرح اللہ کا نشان پورا ہو ا وہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں متعدد جگہ درج ہے یعنی احمد بیگ اپنی لڑکی کے نکاح کے صرف چند ماہ بعد پیشگوئی کے مطابق اس جہاں سے رخصت ہو ا اور مرزا سلطا ن محمدجس سے ان لوگوں نے محمدی بیگم کی شادی کروا دی تھی خدا کے عذاب سے خوف زدہ ہوا اور اس کے کئی رشتہ داروں کی طرف سے حضرت صاحب کے پاس عجزو نیاز کے خطوط آئے چنانچہ ان کا اپنا خط بھی جس میں انہوں نے حضرت صاحب کے متعلق عقیدت کا اظہار کیا ہے رسالہ تشحیذالاذہان میں چھپ چکا ہے اس لئے سنت اللہ کے مطابق ان سے وہ عذاب ٹل گیا ۔باقی رشتہ داروں کے متعلق عام پیشگوئی تھی اس کا یہ اثر ہو ا کہ ان کے گھر جو پیشگوئی کے وقت آدمیوں سے بھرے ہوئے تھے بالکل خالی ہو گئے ۔اور اب اس تما م خاندان میں سوائے ایک بچہ کے اور کوئی مرد نہیں اور وہ بچہ بھی احمدی ہوچکا ہے ۔اسکے علاوہ مرزا امام الدین کی لڑکی بھی عرصہ ہو ا احمدی ہو چکی ہے ۔پھر محمدی بیگم کی ماں یعنی بیوہ مرزااحمد بیگ اور مرزا احمد بیگ کا پوتا اور ہماری تائی یعنی محمدی بیگم کی خالہ سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو چکے ہیں نیز محمدی بیگم کی سگی ہمشیرہ بھی احمدی ہو گئی تھی مگرا ب فوت ہو چکی ہے ان کے علاوہ اور کئی رشتہ دار بھی احمدی ہو چکے ہیں اورجو ابھی تک سلسلہ میںداخل نہیں ہو ئے وہ بھی مخالفت تر ک کر چکے ہیں ۔اورحضرت مسیح موعود کا یہ الہام کہ ہم اس گھر میں کچھ حسنی طریق پر داخل ہو نگے اور کچھ حسینی طریق پر ۔اپنی پوری شان میں پورا ہو ا ہے ۔
{ 38} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس حجرہ میں کھڑے تھے جو عزیزم میاں شریف احمد کے مکان کے ساتھ ملحق ہے ۔والدہ صاحبہ بھی غالباً پاس تھیں ۔میں نے کوئی بات کرتے ہوئے مرزا نظام الدین کا نام لیا تو صرف نظام الدین کہا حضرت مسیح موعودنے فرما یامیاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین اور مرزاکمال الدین حضرت مسیح موعود کے حقیقی چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کے لڑکے تھے اور ان کی سگی بہن جو ہماری تائی ہیں ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے عقد میں آئی تھیں مگر باوجود ایسی قریبی رشتہ داری کے حضرت صاحب سے ان کوسخت مخالفت تھی جس کی بنیاد زیادہ تر دینی تھی ۔ یہ لوگ سخت دنیا دار اور بے دین تھے بلکہ مرزا امام الدین جو سر گروہ مخالفت تھا اسلام سے ٹھٹھا کیا کرتا تھا ۔ اس وجہ سے ہمارا ان کے ساتھ کبھی راہ ورسم نہیں ہوا۔ اسی بے تعلقی کے اثر کے نیچے میں نے صرف نظام الدین کا لفظ بول دیا تھا مگر حضرت صاحب کے اخلاق فاضلہ نے یہ بات گوارا نہ کی ۔
{ 39} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ میں نے سنا کہ مرزا امام الدین اپنے مکان میںکسی کومخاطب کر کے بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ بھئی (یعنی بھائی ) لوگ (حضرت صاحب کی طرف اشارہ تھا)دکانیں چلاکر نفع اٹھا رہے ہیںہم بھی کوئی دوکان چلاتے ہیں ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ پھرا س نے چوہڑوں کی پیری کا سلسلہ جاری کیا ۔والدہ صاحبہ نے فرما یا اصل اور بڑا مخالف مرزا اما م الدین ہی تھا اس کے مرنے کے بعد مرزا نظام الدین وغیرہ کی طرف سے ویسی مخالفت نہیں رہی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا امام الدین کی لڑکی جو مرزا سلطان احمد صاحب کے عقد میں ہیں اب ایک عرصہ سے احمدی ہو چکی ہیں۔
{ 40} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ خوا جہ کمال الدین صاحب سے میرا کوئی جھگڑا ہو گیا ۔خوا جہ صاحب نے مجھے کہا قاضی صاحب کیا آپ جانتے نہیں کہ حضرت صاحب میری کتنی عزت کرتے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں میں جانتا ہوں کہ بہت عزت کر تے ہیں مگر میں آپ کو ایک بات سناتا ہوں اور وہ یہ کہ میں ایک دفعہ امرتسر سے قادیان آیا اورحضرت صاحب کو اطلاع دے کر حضور سے ملا ۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت تک ہم لوگوں نے تہذیب نہیں سیکھی تھی ۔جب ملاقات کر نی ہوتی تھی حضرت صاحب کو اطلاع دے کر اندر سے بلا لیا کرتے تھے یا حضرت صاحب خود سن کر باہر آجاتے تھے بعد میں یہ بات نہیں رہی اور ہم نے سمجھ لیا کہ رسول کو اس طرح نہیں بلانا چاہئیے ۔خیر میں حضور سے ملا ۔آپ نے شیخ حامد علی کو بلا کر حکم دیا کہ قاضی صاحب کے واسطے چائے بنا کرلائو ۔مگر میں اس وقت بہت ڈر ا کہ کہیں یہ خاطر تو اضع اس طریق پر نہ ہو جس طرح منافقوں اور کمزور ایمان والوں کی کی جاتی ہے ۔اور میں نے بہت استغفار پڑھا ۔ یہ قصہ سنا کر میں نے خوا جہ صاحب سے کہا کہ خوا جہ صاحب آپ کی عزت بھی کہیں اسی طریق کی نہ ہو ۔چنانچہ میں آپ کو سناتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کمزور ایمان والوں اور منافقوں کی بہت خاطر تواضع کیا کرتے تھے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے کچھ مال تقسیم کیا مگر ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا جس کے متعلق سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ وہ میرے خیال میں مومن تھا اور ان لوگوںکی نسبت زیادہ حقدار تھا جن کو آپ نے مال دیا چنانچہ سعد نے اس کی طرف آپ کو توجہ دلائی مگر آپ خاموش رہے ۔پھر توجہ دلائی مگر آپ خاموش رہے ۔ سعد نے پھر تیسر ی دفعہ آپ کوتوجہ دلائی اس پر آپ نے فرمایا سعد تو ہم سے جھگڑا کرتا ہے ۔خدا کی قسم بات یہ ہے کہ بعض وقت میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ غیرا س کا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتا ہے مگر میں اسے اس لئے دیتاہوں کہ کہیں وہ منہ کے بل آگ میں نہ جا پڑے۔یعنی تالیف قلب کے طور پر دیتا ہوں کہ کہیں اسے ابتلا نہ آجاوے ۔قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جس کے ایمان کی حالت مطمئن ہو اسے اس ظاہری عزت اور خاطر مدارات کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے ساتھ اور طریق پر معاملہ ہو تا ہے ۔
{41} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جن کو لوگ عام طور پر ’’ پھجے دی ماں ‘‘ کہاکرتے تھے بے تعلقی سی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتہ داروں کو دین سے سخت بے رغبتی تھی اور ان کا ان کی طرف میلان تھا اور وہ اسی رنگ میں رنگین تھیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے مباشرت ترک کردی تھی ہاں آپ اخراجات وغیرہ باقاعدہ دیا کرتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا ہوتا رہا اب میں نے دوسری شادی کر لی ہے اس لئے اب اگر دونوں بیویوں میں برابری نہیں رکھو ں گا تو میں گنہگار ہوں گا اس لئے اب دو باتیں ہیں یا تو تُم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو میں تم کو خرچ دیئے جاؤں گا ۔انہوں نے کہلا بھیجا کہ اب میں بڑھاپے میں کیا طلاق لوں گی بس مجھے خرچ ملتا رہے میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیں چنانچہ پھر ایسا ہی ہوتا رہا حتّٰی کہ محمد ی بیگم کا سوال اُٹھا اور آپ کے رشتہ داروں نے مخالفت کر کے محمد ی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کر ا دیا اور فضل احمد کی والدہ نے ان سے قطع تعلق نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ رہی تب حضرت صاحب نے ان کو طلاق دے دی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طلاق دینا آپ کے اس اشتہار کے مطابق تھا جو آپ نے ۲؍مئی ۱۸۹۱ء کو شائع کیا اور جس کی سرخی تھی ’’ اشتہار نصرت دین و قطع تعلق از اقارب مخالف دین ‘‘ اس میں آپ نے بیان فرمایا تھا کہ اگر مرزا سلطا ن احمد اور ان کی والدہ اس امر میں مخالفانہ کوشش سے الگ نہ ہوگئے تو پھر آپ کی طرف سے مرزا سلطان احمد عاق اور محروم الارث ہوںگے اور ان کی والدہ کو آپ کی طرف سے طلاق ہوگی ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ فضل احمد نے اس وقت اپنے آپ کو عاق ہونے سے بچا لیا ۔نیز والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس واقعہ کے بعد ایک دفعہ سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو چونکہ حضرت صاحب کی طرف سے مجھے اجازت تھی میں انہیں دیکھنے کے لئے گئی ۔ واپس آکر میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ پھّجے کی ماںبیمار ہے اور یہ تکلیف ہے ۔ آپ خاموش رہے ۔ میں نے دوسری دفعہ کہاتو فرمایا میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں یہ دے آئو مگر اپنی طرف سے دینا میرا نام نہ لینا ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ اور بھی بعض اوقات حضرت صاحب نے اشارۃً کنایۃً مجھ پر ظاہر کیا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام درمیان میں نہ آئے اپنی طرف سے کبھی کچھ مدد کر دیا کروں سو میں کر دیا کرتی تھی۔
{ 42} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز ظہر کے بعد مسجد میں بیٹھ گئے ان دنوں میںآپ نے شیخ سعد اللہ لدھیانوی کے متعلق لکھا تھا کہ یہ ابتر رہے گا اور اس کا بیٹا جواب موجود ہے وہ نامرد ہے گویا اس کی اولاد آگے نہیںچلے گی (خاکسار عرض کرتا ہے کہ سعد اللہ سخت معاند تھا اور حضرت مسیح موعود کے خلاف بہت بیہودہ گوئی کیا کر تا تھا)مگرابھی آپ کی یہ تحریر شائع نہ ہوئی تھی ۔اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے آپ سے عرض کیا کہ ایسا لکھنا قانون کے خلاف ہے ۔ اس کا لڑکا اگر مقدمہ کر دے تو پھر اس بات کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی نامر د ہے ۔ حضرت صاحب پہلے نرمی کے ساتھ مناسب طریق پر جواب دیتے رہے مگر جب مولوی محمد علی صاحب نے بار بار پیش کیا اور اپنی رائے پر اصرار کیا تو حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے غصّے کے لہجے میں فرمایا ۔’’ جب نبی ہتھیا رلگا کر باہر آجاتا ہے تو پھر ہتھیار نہیں اتارتا ۔‘‘
{ 43} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب اوائل میں تعلیم کے لئے باہر گئے تو شائد دلّی کی بات ہے کہ وہ ایک مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے چونکہ زاد ختم ہوگیا تھا کئی وقت فاقے گذر گئے تھے آخر کسی نے ان کو طالب علم سمجھ کر ایک چپاتی دی جو بو جہ باسی ہو جانے کے خشک ہو کر نہایت سخت ہوچکی تھی ۔والد صاحب نے لے لی مگرابھی کھا ئی نہ تھی کہ آپ کا ساتھی جوقادیان کا کوئی شخص تھا اور اس پر بھی اسی طرح فاقہ تھا بولا ۔’’مرزا جی ساڈا وی دھیان رکھنا ‘‘ یعنی مرزا صاحب ہمارا بھی خیال رہے ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس پر والد صاحب نے وہ چپاتی اس کی طرف پھینک دی جو اس کے ناک کے اوپر لگی اور لگتے ہی وہاں سے ایک خون کی نالی بہہ نکلی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ساتھی بھی قادیان کا کوئی مغل تھامگر حضرت خلیفۃا لمسیح الثانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہے کہ وہ کو ئی نائی یا مراثی تھا چنانچہ حضرت صاحب لطیفہ کے طور پر بیان فرماتے تھے کہ ان لوگوں کو ایسے موقعہ پر بھی ہنسی کی بات ہی سوجھتی ہے۔
{ 44} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہارے دادا نے قادیان کی جائیداد پر حقوق مالکانہ برقرار رکھوانے کے لئے شروع شروع میں بہت مقدمات کئے اور جتنا کشمیر کی ملازمت میں اور اس کے بعد روپیہ جمع کیا تھااور وہ قریباً ایک لاکھ تھا سب ان مقدمات پر صرف کر دیا ۔ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس زمانے میں اتنے روپے سے سو گنے بڑی جائیداد خریدی جا سکتی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کو یہ خیال تھا کہ خواہ کچھ ہوقا دیان اور علاقہ کے پرانے جدّی حقوق ہاتھ سے نہ جائیں اور ہم نے سنا ہے کہ دادا صاحب کہا کرتے تھے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان ہمارے بزرگوں کا آباد کیا ہو ا ہے جو آخر عہد بابری میں ہندوستان آئے تھے ۔قادیان اور کئی میل تک اس کے ارد گر د کے دیہات ہمارے آباء کے پاس بطور ریاست یا جاگیر کے تھے ۔رام گڑھی سکھوں کے زمانہ میں ہمارے خاندان کو بہت مصائب دیکھنے پڑے اور سخت تباہی آئی لیکن پھر را جہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے عہد میں ہماری جاگیر کا کچھ حصہ ہمارے آباء کو واپس مل گیا تھا۔لیکن پھر ابتداء سلطنت انگریزی میں پچھلے کئی حقوق ضبط ہو گئے اور کئی مقدمات کے بعد جن پر دادا صاحب کا زَرِ کثیر صرف ہوا صرف قادیان اوراس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ اور قادیان کے قریب کے تین دیہات پر حقوق تعلقہ داری ہمارے خاندان کے لئے تسلیم کئے گئے ۔یہ حقوق اب تک قائم ہیںہاں درمیان میں بعض اپنے ہی رشتہ داروں کی مقدمہ بازی کی وجہ سے ہمارے تایا صاحب کے زمانہ میں قادیان کی جائداد کا بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ لاہوری کے خاندان کے پاس چلا گیا تھا اور قریباً پینتیس سال تک اسی خاندان میں رہا لیکن اب حال میں وہ حصہ بھی خدا کے فضل سے ہم کو واپس آگیا ہے ۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ جب تمہارے تایا کے زمانہ میں قادیان کی جائداد کا بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ کو چلا گیا تو تمہارے تایا کو سخت صدمہ ہو ا جس سے وہ بیمارہو گئے اور قریباً دو سال بعد اسی بیماری میں فوت ہوئے مگر باوجود خلاف ڈگری ہوجانے کے انہوں نے اپنی زندگی میں فریق مخالف کو قبضہ نہیں دیا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی مقدمہ اور وہی ڈگری ہے جس کا حضرت مسیح موعود نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کو روکا تھا کہ مقابلہ نہ کریں اور حق تسلیم کر لیں کیونکہ آپ کو خدا نے بتایا تھا کہ مقدمہ کا انجام خلاف ہے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بھائی صاحب نے عذر کر دیا اور نہ مانا ۔پھر جب ڈگری ہو جانے کی خبر آئی تواس وقت حضرت صاحب اپنے حجرے میں تھے ۔تایا صاحب باہر سے کانپتے ہوئے ڈگری کا پرچہ ہاتھ میں لئے اندر آئے اور حضرت صاحب کے سامنے وہ کاغذ ڈال دیا اور کہا ۔ ’’ لے غلام احمدؐ جو تو کہندا سی اوہوای ہو گیا اے ‘‘ ۔ یعنی لو غلام احمدؐجو تم کہتے تھے وہی ہوگیا ہے اور پھر غش کھا کر گر گئے والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ پھر تایا صاحب کی وفات کے بعد حضرت صاحب نے مرزا سلطان احمد صاحب کو بلا کر فرمایا کہ قبضہ دے دو۔چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ڈگری کے مطابق قبضہ دے دیا اور جائداد کا کچھ حصہ اونے پونے فروخت کرکے خرچے کا روپیہ بھی اد اکر دیا ۔
(اس روایت میں جو خاکسار کی طرف سے یہ فقرہ درج ہوا ہے کہ ’’قادیان اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ … تسلیم کئے گئے ‘‘ یہ درست نہیں ہے بلکہ سہو قلم سے یہ الفاظ درج ہو گئے ہیں کیونکہ حق یہ ہے کہ قادیان کے مشمولہ دو گائوں جن کا نام قادر آبادا ور احمد آباد ہے وہ دونوں دادا صاحب نے سلطنت انگریزی کے قیام کے بعد آباد کئے تھے اس لئے الفاظ ’’اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات ‘‘حذف سمجھے جانے چاہئیں۔)
{ 45} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرزا غلام مرتضٰی صاحب نے ۱۸۷۶ء ماہ جون یا حضرت صاحب کی ایک تحریر کے مطابق ۲۰؍اگست ۱۸۷۵ء میں وفات پائی اور آپ کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے ۔دادا صاحب کی عمر وفات کے وقت اسّی سے اوپر تھی اور تایا صاحب کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی ۔حضرت مسیح موعود کی تاریخ پیدائش کے متعلق اختلاف ہے ۔خود آپ کی اپنی تحریرات بھی اس بارے میں مختلف ہیں ۔دراصل وہ سکھوں کا زمانہ تھا اور پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا ۔حضرت مسیح موعود نے بعض جگہ ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء بیان کیا ہے مگر آپ کی اپنی ہی دوسری تحریرات سے اس کی تردید ہوتی ہے۔درحقیقت آپ نے خود اپنی عمر کے متعلق اپنے اندازوں کو غیر یقینی قراد دیا ہے ۔دیکھو براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۱۹۳۔ (اور صحیح تاریخ ۱۸۳۶ء معلوم ہوئی ہے)
(نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی ایک دوسری تحریر سے دادا صاحب کی وفات کی تاریخ جون ۱۸۷۴ء ثابت ہوتی ہے ۔ مگر جہاں تک میری تحقیق ہے ۱۸۷۵ء اور ۱۸۷۴ء ہر دو غلط ہیں اور جیسا کہ سرکاری کاغذات سے پتہ لگتا ہے صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہے۔ مگر حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا۔ واللہ اعلم)
{ 46} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود پانچ بہن بھائی تھے ۔ سب سے بڑی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جن کی شادی مرزا غلام غوث ہوشیار پوری کے ساتھ ہوئی تھی ۔ حضرت صاحب کی یہ ہمشیرہ صاحب رویاء و کشف تھیں ان کا نام مراد بی بی تھا ۔ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب تھے ۔ان سے چھوٹا ایک لڑکا تھا جو بچپن میں فوت ہو گیا ۔اس سے چھوٹی حضرت صاحب کی وہ ہمشیرہ تھیں جو آپ کے ساتھ توام پیدا ہوئی اور جلد فوت ہو گئی اس کا نام جنت تھا سب سے چھوٹے حضرت مسیح موعود تھے ۔ والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہماری بڑی ہمشیرہ کو ایک دفعہ کسی بزرگ نے خواب میں ایک تعویذ دیا تھا ۔بیدار ہوئیں تو ہاتھ میں بھوج پتر پر لکھی ہوئی سورۃ مریم تھی ۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ بھوج پتر دیکھا ہے جو اب تک ہماری بڑی بھاوج صاحبہ یعنی والدہ مرزا رشید احمد صاحب کے پاس محفوظ ہے)
{ 47} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یوں تو الہامات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو چکا تھا لیکن وہ الہام جس میں آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق کے لئے صریح طور پر مامور کیا گیا مارچ۱۸۸۲ ء میں ہواجب کہ آپ براہین احمدیہ حصہ سوئم تحریر فرما رہے تھے (دیکھو براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ۲۳۸)لیکن اس وقت آپ نے سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا بلکہ اس کے لئے مزید حکم تک توقف کیا چنانچہ جب فرمان الٰہی نازل ہوا تو آپ نے بیعت کے لئے دسمبر ۱۸۸۸ء میں اعلان فرمایا اور بذریعہ اشتہار لوگوں کو دعوت دی اور شروع ۱۸۸۹ء میں بیعت لینا شروع فرما دی لیکن اس وقت تک بھی آپ کو صرف مجدّد و مامور ہونے کا دعویٰ تھا او رگو شروع دعویٰ ماموریت سے ہی آپ کے الہامات میں آپ کے مسیح موعود ہو نے کی طرف صریح اشارات تھے لیکن قدرت الٰہی کہ ایک مدت تک آپ نے مسیح موعود ہو نے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف یہ فرماتے رہے کہ مجھے اصلاح خلق کے لئے مسیح ناصری کے رنگ میں قائم کیا گیا ہے اور مجھے مسیح سے مماثلت ہے ۔اس کے بعد شروع ۱۸۹۱ء میں آپ نے حضرت مسیح ناصری کی موت کے عقیدہ کا اعلان فرمایا اور یہ دعویٰ فرمایاکہ جس مسیح کااس امت کے لئے وعدہ تھا وہ مَیں ہوں ۔آپ کی عام مخالفت کا اصل سلسلہ اسی دعویٰ سے شروع ہوتا ہے ۔ آپ کے نبی اور رسول ہونے کے متعلق بھی ابتدائی الہامات میں صریح اشارے پائے جاتے ہیں مگر اس دعویٰ سے بھی مشیت ایزدی نے آپ کو روکے رکھا حتّٰی کہ بیسویں صدی کا ظہور ہو گیا تب جا کر آپ نے اپنے متعلق نبی اور رسول کے الفاظ صراحتًا استعمال فرمانے شروع کئے ۔اور خاص طور پر مثیل کرشن علیہ السلام ہونے کا دعویٰ توآپ نے اس کے بھی بہت بعد یعنی۱۹۰۴ء میں شائع کیا ۔اور یہ سب کچھ خدائی تصرف کے ماتحت ہو ا آپ کا اس میں ذرہ دخل نہیں تھا ۔آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی میں بھی یہی تدریجی ظہور نظر آتا ہے اور اس میں کئی حکمتیں ہیں جن کے بیان کی اس جگہ گنجائش نہیں ۔
{ 48} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دادا یعنی مرزا گُل محمد صاحب بڑے پارسا اور متقی اور علم دوست آدمی تھے ۔ان کے زمانہ میں قادیان باعمل علماء کا ایک مرکز تھا ۔مگر ان کے زمانہ میں سکھوںکی طرف سے ہماری جدّی ریاست پر حملے شروع ہو گئے تھے اور کئی گائوں چھن بھی گئے تھے مگر انہوں نے بڑا حصہ جاگیر کا بچا ئے رکھا ان کی وفات کے بعدجو غالباً ۱۸۰۰ء میں واقع ہوئی ان کے لڑکے مرزا عطا محمد صاحب خاندان کے رئیس ہوئے ا ن کے زمانہ میںرام گڑھی سکھوں نے ساری ریاست چھین لی اور ا ن کو قادیان میں جو ان دنوںمیں فصیل سے محفوظ تھا محصور ہونا پڑا ۔ آخر سکھوں نے دھوکے سے شہر پر قبضہ پالیا اور ہمارے کتب خانے کو جلا دیا اور مرزا عطا محمد صاحب کو مع اپنے عزیزوں کے قادیان سے نکل جاناپڑا ۔چنانچہ مرزا عطا محمد صاحب بیگو وال ریاست کپورتھلہ میں چلے گئے جہاں کے سکھ رئیس نے ان کو بڑی عزت سے جگہ دی اور مہمان رکھا ۔چند سال کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کو دشمنوں نے زہر دلوا دیا اور وہ فوت ہوگئے اس وقت ہمارے دادا صاحب کی عمر چھوٹی تھی مگر والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ باوجود اس کے وہ اپنے والد صاحب کا جنازہ قادیان لائے تاخاندانی مقبرہ میں دفن کریں ۔یہاں کے سکھوں نے مزاحمت کی لیکن قادیان کی عام پبلک خصوصاً کمیں لوگوں نے دادا صاحب کا ساتھ دیا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ سکھوں کو خوف پیدا ہو ا کہ بغاوت نہ ہو جاوے اس لئے انہوں نے اجازت دے دی ۔ اس کے بعد دادا صاحب واپس چلے گئے ۔اس زمانہ میں سکھوں نے ہماری تمام جائداد اور مکانات پر قبضہ کیا ہو اتھا اور بعض مسجدوںکو بھی دھرم سالہ بنالیا تھا ۔پھر را جہ رنجیت سنگھ کے عہد میں رام گڑھیوں کا زور ٹوٹ گیا اور سارا ملک را جہ رنجیت سنگھ کے ماتحت آگیا ۔اس وقت دادا صاحب نے را جہ سے اپنی جدّی جائداد کا کچھ حصہ واپس حاصل کیا اور قادیان واپس آگئے اس کے بعد دادا صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب نے مہارا جہ رنجیت سنگھ کے ماتحت کئی فوجی خدمات انجام دیں ۔چنانچہ یہ سب باتیں کتاب پنجاب چیفس مصنفہ سرلیپل گریفن میں مفصل درج ہیں ۔سکھ حکومت کے اختتا م پر پھر ملک میں بد امنی پھیلی اور ہمارے خاندان کو پھر مصائب کا سامنا ہوا چنانچہ ہمارے دادا صاحب اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کے قلعہ بسراواں میں قید کئے جانے کا واقعہ غالبًا اسی زمانہ کا ہے ۔اس کے بعد انگریز آئے تو انہوں نے ہماری خاندانی جاگیر ضبط کر لی ۔اور صرف سات سو روپیہ سالانہ کی ایک اعزازی پنشن نقدی کی صورت میں مقرر کر دی جو ہمارے دادا صاحب کی وفات پر صرف ایک سو اسّی رہ گئی اور پھر تایا صاحب کے بعد بالکل بند ہوگئی ،علاوہ ازیں ان تغیرات عظیمہ یعنی سکھوں کے آخر عہد کی بدامنی اور پھر سلطنت کی تبدیلی کے نتیجہ میں قادیان اور اس کے گرد و نواح کے متعلق ہمارے حقوق مالکانہ کے بارے میں بھی کئی سوال اور تنازعات پیداہوگئے چنانچہ اس زمانہ میں بعض دیہات کے متعلق ہمارے حقوق بالکل تلف ہو گئے اور صرف قادیا ن اور چند ملحقہ دیہات کے متعلق دادا صاحب نے زَرِ کثیر صرف کرکے کچھ حقوق واپس لئے ۔سناگیا ہے کہ مقدمات سے پہلے دادا صاحب نے تمام رشتہ داروں سے کہا کہ میں مقدمہ کر نا چاہتا ہوں اگر تم نے ساتھ شامل ہونا ہے تو ہو جائو لیکن چونکہ کامیابی کی امید کم تھی اس لئے سب نے انکار کیا اور کہا کہ آپ ہی مقدمہ کریں اور اگر کچھ ملتا ہے تو آپ ہی لے لیں ۔لیکن جب کچھ حقوق مل گئے تودادا صاحب کے مختار کی سادگی سے تمام رشتہ داروں کا نام خانہ ملکیت میں درج ہو گیا مگر قبضہ صرف دادا صاحب کا رہا اور باقیوں کو صرف آمد سے کچھ حصہ مل جاتا تھا ۔ہمارے خاندان کا ۱۸۶۵ء کے قریب کا شجرہ درج ذیل ہے ۔

جن اسماء کے گرد چوکور خطوط دکھائے گئے ہیں وہ ان لوگوں کے نام ہیں جو۱۸۶۵ء میں قادیان میں حصہ دار درج تھے ۔قادیان کی کل ملکیت پانچ حصوں میںتقسیم کی گئی تھی ۔دو حصے اولاد مرزا تصدق جیلانی کو آئے تھے اور دو حصے اولاد مرزا گُل محمد صاحب کو اور ایک حصہ خاص مرزا غلام مرتضٰی صاحب کو بحیثیت منصرم کے آیا تھا جو بعد میں صرف ان کی اولاد میں تقسیم ہو ا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کی وفات کے بعد غیر قابض شرکاء نے مرزا امام الدین وغیرہ کی فتنہ پردازی سے ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب پر دخل یابی جائیدادکا دعوٰی دائر کر دیا اور با لآخر چیف کورٹ سے تا یا صاحب کے خلاف فیصلہ ہوا ۔اس کے بعد پسر ان مرزا تصدق جیلانی اور مرزا غلام غوث ولد مرزا قاسم بیگ کا حصہ تو اس سمجھوتے کے مطابق جو پہلے سے ہو چکا تھا مرزا ا عظم بیگ لاہوری نے خرید لیا جس نے مقدمہ کا سارا خرچ اسی غرض سے برداشت کیا تھا اور پسران غلام محی الدین صاحب اپنے اپنے حصہ پر خود قابض ہوگئے ۔مرزاغلام حسین کی چونکہ نسل نہیں چلی اس لئے ان کا حصہ پسران مرزا غلام مرتضٰی صاحب و پسران مرزا غلام محی الدین کو آگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت مرزا تصدق جیلانی اور مرزا قاسم بیگ کی تمام شاخ معدوم ہو چکی ہے ۔ علی ھذا القیاس مرزا غلام حیدر کی بھی شاخ معدوم ہے ۔ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب اور مرزا امام الدین اور مرزا کمال الدین بھی لا ولد فوت ہوئے ۔ہاں مرزا نظام الدین کا ایک لڑکا مرزا گُل محمد موجود ہے مگر وہ احمدی ہو کر حضرت صاحب کی روحانی اولاد میں داخل ہو چکاہے ۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ’’ یَنْقَطِعُ اٰ بَاؤُکَ وَیُبْدَئُ مِنْکَ‘‘َ(تذکرہ صفحہ ۳۹۷مطبوعہ۲۰۰۴ئ) اور یہ الہام اس وقت کا ہے جب آپ کے شجرہ خاندانی کی یہ تمام شاخیں سر سبز تھیں۔
{ 49} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا ۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کربجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا ۔اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا ۔پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کردیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلاگیا ۔حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیںآئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشا ء رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لئے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخوا ہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے ۔پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجائو جس پر حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے ۔امرتسر پہنچ کر قادیان آنے کے واسطے یکہ کرایہ پر لیا ۔اس موقعہ پر قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کے لینے کے لئے امرتسر پہنچ گیا ۔اس آدمی نے کہا یکہ جلدی چلائو کیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی ۔پھر تھوڑی دیر کے بعدکہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہو گئی ہوں۔والدہ صاحبہ بیان کر تی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دراصل والدہ فوت ہوچکی ہیں کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتیں تو وہ شخص ایسے الفاظ نہ بولتا ۔چنانچہ قادیان پہنچے تو پتہ لگا کہ واقعی وہ فوت ہو چکی تھیں ۔والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین اِدھر اُدھر پھر تا رہا ۔آخر اس نے چائے کے ایک قافلہ پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچالیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا ہمارے مخالف یہی کہتے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت ۱۸۶۴ء تا۱۸۶۸ء کا واقعہ ہے۔
(اس روایت سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سیالکوٹ میں ملازم ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپ سے مرزا امام الدین نے دادا صاحب کی پنشن کا روپیہ دھوکا دے کر اڑا لیا تھا کیونکہ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیفات میں تصریح کی ہے آپ کی ملازمت اختیار کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ آپ کے والد صاحب ملازمت کے لئے زور دیتے رہتے تھے ورنہ آپ کی اپنی رائے ملازمت کے خلاف تھی اسی طرح ملازمت چھوڑ دینے کی بھی اصل وجہ یہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ملازمت کو ناپسند فرماتے تھے اور اپنے والد صاحب کو ملازمت ترک کر دینے کی اجازت کے لئے لکھتے رہتے تھے لیکن دادا صاحب ترک ملازمت کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر بالآخر جب دادی صاحبہ بیمار ہوئیں تو دادا صاحب نے اجازت بھجوا دی کہ ملازمت چھوڑ کر آجائو۔ )
{ 50} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ طبابت کا علم ہمارا خاندانی علم ہے اور ہمیشہ سے ہمارا خاندان اس علم میں ماہر رہا ہے ۔ دادا صاحب نہایت ماہر اور مشہور حاذق طبیب تھے۔تایا صاحب نے بھی طب پڑھی تھی ۔حضرت مسیح موعود ؑ بھی علم طب میں خاصی دسترس رکھتے تھے اور گھر میں ادویہ کا ایک ذخیرہ رکھا کرتے تھے جس سے بیماروں کو دوا دیتے تھے۔ مرزا سلطان احمدصاحب نے بھی طب پڑھی تھی ۔ اور خاکسار سے حضرت خلیفہ ثانی نے ایک دفعہ بیان کیاتھا کہ مجھے بھی حضرت مسیح موعود ؑنے علم طب کے پڑھنے کے متعلق تاکید فرمائی تھی ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ باوجود اس بات کے کہ علم طب ہمارے خاندان کی خصوصیت رہا ہے ۔ہمارے خاندان میں سے کبھی کسی نے اس علم کو اپنے روزگار کا ذریعہ نہیں بنایااور نہ ہی علاج کے بدلے میں کسی سے کبھی کچھ معاوضہ لیا ۔
{ 51} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والد ہ کیساتھ بچپن میںکئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سر کنڈے سے ذبح کر لیتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیںتو انہوں نے باتوںباتوں میں کہا کہ سندھی ہمارے گائوںمیں چڑیاںپکڑا کرتا تھا۔والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ میں نہ سمجھ سکی کہ سندھی سے کون مراد ہے ۔آخر معلوم ہو ا کہ ان کی مراد حضرت صاحب سے ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ دستور ہے کہ کسی منت ماننے کے نتیجہ میں بعض لوگ خصوصاً عورتیںاپنے کسی بچے کا عرف سندھی رکھ دیتے ہیں چنانچہ اسی وجہ سے آپ کی والدہ اور بعض عورتیں آپ کو بھی بچپن میںکبھی اس لفظ سے پکارلیتی تھیں ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ سندھی غالباً دسوندھی یا د سبندھی سے بگڑاہو اہے جو ایسے بچے کو کہتے ہیں جس پر کسی منت کے نتیجہ میںدس دفعہ کو ئی چیز باندھی جاوے اور بعض دفعہ منت کوئی نہیں ہوتی بلکہ یونہی پیارسے عورتیںاپنے کسی بچے پر یہ رسم اداکرکے اسے سندھی پکارنے لگ جاتی ہیں ۔
(اس روایت میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بچپن میں کبھی کبھی شکار کی ہوئی چڑیا کو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس جگہ سرکنڈے سے پورا گول سرکنڈا مراد نہیں ہے بلکہ سرکنڈے کا کٹا ہوا ٹکڑا مراد ہے۔ جو بعض اوقات اتنا تیز ہوتا ہے کہ معمولی چاقو کی تیزی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ خود خاکسار راقم الحروف کو کئی دفعہ بچپن میں سرکنڈے سے اپنے ہاتھوں کو زخمی کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور پھر ایک چڑیا جیسے جانور کا چمڑا تو اس قدر نرم ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے سے کٹ جاتا ہے۔
دوسری بات جو اس روایت میں قابل نوٹ ہے وہ لفظ سندھی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی یہ کہ اس لفظ سے کیا مراد ہے اور وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے حضرت والدہ صاحبہ کے سامنے حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ۔سو روایت کرنے والی عورتوں کے متعلق میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون عورتیں تھیں۔ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ وہ باہر سے قادیان آئی تھیں۔ اور ایمہ ضلع ہوشیار پور سے اپنا آنا بیان کرتی تھیں۔ اس کے سوا مجھے ان کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ لفظ سندھی کے متعلق خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس لفظ کے متعلق مزید تحقیق کی ہے یہ لفظ ہندی الاصل ہے جس کے معنی مناسب وقت یا صلح یا جوڑ کے ہیں۔ پس اگر یہ روایت درست ہے تو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس لفظ کے کبھی کبھی استعمال ہونے میں خدا کی طرف سے یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جو عین وقت پر آنے والا ہے یا یہ کہ یہی وہ شخص ہے جو خدا کی طرف سے صلح اور امن کا پیغام لے کر آئے گا۔ (دیکھو حدیث یضع الحرب) یا یہ کہ یہ شخص لوگوں کو خدا کے ساتھ ملانے والا ہو گا۔ یا یہ کہ یہ خود اپنی پیدائش میں جوڑا یعنی توام پیدا ہونے والا ہو گا (مسیح موعود کے متعلق یہ بھی پیشگوئی تھی کہ وہ جوڑا پیدا ہو گا) پس اگر یہ روایت درست ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ انہیں اشارات کی غرض سے ہے۔ واللہ اعلم
باقی رہا کسی معاند کا یہ مذاق اڑانا کہ گویا حضرت مسیح موعود ؑ کا نام ہی سندھی تھا۔ سو اصولاً اس کا یہ جواب ہے کہ جب تک کسی نام میں کوئی بات خلاف مذہب یا خلاف اخلاق نہیں ہے اس پر کوئی شریف زادہ اعتراض نہیں کر سکتا۔ گزشتہ انبیاء کے جو نام ہیں ۔ وہ بھی آخر کسی نہ کسی زبان کے لفظ ہیں۔ اور کم از کم بعض ناموں کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کے کیا کیا معنی ہیں۔ پھر اگر بالفرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی ہندی الاصل نام پا لیا۔ تو اس میں حرج کونسا ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل بے بنیاد اور سراسر افترا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سندھی تھا۔ اور اگر کسی مخالف یا معاند کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے تو وہ مرد میدان بن کر سامنے آئے اور اسے پیش کرے ورنہ اس خدائی وعید سے ڈرے۔ جو مفتریوں کے لئے *** کی صورت میں مقرر ہے۔ حقیقت یہ ہے جسے ساری دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مرزا غلام احمد تھا۔ چنانچہ (۱) یہی نام آپ کے والدین نے رکھا اور (۲) اسی نام سے آپ کے والد صاحب آپ کو ہمیشہ پکارتے تھے اور (۳)اسی نام سے سب دوست و دشمن آپ کو یاد کرتے تھے اور (۴)میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت (از۱۸۶۴ء تا ۱۸۶۸ء ) کے بعض سرکاری کاغذات دیکھے ہیں۔ جو اب تک محفوظ ہیں ان میں بھی یہی نام درج ہے اور (۵) اسی نام کی بناء پر دادا صاحب نے اپنے ایک آباد کردہ گائوں کا نام احمد آباد رکھا اور (۶) دادا صاحب کی وفات کے بعد جو حضرت صاحب کے دعویٰ مسیحیت سے چودہ سال پہلے ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔ جب کاغذات مال میں ہمارے تایا اور حضرت صاحب کے نام جائداد کا انتقال درج ہوا۔ تو اس میں بھی غلام احمد نام ہی درج ہوا اور (۷) کتاب پنجاب چیفس میں بھی جو حکومت کی طرف سے شائع شدہ ہے یہی نام لکھا ہے اور (۸)دوسرے بھی سارے سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں یہی نام درج ہوتا رہا ہے اور (۹)دوسرے عزیزوں اور قرابت داروں کے ناموں کا قیاس بھی اسی نام کا مؤیدہے اور (۱۰) خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ہمیشہ اپنے خطوط اور تحریرات اور تصانیف وغیرہ میں … یہی نام استعمال کیا اور (۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عدالت ہائے انگریزی میں جتنے مقدمات ہوئے ان سب میں حکام اور مخالفین ہر دو کی طرف سے یہی نام استعمال ہوتا رہا اور (۱۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ سے پہلے جب اول المکفرین مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ پر ریویو لکھا تو انہوں نے اس میں بھی یہی نام لکھا اور (۱۳) اشد المعاندین مولوی ثناء اللہ امرتسری نے اپنی جملہ مخالفانہ تصنیفات میں ہمیشہ یہی نام استعمال کیا اور (۱۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جن بیسیوں ہندو ،سکھ ،عیسائی ،مسلمان اخباروں نے آپ کے متعلق نوٹ لکھے انہوں نے بھی اسی نام سے آپ کا ذکر کیا۔ اگر باوجود اس عظیم الشان شہادت کے کسی معاند کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام غلام احمد نہیں تھا۔ بلکہ سندھی یا کچھ اور تھا۔ تو اس کا ہمارے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ *** اللہ علی الکاذبین) اسی ضمن میں روایات نمبر ۲۵ ، ۴۴ ،۹۸ ،۱۲۹،۱۳۴،۴۱۲ اور ۴۳۸ بھی قابل ملاحظہ ہیں جن سے اس بحث پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
{ 52} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے جھنڈا سنگھ ساکن کالہواں نے کہ میں بڑے مرزا صاحب کے پاس آیا جایاکرتا تھا ۔ایک دفعہ مجھے بڑے مرزا صاحب نے کہا کہ جائو غلام احمدکو بلالائو ایک انگریز حاکم میرا واقف ضلع میںآیا ہے اس کا منشاء ہو توکسی اچھے عہدہ پر نوکر کرا دوں ۔جھنڈا سنگھ کہتا تھا کہ میںمرزا صاحب کے پاس گیا تو دیکھاچاروںطرف کتابوںکا ڈھیر لگا کر اس کے اند ر بیٹھے ہو ئے کچھ مطالعہ کررہے ہیں ۔میں نے بڑے مرزا صاحب کا پیغام پہنچا دیا ۔مرزا صاحب آئے اور جواب دیا ’’ میں تو نوکر ہو گیا ہوں‘‘بڑے مرزا صاحب کہنے لگے کہ اچھا کیا واقعی نوکر ہوگئے ہو ؟مرزا صاحب نے کہا ہاں ہو گیاہوں۔اس پر بڑے مرزا صاحب نے کہا اچھا اگر نوکر ہو گئے ہوتو خیر ہے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کالہواں قادیان سے جنوب کی طرف دو میل کے فاصلہ پرا یک گائوں ہے او ر نوکر ہونے سے مراد خدا کی نوکری ہے۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ جھنڈاسنگھ کئی دفعہ یہ روایت بیان کر چکا ہے اوروہ قادیان کی موجودہ ترقی کو دیکھ کرحضرت مسیح موعود ؑ کا بہت ذکر کیا کرتا ہے اور آپ سے بہت محبت رکھتا ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کو بوجہ خاندان میں سب سے بڑا اور معزز ہونے کے عام طور پر لوگ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے چنانچہ خود حضرت مسیح موعود ؑ بھی عمومًا ان کے متعلق یہی الفاظ فرماتے تھے ۔
{ 53} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑصدقہ بہت دیا کرتے تھے اور عموماً ایسا خفیہ دیتے تھے کہ ہمیں بھی پتہ نہیں لگتا تھا ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کتنا صدقہ دیا کرتے تھے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا بہت دیاکرتے تھے۔اور آخری ایام میں جتناروپیہ آتا تھا اس کا دسواں حصہ صدقے کے لئے الگ کردیتے تھے اور اس میں سے دیتے رہتے تھے۔والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ اس سے یہ مراد نہیںکہ دسویں حصہ سے زیادہ نہیںدیتے تھے بلکہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات اخراجات کی زیادت ہوتی ہے تو آدمی صدقہ میںکوتاہی کرتا ہے لیکن اگر صدقہ کا روپیہ پہلے سے الگ کر دیاجاوے تو پھر کوتاہی نہیں ہوتی کیونکہ وہ روپیہ پھر دوسرے مصرف میںنہیںآسکتا۔والدہ صاحبہ نے فرمایا اسی غرض سے آپ دسواں حصہ تما م آمد کا الگ کر دیتے تھے ورنہ ویسے دینے کو تو اس سے زیادہ بھی دیتے تھے ۔خاکسار نے عرض کیا کہ کیا آپ صدقہ دینے میں احمدی غیر احمدی کا لحاظ رکھتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا نہیںبلکہ ہر حاجت مند کو دیتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میںقادیان میں ایسے احمدی حاجت مند بھی کم ہی ہوتے تھے ۔
{ 54} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب کسی سے قرضہ لیتے تھے تو واپس کرتے ہوئے کچھ زیادہ دے دیتے تھے ۔خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی مثال یاد ہے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس وقت مثال تو یاد نہیں مگر آپ فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا فرمایا ہے ۔اور والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب کو ئی نیکی کی بات نہیں بیان فرماتے تھے جب تک کہ خود اس پر عمل نہ ہو ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود ؑ نے کبھی کسی کو قرض بھی دیا ہے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں کئی دفعہ دیا ہے ۔چنانچہ ایک دفعہ مولوی صاحب (خلیفہ اول )اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے آپ سے قرض لیا ۔مولوی صاحب نے جب قرض کا روپیہ واپس بھیجا تو آپ نے واپس فرما دیا اور کہلا بھیجا کہ کیا آپ ہمارے روپے کو اپنے روپے سے الگ سمجھتے ہیں ۔مولوی صاحب نے اسی وقت حکیم فضل الدین صاحب کو کہلا بھیجا کہ میں یہ غلطی کر کے جھاڑ کھا چکا ہوں ۔دیکھنا تم روپیہ واپس نہ بھیجنا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے کسی سے سنا ہے کہ مولوی صاحب نے یہ بھی حکیم صاحب کو کہا تھاکہ اگر ضرور واپس دینا ہوا تو کسی او ر طرح دے دینا ۔
{ 55} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔چنانچہ میں نے آپکی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروا دیا ۔ (حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا) اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔
{ 56} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود کھانوں میں سے پرندہ کا گوشت زیادہ پسند فرماتے تھے ۔شروع شروع میں بٹیر بھی کھا تے تھے لیکن جب طاعون کا سلسلہ شروع ہو ا تو آپ نے اس کاگوشت کھانا چھوڑدیا کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ ہوتا ہے ۔ مچھلی کا گوشت بھی حضرت صاحب کو پسند تھا۔ناشتہ باقاعدہ نہیں کرتے تھے ۔ہاں عمومًا صبح کو دودھ پی لیتے تھے ۔خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو دودھ ہضم ہو جاتاتھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہضم تو نہیں ہوتا تھا مگر پی لیتے تھے ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ پکوڑے بھی حضرت صاحب کو پسند تھے ۔ایک زمانے میں سکنجبین کا شربت بہت استعمال فرمایا تھا مگر پھر چھوڑ دی ۔ایک دفعہ آپ نے ایک لمبے عرصہ تک کو ئی پکی ہوئی چیز نہیں کھائی صرف تھوڑے سے دہی کے ساتھ روٹی لگا کر کھا لیا کرتے تھے ۔کبھی کبھی مکی کی روٹی بھی پسند کرتے تھے ۔کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑ دیتے تھے ۔کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے ۔ایک زمانہ میں آپ نے چائے کا بہت استعمال فرمایاتھامگر پھر چھوڑدی ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا حضرت صاحب کھانا بہت تھوڑا کھاتے تھے اور کھانے کا وقت بھی کو ئی خاص مقرر نہیں تھا۔صبح کا کھانا بعض اوقات بارہ بارہ ایک ایک بجے بھی کھاتے تھے ۔شام کاکھانا عموماً مغرب کے بعد مگر کبھی کبھی پہلے بھی کھالیتے تھے۔غرض کوئی وقت معین نہیںتھا ،بعض اوقات خود کھانا مانگ لیتے تھے کہ لائو کھانا تیار ہے تو دے د و پھر میںنے کام شروع کرنا ہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ آپ کس وقت کام کرتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ بس سارا د ن کام میں ہی گزرتا تھا ۔ ۱۰بجے ڈاک آتی تھی تو ڈاک کا مطالعہ فرماتے تھے اور اس سے پہلے بعض اوقات تصنیف کا کام شروع نہیں فرماتے تھے تا کہ ڈاک کی وجہ سے درمیان میں سلسلہ منقطع نہ ہو ۔مگر کبھی پہلے بھی شروع کر دیتے تھے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ روزانہ اخبار عام لاہور منگواتے اور باقاعدہ پڑھتے تھے ۔اس کے علاوہ آخری ایام میں اور کوئی اخبار خود نہیں منگواتے تھے ۔ہاں کبھی کوئی بھیج دیتا تھا تو وہ بھی پڑھ لیتے تھے ۔
{ 57} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ پہلے لنگر کا انتظام ہمارے گھر میںہوتا تھا اور گھر سے سارا کھانا پک کر جاتا تھا مگر جب آخری سالوںمیںزیادہ کام ہو گیاتو میں نے کہہ کر باہر انتظام کروا دیا۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کسی مہمان کے لئے خاص کھانا پکانے کیلئے بھی فرماتے تھے ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا ہاں بعض اوقات فرماتے تھے کہ فلاںمہمان آئے ہیں ان کے لئے یہ کھانا تیار کر دو۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ شروع میں سب لوگ لنگر سے ہی کھا نا کھاتے تھے خواہ مہمان ہوں یا یہاں مقیم ہوچکے ہوں۔مقیم لوگ بعض اوقات اپنے پسند کی کوئی خاص چیز اپنے گھروںمیں بھی پکا لیتے تھے مگر حضرت صاحب کی یہ خواہش ہو تی تھی کہ اگر ہو سکے تو ایسی چیز یںبھی ان کے لئے آپ ہی کی طرف سے تیار ہو کر جاویں اور آپ کی خواہش رہتی تھی کہ جو شخص جس قسم کے کھانے کا عادی ہو اس کو اسی قسم کا کھانا دیا جاسکے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میںلنگر کا انتظام خود آپ کے ہاتھ میںرہتاتھامگر آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّل نے یہ انتظام صدر انجمن احمدیہ قادیان کے سپر د فرما دیا ۔والدہ صاحبہ فرماتی ہیںکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں بعض لوگ حضرت صاحب سے کہاکرتے تھے کہ حضور کو انتظام کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور حضورکا حرج بھی بہت ہوتا ہے اپنے خدام کے سپرد فرمادیں مگر آپ نے نہیں مانا کیونکہ آپ کو یہ اندیشہ رہتا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کے پاس انتظام جانے سے کسی مہمان کو تکلیف ہو ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوشش ان لوگوں کی طرف سے تھی جو آپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ایسا نہیں کہتے تھے بلکہ ان کی نیتوںمیں فساد تھا اور جو منافقین مدینہ کی طرح آپ پر اخراجات لنگر خانہ کے متعلق شبہ کرتے تھے ۔ قال اللّٰہ تعالٰی ’’و منھم من یلمزک فی الصدقات ـ‘‘
{ 58} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیا ن فرمایا کہ تمہارے تایا کے ہاںایک لڑکی اور ایک لڑکا پیدا ہوئے تھے مگر دونوں بچپن میں فوت ہوگئے ۔لڑکی کا نام عصمت اور لڑکے کا نام عبدالقادر تھا ۔حضرت صاحب کو اپنے بھائی کی اولاد سے بہت محبت تھی چنانچہ آپ نے اپنی بڑی لڑکی کا نام اسی واسطے عصمت رکھا تھا ۔
{59} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑی بیوی سے حضرت مسیح موعود ؑکے دو لڑکے پیدا ہوئے ۔ اعنی مرزا سلطان احمد صاحب اورمرزا فضل احمد۔حضرت صاحب ابھی گویا بچہ ہی تھے کہ مرزا سلطان احمدپیداہوگئے تھے ۔اور ہماری والدہ صاحبہ سے حضرت مسیح موعود ؑکی مندرجہ ذیل اولاد ہوئی ۔عصمت جو ۱۸۸۶ء میںپیدا ہوئی اور ۱۸۹۱ء میںفوت ہوگئی۔بشیر احمد اوّل جو ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۸۸ء میںفوت ہوگیا۔حضرت خلیفہ ثانی مرزا بشیرالدین محمود احمدجو۱۸۸۹ء میںپیدا ہوئے ۔شوکت جو ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئی اور ۱۸۹۲ء میں فوت ہوگئی ۔خاکسار مرزا بشیر احمدجو ۱۸۹۳ء میں پیدا ہوا ۔مرزاشریف احمدجو۱۸۹۵ء میںپیدا ہوئے۔مبارکہ بیگم جو ۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئیں۔مبارک احمدجو ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوا اور ۱۹۰۷ء میں فوت ہوگیا۔امۃ النصیر جو۱۹۰۳ء میں پیداہوئی اور ۱۹۰۳ء میںہی فوت ہوگئی ۔امۃ الحفیظ بیگم جو ۱۹۰۴ء میں پیدا ہوئیں ۔سوائے امۃ الحفیظ بیگم کے جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال کی تھیں باقی سب بچوں کی حضرت صاحب نے اپنی زندگی میں شادی کر دی تھی ۔
{ 60} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب تم بچے تھے اور شاید دوسری جماعت میں ہو گے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ رفع حاجت سے فارغ ہوکر آئے توتم اس وقت ایک چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مار رہے اور قلا بازیاں کھا رہے تھے آپ نے دیکھ کر تبسّم فرمایا اور کہا دیکھو یہ کیا کر رہا ہے پھرفرمایا اسے ایم ۔اے کرانا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ فقرہ روزمرہ کی زبان میںبے ساختہ نکلا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر غورکریںتو اس میںدو تین پیشگوئیاںہیں ۔
{ 61} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ رات کو سوتے ہوئے پاجامہ اتار کر تہ بند باندھ لیتے تھے اور عموماً کرتہ بھی اتار کر سوتے تھے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب رفع حاجت کے بعد طہارت سے فارغ ہوتے تھے تو اپنا ہاتھ مٹی سے ملکر پانی سے دھوتے تھے ۔
{ 62} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات گھر میں بچوں کو بعض کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے ۔چنانچہ ایک برے بھلے کی کہانی بھی آپ عموماً سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک برا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا ۔ اور دونو نے اپنے رنگ میں کام کئے اور آخرکار بر ے آدمی کا انجام برا ہوا اور اچھے کا اچھا ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک بینگن کی کہانی بھی آپ سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھاکہ ایک آقا تھا اس نے اپنے نو کر کے سامنے بینگن کی تعریف کی تو اس نے بھی بہت تعریف کی چند دن کے بعد آقا نے مذمت کی تو نوکر بھی مذمت کر نے لگا ۔آقا نے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ اس دن تو تُو تعریف کر تاتھا اور آج مذمت کرتا ہے ۔نوکر نے کہامیںتوحضور کا نوکر ہوںبینگن کا نوکر نہیں ہوں ۔
{ 63} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ہم تینوں بھائیوں نے مل کر ایک ہوائی بندوق کے منگانے کا ارادہ کیا مگر ہم فیصلہ نہ کر سکتے تھے کہ کونسی منگوائیں آخر ہم نے قرعہ لکھ کر حضرت صاحب سے قر عہ اُٹھوایا اور جو بندوق نکلی وہ ہم نے منگالی ۔اور پھر اس سے بہت شکار کیا۔ (یہ ۲۲ بور کی بی۔ایس اے ائیر رائفل تھی)
{ 64} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ ہم گھر کے بچے مل کر حضرت صاحب کے سامنے میاں شریف احمد کو چھیڑ نے لگ گئے کہ ابّا کو تم سے محبت نہیں ہے اور ہم سے ہے۔ میاں شریف بہت چڑتے تھے ۔ حضرت صاحب نے ہمیں روکا بھی کہ زیادہ تنگ نہ کرو مگر ہم بچے تھے لگے رہے ۔آخر میاںشریف رونے لگ گئے اور ان کی عادت تھی کہ جب روتے تھے تو ناک سے بہت رطوبت بہتی تھی ۔ حضرت صاحب اُٹھے اور چاہاکہ ان کو گلے لگا لیں تاکہ ان کا شک دور ہو مگر وہ اس وجہ سے کہ ناک بہہ رہا تھا پرے پرے کھچتے تھے ۔ حضرت صاحب سمجھتے تھے کہ شائد اسے تکلیف ہے اس لئے دور ہٹتا ہے۔ چنانچہ کافی دیر تک یہی ہو تا رہا کہ حضرت صاحب ان کو اپنی طرف کھینچتے تھے اور وہ پرے پرے کھچتے تھے ۔اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ اصل بات کیا ہے اس لئے ہم پاس کھڑے ہنستے جاتے تھے ۔
{ 65} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہم بچے تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خواہ کام کر رہے ہوں یا کسی اور حالت میں ہو ں ہم آپ کے پاس چلے جاتے تھے کہ ابّا پیسہ دو اور آپ اپنے رومال سے پیسہ کھول کر دے دیتے تھے ۔اگر ہم کسی وقت کسی بات پر زیادہ اصرار کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ میاں میں اس وقت کام کر رہا ہوںزیادہ تنگ نہ کرو ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آپ معمولی نقدی وغیرہ اپنے رومال میں جو بڑے سائز کا ململ کا بنا ہوا ہوتا تھا باندھ لیا کرتے تھے اور رومال کا دوسرا کنارہ واسکٹ کے ساتھ سلوا لیتے یا کاج میں بندھوا لیتے تھے ۔اور چابیاںازار بند کے ساتھ باندھتے تھے جو بوجھ سے بعض اوقات لٹک آتا تھا ۔اور والدہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ عموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہو اور گرہ بھی پڑ جاوے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ۔سوتی ازار بند میں آپ سے بعض دفعہ گرہ پڑ جاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہو تی تھی ۔
{ 66} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمہارے دادا کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی اور چھ ماہ تک بیمار رہے اور بڑی نازک طبیعت ہوگئی۔ حتّٰی کہ زندگی سے ناامیدی ہو گئی چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے چچا آپ کے پاس آکر بیٹھے اور کہنے لگے کہ دنیا میںیہی حال ہے سبھی نے مرنا ہے کوئی آگے گذر جاتا ہے کوئی پیچھے جاتا ہے اس لئے اس پر ہراساں نہیں ہو نا چاہئیے ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے دادا خود حضرت صاحب کا علاج کرتے تھے اور برابر چھ ماہ تک انہوں نے آپ کو بکرے کے پائے کاشوربا کھلایاتھا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ اس جگہ چچا سے مراد مرزا غلام محی الدین صاحب ہیں ۔
{ 67} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے ہماری پھوپھی صاحبہ یعنی مرزا امام الدین کی ہمشیرہ نے جو ہماری تائی کی چھوٹی بہن ہیں اور مرزا احمدبیگ ہوشیار پوری کی بیوہ ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے والد اور تایا کو سکھوںنے بسرا واںکے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور قتل کا ارادہ رکھتے تھے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً سکھوں کے آخری عہد کی بات ہے جبکہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد ملک میں پھر بدامنی پھیل گئی تھی۔ اس وقت سنا ہے کہ ہمارے دادا اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کو سکھوں نے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور سننے میں آیا ہے کہ جب مرزا غلام حیدر ان کے چھوٹے بھائی کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لاہور سے کمک لا کر ان کو چھڑایا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے ۔ بسراواں قادیان سے قریباً اڑھائی میل مشرق کی طرف ایک گائوں ہے اس زمانہ میں وہاں ایک خام قلعہ ہوتا تھا جو اب مسمار ہو چکا ہے مگر اس کے آثار باقی ہیں ۔
{ 68} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میں چھوٹی لڑکی تھی تو میرصاحب (یعنی خاکسار کے نانا جان) کی تبدیلی ایک دفعہ یہاں قادیان بھی ہوئی تھی اور ہم یہاں چھ سات ماہ ٹھہرے تھے پھر یہاں سے دوسری جگہ میر صاحب کی تبدیلی ہوئی تو وہ تمہارے تایا سے بات کر کے ہم کو تمہارے تایا کے مکان میں چھوڑ گئے تھے اور پھر ایک مہینہ کے بعد آکر لے گئے اس وقت تمہارے تایا قادیان سے باہر رہتے تھے اور آٹھ روز کے بعد یہاں آیا کرتے تھے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہے۔ خاکسار نے پوچھا کہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں آپ نے کبھی دیکھا تھا یا نہیں؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب رہتے تو اسی مکان میں تھے مگر میں نے آپ کو نہیں دیکھا اور والدہ صاحبہ نے مجھے وہ کمرہ دکھایا جس میں ان دنوں میں حضرت صاحب رہتے تھے۔ آج کل وہ کمرہ مرزا سلطان احمد صاحب کے قبضہ میں ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب ابتداء سے ہی گوشہ نشین تھے اس لئے والدہ صاحبہ کو دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا ہو گا۔خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کب کی بات ہے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا مجھے تاریخ تو یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ جب ہم یہاں قادیان آئے تھے تو ان دنوں میں تمہارے دادا کی وفات کی ایک سالہ رسم ادا ہوئی تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حساب سے وہ زمانہ ۱۸۷۷ء کا بنتا ہے ۔ اس وقت والدہ صاحبہ کی عمر نو دس سال کی ہو گی اور حضرت صاحب کی عمر غالباً چالیس سال سے اوپر تھی۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ کتاب ہذا کی دوسری ایڈیشن زیر تیاری ہے وہ کمرہ جس میں حضرت صاحب ان ایام میں رہتے تھے ایک دوسرے کمرے کے تبادلہ میں ہمارے پاس آگیا ہے اور یہ وہ چوبارہ ہے جو حضرت والدہ صاحبہ کے موجودہ باورچی خانہ کے صحن کے ساتھ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان سے ملحق ہے ۔)
{ 69} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کو معلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دلّی میں ہو گی چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اور میر صاحب بھی اہل حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا آپ نے میر صاحب کو لکھا ۔ شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوت عمر ناپسند کیا مگر آخر رضامند ہو گئے اور پھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے ۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا ۔ یہ ۲۷؍ محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذر دیا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہو گی ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایا صاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی اور مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کروا دیا تھا۔
{ 70} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیاہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ عجیب تھا قادیان میں دو دن گرمی نہیں پڑتی تھی کہ تیسرے دن بارش ہوجاتی تھی ۔جب گرمی پڑتی اور ہم حضرت صاحب سے کہتے کہ حضور بہت گرمی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی ۔نیز مولوی سید سرور شاہ صاحب نے بیان کیا کہ اس ز مانہ میں فصلوں کے متعلق بھی کبھی شکایت نہیں ہو ئی ۔ خاکسار نے گھر آگر والدہ صاحبہ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرما یا کہ حضرت صاحب جب فرماتے تھے کہ آج بہت گرمی ہے تو عموماً اسی دن یا دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی ۔اور آپ کے بعد تو مہینوں آگ برستی ہے اور بارش نہیں ہوتی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں قادیان میں کبھی نماز استسقا نہیں پڑھی گئی اور آپ کے بعد کئی دفعہ پڑھی گئی ہے۔
(اس روایت کے متعلق یہ بات قابل نوٹ ہے کہ میرا یہ خیال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کبھی استسقا کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ درست نہیں نکلا۔ دیکھو حصہ دوم روایت نمبر ۴۱۵مگر یہ خیال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں بالعموم زیادہ دنوں تک مسلسل شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی۔ بہر حال درست ہے۔)
{ 71} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ایک عام عادت تھی کہ صبح کے وقت باہر سیر کو تشریف لے جا یا کرتے تھے ۔اور خدّام آپ کے ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک میل دو دو میل چلے جاتے تھے ۔اور آپ کی عادت تھی کہ بہت تیز چلتے تھے مگر بایں ہمہ آپ کی رفتا رمیں پورا پورا وقار ہوتا تھا ۔حضور سیر پر جاتے ہوئے حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اوّل) کو بھی ساتھ جانے کے لئے بلالیا کر تے تھے ۔لیکن چونکہ مولوی صاحب بہت آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر چلتے تھے اس لئے تھوڑی دور چل کر حضرت صاحب سے پیچھے رہ جاتے تھے ۔ جب حضور کو پتہ لگتا تھا تو مولوی صاحب کے انتظار کے لئے تھوڑی دیر سڑک پر ٹھہر جاتے تھے مگر مولوی صاحب پھر تھوڑی دور چل کر آپ سے پیچھے رہ جاتے تھے اور دو چار آدمی مولوی صاحب کے ساتھ ساتھ ہو جاتے تھے اور میںنے دیکھا ہے کہ حضرت صاحب سیر پر جاتے وقت نواب محمد علی خان صاحب کوبھی ساتھ لے جایا کرتے تھے اور کئی دفعہ آپ اپنے گھر سے باہر نکل کر چوک میں اپنے خدام کے ساتھ نواب صاحب کا انتظار کیا کرتے تھے اور بعض اوقات نواب صاحب کو آنے میں دیر ہوجاتی تھی تو آپ کئی کئی منٹ ان کے دروازہ کے سامنے چوک میں کھڑے رہتے تھے اور پھر ان کو ساتھ لے کر جاتے تھے اور سیر میں حضور کی اپنے خدام کے ساتھ گفتگو ہوا کرتی تھی اور حضور تقریر فرماتے جاتے تھے اور اخبار والے اپنے طور پر نوٹ کر تے جاتے تھے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ عموماً سیر کے لئے بسراواں کے راستہ یا بوٹر کے راستہ پر جایا کرتے تھے ۔بعض اوقات اپنے باغ کی طرف بھی چلے جاتے تھے اور شہتوت بیدانہ وغیرہ تڑوا کر خدام کے سامنے رکھوا دیتے تھے ۔اور خود بھی کھاتے تھے ۔سیر میں جب ایسا ہوتا کہ کسی شخص کا قدم بے احتیاطی سے حضور کے عصاپر پڑجاتا اور وہ آپ کے ہاتھ سے گر جاتا تو حضور کبھی منہ موڑ کر نہیںدیکھتے تھے کہ کس سے گر اہے اور بعض اوقات جب جلسوںوغیرہ کے موقعہ پر سیر میں کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے تو بعض خدام خود بخود ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے تین طرف ایک چکر سابنا لیتے تھے تاکہ حضور کو تکلیف نہ ہو ۔مگر آخری جلسہ میں جو حضور کی زندگی میںہوا جب حضور بوٹر (شمال ) کی طرف سیر کے لئے نکلے توا س کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہوگئے کہ چلنا مشکل ہو گیا لہٰذا حضور تھوڑی دور جاکر واپس آگئے ۔خاکسار کو یاد ہے کہ حضور ایک دفعہ بسراواں (مشرق ) کے راستہ پر سیر کر کے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں قادیان سے جاتے ہوئے مرزا نظام الدین ملے جو حضور کے چچا زاد بھائی تھے مگر سخت مخالف تھے ۔وہ اس وقت گھوڑے پر سوار تھے حضور کوآتا دیکھ کر وہ گھوڑے سے اُترآئے اور راستہ سے ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔جب آپ پاس سے گذرے تو انہوں نے ادب کے ساتھ جھک کر سلام کیا ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ حضور کو جب کوئی شخص ہاتھ اُٹھا کر پاس سے گذرتا ہوا سلام کرتا تھا تو حضور بھی اس کے جواب میں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔
{ 72} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درمیانہ قد تھا ۔رنگ گندمی تھا چہرہ بھاری تھا ،بال سیدھے اور ملائم تھے ۔ہاتھ پائوںبھرے بھرے تھے ۔آخری عمر میں بدن کچھ بھاری ہو گیا تھا ۔آپ کے رنگ ڈھنگ اور خط و خال میں ایک خداداد رعب تھامگر آپ سے ملنے والوں کے دل آپ کے متعلق محبت سے بھر جاتے تھے اور کوئی مخفی طاقت لوگوں کو آپ کی طرف کھینچتی تھی ۔ سینکڑوںلوگ مخالفت کے جذبات لے کر آئے اور آپ کا چہرہ دیکھتے ہی رام ہو گئے ۔اور کوئی دلیل نہیںپوچھی ۔رعب کا یہ حال تھا کہ کئی شقی بد ارادوں کے ساتھ آپ کے سامنے آتے تھے مگر آپ کے سامنے آکر دم مارنے کی طاقت نہ ملتی تھی ۔
{ 73} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مردان کا کوئی آدمی میاں محمد یوسف صاحب مردانی کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کے علاج کے واسطے یہاں قادیان آیا۔یہ شخص سلسلہ کا سخت دشمن تھا اور بصد مشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا مگر اس نے میاں محمد یوسف صاحب سے یہ شرط کر لی تھی کہ قادیان میں مجھے احمدیوں کے محلہ سے باہر کوئی مکان لے دینا اور میںکبھی اس محلہ میں داخل نہیں ہو ں گا ۔خیر وہ آیا اور احمدی محلہ سے باہر ٹھہر ا اور حضرت مولوی صاحب کا علاج ہوتا رہا ۔جب کچھ دنوں کے بعد اسے کچھ افاقہ ہوا تو وہ واپس جانے لگا ۔میا ں محمد یوسف صاحب نے اس سے کہا کہ تم قادیان آئے اور اب جاتے ہو ہماری مسجد تو دیکھتے جائو۔اس نے انکار کیا ،میاں صاحب نے اصرار سے اسے منایا تواس نے اس شرط پر مانا کہ ایسے وقت میں مجھے وہاں لے جائو کہ وہاں کوئی احمدی نہ ہوا ور نہ مرزا صاحب ہوں ۔چنانچہ میاں محمدیوسف صاحب ایسا وقت دیکھ کر اسے مسجد مبارک میں لائے مگر قدرت خدا کہ اِدھر اس نے مسجد میںقدم رکھا اور اُدھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے لئے مسجد میںتشریف لے آئے ۔ اس شخص کی نظر حضور کی طرف اُٹھی اور وہ بیتا ب ہو کر حضور کے سامنے آگرا اوراسی وقت بیعت کر لی ۔
{ 74} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک دفعہ میرے والد یہاں آئے اور وہ سخت مخالف اور بد گو تھے اور یہاں آکر بھی بڑی تیزی کی باتیں کرتے رہے اور وہ جب ملتان میں تھے تو کہتے تھے کہ میں اگر کبھی مرزا سے ملا تو (نعوذ باللہ ) اسکے منہ پر بھی لعنتیں ڈالوںگا یعنی سامنے بھی یہی کہو ں گا جو یہاں کہتاہوں۔ خیر میں انہیں حضرت صاحب کے پاس لے گیا ،حضور جب باہر تشریف لائے تو وہ ادب سے کھڑے ہوگئے اور پھر خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئے ۔اس وقت مجلس میں اور لوگ بھی تھے ۔حضور نے بیٹھے بیٹھے تقریر فرمانی شروع کی اور کئی دفعہ کہا کہ ہم توچاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس آئیں اور ہماری باتیں سنیں اور ہم سے سوال کریں اور ہم ان کے واسطے خرچ کرنے کو بھی تیار ہیں لیکن اول تو لوگ آتے نہیں اور اگر آتے ہیں تو خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور پھر پیچھے جا کر باتیں کرتے ہیں ۔غرض حضور نے کھول کھول کر تقریر کی اور تبلیغ فرمائی اور انہیں بات کرنے پر کئی دفعہ ابھارا ۔میرا والد بڑا چرب زبان ہے مگر ان کے منہ پر گویا مہر لگ گئی اور وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکے ۔وہاں سے اُٹھ کر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ وہاں بولے کیوں نہیں؟ انہوں نے کچھ کہہ کر ٹال دیا ۔ میاں فخر الدین صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب نے اس تقریر میں میرے والدکو مخاطب نہیں کیا تھا بلکہ عام تقریر فرمائی تھی ۔
{ 75} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا حضرت امیر المومنین خلیفہ ثانی نے کہ ایک دفعہ ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھاقادیان کسی بارات کے ساتھ آیا ۔یہ شخص علم توجہ کا بڑا ماہر تھا چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے ملنے چلیں اور اس کا منشاء یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپ سے بھری مجلس میں کو ئی بیہودہ حرکات کرائے۔ جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تو اس نے اپنے علم سے آپ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ یکلخت کانپ اُٹھا مگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنا کا م پھر شروع کردیا اور حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے مگر پھر اس کے بدن پر ایک سخت لرزہ آیا اور اس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی مگر وہ پھر سنبھل گیا ۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگ نکلا اور بغیر جو تا پہنے نیچے بھاگتا ہوا اتر گیا ۔اس کے ساتھی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا ۔جب اس کے ہوش ٹھکا نے ہوئے تو اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر اپنی توجہ ڈالوں اور مجلس میںان سے کوئی لغو حرکات کرا دوں لیکن جب میںنے توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے مگر ایک فاصلہ پر ایک شیر بیٹھاہے میں اسے دیکھ کر کانپ گیا لیکن میں نے جی میں ہی اپنے آپ کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے ۔چنانچہ میں نے پھر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی تو میں نے دیکھا کہ پھر وہی شیر میرے سامنے ہے اور میرے قریب آگیا ہے اس پر پھر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا مگر میں پھر سنبھل گیا اور میں نے جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میںوہم سے خوف پیدا ہوگیا ہے چنانچہ میں نے اپنا دل مضبوط کر کے اور اپنی طاقت کو جمع کر کے پھر مرزا صاحب پر اپنی توجہ کااثر ڈالا اور پورا زور لگا یا۔ اس پر نا گہاں میں نے دیکھاکہ وہی شیر میرے اوپر کود کر حملہ آور ہوا ہے اس وقت میںنے بے خود ہو کر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اُٹھا ۔حضرت خلیفہ ثانی بیان فرماتے تھے کہ وہ شخص پھر حضرت صاحب کا بہت معتقد ہوگیا تھا اور ہمیشہ جب تک زندہ رہا آپ سے خط و کتابت رکھتا تھا ۔
{ 76} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی محمد اروڑا صاحب مرحوم کپورتھلوی حضرت مسیح موعود ؑ کے ذکر پر کہا کر تے تھے کہ ہم تو آپ کے منہ کے بھوکے تھے ۔بیمار بھی ہوتے تھے تو آپ کا چہرہ دیکھنے سے اچھے ہو جاتے تھے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ منشی صاحب مرحوم پرانے مخلصوںمیں سے تھے اور عشاق مسیح موعود ؑ میں ان کا نمبر صف اوّل میں شمار ہونا چاہئیے ۔
{ 77} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیاحضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی سفر میں تھے ۔ سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پرٹہلنے لگے۔یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھرغیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں ۔ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔حضرت صاحب نے فرمایا جائو جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں ۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے ؟۔
{ 78} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن دنوں میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار تھا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل کو اس کے دیکھنے کے لئے گھر میںبلایااس وقت آپ صحن میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے اور صحن میں کوئی فرش وغیرہ نہیں تھا ۔ مولوی صاحب آتے ہی آپ کی چارپائی کے پاس زمین پر بیٹھ گئے ۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب چار پائی پر بیٹھیں ۔مولوی صاحب نے عرض کیا حضورمیں بیٹھا ہوں اور کچھ اونچے ہو گئے اور ہاتھ چارپائی پر رکھ لیا ۔مگر حضرت صاحب نے دوبارہ کہا تو مولوی صاحب اُٹھ کر چارپائی کے ایک کنارہ پر پائنتی کے اوپر بیٹھ گئے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مولوی صاحب میں اطاعت اور ادب کا مادہ کمال درجہ پر تھا۔
{ 79} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کپورتھلہ اور غیر احمدیوں کا وہاں کی مسجد کے متعلق ایک مقدمہ ہوگیا ۔جس جج کے پاس یہ مقدمہ گیا وہ خود غیر احمدی تھا اور مخالف تھا ۔اس نے اس مقدمہ میں خلاف پہلو اختیار کرنا شروع کیا ۔ اس حالت میں جماعت کپور تھلہ نے گھبراکر حضرت مسیح موعود کو خطوط لکھے اور دعا کے لئے درخواست کی ۔ حضرت صاحب نے ان کو جواب لکھا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی ۔مگر جج نے بدستور مخالفانہ روش قائم رکھی ۔ آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھا ۔ جس دن اس نے فیصلہ سنانا تھا اس دن وہ صبح کے وقت کپڑے پہن کر اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں نکلا اور اپنے نوکر کو کہا کہ بوٹ پہنائے اور آپ ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔نوکر نے بوٹ پہنا کر فیتہ باندھنا شروع کیا کہ یکلخت اسے کھٹ کی سی آواز آئی اس نے اوپر نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ اس کا آقا بے سہارا ہو کر کرسی پر اوندھا پڑا تھا۔اس نے ہاتھ لگایا تو معلوم ہو امرا ہو ا ہے گویا یکلخت دل کی حرکت بند ہوکر اس کی جان نکل گئی ۔اس کا قائم مقام ایک ہندو مقرر ہو اجس نے اس کے لکھے ہوئے فیصلہ کو کاٹ کر احمدیوں کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے مولوی محمداسماعیل صاحب مولوی فاضل نے ذکر کیا کہ میں ایک دفعہ کپور تھلہ گیا تھا تو وہاں دیکھا کہ وہاں کی جماعت نے حضرت مسیح موعود ؑکی یہ عبارت کہ ’’ اگر میں سچاہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی ‘‘۔خوبصورت موٹی لکھوا کراسی مسجد میں نصب کرائی ہو ئی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ کپورتھلہ کی جماعت بہت پرانی جماعت ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے دیرینہ مخلصین میں سے ہے ۔میں نے سنا ہوا ہے کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک تحریر ہے جس میں لکھا ہے کہ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح کپورتھلہ کی جماعت نے دنیامیں میرا ساتھ دیا ہے اسی طرح جنت میںبھی میرے ساتھ ہو گی ۔
{ 80} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ میرا دادا جسے لوگ عام طور پر خلیفہ کہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت مخالف تھا اور آپ کے حق میں بہت بدزبانی کیا کرتا تھا اور والد صاحب کو بہت تنگ کیا کرتا تھا۔ والد صاحب نے اس سے تنگ آکر حضرت مسیح موعود ؑ کو دعا کے لئے خط لکھا ۔ حضرت مسیح موعودؑ کا جواب گیا کہ ہم نے دعا کی ہے۔ والد صاحب نے یہ خط تمام محلہ والوں کو دکھا دیا اور کہا کہ حضرت صاحب نے دعا کی ہے اب دیکھ لینا خلیفہ گالیاں نہیں دے گا۔دوسرے تیسرے دن جمعہ تھا ۔ ہمارا دادا حسب دستور غیر احمدیوںکے ساتھ جمعہ پڑھنے گیا مگر وہاں سے واپس آکر غیرمعمولی طور پر حضرت مسیح موعودؑکے متعلق خاموش رہا حالانکہ اس کی عاد ت تھی کہ جمعہ کی نماز پڑھ کرگھر آنے کے بعد خصوصاً بہت گالیاںدیا کرتاتھا ۔ لوگوںنے اس سے پوچھا کہ تم آج مرزا صاحب کے متعلق خاموش کیوں ہو ؟ اس نے کہا کسی کے متعلق بدزبانی کرنے سے کیاحاصل ہے اور مولوی نے بھی آج جمعہ میں وعظ کیاہے کہ کوئی شخص اپنی جگہ کیسا ہی برا ہو ہمیںبد زبانی نہیںکرنی چاہئیے ۔لوگوںنے کہا اچھایہ بات ہے ؟ ہمیشہ تو تم گالیاں دیتے تھے اور آج تمہارا یہ خیال ہوگیا ہے ! بلکہ اصل میں بات یہ ہے کہ بابو( میرے والد کو لوگ بابو کہا کرتے تھے ) کل ہی ایک خط دکھا رہا تھا کہ قادیان سے آیا ہے اور کہتاتھا کہ اب خلیفہ گالی نہیں دے گا ۔مولوی رحیم بخش صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد باوجود کئی دفعہ مخالفوں کے بھڑکانے کے میرے دادا نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق بد زبانی نہیںکی اور کبھی میرے والد صاحب کو احمدیت کی وجہ سے تنگ نہیں کیا۔
(اس روایت کے متعلق یہ بات قابل نوٹ ہے کہ اس کے راوی صاحب نے اب حضرت خلیفۃ المسیح کے منشاء کے ماتحت اپنا نام عبدالرحیم رکھ لیا ہے اور عموماً مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں۔)
{ 81} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کر دیا ۔ دوسرا رمضان آیا تو آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ ہو ا اس لئے باقی چھوڑ دیئے اور فدیہ ادا کر دیا ۔اس کے بعد جو رمضان آیا تواس میںآپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کر دیا ۔اسکے بعد جو رمضان آیا تو آپ کا تیرہواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اورباقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا ۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادافرماتے رہے ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتداء دوروں کے زمانہ میں روزے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کر دیا تھا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعو د ؑ کو دوران سر او ر برد ا طراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہو گئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کر نے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھر شوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کر دیتے تھے اور بقیہ کا فدیہ اد اکر دیتے تھے ۔واللّٰہ اعلم ۔
{ 82} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑاوائل میںغرارے استعمال فرمایا کرتے تھے پھر میںنے کہہ کر وہ ترک کروا دئے ۔اس کے بعد آپ معمولی پاجامے استعمال کرنے لگ گئے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ غرارہ بہت کھلے پائنچے کے پائجامے کو کہتے ہیں ۔ (پہلے اس کا ہندوستان میں بہت رواج تھا اب بہت کم ہوگیا ہے۔)
{ 83} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ عام طور پر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عمومًا دس گز لمبی ہو تی تھی ۔پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے۔اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کر سر پر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے ۔بدن پر گرمیوںمیں عمومًا ململ کا کرتہ استعمال فرماتے تھے ۔اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے ۔ پاجامہ بھی آپ کا گرم ہوتا تھا ۔نیز آپ عمومًا جراب بھی پہنے رہتے تھے بلکہ سردیوںمیںدو دو جوڑے اوپر تلے پہن لیتے تھے ۔پائوں میںآپ ہمیشہ دیسی جوتا پہنتے تھے ۔ نیز بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب سے حضرت مسیح موعو دؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے اس وقت سے آپ نے سردی گرمی میں گرم کپڑے کا استعمال شروع فرمادیا تھا ۔ان کپڑوں میںآپ کو گرمی بھی لگتی تھی اور بعض اوقات تکلیف بھی ہوتی تھی مگر جب ایک دفعہ شروع کر دیئے تو پھر آخر تک یہی استعمال فرماتے رہے ۔اور جب سے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری احمدی ہوئے وہ آپ کے لئے کپڑوںکے جوڑے بنوا کر باقاعدہ لاتے تھے اور حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جیسا کپڑا کوئی لے آئے پہن لیتے تھے ۔ایک دفعہ کوئی شخص آپ کے لئے گر گابی لے آیا ۔آپ نے پہن لی مگر اس کے الٹے سیدھے پائوں کا آپ کو پتہ نہیںلگتا تھا کئی دفعہ الٹی پہن لیتے تھے اور پھر تکلیف ہوتی تھی بعض دفعہ آ پ کا اُلٹاپائوںپڑ جاتا تو تنگ ہوکر فرماتے ان کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میںنے آپ کی سہولت کے واسطے الٹے سیدھے پائوں کی شناخت کیلئے نشان لگا دیئے تھے مگر باوجود اس کے آپ اُلٹا سیدھا پہن لیتے تھے اس لئے آپ نے اسے اتاردیا ۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی قمیص کے کفوںکے متعلق بھی اسی قسم کے ناپسندیدگی کے الفاظ فرمائے تھے ۔ خاکسارعرض کرتاہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لئے انگریزی طرز کی گرم قمیص بنوا کر لایا کرتے تھے ۔آپ انہیںاستعما ل تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیںفرماتے تھے ۔کیونکہ اول تو کفوںکے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے دوسرے بٹنوںکے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لئے مشکل تھا۔بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑکا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑا مل جاتا تھا پہن لیتے تھے ۔مگر عمومًا انگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لئے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوا رکھے بہت گھبراتے تھے۔گھر میں آپ کے لئے صرف ململ کے کُرتے اور پگڑیاں تیار ہوتی تھیں۔باقی سب کپڑے عمومًا ہدیۃً آپ کو آجاتے تھے ۔شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اس خدمت میں خاص امتیاز رکھتے تھے ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بعض اوقات کمر پر پٹکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب کبھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے۔اور ہاتھ میںعصارکھنا بھی آپ کی سنت ہے ۔والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے کُرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی تھی میں نے پورے تھا ن کے کُرتے تیار کئے ۔حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے کُرتے کیا کر نے ہیں مگر میں نے تیار کر لئے ان میں سے اب تک بہت سے کُرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں ۔
{ 84} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگا تے اور کپڑے بدلتے تھے ۔
{ 85} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب کبھی مغرب کی نماز گھر میں پڑھا تے تھے تو اکثر سورہ یوسف کی وہ آیات پڑھتے تھے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ ـ (یوسف:۸۷)خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی آواز میںبہت سوز اور درد تھا ۔ اور آپ کی قراء ت لہر دار ہوتی تھی ۔
{ 86} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعودؑ کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے ۔
{ 87} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے سید فضل شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہاں مسجد مبارک میں تشریف رکھتے تھے ۔میں پاس بیٹھا تھا ۔بھائی عبدا للہ صاحب سنوری بھی پاس تھے اور بعض اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔حضرت صاحب سب کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے ۔مگر جب بھائی عبداللہ صاحب بولتے تھے تو حضرت صاحب دوسروںکی طرف سے توجہ ہٹا کر ان کی طرف توجہ کرلیتے تھے ۔مجھے اس کا ملال ہوا اور میں نے ان پر رشک کیا ۔حضرت صاحب میرے اس خیال کو سمجھ گئے اور میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے شاہ صاحب آپ جانتے ہیں یہ کون ہیں ؟ میں نے عرض کیاہاں حضرت میں بھائی عبداللہ صاحب کو جانتا ہوں ۔آپ نے فرمایا ہمارا یہ مذہب ہے کہ ’’قدیمان خود را بیفزائے قدر‘‘ یہ آپ سے بھی قدیم ہیں ۔سید فضل شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس دن سے میں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ان سے مقابلہ نہیں یہ ہم سے آگے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت سید فضل شاہ صاحب نے یہ روایت بیان کی اس وقت میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی پاس بیٹھے تھے اورمیں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیںپر نم تھیں ۔
{ 88} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چِلّہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے ۔ چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سو جان پور ضلع گورداسپور میں جاکر خلوت میں رہیں اور اس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈبھی مجھے روانہ فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں ۔حضور نے منظور فرما لیا ۔مگر پھر حضور کو سفر سو جان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔ چنانچہ آپ نے سوجان پور جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ہوشیار پور جانے کا ارادہ کر لیا۔جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء میں ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قادیان بلا لیا اور شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دو ماہ کے واسطے ہوشیا رپور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیںجو شہر کے ایک کنارے پر ہو اور اس میں بالا خانہ بھی ہو ۔شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نا م سے مشہور تھا خالی کروا دیا ۔حضور بہلی میں بیٹھ کر دریا بیاس کے راستہ تشریف لے گئے ۔ میں اور شیخ حامد علی اور فتح خان ساتھ تھے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ فتح خاں رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اور حضور کا بڑا معتقد تھامگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا ۔حضورجب دریا پر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میںکچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اُٹھا کر کشتی میں بٹھا یا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا ۔دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہو نے کا بھی اندیشہ ہے ۔میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پرسنی مگر جب فتح خان مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی ۔خیر ہم راستہ میں فتح خان کے گائوں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے ۔وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالاخانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کو ئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرمادیئے ۔چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا ۔فتح خان کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے ۔شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے ۔اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کر دیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں ۔ان چالیس دن کے گذرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا ۔ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں۔ دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کر سکتے ہیں اور سوال و جواب کر نے والے سوال جواب کر لیں ۔ اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اند ر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے ۔میں اگر کسی کوبلائوں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے ۔ میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے مگر اس کا انتظا ر نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں ۔خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جا یا کریں ۔نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو ۔جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میںنماز ادا کر سکیں ۔چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نمازپڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں کھانا چھوڑ نے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیںکرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا ۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا۔ میاں عبداللہ !ان دنوںمیں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے ۔اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں ۔ چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیںکہ پسر موعود کے متعلق الہامات بھی اسی چلّہ میں ہوئے تھے اور بعد چلّہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کا اعلان فرمایا تھا (خاکسار عرض کرتا ہے ملاحظہ ہو اشتہار ۲۰فروری ۱۸۸۶ء ) جب چالیس دن گذر گئے تو پھر آپ حسب اعلان بیس دن اور وہاں ٹھہرے ۔ان دنوںمیں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے آئے اور باہر سے حضور کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے۔ انہی دنوںمیں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا جو سرمہ چشم آریہ میںدرج ہے ۔جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگئی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے ۔ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سالگا ہوا تھا ۔وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کیلئے بہلی سے اُتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر جاتے ہیں۔اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا اور شیخ حامد علی اور فتح خان بہلی کے پاس رہے ۔آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’جب میںنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دوزانو ہو کر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہو تے تو میں ان سے باتیںبھی کرلیتا۔ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے‘‘ پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تواس سے ان کے حالات پوچھیں ۔چنانچہ حضور نے مجاور سے دریافت کیا ۔اس نے کہا میں نے ان کو خود تو نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گذر گیا ہے۔ہاں اپنے باپ یا داداسے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا ۔ حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیا تھا ؟ وہ کہنے لگاکہ سنا ہے سانولہ رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں ۔پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے ۔خاکسار نے میاں عبداللہ صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت صاحب اس خلوت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے اورکس طرح عبادت کرتے تھے ؟ میاں عبداللہ صاحب نے جواب دیا کہ یہ ہم کو معلوم نہیں کیونکہ آپ اوپر بالا خانہ میں رہتے تھے اور ہم کو اوپر جانے کا حکم نہیں تھا ۔ کھانے وغیرہ کے لئے جب ہم اوپر جاتے تھے تو اجازت لے کر جاتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب میں کھانا رکھنے اوپر گیا تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ بُوْرِکَ مَنْ فِیْھَا وَمَنْ حَوْلَھَا اورحضور نے تشریح فرمائی کہ مَنْ فِیْھَا سے میں مراد ہوں اور مَنْ حَوْلَھَا سے تم لوگ مراد ہو ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کر تے تھے کہ میںتو سارا دن گھر میں رہتا تھا صرف جمعہ کے دن حضور کے ساتھ ہی باہر جاتا تھا اور شیخ حامد علی بھی اکثر گھرمیں رہتا تھا لیکن فتح خان اکثر سارا دن ہی باہر رہتا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اغلب ہے کہ اس الہام کے وقت بھی وہ باہر ہی ہو ۔ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ فتح خان ان دنوں میں اتنا معتقد تھاکہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحب کو تو میں نبی سمجھتا ہوں اور میںاس کی اس بات پر پرانے معروف عقیدہ کی بنا پر گھبرا تا تھا ۔ میاں عبداللہ صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دفعہ میں کھانا چھوڑ نے گیا تو حضورنے فرمایا مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میںان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کروںتو یہ جتنے معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں ۔
{ 89} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے ) لیٹے ہوئے تھے اور میںپائوں دبا رہا تھاکہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرم پت یا شاید لالہ ملا وامل نے دستک دی ۔میں اُٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اُٹھ کر تیزی سے جاکر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ جاکر بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئیے ۔
{ 90} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ بشیراوّل کی پیدائش کے وقت میں قادیان میں تھا ۔قریباً آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعود ؑ مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ اس وقت ہمارے گھر میں دردِ زِہ کی بہت تکلیف ہے ۔آپ یہاں یٰسین پڑھیں اور میں اندر جاکر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ یٰسین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے یٰسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو۔اور یٰسین کے ختم ہو نے سے پہلے تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اور میںیٰسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی یٰسین ختم نہیں کی تھی آپ مسکراتے ہو ئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکا پیدا ہوا ہے ۔اسکے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اور میںخوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا۔
{ 91} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب میری شادی ہوئی اور میں ایک مہینہ قادیان ٹھہر کر پھر واپس دہلی گئی توان ایام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھے ایک خط لکھا کہ میں نے خواب میں تمہارے تین جوان لڑکے دیکھے ہیں۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیںکہ مجھے دو یادتھے مگر حضرت صاحب فرماتے تھے کہ نہیں میں نے تین دیکھے تھے اور تین ہی لکھے تھے ۔
{ 92} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی کیسا اخفا ہوتا ہے ۔پسر موعود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا مگر ہمارے موجودہ سارے لڑکے ہی کسی نہ کسی طرح تین کو چار کرنے والے ہیں ۔چنانچہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میاں (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کو تو حضرت صاحب نے اس طرح تین کو چار کرنے والا قراد دیا کہ مرزا سلطان احمد اور فضل احمد کو بھی شمار کر لیا ۔اور بشیر اوّل متوفّی کو بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں (یعنی خاکسار راقم الحروف کو ) اس طرح پر کہ صرف زندہ لڑکے شمار کر لئے اور بشیر اوّل متوفی کوچھوڑ دیا ۔شریف احمد کواس طرح پر قرار دیا کہ اپنی پہلی بیوی کے لڑکے مرزا سلطان احمداور فضل احمد چھوڑدیئے اور میرے سارے لڑکے زندہ متوفّی شمار کر لئے اور مبارک کوا س طرح پر کہ میرے صرف زندہ لڑکے شمار کرلئے اور بشیر اوّل متوفّی کو چھوڑ دیا ۔
{ 93} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے قریب بڑی کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات اور خوابیں شروع ہوگئی تھیں ۔جب آپ لاہور تشریف لے گئے تو وہاں زیادہ کثرت سے ایسے الہام ہونے شروع ہوئے ۔اس وجہ سے اور کچھ ویسے بھی ۔ میں نے گھبرا کر ایک دن حضرت صاحب سے کہا کہ چلو اب قادیان واپس چلیں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو جب ہمیں خدا لے جائے گا تب ہی جائیں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی حضرت صاحب کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کو اس کثرت سے اپنی وفات کے متعلق الہامات ہو تے تھے اور وفات کے قریب تو کثرت کا یہ حال تھا کہ گویا موت بالکل سر پر کھڑی ہے آپ اپنے کام میں اسی تندہی سے لگے رہے بلکہ زیادہ ذوق شوق او ر محنت سے کا م شروع کر دیا ۔چنانچہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی ان دنوںمیں بھی آپ رسالہ پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے اور تقاریر کا سلسلہ بھی برابر جاری تھا کوئی اور ہوتا تو قرب موت کی خبر سے اس کے ہاتھ پائوں ڈھیلے پڑ جاتے اور کوئی مفتری ہوتا تو یہ وقت اس کے راز کے طشت ازبام ہونے کا وقت تھا ۔
{ 94} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کو عصر کی نماز کے بعد یعنی اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پیشتر حضور نے لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان پر جہاں نماز ہو ا کرتی تھی ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی جس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹی کی طرف سے ایک شخص مباحثہ کا چیلنج لے کر آپ کے پاس آیا تھا۔آ پ نے مباحثہ کی شرائط کے لئے مولوی محمد احسن صاحب کو مقرر فرمایا اور پھراس شخص کی موجودگی میں ایک نہایت زبردست تقریر فرمائی اور جس طرح جوش کے وقت آپ کا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا اسی طرح اس وقت بھی یہی حال تھا ۔اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میںگونجتے ہیں ۔ فرمایا تم عیسٰی کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کا م ختم کر چکے ہیں ۔
{ 95} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے کہ ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے ۔میرے مکان میں ایک نیم کا درخت تھا چونکہ برسات کا موسم تھا اسکے پتے بڑے خوشنما طور پر سبز تھے ۔ حضور نے مجھے فرمایا حاجی صاحب اس درخت کے پتوں کی طرف دیکھئے کیسے خوشنما ہیں۔حاجی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوئوںسے بھری ہوئی تھیں۔
{ 96} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا ہم سے حاجی عبدالمجید صاحب نے کہ ایک دفعہ جب ازالہ اوہام شائع ہوئی ہے حضرت صاحب لدھیانہ میں باہر چہل قدمی کے لئے تشریف لے گئے۔ میں اور حافظ حامدعلی ساتھ تھے ۔ راستہ میں حافظ حامد علی نے مجھ سے کہا کہ آج رات یا شاید کہا ان دنوں میں حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ ’’ سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعد ازاںایام ضعف و اختلال ‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجلس میں جس میں حاجی عبدالمجید صاحب نے یہ روایت بیان کی میاںعبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ میرے خیال میں یہ الہام اس زمانہ سے بھی پرانا ہے ۔حضرت صاحب نے خود مجھے اور حافظ حامد علی کو یہ الہام سنایا تھا اور مجھے الہام اس طرح پر یاد ہے ۔’’سلطنت برطانیہ تا ہفت سال ۔ بعد ازاں باشد خلاف و اختلا ل ‘‘۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرا مصرع تو مجھے پتھر کی لکیر کی طرح یاد ہے کہ یہی تھا ۔ اور ہفت کا لفظ بھی یاد ہے ۔جب یہ الہام ہمیں حضرت صاحب نے سنایا تواس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی مخالف نہیںتھا ۔شیخ حامد علی نے اسے بھی جا سنایا ۔پھر جب وہ مخالف ہوا تو اس نے حضرت صاحب کے خلاف گورنمنٹ کو بدظن کر نے کے لئے اپنے رسالہ میں شائع کیا کہ مرزا صاحب نے یہ الہام شائع کیا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب اور حاجی عبدالمجید صاحب کی روایت میں جو اختلاف ہے وہ اگر کسی صاحب کے ضعفِ حافظہ پر مبنی نہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الہام حضور کو دو وقتوں میں دو مختلف قرا ء توں پر ہوا ہو ۔ واللہ اعلم ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کے مختلف معنی کئے گئے ہیں ۔ بعضوں نے تاریخ الہام سے میعاد شمار کی ہے ۔بعضوں نے کہا ہے کہ ملکہ وکٹوریا کی وفات کے بعد سے اس کی میعاد شما ر ہوتی ہے ۔کیونکہ ملکہ کے لئے حضور نے بہت دعائیں کی تھیں ۔بعض اور معنے کرتے ہیں۔میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے نزدیک آغاز صدی بیسویں سے اس کی میعاد شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ کہتے تھے کہ واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں او ر واقعات کے ظہور کے بعد ہی میں نے اس کے یہ معنی سمجھے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ حضرت صاحب کی وفات سے اس کی میعاد شمار کی جاوے کیونکہ حضرت صاحب نے اپنی ذات کو گورنمنٹ برطانیہ کے لئے بطور حرز کے بیان کیا ہے پس حرز کی موجودگی میں میعاد کا شمار کرنا میرے خیال میں درست نہیں ۔ اس طرح جنگ عظیم کی ابتدا اور ہفت یاہشت سالہ میعاد کا اختتام آپس میں مل جاتے ہیں ۔واللہ اعلم ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم لوگوں پر بڑے احسانات ہیں ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ اسے فتنوں سے محفوظ رکھے ۔ (نیز اس روایت کی مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۱۴)
{ 97} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت کا اعلان کیا تو بیعت لینے سے پہلے آپ شیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کے بلانے پرا س کے لڑکے کی شادی پر ہوشیار پور تشریف لے گئے ۔میں اورمیر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔راستہ میں یکہ پر حضور نے ہم کو اپنے اس چلّہ کا حال سنایا جس میں آپ نے برابر چھ ماہ تک روزے رکھے تھے ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ایک چھینکا رکھا ہوا تھا اسے میں اپنے چوبارے سے نیچے لٹکا دیتا تھا تو اس میں میری روٹی رکھدی جاتی تھی پھر اسے میں اوپر کھینچ لیتا تھا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ شیخ مہر علی نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤسا کے لئے الگ کمرہ تھا اور ان کے ساتھیوں اور خدام کے واسطے الگ تھا مگر حضرت صاحب کا یہ قاعدہ تھاکہ اپنے ساتھ والوںکو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھایا کرتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر بھی آپ ہم تینوں کو اپنے داخل ہونے سے پہلے کمرہ میں داخل کرتے تھے اور پھر خود داخل ہوتے تھے اور اپنے دائیںبائیں ہم کو بٹھاتے تھے۔انہی دنوںمیں ہوشیار پور میں مولوی محمود شاہ چھچھ ہزاروی کا وعظ تھا جو نہایت مشہور اور نامور اور مقبول واعظ تھا ۔ حضرت صاحب نے میرے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا یہ اشتہار بیعت پڑھ کر سنا دیں اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آئوں گا ۔اس نے وعدہ کر لیا ۔چنانچہ حضرت صاحب اس کے وعظ میں تشریف لے گئے لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اور حضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہو نے لگے اس وقت سنایا مگر اکثر لوگ منتشر ہوگئے تھے ۔حضرت صاحب کو اس پر بہت رنج ہوا فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ورنہ ہمیں کیاضرورت تھی ۔اس نے وعدہ خلافی کی ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ پھر تھوڑے عرصہ کے اندر ہی وہ مولوی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا ۔
{ 98} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت صاحب نے پہلے دن لدھیانہ میں بیعت لی تو اس وقت آپ ایک کمرہ میں بیٹھ گئے تھے اور دروازہ پر شیخ حامدعلی کو مقرر کر دیا تھا ۔اور شیخ حامد علی کو کہہ دیا تھا کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرہ کے اندر بلاتے جائو چنانچہ آپ نے پہلے حضرت خلیفہ اوّل کو بلوایا ان کے بعد میر عباس علی کو پھر میاں محمد حسین مراد آبادی خوش نویس ۱ ؎ کو اور چوتھے نمبر پر مجھ کو اور پھر ایک یادو اور لوگوں کو نام لے کر اند ربلایا پھر اس کے بعد شیخ حامد علی کو کہہ دیا کہ خود ایک ایک آدمی کو اند ر داخل کرتے جائو۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں حضور ایک ایک کی الگ الگ بیعت لیتے تھے لیکن پھربعد میں اکٹھی لینے لگ گئے ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ پہلے دن جب آپ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰؍رجب۱۳۰۶ ء ھجری مطابق ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء تھی ۲ ؎ اور اس وقت بیعت کے الفاظ یہ تھے ۔’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مَیں مبتلا تھا اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت او ر سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کی لذات پر مقدم رکھونگا اور ۱۲؍جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کا ر بند رہوں گا اور اب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ۔’’ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ ـ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ ۔اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ ـ‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مصافحہ کے طریق پر بیعت کنندگان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میںلیتے تھے لیکن بعض لوگوں سے آپ نے پنجہ کے اوپر کلائی پر سے بھی ہاتھ پکڑ کر بیعت لی ہے ۔ چنانچہ حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ میری بیعت آپ نے اسی طرح لی تھی ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر انہوں نے بیعت نہیں کی ۔ (مزید تشریح کے لئے دیکھو حصہ دوم۔ روایت نمبر ۳۰۹، ۳۱۵)
{99} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتدائ۱۸۸۹ء میں حضرت صاحب علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ میںاور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔حضرت صاحب سیدتفضل حسین صاحب تحصیل دارکے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپر نٹنڈنٹ تھے۔ وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معز زین کو بھی مدعو کیا ۔حضورتشریف لے گئے اور ہم تینوںکو حسب عادت اپنے دائیںبائیںبٹھایا۔ تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے ۔چوکیوں پر کنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے ۔جب کھانا شروع ہو ا تومیر عباس علی نے کھانا کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوںنہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوںکے طریق کا کھانا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میںکوئی حرج نہیں یہ خلاف شرع نہیںہے۔میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب !ہم جو کھاتے ہیں۔میر صاحب نے کہا حضرت آپ کھائیں میں تو نہیںکھاتا۔غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا ۔ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ علی گڑھ میں لوگوں نے حضرت صاحب سے عرض کر کے حضور کے ایک لیکچر کا انتظام کیا تھا اور حضور نے منظور کر لیا تھا۔جب اشتہار ہوگیا اور سب تیاری ہوگئی اور لیکچر کا وقت قریب آیاتو حضرت صاحب نے سّید تفضل حسین صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہو ا ہے کہ میں لیکچر نہ دوںاس لئے میں اب لیکچر نہیں دوں گا ۔ انہوں نے کہا حضور اب توسب کچھ ہوچکا ہے لوگوں میں بڑی ہتک ہوگی ۔حضرت صاحب نے فرمایا خواہ کچھ ہو ہم خدا کے حکم کے مطابق کریں گے ۔ پھر اور لوگوں نے بھی حضرت صاحب سے بڑے اصرار سے عرض کیا مگر حضرت صاحب نے نہ مانا اور فرمایا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں خدا کے حکم کو چھوڑ دوںاس کے حکم کے مقابل میں مَیں کسی ذلت کی پروا نہیں کرتا ۔غرض حضرت صاحب نے لیکچر نہیں دیا اور قریباً سات دن وہاں ٹھہر کر واپس لدھیانہ تشریف لے آئے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے جب پہلے پہل یہ روایت بیان کی تو یہ بیان کیا کہ یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء میں کیا تھا۔خاکسار نے والدہ صا حبہ سے عرض کیا تو انہوںنے اس کی تردیدکی اور کہا کہ یہ سفر میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ) کی پیدائش بلکہ ابتدائی بیعت کے بعد ہوا تھا ۔ جب میں نے والدہ صاحبہ کی یہ روایت میاں عبداللہ صاحب کے پاس بیان کی توانہوں نے پہلے تو اپنے خیال کی صحت پر اصرارکیا لیکن آخر ان کو یاد آگیا کہ یہی درست ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاںعبداللہ صاحب کہتے تھے کہ علی گڑھ کے سفر سے حضرت صاحب کا وہ ارادہ پورا ہوا جو حضور نے سفر ہندوستان کے متعلق کیا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی سفر میں مولوی محمد اسماعیل علی گڑھی نے حضور کی مخالفت کی اور آخر آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی مگر جلد ہی اس جہاں سے گذر گیا ۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف فتح اسلام کے حاشیہ میں اس سفر کا مکمل ذکر کیا ہے)
{ 100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ غالباً یہ ۱۸۸۴ء کی بات ہے کہ ایک دفعہ ماہ جیٹھ یعنی مئی جون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز فجر پڑ ھ کر اس کے ساتھ والے غسل خانہ میں جو تا زہ پلستر ہونے کی وجہ سے ٹھنڈاتھا ایک چارپائی پر جو وہاں بچھی رہتی تھی جالیٹے ۔چارپائی پر بستر اور تکیہ وغیرہ کو ئی نہ تھا ۔حضرت کا سر قبلہ کی طرف اور منہ شمال کی طرف تھا ۔ایک کہنی آپ نے سر کے نیچے بطور تکیہ کے رکھ لی اور دوسری اسی صورت میں سر کے اوپر ڈھانک لی ۔میں پائوں دبانے بیٹھ گیا ۔وہ رمضان کا مہینہ تھا اور ستائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا اس لئے میں دل میں بہت مسرور تھا کہ میرے لئے ایسے مبارک موقعے جمع ہیں ۔یعنی حضرت صاحب جیسے مبارک انسان کی خدمت کر رہاہوں وقت فجر کا ہے جو مبارک وقت ہے مہینہ رمضان کا ہے جو مبارک مہینہ ہے ۔تاریخ ستائیس اور جمعہ کا دن ہے اور گزشتہ شب شَب قدر تھی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ جب رمضان کی ستائیس تاریخ اور جمعہ مل جاویں تو وہ رات یقینا شب قدر ہوتی ہے ۔میں انہی باتوں کا خیال کر کے دل میں مسرور ہو رہا تھا کہ حضرت صاحب کا بدن یکلخت کانپا اور اس کے بعد حضور نے آہستہ سے اپنے اوپر کی کہنی ذرا ہٹاکر میری طرف دیکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میںآنسو بھرے ہوئے تھے ۱ ؎ اس کے بعد آپ نے پھر اسی طرح اپنی کہنی رکھ لی۔ میں دباتے دباتے حضرت صاحب کی پنڈلی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ حضور کے پائوں پر ٹخنے کے نیچے ایک اٹن یعنی سخت سی جگہ تھی اس پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا تھا جو ابھی تازہ گرے ہونے کی وجہ سے بستہ تھا ۔میں نے اسے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی لگا کر دیکھا کہ کیا ہے ۔اس پر وہ قطرہ ٹخنے پر بھی پھیل گیا اور میری انگلی پر بھی لگ گیا ،پھر میں نے اسے سونگھا کہ شاید اس میں کچھ خوشبو ہو مگر خوشبو نہیں تھی ۔میں نے اسے اس لئے سونگھا تھا کہ اسی وقت میرے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ یہ کوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے بات ہے اس لئے اس میں کوئی خوشبو ہوگی ۔پھر میں دباتا دباتا پسلیوں کے پاس پہنچا وہاں میںنے اسی سرخی کا ایک اور بڑا قطرہ کرتہ پر دیکھا ۔اس کو بھی میں نے ٹٹولا تو وہ بھی گیلا تھا ۔ ۲ ؎ اس وقت پھر مجھے حیرانی سی ہوئی کہ یہ سرخی کہاں سے آگئی ہے ۔پھر میں چارپائی سے آہستہ سے اُٹھا کہ حضرت صاحب جاگ نہ اُٹھیں اور پھر اس کا نشان تلاش کرنا چاہا کہ یہ سرخی کہاں سے گری ہے ۔ بہت چھوٹا سا حجرہ تھا ۔چھت میں اردگرد میں نے اس کی خوب تلاش کی مگر خارج میں مجھے اس کا کہیں پتہ نہیں چلاکہ کہاںسے گِری ہے ۔مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیںچھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹی ہو تو اس کا خون گرا ہواس لئے میں نے غور کے ساتھ چھت پر نظر ڈالی مگر اس کا کوئی نشان نہیں پایا ۔پھر آخرمیں تھک کر بیٹھ گیا اور بدستور دبانے لگ گیا ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حجرہ میں سے نکل کر مسجد میںجاکر بیٹھ گئے ۔میں وہاں پیچھے بیٹھ کر آپ کے مونڈھے دبانے لگ گیا۔اس وقت میں نے عرض کیا کہ حضوریہ آپ پر سرخی کہاںسے گری ہے ۔حضور نے بہت بے توجہی سے فرمایا کہ آموںکا رس ہوگا اور مجھے ٹال دیا ۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور یہ آموںکا رس نہیں یہ تو سرخی ہے ۔اس پر آپ نے سر مبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمایا ’’ کتھّے ہے ‘‘؟ یعنی کہاں ہے ؟ میں نے کر تہ پر و ہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے اس پر حضور نے کُرتے کو سامنے کی طرف کھینچ کر اور اپنے سر کو ادھر پھیر کراس قطرہ کو دیکھا ۔پھر اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا بلکہ رؤیت باری اور امور کشوف کے خارج میںوجود پانے کے متعلق پہلے بزرگوںکے دو ایک واقعات مجھے سنائے اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء ہے اس کو یہ آنکھیں دنیامیں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کی بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہو کر بزرگوںکو دکھائی دے جاتے ہیں ۔ شاہ عبدالقادر صاحب لکھتے ہیںکہ مجھے کئی دفعہ خدا تعالیٰ کی زیارت اپنے والد کی شکل میںہوئی ہے نیز شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوئی اور خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ہلدی کی گٹھی دی کہ یہ میری معرفت ہے اسے سنبھال کر رکھنا جب وہ بیدار ہوئے تو ہلدی کی گٹھی ان کی مٹھی میںموجود تھی ۔ اور ایک بزرگ جن کا حضور نے نام نہیں بتایا تہجد کے وقت اپنے حجرہ کے اند ر بیٹھے مصلّٰی پرکچھ پڑ ھ رہے تھے کہ انہوں نے کشف میں دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور ان کے نیچے کا مصلّٰی نکال کر لے گیا ہے ۔ جب وہ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ فی الواقع مصلّٰی ان کے نیچے نہیںتھا ۔ جب دن نکلنے پر حجرہ سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مصلّٰی صحن میںپڑا ہے ۔یہ واقعات سنا کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ کشف کی باتیں تھیں مگر خداتعالیٰ نے ان بزرگوں کی کرامت ظاہر کر نے کیلئے خارج میںبھی ان کاوجود ظاہر کر دیا ۔اب ہمارا قصہ سنو ۔جس وقت تم حجرہ میں ہمارے پائوں دبا رہے تھے میں کیا دیکھتا ہوںکہ ایک نہایت وسیع اور مصفّٰی مکان ہے اس میں ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک شخص حاکم کی صورت میںبیٹھاہے ۔میرے دل میںڈالا گیاکہ یہ احکم الحاکمین یعنی رب العالمین ہیں اورمیں اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہوں جیسے حاکم کا کوئی سر رشتہ دار ہوتا ہے۔میں نے کچھ احکام قضا و قدر کے متعلق لکھے ہیں اور ان پر دستخط کر انے کی غرض سے ان کے پاس لے چلا ہوں ۔جب میں پاس گیا تو انہوں نے مجھے نہایت شفقت سے اپنے پاس پلنگ پر بٹھا لیا۔اس وقت میری ایسی حالت ہوگئی کہ جیسے ایک بیٹا اپنے باپ سے بچھڑا ہو ا سالہاسال کے بعد ملتا ہے اور قدرتًا اس کا دل بھر آتا ہے یا شاید فرمایا اس کو رقت آجاتی ہے اور میرے دل میں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ احکم الحاکمین یا فرمایا رب العالمین ہیں اور کس محبت اور شفقت سے انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا ہے ۔ اس کے بعد میں نے وہ احکام جو لکھے تھے دستخط کرانے کی غرض سے پیش کئے ۔ انہوں نے قلم سرخی کی دوات میں جو پاس پڑی تھی ڈبویا اور میری طرف جھاڑ کردستخط کر دیئے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے قلم کے جھاڑ نے اور دستخط کرنے کی حرکتوں کو خود اپنے ہاتھ کی حرکت سے بتایا تھاکہ یوں کیا تھا ۔ پھر حضرت صاحب نے فرمایایہ وہ سرخی ہے جو اس قلم سے نکلی ہے ۔پھر فرما یا دیکھو کو ئی قطرہ تمہارے اوپربھی گرا۔میں نے اپنے کُرتے کو ادھر اُدھر سے دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے پر تو کوئی نہیں گرا۔فرمایا کہ تم اپنی ٹوپی پر دیکھو ۔ان دنوں میں ململ کی سفید ٹوپی میرے سر پر ہوتی تھی میں نے وہ ٹوپی اتار کر دیکھی تو ایک قطرہ اس پر بھی تھا ۔مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے عرض کیا حضور میری ٹوپی پر بھی ایک قطرہ ہے ۔پھر میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ یہ کُرتہ بڑا مبارک ہے اس کو تبرکاً لے لینا چاہئیے ۔ پہلے میں نے اس خیال سے کہ کہیں حضور جلدی انکار نہ کر دیں حضور سے مسئلہ پوچھا کہ حضور کسی بزرگ کا کوئی تبرک کپڑے وغیرہ کالے کر رکھنا جائز ہے ؟ فرمایا ہاں جائز ہے ۔رسول اللہ ﷺ کے تبرکا ت صحابہ نے رکھے تھے ۔پھر میں نے عرض کیا کہ حضور خدا کے واسطے میرا ا یک سوال ہے ۔فرمایا کہو کیا ہے ؟ عرض کیا کہ حضور یہ کُرتہ تبرکاً مجھے دے دیں ۔فرمایا نہیں یہ تو ہم نہیں دیتے ۔میں نے عرض کیا حضور نے ابھی تو فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات صحابہ نے رکھے ۔اس پر فرمایا کہ یہ کُرتہ میں اس واسطے نہیں دیتا کہ میرے اور تیرے مرنے کے بعد اس سے شرک پھیلے گا اس کی لوگ پوجا کر یں گے۔اس کو لوگ زیارت بنالیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے تبرکات سے شرک نہ پھیلا ۔فرمایا میاں عبداللہ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ جو تبرک جن صحابہ کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کر جائو ں گا کہ یہ کُرتہ میرے کفن کے ساتھ دفن کر دیا جاوے۔فرمایا ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو ۔چونکہ وہ جمعہ کا دن تھا تھوڑی دیر کے بعد حضورنے غسل کر کے کپڑے بدلے اور میں نے یہ کُرتہ سنبھال لیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابھی آپ نے یہ کُرتہ پہنا ہی ہوا تھا کہ دو تین مہمان جو اردگرد سے آئے ہوئے تھے ان سے میں نے اس نشان کا ذکر کیا۔وہ پھر حضرت صاحب کے پاس آئے او ر عرض کیا کہ میاں عبداللہ نے ہم سے ایسا بیان کیا ہے حضور نے فرمایا ۔ہاں ٹھیک ہے ۔پھر انہوںنے کہا کہ حضوریہ کُرتہ ہم کو دیدیں ہم سب تقسیم کر لیں گے کیونکہ ہم سب کا اس میں حق ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ہاں لے لینا اور ان سے کوئی شرط اور عہد وغیرہ نہیں لیا ۔مجھے اس وقت بہت فکر ہوا کہ یہ نشان میرے ہاتھ سے گیا ۔اور میرے دل میں بہت گھبراہٹ پیدا ہوئی اس لئے میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضوراس کُرتہ پر آپ کا کوئی اختیار نہیں کیونکہ یہ میری مِلک ہوچکا ہے ۔میرا اختیار ہے میں ان کو دو ں یا نہ دوں کیونکہ میں حضور سے اس کو لے چکا ہوں ۔اس وقت حضورنے مسکراکر فرمایا کہ ہاں یہ تو میاں عبداللہ ہم سے لے چکے ہیںاب ان کا اختیار ہے یہ تمہیں دیں یا نہ دیں ۔پھر انہوں نے مجھ سے بڑے اصرار سے مانگا مگر میں نے انکار کر دیا ۔میاں عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ آج تک اس کُرتہ پر سرخی کے ویسے ہی داغ موجود ہیں کوئی تغیر نہیں ہوا۔اور اس کُرتہ کے کپڑے کو پنجابی میں نینو کہتے ہیں ۔یہ کُرتہ حضو ر نے سات دن سے پہنا ہوا تھا ۔میں یہ کُرتہ پہلے لوگوں کو نہیںدکھایا کر تا تھا کیونکہ حضور کے یہ الفاظ کہ یہ کُرتہ زیارت نہ بنا لیا جاوے مجھے یاد رہتے تھے ۔ لیکن لوگ بہت خواہش کیا کرتے تھے او ر لوگ اس کے دیکھنے کے لئے مجھے بہت تنگ کر نے لگے ۔میں نے حضر ت خلیفہ ثانی سے اس کا ذکر کیاکہ مجھے حضرت صاحب کے الفاظ کی وجہ سے اس کُرتہ کے دکھانے سے کراہت آتی ہے مگر لوگ تنگ کرتے ہیں کیا کیا جاوے؟ حضرت میاں صاحب نے فرمایا اسے بہت دکھایا کرو اورکثرت کے ساتھ دکھائو تاکہ اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہو جاویں اور ہر شخص ہماری جماعت میں سے یہ کہے کہ میں نے بھی دیکھا ہے ۔ میں نے بھی دیکھا ہے ،میںنے بھی دیکھا ہے یا شاید میں نے کی جگہ ہم نے کے الفاظ کہے ۔اس کے بعد میںدکھانے لگ گیا ۔مگر اب بھی صرف اس کو دکھاتا ہوںجو خواہش کرتا ہے ۔اور ازخوددکھانے سے مجھے کراہت ہے کیونکہ حضرت صاحب کے الفاظ میرے دل پر نقش ہیں اور ہر سفر میں مَیں اسے پاس رکھتا ہوںاس خیال سے کہ کچھ معلوم نہیں کہ کہاں جان نکل جاوے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ کُرتہ دیکھا ہے سرخی کا رنگ ہلکا ہے یعنی گلابی سا ہے اور مجھے میاں عبداللہ صاحب سے معلوم ہو اہے کہ رنگ ابتدا سے ہی ایسا چلا آیا ہے ۔ (نیز دیکھو روایت نمبر ۴۳۶)
{ 101} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب میں ۱۸۸۲ء میں پہلے پہل قادیان آیا تو اس وقت میری عمر سترہ اٹھا رہ سال کی تھی اور میری ایک شادی ہوچکی تھی اور دوسری کا خیال تھاجس کے متعلق میں نے بعض خوابیں بھی دیکھی تھیں ۔میں نے ایک دن حضرت صاحب کے ساتھ ذکرکیا کہ مجھے ایسی ایسی خوابیں آئی ہیں حضر ت صاحب نے فرمایا یہ تمہاری دوسری شادی کے متعلق ہیں اور فرمایا مجھے بھی اپنی دوسری شادی کے متعلق الہام ہوئے ہیں۔دیکھئے تمہاری شادی پہلے ہو تی ہے کہ ہماری ۔میں نے ادب کے طور پر عرض کیا کہ حضور ہی کی پہلے ہوگی۔پھراس کے بعد مجھے اپنے ایک رشتہ کے ماموں محمد اسماعیل کی لڑکی کے ساتھ نکاح کا خیال ہوگیا ۔چنانچہ میں نے قادیان آکر حضرت صاحب کے ساتھ اس کا ذکر کیا ۔اس سے پہلے میرے ساتھ اسماعیل مذکور بھی ایک دفعہ قادیا ن ہو گیا تھا ۔ حضور نے مجھ سے فرمایا تم نے اس وقت کیوں نہ مجھ سے ذکر کیا جب اسماعیل یہاں آیا تھا ہم اسے یہیں تحریک کر تے ۔پھر آپ نے میرے ماموں محمد یوسف صاحب مرحوم کو جو حضرت صاحب کے بڑے معتقد تھے اور جن کے ذریعہ مجھے حضرت صاحب کی طرف رہنمائی ہوئی تھی خط لکھا اور اس میں اسماعیل کے نام بھی ایک خط ڈالا اور لکھا کہ اسماعیل کے نام کا خط اسکے پاس لے جائیں اور اسے تحریک کریں ۔اور اس خط میں میرے والداور دادا اور خسر کی طرف بھی حضور نے خطوط ڈال کر بھیجے اور ان سب خطوط کو اہم بنانے کیلئے ان پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی مہر لگائی اور میرے والد اور دادا اور خسر کے خط میں لکھا کہ میاں عبداللہ دینی غرض سے دوسری شادی کر نا چاہتے ہیں ان کو نہ روکیں اور ان پر راضی رہیں۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ایسا اس لئے لکھا تھا کہ میں نے حضور کو کہا تھاکہ میں نے اپنے والد اور دادا سے اس امر کے متعلق کھل کر ذکر نہیں کیا مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں اس میں روک نہ ہوں کیونکہ اس زمانہ میں نکاح ثانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔حضرت صاحب نے ادھر یہ خطوط لکھے اور اُدھر میرے واسطے دعا شروع فرمائی۔ابھی میرے ماموں محمد یوسف صاحب کا جواب نہیں آیا تھا اور حضرت صاحب میری تحریک پراس امر کے واسطے دعا میں مصرو ف تھے کہ عین دعا کرتے کر تے حضرت صاحب کو الہام ہوا ’’ ناکامی ‘‘ پھر دعا کی تو الہام ہوا ’’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ‘‘ پھر اس کے بعد ایک اور الہام ہوا ’’ فَصَبْرٌجَمِیْل ‘‘ ۔حضرت صاحب نے مجھے یہ الہام بتا دیئے ۔ان دنوں میں میر عباس علی بھی یہاں آئے ہوئے تھے ان سے حضرت صاحب نے ان الہامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ معلوم نہیں میاں عبداللہ صاحب کا ہمارے ساتھ کیسا تعلق ہے کہ ادھر دعا کرتا ہوں اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا ہے ۔چند دنوں کے بعد میاں محمد یوسف صاحب کا جواب آگیا کہ میاں عبداللہ کے والد اور دادا اور خسر تو راضی ہوگئے ہیں مگر اسماعیل انکار کرتا ہے ۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ اب ہم اسماعیل کو خود کہیں گے ۔میں نے عرض کیا کہ حضور اِدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناکامی کا الہام ہوا ہے اُدھر اسماعیل انکاری ہے اب اس معاملہ میں کیا کامیابی کی صورت ہوسکتی ہے ؟ فرمایا نہیں قرآن شریف میں ہے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرَّحمٰن:۳۰) یعنی ہر دن اللہ تعالیٰ الگ شان میں ہوتا ہے پس کو شش نہیں چھوڑنی چاہیے ۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے الہامات کا یہ منشا ء ہو کہ جس طریق پر کوشش کی گئی ہے اس میں ناکامی ہے اور کسی اور طریق پر کامیابی مقدر ہو۔چنانچہ اس کے بعدبدستور میرا اس کی طرف خیال رہا اور میں حضور سے دعائیں بھی کراتا رہا ۔اسماعیل ان دنوں میں سر ہند کے پاس پٹواری تھا اور سرہند میں حشمت علی خان صاحب تحصیلدار تھے ۔جو ڈاکٹر عبدالحکیم خاں کے قریبی رشتہ دار تھے ۔انہوں نے حضرت صاحب سے وعدہ لیا ہوا تھا کہ کبھی حضور سر ہند تشریف لے چلیں گے ۔ چنانچہ جب آپ انبالہ جانے لگے تو مجھے کہا کہ حشمت علی خاں صاحب کو لکھ دو کہ ہم انبالہ جاتے ہوئے سر ہند آئیں گے اور مجھے حضرت صاحب نے فرمایا کہ سر ہند میں مجدّد صاحب کے روضہ پر بھی ہو آئیں گے ۔اور اسماعیل سے بھی تمہارے متعلق بات کرنے کا موقعہ مل جائے گا ۔چنانچہ آپ وہاں گئے اور تحصیل میں حشمت علی خاں صاحب کے پاس ٹھہرے ۔رات کو جب نماز اور کھانے سے فراغت ہو چکی تو حضورچارپائی پر لیٹ گئے اور حشمت علی خان صاحب سے فرمایا تحصیل دار صاحب اب آپ آرام کریں ہم نے میاں اسماعیل سے کچھ علیحدگی میںبات کرنی ہے اس پر وہ اور ان کے ساتھی اُٹھ گئے اور میں بھی اُٹھ آیا ۔اس وقت اسماعیل حضرت صاحب کے پائوں دبا رہا تھا ۔پھر حضرت صاحب نے اسماعیل کو میرے متعلق کہا مگر اس نے انکار کیا اور کئی عذر کر دیئے کہ دو بیویوں میںجھگڑے ہوا کرتے ہیں نیز یہ کہ عبداللہ کی تنخواہ بہت قلیل ہے (اس وقت میری تنخواہ ساڑھے چار روپے ماہوار تھی)گذارہ کس طرح ہوگا اور میاں عبداللہ کے خُسر میرے قریبی ہیں ان کو ملال ہوگا وغیرہ ۔حضرت صاحب نے فرمایا ان سب باتوںکا میں ذمہ لیتاہوں مگراس نے پھر بھی نہیں مانا اور عذر کیا کہ میری بیوی نہیں مانے گی ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں نے خدا اور اس کے رسول کا حکم پیش کیا اوراپنی طرف سے بھی کہا مگر اس نے انکار کیا گویا اس کا خدا اس کا رسول اور اس کا پیر سب اس کی بیوی ہے کیونکہ وہ کہتا تھا کہ میں تو جووہ کہے گی وہی کرونگا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ابھی میں نے اسماعیل سے بات شروع نہیں کی تھی کہ مجھے کشف ہوا تھاکہ اس نے میرے بائیں ہاتھ پر دست پھر دیا ہے نیز میںنے کشف میںدیکھا تھا کہ اسکی شہادت کی انگلی کٹی ہوئی ہے ۔اس پر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اس معاملہ میں مجھے نہایت گندے جواب دے گا ۔حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس کا جواب سن کر مجھے اس سے ایسی نفرت ہو ئی کہ دل چاہتا تھا کہ یہ ابھی اُٹھ جاوے اور پھر کبھی تازیست میرے سامنے نہ آوے ۔میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں اسکے بعد اسماعیل نے اپنی لڑکی کی دوسری جگہ شادی کردی جس پر مجھ کو سخت صدمہ پہنچا ۔میری اس حالت کی میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کو بذریعہ خط اطلاع دی تو آپ نے مجھے خط لکھا کہ تم کچھ عرصہ کے واسطے تبدیل خیالات کے لئے یہاں میرے پاس آجائو ۔مگر اس شادی کے بعدا سماعیل پر بڑی مصیبت آئی ۔اس کے دو جوان لڑکے اور بیوی فوت ہو گئے ۔پھر جب میری دوسری شادی ماسٹر قادر بخش صاحب کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی تو اسمٰعیل بہت پچھتایا اوراس نے مجھے کہا کہ حضرت سے مجھے معافی لے دو ۔میں نے حضرت صاحب کو لکھا حضورنے اس کی بیعت قبول فر مالی مگراس کے بعد بھی اسماعیل کو حضرت صاحب کی ملاقات نصیب نہیں ہوئی ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ میرے متعلق جو حضرت صاحب نے اپنے نشانات کے ذکر میں لکھاہے کہ مجھے دکھایا گیا تھاکہ میاں عبداللہ کو ایک معاملہ میں ناکامی ہوگی سو ایسا ہی ہوا وہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی نشان نمبر ۵۵ میں میاںعبداللہ صاحب کی اس ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میرے ماموں اسماعیل کی لڑکی کا نکاح دوسری جگہ ہو گیاتو میں نے ایک اور جگہ تجویز کی اورسب باتوں کا تصفیہ کر کے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میں نے ایک جگہ شادی کی تجویز کر لی ہے اور سب باتوں کا فیصلہ ہو چکا ہے اورتاریخ نکاح بھی مقرر ہو چکی ہے ۔اب حضور سے تبرکاً مشورہ پوچھتا ہوں۔حضرت صاحب نے جواب دیا کہ اس معاملہ میںجلدی نہ کرو۔بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے اور تاکید فرمائی کہ ضرور پہلے لڑکی کو دیکھ لو ۔خط ختم کر نے کے بعد پھر لکھا کہ میری اس بات کو خوب یاد رکھنا ۔چنانچہ میں ارشاد کے مطابق لڑکی کو دیکھنے کے لئے اس کے گائوں گیا تو دیکھتے ہی میرے دل میںاتنی کراہت پیدا ہوئی کہ قریب تھا کہ قے ہو جاتی حالانکہ لڑکی شکل کی خراب نہیں تھی ۔اس کے بعد لدھیانہ کی ایک معلمہ کے ساتھ تجویز ہوئی مگر حضرت صاحب نے اسے بھی پسند نہیںفرمایا اس کے بعد میںنے ماسٹر قادر بخش صاحب کی ہمشیرہ کا ذکر کیا تو فرمایا یہ بہت اچھا موقعہ ہے یہاں کرلو۔چنانچہ حضورنے میری گزارش پر خود ماسٹر قادر بخش صاحب سے میرے متعلق کہا ۔انہوں نے بلا عذر قبول کر لیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ میری صرف ساڑھے چار روپے تنخواہ ہے اور بیوی بچے بھی ہیں ۔ قبول کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ حضور میراباپ بڑا مخالف ہے مگر وہ بغیر میری مرضی کے کچھ نہیں کر سکتا ۔ پس یا تو میں اُسے راضی کر لوں گا اور یا جب وہ مر جائے گا تو شادی کر دوں گا ۔حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور پھر مجھے باغ کی طرف لے گئے اور راستہ میں مجھے ان کا جواب سنایا اور باپ کے مرنے کے الفاظ سنا کر ہنسے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد ماسٹر قادر بخش صاحب کو اپنے باپ کی طرف سے بہت تکلیفیں دیکھنی پڑیں مگر انہوں نے اپنی ہمشیرہ کی شادی دوسری جگہ نہیںہونے دی اور آخر میرے ساتھ اپنی بہن کی خفیہ شادی کر دی ۔نکاح کے وقت میں نے ان کو کہا کہ جو تحریر یا شرائط وغیرہ مجھ سے لکھانی ہو ں لکھا لو۔ انہوں نے کہا شرائط کیسی میری تحریر اور شرائط سب حضرت صاحب ہیں ۔ پھر مہر کے متعلق میں نے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ سوا تیس روپے مہر ہوگا ۔ میں نے کہا نہیں بلکہ ایک سو روپیہ ہونا چاہئیے مگر انہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا اس پر میں نے ان کو کہا کہ مجھے خواب آیا تھا کہ میرا دوسرا نکاح ہوا ہے اور مہر ایک سو روپیہ رکھا گیا ہے اس پر انہوں نے مان لیا ۔پھر رخصتانہ بھی خفیہ ہوا۔لیکن آخر ماسٹر قادر بخش صاحب کا والد بھی راضی ہو گیا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب بیا ن کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب سر ہند تشریف لے گئے تھے تو اسی سفر میں تھوڑی دیر کے لئے سنور بھی گئے تھے ۔
{ 102} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت خلیفہ اوّل بیان کیا کرتے تھے کہ جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو یہاں چھوٹی مسجد کے پاس جو چوک ہے اس میں یکہ پر سے اترا اور پھر میںنے یکہ والے سے یا شاید فرمایا کسی سے پوچھا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں ؟ اس وقت مرزا امام الدین اور مرزانظام الدین اپنے صحن میںچارپائیوں پر مجلس لگائے بیٹھے تھے اس نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ ہیں ۔میں نے ادھر دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے یکہ والے سے کہا ابھی نہ جائو ذرا ٹھہر جائو شاید مجھے ابھی واپس جانا پڑے۔پھر میں آگے بڑھ کر اس مجلس میںگیا لیکن میرے دل میںایسا اثرتھاکہ میں جاکر بغیر سلام کئے چارپائی پر بیٹھ گیا۔مرزا امام الدین یاشاید فرمایا مرزا نظام الدین نے میرا نام پوچھا میںنے بتا یا تو انہوں نے کہا کہ آپ شاید مرزا صاحب کوملنے آئے ہیں۔مولوی صاحب فرماتے تھے تب میری جان میں جان آئی کہ یہاں کوئی اور مرزا بھی ہے ۔پھر میرے ساتھ انہوںنے ایک آدمی کر دیا جو مجھے چھوٹی مسجد میں چھوڑگیا ۔اس وقت حضرت صاحب مکان کے اندر تشریف رکھتے تھے آپ کو اطلاع کرائی گئی تو فرمایا میں ظہر کی نماز کے وقت باہر آئوں گا ۔پھر حضورتشریف لائے تو میں ملا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب براہین احمدیہ کے زمانہ میںیہاں آئے تھے اور مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب نے کہیںلکھاہے کہ میں دعا کیا کرتا تھاکہ خدا مجھے موسیٰ کی طرح ہارون عطا کر ے پھر جب مولوی صاحب آئے تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ ھٰذا دعائی ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے آئینہ کمالات اسلام میں اپنی اس دعا کا ذکر کیا ہے مگر حضرت موسیٰ اور ہارون کی مثال اس جگہ نہیں دی اور عجیب بات ہے کہ جیسا کہ حضرت مولوی صاحب کی تحریر مندرجہ کرامات الصادقین میں درج ہے ۔ حضرت مولوی صاحب کو بھی اپنی طرف کسی ایسے مرد کامل کی تلاش تھی جو اس پُر آشوب زمانہ کے فتنوں کا مقابلہ کر سکے اور اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کر کے دکھا سکے۔)
{ 103} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا کرتے تھے حضرت خلیفہ اوّل کہ جب میںجموںکی ملازمت سے فارغ ہو کر بھیرہ آیا تو میں نے بھیرہ میں ایک بڑا مکان تعمیر کرانا شروع کیااو ر اس کے واسطے کچھ سامان عمارت خریدنے کے لئے لاہور آیا ۔لاہور آکر مجھے خیال آیا کہ چلو قادیان بھی ایک دن ہوتے آویں ۔خیر میں یہاں آیا ۔حضرت صاحب سے ملا تو حضور نے فرمایا مولوی صاحب اب تو آپ ملازمت سے فارغ ہیں امید ہے کچھ دن یہاں ٹھہر یں گے ۔میں نے عرض کیا ہاں حضور ٹھہر وں گا ۔پھر چند دن کے بعد فرمانے لگے مولوی صاحب آپ کو اکیلے تکلیف ہوتی ہو گی اپنے گھروالوںکو بھی یہاںبلا لیں ۔میںنے گھر والوں کو بھیرہ خط لکھ دیا کہ عمارت بند کر ا دو اوریہاں چلے آئو ۔پھر ایک موقعہ پر حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ مولوی صاحب اب آپ اپنے پچھلے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں دل میں بہت ڈرا کہ یہ ہو سکتاہے کہ میںوہاںکبھی نہ جائوں مگر یہ کس طرح ہوگا کہ میرے دل میں بھی بھیرہ کا خیال نہ آوے مگر مولوی صاحب فرماتے تھے کہ خداکا ایسا فضل ہوا کہ آج تک میرے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ بھیرہ بھی میرا وطن ہوتا تھا۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب غالباً جموں کی ملازمت سے ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں فارغ ہوئے تھے اور ۱۸۹۲ ء یا ۱۸۹۳ء میں قادیان آگئے تھے۔)
{ 104} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہماری جتنی عربی تحریریںہیں یہ سب ایک رنگ کی الہام ہی ہیں کیونکہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں ۔ فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتا ہوں مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوںتو پتہ لگتا ہے ۔نیز مولوی صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب عربی کتابوں کی کاپیاں اور پروف حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی محمد احسن صاحب کے پاس بھی بھیجا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر کسی جگہ اصلاح ہو سکے تو کردیں ۔حضرت خلیفہ اوّل تو پڑ ھ کر اسی طرح واپس فرمادیتے تھے لیکن مولوی محمد احسن صاحب بڑی محنت کر کے اس میں بعض جگہ اصلاح کے طریق پر لفظ بدل دیتے تھے ۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک وقت فرمایا کہ مولوی محمداحسن صاحب اپنی طرف سے تو اصلاح کرتے ہیںمگر میں دیکھتا ہوں کہ میرا لکھا ہو الفظ زیادہ بر محل اور فصیح ہو تا ہے اور مولوی صاحب کا لفظ کمزور ہوتا ہے لیکن میں کہیں کہیں انکا لکھا ہوا لفظ بھی رہنے دیتا ہوں تا ان کی دل شکنی نہ ہو کہ ان کے لکھے ہو ئے سب الفاظ کا ٹ دیئے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا قاعدہ تھاکہ عربی کتب کی کاپیاں اور پروف سلسلہ کے علماء کے پاس یہ کہہ کر بھجوا دیتے تھے کہ دیکھو کوئی اصلاح ہو سکے تو کر دو۔اور اس کا رروائی سے ایک مطلب آپ کا یہ بھی ہوتا تھا کہ یہ لوگ اس طریق سے حضورکی تصانیف پڑ ھ لیں اور حضور کی تعلیم اور سلسلہ سے واقف رہیں۔ یہ خاکسارکا اپنا خیال ہے کسی روایت پر مبنی نہیں ۔
{ 105} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے جن دنوں میں اَیَا اَرْضَ مُدٍّ قَدْ دَفَاکِ مُدَمِّّرُ والا قصیدہ اعجاز احمدی میں لکھا تو اسے دوبارہ پڑھنے پر باہر آکر حضرت خلیفہ اوّل سے دریافت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کیا اَیَا بھی ندا کیلئے آتا ہے۔؟ عرض کیا گیاہاں حضور بہت مشہور ہے ۔فرمایا شعر میںلکھا گیا ہے ہمیں خیال نہیں تھا۔نیز حافظ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کئی دفعہ حضور فرماتے تھے کہ بعض الفاظ خود بخود ہمارے قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے معنی معلوم نہیں ہو تے ۔حافظ صاحب کہتے ہیںکہ کئی دفعہ حضرت صاحب سے ایسا محاورہ لکھا جاتا تھا کہ جس کا عام لغت میں بھی استعمال نہ ملتا تھالیکن پھر بہت تلاش سے پتہ چل جاتا تھا۔
{ 106} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے کہ جب کرم دین کے مقدمہ کے لئے حضرت صاحب گورداسپور میں تھے تو وہاں آپ کے پاس الہ آباد کے تین غیر احمدی مہمان آئے جن میں سے ایک کا نام مولوی الٰہی بخش تھا ۔ان کی حضرت صاحب سے گفتگو ہو تی رہی آخر وہ قائل ہو گئے ۔ایک دفعہ جب حضرت صاحب مکان کے صحن میں ٹہل رہے تھے اور مولو ی الٰہی بخش صاحب بھی ساتھ ساتھ پھرتے تھے ۔مولوی الٰہی بخش صاحب نے حضرت صاحب سے کہا کہ اگر میںنے بیعت کر لی تو میرے ساتھ اور بہت سے لوگ بیعت کریں گے ۔حضر ت صاحب چلتے چلتے ٹھہر گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا مجھے کیا پروا ہے یہ خدا کا کام ہے وہ خود لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر میرے پائوں پر گرائے گا ۔اور گرا رہا ہے ۔خان صاحب کہتے تھے کہ مولوی الٰہی بخش صاحب نے یہ الفاظ ایسے طریق پر کہے تھے جس میں کچھ احسان پایا جاتا تھا ۔خان صاحب بیان کرتے تھے کہ دوسرے دن جب مولوی صاحب اور ان کے ساتھی واپس جانے لگے تو حضرت صاحب سے ملنے آئے۔میں بھی وہیں تھا میں نے مولوی صاحب سے پوچھا کہئے مولوی صاحب اب کو ئی اعتراض تو باقی نہیں رہا۔مولوی صاحب نے کہا نہیںمیری تسلی ہوگئی ہے ۔ میں نے کہا تو پھر بیعت ؟ حضرت صاحب نے فرمایا خان صاحب یہ کہنا آپ کا حق نہیں ہے ۔ہمارا کام پہنچا دینا ہے آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے ۔خیر وہ واپس چلے گئے۔تیسرے چوتھے دن حضرت صاحب قادیان آئے اور میں بھی آیا تو حضور نے مجھے بلا کر مسکراتے ہوئے اپنے رومال سے ایک پوسٹ کارڈ کھولا اور میر ی طرف پھینکا اور فرمایا تحصیل دار صاحب ! آپ جلدی کرتے تھے لیجئے ان کا خط آگیا ہے ۔میں نے خط دیکھا تو مولوی الٰہی بخش صاحب کا تھا اور پنسل سے لکھا ہوا تھا جو انہوں نے راستہ میں لکھنؤ سے بھیجا تھا ۔اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے ریل میں بیٹھے ہو ئے خیال کیا کہ اب جبکہ مجھ پر حق کھل گیا ہے تو اگر میں راستہ میں ہی مرجائوں تو خدا کو کیا جواب دوں گا اس لئے میں حضور کے سلسلہ میں داخل ہوتا ہوں میری بیعت قبول فر مائی جاوے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب آدمی الگ ہوتا ہے تو پھر اسے سوچنے کا اچھا موقعہ ملتا ہے اور گذشتہ باتوں پر غور کرکے وہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے ۔
{ 107} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی سید سرور شاہ صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا اور مجسٹریٹ نے تاریخ ڈالی ہوئی تھی اور حضرت صاحب قادیان آئے ہوئے تھے حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا کہ میں جاکر وہاں بعض حوالے نکال کر تیار رکھوں کیونکہ اگلی پیشی میں حوالے پیش ہونے تھے ۔میرے ساتھ شیخ حامد علی اور عبدالرحیم نائی باورچی کو بھی حضور نے گورداسپور بھیج دیا ۔جب ہم گورداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم کوآواز دی کہ وہ نیچے آویںاور دروازہ کھولیں۔ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت مکان میں اوپر ٹھہر ے ہوئے تھے۔ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہوکررونا اور چلّا ناشروع کر دیا ۔ ہم نے کئی آوازیں دیںمگر وہ اسی طرح روتے رہے آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے ۔ ہم نے سبب پوچھا تو انہوںنے کہا کہ میرے پاس محمد حسین منشی آیا تھا۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ محمد حسین مذکور گورداسپور میں کسی کچہری میںمحرریا پیشکار تھااور سلسلہ کا سخت مخالف تھا۔اور مولو ی محمد حسین بٹالوی کے ملنے والوں میںسے تھا۔خیر ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ محمدحسین منشی آیا اوراس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاںآریوں کا جلسہ ہو ا ہے۔بعض آریے اپنے دوستوںکو بھی جلسہ میں لے گئے تھے چنانچہ اسی طرح میں بھی وہاںچلا گیا۔جلسہ کی عام کارروائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب جلسہ کی کارروائی ہو چکی ہے اب لوگ چلے جاویںکچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں چنانچہ سب غیر لوگ اُٹھ گئے میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے آپ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاویں یاباہر انتظار کریںچنانچہ میں وہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اُٹھااور مجسٹریٹ کومرزا صاحب کا نام لے کر کہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے ۔اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظرآپ کی طرف ہے اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوںگے اوراسی قسم کی جوش دلانے کی باتیں کیں ۔اس پر مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچا دوںمگر کیا کیا جاوے کہ مقدمہ ایسا ہوشیاری سے چلایا جارہاہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی لیکن اب میں عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہوا س پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آئوںگا ۔ مولوی صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ آپ یہ نہیںسمجھے ہوںگے کہ عدالتی کارروائی سے کیا مراد ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میںجب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کر کے حوالات میں دے دے ۔محمد حسین نے کہا ۔ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپ کے سلسلہ کا سخت مخالف ہوں مگرمجھ میں یہ بات ہے کہ میں کسی معزز خاندان کو ذلیل و برباد ہوتے خصوصاً ہندوئو ں کے ہاتھ سے ذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کا خاندان ضلع میں سب سے زیادہ معزز ہے ۔پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچادی ہے کہ آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں ۔اور میرے خیال میں دو تجویزیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہو مگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کردیں ۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی سخت خوف زدہ ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ اسی وقت قادیان کوئی آدمی روانہ کر دیا جاوے جو حضرت صاحب کو یہ واقعات سناوے ۔را ت ہوچکی تھی ہم نے یکہ تلاش کیا اور گو کئی یکے موجود تھے مگر مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ کوئی یّکہ نہ ملتا تھا ہم نے چارگنے کرایہ دینا کیا مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبدالرحیم باورچی اور ایک تیسرے شخص کو قادیان پیدل روانہ کیا ۔وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب سے مختصراً عرض کیا حضور نے بے پروائی سے فرمایا خیر ہم بٹالہ چلتے ہیںخوا جہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے واپس آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیںگے ان سے ذکر کریں گے اور وہاںپتہ لگ جائے گا کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا۔چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے ۔گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خوا جہ صاحب بھی مل گئے انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی ۔پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور راستہ میں خوا جہ صاحب اور مولوی صاحب کو اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیںدی ۔جب آپ گورداسپور مکان پر پہنچے تو حسب عادت الگ کمرے میں چارپائی پر جالیٹے مگراس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہوگا ۔ حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا ۔میں گیا اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوںکے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دیئے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے۔میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سر کا سہارا دے کر لیٹ گئے اور مجھ سے فرمایا میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیاہے ۔اس وقت کمرے میں کوئی اور آدمی نہیں تھا صرف دروازے پر میاں شادی خان کھڑے تھے ۔ میں نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر اسماعیل خان صاحب کو روتے ہوئے پایا پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سنایا ۔حضور خاموشی سے سنتے رہے جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یکلخت حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیںاور چہرہ سُرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا میں اس کا شکار ہوں ! میںشکار نہیںہوں میں شیرہوں اور شیر بھی خدا کا شیر ۔وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتاہے ؟ ایسا کر کے تو دیکھے ۔ یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ کمرے کے باہر بھی سب لوگ چونک اُٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہوگئے مگر کمرے کے اندر کو ئی نہیں آیا ۔حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیںجاتا تھا ۔پھر آپ نے فرمایا میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پائوں میں لوہا پہننے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچائوں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا ۔پھر آپ محبت الٰہی پر تقریرفرمانے لگ گئے اور قریباً نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو اُبکائی آئی اور ساتھ ہی قے ہوئی جو خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا ۔ حضرت نے قے سے سر اُٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں۔مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ قے میں کیا نکلا ہے کیونکہ آپ نے یکلخت جھک کر قے کی اور پھر سر اُٹھالیا ۔مگر میں اس کے دیکھنے کے لئے جھکا تو حضور نے فرمایا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضورقے میں خون نکلا ہے ۔تب حضور نے اس کی طرف دیکھا ۔پھر خوا جہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے سب لوگ کمرے میں آگئے اورڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر انگریزتھا ۔وہ آیا اور قے دیکھ کر خوا جہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طر ح خون کی قے آنا خطر ناک ہے ۔پھر اس نے کہا کہ یہ آرام کیوں نہیںکرتے؟ خوا جہ صاحب نے کہا آرام کس طرح کریںمجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاںڈال کر تنگ کرتے ہیںحالانکہ معمولی مقدمہ ہے جو یونہی طے ہوسکتا ہے۔ اس نے کہا اس وقت آرام ضروری ہے میں سرٹیفکیٹ لکھ دیتا ہوں ۔ کتنے عرصہ کیلئیسرٹیفکیٹچاہئیے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا میرے خیال میںدو مہینے آرام کرنا چاہئیے ۔خوا جہ صاحب نے کہا کہ فی الحال ایک مہینہ کا فی ہوگا ۔اس نے فوراً ایک مہینے کیلئیسرٹیفکیٹلکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں مَیںان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیںسمجھتا ۔اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا ۔ مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جاوے ۔کیونکہ دوسرے دن پیشی تھی اور حضورگورداسپور آکر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جارہے تھے مگر حضرت صاحب کے چہرہ پربالکل اطمینان تھاچنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے۔بعد میںہم نے سنا کہ مجسٹریٹ نیسرٹیفکیٹپر بڑی جرح کی اور بہت تلملایااور ڈاکٹر کو شہادت کے لئے بلایا مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا کہ میرا سر ٹیفکیٹ بالکل درست ہے اور میںاپنے فن کا ماہر ہوں اس پر میرے فن کی روسے کوئی اعتراض نہیں کر سکتااور میرا سرٹیفکیٹتمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے ۔مجسٹریٹ بڑ بڑاتا رہا مگر کچھ پیش نہ گئی۔پھر اسی وقفہ میں اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہوگیا ۔اور نیز کسی ظاہراً نا معلوم وجہ سے اس کا تنزل بھی ہو گیایعنی وہ ای اے۔سی سے منصف کر دیا گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس مجسٹریٹ کا نام چندولال تھا اور وہ تاریخ جس پر اس موقعہ پر حضرت صاحب نے پیش ہو نا تھا غالباً ۱۶،فروری ۱۹۰۴ء تھی ۔
{ 108} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ حضور حدیث میں آتا ہے کہ سب نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں کیا کبھی حضور نے بھی چرائی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں ایک دفعہ باہر کھیتوں میں گیا وہاں ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا اس نے کہا کہ میں ذرا ایک کام جاتا ہوں آپ میری بکریوں کا خیال رکھیںمگر وہ ایسا گیا کہ بس شام کو واپس آیا اور اس کے آنے تک ہمیں اس کی بکریاں چرانی پڑیں ۔
{ 109} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ جب فتح اسلام ، توضیح مرام شائع ہوئیں تو ابھی میرے پاس نہ پہنچی تھیں اورایک مخالف شخص کے پاس پہنچ گئی تھیں ۔اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو اب میں مولوی صاحب کو یعنی مجھے مرزا صاحب سے علیحد ہ کئے دیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مولوی صاحب ! کیا نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کر ے تو پھر ؟ میں نے کہا تو پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا وہ صادق اور راستباز ہے یا نہیں ۔اگر صادق ہے تو بہر حال اس کی بات کو قبول کریں گے ۔میرا یہ جواب سن کر وہ بولا ۔ واہ مولوی صاحب آپ قابو نہ ہی آئے ۔یہ قصہ سناکر حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ تو صرف نبوت کی بات ہے میرا تو ایمان ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود صاحب شریعت نبی ہو نے کا دعویٰ کریں اور قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو پھر بھی مجھے انکا ر نہ ہو کیونکہ جب ہم نے آپ کو واقعی صادق اور منجانب اللہ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرمائیں گے وہی حق ہوگا او رہم سمجھ لیں گے کہ آیت خاتم النبیین کے کوئی اور معنی ہوں گے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی جب ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یقینی دلائل کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر اس کے کسی دعویٰ میں چون و چرا کرنا باری تعالیٰ کا مقابلہ کرنا ٹھہرتا ہے ۔
(مگر ویسے حضرت مولوی صاحب نے جو کچھ فرمایا ۔ وہ صرف ایک اصولی رنگ کی بات تھی۔ ورنہ ہمارا ایمان ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ہے کہ قرآنی شریعت آخری شریعت ہے۔ پس حضرت مولوی صاحب کے یہ الفاظ اسی رنگ کے سمجھے جائیں گے۔جس رنگ میں اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْن ـ (الزخرف:۸۲)
{ 110} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ پسر موعود کی پیشگوئی کے بعد حضرت صاحب ہم سے کبھی کبھی کہاکرتے تھے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو جلد وہ موعود لڑکا عطا کرے ۔ ان دنوں میںحضرت کے گھر امید واری تھی ۔ایک دن بارش ہوئی تو میں نے مسجد مبارک کے اوپر صحن میں جاکر بڑی دعا کی کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے سنا ہوا تھا کہ اگر بارش میں دعا کی جاوے توزیادہ قبول ہوتی ہے ۔پھر مجھے دعا کرتے کرتے خیال آیا کہ باہر جنگل میں جاکر دعا کروں کیونکہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بھی سنا ہوا تھا کہ باہر جنگل کی دعا بھی زیادہ قبول ہوتی ہے اور میں نے غنیمت سمجھا کہ یہ دو قبولیت کے موقعے میرے لئے میسر ہیں ۔ چنانچہ میں قادیان سے مشرق کی طرف چلا گیا اور باہر جنگل میں بارش کے اندر بڑی دیر تک سجدہ میں دعا کرتا رہا ۔ گویا وہ قریباً سارا دن میرا بارش میں ہی کٹا ۔اسی دن شام یا دوسرے دن صبح کو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ــ’’ ان کو کہہ دو انہوں نے رنج بہت اُٹھا یا ہے ثواب بہت ہوگا ‘‘ ۔میں نے عرض کیا حضور یہ الہام تو میرے متعلق معلوم ہوتا ہے حضور نے فرمایا کس طرح ؟ میں نے اپنی دعا کا سارا قصہ سنایا ۔حضورخوش ہوئے اور فرمایا ایسا ہی معلوم ہوتاہے پھر میں نے اس خوشی میں ایک آنہ کے پتاشے بانٹے ۔مگر اس وقت میں اس کے اصل معنے نہیںسمجھا ۔پھر جب عصمت پیدا ہوئی تو میں سمجھا کہ دراصل اس الہام میں یہ بتا یا گیا تھا کہ گودعا قبول نہیں ہوگی مگر مجھے ثواب پہنچ جائے گا ۔
{ 111} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب ابھی حضور نے سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا تھا میں نے ایک دفعہ حضرت سے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لیں ۔آپ نے فرمایا پیر کا کام بھنگی کاسا کام ہے اسے اپنے ہاتھ سے مرید کے گندنکال نکال کر دھونے پڑتے ہیں اور مجھے اس کام سے کراہت آتی ہے ۔میںنے عرض کیا حضور تو پھر کوئی تعلق تو ہونا چاہیے میں آتا ہوں اور اوپرا اوپرا چلاجاتا ہوں۔ حضور نے فرمایا اچھا تم ہمارے شاگرد بن جائو اور ہم سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑ ھ لیا کرو ۔پھر عید کے دن حضور نے فرمایا جائو ایک آنہ کے پتاشے لے آئو تا باقاعدہ شاگرد بن جائو ۔میں نے پتاشے لاکر سامنے رکھ دیئے جو حضور نے تقسیم فرمادیئے اور کچھ مجھے بھی دے دیئے ۔پھر حضور مجھے ایک ہفتہ کے بعد ایک آیت کے سادہ معنے پڑھا دیا کرتے تھے اور کبھی کسی آیت کی تھوڑی سی تفسیر بھی فرمادیتے تھے ۔ ایک دن فرمایا میاں عبداللہ میں تم کو قرآن شریف کے حقائق و معارف اس لئے نہیں بتا تا کہ میںتم میں ان کے برداشت کر نے کی طاقت نہیں دیکھتا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ اس کامطلب میںیہ سمجھا ہوں کہ اگر مجھے اس وقت وہ بتائے جاتے تو میں مجنون ہو جاتا ۔مگر میں اس سادہ ترجمہ کا ہی جو میں نے آپ سے نصف پارہ کے قریب پڑھا ہوگا اب تک اپنے اندر فہم قرآن کے متعلق ایک خاص اثر دیکھتا ہوں نیز میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور میں جب قادیان آتا ہوں تو اور تو کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوتی مگر میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہاں وقتاً فوقتاً یکلخت مجھ پر بعض آیات قرآنی کے معنے کھولے جاتے ہیں اور میں اس طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے دل پر معانی کی ایک پوٹلی بندھی ہوئی گرادی جاتی ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں قرآن شریف کے معارف دے کر ہی مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی خدمت ہمارا فرض مقرر کی گئی ہے پس ہماری صحبت کا بھی یہی فائدہ ہونا چاہئیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے حاجی عبدالمجید صاحب لدھیانوی نے بھی بیان کیا کہ ہمارے پہلے پیر منشی احمد جان صاحب مرحوم نے بھی حضرت صاحب سے بیعت کی درخواست کی تھی مگر حضور نے فرمایا لَسْتُ بِمَأْمُوْرٍ یعنی مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل نے بھی جب حضور سے بیعت کی درخواست کی تھی تو حضور نے یہی جواب دیا تھا کہ مجھے اس کا حکم نہیں ملا پھر بعد میں جب حکم ہوا تو حضور نے بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا ۔
{ 112} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں ٹہل رہے تھے ۔میں ایک کونہ میں قرآن شریف پڑھنے بیٹھ گیا ۔اس وقت اور کوئی شخص مسجد میں نہیں تھا ۔ حضور نے ٹہلتے ٹہلتے ایک دفعہ ٹھہر کر میری طرف دیکھا او ر میں نے بھی اسی وقت آپ کی طرف دیکھا تھا ۔جب میری اور حضور کی نظر ملی تو خبر نہیں اس وقت حضور کی نظر میں کیا تھا کہ میرا دل میرے سینہ کے اندر پگھل گیا اور میں نے دعا کے لئے ہاتھ اُٹھالئے اور بڑی دیر تک دعا کرتا رہا اور حضور ٹہلتے رہے پھر آخر حضور نے ہی مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ دعا بہت ہوچکی اب بند کرو ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے میں نے اس دن سمجھا کہ یہ جو کہاجاتا ہے کہ بعض وقت کامل کی ایک نظر انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اس کا کیامطلب ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب حضور کی محبت اور شفقت یاد آتی ہے تو میری جان گداز ہوجاتی ہے ۔
{ 113} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ میں شروع میں حُقَّہ بہت پیا کرتا تھا۔شیخ حامد علی بھی پیتا تھا ۔کسی دن شیخ حامد علی نے حضرت صاحب سے ذکر کر دیا کہ یہ حُقَّہ بہت پیتا ہے ۔اس کے بعد میں جو صبح کے وقت حضرت صاحب کے پاس گیا اور حضور کے پائوں دبانے بیٹھا تو آپ نے شیخ حامد علی سے کہا کہ کوئی حُقَّہ اچھی طرح تازہ کر کے لائو جب شیخ حامد علی حُقَّہ لایا تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ پیو ۔میں شرما یا مگر حضرت صاحب نے فرمایا جب تم پیتے ہو تو شرم کی کیا بات ہے ۔پیو کوئی حرج نہیں۔ میں نے بڑی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا ۔پھر حضور نے فرمایا میاں عبداللہ مجھے اس سے طبعی نفرت ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے بس میں نے اسی وقت سے حقہ ترک کر دیا اور اس ارشاد کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی ۔پھر ایک دفعہ میرے مسوڑھوں میں تکلیف ہوئی تو میں نے حضور سے عرض کیا کہ جب میں حقہ پیتا تھا تو یہ درد ہٹ جاتا تھا ۔حضور نے جواب دیا کہ ’’ بیماری کیلئے حُقَّہ پینا معذوری میں داخل ہے اور جائز ہے جب تک معذوری باقی ہے ۔‘‘ چنانچہ میں نے تھوڑی دیر تک بطور دوا استعمال کر کے پھر چھوڑ دیا ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور کے گھر میں حُقَّہ استعمال ہوتا تھا ۔ایک دفعہ حضور نے مجھے گھر میں ایک توڑا ہوا حُقَّہ کیلی پر لٹکا ہوا دکھا یا اور مسکرا کر فرمایا ہم نے اسے توڑ کر پھانسی دیا ہوا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گھر میں کوئی عورت شاید حُقَّہ استعمال کرتی ہوگی ۔
{ 114} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب قادیان کے شمالی جانب سیر کے لئے تشریف لے گئے۔میں اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔راستہ کے اوپر ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بڑا عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ میں گرا ہوا تھا ۔ میں نے چلتے چلتے اسے اُٹھا لیا اور کھانے لگا ۔حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھائو اور وہیں رکھ دو آخر یہ کسی کی ملکیت ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے آج تک میں نے کسی بیری کے بیر بغیر اجازت مالک اراضی کے نہیں کھائے کیونکہ جب میں کسی بیری کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات یاد آجاتی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس ملک میں بیریاں عموماً خود رو ہوتی ہیں اور ان کے پھل کے متعلق کوئی پروا نہیںکی جاتی ۔
{ 115} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل کے پاس کسی کا خط آیا کہ کیا نماز میں ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی ہے ؟ حضرت مولوی صاحب نے یہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ اس بارہ میں جو حدیثیں ملتی ہیں وہ جرح سے خالی نہیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ تلاش کریں ضرور مل جائے گی کیونکہ باوجود اس کے کہ شروع عمر میں بھی ہمارے اردگرد سب حنفی تھے مجھے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا کبھی پسند نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ طبیعت کا میلان ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی طرف رہا ہے اور ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جس بات کی طرف ہماری طبیعت کا میلا ن ہو وہ تلاش کر نے سے ضرور حدیث میںنکل آتی ہے ۔خواہ ہم کو پہلے اُس کا علم نہ ہو۔ پس آپ تلاش کر یں ضرور مل جائے گی ۔مولوی سرور شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس پر حضرت مولوی صاحب گئے اور کوئی آدھا گھنٹہ بھی نہ گذرا تھا کہ خوش خوش ایک کتا ب ہاتھ میںلئے آئے اور حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ حضور حدیث مل گئی ہے اور حدیث بھی ایسی کہ جو علی شرط الشیخین ہے جس پر کوئی جرح نہیں ۔پھر کہا کہ یہ حضور ہی کے ارشاد کی برکت ہے ۔
{ 116} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گوبراہین احمدیہ کی تالیف اور اسکے متعلق مواد جمع کرنے کا کام پہلے سے ہو رہا تھا مگر براہین احمدیہ کی اصل تصنیف اور اس کی اشاعت کی تجویز ۱۸۷۹ء سے شروع ہوئی اور اس کا آخری حصہ یعنی حصہ چہارم۱۸۸۴ء میں شائع ہوا ۔براہین کی تصنیف سے پہلے حضرت مسیح موعود ایک گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور گوشہ نشینی میں درویشانہ حالت تھی ۔گو براہین سے قبل بعض اخباروں میں مضامین شائع کر نے کا سلسلہ آپ نے شروع فرما دیا تھا اور اس قسم کے اشتہارات سے آپ کا نام ایک گونہ پبلک میں بھی آگیا تھا مگر بہت کم ۔ہاں اپنے ملنے والوں میں آپ کی تبلیغ و تعلیم کا دائرہ عالم شباب سے ہی شروع نظر آتا ہے چنانچہ ۶۵،۱۸۶۴ء میں جب آپ ابھی بالکل نوجوان تھے آپ نے اپنے تبلیغی کام کے متعلق ایک رؤیا دیکھا تھا پھر انہی دنوں میں جب کہ آپ سیالکوٹ ملازم ہوئے تواس وقت کے متعلق بھی یقینی شہادت موجود ہے کہ آپ نے تبلیغ و تعلیم کا کام شروع فرما دیا تھا اور غیرمذاہب والوں سے آپ کے زبانی مباحثے ہوتے رہتے تھے مگر یہ سب محض پرائیویٹ حیثیت رکھتے تھے ،پبلک میں آپ نے تصنیف براہین سے صرف کچھ قبل یعنی ۷۸،۱۸۷۷ء میں آنا شروع کیا اور مضامین شائع کر نے شروع فرمائے اور تبلیغی خطوط کا دائرہ بھی وسیع کیا ۔مگر دراصل مستقل طور پر براہین احمدیہ کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگائو رکھنے والے طبقہ میں آپ کاانٹروڈکشن ہوا اور لوگوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اُٹھنی شروع ہوئیں جس نے اس تحدّی اور اتنے بڑے انعام کے وعدہ کے ساتھ اسلا م کی حقانیت کے متعلق ایک عظیم الشان کتاب لکھنے کا اعلان کیا ۔اب گویا آفتاب ہدایت جو لاریب اس سے قبل طلوع کر چکا تھا اُفق سے بلند ہو نے لگا ۔اس کے بعد براہین احمدیہ کی اشاعت نے ملک کے مذہبی حلقہ میں ایک غیرمعمولی تموج پیدا کر دیا ۔مسلمانوں نے عام طور پر مصنف براہین کا ایک مجدّد ذی شان کے طور پر خیرمقدم کیا اور مخالفین اسلام کے کیمپ میں بھی اس گولہ باری سے ایک ہلچل مچ گئی ۔خود مصنف کے لئے بھی تصنیف براہین کا زمانہ ایک حالت میں نہیں گذرا بلکہ وہ جو شروع تصنیف میں ایک عام خادم اسلام کے طور پر اُٹھا تھا ۔دوران تصنیف میں تجلّی الٰہی کے خاص جلوے موسیٰ عمران کی طرح اسے کہیں سے کہیں لے گئے اور اختتام تصنیف براہین سے قبل ہی وہ ایک پرائیویٹ سپاہی کی طرح نہیں بلکہ شہنشاہ عالم کی طرف سے ایک مامور جرنیل کے طور پر میدان کا رزار میںھَلْ مِنْ مُّبَارِزٍ پکاررہا تھا۔خلاصہ یہ کہ براہین احمدیہ کی تصنیف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملک کے علم دوست اور مذہبی امور میں دلچسپی رکھنے والے طبقہ میں ایک بہت نمایاں حیثیت دے دی تھی اور خاص معتقدین کا ایک گروہ بھی قائم ہوگیاتھااور قادیان کا گمنام گائوں جو ریل اور سڑک سے دور پر دۂ پوشیدگی کے نیچے مستور تھا اب گاہے گاہے بیرونی مہمانوں کا منظر بننے لگا تھا اور مخالفین اسلام بھی اپنے منہ کی پھونکوں سے اس نور کوبجا نے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ براہین کی اشاعت کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ نے بیس ہزار اردو اور انگریزی اشتہاروں کے ذریعہ دنیاکے تمام ممالک میں اپنی ماموریت کا اعلان فرمایا ۔اس کے بعد جب شروع ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود ؑ نے خدائی حکم کے ماتحت ہوشیار پور جاکر وہاں چالیس دن خلوت کی اور ذکر خدا میںمشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو ایک عظیم الشان بیٹے کی بشارت دی جس نے اپنے مسیحی نفس سے مصلح عالم بن کر دنیا کے چاروں کونوں میں شہرت پانی تھی ۔یہ الہام اس قدر جلال اور شان وشوکت کے ساتھ ہوا کہ جب حضور نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں اس کا اعلان فرمایا توا س کی وجہ سے ملک میں ایک شور بر پا ہوگیااور لوگ نہایت شوق کے ساتھ اس پسر موعود کی راہ دیکھنے لگے ۔اور سب نے اپنے اپنے خیال کے مطابق اس پسر موعود کے متعلق امیدیں جمالیں ۔بعض نے اس پسر موعود کو مہدی معہود سمجھا جس کا اسلام میںوعد ہ دیا گیا تھا اور جس نے دنیا میں مبعوث ہو کر اسلام کے دشمنوں کو ناپید اور مسلمانوں کو ہر میدان میںغالب کرنا تھا ۔بعض نے اورا سی قسم کی امیدیںقائم کیںاور بعض تماشائی کے طور پر پیشگوئی کے جلال اور شان و شوکت کودیکھ کر ہی حیرت میں پڑ گئے تھے اوربغیر کوئی امید قائم کئے اس انتظارمیں تھے کہ دیکھئے پردۂ غیب سے کیا ظہور میںآتاہے ۔غیر مذاہب والوںکو بھی اس خبر نے چونکا دیا تھا۔غرض اس وحی الٰہی کی اشاعت رجوع عام کا باعث ہوئی۔ان دنوں حضور کے ہاں بچہ پیدا ہونیوالا تھامگر اللہ نے بھی ایمان کے راستہ میں ابتلا رکھے ہوتے ہیں۔سو قدرت خدا کہ چند ماہ کے بعد یعنی مئی ۱۸۸۶ء میں بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی تھی اس پر خوش اعتقادوں میں مایوسی اور بداعتقادوں اور دشمنوں میں ہنسی اوراستہزا کی ایک ایسی لہر اُٹھی کہ جس نے ملک میں ایک زلزلہ پیدا کردیا اس وقت تک بیعت کا سلسلہ تو تھا ہی نہیںکہ مریدین الگ نظر آتے بس عام لوگوں میں چہ میگوئی ہورہی تھی کہ یہ کیا ہوا۔کوئی کچھ کہتا تھا کو ئی کچھ ۔حضور نے بذریعہ اشتہار اور خطوط اعلان فرمایا کہ وحی الٰہی میں یہ نہیں بتا یا گیا تھا کہ اس وقت جو بچہ کی امید واری ہے تو یہی وہ پسر موعود ہوگا اور اس طرح لوگوں کی تسلی کی کوشش کی چنانچہ اس پر اکثر لوگ سنبھل گئے اور پیشگوئی کے ظہور کے منتظر رہے ۔کچھ عرصہ بعد یعنی اگست ۱۸۸۷ء میں حضرت کے ہاں ایک لڑ کا پیدا ہوا جس کا نام بشیر احمد رکھا گیا ۔ اس لڑکے کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی گئی اور کئی لوگ جو متزلزل ہوگئے تھے پھر سنبھل گئے اور لوگوں نے سمجھا کہ یہی وہ موعود لڑکا ہے اور خود حضرت صاحب کو بھی یہی خیال تھا ۔ گو آپ نے اس کے متعلق کبھی قطعی یقین ظاہر نہیں کیا مگر یہ ضرور فرماتے رہے کہ قرائن سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ لڑکا ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔
غرض بشیر اول کی پیدائش رجوع عام کا باعث ہوئی مگر قدرت خدا کہ ایک سال کے بعد یہ لڑکا اچانک فوت ہوگیا ۔بس پھر کیا تھا ملک میں ایک طوفان ِ عظیم بر پا ہوا اور سخت زلزلہ آیا حتیّٰ کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری کا خیال ہے کہ ایسا زلزلہ عامۃ الناس کے لئے نہ اس سے قبل کبھی آیا تھا نہ اس کے بعد آیا گویا وہ دعویٰ مسیحیت پرجوزلزلہ آیا تھا اسے بھی عامۃ الناس کیلئے اس سے کم قرار دیتے ہیں ۔مگر بہر حال یہ یقینی با ت ہے کہ اس واقعہ پر ملک میں ایک سخت شور اُٹھا اور کئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکا لگا کہ وہ پھر نہ سنبھل سکے ، مگر تعجب ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی اس واقعہ کے بعد بھی خوش اعتقاد رہا ۔حضر ت صاحب نے لوگوں کو سنبھالنے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی بھر مار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ میں نے کبھی یہ یقین ظاہر نہیں کیا تھا کہ یہی وہ لڑکا ہے ہاںیہ میں نے کہا تھاکہ چونکہ خاص اس لڑکے کے متعلق بھی مجھے بہت سے الہام ہوئے ہیں جن میں اس کی بڑی ذاتی فضیلت بتا ئی گئی تھی اس لئے میرا یہ خیال تھا کہ شاید یہی وہ موعود لڑکا ہو مگر خدا کی وحی میں جو اس معاملہ میں اصل اتباع کے قابل ہے ہر گز کو ئی تعیین نہیں کی گئی تھی غرض لوگوں کو بہت سنبھالا گیا چنانچہ بعض لوگ سنبھل گئے لیکن اکثر وں پر مایوسی کا عالم تھا اورمخالفین میں پر لے درجہ کے استہزاء کا جوش تھا ۔اس کے بعد پھر عامۃ الناس میں پسر موعود کی آمد آمد کا اس شدو مد سے انتظار نہیں ہوا جو اس سے قبل تھا ۔اس کے بعد یکم دسمبر۱۸۸۸ء کو حضور نے خداکے اس حکم کے مطابق جو اس سے قریباً دس ماہ پہلے ہوچکا تھا سلسلہ بیعت کا اعلان فرمایا اور سب سے پہلے شروع ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ میں بیعت لی ۔ مگر اس وقت تک بھی مسلمانوں کا عام طور پر حضرت مسیح موعود ؑکی ذات کے متعلق خیال عموماً بہت اچھاتھا اور اکثر لوگ آپ کو ایک بے نظیر خاد م اسلام سمجھتے تھے ۔صرف اتنا اثرہوا تھاکہ لوگوں میں جو پسر موعود کی پیشگوئی پر ایک عام رجوع ہوا تھا اس کا جوش ان دو لگاتار مایوسیوں نے مدھم کر دیا تھا اور عامۃ الناس پیچھے ہٹ گئے تھے ہاں کہیں کہیں عملی مخالفت کی لہر بھی پیدا ہو نے لگی تھی ۔اس کے بعد آخر ۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود نے خدا سے حکم پا کر رسالہ فتح اسلام تصنیف فرمایا جو ابتداء ۱۸۹۱ء میں شائع ہوا۔ اس میں آپ نے حضرت مسیح ناصری کی وفات اور اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان فرمایا ۔اس پر ملک میںایک زلزلہ عظیم آیا جو پہلے سب زلزلوں سے بڑا تھا بلکہ ایک لحاظ سے پچھلے اور پہلے سب زلزلوں سے بڑا تھا۔ ملک کے ایک کونہ سے لیکر دوسرے کونے تک جوش و مخالفت کا ایک خطرناک طوفان بر پا ہوا اور علماء کی طرف سے حضرت صاحب پر کفر کے فتوے لگا ئے گئے اور آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا اور چاروں طرف گویا ایک آگ لگ گئی ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی بھی جو اب تک بچا ہوا تھا اسی زلزلہ کا شکار ہوا اور یہ سب سے پہلا شخص تھا جو کفر کا استفتاء لے کر ملک میں ادھر اُدھر بھاگا ۔بعض بیعت کنندے بھی متزلزل ہو گئے۔اس کے بعد چوتھا زلزلہ آتھم کی پیشگوئی کی پندرہ ماہی میعاد گذر نے پر آیا ۔یہ دھکا بھی اس وقت کے لحاظ سے نہایت کڑا دھکا تھا مگر جماعت حضرت صاحب کی تربیت کے نیچے ایک حد تک مستحکم اورسنت اللہ سے واقف ہو چکی تھی اس لئے برداشت کر گئی لیکن مخالفوں میں سخت مخالفت و استہزاء کی لہر اُٹھی ۔اس کے بعد زلزلہ کے خفیف خفیف دھکے آتے رہے مگر وہ قابل ذکر نہیں لیکن سب کے آخر میں جماعت پر پانچواں زلزلہ آیا یہ حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کازلزلہ تھا۔اس دھکے نے بھی اس وقت سلسلہ کی عمارت کو بنیاد تک ہلا دیا تھا اور یہ وہ زلزلہ عظیم تھاجسے زلزلۃ الساعۃ کہنا چاہئیے ،اور اسکو زیادہ خطر ناک اس بات نے کر دیا تھا کہ اس سے پہلے زلزلے خواہ کیسے بھی سخت تھے مگر حضرت مسیح موعود کا مقناطیسی وجود لوگوں کے اندر موجود تھا اورآپ کا ہاتھ ہر گرتے ہوئے کو سنبھالنے کیلئے فوراً آگے بڑھتا تھا مگر اب وہ بات نہ تھی ۔یہ وہ پانچ زلزلے تھے جو حضرت مسیح موعود کے متعلق آپ کی جماعت پر آئے ۔ان کے بعد حضرت خلیفہ اوّل کی وفات پر بھی سخت زلزلہ آیا مگر وہ اور نوعیت کا تھا اور نیز وہ خاص جماعت احمدیہ کے متعلق تھا ۔یعنی یہ دھکا حضرت مسیح موعود کے متعلق نہیں تھایعنی ایسا واقعہ نہیں تھا جو آپ کے صدق دعویٰ کے متعلق کمزور دلوں میں عام طور پر کوئی اشتبا ہ پیداکر سکے اس کے بعد اور بھی آئندہ سنت اللہ کے موافق اور حضر ت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق مصائب کی آندھیاں آئیں گی مگر یہ پانچ زلزلے اپنی نوعیت میں اور ہی رنگ رکھتے ہیں اور یہ عبارت لکھتے لکھتے خاکسار کو خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کو جو پانچ زلزلوں کی خبر دی گئی تھی اور آخری زلزلہ کو زلزلۃ الساعۃ کہا گیا تھا وہ گو دنیا کے واسطے الگ بھی مقدر ہوںمگر اس میں شک نہیں کہ ان پانچ زلزلوں پر بھی آپ کی اس پیشگوئی کے الفاظ صادق آتے ہیں ۔
{ 117} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضر ت صاحب کے پاس آیا ۔اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا حضرت صاحب نے اسے فرمایا آپ روزہ کھول دیں اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سا دن رہ گیا ہے اب کیا کھولنا ہے ۔حضور نے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کوراضی کرنا چاہتے ہیں ۔خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔جب اس نے فر ما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیںرکھنا چاہیے ۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا ۔ خاکسار عرض کر تا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضر ت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے با ہر جانا پڑگیا چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصرکے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہو ئے فرمایا کہ اگر آپکو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی ۔
{ 118} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیاہماری تائی صاحبہ نے کہ میرے تایا (یعنی خاکسار کے دادا صاحب ) کبھی کبھی مرزا غلام احمدیعنی حضر ت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیتی یا مسیتڑکہا کرتے تھے۔ تائی صاحبہ نے کہا کہ میرے تایا کو کیا علم تھا کہ کسی دن ان کی خوش قسمتی کیا کیا پھل لائے گی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسیتی پنجابی میں اسے کہتے ہیں جو ہروقت مسجد میں بیٹھا رہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنا ہے کہ بعض دوسرے لوگ بھی حضرت صاحب کے متعلق یہ لفظ بعض اوقات استعمال کر دیتے تھے۔
{ 119} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جب گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ حضرت صاحب کا مقدمہ تھا تو ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ کوئی کہتا ہے کہ حضرت صاحب کو امرتسر میں سولی پر لٹکا یا جائے گاتا کہ قادیان والوں کوآسانی ہو۔میں نے یہ خواب حضرت صاحب سے بیان کیاتو حضرت صاحب خوش ہوئے اور کہا کہ یہ مبشر خواب ہے ۔والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب سولی پر چڑھنے کی یہ تعبیر کیا کرتے تھے کہ عزت افزائی ہوگی ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ اس مقدمہ میں پھر اپیل ہو کر امرتسر میں ہی آپ کی بریت کا فیصلہ ہوا ۔نیز بیان کیا حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جن دنوںمیں یہ مقدمہ تھا ایک دفعہ حضرت صاحب نے گھر میں ذکر کیا کہ مجسٹریٹ کی نیت بہت خراب معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ مجسٹریٹ کی بیوی نے خواب دیکھاہے کہ اگر اس کا خاوند کوئی ایسی ویسی بات کرے گا توا س کے گھر پر وبال آئیگاچنانچہ اس نے اپنے خاوند کو یہ خواب سنا دیا ہے اور کہا ہے کہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر ے۔والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جب مجسٹریٹ کا ایک لڑکامر گیا تواس کی بیوی نے اسے کہاکہ کیا تو نے گھر کو اجاڑکر چھوڑناہے ؟ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ جس دن اس مقدمہ کا فیصلہ سنا یا جا نا تھااس دن کئی لوگ اپنی جیبوںمیں روپیہ بھر کر لے گئے تھے کہ اگر مجسٹریٹ جرمانہ کرے تو ادا کر دیں ۔اور نواب محمد علی خان صاحب بھی لاہور سے کئی ہزار روپیہ ساتھ لائے تھے ۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب بیان کر تے تھے کہ اس مقدمہ کے دنوں میں جہاںعدالت کے باہر درختوںکے نیچے حضرت صاحب بیٹھا کرتے تھے اس کے سامنے سے ہر روز ڈپٹی کمشنر گذر ا کرتا تھا کیونکہ یہی اس کا راستہ تھا ۔ایک دفعہ اس نے اپنے اردلی سے پوچھا کہ کیا یہ مقدمہ اب تک جاری ہے ؟ اس نے کہا ہاں ۔ڈپٹی کمشنر نے ہنس کر کہا اگر میرے پاس ہوتا تو میںایک دن میں فیصلہ کر دیتا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا ۔
{ 120} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ میں اور چند اورآدمی جن میں غالباً مولوی محمد علی صاحب اورخوا جہ کمال الدین صاحب بھی تھے حضرت صاحب سے ملنے کے لئے اندر آپ کے مکان میں گئے ۔اس وقت آپ نے ہم کو خربوزے کھانے کے لئے دیئے ۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جو خربوزہ مجھے آپ نے دیا وہ زیادہ موٹا تھا چنانچہ آپ نے دیتے ہوئے فرمایا اسے کھا کر دیکھیں یہ کیسا ہے ؟ پھر خود ہی مسکرا کر فرمایا موٹا آدمی منافق ہوتا ہے ۔یہ پھیکا ہی ہوگا ۔ مولوی صاحب کہتے ہیں چنانچہ وہ پھیکا نکلا۔مولوی صاحب نے یہ روایت بیان کر کے ہنستے ہوئے کہا کہ اس وقت میں دبلا ہوتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہر موٹا آدمی منافق ہوتا ہے بلکہ حضرت صاحب کا منشاء یہ معلو م ہوتا ہے کہ جو آرام طلبی کے نتیجہ میں موٹا ہوگیا ہو وہ منافق ہوتا ہے ۔
{ 121} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے چوہدری غلام محمد صاحب بی اے نے کہ جب میں۱۹۰۵ء میں قادیان آیا تو حضرت صاحب نے سبز پگڑی باندھی ہو ئی تھی ۔مجھے یہ دیکھ کر کچھ گراں گذرا کہ مسیح موعود ؑ کو رنگدار پگڑی سے کیا کام ۔پھر میں نے مقدمہ ابن خلدون میں پڑھا کہ آنحضرت ﷺ جب سبز لباس میں ہوتے تھے تو آپ کو وحی زیادہ ہوتی تھی۔
{ 122} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے ماسٹر محمد دین صاحب بی ۔اے نے کہ جب ہم حضرت مسیح موعودؑکی مجلس میں بیٹھتے تھے تو ہم خاص طور پر محسوس کر تے تھے کہ ہماری اندرونی بیماریاں دُھل رہی ہیںاور روحانیت ترقی کر رہی ہے لیکن جب آپ سے الگ ہوتے تھے تو پھر یہ بات نہ رہتی تھی ۔نیز بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب ہم حضرت صاحب کی مجلس میں ہوتے تھے تو خواہ اس سے پہلے کیسا ہی حال ہواس وقت طبیعت بہت ہی خوش رہتی تھی ۔
{ 123} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ۱۸۷۹ء میںبراہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تو اس وقت آپ براہین احمد یہ تصنیف فر ما چکے تھے اور کتا ب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحہ تک پہنچ گیا تھا اور اس میں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کئے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھاکہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہرہو جائے گی اور آپ کا ارادہ تھاکہ جب اس کے شائع ہو نے کا انتظام ہو تو کتا ب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اور اس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہید ی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی بھی زائد کرتے جاویں ۔چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیر ہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اور اس میں اصل ابتدائی تصنیف کا حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں ۔اس کااندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیا ن ہوئی ہے اور وہ بھی نا مکمل طورپر ۔ان چار حصوںکے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدائی تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتاہے کہ بعد میں اس ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہوگئے ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کے آخر میں جو اشتہار ’’ ہم اور ہماری کتاب ‘‘ کے عنوان کے نیچے دیا ہے اس میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ ابتدا میں جب براہین احمدیہ تصنیف کی گئی تو اور صورت تھی مگر بعد میں یعنی دوران اشاعت میں جب حواشی وغیرہ لکھے جارہے تھے اور کتاب طبع ہو کر شائع ہورہی تھی صورت بدل گئی یعنی جناب باری تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خلعت ماموریت عطا ہوا اور ایک اور عالم سے آپ کو اطلاع دی گئی اس پر آپ نے اپنے پہلے ارادوں کو ترک کر دیا اور سمجھ لیا کہ اب معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس طرح چاہے گا آپ سے خدمت دین کا کام لے گا ۔چنانچہ یہ جو اس کے بعد اَسی کے قریب کتابیں اور سینکڑوں اشتہارات اور تقریریں آپ کی طرف سے خدمت دین کے راستہ میںشائع ہوئیںاور اب آپ کی وفات کے بعد بھی جو خدمت دین آپ کے متبعین کی طر ف سے ہورہی ہے یہ سب اسی کا نتیجہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کی جتنی صداقت ان تین سودلائل سے ثابت ہوتی جو آپ نے براہین احمدیہ میں تحریر فرمائے تھے اس سے کہیں بڑھ کر محض آپ کے وجود سے ہوئی جس کا ظہور بعد میں مہدویت اور مسیحیت کے رنگ میں ہوا ۔گویا قطع نظر ان عظیم الشان تحریرات کے جو بعد میں خدا وند تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ سے شائع کر وائیں محض آپ کا وجود با جود ہی ان تین سو دلائل سے بڑھ کر صداقت اسلام پر روشنی ڈالنے والا ہے کیونکہ یہ تین سو دلائل تو بہر حال زیادہ تر عام عالمانہ رنگ میں لکھے گئے ہونگے لیکن آپ کا وجود جو شان نبوت میں ظاہر ہوا اپنے اندر اور ہی جذب اور طاقت رکھتا ہے ۔
{ 124} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ لالہ ملاوامل نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مرزا صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ۱ السلام نے مجھے ایک صندوقچی کھول کر دکھائی تھی جس میں ان کی ایک کتاب کا مسودہ رکھا ہوا تھا اور آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ بس میری جائیداد اور مال سب یہی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ براہین احمدیہ کے مسودہ کا ذکر ہے ۔
{ 125} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ پیر سراج الحق صاحب کو روزہ تھا مگر ان کو یاد نہ رہا اور انہوں نے کسی شخص سے پینے کے واسطے پانی منگایا ۔ اس پر کسی نے کہا آپ کو روزہ نہیں ؟ پیر صاحب کو یاد آگیا کہ میرا روزہ ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس وقت وہاں موجود تھے آپ پیر صاحب سے فرمانے لگے کہ روزہ میں جب انسان بھول کر کوئی چیز کھا پی لیتا ہے تو یہ خداکی طرف سے اس کی مہمانی ہو تی ہے ۔ لیکن آپ نے جو پانی کے متعلق سوال کیا اور سوال کرنا ناپسند یدہ ہوتاہے تو اس سوال کی وجہ سے آپ اس نعمت سے محروم ہو گئے ۔
{ 126} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ میں جب پہلی دفعہ قادیان آیا تو حضرت صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے والد صاحب کا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا حضور آپ نے کس کا نام لے دیا میرا والد تو بہت بُرا آدمی ہے ۔شراب پیتا ہے اور بُری بُری عادتیں ہیں حضرت صاحب نے فرمایا تو بہ کر و اپنے والد کے متعلق ایسا نہیں کہنا چاہئیے ۔پھرآپ نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ بعض اوقات ایک آدمی برے اعمال کر تے کرتے دوزخ کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے لیکن پھر وہ وہاں سے واپس ہوتا ہے اور نیک اعمال شروع کرتا ہے اور آخر جنت میں داخل ہو جا تا ہے ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میرے والدصاحب کی حالت میں تغیر آیا اور پھر آخران کا انجام نہایت اچھا ہوا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ان کی عشق کی سی حالت ہو گئی تھی ۔
{ 127} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کر تا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی ہمشیرہ مرادبی بی مرزا غلام غوث ہوشیار پوری کے ساتھ بیاہی گئی تھی مگر مرزا محمد بیگ جلد فوت ہوگیا اور ہماری پھوپھی کو باقی ایام زندگی بیوگی کی حالت میں گذارنے پڑے ۔ہماری پھوپھی صاحبِ رؤیا و کشف تھیں ۔ مرزا محمد بیگ مذکور کے چھوٹے بھائی مرزا ا حمد بیگ ہوشیار پوری کے ساتھ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے چچیرے بھائیوں یعنی مرزا نظا م الدین و غیرہ کی حقیقی بہن عمر النسا ء بیاہی گئی تھی ۔اس کے بطن سے محمد ی بیگم پیدا ہوئی ۔مرزا نظام الدین و مرزا امام الدین وغیرہ پر لے درجہ کے بے دین او ر دہریہ طبع لوگ تھے اور مرزا احمد بیگ مذکور ان کے سخت زیر اثر تھا اور انہیں کے رنگ میں رنگین رہتا تھا ۔یہ لوگ ایک عرصہ سے حضرت مسیح موعود ؑ سے نشان آسمانی کے طالب رہتے تھے کیونکہ اسلامی طریق سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور والد محمدی بیگم یعنی مرزا احمد بیگ ان کے اشارہ پر چلتا تھا ۔اب واقعہ یوں ہو اکہ حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک اور چچا زاد بھائی مرزا غلام حسین تھاجو عرصہ سے مفقود الخبرہوچکا تھا او را س کی جائیداد اس کی بیوی امام بی بی کے نام ہو چکی تھی ۔یہ امام بی بی مرزا احمد بیگ مذکور کی بہن تھی ۔ اب مرزا احمد بیگ کو یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مسماۃ امام بی بی اپنی جائیداد اس کے لڑکے مرزا محمد بیگ برادر کلاں محمدی بیگم کے نام ہبہ کر دے لیکن قانوناً امام بی بی اس جائیداد کا ھبہ بنام محمد بیگ مذکور بلا رضا مندی حضرت مسیح موعود ؑ نہ کر سکتی تھی اس لئے مرزا احمدبیگ باتما م عجزو انکساری حضرت مسیح موعود کی طرف ملتجی ہوا کہ آپ ھبہ نامہ پر دستخط کر دیں۔ چنانچہ حضرت صاحب قریباً تیار ہوگئے لیکن پھر اس خیال سے رُک گئے کہ دریں بارہ مسنون استخارہ کر لینا ضروری ہے۔چنانچہ آپ نے مرزا احمد بیگ کو یہی جواب دیا کہ میں استخارہ کر نے کے بعد دستخط کرنے ہوں گے تو کردوں گا چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا ۔وہ استخارہ کیا تھاگویا آسمانی نشان کے دکھانے کا وقت آن پہنچا تھاجس کو خداتعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کر دیا ۔ چنانچہ استخارہ کے جواب میں خدا وند تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ سے یہ فرمایاکہ’’ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک او ر مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا ۔ اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کانشان ہوگا اور ان تمام بر کتو ں اور رحمتوںسے حصہ پائو گئے جو اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں درج ہیں ۔لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جاوے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے ۔ــ‘‘ اس وحی الہامی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نوٹ دیا کہ ’’ تین سال تک فوت ہونا روز نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کو ئی واقعہ اور حادثہ اس سے پہلے نہ آوے ۔بلکہ مکاشفات کے رو سے مکتوب الیہ (یعنی مرزا احمد بیگ) کازمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں نزدیک پا یا جاتا ہے ۔واللّٰہ اعلم ‘‘ جب استخارہ کے جواب میں یہ وحی ہوئی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے شائع نہیں فرمایا بلکہ صرف ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ سے والد محمد ی بیگم کو اس سے اطلاع دے دی کیونکہ آپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا لہٰذا آپ نے اشاعت کے لئے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظارکی ۔لیکن جلد ہی خود لڑکی کے ماموںمرزا نظام الدین نے شدت غضب میں آکر اس مضمون کو آپ ہی شائع کر دیا اور علاوہ زبانی اشاعت کے اخباروں میںبھی اس خط کی خوب اشاعت کی ۔تب پھر حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی اظہارکاعمدہ موقعہ مل گیا ۔
{ 128} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے آباء میں سے وہ بزرگ جو ابتداء ً ہندوستان میں آکرآباد ہوئے ان کا نام مرزا ہادی بیگ تھا۔ان کے ہندوستان میں آکرآباد ہو نے کا زمانہ ۱۵۳۰ء کے قریب کا معلوم ہوتا ہے یعنی ایسا پتہ چلتا ہے کہ یا تو وہ بابر بادشاہ کے ساتھ آئے تھے یا کچھ عرصہ بعد۔مرزا ہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو تیمور کے چچا تھے ۔مرزا ہادی بیگ سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک کا شجرہ نسب مشمولہ ورق پر درج ہے ۔




شجرئہ نسب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

اس شجرہ میںجن ناموں کے سامنے سٹار’’ ‘‘ کا نشان دکھایا گیا ہے یہ ایسے لوگوں کے نام ہیں جن کی نسل آگے نہیں چلی۔
{ 129} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ اپنے قلم سے اپنے اور اپنے خاندان کے حالات لکھے ہیں مگر سب سے مفصل وہ بیان ہے جو کتاب البریہ میں درج ہے ۔یہ بیان ایسا تو نہیں ہے کہ اس میں سب ضروری باتیں آگئی ہوں اور نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حالات جو حضرت مسیح موعود نے خود دوسری جگہ تحریر فرمائے ہیں وہ سب اس میں آگئے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ بیان سب سے زیادہ مفصل ہے اور حضرت صاحب نے ایک خاص تحریک کی بنا پر تحریر فرما یا تھا اس لئے اس کے خاص خاص حصے ہدیہ نا ظرین کر تا ہوں۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں ۔
’’ اب میرے سوانح اس طر ح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضٰی اور دادا صاحب کا نام عطا محمداور میرے پردادا صاحب کا نام گُل محمد تھا۔اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برلاس زہے اور میرے بزرگوں کے پر انے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریباً دو سو آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل و عیال میںسے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہو ئے اور اس قصبہ کی جگہ میں جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا ۔جو لاہور سے تخمیناً بفاصلہ پچاس کو س بگوشہ ئِ شمال مشرق واقع ہے ۔فروکش ہو گئے جس کو انہوں نے آباد کر کے اس کا نام اسلام پورہ رکھا جو پیچھے سے اسلام پور قاضی ماجھی کے نا م سے مشہور ہوا اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا ۔اور قاضی ماجھی کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا اور پھراس سے بگڑ کرقادیان بن گیا ۔اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباًساٹھ کوس ہے ۔ان دنوں میں سب کا سب ماجھ کہلاتا تھا ۔غالباً اس وجہ سے اس کا نام ماجھ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں اورچونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی ۔اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے ۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمر قند سے اس ملک میں آئے ۔مگر کاغذات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس ملک میں بھی وہ معزز امرا ء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔پھراس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیران کو ملے ۔چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی ۔
سکھوںکے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب مرزا گُل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے ۔جن کے پا س اس وقت85گائوںتھے ۔اور بہت سے گائوں سکھوں کے متواترحملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے ۔تاہم ان کی جو انمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گائوں انہوں نے مروّت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دیدئے تھے ۔ جو اب تک ان کے پاس ہیں ۔غرض وہ اس طوائف الملوکی کے زمانہ میںاپنے نواح میں ایک خودمختاررئیس تھے ۔ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم او رکبھی زیادہ ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء او ر صلحاء اور حافظ قرآنِ شریف کے ان کے پا س رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللّٰہ اور قال الرسول کا ذکربہت ہوتا تھا۔اور عجیب تر یہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفا ن دین کا بھی گواہی دیتارہا ہے ۔غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولو العزمی اور حمایت دین اور ہمدردیٔ مسلمانا ں کی صفت میں نہایت مشہور تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور بارُعب آدمی تھے ۔چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک دفعہ ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیا ن میں آیا ۔ جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مد برانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولو العزمی اور استقلال اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کودیکھا اور ان کے اُس مختصر دربار کو نہایت متین اورعقلمند اور نیک چلن اور بہادروں سے پُر پایا تب وہ چشم پُر آب ہو کر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہو تی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں ۔تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایّام کسل اور نالیاقتی اور بد وضعی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھا یا جائے ۔اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے پڑ دادا صاحب موصوف یعنی مرزاگل محمدنے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی۔ بیماری کے غلبہ کے وقت اطبا نے اتفاق کرکے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کر ایا جائے تو غالبًااس سے فائدہ ہوگا ۔مگر جرأت نہیںرکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں ۔آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا۔تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تواس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں ۔میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کے قضا و قدر پر راضی ہوں ۔آخر چند روزکے بعد اسی مرض سے انتقال فرما گئے۔موت تومقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یاد گاررہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پڑدادا صاحب فوت ہو ئے توبجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے ۔ا ن کے وقت میں خداتعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے۔ دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جبکہ قضا و قدر ا ن کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے نا کام رہے ۔اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی ۔ اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے۔یہا ں تک کہ دادا صاحب مرحوم کے پاس صرف ایک قادیان رہ گئی ۔اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا ۔اور اس کے چار برج تھے ۔اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے ۔اور چند توپیں تھیںاور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جاسکتے تھے ۔اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جورام گڑھیہ کہلاتا تھا اوّل فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا ۔اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طر ح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے ۔ اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی ۔کئی مسجدیں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا ۔اور بعض مسجدیں جن میں سے اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنا یا گیا ۔اس دن ہمارے بزرگو ں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا ۔جس میں پانچ سو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا ۔ جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا ۔اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا ۔ چنانچہ تمام مر د و زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے ۔اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزیں ہوئے ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد ان ہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے داد ا صاحب کو زہر دی گئی ۔پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیا ن میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گائوں واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنا لی تھی۔سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے ۔اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا ۔غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں ملکر آخر پانچ گائوں ہاتھ میں رہ گئے ۔پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے ۔گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے ۔۱۸۵۷ء میں انہو ں نے سر کارانگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دیئے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کوا س قسم کی مدد کا عندا لضرورت وعدہ بھی دیا ۔ اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجلدوے خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودیٔ مزاج ان کو ملی تھیں ۔ چنانچہ سر لیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ ’’رئیسان پنجاب‘‘ میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔غرض وہ حکام کی نظرمیں بہت ہر دل عزیز تھے ۔اور بسا اوقات ان کی دلجوئی کیلئے حکام وقت ڈپٹی کمشنر ،کمشنر اُ ن کے مکان پر آکر اُن کی ملاقات کرتے تھے ۔یہ مختصر میرے خاندان کا حال ہے ۔میں ضروری نہیںدیکھتا کہ اس کو بہت طوالت دوں۔۔۔
میری پیدائش سے پہلے میرے والد صاحب نے بڑے بڑے مصائب دیکھے ۔ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پاسیر بھی کیا ۔لیکن میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا ۔ اور یہ خداتعالیٰ کی رحمت ہے کہ میں نے ان کے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا ۔اور نہ اپنے دوسرے بزرگوں کی ریاست اور ملک داری سے کچھ حصہ پا یا ۔
بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا ۔جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں ۔اور اس بزرگ کا نا م فضل الٰہی تھا۔اور جب میری عمر قریباًدس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے ۔جن کا نام فضل احمدتھا ۔میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا ۔مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے ۔وہ بہت توجہ او ر محنت سے پڑھاتے رہے ۔اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قوا عد نحو اُن سے پڑھے ۔ اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ان کا نام گل علی شاہ تھا ۔ان کوبھی میرے والدصاحب نے نو کر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیاتھا ۔اور ان آخر الذکرمولوی صاحب سے میں نے نحو اورمنطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا او ربعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے ۔اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا ۔میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کر نا چاہئیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے ۔اورنیز ان کا یہ بھی مطلب تھا کہ میں اس شغل سے الگ ہو کر ان کے غموم و ہموم میں شریک ہو جائوں ۔آخر ایسا ہی ہوا ۔میرے والد صاحب اپنے بعض آباء واجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے ۔انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگا یا اور ایک زمانہ دراز تک میںان کاموں میں مشغول رہا ۔مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت ِعزیز میرا اِن بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا ۔میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا ۔اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا رہا ۔ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی ۔مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیاداروں کی طرح مجھے روبخلق بناویں ۔اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی ۔ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیا ن میں آنا چاہا میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئیے ۔مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا ۔پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا ۔اور وہ چاہتے تھے کہ میںدنیوی امور میں ہردم غرق رہوں ۔جومجھ سے نہیں ہو سکتاتھا۔مگر تاہم میں خیال کرتا ہو ں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے کے لئے دعا میں مشغول رہتا تھا۔اور وہ مجھے دلی یقین بِرٌّبِالْوَالِدَیْن سے جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ ’’ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوںورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے۔یعنی دین کی طرف صحیح اورسچ بات یہی ہے ۔ہم تواپنی عمر ضائع کر رہے ہیں ۔‘‘ ایسا ہی ان کے زیر سایہ ہو نے کے ایّام میں چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے سا تھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی ۔آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا ۔ اس لئے ان کے حکم سے جوعین میری منشا کے موافق تھا میں نے استعفٰی دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا ۔اور پھر والدصاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۔اس تجربہ سے مجھے معلوم ہوا کہ اکثر نوکوی پیشہ نہایت گندی زندگی بسر کرتے ہیں ۔اور جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا ۔تو بد ستور ان ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔مگراکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا۔اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا ۔اور میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے۔انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار روپیہ کے قریب خرچ کیا تھا ۔جس کا انجام آخر ناکامی تھی ۔ کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خیال خام تھا ۔اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والدصاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور حزن اور اضطراب میں زندگی بسر کر تے تھے ۔اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی کر نے کا موقعہ حاصل ہوتا تھا کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا ۔ جو دنیوی کدورتوںسے پاک ہے ۔اگرچہ حضرت والد صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے اور سرکا ر انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا ۔اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے ۔اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شایدآ ج قطب یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
عمر بگذشت و نماند ست جزایّامے چند
بہ کہ در یادِ کسے صبح کنم شامے چند
اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنا یا ہوا شعر رقت کیساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے ۔ ؎
ازدر تو اے کس ہر بے کسے
نیست امیدم کہ رَوَم نا امید
اور کبھی درددِل سے یہ شعر اپنا پڑھا کر تے تھے ؎
بآب دیدۂ عشاق و خا کپائے کسے
مرا د لیست کہ درخوں تپد بجائے کسے
حضرت عزت جلّ شانہ‘ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کر تی گئی تھی ۔ بار ہا افسوس سے کہا کر تے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کر دی ۔ایک مرتبہ حضرت والدصاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں۔جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے ۔تومیں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑ ا جب قریب پہنچا تو میںنے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئیے ۔یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے ۔یہ دیکھ کر میں چشم پُر آب ہوگیا ۔اور پھر آنکھ کھل گئی اور پھرآپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے اور فرمایا کر تے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں گذرا اورجہاں ہاتھ ڈالاآخر ناکامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پڑدادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کر تے تھے جس کا ایک مصرع راقم کو بھو ل گیا ہے اور دوسرایہ ہے کہ ۔ ع
’’کہ جب تدبیر کرتا ہوںتو پھر تقدیر ہنستی ہے ــ‘‘
اور یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا ۔اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والدصاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے ۔اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو ۔تا خدائے عزّوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے ۔کیا عجب کہ یہی ذریعہ ٔ مغفرت ہو ۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اورشاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے ۔اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہو کر نشان کیا تھا دفن کئے گئے ۔ اللھم ارحمہ وادخلہ الجنۃ ۔اٰمین قریباً اَسّی یا پچاسی برس کی عمر پائی ۔
ان کی یہ حسرت کی باتیں کہ میں نے کیوں دنیاکے لئے وقت عزیز کھویا ۔اب تک میرے دل پر درد ناک اثر ڈال رہی ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو دنیا کا طالب ہو گا آخر اس حسرت کو ساتھ لے جائے گا ۔ جس نے سمجھنا ہو سمجھے ۔۔۔۔مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھاکہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے ۔ میں اس وقت لاہور میں تھاجب مجھے یہ خواب آیا تھاتب میں جلدی سے قادیان پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلاپایا ۔لیکن یہ امید ہر گز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہو گئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے ۔دوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیزان کی خدمت میں حاضرتھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرا آرام کر لو کیونکہ جو ن کا مہینہ تھا اور گرمی سخت پڑتی تھی ۔میں آرام کیلئے ایک چوبارہ میں چلا گیا۔اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہو کر مجھے الہام ہوا۔ ’’ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق‘‘ یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضا و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پرسی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہاراوالد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہو جائے گا۔ــ‘‘ سبحان اللہ کیا شان خدا وند عظیم ہے کہ ایک شخص جو اپنی عمر ضائع ہونے پر حسرت کرتا ہوا فوت ہوتاہے اس کی وفات کو عزا پرسی کے طور پر بیان فرماتا ہے اس بات سے اکثر لوگ تعجب کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی عزا پُرسی کیا معنے رکھتی ہے۔ مگریاد رہے کہ حضرت عزوجل شانہٗ جب کسی کو نظر رحمت سے دیکھتا ہے تو ایک دوست کی طرح ایسے معاملات اس سے کرتا ہے۔چنانچہ خدا تعالیٰ کا ہنسنا بھی جوحدیثوں میں آیا ہے ۔ان ہی معنوںکے لحاظ سے آیا ہے۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جل شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے توبشریّت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا ۔تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا۔اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیںہے ؟ اوراس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا او ر فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا ۔پس مجھے اس خدائے عزّوجل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلادیاکہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا ۔ میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہر گز ایسا متکفل نہیں ہوگا ۔میرے پر اس کے وہ متواتر احسان ہو ئے کہ بالکل محال ہے کہ میں ان کا شمار کرسکوں اورمیرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے ۔یہ ایک پہلا دن تھا جو میں نے بذریعہ خدا کے الہام کے ایسارحمت کا نشان دیکھا جس کی نسبت میں خیال نہیں کر سکتا کہ میری زندگی میں کبھی منقطع ہو ۔ میں نے اس الہام کوا ن ہی دنوںمیں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی ۔ جو بڑی حفاظت سے اب تک رکھی ہوئی ہے ۔غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری ۔ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا تھااور ایک طرف بڑے زور شورسے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا ۔میں کچھ بیان نہیں کر سکتاکہ میرا کون سا عمل تھا جس کی وجہ سے یہ عنایت الٰہی شامل حال ہوئی ۔صرف اپنے اندر یہ احساس کر تا ہوںکہ فطرتاً میرے دل کو خداتعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے جو کسی چیز کے روکنے سے رُک نہیںسکتی۔سو یہ اسی کی عنایت ہے میں نے کبھی ریاضات شاقہ بھی نہیں کیں ۔اور نہ زمانہ حال کے بعض صوفیوںکی طرح مجاہدات شدیدہ میں اپنے نفس کو ڈالا اور نہ گوشہ گزینی کے التزام سے کوئی چلّہ کشی کی او ر نہ خلاف سنت کوئی ایسا عمل رہبانیت کیا جس پر خدا تعالیٰ کے کلام کو اعتراض ہو ۔ بلکہ میں ہمیشہ ایسے فقیروںاور بدعت شعار لوگوںسے بیزار رہا جوانواع اقسام کے بدعات میں مبتلاہیں ۔ہاںحضرت والدصاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کازمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میںدکھائی دیا ۔اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے ۔‘‘ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنتِ اہلِ بیت ِرسالت کو بجا لائوں ۔سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجا لانا بہتر ہے ۔پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا ۔اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا ۔ اور بجز خداتعالیٰ کے، ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی ۔پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جوایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوںمجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں ۔سو میں اس روزسے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا ۔اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی ۔غالباً آٹھ یا نوما ہ تک میں نے ایسا ہی کیا ۔اور باوجوداس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیںکر سکتاخدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میںآئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میںمیرے پر کُھلے ۔چنانچہ بعض گزشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اورجو اعلیٰ طبقہ کے اولیا اس امت میں گذر چکے ہیںان سے ملاقات ہوئی ۔ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میںجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع حسنین وعلی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع اقسام کے مکاشفات تھے ۔ ایک اورفائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں۔میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جاوے توقبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے ۔ اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کس حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنّعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایساکرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا ۔۔۔۔۔بہتر ہے کہ انسان اپنے نفس کی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے ۔آج کل کے اکثر نادان فقیرجو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔پس ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔‘‘
(منقول از کتاب البریہ صفحہ ۱۳۴تا۱۶۶حاشیہ)
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مندرجہ ذیل تصانیف میں اپنے خاندانی حالات کا ذکر کیا ہے ۔ازالہ اوہام۔ آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی۔ استفتاء عربی۔ لجۃ النور۔تریاق القلوب۔ کشف الغطا۔ شہادت القرآن۔ تحفہ قیصریہ۔ ستارہ قیصریہ۔ نجم الہدیٰ ۔ اشتہار ۱۸۹۴ء )
{ 130} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بندوبست مال۱۸۶۵ء کے کاغذات کے ساتھ جو ہمارے خاندان کا شجرہ نسب منسلک ہے اس میں قصبہ قادیان کی آبادی اور وجہ تسمیہ کے عنوان کے نیچے بثبت دستخط مرزا غلام مرتضٰی صاحب و مرزا غلام جیلانی و مرزا غلام محی الدین وغیرہ یہ نوٹ درج ہے کہ :’’ عرصہ چودہ پشت کا گزرا ۔کہ مرزا ہادی بیگ قوم مغل گوت بر لاس مورث اعلیٰ ہم مالکان دیہہ کا بعہد شاہان سلف ملک عرب سے بطریق نوکری ہمراہ بابر شاہ بادشاہ کے آکر حسب اجازت شاہی اس جنگل افتادہ میںگائوں آباد کیا ۔وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مورثان ہمارے کو جانب بادشاہ سے عہدہ قضا کا عطا ہوا تھا ۔بباعث لقب قاضیاں کے نام گائوں کا قاضیان اسلام پورہ رکھا پھر رفتہ رفتہ غلطی عوام الناس سے قصبہ قادیان مغلاںمشہور ہو گیا تب سے برابر آباد چلا آتا ہے ۔کبھی ویران نہیں ہوا۔‘‘ (اس روایت میں جو عرب سے آنا بیان ہوا ہے یہ غالباً سہو کتابت ہے)
{ 131} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کی تباہی پر پنجاب کا ملک خصوصاً اٹھارویں صدی عیسوی کے آخری نصف حصہ میںخطرناک طوائف الملوکی کا منظر رہا ہے۔شمال سے احمدشاہ ابدالی اور شاہ زمان کے حملے ایک عارضی تسلط سے زیادہ اثر نہیںرکھتے تھے اور دراصل سکھ قوم کا دور دورہ شروع ہو چکا تھا۔لیکن چونکہ ابھی تک سکھ قو م کے اندر اتحاد و انتظام کا مادہ مفقود تھا ۔اورنہ ہی ان کا اس وقت کوئی واحد لیڈر تھا۔اس لئے ان کا عروج بجائے امن پید ا کرنے کے آپس کے جنگ و جدال کی وجہ سے پرلے درجہ کا امن شکن ہورہا تھا ۔اس زمانہ میںسکھ بارہ مسلوں یعنی بارہ جتھوں اور گروہوںمیں منقسم تھے ۔ اور ہر مسل اپنے سردار یا سرداروں کے ماتحت ماردھاڑ کر کے اپنے واسطے خود مختارریاستیں بنا رہی تھی۔اس وجہ سے اس زمانہ میں پنجاب کے اندر ایک مستقل سلسلہ کشت و خون کا جاری تھا۔اور کسی کا مال و جان اور آبرو محفوظ نہ تھے ۔حتّٰی کہ وہ وقت آیا کہ راجہ رنجیت سنگھ نے سب کو زیر کر کے پنجاب میں ایک واحد مرکزی سکھ حکومت قائم کر دی ۔قادیان اوراس کے گردو نواح کا علاقہ چونکہ ہمارے بزرگوں کے زیر حکومت تھا ۔ اس لئے اس طوائف الملوکی کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں کو بھی سکھوں کے ساتھ بہت سے معرکے کر نے پڑے ۔جن سکھ مسلوں کے ساتھ ہمارے بزرگوں کا واسطہ پڑا وہ رام گڑھی مسل اورکنھیا مسل کے نام سے مشہور تھیں ۔کیونکہ قادیان کی ریاست کا علاقہ زیادہ تر انہی دو مسلوں کے علاقہ سے ملتا تھا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑدادا مرز اگُل محمد صاحب نے ایک حد تک سکھوں کی دست برد سے اپنے علاقہ کو بچائے رکھا ۔لیکن پھر بھی بہت سے دیہات ان کے ہاتھ سے نکل گئے مگر ان کی وفات کے بعد جو غالبًا ۱۸۰۰ء میں ہوئی ان کے فرزند مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں جلد ہی قادیان کے گردونواح کا سارا علاقہ اور بالآخر خود قادیان سکھوںکے قبضہ میں چلے گئے اور مرزا عطا محمد صاحب اپنی جدّی ریاست سے نکل جانے پر مجبور ہو گئے۔چنانچہ مرزا عطامحمدصاحب دریائے بیاس سے پار جا کر موضع بیگو وال میں سردار فتح سنگھ اہلووالیہ رئیس علاقہ کے مہمان ٹھہر ے۔سردار موصوف اہلووالیہ مسل کا سر گروہ تھااور اس زمانہ میںایک بڑا ذی اقتدار شخص تھا۔موجودہ راجہ صاحب کپورتھلہ اسی کے سلسلہ میں سے ہیں ۔بارہ سال کے بعد مرزا عطامحمد صاحب کو بیگووال میںہی دشمنوں کے ہاتھ سے زہر دیدیا گیا۔خاکسارعرض کرتاہے واللّٰہ اعلم کہ رام گڑھی مسل کے مشہور و معروف سرگروہ جسّا سنگھ نے خود یا اس کے متبعین نے غالباً۱۸۰۲ء کے قریب قریب قادیان پر قبضہ پایا ہے۔جسا سنگھ ۱۸۰۳ء میں مر گیا اوراس کے علاقہ کے بیشتر حصہ پر اس کے بھتیجے دیوان سنگھ نے قبضہ کر لیا ۔چنانچہ دیوان سنگھ کے ماتحت قریباًپندرہ سال رام گڑھی مسل قادیا ن پر قابض رہی۔ جس کے بعد راجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا۔ یہ ۱۸۱۶ء کے بعد کی بات ہے اس کے بعدغالباً۱۸۳۴ء یا ۱۸۳۵ء کے قریب راجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے ہمارے دادا مرزاغلام مرتضٰی صاحب کوقادیان کی جاگیر واپس مل گئی اس دوران میں ہمارے دادا صاحب کو بڑے بڑے مصائب کا سامنا کرناپڑا ۔
{ 132} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسارعرض کرتاہے کہ کتاب پنجاب چیفس یعنی تذکرہ روسائے پنجاب میں جسے اولاً سرلیپل گریفن نے زیر ہدایت پنجاب گورنمنٹ تالیف کرنا شروع کیا اور بعد میں مسٹر میسی اورمسٹر کریک نے (جو اب بوقت ایڈیشن ثانی کتاب ھٰذا سرہنری کریک کی صورت میں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم ممبر ہیں) علی الترتیب گورنمنٹ پنجاب کے حکم سے اسے مکمل کیااوراس پر نظر ثانی کی۔ ہمارے خاندان کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ درج ہے ۔
’’ شہنشاہ بابر کی عہد حکومت کے آخری سال یعنی۱۵۳۰ء میںایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میںآیا اور ضلع گورداسپور میں بود و باش اختیار کی ۔ یہ شخص کچھ عالم آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا حاکم مقرر کیا گیا ۔کہتے ہیں کہ قادیا ن اسی نے آباد کیا اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بگڑتے بگڑتے قادیان ہوگیا ۔کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی حکومت کے ماتحت معزز عہدو ں پر ممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہوگیا تھا ۔گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنھیامسلوں سے جن کے قبضے میں قادیان کے گردو نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کا ر اپنی تمام جاگیر کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور وہاںبارہ سال تک امن کی زندگی بسر کی ۔اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضٰی کو قادیان واپس بلا لیا اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک معقول حصہ اسے واپس کر دیا ۔ اس پر غلام مرتضٰی اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہو گیا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔
نو نہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دوراں میں غلام مرتضٰی ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔۱۸۴۱ء میں یہ جرنل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلّو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیندار بنا کر پشاور روانہ کیا گیا ۔ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کارہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو وہ اپنی سرکار کا وفادار رہا اور اس کی طرف سے لڑا ۔اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں ۔جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج کو لئے دیوان مولراج کی امداد کے واسطے ملتان جارہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیرداران لنگر خان ساہیوال اور صاحب خا ن ٹوانہ نے مسلمان آبادی کو برانگیختہ کیا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں پر حملہ کر کے ان کو شکست فاش دی اور دریائے چناب کی طرف دھکیل دیا جہاں چھ سو سے زیادہ باغی دریا میں غرق ہو کر ہلاک ہو گئے ۔
انگریزی گورنمنٹ کی آمد پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہو گئی مگر سات سو کی ایک پنشن غلام مرتضٰی اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح پر ان کے حقوق مالکانہ قائم رہے ۔اس خاندان نے غدر۱۸۵۷ء میں نہایت عمدہ خدمات کیں ۔ غلام مرتضٰی نے بہت سے آدمی بھر تی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر اس وقت جنرل نکلسن کی فوج میںتھاجب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر۴۶ نیو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا تھا۔ جنرل نکلسن نے غلا م قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا کہ ۱۸۵۷ء کے غدر میں خاندان قادیان نے ضلع کے دوسرے تمام خاندانوں سے زیادہ وفاداری دکھائی ہے ۔
{ 133} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ رسالہ کشف الغطا ء میں جو حکام گورنمنٹ کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھاحضرت مسیح موعود تحریرفرماتے ہیں کہ :۔
’’ میرا خاندان ایک خاندان ریاست ہے اور میرے بزرگ والیان ملک اور خودسر امیر تھے جو سکھوں کے وقت میں یکلخت تباہ ہوئے اورسرکار انگریزی کا اگرچہ سب پر احسان ہے مگر میرے بزرگوں پر سب سے زیادہ احسان ہے کہ انہوں نے اس گورنمنٹ کے سایۂ دولت میں آکر ایک آتشی تنورسے رہائی پائی اور خطرناک زندگی سے امن میں آگئے ۔میرا باپ مرزا غلام مرتضٰی اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھااور گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں نے پُر زور تحریروںکے ساتھ لکھا کہ وہ اس گورنمنٹ کا سچا مخلص اوروفادار ہے اور میرے والد صاحب کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور ہمیشہ اعلیٰ حکام عزت کی نگاہ سے ان کو دیکھتے تھے اور اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حکام ضلع اور قسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لئے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظر میں وہ ایک وفا دار رئیس تھے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کبھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نے 1857ء کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے مہیا کر کے گورنمنٹ کی امداد کے لئے دیئے تھے چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے ہندوستا ن میں مردانہ لڑائی مفسدو ں سے کر کے اپنی جانیں دیں اورمیرا بھائی مرزا غلام قادر تمّون کے پتن کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑی جانفشانی سے مدد دی۔غرض اسی طرح میرے بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال اپنی جان سے اپنی متواتر خدمتو ں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظر میں ثابت کیا ہے ۔سوا نہی خدمات کی وجہ سے میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ عالیہ ہمارے خاندان کو معمولی رعایا میں سے نہیں سمجھے گی اور اس کے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کر ے گی جوبڑے فتنے کے وقت میں ثابت ہو چکا ہے ۔سر لیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی مرزا غلام قادر کا ذکر کیا ہے اور میں ذیل میںان چند چٹھیات حکام بالادست کو درج کر تا ہوں جن میں میرے والد صاحب اور میرے بھائی کی خدمات کا کچھ ذکرہے:۔
نقل مراسلہ
ولسن صاحب نمبر ۳۵۳
تہور پناہ شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ
رئیس قادیان حفظہ
عریضۂ شمامشعر بریاد دہانی خدمات و حقوقِ خود وخاندانِ خود بملاحظہ حضور اینجانب درآمد۔ ماخوب میدانیم کہ بلاشک شما و خاندانِ شما از ابتدائے دخل و حکومتِ سرکار انگریزی جاں نثار وفاکیش ثابت قدم ماندہ آید و حقوق شمادراصل قابل قدر اند۔ بہر نہج تسلی و تشفی دارید ۔سرکار انگریزی حقوق و خدمات خاندان شماہرگز فراموش نخواہد کرد ۔بموقعہ مناسب بر حقوق و خدمات شما غور و توجہ کردہ خواہد شد۔ باید کہ ہمیشہ ہوا خواہ و جان نثار سرکار انگریزی بمانند کہ دریں امر خوشنودی سرکار و بہبودی شما متصور است۔فقط
المرقوم ۱۱، جون ۱۸۴۹ء
مقام لاہور انارکلی

Translation of Certificate of J.M.Wilson.
To,
Mirza Ghulam Murtaza Khan chief of Qadian.
I have perused your application reminding me your and your family`s past services and rights. I am well aware that since the introduction of the British Government you and your family have certainly remained devoted faithful and steady subjects and that your rights are really worthy of regard, In every respect you may rest assured and satisfied that the British Government will never forget your family`s rights and services which will receive due consideration when a favourable opportunity offers itself.
you must continue to be faithful and devoted subjects as in it lies the satisfaction of the Government and your welfare.
‏11-06-1849 - Lahore
نقل مراسلہ
رابرٹ کسٹ صاحب بہادر کمشنر لاہور
تہورو شجاعت دستگاہ مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان بعافیت باشند ۔از آنجا کہ ہنگام مفسدہ ہندوستان موقوعہ ۱۸۵۷ء از جانب آپ کے رفاقت و خیر خواہی و مدد دہی سرکار دولتمدار انگلشیہ در باب نگہد اشت سواران وبہمر سانی اسپان بخوبی بمنصہ ظہور پہنچی۔ اور شروع مفسدے سے آج تک آپ بدل ہوا خواہ سرکار رہے اور باعث خوشنودی سرکار ہوا۔ لہٰذا بتعلق اس خیر خواہی اور خیر سگالی کے خلعت مبلغ دو صد روپیہ سرکار سے آپ کو عطا ہوتا ہے اور حسب منشا چٹھی صاحب چیف کمشنر بہادر نمبری ۵۷۶ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۸۵۸ء پروانہ ھٰذا باظہار خوشنودی سرکار و نیک نامی وفاداری بنام آپ لکھا جاتا ہے۔
مرقومہ تاریخ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۵۸ء
Translation of Mr. Robert Cast's Certificate
Mirza Ghulam Murtaza Khan
Chief of Qadian.
As you rendered great help in enlisting sowars and supplyig horses to Government in the mutiny of 1857 and maintained loyalty since its beginning uptodate and thereby gained the favour of the Government a Khilat worth Rs.200/- is presented to you in recognition of good services and as a reward for you loyalty. More over in accordance with the wishes of chief commissioner as conveyed in his No.576 dated 10th August 1858. This parwana is addressed to you as a token of satisfaction of Government for your fidelity and repute.
20-09-1858 Lahore.
نقل مراسلہ
فنانشل کمشنر پنجاب مشفق مہربان دوستان مرزاغلام قادر رئیس قادیان حفظہ۔
آپ کا خط ۲؍ماہ حال کا لکھا ہوا ملاحظہ حضور اینجانب میں گزرا۔مرزا غلام مرتضیٰ صاحب آپ کے والد کی وفات سے ہم کو بہت افسوس ہوا۔ مرزا غلام مرتضیٰ سرکار انگریزی کا اچھا خیر خواہ اور وفادار رئیس تھا۔ ہم آپ کی خاندانی لحاظ سے اسی طرح عزت کریں گے جس طرح تمہارے باپ وفادار کی کی جاتی تھی۔ ہم کو کسی اچھے موقعہ کے نکلنے پر تمہارے خاندان کی بہتری اور پابحالی کا خیال رہے گا۔
المرقوم۲۹؍ جون ۱۸۷۶ء
الراقم سررابرٹ ایجرٹن صاحب بہادر
فنانشل کمشنر پنجاب
Translation Sir Robert Egerton
Financial Commissioner`s Letter
Dated 29 June 1876.
My dear friend Ghulam Qadir.
I have perused your letter of the 2nd instant and deeply regret the death of your father Mirza Ghulam Murtaza who was a great well wisher and faithful chief of Government.
In consideration of your family services I will esteem you with the same respect as that bestowed on your loyal father. I will keep in mind the restoration and welfare of your family when a favourable opportunity occurs.
{ 134} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کر تا ہے کہ کتاب پنجاب چیفس میں ہمارے خاندا ن کے حالات ما بعد وفات مرزا غلام مرتضٰی صاحب کے متعلق ذیل کا نوٹ لکھا ہے:۔
’’مرزا غلا م مرتضیٰ جو ایک مشہور اور ماہر طبیب تھا ۱۸۷۶ء میںفوت ہوا ا ور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔مرزا غلام قادر لوکل افسران کی امداد کے واسطے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ا ن افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھابہت سے سرٹیفکیٹ تھے ۔یہ کچھ عرصہ تک دفتر ضلع گورداسپور میں سپرنٹنڈنٹ رہا ہے ۔اس کا اکلوتا بیٹا صغر سنی میں فوت ہو گیاتھا اوراس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنّٰی بنا لیا تھا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے ۔مرزا سلطان احمدنے نائب تحصیل داری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اب اکسٹرا ا سسٹنٹ کمشنر ہے ۔مرزا سلطا ن احمد قادیا ن کا نمبردار ہے مگر نمبر داری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا زاد بھائی نظام دین جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا لڑکا ہے کر تا ہے ۔نظام دین کا بھائی امام دین جو ۱۹۰۴ء میںفوت ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن ہارس میں رسالدار تھا ۔اس کا باپ غلام محی الدین تحصیل دار تھا۔
اس جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مرزا غلام احمدجوغلام مرتضٰی کا چھوٹا بیٹا تھا۔مسلمانوں کے ایک بڑے مشہورمذہبی سلسلہ کا بانی ہوا جو احمدیہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہے۔مرزا غلام احمد۱۸۳۹ء میںپیدا ہوا تھااور اس کو بہت اچھی تعلیم ملی ۔۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ؑ ہونے کا دعویٰ کیا ۔ چونکہ مرزا ایک قابل مذہبی عالم اور مناظر تھااس لئے جلد ہی بہت سے لوگوںکواس نے اپنا معتقد بنا لیا اور اب احمدیہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوںمیں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے ۔مرزا عربی ،فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھاجن میںاس نے مسئلہ جہاد کی تردید کی اور یقین کیا جاتاہے کہ ان کتابوںنے مسلمانوں پر معتدبہ اثرکیاہے ۔کئی سال تک مرزاغلام احمد نے بڑی مصیبت کی زندگی بسر کی کیونکہ اپنے مذہبی مخالفوںکے ساتھ وہ ہمیشہ مباحثوںاور جھگڑوں مقدموںمیں مبتلا رہالیکن اپنی وفات سے پہلے جو۱۹۰۸ء میں واقع ہو ئی اس نے ایسا رتبہ حاصل کر لیا تھاکہ اس کے مخالف بھی اسے عزت کی نظر سے دیکھنے لگے تھے ۔اس سلسلہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بڑاسکول کھولا ہے اور ایک مطبع جاری کیا ہے جس کے ذریعہ سے سلسلہ کی خبروںکی اشاعت کی جاتی ہے ۔ مرزا غلام احمدکا روحانی خلیفہ مولوی نورالدین ہوا ہے جو ایک مشہور طبیب ہے اور چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہ چکاہے۔مرزا غلام احمدکے اپنے رشتہ داروں میں سے اس کے مذہب کے پیرو بہت ہی کم ہیں ۔
اس خاندان کو سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ حاصل ہیں اورنیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فی صدی حقوق تعلقداری ہیں۔‘‘
اقتباس مندرجہ بالا میں مصنف سے بعض غلطیاں واقعات کے متعلق ہو گئی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے۔ اول یہ کہ لکھا ہے کہ ہمارے تایا صاحب نے مرزا سلطا ن احمد صاحب کو متبنّٰی بنا لیا تھا ۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ امر واقع اس طرح پر ہے کہ تایا صاحب کی وفات کے بعد تائی صاحبہ کی خواہش پر ان کو کاغذات مال میں افسران متعلقہ نے بطور متبنّٰی درج کر دیا تھا ۔دوسرے مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی خاندان کا بزرگ لکھا ہے جو درست نہیں ۔تیسرے مرزا نظام الدین کو مرزا سلطان احمد صاحب کا چچازاد بھائی لکھا ہے یہ غلط ہے بلکہ مرزا نظا م الدین چچا تھے ۔چوتھے مرزا نظام الدین کو مرزاغلام محی الدین کاسب سے بڑا لڑکا لکھا ہے یہ غلط ہے۔سب سے بڑا لڑکا مرزا امام الدین تھا ۔پانچویں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کی پیدائش کی تاریخ ۱۸۳۹ء بیان کی ہے یہ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہوتی بلکہ صحیح تاریخ ۳۷-۱۸۳۶ء معلوم ہوتی ہے ۔چھٹے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم ان کے معتقد ہیں ۔یہ بات غلط ہے بلکہ امرواقعہ یہ ہے کہ شروع شروع میں بے شک بہت سے رشتہ دارو ں نے مخالفت کی تھی لیکن کچھ تو تباہ ہوگئے اور بعضوں کو ہدایت ہوگئی چنانچہ اب بہت ہی کم رشتہ دار آپ کے مخالف رہ گئے ہیں اور اکثر آپ پر ایمان لاتے اور آپ کے خدام میں داخل ہیں ۔ علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود کی ترقی اور کامیابی کی وجہ یہ لکھی ہے کہ ا ن کو بہت اچھی تعلیم ملی اور یہ کہ وہ ایک قابل مذہبی عالم اور مناظر تھے یہ غلط ہے کیونکہ ظاہری کسبی علوم کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ئی بڑے عالموں میں سے نہ تھے اور نہ ہی علم مناظرہ میںآپ کو کو ئی خاص دسترس تھی بلکہ شروع شروع میں تو آپ پبلک جلسوں میں کھڑے ہو کر تقریر کرنے سے بھی گھبراتے تھے اور طبیعت میں حجاب تھا مگر جب آپ کو خدانے اس مقام پر کھڑا کیا تو پھر آپ کے اندر وہ طاقت آگئی کہ آپ کے ایک ایک وار سے دشمن کی کئی کئی صفیں کٹ کر گر جاتی تھیں اور آپ کا ایک ایک لفظ خصم کی گھنٹوں کی تقریروتحریر پر پانی پھیر دیتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو منہاج نبوت پر ایک مقناطیسی جذب دیا گیا تھا جس سے سعید روحیں خود بخود آپ کی طرف کھچی چلی آتی تھیں اور خدا کی طرف سے آپ کو ایک رعب عطا ہوا تھا ۔جس کے سامنے دلیر سے دلیر دشمن بھی کانپنے لگ جاتا تھا ۔اور آپ ایک معجز نما حسن و احسان سے آراستہ کئے گئے تھے اور ہر قدم پر خدائی نصرت و تائید آپ کے ساتھ تھی ورنہ آپ سے زیادہ عالم و منطقی دنیا میں پیدا ہوئے اور حباب کی طرح اُٹھ کر بیٹھ گئے۔
{ 135} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ جب مرزا امام الدین و مرزا نظام الدین مسجدمبارک کا راستہ دیوار کھینچ کر بند کرنے لگے تو حضرت صاحب نے چند آدمیوں کوجن میں مَیں بھی تھا فرمایا کہ ان کے پاس جائو اور بڑی نر می سے سمجھائو کہ یہ راستہ بند نہ کریں اس سے میرے مہمانوں کو بہت تکلیف ہو گی اور اگر چاہیں تو میری کوئی اور جگہ دیکھ کر بے شک قبضہ کر لیںاور حضرت صاحب نے تاکید کی کہ کوئی سخت لفظ استعمال نہ کیا جاوے ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم گئے تو آگے دونو مرزے مجلس لگائے بیٹھے تھے ۔اور حقّے کا دور چل رہا تھا ۔ہم نے جاکر حضرت صاحب کا پیغام دیا اور بڑی نرمی سے بات شروع کی لیکن مرزا امام الدین نے سنتے ہی غصہ سے کہا وہ (یعنی حضرت صاحب ) خود کیوں نہیں آیا اور میں تم لوگوں کو کیا جانتا ہوں ۔پھر طعن سے کہا کہ جب سے آسمانوں سے وحی آنی شروع ہو ئی ہے اس وقت سے اسے خبر نہیں کیا ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم لوگ اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے ۔پھر حضرت صاحب نے ہمارے ساتھ اور بعض مہمانوں کو ملا دیا اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر کے پاس جائو اور اس سے جا کر ساری حالت بیان کرو اور کہو کہ ہم لوگ دور دراز سے دین کی خاطر یہاں آتے ہیں اور یہ ایک ایسا فعل کیا جارہا ہے جس سے ہم کو بہت تکلیف ہو گی کیونکہ مسجد کا راستہ بند ہو جائیگا ۔ان دنوں میں قادیان کے قریب ایک گائوں میں کوئی سخت واردات ہو گئی تھی اور ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس سب وہاں آئے ہوئے تھے۔چنانچہ ہم لوگ وہا ں گئے اور ذرا دور یّکے ٹھہرا کر آگے بڑھے ۔ڈپٹی کمشنر اس وقت باہر میدان میں کپتان کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا ۔ہم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور کہا کہ ہم قادیا ن سے آئے ہیںاور اپنا حال بیان کرنا شروع کیا ۔مگر ڈپٹی کمشنر نے نہایت غصہ کے لہجہ میں کہا کہ تم بہت سے آدمی جمع ہو کر مجھ پر رعب ڈالنا چاہتے ہو ۔میں تم لوگوں کو خوب جانتا ہوںاور میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ جماعت کیوں بن رہی ہے ۔اور میں تمہاری باتوں سے ناواقف نہیں اور میں اب جلد تمہاری خبر لینے والا ہوں اور تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس طرح ایسی جماعت بنا یا کر تے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں ہم ناچار وہاںسے بھی ناکام واپس آگئے اور حضرت صاحب کو سارا ماجرا سنایا ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ ان دنو ں میں مخالفت کا سخت زور تھا اور انگریز حکام بھی جماعت پر بہت بدظن تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ کوئی سازش کے لئے سیاسی جماعت بن رہی ہے ۔اور بٹالہ میں ان دنوں پولیس کے افسر بھی سخت معاند و مخالف تھے اور طرح طرح سے تکلیف دیتے ر ہتے تھے اور قادیان کے اند ر بھی مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین وغیرہ اور ان کی انگیخت سے قادیان کے ہندواور سکھ اور غیر احمدی سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے او ر قادیا ن میں احمدیوں کو سخت ذلت اورتکلیف سے رہنا پڑتا تھا اور ان دنوں میں قادیان میں احمدیوں کی تعداد بھی معمولی تھی اور احمدی سوائے حضرت کے خاندان کے قریباًسب ایسے تھے جو باہر سے دین کی خاطر ہجرت کر کے آئے ہوئے تھے یا مہمان ہو تے تھے ۔حضرت صاحب نے یہ حالات دیکھے اور جماعت کی تکلیف کا مشاہد ہ کیا تو جماعت کے آدمیوں کو جمع کر کے مشورہ کیا اور کہا کہ اب یہاں ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے اور ہم نے تو کا م کرنا ہے ۔یہاں نہیں تو کہیں اور سہی ۔اور ہجرت بھی انبیا ء کی سنت ہے ۔پس میرا ارادہ ہے کہ کہیں باہر چلے جائیں ۔چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ اس پر پہلے حضرت خلیفہ اوّل نے عرض کیا کہ حضور بھیرہ تشریف لے چلیں ۔وہاں میرے مکانات حاضر ہیں اور کسی طرح کی تکلیف نہیں ۔مولوی عبدا لکریم صاحب نے سیالکوٹ کی دعوت دی ،شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا لاہور میرے پاس تشریف لے چلیں ۔میرے دل میں بھی بار باراُٹھتا تھا کہ میں اپنا مکان پیش کر دوں مگر میں شرم سے رُک جاتا تھا آخر میں نے بھی کہا کہ حضور میرے گائوں میں تشریف لے چلیں ۔وہ سالم گائوں ہمارا ہے اور کسی کا دخل نہیں اور اپنے مکان موجود ہیں اور وہ ایک ایسی جگہ ہے کہ حکام کا بھی کم دخل ہے ۔اور زمیندارہ رنگ میں گویا حکومت بھی اپنی ہے ،حضرت صاحب نے پوچھا وہاں ضروریات مل جاتی ہیں۔ میں نے کہا ۔رسد وغیرہ سب گھر کی اپنی کافی ہو تی ہے ۔اور ویسے وہاں سے ایک قصبہ تھوڑے فاصلہ پر ہے جہا ں سے ہر قسم کی ضروریات مل سکتی ہیں ۔حضرت صاحب نے کہا ! اچھا وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا ۔ جہاں اللہ لے جائے گا وہیں جائیںگے۔خاکسارعرض کرتاہے کہ ایک دفعہ ۱۸۸۷ء میںبھی حضرت صاحب نے قادیان چھوڑکر کہیں باہر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب شحنۂ حق میں اس کا تذکرہ لکھا ہے ۔
{ 136} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ مَیں نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کی وہ نوٹ بک یعنی کاپی دیکھی ہے جس میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر ہوشیار پور کا حساب کتاب درج کیا کر تے تھے ۔یہ وہی سفر ہے جس میں حضرت صاحب نے چالیس دن کا چلہ کیا اور جس میں آپ کا ماسٹر مرلی دھر آریہ کے ساتھ مباحثہ ہو ا۔جس کا سرمہ چشم آریہ میں ذکر ہے ۔اس کاپی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود اس سفر سے ۱۷؍مارچ ۱۸۸۶ء کو واپس قادیان پہنچے تھے ۔حساب کتاب کی پہلی تاریخ کاپی میں یکم فروری ۱۸۸۶ء درج ہے ۔مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے حساب کتاب بعد میں لکھنا شروع کیا تھا اور حضرت صاحب ہوشیار پور جنوری کے تیسرے ہفتہ میں ہی پہنچ گئے تھے ۔ورنہ چالیس دن کا چلہ اور اس کے بعد بیس روز کا قیام تاریخ ہائے مذکورہ میں سما نہیں سکتے علاوہ ازیں میاں عبداللہ صاحب کویہ بھی یا د پڑتا ہے کہ ہوشیار پور میں حضرت صاحب نے دو ماہ قیام فر مایا تھا واللہ اعلم ۔
کاپی مذکور میں ۳؍۱ ؎ مارچ ۱۸۸۶ء کا حساب حسب ذیل درج ہے ۔مربیٰ انبہ ،اچار ،شیر ،مصری ،چٹنی ،گوشت ، لفافہ ،پالک ،دال ماش ،نمک ،دھنیا ،پیاز ،تھوم ،آردگندم ،ٹکٹ،مرمت تھیلا ،ریوڑی ،میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کاپی میں صرف وہی چیزیں درج نہیں ہوتی تھیں جو حضرت کے لئے آئی ہوں بلکہ سب حساب درج ہوتا تھا خواہ کچھ ہمارے لئے منگایا گیا ہو یا کسی مہمان کے لئے ۔
{ 137} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیا ن کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ۱۳۰۳ء ماہ ذی الحجہ بروز جمعہ بوقت دس بجے حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خوف ہو اوردل پر اس کے رعب پڑنے کا اندیشہ ہو تو آدمی صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ یٰسین پڑھے اوراپنی پیشانی پر خشک انگلی سے یَاعَزِیْز ُ لکھ کر اس کے سامنے چلاجاوے انشاء اللہ اس کا رعب نہیں پڑے گا بلکہ خود اس پر رعب پڑ جائے گا ۔ اور ویسے بھی حضرت صاحب نے مجھے ہر روز کے واسطے بعد نماز فجر تین دفعہ یٰسین پڑھنے کاوظیفہ بتایا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا یہ فرمان میاں عبداللہ صاحب نے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کیا ہوا تھااس لئے تاریخ وغیرہ پوری پوری محفوظ رہی اور خاکسار اپنی رائے سے عرض کرتا ہے کہ یا عزیزُ کے الفاظ میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اپنے قلب پر خدا کی طاقت و جبروت اور قہر وغلبہ کی صفات کا نقشہ جمائے گا اور ان کا تصور کرے گا تو لازمی طور پر اس کا قلب غیر اللہ کے رعب سے آزاد ہو جائے گا اور بوجہ اس کے کہ وہ مومن ہے اس کو ان صفات کے مطالعہ سے ایک طاقت ملے گی جو دوسرے کو مرعوب کر دے گی اور انگلی سے لکھنا علم النفس کے مسئلہ کے ماتحت تصورکو مضبوط کر نے کے واسطے ہے ورنہ وظائف کوئی منتر جنتر نہیں ہوتے ۔واللہ اعلم
{ 138} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تو اس کے چند دن بعد ایک بڑا معمر شخص بھی یہاں آیا تھا ۔یہ شخص حضرت سیّد احمد صاحب بریلوی کے مریدوں میں سے تھا اور بیان کر تا تھا کہ میں سیّد صاحب مرحوم کے ساتھ حج میں ہم رکاب تھا اور ان کے جنگوں میں بھی ان کے ساتھ رہا تھااور اپنی عمر قریباًسو ا سو سال کی بتاتا تھا قادیان میں آکر اس نے حضرت صاحب کی بیعت کی ۔یہ شخص دین دار تہجد گذار تھا اورباوجود اس پیرانہ سالی کے بڑا مستعد تھا ۔دو چار دن کے بعد وہ قادیان سے واپس جانے لگا اور حضرت صاحب سے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ آپ اتنی جلدی کیوں جاتے ہیںکچھ عرصہ اور قیام کر یںاس نے کہا میں حضور کے واسطے موجب تکلیف نہیں بننا چاہتا ۔حضرت صاحب نے فرمایا ہمیںخدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیںآپ ٹھہریں ہم سب انتظام کر سکتے ہیں۔چنانچہ وہ یہاں ڈیڑھ دو ماہ ٹھہرا او رپھر چلا گیا۔ایک دفعہ دو بارہ بھی وہ قادیان آیا تھااور پھر اس کے بعد فوت ہو گیا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ میںنے جب یہ روایت سنی توا سے بہت عجیب سمجھا کیونکہ ایک شخص کا دو صدیوںکے سر کو پانا اور پھر دو اماموں کی ملاقات اور بیعت سے مشرف ہو نا کوئی معمولی بات نہیں چنانچہ میں نے اسی شوق میں یہ روایت مولو ی شیر علی صاحب کے پاس بیان کی تو انہوںنے کہا کہ میںنے بھی اس شخص کو دیکھا ہے ۔اس کا چھوٹا قد تھااور وہ بہت معمر آدمی تھااوراس کے بدن پر زخموںکے نشانات تھے اوراس نے حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کو صلوٰۃ خوف کے عملی طریقے بتائے تھے اور بتایا تھا کہ کس طرح ہم سید صاحب کے ساتھ لڑائی کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ درس کے وقت فرمایا تھا کہ میںنے ان سے صلوٰۃ خوف کے عملی طریقے سیکھے ہیں۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حافظ صاحب نے بیان کیا کہ یہ شخص چونڈہ ضلع امرتسر کا تھا ۔
{ 139} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے اس دعویٰ سے پنجاب میں بڑا شور پیدا کیا کہ میں جلتی ہوئی آگ میں گھس جاتا ہوں او ر مجھے کچھ نہیں ہوتا اور اس نے حضرت صاحب کا بھی نام لیا کہ یہ مسیح بنتا پھر تا ہے کو ئی ایسا معجزہ تو دکھائے ۔حضرت صاحب کے پاس اس کی یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہو تو پھر کبھی نہ نکلے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول مداریوں کی طرح تماشے نہیں دکھاتے پھر تے بلکہ جب اللہ تعالیٰ کو ئی حقیقی ضرورت محسوس کر تا ہے تو ان کے ذریعہ کوئی نشان ظاہر فرماتا ہے اور حضرت صاحب کا یہ فرمانا کہ اگر یہ شخص میرے سامنے آگ میں گھسے تو پھر کبھی نہ نکلے۔ اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ حق کے مقابلہ پر کھڑا ہونے کی وجہ سے آگ اسے جلا کر راکھ کر دے گی بلکہ اگلے جہاں میں بھی وہ آگ ہی کی خوراک رہے گا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ واقعی آگ میں جاتا تھا یا نہیں بہر حال حضرت صاحب تک اس کا یہ دعویٰ پہنچا تھا جس پر آپ نے یہ فرمایا۔
{ 140} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں خصوصاً ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی ۔مرزا امام الدین ومرزا نظام الدین وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصاً سکھ سخت ایذا رسانی پر تلے ہوئے تھے اور صرف باتوں تک ایذا رسانی محدود نہ تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدو کوب تک نو بت پہنچی ہوئی تھی ۔اگرکوئی احمدی مہاجر بھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا تھا تو وہ بدبخت اسے مجبور کرتا تھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنا پاخانہ وہاں سے اُٹھائے ۔کئی دفعہ معزز احمدی ان کے ہاتھ سے پٹ جاتے تھے اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اورکدالیں چھین کر لے جاتے اور ان کو وہاں سے نکال دیتے تھے اور کوئی اگر سامنے سے کچھ بولتا تو گندی اور فحش گالیوں کے علاوہ اسے مارنے کے واسطے تیارہو جاتے ۔آئے دن یہ شکائتیں حضرت صاحب کے پاس پہنچتیں رہتی تھیں مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو ۔بعض جوشیلے احمدی حضرت صاحب کے پاس آتے اور عرض کرتے کہ حضور ہم کو صرف ا ن کے مقابلہ کی اجازت دے دیں ۔اور بس پھر ہم ان کو خود سیدھا کر لیں گے ۔حضور فرماتے نہیں صبر کرو۔ایک دفعہ سیّداحمد نور مہاجر کابلی نے اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔اور مقابلہ کی اجازت چاہی مگر حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہو اور اگر لڑنا ہے اور صبر نہیں کر سکتے تو کابل چلے جائو ۔چنانچہ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے معزز احمدی جو کسی دوسرے کی ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔وہ ذلیل و حقیر لوگو ں کے ہاتھ سے تکلیف اور ذلت اٹھا تے تھے اور دم نہ مارتے تھے ۱ ؎ مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بھرتی اٹھائی تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھا بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اس کے مکان پر حملہ آور ہو گئے۔ پہلے تو احمدی بچتے رہے۔لیکن جب انہوں نے بے گناہ آدمیوں کو مارنا شروع کیا اور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمدیوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآخر حملہ آوروں کو بھاگنا پڑا۔چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتہ لگا کہ احمدیوں کا ڈر ان سے نہیں بلکہ اپنے امام سے ہے ۔اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کی۔ اور چونکہ احمدی سراسر مظلوم تھے اور غیر احمدی جتھا بنا کر ایک احمدی کے مکان پر جارحانہ طور پر لاٹھیوںسے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے تھے ۔اس لئے پولیس باوجود مخالف ہونے کے ان کا چالان کر نے پر مجبور تھی جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ہتھکڑی لگتی ہے تو ان کے آدمی حضرت صاحب کے پاس دوڑے آئے کہ ہم سے قصور ہوگیاہے۔حضور ہمیں معاف کر دیںحضرت صاحب نے معاف کردیا ۔یہ پہلا دھکا تھا جو قادیا ن کی غیر احمدی پبلک کو پہنچا ۔اور یہ غالباً ۱۹۰۶ء کی بات ہے ۔اس کے بعد ان کی شرارتیں تو بد ستور جاری رہیں اور اب تک جاری ہیں ۔مگر اب خدا کے فضل سے قادیان میں احمدیوں کی تعدا د بھی بہت زیادہ ہے جو طبعاً غیر احمدیوں کو ہمارے خلاف جرأت کر نے سے روکے رکھتی ہے ۔دوسرے حضرت صاحب کی وفات کے بعد بعض دفعہ غیر احمدیوں کی شرارت کی وجہ سے لڑائی کی صورت پیدا ہو چکی ہے ۔او ر ہر دفعہ غیر احمدیوں کو سخت ذلت اٹھا نی پڑی ہے ۔ لہٰذا اب ان کی شرارتیںگہری چال کی صورت میں بدل کر قانون کی آڑ میں آگئی ہیں ۔
(خاکسار ایڈیشن ثانی کے موقعہ پر عرض کرتا ہے کہ میرے مندرجہ بالا ریمارک سے وہ حالت خارج ہے جو اب کچھ عرصہ سے احرار کی فتنہ انگیزی اور بعض حکام کی جنبہ داری سے قادیان میں جماعت احمدیہ کے خلاف پیدا ہو رہی ہے۔)
{ 141} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبدا للہ صاحب سنوری نے کہ جب حضور کو وَسِّعْ مَکَانَکَ (یعنی اپنا مکان وسیع کر) کا الہام ہوا ۔تو حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مکانا ت بنوانے کے لئے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں اس حکم الہٰی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر بنوا لیتے ہیں ۔چنانچہ حضور نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر حکیم محمد شریف صاحب کے پاس بھیجا جو حضور کے پرانے دوست تھے ۔اور جن کے پاس حضور اکثر امرتسرمیں ٹھہرا کر تے تھے ۔تاکہ میں ان کی معرفت چھپر باندھنے والے اور چھپر کا سامان لے آئوں ۔چنانچہ میں جاکر حکیم صاحب کی معرفت امرتسر سے آدمی ۱؎ اورچھپر کا سامان لے آیا ۔اور حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کر وائے یہ چھپر کئی سال تک رہے ۔پھر ٹوٹ پھوٹ گئے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بات دعویٰ مسیحیت سے پہلے کی ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ توسیع مکان سے مرادکثرت مہمانان و ترقی قادیان بھی ہے ۔
{ 142} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اعجازاحمدی کی تصنیف کے بعد مولوی ثنا ء اللہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس کی دستی خط وکتابت ہوئی تو اس نے ایک دفعہ اپنا ایک آدمی کسی بات کے دریافت کر نے کے لئے حضرت صاحب کے پاس بھیجا ۔یہ شخص جب مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے پاس آیا تو حضرت صاحب اس وقت اُٹھ کراندرون خانہ تشریف لے جارہے تھے۔اس نے حضرت صاحب سے کوئی بات پوچھی اورحضرت صاحب نے اس کا جواب دیا ۔ جس پر اس نے کوئی سوال کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کام یا یہ بات کو ن کرے ۔مولوی صاحب کہتے ہیںکہ سوال مجھے یاد نہیں رہا مگر اس پر حضرت صاحب نے اسے فرمایا ’تو‘ مولوی صاحب فرماتے ہیںکہ میں نے اس دفعہ کے علاوہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے کسی شخص کو توُ کہتے نہیں سنا ۔موافق ہو یا مخالف۔غریب سے غریب اور چھوٹے سے چھوٹابھی ہو تا تھاتو حضرت صاحب اسے ہمیشہ آپ کے لفظ سے مخاطب کر تے تھے ۔مگر اس وقت اس شخص کو آپ نے خلاف عادت ’’تو‘‘ کا لفظ کہا ۔اور ہم سب نے اس بات کو عجیب سمجھ کر محسوس کیا ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس لفظ کے سننے میں غلطی نہیں لگی تو یہ لفظ حضرت صاحب نے کسی خاص مصلحت سے استعمال فرمایا ہو گا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ جلدی میں سہواً نکل گیا ہو۔)
{ 143} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ جب منشی احمدجان صاحب مرحوم لدھیانوی پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے تو حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے جس طریق کو اختیارکیا ہے اس میںخاص کیا کمال ہے۔ منشی صاحب نے کہامیں جس شخص پر توجہ ڈالوںتو وہ بے تاب ہو کر زمین پر گر جاتا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر نتیجہ کیاہوا ؟ منشی صاحب موصوف کی طبیعت بہت سعید اور ذہین واقع ہو ئی تھی بس اسی نکتہ سے ان پر سب حقیقت کھل گئی اور وہ اپنا طریق چھوڑ کرحضرت صاحب کے معتقد ہوگئے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرون اولی کے بعد اسلام میں صوفیوں کے اندر تو جہ کے علم کا بڑا چرچا ہو گیا تھا ۔اور اس کو روحانیت کا حصہ سمجھ لیا گیا تھا حالانکہ یہ علم دنیا کے علوم میں سے ایک علم ہے جسے روحانیت یا اسلام سے کو ئی خاص تعلق نہیںاور مشق سے ہر شخص کو خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم اپنی استعداد کے مطابق حاصل ہو سکتا ہے اورتعلق با للہ اوراصلاح نفس کے ساتھ اسے کوئی واسطہ نہیں ۔لیکن چونکہ نیک لوگ اپنی قلبی توجہ سے دوسرے کے دل میںایک اثرپیدا کردیتے تھے جس سے بعض اوقات وقتی طور پر وہ ایک سرور محسوس کر تا تھا اس لئے اسے روحانیت سمجھ لیا گیا اورچونکہ فَیْجِ اَعْوَج کے زمانہ میں حقیقی تقویٰ و طہارت اوراصلاح نفس اور تعلق باللہ بالعموم معدو م ہو چکا تھااورعلمی طور پر توجہ کے فلسفہ کو بھی دنیا ابھی عام طور پر نہیں سمجھتی تھی اس لئے یہ باتیں طبقہ صوفیا میںرائج ہو گئیںاور پھرآہستہ آہستہ ان کا اثر اتنا وسیع ہوا کہ بس انہی کو روحانی کمال سمجھ لیا گیااور اصل روح جس کی بقا کے واسطے ڈوبتے کو تنکے کاسہارا سمجھ کر اس جسم کو ابتدا میںاختیارکیا گیا تھانظر سے اوجھل اوردل سے محوہوگئی لیکن مسیح موعود کے زمانہ میں جو آخَرِیْنَ مِنْہُمْ کا زمانہ ہے حقیقت حال منکشف کی گئی چنانچہ جب حضرت مسیح موعود ؑنے منشی صاحب کویہ فرمایا کہ اگر آپ نے کسی شخص کو اپنی توجہ سے گرا لیا تو اس کا نتیجہ یا فائدہ کیا ہوا یعنی دینی اور روحانی لحاظ سے اس توجہ نے کیا فائدہ دیا کیونکہ یہ بات تو مشق کے ساتھ ایک دہریہ بھی اپنے اندرپیدا کرسکتاہے تو منشی صاحب کی آنکھیںکھل گئیںاور ان کو پتہ لگ گیا کہ خواہ ہم علم توجہ میں کتنا بھی کمال حاصل کرلیںلیکن اگرلوگ حقیقی تقویٰ و طہارت اورتعلق باللہ کے مقام کو حاصل نہیں کرتے تو یہ بات روحانی طور پرکچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتی ۔واقعی منہاج نبوت کے مقابلہ میں جس پر حضرت مسیح موعود ؑ کوقائم کیا گیااور جس نے روحانیت کا ایک سورج چڑھا دیا ۔ یہ دود آمیز مکدر اور عارضی روشنی جس سے بسا اوقات ایک چور بھی لوگوںکے قلوب سے ایمان و اسلام کا اثاثہ چرا نے کی نیت سے اپنی سیاہ کاری میںممد بنا سکتا ہے کب ٹھہر سکتی تھی ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی احمدجان صاحب لدھیانوی ایک بڑے صوفی مزاج آدمی تھے اور اپنے علاقہ کے ایک مشہور پیر سجادہ نشین تھے مگر افسوس کہ حضرت صاحب کے دعویٰ مسیحیت سے پہلے ہی فوت ہوگئے۔ان کو حضرت مسیح موعود ؑسے اس درجہ عقیدت تھی کہ ایک دفعہ انہوں نے آپ کومخاطب کر کے یہ شعر فرمایا ؎
ہم مریضوںکی ہے تمہیںپہ نظر
تم مسیحا بنو خداکے لئے
منشی صاحب موصوف کی لڑکی سے حضرت خلیفہ اوّل کی شادی ہوئی او ر حضرت مولوی صاحب کی سب نرینہ اولاد انہی کے بطن سے ہے۔منشی صاحب کے دونوںصاحبزادے قادیان میں ہی ہجرت کر کے آگئے ہوئے ہیں اور منشی صاحب کے اکثر بلکہ قریباً سب متبعین احمدی ہیں۔نیز خاکسارعرض کرتاہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خودنہیںملے لہٰذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہوگا۔
{ 144} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کر وایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی اور مہمان آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی ۔حضرت صاحب نے اندر کہلابھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجوائو ۔اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے ۔صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا ۔جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کچھ کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا لیکن زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا کِیا جاوے ۔ میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں ۔حضرت صاحب نے فر مایا نہیں یہ مناسب نہیں ۔تم زردہ کا برتن میرے پاس لائو چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا بر کت دے گا ۔چنانچہ میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا اور سب نے کھایا اور پھر کچھ بچ بھی گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب میاں عبداللہ صاحب نے یہ روایت بیان کی تو مولوی عبدالمغنی صاحب بھی پاس تھے انہوں نے کہا کہ سید فضل شاہ صاحب نے بھی یہ روایت بیان کی تھی ۔ میاں عبداللہ صاحب نے کہا اچھا تب تو اس روایت کی تصدیق بھی ہوگئی ۔شاہ صاحب بھی اس وقت موجود ہوں گے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسرے دن میاں عبداللہ صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے سید فضل شاہ صاحب سے پوچھا ہے وہ بھی اس وقت موجو دتھے اور ان کو یہ روایت یا د ہے ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ مجھ سے یہ گھر والی بات خود حضرت صاحب نے بیان فرمائی تھی ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے یہ روایت سن کر حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ کو یہ واقعہ یاد ہے انہوں نے کہا کہ خاص یہ واقعہ تو مجھے یاد نہیں لیکن ایسا ضرور ہوا ہو گا ۔کیونکہ ایسے واقعات بار ہا ہوئے ہیں ۔میں نے پو چھا کس طرح ۔والدہ صاحبہ نے فرمایا یہی کہ تھوڑا کھانا تیا ر ہوا اور پھر مہمان زیادہ آگئے ۔مثلاً پچاس کا کھا نا ہوا توسو آگئے ۔لیکن وہی کھاناحضرت صاحب کے دم سے کافی ہو جاتا رہا۔پھر حضرت والدہ صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ کو ئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا ۔میں نے حضرت صاحب کے واسطے اس کا پلائو تیا ر کر ایا او ر وہ پلائو اتنا ہی تھا کہ بس حضرت صاحب ہی کے واسطے تیار کروایا تھا مگر اسی دن اتفاق ایسا ہوا کہ نواب صاحب نے اپنے گھر میںدھونی دلوائی تو نواب صاحب کے بیوی بچے بھی ادھر ہمارے گھر آگئے اور حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلائو ۔ میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے تھے ۔حضرت صاحب نے فرمایا چاول کہاں ہیں پھرحضرت صاحب نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور کہا اب تقسیم کر دو۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر نے کھائے اور پھر بڑے مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب)اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی بھجوائے گئے اور قادیان میں اور بھی کئی لوگوں کو دئے گئے ۔اور چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہوگئے تھے اس لئے کئی لوگوں نے آآکر ہم سے مانگے اور ہم نے سب کو تھوڑے تھوڑے تقسیم کئے اور وہ سب کے لئے کافی ہوگئے ۔
{ 145} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے شیخ کرم الہٰی صاحب پٹیالوی نے کہ ایک دفعہ جب ابھی حضرت صاحب نے مسیحیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا میں نے پٹیالہ میں پٹیالہ کے ایک باشندہ محمد حسین کا وعظ سنا۔یہ شخص اب مر چکا ہے اور اس کا خاتمہ حضرت صاحب کی مخالفت پر ہوا تھا مگر میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ وعظ کر رہا تھا کہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کے یہ معجزے سنتے ہیں کہ آپ کی برکت سے کھانا زیادہ ہو گیا یا تھوڑا سا پانی اتنا بڑھ گیا کہ بہت سے آدمی سیراب ہوگئے تو وہ حیران ہو تے ہیں اور ان باتوں کا یقین نہیں کر تے حالانکہ خد اکی قدرت سے یہ باتیں بالکل ممکن ہیں ۔چنانچہ اس زمانہ میں بھی بزرگوں اور اولیا ء اللہ سے ایسے خوارق ظہور میں آجاتے ہیں ۔ پھر اس نے ایک واقعہ سنایا کہ میں ایک دفعہ انبالہ میں حضرت مرزا صاحب کی ملاقات کو گیا ۔وہاں اندر سے ان کے واسطے کھانا آیا جو صرف ایک دو آدمیوں کی مقدار کا کھانا تھا۔مگر ہم سب نے کھایا اور ہم سب سیر ہو گئے حالانکہ ہم دس بارہ آدمی تھے ۔شیخ کر م الہٰی صاحب بیان کرتے تھے کہ دعویٰ مسیحیت پر اس شخص کو ٹھوکر لگی اور وہ مخالف ہو گیا ۔ اور اب وہ مر چکا ہے ۔
{ 146} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ ان سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خاںصاحب مرحوم نے بیان کیا تھا کہ ایک دفعہ جب کوئی جلسہ وغیرہ کا موقعہ تھااور ہم لوگ حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے اور مہمانوں کے لئے باہر پلائوزردہ وغیرہ پک رہا تھا کہ حضرت صاحب کے واسطے اندر سے کھانا آگیا ۔ہم سمجھتے تھے کہ یہ بہت عمدہ کھانا ہو گا لیکن دیکھا تو تھوڑا سا خشکہ تھااور کچھ دال تھی اور صرف ایک آدمی کی مقدار کا کھانا تھا ۔حضرت صاحب نے ہم لوگوں سے فرمایا آپ بھی کھانا کھالیںچنانچہ ہم بھی ساتھ شامل ہو گئے ۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کر تے تھے کہ اس کھانے سے ہم سب سیر ہوگئے۔حالانکہ ہم بہت سے آدمی تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے تعجب آیا کرتا ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے کا دم بھرنے والے لوگ خوارق کے ظہور کے متعلق کیوںشک کر تے ہیں۔جب یہ بات مان لی گئی ہے کہ ایک قادر مطلق خدا موجود ہے جس کے قبضۂ تصّرف میں یہ سارا عالم ہے ۔اور جو اشیاء اور خواصِ اشیاء کا خالق و مالک ہے تو پھر خوارق کا وجود کس طرح مشتبہ ہو سکتاہے کیونکہ وہ خدا جس نے مثلاً کھانے میں یہ خاصیت ودیعت کی تھی کہ اس قدر کھانا ایک آدمی کے لئے کافی ہو ۔کیا وہ اپنی تقدیرخاص سے کسی مصلحت کی بنا پر اس میںوقتی طور پر یہ خاصیت نہیںرکھ سکتا کہ وہی کھانا مثلاً دس آدمی کا پیٹ بھر دے یا بیس آدمی کو سیر کر دے؟اگر اشیاء کے خواص خدا کی طرف سے قائم شدہ تسلیم کئے جاویں تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ بعض مصالح کے ماتحت ان میںوقتی طور پر تغیر تبدل پر خداکیوں نہیں قادر ہو سکتا اگر وہ قادر مطلق ہے تو ہر اک امر جو قدرت کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے اس کے اندر تسلیم کرنا پڑے گا ۔اسی طرح باقی تمام صفات کا حال ہے اور یہ جو ہم کو تعلیم دی گئی ہے کہ تقدیر پر ایمان لائو تو اس سے مراد یہی ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ نہ صرف یہ کہ خواص الاشیاء تمام خد اکی طرف سے ہیںبلکہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر خاص سے ان میںتغیر تبدل بھی کرسکتا ہے گویا ہم تقدیر عام اور تقدیر خاص ہر دو پر ایمان لائیں یعنی اول ہم یہ ایمان لائیں کہ مثلاً آگ میں جو جلانے کی صفت ہے یہ خود بخودنہیں بلکہ خدائی حکم کے ماتحت ہے اور پھر ہم یہ ایما ن لائیں کہ خداتعالیٰ جب چاہے اس کی اس صفت کو مبدّل معطل یا منسوخ کر سکتا ہے اور پھر ہم یہ بھی ایمان لائیں کہ اپنی ہستی کو محسوس و مشہود کرانے کے لئے خداتعالیٰ اپنے خاص بندوں کے ذریعہ بعض اوقات ایسا کرتابھی ہے اور دنیا کو اپنی تقدیر خاص کے جلوے دکھاتا ہے کیونکہ ایمان باللہ اس کے بغیر مستحکم نہیںہو سکتا۔مگر یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ خدا کا کوئی فعل عبث نہیں ہوتا بلکہ حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے۔اس لئے جب خدائی مصلحت تقاضا کر تی ہے تب ہی کو ئی خارق عادت امر ظاہر ہوتا ہے اور پھر اسی طریق پر ظاہر ہو تا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے یہ نہیں کہ نشان کا طالب جب چاہے اور جس طریق پر چاہے اسی طریق پر نشان ظاہر ہو ۔ خدا کسی کا محتاج نہیںبندے اس کے محتاج ہیں اور ضرورت کا فیصلہ کرنا بھی اسی کا کام ہے ۔
{ 147} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی ہندو نے اعتراض کیا کہ حضرت ابراہیم پر آگ کس طرح ٹھنڈی ہو گئی ۔اس اعتراض کا جواب حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے لکھا کہ آگ سے جنگ اور عداوت کی آگ مراد ہے ۔انہی ایام میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام چھوٹی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہم لوگ آپ کے پائوں دبا رہے تھے اور حضرت مولوی صاحب بھی پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے حضرت صاحب کو یہ اعتراض اور اس کا جواب جو مولوی صاحب نے لکھا تھاسنایا ۔حضرت صاحب نے فرمایا اس تکلّف کی کیا ضرورت ہے ہم موجود ہیںہمیںکوئی آگ میںڈال کر دیکھ لے کہ آگ گلزار ہو جاتی ہے یا نہیں ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ اعتراض دھرم پال آریہ مُرتد از اسلام نے کیا تھا اورحضرت مولوی صاحب نے اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں نورالدین کتاب لکھی تھی ۔اس میں آپ نے یہ جواب دیا تھاکہ آگ سے مراد مخالفوں کی دشمنی کی آگ ہے مگر حضرت صاحب تک یہ بات پہنچی توآپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور فرمایا کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں اس زمانہ میںہم موجود ہیں ہمیں کوئی مخالف دشمنی سے آگ کے اندر ڈال کر دیکھ لے کہ خدا اس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دوسرے موقعہ پر اس مفہوم کو اپنے ایک شعر میں بھی بیان فرما یا ہے ۔ ؎
ترے مکروں سے اے جاہل مرانقصاں نہیں ہر گز
کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے
اور آپ کا ایک الہام بھی اس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے جس میں خداتعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے کہہ دے کہ’’ آگ سے ہمیں مت ڈرائوآگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ چوہدری حاکم علی صاحب نے اس ذکر میں یہ واقعہ بھی بیان کیاکہ ایک دفعہ کسی شخص نے یہ تماشا دکھاناشروع کیا کہ آگ میں گھس جاتا تھا اورآگ اسے ضرر نہ پہنچاتی تھی ۔اس شخص نے مخالفت کے طور پر حضرت صاحب کا نام لے کرکہا کہ ان کو مسیح ہو نے کا دعویٰ ہے اگر سچے ہیں تو یہاں آجاویںاور میرے ساتھ آگ میںداخل ہو ںکسی شخص نے یہ بات باہر سے خط میں مجھے لکھی اور میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا ۔آپ نے فرمایا کہ یہ ایک شعبدہ ہے ہم تو وہاں جانہیں سکتے مگر آپ لکھ دیں کہ وہ یہاں آجاوے ۔پھر اگر میرے سامنے وہ آگ میں داخل ہو گا تو زندہ نہیں نکلے گا ۔ چنانچہ میںنے آپ کا یہ جواب لکھ دیا مگر وہ نہیں آیا ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ نادان لوگ بعض اوقات ایسی باتوں سے خدائی قدرت نمائیوں کے متعلق شکوک میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ خدائی باتوں میں خدائی جلوے ہوتے ہیں جو خدا کے چہرہ کو ظاہر کر نے والے ہو تے ہیں مگر انسان خواہ اپنے علم سے کیا کچھ بنالے مگر پھر بھی حالات کا مطالعہ کرنے والوں کو انسانی کاموں میں انسان سے بڑھ کر کو ئی چہرہ نظر نہیں آسکتا چنانچہ بعض اوقات ایک ہی بات ہوتی ہے مگر جب وہ خدا کی طرف سے آتی ہے تو اور شان رکھتی ہے اور انسان کی طرف سے آتی ہے تو اور شان رکھتی ہے ۔اسی مثال میں ظاہر ہو رہا ہے کہ کس طرح خدائی قدرت نمائی کے سامنے انسانی طلسم پر پانی پھر گیا ۔معلوم ہوتا ہے یہ شخص بھی حضرت موسٰیؑ کے زمانہ کے شعبدہ بازوں کی طرح کو ئی شعبدہ دکھاتا ہوگا ۔ مگر مسیح موعود پر اس معاملہ میں خدا کا فضل موسٰی ؑ سے بڑھ کر معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں تو انسانی طلسم کو مٹانے کے لئے موسیٰ کو کچھ دکھانا پڑا اور یہاں صرف دکھانے کا نام لینے پر ہی طلسم پاش پاش ہو گیا اور دشمن کو سامنے آنے کی جرأت ہی نہ ہوئی فالحمد للہ علی ذالک۔
{ 148} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیا ن کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب منارۃ المسیح کے بننے کی تیاری ہو ئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکائتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہوگی ۔چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیا ن آیا او ر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا۔اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کر نے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے ۔حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڈھامل بیٹھاہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کو ئی موقعہ ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کو ئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقعہ ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کو ئی کسر چھوڑی ہو ۔حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میں اس وقت بڈھامل کی طرف دیکھ رہا تھا اس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوئوں میں دیا ہو اتھا ۔اور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑگیا تھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڈھامل قادیان کے آریوں کا ایک ممتاز رکن ہے اور اسلام اور اس سلسلہ کا سخت دشمن ہے اور آج تک زندہ اور یَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَا نِھِمْ کا مصداق ہے ۔
{ 149} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان فرمایا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے کہ لالہ بھیم سین صاحب سیالکوٹی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت اچھے تعلقات تھے حتّٰی کہ آخری ایام میں بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوکبھی کچھ روپے کی ضرورت ہو تی تھی تو ان سے بطور قرض منگا لیتے تھے چنانچہ وفات سے دو تین سال قبل ایک دفعہ حضرت صاحب نے لالہ بھیم سین صاحب سے چند سو روپیہ بطور قرض منگوایا تھا۔ حالانکہ اپنی جماعت میں بھی روپیہ دے سکنے والے بہت موجود تھے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ لالہ بھیم سین صاحب سے ابتداء ً ملازمت سیالکوٹ کے زمانہ میں حضرت صاحب کے تعلقات پیدا ہوئے اور پھر یہ رشتہ ٔ محبت آخر دم تک قائم رہا ۔لالہ صاحب حضرت صاحب کے ساتھ بہت عقید ت رکھتے تھے ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی روایت ہے کہ جن ایام میں جہلم کا مقدمہ دائر ہو ا تھا۔ لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت صاحب کو تار دیا تھا کہ میرے لڑکے کو جو بیرسٹر ہے اجازت عنایت فرما ویںکہ وہ آپ کی طرف سے مقدمہ کی پیروی کرے مگر حضرت صاحب نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس لڑکے کی خدمات لالہ صاحب نے پیش کی تھیں ان کا نام لالہ کنور سین ہے جو ایک لائق بیرسٹر ہیں اور گذشتہ دنوں میںلاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور آجکل کسی ریاست میں چیف جج کے معزز عہدہ پر ممتا ز ہیں ۔نیز حضرت خلیفۃ المسیح ثانی بیان فرماتے ہیں کہ جو چھت گر نے کا واقعہ ہے اس میں بھی غالباً لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب موصوف امتحان مختاری کی تیاری میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ شریک تھے ۔چنانچہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو کر مختا ر بن گئے ۔مگر آپ کے لئے چونکہ پردہ غیب میں اور کام مقدر تھا اس لئے آپ کو خدا نے اس راستہ سے ہٹا دیا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ بھیم سین صاحب کی کامیابی کے متعلق بھی حضرت صاحب نے خواب دیکھا تھاکہ جتنے لوگوں نے امتحان دیا ہے ان میںسے صرف لالہ بھیم سین صاحب پاس ہوئے ہیں۔چنانچہ ایسا ہی ہو ا۔
{ 150} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے اپنی کتاب حیاۃ النبی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ ملازمت سیالکوٹ کے متعلق مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹی کی ایک تحریر نقل کی ہے جو میں مولوی صاحب موصوف سے براہ راست تحریری روایت لے کر درج ذیل کرتا ہوں ۔مولوی صاحب موصوف سید میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی کے چچا ہیں اور سیالکوٹ کے ایک بڑے مشہور مولوی ہیں ۔ مولوی صاحب مذہباً احمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبع نہیںبلکہ وہ سر سید مرحوم کے خیالات کے دلدادہ ہیں ۔وہ لکھتے ہیں: ۔
’’ حضرت مرزا صاحب۱۸۶۴ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا۔چونکہ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے ۔آپ پسند نہیں فرماتے تھے ۔لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا ڈپٹی مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھے ان کے بڑے رفیق تھے ۔اور چونکہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپس میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان سے اتحاد کامل رہا۔پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے ۔اور چونکہ لالہ صاحب طبع سلیم اور لیاقت زبان فارسی اور ذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی ۔مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ تھے مگر چونکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہواتو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کا نام پرکسن تھا ۔اور پھر وہ آخر میں کمشنر راولپنڈی کی کمشنری کے ہوگئے تھے ) محمدصالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ترجمان کی ضرورت تھی ۔مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے ۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو۔اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھو اتے جائو۔مرزا صاحب نے اس کام کو کماحقہ ادا کیا ۔اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہو ئی ۔
اس زمانہ میں مولوی الہٰی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے ۔(اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے ) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں ۔ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیںاستاد مقرر ہوئے ۔مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں ۔
مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا ۔چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا ۔ ایک دفعہ پادری الایشہ صاحب جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں سے ایک کوٹھی میںرہا کرتے تھے مباحثہ ہوا۔ پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی ۔مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے ؟ اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں ؟ مفصل بیان کیجئے ۔ پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا ’’میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا ۔‘‘
پادری بٹلر صاحب ایم ۔اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے ۔مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہو ا۔یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے ۔ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میںیہ سرّ تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ اور آدم کی شرکت سے جوگنہگار تھا بری رہے ۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے ۔اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی ۔جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا ۔ پس چاہیے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے ۔اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے ۔
پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے ۔ پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی ۔چنانچہ جب پادری صاحب ولایت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری تشریف لائے ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا ۔تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا ۔چونکہ میں وطن جانے والا ہوں اس واسطے ان سے آخری ملاقات کر وں گا ۔چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے ۔اور ملاقات کر کے چلے گئے ۔
چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کر تے تھے ۔اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعد ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ نام جالندھر کے رہنے والے تھے ۔مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات و انجیل کی تفسیر لکھی ہے ۔آپ ان سے خط وکتابت کریں ۔اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی ۔چنانچہ مرزا صاحب نے سر سید کو عربی میں خط لکھا ۔
کچہری کے منشیوں سے شیخ الہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت اُنس تھا ۔اور نہایت پکی اور سچی محبت تھی ۔شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزیں اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے ۔مرزاصاحب کو دلی محبت تھی۔
چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہو گیا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا ۔
چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے ۔اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی ۔ اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا ۔پر امتحان میں کامیاب نہ ہو ئے اور کیوں کر ہو تے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے ۔سچ ہے ع
ہر کسے را بہر کارے ساختند
ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہو ئی تھی ۔اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی ۔جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کی نہایت کامل ہے ۔آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہو جائیں گے ۔فرمایا:۔
ـ’’ میں مدرسی کو پسند نہیں کر تا ۔کیونکہ اکثر لوگ پڑھ کر بعد ازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں ۔اور علم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا بناتے ہیں ۔میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں ۔ اُحْشُرُ وا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ ـ (الصافات :۲۳)اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے ۔
ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا ؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے ۔اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے ۔اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا ۔
ایک مرتبہ لباس کے بارہ میں ذکر ہورہا تھا ،ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھاہوتا ہے ۔جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں ۔ دوسرے نے کہا کہ تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے ۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ :۔
’’بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کاپاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے ۔اور اس میں پردہ زیادہ ہے ۔کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہو جاتا ہے ۔سب نے اس کو پسند کیا ۔
آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے ۔اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام کیا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے ۔
اسی سال سرسید احمد خاں صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی ۔تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی ۔ جب میں اور شیخ الہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثناء گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔اتنے میں تفسیر کا ذکر بھی آگیا ۔راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آگئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے ۔فرمایا :۔
’’ کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آویں ‘‘
جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سُن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا ۔
اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمرراقم کے قیاس میں تخمینًا ۲۴سے کم اور۲۸سے زیادہ نہ تھی ۔ غرضیکہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸سے متجاوز نہ تھی ۔راقم میر حسن ‘‘
خاکسارعرض کرتا ہے کہ اوّل مولوی میر حسن صاحب موصوف نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سیالکوٹ میں ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھی تھیں اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ انگریزی خواں تھے۔ ایک یادو کتابیں پڑھنے کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ آپ کو حروف شناسی ہو گئی تھی کیونکہ پہلے ز مانہ میں جو انگریزی کی پہلی کتاب ہو تی تھی ۔ اس میں صرف انگریزی کے حروف تہجی کی شناخت کروا ئی جاتی تھی ۔اور دوسری کتاب میں حروف جوڑ کر بعض چھوٹے چھوٹے آسان الفاظ کی شناخت کروائی جاتی تھی۔اور آج کل بھی انگریزی کی ابتدائی ایک دو کتابوں میں قریباً اسی قدر استعداد مدنظر رکھی جاتی ہے۔خاکسار کو یاد ہے کہ جب میں غالباً ساتویں جماعت میں تھا تو ایک دفعہ میں گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کھڑا تھا اور میرے پاس ایک انگریزی طرز کا قلمدان تھا جس میں تین قسم کی سیاہی رکھی جاسکتی ہے ۔اس میں Red.Copying.Blue کے الفاظ لکھے ہو تے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے ہاتھ میں یہ قلم دان دیکھا تو اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ پڑھنے چاہے۔مگر مجھے یاد ہے کہ پہلا اور تیسرا تو آپ نے غور کے بعد پڑھ لیا مگر درمیان کے لفظ کے متعلق پڑھنے کی کوشش کی مگر نہیں پڑھ سکے ۔چنانچہ پھر آپ نے مجھ سے وہ لفظ پوچھا اور اس کے معنے بھی دریافت فرمائے۔ غرض معلوم ہو تا ہے کہ چھوٹے مفرد اور آسان الفاظ آپ غور کرنے سے پڑھ سکتے تھے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو انگریزی حروف شنا سی ہوگئی بس اس سے زیادہ نہیں۔
دوسرے :۔ مولوی میر حسن صاحب نے لکھا ہے کہ زمانہ قیام سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی میں کامل استعداد تھی اور آپ عربی میں تحریر و تقریر کر سکتے تھے۔ یہ ریمارک جس رنگ میں مولوی صاحب نے کیا ہے درست ہے۔ مگر یہ ایک نسبتی ریمارک ہے۔ جس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس وقت سیالکوٹ کے ایک خاص حلقہ میں حضرت صاحب کی عربی استعداد دوسروں کی نسبت اچھی تھی اور آپ ایک حد تک عربی میں اپنے ما فی الضمیر کو ادا کر سکتے تھے لیکن ویسے حقیقۃً دیکھا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکتسابی تعلیم عام مرو جہ حد سے ہرگز متجاوز نہیں تھی۔ اور وہ بھی اس حد تک محدود تھی جو اس وقت قادیان میں گھر پر استاد رکھنے سے میسر آسکتی تھی۔ کیونکہ آپ نے کسب علم کے لئے کبھی کسی بڑے مرکز یا شہر کا سفر اختیار نہیں کیا۔
تیسرے:۔ مولوی میر حسن صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب نے سر سید کی تفسیر دیکھی مگر پسند نہیں فرمایا اس کی یہ وجہ ہے کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سرسید مرحوم کو ایک لحاظ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور انہیں قوم کا ہمدرد اور بہی خواہ سمجھتے تھے لیکن سر سید کے مذہبی خیالات کے آپ سخت مخالف تھے ۔کیونکہ مذہبی معاملات میں سر سید کی یہ پالیسی تھی کہ نئے علوم اور نئی روشنی سے مرعوب ہو کر ان کے مناسب حال اسلامی مسائل کی تاویل کر دیتے تھے ۔چنانچہ یہ سلسلہ اتنا وسیع ہوا کہ کئی بنیادی اسلامی عقائد مثلاً دعا ،وحی والہام ، خوارق ومعجزات ،ملائک وغیرہ کے گویا ایک طرح منکر ہی ہو گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سر سید کی یہ حالت دیکھ کر انہیں اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں نہایت درد مندانہ طریق پر مخاطب کر کے ان کی اس سخت ضرر رساں پالیسی پر متنبہ فر ما یا ہے ۔
نیز خاکسار عرض کر تا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول بھی اوائل میں سر سید کے خیالات اور طریق سے بہت متاثر تھے ۔مگر حضرت صاحب کی صحبت سے یہ اثر آہستہ آہستہ دُھلتا گیا ۔مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور بھی ابتدا میں سر سید کے بہت دلدادہ تھے چنانچہ حضرت صاحب نے بھی اپنے ایک شعر میں ان کے متعلق اس کا ذکرفر ما یا ہے ۔ فرماتے ہیں ؎
مدتے درآتش نیچر فرو افتادہ بود

ایں کرامت بیں کہ از آتش بروں آمد سلیم
(نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی میر حسن صاحب کی ایک دوسری روایت حضرت مسیح موعود کے زمانہ سیالکوٹ کے متعلق نمبر ۲۸۰ پر بھی درج ہے۔)
{ 151} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنواں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسید لی اور نہ کوئی تحریر کروائی اور کنواں بھی اسی کے قبضے میں رہنے دیا کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس سے کنوئیں کی آمد کا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہوگیا اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا ۔ حافظ صاحب کہتے تھے کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا مگر حضرت صاحب نے فرمایا تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میںرکھا جس سے اس کو بد دیانتی کا موقعہ ملا اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اورکیوںاس سے باقاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا ؟
{ 152} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو قا دیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدا سے ہی گوشہ تنہائی کی زندگی بسر کرتے رہے لیکن پھر بھی قادیان کے بعض ہندوئوں کی آپ سے اچھی ملاقات تھی چنانچہ لالہ شرم پت اور لالہ ملاوامل سلسلہ بیعت سے بہت پہلے کے ملاقاتی تھے ان سے حضرت صاحب کی اکثر مذہبی گفتگو ہو تی رہتی تھی اور باوجود متعصب آریہ ہونے کے یہ دونوں آپ سے عقیدت بھی رکھتے تھے اور آپ کے تقدس اور ذاتی طہارت کے قائل تھے ۔ابتداء ً لالہ ملاوامل کے تعلقات بہت زیادہ تھے چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ کی شادی کے موقعہ پر لالہ ملا وامل حضرت صاحب کے ساتھ دہلی گئے تھے مگر بعد میں اس کا آنا جا نا کم ہوگیا کیونکہ یہ سخت متعصب آریہ تھا اور آریوں کو حضرت صاحب کے ساتھ سخت عداوت ہو گئی تھی چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت صاحب کا الہام ’’ یہودا اسکر یوطی ‘‘ ملاوامل ہی کے متعلق ہے ۔مگر لالہ شرم پت کے تعلقات حضرت اقدس کے ساتھ آخر تک قریباً ویسے ہی رہے ۔ لالہ ملا وامل اب تک بقید حیات ہے مگر لالہ شرم پت کئی سال ہو ئے فوت ہو چکے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کئی تحریرات میں ان ہر دو کو اپنی بعض پیشگوئیوں کی تصدیق میں شہادت کے لئے مخاطب کیا ہے اور ان کو بار بار پوچھا ہے کہ اگر تم نے میری فلاں فلاں پیشگوئیاں پوری ہوتی مشاہد ہ نہیں کیں تو حلف اٹھا کر ایک اشتہار شائع کرو اور دوسرے آریوں کو بھی ابھارا ہے کہ ان سے حلفیہ بیان شائع کروائو مگر یہ دونوں خاموش رہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی تیار کروانی چاہی تو اس کے لئے بھی آپ نے لالہ ملاوامل کو روپیہ دے کر امرتسر بھیجا تھا ۔چنانچہ لالہ ملاوامل امرتسر سے یہ انگوٹھی قریباً پانچ روپے میں تیار کروا کر لائے تھے ۔حضرت صاحب نے اپنی کتابو ں میں لکھا ہے کہ میں نے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ لالہ ملاوامل اس الہام کا پوری طرح شاہد ہو جاوے چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی کتب میں اس پیشگوئی کی صداقت کے متعلق بھی لالہ ملا وامل کو شہادت کے لئے بلایا ہے۔
{ 153} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چوہدری حاکم علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول کے بعض شاگردوں کے متعلق بدکاری کا شبہ ہوا اور یہ خبر حضرت صاحب تک بھی جاپہنچی۔ حضور نے حکم دیا کہ وہ طالب علم فوراً قادیان سے چلے جاویں۔ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کے سامنے بطور سفارش کہا کہ حضور صرف شبہ کیا گیا ہے کوئی بات ثابت تو نہیں ہوئی ۔حضرت صاحب نے فرمایا مولوی صاحب ہم بھی تو ان کو شرعی حد نہیں لگا رہے بلکہ جب ایسی افواہ ہے اور شبہ پیدا ہوا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ احتیاطاً ان کو قادیان سے رخصت کردینا چاہئیے ۔مگر ہم ان پر کوئی شرعی الزام نہیں رکھتے ۔
{ 154} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاںعبدا للہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں مَیں سخت غیر مقلد تھااور رفع یدین اور آمین بالجہر کا بہت پابند تھا اور حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی میں نے یہ طریق مدت تک جاری رکھا ۔عرصہ کے بعد ایک دفعہ جب میں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی تو نماز کے بعد آپ نے مجھ سے مسکرا کر فرمایا میاں عبداللہ اب تو اس سنت پر بہت عمل ہو چکا ہے اور اشارہ رفع یدین کی طرف تھا۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے میں نے رفع یدین کرنا ترک کر دیا بلکہ آمین بالجہر کہنا بھی چھوڑ دیا اور میاں عبدا للہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صاحب کو کبھی رفع یدین کر تے یا آمین بالجہر کہتے نہیں سنا اور نہ کبھی بسم اللہ بالجہر پڑھتے سنا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق عمل وہی تھا جو میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا لیکن ہم احمدیوںمیں حضرت صاحب کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی یہ طریق عمل رہا ہے کہ ان باتوں میں کوئی ایک دوسرے پر گرفت نہیں کرتا بعض آمینبالجہر کہتے ہیں بعض نہیں کہتے بعض رفع یدین کر تے ہیں اکثر نہیں کر تے بعض بسم اللہ بالجہرپڑھتے ہیں اکثر نہیں پڑھتے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ دراصل یہ تمام طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں مگر جس طریق پر آنحضرت ﷺ نے کثرت کے ساتھ عمل کیا وہ وہی طریق ہے جس پر خود حضرت صاحب کا عمل تھا ۔
{ 155} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبدا للہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اور خود ہی نماز میں امام ہو ا کرتے تھے۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نور الدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروا دیا ۔چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے ۔ حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہو تے تھے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نور الدین صاحب امام ہوتے تھے ۔جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کوعموماً لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اور مولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے تھے ۔بعد میں جب حضرت کی طبیعت عموماً نا ساز رہتی تھی مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھا تے تھے ۔مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبار ک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حا ضر ی میں مولو ی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے ۔حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا ۔عید کی نماز میں عموماً مولوی عبدالکریم صاحب اور ان کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے ۔ جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعو د ؑ جب آپ شریک نماز ہوں خود پڑھایا کرتے تھے ۔
{ 156} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے عید الاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا ۔حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے آگے میں انتظا ر میں موجود تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز کے بعد خطبہ شروع فرمایا ۔اور حضرت مولو ی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رُک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے ۔اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو ۔یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ’’ص‘‘ سے لکھو یا ’’سین‘‘ سے لکھو ۔
اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحب کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا ۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے ۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا ۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا ۔اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہئیے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے ۔صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے ۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں ۔یہ خطبہ ،خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے ۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّ ل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحی میں دیا گیا تھا جو ۱۹۰۰ء میں آئی تھی مگر شائع بعد میں ۱۹۰۲ء میں ہوا۔
{ 157} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے متعلق اپنے اشعار میں لکھا ہے ۔ ؎
مبار ک وہ جو اب ایمان لایا صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی

فسبحان الذی اخزی الاعادی
یعنی مبارک ہے وہ شخص جو اب میری موجود گی میں ایمان لاتا ہے کیونکہ وہ میری صحبت میں آکر صحابہ کی جماعت میں داخل ہوجا تا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جو عرفان اور تقویٰ کی مے صحابہ کرام کو ملی تھی وہی میرے صحابہ کو بھی دی گئی ہے ۔پھر ایک اور موقع پر جب عبدا لحکیم خان مرتد نے آپ کی جماعت پر کچھ اعتراضات کئے تو آپ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ :۔’’ آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک حکیم مولو ی نورالدین صاحب اس جماعت میں عملی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں دوسرے ایسے ہیں اور ایسے ہیں ۔میں نہیں جانتا کہ آپ اس افترا کا کیا خدا تعالیٰ کو جواب دیں گے ۔میں حلفًا کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں ۔اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں ۔میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزارہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہرہ پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں ۔ ہاں شاذو نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ ونادرمیں داخل ہیں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے ۔ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دست بردار ہو جائو تو وہ دست بردار ہو جانے کے لئے مستعد ہیں ۔پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا ۔مگر دل میں خوش ہو ں ۔‘‘
اسی طرح بعض اور موقعوں پر بھی آپ نے اپنی جماعت کی بہت تعریف کی ہے لیکن بعض نادان اس میں شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں تو ہمیں سب کچھ نظر آتا ہے مگر یہاں بہت کم گویا مقابلۃً کچھ بھی نہیں ۔اس دھوکے کا ازالہ یہ ہے کہ بعض ایسی باتیں ہیں کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت کی حقیقی قدر پہچاننے کے رستہ میں روک ہو رہی ہیں ۔مگر صحابہ کرام کے متعلق وہ روک نہیںہے مثلاً
اوّل ہم عصر یت ہے یعنی ایک ہی زمانہ میں ہونا ۔جس طرح ہم وطن ہونا ۔انسان کی حقیقی قدر کے پہچانے جانے کے رستہ میں روک ہوتا ہے جیسے کہ کہاگیا ہے کہ نبی ذلیل نہیں مگر اپنے وطن میں اسی طرح مثلاً پنجابی میں کہاوت ہے کہ ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ ٹھیک اسی طرح ہم عصر ہونا بھی حقیقی قدر کے پہچانے جانے کے رستہ میں ایک بہت بڑی روک ہوتا ہے ۔اور عموماً انسان اپنے زمانہ کے کسی آدمی کی بڑائی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔اور یہ تعصب گویا طبعی طور پر انسان کے اندر کام کرتا ہے ۔پس چونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے لئے صحابہ کی جماعت ایک دور دراز کی بات ہے لیکن مسیح موعود ؑ کی جماعت خود اپنے زمانہ کی ہے اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہے اس لئے وہ بالعموم مسیح موعود کے صحابہ کی قدر پہچا ن نہیں سکتے ہاں جب یہ زمانہ گذر جائے گا اور حضرت مسیح موعود کی صحبت یافتہ جماعت ایک گزشتہ کی چیز ہو جائے گی توپھر دیکھنا کہ آئندہ نسلوں میں یہی جماعت کس نظر سے دیکھی جاتی ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ عموماً اسلامی تاریخ سے تفصیلی طور پر واقف نہیں مگر یہاں کی باتیں وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔صحابہ کی جماعت کے متعلق لوگوں کا عمل عموماً واعظوں کے وعظوں سے ماخوذ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ واعظ اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لئے عموماً خاص خاص موقعوں کی خاص خاص باتوں کو سجا سجا کر بیان کرتا ہے مگر لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ گویا اس جماعت کے سارے افراد سارے حالات میں اسی رنگ میں رنگین تھے اور اسی کے مطابق وہ اپنے ذہن میں نقشہ جما لیتے ہیں ۔اور پھر وہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کو بھی اسی معیار سے ناپتے ہیں جس کا نتیجہ ظاہر ہے ۔اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام جیسا اعلیٰ نمونہ نہ پہلی کسی امت میں نظر آتا ہے نہ اب تک بعد میں کہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔یعنی بحیثیت مجموعی ۔مگر احادیث سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ میں بھی کمزوریاں تھیں اور کمزوریاں بھی مختلف اقسام کی نظر آتی ہیں مگر اس سے صحابہ کے تقدس پر بحیثیت مجموعی کوئی حرف گیری نہیں ہوسکتی اور صحابہ کا بے نظیر ہونا بہر حال ثابت ہے (اے اللہ تو مجھے آنحضرت ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس جماعتوں پر حرف گیری کرنے سے بچا اور مجھے ان کے پاک نمونہ پر چلنے کی توفیق دے )۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے حالات تو اجتماعی حیثیت میں منضبط اور مدون طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن باوجود ہمعصر ہونے کے حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے حالات ابھی تک ہمارے سامنے اس طرح موجود نہیں ورنہ میں سچ سچ کہتا ہوںکہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ میں بھی بے شمار ایسے اعلیٰ نمونے موجود ہیں کہ جن کے مشاہدہ سے ایمان ترو تازہ ہوجاتا ہے ۔ جب اسلامی تاریخ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے صحابہ کے حالات جمع ہو کر منضبط اور مدون ہوں گے اس و قت انشاء اللہ حقیقت حال منکشف ہوگی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو تفصیلی حالات آنحضرت ﷺ کے صحابہ کرام کے بحیثیت مجموعی ہم کو معلوم ہیں یا ہوسکتے ہیں وہ خود صحابہ کو بھی معلوم نہیں تھے ۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک زمانہ کی مختلف خصوصیات اور مختلف حالات ہوتے ہیں۔صحابہ کو مشیّت ایزدی سے ایسے جسمانی مواقع پیش آئے جن سے راسخ الایمان لوگوں کاایمان چمکا اور دنیا میں ظاہر ہوا ۔مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کے لئے اس قسم کے ابتلا مقدر نہیں تھے ورنہ ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ ان کا ایمان بھی علیٰ قدر مراتب اسی طرح چمکتا اور ظاہر ہوتا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ میں سے صر ف دو آدمیوں زپر وہ وقت آیا کہ خدا کی راہ میں ان سے ان کی جان کی قر بانی مانگی گئی ۔اور دنیا دیکھ چکی ہے کہ انہوں نے کیا نمونہ دکھا یا ۔ (اس جگہ میری مراد کابل کے شہداء سے ہے)
پانچویں وجہ یہ ہے جس کو لوگ عمومًا نظر انداز کردیتے ہیں کہ کسی قوم کے درجہ اصلاح کا اندازہ کرنے کے لئے ان مخالف طاقتوں کا اندازہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جو اس قوم کو ایمان کے راستہ میں پیش آتی ہیں ۔ اگر ایک قوم کے مقابل میں مخالف طاقتیں نہایت زبر دست اور خطرناک ہیں تو اس کا ایمان کے راستہ میں نسبتًا تھوڑی مسافت طے کر نا بھی بڑی قدرو منزلت رکھتا ہے ۔پس صرف یہ دیکھنا کافی نہیں کہ فلاں قوم ایمان کے راستہ پر کس قدر ترقی یافتہ ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس نے یہ ترقی کن مخالف طاقتوں کے مقابل پر کی ہے ۔پس اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کی اصلاح واقعی معجزنما ہے ۔کیونکہ یہ مسلمات میں سے ہے کہ اس زمانہ میں جو مخالف طاقتیں ایمان کے مقابلہ میں کام کر رہی ہیں اس کی نظیر گزشتہ زمانوں میں نہیں پائی جاتی ۔حتیّٰ کہ خود سرور کائنات کے زمانہ سے بھی اس زمانے کے فتن بڑھ کر ہیں کیونکہ یہ دجال کا زمانہ ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سب نبی اس سے ڈراتے آئے ہیں ۔اور خود آنحضرت ﷺ نے بھی اس سے اپنی امت کو بہت ڈرایا ہے اور اس بات پر اجما ع ہوا ہے کہ دجّالی فتنہ سب فتنوں سے بڑھ کر ہے اور واقعی جو مادیت اور دہریت اور دنیاپرستی کی زہریلی ہوائیں اس زمانہ میں چلی ہیں ایسی پہلے کبھی نہیں چلیں اور مذاہب باطلہ و علوم مادی کا جو زور اس زمانہ میں ہوا ہے ایسا کبھی نہیں ہوا ۔پس ایسے خطرناک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ایسی جماعت تیار کرلینا جو واقعی زندہ اور حقیقی ایمان پر قائم ہے اور اعمال صالحہ بجا لاتی ہے اور تمام مخالف طاقتوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہے ایک بے نظیرکامیابی ہے۔ بے شک آنحضرت ﷺکے زمانہ میں ایمان کے راستہ پر شیطان کے شمشیر بردار سپاہی موجود تھے اور یہ ایک بہت بڑی روک تھی کیونکہ ایک مومن کو خون کی نہر میں سے گزر کرایمان کی نعمت حاصل کرنی پڑتی تھی مگر جہاں ایمان کے راستہ پر شیطان نے نہ صرف یہ کہ اپنی ساری فوجیں جمع کررکھی ہیں بلکہ اس نے ایسے سپاہی مہیا کئے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر راہ گیروں سے ایمان کی پونجی لوٹتے چلے جارہے ہیں ۔اور سوائے روحانی طاقتوں کے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ پس حضرت مسیح موعو د ؑ کی کامیابی ایک واقعی بے نظیر کامیابی ہے مگر یہ کامیابی بھی دراصل آنحضرت ﷺ ہی کی کامیابی ہے ۔کیونکہ شاگرد کی فتح استاد کی فتح ہے اور خادم کی فتح آقا کی فتح ۔لہٰذا ان حالات میں اگر حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں کوئی کمی بھی ہے تو وہ بحیثیت مجموعی جماعت کی شان کو کم نہیں کرسکتی ۔
چھٹی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ کا یہ بھی خاصہ ہے کہ جب تک کو ئی شخص زندہ ہے اس کا حسن مخفی رہتا ہے اور کمزوریاں زیادہ سامنے آتی ہیں ۔یعنی عموماً تصویر کا کمزور پہلو ہی زیادہ مستحضر رہتا ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد معاملہ بر عکس ہوجاتا ہے۔یعنی مرنے کے بعد مرنے والے کی خوبیاں زیادہ چمک اٹھتی ہیں اور زیادہ یاد رہتی ہیں اور کمزوریاں مدھم پڑ جاتی ہیں او ر یاد سے محو ہوجاتی ہیں ۔پس حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کا بھی یہی حال ہے جب وہ وقت آئے گا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ گزر جائیں گے تو پھر ان کا اخلاص اور ان کی قربانیاں چمکیں گی اور وہی یاد رہ جائیں گی اور کمزوریاں مٹ جائیں گی اور ہم خود اس بات کو عملاً محسو س کر رہے ہیں کیونکہ جو احباب ہمارے فوت ہو چکے ہیں ان کی خوبیاں ہمارے اندر زیادہ گہرا نقش پیدا کر رہی ہیں ۔بمقابلہ ان کے جو بقید حیات ہیں اسی طرح گزرے ہو ئے دوستوں کی کمزوریاں ہمارے ذہنوں میں کم نقش پیدا کرتی ہیں بمقابلہ ان کے جو ہم میں زندہ موجود ہیں ۔اور تاریخ کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ صحابہ میں بھی یہی احساس تھا۔
ساتویں وجہ یہ ہے کہ لوگ عموماً اس بات کو نہیں سمجھتے کہ انفرادی اصلاح اور جماعت کی اجتماعی اصلاح میں فرق ہے اور دونوں کا معیار جدا ہے ۔کسی جماعت کو اصلاح یافتہ قرار دینے کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے سارے افراد اصلاح یافتہ ہوں بلکہ جس قوم کے اکثر افراد نے اپنے اندرتبدیلی کی ہے اور اپنے اندر ایمان اور صلاحیت کا نور پیدا کیا ہے وہ اصلاح یافتہ کہلائے گی خواہ اس کے بعض افراد میں اصلاح نظر نہ آئے ۔اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی جماعت کے اصلاح یافتہ افرادسب کے سب ایک درجہ صلاحیت پر قائم ہوں بلکہ مدارج کا ہونا بھی متحقق ہے ۔لہٰذا بحیثیت مجموعی جماعت کی حالت کو دیکھنا چاہئیے اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ مختلف افراد کے فطری قویٰ اور فطری استعدادیں الگ الگ ہوتی ہیں پس سب سے ایک جیسی اصلاح متوقع نہیں ہو سکتی اور نہ کسی جماعت میںہم کو اس کے سب افراد ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔لہٰذا ہمارا معیار یہ ہونا چاہئیے ۔کہ ایک انسانی جماعت سے جس میںہر قسم کے لوگ شامل ہیں بحیثیت مجموعی کس درجہ کی اصلاح کی توقع رکھی جا سکتی ہے اور اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کا قدم بہت بلند نظر آتا ہے۔
آٹھویںوجہ یہ ہے کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کمزور لوگ خواہ جماعت میں بہت ہی تھوڑے ہوں مگر زیادہ نظر آتے ہیں کیونکہ بدی آنکھ میں کھٹکتی ہے اور نیکی بوجہ لطافت کے سوائے لطیف حس کے عموماً محسوس نہیں ہوتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں میں اگر پانچ دس بھی شریر ہوں تو عموما ً لوگوں کو ایسا نظر آتا ہے کہ گویا اکثر شریر ہی ہیں اور بھلے مانس کم ہیں کیونکہ شریر اپنی شرارت کی وجہ سے نمایاں ہو جاتا ہے اور اس کی طرف لوگوں کی نظر فوراً اُٹھتی ہے۔ دیکھ لو آنکھ میں ہوا ہر وقت بھری رہتی ہے مگر آنکھ اسے محسوس نہیں کرتی لیکن اگر اس میں ایک چھوٹا سا تنکا بھی پڑ جاوے تو قیامت برپا کر دیتا ہے لیکن جب وہ وقت گذر جاتا ہے یعنی وہ جماعت فوت ہوجاتی ہے تو پھر ایسا ہوتا ہے کہ گویا آنکھ کا تنکا نکل گیا اور صرف لطیف اور خنک ہوا آنکھ کو ٹھنڈاکرنے کے لئے باقی رہ گئی ۔مجھے یاد ہے کہ میرے سامنے ایک دفعہ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ قادیان کے احمدیوں میں سے اکثر لوگ بُرے ہیں میں نے کہا کہ تم غلط کہتے ہو۔ اس نے کہا کہ نہیں میں خوب جانتا ہوں ۔میں نے اس سے کہا کہ اکثر کا بُرا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر فی صدی تو برے ہوں گے۔ اس نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ ہیں میں نے اس سے کہا کہ منہ سے کہہ دینا آسان ہے مگر ثابت کرنا مشکل ، تم مجھے صرف دس فی صدی بتا دو چلو پانچ فی صدی بتا دو اور میں تمہیں یہ یہ انعام دوں گا مگر وہ ایک شرمندہ انسان کی طرح ہنس کر خاموش ہو گیا ۔اگر اس طرح منہ سے کہہ دینا ہی کافی ہو تو مشرکین اور یہود بھی صحابہ کرام کے متعلق کیا کچھ نہ کہتے ہوں گے ۔
نویںوجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں تو منافق ہوتے تھے لیکن احمدیوں میں منافق کوئی نہیں بلکہ جو بھی احمدی کہلاتا ہے وہ سچا مومن ہے ۔حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔بلکہ جس طرح صحابہ کے زمانہ میں منافق ہوتے تھے اسی طرح اب بھی ہیں اور یہ خیال کہ وہ تلوار کا زمانہ تھا اس لئے اس میں نفاق ممکن تھا لیکن اس آزادی کے زمانہ میں نفاق نہیں ہوسکتا ۔ ایک نادانی کا خیال ہے ۔کیونکہ اول توا س سے نعوذ با للہ یہ لازم آتا ہے کہ اس وقت گویا اسلام کے لئے اکراہ ہوتا تھا جو ایک با لکل غلط اور بے بنیاد بات ہے ۔دوسرے اگر بفرض محال تلوار کا ڈر ہو بھی تو پھر کیا دنیا میں بس صرف تلوار ہی ایسی چیز رہ گئی ہے جو طبائع پر دبائو ڈال سکے ۔کیا کوئی اور ایسی چیز نہیں جو کمزور انسان کو خلاف ضمیر کرنے پر آمادہ کردے ۔ہم تو دیکھتے ہیںکہ جتنا نفاق آج کل روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جاتا ہے ایسا شاید ہی کسی گذشتہ زمانہ میں ہوا ہو ۔غرض یہ غلط ہے کہ آج کل منافق نہیں ہوتے اور ہم عملاً دیکھ رہے ہیں کہ احمدی کہلانے والوں میں بھی منافق پائے جاتے ہیں جن میں سے کسی نے کسی وجہ سے نفا ق اختیارکیا ہے تو کسی نے کسی وجہ سے ۔ تو اب جب کہ احمدیوں میں بھی منافق موجود ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسلما ن کہلانے والوں میں اگر ہم کو کو ئی برے نمونے نظر آویں تو ہم ان کومنافق کہہ کر صحابہ کو ان سے الگ کر لیں لیکن احمدی کہلانے والوں میں سے جو لوگ احمدیت کی تعلیم کے خلاف نمونہ رکھتے ہیں اور اپنی روش پرعملاً مصر ہیں ۔ان کو ہم منافق نہ سمجھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شمار کریں ۔اور اس طرح ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو بدنام کریں ۔میرا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص سے بھی کمزوری سر زد ہوتی ہے وہ منافق ہے ۔ حاشا وکلا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب جماعت میں منافق بھی موجو د ہیں تو ہر اس شخص کو جس کا طریق احمدیت کی تعلیم کے خلاف ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے خواہ نخواہ مومنین کی جماعت میں نہ سمجھنا چاہئیے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم اس اصول کے ماتحت افراد کے متعلق کوئی حکم لگائیں کیونکہ یہ طریق فتنہ کا موجب ہے ۔مگر ہاں بحیثیت مجموعی جماعت کے متعلق رائے لگاتے ہو ئے اس اصول کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے ۔
دسویں وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ تو دوسرے مسلمانوں سے صاف ممتاز نظر آرہے ہیں کیونکہ تدوین تاریخ سے ہم کو ابتدائی مسلمانوں کے متعلق یہ علم حاصل ہوچکا ہے کہ یہ صحابی ہے یا نہیں لیکن یہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابی اور غیر صحابی سب ملے جلے ہیں اور سوائے خاص خاص لوگوں کے عام طور پر یہ پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کا صحبت یافتہ ہے یا نہیں اور اس میں دو طرح کا اشکال ہے یعنی اول تو عموماً لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ فلاں احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ کا احمدی ہے یا بعد کا پھر اگر یہ پتہ بھی ہو کہ وہ آپ کے زمانہ کا احمدی ہے تو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ آپ کا صحبت یافتہ ہے یا نہیں اور ظاہر ہے کہ صحابی وہی کہلا سکتا ہے جو صحبت یافتہ ہو ۔ہر شخص جو نبی کے زما نہ میں ایمان لاتا ہے صحابی نہیں ہوتا چنانچہ دیکھ لو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں قریباً سارا عرب مسلمان ہو گیا تھا تو کیا سارے عرب صحابی بن گئے تھے ؟ ہرگز نہیں بلکہ صحابی صرف وہی لوگ سمجھے جاتے تھے جنھوں نے آنحضرت ﷺ کی صحبت اٹھا ئی تھی اور اگر سب کو صحابی سمجھا جاوے تووہ رائے جو اَب ہم صحابہ کے متعلق رکھتے ہیں یقینا اس مقام پر نہیں رہ سکتی جس پر کہ وہ اب ہے ۔پس صحابی صرف وہی ہے جس نے صحبت اٹھائی ہو مگر یہاں نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے سب احمدی ملے جلے ہیں اور لوگوں کو ان کے درمیان کسی امتیاز کا علم نہیں بلکہ آپ کی وفات کے بعد احمدی ہونے والے بھی ان کے ساتھ مخلوط ہیں ۔اندریں حالات حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے متعلق جب تک ان کا الگ علم نہ ہو کس طرح کو ئی رائے لگا ئی جاسکتی ہے یا موجودہ جماعت کی عام حالات سے صحابہ مسیح موعود ؑ کے متعلق کس طرح استدلا ل ہو سکتا ہے ۔ہاں جب تاریخی رنگ میں حالات جمع ہوں گے اور صحابہ مسیح موعود ؑ کی جماعت ممتاز نظر آئے گی تو پھر حالت کا اندازہ ہو سکے گا۔
گیارہویں وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ اس واسطے جماعت احمدیہ کے متعلق بد ظنی کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے بعض اوقات جماعت کی کمزوریو ں کا اظہار کیا ہے ۔اور جماعت کو اس کی حالت پر زجرو توبیخ کی ہے مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے ۔ کیونکہ جس طرح وعظ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ گذشتہ لوگوں کے خاص خاص کارنامے چن کر مؤثر پیرایہ میں لوگوں کو سنائے تا ان کو نیکی کی تحریک ہو ۔ اسی طرح اس کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخاطبوں کی کمزوریوں کو کھول کھول کر بیان کرے تا ان کو اپنی کمزوری کا احساس ہو او ر وہ ترقی کی کوشش کریں ۔واعظ عموماًاپنے مخاطبین کی خوبیوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ کمزوریوں کو لیتا ہے اور ان کو بھی ایسے رنگ میں بیان کرتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ابھی ان کی حالت بالکل ناقابل اطمینان ہے ۔تا وہ اپنی اصلاح کی بڑھ چڑھ کرکو شش کریں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو خط عبدالحکیم خان مرتد کو لکھا اس میں آپ نے اس نقطہ کو بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کیلئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں ۔‘‘
حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ عام طور پر آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریق تھا ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیفہ اول ،حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ عنھما یا بعض دیگر بزرگان سلسلہ کے بعض بیانوں سے جماعت کے متعلق کو ئی اس رنگ میں استدلال نہیں ہو سکتا جو جماعت کی شان کے منافی ہو ۔ہاں بعض بزرگوں کا میلان طبع جو اس طرف ہے کہ وہ ہمیشہ صرف کمزورپہلو پر ہی زور دیتے ہیں اوروہ بھی ضرورت سے زیادہ اور نا مناسب طریق پر ۔یہ بھی خاکسار کی رائے میں درست طریق نہیں کیونکہ اس طرح جماعت اپنی نظروں میں آپ ذلیل ہو جاتی ہے اور اس کی ہمتیںپست ہو جاتی ہیں ۔پس ان معاملات میں حکیمانہ طریق پر اعتدال کا راستہ اختیا ر کرنا چاہیے ۔جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا طریق تھا ۔ یا اب حضرت خلیفہ ثانی کا طریق ہے ۔ایمانی ترقی کے لئے بیم ورجاکی درمیانی حالت ہی مناسب رہتی ہے ۔
بارہویں وجہ یہ ہے کہ لوگ صحابہ کے متعلق تو یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنے کلام پاک میں ان کی تعریف فرمائی ہے ۔ مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے متعلق ان کو بز عم خود کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔ مگر یہ بھی ایک دھوکہ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے الہامات کا مطالعہ کیا جاوے تو ان میں بھی آپ کے صحابہ کی بہت تعریف پائی جاتی ہے ۔مگر میں کہتا ہوں کہ کسی الگ تعریف کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں جہاں صحابہ کی تعریف پائی جاتی ہے وہاں بنص صریح ’’ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘(الجمعۃ:۴) یہ بھی تو بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں شامل ہیں ۔اور انہیں کا ایک حصہ ہیں ۔اور اس آیت کی تفسیر خود حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں متعدد جگہ فرمائی ہے ۔چنانچہ تحفۂ گولڑویہ صفحہ ۱۵۲پر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ ہمارے نبی ﷺ کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘(الجمعۃ:۴) ہے۔تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود ؑ کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے۔اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت ﷺ سے فیض اور ہدایت پائیں گے ۔پس جب کہ یہ امرنص صریح قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیازاور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہو گا ۔توا س صورت میں آنحضرت ﷺ کا ایک اور بعث ماننا پڑا ۔جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا۔ ‘‘
پھر حقیقۃ الوحی تتمہ صفحہ ۶۷پر فرماتے ہیں ’’ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘ یعنی آنحضرت ﷺ کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظا ہر نہیں ہوا۔یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیںجو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں۔اور اس سے تعلیم و تربیت پاویں پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہو گا کہ وہ آنحضرت ﷺ کا بروز ہوگا ۔اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت ﷺ کے اصحاب کہلائیں گے ۔اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنے رنگ میں خداتعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کر یں گے ۔‘‘
پس جب خدا وند عالمیا ن جو عالم الکل ہے اور جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کو آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں داخل کرتا ہے اور ان کی تعریف فرماتا ہے تو زیدو بکر کو اس میں چہ میگوئی کرنے کا کیا حق ہے ۔ اَللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔
تیرہویں وجہ یہ ہے جسے لوگ عموماً نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جماعت کی ترقی کے لئے ایک خاص طریق مقرر کر رکھا ہے اور قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کی ترقی آہستہ آہستہ مقدر ہے ۔جیسا کہ فرمایا کہ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ الایۃ(الفتح:۳۰) یعنی حضرت مسیح موعو د ؑ کی جماعت کی ترقی اس پودے کی طرح ہے جو شروع شروع میں زمین سے اپنی کمزور کمزور پتیاں نکالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنی کتاب اعجاز المسیح صفحہ ۱۲۳پر تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ فا شا ر موسیٰ بقو لہ اشدا ء علے الکفار الی الصحابۃ ادرکوا صحبۃنبینا المختار واشار عیسیٰ بقولہ کزرع اخرج شطأ ہ الیٰ قوم اٰخرین منھم و امامھم المسیح بل ذکر اسمہ احمد بالتصر یح ۔یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ کے الفاظ کہہ کر صحابہ کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے ہمارے آنحضرت ﷺ کی صحبت پائی اور عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے قو ل کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ سے اس قوم کی طرف اشارہ کیا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ ہے ۔اور نیز ان کے امام مسیح موعود ؑ کی طرف اشارہ کیا بلکہ اس کا تو نام احمد بھی صاف صاف بتلادیا ۔‘‘
اس سے پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کی ترقی انقلابی رنگ میں مقدر نہیں بلکہ تدریجی رنگ میں مقدر ہے ۔اس کی یہ وجہ ہے کہ جس طرح جسمانی بیماریاں مختلف نو عیت کی ہوتی ہیں اسی طرح اخلاقی اور روحانی بیماریاں بھی مختلف نوعیت کی ہو تی ہیں ۔چنانچہ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو سخت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور بیمار کو نہایت بے تاب کر دیتی ہیں ۔مگر مناسب علاج سے وہ جلد ہی دور بھی ہو جاتی ہیں ۔اور وہ بیمار جو اس بیماری کی وجہ سے سخت مضطربانہ کرب میں مبتلا تھا جلد بھلا چنگا ہو کر چلنے پھرنے لگ جاتا ہے ۔لیکن اس کے مقابل میں بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جوا یک روگ کے طور پر انسان کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہیں اور گو بیما ر ان سے وہ مضطربانہ دکھ نہیں اٹھاتا مگر اند ر ہی اندر تحلیل ہو تا چلاجاتا ہے ۔اور ان میں کوئی فوری علاج بھی فائدہ نہیں دیتا بلکہ ایک بڑا لمبا باقاعدہ علاج ان کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ مقدم الذکر کی مثال یوں سمجھنی چاہئیے جیسے ایک بڑا پھوڑا ہو جس میں پیپ پڑی ہو ئی ہو اور بیمار اس کے درد سے بے تاب ہومگر ڈاکٹر نے چیرہ دیا اور پیپ نکل گئی درد دور ہو گئی اور بیمار دو چار دن کی مرہم پٹی میں بھلا چنگا ہو کر چلنے پھرنے لگ گیا ۔اور مؤخر الذکر کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کو سل کی بیماری ہو ۔یہ بیمار پھوڑے کے بیمار کی طرح کرب اور دکھ میں مبتلا نہیں بلکہ اندر ہی اندر گھلتا چلا جاتا ہے اور اس سے مقدم الذکر بیمار کی طرح کوئی فوری علاج بھی فائدہ نہیں دے سکتا ۔بلکہ ایک لمبا باقاعدہ علاج کا کورس درکار ہوتا ہے ۔پس چونکہ اس زمانہ کی اخلاقی اور روحانی بیماریاں سل کی بیماری کے مشابہ ہیں اس لئے اس زمانہ میں علاج کے نتیجے بھی فوراً ظاہر نہیں ہوتے بلکہ وقت چاہتے ہیں اور یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ خدا تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ کے متعلق کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ فرمایا ہے تو اس سے صرف ان کی تعدادی ترقی کی حالت بتانا مقصود نہیں ۔ بلکہ ہر قسم کی ترقی کی کیفیت بتانا مقصود ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔
پس اعتراض اور نکتہ چینی کی طرف جلد قدم نہیں اُٹھانا چاہیے ۔
یہ تیرہ باتیں ہیں جو عموماً صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ کی حقیقی قدر پہچانی جانے کے رستہ میں روک ہوتی ہیں ۔ میں نے ان کو صرف مختصراً بیان کیا ہے اور بعض کو تو دیدہ دانستہ نہایت ہی مختصر رکھا ہے اور خدا گواہ ہے کہ میں اس نازک مضمون میں ہر گز نہ پڑتا اور یہ تو غالباً اس کا ایسا موقع بھی نہ تھا مگر میں نے دیکھا ہے کہ یہ باتیں لوگوں کو دھوکے میں ڈال رہی ہیں اور اس دھوکے کا اثر وسیع ہو رہا ہے ۔اس لئے میں خاموش نہیں رہ سکا۔ ہاں یہ بات نوٹ کرنی ضروری ہے کہ جس طرح ہم بفضلہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو سب اولین و آخرین سے افضل جانتے ہیں اسی طرح آپ کی جماعت کو بھی تمام جماعتوں سے افضل مانتے ہیں ۔اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم ۔
{ 158} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن رات اس کی تیما داری میں مصروف رہتے تھے اور بڑے فکر اور توجہ کے ساتھ اس کے علاج میں مشغول رہتے تھے اور چونکہ حضرت صاحب کواس سے بہت محبت تھی اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر خدا نخواستہ وہ فوت ہو گیا تو حضرت صاحب کو بڑا سخت صدمہ گزرے گا ۔لیکن جب وہ صبح کے وقت فوت ہوا تو فوراً حضرت صاحب بڑے اطمینان کے ساتھ بیرونی احباب کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک فوت ہو گیاہے اور ہم کو اللہ کی قضا پر راضی ہو نا چاہئیے ۔اور مجھے بعض الہاموں میں بھی بتا یا گیا تھاکہ یا یہ لڑکا بہت خدا رسیدہ ہو گا اور یا بچپن میں فوت ہو جائے گا ۔سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہو نا چاہیے کہ خد اکا کلام پورا ہوا ۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح ثانی بیان کر تے ہیں کہ جس وقت مبار ک احمد فوت ہونے لگا تو وہ سویا ہوا تھا ۔حضرت خلیفہ اول نے اس کی نبض دیکھی تو غیر معمولی کمزوری محسوس کی جس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور نبض میں بہت کمزوری ہے ۔کچھ کستوری دیں حضرت صاحب جلدی سے صندوق میں سے کستوری نکالنے لگے مگر مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حضور نبض بہت ہی کمزور ہو گئی ہے ۔ حضرت صاحب نے کستوری نکالنے میں اور جلدی کی مگر پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نبض نہایت ہی کمزور ہے ۔ حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ اس وقت دراصل مبارک احمد فوت ہو چکا تھا ۔ مگر حضرت مولوی صاحب حضر ت مسیح موعود ؑ کی تکلیف کا خیال کر کے یہ کلمہ زبان پر نہ لا سکتے تھے ۔مگر حضرت صاحب سمجھ گئے اور خود آکر نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ مبارک احمد فوت ہو چکا ہے ۔اس پر حضرت صاحب نے انا للہ و انا الیہ راجعون کہا اور بڑے اطمینان کے ساتھ بستہ کھولا اور مبارک احمد کی وفات کے متعلق دوستوں کو خطوط لکھنے بیٹھ گئے اور مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب مبارک احمد کو دفن کر نے کے لئے گئے تو ابھی قبر کی تیاری میں کچھ دیر تھی اس لئے حضرت صاحب قبر سے کچھ فاصلے پر باغ میں بیٹھ گئے ۔اصحاب بھی ارد گرد بیٹھ گئے ۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد حضرت صاحب نے مولوی صاحب خلیفہ اول کو مخاطب کر کے فرمایا ۔مولوی صاحب ایسے خوشی کے دن بھی انسان کو بہت کم میسر آتے ہیں پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے راستہ میں انسان کی ترقی کے لئے ایک قانون شریعت رکھاہے اور ایک قانون قضا ء و قدر ۔قانون شریعت کے نفاذ کو خدا نے بندے کے ہاتھ میں دے دیا ہے ۔پس بندہ اس میں اپنے لئے کئی قسم کے آرام اور سہولتیں پیدا کرلیتا ہے ۔وضو سے تکلیف نظر آتی ہے تو تیمم کرلیتا ہے ۔نمازکھڑے ہوکر پڑھنے میں تکلیف محسوس کر تا ہے تو بیٹھ کر یا اگر بیٹھنے میں بھی تکلیف ہو تو لیٹ کر پڑھ لیتا ہے ۔روزہ میں کوئی بیماری محسوس کر تا ہے تو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا ہے اسی طرح چونکہ قانون شریعت کا نفاذ خود بندے کے ہاتھ میں ہے وہ اپنے لئے بہت سی سہولتیں پیدا کر لیتا ہے اور اس طرح اس کی ظاہری تکلیف سے بچ جاتا ہے ۔لیکن قضا وقدر کا قانون خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور بندے کا اس میں کچھ اختیار نہیں رکھا ۔پس جب قضا وقدر کے قانون کی چوٹ بندے کو آکر لگتی ہے اور وہ اس کو خدا کے لئے برداشت کرتا ہے اور صبر سے کا م لیتا ہے اور خدا کی قضا پر راضی ہوتا ہے تو پھر و ہ اس ایک آن میں اتنی ترقی کرجاتا ہے جتنی کہ چالیس سال کے نماز روزے سے بھی نہیںکر سکتا تھا ۔پس مومن کے لئے ایسے دن درحقیقت ایک لحاظ سے بڑی خوشی کے دن ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے بھی یہ روایت بیان کی تھی ۔
{ 159} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب بعض اوقات کسی بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ان کا کوئی لڑکا فوت ہوگیا اور لوگوں نے ان کو آکر اطلاع دی تو انہوں نے کہا ’’سگ بچہ مُرد د فن بکنید ‘‘۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ خاص حالت کی باتیں ہیں ۔انبیاء جنھوں نے لوگوں کیلئے اسوۂ حسنہ بننا ہوتا ہے اور حقوق العباد کی بھی بہترین مثال قائم کرنی ہوتی ہے ۔ عموماً ایسا طریق اختیار نہیں کرتے ۔
{ 160} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعا د میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے ( مجھے تعداد یاد نہیںرہی کہ کتنے چنے آپ نے بتا ئے تھے ) لے لو اوران پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعدا د میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی )۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی ۔جیسے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ(الفیل:۲) ہے الخ۔ اور ہم نے یہ وظیفہ قریباً ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا ۔وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب کے پاس لے گئے کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیں گے ۔اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں پھینک دو ں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئیے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے ۔چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیااور پھر جلدی سے منہ پھیر کر سرعت کے ساتھ واپس لوٹ آئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی واپس چلے آئے اور کسی نے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔
(اس روایت میں جس طرح دانوں کے اوپر وظیفہ پڑھنے اور پھر ان دانوں کو کنوئیں میں ڈالنے کا ذکر ہے۔ اس کی تشریح حصہ دوم کی روایت نمبر۳۱۲میں کی جا چکی ہے۔ جہاں پیر سراج الحق صاحب مرحوم کی روایت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ کام ایک شخص کی خواب کو ظاہر میں پورا کرنے کے لئے کروایا گیا تھا۔ ورنہ ویسے اس قسم کا فعل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت اور سنت کے خلاف ہے اور دراصل اس خواب کے تصویری زبان میں ایک خاص معنی تھے۔ جو اپنے وقت پر پورے ہوئے۔)
{ 161} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ میں مسجد مبارک میں ظہر کی نماز سے پہلی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الفکر کے اندر سے مجھے آواز دی ۔میں نماز توڑ کر حضرت کے پاس چلاگیا اور حضرت سے عرض کیا کہ حضور میں نماز توڑ کر حاضر ہوا ہوں ۔آپ نے فرمایا اچھا کیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر اس حجرہ کا نام ہے جو حضرت کے مکان کا حصہ ہے اور مسجد مبارک کے ساتھ شمالی جانب متصل ہے ۔ابتدائی ایام میں حضرت عموماً ا س کمرہ میں نشست رکھتے تھے ۔ اور اسی کی کھڑکی میں سے نکل کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ رسول کی آواز پر نماز توڑ کر حاضر ہونا شرعی مسئلہ ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ عمل صالح کسی خاص عمل کا نام نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا نام ہے ۔
{ 162} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میںجب ابھی حضرت مولوی خلیفہ اول قادیان نہیں آئے تھے انہوں نے جموں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا کہ اگر حضوریہاں تشریف لا سکیں تو مہاراج حضور کی ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ جواب لکھ دو بِئْسَ الْفَقِیْرُعَلٰی بَابِ الْاَمِیْرِ ۔
{ 163} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے میرے خاتمہ اور خاتمہ تک کے سب حالات بتا دیئے ہوئے ہیں ۔جو مجھ پر آنے والے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اسی کے مطابق حالات آرہے ہیں ۔
{ 164} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل میں مَیںنو گائوں میں پٹواری ہوتا تھا۔اور میری پچپن سالانہ تنخواہ تھی مگر میں نے ایک اور پٹواری کے ساتھ مل کر جو تحصیل پائل میں ہوتا تھا اپنا تبادلہ تحصیل پائل میں کروا لیا۔لیکن وہاں جانے کے بعد میرا دل نہیں لگا اور میں بہت گھبرا یا کیونکہ وہ ہندو جاٹوں کا گائوں تھا اور وہاں کوئی مسجد نہ تھی اور نوگائوں میں جس کومیں چھوڑ آیا تھا مسجد تھی ۔ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ یہاں میرا دل بالکل نہیں لگتا۔ حضور دعا فرماویں کہ میں پھر نوگائوں میں چلا جائوں اور بڑی بیقرار ی سے عرض کیا ۔حضور نے فرمایا جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔اپنے وقت پر یہ خود بخود ہو جائیگا ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد میرا تبادلہ غوث گڑھ میں ہو گیا جہاں میرا اتنا دل لگا کہ نو گائوں کی خواہش دل سے نکل گئی اور میں نے حضرت کے فرمان کی یہ تاویل کر لی کہ چونکہ غوث گڑھ بھی مسلمانوں کا گائوں ہے اور اس میں مسجد ہے اور یہاں میرا دل بھی خوب لگ گیا ہے اس لئے حضرت کے فرمان کے یہی معنی ہونگے جو پورے ہوگئے مگر کچھ عرصہ بعد نو گائوں کا حلقہ خالی ہوا اور تحصیل دار نے میری ترقی کی سفارش کی او ر لکھا کہ ترقی کی یہ صورت ہے کہ مجھے علاوہ غوث گڑھ کے نوگائوں کاحلقہ بھی جو وہ بھی پچپن سالانہ کا تھا دیدیا جاوے اور دونوں حلقوں کی تنخواہ یعنی ایک سو دس مجھے دی جاوے ۔ یہ سفارش مہاراج سے منظور ہو گئی اور اس طرح میرے پاس غوث گڑھ اور نو گائوں دونوں حلقے آگئے اور ترقی بھی ہوگئی ۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص اقتداری فعل تھا ورنہ نوگائوں غوث گڑھ سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر ہے اور درمیان میں کئی غیر حلقے ہیں ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ غوث گڑھ کا تمام گائوں میاں عبداللہ صاحب کی تبلیغ سے احمدی ہو چکا ہے ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ تمام دیہات ریاست پٹیالہ میں واقع ہیں ۔
{ 165} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صاحب کو ایک جیبی گھڑی تحفہ دی ۔حضرت صاحب اسکو رومال میں باندھ کر جیب میں رکھتے تھے زنجیر نہیں لگاتے تھے ۔اور جب وقت دیکھنا ہوتا تھا تو گھڑی نکال کر ایک ہندسے یعنی عدد سے گِن کر وقت کا پتہ لگا تے تھے اور انگلی رکھ رکھ کر ہندسے گنتے تھے اور منہ سے بھی گنتے جاتے تھے اور گھڑی دیکھتے ہی وقت نہ پہچان سکتے تھے ۔میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ آپ کا جیب سے گھڑی نکال کر اس طرح وقت شمار کرنا مجھے بہت ہی پیارا معلوم ہوتا تھا۔
{ 166} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بیان فرمایا کہ قرآن شریف کی جوآیات بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہیں اور ان پر بہت اعتراض ہوتے ہیں دراصل ان کے نیچے بڑے بڑے معارف اور حقائق کے خزانے ہو تے ہیں اور پھر مثال دے کر فرمایا کہ ان کی ایسی ہی صورت ہے جیسے خزانہ کی ہوتی ہے جس پر سنگین پہرہ ہوتا ہے اور جو بڑے مضبوط کمرے میں رکھا جاتاہے جس کی دیواریں بہت موٹی ہو تی ہیں اور دروازے بھی بڑے موٹے اور لوہے سے ڈھکے ہو ئے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے موٹے اور مضبوط قفل اس پر لگے ہوتے ہیں۔اور اسکے اندر بھی مضبوط آ ہنی صندوق ہوتے ہیںجن میں خزانہ رکھا جاتا ہے اور پھر یہ صندوق بھی خزانہ کے اندر اندھیری کوٹھڑیوں اور تہ خانوں میں رکھے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ہر شخص وہاں تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس سے آگاہ ہو سکتا ہے بمقابلہ نشست گاہ ہو نے کے جو کھلے کمرے ہوتے ہیں اور دروازوں پر بھی عموماً شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے باہر والا شخص بھی اندر نظر ڈال سکتا ہے اور جو اندر آنا چاہے بآسانی آسکتا ہے ۔
{ 167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب جب بڑی مسجد میں جاتے تھے تو گرمی کے موسم میں کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول سے ہی مُنہ لگا کر پانی پیتے تھے اور مٹی کی تازہ ٹِنڈیا تازہ آبخورہ میں پانی پینا آپ کو پسند تھا ۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند کرتے تھے کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھا یا کرتے تھے ۔اور سالم مرغ کا کباب بھی پسند تھا چنانچہ ہوشیار پور جاتے ہوئے ہم مُرغ پکوا کر ساتھ لے گئے تھے ۔مولی کی چٹنی اور گوشت میں مونگرے بھی آپ کو پسند تھے ۔گوشت کی خوب بھُنی ہوئی بوٹیاں بھی مرغوب تھیں ۔چپاتی خوب سِکی ہوئی جو سِکنے سے سخت ہو جاتی ہے پسندتھی۔گوشت کا پتلا شوربہ بھی پسند کر تے تھے جو بہت دیر تک پکتا رہا ہو ۔حتیّٰ کہ اس کی بوٹیاں خوب گل کر شوربہ میں اس کا عرق پہنچ جاوے۔سکنجبین بھی پسند تھی۔ میاں جان محمد مرحوم آپکے واسطے سکنجبین تیا ر کیا کرتا تھا ۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا تھا کہ گوشت زیادہ نہیں کھانا چاہیے جو شخص چالیس دن لگا تار کثرت کے ساتھ صرف گوشت ہی کھاتا رہتا ہے اسکا دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔ دال ،سبزی ترکاری کے ساتھ بدل بدل کر گوشت کھانا چاہیے بھیڑکا گوشت نا پسند فرماتے تھے ۔میٹھے چاول گُڑ یعنی قند سیاہ میں پکے ہوئے پسند فرماتے تھے ۔ابتدا میں چائے میں دیسی شکر (جو گُڑ کی طرح ہوتی ہے ) ڈال کر استعمال فرماتے تھے ۔شوربہ کے متعلق فرماتے تھے کہ گاڑھا کیچڑ جیسا ہم کو پسند نہیں ۔ایسا پتلا کرنا چاہیے کہ ایک آنہ کا گوشت آٹھ آدمی کھائیں ۔اس وقت ایک آنہ کا سیر خام گوشت آتا تھا ۔
{ 168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ کو ئی شخص حضرت صاحب کیلئے ایک تسبیح تحفہ لایا۔ وہ تسبیح آپ نے مجھے دے دی اور فرمایا لوا س پر درود شریف پڑھا کرو۔وہ تسبیح بہت خوبصورت تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ تسبیح کے استعمال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر پسند نہیں فرماتے تھے ۔
{ 169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب بیان فرماتے تھے کہ قیامت کو ایک شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور اللہ اس سے دریافت کرے گا کہ اگر تو نے کبھی کوئی نیکی کی ہے تو بتا مگر وہ نہیں بتا سکے گا ، اس پر اللہ فرمائے گا اچھا تو کیا تو کبھی کسی بزرگ شخص سے ملا تھا ؟ وہ جواب دیگا نہیں ۔اس پر خدا فرمائے گا اچھی طرح یاد کر کے جواب دے اس پر وہ بولے گا۔ کہ ہاں ایک دفعہ میں ایک گلی میں سے گذر رہا تھا تو میرے پا س سے ایک شخص گذرا تھا جس کو لوگ بزرگ کہتے تھے ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔جا میں نے تجھے اسی وجہ سے بخش دیا ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے ایک وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ جو شخص کسی کامل کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو پیشتر اس کے کہ وہ سجدہ سے اپنا سر اُٹھاوے ۔اللہ اسکے گناہ بخش دیتا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ کوئی منتر جنتر نہیں اخلاص اور صحتِ نیت شرط ہے ۔ (یہ روایت زیادہ تفصیل کے ساتھ حصہ دوم کی روایت نمبر 425میں بھی بیان ہوئی ہے۔)
{ 170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ ایک شخص آیااور اس نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ واقعی مسیح اور مہدی ہیں ؟آپ نے فرمایا ہاں میں واقعی مسیح اور مہدی ہوں اور آپ نے ایسے انداز سے یہ جواب دیا کہ وہ شخص پھڑک گیا اور اسی وقت بیعت میں داخل ہوگیا اور میرے دل پر بھی حضرت صاحب کے اس جواب کا بہت اثر ہوا ۔
{ 171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ دو بیویاں کر کے انسان درویش ہو جاتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی اگر ان شروط کو ملحوظ رکھا جاوے جو اسلام ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے والے کیلئے واجب قرار دیتا ہے تو دو یا اس سے زیادہ بیویاں عیش و عشرت کا ذریعہ ہر گز نہیں بن سکتیں بلکہ یہ ایک قربانی ہے جو خاص حالات میں انسان کو کرنی پڑتی ہے ۔
{ 172} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیامجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اور دن کھلا دیا جائے ۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غربا میں کھانا تقسیم کر نے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہو نے کا دن ہے۔ پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میں کھا نا دیاجاتا ہے ۔ تا اسے اس کا ثواب پہنچے ۔گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طور پر چالیس د ن میں قطع ہوتا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے ۔
{ 173} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ جس سال پہلا جلسہ سالانہ ہوا تھا اس میں حضرت صاحب نے جو تقریر فرمائی تھی۔ اس سے پہلے حضرت صاحب نے میرے متعلق بھی یہ فرمایا تھا کہ میاں عبد اللہ سنوری ہمارے اس وقت کے دوست ہیں جبکہ ہم گو شۂِ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے اور یہ ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ تا آپ لوگ ان سے واقف ہو جاویں ۔پھر اس کے بعد تقریر شروع فرمائی۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا۔)
{ 174} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے ۔
خدا داری چہ غم داری
{ 175} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ جب میں ۱۹۱۰ء میں نور پور ضلع کانگڑہ میں تھا تو ضلع کانگڑہ کے کورٹ انسپکٹر آف پو لیس نے بعض دوسرے لوگوں کے ساتھ میری بھی دعوت کی۔کورٹ انسپکٹرصاحب غیر احمدی تھے مگر شریف اور متین آدمی تھے اور نماز کے پابند تھے ۔ انہوں نے دوران گفتگو میں بیان کیا کہ جب آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کا آخری دن تھا تو اس وقت ان کی کوٹھی کے پہرہ کا انتظام میرے سپرد تھا ۔کوٹھی کے اندر آتھم کے دوست پادری وغیرہ تھے اور باہر پولیس کا چاروں طرف پہرہ تھا ۔اس وقت آتھم کی حالت سخت گھبراہٹ کی تھی ۔اور بالکل مخبوط الحواسی کی سی صورت ہو رہی تھی۔باہر دور سے اتفاقاً کسی بندوق کے چلنے کی آواز آئی تو آتھم صاحب کی حالت دگر گوں ہو گئی ۔آخر جب ان کا کرب اور گھبراہٹ انتہا کو پہنچ گئے تو ان کے دوستوں نے ان کو بہت سی شراب پلا کر بے ہوش کر دیا ۔ آخری رات آتھم نے اسی حالت میں گذاری ۔ صبح ہوئی تو ان کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر خوشی کا جلوس پھرا یا اور اس دن لوگوںمیں شور تھا کہ مرز ے کی پیشگوئی جھوٹی گئی ۔مگر کورٹ انسپکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ جو حالت ہم نے آتھم صاحب کی دیکھی ہے اس سے تو وہ مرجاتے تو اچھا تھا ۔
اورخاکسارعر ض کرتاہے کہ مجھ سے ماسٹرقادر بخش صاحب لدھیانوی نے بیان کیا کہ آتھم کی پندرہ ماہی میعاد کے دنوں میں لدھیانہ میں لوئیس صاحب ڈسٹرکٹ جج تھا ۔آتھم چونکہ لوئیس صاحب کا داماد تھا اس لئے لدھیانہ میں لوئیس صاحب کی کوٹھی پر آکر ٹھہرا کرتا تھا ۔ایک دفعہ دوران میعاد میں آتھم لدھیانہ میں آیا۔ان دنوں میں میرا ایک غریب غیر احمدی رشتہ دار لوئیس صاحب کے پاس نوکر تھا اور آتھم کے کمرے کا پنکھا کھینچا کرتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ تم آتھم کا پنکھا کھینچا کرتے ہو ۔کبھی اس کے ساتھ کوئی بات بھی کی ہے ۔اس نے کہا صاحب (یعنی آتھم ) رات کو روتا رہتا ہے ۔چنانچہ اس پر میں نے ایک دفعہ صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ روتے کیوں رہتے ہیں تو صاحب نے کہا تھا کہ مجھے تلواروں والے نظر آتے ہیں ۔میں نے کہا تو پھر آپ ان کو پکڑوا کیوں نہیں دیتے ۔صاحب نے کہا وہ صرف مجھے ہی نظر آتے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آتے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آتھم والی پیشگوئی کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف میں اکثر جگہ آچکا ہے ۔دراصل جس وقت حضرت مسیح موعود ؑ نے مباحثہ کے اختتام پر آتھم کے متعلق پندرہ ماہ کے اندر ہاویہ میں گرائے جانے کی پیشگوئی کا اظہار کیا تھا ۔اس وقت سے ہی آتھم کے اوسان خطا ہونے شروع ہو گئے تھے ۔چنانچہ سب سے پہلے تو آتھم نے اسی مجلس میں جبکہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ آتھم نے اپنی کتاب میں آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ دجال کہا ہے ۔اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اور ایک خوف زد ہ انسان کی طرح زبان باہر نکا ل کر کہا کہ نہیں میں نے تو نہیں کہا ۔ حالانکہ وہ اپنی کتاب اندر ونہ بائیبل میں دجّال کہہ چکاتھا ۔اس وقت مجلس میں قریباً ستر آدمی مختلف مذاہب کے پیر وموجود تھے ۔ا سکے بعد میعاد کے اندر آتھم نے جس طرح اپنے دلی خوف اور گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار کیا اس کی کیفیت حضرت مسیح موعود ؑ کی تصانیف میں مختصراً آچکی ہے ۔اس کا اپنا بیان ہے کہ کبھی اس کو سانپ نظر آتے جو اس کو ڈسنے کو بھاگتے ۔ کبھی اس پر کتے حملہ کرتے۔ کبھی ننگی تلواروں والے اس کو آآکر ڈراتے اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف بھاگتا پھرتا تھا ۔اور عموماً پولیس کا خاص پہرہ اپنے ساتھ رکھتا تھا اور اسلام کے خلاف اس نے اپنی تحریرو تقریر کو روک دیا تھا ۔حتّٰی کہ جب میعاد ختم ہونے کے قریب آئی تو اس کا خوف اس قدر ترقی کر گیا کہ پادریوں کو اسے سخت شراب پلا پلا کر بدمست کرنا پڑا ۔کیا یہ باتیں اس بات کی علامت نہیں کہ خدائی پیشگوئی کا خوف اس کے دل پر غالب ہو گیاتھا ۔اور وہ اپنے آپ کو اس عذاب سے بچانا چاہتا تھا۔پس خدا نے پیشگوئی کی شرط کے مطابق اسے عذاب موت سے بچا لیا۔اور ہمارے مخالف مولویوں کا یہ کہنا کہ آتھم کا ڈر پیشگوئی کے خوف کی وجہ سے نہ تھا ۔بلکہ اس لئے تھا کہ کہیں احمدی اسے قتل نہ کردیں اور اسی وجہ سے وہ اپنی جان کی حفاظت کرتا تھا ۔ ایک نہایت ابلہانہ خیال ہے ۔کیونکہ دشمن کی طرف سے کسی سازش وغیرہ کا خوف کرنا اور اس کے مقابل میں احتیاطی تجاویز عمل میں لانا ایک اور بات ہے۔ مگر جس قسم کا خوف آتھم نے ظاہرکیا وہ ایک بالکل ہی اور چیز ہے ۔ ہم کو دونوں قسم کے خوفوںکی نوعیت پر غور کرنا چاہیے اور پھر رائے لگانی چاہیے کہ جس قسم کا خوف اور بے چینی آتھم نے ظاہر کی آیا وہ دشمن کی شرارت سے خوف کر کے احتیاطی تجاویز عمل میں لانے والی قسم میںداخل ہے یا پیشگوئی سے مرعوب ہو کر بد حواس ہو جانے والے خوف میں داخل ہے ۔ہم یقین کر تے ہیں کہ جو شخص تعصب سے الگ ہو کر میعاد کے اندر آتھم کے حالات پر غور کرے گا وہ اس بات کو تسلیم کر نے پر مجبور ہوگا کہ جس قسم کے خوف کا آتھم نے اظہار کیا وہ دشمن سے بچنے والا خوف ہر گز نہیں تھا بلکہ اور قسم کا خوف تھا ۔پس جاہل لوگوں کی طرح صرف یہ پکارتے رہنا کہ ہر آدمی دشمن کی شرارت سے بچنے کیلئے خوف کرتا ہے اس لئے اگر آتھم نے خوف کا اظہار کیاتوکیا ہوا۔یا تو پر لے درجہ کی جہالت اور بے وقوفی ہے اور یا دیدہ دانستہ مخلوق خدا کو دھوکا دینا ہے ۔
اور اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نظام عالم خد اکی دو صفات پر چل رہا ہے اور درحقیقت ہر ایک حکومت ان دو صفتوں پر ہی چلتی ہے ۔ایک صفت علم ہے اور ایک صفت قدرت۔ اور جتنی جتنی یہ صفات زیادہ ترقی یافتہ ہو تی ہیں انتظام حکومت بہتر ہو تا چلا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ خدا وند تعالیٰ کی یہ صفات اپنے انتہائی کمال میںہیںیعنی خدا کا علم بھی کامل ہے اور قدرت بھی کامل۔ یعنی نہ تو کوئی علم کی بات ہے جواس سے پوشیدہ ہے اور نہ کوئی قدرت کا امر ہے جوا س کی طاقت سے باہر ہے ۔یہ وہ دو ستون ہیں جن کے اوپر اس کا عرش قائم ہے۔ پس جب وہ اپنا کوئی رسول بھیجتا ہے تو اپنی تجلّی کیلئے اسکے ذریعہ اپنی ان صفات کی دو نہریں جاری کر دیتا ہے تا دنیا پر ظاہر کرے کہ سب حکومت میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ہی اسے رسول بنا کر بھیجا ہے ۔بعض آیات وہ اپنے رسول کے ذریعہ ایسی ظاہر کرتا ہے جن سے اسے اپنے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور بعض آیات ایسی ظاہر کر تا ہے جن سے اسے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار مقصود ہو تا ہے اور وہ ایسا نہیں کرتا کہ صرف ایک قسم کے نشان ظاہر کر ے کیونکہ حکومت کیلئے ہر د وصفات کا ہونا ضروری ہے ۔علم خواہ کتنا کامل ہو مگر بغیر قدرت کے ناقص ہے اور قدرت خواہ کتنی کامل ہو مگر بغیر علم کے ناقص ہے پس کمال تصرف کا اظہار نہیں ہوسکتا جب تک دو نو صفات کااظہار نہ ہو ۔اس لئے نبیوں کی پیشگوئیاں بھی جو آیات اللہ میں داخل ہیں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔اوّل وہ جو خدا کی صفت علیم کے ماتحت ہوتی ہیں یعنی جن سے خد اکو اپنے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا ہے ۔دوسری وہ جو خدا کی صفت قدیر کے ماتحت ہوتی ہیں یعنی جن سے خدا کو اپنی قدر ت کا ملہ کا اظہار مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر قسم کی پیشگوئیوں کے الگ الگ حالات ہونگے جن سے وہ پہچانی جائیں گی اور ان کی صداقت کے پرکھنے کیلئے الگ الگ معیار ہونگے اور یہ ہماری سخت نادانی ہو گی کہ ان دونوں قسموں کو مخلوط کر کے ان پر ایک ہی حکم لگا ویں اور ایک ہی قسم کے معیاروں سے دونوں کو پرکھیں۔ بلکہ علم والی پیشگوئیوں کو علم کے معیار سے پرکھنا ہوگا کیونکہ وہ اظہار علم کے راستہ پر چلیں گی اور قدرت والی پیشگوئیوں کو قدرت کے معیار سے پرکھنا ہو گا کیونکہ وہ قدرت نمائی کے راستہ پر چلیں گی اور ممکن نہیں کہ وہ اپنا راستہ بدلیں ۔پس جب ہمارے سامنے کوئی پیشگوئی آئے تو سب سے پہلے ہمیں اس کے حالات پر غور کر کے اس کی قسم کی تشخیص کر نی ہوگی ۔اور پھر اس تشخیص کے بعد جس قسم میں سے وہ ثابت ہو اس کے معیاروں سے اس کی صداقت کو پرکھنا ہوگا ۔ہمارے مخالفوں کو یہ سخت دھوکا لگا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی سب پیشگوئیوں کو خدا کے علم ازلی کے ماتحت سمجھتے ہیں اور اسی معیار سے انہیں ناپتے ہیں ۔کیونکہ ہمیشہ ان کی یہی دلیل ہو تی ہے کہ بس جو صورت اور الفاظ جو پیشگوئی میں بتائے گئے ہیں بعینہٖ وہی وقوع میں آنے چاہئیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ پیشگوئی غلط گئی۔حالانکہ یہ شرط اظہار علم والی پیشگوئیوں کی ہے ۔بلکہ ان میں مجاز کا دخل مانا جاوے تو ان کے لئے بھی ظاہری صور ت کا فرق ہو سکتا ہے۔گو تخلف اور نسخ ممکن نہیں ، کیونکہ تخلف اور نسخ علم ازلی کے منافی ہیں ۔لیکن اظہار قدرت والی پیشگوئیوں میں حالات کے بدل جانے سے تخلف ہو سکتا ہے ۔کیونکہ حالات بدل جانے کی صورت میں تخلف قدرت نمائی کے منافی نہیں ہوتا بلکہ مؤید ہو تا ہے ۔دونوں قسم کی پیشگوئیوں کی مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ مثلاً کسی ملہم کو کسی شخص کے متعلق الہام ہوتا ہے کہ وہ فلاں کا م کر ے گا ۔اور حالات ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ الہام خدا کی صفت علیم کے ماتحت ہے ۔ صفت قدیر کے ماتحت نہیں ہے۔یعنی اس کے اس فعل کے کر لینے کو خد اکی قدرت کے اظہار سے کو ئی طبعی تعلق نہیں ، بلکہ محض اظہار علم مرا د ہے تو اب خواہ اس شخص میں کتنے تغیرات آویں وہ ضرور اس بتا ئے ہوئے کا م کو کرے گا ۔ورنہ خدا کا علم ازلی غلط جاتا ہے ،جو ناممکن ہے لیکن اگر کسی ملہم کو یہ بتا یا جاتا ہے کہ ہم تیرے فلاں دشمن کو جو تیری دشمنی میں کمر بستہ ہے ذلت کے عذاب میں مبتلا کر یں گے تو ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی صفت علیم کے ماتحت نہیں ۔بلکہ صفت قدیر کے ماتحت سمجھی جاوے گی۔لہٰذااگر وہ دشمن جس کے متعلق ذلت کی پیشگوئی ہے اپنے اندر تغیر پیدا کر تا ہے تو خوب سوچ لو کہ خدا کی وہی صفت قدیر جو پہلے اس دشمن کی ذلت کی پیشگوئی کی محر ک ہو ئی تھی اب اسے ذلت سے بچائے جانے کا موجب ہو گی ۔یعنی جس طرح ایسے شخص کے تغیر نہ کر نے کی صور ت میں اس کی ذلت خدا کی قدرت کے اظہار کا موجب تھی ۔اب اس کا ذلت سے بچایا جانا قدرت الہٰی کے اظہار کا موجب ہو گا ۔بلکہ اگر باوجود تغیر کے اسے ذلت کا عذاب آدبائے تو صفت قدرت جس کا اظہار مقصود تھا مشتبہ ہو کر پیشگوئی کی اصل غرض ہی فوت ہو جائے گی کیونکہ قدرت کاملہ اس کا نام نہیں کہ جب انجن چل گیا تو پھر جو اپنا بیگانہ سامنے آیا اُسے پیس ڈالا ۔بلکہ قدرت کاملہ کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی عذاب کا مستحق ہو تو اسے عذاب دے سکے اور کوئی چیز اسے عذاب سے بچا نہ سکے ۔ اور جب کوئی رحمت کا مستحق بنے تو اس پر رحمت نازل کر سکے اور پھر کوئی چیز بھی اسے عذاب نہ دے سکے یعنی قدیر وہ ہے جس کی قدرت کا اظہار موقعہ کے مطابق ہو ورنہ اگر موقعہ کے مطابق قدرت کا اظہار نہ ہو تو وہ قدیر نہیں بلکہ یاتو مشین کا ایک پہیہ ہے اور یا ظلم و ستم کا مجسمہ ۔
تاریخی طور پر علم ازلی اور قدرت کاملہ والی پیشگوئیوں کی مثال چاہو تو یوں سمجھو کہ حضرت فاطمہ کی وفات کی پیشگوئی جو آنحضرت ﷺ نے اپنی مرض الموت میں فرمائی علم ازلی کے ماتحت تھی اور یونس نبی نے اپنی قوم پر عذاب آنے کی جو پیشگوئی کی وہ قدرت کاملہ کے اظہار کیلئے تھی ۔
یہ باتیں ہمارے نزدیک بینات میں داخل ہیں ۔پس مخالفوں کے استہزاء سے ہم ان بینات کو کس طرح چھوڑ سکتے ہیں ۔ عوام کو دھو کادے لینا اور بات ہے اور حق کی پیروی اور بات۔
اس جگہ ایک شبہ پیدا ہو تا ہے کہ جب خدا کو اپنی صفت علیم کے ماتحت یہ علم ہو تا ہے کہ صفت قدیر کے ماتحت جو فلاں پیشگوئی کی گئی ہے اس میںشخص موعود لہ کے فلاں تغیر کی وجہ سے اس اس رنگ کا تخلف ہو جائے گا تو پھر خدا وہی انتہائی بات ہی کیوں نہیں بتا دیتا جو بالآخر وقوع میں آنی ہوتی ہے یعنی وہ جو بالآخر واقعی ہو نا ہوتا ہے وہی لوگو ں کو بتا دیا جاوے تا لوگ ٹھو کر سے بچ جاویں ۔اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ اگر ایسا کیا جاوے تو پھر اس کے یہ معنے ہو نگے کہ تمام پیشگوئیاں صفت علیم کے ماتحت ہوا کریں ۔صفت قدیر کے ماتحت کوئی بھی پیشگوئی نہ ہو ۔کیونکہ جب لازمی طور پر آخری بات بتائی جاوے گی تو لا محالہ وہ پیشگوئی صفت قدیر سے نکل کر صفت علیم کے ماتحت آجائے گی ۔ حالانکہ ترقی عرفان و ایمان کیلئے ہر دو قسم کی پیشگوئیوں کا ہونا ضروری ہے بلکہ اظہار قدرت والی پیشگوئیاں جہاں ایک طرف اپنے اندر ابتلا کا پہلو رکھتی ہیں وہاں ایمان و عرفا ن کو ترقی دینے والا مادہ بھی ان میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اس لئے خدا کی مصلحت نے چاہا کہ خدا کے نبیوں کے منہ سے ہر دو قسم کی پیشگوئیاں ظاہر ہو ں ۔
اس جگہ ایک بات کا یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ خاکسارنے جو یہ لکھا ہے کہ بعض پیشگوئیاں علم ازلی کے اظہار کیلئے ہوتی ہیں اور بعض قدرت نمائی کیلئے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ قدرت نمائی والی پیشگوئیاں علم غیب کے عنصر سے خالی ہوتی ہیں ۔کیونکہ کوئی پیشگوئی خواہ وہ کسی غرض سے کی گئی ہو علم غیب کے عنصر سے خالی نہیں ہوتی ۔ اور دراصل پیشگوئی کا لفظ ہی علم غیب کو ظاہر کر رہا ہے ۔پس قدرت نمائی والی پیشگوئی سے مراد یہ ہے کہ عاقبۃ الامور والے علم کا اظہار اس میں مقصود نہیں ہوتا ورنہ درمیانی حالات اور ان کے تغیر ات اور ان کے نتائج کے متعلق جو علم غیب خدا کو ہے اس کا اظہار تو قدرت نمائی والی پیشگوئی میں بھی مقصود ہوتا ہے۔غرض جو علم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے عاقبۃ الامور والا علم مراد ہے نہ کہ مطلقاً علم غیب جو ہر پیشگوئی کا جز و غیر منفک ہے اور یہ خیال کہ اگر کوئی ایسی پیشگوئی ہو جو قدرت نمائی کی غرض سے کی گئی ہو مگر وہ ایسی ثابت ہو کہ جس شخص یا چیز کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی اس کے حالات تبدیل نہیں ہو ئے یعنی جس حالت کی بنا پر یہ پیشگوئی تھی وہ قائم رہی اور پیشگوئی بغیر کسی جگہ راستہ بدلنے کے سیدھی اپنے نشانہ پر جا لگی تو اس صورت میں اظہار علم والی پیشگوئی اور اس قسم کی اقتداری پیشگوئی کا راستہ ایک ہوجائے گا اور کوئی امتیاز نہ رہے گا ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ایسا ہوسکتا ہے کہ دونوں کا راستہ عملاً ایک ہو جاوے مگر دونوں اپنے مقصود کے لحاظ سے ممتاز رہیں گی ۔یعنی حالات بتا رہے ہونگے کہ ایک میں مقصود اظہار علم ازلی ہے اور دوسری میں اظہار قدرت کاملہ ۔اور ہمیں اس سے بھی انکا ر نہیں کہ ایسی صورت میںاظہار قدرت اور اظہار علم ہر دو مقصود ہو سکتے ہیں ۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وعید کی پیشگوئی ٹل جاتی ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ وعید کی پیشگوئی کے اندر کو ئی خاص تخلف کا مادہ ہوتا ہے ۔بلکہ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ وعید چونکہ اظہار قدرت کیلئے ہوتا ہے اس لئے اس میں تخلف ممکن ہو تا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پیشگوئی کے ٹل جانے یا تخلف پیدا ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ پیشگوئی نعوذباللہ غلط گئی ۔کیونکہ خدائی پیشگوئی خواہ کسی قسم کی ہو غلط ہر گز نہیں جاسکتی بلکہ بہر حال پوری ہوتی ہے ۔پس جب ہم تخلف یا ٹل جانے وغیرہ کا لفظ بولتے ہیں تو مراد یہ ہو تی ہے کہ جو صورت قدرت الہٰی کے اظہار کیلئے بتائی گئی تھی وہ چونکہ حالات کے بدل جانے سے قدرت الہٰی کے اظہار کا موجب نہیں رہی اس لئے قدرت الہٰی کا اظہار دوسری صورت میں کر دیا گیا ۔پس پیشگوئی غلط نہ گئی کیونکہ اس کی اصل غرض اظہار قدرت تھی اور وہ غرض پوری ہوگئی ۔ہاں اگر حالات بدل جانے کے باوجود پیشگوئی پہلی صورت میں ہی ظاہر ہو تی توپھر بے شک پیشگوئی غلط جاتی ۔ کیونکہ اظہار قدرت الہٰی جو اصل مقصود تھا وقوع میں نہ آتا ۔
آتھم کی پیشگوئی بھی اظہار قدرت الہٰی کیلئے تھی نہ کہ اظہار علم کیلئے جیسا کہ پیشگوئی کے حالات اور پیشگوئی کے الفاظ سے ظاہرہے خصوصاً یہ الفاظ کہ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کر ے‘‘ کیونکہ اگر اظہار علم مقصود ہوتا تو اس میں کو ئی شرط وغیرہ نہیں ہوسکتی تھی۔ پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ پیشگوئی اظہار قدرت کیلئے تھی تو پھر ماننا پڑیگا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی کیونکہ اظہار قدرت ہو گیا کَمَا مَرَّـاور آتھم کی پیشگوئی تو عام اظہار قدرت والی پیشگوئیوں میں بھی ممتاز حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ پیشگوئی ایک مرکب پیشگوئی ہے ۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر آتھم حق کی طرف رجوع کر ے گا تو پندرہ ماہ میں نہیں مرے گااور اگر رجوع نہ کر ے گا تو پندرہ ماہ کے اند ر اندر ہاویہ میںگرا یا جاوے گا ۔پس بوجہ مرکب پیشگوئی ہونے کے یہ پیشگوئی عام پیشگوئیوں سے اپنی شان میں ارفع ہے کیونکہ جو اظہار قدرت کی شان مرکب یعنی ایک سے زیادہ پہلو والی پیشگوئیوں میں ظاہر ہوتی ہے وہ مفرد پیشگوئیوں میں نہیں ہوتی ۔ جس کی آنکھیں ہو دیکھے ۔
{ 176} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاامرتسر میں آتھم کے ساتھ مباحثہ ہو ا تو دوران مباحثہ میں ایک دن عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھااور ایک بہرہ اور ایک لنگڑا مباحثہ کی جگہ میں لا کر ایک طرف بٹھا دیئے اور پھر اپنی تقریر میں حضرت صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔لیجئے یہ اندھے اور بہرے اور لنگڑے آدمی موجود ہیں مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے۔میرصاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں ۔پھر جب حضرت صاحب نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو فرمایا کہ میں تواسبات کو نہیں مانتا کہ مسیح اس طر ح ہاتھ لگا کر اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو اچھا کر دیتا تھا ۔اس لئے مجھ پر یہ مطالبہ کوئی حجت نہیں ہو سکتا ۔ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے معجزے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو وہ وہی کچھ دکھا سکتا ہے جو مسیح دکھا تا تھا ۔پس میں آپ کا بڑا مشکور ہو ں کہ آپ نے مجھے اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کی تلاش سے بچا لیا ۔ اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اندھے بہرے لنگڑے حاضر ہیں اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر آپ ان کو اچھا کر دیں ۔میر صاحب بیان کر تے ہیں کہ حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اُڑ گئیںاور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں … کو وہاںسے رخصت کروا دیا ۔میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ نظارہ بھی نہایت عجیب تھا کہ پہلے تو عیسائیوں نے اتنے شوق سے ان لوگوں کو پیش کیا اور پھر ان کو خود ہی ادھر اُدھر چھپانے لگ گئے۔
{ 177} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے خلیفہ نورالدین صاحب جمونی نے کہ آتھم کے مباحثہ میںمَیں بھی لکھنے والوں میں سے تھا ۔ آخری دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آتھم کی پیشگوئی کا اعلان فرمایا تو آتھم نے خوفزدہ ہو کر کانوں کی طرف ہاتھ اُٹھائے اور دانتوں میں انگلی لی اور کہا کہ میں نے تو دجال نہیں کہا ۔
{ 178} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب نے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی خلیفۃ المسیح ثانی )دالان کے دروازے بند کرکے چڑیاںپکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کیلئے باہر جاتے ہو ئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کر تے۔ جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض باتیں چھوٹی ہو تی ہیں مگر ان سے کہنے والے کے اخلاق پر بڑی روشنی پڑتی ہے ۔
{ 179} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جاکر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرا دینے کی کوشش کی تھی ۔مگر کامیاب نہیں ہوا۔ یہ ان دنوںکی بات ہے کہ جب محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا ۔محمدی بیگم کا یہ ماموں جالندھر اور ہوشیار پور کے درمیا ن یکہ میں آیا جایا کرتا تھا ۔اور وہ حضرت صاحب سے کچھ انعام کا بھی خواہاں تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا ۔اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا ۔خاکسارعر ض کرتاہے کہ یہ شخص اس معاملہ میں بد نیت تھا اور حضرت صاحب سے فقط کچھ روپیہ اُڑانا چاہتا تھا کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اسکے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیاہے جانے کا موجب ہو ئے ۔مگر مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہو ا کہ حضرت صاحب نے بھی اس شخص کو روپیہ دینے کے متعلق بعض حکیمانہ احتیاطیں ملحوظ رکھی ہو ئی تھیں ۔والدہ صاحبہ نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کے ساتھ محمد ی بیگم کا بڑا بھائی بھی شریک تھا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جب خدا کی طرف سے پیشگوئیاں تھیں تو حضرت صاحب خود ان کے پورا کر نے کی کیوں کوشش کیا کرتے تھے مگر یہ ایک محض جہالت کا اعتراض ہے ۔کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے باوجود خدائی وعدوں کے اپنی پیشگوئیوں کو پورا کر نے کیلئے ہر جائز طریق پر کوشش نہ کی ہو ۔درحقیقت خدا کے ارادوں کو پوراکر نے کی کوشش کر نے سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ نعوذ باللہ خدا انسان کی امداد کا محتاج ہے بلکہ اس سے بعض اور باتیں مقصود ہوتی ہیں ۔ مثلاً
اوّل ۔اگر انسان خود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاوے اور یہ سمجھ لے کہ خدا کا وعدہ ہے وہ خود پورا کر ے گا اور باوجود طاقت رکھنے کے کوشش نہ کرے تو یہ بات خدا کے استغنائے ذاتی کو برانگیخت کر نے کا موجب ہوتی ہے ۔اور یہ وہ مقام ہے جس سے انبیا ء تک کانپتے ہیں ۔
دوسرے یہ کہ یہ ایک محبت کا طبعی تقاضاہوتا ہے کہ انسان اپنے محبوب کے ارادوں کے پورا کرنے میں اپنی طرف سے کوشش کرے اور یہ محبت کا جذبہ اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ با وجود اس علم کے کہ خدا کو انسانی نصرت کی ضرورت نہیں عاشق انسان نچلا نہیں بیٹھ سکتا ۔
تیسرے چونکہ خدا کے تمام ارادوں میں دین کا غلبہ مقصود ہوتا ہے ۔اس لئے نبی اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے بھی اس میں ہاتھ پاؤں ہلانے سے باز نہیں رہ سکتا۔
چوتھے ۔خدا کی یہ سنت ہے کہ سوائے بالکل استثنائی صورتوں کے اپنے کاموں میں اسباب کے سلسلہ کو ملحوظ رکھتا ہے پس نبی کی کوشش بھی ان اسباب میں سے ایک سبب ہوتی ہے ۔ وغیر ذالک (مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی کوشش صرف رحمت کی پیش گوئیوں میں ہوتی ہے عذاب کی پیش گوئیوں کے متعلق انبیاء کی یہی سنت ہے کہ ان میں سوائے خاص حالات کے معاملہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں۔ )
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی میں مخالفوں کی طرف سے بڑا طوفان بے تمیزی بر پا ہوا ہے ۔حالانکہ اگر وہ سنت اللہ کے طریق پر غور کرتے تو بات مشکل نہ تھی ۔دراصل سب سے پہلے ہم کو اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی کس غرض اور کن حالات کے ما تحت تھی ۔جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ ہو پیشگوئی کا سمجھنا محال ہے ۔سو جاننا چاہیے کہ یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعودؑ اس شادی سے کسی قسم کی اپنی بڑائی چاہتے تھے ۔ایک مضحکہ خیز بات ہے ۔کیونکہ خدا کے فضل سے مرزا احمد بیگ کا خاندان کیابلحاظ حسب نسب ،کیا بلحاظ دنیاوی عز ت وجاہت ،کیا بلحاظ مال و دولت حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔اور یہ ایک ایسی بیّن بات ہے جس پر ہم کو کسی دلیل کے لانے کی ضرورت نہیں ۔ پس شادی کی یہ وجہ تو ہو نہیں سکتی تھی باقی رہا یہ خیال کہ محمدی بیگم میں خود کوئی خاص وجہ کشش موجود تھی جس کی وجہ سے حضرت کو یہ خیال ہوا۔ سو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بھی باطل ہے ۔علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی کو دیکھو۔ کیا انصاف کومدّنظر رکھتے ہوئے آپؑ کی طرف کوئی نفسانی خواہش منسوب کی جا سکتی ہے۔ عقل سے کورے دشمن اور اندھے معاند کاہمارے پاس کوئی علاج نہیں ۔مگر وہ شخص جو کچھ بھی عقل اور کچھ بھی انصاف کا مادہ رکھتاہے اس بات کو تسلیم کر نے پر مجبور ہو گا کہ کم از کم جہاں تک نفسانی خواہشات کا تعلق ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ کا عظیم الشان پر سنل کریکٹر یعنی سیر ت و خلق ذاتی ایسے خیال کو دور ہی سے دھکے دیتا ہے۔ تو پھر سوال ہو تا ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض کیا تھی؟سو اس کا یہ جواب ہے کہ اس کی غرض وہی تھی جو حضرت مسیح موعود نے اپنی تصانیف میں لکھی ہے ۔اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے قریبی رشتہ دار یعنی محمدی بیگم کے حقیقی ماموں اور خالہ اور پھوپھی اور والد وغیرہ پرلے درجہ کے بے دین لوگ تھے اور دین داری سے ان کو کچھ بھی مس نہ تھا بلکہ دین کی باتوں پر تمسخر اُڑا تے تھے اور اس معاملہ میں لڑکی کے ماموں لیڈر تھے اور مرزا احمد بیگ ان کا تابع تھا اور با لکل ان کے زیر اثر ہو کر ان کے اشارہ پر چلتا تھا ۔اور جیسا کہ منکرین حق کا دستور ہے یہ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود ؑ سے کسی نشان کے طالب رہتے تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ الہام پر ہنسی اُڑایا کرتے تھے ۔ اس دوران میں اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت صاحب کا ایک چچا زاد بھائی غلام حسین مفقود الخبر ہو کر کالمیّت سمجھا گیا اور اسکے ترکہ کی تقسیم کا سوال پیدا ہوا ۔ مرزا غلام حسین کی بیوہ مسماۃ امام بی بی مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن تھی۔اس لئے مرز ااحمد بیگ نے اپنی بہن امام بی بی اور مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کے مشورہ سے یہ کوشش کی کہ غلام حسین مذکور کا ترکہ اپنے لڑکے یعنی محمدی بیگم کے بڑے بھائی محمد بیگ کے نام کر وا لے مگر یہ بغیر رضامندی حضرت مسیح موعود ؑ ہو نہیں سکتا تھا ۔اس لئے نا چار مرزا احمد بیگ حضرت صاحب کی طرف رجوع ہوا اوربڑی عاجزی اور اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ آپ اس معاملہ میں اپنی اجازت دے دیں ۔ قریب تھا کہ حضرت صاحب تیار ہو جاتے مگر پھر اس خیال سے کہ اس معاملہ میں استخارہ کر لینا ضروری ہے رُک گئے اور بعد استخارہ جواب دینے کا وعدہ فرمایا۔چنانچہ اس کے بعد مرزا احمد بیگ کی با ر بار کی درخواست پر حضرت صاحب نے دریں بارہ استخارہ فرمایا تو جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے و ہ الہامات ہو ئے جو محمدی بیگم والی پیشگوئی کا بنیادی پتھر ہیں گویا ان لوگوں کو نشان دکھا نے کا وقت آگیا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ احمد بیگ کی دختر کلاں محمدی بیگم کیلئے ان سے تحریک کر۔ اگر انہوں نے مان لیا تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کانشان ہوگا اور یہ خدا کی طرف سے بے شمار رحمت و برکت پائیں گے اور اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر خدا ان کو عذاب کا نشان دکھا ئے گا اور ان پر مختلف قسم کی آفات اور مصیبتیں آئیں گی اور اس صورت میں والد اس لڑکی کا لڑکی کے کسی اور جگہ نکاح کئے جانے کی تاریخ سے تین سال کے اندر اندر ہلاک ہوجائے گا اور جس سے نکاح ہو گا وہ بھی ڈھائی سال میں مر جائے گا۔ (نیز دیکھو روایت نمبر ۱۲۷) یہ اصل پیشگوئی تھی جو اس وقت کی گئی اب اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض محمدی بیگم کے والد اور ماموؤں کی بار بار کی درخواست پر ایک نشان دکھانا تھی نہ کہ کچھ اور۔ نیزیہ بھی ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی اظہار قدرت الٰہی کے ماتحت تھی نہ کہ اظہار علم الٰہی کے لئے۔ کیونکہ پیشگوئی میں صاف موجود تھا کہ اگر مان لو گے تو یوں ہوگا اور اگر انکار کرو گے تو یوں ہوگا گویا خدا کو اپنا اقتدار دکھانا منظور تھا اور منشاء الہٰی میں یہ تھا کہ یہ دکھائے کہ حضرت مسیح موعود اور جو بھی آپ کے ساتھ عقیدت مندانہ تعلق رکھے گا وہ خدا سے رحمت اور برکت پائے گا اور جو آپ کی عداوت میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے عذاب کا مورد ہوگا ۔چنانچہ اس پیشگوئی کا اعلان ہوگیا اور دنیا دیکھ چکی ہے کہ اس خاندان نے خدائی منشاء کے خلاف چل کر کیا کیا خدائی قہر و غضب کے نشان دیکھے ۔
مرزااحمد بیگ تاریخ نکاح سے چند ماہ کے اندر اندر تپ محرقہ سے ہوشیار پور کے شفاخانہ میں رخصت ہوا اور محمدی بیگم کی والدہ اپنے پانچ چھ بچوںکے گراں بوجھ کے نیچے دبی ہوئی بیوہ رہ گئی اور ساری خوشیاں خاک میں مل گئیں اور علاوہ مرزا احمد بیگ کے اور بعض موتیں بھی اس خاندان میں ہوئیں اور بعض دوسرے مصائب بھی آئے ۔دوسری طرف محمدی بیگم کے ماموؤں پر جس طرح خدائی عذاب کی تجلی ظاہر ہوئی وہ ایک نہایت عبرت انگیز کہانی ہے ۔یہ تین بھائی تھے اور ان کا گھر اس وقت خانگی رونق اور چہل پہل کا ایک بہترین نمونہ تھا ۔مگر پھر اسکے بعد ان پر خدائی چکی چلی اور وہ مختلف قسم کی تنگیوں اور مصیبتوںمیں مبتلا ہوئے اور انکا گھر خالی ہوناشروع ہوا حتیّٰ کہ وہ وقت آیا کہ سارے گھر میں صرف ایک یتیم بچہ رہ گیا اور باقی سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اور اپنی تباہی دیکھتے ہوئے رخصت ہوئے ۔کیا یہ نظارے خدائی قدرت نمائیوں کی چمکتی ہو ئی تجلیاں نہیں ؟ پھر اور سنو وہ یتیم بچہ جو اپنے بڑے وسیع گھرانے میں اکیلا چھوڑا گیا تھا آج اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے حلقہ بگوشوں میں شمار کرتا ہے اور یہی وہ خدائی تعویذ ہے جس نے اسے تباہی سے بچا رکھا ہے ۔
اب رہا یہ سوال کہ محمدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمد کیوں میعاد کے اندر نہیں مرا اور اب تک بقید حیات ہے۔ سو جاننا چاہیے کہ وہی قدرت الہٰی جس نے مرزا احمد بیگ کو ہلاک کیا، مر زا سلطان محمد کے بچانے کا موجب ہوئی ۔محمدی بیگم کے نکاح سے پہلے اور نکا ح کے وقت جو حالات تھے وہ اس بات کے مقتضی تھے کہ قدرت الہٰی عذاب کے رنگ میں ظاہر ہو ۔لیکن جب پیشگوئی کے نتیجہ میں مرزا احمد بیگ کی بے وقت موت نے مرزا سلطان محمد کے خاندان میں ایک تہلکہ مچا دیا اور یہ لوگ سخت خوف زدہ ہو کر حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف عجزو انکسار کے ساتھ جھکے اور آپ سے دعا کی درخواستیں کیں تو اب سنت اللہ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّ بَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال :۳۴)کے مطابق قدرت نمائی مرزا سلطان محمد کے ہلاک کئے جانے کے ساتھ نہیں بلکہ بچائے جانے کے ساتھ وابستہ ہو گئی ۔خود مرزا سلطان محمدؐ کا رویہ مرزا احمد بیگ کی موت سے لے کر آج تک حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ بہت مخلصانہ رہا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے کئی موقعوں پر اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا ہے اور با وجود حضرت مسیح موعود ؑ کے دشمنوں کی طرف سے رنگا رنگ میں طمع اور غیرت اور جوش دلائے جانے کے کبھی کوئی لفظ مرزا سلطان محمد کی زبان سے حضرت صاحب کے خلاف نہیں نکلا ۔بلکہ جب کبھی کوئی لفظ منہ سے نکلاہے۔ تو تا ئید اور تعریف میں ہی نکلا ہے تو کیا کوئی عقل تجویز کر سکتی ہے کہ ایسے شخص کے متعلق خدا کی قدرت نمائی عذاب کی صورت میں ظاہر ہو گی ؟ایک ظالم سے ظالم انسان بھی اپنے گرے ہوئے دشمن پر وار نہیں کرتا تو کیا خدا جو ارحم الراحمین ہے اس شخص پر وار کرے گا جو اس کے سامنے گر کر اس کی پناہ میں آتا ہے ؟ اور اگر یہ کہو کہ جب خدا کو یہ معلوم تھا کہ مرزا سلطان محمد ؐ کے رشتہ دار نہایت عقیدت اور عاجزی کے ساتھ حضرت صاحب کی طرف جھکیں گے اور رحم اور دعا کے طالب ہو نگے اور خود مرزا سلطان محمد کا رویہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ سے بڑا مخلصانہ ہو گاتو پھر کیوں اس کے متعلق ڈھائی سال میں ہلاک ہوجانے کی پیشگوئی کی گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شبہ اس لئے واقعہ ہو ا ہے کہ پیشگوئی کی غرض کو نہیں سمجھا گیا ۔پیشگوئی کی غرض جیسا کہ اوپربتا یا گیا ہے یہ نہ تھی کہ خدائے تعالیٰ اپنے علم ازلی کا اظہار کرے بلکہ پیشگوئی کی غرض یہ تھی کہ قدرت الہٰی کا اظہار کیا جاوے ۔جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ اور حالات سے بھی واضح ہوتا ہے کیونکہ اگر خدا کے علم ازلی کا اظہار مقصود ہوتا تو صرف ایک بات جوبالآخر وقوع میں آنی تھی بلا شرائط بتا دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ الفاظ کا مفہوم یہ تھا کہ اگر یہ لوگ مان لیں گے تو ان کیلئے یہ ایک رحمت کا نشان ہوگا اور اگر انکار کریں گے تو یہ ایک عذاب کا نشان ہوگا جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ علم ازلی کا اظہارمقصود نہ تھا بلکہ قدرت نمائی مقصود تھی ۔اسکے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق امکاناً چار راستے کھلے تھے یعنی اوّل:۔ آخری حالت کے لحاظ سے مرزا سلطان محمد کے متعلق جو بات فی الواقع ہو نے والی تھی صرف وہ بتائی جاتی اور درمیانی حالات نظر انداز کر دیئے جاتے تا جب پیشگوئی کے مطابق وقوع میں آتا تو لوگوں کو پیشگوئی کے پورا ہو نے کا یقین ہوتا اور وہ فائدہ اُٹھاتے ۔ دوئم:۔ جب کہ مرزا سلطان محمد کے ڈھائی سال میں ہلاک ہو جانے کے متعلق پیشگوئی کر دی گئی تھی تو خواہ حالات کتنے بدلتے بہر حال اس کو پورا کیا جاتا یا خدائی تصرّف حالات کو بدلنے ہی نہ دیتا اور اس طرح لوگوں کو ٹھوکر سے بچایا جاتا۔ سوئم :۔ اگر حالات بدلنے سے پیشگوئی کا حکم بدل جانا تھا تو اس کے متعلق پہلے ہی اطلاع دے دی جاتی یعنی پیشگوئی میں ہی ایسے الفاظ رکھ دیئے جاتے کہ مثلا ً بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یااس قسم کے کوئی اور الفاظ ہوتے تا لوگ پیشگوئی کو قطعی نہ سمجھتے ۔ چہارم:۔ موجودہ حالات پر حکم لگا دیا جاتا پھر اگر وہ حالات قائم رہتے تو وہی حکم وقوع میں آتا اور اگر حالات بدل جاتے تو نئے حالات کے مناسب حال حکم وقوع میں آتا ۔یہ وہ چار رستے تھے جو امکاناً اختیار کئے جاسکتے تھے لیکن ہر ایک عقل مند سوچ سکتا ہے کہ مقدم الذکر دو طریق قدرت نمائی کے منشاء کے منافی ہیں ۔کیونکہ پہلی صورت میں تو پیشگوئی قدرت نمائی کے دائرہ سے نکل کر اظہار علم ازلی کے دائرہ میں آجاتی ہے ۔کیونکہ جب پیشگوئی فریق مخالف کی خاص متمردانہ حالت پر مبنی تھی تو اس صورت میں حالات کو نظر انداز کرنااس کو قدرت نمائی کے دائرہ سے خارج کردیتا ہے ۔ہاں اگر اس کی بنیاد فریق متعلقہ کی کسی حالت پر نہ ہوتی تو پھر بے شک حالات اور ان کا تغیر نظر انداز کئے جاسکتے تھے مگراس صورت میں پیشگوئی اظہار قدرت کیلئے نہ رہتی بلکہ علم ازلی کے اظہار کے ماتحت آجاتی اور پیشگوئی کی اصل غرض ہی فوت ہو جاتی ۔اور اگر دوسرے طریق کو اختیار کیا جاتا تو یہ بات علاوہ کمال قدرت نمائی کے منافی اور سنت اللہ کے مخالف ہونے کے خدا کی مقدس ذات پر سخت اعتراض کا موجب ہوتی اور اس صورت میں بھی اصل غرض پیشگوئی کی باطل ہو جاتی ۔پس لا محالہ پیشگوئی کی غرض اظہار قدرت نمائی ثابت ہونے کے بعد ہم کو مؤخر الذکر دو طریقوں میں محدود ہونا پڑے گا اور یہ دونوں طریق ایسے ہیں کہ سنت اللہ سے ثابت ہیں ۔ تیسرے طریق پر تو کسی جرح کی گنجائش نہیں مگر ہاں چوتھے طریق پر بادی النظر میں یہ شبہ وارد ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی شرط کو تیسرے طریق کے طور پر واضح کیوں نہ کیا جاوے مخفی کیوں رکھا جائے ۔سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن مجید کے نص صریح سے یہ شرط بطور اصول کے بیان کر دی گئی ہے کہ حالات کے بدلنے سے اقتداری پیشگوئیوں میں قدرت نمائی کی صورت بدل جاتی ہے اور عقل انسانی کابھی یہی فتویٰ ہے کہ ایسا ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ نہ مانا جاوے تو اصل غرض فوت ہو کر خدا کی بعض صفات کا انکار کرنا پڑتا ہے تو پھر ہر گز ضروری نہیں کہ یہ شرط ہر پیشگوئی میں واضح طور پر بیان کی جاوے ۔خصوصاً جب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایمان کے راستے میں خدا کی یہ سنت ہے کہ بعض اخفا کے پردے بھی رکھے جاتے ہیں اور ایمان کے ابتدائی مدارج میں شہود کا رنگ نہیںپیدا کیا جاتا اور یہاں تو پیشگوئی کے الفاظ ہی اس کے شرطی ہونے کو ظاہر کر رہے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ سارا اعتراض پیشگوئی کی غرض نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے کیونکہ بدقسمتی سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ پیشگوئی کی غرض یہ تھی کہ علم الہٰی کے ماتحت محمد ی بیگم حضرت صاحب کے نکاح میں آجاوے اور بس ۔حالانکہ یہ غرض ہر گز نہ تھی بلکہ غرض یہ تھی کہ حضرت صاحب کے قریبی رشتہ داروں کو اقتداری نشان دکھایا جاوے اور مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کا ہلاک ہونا اور محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے عقد میں آنا اس وقت کے حالات کے ماتحت اس قدرت نمائی کیلئے بطور علامات کے تھے نہ کہ مقصود بالذّات ۔
اگر اس جگہ یہ شبہ پیدا ہو کہ حضرت صاحب کے بعض الہامات میں ہے کہ محمد ی بیگم بالآخر تیری طرف لوٹائی جاوے گی اور تمام روکیں دور کی جاویں گی وغیر ہ وغیرہ ۔اور اس کو تقدیر مبرم کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا تواس کا یہ جواب ہے کہ اوّل تو یہ قطعی طور پرثابت کرنا چاہیے کہ یہ سب الہامات حضرت مسیح موعود ؑ اور محمدی بیگم کے ہی متعلق ہیں ۔دوسرے اگر یہ سب الہامات محمدی بیگم اور حضرت صاحب ہی کے متعلق ہوں تو پھر بھی ان کو الگ الگ مستقل الہامات سمجھنا سخت نادانی ہے ۔بلکہ یہ سارے الہامات ابتدائی الہامات کے ساتھ ملحق اور اس کے ماتحت سمجھے جاویں گے ۔اور ان سب کو یکجائی طورپر سامنے رکھ کر کوئی رائے قائم کرنی پڑے گی اور ابتدائی الہام کو اصل قرار دینا ہوگا اور باقی بعد کے سب الہامات گو اس اصل کی شاخیں سمجھنا ہوگا ۔اب اس اصول کو مدنظر رکھ کر تمام پیشگوئی پر غور کریں تو صاف پتہ لگ رہا ہے کہ حضرت صاحب کو یہ حکم تھا کہ محمدی بیگم کے متعلق سلسلہ جنبانی کر اگر انہوں نے مان لیا تو یہ ان کے واسطے ایک رحمت کا نشان ہوگا اور اگر لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکا ح کر دیا تو یہ انکے لئے ایک عذاب کا نشان ہوگا اور اس صورت میں لڑکی کا والد تین سال میں اور لڑکی کا خاوند ڈھائی سال میں مرجائیں گے ۔اور لڑکی بالآخر تیری طرف لوٹائی جاوے گی اور تما م روکیں دور کی جاویں گی وغیرہ وغیرہ ۔اب ظاہر ہے کہ لڑکی کے حضرت صاحب کی طرف لوٹائے جانے اور روکوں کے دور ہونے کو مرزا سلطان محمد کے ہلاک ہو نے سے تعلق ہے اور یہ باتیںاسکے ماتحت ہیں نہ کہ مستقل۔ یعنی جب اس وقت کے حالات کے ماتحت مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی پیشگوئی ہوئی اور قدرت نمائی کو اس کی ہلاکت کی صور ت کے ساتھ وابستہ کیا گیا تو اس کے نتیجہ میں جو باتیں ظہور میں آنی تھیں ان کا بھی اظہار کیا گیا ۔یعنی یہ کہ مرزا سلطان محمد کی وفات ہو گی اور ان کی زندگی کی وجہ سے جو روکیں ہیں اور نیز دوسری روکیںوہ دور ہونگی اور پھر لڑکی تیرے گھر آئے گی ۔گویا یہ سب باتیں مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی شق کو مدنظر رکھ کر بیان کی گئیں تھیں اور جس طرح ہلاکت کے مقابل کی شق یعنی بچائے جانے کو مخفی رکھا گیا ۔اسی طرح بچائے جانے کے بعد جو کچھ وقوع میں آناتھا اس کو بھی مخفی رکھا گیایعنی ہلاکت والا پہلو اور اس کے نتائج بیان کر دیئے گئے اور بچائے جانے والا پہلو اور اس کے نتائج مخفی رکھے گئے۔ اور یہ سراسر نادانی اور ظلم ہو گا اگر ہم یہ سمجھیں کہ لڑکی کے لوٹائے جانے کی جو پیشگوئی ہے وہ ہلاکت اور عدم ہلاکت دونوں پہلوئوں کا نتیجہ ہے ۔کیونکہ جب عدم ہلاکت کا پہلو ہی مذکور نہیں تو اس کا نتیجہ کیونکر مذکور ہو سکتا ہے ۔ مذکور نتیجہ لامحالہ مذکور شق کے ساتھ وابستہ سمجھا جائے گا کیونکہ وہ اسی لڑی میں پرویا ہوا ہے اور دوسری لڑی ساری کی ساری مخفی رکھی گئی ہے ۔ ہاں جب واقعات نے قدرت نمائی کیلئے مرزا سلطان محمد کے بچائے جانے والے پہلو کو ظاہر کیا (جو لفظاً مذکور نہیں تھا ) تو پھر اس پہلو کے وہ نتائج بھی ظاہرکئے گئے جو لفظاً مذکور نہیں تھے ۔ہاں اگر عذاب والا پہلو ظاہر ہوتا تو پھر اس پہلو کے نتائج بھی ظاہر ہوتے ۔ لیکن جب وہ پہلو ہی ظاہر نہیں ہوا تو اس کے نتائج کس طرح ظاہر ہوجاتے اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ اور تقدیر مبرم کے بھی یہی معنی ہیں کہ صرف ہلاکت والے پہلو کا حضرت صاحب کو علم دیا گیا تھا اور حقیقی واقعہ کا علم صرف خدا کو تھا ۔پس حضرت صاحب کے لئے وہ تقدیر مبرم تھی اور ظاہر ہے کہ بعض اوقات مخاطِب ،مخاطَب کے علم کو مدنظر رکھ کر ایک لفظ بولتا ہے حالانکہ اس کے اپنے علم کے لحاظ سے وہ لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔دوسرے یہ کہ تقدیر مبرم سے ان خاص حالات میں یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جو شق مذکور ہے اس کے نتیجہ کے طور پر یہ تقدیر مبرم ہے نہ کہ مطلقا ً یعنی اگر ہلاکت والی شق ظہور میں آئے تو پھر یہ تقدیر مبر م ہے کہ وہ تیرے نکا ح میں آئے گی اور چونکہ دوسری شق کو بالکل مخفی رکھا گیا تھا اس لئے محض مذکور شق کو مدنظر رکھ کر تقدیر مبرم کا لفظ استعمال کرنا کوئی جائے اعتراض نہیں ہوسکتا۔
خلاصہ کلام یہ کہ محمدی بیگم کے حضرت صاحب کے نکاح میں آنے کے متعلق جتنے بھی الہامات ہیں وہ سب ابتدائی الہام کی فرع ہیں۔مستقل پیشگوئیاں نہیں ہیں اور ان سب کی بنیاد مرزا سلطان محمد کے عذاب میں مبتلا ہوکر ہلاک ہونے پر ہے ۔پس جب مرزا سلطان محمد کی ہلاکت حالات کے بدل جانے سے قدرت نمائی کا ذریعہ نہ رہی بلکہ عذاب کا ٹل جانا قدرت نمائی کا ذریعہ ہو گیا تو پھر عذاب والی صورت پر جتنے نتائج مترتب ہونے تھے وہ بھی منسوخ ہوگئے اور عدم عذاب والا مخفی پہلو مع اپنے تمام مخفی نتائج کے ظاہر ہو گیا گویا مرزا سلطان محمد کے متعلق تصویر کے دو پہلو تھے اول ۔عذاب کے ماتحت موت اور اس کے نتائج یعنی محمدی بیگم کا بیوہ ہو کر حضرت صاحب کے نکا ح میں آنا وغیرہ۔ پیشگوئی میں صرف یہی پہلو ظاہر کیا گیا تھا ۔ دوسرے ۔حالات کے بدل جانے سے عذاب اور موت کے رک جانے کی صورت میں اظہار قدرت ہونا اور اس کے نتائج یعنی محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد ہی کے پاس رہنا وغیرہ ۔یہ دوسرا پہلو مخفی رکھا گیا تھا۔ پس خدا نے سنت اللہ کے مطابق ظاہر پہلو کو منسوخ کر کے مخفی پہلو کو ظاہر کردیا ۔جو پہلو بیان کیا گیا تھا وہ سارے کا سارا بیان کیا گیا تھا اور جو مخفی رکھا گیا تھا وہ سارے کا سارا مخفی رکھا گیا تھا ۔در اصل سارا دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ محمدی بیگم کے نکاح کو اصل غرض پیشگوئی کی سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ بات واقعات کے بالکل خلاف ہے ۔بلکہ اصل غرض رشتہ داروں کی درخواست پر قدرت نمائی تھی اور مرزا احمد بیگ اور مرزا سلطان محمد کامرنا اور محمدی بیگم کا حضر ت کے نکاح میں آنا وغیرہ یہ سب اس وقت کے حالات کے ماتحت اس قدرت نمائی کیلئے بطور علامات کے رکھے گئے تھے لیکن جب مرزا احمد بیگ کی اچانک موت نے حالات کی صورت بدل دی تو قدرت نمائی کے علامات بھی بدل گئے۔ حق یہی ہے چاہو تو قبول کرو ۔ہاں اگر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں کسی وقت مرزا سلطان محمد کی طرف سے متمردانہ طریق اختیار کیا جاتا تو تصویر کا جو ظاہر پہلو تھا وہ بتمامہ وقوع میں آجاتا چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی کتب میں اپنے مخالفوں کو بار بار مخاطب کر کے لکھا ہے کہ اگر تمہیں اس پیشگوئی کے متعلق کوئی اعتراض ہے تو مرزا سلطان محمد کی طرف سے کو ئی مخالفت کا اشتہار دلوائو اور پھر دیکھو کہ خدا کیا دکھاتا ہے مگر باوجود ہمارے مخالفوں کی طرف سے سر توڑ کوشش اور بے حد غیرت اور طمع دلائے جانے کے مرزا سلطان محمد نے حضرت مسیح موعود کے متعلق جب کبھی بھی کوئی اظہار کیا تو عقیدت اور اخلاص کا ہی اظہار کیا۔ اندریں حالات مخالفت والے پہلو پر جو نتائج مترتب ہو نے تھے وہ کس طرح ظاہر ہو جاتے ۔خدا کی خدائی اندھیر نگر ی تو نہیں کہ کاشت کریں آم اور نکل آئے حنظل بلکہ وہاں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ ’’ گندم ازگندم بَرَویَد جَو زِ جَو ۔ازمکافاتِ عمل غافل مشو ‘‘۔محمدی بیگم کے نکاح کا درخت مرزا سلطان محمد کی ہلاکت کی سرزمین سے نکلنا تھا اور ہلاکت کی سرزمین خدائی عذاب کے زلزلہ نے تیار کرنی تھی اور یہ عذاب کا زلزلہ مرزاسلطان محمد کے تمرّد نے پیدا کرنا تھا اب جب تمردنہ ہوا تو عذاب کا زلزلہ کیسا اور جب زلزلہ نہ آیا تو ہلاکت کیسی؟ اب محمدی بیگم کے نکاح کو بیٹھے روتے رہو۔خدانے تو اپنی قدرت نمائی کا جلوہ دکھادیا اور پیشگوئی پوری ہوگئی۔
اب ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے اوروہ یہ کہ بے شک حالات کے تغیر سے قدرت نمائی کی صورت بدل جاتی ہے اور بدل جانی چاہیے مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جو کسی کام کا ہو مثلاً کسی غیر مسلم معاند کے عذاب کی خبر ہے تو وہ عذاب اس صورت میں ٹلنا چاہیے کہ وہ شخص تائب ہو کر مسلمان ہو جاوے یا غیر احمدی مسلمان ہو تو وہ احمدی ہو جاوے ورنہ اپنے مذہب پر رہ کر ہی کچھ تغیر کر لینا موجب رہائی کا نہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ کو مشتبہ کر دیتا ہے ۔اس کا یہ جواب ہے کہ یہ شبہ نادانی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہی شخص ایسا شبہ کر سکتا ہے جو موجبات عذاب سے بے خبر ہو ۔دراصل بات یہ ہے کہ یہ مسلم حقیقت ہے کہ اس دنیا میں عذاب کسی نبی کے محض انکار کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ اس کے مقابل میں فساد اور سر کشی او ر تمّر د سے آتا ہے ۔محض انکا ر کیلئے آخرت کی جزا سزا مقرر ہے ،اس دنیا کا عذاب صرف سرکشی اور تمرد کے نتیجہ میں ہوتا ہے چنانچہ ہمارا مشاہدہ اس پر شاہد ہے اب جب یہ بات معلوم ہو گئی تو کوئی اعتراض نہ رہا ۔ایک شخص جو اپنی سرکشی اور تمرد کی وجہ سے اس دنیا میں عذاب کا مستحق بنا تھا وہ جب تمرد کی حالت کو بدل دے گا تو عذاب ٹل جائے گا ۔خواہ وہ منکر ہی رہے اور انکار کی پرسش آخر ت میں ہوگی۔ جو چیز اس دنیا میں عذاب کی موجب تھی وہ جب جاتی ر ہی تو اس دنیا کا عذاب بھی جاتا رہا ۔باقی رہا محض انکا ر اور علیحدگی سو اس کیلئے دنیا میں عذاب نہیں ہوتا بلکہ اس کی پرسش اگلے جہاں میں ہوگی۔ پس یہ کہنا کہ غیر مسلم کے مسلمان اور غیر احمدی کے احمدی ہو جانے پر عذاب ٹلنا چاہیے تھا ۔ایک جہالت کی بات ہے جب غیر مسلم کا محض غیر مسلم ہونا اور غیر احمدی کا محض غیر احمدی ہونا اس دنیا میں موجبات عذاب کے نہیں اور نہ اس وجہ سے ان کیلئے کوئی عذا ب کی پیشگوئی تھی تو یہ اعتراض بے ہودہ ہے ہاں اگر عذاب کی وجہ ان کا غیر مسلم یاغیر احمدی ہونا بتائی جاتی تو پھر بے شک جب تک وہ احمدی یا مسلمان نہ ہو جاتے عذاب نہیں ٹلنا چاہیے تھا ۔ لیکن جب عذاب کی یہ وجہ ہی نہیں اور نہ ہو سکتی ہے بلکہ عذاب کی وجہ فساد فی الارض اور تمرد ہے تو عذاب کے ٹلنے کیلئے ایمان لانے کی شرط ضروری قرار دینا محض جہالت ہے اور اگر یہ کہا جاوے کہ مرزا سلطان محمد نے گو بے شک اخلاق و عقیدت کا اظہار کیا اور تمرد نہیں دکھایا لیکن محمدی بیگم کو اپنے نکاح میں تو رکھا اور اس طرح گویا عملاً تمرد سے کام لیا ۔تو یہ بات گذشتہ اعتراض سے بھی بڑھ کر جہالت کی بات ہو گی کیونکہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ پیشگوئی کی غرض ہر گز محمدی بیگم کا نکا ح نہ تھی بلکہ متمرد رشتہ داروں کو اقتداری نشان دکھانا تھا تو پھر یہ کہنا کہ گو اس نے تمرد نہیں دکھا یا مگر چونکہ محمدی بیگم کو اپنے نکا ح میں رکھا اس لئے عذاب نہ ٹلنا چاہیے تھا ۔ایک ابلہانہ بات ہے ۔اگر غرض پیشگوئی کی یہ ہوتی کہ محمدی بیگم حضرت صاحب کے نکا ح میں آجاوے تو پھر بے شک مرزا سلطان محمد کا فقط تمرد نہ دکھانا کسی کام نہ آتا جب تک وہ محمدی بیگم کو الگ نہ کرتا لیکن جب پیشگوئی کی یہ غرض ہی ثابت نہیں ہوتی تو پھر عذاب کے ٹلنے کو مرزا سلطان محمدکے محمدی بیگم سے علیحدہ ہو جانے کے ساتھ مشروط قرار دینا ایک عجیب منطق ہے ۔جو ہماری سمجھ سے بالا ہے ۔دراصل یہ سارے اعتراضات پیشگوئی کی غرض پر غور نہ کرنے سے پیدا ہو ئے ہیں ورنہ بات کو ئی مشکل نہ تھی ۔
اور یہ شبہ کہ اگر محض انکا ر سے اس دنیا میں عذاب نہیں آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ کے مختلف عذابوں کو اپنی وجہ سے کیوں قرار دیا ہے ایک دھوکے پر مبنی ہے۔ آج کل جو دنیا کے مختلف حصوں میں عذاب آرہے ہیں ان کو حضرت صاحب نے اپنی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ یہ لوگوں کوجگانے کیلئے ہیں ۔یعنی ان کی یہ غرض ہے کہ لوگ اپنی غفلتوں سے بیدار ہو جائیں اور حق کی تلاش میں لگ جاویں اور حق کے قبول کر نے کیلئے ان کے دل نرم ہو جاویں۔لہٰذا یہ عذاب اور نوعیت کا عذاب ہے جس کو اس دوسری قسم کے عذاب سے کو ئی واسطہ نہیں۔ یہ عام قومی عذاب تو صرف بیدار کر نے کیلئے آتے ہیں یعنی جب کبھی کوئی رسول آتا ہے تو خدا کی سنت ہے کہ اس کی قوم کو جن کی طرف وہ مبعوث ہو عذاب کے دھکوں سے بیدار کرتا ہے ۔اسی لئے یہ قومی عذاب رسول کی بعثت کی علامت رکھے گئے ہیں ورنہ یہ عذاب تو بسا اوقات ایسے لوگوں کو بھی پہنچتے رہتے ہیں جن تک رسول کی تبلیغ بھی نہیں پہنچی ہوتی ۔اور جن کی طرف سے رسول کے خلاف تمرّد تو درکنار محض انکا ر بھی نہیں ہوا ہوتا ۔پس ان عذابوں کو اس خاص عذاب کے ساتھ مخلوط کرنا نادانی ہے۔زیر بحث تو وہ خاص انفرادی عذاب ہیں جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جو رسول کے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں ایسے عذاب محض انکار پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ فساد فی الارض اور سرکشی اور تمرد سے آتے ہیں ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جو اس رشتہ کی کوشش میں اپنے بعض رشتہ داروں کو خط لکھے اور اس کے لئے بڑی جدو جہد کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اصل غرض محمدی بیگم کا نکاح تھی مگر یہ ایک سراسر باطل بات ہے ۔جبکہ پیشگوئی کے الفاظ سے یہ غرض ثابت نہیں ہوتی اور جب کہ حضرت صاحب کی تحریرات میں یہ بات صاف طور پر لکھی ہو ئی موجود ہے کہ پیشگوئی کی غرض نکاح نہ تھی بلکہ قدرت نمائی تھی اور ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار حضرت صاحب نے اسے کھول کھول کر بیان کر دیا اور محمدی بیگم کے مرزا سلطان محمد کے ساتھ بیاہے جانے سے پہلے بھی اور بیاہے جانے کے بعد بھی اس غرض کا اظہار کیا ۔یعنی برابر اس وقت سے جب کہ ابھی محمدی بیگم بیاہی بھی نہ گئی تھی اور اس پیشگوئی کے متعلق اعتراض وغیرہ نہ تھا ۔ حضرت صاحب ہمیشہ یہی بیان کر تے چلے آئے ہیں کہ اس کی غرض محمدی بیگم کو نکا ح میں لانا نہیں بلکہ قدرت الہٰی کا ایک نشان دکھانا ہے۔ تو نکاح کی کوشش کرنے اور اپنے بعض رشتہ داروںکوا س کوشش کے متعلق خطوط لکھنے سے یہ استنباط کس طرح ہو سکتا ہے کہ پیشگوئی کی غرض نکاح کرنا تھی ۔کیا ایسے رکیک استنباطوں سے نصوص صریح کا رد کرنا جائز ہے ۔رشتہ کی کوشش اور اس کیلئے رشتہ داروں کو تحریک تو فقط اس غرض سے تھی کہ اس وقت تک چونکہ محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد سے نکاح نہ ہوا تھا ۔ اس لئے حضرت صاحب کی خواہش اور کوشش تھی کہ محمدی بیگم کا نکاح آپ کے ساتھ ہو جاوے تا آپ کے رشتہ دار خدا کی رحمت اور برکت سے حصہ پاویں اور خدا کا نشان پورا ہو اور آپکی صداقت ظاہر ہو ۔اس سے پیشگوئی کی غرض کے متعلق کس طرح استدلال ہو سکتا ہے ۔اس جگہ اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک محمدی بیگم کا مرزا سلطان محمد کے ساتھ نکاح نہیں ہوا تھا محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے رشتہ میں آنا رشتہ داروں کیلئے ایک نشانِ رحمت تھا لیکن جب محمدی بیگم مرزا سلطان محمد کے عقد میں چلی گئی اور آپ کے رشتہ داروں نے تمرّد سے کام لیا تو اب محمدی بیگم کا حضرت صاحب کی طرف لوٹنا مرزا سلطان محمد کے عذاب میں مبتلا ہونے کے ساتھ مشروط ہو گیا یعنی مرزا سلطان محمد پر عذاب کی موت آئے اور پھر محمدی بیگم حضرت صاحب کی طرف لوٹے اسی لئے جب تک محمدی بیگم کا حضرت صاحب کے عقد میں آنا رشتہ داروں کیلئے ایک رحمت کا نشان تھا ۔آپ نے اس کیلئے کوشش کی اور پوری کوشش کی اور یہ کوشش آپکی صداقت اور اخلاق فاضلہ پر ایک زبردست دلیل ہے ۔لیکن جب محمدی بیگم کے دوسری جگہ نکاح ہوجانے کے بعد اُس کا آپکی طرف لوٹنا رشتہ داروں کے عذاب دیئے جانے کی علامت ہو گیا تو آپ نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ۔پس آپ کی کوششوں سے پیشگوئی کی غرض کے متعلق استدلال کر نا باطل ہے ۔یہ کوشش تو محض اس لئے تھی کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت محمدی بیگم کا آپکے نکاح میں آنا اظہار قدرت کی ایک علامت تھا ۔پس آپ نے اس علامت کے پورا کرنے کی کوشش کی تا پیشگوئی کی اصل غرض یعنی قدرت نمائی وقوع میں آوے اور خصوصیت کے ساتھ کوشش اس لئے کی کہ اُس وقت کے حالات کے ماتحت محمدی بیگم کا آپ کے عقد میں آناآپ کے رشتہ داروں کے لئے موجب رحمت و برکت تھا ۔لہٰذا یہ کو شش تو آپ کی صداقت اور اخلاق فاضلہ اور رشتہ داروں پر رحم و شفقت کی ایک دلیل ہے نہ کہ آپ کے خلاف جائے اعتراض۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ پیشگوئی خدا کے علم ازلی کے اظہار کے لئے نہ تھی تا بہر حال اپنی ظاہری صورت میں پوری ہوتی بلکہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے تھی ۔پس پیشگوئی کے وقت حالات موجودہ جس قسم کی قدرت نمائی کے مقتضی تھے اُس کا اظہار کیا گیا اور بعد میں حالات کے تغیر سے جو جو رستہ قدرت نمائی کا متعیّن ہوتا گیا اس کے مطابق اظہار قدرت ہوتا گیا ۔تا یہ ثابت ہو کہ خدا کوئی مشین نہیں ہے کہ جب پہیہ چل گیا تو بس پھر جو اپنا بیگانہ سامنے آیا اُس کو پیس ڈالا کیونکہ یہ بات قدرت کاملہ کے منافی ہے ۔بلکہ خدا ایک قدیر ہستی ہے ۔جب کوئی شخص عذاب کا مستحق ہوتا ہے تو وہ اُسے عذاب میں گرفتار کرتا ہے اور پھر اسے کوئی نہیں بچا سکتا اور جب وہ موجبات عذاب کو دور کر دیتا ہے تو خدا بھی اُس سے اپنا عذاب کھینچ لیتا ہے اور پھر اُسے کو ئی عذاب میں نہیں ڈال سکتا اور یہی قدرت کاملہ ہے ۔باقی رہی یہ بات کہ محمدی بیگم کے نکاح کے متعلق حضرت صاحب کو بہت سے الہامات ہوئے کہ وہ تیرے نکاح میں آئے گی سو اس کا جواب گذرچکا ہے ۔کہ محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی کوئی مستقل پیشگوئی نہیں بلکہ رشتہ داروں کو جو نشان دکھلانا تھا اُس کا حصہ اور فرع ہے اور یہ بات حضرت صاحب کی تحریرات بلکہ خود الہامات سے اَظْہَرٌ مِّنَ الشَّمْس ہو جاتی ہے اور جو شخص اس کے خلاف دعویٰ کرتا ہے بار ثبوت اس کے ذمہ ہے ۔پس جب نکاح کی پیش گوئی مستقل پیشگوئی نہ ہوئی بلکہ تمام پیشگوئی کا حصہ اور فرع ہوئی تو اعتراض کوئی نہ رہا ۔کیونکہ پیشگوئی کا منشاء یہ قرار پایا کہ مرزا سلطان محمد عذاب موت میں گرفتار ہوگا اور پھر محمدی بیگم حضرت مسیح موعود ؑ کے عقد میں آئے گی۔اور مرزا سلطان محمد کے عذاب موت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کوئی چیز محمدی بیگم کے حضرت صاحب کی طرف لوٹنے میں روک نہ ہو سکے گی لیکن جب حالات کے بدل جانے پر مصلحت الہٰی نے قدرت نمائی کا منشاء پورا کرنے کے لئے عذاب کی صورت کو بدل دیا تو نکاح بھی جو عذاب والی صورت کا نتیجہ تھا منسوخ ہو گیا ۔اصل غرض قدرت نمائی تھی اور باقی سب اُس وقت کے حالات کے ماتحت اُس کی علامات تھیں۔پس ہم کہتے ہیں کہ جب حالات کے بدل جانے سے اصل غرض اور علامات آپس میں ٹکرانے لگیں تو اصل غرض کو لے لیا گیا اور علامات کو چھوڑ دیا گیا اور یہی حکمت کی راہ ہے اور اگر کہو کہ ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ وہی علامات مقرر کی جاتیں جو آخر تک ساتھ رہتیں تو اس کا جواب اوپر گذر چکا ہے کہ چونکہ یہ پیش گوئی علم ازلی کے اظہار کے لئے نہ تھی بلکہ قدرت نمائی کے لئے تھی ۔اس لئے حالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا اور اگر حالات کو نظر انداز کیا جاتا تو پیشگوئی کی اصل غرض(یعنی قدرت نمائی)فوت ہو کر پیشگوئی اظہار علم ازلی کے ماتحت آجاتی اور یہ مقصود نہ تھا ۔خوب سوچ لو کہ قدرت کاملہ کا اظہا ر بغیر حالات کو مد نظررکھنے کے ناممکن ہے کیونکہ یہ صورت دو نتیجوں سے خالی نہیں یا تو خداکو بغیر ارادے کے ایک مشین کی طرح ماننا پڑے گا اور یا پھرظالم و سفاک قرار دینا ہوگا ۔اور یہ دونوں باتیں قدرت کاملہ کے مفہوم کے منافی ہیں ۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَـلَاغ ـ
اس جگہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خاکسار نے پیشگوئیوں کے جو اصول بیان کئے ہیں اُن پر پیشگوئیوں کے اصول کا حصر نہیں ہے ۔یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پیشگوئیوں کے بس صرف یہی اصول ہیں جو بیان ہو گئے بلکہ یہاں تو صرف اس جگہ کے مناسب حال اور وہ بھی صرف خاص خاص اُصول بیان کئے گئے ہیں ورنہ اُن کے علاوہ اور بھی بہت سے اصول ہیں بلکہ ان بیان شدہ اصول کے بھی بہت سے اور پہلو ہیں جو بیان نہیں کئے گئے کیونکہ یہ موقع پیشگوئیوں کے اصول بیان کر نیکا نہیں ہے بلکہ حضر ت مسیح موعود ؑ کی سیرت و سوانح کے بیان کرنے کا ہے ۔
{180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب جو سلسلہ کے ایک مبلّغ ہیںایک دفعہ پٹّی گئے اور مرزا سلطان محمد بیگ صاحب سے ملے تھے ۔ اس ملاقات کے متعلق وہ ۱۳؍۹جون ۱۹۲۱ء کے اخبار الفضل قادیان میں لکھتے ہیں کہ ’’ عندا لملاقات میں نے مرز اسلطان محمد صاحب سے سوال کیا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں حضرت مرزا صاحب کی نکاح والی پیشگوئی کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں جسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ بخوشی بڑی آزادی سے دریافت کریں اور کہا کہ میرے خُسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں مگر خدا تعالیٰ غفورالرحیم بھی ہے اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے اس سے اُن کا مطلب یہ تھا کہ خداتعالیٰ نے میری زاری و دعا کی وجہ سے وہ عذاب مجھ سے ٹال دیا ۔
پھر میں نے ان سے سوال کیا ۔آپ کو حضرت مرزا صاحب کی اس پیشگوئی پر کو ئی اعتراض ہے ؟ یا یہ پیشگوئی آپ کیلئے کسی شک و شبہ کا باعث ہوئی ہے ؟ جسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ پیشگوئی میرے لئے کسی شبہ کا باعث نہیں ہوئی ۔پھر میں نے سوال کیا کہ اگر پیشگوئی کی وجہ سے آپ کو حضرت مرزا صاحب پر کوئی اعتراض یا شک و شبہ نہیں تو کیا کوئی اور ان کے دعویٰ کے متعلق آپ کو اعتراض ہے ۔جس کی وجہ سے آپ ابھی تک بیعت کر نے سے رکے ہوئے ہیں ؟ اس پر بھی انہوں نے خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہی جواب دیا کہ مجھے کسی قسم کا بھی اُن پر اعتراض نہیں بلکہ جب میں انبالہ چھائونی میں تھا تو ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک احمدی نے مرزا صاحب کے متعلق میرے خیالات دریافت کئے تھے جس کا میں نے اس کو تحریری جواب دیدیا تھا ۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تحریر رسالہ تشحیذ میں چھپ چکی ہے ۔) اس کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ جب آپ کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر بیعت کیوں نہیں کر تے ؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے وجوہات اور ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں ۔میں بہت چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ قادیان جائوں کیونکہ مجھے حضرت میاں صاحب کی ملاقات کا بہت شوق ہے اورمیرا ارادہ ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت بیان کروں پھر چاہے شائع بھی کر دیں تو مجھے کو ئی اعتراض نہیں ہوگا ۔باقی میرے دل کی حالت کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے متعلق آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ تک دینا چاہا تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر کوئی نالش کروں ۔اگر وہ روپیہ میں لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا ۔مگر وہی اعتقاد اور ایمان تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا ۔
پھر میں نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کے گھروالوں (محمدی بیگم صاحبہ ) نے کوئی رؤیا دیکھی ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا مجھ سے تو انہوں نے ذکر نہیں کیا مگر آپ احمد بیگ ( ہیڈکلرک احمدی ) کے ذریعہ میرے گھر سے خود دریافت کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ مرزا احمد بیگ صاحب نے ان کو اپنے گھر بلوایا اور دریافت کرنے پر انہوںنے کہا کہ جس وقت فرانس سے اُن کو ( یعنی مرزا سلطان محمد صاحب کو ) گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہو ئی اور میرا دل گھبرا گیا ۔اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رؤیا میں نظر آئے اُن کے ہاتھ میں ایک دودھ کا پیالہ ہے اور وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے فکر نہ کر ۔اس سے مجھے ان کی خیریت کے متعلق اطمینان ہو گیا۔‘‘
خاکسارعرض کرتا ہے کہ میں نے مرزا احمد بیگ صاحب احمدی سے اس واقعہ کے متعلق دریافت کیا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پوری پوری تصدیق کی ۔
{ 181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت یا سوانح کے متعلق جو تصنیفات احمدیوں کی طرف سے اس وقت تک شائع ہو چکی ہیں وہ یہ ہیں ۔
(۱) سیرۃ مسیح موعودمصنفہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب
مولوی صاحب مرحوم اکابر صحا بہ میں سے تھے اور حضرت مولوی صاحب یعنی خلیفہ اول کے بعد جماعت میں انہی کا مرتبہ سمجھا جاتا تھا ۔یہ تصنیف نہایت مختصر ہے لیکن چونکہ مولوی صاحب مرحوم کی طبیعت نہایت ذکی اور نکتہ سنج واقع ہو ئی تھی اس لئے بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور اچھے اچھے استدلال کئے ہیں عموماً خانگی اخلاق پر روشنی ڈالی ہے۔اورہر بات کی بنا اپنے ذاتی مشاہدہ پر رکھی ہے اور چونکہ مولوی صاحب مرحوم حضر ت مسیح موعود ؑ کے مکان کے ایک حصہ میں ہی رہتے تھے اس لئے ان کو حضرت صاحب کے اخلاق وعادات کے مطالعہ کا بہت اچھا موقعہ میّسر تھا اس پر خدانے تقریرو تحریر کی طاقت بھی خاص عطا کی تھی ۔یہ رسالہ نہایت دلچسپ اور قابل دید ہے ۔ روایات چونکہ سب حضرت مولوی صاحب مرحوم کی ذاتی ہیں اس لئے شک و شبہ کی گنجائش سے با لا ہیں ۔ہاں مولوی صاحب کے قلم کے زورنے ان کو بعض جگہ الفاظ کی پابندی سے آزاد کر دیا ہے یعنی معلوم ہوتا ہے کہ کہیں کہیں مفہوم لے کر واقعات کو اپنے طرز کلام میں بیان کر دیا ہے ۔تاریخ تصنیف جنوری ۱۹۰۰ء ہے ۔حضرت مولوی صاحب موصوف کی وفات ۱۹۰۵ء میں ہوئی تھی ۔کیا خوب ہوتا اگر مولوی صاحب اس رسالہ کو زیادہ مکمل و مبسوط کر جاتے ۔یہ رسالہ سوانح کے حصہ سے بالکل خالی ہے یعنی سیرت و خلق ذاتی پر روشنی ڈالنے کیلئے صرف جُستہ جُستہ واقعات لے لئے ہیں مگر ہر لفظ عشق و محبت میں ڈوبا ہو ا ہے۔ناظرین اس مختصر رسالہ کا ضرور مطالعہ کریں ۔
(۲) احمد علیہ السلام بزبان انگریزی مصنفہ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے
مولوی صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں ۔غالباً ۱۸۹۷ء میں احمدی ہو ئے تھے ۔حضر ت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے آخری چندسال قادیان ہجرت کر آئے تھے اور حضرت صاحب نے ان کو اپنے مکان کے ایک حصہ میں جگہ دی تھی اور ریویو کی ایڈیٹری ان کے سپرد کی تھی ۔ مولوی صاحب حضر ت صاحب کے زمانہ میں مقربین میں سمجھے جاتے تھے مگر افسوس اپنے بعض دوستوں اور نیز زمانہ کے اثر کے نیچے آکر فتنہ کی رومیں بہہ گئے ۔ ان کی انگریزی تصنیف ’’احمد علیہ السلام‘‘ مختصر طور پرحضر ت مسیح موعود ؑ کے سوانح اور سیر ت پر مشتمل ہے اور دلچسپ پیرایہ میں لکھی گئی ہے ،سوانح کے معاملے میں کوئی خاص تحقیق نہیں کی گئی بلکہ عام معروف باتوں کو لکھ دیا ہے ۔ سیرت کا حصہ عموماً اپنے ذاتی مشاہدہ پر مبنی ہے اور عمدہ طور پر لکھا گیا ہے،تاریخ تصنیف ۱۹۰۶ء ہے ۔
( ۳) حضرت مسیح موعود کی زندگی کے مختصر حالات مصنفہ میاں معراج دین صاحب عمر لاہوری
میاں صاحب موصوف پرانے احمدی ہیں ۔ہجرت نہیں کی لیکن حضر ت مسیح موعود ؑ کی صحبت کافی اٹھائی ہے اور ذہین اور منشی آدمی ہیں ۔یہ مضمون براہین احمدیہ کے ایک ایڈیشن کے ساتھ شامل ہوکر شائع ہوا ہے ۔اور آپ کے خاندانی حالات سوانح و سیرت پر مشتمل ہے جو عمدگی کے ساتھ مرتب کئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ واقعات میں کوئی مستقل تحقیق نہیں کی گئی ۔بلکہ عمو ماً معروف واقعات کو لے لیا ہے۔ تاریخ تصنیف ۱۹۰۶ء ہے ۔
(۴)حیات النبی ۔مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی ۔شیخ صا حب موصوف پرانے احمدی ہیں ۔ اور سلسلہ کے خاص آدمیوں میں سے ہیں مہاجر ہیں اور کئی سال حضرت مسیح موعود کی صحبت اُٹھا ئی ہے ۔ ان کے اخبار الحکم میں سلسلہ کی تاریخ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سوانح اور سیرت کا کافی ذخیرہ موجود ہے۔ شیخ صاحب کو شروع سے ہی تاریخ سلسلہ کے محفوظ رکھنے اور جمع کرنے کا شوق رہاہے اور در اصل صرف حیات النبی ہی وہ تصنیف ہے جو اس وقت تک حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح اور سیرت میں ایک مستقل اور مفصل تصنیف کے طور پر شروع کی گئی ہے ۔ اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور قابل دید ہیں ۔ تاریخ تصنیف ۱۹۱۵ء ہے ۔
(۵)تذکرۃ المہدی ۔مصنفہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی جو بہت پرانے احمدی ہیں ۔غالباً ۸۲-۱۹۸۱ء سے اُن کی قادیان میں آمد ورفت شروع ہوئی تھی ۔حضرت صاحب کی صحبت بھی بہت اُٹھائی ہے ۔ بلکہ کئی سال قادیان آکر خدمت میں رہے ہیں ۔لکھنے اور بات کرنے کا پیرایہ پرانے انداز کا ہے مگر اپنے اندر کشش رکھتا ہے ۔اُن کی تصنیف تذکرۃ المہدی بہت دلچسپ ہے۔مسلسل سوانح نہیں بلکہ جستہ جستہ واقعات ہیں مگر خوب تفصیل اور بسط کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں اور سب چشم دید باتیں لکھی ہیں ۔گویا اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے ۔عموماً سفروں میں حضرت کے ہمرکاب رہے ہیں ۔اُن کی کتاب اپنے رنگ میںبہت دلچسپ اور قابل دید ہے ۔کتاب کے دو حصے شائع ہو چکے ہیں ۔تاریخ تصنیف ۱۹۱۴ء ہے ۔ ز
(۶)سیرت مسیح موعود ؑ مصنفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی ۔یہ ایک مختصر رسالہ ہے ۔ جس میں وفات تک کے معروف و مشہور واقعات درج ہیں ۔اس میں کوئی مستقل یا مفصل تاریخی تحقیق نہیں کی گئی ۔ بلکہ صرف عام معروف سوانح کو بیان کر دیا گیا ہے ۔اور دراصل اس کی اشاعت سے غرض بھی یہی تھی ۔اسلوب بیان اور عام طرز تحریر کے متعلق مصنف کے نام نامی سے قیاس ہو سکتا ہے ۔تاریخ تصنیف ۱۹۱۶ء ہے ۔
ان کے علاوہ دو عیسائی امریکن پادریوں نے بھی انگریزی میں حضرت مسیح موعود کے حالات لکھے ہیں ۔یعنی (۱) ڈاکٹر گرس فولڈ پر وفیسر مشن کالج لاہو ر اور (۲) مسٹر والٹر سیکرٹری ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن لاہور ۔ ان میں سے ڈاکٹر گرس فولڈ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا تھا ۔لیکن مسٹر والٹر نہیں ملا ۔مؤخر الذکر کی تصنیف کچھ مفصل ہے اور مقدم الذکر کی مختصر ہے ۔گو معلومات عموماً احمدیہ لٹریچر سے حاصل کی گئی ہیں مگر یہ کتابیں واقعات کی غلطی سے خالی نہیں مگر غلطی بالعموم غلط فہمی سے واقع ہوئی ہے ۔باقی استدلال و استنباط کا وہی حال ہے جو ایک عیسائی پادری سے متوقع ہوسکتا ہے یعنی کچھ تو سمجھے نہیں اور کچھ سمجھے تو اس کا اظہار مناسب نہیں سمجھا ۔تعصب بھی آگ کی ایک چنگاری کی طرح ہے کہ معلومات کے خرمن کو جلا کر خاک کر دیتا ہے ۔مگر خاکسار کی رائے میں تعصب کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جو واقعات کو سمجھنے اور صحیح نتائج پر پہنچنے کے رستے میں ایک بہت بڑی روک ہو جاتی ہے اور وہ اجنبیت اور غیر مذہب اور غیر قوم سے متعلق ہو نا ہے جس کی وجہ سے آدمی بسا اوقات بات کی تَہ تک نہیں پہنچ سکتا ۔ مگر بہر حال یہ دو تصنیفات بھی قابل دید ہیں۔
ان کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات و رسالہ جات ہیں ۔یعنی الحکم ، البدر ۔ ریویو (انگریزی و اردو) اور تشحیذالاذہان ۔ جن میں وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود ؑ کے حا لات اور ڈائریاں چھپتی رہی ہیں ،ان میں بھی معلومات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔
پھر خود حضر ت مسیح موعود ؑ کی اپنی تصنیفات ہیں یعنی ۸۰کے قریب کتب و رسالجات ہیں ۔اور دوسو کے قریب اشتہارات ہیں ان میں بھی حضرت صاحب کی سیرت و سوانح کے متعلق ایک بہت بڑا حصہ آگیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ حصہ سب سے زیادہ معتبر اور یقینی ہے اور درحقیقت حضرت مسیح موعود ؑ کے سوانح کے متعلق جتنی کتب شائع ہوئی ہیں وہ سب سوائے حیات النبی کے زیادہ تر صرف حضرت صاحب کے خود اپنے بیان کردہ حالات پر ہی مشتمل ہیں مگر اس ضمن میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض اوقات واقعات کی تاریخ معیّن صورت میں یاد نہیں رہتی تھی درحقیقت حافظہ کی مختلف اقسام ہیں ۔ بعض لوگوں کا حافظہ عموماً پختہ ہوتا ہے مگر ایک خاص محدود میدان میں اچھا کا م نہیں کرتا اور دراصل تاریخوں کو یاد رکھنا خصوصاً جب وہ ایسے واقعات کے متعلق ہوں جو منفرد ہیں اور سلسلہ واقعات کی کسی لڑی میں منسلک نہیں ۔ایک ایسے شخص کیلئے خصوصاً مشکل ہو تا ہے جس کا دماغ کسی نہایت اعلیٰ کام کیلئے بنا یا گیا ہو۔ درحقیقت واقعات کی تاریخوں کو یاد رکھنے کے متعلق جو حافظہ کی طاقت ہے وہ انسانی دماغ کی دوسری طاقتوں کے مقابلہ میں ایک ادنیٰ طاقت ہے بلکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کی یہ طاقت تیز ہوتی ہے وہ بالعموم دماغ کے اعلیٰ طاقتوں میں فروتر ہو تے ہیں ۔واللہ اعلم
{ 182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب نے تم بچوں کی شادیاں تو چھوٹی عمر میں ہی کر دی تھیں مگر اُن کا منشا ء یہ تھا کہ زیادہ اختلا ط نہ ہو تاکہ نشوونما میں کسی قسم کا نقص پیدا نہ ہو ۔
{ 183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے شیخ عبدالرحمن صاحب مصری نے کہ جب میں پہلے پہل قادیان آیا تو اُسی دن شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری بھی ایک عیسائی نوجوان کو مسلمان کر نے کیلئے ساتھ لائے تھے ۔ہم دونوں اکٹھے ہی حضرت مسیح موعود کے سامنے پیش ہوئے ۔لیکن حضرت مسیح موعود نے میری بیعت تو لے لی اور اسکو درخواست بیعت کے خط کے جواب میں لکھا کہ پھر بیعت لیں گے ابھی ٹھہر و حالانکہ اُس کو حضرت صاحب کے سامنے شیخ رحمت اللہ صاحب نے پیش کیا تھا جو ایک بڑے آدمی تھے اور حضرت صاحب کو اُن کا بہت خیال تھا ۔اس عیسائی نوجوان نے دوبارہ حضرت صاحب کو لکھا مگر اس دفعہ بھی حضرت صاحب نے یہی جواب دیا کہ پھر بیعت لیں گے ۔پھر اس نے تیسری دفعہ لکھا کہ کوئی دن مقرر کر دیا جائے ۔ اس دن غالباًمنگل یا بدھ تھا ۔حضرت صاحب نے کہا جمعرات کے دن بیعت لیں گے ۔یہ جواب لے کر وہ شخص نا راض ہو کر چلا گیا اور پھر عیسائی ہو گیا ۔اس کے بعد کسی نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ وہ لڑکا تو واپس جا کر عیسائی ہو گیا ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں بھی اسی لئے توقف کرتا تھا اور فرمایا کہ جو لوگ ہندوؤں سے مسلمان ہوتے ہیں وہ عموماً سچے دل سے ہوتے ہیں ۔اور ان میں ایمان کی محبت ہوتی ہے ۔ مگر عیسائیوں میں سے اسلام کی طرف آنے والے بالعموم قابل اعتبار نہیں ہوتے ۔ مجھے اس لڑکے پر اعتماد نہیں تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ کچھ عرصہ اور ٹھہرے۔
{ 184} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے عزیزم مرزا رشید احمد صاحب (جو مرزا سلطان احمد صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے )کے ذریعے مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود ؑ کے سن ولادت کے متعلق کیا علم ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ ۱۸۳۶ء میں آپ کی ولادت ہوئی تھی ۔
{ 185} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے افسر ڈاک (یعنی پرائیویٹ سیکرٹری ) کی معرفت مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کی پیدائش کس سال کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے اچھی طرح معلوم نہیں ۔بعض کاغذوں میں تو ۱۸۶۴ء لکھا ہے ۔ مگر ہندو پنڈت مجھے کہتا تھا کہ میری پیدائش۱۹۱۳ء بکرمی کی ہے اور میں نے سنا ہے کہ والد صاحب کی عمر میری ولادت کے وقت کم وبیش اٹھارہ سال کی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے ۔۱۹۱۳ء بکرمی والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ دوسرے قرائن اس کے مؤید ہیں ۔نیز یہ بات بھی اس کے حق میں ہے کہ ہندو عموماً جنم پتری کی حفاظت میں بہت ماہر ہوتے ہیں ۔اس لحاظ سے مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش ۱۸۵۶ء کے قریب کی بنتی ہے ۔اور اگر اس وقت حضرت صاحب کی عمر ۱۸یا ۱۹ سال سمجھی جاوے تو آپ کا سن ولادت وہی۳۷۔ ۱۸۳۶ء کے قریب پہنچتا ہے ۔پس ثابت ہوا کہ ۱۸۳۶ ء والی روایت صحیح ہے۔ اس کا ایک اوربھی ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے (دیکھو التبلیغ آئینہ کمالات اسلام)اور بیان بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہماری والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے تھے اور فراخی میسّر آگئی تھی اور اسی لئے وہ میری پیدائش کو مبارک سمجھا کرتی تھیں۔اب یہ قطعی طور پر یقینی ہے کہ را جہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں ہی خاندان کے مصائب کے دن دور ہو کر فراخی شروع ہو گئی تھی اور قادیان اور اس کے ارد گرد کے بعض مواضعات دادا صاحب کو راجہ رنجیت سنگھ نے بحال کر دیئے تھے اور دادا صاحب کو اپنے ماتحت ایک معزز عہدہ فوجی بھی دیا تھا اور را جہ کے ماتحت دادا صاحب نے بعض فوجی خدمات بھی سرانجام دی تھیں ۔پس بہر حال حضرت صاحب کی پیدائش رنجیت سنگھ کی موت یعنی ۱۸۳۹ء سے کچھ عرصہ پہلے ماننی پڑے گی ۔لہٰذا اس طرح بھی ۱۸۳۶ء والی روایت کی تصدیق ہوتی ہے ۔ وھو المراد ۔اور حضرت صاحب نے جو۱۸۳۹ء لکھا ہے سو اس کو خود آپ کی دوسری تحریریں رد کرتی ہیں ۔ چنانچہ ایک جگہ آپ نے ۱۹۰۵ء میںاپنی عمر ۷۰ سال بیان کی ہے اور وہاں یہ بھی لکھا ہے یہ تمام اندازے ہیں ۔صحیح علم صرف خدا کو ہے ۔خاکسار عر ض کرتا ہے کہ میری تحقیق میں اوائل ۱۲۵۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی اور وفات ۱۳۲۶ھ میں ہوئی۔واللہ اعلم ۔
{ 186} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ۔کہ میں بچپن میںوالد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تا ریخ فرشتہ ،نحو میر اور شائد گلستان ۔بوستان پڑھا کرتا تھا اور والدصاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے ۔مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے ۔حالانکہ میں پڑھنے میں بے پرواہ تھا لیکن آخر دادا صاحب نے مجھے والدصاحب سے پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے سب کو ملّاں نہیں بنادینا ۔تم مجھ سے پڑھا کرو مگر ویسے داداصاحب والد صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے ۔
{ 187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چو بارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخری عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صا حبہ فرماتی تھیں کہ آپ کھڑکی سے اُترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ الٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا ۔اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اُٹھا سکتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا۔
{ 188} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب تیرنا اور سواری خوب جانتے تھے ۔ اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں مَیں ڈوب چلا تھا ۔تو ایک اجنبی بڈھے سے شخص نے مجھے نکالا تھا اس شخص کو میں نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہیں دیکھا ۔نیز فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا ۔اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا ۔میں نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا ۔ چنانچہ وہ اپنے پورے زور میں ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا ۔(اَلشَّکُّ مِنّی)اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا ۔مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سر کش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے۔اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا ۔مگر میں ایک طرف گر کربچ گیا اور وہ مرگیا ۔
{ 189} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ والد صاحب باہر چوبارے میں رہتے تھے ۔وہیں اُن کے لئے کھانا جاتا تھا ۔اور جس قسم کا کھانا بھی ہوتا تھا کھالیتے تھے ۔کبھی کچھ نہیں کہتے تھے ۔
{ 190} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔یعنی قرآن مجید،مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
{ 191} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے کہ والد صاحب میاں عبد اللہ صاحب غزنوی اور سماں والے فقیر سے ملنے کے لئے کبھی کبھی جایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدا للہ صاحب غزنوی کی ملاقات کا ذکر حضرت صاحب نے اپنی تحریرات میں کیا ہے ۔اور سماں والے فقیرکے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ اُن کا نام میاں شرف دین صاحب تھا اور وہ موضع سُم نزد طالب پور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے۔سُم میں پانی کا ایک چشمہ ہے اور غالباً اسی وجہ سے وہ سُم کہلاتا ہے ۔
{ 192} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ دادا صاحب ہمارے تا یا مرزا غلام قادر صاحب کو کرسی دیتے تھے ۔یعنی جب وہ دادا صاحب کے پاس جاتے تو وہ ان کو کرسی پر بٹھا تے تھے لیکن والد صاحب جا کر خود ہی نیچے صف کے اوپر بیٹھ جاتے تھے ۔کبھی دادا صاحب ان کو اوپر بیٹھنے کو کہتے تو والد صاحب کہتے کہ میں اچھا بیٹھا ہوں ۔
{ 193} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے، کہ والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے رہتے تھے ۔اور ارد گرد کتا بوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا ۔ شام کو پہاڑی در وازے یعنی شمال کی طرف یا مشرق کی طرف سیر کرنے جایا کرتے تھے ۔
{ 194} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ والد صاحب اردو اور فارسی کے شعر کہا کرتے تھے اور فرخ تخلص کرتے تھے ۔
{ 195} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ والد صاحب دادا صاحب کی کمال تابعداری کرتے تھے ۔افسروں وغیرہ کے ملنے کو خود طبیعت نا پسند کرتی تھی ۔لیکن دادا صاحب کے حکم سے کبھی کبھی چلے جاتے تھے ۔
{ 196} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔ اے نے، کہ میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے پوچھا کہ حضرت صاحب کے ابتدائی حالات اور عا دات کے متعلق آپ کو جو علم ہو وہ بتائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ والد صاحب ہر وقت دین کے کا م میں لگے رہتے تھے ۔گھر والے اُن پر پورا عتماد کرتے تھے ۔گاؤں والوں کو بھی اُن پر پورا اعتبار تھا۔شریک جو ویسے مخالف تھے ۔ اُن کی نیکی کے اتنے قائل تھے کہ جھگڑوں میں کہہ دیتے تھے کہ جو کچھ یہ کہہ دیں گے ہم کو منظور ہے ۔ہر شخص اُن کو امین جانتا تھا ۔ مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ کچھ اور بتا ئیے ۔مرزا صاحب نے کہا اور بس یہی ہے کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری بلکہ فقیر کے طور پر گزاری ۔اور مرزا صاحب نے اسے باربار دہرایا ۔مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے ؟ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ اُن کی نا راضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی ۔ بعض اوقات مجھے نماز کے لئے کہا کرتے تھے مگر میں نماز کے پاس تک نہ جاتا تھا ۔ہاں ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت ﷺ )کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان میں ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے ۔ مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو باربار دہرایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا ۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا ۔خاکسارعر ض کرتا ہے حضرت خلیفہ ثانی بیان کر تے تھے کہ جب دسمبر۱۹۰۷ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا اور دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لئے بھیجا ۔مگر آریوں نے خلاف وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت ﷺ کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا۔ اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اُٹھ آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک مجلس میں برا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیر ت دینی سے کام نہ لیا۔ جب انہوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اُٹھ آنا چاہیے تھا۔اور حضرت خلیفہ ثانی بیان کر تے تھے کہ میں اس وقت اٹھنے بھی لگا تھا مگر پھر مولوی صاحب کی وجہ سے ٹھہر گیا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت صاحب نارض ہو رہے تھے تو آپ نے مجھ سے کہا کہ حافظ صاحب و ہ کیا آیت ہے کہ جب خدا کی آیات سے ٹھٹھا ہو تو اس مجلس میں نہ بیٹھو اس پر میں نے حَتّٰی یَخُوْ ضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ (النّسائ:۱۴۱) والی آیت پڑھ کر سنائی اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت مولوی صاحب سر نیچے ڈالے بیٹھے تھے ۔
{ 197} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ میاں جان محمد والد صاحب کے ساتھ بہت رہتا تھا اور میاں جان محمد کا بھائی غفار ہ والدصاحب کے ساتھ سفروں میں بعض دفعہ بطور خدمت گار کے جایا کرتا تھا ۔اور بعض دفعہ کو ئی اور آدمی چلا جاتا تھا ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد قادیان کا ایک نیک مزاج مُلّا تھا اور حضرت صاحب کے ساتھ بہت تعلق رکھتا تھا ۔اوائل میں بڑی مسجد میں نماز وغیرہ بھی وہی پڑھایا کرتا تھا غالباً حضرت خلیفہ ثانی کو بھی بچپن میں اُس نے پڑھا یا تھا ۔غفار ا اُس کا بھائی تھا ،یہ شخص بالکل جاہل اور ان پڑھ تھا ۔اور بعض اوقات حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا ۔ بعد میں جب قادیان میں آمدو رفت کی ترقی ہوئی تو اس نے یّکے بنا کر یّکہ بانی شروع کر دی تھی ۔اس کے لڑکے اب بھی یہی کام کر تے ہیں بوجہ جاہل مطلق ہو نے کے غفارے کو دین سے کو ئی مس نہ تھا مگر اپنے آخری دنوں میں یعنی بعہد خلافت ثانیہ احمدی ہوگیا تھا ۔شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کی نصیحت سے غفارے نے اوائل میں جب وہ حضرت صاحب کی خدمت میں تھا نماز شروع کر دی تھی مگر پھر چھوڑ دی ۔اصل میں ایسے لوگ اعراب کے حکم میں ہوتے ہیں مگر جان محمد مرحوم نیک آدمی تھا اور کچھ پڑھا ہوا بھی تھا ۔ اُس کے لڑکے میاں دین محمد مرحوم عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہونگے ۔قوم کا کشمیری تھا ۔
{ 198} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے ،کہ ہمارے ساتھ والد صاحب کے بہت کم تعلقات تھے ۔یعنی میل جول کم تھا ۔وہ ہم سے ڈرتے تھے اور ہم اُن سے ڈرتے تھے (یعنی وہ ہم سے الگ الگ رہتے تھے اور ہم اُن سے الگ الگ رہتے تھے کیونکہ ہر دو کا طریق اور مسلک جدا تھا ) اور چونکہ تایا صاحب مجھے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے اور جائداد وغیرہ بھی سب اُنہی کے انتظام میں تھی ۔والد صاحب کا کچھ دخل نہ تھا اس لئے بھی ہمیں اپنی ضروریات کے لئے تایاصاحب کے ساتھ تعلق رکھنا پڑتا تھا ۔
{ 199} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیا ن کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولو ی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے، کہ والد صاحب کی ایک بہن ہوتی تھیں ان کو بہت خواب اور کشف ہو تے تھے ۔مگر داد ا صاحب کی ان کے متعلق یہ رائے تھی کہ ان کے دماغ میں کو ئی نقص ہے ۔لیکن آخر انہوں نے بعض ایسی خوابیں دیکھیں کہ داد اصاحب کو یہ خیال بدلنا پڑا ۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کوئی سفید ریش بڈھا شخص ان کو ایک کاغذ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے بطور تعویذ کے دے گیا ہے ۔جب آنکھ کھلی تو ایک بھوج پتر کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا جس پر قرآن شریف کی بعض آیات لکھی ہو ئی تھیں ۔پھر انہوں نے ایک اور خواب دیکھا کہ وہ کسی دریا میں چل رہی ہیں جس پر انہوں نے ڈر کر پانی پانی کی آواز نکالی اور پھر آنکھ کھل گئی ۔دیکھا تو ان کی پنڈلیاںتر تھیں اور تازہ ریت کے نشان لگے ہو ئے تھے ۔ داداصاحب کہتے تھے کہ ان باتوں سے خلل دماغ کو کوئی تعلق نہیں ۔
{ 200} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیامجھ سے مرزا سلطا ن احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ،کہ ایک دفعہ والد صاحب سخت بیمار ہو گئے اور حالت نازک ہو گئی اور حکیموں نے نا امیدی کا اظہار کر دیا اور نبض بھی بند ہو گئی مگر زبان جاری رہی ۔والد صاحب نے کہا کہ کیچڑ لا کر میرے اوپر اور نیچے رکھو چنانچہ ایسا کیا گیا اور اس سے حالت روباصلا ح ہو گئی ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے لکھا ہے کہ یہ مرض قولنج زحیری کا تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھا یا تھا کہ پانی اور ریت منگوا کر بدن پر ملی جاوے ۔ سو ایسا کیا گیا تو حالت اچھی ہوگئی ۔مرزاسلطان احمد صاحب کو ریت کے متعلق ذہول ہو گیا ہے ۔
{ 201} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طور پر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عید گاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی ۔خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اور میں نے اس وقت دل میں یہ سمجھا تھا کہ چونکہ اس قبرستا ن میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی ۔مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہو ئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کیلئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے ۔ کسی نے آگے بڑ ھ کرحضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جائوں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی ۔
{ 202} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ میرے چچا مولوی شیر محمد صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ اوائل میں بعض اوقا ت حضرت مسیح موعودؑ بھی حضر ت مولوی نورالدین صاحب کے درس میں چلے جایا کرتے تھے ۔ایک دفعہ مولوی صاحب نے درس میں بدر کی جنگ کے موقع پرفرشتے نظر آنے کا واقعہ بیان کیا اور پھر اس کی کچھ تاویل کر نے لگے تو حضر ت صاحب نے فرمایا کہ نہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ فرشتوں کے دیکھنے میں نبی کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شریک ہو گئے ہوں ۔
{ 203} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ آیا تھا اس دن میں نے حضرت صاحب کو باغ میں آٹھ نو بجے صبح کے وقت نماز پڑھتے دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی تھی۔
{ 204} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دن حضرت صاحب شمال کی طرف سیر کو تشریف لے گئے۔ راستہ میں کسی نے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا کہذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ(یوسف:۵۳) والی آیت کے متعلق مولوی نورالدین صاحب نے بیان کیا ہے کہ یہ زلیخا کا قول ہے ۔حضرت صاحب نے کہا کہ مجھے کو ئی قرآن شریف دکھائو چنانچہ ماسٹر عبدالرئوف صاحب نے حمائل پیش کی آپ نے آیت کا مطالعہ کر کے فرمایا کہ یہ تو زلیخا کا کلام نہیں ہو سکتا ۔یہ یوسف علیہ السلام کا کلام ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے دوسرے طریق پر سنا ہے کہ اس وقت وَمَا أُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَ مَّارَۃٌ بِا لسُّوئِ (یوسف:۵۴) کے الفاظ کا ذکر تھا اور یہ کہ حضر ت صاحب نے اس وقت فرمایا تھا کہ یہ الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ زلیخا کا کلام نہیں بلکہ نبی کا کلام ہے کیونکہ ایسا پاکیزہ،پر معنی کلام یوسف ہی کے شایا ن شان ہے ۔زلیخا کے منہ سے نہیں نکل سکتا تھا۔
{ 205} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ، کہ والد صاحب عموماً غرارا پہنا کرتے تھے۔مگر سفروں میں بعض اوقات تنگ پاجامہ بھی پہنتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ ناظرین بھی سمجھتے ہوںگے۔مرزا سلطان احمد صاحب کی سب روایات حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ شباب یا کہولت کے متعلق سمجھنی چاہئیں۔طفولیت یا بڑھاپے کی عمر کے متعلق اگر ان کی کوئی روایت ہو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عموماً انہوں نے وہ کسی اور سے سن کر بیان کی ہے۔ کیونکہ اس زمانہ میں انکا تعلق حضرت مسیح موعود سے نہیں رہا تھا ۔الا ماشاء اللہ۔
{ 206} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے سوال کیا تھا کہ حضرت صاحب سے زیادہ تر قادیان میں کن لوگوں کی ملاقات تھی؟ مرزا صاحب نے کہا کہ ملاوامل اور شرم پت ہی زیادہ آتے جاتے تھے کسی اور سے ایسا راہ ورسم نہ تھا ۔
{ 207} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے ۔راستے میں انہوں نے دادا صاحب سے کہا کہ آپکے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے ؟ دادا صاحب نے کہا کہ گائوں چل کر جواب دوں گا ۔جب قادیان پہنچے تو داد اصاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہو ئے ہیں مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں ۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ سکھوں کی حکومت قدیم شاہی رنگ کے طرز پر تھی۔ اب اور رنگ ہے اور ہر رنگ اپنی خوبیاں رکھتا ہے ۔
{ 208} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطا ن احمد صاحب نے بیان کیا کہ میں نے تحصیلداری کا امتحان ۱۸۸۴ء میں دیا تھا اس وقت میں نے والد صاحب کودعا کیلئے ایک رقعہ لکھا تو انہوں نے رقعہ پھینک دیا اور فرمایا ’’ ہمیشہ دنیا داری ہی کے طالب ہوتے ہیں ‘‘۔ جو آدمی رقعہ لے کر گیا تھا اس نے آکر مجھے یہ واقعہ بتا یا ۔اس کے بعد والد صاحب نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ ہم نے تو سلطا ن احمد کا رقعہ پھینک دیا تھا مگر خدا نے ہمیں القاء کیا ہے کہ ’’اس کو پاس کر دیا جاوے گا ‘‘۔اس شخص نے مجھے آکر بتا دیا چنانچہ میں امتحان میں پاس ہو گیا ۔
{ 209} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ ان سے مرزا سلطا ن احمد صاحب نے بیان کیا کہ داد اصاحب نے قریباًساٹھ سال طبابت کی ۔مگرکبھی کسی سے ایک پائی تک نہیں لی ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب نے کبھی علاج کے معاوضہ میں کسی سے کچھ نہیں لیا یعنی اپنی طبابت کو ہمیشہ ایک خیراتی کام رکھا اور اس کو اپنی معاش کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ بعض دفعہ بعض لوگوں نے آپ کو بہت بہت کچھ دینا چاہا مگر آپ نے انکار کردیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ میاںمعراج دین صاحب عمر نے اپنے مضمون میں ہمارے دادا صاحب کے متعلق یہ کس طرح لکھ دیا کہ ’’ خوش قسمتی سے طبابت کا جوہر ہاتھ میں تھا اس کی بدولت گذارا چلتا گیا ۔‘‘ اور پھر یہ بات اس زمانہ کے متعلق لکھی ہے کہ جب پڑدادا صاحب کی وفات ہوئی تھی۔
چہ خوش یک نہ شد دو شد
{ 210} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ والد صاحب رجب علی کا اخبار ’’سفیر امرتسر‘‘ اور اگنی ہوتری کا رسالہ ’’ہندو بندو‘‘ اور اخبار ’’منشور محمدی‘‘ منگا یا اور پڑھا کرتے تھے اور مؤخر الذکر میں کبھی کبھی کو ئی مضمون بھی بھیجا کر تے تھے ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ آخری عمر میں حضرت صاحب ’’اخبار عام‘‘ لاہور منگایا کرتے تھے ۔
{ 211} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ جس دن میں قادیان بیاہی ہوئی پہنچی تھی اسی دن مجھ سے چند گھنٹے قبل مرزا سلطان احمد اپنی پہلی بیوی یعنی عزیز احمد کی والدہ کو لے کر قادیان پہنچے تھے ۔اور عزیز احمد کی والدہ مجھ سے کچھ بڑی معلوم ہوتی تھیں اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ فضل احمد کی شادی مرزا سلطان احمد سے بھی کئی سال پہلے ہو چکی تھی ۔
{ 212} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضر ت صاحب کے ایک حقیقی ماموں تھے (جن کا نام مرزا جمعیت بیگ تھا ) ان کے ہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئے اور ان کے دماغ میں کچھ خلل آگیا تھا ۔ لڑکے کا نام مرزا علی شیر تھا اور لڑکی کا نام حرمت بی بی ۔لڑکی حضرت صاحب کے نکاح میں آئی اور اسی کے بطن سے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے ۔مرزا علی شیر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی بہن حرمت بی بی سے بیاہا گیا جس سے ایک لڑکی عزت بی بی پیدا ہو ئی ۔یہ عزت بی بی مرزا فضل احمد کے نکاح میں آئی ۔مرز ا احمد بیگ کی دوسری بہن امام بی بی مرزا غلام حسین کے عقد میں آئی تھی ۔ مرزا سلطان احمد کی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھی اور حضرت صاحب اس کو اچھا جانتے تھے ۔ مرزا سلطان احمد نے اسی بیوی کی زندگی میں ہی مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکا ح ثانی کر لیا تھا اس کے بعد عزیز احمد کی والدہ جلد ہی فوت ہو گئی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دادی یعنی تمہارے داد ا صاحب کی والدہ بہت عرصہ تک زندہ رہیں ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کو دیکھا تھا مگر بوجہ درازیٔ عمر ان کے ہوش و حواس میں کچھ فرق آگیا تھا۔تمہارے دادا صاحب کے بھائی مرزا غلام محی الدین کی اولاد کی تفصیل یہ ہے اول حرمت بی بی جو تمہارے تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے عقد میں آئیں اور اب تائی کے نام سے معروف ہیں ان کے ہاں ایک لڑکی عصمت اور ایک لڑکا عبدالقادر پیدا ہوئے تھے مگر بچپن میں ہی فوت ہوگئے دوسرے مرزا امام الدین ۔تیسرے مرزا نظام الدین ۔چوتھے مرزا کمال ا لدین ۔پانچویں عمر النساء اور صفتاں جو توام پیدا ہوئیں ۔ان میں سے مقدم الذکر مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے نکاح میں آئی اور مؤخر الذکر ہوشیار پور کے ضلع میں کسی جگہ بیاہی گئی تھی مگر بے اولاد فوت ہو گئی ۔چھٹے فضل النساء جو مرزا اعظم بیگ لاہوری کے لڑکے مرزا اکبر بیگ کے عقد میں آئی ۔مرزا احسن بیگ صاحب جو احمدی ہیں انہی کے بطن سے ہیں ۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیاکہ مرزا امام الدین حضرت صاحب سے بڑے تھے باقی سب باستثناء تمہاری تائی کے جو مرزا امام الدین سے بھی بڑی ہیں حضرت صاحب سے چھوٹے تھے ۔اور والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تائی تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب سے بھی کچھ بڑی ہیں نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ تمہارے تایا کے بعد تمہارے داد ا کے ہاں دو لڑکے پیدا ہو کر فوت ہوگئے تھے اسی لئے میں نے سنا ہے کہ حضرت صاحب کی ولادت پر آپ کے زندہ رہنے کے متعلق بڑی منتیں مانی گئی تھیں اور گویا ترس ترس کر حضرت صاحب کی پرورش ہو ئی تھی ۔ اگر تمہارے تایااورحضرت صاحب کے درمیان کو ئی غیر معمولی وقفہ نہ ہوتا یعنی بچے پیدا ہوکر فوت نہ ہو تے تو اس طرح منتیں ماننے اور ترسنے کی کوئی وجہ نہ تھی پس ضرور چند سال کا وقفہ ہوا ہوگا اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ شاید پانچ یا سات سال کا وقفہ تھا ۔اور والد ہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے جہاں تک یاد ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تمہارے داد ا کے ہاں ایک لڑکا ہوا جو فوت ہوگیا پھر تمہاری پھوپھی مراد بی بی ہوئیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے پھر ایک دو بچے ہو ئے جو فوت ہو گئے پھر حضر ت صاحب اور جنت توام پیدا ہوئے اور جنت فوت ہوگئی اور والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ تمہاری تائی کہتی تھیں کہ تمہارے تایا اور حضرت صاحب اوپر تلے کے تھے مگر جب میں نے منتیں ماننے اور ترسنے کا واقعہ سنا یا تو انہوں نے اسے تسلیم کیا مگر اصل امر کے متعلق خاموش رہیں ۔
{ 213} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے را جہ تیجا سنگھ کو ایک خطر نا ک قسم کا پھوڑا نکلا۔بہت علاج کئے گئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا آخر اس نے دادا صاحب کی خدمت میں آدمی بھیجا ۔ داداصاحب گئے اور ( خداکے فضل سے ) وہ اچھا ہو گیا ۔اس پر راجہ مذکور نے دادا صاحب کو ایک بڑی رقم اور خلعت اور دو گائوں شتاب کوٹ اور حسن پور یا حسن آباد جو آپکی قدیم ریاست کا ایک جزو تھے پیش کئے اور ان کے قبول کر نے پر اصرار کیا مگر داد اصاحب نے یہ کہہ کر صاف انکا رکر دیا کہ میں ان دیہات کو علاج کے بدلے میں لینا اپنے اور اپنی اولاد کیلئے موجب ہتک سمجھتا ہوں ۔
{ 214} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد ا صاحب نہایت وسیع الاخلاق تھے اور دشمن تک سے نیک سلوک کر نے میں دریغ نہ کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جُوتی ولددولہ برہمن جس نے ایک دفعہ ہمارے خلاف کو ئی شہادت دی تھی بیمار ہو گیا تو داد اصاحب نے اس کا بڑی ہمدردی سے علاج کیا اور بعض لوگوں نے جتلایا بھی کہ یہ وہی شخص ہے جس نے خلاف شہادت دی تھی ۔مگر انہوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی ۔ایسی ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ داد اصاحب کی بلند ہمتی اور وسعت حوصلہ مشہور ہے ۔
{ 215} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزاسلطان احمد صاحب نے کہ داد اصاحب شعر بھی کہا کرتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے۔چنانچہ ان کے دو شعر مجھے یاد ہیں ۔ ؎
اے وائے کہ مابہ ماچہ کردیم
کردیم ناکردنی ہمہ عمر
دردِسَر من مشو طبیبا
ایں دردِ دل است دردِسر نیست
خاکسارعر ض کرتا ہے کہ داد اصاحب کے بعض شعر حضرت صاحب نے بھی نقل کئے ہیں ۔اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اُن کا کلام جمع کر کے حافظ عمردراز صاحب ایڈیٹر پنجابی اخبار کو دیا تھا مگر وہ فوت ہو گئے ۔اور پھر نہ معلوم وہ کہاں گیا ۔نیز مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ تایا صاحب بھی شعر کہتے تھے انکا تخلص مفتون تھا ۔نیز بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی قادیان میں آیا تھا وہ داداصاحب سے کہتا تھا کہ آپ کا فارسی کلام ایسا ہی فصیح ہے جیسا کہ ایرانی شاعروں کا ہوتا ہے ۔
{ 216} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک ہندو حجام نے دا دا صاحب سے کہا کہ میری معافی ضبط ہو گئی ہے آپ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر سے میری سفارش کریں ۔داد اصاحب اُسے اپنے ساتھ لاہور لے گئے ۔ اُس وقت لاہور کے شالا مار باغ میں ایک جلسہ ہو رہا تھا ۔دا دا صاحب نے وہاں جاکر جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد ایجرٹن صاحب سے کہا کہ آپ اس شخص کا ہاتھ پکڑ لیں۔صاحب گھبرایا کہ کیا معاملہ ہے مگرداد اصاحب نے اصرار سے کہا تو اس نے ان کی خاطر اس حجام کا ہاتھ پکڑ لیا ۔اس کے بعد داد ا صاحب نے صاحب سے کہا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے کہ جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں توپھر خواہ سر چلاجائے چھوڑتے نہیں ۔اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ ا ہے اس کی لاج رکھنا ۔پھر کہا کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے ۔ کیا معافیاں دیکر بھی ضبط کیا کرتے ہیں ؟ اس کی معافی بحال کر دیں ۔ایجرٹن صاحب نے اس کی مسل طلب کر کے معافی بحال کر دی ۔ یہی ایجرٹن صاحب بعد میں پنجاب کا لفٹیننٹ گورنر ہوگیا تھا ۔
{ 217} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ دا دا صاحب میں خود داری بہت تھی ۔ایک دفعہ رابرٹ کسٹ صاحب کمشنر سے ملاقات کیلئے گئے ۔باتوں باتوں میں ا س نے پوچھا کہ قادیان سے سری گوبند پور کتنی دور ہے ؟ دادا صاحب کو یہ سوال ناگوار ہوا ۔فوراً بولے میں ہر کارہ نہیں اور سلام کہہ کر رخصت ہونا چاہا۔صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ ناراض ہو گئے ؟ دادا صاحب نے کہا کہ ہم آپ سے اپنی باتیں کر نے آتے ہیں اور آپ اِدھر اُدھر کی باتیں پوچھتے ہیں جو آپ نے مجھ سے پوچھا ہے وہ میرا کام نہیں ہے ۔صاحب داد اصاحب کے اس جواب پر خوش ہوا ۔
{ 218} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں مہتمم بندوبست تھا اور ان کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا ۔قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھا اور محکمہ بندوبست مذکور میں کام کرتا تھا ۔تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا ۔تایا صاحب نے وہیں اسکی مرمت کر دی۔ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی ۔اُس نے تایا صاحب پر ایک سو روپیہ جر مانہ کر دیا ۔دا دا صاحب اُس وقت امرتسر میں تھے ان کو اطلاع ہوئی تو فوراً ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی اس نے داد اصاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا ۔
{ 219} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ تایا صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع نے کسی بات پر اُن کو معطل کر دیا اس کے بعد جب نسبٹ صا حب قادیان آیا تو خود دادا صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لڑکے کو معطل کر دیا ہے دادا صاحب نے کہا کہ اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہئے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں ۔ صاحب نے کہا جس کا باپ ایسا ادب سکھانے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں ۔ اور تایا صاحب کو بحال کر دیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے بھی بہت سے محکموں میں کام کیا ہے ۔پولیس میں بھی کام کیا ہے ۔ضلع کے سپرنٹنڈ نٹ بھی رہے ہیں ۔اور سُنا ہے نہر میں بھی کام کیا تھا اور بعض کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی ہے ۔ چنانچہ میں نے ۱۸۶۰ء کے بعض کاغذات دیکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے چھینہ کے پاس کسی پل کا بھی ٹھیکہ لیا تھا ۔
{ 220} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ مہاراجہ شیر سنگھ کا ہنوو ان کے چھنب میں شکار کھیلنے کے لئے آیا ۔دادا صاحب بھی ساتھ تھے۔ مہاراجہ کے ایک ملازم کو جو قوم کا جولاہا تھا سخت زکام ہو گیا ۔دادا صاحب نے اس کو ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ اچھا ہو گیا ۔ لیکن پھر یہی بیماری خود شیر سنگھ کو ہو گئی ۔اور اس نے علاج کے لئے دادا صاحب سے کہا ۔داداصاحب نے ایک بڑا قیمتی نسخہ لکھا ۔شیر سنگھ نے کہا کہ جولاہے کو دو ڈھائی پیسہ کا نسخہ اور مجھے اتنا قیمتی ؟دادا صاحب نے جواب دیا ۔شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے ۔شیر سنگھ اس جواب سے بہت خوش ہوا ۔اوراُس زمانہ کے دستور کے مطابق عزت افزائی کے لئے سونے کے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اس علاج کے بدلہ میں نہ تھی بلکہ مشرقی رؤساء اور بادشاہوں کا یہ دستورر ہا ہے کہ جب کسی بات پر خوش ہوتے ہیں تو ضرور کچھ چیز تقریب وانعام کے طور پرپیش کرتے ہیں ۔شیر سنگھ نے بھی جب ایسا برجستہ کلام سُناتو محظوظ ہو کر اس صورت میں اظہار خوشنودی کیا ۔
{ 221} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ مرزا امام الدین صاحب نے داداصاحب کے قتل کی سازش کی اور بھینی کے ایک سکھ سوچیت سنگھ کوا س کام کیلئے مقررکیا ۔مگر سوچیت سنگھ کا بیان ہے کہ میں کئی دفعہ دیوان خانہ کی دیوار پر اس نیت سے چڑھا مگر ہر دفعہ مجھے مرزا صاحب یعنی داد اصاحب کے ساتھ دو آدمی محافظ نظر آئے اس لئے میں جرأت نہ کر سکا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی تصرف الہٰی ہو گا ۔
{ 222} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد اصاحب حقہ بہت پیتے تھے مگرا ُس میں بھی اپنی شان دکھاتے تھے یعنی جو لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں ان کو اپنا حقہ نہیں دیتے تھے لیکن غریبوں اور چھوٹے آدمیوں سے کو ئی روک نہ تھی ۔
{ 223} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ داد اصاحب کا تکیہ کلام ’’ ہے بات کہ نہیں ‘‘ تھا جو جلدی میں ’’ ہے باکہ نہیں ‘‘ سمجھا جاتا تھا ،خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق اور بھی کئی لوگوں سے سناگیا ہے ۔
{ 224} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا ۔دادا صاحب نے اُس کی بڑی خاطر ومدارات کی۔اس مولوی نے داد اصاحب سے کہا کہ مرزا صاحب ! آپ نماز نہیں پڑھتے ؟ داد اصاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میری غلطی ہے۔مولوی صا حب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے ۔آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے۔ اللہ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا ۔اس پر داد اصاحب کو جوش آگیا اور کہا’’ تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا؟ ۔میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بد ظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے ۔خدا فرماتا ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ (الزّمر:۵۴) تم مایوس ہو گے۔ میں مایوس نہیں ہوں ۔ اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا ۔‘‘ پھر کہا ’’ا سوقت میری عمر ۷۵سال کی ہے ۔آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دیگا ۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگنا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنی دشمن کے مقابلہ میں ذلیل و رُسوا ہو نے کے ہیں۔ ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں ۔
{ 225} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب سے تمہاری دادی فوت ہوئیں تمہارے دادا نے اندر زنانہ میں آنا چھوڑ دیا تھا ۔ دن میں صرف ایک دفعہ تمہاری پھوپھی کو ملنے آتے تھے اور پھوپھی کے فوت ہو نے کے بعد تو بالکل نہیں آتے تھے ۔باہر مردا نے میں رہتے تھے ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حضرت والدہ صا حبہ نے کسی اور سے سنی ہو گی کیونکہ یہ واقعہ حضرت اماں جان کے قادیان تشریف لانے سے پہلے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔)
{ 226} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ داد اصاحب نے طب کا علم حافظ روح اللہ صاحب باغبانپورہ لاہور سے سیکھا تھا ۔اسکے بعد دہلی جاکر تکمیل کی تھی ۔
{ 227} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروںمیں رہتی تھی ۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں ۔میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ چوری نکال کر لے جایا کرتا تھا ۔چنانچہ والدصاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے۔
{228 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہو تی ہے ۔غالباً نوجوانی کا کلام ہے ۔حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے جسے میں پہچانتا ہوں۔ بعض بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں ۔ ؎
عشق کا روگ ہے کیاپوچھتے ہو اس کی دوا
ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے
کچھ مزا پایا مرے دل ! ابھی کچھ پائو گے
تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے
ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے
مفت بیٹھے بٹھا ئے غم میں پڑے
اسکے جانے سے صبر دل سے گیا
ہوش بھی ورطۂ عدم میں پڑے
سبب کوئی خداوندا بنا دے
کسی صور ت سے وہ صورت دکھا دے
کرم فرما کے آ او میرے جانی
بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے
کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر
دلا اک بار شوروغل مچادے
نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پا کی
سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی
مرے بت! اب سے پردہ میں رہوتم
کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی
نہیں منظور تھی گر تم کو اُلفت
تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا
مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو
مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا
دل اپنا اسکو دوں یا ہوش یا جاں
کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا
کوئی راضی ہو یا ناراض ہو وے
رضامندی خداکی مدعا کر
اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے مگر پہلا ندارد۔بعض اشعار نظر ثانی کیلئے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا ہے ۔
{ 229} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا تھا اور ۲۲طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے مگر والد صاحب کی شادی نہایت سادہ ہو ئی تھی ۔اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم نہیں ہوئیں ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ بھی تصرف الہٰی تھا ورنہ دادا صاحب کو دونوں بیٹے ایک سے تھے ۔(نیز یہ طائفے ان لوگوں کی وجہ سے آئے ہوں گے جو ایسے تماشوں میں دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ خود دادا صاحب کو ایسی باتوں میں شغف نہیں تھا۔)
{ 230} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ہماری دادی صاحبہ بڑی مہمان نواز ۔سخی اور غریب پرور تھیں ۔
{ 231} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب سیشن عدالت میں اسیسر مقرر ہوئے تھے مگر آپ نے انکار کردیا۔ (اس جگہ دیکھو روایت نمبر ۳۱۳)
{ 232} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ آخری عمر میں دادا صاحب نے ایک مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا اورا سکے لئے موجودہ بڑی مسجد (یعنی مسجد اقصیٰ) کی جگہ کو پسند کیا اس جگہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی ۔جب یہ جگہ نیلام ہو نے لگی تو داد اصاحب نے اس کی بولی دی مگر دوسری طرف دوسرے باشندگان قصبہ نے بھی بولی دینی شروع کی اور اس طرح قیمت بہت چڑھ گئی ۔مگر دادا صاحب نے بھی پختہ قصد کر لیا تھا کہ میں اس جگہ میں ضرور مسجد بنائوں گا ۔ خواہ مجھے اپنی کچھ جائداد فروخت کر نی پڑے ۔چنانچہ سات سو روپیہ میں یہ جگہ خریدی اور اس پر مسجد بنوائی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت کے لحاظ سے اس جگہ کی قیمت چند گنتی کے روپے سے زیادہ نہ تھی مگر مقابلہ سے بڑھ گئی ۔
{ 233} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری تائی کے سارے گھر میں صرف مرزا علی شیر کی ماں یعنی مرزا سلطان احمد کی نانی جو حضر ت صاحب کی ممانی تھی حضرت صاحب سے محبت رکھتی تھی اور ان کی وجہ سے مجھے بھی اچھا سمجھتی تھی باقی سب مخالف ہوگئے تھے ۔میں جب اُس طرف جاتی تھی تو وہ مجھے بڑی محبت سے ملتی تھی اور کہا کر تی تھی ۔ہائے افسوس !یہ لوگ اسے ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیوں بد دعائیں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں ۔اسے میری چراغ بی بی نے کتنی منتوں سے تر س ترس کر پالا تھا اور کتنی محبت اور محنت سے پرورش کی تھی ۔والد ہ صاحبہ کہتی ہیں کہ وہ بہت بوڑھی ہو گئی تھی اور وقت گزارنے کے لئے چرخہ کا تتی رہتی تھی ۔حضرت صاحب کو بھی اس سے محبت تھی اور والد ہ صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہاری تائی کہتی ہیں کہ حضرت صاحب کی ممانی کا نام بھی تمہاری دادی کی طرح چراغ بی بی تھا ۔
{ 234} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب نے کہ اُن سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی وہ بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی ’’میاں اُن کو ( یعنی حضرت صاحب کو ) کیا ہوش ہے ۔یا کتابیں ہیں اور یا وہ ہیں ‘‘۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ناظرین کو یاد ہوگا کہ میں نے تمہید میں یہ لکھا تھا کہ میں بغرض سہولت تمام روایات صرف اردو زبان میں بیان کرو ں گا ۔خواہ وہ کسی زبان میں کہی گئی ہوں ۔سو جاننا چاہیے کہ فقرہ مندرجہ بالا بھی دراصل پنجابی میں کہا گیا تھا ۔ یہ صرف بطور مثال کے عرض کیا گیا ہے نیز ایک اور عرض بھی ضروری ہے کہ جہاں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ ’’ بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے ‘‘ اس سے مطلب یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو میں نے کو ئی معیّن سوال دے کر مرزا صاحب موصوف کے پاس بھیجا اور اس کا جو جواب مرزاصاحب کی طرف سے دیا گیا وہ نقل کیا گیا اور جہاں مولوی صاحب کی طرف روایت کو منسوب کیا ہے وہاں میرے کسی معیّن سوال کا جواب نہیں بلکہ جو مرزا صاحب نے دوران گفتگو میں مولوی صاحب کو کوئی بات بتائی وہ نقل کی گئی ہے ۔
{ 235} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم ۔ اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ہیضہ پھوٹا اور چوہڑوں کے محلہ میں کیس ہونے شروع ہوئے ۔ داد اصاحب اُس وقت بٹالہ میں تھے یہ خبر سن کر قادیان آگئے اور چوہڑوں کے محلہ کے پاس آکر ٹھہر گئے اور چوہڑوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ۔اور ان کو تسلی دی اور پھر حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ ۔کشٹے ۔گُڑ (یعنی قند سیاہ ) لیتے آویں اور پھر اُن کو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا اور کہا کہ جو چاہے گڑوالا پیئے اور جو چاہے نمک والا پیئے ۔کہتے ہیں کہ دوسرے دن مرض کا نشان مٹ گیا ۔
{ 236} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ۔ ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرہ کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی ۔ سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا اور گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا ۔ اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میں گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوئوں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد د یوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا تھا ۔بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا ۔دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اسکو جلاد یا مگر ہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی ۔
ایسا ہی سیالکوٹ کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات مَیں ایک مکان کی دوسری منزل پر سو یا ہوا تھا اور اسی کمرہ میں میرے ساتھ پندرہ یا سولہ آدمی اور بھی تھے ۔رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی ۔میں نے آدمیوں کو جگا یا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتا ہے یہاں سے نکل جانا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ کوئی چوہاہوگا خوف کی بات نہیں اور یہ کہہ کر سو گئے۔تھوڑی دیرکے بعد پھر ویسی آواز آئی تب میں نے ان کو دوبارہ جگایا مگر پھر بھی انہوں نے کچھ پروا نہ کی ۔پھر تیسری بار شہتیر سے آواز آئی تب میں نے ان کو سختی سے اُٹھایا اور سب کو مکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے تو خود بھی وہا ں سے نکلا۔ابھی دوسرے زینہ پر تھا کہ وہ چھت نیچے گری اوروہ دوسری چھت کو ساتھ لے کر نیچے جا پڑی اور سب بچ گئے ۔
ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترے کے اندر لحاف کے ساتھ مرا ہواپایا گیا اور دوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتا ہوا پکڑا گیا ۔مگر ہر دو بار خدا نے مجھے ان کے ضرر سے محفوظ رکھا ۔ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبر بھی نہ ہوئی ۔ایک اور شخص نے دیکھا اور بتلایا اور آگ کو بجھا دیا ۔ خاکسارعر ض کرتا ہے کہ یہ باتیں حضرت صاحب کی ڈائری سے لی گئی ہیں اور بچھو اور آگ لگنے کا واقعہ ضروری نہیں کہ سیالکوٹ سے متعلق ہو ۔
{ 237} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۸پر حضر ت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں ’’ اس احقر نے ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء میں اسی زمانہ کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا ۔جناب خاتم الانبیاء ﷺ کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خودا س عاجز کی تصنیف معلو م ہوتی تھی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے؟ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے ،جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہو نے پر یہ کھلی کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کمال استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے ۔غرض آنحضرت ﷺ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی ۔اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا ۔مگر بقدر تربوز تھا ۔آنحضرت ؐ نے جب اس میوہ کو تقسیم کر نے کیلئے قاش قاش کر نا چاہا توا س قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مِرفق تک شہد سے بھر گیا ۔تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضر ت ؐ کے معجزے سے زند ہ ہو کراس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت ؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت ؐ بڑے جاہ و جلال اور بڑے حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوہ فرما رہے تھے۔پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺنے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تامیں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہو ا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیںاور و ہ ایک قاش میںنے اس نئے زندہ کو دے دی۔اوراس نے وہیں کھا لی پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہوگئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت ؐ کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اور اسلام کی تازگی اور ترقی کی اشارت تھی تب اسی نو رکا مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی ۔‘‘
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس رؤیا میں یہ اشارہ تھا کہ آگے چل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خدمتِ دین کا کوئی ایسا عظیم الشان کام لیا جائے گا کہ جس سے اسلام میں جو مردہ کی طرح ہو رہا ہے پھر زندگی کی روح عود کر آئے گی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ رؤیا غالباً ۱۸۶۴ء سے بھی پہلے کاہو گا۔ کیونکہ ۱۸۶۴ء میں تو آپ سیالکوٹ میں ملازم ہو چکے تھے۔)
{ 238} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۲۰پر لکھتے ہیں کہ ’’ اس برکت کے بارے میں ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میںہوا تھا جس کو اس جگہ لکھنا مناسب ہے اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے ۔جب نئے نئے مولوی ہو کر بٹالہ میں آئے اور بٹالیو ں کو ان کے خیالات گراں گذرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس نا چیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اس کے کہنے کہانے پر یہ عاجز شام کے وقت اس شخص کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو مع ان کے والدصاحب کے مسجد میں پایا ۔پھر خلاصہ یہ کہ اس ا حقر نے مولوی صاحب موصوف کی اس وقت کی تقریر کو سُن کر معلوم کر لیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا ۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترکِ بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے پھر بعد اس کے کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے ۔جو گھوڑوں پر سوار تھے ۔‘‘
{ 239} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میری نانی اماں صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب تمہارے نانا کی بدلی کا ہنووان میں ہوئی تھی ۔میں بیمار ہو گئی تو تمہارے نانا مجھے ڈولی میں بٹھلا کر قادیان تمہارے دادا کے پاس علاج کے لئے لائے تھے۔اور اسی دن میں واپس چلی گئی تھی ۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا تھا ۔اور تمہارے نانا کو یہاں اور ٹھہرنے کے لئے کہا تھا ۔مگر ہم نہیں ٹھہر سکے ۔کیونکہ پیچھے تمہاری اماں کو اکیلا چھوڑ آئے تھے۔نیز نانی امّاں نے بیان کیا کہ جس وقت میں گھر میں آئی تھی میں نے حضرت صاحب کو پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا کہ ایک کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے رِحل پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے تھے ۔میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے ۔قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے ۔ نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ مجھے اپنی امّاں اور ابّا کا مجھے اکیلا چھوڑ کر قادیان آنے کے متعلق صرف اتنا یاد ہے کہ میں شا م کے قریب بہت روئی چلائی تھی کہ اتنے میں ابّا گھوڑا بھگاتے ہوئے گھر میں پہنچ گئے اورمجھے کہا کہ ہم آگئے ہیں۔
{ 240} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب کی ساری عمر جہاد کی صف اوّل میں ہی گذری ہے ۔لیکن با قاعدہ مناظرے آپ نے صرف پانچ کئے ہیں ۔
اوّل۔ ماسٹر مرلی دھرآریہ کے ساتھ بمقام ہو شیار پو ر مارچ ۱۸۸۶ء میں۔اس کا ذکر آپ نے سر مۂ چشم آریہ میں کیا ہے ۔
دوسرے ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بمقام لدھیانہ ،جولائی ۱۸۹۱ء میں۔ اس کی کیفیت رسالہ الحق لدھیانہ میں چھپ چکی ہے ۔
تیسرے ۔مولوی محمد بشیر بھوپالوی کے ساتھ بمقام دہلی اکتوبر ۱۸۹۱ء میں ۔اس کی کیفیت رسالہ الحق دہلی میں چھپ چکی ہے ۔
چوتھے ۔ مولوی عبد الحکیم کلا نوری کے ساتھ بمقام لاہور جنوری و فروری۱۸۹۲ء میں۔ اس کی روئداد شائع نہیں ہوئی صرف حضرت صاحب کے اشتہار مورخہ ۳؍فروری ۱۸۹۲ء میں اس کا مختصر ذکر پایا جاتا ہے ۔
پانچویں ۔ڈپٹی عبد اللہ آتھم مسیحی کے ساتھ بمقام امرتسر مئی و جون ۱۸۹۳ء میں۔ اس کی کیفیت جنگ مقدس میں شائع ہو چکی ہے ۔
ان کے علاوہ دو اور جگہ مباحثہ کی صورت پیدا ہو کر رہ گئی ۔اوّل مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ بمقام بٹالہ ۶۹یا۱۸۶۸ء میں ۔ اس کا ذکر حضرت صاحب نے براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۲۰پر کیا ہے ۔دوسرے۔مولوی سید نذیر حسین صاحب شیخ الکل دہلوی کے ساتھ بمقام جامع مسجد دہلی بتاریخ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء ۔اس کا ذکر حضرت کے اشتہارات میں ہے ۔
{ 241} بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے منشی عطا محمد صاحب پٹواری نے کہ جب میں غیر احمدی تھا اور ونجواں ضلع گورداسپور میں پٹواری ہوتا تھا تو قاضی نعمت اللہ صاحب خطیب بٹالوی جن کے ساتھ میرا ملنا جلنا تھا ۔ مجھے حضرت صاحب کے متعلق بہت تبلیغ کیا کرتے تھے ۔مگر میں پرواہ نہیں کرتا تھا ۔ایک دن انہوں نے مجھے بہت تنگ کیا۔ میں نے کہا اچھا میں تمہارے مرزا کو خط لکھ کر ایک بات کے متعلق دعا کراتا ہوں اگر وہ کام ہو گیا تو میں سمجھ لوں گا کہ وہ سچے ہیں ۔چنانچہ میں نے حضرت صاحب کو خط لکھا کہ آپ مسیح موعوداور ولی اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ولیوں کی دعائیں سُنی جاتی ہیں ۔آپ میرے لئے دعا کریں کہ خدا مجھے خوبصورت صاحب اقبال لڑکا جس بیوی سے میں چاہوں عطا کرے ۔اور نیچے میں نے لکھ دیا کہ میری تین بیویاں ہیں مگر کئی سا ل ہو گئے آج تک کسی کے اولاد نہیں ہوئی ۔میں چاہتا ہوں کہ بڑی بیوی کے بطن سے لڑکا ہو ۔حضرت صاحب کی طرف سے مجھے مولوی عبد الکریم صاحب مر حوم کا لکھا ہوا خط گیا کہ مولا کے حضور دعا کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ کو فرزند ارجمند صاحب اقبال خوبصوت لڑکا جس بیوی سے آپ چاہتے ہیں عطا کرے گا ۔مگر شرط یہ ہے کہ آپ زکریا والی توبہ کریں ۔منشی عطا محمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ان دنوں سخت بے دین اور شرابی کبابی راشی مرتشی ہوتا تھا ۔ چنانچہ میں نے جب مسجد میں جا کر ملاّں سے پو چھا کہ زکریا والی توبہ کیسی ہوتی ہے؟تو لوگوں نے تعجب کیا کہ یہ شیطان مسجد میں کس طرح آگیا ہے۔ مگر وہ ملاں مجھے جواب نہ دے سکا ۔پھر میں نے دھرم کوٹ کے مولوی فتح دین صاحب مرحوم احمدی سے پوچھا انہوں نے کہا کہ زکریا والی توبہ بس یہی ہے کہ بے دینی چھوڑ دو ۔حلال کھاؤ۔ نماز روزہ کے پابند ہو جاؤاور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو۔یہ سُن کر میں نے ایسا کرنا شروع کر دیا۔ شراب وغیرہ چھوڑ دی اور رشوت بھی بالکل ترک کر دی اور صلوٰۃ و صوم کا پا بند ہو گیا۔چار پانچ ماہ کا عرصہ گذرا ہو گاکہ میں ایک دن گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو روتے ہوئے پایا ۔سبب پوچھا تو اس نے کہا پہلے مجھ پر یہ مصیبت تھی کہ میرے اولاد نہیں ہوتی تھی آپ نے میرے اُوپر دو بیویاں کیں ۔اب یہ مصیبت آئی ہے کہ میرے حیض آنا بند ہو گیا ہے (گویا اولاد کی کوئی امید ہی نہیں رہی ) ان دنوں میں اس کا بھائی امرتسر میں تھا نہ دار تھا چنانچہ اس نے مجھے کہا کہ مجھے میرے بھائی کے پاس بھیج دو کہ میں کچھ علاج کرواؤں ۔میں نے کہا وہاں کیا جاؤ گی یہیں دائی کو بلا کر دکھلاؤاور اس کا علاج کرواؤ ۔ چنانچہ اس نے دائی کو بلوایااور کہا کہ مجھے کچھ دوا وغیرہ دو ۔دائی نے سرسری دیکھ کر کہا میں تو دوا نہیں دیتی نہ ہاتھ لگاتی ہوں ۔کیوںکہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تیرے اندر بھول گیا ہے (یعنی تُو تو بانجھ تھی مگر اب تیرے پیٹ میں بچہ معلوم ہوتا ہے ۔پس خدا نے تجھے (نعوذباللہ )بھول کر حمل کروا دیا ہے۔ مؤلف)اور اس نے گھر سے باہر آکر بھی یہی کہنا شروع کیا کہ خدا بھول گیا ہے مگر میں نے اسے کہا کہ ایسا نہ کہو بلکہ میںنے مرزا صاحب سے دعا کروائی تھی ۔ پھر منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ میں حمل کے پورے آثار ظاہر ہو گئے اور میں نے ارد گرد سب کو کہنا شروع کیاکہ اب دیکھ لینا کہ میرے لڑکا پیدا ہوگا اور ہوگا بھی خوبصورت مگر لوگ بڑا تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ایسا ہو گیا تو واقعی بڑی کرامت ہے ۔آخر ایک دن رات کے وقت لڑکا پیدا ہوا اور خوبصورت ہوا ۔میں اسی وقت دھرم کوٹ بھاگا گیا ۔جہاں میرے کئی رشتہ دار تھے اور لوگوں کو اس کی پیدائش سے اطلاع دی چنانچہ کئی لوگ اسی وقت بیعت کے لئے قادیان روانہ ہو گئے مگر بعض نہیں گئے اور پھراس واقعہ پر ونجواں کے بھی بہت سے لوگوں نے بیعت کی اور میں نے بھی بیعت کرلی ۔اور لڑکے کا نام عبد الحق رکھا ۔منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میری شادی کو بارہ سال سے زائد ہو گئے تھے۔اور کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی ۔نیز منشی صاحب نے بیان کیاکہ میں پھر جب قادیان آیا تو ان دنوں میں مسجد کا راستہ دیوار کھینچنے سے بند ہوا تھا ۔میں نے باغ میں حضرت صاحب کو اپنی ایک خواب سنائی کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایک خر بوزہ ہے جسے میں نے کاٹ کر کھایا ہے اور وہ بڑا شیریں ہے لیکن جب میں نے اس کی ایک پھاڑی عبد الحق کو دی تو وہ خشک ہو گئی۔حضرت صاحب نے تعبیر بیان فرمائی کہ عبد الحق کی ماں سے آپ کے ہاں ایک اور لڑکا ہو گا مگر وہ فوت ہو جائے گا۔چنانچہ منشی صاحب کہتے ہیں کہ ایک اور لڑکا ہوا مگر وہ فوت ہو گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے عبد الحق کو دیکھا ہے خوش شکل اور شریف مزاج لڑکا ہے اس وقت ۱۹۲۲ء میں اس کی عمر کوئی بیس سال کی ہو گی ۔
{ 242} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کو اپنے دشمنوں کی طرف سے چھ مقدمات پیش آئے ہیں ۔چار فوج داری۔ ایک دیوانی اور ایک مالی اور ان سب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بشارتوں کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کو دشمنوں پر فتح دی ہے ۔اور یہ مقدمات ان مقدمات کے علاوہ ہیں جو جائیداد وغیرہ کے متعلق دادا صاحب کی زندگی میں اور اُن کے بعد پیش آتے رہے۔
اوّل ۔سب سے پہلا مقدمہ یہ ہے جو بابو رلیا رام مسیحی وکیل امرتسر کی مخبری پرمحکمہ ڈاک کی طرف سے آپ پر دائر کیا گیا تھا ۔یہ مقدمہ بہت پرانا ہے ۔یعنی براہین احمدیہ کی اشاعت سے بھی قبل کا ہے۔(غالباً۱۸۷۷ء کا) حضرت مسیح موعود ؑ نے اس کا کئی جگہ ذکر کیا ہے ۔مگر سب سے مفصل ذکر اس کا اُس خط میں ہے جو حضرت صاحب نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو اس کے فتویٰ تکفیر کے بعد لکھا تھا ۔اور جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہو چکا ہے۔
دوسرے ۔وہ خطر ناک فوجداری مقدمہ جو مارٹن کلارک مسیحی پادری نے اقدام قتل کے الزام کے ماتحت حضرت کے خلاف دائر کیا تھا۔اس کی ابتدائی کارروائی یکم اگست ۱۸۹۷ء کو امرتسر میں بعدالت ای مارٹینو دپٹی کمشنر امرتسر شروع ہوئی اور بالآخر ۲۳؍ اگست ۱۸۹۷ء کو آپ ایم ڈگلس ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت سے بری کئے گئے۔اس مقدمہ کی مفصل کیفیت کتاب البریہ میں چھپ چکی ہے ۔
تیسرے ۔ مقدمہ حفظ امن زیر دفعہ ۱۰۷ضابطہ فوجداری ۔جو بعد الت جے۔ایم ڈوئی ڈپٹی کمشنر گورداسپور ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ء کو فیصل ہوا ۔اور حضرت صاحب ضمانت کی ضرورت سے بری قرار دیئے گئے ۔یہ مقدمہ محمدبخش تھانہ دار بٹالہ کی رپورٹ مورخہ یکم دسمبر ۱۸۹۸ء و در خواست مولوی محمد حسین بٹالوی برائے اسلحہ خود حفاظتی مورخہ ۵؍دسمبر ۱۸۹۸ء پر مبنی تھا۔اس کے متعلق حضرت صاحب نے اپنے اشتہار مورخہ ۲۶؍ فروری ۱۸۹۹ء میں ذکر کیا ہے اور الحکم کے نمبرات ماہ مارچ ۱۸۹۹ء میں اس کی مفصل کیفیت درج ہے ۔
چوتھے وہ لمبا اور تکلیف دہ فوجداری مقدمہ جو کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کی طرف سے اوّل اوّل جہلم میں اور پھر اس کے بعد گورداسپور میں چلایا گیا تھا اور بالآخر بعدالت اے۔ای ہری سیشن جج امرتسر ۷؍جنوری ۱۹۰۵ء کو فیصل ہوا ۔اور آپ بری کئے گئے۔ماتحت عدالت کا فیصلہ بعدالت آتما رام مجسٹریٹ درجہ اوّل گورداسپور۸؍اکتوبر۱۹۰۴ء کو ہوا تھا ۔اس مقدمہ کی کیفیت اخبار الحکم میں چھپتی رہی ہے یہ مقدمہ دراصل دو حصوں پر مشتمل تھا۔
پانچویں۔وہ دیوانی مقدمہ جو حضرت صاحب کی طرف سے مرزا امام الدین ساکن قادیان کے خلاف دائر کیا گیا تھا ۔اس کی بنا یہ تھی کہ مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے راستہ کو ایک دیوا ر کھینچ کر ۷؍جنوری۱۹۰۰ء کو بند کر دیا تھا ۔یہ مقدمہ ۱۲؍اگست ۱۹۰۱ء کو بعدالت شیخ خدابخش صاحب ڈسٹرکٹ جج گورداسپور حضرت صاحب کے حق میں فیصل ہوا ۔اور ۲۰؍اگست ۱۹۰۱ء کو دیوار گرائی گئی ۔ اس کی کیفیت اخبار الحکم اور کچھ حقیقۃ الوحی میں شائع ہو چکی ہے ۔
چھٹے۔مقدمہ انکم ٹیکس جو ۱۷؍ دسمبر ۱۸۹۷ء کو بعدالت ٹی ۔ڈکسن ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور فیصل ہوا اور حضرت صاحب پر انکم ٹیکس لگانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی ۔اس کی کیفیت ضرورۃ الامام میں شائع ہو چکی ہے ۔
{ 243} بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ مبارکہ(خاکسار کی ہمشیرہ)کا چلّہ نہانے کے دو تین دن بعد میں اوپر کے مکان میں چار پائی پر بیٹھی تھی اور تم میرے پاس کھڑے تھے اورپھجو(گھر کی ایک عورت کا نام ہے)بھی پاس تھی کہ تم نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہاکہ ’’امّاںاوپائی‘‘ میں نہ سمجھی۔ تم نے دو تین دفعہ دہرایا اور نیچے کی طرف اشارہ کیا جس پر پھجو نے نیچے دیکھا تو ڈیوڑھی کے دروازے میں ایک سپاہی کھڑا تھا ۔پھجو نے اسے ڈانٹا کہ یہ زنانہ مکان ہے تو کیوں دروازے میں آگیا ہے اتنے میں مسجد کی طرف کا دروازہ بڑے زور سے کھٹکا ۔ پتہ لگا کہ اس طرف سے بھی ایک سپاہی آیا ہے ۔ حضرت صاحب اندر دالان میں بیٹھے ہوئے کچھ کام کر رہے تھے۔ میں نے محمود (حضرت خلیفۃ المسیح ثانی)کو انکی طرف بھیجا کہ سپاہی آئے ہیں اور بلاتے ہیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہو کہ میں آتا ہوں ۔ پھر آپ نے بڑے اطمینان سے اپنا بستہ بند کیا اور اُٹھ کر مسجد کی طرف گئے وہاں مسجد میں انگریز کپتان پولیس کھڑا تھا اور اس کے ساتھ دوسرے پولیس کے آدمی تھے ۔کپتان نے حضرت صاحب سے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں لیکھرام کے قتل کے متعلق آپ کے گھر کی تلاشی لوں ۔حضرت صاحب نے کہا آیئے اور کپتان کو مع دوسرے آدمیوں کے جن میں بعض دشمن بھی تھے مکان کے اندر لے آئے اور تلاشی شروع ہوئی ۔ پولیس نے مکان کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا ہوا تھا ہم عورتیںاور بچے ایک طرف ہوگئے ۔سب کمروں کی باری باری تلاشی ہوئی اور حضرت صاحب کے کاغذات وغیرہ دیکھے گئے ۔تلاش کرتے کر تے ایک خط نکلا جس میں کسی احمدی نے لیکھرام کے قتل پر حضرت صاحب کو مبارکباد لکھی تھی ۔دشمنوں نے اسے جھٹ کپتان کے سامنے پیش کیا کہ دیکھئے اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟ حضرت صاحب نے کہا کہ ایسے خطوں کا تو میرے پاس ایک تھیلا رکھا ہے ۔ اور پھر بہت سے خط کپتان کے سامنے رکھ دیئے ۔کپتان نے کہا نہیں کچھ نہیں ۔والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ جب کپتان نیچے سرد خانے میں جانے لگا تو چونکہ اس کا دروازہ چھوٹا تھا اور کپتان لمبے قد کا آدمی تھا اس زور کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ سے اسکا سر ٹکرایا کہ بیچارہ سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا ،حضرت صاحب نے اس سے اظہار ہمدردی کیا اور پوچھا کہ گرم دودھ یا کوئی اور چیز منگوائیں ؟ اس نے کہا نہیں کوئی بات نہیں ۔مگر بیچارے کو چوٹ سخت آئی تھی ۔والدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ حضرت صاحب اسے خود ایک کمرے سے دوسرے کی طرف لیجاتے تھے ۔اور ایک ایک چیز دکھاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اس خانہ تلاشی کا ذکر اپنے اشتہار مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۸۹۷ء میں کیا ہے جہاں لکھا ہے کہ خانہ تلاشی ۸اپریل ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی اور نیز یہ کہ مہمان خانہ مطبع وغیرہ کی بھی تلاشی ہوئی تھی ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ لیکھرام ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو قتل ہو اتھا اور اسکے قتل پر آریوں کی طرف سے ملک میں ایک طوفان عظیم بر پا ہو گیا تھا ۔سنا گیا ہے کہ کئی جگہ مسلمان بچے دشمنوں کے ہاتھ سے ہلاک ہوئے اور حضرت صاحب کے قتل کے لئے بھی بہت سازشیں ہوئیں اور یہ خانہ تلاشی بھی غالباً آریوں ہی کی تحریک پر ہو ئی تھی ۔
{ 244} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے تھے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جائو گھر سے میٹھا لائو میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی ۔ بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوانمک تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد آیاکہ ایک دفعہ گھر میں میٹھی روٹیاں پکیں کیونکہ حضر ت صاحب کو میٹھی روٹی پسند تھی جب حضرت صاحب کھانے لگے تو آپ نے اس کا ذائقہ بدلہ ہو اپایا ۔مگر آپ نے اس کا خیال نہ کیا کچھ اور کھانے پر حضرت صاحب نے کڑواہٹ محسوس کی اور والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ روٹی کڑوی معلوم ہوتی ہے ؟ والدہ صاحبہ نے پکانے والی سے پوچھا اس نے کہا میں نے تو میٹھا ڈالا تھا والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ کہاں سے لے کر ڈالا تھا ؟ وہ برتن لائو ۔ وہ عورت ایک ٹین کا ڈبہ اٹھا لائی ۔دیکھا تو معلوم ہوا کہ کونین کا ڈبہ تھا اور اس عورت نے جہالت سے بجائے میٹھے کے روٹیوں میں کونین ڈال دی تھی ۔اس دن گھر میں یہ بھی ایک لطیفہ ہو گیا ۔
{ 245} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضر ت صاحب نے اپنی والدہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتا یا کہ یہ لے لو۔حضرت نے کہا نہیں۔یہ میں نہیں لیتا انہوں نے کوئی اور چیزبتا ئی ۔ حضرت صاحب نے اس پر بھی وہی جواب دیا ۔وہ اسوقت کسی بات پر چڑی ہوئی بیٹھی تھیں ۔سختی سے کہنے لگیں کہ جائو پھر راکھ سے روٹی کھا لو ۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہوگیا ۔یہ حضرت صاحب کا بالکل بچپن کا واقعہ ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی اس وقت حضرت صاحب بھی پاس تھے ۔مگر آپ خاموش رہے ۔
{ 246} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا۔ایک دن حضرت صاحب کچہری کی طرف تشریف لے جانے لگے اور حسبِ معمول پہلے دعا کیلئے اس کمرہ میں گئے جوا س غرض کیلئے پہلے مخصو ص کر لیا تھا ۔مَیں اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ باہر انتظار میں کھڑے تھے اور مولوی صاحب کے ہاتھ میں اس وقت حضرت صاحب کی چھڑی تھی ۔حضرت صاحب دعا کر کے باہر نکلے تو مولوی صاحب نے آپ کو چھڑی دی ۔حضر ت صاحب نے چھڑی ہاتھ میں لے کر اسے دیکھا اور فرمایا۔ یہ کس کی چھڑی ہے ؟ عرض کیا گیا کہ حضور ہی کی ہے جو حضور اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں ۔آپ نے فرمایا اچھا میں نے تو سمجھا تھا کہ یہ میری نہیں ہے ۔ خانصاحب کہتے ہیں کہ وہ چھڑی مدت سے آپ کے ہاتھ میں رہتی تھی مگر محویت کایہ عالم تھا کہ کبھی اس کی شکل کو غورسے دیکھا ہی نہیں تھا کہ پہچان سکیں ۔خانصاحب کہتے ہیں کہ اسی طرح ایک دفعہ میں قادیان آیا اس وقت حضرت صاحب مسجد کی سیڑ ھیوں میں کھڑے ہو کر کسی افغان کو رخصت کر رہے تھے اور میں دیکھتا تھا کہ آپ اس وقت خوش نہ تھے کیونکہ وہ شخص افغانستا ن میں جاکر تبلیغ کر نے سے ڈرتا تھا ۔خیر میں جا کر حضور سے ملا اور حضور نے مجھ سے مصافحہ کیا اور پھر گھر تشریف لے گئے ۔میں اپنے کمرے میں آکر بہت رویا کہ معلوم نہیں حضرت صاحب نے مجھ میں کیا دیکھا ہے کہ معمول کے خلاف بشاشت کے ساتھ نہیں ملے ۔ پھر میں نماز کے وقت مسجد میں گیا تو کسی نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ ذوالفقا ر علی خان آیا ہے ۔ حضرت صاحب نے شوق سے پوچھا کہ تحصیل دار صاحب کب آئے ہیں ؟میں جھٹ حضور کے سامنے آگیا اور عرض کیا کہ میں تو حضور سے سیڑھیوں پر ملا تھا جب حضور ان افغان صاحب کو رخصت فر ما رہے تھے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ اچھا! میں نے خیال نہیں کیا اور پھر حسب معمول بڑی خوشی اور بشاشت کے ساتھ مجھ سے کلام فرمایا ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کے آنے پر بڑی خوشی ہوتی تھی اور رخصت کے وقت دل کو صدمہ ہوتا تھا ۔ چنانچہ جب حضرت خلیفہ ثانی کی آمین پر بعض مہمان قادیان آئے تو اس پر آپ نے آمین میں فرمایا
احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے
تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے
یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے
یہ روز کر مبار ک سبحان من یرانی
مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت
دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت
پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت
یہ روز کر مبار ک سبحان من یرانی
دنیا بھی ایک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گو سو برس رہاہے آخر کو پھرجدا ہے
شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے
یہ روز کر مبار ک سبحان من یرانی
{ 247} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ جب کسی سے ملتے تھے تو مسکراتے ہوئے ملتے تھے اور ساتھ ہی ملنے والے کی ساری کلفتیں دور ہوجاتی تھیں ،ہر احمدی یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کی مجلس میں جاکر دل کے سارے غم دُھل جاتے ہیں۔ بس آپ کے مسکراتے ہو ئے چہرے پر نظر پڑی اور سارے جسم میں مسرت کی ا یک لہرجاری ہوگئی ۔آپ کی عادت تھی کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی بات بھی توجہ سے سنتے تھے اور بڑی محبت سے جواب دیتے تھے۔ہر آدمی اپنی جگہ سمجھتا تھا کہ حضرت صاحب کو بس مجھی سے زیادہ محبت ہے۔ بعض وقت آداب مجلس رسول سے نا واقف ،عامی لوگ دیر دیر تک اپنے لاتعلق قصے سناتے رہتے تھے اور حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ بیٹھے سنتے رہتے اور کبھی کسی سے یہ نہ کہتے تھے کہ اب بس کرو۔ نمازوں کے بعد یا بعض اوقات دوسرے موقعوں پر بھی حضور مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور ارد گرد مشتاقین گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہتی تھیں اورگویا تعلیم و تربیت کا سبق جاری ہوجاتا تھا ۔مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ محسوس کرتے تھے کہ علم ومعرفت کا چشمہ پھوٹ رہا ہے ۔جس سے ہر شخص اپنے مقدور کے موافق اپنا برتن بھر لیتا تھا ۔مجلس میں کوئی خاص ضابطہ نہ ہوتا تھا بلکہ جہاں کہیں کسی کو جگہ ملتی تھی بیٹھ جاتا تھا اور پھر کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہوا تو اس نے پوچھ لیا اور حضرت صاحب نے جواب میں کوئی تقریر فرمادی یا کسی مخالف کا ذکر ہو گیا توا س پر گفتگو ہو گئی یا حضرت نے اپنا کوئی نیا الہام سنایا تو اس کے متعلق کچھ فرما دیا ، یا کسی فرد یا جماعت کی تکالیف کا ذکر ہوا تو اسی پر کلام کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ غرض آپ کی مجلس میں ہر قسم کی گفتگو ہو جاتی تھی اور ہر آدمی جو بولنا چاہتا تھا بول لیتا تھا ۔جب حضرت گفتگو فرماتے تھے تو سب حاضرین ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے ۔آپ کی عادت تھی کہ خواہ کوئی پبلک تقریر ہو یا مجلسی گفتگو ہو۔ ابتدا ء میں دھیمی آواز سے بولنا شروع کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ آواز بلند ہو جاتی تھی حتّٰی کہ دور سے دور بیٹھا ہو ا شخص بھی بخوبی سن سکتا تھا ۔اور آپ کی آواز میں ایک خاص قسم کا سوز ہو تا تھا ۔
{ 248} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ مارٹن کلارک کے مقدمہ میں ایک شخص مولوی فضل دین لاہوری حضور کی طرف سے وکیل تھا ۔یہ شخص غیر احمدی تھا اور شاید اب تک زندہ ہے اور غیر احمدی ہے۔جب مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت صاحب کے خلاف شہادت میں پیش ہوا تو مولوی فضل دین نے حضرت صاحب سے پوچھا کہ اگر اجازت ہو تو میں مولوی محمد حسین صاحب کے حسب ونسب کے متعلق کو ئی سوال کروں ۔حضرت صاحب نے سختی سے منع فرما دیا کہ میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور فرمایا ’’ لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْئِ‘‘ (النّسٓائ:۱۴۹) مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ خود مولوی فضل دین نے باہر آکر ہم سے بیان کیا تھا اور اس پر اس بات کا بڑا اثر ہوا تھا۔چنانچہ وہ کہتا تھاکہ مرزا صاحب نہایت عجیب اخلاق کے آدمی ہیں۔ ایک پرلے درجے کا دشمن ہے اور وہ اقدام قتل کے مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت میں پیش ہو تا ہے اور میں اس کا حسب ونسب پوچھ کر اس کی حیثیت کو چھوٹا کر کے اس کی شہادت کو کمزور کرنا چاہتا ہوں اور اس سوال کی ذمہ داری بھی مرز اصاحب پر نہیں تھی بلکہ مجھ پر تھی ۔مگر میں نے جب پوچھا تو آپ نے بڑی سختی سے روک دیا کہ ایسے سوال کی میں ہر گز اجازت نہیں دیتا کیونکہ خدا ایسے طریق کو نا پسند کرتا ہے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے نسب میں بعض معیوب باتیں سمجھی جاتی تھیں۔واللّٰہ اعلم جن کو وکیل اپنے سوال سے ظاہر کرنا چاہتا تھا مگر حضرت صاحب نے روک دیا ۔دراصل حضرت صاحب اپنے ہاتھ سے کسی دشمن کی بھی ذلت نہیں چاہتے تھے ،ہاں جب خدا کی طرف سے کسی کی ذلت کا سامان پیدا ہوتا تھا تو وہ ایک نشان الہٰی ہوتا تھاجسے آپ ظاہر فرماتے تھے ۔
{ 249} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیرعلی صاحب نے کہ جب مولوی محمد حسین بٹالوی قتل کے مقدمہ میں حضرت صاحب کے خلاف پیش ہوا تو اس نے کمرے میں آکر دیکھا کہ حضرت صاحب ڈگلس کے پاس عزت کے ساتھ کرسی پر تشریف رکھتے ہیں اس پر حسد نے اسے بیقرارکر دیا ۔چنانچہ اس نے بھی حاکم سے کرسی مانگی اور چونکہ وہ کھڑا تھا اور اس کے اور حاکم کے درمیان پنکھا تھا جس کی وجہ سے وہ حاکم کے چہرہ کو دیکھ نہ سکتا تھا ۔اس لئے اس نے پنکھے کے نیچے سے جھک کر حاکم کو خطاب کیا ۔مگر ڈگلس نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی ایسی فہرست نہیں ہے جس میں تمہارا نام کرسی نشینوں میں درج ہو ۔اس پر اس نے پھر اصرار کے ساتھ کہاتو حاکم نے ناراض ہو کر کہا کہ َبک َبک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا۔خاکسار عرض کر تا ہے کہ حضر ت صاحب کی بعض تحریروں میں ’’ سیدھا کھڑا ہو جا ‘‘ کے الفاظ آتے تھے اور ہم نہ سمجھتے تھے کہ اس سے کیا مراد ہے مگر اب پتہ لگا کہ مولوی محمد حسین چونکہ جھک کر پنکھے کے نیچے سے کلام کر رہا تھااس لئے اسے سیدھا ہو نے کیلئے کہا گیا ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ اس وقت مولوی محمد حسین کے دل وسینہ میں کیا کیا نہ چھریاں چل گئی ہونگی ۔ایک طرف اُسے اپنا یہ قول یاد آتا ہوگا کہ میں نے ہی اسے (یعنی حضرت صاحب کو ) اُٹھایا ہے اور اب میں ہی اسے گرائو نگا ۔اور دوسری طرف حضرت صاحب کا وہ الہام اس کی آنکھوں کے سامنے ہوگا کہ ’’ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ‘‘ یعنی جو تیری ذلت چاہتا ہے میں خود اسے ذلیل کرو نگا۔اللہ اکبر -
{ 250} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب قتل کے مقدمہ میں حضرت صاحب نے ایک موقعہ پر کپتان ڈگلس کے سامنے فرمایا کہ مجھ پر قتل کا الزام لگا یا گیا ہے اور آگے بات کر نے لگے تو اس پر ڈگلس فورًا بولا کہ میں تو آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا اور جب اس نے فیصلہ سنایا تو اُس وقت بھی اُس نے یہ الفاظ کہے کہ مرزا صاحب! میں آپ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ بری ہیں ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈگلس اُن دنوں میں ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اور فوجی عہدہ کے لحاظ سے کپتان تھا ۔اس کے بعد وہ ترقی کرتے کرتے جزائر انڈیمان کا چیف کمشنر ہو گیا ۔اور اب پنشن لے کر ولایت واپس جاچکا ہے ۔اس وقت اس کا فوجی عہدہ کر نیل کا ہے ۔آدمی غیر متعصب اور سمجھ دار اور شریف ہے ۔ولایت میں ہمارے مبلّغ مولوی مبارک علی صاحب بنگالی نے ۲۸؍جولائی ۱۹۲۲ء کو اس سے ملاقات کی تو اس نے خود بخود انکے ساتھ اس مقدمہ کا ذکر شروع کر دیا اور کہنے لگا ’’میں غلا م احمد ( مسیح موعود) کو جانتا تھا اور میرا یقین تھا کہ وہ نیک بخت اور دیانتدار آدمی ہیں اور یہ کہ وہ اسی بات کی تعلیم دیتے ہیں جس کا اُنہیں خود یقین ہے ۔ لیکن مجھے ان کی موت کی پیشگوئیاں پسند نہ تھیں کیونکہ وہ بڑی مشکلات پیدا کر تی تھیں ‘‘۔پھر اس نے مقدمہ کے حالات سنائے اور کہا کہ ’’وہ لڑکا نظام دین ( خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈگلس صاحب بھول گئے ہیں اس لڑکے کا نام عبد الحمید تھا)ہر روز کوئی نئی بات بیان کرتا تھا اور اس کی کہانی ہر دفعہ زیادہ مکمل و مبسوط ہوتی جاتی تھی اس لئے مجھے اس کے متعلق شبہ پیدا ہوا اور میں نے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہتا ہے ؟ مجھے بتایا گیا کہ وہ مشنریوں کے پاس ٹھہرا ہو ا ہے جوا سے سکھاتے رہتے ہیں ۔چنانچہ میں نے حکم دیا کہ وہ مشنریوں کی نگرا نی سے الگ کر کے پولیس کی نگرانی میں رکھا جاوے ۔اس سے میرا مطلب حل ہو گیا یعنی نظام دین آخر اقبالی ہو کر میرے قدموں پر گر گیا اور اس نے اقرار کیا کہ یہ ساری بات محض افتراء ہے ۔ڈگلس نے سلسلہ کی اس حیرت انگیز ترقی پر بڑا تعجب ظاہر کیااور کہاکہ مجھے گمان نہ تھا کہ مرزا غلام احمد کا قائم کیا ہوا سلسلہ اتنی ترقی کرجائے گا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابھی تو ؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھنا ہوتا ہے کیا
نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈگلس کے ساتھ اپنی اس ملاقات کا حال مولوی مبارک علی صاحب نے لنڈن سے لکھ کر بھیجا ہے اور بوقت ملاقات گفتگو انگریزی زبان میں ہو ئی تھی ۔جسے یہاں ترجمہ کر کے اردو میں لکھا گیا ہے۔
{ 251} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں بچپن میں گائوں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھا ہوا لا سا بنارہا تھا کہ اس وقت مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوئی جو گھر سے لانی تھی میرے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا میں نے اسے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو ۔اس نے کہا ۔میاں میری بکریاں کون دیکھے گا ۔میں نے کہا تم جائو میں ان کی حفاظت کروں گا اور چرائوں گاچنانچہ اس کے بعد میں نے اسکی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا نے نبیوں کی سنت ہم سے پوری کرا دی ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ لاسا ایک لیس دار چیز ہوتی ہے جو بعض درختوں کے دودھ وغیرہ سے تیار کرتے ہیں ۔ اور جانور وغیرہ پکڑنے کے کام آتا ہے۔ نیز والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہ ہوتا تھا تو تیز سرکنڈے سے ہی حلال کر لیتے تھے ۔
{ 252} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میںوالدہ کے ساتھ ہوشیار پور جاتے تھے تو ہوشیار پور کے چوہوں میں پھرا کرتے تھے ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ ضلع ہوشیار پور میں کئی برساتی نالے ہیں جن میں بارش کے وقت پانی بہتا ہے اور ویسے وہ خشک رہتے ہیں ۔یہ نالے گہرے نہیں ہوتے قریباً اردگرد کے کھیتوں کے ساتھ ہموار ہی ہوتے ہیں ۔ ہوشیار پور کا سارا ضلع ان برساتی نالوں سے چھدا پڑا ہے ۔ان نالوں کو پنجابی میں چوہ کہتے ہیں ۔
{ 253} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت صاحب بیان فرماتے تھے کہ جب ہم استاد سے پڑھا کرتے تھے تو ایک دفعہ ہمارے استاد نے بیان کیا کہ ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکا ن ہے جو دھواں دار ہے یعنی اس کے اندر باہر سب دھواں ہورہا ہے ۔اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر آنحضرت ﷺ ہیں اور چاروں طرف سے عیسائیوں نے اس کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور ہمارے استاد نے بیان کیا کہ ہم میں سے کسی کو اس کی تعبیر نہیں آئی۔ میں نے کہا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص عیسائی ہو جائے گا ۔کیونکہ انبیاء کا وجود آئینہ کی طرح ہوتا ہے پس اس نے جو آپ کودیکھا تو گویا اپنی حالت کے عکس کو دیکھا ۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میرا یہ جواب سن کر میرے استاد بہت خوش ہوئے او ر متعجب بھی اور کہنے لگے کہ وہ شخص واقعی بعد میں عیسائی ہو گیا تھا اور کہنے لگے کہ کاش ہم اس کی تعبیر جانتے اور اسے وقت پر سمجھاتے تو شاید وہ بچ جاتا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوا کہ استاد سے کون استاد مراد ہیں ۔مولوی فضل الہٰی صاحب سے تعلیم پانے کے وقت آپکی عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے اغلب ہے کہ مولوی فضل احمد صاحب اور مولوی گل علی شاہ صاحب میں سے کوئی صاحب ہونگے ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے ہیں کہ مولوی فضل الہٰی صاحب قادیان کے رہنے والے تھے اور مذہباً حنفی تھے ۔مولوی فضل احمد صاحب فیروز والا ضلع گوجرانوالہ کے باشندہ تھے اور مذہباً اہل حدیث تھے ۔یہ صاحب مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے والد تھے جنھوں نے ( مولوی مبارک علی صاحب نے) حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی مگر جو بعد وفات حضرت خلیفہ اول فتنہ کی رو میں بہہ گئے۔تیسرے استاد مولوی سید گل علی شاہ صاحب تھے جو بٹالہ کے رہنے والے تھے اور مذہباً شیعہ تھے ۔
{ 254} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ میرا ایک کلاس فیلو تھا جس کا نام محمدعظیم ہے اور جو پیر جماعت علی شاہ سیالکوٹی کا مرید ہے وہ مجھ سے بیان کرتا تھا کہ میرا بھائی کہا کرتا تھا کہ ایام جوانی میں جب مرزا صاحب کبھی کبھی امرتسرآتے تھے تو میں ان کو دیکھتا تھا کہ وہ پادریوں کے خلاف بڑا جوش رکھتے تھے ۔اس زمانہ میں عیسائی پادری بازاروں وغیرہ میں عیسائیت کا وعظ کیا کرتے تھے اور اسلام کے خلاف زہر اگلتے تھے ۔مرزا صاحب ان کو دیکھ کر جوش سے بھر جاتے تھے اور ان کا مقابلہ کر تے تھے ۔مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ محمد عظیم اب بھی زندہ ہے اور غالباً وہ مولوی عبدالقادر صاحب احمدی مرحوم لدھیانوی کے تعلق داروں میں سے ہے۔
{ 255} بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جس رات امۃ النصیر پیدا ہوئی ہے حضرت صاحب خود مولوی محمد احسن صاحب کے کمرے کے دروازے پر آئے اور دستک دی ۔ مولوی محمد احسن صاحب نے پوچھا کون ہے ؟حضرت صاحب نے فرمایا ’’غلام احمد‘‘ ۔مولوی صاحب نے جھٹ اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت نے جواب دیا کہ میرے ہاں لڑکی پیدا ہو ئی ہے اور اس کے متعلق مجھے الہام ہوا ہے کہ غاسق اللّٰہ ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ غاسق اللہ سے مراد یہ ہے کہ جلد فوت ہو جانیوالا ۔ چنانچہ وہ لڑکی جلد فوت ہو گئی ۔
{ 256} بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک شخص گوجرانولہ کا باشندہ محمد بخش تھانہ دار ہوتا تھا جو سلسلہ کا پرلے درجہ کا معاند تھا اور ہر وقت عداوت پر کمر بستہ رہتا تھا ۔یہ شخص ۱۸۹۳ء سے بٹالہ کے تھانہ میں متعین ہوا اور پھر کئی سال تک اسی جگہ رہا ۔چونکہ قادیان بٹالہ کے تھانہ میں ہے اس لئے اسے شرارت کا بہت اچھا موقعہ میسر آگیا ۔چنانچہ اس نے اپنے زمانہ میں کوئی دقیقہ ایذا رسانی اور مخالفت کا اُٹھا نہیں رکھا ۔ حفظ امن کا مقدمہ جو ۱۸۹۹ء میں فیصلہ ہوا اسی کی رپورٹ پر ہوا تھا ۔آخر یہ شخص طاعون سے ہلاک ہوا اور خدا کی قدرت ہے کہ اب اس کا لڑکا بڑا مخلص احمدی ہے ۔ان کا نام میاں نیاز محمد صاحب ہے جو علاقہ سندھ میں تھانہ دار ہیں ۔
(خاکسار بوقت ایڈیشن ثانی کتاب ھٰذا عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی ۔ ایم ۔ ایس نے جو میاں نیا زمحمد صاحب کے صاحبزادے ہیں ۔بیان کیا ہے کہ ان کے دادا دراصل ابتداء میں ایسے مخالف نہ تھے مگر بٹالہ آکر بعض لوگوں کے بہکانے میں آکر زیادہ مخالف ہو گئے۔ لیکن پھر آخری بیماری میں اپنی مخالفت پر کچھ نادم نظر آتے تھے۔ نیز ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان کے دادا کی وفات طاعون سے نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ ہاتھ کے کاربنکل سے ہوئی تھی خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے حقیقۃ الوحی میں طاعون سے مرنا بیان کیا ہے۔ سو اگر ڈاکٹر صاحب کی اطلاع درست ہے تو چونکہ ان دنوں میں طاعون کا زور تھا اس لئے ممکن ہے کہ کسی نے ہاتھ کے پھوڑے کی وجہ سے اس بیماری کو طاعون سے تعبیر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیان کر دیا ہو۔ واللّٰہ اعلم )
{ 257} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ اپنی جماعت کے افراد کی مذہبی حالت کا مطالعہ کرتے رہتے تھے مگر جب آپ کسی میں کوئی اعتقادی یا عملی یا اخلاقی نقص دیکھتے تھے تو عموماً اسے مخاطب فرما کر کچھ نہ کہتے تھے بلکہ موقعہ پا کر کسی پبلک تقریر یا گفتگو میں ایسی طرز کو اختیار فرماتے تھے جس سے اسکی اصلاح مقصود ہوتی تھی اور پھر اسے مناسب طریق پر کئی موقعوں پر با ربار بیان فرماتے تھے ۔اور جماعت کی اصلاح اندرونی کے متعلق آپ کو ازحد فکر رہتا تھا اور اس کے لئے آپ مختلف طریق اختیار فرماتے رہتے تھے اور زیادہ زور دعائوں پر دیتے تھے اور بعض اوقات فرماتے تھے کہ جو باپ اپنے بچے کو ہر حرکت و سکون پر ٹوکتا رہتا ہے اور ہر وقت پیچھے پڑ کر سمجھاتا رہتا ہے اور اس معاملہ میں حد سے بڑھ کر احتیاط کر تا ہے وہ بھی ایک گونہ شرک کر تا ہے کیونکہ وہ گویا اپنے بچہ کا خدا بنتا ہے اور ہدایت اور گمراہی کو اپنی نگرانی کے ساتھ وابستہ کرتا ہے حالانکہ دراصل ہدایت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اسے چاہئیے کہ عام طور پر اپنے بچے کی حفاظت کرے اور زیادہ زور دعا پر دے ۔اور خدا سے اسکی ہدایت مانگے ۔نیز حضرت صاحب کا یہ دستور تھا کہ ہدایت کے معاملہ میں زیادہ فکر جڑ کی کرتے تھے اور شاخوں کا ایسا خیال نہ فر ماتے تھے کیونکہ حضور فرماتے تھے کہ اگر جڑ درست ہو جاوے تو شاخیں خودبخود درست ہو جاتی ہیں ۔ چنانچہ فرماتے تھے کہ اصل چیز تو دل کا ایمان ہے جب وہ قائم ہوجا تا ہے تو اعمال خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ حضور کے پاس بعض لوگ ایسے آتے جاتے ہیں جنکی داڑھیاں منڈھی ہوتی ہیں فرمایا تمہیں پہلے ڈاڑھی کی فکر ہے مجھے ایمان کی فکر ہے ۔نیز فرماتے تھے کہ جو شخص سچے دل سے ایمان لاتا ہے اور مجھ کو واقعی خدا کا بھیجا ہوا سمجھتا ہے وہ جب دیکھے گا کہ میں داڑھی رکھتا ہوں تواس کا ایمان اس سے خود داڑھی رکھوائے گا ۔اخلاق پر حضور بہت زور دیتے تھے اور اخلاق میں سے خصوصاً محبت، تواضع ،حلم و رفق ،صبر اور ہمدردی خلق اللہ پر آپ کا بہت زور ہوتا تھا اور تکبر ،سنگ دلی ، سخت گیری اور درشتی کو بہت بُرا سمجھتے تھے ۔ تنعم و تعیش سے سخت نفرت تھی اور سادگی اور محنت کشی کو پسند فرماتے تھے ۔
{ 258} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کا م کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہو گیا ۔میر صاحب نے ناراض ہو کر اندر حضرت صاحب کو جا اطلاع دی۔ مولوی محمد علی صاحب کو اسکی اطلاع ہو ئی تو انہوں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ ہم لوگ یہاں حضور کی خاطر آئے ہیں کہ تا حضور کی خدمت میں رہ کر کوئی خدمت دین کا موقعہ مل سکے لیکن اگر حضور تک ہماری شکائتیں اس طرح پہنچیں گی تو حضور بھی انسان ہیں ممکن ہے کسی وقت حضور کے دل میں ہماری طرف سے کوئی بات پیدا ہو توا س صورت میںہمیں بجائے قادیان آنے کا فائدہ ہونے کے اُلٹا نقصان ہو جائیگا ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب نے مجھ سے کچھ کہا تو تھا مگر میں اس وقت اپنے فکروں میں اتنا محو تھا کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلو م نہیں کہ میر صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں کہا ۔پھر آپ نے فرمایا کہ چند دن سے ایک خیال میرے دماغ میں اس زور کے ساتھ پیدا ہو رہا ہے کہ اس نے دوسری باتوں سے مجھے بالکل محو کر دیا ہے بس ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے وہی خیال میرے سامنے رہتا ہے ،میں باہر لوگوں میں بیٹھا ہوتا ہوں اور کوئی شخص مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو اس وقت بھی میرے دماغ میں وہی خیال چکر لگا رہا ہوتا ہے ۔وہ شخص سمجھتا ہو گا کہ میں اسکی بات سن رہا ہوں مگر میں اپنے اس خیال میں محو ہوتا ہوں ۔جب میں گھر جاتا ہوں تو وہا ں بھی وہی خیال میرے ساتھ ہوتا ہے ۔غرض ان دنوں یہ خیال اس زور کے ساتھ میرے دماغ پر غلبہ پائے ہوئے ہے کہ کسی اور خیال کی گنجائش نہیں رہی ۔وہ خیال کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ میرے آنے کی اصل غرض یہ ہے کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو جاوے جو سچی مومن ہو اور خدا پر حقیقی ایمان لائے اور اسکے ساتھ حقیقی تعلق رکھے اور اسلام کو اپنا شعار بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر کاربند ہواوراصلاح و تقویٰ کے رستے پر چلے اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ قائم کرے تا پھر ایسی جماعت کے ذریعہ دنیا ہدایت پاوے اور خد اکا منشا ء پورا ہو۔ پس اگر یہ غرض پوری نہیں ہوتی تو اگر دلائل و براہین سے ہم نے دشمن پر غلبہ بھی پالیا اور اس کو پوری طرح زیر بھی کر لیا تو پھر بھی ہماری فتح کوئی فتح نہیں کیونکہ اگر ہماری بعثت کی اصل غرض پوری نہ ہوئی تو گویا ہمارا سارا کام رائیگاں گیا مگر میں دیکھ رہاہوں کہ دلائل و براہین کی فتح کے تو نمایاں طور پر نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور دشمن بھی اپنی کمزوری محسوس کر نے لگا ہے لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے اسکے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے پس یہ خیال ہے جو مجھے آجکل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہو رہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا ۔
{ 259} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ جب مولو ی عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت کی خبر آئی تو ایک طرف تو حضرت صاحب کو سخت صدمہ پہنچا کہ ایک مخلص دوست جدا ہو گیا اور دوسری طرف آپکو پرلے درجہ کی خوشی ہوئی کہ آپ کے متبعین میں سے ایک شخص نے ایمان و اخلاص کا یہ اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ سخت سے سخت دکھ اور مصائب جھیلے اور بالآخر جان دیدی مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
{ 260} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جس وقت مولوی عبداللطیف صاحب واپس کا بل جانے لگے تو وہ کہتے تھے کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں اب زندہ نہیں رہوں گا۔ میری موت آن پہنچی ہے اور وہ حضرت صاحب کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھتے تھے ۔جب رخصت ہونے لگے اور حضرت صاحب ان کو آگے چھوڑنے کیلئے کچھ دور تشریف لے گئے تو وہ رخصت ہوتے ہوئے حضرت صاحب کے قدموں پر گر گئے اور زار زار روئے۔حضرت صاحب نے ان کو اُٹھنے کیلئے کہا اور فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر وہ آپ کے قدموں پر گرے رہے آخر آپ نے فرمایا اَ لْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ اس پر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی حسرت کے ساتھ حضرت صاحب سے رخصت ہوئے ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان دنوں میں چونکہ قادیان میں ریل نہیں آئی تھی۔ آمد و رفت کے لئے بٹالہ اور قادیان کے درمیان کا کچا رستہ استعمال ہوتا تھا۔ اور حضرت صاحب بعض خاص خاص دوستوں کو رخصت کرنے کے لئے اسی راستہ کے موڑ تک یا بعض اوقات نہر تک پیدل چلے جاتے تھے۔)
{ 261} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے شیخ یعقوب علی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنے والد صاحب کو مندرجہ ذیل خط لکھا تھا ۔
’’ حضرت والد مخدوم من سلامت ! مراسم غلامانہ وقواعد فدویا نہ بجا آوردہ معروض حضرت والا میکند چونکہ دریں ایام برأی العین می بینم و بچشم سر مشاہدہ میکنم کہ در ہمہ ممالک وبلاد ہر سال چناں وبائے مے افتدکہ دوستاں را از دوستاں و خویشاں را از خویشاںجدا میکند و ہیچ سالے نہ می بینم کہ ایں نائرہ عظیم و چنیں حادثہ الیم در آں سال شور قیامت نیگفند ۔ نظر برآں دل از دنیا سرد شدہ و رو از خوف جان زرد ۔و اکثر ایں دو مصرع مصلح الدین سعدیؒ شیر ازی بیادمی آیند و اشک حسرت ریختہ مے شود ؎
مکن تکیہ بر عمرنا پا ئیدار
مباش ایمن از بازیٔ روز گار
و نیز ایں دو مصرع ثانی از دیوان فرخ قادیانی نمک پاش جراحت دل میشود ؎
بدنیائے دوں دل مبنداے جواں
کہ وقت ِاجل میر سد ناگہاں
لہٰذا میخو اہم کہ بقیہ عمر در گوشۂ تنہائی نشینم و دامن از صحبت مردم بچینم و بیاد ا و سبحانہ مشغول شوم مگر گذشتہ راعذرے و مافات ر ا تدا ر کے شود ؎
عمر بگذشت و نماند است جز ا یامے چند
بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند
کہ دنیا رااساسے محکم نیست و زندگی را اعتبار ے نے وَاَیِسَ مَنْ خَافَ عَلٰی نَفْسِہٖ مِنْ آفَتِ غَیْرِہٖ
والسلام
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے شیخ صاحب سے دریافت کیا تھاکہ آپ نے یہ روایت کہاں سے لی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مرزا سلطان احمدؐ صاحب نے مجھے چند پرانے کا غذات دیئے تھے جن میں سے حضرت کی یہ تحریر نکلی تھی ۔لیکن خاکسار کی رائے میں اگر حضرت صاحب کی صرف تحریر ملی ہے تو اس سے یہ استدلال ضروری نہیں ہوتا کہ آپ نے یہ خط اپنے والد صاحب کے پیش بھی کیا تھا بلکہ خط کے نیچے دستخط اور تاریخ کا نہ ہونا اس شبہ کو قوی کرتا ہے ۔
{ 262} بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب کی دائی کا نام لاڈو تھا اور وہ ہا کو نا کو بروالوں کی ماں تھی ۔جب میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ بہت بوڑھی ہو چکی تھی ۔مرزا سلطان احمدؐبلکہ عزیز احمد کو بھی اسی نے جنایا تھا ۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس سے اپنی پیدائش کے متعلق کچھ شہادت بھی لی تھی ۔ اپنے فن میں وہ اچھی ہو شیار عورت تھی۔ چنانچہ ایک دفعہ یہاں کسی عورت کے بچہ پھنس گیا اور پیدا نہ ہوتا تھاتو حضرت صاحب نے فرمایا تھاکہ لاڈو کو بلا کر دکھائو۔ہو شیار ہے چنانچہ اسے بلایا گیا تو اللہ کے فضل سے بچہ آسانی سے پیدا ہو گیا ۔مگر والدہ صاحبہ کہتی تھیں کہ تم میں سے کسی کی پیدائش کے وقت اسے نہیں بلایا گیا ۔کیونکہ بعض وجوہات سے اس پر کچھ شبہ پیدا ہو گیا تھا ۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ عزیز احمد کی پیدائش کے وقت جب لاڈو آئی تو ان دنو ں میں اسے خارش کی مرض تھی ۔چنانچہ اس سے عزیز احمد کو خارش ہو گئی اور پھر آہستہ آہستہ تمہارے تایا کے گھر میں اکثر لوگوں کو خارش ہو گئی اور آخر ادھر سے ہمارے گھر میں بھی خارش کا اثر پہنچا ۔چنانچہ حضرت صاحب کو بھی ان دنوں میں خارش کی تکلیف ہو گئی تھی ۔
{ 263} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ کا نام نصرت جہاں بیگم ہے اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ ان کا مہر میر صاحب کی تجویز پر گیارہ سو روپیہ مقرر ہواتھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے نانا جان صاحب کا نام میر ناصر نواب ہے ۔میر صاحب خواجہ میر درد صاحب دہلوی کے خاندان سے ہیں ۔اور پنجاب کے محکمہ نہر میں ملازم تھے ۔اور قریباً عرصہ پچیس سال سے پنشن پر ہیں ۔ شروع شروع میں میر صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی کچھ مخالفت کی تھی ۔لیکن جلد ہی تائب ہو کر بیعت میں شامل ہو گئے ۔
{ 264} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ پٹیالہ میں خلیفہ محمدحسین صاحب وزیر پٹیالہ کے مصاحبوں اور ملا قاتیوں میں ایک مولوی عبد العزیز صاحب ہوتے تھے ۔جو کرم ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے ۔ان کا ایک دوست تھا ۔ جو بڑا امیر کبیر اور صاحب جائیداد تھا اور لاکھوں روپے کا مالک تھا ۔مگر اس کے کوئی لڑکا نہ تھا ۔جو اُس کا وارث ہوتا۔ اس نے مولوی عبد العزیز صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب سے میرے لئے دعا کرواؤ کہ میرے لڑکا ہو جاوے ۔مولوی عبد العزیز نے مجھے بلا کر کہا کہ ہم تمہیں کرایہ دیتے ہیں ۔تم قادیان جاؤ اور مرزا صاحب سے اس بارہ میں خاص طور پر دعا کے لئے کہو ۔چنانچہ میں قادیان آیا اور حضرت صاحب سے سارا ماجرا عرض کر کے دعا کے لئے کہا ۔آپ نے اس کے جواب میں ایک تقریر فرمائی جس میں دعا کا فلسفہ بیان کیا اور فرمایا کہ محض رسمی طور پر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دینے سے دعا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ایک خاص قلبی کیفیت کا پیداہوناضروری ہوتا ہے۔جب آدمی کسی کے لئے دعا کرتا ہے توا س کے لئے ان دو باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہوتا ہے یا تو اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا گہرا تعلق اور رابطہ ہو کہ اس کی خاطر دل میں ایک خاص درد اور گداز پیدا ہو جائے جو دعا کے لئے ضروری ہے اور یا اس شخص نے کوئی ایسی دینی خدمت کی ہو کہ جس پر دل سے اس کے لئے دعا نکلے ۔مگر یہاں نہ تو ہم اس شخص کو جانتے ہیں اور نہ اس نے کوئی دینی خدمت کی ہے کہ اس کے لئے ہمارا دل پگھلے ۔پس آپ جا کر اسے یہ کہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے ایک لاکھ روپیہ دے یا دینے کا وعدہ کرے ۔ پھر ہم اس کے لئے دعا کریں گے ۔اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ پھر اللہ اسے ضرور لڑکا دے دیگا ۔ میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جا کر یہی جواب دیا ۔مگر وہ خاموش ہو گئے ۔اور آخر وہ شخص لاولد ہی مر گیا ۔اور اس کی جائیداد اس کے دور نزدیک کے رشتہ داروں میں کئی جھگڑوں اورمقدموں کے بعد تقسیم ہو گئی۔
{ 265} بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔بیان کیامجھ سے میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے کہ ابھی حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر صرف دو تین ماہ ہی گذرے تھے کہ میں ایک دو اور دوستوں کے ساتھ بٹالہ میں مولوی محمدحسین بٹالوی سے ملنے گیا ۔میری غر ض یہ تھی کہ مولوی محمد حسین سے باتوں باتوں میںحضرت صاحب کی عمر کے متعلق سوال کروں کیونکہ ان دنوں میں آپ کی عمر کے متعلق بہت اعتراض تھا ۔خیر میں گیا اور مولوی صاحب کے دروازے پر آواز دی ۔ مولوی محمد حسین نیچے آئے اور مسجد میں آکر ملاقات کی ۔میرا ارادہ تھا کہ مولوی صاحب کو اپنا احمدی ہونا ظاہر نہ کروں گا ۔لیکن مولوی صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ کہاں جاتے ہو؟تو مجھے نا چار قادیان کا نام لینا پڑا ۔اور مولوی صاحب کو معلوم ہو گیا کہ میں احمدی ہوں ۔خیر میں نے مولوی صاحب سے گفتگو شروع کی اور کہا کہ مولوی صاحب اور نہیں تو آپ کم از کم وفات مسیح ناصری کے تو قائل ہو ہی گئے ہو نگے ۔مولوی صاحب نے سختی سے کہا کہ نہیں میں تو مسیح کو زندہ سمجھتا ہوں ۔خیر اس پر گفتگو ہوتی رہی ۔پھر میں نے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ آپ تو حضرت مرزا صاحب کے پرانے واقف ہونگے ۔ مولوی صاحب نے کہا ہاںمیں توجوانی سے جانتا ہوں اور میں اور مرزا صاحب بچپن میں ہم مکتب بھی تھے ۔ اور پھر اس کے بعد ہمیشہ ملاقات رہی ۔میں نے کہا آپ اور مرزا صاحب ہم عمر ہی ہوں گے ۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ نہیں مرزا صاحب مجھ سے تین چار سال بڑے تھے۔میں نے سادگی کا چہرہ بنا کر پو چھا کہ مولوی صاحب آپ کی اس وقت کیا عمر ہے؟ مولوی میرے داؤکو نہ سمجھا اور بولا کہ ۷۳۔۷۴سال کی ہے ۔ میں نے دل میں الحمدللہ کہا اور جلدی ہی گفتگو ختم کر کے اُٹھ آیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فخرالدین صاحب مذکور نے خدا کی قسم کھا کر یہ روایت بیان کی تھی۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمدحسین نے اپنے اُس خط میں جس کی اشاعت آئینہ کمالات اسلام میں ہو چکی ہے اپنی پیدائش کی تاریخ ۱۷محرم ۱۲۵۶ھ بیان کی ہے ۔اس طرح اگر حضرت صاحب کو مولوی محمد حسین صاحب سے چار سال بڑا مانا جاوے تو آپ کی تاریخ پیدائش ۱۲۵۲ھ بنتی ہے ۔ اور ناظرین کو یاد ہوگا کہ اسی کتاب میں دوسری جگہ (دیکھو روایت نمبر ۱۸۵) خاکسار نے ایک اور جہت سے یہی تاریخ پیدائش ثا بت کی تھی سو الحمدللہ کہ اس کا ایک شاہد بھی مل گیا اور مجھے یہ یاد پڑتا ہے کہ حضرت صاحب بھی فر مایا کرتے تھے کہ مولوی محمد حسین سے میں تین چار سال بڑا ہوں ۔ایک اور بھی بات ہے کہ۱۸۹۴ء میں حضرت صاحب نے آتھم کے مقابلہ پر ایک اشتہار میں اپنی عمرساٹھ سال بیان کی تھی ۔اس سے بھی آپ کی عمر وفات کے وقت۷۴۔۷۵سال بنتی ہے۔
{ 266} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ مجھے وہ لوگ جو دنیا میں سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں بہت ہی پیارے لگتے ہیں ۔
{ 267} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاںعبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’مرضیٔ مولا از ہمہ اولیٰ ‘‘۔ (یعنی خدا کی رضا سب سے مقدم ہونی چاہئے)
{ 268} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاںعبد اللہ صاحب سنوری نے کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہو گئی اوراُن کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے گھر میں دو لڑکیا ں رہتی ہیں ان کو میں لاتا ہوں آپ اُن کو دیکھ لیں ۔پھر اُن میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کر دی جاوے ۔چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دو لڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کردیا ۔اور پھر اندر آکر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں ۔چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے اُن کو دیکھ لیا اور پھر حضرت صاحب نے اُن کو رخصت کر دیا اور اس کے بعد میاں ظفر احمد صاحب سے پو چھنے لگے کہ اب بتائو تمہیں کو ن سی لڑکی پسند ہے ۔وہ نام تو کسی کا جانتے نہ تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے ۔اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا پھر آپ خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے ۔پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہو تا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عموماً بد نما ہو جاتا ہے لیکن گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے ۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت حضرت صاحب اور میاں ظفر احمد صاحب اور میرے سوا اور کو ئی شخص وہاں نہ تھا ۔اور نیز یہ کہ حضرت صاحب ان لڑکیوں کو کسی احسن طریق سے وہاں لائے تھے ۔اور پھر ان کو مناسب طریق پر رخصت کر دیا تھا ،جس سے ان کو کچھ معلوم نہیں ہو ا۔مگر ان میں سے کسی کے ساتھ میاں ظفر احمدصاحب کا رشتہ نہیں ہوا ۔یہ مدت کی بات ہے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے نبیوں میں خوبصورتی کا احساس بھی بہت ہوتا ہے۔ دراصل جو شخص حقیقی حُسن کو پہچانتا اور اس کی قدر کرتا ہے وہ مجازی حسن کو بھی ضرور پہچانے گا اور اس کے مرتبے کے اندر اندر اس کی قدر کر ے گا۔آنحضرت ﷺ کے متعلق احادیث میں روایت آتی ہے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار میں سے کسی لڑکی کے ساتھ شادی کر نے کا ارادہ کیا اور آپ ؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ بغیر دیکھے کے شادی نہ کرنا ۔بلکہ پہلے لڑکی کو دیکھ لینا کیونکہ انصار لڑکیوں کی آنکھ میں عموماً نقص ہو تا ہے ۔ایک اور صحابی جابر ؓ سے جس نے ایک بیوہ عورت سے شادی کی تھی ۔مگر وہ خود ابھی نوجوان لڑکا تھا ۔آپ ؐ نے فرمایا ’’ میاں کسی باکرہ لڑ کی سے کیوں نہ شادی کی جو تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم اس کے ساتھ کھیلتے ‘‘ ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں کچھ کام کرنا ہوتا ہے ان کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کی خانگی زندگی میں ہر جہت سے ایسے سامان مہیا ہوں جواُن کیلئے راحت سکون اور اطمینان کا موجب ہوں تا کہ ان کے بیرونی کام کا بوجھ ہلکا کر نے میں یہ خانگی راحت و سکون کسی قدر سہارے کا کام دے سکے ۔
{ 269} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب میں نے ایک واقعی ضرورت پر نکاح ثانی کا قصد کیا۔تو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ جب کہیں موقعہ ملے جلد اس قلعہ میںداخل ہو جانا چاہیے اور زیدو بکر کی پروا نہ کرنی چاہیے ۔
{ 270} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب ہر چیز میں خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے اور فرماتے تھے اَللّٰہُ جَمِیْلٌ وَیُحِبُّ الْجَمَال -
{271} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے یہ اشتہار دیا کہ کوئی غیر مذہب کا پیرو یا مخالف اگر نشان دیکھنا چاہتا ہے تو میرے پاس آکر رہے ۔ پھر اگر نشان نہ دیکھے تو میں اسے اتنا انعام دونگا ۔تو ایک دن حضرت صاحب مجھے فرمانے لگے کہ ہم نے اشتہار دے دیکر بہت بلا یا ہے مگر کوئی نہیں آتا۔آجکل بٹالہ میں پادری وائٹ بریخٹ ہیں ۔ آپ اُن کے پاس جائیں اور ایک متلاشی ٔ حق کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کریں اور کہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ایسا ایسا اشتہار دیا ہے ،آپ ضرور چل کر اُن کا مقابلہ کر یں ۔آپ کیلئے کوئی مشکل بھی نہیں ہے ۔قادیان یہاں سے صرف چند میل کے فاصلہ پر ہے۔اگر مرزا صاحب اس مقابلہ میں ہار گئے ۔تو میں بلا عذر حق کو قبول کر لوں گا اور اور بھی بہت سے لوگ حق کو قبول کر لیں گے اور حضر ت صاحب نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی اُسے کہنا کہ جھوٹے کو اُس کے گھر تک پہنچانا چاہیے ۔یہ ایک بڑا نادر موقعہ ہے ۔مرزا صاحب نے بڑا شور مچا رکھا ہے ۔ آپ اگر ان کو شکست دیدیں گے اور ان سے انعام حاصل کر لیں گے تو یہ ایک عیسائیت کی نمایاں فتح ہو گی اور پھر کو ئی مسلمان سامنے نہیں بو ل سکے گا وغیرہ وغیرہ ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں جس وقت حضرت صاحب نے یہ مجھ سے فرمایا اس وقت شام کا وقت تھا اور بارش ہو رہی تھی اور سردیوں کے دن تھے ۔اس لئے میاں حامد علی نے مجھے روکا کہ صبح چلے جانا مگر میں نے کہا کہ جب حضرت صاحب نے فرمایا ہے تو خواہ کچھ ہو میں تو ابھی جائوں گا چنانچہ میں اسی وقت پیدل روانہ ہو گیا اور قریباً رات کے دس گیارہ بجے بارش سے تر بتر اور سردی سے کانپتا ہوا بٹا لہ پہنچا اور اسی وقت پادری مذکور کی کوٹھی پر گیا وہاں پادری کے خانسامہ نے میری بڑی خاطر کی اور مجھے سونے کیلئے جگہ دی اور کھانا دیا اور بہت آرام پہنچایا اور وعدہ کیا کہ صبح پادری صاحب سے ملاقات کرائو ں گا ۔چنانچہ صبح ہی اس نے مجھے پادری سے ملایا۔ اس وقت پادری کے پا س اس کی میم بھی بیٹھی تھی ۔میں نے اسی طریق پر جس طرح حضرت صاحب نے مجھے سمجھایا تھا ۔اس سے گفتگو کی مگر اس نے انکا رکیا اور کہا کہ ہم ان باتوں میں نہیں آتے ۔میں نے اسے بہت غیرت دلائی اور عیسائیت کی فتح ہو جانے کی صورت میں اپنے آپ کو حق کے قبول کر لینے کے لئے تیار ظاہر کیا مگروہ انکار ہی کرتا چلا گیا ۔ آخر مَیں مایوس ہو کر قادیان آگیا اور حضرت صاحب سے سارا قصہ عرض کردیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ غالباً سلسلہ بیعت سے پہلے کا ہے ۔
{ 272} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ انبالہ کے ایک شخص نے حضرت صاحب سے فتویٰ دریافت کیا کہ میری ایک بہن کنچنی تھی اس نے اس حالت میں بہت سا روپیہ کمایا پھر وہ مر گئی اور مجھے اس کا ترکہ ملا مگر بعد میں مجھے اللہ تعالیٰ نے توبہ اور اصلاح کی توفیق دی۔ اب میں اس مال کو کیا کروں؟حضرت صاحب ؑ نے جواب دیا کہ ہمارے خیال میں اس زمانہ میں ایسا مال اسلام کی خدمت میںخرچ ہو سکتا ہے اور پھر مثال دے کر بیان کیا کہ اگر کسی شخص پر کوئی سگِ دیوانہ حملہ کرے اور اس کے پاس اس وقت کوئی چیزاپنے دفاع کیلئے نہ ہو نہ سوٹی نہ پتھر وغیرہ صرف چند نجاست میں پڑے ہو ئے پیسے اس کے قریب ہوں تو کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے ان پیسوں کو اٹھا کر اس کتے کو نہ دے مارے گا اور اس وجہ سے رک جاوے گا کہ یہ پیسے ایک نجاست کی نالی میں پڑے ہو ئے ہیں ہر گز نہیں۔ پس اسی طرح اس زمانہ میں جو اسلام کی حالت ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ اس روپیہ کو خدمت اسلام میں لگا یا جاسکتا ہے ۔میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس زمانہ میں جب کی یہ بات ہے آج کل والے انگریزی پیسے زیادہ رائج نہ تھے بلکہ موٹے موٹے بھدے سے پیسے چلتے تھے جن کو منصوری پیسے کہتے ہیں ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس زمانہ میں خدمت اسلام کیلئے بعض شرائط کے ماتحت سودی روپیہ کے خرچ کئے جانے کا فتویٰ بھی حضرت صاحب نے اسی اصول پر دیا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فتویٰ وقتی ہے اور خاص شرائط کے ساتھ مشروط ہے ۔ وَمَنِ اعْتَدٰی فَقَدْ ظَلَمَ وَحَارَبَ اللّٰہ ـ
{273} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اَلاستقامۃ فوق الکرامۃِ -
{274} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضر ت مسیح موعود ؑ فرماتے تھے کہ سؤر سے مسلمانوں کو سخت نفرت ہے ۔جو طبیعت کا ایک حصہ بن گئی ہے ۔اس میں یہ حکمت ہے کہ خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان اگر چاہے تو تما م منہیّات سے ایسی ہی نفرت کر سکتا ہے اور اسے ایسی ہی نفرت کر نی چاہیے ۔
{ 275} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ آتھم کے مباحثہ میں مَیں بھی موجود تھا -جب حضرت صاحب نے اپنے آخری مضمون میں یہ بیان کیا کہ آتھم صاحب نے اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں آنحضرت ﷺکو(نعوذ باللہ ) دجّال کہا ہے۔ تو آتھم نے ایک خوف زدہ انسان کی طرح اپنا چہرہ بنایا ۔ اور اپنی زبان باہر نکال کر کانوں کیطرف ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ میں نے یہ کہا ں لکھا ہے یاکب لکھا ہے یعنی نہیں لکھا ۔
{ 276} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے لدھیانہ والے مباحثہ میں مَیں موجود تھا ۔حضرت صاحب الگ اپنے خادموں میں بیٹھ جاتے تھے اور مولوی محمد حسین الگ اپنے آدمیوں میں بیٹھ جاتا تھا اور پھر تحریری مباحثہ ہوتا تھا ۔میں نے دوران ِ مباحثہ میں کبھی حضرت صاحب اور مولوی محمد حسین کو آپس میں زبانی گفتگو کر تے نہیں سنا ۔ان دنوں میں لدھیانہ میں بڑا شور تھا ۔مولوی محمد حسین کے ملنے والوں میں ایک مولوی نظام الدین صاحب ہوتے تھے جو کئی حج کر چکے تھے ۔اور طبیعت ظریف رکھتے تھے وہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ ؑ نے خلاف ِ قرآن شریف وفات مسیح کا یہ کیا عقیدہ نکالا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ’’ میں نے قرآن شریف کے خلاف کچھ نہیں کہا۔بلکہ میں تو اب بھی تیار ہوں کہ اگر کوئی شخص قرآن سے حیات مسیح ؑ ثابت کر دے ۔تو فوراً اپنے عقیدہ سے رجوع کر لوں گا ۔مولوی نظام الدین نے خوش ہو کر کہا کہ کیا واقعی آپ ؑ قرآن شریف کی آیات کے سامنے اپنے خیالات کو ترک کر دیں گے ؟ حضرت صاحب نے کہا۔ ہاںمیں ضرور ایسا کروں گا۔ مولوی نظام الدین نے کہا ۔اچھا پھر کیا ہے ۔میں ابھی مولوی محمد حسین کے پاس جاتا ہوں ۔اور پچاس آیتیں قرآن کریم کی حیات مسیح ؑ کے ثبوت میں لکھوا لاتا ہوں ۔ حضرت صاحب ؑ نے فرمایا پچاس کی ضرورت نہیں۔میں تو اگر ایک آیت بھی نکل آئے گی تو مان لونگا ۔اس پر مولوی نظام الدین خوشی خوشی اٹھ کر چلے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد سر نیچے ڈالے واپس آئے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کیوں مولوی صاحب آپ آیتیںلے آئے ۔مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب سے جاکر یہ کہا تھا کہ مولوی صاحب !میں نے مرزا صاحب کو بالکل قابو کر لیا ہے اور یہ اقرار کر وا لیا ہے کہ اگر میں قرآن کر یم کی ایک آیت بھی ایسی پیش کر دوں جس میں حیات مسیح ؑ ثابت ہو تو وہ مان لیں گے اور اپنے عقائد سے توبہ کر لیں گے ۔مگر میں نے انہیں کہا تھا کہ ایک آیت کیا میں پچاس آیتیں لاتا ہوں۔سو آپ جلد آیتیں نکال دیں تا میں ابھی ان کے پاس جا کر اُن سے توبہ کر الوں ۔اس پر مولوی صاحب نے سخت برہم ہو کرکہا کہ اے اُلّو! تم نے یہ کیا کیا۔ ہم تو اسے قرآن سے نکال کرحدیثوں کی طرف لاتے ہیں اور تم اسے پھر قرآن کی طرف لے آئے ۔میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! تو کیا قرآن میں کو ئی آیت مسیح ؑ کی حیات ثابت نہیں کرتی ؟ مولوی صاحب نے کہا تم تو بے وقوف ہو ۔اسے حدیثوں کی طرف لانا تھا کیونکہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔مولوی نظام الدین نے کہا کہ میں نے کہا کہ ہم تو پھر قرآن کے ساتھ ہیں ۔جب قرآن سے مسیح ؑ کی وفات ثابت ہو تی ہے تو ہم اس کے مخالف حدیثوں کو کیا کریں ۔اس پر مولوی صاحب نے مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں اور کہا کہ تو بے وقوف ہے تجھے سمجھ نہیں وغیرہ وغیرہ ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد مولوی نظام الدین صاحب نے حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ اوّل میں یہ واقعہ بیان کر کے یہ بات زائد بیان کی ہے کہ مولوی نظام الدین صاحب نے یہ بھی سنایا کہ جب میں نے مولوی محمد حسین صاحب سے یہ کہا کہ ہم تو پھر قرآن کے ساتھ ہیں تو مولوی صاحب نے سخت برہم ہو کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو ۔( پیر صاحب لکھتے ہیں کہ مولوی نظا م الدین صاحب کو مولوی محمد حسین کی طرف سے روٹی ملا کرتی تھی )اس پر میں نے ہاتھ باندھ کر مولوی محمد حسین سے (ظرافت کے طور پر )کہا کہ مولوی صاحب میں قرآن کو چھوڑ دیتا ہوں ۔خدا کے واسطے میری روٹی نہ بند کرنا ۔اس پر مولوی محمد حسین صاحب سخت شرمندہ ہوئے ۔
پیر صاحب نے لکھا ہے کہ جب مولوی نظام الدین نے عملاً اسی طرح ہاتھ باندھ کر اس مکالمہ کو حضرت صاحب کے سامنے دہرایا تو حضرت صاحب بہت ہنسے اور پھر فرمانے لگے کہ دیکھو ان مولویوں کی حالت کہاں تک گر چکی ہے نیز میاں عبداللہ صاحب سنوری بیان کرتے تھے کہ میں پہلے مولوی محمد حسین بٹالوی کا بڑا معتقد ہو تا تھا اور اس کے پاس جاکر ٹھہر ا کرتا تھا پھر حضرت صاحب کی ملاقات کے بعد بھی جب کبھی مجھے حضرت صاحب مولوی محمد حسین کے پا س کو ئی خط وغیر ہ دے کر بھیجتے تھے تو میں اس سے اسی عقیدت کے ساتھ ملتا تھا ۔لیکن جب اس نے حضرت صاحب کی مخالفت کی تو مجھے اس سے نفرت ہو گئی ۔اور میں نے کبھی اس کی صورت تک دیکھنی پسند نہیں کی ۔
خاکسارنے میاں عبداللہ صاحب سے دریافت کیا کہ مخالفت سے پہلے مولوی محمد حسین کا حضرت صاحب کے ساتھ کیسا تعلق تھا ۔آیا ایک عام برابری کا ساتعلق تھا یا وہ حضرت صاحب کے ساتھ عقیدت اور اخلاص رکھتا تھا ۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ وہ حضرت صاحب سے عقیدت رکھتا تھا ۔چنانچہ جب کبھی کوئی حضرت صاحب کا کام ہوتا تو وہ شوق اور اخلاص سے کرتا تھا اور اس کی باتوں سے پتہ لگتا تھا کہ اس کے دل میں آپ کی محبت اور ادب ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ براہین احمدیہ پر جو مولوی محمد حسین نے ریویو لکھا تھا اس سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ مخالفت سے پہلے مولوی محمد حسین حضر ت مسیح موعود ؑ کے ساتھ کافی عقیدت رکھتا تھا ۔یہ ریویو بڑا مبسوط و مکمل ہے اور اپنے حجم کے لحاظ سے گویا ایک مستقل کتاب کہلانے کا حق دار ہے۔
{ 277} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈیٹر اشاعت السنۃ نے حضر ت مسیح موعود ؑ کی تصنیف براہین احمدیہ پر جو ریویو لکھا تھا اس کے بعض فقرے درج ذیل کرتا ہوں ۔
’’ ہماری رائے میں یہ کتاب (یعنی براہین احمدیہ حصہ اوّل و دوم و سوم و چہارم مصنّفہ حضرت مسیح موعود ) اس زمانہ میں موجودہ حالا ت کی نظر سے ایسی کتا ب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہو ئی۔اور آئندہ کی خبر نہیں ۔ لَعَلَّ اللّٰہُ یُحدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا۔(یَقُوْلُ الْعَبْدُ الفقیرُ البشیرُ وَ قَدْ صَدَقَ اللّٰہُ قَوْلَ ھٰذَا الْمَوْلَوِی وَاَحْدَث بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا عَظِیمًا اِذْ جَعَلَ مُصَنِّفَ ھٰذَا الکِتٰبِ اَلْمَسِیْحَ الْمَوْعُوْدَ وَ الْمَھْدِیَّ الْمَعْھُوْدَ وَ جَعَلَہٗ اِمَاماً عَدْلًا اَلَّذِیْ مَلَاَئَ الْاَرْضَ قِسْطًا بَعْدَ مَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَّ اِثْمًا وَ نَالَ الْاِیْمَانَ مِنَ الثُّرَیَا وَ کَسَرَ الصَّلِیْبَ وَ حَارَبَ الدَّجَّالَ فَقَتَلَہٗ وَلٰکِنْ یٰحَسْرَۃً عَلٰی الْعِبَادِ مَا یَا تِیْھِمْ مِنْ رَسُولٍ اِلَّاکَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِؤُنَ) اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی وجانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصر ت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ۔ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم از کم کو ئی ایسی کتاب بتاوے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصو صاً فرقہ آریہ و برہم سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایاجاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی و جانی قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بیٹرا اُٹھا لیا ہو ۔اور مخالفین اسلام و منکرین الہام کے مقا بلہ میں مردانہ تحدّی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کا تجربہ و مشاہدہ کر ے اور اس تجربہ و مشاہدہ کا اقوام غیر کو مزہ بھی چکھا دیا ہو۔ مؤلّف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی اور شرح ملا پڑھتے تھے ) ہمارے ہم مکتب ۔اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری رہی ہے ۔اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لائق ہے۔ مؤلّف براہین احمدیہ نے مسلمانوں کی عزت رکھ دکھائی ہے ،اور مخالفین اسلا م سے شرطیں لگا لگا کر تحدّی کی ہے ۔اور یہ منادی اکثر روئے زمین پر کردی ہے کہ جس شخص کو اسلام کی حقّانیت میںشک ہو وہ ہمارے پاس آئے۔ اے خدا ! اپنے طالبوں کے رہنما!ان پر ان کی ذات سے ان کے ماں باپ سے تمام جہاں کے مشفقوں سے زیادہ رحم فرما (یعنی رحم فرمانے والے) تو اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کے برکات سے ان کو مالا مال کر دے اور کسی اپنے صالح بندے کے طفیل اس خاکسار شرمسار گنہگار کو بھی اپنے فیوض اور انعامات اور اس کتاب کی اخص برکا ت سے فیضیاب کر ۔آمین وللارض من کاس الکرام نصیب’’یعنی بڑے لوگوں کے جام سے ان کی جام نوشی کے وقت زمین پر بھی کچھ شراب گر جاتا ہے ۔کیونکہ وہ بوجہ کثرت شراب کے بے پرواہی سے شراب پیتے ہیں اور اس کے تھوڑے بہت گر جانے اور ضائع ہو جانے کی ان کو پروا نہیں ہوتی ۔پس اے اللہ! ہم کو بھی حضر ت مرزا صاحب کی جام نوشی کے وقت تیری شراب سے جو تو نے انکو دی ہے او ر نہیں تو صرف اسی قدر حصہ مل جاوے جو بوقت مے نوشی زمین پر گر کر ضائع ہو جایا کرتا ہے ۔خاکسار مؤلف ‘‘
دیکھو اشاعۃ السنہ جلد ۶
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعو دؑ نے مولوی محمدحسین کے اس ریویو کا اپنے عربی اشعار مندرجہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ذکر کیا ہے ۔آپ فرماتے ہیں۔
ایا را شقی قد کنت تمدح منطقی
وتثنی علیّ بالفۃٍ و تو قّر
اے مجھ پرتیر چلانے والے کوئی زمانہ تھا کہ تو میرے کلام کی تعریف کرتا تھا اور محبت کے ساتھ میری ثنا کرتا تھا اور میری عزت کرتا تھا
وللّٰہ درّک حین قرظت مخلصًا
کتابی وصرت لکل ضال مخفّر
اورکیا ہی اچھا تھا حال تیرا جبکہ تو نے اخلاص کے ساتھ میری کتاب کا ریویولکھااور تو گمراہوں کو ہدایت کی پناہ میں لانے والا تھا
وانت الذی قد قال فی تقریظہ
کمثل المولّف لیس فینا غضنفر
کہ تُو وہی تو ہے جس نے اپنے ریویو میں کہا تھا کہ براہین احمدیہ کے مؤلف جیسا کوئی شیر بہادر ہم میں نہیں ہے
عرفت مقامی ثم انکرت مدبراً
فما الجھل بعد العلم ان کنت تشعر
تو نے میرے مقام کو پہچانا مگر پھر انکار کر دیااور پیٹھ پھیر لی لیکن ذرا خیال تو کر کہ علم کے بعد جہالت کی کیا حقیقت ہوتی ہے
کمثلک مع علم بحالی وفطنۃٍ
عجبت لہ یبغی الھدیٰ ثم یا طر
تیرے جیسا شخص جو میرے حالات کو خوب جانتا ہے تعجب ہے کہ وہ ہدایت پر آکرپھر راہ راست چھوڑ دے
قطعت وداداً قد غر سناہ فی الصبا
و لیس فوادی فی الوداد یقصّر
تو نے محبت کے اس درخت کو کاٹ دیا جو ہم نے نو جوانی میں لگایا تھامگر میرے دل نے محبت میں کوئی کو تا ہی نہیں کی
علی غیر شیئٍ قلتَ ماقلت عجلۃً
وواللہ انی صادق لا ازوّر
تو نے میرے متعلق جو جلد بازی سے کہا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے اور خدا کی قسم میں صادق ہوں جھوٹا نہیں ہوں
{ 278} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے ۱۸۹۰ء کے اواخر میں فتح اسلام تصنیف فرمائی تھی اور اس کی اشاعت شروع ۱۸۹۱ء میں لدھیانہ میں کی گئی۔ یہ وہ پہلا رسالہ ہے ۔ جس میں آپ ؑ نے اپنے مثیل مسیح ہونے اورمسیح ناصری کی وفات کا ذکر کیا ہے۔ گویا مسیح موعودؑ کے دعویٰ کا یہ سب سے پہلا اعلان ہے ۔بعض لوگ جو بیان کرتے ہیںکہ حضرت صاحب نے مسیح موعودؑ کے دعوے کے متعلق سب سے پہلے ایک اشتہار دیا تھا ۔میری تحقیق میں یہ غلطی ہے۔ سب سے پہلا اعلان فتح اسلام کے ذریعے ہوا اور وہ اشتہار جس کی سرخی یہ ہے ۔ لِیھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَ مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍ فتح اسلام کی اشاعت کے بعد دیا گیا تھا۔بلکہ یہ اشتہار تو فتح اسلام کے دوسرے حصہ توضیح مرام کی اشاعت کے بھی بعدشائع کیا گیا تھا ۔جیسا کہ خود اس اشتہار کو پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے پس اشتہار کو دعویٰ مسیحیت کے متعلق ابتدائی اعلان سمجھنا جیسا کہ پیر سراج الحق صاحب نے اپنے رسالہ تذکرۃ المہدی میں اور غالباًاُن کی اتباع میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی نے اپنے رسالہ سیرت مسیح موعودؑمیں شائع کیا ہے ایک صریح غلطی ہے ۔ حق یہ ہے کہ دعویٰ مسیحیت کے متعلق سب سے پہلا پبلک اعلان فتح اسلام کے ذریعہ ہوا ۔اس کے بعد توضیح مرام کی اشاعت ہوئی پھر بعض اشتہارات ہوئے اور پھر ازالہ اوہام کی اشاعت ہوئی ۔ایک اور بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ فتح اسلام میں مسیح موعودؑ ہونے کا دعویٰ اور وفات مسیح کا عقیدہ بہت صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوئے ۔ اور نہ یہ اعلان ایسی صورت میں ہوا ہے کہ جو ایک انقلابی رنگ رکھتا ہو ۔جس سے ایسا سمجھا جاوے کہ گویا اب ایک نیا دور شروع ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔بلکہ محض سلسلہ کلام میں یہ باتیں بیان ہو گئی ہیں ۔ نہ پوری صراحت ہے نہ تحدّی ہے نہ ادلّہ ہیں ۔اس کے بعد توضیح مرام میں زیادہ وضاحت ہے اور پھر بالآخر ازالہ اوہام میں یہ باتیں نہایت زور شور کے ساتھ معہ ادلّہ بیان کی گئی ہیں۔ میں نے اس کی بہت تلاش کی کہ کوئی ایسا ابتدائی اعلان ملے کہ جس میں مثلاً ایک نئے انکشاف کے طور پر حضرت صاحب نے یہ اعلان کیا ہو کہ مجھے اللہ نے بتایا ہے کہ مسیح ناصری فوت ہوچکا ہے اور آنے والا موعود مسیح موعود میں ہوں ۔یعنی کوئی ایسا رنگ ہوجو یہ ظاہر کرے کہ اب ایک نئے دور کا اعلان ہوتا ہے ۔مگر مجھے ایسی صورت نظر نہیں آئی ۔بلکہ سب سے پہلا اعلان رسالہ فتح اسلام ثابت ہوا ۔مگر اسے دیکھا گیا ۔تو ایسے رنگ میں پایا گیا جو اوپر بیان ہوا ہے یعنی اس میں یہ باتیں ایسے طور پر بیان ہوئی ہیں کہ گویا کوئی نیا دور اور نیا اعلان نہیں ہے بلکہ اپنے خداداد منصب مجددیت کا بیان کرتے ہوئے یہ باتیں بھی سلسلہ کلام میں بیان ہو گئی ہیں ۔جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت صاحب کو اپنے مسیح موعودہونے کے متعلق الہامات تو شروع سے ہی ہو رہے تھے صرف ان کی تشریح اب ہوئی تھی۔
{279} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ مسیحیت اور وفات مسیح ناصری کے عقیدہ کا اعلان کیا تو ملک میں ایک سخت طوفان بے تمیزی بر پا ہو گیا ۔اس سے پہلے بھی گو مسلمانوں کے ایک طبقہ میں آپ کی مخالفت تھی لیکن اوّل تو وہ بہت محدود تھی ۔دوسرے وہ ایسی شدید اورپُر جوش نہ تھی لیکن اس دعویٰ کے بعد تو گویا ساری اسلامی دنیا میں ایک جوش عظیم پیدا ہو گیا۔اور حضرت مسیح موعودؑ کو اوّل لدھیانہ میں پھر دہلی میں اورپھر لاہور میںپرزور مباحثات کرنے پڑے مگر جب مولویوں نے دیکھا ۔کہ حضرت مسیح موعودؑ اس طرح مولویوں کے رعب میں آنے والے نہیں اور لوگوں پر آپ کی باتوں کا اثر ہوتا جاتا ہے ۔تو سب سے پہلے مولوی محمد حسین بٹالوی نے ایک استفتاء تیار کیا ۔اور اس میں حضرت مسیح موعود کے متعلق علماء سے فتویٰ کفر کا طالب ہوا ۔ چنانچہ سب سے پہلے اس نے اپنے استاد مولوی سیدنذیر حسین صاحب دہلوی سے فتویٰ کفر حاصل کیا ۔چونکہ مولوی نذیر حسین تمام ہندوستان میں مشہور و معروف مولوی تھے ۔اور اہل حدیث کے تو گویا امام تھے اور شیخ الکل کہلاتے تھے ۔اس لئے ان کے فتویٰ دینے سے اور پھر مولوی محمد حسین جیسا مشہور مولوی مستفتی تھا ۔باقی اکثر مولویوں نے بڑے جوش و خروش سے اس کفر نامے پر اپنی مہریں ثبت کرنی شروع کیں ۔اور قریباً دو سو مولویوں کی مہر تصدیق سے یہ فتویٰ ۱۸۹۲ء میں شائع ہوا اور اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی ۔کہ مسیح موعود ؑ پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے گا ۔
{ 280} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے عالم شباب کے زمانہ قیام سیالکوٹ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی کی تصنیف حیاۃ النبی سے مولوی میرحسن صاحب سیالکوٹی کی روایت دوسری جگہ (یعنی نمبر ۱۵۰پر)درج کی جا چکی ہے۔ اس روایت کے متعلق میں نے مولوی صاحب موصوف کو سیالکوٹ خط لکھا تھا ۔ مولوی صاحب نے اس کی تصدیق کی اور مجھے اپنی طرف سے اس کی روایت کی اجازت دی ۔اس کے علاوہ میری درخواست پر مولوی صاحب موصوف نے انہی ایام کے بعض مزید حالات بھی لکھ کر مجھے ارسال کئے ہیں۔جو میں درج ذیل کرتا ہوں ۔مولوی صاحب لکھتے ہیں ۔
’’حضرت مخدوم زادہ والا شان سمو المکان زادالطافکم‘‘۔
بعد از سلام مسنون عرض خدمت والا یہ ہے کہ چند در چند عوائق و موانع کے باعث آپ کے ارشاد کی تعمیل میں دیر واقع ہوئی امید ہے آپ معاف فرمائیں گے ۔چونکہ عرصہ دراز گذر چکا ہے ۔اور اس وقت یہ باتیں چنداں قابل توجہ اور التفات نہیں خیال کی جاتی تھیں ۔اس واسطے اکثر فراموش ہو گئیں ۔جو یاد کرنے میں بھی یاد نہیں آتیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہو جاتا ہے۔کہ حضرت اپنے ہرقول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔فقط
راقم جناب کا ادنیٰ نیاز مند میر حسن ۔۲۶نومبر۱۹۲۲ء
سیرت کی جلد اول تھوڑے دنوں میں روانہ خدمت کر دوں گا ۔فقط۔‘‘(اس سے مراد شیخ یعقوب علی صاحب کی تصنیف ہے ۔ جو میں نے مولوی صاحب کو بھجوائی تھی۔اور جس کی روایت کی اپنے دوسرے خط میں انہوں نے تصدیق کی ہے ۔خاکسار)حضرت مسیح موعود ؑ کے حالات کے متعلق مولوی صاحب اپنے اسی خط میں یوں رقمطراز ہیں ۔
’’حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میںجو اس عاصی پُر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے ۔عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے ۔کچہری سے جب تشریف لاتے تھے ۔تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے ۔ بیٹھ کر ،کھڑے ہو کر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے ۔اور زار زار رویا کرتے تھے ۔ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔حسب عادت زمانہ صاحب ِ حاجات جیسے اہل کاروں کے پاس جاتے ہیں ۔ان کی خدمت میں بھی آجایا کرتے تھے ۔اسی عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل دین نام کو جو فی الجملہ محلہ میں موقر تھا ۔آپ بلا کر فرماتے ۔ میاں فضل دین ان لوگوں کو سمجھا دوکہ یہاں نہ آیا کریں ۔نہ اپنا وقت ضائع کیا کریں اور نہ میرے وقت کو بر باد کیا کریں ۔ میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ میں حاکم نہیں ہوں ۔ جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے ۔کچہری میں ہی کر آتا ہوں ۔فضل دین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقرّبین میں شمار کئے گئے ۔
اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمع منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے ۔وہ (یعنی منصب علی خاکسار مؤلف)وثیقہ نویسی کے عہدہ پر ممتاز تھے ۔بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل دین نام بوڑھے دو کاندار تھے جو رات کو بھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے ۔۔ان کے اکثر احباب شام کے بعد ان کی دکان پر آجاتے تھے ۔چونکہ شیخ صاحب پارسا آدمی تھے ۔اس لئے جو وہاں شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے ۔کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہِ گاہِ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے ۔ آجایا کرتے تھے ۔مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہو جاتی تھی۔ مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے ۔
مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مر تاض شخص تھے۔مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے۔اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے ۔کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو ۔چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے۔
جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا ۔تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے ۔کہ انسان کو خود سعی اور محنت کرنی چاہیے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰)۔مولوی محبوب علی صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے ۔ کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی۔
دینیات میںمرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے ۔مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ ؑ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہو چکی تھی۔
اس کا مفصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہل کار گھروں کو واپس ہونے لگے ۔تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا ۔ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں ۔ آخر ایک شخص بلّا سنگھ نام نے کہا۔کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں ۔مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے ۔آخر شیخ الہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے ۔اور یہ امر قرار پایاکہ یہاں سے شروع کر کے اس پُل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حدِّ فاصل ہے ۔ننگے پاؤں دوڑو۔جوتیاں ایک آدمی نے اُٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پُل پر بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پُل پر پہنچا ۔مرزا صاحب اور بِلا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے ۔اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے ۔جب پُل پر پہنچے ۔تو ثابت ہو ا کہ مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات دینی غیرت دنیاوی باتوں میں بھی رونما ہوتی ہے ۔چنانچہ مشہور ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید کے پاس کسی نے یہ بات پہنچائی ۔کہ فلاں سکھ سپاہی اس بات کا دعویٰ رکھتا ہے کہ کوئی شخص تیرنے میں اس کا مقابلہ نہیںکر سکتا ۔اس پر شہید مرحوم کو غیرت آگئی اور اسی وقت سے انہوں نے تیرنے کی مشق شروع کر دی ۔اور بالا ٓخر اتنی مہارت پیداکرلی کہ پہروں پانی میں پڑے رہتے تھے ۔اور فرماتے تھے۔کہ اب وہ سکھ میرے ساتھ مقابلہ کر لے ۔گویا ان کو یہ گوارا نہ ہوا ۔کہ ایک غیر مسلم تیرنے کی صفت میں بھی مسلمانوں پر فوقیت رکھے ۔حالانکہ یہ ایک معمولی دنیاوی بات تھی ۔سو معلوم ہوتا ہے ۔کہ اس وقت بھی ایسے رنگ میں گفتگو ہوئی ہو گی ۔ کہ حضرت مسیح موعودؑ کو بلا سنگھ کے مقابلہ میں غیرت آگئی اور پھر عالم بھی شباب کا تھا۔
{ 281} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا ہم سے شیخ یعقوب علی صاحب تراب عرفانی نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فر مارہے تھے ۔اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا ۔اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیںدیا اُس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سُنا نہیں ۔دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا ۔ مگر آپؑ نے پھر بھی توجہ نہیں کی۔اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا۔کہ حضور ؑ پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا ۔آپؑ نے فرمایا ۔ ’’ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے ۔اور ہمیں سلام کرتا ہے۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ وہ عشق تھا کہ جس کی مثال نظر نہیں آتی ۔
{ 282} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جس وقت حضرت مسیح موعودؑ فوت ہوئے۔تو بہت سے ہندو اور عیسائی اخباروں نے آپ ؑ کے متعلق نوٹ شائع کئے تھے ۔چنانچہ نمونۃً ہندوستان کے ایک نہایت مشہور و معروف انگریزی اخبار ’’پا ئنیر ‘‘الہ آباد کی رائے کا اقتباس درج ذیل کرتا ہوں ۔’’پائنیر‘ ‘ کے ایڈیٹر اور منیجر اور مالک سب انگریز عیسائی ہیں ۔’’پائنیر ‘‘نے لکھا کہ :۔
’’اگر گذشتہ زمانہ کے اسرائیلی نبیو ں میں سے کوئی نبی عالم بالا سے واپس آکر اس زمانہ میں دنیا کے اندر تبلیغ کرے تو وہ بیسویں صدی کے حالات میں اس سے زیادہ غیر موزوں معلوم نہ ہوگا۔جیسا کہ مرزا غلام احمد خان قادیانی تھے ۔(یعنی مرزا صاحب کے حالات اسرائیلی نبیوں سے بہت مشابہت رکھتے تھے ۔ مؤلف)۔۔۔۔۔ ہم یہ قابلیت نہیں رکھتے کہ ان کی عالمانہ حیثیت کے متعلق کوئی رائے لگا سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا ۔اور وہ کامل صداقت اور خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے۔کہ ان پر کلام الہٰی نازل ہوتا ہے اور یہ کہ ان کو ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ایک مرتبہ انہوں نے بشپ ویلڈن کو چیلنج دیا (جس نے اس کو حیران کر دیا)کہ وہ نشان نمائی میں ان کا مقابلہ کرے ۔یہ چیلنج اسی طریق پر تھا ۔جیسا کہ الیاس نبی نے بَعل کے پروہتوں کو چیلنج دیا تھا ۔اور مرزا صاحب نے اس مقابلہ کا یہ نتیجہ قرار دیا کہ یہ فیصلہ ہو جائیگا۔کہ سچا مذہب کون سا ہے اور مرزا صاحب اس بات کے لئے تیار تھے ۔کہ حالاتِ زمانہ کے ماتحت پادری صاحب جس طرح چاہیں اپنا اطمینان کر لیں کہ نشان دکھانے میں کوئی دھوکہ اور فریب استعمال نہ ہو۔ وہ لوگ جنہوں نے مذہب کے رنگ میں دنیا کے اندر ایک حرکت پیدا کر دی ہے وہ اپنی طبیعت میں مرزا غلام احمدخان سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں ۔بہ نسبت مثلاً ایسے شخص کے جیسا کہ اس زمانہ میں انگلستان کا لاٹ پادری ہوتا ہے ۔اگر ارنسٹ رین (فرانس کا ایک مشہور مصنف ہے ۔مؤلف)۔گذشتہ بیس سال میں ہندوستان میں ہوتا ۔تو وہ یقینا مرزا صاحب کے پاس جاتااور ان کے حالات کا مطالعہ کرتا ۔جس کے نتیجہ میں انبیا ء بنی اسرائیل کے عجیب و غریب حالات پر ایک نئی روشنی پڑتی ۔بہر حال قادیا ن کا نبی ان لوگوں میں سے تھا ۔جو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے۔‘‘
{ 283} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ جب سلطان احمد پیدا ہوا ۔ اس وقت ہماری عمر صرف سولہ سال کی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ عمر کے متعلق حضرت صاحب کے سب اندازے ہی ہیں ۔کوئی یقینی علم نہیں ہے ۔پس آپؑ کی تاریخ پیدائش اور عمر کے متعلق اگر کوئی قابل اعتماد ذریعہ ہے تو یہی ہے کہ مختلف جہات سے اس سوال پر غور کیا جاوے ۔ اور پھر اُن کے مجموعی نتیجہ سے کوئی رائے قائم کی جاوے کسی منفرد کڑی سے اس سوال کا حل مشکل ہے۔خود حضرت صاحب کی اپنی تحریرا ت اس معاملہ میںایک دوسرے کے مخالف پڑتی ہیں ۔کیونکہ وہ کسی قطعی علم پر مبنی نہیں ہیں ۔بلکہ محض اندازے ہیں ۔جو آپ ؑ نے لگائے ہیں جیسا کہ آپؑ نے خود براہین احمدیہ حصہ پنجم میں بیان فرمادیا ہے ۔خاکسار کی تحقیق میں آپؑ کی تاریخ پیدائش ۱۲۵۲ھ کی نکلتی ہے۔واللّٰہ اعلم۔
{ 284} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا حضرت خلیفہ ثانی نے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول ؓ کاا یک رشتہ دار جو ایک بھنگی ،چرسی اور بد معاش آدمی تھا ۔قادیان آیا۔اور اس کے متعلق کچھ شبہ ہوا ۔کہ وہ کسی بدارادے سے یہاں آیا ہے اور اس کی رپورٹ حضرت صاحب تک بھی پہنچی ۔آپ ؑ نے حضرت خلیفہ اول ؓ کو کہلا بھیجا ۔کہ اسے فوراً قادیان سے رخصت کر دیں ۔لیکن جب حضرت خلیفہ اول ؓ نے اسے قادیان سے چلے جانے کو کہا ۔تو اس نے یہ موقع غنیمت سمجھا ۔اور کہا ۔اگر مجھے اتنے روپے دے دو گے تو میں چلا جاؤں گا۔حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ جتنے روپے وہ مانگتا تھا اس وقت اتنے روپے حضرت خلیفہ اولؓ کے پاس نہ تھے اس لئے آپؓ کچھ کم دیتے تھے ۔اسی جھگڑے میں کچھ دیر ہو گئی ۔چنانچہ اس کی اطلاع پھر حضرت صاحب تک پہنچی وہ ابھی تک نہیں گیا۔اور قادیان میں ہی ہے اس پر حضرت صاحب ؑ نے خلیفہ اول ؓ کو کہلا بھیجا کہ یا تو اسے فوراً قادیان سے رخصت کردیں یا خود بھی چلے جاویں ۔حضرت مولوی صاحبؓ تک جب یہ الفاظ پہنچے ۔تو انہوں نے فوراً کسی سے قرض لے کر اُسے رخصت کر دیا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ کے نبی جہاں ایک طرف محبت اور احسان اور مروّت کا بے نظیر نمونہ ہوتے ہیں ۔وہاں دوسری طرف خدا کی صفت استغناء کے بھی پورے مظہر ہوتے ہیں ۔حضرت خلیفہ اوّلؓ کا یہ رشتہ دار آپ ؓ کا حقیقی بھتیجا تھا ۔اور اس کا نام عبد الرحمن تھا ۔ایک نہایت آوارہ گرد اور بد معاش آدمی تھا ۔اور اس کے متعلق اس وقت یہ شبہ کیا گیا تھا۔کہ ایسا نہ ہو کہ یہ شخص قادیان میں کسی فتنہ عظیمہ کے پیدا کرنے کا موجب ہو جائے۔
{ 285} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ راولپنڈی سے ایک غیراحمدی آیا ۔جو اچھا متموّل آدمی تھا۔اور اس نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ میرا فلاں عزیز بیمار ہے ۔ حضورؑ حضرت مولوی نور الدین ؓ صاحب (خلیفہ اوّل )کو اجازت دیں کہ وہ میرے ساتھ راولپنڈی تشریف لے چلیں اور اس کا علاج کریں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر مولوی صاحب کو یہ بھی کہیں کہ آگ میں گھس جاؤیا پانی میں کود جاؤتو ان کو کوئی عذر نہیں ہو گا ۔لیکن ہمیں بھی مولوی صاحب کے آرام کا خیال چاہیے ۔ان کے گھر میں آج کل بچہ ہونے والا ہے ۔اس لئے میں ان کو راولپنڈی جانے کے لئے نہیں کہہ سکتا۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں ۔کہ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ حضرت صاحب کا یہ فقرہ بیان کرتے تھے ۔اور اس بات پر بہت خوش ہوتے تھے ۔کہ حضرت ؑ صاحب نے مجھ پر اس درجہ اعتماد ظاہر کیا ہے۔
{ 286} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے چو ہدری حاکم علی صاحب نے۔ ایک دفعہ حضرت صاحبؑ بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے ۔کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا ۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے ۔اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ اگر حضرت صاحب کی اجازت ہوتی۔تو اُس کی وہیں تکا بوٹی اُڑ جاتی ۔مگر آپ ؑ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔آخر جب اس کی فحش زبانی حد کو پہنچ گئی ۔تو حضرت ؑصاحب نے فرمایا۔کہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں ۔اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ سرکار انگریزی کی طرف سے قادیان میں ایک پولیس کا سپاہی رہا کرتا ہے۔اور ان دنوں حاکم علی نامی ایک سپاہی ہوتا تھا۔
{ 287} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب فرماتے تھے ۔کہ مجھے بعض اوقات غصّہ کی حالت تکلف سے بنانی پڑتی ہے ۔ورنہ خود طبیعت میں بہت کم غصّہ پیدا ہوتا ہے۔
{ 288} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب یہاں ڈھاب میں کنارے پر نہانے لگے ۔مگر پاؤں پھسل گیا۔اور وہ گہرے پانی میں چلے گئے ۔اور پھر لگے ڈوبنے کیونکہ تیرنا نہیں آتا تھا ۔کئی لوگ بچانے کے لئے پانی میں کودے مگر جب کوئی شخص مولوی صاحب کے پاس جاتاتھا ۔ تو وہ اسے ایسا پکڑتے تھے۔کہ وہ خود بھی ڈوبنے لگتا تھا۔اس طرح مولوی صاحب نے کئی غوطے کھائے ۔آخر شاید قاضی امیر حسین ؓصاحب نے پانی میںغوطے لگا لگا کر نیچے سے اُن کو کنارے کی طرف دھکیلا ۔تب وہ باہر آئے ۔جب مولوی صاحب حضرت صاحب ؑ سے اس واقعہ کے بعد ملے تو آپ ؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔مولوی صاحب آپ گھڑے کے پانی سے ہی نہا لیا کریں ۔ ڈھاب کی طرف نہ جائیں ۔پھر فرمایا کہ میں بچپن میں اتنا تیرتا تھاکہ ایک وقت میں ساری قادیان کے ارد گرد تیر جاتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے ارد گرد اتنا پانی جمع ہو جاتا ہے کہ سارا گاؤں ایک جزیرہ بن جاتا ہے ۔
{ 289} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا معاملہ تھا۔مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم مغفور کی تصنیف سیرت مسیح موعودؑ کے مندرجہ ذیل فقرات ایک عمدہ ذریعہ ہیں ۔مولوی صاحب موصوف فر ماتے ہیں۔
’’عرصہ قریب پندرہ برس کا گذرتا ہے ۔جبکہ حضرت صاحب نے بارِ دیگر خدا تعالیٰ کے امر سے معاشرت کے بھاری اور نازک فرض کو اُٹھایا ہے ۔اس اثنا میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو۔وہ ٹھنڈا دل اور بہشتی قلب قابل غور ہے ۔جسے اتنی مدت میں کسی قسم کے رنج اور تنغّص عیش کی آگ کی آنچ تک نہ چھوئی ہو اس بات کو اندرون خانہ کی خدمت گار عورتیں جو عوام الناس سے ہیں ۔اور فطری سادگی اور انسانی جامہ کے سوا کوئی تکلّف اور تصنّع زیر کی اور استنباطی قوت نہیں رکھتیں بہت عمدہ طرح محسوس کرتی ہیں ۔وہ تعجب سے دیکھتی ہیں ۔اور زمانہ اور گردو پیش کے عام عرف اور برتاؤکے بالکل برخلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں ۔اور میں نے بار ہا انہیں خود حیر ت سے کہتے ہوئے سُنا ہے ۔ کہ’’مرجا بیوی دی گل بڑی مَن دا اے‘‘
……اس بد مزاج دوست کا واقعہ سن کر آپ معاشرت نسواں کے بارے میں دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا۔کہ میرا یہ حال ہے ۔کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھااور میں محسوس کرتا تھاکہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے ۔اور باینہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ میں نے منہ سے نہیں نکالا تھا۔اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہااور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیںاور کچھ صدقہ بھی دیا۔کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہٰی کا نتیجہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ حضرت صاحب کی اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے جو ایک نکاح کے متعلق ہے ۔حضرت صاحب کی بیوی صاحبہ مکرمہ نے بارہا رو رو کر دعائیں کی ہیں اور بار ہا خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ گو میری زنانہ فطرت کراہت کرتی ہے ۔مگر صدق دل اور شرح صدر سے چاہتی ہوں ۔کہ خدا کے منہ کی باتیں پوری ہوں ۔ ایک روز دعا مانگ رہی تھیں ۔حضرت صاحبؑ نے پوچھا۔آپ کیا مانگتی ہیں ؟ آپ نے بات سنائی ۔کہ یہ مانگ رہی ہوں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔سوت کا آنا تمہیں کیونکر پسند ہے ۔آپ نے فرمایا۔کچھ ہی کیوں نہ ہو ۔مجھے اس کا پاس ہے کہ آپؑ کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں پوری ہو جائیں ۔‘‘
{ 290} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دینی مشاغل میں ایسی تندہی اور محویت سے مصروف رہتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔اس کی ایک نہایت ادنیٰ مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ جیسے ایک دکاندار ہو۔جو اکیلا اپنی دکان پر کام کرتا ہو۔اور اس کا مال اس کی وسیع دکان میں مختلف جگہ پھیلا ہوا ہو۔اور ایسا اتفاق ہو کہ بہت سے گاہک جو مختلف چیزیں خریدنے کے خیال سے آئے ہوں ۔اس کی دکان پرجمع ہوجائیں۔اور اپنے مطالبات پیش کریں ۔ایسے وقت میں ایک ہوشیار اور سمجھدار دکاندار جس مصروفیت کے ساتھ اپنے گاہکوں کے ساتھ مشغول ہو جائیگا اور اسے کسی بات کی ہوش نہیں رہے گی ۔بس یہی حال مگر ایک بڑے پیمانہ پر حضر ت مسیح موعود ؑ کا نظر آتا تھا ۔اور روز صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لیکر صبح تک آپ ؑ کا وقت اس محو کر دینے والی مصروفیت میں گذر جاتا تھا اور جس طرح ایک مسافر جس کے پاس وقت تھوڑا ہو اور اُس نے ایک بہت بڑی مسافت طے کر نی ہو ۔اپنی حرکات میں غیر معمولی سرعت سے کام لیتا ہے ۔اسی طرح آپ کا حال تھا ۔بسا اوقات ساری ساری رات تصنیف کے کام میں لگا دیتے تھے اور صبح کو پھر کمر کس کر ایک چوکس اور چست سپاہی کی طرح دین خدا کی خدمت میں ایستادہ کھڑے ہو جاتے تھے ۔کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ جو لوگ آپ ؑ کی مدد کیلئے آپؑ کے ساتھ کام کرتے تھے وہ گوباری باری آپ ؑ کے ساتھ لگتے تھے ۔مگر پھر بھی وہ ایک ایک کرکے ماندہ ہو کر بیٹھتے جاتے تھے ۔لیکن یہ خدا کا بندہ اپنے آقا کی خدمت میں نہ تھکتا تھا اور نہ ماندہ ہو تا تھا ۔
{ 291} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اپنی کتاب سیرتِ مسیح موعود ؑ میں لکھتے ہیں کہ :۔
’’ میں نے دیکھا ہے کہ حضرت اقدس نازک سے نازک مضمون لکھ رہے ہیں ۔یہاں تک کہ عربی زبان میں بے مثل فصیح کتابیں لکھ رہے ہیں اور پاس ہنگامۂ قیامت بر پا ہے ۔بے تمیز بچے اور سادہ عورتیں جھگڑ رہی ہیں ۔چیخ رہی ہیں ۔چلّا رہی ہیں ،یہاں تک کہ بعض آپس میں دست و گریبان ہو رہی ہیں ۔اور پوری زنانہ کر تو تیں کر رہی ہیں ۔مگر حضرت صاحب یوں لکھے جا رہے ہیں اور کام میں یوں مستغرق ہیں کہ گویا خلوت میں بیٹھے ہیں ۔یہ ساری لا نظیر اور عظیم الشان عربی ،اردو ،فارسی کی تصانیف ایسے ہی مکانوں میں لکھی ہیں ۔ میں نے ایک دفعہ پوچھا ۔اتنے شور میں حضور کو لکھنے میں یا سوچنے میں ذرا بھی تشویش نہیں ہوتی ؟ مسکرا کر فرمایا ’’ میں سُنتا ہی نہیں تشویش کیا ہو ‘‘۔
{ 292} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ :۔
’’ایک دفعہ اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت صاحب تبلیغ (یعنی آئینہ کمالات اسلام کا عربی حصہ) لکھا کرتے تھے ۔مولوی نورالدین ؓ صاحب تشریف لائے۔حضرت صاحب نے ایک بڑا دو ورقہ مضمون لکھا اور اس کی فصاحت و بلاغت خداداد پرحضر ت صاحب کو ناز تھا اور وہ فارسی ترجمہ کیلئے مجھے دینا تھا مگر یاد نہ رہا اور جیب میں رکھ لیا اور باہر سیر کو چل دیئے ۔مولوی صاحب اور جماعت بھی ساتھ تھی ۔واپسی پر کہ ہنوز راستہ ہی میں تھے ۔مولو ی صاحب کے ہاتھ میں کاغذ دیدیا کہ وہ پڑھ کر عاجز راقم کو دے دیں ۔مولوی صاحب کے ہاتھ سے وہ مضمون گِر گیا ۔واپس ڈیرہ میں آئے اور بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب معمولاً اندر چلے گئے ۔میں نے کسی سے کہا کہ آج حضرت صاحب نے مضمون نہیں بھیجا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور ابھی مجھے ترجمہ بھی کرنا ہے ۔مولوی صاحب کو دیکھتا ہوں تو رنگ فق ہو رہا ہے ۔حضرت صاحب کو خبر ہوئی تو معمولی ہشاش بشاش چہرہ ،تبسم زیر لب تشریف لائے اور بڑا عذر کیا کہ ’’ مولوی صاحب کو کاغذ کے گم ہونے سے بڑی تشویش ہو ئی ۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کی جستجو میں اس قدر تگاپو کیوں کیا گیا ۔میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بہتر عطا فرماویگا۔‘‘
{ 293} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے مولوی سیّد سرور شاہ صاحب نے کہ جن دنوں میںحضرت صاحب نے شروع شروع میں مسیح موعود ؑ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ میں طالب علم تھااور لاہور میں پڑھتا تھا۔ان دنوں میں حضرت مولوی نور الدین صاحبؓحضرت صاحب کو ملنے کے لئے جموں سے آئے ۔ اور راستہ میں لاہور ٹھہرے ۔چونکہ مولوی صاحب کے ساتھ میرے والد صاحب کے بہت تعلقات تھے۔اور وہ مجھے تاکید فر ماتے رہتے تھے۔کہ مولوی صاحب سے ضرور ملتے رہا کرو ۔اس لئے میں مولوی صاحب سے ملنے کے لئے گیا۔مولوی صاحب ان دنوں نمازیں چو نیاں کی مسجد میں پڑھا کرتے تھے ۔ وہاں مولوی صاحب نماز پڑھنے گئے ۔اور حوض پر بیٹھ کر وضو کرنے لگے۔تو اُدھرسے مولوی محمد حسین بٹالوی بھی آگیا۔اور اس نے مولوی صاحب کو دیکھتے ہی کہا۔کہ مولوی صاحب !تعجب ہے کہ آپ جیسا شخص بھی مرزا کے ساتھ ہو گیاہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ مولوی صاحب میں نے تو مرزا صاحب کو صادق اور منجانب اللہ پایا ہے ۔اور میں سچ کہتا ہوں ۔کہ میں نے ان کو یو نہی نہیں مانا۔بلکہ علیٰ وجہ البصیرت مانا ہے۔ اس پر باہم بات ہوتی رہی ۔آخر مولوی محمد حسین نے کہا ۔کہ اب میں آپ کو لاہور سے جانے نہیں دوں گا۔حتّٰی کہ آپ میرے ساتھ اس معاملہ میں بحث کر لیں ۔مولوی صاحب نے فرمایا۔کہ اچھا میں تیار ہوں۔اس پر اگلا دن بحث کے لئے مقرر ہوگیا۔چنانچہ دوسرے دن مولوی صاحب کی مولوی محمد حسین کے ساتھ بحث ہوئی ۔لیکن ابھی بحث ختم نہ ہونے پائی تھی۔کہ مولوی صاحب کو جموں سے مہا راج کا تار آگیا۔کہ فوراً چلے آؤ۔چنانچہ مولوی صاحب فوراً لاہور سے بطر ف لدھیانہ روانہ ہو گئے۔تاکہ حضرت صاحب سے ملاقات کر کے واپس تشریف لے جائیں ۔اس کے کچھ عرصہ بعد میںلاہور سے تعلیم کے لئے دیو بند جانے لگا تو راستہ میں اپنے ایک غیر احمدی دوست مولوی ابراہیم کے پاس لدھیانہ ٹھہرا ۔وہاںمجھے مولو ی ابراہیم نے بتا یا کہ آجکل مرزا صاحب قادیانی یہیں ہیں ۔میں نے اسے کہا کہ مرزا صاحب کی مخالفت بہت ہے اور میرے یہاں لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اس لئے میں تو نہیں جاسکتا لیکن آپ کے ساتھ اپنا ایک طالب علم بھیجے دیتا ہوں جو آپ کو مرزا صاحب کے مکان کا راستہ بتا دیگا ۔چنانچہ میں اکیلا حضرت صاحب کی ملاقات کیلئے گیا ۔جب میں اس مکان پر پہنچا جہاں حضرت صاحب قیام فر ما تھے تو اس وقت آپ اندر کے کمرہ سے نکل کر باہر نشست گاہ میں تشریف لا رہے تھے ۔میں نے مصافحہ کیا اور بیٹھ گیا ۔ اس وقت شاید حضرت صاحب کے پاس شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اور کوئی اور صاحب تھے۔حضرت صاحب سر نیچا کر کے خاموش بیٹھ گئے ۔جیسے کوئی شخص مراقبہ میں بیٹھتا ہے ۔شیخ صاحب نے یا جو صاحب وہاں تھے انگریزی حکومت کا کچھ ذکر شروع کر دیا کہ یہ حکومت بہت اچھی ہے ۔ اور ایک لمباعرصہ ذکر کرتے رہے مگر حضرت صاحب اسی طرح سر نیچے ڈالے آگے کی طرف جھکے ہو ئے بیٹھے رہے اور کچھ نہیں بولے ۔ مگر ایسا معلوم ہو تا تھا کہ آپ سن رہے ہیں ۔ایک موقعہ پر آپ ؑ نے کسی بات پر صرف ہاں یا نہ کا لفظ بولا اور پھر اسی طرح خاموش ہو گئے ۔ مولوی صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ ؑ کا رنگ زرد تھا اور آپ ؑ اتنے کمزور تھے کہ کچھ حد نہیں ۔کچھ دیر کے بعد میں مصافحہ کرکے وہاں سے اُٹھ آیا ۔جب میں مولوی ابراہیم کے مکان پر پہنچا تو اس نے پوچھا کہ کہو مرزا صاحب سے مل آئے ؟ میں نے کہا ’’ ہاں ! مگر لوگوں نے یونہی مخالفت کا شور مچار کھا ہے ۔ مرزاصاحب تو صرف چند دن کے مہمان ہیں بچتے نظر نہیں آتے ‘‘۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اسوقت میرا یہی یقین تھا کہ ایسا کمزور شخص زیادہ عرصہ نہیں زندہ رہ سکتا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ابتدائے دعویٰ کے زمانہ میں چونکہ بیماری کے دوروں کی بھی ابتدا تھی ۔حضرت صاحب کی صحت سخت خراب ہو گئی تھی اور آپ ؑ ایسے کمزور ہو گئے تھے کہ ظاہری اسباب کے رُو سے واقعی صرف چند دن کے مہمان نظر آتے تھے ۔ غالباً انہی دنوں میں حضرت صاحب کو الہا م ہوا کہ تُرَدُّ عَلَیْکَ اَنْوَارَالشَّبَابِ (تذکرہ صفحہ ۵۲۹مطبوعہ ۲۰۰۴) یعنی اللہ فرماتا ہے کہ تیری طرف شباب کے انوار لوٹائے جائیں گے ۔ چنانچہ اس کے بعد گو جیسا کہ دوسرے الہامات میں ذکر ہے ۔یہ بیماری تو آپ کے ساتھ رہی لیکن دوروں کی سختی اتنی کم ہو گئی کہ آپ کے بدن میں پھر پہلے کی سی طاقت آگئی ۔ اور آپ اچھی طرح کا م کرنے کے قابل ہوگئے ۔
{ 294} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے پیر افتخار احمد صاحب نے کہ ایک دفعہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ میں نے دیکھا کہ مرزا نظام الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوچہ بندی میں کھڑے تھے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ڈیوڑھی سے نکلے اور آپ کے ہاتھ میں دو بند لفافے تھے ۔یہ لفافے آپ نے مرزا نظام الدین کے سامنے کر دیئے کہ ان میں سے ایک اٹھا لیں ۔انہوں نے ایک لفافہ اٹھالیا اور دوسرے کو لیکر حضرت صاحب فوراً اندر واپس چلے گئے ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ مجھے حضرت والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لفافے باغ کی تقسیم کے متعلق تھے چونکہ حضرت مسیح موعود ؑ نے باغ کا نصف حصہ لینا اور نصف مرزا سلطان احمدکو جانا تھا ۔اس لئے حضرت صاحب نے اس تقسیم کیلئے قرعہ کی صورت اختیار کی تھی۔اور مرزا نظام الدین مرزا سلطا ن احمد کی طرف سے مختار کار تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس تقسیم کے مطابق باغ کا جنوبی نصف حصہ حضرت صاحب کو آیا اور شمالی نصف مرزا سلطا ن احمد صاحب کے حصہ میں چلا گیا اور حضرت والدہ صاحبہ نے خاکسار سے بیان کیا کہ اس تقسیم کے کچھ عرصہ بعد حضرت صاحب کو کسی دینی غرض کیلئے کچھ روپے کی ضرورت پیش آئی تو آپ ؑ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے تم اپنا زیور دے دو۔میں تم کو اپنا باغ رہن دے دیتا ہوں ۔چنانچہ آپ نے سب رجسٹرار کو قادیان میں بلوا کر باقاعد ہ رہن نامہ میرے نام کروا دیا ۔اور پھر اندر آکر مجھ سے فرمایا کہ میں نے رہن کیلئے تیس سال کی میعاد لکھ دی ہے کہ اس عرصہ کے اندر یہ رہن فک نہیں کروایا جائیگا ۔
خاکسارعر ض کرتا ہے کہ رہن کے متعلق میعاد کو عموماً فقہ والے جائز قرار نہیں دیتے ۔سو اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قول کی اہل فقہ کے قول سے تطبیق کی ضرورت سمجھی جاوے تو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ گو یا حضر ت صاحب نے میعاد کو رہن کی شرائط میں نہیں رکھا ۔بلکہ اپنی طرف سے یہ بات زائد بطور احسان و مروّت کے درج کرا دی ۔کیونکہ ہر شخص کو حق ہے کہ بطو ر احسان اپنی طرف سے جو چاہے دوسرے کو دیدے۔مثلاً یہ شریعت کا مسئلہ ہے کہ اگر کو ئی شخص دوسرے کو کچھ قرض دے تو اصل سے زیادہ واپس نہ مانگے کیونکہ یہ سود ہو جاتا ہے ۔لیکن باینہمہ اس بات کو شریعت نے نہ صر ف جائز بلکہ پسندیدہ قرار دیا ہے کہ ہو سکے تو مقروض روپیہ واپس کرتے ہوئے اپنی خوشی سے قارض کو اصل رقم سے کچھ زیادہ دے دے ۔علاوہ ازیں خاکسار کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ گو شریعت نے رہن میں اصل مقصود ضمانت کے پہلو کو رکھا ہے ۔اور اسی وجہ سے عموماً فقہ والے رہن میں میعاد کو تسلیم نہیں کر تے لیکن شریعت کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ بعض اوقات ایک امر ایک خاص بات کو ملحوظ رکھ کر جاری کیا جاتا ہے ۔مگر بعد اس کے جائز ہو جانے کے اس کے جوازمیں دوسری جہات سے بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔مثلاً سفرمیں نماز کا قصر کر نا دراصل مبنی ہے اس بات پر کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ میں سفروں میں نکلتے تھے تو چونکہ دشمن کی طرف سے خطرہ ہو تاتھا ۔ اس لئے نماز کو چھوٹا کر دیا گیا۔لیکن جب سفر میں ایک جہت سے نماز قصر ہوئی تو پھر اللہ نے مومنوں کیلئے اس قصر کو عام کردیا اور خوف کی شرط درمیان سے اٹھا لی گئی ۔پس گو رہن کی اصل بنیاد ضمانت کے اصول پر ہے لیکن جب اس کا دروازہ کھلا تو باری تعالیٰ نے اس کو عام کر دیا مگر یہ فقہ کی باتیں ہیں جس میں رائے دینا خاکسار کا کا م نہیں ۔
{ 295} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر کئی اخباروں نے آپ کے متعلق اپنی آراء کا اظہارکیا تھا ۔ان میں سے بعض کی رائے کا اقتباس درج ذیل کر تا ہوں
(۱) اخبار’’ ٹائمز آف لنڈن‘‘ نے جو ایک عالمگیر شہرت رکھتا ہے لکھا کہ ’’مرزا صاحب شکل و شباہت میں صاحبِ عزّت و وقار۔وجود میںتاثیر جذبہ رکھنے والے اور خوب ذہین تھے۔ مرزاصاحب کے متبعین میں صرف عوام الناس ہی نہیں بلکہ بہت سے اعلیٰ اور عمدہ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں۔ یہ بات کہ یہ سلسلہ امن پسند اور پابند قانون ہے ۔ اس کے بانی کیلئے قابل فخر ہے۔ ہمیں ڈاکٹر گرسفولڈکی اس رائے سے اتفاق ہے کہ مرزا صاحب اپنے دعاوی میں دھوکا خوردہ تھے ۔دھوکا دینے والے ہر گز نہ تھے ‘‘۔
(۲) ’’ علی گڑھ انسٹیٹیوٹ‘‘ نے جو ایک غیر احمدی پرچہ ہے لکھا کہ ’’ مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا ‘‘۔
(۳) ’’ دی یونیٹی کلکتہ ‘‘ یوں رقمطراز ہو اکہ ’’ مرحوم ایک بہت ہی دلچسپ شخص تھا۔ اپنے چال چلن اور ایمان کے زور سے اس نے بیس ہزار متبع پیدا کر لئے تھے۔ مرزا صاحب اپنے ہی مذہب سے پوری پوری واقفیت نہ رکھتے تھے بلکہ عیسائیت اور ہندو مذہب کے بھی خوب جاننے والے تھے۔ ایسے آدمی کی وفات قوم کیلئے افسوسناک ہے ۔‘‘
(۴) ’’ صادق الاخبار ریواڑی ‘‘ نے جو ایک غیر احمدی پرچہ ہے ۔ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ’’ واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کماحقہ ادا کرکے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم ،حامی ٔ اسلام اور معین المسلمین فاضل اجل عالم بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جاوے ‘‘۔
(۵) ’’ تہذیب نسواں لاہور ‘‘ کے ایڈیٹر صاحب جو ہمارے سلسلہ سے موافقت نہیں رکھتے یوں گویا ہو ئے کہ ’’ مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کر لیتی تھی ۔وہ نہایت باخبر عالم ،بلند ہمت ،مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے ۔ہم انہیں مذہباً مسیح موعود ؑ تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ روحوں کیلئے واقعی مسیحا ئی تھی ۔‘‘
(۶) ’’ اخبار آریہ پتر کا لاہور ‘‘ نے جو ایک سخت معاند آریہ اخبار ہے لکھا کہ ’’ جو کچھ مرزاصاحب نے اسلام کی ترقی کیلئے کیا ہے اسے مسلمان ہی خوب جج کر سکتے ہیں مگر ایک قابل نوٹس بات جو ان کی تصانیف میں پائی جاتی ہے اور جو دوسروں کو بھی معلوم ہو سکتی ہے یہ ہے کہ عام طور پر جو اسلام دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی نسبت مرزا صاحب کے خیالات اسلام کے متعلق زیادہ وسیع اور زیادہ قابل برداشت تھے ۔ مرزا صاحب کے تعلقات آریہ سماج سے کبھی بھی دوستا نہ نہیں ہوئے ۔اور جب ہم آریہ سماج کی گذشتہ تاریخ کو یا دکرتے ہیں تو اُن کا وجود ہمارے سینوں میں بڑا جوش پیدا کرتا ہے ۔‘‘
( ۷) رسالہ ’’ اندر‘‘ لاہور جو آریوں کا ایک اخبار تھا یوں رقمطراز ہوا کہ ’’ اگر ہم غلطی نہیں کرتے تو مرزا صاحب اپنی ایک صفت میں محمد صاحب (ﷺ ) سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور وہ صفت ان کا استقلال تھا ۔خواہ وہ کسی مقصود کو لے کر تھا ۔اور ہم خوش ہیں کہ وہ آخری دم تک اس پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغز ش نہیں کھا ئی ۔ ‘‘
(۸) اخبار ’’ برہمچارک ‘‘ لاہو رنے جو برہمو سماج کا ایک پر چہ ہے ۔مندرجہ ذیل الفاظ لکھے ’’ ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مرزا صاحب کیا بلحاظ لیاقت اور کیا بلحاظ اخلاق و شرافت ایک بڑے پا یہ کے انسا ن تھے ۔‘‘
(۹) ’’ امرتا بازار پترکا‘‘ نے جو کلکتہ کا ایک مشہور بنگالی اخبا رہے لکھا کہ ’’ مرزا صاحب درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے اور سینکڑوں آدمی روزانہ ان کے لنگر سے کھانا کھاتے تھے ۔ان کے مریدوں میں ہر قسم کے لوگ فاضل مولوی با اثر رئیس تعلیم یافتہ امیر سوداگر پائے جاتے ہیں‘‘
(۱۰) ’’ اسٹیٹسمین‘‘ کلکتہ نے جو ایک بڑا نامی انگریزی اخبار ہے لکھا کہ ’’ مرزا صاحب ایک نہایت مشہور اسلامی بزرگ تھے ۔‘‘
{296} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار ’’وکیل ‘‘ امرتسر میں جو ایک مشہور غیر احمدی اخبار ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ایڈیٹر کی طرف سے جو مضمون شائع ہوا تھا ۔اس کا مندرجہ ذیل اقتباس ناظرین کے لئے موجب دلچسپی ہو گا۔اس سے پتا لگتا ہے کہ غیر احمدی مسلمان با وجود حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت کے آپؑ کو اور آپ ؑ کے کام کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔در اصل جو کام آپ ؑنے کیا۔ وہ اس پایہ کا تھاکہ سوائے اس کے کہ کوئی مخالف اپنی مخالفت میں اندھا ہو رہا ہو اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھااور گو وہ اپنے منہ سے آپؑ کو مسیح موعودؑ نہ مانیںلیکن ان کے دل بولتے تھے کہ آپ ؑ کا دم ان کیلئے مسیحائی کا حکم رکھتا ہے ۔غرض ’’وکیل ‘‘نے لکھا کہ۔
’’وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا۔اور زبان جادو۔وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی ۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیڑیاں تھیں ۔وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا ۔جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا۔خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا ۔یہ تلخ موت یہ زہر کا پیالہ موت جس نے مرنیوالے کی ہستی تہِ خاک پنہاں کی ۔ہزاروں لاکھوں زمانوں پر تلخ کا میاں بن کے رہے گی ۔اور قضا کے حملے نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتل عام کیا ہے ۔صدائے ماتم مدتوں اس کی یاد گار تازہ رکھے گی ۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیںکہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے ۔اور مٹانے کیلئے اسے امتداد زمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جاوے۔ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہوہمیشہ دنیا میں نہیں آتے ۔یہ نازش فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں ۔اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھاجاتے ہیں ۔
مرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جواس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا ۔ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کر تے رہے ۔ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پائمال بنائے رکھا ۔آئندہ بھی جاری رہے ۔
مرز اصاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا ۔قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔اس لٹریچر کی قدرو عظمت آج جبکہ وہ اپنا کا م پورا کر چکا ہے ۔ہمیں دل سے تسلیم کر نی پڑتی ہے اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اُڑادیئے ۔جو سلطنت کے سایہ میں ہو نے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اُڑ نے لگا غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنیوالی نسلوں کو گراں بار ِاحسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کر نے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کیطرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا کہ جو اس وقت تک کہ مسلمانو ں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعارقومی کا عنوان نظر آئے ،قائم رہے گا ۔
اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزاصاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت سرانجام دی ہے ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑ تی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جاوے ،ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں ۔
فطری ذہانت ،مشق و مہارت اور مسلسل بحث و مباحثہ کی عادت نے مرزا صاحب میں ایک خاص شان پیدا کر دی تھی ۔اپنے مذہب کے علاوہ مذہب غیرپر ان کی نظر نہایت وسیع تھی اور وہ اپنی ان معلومات کو نہایت سلیقہ سے استعمال کر سکتے تھے۔تبلیغ و تلقین کا یہ ملکہ ان میں پیدا ہو گیا تھا کہ مخاطب کسی قابلیت یا کسی مشرب و ملت کا ہو ان کے برجستہ جواب سے ایک دفعہ ضرور گہرے فکر میں پڑ جاتاتھا۔ہندوستان آج مذاہب کا عجائب خانہ ہے اور جس کثرت سے چھوٹے بڑے مذاہب یہاں موجود ہیں اور باہمی کشمکش سے اپنی موجودگی کا اعلان کرتے رہتے ہیں ۔ اس کی نظیر غالباً دنیا میں کسی او ر جگہ نہیں مل سکتی ۔مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کیلئے حکم وعدل ہوں ۔لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی ان میں بہت مخصوص قابلیت تھی ۔اور یہ نتیجہ تھی ان کی فطری استعداد کا ذوق مطالعہ اور کثرت مشق کا ۔آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں اس طرح مذہب کے مطالعہ میںصرف کر دے ‘‘۔
{ 297} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ اپنی انگریزی کتاب ’’ احمدیہ موومنٹ ‘‘ میں پادری والٹر ایم ۔اے جو و ائی ایم سی اے کے سیکرٹری تھے ۔حضر ت مسیح موعود ؑ کے متعلق مندرجہ ذیل رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔
’’ یہ بات ہر طرح ثابت ہے کہ مرزا صاحب اپنی عادات میں سادہ اور فیاضانہ جذبات رکھنے والے تھے ۔ ان کی اخلاقی جرأت جو انہوں نے اپنے مخالفین کی طرف سے سخت مخالفت اور ایذا رسانی کے مقابلہ میں دکھائی ۔یقینا قابل تحسین ہے۔صرف ایک مقناطیسی جذب اور نہایت خوشگوار اخلاق رکھنے والا شخص ہی ایسے لوگوں کی دوستی اور وفاداری حاصل کر سکتا تھا جن میں سے کم از کم دو نے افغانستان میں اپنے عقائد کی وجہ سے جان دے دی ۔مگر مرزا صاحب کا دامن نہ چھوڑا۔میں نے بعض پُرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہو نیکی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور ان کے جذب اور کھینچ لینے والی شخصیت کو پیش کیا ۔‘‘
{ 298} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب حضر ت صاحب باہر سے اندرونِ خانہ تشریف لے جارہے تھے ۔کسی فقیر نے آپ سے کچھ سوال کیا مگر اس وقت لوگوں کی باتوں میں آپ فقیر کی آواز کو صاف طور پر سن نہیں سکے ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ پھر باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ کسی فقیر نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے ؟ لوگوں نے اسے تلاش کیا مگر نہ پایا ۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ فقیر خود بخود آگیا اور آپ نے اسے کچھ نقدی دے دی اس وقت آپ محسوس کرتے تھے کہ گویا آپ کی طبیعت پر سے ایک بھاری بوجھ اُٹھ گیا ہے ۔اور آپ نے فرمایا کہ میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ ا س فقیر کو واپس لائے ۔
خاکسار عرض کر تا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لوگوں کی باتوں میںملکر فقیر کی آواز رہ گئی اور آپ نے اس طرف توجہ نہیں کی لیکن جب آپ اندر تشریف لے گئے اور لوگوں کی آوازوں سے الگ ہوئے تو اس فقیر کی آواز صاف طور پر الگ ہو کر آپ کے سامنے آئی اور آپ کو اس کی امداد کیلئے بے قرار کر دیا ۔
{ 299} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے کسی حوالہ وغیرہ کا کوئی کام میاں معراج دین صاحب عمر لاہوری اور دوسرے لوگوں کے سپرد کیا۔چنانچہ اس ضمن میں میاں معراج دین صاحب چھوٹی چھوٹی پر چیوں پر لکھ کر بار بار حضرت صاحب سے کچھ دریافت کرتے تھے اور حضرت صاحب جواب دیتے تھے کہ یہ تلاش کرو یا فلاں کتاب بھیجو ۔وغیرہ اسی دوران میں میاں معراج دین صاحب نے ایک پر چی حضرت صاحب کو بھیجی اور حضرت صاحب کو مخاطب کر کے بغیر السلام علیکم لکھے اپنی بات لکھ دی ۔اور چونکہ با ربار ایسی پر چیاں آتی جاتی تھیں ۔اس لئے جلدی میںان کی توجہ اس طرف نہ گئی کہ السلام علیکم بھی لکھنا چاہیے ۔حضرت صاحب نے جب اندر سے اس کا جواب بھیجا تو اس کے شروع میں لکھا کہ آپ کو السلام علیکم لکھنا چاہیے تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپکو اپنی جماعت کی تعلیم وتادیب کا کتنا خیال تھا ۔ اور نظر غور سے دیکھیں تو یہ بات معمولی بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مسلّم سچائی ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں میں ادب و احترام اور آداب کا خیال نہ رکھا جاوے تو پھر آہستہ آہستہ بڑی باتوں تک اس کا اثر پہنچتا ہے اور دل پر ایک زنگ لگنا شروع ہو جا تا ہے ۔علاوہ ازیں ملاقات کے وقت السلا م علیکم کہنا اور خط لکھتے ہوئے السلام علیکم لکھنا شریعت کا حکم بھی ہے ۔‘‘
نیز خاکسا رعر ض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ دستور تھا کہ آپ اپنے تمام خطوط میں بسم اللہ اور السلام علیکم لکھتے تھے ۔اور خط کے نیچے دستخط کر کے تاریخ بھی ڈالتے تھے ۔میں نے کو ئی خط آپ کا بغیر بسم اللہ اورسلام اور تاریخ کے نہیں دیکھا۔اور آپ کو سلام لکھنے کی اتنی عادت تھی کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ ایک دفعہ کسی ہندو مخالف کو خط لکھنے لگے تو خود بخود السلام علیکم لکھا گیا ۔جسے آپ نے کا ٹ دیا ۔لیکن پھر لکھنے لگے تو پھر سلام لکھا گیا چنانچہ آپ نے دوسری دفعہ اُسے پھر کاٹا لیکن جب آپ تیسری دفعہ لکھنے لگے تو پھر ہاتھ اسی طرح چل گیا ۔ آخر آپ نے ایک اور کاغذ لے کر ٹھہر ٹھہر کر خط لکھا ۔یہ واقعہ مجھے یقینی طور پر یاد نہیں کہ کس کے ساتھ ہوا تھا لیکن میں نے کہیں ایسا دیکھا ضرور ہے اور غالب خیال پڑتا ہے کہ حضر ت مسیح موعود ؑ کو دیکھا تھا ۔
واللّٰہ اعلم
{ 300} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیا ن کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوا کرتے تھے ۔ لیکن پھر بعض باتیں ایسی ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہو نا شروع کر دیا اور جب حجرہ گرا کر تمام مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ بدستور امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے ۔
(خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں مسجد مبارک بہت چھوٹی ہوتی تھی اور لمبی قلمدان کی صورت میں تھی جس کے غربی حصہ میں ایک چھوٹا سا حجرہ تھا۔ جو مسجد کا حصہ ہی تھا لیکن درمیانی دیوار کی وجہ سے علیحدہ صورت میں تھا۔ امام اس حجرہ کے اندر کھڑا ہوتا تھا۔ اور مقتدی پیچھے بڑے حصہ میں ہوتے تھے۔ بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس غربی حجرہ کی دیوار اڑا کر اسے مسجد کے ساتھ ایک کر دیا گیا)
{ 301} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مجھ سے بیوہ مرحومہ مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مرحوم نے کہ جب مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بیمار ہو ئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدت تکلیف کے وقت نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کر تے تھے کہ سواری کا انتظام کرومیں حضرت صاحب سے ملنے کیلئے جائونگا ۔ گویا وہ سمجھتے تھے کہ میں کہیں باہر ہوں اور حضرت صاحب قادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زارزار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا ۔تم مجھے حضرت صاحب کے پاس کیوں نہیں لے جاتے ۔ابھی سواری منگائو اور مجھے لے چلو۔ایک دن جب ہو ش تھی کہنے لگے جائو حضرت صاحب سے کہو کہ میں مر چلا ہوں مجھے صرف دُور سے کھڑے ہو کر اپنی زیارت کراجائیں۔اور بڑے روئے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جائو میں نیچے حضرت صاحب کے پاس آئی کہ مولوی صاحب اس طر ح کہتے ہیں ۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا میرا دل مولوی صاحب کے ملنے کو نہیں چاہتا ! مگر بات یہ ہے کہ میں ان کی تکلیف کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔مولویا نی مرحومہ کہتی تھیں کہ اس وقت تمہاری والدہ پاس تھیں انہوں نے حضرت صاحب سے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں۔حضرت صاحب نے فر مایا کہ اچھا میں جاتا ہوں مگر تم دیکھ لینا کہ ان کی تکلیف کودیکھ کر مجھے دورہ ہو جائے گا ۔خیر حضرت صاحب نے پگڑی منگا کر سر پر رکھی اور ادھر جانے لگے ۔میں جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کر آگے چلی گئی تا کہ مولوی صاحب کو اطلاع دوں کہ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں ۔جب میں نے مولوی صاحب کو جاکر اطلاع دی تو انہوں نے الٹا مجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب کو کیوں تکلیف دی ؟ کیامیں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے ؟ میں نے کہا کہ آپ نے خود تو کہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو میں نے دل کا دکھڑا رویا تھا ۔تم فوراً جائو اور حضرت صاحب سے عرض کرو کہ تکلیف نہ فرمائیں میں بھاگی گئی تو حضرت صاحب سیڑھیوں کے نیچے کھڑے اوپر آنے کی تیاری کررہے تھے۔میں نے عرض کر دیا کہ حضور آپ تکلیف نہ فرماویں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے بہت محبت تھی اور یہ اسی محبت کا تقاضا تھا کہ آپ مولوی صاحب کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے چنانچہ باہر مسجد میں کئی دفعہ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں ان کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا ۔چنانچہ آخر مولوی صاحب اسی مرض میں فوت ہوگئے مگر حضرت صاحب ان کے پاس نہیں جاسکے ۔بلکہ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کی بیماری میں اپنی رہائش کا کمرہ بھی بدل لیا تھا کیونکہ جس کمرہ میں آپ رہتے تھے وہ چونکہ مولوی صاحب کے مکان کے بالکل نیچے تھا اس لئے وہاں مولوی صاحب کے کر اہنے کی آواز پہنچ جاتی تھی جو آپ کو بیتاب کر دیتی تھی ۔اور مولوی صاحب مرحوم چونکہ مرض کا ربنکل میںمبتلا تھے اس لئے ان کا بدن ڈاکٹروں کی چیرا پھاڑی سے چھلنی ہو گیا تھا اور وہ اس کے درد میں بے تاب ہو کر کر اہتے تھے ۔
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مرحوم حضر ت صاحب ؑکے مکان کے اس حصہ میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اوپر کے صحن کے ساتھ ملحق ہے اس مکان کے نیچے خود حضرت صاحب کا رہائشی کمرہ تھا ۔مولوی عبدالکریم صاحب کے علاوہ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی محمدعلی صاحب ایم۔اے بھی حضرت صاحب کے مکان کے مختلف حصوں میں رہتے تھے اور شروع شروع میں جب نواب محمد علی خان صاحب قادیان آئے تھے تو ان کو بھی حضرت صاحب نے اپنے مکان کا ایک حصہ خالی کر دیا تھا ۔ مگر بعد میں انہوں نے خود اپنا مکان تعمیر کروا لیا ۔اسی طرح شروع میں مفتی محمد صادق صاحب کو بھی آپ نے اپنے مکان میں جگہ دی تھی ۔مولوی محمد احسن صاحب بھی کئی دفعہ حضرت صاحب کے مکان پر ٹھہرتے تھے ۔ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب بھی جب فیملی کے ساتھ آتے تھے تو عموماً حضرت صاحب ان کو اپنے مکان کے کسی حصہ میں ٹھہراتے تھے ۔دراصل حضرت صاحب کی یہ خواہش رہتی تھی کہ اس قسم کے لوگ حتّٰی الوسع آپ کے قریب ٹھہریں ۔
{ 302} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیامفتی محمد صادق صاحب نے کہ ایک دفعہ جب میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر تھا تو آپ کے کمرہ کا دروازہ زور سے کھٹکا اور سید آل محمد صاحب امروہوی نے آواز دی کہ حضور میں ایک نہایت عظیم الشان فتح کی خبر لا یا ہوں ۔ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ جاکر ان کی بات سن لیں کہ کیا خبر ہے۔میں گیا اور سید آل محمدصاحب سے دریافت کیا انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی کا فلاں مولوی سے مباحثہ ہو ا تو مولوی صاحب نے اُسے بہت سخت شکست دی ۔ اور بڑا رگیدا۔اور وہ بہت ذلیل ہوا وغیرہ وغیرہ ۔اور مولوی صاحب نے مجھے حضر ت صاحب کے پاس روانہ کیا ہے کہ جاکر اس عظیم الشان فتح کی خبر دوں ۔مفتی صاحب نے بیان کیا کہ میں نے واپس آکر حضرت صاحب کے سامنے آل محمد صاحب کے الفاظ دہرادیئے ۔ حضرت صاحب ہنسے اور فرمایا۔ (کہ ان کے اس طرح دروازہ کھٹکھٹانے اور فتح کا اعلان کرنے سے) ’’ میں سمجھا تھا کہ شاید یورپ مسلمان ہو گیا ہے‘‘ ۔ مفتی صاحب کہتے تھے کہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدس ؑ کو یورپ میں اسلام قائم ہو جانے کا کتنا خیال تھا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو تبلیغ کیلئے سب جگہیں برابر ہیں اور ہر غیر مسلم ایک سامستحق ہے کہ اس تک حق پہنچایا جاوے اور ہر غیر مسلم کا مسلمان ہونا ہمارے لئے ایک سی خوشی رکھتا ہے خواہ کوئی بادشاہ ہو یا ایک غریب بھنگی لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض اوقات ایک خاص قوم یا خاص مُلک کے متعلق حالات ایسے جمع ہو جاتے ہیں کہ اس کی تبلیغ خاص رنگ پید اکر لیتی ہے ۔آجکل یورپ مسیحیت اور مادیت کا گھر ہے ۔ پس لاریب اس کا مسلمان ہونا اسلام کی ایک عظیم الشان فتح ہے ۔
{ 303} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بیان کیا مفتی محمد صادق صاحب نے کہ ایک دفعہ ہم چند دوست مسجد میں بیٹھے ہوئے خوا جہ کمال الدین صاحب کی عادتِ نسیان کے متعلق باتیں کررہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اندر سے ہماری باتو ں کو سن لیا اور کھڑکی کھول کر مسجد میں تشریف لے آئے ۔اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ کیا باتیں کرتے ہیں ؟ ہم نے عرض کیا کہ حضور خوا جہ صاحب کے حافظہ کا ذکر ہو رہا تھا ۔ آپ ہنسے اور فرمایا کہ ہاں خوا جہ صاحب کے حافظہ کا تو یہ حال ہے کہ ایک دفعہ یہ رفع حاجت کیلئے پاخانہ گئے اور لوٹا وہیں بھول آئے اور لوگ تلاش کرتے رہے کہ لوٹا کدھر گیا ۔آخر لوٹا پاخانہ میں ملا ۔
مفتی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بالکل بے تکلف رہتے تھے اور ان کی ساری باتوں میں شریک ہو جاتے تھے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجموعہ کی کاپیاں لکھی جارہی تھیں کہ مفتی صاحب امریکہ سے جہاں وہ تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے ہوئے تھے واپس تشریف لے آئے اور اپنی بعض تقریروں میں انہوں نے یہ باتیں بیان کیں ۔خاکسار نے اس خیال سے کہ مفتی صاحب کا اس کتاب میں حصہ ہوجاوے ۔انہیں درج کر دیا ہے ۔
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ یوں تو حضرت صاحب اپنے سارے خدام سے ہی بہت محبت رکھتے تھے لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحب سے خاص محبت ہے۔ جب کبھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے تو فرماتے ’’ ہمارے مفتی صاحب ‘‘ او رجب مفتی صاحب لاہور سے قادیا ن آیا کرتے تھے تو حضرت صاحب ان کو دیکھ کر بہت خوش ہو تے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک محبت اور اس کے اظہار کے اقسام ہیں جنھیں نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض وقت لوگ غلط خیالات قائم کر لیتے ہیں ۔انسان کی محبت اپنی بیوی سے اور رنگ کی ہوتی ہے اور والدین سے اور رنگ کی ۔ رشتہ داروں سے اور رنگ کی ہوتی ہے اور دوسروں سے اور رنگ کی ۔رشتہ داروں میں سے عمر کے لحاظ سے چھوٹوں سے اور رنگ کی محبت ہوتی ہے اور بڑوں سے اور رنگ کی ۔خادموں کیساتھ اور رنگ کی ہوتی ہے اور دوسروں کے ساتھ اور رنگ کی ۔دوستوں میں سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ محبت اور رنگ کی ہوتی ہے ۔ چھوٹوں کے ساتھ اور رنگ کی ۔اپنے جذباتِ محبت پر قابو رکھنے والوں کیساتھ اور رنگ کی ہوتی ہے ،اور وہ جن کی بات بات سے محبت ٹپکے اور وہ اس جذبہ کو قابو میں نہ رکھ سکیں انکے ساتھ اور رنگ کی وغیرہ وغیرہ ۔ غرض محبت اور محبت کے اظہار کے بہت سے شعبے اور بہت سی صورتیں ہیں جن کے نظر انداز کر نے سے غلط نتائج پیدا ہو جاتے ہیں ۔ان باتوں کو نہ سمجھنے والے لوگوں نے فضیلت صحابہ ؓ کے متعلق بھی بعض غلط خیال قائم کئے ہیں مثلاً حضر ت ابو بکر ؓ اور حضرت علی ؓ اور حضرت زید ؓ اور حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ اور حضرت فاطمہؓ کی مقابلۃً فضیلت کے متعلق مسلمانوں میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ۔مگر خاکسار کے نزدیک اگر جہات اور نوعیت محبت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جاوے اور اس علم کی روشنی میں آنحضرت ﷺ کے اُس طریق اور اُن اقوال پر غور کیا جاوے جن سے لوگ عموماً استدلال پکڑتے ہیں تو بات جلدفیصلہ ہو جاوے۔حضرت علی ؓ آنحضرت ﷺ کے عزیز تھے اور بالکل آپ کے بچوں کی طر ح آپ کے ساتھ رہتے تھے ۔ اس لئے ان کے متعلق آپ ؐ کا طریق اور آپ ؐ کے الفاظ اورقسم کی محبت کے حامل تھے ۔مگر حضرت ابوبکر ؓ آپؐ کے ہم عمر اور غیر خاندا ن سے تھے ۔اور سنجیدہ مزاج بزرگ آدمی تھے اسلئے ان کے ساتھ آپ کاطریق اور آپ ؐ کے الفاظ اور قسم کے ہوتے تھے ،ہر دو کو اپنے اپنے رنگ کے معیاروں سے ناپا جاوے تو پھر موازنہ ہو سکتا ہے ۔مفتی محمد صادق صاحب سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی ہی محبت تھی جیسے چھوٹے عزیزوں سے ہو تی ہے ۔اور اسی کے مطابق آپ کا ان کے ساتھ رویہ تھا ۔لہٰذا مولوی شیر علی صاحب کی روایت سے یہ مطلب نہ سمجھنا چاہیے اور نہ غالباً مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مفتی صاحب کے ساتھ مثلا ً حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبدالکریم صاحب جیسے بزرگوں کی نسبت بھی زیادہ محبت تھی ۔
{ 304} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ابتدائی زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مجھ سے فرمایا کہ ایک بادشاہ نے ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے کاریگر سے کہا کہ تم اپنے ہنراور کمال کا مجھے نمونہ دکھائو اور نمونہ بھی ایسا نمونہ ہو کہ اس سے زیادہ تمہاری طاقت میں نہ ہو ۔ گو یا اپنے انتہائی کمال کا نمونہ ہمارے سامنے پیش کر و۔اورپھر اس بادشاہ نے ایک دوسرے اعلیٰ درجہ کے کاریگر سے کہا کہ تم بھی اپنے کمال کا اعلیٰ ترین نمونہ بنا کر پیش کرو۔اوران دونوں کے درمیان اس بادشاہ نے ایک حجاب حائل کر دیا ۔کاریگر نمبر اول نے ایک دیوار بنائی اور اس کو نقش ونگار سے اتنا آراستہ کیا کہ بس حد کردی ۔اور اعلیٰ ترین انسانی کمال کا نمونہ تیار کیا ۔ اور دوسرے کاریگر نے ایک دیوار بنائی مگر اس کے اوپر کوئی نقش و نگار نہیں کئے لیکن اس کو ایسا صاف کیا اور چمکایا کہ ایک مصفا شیشے سے بھی اپنے صیقل میںوہ بڑھ گئی۔پھر بادشاہ نے پہلے کاریگر سے کہا کہ اپنا نمونہ پیش کرو چنانچہ اس نے وہ نقش و نگار سے مزّین دیوار پیش کی اور سب دیکھنے والے اُسے دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔پھر بادشاہ نے دوسرے کاریگر سے کہا کہ اب تم اپنے کمال کا نمونہ پیش کرو اس نے عرض کیا کہ حضور یہ حجاب درمیان سے اٹھادیا جاوے ۔چنانچہ بادشاہ نے اُسے اٹھوا دیا تو لوگوں نے دیکھا کہ بعینہٖ اسی قسم کی دیوار جو پہلے کاریگر نے تیار کی تھی دوسری طرف بھی کھڑی ہے ۔کیونکہ درمیانی حجاب اُٹھ جانے سے دیوار کے سب نقش و نگار بغیر کسی فرق کے اس دوسری دیوار پر ظاہر ہو گئے ۔
میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب حضرت صاحب نے مجھے یہ بات سنائی تو میں سمجھا کہ شاید کسی بادشاہ کا ذکر ہو گا او ر میں نے اس کے متعلق کو ئی زیادہ خیال نہ کیا لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ نے ظلی نبوت کا دعویٰ کیا تو تب میں سمجھا کہ یہ تو آپ نے اپنی ہی مثال سمجھائی تھی۔چنانچہ میں نے ظلی نبوت کا مسئلہ یہی مثال دیکر غوث گڑھ والوں کو سمجھایا اور وہ اچھی طرح سمجھ گئے ۔پھر جب لاہوریوں کی طرف سے مسئلہ نبوت میں اختلاف ہوا تو اس وقت غوث گڑھ کی جماعت کو کوئی تشویش پیدا نہیں ہوئی اورانہوں نے کہا کہ یہ بات تو آپ نے ہم کو پہلے سے سمجھائی ہوئی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی حضرت مسیح موعو دؑ کا کمال اسی میں ہے کہ آپ نے اپنے لوح قلب کو ایسا صیقل کیا کہ اس نے سرور کائنات کے نقش ونگا ر کی پوری پوری تصویر اتارلی اور لَاریب جو کوئی بھی اپنے دل کو پاک و صاف کریگا وہ اپنی استعداد کے مطابق آپ کے نقش و نگا ر حاصل کر لے گا ۔محمد رسول اللہ ﷺ بخیل نہیں ہیں بلکہ بخل ہم میں ہے جو آپکی اتباع کو کمال تک نہیں پہنچاتے ۔ اللھم صل علیہ و علٰے اٰلہٖ وعلٰی اصحابہٖ و علٰی عبدک المسیح الموعود وبارک وسلم و اخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
تمام شُد
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2 ۔ یونی کوڈ

بِسْمِ اللّٰہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحیْـمْ
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود مع التسلیم
عرضِ حال
عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَالِکُلِّ امْرِیٍٔ مَانَوٰی (رواہ البخاری)
سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل طبع ہو کر ہدیہ ناظرین ہو چکا ہے۔ اس میں بوجہ سہو کاتب نیز بوجہ اس کے کہ جلدی کی وجہ سے بعض روایات کی پوری طرح نظر ثانی نہیں ہو سکی۔ بعض خفیف خفیف غلطیاں رہ گئی ہیں جن کی اصلاح انشاء اللہ اس حصہ یعنی حصہ دوم میں کر دی جائے گی۔ اب آج بتاریخ ۲۷ رمضان ۱۳۴۳ھ مطابق ۲ مئی ۱۹۲۴ء بروز جمعہ یہ خاکسار سیرۃ المہدی کے حصہ دوم کو شروع کرتا ہے۔ تکمیل کی توفیق دینا باری تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان ضعیف البنیان کا ارادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ پس میری دعا اور التجا اسی ذات سے ہے کہ اے ضرورت زمانہ کے علیم اور میرے دل کے خبیر تجھے سب قدرت حاصل ہے۔ مجھے توفیق دے کہ تیرے مسیح و مہدی کے سوانح و سیرت و اقوال و احوال وغیرہ کو جمع کروں تا کہ اس ہدایت کے آفتاب سے لوگوں کے دل منور ہوں اور تا اس چشمہ صافی سے تیرے بندے اپنی پیاس بجھائیں اور تا تیرے اس مامور و مرسل کے نمونہ پر چل کر تیرے متلاشی تجھ تک راہ پائیں اور تا تیرے برگزیدہ رسول نبیوں کے سرتاج محمد مصطفی ﷺ کے اس ظل کامل او ر بروز اکمل کی بعثت کی غرض پوری ہو اور تیرے بندے بس تیرے ہی بندے ہو کرزندگی بسر کریں۔ اللھم امین
خاکسار راقم آثم
مرزا بشیر احمد
قادیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

{305} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ جب میں لدھیانہ میں تھا اور چہل قدمی کے لئے باہر راستہ پر جا رہا تھا تو ایک انگریز میری طرف آیا اور سلام کہہ کر مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا آپ کے ساتھ کلام کرتا ہے۔ میں نے کہا ’’ ہاں‘‘ اس پر اس نے پوچھا کہ وہ کس طرح کلام کرتا ہے ؟ میں نے کہا اسی طرح جس طرح اس وقت آپ میرے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔ اس پر اس انگریز کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’سبحان اللہ ‘‘ اور پھر وہ ایک گہری فکر میں پڑ کر آہستہ آہستہ چلا گیا ۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ اُس کاا س طرح سبحان اللہ کہنا آپ کو بہت عجیب اور بھلا معلوم ہوا تھا ۔اسی لئے آپ نے یہ واقعہ بیان کیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں جب حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ کو دیکھتا ہوں تو دل سرور سے بھر جاتا ہے ۔بھلا جس طرح یہ شیر خدا کا مردِمیدان بن کر گرجا ہے کسی کی کیا مجال ہے کہ اس طرح اسی میدان میں بقائمی ہوش وحواس افتراکے طور پر قدم دھرے اورپھر لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لَاَ خَذْ نَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنْہُ الْوَتیِنْ َ (الحاقۃ :۴۵ تا۴۷)کے وعید کی آگ اسے جلا کر راکھ نہ کر دے ،مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدائی قانون میں ہر جرم کی الگ الگ سزا ہے اور لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا کے ماتحت صرف وہی شخص سزا پا سکتا ہے جو خدائے خالق و مالک کی طرف جسے وہ ذات وصفات ہر دو میں اپنی ذات وصفات بلکہ جمیع مخلوقات سے واضح طور پر غیر اور ممتاز و متباین یقین کرتا ہو ۔بطریق افترا بقائمی ہوش وحواس الفاظ معیّنہ کی صورت میںکوئی قول یا اقوال منسوب کر کے اس بات کا دعویٰ شائع کرے کہ یہ کلام خدا نے مجھے الہام کیا ہے اور وہ خدائی کلام کو خوداپنے کلام اور خیالات سے ہر طرح ممتاز و متباین قراردیتا ہو ۔یعنی کسی خاص مقام یا خا ص حالت یا خاص قسم کے دل کے خیالات کا نام الہام الہٰی رکھنے والا نہ ہو ۔ اور نہ خود خدائی کا دعوٰے دار بنتا ہو ۔ جیسا کہ نیچریوں یا برہم سماجیوں یا بہائیوں کا خیال ہے ۔اگر یہ شرائط جو آیت لَوْتَقَوَّلَ سے ثابت ہیں مفقود ہوں تو خواہ ایک شخص تیئس۲۳سال چھوڑ کر دو سو سال بھی زندگی پائے وہ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَاکے وعیدکے ماتحت سزا نہیں پائے گا ۔گو وہ اور طرح مجرم ہو اور دوسری سزائیں بھگتے جیسا کہ مثلاًوہ شخص جوخواہ ساری عمرچوری یا دھوکہ یا فریب یا اکل بالباطل وغیرہ کے جرائم میں ماخوذ ہو کر ان جرموں کی سزائیں پاتا رہا ہو ۔اگر وہ ڈاکہ زن نہیں ہے تو وہ کبھی بھی ڈاکہ کے جرم کی سزا نہیں پاسکتا ۔ فَافْہَم ۔
{ 306} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی مخالف نے کوئی حوالہ طلب کیا اس وقت وہ حوالہ حضرت کو یاد نہیں تھا اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا لہٰذا شماتت کا اندیشہ پیدا ہوا مگر حضرت صاحب نے بخاری کا ایک نسخہ منگایا اور یو نہی اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلد جلد ایک ایک ورق اس کاا لٹانے لگ گئے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور کہاکہ لو یہ لکھ لو۔دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔اورکسی نے حضرت صاحب سے دریافت بھی کیا ۔جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق اُلٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پرکچھ نہیں لکھا ہوا اسی لئے میں ان کو جلد جلد الٹاتا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ سوائے اس جگہ کے کہ جس پر حوالہ درج تھا باقی تمام جگہ آپ کو خالی نظر آئی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل سے اس روایت کے سننے کے بعد ایک دفعہ خاکسار نے ایک مجمع میں یہ روایت زیادہ تفصیلی طور پر مفتی محمد صادق صاحب سے بھی سنی تھی ۔مفتی صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالبًا نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میںحوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔سو اوّل تو بخاری ہی نہیں ملتی تھی اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی اور اعتراض کر نے والے مولوی کے سامنے حوالہ کا جلد رکھا جانا از بس ضروری تھا۔اس پر آپ نے بخاری اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور چند چند صفحات کے بعد فرماتے تھے کہ یہ لکھ لو ۔اس جلدی کو دیکھ کر کسی خادم نے عرض کیا کہ حضور ذرااطمینان سے دیکھا جاوے تو شاید زیادہ حوالے مل جاویں ۔آپ نے فرمایا کہ نہیں بس یہی حوالے ہیںجو میں بتا رہاہوں۔ان کے علاوہ اس کتاب میں کوئی حوالہ نہیں کیونکہ سوائے حوالہ کی جگہ کے مجھے سب جگہ خالی نظر آتی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ آدمی اللہ کا ہو کر رہے پھر وہ خود حقیقی ضرورت کے وقت اسکے لئے غیب سے سامان پیدا کردیتا ہے اور اگر اس وقت تقدیر عام کے ماتحت اسباب میسر نہ آسکتے ہوں اور ضرورت حقیقی ہو تو تقدیر خاص کے ماتحت بغیر مادی اسباب کے اسکی دستگیری فرمائی جاتی ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو ۔مگر وہ شخص جس کی نظر عالم مادی سے آگے نہیںجاتی اس حقیقت سے ناآشنارہتا ہے ،مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے :۔
فلسفی کو منکر حنانہ است
از حواسِ انبیاء بیگانہ است
اس واقعہ کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ’’ یہ واقعہ میرے سامنے پیش آیا تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ تھا اور مَیں اس میں کاتب تھا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے پرچوں کی نقل کرتا تھا۔ مفتی محمد صادق صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ غالباً حضرت صاحب کو نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اس میں جناب مفتی صاحب کو غلطی لگی ہے۔ کیونکہ مفتی صاحب وہا ںنہیں تھے۔ نون خفیفہ و ثقیلہ کی بحث تو دہلی میں مولوی محمد بشیر سہسوانی ثم بھوپالوی کے ساتھ تھی۔ اور تلاش حوالہ بخاری کا واقعہ لدھیانہ کا ہے۔ بات یہ تھی کہ لدھیانہ کے مباحثہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا تھا۔ بخاری موجود تھی۔ لیکن اس وقت اس میں یہ حوالہ نہیں ملتا تھا۔ آخر کہیں سے تو ضیح تلویح منگا کر حوالہ نکال کر دیا گیا۔ صاحبِ توضیح نے لکھا ہے۔ کہ یہ حدیث بخاری میں ہے‘‘۔
اور اسی واقعہ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ:۔ ’’روایت نمبر ۳۰۶ میں حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی روایت سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے اور حضرت مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کی روایت سے اس کی مزید تصریح کی گئی ہے۔ مگر مفتی صاحب نے اُسے لدھیانہ کے متعلق بیان فرمایا ہے اور نونِ ثقیلہ والی بحث کے تعلق میں ذکر کیا ہے۔ جو درست نہیں ہے۔ مفتی صاحب کو اس میں غلطی لگی ہے۔ لدھیانہ میں نہ تو نونِ ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث ہوئی اور نہ اس قسم کے حوالہ جات پیش کرنے پڑے۔ نونِ ثقیلہ کی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر بھوپالوی والے مباحثہ کے دوران میں پیش آئی تھی۔ اور وہ نون ثقیلہ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے تھے۔ اور جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے اس مقصد کے لئے بھی بخاری کا کوئی حوالہ پیش نہیں ہوا۔ الحق دہلی سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ دراصل یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی ’’محدثیّت اور نبوّت‘‘ پر بحث ہوئی تھی۔ یہ مباحثہ محبوب رائیوں کے مکان متصل لنگے منڈی میں ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے محدثیّت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا۔ جس میں حضرت عمرؓ کی محدثیّت پر استدلال تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا۔ اور بخاری خود بھیج دی۔ مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود نکال کر پیش کیا۔ اور یہ حدیث صحیح بخاری پارہ ۱۴ حصہ اوّل باب مناقب عمرؓ میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ قال النَّبِیُّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم قد کان فِیْمَن قبلکم من بنی اسرائیل رجال یُکَلَّمُونَ من غیران یکونوا انبیائَ فَاِنْ یَکُ مِنْ اُمَّتِی مِنْھُمْ اَحَدٌ فَعُمَر۔جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی۔ تو فریق مخالف پر گویا ایک موت وارد ہو گئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی پر مباحثہ ختم کر دیا‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایتوں میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق خاکسار ذاتی طور پر کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ ہاں اس قدر درست ہے کہ نونِ ثقیلہ والی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر والے مباحثہ میں پیش آئی تھی۔ اور بظاہر اس سے بخاری والے حوالہ کا جوڑ نہیں ہے۔ پس اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہلی والے مباحثہ کا نہیں ہے۔ آگے رہا لاہور اور لدھیانہ کا اختلاف، سو اس کے متعلق مَیں کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ نیز خاکسار افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ سیرۃ المہدی کا حصہ سوم زیرِ تصنیف ہے۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی فوت ہو چکے ہیں۔ پیر صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایات کا ایک عمدہ خزانہ تھے۔
{ 307} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار کے ماموںڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ گھر میں ایک مرغی کے چوزہ کے ذبح کرنے کی ضرورت پیش آئی۔اور اس وقت گھر میں کوئی اور اس کام کو کرنے والا نہ تھا اس لئے حضرت صاحب اس چوزہ کو ہاتھ میں لے کر خودذبح کرنے لگے مگربجائے چوزہ کی گردن پرچھری پھیرنے کے غلطی سے اپنی انگلی کاٹ ڈالی ۔جس سے بہت خون بہہ گیا ۔اور آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے چوزہ کو چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر وہ چوزہ کسی اور نے ذبح کیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی چوٹ وغیرہ اچانک لگتی تھی تو جلدی جلدی توبہ توبہ کے الفاظ منہ سے فرمانے لگ جاتے تھے ۔دراصل جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ عموماً کسی قانون شکنی کا نتیجہ ہوتی ہے۔خواہ وہ قانون شریعت ہو یا قا نون نیچر یعنی قانون قضا ء وقدریا کوئی اور قانون ،پس ایک صحیح الفطرت آدمی کا یہی کام ہونا چاہیے کہ وہ ہر قسم کی تکلیف کے وقت توبہ کی طرف رجوع کرے۔اور یہی مفہوم اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنے کا ہے جس کی کہ قرآن شریف تعلیم دیتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ کبھی جانور وغیرہ ذبح نہ کئے تھے ۔اس لئے بجائے چوزہ کی گردن کے اپنی انگلی پر چھری پھیر لی ۔ اور یہ نتیجہ تھااس بات کا کہ آپ قانون ذبح کے عملی پہلو سے واقف نہ تھے۔واللہ اعلم۔
پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ :۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عصر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے۔بائیں ہاتھ کی انگلی پر پٹی پانی میں بھیگی ہوئی باندھی ہوئی تھی۔ اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس سے پوچھا۔ کہ حضور نے یہ پٹی کیسے باندھی ہے؟ تب حضرت اقدس علیہ السَّلام نے ہنس کر فرمایا کہ ایک چوزہ ذبح کرنا تھا۔ ہماری اُنگلی پر چُھری پھر گئی۔ مولوی صاحب مرحوم بھی ہنسے اور عرض کیا کہ آپ نے ایسا کام کیوں کیا۔ حضرت نے فرمایا۔ کہ اس وقت اور کوئی نہ تھا۔
{ 308} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند احباب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ جو مشہور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بادل کا سایہ رہتا تھا ۔یہ کیا بات ہے ؟آپ نے جواب میںفرمایا کہ ہر وقت تو بادل کا سایہ رہنا ثابت نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو کوئی کافر کافر نہ رہتا۔سب لوگ فوراً یقین لے آتے کیونکہ ایسا معجزہ دیکھ کر کون انکار کر سکتا تھا دراصل سنت اللہ کے مطابق معجزہ تو وہ ہوتا ہے کہ جس میں ایک پہلو اخفاء کا بھی ہو اور فرمایا کہ ہر وقت بادل کاسایہ رہنا توموجب تکلیف بھی ہے علاوہ ازیں اگر ہر وقت بادل کا سایہ رہتا تو کیوں گرمی کے وقت حضرت ابو بکرؓ آپ پر چادر تان کر سایہ کرتے اور ہجرت کے سفر میں آپؐ کے لئے کیوں سایہ دار جگہ تلاش کرتے؟ہا ں کسی خاص وقت کسی حکمت کے ماتحت آپ کے سر پر بادل نے آکر سایہ کیا ہو تو تعجب نہیں۔چنانچہ ایک دفعہ ہمارے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوا تھا پھر آپ نے وہ واقعہ سنایا جوبٹالہ سے قادیان آتے ہوئے آپ کو پیش آیا تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ حصہ اول میں درج ہو چکا ہے ۔
{ 309} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلے دن لدھیانہ میں بیعت ہوئی تو سب سے پہلے حضرت مولوی نور الدین صاحب نے بیعت کی ۔ان کے بعد میرعباس علی نے اور پھر خواجہ علی صاحب مرحوم نے کی ۔اس دن میاں عبداللہ صاحب سنوری اور شیخ حامد علی صاحب مرحوم اور مولوی عبداللہ صاحب جو خوست کے رہنے والے تھے اور بعض اور آدمیوں نے بیعت کی ۔میں موجود تھا مگر میں نے اُس دن بیعت نہیں کی۔کیونکہ میرا منشاء قادیان کی مسجد مبار ک میں بیعت کرنے کا تھا جسے آپ نے منظورفرمایا ۔حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بھی موجود تھے مگر انہوں نے بھی اس وقت بیعت نہیںکی بلکہ کئی ماہ بعد بیعت کی ۔
مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ روایت نمبر۳۰۹ میں مخدومی مکرمی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نے پہلے دن کی بیعت میں مولوی عبداللہ صاحب کے ذکر میں فرمایا ہے کہ وہ خوست کے رہنے والے تھے۔ یہ درست نہیں۔ دراصل مولوی عبداللہ صاحب کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ خوست کے رہنے والے نہ تھے۔اس میں صاحبزادہ صاحب کو سہو ہوا ہے۔ مولوی عبداللہ صاحب اس سلسلہ کے سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے بیعت لینے کی اجازت دی تھی۔ آپ تنگئی علاقہ چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے۔ مَیں نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے نام حضرت اقدس کا مکتوب اور اجازت نامہ الحکم کے ایک خاص نمبر میں شائع کر دیا تھا۔
{ 310} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت صاحب کے سونے کی کیفیت یہ تھی کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جاگ اُٹھتے تھے اور منہ سے آہستہ آہستہ سبحان اللہ ،سبحان اللہ فرمانے لگ جاتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔
{ 311} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ سیرۃالمہدی کے حصہ اول میںبعض غلطیا ں واقع ہو گئی ہیں ۔جن کی اصلاح ضروری ہے۔
(۱)صفحہ۷روایت نمبر۱۰(صحیح نمبر۱۱)میں الفاظ ’’پیدا ہونے لگی تو منگل کا دن تھا۔اس لئے حضرت صاحب نے دُعا کی کہ منگل گذرنے کے بعد پیدا ہو چنانچہ وہ منگل گذرنے کے بعدبدھ کی رات کو پیدا ہوئی‘‘کی بجائے الفاظ ’’پیدا ہونے لگی تومنگل کا دن تھا اس لئے حضرت صاحب نے دُعا کی کہ خدا اسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے ‘‘سمجھے جاویں۔
ّ(۲)صفحہ ۵۸۔روایت نمبر۸۷(صحیح نمبر ۸۹)میں الفاظ’’اپنی جگہ جا کر بیٹھ گئے اور فرمایا‘‘کے بعد الفاظ ’’آپ ہمارے مہمان ہیں اور‘‘لکھنے سے رہ گئے ہیں زائد کئے جاویں۔
(۳)صفحہ۶۶روایت نمبر ۹۸(صحیح نمبر۱۰۰)میں الفاظ’’پھر اسی طرح لیٹ گئے‘‘کی بجائے الفاظ’’نے پھراسی طرح اپنی کہنی رکھ لی‘‘سمجھے جاویں۔
ّّّ(۴)صفحہ۶۶۔روایت نمبر۹۸(صحیح نمبر۱۰۰)میں ’’اسی سرخی کاایک اور بڑا قطرہ‘‘کے بعد’’کرتہ پر ‘‘کے الفاظ لکھنے سے رہ گئے ہیں۔زائد کئے جاویں۔
(۵)صفحہ۱۲۱۔روایت نمبر۱۳۳(صحیح نمبر ۱۳۶)میں ’’کاپی مذکور میں‘‘کے الفاظ کے بعد بجائے ’’۳۱مارچ‘‘ کے الفاظ’’۳مارچ‘‘سمجھے جاویں ۔نیز ’’مربی ام‘‘کی بجائے …الفاظـــ’’مربی انبہ‘‘۔اور دودھ کی بجائے لفظ ’’شیر‘‘سمجھے جاویں۔
(۶)صفحہ۱۲۴روایت نمبر۱۳۷(صحیح نمبر ۱۴۰)میں’’مگرایک دفعہ جب حضرت صاحب کہیںقادیان سے باہر گئے ہوئے تھے......(تا)......پولیس نے اس بلوہ کی تحقیقات شروع کر دی تھی‘‘کے الفاظ کے بجائے مندرجہ ذیل عبارت سمجھی جاوے’’مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہواکہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بھرتی اُٹھائی تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھ بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کراس کے مکان پر حملہ آور ہو گئے۔پہلے تو احمدی بچتے رہے۔لیکن جب اُنھوں نے بے گناہ آدمیوں کو مارنا شروع کیااور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمدیوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآخر حملہ آوروں کوبھاگنا پڑا چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتالگا کہ احمدیوں کا ڈر اُن سے نہیںبلکہ اپنے امام سے ہے ۔اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کی۔
(۷)صفحہ۱۲۶روایت نمبر۱۳۸(صحیح نمبر۱۴۱)میں ’’امرتسرسے آدمی اور چھپر‘‘کے بعد الفاظ’’کا سامان‘‘ زائد کئے جاویں۔
(۸)صفحہ۲۴۲روایت نمبر۲۶۶(صحیح نمبر۲۷۲)میں’’عیسائی ہو جاؤں گا اور اَور بھی بہت سے لوگ عیسائی ہوجائیں گے ‘‘کی بجائے الفاظ’’حق کوقبول کرلوں گااور اَور بھی بہت سے لوگ حق کوقبول کر لیں گے ‘‘سمجھے جاویں۔
اس کے علاوہ روایات کے نمبر میں بھی غلطی ہو گئی ہے جو درج ذیل ہے:۔
ّ(۱)صفحہ۳ پرروایت نمبر ۵کے بعد کی روایت بلانمبر لکھی گئی ہے اس کا نمبر ۶ سمجھا جانا چاہیے؛
(۲)صفحہ۴۱ پرروایت نمبر۶۰کی بعد کی روایت کانمبرنہیںلکھا گیا،اس کانمبر ۱؍۶۰۔ اور صحیح نمبر ۶۲ سمجھا جانا چاہیے ۔
(۳)صفحہ۱۴۲ روایت نمبر ۱۴۸کے بعد کی روایت کا نمبر درج نہیں اس کانمبر۱؍۱۴۸اور صحیح نمبر ۱۵۲سمجھا جانا چاہیے۔
(۴)صفحہ۱۶۴پر روایت نمبر۱۶۵کی بعد کی روایت کا نمبر درج نہیںاس کا نمبر۱۶۶۔ اور صحیح نمبر۱۷۰ سمجھا جانا چاہیے ۔
(۵)صفحہ ۱۹۶پر روایت نمبر۱۷۹کے بعد کی روایت کا نمبردوبارہ نمبر۱۷۹ لکھا گیا ہے اس کا نمبر۱؍۱۷۹ اور صحیح نمبر۱۸۴سمجھا جانا چاہیے۔
ّ(۶)اس طرح سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی کل روایت کا نمبر۲۹۹کی بجائے۳۰۴ بنتا ہے چنانچہ اسی کو ملحوظ رکھ کرحصہ دوئم کی پہلی روایت کو ۳۰۵ کا نمبر دیا گیا ہے۔ ز
{ 312} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب آتھم کی پیش گوئی کی میعاد قریب آئی تو اہلیہ صاحبہ مولوی نور الدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہتا ہے کہ ایک ہزارماش کے دانے لے کر ان پر ایک ہزار دفعہ سورہ اَلَمْ تَرَکَیْفَ پڑ ھنی چاہیے اور پھر ان کو کسی کنوئیں میں ڈال دیا جاوے اور پھر واپس منہ پھیر کر نہ دیکھا جاوے۔یہ خواب حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔اس وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے اور عصر کا وقت تھاحضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایاکہ اس خواب کوظا ہر میں پورا کر دینا چاہیے ۔کیونکہ حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جب کوئی خواب خود آپ یا احباب میں سے کوئی دیکھتے تو آپ اسے ظاہری شکل میں بھی پورا کرنے کی سعی فرماتے تھے ۔چنانچہ اس موقعہ پر بھی اسی خیال سے حضرت نے ایسافرمایا۔اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے میرا اور میاں عبد اللہ صاحب سنوری کا نا م لیا اور حضرت نے پسند فرمایا اور ہم دونوں کو ماش کے دانوں پر ایک ہزار دفعہ سورہ اَلَمْ تَرَ کَیْفَپڑھنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ ہم نے عشاء کی نماز کے بعد سے شروع کر کے رات کے دو بجے تک یہ وظیفہ ختم کیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت حصہ اوّل میں میاںعبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی بھی درج ہو چکی ہے ۔اور مجھے میاں عبداللہ صاحب والی روایت سن کر تعجب ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فعل کس حکمت کے ما تحت کیا ہے۔کیونکہ اس قسم کی کارروائی بظاہر آپ کے طریق عمل کے خلاف ہے لیکن اب پیر صاحب کی روایت سے یہ عقدہ حل ہو گیا ہے کہ آپ کا یہ فعل در اصل ایک خواب کی بنا پر تھا جسے آپ نے ظا ہری صورت میں بھی پورا فرما دیا ۔ کیونکہ آپ کی یہ عادت تھی کہ حتیٰ الوسع خوابوں کو ان کی ظاہری شکل میں بھی پوراکرنے کی کوشش فرماتے تھے ۔ بشرطیکہ ان کی ظا ہری صورت شریعت اسلامی کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو اور اس خواب میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح اصحاب فیل(جو عیسائی تھے)کے حملہ سے خدانے کعبہ کومحفوظ رکھا اوراپنے پاس سے سامان پیدا کرکے ان کو ہلاک و پسپا کیااسی طرح آتھم کی پیش گوئی والے معاملہ میںبھی عیسائیوں کا اسلام پر حملہ ہو گا اور ان کو ظاہراً اسلام کے خلاف شور پیدا کرنے کا موقعہ مل جائے گا ۔لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ان کو شکست وہزیمت کا سا مان پیدا کر دے گا اور یہ کہ مومنوں کو چاہیے کہ اس معاملہ میں خدا پر بھروسہ کریں اور اسی سے مدد کے طالب ہوںاور اس وقت کو یاد رکھیں کہ جب مکہ والے کمزور تھے اور ان پر ابرہہ کا لشکر حملہ آور ہوا تھا اور پھر خدا نے ان کو بچایا ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ پیر صاحب اور میاں عبداللہ صاحب کی روایتوں میں بعض اختلافات ہیں جو دونوں میں سے کسی صاحب کے نسیان پر مبنی معلو م ہوتے ہیں۔مثلاًمیاں عبداللہ صاحب نے اپنی روایت میں بجائے ماش کے چنے کے دانے بیان کئے ہیں ۔مگر خواہ ان میں سے کوئی ہوماش اور چنے ہر دو کی تعبیر علم الرویاء کے مطابق غم واندوہ کی ہے۔جس میں یہ اشارہ ہے کہ آتھم والے معاملہ میں بظاہر کچھ غم پیش آئے گا ۔مگر یہ غم و اندوہ سورۃ الفیل کے اثرکے ماتحت بالآخر تاریک کنوئیں میںڈال دیا جاوے گا ۔واللہ اعلم۔
{ 313} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک خون کے مقدمہ میں مَیں اسیسرمقرر ہوا تھا چنانچہ آپ اسیسر بنے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت سے پتہ لگتا ہے کہ آپ اسیسر نہیں بنے تھے بلکہ انکار کر دیا تھا۔ سو یا تو کسی صاحب کو ان میں سے نسیان ہو ا ہے یا ہر دو روایتیں دو مختلف واقعات کے متعلق ہیں ۔واللہ اعلم۔
{ 314} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ یہ جو سیرۃالمہدی حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کی روایت سے حضرت کاا لہام درج ہوا ہے کہ
سلطنت برطانیہ تا ہفت سال۔بعد از اں باشد خلاف واختلال۔
اور حاجی عبدالمجید صاحب کی یہ روایت درج ہوئی ہے کہ
سلطنت برطانیہ تا ہشت سال ۔ بعد ازاں ایام ضعف واختلال۔
یہ میرے خیال میں درست نہیں ہے ۔میں نے حضرت صاحب سے یہ الہام اس طرح پر سُنا ہے ۔
قوت برطانیہ تا ہشت سال ۔بعد ازاں ایام ضعف و اختلال۔
میں نے اس کے متعلق حضرت سے عرض کیاکہ اس میں روحانی اور مذہبی طاقت کا ذکر معلوم ہوتا ہے ۔یعنی ہشت سال کے بعد سلطنت برطانیہ کی مذہبی طاقت یعنی عیسائیت میں ضعف رونما ہو جائیگا ۔اور سچے مذہب یعنی اسلام اور احمدیت کا غلبہ شروع ہو جائے گا ۔ حضرت نے فرمایا کہ جو ہوگا وہ ہو رہیگا ہم پیش از وقت کچھ نہیں کہہ سکتے ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ میری رائے میں الفاظ الہام کے متعلق پیرصا حب کی روایت درست معلوم ہوتی ہے ۔واللہ اعلم۔
{ 315} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی فضل دین صاحب پلیڈر قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ محکمہ ڈاک کی طرف سے میرے خلاف مقدمہ ہوا تھا ۔جس میں فیصلہ کا سارادارومدارمیرے بیان پر تھا یعنی اگر میں سچ بول کر صحیح صحیح واقعہ بتا دیتا تو قانون کی رو سے یقیناً میرے لئے سزا مقدر تھی اور اگر جھوٹ بول کر واقعہ سے انکا ر کر دیتا تو محکمہ ڈاک کسی اور ذریعہ سے میرے خلاف الزام ثابت نہیں کر سکتا تھا ۔ چنانچہ میرے وکیل نے بھی مجھے یہ مشورہ دیا کہ اگر بچنا چاہتے ہیں تو انکار کردیںمگر میں نے یہی جواب دیا کہ خواہ کچھ ہو جاوے میں خلاف واقعہ بیان نہیں کروں گا اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو نہیں بچاؤں گا ۔وغیرہ وغیرہ۔مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحب کے اس بیان کے خلاف بعض غیر احمدیوں نے بڑے زور شور کے ساتھ یہ شائع کیا ہے کہ یہ ساری بات بناوٹی ہے ۔ڈاک خانہ کا کوئی ایسا قاعدہ نہیں ہے جو بیان کیا جاتا ہے اور گویا نعوذباللہ یہ سارا قصہ مقدمہ کا اپنی راست گفتاری ثابت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے ۔وَاِلاَّ ڈاکخانہ کا وہ قاعدہ پیش کیا جائے۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس اعتراض کی فکر تھی اور میںنے محکمہ ڈاک کے پرانے قوانین کی دیکھ بھال شروع کی تو ۱۸۶۶ء کے ایکٹ نمبر۱۴ دفعہ ۱۲ و ۵۶ اور نیزگورنمنٹ آف انڈیا کے نو ٹیفکیشن نمبر۲۴۴۲مورخہ۷ ؍دسمبر ۱۸۷۷ء دفعہ ۴۳میں صاف طور پر یہ حوالہ نکل آیا کہ فلاں فعل کا ارتکاب جرم ہے جس کی سزا یہ ہے یعنی وہی جو حضرت صاحب نے لکھی تھی اور اس پر مزید علم یہ حاصل ہوا کہ ایک عینی شہادت اس بات کی مل گئی کہ واقع میں حضرت صاحب کے خلاف محکمہ ڈاک کی طرف سے ایسامقدمہ ہوا تھااور وہ اس طرح پر کہ میں اس حوالہ کا ذکر گورداسپور میں ملک مولابخش صاحب احمدی کلرک آف دی کورٹ کے سا تھ کر رہا تھا کہ اوپر سے شیخ نبی بخش صاحب وکیل آگئے جو کہ گورداسپور کے ایک بہت پرانے وکیل ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے مخالفین میں سے ہیں چنانچہ انہوںنے مولوی کرم دین جہلمی والے مقدمہ میںبڑی سر گرمی سے حضرت صاحب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی۔انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ یہ مقدمہ میرے سامنے گورداسپور میں ہوا تھا اور مرزا صا حب کی طرف سے شیخ علی احمد وکیل مرحوم نے پیروی کی تھی ۔چنانچہ مولوی فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے کہنے پر شیخ نبی بخش نے مجھے ایک تحریری شہادت لکھ دی جس کی عبارت یہ ہے:۔ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرزا صاحب پر ڈاک خانہ والوں نے مقدمہ فوجداری دائر کیا تھا اور وہ پیروی کرتے تھے ۔مرزا صاحب کی طرف سے شیخ علی احمد وکیل پیروکار تھے ۔میں اور شیخ علی احمد کچہری میں اکٹھے کھڑے تھے جبکہ مرزا صاحب (ان کو ) اپنا مقدمہ بتا رہے تھے ۔خواہ مقدمہ کم محصول کا تھا یا لفا فہ (میں)مختلف مضامین کے کاغذات(ڈالنے) کا تھا ۔بہر حال اسی قسم (کا )تھا۔ چونکہ میں نے پیروی نہیں کی اس لئے دفعہ یا د نہیں رہی ۔فقط نبی بخش ۲۲؍ جنوری ۱۹۲۴ء ۔‘‘ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے اس مقدمہ کا ذکر ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘میں کیا ہے۔
{ 316} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیا ن کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت صاحب کو بیعت لینے کاحکم آیاتو سب سے پہلی دفعہ لدھیانہ میں بیعت ہوئی ۔ایک رجسٹر بیعت کنندگان تیار کیا گیا جس کی پیشانی پر لکھا گیا ’’بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ و طہارت‘‘اورنام معہ ولدیت وسکونت لکھے جاتے تھے۔اوّل نمبرحضرت مولوی نورالدین صاحب بیعت میں داخل ہوئے، دوئم میرعباس علی صاحب ،ان کے بعد شائد خاکسار ہی سوئم نمبر پر جاتا لیکن میر عباس علی صاحب نے مجھ کو قاضی خواجہ علی صاحب کے بلانے کے لئے بھیج دیا کہ اُن کو بلا لاؤغرض ہمارے دونوں کے آتے آتے سات آدمی بیعت میں داخل ہو گئے ان کے بعد نمبر آٹھ پر قاضی صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور نمبر نو میں خاکسار داخل ہوا پھر حضرت صاحب نے فرما یا کہ شاہ صاحب اور کسی بیعت کرنے والے کو اندر بھیج دیں ۔چنانچہ میں نے چوہدری رستم علی صاحب کواندر داخل کر دیا اور دسویںنمبر پر وہ بیعت ہو گئے ۔اس طرح ایک ایک آدمی باری باری اندر جاتا تھا ۔اور دروازہ بند کر دیا جاتا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیعت اولیٰ میں بیعت کرنے والوں کی ترتیب کے متعلق روایات میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے جویا تو کسی راوی کے نسیان کی وجہ سے ہے اور یا یہ بات ہے کہ جس نے جو حصہ دیکھا اس کے مطابق روایت بیان کردی ہے۔
{ 317} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان فرمایا کرتے تھے کہ ابھی ہماری عمر تیس سال کی ہی تھی کہ بال سفید ہونے شروع ہو گئے تھے اور میرا خیال ہے کہ پچپن سال کی عمر تک آپ کے سارے بال سفید ہو چکے ہوں گے ۔اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی کے مطالعہ سے پتا لگتا ہے کہ وفات کے وقت آپ کے صرف چند بال سفید تھے ۔در اصل اس زمانہ میں مطالعہ اور تصنیف کے مشاغل انسان کی دماغی طاقت پر بہت زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں ۔باینہمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عام قویٰ آخر عمر تک بہت اچھی حالت میں رہے اور آپ کے چلنے پھرنے اور کام کاج کی طاقت میں کسی قسم کی انحطاط کی صورت رونما نہیں ہوئی بلکہ میں نے بھائی شیخ عبد الرحیم صاحب سے سُنا ہے کہ گو درمیان میں آپ کا جسم کسی قدر ڈھیلاہو گیا تھا لیکن آخری سالوں میں پھر خوب سخت اور مضبوط معلوم ہوتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی عبد الرحیم صاحب کوجسم کے دبانے کا کافی موقع ملتا تھا۔
{ 318} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت صاحب قادیان کے شمال کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے ۔میں اور شیخ حامد علی مرحوم ساتھ تھے ۔ میرے دل میں خیال آیا کہ سنا ہوا ہے کہ یہ لوگ دل کی باتیں بتا دیتے ہیں ۔آؤ میں امتحان لوں ۔چنانچہ میں نے دل میں سوال رکھنے شروع کئے۔اورحضرت صاحب انہی کے مطابق جواب دیتے گئے ۔یعنی جو سوال میں دل میں رکھتا تھا اسی کے مطابق بغیر میرے اظہار کے آپ تقریر فرمانے لگ جاتے تھے ۔چنانچہ چار پانچ دفعہ لگا تار اسی طرح ہوا اس کے بعد میں نے حضرت صاحب سے عرض کر دیا کہ میں نے یہ تجربہ کیا ہے۔حضرت صاحب سُن کر ناراض ہوئے اور فرمایا تم شکر کرو تم پر اللہ کا فضل ہو گیا۔ اللہ کے مرسل اور اولیاء غیب دان نہیں ہوتے آئندہ ایسا نہ کرنا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب نے حضرت صاحب کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میں دل میں کو ئی سوال رکھ رہا ہوں ۔بلکہ آپ کیساتھ جاتے جا تے خود بخوددل میں سوال رکھنے شروع کر دیئے تھے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سچے اور جھوٹے مدعیوں میں ایک یہ بھی فرق ہوتا ہے کہ جھوٹا ہر بات میں اپنی بڑائی ڈھونڈتااور بزرگی منوانا چاہتاہے اورسچے کا صرف یہ مقصود ہوتا ہے کہ راستی اور صداقت قائم ہو۔چنانچہ ایک جھوٹا شخص ہمیشہ ایسے موقع پرنا جائز فائدہ اُٹھا کر دوسروں کے دل میں اپنی بزرگی کا خیال پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر سچا آدمی اپنی عزت اور بڑائی کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ راستی کو قائم کرتا ہے خواہ بظا ہر اس میں اس کی بزرگی کو صدمہ ہی پہنچتا ہو ۔
{ 319} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمدؐ یوسف صا حب پشاوری نے مجھے بذریعہ خط اطلاع دی کہ میں جب شروع میں قادیان گیاتو ایک شخص نے اپنے لڑکے کو حضرت صاحب کے سامنے ملاقات کے لئے پیش کیا۔جس وقت وہ لڑکا حضرت صاحب کے مصافحہ کیلئے آگے بڑھا تواظہار تعظیم کے لئے حضرت کے پاؤں کو ہا تھ لگانے لگا ۔ جس پر حضرت صاحب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اسے ایسا کرنے سے روکااور میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے جوش میں فرمایا کہ انبیا ء دنیا میں شرک مٹانے آتے ہیںاور ہمارا کام بھی شرک مٹانا ہے نہ کہ شرک قائم کرنا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو اسلام کا لُبِّ لُبَاب ہی ادب و احترام ہے چنانچہ اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ کا بھی یہی منشاء ہے کہ ہر چیز کا اس کے مرتبہ کے مطابق ادب واحترام کیا جاوے نہ کم نہ زیادہ کیونکہ افراط وتفریط ہر دو ہلاکت کی راہیں ہیں ۔
{ 320} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میںمجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوااور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح اداکی ۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دودو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوسے وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ تک اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قرأت فرماتے تھے اور رکوع اور سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْ مُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھانیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اورآپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ در اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھاناجائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے اس لئے لوگ عموماً سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں قادیان میں چونکہ صبح اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہو بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور در اصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہو ا سکے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظا ہر کر رہا ہے۔حدیث میں بھی آتاہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کروکیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شورنہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے،صبح ہو گئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے ۔
{ 321} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیا ن کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام الٰہی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ آپ اس صدی کے مجدّد ہیں (ابھی تک آپ کو مسیحیت و مہدیت کا دعوٰی نہ تھا) تو آپ نے ایک اشتہار کے ذریعہ جو اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں میں شائع کیا گیا تھایہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اس زمانہ کا مجدّد مقرر فرمایا ہے اور مجھے اس کام کیلئے مامور فرمایا ہے کہ میںاسلام کی صداقت بمقابلہ دوسرے مذاہب کے ثابت وقائم کروںاور نیز اصلاح اورتجدید دین کا کام بھی میرے سپرد فرمایا گیا ہے اور نیز آپ نے یہ بھی لکھا کہ میرے اندر روحانی طور پر مسیح ابن مریم کے کمالات و دیعت کئے گئے ہیں۔اور آپ نے تمام دنیا کے مذاہب کے متبعین کو دعوت دی کہ وہ آپ کے سامنے آکر اسلام کی صداقت کا امتحان کریں اور اپنے روحانی امراض سے شفاء پائیں یہ اشتہار بیس ہزار کی تعداد میںشائع کیا گیا اور منشی عبداللہ صاحب سنوری بیان کرتے ہیںپھر بڑے اہتمام کے ساتھ تمام دنیا کے مختلف حصوں میں بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک اس کی اشاعت کی گئی ۔ چنانچہ تمام بادشاہوں وفرماں روایان دول و وزراء ومدبرین و مصنفین وعلماء دینی ونوابوں و راجوں وغیرہ وغیرہ کو یہ اشتہار ارسال کیا گیا اور اس کام کے لئے بڑی محنت کے ساتھ پتے حاصل کئے گئے اور حتیّٰ الوسع دنیا کا کوئی ایسا معروف آدمی نہ چھوڑا گیا جو کسی طرح کوئی اہمیت یا اثر یا شہرت رکھتا ہو اور پھر اسے یہ اشتہار نہ بھیجا گیا ہو کیونکہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ جہاں جہاں ہندوستان کی ڈاک پہنچ سکتی ہے وہاں وہاں ہم یہ اشتہار بھیجیں گے نیز میاں عبد اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کا اردو حصہ پہلے چھپ چکا تھا اور انگریزی بعد میں ترجمہ کراکے اس کی پشت پرچھاپا گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اشتہار ابتداء ً غالباً ۱۸۸۴ء میں شائع کیا گیا اور پھر بعد میں ’’شحنہ حق‘‘اور ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘اور ’’برکات الدُعا‘‘ کے ساتھ بھی اس کی اشاعت کی گئی۔ او ر میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے اس کے ترجمہ کے لئے مجھے میاں الہٰی بخش اکونٹنٹ لاہور کے پاس بھیجا تھا اور فرمایا تھا کہ وہیں لاہور میںاس کا ترجمہ کراکے چھپوالیا جاوے ۔
{ 322} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی کے حصہ اول کی روایت نمبر ۶ میںجو سنگترہ کا واقعہ خاکسار نے لکھا ہے اس کے متعلق میرے ایک بزرگ نے مجھ سے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ روایت قابل توجیہہ ہے اور مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ چونکہ اس وقت حضرت میاںصاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ ابھی بالکل بچہ تھے اس لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے اُن کو خوش کرنے کے لئے بطور مزاح کے ایسا کیا ہو گا کہ چپکے سے اپنی جیب میں سے سنگترہ نکال کر درخت پر ہاتھ مارا ہوگا اور پھر ان کو وہ سنگترہ دے دیا ہو گا ۔ ورنہ اگر واقعی ایسا خارق عادت امر پیش آتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تصنیف یا تقریر میں اس کا ذکر فرماتے جیسا کہ آپ نے کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کا ذکر فرمایا ہے ۔خاکسار اس رائے کو وقعت کی نظر سے دیکھتا ہے اور عقلاً اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو اور اسی لئے خاکسار نے جب یہ روایت لکھی تھی تو اسے بغیر نوٹ کے چھوڑ دیا تھا لیکن خاکسار اس واقعہ کے ظاہری پہلو کو بھی ہرگز نا ممکن الوقوع نہیں سمجھتا اور نہ میرے وہ بزرگ جنہوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے ایسا خیال فرماتے ہیں ۔اور میرے نزدیک حضرت صاحب کے اسے شائع نہ کرنے سے بھی یہ استدلال یقینی طور پر نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ حضرت کی طرف سے بچہ کو خوش کرنے کے لئے مزاحًا ظہور پذیر ہوا تھاجہاں تک میں نے غور کیا ہے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جو نشانات وہ اپنے کسی نبی یا مامور کے ہاتھ پر ظا ہر کرتا ہے وہ عموماً دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو مخالفین کے لئے ظاہر کئے جا تے ہیں اور دوسرے وہ جو مؤمنین کے لئے ظہورپذیر ہوتے ہیں۔ اوّل الذکر قسم میں اخفاء کا پردہ زیادہ رکھا جاتا ہے۔اور احتمالات کے پہلو زیادہ کُھلے رہتے ہیں مگر ثانی الذکر قسم میں مقابلۃًاخفاء کم ہوتا ہے اورکچھ کچھ شہود کا پہلو غالب ہوتا جاتا ہے۔یہ اس لئے کہ خداوند تعالے ٰنے اپنے نہایت حکیمانہ فعل سے یہ مقدر کیا ہے کہ ایمان کی ابتدا غیب سے شروع ہو اور پھر جوں جوں ایک انسان ایمان کے راستہ پر قدم اُٹھاتا جاتا ہے اس کے لئے علیٰ قدر مراتب شہود کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔میں یقین رکھتا ہوں اور میرے اس یقین کے میرے پا س وجوہ ہیں کہ کئی نشانات انبیاء و مرسلین پر ایسے ظاہر ہوتے ہیں کہ جن کا وہ کسی فرد بشر پر بھی اظہار نہیں کرتے ۔کیونکہ وہ محض انکی ذات کے لئے ہوتے ہیں اورایسے نشانات میں ان کے مقام قرب وعرفان کے مطابق پورا پورا شہود کا رنگ ہوتا ہے ۔پس اگر کوئی خارق عادت امر حضرت مسیح موعود پر ظا ہر ہوا ہو اور حضرت نے اس کو عام طور پر ظاہر نہ کیا ہو تو میرے نزدیک یہ بات ہرگز قابل تعجب نہیں ہے۔واللہ اعلم۔یہ حقیقت جو خاکسار نے بیان کی ہے آنحضرت ﷺ( فداہ نفسی)کے حالات زندگی میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑے کھانے سے زیادہ آدمیوں کے شکم سیر ہو جانے اور تھوڑے پانی سے ایک بڑی جماعت کے سیراب ہو جانے اور آپ کی انگلیوںسے پانی کے پھوٹ پھوٹ کر بہنے وغیرہ وغیرہ واقعات صرف صحابہ کی جماعت کیلئے ظاہر ہوئے اور مشرکین کو ( جن کو بظاہر ان باتوں کی زیادہ ضرورت تھی ) ان نشانات میں سے حصہ نہ ملا ۔جس کی یہی وجہ تھی کہ جو نشانات مشرکین کو دکھائے گئے۔ان میں زیادہ اخفاء مقصودتھا ۔ہاں اس موقعہ پر مجھے یہ بھی یاد آیا کہ خود حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر کھانے کے زیادہ ہوجانے کا خارق عادت امر ظاہر ہوا مگر اس کے دیکھنے والے صرف آپ کے خاص خاص صحابہ تھے اور آپ نے کبھی ان باتوں کا عام طور پر اظہا ر نہیں فرمایااور کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کوجو آپ نے ظا ہر فر مایا تو اوّل تو خود اس کے متعلق میاں عبد ا للہ صاحب کی روایت سے ظاہر ہے کہ ابتداء ً آپ نے اسے مخفی رکھنے کی کوشش فرمائی تھی اور پھر میاں عبد اللہ صا حب کے اصرار پر اسے بڑی لمبی چوڑی تمہید کے بعد ظاہر فرمایا تھا ۔علاوہ ازیں اس کے بیان کرنے میں خاص حکمت تھی اور یہ کہ مسئلہ قدامت روح ومادہ کی بحث میں خلق مادہ کے اثبات کے لئے اس کے اظہار کی ضرورت پیش آگئی تھی اور چونکہ کُرتہ جس پر چھینٹے پڑے تھے موجود تھا اور اس کے ساتھ ایک دوسرے شخص کی ( جو اس واقعہ کے وقت عاقل بالغ مرد تھا اور حضرت کیساتھ کوئی دنیاوی یا جسمانی تعلق نہ رکھتا تھا ) عینی شہادت بھی موجود تھی اس لئے آپ نے اس واقعہ کو خدمت اسلام اور جہادفی سبیل اللہ کی غرض سے ظاہر فرمایااور ایک آریہ معترض پر حجت پوری کی ۔وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ۔علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس روایت میں حضرت والدہ صاحبہ بھی راویہ ہیں ۔
{ 323} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃالمہدی کے حصہ اوّل کی روایت نمبر ۱۰ (صحیح نمبر ۱۱) میں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔اس کا مطلب بعض لوگوں نے غلط سمجھا ہے ۔کیونکہ انہوں نے اس سے ایسا نتیجہ نکالا ہے کہ گویا منگل کا دن ایک منحوس دن ہے جس میں کسی کام کی ابتداء نہیں کرنی چاہیے ۔ایسا خیال کرنا درست نہیں اور نہ حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا بلکہ منشاء یہ ہے کہ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے دن اپنی برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں ۔مثلاً جمعہ کا دن مسلمانوں میں مسلّمہ طور پر مبارک ترین دن سمجھا گیا ہے ۔اس سے اتر کر جمعرات کا دن اچھا سمجھا جاتا ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ اپنے سفروں کی ابتدا ء اس دن میں فرماتے تھے ۔خلاصہ کلام یہ کہ دن اپنی برکات و تاثیرات کے لحاظ سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں اور اس توازن اور مقابلہ میں منگل کا دن گویا سب سے پیچھے ہے ۔کیونکہ وہ شدائد اور سختی کا اثر رکھتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی مذکور ہے نہ یہ کہ نعوذ باللہ منگل کا دن کوئی منحوس دن ہے ۔پس حتیّٰ الوسع اپنے اہم کاموں کی ابتداء کے لئے سب سے زیادہ افضال و برکات کے اوقات کا انتخاب کرنا چا ہیے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس غرض کو پورا کرنے کے لئے کو ئی نقصان بر داشت کیا جاوے یا کسی ضروری اور اہم کام میں توقف کو راہ دیا جاوے ہر ایک بات کی ایک حد ہوتی ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا شخص نقصان اُٹھاتا ہے اورمیں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ دنوں وغیرہ کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔ ان پر بالآ خر توہم پرستی غالب آ جاتی ہے ۔’’گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی‘‘کا اصول جیسا کہ اشخاص کے معاملہ میں چسپاں ہوتا ہے۔ ویسا ہی دوسرے امور میں بھی صادق آتاہے اور یہ سوال کہ دنوں کی تا ثیرات میں تفاوت کیوں اور کس وجہ سے ہے ۔یہ ایک علمی سوال ہے جس کے اُٹھا نے کی اس جگہ ضرورت نہیں ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حصہ اوّل کی منگل والی روایت میں ایک غلطی واقع ہو گئی تھی جو اب حصہ دوئم کی روایت نمبر۳۱۱ میں درست کر دی گئی ہے۔
{ 324} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اخلاق ذاتی کا مطالعہ کیا جاوے تو خدا اور اس کے رسول کی محبت ایک نہایت نمایاں حصہ لئے ہوئے نظر آتی ہے۔آپ کی ہر تقریر وتحریر ہر قول و فعل ہر حرکت و سکون اسی عشق و محبت کے جذبہ سے لبریز پا ئے جاتے ہیں ۔اور یہ عشق اس درجہ کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ تاریخ عالم میں اس کی نظیر نہیںملتی۔ دشمن کی ہر سختی کو آپ اس طرح برداشت کرجاتے تھے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں اور اس کی طرف سے کسی قسم کی ایذا رسانی اورتکلیف دہی اور بد زبانی آپ کے اندر جوش و غیظ وغضب کی حرکت نہ پیدا کر سکتی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کے خلاف ذرا سی بات بھی آپ کے خون میں وہ جوش اور ابال پیدا کر دیتی تھی کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال کیوجہ سے نظر نہ جم سکتی تھی ۔دشمن اور دوست ،اپنے اور بیگانے سب اس بات پر متفق ہیں کہ جو عشق و محبت آپ کو سرور کا ئنات کی ذات والاصفات سے تھااس کی نظیر کسی زمانہ میںکسی مسلمان میں نہیںپائی گئی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی زندگی کا ستون اور آپ کی روح کی غذا بس یہی محبت ہے۔جس طرح ایک عمدہ قسم کے اسفنج کا ٹکڑ ہ جب پا نی میں ڈال کر نکالا جاوے تو اس کا ہر رگ وریشہ اور ہر خانہ وگوشہ پانی سے بھر پور نکلتا ہے اور اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہتا کہ جس میں پانی کے سوا کوئی اور چیز ہو ، اسی طرح ہر دیکھنے وا لے کو نظر آتاتھا کہ آپ کے جسم اورروح مبارک کا ہر ذرّہ عشق الہٰی اور عشق رسول سے ایسا بھر پور ہے کہ اس میں کسی اور چیز کی گنجائش نہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّم۔واقعی جو ایمان محبت سے خالی ہے وہ ایک کوڑی کے مول کا نہیں ۔وہ ایک خشک فلسفیانہ عقیدہ ہے جس کا خدا کے دربار میںکچھ بھی وزن نہیں ۔ اعمال کا ایک پہاڑ جو عشق ومحبت سے معرّا ہے محبت کے ایک ذرّہ سے جو اعمال سے خالی ہو وزن میں کمتر ہے۔مجھے وہ وقت کبھی نہیں بھولتا ۔جب میں نے حدیث میں یہ پڑھا کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟آپؐ نے فرمایاکہ تم جو قیامت کا پوچھتے ہو تو اس کیلئے تم نے تیاری کیا کی ہے؟اس شخص نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ نماز،روزہ اور صدقہ وغیرہ کی تیاری تو زیادہ ہے نہیں ۔ مگر ہاں اللہ اور اس کے رسول کی محبت دل میں رکھتاہوں‘‘مجھے وہ وقت نہیں بھولا کہ جب میںنے اس شخص کا یہ قول پڑھا اور میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی اور میں اس خوشی کو کبھی نہیں بھولوں گا اور نہ بھول سکتا ہوں کہ جب میری نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی)کے اس جواب پر پڑی کہ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ یعنی ’’ تسلی رکھ تو وہیں رکھا جاویگا جہاں تیرے محبوب لوگ ہوں گے‘‘ایک اور دوسر ے موقع پر آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ اَلْمَرْأُ مَعَ مَنْ اَحَبَّیعنی انسان کو اس کے محبوب لوگوں کے پاس رکھا جاوے گا ۔میرا یہ مطلب نہیںحاشا وکلا کہ اعمال کے پہلو کو کمزور کر کے دکھائوں ۔ قرآن شریف نے مومن کی شان میں جہاں جہاں بھی ایمان کا ذکر کیا ہے وہاں لازماً ساتھ ہی اعمال صالح کا بھی ذکر کیا ہے ۔اور یہ بات عقلاً بھی محال ہے کہ محبت اور ایمان تو ہو مگر اعمال صالح کے بجالانے کی خواہش اور کوشش نہ ہو ۔عملی کمزوری ہو جانا ایک علیحدہ امر ہے مگر سنت نبوی کی اتباع اور اعمال صالح کے بجالانے کی خواہش اور کوشش کبھی ایمان سے جدا نہیں ہو سکتے اور جو شخص محبت کا مدعی ہے اور اپنے محبوب کے احکام اور منشاء کے پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے ۔پس میرے اس بیان سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ اعمال کی ا ہمیت کو کم کر کے دکھائوں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اخلاص و محبت کی اہمیت کو واضح کروں اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کروں کہ خشک ملانوں کی طرح آنکھیں بند کرکے محض شریعت کے پوست پر چنگل مارے رکھنا ہر گز فلاح کا راستہ نہیں ہے ۔
{325} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ تمہارے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بچپن کی بے پروائی میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہو گئی اس پر حضرت مسیح موعود ؑ کو اتنا غصّہ آیا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے بڑے غصّہ میں مبارک احمد کے شانہ پر ایک طماچہ مارا جس سے اس کے نازک بدن پر آپ کی انگلیوں کا نشان اُٹھ آیا اور آپ نے اس غصّہ کی حالت میں فرمایا کہ اسکو اس وقت میرے سامنے سے لے جائو۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم ہم سب بھائیوں میں سے عمر میں چھوٹا تھا اور حضرت صاحب کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا۔حضرت صاحب کو اس سے بہت محبت تھی چنانچہ اس کی وفات پر جو شعر آپ نے کتبہ پر لکھے جانے کیلئے کہے اس کا ایک شعر یہ ہے
؎ جگر کا ٹکڑا مبار ک احمد جو پا ک شکل اور پاک خُو تھا
وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر
مبارک احمد بہت نیک سیرت بچہ تھا اور وفات کے وقت اس کی عمر صرف کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی ۔لیکن حضرت صاحب نے قرآن شریف کی بے حرمتی دیکھ کر اس کی تادیب ضروری سمجھی ۔
{ 326} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں نبی بخش صاحب متوطن بن باجوہ ضلع سیالکوٹ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں میں نے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی بنا کر پیش کر نا چاہتا ہوں اسکے نگینہ پر کیا الفاظ لکھے جاویں ؟ حضرت صاحب نے فرمایا ’مولا بس ‘ کے الفاظ لکھ دیں ۔چنانچہ میں نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی انگوٹھی ہے جس کا سیرۃ المہدی حصّہ اول کی روایت نمبر۱۶ میں ذکر گزر چکا ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ’ ’مولا بس‘ ‘ کے الفاظ گو یا ایک طرح ’’ الیس اللّٰہ بکاف عبدہٗ ‘‘ کا ترجمہ ہیں اور اس حالت رضا وفنا کو ظاہر کر رہی ہیں جو حضرت مسیح موعود ؑ کے قلب صافی پر ہر وقت طاری رہتی تھی ۔
{ 327} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اُترے ہو ئے کپڑوں کو ناک کے ساتھ لگا کر سونگھا ہے ۔مجھے کبھی بھی ان میں پسینہ کی بو نہیں آئی ۔یہ خیال مجھے اس طرح آیا کہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ (خاکسارکی نانی اماں ) سے یہ سنا تھا کہ جس طرح اور لوگوں کے کپڑوں میں پسینہ کی بو ہو تی ہے اس طرح حضرت صاحب کے کپڑوں میں بالکل نہیں ہوتی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ ظاہری صفائی کے متعلق اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ احکام پائے جاتے ہیں اور غسل کر نے اور کپڑے صاف رکھنے اور خوشبو لگا نے کی بہت تاکید آئی ہے ۔کیونکہ علاوہ طبی طو ر پر مفید ہونے کے ظاہری صفائی کا باطنی صفائی پر بھی اثر پڑتا ہے ۔اور روح کی شگفتگی اور بشاشت ، جسم کی طہارت اور پاکیزگی سے متا ثر ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے انبیاء اور مرسلین کو خصوصاً ظاہری صفائی کا بہت خیال رہتا ہے ۔اور وہ اپنے بدن اور کپڑوں کو نہایت پاک و صاف حالت میں رکھتے ہیں ۔اور کسی قسم کی عفونت اور بدبو کو اپنے اندر پیدا نہیں ہونے دیتے ۔ کیونکہ ان کو ہر وقت خدا کے دربار میں کام پڑتا ہے اور فرشتوں سے ملاقات رہتی ہے جہاں کسی قسم کی بد بو دار چیز کو رسائی نہیں ہو سکتی ۔ نیز خاکسار عر ض کرتا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن نماز میں سجدہ کیا کرتے تھے وہاں سے کئی کئی دن تک بعد میں خوشبو آتی رہتی تھی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود بہت کثرت کے ساتھ خوشبو کا استعمال فرماتے تھے ۔ورنہ جیسا کہ بعض وقت عوام سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔یہ کوئی معجزہ نہیں ہوتااور نہ کوئی خارق عادت بات ہوتی ہے بلکہ غیر معمولی صفائی اور طہارت کے نتیجہ میں یہ حالت پیدا ہو جاتی ہے ۔مگر افسوس کہ آج کل کے مسلمان جہاں اور خوبیوں کو کھو بیٹھے ہیں وہاں صفائی اور طہارت کی خوبی سے بھی اِلاَّ ما شاء اللہ معرا ہیں اور جن لوگوں کو کچھ تھوڑا بہت صفائی کاخیال رہتا ہے ان کی نظر بھی صرف سطحی صفائی تک محدود رہتی ہے ۔یعنی اوپر کے کپڑے جو نظر آتے ہیں وہ تو صاف رکھے جاتے ہیں۔لیکن بدن اور بدن کے ساتھ کے کپڑے نہایت درجہ میلے اور متعفن حالت میںرہتے ہیں۔
{ 328} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے بیان فرمایا کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے حدیث پڑھتا تھاتو ایک دفعہ گھر میں مجھ سے حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ میاں تم آج کل مولوی صاحب سے کیا پڑھا کرتے ہو ؟میں نے کہا بخاری پڑھتا ہوں ۔آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ مولوی صاحب سے یہ پوچھنا کہ بخاری میں نہانے کا ذکر بھی کہیں آتا ہے یا نہیں؟ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نہانے وغیرہ کے معاملہ میں کچھ بے پروائی فرماتے تھے اور کپڑوں کے صاف رکھنے اور جلدی جلدی بدلنے کا بھی چنداں خیال نہ رکھتے تھے ۔ اس لئے ان کو متوجہ کرنے کے لئے حضرت صاحب نے یہ الفاظ فرمائے ہوںگے ۔
{ 329} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم لاہوری نے اپنے مکان پر حضرت صاحب کو دعوت دی چنانچہ حضرت صاحب ان کی کوٹھی پر تشریف لے گئے ۔اس موقعہ پر مستری محمد موسیٰ صاحب نے حضرت صاحب سے سوال کیا کہ حضور لوگوں میں مشہور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بدن مبارک پر مکھی نہیں بیٹھتی تھی اور آپ جب پاخانہ کر تے تھے تو زمین اسے فوراً نگل لیتی تھی کیا یہ درست ہے ؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ فضول باتیں ہیں جو یونہی بعد میں لوگوں نے بنا لی ہیں اور پھر آپ نے چند منٹ تک اس قسم کے مسئلوں کے متعلق ایک مختصر سی اصولی تقریر فرمائی جس کا ماحصل یہ تھا کہ انبیاء اپنے جسمانی حالات میں دوسرے لوگوں کی طرح ہو تے ہیں ۔اور خدا کے عام قانون کے باہر ان کا طریق نہیں ہوتا ۔میں اسوقت بچہ تھا مگر یہ باتیں اور اس مجلس کا نقشہ اب تک میرے ذہن میں اسی طرح تازہ ہے ۔
{ 330} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زبان سے غصّہ کی حالت میں بھی گالی یا گالی کا ہمرنگ لفظ نہیں سُنا ۔زیادہ سے زیادہ بیوقوف یا جاہل یا احمق کا لفظ فرما دیا کر تے تھے اور وہ بھی کسی ادنیٰ طبقہ کے ملازم کی کسی سخت غلطی پر شاذ و نادر کے طور پر ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت صاحب کسی ملازم کی سخت غلطی یا بیوقوفی پر جانور کا لفظ استعمال فرماتے تھے ، جس سے منشاء یہ ہوتا تھا کہ تم نے جو یہ فعل کیا ہے یہ انسان کے شایانِ شان نہیں بلکہ جانوروں کا سا کام ہے۔
{ 331} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مجھے پچیس سال تک حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے عادات و اطوار اور شمائل کو بغور دیکھنے کا موقعہ ملا ہے ۔گھر میں بھی اور باہر بھی میں نے اپنی ساری عمر میں آج تک کا مل طور پر تصنع سے خالی سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کسی کو نہیں دیکھا ۔حضور کے کسی قول یا فعل یا حرکت و سکون میں بناوٹ کا شائبہ تک بھی میں نے کبھی محسوس نہیں کیا۔
332 بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیا ر سے چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح سے کہ کبھی کسی بچہ کا پہنچہ پکڑ لیا۔ اور کوئی بات نہ کی خاموش ہو رہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پائوں پکڑ کر اس کے تلوے کو سہلانے لگے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کی اس روایت نے میرے دل میں ایک عجیب درد آمیز مسرت و امتنان کی یاد تازہ کی ہے کیونکہ یہ پہنچہ پکڑ کر خاموش ہو جانے کا واقعہ میرے ساتھ بھی ( ہاں اس خاکسار عاصی کے ساتھ جو خدا کے مقدس مسیح کی جوتیوں کی خاک جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا) کئی دفعہ گذراہے ۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ورنہ ’’ ہم کہاں بزم شہر یار کہاں ۔‘‘
{ 333} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ والد بزرگ وار(یعنی خاکسار کے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم ) نے اپنا ایک بانات کا کوٹ جو مستعمل تھا ہمارے خالہ زاد بھائی سید محمد سعید کو جو ان دنوں میںقادیان میں تھا کسی خادمہ عورت کے ہاتھ بطور ہدیہ بھیجا ۔محمد سعید نے نہایت حقارت سے وہ کوٹ واپس کر دیا اور کہا کہ میں مستعمل کپڑا نہیں پہنتا ۔جب وہ خادمہ یہ کوٹ واپس لا رہی تھی تو راستہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس سے پو چھا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرصاحب نے یہ کوٹ محمدؐسعید کو بھیجا تھا مگر اس نے واپس کر دیا ہے کہ میں اُترا ہوا کپڑا نہیں پہنتا ۔حضرت صاحب نے فرمایاکہ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہو گی ۔تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤہم پہنیں گے اور اُن سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے ۔
{ 334} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دفعہ دوپہر کے وقت میں مسجد مبارک میں داخل ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعودؑ اکیلے گنگناتے ہوئے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کایہ شعر پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ٹہلتے بھی جاتے تھے۔
کنت السواد لناظری فعمی علیک الناظر
من شاء بعدک فلیمت فعلیک کنت احاذر
میری آہٹ سن کر حضرت صاحب نے چہرے پر سے رومال والا ہاتھ اُٹھالیا تو میںنے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے۔حضرت حسان ؓ آنحضرت ﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور گویا آپ کے دربار ی شاعرتھے انہوں نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر یہ شعر کہا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’تو میری آنکھ کی پتلی تھا ۔پس تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے پرواہ نہیںکیونکہ مجھے تو بس تیری ہی موت کا ڈر تھا جو واقع ہو چکی۔ اس شعر کہنے والے کی محبت کااندازہ کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔مگراس شخص کے سمندر عشق کی تہ کو کون پہنچے کہ جو اس واقعہ کے تیرہ سو سال بعد تنہائی میںجب کہ اسے خداکے سوا کوئی دیکھنے والانہیں ۔یہ شعر پڑھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کاتاربہ نکلتا ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کی آنکھیں بات با ت پر آنسو بہانے لگ جاتی ہیں بلکہ وہ وہ شخص ہے کہ جس پراس کی زندگی میں مصائب کے پہاڑٹوٹے اور غم و الم کی آندھیاں چلیں مگر اس کی آنکھوں نے اس کے جذبات قلب کی کبھی غمازی نہیں کی۔
پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ:۔ یہ شعر کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْالخ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا تھا۔ اور مجھے سُنا کر فرمایا۔ کہ کاش! حسّان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعر حسّان کے ہوتے۔ پھر آپ چشم پُرآب ہو گئے۔ اس وقت حضرت اقدس نے یہ شعر کئی بار پڑھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسّان بن ثابتؓ کے شعر کے متعلق پیرسراج الحق صاحب سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں۔ جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہو گی۔ ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت جھلکتی ہے جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ اور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ بلند معیار نظر نہیں آتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرت ﷺ کے متعلق نظر آتا ہے۔
{335} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ماسٹرمحمدنذیراحمد خان صاحب متوطن نا دون ضلع کانگڑہ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ کیلئے دھرم سالہ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں امید وارمحرر ہوا تھا ۔ ان دنوں کا واقعہ ہے کہ میں دفترمیں بیٹھا تھا اور میرے ہا تھ میں ریویوآف ریلیجنز کا پرچہ تھا کہ دھرم سالہ کے ڈسٹرکٹ بورڈ کا ہیڈ کلرک جس کا نام پنڈت مولا رام تھادفتر ضلع میں کسی کام کیلئے آیا ۔جب اس کی نظر ریویو آف ریلیجنز پر پڑی تو اس نے حیرا ن ہو کر مجھ سے پو چھا کہ کیا آپ بھی احمدی ہیں ؟ میں نے کہا ہاں میں احمدی ہوں ۔اس نے کہا تو پھرمیں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوںجو حضرت مرزا صاحب کیساتھ میرا گذرا ہے چنانچہ اس نے بیان کیا کہ میں ایک مذہبی خیال کا آدمی ہوں اور چونکہ مرزا صاحب کی مذہبی امور میں بہت شہرت تھی میں نے ان کے ساتھ بعض مذہبی مسائل میںخط و کتابت شروع کی ۔ اس خط وکتابت کے دوران میں مَیں نے ان کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں بعض اعتراض تھے۔حضرت مرزا صاحب کا جو جواب میرے پاس اس خط کا آیا اس میںمیرے اعتراضات کے متعلق کچھ جوابات لکھ کرپھر مرزا صاحب نے یہ لکھا تھا کہ پنڈت صاحب! آپ ان باتوں میںالجھے ہوئے ہیں حالانکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا کا غضب آسمان پر بھڑک رہا ہے اور اس کا عذاب سالوں میں نہیں، مہینوں میں نہیں ،دنوں میں نہیں، گھنٹوں میں نہیں ،منٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں زمین پر نازل ہونے والا ہے ۔ ان الفاظ کو پڑھ کر مجھ پر بہت اثر ہوا اور میں نے دل میںکہا کہ خواہ کچھ بھی ہو مرزا صاحب ایک نیک آدمی ہیں ان کی بات یو نہی رائیگاں نہیںجا سکتی ۔چنانچہ میںہر لحظہ اسی انتظار میں تھا کہ دیکھئے اب کیاہوتا ہے اور میں نے اسی خیال میں اس رات کو سوتے ہوئے مرزا صاحب کایہ خط اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا ۔ صبح کو جب میںاُٹھا تو حسب عادت اشنان کی تیاری کرنے لگا اور اپنے ملازم کو میں نے بازارسے دہی لانے کیلئے بھیجا اور اپنے مکان میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا ۔اس وقت اچانک زلزلے کاایک سخت دھکا آیا اور اس کے بعد پیہم اس طرح دھکوں کا سلسلہ شروع ہوا کہ میرے دیکھتے دیکھتے آناً فاناًدھرم سالہ کی تمام عمارتیں ریزہ ریزہ ہو کر خاک میں مل گئیں؛اس وقت حضرت مرزاصاحب کے اس خط کا مضمون میری آنکھوں کے سامنے پھررہا تھا اور میرے منہ سے بے اختیار نکل رہا تھا کہ واقعی یہ دنوں اور گھنٹوں اور منٹوں کا عذاب نہیںبلکہ سیکنڈوں کا عذاب ہے ۔جس نے ایک آن کی آن میں تمام شہر کو خاک میں ملا دیا ہے اور اس کے بعد میں حضرت مرزا صا حب کابہت معتقد ہو گیا اور میں اُن کو ایک واقعی خدا رسیدہ انسان اور مصلح سمجھتا ہوں ۔ماسٹرنذیرخان صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب وہ یہ قصّہ بیان کر چکا تو دفتر ضلع کے ایک ہندو کلرک نے بطور اعتراض کے کہا کہ مرزا صاحب پر ایک جرم کی سزا میں جرمانہ بھی تو ہوا تھا ۔ ابھی میں نے اس کا جواب نہیں دیا تھا کہ پنڈت مولا رام خود بخود بولا کہ ہاں ایک بیوقوف نے جرمانہ کردیا تھا مگر عدالت اپیل میں وہ بری ہو گئے تھے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ وہی زلزلہ ہے جو ۱۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا تھااور جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات میں متعدد جگہ ذکر کیا ہے ۔یہ زلزلہ ہندوستان کی تاریخ میں بے مثال تھاچنانچہ میں نے انسائیکلوپیڈیا میں پڑھا ہے کہ اس زلزلہ میں علاوہ لاکھوں کروڑوں روپیہ کے نقصان کے پندرہ ہزار جانوںکا بھی نقصان ہوا تھا۔
{ 336} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان میں کسی قدر لکنت تھی اور آپ پرنالے کو پنالہ فرمایا کرتے تھے اورکلام کے دوران میں کبھی کبھی جوش کی حالت میںاپنی ٹانگ پر ہاتھ بھی مارا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب کی یہ روایت درست ہے مگر یہ لکنت صرف کبھی کبھی کسی خاص لفظ کے تلفظ میں ظاہر ہوتی تھی ورنہ ویسے عام طور پر آپ کی زبان بہت صاف چلتی تھی اور ٹانگ پر ہاتھ مارنے کے صرف یہ معنی ہیں کہ کبھی کبھی جوش تقریر میں آپ کا ہاتھ اُٹھ کر آپ کی ران پر گرتا تھا۔
{ 337} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور عبدالرحیم خان صاحب پسر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری مسجد مبارک میں کھانا کھا رہے تھے جو حضرت کے گھر سے آیا تھا ۔ناگاہ میری نظر کھانے میںایک مکھی پر پڑی چونکہ مجھے مکھی سے طبعاً نفرت ہے میںنے کھاناترک کر دیا ۔اس پر حضرت کے گھر کی ایک خادمہ کھانا اُٹھا کر واپس لے گئی ۔اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت حضرت اقدس اندرون خانہ کھانا تناول فرما رہے تھے۔خادمہ حضرت کے پاس سے گذری تو اس نے حضرت سے یہ ماجرہ عرض کر دیا حضرت نے فوراً اپنے سامنے کا کھانا اُٹھا کر اس خادمہ کے حوالے کر دیا کہ یہ لے جاؤاور اپنے ہاتھ کا نوالہ بھی برتن میں ہی چھوڑ دیا ۔وہ خادمہ خوشی خوشی ہمارے پاس وہ کھانا لائی اور کہا کہ لو حضرت صاحب نے اپنا تبرک دیدیا ہے۔ اس وقت مسجد میں سیدعبدالجبارصاحب بھی جو گذشتہ ایام میں کچھ عر صہ با دشاہ سوات بھی رہے ہیں،موجود تھے چنانچہ وہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہو گئے۔
{ 338} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور میں قیام پذیر تھے ایک دفعہ رات کو بارش ہونی شروع ہو گئی ۔اس وقت حضرت اقدس مکان کی چھت پر تھے جہاں پر کہ ایک برسا تی بھی تھی بارش کے اُتر آنے پرحضور اس برساتی میں داخل ہونے لگے مگر اس کے عین دروازے میں مولوی عبداللہ صاحب متوطن حضر و ضلع کیمبل پورنماز تہجد پڑھ رہے تھے۔انہیں دیکھ کر آپ دروازہ کے باہر کھڑے ہو گئے اور اسی طرح بارش میں کھڑے رہے حتیٰ کہ مولوی عبداللہ صاحب نے اپنی نماز ختم کر لی پھر آپ برساتی میں داخل ہوئے ۔
{ 339} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ اوّل ہی اوّل جب حضرت مسیح موعود علیہ السلا م زمانہ مجددیت میں لدھیانہ تشریف لے گئے اس وقت سوائے ایک شخص یعنی میر عباس علی صاحب جو اس عاجز کے خسر اور چچا تھے کوئی اور حضرت کی صورت سے آشنا نہ تھااس سفر میں تین آدمی حضرت صاحب کے ہمراہ تھے۔ مولوی جان محمد صا حب اورحافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملاوامل صاحب،میر عباس علی صاحب اور ان کے ساتھ کئی ایک اور آدمی پلیٹ فارم کا ٹکٹ لے کر حضرت صاحب کے استقبال کے لئے سٹیشن پر گئے اور گاڑی میں آپ کو اِدھر اُدھر تلاش کرنے لگے لیکن حضرت صاحب کہیں نظر نہ آئے ۔کیونکہ آپ گاڑی کے پہنچتے ہی نیچے اُتر کر سٹیشن سے باہر تشریف لے آئے تھے اور پھاٹک کے پاس کھڑے تھے۔خوش قسمتی سے میں بھی اس وقت وہیںکھڑا تھا کیونکہ مجھے خیال تھا کہ حضرت صاحب ضرور اسی راستہ سے آئیں گے۔ میں نے اس سے قبل حضرت صاحب کودیکھا ہوا نہیںتھا۔لیکن جونہی کہ میری نظر آپ کے نورانی چہرہ پر پڑی میرے دل نے کہا کہ یہی حضرت صا حب ہیں اور میں نے آگے بڑھ کر حضرت صاحب سے مصافحہ اور دست بوسی کر لی ۔اس کے بعد میرعباس علی صا حب وغیرہ بھی آ گئے اس وقت حضور کی زیارت کے لئے سٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا ۔جن میں نواب علی محمد صا حب رئیس جھجر بھی تھے۔نواب صاحب مذکور نے میر صاحب سے کہا کہ میر صاحب! میری کوٹھی قریب ہے اور اس کے گردباغ بھی ہے۔بہت لوگ حضرت مرزا صا حب کی ملاقات کیلئے آئیں گے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرا لیا جاوے ۔میر صا حب نے کہا کہ آج کی رات تو ان مبارک قدموں کو میرے غریب خانہ میں پڑنے دیںکل آپ کو اختیار ہے۔نواب صاحب نے کہا کہ ہا ں بہت اچھا ۔غرض حضرت صاحب کوقاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بٹھا کر ہمارے محلہ صوفیاںمیں ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان میں اتارا گیا ۔نماز عصر کا وقت آیا تو حضرت صاحب نے اپنی جرابوں پر مسح کیا ۔اس وقت مولوی محمدؐ موسیٰ صاحب اورمولوی عبد القادر صاحب دونوں باپ بیٹا موجود تھے ان کو مسح کرنے پر شک گذراتو حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت کیا یہ جائز ہے ؟آپ نے فرمایا ۔ہاں جائز ہے اس کے بعدمولوی محمدؐموسیٰ صاحب نے عرض کیا کہ حضور نماز پڑھائیں ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی عبدالقادر صاحب پڑھائیں پھراس کے بعدمولوی عبد القادرصاحب ہی نمازپڑ ھاتے رہے۔اس موقعہ پرحضرت صاحب غالباً تین دن لدھیانہ میں ٹھہرے ۔بہت لوگ ملاقات کے لئے آتے جاتے تھے اور حضرت صاحب جب چہل قدمی کے لئے باہر تشریف لے جاتے تھے تواس وقت بھی بڑا مجمع لوگوں کا ساتھ ہوتا تھا ۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ سفر غالباً ۱۸۸۴ء کے قریب کا ہو گامیر عباس علی صاحب جن کا اس روایت میں ذکرہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے ملنے والے تھے مگر افسوس کہ دعویٰ مسیحیت کے وقت ان کو ٹھوکر لگی اور وہ زمرہ مخالفین میں شامل ہوگئے اور پھر جلد ہی اس دنیا سے گذر گئے ۔ نواب علی محمدؐصاحب رئیس جھجر لدھیانہ میں رہتے تھے اورحضرت صاحب سے بہت اخلاص رکھتے تھے۔مگر افسوس کہ اوائل زمانہ میں ہی فوت ہو گئے۔قاضی خواجہ علی صاحب بھی بہت پرانے اور مخلص لوگوں میں سے تھے اوراب فوت ہو چکے ہیں ۔مولوی عبد القادر صاحب بھی جو حکیم محمدؐ عمر صاحب کے والدتھے کچھ عر صہ ہوا فوت ہو چکے ہیں اور ان کے والد مولوی محمدؐ موسیٰ صاحب تو اوائل زمانہ میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔مولوی جان محمدؐجو حضرت صاحب کے ہمراہ لدھیانہ گئے تھے قادیان کے رہنے والے تھے اور حضرت صا حب کے ایک مخلص خادم تھے۔ان کے لڑکے عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہوں گے میاں غفار ایکہ بان جو کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکا ہے۔مولوی جان محمدؐ کا بھائی تھا۔
{ 340} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر عنایت علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مالیر کوٹلہ بھی تشریف لے گئے تھے۔ قریب آٹھ دس آدمی حضور کے ہمراہ تھے ۔اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیںہوئی تھی میں بھی حضور کے ہمر کاب تھا ۔حضرت صا حب نے یہ سفر اس لئے اختیارکیا تھاکہ بیگم صا حبہ یعنی والدہ نواب ابرہیم علی خان صا حب نے اپنے اہل کاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھاکہ حضور مالیر کو ٹلہ تشریف لا کر میرے لڑکے کو دیکھیں اوردعا فرمائیں ۔کیونکہ نواب ابراہیم علی خان صاحب کوعرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا ۔حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب ما لیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیںتاکہ آپ باغ میںجا کرنواب صاحب کو دیکھیں۔مگر حضرت اقدس نے فرمایاکہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے چنانچہ آپ پیدل ہی گئے۔اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوںکا آپ کے ساتھ تھا ،جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے سا تھیوں کے ٹھہر گئے ۔ نواب صا حب کو ٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صا حب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت سے سلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا۔ اس کے بعد نواب صا حب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صا حب کوٹھی کے اندر چلے گئے اورقریباً آدھ گھنٹہ اندر رہے ۔چونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندرکیا کیا باتیں ہوئیں۔اس کے بعدحضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی جامع مسجد کی طرف چلے آئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہرچلے گئے ۔مسجد میںپہنچ کر حضرت صاحب نے فر مایا کہ سب لوگ پہلے وضوکریںاور پھردورکعت نمازپڑھ کر نواب صا حب کی صحت کے واسطے دعاکریں ۔کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں اور ہم بھی دعا کرتے ہیں ۔غرض حضرت اقدس نے مع سب لوگوں کے دُعا کی اور پھراس کے بعدفوراً ہی لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور باوجوداصرارکے مالیرکوٹلہ میں اور نہ ٹھہرے۔
{ 341} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خواجہ عبد الرحمٰن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان کے سکول میں پڑھتا تھا تو اس زمانہ میں جو لوگ حضور کے لئے کوئی پھل وغیرہ بطور ہدیہ لاتے تھے تو بعض اوقات میرے ہاتھ اندرون خانہ کو بھجوا تے تھے عموماً حضور کچھ پھل بندہ کو بھی عطا فرما دیتے تھے اور بعض دفعہ تحریر کے کام میں اس قدر استغراق ہوتا تھا کہ بغیر میری طرف نظر اُٹھانے کے فرما دیتے تھے کہ رکھ دو ۔میں رکھ کر چلا آتا تھا ۔
{ 342} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خواجہ عبد الرحمٰن صا حب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک بڑا موٹا کتاحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر میں گھس آیا اور ہم بچوں نے اسے دروازے بند کر کے مارنا چاہا ۔ لیکن جب کتے نے شورمچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتا لگ گیا اور آپ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کرکتے کو چھوڑ دیا ۔
{ 343} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خواجہ عبد الرحمٰن صاحب کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ مکرمی لسی ڈار ساکن آسنورعلاقہ کشمیر اپنے بھائی حاجی عمر ڈار صاحب سے روایت کرتے تھے کہ جب میں ( عمر ڈار صاحب)پہلی دفعہ قادیان میں بیعت کے لئے آیا تو میرے یہاں پہنچنے کے بعد جو پہلی تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی وہ حقوق اقرباء کے متعلق تھی چونکہ میں نے اپنے بھائی (لسی ڈار) کا کچھ حق دبایا ہوا تھا۔ میں سمجھ گیا اور کشمیر پہنچ کر ان کا حق ان کو ادا کر دیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین سے اصلاح خلق کا کام لینا ہوتا ہے اس لئے وہ عموما ًایسا تصرف کرتا ہے کہ جو کمزوریاں لوگوں کے اندر ہوتی ہیں ۔انہی کے متعلق ان کی زبان پر کلام جاری کرا دیتا ہے۔جس سے لوگوںکو اصلاح کا موقعہ مل جاتا ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں اور حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک پر بھی بسا اوقات آپ کے مخاطب لوگوں کے حالات اور ضروریات کے مطابق کلام جاری ہوتا تھا ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حاجی عمر ڈارصا حب مرحوم آسنور کشمیر کے ایک بہت مخلص احمدی تھے اور اپنے علاقہ کے رئیس تھے اور اب ان کے لڑکے بھی سلسلہ کے ساتھ خوب اخلاص رکھتے ہیں ۔
{ 344} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خواجہ عبد الرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میرے والدمیاں حبیب اللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سا تھ کھڑے ہونے کا موقعہ ملا اور چونکہ میںاحمدی ہونے سے قبل وہابی (اہلحدیث)تھا میں نے اپناپاؤں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں کیساتھ ملاناچاہا مگر جب میںنے اپنا پاؤںآپ کے پاؤں کیساتھ رکھا تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سرکا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لئے اس طریق سے باز آ گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ فرقہ اہل حدیث اپنی اصل کے لحاظ سے ایک نہایت قابل قدر فرقہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان بدعات سے آزادہو کر اتباع سنت نبوی سے مستفیض ہو ئے ہیں۔مگر انہوں نے بعض باتوں پر اس قدر نامناسب زور دیا ہے اور اتنا مبالغہ سے کام لیا ہے کہ شریعت کی اصل روح سے وہ باتیں باہر ہو گئی ہیں ۔اب اصل مسئلہ تویہ ہے کہ نماز میں دو نمازیوں کے درمیان یو نہی فالتو جگہ نہیں پڑی رہنی چاہیے بلکہ نمازیوںکو مل کر کھڑاہونا چاہیے تاکہ اول تو بے فائدہ جگہ ضائع نہ جاوے ۔ دوسرے بے تر تیبی واقع نہ ہو تیسرے بڑے آدمیوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ وہ بڑائی کی وجہ سے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑے ہو سکیں وغیرذالک۔مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیزبات بن گئی ۔اب گویا ایک اہل حدیث کی نماز ہونہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نمازادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخواہ پریشانی کا موجب ہوتاہے ۔
{ 345} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمدابراہیم صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ میں ایک دن مسجد مبارک کے پاس والے کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم تشریف لائے اور اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف لے آئے اور تھوڑی دیر میںمولوی محمد احسن صاحب امروہی بھی آگئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود ؑ سے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل کے خلاف بعض باتیں بطور شکایت بیان کرنے لگے اس پر مولوی عبدالکریم صاحب کو جوش آگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہر دو کی ایک دوسرے کے خلاف آوازیں بلند ہو گئیںاور آوازیں کمرے سے باہر جانے لگیں۔اس پر حضرت اقدس نے فرمایا۔ لَاَ تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔(الحجرات:۳) (یعنی اے مومنو!اپنی آوازوں کو نبی کی آوازکے سامنے بلند نہ کیا کرو) اس حکم کے سنتے ہی مولوی عبدالکریم صاحب تو فوراً خامو ش ہو گئے اور مولوی محمدؐاحسن صاحب تھوڑی دیر تک آہستہ آہستہ اپناجوش نکالتے رہے اور حضرت اقدس وہاں سے ا ُٹھ کر ظہر کی نماز کے واسطے مسجد مبارک میں تشریف لے گئے۔
{ 346} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کہ میں قادیان میں تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘تصنیف فرما رہے تھے حضرت صاحب نے جماعت کے ساتھ مشورہ فرمایاکہ علماء اور گدی نشینوں میں کس طرح تبلیغ ہونی چاہیے۔۔اس کے متعلق باہم تبادلہ خیالات شروع ہوا ۔حضرت نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے تو عربی زبان میں کوئی تصنیف ہونی چاہیے مگر مشکل یہ ہے کہ میں کوئی ایسی اچھی عربی جانتا نہیں ہوں ۔ہاں میں اردومیں مضمون لکھ لاتا ہوں اور پھر مل ملا کر عر بی کر لیں گے ۔چنانچہ حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور پھر جب حضورباہر تشریف لائے تو کچھ عربی لکھ کرساتھ لائے جسے دیکھ کر مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب حیران رہ گئے حتیّٰ کہ مولوی عبدالکریم صا حب نے فرمایاکہ میں نے عربی کا بہت مطالعہ کیا ہے لیکن ایسی عمدہ عربی میں نے کہیں نہیں دیکھی۔حضور نے فرمایاکہ میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے متعلق دُعا کی تھی سوخدا کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھایا گیا ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ عربی زبان کا علم معجزانہ طور پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا تھا حتیّٰ کہ آپ نے یہ اعلان فرمایاکہ خواہ ساری دنیاکے علماء اور عرب اور مصر اور شام کے ادیب باہم مل کر میرا مقابلہ کرنا چاہیں مگر خدا ان کو عربی کی تصنیف میں میرے مقابلہ میں ذلّت کی شکست دیگا ۔اوروہ ہرگز میرے جیساپر مغز اورلطیف اور ملیح اورفصیح اور بلیغ کلام تصنیف نہیں کر سکیں گے۔چنانچہ باوجود آپ کے متعددمرتبہ چیلنج دینے کے کسی کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہیں ہوئی کیونکہ سب کے دل محسوس کرتے تھے کہ آپ کا عربی کلام اپنی معنوی اور ادبی خوبیوں کیوجہ سے ان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر ظہور پذیر ہوا جس کا مطالعہ جہاں تک ادب عربی کی درسی تعلیم کاتعلق ہے بالکل معمولی تھا اور جس نے صرف عام معروف درسی کتب اوائل عمر میں استاد سے پڑھی تھیں اور بس مگر جب خدا نے اپنے پاس سے اپنی تقدیر خاص کے ماتحت اسے علم عطا کیا تو پھر وہی تھا کہ عرب وعجم کو للکارتا تھاکہ کوئی میرے مقابلہ میں آئے مگر کسی کو سر اُٹھانے کی جرأت نہ ہوتی تھی ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
’’ جے تو اُسدا ہو رہیں تے سب جگ تیرا ہو ‘‘
{ 347} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں ابھی بالکل نوجوان تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا شرف مجھے نصیب ہوااور وہ اس طرح پر کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم جو ہمارے گاؤںکے پاس موضع تھ غلام نبی کے رہنے والے تھے۔ وہ بعارضہ اسہال یعنی سنگر یہنی سخت بیمارہوگئے اور علاج کیلئے قادیان آئے اور پھر قادیان میں ہی رہنے لگ گئے ان کی زبانی مجھے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب بہت بزرگ آدمی ہیںاور ا ن کو الہام بھی ہوتاہے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب پٹھانکوٹ کی ریلوے لائن ابھی جاری ہوئی تھی ۔حافظ حامدعلی صاحب کی بات سن کرمجھے حضرت کی ملاقات کاشوق پیداہوا اور میں نے اپنے والد صاحب سے اجازت لی۔ انہوں نے خوشی سے اجازت دی اور کہا کہ مرزاصاحب بہت بزرگ آدمی ہیں تم ان کے پاس بے شک جاؤچنانچہ میںحضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔انہی دنوںمیں مسجدمبارک کی بنیاد رکھی گئی تھی مگرابھی مسجد تعمیر نہ ہو ئی تھی۔ چونکہ میںحافظ قرآن تھا حضرت صاحب نے مجھے قرآن شریف سنانے کیلئے فرمایا جسے سُن کر آپ بہت خوش ہوئے پھر دو ایک دن ٹھہر کرمیں چلا آیااورحضرت صا حب نے مجھے فرمایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے جلدی جلدی آکر ملنا چاہیے۔اس کے بعد میں ہفتہ عشرہ کے بعد حضور کی خدمت میں حاضرہوتا رہتا تھا ۔ان دنوں میںمیں نے دیکھا کہ حضورکی زبان مبارک پر سبحان اللّٰہ اور سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ کے الفاظ اکثر رہتے تھے۔اور ایک دفعہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ قناعت سے انسان خوش رہتا ہے۔اس زمانہ میں حضور کے پاس سوائے دو تین خادموں کے اورکوئی نہ ہوتا تھا ۔پھر بعد میں آہستہ آہستہ دو دو چار چار آدمیوں کی آمدو رفت شروع ہو گئی ۔ان دنوں میں میرے ایک عزیزدوست حافظ نبی بخش صاحب بھی جن کی عمراس وقت دس بارہ سال کی تھی میرے ہمراہ قادیان جایا کرتے تھے ۔رات ہوتی تو حضرت صاحب ہم سے فرماتے کہ آپ کہاں سوئیں گے۔ہم حضور سے عرض کرتے کہ حضور ہی کے پاس سو رہیں گے اور دل میں ہمارے یہ ہوتا تھا کہ حضور جب تہجد کے لئے رات کو اُٹھیں گے تو ہم بھی ساتھ ہی اُٹھیں گے۔مگر آپ اُٹھ کر تہجد کی نماز پڑ ھ لیتے تھے اور ہم کو خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ جب آپ اُٹھتے تھے تو چراغ روشن فرمالیتے تھے ۔مگر جب لیٹتے تو چراغ گل کر لیتے تھے بعض اوقات ہم آپ کوچراغ گل کرتے دیکھتے تو دل میں بہت شرمندہ ہوتے تھے ان دنوں میں حضرت صا حب بعدنماز عصرسیر کیلئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے۔اور کوس کوس دو دو کوس نکل جایا کرتے تھے بعض وقت مغرب کی نماز باہر ہی پڑھ لیاکرتے تھے اور مجھے امام کرلیتے تھے اور آپ خود مقتدی ہو جا تے تھے ۔ایک دن آپ نے فرمایا کہ آج کس طرف سیر کو چلیں ؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت!آج تتلے کی نہر کی طرف چلیں ۔حضور مسکرانے لگے اور فرمایا کہ کسی نے ایک بھوکے سے پوچھاتھا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں ؟تو اس نے جواب دیا کہ دو روٹیاں۔سو میاں نور محمدؐ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اسی راستے سے اپنے گاؤں کی طرف نکل جائیں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ نورمحمد ؐصاحب پرانے اور مخلص آدمی ہیں ۔ان کا گاؤں فیض اللہ چک قادیان سے قریباً چار پانچ میل کے فاصلہ پر جا نب شمال مغرب آباد ہے اور موضع تتلہ جس کا اس روایت میں ذکر ہے قادیان سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلہ پرایک گاؤں ہے جو فیض اللہ چک کے راستہ میں پڑ تا ہے ۔حافظ نور محمد صاحب کی قادیان میں ابتدائی آمد کا زمانہ ۱۸۸۴ء کے قریب کا معلوم ہوتا ہے۔واللہ اعلم ۔
{ 348} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہو شیار پور جا کر ٹھہرے تھے اور ماسٹر مرلی دھر آریہ کے ساتھ آپ کامباحثہ ہوا تھا ۔آپ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان پر ٹھہرے تھے۔ شیخ صاحب حضرت صاحب سے بہت ادب کے ساتھ پیش آتے تھے ان دنوں میں آپ نے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ شیخ مہر علی صاحب کے مکان کے فرش کو آگ لگ گئی ہے ۔اور آپ نے خود پانی لے کر اسے بجھایا ہے۔اور آپ نے اس کی تعبیر یہ فرمائی تھی کہ شیخ صاحب پر کوئی بلا آنے والی ہے چنانچہ آپ نے قادیان واپس آکر شیخ مہر علی صاحب کو ایک خط کے ذریعہ اس بات کی اطلاع بھی دے دی تھی کہ میں نے ایسا خواب دیکھا ہے ۔آپ بہت توبہ و استغفار کریں ۔اس کے بعد شیخ صاحب کے خلاف ایک سنگین فوجداری مقدمہ شروع ہو گیا اور ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ ہندو اور مسلمانوں میں جو ہوشیار پور میں بلوہ ہوا تھا اس کے شیخ صا حب ذمہ دار ہیں ۔چنانچہ شیخ صا حب ما خوذ کر لئے گے ۔ اس زمانہ میں جب ہم حضرت صاحب کی خد مت میں حاضر ہوتے تھے تو حضور فرمایا کرتے تھے کہ شیخ مہر علی کے واسطے دُعا کیا کریں ۔اور اگرکسی کو ان کے متعلق کوئی خواب آوے تو بتادے اور صبح کے وقت دریافت فرمایاکرتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے یا نہیں ؟اور فرماتے تھے کہ رسول کریم ﷺبھی صحابہ سے اسی طرح دریافت فرمایا کرتے تھے۔ایک دفعہ جو ہم گئے تو فرمایا کہ شیخ صاحب کے واسطے دُعا کر کے سونا ۔ حافظ نبی بخش صاحب نے ہنس کرعرض کیا کہ یہ (یعنی خاکسار نور محمدؐ) بہت وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں ۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو وظیفہ نہیں کرتا صرف قرآن شریف ہی پڑھتا ہوں ۔آپ مسکرا کر فرمانے لگے کہ تمہاری تو یہ مثال ہے کہ کسی شخص نے کسی کو کہاکہ یہ شخص بہت عمدہ کھانا کھایا کرتا ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو کوئی اعلیٰ کھانا نہیں کھاتا صرف پلاؤ کھایا کرتا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف سے بڑھ کراور کون سا وظیفہ ہے ۔یہی بڑا اعلیٰ وظیفہ ہے ۔
{ 349} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں اور حافظ نبی بخش صاحب حضرت صا حب کی ملاقات کے لئے گئے تو آپ نے عشاء کے بعدحافظ نبی بخش صاحب سے مخاطب ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’ میاں نبی بخش آپ کہاں لیٹیں گے؟میاں نور محمدؐ تو لحد کی مشق کر رہے ہیں‘‘ بات یہ تھی کہ اس وقت میںجہاں لیٹا ہوا تھا میرے نیچے ایک ٹکڑا سر کنڈے کا پڑا تھا جو قد آدم لمبا تھا ۔اسے دیکھ کر آپ نے بطورمزاح ایسا فرمایا ۔کیونکہ دستور ہے کہ مردہ کو کسی سر کنڈہ سے ناپ کر لحد کو اس کے مطابق درست کیا کرتے ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت بامذاق واقع ہوئی تھی اور بعض اوقات آپ اپنے خدام کے ساتھ بطریق مزاح بھی گفتگو فرمالیتے تھے۔ دراصل حدِ اعتدال کے اندر جا ئز خوش طبعی بھی زندہ دلی کی علامت ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی بعض اوقات اپنے صحابہ سے خوش طبعی کے طریق پر کلام فرماتے تھے ۔چنانچہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ اور حضرت علی ؓ اور بعض دوسرے صحابہ کھجوریں کھا رہے تھے کہ آپ کو حضرت علی ؓکے ساتھ مزاح کا خیال آیااور آپ نے اپنی کھائی ہوئی کھجوروں کی گٹھلیاں بھی حضرت علیؓ کے سامنے رکھنی شروع کر دیں اور بعد میں فرمایا کہ دیکھو کس نے زیادہ کھجوریں کھائی ہیں ؟ چنانچہ دیکھا تو حضرت علی ؓ کے سامنے کھجوروں کی گٹھلیوں کا ایک خاصہ ڈھیر لگا رکھا تھا ۔کیونکہ علاوہ آنحضرت ﷺ کے دوسرے صحابہ نے بھی اپنی گٹھلیو ں کا بیشتر حصہ حضرت علی ؓ کے سامنے جمع کر دیا تھا یہ دیکھ کر حضرت علیؓ پہلے تو کچھ شرمائے کہ میں سب سے زیادہ پیٹو ثابت ہوا لیکن جوانی کی عمر تھی اور ذہن بھی رسا رکھتے تھے فوراً بولے کہ بات یہ ہے کہ میں نے تو صرف کھجور کا گودا کھایا ہے اس لئے میرے سا منے گٹھلیاں جمع نظر آتی ہیں ۔ لیکن دوسرے لوگ گٹھلیاں بھی ساتھ ہی چٹ کر گئے ہیں ۔اس لئے ان کے سامنے گٹھلیاں نظر نہیں آتیں ۔ اس پر آنحضرت ﷺ بہت ہنسے۔اسی طرح ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے ایک عمر رسیدہ بوڑھی عورت نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے واسطے دعا فر مائیں کہ خدا مجھے جنت میں جگہ دے ۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنت میں تو کوئی بوڑھی عورت نہیں جائیگی ۔وہ بے چاری بہت گھبرائی مگر آپ نے جلد ہی یہ کہہ کر اس کی تسلی کی ،کہ بات یہ ہے کہ جنت میں سب لوگ جوان بنا کر داخل کئے جاویں گے ۔غرض جائز اور مناسب مزاح شانِ نبوت کے منافی نہیں بلکہ زندہ دلی کی علامت ہے اور مجھ سے ڈا کٹر میرمحمدؐاسماعیل صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت بامذاق طبیعت رکھتے تھے اور بعض اوقات تو خود ابتدائًً مزاح کے طور پر کلام فر ماتے تھے ۔
{ 350} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہمارے گھر میں ایک خادمہ عورت رہتی تھی جس کا نام مہرو تھا ۔وہ بیچاری ایک گاؤں کی رہنے والی تھی اور ان الفاظ کو نہ سمجھتی تھی جو ذرا زیادہ ترقی یا فتہ تمدن میںمستعمل ہوتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے اسے فر مایاکہ ایک خلال لاؤ ، وہ جھٹ گئی اور ایک پتھر کا ادویہ کوٹنے والا کھرل اُٹھا لائی جسے دیکھ کر حضرت صاحب بہت ہنسے اور ہماری والدہ صاحبہ سے ہنستے ہوئے فرمایاکہ دیکھو میں نے اس سے خلال مانگا تھا اور یہ کیا لے آئی ہے۔اسی عورت کا ذکرہے کہ ایک دفعہ میاں غلام محمد ؐکا تب امرت سری نے دروازہ پر دستک دی اور کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کروکہ کاتب آیا ہے۔یہ پیغام لے کر وہ حضرت صاحب کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ حضور قاتل دروازے پر کھڑا ہے اور بلاتا ہے ۔حضرت صاحب بہت ہنسے ۔
{ 351} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں عبداللہ صا حب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ شروع شروع میں حافظ حامد علی صاحب مرحوم حضرت صاحب کو مہندی لگایا کرتے تھے۔بعض اوقات میں بھی حاضر ہوتا تھا تو حضرت صاحب کمال سادگی کے ساتھ میرے ساتھ گفتگو فرمانے لگ جاتے تھے جس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ بات چیت کی وجہ سے چہرہ میں کچھ حرکت پیدا ہوتی تھی اور مہندی گرنے لگ جاتی تھی۔اس پر بعض اوقات حافظ حامد علی صا حب مرحوم عرض کرتے تھے کہ حضور ذرا دیر بات چیت نہ کریں مہندی ٹھہرتی نہیں ہے ۔میں لگا کر باند ھ لوں تو پھر گفتگو فرمائیں ۔ حضرت صاحب تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر کسی خیال کے آنے پر گفتگو فرمانے لگ جاتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعد میں کچھ عرصہ میاں عبداللہ نائی اور آخری زمانہ میں میاں عبد الرحیم نائی حضرت صاحب کو مہندی لگاتے تھے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب میاں عبداللہ صاحب نے یہ روایت بیان کی تو حضرت صاحب کی یاد نے ان پر اس قدر رقت طاری کی کہ وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گئے۔یہ محبت کے کر شمے ہیں۔بسا اوقات ایک معمولی سی بات ہوتی ہے مگر چونکہ وہ ایک ذاتی اور شخصی رنگ رکھتی ہے اوراس سے محبوب کے عادات و اطوار نہایت سادگی کے ساتھ سامنے آجا تے ہیں ۔اس لئے وہ بعض دوسری بڑی اور اہم باتوں کی نسبت دل کو زیادہ چوٹ لگاتی ہے ۔
{ 352} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نورمحمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا یہ جو حدیث میں مرقوم ہے کہ اگر انسان اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو وضو ٹوٹ جا تا ہے۔یہ کیا مسئلہ ہے ؟آپ نے فرمایا کہ شرمگاہ بھی تو جسم ہی کا ایک ٹکڑا ہے اس لئے یہ حدیث قوی نہیں معلوم ہوتی۔خاکسار عرض کرتاہے کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذباللہ آنحضرت ﷺ کا یہ قول درست نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ بات آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکلی ہوئی معلوم نہیں ہوتی ۔اور حدیث میں روایتاً کوئی ضعف ہو گا ۔واللّٰہ اعلم ـ
{ 353} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گاؤںفیض اللہ چک میں تشریف لے گئے اورہماری متصلہ مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور بوقت مغرب بڑی مسجد میں لوگوں کے اصرار سے جا کر نماز پڑ ھائی ۔اس کے بعد آپ موضع تھہ غلام نبی میں تشریف لے گئے ۔کیونکہ وہاں آپ کی دعوت تھی ۔
{ 354} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت میرے والد صاحب مرحوم کاانتقال ہوا تو اس کے بعد میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے مجھ سے مخاطب ہو کرفرمایا کہ حافظ صاحب اب بجائے والدین کے اللہ تعالیٰ کو سمجھو وہی تمہاراکا رساز اور متکفل ہو گا ۔ چنانچہ تاحال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور ذرہ نوازی سے میری دستگیری فرمائی ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ انبیاء اور اولیا کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ایک زندہ چیز ہوتی ہے جس کی زندگی کو دیکھنے والا اسی طرح محسوس کرتا ہے ۔جس طرح دوسری جاندار چیزوں کی زندگی دیکھی اور محسوس کی جاتی ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے نزدیک گویا خدا کا وجود ایک علمی دریافت ہے جس سے اگر کوئی شخص علمی فائدہ اُٹھانا چاہے تو اُٹھا لے اور بس بلکہ ان لوگوں کاتعلق خدا تعالیٰ کیساتھ ایسا ہی محسوس و مشہود ہوتا ہے جیسا کہ دو رشتہ داروں کا یا دو دوستوں کا باہمی تعلق ہوتا ہے۔میرا یہ مطلب نہیں کہ خدا کا تعلق اس درجہ یا اس قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ دوستوں یا رشتہ داروں کا ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ محسوس و مشہود ہونے میں وہ اسی نوعیت کا ہوتا ہے جیسا کہ دنیاوی تعلقات ہوتے ہیں ۔یعنی دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں کا اپنے والدین اور بھائیوں ،بہنوں اور بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ ایک تعلق ہے اسی طرح اس ہستی کیساتھ بھی جسے خدا کہتے ہیں ان کا ایک معین تعلق ہے ۔گو وہ اپنے درجہ عمق یا وسعت میں دنیوی تعلقات سے ہزار درجے بڑھ کر ہو اور یہ تعلق ان لوگوں کی عملی زندگی کے تمام شعبوں میں بلکہ ہر حرکت و سکون اور قول و فعل میں اسی طرح (گودرجہ میں بہت بڑھ چڑھ کر) محسوس طور پر اثر ڈالتا ہو ا نظر آتا ہے جیساکہ دنیوی تعلقات اثر ڈالتے ہیںیعنی جس طرح ایک شخص اپنے دوستوں اوررشتہ داروں کے ساتھ میل ملاقات رکھتا ہے ان سے اپنے معاملات میں مشورہ لیتاہے کسی ضرورت یا تکلیف اور مصیبت کے وقت ان سے مددچاہتا ہے ان کیلئے اپنے دل میں محبت رکھتا ہے اور ان کے دل میں اپنی محبت کو پاتا ہے ان کے مفاد کو اپنے مفاد سمجھتا ہے اور ان کے کاموں میں ان کاہاتھ بٹاتا ہے ان کی خوشیوں اور غموںمیں ان کا شریک حال ہوتا ہے۔ وغیرذٰلک۔گویا اپنی کوئی الگ انفرادی زندگی نہیں گزارتا ۔بلکہ ان کے ساتھ مل کرایک متحدہ حیات کا منظر پیش کرتا ہے اسی طرح انبیاء اور اولیا کا تعلق جو وہ ذات باری تعالیٰ کے ساتھ رکھتے ہیں ۔ایک زندہ حقیقت کا حکم رکھتا ہے اور ہر دیکھنے والا محسوس کر سکتا ہے کہ جس طرح کسی کاکوئی باپ ہوتا ہے اورکوئی بیٹا ،کوئی بیوی اور کوئی بھائی اور کوئی دوست اسی طرح انبیاء و اولیا ء اور صالحین خدا کے ساتھ ایک رشتہ رکھتے ہیںجو خواہ خادم و آقا والا ہی رشتہ ہے مگر محبت و وفا داری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا ۔میں اپنے اندر ایک عجیب حالت محسوس کرتا ہوں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ‘‘ کے نزول کے حالات کو پڑھتا ہوں ۔آپ کے والدماجد بیمار ہوتے ہیں اور آپ کوالہام ہوتا ہے کہ ’’ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ‘‘ یعنی آج شام کو ان کی دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے۔آپ ان بوجھوں کودیکھ کرجو والدکی وفات سے آپ پر پڑنے والے تھے کچھ فکرمند ہوتے ہیں اور ایک لمحہ نظر کے لئے خیال آتا ہے کہ بعض وجوہ معاش والد کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں وہ فوت ہو جائیں گے تو پھر کیا ہو گا ۔ اس پر جھٹ دوسرا الہام نازل ہوتا ہے۔ ’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ‘‘ یعنی اے میرے بندے !کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تیرا رب تیری دستگیری کے لئے کافی نہیں ہے؟ اللہ۔اللہ کیا ہی محبت بھرا کلام ہے ۔کوئی سمجھتا ہوگا کہ یہ زجر کا کلمہ ہے ۔ مگر جو ایسا خیال کرتا ہے۔ میں اسے محبت کے کوچہ سے محض ہاں بالکل محض نا آشنا خیال کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک ایسے موقعہ پر اظہار محبت کے واسطے اس سے زیادہ مناسب اور بہتر الفاظ چنے نہیں جا سکتے تھے۔یہ ایسا ہی کلام ہے جیسا کہ مثلاً کسی کا کوئی دور کا رشتہ دار کسی سے جدا ہونے لگے تو وہ اس پر کرب کا اظہار کرے اور یہ سمجھنے لگے کہ اب گویامیراکوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔حالانکہ اس کا حقیقی باپ جو اسے دل و جان سے چاہتاہو اس کے پاس موجود ہو ۔ایسے وقت میں باپ اپنے اس گھبرائے ہوئے بیٹے سے کیا کہے گایہی نا کہ بیٹا کیا تو اپنے باپ کی محبت کو بھول گیا ۔کیا تیرا یہ دور کا رشتہ دار تجھ سے تیرے اپنے باپ کی نسبت زیادہ محبت رکھتاہے اور تیری زیادہ خبر گیری کر سکتا ہے ؟پس خدا کا یہ کلام بھی اسی طرح کا ہے کہ اے میرے بندے! کیا ہم تجھے تیرے باپ کی نسبت کم چاہتے ہیں جو تو ہمارے ہوتے ہوئے باپ کے فوت ہونے پر اس طرح گھبر اہٹ کا اظہار کرتا ہے ؟ پس یہ ایک محبّانہ کلام ہے جس کا ہر لفظ عشق و محبت میںڈوباہوا ہے اور اگر کوئی دوسرا طریق کلام کااختیار کیاجاتا جس میںیہ استفہامیہ طریق نہ ہوتا تو وہ ہرگز اس محبت کا حامل نہیں ہوسکتاجوکہ موجودہ الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے ۔پس اس الہام میںکوئی ایمانیا ت کاسوال نہیںہے یعنی محض علمی طور پر اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود نہیں ہے کہ خدا اپنے بندوںکی دستگیری فرمایا کرتا ہے اور اے میرے بندے تو اس حقیقت سے غافل نہ ہوبلکہ اس محبت کااظہار مقصودہے جو ذات باری تعالیٰ کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھی اور ایک محبت آمیز گلہ کے طریق پر اس گھبراہٹ کادور کرنا مقصود ہے جوایک عارضی خیال کے طورپر حضرت مسیح موعودؑ کے دل میں والد کی وفات کی خبر پا کر پیدا ہوئی تھی اورچونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اب پوری طرح خدا کی محبت کا مزا چکھ چکے تھے اوراس شراب طہور کے نشہ میں متوالے ہو چکے تھے جو خدائے قدوس کے اپنے ہاتھوں نے تیار کر کے آپ کے سامنے پیش کی تھی ۔ اس لئے حافظ نور احمدؐ کے والد کی وفات پر آپ کو اس سے بہترعزا پرسی کا طریق نہ سوجھا کہ حافظ صاحب اگر اب تک آپ ایسا نہ سمجھتے تھے تو کم از کم اب سے ہی اپنے رب کو اپنے والد کی جابجا سمجھو اور اسی کو اپنی امیدوں اور اپنی محبت کا تکیہ گاہ بناؤ۔خاکسار عرض کرتاہے کہ یہ وہ نکتہ ہے جسے جس نے سمجھا وہ فلاح پا گیا ۔اے میرے آقا و مولا! مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ تجھ سے کچھ مانگوں کیونکہ تیرا کوئی حق ادا کروں تو مانگتے ہوئے بھی بھلا لگتا ہوں ۔مگر تو خود کہتا ہے کہ مانگو اور تو نے یہ شرط نہیں لگائی کہ نیک شخص مانگے اور عاصی نہ مانگے پس اپنے پاک مسیح کی طفیل جس سے کچھ دور کی نسبت رکھتا ہوں مجھ پر بھی اپنی محبت کا ایک چھینٹا ڈال تا کہ ان مردہ ہڈیوں میںکچھ جان آئے اور اس پیاسے اور جھلسے ہوئے دل میںکوئی تازگی پیدا ہو اور اے مجھے اپنی مرضی سے نیست سے ہست میںلانے والے ایسانہ کر ہاں تجھے تیری ذات کی قسم ایسا نہ کر کہ میں اپنی شامت اعمال کی وجہ سے تیرے دروازے سے خالی ہاتھ لوٹ جاؤں۔
{ 355} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی قطب الدین صاحب طبیب نے مجھ سے بیان کیاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی دفعہ لدھیانہ تشریف لے گئے تھے ۔اس وقت میں لدھیانہ میں ہی تھا اور پڑھا کرتا تھا ۔مجھے حضورکے آنے کی خبر ہوئی تو میں بھی حضور کو دیکھنے کے لئے سٹیشن پر گیا تھا۔جہاں میرعباس علی اور قاضی خواجہ علی صاحب اور نواب علی محمدؐصاحب آپ کے استقبال کیلئے گئے ہوئے تھے ۔ چنانچہ میں نے پہلی دفعہ حضرت صاحب کے ساتھ سٹیشن لدھیانہ پر ہی ملاقات کی اور پھر اس کے بعد کئی دفعہ حضور کے جائے قیام پر بھی حاضر ہوتا رہا ۔اور میں نے جب پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھا تو میرے دل پرایسا اثر ہوا کہ گویا میرا جسم اندر سے بالکل پگھل گیا ہے اور قریب تھا کہ میں بیہوش ہو کر گر جاتا مگر سنبھلا رہا۔ پھر اس کے بعد میں حضرت صاحب کی ملاقات کے لئے قادیان بھی آتا رہا ۔اس وقت تک ابھی صرف مجددیت کا دعویٰ تھا اور بیعت کا سلسلہ بھی شروع نہ ہوا تھا ۔اور جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو اس وقت مسجد مبارک کی تعمیر شروع تھی اور جس دن حضرت صاحب کے کرتہ پر سرخی کے چھینٹے پڑنے کا واقعہ ہوا اس دن بھی میںقادیان میں حضرت کی خدمت میں حاضر تھا۔
{ 356} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی قطب الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سلسلہ بیعت سے قبل جب صرف مجددیت کا دعویٰ تھا ۔میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں حضور کو صدق دل سے سچا سمجھتا ہوں اور مجھے قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس رنگ کا اثر اہل اللہ کی صحبت میں سنا جاتا ہے وہ میں حضور کی صحبت میں بیٹھ کراپنے اندر نہیں پاتا۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ملک کا ایک چکر لگائیں اور سب دیکھ بھال کر دیکھیں کہ جس قسم کے اہل اللہ آپ تلاش کرتے ہیں اور جو اثر آپ چاہتے ہیں وہ دنیا میں کہیں موجود بھی ہے یا نہیں یا یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں ۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پھر میں نے اسی غرض سے تمام ہندوستان کاایک دورہ کیا اور سب مشہور مقامات مثلا ًکراچی، اجمیر ،بمبئی ،حیدرآباد دکن،کلکتہ وغیرہ میں گیا اورمختلف لوگوں سے ملااور پھر سب جگہ سے ہو کرواپس پنجاب آیا۔اس سفرمیںمجھے بعض نیک آدمی بھی ملے لیکن وہ بات نظر نہ آئی جس کی مجھے تلاش تھی ۔پھر میں وطن جانے سے پہلے حضرت صاحب کی ملاقات کیلئے قادیان کی طرف آیا مگر جب بٹالہ پہنچا تو اتفاقاً مجھے ایک شخص نے اطلاع دی کہ حضرت مرزا صاحب تو یہیں بٹالہ میں ہیں ۔چنانچہ میں حضرت کی ملاقات کے لئے گیا۔اس وقت آپ مولوی محمدحسین بٹالوی کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے۔میں جب گیا تو آپ باہر سیر سے واپس مکان کو تشریف لا رہے تھے چنانچہ میں حضور سے ملا اور حضور نے مجھ سے سفر کے حالات دریافت فرمائے جو میں نے عرض کئے اور پھر میں بٹالہ سے ہی واپس وطن چلا گیا۔اس سفر میں نصیر آبادمیںجواجمیر کی طرف ایک جگہ ہے مجھے ایسے لوگوںسے ملاقات ہوئی جو حضرت صاحب کے بہت معتقد تھے اور حضرت کے ساتھ خط وکتابت رکھتے تھے ۔ان لوگوں نے مجھے اپنے پاس مستقل طور پر ٹھہرانا چاہا اور میرے لئے ایک معقول صورت گذارے کی بھی پیش کی لیکن مجھے شرح صدر نہ ہوا ۔بعد میں جب حضرت صاحب نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کیاتو یہ لوگ مرتد ہوگئے اور تب مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ مجھے وہاں ٹھہرنے کے لئے کیوں شرح صدر نہیں ہوا تھا۔ اگر میں وہاں ٹھہر جا تا تو ممکن ہے خودبھی کسی ابتلا میں پڑ جاتا ۔خیر اس کے بعدکچھ عرصہ گذرا اور میں قادیان نہ آیا ۔ اسی دوران میںسلسلہ بیعت بھی شروع ہوگیا اور مسیحیت کا دعویٰ بھی ہوگیا ۔لیکن گومیں بدستور معتقد رہا اور کبھی مخالفوں کی مخالفانہ باتوں کا میرے دل پر اثرنہیں ہوا کیونکہ میں خود اپنی آنکھوں سے حضرت صاحب کو دیکھ چکا تھا لیکن میں بیعت سے رُکا رہا ۔اس کے بعدایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضرہوا تو حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے مجھ سے تحریک فرمائی کہ بیعت میں داخل ہو جانا چاہیے۔میںنے عرض کیا کہ مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہے اور میں دل سے سچا سمجھتا ہوں لیکن اتنا بڑا دعویٰ بھی ہواور پھر میں اثر سے محروم رہوں اور اپنے اندروہ بات نہ پاؤں جواہل اللہ کی صحبت میں سنی جاتی ہے تو پھر مجھے کیافائدہ ہوا ۔یہ سُن کر حضرت صاحب نے فرمایاایسی صورت میں آپ کو واقعی بیعت میں داخل نہیں ہوناچاہیے ۔ ہاں آپ کچھ عرصہ میرے پاس قیام کریں۔پھر اگرتسلی اورتشفی ہو تو آپ کو اختیار ہے۔چنانچہ میں کچھ عرصہ یہاں ٹھہرا اور پھر بیعت سے مشرف ہو کرچلا گیا ۔جب میں نے بیعت کی درخواست کی تو حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ کیا آپ کو اطمینان ہو گیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ حضورآپ کی صداقت کے متعلق تو مجھے کبھی بھی شک نہیں ہوا ہاں ایک اور خلش تھی سو وہ بھی بڑی حد تک خدا نے دور فرمادی ہے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ مولوی سید محمدسرورشاہ صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا تھا کہ بعض لوگوں نے ان کے سامنے بھی بعض اوقات۔۔۔۔ حضرت صاحب کے متعلق اسی قسم کے خیال کا اظہار کیا تھا کہ آپ کی صداقت کے دلائل تو لا جواب ہیں اور آپ کی بزرگی بھی اظہر من الشمس ہے۔ لیکن جو اثر اہل اللہ کی صحبت کا سُناجاتا ہے وہ محسوس نہیں ہوتا ۔ چونکہ ممکن ہے اسی قسم کے خیالات بعض اور لوگوں کے دلوںمیںبھی پیدا ہوئے ہوںاس لئے اپنے علم کے مطابق خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خیال دو وجہ سے پیداہوتا ہے اور یہ کوئی نیاخیال نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے انبیاء ومرسلین کے زمانہ میں بعض لوگوں کے اندر پیدا ہوتا چلا آیا ہے۔ دراصل اگرغور سے دیکھا جاوے۔تو انبیاء کے متعلق لوگوں کے چارگروہ ہو جاتے ہیں ۔اوّل وہ منکرین جو نہ انبیاء کے دعویٰ کی صداقت کومانتے ہیں ۔ اور نہ ان کی ذاتی بزرگی اور روحانی اثر کے قا ئل ہوتے ہیں ۔دوسرے وہ منکرین جو بوجہ میل ملاقات اور ذاتی تعلقات کے انبیاء کی بزرگی اور ان کے روحانی اثر کے تو ایک حد تک قائل ہوتے ہیں لیکن پرانے رسمی عقائد کی بناپر دعویٰ کی صداقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوتے اس لئے منکر رہتے ہیں ۔تیسرے وہ مصدقین اور ماننے والے جن پر انبیاء کے دعویٰ کی صداقت بھی روشن وظاہرہو تی ہے اور ان کے روحانی اثر کوبھی وہ علیٰ قدرمراتب محسوس کرتے اور اس سے متمتع ہوتے ہیں اور چوتھے وہ مصدقین جو ان کے دعویٰ کی صداقت کو تو دل سے تسلیم کرتے ہیںاور عمومی رنگ میں ان کی بزرگی کو بھی مانتے ہیں اور اس لئے بالعموم ان کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن اپنے اندر کوئی روحانی اثر محسوس نہیں کرتے اور اسی لئے اس جہت سے کچھ شکوک میں مبتلا رہتے ہیں ۔اس جگہ ہمیں چوتھے گروہ سے کا م ہے ۔جو صداقت کا تو قائل ہوتا ہے اور بزرگی کو بھی تسلیم کرتا ہے۔لیکن اپنے اندر روحانی اثر جیسا کہ چاہتا ہے محسوس نہیں کرتا۔سو جاننا چاہیے کہ یہ حالت انسان کی دو وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔اول تو یہ ہے کہ بعض اوقات اپنی غفلتوں اور کمزوریوں کی وجہ سے انسانی روح کے وہ دروازے اور کھڑکیاںجن میں سے کسی بیرونی روح کااثران تک پہنچ سکتا ہے بند ہو جاتی ہیں اور اس لئے وہ فیضان جو ان تک پہنچ سکتا تھا ان تک پہنچنے سے رکا رہتا ہے اور بعض وقت غفلت ایسی غالب ہوتی ہے کہ انسان یہ خیال نہیںکرتا کہ خود میری کھڑکیاںاور دروازے بند ہیں ۔بلکہ یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ باہر سے روشنی ہی نہیں آرہی اور اس طرح بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنے کے منبع فیض کی فیض رسانی پر حرف گیری کرنے لگ جاتا ہے ۔حالانکہ ایسے وقت میں چاہیے کہ انسان اپنی فکر کرے اور اپنے دل کی کھڑکیا ں کھولے تا کہ آفتاب ہدایت کی روشنی اور دھوپ اس کے اندر داخل ہو کر اس کی تا ریکیوں کو دور اور اس کی آلائشوں کو صاف کر سکے مگر کیاہی بد قسمت ہے وہ شخص جس نے یہ تو دیکھا اور سمجھا کہ سورج طلوع کر چکا ہے ۔لیکن اس نے اپنے دل کی کھڑکیاں نہ کھولیں اور اسی خیال میں اپنی عمر گذار دی کہ سورج کی روشنی میں کچھ نقص ہے کہ وہ مجھ تک نہیں پہنچتی ۔دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف تو لوگ منہاج نبوت سے نا واقف ہوتے ہیں اور بوجہ بعد از زمانہ نبوت نبیوں کے حالات اوران کے طرزطریق اور ان کے فیض رسانی کی صورت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور دوسری طرف فقیروں اور ولیوں کے متعلق انہوں نے ایسے ایسے قصے اور حالات سُنے اور پڑھے ہوتے ہیں جو گو محض فرضی اور جھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ ان کے اندر ولائت کا ایک معیار قائم کر دیتے ہیںجس کے مطا بق وہ پھر دوسروں کو پرکھتے ہیں اور اس کے مطابق نہ پانے پرشکوک و شبہات میں مبتلا ہونے لگ جاتے ہیں۔مثلاً فرض کرو کہ کسی نے یہ سُنا ہو کہ شیر وہ جانور ہے جس کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور گردن بہت لمبی ہوتی ہے اور دم بہت چھوٹی ہوتی ہے اور قد دس فٹ یا اس سے بھی زیادہ بلند ہوتا ہے وغیرذالک ۔تو وہ جب کبھی کوئی اصل شیر دیکھے گا تو لامحالہ یہی خیال کرے گا کہ یہ تو شیر نہیں ہے کیونکہ جو نقشہ اس کے ذہن میں شیر کا ہے۔اس کے مطابق وہ اسے نہیں پائے گا ۔ پس نبوت و ولایت کا ایک غلط نقشہ دل میں قائم ہو جانا بھی انسان کو اسی قسم کے شبہات میںمبتلا کر دیتا ہے۔پس ایسے حالات میں انسان کو چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی کا بغورمطالعہ کرے اور منہاج نبوت اور سنت نبوی کو اپنے سامنے رکھے اور زیدوبکر کے متعلق جو محض فرضی اور جھوٹے قصے مشہور ہوںان پر نہ جاوے اور اپنے معیار کو اس روشنی میں قائم کرے جو قرآن شریف اور سرور کائنات کے سوانح کے مطالعہ سے اسے حاصل ہو۔ ایک مسلمان کے واسطے بہر حال قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت مسلّم ہے ۔پس کیا وجہ ہے کہ زید وبکر کے متعلق وہ ایسی باتوں کوسچاتسلیم کرے۔جو قرآن مجیداورآنحضرت ﷺ میں بھی نہیں پائی جاتیں۔مسلمانوںمیں ولیوں اور بزرگوں کے متعلق ایسے ایسے مبالغہ آمیز اور لا یعنی قصّے اور خوارق مشہور ہیں کہ سُن کر حیرت آتی ہے اور تعجب ہے کہ یہ قصّے صرف زبانو ں تک محدودنہیںبلکہ بد قسمتی سے مسلمانوں کے لٹریچر میں بھی راہ پاچکے ہیں۔
اس دھوکے کے پیدا ہو نے کی ایک یہ وجہ بھی ہے۔کہ جیسا کہ میں نے اس کتاب کے حصہ اوّل میں لکھا تھا علم توجہ نے بھی مسلمانوں کو بہت تباہ کیا ہے ۔یہ علم ایک مفید علم ہے اور اس سے کئی صورتوں میں فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے لیکن اس کا غلط استعمال بھی اپنی نقصان رسانی میں کچھ کم نہیں ۔مسلمانوں میں جب روحانیت کم ہوئی اور لا مذہبی اورمادیت کا رنگ پیدا ہونے لگا تو جو لوگ نیک اور متقی تھے ان کو اس کا فکر پیدا ہوا لیکن وہ اپنی رو حانی حالت کو بھی ایسا قوی نہ پاتے تھے کہ ضلالت کے اس طوفان کو دبا سکیں ۔پس انہوں نے عوام کو تباہی سے بچانے کے لئے یہ راہ نکالی کہ علم توجہ سے جسے انگریزی میں Hypnotism کہتے ہیں کام لینا شروع کیا اور مذہب کی آڑ میں اس علم سے لوگوں کو مسخر کرنا چاہا ۔چنانچہ وقتی طور پر اس کا فائدہ بھی ہوا اور لوگ مادیت اور جھوٹی آزادی کی رو میںبہہ جانے سے ایک حدتک بچ گئے ۔مگر یہ خطرناک نقصان بھی ساتھ ہی ہواکہ آہستہ آہستہ ایک طرف تو خود توجہ کرنے والے بزرگ اس امر کی اصلی حقیقت سے نا آشنا ہوتے گئے اور دوسری طرف عوام اس نشہ میں ایسے مخمور ہوئے کہ بس اسی کودین و مذہب اور اسی کوروحانیت اوراسی کوجذب و اثر قرار دینے لگے اور ولایت کا ایک نہایت غلط معیار ان کے اندرقائم ہو گیا ۔حالانکہ علم توجہ دنیا کے علموں میں سے ایک علم ہے جسے مذہب کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔بلکہ ہر شخص اپنی محنت اور استعداد کے مطابق اسے کم و بیش حاصل کر سکتاہے گویا جس طرح ایک رونے والے بچے کو ماں اپنے آرام کے لئے افیم کی چاٹ لگا دیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ بچہ افیم کو ہی اپنی غذا سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس کے ملنے پر تسکین و راحت پاتا ہے اور اس کے بغیر روتا اور چلاتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح مسلمانوں کا حال ہوایعنی علم توجہ کے نتیجہ میں جو ایک خمار اورسرور کی حالت عموماً معمول کے اندر پیدا ہو جاتی ہے اسی کو وہ اپنی روحانی غذا سمجھنے لگ گئے اوراصل خوراک کو جو ان کی روح کاحصہ بن سکتی اور اس کی بقاکا موجب ہے بھلا دیا ۔فانا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
{ 357} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت اورمہدویت کا اعلان فرمایاتو اس سے اسلامی دنیا میں ایک خطرناک شور برپا ہو گیااور چند سال تک یہ طوفان بے تمیزی ترقی کرتا گیا اور مخالفت کی آگ زیادہ تیز ہوتی گئی اور نہ صرف مسلمان بلکہ آریہ اور عیسائی بھی یکجا ن ہو کرآپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے خلاف اس قدر زہر اُگلا گیا اور اس قدر بد زبانی سے کا م لیا گیا کہ اللہ کی پناہ اور عملی طور پر بھی ایذا رسانی اور تکلیف دہی کے شرمناک طریق اختیار کئے گئے اور لوگوں کو آپ کی طرف سے بد ظن کرنے کیلئے طرح طرح کے الزامات آپ کے خلاف لگائے گئے اور آپ کو کافر،مرتد،دجال ، بے دین ،دہریہ ،دشمن اسلام،دشمن رسول،ٹھگ باز،دوکاندار وغیرہ وغیرہ کے الفاظ سے یاد کیا گیا ۔ان حالات میں آپ نے جن الفاظ میں علیحدگی میں بیٹھے ہوئے اپنے رب کومخاطب کیا وہ میں درج ذیل کرتا ہوں ۔یہ ایک نظم ہے جو آپ کی زبان سے جاری ہوئی اور جس میں آپ کی قلبی کیفیات کا کچھ تھوڑا خاکہ ہے ،آپ فرماتے ہیں :۔
اے قدیر و خالقِ ارض و سما
اے رحیم و مہربان و رہنما
اے کہ میداری تو بردلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مُسْتَتر
گر تو مے بینی مرا پر فسق و شر
گر تو دیدستی کہ ہستم بد گہر
پارہ پارہ کُن من بدکار را
شاد کن ایں زُمرۂ اغیار را
بر دل شاں ابر رحمت ہا ببار
ہر مراد شاں بفضل خود برآر
آتش افشاں بر در و دیوار من
دشمنم باش و تبہ کن کار من
در مرا از بندگانت یافتی
قبلۂ من آستانت یافتی
در دلِ من آں محبت دیدئہ
کز جہاں آں راز را پوشیدئہ
بامن از روئے محبت کارکن
اند کے افشائے آں اسرارکن
اے کہ آئی سوئے ہر جوئندئہ
واقفی از سوز ہر سوزندئہ
زاںتعلق ہا کہ با تو داشتم
زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم
خود بروں آ ازپئے ابراء من
اے تو کہف و ملجا و ماوائے من
آتشے کاندر دلم افروختی
و زدم آں غیر خود را سوختی
ہم ازاں آتش رخِ من بر فروز
ویں شب تارم مُبدّل کُن بروز
یعنی ’’اے میرے قادر زمین وآسما ن کے پیدا کرنے والے! اے میرے رحیم اور مہربان اور ہادی آقا! اے دلوں کے بھیدوں کو جاننے والے جس پر کوئی بات بھی مخفی نہیں ہے!اگر تو مجھے شرارت اور فسق سے بھرا ہوا پاتا ہے اور اگر تو یہ دیکھتا ہے کہ میں ایک بدطینت آدمی ہوں تو تُومجھ بد کار کو پارہ پارہ کر کے ہلاک کر دے ۔اور میرے اس مخالف گروہ کے دلوں کوخوشی اور راحت بخش۔اور ان پر اپنی رحمت کے بادل برسا اور ان کی ہر خواہش کو اپنے فضل سے پورا فرمااور اگر میں ایسا ہی ہوں جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو تُو میرے درو دیوار پر غضب کی آگ نازل کر اورخودمیرا دشمن بن کرمیرے کاروبار کو تباہ و بر باد کر دے ۔لیکن اے میرے آقا!اگر تو مجھے اپنے بندوں میںسے سمجھتا ہے اور اپنے آستانہ کو میرا قبلہ توجہ پاتا ہے اور میرے دل میں اس محبت کو دیکھتا ہے جسے تو نے دنیا کی نظروں سے اس کی شامت اعمال کی وجہ سے پوشیدہ رکھا ہے تو اے میرے خدا میرے ساتھ محبت کامعاملہ کر اوراس چھپے ہوئے راز کو ذرا ظاہر ہونے دے ۔اے وہ کہ جوہر تلاش کرنے والے کی طرف خود چل کر آتا ہے اور اے وہ کہ جو ہر سوز محبت میں جلنے والے کی سوزش قلب سے آگاہ ہے۔ میں تجھے اس تعلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوںکہ جو میرے دل میںتیرے لئے ہے اور اس محبت کو یاد دلا کر عرض کرتا ہوں کہ جس کے درخت کو میں نے اپنے دل میںنصب کیا ہے کہ مجھے ان الزاموں سے بری کرنے کے لئے تو خوداُٹھ ،ہاں اے میری پناہ اور میرے ملجاؤوماوٰے تو ایساہی کر ۔ وہ آتش محبت جو تو نے میرے دل میں شعلہ زن کی ہے جس کی لپٹوں سے تو نے میرے دل میں غیر کی محبت کو جلا کر خاک کر دیاہے اب ذرا اسی آگ سے میرے ظاہر کوبھی روشن فرما۔اور اے میرے مولا !میری اس تاریک و تار رات کو دن سے بدل دے‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض حالات میں خود انسان کا اپنے منہ سے نکلا ہوا کلام بھی اس کے صدق دعویٰ پر ایک یقینی شہادت ہوتا ہے ۔
{ 358} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔چوہدری حاکم علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب اپریل ۱۹۰۵ء میں بڑا زلزلہ آیا تھااور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے باغ میںتشریف لیجا کر ڈیرہ لگا لیا تھا اور اور بھی اکثر دوست باغ میں چلے گئے تھے ان دنوں میں میں بھی اپنے اہل و عیال سمیت قادیان آیا ہوا تھا ۔حضرت صاحب باغ میںتشریف لے گئے تو اس کے بعد قادیان میں طاعون پھیل گیا ۔میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہاں باغ میں تشریف رکھتے ہیں اور اکثر دوست بھی یہیں آگئے ہیں اور سب نے یہاںکسی نہ کسی طرح اپنی رہائش کا انتظام کر لیا ہے مگر میرے پاس یہاں نہ کو ئی خیمہ ہے اور نہ ہی کوئی ایسا زائد کپڑا ہے جس کے ساتھ چھپر وغیرہ تان سکوں اور نہ کوئی اور انتظام کی صورت ہے ۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہم تو یہاں زلزلہ کی وجہ سے آئے تھے ۔ لیکن اب قصبہ میںطاعون پھیلا ہوا ہے اور چونکہ ہم کو اللہ تعالیٰ اس حالت سے قبل یہاں لے آیا تھا اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کسی وجہ سے منشاء ہے کہ ہم فی الحال یہیں پر قیام کریں ورنہ ہمیں اور کوئی خیال نہیں ہے۔آپ شہر میںہمارے مکان میں چلیں جائیں۔ اس سے زیادہ محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ۔چنانچہ میں حضور کے مکان میں آگیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ شریعت کا ایک حکم ہے کہ جس جگہ طاعون یا کوئی اور اسی قسم کی وبائی بیماری پھیلی ہو ئی ہو وہاں نہیں جانا چاہیے اور نہ ایسی جگہ کے باشندوں کووہاں سے نکل کرکسی دوسری بستی میں جانا چاہیے کیونکہ اس طرح وبا کے زیادہ پھیل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ جس جگہ طاعون کا زور ہو وہاں سے نکل کر ارد گرد کے کھلے میدانوں میں بھی جاکر ڈیرہ لگانامنع ہے ۔کیونکہ جس طرح طاعون زدہ علاقے سے نکل کرکسی دوسری آبادی میںجانامرض کے پھیلانے کاموجب ہو سکتا ہے اس طرح کھلے میدانوں میں جا کر ڈیرے لگانانہیں ہو سکتا بلکہ ایساکرناتو سراسر مفید ہے اور اس سے مرض کوبہت حد تک روکاجا سکتا ہے چنانچہ جہاں شریعت نے وبا زدہ علاقہ سے نکل کر دوسری آبادی میںجانے کوروکا ہے وہا ں ارد گرد کے کُھلے میدانوں میں پھیل جانے کو مستحسن قراردیا ہے اور اس کی سفارش کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خاص استثنائی معاملہ تھااور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی تھی کہ تیری چار دیواری (جسمانی اور روحانی)کے اندر کوئی شخص طاعون سے نہیںمرے گا کیونکہ ایسے تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت میں ہونگے۔چنانچہ ایسا ہی ہو اکہ قادیان میںکئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میںطاعون آیا اور بعض اوقات ایک حدتک بیماری کا زور بھی ہوا ۔مگرآپ کے مکان میں کسی شخص کا اس وباسے مرناتو در کنار کبھی کوئی چوہابھی اس بیماری سے نہیں مرا حالانکہ آپ کے مکان کے چاروں طرف طاعون کا اثر پہنچا اور بالکل ساتھ والے متصل مکانات میں بھی طاعون کے کیس ہوئے مگرآپ کا مکان خدا کے فضل اوراس کے وعدہ کے مطابق بالکل محفوظ رہا۔ اسی طرح گوآپ کے روحانی مکان کی چار دیواری کی اصل تعیین کا علم صرف خدا کوہے اور صرف بیعت اور ظاہری حالت سے اس کے متعلق کوئی یقینی قیاس نہیں ہو سکتا لیکن آپ کے مخلص اور یک رنگ خادم بالعموم اس بیماری کے اثر سے نمایاں طورپر محفوظ رہے اور خدائی وعدہ کے مطابق طاعون کی بیماری ایک خارق عادت طور پر سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اور ترقی کا موجب ہوئی۔چنانچہ اگر اشاعت سلسلہ کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیاجاوے توصاف نظر آتاہے کہ جس سرعت کیساتھ طاعون کے زمانہ میںسلسلہ کی ترقی ہوئی ہے ایسی سرعت اس وقت تک اور کسی زمانہ میں نہیں ہوئی۔نہ طاعون کے دور دورہ سے قبل اور نہ اس کے بعد ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی بیان فرماتے تھے کہ جن دنوں میں اس بیماری کا پنجاب میں زور تھا ان دنوں میں بعض اوقات پانچ پانچ سو آدمیوں کی بیعت کے خطوط ایک ایک دن میںحضرت صاحب کی خدمت میںپہنچے تھے۔اور یہ سب کچھ اس خدائی پیش گوئی کے مطابق ظہور میں آیا جو پیش از وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے شائع کی گئی تھی۔
{ 359} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی دینی ضرورت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ اعلان فرماویںکہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ آپ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدتاً اہل حدیث تھے۔حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا جس میں لکھا ؎
بہ مے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاںگوید
کہ سالک بے خبرنبود زراہ ورسم منزلہا
اور اس کے نیچے’’نور الدین حنفی‘‘ کے الفاظ لکھ دیئے ۔اس کے بعدجب مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے مولوی صا حب سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب حنفی مذہب کا اصول کیا ہے؟مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اصول یہ ہے کہ قرآن شریف سب سے مقدم ہے اگر اس کے اندر کوئی مسئلہ نہ ملے تو آنحضرت ﷺ کے فعل وقول کو دیکھنا چاہیے جس کا حدیث سے پتا لگتا ہے اور اس کے بعد اجماع اور قیاس سے فیصلہ کرنا چاہیے ۔حضرت صاحب نے فرمایا تو پھر مولوی صاحب آپ کا کیا مذہب ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی مذہب ہے۔اس پر حضرت صا حب نے اپنی جیب سے مولوی صا حب کا وہ کارڈ نکالااور ان کی طرف پھینک کرمسکراتے ہوئے فرمایاکہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟مولوی صاحب شرمندہ ہوکر خاموش ہوگئے۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو شعر لکھاتھا اس کا یہ مطلب تھاکہ اگرچہ میںاپنی رائے میںتو اہل حدیث ہوں۔لیکن چونکہ میرا پیر طریقت کہتا ہے کہ اپنے آپ کو حنفی کہو اس لئے میں اس کی رائے پر اپنی رائے کو قربان کرتا ہوا اپنے آپ کو حنفی کہتا ہوں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ احمدیت کے چرچے سے قبل ہندوستان میں اہل حدیث کا بڑاچرچا تھااور حنفیوں اور اہل حدیث کے درمیان(جن کو عموماً لوگ وہابی کہتے ہیں) بڑی مخالفت تھی اور آپس میں مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے تھے اور یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے گویا جانی دشمن ہو رہے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی کامیدان گرم تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام گو دراصل دعویٰ سے قبل بھی کسی گروہ سے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتے تھے۔جس سے تعصب یاجتھہ بندی کا رنگ ظا ہر ہو لیکن اصولاً آپ ہمیشہ اپنے آپ کو حنفی ظا ہر فرماتے تھے اور آپ نے اپنے لئے کسی زمانہ میںبھی اہل حدیث کانام پسند نہیںفرمایا۔حالانکہ اگر عقائدوتعامل کے لحاظ سے دیکھیںتوآپ کاطریق حنفیوں کی نسبت اہل حدیث سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔
{ 360} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور الگ ملاقات کی خواہش ظاہرکی۔جب وہ آپ سے ملا تو باتوںباتو ں میں اس نے کئی دفعہ یہ کہا کہ میں حنفی ہوں اور تقلید کو اچھا سمجھتا ہوں وغیرذالک۔آپ نے اس سے فرمایا کہ ہم کوئی حنفیوں کے خلاف تو نہیں ہیں کہ آپ باربار اپنے حنفی ہونے کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں تو ان چاراماموںکو مسلمانوں کیلئے بطور ایک چار دیواری کے سمجھتا ہو ںجس کی وجہ سے وہ منتشر اور پراگندہ ہونے سے بچ گئے ہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر شخص اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ دینی امور میں اجتہادکرے۔پس اگر یہ ائمہ نہ ہوتے تو ہر اہل و نااہل آزادانہ طور پر اپنا طریق اختیار کرتا۔اور امت محمدیہ میں ایک اختلاف عظیم کی صورت قائم ہو جاتی مگراللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چاراماموں نے جو اپنے علم ومعرفت اورتقویٰ و طہارت کی وجہ سے اجتہاد کی اہلیت رکھتے تھے ۔ مسلمانوں کو پراگندہ ہو جانے سے محفوظ رکھا ۔ پس یہ امام مسلمانوں کے لئے بطور ایک چار دیواری کے رہے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے اور ان کی بزرگی اور احسان کے معترف ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو سارے اماموںکو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے مگر امام ابو حنیفہ کو خصوصیت کے ساتھ علم و معرفت میں بڑھا ہواسمجھتے تھے اور ان کی قوت استدلال کی بہت تعریف فرماتے تھے ۔
{ 361} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بڑی سختی کے ساتھ اس بات پر زور دیتے تھے کہ مقتدی کوامام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی فرماتے تھے کہ باوجودسورۃ فاتحہ کوضروری سمجھنے کے میں یہ نہیں کہتا کہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتااس کی نمازنہیں ہوتی ۔کیونکہ بہت سے بزرگ اوراولیاء اللہ ایسے گذرے ہیں جو سورۃ فاتحہ کی تلاو ت ضروری نہیں سمجھتے تھے۔اور میں ان کی نمازو ںکوضائع شدہ نہیں سمجھ سکتا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو خاموش کھڑے ہوکر اس کی تلاوت کو سننا چاہیے اور خود کچھ نہیں پڑھنا چاہیے ۔اور اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ مقتدی کے لئے امام کے پیچھے بھی سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے اور حضرت صاحب اس مسئلہ میں اہل حدیث کے مؤید تھے مگر باوجوداس عقیدہ کے آپ غالی اہل حدیث کی طرح یہ نہیں فرماتے تھے کہ جوشخص سورۃ فاتحہ نہیںپڑھتا اس کی نمازنہیں ہوتی۔
{ 362} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیاکہ عصمت جو تمہاری سب سے بڑی بہن تھی وہ جمعہ سے پہلی رات کو صبح کی نماز سے قبل پیدا ہوئی تھی اور بشیر اوّل اتوارسے قبل رات کو بعد از نصف شب پیدا ہوا تھا اور محمود (یعنی حضرت خلیفہ ثانی)ہفتہ سے پہلی رات کو دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے تھے اور شوکت پیر کے دن چار بجے شام کے پیدا ہوئی تھی اور تم (یعنی یہ خاکسار )جمعرات کی صبح کو بعد طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور شریف بھی جمعرات کی صبح کو قبل طلوع آفتاب پیدا ہوئے تھے اور مبارکہ منگل سے پہلی رات کے نصف اوّل میں پیدا ہوئی تھیں۔اور مبارک بدھ کے دن سہ پہر کے وقت پیدا ہوا تھا اور امۃ النصیر کے متعلق یاد نہیں اور امۃ الحفیظ شائد پیر سے پہلی رات عشاء کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان فرمایا کہ جب مبارکہ پیدا ہونے لگیں تو حضرت صاحب نے دُعا کی تھی کہ خدا اسے منگل کے(شدائد والے )اثر سے محفوظ رکھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دن اپنی تاثیرات اور افاضۂ برکات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں مفصل بحث کی ہے یہ تا ثیرات قانون نیچر کے ماتحت ستاروں کے اثر کا نتیجہ ہیں ۔
{ 363} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمدعلی صاحب کے پاس سفارش کی کہ مولوی یار محمدؐ صاحب کومدرسہ میں بطور مدرس کے لگالیا جاوے ۔مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور تو ان کی حالت کو جانتے ہیں ۔حضرت صاحب مسکراکر فرمانے لگے کہ میں آپ سے بہتر جانتا ہوں مگر پھر بھی لگا لینا چاہیے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی یار محمد صاحب ایک بڑے مخلص احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کوبہت محبت تھی مگر چونکہ ان کے اندر ایک خاص قسم کادماغی نقص تھا اس لئے غالباً اسے مد نظر رکھتے ہوئے مولوی محمدعلی صاحب نے حضرت صاحب کی سفارش پر یہ الفاظ عرض کئے ہوںگے ۔لیکن بایں ہمہ حضرت صاحب نے ان کے لگائے جانے کی سفارش فرمائی جو شائد اس خیال سے ہوگی کہ ایک تو ان کیلئے ایک ذریعہ معاش ہوجائیگا اور دوسرے شائد کام میں پڑنے سے ان کی کچھ اصلاح ہوجاوے۔اور یہ جو حضرت صاحب نے فرمایاکہ میں ان کو آپ سے بدتر جانتا ہوں۔ یہ اس لئے تھا کہ مولوی یار محمد صاحب کی اس دماغی حالت کا نشانہ زیادہ تر خودحضرت مسیح موعود ؑ رہتے تھے ۔ اور بہترکی جگہ بدتر کا لفظ استعمال کرناغالباًمعاملہ کی اصل حقیقت کو ظاہرکرنے کیلئے تھااور شائد کسی قدر بطور مزاح بھی ہو۔
{ 364} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دائی کو بلا کر اس سے شہادت لی تھی کہ آپ کی ولادت توام ہوئی تھی اور یہ کہ جو لڑکی آپ کے ساتھ پیدا ہوئی تھی وہ پہلے پیدا ہوئی تھی اور اس کے بعد آپ پیدا ہوئے تھے اور پھر اس کے تحریری بیان پر اس کے انگوٹھے کا نشان بھی ثبت کروایا تھا اور بعض دوسری بو ڑھی عورتوں کی شہادت بھی درج کروائی تھی ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت جمعہ کے دن چاند کی چودھویںتاریخ کو ہوئی تھی ۔
{ 365} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ میں نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی کی زبانی سُنا ہے کہ ایک دفعہ کوئی انگریزی خوان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ عربی زبان میں مفہوم کے ادا کرنے کے لئے انگریزی کی نسبت زیادہ طول اختیار کرنا پڑتا ہے۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ اچھا آپ انگریزی میں ’’ آب من‘‘ کے مفہوم کو کس طرح ادا کریں گے ؟اس نے جواب دیا کہ اس کے لئے ’’مائی واٹر‘‘کے الفاظ ہیں۔حضرت صاحب نے فرمایاکہ عربی میں صرف ’’مائی ‘‘ کہنا کافی ہے ۔خاکسار عرض کرتاہے۔کہ یہ صرف ایک وقتی جواب بطورلطیفے کا تھا ۔ورنہ یہ نہیں کہ حضرت صاحب کے نزدیک صرف یہ دلیل اس مسئلہ کے حل کے لئے کافی تھی۔
{ 366} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضرہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے آیا ہوں ۔اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کردی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا ۔اس کے جوا ب میںجو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح ومہدی ہونے کا دعویٰ ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے ۔اس وقت مولوی عبد اللطیف صا حب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہو ں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی ۔حضرت صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کوسمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ۔اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطیف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے ۔فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا ۔
{ 367} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا۔کہ انبیاء کے متعلق بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ہسٹیریا کا مرض ہوتا ہے لیکن یہ ان کی غلطی ہے ۔دراصل بات یہ ہے کہ انبیاء کے حواس میں چونکہ بہت غیرمعمولی حدت اور تیزی پیدا ہو جاتی ہے ۔اس لئے نا واقف لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ حالانکہ دراصل وہ ہسٹیریا نہیں ہوتا بلکہ صرف ظاہری صورت میں ہسٹیریا سے ملتی جلتی حالت ہوتی ہے ۔ لیکن لوگ غلطی سے اس کا نا م ہسٹیریا رکھ دیتے ہیں ۔
{ 368} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ رہن نامہ جس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا باغ حضرت والدہ صاحبہ کے پاس رہن رکھا تھا میں نے دیکھا ہے وہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے اور اس کی تاریخ ۲۵جون ۱۸۹۸ء ہے ۔زررہن پانچ ہزار روپیہ ہے جس میں سے ایک ہزار نقد درج ہے اور باقی بصورت زیورات ہے ۔اس رہن میں حضرت صاحب کی طرف سے مندرجہ ذیل الفاظ درج ہیں:۔
’’اقرار یہ ہے کہ عرصہ تیس سال تک فک الرہن مرہونہ نہیں کراؤں گا ۔بعد تیس سال مذکور کے ایک سال میں جب چاہو ں زررہن دوں تب فک الرہن کرالوں ۔ورنہ بعد انفصال میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے بتیسویں سال میں مرہو نہ بالا ان ہی روپیوں میں بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا۔قبضہ اس کا آج سے کرادیا ہے اور داخل خارج کرا دونگا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی رہن تک مرتہنہ مستحق ہے اور معاملہ سر کاری فصل خریف ۱۹۵۵(بکرمی )سے مر تہنہ دے گی اور پیدا وار لے گی ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ اس کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تجویزکردہ نہیں ہیں بلکہ کسی وثیقہ نویس نے حضرت صاحب کے منشاء کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔
{ 369} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خا ن صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اورحضرت صاحب نے مہر نامہ کوباقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اور جب حضرت صاحب کی وفات کے بعدہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمدؐ عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہواتو مہر (۱۵۰۰۰)مقرر کیا گیا اور یہ مہر نامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا ۔لیکن ہم تینو ں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہو گئی تھیں کسی کا مہر نامہ تحریر ہو کر رجسٹری نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا ۔در اصل مہر کی تعدادزیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کااحتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میںیہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم باقاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگو ں کی شہادتیںاس پر ثبت ہو جاویں۔کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے ۔پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے۔
{ 370} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد ان کا کوئی مرید ان کے کچھ بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لایا ۔ آپ نے وہ بال ایک کُھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال کر اور اس کے اندر کچھ مشک رکھ کر اس بوتل کوسر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاگہ باندھ کر اسے اپنی بیت ا لدُّعا کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیا ۔اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے اور نیز بیت الدُعا میں اس غرض سے لٹکائے گئے ہوں گے کہ دُعا کی تحریک رہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بوتل کئی سال تک بیت ا لدُّعا میں لٹکی رہی ۔لیکن اب ایک عرصہ سے نظر نہیں آتی ۔
{ 371} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ریش مبارک کے زیادہ بڑھے ہوئے بالوں کو قینچی سے کتر وا دیا کرتے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان داڑھی کو بڑھائیں اور مونچھوں کو چھوٹا کریں۔جس کی یہ وجہ ہے کہ داڑھی مردانہ زینت اور وقار کا موجب ہے اور مونچھوں کا بڑھانا عُجب اور تکبر پیدا کرتا ہے ۔لیکن اس کا یہ منشاء نہیں کہ داڑھی کی کوئی خاص مقدار شریعت نے مقرر کردی ہے ۔اس قسم کی جزئی باتوں میں شریعت دخل نہیں دیتی بلکہ شخصی مناسبت اور پسندیدگی پر چھوڑ دیتی ہے ۔منشاء صرف یہ ہے کہ داڑھی منڈوائی نہ جاوے بلکہ رکھی جاوے لیکن داڑھی کا بہت زیادہ لمبا کرنا بھی پسند نہیں کیا گیا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مشت و دو انگشت کے اندازہ سے زیادہ بڑھی ہوئی داڑھی کتر وا دینی مناسب ہے۔جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ بہت لمبی داڑھی بھی خلاف زینت ہوتی ہے ۔اور اس کا صاف رکھنا بھی کچھ دقت طلب ہے۔مگر اس کے مقابلہ میں داڑھی کو ایسا چھوٹا کتر وانا بھی کہ وہ منڈھی ہوئی کے قریب قریب ہو جاوے آنحضرت ﷺ کے ارشادکے احترام کے خلاف ہے جو ایک مخلص مسلمان کی شان سے بعید سمجھا جانا چاہیے۔
{ 372} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سُناہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے ۔بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن در اصل بات یہ ہے کہ آپ کو دماغی محنت اور شبانہ روز تصنیف کی مشقت کی وجہ سے بعض ایسی عصبی علامات پیدا ہو جایا کرتی تھیں جو ہسٹیریا کے مریضوں میں بھی عموماً دیکھی جاتی ہیں ۔مثلاً کام کرتے کرتے یکدم ضعف ہو جانا۔چکروں کاآنا ۔ہاتھ پاؤں کا سرد ہوجانا ۔ گھبراہٹ کا دورہ ہو جانا یا ایسا معلوم ہوناکہ ابھی دم نکلتا ہے یا کسی تنگ جگہ یا بعض اوقات زیادہ آدمیوں میں گھر کر بیٹھنے سے دل کا سخت پریشا ن ہونے لگنا وغیر ذالک۔یہ اعصاب کی ذکاوت حس یا تکان کی علامات ہیں اور ہسٹیریا کے مریضوں کو بھی ہوتی ہے اور انہی معنو ں میں حضرت صاحب کو ہسٹیریا یا مراق بھی تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری جگہ جو مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ جو بعض انبیاء کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو ہسٹیریا تھا یہ ان کی غلطی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ حس کی تیزی کی وجہ سے ان کے اندر بعض ایسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو ہسٹیریا کی علامات سے ملتی جلتی ہیں ۔ اس لئے لوگ غلطی سے اسے ہسٹیریا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب جو کبھی کبھی یہ فرمادیتے تھے کہ مجھے ہسٹیریا ہے یہ اسی عام محاورہ کے مطابق تھاورنہ آپ علمی طورپر یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہسٹیریا نہیں۔بلکہ اس سے ملتی جلتی علامات ہیںجوذکاوت حس یا شدت کار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میرمحمدؐ اسماعیل صاحب ایک بہت قابل اور لائق ڈاکٹر ہیں ۔چنانچہ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ ہمیشہ اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوتے تھے اور ڈاکٹری کے آخری امتحان میں تمام صوبہ پنجاب میں اوّل نمبر پر رہے تھے اور ایّام ملازمت میں بھی ا ن کی لیاقت و قابلیت مسلّم رہی ہے ۔اور چونکہ بوجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت قریبی رشتہ دار ہونے کے ان کو حضرت صاحب کی صحبت اور آپ کے علاج معالجہ کا بھی بہت کافی موقعہ ملتا رہتا تھا اس لئے ان کی رائے اس معاملہ میںایک خاص وز ن رکھتی ہے جو دوسری کسی رائے کو کم حاصل ہے۔
{ 373} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گھر کے بچے کبھی شب برات وغیرہ کے موقع پریو نہی کھیل تفریح کے طور پر آتش بازی کے انار وغیرہ منگا کر چلا لیا کرتے تھے ۔اور بعض اوقات اگر حضرت صاحب موقعہ پر موجود ہوںتو یہ آتش بازی چلتی ہوئی آپ خود بھی دیکھ لیتے تھے۔نیز حضرت خلیفۃالمسیح ثا نی بیان کرتے تھے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ گھر میں آتش بازی کے انار وغیرہ چلانا طاعونی مادہ کو مارنے اور ہوا کی صفائی کے لئے مفید ہوتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم بچپن میں بعض اوقات آتش بازی کی اس قسم کی غیر ضرر رساں چیزیں جیسے انار ہوتا ہے منگا کر گھر میں چلا لیتے تھے اور حضرت صاحب دیکھتے تھے اور منع نہیں فرماتے تھے بلکہ بعض دفعہ ان چیزو ں کے منگانے کے لئے ہم حضرت صاحب سے پیسے مانگتے تھے تو آپ دے دیتے تھے ۔
{ 374} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے تھے اور وہاں کی جمعہ مسجد میں مولوی نذیر حسین صاحب کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی تو اس وقت میں بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھا ۔ چونکہ شہر میں مخالفت کا خطرناک زور تھا اور حضرت صاحب کے اہل وعیال بھی سفر میں ساتھ تھے ۔اس لئے حضرت صاحب مباحثہ کی طرف جاتے ہوئے مکان کی حفاظت کے لئے مجھے ٹھہرا گئے تھے ۔چنانچہ آپ کی واپسی تک میں نے مکان کا پہرا دیا اور میں نے دل میں یہ پختہ عہد کر لیا تھا کہ میں اپنی جان دے دوں گا لیکن کسی کو مکان کی طرف رخ نہیں کرنے دوں گا ۔مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے تھے کہ میرے چچا ایک خوب مضبوط آدمی تھے اور ہمارے خاندان میں انہوں نے سب سے پہلے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی ۔
{ 375} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ان کے چچا چوہدری شیرمحمدؐصاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ شروع شروع میں جب حضرت مولوی نور الدین صاحب قرآن شریف کا درس دیا کرتے تھے تو کبھی کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بھی ان کا درس سننے کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ فرمایا بھی کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت مولوی صاحب درس دے رہے تھے تو ان آیات کی تفسیر میں جن میں جنگ بدر کے وقت فرشتوں کی فوج کے نازل ہونے کا ذکر آتا ہے ۔حضرت مولوی صاحب کچھ تاویل کرنے لگے کہ اس سے روحانی رنگ میں قلوب کی تقویت مراد ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سُنا تو فرمانے لگے کہ اس تا ویل کی ضرورت نہیں ۔اس وقت واقعی مسلمانوں کو فرشتے نظر آئے تھے ۔اور کشفی حالات میں ایسا ہو جاتا ہے کہ صا حب کشف کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کشفی نظارہ میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ پس اس موقعہ پر بھی آنحضرت ﷺ کے اس کشفی نظارہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو شا مل کر لیا تا کہ ان کے دل مضبوط ہو جائیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ نزول ملائکہ کی حقیقت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب ’’توضیح مرام‘‘’’ازالہ اوہام ‘‘اور خصو صاً ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں مفصل بحث فرمائی ہے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہونے سے پہلے سر سیّد احمد خان مرحوم کے خیالات اور ان کے طریق استدلال کی طرف مائل تھے اس لئے بسا اوقات معجزات اور اس قسم کے روحانی تصر فات کی تا ویل فرمادیا کرتے تھے اور ان کی تفسیر میں اس میلان کی جھلک احمدیت کے ابتدائی ایام میں بھی نظر آتی ہے۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں آہستہ آہستہ یہ اثر دھلتا گیا اور خالص پر تو نبوت سے طبیعت متاثر ہوتی گئی ۔
{ 376} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد ؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔کہ آتھم کے مباحثہ کے قریب ہی کے زمانہ میں ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے ایک ملازم لڑکے مسمی چراغ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیان کیاکہ باہر دو میمیں آئی ہیـں ۔حضرت صاحب اس وقت چھت کے صحن پر ٹہل رہے تھے۔فرمایا کیوں آئی ہیں؟اس نے اپنے اجتہاد کی بنا پر کہہ دیاکہ بحث کرنے کے لئے آئی ہیں۔حضور فوراً اپنا چغہ پہن کر اور عصا ہا تھ میں لے کر نیچے اُترے اور احمدیہ چوک میں تشریف لے گئے۔جب ان میموں نے حضور صاحب کو دیکھا تو کہا کہ مرزا صاحب ہم نے فلاں گاؤں میں جانا ہے ہمارے لئے کوئی سواری کا انتظام کر دیں ۔ موجودہ یکہ کو ہم یہیں چھوڑ دیں گے ۔حضرت صاحب نے کسی خادم کو اس کاانتظام کرنے کا حکم دیا اور خود واپس گھر میں تشریف لے آئے۔در اصل ان میموں نے بطور رئیس قصبہ کے آپ سے یہ امداد مانگی تھی مگر چراغ نے یہ سمجھ کر کہ حضور ہمیشہ عیسائیوں کے ساتھ مباحثات میں مصروف رہتے ہیں اپنی طرف سے یہ اجتہاد کر لیا کہ یہ میمیں بھی اسی کام کے لئے آئی ہیں۔
{ 377} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صا حب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کیلئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے ۔اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہا تھ ایک نیا کرتہ بھجواکر پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی ۔گھر میں تلاش سے معلوم ہواکہ اس وقت کوئی اترا ہوا بے دھلاکرتہ موجود نہیں ۔جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہا ںکا دھلا ہوا دیئے جانے کا حکم فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے ۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے ۔ چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دیدیا گیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ وہ شخص غالباً یہ تو جانتا ہوگا کہ دھوبی کے ہاں دھلنے سے برکت جاتی نہیں رہتی ۔لیکن محبت کا یہ بھی تقاضا ہو تا ہے کہ انسان اپنے مقدس محبوب کا اُترا ہو امیلا بے دھلا کپڑا اپنے پاس رکھنے کی خواہش کرتا ہے اور اسی طبعی خواہش کا احترام کر تے ہوئے گھر میںپہلے میلے کپڑے کی تلاش کی گئی لیکن جب وہ نہ ملا تو دُھلا ہوا کرتہ دیدیا گیا۔
{ 378} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے تو جہی کے عالم میں اس کی ایڑی پائوں کے تلے کیطرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بارہا ایک کاج کابٹن دوسر ے کا ج میں لگا ہوا ہوتا تھا ۔اور بعض اوقات کو ئی دوست حضور کیلئے گر گابی ہدیۃً لا تا تو آپ بسا اوقات دایاں پائوں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے ۔اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھارہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجا تا ہے ۔
{ 379} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات سے قبل سالہاسال اسہال کا عارضہ رہا تھا ۔چنانچہ حضور اسی مرض میں فوت ہوئے ۔ بار ہا دیکھا کہ حضور کو دست آنے کے بعد ایسا ضعف ہوتا تھا کہ حضور فوراً دودھ کا گلاس منگوا کر پیتے تھے ۔
{ 380} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈا کٹر میر محمد ؐ اسما عیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں بالا خانہ میں رہا کرتے تھے اور جب تک ان کی شادی اور خانہ داری کا انتظام نہیں ہوا حضرت صاحب خود ان کے لئے صبح کے وقت گلاس میں دودھ ڈال کر اور پھر اس میں مصری حل کر کے خاص اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مہمانوں کی بہت خاطر منظور ہوتی تھی اور پھر جو لوگ دینی مشاغل میں مصروف ہوں ان کو تو آپ بڑی قدر اور محبت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔
{ 381} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے ۔حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ معہ کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے ۔ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں ۔آپ نے فرمایا ۔سفر میں روزہ ٹھیک نہیں اللہ تعالیٰ کی رخصت پر عمل کرنا چاہیے ۔چنانچہ ان کو ناشتہ کر وا کے ان کے روزے تڑوا دیئے۔
{ 382} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈا کٹر میر محمد ؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صفائی کا بہت خیال ہوتا تھا ۔خصو صاً طاعون کے ایام میں اتنا خیال رہتا تھا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پا خانوں اور نالیوں میں جا کر ڈالتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں ایندھن کا بڑا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوایا کرتے تھے تا کہ ضرر رساں جراثیم مر جاویں اور آپ نے ایک بہت بڑی آ ہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی ۔جسے کوئلے ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دیئے جاتے تھے ۔اس کی اتنی گرمی ہوتی تھی کہ جب انگیٹھی کے ٹھنڈا ہو جانے کے ایک عرصہ بعد بھی کمرہ کھولا جاتا تھا تو پھر بھی وہ اندر سے بھٹی کی طرح تپتا تھا ،نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کی عجیب شان ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو اسباب کی اتنی رعایت کرتے ہیںکہ دیکھنے والے کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ ان کی نظر میں انہی اسباب کے ہاتھ میں سارا قضاء و قدر کا معاملہ ہے اور اگر ان کی رعایت نہ رکھی گئی تو پھر کام نہیں بن سکتا اور دوسری طرف ان کو خدا کی ذات پر اس درجہ توکل ہوتا ہے کہ اسباب کووہ ایک مردہ کیڑے کی طرح سمجھتے ہیں اور ایک سطحی نظر رکھنے والا انسان اس حالت کو دیکھ کر حیرانی میں پڑ جاتا ہے لیکن در اصل بات یہ ہوتی ہے کہ جس قدر بھی رعایت وہ اسباب کی رکھتے ہیں وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ اسباب کے ہا تھ میں کوئی قضاء و قدر کی چابیاں ہیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ اسباب خداکے پیدا کردہ ہیں اور خدا کا احترام یہ چاہتا ہے بلکہ یہ خدا کا حکم ہے کہ اس کے پیدا کردہ اسباب کی رعایت ملحوظ رکھی جاوے ۔پس چونکہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت میں سب سے اعلیٰ مقام پر کھڑے ہوتے ہیں اس لئے اسباب کی رعایت رکھنے میں بھی وہ دوسروں سے فائق نظر آتے ہیں ۔لیکن اصل بھروسہ ان کا خدا کی ذات کے سوا اور کسی چیز پر نہیں ہوتا اور در اصل یہی وہ تو حید کا نکتہ ہے جس پر قائم کرنے کیلئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں اور غور کیا جاوے تو یہ مقام کوئی آسان مقام نہیں بلکہ ہر وقت کا مجاہدہ اور نہایت پختہ ایمان چاہتاہے عموماً لوگ اسباب کو کام میں لاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیںکہ اسباب کو جو بھی طاقت اور اثر حاصل ہے وہ سب خدا کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے اور اپنی ذات میں وہ ایک مُردہ کیڑے سے بھی بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے اور یہ کمزوری ایک حد تک ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف رسمی طور پر خدا کو نہیں مانتے بلکہ واقعی اور حقیقتاًدل کی بصیرت کے ساتھ اس پر ایمان لائے ہیں ۔ہر شخص اپنے دل کے اندر غورکر کے دیکھے کہ جب اس کا کوئی قریبی عزیز سخت بیمار ہو جاتا ہے یا اس کے خلاف کوئی نہایت سنگین مقدمہ کھڑا ہو جاتا ہے یا وہ کسی ایسے قرضہ یا مالی بوجھ کے نیچے دب جاتا ہے کہ جو اس کی طاقت سے باہر ہے اور جس کے ادا نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنی یقینی تباہی نظر آتی ہے تو وہ کس طرح بے تاب ہو کر ڈاکٹروں کی طرف بھاگتا اور علاج معالجہ میں منہمک ہو جاتا ہے یا وہ کس طرح وکیلوں کے پیچھے پیچھے جاتا اور ان کو باوجود ایک بڑی رقم بطور فیس کے دینے کے ان کی خوشامد اور منت سماجت کرکے ان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور بعض اوقات اگر موقعہ پائے تو عدالت کی خوشامد کرتا اور سفارشوں کے ذریعہ اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یا وہ کس طرح سر مایہ داروں کے در کی جبہ سائی کرنا اور ان سے روپیہ حا صل کر کے اپنی مالی مصیبت سے رہائی پانے کی راہ تلاش کرتا ہے اور یہ ساری کارروائی وہ اس طرح منہمک ہو کر کرتا ہے کہ گویا خدا تو صرف ایک نام ہی نام ہے اور اصل حاجت براری کا موجب یہی اسباب ہیں ۔کیونکہ اسباب کے میسّر نہ آنے پر وہ ما یوس ہونے لگتا ہے اور یقین کر لیتا ہے کہ بس اب اس کی رہائی کی کوئی صورت نہیں اوریہی وہ مخفی شرک ہے جس سے نجات دینے کے لئے انبیاء مبعوث ہوتے ہیں جو آکر یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب کو اختیار کرو کیونکہ وہ خدا کے پیدا کردہ ہیں اور خدا کی حکمت ازلی نے ان کے اندر تاثیرات ودیعت کی ہیں ۔جن سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو ۔لیکن ساتھ ہی ہر وقت تمہارے دل اس یقین سے معمور رہیں کہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے ۔اور اگر اس منبع سے چشمہ فیض بند ہو جاوے تو یہ اسباب ایک مُردہ کیڑے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے ۔تم ایمان لاؤ کہ کونین ملیریا کے کیڑوں کو مارتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ ایمان تمہارے دلوں میں قائم ہو کہ اس کی یہ خاصیت خدا کی طرف سے ہے ۔خود بخود نہیں۔اور اگر خدا چاہے تو اس سے اس کی یہ خاصیت چھین کر ایک مٹی کے ڈلے میں وہی خاصیت پیدا کر دے یا محض اپنے حکم سے بلا کسی درمیانی سبب کے وہ نتائج پیدا کر دے جو کونین پیدا کرتی ہے ۔یہ ایمان کہنے کو تو ہر مومن کے دل میں ہوتا ہے لیکن کم ہیں بہت ہی کم ہیں جن کے دل عملاً اس ایمان کی زندہ حقیقت سے منور ہوتے ہیں ۔اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ بعض لوگ تو اسباب کو ترک کر دیتے ہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہورہے گا ۔اور اس طرح خدا کے پیدا کردہ سامانوں کی بے حرمتی کر کے خدا کی ناراضگی کا نشانہ بنتے اور نقصان اُٹھاتے ہیں اور بعض اس طرح اسباب پر گرتے ہیں کہ گویا خدا کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہونا ہے ان اسباب سے ہونا ہے یہ دونوں گروہ راہ صواب سے دُور اور پردہ ظلمت میں مستور ہیں ۔اور حق پر صرف وہی ہے جو انبیاء کی سنت پر چل کراسباب کی پوری پوری رعایت رکھتا ہے مگر اس کا دل اس زندہ ایمان سے معمور رہتاہے کہ ان اسباب کے پیچھے ایک اور طاقت ہے جس کے اشارہ پر یہ سب کار خانہ چل رہا ہے اور جس کے بغیر یہ سب اسباب بالکل مردہ اور بے تا ثیر ہیں ۔مگر یہ مقام ایمان کا ایک بڑے مجاہدہ کے بعد حاصل ہوتا ہے اور اس پر قائم رہنا بھی ہر وقت کا مجاہدہ چاہتا ہے ۔ بلکہ حق یہ ہے کہ ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
{ 383} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمدؐ اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں انٹرنس کا امتحان دے کر ۱۸۹۷ء میں قادیان آیا تو نتیجہ نکلنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے ؟ آخر ایک دن میں نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں گلاب کے پھول دیکھے ہیں ۔ فرمانے لگے اس کی تعبیر تو غم ہے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میں اس سال امتحان میں فیل ہو گیا۔ نیز ویسے بھی جن دنوں میں کوئی اہم امر حضور کے زیر نظر ہوتا تھا تو آپ گھر کی مستورات اور بچوں اور خادمہ عورتوں تک سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو بڑے غور اور توجہ سے اسے سنتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج کل کی مادیت کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ لوگ خوابوں کے قائل نہیں رہے اور انہیں کلیۃً جسمانی عوارض کا نتیجہ سمجھتے ہیں حالانکہ گو اس میں شک نہیں کہ بعض خوابیں جسمانی عوارض کا نتیجہ بھی ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ خدا کی طرف سے آئندہ ہونے والے امور یا مخفی باتوں کے متعلق خواب میں نظارے دکھائے جاتے ہیں ۔جو وقت پر پورے ہو کر خوابوں کی سچائی پر مہر تصدیق کا کام دیتے ہیں اور ان سے انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی آدمی دوسری محسوس و مشہود چیزوں کا انکار کر دے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب ہمیشہ اپنے تعلیمی امتحانوں میںاعلیٰ نمبروں پرکامیاب ہوتے رہے ہیں اور ان کا اس دفعہ انٹرنس میں فیل ہونا اس وجہ سے تھا کہ اس سال چونکہ لیکھرام کے قتل کی وجہ سے ہندوؤں میں بہت سخت مخالفت تھی اس لئے بہت سے مسلمان بچے ہندو ممتحنوں کے غیظ و غضب کا شکار ہو گئے تھے ۔کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کو امتحان کے پرچوں پر اپنے نام لکھنے پڑتے تھے جس سے ممتحن کو ہندو مسلمان کا پتہ چل جاتا تھا ۔
{ 384} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مبارک احمدؐ فوت ہو گیا اور مریم بیگم جس کے ساتھ اس کی شادی ہوئی تھی بیوہ رہ گئی تو حضرت صاحب نے گھر میں ایک دفعہ یہ خواہش ظا ہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آجاوے تو اچھا ہے۔یعنی ہمارے بچوں میں سے ہی کوئی اس کے ساتھ شادی کر لے توبہتر ہے۔چنانچہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ زیادہ تر اسی بنا پرحضرت خلیفۃالمسیح ثانی نے مریم بیگم سے شادی کی ہے نیز والدہ صاحبہ بیان کرتی تھیں کہ جب حضرت صاحب کے سامنے تم لڑکوں کی شادی کی تجویز ہوتی تھی اور کبھی یہ خیال ظاہر کیا جاتا تھا کہ فلاں لڑکی کی عمر لڑکے کی عمر کے قریباً قریباً برابر ہے۔جس سے بڑے ہو کر لڑکے کو تکلیف کا اندیشہ ہے۔کیونکہ عموماً عورت جلد بوڑھی ہو جاتی ہے اور مرد کے قوٰی دیر تک قائم رہتے ہیں تو حضرت صاحب فرماتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر ضرورت ہو گی تو بڑے ہو کر بچے اور شادی کر لیں گے۔نیز والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ اسلامی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے احمدؐی زیادہ شادیاں کریں تاکہ نسل جلدی جلدی ترقی کرے اور قوم پھیلے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بے شک نسل کی ترقی کا یہ ایک بہت عمدہ ذریعہ ہے اور نیز اس طرح یہ فا ئدہ بھی حاصل ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحبت یافتوں کو اپنے سامنے زیادہ بچوں کی تربیت کا موقعہ مل سکتا ہے ۔جو قومی فلاح و بہبود کے لئے بہت ضروری ہے ۔ لیکن تعددازدواج کے متعلق عدل و انصاف کی جو کڑی شرطیں اسلام پیش کرتا ہے۔ان کا پورا کرنا بھی ہر کس و ناکس کا کام نہیں ۔ہاں جن کو یہ تو فیق حاصل ہو اور ان کو کوئی جائز ضرورت پیش آ جائے وہ بے شک زیادہ بیویاں کریں تاکہ علاوہ ان فوائد کے جو اوپر بیان ہوئے ہیں یہ فائدہ بھی حاصل ہو کہ ایسے لوگوں کے نیک نمونے سے وہ بد ظنی اور بدگمانی دُور ہو جو بعض لوگوں کے بد نمونے کے نتیجہ میں تعدد ازدواج کے متعلق اس زمانہ میں خصوصاًحلقہ نسواں میں پیدا ہو رہی ہے ۔
{ 385} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ سلطان احمد(یعنی مرزا سلطان احمدؐ صاحب )ہم سے سولہ سال چھوٹا ہے اور فضل احمد بیس برس اورا س کے بعد ہمارا اپنے گھر سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔
{ 386} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میر حا مد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی اور ان کے والد میر حسام الدین صاحب قادیان میں موجود تھے حضرت صاحب کے سامنے ذکر ہوا کہ میر حسام الدین صاحب کی بیوی فوت ہو چکی ہے ۔جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میر صاحب کہیں اور شادی کرالیں ۔بلکہ میر حامد شاہ صاحب سے فرمایا کہ میر حسام الدین صاحب کی شادی کا بندو بست کرادیں ۔اس وقت میر حسام الدین صاحب بہت معمر تھے۔
{ 387} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستارشاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ انسپکٹر جنرل آف ہاسپٹلز کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ سب ڈاکٹر جو برانچ ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں سال میں دو ماہ ضلع کے صدر ہسپتال میں جا کر کا م کیا کریں تا کہ نئے نئے تجربات اور طریق کار سے واقف رہیں چنانچہ نمبر وار ڈاکٹروں کی ڈیوٹی شروع ہوئی اور میری باری آنے والی تھی ۔مجھے بہت تردد اور فکر ہوا کیونکہ ہر سال معہ اہل و عیال و سامان وغیرہ کے ضلع میں جانا ایک سخت مصیبت تھی اتفاقاً میں چند روز کی رخصت لے کر قادیان آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں یہ سب ماجرا عرض کیا ۔حضور نے فرمایا ،آپ فکر نہ کریں شائد آپ کی باری وہاں جانے کی نہ آوے گی ۔گو آپ نے شائد کا لفظ بولا تھا لیکن میرے دل کو اطمینان ہو گیا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ انسپکٹر جنرل کی طرف سے میرے نام ایک حکم آگیا کہ تم اس ڈیوٹی سے مستثنیٰ ہو۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خاص حالات کی باتیں ہوتی ہیں اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو بات بھی انبیاء فرما دیں وہ اسی طرح وقوع میں آجاتی ہے ۔ابنیاء عالم الغیب نہیںہوتے ۔
{ 388} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب شروع دعویٰ مسیحیت میںدہلی تشریف لے گئے تھے اور مولوی نذیر حسین کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی تھی ۔ اس وقت شہر میں مخالفت کا سخت شور تھا ،چنانچہ حضرت صاحب نے افسران پولیس کے ساتھ انتظام کر کے ایک پولیس مین کو اپنی طرف سے تنخواہ دینی کر کے مکان کی ڈیوڑھی پر پہرہ کے لئے مقرر کرا لیا تھا ۔یہ پولیس مین پنجابی تھا ۔ اس کے علاوہ ویسے بھی مردانہ میں کافی احمدؐی حضرت صاحب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے ۔
{ 389} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صا حب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں ۱۹۰۰ء میں پہلی دفعہ قادیان میںآیا تو حضور ان دنوں میں صبح اپنے باغ کی طرف سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب حضرت صاحب باغ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ گیا اور حضور نے شہتوت منگوا کر درختوں کے سائے کے نیچے خدام کے ساتھ مل کر کھائے اور پھر مجھے مخاطب فرما کر اپنے دعویٰ کی صداقت میں تقریر فرمائی ۔میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کی صداقت کے متعلق تو کوئی شبہ نہیں رہا لیکن اگر بیعت نہ کی جاوے اور آپ پر ایمان رکھا جاوے کہ آپ صادق ہیں ،تو کیا حرج ہے ؟آپ نے فرمایا کہ ایسے ایمان سے آپ مجھ سے رو حانی فیض حاصل نہیں کر سکتے۔بیعت سنت انبیا ء ہے اور اس سنت میں بہت بڑے فوائد اور حکمتیں ہیں ۔چنانچہ سب سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ انسان کے نفسانی درخت کا جو کڑوا پھل اور بد ذائقہ اثر ہے اسے دور کرنے کے لئے ایک پیوند کی ضرورت ہے اور وہ پیوند بیعت کامل ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کڑوے ترش اوربد ذائقہ پھل دار درخت کو اگر میٹھا اور لذیذ بنانا ہوتو پھر کسی عمدہ خوش ذائقہ شیریں پھل دار درخت کے ساتھ اسے پیوند کرتے ہیں اور اس طرح اس کے بد ذائقہ اور کڑوے پھل خودبخود شیریں اور عمدہ ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح جب کسی انسان کا نفسانی پھل خراب گندہ اور بد مزہ ہو تو ایک پاک نفس کی بیعت یعنی اس کے روحانی تعلق اور توجہ اور دُعا وغیرہ سے پیوند ہو کر یہ بھی حسب استعداد پاک نفس اور مطہر و ظل انبیاء ہو جاتا ہے ۔اور بغیر اس بیعت اور تا ثیر روحانی کے اس کا روح محروم رہتا ہے نیز مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے بیعت کے فوائد پر تقریر فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا یہ فائدہ بیعت کا کوئی کم ہے کہ انسان کے پہلے سارے گناہ بخشے جاتے ہیں۔
{ 390} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی محمد ؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حقیقۃ الوحی طبع ہو رہی تھی ۔ایک دفعہ خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو حقیقۃ الوحی میں سعد اللہ لدھیانوی کے بیٹے کے نامرد ہونے کے متعلق تحدی کی گئی ہے اس کو کاٹ دیا جاوے ۔ کیونکہ اگر اس نے مقدمہ کر دیا تو نا مرد ثابت کرنا مشکل ہو گا ۔مگر حضرت صاحب نے انکار کیا۔ خواجہ صاحب نے پھر عرض کیا کہ اس سے مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ خواجہ صاحب اگر اس نے مقدمہ کیاتو ہم آپ کو وکیل نہیں کریں گے ۔اس کے کچھ دن بعد جب خواجہ صاحب لاہور چلے گئے تو مولوی محمد علی صاحب نے سیر کے وقت حضرت صاحب سے عرض کیا کہ خواجہ صاحب کا خط آیا ہے کہ مجھے سعد اللہ کے متعلق اتنا فکر ہے کہ بعض اوقات رات کو نیند نہیں آتی یا تو وہ مر جاوے یا حضرت صاحب اس کے بیٹے کے نامرد ہونے کے الفاظ اپنی کتاب سے کاٹ دیں۔ حضرت صا حب نے فرمایا کہ کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ سعداللہ کو جلد ہی موت دے دے۔اس کے چند دن بعد تار آیا کہ سعداللہ لدھیانوی مر گیا ہے اور حضرت صاحب نے سیر میں اس کا ذکر کیا اور مولوی محمد علی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اب خواجہ صاحب کو لکھ دیں کہ آپ تو کہتے تھے کہ وہ الفاظ کاٹ دیں۔ لیکن اب تو ہمیں اور بھی لکھنا پڑا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ خواجہ صاحب نے ازراہ ہمدردی اپنی رائے پر اصرار کیا ہو گا کہ مبادا یہ بات شماتت اعداء کا موجب نہ ہو جائے۔مگر ان سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے صرف ایک قانون دان کی حیثیت میں غور کیا۔اور اس بات کو نہیں سو چاکہ خدائی تصرفات سب طاقتوں پر غالب ہیں ۔نیز خاکسار عرض کرتاہے کہ اب سعد اللہ کا لڑکا بھی لا ولدمر چکا ہے۔
{ 391} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت صاحب کی مجلس میں عورتوں کے لباس کا ذکر ہو ا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا تنگ پاجامہ جو بالکل بدن کے ساتھ لگا ہو ا ہو اچھا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس سے عورت کے بدن کا نقشہ ظاہر ہو جاتا ہے ۔جو ستر کے منافی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ صوبہ سرحد میں اور اس کے اثر کے ماتحت پنجاب میں بھی عورتوں کا عام لباس شلوار ہے۔ لیکن ہندوستان میں تنگ پاجامہ کا دستور ہے ۔اور ہندوستان کے اثر کے ماتحت پنجاب کے بعض خاندانوں میںبھی تنگ پا جامے کا رواج قائم ہو گیا ہے ۔چنانچہ ہمارے گھروں میں بھی بوجہ حضرت والدہ صاحبہ کے اثر کے جو دلّی کی ہیں ،زیادہ تر تنگ پاجامے کا رواج ہے ۔لیکن شلوار بھی استعمال ہوتی رہتی ہے ۔مگر اس میں شک نہیں کہ ستر کے نکتہ نگاہ سے تنگ پاجامہ ضرور ایک حد تک قابل اعتراض ہے اور شلوار کا مقابلہ نہیں کرتا۔ ہاں زینت کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں یعنی بعض بدنوں پر تنگ پاجامہ سجتا ہے اور بعض پر شلوار۔ اندریں حالات اگر بحیثیت مجموعی شلوار کو رواج دیا جاوے تو بہتر ہے ۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت نے تو اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی رہنا ہے اور اگر باہر بھی جانا ہے تو عورتوں میں ہی ملنا جلنا ہے تو اس صورت میں تنگ پاجامہ اگر ایک حد تک ستر کے خلاف بھی ہو تو قابل اعتراض نہیں لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ اول تو اس قسم کا ستر شریعت نے عورتوں کا خود عورتوں سے بھی رکھا ہے اور اپنے بدن کے حسن کو بیجا طور پربر ملا ظاہر کرنے سے مستورات میں بھی منع فرمایا ہے علاوہ ازیں گھروں میں علاوہ خاوند کے بعض ایسے مردوں کا بھی آنا جانا ہوتا ہے جن سے مستورات کا پردہ تو نہیں ہوتا لیکن یہ بھی نہایت معیوب بلکہ ناجائز ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے اپنے بدن کے نقشہ اور ساخت کو بر ملا ظاہر کرے ۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایسے تنگ پاجامہ کو جس سے بدن کا نقشہ اور ساخت ظا ہر ہو جاوے نا پسند کرنا نہایت حکیمانہ دانشمندی پر مبنی اور عین شریعت اسلامی کے منشاء کے مطابق ہے ۔ہاں خاوند کے سامنے عورت بے شک جس قسم کا لباس وہ چاہے یا اس کا خاوند پسند کرے پہنے۔اس میں حرج نہیں ۔لیکن ایسے موقعوں پر جبکہ گھر کے دوسرے مردوں کے سامنے آنا جانا ہو یا غیر عورتوں سے ملنا ہو ،شلوار ہی بہتر معلوم ہوتی ہے ۔ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک تنگ پاجامہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بدن کے ساتھ بالکل پیوست نہیں ہوتا ۔بلکہ کسی قدر ڈھیلا رہتا ہے اور اس سے عورت کے بدن کی ساخت پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی ۔ایسا تنگ پاجامہ گو شلوار کا مقابلہ نہ کر سکے مگر چندا ںقابل اعتراض بھی نہیںاور ہمارے گھروں میں زیادہ تر اسی قسم کے پا جامہ کا رواج ہے ۔قابل اعتراض وہ پاجامہ ہے کہ جو بہت تنگ ہو یا جسے عورت ٹانک کر اپنے بدن کے ساتھ پیوست کر لے ۔واللہ اعلم ۔
{ 392} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی فضل دین صاحب وکیل نے مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ مولوی کرم دین جہلمی میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ سوال ہوا تھا کہ کیا واقعی آپ کی وہی شان ہے جو آپ نے اپنی فلاں کتاب میں لکھی ہے ؟ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے’’ حقیقۃ الوحی ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ سوال تریاق القلوب کے متعلق تھا ۔لیکن در اصل یہ درست نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کتاب کے نام کے متعلق نسیان ہو گیا ہے یا سہواً بلامحسوس کئے تریاق القلوب کا نام لکھا گیاہے ۔کیونکہ حق یہ ہے کہ عدالت میں تحفہ گولڑویہ پیش کی گئی تھی اور تحفہ گولڑویہ ہی کی ایک عبارت پیش کر کے یہ سوال کیا گیا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سرکاری عدالت میں جو اس مقدمہ کی مسل محفوظ ہے اس میں تحفہ گولڑویہ کا نام درج ہے اور یہ صاف طور پر لکھا ہے کہ تحفہ گولڑویہ کی ایک عبارت کے متعلق یہ سوال تھا ۔چنانچہ مسل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان آپ کے اپنے الفاظ میں اس طرح پر درج ہے :۔
’’تحفہ گو لڑویہ‘‘ میری تصنیف ہے ۔یکم ستمبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوئی ۔پیر مہر علی کے مقابلہ پرلکھی ہے۔ یہ کتاب سیف چشتیائی کے جواب میں نہیں لکھی گئی ‘‘
سوال۔جن لوگوں کا ذکر صفحہ نمبر۴۸لغائت نمبر۵۰اس کتاب میں لکھا ہے آپ ہی اس کا مصداق ہیں ؟
جواب۔خدا کے فضل اور رحمت سے میں اس کا مصداق ہوں ۔
سوال۔ان روحانی طاقتوں کو کام میں لا کر جس سے جھوٹے اور سچے ہیرے شناخت کئے گئے آپ نے کرم دین کے دونوں خطوں کو پرکھا یعنی p،۴اور مضمون مندرجہ سراج الاخبار جہلم اور نیز نوٹ ہائے مندرجہ حاشیہ اعجاز المسیح؟
جواب۔میں نے نہ ان صفحات میں اور نہ کسی اور جگہ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں عالم الغیب ہوں ۔
سوال ۔صفحہ۲۹کی سطر۶سے جو مضمون چلتا ہے وہ آپ نے اپنی نسبت لکھا ہے ؟
جواب۔میں اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرتا ہوں ۔اور صفحہ۸۹پر بھی جو کچھ لکھا ہے وہ اپنی نسبت لکھا ہے ۔
سوال۔بلحاظ اندراج صفحات۲۹،۳۰،۴۸،۴۹،۵۰،۸۹ تحفہ گولڑویہ آپ نے کرم دین کے خطوں کو اور محمدحسین کی تحریر کو پر کھا ؟
جواب۔ ایسی عام طاقت کامیں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا ۔
سوال ۔جو طاقت چند پیسوں کے کھوٹے ہیروں پر برتی گئی تھی اور جس سے وہ ہیرے شناخت کئے گئے تھے وہ عام تھی یا خاص؟
جواب ۔وہ خاص طاقت تھی کبھی انسان دھوکہ کھا لیتا ہے ۔اور کبھی اپنی فراست سے ایک بات کی تہ تک پہنچ جاتا ہے ۔
سوال ۔روحانی طاقت سے جو کچھ غیب ظاہر ہوتا ہے اس میں غلطی ہوتی ہے ؟
جواب۔اس میں اجتہادی یعنی رائے لگانے میں غلطی لگ جاتی ہے ۔ طاقت میں غلطی نہیں ہوتی ۔ الخ
آپ کے اس بیان سے جس کی مصدقہ نقل دفتر تالیف و تصنیف قادیان میں موجود ہے ظاہر ہے کہ سوال تحفہ گولڑویہ کے متعلق تھا نہ کہ تریاق القلوب کے متعلق ۔اور حضرت صاحب نے جو کسی جگہ اپنی بعد کی تحریرمیں تریاق القلوب لکھا ہے تو اس کی وجہ نسیان یا سہو قلم ہے کیو نکہ خود حضرت صاحب کا مصدقہ بیان جو اسی وقت تحریر میں آکر مسل کے ساتھ شامل ہو گیا تھا اس کو غلط ثابت کر رہاہے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس سوال وجواب کا مضمون بھی اس بات کو قطعی طور پر ثابت کر رہا ہے کہ اس وقت تحفہ گولڑویہ پیش کی گئی تھی نہ کہ تریاق القلوب۔ کیونکہ اس سوال و جواب میں جو سچے اور جھوٹے ہیروں کے شناخت کئے جانے کے متعلق ذکر ہے وہ صرف تحفہ گولڑویہ کے اندر ہے اور تریاق القلوب میںقطعاً ایسا کوئی مضمون درج نہیں ہے ۔ چنانچہ جن صفحات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کے مطابق ہر دو کتب کا مطالعہ کر کے اس بات کی صداقت کا فیصلہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب کی اس روایت سے مولوی شیر علی صاحب کی اس روایت کی تصدیق ہو گئی جو حصہ اوّل میں درج ہو چکی ہے اور جس میں اس موقعہ پر تحفہ گولڑویہ کا پیش کیا جانا بیان کیا گیا ہے ۔
{ 393} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں حیات محمدؐ صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لے گئے۔تو میں ان دنوں میں لائن پو لیس میں تھا اور میں نے حضرت صاحب کی تشریف آوری پر تین دن کی ر خصت حاصل کر لی تھی ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گاڑی جہلم کے سٹیشن پر پہنچی تو سٹیشن پر لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ بس جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے ۔اور مرد ،عورت ،بچے ،جوان ،بوڑھے پھر ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی،یورپین،ہر مذہب و قوم کے لوگ موجود تھے اور اس قدر گھمسان تھا کہ پولیس اور سٹیشن کا عملہ باوجود قبل از وقت خاص انتظام کرنے کے قطعاً کوئی انتظام قائم نہ رکھ سکتے تھے ۔اوراس بات کا سخت اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کوئی شخص ریل کے نیچے آکر کٹ نہ جائے ۔ یا لوگوں کے ہجوم میں دب کر کوئی بچہ یا عورت یا کمزور آدمی ہلاک نہ ہو جاوے ۔لوگوںکا ہجوم صرف سٹیشن تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ سٹیشن سے باہر بھی دور دراز فاصلہ تک ایک ساہجوم چلا جاتا تھااور جس جگہ بھی کسی کو موقعہ ملتا تھا وہ وہاں کھڑا ہو جاتا تھا۔حتیٰ کہ مکانوں کی چھتوں اور درختوں کی شاخوں پر لوگ اس طرح چڑھے بیٹھے تھے کہ چھتوں اور درختوں کے گرنے کا اندیشہ ہو گیا تھا ۔میں نے دیکھا کہ ایک انگریز اور لیڈی فو ٹوکا کیمرہ ہاتھ میں لئے ہوئے ہجوم میں گھرے ہوئے کھڑے تھے کہ کوئی موقع ملے تو حضرت صاحب کا فوٹو لے لیں ۔مگر کوئی موقعہ نہ ملتا تھا اور میں نے سنا تھا کہ وہ پچھلے کئی سٹیشنوں سے فوٹو کی کوشش کرتے چلے آرہے تھے ۔مگر کوئی موقع نہیں ملا ۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریل سے اُتر کر اس کو ٹھی کی طرف روانہ ہوئے جو سر دارہری سنگھ رئیس اعظم جہلم نے آپ کے قیام کے لئے پیش کی تھی تو راستہ میں تمام لوگ ہی لوگ تھے اور آپ کی گاڑی بصد مشکل کوٹھی تک پہنچی ۔ جب دوسرے دن آپ عدالت میں تشریف لے گئے تو مجسٹریٹ ڈپٹی سنسار چند آپ کی تعظیم کے لئے سروقد کھڑا ہو گیا اور اس وقت وہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھاکہ جگہ نہیں ملتی تھی ۔بعض لوگ عدالت کے کمرے میں الماریوں کے اوپر اور بعض مجسٹریٹ کے چبوترے پر چڑھے ہوئے تھے ۔جہلم میں اتنے لوگوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی کہ ہمارے وہم وخیال میں بھی نہ تھا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار البدر بابت آخر جنوری۱۹۰۳ء میں سفر جہلم کے حالات مفصل درج ہیں ۔اس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ۱۵؍جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تھے اور ۱۶کی صبح کو جہلم پہنچے اور ۱۹؍جنوری کو واپس قادیان تشریف لائے ۔راستہ میں کچھ دیر لاہور میں بھی قیام فرمایا ۔ اس سفر میں کم و بیش ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی ۔راستہ کے سٹیشنوں پر بھی لوگوں کا غیر معمولی ہجوم ہوتا تھا۔چنانچہ لاہور کے غیر احمدی اخبار ’’پنجہ فولاد‘‘ کی مندرجہ ذیل عبارت اس پر شاہد ہے ۔’’جہلم کی واپسی پر مرزا غلام احمدؐ صاحب قادیانی وزیرآباد پہنچے۔ باوجودیکہ نہ انہوں نے شہر میں آنا تھا اور نہ آنے کی کوئی اطلاع دی تھی اور صرف سٹیشن پر ہی چند منٹوں کا قیام تھا ۔پھر بھی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر خلقت کا وہ ہجوم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی۔ اگر سٹیشن ماسٹر صاحب جو نہایت خلیق اور ملنسار ہیں ،خاص طور پر اپنے حسن انتظام سے کام نہ لیتے تو کچھ شبہ نہیں کہ اکثر آدمیوں کے کچل جانے اور یقیناًکئی ایک کے کٹ جانے کا اندیشہ تھا۔مرزا صاحب کے دیکھنے کیلئے ہندو اور مسلمان یکساں شوق سے موجود تھے ‘‘۔دیکھو الحکم بابت ۳۱جنوری۱۹۰۳ئ۔
{ 394} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب مولوی محمد علی صاحب سے کوئی بات وغیرہ دریافت کرنی ہوتی تھی تو آپ بجائے اس کے کہ ان کو اپنے پاس بلا بھیجتے خود مولوی صاحب کی کوٹھری میں تشریف لے آیا کرتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مولوی محمد علی صاحب آپ کے مکان کے ایک حصہ میں رہائش رکھا کرتے تھے اور ان کا کام کرنے کا دفتر اس چھوٹی سی کو ٹھری میں ہوتا تھا ۔جو مسجد مبارک کے ساتھ جانب شرق واقع ہے ۔
{ 395} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ہمیں یہ خیال آیا تھا کہ تبلیغ کے لئے انگریزی کے سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور ہمیں امید تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ہمیں اس کا علم عطا کر دے گا ۔بس صرف ایک دو رات دُعا کی ضرورت تھی ۔لیکن پھر یہ خیال آیا کہ مولوی محمد علی صاحب اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی انگریزی کی تعریف بھی کی جاتی ہے ۔ اس لئے ہماری توجہ اس امر کی طرف سے ہٹ گئی۔
{396} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری سالوں میں فرماتے تھے کہ اب تبلیغ و تصنیف کا کام تو ہم اپنی طرف سے کر چکے اب ہمیں باقی ایام دُعا میں مصروف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے دنیا میں حق و صداقت کو قائم فرمائے اور ہمارے آنے کی غرض پوری ہو ۔ چنانچہ اسی خیال کے ماتحت آپ نے اپنے گھر کے ایک حصہ میں ایک بیت الدُعا بنوائی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بیت الدعاحضرت صاحب کے رہائشی کمرے کے ساتھ واقع ہے اور اس کی پیمائش شمالاًجنوباً چار فٹ دس انچ اور شرقاً غرباًپانچ فٹ سات انچ ہے ۔
{ 397} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنے سے دل میں خوشی اور بشاشت اور اطمینان پیدا ہوتے تھے اور خواہ انسان کتنا بھی متفکر اور غمگین یا مایوس ہو ،آپ کے سامنے جاتے ہی قلب کے اندر مسرت اور سکون کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی ۔
{ 398} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو بدنی سزا دینے کے بہت مخالف تھے اور جس استاد کے متعلق یہ شکایت آپ کو پہنچتی تھی کہ وہ بچوں کو مارتا ہے ۔ اس پر بہت ناراض ہوتے تھے اور فرمایاکرتے تھے کہ جو استاد بچوںکو مارکر تعلیم دینا چاہتاہے ۔یہ در اصل اس کی اپنی نا لائقی ہوتی ہے۔اور فرماتے تھے دانا اور عقلمند استاد جو کام حکمت سے لے لیتا ہے وہ کام نالائق اور جاہل استاد مارنے سے لینا چاہتا ہے ۔ایک دفعہ مدرسہ کے ایک استاد نے ایک بچے کو کچھ سزا دی تو آپ نے سختی سے فرمایا کہ پھر ایسا ہوا تو ہم اس استاد کو مدرسہ سے الگ کر دیں گے ۔حالانکہ ویسے وہ استاد بڑا مخلص تھا اور آپ کو اس سے محبت تھی ۔بعض اوقات فرماتے تھے کہ استاد عموماًاپنے غصہ کے اظہار کے لئے مارتے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ سرکاری ضابطہ تعلیم میں بھی بچوں کو بدنی سزادینے کی بہت ممانعت ہے اور صرف ہیڈ ماسٹر کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ کسی اشد ضرورت کے وقت مناسب بدنی سزا دے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو یہ فرمایا ہے کہ بچوں کو سزا نہیں دینی چاہیے ۔اس سے یہ منشاء نہیں کہ گویا بدنی سزا بالکل ہی ناجائز ہے اور کسی صورت میں بھی نہیں دینی چاہیے ۔بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ یہ جو بعض مدرسین میں بات بات پر سزادینے کے لئے تیار ہو جانے کی عادت ہوتی ہے اسے سختی کے ساتھ روکا جاوے ۔اور صرف خاص حالات میں خاص شرائط کے ماتحت اس کی اجازت ہو والّا ویسے تو شریعت نے بھی اپنی تعزیرات میں بدنی سزا کو رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود بھی بعض اوقات بچوں کو بدنی سزا دی ہے ۔لیکن غصہ سے مغلوب ہو کر مارنا یا بات بات پر مارنا یا بُری طرح مارنا وغیر ذالک۔یہ ایسی باتیں ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے مگر افسوس ہے اور میں اپنے چشم دیدتجربہ کی بناپر یہ کہتاہوں کہ اکثر استاد خواہ وہ اسے خود محسوس کریں یا نہ کریں ۔غصہ سے مغلوب ہونے کی حالت میں سزا دیتے ہیں ۔یعنے جب بچے کی طرف سے کوئی غفلت یا جرم کا ارتکاب ہوتا ہے تو اس وقت اکثر استادوں کی طبیعت میں نہایت غصہ اور غضب کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس حالت سے مغلوب ہو کر وہ سزا دیتے ہیں اور اس میں اصلاح کا خیال عملاً مفقود ہوتا ہے ۔بلکہ ایک گو نہ انتقام کا رنگ اور اپنا غصہ نکالنے کی صورت ہوتی ہے ۔جو بجائے مفید ہونے کے الٹا نقصا ن کا موجب ہو جاتی ہے ۔اس نقص کی اصلاح کے لئے یہ ایک عمدہ قاعدہ ہے کہ کوئی ماتحت استاد بدنی سزا نہ دے ۔بلکہ جب اسے یہ ضرورت محسوس ہو کہ کسی لڑکے کو بدنی سزا ملنی چاہیے تو وہ اسے ہیڈ ماسٹر کے پاس بھیج دے اور پھر اگر ہیڈ ماسٹر مناسب سمجھے تو اسے بدنی سزا دے ۔اس طرح علاوہ اس کے کہ ہیڈ ماسٹر بالعموم ایک زیادہ تجربہ کار اور زیادہ قابل اور زیادہ فہمیدہ شخص ہوتا ہے ۔چونکہ اسے اس معاملہ میں کوئی ذاتی غصہ نہیں ہو گا ۔اس لئے اس کی سزا مصلحانہ ہو گی اور کوئی ضرر رساں اثر پیدا نہیں کرے گی ۔ اور اگر ہیڈ ماسٹر بطور خود کسی بچے کو بدنی سزا دینی چاہے تو اس کے لئے میری رائے میں یہ قید ضروری ہے کہ وہ جس وقت سزا کا فیصلہ کرے اس وقت کے اور عملاً سزا دینے کے وقت کے درمیان کچھ مناسب وقفہ رکھے تاکہ اگر اس کا یہ فیصلہ کسی مخفی اور غیر محسوس جذبہ انتقام کے ماتحت ہو یا غصہ یاغضب کی حالت سے مغلوب ہو کر دیا گیا ہو تو وہ بعد کے ٹھنڈے لمحات میں اپنے اس فیصلہ میں ترمیم کر سکے ۔واللہ اعلم۔
{ 399} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات ہماری جماعت کے طالب علم مجھے امتحانوں میں کامیابی کی دعا کیلئے کہتے ہیں اور گو یہ ایک معمولی سی بات ہوتی ہے ۔لیکن میں ان کے واسطے توجہ کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ اس طرح ان کو دعا کی طرف رغبت اور خیال پیدا ہو ۔
{ 400} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دن سخت گرمی کے موسم میں چند احباب دوپہر کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اندر حاضر ہوئے جہاں حضور تصنیف کا کام کر رہے تھے۔پنکھا بھی اس کمرہ میں نہ تھا بعض دوستوں نے عرض کیاکہ حضورکم از کم پنکھا تو لگوا لیں تا کہ اس سخت گرمی میں حضور کوکچھ آرام تو ہو ۔حضور نے فرمایا کہ اس کا یہی نتیجہ ہو گانا کہ آدمی کو نیند آنے لگے اور وہ کام نہ کر سکے ۔ہم تو وہاں کام کرنا چاہتے ہیں جہاں گرمی کے مارے لوگوں کا تیل نکلتا ہو۔یہ بات میں نے ان لوگوں سے سُنی ہے جواس وقت مجلس میں موجود تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کی خصوصیت تھی ۔کہ آپ سخت گرمی میں بغیر پنکھے کے تصنیف کا کام کر لیتے تھے ۔ورنہ میں نے دیکھا ہے کہ شدت گرمی کے وقت اگر پنکھا نہ ہو تو گو اور کام تھوڑے بہت ہو سکیں۔ لیکن تصنیف کا کام بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے ۔ خصوصاً جن لوگوں کو پسینہ زیادہ آتا ہو ان کے لئے تو بغیرپنکھے کے لکھنے کا کام کرنا ایک مصیبت ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ خود میرا بھی قریباً یہی حال ہے ۔علاوہ ازیں گو بعض نادان لوگ اسے ایک وہم قرار دیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں خدا کا کوئی ایسا خاص فضل تھا کہ زیادہ دن لگا تار شدت کی گرمی نہیں ہوتی تھی اور بر وقت بارشوں وغیرہ سے ٹھنڈ ہوتی رہتی تھی ۔اس احساس کا اظہار میرے پاس بہت سے فہمیدہ دوستوں نے کیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے با شعور لوگوں کی رائے کسی وہم پر مبنی ہو۔اور یہ بات اصول جغرافیہ کے بھی خلاف نہیں ہے کیونکہ تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ بعض اسباب کے نتیجہ میں بارشوں اور خنک ہواؤں کے زمانہ میں اتار چڑھاؤہوتا رہتا ہے اور ہر زمانہ میں بالکل ایک سا حال نہیں رہتا۔پس اگر خدا کے منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں ایسے سامان پیدا ہو گئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں بر وقت بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں کا سلسلہ عام طور پر قائم رہا ہو تو یہ کوئی تعجب انگیز امر نہیں۔
{401} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ چند خدام کے باوا صاحب کا چولہ دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کچھ کپڑے بچھا کر جماعت کے لوگ معہ حضور کے بیٹھ گئے ۔مولوی محمد احسن صاحب بھی ہمراہ تھے۔ گاؤں کے لوگ حضور کی خبر سُن کر وہاں جمع ہونے لگے تو ان میں سے چند آدمی جو پہلے آئے تھے مولوی محمداحسن صاحب کو مسیح موعود خیال کر کے ان کے سا تھ مصافحہ کر کر کے بیٹھتے گئے۔ تین چار آدمیوں کے مصافحہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ان کو دھوکہ ہوا ہے ۔اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب ہر ایسے شخص کوجو ان کے ساتھ مصافحہ کرتا تھا حضور کی طرف متوجہ کر دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام یہ ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات آنحضور ﷺ کی مجلس میں بھی ایسا دھوکہ لگ جاتا تھادراصل چونکہ انبیاء کی مجلس بالکل سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک ہوتی ہے اور سب لوگ محبت کے ساتھ باہم ملے جلے بیٹھے رہتے ہیں۔اور نبی کے لئے کوئی خاص امتیازی شان یا مسند وغیرہ کی صورت نہیں ہوتی اس لئے اجنبی آدمی بعض اوقات عارضی طور پر دھوکا کھا جاتا ہے ۔
{ 402} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب معہ چند خاص احباب کے مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے ۔فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی مجلسوں میں نمایاں فرق ہے۔حضرت اقدس کی مجلس میں ہمیشہ نمایاں خوشی اور بشاشت ہوتی ہے اور کیسا ہی غم ہو فوراً دور ہو جاتا ہے ۔بر خلاف اس کے حضرت مولوی صاحب کی مجلس میں ایک غم اور درد کی کیفیت دل پر محسوس ہوتی ہے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قلب انسانی سے مختلف قسم کی روئیں جاری ہوتی رہتی ہیں ۔جن سے اس کے ارد گرد کی چیزیں متاثر ہوتی ہیںاور جس قسم کے جذبات اور احساسات کسی شخص کے دل میں غالب ہوں اسی قسم کی اس کی رو ہوتی ہے ۔ انبیاء چونکہ بشاشت اور نشاط اور امید اور مسرت کا مژدہ لیکر دنیا میں آتے ہیں ۔اور مایوسی وغیرہ کے خیالات ان کے پاس نہیں پھٹکتے اور ان کا دل بھی خدا کے خاص الخاص افضال وبرکات اور رحمتوں کا مہبط رہتا ہے ۔اس لئے ان کی مجلس اور صحبت کا یہ لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ پاس بیٹھنے والے اس مخفی رو کے ذریعہ سے جو ان کے دل سے جاری ہوتی رہتی ہے اسی قسم کے جذبات و احساسات اپنے اندر محسوس کرنے لگ جاتے ہیں ۔بر خلاف اس کے بعض دوسرے لوگوں کے قلب پر چونکہ خوف اور خشیت اللہ اور خدا کی ناراضگی کے ڈر کے خیالات کا غلبہ رہتا ہے ۔اس لئے ان کی مجلس بھی خاموش طور پر غم اور درد کے خیالات کا موجب ہوتی ہے ۔بہر حال یہ مجلسی اثر صدر مجلس کی اپنی قلبی کیفیات کا نتیجہ ہوتا ہے۔واللّٰہ اعلم۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صحبت کا یہ اثر واقعی نہایت نمایاں تھا کہ انسان کا دل خوشی اور امید اور ایک گونہ استغناء کے خیالات سے بھر جاتا تھا اور ایسا معلوم ہوتاتھا کہ بس ساری دنیا اپنی ہی اپنی ہے اور یہ کہ دنیا کی ساری طاقتیں ہمارے سامنے ہیچ ہیں ۔
{ 403} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ ایک طالب علم جو کالج میں پڑھتا تھا وہ میرے پاس آ کر بیان کرنے لگا کہ کچھ عرصہ سے میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں ۔اور میں ان کا بہت مقابلہ کرتا ہوں مگر وہ میراپیچھا نہیں چھوڑتے ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے اسے مناسب نصیحت کی اور کہا کہ تم اپنی حالت سے مجھے اطلاع دیتے رہا کرو ۔مگراس کی حالت روبہ اصلاح نہ ہوئی ۔بلکہ اس کے یہ شبہات ترقی کرتے گئے۔پھر جب وہ قادیان آیا تو میں نے اسے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت صاحب ؑ نے اس کے حالات سُن کر فرمایا کہ آپ کالج میں جس جگہ بیٹھا کرتے ہیں وہ جگہ بدل دیں ۔اس کے کچھ عرصہ بعد جب وہ پھر قادیان آیا تو کہنے لگا کہ اب میرے خیالات خود بخود ٹھیک ہونے لگ گئے ہیں ۔اور اس نے یہ بیان کیا کہ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ جس جگہ میں پہلے بیٹھتا تھا اس کے ساتھ ایک ایسے طالب علم کی جگہ تھی جو دہریہ تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ انسان کے قلب سے مخفی طور پر اس کے خیالات کی رو جاری ہوتی رہتی ہے۔جو پاس بیٹھنے والوں پر اپنا اثر پیدا کرتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ طالب علم کمزور طبیعت کا ہوگا اورباوجود خدا پر ایمان رکھنے کے اس کا قلب اپنے دہریہ پڑوسی کی مخفی رو سے متاثر ہو گیا لیکن چونکہ حضرت صاحب نے اپنی فراست سے سمجھ لیا تھا کہ یہ اثر کسی دہریہ کے پاس بیٹھنے کا ہے اس لئے آپ نے اسے نصیحت فرمائی کہ اپنی جگہ بدل دے ۔چنانچہ یہ تجویز کا ر گر ہوئی اور اس کی اصلاح ہو گئی ۔علم توجہ جسے انگریزی میں ہپناٹزم کہتے ہیں وہ بھی اسی مخفی قلبی روکا نتیجہ ہے۔صرف فرق یہ ہے کہ ہپنا ٹزم میں توجہ ڈالنے والا ارادہ اور شعور کے ساتھ اپنی توجہ کا ایک مرکز قائم کر تا ہے لیکن اس قسم کی عام حالت میں بلا ارادہ ہر شخص کے قلب سے ایک رو جاری رہتی ہے اور اسی لئے یہ رَو ہپنا ٹزم کی رَو کی نسبت بہت کمزور اور بطی ٔ الاثر ہوتی ہے ۔
{ 404} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر محمداسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفا خانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کا م کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے ۔وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کر تی ہے اسکے متعلق کیا حکم ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے ۔آپ کو عذر کر دینا چاہیے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں ۔
{ 405} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی سیّد سرور شاہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ قادیان کے قصابوں نے کو ئی شرارت کی تو اس پر حضرت صاحب نے حکم دیا کہ ان سے گوشت خریدنا بند کردیا جاوے ۔چنانچہ کئی دن تک گوشت بند رہا اور سب لوگ دال وغیرہ کھاتے رہے ۔ان دنوں میں نے( مولوی سید سرور شاہ صاحب نے ) حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میرے پاس ایک بکری ہے وہ میں حضور کی خدمت میں پیش کر تا ہوں حضور اسے ذبح کروا کے اپنے استعمال میں لائیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہمارا دل اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے دوست دالیں کھائیں اور ہمارے گھر میں گوشت پکے ۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ اس یہ مراد نہیں ہے کہ حضرت صاحب اس بات کے قائل تھے کہ سب مومنوں کے گھر میں ایک سا کھانا پکنا چاہیے اور سب کا تمدن و طریق ایک سا ہو نا چاہیے بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ گوشت خریدنے کی ممانعت کی گئی تھی آپ کے اخلاق نے یہ گوارا نہیں کیا کہ آپ اپنے لئے تو کوئی خاص انتظام کر لیں اور دوسرے ذی استطاعت احباب جو گوشت خریدنے کی طاقت تو رکھتے تھے مگر بوجہ ممانعت کے رکے ہوئے تھے دالیں کھائیں والّا ویسے اپنے گھر میں ہر شخص کو اختیار ہے کہ اعتدال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق جس طرح کا چاہے کھانا کھائے ۔
{ 406} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیان فرماتے تھے کہ میں حضرت صاحب کے مکان کے اوپر کے حصہ میں رہتا ہوں ۔میں نے کئی دفعہ حضرت صاحب کے گھر کی عورتوں کو آپس میں یہ باتیں کر تے سُنا ہے کہ حضرت صاحب کی تو آنکھیں ہی نہیں ہیں ۔ان کے سامنے سے کوئی عورت کسی طرح سے بھی گذر جاوے ا ن کو پتہ نہیں لگتا ۔یہ وہ ایسے موقعہ پر کہا کر تی ہیں کہ جب کو ئی عورت حضرت صاحب کے سامنے سے گذرتی ہوئی خاص طور پر گھونگھٹ یا پردہ کا اہتمام کرنے لگتی ہے ۔اور ان کا منشا ء یہ ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کی آنکھیں ہر وقت نیچی اور نیم بند رہتی ہیں اور وہ اپنے کا م میں با لکل منہمک رہتے ہیں ان کے سامنے سے جاتے ہوئے کسی خاص پردہ کی ضرورت نہیں ۔نیز مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ باہر مردوں میں بھی حضرت صاحب کی یہی عادت تھی کہ آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں اور ادھر اُدھر آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی آپ کو عادت نہ تھی ۔بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر غائب کے صیغہ میں فرماتے تھے حالا نکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا اور پھر کسی کے جتلانے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے ۔
{ 407} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب معہ چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھو ل کر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔
{ 408} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے گناہوں پر غالب آنے کا مادہ رکھ دیا ہے پس خواہ انسان اپنی بداعمالیوں سے کیسا ہی گندہ ہو گیا ہو وہ جب بھی نیکی کی طرف مائل ہو نا چاہے گا اس کی نیک فطرت اس کے گناہوں پر غالب آجائے گی اور اس کی مثال اس طرح پر سمجھایا کرتے تھے کہ جیسے پانی کے اندر یہ طبعی خاصہ ہے کہ وہ آگ کو بجھا تا ہے۔پس خواہ پانی خود کتنا ہی گرم ہو جاوے حتیّٰ کہ وہ جلانے میں آگ کی طرح ہو جاوے لیکن پھر بھی آگ کو ٹھنڈا کر دینے کی خاصیت اس کے اندر قائم رہے گی۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ یہ ایک نہایت ہی لطیف نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائی اور ہندو مذہب تباہ ہوگئے اور لاکھوں مسلمان کہلانے والے انسان بھی مایوسی کا شکار ہو گئے ۔
{ 409} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر بعض فقرے کثرت کے ساتھ رہتے تھے ۔مثلاً آپ اپنی گفتگو میں اکثر فرمایا کرتے تھے دست درکار دل بایار ، خداداری چہ غم داری ، اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ، اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ ، آنچناںصیقل زدند آئینہ نماند، گرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی ، مَالَایُدْرَکُ کُلُّہٗ لَایُتْرَکُ کُلُّہٗ ، اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ ،
اد ب تا جیست از لطف الٰہی
بنہ بر سربرو ہر جا کہ خواہی
{ 410} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔
{ 411} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک بچہ نے گھر میں ایک چھپکلی ماری اور پھر اسے مذاقاً مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی چھوٹی اہلیہ پر پھینک دیا جس پر مارے ڈر کے ان کی چیخیں نکل گئیں ۔اور چونکہ مسجد کا قرب تھا ان کی آواز مسجد میں بھی سنائی دی ۔مولوی عبدالکریم صاحب جب گھر آئے تو انہوں نے غیرت کے جوش میں اپنی بیوی کو بہت کچھ سخت سُست کہا حتیّٰ کہ انکی یہ غصہ کی آواز حضرت مسیح موعود ؑ نے نیچے اپنے مکان میں بھی سن لی ۔چنانچہ اس واقعہ کے متعلق اسی شب حضرت صاحب کو یہ الہام ہو ا کہ ’’ یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے ، مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو ‘‘ لطیفہ یہ ہو ا کہ صبح مولوی صاحب مرحوم تو اپنی اس بات پر شرمندہ تھے اور لوگ انہیں مبارک باد یں دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام مسلمانوں کا لیڈر رکھا ہے ۔
{412} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شہادت کیلئے ملتان تشریف لے گئے تو راستہ میں لاہور بھی اترے اور وہاں جب آپکو یہ علم ہوا کہ مفتی محمدصادق صاحب بیمار ہیں تو آپ ان کی عیادت کیلئے انکے مکان پر تشریف لے گئے ۔اور ان کو دیکھ کر حدیث کے یہ الفاظ فرمائے کہ لَا بَأْسَ طَہُوْرًا اِنْشَآئَ اللّٰہُ ۔
یعنی کوئی فکر کی بات نہیں انشاء اللہ خیر ہو جائے گی اور پھر آپ نے مفتی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ بیمار کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ،آپ ہمارے لئے دعا کریں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا یہ سفر حضرت صاحب نے ۱۸۹۷ء میں کیا تھا ۔
{413} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمیں خوب تیرنا آتا ہے اور فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ اوائل عمر میں ڈھاب کے اندر ڈوبنے لگا تھا اور ایک بوڑھے عمر رسیدہ آدمی نے مجھے پانی سے نکالا تھا ۔وہ شخص کوئی اجنبی آدمی تھا جسے میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ بعد میں دیکھا ۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ گھر کے بچوں نے چندہ جمع کر کے قادیان کی ڈھاب کیلئے ایک کشتی جہلم سے منگوائی تھی اور حضرت صاحب نے بھی اس چندہ میں ایک رقم عنایت کی تھی ۔
{414} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک ابتدائی زمانہ میں احباب کے جمع ہونے کی وجہ سے ایک جلسہ کی سی صورت ہوگئی اور لوگوں نے خواہش کی کہ حضرت صاحب کچھ تقریر فرمائیں ۔ جب آپ تقریر کیلئے باہر تشریف لے جانے لگے تو فرمانے لگے کہ مجھے تو تقریر کرنی نہیں آتی میں جا کر کیا کہوں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے جو یہ کہاتھا کہ لاَ یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ (الشعراء :۱۴) اس کا بھی یہی مطلب تھا کہ میں تقریر کرنا نہیں جانتا ۔مگر خدا جس کو کسی منصب پر کھڑا کرتا ہے اس کو اس کااہل پا کر ایسا کرتا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی بھی ہو تی ہے تو اسے خود پورا فرما دیتا ہے ۔چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں پہنچے تو آپ کی زبان ایسی چلی کہ حضرت ہارون جن کو وہ اپنی جگہ منصب نبوت کے لئے پیش کر رہے تھے ۔گویا بالکل ہی پس پشت ہو گئے ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے وہ تقریر کی طاقت دی کہ دنیا داروں نے آپ کی سحر بیانی کو دیکھ کر یہ کہنا شروع کردیا کہ اس شخص کی زبان میں جادو ہے ۔
{ 415} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ قادیان کے پاس گائوں کا ایک سکھ جاٹ جو عرصہ ہوا فوت ہو گیا ہے اور وہ بہت معمر آدمی تھا مجھ سے بیان کرتا تھا کہ میں مرزا صاحب (یعنی حضرت صاحب) سے بیس سال بڑا ہوں اور بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت صاحب کے والدصاحب) کے پاس میرا بہت آنا جانا رہتا تھا ۔میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بڑا افسر یا رئیس بڑے مرزا صاحب سے ملنے کیلئے آتا تھا تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب ! آپ کے بڑے لڑکے (یعنی مرزا غلام قادر ) کے ساتھ تو ملاقات ہو تی رہتی ہے لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا ۔وہ جواب دیتے تھے کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے لیکن وہ الگ الگ ہی رہتا ہے اور لڑکیو ں کی طرح شرم کرتا ہے اور شرم کی وجہ سے کسی سے ملاقات نہیں کرتا ۔پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ؑ ) کو بلواتے تھے ۔ مرزا صاحب آنکھیں نیچے کئے ہوئے آتے اور اپنے والد سے کچھ فاصلہ پر سلام کر کے بیٹھ جاتے ۔بڑے مرزا صاحب ہنستے ہو ئے فرماتے کہ لو اب تو آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا ہے اور پیر صاحب نے لکھا ہے کہ وہی سکھ جاٹ ایک دفعہ قادیان آیا اس وقت ہم بہت سے آدمی گول کمرے میں کھا ناکھا رہے تھے ۔اس نے پوچھا کہ مرزا جی کہاں ہیں ؟ ہم نے کہا اندر ہیں اورچونکہ اس وقت آپ کے باہر تشریف لانے کا وقت نہیں ہے اس لئے ہم بلا بھی نہیں سکتے کیونکہ آپ کام میں مشغول ہو نگے ۔جب وہ تشریف لائیں گے مل لینا ۔اس پر اس نے خودہی بے دھڑک آواز دیدی کہ مرزا جی ذرا باہر آئو ۔حضرت اقدس برہنہ سر اسکی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا سردار صاحب! اچھے ہو ،خوش ہو ۔بہت دنوں کے بعدملے۔ اس نے کہا ہاں میں خوش ہوں مگر بڑھاپے نے ستا رکھا ہے ۔چلنا پھرنا بھی دشوار ہے پھر زمینداری کے کام سے فرصت کم ملتی ہے ۔مرزا جی آپ کو وہ پہلی باتیں بھی یاد ہیں ۔بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا مسیتڑ ہے ۔نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ آپ کو ہنس کر کہتے تھے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں مُلّا کروا دیتا ہوں ۔دس من دانے تو گھر میںکھانے کو آجایا کریںگے ۔پھر آپ کو وہ بھی یاد ہے کہ بڑے مرزا صاحب مجھے بھیج کر آپ کو اپنے پاس بلا بھیجتے تھے۔اور آپ کو بڑے افسوس کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔کہ افسوس میرا یہ لڑکا دنیا کی ترقی سے محروم رہا جاتا ہے ۔آج وہ زندہ ہوتے تو یہ چہل پہل دیکھتے کہ کس طرح ان کا وہی مسیتڑ لڑکا بادشاہ بنا بیٹھا ہے ۔ اور بڑے بڑے لوگ دور دور سے آکر اس کے در کی غلامی کرتے ہیں ۔حضرت اقدس اس کی ان باتوں کو سُن کر مسکراتے جاتے تھے اور پھر آخر میں آپ نے فرمایا ۔ہاں مجھے یہ ساری باتیں یاد ہیں ۔یہ سب اللہ کا فضل ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور پھربڑی محبت سے اسے فرمایا کہ ٹھہرو میں تمہارے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہوں اور یہ کہہ کر آپ اندر مکان میں تشریف لے گئے ۔ پیر صاحب لکھتے ہیںکہ پھر وہ بڈھا سکھ جاٹ میرے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا ۔اور کہنے لگا کہ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ لڑکا ملّا ہی رہے گا اور مجھے فکر ہے کہ میرے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا ۔ہے تو وہ نیک مگر اب زمانہ ایسا نہیں ۔چالاک آدمیوں کا زمانہ ہے۔ پھر بعض اوقات آب دیدہ ہو کر کہتے تھے کہ غلام احمد ؐ نیک اور پاک ہے ۔جو حال اس کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے ۔پیر صاحب کہتے ہیں کہ یہ باتیں سُناتے ہوئے وہ سکھ خود بھی چشم پر آب ہو گیا اور کہنے لگا آج مرزا غلام مرتضیٰ زندہ ہوتا تو کیا نظارہ دیکھتا؟
{ 416} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نے اپنی کتا ب ’’تذکرۃالمہدی ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک میمن سیٹھ بمبئی کا قادیان آیا اور پانچ سوروپیہ حضرت صاحب کے لئے نذرانہ لایا اور آتے ہی مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آیا ہوں ۔اور ابھی واپس چلا جاؤں گا ۔مجھے زیادہ فرصت نہیں۔ ابھی اندر اطلاع کر دیں تاکہ میں ملاقات کر کے واپس چلا جاؤں۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں رقعہ لکھا اور سارا حال اس شخص کا لکھ دیا حضرت صاحب نے جواب میں تحریر فرمایاکہ ان کو کہہ دیں کہ اس وقت میں ایک دینی کام میں مصروف ہوں ظہر کی نماز کے وقت انشاء اللہ ملاقات ہو گی ۔ اس سیٹھ نے کہا کہ مجھے اتنی فرصت نہیں کہ میں ظہر تک ٹھہروں ۔میں نے پھر لکھا کہ وہ یوں کہتا ہے ۔ مگر حضرت صاحب نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ واپس چلا گیا۔ظہر کے وقت جب آپ باہر تشریف لائے تو بعد نماز ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک میمن سیٹھ حضور ؑ کی زیارت کے لئے آیا تھا ۔اور پانچ صد روپیہ نذرانہ بھی پیش کرنا چاہتا تھا۔حضرت صاحب نے فرمایا ہمیں اس کے روپے سے کیا غرض؟ جب اسے فرصت نہیں تو ہمیں کب فرصت ہے جب اسے خدا کی غرض نہیں تو ہمیں دنیا کی کیا غرض ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء جہاں ایک طرف شفقت اور توجہ کے اعلیٰ مقام پرفائز ہوتے ہیں ۔ وہاں صفت استغناء میں بھی وہ خدا کے ظل کامل ہوتے ہیں ۔اور بسا اوقات ان کو اپنی فراست فطری سے یہ بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ فلاں شخص قابل توجہ ہے یا نہیں ؟
{ 417} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نے تذکرۃالمہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ قادیان میں بہت سے دوست بیرو ن جات سے آئے ہوئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر تھے اور منجملہ ان کے حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی عبد الکریم صاحب اور مولوی محمدؐ احسن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب اور محمدخان صاحب اور منشی محمد اروڑا صاحب اور مولوی عبد القادر صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ غلام احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرھم بھی تھے ۔مجلس میں اس بات کا ذکر شروع ہوا کہ اولیاء کو مکاشفات میں بہت کچھ حالات منکشف ہو جاتے ہیں ۔ اس پر حضرت اقدس تقریر فرماتے رہے اور پھر فرمایا کہ آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان حاضر الوقت لوگوں میں بعض ہم سے پیٹھ دیئے ہوئے بیٹھے ہیں اور ہم سے رو گرداں ہیں ۔یہ بات سُن کر سب لوگ ڈر گئے اور استغفار پڑھنے لگ گئے ۔اور جب حضرت صاحب ؑ اندر تشریف لے گئے تو سیّد فضل شاہ صاحب بہت گھبرائے ہوئے اٹھے اور ان کا چہرہ فق تھااور انہوں نے جلدی سے آپ کے دروازہ کی زنجیر ہلائی ۔حضرت صاحب واپس تشریف لائے اور دروازہ کھول کر مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ شاہ صاحب کیا بات ہے؟شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں حضورؑ کو حلف تو نہیں دے سکتا کہ ادب کی جگہ ہے اور نہ میں اوروں کا حال دریافت کرتا ہوں ۔صرف مجھے میرا حال بتا دیجئے کہ میں تو رو گردا ں لوگوں میںسے نہیں ہوں ؟ حضرت صاحب ؑ بہت ہنسے اور فرمایا۔نہیں شاہ صاحب آپ اُن میں سے نہیں ہیں ۔اور پھر ہنستے ہنستے دروازہ بند کر لیا۔اور شاہ صاحب کی جان میں جان آئی ۔
{418} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میری اہلیہ مجھ سے کہتی تھی کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی یہ نماز عید گاہ میں ہوئی تھی۔اور اسی دن شام سے قبل بادل آگئے تھے ۔مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ مجھے یہ نماز یا د نہیں بلکہ مجھے یہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں یہ ایک عام احساس تھاکہ زیادہ دن تک لگاتار شدت کی گرمی نہیں پڑتی تھی اور بر وقت بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے موسم عموماً اچھا رہتا تھا۔بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسی زمانہ میں لوگ آپس میں یہ باتیں بھی کیا کرتے کہ اس زمانہ میں زیادہ دن تک لگاتار شدت کی گرمی نہیں پڑتی اور جب بھی دو چار دن شدت کی گر می پڑتی ہے تو خداتعالیٰ کی طرف سے بارش وغیرہ کا انتظام ہو جاتا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو میں نے بعض دوسرے لوگوں سے بھی سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں نماز استسقا نہیں پڑھی گئی ۔ لیکن اگر کبھی پڑھی بھی گئی ہو تو یہ دوباتیں آپس میں مخالف نہیں ہیں ۔کیونکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ عام طور پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں یہی صورت رہی ہو کہ زیادہ دن تک لگا تار شدّت کی گرمی نہ پڑتی ہو۔ اور وقت کی بارشوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے موسم عموماً اچھا رہتا ہو۔لیکن کبھی کسی سال نسبتاًزیادہ گرمی پڑنے اور نسبتاً زیادہ عرصہ بارش کے رکے رہنے سے نماز استسقاء کی ضرورت بھی سمجھی گئی ہو ۔پس عام طو رپر موسم کے اچھا رہنے کا احساس اور کبھی ایک آدھ دفعہ نماز استسقاء کا پڑھا جانا ہر گز آپس میں ایک دوسرے کے مخالف نہیںہیں ۔اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس زمانہ میں عموماً موسم عمدہ رہتا ہو اس زمانہ میں بوجہ اچھے موسم کی عادت ہو جانے کے موسم کا تھوڑا بہت اونچ نیچ بھی لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہوجاتا ہے اور وہ موسم کی خرابی کی شکایت کرنے لگ جاتے ہیں ۔ پس اگر کبھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں نماز استسقاء پڑھی گئی تھی تو وہ بھی غالباً کسی ایسی ہی احساس شکایت کے ماتحت پڑھی گئی ہو گی ۔یعنی بوجہ عموماً اچھے موسم کے عادی ہو جانے کے لوگوں نے موسم کے تھوڑے بہت اونچ نیچ پر ہی نماز استسقاء کے پڑھے جانے کی ضرورت محسوس کر لی ہو گی ۔علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگوں کے اندر قادیان میں یہ ایک عام احساس تھا کہ زیادہ شدّت کی گرمی نہیں پڑتی اور جب بھی چند دن لگا تار گرمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے ایسا انتظام ہو جاتا ہے کہ بارشوں یا بادلوں یا ٹھنڈی ہواؤں سے موسم اچھا ہو جاتا ہے ۔یہ ایک صرف نسبتی امر ہے اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانہ میں خدا کا قانون قدرت بدل گیا تھا اور گرمیوں کا موسم سرما میں تبدیل ہو گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ خدا کا کوئی ایسا فضل تھا کہ لگا تار شدّت کی گرمی نہیں پڑتی تھی ۔اور بر وقت بارشوں اور بادلوں اور ٹھنڈی ہواؤں سے عموماً موسم اچھا رہتا تھا ۔ورنہ ویسے تو گرماگرما ہی تھا اور سرما سر ما ہی۔اور یہ بات عام قانون نیچر کے خلاف نہیں ہے کیونکہ علم جغرافیہ اور نیز تجربہ اور مشاہدہ سے یہ بات ثابت ہے کہ بارشوں اور خنک ہواؤں کے زمانہ میں ایک حد تک اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور ہر زمانہ میں بالکل ایک سا حال نہیں رہتا ۔بلکہ کبھی بارشوں اور خنک ہواؤں کی قلت اور گرمی کی شدّت ہو جاتی ہے اور کبھی بر وقت بارشوں اور بادلوں اور خنک ہواؤں سے موسم میں زیادہ گرمی پیدا نہیں ہوتی چنانچہ گورنمنٹ کے محکمہ آب و ہوا کے مشاہدات بھی اسی پرشاہد ہیں ۔پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں خدا کی طرف سے ایسے سامان جمع ہو گئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم عموماًاچھا رہتا ہو۔ تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں اور نہ اس میں کوئی خارق عادت امر ہے ۔واللّٰہ اعلم۔دراصل خدا تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی دو طرح نصرت فرماتا ہے ۔ اوّل تو یہ کہ بسااوقات وہ اپنی تقدیر عام یعنی عام قانون قدرت کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیتا ہے جو ان کے لئے نصرت و اعا نت کا موجب ہوتے ہیں اور گو زیادہ بصیرت رکھنے والے لوگ اس قسم کے امور میں بھی خدائی قدرت نمائی کا جلوہ دیکھتے ہیں ۔لیکن عامۃالناس کے نزدیک ایسے امور کوئی خارق عادت رنگ نہیں رکھتے ۔کیونکہ معروف قانون قدرت کے ماتحت ان کی تشریح کی جا سکتی ہے ۔دوسری صورت خدائی نصرت کی تقدیر خاص کے ماتحت ہو تی ہے ۔ جس میں تقدیر عام یعنی معروف قانون قدرت کا دخل نہیں ہوتا اور یہی وہ صورت ہے جو عرف عام میں خارق عادت یا معجزہ کہلاتی ہے ۔اور گو اس میں بھی ایک حد تک سنت اللہ کے مطابق اخفاء کا پردہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہر عقلمند شخص جسے تعصب نے اندھا نہ کر رکھا ہو ۔اس کے اندر صاف طور پر خدا کی قدرت خاص کا نظارہ دیکھتا ہے۔پس اگر خدا تعالیٰ نے قسم اوّل کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اپنے عام قانون قدرت کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دیئے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم عموماً اچھا رہتا ہواور بادل اور بارشیں اور خنک ہوائیں بر وقت وقوع میں آکر زیادہ دن تک لگا تار گرمی کی شدت نہ پیدا ہونے دیتی ہو ںتو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ۔آخر جہاں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کو آسان کرنے کے لئے اپنی عام قدرت کے ماتحت ڈاک اور تار اور ریل اور دخانی جہاز اور مطبع وغیرہ کی سہولتیں پیدا کردیں اور دوسری طرف اپنی تقدیر خاص کے ماتحت ہزاروں خارق عادت نشان ظاہر فرمائے وہاںاگر اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ نے خصوصیت کے سا تھ تصنیف کا کام کرنا ہے جو عموماً اچھے موسم کو چاہتا ہے ۔ اگر خدا تعالیٰ نے اپنی عام تقدیر کے ماتحت ایسے سامان جمع کر دئیے ہوں کہ جن کے نتیجہ میں موسم میں عموماً زیادہ شدت کی گرمی نہ پیدا ہوتی ہو ۔تو کسی عقل مند مومن کے نزدیک جائے اعتراض نہیں ہو سکتا۔باقی رہا حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں کبھی ایک آدھ دفعہ نماز استسقاء کا پڑھا جانا ۔سو اس سے بھی جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کوئی حرج واقع نہیں ہوتا ۔ واللہ اعلم۔
{419} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایسے زمانہ میں مبعوث فرمایا ہے کہ رمضان کا مہینہ سردیوں میں آتا ہے اور روزے زیادہ جسمانی تکلیف کا موجب نہیں ہوتے اور ہم آسانی کے ساتھ رمضان میں بھی کام کر سکتے ہیں ۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ ان دنوں میں رمضان دسمبر میں آیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے ا س زمانہ کی جنتری کو دیکھا ہے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ ۱۸۹۱ء میں فرمایا تھا۔اور۱۸۹۱ء میں رمضان کا مہینہ ۱۱؍اپریل کو شروع ہوا تھا ۔گویا یہ رمضان کے مہینہ کے لئے موسم سرما میں داخل ہونے کی ابتدا تھی۔چنانچہ ۱۸۹۲ء میں رمضان کے مہینہ کی ابتدا ۳۱مارچ کو ہوئی ۔اور ۱۸۹۳ء میں ۲۰مارچ کو ہوئی ۔ اور اس کے بعد رمضان کا مہینہ ہر سال زیادہ سردیوں کے دنوں میں آتا گیا۔ اور جب ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وصال ہواتو اس سال رمضان کے مہینہ کی ابتدا یکم اکتوبر کو ہوئی تھی۔اس طرح گویا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کا زمانہ تمام کا تمام ایسی حالت میں گذرا کہ رمضان کے روزے سردی کے موسم میں آتے رہے ۔اور یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا جو اس کی تقدیر عام کے ماتحت وقوع میں آیا۔اور جسے حضرت مسیح موعود ؑ کی نکتہ شناس طبیعت نے خدا کا ایک احسان سمجھ کر اپنے اندر شکر گذاری کے جذبات پیدا کئے ۔
{ 420} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ۲۶ مارچ ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے دعویٰ مسیحیت کااعلانی اشتہار شائع کیا تو اس وقت آپ لدھیانہ میں مقیم تھے ۔اور کئی ماہ تک وہیںمقیم رہے ۔ اس جگہ ۲۰جولائی ۱۸۹۱ء سے لے کر۲۹جولائی ۱۸۹۱ء تک آپ کا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا مباحثہ ہوا جس کی سر گذشت رسالہ الحق لدھیانہ میں شائع ہو چکی ہے ۔شروع اگست میں آپ لدھیانہ سے چند دن کے لئے امرتسر تشریف لائے اور پھر واپس لدھیانہ تشریف لے گئے ۔امرتسر آنے کی یہ وجہ ہوئی کہ لدھیانہ میں مخالفت کا بہت زور ہو گیا تھااور لوگوں کے طبائع میں ایک ہیجان کی حالت پیدا ہو گئی تھی ۔کیونکہ مولوی محمد حسین نے مباحثہ میں اپنی کمزوری کو محسوس کر کے لوگوں کو بہت اشتعال دلانا شروع کر دیا اور فساد کا اندیشہ تھا۔جس پر لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر نے مولوی محمد حسین کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ لدھیانہ سے چلا جاوے اس حکم کی اطلاع جب حضرت صاحب کو پہنچی تو بعض دوستوں نے مشورہ دیاکہ چونکہ یہ امکان ہے کہ آپ کے متعلق بھی ایسا حکم جاری کیا گیا ہو یا جاری کر دیاجاوے اس لئے احتیاطاً لدھیانہ سے چلے جانا چاہیے چنانچہ آپ امرتسر تشریف لے آئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھی جس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر کی چٹھی آئی کہ آپ کے متعلق کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا کہ آپ لدھیانہ سے چلے جاویں ۔بلکہ آپ کو بمتابعت و ملحوظیت قانون سرکاری لدھیانہ میں ٹھہرنے کے لئے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے دیگر رعایا تابع قانون سر کار انگریزی کو حاصل ہیں ۔المر قوم ۱۶؍اگست ۱۸۹۱ئ۔ اس کے بعدآپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور ایک عرصہ تک وہاںمقیم رہے اور پھر قادیا ن تشریف لے آئے اس کے کچھ عرصہ بعد آپ پھر لدھیانہ گئے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی چونکہ ان دنوں میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا اس لئے آپ کو خیال تھا کہ وہاں اتمام حجت کا اچھا موقعہ ملے گا۔اور مخالفین نے بھی وہاں مخالفت کا پورازور ظاہر کر رکھا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہاں جاکر ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار شائع کیا جس میں دہلی والوں کو اپنے وعویٰ کی طرف دعوت دی اور اس اشتہار میں مولوی سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی اور مولوی ابو محمد عبد الحق صاحب کو مباحثہ کے لئے بھی بلایا۔تاکہ لوگوں پر حق کھل جاوے اور اپنی طرف سے مباحثہ کے لئے تین شرطیں بھی پیش کیں۔اس کے بعد آپ نے ۶ ؍اکتوبر کو ایک اوراشتہار دیا۔اور اس میں دہلی والو ں کے افسوس ناک رویہ کااظہار کیا اور یہ بھی لکھا کہ چونکہ مولوی عبد الحق صاحب نے ہم سے بیان کیا ہے کہ میں ایک گوشہ گزیں آدمی ہوں اور اس قسم کے جلسوں کوجن میں عوام کے نفاق وشقاق کا اندیشہ ہو پسند نہیں کرتا ۔اور نہ حکام کی طرف سے حفظ امن کا انتظام کروا سکتا ہوں اس لئے اب ہم ان سے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ مولوی سیّدنذیرحسین صاحب محدث دہلو ی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہم سے بپا بندی شرائط مباحثہ کر لیں۔ اس اشتہار کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی سید نذیر حسین صاحب نے خفیہ خفیہ مباحثہ کی تیاری کر لی اور پھر خود بخود لوگوں میں مشہور کر دیا کہ فلاں وقت اور فلاں روز فلاں جگہ مباحثہ ہو گا اور عین وقت پر حضرت صاحب کے پاس آدمی بھیجا کہ مباحثہ کے لئے تشریف لے چلئے ۔حضرت صاحب نے جواب دیاکہ یہ کہاں کی دیانتداری ہے کہ خود بخود یک طرفہ طور پر بغیر فریق ثانی کی منظوری اور اطلاع کے اور بغیر شرائط کے تصفیہ پانے کے مباحثہ کا اعلان کر دیا گیا ہے اور مجھے عین وقت پر اطلاع دی گئی ہے ۔اور مجھے تو اس صورت میں بھی انکا ر نہ ہوتا اور میں مباحثہ کیلئے چلا جاتا مگر آپ کے شہر میں مخالفت کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں آوارہ گردبد معاش میرے مکان کے اردگرد شرارت کی نیت سے جمع رہتے ہیں اور ذمہ دار لوگ انہیں نہیں روکتے بلکہ اشتعال انگریز الفاظ کہہ کہہ کر الٹا جوش دلاتے ہیں ۔پس جب تک میں اپنے پیچھے اپنے مکان اور اپنے اہل و عیال کی حفاظت کا انتظام نہ کر لوں میں نہیں جاسکتا اور علاوہ ازیں ابھی تک جائے مباحثہ اور راستہ میں بھی حفظ امن کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ حضرت صاحب کے اس جواب پر جو سراسر معقول اور شریفانہ تھا دہلی والوں نے ایک طوفان بے تمیزی بر پا کر دیا اور شور کرنا شروع کیا کہ مرزا مباحثہ سے بھاگ گیا ہے اور شہر میں ایک خطرناک شور مخالفت کا پیدا ہوگیا اور جدھر جائو بس یہی چرچہ تھا اور ہزاروں مفسد فتنہ پرداز لوگ حضرت صاحب کے مکان پر آ آ کر گلی میں شورو پکار کرتے رہتے تھے ۔اور طرح طرح کی بد زبانی اور گالی گلوچ اور طعن و تشنیع اور تمسخر و استہزاء سے کام لیتے تھے ۔اور بعض شریر حملہ کر کے مکان کے اندر گھس آتے اور اپنے شورو غوغا سے آسمان سر پر اُٹھا لیتے تھے ۔اس حالت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۷؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس کے اندر تمام حالات اور گذشتہ سرگذشت درج کی اور بالآخر لکھا کہ اب میں نے حفظ و امن کا انتظام کر لیا ہے اور جس تاریخ کو مولوی سیدنذیر حسین پسند کریں میں ان کے ساتھ مباحثہ کرنے کیلئے حاضر ہوجائوں گا۔ اور جو فریق اس مباحثہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی *** ہو ۔ اور آپ نے بڑے غیرت دلانے والے الفاظ استعمال کر کے مولوی نذیر حسین کو مناظرہ کیلئے ابھاراچنانچہ یہ فیصلہ ہو ا کہ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو فریقین جامع مسجد دہلی میں جمع ہو کر مسئلہ حیات ممات مسیح ناصری میں بحث کریں اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل سن کر مولوی سید نذیر حسین صاحب مجمع عام میں خداکی قسم کھا جائیں کہ یہ دلائل غلط ہیں اور قرآن شریف اور حدیث صحیح مرفوع متصل کی رو سے مسیح ناصری زندہ بجسم عنصری آسمان پر موجود ہیں اور اسی جسم کے ساتھ زمین پر نازل ہونگے ۔اور پھر اگر ایک سال کے عرصہ کے اندراندر مولوی صاحب پر خدا کا کھلا کھلا عذاب نازل نہ ہو تو حضرت صاحب اپنے دعویٰ میں جھوٹے سمجھے جاویں ۔چنانچہ ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو ہزارہا لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے اور شہر میں ایک خطر ناک جوش پیدا ہو گیا ۔بعض خدام نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ حضور لوگوں کی طبائع میں خطر ناک اشتعال ہے اور امن شکنی کا سخت اندیشہ ہے۔ بہتر ہے کہ حضور تشریف نہ لے جائیں کیونکہ لوگوں کی نیت بخیر نہیں ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ اب تو ہم کسی صورت میں بھی رک نہیں سکتے کیونکہ ہم نے خود دعوت دی ہے اور پیچھے رہنے والے پر *** بھیجی ہے پس خواہ کیسی بھی خطرناک حالت ہے ہم خدا کے فضل اور اس کی حفاظت پر بھروسہ کر کے ضرور جائیں گے۔ چنانچہ آپ نے بعض دوستوں کو مکان پر حفاظت کیلئے مقرر فرمایا اور روانہ ہو گئے اس وقت بارہ آدمی آپ کے ساتھ تھے اور آپ ان کے ساتھ گاڑیوں میں بیٹھ کر روانہ ہو ئے ۔جب آپ مسجد میں پہنچے تو ہزارہا لوگوں کا مجمع تھا اور ایک عجیب طوفان بے تمیزی کا نظارہ تھا ۔آپ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لوگوں کے اس متلاطم سمندر میں سے گذرتے ہوئے مسجد کی محراب میں پہنچے اس وقت لوگ عجیب غیظ و غضب کی حالت میں آپ کی طرف دیکھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھا اور اگر پولیس کا انتظام نہ ہو تا تو وہ ضرور کوئی حرکت کر گذرتے ۔مگرپو لیس کے افسر نے جو ایک یورپین تھا نہایت محنت اور کوشش کے ساتھ انتظام کو قائم رکھا اور کوئی عملی فساد کی صورت نہ پیداہونے دی ۔تھوڑی دیر کے بعد مولوی سید نذیر حسین صاحب مع اپنے شاگرد مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد المجید وغیرہ کے پہنچ گئے اور ان کے ساتھیوں نے ان کو مسجد کے ساتھ ایک دالان میں بٹھا دیا ۔ اتنے میں چونکہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا نماز شروع ہوئی لیکن چونکہ حضرت صاحب اور آپ کے ساتھی گھر پر نمازجمع کرکے آئے تھے اس لئے آپ نماز میں شامل نہیں ہوئے نماز کے بعد لوگوں نے شرائط کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ مباحثہ حیات ممات مسیح ناصری کے مضمون پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت کے متعلق ہونا چاہیے ۔اور ادھر سے ان کو یہ جواب دیا گیا ہے کہ مضمون کی طبعی ترتیب کو بگاڑنا اچھا نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا جبکہ لوگوں کے دل میں یہ خیالات پختہ طور پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی آخری زمانہ میں زمین پر نازل ہوںگے تو جب تک یہ مسئلہ صاف نہ ہو لے کسی اور مسئلہ کو چھیڑنا یونہی وقت کو ضائع کرنا ہے۔ جس مسند پر بیٹھنے کے حضرت مرزا صاحب مدعی بنتے ہیں جب لوگوں کے نزدیک وہ مسند خالی ہی نہیں ہے اور حضرت عیسیٰ ؑ اس پر رونق افروز ہیں تو حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت پر بحث کرنا فضول ہے ۔کیونکہ کوئی شخص مسیح ناصری کو زندہ مانتے ہوئے حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی طرف توجہ نہیں کر سکتا ۔ پس حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت پر تب بحث ہو سکتی ہے کہ جب پہلے اس مسند کا خالی ہونا ثابت کر لیا جاوے۔ پولیس کا انگریز افسر جو اس موقعہ پر موجود تھا وہ اس بات کو خوب سمجھ گیا اور اس نے بھی لوگوں کو سمجھایا کہ جو بات مرزا صاحب کی طرف سے پیش کی جارہی ہے کہ پہلے مسیح ناصری کی حیات ممات کے مسئلہ پر بحث ہونی چاہیے وہی درست ہے مگر مولویوں نے نہ مانا اور ایک شور پیدا کر دیا ۔اس کے بعد مولوی نذیر حسین صاحب کے قسم کھانے کے متعلق بحث ہوتی رہی مگر اس سے بھی مولویوں نے حیل و حجت کر کے انکار کر دیا اس وقت لوگوں میں ایک عجیب اضطراب اور غیظ وغضب کی حالت تھی۔اور کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ اور کان پڑی آواز نہیں سُنائی دیتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس موقع پر علیگڑھ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ محمد یوسف صاحب نے حضرت صاحب کے پاس آکر کہا کہ لوگوں کے اندر یہ سخت شور ہے کہ آپ کا عقیدہ خلافِ اسلام ہے ۔اگر یہ درست نہیں تو آپ اپنا عقیدہ لکھ دیں تاکہ میں لوگوں کو بلند آواز سے سُنا دوں ۔حضرت صاحب نے فوراً لکھ دیا کہ میں مسلمان ہوں اور آنحضرت ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور شریعت قرآنی کو خدا کی آخری شریعت یقین کرتا ہوں اور مجھے کسی اسلامی عقیدہ سے انکار نہیں وغیر ذالک۔ ہاں میرے نزدیک قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ مسیح ناصری جو بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو کر آئے تھے فوت ہو چکے ہیں ۔محمد یوسف صاحب نے بہت کوشش کی کہ حضرت صاحب کی اس تحریر کو بلند آواز سے سُنا دیں ۔مگر مولویوں نے جن کی نیت میں فساد تھا ۔سُنانے نہ دیا اور لوگوں میں ایک شور پیدا ہو گیا۔اور مولویوں کے بہکانے اور اشتعال دلانے سے وہ سخت غیظ و غضب میں بھر گئے جب افسر پولیس نے یہ حالت دیکھی کہ لوگوں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے ۔اور وہ اپنے آپ سے باہر ہوئے جاتے ہیں ۔ تو اس نے اپنے ماتحت افسر کوحکم دیاکہ فوراً مجمع کو منتشر کر دیا جائے جس پر اس پولیس افسر اور محمد یوسف صاحب آنریری مجسٹریٹ نے بلند آواز سے کہہ دیا کہ کوئی مباحثہ وغیرہ نہیں ہو گا سب صاحب چلے جاویں ۔اور پولیس کے سپاہیوں نے لوگوں کو منتشر کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت سب سے پہلے مولوی نذیر حسین صاحب اور اُن کے شاگرد اور دوسرے مولوی رخصت ہوئے کیونکہ وہ دروازہ کے قریب بیٹھے تھے ۔پس انہوں نے موقع کو غنیمت جانا اور چل دیئے جب زیادہ لوگ مسجد سے نکل گئے تو حضرت صاحب بھی اُٹھ کر باہر تشریف لائے اور بہت سے سپاہی اور پولیس افسر آپ کے ارد گرد تھے جب آپ دروازہ شمالی پر آئے تو آپ کے خادموں نے اپنی گاڑیاں تلاش کیں ۔ کیونکہ ان کو آنے جانے کا کرایہ دینا کر کے ساتھ لائے تھے اور کرایہ پیشگی دے دیا گیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ لوگوں نے ان کے مالکوں کو بہکا کر روانہ کر دیا تھا اور دوسری بھی کوئی گاڑ ی یکہ ٹمٹم ٹانگہ پاس نہ آنے دیتے تھے ۔اس طرح حضرت صاحب کو قریباًپندرہ منٹ دروازہ پر انتظار کرنا پڑا اور اس اثنا میں لوگوں کے گروہ در گروہ جو مسجد کے باہر کھڑے تھے ۔بلوہ کر کے حضرت صاحب کی طرف آنے لگے ۔افسر پولیس ہوشیار تھا اس نے حضرت صاحب سے کہا کہ آپ فوراً میری گاڑی میں بیٹھ کر اپنے مکان کی طرف روانہ ہو جائیں۔ کیونکہ لوگوں کا ارادہ بد ہے چنانچہ حضرت صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں اس گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے ۔اور باقی لوگ بعد میں پیدل مکان پر پہنچے ۔ اس موقع پر حضرت صاحب کے ساتھ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور سید امیر علی شاہ صاحب اور غلام قادر صاحب فصیح اور محمد خان صاحب کپورتھلوی اور حکیم فضل دین صاحب بھیروی اور پیر سراج الحق صاحب اور چھ اور دوست تھے ۔اس جامع مسجد والے واقعہ کے تین چار دن بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اپنے مکان پر ہی مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی کے ساتھ تحریری مباحثہ ہوا جس میں یہ باہم فیصلہ ہوا تھاکہ طرفین کے پانچ پانچ پرچے ہوں گے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھا کہ مولوی محمد بشیر صاحب کی طرف سے اب انہی پرانی دلیلوں کا جو غلط ثابت کی جاچکی ہیں اعادہ ہو رہا ہے ۔اور وہ کوئی نئی دلیل پیش نہیں کرتے۔تو آپ نے فریق مخالف کو یہ بات جتا کر کہ اب مناظرہ کو آگے جاری رکھنا تضیع اوقات کا موجب ہے تین پرچوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا۔اور فریق مخالف کے طعن وتمسخر کی پرواہ نہیں کی یہ مناظرہ الحق دہلی کے نام سے شائع ہو چکا ہے اور ناظرین دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت صاحب نے واقعی اس وقت بحث کو ختم کیاکہ جب مولوی محمد بشیر کی پونجی ختم ہو چکی تھی اور صرف تکرار سے کام لیا جا رہا تھا۔دراصل انبیاء و مرسلین کو دنیا کی شہرت سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ ان کو صرف اس بات سے کام ہوتا ہے کہ دنیا میں صداقت قائم ہو جاوے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر اک دوسری چیز کو قربان کر دیتے ہیں ۔ان کی سب عزتیں خدا کے پاس ہوتی ہیںاور دنیا کی عزت اور دنیا کی نیک نامی کا ان کو خیال نہیں ہوتااور پھر جب وہ خدا کی خاطر اپنی ہر عزت اور نیک نامی کو لات مار دیتے ہیں تو پھر خدا کی طرف سے ان کے لئے آسمان سے عزت اترتی ہے اور دین و دنیا کا تاج ان کے سر کا زیور بنتا ہے ۔میں اپنے اندر عجیب لذت و سرور کی لہر محسوس کرتا ہوں اور خدائے قدوس کی غیرت و محبت ، وفاداری وذرہ نوازی کاایک عجیب نظارہ نظر آتا ہے ۔کہ جب میں اس واقعہ کو پڑھتا ہوں کہ جب ایک دفعہ قبل دعویٰ مسیحیت لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مولوی محمدحسین بٹالوی کے مقابلہ میں بعض حنفی اور وہابی مسائل کی بحث کے لئے بلایااور ایک بڑا مجمع لوگوں کا اس بحث کے سننے کے لئے جمع ہو گیااور مولوی محمد حسین نے ایک تقریر کر کے لوگوں میں ایک جوش کی حالت پیدا کردی اور وہ حضرت صاحب کا جواب سننے کے لئے ہمہ تن انتظار ہو گئے ۔مگر حضرت صاحب نے سامنے سے صرف اس قدر کہاکہ اس وقت کی تقریر میں جو کچھ مولوی صاحب نے بیان کیا ہے اس میں مجھے کو ئی ایسی بات نظر نہیں آئی کہ جو قابل اعتراض ہو۔اس لئے میں اس کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ۔کیونکہ میرامقصد خوانخواہ بحث کرنا نہیں بلکہ تحقیق حق ہے ۔آپ کے اس جواب نے جو مایوسی اور استہزا کی لہر لوگوں کے اندر پیدا کی ہو گی وہ ظاہر ہے مگر آپ نے حق کے مقابل میں اپنی ذاتی شہرت و نام و نمود کی پرواہ نہیں کی اور ’’ڈر گئے ‘‘ ’’بھاگ گئے‘‘ ’’ذلیل ہو گئے ‘‘ کے طعن سنتے ہوئے وہاں سے اُٹھ آئے۔مگر خدا کو اپنے بندے کی یہ’’ شکست ‘‘جو اس کی خاطر اختیار کی گئی تمام فتحوں سے زیادہ پیاری ہوئی اور ابھی ایک رات بھی اس واقعہ پر نہ گذری تھی کہ اس نے اپنے اس بندے کو الہام کیا کہ ’’خدا کو تیرا یہ فعل بہت پسند آیااور وہ تجھے بہت عزت اور برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘ اور پھر عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے گئے کہ جو گھوڑوں پر سوار تھے ۔اور تعداد میں سات تھے ۔جس میں غالباً یہ اشارہ تھا۔کہ ہفت اقلیم کے فرمانروا تیرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو کر تجھ سے برکتیں پائیں گے ۔یہ خدائی غیرت اور خدائی محبت اور خدائی وفاداری اور خدائی ذرہ نوازی کا ایک کرشمہ ہے ۔اور حضرت صاحب پر ہی بس نہیں بلکہ ہر ایک وہ شخص جو خالصتاً خدا کی خاطر بغیر کسی قسم کی نفس کی ملونی کے خدا سے اس قسم کا پیوند باندھے گاوہ یقینا اسے ایسا ہی مہربان پائے گا۔ لان ذٰلک سنۃ اللہ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ الغرض حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد بشیر کے ساتھ مباحثہ کرتے ہوئے بجائے پانچ پرچوں کے تین پرچوں پر ہی بحث کو ختم کر دیا۔اور پھر غالباً اسی روز دہلی سے روانہ ہو کر پٹیالہ تشریف لے آئے جہاں ان دنوں میں ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم ملازم تھے ۔اور یہاں آکر آپ نے ایک اشتہار مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کے ذریعہ سے مولوی محمداسحاق کو وفات حیات مسیح ناصر ی کے مسئلہ میں بحث کی دعوت دی ۔مگر کوئی مباحثہ نہیں ہوا۔اور اس کے بعد آپ قادیان واپس تشریف لے آئے۔مگر ۱۸۹۲ء کے شروع میں آپ پھر عازم سفر ہوئے اور سب سے پہلے لاہور تشریف لے گئے ۔جہاں۳۱؍جنوری کو آپ کی ایک پبلک تقریر ہوئی اور مولوی عبد الحکیم صاحب کلانوری کے ساتھ ایک مباحثہ بھی ہوا ۔جو۳فروری ۱۸۹۲ء کو ختم ہوا۔لاہور سے آپ سیالکوٹ اور سیالکوٹ سے جالندھر اور جالندھر سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور لدھیانہ سے واپس قادیان تشریف لے آئے۔ اور اس طرح آپ کے دعویٰ مسیحیت کے بعد کے ابتدائی سفروں کا اختتام ہوا ۔۱۸۹۳ء کے ماہ مئی میں آپ پھر قادیان سے نکلے اور امرتسر میں ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ تحریر ی مباحثہ فرمایا جس کی روئداد جنگ مقدس میں شائع ہو چکی ہے ۔یہ مباحثہ ۲۲؍مئی ۱۸۹۳ء کو شروع ہو کر ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا اور حضرت صاحب نے اپنے آخری پرچہ میں آتھم کے لئے خدا سے خبر پا کر وہ پیشگوئی فرمائی جس کے نتیجہ میں آتھم بالآخر اپنے کیفرکردار کو پہنچا۔ انہی دنوں میں آپ نے ایک دن یعنی ۱۰ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷؍مئی ۱۸۹۳ء کو مولوی عبدالحق غزنوی کے ساتھ امرتسر کی عیدگاہ کے میدان میں مباہلہ فرمایا اور گو حضرت صاحب نے اپنے اشتہار مورخہ ۳۰شوال ۱۳۱۰ھ میں ہندوستان کے تمام مشہور علماء کو جو مکفرین میں سے تھے مباہلہ کیلئے بلایا تھا لیکن سوائے مولوی عبدالحق غزنوی کے کوئی مولوی میدان میں سامنے نہیں آیا ( اس ساری سر گذشت کیلئے ملاحظہ ہو حضرت صاحب کی تصانیف از الہ اوہام و الحق لدھیانہ و الحق دہلی و جنگ مقدس و اشتہارات مورخہ ۳۰شوال ۱۳۱۰ھ و مورخہ ۹؍ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ ونیز اشتہارات مورخہ۲؍اکتوبرو ۶؍اکتوبر و ۱۷؍اکتوبر و ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء و ۲۸جنوری و۳فروری و ۱۷؍مارچ ۱۸۹۲ء و خط وکتابت مابین حضرت صاحب و میر عباس علی مورخہ ۶ و ۷و ۹؍مئی ۱۸۹۲ء و تذکرۃ المہدی حصہ اوّل و سیرۃ المسیح موعود مصنفہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی اید ہ اللہ بنصرہ) اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مباہلہ میں کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی حضرت صاحب نے فریق مخالف کیلئے بد دعا کی تھی بلکہ صرف یہی دعا کی تھی کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو ’’خدا تعالیٰ وہ *** اور عذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو ‘‘ چنانچہ حضرت صاحب نے مباہلہ سے قبل ہی اپنے اشتہار مورخہ ۹ذیقعد ہ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۶؍مئی ۱۸۹۳ء میں یہ شائع فرما دیا تھاکہ میں صرف اپنے متعلق اس قسم کی دعا کرو ںگا ۔چنانچہ اس مباہلہ کے بعد جو ترقی خدا نے حضرت صاحب کو دی وہ ظاہر ہے ۔اس کے بعد ۱۸۹۶ء میں ایک اور اشتہار مباہلہ آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں شائع فرمایا۔اور اس میں آپ نے ایک سال کی میعادبھی مقرر فرمائی۔اور یہ بھی شرط لگائی کہ اگر اس عرصہ میں مَیں عذاب الہٰی میں مبتلا ہو جاؤں یا میرے مقابل پر مباہلہ کرنے والوں میں سے خواہ وہ ہزاروں ہوں کوئی ایک شخص بھی خدا کے غیرمعمولی عذاب کا نشانہ نہ بنے تو میں جھوٹا ہوں۔اور آپ نے بڑی غیرت دلانے والے الفاظ میں مولویوں کو ابھارا مگر کوئی سامنے نہیں آیا۔
{ 421} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہمدردی اور وفا داری کے ذکر میں یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے ۔ کہ اگر ہمارا کوئی دوست ہواور اس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملے کہ وہ کسی گلی میں شراب کے نشے میں مدہوش پڑا ہے تو ہم بغیر کسی شرم اور روک کے وہاں جاکر اسے اپنے مکان میں اُٹھا لائیں اور پھر جب اسے ہوش آنے لگے تو اس کے پاس سے اُٹھ جائیںتاکہ ہمیں دیکھ کر وہ شرمندہ نہ ہو۔اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ وفا داری ایک بڑا عجیب جوہر ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرابیوں اور فاسق فاجروں کو اپنا دوست بنانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ منشاء یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہواور وہ کسی قسم کی عملی کمزوری میں مبتلا ہوجاوے ۔تو اس وجہ سے اسکا ساتھ نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ اسکے ساتھ ہمدردی اور وفاداری کا طریق برتنا چاہیے اور مناسب طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کر نی چاہیے ۔کیونکہ دراصل یہی وہ وقت ہے جبکہ اسے اپنے دوستوں کی حقیقی ہمدردی اور ان کی محبت آمیز نصائح کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت پر چھوڑ کر الگ ہو جانا دوستانہ وفاداری کے بالکل خلاف ہے ہاں البتہ اگر خود اس دوست کی طرف سے ایسے امور پیش آجاویں کہ جو تعلقات کے قطع ہو جانے کا باعث ہوں تو اور بات ہے ۔انسان کو حتی الوسع اپنے لئے ہمیشہ اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا چاہیے ۔لیکن جب کسی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہو جائیں تو پھر ان تعلقات کا نبھانا بھی ضروری ہو تا ہے اور صرف اس وجہ سے کہ دوست کی طرف سے کوئی عملی کمزوری ظاہر ہوئی ہے یا یہ کہ اس کے اندر کوئی کمزوری پیدا ہوگئی ہے ۔تعلقات کا قطع کر نا جائز نہیں ہوتا بلکہ ایسے وقت میں خصوصیت کے ساتھ ہمدردی اور محبت اور دوستانہ نصیحت کو کام میں لانا چاہیے اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ لوگ یہ اعتراض کر یں گے کہ ایک خراب آدمی کے ساتھ کیوں تعلقات رکھے جاتے ہیں۔مومن کو لوگوں کے گندوں کو دھونے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اگر وہ ایسے موقعوں پر چھوڑ کر الگ ہوجائے گا تو علاوہ بے وفائی کا مرتکب ہو نے کے اپنے فرض منصبی میں بھی کو تاہی کر نے والا ٹھہریگا ۔ہاں بے شک جس شخص کی اپنی طبیعت کمزور ہو اور اس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ بجائے اپنا نیک اثر ڈالنے کے خود دوسرے کے ضرر رساں اثر کو قبول کرنا شروع کر دیگا تو ایسے شخص کیلئے یہی ضروری ہے کہ وہ اپنے اس قسم کے دوست سے میل جول تر ک کر دے اور صرف اپنے طور پر خدا تعالیٰ سے اس کی اصلاح کے متعلق دعائیں کرتا رہے ۔بچے بھی بوجہ اپنے علم اور عقل اور تجربہ کی خامی کے اس قسم کے اندر شامل ہیں یعنی بچوں کو بھی چاہیے کہ جب اپنے کسی دوست کو بد اعمالی کی طرف مائل ہو تا دیکھیں یا جب ان کے والدین یا گارڈین انہیں کسی خراب شخص کی دوستی سے منع کریں تو آئندہ اس کی صحبت کو کلیۃً ترک کر دیں ۔‘
{ 422} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دعویٰ مسیحیت سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بہت تعلق تھا چنانچہ مجھے یاد ہے کہ قادیان سے انبالہ چھائونی جاتے ہوئے آپ مع اہل و عیال کے مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر بٹالہ میں ایک رات ٹھہر ے تھے اور مولوی صاحب نے بڑے اہتمام سے حضرت صاحب کی دعوت کی تھی نیز ڈاکٹر صاحب موصوف نے بیان کیا کہ جس جس جگہ حضرت والد صاحب ( یعنی خاکسار کے نانا جان مرحوم ) کا قیام ہو تا تھا وہاں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام بھی عموماً تشریف لایا کر تے تھے مثلاً انبالہ چھاؤنی ۔لدھیانہ ۔پٹیالہ ۔فیروز پو ر چھائونی میں آپ تشریف لے گئے تھے اور سب سے زیادہ آپ لدھیانہ میں رہے ۔حضور کی سب سے بڑی لڑکی عصمت انبالہ چھائونی میں پیدا ہوئی تھی اور باقی سب بچے قادیان میں پیدا ہوئے۔بیعت اولیٰ ۔فتح اسلام ۔توضیح مرام کی اشاعت مباحثہ مولوی محمد حسین اور وفات عصمت لدھیانہ میں ہوئے۔انبالہ میں کچھ مدت کیلئے ایک بنگلہ کرایہ پر لیا تھا اور لدھیانہ میں ہمارے رہائشی مکان کے ساتھ بالکل ملحق شاہزادہ والا گوہر کا ایک اور بڑا مکان محلہ اقبال گنج میں تھا وہ کرایہ پر لے لیتے تھے ۔جب حضور لدھیانہ تشریف لاتے تھے تو ہم سب حضور کے مکان میں آجاتے تھے اور ہمارے والا مکان مردانہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا چنانچہ اسی میں مولوی محمد حسین والا مباحثہ بھی ہوا تھا ۔اس کے سوا کسی اور جگہ حضور نے الگ مکان نہیں لیا اور نہ کسی جگہ حضور اتنا زیادہ ٹھہرے۔
{ 423} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سرکے بال منڈوانے کو بہت ناپسند یدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کی علامت ہے نیز حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے سر کے بال عقیقہ کے بعد نہیں مونڈے گئے ۔چنانچہ آپ کے سر کے بال نہایت باریک اور ریشم کی طرح ملائم تھے اور نصف گردن تک لمبے تھے لیکن آپ کی ریش مبارک کے بال سر کے بالوں کی نسبت موٹے تھے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جو میر صاحب نے بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب کے بال نصف گردن تک لمبے تھے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ا ن لوگوں کے بال نظر آتے ہیں جنھوں نے پٹے رکھے ہوتے ہیں اس طرح آپ کے بال نظر آتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گو آپ کے بال لمبے ہو تے تھے لیکن بوجہ اس کے کہ وہ نہایت نرم اور باریک تھے اور گھنے بھی نہ تھے وہ پٹوں کی طرح نظر نہ آتے تھے ۔
{ 424} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پرندوں کا گوشت پسند تھا اور بعض دفعہ بیماری وغیرہ کے دنوں میں بھائی عبدالرحیم صاحب کو حکم ہو تا تھا کہ کوئی پرندہ شکار کر لائیں ۔اسی طرح جب تازہ شہد معہ چھتہ کے آتا تھا تو آپ اسے پسند فرما کر نوش کرتے تھے ۔ شہد کا چھتہ تلاش کرنے اور توڑنے میں بھائی عبدالعزیز صاحب خوب ماہر تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اور بھائی عبدالعزیز صاحب ہر دو نو مسلمین میں سے ہیں ۔بھائی عبدالرحیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بڑے شوق سے حصہ لیتے تھے اور حضر ت صاحب بھی ازراہ شفقت بعض متفرق خدمات ان کے سپرد فرمادیتے تھے ۔آجکل وہ ہمارے مدرسہ تعلیم الاسلام میں دینیات کے اوّل مدرس ہیں ۔
{ 425} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بالکل بے تکلفی سے گفتگو فرماتے تھے ۔میں آپ کی خدمت میں اپنے سارے حالات کھل کر عرض کر دیتا تھا اور آپ ہمدردی اور توجہ سے سنتے تھے اور بعض اوقات آپ اپنے گھر کے حالات خود بھی بے تکلفی سے بیان فرمادیتے تھے اور ہمیشہ مسکراتے ہو ئے ملتے تھے جس سے دل کی ساری کلفتیں دور ہو جاتی تھیں ۔
{ 426} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی قطب الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں جب میں نے علم طب کے حاصل کرنے کی طرف توجہ کی تو میں نے بعض ابتدائی درسی کتابیں پڑھنے کے بعد کسی ماہر فن سے علم سیکھنے کا ارادہ کیا اور چونکہ میں نے حکیم محمد شریف صاحب امرتسری کے علم و کمال کی بہت تعریف سُنی تھی اس لئے میں ان کے پاس گیا اور علم سیکھنے کی خواہش کی مگر انہوں نے جواب دیدیا اور ایسے رنگ میں جواب دیا کہ میں ان کی طرف سے مایوس ہو گیا۔اسکے بعد میں جب قادیان آیا تو میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ میں طب کا علم کسی ماہر سے حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔حضرت صاحب نے حکیم محمد شریف صاحب کا نام لیا میں نے عرض کیا کہ انہوں نے تو جواب دیدیا ہے ۔حضرت صاحب فرمانے لگے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے عام حالات کے ماتحت دوسرے کی درخواست کو رد کر دیتا ہے لیکن جب اس امر کے متعلق اس کے پاس کسی ایسے شخص کی سفارش کی جاتی ہے جس کا اسے خاص لحاظ ہو تا ہے تو پھر وہ مان لیتا ہے ۔پس ہمیں بھی امید ہے کہ حکیم صاحب ہماری سفارش کو رد نہیں کریں گے ۔چنانچہ میں حضرت صاحب کی سفارش لے کر گیا تو حکیم صاحب خوشی کے ساتھ رضامند ہو گئے اور کہنے لگے کہ تم ایک ایسے شخص کی سفارش لائے ہو جس کا کہنا میں نے آج تک کبھی رد نہیں کیا اور نہ کر سکتا ہوں ۔
{ 427} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض اوقات ایک انسان بد اعمالی میں مبتلا ہوتا ہے اور ترقی کرتا جاتا ہے حتیّٰ کہ دوزخ کے منہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر اس کی زندگی میں ایک پلٹا آتا ہے اور وہ نیکی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہو جاتا ہے ۔اورایک دوسرا شخص نیک ہوتا ہے اور اچھے اعمال بجا لاتا ہے ۔حتیّٰ کہ جنت کے منہ تک پہنچ جاتا ہے لیکن پھر اسے کوئی ٹھو کر لگتی ہے اور وہ بدی کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انجام خراب ہوجا تا ہے ۔اور میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ حدیث بیان فر ما کر فرماتے تھے کہ جو شخص بد اعمالی میں زندگی گذارتا ہے لیکن بالآخر اسی دنیا میں اسکا انجام نیک ہوجاتا ہے وہ بھی عجیب نصیبے والا انسان ہوتا ہے کہ اس جہان میں بھی وہ اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ زندگی گذار لیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی اسے جنت میں جگہ ملتی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شخص ساری عمر بد اعمالی میں مبتلا رہ کر آخری عمر میں تو بہ کا موقعہ پا کر جنت میں داخل ہو جاتا ہے وہ سب سے زیادہ خوش نصیب ہے کیونکہ اگر دوسرے حالات مساوی ہوں تو یقینا ایسا شخص اُس شخص سے رتبہ میں بہت کم ہے جو دنیا کی زندگی بھی خدا کے لئے تقویٰ و طہارت میں صرف کرتا ہے مگر ہاں چونکہ آخری عمر کی توبہ مقدم الذکر شخص کی نجات اُخروی کا موجب ہو جاتی ہے ۔ اس لئے اس میں شک نہیں کہ وہ خاص طور پر خوش نصیب سمجھا جانا چاہیے ۔اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایسا شخص اس جہان میں بھی اپنی خواہشات کے مطابق آزادانہ زندگی گذار لیتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ جو شخص خدا کے لئے اس دنیا میں زندگی گذارتا ہے اور اپنی خواہشات نفسانی کو دبا کر رکھتا ہے اس کی زندگی کو ئی تلخی کی زندگی ہو تی ہے ۔کیونکہ گو مادی نقطہ نگا ہ سے اس کی زندگی تلخ سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس کیلئے وہی خوشی کی زندگی ہو تی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ خدا کیلئے زندگی گذارنے والا جو روحانی سرور اور لطف اپنی زندگی میں پاتا ہے وہ ہر گز ایک دنیا دار کو اپنی جسمانی لذات میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس حضرت صاحب کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک دنیا دار شخص اپنے رنگ میں خوش رہتا ہے کیونکہ اس کی جسمانی خواہشات بالکل آزاد ہو تی ہیں ۔
{ 428} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھ سے بیان کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے تھے اور میں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بیان فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ اگر تو نے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا ہے تو بیان کر اور وہ جواب دیگا اے میرے خدا میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا ۔خدا فرمائے گا کہ اچھی طرح یا د کرکے اپنا کوئی ایک نیک عمل ہی بیان کردے۔وہ جواب دیگا کہ مجھے اپنا کوئی ایک نیک عمل بھی یاد نہیں ہے ۔خدا فرمائے گا اچھا یہ بتا کہ کیا تو نے کبھی میرے کسی نیک بندے کی صحبت اُٹھائی ہے ؟ وہ کہے گا اے میرے خدا میں کبھی تیرے کسی نیک بند ے کی صحبت میں نہیں بیٹھا ۔خدا فرمائے گا اچھا یہ بتا کہ کیا کبھی تو نے میرے کسی نیک بندے کو دیکھا ہے ؟ وہ جواب دیگا کہ اے میرے خدا مجھے زیادہ شرمندہ نہ کر میں نے کبھی تیرے کسی نیک بندے کو دیکھا بھی نہیں ۔خدا فرما ئیگا تیرے گائوں کے دوسرے کنارے پر میرا ایک نیک بند ہ رہتا تھا کیا فلاں دن فلاں وقت جب کہ تو فلاں گلی میں سے جار ہا تھا اور وہ میرا بندہ سامنے سے آتا تھا تیری نظر اس پر نہیں پڑی ؟ وہ جواب دیگا ہاں ہاں میرے خدا اب مجھے یاد آیا اس دن میں نے بے شک تیرے اس بندے کو دیکھا تھا مگر اے میرے خدا ! تو جانتا ہے کہ صرف ایک دفعہ میری نظر اس پر پڑی اور پھر میں اس کے پاس سے نکل کر آگے گذر گیا ، خدا فرمائے گا۔ میرے بندے جا میں نے تجھے اس نظر کی وجہ سے بخشا ۔جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال خدا کے رحم اور بخشش کو ظاہر کر نے کیلئے بیان فرماتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مثال کا یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ انسان خواہ اس دنیا میں کیسی حالت میں رہا ہو اور کیسی بد اعمالی میں اس کی زندگی گذر گئی ہو وہ محض اس قسم کی وجہ کی بنا پر بخش دیا جاوے گا بلکہ منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی انسان دنیا میں ایسی حالت میں رہا ہے کہ اس کی فطرت کے اندر نیکی اور سعادت کا تخم قائم رہا ہے لیکن اس تخم کو نشو و نما دینے والے عناصر اسے میسر نہیں آئے اور وہ ہمیشہ بد صحبت اور غافل کن حالات میں گھرارہنے کی وجہ سے بد اعمالی کا مرتکب ہو تا رہا ہے ۔مگر اس کا فطری میلان ایسا تھا کہ اگر اسے نیکی کی طرف مائل کرنے والے حالات پیش آتے تو وہ بدی کو ترک کر کے نیکی کو اختیار کر لیتا تو ایسا شخص یقینا خدا کی بخشش خاص سے حصہ پائے گا ۔ علاوہ ازیں حق یہ ہے کہ گو کوئی خشک مزاج مولوی میرے اس ریمارک پر چونکے لیکن خدا کی بخشش اور رحم کیلئے کو ئی قاعدہ اور قانون تلاش کرنا یہ محض لا علمی اور تنگ خیالی کی باتیں ہیں ۔اس کے عذاب و سزا کے واسطے بیشک قواعد اور قوانین موجود ہیں جو خود اس نے بیان فرمادیئے ہیں۔لیکن اسکے رحم کے واسطے کوئی قانون نہیں کیونکہ اس کی یہ صفت کسی نہ کسی صورت میں ہر وقت ہر چیز پر ہر حالت میں اور ہر جگہ جاری رہتی ہے ۔چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے عَذَابِیْ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (الاعراف: ۱۵۷( یعنی میرا عذاب تو صرف میری مقرر کردہ قانون کے ماتحت خاص خاص حالتوں میں پہنچتا ہے لیکن میری رحمت ہر وقت ہر چیز پر وسیع ہے ۔اس آیت کریمہ میںجو مَنْ اَشَآء کا لفظ ہے اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا کا عذاب تو اس کی مرضی کے ماتحت ہے لیکن اس کی رحمت مرضی کے حدود کو توڑ کر ہر چیز پر وسیع ہو گئی ہے ۔بلکہ بات یہ ہے کہ یہ لفظ قرآنی محاورہ کے ماتحت خدائی قانون کی طرف اشارہ کر نے کیلئے آتا ہے یعنی مراد یہ ہے کہ خدا کا عذاب اس کے قانون کے ماتحت خاص خاص حالتو ں میں آتا ہے لیکن خدا کی رحمت کیلئے کوئی قانون نہیںہے ۔ بلکہ وہ صرف خدا کی مرضی اور خوشی پر موقوف ہے اور چونکہ خدا کی صفت رحمت اس کی ہر دوسری صفت پر غالب ہے اس لئے اس کی یہ صفت ہر وقت ہر چیز پر ظاہر ہو رہی ہے اوربسا اوقات اس کی رحمت ایسے رنگ میں ظاہر ہو تی ہے کہ انسان کی کوتہ نظر اس کا موجب دریافت کر نے سے قاصر رہتی ہے اور ممکن ہے کہ بعض صورتوں میں اس کا کو ئی بھی موجب نہ ہوتا ہو سوا ئے اس کے کہ خدا رحیم ہے اور اپنے پیدا کردہ بندے پر رحم کر نا چاہتا ہے اور بس ۔ واللہ اعلم ۔
{ 429} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں ۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر نے کیلئے قادیان آیا تو اس وقت نماز ظہر کے قریب کا وقت تھا اور میں مہمان خانہ میں وضو کر کے مسجد مبارک میں حاضر ہوا ۔اس وقت حضر ت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں ہی تشریف رکھتے تھے اور حضور کے بہت سے اصحاب حضرت کے پاس بیٹھے تھے۔ میں بھی مجلس کے پیچھے ہو کر بیٹھ گیا ۔ اس وقت شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور چشمۂ معرفت کیلئے سکھ مذہب کے متعلق بعض حوالجات حضور کے سامنے پیش کر رہے تھے اور حضور کبھی کبھی ان کے متعلق گفتگو فرماتے تھے اور بعض دفعہ ہنستے بھی تھے ۔حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ حضور کے بائیں طرف بیٹھے تھے ۔میں جب آکر بیٹھا تو مجھے کچھ وقت تک یہ شبہ رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں ۔کیونکہ میں حضرت مولوی صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے در میان پوری طرح یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ ہیں یا وہ ۔لیکن پھر گفتگو کے سلسلہ میں مجھے سمجھ آگئی ۔جب حوالہ جات کے متعلق گفتگو بند ہوئی تو میں بیعت کی خواہش ظاہرکر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف آگے بڑھنے لگا۔ جس پر سیّد احمد نور صاحب کابلی نے کسی قدر بلند آواز سے کہا کہ یہ شخص مسلمان ہونا چاہتا ہے اسے رستہ دے دیا جاوے۔میں دل میں حیران ہوا کہ مسلمان ہونے کے کیا معنی ہیں ۔لیکن پھر ساتھ ہی خیال آیا کہ واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہونا مسلمان ہونا نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔ چنانچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو گیااس وقت میرے ساتھ ایک اور شخص نے بھی بیعت کی تھی بیعت کے بعد دعا کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز کرائی اور حضرت مسیح موعودؑ نے پہلی صف سے آگے حضرت مولوی صاحب کے ساتھ جانب شمال حضرت مولوی صاحب کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز فریضہ ادا کرتے ہی اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ آخری ایام میں ہمیشہ امام کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور آپ کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ مصلے پر آپ والی جگہ کو چھوڑ کر بائیں جانب کھڑے ہوا کرتے تھے ۔اور کبھی ایک دفعہ بھی آپ مصلے کے وسط میں یا دائیں جانب کھڑے نہیں ہوئے اور اب حضرت خلیفہ ثانی کا بھی یہی طریق ہے ۔اور ایسا غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کے خیال سے کیا جاتا ہے ۔واللّٰہ اعلم۔
{ 430} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کسی سفر پر تشریف لے جانے لگتے تھے تو عموماً مجھے فرما دیتے تھے کہ ساتھ جانے والوں کی فہرست بنا لی جاوے اور ان دنوں میں جو مہمان قادیان آئے ہوئے ہوتے تھے ۔ان میں سے بھی بعض کے متعلق فرما دیتے تھے کہ ان کا نام لکھ لیں اور اوائل میں حضرت صاحب انٹر کلاس میں سفر کیا کرتے تھے اور اگر حضرت بیوی صاحبہ ساتھ ہوتی تھیںتو ان کو اور دیگر مستورات کو زنانہ تھرڈ کلاس میں بٹھا دیا کرتے تھے۔اور حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ زنانہ سواریوں کو خود ساتھ جا کر اپنے سامنے زنانہ گا ڑیوں میں بٹھاتے تھے۔اور پھر اس کے بعد خود اپنی گاڑی میں اپنے خدام کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے ۔اور جس سٹیشن پر اترنا ہوتا تھااس پر بھی خود زنانہ گاڑی کے پاس جا کر اپنے سامنے حضرت بیوی صاحبہ کو اتارتے تھے ۔مگر دوران سفر میں سٹیشنوں پر عموماً خود اُتر کر زنانہ گاڑی کے پاس دریافت حالات کے لئے نہیں جاتے تھے ۔ بلکہ کسی خادم کو بھیج دیا کرتے تھے۔اور سفر میں حضرت صاحب اپنے خدام کے آرام کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور آخری سالوں میں حضور عموماً ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لئے ریزرو کر والیا کرتے تھے اور اس میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر فرماتے تھے۔ اور حضور ؑ کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے ۔مگر مختلف سٹیشنوں میں اتر اتر کر وہ حضور ؑ سے ملتے رہتے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور ؑ الگ کمرہ کو اس خیال سے ریزرو کروا لیتے تھے کہ تا کہ حضرت والدہ صاحبہ کو علیحدہ کمرہ میں تکلیف نہ ہو ۔ اور حضور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اطمینان کے ساتھ سفر کر سکیں نیز آخری ایام میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے وقت عموماً ہر سٹیشن پر سینکڑوں ہزاروں زائرین کا مجمع ہوتا تھا اور ہر مذہب اور ملت کے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ حضور کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے ۔اور مخالف و موافق ہر قسم کے لوگوں کا مجمع ہوتا تھا۔اس لئے بھی کمرہ کا ریزرو کرانا ضروری ہوتا تھاتا کہ حضور اور حضرت والدہ صاحبہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ اپنے کمرہ کے اندر تشریف رکھ سکیں اور بعض اوقات حضور ملاقات کر نے کے لئے گاڑی سے باہر نکل کر سٹیشن پر تشریف لے آیا کرتے تھے ۔مگر عموماً گاڑی ہی میں بیٹھے ہوئے کھڑکی میں سے ملاقات فرمالیتے تھے اور ملنے والے لوگ باہر سٹیشن پر کھڑے رہتے تھے۔نیز مفتی صاحب نے بیان فرمایا کہ جس سفر میں حضرت ام المومنین حضور کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں اس میں مَیں حضور کے قیام گاہ میں حضور کے کمرہ کے اندر ہی ایک چھوٹی سی چارپائی لے کر سو رہتا تھا تاکہ اگر حضور کو رات کے وقت کوئی ضرورت پیش آئے تو میں خدمت کر سکوں چنانچہ اس زمانہ میں چونکہ مجھے ہو شیا ر اور فکرمند ہو کر سونا پڑتا تھا تاکہ ایسا نہ ہو حضرت صاحب مجھے کوئی آواز دیں اور میں جاگنے میں دیر کروں اس لئے اس وقت سے میری نیند بہت ہلکی ہو گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کبھی مجھے آواز دیتے تھے اور میری آنکھ نہ کھلتی تھی تو حضور آہستہ سے اُٹھ کر میری چارپائی پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور میرے بدن پر اپنا دست مبارک رکھ دیتے تھے جس سے میں جاگ پڑتا تھا اور سب سے پہلے حضور وقت دریافت فرماتے تھے اور حضور کو جو الہام ہوتا تھا حضور مجھے جگا کر نوٹ کر وا دیتے تھے ۔چنانچہ ایک رات ایسا اتفا ق ہو اکہ حضو ر نے مجھے الہام لکھنے کیلئے جگا یا مگر اس وقت اتفاق سے میرے پاس کو ئی قلم نہیں تھا چنانچہ میں نے ایک کوئلہ کا ٹکڑا لے کر اس سے الہام لکھا لیکن اس وقت کے بعد سے میں باقاعدہ پنسل یا فائو نٹین پین اپنے پاس رکھنے لگ گیا ۔
{ 431} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً صبح کے وقت سیر کیلئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور عموماً بہت سے اصحاب حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے ۔تعلیم الا سلام ہائی سکو ل قادیان کے بعض طالب علم بھی حضور کے ساتھ جانے کے شوق میں کسی بہانہ وغیرہ سے اپنے کلاس روم سے نکل کر حضور کے ساتھ ہو لیتے تھے ۔اساتذہ کو پتہ لگتا تھا تو تعلیم کے حرج کا خیال کر کے بعض اوقات ایسے طلبہ کو بلا اجازت چلے جانے پر سزا وغیرہ بھی دیتے تھے مگر بچوں کو کچھ ایسا شو ق تھا کہ وہ عموماًمو قعہ لگا کر نکل ہی جاتے تھے ۔
{ 432} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مَیں کسی وجہ سے اپنی بیوی مرحومہ پر کچھ خفا ہوا جس پر میری بیوی نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی بڑی بیوی کے پاس جاکر میری ناراضگی کا ذکر کیا اور حضرت مولوی صاحب کی بیوی نے مولوی صاحب سے ذکر کر دیا ۔اس کے بعد میں جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’ مفتی صاحب آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ملکہ کا راج ہے‘‘۔ بس اس کے سو ا اور کچھ نہیں کہا مگر میں ان کا مطلب سمجھ گیا ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے یہ الفاظ عجیب معنی خیز ہیں کیونکہ ایک طرف تو ان دنوں میں برطانیہ کے تخت پر ملکہ وکٹوریا متمکن تھیں اور دوسری طرف حضرت مولوی صاحب کا اس طرف اشار ہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خانگی معاملات میں حضرت ام المومنین کی بات بہت مانتے ہیں اور گویا گھر میں حضرت ام المومنین ہی کی حکومت ہے ،اور اس اشارہ سے مولوی صاحب کا مقصد یہ تھا کہ مفتی صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرتے ہو ئے محتاط رہنا چاہیے ۔
{ 433} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے ۔جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضور کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھے چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضور کی ملاقات کیلئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کیلئے رضائی وغیرہ نہیں تھی میں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے حضور مہربانی کر کے کو ئی کپڑا عنائت فرماویں ۔حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دُھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دُھسا میرا ہے ۔آپ ان میں سے جوپسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونو ں رکھ لیں۔میں نے رضائی رکھ لی اور دُھسا واپس بھیج دیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہورجایا کرتا تھا تو حضور اندر سے میر ے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کر تے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضر ت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھا نا منگایا جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا۔حضرت صاحب نے اس سے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے ۔کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا۔ اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں ۔اور پھر آپ نے اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کا ٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا۔ ایک دفعہ سفر جہلم کے دوران میں جب کہ حضورؑ کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی حضورؑ نے مجھ سے فرمایا کہ مفتی صاحب !مجھے پیشاب کثرت کے ساتھ آتا ہے کو ئی برتن لائیں جس میں میں رات کو پیشاب کر لیا کروں ۔میں نے تلاش کر کے ایک مٹی کالوٹا لا دیا جب صبح ہوئی تو میں لوٹا اُٹھانے لگا تاکہ پیشاب گرا دوںمگر حضرت صاحب نے مجھے روکا اور کہا کہ نہیں آپ نہ اُٹھائیں میں خود گرا دوں گا اور با وجود میرے اصرارکے ساتھ عرض کرنے کے آپ نے نہ مانا اور خود ہی لوٹا اُٹھا کرمناسب جگہ پیشاب کو گرا دیا ۔ لیکن اس کے بعد جب پھر یہ موقع آیا تو میں نے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ میں گراؤں گا جس پر حضرت صاحب نے میری عرض کو قبول کر لیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ مجھے دو گھڑیاں عنایت فرمائیں اور کہا کہ یہ ایک عرصہ سے ہمارے پاس رکھی ہوئی ہیں اور کچھ بگڑی ہوئی ہیں آپ انہیں ٹھیک کرالیں ۔اور خود ہی رکھیں ۔
{ 434} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے ۔اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے۔تا کہ جب ایک قلم گھس جاوے تو دوسری کے لئے انتظار نہ کرنا پڑے کیو نکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے لیکن ایک دن جب کہ عید کا موقعہ تھامیں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نبیں پیش کیں ۔اس وقت تو حضرت صاحب نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت کا خط آیا کہ آپ کی وہ نبیں بہت اچھی ثابت ہوئی ہیں۔اور اب میں انہیں سے لکھا کروں گا ۔آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوںکی بھیج دیں۔چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد میں اسی قسم کی نبیں حضور کی خدمت میں پیش کر تا رہا ۔ لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہو تا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مال میں کچھ نقص پید ا ہو گیا اور حضر ت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایاکہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا جس پر مجھے آئندہ کیلئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر د امنگیرہوا اور میں نے کارخانہ کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضر ت مسیح موعودؑ کی خد مت میں تمہارے کارخانہ کی نبیں پیش کیا کرتا تھا لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جائوں گا اور اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ن ہیں ؟ اور پھر میں نے حضور کے دعاوی وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی ۔کچھ عرصہ کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیا مفت ارسال کی جو میں نے حضرت کے حضور پیش کر دی ۔اور اپنے خط اور اس کے جواب کا ذکر کیا ۔حضور یہ ذکر سن کر مسکرائے مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو اس وقت حاضر تھے ہنستے ہو ئے فرمانے لگے کہ جس طر ح شاعر اپنے شعروں میں ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف گریز کرتا ہے اس طرح آپ نے بھی اپنے خط میں گریز کرنا چاہا ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نبوں کے پیش کر نے کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے دعاوی کا ذکر شروع کردیا لیکن یہ کو ئی گریز نہیں ہے بلکہ زبر دستی ہے ۔
{ 435} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہو ئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمداحسن صاحب مرحوم امام ہو ئے تھے ۔لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہو گئی تھی۔بلکہ شاید اسی دن بارش ہو گئی تھی ۔
{ 436} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کیلئے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے دامادقادیان آئے ہو ئے تھے ۔کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنا یا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا۔ حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا اور جب کبھی آپ روتے بھی تھے تو صرف اس حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈباآتی تھیں۔اس سے زیادہ آپ کو روتے نہیں دیکھا گیا ۔
{ 437} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الہ دین عرف فلاسفر نے جن کی زبان کچھ آزاد واقع ہو ئی ہے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی کچھ گستاخی کی جس پر حضرت مولوی صاحب کو غصہ آگیا اور اُنہوں نے فلاسفر کو ایک تھپڑ ما ر دیا ۔اس پر فلاسفر صاحب اور تیز ہوگئے اور بہت برا بھلا کہنے لگے جس پر بعض لوگوں نے فلاسفر کو خوب اچھی طرح زدو کو ب کیا ۔اس پر فلاسفر نے چوک میں کھڑے ہو کر بڑے زور سے رونا چلانا شروع کر دیا اور آہ و پکار کے نعرے بلند کئے ۔یہ آواز اندرون خانہ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں تک بھی جاپہنچی اور آپ بہت سخت ناراض ہوئے۔ چنانچہ آپ نماز مغرب سے قبل مسجد میں تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور آپ مسجد میں اِدھر ُادھر ٹہلنے لگے اس وقت حضرت مولو ی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے ۔حضرت صاحب نے فرما یا کہ اس طرح کسی کو مارنا بہت ناپسند یدہ فعل ہے اور یہ بہت بُری حرکت کی گئی ہے ۔مولوی عبدالکریم صاحب نے فلاسفر کے گستاخانہ روّیہ اور اپنی بریت کے متعلق کچھ عرض کیا مگر حضرت صاحب نے غصہ سے فرمایا کہ نہیں یہ بہت نا واجب بات ہوئی ہے ۔جب خدا کا رسول آپ لوگوں کے اندر موجود ہے تو آپ کو خود بخود اپنی رائے سے کوئی فعل نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا وغیرہ ذلک ـ حضرت صاحب کی اس تقریر پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رو پڑے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی اور عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا فرمائیں اور اس کے بعد مارنے والوں نے فلاسفر سے معافی مانگ کر اسے راضی کیا اور اسے دودھ وغیر ہ پلایا ۔
{ 438} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فخر الدین صاحب ملتانی ثم قادیانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ۱۹۰۷ء میں حضرت بیوی صاحبہ لاہور تشریف لے گئیں توان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کیلئے بٹالہ تک تشریف لے گئے ۔میں نے بھی مولوی سید محمد احسن صاحب مرحوم کے واسطے سے حضرت صاحب سے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت حاصل کی اور حضرت صاحب نے اجازت عطا فرمائی مگر مولوی صاحب سے فرمایا کہ فخر الدین سے کہہ دیں کہ اور کسی کو خبر نہ کرے اور خاموشی سے ساتھ چلا چلے ،بعض اور لوگ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہم رکاب ہوئے۔حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہا ر باری باری اُٹھا تے تھے ۔ قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھو ل کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورۃ فاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں اُلٹا ۔راستہ میں ایک دفعہ نہر پر حضرت صاحب نے اتر کر پیشاب کیا اور پھر وضو کر کے پالکی میں بیٹھ گئے اور اسکے بعد پھر اسی طرح سورۃ فاتحہ کی تلاوت میں مصروف ہو گئے ۔بٹالہ پہنچ کر حضرت صاحب نے سب خدام کی معیت میں کھانا کھایا اور پھر سٹیشن پر تشریف لے گئے جب حضرت صاحب سٹیشن پر پہنچے تو گاڑی آچکی تھی اور حضرت بیوی صاحبہ گاڑی سے اُتر کر آئی ہوئی تھیں اور حضرت صاحب کو اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھیں ۔حضرت صاحب بھی بیوی صاحبہ کو دیکھتے پھرتے تھے کہ اتنے میں لوگوں کے مجمع میں حضرت بیوی صاحبہ کی نظر حضرت صاحب پر پڑگئی اور انہوں نے ’’ محمود کے ابا‘‘ کہہ کر حضرت صاحب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر حضرت صاحب نے سٹیشن پر ہی سب لوگوں کے سامنے بیوی صاحبہ کے ساتھ مصافحہ فرمایا اورا ن کو ساتھ لے کر فرود گا ہ پر واپس تشریف لے آئے ۔
{ 439} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ آج بتاریخ ۷؍اکتوبر ۱۹۲۷ء بروز جمعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک بہت بڑی یاد گار اور خدا وند عالم کی ایک زبر دست آیت مقبرہ بہشتی میں سپر د خاک ہوگئی یعنی میاں عبداللہ صاحب سنوری کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کا وہ کرتہ جس پر خدائی روشنائی کے چھینٹے پڑے تھے دفن کر دیا گیا ۔خاکسار نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل میں میاں عبداللہ صاحب کی زبانی وہ واقعہ قلم بند کیا ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ کے کرتہ پر چھینٹے پڑنے کے متعلق ہے ۔حضرت صاحب نے میاں عبداللہ صاحب کے اصرار پر ان کو یہ کرتہ عنایت کر تے ہوئے ہدایت فرمائی تھی کہ یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر ان کے ساتھ دفن کر دیا جاوے تاکہ بعد میں کسی زمانہ میں شرک کا موجب نہ بنے۔ سو آج میاں عبداللہ صاحب کی وفات پر وہ ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا ۔مجھے یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ دکھا یا تھا اور میں نے وہ چھینٹے بھی دیکھے تھے جو خدائی ہاتھ کی روشنائی سے اس پر پڑے تھے ۔ اور جب آج آخری وقت میں غسل کے بعد یہ کرتہ میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا تو اس وقت بھی خاکسار وہاں موجود تھا ۔میاں عبداللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ کا دیا ہوا ایک صابن کا ٹکڑا اور ایک بالوں کو لگانے کے تیل کی چھوٹی بوتل اور ایک عطر کی چھوٹی سی شیشی بھی رکھی ہوئی تھی اور غسل کے بعد جو اسی صابن سے دیا گیا۔یہی تیل اور عطر میاں عبداللہ صاحب کے بالوں وغیرہ کو لگا یا گیا ۔اور کرتہ پہنائے جانے کے بعد خاکسار نے خود اپنے ہاتھ سے کچھ عطر اس کرتہ پر بھی لگا یا ۔ نماز جنازہ سے قبل جب تک حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی آمد کا انتظار رہا لوگ نہایت شوق او ر درد و رِقّت کے ساتھ میاں عبداللہ صاحب کو دیکھتے رہے جو اس کرتہ میں ملبوس ہو کر عجیب شان میں نظر آتے تھے اور جنازہ میں اس کثرت کے ساتھ لوگ شریک ہوئے کہ اس سے قبل میں نے قادیان میں کسی جنازہ میں اتنا مجمع نہیں دیکھا ۔اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کے سامنے میاں عبداللہ صاحب کو اس کرتہ کے ساتھ بہشتی مقبر ہ کے خاص بلاک میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سابقون اور اَوّلُون خدام کیلئے مخصوص ہے، دفن کیا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح نے دفن کئے جانے کے وقت فرمایا کہ جن لوگوں کے سامنے یہ کرتہ بعد غسل میاں عبداللہ صاحب کو پہنایا گیا ان کی ایک حلفیہ شہادت اخبار میں شائع ہونی چاہیے تاکہ کسی آئندہ زمانہ میں کوئی شخص کو ئی جعلی کر تہ پیش کر کے یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ کرتہ ہے جس پر چھینٹے پڑے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب مرحوم سابقون اولّون میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ان کو ایک غیر معمولی عشق تھا ۔میرے ساتھ جب وہ حضرت صاحب کا ذکر فرماتے تھے تو اکثر ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور بعض اوقات ایسی رقت طاری ہو جاتی تھی کہ وہ بات نہیں کرسکتے تھے ، جب وہ پہلے پہل حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی عمر صرف اٹھار ہ سال کی تھی اور اس کے بعد آخری لمحہ تک ایسے روز افزوں اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مرحوم نے اس تعلق کو نبھایا کہ جو صرف انبیاء کے خاص اصحاب ہی کی شان ہے ۔ایسے لوگ جماعت کیلئے موجب برکت و رحمت ہوتے ہیں اور ان کی وفات ایک ایسا قومی نقصان ہو تی ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی ۔مرحوم کو اس خاکسار کے ساتھ بہت انس تھا اور آخری ایّام میں جب کہ وہ پنشن لے کر قادیان آگئے تھے۔ انہوں نے خاص شوق کے ساتھ ہمارے اس نئے باغ کا انتظام اپنے ہا تھ میں لے لیا تھا جو فارم کے نام سے مشہور ہے اور جو یہ خاکسار کچھ عرصہ سے تیار کروا رہا ہے اور پھر مرحوم نے اس انتظام کو ایسی خوبی کے ساتھ نبھایا کہ میں اس کے تفکرات سے قریباً بالکل آزاد ہوگیا ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو عالم اُخروی میں اعلیٰ انعامات کا وارث کرے اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے خاص قرب میں جگہ عطا فرمائے جن کا عشق مرحوم کی زندگی کا جزو تھا اور مرحو م کے پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق دے۔اللھم آمین
بوقت وفات مرحوم کی عمر کم و بیش چھیاسٹھ سال کی تھی ۔وفات مرض فالج سے ہوئی جسمیں مرحوم نے تیرہ دن بہت تکلیف سے کاٹے ۔فالج کا اثر زبان پر بھی تھا اور طاقت گو یا ئی نہیں رہی تھی مگر ہوش قائم تھے ۔یوں تو سب نے مرنا ہے مگر ایسے پاک نفس بزرگوں کی جدائی دل پر سخت شاق گذرتی ہے اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ صحبت یافتہ یکے بعد دیگرے گذرتے جاتے ہیں اور ابھی تک ہم میں اکثرنے ان سے وہ درس وفا نہیں سیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی طرف سے لائے تھے اور جس کے بغیر ایک مذہبی قوم کی ترقی محال ہے ۔
{ 440} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ہماری تائی صاحبہ نے مجھ سے بیا ن کیا کہ میں تمہارے تایا سے عمر میں چند ماہ بڑی تھی اور تمہارے تایا تمہارے ابا سے دوسال بڑے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حساب سے ہماری تائی صاحبہ کی عمر اس وقت جو اکتوبر ۱۹۲۷ء ہے قریباً ستانوے سال کی بنتی ہے مگر یہ عمروں کا معاملہ کچھ شکی سا ہے کیونکہ سارا حساب زبانی ہے ،اس زمانہ میں عمروں کے متعلق کوئی تحریری ضبط نہیں تھا ۔نیز تائی صاحبہ نے بیان کیا کہ تمہارے دادا کے ہاں صرف چار بچے پیدا ہوئے ۔سب سے بڑی مراد بیگم تھیں پھر تمہارے تایا پیدا ہوئے اور پھر تمہارے ابا اور ان کے ساتھ ایک لڑکی توام پیدا ہوئی مگر یہ لڑکی جلد فوت ہوگئی۔ ا ن سب میں دو،دو سال کا فرق تھا ۔
{ 441} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گذرتی ہے تو اس وقت تمہارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں مَیں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والدصاحب بہت ماہر طبیب ہیں ۔ آپ ان سے علاج کرائیں چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے ۔جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تا یا مجلس لگا ئے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے داد ا صاحب تھے ۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے ۔اس کے بعد میں جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہوچکے تھے اورا ن کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جارہی تھی ۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھا نا وغیرہ آیا تھا ۔اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ ( قادیان کے قریب ایک گائوں ہے ) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہو تی ہو گی اور وہ گائوں بھی بدمعاش لوگوں کا گائوں ہے ۔بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمد ؐ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہو گی ۔چنانچہ میر صاحب نے مان لیا ۔ اور ہم یہاں آکر رہنے لگے ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپورسے قادیان آتے تھے۔تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے ۔اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا ساکھاناوغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کیلئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں ۔چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابّا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آکر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گذار ہوئے تھے۔ اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے ان کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی تھی ۔ اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت برا منایا کہ کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام اُن کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں انہیں تکلیف پہنچاتی تھیں مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو بر داشت کرتے تھے ۔ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہتے تھے کہ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے ۔اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے اور چونکہ تمہاری اماں اس وقت جوان ہو چکی تھیں ہمیں ان کی شادی کافکر پیدا ہوا ۔اور میر صاحب نے ایک خط تمہارے ابا کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے دعا کریں خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے۔ تمہارے ابا نے جواب میں لکھا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتا ہوں ۔اور آپ کو معلوم ہے کہ گو میری پہلی بیوی موجود ہے اور بچے بھی ہیںمگر آج کل میں عملاً مجردہی ہوںوغیر ذالک ۔میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں اسے بُرا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیا ۔اور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمہاری اماں کے لئے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی حالانکہ پیغا م دینے والوں میں سے بعض اچھے اچھے متمول آدمی بھی تھے اور بہت اصرار کے ساتھ درخواست کرتے تھے ۔مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمہارے نانا کے بہت تعلقات تھے انہوں نے کئی دفعہ تمہارے ابا کے لئے سفارشی خط لکھا اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بڑے نیک اور شریف اور خاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق تھا ۔دوسرے ان دنوں میں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتا تھا۔ بالآخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی۔ اسے رشتہ دے دو۔ میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا۔جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا ۔ کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیا ساری عمر اسے یو نہی بٹھا چھوڑوگی۔میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمدؐ ہی ہزار درجہ اچھا ہے ۔میر صاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزاغلام احمدؐ کا بھی خط آیا ہوا ہے۔جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے میں نے کہا کہ اچھا۔ پھر غلام احمد کو لکھ دو۔ چنانچہ تمہارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا اور اس کے آٹھ دن بعد تمہارے ابا دہلی پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ایک دو نوکر تھے اور بعض ہندو اور مسلمان ساتھی تھے ۔جب ہماری برادری کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا ہے ۔اور کئی لوگ ان میں سے اسی ناراضگی میں نکاح میں شامل بھی نہیں ہوئے مگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہوا تھا ۔ نکاح پڑھا کر رخصتانہ کر دیا۔ تمہارے ابا اپنے ساتھ کوئی زیور یا کپڑا وغیرہ نہیں لے گئے تھے ۔بلکہ صرف ڈھائی سو روپیہ نقد لے گئے تھے۔ اس پر بھی برادری والوں نے بہت طعن دیئے کہ اچھا نکاح ہوا ہے کہ کوئی زیور کپڑا ساتھ نہیں آیا۔ جس کا جواب ہماری طرف سے یہ دیا گیا کہ مرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں ہیں ۔اور گھر کی عورتیں ان کے مخالف ہیں ۔اور پھر وہ جلدی میں آئے ہیں ۔ اس حالت میں وہ زیور اور کپڑے کہاں سے بنوا لاتے ۔الغرض برادری کی طرف سے اس قسم کے طعن تشنیع بہت ہوئے اور مزید برآں یہ اتفاق ہوا کہ جب تمہاری اماں قادیان آئیں تو یہاں سے ان کے خط گئے کہ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوں اور شائد میں اس غم اور گھبراہٹ سے مر جاؤں گی ۔چنانچہ ان خطوں کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لوگوںکو اور بھی اعتراض کا موقعہ مل گیا اور بعض نے کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تو اس کی نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیو ں خراب کی اس پر ہم لوگ بھی کچھ گھبرائے اور رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد میر صاحب قادیان آکر تمہاری اماں کو لے گئے ۔اور جب وہ دہلی پہنچے تو میں نے اس عورت سے پوچھا جس کو میں نے دلی سے ساتھ بھیجا تھاکہ لڑکی کیسی رہی ؟ اس عورت نے تمہارے ابا کی بہت تعریف کی اور کہا کہ لڑکی یو نہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہو گی ورنہ مرزا صاحب نے تو ان کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں ۔اور تمہاری اماں نے بھی کہا کہ مجھے انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا مگر میں یو نہی گھبرا گئی تھی اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد تمہاری اماں پھر قادیان آگئیں اور پھر بہت عرصہ کے بعد واپس ہمارے پاس گئیں۔
{ 442} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے جو پہلے راولپنڈی میں تجارت کرتے تھے اور آج کل قادیان میں ہجرت کر آئے ہوئے ہیں ۔مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خط دیا جو حضور ؑ نے سیٹھی صاحب کو اپریل ۱۸۹۸ء میں اپنے دست مبارک سے لکھ کر ارسال کیا تھا۔اس خط میں مسئلہ سود کے متعلق حضرت کا ایک اصولی فیصلہ درج ہے اور اس لئے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں :۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
محبی عزیزی شیخ غلام نبی صاحب سلمہٗ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
’’کل کی ڈاک میں مجھ کو آپ کا عنایت نامہ ملا۔ میں امید رکھتاہوں کہ آپ کی اس نیک نیتی اور خوف الٰہی پر اللہ تعالیٰ خود کوئی طریق مخلصی پیدا کر دے گا۔اُس وقت تک صبر سے استغفار کرنا چاہیے ۔اور سود کے بارے میں میرے نزدیک ایک انتظام احسن ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ جس قدر سود کا روپیہ آوے آپ اپنے کام میں اس کو خرچ نہ کریں بلکہ اس کو الگ جگہ جمع کرتے جا ئیں اور جب سود دینا پڑے اسی روپیہ میں سے دے دیں ۔اور اگر آپ کے خیال میں کچھ زیادہ روپیہ ہو جائے تواس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے کہ وہ روپیہ کسی ایسے دینی کام میں خرچ ہو جس میں کسی شخص کا ذاتی خرچ نہ ہو۔بلکہ صرف اس سے اشاعت دین ہو۔ میں اس سے پہلے یہ فتویٰ اپنی جماعت کے لئے بھی دے چکا ہوںکہ اللہ تعالیٰ نے جو سود حرام فرمایا ہے وہ انسان کی ذاتیات کے لئے ہے۔ حرام یہ طریق ہے کہ کوئی انسا ن سود کے روپیہ سے اپنی اور اپنے عیال کی معیشت چلاوے یا خوراک یا پو شاک یا عمارت میں خرچ کرے یا ایسا ہی کسی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ اس میں سے کھاوے یا پہنے ۔لیکن اس طرح پر کسی سود کے روپیہ کا خرچ کرنا ہرگزحرام نہیں ہے کہ وہ بغیر اپنے کسی ذرہ ذاتی نفع کے خدا تعالیٰ کی طرف رد کیا جائے یعنی اشاعت دین پر خرچ کیا جائے ۔قرآن شریف سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کا مالک ہے جو چیز اس کی طرف آتی ہے وہ پاک ہو جاتی ہے بجز اس کے کہ ایسے مال نہ ہوں کہ انسانوں کی مرضی کے بغیر لئے گئے ہوں جیسے چوری یا رہزنی یا ڈاکہ، کہ یہ مال کسی طرح سے بھی خدا کے اور دین کے کاموں میں بھی خرچ کرنے کے لائق نہیں لیکن جو مال رضامندی سے حاصل کیا گیا ہو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں خرچ ہو سکتا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ ہم لوگوں کو اس وقت مخالفوں کے مقابل پر جو ہمارے دین کے ردّ میں شائع کرتے ہیں ۔کس قدر روپیہ کی ضرورت ہے ۔گویا یہ ایک جنگ ہے جو ہم ان سے کر رہے ہیں ۔اس صورت میں اس جنگ کی امداد کے لئے ایسے مال اگر خرچ کئے جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں ۔یہ فتویٰ ہے جو میں نے دیا ہے اور بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے ۔اور پھر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں ۔ یہ تو شکر کی بات ہے کہ دینی سلسلہ کی تائید میں آپ ہمیشہ اپنے مال سے مدد دیتے رہتے ہیں ۔اس ضرورت کے وقت یہ ایک
ایسا کام ہے کہ میرے خیال میں خداتعالیٰ کے راضی کرنے کے لئے نہایت اقرب طریق ہے سو شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تو فیق دے رکھی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمیشہ آپ اس راہ میں سر گرم ہیں ۔ ان عملوں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے وہ جزا دیگا ۔ ہاں ماسوائے اس کے دعا اور استغفار میں بھی مشغول رہنا چاہیے زیادہ خیریت ہے ۔‘‘ والسلام ۔
خاکسار مرزا غلام احمدؐ از قادیان ۔۲۴؍اپریل ۱۸۹۸ء
سود کے اشاعت دین میں خرچ کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی انسان عمداً اپنے تئیں اس کام میں ڈالے ۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری سے جیسا کہ آپ کو پیش ہے یا کسی اتفاق سے کوئی شخص سود کے روپیہ کا وارث ہو جائے تو وہ روپیہ اُس طرح پر جیسا کہ میں نے بیان( کیاہے) خرچ ہو سکتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ثواب کا بھی مستحق ہو گا ۔غ۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خط سے جسے میں خوب اچھی طرح پہچانتاہوں کہ وہ آپ ہی کا ہے مندرجہ ذیل اصولی باتیں پتہ لگتی ہیں ۔
(۱)سودی آمدنی کا روپیہ سود کی ادائیگی پر خرچ کیا جا سکتاہے۔بلکہ اگر حالات کی مجبوری پیدا ہو جائے اور سود دینا پڑ جا وے تو اس کے واسطے یہی انتظام احسن ہے کہ سودی آمد کا روپیہ سود کی ادائیگی میں خرچ کیا جاوے ۔مسلمان تاجر جو آج کل گرد وپیش کے حالات کی مجبوری کی وجہ سے سود سے بچ نہ سکتے ہوں وہ ایسا انتظام کر سکتے ہیں ۔
(۲) سود کی آمد کا روپیہ باقی روپے سے الگ حساب کر کے جمع کرنا چاہیے تاکہ دوسرے روپے کے حساب کے ساتھ مخلوط نہ ہو اور اس کا مصرف الگ ممتاز رکھا جاسکے ۔
(۳)سود کا روپیہ کسی صورت میں بھی ذاتی مصارف میں خرچ نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی دوسرے کو اس نیت سے دیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرے ۔
(۴)سودی آمدکا روپیہ ایسے دینی کام میں خرچ ہو سکتا ہے جس میں کسی شخص کاذاتی خرچ شامل نہ ہو مثلاً طبع و اشاعت لٹریچر ۔مصارف ڈاک وغیر ذٰلک۔
(۵)دین کی راہ میں ایسے اموال خرچ کئے جا سکتے ہیں جن کا استعمال گو افراد کے لئے ممنوع ہو لیکن وہ دوسروں کی رضا مندی کے خلاف نہ حاصل کئے گئے ہوں یعنی ان کے حصول میں کوئی رنگ جبر اور دھوکے کا نہ ہو جیسا کہ مثلاً چوری یا ڈاکہ یا خیانت وغیرہ میں ہوتا ہے ۔
(۶) اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ نازک حالت اس فتویٰ کی مُؤیّد ہے ۔
(۷) لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو عمداً سود کے لین دین میں ڈالے بلکہ مذکورہ بالا فتویٰ صرف اسی صورت میں ہے کہ کوئی حالات کی مجبوری پیش آجائے یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں کوئی شخص سودی روپے کا وارث بن جاوے ۔
(۸) موجودہ زمانہ میں تجارت وغیرہ کے معاملات میںجو طریق سود کے لین دین کا قا ئم ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے فی زمانہ کوئی بڑی تجارت بغیر سود ی لین دین میں پڑنے کے نہیں کی جا سکتی ۔وہ ایک حالات کی مجبوری سمجھی جاوے گی جس کے ماتحت سود کا لینا دینا مذکورہ بالا شرائط کے مطابق جائز ہو گا ۔کیونکہ حضرت صاحب نے سیٹھی صاحب کی مجبوری کو جو ایک تاجر تھے اور اسی قسم کے حالات ان کو پیش آتے تھے اس فتویٰ کی اغراض کے لئے ایک صحیح مجبوری قراردیا ہے ۔گویا حضرت صاحب کا منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص سود کے لین دین کو ایک غرض و غایت بنا کر کاروبار نہ کرے۔لیکن اگر عام تجارت وغیرہ میں گرد و پیش کے حالات کے ماتحت سودی لین دین پیش آجاوے تو اس میں مضائقہ نہیں اور اس صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا گیا ہے ۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سود میں ملوث ہونے کے اندیشہ میں مسلمان لوگ تجارت چھوڑ دیں یا اپنے کاروبار کو صرف معمولی دکانوں تک محدود رکھیں جن میں سود کی دقّت بالعموم پیش نہیں آتی ۔اور اس طرح مخالف اقوام کے مقابلہ میں اپنے اقتصادیات کو تباہ کر لیں ۔
(۹)اس فتویٰ کے ماتحت اس زمانہ میں مسلمانوں کی بہبودی کے لئے بینک بھی جاری کئے جا سکتے ہیں جن میں اگر حالات کی مجبوری کی وجہ سے سودی لین دین کرنا پڑے تو بشرائط مذکورہ بالا حرج نہیں ۔
(۱۰)جو شخص اس فتویٰ کے ماتحت سودی روپیہ حاصل کرتا ہے اورپھر اسے دین کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس خرچ کی وجہ سے بھی عند اللہ ثواب کا مستحق ہوگا۔
(۱۱)ایک اصولی بات اس خط میں موجودہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کر لینی کافی ہے کہ کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے اور یہ نہیں کہ ان کے سامنے بالکل ہی نہ آئے ۔ کیونکہ بعض عورتوںمیں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیے کہ خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی ایسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے تھے جو غیر محرم ہوتی تھی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کیا کرتا تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں ۔لیکن بڑے ہو کر سمجھ آئی کہ در اصل وہ اسی حکمت سے تھا۔
(۱۲)ایک بات حضرت صاحب کے اس خط سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو موجودہ نازک و قت اسلام اور مسلمانوں پر آیا ہوا ہے اس میں سب اعمال سے بہتر عمل اسلام کی خدمت و نصرت ہے اور اس سے بڑھ کر خدا تک پہنچنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔
اس خط میں ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ جو نوٹ حضرت اقدس نے اس خط کے نیچے اپنے دستخط کرنے کے بعد لکھا ہے اس کے اختتام پر حضرت صاحب نے بجائے پورے دستخط کے صرف ’’غ‘‘ کا حرف درج فرمایا ہے جیسا کہ انگریزی میں قاعدہ ہے کہ نام کا پہلا حرف لکھ دیتے ہیں ۔
{ 443} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور احمدصاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیا کہ ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ وغیرہ نہیںتھا اور میں نے آپ کا نام تک نہیں سُنا تھا کہ مجھے خواب میں ایک نظارہ دکھایا گیا جس میں مَیں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ بہت سے عالی مرتبہ صحابہ بھی تھے اور اس جماعت میں ایک شخص ایسا تھا جس کا لباس وغیرہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ سے مختلف تھا اس کے متعلق میں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ یہ کون شخص ہے ؟جس پر آپ نے فرمایا ھٰذا عیسٰی یعنی یہ عیسیٰ مسیح ہیں اور آپ نے فرمایا کہ یہ قادیان میں رہتا ہے اور تم اس پر ایمان لانا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے قادیان کی تلاش شروع کی اور ضلع لدھیانہ میں ایک قادیان گاؤں ہے وہاں آیا گیا مگر کچھ پتا نہ چلا۔آخر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب لدھیانہ تشریف لے گئے تو میں آپ کا نام سُن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے دیکھتے ہی آپ کو پہچان لیا کہ یہ وہی ہیں جو مجھے آنحضرت ﷺ کے ساتھ خواب میں دکھائے گئے تھے اور جن کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ یہ عیسیٰ ہیں تم اس پر ایمان لانا مگر اس وقت آپ کو مسیحیت کا کوئی دعویٰ نہ تھا اور نہ ہی سلسلہ بیعت شروع ہوا تھا غرض اس وقت سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقدین میں شامل ہو گیا اور جب پہلی دفعہ لدھیانہ میں بیعت ہوئی تو میں نے پہلی بیعت کے دوسرے دن چونسٹھ نمبر پر بیعت کی اور پہلے دن سب سے پہلی بیعت حضرت مولوی نور الدین صاحب نے کی تھی اور ان کے دوسرے نمبر پر شائد میر عباس علی نے کی تھی ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ صاحب بہت پرانے آدمیوں میں سے ہیں اور ان دنوں قادیان ہجرت کر کے آگئے ہیں اور معمر آدمی ہیں ۔
{ 444} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور احمدؐ صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ جب کہ میں قادیان میں آیا ہوا تھا حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ امرتسر سے کچھ سودامنگوانا ہے آپ جا کر لے آئیں اور آپ نے مجھے بٹالہ تک سواری کے لئے اپنا گھوڑا دینا چاہا ۔مگر میں نے یہ کہہ کر عذر کیا کہ حضور گھوڑے کو میں کہاں سنبھالتا پھروں گا میں بٹالہ تک پیدل ہی چلا جاتا ہوں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں بٹالہ میں میاں عبد الرحیم صاحب ہیں ان کے مکان پر گھوڑا چھوڑ جانا اور آتے ہوئے لے آنا ۔میں نے عرض کیا نہیں حضور میں پیدل ہی جاتاہوں چنانچہ میں پیدل گیا اور بٹالہ سے ریل پر سوار ہوکر امرتسر سے سودا لے آیا ۔حافظ صاحب بیان کرتے تھے کہ میاں عبد الرحیم صاحب مولوی محمدحسین بٹالوی کے والد تھے اور حضرت صاحب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے تھے ۔نیز حافظ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ گھوڑے کی اچھی سواری کر لیتے تھے میں نے کئی دفعہ اوائل میں آپ کو گھوڑے پر چڑھے ہوئے دیکھا ہے باوجود اس کے کہ آپ کا دایاں ہاتھ بوجہ ضرب کے کمزور تھا ۔ آپ اچھی سواری کرتے تھے ۔اور شروع شروع میں آپ کے گھر میں کوئی نہ کوئی گھوڑا رہا کرتا تھا۔
{ 445} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں غلام نبی صاحب سیٹھی نے مجھ سے بیان کیا کہ شروع شروع میں بوجہ اس کے میری بیوی کو اٹھراکا مرض تھامیری اولاد ضائع ہو ہو جاتی تھی اور اس کے لئے میں ایک دفعہ قادیان آیا اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کا علاج شروع کیا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کے لئے عرض کرتا رہا انہی دنوں میں ایک دن میں حضرت خلیفۃ اوّل ؓ کے مطب میں بیٹھا تھا کہ آپ تشریف لائے اور مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے ۔میاں غلام نبی تمہیں مبارک ہو !اب تمہیں زیادہ علاج وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تمہارے لئے لڑکے کی بشارت دے دی ہے اور پھر انہوں نے مجھے یہ قصّہ سُنایا کہ آج صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت ام المومنین کے ساتھ سیر کے لئے اپنے باغ کو تشریف لے گئے تھے ۔تمہاری بیوی بھی ساتھ چلی گئی تھی اور میری بیوی اور بعض مستورات بھی ساتھ تھیں باغ میں جاکر حضرت مسیح موعودؑ نے کچھ شہتوت منگوائے جس پر بعض عورتیں حضرت کے لئے شہتوت لانے کے واسطے گئیں اور تمہاری بیوی بھی گئی ۔مگر اور عورتیں تو یونہی درخت پر سے شہتوت جھاڑ کر لے آئیں مگر تمہاری بیوی باغ کے ایک طرف جا کر اورخود شہتوت کے درخت پر چڑھ کر اچھے اچھے شہتوت اپنے ہاتھ سے توڑ کر لائی ۔حضرت صاحب نے جب ان دونوں شہتوتوں کو دیکھا تو فرمایا کہ کیا بات ہے یہ شہتوت میلے ہیں اور یہ بہت صاف ہیں؟حضرت بیوی صاحبہ نے عرض کیا کہ یہ جو صاف شہتوت ہیں یہ غلام نبی کی بیوی خود درخت پر چڑھ کر آپ کے لئے ایک ایک دانہ توڑ کر لائی ہے اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور اس کے لئے دعا فرمائی اور فرمایا کہ خدا اسے بچہ دے !میاں غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک لڑکا عطا کیالیکن لڑکا ڈیڑھ سال کی عمر پا کر فوت ہو گیا اور میں نے اس کی وفات پر حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ یہ لڑکا تو حضور کی دعا اور بشارت سے ہوا تھا۔مگر یہ بھی فوت ہو گیا ہے ۔حضور نے میرے اس خط کے جواب میں مندرجہ ذیل خط ارسال فرمایا۔
’’۱۷؍اکتوبر۱۹۰۲ء ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ـ نحمدہٗ و نصلے۔
محبی عزیزی ۔میاں شیخ غلام نبی صاحب سلمہ تعالیٰ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔کارڈ پہنچا آپ کو اپنے فرزندد لبند کی وفات پر بہت صدمہ ہوا ہو گا۔اللہ تعالیٰ آپ کو نعم البدل عطا فرماوے ۔یہ خیال آپ دل میں نہ لاویں کہ اس بچے کی پیدائش تو بطور معجزہ تھی پھر وہ کیوں فوت ہو گیا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَأْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(البقرۃ:۱۰۷) یعنی اگر کوئی نشان یا معجزہ ہم دور کر دیتے ہیں تو اس سے بہتر اور نشان ظاہر کرتے ہیں اور اولاد کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے ۔ اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ (الانفال:۲۹) یعنی تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے۔یعنی آزمائش کی جگہ ہے۔ خدا تعالیٰ دیکھتا ہے کہ تم میں سے کون قائم رہتا ہے اور کون ٹھوکر کھاتا ہے ۔ بالخصوص جبکہ آپ کی عمر ہنوز بہت چھوٹی ہے اور مرد کو تو نوے ۹۰ برس کی عمر میں بھی اولاد ہو سکتی ہے اس لئے میں لکھتا ہوں کہ آپ اب کی دفعہ تو ثواب حاصل کر لواوراس آیت کی رو سے موعودہ رحمت میں سے حصہ لے لو جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرہ:۱۵۶)سو ہر گز خوف نہ کر و اور خدا تعالیٰ کے دوسرے معجزہ کے منتظر رہو۔والسلام
خاکسار غلا م احمد ازقادیان ۔‘‘
میاں غلام نبی صاحب نے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا یہ خط مجھے ملا تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی اور لڑکے کی وفات کا سارا غم دل سے دُھل گیا اور جو لوگ ماتم پُرسی کیلئے اس وقت میرے گھر آئے ہوئے تھے ان سب سے میں نے کہہ دیا کہ اب آپ لوگ جائیں مجھے کوئی غم نہیں ہے ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مجھے ایک اور لڑکے کی بشارت لکھ کر بھیجی ہے ۔چنانچہ میاں غلام نبی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک اور لڑکا عطا کیا جو خدا کے فضل سے اب تک زندہ موجود ہے اور اس کا نام کر م الٰہی ہے ۔اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے صاحب اولاد ہے ۔
{ 446} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ دعا کا ذکر کر تے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دعا کی تو یہ مثال ہے کہ
’’ جو منگے سو مر رہے ،مرے سو منگن جائے ‘‘
یعنی جو شخص مانگتا ہے اسے اپنے واسطے ایک موت قبول کر نے کو تیار ہو جانا چاہیے اور جو مر رہا ہو وہی مانگنے کیلئے نکلتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کیلئے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت وارد کرے اور آستانہ درگاہ باری پر ایک بے جان مردہ کی طرح گر جاوے اور خدا کے دروازے کے سوا اپنی ساری امیدوں کو قطع کر دے ۔اور مصرع کے دوسرے حصہ کا مطلب یہ ہے کہ مانگتا بھی دراصل وہی ہے جو مر رہا ہو یعنی جسے کو ئی ایسی حقیقی ضرورت پیش آگئی ہو کہ اس کے لئے سوائے سوال کے کوئی چارہ نہ رہے لیکن دعا کے مسئلہ کے ساتھ صرف مصرع کے پہلے حصہ کا تعلق معلوم ہو تا ہے۔واللہ اعلم۔
{ 447} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو ہمارے حقیقی ماموں ہیں ان کا ایک مضمون الحق دہلی مورخہ ۲۶؍۱۹جون ۱۹۱۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شمائل کے متعلق شائع ہوا تھا یہ مضمون حضرت صاحب کے شمائل میں ایک بہت عمدہ مضمون ہے اور میر صاحب موصوف کے بیس سالہ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی ہے ۔لہٰذا درج ذیل کیا جاتا ۔میر صاحب تحریر فر ماتے ہیں:
احمدی تو خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں موجود ہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی مگر احمد کے دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے احمدیوں میں بھی ایک فرق ہے ۔دیکھنے والوں کے دل میں ایک سرور اور لذت اسکے دیدار اور صحبت کی اب تک باقی ہے ۔نہ دیکھنے والے بارہا تاسف کر تے پائے گئے کہ ہائے ہم نے جلدی کیوں نہ کی اور کیوں نہ اس محبوب کا اصلی چہرہ اس کی زندگی میں دیکھ لیا ۔تصویر اور اصل میں بہت فرق ہے اور وہ فرق بھی وہی جانتے ہیں جنھوں نے اصل کو دیکھا۔میرا دل چاہتا ہے کہ احمد (علیہ السلام) کے حلیہ اور عادات پر کچھ تحریر کروں ۔ شاید ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس ذات بابرکت کو نہیں دیکھا حظ اُٹھاویں ۔
حلیہ مبارک :۔ بجائے اس کے کہ میں آپ کا حلیہ بیان کروں اور ہر چیز پر خود کوئی نوٹ دوں یہ بہتر ہے کہ میں سر سری طور پر اس کا ذکر کرتا جائوں اور نتیجہ پڑھنے والے کی اپنی رائے پر چھوڑدوں ۔آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ
’’ آپ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے ‘‘
مگر یہ فقرہ بالکل نامکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ
’’ یہ حسن انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا ۔‘‘
اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اس امت کیلئے مبعوث ہو ئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا ۔آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت ، ہیبت اور استکبار نہ تھے ۔بلکہ فروتنی ،خاکساری اور محبت کی آمیزش موجود تھی ۔چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ میں بیان کرتا ہوں کہ جب حضرت اقدس چولہ صاحب کو دیکھنے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سایہ میں کپڑا بچھا دیا گیا اور سب لوگ بیٹھ گئے ۔آس پاس کے دیہات اور خاص قصبہ کے لوگوں نے حضرت صاحب کی آمد سُن کر ملاقات اور مصافحہ کیلئے آنا شروع کیا ۔اور جو شخص آتا مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف آتا اور اُن کو حضرت اقدس سمجھ کر مصافحہ کر کے بیٹھ جاتا۔غرض کچھ دیر تک لوگوں پر یہ امر نہ کھلا،جب تک خود مولوی صاحب موصوف نے اشارہ سے اور یہ کہہ کر لوگوں کو ادھر متوجہ نہ کیا کہ ’’حضرت صاحب یہ ہیں ‘‘ بعینہٖ ایسا واقعہ ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ کو مدینہ میں پیش آیا تھا ۔وہاں بھی لوگ حضرت ابو بکر ؓ کو رسول ِخدا سمجھ کر مصافحہ کر تے رہے جب تک کہ انہوں نے آپ پر چادر سے سایہ کرکے لوگوںکوا ن کی غلطی سے آگاہ نہ کر دیا ۔
جسم اور قد :۔ آپ کا جسم دُبلا نہ تھا نہ آپ بہت موٹے تھے البتہ آپ دوہر ے جسم کے تھے ۔ قد متوسط تھا اگرچہ ناپا نہیں گیا مگر اندازاً پانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب ہوگا ۔کندھے اور چھاتی کشادہ اور آخرعمر تک سیدھے رہے نہ کمر جھکی نہ کندھے تمام جسم کے اعضاء میں تناسب تھا ۔یہ نہیں کہ ہاتھ بے حد لمبے ہوں یا ٹانگیں یا پیٹ اندازہ سے زیادہ نکلا ہو ا ہو۔غرض کسی قسم کی بد صورتی آپ کے جسم میں نہ تھی ۔جلد آپ کی متوسط درجہ کی تھی نہ سخت ،نہ کھردری اورنہ ایسی ملائم جیسی عورتوں کی ہوتی ہے ۔آپ کا جسم پلپلا او رنرم نہ تھا بلکہ مضبوط اور جوانی کی سی سختی لئے ہوئے ۔ آخر عمر میں آپ کی کھال کہیں سے بھی نہیں لٹکی نہ آپ کے جسم پر جھُرّیاں پڑیں ۔
آپ کا رنگ:۔ رنگم چوگندم است و بمو فرق بین ست
زاں ساں کہ آمد ست در اخبار سرورم
آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی ۔ اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی ۔کبھی کسی صدمہ ،رنج ، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو تے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا ۔کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا ۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اسکے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا ۔اور ایمان کا نور بد کا ر کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہوسکتا ۔ آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژ مردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں۔بعض لوگ ناواقفی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں ۔ہر طرف سے اُداسی کے آثار ظاہر ہیں۔لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اے خداوند ہمیں رسوا مت کریو۔ غرض ایسا کہرام مچ رہا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہو رہے ہیں مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سربر آوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکراتا ہوا ۔ ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں ۔ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی ۔اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ ۔مجھے الہام ہوا اس نے حق کی طرف رجوع کیا حق نے اس کی طرف رجوع کیا ۔کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اس نے اپنی سُنا دی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے ۔ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بے فکر اور بے غم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے ۔اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دید یا ۔اور پھر اس نے آتھم کا رجوع اور بیقراری دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دیدی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خودہی اسے چھوڑدیتا ہے کہ جائو ہم تم پر رحم کرتے ہیں ۔ ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں ۔
لیکھرام کی پیشگوئی پو ری ہوئی مخبروں نے فوراً اتہام لگانے شروع کئے ۔پولیس میں تلاشی کی درخواست کی گئی۔ صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس یکا یک تلاشی کیلئے آموجود ہوئے ۔لوگ الگ کر دیئے گئے اندر کے باہر باہر کے اندر نہیں جاسکتے ۔مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی تحریر کا مشتبہ نکلے تو پکڑ لیں مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے اور خود پولیس افسروں کو لیجا لیجا کر اپنے بستے اور کتابیں تحریریں اور خطوط اور کوٹھریاں اور مکان دکھا رہے ہیں ۔کچھ خطوط انہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کر لئے ہیں ۔مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ ۔گویا نہ صرف بے گناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام حجت کا موقعہ نزدیک آتا جاتا ہے ۔ بر خلاف اس کے باہر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں کو دیکھو وہ ہر ایک کانسٹیبل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کرسہمے جاتے ہیں ۔ان کا رنگ فق ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں فکر ہے خود افسروں کو بلا بلا کر اپنے بستے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اسکے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیشگوئی کی پورے طور پر کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی آلائش اور سازش سے پاک ثابت ہو گا۔
غرض یہی حالت تمام مقدمات ،ابتلائوں مصائب اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینان قلب کا اعلیٰ اوراکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں ۔
آپ کے بال :۔ آپ کے سرکے بال نہایت باریک سیدھے ،چکنے ،چمکدار اور نرم تھے اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے ۔گھنے اور کثرت سے نہ تھے بلکہ کم کم اور نہایت ملائم تھے ۔گردن تک لمبے تھے ۔ آپ نہ سر منڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کتر واتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پٹے رکھے جاتے ہیں ۔سر میں تیل بھی ڈالتے تھے ۔چنبیلی یا حنا وغیرہ کا ۔یہ عادت تھی کہ بال سو کھے نہ رکھتے تھے ۔
ریش مبارک :۔ آپ کی داڑھی اچھی گھندار تھی ،بال مضبوط ،موٹے اور چمکدار سیدھے اور نرم ،حنا سے سرخ رنگے ہوئے تھے ۔ ڈاڑھی کو لمبا چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل آپ کتروا دیتے تھے یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے ۔داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگا یا کرتے تھے ۔ایک دفعہ ایک پھنسی گال پر ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتروائے تھے اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں ۔ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی ۔اور بہت خوبصورت ۔نہ اتنی کم کہ چھدری اور نہ صرف ٹھوڑھی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں ۔
وسمہ مہندی :۔ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگا یا کرتے تھے ۔پھر دماغی دورے بکثرت ہو نے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے وسمہ ترک کردیا تھا ۔البتہ کچھ روز انگریزی وسمہ بھی استعمال فرمایا مگر پھر ترک کر دیا ۔آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے ۔اس سے ریش مبارک میں سیاہی آگئی تھی ۔مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جو اکثر جمعہ کے جمعہ یا بعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوا یا کر تے تھے ۔
ریش مبارک کی طرح موچھوں کے با ل بھی مضبوط اور اچھے موٹے اور چمکدار تھے ۔آپ لبیں کترواتے تھے۔مگرنہ اتنی کہ جو وہابیوں کی طرح مونڈی ہوئی معلوم ہوں نہ اتنی لمبی کہ ہونٹ کے کنارے سے نیچی ہوں ۔
جسم پر آپ کے بال صرف سامنے کی طرف تھے ۔پشت پر نہ تھے اور بعض اوقات سینہ اور پیٹ کے بال آپ مونڈ دیا کرتے تھے یا کتر وا دیتے تھے ۔پنڈلیوں پر بہت کم بال تھے اور جو تھے وہ نرم اور چھوٹے اس طرح ہاتھوں کے بھی۔
چہرۂ مبارک :۔ آپکا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا اور حالانکہ عمر شریف ۷۰اور ۸۰کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام و نشان نہ تھا ۔اور نہ متفکر اور غصّہ ور طبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے ۔ رنج ،فکر ،تردد یا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنند ہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار ہی دیکھتا تھا ۔
آپ کی آنکھوں کی سیاہی ،سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آ پ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کربھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثرہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی ۔گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے ۔ اس جگہ یہ بات بھی بیان کے قابل ہے کہ آپ نے کبھی عینک نہیں لگائی اور آپ کی آنکھیں کام کرنے سے کبھی نہ تھکتی تھیں۔ خدا تعالیٰ کا آپ کے ساتھ حفاظت عین کا ایک وعدہ تھا جس کے ماتحت آپ کی چشمانِ مبارک آخر وقت تک بیماری اور تکان سے محفوظ رہیں البتہ پہلی رات کا ہلال آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں نظر نہیں آتا ۔ناک حضرت اقدس کی نہایت خوبصورت اور بلند بالا تھی ،پتلی ،سیدھی ،اونچی اور موزوں نہ پھیلی ہو ئی تھی نہ موٹی ۔کان آنحضور کے متوسط یا متوسط سے ذرا بڑے ۔نہ باہر کو بہت بڑھے ہوئے نہ بالکل سر کے ساتھ لگے ہو ئے ۔قلمی آم کی قاش کی طرح اوپر سے بڑے نیچے سے چھوٹے ۔قوت شنوائی آپ کی آخر وقت تک عمدہ اور خدا کے فضل سے برقرار رہی ۔
رخسار مبارک آپ کے نہ پچکے ہوئے اندر کو تھے نہ اتنے موٹے کہ باہر کو نکل آویں ۔نہ رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں ۔بھنویں آپ کی الگ الگ تھیں ۔پیوستہ ابرونہ تھے ۔
پیشانی اور سر مبارک:۔ پیشانی مبارک آپ کی سیدھی اور بلند اور چوڑی تھی اور نہایت درجہ کی فراست اور ذہانت آپ کے جبیں سے ٹپکتی تھی ۔علم قیافہ کے مطابق ایسی پیشانی بہترین نمونہ اعلیٰ صفات اور اخلاق کا ہے ۔ یعنی جو سیدھی ہو نہ آگے کو نکلی ہوئی نہ پیچھے کو دھسی ہوئی اور بلند ہو یعنی اونچی اور کشادہ ہو ا ور چوڑی ہو ۔بعض پیشانیاں گواونچی ہوں مگر چوڑان ماتھے کی تنگ ہوتی ہے ،آپ میں یہ تینوں خوبیاں جمع تھیں ۔اور پھر یہ خوبی کہ چیں بجبیں بہت کم پڑتی تھی۔سَر آپکا بڑا تھا ،خوبصورت بڑا تھا ،اور علم قیافہ کی رو سے ہر سمت سے پورا تھا ۔یعنی لمبا بھی تھا ،چوڑا بھی تھا ،اونچا بھی اور سطح اوپر کی ۔اکثر حصہ ہموار اور پیچھے سے بھی گولائی درست تھی ۔آپ کی کنپٹی کشادہ تھی اور آپ کی کمال عقل پر دلالت کرتی تھی۔‘
لب مبارک :۔ آپ کے لب مبارک پتلے نہ تھے مگر تاہم ایسے موٹے بھی نہ تھے کہ برے لگیں ۔دہانہ آپ کا متوسط تھا۔اور جب بات نہ کرتے ہوںتو منہ کھلا نہ رہتا تھا ۔بعض اوقات مجلس میں جب خاموش بیٹھے ہوں تو آپ عمامہ کے شملہ سے دہان مبارک ڈھک لیا کرتے تھے ۔دندان مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہوگئے تھے یعنی کیڑا بعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی ۔چنانچہ ایک دفعہ ایک ڈاڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑگیا تو ریتی کے ساتھ اس کو گھسوا کر برابر بھی کرایا تھا ۔مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں ۔مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے ۔
پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں ۔اگرچہ گرم کپڑے سردی گرمی برابر پہنتے تھے۔تاہم گرمیوں میں پسینہ بھی خوب آجاتا تھا مگر آپ کے پسینہ میں کبھی بو نہیں آتی تھی خواہ کتنے ہی دن بعد کرتا بدلیں اور کیسا ہی موسم ہو ۔
گردن مبارک :۔ آپ کی گردن متوسط لمبائی اور موٹائی میں تھی ۔آپ اپنے مطاع نبی کریم ﷺ کی طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے ۔غسل جمعہ ،حجامت ،حنا ، مسواک روغن اور خوشبو ۔کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دُور تھا ۔
لباس:۔ سب سے اوّل یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آپ کو کسی قسم کے خاص لباس کا شوق نہ تھا۔آخری ایّام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے ۔ خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جو اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید بقر عید کے موقعہ پر اپنے ہمراہ نذر لاتے تھے وہی آپ استعمال فرمایا کرتے تھے ۔مگر علاوہ ان کے کبھی کبھی آپ خود بھی بنوا لیا کرتے تھے ۔ عمامہ تو اکثر خود ہی خرید کر باندھتے تھے ۔جس طرح کپڑے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے اُس طرح ساتھ ساتھ خرچ بھی ہوتے جاتے تھے یعنی ہر وقت تبرک مانگنے والے طلب کرتے رہتے تھے۔ بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپ ایک کپڑا بطور تبرک کے عطا فرماتے تو دوسرا بنوا کر اس وقت پہننا پڑتا اور بعض سمجھدار اس طرح بھی کرتے تھے کہ مثلاً ایک کپڑا اپنا بھیج دیا اور ساتھ عرض کر دیا کہ حضور ایک اپنا اتراہوا تبرک مرحمت فرما دیں ۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب آپ کے لباس کی ساخت سُنئے۔عموماً یہ کپڑے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے ۔ کرتہ یا قمیض ،پائجامہ ،صدری ،کوٹ ، عمامہ ۔اس کے علاوہ رومال بھی ضرور رکھتے تھے اور جاڑوں میں جرابیں۔ آپ کے سب کپڑوں میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت کھلے کھلے ہو تے تھے ۔اور اگرچہ شیخ صاحب مذکور کے آور دہ کوٹ انگریزی طرز کے ہوتے مگر وہ بھی بہت کشادہ اور لمبے یعنی گھٹنوں سے نیچے ہوتے تھے اور جبّے اور چوغہ بھی جو آپ پہنتے تھے تو وہ بھی ایسے لمبے کہ بعض تو ان میں سے ٹخنے تک پہنچتے تھے ۔اسی طرح کُرتے اور صدریاں بھی کشادہ ہو تی تھیں ۔
بنیان آپ کبھی نہ پہنتے تھے بلکہ اس کی تنگی سے گھبراتے تھے ۔گرم قمیض جو پہنتے تھے ان کا اکثر اوپر کا بٹن کُھلارکھتے تھے ۔اسی طرح صدری اور کوٹ کا اور قمیض کے کفوں میں اگر بٹن ہوں تو وہ بھی ہمیشہ کُھلے رہتے تھے۔ آپکا طرز عمل ’’ مَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ‘‘ کے ماتحت تھا کہ کسی مصنوعی جکڑ بندی میں جو شرعاً غیرضروری ہے پابند رہنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا اور نہ آپ کو کبھی پروا ہ تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برش کیا ہواہے یا بٹن سب درست لگے ہوئے ہیں یانہیں صرف لباس کی اصلی غرض مطلوب تھی ۔با رہا دیکھا گیا کہ بٹن اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں لگے ہو ئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کو ٹ کے کاجوں میں لگائے ہو ئے دیکھے گئے ۔آپ کی توجہ ہمہ تن اپنے مشن کی طرف تھی اور اصلاح امت میں اتنے محو تھے کہ اصلاح لباس کی طرف توجہ نہ تھی۔آپ کا لباس آخر عمر میں چند سال سے بالکل گرم وضع کا ہی رہتا تھا ۔ یعنی کوٹ اور صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے اور یہ علالت طبع کے باعث تھا ۔سردی آپ کو موافق نہ تھی ۔ا س لئے اکثر گرم کپڑے رکھا کرتے تھے۔ البتہ گرمیوں میں نیچے کرتہ ململ کا رہتا تھا بجائے گرم کُرتے کے۔ پاجامہ آپ کا معروف شرعی وضع کا ہو تا تھا ( پہلے غرارہ یعنی ڈھیلا مردانہ پاجامہ بھی پہنا کرتے تھے ۔مگر آخر عمر میں ترک کردیا تھا ) مگر گھر میں گرمیوں میں کبھی کبھی دن کو اور عادتًا رات کے وقت تہ بند باندھ کر خواب فرمایا کرتے تھے ۔
صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے مگر کوٹ عموماً باہر جاتے وقت ہی پہنتے اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دو کوٹ بھی پہنا کرتے بلکہ بعض اوقات پو ستین بھی ۔
صدری کی جیب میں یا بعض اوقات کو ٹ کی جیب میں آپکا رومال ہوتا تھا ۔آپ ہمیشہ بڑا رومال رکھتے تھے ۔نہ کہ چھوٹا جنٹلمینی رومال جو آج کل کا بہت مروج ہے اسی کے کونو ں میں آپ مشک اور ایسی ہی ضروری ادویہ جو آپ کے استعمال میں رہتی تھیں اور ضروری خطوط وغیرہ باندھ رکھتے تھے اور اسی روما ل میں نقد وغیرہ جو نذر لوگ مسجد میں پیش کر دیتے تھے باندھ لیا کر تے ۔
گھڑی بھی ضرور آپ اپنے پاس رکھا کرتے مگر اس کی کنجی دینے میں چونکہ اکثرناغہ ہو جا تا اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا ۔اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے ۔گھڑی کو ضرورت کیلئے رکھتے نہ زیبائش کیلئے ۔
آ پ کو دیکھ کر کوئی شخص ایک لمحہ کیلئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنع ہے یا یہ زیب و زینت دنیوی کا دلدادہ ہے ۔ہاں البتہ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ کے ماتحت آپ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے ۔
صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہوتو بیت الخلا میں خود فینائل ڈالتے تھے۔ عمامہ شریف آپ ململ کا باندھا کرتے تھے اور اکثر دس گز یا کچھ اوپر لمبا ہو تا تھا ۔شملہ آپ لمبا چھوڑتے تھے کبھی کبھی شملہ کو آگے ڈال لیا کر تے اور کبھی اس کا پلّہ دہن مبارک پر بھی رکھ لیتے ۔جبکہ مجلس میں خاموشی ہوتی ۔عمامہ کے باندھنے کی آپ کی خاص وضع تھی ۔نوک تو ضرور سامنے ہوتی مگر سر پر ڈھیلا ڈھالا لپٹا ہوا ہوتا تھا ۔عمامہ کے نیچے اکثر رومی ٹوپی رکھتے تھے اور گھر میں عمامہ اُتار کر صرف یہ ٹوپی ہی پہنے رہا کرتے مگر نرم قسم کی دوہری جو سخت قسم کی نہ ہوتی ۔
جرابیں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور ان پر مسح فرماتے ۔بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرابیں اوپر تلے چڑھا لیتے ۔مگر بار ہا جراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی ۔کبھی تو سرا آگے لٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آجاتی ۔کبھی ایک جراب سیدھی دوسری الٹی ۔اگر جراب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائز رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول ﷺ کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کر لیا کرتے تھے جس میں سے ان کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے ۔
جوتی آپ کی دیسی ہو تی ،خواہ کسی وضع کی ہو ،پوٹھواری ،لاہوری ۔لدھیانوی ، سلیم شاہی ہر وضع کی پہن لیتے مگر ایسی جو کھلی کھلی ہو ۔انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا ۔گر گابی حضرت صاحب کو پہنے میں نے نہیں دیکھا ۔
جوتی اگر تنگ ہوتی تو اس کی ایڑی بٹھا لیتے مگر ایسی جوتی کے ساتھ با ہر تشریف نہیں لیجاتے تھے ۔ لباس کے ساتھ ایک چیز کا اور بھی ذکر کردیتا ہوں وہ یہ کہ آپ عصاضرور رکھتے تھے ۔گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا تب تو نہیں مگر مسجد اقصٰی کو جانے کے وقت یا جب با ہر سیر وغیرہ کیلئے تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہو ا کرتا تھا ۔اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اس پر سہارا یا بوجھ دے کر نہ چلتے تھے جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے۔
موسم سرما میں ایک دھسّہ لیکر آپ مسجدمیں نماز کیلئے تشریف لایا کرتے تھے جو اکثر آپ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا ۔اور اسے اپنے آگے ڈال لیا کرتے تھے ۔جب تشریف رکھتے توپھر پیروں پر ڈال لیتے ۔
کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ ،صدری ، ٹوپی ،عمامہ رات کو اُتار کر تکیہ کے نیچے ہی رکھ لیتے اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں۔ وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے ملے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کو ئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر پِیٹ لے ۔
موسم گرما میںدن کو بھی اور رات کو تو اکثر آپ کپڑے اُتار دیتے اور صرف چادر یا لنگی باندھ لیتے۔ گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے توا س کی خاطر بھی کرتہ اُتاردیا کرتے ۔تہ بند اکثر نصف ساق تک ہوتا تھا اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالتوں میں مجھے یاد نہیں کہ آپ بر ہنہ ہو ئے ہوں ۔
آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں یہ یا تو رومال میں یا اکثر ازار بند میں باندھ کر رکھتے۔ روئی دار کوٹ پہننا آپ کی عادت میں داخل نہ تھا ۔نہ ایسی رضائی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے بلکہ چادر پشمینہ کی یا دھسہ رکھا کرتے تھے اور وہ بھی سر پر کبھی نہیں اوڑھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی تھی ۔گلوبند اور دستانوں کی آپکو عادت نہ تھی ۔بستر آپ کا ایسا ہوتا تھا کہ ایک لحاف جس میں پانچ چھ سیر روئی کم از کم ہوتی تھی اور اچھالمبا چوڑا ہوتا تھا ۔چادر بستر کے اوپر اور تکیہ اور توشک ۔توشک آپ گرمی ،جاڑے دونوں موسموں میں بسبب سردی کی نا موافقت کے بچھواتے تھے ۔
تحریر وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات ،قلم ،بستہ اور کتابیں یہ سب چیزیں پلنگ پر موجود رہا کرتی تھیں کیونکہ یہی جگہ میز کرسی اور لائبریری سب کا کام دیتی تھی ۔اور مَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا ۔ایک بات کا ذکر کر نا میں بھول گیا وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر روز کپڑے نہ بدلا کرتے تھے بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا تب بدلتے تھے ۔
خوراک کی مقدار :۔ قرآن شریف میں کفار کیلئے وارد ہے یَأْ کُلُوْنَ کَمَا تَأْ کُلُ الْاَنْعَام(محمد:۱۳) اورحدیث شریف میں آیا ہے کہ کافر سات انتڑی میں کھا تا اور مومن ایک میں ۔ مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا او ر دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے ۔ جب مومن کا یہ حال ہو ا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا تو کیا کہنا ۔ آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا ۔بلکہ سَتّو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہو ا کرتی تھی۔اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت ہی کم خور تھے اور بمقابلہ ا س کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکر رہ سکتا ہے ۔خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے ۔عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میںایک ہی دفعہ کھا نا نوش فرمایا کرتے تھے۔علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے ۔مگر جہاں تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا ہر گز شوق نہ تھا۔
اوقات:۔ معمولاً آپ صبح کا کھانا ۱۰بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت تک کھا لیا کرتے تھے ۔کبھی شاذو نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھا یا ہو۔شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی ۔مگرکبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے۔مگر معمول دو طرح کا تھا جن دنوں میں آپ بعد مغرب، عشاء تک باہر تشریف رکھاکرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشاء کے بعد ہو اکرتا تھا ورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان۔
مدتوں آپ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے ۔اور یہ دستر خوان گول کمرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا ۔اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے ۔یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے ۔ایسے دسترخوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے بیس پچیس تک ہو جایا کرتی تھی۔
گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے تو آپ کبھی تنہا مگر اکثر ام المومنین اور کسی ایک یا سب بچوں کو ساتھ لیکر تناول فرمایا کرتے تھے ۔یہ عاجز کبھی قادیان میں ہوتا تو اس کوبھی شرف اس خانگی دستر خوان پر بیٹھنے کا مل جایا کرتا تھا۔
سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا ۔ سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے ۔اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کرتے تھے ۔
کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے :۔جب کھانا آگے رکھا جاتا یا دسترخوان بچھتا تو آپ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے ۔کیوں جی شروع کریں؟مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا یا سب کے آگے کھانا آگیا ۔پھر آپ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چبا چبا کر کھاتے ۔کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کرتے تھے ۔سالن آپ بہت کم کھاتے تھے ۔اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہو ں تو اکثر صرف ایک ہی پر ہاتھ ڈالا کرتے تھے اور سالن کی جو رکابی آپ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔بہت بوٹیاں یا ترکاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ صرف لعاب سے اکثر چھوا کر ٹکڑا کھا لیا کرتے تھے ۔لقمہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے تھے ۔اور یہ آپ کی عادت تھی دسترخوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ ٹکڑے روٹی کے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اُٹھا کر کھا لیا کرتے تھے ۔آپ اس قدر کم خور تھے کہ باوجود یہ کہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا۔
بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روکھی روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے ۔اور پھر انگلی کا سرا شوربہ میں تر کر کے زبان سے چھوا دیا کرتے تھے تا کہ لقمہ نمکین ہو جاوے ۔ پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی کھایا کرتے تھے ۔اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یاصرف لسّی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا یا کبھی اچار سے بھی لگا کر کھا لیا کرتے تھے ۔آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوّت حاصل کرنے کے لئے ہواکرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے۔بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں توکھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہ ہواکہ کیا پکا تھااور ہم نے کیا کھایا۔
ہڈیاں چوسنے اور بڑا نوالہ اُٹھانے، زور زور سے چپّڑچپّڑ کرنے ،ڈکاریں مارنے یا رکابیاں چاٹنے یا کھانے کے مدح و ذم اور لذائذکا تذکرہ کرنے کی آپ کو عادت نہ تھی ۔بلکہ جو پکتا تھا وہ کھا لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آپ پا نی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کرپیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ پر ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوجھل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ اکڑوں بیٹھ کر آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دائیاں گھٹنا کھڑا رکھتے۔
کیا کھاتے تھے؟ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقصد آپ کے کھانے کا صر ف قوّت قائم رکھنا تھا نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا اس لئے آپ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوّت قائم رہتی تھی تاکہ آپ کے کام میں حرج نہ ہوعلاوہ بریں آپ کوچند بیماریاں بھی تھیں۔ جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پرہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرمالیتے تھے اور اگرچہ آپ سے اکثر یہ پوچھ لیا جاتا تھا کہ آج آپ کیا کھائیں گے مگر جہاں تک ہمیں معلو م ہے خواہ کچھ پکاہوآپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے اور کبھی کھانے کے بد مزہ ہونے پر اپنی ذاتی وجہ سے خفگی نہیں فرمائی بلکہ اگر خراب پکے ہوئے کھانے اور سالن پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لئے اور یہ کہہ کر کہ مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہوگا ۔
روٹی آپ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے۔ ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اوربکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے ۔بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعاتو مکھن ہے اور پھر ہم ناحق بد گمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں ۔مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی ۔کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقر خانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے ۔
سالن آپ بہت کم کھاتے تھے ۔گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی یہ دال ماش کی یا اوڑدھ کی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کاضلع مشہور ہے۔ سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دسترخوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیّب جانور کا آپ کھاتے تھے ۔ پرندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر ، فاختہ وغیرہ کے لئے شیح عبدالرحیم صاحب نو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے۔مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیئے تھے ۔بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے ۔اور بنی اسرائیل میں اس کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی۔ حضور ؑ کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیامگر آپ نے فرمایا کہ جائز ہے ۔جس کا جی چاہے کھا لے مگر حضور ﷺ نے چونکہ اس سے کراہت فرمائی اس لئے ہم کو بھی اس سے کراہت ہے ۔اور جیسا کہ وہاں ہوا تھا یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمان خانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا مگر آپ نے اسے اپنے قریب نہ آنے دیا ۔ مرغ کا گوشت ہر طرح کاآپ کھا لیتے تھے ۔سالن ہو یا بھنا ہوا۔ کباب ہو یا پلاؤ ۔مگر اکثر ایک ران پر ہی گذارہ کر لیتے تھے ۔اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بچ بھی رہا کرتا تھا ۔ پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گدازاور گلے گلے ہوئے چاولوں کااور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوالیا کرتے تھے ۔ مگر گڑکے اور وہی آپ کو پسند تھے ۔عمدہ کھانے یعنی کباب ،مرغ ،پلاؤ یا انڈے اور اسی طرح فیرنی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوا یا کرتے تھے جب ضعف معلوم ہوتا تھا۔جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی ان دنوںمیں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گذارہ کر لیتے ۔ دودھ ،بالائی،مکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوّت کے قیام اور ضعف کے دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں۔ بعض لوگوں نے آپ کے کھانے پر اعتراض کئے ہیں ۔ مگر اُن بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض لگے ہوئے ہیں اور باوجود ان کے وہ تمام جہان سے مصروف پیکار ہے۔ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اس کی نظر ہے ۔اصلاح امّت کے کام میں مشغول ہے ۔ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہوئی ہے ۔دن رات تصانیف میں مصروف ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی اور عربی میں اور پھر وہی اُن کو لکھتا اور وہی کاپی دیکھتا ۔وہی پروف درست کرتا اور وہی اُن کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے ۔پھر سینکڑوں مہمانوں کے ٹھہرنے اُترنے اور علیٰ حسب مراتب کھلانے کا انتظام ۔ مباحثات اور وفود کا اہتمام ۔ نمازوں کی حاضری۔ مسجد میںروزانہ مجلسیں اور تقریریں ۔ہر روز بیسیوں آدمیوں سے ملاقات ۔پھر ان سے طرح طرح کی گفتگو ۔مقدمات کی پیروی ۔روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے اورپھر گھر میں اپنے بچو ں اور اہل بیت کو بھی وقت دینا اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دعائیں ۔ غرض اس قدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لئے قوّت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کرے تو کون بیوقوف اور نا حق شناس ظالم طبع انسان ہے جو اس کے اس فعل پر اعتراض کرے ۔کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت کے لئے اس کا استعمال نہیں کرتے ۔پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی نیت اور کام کرنے والے کے لئے تو وہ فرض ہے ۔حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسانوں کے لئے وہی کھانے تعیش میں داخل ہیں ۔
اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاؤں کو صرف بطور قوت لایموت اور سدِّ رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہو گا کہ اس خوراک کو لذائذ حیوانی اور حظوظ نفسانی سے تعبیر کرے ۔ خدا تعالیٰ ہر مومن کوبد ظنی سے بچائے۔
دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے ۔کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ اِدھر دودھ پیا اور اُدھر دست آگیا اس لئے بہت ضعف ہو جاتا تھا ۔ اس کے دور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے ۔
دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی میں آپ لسّی بھی پی لیا کرتے تھے اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرما لیتے تھے ۔ان چیزوں کے علاوہ شیرہ ٔبادام بھی گرمی کے موسم میں جس میں چند دانہ مغز بادام اور چند چھوٹی الائچیاں اور کچھ مصری پیس کر چھن کر پڑتے تھے ۔پیا کرتے تھے ۔اور اگر چہ معمولاً نہیں مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر یخنی گوشت یا پاؤں کی پیا کرتے تھے یہ یخنی بھی بہت بدمزہ چیز ہوتی تھی یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا رس ہوا کرتا تھا۔
میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے ۔گاہے بگاہے خود بھی منگواتے تھے ۔ پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور،بمبئی کا کیلا،ناگپوری سنگترے ،سیب ،سردے اور سرولی آم زیادہ پسند تھے ۔باقی میوے بھی گاہے ماہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے۔ گنّا بھی آپ کو پسند تھا۔
شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدانہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میںنوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے ۔
چائے کا میں پہلے اشارہ کر آیا ہوں آپ جاڑوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے ۔مگر عادت نہ تھی ۔سبز چائے استعمال کرتے اور سیاہ کو نا پسند فرماتے تھے ۔ اکثر دودھ والی میٹھی پیتے تھے ۔
زمانہ موجودہ کے ایجادات مثلاً برف اور سوڈا لیمونیڈ جنجر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے ۔ بلکہ شدّت گرمی میں برف بھی امرتسر ۔لاہور سے خود منگوا لیا کرتے تھے ۔
بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو کسی قسم کا پرہیز نہ تھا نہ اس بات کی پرچول تھی کہ ہندو کی ساختہ ہے یا مسلمانوں کی ۔لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے ۔مٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے ۔میٹھے بھرے ہوئے سموسے یا بیدانہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لئے منگوا رکھتے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں ۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور آپ دریافت فرما لیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس کس چیز کی اس کو عادت ہے ۔چنانچہ مولوی محمد علی ایم ۔اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا ۔تب تک آپ کو ان کی خاطر داری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ ،چائے ،بسکٹ،مٹھائی ،انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اورپھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا ۔تب آپ کو تسلّی ہوتی ۔اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملازمانِ لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا ۔بعض موقعہ پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کیلئے سالن نہیں بچا یا وقت پر ان کے کھانا رکھنا بھول گیا تو اپنا سالن یا سب کھانا اسکے لئے اُٹھوا کر بھجوا دیا۔
بار ہا ایسا بھی ہو اکہ آپ کے پاس تحفہ میں کو ئی چیز کھانے کی آئی تو یا خود کوئی چیز آپ نے ایک وقت منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی یا خراب ہوگئی ۔اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا ۔یہ دنیا دار کا کام نہیں۔
ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طورپر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں ۔اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش فرمائی اور وہ اسی وقت کسی نو وارد یا مرید با اخلاص نے لاکر حاضر کر دی ۔
آپ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی ۔پان ا لبتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کیلئے یا کبھی گھر میں سے پیش کردیا گیا تو کھا لیا کرتے تھے ۔یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہو ئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔حقہ تمباکو کو آپ نا پسند فرمایا کرتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر کچھ حقہ نوشوں کو نکال بھی دیا تھا ۔ہاں جن ضعیف العمر لوگوں کو مدت العمر سے عادت لگی ہو ئی تھی ان کو آپ نے بسبب مجبوری کے اجازت دے دی تھی ۔کئی احمدیوں نے تو اس طرح پر حقہ چھوڑا کہ ان کو قادیان میں وارد ہونے کے لئے حقہ کی تلاش میں تکیوں میں یا مرزانظام الدین وغیرہ کی ٹولی میںجانا پڑتا تھا ۔اور حضرت صاحب کی مجلس سے اُٹھ کر وہاں جانا کیونکہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں جانے کا حکم رکھتا تھا اس لئے با غیرت لوگوں نے حقہ کو الوداع کہی ۔
ہاتھ دھونا وغیرہ:۔ کھانے سے پہلے عموماً اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کر تے تھے ۔اور سردیوں میں اکثر گرم پانی استعمال فرماتے۔ صابن بہت ہی کم بر تتے تھے ۔کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے ۔ بعض ملانوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہر گز نہ تھی ۔کلی بھی کھانا کے بعد فرماتے تھے اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے جو اکثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے ۔
رمضان کی سحری کیلئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پراٹھا ہو ا کرتا تھا ۔اگرچہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے ۔
کھانے میں مجاہدہ :۔ اس جگہ یہ بھی ذکر کر نا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشاء الہٰی سے رکھے اور خوراک آپکی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کر نے کے بعد ہو تی تھی ۔اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دیدیا کرتے تھے ۔تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو مگر اپنی جماعت کیلئے عام طورپر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغی اور قلمی خدمات کو مخالفانِ اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا ۔ پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہش مند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے ؟۔
لنگر خانہ میں آپ کے زمانہ میں زیادہ تر دال اور خاص مہمانوں کیلئے گوشت پکا کرتا تھا ۔مگر جلسوں یا عیدین کے موقعہ پر جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقعہ ہو تو آپ عام طور پر اس دن گوشت یا پلائو یا زردہ کا حکم دے دیا کرتے تھے کہ غربا کو بھی اس میں شریک ہو نے کا موقع ملے ۔
الہام:۔ کھانا کھلانے کی بابت آپ کو ایک الہامی حکم ہے ۔ یَا اَیُّھَاالنَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَا ئِعَ وَالْمُعْتَرّ
(تذکرہ صفحہ ۶۳۱مطبوعہ۲۰۰۴ئ)
یعنی اے نبی بھوکے اور سوال کر نے والے کو کھلائو ۔
ادویات:۔ آپ خاندانی طبیب تھے ۔آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی طبیب گزر چکے ہیں اور آپ نے بھی طب سبقاً سبقاً پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطب نہیں کیا ۔کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے ۔آپ اکثر مفیدا ور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی ۔ اور آخرمیں تو آپکی ادویات کی الماری میں زیادہ تر انگریزی ادویہ ہی رہتی تھیں ۔ مفصل ذکر طبابت کے نیچے آئے گا ۔ یہاں اتنا ذکر کر دینا ضروری ہے کہ آپ کئی قسم کی مقوی دماغ ادویات کا استعمال فرمایا کرتے تھے ۔مثلاًکوکا ۔ کولا۔مچھلی کے تیل کا مرکب۔ایسٹن سیرپ ۔کونین ۔فولاد وغیرہ اور خواہ کیسی ہی تلخ یا بد مزہ دوا ہوآپ اس کو بے تکلف پی لیا کرتے ۔
سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے ۔ اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے ۔یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی آخری ایام میںحکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجد مفرح عنبری کے سپرد تھی ۔عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراسی کی معرفت بھی آتے رہے ۔مشک کی تو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فوراً نکال لیا۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کا ارادہ اس مضمون کو مکمل کرنے کا تھا مگر افسوس کہ نا مکمل رہا اور اس کے باقی حصص ابھی تک لکھے نہیںگئے ۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اس مضمون میں کہیں کہیں کسی قدر لفظی تبدیلی کر دی ہے ۔
{ 448} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ اسما عیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مر حوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف سے فال لینے سے منع فرمایا ہے ۔
{ 449} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ اسما عیل صاحب مولوی فاضل نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مر حوم بیان فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے قرضہ سے نجات پانے کے لئے یہ دُعا سکھائی تھی کہ پانچوں فرض نمازوں کے بعد التزام کے ساتھ گیارہ دفعہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھنا چاہیے اور میں نے اس کو بار ہا آزمایا ہے اور بالکل درست پایا ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس قسم کی باتیں بطور منتر جنتر کے نہیں ہوتیں کہ کوئی شخص خواہ کچھ کرتا رہے وہ محض اس وظیفہ کے ذریعہ سے قرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔ بلکہ خدا کے پیدا کردہ اسباب کی رعایت نہایت ضروری ہے ۔اور ان معاملات میں اس قسم کی دعاؤ ں کا صرف یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرے حالات موافق ہوں تو ایسی دعا خدا کے رحم کو اپنی طرف کھینچنے کا موجب ہوتی ہے ۔ نیز اس دعا کے الفاظ بھی ایسے ہیں کہ وہ اس قسم کے معاملات میں خدا کے رحم کو ابھارنے والے ہیں ۔ واللّٰہ اعلم ۔
{ 450} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی محمدؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حقیقۃ الوحی کے عربی استفتاء کا پروف دیکھتے وقت مولوی محمدؐ احسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ فلاں لفظ تو صحیح ہے مگر حضور نے اس پر نشان لگایا ہے ۔حضور نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی نشان نہیں لگایا ۔اور مولوی صاحب کے عرض کرنے پر کہ پھر یہ نشان کس نے لگایا ہے حضرت صاحب نے فرمایا کہ شائد میر مہدی حسین صاحب نے لگایا ہوگا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میر صاحب کو کیا حق تھا ؟حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ ان کو بھی ایک حق ہے جسے دخل بے جا کہتے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے آخری ایام میں میر مہدی حسین صاحب حضرت صاحب کے کتب خانہ کے مہتمم ہوتے تھے اور حضرت صاحب کے دیکھنے کے بعد کبھی کبھی اپنے شوق سے کاپی اور پروف وغیرہ دیکھ لیا کرتے تھے اور ان کی عادت میں چونکہ کسی قدر وہم ہے بعض اوقات اپنے خیال میں کسی لفظ کو سہو کاتب سمجھ کر اپنی رائے سے درست کرنا چاہتے تھے ۔
{451} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ نماز میںآپ نے ناک پر دائیاں ہاتھ پھیر کر کھجلی کی۔ اسی طرح دوسری دفعہ میں نے دیکھا کہ حضور علیہ السلام نے پاؤں کی کھجلی دائیں پاؤں سے رفع فرمائی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح یا سیرت کے لحاظ سے اس روایت میں کوئی بات خاص طور پر قابل ذکر نہیں ہے ۔لیکن میں نے اس وجہ سے درج کر دیا ہے کہ تا یہ پتہ لگے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اپنے آقا کی حرکات و سکنات کا باریک مطالعہ رکھتے تھے ۔ دراصل یہ بات صرف غیر معمولی محبت سے حاصل ہو سکتی ہے کہ اس قدر جزئی باتیں محسوس طور پر نظر میں آکر ذہن میں محفوظ رہ جائیں۔اس قسم کی روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق میرے پاس بہت پہنچی ہیں جن کے اندر آپ کی سیرت وسوانح کے متعلق کوئی خاص مواد نہیں ہے ۔لیکن ان سے آپ کے صحابہ کی اس غیر معمولی محبت کا پتہ لگتا ہے جو ان کو آپ کی ذات سے تھی مگر میں نے بخوف طوالت عموماًایسی روایات کو درج نہیں کیا ۔
{ 452} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمدؐ ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کے وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے دو برتن علم کے دیئے ہیں ایک کو تو میں نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے اور اگر دوسرا ظاہر کروں تو میرا گلا کاٹا جاوے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺاپنی بعض باتیں بعض صحابہ سے مخفی رکھتے تھے ۔اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کا اگر یہی مطلب ہے تو چاہیے تھا کہ اس طرح کی خاص باتیں حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ وغیرہ خاص خاص صحابہ کوبتلائی جاتیں نہ کہ صرف ابو ہریرہ کو ۔پھر فرمایا کہ بعض اوقات انسان کو کوئی بات بتلائی جاتی ہے تو وہ اس کو اپنی سمجھ کے مطابق بڑی عظمت اور اہمیت دے کر خود بتلانا نہیں چاہتا۔
{ 453} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا حضرت صاحب نے فرمایاکہ چلو ذرا سیر کر آئیں۔چنانچہ حضرت صاحب بڑے بازار میں سے ہوتے ہوئے اس طرف تشریف لے گئے جہاں اب ہائی سکول ہے ۔جب سیر کرتے کرتے واپس شہر کو آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے یُنْجِیْکَ مِنَ الْغَمِّ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًااور آپ نے فرمایا کہ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیںہے شائد آئندہ کوئی غم پیش آئے ۔جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہے اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کا لایا جو بہت خراب تھا اور پڑھا نہیں جاتا تھا ۔یہ معلوم کر کے آپ کو بہت تشویش ہوئی اور فرمایا کہ حکیم محمد شریف ہمارا دوست ہے اور اس کو دل کی بیماری ہے نگینہ گم ہو جانے سے اسے بہت تشویش ہوئی ہوگی اور اندیشہ ہے کہ اس کی بیماری زیادہ نہ ہو جاوے اور کتاب کے ورق کے متعلق فرمایا کہ بہت ردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بالکل خراب چھپتی ہے۔ اس طرح لوگ اسے نہیں پڑھیں گے اور ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں کہ دوبارہ اچھی کر کے چھپوائیں ۔المختصر حضرت صاحب اسی وقت بٹالہ کی طرف پا پیادہ روانہ ہو گئے اور میں اور دو اور آدمی جو اس وقت موجود تھے ساتھ ہو لئے ۔جب ہم دیوانیوال کے تکیہ پر پہنچے تو حضور ؑ نے فرمایا کہ نماز پڑھ لیں اور حضور نے خاکسار کو فرمایا کہ رحیم بخش تو نماز پڑھا ۔چنانچہ میں نے ظہر اورعصر کی نماز جمع کرائی جس کے بعد ہمارے ساتھی تو علیحدہ ہو گئے اور حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہو کر امرتسر پہنچے۔ جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہو کر کہا کہ یہ آپ کا نگینہ گم ہو گیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے اور جب مطبع میں جاکر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی جس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا رحیم بخش چلو رام باغ کی سیر کر آئیں ۔ شہر سے باہر سیر کرتے کرتے خاکسار نے عرض کیا مرزا جی جو ولی ہوتے ہیں کیا وہ بھی باغوںکی سیر کیا کرتے ہیں ؟ وہ تو عبادت الہٰی میں رات دن گذارتے ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ باغ کی سیر منع نہیں ہے پھر ایک قصہ سنایا کہ ایک بزرگ تھے وہ عمر بھر عبادت الہٰی کرتے رہے اور جب آخر عمر کو پہنچے تو خیال آیا کہ اپنے پیچھے کچھ نیکی چھوڑ جائیں چنانچہ ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر کتاب لکھنے بیٹھے تو چونکہ دنیا کا کچھ بھی دیکھا ہو ا نہیں تھا کوئی مثال نہیں دے سکتے تھے کہ کس طرح نیکی اور بدی پر جزا سزا کا ہوناوغیرہ سمجھائیں آخر ان کو دنیا میں پھر کر دنیا کو دیکھنا پڑا اور پھر انہوں نے میلے وغیرہ بھی دیکھے ۔پھر آپ نے مجھ سے مسکراتے ہوئے فرمایا رحیم بخش ! ہم نے بھی براہین میں گلاب کے پھول کی مثال دی ہوئی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۲ء یا۱۸۸۳ء یا ۱۸۸۴ء کا معلوم ہوتا ہے ۔کیونکہ براہین کی طبع کا یہی زمانہ ہے لیکن یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس روایت میں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والے نگینہ کی تیاری کا زمانہ بھی یہی بتا یا گیا ہے ۔حالانکہ حضرت صاحب کی تحریرات سے ایسا معلوم ہوتا ہے ( گو اس معاملہ میں صراحت نہیں ہے ) کہ جب ہمارے دادا صاحب کی وفات ہوئی اور اس سے قبل حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا تو اسی زمانہ میں حضرت صاحب نے یہ انگوٹھی تیار کروالی تھی ۔سو یا تو اس روایت میں جو نگینہ کی تیاری کا ذکر ہے یہ کوئی دوسرا واقعہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ نگینہ دو دفعہ تیار کرایا گیا ہے اور یا اس کی پہلی تیاری ہی بعد میں براہین احمدیہ کے زمانہ میں ہوئی ہے یعنی الہام ۱۸۷۶ء میں ہوا ہے ۔جبکہ داداصاحب کی وفات ہوئی اور انگوٹھی چند سال بعد میں تیار کرا ئی گئی ہے ۔اور اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی مؤخرا لذکر صورت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔
{ 454} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب سے میں نے سُنا ہے کہ مولوی کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کے دورا ن میں ایک دفعہ حضرت صاحب بٹالہ کے رستے گورداسپور کی طرف روانہ ہوئے ۔آپ کے ساتھ رتھ میں خود خواجہ صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب مرحوم تھے اور باقی لوگ یکّوں میں پیچھے آرہے تھے ۔اتفاقاً یکّے کچھ زیادہ پیچھے رہ گئے اور رتھ اکیلی رہ گئی ۔رات کا وقت تھا آسمان ابر آلود تھا اور چاروں طرف سخت اندھیرا تھا ۔ جب رتھ و ڈالہ سے بطرف بٹالہ آگے بڑھا تو چند ڈاکو گنڈاسوں اور چھریوں سے مسلح ہو کر راستہ میں آگئے اور حضرت صاحب کی رتھ کو گھیر لیا اور پھر وہ آپس میں یہ تکرارکرنے لگ گئے کہ ہر شخص دوسرے سے کہتا تھا کہ تو آگے ہو کر حملہ کر مگر کوئی آگے نہ آتا تھا اور اسی تکرار میں کچھ وقت گذر گیا اور اتنے میں پچھلے یکّے آن ملے اور ڈاکو بھاگ گئے ۔قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب بیا ن کرتے تھے کہ اس وقت یعنی جس وقت ڈاکو حملہ کر کے آئے تھے میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کی پیشانی سے ایک خاص قسم کی شعاع نکلتی تھی جس سے آپ کا چہرہ مبارک چمک اُٹھتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان اور بٹالہ کی درمیانی سڑک پر اکثر چوری اور ڈاکہ کی وارداتیں ہو جاتی ہیں مگر اس وقت خدا کا خاص تصرف تھا کہ ڈاکو خود مرعوب ہو گئے اور کسی کو آگے آنے کی جرأت نہیں ہوئی ۔قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ خواجہ صاحب سے انہی دنوں میں بمقام پشاور سنا تھا ۔
{ 455} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہو ر جا کر ٹھہرے تو میں ان دنوں خواجہ صاحب کا ملازم تھا ۔اور حضرت صاحب کی ڈاک لا کر حضور کو پہنچا یا کرتا تھا ۔اور ڈاک میں دو تین خط بیرنگ ہو ا کرتے تھے جو میں وصول کر لیتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیتا تھا اور حضرت صاحب مجھے ان کے پیسے دید یا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے خواجہ صاحب کے سامنے بیرنگ خط وصول کئے تو خواجہ صاحب نے مجھے روکا کہ بیرنگ خط مت لو ۔میں نے کہا میں تو ہر روز وصول کرتا ہوں اور حضرت صاحب کو پہنچا تا ہوں اور حضرت نے مجھے کبھی نہیں روکا ۔مگر اس پر بھی مجھے خواجہ صاحب نے سختی کیساتھ روک دیا۔جب میں حضرت صاحب کی ڈاک پہنچانے گیا تو میں نے عرض کیا کہ حضور آج مجھے خواجہ صاحب نے بیرنگ خط وصول کرنے سے سختی سے روک دیاہے ۔حضور فرمائیں تو میں اب بھی بھاگ کر لے آئوں ۔ حضرت صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے کہ ان بیرنگ خطوں میں سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ہوتا اور یہ خط گمنام ہوتے ہیں ۔اگر یہ لوگ اپنا پتہ لکھ دیں تو ہم انہیں سمجھا سکیں مگر شاید یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں حالا نکہ ہمارا کام مقدمہ کرنا نہیں ہے ۔اس دن سے میں نے بیرنگ خط وصول کر نے چھوڑ دیئے ۔
{ 456} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میں نے خواجہ کمال الدین صاحب کی زبانی سُنا ہے کہ جن دنوں میں حضرت صاحب کے خلاف مولوی کرم دین نے گورداسپور میں مقدمہ دائر کر رکھا تھا اور خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب حضرت صاحب کی طرف سے پیروی کر تے تھے ۔ ان دنوں میں ایک دفعہ خواجہ صاحب کچھ دنوں کے لئے پشاور اپنے اہل و عیال کے پاس آئے جہاں وہ اس زمانہ میں پریکٹس کیا کرتے تھے اوران کے ساتھ حضرت مولوی عبدالکریم مرحوم بھی حضرت صاحب سے اجازت لے کر پشاور دیکھنے کیلئے چلے آئے۔خواجہ صا حب نے بیان کیا کہ جب میں پشاور آیا تو بیوی بچوں کو بہت پریشان حال پایا کیونکہ ان کے پاس کو ئی روپیہ پیسہ نہیں تھا اور وہ کچھ دنوں سے قرض لے کر گذارہ کر تے تھے جس پر میں نے بیوی کے تین سو روپے کے کٹرے فروخت کر دیئے اور اس طرح اپنے گذارہ کا انتظام کیا اس حالت کا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی علم ہو گیا اور انہوں نے واپس آکر گورداسپور میں حضرت صاحب سے ساری کیفیت عرض کردی ۔حضرت صاحب کو یہ واقعہ سن کر رنج ہوا اور آپ نے فرمایا کہ ہم انشا ء اللہ دعا کریں گے ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے اندرون خانہ سے تین سو روپے میاں محمود احمد صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ ثانی ) کے ہاتھ مولوی عبدالکریم صاحب کو بھجوائے کہ یہ روپیہ خواجہ صاحب کیلئے ہے ان کو دیدیں ۔مولوی صاحب نے میاں صاحب کو میرے پاس بھیج دیا ۔مجھے جب یہ روپیہ ملا تو میں اسے لے کر فوراً مولوی صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ کیسا روپیہ ہے ۔مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں نے تمہاری حالت حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کردی تھی اور اب حضرت صاحب نے یہ روپیہ بھجوا یاہے ۔میں نے عرض کیا مولوی صاحب آپ نے یہ کیا غضب کر دیا۔مولوی صاحب نے فرمایا اگر حضرت صاحب سے عرض نہ کیا جاتا تو اور کس سے کہا جاتا ۔اللہ تعالیٰ کے نیچے ہمارے لئے اس وقت حضور ہی ہیں ۔تم خاموش ہو کر روپیہ لے لو اور خدا کا شکرکرو یہ روپیہ بہت بابرکت ہے ۔اور حضرت صاحب نے تمہارے واسطے دعا کا بھی وعدہ فرمایا ہے ۔چنانچہ میں نے وہ روپیہ رکھ لیا اور پھر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ گورداسپور میں ہی میرے پا س مقدمات آنے لگ گئے اور روز دو چار موکل آجاتے تھے اور میں نے اس قدر جلد حضرت کی دعاکا اثر دیکھا کہ جس کی کوئی حدنہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے یہ واقعہ کسی قدر اختلاف کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی سے بھی سنا ہوا ہے ۔مگر اس کی تفصیل مجھے یا دنہیں رہی ۔
{ 457} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی کو سر پر تول چند ر چٹرجی بنگالی کا ایک رشتہ دار گاڑی میں مل گیا اور اسے انہوں نے تبلیغ کی اور وہ بہت متاثر ہوا اور ان کے ساتھ قادیان چلا آیا اور یہاں آکر مسلمان ہوگیا ۔نام کی تبدیلی کے متعلق کسی نے عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ ان کا اپنا نام بھی اچھا ہے بس نام کے ساتھ احمد زیادہ کر دو کسی اور تبدیلی کی ضرورت نہیں ۔لوگوں نے اس کے بنگالی طرز کے بال کتروا دیئے جسے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ بال کیوں کتروا دیئے ؟ پہلے بال بھی اچھے تھے بلکہ اب خراب ہوگئے ہیں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اسکے بال ایسے رنگ میں کتروادیئے ہو ں گے جو قریباً منڈے ہوئے کے برابر ہوں اور ایسی طرز کے بال حضرت صاحب پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ سر کے بال منڈانے کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کا طریق ہے ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ اسلام لانے کے وقت نا م بدلنا ضروری نہیں ہوتا ہاں البتہ اگر مشرکانہ نام ہو تو وہ ضرور بدل دینا چاہیے ۔
{ 458} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے وزیر محمد خان صاحب سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ باہر کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب بھی تھے اور میں بھی شریک تھا ۔اس وقت اند رسے قیمہ بھرے ہوئے کریلے حضرت مائی صاحبہ نے بھجوائے اور حضرت صاحب نے ایک ایک کریلا حضرت خلیفہ اوّل اور مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب کے سامنے رکھ دیا اور اسکے بعد دو کریلے حضرت صاحب کے سامنے رہے ۔مجھے خیال آیا کہ شاید حضرت صاحب میرے سامنے کو ئی کریلا نہیں رکھیں گے ۔ مگر یہ خیال آنا ہی تھا کہ حضرت صاحب نے وہ دونوں کریلے اُٹھا کر میرے سامنے رکھ دیئے ۔میں نے بہت عرض کیا کہ ایک حضور بھی لے لیں مگر حضرت صاحب نے نہیں لیا ۔
{ 459} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ میں جب ابتداء ً ۱۸۸۱ء میں قادیان آیا تو اس وقت میرے اندازہ میں حضرت صاحب کی عمر پینتالیس سال کے قریب معلوم ہوتی تھی اور ابھی آپ کی شادی حضرت ام المومنین کے ساتھ نہیں ہوئی تھی ۔
{ 460} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میاں محمد خان صاحب نمبردار گل منج ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کہ میری عمر سولہ سترہ سال کی تھی میں اپنے گائوں کے ایک آدمی کے ساتھ امرتسر اپنے ایک رشتہ دار سے ملنے گیا اور واپسی پر ہم قادیان میں سے گذر ے چونکہ نماز عصر کا وقت تنگ ہو رہا تھا ہم نماز پڑھنے کیلئے بڑی مسجد میں چلے گئے۔وہاں ہم نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکیلے ٹہل رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں کو ئی کتاب تھی ۔جب ہم نماز سے فارغ ہو چکے تو حضرت صاحب نے ہم سے پنجابی زبان میں پوچھا ۔لڑکو ! تمہارا گھر کہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ گل منج میں ہے۔ جس پر آپ نے ہم سے گل منج کا فاصلہ دریافت کیا ۔اور میں نے عرض کیا کہ قادیان سے چار پانچ میل پر ہے ۔پھر حضر ت صاحب نے فرمایا کہ کیا تمہارے گائوں میں میری کتاب پہنچ گئی ہے ؟ہم نے عرض کیا کہ وہاں تو کوئی کتاب نہیں گئی ۔حضرت صاحب نے فرمایا دور دراز جگہوں میں تو وہ پہنچ گئی ہے تعجب ہے تمہارے گائوں میں نہیں پہنچی۔ تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں کتاب دیتا ہوں ۔سو حضرت صاحب ہم دونوں کو لے کر مسجد مبارک کے ساتھ والی کوٹھری میں تشریف لے گئے ۔وہاں بہت کتابیں رکھی تھیں ۔ حضرت صاحب نے دریافت فرمایا تمہارے گائوںمیں کتنے آدمی پڑھے ہوئے ہیں ۔میں نے زیادہ کتابوں کے لالچ سے کہہ دیا کہ آٹھ نو آدمی پڑھے لکھے ہیں ۔حالانکہ صرف چار پانچ آدمی پڑھے ہوئے تھے ۔ان دنوں میں مَیں تیسری جماعت میں پڑھا کرتا تھا ۔اسکے بعد تمام علاقہ میں حضرت صاحب کا چرچا ہو نے لگ گیا کہ قادیان والا مرزا مہدی اور مسیح ہونیکا دعویٰ کرتا ہے ۔اور میں نے جلد ہی بیعت کر لی ۔
{ 461} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس معہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور غلام قادر صاحب فصیح لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں تشریف رکھتے تھے ۔دعویٰ مسیحیت ہو چکا تھا اور مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین بٹالوی حضور کے مقابلہ میں آکر شکست کھا چکا تھا ۔غرض لدھیانہ میں ایک شورش ہو رہی تھی اور محرم بھی غالباً قریب تھا ۔اس پر لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر کو اندیشہ ہو ا کہ کہیں لدھیانہ میں ان مولویوں کیوجہ سے فساد نہ ہو جاوے ان کو لدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دیا اور اس کا م کیلئے ڈپٹی کمشنر نے ڈپٹی دلاور علی صاحب اور کرم بخش صاحب تھانہ دار کو مقرر کیا ۔ان لوگوں نے مولوی محمد حسین کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سُنا کر لدھیانہ سے رخصت کردیا۔اور پھر وہ حضرت صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور سڑک پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی ،حضرت صاحب نے ان کو فوراً اندر مکان میں بلا لیا اور ہم لوگوں کو حضرت صاحب نے فرمادیا کہ آپ ذرا باہر چلے جائیں۔چنانچہ ڈپٹی صاحب وغیرہ نے حضر ت صاحب کے ساتھ کوئی آدھ گھنٹہ ملاقات کی اور پھر واپس چلے گئے ۔ہم نے اندر جاکر حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں آئے تھے ؟ جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کا ایک پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہتر ہے کہ آپ کچھ عرصہ کیلئے یہاں سے تشریف لے جائیں۔حضر ت صاحب نے جواب میں فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے اور ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ہم ڈپٹی کمشنر سے کہہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سو شکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہوگئی ۔اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے او ر ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکر فرمایا اور بعض خاندانی چٹھیات کی نقل بھی ساتھ لگا دی ۔اس چٹھی کا غلام قادر صاحب فصیح نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور پھر اسے ڈپٹی کمشنر صاحب کے نام ارسال کر دیا گیا ۔وہاں سے جواب آیا کہ آپ کیلئے کوئی ایسا حکم نہیں ہے ۔ آپ بے شک لدھیانہ میں ٹھہر سکتے ہیں جس پر مولوی محمد حسین نے لاہو ر جا کر بڑا شور بر پا کیا کہ مجھے تو نکال دیا گیا ہے اور مرزا صاحب کو اجازت دی گئی ہے ۔مگر کسی حاکم کے پاس اس کی شنوائی نہیں ہوئی ۔اس کے بعد دیر تک حضرت صاحب لدھیانہ میں رہے ۔خاکسارعر ض کرتا ہے کہ میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے سنا ہوا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت صاحب احتیاطاً امرتسر چلے آئے تھے اور امرتسر میں آپ کو ڈپٹی کمشنر کی چٹھی ملی تھی جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے ۔ واللّٰہ اعلم ۔ان دونوں روایتوں میں سے کون سی درست ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ٹھیک ہوں ۔یعنی حضرت صاحب ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کی ملاقات کے بعد احتیاطاً امرتسر چلے آئے ہوں۔لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈپٹی دلاور علی صاحب وغیرہ کو ڈپٹی کمشنر کے حکم کے متعلق غلط فہمی پید اہوگئی تھی اور ڈپٹی کمشنر کا منشاء صرف مولو ی محمدحسین کے رخصت کئے جانے کے متعلق تھا چنانچہ ڈپٹی کمشنر کے جواب سے جو دوسری جگہ نقل کیا جا چکا ہے ۔ پتہ لگتا ہے کہ اس نے کبھی بھی حضرت صاحب کے متعلق ایسے خیال کا اظہار نہیں کیا ۔واللّٰہ اعلم ۔
{ 462} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کامی سفیر روم قادیان آیا اس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے دیر میں سب کو ہٹا دیا ۔جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہوگئے تو آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔مولوی صاحب مرحو م دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سُناتے رہے یہاں تک کہ آپ کواِفاقہ ہو گیا ۔
{ 463} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لیکھرام کے قتل کے واقعہ پر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی تلاشی ہو ئی تو پولیس کے افسر بعض کا غذات اپنے خیال میں مشتبہ سمجھ کر ساتھ لے گئے اور چند دن کے بعد ان کاغذات کو واپس لے کر پھر بعض افسرقادیان آئے اور چند خطوط کی بابت جس میں کسی ایک خاص امر کا کنا یۃًذکر تھا حضرت صاحب سے سوال کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ حضرت صاحب نے فوراً بتا دیا کہ یہ خطوط محمدی بیگم کے رشتے کے متعلق ہیں اور امر معلومہ سے مراد یہی امر ہے اور یہ خط مرزا امام دین نے میرے نام بھیجے تھے جو میرا چچا زاد بھائی ہے اور محمدی بیگم کا حقیقی ماموں ہے ۔اس پر مرزا امام دین کو پولیس والوں نے حضور کے مکان کے اندر ہی بلوالیا۔اور اس سے سوال کیا کہ کیا یہ خط آپ کے لکھے ہوئے ہیں ؟ وہ صاف مکر گیا ۔پھر زیادہ زور دینے پر کہنے لگا کہ مجھے ٹھیک معلوم نہیں ہے ۔اس پر مرزا امام دین کا خط پہچاننے کیلئے اس سے ایک سادہ کاغذ پر عبارت لکھوائی گئی تو مبصروں اور کاتبوں نے دونوں تحریروں کو ملا کریقینی طور پر پولیس افسروں کے اوپر ثابت کر دیا کہ یہ خطوط مرزا امام دین ہی کے لکھے ہوئے ہیں ۔جب مرزا امام دین کو کوئی گنجائش مفرکی نہ رہی اور پولیس افسر نے کسی قدر سختی سے پوچھا تو کہنے لگا شاید میرے ہی ہوں اور بالآخر صاف تسلیم کرلیا کہ میرے ہی ہیں اور امر معلومہ سے وہی مراد ہے جو مرزا غلام احمد صاحب ( حضرت مسیح موعود ؑ ) نے بیان کیا ہے ۔اس واقعہ کے وقت کئی لوگ موجود تھے اس سارے دوران میں مرزا امام دین کے چہرہ پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا اور حاضرین نے اسکی ذلت کو خوب محسوس کیا ۔بعد ازاں پولیس افسرچلے گئے اور تلاشی کا معاملہ رفع دفع ہو گیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اپنی خانہ تلاشی کا ذکر اشتہار مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۸۹۷ء میں کیا ہے ۔ جہاں لکھا ہے کہ یہ خانہ تلاشی ۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کو ہوئی تھی نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ محمدی بیگم کے جس ماموں کا ذکر سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر ۱۷۹میں ہے وہ یہی صاحب مرزا امام دین تھے ۔
{ 464} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے ۔مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے ۔الاّ ماشاء اللہ۔ اور جنازوں کی نماز عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود پڑھا تے تھے ۔
{ 465} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ ملاوامل کے متعلق یہ واقعہ سنا یا کہ ایک دفعہ ملا وامل تپ کہنہ سے سخت بیمار ہو گیا اور یہ خیال ہو گیا کہ اسے دق ہے۔جب دوائوں سے فائدہ نہ ہو ا تو میں نے اسے چوزہ کی یخنی کچھ عرصہ تک مسلسل استعمال کر نے کیلئے بتائی اس پر پہلے تو اس نے بوجہ گوشت خور نہ ہو نے کے اعتراض کیا مگر بالآخر اس نے مان لیا اور کچھ عرصہ تک اس کا استعمال کرتا رہا حتیّٰ کہ اس کا بخار بالکل جاتا رہا ۔اس واقعہ کے ایک عرصہ بعد پھر ملا وامل ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب مجھے پھر کچھ حرارت محسوس ہونے لگی ہے۔ خوف ہے کہ پھر نہ اسی طرح بیمار ہو جاؤں اور اشارۃً یہ بھی ذکر کیا کہ پہلی دفعہ آپ نے چوزہ کی یخنی بتائی تھی۔ میں نے اس کی نبض دیکھی تو کچھ حرارت وغیرہ معلوم نہ ہوئی ۔اس پر میں نے خیال کیا کہ شائد وہ پھر چوزے کا استعمال کرنا چاہتا ہے ۔مگر خود بخود استعمال کرنے سے حجاب کرتا ہے اور بطور معالج کے میری اجازت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔چنانچہ میں نے اسے کہہ دیا کہ ہاں چوزہ کی یخنی بہت مفید ہے ضرور استعمال کرو۔
{ 466} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے ایک کاغذ کی تلاش کے لئے اپنے پرانے بستے دیکھنے کے لئے دیئے وہ کاغذ تو نہ ملا لیکن اس بستہ میں مجھے لالہ ملا وامل کے پرانے خطوط دستیاب ہوئے جو اس نے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت صاحب کے نام دینی مسائل کی دریافت کے متعلق لکھے تھے اور ایک جگہ حضرت صاحب کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ الہام ملا ۔
بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
لیکن تعجب ہے کہ آج کل درثمین میں ’’اس کا‘‘ کی بجائے ’’جس کا‘‘ چھپاہوا ہے نیز ایک بستہ میں مجھے ایک پرچہ ملا جس پرحضور کا اپنا دستخطی یہ مضمون لکھا ہوا تھا کہ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَااُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:۵) سے یہ مراد ہے کہ جو لوگ اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور اس وحی پر جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی ہے اور اس وحی پر بھی یقین رکھتے ہیں جو آخری زمانہ میں مسیح موعودؑ پر نازل ہو گی ۔
{ 467} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ میں نے سُنا ہے کہ ایک دفعہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا کبھی حضور کو بھی ریا پیدا ہوتا ہے حضور نے فرمایا اگر آپ چار پایوں کے اندر کھڑے ہوں تو کیا آپ کو ریا پیدا ہو ؟پھر فرمایا کہ ریا تو اپنی جنس میں ہوتا ہے ۔مطلب یہ کہ انبیاء اپنے روحانی کمال کی وجہ سے گویا دوسرے لوگوں کی جنس سے باہر ہوتے ہیں اور دنیا سے کٹ کر ان کا آسمان کے ساتھ پیوند ہو جاتا ہے ۔پس وہ اہل دنیا کے اندر ریا نہیں محسوس کرتے ۔
{ 468} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب متوطن فیض اللہ چک نے مجھ سے تحریری طور پر بیان کیا کہ میں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے سُنا ہے کہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے اگر کبھی کسی مقدمہ میں یا اور کسی طرح کسی حاکم کے سامنے جانا ہو تو جانے سے پہلے سات مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھ لینی چاہیے ۔اور سات مرتبہ اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر ’’یا عزیز‘‘ لکھ لینا چاہیے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ کامیابی دیتاہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے یہ طریق غالباً حالت استغناء عن غیر اللہ اور حالت توکل علی اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہے ۔
{ 469} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمدؐ صاحب فیض اللہ چک والے نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ فرشتوں نے جو آدم کی پیدائش کے وقت کہا تھا۔ اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآئَ (البقرۃ:۳۱) سوحضرت آدم ؑ سے تو کوئی ایسا فعل سر زد نہیں ہوا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی نظر مستقبل پر جا پڑی ہوگی ۔یعنی ان کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ آئندہ نسل آدم میں ایسے ایسے واقعات ہوں گے۔ اس سے ہمیں بعض اوقات خیال آتا ہے کہ یہ جو ہمارے بعض مخالف کہتے ہیں کہ ان کو ہمارے خلاف الہام ہوا ہے ممکن ہے کہ یہ بھی جھوٹے نہ ہوں اور کسی آئندہ کے زمانہ میں ہمارے سلسلہ میں بعض خرابیاں پیدا ہو جائیں جیسا کہ بعد زمانہ سے ہر امّت میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مخالفوں کے الہام کا سچا یا جھوٹا ہونا تو الگ سوال ہے ۔لیکن حضرت صاحب کی احتیاط اور حسن ظنی کمال کو پہنچی ہوئی ہے ۔جس سے بڑھ کر ممکن نہیں ۔ایک طرف مخالفین ہیں جو ہزار ہانشانات دیکھ کر اور سینکڑوں دلائل و براہین کا مطالعہ کر کے پھر بھی جھوٹا اور مفتری کہتے چلے جاتے ہیں اوردوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ ہیں کہ باوجود اس یقین کامل کے کہ آپ حق پر ہیں اور آپ کے مخالفین سراسر باطل پرہیں ۔آپ ان کے متعلق حسن ظنی کا دامن نہیں چھوڑتے اور جھوٹا کہنے سے تامل فرماتے ہیں اسی قسم کا منظر آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی میں بھی نظرآتا ہے ۔ابن صیاد جس کے متعلق بعض صحابہ نے یہاں تک یقین کر لیا تھا کہ وہ دجا ل ہے وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے آتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ مجھے خدا کا رسول نہیں مانتے ؟ آپ جواب میں یہ نہیں فرماتے کہ تو جھوٹا ہے بلکہ یہ فرماتے ہیں کہ میں تو خدا کے سارے رسولوں کو مانتا ہوں ۔اللہ اللہ ۔اللہ اللہ کیا شان دلربائی ہے ۔
{ 470} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی کے مندرجہ ذیل واقعات ذیل کے سنین میں وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔واللّٰہ اعلم۔
۱۸۳۶ء یا ۱۸۳۷ء ۔ ولادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۱۸۴۲ء یا ۱۸۴۳ئ۔ ابتدائی تعلیم از منشی فضل الٰہی صاحب۔
۱۸۴۶ء یا ۱۸۴۷ئ۔ صرف و نحو کی تعلیم از مولوی فضل احمد صاحب۔
۱۸۵۲ء یا ۱۸۵۳ء ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی پہلی شادی( غالباً)۔
۱۸۵۳ء یا ۱۸۵۴ئ۔ نحو و منطق و حکمت و دیگر علوم مروجہ کی تعلیم از مولوی گل علی شاہ صاحب اور اسی زمانہ
کے قریب بعض کتب طب اپنے والد ماجد سے۔
۱۸۵۵ء یا ۱۸۵۶ئ۔ ولادت خان بہادر مرزا سلطان احمد ؐ صاحب (غالباً)۔
۱۸۵۷ء یا ۱۸۵۸ئ۔ ولادت مرزا فضل احمد (غالباً)۔
۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ئ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رؤیا میں آنحضرت ﷺ کی زیارت اور اشارات
ماموریت۔
۱۸۶۴ ء تا ۱۸۶۸ئ۔ ایام ملازمت بمقام سیالکوٹ۔
۱۸۶۸ئ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی والدہ ماجدہ کا انتقال ۔
۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ئ۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ بعض مسائل میں مباحثہ کی تیاری اور الہام ’’بادشاہ
تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘۔جو غالباً سب سے پہلا الہام ہے۔
۱۸۷۵ء یا ۱۸۷۶ئ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا آٹھ یا نو ماہ تک لگا تار روزے رکھنا۔(غالباً)
۱۸۷۶ء تعمیر مسجد اقصیٰ ۔ الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ۔اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
کے والد ماجد کاانتقال ۔
۱۸۷۷ئ۔ اخبارات میں مضامین بھیجوانے کا آغاز (غالباً) ،مقدمہ از جانب محکمہ ڈاک خانہ (غالباً)
سفر سیالکوٹ۔
۱۸۷۸ئ۔ انعامی مضمون رقمی پانچ صد روپیہ بمقابلہ آریہ سماج ۔تیاری تصنیف براہین احمدیہ (غالباً)
۱۸۷۹ئ۔ ابتداء تصنیف براہین احمدیہ واعلان طبع و اشاعت۔
۱۸۸۰ئ۔ اشاعت حصہ اوّل و دوئم براہین احمدیہ ۔
۱۸۸۲ئ۔ اشاعت حصہ سوئم بر اہین احمدیہ و الہام ما موریت ۔قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔
۱۸۸۳ئ۔ وفات مرزا غلام قادر صاحب برادر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۔
۱۸۸۴ئ۔ اشاعت حصہ چہارم براہین احمدیہ ۔اشتہار اعلان دعویٰ مجددیت و اشتہار دعوت برائے دکھانے نشان آسمانی ۔تعمیر مسجد مبارک۔حضرت مسیح موعود کے کرتے پر چھینٹے پڑنے کا نشان۔ نکاح حضرت ام المومنین بمقام دہلی۔
۱۸۸۵ئ۔ لیکھرام کاقادیان میں آنا ۔قادیان کے آریوں کے ساتھ نشان آسمانی دکھانے کی قرار داد۔
۱۸۸۶ئ۔ چلّہ ہو شیار پور ۔الہام دربارہ مصلح موعود ۔مناظرہ ماسٹر مرلی دھر بمقام ہو شیار پور ۔ولادت عصمت ۔ تصنیف و اشاعت سرمہ چشم آریہ ۔
۱۸۸۷ئ۔ تصنیف و اشاعت شحنہ حق ۔ولادت بشیر اوّل۔
۱۸۸۸ئ۔ پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ ہو شیار پوری و نکاح محمدی بیگم ۔وفات بشیر اوّل۔اشتہار اعلان
بیعت ۔
۱۸۸۹ئ۔ ولادت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ثانی ۔بیعت اولیٰ بمقام لدھیانہ ۔سفر علیگڑھ
۱۸۹۰ئ۔ تصنیف فتح اسلام و توضیح مرام ۔
۱۸۹۱ئ۔ سفر لدھیانہ ۔اشاعت فتح اسلام و تو ضیح مرام ۔اعلان دعویٰ مسیحیت ۔دعوت مباحثہ بنام مخالف علماء ۔ مناظرہ مولوی محمد حسین بٹالوی بمقام لدھیانہ (الحق لدھیانہ)سفر دہلی ۔تیاری مناظرہ مولوی نذیر حسین دہلوی بمقام جامع مسجد دہلی ۔ مناظرہ مولوی محمد بشیربھو پالوی بمقام دہلی (الحق دہلی)سفر پٹیالہ ۔ولادت شوکت ۔وفات عصمت ۔تصنیف و اشاعت ازالہ اوہام ۔اعلان دعویٰ مہدویت طلاق زوجہ اوّل ۔فتویٰ کفر ۔تصنیف واشاعت آسمانی فیصلہ ۔پہلا سالانہ جلسہ۔
۱۸۹۲ئ۔ سفر لاہور۔مناظرہ مولوی عبد الحکیم کلا نوری بمقام لاہور ۔سفر سیالکوٹ۔ سفر جالندھر۔وفات شوکت۔تصنیف و اشاعت نشان آسمانی ۔موت مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری ۔ابتداء تصنیف آئینہ کمالات اسلام۔
۱۸۹۳ئ۔ بقیہ تصنیف و اشاعت آئینہ کمالات اسلام ۔قادیان میں پریس کاقیام۔ دعوت مباہلہ بنام مخالفین مخالفین کو آسمانی نشان دکھانے کی دعوت ۔لیکھرام کے متعلق پیشگوئی میعادی چھ سال۔عربی میں مقابلہ کی دعوت ۔تصنیف و اشاعت برکات الدعائ۔ولا دت خاکسار مرزا بشیر احمد۔تصنیف و اشاعت حجۃ الاسلام وسچائی کا اظہار ۔مناظرہ آتھم بمقام امرتسر و پیشگوئی در بارہ آتھم (جنگ مقدس)مباہلہ عبد الحق غزنوی بمقام امرتسر ۔تصنیف و اشاعت تحفہ بغداد و کرامات الصادقین و شہادۃ القرآن۔
۱۸۹۴ء تصنیف و اشاعت حمامۃ البشریٰ ۔نشان کسوف و خسوف ۔تصنیف و اشاعت نور الحق و اتمام الحجۃو سر الخلافہ پیشگوئی آتھم کی میعاد گذر جانے اور آتھم کے بوجہ رجوع الی الحق کے نہ مرنے پر مخالفین کا شور و استہزاء اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طرف سے جوابی اشتہارات۔ تصنیف و اشاعت انوار الاسلام ۔
۱۸۹۵ء ولادت مرزا شریف احمد صاحب ۔تصنیف منن الرحمٰن ۔اس تحقیق کے متعلق کہ عربی ام الالسنہ ہے تصنیف و اشاعت نور القرآن ۔سفر ڈیرہ بابا نانک ۔تصنیف و اشاعت ست بچن ۔بابا نانک علیہ الرحمۃ کے مسلمان ہونے کی تحقیق کا اعلان ۔مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر واقع سری نگر کی تحقیق کا اعلان ۔تصنیف و اشاعت آریہ دھرم۔
۱۸۹۶ء تحریک تعطیل جمعہ ۔ موت آتھم ۔ابتدا تصنیف انجام آتھم۔تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی۔ نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور۔
۱۸۹۷ء اشاعت انجام آتھم ۔ مخالف علماء کو نام لے لے کر مباہلہ کی دعوت ۔موت لیکھرام ۔ولادت مبارکہ بیگم ۔ تلاشی مکانات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ۔تصنیف واشاعت استفتاء و سراج منیر و تحفہ قیصریہ ۔و حجۃ اللہ و محمود کی آمین و سراج الدین عیسائی کے سوالوں کا جواب ۔قادیان میں ترکی قونسل کی آمد۔مقدمہ اقدام قتل منجانب پادری مارٹن کلارک ۔مقدمہ انکم ٹیکس ۔الحکم کا اجراء امرتسر سے۔سفر ملتان برائے شہادت ۔میموریل بخدمت وائسرائے ہند برائے اصلاح مذہبی مناقشات ۔ ابتدائی تصنیف کتاب البریّہ۔ تجویز قیام مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان۔
۱۸۹۸ء قیام مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان ۔اشاعت کتاب البریّہ ۔پنجاب میں طاعون کے پھیلنے کی پیشگوئی ۔الحکم کا اجراء قادیان سے ۔تصنیف فریاد درد۔تصنیف واشاعت ضرورۃ الامام ۔تصنیف نجم الہدٰے۔تصنیف و اشاعت راز حقیقت و کشف الغطاء ۔جماعت کے نام رشتہ ناطہ اور غیر احمدیوں کی امامت میں نماز پڑھنے کے متعلق احکام۔تصنیف ایام الصلح ۔
۱۸۹۹ء اشاعت ایام الصلح ۔مقدمہ ضمانت برائے حفا ظت امن منجانب مولوی محمد حسین بٹالوی ۔تصنیف و اشاعت حقیقۃ المہدی۔ تصنیف مسیح ہندوستان میں ۔ولادت مبارک احمد۔تصنیف و اشاعت ستارہ قیصرہ۔جماعت میں عربی کی تعلیم کے لئے سلسلہ اسباق کا جاری کرنا ۔تصنیف تریاق القلوب ۔
۱۹۰۰ء مسجد مبارک کے رستہ میں مخالفین کی طرف سے دیوار کا کھڑا کر دیا جانا ۔تصنیف تحفہ غزنویّہ ۔خطبہ الہامیہ بر موقع عید الاضحی۔بشپ آف لاہور کو مقابلہ کا چیلنج۔تجویز عمارت منارۃالمسیح ۔فتویٰ ممانعت جہاد۔تصنیف و اشاعت رسالہ جہاد ۔ تصنیف لجۃ النور۔ابتداتصنیف تحفہ گولڑویہ ۔ تصنیف و اشاعت اربعین۔جماعت کا نام احمدی رکھا جانا۔
۱۹۰۱ء بقیہ تصنیف تحفہ گو لڑویہ ۔تصنیف خطبہ الہامیہ ۔تصنیف و اشاعت اعجاز المسیح ۔بشیر و شریف و مبارکہ کی آمین۔مقدمہ دیوار وہدم دیوار۔
۱۹۰۲ء رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو انگریزی کا اجرائ۔تصنیف و اشاعت دافع البلاء والہدٰے ۔تصنیف نزول المسیح۔اشاعت تحفہ گولڑویہ و تحفہ غزنویہ ۔و خطبہ الہامیہ و تریاق القلوب ۔البدر کا قادیان سے اجراء ۔نکاح خاکسار مرزا بشیر احمد۔نکاح و شادی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ۔تصنیف و اشاعت کشتی نوح و تحفہ ندوہ ۔مناظرہ مابین مولوی سیّد سرور شاہ صاحب و مولوی ثناء اللہ امرتسر ی بمقام مُدّ ضلع امرتسر۔تصنیف و اشاعت اعجاز احمدی وریویوبر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ۔ مولوی ثنا اللہ کا قادیان آنا۔
۱۹۰۳ء تصنیف و اشاعت مواہب الرحمٰن ۔سفر جہلم برائے مقدمہ مولوی کرم دین ۔تصنیف و اشاعت نسیم دعوت وسناتن دھرم ۔منارۃ المسیح کی بنیادی اینٹ کا رکھا جانا۔طاعون کا پنجاب میں زور اور بیعت کی کثرت کا آغاز۔ولادت امۃ النصیر ۔ مقدمہ مولوی کرم دین گورداسپورمیں۔شہادت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید بمقام کابل۔تصنیف و اشاعت تذکرۃالشہادتین و سیرۃ الابدال۔ وفات امۃ النصیر۔
۱۹۰۴ء مقدمہ مولوی کرم دین گورداسپورمیں ۔سفر لاہور اور لیکچر لاہور۔سفر سیالکوٹ اور لیکچر سیالکوٹ۔ اعلان دعویٰ مثیل کرشن۔ولادت امۃ الحفیظ بیگم ۔فیصلہ مقدمہ مولوی کرم دین ماتحت عدالت میں
۱۹۰۵ء مقدمہ مولوی کرم دین کا فیصلہ عدالت اپیل میں ۔بڑا زلزلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا باغ میں جاکر قیام کرنا۔تصنیف براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔البدر کا بدر میں تبدیل ہونا۔وفات حضرت مولوی عبد الکریم صاحب۔وفات مولوی برہان الدین صاحب جہلمی۔تجویز قیام مدرسہ احمدیہ قادیان۔سفر دہلی و قیام لدھیانہ وامرتسر و لیکچر ہر دو مقامات۔الہامات قرب وصال۔تصنیف و اشاعت الوصیت ۔تجویز قیام مقبرہ بہشتی ۔
۱۹۰۶ء اشاعت ضمیمہ الوصیت ۔ابتداانتظام بہشتی مقبرہ۔قیام صدر انجمن احمدیہ قادیان۔تصنیف و اشاعت چشمہ مسیحی۔تصنیف تجلیات الہٰیہ۔شادی خاکسار مرزا بشیر احمد۔ولادت نصیر احمدپسر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی۔ تشحیذالاذہان کا اجرائ۔
۱۹۰۷ء تصنیف و اشاعت قادیان کے آریہ اور ہم۔ ہلاکت اراکین اخبار شبھ چنتک قادیان۔ ہلاکت ڈوئی ہلاکت سعد اللہ لدھیانوی ۔ تصنیف و اشاعت حقیقۃ الوحی۔ ولادت امۃ السلام دختر خاکسار مرزا بشیر احمد۔ نکاح مبارک احمد۔وفات مبارک احمد۔ توسیع مسجد مبارک ۔ نکاح مرزا شریف احمد۔ نکاح مبارکہ بیگم۔جلسہ وچھووالی لاہور و مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
۱۹۰۸ء تصنیف و اشاعت چشمہ معرفت ۔فنانشل کمشنر پنجاب کا قادیان آنااور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات۔سفر لاہور۔رؤسا کو تبلیغ بذریعہ تقریر۔تصنیف لیکچر پیغام صلح۔الہام دربارہ قرب وصال۔وصال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بمقام لاہور۔قیام خلافت و بیعت خلافت بمقام قادیان ۔تدفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
{ 471} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل شائع ہواتو اس پر ایک طویل تنقیدی مضمون ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے پیغام صلح لاہور میں شائع ہواتھا۔جس میں بعض اصولی اعتراض سیرۃالمہدی حصہ اوّل کے متعلق کئے گئے تھے اور بعض روایات پر تفصیلی جرح بھی کی گئی تھی۔اس مضمون کا جواب میری طرف سے گذشتہ سال الفضل میں شائع ہوا۔جس میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے جملہ اصولی اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔اور بعض تفصیلی اعتراضات کا جواب بھی لکھا گیا تھا۔لیکن پیشتر اس کے کہ میں ڈاکٹر صاحب کے سارے اعتراضات کا جواب ختم کرتا ۔مجھے اس سلسلہ مضمون کو بعض ناگزیر وجوہات سے درمیان میں چھوڑنا پڑا ۔اب بعض دوستوں کی تحریک پر میں اس جگہ ڈاکٹر صاحب کے اصولی ا عتراضات کا جواب درج کرتا ہوں اور تفصیلی اعتراضات کے متعلق صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ ان کا جواب کچھ تو الفضل میں شائع ہو چکا ہے ۔کچھ سیرۃ المہدی کے موجودہ حصہ یعنی حصہ دوئم میںمتفرق طور پر آگیا ہے اورکچھ اگر ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ پھر کسی موقعہ پربیان کر دیا جاوے گا۔
کچھ عرصہ ہوا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات میں ایک کتاب سیرۃ المہدی حصہ اوّل شائع کی تھی۔اس کتاب کی تصنیف کے وقت میرے دل میں جو نیت تھی اُسے صرف میں ہی جانتا ہوں یا مجھ سے بڑھ کر میرا خدا جانتا ہے ۔جس سے کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں اور مجھے اس وقت یہ وہم وگمان تک نہ تھا کہ کوئی احمدی کہلانے والا شخص اس کتاب کو اس معاندانہ نظر سے دیکھے گا ۔جس سے کہ بعض غیرمبائعین نے اسے دیکھا ہے ۔مگر اس سلسلہ مضامین نے جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی طرف سے گذشتہ ایام میں پیغام صلح لاہور میں شائع ہوتا رہا ہے ۔میری امیدوں کو ایک سخت نا گوار صدمہ پہنچایا ہے۔ جرح وتنقید کا ہر شخص کو حق پہنچتا ہے اور کوئی حق پسند اور منصف مزاج آدمی دوسرے کی ہمدردانہ اور معقول تنقید کو نا پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔بلکہ دراصل یہ ایک خوشی کا مقام ہوتا ہے ۔کیونکہ اس قسم کی بحثیں جو نیک نیتی کے ساتھ معقول طور پر کی جائیں ۔طرفین کے علاوہ عام لوگوں کی بھی تنویر کا موجب ہوتی ہیں۔کیونکہ اس طرح بہت سے مفید معلومات دنیا کے سامنے آجاتے ہیں ۔اور چونکہ طرفین کی نیتیں صاف ہوتی ہیںاور سوائے منصفانہ علمی تنقید کے اور کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ اس لئے ایسے مضامین سے وہ بد نتائج بھی پیدا نہیں ہوتے ۔جو بصورت دیگر پیدا ہونے یقینی ہوتے ہیں مگر مجھے بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کامضمون اس شریفانہ مقام تنقید سے بہت گرا ہوا ہے میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کی نیت پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اس افسوس ناک حقیقت کو بھی چھپایا نہیں جا سکتاکہ ڈاکٹر صاحب کے طویل مضمون میں شروع سے لیکر آخر تک بغض و عداوت کے شرارے اُڑتے نظر آتے ہیں ۔اور ان کے مضمون کا لب و لہجہ نہ صرف سخت دل آزار ہے بلکہ ثقاہت اور متانت سے بھی گرا ہوا ہے ۔ جابجا تمسخر آمیز طریق پر ہنسی اُڑائی گئی ہے ۔اور عامی لوگوں کی طرح شوخ اور چست اشعار کے استعمال سے مضمون کے تقدس کوبری طرح صدمہ پہنچایا گیا ہے ۔مجھے اس سے قبل ڈاکٹر صاحب کی کسی تحریر کے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہواتھا اور حق یہ ہے کہ باوجود عقیدہ کے اختلاف کے میں آج تک ڈاکٹر صاحب کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا۔مگر اب مجھے بڑے افسوس کے ساتھ اس رائے میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔مجھے یاد نہیں کہ میری ذات کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو آج تک کبھی کوئی وجہ شکایت کی پیدا ہوئی ہو ۔پس میں ڈاکٹر صاحب کے اس رویہ کو اصولِ انتقام کے ماتحت لا کر بھی قابل معافی نہیں سمجھ سکتا۔میں انسان ہوں۔ اور انسانوں میں سے بھی ایک کمزور انسان ۔اور مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میری رائے یا تحقیق غلطی سے پا ک ہوتی ہے اور نہ ایسا دعوٰی کسی عقل مند کے منہ سے نکل سکتا ہے ۔میں نے اس بات کی ضرورت سمجھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جلد ضبط تحریر میں آجانے چاہئیں ۔محض نیک نیتی کے طور پر سیرت المہدی کی تصنیف کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اگر اس میں مَیں نے غلطی کی ہے یا کوئی دھوکہ کھایا ہے تو ہر شخص کا حق ہے کہ وہ مجھے میری غلطی پر متنبہ کرے تاکہ اگر یہ اصلاح درست ہوتو نہ صرف میں خود آئندہ اس غلطی کے ارتکاب سے محفوظ ہو جاؤں ۔بلکہ دوسرے لوگ بھی ایک غلط بات پر قائم ہونے سے بچ جائیں ۔لیکن یہ کسی کو حق نہیں پہنچتاکہ وہ بلا وجہ کسی کی نیت پر حملہ کرے ۔اور ایک نہایت درجہ دل آزار اور تمسخر آمیز طریق کو اختیار کر کے بجائے اصلاح کرنے کے بغض و عداوت کا تخم بوئے۔ اس قسم کے طریق سے سوائے اس کے کہ دلوںمیں کدورت پیدا ہو اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے زور قلم کا بہت نامناسب استعمال کیا ہے جسے کسی مذہب و ملّت کا شرافت پسند انسان بھی نظر استحسان سے نہیں دیکھ سکتا۔
میں ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے مختلف عبارتیں نقل کر کے ان کے اس افسوس نا ک رویہ کو ثابت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن بعد میں مجھے خیال آیاکہ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب ان عبارتوں کو نقل کر کے مزید بد مزگی پیدا کرنے سے کیا حاصل ہے۔پس میری صرف خدا سے ہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ میرے ان الفاظ کو نیک نیتی پر محمول سمجھ کے اپنے طرزتحریر میں آئندہ کے لئے اصلاح کی طرف مائل ہوں اور ساتھ ہی میری خدا سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ میرے نفس کی کمزوریوں کو بھی عام اس سے کہ وہ میرے علم میں ہوں یا مجھ سے مخفی ہوں دور فر ما کر مجھے اپنی رضا مندی کے رستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔اللّھم آمین۔
اصل مضمون شروع کرنے سے قبل مجھے ایک اور بات بھی کہنی ہے اور وہ یہ کہ علاوہ دل آزار طریق اختیار کرنے کے ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں غیر جانبدارانہ انصاف سے بھی کا م نہیں لیا۔ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ تنقید کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ جس کتاب پر ریویو کرنے لگا ہے ۔اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالے ۔یعنی اچھی اور بری دونوں باتوں کو اپنی تنقید میں شامل کر کے کتاب کے حسن و قبح کا ایک اجمالی ریویولوگوں کے سامنے پیش کرے ۔تاکہ دوسرے لوگ اس کتاب کے ہر پہلو سے آگاہی حاصل کرسکیں۔ یہ اصول دنیا بھر میں مسلم ہیں ۔ اور اسلام نے تو خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا ہے چنانچہ یہود و نصارٰی کے باہمی تنازع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ لَیْسَتِ النَّصَارٰ ی عَلٰی شَیْئٍ وَقَالَتِ النَّصَارٰی لَیْسَتِ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْ ئٍ وَّھُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰب۔(سورۃ البقرۃ:۱۱۴)یعنی یہود و نصارٰے ایک دوسرے کے خلاف عداوت میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے محاسن ان کو نظر ہی نہیں آتے اور یہود یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ نصارٰی میں کوئی خوبی نہیں ہے اور نصارٰے یہ کہتے ہیں کہ یہود تمام خوبیوں سے معرّا ہیں ۔ حالانکہ دونوں کو کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیے کہ تورات اور نبیوں پر ایمان لانے میں وہ دونوں ایک دوسرے کے شریک حال ہیں ۔پھر فرماتا ہے ۔ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ:۹) یعنے کسی قوم کی عداوت کا یہ نتیجہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان انصاف کو ہاتھ سے دے دے کیونکہ بے انصافی تقوٰی سے بعید ہے اورپھر عملاً بھی قرآن شریف نے اسی اصول کو اختیار کیا ہے ۔چنانچہ شراب وجوئے کے متعلق اجمالی ریویو کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ فِیْھِمَا اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا (البقرۃ:۲۲۰) یعنی شراب اور جوئے میں لوگوں کے لئے بہت ضرر اور نقصان ہے۔مگر ان کے اندر بعض فوائد بھی ہیںلیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں ۔کیسی منصفانہ تعلیم ہے۔جو اسلام ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے اس زرّیں اصول کو نظر انداز کر کے اپنا فرض محض یہی قرار دیا ہے کہ صرف ان باتوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے جو ان کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔میں ڈاکٹر صاحب سے امانت و دیانت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا میری کتاب میں ان کو کوئی بھی ایسی خوبی نظر نہیںآئی جسے وہ اپنے اس طویل مضمون میں بیان کرنے کے قابل سمجھتے؟ کیا میری تصنیف بلا استثناء محض فضول اور غلط اور قابل اعتراض باتوں کا مجموعہ ہے؟کیا سیرۃ المہدی میں کوئی ایسی نئی اور مفید معلومات نہیں ہیں ۔جنھیں اس پر تنقید کرتے ہوئے قابل ذکر سمجھا جاسکتاہے؟اگر ڈاکٹر صاحب کی دیانتداری کے ساتھ یہی رائے ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں کوئی بھی ایسی خوبی نہیں جو بوقت ریویو قابل ذکر خیال کی جائے ۔تو میں خاموش ہو جائوں گا لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی تنقید انصاف اور دیانت داری پر مبنی نہیں ہے اسلام کے اشد ترین دشمن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی عداوت میں عموماً کسی چیز کی بھی پروا نہیں کر تے ۔آپ کی ذات والا صفات پر ریویو کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لیتے ہیں کہ کم از کم دکھاوے کیلئے ہی آپ کی بعض خوبیاں بھی ذکر کر دی جائیں تاکہ عامۃ الناس کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ ریویو محض عداوت پر مبنی ہے ۔اور لوگ ان کی تنقید کو ایک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تنقید خیال کر کے دھوکہ میں آجائیں ۔لیکن نہ معلوم میں نے ڈاکٹر صاحب کا کونسا ایسا سنگین جر م کیا ہے جس کی وجہ سے وہ میرے خلاف ایسے غضبناک ہو گئے ہیں کہ اور نہیں تو کم از کم اپنے مضمون کو مقبول بنا نے کیلئے ہی ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ جہاں اتنے عیوب بیان کئے ہیں وہاں دو ایک معمولی سی خوبیاں بھی بیان کر دی جائیں ۔
مضمون تو اس عنوان سے شروع ہوتا ہے کہ ’’ سیرۃ المہدی پر ایک نظر‘‘مگر شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائو۔سوائے عیب گیری اور نقائص اور عیوب ظاہر کرنے کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔’’گویا یہ نظر‘‘ عدل و انصاف کی نظر نہیں ہے۔جسے حسن و قبح سب کچھ نظر آنا چاہیے ۔بلکہ عداوت اور دشمنی کی نظر ہے ۔جو سوائے عیب اور نقص کے اور کچھ نہیں دیکھ سکتی ۔مکرم ڈاکٹر صاحب ! کچھ وسعت حوصلہ پیدا کیجئے او ر اپنے دل و دماغ کوا س بات کا عادی بنایئے کہ وہ اس شخص کے محاسن کا بھی اعتراف کر سکیں ۔جسے آپ اپنا دشمن تصّور فرماتے ہوں ۔میں نے یہ الفاظ نیک نیتی سے عرض کئے ہیں اور خدا شاہد ہے کہ میں تو آپ کا دشمن بھی نہیں ہوں ۔گو آپ کے بعض معتقدات سے مجھے شدید اختلاف ہے ۔
اس کے بعد میں اصل مضمون کی طرف متوجہ ہو تا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں چند اصولی باتیں لکھی ہیں جو ان کی اس رائے کا خلاصہ ہیں ۔جو انہوں نے بحیثیت مجموعی سیرۃ المہدی حصہ اول کے متعلق قائم کی ہے سب سے پہلی بات جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کی ہے ۔وہ یہ ہے کہ کتاب کا نام سیرۃ المہدی رکھنا غلطی ہے کیونکہ وہ سیرۃ المہدی کہلانے کی حقدارہی نہیں ۔زیادہ تر یہ ایک مجموعہ روایات ہے جن میں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن کا سیرۃ سے کوئی تعلق نہیں ۔اس اعتراض کے جواب میں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک تنقید کر نے والے کے فرض کو پورا نہیں کیا ۔ناقد کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ جس کتاب یا مضمون کے متعلق تنقید کرنے لگے پہلے اس کتاب یا مضمون کا کماحقہ مطالعہ کر لے ۔تا کہ جو جرح وہ کرنا چاہتا ہے اگر اس کا جواب خود اسی کتاب یا مضمون کے کسی حصہ میں آگیا ہو تو پھر وہ اس بے فائدہ تنقید کی زحمت سے بچ جاوے اور پڑھنے والوں کا بھی وقت ضائع نہ ہو ۔مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے تنقید کے شوق میں اپنے اس فرض کو بالکل نظرا نداز کر دیا ہے۔اگروہ ذرا تکلیف اُٹھا کر اس ’’ عرض حال‘‘ کو پڑھ لیتے جو سیرۃ المہدی کے شروع میں درج ہے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ ان کا اعتراض پہلے سے ہی میرے مدنظر ہے اور میں اصولی طور پر اس اعتراض کا جواب دے چکا ہوں ۔چنانچہ سیرۃ المہدی کے عرض حال میں میرے یہ الفاظ درج ہیں ’’بعض باتیں اس مجموعہ میں ایسی نظر آئیں گی جن کو بظاہر حضرت مسیح موعود کی سیرۃ یا سوانح سے کو ئی تعلق نہیں لیکن جس وقت استنباط و استدلال کا وقت آئے گا (خواہ میرے لئے یا کسی اور کیلئے ) اس وقت غالباً وہ اپنی ضرورت خود منوا لیں گی ۔‘‘ میرے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میں نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کتاب میں بعض ایسی روایتیں درج ہیں جن کا بادی النظر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت سے تعلق نہیں ہے لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ظاہر کیا جا سکتا ہے ۔پس میری طرف سے اس خیال کے ظاہر ہو جانے کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض کو پیش کرنا سوائے اس کے اور کیا معنے رکھتاہے کہ ڈاکٹر صاحب کو صرف بہت سے اعتراض جمع کر دینے کا شوق ہے۔ میں جب خود مانتا ہوں کہ سیرۃ المہدی میں بعض بظاہر لا تعلق روایات درج ہیں ۔اور اپنی طرف سے اس خیال کو ضبط تحریر میں بھی لے آیاہوں ۔تو پھر اس کو ایک نیا اعتراض بنا کر اپنی طرف سے پیش کرنا انصاف سے بعید ہے ۔او رپھر زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کا اپنے ریویو میں ذکر تک نہیں کیا ۔ورنہ انصاف کا یہ تقاضا تھا کہ جب انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا تو ساتھ ہی میرے وہ الفاظ بھی درج کردیتے جن میں میں نے خود اس اعتراض کو پیدا کر کے اس کا اجمالی جواب دیا ہے ۔اور پھر جو کچھ جی میں آتا فرماتے۔مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے الفاظ کا ذکر تک نہیں کیا ۔اور صرف اپنی طرف سے یہ اعتراض پیش کر دیا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ تنقید صرف ان کی حدت نظر اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے ۔اور اعتراضات کے نمبرکا اضافہ مزید برآں رہے۔افسوس ! اور پھر یہ شرافت سے بھی بعید ہے کہ جب میں نے یہ صاف لکھ دیا تھا کہ استدلال و استنباط کے وقت ان روایات کا تعلق ظاہر کیا جائے گا ۔تو ایسی جلد بازی سے کام لے کر شور پیدا کر دیا جاوے ۔اگر بہت ہی بے صبری تھی تو حق یہ تھا کہ پہلے مجھے تحریر فرماتے کہ تمہاری فلاں فلاں روایت سیر ۃ سے بالکل بے تعلق ہے اور کسی طرح بھی اس سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ پر روشنی نہیں پڑتی ۔اور پھر اگر میں کوئی تعلق ظاہر نہ کر سکتا تو بے شک میرے خلاف یہ فتویٰ شائع فرمادیتے کہ اس کی کتاب سیرۃ کہلانے کی حقدار نہیں کیونکہ اس میں ایسی روایات آگئی ہیں جن کا کسی صورت میں بھی سیرت کے ساتھ کو ئی واسطہ نہیں ہے ۔
دوسرا جواب اس اعتراض کا میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن کا واقعی سیرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر بھی کتاب کا نام سیرۃ رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب کم از کم اس بات کو ضرور تسلیم کریں گے کہ سیرۃ المہدی میں زیادہ تر روایات وہی ہیں جن کا سیرت کے ساتھ تعلق ہے ۔پس اگر ان کثیر التعداد روایات کی بنا پر کتا ب کا نام سیرۃ رکھ دیا جاوے تو قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔اور کم از کم یہ کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب جائے اعتراض گردان کر اسے اپنی تنقید میں جگہ دیتے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وجود باجود ہر مخلص احمدی کیلئے ایسا ہے کہ خواہ نخواہ طبیعت میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے متعلق جو کچھ بھی ہمارے علم میں آجاوے وہی کم ہے اور جذبہ محبت کسی بات کو بھی جو آپ کے ساتھ تعلق رکھتی ہو۔ لاتعلق کہہ کر نظر انداز نہیں کر نے دیتا۔ پس اگر میرا شوق مجھے کہیں کہیں لاتعلق باتوں میں لے گیا ہے توا س خیال سے کہ یہ باتیں بہر حال ہیں تو ہمارے آقا ہماری جان کی راحت اور ہماری آنکھوں کے سرور حضرت مسیح موعود ؑ ہی کے متعلق ۔میر ایہ علمی جرم اہل ذوق اور اہل اخلاص کے نزدیک قابل معافی ہونا چاہیے ۔ مگر ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ محبت کے میدان میں بھی خشک فلسفہ اور تدوین علم کی باریکیوں کو راہ دینا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے ۔مگر تاریخ عالم اور صحیفہ فطرت کے مطالعہ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ جذبۂ محبت ایک حد تک ان سخت قیود سے آزاد سمجھا جانا چاہیے ۔آپ اشعار کا شوق رکھتے ہیں ۔یہ شعر تو آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ ؎
خلق میگوید کہ خسرو بت پرستی میکند
آرے آرے میکنم باخلق و عالم کا ر نیست
بس یہی میرا جواب ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ بھی فرماتے ہیں ۔ ؎
تانہ دیوانہ شدم ہوش نیا مد بسرم
اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احساں کر دی
پس جوش محبت میں ہمارا تھوڑا سا دیوانہ پن کسی احمدی کہلانے والے پر گراں نہیں گذرنا چاہیے ۔
تیسرا جواب اس اعتراض کا میری طرف سے یہ ہے کہ میں نے خود اس کتاب کے آغاز میں اپنی اس کتاب کی غرض و غایت لکھتے ہوئے یہ لکھ دیا تھا کہ اس مجموعہ میں ہر ایک قسم کی وہ روایت درج کی جاوے گی جس کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ کسی نہ کسی قسم کا تعلق ہے ۔چنانچہ کتاب کے شروع میں میری طرف سے یہ الفاظ درج ہیں ’’ میرا ارادہ ہے ۔واللہ الموفق، کہ جمع کر دوں اس کتاب میں تمام و ہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق تحریر فر مائی ہیں اور جو دوسرے لوگوں نے لکھی ہیں ۔نیز جمع کروں تما م وہ زبانی روایات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مجھے پہنچی ہیں یا جو آئندہ پہنچیں ۔اور نیز وہ باتیں جو میرا ذاتی علم اور مشاہدہ ہیں ‘‘ میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ان الفاظ کے ماتحت مجھے اپنے دائرہ عمل میں ایک حد تک وسعت حاصل ہے ۔اور دراصل منشاء بھی میرا یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو بھی قابل ذکر بات مجھے پہنچے میں اسے درج کر دوں تاکہ لوگوں کے استمتاع کا دائرہ وسیع ہو جاوے ۔اور کوئی بات بھی جو آپ کے متعلق قابل بیان ہو ذکر سے نہ رہ جائے کیونکہ اگر اسوقت کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے رہ گئی تو بعد میں وہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی ۔اور نہ بعد میں ہمارے پاس اسکی تحقیق اور جانچ پڑتال کا کوئی پختہ ذریعہ ہوگا ۔مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ان الفاظ کو جو میںنے اسی غرض کو مدنظر رکھ کر لکھے تھے بالکل نظر انداز کر کے خواہ نخواہ اعتراضات کی تعداد بڑھانے کیلئے میرے خلاف ایک الزام دھر دیا ہے ۔
چوتھا اور حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے لفظ سیرۃ کے مفہوم پر غور نہیں کیا اور اسکے مفہوم کو ایک بہت ہی محدود دائرہ میں مقید سمجھ کر مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنا لیا ہے ۔اگر ڈاکٹر صاحب سیرۃ کی مختلف کتب کا مطالعہ فرما ویں ۔خصوصاً جو کتب متقدمین نے سیرۃ میں لکھی ہیں ۔انہیں دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہو جائے گا کہ سیرۃ کالفظ نہایت وسیع معنوں میں لیا جاتا ہے ۔دراصل سیرۃ کی کتب میں تمام وہ روایات درج کر دی جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس شخص سے تعلق رکھتی ہوں ۔جس کی سیرت لکھنی مقصود ہو تی ہے ۔مثلاً سیرۃ ابن ہشام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں ایک نہایت ہی مشہور اور متد ا ول کتاب ہے ۔اور میں امید کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اس کاضرور مطالعہ کیا ہوگا۔لیکن اسے کھول کر اوّل سے آخر تک پڑھ جاویں ۔ اس میں سینکڑوں ایسی باتیں درج ملیں گی جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہ راست بلا واسطہ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن چونکہ بالواسطہ طورپر وہ آپ کے حالات زندگی پر اور آپ کی سیرت و سوانح پر اثر ڈالتی ہیں ۔ اس لئے قابل مصنف نے انہیں درج کردیا ہے ۔بعض جگہ صحابہ کے حالات میں ایسی ایسی باتیں درج ہیں جن کا آنحضرت ﷺ کی سیرت سے بظاہر کوئی بھی تعلق نہیں اور ایک عامی آدمی حیرت میں پڑجاتا ہے کہ نہ معلوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں یہ روایات کیوں درج کی گئی ہیں ۔لیکن اہل نظر و فکر ان سے بھی آپ کی سیرت و سوانح کے متعلق نہایت لطیف استدلالات کرتے ہیں ۔مثلاً صحابہ کے حالات ہمیںاس بات کے متعلق رائے قائم کر نے میں بہت مدد دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی صحبت اور آپ کی تعلیم و تربیت نے آپ کے متبعین کی زندگیوں پر کیا اثر پیدا کیا ۔یعنی ان کو آپ نے کس حالت میں پایا ۔اور کس حالت میں چھوڑا ۔اوریہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے کوئی عقل مند انسان آپ کی سیرۃ و سوانح کے لحاظ سے لا تعلق نہیں کہہ سکتا ۔اسی طرح مثلاً آپ کی سیرۃ کی کتب میں آپ کے آباء واجداد کے حالات اور آپ کی بعثت کے وقت آپ کے ملک و قوم کی حالت کا مفصل بیان درج ہوتا ہے جو بادی النظر میں ایک بلا تعلق بات سمجھی جاسکتی ہے ۔لیکن درحقیقت آپ کی سیرۃ و سوانح کو پوری طرح سمجھنے کیلئے ان باتو ں کا علم نہایت ضروری ہے ۔الغرض سیرۃ کا مفہوم ایسا وسیع ہے کہ اس میں ایک حد مناسب تک ہر وہ بات درج کی جاسکتی ہے جو اس شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق رکھتی ہو جس کی سیرۃ لکھی جارہی ہے بعض اوقات کسی شخص کی سیرت لکھتے ہوئے اس کے معروف اقوال اور تقریروں کے خلاصے درج کئے جاتے ہیں جن کو ایک جلد باز انسان سیرۃ کے لحاظ سے زائد و لاتعلق باتیں سمجھ سکتا ہے ۔حالانکہ کسی شخص کے اقوال وغیرہ کا علم اس کی سیرۃ کے متعلق کامل بصیرت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔پھر بعض وہ علمی نکتے اور نئی علمی تحقیقاتیں اور اصولی صداقتیں جو ایک شخص کے قلم یا منہ سے نکلی ہوں وہ بھی اس کی سیرۃ میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ وہ کس دل و دماغ کا انسان ہے ۔ اور اسکی وجہ سے دنیا کے علوم میں کیا اضافہ ہوا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے اور اس کو اسکے تنگ اور محدود دائرہ میں لے کر اعتراض کی طرف قد م بڑھادیا ہے ۔ورنہ اگر وہ ٹھنڈے دل سے سوچتے اور سیرۃ کے اس مفہوم پر غور کرتے جو اہل سیر کے نزدیک رائج و متعارف ہے تو ان کو یہ غلطی نہ لگتی ۔اور اسی وسیع مفہوم کو مد نظررکھ کر میں نے سیرۃ المہدی میں ہر قسم کی روایات درج کر دی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک صاحب بصیرت شخص ان میں سے کسی روایت کو زائد اور بے فائدہ قرار نہیں دے سکتا ۔
میں نے اس خیال سے بھی اپنے انتخاب میں وسعت سے کام لیا ہے کہ ممکن ہے اس وقت ہمیں ایک بات لا تعلق نظر آوے لیکن بعد میں آنے والے لوگ اپنے زمانہ کے حالات کے ماتحت اس با ت سے حضرت مسیح موعودؑ کی سیرۃ و سوانح کے متعلق مفید استدلالات کر سکیں ۔جیسا کہ مثلاً ابتدائی اسلامی مورخین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہر قسم کی روایات جمع کر دیں ۔اور گو اس وقت ان میں سے بہت سی روایتوں سے ان متقدمین نے کوئی استدلال نہیں کیا ۔لیکن اب بعد میں آنے والوں نے اپنے زمانہ کے حالات و ضروریات کے ماتحت ان روایات سے بہت علمی فائدہ اُٹھایاہے ۔اور مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے ان سے مدد حاصل کی ہے ۔اگر وہ لوگ ان روایات کو اپنے حالات کے ماتحت لاتعلق سمجھ کر چھوڑ دیتے تو ایک بڑا مفید خزانہ اسلام کا ضائع ہو جاتا ۔پس ہمیں بھی بعد میں آنے والوں کا خیال رکھ کر روایات کے درج کرنے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیے اور حتی الوسع کسی روایت کو محض لاتعلق سمجھے جانے کی بنا پر ردّ نہیں کردینا چاہیے ۔ہاں بے شک یہ احتیاط ضروری ہے کہ کمزور اور غلط روایات درج نہ ہوں ۔مگر جو روایت اصولِ روایت ودرایت کی رو سے صحیح قرار پائے ۔اور وہ ہوبھی حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق تو خواہ وہ آپ کی سیرۃ کے لحاظ سے بظاہر لا تعلق یا غیر ضروری ہی نظر آوے اسے ضرور درج کردینا چاہیے ۔
بہر حال میں نے روایات کے انتخاب میں وسعت سے کا م لیا ہے کیونکہ میرے نزدیک سیرۃ کا میدان ایسا وسیع ہے کہ بہت ہی کم ایسی روایات ہو سکتی ہیں جو من کل الوجوہ غیر متعلق قراد دی جاسکیں ۔اس جگہ تفصیلات کی بحث نہیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے صرف اصولی اعتراض اُٹھایا ہے اور مثالیں نہیں دیں۔ورنہ میں مثالیں دے کر بتا تا کہ سیرۃ المہدی کی وہ روایات جو بظاہر غیر متعلق نظر آتی ہیں ۔دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہرا تعلق رکھتی ہیں لیکن اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب کی تسلی نہ ہو تو میں ایک سہل علاج ڈاکٹر صاحب کیلئے پیش کر تا ہوں اور وہ یہ کہ میں سیرت ابن ہشام اور اسی قسم کی دیگر معروف کتب سیرسے چند باتیں ایسی نکال کر پیش کرونگا جن کا بظاہر آنحضرت ﷺ کی سیرۃ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا اور پھر جو تعلق ڈاکٹر صاحب موصوف ان باتوں کا آنحضرت ﷺ کی سیرۃ سے ثابت کریں گے۔ میں انشاء اللہ اتناہی بلکہ اس سے بڑھ کر تعلق سیرۃ المہدی کی ان روایات کا حضر ت مسیح موعود ؑ کی سیرت سے ثابت کردونگا جن کو ڈاکٹر صاحب غیر متعلق قرار دیں گے ۔خلاصہ کلام یہ کہ کیا بلحاظ اس کے کہ سیرت کے مفہوم کو بہت وسعت حاصل ہے ۔اور مورخین اسکو عملاً بہت وسیع معنوں میں لیتے رہے ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ ہمارے دل کی یہ آرزوہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی کوئی بات ضبط تحریر میں آنے سے نہ رہ جائے اور کیا بلحاظ اس کے کہ ممکن ہے کہ آج ہمیں ایک بات لاتعلق نظر آوے مگر بعد میں آنیوالے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں ۔اور کیا بلحاظ اس کے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں یہ بات لکھ دی تھی کہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے متعلق ہر قسم کی روایات اس مجموعہ میں درج کرنیکا ارادہ رکھتا ہوں اور کیا بلحاظ اس کے کہ میں نے خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس کتاب میں بعض روایات لاتعلق نظر آئیں گی لیکن استدلال و استنباط کے وقت ان کا تعلق ثابت کیا جا سکے گا ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس اعتراض کا حق حاصل نہیں تھا اور مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے سراسر تعدی کے ساتھ مجھے غیر منصفانہ اعتراض کا نشانہ بنا یا ہے ۔
دوسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے سیرۃ المہدی کے متعلق کیا ہے وہ یہ ہے کہ گو کتاب کے دیباچہ میں یہ لکھا گیا ہے کہ فی الحال روایات کو صرف جمع کر دیا گیا ہے اور ترتیب اور استنباط و استدلال بعد میں ہوتا رہے گا۔لیکن عملاً خوب دل کھول کر بحثیں کی گئی ہیں ۔اور جگہ بجگہ استدلال و استنباط سے کام لیا گیا ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف فرماتے ہیں ۔
’’ مصنف صاحب کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہے گا ‘‘ مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلاً براہین احمدیہ ،سیرۃ مسیح موعود ؑ مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ۔پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں اور مختلف مسائل پر خوب ’’استنباط ‘‘ و ’’استدلال‘‘ سے کام لیا ہے ۔الخ۔
اس اعتراض کے جواب میں سب سے پہلی بات جو میں کہنا چاہتا ہوں۔وہ یہ ہے کہ میں نے بہت سوچا ہے مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب کا اس اعتراض سے منشاء کیا ہے ۔یعنی وہ کون سا علمی نکتہ ہے جو اس اعتراض کے پیش کرنے سے ڈاکٹر صاحب موصوف پبلک کے سامنے لانا چاہتے ہیں ۔اگر میں نے یہ لکھا کہ ترتیب و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور بفرض محال یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ اس سے میری مراد وہی تھی جو ڈاکٹر صاحب نے قرار دی ہے ۔اور پھریہ بھی فرض کر لیا جائے۔کہ میں نے اپنے اس بیان کے خلاف سیرۃ المہدی میں استدلال و استنباط سے کام لیا ہے ۔پھر بھی میں سمجھتا ہوںکہ ڈاکٹر صاحب کو چیں بجبیں ہونے کی کوئی وجہ نہیںتھی۔اور یہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی جسے ڈاکٹر صاحب اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کرتے ۔میں اب بھی یہی کہوں گاکہ میں ڈاکٹر صاحب کی نیت کے خلاف کچھ نہیں کہنا چاہتالیکن اس قسم کی باتیں خواہ نخواہ طبیعت کو بد ظنی کی طرف مائل کر دیتی ہیں ۔ناظرین غور فرمائیں ۔کہ ایک طرف تو ڈاکٹر صاحب کو سیرۃ المہدی پر تنقید کرتے ہوئے اسکے اندر ایک خوبی بھی ایسی نظر نہیں آتی جسے وہ اپنے مضمون میں درج کرنے کے قابل سمجھ سکیں ۔اور دوسری طرف اعتراضات کے مجموعہ کودیکھا جائے تو ایسی ایسی باتیں بھی درج ہیں جن کو علمی تنقید سے کوئی بھی واسطہ نہیں اور غالباً صرف اعتراضات کی تعداد بڑھانے کے لئے ان کو داخل کر لیا گیا ہے۔کیا یہ طریق عمل انصاف و دیانت پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے ؟اگر میں نے یہ بات لکھی کہ اس کتاب میں صرف روایات جمع کر دی گئی ہیں ۔ اور استدلال بعد میں کیا جائے گا اور پھر دوران تحریر میں مَیں نے کہیں کہیں استدلال سے کام لے لیا تو میں پوچھتا ہوں کہ حرج کونسا ہو گیا ؟اور وہ کونسا خطرناک جرم ہے جس کا میں مرتکب ہوا ہوں اور جسے ڈاکٹر صاحب قابل معافی نہیں سمجھ سکتے ۔اس تبدیلی کا اگر کوئی نتیجہ ہے تو صرف یہی ہے کہ ایک زائد بات جس کا میں نے ناظرین کو وعدہ نہیں دلایا تھاایک حد تک نا ظرین کو حاصل ہوگئی ۔میں نے روایات کے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھااو وہ وعدہ میں نے پورا کیا ۔ استدلال و استنباط کی امید میں نے نہیں دلائی تھی بلکہ اسے کسی آئندہ وقت پر ملتوی کیا تھا لیکن بایں ہمہ کہیں کہیں ضرورت کو دیکھ کر یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرتا گیاہوں ۔گویا میرا جرم یہ ہے کہ جس قدر بوجھ اُٹھانے کی ذمہ داری میں نے لی تھی اس سے کچھ زیادہ بوجھ اُٹھایا ہے اور میرے اس جرم پر ڈاکٹر صاحب غضبناک ہو رہے ہیں ۔فرماتے ہیں ’’ایک طرف یہ سب بحثیں دیکھو اور دوسری طرف اس کتاب کے متعلق اس بیان کو دیکھو کہ استدلال کا وقت بعد میں آئے گا ۔تو حیرت ہو جاتی ہے ۔‘‘مکرم ڈاکٹر صاحب !بے شک آپ کو حیرت ہوتی ہوگی کیونکہ آپ کے مضمون سے ظاہر ہے کہ آپ کے سینہ میں قدر شناس دل نہیں ہے ورنہ اگر کوئی قدر دان ہوتا تو بجائے اعتراض کرنے کے شاکر ہوتا ۔
یہ تو میں نے صرف اصولی جواب دیا ہے ورنہ حقیقی جواب اس اعتراض کا یہ ہے کہ استدلال و استنباط کے متعلق میں نے جو کچھ سیرۃ المہدی میں لکھا ہے اس کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہے جو ڈاکٹر صاحب سمجھے ہیں اور میں حیران ہوں کہ ڈاکٹرصاحب نے کس طرح میری عبارت سے یہ مطلب نکال لیا ہے۔ حالانکہ اس کا سیاق و سباق صریح طور پر اس کے خلاف ہے ۔اگر ڈاکٹر صاحب جلد بازی سے کام نہ لیتے اور میری جو عبارت ان کی آنکھوں میں کھٹکی ہے اس سے کچھ آگے بھی نظر ڈال لیتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہو جاتی مگر غضب تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل میں اعتراض کرنے کا شوق ایسا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ جو نہی ان کو کوئی بات قابل گرفت نظر آتی ہے وہ اسے لے دوڑتے ہیں اور اس بات کی تکلیف گوارا نہیں کرتے کہ اس کے آگے پیچھے بھی نظر ڈال لیں ۔ میں ڈاکٹرصاحب کے اپنے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ اس طرح وہ ’’مفت میں اپنا مذاق اُڑواتے ہیں‘‘مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ طریق انصاف سے بہت بعید ہے۔ میری جس عبارت کو لے کر ڈاکٹر صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے ’’میرے نزدیک اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے متعلق جتنی بھی روائتیں جمع ہو سکیں ان کو ایک جگہ جمع کر کے محفوظ کر لیا جائے۔ ترتیب و استنباط واستدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔ کیونکہ وہ ہر وقت ہو سکتا ہے مگر جمع روایات کا کام اگر اب نہ ہواتو پھر نہ ہو سکے گا‘‘اس عبارت کو لے کر ڈاکٹرصاحب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ترتیب و استدلالات کے کام کو بعد کے لئے چھوڑا جانا بیان کیا گیا ہے حالانکہ خود کتاب کے اندر جابجا استدلالات موجود ہیں۔ پس استدلالات کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ ایک غلط بیانی ہے اور گویا ناظرین کے ساتھ ایک دھوکہ کیا گیا ہے ۔اس کے جواب میں مَیں یہ عرض کر چکا ہوں کہ اگر بالفرض اس عبارت کے وہی معنی ہوں جو ڈاکٹر صاحب نے کئے ہیں تو پھر بھی یہ کوئی غلط بیانی یا دھوکہ بازی نہیں ہے جو قابل ملامت ہو بلکہ میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیے ۔لیکن حق یہ ہے کہ اس عبارت کہ وہ معنی ہی نہیں ہیںجو ڈاکٹر صاحب نے قرار دئے ہیں بلکہ اس میں صرف اس استدلال کا ذکر ہے جس کی ضرورت ترتیب کے نتیجہ میں پیش آتی ہے یعنی مراد یہ ہے کہ اس مجموعہ میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی اور نہ وہ استدلالات کئے گئے ہیں جو مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں ۔ ’’ترتیب واستنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا۔‘‘جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں وہ استدلال مراد ہے جو ترتیب کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ وہ عام تشریحات جو انفرادی طور پر روایات کے ضمن میں دی جاتی ہیں چنانچہ میرے اس دعوٰی کی دلیل وہ الفاظ ہیں جو اس عبارت سے تھوڑی دورآگے چل کر میں نے لکھے ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب نے بالکل نظرانداز کر دیاہے ۔وہ الفاظ یہ ہیں ۔
’’میں نے بعض جگہ روایات کے اختتام پر اپنی طرف سے مختصر نوٹ دئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مجموعہ کے جمع کرنے میں میرے سب کاموں سے یہ کام زیادہ مشکل تھا ۔بعض روایات یقیناً ایسی ہیں کہ اگر ان کو بغیر نوٹ کے چھوڑا جاتا تو ان کے اصل مفہوم کے متعلق غلط فہمی پیدا ہونے کا احتمال تھا مگر ایسے نوٹوں کی ذمہ داری کلیۃً خاکسار پر ہے ‘‘ (دیکھو عرض حال سیرۃ المہدی)
ان الفاظ کے ہوتے ہو ئے کوئی انصاف پسند شخص ’’استنباط و استدلال ‘‘سے وہ عام تشریحی نوٹ مراد نہیں لے سکتا جو انفرادی روایات کے متعلق بطور تشریح کے دئے جاتے ہیں بلکہ اس سے وہی استدلالات مقصود سمجھے جائیں گے ۔ جن کی مختلف روایات کو ملانے اور ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضرورت پیش آتی ہے ناظرین غور فرمائیں کہ ایک طرف تو میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے کہ ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہے گا اور دوسری طرف اسی جگہ میری یہ تحریر موجود ہے کہ میں نے مختلف روایات کے متعلق تشریحی نوٹ دیئے ہیں اب ان دونوں تحریروں کے ہوتے ہوئے جو میرے ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک ہی کتاب کے عرض حال میں ایک ہی جگہ موجود ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا صرف ایک عبارت کو لے کر اعتراض کے لئے اُٹھ کھڑا ہونااور دوسری عبارت کا ذکر تک نہ کرنا کہاں تک عدل و انصاف پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے؟میں نے اگر ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب میں استدلال نہیںکئے تو دوسری جگہ یہ عبارت بھی تو میرے ہی قلم سے نکلی ہوئی ہے کہ میں نے جابجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں ۔ اس صورت میں اگر ڈاکٹر صاحب ذرا وسعت حوصلہ سے کام لیتے اور میرے ان ’’استدلالات‘‘ کو جو ان کی طبیعت پر گراں گذرے ہیںوہ تشریحی نوٹ سمجھ لیتے جن کا میں نے اپنے عرض حال میں ذکر کیا ہے تو بعید از انصاف نہ تھا مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا ۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے اس کتاب میں ترتیب و استنباط و استدلال سے کام نہیں لیا گیا وہاں جیسا کہ میرے الفاظ سے ظاہر ہے وہ استدلالات مراد ہیں جو مختلف روایات کے ترتیب دینے کے نتیجہ میں ضروری ہوتے ہیں ۔ اور وہ تشریحی نوٹ مراد نہیں ہیں ۔جو انفرادی طور پر روایات کے ساتھ دیئے جاتے ہیں ۔کیونکہ دوسری جگہ میں نے خود صاف لکھ دیا ہے کہ میں نے جا بجا تشریحی نوٹ دیئے ہیں ۔امید ہے یہ تشریح ڈاکٹر صاحب کی تسلی کے لئے کافی ہوگی۔
علاوہ ازیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں میں نے استدلال و استنباط کا ذکر کیا ہے وہاں وہ استدلالات بھی مراد ہیں جو واقعات سے سیرۃ و اخلاق کے متعلق کئے جاتے ہیں۔ یعنے منشاء یہ ہے کہ جو روایات بیان کی گئی ہیںاور جو واقعات زندگی ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں ان سے بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ و اخلاق کے متعلق استدلالات نہیں کئے گئے بلکہ ان کو صرف ایک مجموعہ کی صورت میں جمع کر لیا گیا ہے اور استدلال واستنباط کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کر دیا گیاہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلالات بھی ان تشریحی نوٹوں سے بالکل الگ حیثیت رکھتے ہیں ۔جو کہ روایات کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ساتھ ساتھ دیئے جاتے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ جہاں میں نے یہ لکھا ہے کہ استدلال و استنباط کا کام بعد میں ہوتا رہیگا وہاں دو قسم کے استدلالات مراد ہیں ۔ اوّل۔وہ استدلالات جن کی مختلف روایات کے ملانے اور ترتیب دینے سے ضرورت پیش آتی ہے ۔ اور دوسرے وہ استد لالات جو روایات اور واقعات سے صاحب سیرۃ کے اخلاق و عادات کے متعلق کئے جاتے ہیں اوران دونوںقسم کے استدلالات کو میں نے کسی آئندہ وقت پر چھوڑ دیا ہے ۔والشا ذ کالمعدوم ـ باقی رہے وہ تشریحی نوٹ جو مختلف روایتوں کے متعلق درج کئے جانے ضروری تھے ،سو ان کو میں نے ملتوی نہیں کیا ۔ اور نہ ہی ان کا ملتوی کر نا درست تھا۔ کیونکہ انہیں چھوڑ دینے سے غلط فہمی کا احتمال تھا جس کا بعد میں ازالہ مشکل ہو جاتا اور اسی لئے میں نے عرض حال میں یہ تصریح کر دی تھی کہ گو میں نے استدلالات نہیں کئے ۔اور صرف روایات کو جمع کر دیا ۔ لیکن جہاں جہاں کسی روایت کے متعلق تشریح کی ضرورت محسوس کی ہے وہاں ساتھ ساتھ تشریحی نوٹ درج کر دیئے ہیں ۔ مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے استدلال و استنباط اور تشریحات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مجھے اپنے اعتراض کا نشانہ بنا لیا ہے ۔ہاں بے شک میں نے ایک دو جگہ بعض بحثیں بھی کسی قدر طول کے ساتھ کی ہیں ۔ لیکن ان بحثوں کو استدلالات اور تشریحات ہر دو کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ استدلال کہلا سکتی ہیں اور نہ ہی تشریح کا مفہوم ان پر عائد ہوتا ہے۔بلکہ وہ ایک الگ مستقل چیز ہیں جن کی ضرورت کو محسوس کر کے میں نے انہیں درج کر دیا ہے ۔اور میں سمجھتا ہوں کہ ان بحثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ و سوانح کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے ۔اور آپ کے مقام کو کما حقہ سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضروریات سے ہے ۔مثلاً یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تعلیم و تربیت کے ماتحت کیسی جماعت تیار کی ہے۔ایک نہایت ہی ضروری سوال ہے جسے کوئی دانشمند مورخ آپ کی سیرۃ سے خارج کرنے کا خیال دل میں نہیں لاسکتا۔بے شک ڈاکٹر صاحب موصوف یا کوئی اور صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو خیال ظاہر کیا گیا ہے وہ درست نہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیم و تربیت کا اثر کوئی خاص طور پر اچھا نہیں ہے ۔ لیکن اس بات کو بہر حال تسلیم کر نا پڑیگا کہ یہ بحث آپ کی سیرۃ سے ایک گہرا تعلق رکھتی ہے ۔جسے کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا سکتا ۔
اس بحث کو ختم کر نے سے قبل میں ڈاکٹر صاحب کے اس اعتراض کے ایک اور حصہ کی طرف بھی ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
’’ مصنف کا دعویٰ ہے کہ میں نے صرف اس میں روایات جمع کی ہیں اور ترتیب اور استنباط و استدلال کا کام بعد میں ہوتا رہیگا ۔مگر اسی کتاب میں صفحوں کے صفحے مختلف کتابوں مثلا ً براہین احمدیہ ،سیرۃ مسیح موعود مصنفہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم۔ پنجاب چیفس اور مختلف اخبارات سے نقل کئے ہیں ۔…الخ‘‘
گویا کتابوں اور اخباروں کی عبارتیں نقل کرنے کو ڈاکٹر صاحب استدلال و استنباط قراد دیتے ہیں مگر میں حیران ہوں کہ کسی کتاب یا اخبار سے کوئی عبارت نقل کرنا استدلال و استنباط کے حکم میں کیسے آسکتا ہے ۔اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی کے حالات اپنی کسی کتاب میں درج فرمائے اور میں نے وہ حصہ سیرۃ المہد ی میں درج کر دیا یا پنجاب چیفس میں جو حالات آپ کے خاندان کے درج ہیں وہ میں نے اپنی کتاب میں درج کردیئے یا کسی اخبار میں کوئی ایسی بات مجھے ملی جو آپ کی سیرت سے تعلق رکھتی تھی اور اسے میں نے لے لیا۔تو میرا یہ فعل استدلال و استنباط کیسے بن گیا ؟ میں واقعی حیرت میں ہوں کہ اس قسم کی عبارتوں کے نقل کرنے کا نام ڈاکٹر صاحب نے کس اصول کی بنا پراستدلال و استنباط رکھا ہے ۔اور دنیا کی وہ کونسی لغت ہے جو اقتباس درج کرنے کو استدلال و استنباط کے نا م سے یاد کر تی ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے قلم سے یہ الفاظ جلدی میں نکل گئے ہیں اور اگر وہ اپنے مضمون کی نظر ثانی فرمائیں ۔تو وہ یقینا ان الفاظ کو خارج کر دینے کا فیصلہ فرمائیں گے ۔پھر ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی نہیں غور کیا کہ میرے جس فعل پر ان کو اعتراض ہے وہ ایسا فعل ہے کہ جسے میں نے اپنی کتاب کے شروع میں اپنے فرائض میں سے ایک فرض اور اپنے اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے ۔چنانچہ میرے الفاظ یہ ہیں ’’ میرا ارادہ ہے واللہ الموفق ۔کہ جمع کرو ں اس کتاب میں تما م و ہ ضروری باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق خود تحریر فرمائی ہیں ۔اور وہ جو دوسروں نے لکھی ہیں ۔نیز جمع کروں تمام وہ زبانی روایات ۔۔۔۔الخ‘‘
اس عبارت سے پتہ لگتا ہے کہ میں نے اپنے سامنے صرف زبانی روایات کے جمع کرنے کا کام نہیں رکھا بلکہ تمام متعلقہ تحریرات کے تلاش کر نے اور ایک جگہ جمع کر دینے کو بھی اپنی اغراض میں سے ایک غرض قرار دیا ہے ۔اندر یں حالات میں نہیں سمجھ سکا کہ ڈاکٹر صاحب نے میرے عبارتوں کے نقل کرنے کے فعل کو کس اصول کے ماتحت جرم قرار دیا ہے ۔مکرم ڈاکٹر صاحب ! مجھے آپ معاف فرمائیں مگر میں پھر یہی کہوں گا کہ گو میں آپ کی نیت پر حملہ نہیں کرتا ۔لیکن آپ کی تنقید کسی طرح بھی عدل و انصاف پر مبنی نہیں سمجھی جاسکتی ۔
تیسرا اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے سیرۃ المہدی حصہ اوّل پر کیا ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ ۔
’’ روایات کے جمع کرنے میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتاری ہے ۔یہاں تک کہ اردو تحریر میں اردو کے صرف ونحو کو نظر انداز کرکے عربی صرف و نحو کے مطابق طرز بیان اختیار کیا ہے ۔۔۔۔مگر جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اُتر جاتا ہے ۔یہ اعتراض بھی گذشتہ اعتراض کی طرح ایک ایسا اعتراض ہے جسے مضمون کی علمی تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب پسند فرماتے تو اپنے علمی مضمون کی شان کو کم کرنے کے بغیر اس اعتراض کو چھوڑ سکتے تھے ۔دراصل منقدین کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر وہ اپنی تنقید میں اس قسم کی باتوں کا ذکر لانا بھی چاہیں تو ایک مشورہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں جس میں سوائے اصلاح کے خیال کے اور کسی غرض و غایت کا شائبہ نہیں ہوتا ۔مگر افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دل کو ایسی وسعت حاصل نہیں ہے کہ وہ بزعم خود کوئی قابل گرفت بات دیکھ کر پھر بغیر اعتراض جمائے صبر کر سکیں ۔اور زیادہ قابل افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اعتراض بھی ایسے لب و لہجہ میں کرتے ہیں۔ جس میں بجائے ہمدردی اور اصلاح کے تحقیر و تمسخر کا رنگ نظر آتا ہے ۔ بہر حال اب جب کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراض اپنے اصولی اعتراضات میں شامل کر کے پبلک کے سامنے پیش کیا ہے مجھے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ۔کہ اس کے جواب میں حقیقت حال عرض کروں۔
بات یہ ہے کہ جیسا کہ سیرۃ المہدی کے آغاز میں مذکور ہے ۔میں نے سیرۃ المہدی کی ابتدائی چند سطور تبرک و تیمن کے خیال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیت الدعا میں جاکر دعا کرنے کے بعد وہیں بیٹھے ہوئے تحریر کی تھیں ۔اور میں خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں ۔کہ بغیر کسی تصنع یا نقل کے خیال کے یہ چند ابتدائی سطور مجھ سے اس طرح لکھی گئیں۔جس طرح کہ عربی عبارت کا دستور ہے۔بلکہ چونکہ اس وقت میرے جذبات قلبی ایک خاص حالت میں تھے ۔ میں نے یہ محسوس بھی نہیں کیاکہ میں عام محاورہ اردو کے خلاف لکھ رہا ہوں ۔پھر جب بعد میں بیت الدعا سے باہرآکر میں نے ان سطور کو پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض فقرے عربی کے محاورہ کے مطابق لکھے گئے ہیں اورپھر اس کے بعد میرے بعض دوستوں نے جب سیرۃ کا مسودہ دیکھا تو انہوں نے بھی مجھے اس امر کی طرف توجہ دلائی ۔لیکن خواہ ڈاکٹر صاحب موصوف اسے میر ی کمزوری سمجھیں یا وہم پرستی قرار دیں یا حُسن ظنی سے کام لینا چاہیں تو تقاضائے محبت و احترام پر محمول خیال فرمالیں ۔مگر بہر حال حقیقت یہ ہے کہ میں نے ان سطور کو جو میں نے دعا کے بعد بیت الدعا میں بیٹھ کر لکھی تھیں بدلنا نہیں چاہا۔چنانچہ وہ اسی طرح شائع ہو گئیں ۔ اس سے زیادہ میں اس اعتراض کے جواب میں کچھ نہیں کہنا چاہتا ۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ تم نے حدیث کی نقل میں ایساکیا ہے اور گو میرے نزدیک اچھی اور اعلیٰ چیزیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ان کی اتباع اختیار کی جائے ۔اور اگر نیت بخیر ہو تو ایسی اتباع اور نقل خواہ وہ ظاہری ہو یا معنوی اہل ذوق کے نزدیک موجب برکت سمجھی جانی چاہیے نہ کہ جائے اعتراض ۔لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ میں نے نقل کے خیال سے ایسا نہیں کیا ۔
واللہ علٰی مااقول شھید
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ جہاں راوی خود مصنف صاحب ہوتے ہیں وہاں عربی چولا اُتر جاتا ہے وہاں روایت یوں شروع ہوتی ہے کہ ’’ خاکسار عرض کرتا ہے ‘‘ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ’’ عرض کرتا ہے خاکسار ‘‘
اس استہزاء کے جواب میں سلام عرض کرتا ہوں۔ایک طرف مضمون کے تقدس کو دیکھئے اور دوسری طرف اس تمسخر کو ! مکرم ڈاکٹر صاحب !حیرت کا مقام یہ ہے نہ کہ وہ جس پر آپ محو حیرت ہونے لگتے ہیں ۔افسوس !
چوتھا اصولی اعتراض جو جناب ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کے شروع میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں راویوں کے ’’ صادق و کاذب ‘‘ عادل وثقہ ہونے کے متعلق کو ئی احتیاط نہیں برتی گئی اور نہ راویوں کے حالات لکھے ہیں۔کہ ان کی اہلیت کا پتہ چل سکے اور دوسری یہ کہ بعض روایتوں میں کوئی راوی چھٹا ہوا معلوم ہوتا ہے گویا کتاب کے اندر مرسل روایتیں درج ہیں جو پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں اور پھر اس کے بعد یہ مذاق اُڑا یا ہے کہ احا دیث کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن محدثین کی ’’ تنقید اور باریک بینیوں ‘‘ کا نام و نشان نہیںاور روایات کے جمع کرنے میں ’’ بھونڈا پن اختیار کیا گیا ہے ‘‘ الغرض ڈاکٹر صاحب کے نزدیک سیرۃ المہدی ’’ ایک گڑبڑ مجموعہ ہے ‘‘ اور مصنف یعنی خاکسار نے ’’ مفت میں اپنا مذاق اُڑوایاہے ‘‘چونکہ ڈاکٹر صاحب نے اس جگہ مثالیں نہیں دیں اس لئے میں حیران ہوں کہ کیا جواب دوں ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ راویوں کے صادق و کاذب ہو نے کا کوئی پتہ نہیں ۔میں عرض کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو کھول کر ملاحظہ فرمائیے ان میں بھی راویوں کے صادق و کاذب ہونے کا کوئی پتہ نہیں چلتا ۔کم از کم مجھے بخاری اور مسلم کے اندر بلکہ کسی تاریخ و سیرت کی کتاب کے اندر یہ بات نظر نہیں آتی کہ راویوں کے صادق و کاذب ،ثقہ و عدم ثقہ ہونے کے متعلق بیان درج ہو بلکہ اس قسم کی بحثوں کے لئے الگ کتابیں ہوتی ہیں جو اسماء الرجال کی کتابیں کہلاتی ہیں اور جن میں مختلف راویوں کے حالات درج ہوتے ہیں ۔جن سے ان کے صادق و کاذب ،عادل و غیر عادل ، حافظ و غیر حافظ ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔اور انہیں کتب کی بنا پر لوگ روایت کے لحاظ سے احادیث کے صحیح یا غیرصحیح ،مضبوط یا مشتبہ ہونے کے متعلق بحثیں کرتے ہیں ۔ مگر میرے خلاف ڈاکٹر صاحب کو نہ معلوم کیا ناراضگی ہے کہ وہ اس بات میںبھی مجھے مجرم قرار دے رہے ہیں ۔کہ میں نے کیوں سیرۃالمہدی کے اندر ہی اس کے راویوں کے حالات درج نہیں کئے۔ حق یہ تھا کہ اگر ان کو سیرۃ المہدی کا کوئی راوی مشتبہ یا قابل اعتراض نظر آتا تھا تو وہ اس کا نام لے کر بیان فرماتے اور پھر میرا فرض تھا کہ یا تو میں اس راوی کا ثقہ و عادل ہونا ثابت کرتا اور یا اس بات کا اعتراف کرتا کہ ڈاکٹر صاحب کا اعتراض درست ہے۔اور وہ راوی واقعی اس بات کا اہل نہیں کہ اس کی روایت قبول کی جاوے مگر یونہی ایک مجمل اعتراض کا میں کیا جواب دے سکتا ہوں۔سوائے اس کے کہ میں یہ کہوں کہ میں نے جن راویوں کو ان کی روایت کا اہل پایا ہے صرف انہی کی روایت کو لیا ہے اور بس ۔روایت کے لحاظ سے عموماً یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا
(۱) راوی جھوٹ بولنے سے متہّم تو نہیں ؟
(۲ ) اس کے حافظہ میں تو کوئی قابل اعتراض نقص نہیں ؟
( ۳) وہ سمجھ کا ایسا ناقص تو نہیں کہ بات کا مطلب ہی نہ سمجھ سکے ۔گویہ ضروری نہیں کہ وہ زیادہ فقیہہ ہو ۔
(۴) وہ مبالغہ کرنے یا خلاصہ نکال کر روایت کرنے یا بات کے مفہوم کو لیکر اپنے الفاظ میں آزادی کے ساتھ بیان کر دینے کا عادی تو نہیں ؟
( ۵) اس خاص روایت میں جس کا وہ راوی ہے اسے کوئی خاص غرض تو نہیں ؟
(۶) وہ ایسا مجہول الحال تو نہیں کہ ہمیں اس کے صادق و کاذب ،حافظ و غیر حافظ ہونے کا کوئی پتہ ہی نہ ہو ۔ وغیر ذالکاور جہاں تک میرا علم اور طاقت ہے میں نے ان تمام باتوں کو اپنے راویوں کی چھان بین میںعلیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے۔ واللہ اعلم ۔اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتاکیونکہ میرے سامنے کوئی مثال نہیں ہے ۔
اس جگہ میں یہ بھی بیان کردینا چاہتا ہوں کہ بعض صورتوں میں ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک راوی حافظ و عادل نہ ہو لیکن جو روایت وہ بیان کرتا ہو وہ درست ہو ۔ایسی حالت میں بھی اگر دوسرے قرائن سے روایت کی صحت کا یقین ہو تو روایت کے لے لینے میں چنداں حرج نہیں ۔اور گو یہ مقام اندیشہ ناک ہے لیکن علم کی تلاش میں بعض اوقات اندیشہ ناک جگہوں میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے ۔دوسرا حصہ اس اعترا ض کا یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایات آگئی ہیں جن میں کوئی راوی ایسی باتیں بیان کرتا ہے جس کا علم اس کے لئے براہ راست ممکن نہیں تھا ۔پس ضرور اس نے کسی اور سے سن کر یا کسی جگہ سے پڑھ کر یہ روایت بیان کی ہو گی اور چونکہ اس درمیانی راوی کا علم نہیں دیا گیا اس لئے روایت قابل وثوق نہیں سمجھی جاتی ہیں ۔ میں اس اعتراض کی معقولیت کو اصولاً تسلیم کرتا ہوں اس قسم کی روایات اگر کوئی ہیں تو وہ واقعی روایت کے اعلیٰ پایہ سے گری ہوئی ہیں ۔لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کمزوری کی وجہ سے ایسی روایات کو کلیۃً متروک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بسا اوقات اس قسم کی روایات سے نہایت مفید اور صحیح معلومات میسر آجاتے ہیں ۔دراصل اصول روایت کے لحاظ سے کسی روایت کے کمزور ہونے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ روایت فی الواقع غلط بھی ہے ۔بلکہ بالکل ممکن ہے کہ ایسی روایت بالکل صحیح اور قابل اعتماد ہو ۔مثلاً فرض کر و کہ میں نے ایک بات سنی اور کسی معتبر آدمی سے سنی لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے وہ بات تو یاد رہی لیکن راوی کا نام ذہن سے بالکل نکل گیا ۔اب جو میں وہ روایت بیان کروں گا تو بغیر اس راوی کا نام بتانے کے کروں گا۔ اور اصول روایت کی رو سے میری یہ روایت واقعی کمزور سمجھی جائے گی۔لیکن در اصل اگر میرے حافظہ اور فہم نے غلطی نہیں کی ۔ تووہ بالکل صحیح اور درست ہوگی ۔بلکہ بعید نہیں کہ اپنی صحت میں وہ کئی ان دوسری روایتوں سے بھی بڑھ کر ہو ۔جو اصول روایت کے لحاظ سے صحیح قراردی جاتی ہیں۔مگر بایں ہمہ اصول روایت کے ترازو میںوہ ہلکی ہی اترے گی۔ اس طرح عملاًبہت سی باتوں میں فرق پڑ جاتا ہے ۔پس باوجود ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اصولاً متفق ہونے کے کہ ایسی روایت اگر کوئی ہو تو کمزور سمجھی جانی چاہیے ۔میں نہایت یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں کہ اس وجہ سے ہم ایسی روایات کو بالکل ترک بھی نہیں کر سکتے ۔کیونکہ اس طرح کئی مفید معلومات ہاتھ سے دینے پڑتے ہیں ۔عمدہ طریق یہی ہے کہ اصول درایت سے تسلی کرنے کے بعد ایسی روایات کو درج کر دیا جائے اور چونکہ ان کا مرسل ہونا بد یہی ہوگا ۔ اس لئے ان کی کمزوری بھی لوگوں کے سامنے رہے گی اور مناسب جرح وتعدیل کے ماتحت اہل علم ان روایات سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔احادیث کو ہی دیکھ لیجئے ۔ان میں ہزاروں ایسی روایات درج ہیں جو اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض ہیں لیکن ان سے بہت سے علمی فوائد بھی حاصل ہوتے رہتے ہیں ۔اور چونکہ ان کی روایتی کمزوری اہل علم سے مخفی نہیں ہوتی اس لئے ان کی وجہ سے کوئی فتنہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا اور اگر کبھی پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا سد باب کیا جا سکتا ہے ۔بہر حال مناسب حدود کے اندر اندر مرسل روایات کا درج کیا جانا بشرطیکہ وہ اصول درایت کے لحاظ سے رد کئے جانے کے قابل نہ ہوں ۔اوران سے کوئی نئے اور مفید معلومات حاصل ہوتے ہوں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان دہ نہیں جیسا کہ مفید ہے یعنی نَفْعُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ اِثْمِھَا والامعاملہ ہے ۔واللّٰہ اعلم ۔ یہ تو اصولی جواب ہے اور حقیقی جواب یہ ہے کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایسی روایتوں کے لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے اور جہاں کہیں بھی مجھے یہ شبہ گذرا ہے کہ راوی اپنی روایت کے متعلق بلا واسطہ اطلاع نہیں رکھتا وہاں یا تو میں نے اس کی روایت لی ہی نہیں اور یا روایت کے اختتام پر روایت کی اس کمزوری کا ذکر کر دیا ہے ۔ اس وقت مجھے ایک مثال یاد ہے وہ درج کرتا ہوں ۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ تلاش سے اور مثالیں بھی مل سکیں گی ۔سیرۃ المہدی کے صفحہ نمبر۱۳۲ روایت ۱۴۳ پر میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ایک روایت منشی احمد جان صاحب مرحوم مغفور لدھیانوی کے متعلق درج کی ہے اور اس کے آخر میں میری طرف سے یہ نوٹ درج ہے ۔
’’ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب منشی صاحب مرحوم سے خود نہیں ملے لہٰذا انہوں نے کسی اور سے یہ واقعہ سنا ہو گا ۔‘‘ میرے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ میں نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے متعلق بلاواسطہ علم نہیں رکھتا تو اسے ظاہر کر دیا جائے تاکہ جہاں ایک طرف روایت سے مناسب احتیاط کے ساتھ فائدہ اُٹھایا جاسکے وہاں دوسری طرف اس کی کمزوری بھی سامنے رہے۔ڈاکٹر صاحب نے چونکہ اس جگہ کوئی مثال نہیں دی اس لئے میں نہیں سمجھ سکتا کہ کونسی روایت ان کے مدنظر ہے ۔لیکن اگر کوئی روایت پیش کی جائے جس میں اس قسم کی کمزوری ہے اور میں نے اسے ظاہر نہیں کیا تو گو محدثین کے اصول کے لحاظ سے میں پھر بھی زیر الزام نہیں ہوں ۔کیونکہ محدثین اپنی کتابوں میں اس قسم کی کمزوریوں کو عموماً خود بیان نہیں کیا کرتے بلکہ یہ کام تحقیق و تنقید کرنے والوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میں اپنی غلطی کو تسلیم کر لوں گا اور آئندہ مزید احتیاط سے کام لوں گا ۔ہاں ایک غیر واضح سی مثال روایت نمبر ۷۵کی ڈاکٹر صاحب نے بیان فرمائی ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی روایت سے کسی ہندو کا واقعہ درج ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفانہ توجہ ڈالنی چاہی تھی۔ لیکن خود مرعوب ہو کر بد حواس ہو گیا ۔ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ درج نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی نے یہ واقعہ خود دیکھا تھا یا کسی کی زبانی سنا تھا ۔اور اگر کسی کی زبانی سنا تھا تو وہ کون تھا ؟ اس کے جواب میں مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک واقعہ کوئی شخص بیان کرتا ہے اور روایت کے اندر کوئی ذکر اس بات کا موجود نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے وقت وہ خود بھی موجود نہیں تھا اور نہ وہ واقعہ ایسے زمانہ یا جگہ سے تعلق رکھنا بیان کیا جاتا ہے کہ جس میں اس راوی کا موجود ہونا محال یا ممتنع ہو ( مثلا ً وہ ایسے زمانہ کا واقعہ ہو کہ جس میں وہ راوی ابھی پیدا ہی نہ ہو ا ہو یا وہ ایسی جگہ سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں وہ راوی گیا ہی نہ ہو) تولا محالہ یہی سمجھا جائے گا کہ راوی خود اپنا چشم دید واقعہ بیان کر رہاہے اور اس لئے یہ ضرورت نہیں ہو گی کہ راوی سے اس بات کی تصریح کرائی جاوے کہ آیا وہ واقعہ اس کا چشم دید ہے یا کہ اس نے کسی اور سے سنا ہے ۔ بہر حال میں نے ایسے موقعوں پر یہی سمجھا ہے کہ راوی خوداپنی دیکھی ہوئی بات بیان کر رہا ہے۔اسی لئے میں نے اس سے سوال کر کے مزید تصریح کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ہاں البتہ جہاں مجھے اس بات کا شک پیدا ہواہے کہ راوی کی روایت کسی بلاواسطہ علم پر مبنی نہیں ہے وہاں میں نے خود سوال کر کے تصریح کرا لی ہے ۔چنانچہ جو مثال مولوی سید سرور شاہ صاحب کی روایت کی میں نے اوپر بیان کی ہے اس میں یہی صورت پیش آئی تھی ۔ مولوی صاحب موصوف نے منشی احمد جان صاحب کے متعلق ایک بات بیان کی کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ یوں یوں گفتگو ہوئی تھی ۔ اب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریرات کی بنا پر میں یہ جانتا تھا کہ منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود کے دعویٰ مسیحیت سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے ۔ اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کی ملاقات حضرت صاحب کے ساتھ بعد دعویٰ مسیحیت ہوئی ہے ۔ پس لا محالہ مجھے یہ شک پید اہوا کہ مولوی صاحب کو اس بات کا علم کیسے ہوا ۔چنانچہ میں نے مولوی صاحب سے سوال کیا او ر انہوں نے مجھ سے بیان فرمایا کہ میں نے خود منشی صاحب مرحوم کو نہیں دیکھا چنانچہ میں نے یہ بات روایت کے اختتام پر نوٹ کر دی۔الغرض میں نے اپنی طرف سے تو حتی الوسع بڑی احتیاط سے کام لیا ہے ۔لیکن اگر میں نے کسی جگہ غلطی کھائی ہے یا کوئی کمزوری دکھائی ہے تو میں جانتا ہوں کہ میں ایک کمزور انسان ہو ں ۔اور غلطی کا اعتراف کر لینا میرے مذہب میں ہرگز موجب ذلت نہیں بلکہ موجب عزت ہے ۔پس اگر اب بھی ڈاکٹر صاحب یا کسی اور صاحب کی طرف سے کوئی ایسی بات ثابت کی جائے جس میں میں نے کو ئی غلط یا قابل اعتراض یا غیر محتاط طریق اختیار کیا ہے ۔ تو میںنہ صرف اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کروں گا بلکہ ایسے صاحب کا ممنون احسان ہو نگا ۔افسوس صرف یہ ہے کہ محض اعتراض کر نے کے خیال سے اعتراض کر دیا جاتا ہے اور دوسرے کی کوشش کو بلاوجہ حقیر اور بے فائدہ ثابت کر نے کا طریق اختیار کیا جاتا ہے ۔ورنہ ہمدردی کے ساتھ علمی تبادلہ خیالات ہو تو معترض بھی فائدہ اُٹھائے ۔ مصنف کی بھی تنویر ہو اور لوگوں کے معلومات میں بھی مفید اضافہ کی راہ نکلے ۔اب میری کتاب ان مسائل کے متعلق تو ہے نہیں ۔جو مبایعین اور غیر مبایعین کے درمیان اختلاف کا موجب ہیں بلکہ ایک ایسے مضمون کے متعلق ہے جو تما م احمدی کہلانے والوں کے مشترکہ مفاد سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس مضمون کی اہمیت اور ضرورت سے بھی کسی احمدی کو انکار نہیں ہو سکتا ۔ اندریں حالات اس قسم کی تصنیفات کے متعلق صرف اس خیال سے کہ ان کا مصنف مخالف جماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔خواہ نخواہ مخالفانہ اور غیر ہمدردانہ اور دل آزار طریق اختیار کرنا دلوں کی کدورت کو زیادہ کر نے کے سوا اور کیا نتیجہ پیدا کر سکتا ہے ۔
پھر ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ سیرۃ المہدی میں محدثین کی ظاہری نقل تو کی گئی ہے لیکن ان کی ’’تنقید اور باریک بینیوں‘‘ کا نشان تک نہیں ہے ۔محدثین کا مقدس گروہ میرے لئے ہر طرح جائے عزت و احترام ہے اور گو جائز طورپر دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش ہر صحیح الدماغ شخص کے دل و سینہ میں موجود ہو تی ہے یا کم از کم ہو نی چاہیے ۔ لیکن میرے دل کا یہ حال ہے وَاللّٰہُ عَلٰی مَا اَقُوْلُ شَھِیْدٌ کہ ائمہ حدیث کا خوشہ چین ہو نے کو بھی اپنے لئے بڑی عزتوں میں سے ایک عزت خیال کرتا ہوں ۔اور ان کے مد مقابل کھڑا ہونا یا ان کے سامنے اپنی کسی ناچیز کوشش کا نام لینا بھی ان کی ارفع اور اعلیٰ شان کے منافی سمجھتا ہوں ۔میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ کتاب کے شروع میں جو چند فقرات عربی طریق کے مطابق لکھے گئے ہیں وہ نقل کی نیت سے ہر گز نہیں لکھے گئے لیکن اگر نقل کی نیت ہو بھی تو میرے نزدیک اس میں ہر گز کوئی حرج نہیں ہے۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ! اگر ہم اپنے بزرگوں کے نقش پا پر نہ چلیں گے تو اور کس کے چلیںگے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی تو یہاں تک خواہش رہتی تھی کہ ممکن ہو تو احمدیوں کی زبان ہی عربی ہو جائے ۔پس اگر میری قلم سے چند فقرے عربی صرف و نحو کے مطابق لکھے گئے اور میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ وہ میں نے نقل اور تصنع کے طور پر نہیں لکھے ۔تو آپ اس کے متعلق اس طرح دل آزار طریق پر اعتراض کر تے ہوئے بھلے نہیں لگتے ۔باقی رہی محدثین کی تنقید اور باریک بینی ۔سو وہ تو مسلم ہے اور میری خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے ان کا سا دل و دماغ اور علم وعمل عطا فرمائے ۔پس آپ اور کیا چاہتے ہیں میں نے جہاں تک مجھ سے ہو سکا چھان بین اور تحقیق و تدقیق سے کام لیا ہے ۔اور جہاں آپ نے آگے چل کر میری غلطیوں کی مثالیں پیش فرمائی ہیں۔وہاں انشاء اللہ میں یہ ثابت کر سکوں گا کہ میں نے روایات کے درج کرنے میں اندھا دھند طریق سے کام نہیں لیا ۔آپ کا یہ تحریر فرمانا کہ سیرۃ المہدی ’’ ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے ‘‘ نیز یہ کہ میں نے ’’ مفت میں اپنا مذاق اُڑوایا ہے ‘‘ آپ کو مبارک ہو اس قسم کی باتوں کا میں کیا جواب دوں ۔اگر سیرۃ المہدی ایک گڑ بڑ مجموعہ ہے تو بہر حال ہے تو وہ ہمارے آقا علیہ السلام کے حالات میں ہی اور نہ ہونے سے تو اچھا ہے ۔میں نے تو خود لکھ دیا تھا کہ میں نے روایات کو بلا کسی ترتیب کے درج کیا ہے ۔پھر نہ معلوم آپ نے اسے ایک گڑ بڑ مجموعہ قرار دینے میں کونسی نئی علمی تحقیق کا اظہار فرمایا ہے ۔آج اگر وہ بے ترتیب ہے تو کل کوئی ہمت والا شخص اسے ترتیب بھی دے لے گا۔بہر حال اس کام کی تکمیل کی طرف ایک قدم تو اُٹھایا گیا ۔اور اگر آپ ذوق شناس دل رکھتے تو آپ کو اس گڑ بڑ مجموعہ میں بھی بہت سی اچھی باتیں نظر آجاتیں۔اور مذاق اُڑوانے کی بھی آپ نے خوب کہی ۔مکرم ڈاکٹر صاحب ! آپ خود ہی مذاق اُڑانے والے ہیں ۔سنجیدہ ہوجائیے ۔بس نہ میرا مذاق اڑے گا اور نہ آپ کی متانت اور سنجیدگی پر کسی کو حرف گیری کا موقعہ ملے گا ۔ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں ۔یہ تو سب اپنے اختیار کی بات ہے ۔
پانچواں اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شرو ع میں بیان کیا ہے ۔وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی میں :
’’ احادیث رسول اللہ ﷺ سے ایک سیڑھی آگے چڑھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یعنی ہر ایک روایت کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کیا ہے ۔پڑھنے والے کو سمجھ نہیں آتا کہ یہ موجود ہ زمانے کی راویوں کی کوئی روایت شروع ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔یا قرآن کی سورۃ شروع ہو رہی ہے ۔خاصہ پارہ عَمَّ نظر آتا ہے ۔گو یا جا بجا سورتیں شروع ہو رہی ہیں۔حدیث کی نقل ہوتے ہوتے قرآن کی نقل بھی ہونے لگی ۔اسی کا نام بچوں کا کھیل ہے۔‘‘
میں اس اعتراض کے لب و لہجہ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ جو کچھ کہنا تھا اصولی طور پر کہہ چکا ہوں ۔ اب کہاں تک اسے دہراتا جاؤں۔مگر افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں بسم اللّٰہ بھی کھٹکنے سے نہیں رہی ۔ تعصب بھی بُری بلا ہے میں تبرک و تیمن کے خیال سے ہر روایت کے شروع میں بسم اللّٰہ لکھتا ہوں ۔اور ڈاکٹر صاحب آتش غضب میں جلے جاتے ہیں ۔مگر مکرم ڈاکٹر صاحب اس معاملہ میں گو مجھے آپ کی اس تکلیف میں آپ سے ہمدردی ضرور ہے ۔لیکن بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا لکھنا تو میں کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کے اعتراض کا اصل مطلب یہ معلوم ہوتا ہے۔کہ جو کچھ قرآن شریف نے کیا ہے۔اس کے خلاف کرو تاکہ نقل کرنے کے الزام نیچے نہ آجاؤ۔میںکہتا ہوں کہ خواہ دنیا ہمارا نام نقال رکھے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی خطاب دے لیکن قرآن شریف کے نمونہ پر چلنا کوئی مسلمان نہیں چھوڑ سکتا اگر قرآن شریف کو باوجود اس کے کہ وہ خدا کا کلام اور مجسم برکت و رحمت ہے اپنی ہر سورت کے شروع میں خدا کا نام لینے کی ضرورت ہے تو ہم کمزور انسانوں کے لئے جنہیں اپنے ہر قدم پر لغزش کا اندیشہ رہتا ہے یہ ضرورت بدرجہ اولیٰ سمجھی جانی چاہیے۔آنحضرت ﷺ (فداہ نفسی ) فرماتے ہیں کل امر ذی بال لا یُبْدَأُ ببسم اللّٰہ فھوابتر۔ یعنی ہر کام جو ذرا سی بھی اہمیت رکھتا ہو وہ اگر بسم اللّٰہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ برکات سے محروم ہو جاتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ میرے بسم اللّٰہ لکھنے کو بچوں کا کھیل قرار دے رہے ہیں اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہو کہ بس صرف کتاب کے شروع میں ایک دفعہ بسم اللہ لکھ دینی کافی تھی اور ہر روایت کے آغاز میں اس کا دہرانا مناسب نہیں تھا۔تو میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے کیوں ہر سورت کے شروع میں اسے دہرایا ہے ؟کیا یہ کافی نہ تھا کہ قرآن شریف کے شروع میں صرف ایک دفعہ بسم اللّٰہ درج کر دی جاتی اور پھر ہر سورت کے شروع میں اسے نہ لایا جاتا ۔ جو جواب ڈاکٹر صاحب قرآن شریف کے متعلق دیں گے وہی میری طرف سے تصور فرمالیں ۔دراصل بات یہ ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے اپنے غصہ میں نظر انداز کر رکھا ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہوخداکے نام سے شروع ہو جانا چاہیے اور یہی آنحضرت ﷺ کے اس ارشادکا منشاء ہے جو اوپر درج کیا گیاہے ۔اسلام نے تواس مسئلہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت و سکون بھی ایسا نہیں چھوڑا جس کے ساتھ خدا کے ذکر کو کسی نہ کسی طرح وابستہ نہ کر دیا ہو ۔ اُٹھنا بیٹھنا ،کھانا پینا ،سونا جاگنا، بیوی کے پاس جانا،گھر سے نکلنا،گھر میں داخل ہونا ،شہر سے نکلنا ، شہر میں داخل ہونا،کسی سے ملنا ،کسی سے رخصت ہونا،رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جانا،کپڑے بدلنا،کسی کام کو شروع کرنا،کسی کام کو ختم کرنا،غرض زندگی کی ہر حرکت و سکون میں خدا کے ذکر کو داخل کر دیا ہے۔اور میرے نزدیک اسلام کا یہ مسئلہ اس کی صداقت کے زبر دست دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔مگر نہ معلوم ڈاکٹر صاحب میرے بسم اللّٰہ لکھنے پر کیوں چیں بجبیں ہو رہے ہیں میں نے کوئی ڈاکہ مارا ہوتا یا کسی بے گناہ کو قتل کر دیا ہوتا یا کسی غریب بے بس کے حقوق کو دبا کر بیٹھ گیا ہوتا یا کسی الحاد وکفر کا ارتکاب کرتا تو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شور غوغا کچھ اچھا بھی لگتا۔لیکن ایک طرف اس چیخ و پکار کو دیکھئے۔اور دوسری طرف میرے اس جرم کو دیکھئے کہ میں نے خدا کے نام کا استعمال اس حد سے کچھ زیادہ دفعہ کیا ہے۔جو ڈاکٹر صاحب کے خیال میںمناسب تھی۔تو حیرت ہوتی ہے ۔خیر جو بات میںکہناچاہتاتھا وہ یہ ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ ہر کام جو ذرا بھی مستقل حیثیت رکھتا ہو۔بلکہ زندگی کی ہر حرکت و سکون کو خدا تعالیٰ کے اسم مبارک سے شروع کیا جائے تاکہ ایک تو کام کرنے والے کی نیت صاف رہے اور دوسرے خدا کا نام لینے کی وجہ سے کام میں برکت ہو۔چنانچہ قرآن شریف نے جو اپنی ہر سورت کو بسم اللہ سے شروع فرمایا ہے۔تو اس میں بھی ہمارے لئے یہی عملی سبق مقصود ہے۔ اب ناظرین کو یہ معلوم ہے اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ سیرۃ المہدی کوئی مرتب کتاب نہیںہے بلکہ اس میں مختلف روایات بلا کسی ترتیب کے اپنی مستقل حیثیت میں الگ الگ درج ہیں۔ اس لئے ضروری تھاکہ میں اس کی ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کرتا۔ اگر سیرۃ المہدی کی روایات ایک ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہو ئی ایک متحدہ صورت میں جمع ہوتیں ۔تو پھر یہ ساری روایات ایک واحد کام کے حکم میں سمجھی جاتیں اور اس صورت میں صرف کتاب کے شروع میں بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کا لکھ دینا کافی ہوتا۔لیکن موجودہ صورت میں اس کی ہر روایت ایک مستقل منفرد حیثیت رکھتی ہے اس لئے میں نے ہر روایت کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورت کے شروع میں بسم اللّٰہ کو رکھا ہے ۔بہر حال اگر قرآن شریف اپنی ہر سورت کے آغاز میں بسم اللّٰہ کا درج کرنا ضروری قرار دیتا ہے ۔باوجود اس کے کہ اس کی تمام سورتیں ایک واحد لڑی میں ترتیب کے ساتھ پروئی ہوئی ہیں ۔تو سیرۃ المہدی کی روایات جو بالکل کسی ترتیب میں بھی واقع نہیں ہوئیں بلکہ فی الحال ان میں سے ہر ایک الگ الگ مستقل حیثیت رکھتی ہے حتیّٰ کہ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے سیرۃ المہدی کو ’’ایک گڑ بڑ مجموعہ‘‘ قرار دیا ہے بدرجہ اولیٰ بسم اللّٰہ سے شروع کی جانی چاہئیں اور اسی خیال سے میں نے کسی روایت کو بغیر بسم اللّٰہ کے شروع نہیں کیا۔
در اصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کرنے کا کام ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور سوائے خدا کی خاص نصرت و فضل کے اس کام کو بخیر و خوبی سر انجام دینا ایک نہایت مشکل امر ہے اور خواہ مجھے کمزور کہا جائے یا میرا نام وہم پرست رکھا جائے حقیقت یہ ہے کہ میں ہر قدم پر لغزش سے ڈرتا رہا ہوں اور اسی خیال کے ماتحت میں نے ہر روایت کو دعا کے بعد خدا کے نام سے شروع کیا ہے ۔یہ اگر’’ایک بچوں کا کھیل ہے‘‘تو بخدا مجھے یہ کھیل ہزار ہا سنجیدگیوں سے بڑھ کر پسند ہے ۔اور جناب ڈاکٹر صا حب موصوف سے میری یہ بصد منت درخواست ہے کہ میرے اس کھیل میں روڑا نہ اٹکائیں۔مگر خدا جانتا ہے کہ یہ کوئی کھیل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے اور اگر میں نے تصنع کے طور پر لوگوں کے دکھانے کے لئے یہ کام کیا ہے تو مجھ سے بڑھ کر شقی کون ہو سکتا ہے کہ خدائے قدوس کے نام کے ساتھ کھیل کرتا ہوںاس صورت میں وہ مجھ سے خود سمجھے گا۔اور اگر یہ کھیل نہیں اور خدا گواہ ہے کہ یہ کھیل نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھی اس دلیری کے ساتھ اعتراض کی طرف قدم اُٹھاتے ہوئے خدا سے ڈریں ۔ بس اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گا۔
چھٹا اصولی اعتراض جوڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے مضمون کے شروع میں سیرۃ المہدی پر کیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ:۔
’’در اصل یہ کتاب صرف محمودی صاحبان کے پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔یعنی صرف خوش عقیدہ لوگ پڑھیں۔جن کی آنکھوں پر خوش عقیدگی کی پٹی بندھی ہوئی ہے ۔نہ غیروں کے پڑھنے کے لائق ہے نہ لاہوری احمدیوں کے ،نہ کسی محقق کے ۔بعض روایتوں میں حضرت مسیح موعود ؑ پر صاف زد پڑتی ہے ۔مگر چونکہ ان سے لاہوری احمدیوںپر بھی زد پڑنے میں مدد ملتی ہے اس لئے بڑے اہتمام سے ایسی لغو سے لغو روایتیں مضبوط کر کے دل میں نہایت خوش ہوتے معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘الخ۔
اس اعتراض کے لب و لہجہ کے معاملہ کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے اس کے جواب میںصرف یہ عرض کرنا ہے۔کہ اگر یہ اعتراض واقعی درست ہو تو میری کتاب صرف اس قابل ہے کہ اسے آگ کے حوالہ کر دیا جائے ۔اور اس کا مصنف اس بڑی سے بڑی سزا کا حق دار ہے جو ایک ایسے شخص کو دی جا سکتی ہے جو اپنی ذاتی اغراض کے ماتحت صداقت کی پرواہ نہیں کرتا۔اور جو اپنے کسی مطلب کو حاصل کرنے کے لئے خدائے ذوالجلال کے ایک مقرب و ذیشان فرستادہ کو اعتراض کا نشانہ بناتا ہے ۔اور اگر یہ درست نہیں اور میرا خدا شاہد ہے کہ یہ درست نہیں۔تو ڈاکٹر صاحب خدا سے ڈریں اور دوسرے کے دل کی نیت پر اس دلیری کے ساتھ حملہ کر دینے کوکوئی معمولی بات نہ جانیں ۔یہ درست ہے کہ ان کے اس قسم کے حملوں کے جواب کی طاقت مجھ میں نہیں ہے لیکن خدا کو ہر طاقت حاصل ہے اور مظلوم کی امداد کرنا اس کی سنت میں داخل ہے ۔مگر میں اب بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے خدا سے دعا ہی کرتا ہوں ۔کہ وہ ان کی آنکھیں کھولے اور حق و صداقت کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ان کی غلطیاں ان کو معاف ہوں اور میری لغزشیں مجھے معاف ۔یہ نیت کا معاملہ ہے میں حیران ہوں کہ کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ۔ہاں اس وقت ایک حدیث مجھے یاد آگئی ہے ۔ وہ عر ض کرتا ہوں۔ایک جنگ میں اسامہ بن زیدؓ اور ایک کافر کا سامنا ہوا ۔ کافر اچھا شمشیر زن تھا خوب لڑتا رہا لیکن آخر اسامہ ؓکو بھی ایک موقعہ خدا نے عطا فرمایا اور انہوں نے تلوار تول کر کافر پر حملہ کیا کافر نے اپنے آپ کو خطرے میں پا کر جھٹ سامنے سے یہ کہہ دیاکہ مسلمان ہوتا ہوں مگر اسامہ ؓ نے پرواہ نہ کی اور اسے تلوار کے گھاٹ اُتار دیا۔بعد میں کسی نے اس واقعہ کی خبر آنحضرت ﷺکو کر دی ۔ آپ حضرت اسامہؓ پر سخت ناراض ہوئے اور غصہ سے آپ کاچہرہ سرخ ہو گیا آپؐ نے فرمایا اے اسامہ ! کیا تم نے اسے اس کے اظہار اسلام کے بعد مار دیا ؟اور آپ ؐ نے تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔اسامہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ شخص دکھاوے کے طور پر ایسا کہتا تھاتاکہ بچ جاوے ۔آپ ؐ نے جوش سے فرمایا اَفَلا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ اَقَالَھَااَمْ لَا یعنی تو نے پھر اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا۔ کہ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ نہیں ۔ اسامہ کہتے ہیں آنحضرت ﷺ نے یہ الفاظ ایسی ناراضگی میں فرمائے کہ تَمَنَّیْتُ اَنِّیْ لَمْ اَکُنْ اَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْیَوْمِ میرے دل میں یہ خواہش پید اہوئی کہ کاش ! میں اس سے قبل مسلمان ہی نہ ہو ا ہوتا اور صرف آج اسلام قبول کر تا ۔تاکہ آنحضرت ﷺ کی یہ ناراضگی میرے حصہ میں نہ آتی ۔میں بھی جو رسول پاک کی خاک پا ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتا ہوں۔آپکی اتباع میں ڈاکٹر صاحب سے یہی عرض کرتا ہوں کہ میرے خلاف یہ خطرنا ک الزام لگانے سے قبل آپ نے میرا دل تو چیر کر دیکھ لیا ہوتاکہ اس کے اندر کیا ہے ۔بس اس سے زیادہ کیا جواب دوں ۔ڈاکٹر صاحب کوئی مثال پیش فرماتے تو اس کے متعلق کچھ عرض کرتا ۔لیکن جو بات بغیر مثال دینے کے یونہی کہہ دی گئی ہو اس کا کیا جواب دیا جائے؟ میرا خدا گواہ ہے کہ میں نے سیرۃ المہدی کی کوئی روایت کسی ذاتی غرض کے ماتحت نہیں لکھی اور نہ کوئی روایت اس نیت سے تلاش کر کے درج کی ہے کہ اس سے غیر مبایعین پر زد پڑے بلکہ جو کچھ بھی مجھ تک پہنچا ہے اسے بعد مناسب تحقیق کے درج کر دیا ہے ۔ وَلَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَبَ بایں ہمہ اگر میری یہ کتا ب ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم رتبہ محققین کے اوقات گرامی کے شایان شان نہیں تو مجھے اس کا افسوس ہے ۔
ساتواں اور آخری اصولی اعتراض جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیرۃ المہدی کی بہت سی روایات درایت کے اصول کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں ۔اور جو بات درایتًا غلط ہو وہ خود روایت کی رُو سے کیسی ہی مضبوط نظر آئے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا مثلاً ڈاکٹر صاحب کا بیان ہے کہ سیرۃ المہدی میں بعض ایسی روایتیں آگئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی تحریرات کے صریح خلاف ہیں بلکہ بعض حالتوں میں آپکے مزیل شان بھی ہیں او ر ایسی حالت میں کوئی شخص جو آپ کو راست باز یقین کرتا ہو ان روایات کو قبول نہیں کر سکتا ۔راوی کے بیان کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے مگر حضرت مسیح موعودؑپر حرف آنے کو ہمارا ایمان ،ہما را مشاہدہ ، ہمارا ضمیر قطعاً قبول نہیں کرسکتا ۔خلاصہ کلام یہ کہ ایسی روایتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ ؑ کی تحریرات کے صریح خلاف ہوں قابل قبول نہیں ہیں ۔مگر سیرۃ المہدی میں اس قسم کی روایات کی بھی کوئی کمی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کے جواب میں مَیں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میںاصولاً اس بات سے متفق ہوں کہ جو روایات واقعی اور حقیقتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تعلیم اور آپ کی تحریرات کے خلاف ہیں وہ کسی صور ت میں بھی قابل قبول نہیں ہو سکتیں اور ان کے متعلق بہر حال یہ قرار دینا ہو گا کہ اگر راوی صادق القول ہے تو یا تو اس کے حافظہ نے غلطی کھائی ہے اور یا وہ بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکا ۔اس لئے روایت کرنے میں ٹھوکر کھا گیا ہے ۔اور یا کوئی اور اس قسم کی غلطی واقع ہو گئی ہے ۔جس کی وجہ سے حقیقت امر پر پردہ پڑگیا ہے ۔ واقعی زبانی روایات سے سوائے اس کے کہ وہ تواتر کی حد کو پہنچ جائیں صرف علم غالب حاصل ہوتا ہے اور یقین کامل اور قطعیت تامہ کا مرتبہ ان کو کسی صورت میں نہیں دیا جاسکتا۔پس لامحالہ اگر کوئی زبانی روایت حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃالسلام کے ثابت شدہ طریق عمل اور آپکی مسلم تعلیم اور آپ کی غیر مشکوک تحریرات کے خلاف ہے تو کوئی عقل مند اسے قبول کرنے کا خیال دل میں نہیں لا سکتا اور اس حد تک میرا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اتفاق ہے لیکن بایں ہمہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ عملاً یہ معاملہ ایسا آسان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے سمجھ رکھا ہے ۔ درایت کا معاملہ ایک نہایت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں جرأ ت کے ساتھ قدم رکھنا سخت ضرر رساں نتائج پید اکر سکتا ہے ۔دراصل جہاں بھی استدلال و استنباط اور قیاس و استخراج کا سوال آتا ہے وہاں خطر ناک احتمالات و اختلافا ت کا دروازہ بھی ساتھ ہی کھل جاتا ہے ۔ایک مشہور مقولہ ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اور دنیا کے تجربہ نے اس مقولہ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔جہاں تک مشاہدہ اور واقعہ کا تعلق ہے وہاں تک تو سب متفق رہتے ہیں اور کوئی اختلاف پید ا نہیں ہوتا ۔والشاذکالمعدوم ۔لیکن جونہی کہ کسی مشاہدہ یا واقعہ سے استدلال و استنباط کرنے اور اس کا ایک مفہوم قرار دے کر اس سے استخراج نتائج کرنے کا سوال پید ا ہوتا ہے پھر ہر شخص اپنے اپنے راستہ پر چل نکلتا ہے اور حق وباطل میں تمیز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔پس یہ بات منہ سے کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ جو روایت حضرت مسیح موعود ؑ کے طریق عمل کے خلاف ہو اسے رد کر دو یا جو بات حضرت کی تحریرات کے خلاف نظر آئے تو اسے قبول نہ کرو اور کوئی عقل مند اصولاً اس کا منکر نہیں ہو سکتا ۔لیکن اگرذرا غور سے کام لے کر اس کے عملی پہلو پر نگا ہ کی جائے تب پتہ لگتا ہے کہ یہ جرح و تعدیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور ہر شخص اس کی اہلیت نہیں رکھتا کہ روایات کو اس طرح اپنے استدلال و استنباط کے سامنے کاٹ کاٹ کر گراتا چلا جائے ۔بیشک حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف کوئی روایت قابل شنوائی نہیں ہو سکتی ۔ مگر طریق عمل کا فیصلہ کرنا کا رے دارد۔ اور میں اس شیر دل انسان کو دیکھنا چاہتا ہوں جو یہ دعویٰ کر ے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریق عمل قرار دینے میں اس کی رائے غلطی کے امکان سے بالا ہے ۔اسی طرح بے شک جو روایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے خلاف ہو اسے کوئی احمدی قبول نہیں کرسکتا ۔مگر تحریرات کا مفہوم معین کرنا بعض حالتوں میں اپنے اندر ایسی مشکلات رکھتا ہے جن کا حل نہایت دشوار ہو جاتا ہے اور مجھے ایسے شخص کی جرأت پر حیرت ہوگی جو یہ دعویٰ کرے کہ حضرت کی تحریرات کا مفہوم معین کر نے میں اس کا فیصلہ ہر صور ت میں یقینی اور قطعی ہوتا ہے پس جب درایت کا پہلو اپنے ساتھ غلطی کے احتمالات رکھتا ہے تو اس پر ایسا اندھا دھند اعتماد کرنا کہ جو بھی روایت اپنی درایت کے خلاف نظر آئے اسے غلط قرار دے کر ردّ کر دیا جائے ۔ایک عامیانہ فعل ہو گا جو کسی صور ت میں بھی سلامت روی اور حق پسندی پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا ۔مثال کے طورپر میں ڈاکٹر صاحب کے سامنے مسئلہ نبوت پیش کر تا ہوں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات ہر دو فریق کے سامنے ہیں لیکن مبائعین کی جماعت ان تحریرات سے یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور غیر مبائعین یہ استدلال کر تے ہیں کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا ۔ اور فریقین کے استدلال کی بنیاد حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریرات پر ہے ۔اب اگر درایت کے پہلو کو آنکھیں بند کر کے ایسا مرتبہ دیدیا جائے کہ جس کے سامنے روایت کسی صور ت میں بھی قابل قبول نہ ہو تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ جو روایت غیر مبائعین کو ایسی ملے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت ثابت ہو تی ہو تو وہ اسے ردّ کر دیں۔کیونکہ وہ بقول ان کے آپ کی تحریرات کے خلاف ہے اور اگر کوئی روایت مبائعین کے سامنے ایسی آئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت کا دعویٰ نہیں تھا تو وہ اسے قبول نہ کریں کیونکہ بقول ان کے یہ روایت حضرت صاحب کی تحریرات کے خلاف ہے ۔اسی طرح مبائعین کا یہ دعویٰ ہے کہ غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریق عمل کے خلاف تھا اور غیر مبائعین یہ کہتے ہیں کہ جو غیر احمدی مخالف نہیں ہیں ان کا جنازہ پڑھ لینا حضرت مسیح موعو د ؑ کے طریق عمل کے خلاف نہیں ۔ اب اس حالت میں ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ اصول پر اندھا دھند عمل کرنے کا نتیجہ سوائے اسکے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اگر کسی مبائع کو کوئی ایسی روایت پہنچے کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بعض حالتوں میں غیروں کا جنازہ پڑھ لیتے تھے ۔یا پڑھنا پسند فرماتے تھے تو وہ اسے ردّ کر دیتے کیونکہ بقول اس کے یہ بات حضرت کے طریق عمل کے خلاف ہے ۔اور جب کو ئی روایت کسی غیر مبائع کو ایسی ملے جس سے یہ ثابت ہو تا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام غیروں کا جناز ہ نہیں پڑھتے تھے یا پڑھنا پسند نہیں فرماتے تھے تو خواہ یہ روایت اصول روایت کے لحاظ سے کیسی ہی پختہ اور مضبوط ہو ۔وہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دے کیونکہ بقول اس کے یہ روایت حضرت صاحب کے طریق عمل کے خلاف ہے ۔ناظرین خود غور فرمائیں کہ اس قسم کی کارروائی کا سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ علم کی ترقی کا دروازہ بند ہو جائے اور ہر شخص اپنے دماغ کی چاردیواری میں ایسی طرح محصور ہو کر بیٹھ جائے کہ باہر کی ہوا اسے کسی طرح بھی نہ پہنچ سکے ۔اور اس کا معیار صداقت صرف یہ ہو کہ جو خیالات وہ اپنے دل میں قائم کر چکا ہے ان کے خلاف ہر اک بات خواہ وہ کیسی ہی پختہ اور قابل اعتماد ذرائع سے پایہ ثبوت کو پہنچی ہو ئی ہو ردّ کئے جانے کے قابل ہے کیونکہ وہ اس کی درایت کے خلاف ہے ۔ مکرم ڈاکٹر صاحب ! مجھے آپ کے بیان سے اصولی طور پر اتفاق ہے مگر میں افسوس کر تا ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ کے عملی پہلو پر کما حقہ‘ غور نہیں فرمایا ۔ورنہ آپ درایت کے ایسے دلدادہ نہ ہو جاتے کہ اس کے مقابلہ میں ہر قسم کی روایت کو ردّ کئے جانے کے قابل قرار دیتے ۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو کہ اصل چیز جس پر بنیاد رکھی جانی چاہیے وہ روایت ہی ہے ۔اور علم تاریخ کا سارا دارومدار اسی اصل پر قائم ہے اور درایت کے اصول صرف بطور زوائد کے روایت کو مضبوط کر نے کیلئے وضع کئے گئے ہیں اور آج تک کسی مستند اسلامی مؤرخ نے ان پر ایسا اعتماد نہیں کیا کہ ان کی وجہ سے صحیح اور ثابت شدہ روایات کر ترک کر دیا ہو ۔متقدمین کی تصنیفات تو قریباً قریباً کلیۃً صرف اصول روایت پر ہی مبنی ہیں اور درایت کے اصول کی طرف انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے البتہ بعد کے مؤرخین میں سے بعض نے درایت پر زور دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اصل بنیاد روایت پر ہی رکھی ہے ۔اور درایت کو ایک حد مناسب تک پر کھنے اور جانچ پڑتال کرنے کا آلہ قرار دیا ہے اور یہی سلامت روی کی راہ ہے ۔واقعی اگر ایک بات کسی ایسے آدمی کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے جو صادق القول ہے اور جس کے حافظہ میں بھی کوئی نقص نہیں اور جو فہم و فراست میں بھی اچھا ہے ۔اور روایت کے دوسرے پہلوئوں کے لحاظ سے بھی وہ قابل اعتراض نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کی روایت کو صرف اس بنا پر ردّ کر دیں کہ وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی ۔یا یہ کہ ہمارے خیال میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل یا تحریروں کے مخالف ہے۔کیونکہ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہم واقعات کو اپنے محدود استدلال بلکہ بعض حالتوں میں خود غرضانہ استدلال کے ماتحت لانا چاہتے ہیں ۔خوب سوچ لو کہ جو بات عملاً وقوع میں آگئی ہے یعنی اصول روایت کی روسے اس کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ وہ واقع ہو چکی تو پھر خواہ ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یا ہمارے کسی استدلال کے موافق ہو یا مخالف ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے قبول کر یں ۔سوائے اسکے کہ وہ کسی ایسی نص صریح کے مخالف ہو ۔جس کے مفہوم کے متعلق اُمت میں اجماع ہو چکا ہو ۔ مثلاً یہ بات کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ہر احمدی کہلانے والے کے نزدیک مسلّم ہے اور کوئی احمدی خواہ وہ کسی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔اس کا منکر نہیں ۔پس ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی روایت ہم تک پہنچے جس میں یہ مذکور ہو کہ آپ نے کبھی بھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تو خواہ بظاہر وہ روایت میں مضبوط ہی نظر آئے ۔ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور یہ سمجھ لیں گے کہ راوی کو (اگر وہ سچا بھی ہے)کوئی ایسی غلطی لگ گئی ہے جس کا پتہ لگانا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح تحریرات (یعنی ایسی تحریرات جن کے مفہوم کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے)کے مخالف ہے لیکن اگر کوئی روایت ہمیں مسئلہ نبوت یا کفر و اسلام یا خلافت یا جنازہ غیر احمدیان وغیرہ کے متعلق ملے اور وہ اصول روایت کے لحاظ سے قابل اعتراض نہ ہو تو خواہ وہ ہمارے عقیدہ کے کیسی ہی مخالف ہو ۔ہمارا فرض ہے کہ اسے دیانتداری کے ساتھ درج کردیں۔اور اس سے استدلال و استنباط کرنے کے سوال کو ناظرین پر چھوڑ دیں تاکہ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکے اور علمی تحقیق کا دروازہ بند نہ ہونے پائے ۔ اور اگر ہم اس روایت کو اپنے خیال اور اپنی درائت کے مخالف ہونے کی وجہ سے ترک کر دینگے تو ہمارا یہ فعل کبھی بھی دیانتداری پر مبنی نہیں سمجھا جاسکتا۔
پھر مجھے یہ بھی تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک طرف تو مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میری کتاب صرف ’’محمودی‘‘خیال کے لوگوں کے مطلب کی ہے اور لاہوری محققین کے مطالعہ کے قابل نہیںاور دوسری طرف یہ اعتراض ہے کہ کتاب درایت کے پہلو سے خالی ہے۔حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے اصول کے مطابق میرے خلاف اس اعتراض کا حق نہیں تھا۔کیونکہ اگر میں نے بفرض محال صرف ان روایات کو لیا ہے جو ہمارے عقیدہ کی مؤیّد ہیں۔تو میں نے کوئی برا کام نہیں بلکہ بقول ڈاکٹر صاحب عین اصول درایت کے مطابق کیا ہے ۔کیونکہ جو باتیں میرے نزدیک حضرت کے طریق عمل اور تحریروں کے خلاف تھیں ۔ان کو میں نے رد ّکر دیاہے ۔اور صرف انہیں کو لیا ہے جو میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور آپ کی تحریرات کے مطابق تھیں اور یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ میں ان کے خلاف کسی روایت کو قبول کروں ۔کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ ہیں ۔
’’صریح حضرت مسیح موعود کی تحریروں اور طرز عمل کے خلاف اگر ایک روایت ہو تو حضرت مسیح موعود کو راست باز ماننے والاتو قطعاً اسکو قبول نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔ہم راوی پر حرف آنے کو قبول کر سکتے ہیں مگر مسیح موعود ؑ پر حرف آنے کو ہمارا یمان ،ہماری ضمیر ،ہمارا مشاہدہ ۔ہمارا تجربہ قطعاًقبول کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
پس اس اصول کے ماتحت اگر میں نے ان روایتوں کو جو میرے نزدیک حضرت کی تحریرات اور طرز عمل کے صریح خلاف تھیں ۔ردّ کر دیا اور درج نہیں کیا ۔اور اس طرح میری کتاب ’’محمودی ‘‘عقائد کی کتاب بن گئی تو میں نے کچھ برا نہ کیا ۔بلکہ بڑا ثواب کمایا اور ڈاکٹر صاحب کے عین دلی منشاء کو پورا کرنے کا موجب بنااور ایسی حالت میں میرا یہ فعل قابل شکریہ سمجھا جانا چاہیے ۔نہ کہ قابل ملامت اور اگر ڈاکٹر صاحب کا یہ منشاء ہے کہ روایت کے اصول کی رو سے تو میں اپنے فہم کے مطابق پڑتال کیا کروں مگر درایت کے مطابق پرکھنے کے لئے ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم مشربوں کی فہم و فراست کی عینک لگا کر روایات کا امتحان کیا کروں ۔تو گو ایسا ممکن ہو ۔لیکن ڈر صرف یہ ہے کہ کیا اس طرح میری کتاب ’’پیغامی ‘‘ عقائد کی کتاب تو نہ بن جائے گی ۔اور کیا ڈاکٹر صاحب کی اس ساری تجویز کا یہی مطلب تو نہیں کہ محنت تو کروں میں اور کتاب ان کے مطلب کی تیار ہو جائے ۔مکرم ڈاکٹر صاحب !افسوس! آپ نے اعتراض کر نے میں انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے بعض اعتراضات ایک دوسرے کے مخالف پڑے ہوئے ہیں ۔ایک طرف تو آپ یہ فرماتے ہیں کہ میری کتاب ’’ محمودی ‘‘ عقائد کی کتاب ہے اور دوسری طرف میرے خلاف یہ ناراضگی ہے کہ میں نے درایت سے کام نہیں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف روایتیں درج کر دی ہیں ۔اب آپ خود فرمائیں کہ اس حالت میں مَیں کروں تو کیا کروں ؟ اپنی درایت سے کام لوں تو میری کتاب محمودی عقائد کی کتاب بنتی ہے اور اگر درایت سے کام نہ لوں تو یہ الزام آتاہے کہ درایت کا پہلو کمزور ہے ۔ایسی حالت میں میرے لئے آپ کے خوش کرنے کا سوائے اس کے اور کونسا رستہ کھلا ہے کہ میں درایت سے کام تو لوں ۔مگر اپنی درایت سے نہیں بلکہ آپ کی درایت سے اور ہر بات جو آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریق عمل اور تحریرات کے خلاف ہو۔اسے ردّ کر تا جائوں جس کا نتیجہ یہ ہو کہ جب کتاب شائع ہو تو آپ خوش ہو جائیں کہ اب یہ کتاب روایت و درایت ہر دو پہلو سے اچھی ہے ۔کیونکہ اس میں کوئی بات لاہوری احباب کے عقائد کے خلاف نہیں ۔اگر جرح و تعدیل کا یہی طریق ہے تو خدا ہی حافظ ہے ۔
یہ سب کچھ میں نے ڈاکٹر صاحب کے اصول کو مدنظر رکھ کر عرض کیا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں نے جہاں تک میری طاقت ہے روایت و درایت دونوں پہلوئوں کو دیانت داری کے ساتھ علیٰ قدر مراتب ملحوظ رکھا ہے اور یہ نہیں دیکھا کہ چونکہ فلاں بات ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے اس لئے اسے ضرور لے لیا جائے یا چونکہ فلاںبات لاہوری احباب کے عقیدہ کے مطابق ہے ۔اس لئے اسے ضرور چھوڑ دیا جائے ۔بلکہ جو بات بھی روایت کے رو سے میںنے قابل قبول پائی ہے اور درایت کے رو سے بھی اسے حضرت مسیح موعود ؑ کی صریح اور اصولی اور غیر اختلافی اور محکم تحریرات کے خلاف نہیں پایا ۔اور آپ کے مسلم اور غیر مشکوک اور واضح اور روشن طریق عمل کے لحاظ سے اسے قابل ردّ نہیں سمجھا۔اسے میں نے لے لیا ہے مگر بایں ہمہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گو شاید احتیاط اسی میں ہو جو میں نے کیا ہے ۔لیکن بحیثیت مجموعی روایات کے جمع کرنے والے کیلئے مناسب یہی ہے کہ وہ صرف اصول روایت تک اپنی نظر کو محدود رکھے ۔اور جو روایت بھی روایت کے اصول کے مطابق قابل قبول ہو اسے درج کرلے اور درایت کے میدان میں زیادہ قدم زن نہ ہو بلکہ اس کام کو ان لوگوں کیلئے چھوڑ دے جو عند الضرورت استدلال و استنباط کے طریق پر انفرادی روایات کو زیر بحث لاتے ہیں ۔و اِلاّ نتیجہ یہ ہوگا کہ شخصی اور انفرادی عقیدے یا ذاتی مذاق کے خلاف ہو نے کی وجہ سے بہت سی سچی اور مفید روایات چھوٹ جائیں گی اور دنیا ایک مفید ذخیرہ علم سے محروم ر ہ جائے گی ۔یہ میری دیانتداری کی رائے ہے اور میں ابھی تک اپنی اس رائے پر اپنے خیال کے مطابق علیٰ وجہ البصیرت قائم ہوں۔ واللّٰہ اعلم ولا علم لنا الا ماعلّمتنا-
خاکسار مرزا بشیر احمد قادیان ۱۴؍نومبر ۱۹۲۷ء
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 3 ۔ یونی کوڈ



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْم وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوعُود
عرض حال
خاکسار اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر بجا لاتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے سیرت المہدی کے حصہ سوم کے شائع کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ـ
سیرۃ المہدی کا حصہ اوّل ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کے بعد حصہ دوم ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا اور اب ۱۹۳۹ء میں حصہ سوم شائع ہو رہا ہے اس عرصہ میں سیرۃ المہدی حصہ اول کا دوسرا ایڈیشن بھی ۱۹۳۵ء میں نکل چکا ہے جس میں پہلے ایڈیشن کی بعض غلطیوں کی اصلاح کی جا چکی ہے اور بعض قابلِ تشریح باتوں کی تشریح بھی درج ہو چکی ہے۔ اور اب حصہ اول کا یہی ایڈیشن مستند سمجھا جاناچاہئیے۔
سیرۃ المہدی حصہ دوم کی اشاعت کے بعد بعض ایسے حالات پیش آئے جن کی وجہ سے میں سمجھا کہ شاید آئندہ میں اس کام کو جاری نہیں رکھ سکوں گا مگر بالآخر خدا نے اس حالت کو بدل دیا اور مجھے توفیق دی کہ میں اس کتاب کے تیسرے حصہ کو مرتب کر سکوں ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔
حصہ سوم جو اس وقت دوستوں کے ہاتھ میں جا رہا ہے۔ اس میں مَیں نے اپنی حاشیہ آرائی کو بہت کم کر دیا ہے۔ یعنی وہ لمبے لمبے تشریحی نوٹ جو مَیں پہلے دو حصوں میں لکھتا رہا ہوں۔ تیسرے حصہ میں ان کا رنگ بدل کر انہیں مختصر کر دیا گیا ہے تاکہ روایات کا قدرتی حُسن مصنوعی تزئین کے سامنے مغلوب نہ ہونے پائے ،تاہم کہیں کہیں جہاں ضروری تھا وہاں تشریح درج کی گئی ہے۔ یہ تشریح دو قسم کے موقعوں پر درج ہوئی ہے۔ اول ایسے موقعوں پر کہ جہاں تشریح کے بغیر روایت کا صحیح مطلب سمجھنے میں غلط فہمی کا امکان نظر آیا ہے۔ دوسرے جہاں کسی اضافہ سے روایت کی حقیقی غرض کو مزید جِلا ملنے کی امید ہوئی ہے۔ ان کے سوا مَیں نے کوئی تشریحی نوٹ نہیں دیا۔
اس حصہ کی تیاری میں مجھے مولوی شریف احمد صاحب مولوی فاضل نے بہت امداد دی ہے جنہیں میں نے اسی غرض کے لئے اپنے ساتھ لگا لیا تھا یعنی روایات کی نقل اور انتخاب کا کام زیادہ تر انہوں نے کیا ہے فَجَزَاہُ اللّٰہُُ خَیْرًا مگر آخری نظر خود مَیں نے ڈالی ہے اور ایک ایک لفظ میری نظر سے گزرا ہے اور مَیں نے متعدد جگہ درستی کی ہے اور تشریحی نوٹ سب کے سب میرے اپنے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے حالات اور آپؑ کے الفاظ اپنے اندر وہ عظیم الشان روحانی اثر اور زندگی بخش جوہر رکھتے ہیں کہ بعض صورتوں میں ایک روایت انسان کی کایا پلٹ دینے کے لئے کافی ہو سکتی ہے مگر یہ اثر زیادہ تر مطالعہ کرنے والے کی اپنی قلبی کیفیت اور پھر خدا کے فضل پر منحصر ہے ۔پس میری یہ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کو اس کے پڑھنے والوں کے لئے بابرکت کرے۔ اس کی خوبیوں سے وہ متمتع ہوں اور اس کے نقصوں کی مضرت سے محفوظ رہیں اور اس سے وہ نیک غرض حاصل ہو جو میرے دل میں ہے بلکہ اس سے بھی بہتر اور اس سے بھی بڑھ کر۔ اور خداتعالیٰ اپنے فضل سے میری اس ناچیز خدمت کو میرے لئے فلاح دارین کا ذریعہ بناوے۔ آمین اللّٰھم آمین۔
اس نوٹ کے ختم کرنے سے پہلے مجھے صرف اس قدر مزید عرض کرنا ہے کہ خدا کے فضل سے اس وقت میرے پاس سیرۃ المہدی کے حصہ چہارم کے لئے بھی کافی مواد موجود ہے۔ اس حصہ میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض قدیم صحابہ کی روایات ہوں گی جن میں سے مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جن کی بعض روایات نہایت ایمان پرور ہیں۔ مگر ابھی تک اس حصہ کی تکمیل باقی ہے اور تشریحی نوٹ اور نظر ثانی کا کام بھی رہتا ہے۔ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے حصہ چہارم کی اشاعت کی بھی جلد توفیق عطا کرے کیونکہ زندگی تھوڑی ہے اور کام بہت۔ اور کام کی توفیق بھی خدا کے فضل پر موقوف ہے اور ہمارے ہر کام میں وہی سہارا ہے۔
خاکسار راقم آثم
مرزا بشیر احمدؑ
قادیان
مورخہ ۳ ؍ فروری ۱۹۳۹ء

بِسْمِ اللّٰہ ِالرّٰحْمٰنِ الرّٰحیْـمْ
نَحمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلیٰ رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود مع التسلیم
عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال سمعتُ النبیَّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یَقُوْلُ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَالِکُلِّ امْرِیٍٔ مَانَوٰی (رواہ البخاری)
{472} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ سیرۃ المہدی حصہ اول میں جو غلطیاں رہ گئی تھیں یا جہاں جہاں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان تھا ان کی اصلاح حصہ دوم میںنیز حصہ اول کے طبع دوم میں کر دی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد بعض مزید ایسی باتیں معلوم ہوئی ہیں جو قابل اصلاح یا قابل تشریح ہیں۔ علاوہ ازیں حصہ دوم میں بھی بعض غلطیاں رہ گئی تھیں۔ سو اس جگہ حصہ اول و حصہ دوم دونوں کی باقی ماندہ غلطیوں کی اصلاح یا قابل تشریح باتوں کی تشریح درج کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی مزید غلطی معلوم ہوئی تو اس کی آئندہ اصلاح کر دی جائے گی:۔
(۱) روایت نمبر۱۹ کی بناء پر جو اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے متعلق ہسڑیا یا مراق کے بارے میں مخالفین کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کا اصولی جواب طبع دوم کی اسی روایت یعنی روایت نمبر۱۹ میں دیا جا چکا ہے مزید بصیرت کے لئے روایات نمبر ۸۱، ۲۹۳، ۳۶۵، ۳۶۹، اور ۴۵۹ بھی ملاحظہ کی جائیں جن سے اس سوال پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
(۲) روایت نمبر ۲۲ میں حضرت مسیح موعود السلام کے الہامات کی نوٹ بُک کے متعلق جو یہ الفاظ آتے ہیں۔ کہ ’’ اب وہ نوٹ بُک کہاں ہے؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی کے پاس ہے‘‘۔ اس میں بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہٖ ہیں۔
(۳) روایت نمبر ۳۷، ۴۶، ۱۲۷ حصہ اول طبع دوم میں یہ بیان کیا گیا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی حقیقی ہمشیرہ مراد بی بی صاحبہ مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے بڑے بھائی مرزا محمد بیگ کے ساتھی بیاہی گئی تھیں۔ مگر یہ کہ وہ جلد فوت ہو گیا۔ اس بارہ میں والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد صاحب نے جو ہماری بھاوجہ ہیں مجھ سے بیان کیا۔ کہ ہماری پھوپھی مراد بی بی کی شادی مرزا محمد بیگ کے ساتھ نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ مرزا احمد بیگ کے بڑے بھائی مرزا غلام غوث کے ساتھ ہوئی تھی۔ مرزا محمد بیگ مرزا احمد بیگ سے چھوٹا تھا۔ اور بچپن ہی میں فوت ہو گیا تھا۔
(۴) روایت نمبر ۵۱ کی بناء پر جو بعض کمینہ مزاج مخالفین نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے نام کے متعلق استہزاء کا طریق اختیار کیا تھا۔ اس کا مفصل جواب حصہ اول طبع دوم کی اسی روایت یعنی روایت نمبر۵۱ میں درج کیا جا چکا ہے۔اسی ضمن میں روایات نمبر۲۵، ۴۴، ۹۸، ۱۲۹، ۱۳۴، ۴۱۲ اور نمبر۴۳۸ بھی قابل ملاحظہ ہیں جن سے اس بحث پر مزید روشنی پڑتی ہے۔
(۵) روایت نمبر ۵۵ میں حضرت والدہ صاحبہ کے یہ الفاظ درج ہیں کہ ’’چنانچہ مَیں نے آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کی طرف سے حج کروا دیا‘‘۔ اس کے متعلق یہ بات قابلِ نوٹ ہے۔ کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حجِ بدل کروایا تھا۔ اور حافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔
(۶) روایت نمبر۹۸ حصہ اول طبع دوم میں میاں عبداللہ صاحب سنوری نے ذکر کیا ہے۔ کہ انہوں نے میاں محمد حسین صاحب مرادآبادی خوشنویس کے بعد چوتھے نمبر پر بیعت کی تھی۔ مگر جو ابتدائی رجسٹر بیعت کنندگان مجھے حال ہی میں ملا ہے اس کے اندراج کے لحاظ سے ان کا نام نمبر۱۱ پر درج ہے۔
(۷) اسی روایت نمبر ۹۸ میں میاں عبداللہ صاحب سنوری نے پہلے دن کی بیعت کی تاریخ ۲۰؍رجب ۱۳۰۶ء مطابق ۲۳ ؍مارچ ۱۸۸۹ء بیان کی ہے۔ مگر رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹؍ رجب اور ۲۱ ؍مارچ ظاہر ہوتی ہے یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں کا مقابلہ بھی غلط ہو جاتا ہے اس اختلاف کی وجہ سے مَیں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰؍رجب کو ۲۳؍ مارچ ثابت ہوئی ہے۔ پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہو گیا ہے اور یا اس ماہ میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی۔ واللّٰہ اَعلم۔
(۸) روایت نمبر ۳۰۶ میں خارق عادت طور پر بخاری کا حوالہ مل جانے کا واقعہ مذکور ہے اور اس کے متعلق یہ الفاظ درج ہیں کہ:۔ ’’مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا ہے اور اس وقت حضرت صاحب کو غالباً نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ سو اوّل تو بخاری ہی نہ ملتی تھی۔ اور جب ملی تو حوالہ کی تلاش مشکل تھی الخ‘‘-
اس واقعہ کے متعلق پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ’’ یہ واقعہ میرے سامنے پیش آیا تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ تھا اور مَیں اس میں کاتب تھا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے پرچوں کی نقل کرتا تھا۔ مفتی محمد صادق صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ غالباً حضرت صاحب کو نون ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث میں حوالہ کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اس میں جناب مفتی صاحب کو غلطی لگی ہے۔ کیونکہ مفتی صاحب وہا ںنہیں تھے۔ نون خفیفہ و ثقیلہ کی بحث تو دہلی میں مولوی محمد بشیر سہسوانی ثم بھوپالوی کے ساتھ تھی۔ اور تلاش حوالہ بخاری کا واقعہ لدھیانہ کا ہے۔ بات یہ تھی کہ لدھیانہ کے مباحثہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا تھا۔ بخاری موجود تھی۔ لیکن اس وقت اس میں یہ حوالہ نہیں ملتا تھا۔ آخر کہیں سے تو ضیح تلویح منگا کر حوالہ نکال کر دیا گیا۔ صاحبِ توضیح نے لکھا ہے۔ کہ یہ حدیث بخاری میں ہے‘‘۔
اور اسی واقعہ کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا کہ:۔ ’’روایت نمبر ۳۰۶ میں حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی روایت سے ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے اور حضرت مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کی روایت سے اس کی مزید تصریح کی گئی ہے۔ مگر مفتی صاحب نے اُسے لدھیانہ کے متعلق بیان فرمایا ہے اور نونِ ثقیلہ والی بحث کے تعلق میں ذکر کیا ہے۔ جو درست نہیں ہے۔ مفتی صاحب کو اس میں غلطی لگی ہے۔ لدھیانہ میں نہ تو نونِ ثقیلہ یا خفیفہ کی بحث ہوئی اور نہ اس قسم کے حوالہ جات پیش کرنے پڑے۔ نونِ ثقیلہ کی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر بھوپالوی والے مباحثہ کے دوران میں پیش آئی تھی۔ اور وہ نون ثقیلہ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے تھے۔ اور جہاں تک میری یاد مساعدت کرتی ہے اس مقصد کے لئے بھی بخاری کا کوئی حوالہ پیش نہیں ہوا۔ الحق دہلی سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے۔ دراصل یہ واقعہ لاہور میں ہوا تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی ’’محدثیّت اور نبو ّت‘‘ پر بحث ہوئی تھی۔ یہ مباحثہ محبوب رائیوں کے مکان متصل لنگے منڈی میں ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے محدثیّت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی اس حدیث کا حوالہ دیا۔ جس میں حضرت عمرؓ کی محدثیّت پر استدلال تھا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا۔ اور بخاری خود بھیج دی۔ مولوی محمد احسن صاحب نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود نکال کر پیش کیا۔ اور یہ حدیث صحیح بخاری پارہ ۱۴ حصہ اوّل باب مناقب عمرؓ میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ قال النَّبِیُّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم قد کان فِیْمَن قبلکم من بنی اسرائیل رجال یُکَلَّمُونَ من غیران یکونوا انبیائَ فَاِنْ یَکُ مِنْ اُمَّتِی مِنْھُمْ اَحَدٌ فَعُمَر۔جب حضرت صاحب نے یہ حدیث نکال کر دکھا دی۔ تو فریق مخالف پر گویا ایک موت وارد ہو گئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اسی پر مباحثہ ختم کر دیا‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا روایتوں میں جو اختلاف ہے اس کے متعلق خاکسار ذاتی طور پر کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ ہاں اس قدر درست ہے کہ نونِ ثقیلہ والی بحث دہلی میں مولوی محمد بشیر والے مباحثہ میں پیش آئی تھی۔ اور بظاہر اس سے بخاری والے حوالہ کا جوڑ نہیں ہے۔ پس اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دہلی والے مباحثہ کا نہیں ہے۔ آگے رہا لاہور اور لدھیانہ کا اختلاف، سو اس کے متعلق مَیں کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ نیز خاکسار افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس وقت جبکہ سیرۃ المہدی کا حصہ سوم زیرِ تصنیف ہے۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی فوت ہو چکے ہیں۔ پیر صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق روایات کا ایک عمدہ خزانہ تھے۔
(۹) روایت نمبر ۳۰۷ کی تشریح میں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپؑ ایک چوزہ ذبح کرتے ہوئے زخمی ہو گئے۔پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ :۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام عصر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے۔بائیں ہاتھ کی انگلی پر پٹی پانی میں بھیگی ہوئی باندھی ہوئی تھی۔ اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس سے پوچھا۔ کہ حضور نے یہ پٹی کیسے باندھی ہے؟ تب حضرت اقدس علیہ السَّلام نے ہنس کر فرمایا کہ ایک چوزہ ذبح کرنا تھا۔ ہماری اُنگلی پر چُھری پھر گئی۔ مولوی صاحب مرحوم بھی ہنسے اور عرض کیا کہ آپ نے ایسا کام کیوں کیا۔ حضرت نے فرمایا۔ کہ اس وقت اور کوئی نہ تھا۔
(۱۰)روایت نمبر ۳۰۹ کی تشریح میں جس میں لدھیانہ کی پہلے دن کی بیعت کا ذکر ہے۔مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ روایت نمبر۳۰۹ میں مخدومی مکرمی صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نے پہلے دن کی بیعت میں مولوی عبداللہ صاحب کے ذکر میں فرمایا ہے کہ وہ خوست کے رہنے والے تھے۔ یہ درست نہیں۔ دراصل مولوی عبداللہ صاحب کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ خوست کے رہنے والے نہ تھے۔اس میں صاحبزادہ صاحب کو سہو ہوا ہے۔ مولوی عبداللہ صاحب اس سلسلہ کے سب سے پہلے شخص ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی طرف سے بیعت لینے کی اجازت دی تھی۔ آپ تنگئی علاقہ چارسدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے۔ مَیں نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب کے نام حضرت اقدس کا مکتوب اور اجازت نامہ الحکم کے ایک خاص نمبر میں شائع کر دیا تھا۔
(۱۱) روایت نمبر۳۳۴ کی تشریح میں جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایک شعر پڑھ کر چشم پُرآب ہو گئے۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے بذریعہ تحریر خاکسار سے بیان کیا۔ کہ:۔ یہ شعر کُنْتَ السَّوَادَلِنَاظِرِیْ الخ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سامنے پڑھا تھا۔ اور مجھے سُنا کر فرمایا۔ کہ کاش! حسّان کا یہ شعر میرا ہوتا اور میرے تمام شعر حسّان کے ہوتے۔ پھر آپ چشم پُرآب ہو گئے۔ اس وقت حضرت اقدس نے یہ شعر کئی بار پڑھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسّان بن ثابتؓ کے شعر کے متعلق پیرسراج الحق صاحب سے جو الفاظ فرمائے وہ ایک خاص قسم کی قلبی کیفیت کے مظہر ہیں۔ جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل پر طاری ہو گی۔ ورنہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے کلام میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت جھلکتی ہے۔ جس کی مثال کسی دوسری جگہ نظر نہیں آتی۔ اور کسی دوسرے کے کلام میں عشق کا وہ بلند معیار نظر نہیں آتا۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں آنحضرت ﷺ کے متعلق نظر آتا ہے۔
(۱۲) حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت نمبر ۴۱۰ جس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے۔ کہ جو شخص ہماری کتب کا مطالعہ نہیں کرتا۔ اس کے ایمان کے متعلق مجھے شُبہ ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ یہ روایت غلط درج ہو گئی ہے۔ اصل روایت یوں ہے یعنی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے یہ فرمایا تھا۔ کہ ’’جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا۔ اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے‘‘۔
{473} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسارعرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایات کے نمبروں میں بعض غلطیاں ہو گئی ہیں۔ ان کی اصلاح درج ذیل کی جاتی ہے:۔
(الف) روایت نمبر ۳۱۴ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۱۴ درج ہو گیا ہے اس کا نمبر ۱/۳۱۴ اور صحیح نمبر ۳۱۵ چاہئے۔
(ب) روایت نمبر ۳۴۱ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۴۱ درج ہو گیا ہے۔ اس کا نمبر ۱/۳۴۱ اور صحیح نمبر ۴۳ ۳چاہئے۔
(ج) روایت نمبر ۳۶۹ کے بعد کی روایت کا نمبر بھی ۳۶۹ درج ہو گیا ہے اس کا نمبر ۱/۳۶۹ اور صحیح نمبر ۳۷۲ چاہئے۔ اس طرح تین روایتوں کی زیادتی کی وجہ سے سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۶۸ کی بجائے دراصل ۴۷۱ نمبر پر ختم ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے حصہ سوم کی پہلی روایت کو ۴۷۲ نمبر دیا گیا ہے۔ ۱ ؎
علاوہ ازیں حصہ دوم میں بعض لفظی غلطیاں بھی رہ گئی ہیں مثلاً:۔
(الف) روایت نمبر ۳۰۵ میں ’’ لَاَخَذْنَاہُ بِالْیَمِیْنِ‘‘ کی بجائے ’’ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ‘‘ چاہئے۔
(ب) روایت نمبر ۳۵۲ میں ’’ نقطہ ‘‘ کی بجائے ’’ نکتہ ‘‘ چاہئے۔
(ج) روایت نمبر ۴۰۶ میں ’’ ثیقل ‘‘ کی بجائے ’’ صیقل ‘‘ چاہئے۔
(د) روایت نمبر ۴۱۱ میں ’’ لَایَنْطِقُ لِسَانِی ‘‘ کی بجائے ’’ لَایَنْطَلِقُ لِسَانِیْ ‘‘ چاہئے۔
(ھ) روایت نمبر ۴۶۸ میں ’’ علمی نقطے ‘‘ کی بجائے ’’ علمی نکتے ‘‘ چاہئے۔ ۱ ؎
{474} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے مکرمی میر محمد اسحٰق صاحب سے جو میرے ماموں ہیںوہ ابتدائی رجسٹر بیعت ملا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سلسلہ بیعت شروع ہونے پر بیعت کرنے والوں کے اسماء درج فرمایا کرتے تھے۔ یہ رجسٹر میر صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات میں سے ملا تھا۔ لیکن افسوس ہے۔ کہ اس قیمتی دستاویز میں سے پہلا ورق ضائع ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ابتدائی آٹھ ناموں کا پتہ نہیں چل سکتا۔ کہ وہ کن اصحاب کے تھے البتہ نمبر ۹ سے لے کر نمبر ۴۷۵ تک کے اسماء محفوظ ہیں۔ ان میں سے ابتدائی ۶۲ اسماء درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ اس رجسٹر میں کئی اندراجات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے ہیں۔ جن کے خط کو مَیں پہچانتا ہوں اور بعض دوسروں کے درج کردہ ہیں۔ جن میں بعض جگہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کا خط بھی نظر آتا ہے۔ ابتدائی آٹھ ناموں کی ترتیب کے متعلق چونکہ دوسری روایات سے (دیکھو نمبر ۹۸، ۳۰۹، ۳۱۵) کسی حد تک پتہ مل سکتا ہے۔ اس لئے اس حصہ میں رجسٹر کی کمی زبانی روایات کی روشنی میں قیاساً پوری کر دی گئی ہے۔ بہرحال اس رجسٹر کے ابتدائی اندراجات حسب ذیل ہیں۔
۱
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
حکیم مولوی نورالدین صاحب
بھیرہ ضلع شاہ پور
ملازم شاہی جموں
یہ حصہ یعنی نمبر ۱
سے نمبر ۸ تک
۲
؍؍
؍؍
میر عباس علی صاحب
لدھیانہ

زبانی روایات
۳
؍؍
؍؍
منشی ہاشم علی صاحب
سنور ریاست پٹیالہ
پٹواری
کی بناء پر یا
۴
؍؍
؍؍
محمد حسین صاحب
مراد آباد
خوشنویسی
قیاسی طور پر
۵
؍؍
؍؍
مولوی عبداللہ صاحب
خوست یا چار سدہ
۔
درج کیا گیاہے۔
۶
؍؍
؍؍
منشی الہ بخش صاحب
لدھیانہ
۔
واللّٰہ اعلم
۷
؍؍
؍؍
یہ نام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا

خاکسار
۸
؍؍
؍؍
قاضی خواجہ علی صاحب
لدھیانہ
۔
(مؤلف)
۹
؍؍
؍؍
حافظ حامد علی ولد فتح محمد
تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
کاشت قادیان ضلع گورداسپور
۱۰
؍؍
؍؍
منشی رستم علی
ولد شہاب خاں
موضع مدار ضلع جالندھر
تحصیل جالندھر
کانگڑہ
ملازمت پولیس علاقہ قیصری ڈی انسپکٹر پولیس کانگڑہ
۱۱
؍؍
؍؍
عبداللہ ولد کریم بخش
سنور محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ
غوث گڑھ تھانہ گہمانوں تحصیل سرہند ریاست پٹیالہ
ملازمت پٹواری ریاست پٹیالہ
بعد محمد حسین صاحب
نمبر۴
۱۲
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
میر عنایت علی ولد
میر ولایت علی
لدھیانہ محلہ صوفیاں
ملازمت
۱۳
؍؍
؍؍
شہاب دین ولد متاب دین
تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور
جموں
ملازمت
۱۴
؍؍
؍؍
شیخ نورالدین
ولد شیخ جان محمد
قصبہ نبت ضلع مظفر نگر
مالیر کوٹلہ
ملازمت ریاست کوٹلہ
۱۵
؍؍
؍؍
صالح محمد خاں
ولد عمر بخش خاں
مالیر کوٹلہ
ملازمت ریاست مالیر کوٹلہ
۱۶
؍؍
؍؍
عبدالحق خلف عبدالسمیع
لدھیانہ محلہ رنگریزاں
پیشہ نوکری
۱۷
؍؍
؍؍
محمد یوسف ولد کریم بخش
سنور محلہ تنبواں ریاست پٹیالہ
ملازمت مدرسی ریاست پٹیالہ

۱۸
؍؍
؍؍
محمد بخش ولد عبداللہ
لدھیانہ محلہ ہیڑیاں
کتب فروشی
۱۹
؍؍
؍؍
چانن شاہ ولد گلاب شاہ
اکبر پور ضلع مالیر کوٹلہ
کاشت
۲۰
؍؍
؍؍
میراں بخش ولد بہادر خاں
کہیرو ریاست پٹیالہ
تحصیل امر گڑھ
نمبردار
۲۱
؍؍
؍؍
علی محمد ولد احمد شاہ
؍؍
قضاء
۲۲
؍؍
؍؍
رام سنگھ ولد نندا
کوٹلہ مالیر
مختار کاری
۲۳
؍؍
؍؍
نبی بخش ولد رانجھہ
کبیرو ریاست پٹیالہ
تحصیل امرگڑھ
کاشت
۲۴
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
علی محمد ولد گلاب خاں
؍؍
کاشت
۲۵
؍؍
؍؍
مولوی فتح علی
ولد فضل الدین
موضع دہانانوالی
تحصیل سیالکوٹ
موضع خیری ریاست جموں جاگیر راجہ امرسنگھ
متوکل
۲۶
؍؍
؍؍
(منشی) روڑا ولد جیون
کپور تھلہ محلہ قصاباں
نقشہ نویسی جوڈیشنل عدالت مجسٹریٹ کپورتھلہ
۲۷
؍؍
؍؍
رحیم بخش ولد کریم بخش
سنور محلہ خوشابیاں ریاست پٹیالہ
ملازمت
۲۸
؍؍
؍؍
حشمت اللہ ولد فیض بخش
سنور۔ ریاست پٹیالہ محلہ ملانہ
ملازمت مدرس ریاست پٹیالہ
۲۹
؍؍
؍؍
محمد بخش ولد عبدالرحیم
سیالکوٹ خاص
دکانداری بزازی وغیرہ
۳۰
؍؍
؍؍
علی محمد ولد اللہ بخش
سنور محلہ مجاوراں
ریاست پٹیالہ
ملازمت زنبورچی ریاست پٹیالہ
۳۱
؍؍
؍؍
ابراہیم ولد منشی اللہ بخش
سنور ریاست پٹیالہ
محلہ تنبواں
ملازمت مدرس ریاست پٹیالہ
۳۲
؍؍
؍؍
محمد ابراہیم
ولد منشی کریم بخش
سنور۔ محلہ تنبواں
ریاست پٹیالہ
ملازمت پٹواری ریاست پٹیالہ
۳۳
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
ولی محمد ولد عبداللہ
پٹیالہ محلہ ڈیک بازار
متوکل مستعفی
۳۴
؍؍
؍؍
احمد حسن خلف محمد اکبر
ایضاً محلہ بارہ دری خورد
ملازمت ریاست پٹیالہ محرر کوٹھ کنچ
۳۵
؍؍
؍؍
خلیفہ محمد عیسیٰ
ولد میانجی فضل علی
سنور۔ ریاست پٹیالہ محلہ ملانہ
ایضاً محرر پلٹن۔ ریاست پٹیالہ
۳۶
؍؍
؍؍
جان محمد ولد رولدو
پٹیالہ محلہ بارہ دری خورد
ملازم ہذیل سپاہی پلٹن
۳۷
؍؍
؍؍
خدا بخش ولد درگاہی
پٹیالہ قریب دروازہ شیرانوالہ
باغبان
۳۸
؍؍
؍؍
مرزا سعادت بیگ
ولد مرزا رستم بیگ
سامانہ علاقہ پٹیالہ محلہ اندرکوٹ عرف امام گڑھ

۳۹
؍؍
؍؍
مرزا محمد یوسف بیگ
ولد مرزا رستم بیگ
؍؍
تجارت
۴۰
؍؍
؍؍
میرزا ابراہیم بیگ
ولد مرزا یوسف بیگ
؍؍
؍؍
۴۱
؍؍
؍؍
محمد حفیظ بیگ ولد منور بیگ
؍؍
؍؍
۴۲
۱۹ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۱ مارچ ۱۸۸۹ء
اللہ دین ولد کریم بخش
بھیرہ ضلع شاہ پور
چھائونی شاہ پور
عرضی نویس
صدر شاہ پور
۴۳
؍؍
؍؍
عبدالکریم ولد محمد سلطان
سیالکوٹ
۔
مدرس بورڈ اسکول
۴۴
؍؍
؍؍
سید عبدالرزاق ولد علی محمد
کریام تھانہ راہوں ضلع جالندھر
کڑیانہ تھانہ پھلور ضلع جالندھر
متوکل
نمبر ۴۳ کا اندراج حضرت خلیفہ اوّل کے ہاتھ کا معلوم
ہوتا ہے۔
خاکسار ۔ مؤلف
۴۵
؍؍
؍؍
مسماۃ منان زوجہ علی بخش
جھنپٹ ضلع لدھیانہ
جھنپٹ
زمینداری
۴۶
؍؍
؍؍
فرزند حسین ولد علی نواز
ماچھی داڑ ضلع لدھیانہ
لدھیانہ
ملازمت
بوجہ کاغذ دریدہ ہونیکے تحریر مشتبہ ہے
۴۷
۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۲ مارچ ۱۸۸۹ء
اللہ دین ولد جیوے خان
لدھیانہ محلہ رنگریزاں
لدھیانہ
ملازمت
۴۸
؍؍
؍؍
ماہیا ولد پیر بخش
غوث گڑھ ریاست پٹیالہ تعلقہ گہمانوں
غوث گڑھ
زمینداری
۴۹
؍؍
؍؍
قادر بخش ولدنبّا
رتن گڑھ تھانہ سانیوال
رتن گڑھ
زمینداری
۵۰
؍؍
؍؍
بیگا ولد سادو
گھڑیس پور تحصیل روپڑ ضلع انبالہ
گھڑیس پور
زمینداری
۵۱
؍؍
؍؍
امیرالدین ولد فضل الدین
جسووال ماچھیواڑہ
جسووال
خیاطی و زمینداری
۵۲
؍؍
؍؍
حافظ نور احمد ولد قادر بخش
لدھیانہ محلہ موچھ پورہ
لدھیانہ
تجارت
۵۳
۲۰ رجب ۱۳۰۶ھ
۲۲ مارچ ۱۸۸۹ء
ضیاء الدین
ولد قاضی غلام احمد
کوٹ قاضی محمد خاں تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ
کوٹ قاضی محمد خاں
معلم و امام مسجد
۵۴
؍؍
؍؍
محمد تقی ولد محمد یوسف
سنور۔ ریاست پٹیالہ
سنور۔ محلہ تنبواں
عمر۔ ۱۰ سال
۵۵
؍؍
؍؍
محمد مصطفی ولد محمد ابراہیم
؍؍
؍؍
۱۲ سالہ
۵۶
روز شنبہ
۲۱ رجب
۲۳ مارچ ۸۹ء
محمد خلیل ولد محمد سلطان
لدھیانہ محلہ اقبال گنج
برج لٹاں تحصیل لدھیانہ
پٹوار گری و میر محلہ اقبال گنج
۵۷
؍؍
؍؍
ظفر احمد ولد محمد ابراہیم
بوڈہانہ ضلع مظفرنگر
کپورتھلہ
اپیل نویسی محکمہ مجسٹریٹی کپورتھلہ
۵۸
؍؍
؍؍
محمد خاں ولد دلاور خاں
ریاست رامپور حال کپورتھلہ محلہ شیر گڑھ
کپورتھلہ
اہلمد فوجداری محکمہ اسسٹنٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ
۵۹
؍؍
؍؍
عبدالرحمن ولد حبیب اللہ
سرادہ تحصیل ہاپوڑ ضلع میرٹھ
کپورتھلہ
اہلمد محلہ جرنیلی ریاست کپورتھلہ
۶۰
؍؍
؍؍
حاجی ابراہیم
چھائونی انبالہ صدر
تجارت قطع تعلقہ و ولی مدبراً
۶۱
روز ہفتہ
۲۳ مارچ ۸۹ء
اسمٰعیل ولد صدرالدین
موضع چمارو تھانہ راجپورہ
زمینداری
۶۲
؍؍
؍؍
عبدالکریم ولد امیر علی
ایضاً
ایضاً
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ جیسا کہ روایت نمبر ۹۸ میں بیان کیا جا چکا ہے پہلی بیعت بمقام لدھیانہ ہوئی تھی۔ جس میں مطابق روایات چالیس اشخاص نے یکے بعد دیگرے بیعت کی تھی۔ پہلے آٹھ نام جو اس رجسٹر سے ضائع ہو چکے ہیں۔ ان میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّلؓ کا نام مسلمہ طور پر اول نمبر پر تھا اور دوسرے نمبر پر میر عباس علی صاحب کا نام تھا۔ باقی ناموں کے متعلق قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر قاضی خوا جہ علی صاحب کے نمبر کے متعلق میر عنایت علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے خاکسار سے متفقہ طور پر بیان کیا ہے۔ کہ قاضی خوا جہ علی صاحب موصوف کا نمبر آٹھ تھا۔ اور نمبر چار پر محمد حسین صاحب خوشنویس کا نام تھا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا فہرست کے اندراج نمبر۱۱ میں مذکور ہے۔ اور باقی ناموں کی ترتیب قیاساً درج کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فہرست میں جو ایک ہندوکا نام درج ہے۔ اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر کوئی شخص عقیدت اور اخلاص سے بیعت کی استدعا کرتا تھا اور ساتھ ہی اپنے بعض عقائد کی نسبت مجبوری بھی ظاہر کرتا تھا کہ وہ انہیں فی الحال نہیں چھوڑ سکتا تو آپ اس کی بیعت قبول کر لیتے تھے جو گویا ایک گونہ محدود اور مشروط قسم کی بیعت ہوتی تھی۔ مگر بسااوقات ایسا شخص بعد میں جلدی ہی پوری طرح صاف ہو جایا کرتا تھا۔ پس یہ جو اس فہرست میں ہندو کا نام درج ہے۔ یہ اگر کوئی مخفی نو مسلم نہیں ہے تو ممکن ہے کہ کوئی ایسی ہی صورت ہو۔ چنانچہ نواب محمد علی خان صاحب نے بھی ابتدا میں اس عہد کے ساتھ بیعت کی تھی کہ وہ بدستور شیعہ عقیدہ پر قائم رہیں گے۔ مگر بیعت کے بعد جلد ہی شیعیت کا داغ دُھل گیا۔ اور سُنا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی جب بیعت کی تو اس کے کچھ عرصہ بعد تک نیچریّت کے دلدادہ رہے۔ مگر آخر مسیحی نور کے سامنے یہ تاریکی قائم نہ رہ سکی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے متعلق خود فرماتے ہیں۔ ؎
مدّتے درآتشِ نیچر فرو افتادہ بود
ایں کرامت بیں کہ از آتش بروں آمد سلیم
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس نوٹ کے لکھنے کے بعد مجھے مکرم میر عنایت علی صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص مسمیٰ رام سنگھ جو پہلی بیعت میں شامل تھا وہ نو مسلم تھا اور اس کا اسلامی نام شیخ عبدالعزیز تھا۔ اس وقت وہ فوت ہو چکا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً بیعت کے وقت وہ نیا نیا مسلمان ہوا ہو گا۔ اس لئے شناخت کے لئے سابقہ نام ہی لکھ دیا گیا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَم۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیعت کنندگان کے رجسٹر سے جو مجھے مکرم میر محمد اسحاق صاحب کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا۔ کہ آیا بیعت کے وقت ہی اس رجسٹر میں فوراً اندراج کر لیا جاتا تھا۔ یا کہ بیعت کے بعد چند اسماء اکٹھے درج کر لئے جاتے تھے۔ مؤخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ بوقت اندراج اصل ترتیب سے کسی قدر اختلاف ہو جاتا ہو۔ بلکہ بعض اندراجات سے شُبہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا۔ کیونکہ بعض صورتوں میں زبانی روایات اور رجسٹر کے اندراج میں کافی اختلاف ہے۔ اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے سامنے کا نوٹ بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلم۔
{ 475} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار کے حقیقی ماموں ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد سوال کیا کرتے تھے۔ کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرما ویں۔ اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر یوں فرمایا کرتے تھے۔ کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں۔ اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں۔ اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں۔
نیز آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے۔ کہ استغفار کیا کریں۔ سورۃ فاتحہ پڑھا کریں۔ درود شریف پر مداومت کریں۔ اسی طرح لاحول اور سبحان اللہ پر مواظبت کریں۔ اور فرماتے تھے۔ کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام منتر جنتر کی طرح وظائف کے قائل نہ تھے۔ بلکہ صرف دُعا اور ذکرِ الٰہی کے طریق پر بعض فقرات کی تلقین فرماتے تھے۔
{ 476} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض خاص فقرات حضور کی زبان پر اکثر جاری رہتے تھے۔ چنانچہ فرمایا کرتے تھے۔ اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ـ لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَّاحِدٍ مَرَّتَیْنِ۔ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سے فقرہ نمبر ۲ کا ترجمہ بھی اکثر سُنا ہے یعنی مومن ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں کاٹا جاتا۔
{ 477} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں سے بیعت صرف زبانی لیتے تھے۔ ہاتھ میں ہاتھ نہیں لیتے تھے۔ نیز آپ بیعت ہمیشہ اُردو الفاظ میں لیتے تھے۔ مگر بعض اوقات دہقانی لوگوں یا دیہاتی عورتوں سے پنجابی الفاظ میں بھی بیعت لے لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے پتہ لگتا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺبھی عورتوں سے بیعت لیتے ہوئے اُن کے ہاتھ کو نہیں چُھوتے تھے۔ دراصل قرآن شریف میں جو یہ آتا ہے کہ عورت کو کسی غیر محرم پر اظہارِ زینت نہیں کرنا چاہئے۔ اسی کے اندر لمس کی ممانعت بھی شامل ہے۔ کیونکہ جسم کے چُھونے سے بھی زینت کا اظہار ہو جاتا ہے۔
{ 478} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ یہ جو اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَ تُوْبُ اِلَیْہ پڑھنے کا کثرت سے حکم آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے انسان کو گویا ایک دُنب یعنی دُم لگ جاتی ہے جو کہ حیوانی عضو ہے۔ اور یہ انسان کے لئے بدنما اور اس کی خوبصورتی کے لئے ناموزوں ہے۔ اس واسطے حکم ہے کہ انسان بار بار یہ دُعا مانگے اور استغفار کرے تاکہ اس حیوانی دُم سے بچ کر اپنی انسانی خوبصورتی کو قائم رکھ سکے اور ایک مکرم انسان بنا رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں غالباً یہ لفظی لطیفہ بھی مدِ نظر ہے کہ ذنب یعنی گناہ حقیقۃً ایک دُنب یعنی دُم ہے۔ جو انسان کی اصلی فطرت کے خلاف اس کے ساتھ لاحق ہو جاتی ہے۔ گویا جس طرح ذنب اور دُنب یعنی دُم کے الفاظ اپنی ظاہری صورت میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اسی طرح ان میں معنوی مشابہت بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{479} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ مَیں گھوڑی سے گِر پڑا۔ اور میری دا ہنی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس لئے یہ ہاتھ کمزور ہو گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد مَیں قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ حضور نے پوچھا۔ شاہ صاحب آپ کا کیا حال ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ کلائی کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے میرے ہاتھ کی انگلیاں کمزور ہو گئی ہیں اور اچھی طرح مٹھی بند نہیں ہوتی۔ حضور دعا فرمائیں کہ پنجہ ٹھیک ہو جائے۔ مجھ کو یقین تھا کہ اگر حضور نے دعا فرمائی تو شفا بھی اپنا کام ضرور کرے گی۔ لیکن بلاتامل حضور نے فرمایا۔ کہ شاہ صاحب ہمارے مونڈھے پر بھی ضرب آئی تھی جس کی وجہ سے اب تک وہ کمزور ہے۔ ساتھ ہی حضور نے مجھے اپنا شانہ ننگا کرکے دکھایا اور فرمایا کہ آپ بھی صبر کریں۔ پس اس وقت سے وہی ہاتھ کی کمزوری مجھ کو بدستور ہے اور مَیں نے سمجھ لیا کہ اب یہ تقدیر ٹلنے والی نہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب اپنے اصحاب سے کس قدر بے تکلف تھے کہ فوراً اپنے شانہ ننگا کرکے دکھا دیا۔ تاکہ شاہ صاحب اسے دیکھ کر تسلّی پا ئیں۔
{ 480} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض لوگ بیعت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھتے تھے۔ کہ یا حضرت! ہم کونسا وظیفہ پڑھا کریں؟ تو حضور فرماتے کہ الحمدللہ اور درودشریف اور استغفار اور دُعا پر مداومت اختیار کرو اور دعا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کثرت سے پڑھا کرو۔
{481} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ مَیں نے خواب میں ایک مرتبہ دیکھا کہ سید عبدالقادرؒ صاحب جیلانی آئے ہیں اور آپ نے پانی گرم کراکر مجھے غسل دیا ہے اور نئی پوشاک پہنائی ہے اور گول کمرہ کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ آئو ہم اور تم برابر برابر کھڑے ہو کر قد ناپیں۔ پھر انہوں نے میرے بائیں طرف کھڑے ہو کر کندھے سے کندھا ملایا۔ تو اس وقت دونوں برابر برابر رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ اوائل زمانہ کا رؤیاء ہو گا۔ کیونکہ بعد میں تو آپ کو وہ روحانی مرتبہ حاصل ہوا کہ ا متِ محمدیہ میں آپ سب پر سبقت لے گئے۔ جیسا کہ آپ کا یہ الہام بھی ظاہر کرتا ہے کہ ’’آسمان سے کئی تخت اُترے پر تیرا تخت سب سے اُوپر بچھایا گیا‘‘۔ اور آپ نے صراحت کے ساتھ لکھا بھی ہے کہ مجھے اس امت کے جملہ اولیاء پر فضیلت حاصل ہے۔
{ 482} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی نظم لکھتے اور ایسے موقعہ پر کسی اردو لفظ کی تحقیق منظور ہوتی۔ تو بسا اوقات حضرت امّ المومنینؓ سے اس کی بابت پوچھتے تھے۔ اور زیادہ تحقیق کرنی ہوتی تو حضرت میر صاحب یا والدہ صاحبہ سے بھی پوچھا کرتے تھے۔ کہ یہ لفظ کس موقعہ پر بولا جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت والدہ صاحب چونکہ دہلی کی تھیں اس لئے روز مرّہ کے اردو محاوروں میں انہیں زیادہ مہارت تھی۔ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فائدہ اٹھا لیتے تھے مگر یہ استعانت صرف روزمرہ کے محاورہ تک محدود تھی۔ ورنہ علمی زبان میں تو حضرت صاحب کو خود کمال حاصل تھا۔
{ 483} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو عربی زبان سیکھنی چاہئے اور صحیح طریق کسی زبان کے سیکھنے کا یہ نہیں ہے کہ پہلے صرف و نحو پڑھی جائے۔ بلکہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اُسے بولا جائے۔ بولنے سے ضروری صرف و نحو خود آجاتی ہے۔ چنانچہ اسی لئے اس خاکسار کو ۱۸۹۵ء میں حضرت صاحب نے قریباً ایک ہزار فقرہ عربی کا مع ترجمہ کے لکھوایا۔ روزانہ پندرہ بیس کے قریب فقرے لکھوا دیتے۔ اور دوسرے دن سبق سُن کر اَور لکھوا دیتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ طریق غالباً صرف بولنے اور عام استعداد پیدا کرنے کے لئے ہے۔ ورنہ علمی طور پر عربی زبان کی مہارت کے لئے صرف و نحو کا علم ضروری ہے۔
{484} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ان مسائل میں جن میں حلّت و حرمت کا سوال درپیش ہوتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ یہ یاد رکھنا چاہئے۔ کہ شریعت نے اصل اشیاء کی حلّت رکھی ہے۔ سوائے اس کے جہاں حرمت کی کوئی وجہ ہو یا ظاہری حکم حرمت کا موجود ہو۔ باقی اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ پر منحصر ہے۔ نیت درست ہو تو عمل مقبول ہو جاتا ہے۔ درست نہ ہو تو ناجائز ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا۔ کہ سوائے ایسے مسائل کے جن میں شریعت نے کوئی تصریح کی ہو ،اکثر صورتوں میں آپ الاعمال بالنیات پر بنیاد رکھتے تھے۔ اور مسائل کے جواب میں یہی فقرہ دُہرا دیتے تھے۔
{ 485} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضور سے کسی بچہ نے پوچھا۔کہ کیا طوطا حلال ہے۔ مطلب یہ تھا کہ ہم طوطا کھانے کے لئے مار لیا کریں۔ حضور نے فرمایا۔ میاں حلال تو ہے۔ مگر کیا سب جانور کھانے کے لئے ہی ہوتے ہیں؟ مطلب یہ تھا کہ خدا نے سب جانور صرف کھانے ہی کے لئے پیدا نہیں کئے۔ بلکہ بعض دیکھنے کے لئے اور دُنیا کی زینت اور خوبصورتی کے لئے بھی پیدا کئے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے بھی یہی فرمایا تھا کہ سارے جانور نہیں مارا کرتے کیونکہ بعض جانور خدا نے زینت کے طور پر پیدا کئے ہیں۔ لیکن خاکسار کی رائے میں کسی جانور کی کثرت ہو کر فصلوں وغیرہ کے نقصان کی صورت ہونے لگے تو اس کا انسداد کرنا اس ہدایت کے خلاف نہیں ہے۔
{ 486} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نماز میں آنکھیں کھول کر توجہ قائم نہیں رہتی۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے فرمایا کہ آنکھوں کو خوابیدہ رکھا کرو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق تھا۔
{487} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب آئینہ کمالات اسلام چھپ رہی تھی۔ تو ان دنوں میں مَیں قادیان آیااور جب مَیں جانے لگا تو وہ اسی(۸۰) صفحہ تک چھپ چکی تھی۔ مَیں نے اس حصہ کتاب کو ساتھ لے جانے کے لئے عرض کیا۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے اعتراض کیا کہ جب تک کتاب مکمل نہ ہو ،دی نہیں جا سکتی۔ تب حضور نے فرمایا۔ جتنی چھپ چکی ہے میاں غلام نبی صاحب کو دے دو۔ اور لکھ لو کہ پھر اور بھیج دی جائے گی۔ اور مجھے فرمایا کہ اس کو مشتہر نہ کرنا۔ جب تک کہ مکمل نہ ہو جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حضور کی شفقت تھی۔ کہ اپنے مخلصین کی خواہش کو ردّ نہیں فرماتے تھے ورنہ حضور جانتے تھے کہ جب تک کوئی کتاب مکمل نہ ہو جائے اس کی اشاعت مناسب نہیں ہوتی اور بعض جہت سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیٹھی غلام نبی صاحب اب فوت ہو چکے ہیں۔ چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور راولپنڈی میں دکان کرتے تھے۔ نہایت مخلص اور یک رنگ تھے۔
{ 488} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بابو محمد عثمان صاحب لکھنوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ۱۹۱۸ء میں قادیان گیا تھا۔ اور چونکہ لالہ بڈھامل کا ذکر اکثر کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے۔ اس لئے مَیں نے ان سے ملنا چاہا۔ایک دن بورڈنگ سے واپسی پر بازار میں اُسکے پاس گیا۔ اور ایک دکان پر جا کر اس سے ملاقات کی۔ مَیں نے کہا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اوائل عمر میں دیکھا ہے۔ آپ نے ان کو کیسا پایا۔ کہنے لگا۔ کہ میں نے آج تک مسلمانوں میں اپنے نبی سے ایسی محبت رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ اس پر مَیں نے کہا۔ کہ آپ نے ان کے دعویٰ کو کیوں قبول نہ کیا۔ اس کے جواب میں اس نے کہا۔ یہ ذکر جانے دیجئے ۔یہ لمبی بحث ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی کتب میں زیادہ ذکر لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت صاحبان کا آتا ہے اس لئے مَیں خیال کرتا ہوں کہ بابو صاحب کو نام کی غلطی لگی ہے۔ غالباً وہ لالہ ملاوامل صاحب سے ملے ہونگے جو اب تک زندہ ہیں۔
{ 489} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ۱۹۰۴ء میں مَیں نے اپنی مذہبی حالت کے پیش نظر مولوی عبدالجبار صاحب وغیرہ کو جوابی خطوط لکھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں صرف پوسٹ کارڈ بھیجا۔ ان سب کا مضمون یہ تھا۔ کہ مَیں زبان سے تو بے شک خدا تعالیٰ کا اور حشر و نشر کا مُقِرّ ہوں اور مسجدوں میں وعظ بھی کرتا ہوں مگر امرِ واقعہ اور کیفیت قلبی یہ ہے کہ مجھے خداتعالیٰ کا وجود مع اس کی عظمت اور محبت کے دل میں جا گزین ہو جاوے وغیرہ وغیرہ۔ دوسروں کی طرف سے تو کوئی جواب نہ آیا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحریری ارشاد آیا۔ کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسی غرض اور ایسی بیماریوں کے لئے ہی بھیجا ہے۔ آپ یہاں آجاویں۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ مَنْ اَتٰی اِلَیَّ شِبْرًا الخ پس خاکسار حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کچھ عرصہ رہ کر بیعت سے مشرف ہو گیا۔
{ 490} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام سے عرض کی۔ کہ مجھے نسیان کی بیماری بہت غلبہ کر گئی ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھا کرو۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہ اس سے مجھے بہت ہی فائدہ ہوا ہے۔
{491} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ مَیں اپنے بچپن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھتا آیا ہوں۔ اور سب سے پہلے مَیں نے آپ کو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی زندگی میں دیکھا تھا۔ جب کہ مَیں بالکل بچہ تھا۔ آپ کی عادت تھی۔ کہ رات کو عشاء کے بعد جلد سو جاتے تھے۔ اور پھر ایک بجے کے قریب تہجد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اور تہجد پڑھ کر قرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان ہوتی۔ تو سُنّتیںگھر میں پڑھ کر نماز کے لئے مسجد میں جاتے اور با جماعت نماز پڑھتے۔ نماز کبھی خود کراتے کبھی میاں جان محمد امام مسجد کراتا۔ نماز سے آکر تھوڑی دیر کے لئے سو جاتے۔ مَیں نے آپ کو مسجد میں سنت نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ سنت گھر پر پڑھتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا دین محمد صاحب مرزا نظام الدین صاحب کے برادر نسبتی ہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ اور حضرت صاحب کے سخت مخالف تھے۔ مرزا دین محمد صاحب ایک عرصہ سے احمدی ہو چکے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد مرحوم امام مسجد تھا اور قوم کا کشمیری تھا۔ نیک اور سادہ مزاج انسان تھا۔ اور اکثر حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا۔
{ 492} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب مَیں حضرت صاحب کے پاس سوتا تھا۔ تو آپ تہجد کے لئے نہیں جگاتے تھے۔ مگر صبح کی نماز کے لئے ضرور جگاتے تھے اور جگاتے اس طرح تھے کہ پانی میں انگلیاں ڈبو کر اس کا ہلکا سا چھینٹا پھوار کی طرح پھینکتے تھے۔ مَیں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ آپ آواز دے کر کیوں نہیں جگاتے اور پانی سے کیوں جگاتے ہیں۔ اس پر فرمایا کہ رسُول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے اور فرمایا کہ آواز دینے سے بعض اوقات آدمی دھڑک جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی آنحضرت ﷺ کی اتباع کرتے تھے۔
{ 493} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ مجھے کسی جگہ نوکر کرا دیں۔ حضور نے فرمایا۔ ہمارے واقفوں میں سے ایک ڈپٹی کلکٹر نہر ہیں ان سے سفارش کر دینگے۔ مگر اس کے بعد مَیں خود ہی دوسری جگہ نوکر ہو گیا۔ لیکن بالآخر نہر ہی کی طرف آ گیا اور اٹھائیس سال ملازمت کی۔
{ 494} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت میں داخل تھا کہ اپنے دوستوں سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ طبی معاملات میں حکیموں ڈاکٹروں سے۔ قانونی باتوں میں وکلاء سے۔ فقہی مسائل میں علماء سے۔ مکان کی تعمیر ہو تو اوورسیروں یا راجوں مستریوں سے۔ گھر کا معاملہ ہو تو اہل بیت سے۔ اردو زبان کے کسی لفظ کے متعلق کوئی بات ہو۔ تو ہماری والدہ صاحبہ اور میر صاحب مرحوم سے۔ غرض آپ کی عادت تھی کہ چھوٹی بڑی ہر بات میں ایک یا زیادہ اہل لوگوں کو بلا کر مشورہ اور تبادلہ خیال کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سے معاملات مجلس احباب میں بعد مشورہ طے پاتے تھے۔ غرض آپ حتی الوسع ہر معاملہ میں مشورہ لیا کرتے تھے۔ پھر جس بات پر انشراح ہو جاتا۔ اُسے قبول کر لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی بہت کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ دراصل اسلامی نظام کی بنیاد ہی اوّلاً مشورہ اور بعدہٗ توکّل پر ہے۔
{ 495} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضور علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے۔ اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ۔ یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور کی مدد سے دیکھتا ہے۔
{ 496} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے بعد جب باغ میں رہائش تھی تو ایک دن حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پورا واقعہ یوں ہے کہ ان ایام میں آپ نے جب ایک دفعہ کسی احمدی کا جنازہ پڑھا تو اس میں بہت دیر تک دُعا فرماتے رہے اور پھر نماز کے بعد فرمایا کہ ہمیں علم نہیں کہ ہمیں اپنے دوستوں میں سے کس کس کے جنازہ میں شرکت کا موقعہ ملے گا۔ اس لئے آج مَیں نے اس جنازہ میں سارے دوستوں کے لئے جنازہ کی دُعامانگ لی ہے اور اپنی طرف سے سب کا جنازہ پڑھ دیا ہے۔
{ 497} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ پیر منظور محمد صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام بڑے زلزلہ کے بعد باغ میں مقیم تھے تو ایک دن آپ کو ایک الہام ہوا تھا۔ کہ ’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت‘‘ یہ الہام کہیں چھپا نہیں۔ پھر اس کے بعد ہی کچھ دن میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی بیمار ہو گئے اور چند روز میں فوت ہو گئے۔
{ 498} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اور قرآن مجید کا تذکرہ تھا۔آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ نے اپنی تمام جائیداد لِلّٰہ تقسیم کردی۔ اس پر کسی نے اس بزرگ سے کہا۔ کہ کیا ہی اچھا ہوتا۔ اگر آپ اپنے بیٹے کی لئے بھی کچھ رکھ لیتے۔ تو اس بزرگ نے جواب دیا۔ کہ مَیں اپنے بیٹے کے لئے سورۃ واقعہ چھوڑتا ہوں۔ کیونکہ حدیث شریف میں فضائل قرآن میں لکھا ہے کہ جو شخص ہر روز سورۃ واقعہ ورد کے طور پر پڑھتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ فاقہ سے بچاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو یہ ایک خاص قسم کی حالت سے متعلق ہو گی ورنہ عام حالات میں اسلامی تعلیم یہ ہے۔ کہ ورثاء کا حق مقدم ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنا سارا مال صدقہ کرنا چاہا۔ مگر آنحضرت ﷺ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا۔ کہ ورثاء کو بے سہارا نہیں چھوڑنا چاہئے۔
{ 499} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ غالباً دوسرا یا تیسرا سالانہ جلسہ تھا۔ کہ حضور ایک دن عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا۔ کہ مولوی صاحب (مراد غالباً حضرت خلیفہ اوّلؓ ہیں۔ خاکسار مؤلف) میرے دل میں یہ آیات گزری ہیں۔ کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰)۔ اور یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ(الماعون:۸)۔ پھر حضور نے ان آیات کی اس قدر تشریح فرمائی۔کہ حاضرین نے متاثر ہو کر چیخیں مارنی شروع کردیں۔ بعد ازاں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے سورۃ مریم کی قراء ت سے نماز شروع کی۔ اور بحالتِ نماز بھی ویسا ہی رونے اور چیخنے کا شور پڑا ہوا تھا۔ جو بعد میں کم نظر آیا ہے۔ دوسرے روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر میں فرمایا کہ دُعا میں اس قدر اثر ہے۔ کہ اگر کوئی کہے کہ دعا سے پہاڑ چل پڑتا ہے تو مَیں اُسے یقین کرونگا اور اگر کوئی کہے کہ دعا سے درخت نقل مکانی کر جاتا ہے تو مَیں اسے سچ مانوں گا۔ ایک مسلمان کے پاس سوائے دُعا کے اور کوئی ہتھیار نہیں۔ یہی تو وہ چیز ہے جو انسان کی رسائی خداتعالیٰ تک کرا دیتی ہے۔
{ 500} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑ میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے اخلاق میں بعض باتیں خاص طور پر نمایاں تھیں۔ اور ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپ کبھی کسی کی دل شکنی کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ اور اس سے بہت ہی بچتے تھے۔ اور دوسروں کو بھی منع فرماتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری طبیعت پر بھی یہی اثر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی سیرت کا یہ ایک خاص نمایاں پہلو تھا۔ کہ حتی الوسع دوسروں کی انتہائی دلداری فرماتے اور دل شکنی سے بچتے تھے۔
{501} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک حال محلہ دارالفضل قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ میرا لڑکا عبدالرحمن ہائی سکول میں تعلیم پاتا تھا وہ بعارضہ بخار محرقہ و سرسام تین چار دن بیمار رہ کر قادیان میں فوت ہو گیا۔ مَیں اس وقت فیض اللہ چک میں ملازم تھا۔ مجھے اطلاع ملی تو قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس سے فارغ ہو کر مَیں واپس فیض اللہ چک چلا گیا۔ پھر مَیں آئندہ جمعہ کے دن قادیان آیا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام مسجد مبارک کے پہلے محراب میں جو کھڑکیوں کے درمیان ہوتا تھا۔ تشریف فرما تھے۔ مَیں اندر کی سیڑھیوں سے مسجد میں گیا۔ جب حضور کی نظرِ شفقت مجھ پر پڑی تو حضور نے فرمایا:آگے آ جائو۔ وہاں پر بڑے بڑے ارکان حضور کے حلقہ نشین تھے۔ حضور کا فرمانا تھا کہ سب نے میرے لئے راستہ دیدیا۔ حضور نے میرے بیٹھتے ہی محبت کے انداز میں فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بچہ کی موت پر بہت صبر کیاہے۔ مَیں نعم البدل کے لئے دعا کروں گا۔ چنانچہ اس دُعائے نعم البدل کے نتیجہ میں خدا نے مجھے ایک او ربچہ دیا جس کا نام فضل الرحمن ہے جو آج کل بحیثیت مبلغ گولڈ کوسٹ افریقہ میں کام کر رہا ہے۔
{ 502} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ بنی بخش صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ مَیں ایک دفعہ بو جہ کمزوری نظر حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس علاج کے لئے حاضر ہوا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا۔ کہ شاید موتیا اُتریگا۔ مَیں نے دو اور ڈاکٹروں سے بھی آنکھوں کا معائنہ کرایا۔ سب نے یہی کہا کہ موتیا اُتریگا۔تب مَیں مضطرب و پریشان ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور تمام حال عرض کر دیا۔ حضور نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ پڑھ کر میری آنکھوں پر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا’’ مَیں دُعا کرونگا‘‘اس کے بعد پھر نہ وہ موتیا اُترا اور نہ ہی وہ کم نظری رہی اور اسی وقت سے خدا کے فضل و کرم سے میری آنکھیں درست ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ صاحب اس وقت اچھے معّمر آدمی ہیں اور اس عمر کو پہنچ چکے ہیں جس میں اکثر لوگوں کو موتیا بند کی شکایت ہو جاتی ہے۔
{ 503} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک کشمیری بھائی نے اپنے نوزائیدہ لڑکے کی ولادت پر مجھے خط لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نام دریافت کرکے تحریر کرو۔ مَیں نے حضرت اقدس سے اس بارہ میں استفسار کیا۔ حضور نے فوراً ہی ’’عبدالکریم‘‘ نام تجویز فرمایا۔ پھر کچھ خیال آیا۔ تو مجھ سے دریافت فرمایا کہ اس کے باپ کا کیا نام ہے۔ مَیں نے نام بتایا جواب مجھے یاد نہیں۔ حضور نے فرمایا۔ کہ اچھا جو نام پہلے مونہہ سے نکلا ہے۔ (یعنی عبدالکریم) وہی ٹھیک ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ خوا جہ عبدالرحمن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے زمانہ میں قادیان میں تعلیم پاتے تھے۔ اور اب کشمیر میں محکمہ جنگلات میں ملازم ہیں۔
{ 504} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اکثر اصحاب اپنے بچوں کے نام حضور علیہ السَّلام سے رکھواتے تھے اور حضور نام تجویز فرما دیتے تھے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے بڑے لڑکے کا نام عبدالرحمن اور بندہ کی دو بہنوں کے نام حلیمہ اور امۃ اللہ بھی حضور ہی کے تجویز کردہ ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت صاحب عموماً بچہ کا نام رکھتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کے ناموں کی مناسبت ملحوظ رکھتے تھے۔
{ 505} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام بھی بعض اوقات ناموں سے تفاول لیتے تھے۔ نیز تبرّک کے طور پر لوگ آپ سے بچوں کے نام رکھوا لیتے تھے۔ اور آپ اکثر اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ کہ باپ بیٹے کے نام میں یا بھائی بھائی کے نام میں مناسبت ہو۔ نیز آپ عموماً بچوں کے نام رکھنے میں فاطمہ اور سعید نام نہ رکھتے تھے۔ فاطمہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے۔ کہ اگر خواب میں بھی نظر آئیں تو بالعموم اس سے مرادھم و غم ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت فاطمہ کی تمام عمر رنج و تکالیف میں گزری اور سعید کے متعلق فرماتے تھے کہ ہم نے جس کا نام بھی سعید سُنا اُسے بالعموم برخلاف ہی پایا۔ اِلاَّ ماشاء اللّٰہ ـ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ علم الرویاء میں حضرت فاطمہ کو دیکھنا دنیوی لحاظ سے تکالیف کا مظہر ہوتا ہے مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ اُخروی لحاظ سے ضرور مبارک ہوگا۔ کیونکہ حضرت فاطمہ سَیِّدَۃُ نِسَآئِ الْجَنَّۃ ہیں۔ اور سعید کے متعلق غالباً بعض نامبروں کے تلخ تجربہ سے حضور کو خیال پیدا ہو گیا ہو گا۔
{ 506} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری حال محلہ دارالرحمت قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فراست دی گئی تھی کہ حضور علیہ السلام کو بعض دفعہ دوسرے شخص کی دل کی بات کا علم ہو جایا کرتا تھا۔ جس وقت میرا لڑکا ظہور احمد پیدا ہوا تو مَیں قادیان میں آیا۔ مسجد مبارک میں چند دوست بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے ذکر کیا کہ مَیں چاہتا ہوں ۔ کہ میرے لڑکے کا نام حضور میرے بڑے لڑکے نثار احمد کے نام پر رکھیں لیکن میرا بھی یہی خیال تھا اور دوسرے احباب نے بھی کہا کہ حضور عموماً والد کے نام پر بچہ کا نام رکھتے ہیں۔ اس لئے غالباً اب بھی حضور ایسا ہی کرینگے۔ حافظ حامد علی صاحب نے حضور کو میرے آنے کی اطلاع دی اور بچہ کی پیدائش کا بھی ذکر کیا۔ حضور مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور مجھے مبارکباد دی اور فرمایا کہ اس کا نام ظہور احمد رکھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں امام الدین صاحب نے جو یہ کہا ہے کہ حضور کو دل کی بات کا علم ہو جاتا تھا۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ حضرت صاحب عالم الغیب تھے۔ کیونکہ غیب کا علم صرف خدا کو حاصل ہے۔ البتہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے تربیت کا کام لینا ہوتا ہے۔ اس لئے بعض اوقات اللہ تعالیٰ ایسا تصرّف فرماتا ہے کہ لوگوں کے دل میں جو خیالات کی رَو چل رہی ہوتی ہے۔ اس سے انہیں اطلاع دے دی جاتی ہے۔
{ 507} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھاکہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیں رکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ روایت اگر درست ہے۔ تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہو گی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا۔ کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اور اس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طور پر ظاہر ہو جاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے۔ مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔
{ 508} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک نوجوان عرب جو حافظ قرآن اور عالم تھا، آکر رہا اور آپ کی تائید میں اس نے ایک عربی رسالہ بھی تصنیف کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی شادی کا فکر کیا۔ میرے گھر کے ایک حصہ میں میرے استاد حافظ محمد جمیل صاحب مرحوم رہا کرتے تھے۔ ان کی بیوی کی ایک ہمشیرہ نوجوان تھی۔ حضرت صاحب نے ان کو رشتہ کے لئے فرمایا۔ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ لڑکی کے والد سے دریافت کرنا ضروری ہے۔ لیکن مَیں حضور کی تائید کروں گا۔ اتنے میں خاکسار حسب عادت قادیان گیا۔ جب مَیں نے مسجد مبارک میں قدم رکھا۔ تو اس وقت حضرت صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور وہ عرب صاحب موجود تھے۔ حضرت اقدس نے فرمایا۔ کہ’’ ھٰذَا رَجُلٌ حَافِظْ نُوْر مُحَمَّد‘‘ اور حضور نے فرمایا۔ کہ میاں نور محمد آپ عرب صاحب کو ہمراہ لے جائیںاور وہ لڑکی دکھلادیں۔ بعد نماز ظہر مَیں عرب صاحب کو ساتھ لے کر فیض اللہ چک کو روانہ ہوا۔ آپ کے ارشاد کے ماتحت کارروائی کی گئی۔ مگر انہوں نے پسند نہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں کرادی۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ایک عرب صاحب جو آخری زمانہ میں قادیان آ کر رہے تھے۔ ان کا نام عبدالمحیٖ تھا اور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرا دی تھی۔ سو اگر اس روایت میں انہی کا ذکر ہے۔ تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے۔ یا شاید یہ عرب صاحب اور ہوں گے۔
{ 509} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جس سال حضور نے عید الاضحٰی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تھا۔ اس سال (۹ ؍ذی الحج) کو یعنی حج کے دن اعلان کرا دیا تھا کہ آج ہم دعا کریں گے۔ لوگ اپنے نام رقعوں پر لکھ کر بھیج دیں۔ چنانچہ قریباً تمام اصحاب الصفّہ اور مہمانان نے اپنے نام لکھ کر حضور کی خدمت میں پہنچا دئیے۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ خاص خاص موقعوں پر لوگ اس طرح ناموں کی فہرست بنا کر حضور کی خدمت میں دعا کے لئے بھیجا کرتے تھے بلکہ بعد میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب روزانہ ہی ایسی فہرست ڈاک کے خطوط میں سے منتخب کر کے اور نیز دیگر حاجت مندانِ دُعا کے نام لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کی مراد اصحاب الصفہ سے وہ اصحاب ہیں۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض صحبت کی خاطر اپنے وطنوں کو چھوڑ کر قادیان میں ڈیرہ جما بیٹھے تھے۔ جیسا کہ حضور کے الہام میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔
{ 510} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب بعض مخلصین حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہو کر جانے لگتے اور دعا کے لئے عرض کرتے تو حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ گاہ بگاہ خط کے ذریعہ سے یاد دہانی کراتے رہیں۔ مَیں انشاء اللہ دُعا کرونگا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض دوستوں کی عادت تھی۔ کہ حضور کی خدمت میں دُعا کے لئے قریباً روزانہ لکھتے تھے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ لاہور کے ایک دوست کو کوئی کام درپیش تھا۔ جس پر انہوں نے مسلسل کئی ماہ تک ہر روز بلاناغہ حضور کی خدمت میں دُعا کے لئے خط لکھا۔
{ 511} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صا حبہ یعنی امّ المؤمنین اَطَالَ اللّٰہُ بَقَائَہَا نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب کو سخت بخار ہوا۔ جس کا دماغ پر بھی اثر تھا۔ اس وقت کوئی اور طبیب یہاں نہیں تھا۔ مرزا نظام الدین صاحب کے عزیزوں نے حضرت صاحب کو اطلاع دی آپ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور مناسب علاج کیا۔ علاج یہ تھا کہ آپ نے مُرغا ذبح کراکے سر پر باندھا۔ جس سے فائدہ ہو گیا۔ اس وقت باہمی سخت مخالفت تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ابتدائی زمانہ کی بات ہو گی ورنہ آخری زمانہ میں تو حضرت خلیفہ اوّل جو ایک ماہر طبیب تھے ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے یا ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے وقت کی بات ہو۔ جب حضرت خلیفہ اوّلؓ عارضی طور پر کسی سفر پر باہر گئے ہونگے مگر بہرحال حضرت صاحب کے اعلیٰ اخلاق کا یہ ایک بیّن ثبوت ہے کہ ایک دُشمن کی تکلیف کا سُنکر بھی آپ کی طبیعت پریشان ہو گئی۔ اور آپ اس کی امداد کے لئے پہنچ گئے۔
{ 512} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صا حبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو کبھی کبھار پائوں کے انگوٹھے پر نقرس کا درد ہو جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ شروع میں گھٹنے کے جوڑ میں بھی درد ہوا تھا۔ نہ معلوم وہ کیا تھا۔ مگر دو تین دن زیادہ تکلیف رہی۔ پھر جونکیں لگانے سے آرام آیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ نقرس کے درد میں آپ کا انگوٹھا سوج جاتا تھا۔ اور سُرخ بھی ہو جاتا تھا اور بہت درد ہوتی تھی۔ خاکسار نے بھی درد نقرس حضرت صاحب سے ہی ورثہ میں پایا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو بھی کبھی کبھی اس کی شکایت ہو جاتی ہے۔
{ 513} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صا حبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے ٹخنے کے پاس پھوڑا ہو گیا تھا۔ جس پر حضرت صاحب نے اس پر سکّہ یعنی سیسہ کی ٹکیا بندھوائی تھی جس سے آرام آ گیا۔
{ 514} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ کوئی امروہہ کا آدمی قادیان آیا۔ اس کے کان بند تھے۔ اور نلکی کی مدد سے بہت اونچا سُنتا تھا۔ اس نے حضرت صاحب کو دعا کے لئے کہا۔ حضور نے فرمایا۔ ہم دُعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے پھر اللہ نے اپنا فضل کیا کہ اس نے حضور علیہ السلام کی ساری تقریر سُن لی۔ جس پر وُہ خوشی کے جوش میں کود پڑا۔ اور نلکی توڑ کر پھینک دی۔
{ 515} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مباحثہ میں آتھم نے ایک دفعہ ایسے سوالات کئے کہ ہمارے بعض احباب گھبرا گئے کہ ان کا جواب فوراً نہیں دیا جا سکتا اور بعض احباب نے ایک کمیٹی کی اور قرآن شریف اور انجیل کے حوالہ سے چاہا کہ حضرت صاحب کو امداد دیں۔ مَیں نے مولوی عبدالکریم صاحب کو مزاحاً کہا کہ کیا نبوّتیں بھی مشورہ سے ہوا کرتی ہیں۔ اتنے میں حضرت صاحب تشریف لے آئے اور حضور کچھ باتیں کرکے جانے لگے تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ اگر کل کے جواب کے لئے مشورہ کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس پر حضرت صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ ’’آپ کی دُعا کافی ہے۔‘‘ اور فوراً تشریف لے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ انبیاء اکثر امور میں مشورہ لیتے ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر کوئی مشورہ نہیں لیتا مگر بعض ایسے اوقات ہوتے ہیں کہ جن میں وہ دوسرے واسطوں کو چھوڑ کر محض خدا کی امداد پر بھروسہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مشورہ کا بھی موقعہ اور محل ہوتا ہے اور کسی دشمن کی طرف سے علمی اعتراض ہونے پر انبیاء عموماًمحض خدا کی نصرت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس موقعہ پر خدا نے عیسائیوں کو ذلیل کیا۔
{ 516} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ غلام حسین صاحب لدھیانوی ہیڈ ڈرافٹسمین سنٹرل آفس نئی دہلی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ فرمان علی صاحب بی۔اے۔ اسسٹنٹ انجینئیر ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداس پور نے جو کہ ۱۹۱۵ء میں لیڈی ہارڈنگ کالج نئی دہلی کی عمارت تعمیر کرا رہے تھے۔ مجھ سے ذکر کیا تھا۔ کہ ایک دفعہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹی نے جو کہ عالم جوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے ہیں۔ ان سے بیان کیا۔ کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اکثر ہوا کرتا تھااور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ایک مرتبہ مَیں نے دیکھا۔ کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بیقراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ماہی ٔ بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ مَیں اس حالت کو دیکھ کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ اس وقت مَیں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح مَیں نے اس واقعہ کا حضور علیہ السلام سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے۔ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی۔ یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے۔ اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آرہی ہیں۔ ان کا خیال آتا ہے۔ تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے۔ اور یہ اسلام ہی کا درد ہے۔ جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فتح دین صاحب مرحوم دھرم کوٹ متصل بٹالہ کے رہنے والے تھے اور قدیم مخلص صحابہ میں سے تھے۔ نیز خاکسار خیال کرتا ہے۔ کہ یہ واقعہ ابتدائی زمانہ کا ہے۔
{ 517} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میاں خیر دین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں وتروں کے متعلق سوال کیا کہ وہابی پانچ وتر بھی پڑھتے ہیں۔ تین بھی پڑھتے ہیں اورایک بھی۔ ان میں سے کونسا طریق درست ہے۔ حضور نے فرمایا۔ کہ مَیں تو تین وتر پڑھتا ہوں۔ دو الگ اور ایک الگ۔ ہاں ایک بھی جائز ہے۔ اس کے بعد میں نے بھی ہمیشہ حضور ہی کی طرح وتر پڑھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ سیکھواں ایک گائوں کا نام ہے۔ جو قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب واقع ہے۔ اس جگہ کے تین بھائی میاں جمال الدین۔ میاں امام الدین اور میاں خیر الدین صاحبان حضرت صاحب کے قدیم اور مخلص صحابہ میں سے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ گو میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کا مجھ سے قریباً روز کا ملنا ہے۔ لیکن ان کی اکثر روایات مجھے مکرم مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور نے لکھ کر دی ہیں۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا ـ
{ 518} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے تھے۔ اسی طرح میرے بھائی امام الدین صاحب کے بھی۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ کشتہ فولاد قلمی سیاہی کی طرح کا دو ماہ کے حمل پر ایک رتی ہمراہ دودھ یا پانی استعمال کرانا شروع کر دیں۔ اور بچہ کے پیدا ہونے کے بعد بھی دُودھ چھوڑنے تک جاری رکھا جائے۔ اس نسخہ کے استعمال سے خدا کے فضل و کرم سے میرے بچے زندہ رہے۔ جن میں سے ایک مولوی قمر الدین مولوی فاضل ہیں۔ میرے بھائی امام دین صاحب کے لڑکے بھی اس کے بعد زندہ رہے۔ جن میں سے ایک مولوی جلال الدین صاحب شمس حال مبلغ لندن ہیں۔ اوربھی سینکڑوں آدمیوں کو یہ نسخہ استعمال کرایا۔ اور نہایت مفید ثابت ہوا۔
{ 519} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ چودھری حاکم علی صاحب نے ان سے ذکر کیا تھا کہ میں نے مسیح موعود علیہ السلام سے سُنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ولی کو بھی خراب اولاد کی بشارت نہیں دیتا۔ چہ جائیکہ مسیح موعود کو وہ ایسی خبر دے۔ یہ حضور علیہ السلام اپنی اولاد کے حق میں فرماتے تھے کہ وہ بُرے نہیں ہونگے بلکہ متقی اور صالح ہوں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی نسبت بشارت دی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس اصول کو اپنی کتب میں بھی بیان کیا ہے۔ مگر مَیں جب اپنے نفس میں نگاہ کرتا ہوں۔ تو شرم کی و جہ سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ کہ خدا تعالیٰ ہمارے جیسے کمزور انسان کی پیدائش کو بھی بشارت کے قابل خیال کرتا ہے۔ پھر اُس وقت اِس کے سوا سارا فلسفہ بھول جاتا ہوں۔ کہ خدا کے فضل کے ہاتھ کو کون روک سکتا ہے۔ اَللَّھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ـ
{ 520} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خواجہ عبدالرحمن صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے بھائی محمود احمد صاحب ساکن ڈنگہ ضلع گجرات سے سُنا ہے کہ جن دنوں کرم دین والا مقدمہ گورداسپور میں دائر تھا عموماً حضرت اقدس مقدمہ کی تاریخوں پر قادیان سے علی الصبح روانہ ہوتے تھے اور نماز فجر راستہ میں ہی حضرت مولوی فضل الدین صاحب بھیروی کی امامت میں ادا فرماتے تھے۔ ایک دفعہ بُٹراں کی نہر کے قریب نماز فجر کا جو وقت ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز فجر کا وقت ہو گیا ہے یہیں نماز پڑھ لی جائے۔ اصحاب نے عرض کی کہ حضور حکیم مولوی فضل الدین صاحب آگے نکل گئے ہیں اور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ساتھ ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسَّلام خاموش ہو گئے اور خود ہی امامت فرمائی۔ پہلی رکعت فرض میں آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص تلاوت فرمائی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں فطرتاً اس قسم کی روایتوں کے لینے میں تأمل کرتا ہوں جن میں اِس وقت کے ایک مخالف گروہ پر زد پڑتی ہے۔ مگر جب میرے پاس ایک روایت پہنچتی ہے اور مَیں اس میں شک کرنے کی کوئی و جہ نہیں دیکھتا۔ اور نہ ہی راوی میں کوئی طعن پاتا ہوں تو اُس کے قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ شاید اس قسم کے واقعات خدائی تصّرف کے ماتحت وقوع پذیر ہوئے ہوں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ـ
{521} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ غالباً ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے مسجد مبارک میں سوال کیا۔ کہ حضور اگر غیر احمدی باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو ہم اس وقت نماز کیسے پڑھیں؟ آپؑ نے فرمایا۔ تم اپنی الگ پڑھ لو۔ اس نے کہا کہ حضور جب جماعت ہو رہی ہو تو الگ نماز پڑھنی جائز نہیں۔ فرمایا: کہ اگر ان کی نماز باجماعت عنداللہ کوئی چیز ہوتی تو مَیں اپنی جماعت کو الگ پڑھنے کا حکم ہی کیوں دیتا ان کی نماز اور جماعت جناب الٰہی کے حضور کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس لئے تم اپنی نماز الگ پڑھواور مقررہ اوقات میں جب چاہو ادا کرسکتے ہو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس وقت کسی مسجد میں دوسروں کی جماعت ہو رہی ہو ضرور اسی وقت نماز پڑھی جائے کیونکہ اس سے بعض اوقات فتنہ کا احتمال ہوتا ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ ایک احمدی بہرحال الگ نماز پڑھے۔ اور دوسروں کے پیچھے نہ پڑھے۔
{ 522} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار نے ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور بارہا حضرت احمد علیہ السَّلام کو دیکھا ہے کہ آپ عدالت میں پیشی کے واسطے تیزی سے سڑک پر جا رہے ہیں اور سامنے سے کوئی شخص دودھ یا پانی لایا تو آپ نے وہیں بیٹھ کر پی لیا اور کھڑے ہو کر نہ پیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینا ناجائز نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ بیٹھ کر تسلی سے پیا جاوے۔
{ 523} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ حضور اگر چند لمحوں کے لئے بھی جماعت سے اُٹھ کر گھر جاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السَّلام علیکم کہتے۔
{ 524} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے فرمایا۔ کہ لوگ حضرت صاحب کو تنگ کرتے ہیں اور بار بار دعا کے لئے رقعہ لکھ کر اوقات گرامی میں حارج ہوتے ہیں۔ مَیں نے خیال کیا کہ مَیں بھی حضور کو بہت تنگ کرتا ہوں شاید روئے سخن میری ہی طرف ہو۔ سو مَیں اسی وقت حضور کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اگر حضور ہماری ان باتوں سے تنگ ہوتے ہوں تو ہم انہیں چھوڑ دیں۔ حضور نے فرمایا۔ نہیں نہیں بلکہ بار بار لکھو، جتنا زیادہ یاد دہانی کرائو گے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
{ 525} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت کی عادت میں دن کے کسی خاص وقت میں قیلولہ کرنا داخل نہ تھا۔ آرام صرف کام پر منحصر تھا۔ بعض اوقات نصف شب یا اس سے زیادہ یا کبھی کبھی تمام رات ہی تحریر میں گزار دیا کرتے تھے۔ صبح کی نماز سے واپس آ کر بھی سو لیا کرتے تھے اور کبھی نہیں بھی سوتے تھے۔ سیر کو اکثر سورج نکلے تشریف لے جایا کرتے تھے اور گھر سے نکل کر احمدیہ چوک میں کھڑے ہو جاتے اور جب تک مہمان جمع نہ ہو لیتے کھڑے رہتے اور اس کے بعد روانہ ہوتے۔
{ 526} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصافحہ کبھی صرف دائیں ہاتھ سے کرتے تھے اور کبھی دائیں اور بائیں دونوں سے کرتے تھے۔ مخلصین آپ کے ہاتھوں کو بوسہ بھی دیتے تھے اور آنکھوں سے بھی لگاتے تھے اور بسا اوقات حضور کے کپڑوں پر بھی برکت حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پھیرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ سب نظارے سوائے دونوں ہاتھوں کے مصافحہ کے مَیں نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
{ 527} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک مستعمل کتاب ازالہ اوہام میرے پاس بطور تبرک کے رکھی ہے۔ اس میں حضرت صاحب نے اپنے ہاتھ سے ایک شعر لکھا ہوا ہے۔ جو میرے خیال میں حضور کا اپنا بنایا ہوا ہے ۔
شعر یہ ہے۔ ؎
ایں قوم مرا نشانہ ٔ نفریں کرد ہر حملہ کہ داشت برمنِ مسکین کرد
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ میری قوم نے مجھے نفرت و حقارت کا نشانہ بنا رکھا ہے اور کوئی حملہ ایسا نہیں جو وہ کرسکتی تھی اور پھر اس نے مجھ غریب پر وہ نہیں کیا۔
{528} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مقبرہ بہشتی میں دو قبروں کے کتبے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خود لکھے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کا نمونہ ہیں کہ اس مقبرہ کے کتبے کس طرح کے ہونے چاہئیں۔ اب جو کتبے عموماً لکھے جاتے ہیں ان سے بعض دفعہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ شخص کہاں دفن ہے یا اس کے اندر کیا کیا خوبیاں تھیں یا سلسلہ کی کس کس قسم کی خدمت اس نے کی ہے۔ دو کتبے جو حضور نے خود لکھے وہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور صاحبزادہ مبارک احمد کے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا کتبہ ہمارے نانا جان مرحوم نے لکھا تھا اور حضرت خلیفہ اوّلؓ نے درست کیا تھا۔ اور حضرت خلیفہ اوّلؓ کا کتبہ غالباً ہمارے نانا جان مرحوم نے لکھ کر حضرت خلیفہ ثانی کو دکھا لیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے کتبہ میں حضرت خلیفہ اوّلؓ نے صرف اتنی تبدیلی کی تھی کہ جہاں نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کتبہ کے آخر میں علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ لکھے تھے اُسے حضرت خلیفہ اوّلؓ نے بدل کر عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ کے الفاظ کر دئیے تھے۔
{ 529} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام روپیہ کا حساب بڑے اہتمام سے لیتے تھے اور جس شخص کے پاس کسی کام کے لئے روپیہ دیا ہو اور اس کا حساب مشتبہ ہو تو خفا بھی ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی طریق تھا۔ جو میر صاحب نے بیان فرمایا ہے لیکن خاص اصحاب کی صورت میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ دی ہوئی رقم کا کوئی حساب نہیں لیتے تھے بلکہ جو رقم بھی خرچ کے بعد واپس کی جاتی تھی یا مزید رقم کا مطالبہ کیا جاتا تھا آپ حسبِ صورت پیش آمدہ بغیر کوئی سوال کئے رقم لے لیتے یا دے دیتے تھے۔
{ 530} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب کشمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم ان سے بیان کرتے تھے کہ جب حضور کے پاس کہیں سے روپیہ آتا تھا تو حضور مجھے بلا لیتے اور بلا گنتی روپیہ دے دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس وقت روپیہ لے لو، نہ معلوم پھر کب ہاتھ میں آئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم حضرت صاحب کے خاص خادم تھے جنہیں حضرت صاحب گھر کی ضروریات اور مہمانوں وغیرہ کی مہمانی کے لئے روپیہ دیا کرتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت اور روایت نمبر ۵۲۹ میں جو تضاد نظر آتا ہے یہ حقیقی تضاد نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے موقعہ کے لحاظ سے دونوں روایتیں درست ہیں اور حافظ حامد علی صاحب نے جو بات بیان کی ہے یہ غالباً خاص خاص لوگوں کے متعلق یا خاص حالات میں پیش آتی ہو گی۔
{531} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر عنایت علی شاہ صاحب لودھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب اول ہی اوّل حضور اقدس لدھیانہ تشریف لائے تھے تو صرف تین آدمی ہمراہ تھے۔ میاں جان محمد صاحب و حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملاوامل صاحب جو کہ اب تک زندہ موجود ہے غالباًتین روز حضور لدھیانہ میں ٹھہرے۔ ایک روز حضور بہت سے احباب کے ساتھ سیر کو تشریف لے گئے خاکسار بھی ہمراہ تھا راستہ میں عصر کی نماز کا وقت آگیا۔ اس وقت لالہ ملاوامل نے حضور سے کہا کہ نماز پڑھ لی جائے آنحضور نے وہیں پر مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی کی اقتداء میں نماز ادا کی اور ملاوامل ایک پاس کے چری کے کھیت کی طرف چلا گیا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ وہاں نماز پڑھی ہو۔نیز اس وقت لالہ ملاوامل کا یہ حال تھا کہ اگر اُن کو کہا جاتا کہ آپ سونے کے وقت چارپائی لے لیا کریں تو وہ جواب دیتے مجھے کچھ نہ کہو۔ حضرت کے قدموں میں نیچے زمین پر ہی لیٹنے دو۔ حضرت اقدس عموماً صبح کی نماز خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔
{ 532} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میاں محمد خان صاحب ساکن گِل منج ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ابتداء میں حضرت صاحب مسجد مبارک میں خود نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ایک آدمی آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا تھا اور پیچھے صرف چار پانچ مقتدی کھڑے ہو سکتے تھے۔ اور جو آدمی پہلے نماز کے وقت دائیں جانب آ بیٹھتا۔ اس کو عرض کرنے کا موقعہ مِل جاتا۔ ایک روز مَیں بھی سب سے اوّل وضو کرکے مسجد مبارک میں دائیں جانب جا بیٹھا پھر حضور علیہ السلام تشریف لے آئے اور میرے قریب آ کر بیٹھ گئے اتنے میں چار پانچ آدمی پیچھے سے آئے وہ بڑے ذی عزّت معلوم ہوتے تھے۔ میں نے حضور علیہ السلام کے پائوں دبانے شروع کر دئیے اور حضور کی خدمت میں شرماتے ہوئے عرض کیا کہ حضور مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جس کے ذریعہ سے دین و دُنیا میں کامیابی حاصل ہو۔ حضور نے فرمایا۔ ’’استغفار بہت پڑھا کرو‘‘۔ سو اب تک یہی میرا وظیفہ ہے۔
{ 533} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مولوی گل علی شاہ صاحب سے جو حضرت صاحب کے استاد تھے ایک سیّد نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ (نعوذباللہ) آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دوزخ میں پڑے ہیں اور جگہ جگہ زخم ہیں اور آگ جل رہی ہے اور باہر انگریزوں یا گوروں کا پہرہ ہے اس خواب کو سن کر مولوی گل علی شاہ صاحب کو سخت غم ہوا اور عقیدہ بھی بدل گیا اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شکوک پیدا ہو گئے۔ جب گل علی شاہ صاحب غمزدہ ہو کر یہ خواب کسی سے بیان کر رہے تھے تو اُوپر سے حضرت اقدس علیہ السلام سبق کے لئے آگئے تو آپ نے یہ خواب سُن کر اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ وہ شخص جس نے یہ خواب دیکھی ہے وہ خود مجذوم ہو جائے گا اور عیسائی ہو کر دوزخ میں گرے گا۔ سو ایسا ہی ہوا کہ وہ عیسائی ہوا اور پھر کوڑھی ہو کر مر گیا ۔اس تعبیر کو سُن کر مولوی گُل علی شاہ صاحب بہت خوش ہوئے اور ان کا عقیدہ بھی درست ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر۲۵۳ میں بھی یہ واقعہ باختلاف الفاظ بروایت مولوی شیر علی صاحب بیان ہو چکا ہے اور مولوی گل علی شاہ صاحب حضرت صاحب کے بچپن کے استاد تھے۔
{ 534} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں خاکسار خواجہ کمال الدین صاحب کے ہاں رہتا تھا۔ اس زمانہ میں خوا جہ صاحب نے اپنے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعریف کے دوران میں کہا کہ حضور کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی نئی کتاب لکھتے ہیں تو میرے پاس اس کتاب کی ایک جلد ضرور روانہ فرما دیتے ہیں یا اپنے ہاتھ سے خود مرحمت فرماتے ہیں۔ اور فرمایا کرتے کہ اس کو شروع سے آخر تک قانونی نقطہ نگاہ سے ملاحظہ کر لو۔ مَیں اس کو محض حکم کے مطابق پڑھ لیتا ہوں گو مَیں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ حضرت کی کتابیں قانونی نگاہ سے دیکھنے کی محتاج نہیں بلکہ اس سے حضور کا یہ مقصود ہوتا ہے کہ مَیں حضور کی تصنیف کو پڑھ لوں اور سلسلہ کی تعلیم سے واقف رہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ محقق صاحب دہلی کے رہنے والے ہیں اور مَیں نے سُنا ہے کہ ہمارے ننھیال سے ان کی کچھ رشتہ داری بھی ہے۔ کسی زمانہ میں غیر مبایعین کے سرگروہوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے۔ خوب ہوشیار آدمی ہیں۔ اور اب خدا کے فضل سے مبایع ہیں۔
{ 535} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام میں مَیں نے ایک خاص بات دیکھی۔ کہ جتنی مرتبہ حضور باہر تشریف لاتے۔ مَیں دوڑ کر السَّلام علیکم کہتا اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتا۔ حضور فوراً اپنے ہاتھ میرے ہاتھ میں اس طرح دے دیتے کہ گویا اُس ہاتھ میں بالکل طاقت نہیں ہے یا یہ کہ وہ خالص اس لئے میرے سپرد کیا گیا ہے کہ جو چاہو اس ہاتھ سے برتائو کر لو۔ مَیں اس ہاتھ کو لے کر خوب چومتا اور آنکھوں سے لگاتا اور سر پر پھیرتا۔ مگر حضور کچھ نہ کہتے بیسیوں مرتبہ دن میں ایسا کرتا مگر ایک مرتبہ بھی حضور نے نہیں فرمایا کہ تجھے کیا ہو گیا ابھی تو مصافحہ کیا ہے ۔ پانچ پانچ منٹ بعد مصافحہ کی ضرورت نہیں۔
{ 536} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب آتھم کا مباحثہ امرتسر میں ہوا تو پہلے دن حضرت صاحب مع اُن خدّام کے جن کے پاس داخلہ کے ٹکٹ تھے وہاں تشریف لے گئے کیونکہ داخلہ بذریعہ ٹکٹ تھا۔ کوٹھی کے دروازہ پر ٹکٹ دیکھے جاتے تھے اور صرف ٹکٹ والے اندر جانے پاتے تھے۔ میں بچہ ہی تھا اور ساتھ چلا گیا تھا۔ محمد کبیر میرا خالہ زاد بھائی بھی ہمراہ تھا۔ ہم نے حضرت صاحب سے کہا کہ ہم بھی اندر چلیں گے۔ اس وقت گو ٹکٹ پورے ہو چکے تھے اور ہم مباحثہ کو پوری طرح سمجھ بھی نہ سکتے تھے۔ مگر حضرت صاحب نے ہماری درخواست پر ایک آدمی ڈپٹی عبداللہ آتھم یا پادری مارٹن کلارک کے پاس بھیجا کہ ہمارے ہمراہ دو لڑکے آگئے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو ہم ان کو اپنے ہمراہ لے آئیں۔ انہوں نے اجازت دے دی اور ہم سب کے ساتھ اندر چلے گئے۔ کوئی اور ہوتا تو ہم کو واپس گھر بھیج دیتا کہ تمہارا یہاں کوئی کام نہیں مگر یہ حضرت صاحب ہی کی دلداری تھی جو آپ نے ایسا کیا۔
{ 537} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صا حبہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت صاحب آخری سفر میں لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے ایک کام درپیش ہے دُعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا۔ مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور مَیں ابوبکر ہوں۔ دوسرے دن صبح مبارکہ بیگم سے حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیا کوئی خواب دیکھا ہے؟ مبارکہ بیگم نے یہ خواب سُنائی تو حضرت صاحب نے فرمایا۔ یہ خواب اپنی اماں کو نہ سُنانا۔ مبارکہ بیگم کہتی ہیں کہ اس وقت مَیں نہیں سمجھی تھی کہ اس سے کیا مراد ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خواب بہت واضح ہے اور اس سے یہ مراد تھی کہ حضرت صاحب کی وفات کا وقت آن پہنچا ہے اور یہ کہ آپ کے بعد حضرت مولوی صاحب خلیفہ ہوں گے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت ہمشیرہ مبارکہ بیگم صا حبہ کی عمر گیارہ سال کی تھی۔ دوسری روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب اس سفر پر تشریف لے جاتے ہوئے بہت متا ٔمل تھے کیونکہ حضور کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ اسی سفر میں آپ کو سفرِ آخرت پیش آنے والا ہے۔ مگر حضور نے سوائے اشارے کنایہ کے اس کا اظہار نہیں فرمایا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہماری ہمشیرہ کا یہ خواب غیر مبایعین کے خلاف بھی حجت ہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت کی طرف صریح اشارہ ہے۔
{538} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخری سفر میں لاہور جانے کا ارادہ فرمایا۔ اور سامان اور سواری وغیرہ کا انتظام ہو چکا تو رات کو میاں شریف احمد صاحب کو بخار ہو گیا حضور کو رات کے وقت یہ الہام ہوا ’’مباش ایمن ازبازیٔ روزگار‘‘ جو آپ نے صبح کو سُنایا۔ آپ نے حکم دیا۔ کہ آج کا جانا ملتوی کردو۔ کل کو دیکھا جائے گا اور حضور علیہ السلام نے پہلے بھی لکھ دیا ہوا تھا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ سے مطلع کیا جا چکا ہے کہ اب میری عمر قریب الاختتام ہے۔ دوسرے روز حضور تشریف لے گئے اور وہاں لاہور ہی حضور کا انتقال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فارسی الہام کے یہ معنی ہیں کہ زندگی کی چال سے امن میں نہ رہ کہ یہ دھوکہ دینے والی چیز ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ لاہور جا کر حضرت صاحب کو اپنی وفات کے متعلق اس سے بھی زیادہ واضح الہام ہوئے تھے۔ مثلاً ایک الہام یہ تھا کہ ’’مکن تکیہ بر عمرِ ناپائدار‘‘ یعنی اس ناپائدار عمر پر بھروسہ نہ کر کہ یہ اب ختم ہو رہی ہے۔ اور ایک الہام جو غالباً آخری الہام تھا یہ تھا کہ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ یعنی اب کوچ کا وقت آگیا ہے۔ کوچ کا وقت آگیا ہے۔ اس الہام کے چار پانچ روز کے بعد آپ انتقال فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ـ
{ 539} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ سفر ملتان کے دوران میں حضرت صاحب ایک رات لاہور میں شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کے ہاں بطور مہمان ٹھہرے تھے۔ ان دنوں لاہور میں ایک کمپنی آئی ہوئی تھی۔ اس میں قدِ آدم موم کے بنے ہوئے مجسمّے تھے۔ جن میں بعض پُرانے زمانہ کے تاریخی بُت تھے اور بعض میں انسانی جسم کے اندرونی اعضاء طبّی رنگ میں دکھائے گئے تھے۔ شیخ صاحب مرحوم حضرت صاحب کو اور چند احباب کو وہاں لے گئے اور حضور نے وہاں پھر کر تمام نمائش دیکھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا سفر ۱۸۹۷ء میں ہوا تھا۔ اور حضور کو وہاں ایک شہادت کے لئے جانا پڑا تھا۔
{ 540} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب کی زندگی کے آخری سالوں میں ایک شخص میاں کریم بخش نامی بیعت میں داخل ہوا اور قادیان میںہی رہ پڑا یہ شخص بڑا کاریگر باورچی تھا۔ حضرت صاحب جب کبھی اُسے کھانے کی فرمائش کرتے تو اس کا کمال یہ تھا کہ اتنی تھوڑی دیر میں وہ کھانا تیار کرکے لے آتا کہ جس سے نہایت تعجب ہوتا۔ حضرت صاحب فرماتے ،میاں کریم بخش کیا کہنے سے پہلے ہی تیار کر رکھا تھا؟ اور اس کی پُھرتی پر اور عمدہ طور پر تعمیل کرنے پر بڑے خوش ہوتے تھے اور اس خوشی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ پھر اس خوشی نے اس کو ایسا خوش قسمت کر دیا کہ وہ بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا۔ اور آپ کے عین قدموں کی طرف اسے جگہ ملی۔
{ 541} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سیّد محمد علی شاہ صاحب انسپکٹر نظارت بیت المال قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں ابتداء میں حضور کی بیعت کے لئے قادیان آیا تو ارادہ یہ تھا کہ مَیں حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرونگا۔ نماز کے بعد بیعت کا وقت آیا اور لوگ بھی بیعت کے لئے موجود تھے مگر مجھے سب سے پہلے موقعہ ملا۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے اپنی نظمیں سُنائیں۔ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب ساکن ترگڑی نے بھی اپنی پنجابی نظم ’’چٹھی مسیح اور اس کا جواب‘‘ سُنایا۔ جسے سُن کر آنحضور مع خدّام خوب ہنسے اور فرمایا۔ ’’اسے شائع کردو‘‘ دو تین روز کی پاکیزہ صحبت کے بعد مَیں نے حضرت اقدس سے گھر جانے کی اجازت طلب کی۔ فرمایا۔ ’’ابھی ٹھہرو‘‘۔ دو تین روز کے بعد پھر اجازت کے لئے عرض کیا۔ فرمایا۔ ’’ابھی ٹھہرو‘‘۔ تیسری مرتبہ پھر حضور سے اجازت طلب کی۔ فرمایا کہ ’’ اچھا اب آپ کو اجازت ہے‘‘ مَیں نے عرض کیا کہ حضور مَیں کاٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں صرف اکیلا احمدی ہوں اور کاٹھ گڑھ کے ارد گرد دس دس میل تک کوئی احمدی نہیں ہے اور ہمارے خاندان سادات میں سے میرے ماموں سلسلہ مقدسہ کے سخت دشمن ہیں۔ اس لئے حضور دعا فرمائیں۔ فرمایا خداتعالیٰ آپ کو اکیلا نہیں رکھے گا۔ اور آہستہ آہستہ لوگ احمدیت میں داخل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ اب کاٹھ گڑھ میں ایک بڑی جماعت ہے۔
{ 542} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیّد محمد علی شاہ صاحب انسپکٹر نظارت بیت المال نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء کے قریب میرے ہاں لڑکا تولد ہوا۔ اس کا نام حضور علیہ السلام نے احمد علی رکھا۔ قریباً دس ماہ بعد وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ جس کی اطلاع پر حضور علیہ السلام نے نعم البدل لڑکے کی بشارت دی۔ ۱۹۰۷ء میں دوسرا لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام حضور علیہ السلام نے عنایت علی شاہ رکھا۔ اور اس کے لئے دعائیں فرمائیں ۔ جو قبول ہوئیں۔
{543} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اپنے باغ میں سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ اس وقت حضور کے دستِ مبارک میں ایک بید کا عصا تھا۔ ایک درخت پر پھل اتارنے کے لئے وہ عصا مارا مگر وہ عصا درخت میں ہی اٹک گیا اور ایسی طرح پھنسا کہ اُترنے میں ہی نہ آتا تھا۔ اصحاب نے ہر چند سوٹا اتارنے کی کوشش کی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور مَیں درخت پر چڑھ کر اتار دیتا ہوں اور مَیں جھٹ چڑھا اور عصا مبارک اتار لایا۔ حضور اس قدر خوش اور متعجب ہوئے کہ بار بار محبت بھرے الفاظ میں فرماتے تھے کہ ’’میاں نبی بخش یہ تو آپ نے کمال کیا۔ کہ درخت پر چڑھ کر فوراً سوٹا اُتار لیا۔ کیسے درخت پر چڑھے اور کس طرح سے درخت پر چڑھنا سیکھا۔ یہ سوٹا تو ہمارے والد صاحب کے وقت کا تھا۔ جسے گویا آج آپ نے نیا دیا ہے۔‘‘ حضور راستہ میں بھی بار بار فرماتے تھے کہ میاں نبی بخش نے درخت پر چڑھ کر سوٹا اتارنے میں کمال کیا ہے۔ نیز حضور کی عادت میں داخل تھا کہ خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا کسی کو تُو کے لفظ سے خطاب نہ کرتے تھے حالانکہ مَیں چھوٹا بچہ تھا۔ مجھے کبھی حضور نے تُو سے مخاطب نہ کیا تھا۔
{544} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نبی بخش صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان آیا تو ان ایام میں ایک چھوٹی چارپائی بیت الفکر میں موجود رہتی تھی اور کمرہ میں قہوہ تیار رہتا اور پاس ہی مصری موجود ہوتی تھی۔ مَیں جتنی دفعہ دن میں چاہتا قہوہ پی لیتا۔ حضور فرماتے ’’اور پیو اور پیو‘‘ ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان دنوں میں حضور کسی تصنیف میں مصروف ہوں گے اور بدن میں چستی قائم رکھنے کے لئے چائے تیار رہتی ہوگی جس سے آپ آنے جانے والے کی تواضع بھی فرماتے رہتے ہونگے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیت الفکر حضور کے مکان کے اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک سے متصل جانب شمال ہے جس میں سے ایک کھڑکی نما دروازہ مسجد میں کھلتا ہے۔
{545} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مرتبہ گھر میں فرمانے لگے۔ کہ لڑکے جب جوان ہو جائیں تو ان کی رہائش کے لئے الگ کمرہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ فلاں لڑکے کے لئے اس کوٹھے پر ایک کمرہ بنا دو۔
{546} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سب دوست اس موضوع پر ایک مضمون لکھیں۔ کہ مذہب کیا ہے اور کامل مذہب کیسا ہونا چاہئے۔ کچھ دنوں کے بعد بہت سے مضامین آ گئے اور بہت سے مقامی اور بعض بیرونی دوست خود سُنانے کے لئے تیار ہو گئے۔ اس پر آپ نے کبھی مسجد میں اور کبھی سیر میں ان مضامین کو سُننا شروع کر دیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب۔ میاں معراج الدین صاحب عمر۔ خواجہ جمال الدین صاحب کے مضمون اور بہت سے دیگر احباب کے مضامین سُنائے گئے۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں حضرت صاحب نے اپنا مضمون بھی سُنایا۔ مگر اپنا مضمون غالباً سیر میں سُنایا کرتے تھے۔ اس میں پہلا نکتہ یہ تھا کہ آپ نے لکھا کہ ہر مضمون نگار نے مذہب کے معنے ’’راستہ‘‘ کے کئے ہیں۔ مگر مذہب کے معنے ’’روش‘‘ کے ہیں پس مذہب وہ رَوش اور طریق رفتار ہے جسے انسان اختیار کرے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عربی لُغت کی رُو سے مذہب کے معنی رستہ اور روش ہر دو کے ہیں مگر اس میں شبہ نہیں کہ مؤخر الذکر معنوں میں جو لطافت اور وسعت ہے وہ مقدم الذکر میں نہیں۔
{547} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کسی تقریر یا مجلس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے تو بسا اوقات ان محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرماتے۔ کہ ’’ ہمارے آنحضرت‘‘ نے یوں فرمایا ہے۔ اسی طرح تحریر میں آپ آنحضرت ﷺ کے نام کے بعد صرف آپؐ نہیں لکھتے تھے بلکہ پورا درود یعنی ’’صلے اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی محبت اس کمال کے مقام پر تھی جس پر کسی دوسرے شخص کی محبت نہیں پہنچتی۔
{548} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نبی بخش صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام موسم گرما میں بعد نماز مغرب مسجد مبارک کے شاہ نشین پر مع خدّام حضرت خلیفہ اوّلؓ و مولوی عبدالکریم صاحب و خوا جہ کمال الدین صاحب و ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب وغیرہ رونق افروز تھے۔ کسی کام کے لئے بٹالہ تار دینا تھا۔ اس وقت چونکہ قادیان میں تار گھر نہ تھا۔ حضور نے فرمایا بٹالہ جانے کے لئے کوئی تیاری کر لے۔ دو آدمی مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم تیار ہیں۔ فرمایا ٹھہرو مَیں نیچے سے تار کی فیس لا دیتا ہوں۔ ہر چند اصحاب متذکرہ بالا نے عرض کیا کہ حضور نیچے جانے کی تکلیف نہ فرمائیں۔ ہم فیس ادا کردینگے اور صبح حضور وہ رقم واپس دے دیویں مگر حضور نے نہ مانا اور فوراً نیچے چلے گئے اور تار کی فیس دے کر اُن کو روانہ کر دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں قادیان میں نہ تار تھی نہ ریل تھی اور نہ ٹیلیفون تھا۔ مگر اب کئی سال سے یہ تینوں ہیں۔ تار کے متعلق بعض اوقات بڑی مشکل کا سامنا ہوتا تھا کیونکہ آنے والی تار بٹالہ سے قادیان تک ڈاک میں آتی تھی اور جو تار قادیان سے بھجوانی ہوتی اُس کے لئے خاص آدمی بٹالہ بھجوانا پڑتا تھا اور اس طرح عموماً تار کی غرض فوت ہو جاتی تھی۔ مگر اب خدا کے فضل سے جہاں تک ذرائع رسل و رسائل کا تعلق ہے قادیان بڑے شہروں کی طرح ہے۔
{549} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیّد محمد علی شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے ایک شاگرد نے مجھے شیشم کی ایک چھڑی بطور تحفہ دی۔ میں نے خیال کیا کہ مَیں اس چھڑی کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرونگا چنانچہ خاکسار نے قادیان پہنچ کر بوقت صبح جبکہ حضور سیر سے واپس تشریف لائے وہ چھڑی پیش کر دی۔ حضور کے دستِ مبارک کی چھڑی میری پیش کردہ چھڑی سے بدرجہا خوبصورت و نفیس تھی لہٰذا مجھے اپنی کوتہ خیالی سے یہ خیال گزرا کہ شاید میری چھڑی قبولیت کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ مگر حضور نے کمال شفقت سے اُسے قبول فرما کر دُعا کی۔ بعد ازاں تین چار روز تک حضور علیہ السلام میری چھڑی کو لے کر باہر سیر کو تشریف لے جاتے تھے جسے دیکھ کر میرے دل کو تسکین و اطمینان حاصل ہوا۔ پھر حضور بدستورِ سابق اپنی پُرانی چھڑی ہی لانے لگے اور میری پیش کردہ چھڑی کو گھر میں رکھ لیا۔
{ 550} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ میرے سامنے مندرجہ ذیل اصحاب کے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز باجماعت پڑھی ہے۔
(۱)حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّلؓ (۲) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی (۳) حضرت حکیم فضل الدین صاحب مرحوم بھیروی (۴) پیر سراج الحق صاحب نعمانی (۵) مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی (۶) بھائی شیخ عبدالرحیم صاحب (۷) حضرت میر ناصر نواب صاحب (۸) مولوی سیّد سرور شاہ صاحب (۹) مولوی محمد احسن صاحب (امروہی) (۱۰) پیر افتخار احمد صاحب۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسری روایتوں سے قاضی امیر حسین صاحب اور میاں جان محمد کے پیچھے بھی آپ کا نماز پڑھنا ثابت ہے۔ دراصل آپ کا یہ طریق تھا کہ بالعموم خود امامت کم کراتے تھے اور جو بھی دیندار شخص پاس حاضر ہوتا تھا اُسے امامت کے لئے آگے کر دیتے تھے۔
{ 551} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ بچپن میں تمہاری (یعنی خاکسار مرزا بشیر احمد کی) آنکھیں بہت خراب ہو گئی تھیں۔ پلکوں کے کنارے سُرخ اورسوجے رہتے تھے اور آنکھوں سے پانی بہتا رہتا تھا۔ بہت علاج کئے مگر فائدہ نہ ہوا۔ حضرت صاحب کو اس بات کا بہت خیال تھا۔ آخر ایک روز الہام ہوا۔ ’’بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْر‘‘ یعنی میرے بچے بشیر کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔ اس کے بعد ایک دوا بھی کسی نے بتائی وہ استعمال کرائی گئی۔ اور خدا کے فضل سے آنکھیں بالکل صاف اور تندرست ہو گئیں۔ میر صاحب بیان فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اکثر اوقات جب تم حضرت صاحب کے سامنے جاتے تو آپ محبت کے انداز سے تمہیں مخاطب کر کے فرماتے تھے کہ ’’ بَرَّقَ طِفْلِیْ بَشِیْر ‘‘ میرے بچے بشیر کی آنکھیں روشن ہو گئی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری ظاہری آنکھیں تو بے شک صاف اور تندرست ہو گئیں اور مَیں نے خدا کے فضل سے حصّہ پا لیا۔ اور مَیں اس کا شکر گزار ہوں ۔ لیکن اگر خدا کی یہ بشارت صرف ظاہر تک محدود تھی تو خدا کی شان کے لحاظ سے یہ کوئی خاص لطف کی بات نہیں اور اس کے فضل کی تکمیل کا یہ تقاضا ہے کہ جس طرح ظاہر کی آنکھیں روشن ہوئیں اسی طرح دل کی آنکھیں بھی روشن ہوں اور خدائی الہام میں تو آنکھ کا لفظ بھی نہیں ہے۔ پس اے میرے آقا! مَیں تیرے فضل پر امید رکھتا ہوں کہ جب میرے لئے تیرے دربار کی حاضری کا وقت آئے تو میری ظاہری آنکھوں کے ساتھ دل کی آنکھیں بھی روشن ہوں۔ نہیں بلکہ جیسا کہ تیرے کلام میں اشارہ ہے ،میرا ہر ذرّہ روشن ہو کر تیرے قدموں پر ہمیشہ کے لئے گر جائے۔
ایں است کام دل ،،گر آید میسّرم
{ 552} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص وحی الٰہی کا دعویٰ کرے اور ایک جماعت بنا لے اور اس کا مذہب دنیا میں اچھی طرح رائج اور قائم ہو جائے اور مستقل طور پر چل پڑے۔ تو سمجھنا چاہئے کہ وہ شخص سچا تھا اور یہ کہ اس کا مذہب اپنے وقت میں سچا مذہب تھا کیونکہ جھوٹے مدعی کا مذہب کبھی قائم نہیں ہوتا۔ فرماتے تھے کہ اس وقت دُنیا میں جتنے قائم شدہ مذہب نظر آتے ہیں۔ ان سب کی ابتداء اور اصلیّت حق پر تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے یہ اصول اپنی کتب میں بھی متعدد جگہ بیان فرمایا ہے مگرساتھ تصریح کی ہے کہ کسی مذہب کا دُنیا میں پوری طرح راسخ ہو جانا اور نسل بعد نسل قائم رہنا اور قبولیت عامہ کا جاذب ہو جانا شرط ہے۔
{ 553} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن مجید کے بڑے بڑے مسلسل حصّے یا بڑی بڑی سورتیں یاد نہ تھیں۔ بے شک آپ قرآن کے جملہ مطالب پر حاوی تھے مگر حفظ کے رنگ میں قرآن شریف کا اکثر حصّہ یاد نہ تھا۔ ہاں کثرتِ مطالعہ اور کثرت تدبّر سے یہ حالت ہو گئی تھی کہ جب کوئی مضمون نکالنا ہوتا تو خود بتا کر حفّاظ سے پوچھا کرتے تھے کہ اس معنے کی آیت کونسی ہے یا آیت کا ایک ٹکڑا پڑھ دیتے یا فرماتے کہ جس آیت میں یہ لفظ آتا ہے وہ آیت کونسی ہے۔
{ 554} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ فجر کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ اور بعض اصحاب بھی حلقہ نشین تھے تو اس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا۔ کہ حضرت اقدس کا دعویٰ تو مسیح موعود ہونے کا ہے۔ مگر مہدی جو اس زمانہ میں آنا تھا۔ کیا وہ کوئی علیحدہ شخص ہو گا۔ اسی وقت حضور علیہ السلام نے تقریر شروع فرما دی اور بیان فرمایا کہ مَیں مسلمانوں کے لئے مہدی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بُروز ہوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود یعنی حضرت مسیح ناصری کا مثیل بن کر آیا ہوں۔ حضور نے لمبی تقریر فرمائی جس سے میری پوری تسلی ہو گئی۔ اسی طرح اکثر دیکھا ہے کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض پیدا ہوتا تو حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا علم دیا جاتا تھا اور حضور علیہ السلام اُسے بذریعہ تقریر ردّ فرما دیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کو علمِ غیب نہیں ہوتا۔ پس ایسی روایتوں کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامورین سے اصلاح کا کام لینا ہوتا ہے اس لئے انہیں بسا اوقات دوسروں کے خیالات کا علم دیا جاتا ہے۔ یا بغیر علم دینے کے ویسے ہی ان کی زبان کو ایسے رستہ پر چلا دیا جاتا ہے جو سامعین کے شکوک کے ازالہ کا باعث ہوتا ہے۔
{ 555} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک اشتہار دیا۔ جس میں رَفْع یَدَیْن۔ آمین وغیرہ کے مسائل تھے اور جواب کے لئے فی مسئلہ دس روپیہ انعام مقرر کیا تھا۔ دس مسائل تھے۔ حضرت صاحب نے مجھے سُنایا اور فرمایا۔ کہ دیکھو یہ کیسا فضول اشتہار ہے۔ جب نماز ہر طرح ہو جاتی ہے تو ان باتوں کا تنازعہ موجب فساد ہے۔ اس وقت ہمیں اسلام کی خدمت کی ضرورت ہے نہ کہ ان مسائل میں بحث کی۔ اس وقت تک ابھی حضور کا دعویٰ نہ تھا۔ پھر آپ نے اسلام کی تائید میں ایک مضمون لکھنا شروع کیا۔ اور میری موجودگی میں دو تین دن میں ختم کیا اور فرمایا۔ مَیں فی مسئلہ ہزار روپیہ انعام رکھتا ہوں۔ یہ براہین احمدیہ کی ابتدا تھی۔ جس میں اسلام کی تائید میں دلائل درج کئے گئے تھے۔
{ 556} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب فوت ہو گئے۔ تو آپ سابقہ چوبارہ چھوڑ کر اس چوبارہ میں جو مرزا غلام قادر صاحب نے جدید بنایا تھا آ گئے۔ یہ مسجد مبارک کے ساتھ تھا۔ اس چوبارہ کے ساتھ کوٹھڑی میں کتب خانہ ہوتا تھا۔ جس میں عربی فارسی کی قلمی کتب تھیں۔ اس کے بعد مَیں عموماً اپنے گائوں میں رہنے لگ گیا۔ اور سال میں صرف ایک دو دفعہ قادیان آتا تھا۔ جب مَیں آتا تو حضرت صاحب کے پاس ہی رہتا تھا کیونکہ حضرت صاحب فرماتے تھے۔ جب آئو تو میرے پاس ٹھہرا کرو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں چوبارہ سے مراد غالباً وہ دالان ہے جو بیت الفکر کے ساتھ جانب شمال ہے اور کوٹھڑی سے خود بیت الفکر مراد ہے جو مسجد کے ساتھ متصل ہے۔
{ 557} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدقہ میں جانور کی قربانی بہت کیا کرتے تھے ۔گھر میں کوئی بیمار ہوا یا کوئی مشکل درپیش ہوئی یا خود یا کسی اور نے کوئی منذر خواب دیکھا تو فوراً بکرے یا مینڈھے کی قربانی کرادیتے تھے۔ زلزلہ کے بعد ایک دفعہ غالباً مفتی محمد صادق صاحب کے لڑکے نے خواب میں دیکھا کہ قربانی کرائی جائے۔ جس پر آپ نے چودہ بکرے قربانی کرا دئیے۔ غرضیکہ ہمیشہ آپ کی سنّت یہی رہی ہے اور فرماتے تھے کہ یہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سنّت بھی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے صدقہ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ غرباء اور یتامیٰ اور بیوگان کو تلاش کر کے گوشت پہنچانا چاہئے۔ تاکہ ان کی تکلیف کے دور ہونے سے خدا راضی ہو اور فرماتے تھے کہ کچھ گوشت جانوروں کو بھی ڈال دینا چاہئے کہ یہ بھی خدا کی مخلوق ہے۔
{ 558} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے کتب خانہ کے مینیجر محمد سعید صاحب۔ حکیم فضل الدین صاحب مرحوم۔ پِیر سراج الحق صاحب۔ پِیر منظور محمد صاحب۔ میر مہدی حسین صاحب وغیرہ لوگ مختلف اوقات میں رہے ہیں۔ جو فرمائش آتی یا حکم ہوتا وہ حضرت صاحب کی طرف سے مہتمم کتب خانہ کے پاس بھیج دیا جاتا۔ وہ کتاب کا پارسل بنا کر رجسٹری یا وی۔پی کر کے بھیج دیتا۔ وی۔پی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کا ہوتا تھا۔ ایک مہر ربڑ کی ’’ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ‘‘ کی بنوائی گئی تھی۔ اور اعلان کر دیا تھا کہ جس کتاب پر یہ مُہر اور ہمارے قلمی دستخط دونوں موجود نہ ہوں وہ مال مسروقہ سمجھا جائے گا۔ یہ مہر مہتمم کتب خانہ کے پاس رہتی تھی۔ جو کتابیں باہر جاتیں ان پر وہ مُہر لگا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس وہ کتابیں دستخط کے لئے بھیج دی جاتی تھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا انتظام غالباً خاص خاص اوقات میں خاص مصلحت کے ماتحت ہوا ہوگا۔ ورنہ مَیں نے حضرت صاحب کے زمانہ کی متعدد کتب دیکھی ہیں جن پر حضرت صاحب کے دستخط نہیں ہیں گو بعض پر مَیں نے دستخط بھی دیکھے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص زمانہ میں یہ احتیاط برتی گئی تھی۔
{ 559} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گھر کا کوئی کام کرنے سے کبھی عار نہ تھی۔ چارپائیاں خود بچھا لیتے تھے۔ فرش کر لیتے تھے۔ بسترہ کر لیا کرتے تھے۔ کبھی یکدم بارش آ جاتی تو چھوٹے بچے تو چارپائیوں پر سوتے رہتے۔ حضور ایک طرف سے خود اُن کی چارپائیاں پکڑتے دوسری طرف سے کوئی اور شخص پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کروالیتے۔ اگر کوئی شخص ایسے موقعہ پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجوڑ کر جگانا چاہتا تو حضور منع کرتے اور فرماتے کہ اس طرح یکدم ہلانے اور چیخنے سے بچہ ڈر جاتا ہے۔ آہستہ سے آواز دے کر اُٹھائو۔
{ 560} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی امام الدین صاحب سابق پٹواری نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی والے مقدمہ زیر دفعہ ۱۰۷ کی پیشی دھاریوال میں مقرر ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سے عرض کیا کہ حضور محمد بخش تھانیدار کہتا ہے۔ کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے۔ اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ ’’میاں امام الدین! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد مَیں نے دیکھا۔ کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہو گئی۔ اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا۔ اور آخر اسی نا معلوم بیماری میں وہ دنیا سے گذر گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ لفٹینینٹ ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی۔ ایم۔ ایس نے جو کہ محمد بخش صاحب تھانیدار کے پوتے ہیں مجھ سے بیان کیا۔ کہ ان کے دادا کی وفات ہاتھ کے کار بنکل سے ہوئی تھی۔ اس کا ذکر روایت نمبر ۲۵۶ میں بھی آچکا ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے والد شیخ نیاز محمد صاحب تھانہ دار مخلص احمدی ہیں۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ( الرّوم :۲۰)
{ 561} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب کے ایک ماموں زاد بھائی مرزا علی شیر ہوتے تھے۔ جو حضرت صاحب کے سالہ بھی تھے۔ وہ جالندھر میں پولیس میں ملازم تھے۔ ان کی لڑکی عزّت بی بی کے بعد ان کی اولاد مر جاتی تھی ۔ پھر ان کے ایک لڑکا ہوا جو بہت خوبصورت اور ہونہار معلوم ہوتا تھا۔ جب وہ قریباً تین سال کا ہوا تو وہ بیمار ہو گیا۔۔۔۔۔۔ جب وہ بیمار ہوا تو مجھے گھر سے کہا گیا کہ مرزا صاحب سے کہو کہ اُسے آکر دیکھ جائیں اور دوا دیں۔ (اس وقت دادا صاحب فوت ہو چکے تھے) حضرت صاحب اس زمانہ میں گھر نہیں جایا کرتے تھے۔ مَیں عرض کرکے ساتھ لے گیا۔ حضرت صاحب نے دیکھا اور دوا بھی بتائی۔ پھر واپس آ کر شام کو حسبِ دستور فرمانے لگے۔ استخارہ کرو۔ مَیں استخارہ کر کے سویا۔ تو رات کو مجھے خواب آیا۔ کہ ایک کھیت میں ہل چل رہا ہے اور ہل میں دو بیل لگے ہوئے ہیں جس میں دائیں طرف کا بیل گورے رنگ کا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ ہل چلتے چلتے وہ بیل الٹ کر گر گیا اور پھر مر گیا۔ صبح اٹھ کر میں نے یہ خواب حضرت صاحب سے بیان کی۔ آپ نے خواب نامہ نکال کر دیکھا۔ جس کے بعد میں نے تعبیر پوچھی تو فرمانے لگے۔ آپ لوگ زمیندار ہیں۔ زمینداروں والے نظارے خواب میں نظر آ جاتے ہیں۔ مَیں نے اصرار کیا کہ تعبیر بتائیے۔ تو فرمایا۔ کہ سب خوابیں درست نہیں ہوتیں۔ بعض اوقات خیال سے بھی خواب آ جاتی ہے۔ مگر مَیں نے پھر بھی اصرار کیا۔ جس پر فرمایا۔ کہ تم تعبیر بتا دو گے اور شور پڑ جائے گا۔ اگر وعدہ کرو کہ نہ بتائو گے تو بتائوں گا۔ مَیں نے وعدہ کیا تو آپ نے بتایا۔ کہ یہ لڑکا فوت ہو جائے گا۔ چنانچہ دوسرے دن وہ لڑکا فوت ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا علی شیر کو مَیں نے دیکھا ہے۔ بہت مشرع صورت تھی اور ہاتھ میں تسبیح رکھتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے سخت مخالف تھے۔ ان کی لڑکی عزّت بی بی ہمارے بھائی مرزا فضل احمد کے عقد میں آئی تھی اور وہ بھی اوائل عمر میں سخت مخالف تھی مگر اب چند سال سے سلسلہ میں داخل ہیں۔
{ 562} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عبدالمحي صاحب عرب نے مجھ سے ایک روز حضرت خلیفہ اوّلؓ کے زمانہ میں ہی ذکر کیا کہ حضرت صاحب کی سخاوت کا کیا کہنا ہے۔ مجھے کبھی آپ کے زمانہ میں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ جو ضرورت ہوتی۔ بلا تکلف مانگ لیتا اور حضور میری ضرورت سے زیادہ دے دیتے اور خود بخود بھی دیتے رہتے۔ جب حضور کا وصال ہو گیا تو حضرت خلیفہ اوّلؓ حالانکہ وہ اتنے سخی مشہور ہیں میری حاجت براری نہ کر سکے۔ آخر تنگ ہو کر مَیں نے ان کو لکھا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ تو بن گئے۔ مگر میری حاجات پوری کرنے میں تو ان کی خلافت نہ فرمائی۔ حضرت صاحب تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا کرتے تھے۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّلؓ نے میری امداد کی۔ مگر خدا کی قسم! کہاں حضرت صاحب اور کہاں یہ۔ ان کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔
{ 563} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ سخت بیمار ہو گئے۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب وہ حضور کے مکان میں رہتے تھے۔ حضور نے بکروں کا صدقہ دیا۔ مَیں اس وقت موجود تھا۔ مَیں رات کو حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس ہی رہا اور دواء پلاتا رہا۔ صبح کو حضور تشریف لائے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ حضور! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ اہتمام سے پلاتے رہے ہیں۔ حضور علیہ السَّلام بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ ہم کو بھی ان پر رشک آتا ہے۔ یہ بہشتی کنبہ ہے۔ یہ الفاظ چند بار فرمائے۔
{ 564} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مَیں نے حضرت احمد علیہ السَّلام کو بار ہا نماز فریضہ اور تہجد پڑھتے دیکھا۔ آپ نماز نہایت اطمینان سے پڑھتے۔ ہاتھ سینے پر باندھتے۔ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو سہار لیتے۔ آمین آہستہ پڑھتے تھے۔ رَفْعِ یَدَین کرتے تھے۔ رفع سبابہ یاد نہیں۔ مگر ا غلبًا کرتے تھے۔تہجد میں دو رکعت وتر جُدا پڑھتے اور پھر سلام پھیر کر ایک رکعت الگ پڑھتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میرے علم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رفع یدین نہیں کرتے تھے اور مجھے حضرت صاحب کا رفع سبابہ کرنا بھی یاد نہیں۔ گو مَیں نے بعض بزرگوں سے سُنا ہے کہ آپ رفع سبابہ کرتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب اپنی تحریرات میں حضرت صاحب کا عموماً حضرت احمدؑ علیہ السلام کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں۔ اس لئے مَیں نے ان کی روایت میں وہی قائم رکھا ہے۔ اور یہ جو قاضی صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں سے سہارا دیتے تھے۔ اس کی و جہ یہ تھی کہ جوانی کے زمانہ میں آپ کا دایاں ہاتھ ایک چوٹ لگنے کی و جہ سے کمزور ہو گیا تھا۔ اور اسے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔
{ 565} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بمقام گورداسپور ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بخار تھا۔ آپ نے خاکسار سے فرمایا کہ کسی جسیم آدمی کو بلائو جو ہمارے جسم پر پھرے۔ خاکسار جناب خوا جہ کمال الدین صاحب وکیل لاہور کو لایا۔ وہ چند دقیقہ پھرے۔ مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کا وجود چنداں بوجھل نہیں کسی دوسرے شخص کو لائیں۔ شاید حضور نے ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب دہلوی کا نام لیا۔ خاکسار ان کو بلا لایا۔ جسم پر پھرنے سے حضرت اقدس کو آرام محسوس ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کیفیت اعضاء شکنی کے وقت کی ہو گی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خوا جہ صاحب اور ڈاکٹر صاحب مرحوم ہر دو نہایت بھاری جسم کے تھے۔ شاید کم و پیش چار چار من کے ہونگے۔ اور ڈاکٹر صاحب کسی قدر زیادہ وزنی تھے۔ اور ان کا قد بھی زیادہ لمبا تھا۔ گو ویسے خوا جہ صاحب بھی اچھے خاصے لمبے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب نے جو ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خاں صاحب کو دہلوی لکھا ہے یہ درست نہیں وہ اصل میں گوڑیانی کے رہنے والے تھے۔
{ 566} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جماعت کپورتھلہ دُنیا میں سب سے پہلی احمدی جماعت ہے یہ وہ جماعت ہے جس کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریری پیشگوئی موجود ہے۔ اور اخبار میں بھی شائع ہو چکی ہے کہ ’’جماعت کپور تھلہ دنیا میں بھی میرے ساتھ رہی ہے اور قیامت کو بھی میرے ساتھ ہو گی ‘‘۔ خداگواہ ہے۔ مَیں نے اس کو فخر سے نہیں عرض کیا۔ محض خدا کی نعمت کا اظہار کیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق سیرۃ المہدی کی روایت نمبر۷۹ میں بھی ذکر گذر چکا ہے۔ نیز اس وقت بوقت تحریر حصّہ سوم میاں فیاض علی صاحب مرحوم فوت ہوچکے ہیں۔
{ 567} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز کا واقعہ ہے کہ ایک دودھ کا بھرا ہوا لوٹا حضور کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ خاکسار نے اُسے پانی سمجھ کر ہلا کر جیسا کہ لوٹے کو دھوتے وقت کرتے ہیں پھینک دیا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ دودھ تھا۔ تو مجھے سخت ندامت ہوئی لیکن حضور نے بڑی نرمی اور دلجوئی سے فرمایا اور بار بار فرمایا۔ کہ بہت اچھا ہوا کہ آپ نے اُسے پھینک دیا۔ دودھ اب خراب ہو چکا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ علاوہ دلداری کے حضرت صاحب کا منشا ء یہ ہو گا، کہ لوٹے وغیرہ کی قسم کے برتن میں اگر دودھ زیادہ دیر تک پڑا رہے تو وہ خراب ہو جاتا ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبدالعزیز صاحب حضرت صاحب کے پُرانے مخلصین میں سے ہیں اور اب ایک عرصہ سے پٹوار کے کام سے ریٹائر ہو کر قادیان میں سکونت پذیر ہو چکے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی عبدالعزیز صاحب کی بہت سی روایات مجھے مکرم مرزا عبدالحق صاحب وکیل گورداسپور نے لکھ کر دی ہیں۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا ـ
{ 568} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک شخص مسمی سانوں ساکن سیکھواں نے میرے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ اب وہ مقبرہ بہشتی میں دفن ہیں۔ ان کو نزول الماء کی بیماری تھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو آنکھیں دکھائیں۔ تو انہوں نے فرمایا۔ کہ پہلے پانی آکر بینائی بالکل جاتی رہے گی۔ تو پھر ان کا علاج کیا جائے گا۔ ان کو اس سے بہت صدمہ ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ طریق اختیار کیا۔ کہ جب کبھی وہ قادیان آتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھنے کا موقعہ پاتے تو حضور کا شملہ مبارک اپنی آنکھوں سے لگا لیتے۔ کچھ عرصہ میں ہی ان کی بیماری نزول الماء جاتی رہی او ر جب تک وہ زندہ رہے ان کی آنکھیں درست رہیں۔ کسی علاج وغیرہ کی ضرورت پیش نہ آئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر یہ روایت درست ہے تو اس قسم کی معجزانہ شفا کے نمونے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں بھی کثرت سے ملتے ہیں اور حدیث میں ان کا ذکر موجود ہے۔
{ 569} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔کہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان کرتے تھے۔ کہ جب حضرت صاحب نے دوسری شادی کی۔تو ایک عمر تک تجرد میں رہنے اور مجاہدات کرنے کی و جہ سے آپ نے اپنے قویٰ میں ضعف محسوس کیا۔ اس پر وہ الہامی نسخہ جو ’’زدجام عشق‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بنوا کر استعمال کیا۔ چنانچہ وہ نسخہ نہایت ہی بابرکت ثابت ہوا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی فرماتے تھے۔ کہ مَیں نے یہ نسخہ ایک بے اولاد امیر کو کھلایا تو خدا کے فضل سے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس پر اس نے ہیرے کے کڑے ہمیں نذر دئیے۔
نسخہ زدجام عشق یہ ہے۔ جس میں ہر حرف سے دوا کے نام کا پہلا حرف مراد ہے۔
زعفران۔ دارچینی۔ جائفل۔ افیون۔ مشک۔ عقرقر حا۔ شنگرف۔ قرنفل یعنی لونگ۔ ان سب کو ہموزن کوٹ کر گولیاں بناتے ہیں اور روغن سم ّالفار میں چرب کر کے رکھتے ہیں اور روزانہ ایک گولی استعمال کرتے ہیں۔
الہامی ہونے کے متعلق دو باتیں سُنی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ نسخہ ہی الہام ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ کسی نے یہ نسخہ حضور کو بتایا۔ اور پھر الہام نے اسے استعمال کرنے کا حکم دیا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ـ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے مولانا مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل نے بیان کیا کہ روغن سم ّالفار کی مقدار اجزاء کی مقدار سے ڈھائی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی اگر یہ اجزاء ایک ایک تولہ کی صورت میں جمع کئے جائیں تو روغن سم الفار ڈھائی تولہ ہو گا۔ اور اسی طرح مولوی صاحب نے بیان کیا۔ کہ ان اجزاء میں بعض اوقات مروارید بھی اسی نسبت سے یعنی فی تولہ جزو پرڈھائی تولہ مروارید زیادہ کر لیا جاتا ہے۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ روغن سم ّالفار اس طرح تیار کروایا کرتے تھے کہ مثلاًایک تولہ سم الفار کو باریک پیس کر اُسے دو سیر دودھ میں حل کر کے دہی کے طور پر جاگ لگا کر جما دیتے تھے اور پھر اس دہی کو بلو کر جو مکھن نکلتا تھا اسے بصورت گھی صاف کرکے استعمال کرتے تھے۔ اور نسخہ میں جو روغن سم الفار کی مقدار بتائی گئی ہے۔ وہ اسی روغن سم ّالفار کی مقدار ہے نہ کہ خود سم الفار کی۔ اور تیار شدہ دوائی کی خوراک نصف رتی سے ایک رتی تک ہے جو دن رات میں ایک دفعہ کھائی جاتی ہے اور کبھی کبھی ناغہ بھی کرنا چاہئے۔
{ 570} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرماتے تھے کہ ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اور الہام ہے کہ نزلت الرحمۃ علی الثلا ثۃ۔ اَلْعَیْنِ وَعَلٰی الْاُخْرَیَین۔ یعنی تمہارے تین اعضاء پر خدائی رحمت کا نزول ہے ۔ایک ان میں سے آنکھ ہے اور دو اور اعضاء ہیں۔ فرماتے تھے۔ دوسرے دو اعضاء کا نام الہام میں اس لئے نہیں لیا گیا۔ کہ ان کا نام بھی عَین ہی معلوم ہوتا ہے ایک تو گھٹنے جسے عربی میں عَین کہتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ملک میں دُعا مشہور ہے کہ ’’ دیدے گھٹنے سلامت رہیں‘‘ اور دوسرے عین انسان کے عقل و حواس کو بھی کہتے ہیں۔ پس آنکھ گھٹنے اور عقل و حواس آپ کے مرتے دم تک خدا کے فضل و کرم سے ہر نقص اور مرض سے محفوظ رہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ دوسرے دو اعضاء کے متعلق صرف استدلال ہے، تصریح نہیں۔ تصریح صرف آنکھ کے متعلق ہے۔
{ 571} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ اپنے مخلصین کی بیماری میں ان کی عیادت کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے چنانچہ منشی محمد اکبر صاحب مرحوم بٹالہ والے جب اپنی مرض الموت میں قادیان میں بیمار ہوئے تو آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں محمد اکبر صاحب مرحوم بہت مخلص اور شیدائی تھے اور غالباً بٹالہ میں دکانداری یا ٹھیکہ کا کام کرتے تھے۔ آخری بیماری میں وہ قادیان آگئے تھے اور غالباً انہیں اس جگہ رکھا گیا تھا جہاں اب مدرسہ احمدیہ ہے۔
{ 572} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب نے بہت مرتبہ زبانِ مبارک سے فرمایا کہ میں نے بارہا بیداری میں ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے اور کئی حدیثوں کی تصدیق آپ سے براہِ راست حاصل کی ہے۔ خواہ وہ لوگوں کے نزدیک کمزور یا کم درجہ کی ہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیداری کی ملاقات سے کشف مراد ہے اور حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کئی ایسی حدیثیں ہیں جو محدّثین کے نزدیک کمزور ہیں۔ مگر درحقیقت وہ درست اور صحیح ہیں۔
{ 573} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کئی مرتبہ حضور علیہ السلام نے اپنی تقاریر میں فرمایا کہ حضرت پیرانِ پیر بڑے اولیاء اللہ میں سے ہوئے ہیں لیکن ان کی نسبت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی نہیںہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیرانِ پیر سے سید عبدالقادر جیلانی ؒ مراد ہیں اور جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں گذشتہ مجددینِ امت محمدیہ میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒکے ساتھ سب سے زیادہ محبت تھی اور فرماتے تھے کہ میری روح کو ان کی روح سے خاص جوڑ ہے۔
{ 574} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو غالباً ۱۸۹۲ء میں ایک دفعہ خارش کی تکلیف بھی ہوئی تھی۔ اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد ایک دفعہ ہنس کر فرمانے لگے کہ خارش والے کو کھجانے سے اتنا لطف آتا ہے کہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ہر بیماری کا اجر انسان کو آخرت میں ملے گا۔ سوائے خارش کے۔ کیونکہ خارش کا بیمار دُنیا میں ہی اس سے لذت حاصل کر لیتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خارش کی تکلیف مرزا عزیزاحمد صاحب کی پیدائش پر ہوئی تھی۔ جو غالباً ۱۸۹۱ء کا واقعہ ہے۔ اس کا ذکر روایت نمبر ۲۶۲ میں بھی ہو چکا ہے۔
{ 575} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ رزق کی تنگی بسا اوقات ایمان کی کمزوری کا موجب ہو جاتی ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ دنیا میں مصائب اور مشکلات سے کوئی خالی نہیں یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام اور خدا کے اولیاء کرام بھی اس سے خالی نہیں رہتے۔ مگر انبیاء اور اولیاء کی تکالیف کا سلسلہ رُوحانی ترقیات کا باعث ہوتا ہے۔ اور دنیاداروں پر جو مصائب اور مشکلات کا سلسلہ آتا ہے وہ ان کی شامتِ اعمال کی و جہ سے ہوتا ہے۔ نیز فرمایا کہ جب تک مصائب و آلام بصورت انعام نظر نہ آنے لگیں اور ان سے ایک لذت اور سرور حاصل نہ ہو۔ اس وقت تک کوئی شخص حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا۔
{ 576} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر ذکر کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قصر نماز کے متعلق سوال کیا۔ حضور نے فرمایا۔ جس کو تم پنجابی میں وانڈھا کہتے ہو۔ بس اس میں قصر ہونا چاہئے۔ مَیں نے عرض کیا کہ کیا کوئی میلوں کی بھی شرط ہے۔ آپ نے فرمایا۔ نہیں۔ بس جس کو تم وانڈھا کہتے ہو وہی سفر ہے جس میں قصر جائز ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں سیکھواں سے قادیان آتا ہوں۔ کیا اس وقت نماز قصر کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔ بلکہ میرے نزدیک اگر ایک عورت قادیان سے ننگل جائے تو وہ بھی قصر کر سکتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ سیکھواں قادیان سے غالباً چار میل کے فاصلہ پر ہے اور ننگل تو شاید ایک میل سے بھی کم ہے۔ ننگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے۔ اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی ننگل تک ہی گیا ہو اس کے لئے قصر جائز ہو جائے گا یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کام کے لئے صرف ننگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہو جاتا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ننگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لئے سفر قرار دیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے۔ واللّٰہ اَعْلَم
{ 577} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں موسم گرما میں مسجد مبارک میں عشاء کی نماز ہونے لگی تو تکبیر سُنتے ہی نیچے مرزا امام الدین، مرزا نظام الدین صاحبان کے احاطہ میں سے جہاں پر کئی ڈھول وغیرہ بجانے والے آئے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے ڈھول اور نفیری وغیرہ اس طرح بجانے شروع کئے کہ گویا وہ اپنی آوازوں سے نماز کی آواز کو پست کرنا چاہتے ہیں اور غالباً یہ ان عمالیق کے اشارہ سے تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بڑے جَہِیْرُالصَّوت تھے۔ (اتنے کہ صبح کی اذان ان کی نہر کے پُل پر سُنی جاتی تھی) انہوں نے بھی قرأت بلند کی۔ ڈھول والوں نے اپنا شور اور بلند کیا۔ مولوی صاحب قرآن مجید کی یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی ـ (القیامۃ:۳۵) (یعنی تجھ پر ہلاکت ہو۔ ہاں اے گندے انسان! تجھ پر پھر ہلاکت ہو) اس آیت کو بار بار دُہراتے تھے۔ اور ہر دفعہ ان کی آواز اونچی ہوتی چلی جاتی تھی۔ گویا شیطان سے مقابلہ تھا۔ دیر تک یہ مقابلہ جاری رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے۔ غرض مولوی صاحب نے اس وقت اتنی بلند آہنگی سے نماز اور قرأت پڑھی کہ سب نے سُن لی۔ اور شور اگرچہ سخت تھا۔ مگر یہ شور اُن کی پُر شوکت آواز کے آگے مغلوب ہو گیا۔ آیت بھی نہایت باموقعہ تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جو عمالیق کا لفظ بیان کیا ہے اس سے مراد مرزا صاحبان مذکور ہیں۔ جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام ’’نصف ترا نصف عمالیق را‘‘ میں عمالیق کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عمالیق عربوں میں پُرانے زمانہ میں ایک جابر قوم گذری ہے۔
{ 578} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن مسجد مبارک کی مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا کہ حضرت دائود کا قول ہے کہ مَیں نے کسی نیک آدمی کی اولاد کو سات پشت تک بھوکا مرتے نہیں دیکھا۔ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے نیک بندے کا جتنا لحاظ ہوتا ہے وہ اس واقعہ سے سمجھ میں آسکتا ہے جو قرآن میں مذکور ہے کہ ایک نیک شخص کے یتیم بچوں کے مال کو محفوظ کرنے کے لئے خدا نے موسیٰ علیہ السلام اور خضر کو بھیجا کہ اس دیوار کو درست کر دیں۔ جس کے نیچے ان کا مال مدفون تھا۔
فرماتے تھے۔ کہ خدانے جو یہ فرمایا ہے۔ کہ کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا(الکھف :۸۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لڑکے خود اچھے نہ تھے۔ بلکہ صرف ان کے باپ کے نیک ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو ان کا لحاظ تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے سات پشت والی بات حضرت خلیفہ اوّلؓ کے واسطہ سے سُنی ہوئی ہے مگر اس میں بھوکا مرنے کی بجائے سوال کرنے کے الفاظ تھے۔ یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ ایک نیک آدمی کی اولاد کو خدا تعالیٰ سات پشت تک سوال کرنے سے بچاتا ہے یعنی نہ تو ان کا فقراس حالت کو پہنچ جاتا ہے اور نہ ہی ان کی غیرت اس حد تک گرتی ہے کہ وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔
{ 579} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ میرے والد صاحب نے ایک مرتبہ ذکر کیا کہ جب مَیں شروع شروع میں احمدی ہوا تو قصبہ شوپیاں علاقہ کشمیر کے بعض لوگوں نے مجھ سے کہا۔ کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ’’ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَسَلَّمَکَ اللّٰہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘ کے پڑھنے کے متعلق استفسار کروں۔ یعنی آیا یہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔سو مَیں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اس بارہ میں خط لکھا۔ حضور نے جواب تحریر فرمایا۔ کہ یہ پڑھنا جائز ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس استفسار کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آنحضرت ﷺ وفات پا چکے ہیں تو کیا اس صورت میں بھی آپؐ کو ایک زندہ شخص کی طرح مخاطب کرکے دُعا دینا جائز ہے۔ سو اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت مسیح موعودؑ کا فتویٰ یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور اس کی و جہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ آپؐ کی روحانیت زندہ ہے اور آپؐ اپنی ا مّت کے واسطے سے بھی زندہ ہیں۔ اس لئے آپ کے لئے خطاب کے رنگ میں دعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے ایک شعر میں آنحضرت ﷺ سے مخاطب ہو کر آپ سے مدد اور نصرت بھی چاہی ہے چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’’اے سیّد الوریٰ !مددے وقتِ نصرت است‘‘
یعنی اے رسول اللہ! آپؐ کی امّت پر ایک نازک گھڑی آئی ہوئی ہے۔ میری مدد کو تشریف لائیے کہ یہ نصرت کا وقت ہے۔
{ 580} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت اقدس احباب میں تشریف فرما ہوتے تھے۔ تو ہمیشہ اپنی نگاہ نیچی رکھتے تھے اور آپ کو اس بات کا بہت کم علم ہوتا تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب یا کوئی اور بزرگ مجلس میں کہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ جس بزرگ کی ضرورت ہوتی خصوصاً جب حضرت مولوی نورالدین صاحب کی ضرورت ہوتی تو آپ فرمایا کرتے مولوی صاحب کو بلائو۔ حالانکہ اکثر وہ پاس ہی ہوتے تھے۔ ایسے موقعہ پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرما دیتے تھے کہ حضرت! مولوی صاحب تو یہ ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا موقعہ عموماً حضرت خلیفہ اوّلؓ کے متعلق پیش آتا تھا۔ کیونکہ آپ ادب کے خیال سے حضرت صاحب کی مجلس میں پیچھے ہٹ کر بیٹھتے تھے۔ حالانکہ دوسرے لوگ شوقِ صحبت میںآگے بڑھ بڑھ کر اور حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھتے تھے۔ وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا۔
{ 581} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن جب سیر کو جانے سے قبل حضور علیہ السلام چوک متصل مسجد مبارک میں قیام فرما تھے۔ تو آپ نے خاکسار کو فرمایا۔ کہ مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ) کو بلا لائو۔ خاکسار بلا لایا۔ سیر میں جب مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیچھے رہ جاتے تو حضور علیہ السلام سے عرض کیا جاتا کہ حضور! مولوی صاحب پیچھے رہ گئے ہیں۔ تو حضور علیہ السلام صرف قیام ہی نہ فرماتے بلکہ بعض اوقات مولوی صاحب کی طرف لوٹتے بھی تاکہ مولوی صاحب جلدی سے آ کر مل جائیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا نظارہ میں نے بھی متعدد دفعہ دیکھاہے۔ مگر واپس لوٹنا مجھے یاد نہیں بلکہ میں نے یہی دیکھا ہے کہ ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام انتظار میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اور اس کی و جہ یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اولؓ بہت آہستہ چلتے تھے اور حضرت صاحب بہت زود رفتار تھے۔ مگر اس زود رفتاری کی و جہ سے وقار میں فرق نہیں آتا تھا۔
{ 582} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خوابوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذکر فرما رہے تھے۔ مَیں نے عرض کیا۔ مومن کی رئویا صادقہ کس قسم میں سے ہے؟ فرمایا ’’اِلْقَائِ مَلَک ہے‘‘۔
{ 583} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سائیں ابراہیم صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ ضلع گورداسپور نے مجھے بواسطہ مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل ایک تحریر ارسال کی ہے۔ جو سائیں ابراہیم صاحب کی املا پر مولوی قمر الدین صاحب نے لکھی تھی اور اس پر بعض لوگوں کی شہادت بھی درج ہے۔اس تحریر میں سائیں ابراہیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائے دعویٰ میں دھرم کوٹ کے ہم پانچ کَس نے بیعت کی تھی یعنی (۱)خاکسار (۲)مولوی فتح دین صاحب (۳) نور محمد صاحب (۴) اللہ رکھا صاحب اور (۵) شیخ نواب الدین صاحب ۔
اس وقت رادھے خان پٹھان ساکن کروالیاں پٹھاناں اچھا عابد شخص خیال کیا جاتا تھا۔ وہ دھرم کوٹ بگّہ میں بھی آتا جاتا تھا۔ اور مولوی فتح دین صاحب سے اس کی حضرت صاحب کے دعویٰ کے متعلق گفتگو بھی ہوتی رہتی تھی اور بعض اوقات سخت کلامی تک بھی نوبت پہنچ جاتی تھی۔ ۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے کہ رادھے خان مذکور دھرم کوٹ آیا اور مولوی فتح دین صاحب سے دورانِ گفتگو میں سخت کلامی کی۔ اس پر مولوی صاحب نے توبہ اور استغفار کی تلقین کی کہ ایسی باتیں حضرت صاحب کی شان میں مت کہو۔ مگر وہ باز نہ آیا اور کہا کہ مَیں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ مَیں جو کچھ کہتا ہوں سچ کہتا ہوں۔ مباہلہ کرکے دیکھ لو۔ اس پر مولوی صاحب مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے۔ اور مباہلہ وقوع میں آگیا۔ مباہلہ کے بعد احمدی احباب نے آپس میں تذکرہ کیا کہ مباہلہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر کر لیا گیا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ اس پر حضور اقدس کی خدمت میں جانے کے لئے تیاری ہوئی۔ ہم پانچوں قادیان پہنچے۔ نماز عشاء کے بعد مولوی فتح دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو واقعہ مباہلہ سُنایا اور کہا کہ ایسا ہو چکا ہے اور چالیس دن میعاد مقرر کی گئی ہے۔ حضور دعا فرمائیں۔ حضور نے معاً فرمایا: کیا تم خدا کے ٹھیکیدار تھے؟ تم نے چالیس دن میعاد کیوں مقرر کی؟ یہ غلط طریق اختیار کیا گیا ہے۔ یہ بھی دریافت فرمایا کہ مباہلہ میں اپنے وجود کو پیش کیا گیا ہے یا کہ ہمارے وجود کو؟ مولوی صاحب نے کہا۔ حضور اپنا وجود ہی پیش کیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ آئندہ یاد رکھو کہ مباہلہ میں میرا وجود پیش کرنا چاہئے نہ کہ اپنا۔اس کے بعد حضور کچھ دیر گفتگو فرما کر تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہے۔ پھر فرمایا۔ مَیں دُعا کرتا ہوں آپ بھی شامل ہو جائیں۔دعا نہایت رقت بھرے الفاظ سے شروع ہوئی۔ عشاء کے بعد سے لے کر تہجّد کے وقت تک دُعا ہوتی رہی۔ آخر دُعا ختم ہوئی اور حضور نے فرمایا۔ جائو دُعا قبول ہو گئی ہے اور خدا کے فضل سے تمہاری فتح ہے۔ ہم لوگ اسی وقت واپس آگئے۔ نماز فجر راستہ میں پڑھی۔ واپس آ کر ہم لوگ مباہلہ کے انجام کے منتظر رہے اور دعا کرتے رہے۔ حضرت اقدس نے بھی دعا جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی تھی۔ میعاد میں دس دن باقی رہ گئے تو رادھے خان نے آ کر پھر سخت کلامی کی۔ اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر جنگل میں دُعا کرنے کے لئے چلا گیا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے۔ کہ اس نے لوگوں کو کہا تھا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ اس دعا کے بعد وہ اپنے گائوں کو واپس جا رہا تھا۔ کہ راستہ میں اس کی پنڈلی کی ہڈی پر چوٹ لگی۔ اس سے اس کے سارے جسم میں زہر پھیل گیا۔رادھے خان جسم کا پتلا دُبلا تھا۔ مگر اس چوٹ کی و جہ سے اس کا جسم پھولتا گیا۔ حتیّٰ کہ چارپائی سے بالشت بھر باہر اس کا جسم نکلا ہوا نظر آتا تھا۔ اس بیماری میں مولوی فتح الدین صاحب اس کے پاس گئے۔ اور توبہ و استغفار کی تلقین کی مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوا۔ پھر جب چالیس دن میں ایک دن باقی تھا۔ تو وہ واصل جہنم ہوا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالک۔
العبد(دستخط) ابراہیم بقلم خود ساکن دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ
ضلع گورداسپور مَیں اس واقعہ کی تصدیق کرتا ہوں۔
العبد:۔ نشان انگوٹھا روڑا احمدی ساکن دھرم کوٹ بگہ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی قمر الدین صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب مَیں دھرم کوٹ بگہ سے اس روایت کو لے کر واپس قادیان آیا۔ تو ایک دن مَیں نے اس واقعہ کا ذکر چوہدری مظفر الدین صاحب بنگالی ،بی۔ اے سے کیا تو وہ بہت محظوظ ہوئے اور کہا کہ یہ بہت عجیب واقعہ ہے۔ کسی دن دھرم کوٹ چلیں اور سائیں ابراہیم صاحب کی زبانی سُنیں۔ مَیں نے کہا بہت اچھا۔ کسی دن چلیں گے۔ چنانچہ ہم نے جانے کے لئے ایک دن مقرر کیا۔ بٹالہ تک گاڑی میں جانا تھا۔ رات کو بارش ہو گئی۔ صبح سویرے گاڑی پر پہنچنا تھا۔ باقی سب دوست تو پہنچ گئے مگر چوہدری صاحب نہ پہنچ سکے۔ہم گاڑی پر چلے گئے۔ بعض دوست چوہدری صاحب کے نہ پہنچ سکنے پر افسوس کرنے لگے۔ مگر مَیں نے کہا۔ چوہدری صاحب ضرور پہنچ جائیں گے۔ ہم بذریعہ گاڑی بٹالہ پہنچے اور وہاں سے دھرم کوٹ چلے گئے۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گذرا تھا کہ چوہدری صاحب سائیکل پر پہنچ گئے۔ دھرم کوٹ ہم نے پہلے سے اطلاع کی ہوئی تھی کہ ہم لوگ فلاں غرض کے لئے آ رہے ہیں۔ چوہدری صاحب کے پہنچنے پر ہم سب خوش ہوئے کیونکہ درحقیقت یہ سفر انہی کی تحریک پر کیا گیا تھا۔ ایک مجلس منعقد کی گئی اور سائیں ابراہیم کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ وہ سارا واقعہ مباہلہ سُنائیں۔ سائیں صاحب موصوف نے سارا واقعہ سُنایا۔ واقعہ سُن کر ایمان تازہ ہوتا تھا۔ ہمارے علاوہ اس مجلس میں مقامی جماعت کے لوگ بھی کافی تعداد میں شامل تھے۔ جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے صحابی بھی تھے۔ سب نے سائیں صاحب کے واقعہ مذکورہ سُنانے پر تائید کی اور کئی احباب نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد دھرم کوٹ بگہ کے بہت سے احباب سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسنون طریق مباہلہ یہ ہے۔ کہ مباہلہ کے لئے ایک سال کی میعاد مقرر کی جائے اور اسی واسطے حضرت صاحب چالیس روز میعاد کے مقرر ہونے پر ناراض ہوئے ہونگے۔ مگر خدانے حضرت کی خاص دعا کی وجہ سے چالیس روز میں ہی مباہلہ کا اثر دکھا دیا۔ اور احمدیوں کو نمایاں فتح دے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کو ثابت کر دیا مگر یہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جو حضرت صاحب کی خاص توجہ سے خدا نے خاص حالات میں پیدا کر دی۔ ورنہ عام حالات میں ایک سال سے کم میعاد نہیں ہونی چاہئے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی جب اہل نجران کو مبا ہلہ کے لئے بلایا تھا تو اپنی طرف سے ایک سال کی میعاد پیش کی تھی۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ فرمان علی صاحب بی۔ اے۔ ریٹائرڈ انجینئیر محکمہ انہار ساکن دھرم کوٹ بگہ نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے کیونکہ انہوں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ان کے والد شیخ عزیز الدین صاحب بھی واقعہ مباہلہ مابین مولوی فتح الدین صاحب و رادھے خان پٹھان ساکن کروالیاں اکثر لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔ اور جن باتوں کی وجہ سے وہ احمدیّت کے حق میں متاثر ہوئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔
{ 584} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گھر سے یعنی حضرت اماں جی نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب آخری سفر لاہور میں وفات سے چند روز قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ ’’اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْل‘‘ یعنی کوچ پھر کوچ (جو آپ کے قرب موت کی طرف اشارہ تھا)تو حضرت صاحب نے مجھے بلا کر فرمایا۔ کہ جس حصّہ مکان میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اُس میں آپ آ جائیں اور ہم آپ والے حصّہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا نے الہام میں اَلرَّحِیْلُ فرمایا ہے جسے ظاہر میں اس نقل مکانی سے پورا کر دینا چاہئے اور معذرت بھی فرمائی کہ اس نقل مکانی سے آپ کو تکلیف تو ہو گی۔ مگر مَیں اس خدائی الہام کو ظاہر میں پورا کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ مکان بدل لئے گئے۔ مگر جو خدا کی تقدیر میں تھا۔ وہ پورا ہوا اور چند دن بعد آپ اچانک وفات پا گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَلَأِ اَعْلٰی کے فرشتے حضرت مسیح موعودؑکے اس فعل کو دیکھ کر وجد میں آتے ہونگے کہ یہ خدا کا بندہ خدمتِ دین کا کس قدر عاشق ہے کہ جانتا ہے کہ مقدر وقت آ پہنچا ہے مگر خدائی تقدیر کو پیچھے ڈالنے کے لئے لفظوں کی آڑ لے کر اپنی خدمت کے وقت کو لمبا کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک محبت و عشق کی کھیل تھی۔ جس پر شاید ربّ العرش بھی مسکرا دیا ہو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَ عَلٰی مُطَاعِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّم۔
{ 585} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ شروع میں لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عموماً ’’مرزا جی‘‘ کہتے تھے۔ پھر ’’مرزا صاحب‘‘ کہنے لگے۔ اس کے بعد ’’حضرت صاحب‘‘۔ پھر ’’حضرت اقدس‘‘ یا ’’حضرت مسیح موعود‘‘ اور جب بالمشافہ گفتگو ہوتی۔ تو احباب عموماً آپ کو ’’حضور‘‘ کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے۔ مگر بعض لوگ کبھی کبھی ’’آپ‘‘ بھی کہہ لیتے تھے۔
{ 586} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب متوطن پٹیالہ حال انچارج نور ہسپتال قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں ۱۹۰۵ء کے موسم گرما کی چھٹیوں میں جبکہ اپنے سکول کی نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ پہلی مرتبہ قادیان آیا تھا۔ میرے علاوہ مولوی عبداللہ صاحب عربی مدرس مہندر کالج و ہائی سکول پٹیالہ۔ حافظ نور محمد صاحب مرحوم سیکرٹری جماعت احمدیہ پٹیالہ۔ مستری محمد صدیق صاحب جو آج کل وائسرائیگل لاج میں ملازم ہیں۔ شیخ محمد افضل صاحب جو شیخ کرم الٰہی صاحب کے چچا زاد بھائی ہیں اور اُس وقت سکول کے طالب علم تھے، میاں خدابخش المعروف مومن جی جو آج کل قادیان میں مقیم ہیں اس موقعہ پر قادیان آئے تھے۔ ہم مہمان خانہ میں ٹھہرے تھے۔ ہمارے قریب اور بھی مہمان رہتے تھے جن میں سے ایک شخص وہ تھا جو فقیرانہ لباس رکھتا تھا۔ اس کا نام مجھے یاد نہیں۔ وہ ہم سے کئی روز پہلے کا آیا ہوا تھا۔ جس روز ہم قادیان پہنچے۔ اس فقیرانہ لباس والے شخص نے ذکر کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام سے عرض کیا تھا کہ میری بیعت لے لیں۔ آپ نے فرمایا۔ کچھ دن یہاں ٹھہرو۔ بیعت کی کیا ،جلدی ہے ہو جائے گی، وہ شخص دو تین روز تو رکا رہا۔ لیکن جس روز ہم یہاں پہنچے اُسی شام یا اگلی شام کو بعد نماز مغرب یا عشاء (ان دنوں حضرت صاحب نماز مغرب کے بعد مسجد میں مجلس فرمایا کرتے تھے۔ اور عشاء کی نماز جلدی ہوا کرتی تھی)حضور نے لوگوں کی بیعت لی۔ ہم طلباء نے بھی بیعت کی۔ (گو مَیں بذریعہ خط ۲۔۱۹۰۱ء میں بیعت کر چکا تھا۔ اور اس سے بھی پہلے ۱۸۹۹ء میں جبکہ میری عمر پندرہ سولہ سال کے قریب تھی۔ اپنے کنبہ کے بزرگوں کے ساتھ جن میں میرے دادا صاحب مولا بخش صاحب اور والد صاحب رحیم بخش صاحب اور میرے بڑے بھائی حافظ ملک محمد صاحب بھی تھے۔ حضرت مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی والد حکیم محمد عمر صاحب کے ہاتھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو چکا تھا۔ یہ بیعت مسجد احمدیہ میں ڈیک بازار پٹیالہ میں ہوئی تھی) اس وقت اس شخص نے بھی چپکے سے بیعت کرنے والوں کے ساتھ ہاتھ رکھ دیا۔ اگلی صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضرت مسیح موعودؑ حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے موجودہ سکونتی مکان کی بنیادوں کا معائنہ کرنے کے لئے اس جگہ پر تشریف فرما تھے۔ کہ ہم مہمانان موجودۃ الوقت بھی حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہو گئے۔ اسی وقت اُس مہمان نے آگے بڑھ کر کہا۔ حضور مَیں نے رات بیعت کر لی ہے۔ حضور نے ہنس کر فرمایا۔ بیعت کر لینا ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ استقامت اختیار کرنا اور اعمال صالحہ میں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے۔ اسی طرح کی مختصر مگر مؤثر تقریر حضور نے فرمائی۔ حکمت الٰہی ہے کہ وہ شخص اگلے روز ہی ایسی باتیں کرنے لگا۔ کہ گویا اس کو سلسلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور ایک دو روز تک دشنام دہی تک نوبت آگئی۔ اور اسی حالت میں وہ قادیان سے نکل گیا۔
ہمارے دورانِ قیام میں جو کہ دس بارہ روز کا عرصہ تھا۔ بعض اور واقعات بھی ہوئے۔ ان میں سے ایک حضرت صاحب کے سر پر چوٹ لگنے کا واقعہ ہے۔ حضور وضو کر کے اُٹھے تھے کہ الماری کے کُھلے ہوئے تختہ سے سر پر چوٹ آئی اور کافی گہرا زخم ہو گیا جس سے خون جاری ہوا۔ بہت تکلیف پہنچی۔ اس کی وجہ سے مسجد میں تشریف نہ لا سکتے تھے اور ہم نے بھی اجازت اندر حاضر ہو کر لی تھی۔ دوسرا واقعہ یہ ہے۔ کہ انہی دنوں حضور کو ’’ فَفَزِعَ عِیْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ‘‘ والا الہام ہوا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ الماری کے تختہ کی چوٹ کا واقعہ میرے سامنے ہوا تھا۔ حضرت صاحب کسی غرض کے لئے نیچے جُھکے تھے اور الماری کا تختہ کھلا تھا۔ جب اُٹھنے لگے تو تختہ کا کونہ سر میں لگا اور بہت چوٹ آئی۔ یہ واقعہ اس کمرہ میں ہوا تھا جو حجرہ کہلاتا ہے۔
{ 587} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب نے عربی زبان کے اُمُّ الْاَلْسِنَۃ ہونے کا اظہار فرمایا۔ تو اس کے بعد یہ تحقیق شروع ہوئی کہ بہت سے عربی کے الفاظ اپنی شکل پر یا کچھ تغیر کے ساتھ دوسری زبانوں میں موجود ہیں۔ چنانچہ آپ نے نمونہ کے طور پر چند الفاظ سُنائے۔ اس پر یہ چرچا اس قدر بڑھا کہ ہر شخص اردو ، انگریزی فارسی ہندی وغیرہ میں عربی الفاظ ڈھونڈنے لگا۔ اور جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لاتے۔تو لوگ اپنی اپنی تحقیقات پیش کرتے۔ بعض الفاظ کو حضرت صاحب قبول فرما لیتے اور بعض کو چھوڑ دیتے۔انہی دنوں میں فرمایا۔ کہ عربی میں زمین کو ارض کہتے ہیں اور انگریزی میں ارتھ کہتے ہیں اور یہ دونوں باہم ملتے جلتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ اصل میں یہ کس زبان کا لفظ ہے اور کس زبان میں سے دوسری زبان میں لیا گیا ہے۔ سو یہ اس طرح معلوم ہو جائے گا کہ ارتھ کے لغوی معنے اور اس کی اصلیت انگریزی لُغت میں نہیں ملے گی۔ برخلاف اسکے عربی میں ارض کے وہ لغوی اور بنیادی معنے موجود ہیں جن کی مناسبت کے لحاظ سے زمین کو ارض کہتے ہیں۔ چنانچہ عربی میں ارض اس چیز کو کہتے ہیں جو تیز چلتی ہو۔ مگر باوجود تیز رفتاری کے پھر ایسی ہو کہ وہ ایک بچھونے کی طرح ساکن معلوم ہو۔ اب نہ صرف اس سے عربی لفظ کے اصل ہونے کا پتہ لگ گیا۔ بلکہ اس علم سے جو اس لفظ میں مخفی ہے۔ یہ بھی پتہ لگ گیا کہ یہ الہامی زبان ہے ،انسان کی بنائی ہوئی نہیں۔ اور اس میں موجودہ سائنس کی تحقیقات سے پہلے بلکہ ہمیشہ سے زمین کی حرکت کا علم موجود ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے اس بارے میں عربی کی دو سب سے بڑی لغتوں یعنی لسان العرب اور تاج العروس کو دیکھا ہے ان دونوں میں ارض کے لفظ کے ماتحت یہ دونوں معنے موجود ہیں۔ کہ حرکت میں رہنے والی چیز اور ایسی چیز جو ایک فرش اور بچھونے کی طرح ہو۔ بلکہ مزید لطف یہ ہے کہ ان لغتوں میں لکھا ہے کہ ارض کے روٹ میں جس حرکت کا مفہوم ہے وہ سیدھی حرکت نہیں بلکہ چکر والی حرکت ہے چنانچہ جب یہ کہنا ہو کہ میرے سر میں چکر ہے تو اس وقت ارض کا لفظ بولتے ہیں۔
{ 588} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض اوقات حضور علیہ السلام کسی ہنسی کی بات پر ہنستے تھے اور خوب ہنستے تھے۔ یہاں تک مَیں نے دیکھا ہے کہ ہنسی کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں پانی آ جاتا تھا۔ جسے آپ انگلی یا کپڑے سے پونچھ دیتے تھے۔ مگر آپ کبھی بیہودہ بات یا تمسخر یا استہزاء والی بات پر نہیں ہنستے تھے۔ بلکہ اگر ایسی بات کوئی آپ کے سامنے کرتا تو منع کر دیتے تھے۔ چنانچہ میں نے ایک دفعہ ایک تمسخر کا نا مناسب فقرہ کسی سے کہا۔ آپ پاس ہی چارپائی پر لیٹے تھے۔ ہُوں ہُوں کرکے منع کرتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور فرمایا۔ یہ گناہ کی بات ہے۔ اگر حضرت صاحب نے منع نہ کیا ہوتا تو اس وقت مَیں وہ فقرہ بھی بیان کر دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے مجھے ایک بات یاد آگئی کہ ایک دفعہ جب مَیں ابھی بچہ تھا ہماری والدہ صاحبہ یعنی حضرت امّ المؤمنین نے مجھ سے مزاح کے رنگ میں بعض پنجابی الفاظ بتا بتا کر ان کے اردو مترادف پوچھنے شروع کئے۔ اس وقت مَیں یہ سمجھتا تھا کہ شاید حرکت کے لمبا کرنے سے ایک پنجابی لفظ اردو بن جاتا ہے۔ اس خود ساختہ اصول کے ماتحت مَیں جب اُوٹ پٹانگ جواب دیتا تھا تو والدہ صاحبہ بہت ہنستی تھیں اور حضرت صاحب بھی پاس کھڑے ہوئے ہنستے جاتے تھے۔ اسی طرح حضرت صاحب نے بھی مجھ سے ایک دو پنجابی الفاظ بتا کر ان کی اردو پوچھی اور پھر میرے جواب پر بہت ہنسے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت مَیں نے ’’کتّا‘‘ کی اردو ’’کُوتا‘‘ بتایا تھا۔ اور اس پر حضرت صاحب بہت ہنسے تھے۔
{ 589} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ ایک دفعہ مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی شیر علی صاحب کو بلا کر کچھ ارشاد فرمایا۔ یا ان سے کچھ پوچھا مولوی صاحب نے (غالباً حضور کے رعب کی وجہ سے گھبرا کر)جواب میں اس طرح کے الفاظ کہے کہ ’’ حضور نے یہ عرض کیا تھا۔ تو مَیں نے یہ فرمایا تھا ‘‘ بجائے اس کے کہ اس طرح کہتے کہ حضور نے فرمایا تھا تو مَیں نے عرض کیا تھا۔ اس پر اہلِ مجلس ہنسی کو روک کر مسکرائے۔ مگر حضرت صاحب نے کچھ خیال نہ فرمایا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول تو حضرت صاحب کو اِدھر خیال بھی نہ گیا ہو گا۔ اور اگر گیا بھی ہو تو اس قسم کی بات کی طرف توجہ دینا یا اس پر مسکرانا آپ کے طریق کے بالکل خلاف تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کو چُوک کر اس قسم کے الفاظ کہہ دینا خود مولوی صاحب کے متعلق بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کمال شفقت کے ان کے دل میں حضرت صاحب کا اتنا ادب اور رعب تھا کہ بعض اوقات گھبرا کر مُنہ سے اُلٹی بات نکل جاتی تھی۔
{ 590} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کے بڑے لڑکے میاں عبدالحی مرحوم کا نکاح بہت چھوٹی عمر میں حضرت صاحب نے پیر منظور محمد صاحب کی چھوٹی لڑکی (حامدہ بیگم) کے ساتھ کرادیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا۔ کہ وہ دونوں رضاعی بھائی بہن ہیں۔ اس پر علماء جماعت کی معرفت اس مسئلہ کی چھان بین ہوئی کہ رضاعت سے کس قدر دودھ پینا مراد ہے اور کیا موجودہ صورت میں رضاعت ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ آخر تحقیقات کر کے اور مسئلہ پر غور کرکے یہ فیصلہ ہوا کہ واقعی یہ ہر دو رضاعی بہن بھائی ہیں اور نکاح فسخ ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاںتک مجھے یاد ہے اس وقت حضرت صاحب اس طرف مائل تھے کہ اگر معمولی طور پر کسی وقت تھوڑا سا دودھ پی لیا ہے۔ تو یہ ایسی رضاعت نہیں جو باعثِ حرمت ہو اور حضور کا میلان تھا کہ نکاح قائم رہ جائے مگر حضرت خلیفہ اولؓ کو فقہی احتیاط کی بناء پر انقباض تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے فسخ کی اجازت دیدی۔
{ 591} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دوست نے مسجد مبارک میں مغرب کے بعد سوال کیا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اہل کتاب کا طعام تمہارے لئے حلال ہے تو عیسائی تو ناپاک چیزیں بھی کھا لیتے ہیں۔ پھر ہم ان کا کھانا کس طرح کھا سکتے ہیں۔ فرمایا۔ اہل کتاب سے دراصل اس جگہ قرآن شریف نے یہودی مراد لئے ہیں جن کے پاس شریعت تھی اور جو اس کے حامل اور عامل تھے اور انہی لوگوں کا ذبیحہ اور کھانا جائز ہے۔ کیونکہ وہ بہت شدّت سے اپنی شریعت کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ عیسائیوں نے تو سب باتیں شریعت کی اڑا دیں اور شریعت کو *** قرار دیدیا۔ پس یہاں وہ مراد نہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر میر صاحب کی اس روایت کے ظاہری اور عام معنی لئے جائیں تو اس میں کسی قدر ندرت ہے جو عام خیال کے خلاف ہے اور میرے خیال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعامل کے بھی خلاف ہے۔ جہاں تک میرا علم ہے حضرت صاحب کو عیسائیوں کی تیار شدہ چیزوں کے کھانے میں پرہیز نہیں تھا۔ بلکہ ہندوئوں تک کی چیزوں میں پرہیز نہیں تھا۔ البتہ اس روایت کا یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ عیسائیوںنے طریق ذبح کے معاملہ میں شرعی طریق کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کے اس قسم کے کھانے سے پرہیز چاہئے۔ مگر باقی چیزوں میں حرج نہیں۔ ہاں اگر کوئی چیز اپنی ذات میں حرام ہو تو اس کی اور بات ہے۔ ایسی چیز تو عیسائی کیا مسلمان کے ہاتھ سے بھی نہیں کھائی جائے گی۔
{ 592} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسئلہ دریافت کیا۔ کہ حضور فاتحہ خلف امام اور رفع یدین اور آمین کے متعلق کیا حکم ہے۔ آپ نے فرمایا۔ کہ یہ طریق حدیثوں سے ثابت ہے۔ اور ضرور کرنا چاہئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فاتحہ خلف امام والی بات تو حضرت صاحب سے متواتر ثابت ہے مگر رفع یدین اور آمین بِالجَہر والی بات کے متعلق مَیں نہیں سمجھتا کہ حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہو کیونکہ اگر حضور اسے ضروری سمجھتے تو لازم تھا کہ خود بھی اس پر ہمیشہ عمل کرتے۔ مگر حضور کا دوامی عمل ثابت نہیں بلکہ حضور کا عام عمل بھی اس کے خلاف تھا۔ مَیں سمجھتا ہوںکہ جب حافظ صاحب نے حضور سے سوال کیا تو چونکہ سوال میں کئی باتیں تھیں۔ حضور نے جواب میں صرف پہلی بات کو مدنظر رکھ کر جواب دیدیا یعنی حضور کے جواب میں صرف فاتحہ خلف امام مقصود ہے۔ واللّٰہ اعلم ـ
{ 593} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہماری عادت تھی کہ جب ہم حضرت صاحب کو قادیان ملنے آتے، تو ہمیشہ اپنے ساتھ کبھی گنیّ یا گُڑ کی روڑی ضرور لایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا۔ ہمارے لئے سرسوں کا ساگ بھیجنا۔ وہ گوشت میں ڈال کر عمدہ پکتا ہے۔ ہم نے وہ ساگ فیض اللہ چک سے بھیج دیا۔ بعد ازاں ہم نے گائوں میں یہ بات سُنی کہ دہلی میں آپ کی شادی ہو گئی ہے۔ اس پر مَیں اور میرے دوست حافظ نبی بخش صاحب آپ کی ملاقات کے لئے آئے۔ تو حضور بہت خوش ہو کر ملے۔ مَیں نے ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا۔ کہ جب آپ کے لڑکا پیدا ہو گا تو ہم بھی دیں گے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور نے یہ بات کہ ہم بھی دینگے، تنبول وغیرہ کے رنگ میں نہیں کہی ہو گی بلکہ یونہی اظہار محبت و شفقت کے طور پر کہی ہو گی۔ گو ویسے حضور شادیوں وغیرہ کے موقعہ پر تنبول کے طریق کو بھی ناپسند نہیں فرماتے تھے اور فرماتے تھے نیک نیتی سے ایسا کیا جائے اور اسے لازمی نہ قرار دیا جاوے تو یہ ایک بروقت امداد کی صورت ہے۔
{ 594} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ رمضان کی لیلۃالقدر کی بابت حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے۔ کہ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس رات کچھ بادل یا ترشح بھی ہوتا ہے۔ اور کچھ آثار انواروبرکات سماویہ کے محسوس ہوتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی علامت حدیثوں میں بھی بیان ہوئی ہے لیکن غالباً یہ منشاء نہیں ہے کہ بادل یا ترشح کی شرط بہرصورت لازمی ہے اور میرے خیال میں ایسا بھی ممکن ہے کہ مختلف علاقوں میں لیلۃ القدر مختلف راتوں میں ظاہر ہو اور حق تو یہ ہے کہ لیلۃ القدر کا ماحول پیدا کرنا ایک حد تک انسان کی خود اپنی حالت پر بھی موقوف ہے ایک ہی وقت میں ایک شخص کے لئے لیلۃ القدر ہوسکتی ہے مگر دوسرے کے لئے نہیں۔ واللّٰہ اعلم ـ
{ 595} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرماتے تھے کہ بعض اوقات الہام اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی بندہ کی اپنی زبان پر بلند آواز سے ایک دفعہ یا بار بار جاری ہو جاتا ہے اور اس وقت زبان پر بندے کا تصرف نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کا تصّرف ہوتا ہے اور کبھی الہام اس طرح ہوتا ہے کہ لکھا ہوا فقرہ یا عبارت دکھائی دیتی ہے اور کبھی کلام لفظی طور پر باہر سے آتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ کلام الٰہی تین موٹی قسموں میں منقسم ہے۔ اوّل وحی ۔یعنی خدا کا براہِ راست کلام خواہ وہ جلی ہو یا خفی۔ دوسرے مِنْ وَّرَائِ حِجَاب والی تصویری زبان کا الہام مثلاً خواب یا کشف وغیرہ۔ تیسرے فرشتہ کے ذریعہ کلام۔ یعنی خدا فرشتہ سے کہے اور فرشتہ آگے پہنچائے اور پھر یہ تینوں قِسمیں آگے بہت سی ماتحت اقسام میں منقسم ہیں۔ میر صاحب والی روایت میں آخری قسم ،وحی میں داخل ہے اور شاید پہلی قسم بھی ایک رنگ وحی کا رکھتی ہے مگر درمیانی قسم مِنْ وَّرَآئِ حِجَاب سے تعلق رکھتی ہے۔ واللّٰہ اعلم ـ
{ 596} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جیسے زکوٰۃ یا صدقہ سادات کے لئے منع ہے ویسا ہی صاحبِ توفیق کے لئے بھی اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ سُنا ہوا ہے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل سخت اضطرار کی حالت میں جبکہ کوئی اور صور ت نہ ہو۔ ایک سیّد بھی زکوٰۃ لے سکتا ہے۔
{ 597} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب معتدل موسم میں بھی کئی مرتبہ پچھلی رات کو اُٹھ کر اندر کمرہ میں جا کر سو جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی فرماتے تھے کہ ہمیں سردی سے متلی ہونے لگتی ہے۔ بعض دفعہ تو اُٹھ کر پہلے کوئی دوا مثلاً مشک وغیرہ کھا لیتے تھے اور پھر لحاف یا رضائی اوڑھ کر اندر جا لیٹتے تھے۔ غرض یہ کہ سردی سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی اور اس کے اثر سے خاص طور پر اپنی حفاظت کرتے تھے۔ چنانچہ پچھلی عمر میں بارہ مہینے گرم کپڑے پہنا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بالعموم گرمی میں بھی جراب پہنے رکھتے تھے اور سردیوں میں تو دو دو جوڑے اُوپر تلے پہن لیتے تھے مگر گرمیوں میں کرتہ عموماً ململ کا پہنتے تھے۔
{ 598} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک حال محلہ دارالفضل قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ہر موسم کا پھل مثلاً خربوزہ اور آم کافی مقدار میں باہر سے منگواتے تھے۔ خربوزہ علاقہ بیٹ سے اور آم دریا کے پار سے منگاتے تھے۔ بعض اوقات جب مَیں بھی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور اپنے دستِ مبارک سے خربوزہ کاٹ کر مجھے دیتے اور فرماتے۔ میاں نبی بخش یہ خربوزہ میٹھا ہو گا اسکو کھائو اور آپ بھی کھاتے۔ اسی طرح آموں کے موسم میں حضرت صاحب نہایت محبت و شفقت سے مجھے آم بھی عنایت فرماتے اور بار بار فرماتے۔ یہ آم تو ضرور میٹھا ہو گا۔ اس کو ضرور کھائو۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ بیٹ سے دریائے بیاس کے قریب کا نشیبی علاقہ مراد ہے اور پار سے ضلع ہوشیارپور کا علاقہ مراد ہے جس میں آم زیادہ ہوتا ہے۔
{ 599} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام مسجد مبارک میں مع احباب کے تشریف رکھتے تھے۔ مَیں باہر سے آیا اور السَّلام علیکم عرض کیا۔ حضور سے مصافحہ کرنے کی بہت خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن چونکہ مسجد بھری ہوئی تھی اور معزز احباب راستہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں نے آگے جانا مناسب نہ سمجھا۔ ابھی مَیں کھڑاہی تھا اور بیٹھنے کا ارادہ کر رہاتھا کہ حضور نے میری طرف دیکھ کر فرمایا۔ میاں عبدالعزیز آئو۔ مصافحہ تو کر لو۔ چنانچہ دوستوں نے مجھے راستہ دیدیا اور مَیں نے جا کر مصافحہ کر لیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو اپنے مخلص اصحاب کی انتہائی دلداری مدنظر رہتی تھی۔ اور آپ کا دل ان کی محبت سے معمور رہتا تھا۔ اس موقعہ پر حضرت صاحب نے محسوس کر لیا ہو گا کہ میاں عبدالعزیز صاحب مصافحہ کی خواہش رکھتے ہیں مگر راستہ بند ہونے کی وجہ سے مجبور ہیں۔ اس لئے آپ نے آواز دے کر پاس بلا لیا۔
{ 600} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ کرم دین جہلمی کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے۔ کچہری کے وقت حضور احاطۂ کچہری میں ایک جامن کے درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر مع خدّام تشریف فرما تھے۔ حضور کے لئے دودھ کا ایک گلاس لایا گیا۔ چونکہ حضور کا پس خوردہ پینے کے لئے سب دوست جدوجہدکیا کرتے تھے۔ میرے دل میں اس وقت خیال آیا۔کہ مَیں ایک غریب اور کمزور آدمی ہوں۔ اتنے بڑے بڑے آدمیوں میں مجھے کس طرح حضور کا پس خوردہ مل سکتا ہے۔ اس لئے مَیں ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ حضور نے جب نصف گلاس نوش فرما لیا تو بقیہ میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا۔ میاں عبدالعزیز بیٹھ کر اچھی طرح سے پی لو۔
{ 601} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے میرے والد صاحب نے بتایا کہ جب حضور علیہ السَّلام نماز کے وقت تشہّد میں بیٹھتے تو تشہّد پڑھنے کی ابتداء ہی میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کا حلقہ بنا لیتے تھے اور صرف شہادت والی انگلی کھلی رکھتے تھے۔ جو شہادت کے موقعہ پر اُٹھاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خوا جہ عبدالرحمن صاحب کے والد چونکہ اہل حدیث میں سے آئے تھے۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو غور کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مگر مجھ سے مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے بیان کیا ہے کہ ابتداء سے ہی ہاتھ کی انگلیوں کے بند کرلینے کا طریق انہیں یاد نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہو۔ واللّٰہ اعلم ـ
{ 602} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں پہلے اہلِ حدیث تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات و رسائل کشمیر میں پہنچے ۔ تو سب سے پہلے میرے کان میں حضور کا یہ شعر پڑا۔ کہ
’’ مولوی صاحب !کیا یہی توحید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے‘‘
سو مَیں وہاں پر ہی بیعت کے لئے بے قرار ہو گیا اور نفس میں کہا کہ افسوس اب تک ہم دیو کی ہی تقلید کرتے رہے۔ سو مَیں نے تم دونوں بھائیوں کو (خاکسار عبدالرحمن اور برادر مکرم عبدالقادر صاحب) سرینگر میں اپنے ماموں کے پاس چھوڑ کر فوراً قادیان کی راہ لی اور جب یہاں پہنچا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا۔ کہ حضور میری بیعت لے لیں۔ حضور نے فرمایا۔ بیعت کیا ہے۔ بیعت عبرت ہے اس کے بعد میری اور چند اور اصحاب کی بیعت لے لی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ فرمانا کہ بیعت عبرت ہے اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی گزشتہ زندگی کو ایمان اور اعمال کے لحاظ سے عبرت کا ذریعہ بنا کر آئندہ کے لئے زندگی کا نیاورق الٹ لے۔
{ 603} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیعوں کے عقائد کے ضمن میں ایک غالی شیعہ کی کہانی کبھی کبھی سُنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک شیعہ جب مرنے لگا۔ تو اس نے اپنی اولاد کو جمع کیا اور کہا کہ مَیں تم کو اب مرتے وقت ایک وصیّت کرتا ہوں۔ جس کو اگر یاد رکھو گے تو تمہارا ایمان قائم رہے گا اور یہ نصیحت میری تمام عمرکا اندوختہ ہے۔ وہ نصیحت یہ ہے کہ آدمی اس وقت تک سچا شیعہ نہیں ہو سکتا جب تک اُسے تھوڑی سی عداوت حضرت امام حسنؓ سے بھی نہ ہو۔ اس پر اس کے عزیز ذرا چونکے تو وہ کہنے لگا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی خلافت بنواُمیّہ کے سپرد نہ کردیتے اور ان سے صلح نہ کر لیتے تو شیعوں پر یہ مصیبت نہ آتی۔ اصل میں ان کا قصُور تھا۔ سو دل میں ان سے کچھ عداوت ضرور رکھنی چاہئے۔ پھر چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا کہ اب اس سے بڑھ کر نکتہ بتاتا ہوں۔ میرے مرنے کا وقت قریب آگیا ہے مگر یہ سُن رکھو کہ شیعہ سچا وہی ہے جو تھوڑی سے عداوت حضرت علیؓ کے ساتھ بھی رکھے۔ کیونکہ حضرت علیؓ شیرخدا اور رسولِ خدا کے وصی تھے۔ مگر ان کی آنکھوں کے سامنے ابو بکر اور عمر نے خلافت غصب کر لی۔ مگر وہ بولے تک نہیں۔ اگر اس وقت وہ ہمت دکھاتے تو منافقوں کا غلبہ اس طرح نہ ہوجاتا۔ اس کے بعد وہ پھر خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا۔ لو اب اس سے بھی ضروری بات بیان کرتا ہوں۔ سچے شیعہ کو ضرور تھوڑی سے عداوت آنحضرتؐ سے بھی رکھنی چاہئے کہ اگر وہ ابوبکر اور عمر کا فیصلہ اپنے سامنے کرجاتے اور علیؓ کی خلافت سب کے سامنے کھول کر بیان کر دیتے اور اپنا جانشین انہیں بنا جاتے تو پھر یہ فساد اور مصیبتیں کیوں آتیں۔ ان کا بھی اس میں قصور ہے کہ بات کو کھولا نہیں۔ پھر ذرا اُٹھ کر کہنے لگا کہ اب تو میرے آخری سانس ہیں۔ ذرا آگے آ جائو۔ دیکھو اگر تم دل سے شیعہ ہو۔ تو جبرائیل سے بھی ضرور تھوڑی سے عداوت رکھنا۔ جب خدا نے وحی حضرت علی ؓ کی طرف بھیجی تو وہ حضرت علی کی بجائے آنحضرت کی طرف لے آیا اور اس طرح ہمارا تمام کام بگاڑ دیا۔ خواہ بھُول گیا یا جان بوجھ کر ایسا کیا مگر اس کا قصور ضرور ہے۔ اس کے بعد ذرا چپ رہا۔ جب بالکل آخری وقت آگیا۔ تو کہنے لگا ذرا اور نزدیک ہو جائو۔ یہ آخری بات ہے اور بس۔ جب وہ لوگ آگے ہوئے تو کہنے لگا۔ آدمی اس وقت تک کامل شیعہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک کچھ تھوڑی سی عداوت خدا سے بھی نہ رکھے۔ کیونکہ سارا فساد اسی سے نکلا ہے۔ اگر وہ ان تمام معاملات کو پہلے ہی صفائی سے طے کر دیتا اور جھگڑوں میں نہ الجھاتا تو نہ حضرت علیؓ محروم ہوتے نہ امام حسینؓ شہید ہوتے اور نہ غاصب کامیاب ہوتے۔ یہ کہہ کر بیچارے کا دم نکل گیا۔
اس قصہ کے بیان کرنے سے حضرت صاحب کا مطلب یہ تھا۔ کہ انسان اگر شیعوں والے عقائد اختیار کرے گا تو اس کا لازمی اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ ا ہلِ بیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ تک کو ترک کرنا پڑے گا اور ان سے بدظنی کرنی پڑے گی۔ سو ایسا مذہب بالبداہت باطل ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مَیں نے بھی حضرت صاحب سے یہ روایت سُنی ہوئی ہے۔ حضرت صاحب جب یہ روایت فرماتے تھے تو بہت ہنستے تھے اور جب اس شیعہ کی زبانی عداوت رکھنے کا ذکر فرماتے تھے تو بعض اوقات انگلی کے اشارے سے فرمایا کرتے تھے کہ بس اتنی سی عداوت فلاں سے بھی چاہئے اور اتنی سی فلاں سے۔
{ 604} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی مرحوم کا نام اصل میں کریم بخش تھا۔ حضرت صاحب نے ان کا یہ نام بدل کر عبدالکریم رکھ دیا۔ مَیں نے اس تبدیلی کے بہت دیر بعد بھی مولوی صاحب مرحوم کے والد صاحب کو سُنا کہ وہ انہیں کریم بخش ہی کہہ کر پکارتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی ترکیب کے نام زیادہ پسند تھے۔
{ 605} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتابوں کی کاپی اور پروف خود دیکھا کرتے تھے۔ اور جب کوئی عربی کتابیں لکھتے۔ تو وہ خود بھی دیکھتے تھے اور بعض علماء کو بھی دکھانے کا حکم دیدیا تھا۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تو عربی اور فارسی کتب کے تمام پروف بطور ایک مصحح کے بالاستیعاب دیکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک عربی کتاب کی بابت فرمایا۔ کہ اس کے پروف مولوی عبدالکریم صاحب کے دیکھنے کے بعد مولوی نورالدین صاحب کو بھی دکھائے جایا کریں۔ کسی نے عرض کیا کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ فرمانے لگے۔ مولوی صاحب ہماری کتابیں کم پڑھتے ہیں۔ اس طرح ان کی نظر سے گذر جائیں گی۔
{ 606} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ صبح کے وقت میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مگر مَیں نے اس خواہش کا کسی کے سامنے اظہار نہ کیا۔ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ آج ہم باغ کی طرف سیر کے لئے جائیں گے۔ چنانچہ اسی وقت چل پڑے۔ باغ میں دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ باغ کے رکھوالے دو بڑے ٹوکرے شہتوتوں سے بھرے ہوئے لائے اور حضور کے سامنے رکھ دئیے۔ سب دوست چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ بے تکلفی کا یہ عالم تھا۔ کہ حضور پائینتی کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور دوست سرہانے کی طرف۔ سب دوست شہتوت کھانے لگے۔ حضور نے میر ناصر نواب صاحب مرحوم سے فرمایا۔ کہ میر صاحب! شہتوت میاں عبدالعزیز کے آگے کریں۔ چنانچہ کئی مرتبہ حضور نے یہی فرمایا۔ حالانکہ مَیں کھا رہا تھا۔ پھر بھی حضور نے ٹوکرا میرے آگے کرنے کی بار بار تاکید فرمائی۔ مَیں شرمندہ ہو گیا۔ کہ شاید حضور کو میری خواہش کا علم ہو گیا ہے۔
{ 607} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خواجہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ جب کبھی کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو السَّلام علیکم کہتا تھا تو حضور عموماً اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتے اور محبت سے سلام کا جواب دیتے۔
{ 608} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر محمد عمر صاحب لکھنوی جب لاہور میں پڑھتے تھے تو ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے پاس آئے اور کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد واپس چلے گئے۔ بعد میں کسی نے عرض کیا۔ کہ حضور ان کی داڑھی مُنڈھی ہوئی تھی۔ حضور نے بڑے تعجب سے فرمایا: اچھا کیا ان کی داڑھی مُنڈی ہوئی تھی؟ ہم نے غور نہیں کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو آنکھ اُٹھا اٹھا کر تاڑنے کی عادت نہیں تھی۔ اور داڑھی کے متعلق عموماً فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو پہلے ایمان کا فکر ہوتا ہے۔ اگر ایمان درست اور کامل ہو جائے تو یہ کمزوریاں خودبخود دُور ہو جاتی ہیں۔ جو شخص اسلام کو سچا جانتا ہے اور ہمیں دل سے صادق سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ اسلام کی ہر تعلیم رحمت ہے تو وہ جب دیکھے گا کہ آنحضرت ﷺ داڑھی رکھتے تھے اور ہم بھی داڑھی رکھتے ہیں تو اس کا ایمان اس سے خود داڑھی رکھوا لے گا لیکن ایمان ہی خام ہو تو خالی داڑھی کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ پس باوجود داڑھی منڈوانے کو بُرا سمجھنے کے آپ اپنی تقریر و تحریر میں اس کا زیادہ ذکر نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ اصل توجہ ایمان کی درستی اور اہم اعمال صالحہ کی طرف دیتے تھے اور اگر کوئی داڑھی منڈوانے والا شخص آپ کی مجلس میں آتا تھا تو آپ اُسے ٹوکتے نہیں تھے۔
{ 609} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب جب مسجد میں بیٹھ کر گفتگو فرماتے تو بعض لوگ درمیان میں دخل در معقولات کر بیٹھتے اور بات کاٹ کر اپنے قصے شروع کر دیتے مگر حضرت اقدس اس سے کبھی رنجیدہ خاطر نہ ہوتے۔ اگرچہ دوسرے احباب اس امر کو بہت محسوس کرتے کہ ہم دُور دُور سے حضرت کی باتیں سُننے آتے ہیں مگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے ہمیں حضور کے کلام سے محروم کردیتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ درست ہے کہ حضرت صاحب ہر شخص کی بات کو خواہ وہ لاتعلق اور لایعنی ہی ہو۔ اور خواہ کتنی لمبی ہو توجہ سے سُنتے تھے۔ مگر حضور کی بات کاٹنے کے متعلق جو بات محقق صاحب نے کہی ہے اس کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اکثر ایسا ہوتا تھا۔ بلکہ صرف بعض نا سمجھ لوگ کبھی کبھی ایسا کر بیٹھتے تھے۔ ورنہ سمجھدار لوگ آپ کی بات کاٹنے کو بے ادبی خیال کرتے تھے۔
{ 610} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس عاجز کے استاد تھے۔ میں نے عربی۔ انگریزی۔ فارسی اور قرآن مجید کا کچھ حصہ ان سے پڑھا ہے۔ وہ ٹھنڈے پانی کے بہت عاشق تھے۔ بیت الفکر کے اُوپر جو کمرہ مسجد مبارک کے بالائی صحن میں کھلتا ہے اس میں رہا کرتے تھے۔ پیاس لگتی تو کسی دوست یا شاگرد کو مسجد اقصٰی میں تازہ پانی لانے کے لئے بھیجتے اور جب وہ شخص واپسی پر گلی میں نظر آتا۔ تو اُوپر سے ہی کھڑکی کے اندر سے آواز دیتے کہ جلدی لائو ورنہ پانی کی آب ماری جائے گی۔ غرض ان کو ٹھنڈے پانی اور برف سے بے حد رغبت تھی۔ جب کبھی حضرت صاحب امرتسر یا لاہور سے برف منگواتے۔ تو ان کو ضرور بھیجا کرتے تھے اور کبھی مولوی صاحب مرحوم مجھے فرماتے کہ گھر میں برف ہے؟ مَیں کہتا کہ ہاں ہے۔ تو کہا کرتے۔ کہ حضرت صاحب سے نہ کہنا کہ عبدالکریم مانگتا ہے مگر کسی طرح سے لے آئو۔ مَیں آکر حضرت سے کہتا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے کچھ برف چاہئے۔ یہ نہ کہتا کہ وہ مانگ رہے ہیں۔ آپ فرماتے کہ ہاں ضرور لے جائو۔ بلکہ خود نکال کر دیدیتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد اقصٰے کے کنوئیں کا پانی خنکی کے لئے بہت مشہور تھا اور سارے قادیان میں اول نمبر پر سمجھا جاتا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بہت ادبی مذاق رکھتے تھے۔ اور انہیں اس بات کی طرف بہت توجہ تھی کہ اپنے کلام میں فصاحت پیدا کریں۔ اس روایت میں بھی ’’پانی کی آب‘‘ کا محاورہ ان کی ادبی ندرت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
{ 611} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السَّلام تمام گذشتہ مشہور بزرگانِ اسلام کا نام ادب سے لیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص کسی پر اعتراض کرتا۔ کہ فلاں شخص کی بابت لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے یا ایسا فعل کیا ہے۔ تو فرمایا کرتے کہ ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔ ہمیں کیا معلوم کہ اصلیت کیا ہے اور اس میں کیا سر تھا۔ یہ لوگ اپنے زمانے کے بڑے بزرگ ہوئے ہیں۔ان کے حق میں اعتراض یا سوئِ ادبی نہیں کرنی چاہئے۔ حضرت جنیدؒ۔ حضرت شبلی۔ حضرت بایزید بسطامی۔ حضرت ابراہیم ادھم۔ حضرت ذوالنون مصری۔ چاروں ائمہ فقہ۔ حضرت منصور۔حضرت ابوالحسن خرقانی وغیرھم صوفیاء کے نام بڑی عزت سے لیتے تھے اور بعض دفعہ ان کے اقوال یا حال بھی بیان فرمایا کرتے تھے۔ حال کے زمانہ کے لوگوں میں آپ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کو بزرگ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی۔ حضرت مجدد سرہندی۔ سیّد احمد صاحب بریلوی اور مولوی اسمٰعیل صاحب شہید کو اہل اللہ اور بزرگ سمجھتے تھے۔ مگر سب سے زیادہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کا ذکر فرماتے تھے۔ اور ان کے مقالات بیان کیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ اگر کسی گذشتہ بزرگ کا کوئی قول یا فعل آپ کی رائے اور تحقیق کے خلاف بھی ہو تو پھر بھی اس وجہ سے کسی بزرگ پر اعتراض نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر انہوں نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے کوئی بات کہی ہے یا کسی معاملہ میں انہیں غلطی لگی ہے تو اس کی وجہ سے ان کی بزرگی میں فرق نہیں آتا اور بہرحال ان کا ادب ملحوظ رکھنا چاہئے۔
{ 612} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ مَیں قادیان گیا۔ حضور علیہ السَّلام نے فرمایا۔ میاں نور محمد! تم قادیان میں رہا کرو۔ اور قرآن شریف پڑھا کرو۔ تمہارے کام کے لئے ہم ایک آدمی نوکر رکھ دیتے ہیں۔ کیونکہ اس زمانہ میں ایک روپیہ ماہوار پر زمیندارہ کے لئے آدمی مل سکتا تھا۔ مَیں نے جواباً عرض کیا کہ حضور مَیں اپنے والد صاحب سے پوچھ کر عرض کروں گا۔ بعد ازاں میں نے والد صاحب سے اس امر کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا۔ کہ مَیں خودحضرت صاحب سے اس بارہ میں بات کروں گا۔ چنانچہ والد صاحب حضرت صاحب سے ملے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ شیخ صاحب ہم نے آپ کے بیٹے کو یہاں رہنے کے لئے کہا ہے۔ کیونکہ میاں حامد علی کے والد نے بھی ان کو یہاں ہی چھوڑ دیا ہے۔ والد صاحب نے عرض کیا۔ کہ جناب جس مکان میں چھ سات چراغ جل رہے ہوں اگر وہاں سے ایک اٹھا لیا جائے تو روشنی میں کوئی خاص کمی واقع نہ ہو گی اور جس گھر میں فقط ایک چراغ ہو اور اس کو اٹھا دیا جائیے تو بالکل اندھیرا ہو جائے گا۔ اس طرح میرے والد صاحب نے ہنس کر بات ٹال دی۔ کیونکہ میاں حامد علی کے پانچ چھ بھائی تھے اور مَیں گھر میں والد کا ایک ہی بیٹا تھا۔ لیکن مجھ کو اس بات پر سخت افسوس ہوا اور اب تک ہے۔ کہ والد صاحب نے حضرت کی بات کو قبول کیوں نہ کر لیا۔ اور مجھے اس موقعہ سے مستفید کیوں نہ ہونے دیا۔
{ 613} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش اور عمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصہ سے زیرِ غور چلا آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تصریح فرمائی ہے۔ کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے اور آپ کی عمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں (دیکھو ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم صفحہ ۱۹۳) کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا۔ البتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض ایسے امور بیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ کی عمر کی تعیین کی جاتی رہی ہے۔ ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتا ہے۔ اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتا ہے۔ اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیرِ بحث چلا آیا ہے۔ کہ صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے؟
مَیں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیا ہے اور اپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ گو مجھے یہ خیال غالب رہا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶ء عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے۔ مگر ابھی تک کوئی تاریخ معیّن نہیں کی جا سکی تھی لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں۔ جن سے معیّن تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے۔ جو بروزِ جمعہ ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ء ہجری مطابق ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق یکم پھاگن سمہ ۱۸۹۱ بکرمی ہے اس تعیین کی وجوہ یہ ہیں:۔
(۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تعیین اور تصریح کے ساتھ لکھا ہے۔ جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں۔کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی ۔
(دیکھو تحفہ گولڑویہ بار اوّل صفحہ ۱۱۔ حاشیہ)
(۲) ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مجھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے ایک دفعہ بیان فرمایا تھا کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی۔
(۳) مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسَّلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً آپ کا یہ فرمانا کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہوئے تھے (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) اور یہ کہ اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی (تریاق القلوب صفحہ ۶۸) وغیرہ وغیرہ۔
مَیں نے گذشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے اور دوسروں سے بھی کرایا ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پھاگن کے مہینہ میں جُمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کِس کِس سَن میں اکٹھے ہوتے ہیں اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش ۱۴ ؍شوال ۱۲۵۰ء ہجری مطابق ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ عیسوی ہے جیسا کہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہوگا۔
تاریخ معہ سن عیسوی
تاریخ چاند معہ سن ہجری
دن
تاریخ ہندی مہینہ معہ سن بکرمی
۴؍ فروری ۱۸۳۱ء
۲۰؍ شعبان ۱۲۴۶ ھ
جمعہ
۷؍ پھاگن سمہ ۱۸۸۷ بکرم
۱۷؍ فروری ۱۸۳۲ء
۱۴؍ رمضان ۱۲۴۷ ھ
؍؍
یکم پھاگن سمہ ۱۸۸۸ بکرم
۸؍ فروری ۱۸۳۳ء
۱۷؍ رمضان ۱۲۴۸ ھ
؍؍
۴؍ پھاگن سمہ ۱۸۸۹ بکرم
۲۸؍ فروری ۱۸۳۴ء
۱۸؍ شوال ۱۲۴۹ ھ
؍؍
۵؍ پھاگن سمہ ۱۸۹۰ بکرم
۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ء
۱۷؍ شوال ۱۲۵۱ ھ
؍؍
یکم پھاگن سمہ ۱۸۹۱ بکرم
۵؍ فروری ۱۸۳۶ ء
۱۷؍ شوال ۱۲۵۱ ھ
؍؍
۳؍ پھاگن سمہ ۱۸۹۲ بکرم
۲۴؍ فروری ۱۸۳۷ ء
۱۸؍ ذیقعدہ ۱۲۵۲ ھ
؍؍
۴؍ پھاگن سمہ ۱۸۹۳ بکرم
۹؍ فروری ۱۸۳۸ ء
۲۰؍ ذیقعدہ ۱۲۵۳ ھ
؍؍
۷؍ پھاگن سمہ ۱۸۹۴ بکرم
یکم فروری ۱۸۳۹ ء
۱۵؍ ذیقعدہ ۱۲۵۴ ھ
؍؍
۳؍ پھاگن سمہ ۱۸۹۵ بکرم
۲۱ ؍ فروری ۱۸۴۰ ء
۱۶؍ ذی الحج ۱۲۵۵ ھ
؍؍
۴؍ پھاگن سمہ ۱۸۹۶ بکرم
(اس کے لئے دیکھو توفیقات الہامیہ مصری اور تقویم عمری ہندی)
اس نقشہ کی رُو سے ۱۸۳۲ عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جا سکتی ہے۔ مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں۔ اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ عیسوی میں ہوئی تھی۔ پس ۱۳؍ فروری ۱۸۳۵ عیسوی مطابق ۱۴ ؍شوال ۱۲۵۰ ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے۔ اور اس حساب کی رُو سے وفات کے وقت جو ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۳۲۶ ہجری (اخبار الحکم ضمیمہ مورخہ ۲۸؍ مئی ۱۹۰۸ئ) میں ہوئی۔ آپ کی عمر پورے ۷۵ سال ۶ ماہ اور دس دن کی بنتی ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کی تاریخ معیّن طور پر معلوم ہو گئی ہے۔ ہمارے احباب اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ اسی تاریخ کو بیان کیا کریں گے۔ تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسَّلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے اور ہم لوگ اس بارہ میں ایک معین بنیاد پر قائم ہو جائیں۔
اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسَّلام کو الہام الٰہی میں یہ بتایا گیا تھا۔ کہ آپ کی عمر اسّی ۸۰ یا اس سے پانچ چار کم یا پانچ چار زیادہ ہو گی۔ (حقیقۃ الوحیصفحہ ۹۶) اگر اس الہام الٰہی کے لفظی معنے لئے جائیں۔ تو آپ کی عمر پچھتر ، چھہتر۔ یا اسی یا چوراسی، پچاسی سال کی ہونی چاہئے۔ بلکہ اگر اس الہام کے معنے کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر یا اسّی ۸۰ یا ساڑھے چوراسی سال کی ہونی چاہئے۔ اور یہ ایک عجیب قدرت نمائی ہے کہ مندرجہ بالا تحقیق کی رُو سے آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتر سال کی بنتی ہے۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی قابل نوٹ ہے۔ کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسَّلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے کہ میری ولادت ہوئی۔ اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں۔ کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سورۃ ’’ والعصر‘‘ کے اعداد سے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نکلتا ہے جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹ سال بنتا ہے (دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۳۔ ۹۴۔ ۹۵ حاشیہ) یہ زمانہ اصولاً ہجرت تک شمار ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہجرت سے نئے دَور کا آغاز ہوتا ہے۔ اب اگر یہ حساب نکالا جائے۔ تو اس کی رُو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ بنتا ہے کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے ۱۱ نکالنے سے ۵۹۸۹ رہتے ہیں۔ اور ۵۹۸۹ میں سے ۴۷۳۹ منہا کرنے سے پورے ۱۲۵۰ بنتے ہیں۔ گویا اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتا ہے۔ فَالحمد للّٰہ علٰی ذٰالک۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مضمون میری طرف سے اخبار الفضل مورخہ ۱۱؍ اگست ۱۹۳۶ء میں بھی شائع ہو چکا ہے۔
{ 614} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ کے جس قدر آدمی ہیں۔ سب کو حضور علیہ السَّلام سے اپنے اپنے طریق کے مطابق محبت تھی اور ہے مگر جس قدر ادب و محبت حضور سے حضرت خلیفہ اوّلؓ کو تھا۔ اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے چنانچہ ایک دن مَیں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔ وہاں ذکر ہوا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی سے کرنے کو ارشاد فرمایا۔ مگر یہ کہ وہ دوست راضی نہ ہوا۔ اتفاقاً اس وقت مرحومہ امۃالحی صاحبہ بھی جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آ گئیں۔ حضرت مولوی صاحب اس دوست کا ذکر سُن کر جوش سے فرمانے لگے۔ کہ مجھے تو اگر مرزا کہے کہ اپنی اس لڑکی کو نہالی (نہالی ایک مہترانی تھی جو حضرت صاحب کے گھر میں کماتی تھی) کے لڑکے کو دیدو تو مَیں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دونگا۔ یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا۔ مگر نتیجہ دیکھ لیں کہ بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اِس شخص کی زوجیت میں آئی۔ جو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسن و احسان میں نظیر ہے۔
{ 615} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو گا تو یہ نہیں ہو گا کہ سب دُنیا مسلمان ہو جائے گی اور دیگر مذاہب معدوم ہو جائیں گے۔ بلکہ یہ ہو گا۔ کہ دوسرے لوگ اس طرح رہ جائیں گے جیسے آجکل چوہڑے یا چمار یا سانسی وغیرہ ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ عظیم الشان تغیّر احمدیّت کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے اور ایک دن ایسا تغیر ہو کر رہے گا۔ یعنی دنیا کی موجودہ تہذیب مٹ جائے گی۔ اور موجودہ حکومتیں خاک میں مل جائیں گی اور اللہ تعالیٰ احمدیت کے ذریعہ دنیا میں ایک نئے زمین و آسمان کی بنیاد رکھے گا۔ اس وقت ظاہری اسباب کے ماتحت یہ باتیں عجیب نظر آتی ہیں۔ مگر ان کے لئے آسمان پر خدائی چکّی حرکت میں ہے اور فرشتوں کی فوج انقلاب کا بیج بونے میں مصروف ہے۔ یہ انقلاب کس طرح آئے گا؟ اس کا علم صرف خدا کو ہے۔ مگر وہ آئے گا ضرور۔ کیونکہ ؎ ’’قضائے آسمان است ایں بہرحالت شود پیدا‘‘۔
ہاں جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں وہ یوں ہو گا کہ ایک طرف تو خداتعالیٰ خود موجودہ مغربی تہذیب میں تباہی کا بیچ پیدا کر دے گا۔ اور موجودہ حکومتوں کو ایک دوسرے کے خلاف اُٹھنے کے لئے اُبھارے گا۔ جس سے وُہ اور ان کی تہذیب اپنی ہی پیدا کی ہوئی آگ میں بھسم ہو جائیں گے۔ اور دوسری طرف خدا احمدیت کے پودے کو درجہ بدرجہ مضبوط کرتا جائے گا۔ تا کہ جب پُرانے آثار مٹیں۔ تو احمدیت کی عمارت اس کی جگہ لینے کے لئے تیار ہو۔ مگر یہ درمیانی عرصہ احمدیّت کے لئے پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ بلکہ کانٹوں اور پتھروں کی سلوں کا رستہ ہے۔ اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے جنگلوں اور پُر خطر وادیوں اور خون کی ندیوں میں سے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ مگر انجام بہرحال وہی ہے کہ ’’قضائے آسمان است ایں بہرحالت شود پیدا ‘‘۔
{ 616} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ موت انسان کی ترقی کے لئے لابدی ہے اور انسان کا اس دُنیا سے رخصت ہونا ایسا ہے جیسے کہ لڑکی کا ماں باپ سے جدا ہو کر خاوند کے گھر جانا۔ جس طرح لڑکی کا خداداد جوہر اور کمال (یعنی اولاد پیدا کرنا) بغیر ماں باپ کے ہاں سے چلے جانے کے ظاہر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح انسان کا حقیقی کمال اور جوہر بھی اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ موت کے راستہ سے اس دنیا سے جُدا نہ ہو۔
{ 617} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر غلام احمد صاحب آئی۔ ایم۔ایس نے مجھ سے بیان کیا کہ میرے دادا میاں محمد بخش صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس بٹالہ کے کاغذات میں سے مجھے ایک مسودہ ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ملا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک چٹھی امیر کابل کے نام ہے جو غالباً فارسی زبان میں تھی۔ جس کا ترجمہ اُردو میں میرے دادا صاحب نے کیا یا کرایا تھا اور یہ ترجمہ شاید گورنمنٹ ریکارڈ کے لئے تھا۔ حضرت مسیح موعود کا خط یہ ہے:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمد و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
(ترجمہ) ہم خدا کا شکر کرتے ہیں اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ عاجز خدا کی پناہ لینے والے غلام احمد کی طرف سے (خدا اس کی کمزوریوں کو معاف فرمائے اور اس کی تائید کرے) بحضور امیر ظلّ ِ سُبحانی۔ مظہر تفضّلاتِ یزدانی۔ شاہ ممالک کابل (اللہ اس کو سلامت رکھے) بعد دعوات سلام و رحمت و برکت کے باعث اس خط لکھنے کا وہ فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے کہ جب کسی چشمۂ شیریں کی خبر سنتا ہے۔ کہ اس میں انسان کے لئے بہت فوائد ہیں۔ تو اس کی طرف رغبت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ رغبت دل سے نکل کر اعضاء پر اثر کرتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس چشمہ کی طرف دوڑے اور اس کو دیکھے۔ اور اس کے میٹھے پانی سے فائدہ اٹھائے اور سیراب ہو جائے اسی طرح جب اخلاق فاضلہ اور عاداتِ کریمانہ اور ہمدردیٔ اسلام و مسلمین اس بادشاہ نیک خصال کی اطلاع ہندوستان میں جا بجا ہوئی اور ذکر پاک پھل اس شجرہ مبارک دولت اور سلطنت کا ہر شہروملک میں مشہور ہوا اور دیکھا گیا کہ ہر شریف اور نجیب آدمی اس بادشاہ کی مدح میں تر زبان ہے تو مجھے کہ اس قحط الرجال کے زمانہ میںبسبب کمی مردمانِ اولوالعزم کے غم اور اندوہ میں زندگی بسر کرتا ہوں۔ اس قدر سرور اور فرحت حاصل ہوئی کہ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے اس کیفیت کو بیان کر سکوں۔ خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے ایک ایسے مبارک وجود سے بے شمار وجودوں کو بہت اقسام کی تباہی سے بچا رکھا ہے۔ اصل میں وہ آدمی بہت خوش قسمت ہیں کہ جن میں ایسا بادشاہ جہاں پناہ نیک نہاد اور منصف موجود ہے اور وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے بعد عرصہ دراز کے اس نعمتِ غیر مترقبہ کو حاصل کیا۔ خداوند کریم کی بہت نعمتیں ہیں۔ کہ کوئی ان کو شمار نہیں کر سکتا مگر بزرگ تر نعمتوں میں سے وجود دو انسانوں کا ہے۔ اول وہ جو راستی اور راستبازی کی قوت سے پُر ہوئے اور طاقت رُوحانی حاصل کی۔ اور پھر وہ گرفتارانِ ظلمت اور غفلت کو نورِ معرفت کی طرف کھینچتے ہیں۔ اور خالی اندرونوں کو متاع معارف کے دیتے ہیں۔ اور اپنے تقدس کے سبب سے کمزوریوں کو اس دُنیا سے بسلامتی ایمان لے جاتے ہیں۔ دوسرا وہ آدمی ہے۔ جنہوں نے نہ اتفاق اور بخت سے بلکہ بمقتضاء جوہر قابل کے (یعنی ان میں مادہ بادشاہی کا خدا نے دیا ہوا تھا کہ ضرور بادشاہ بنے) خدا کی طرف سے سلطنت اور بادشاہت حاصل کی اور حکمت اور مصلحت خداوندی ان کو اپنی ذات کا قائم مقام اور ان کے احکام کو اپنے قضاء قدر کا مظہر بناتی ہے اور کئی ہزار جان اور مال و آبرو کی ان کے سپرد کرتی ہے۔ ضرورۃً یہ لوگ شفقت اور رحم اور چارہ سازیٔ درد منداں اور غریبوں و بیکسوں کے حال پر نگران اور حمایت اسلام و مسلماناں میں خدا کا سایہ ہوتے ہیں۔
اس فقیر کا یہ حال ہے کہ وہ خدا جو بروقت بہت مفاسد اور گمراہی کے مصلحت عام کے واسطے اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو اپنا خاص بنا لیتا ہے۔ تا اس کے ذریعہ گمراہوں کو ہدایت ہو۔ اور اندھوں کو روشنی اور غافلوں کو توفیق عمل کی دی جائے اور اس کے ذریعہ دین اور تعلیم معارف و دلائل کی تازہ ہو۔ اُسی خدائے کریم و رحیم نے اس زمانہ کو زمانہ پُر فتن اور طوفانِ ضلالت و ارتداد کو دیکھ کر اس ناچیز کو چودھویں صدی میں اصلاحِ خلق اور اتمام حجّت کے واسطے مامور کیا۔
چونکہ اس زمانہ میں فتنہ علمائے نصاریٰ کا تھا۔ اور مدار کارصلیب پرستی کے توڑنے پر تھا۔ اس واسطے یہ بندہ درگاہ الٰہی مسیح علیہ السلام کے قدم پر بھیجا گیا۔ تا وہ پیشگوئی بطور بروز پوری ہو۔ کہ جو عوام میں مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی بابت مشہور ہے۔ قرآن شریف صاف ہدایت فرماتا ہے۔ کہ دُنیا سے جو کوئی گیا وہ گیا۔ پھر آنا اس کا دُنیا میں ممکن نہیں۔ البتہ ارواحِ گذشتہ گان بطور بُروز دُنیا میں آتی ہیں۔ یعنی ایک شخص ان کی طبیعت کے موافق پیدا کیا جاتا ہے۔ اس واسطے خدا کے ہاں اُس کا ظہور اُسی کا ظہور سمجھا جاتا ہے۔ دوبارہ آنے کا یہی طریق ہے۔ کہ صوفیوں کی اصطلاح میں اس کو بروز کہتے ہیں۔ ورنہ اگر مُردوں کا دوبار آنا روا ہوتا تو ہم کو بہ نسبت عیسٰی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے حضرت سیّد الوریٰ خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وسلم کی زیادہ ضرورت تھی۔ لیکن آنحضرت نے ہر گز فرمایا نہیں کہ مَیں دوبارہ دُنیا میں آئوں گا۔ ہاں یہ فرمایا۔ کہ ایک شخص ایسا آئیگا کہ وہ میرا ہم نام ہو گا۔ یعنی میری طبیعت اور خُو پر آئے گا۔ پس مسیح علیہ السَّلام کا آنا بھی ایسا ہی ہے نہ ویسا کہ اس کا نمونہ دُنیا کے اول اور آخر میں موجود نہیں۔ اسی واسطے امام مالک اور امام ابن حزم اور امام بخاری اور دوسرے بڑے بڑے اماموں کا یہی مذہب تھا۔ اور بہت بزرگانِ دین اسی مذہب پر گئے ہیں۔ البتہ عوام کہ عجوبہ پسند ہوتے ہیں اور اس نکتہ معرفت سے بے خبر ہیں۔ ان کے خیال میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے۔ کہ مسیح کا نزول جسمانی ہو گا ور اس روز عجب تماشہ ہو گا۔ جیسا کہ غبارہ کاغذی جو آگ سے بھرا ہوا ہو۔ بلندی سے نیچے کی طرف اُترتا ہوا دکھائی دیوے۔ ایسا ہی ان کے خیال میں مسیحؑ کا نزول ہو گا۔ اور بڑی شوکت سے نزول ہو گا۔ اور ہر طرف سے یہ آتا ہے وہ آتا ہے سُنا جاویگا۔ لیکن یہ خدا کی عادت نہیں۔ اگر ایسا عام نظارہ قدرت کا دکھلایا جاوے تو ایمان بالغیب نہیں رہتا۔
وہ آدمی سخت خطا پر ہیں۔ جنہوں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ اب تک عیسٰے علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ قرآن بار بار مسیح کی وفات کا ذکر کرتا ہے۔ اور حدیث معراج نبوی کی جو صحیح بخاری میں پانچ جگہ موجود ہے اس کو مُردوں میں بتاتی ہے۔ پس وہ کس طرح سے زندہ ہے۔لہٰذا اعتقاد حیات مسیح کا رکھنا قرآن اور حدیث کے برخلاف چلنا ہے اور نیز آیت کریمہ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدۃ:۱۱۸) سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ کہ نصاریٰ نے اپنے مذہب کو عیسٰے علیہ السلام کے مرنے کے بعد خراب کیا ہے نہ کہ ان کی زندگی میں ۔ بالفرض اگر عیسٰے علیہ السَّلام اب تک زندہ ہیں تو ہمیں لازم ہے کہ ہم اس بات کا بھی اقرار کریں کہ اس وقت تک نصاریٰ نے اپنے مذہب کو خراب نہیں کیا۔ اور بالکل صواب پر ہیں۔ ایسا خیال کفر صریح ہے۔ پس جو کوئی قرآن کی آیتوں پر ایمان رکھتا ہے اُسے ضروری ہے کہ وہ مسیح کی وفات پر بھی ایمان لائے ۔ اور یہ بیان ہمارے ان دلائل میں سے بہت تھوڑا سا حصہ ہے۔ جن کو ہم نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جسے تفصیل سے دیکھنا منظور ہو وہ ہماری کتابوں میں تلاش کرے۔
اَلْقِصَّہ ضرور تھا۔ کہ آخر زمانہ میں اسی امّت سے ایک ایسا شخص نکلے کہ جس کا آنا حضرت عیسٰے علیہ السلام کے آنے کے ساتھ مشابہ ہو اور حدیث کسر صلیب جو صحیح بخاری میں موجود ہے بلند آواز سے کہہ رہی ہے کہ ایسے شخص کا آنا نصاریٰ کے غلبہ کے وقت ہو گا۔ اور ہر دانشمند جانتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں نصاریٰ کا غلبہ رُوئے زمین پر ایسا ہے کہ اس کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی۔ اور فریب علمائے نصاریٰ اور ان کی کارستانی ہر ایک طرح کے مکروفریب میں یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ یقینا کہہ سکتے ہیں کہ دجّال معہود یہی خراب کرنے والے اور تحریف کرنے والے کتب مقدسہ کے ہیں۔ جنہوں نے قریب دو ہزار کے انجیل اور توریت کے ترجمے ہر زبان میں بعد تحریف شائع کئے اور آسمانی کتابوں میں بہت خیا نتیں کیں اور چاہتے ہیں کہ ایک انسان کو خدا بنایا جائے۔ اور اس کی پرستش کی جائے اب انصاف اور غور سے دیکھنا چاہئے کہ کیا اُن سے بڑا دجّال کوئی گزرا ہے کہ تا آئندہ بھی اس کی امید رکھی جاوے۔ ابتدائے بنی آدم سے اِس وقت تک مکروفریب ہر قسم کا انہوں نے شائع کیا ہے جس کی نظیر نہیں۔ پس اس کے بعد وہ کونسا نشان ہماری آنکھوں کے سامنے ہے جس سے یقین یا شک تک پیدا ہو سکے کہ کوئی دوسرا دجّال ان سے بڑا کسی غار میں چھپا ہوا ہے۔
ساتھ اس کے چاند اور سُورج کو گرہن لگنا جو اس ہمارے مُلک میں ہوا ہے۔ یہ نشان ظہور اُس مہدی کا ہے جو کتاب دارقطنی میں امام باقر کی حدیث سے موسوم ہے۔
نصاریٰ کا فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے اور ان کی گندی گالیاں اور سخت توہین ہمارے رُسول کی نسبت علماء نصاریٰ کی زبان و قلم سے اس قدر نکلیں جس سے آسمان میں شور پڑ گیا۔ حتیّٰ کہ ایک مسکین اتمامِ حجت کے واسطے مامور کیا گیا۔ یہ خدا کی عادت ہے کہ جس قسم کا فساد زمین پر غالب ہوتا ہے اُسی کے مناسب حال مجدد زمین پر پیدا ہوتا ہے۔ پس جس کی آنکھ ہے وہ دیکھے کہ اس زمانہ میں آتشِ فساد کس قسم کی بھڑکی ہے اور کونسی قوم ہے جس نے تبر ہاتھ میں لے کر اسلام پر حملہ کیا ہے۔ کن کو اسلام کے واسطے غیرت ہے وہ فکر کریں۔ کہ آیا یہ بات صحیح ہے یا غلط۔ اور آیا یہ ضروری نہ تھا کہ تیرھویں صدی کے اختتام پر جس میں کہ فتنوں کی بنیاد رکھی گئی۔ چودھویں صدی کے سر پر رحمتِ الٰہی تجدید دین کے لئے متوجہ ہوئی؟ اور اس بات پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ کہ کیوں اس عاجز کو عیسٰے علیہ السلام کے نام پر بھیجا گیا ہے۔ کیونکہ فتنہ کی صُورت ایسی ہی رُوحانیّت کو چاہتی تھی۔ جبکہ مجھے قوم مسیح کے لئے حکم دیا گیا ہے تو مصلحتاً میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا۔ آسمان سے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ اور زمین پکارتی ہے کہ وہ وقت آ گیا۔ میری تصدیق کے لئے یہ دو گواہ موجود ہیں(خاکسار مؤلف عرض کرتا ہے کہ یہ عبارت حضرت مسیح موعودؑ کے دو فارسی شعروں کا ترجمہ ہے) اسی واسطے خداوند کریم نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا۔ کہ تو خوش ہو کہ تیرا وقت نزدیک آ گیا۔ اور قدم محمدیاں بلند مینار پر پہنچ گیا ہے یہ کام خداوند حکیم وعلیم کا ہے اور انسان کی نظر میں عجیب۔ (یہ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک الہام کا ترجمہ ہے۔ مؤلف) جو کوئی مجھے پورے ظہور سے پہلے شناخت کرے اس کو خدا کی طرف سے اجر ہے۔ اور جو کوئی آسمانی تائیدوں کے بعد میری طرف رغبت کرے وہ ناچیز ہے اور اس کی رغبت بھی ناچیز ہے اور مجھ کو حکومت و سلطنت اس جہاں سے کچھ سروکار نہیں۔ مَیں غریب ہی آیا اور غریب ہی جائونگا۔ اور خدا کی طرف سے مامور ہوں کہ لطف اور نرمی سے اسلام کی سچائی کے دلائل اس پُر آشوب زمانہ میں ہر ملک کے آدمیوں کے سامنے بیان کروں۔ اسی طرح مجھے دولتِ برطانیہ اور اس کی حکومت کے ساتھ جس کے سایہ میں مَیں امن سے زندگی بسر کر رہا ہوں کوئی تعرّض نہیں۔ بلکہ خُدا کا شکر کرتا ہوں اور اس کی نعمت کا شکر بجا لاتا ہوں۔ کہ ایسی پُر امن حکومت میں مجھ کو دین کی خدمت پر مامور کیا۔ اور مَیں کیونکر اس نعمت کا شکر ادا نہ کروں۔ کہ باوجود اس غُربت و بے کسی اور قوم کے نالائقوں کی شورش کے مَیں اطمینان کے ساتھ اپنے کام کو سلطنتِ انگلشیہ کے زیر سایہ کر رہا ہوں۔ اور مَیں ایسا آرام پاتا ہوں کہ اگر اس سلطنت کا مَیں شکر ادا نہ کروں تو میں خدا کا شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم اس بات کو پوشیدہ رکھیں تو ظالم ٹھہرتے ہیں۔ کہ جس طرح سے پادریانِ نصاریٰ کو اپنے مذہب کی اشاعت میں آزادی ہے ایسی ہی آزادی ہم کو اسلام کی اشاعت میں حاصل ہے۔ بلکہ اس آزادی کے فوائد ہمارے لئے زیادہ ہیں۔ جس طرح کہ ہم اہلِ اسلام کو اس آزادی کے فوائد حاصل ہیں دوسروں کو وہ نصیب نہیں۔ کیونکہ وہ باطل پر اور ہم حق پر ہیں۔ اور جُھوٹے آزادی سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ بلکہ اس آزادی سے ان کی پردہ دری زیادہ ہوتی ہے اور اس روشنی کے زمانہ میں ان کا مکر زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ پس یہ ہم پر خدا کا فضل ہے۔ کہ ہمارے واسطے ایسی تقریب پیدا ہوئی۔ اور یہ نعمت خاص ہم کو عطا ہوئی۔ البتہ علمائِ نصاریٰ کو اپنی قوم کی امداد سے لاکھوں روپیہ اپنی انجیلوں اور جھوٹوں کے پھیلانے میں ملتے ہیں اور ہم کو کچھ نہیں ملتا۔ اور ان کے مددگار ملک یورپ میں موروملخ کی طرح ہیں۔ اور ہمارا سوائے خدا کے دوسرا کوئی مددگار نہیں۔ پس اگر ہمارے کاروبار میں ناداری کے سبب کوئی حرج واقع ہو۔ تو یہ دولتِ برطانیہ کا قصور نہیں۔ بلکہ یہ ہماری اپنی قوم کا قصور ہے کہ دین کے کام میں غفلت کرتے ہیں۔ اور بہت آدمی وقتِ امداد کو منافقانہ بہانوں اور جھوٹے ظنّوں سے اپنے سر سے دُور کرتے ہیں۔ ہاں اپنے ننگ و ناموس کے کاموں میں گھوڑوں کی طرح دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس زمانہ میں اسلام صدہا دشمنوں میں اکیلا ہے۔ اور ہر ایک مذہب میدان میں اُترا ہوا ہے۔ دیکھیں کس کو فتح ہوتی ہے۔ پس یہی وقت ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں اور فلسفہ کے اعتراضوں کو جلد سے جلد دُور کریں اور قرآن کریم کی سچائی تمام خویش و بیگانہ پر ظاہر کریں۔ اور خدا کے کلام کی عزت دلوں میں بٹھا دیں۔ اور کوشش کریں کہ اس مذہبی لڑائی میں ہم کو فتح حاصل ہو۔ اور جان توڑ کوشش کریں کہ نصرانیّت کے وسوسوں میں جو گرفتار ہیں ان کو گمراہی کے چاہ سے باہر نکالیں۔ اور جو ہلاکت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ ان کو بچاویں۔ یہی ہے ہمارا کام جو ہمارے ذمہ ہے۔
یورپ اور جاپان دونوں ہمارے ہدیہ کے منتظر ہیں۔ اور امریکہ ہماری دعوت کے واسطے کشادہ دہان ہے۔ پس سخت نامردی ہے کہ ہم غافل بیٹھیں۔ غرض یہ کام ہمارے ذمہ ہے اور یہی ہماری آرزو ہے جسے ہم خدا سے طلب کرتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں۔ کہ خدا ہمارے مددگار پیدا کرے اور ہم منتظر ہیں کہ کب کسی طرف سے نسیم اور بشارت آتی ہے۔
اے شاہِ کابل! اگر آپ آج میری باتیں سُنیں اور ہماری امداد کے واسطے اپنے مال سے مستعد ہوں۔ تو ہم دُعا کریں گے کہ جو کچھ تو خدا سے مانگے وہ تجھے بخشے۔ اور بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور تیری عمرو زندگی میں برکت بخشے۔ اور اگر کسی کو ہمارے دعویٰ کی سچائی میں تأمّل ہو تو اس کو اسلام کے سچا ہونے میں تو کوئی تأمّل نہیں ہوگا۔ چونکہ یہ کام اسلام کا کام ہے اور یہ خدمت دین کی خدمت ہے اس واسطے ہمارے وجود اور دعووں کو درمیان میں نہ سمجھنا چاہئے۔ اور اسلام کی امداد کے واسطے خالص نیّت کرنی چاہئے۔ اور تائید بہ سبب محبت حضرت سیّد المرسلین کے کرنی چاہئے۔
اے بادشاہ!اللہ تجھے اور تجھ میں اور تجھ پر اور تیرے لئے برکت دے۔ جان لیں کہ یہ وقت وقت امداد کا ہے۔ پس اپنے واسطے ذخیرہ عاقبت جمع کر لیں۔ کیونکہ مَیں آپ کو نیک بختوں سے دیکھتا ہوں۔ اگر اس وقت کوئی آپ کا غیر سبقت لے گیا۔ تو بس آپ کا غیر سبقت لے گیا۔ اور سبقت کرنے والے سبقت کرنے والے ہیں اللہ کے نزدیک۔ اور اللہ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
اور اللہ کی قسم مَیں اللہ کی طرف سے مامور ہوں۔ وہ میرے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اور اُسی نے مجھے اس صدی کے سر پر دین کے تازہ کرنے کے لئے اُٹھایا ہے۔ اس نے دیکھا کہ زمین ساری بگڑ گئی ہے اور گمراہی کے طریقے بہت پھیل گئے ہیں۔ اور دیانت بہت تھوڑی ہے اور خیانت بہت۔ اور اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندہ کو دین کے تازہ کرنے کے لئے چُن لیا۔ اور اسی نے اس بندہ کو اپنی عظمت اور کبریائی اور اپنے کلام کا خادم بنایا۔ اور خدا کے واسطے خلق اور امر ہے۔جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے۔ اپنے بندوں سے جس پر چاہتا ہے رُوح نازل کرتا ہے۔ پس خدا کے کام سے تعجب مت کرو۔ اور اپنے رخساروں کو بدظنی کرتے ہوئے اُونچا نہ اُٹھائو۔ اور حق کو قبول کرو۔ اور سابقین میں سے بنو۔ اور یہ خدا کا ہم پر اور ہمارے بھائی مسلمانوں پر فضل ہے۔ پس ان لوگوں پر حسرت ہے جو وقتوں کو نہیں پہچانتے اور اللہ کے دنوں کو نہیں دیکھتے اور غفلت اور سُستی کرتے ہیں۔ اور ان کا کوئی شغل نہیں سوائے اس کے کہ مسلمانوں کو کافر بنائیں اور سچے کو جھٹلائیں۔ اور اللہ کے لئے فکر کرتے ہوئے نہیںٹھہرتے اور متقیوں کے طریق اختیار نہیں کرتے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے ہم کو کافر بنایا۔اور ہم پر *** کی اور ہماری طرف نسبت کیا جھوٹا دعویٰ نبوّت کا۔ اور انکار معجزہ اور فرشتوں کا۔ اور جو کچھ ہم نے کہا اس کو نہیں سمجھا اور نہ اس میں تدبر یعنی فکر کرتے ہیں۔ اور انہوں نے جلدی سے اپنے منہ کھولے اور ہم ان اُمور سے بَری ہیں جو انہوں نے ہم پر افتراء کئے۔ اور ہم خدا کے فضل سے مومن ہیں۔ اور اللہ پر اور اس کی کتاب قرآن پر اور رسول خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ہم ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم لائے اور ہم تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم تہِ دل سے گواہی دیتے ہیں کہ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ ـ
یہ ہیں ہمارے اعتقاد اور ہم ان ہی عقائد پر اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے اور ہم سچے ہیں تحقیق خداتمام عالم پر فضل کرنے والا ہے۔ اس نے اپنے ایک بندہ کو اپنے وقت پر بطور مجدّد پیدا کیا ہے کیا تم خدا کے کام سے تعجب کرتے ہو اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اور نصاریٰ نے حیات مسیح کے سبب فتنہ برپا کیا۔ اور کفر صریح میں گِر گئے۔ پس خدا نے ارادہ کیا کہ ان کی بنیاد کو گِرادے اور ان کے دلائل کو جُھوٹا کرے۔ اور ان پر ظاہر کردے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ پس جو کوئی قرآن پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے فضل کی طرف رغبت کرتا ہے پس اُسے لازم ہے کہ میری تصدیق کرے۔ اور بیعت کرنے والوں میں داخل ہو۔ اور جس نے اپنے نفس کو میرے نفس سے ملایا۔ اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کے نیچے رکھا۔ اس کو خدا دُنیا میں اور آخرت میں بلند کرے گا۔ اور اس کو دونوں جہان میں نجات پانے والا بنائے گا۔ پس قریب ہے کہ میری اس بات کا ذکر پھیلے اور مَیں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ اور میرا شکوہ اپنے فکروغم کا کسی سے نہیں سوائے اللہ کے۔ وہ میرا رب ہے مَیں نے تو اسی پر توکّل کیا ہے۔ وہ مجھے بلند کرے گا اور مجھے ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اور مجھے عزت دیگا اور ذلّت نہیں دے گا۔ اور جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ان کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ وہ خطا پر تھے۔ اور ہماری آخری دُعا یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف خدا کے واسطے ہے اور وہ تمام عالموں کا پالنے والا ہے۔
الملتمس عبداللہ الصمد غلام احمد ماہ شوال ۱۳۱۳ھ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے اس ترجمہ میں کہیں کہیں خفیف لفظی تبدیلی کی ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔۔۔۔ کہ مَیں نے جب یہ خط بغرض اطلاع حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کیا۔ تو آپ نے فرمایا۔ کہ کچھ عرصہ ہوا خواجہ حسن نظامی صاحب نے شائع کیا تھا کہ ایک دفعہ مرزا صاحب نے امیر کابل کو ایک دعوتی خط لکھا تھا۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ لکھدو۔ کہ ’’اینجابِیا‘‘ یعنی اس جگہ افغانستان میں آ جائو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ جواب حضرت مسیح موعودؑ کو تو نہیں پہنچا۔ لیکن اگر یہ بات درست ہے تو اس سے امیر کابل کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم انگریزی حکومت میں آرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ دعوے کر رہے اور انگریزی حکومت کو سراہ رہے ہو اگر میرے ملک میں آئو تو پتہ لگ جائے۔ بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ خود اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے خدائی دربار میں گھنٹی بج رہی ہے۔ چنانچہ اس پر زیادہ عرصہ نہیں گذراتھا کہ بچہ سقّہ کے ہاتھ سے امیر عبدالرحمن کا خاندان معزول ہو کر ملک سے بھاگ گیا اور اس کی جگہ اللہ تعالیٰ دوسرے خاندان کو لے آیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس خط کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خط عربی میں لکھا گیا تھا۔ یا شاید فارسی میں ہو اور کچھ فقرات عربی کے ہوں۔ نیز معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت صاحب نے یہ خط امیر کابل کو بھجوایا۔ تو راستہ میں پولیس نے لیکر اس کی نقل رکھ لی اور ترجمہ بھی کر لیا۔ اور اصل آگے جانے دیا۔ نقل غالباً گورنمنٹ کے بالا دفاتر میں چلی گئی ہو گی۔ اور ترجمہ پولیس کے ماتحت دفتر میں پڑا رہا۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 618} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دسمبر ۱۹۰۷ء میں آریہ سماج لاہور کا ایک جلسہ تھا۔ جس میں جمیع مذاہب سے خواہش کی گئی تھی کہ وہ اس مضمون پر تقریر کریں۔ کہ کیا دُنیا میں کوئی الہامی کتاب ہے؟ اگر ہے تو کونسی ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ بھی اس جلسہ کے واسطے مضمون لکھوا رہے تھے اور غلام محمد صاحب احمدی کاتب کو امرتسر سے بلوایا تھا۔ وہ گھر پر مضمون لکھ رہا تھا۔ آپ نماز جمعہ کے واسطے اس مکان میں تشریف لائے۔ جس میں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب ایم۔ اے (یعنی خاکسار مؤلف) سکونت رکھتے ہیں۔ سید محمد احسن صاحب امام الصلوٰۃ تھے۔حضرت صاحب نے خصوصیّت سے کہلا بھیجا تھا۔کہ خطبہ مختصر ہو۔ کیونکہ ہم مضمون لکھوا رہے ہیں اور کاتب لکھ رہا ہے۔ وقت تھوڑا باقی ہے۔ وہ مضمون غالباً یکم یا ۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کو سنایا جانا تھا۔ اور اغلباً اس دن ۲۸ یا ۲۹ نومبر ۱۹۰۷ء کی تاریخ تھی۔ مگر سیّد صاحب نے باوجود حضرت اقدس کے صریح ارشاد کے خطبہ اس قدر لمبا پڑھا۔ کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّلؓ کافی عرصہ بعد مسجد اقصٰے تشریف لے گئے۔ اور وہاں نماز جمعہ پڑھانے کے بعد واپس بھی تشریف لے آئے۔مگر سیّد صاحب کا خطبہ ابھی جاری تھا۔ خطبہ میں دو امور کا ذکر تھا۔ ایک حضرت مسیح ناصری کے حواریوں کے مائدہ مانگنے کا ذکر تھا اور یہ کہ ہمارے امام کے ساتھ بھی مائدہ یعنی لنگر خانہ ہے۔ اور نیز اس سے رُوحانی غذا بھی مراد ہے۔ دوم قدرتِ ثانیہ کے بارہ میں تذکرہ تھا۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت تحمل سے وہ خطبہ سُنتے رہے۔ باوجود اس کے کہ آپ کو نہایت ضروری کام درپیش تھا۔ مگر حضرت کی پیشانی پر کوئی بَل نظر نہ آیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحب خود شریک ہوتے تھے اور امام الصلوٰۃ مولوی سیّد محمد احسن صاحب یا مولوی سیّد سرور شاہ صاحب ہوتے تھے۔ اور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اولؓ امام ہوتے تھے۔ دو جمعوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود بوجہ طبیعت کی خرابی کے عموماً مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جا سکتے تھے اور مسجد مبارک چونکہ بہت تنگ تھی اس لئے اس میں سارے نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ لہذا دو جگہ جمعہ ہوتا تھا۔ واقعہ مندرجہ روایت مذکورہ بالا ان دنوں کا ہے۔ جبکہ مسجد مبارک میں توسیع کے لئے عمارت لگی ہوئی تھی۔ ان ایام میں مسجد مبارک والا جمعہ میرے موجودہ مکان کے جنوبی دالان میں ہوا کرتا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی صاحب نے جو بیان کیا ہے کہ حضرت صاحب مضمون لکھوا رہے تھے اس سے یہ مراد نہیں کہ کسی شخص کو پاس بٹھا کر املا کروا رہے تھے بلکہ غرض یہ ہے کہ حضور لکھ لکھ کر کاتب کو دے رہے تھے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابلِ تشریح ہے کہ قاضی صاحب نے جو یہ بیان کیا ہے کہ مولوی محمد احسن صاحب نے دانستہ ایسا کیا۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ مولوی صاحب کو بات کے لمبا کرنے کی عادت تھی۔ اس لئے باوجود حضرت صاحب کے ارشاد کے وہ اس رَو سے بچ نہیں سکے۔
{ 619} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے جا رہے تھے۔ تو راستہ میں خاکسار کو ملنے کا موقعہ نہ ملا۔ کیونکہ خاکسار گورداسپور سے جا رہا تھا اور حضور قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ سے گاڑی پر سوار ہوئے تھے۔ مَیں نے لاہور پہنچ کر مولوی محمد علی صاحب سے ذکر کیا کہ مجھے بٹالہ سے لاہور تک حضرت کو بو جہ ہجوم خلقت کے ملنے کا موقعہ نصیب نہیں ہوا لیکن سیالکوٹ سے دو سٹیشن ورے مجھے ہجوم کم نظر آیا۔ چنانچہ مَیں اپنے کمرے سے بھاگتا ہوا حضرت کے کمرہ کے پاس پہنچ گیا۔ حضرت مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ میاں عبدالعزیز آپ بھی پہنچ گئے۔ سیالکوٹ پہنچ کر حضور نے میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے مکان پر قیام فرمایا۔ اور منتظمین کو بلا کر فرمایا کہ منشی اروڑا خانصاحب اور میاں عبدالعزیز کو رہائش کے لئے ایک الگ جگہ دو۔ اور ان کا اچھی طرح سے خیال رکھنا کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ادنیٰ سے ادنیٰ خدام کا بھی کتنا خیال رکھتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اس سفر کا ذکر معلوم ہوتا ہے جو حضرت صاحب نے ۱۹۰۴ء میں کیا تھا۔
{ 620} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر دین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسماۃ تابی حضرت مسیح موعودؑ کی ایک خادمہ تھی۔ اس کی ایک نواسی کا نکاح ایک شخص مسمی فقیر محمد سکنہ قادیان سے تجویز ہوا۔ حضرت صاحب نے فقیر محمد کو ایک اشٹام کا کاغذ لانے کی ہدایت فرمائی۔ جب وہ کاغذ لے آیا تو حضرت صاحب نے گول کمرہ میں میری موجودگی میں فقیر محمد کی طرف سے تحریر ہونے کے لئے مضمون بنایا۔ کہ مَیں اس عورت سے نکاح کرتا ہوں اور ۔/۵۰۰ روپیہ مہر ہو گا۔ اور اس کے اخراجات کا مَیں ذمہ دار ہوں گا۔ اور اس کی رضا مندی کے بغیر (یا یہ فقرہ تھا۔ کہ اس کی حیات تک) دوسرا نکاح نہ کرونگا۔ یہ کاغذ آپ نے مجھے اشٹام پر نقل کرنے کے لئے دیا۔ چنانچہ مَیں نے وہیں نقل کر دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ نکاح میں زائد شرائط مقرر کرنا جائز ہے۔ اور حضرت صاحب نے لکھا ہے(چشمۂ معرفت صفحہ ۲۳۷، ۲۳۸) کہ نکاحِ ثانی کے متعلق عورت کی طرف سے یہ شرط بھی ہو سکتی ہے۔ کہ میرا خاوند میرے ہوتے ہوئے نکاح ثانی نہیں کرے گا۔ کیونکہ تعدد ازدواج اسلام میں جائز ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہے۔
{ 621} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سوائے حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی اور امۃ الحفیظ بیگم کی شادی کے باقی اپنے سب بچوں کی مجلس نکاح میں بذات خود شریک تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کا نکاح رڑکی میں ہوا تھا۔ جہاں حضرت خلیفہ اوّلؓ مع ایک جماعت کے بطور برات بھیجے گئے تھے۔ اور وہیں نکاح ہوا تھا۔ رخصتانہ بعد میں ہوا جب ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب آگرہ میں تھے۔ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) کا نکاح حضرت صاحب کے گھر کے اندر صحن میں ہوا تھا۔ جہاں اب حضرت ام المؤمنین رہتی ہیں۔ اس موقعہ پر حضرت صاحب نے امرتسر سے اعلیٰ قسم کے چوہارے کافی مقدار میں تقسیم کرنے کے لئے منگوائے تھے۔ جو مجلس میں کثرت سے تقسیم کئے گئے۔ بلکہ بعض مہمانوں نے تو اس کثرت سے چوہارے کھا لئے کہ دوسرے دن حضرت صاحب کے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ کئی آدمیوں کو اس کثرت کی و جہ سے پیچش لگ گئی ہے۔ میاں شریف احمد صاحب کا نکاح بھی حضرت صاحب کے گھر میں ہی ہوا تھا۔ مبارکہ بیگم صا حبہ کا نکاح مسجد اقصیٰ میں ہوا تھا۔ مبارک احمد مرحوم کا نکاح بھی حضرت صاحب نے اپنے سامنے گھر کے اندر کیا تھا۔ مگر وہ اسی سال فوت ہو گیا۔ امۃ الحفیظ بیگم صا حبہ کا نکاح حضور کے وصال کے بعد ہوا۔
چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رُوحانی حکیم تھے اور حضرت خلیفہ اوّلؓ جسمانی حکیم تھے۔ ان ہر دو نے اپنے بچوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں کر دی تھیں۔ میرے خیال میں جو دُنیا کا آجکل حال ہے اس کے لحاظ سے ابتدائی عمر کی شادی باوجود اپنے بعض نقائص کے تقویٰ اور طہارت کے لحاظ سے بہتر ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم کا نکاح اس کی بیماری کے ایام میں ہوا تھا۔ مگر وہ بقضائے الٰہی چند دن بعد فوت ہو گیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ابتدائی عمر کی شادی واقعی کئی لحاظ سے بہتر ہے۔ ایک تو اس ذریعہ سے شروع میں ہی بد خیالات اور بدعادات سے حفاظت ہو جاتی ہے۔ دوسرے جو جوڑ میاں بیوی کا چھوٹی عمر میں ملتا ہے وہ عموماً زیادہ گہرا اور مضبوط ہوتا ہے۔ تیسرے چھوٹی عمر کی شادی میں یہ فائدہ ہے کہ اولاد کا سلسلہ جلد شروع ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب والد کے گذرنے کا وقت آتا ہے تو بڑی اولاد چھوٹی اولاد کے سہارے کا باعث بن سکتی ہے۔اسی طرح اور بھی بعض فوائد ہیں۔ پس مغربی تقلید میں بہت بڑی عمر میں شادی کرنا کسی طرح پسندیدہ نہیں۔ اس طرح عمرکا ایک مفید حصہ ضائع چلا جاتا ہے۔ بے شک کم عمری کی شادی میں بعض جہت سے نقصان کا پہلو ہے۔ مگر نَفْعُھَا اَکْبَرُ مِنْ اِثْمِھَا کے اصول کے ماتحت فی الجملہ یہی بہتر ہے۔ واللّٰہ اعلم -
{ 622} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے اپنی ایک مجلس میں بیان کیا کہ میں نے ایک رات مٹھائی کھانے میں کثرت کی۔ جس سے رات بھر تکلیف رہی اور پیٹ میں بہت ریاح اور قراقر رہا۔ اس پر مجھے الہام ہوا۔ کہ بَطْنُ الْاَنْبِیَائِ صَامِتٌ۔ یعنی انبیاء کا پیٹ خاموش ہوتا ہے۔ اس عاجز نے یہ بات سُن کر ذہن میں رکھی۔ اور اس کے بعد ہمیشہ گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس کا خیال رکھا۔ اور بات کو سچ پایا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کی جسمانی طہارت اور نظافت ایک حد تک اس وجہ سے بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی عادات میں بہت معتدل ہوتے ہیں اور کوئی ایسی چیز استعمال نہیں کرتے جو بدبو پیدا کرے یا پیٹ میں ریاح پیدا کرے یا کسی اور طرح کی گندگی کا باعث ہو۔ اس احتیاط کی و جہ علاوہ ذاتی طہارت اور نظافت کی خواہش کے ایک یہ بھی ہے کہ انبیاء کو ذات باری تعالیٰ اور ملا ئکۃ اللّٰہ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور اللہ اور اس کے فرشتے بوجہ اپنی ذاتی پاکیزگی کے انسان میں بھی پاکیزگی کو بہت پسند کرتے ہیں۔
{ 623} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مدرس مدرسہ احمدیّہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء میں یا اس کے قریب عیدالاضحی سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو لکھا کہ جتنے دوست یہاں موجود ہیں ان کے نام لکھ کر بھیج دو۔ تا مَیں ان کے لئے دُعا کروں۔ حضرت مولوی صاحب نے سب کو ایک جگہ جہاں آجکل مدرسہ احمدیہ ہے اور اُس وقت ہائی سکول تھا جمع کیا اور ایک کاغذ پر سب کے نام لکھوائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دئیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سارا دن اپنے کمرہ میں دروازے بند کرکے دُعا فرماتے رہے۔ صبح عید کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا مجھے الہام ہوا ہے۔ کہ اس موقعہ پر عربی میں کچھ کلمات کہو۔ اس لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اس وقت قلم دوات لے کر موجود ہوں اور جو کچھ مَیں عربی میں کہوں لکھتے جائیں۔ آپ نے نمازِ عید کے بعد خطبہ خود پہلے اردو میں پڑھا۔ مسجد اقصیٰ کے پُرانے صحن میں دروازے سے کچھ فاصلہ پر ایک کُرسی پر تشریف رکھتے تھے۔ حضور کے اُردو خطبہ کے بعد حضرت مولوی صاحبان حسبِ ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے بائیں طرف کچھ فاصلہ پر کاغذ اور قلم دوات لے کر بیٹھ گئے۔ اور حضور نے عربی میں خطبہ پڑھنا شروع فرمایا۔ اس عربی خطبہ کے وقت آپ کی حالت اور آواز بہت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی۔ تقریر کے وقت آپ کی آنکھیں بند ہوتی تھیں۔ تقریر کے دوران میں ایک دفعہ حضور نے حضرت مولوی صاحبان کو فرمایا۔ کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں ممکن ہے کہ بعد میں مَیں خود بھی نہ بتا سکوں اس وقت ایک عجیب عالم تھا۔ جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ خطبہ حضور کی کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتداء میں چھپا ہوا ہے۔ آپ نے نہایت اہتمام سے اس کو کاتب سے لکھوایا۔ اور فارسی اور اُردو میں ترجمہ بھی خود کیا۔ اس خطبہ پر اعراب بھی لگوائے۔ اور آپ نے فرمایا۔ کہ جیسا جیسا کلام اُترتا گیا۔ مَیں بولتا گیا۔ جب یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ تو مَیں نے بھی تقریر کو ختم کر دیا۔ آپ فرماتے تھے۔ کہ تقریر کے دَوران میں بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے نظر آجاتے تھے۔ آپ نے تحریک فرمائی کہ بعض لوگ اس خطبہ کو حفظ کر کے سُنائیں۔ چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اس خطبہ کو یاد کیا۔ اور مسجد مبارک کی چھت پر مغرب و عشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں اس کو پڑھ کر سُنایا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مولوی شیر علی صاحب کی یہ روایت مختصر طور پر حصہ اول طبع دوم کی روایت نمبر ۱۵۶ میں بھی درج ہو چکی ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے بعض اصحاب سے چند عدد روایات لکھ کر ایک کاپی میں محفوظ کی ہوئی ہیں۔ یہ روایت اسی کاپی میں سے لی گئی ہے۔ آگے چل کر بھی اس کاپی کی روایات آئیں گی۔ اس لئے مَیں نے ایسی روایات میں مولوی عبدالرحمن صاحب کے واسطے کو ظاہر کر دیا ہے۔ مولوی عبدالرحمن صاحب خود صحابی نہیں ہیں۔ مگر انہوں نے یہ شوق ظاہر کیا ہے کہ ان کا نام بھی اس مجموعہ میں آ جائے۔ اس کاپی میں جملہ روایات اصحاب جو بوجہ نابینائی یا ناخواندگی معذور تھے ان کی روایات مولوی عبدالرحمن صاحب مبشّر نے اپنے ہاتھ سے خود لکھی ہیں۔
{ 624} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ ’’ دہلی میں واصل جہنّم ۔واصل خان فوت ہو گیا‘‘ تو مجھے یاد ہے کہ آپ نے اس کے متعلق سب سے پہلے حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بلا کر اُن سے علیحدگی میں بات کی تھی۔ اور یہ الہام سُنا کر واصل خاں کی بابت دریافت فرمایا تھا۔ اس وقت حضرت صاحب اور حضرت مولوی صاحب کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ البتہ خاکسار پاس کھڑا تھا اور شاید مجھے ہی بھیج کر حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو بُلایا تھا۔ اور آپ مولوی صاحب کو مسجد مبارک کے پاس والے حصہ میں اپنے مکان کے اندر ملے تھے۔ اور زمین پر ایک چٹائی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے تھے۔ نیز اس الہام کے الفاظ جو مجھے زبانی یاد تھے۔ یہ تھے کہ ’’ دہلی میں واصل خاں واصل جہنّم ہوا‘‘۔ مگر جو الفاظ اخبارات میں شائع ہوئے ہیں وہ اس طرح پر ہیں جس طرح شروع روایت میں درج کئے گئے ہیں۔ اور غالباً وہی صحیح ہونگے۔ کیونکہ زبانی یاد میں غلطی ہو جاتی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 625} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مَیں ۱۱؍ ستمبر ۱۹۳۵ء کو سیالکوٹ میں تھا۔ وہاں مجھے مائی حیات بی بی صا حبہ بنت فضل دین صاحب جو کہ حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی والدہ ماجدہ ہیں سے ملنے کو موقعہ ملا۔ اس وقت میرے ہمراہ مولوی نذیر احمد صاحب فاضل سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ سیالکوٹ اور چوہدری عصمت اللہ خان بی۔ اے۔ پلیڈرلائلپور، سیکرٹری جماعت احمدیہ لائلپور بھی تھے۔ مائی صا حبہ اپنے مکان کی دہلیز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہم نے ان کو نہ پہچانا۔ مگر انہوں نے ہم کو پہچان کر السَّلام علیکم کہا۔ اور فرمایا کہ ادھر تشریف لے آئیں۔ مائی صاحبہ کی عمر اس وقت ۱۰۵ سال ہے۔ مائی صا حبہ نے بتایا۔ کہ غدر کے زمانہ میں جب یہاں بھاگڑ پڑی اور دفاتر اور کچہریوں کو آگ لگی تو اس وقت مَیں جوان تھی۔ دورانِ گفتگو میں مائی صا حبہ نے بتایا کہ مجھے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام) سے اس وقت سے واقفیت ہے کہ جب آپ پہلے پہل سیالکوٹ تشریف لائے تھے اور یہاں ملازمت کے زمانہ میں رہے تھے۔ مرزا صاحب کی عمر اس وقت ایسی تھی کہ چہرے پر مس پھُوٹ رہی تھی۔ اور آپ کی ابھی پوری داڑھی نہ تھی۔ سیالکوٹ تشریف لانے کے بعد حضرت مرزا صاحب میرے والد صاحب کے مکان پر آئے۔ اور انہیں آواز دی اور فرمایا۔ میاں فضل دین صاحب آپ کا جو دوسرا مکان ہے۔ وہ میری رہائش کے لئے دے دیں۔ میرے والد صاحب نے دروازہ کھولا اور آپ اندر آ گئے۔ پانی ،چارپائی ،مصلّٰی وغیرہ رکھا۔ مرزا صاحب کا سامان بھی رکھا۔ آپ کی عادت تھی کہ جب کچہری سے واپس آتے تو پہلے میرے باپ کو بُلاتے اور ان کو ساتھ لے کر مکان میں جاتے۔ مرزا صاحب کا زیادہ تر ہمارے والد صاحب کے ساتھ ہی اُٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان کا کھانا بھی ہمارے ہاں ہی پکتا تھا۔ میرے والد ہی مرزا صاحب کو کھانا پہنچایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب اندر جاتے اور دروازہ بند کر لیتے اور اندر صحن میں جا کر قرآن پڑھتے رہتے تھے۔ میرے والد صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب قرآن مجید پڑھتے پڑھتے بعض وقت سجدہ میں گر جاتے ہیں اور لمبے لمبے سجدے کرتے ہیں۔ اور یہاں تک روتے ہیں کہ زمین تر ہو جاتی ہے۔ مائی صا حبہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی باتیں بتلاتے ہوئے متعدد دفعہ کہا۔ ’’مَیں قربان جائوں آپ کے نام پر‘‘۔ یہ بیان حافظ محمد شفیع صاحب قاری کی موجودگی میں مَیں نے لیا۔ اور حافظ صاحب نے اپنی والدہ صا حبہ کے سامنے بتلایا۔ کہ یہی باتیں مَیں اپنے ماموں اور نانے سے بھی سُنا کرتا تھا۔
مائی صا حبہ نے بتلایا کہ پہلے مرزا صاحب اسی محلہ میں ایک چوبارہ میں رہا کرتے تھے۔ جو ہمارے موجودہ مکان واقع محلہ جھنڈانوالہ سے ملحق ہے۔ جب وہ چوبارہ گر گیا۔ تو پھر مرزا صاحب میرے باپ کے مکان واقع محلہ کشمیری میں چلے گئے۔ چوبارہ کے گرنے کا واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کے پاس چوبارہ میں خلیل۔ منشی فقیر اللہ وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو مرزا صاحب نے کہا باہر آ جائو۔ جب وہ سب باہر دوسرے مکان کی چھت پر آئے۔ تو چوبارہ والا چھت بیٹھ گیا۔ حافظ محمد شفیع صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ خلیل کہتا تھا۔ کہ چوبارہ میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔ کہ جس سے گرنے کا خطرہ ہوتا۔ مائی صاحبہ نے بتلایا کہ مرزا صاحب عموماً اپنے اوپر چادر لپیٹے رکھتے تھے اور سر پر بھی چادر اوڑھ لیتے تھے۔ اور اتنا ہی منہ کُھلا رکھتے جس سے راستہ نظر آئے۔ میرے والد بتلاتے تھے کہ مکان کے اندر جا کر چادر اتار دیتے تھے حافظ صاحب نے بتلایا کہ ہمارے نانا فضل دین صاحب بتلایا کرتے تھے کہ مرزا صاحب جب کچہری سے واپس آتے تو چونکہ آپ ا ہلمد تھے۔ مقدمہ والے زمیندار ان کے مکان تک ان کے پیچھے آ جاتے۔ تو مرزا صاحب فضل دین صاحب کو بلاتے اور کہتے کہ فضل دین میرا پیچھا ان سے چھڑا دو یہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ فضل دین صاحب ان زمینداروں کو سمجھاتے کہ جو تمہارا کام ہے مرزا صاحب کچہری میں ہی کر دیںگے۔ گھر میں وہ کسی سے نہیں ملتے۔ اور نیز انہوں نے بتلایا۔ کہ جو تنخواہ مرزا صاحب لاتے۔ محلہ کی بیوگان اور محتاجوں کو تقسیم کر دیتے۔ کپڑے بنوا دیتے یا نقد دے دیتے تھے۔ اور صرف کھانے کا خرچ رکھ لیتے۔ مائی صا حبہ نے بتلایا کہ جب مرزا صاحب دوسری دفعہ بعد از دعویٰ سیالکوٹ آئے تو حکیم حسام الدین صاحب مرحوم کے مکان پر مجھے بلایا۔ اور میرا حال پوچھا۔ اور مَیں نے بیعت بھی کی۔ اس وقت مرزا صاحب بمع کنبہ آئے تھے۔
مرزا صاحب جب تیسری دفعہ آئے۔ لوگوں نے آپ پر کوڑا ڈالا۔ حافظ صاحب نے اس موقعہ پر بتلایا کہ اس محلہ کے مولوی حافظ سلطان نے جو میرے استاد تھے، لڑکو ں کو جھولیوں میں راکھ ڈلوا کر انہیں چھتوں پر چڑھا دیا۔ اور انہیں سکھایا۔ کہ جب مرزا صاحب گذریں۔ تو یہ راکھ ان پر ڈالنا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔ مائی صا حبہ اور حافظ صاحب دونوں نے بتلایا۔ کہ حافظ سلطان کا مکان ہمارے سامنے ہے۔ یہ گھر بڑا آباد تھا۔تیس چالیس آدمی تھے۔ مگر اس واقعہ کے بعد سیالکوٹ میں طاعون پڑی اور سب سے پہلے اس محلہ میں طاعون سے حافظ سلطان اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے ان کے گھر کے لوگ جو انتیس کے قریب تھے طاعون سے مر گئے اور چھوٹے چھوٹے بچے رہ گئے۔ اور جن لوگوں نے انہیں غسل دیا وہ بھی مر گئے اور جو شخص عیادت کرنے کے لئے آیا وہ بھی مر گیا۔
(دستخط) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ۔ ناظر دعوۃ تبلیغ حال مقیم سیالکوٹ۔
مورخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۳۵ئ۔
محررہ سیّد فیاض حیدر۔ حیدر منزل سیالکوٹ شہر۔ مورخہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۳۵ء
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مندرجہ بالا بیان کے نیچے مندرجہ ذیل نوٹ درج ہیں۔
نوٹ اوّل:۔ ’’مندرجہ بالا بیانات ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ نے میری موجودگی میں مائی حیات بی بی صا حبہ اور ان کے لڑکے حافظ محمد شفیع صاحب کی روایات کی بناء پر قلمبند کرائے۔ دونوں پنجابی میں باتیں بتاتے تھے۔ جن کو ناظر صاحب ان کی موجودگی میں اردو میں ساتھ ساتھ لکھاتے جاتے تھے ‘‘ مورخہ۱۱؍ستمبر ۱۹۳۵ئ۔
(دستخط) عصمت اللہ خاں وکیل لائلپور حال مقیم سیالکوٹ ۔
نوٹ ثانی:۔ ’’ میں نے وہ مکان جا کر دیکھا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اپنے اثنائے قیام سیالکوٹ میں ملازمت کے ایام میں رہا کرتے تھے۔ یہ مکان محلہ چودھری سلطان میں واقع ہے اور اس کے ساتھ پہلو میں جانب جنوب چراغ دین صاحب کا مکان ہے جو دو منزلہ ہے۔ لیکن پہلے ایک منزلہ تھا۔ اور موجودہ شکل بعد کی ہے۔ چراغ دین صاحب بیان کرتے ہیں۔ کہ جب مرزا صاحب یہاں رہا کرتے تھے۔ تو اس وقت میری عمر ۱۰۔۱۱ سال کی تھی۔ اور اس وقت مرزا صاحب کی داڑھی ذرا ذرا سی تھی۔ جب آپ کام کاج سے فارغ ہو کر باہر سے آتے تو کسی سے بات نہ کرتے اور اندر ہر وقت لکھنے پڑھنے کا ہی کام کرتے۔ اب وہ مکان جس میں مرزا صاحب رہتے تھے۔ ماسٹر عبدالعزیز ٹیلر ماسٹر نے جو احمدی ہیں خرید کیا ہوا ہے۔ پہلے اس مکان میں صرف ایک ہی دروازہ تھا بعد میں جب تقسیم ہوا تو درمیاں میں دیوار حائل کر کے دو دروازے نکال لئے گئے ہیں۔مرزا صاحب اس کوٹھڑی میں رہتے تھے جو ان کے مکان کے ساتھ ہے اور اب تک وہ کوٹھڑی اسی حالت میں ہے۔‘‘
محررہ سیّد فیاض حیدر ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۵ئ۔ زین العابدین ناظر دعوۃ وتبلیغ ۱۵؍ستمبر ۱۹۳۵ئ۔
چراغدین بقلم خود ۱۵؍ ستمبر ۱۹۳۵ئ۔
یہ بیان مندرجہ ذیل اصحاب کی موجودگی میں لیا گیا۔ جن کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں۔
(دستخط) محمد الدین بقلم خود ۱۵؍ ستمبر۱۹۳۵ئ۔ (دستخط) چودھری محمد شریف مولوی فاضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۳۵ئ۔ (دستخط) بقلم خود ظہور احمد۔ احمدی۔ ۱۵ ؍ستمبر ۱۹۳۵ئ۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب کی داڑھی کسی قدر دیر کے ساتھ آئی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی ملازمت سیالکوٹ کے ایّام کے متعلق شمس العلماء مولوی میر حسن صاحب سیالکوٹی کی دو عدد روایتیں (نمبر ۱۵۰ و نمبر ۲۸۰) پہلے حصوں میں گذر چکی ہیں۔
{ 626} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد غلام غوث صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۸؍اکتوبر ۱۹۰۴ء بعد تین بجے شام جبکہ مقدمہ کرم دین کا فیصلہ سُنایا جانا تھا اوّل کرم دین کو عدالت میں بلایا گیا اور اس کو پچاس روپیہ جرمانہ ہوا۔ اور اس کے بعد ایڈیٹر سراج الاخبار کو بلایا گیا۔ اور اُسے چالیس روپیہ جرمانہ ہوا۔ اس وقت حضرت اقدس قبل اس کے کہ آپ بُلائے جائیں مجھ سے مخاطب ہو کر فرما رہے تھے۔ کہ درمیانی ابتلاء ہیں مگر عدالت عالیہ سے بریّت ہے۔ اتنے میں حضور کو بلایا گیا۔ تو مجسٹریٹ نے حضرت اقدس کو پانچ سو روپیہ اور حکیم فضل دین صاحب کو دو صد روپیہ جرمانہ کیا۔ اسی وقت مبلغ ایک ہزار روپیہ کا نوٹ پیش کیا گیا۔ اور باقی تین صد روپیہ واپس لیا گیا۔ اتنے میں چار بج گئے۔ اور خوا جہ کمال الدین صاحب نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔ کہ اب عدالت برخاست ہو چکی ہے۔کیا مَیں فیصلہ کے متعلق کچھ بات کر سکتا ہوں (یعنی آزادی کے ساتھ غیر عدالتی رنگ میں اظہارِ خیال کر سکتا ہوں۔ خاکسار مؤلف) مجسٹریٹ نے کہا۔ ہاں۔ تب خواجہ صاحب نے کہا۔ کہ یہ خاک فیصلہ ہے۔ کہ مَیں نے کرم دین کو کذّاب ثابت کر دیا۔ اور باوجود اس کے حضرت اقدس کو اس بات پر جرمانہ بھی کر دیا گیا کہ اس کو کذّاب کیوں کہا ہے۔ حالانکہ کذّاب کو کذّاب کہنا کوئی جُرم نہیں۔ مجسٹریٹ خاموش رہا۔ تب خوا جہ صاحب نے کہا۔ کہ سات صد روپیہ ہمارا امانت ہے۔ ابھی تھوڑے عرصہ میں واپس لے لیں گے۔ چنانچہ اپیل میں حضرت صاحب بری قرار دئیے گئے۔ اور وہ روپیہ واپس مل گیا۔ مگر کرم دین کا نام ہمیشہ کے لئے کذّاب درج رجسٹر رہا۔ اور اس کا جرمانہ بھی قائم رہا۔
{ 627} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے جہاد کے بارہ میں عرض کیا کہ مسلمان بادشاہوں نے ہمیشہ دفاعی جنگ تو نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ ہم تو صرف آنحضرتؐ اور خلفائے راشدین کی طرف سے جواب دینے کے ذمہ دار ہیں اَور کسی کے نہیں۔ ان کے جہاد ہمیشہ دفاعی تھے۔ باقی بعد کے مسلمان بادشاہوں کی طرف سے جواب دہی کی ذمہ واری ہم نہیں لے سکتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے۔ اور آنحضرت ﷺ کی جملہ لڑائیاں دفاعی تھیں۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے۔ کہ دفاعی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہر انفرادی لڑائی آپ نے اس وقت کی جبکہ غنیم فوج لے کر چڑھ آیا۔ اس قسم کا دفاع احمقانہ دفاع ہوتا ہے بلکہ اس کا نام دفاع رکھنا ہی غلط ہے۔ پس دفاع سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی غرض و غایت دشمن کے خلاف اپنے آپ کو محفوظ کرنا تھی۔ یعنی دشمن اسلام کو مٹانا چاہتا تھا اور آپؐ اسلام کو محفوظ کرنے کے لئے میدان میں نکلے تھے اور ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ بسا اوقات جنگی تدبیر کے طور پر خود پیش دستی کر کے دشمن کو حملہ سے روکنا بھی دفاع کا حصہ ہوتا ہے۔
{ 628} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ شکل کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے دو ٹائپ ہیں۔ ایک سلطانی اور دُوسرا فضلی۔ یعنی ایک وہ جو مرزا سلطان احمد صاحب سے مشابہ ہیں اور دوسرے وہ جو مرزا فضل احمد صاحب سے مشابہت رکھتے ہیں۔ سُلطانی ٹائپ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللّٰہ بنصرہ العزیز۔ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۔مبارک احمد مرحوم۔ امۃ النصیر مرحومہ اور امۃ الحفیظ بیگم شامل ہیں۔ اور فضلی جماعت میں عصمت مرحومہ ۔شوکت مرحومہ۔ صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) اور مبارکہ بیگم شامل ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کی خود ساختہ اصطلاح کی رُو سے سلطانی ٹائپ سے لمبا کتابی چہرہ مراد ہے۔ اور فضلی ٹائپ سے گول چہرہ مراد ہے۔ نیز ایک الہام جو خاکسار کی پیدائش کے متعلق حضرت صاحب کو ہوا تھا۔ کہ یُدْنٰی مِنْکَ الْفَضْلُ (یعنی فضل تیرے قریب کیا جائے گا) اس کے ایک معنی حضرت صاحب نے یہ بھی لکھے ہیں۔ کہ فضل احمد کی شکل سے مشابہت رکھنے والا بچہ پیدا ہو گا نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مبارک احمد مرحوم کے متعلق مجھے شُبہ ہے کہ وہ بقول میر صاحب سلطانی ٹائپ میں شامل نہیں تھا۔ بلکہ فضلی ٹائپ میں شامل تھا یا شاید بین بین ہو گا۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 629} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ غلیل سے جو پرندے مارے جاتے ہیں۔ ان کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ تکبیر پڑھ کر مار لیا کرو اور فرماتے تھے کہ غلیل اور بندوق کا حکم بھی تِیر کی طرح ہے۔ یعنی اگر جانور ذبح سے پہلے ہی مر جائے تو وہ حلال ہے۔ یہ ذکر اس بات پر چلا تھا۔ کہ بھائی عبدالرحیم صاحب اکثر پرندے غلیل سے مار کر لایا کرتے تھے۔ مَیں نے عرض کیا کہ کئی پرندے وہیں ذبح سے پہلے مر جاتے ہیں۔ تو بھائی جی ان کو حرام سمجھ کر چھوڑ آتے ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ تکبیر پڑھ کر مار لیا کریں۔ پھر اگر ذبح سے پہلے مر بھی جائیں تو جائز ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جاوے یعنی اس کے ذبح کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ تو تکبیر پڑھنے کی صُورت میں وہ جائز ہے یہ مراد نہیں کہ ذبح کا موقعہ ہو مگر پھر بھی ذبح نہ کیا جائے۔
{ 630} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے میرے علم میں بذریعہ ریل حسب ذیل جگہوں کا سفر کیا ہے۔
گورداسپور۔ پٹھانکوٹ۔ امرتسر۔ لاہور۔ سیالکوٹ۔ جموں۔ جہلم۔ دہلی۔ لدھیانہ۔ جالندھر۔ انبالہ چھائونی۔ فیروز پور چھائونی۔ پٹیالہ۔ ملتان اور علی گڑھ۔ اور حضرت صاحب نے ہوشیارپور کا مشہور سفر بذریعہ سڑک کیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب یکّہ پر ڈلہوزی بھی تشریف لے گئے تھے۔ نیز سنّور بھی گئے تھے مگر وہ پٹیالہ کے سفر کا حصہ ہی تھا۔
{631} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حکیم عبیداللہ صاحب بسمل مرحوم نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار (یعنی بسمل صاحب) کا عقیدہ معتزلہ کے قریب قریب تھا۔ گو والدین حنفی مذہب اور نقشبندی مشرب تھے۔ لیکن بعض اساتذہ کی تلقین سے میرا عقیدہ رفض اور اعتزال کی طرف مائل ہو گیا تھا۔ اور ’’ ارجح المطالب‘‘ کے چھاپنے پر مجھ کو ناز تھا۔ کہ یکایک میرے مہربان دوست مفتی محمد صادق صاحب سے مجھ کو حضرت مسیح موعودؑ کی تصنیف کتاب ’’ سرّ الخلافہ ‘‘ عاریتاً ہاتھ آئی۔ اس کتاب کے مطالعہ نے ایک ہی دن میں میرے عقیدے میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ کتاب دیکھ رہا تھا۔ نیند کا غلبہ ہو گیا۔ اور سو گیا۔ خواب میں جناب امام حسینؓ کی زیارت ہوئی کہ ایک بلند مقام پر استادہ ہیں اور ایک صاحب سے فرما رہے ہیں کہ مرزا صاحب کو جا کر خبر کردو کہ مَیں آ گیا ہوں۔ صبح اُٹھ کر مَیں نے قادیان کا تہیّہ کر لیا اور لاہور سے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسٰے کے ساتھ قادیان آیا۔ رات بٹالہ میں گزاری۔ صبح جب دارالامان پہنچا تو مولوی سیّد عبداللطیف صاحب شہید سے مہمان خانہ میں ملاقات ہوئی۔ ان کا چہرہ دیکھتے ہی وہ رات کے خواب کی شبیہ آنکھوں میں آ گئی ۔ مگر اللہ رے غفلت! ایک خیال تھا کہ فوراً دل سے اُتر گیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام ہنوز برآمد نہ ہوئے تھے۔ کہ مسجد مبارک میں جا کر حضور کی تشریف آوری کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں حضرت حکیم الامت (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب۔ خاکسار مؤلف) تشریف لے آئے۔ ابھی کچھ دیر نہیں گزری تھی۔ کہ دروازہ کُھلا اور آفتابِ رسالت بیت الشرف سے برآمد ہوا۔ خاکسار درود پڑھتا ہوا آگے ہوا۔ اور دست بوس حاصل کیا۔ دسترخوان بچھا اور حقائق و معارف کا دریا بہنے لگا۔ عصمت انبیاء کا مسئلہ حضور نے اس وضاحت سے حل فرمایا۔ کہ میرا دل وجد کرنے لگ گیا۔ یہ عجالہ اس کی تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بعض علماء کا مذہب ہے کہ انبیاء محفوظ ہوتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ قبل از بعثت محفوظ ہوتے ہیں۔ اور بعد از بعثت معصُوم۔ اور بعض کے نزدیک صغائر سے محفوظ اور کبائر سے معصوم ہوتے ہیں اور بعض کے نزدیک محض تبلیغ وحی میں معصوم اور دیگر کبائر و صغائر میں محفوظ ہوتے ہیں۔ حضور علیہ السلام کی تقریر اس شرح و بسط کے ساتھ تھی۔ کہ جس کے اعادہ کے لئے وقت کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُسکی پوری تفصیل خاکسار شاید ادا بھی نہ کر سکے۔ تناولِ طعام کے بعد حضرت حرم سرائے میں تشریف لے گئے۔ مسجد سے اکثر اصحاب چلے گئے۔ اور ایک گھنٹہ کے بعد حضرت پھر برآمد ہوئے۔ اور مولوی عبدالکریم صاحب کو یاد فرمایا۔ مولوی صاحب کے حاضر ہونے کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس وقت یہ شعر الہام ہوا ہے۔
’’ چو دَورِ خسروی آغاز کردند مُسلماں را مُسلماں باز کردند‘‘
خاکسار نے عرض کیا۔ دَورِ خُسروی ایک صدی کے بعد شروع ہو گا۔ جیسا کی حضرت عیسٰے علیہ السلام کے بعد قسطنطین اعظم کے عہد سے شروع ہوا تھا۔ حضرت نے فرمایا۔ نہیں جلد شروع ہو گا۔ پھر مَیں نے عرض کیا۔ مسلماں را مسلماں بازکردند کے معنے شاید یہ ہیں کہ غیر احمدیوں کو احمدی بنایا جائے گا۔ فرمایا اس کے معنے اَور ہیں ،وقت پر دیکھ لو گے۔
پھر جب ملکانہ میں مسلمانوں کے مرتد گروہ خلیفۂ ثانی کے عہد میں دوبارہ مسلمان ہوئے۔ تو یاد آگیا کہ مصرع الہامی کے معنے درحقیقت مسلمانوں کو جو ارتداد کی بلا میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔ پھر مسلمان کرنے کے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ مَیں نے اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا۔
دوسرے روز مہمانخانہ میں خاکسار ایک نووارد مہمان سے ملا۔ اس کے پاس فارسی دُرّثمین کا مطالعہ کرنے کو بیٹھ گیا۔ کتاب کو کھولتے ہی اس شعر پر نگاہ جا اٹکی۔
کر بلائے است سیر ہر آنم صد حسین است درگریبانم
یہ شعر پڑھ کر سوچ رہا تھا۔ کہ مہمانخانہ کے دروازہ پر نظر پڑی۔ دیکھا کہ مولانا سیّد عبداللطیف صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ مَیں اُٹھ کر ان سے ملاقات کرنے کو گیا۔ پھر جب سیّد صاحب مذکور کابل میں پہنچ کر شہید ہو گئے۔ تو اس شعر کے معنے خاکسار پر ظاہر ہوئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مولوی عبیداللہ بسمل جو ابھی چند دن ہوئے قریباً نوے سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں فارسی اور تاریخ کے نہایت کامل استاد تھے۔ حتٰی کہ مَیں نے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل سے سُنا ہے کہ ان کے متعلق ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب فارسی کے اتنے بڑے عالم ہیں کہ مجھے رشک ہوتا کہ کاش مجھے یہ علم عربی میں حاصل ہوتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب مرحوم شاعر بھی تھے اور بہت زندہ دل تھے۔ شروع شروع میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مدرس بھی رہ چکے ہیں۔ چنانچہ مَیں بھی ان سے پڑھا ہوں۔ اُردو میں بھی نہایت ماہر تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے آمین۔ محررہ ۹/ اکتوبر ۱۹۳۸ئ۔
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب کی خواب میں جو یہ ذکر ہے کہ خواب میں امام حسینؓ نے یہ کہا کہ مرزا صاحب سے کہدو کہ مَیں آگیا ہوں اس میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ جو قریب کے زمانہ میں ہونے والی تھی۔ واللّٰہ اعلم۔
{632} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹرغلام احمد صاحب۔ آئی۔ ایم۔ ایس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ میرے والد شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس سندھ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے بعد اندر تشریف لے جا رہے تھے تو مَیں نے ایک کپڑا حضرت صاحب کو دیا۔ جو کہ حضرت ام المؤمنین کے لئے تھا۔ حضور نے میری طرف چنداں توجہ نہ کی اور نہ ہی نظر اُٹھا کر دیکھا کہ کس نے دیا ہے۔ اس کے بعد ایک دن میری والدہ صا حبہ نے مجھ سے ذکر کیا۔ کہ ایک دفعہ حضرت اُمّ المؤمنین نے ان سے فرمایا کہ ایک دن حضرت صاحب ہنستے ہوئے اندر تشریف لائے اور ایک کپڑا مجھے دے کر فرمایا۔ کہ معلوم ہے یہ کپڑا تمہیں کس نے دیا ہے؟ پھر فرمایا۔ یہ اسی کے بیٹے نے دیا ہے جس نے تمہارے ٹرنک لیکھرام کی تلاشی کے وقت توڑے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ شیخ نیاز محمد صاحب میاں محمد بخش کے لڑکے ہیں۔ جو حضرت صاحب کے زمانہ میں کئی سال تک بٹالہ میں تھا نہ دار رہے تھے۔ اور سخت مخالف تھے۔ حضرت صاحب کو اس خیال سے کس قدر رُوحانی سرور حاصل ہوا ہو گا۔ کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مخالفین کی اولاد کو پکڑ پکڑ کر حضور کے قدموں میں گرا رہا ہے۔
{ 633} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور کو الہام ہوا۔ ’’ لَکَ خِطَابُ الْعِزَّۃِ ‘‘۔ ایک عزت کا خطاب۔ ایک عزت کا خطاب۔ اس کے ساتھ ایک بڑا نشان ہو گا۔‘‘ چنانچہ ان چاروں فقروں کو ایک کاغذ پر خوشخط لکھوا کر مسجد مبارک کی شمالی دیوار پر لگوا دیا گیا۔ جہاں یہ کاغذ مدّت تک لگا رہا۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک الہام ’’ غَثَمَ غَثَمَ غَثَمَ لَہٗ دَفَعَ اِلَیْہِ مِنْ مَّالِہٖ دَفْعَۃً ‘‘ ہوا۔ تو اس کو بھی اسی طرح لگوایا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ بعض الہامات یا فقرات وغیرہ یاد دہانی یا دُعا یا یادگار کے لئے مسجد یا مکان کے کسی حصہ میں آویزاں کروا دیتے تھے۔
{ 634} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی سابق کلرک محکمہ ریلوے لاہور نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک سفر میں لاہور اسٹیشن پر اُترے تو ایک مسجد میں جو ایک چبوترے کی شکل میں تھی۔ آرام کے لئے بیٹھ گئے یہ مسجد اس جگہ تھی جہاں اب پلیٹ فارم نمبر ۴ ہے۔ پنڈت لیکھرام وہاں آیا۔ اور اس نے حضرت صاحب کو جھک کر سلام کیا تو حضورنے اس سے منہ پھیر لیا۔ دوسری مرتبہ پھر اس نے اسی طرح کیا۔ پھر بھی آپ نے توجہ نہ فرمائی۔ اس پر بعض خدام نے عرض کیا کہ حضور! پنڈت لیکھرام سلام کے لئے حاضر ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفٰی ﷺ کو گالیاں دینے والے کا ہم سے کیا تعلق ہے؟ اسی طرح وہ سلام کا جواب حاصل کرنے میں ناکام چلا گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اسی واقعہ کا ذکر بروایت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی روایت نمبر ۲۸۱ میں بھی ہو چکا ہے۔
{ 635} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم تاجر لاہور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی اور دعوت کا اہتمام خاکسار کے سپرد کیا۔ پلائو نرم پکا۔ غفلت باورچیوں کی تھی۔ شیخ صاحب کھانا کھلانے کے وقت عذرخواہی کرنے لگے کہ بھائی غلام حسین کی غفلت سے پلائو خراب ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ کہ گوشت۔ چاول۔ مصالحہ اور گھی سب کچھ اس میں ہے۔ اور مَیں گلے ہوئے چاولوں کو پسند کرتا ہوں۔ یہ آپ کی ذرّہ نوازی کی دلیل ہے۔ کہ غلطی پر بھی خوشی کا اظہار فرمایا۔ ممکن ہے کہ حضور دانے دار پلائو کو پسند فرماتے ہوں۔ لیکن خاکسار کو ملامت سے بچانے کے لئے ایسا فرمایاہو۔
{ 636} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے صبح کے قریب جگایا۔ اور فرمایا۔ کہ مجھے ایک خواب آیا ہے۔ مَیں نے پوچھا کیا خواب ہے۔ فرمایا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ میرے تخت پوش کے چاروں طرف نمک چُنا ہوا ہے۔ مَیں نے تعبیر پوچھی۔ تو کتاب دیکھ کر فرمایا۔ کہ کہیں سے بہت سا روپیہ آئے گا۔ اس کے بعد مَیں چار دن یہاں رہا۔ میر ے سامنے ایک منی آرڈر آیا۔ جس میں ہزار سے زائد روپیہ تھا۔ مجھے اصل رقم یاد نہیں۔ جب مجھے خواب سُنائی۔ تو ملاوامل اور شرم پت کو بھی بلا کر سُنائی۔ جب منی آرڈر آیا۔ تو ملاوامل و شرم پت کو بلایا ۔ اور فرمایا۔ کہ لو بھئی یہ منی آرڈر آیا ہے۔ جا کر ڈاکخانہ سے لے آئو۔ ہم نے دیکھا تو منی آرڈر بھیجنے والے کا پتہ اس پر درج نہیں تھا۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا کہ کس نے بھیجا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آجکل کے قواعد کے رُو سے رقم ارسال کنندہ کو اپنا پتہ درج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس زمانہ میں یہ قاعدہ نہ ہو۔ یا مرزا دین محمد صاحب کو پتہ نہ لگا ہو۔
{ 637} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں اپنے گائوں سیکھواں سے قادیان آیا۔ حضور علیہ السَّلام کی عادت تھی کہ گرم موسم میں عموماً شام کے وقت مسجد مبارک کے شاہ نشین پر تشریف فرما ہوتے اور حضور کے اصحاب بھی حاضر رہتے۔ اس روز عشاء کی نماز کے بعد آپ شاہ نشین پر تشریف فرما ہوئے۔ میر ناصر نوابؓ صاحب نے قادیان کے بعض گھمار طبقہ کی بیعت کا ذکر کیا۔ اور کہا کہ یہ لوگ حضرت صاحب سے کوئی خاص تعلق پیدا نہیں کرتے مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے میر صاحب موصوف کے کلام کے جواب میں کہا۔ کہ دیہاتی لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ ہو گئی۔ تو آپ نے فرمایا۔ کہ کیا بات ہے مولوی صاحب نے میر صاحب اور ان کی گفتگو کا تذکرہ کر دیا۔ اس پر حضرت صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کی تائید فرمائی اور فرمایا۔ کہ میر صاحب دیہات کے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مَیں اس وقت مجلس میں اپنی کمزوریوں کو یاد کر کے اور یہ خیال کر کے کہ مَیں بھی دیہاتی ہوں مغموم و محزون بیٹھا ہوا تھا۔ لیکن اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ میاں جمال الدین صاحب و میاں امام الدین و میاں خیرالدین تو ایسے نہیں ہیں۔ جب حضور نے ہم تین بھائیوں کو عام دیہاتیوں سے مستثنیٰ کر دیا تو میرے تمام ہموم دور ہو گئے۔ اور میرا دل خوشی سے بھر گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی اعراب لوگوں کا ایمان اسی طرح کا ہوتا تھا۔ مگر ان سے وہ لوگ مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جو نبی کی صحبت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اور خدا کے فضل سے ہماری جماعت کے اکثر دیہاتی نہایت مخلص ہیں۔ دراصل ایمان کی پختگی کا مدار شہری یا دیہاتی ہونے پر نہیں بلکہ صحبت اور استفاضہ اور پھر علم و عرفان پرہے۔ لیکن چونکہ نبی سے دُور رہنے والے دیہاتیوں کو یہ موقعے کم میسر آتے ہیں۔ اس لئے وہ عموماً کمزور رہتے ہیں۔ بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو اعراب کا لفظ آتا ہے۔ اس کے معنے دیہاتی کے نہیں ہیں۔ بلکہ اس سے مجلس نبوی سے دور رہنے والے بادیہ نشین لوگ مراد ہیں۔
{ 638} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کو سخت کھانسی ہوئی۔ ایسی کہ دم نہ آتا تھا۔ البتہ منہ میں پان رکھ کر قدرے آرام معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت آپ نے اس حالت میں پان مُنہ میں رکھے رکھے نماز پڑھی۔ تاکہ آرام سے پڑھ سکیں۔
{ 639} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب مسواک بہت پسند فرماتے تھے۔ تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے۔ گو التزاماً نہیں۔ وضو کے وقت صرف انگلی سے ہی مسواک کر لیا کرتے تھے۔ مسواک کئی دفعہ کہہ کر مجھ سے بھی منگائی ہے۔ اور دیگر خادموں سے بھی منگوا لیا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات نماز اور وضو کے وقت کے علاوہ بھی استعمال کرتے تھے۔
{ 640} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کی ۲۷ تاریخ تھی۔ منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری بھی سیکھواں سے قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح نماز فجر کے لئے تشریف لائے اور فرمایا۔ کہ آج شب گھر میں دردِ زہ کی تکلیف تھی (ہمشیرہ مبارکہ بیگم اسی شب میں پیدا ہوئی تھیں خاکسار مؤلف) دعا کرتے کرتے لیکھرام سامنے آ گیا۔ اس کے معاملہ میں بھی دعا کی گئی۔ اور فرمایا۔ کہ جو کام خدا کے منشاء میں جلد ہو جانے والا ہو۔ اس کے متعلق دُعا میں یاد کرایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے چوتھے روز لیکھرام مارا گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ۱۸۹۷ء مطابق ۱۳۱۴ھ کا واقعہ ہے۔ مبارکہ بیگم ۲۷؍رمضان ۱۳۱۴ھ کو پیدا ہوئی تھیں۔ جو غالباً ۲؍ مارچ ۱۸۹۷ء کی تاریخ تھی۔ اور لیکھرام عید کے دوسرے دن ۶؍مارچ بروز ہفتہ زخمی ہو کر ۶ اور ۷ کی درمیانی شب کو بعد نصف شب اس دُنیا سے رخصت ہوا تھا۔ مبارکہ بیگم کی ولادت کی دُعا کے وقت حضرت صاحب کے سامنے عالمِ توجہ میں لیکھرام کا آجانا اور حضرت صاحب کا اس کے معاملہ میں بھی دُعا کرنا اور پھر اس کا چار روز کے اندر اندر مارا جانا ایک عجیب تصّرف الٰہی ہے۔ جس کے تصوّر سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔
{ 641} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر ۱۱ حصہ اوّل طبع دوم اور روایت نمر ۳۶۰ حصہ دوم میں ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی پیدائش کے دن میں اختلاف ہے۔ یعنی مقدم الذکر روایت میں منگل سے بعد والی رات مذکور ہے اور مؤخر الذکر روایت میں منگل سے پہلی رات بیان کی گئی ہے اس کے متعلق مجھے مولانا محمد اسمٰعیل صاحب فاضل نے بتایا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وہ منگل سے پہلی رات تھی۔ اور مولوی صاحب کی دلیل یہ ہے کہ حضرت صاحب نے تریاق القلوب میں لکھا ہے کہ مبارکہ بیگم ۲۷؍رمضان ۱۳۱۴ھ کو پیدا ہوئی تھیں۔ اور تفصیلی طور پر حساب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال ۲۷؍رمضان کو منگل کا دن تھا۔ اور چونکہ قمری مہینوں میں رات دن سے پہلے شمار ہوتی ہے۔ اس لئے ثابت ہوا۔ کہ وہ منگل کے دن سے پہلی رات تھی۔ اور شمسی حساب کی رُو سے وہ یکم مارچ اور ۲؍مارچ ۱۸۹۷ء کی درمیانی رات بنتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی بعض تحریرات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ لیکھرام کے قتل کی اطلاع قادیان میں اسی دن آئی تھی جس دن مبارکہ بیگم کا عقیقہ تھا اور مندرجہ بالا حساب سے پیدائش کے بعد عقیقہ کا ساتواں دن پیر کا دن بنتا ہے جو ۸ ؍مارچ کا دن تھا۔ لیکن حضرت صاحب کے ایک اشتہار سے پتہ لگتا ہے کہ لیکھرام کے قتل کی اطلاع قادیان میں ۹؍مارچ کو آئی تھی۔ پس یا تو عقیقہ بجائے ساتویں دن کے آٹھویں دن ہوا ہو گا۔ اور یا ۹؍مارچ کی باقاعدہ اخباری اطلاع سے پہلے کوئی زبانی اطلاع ۸؍ مارچ کو آ گئی ہو گی۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 642} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ مَیں قبل از دعویٰ بھی حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کر تا تھا۔ غالباً انہی ایام کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ مجھے ایک خواب آیا کہ حضرت صاحب ہماری سیکھواں کی مسجد میں تشریف لائے ہیں۔ میرے ذہن میں اس وقت یہ آیا کہ حضرت صاحب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کیا کرتے ہیں کہ آپ بلند قامت تھے مگر حضرت صاحب تو خود بھی بلند قامت ہیں۔ اسی وقت میرا ذہن اس بات کی طرف منتقل ہو گیا کہ یہ رسُول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ مَیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خواب بیان کی۔ آپ نے فرمایا۔ کہ قسم کھا کر بیان کرو۔ چنانچہ میرے ایسا کرنے پر آپ ایک چھوٹی کاپی نکال لائے اور اُس میں یہ خواب اپنے قلم سے درج کی۔ اور فرمایا کہ اگر کوئی انسان فنافی الرسول ہو جائے تو درحقیقت وہ وہی بن جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ ’’ ہمارا ارادہ ہے کہ ایسی خوابوں کو کتابی صُورت میں شائع کیا جائے‘‘۔
{ 643} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی فخرالدین صاحب پنشنر حال محلہ دارالفضل قادیان نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ غالباً ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء کا واقعہ ہے۔ کہ پہلی دفعہ خاکسار قادیان آیا۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضور انور کی زیارت کے لئے ہر وقت دل میں تڑپ رہتی تھی لیکن حضور کی مصروفیت دینی کی و جہ سے سوائے نمازوں یا صبح کی سیر کے موقعہ نہیں ملتا تھا۔ ایک دن صبح ۸۔۹ بجے کے درمیان چھوٹی مسجد (مسجدمبارک) میں بیٹھا تھا کہ ساتھ کے شمالی کمرہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز سُنائی دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی مرد کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔مَیں نے دریچے کی دراڑوں سے دیکھا۔ تو معلوم ہوا کہ حضرت اقدس ٹہل رہے ہیں۔ اور کوئی راج مکان کی مرمت یا سفیدی کر رہا ہے۔ باتوں باتوں میں آریوں کی مخالفت کا ذکر آ گیا اور قادیان کے آریوں کی ایذادہی کے ضمن میں آپ نے اس مستری کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ جہاں ان لوگوں کی مڑھیاں ہیں وہاں گائیوں کے ذبح کرنے کے لئے مذبح بنایا جائے۔ بس یہ فقرہ تھا جو مَیں نے سُنا۔اور آج حضور کی اس بات کو پورا ہوتے دیکھتا ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے معجزہ کے طور پر مذبح اسی جگہ کے قریب بنایا۔ جہاں ہندوئوں کی مڑھیاں ہوا کرتی تھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بالعموم حضرت مسیح موعود علیہ السلام جملہ غیر مذاہب کے لوگوں کی بہت دلداری فرماتے تھے اور ان کی دل شکنی سے پرہیز فرماتے تھے۔ لیکن جب قادیان کے غیر مسلموں کی ایذارسانی حد سے گذر گئی تو پھر آپ نے کسی علیحدگی کے وقت میں ایمانی غیرت میں یہ الفاظ کہہ دئیے ہوں گے۔ جو خدا نے پورے کر دئیے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جن مڑھیوں کا اس روایت میں ذکر ہے وہ اب چند سال سے دوسری جگہ منتقل ہو گئی ہیں۔ مگر یہ جگہ بدستور مڑہیوں کی یاد میں محفوظ ہے۔ اور اب آ کر اسی کے قریب مذبح بنا ہے۔
{ 644} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی امام الدین صاحب آف گولیکی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ خاکسار کا لڑکا قاضی محمدظہور الدین اکمل ایام تعلیم انٹرنس میں گجرات کے ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ وہ سخت بیمار ہو گیا۔ چنانچہ آئندہ ترقی نہ کر سکا۔ ہر چند علاج معالجہ کے علاوہ فقراء سے دعائیں کروائیں۔ مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر ایک ماہر طبیب نے میری والدہ مرحومہ اور مجھے الگ بلا کر کہہ دیا کہ آپ اس لڑکے کی ادویہ پر کچھ زیادہ خرچ نہ کریں۔ کیونکہ اب تپِ دق دوسرے درجہ میں ہے جو کہ جلد ہی تیسرے درجہ تک پہنچ کر بالکل مایوس کردیگا۔ اب صبر کریں۔ ادھر عالموں اور مشائخوں نے بھی ناامید کر دیا۔ اور صبر ہی کو کہا۔ اگرچہ مَیں ان دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مرید ہو گیا تھا۔ مگر کچھ شکوک تھے اور کچھ موانع دنیوی تھے آخر مَیں مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کے ہمراہ جو ان ایام میں میرے پاس پڑھتے تھے۔ قادیان دارالامان میں آیا اور ہم نے مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھایا۔ اسی اثناء میں مَیں نے حضور سے عرض کر دی۔ کہ حضور میرا لڑکا بعارضہ تپِ دق بیمار ہے اور اطبّا نے مایوس کر دیا ہے اور مَیں نے یہ بات سُنی ہوئی ہے۔ کہ ’’سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شَفَائٌ ‘‘ یعنی مومن سے بچا ہوا کھانا شفا ہوتا ہے۔ اس لئے آپ کے پس خوردہ کا سائل ہوں۔ حضور نے تناول فرماتے ہوئے فرمایا کہ یہ اٹھا لو۔ یہ الفاظ سُنتے ہی مولوی غلام رسول صاحب نے فوراً دسترخوان سے حضرت اقدس کا پس خوردہ اٹھا لیا اور روٹی کے بھورے بنا کر محفوظ کر لئے۔ اور گولیکی جا کر آہستہ آہستہ برخوردار کو کھلانے شروع کر دئیے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اُسے شفا دے دی۔ یہ واقعہ تقریباً ۱۸۹۸ء کا ہے۔
{ 645} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسیح ؑ کے بے باپ پیدا ہونے کا ذکر تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے مسیحؑ کو بے باپ پیدا کیا تاکہ یہ ظاہر کرے کہ اب بنی اسرائیل میں ایک مرد بھی ایسا باقی نہیں رہا جس کے نطفہ سے ایک پیغمبر پیدا ہو سکے۔ اور اب اس قوم میں نبوّت کا خاتمہ ہے اور آئندہ بنی اسمٰعیل میں نبی پیدا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے اس نکتہ کو اپنی بعض کتابوں میں بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ خدا نے بنی اسرائیل سے نبوّت کا انعام تدریجاً چھینا ہے۔ اوّل اوّل حضرت یحیٰی کو ایک بوڑھے اور مایوس شخص کے گھر خارق عادت طور پر پیدا کیا۔ جس سے یہ جتانا منظور تھا۔ کہ اب بنی اسرائیل سے نبوّت کا انعام نکلنے والا ہے اور وہ اپنے اعمال کی و جہ سے محروم ہو چکے ہیں۔ صرف خدا کے فضل نے سنبھال رکھا ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیحؑ کو ایک ایسی عورت کے بطن سے پیدا کیا۔ جسے کبھی کسی مرد نے نہیں چھوا تھا اور چونکہ نسل کا شمار پدری جانب سے ہوتا ہے اس لئے گویا بڑی حد تک بنی اسرائیل سے نبوت کو چھین لیا۔ اور آخر آنحضرت ﷺ کو پیدا کرکے نبوّت کو کلّی طور پر بنواسمٰعیل کی طرف منتقل کر لیا گیا۔
{ 646} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ عربی خطبہ الہامیہ جو آپ نے بقرعید کے موقعہ پر بیان فرمایا تھا۔ وہ خطبہ الہامیہ کتاب کا صرف باب اوّل ہی ہے۔ باقی کتاب الہامی خطبہ نہیں ہے۔ اس خطبہ کے بعد آپ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض لوگ اسے حفظ کر لیں۔ اس پر خاکسار اور مولوی محمد علی صاحب نے اسے حفظ کر لیا تھا۔ حضور فرماتے تھے کہ ہم کسی دن مسجد کی مجلس میں سُنیں گے مگر اس کے سُننے کا موقعہ نہ ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ ۱۹۰۰ء کی عید اضحٰی کے موقعہ پر ہوا تھا اور اصل الہامی خطبہ مطبوعہ کتاب کے ابتدائی ۳۸ صفحات میں آ گیا ہے۔ اگلا حصہ عام تصنیف ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ سے یہ مراد نہیں کہ اس خطبہ کا لفظ لفظ الہام ہوا۔ بلکہ یہ کہ وہ خدا کی خاص نصرت کے ماتحت پڑھا گیا اور بعض بعض الفاظ الہام بھی ہوئے۔
{ 647} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جہلم کے سفر میں خاکسار حضرت صاحب کے ہمراہ تھا۔ راستہ میں اسٹیشنوں پر لوگ اس کثرت سے حضرت صاحب کو دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ کہ ہم سب تعجب کرتے تھے کہ ان لوگوں کو کس نے اطلاع دے دی ہے۔ بعض نہایت معمولی اسٹیشنوں پر بھی جو بالکل جنگل میں واقع تھے بہت کثرت سے لوگ پہنچ گئے تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی خاص کشش ان کو کھینچ کر لائی ہے۔ جہلم پہنچ کر تو حد ہی ہو گئی۔ جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے۔ لوگوں کے لئے حضرت صاحب کو دیکھنے کے واسطے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ حضرت کو ایک مکان کی چھت پر بٹھا دیا گیا ورنہ اور کوئی طریق اس وقت اختیار کرنا بو جہ اژدہام کے ناممکن تھا۔ اس سفر میں سیّد عبداللطیف صاحب شہید بھی حضرت کے ہمراہ تھے۔ احاطہ کچہری میں مجھ سے حضور باتیں کر رہے تھے کہ عجب خان صاحب تحصیلدار نے فرطِ محبت سے حضور کی خدمت میں ہاتھ دینے کے لئے عرض کی۔ حضور نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ عجب خان صاحب نے حضور کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ یہ سفر جہلم کرم دین جہلمی کے مقدمہ میں پیش آیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عجب خان صاحب تحصیلدار زیدہ ضلع پشاور کے رہنے والے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے بعد وہ خلافت سے منحرف ہو کر غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے تھے۔
{ 648} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جھاڑی بوٹی کے بیر (کوکن بیر) حضرت جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِ کی خدمت میں خاکسار نے تُحفۃً پیش کئے۔ اس کے کچھ وقت بعد حضور تھوڑی دیر کے لئے لیٹے تو دائیں جانب شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم پائوں دبا رہے تھے اور بائیں طرف خاکسار تھا۔ خاکسار کا ہاتھ اتفاقاً حضور کی جیب سے چُھو گیا۔ تو فرمایا۔ یہ وہی بیر ہیں جو آپ میرے لئے لائے تھے۔ مَیں ان کو بہت پسند کرتا ہوں۔ جب حضرت اقدس اندر تشریف لے گئے۔ تو شیخ صاحب نے فرمایا۔ بھئی تم بڑے خوش نصیب ہو۔ کہیں سے مانگ کر ایک دھیلے کے بیر لائے ہو اور حضرت اقدس سے پروانہ خوشنودی حاصل کر لیا۔ مَیں تو سات روپیہ کے انگور لایا تھا۔ اس کا ذکر ہی نہیں ہوا۔ مَیں نے عرض کی کہ آپ کو مطبوعہ سرٹیفیکیٹ ازالہ اوہام اور انجامِ آتھم میں مِل چکا ہے اور خاکسار کو زبانی سرٹیفیکیٹ مل گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ہدیہ کی قبولیّت اور اس پر خوشنودی کسی کے بس کی بات نہیں ۔یہ دینے والے کی نیت اور اخلاص پرمبنی ہے۔ جس میں ہدیہ کی قیمت کا کوئی دخل نہیں۔ ویسے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم حضرت صاحب کے لئے بہت کثرت سے ہدیے لاتے تھے۔ اور حضرت صاحب ان پر خوش تھے۔
{ 649} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مفتی فضل الرحمن صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ دورانِ مقدمہ گورداسپور میں رات کے دو بجے کے قریب مَیں اپنے کمرہ میں سویا ہوا تھا کہ کسی نے میرا پائوں دبایا۔ مَیں فوراً جاگ اُٹھا۔ اندھیرا تھا۔ مَیں نے پوچھاکون ہے؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ میاں فضل الرحمن! مولوی یار محمد صاحب ابھی قادیان سے آئے ہیں۔ وہ بتلاتے ہیں۔ کہ والدہ محمود احمد بہت بیمار ہیں۔ مَیں خط لکھتا ہوں۔ آپ جلدی گھوڑا تیار کریں اور ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب لائیں۔ چنانچہ مَیں نے اُٹھ کر کپڑے پہنے۔ اور گھوڑے کو دانہ دیا۔ اور حضور علیہ السَّلام اپنے کمرہ میں خط لکھتے رہے۔ جب مَیں گھوڑا تیار کر چکا۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے صبح کی اذان کہی۔ اور مَیں خط لیکر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ اور فوراً قادیان پہنچا۔ یہاں اس وقت چھوٹی مسجد میں نمازِ صبح پڑھی جا رہی تھی۔ مَیں نے گھر پر فوراً دستک دی اور لفافہ ام المؤمنین علیہا السلام کے ہاتھ میں دیا اور عرض کیا کہ مولوی یار محمد صاحب نے وہاں جا کر آپ کی علالت کا ذکر کیا تو حضور نے مجھے فوراً روانہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ الحمدللہ مَیں تو اچھی بھلی ہوں۔ ان کو کوئی غلطی لگی ہو گی۔ مَیں نے عرض کیا کہ لفافہ میں سے خط آپ نکال لیں اور لفافہ پر مجھے اپنے قلم سے خیریت لکھ دیں۔ چنانچہ آپ نے خیریت لکھدی۔ اور مَیں لیکر فوراً واپس ہوا۔ جب میں گورداسپور پہنچا۔ تو گھوڑا باندھ کر خط لیکر اندر گیا۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے فرضوں سے سلام پھیرا تھا۔ مَیں نے السَّلام علیکم کہا۔ تو حضور اقدس نے فرمایا۔ کہ کیا آپ ابھی یہیں ہیں مَیں نے عرض کیا۔ کہ حضور مَیں تو جواب بھی لے آیا ہوں۔ فرمایا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ مَیں نے رسید پیش کی۔ تو حضرت اقدس اس امر پر تمام دن ہنستے اور متعجب ہوتے رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو واقعات پُرانی کتابوں میں جنّات کے متعلق پڑھتے تھے۔ یہ واقعہ اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے۔ کہ صبح کی اذان کے وقت مفتی صاحب گورداسپور سے چلے اور سولہ سترہ میل کے فاصلہ پر قادیان پہنچے اور پھر اس قدر فاصلہ دوبارہ طے کرکے واپس گورداسپور پہنچ گئے اور ہنوزابھی صبح کی نماز ختم ہی ہوئی تھی۔ یہ درست ہے کہ مفتی صاحب نے جوانی کے عالم میں گھوڑے کو خوب بھگایا ہو گا۔ اور وہ ماشاء اللہ خوب شاہسوار ہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اذان اور نماز میں اس دن غیر معمولی توقف ہو گیا ہو۔ یا اذان غلطی سے کسی قدر قبل از وقت دیدی گئی ہو۔ یا مفتی صاحب ختم نماز سے تھوڑی دیر بعد پہنچے ہوں۔ مگر انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ بس ابھی نماز ختم ہوئی ہے وغیرذالک۔ مگر پھر بھی تینتیس چونتیس میل کے سفر کا اذان اور ختم نماز کے درمیان یا اس کے جلد بعد طے ہو جانا بظاہر نہایت تعّجب انگیز ہے۔ واللّٰہ اعلم۔ تاہم کوئی بات تعجب انگیز ہوئی ضرور ہے۔ کیونکہ مفتی صاحب یہ واقعہ متعدد دفعہ سُنا چکے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ میرے سامنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ کو بھی سُنایا تھا۔ اور حضرت امیرالمؤمنین حیرت کا اظہار کرکے خاموش ہو گئے تھے اور خود مفتی صاحب بھی بہت تعّجب کیا کرتے ہیں کہ ایسا کیونکر ہو گیا مگر کہا کرتے ہیں کہ واقعہ یہی ہے۔ اگر کسی قدر اندازے کی غلطی اور کسی قدر یاد کی غلطی اور کسی قدر بیان کی بے احتیاطی کی بھی گنجائش رکھی جائے۔ تو پھر بھی یہ واقعہ بہت تعّجب کے قابل ہے۔
{ 650} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا۔ ایک دفعہ ایام جلسہ میں سیرسے واپسی پر جہاں اب مدرسہ تعلیم الاسلام ہے۔ حضور علیہ السلام تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر گئے۔ ایک دوست نے چادر بچھا دی جس کو پنجابی میں لوئی کہتے ہیں ۔ اس پر حضور علیہ السلام بیٹھ گئے۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو ابھی بچہ تھے کھڑے رہے اس پر حضور علیہ السلام نے دیکھ کر فرمایا: میاں محمود ! تم بھی بیٹھ جائو۔ اس پر آپ چادر پر بیٹھ گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا عام طریق یہ تھا کہ یا تو اپنے بچوں کو صرف نام لے کر بلاتے تھے اور یا خالی میاں کا لفظ کہتے تھے۔ میاں کے لفظ اور نام کو ملا کر بولنا مجھے یاد نہیں مگر ممکن ہے کسی موقعہ پر ایسا بھی کہا ہو۔
{ 651} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ فلاں غیر احمد ی مولوی حضرت صاحبزادہ صاحب (یعنی حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) کے مضامین رسالہ تشحیذ الاذہان میں پڑھ کر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب کے بعد ان کا بیٹا ان کی دکان چلائے گا۔ حضور علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف نظر اٹھا کر صرف دیکھا اور زبانی کچھ نہ فرمایا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دعا فرما رہے ہیں۔
{ 652} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاجاموں میں مَیں نے اکثر ریشمی ازار بند پڑا ہوا دیکھا ہے اور ازار بند میں کنجیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا۔ ریشمی ازار بند کے متعلق بعض اوقات فرماتے تھے کہ ہمیں پیشاب کثرت سے اور جلدی جلدی آتا ہے تو ایسے ازار بند کے کھولنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔
{ 653} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ حکیم فضل دین صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور مجھے قرآن پڑھایا کریں آپ نے فرمایا اچھا وہ چاشت کے قریب مسجد مبارک میں آجاتے اور حضرت صاحب ان کو قرآن مجید کا ترجمہ تھوڑا سا پڑھا دیاکرتے تھے یہ سلسلہ چند روز ہی جاری رہا پھر بند ہو گیا۔ عام درس نہ تھا صرف سادہ ترجمہ پڑھاتے تھے۔ یہ ابتدائی زمانہ مسیحیت کا واقعہ ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی طریق پر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میاں عبداللہ صاحب سنوری کو بھی کچھ حصہ قرآن شریف کا پڑھایا تھا۔
{ 654} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی وجہ سے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نماز نہ پڑھا سکے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ بھی موجود نہ تھے۔ تو حضرت صاحب نے حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کو نماز پڑھانے کے لئے ارشاد فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور تو جانتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا مرض ہے اور ہر وقت ریح خارج ہوتی رہتی ہے۔ مَیں نماز کس طرح سے پڑھائوں؟ حضور نے فرمایا حکیم صاحب آپ کی اپنی نماز باوجود اس تکلیف کے ہو جاتی ہے یا نہیں؟ انہوں نے عرض کیا۔ ہاں حضور۔ فرمایا کہ پھر ہماری بھی ہو جائے گی۔ آپ پڑھائیے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اخراج ریح جو کثرت کے ساتھ جاری رہتا ہو، نواقض وضو میں نہیں سمجھا جاتا۔
{ 655} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سل دق کے مریض کے لئے ایک گولی بنائی تھی۔ اس میں کونین اور کافور کے علاوہ افیون۔ بھنگ اور دھتورہ وغیرہ زہریلی ادویہ بھی داخل کی تھیں اور فرمایا کرتے تھے کہ دوا کے طور پر علاج کے لئے اور جان بچانے کے لئے ممنوع چیز بھی جائز ہو جاتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ شراب کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ تھا۔ کہ ڈاکٹر یا طبیب اگر دوائی کے طور پر دے تو جائز ہے۔ مگر باوجود اس کے آپ نے اپنے پڑدادا مرزا گل محمد صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ انہیں ان کی مرض الموت میں کسی طبیب نے شراب بتائی۔ مگر انہوں نے انکار کیا اور حضرت صاحب نے اس موقعہ پر ان کی تعریف کی ہے کہ انہوں نے موت کو شراب پر ترجیح دی۔ اس سے معلوم ہوا۔ کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔
{ 656} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کرکے جب واپس گھر تشریف لائے۔ تو حضرت میاں صاحب سے (خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللہ تعالٰی) جن کی عمر اس وقت ۱۰۔۱۲سال کی ہوگی۔ پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی۔ میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا۔ تو حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یاد رکھا ہے۔
{ 657} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ ایک شخص نے آیت شریفہ اَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنَاہُ (الانعام:۱۲۳) الخ کا مطلب حضور علیہ السلام سے دریافت کیا۔ مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی اس وقت پاس موجود تھے۔ انہوں نے اس شخص سے کہا کہ حضرت مولوی صاحب (خلیفہ اولؓ) سے اس آیت کا مطلب پوچھ لینا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کرکے کہا۔ کہ مَیں تو صرف حضرت صاحب کا ہی مرید ہوں اور کسی کا نہیں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے تبسّم فرما کر فرمایا کہ ہر شخص کا مذاق علیحدہ ہوتا ہے۔ اور پھر اس آیت شریفہ کے معنے بیان فرمائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے اپنی طرف سے یہ خیال کرکے اس شخص کو روکا ہو گا۔ کہ ایسی معمولی بات کے لئے حضرت صاحب کو تکلیف نہیں دینی چاہئیے۔ مگر حضرت صاحب نے اس کی دلداری کے لئے اس کی طرف توجہ فرمائی۔ اور ویسے بھی جبکہ ایک قرآنی آیت کے معنی کا سوال تھا تو آپ نے مناسب خیال فرمایا کہ خود اس کی تشریح فرماویں۔ ویسے عام فقہی مسائل میں حضرت صاحب کا یہی طریق ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص کوئی مسئلہ پوچھتا تھا تو آپ فرما دیتے تھے کہ مولوی صاحب سے پوچھ لیں یا مولوی صاحب پاس ہوتے تو خود انہیں فرما دیتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کیسے ہے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو لوگ خلافتِ ثانیہ کے موقعہ پر ٹھوکر کھا گئے۔ ان میں میرے خیال میں دو شخص ایسے تھے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ سے بہت محبت تھی اور آپ بھی ان سے محبت فرماتے تھے۔ ایک مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم اور دوسرے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم۔ مگر افسوس کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر انہیں ٹھوکر لگ گئی۔
{ 658} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ایک دفعہ خاکسار نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی۔ کہ عبداللہ چکڑالوی مجھے کہتا تھا۔ کہ آیت کُلُّ شَیْ ئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ (القصص:۸۹) سے ثابت ہے کہ رُوحیں فنا ہو جاتی ہیں اور کہیں آتی جاتی نہیں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ اس کے معنے تو یہ ہیں۔ کہ ہر شے معرضِ ہلاکت اور فنا میں ہے سوائے خدا کی توجہ اور حفاظت کے یعنی کُلُّ شَیْ ئٍ ھَالِکٌ اِلَّا بِوَجْھِہٖ۔ پھر فرمایا۔اگر رُوحوں کو بقا ہے تو وہ بھی خدا کی موھبت ہے اور اگر ایک آن کے لئے کسی وقت ان پر فنا آ جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔
{ 659} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے بیان کیا کہ مَیں ۱۸۹۰ء کے قریب موضع جگت پور کولیاں تحصیل گورداسپور میں پٹواری تھا۔۹۱ء میں کوشش کرکے مَیں نے اپنی تبدیلی موضع سیکھواں تحصیل گورداسپور میں کروالی۔ اس وقت مَیں احمدی نہیں تھا۔ لیکن حضرت صاحب کا ذکر سُنا ہوا تھا۔ مخالفت تو نہیں تھی۔ لیکن زیادہ تر یہ خیال روک ہوتا تھا کہ علماء سب حضرت صاحب کے مخالف ہیں۔ سیکھواں جا کر میری واقفیت میاں جمال الدین و امام الدین و خیرالدین صاحبان سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے حضرت صاحب کی کتاب ازالہ اوہام پڑھنے کے لئے دی۔ مَیں نے دعا کرنے کے بعد کتاب پڑھنی شروع کی۔ اس کے پڑھتے پڑھتے میرے دل میں حضرت صاحب کی صداقت میخ کی طرح گڑ گئی اور سب شکوک رفع ہو گئے۔ اس کے چند روز بعد مَیں میاں خیر الدین کے ساتھ قادیان گیا تو گول کمرے کے قریب پہلی دفعہ حضرت صاحب کی زیارت کی۔ حضرت صاحب کو دیکھ کر مَیںنے میاں خیر دین صاحب کو کہا کہ یہ شکل جھوٹوں والی نہیں ہے۔ چنانچہ مَیں نے بیعت کر لی۔ بیعت کرنے کے بعد کثرت سے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ اور شاذو نادر ہی کبھی کوئی دن گذرتا تھا کہ مَیں مع میاں جمال الدین وغیرہ قادیان نہ آتا۔ ورنہ ہر روز قادیان آنا ہمارا معمول تھا۔ اگر کبھی عشاء کے وقت بھی قادیان آنے کا خیال آتا تو اسی وقت ہم چاروں چل پڑتے اور باوجود سردیوں کے موسم کے نہر میں سے گزر کر قادیان پہنچ جاتے۔ اگر ہم میں سے کوئی کسی روز کسی مجبوری کی وجہ سے قادیان نہ پہنچ سکتا۔ تو باقی پہنچ جاتے۔ اور واپس جا کر غیر حاضر کو سب باتیں سُنا دیتے۔ مَیں حضرت صاحب کے قریباً سب سفروں میں حضرت کے ہمراہ رہا ہوں۔ مثلاً جہلم۔ سیالکوٹ۔ لاہور۔ گورداسپُور۔ پٹھانکوٹ وغیرہ ،چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ میرے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ معلوم نہیں میاں عبدالعزیز ملازمت کا کام کس وقت کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیشہ قادیان میں ہی نظر آتے ہیں۔
{ 660} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لائے ہوئے تھے اور احاطہ کچہری میں جامن کے درختوں کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ کہ شیخ علی احمد صاحب وکیل و مولوی محمد حسین صاحب ریڈر اور ایک اور شخص جس کا نام مجھے یاد نہیں۔ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ آپ اس مقدمہ میں راضی نامہ کر لیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ میری طرف سے راضی نامہ کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ تو کرم دین کا کام ہے جس نے دعویٰ کیا ہوا ہے۔ ان لوگوں کے بار بار کہنے کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا۔ کہ مَیں تو جو کچھ کر رہا ہوں۔ خدا کے فرمانے کے مطابق کر رہا ہوں ۔ اور خدا مجھ سے اسی طرح باتیں کرتا ہے جس طرح کہ اس وقت مَیں آپ سے باتیں کر رہا ہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ انبیاء کا یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ وہ کسی لڑائی کی ابتداء اپنی طرف سے نہیں کرتے۔ لیکن جب دوسرے کی طرف سے ابتداء ہوتی ہے تو پھر وہ صلح کے لئے بھی اپنی طرف سے ابتداء نہیں کرتے۔ جب تک دوسرا فریق اس کے لئے خود نہ جُھکے۔
{ 661} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمدابراہیم صاحب محلہ دارالفضل قادیان نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کا دن تھا۔ آدمیوں کی کثرت تھی۔ مَیں حضرت صاحب سے بہت دُور فاصلہ پر تھا۔ حضور لوگوں سے مصافحہ کر رہے تھے۔ مَیں نے بھی چاہا کہ حضور سے مصافحہ کروں مگر آدمیوں کی بھیڑ تھی۔ حضور نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ کہ حافظ صاحب! یہیں ٹھہرو مَیں آتا ہوں۔ حضور میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے مصافحہ کیا۔ اور اکثر حضور علیہ السِّلام ،السِّلام علیکم پہلے کہا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حافظ صاحب آنکھوں سے نابینا ہیں اور پُرانے اور مخلص صحابہ میں سے ہیں۔ ایک دفعہ مَیں نے انہیں دیکھا کہ وہ حضرت صاحب کو اس مکان کے راستے سے ملنے کے لئے گئے تھے۔ جس میں آج کل مَیں رہتا ہوں۔ اس وقت نہ معلوم کس مصلحت سے حضرت صاحب نے حافظ صاحب سے فارسی زبان میں گفتگو فرمائی تھی۔
{ 662} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمد ابراہیم صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب مَیں پہلی دفعہ ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملا ہوں تو حضور سیر کو جارہے تھے۔ اس وقت آپ نے فرمایا۔ کہ مجھے آج الہام ہوا ہے۔ ’’حَرْبًا مُھَیَّجًا‘‘ ز جس کے معنے ہیں کہ لڑائی کے لئے تیاری کرو۔ حضور جب سیر سے واپس تشریف لائے اور بعد میں ظہر کی نماز کے لئے آئے۔ تو اس وقت آپ کے ہاتھ میں اشتہار تھا۔ آپ نے فرمایا۔ کہ یہ اشتہار ابھی آریوں کی طرف سے آیا ہے۔ جس میں بہت گالیاں لکھی ہوئی ہیں۔ اور اس میں یہ بات بھی لکھی ہوئی تھی کہ اگر ہم سے مناظرہ و مباحثہ نہ کرو گے تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا مذہب جھوٹا ہے۔ اور تمہارے پاس کوئی سچائی نہیں ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا تھا۔ کہ حضور صبح کو کوئی الہام سُناتے تھے۔ اور معًا اس کا ظہور ہو جاتا تھا۔ مَیں جب سے حضور کے پاس آیا ہوں۔ کبھی حضور نے بارش کے لئے دُعا نہیں کی۔ بلکہ جب کبھی بارش کی ضرورت ہوتی تو آپ فرماتے اب تو سخت گرمی ہے اور بارش کی ضرورت ہے اسی دن چند گھنٹے بعد بارش ہونی شروع ہو جاتی۔ اور اس کے بعد اس موسم میں پھر کبھی گرمی کی نوبت نہ پہنچتی۔ ایک دو دن کا وقفہ کرکے پھر بارش ہو جایا کرتی۔
{ 663} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے۔
{ 664} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السَّلام فرماتے تھے۔ کہ انبیاء کے لئے عصمت ہے۔ وہ ہمیشہ گناہ سے پاک ہوتے ہیں۔ مگر چونکہ وہ دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ ہیں۔ تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور دوسرے لوگ بھی گناہوں سے پاک ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے حفاظت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ انبیاء گناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ اور انبیاء کے سوا اور لوگ جو اتنی ترقی کر لیتے ہیں کہ گناہ کرنے سے بکلّی آزاد اور پاک ہو جاتے ہیں۔ ان کو محفوظ کہا جاتا ہے۔
{ 665} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خان مُرتد بڑا خواب بین شخص تھا۔ اس کے دماغ کی بناوٹ ہی ایسی تھی۔ کہ ذرا اُونگھ آئی اور خواب آیا یا الہام ہوا۔ وہ یا تو ابتداء زمانہ طالب علمی میں قادیان آیا کرتا تھا۔ یا پھر ایک مدّتِ دراز کے بعد لمبی رخصت لے کر قادیان آیا اور یہاں وہ حضرت صاحب کو ہر روز مغرب و عشاء کے درمیان اپنی تفسیر سُنایا کرتا تھا اور داد چاہتا تھا۔ جو جو باتیں اور عقائد اور اعتراض عبد الحکیم خاں نے مرتد ہوتے وقت بیان کئے ہیں وہ سب آجکل غیر مبایعین میں موجود ہیں۔ دراصل ان لوگوں کو اس نے ہلاک کیا اور خود اس کو اس کی خواب بینی اور بلعمی صفات نے ہلاک کیا۔ چنانچہ ایک دفعہ اِن لوگوں نے یہ تجویز پیش کی۔ کہ ریویو میں حضرت صاحب کا اور احمدیّت کی خصوصیات کا ذکر نہ ہو بلکہ عام اسلامی مضامین ہوں تاکہ اشاعت زیادہ ہو۔ اخبار وطن میں بھی یہ تحریک چھپی تھی۔ جس پر حضرت صاحب نے نہایت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ہمیں چھوڑ کر کیا آپ مُردہ اسلام کو پیش کریں گے؟ عبدالحکیم خاں نے حضور کو لکھا تھا۔ کہ آپ کا وجود خادمِ اسلام ہے نہ کہ عین اسلام۔ مگر حضرت صاحب کے اس فقرہ نے اس کی تردید کر دی کہ دراصل آپ کا وجود ہی روح اسلام ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مسئلہ بہت باریک ہے کہ کسی مذہب میں اس مذہب کے لانے والے کے وجود کو کس حد تک اور کس رنگ میں داخل سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر بہرحال یہ ایک مسلّم صداقت ہے کہ نبی کے وجود سے مذہب کو جُدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں باہم اس طرح پروئے ہوئے ہوتے ہیں جس طرح ایک کپڑے کا تانا اور بانا ہوتا ہے جن کے علیحدہ کرنے سے کپڑے کی تار پود بکھر جاتی ہے۔ بے شک بعض خام طبع موحّدین اسے شرک قرار دے سکتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال خود شرک میں داخل ہے کہ ایک خدائی فعل کے مقابلہ میں اپنے خیال کو مقدم کیا جائے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ خوابوں کا مسئلہ بھی بڑا نازک ہے۔ کئی خوابیں انسان کی دماغی بناوٹ کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اکثر لوگ ان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔
{ 666} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً سجدوں میں لوگوں کو آجکل کی نسبت بہت زیادہ روتے سُنا ہے۔ رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشہ سے سُنائی دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جس نماز سے پہلے حضرت صاحب کی کوئی خاص تقریر اور نصیحت ہو جاتی تھی۔ اس نماز میں تو مسجد میں گویا ایک کُہرام برپا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ سنگدل سے سنگدل آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ ایک جگہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ دن میں کم از کم ایک دفعہ تو انسان خدا کے حضور رولیا کرے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے لئے خلوت میں بیٹھ کر نعماء الٰہی کو یاد کرنا اور انبیاء و اولیاء کے حالات اور ان کی قربانیوں کو آنکھوں کے سامنے لانا خوب نسخہ ہے۔
{ 667} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے حضور کے ساتھ ریل میں سفر کرنے کا اتفاق نصیب ہوا۔ جیسا کہ عام لوگ ریل میں سوار ہر کر باہر سے آنے والے مسافروں سے تُرش رُوئی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اس وقت بھی بعض اصحاب نے یہ رویہ اختیار کیا۔ ان میں سے یہ ناچیز بھی تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسافر کے لئے جگہ خالی کردی۔ اور مجھے یوں مخاطب کیا کہ اخلاق دکھانے کا یہی موقعہ ہے۔ اس پر مَیں بہت شرمسار ہوا۔ یہ آپ کے اخلاقِ فاضلہ میں سے ایک عام مثال ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنجابی میں ایک بڑی سچّی مثل ہے کہ ’’ یا راہ پیا جانے یا وا پیا جانے‘‘ یعنی کسی شخص کے اخلاق کی اصل حالت دو موقعوں پر ظاہر ہوتی ہے یا تو سفر میں جبکہ اکثر صورتوں میں انسان ننگا ہو جاتا ہے اور یا جب کسی شخص کے ساتھ معاملہ پڑے تو اس وقت انسان کی اغراض اُسے اصلی صورت میں ظاہر کر دیتی ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اصل اخلاق یہ ہیں کہ خرابی کی طرف کھینچنے والی طاقتیں موجود ہوں اور پھر انسان اچھے اخلاق پر قائم رہے مثلاً خیانت کے موقعے موجود ہوں اور پھر انسان دیانتدار رہے۔ ورنہ عام حالات میں تو ہر شخص دیانتدار نظر آتا ہے۔ ریل میں بھی یہی صورت پیش آتی ہے۔ کہ چونکہ جگہ کی تنگی ہوتی ہے۔ اس لئے لوگ اپنے آرام کی خاطر دوسرے مسافروں کے آنے پر بداخلاقی دکھاتے ہیں۔ حالانکہ یہی اخلاق دکھانے کا موقعہ ہوتا ہے ورنہ کھلی جگہ کے ہوتے ہوئے دوسروں کی آئوبھگت کرنا کوئی اعلیٰ خُلق نہیں۔
{ 668} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمد ابراہیم صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اپنے خاص کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ کمرہ بھی چھوٹا تھا اور ہماری جماعت کے اکثر معزز لوگ حضور سے خاص مشورہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔ مَیں بھی ملاقات کی غرض سے گیا۔ جگہ کی تنگی کی و جہ سے مَیں جوتے ایک طرف کرکے جگہ بنانے لگا۔ حضور نے مجھے دیکھا اور فرمایا کہ آپ آگے آ جائیے، جگہ میرے پاس موجود ہے۔ اگرچہ جگہ بہت تنگ تھی۔ مگر حضور کے الفاظ سُن کر لوگ خود پیچھے ہٹنے شروع ہو گئے اور حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
{ 669} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمد ابراہیم صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب میری پہلی بیوی فوت ہو گئی۔ تو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کے لئے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا۔ مَیں دعا کروں گا۔ بعض دوستوں نے کہا۔ کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہئے کہ حضور آپ کے لئے رشتہ کا انتظام فرماویں۔مَیں نے جواب دیا کہ مَیں نے دعا کے لئے عرض کر دیا ہے۔ انشاء اللہ آسمان سے ہی انتظام ہو جائے گا۔ ابھی بیس دن گذرے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس گجرات کے ضلع سے ایک خط آیا۔ کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ اگر رشتہ کی ضرورت ہو تو ایک رشتہ موجود ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے بغیر میرے پوچھنے کے اپنی طرف سے خط لکھدیا کہ ہم کو منظور ہے اور مجھے فرمانے لگے کہ آپ کی شادی کا انتظام ہو گیا ہے۔ مَیں نے پوچھا۔ حضور کہاں۔ فرمایا۔ آپ کو اس سے کیا؟ آخر وہ معاملہ جنابِ الٰہی نے نہایت خیروخوبی سے تکمیل کو پہنچایا اور ہمارے لئے نہایب بابرکت ثابت ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب نے جو حافظ صاحب کی اطلاع کے بغیر از خود رشتہ طے کر لیا تو اس کی و جہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ حافظ صاحب کو آپ کا ہر فیصلہ منظور ہو گا۔ ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بالغ مرد کی رضا مندی کے بغیر بھی رشتہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک خاص تعلق کا اظہار تھا۔
{ 670} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نماز استسقاء ہوئی تھی۔ یہ نماز اس بڑکے درخت کے نیچے ہوئی تھی جہاں گذشتہ سالوں میں جلسہ گاہ مستورات تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس بڑکے نیچے اور اس کے ساتھ والے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی دفعہ عید بھی ہوئی تھی۔ اور جنازے بھی اکثر یہیں ہوا کرتے تھے۔ اس طرح یہ بڑ بھی گویا ہماری ایک ملّی یادگار ہے۔ یہ بڑ اس راستہ پر پُل کے قریب ہے جو قادیان کی پُرانی آبادی سے دارالانوار کی طرف کو جاتا ہے۔
{ 671} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے کہا کہ آپ اسلام پر ایک پبلک لیکچر دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ مَیں نے اپنے اس زمانہ کے علم کے مطابق بڑے زور شور سے لیکچر دیا اور حضرت صاحب بھی اس میں شریک ہوئے۔ مولوی صاحب فرماتے تھے۔ کہ اس وقت تک مَیں نے ابھی بیعت نہ کی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے حضرت صاحب سے قدیم تعلقات تھے جو غالباً حضرت خلیفہ اولؓ کے واسطہ سے قائم ہوئے تھے۔ مگر مولوی صاحب موصوف نے بیعت کچھ عرصہ بعد کی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جماعت کے بہترین مقررین میں سے تھے۔ اور آواز کی غیر معمولی بلندی اور خوش الحانی کے علاوہ ان کی زبان میں غیر معمولی فصاحت اور طاقت تھی جو سامعین کو مسحور کر لیتی تھی۔
{ 672} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا۔ اعتکاف نہیں کیا۔ زکوٰۃ نہیں دی تسبیح نہیں رکھی۔ میرے سامنے ضَبْ یعنی گوہ کھانے سے انکار کیا۔ صدقہ نہیں کھایا۔ زکوٰۃ نہیں کھائی۔ صرف نذرانہ اور ہدیہ قبول فرماتے تھے۔ پِیروں کی طرح مصلّٰی اور خرقہ نہیں رکھا۔ رائج الوقت درود و وظائف (مثلاً پنج سُورہ۔ دعائے گنج العرش۔ درود تاج۔ حزب البحر۔ دعائے سریانی وغیرہ) نہیں پڑھتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں آپ کے لئے مالی لحاظ سے انتظام نہیں تھا۔ کیونکہ ساری جائداد وغیرہ اوائل میں ہمارے دادا صاحب کے ہاتھ میں تھی اور بعد میں تایا صاحب کا انتظام رہا۔ اور اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ ایک تو آپ جہاد کے کام میں منہمک رہے ۔ دوسرے آپ کے لئے حج کا راستہ بھی مخدوش تھا۔ تاہم آپ کی خواہش رہتی تھی کہ حج کریں۔ چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ نے آپ کے بعد آپ کی طرف سے حج بدل کروا دیا۔ اعتکاف ماموریت کے زمانہ سے قبل غالباً بیٹھے ہوں گے مگر ماموریت کے بعد بوجہ قلمی جہاد اور دیگر مصروفیت کے نہیں بیٹھ سکے۔ کیونکہ یہ نیکیاں اعتکاف سے مقدم ہیں۔ اور زکوٰۃ اس لئے نہیں دی کہ آپ کبھی صاحبِ نصاب نہیں ہوئے۔ البتہ حضرت والدہ صاحبہ زیور پر زکوٰۃ دیتی رہی ہیں اور تسبیح اور رسمی وظائف وغیرہ کے آپ قائل ہی نہیں تھے۔
{ 673} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کی آنکھوں میں مائی اوپیا تھا۔ اسی و جہ سے پہلی رات کا چاند نہ دیکھ سکتے تھے۔ مگر نزدیک سے آخر عمر تک باریک حروف بھی پڑھ لیتے تھے۔ اور عینک کی حاجت محسوس نہیں کی۔ اور وراثۃً آنکھوں کی یہ حالت حضرت صاحب کی تمام اولاد میں آئی ہے کہ دُور کی نظر کمزور ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ کبھی رمضان یا عید میں پہلی رات کا چاند دیکھنا ہوتا تھا تو آپ کسی دوست کی عینک منگا کر دیکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
{ 674} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز حضرت صاحب مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے ہوئے کچھ گفتگو فرما رہے تھے۔ ان دنوں قادیان میں طاعون شروع تھا۔ بعض لوگوں نے جو قادیان کے گھمار وغیرہ تھے، آ کر بیعت کر لی۔ تو میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے کہا۔ ’’ اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا ‘‘ (التوبہ:۹۷) کہ اعرابی ایسے ویسے ہی ہوتے ہیں یعنی ان لوگوں کو کوئی سمجھ نہیں ہوتی۔ ڈر کے مارے یا دیکھا دیکھی بیعت کر لیتے ہیں اور دل میں ایمان نہیں ہوتا۔ حضرت صاحب نے میر صاحب کے جب یہ الفاظ سُنے۔ تو فرمایا۔ میر صاحب! سب لوگ یکساں نہیں ہوتے۔ جیسے مثلاً سیکھواں والے ہیں۔ اس طرح حضور نے ہم تینوں بھائیوں کو اس طبقہ سے مستثنیٰ کر دیا۔ جو ہماری انتہائی خوشی کا باعث ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہی روایت میاں خیر دین صاحب کی زبانی نمبر ۶۳۷ کے ماتحت بھی گذر چکی ہے۔
{ 675} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے ایک دن فرمایا ۔کہ جس طرح بلّی کو چوہوں کے ساتھ ایک طبعی مناسبت ہے کہ جس وقت دیکھتی ہے حملہ کرتی ہے۔ اسی طرح مسیح کو دجال کے ساتھ طبعی نفرت ہے کہ جس وقت دیکھتا ہے حملہ کرتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے دل میں اس زمانہ کی مادیت اور دہریت کے خلاف کس قدر جوش تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہاں بلّی چوہے کی مثال صرف ایک خاص رنگ کی کیفیت کے اظہار کے لئے بیان کی گئی ہے۔ ورنہ اصل امر سے اس مثال کو کوئی تعلق نہیں۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ـ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا (البقرۃ:۲۷)
{ 676} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے جالندھری نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۹۱۔۱۸۹۰ء تھا جب مَیں پہلی مرتبہ قادیان حاضر ہوا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسالہ فتح اسلام کی پہلی کاپی کے پروف دیکھ رہے تھے۔ مَیں ابھی بچہ ہی تھا آپ نے میرے دائیں ہاتھ کی کلائی پکڑ کر میری بیعت قبول فرمائی اور الفاظِ بیعت بھی اس وقت بعد کے الفاظ سے مختلف تھے۔ جن میں سے ایک فقرہ یاد رہ گیا۔ کہ ’’ میں منہیّات سے بچتا رہوں گا‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ماسٹر صاحب موصوف سکھ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ اور خدا کے فضل سے تبلیغ کے نہایت دلدادہ ہیں۔ ابھی گذشتہ ایام میں انہیں اس بات کے لئے جیل خانہ میں جانا پڑا کہ انہوں نے باوا نانکؒ صاحب کو مسلمان لکھا تھا۔ مگر انہوں نے اس تکلیف کو نہایت بشاشت اور خوشی سے برداشت کیا۔
{ 677} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کے قریب مَیں نے چند نو مسلموں کی طرف سے دستخط کروا کر ایک اشتہار شائع کیا۔جس کا عنوان ’’ قادیان اور آریہ سماج‘‘ تھا۔ اس اشتہار سے پنجاب میں شور پڑ گیا۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا۔ ’’ حَرْبًا مُّھَیَّجًا‘‘ ز یعنی جنگ کو جوش دیا گیا ہے۔اس پر قادیان کے آریوں نے بھی جلسہ کیا۔ اس کے جواب میں حضرت صاحب نے اپنی کتاب ’’ نسیم دعوت ‘‘ تالیف فرمائی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام کا ذکر روایت نمبر ۶۶۲ میں بھی ہو چکا ہے۔
{ 678} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب ساکن لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ جب بچپن میں قادیان میں میری آمد و رفت شروع ہوئی تو مَیں مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام قادر صاحب کو تو خوب جانتا تھا اور ان سے ملتا تھا۔ مگر حضرت صاحب کو نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ گوشہ نشین تھے۔ صرف مسجد میں نماز کے لئے جاتے تھے۔ وَاِلَّا کبھی نظر نہیں آتے تھے۔ کمرہ بند رکھ کر اس کے اندر رہتے تھے۔ مَیں نے پہلی دفعہ حضرت صاحب کو اس وقت دیکھا۔ جب مَیں ایک دفعہ گھر سے دادا صاحب یعنی مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا کھانا لایا۔ اس وقت مَیں نے دیکھا کہ حضرت صاحب سیڑھیوں سے چڑھ کر اپنے کمرہ میں چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ مَیں نے تعجب کیا کہ یہ کون شخص ہے۔ اس پر مَیں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہے۔ تو بتایا گیا کہ دادا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے۔ نیز مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ دادا صاحب کی وفات کے وقت میری عمر گیارہ سال کی تھی۔
{ 679} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب مَیں نے حضرت صاحب کو پہلے دن دیکھا تو مجھے آپ سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ سو دوسرے دن غالبًا جب ظہر کی نماز پڑھ کر حضرت صاحب گھر آئے اور کمرہ میں جانے لگے۔ تو مَیں پیچھے ہو لیا۔ اور جب کمرہ کا دروازہ بند کرنے لگے۔ مَیں نے اس کے اندر ہاتھ دیدیا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا۔ کیوں بھئی کیا کام ہے؟ مَیں نے کہا۔ صرف ملنا ہے۔ فرمایا۔ اچھا آجائو۔ چنانچہ مَیں کمرہ میں چلا گیا اور حضرت صاحب نے دروازہ بند کر لیا۔ حضرت صاحب نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ مَیں مرزا نظام الدین صاحب کا پھوپھی زاد بھائی اور مرزا نتھا بیگ صاحب کا بیٹا لنگروال سے ہوں۔ اس پر حضرت نے مجھے پہچان لیا۔ اس کے بعد مَیں آپ کے پاس آنے جانے لگا۔ اور آپ کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے لگ گیا۔ پھر اس کے بعد حضرت صاحب کا کھانا بھی مَیں ہی اندر سے لاتا اور کھلاتا تھا۔ گھر میں سب کھانے کا انتظام والدہ صا حبہ مرزا سلطان احمد صاحب کے سپرد تھا۔ اس کے قبل حضرت صاحب نے ایک چھکا رکھا ہوتا تھا۔ جس میں کھانا وغیرہ رکھدیا جاتا تھا اور حضرت صاحب اُسے اُوپر چوبارہ میں کھینچ لیتے تھے۔ اس طرح میری حضرت صاحب کے ساتھ بہت محبت ہو گئی اور حضرت صاحب نے مجھے فرمایا۔ تم میرے پاس ہی سو رہا کرو اور بعض دفعہ مَیں کھانے میں بھی شریک ہو جاتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا دین محمد صاحب کی ہمشیرہ مرزا نظام الدین صاحب کے عقد میں تھیں۔ یہ شادی بہت پرانی تھی۔ یعنی مرزا دین محمد صاحب کے ہوش سے قبل ہوئی تھی۔ مرزا دین محمد صاحب کی سگی پھوپھی مرزا غلام محی الدین صاحب کے گھر تھیں۔ گویا مرزا نظام الدین صاحب مرزا دین محمد صاحب کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے۔
{ 680} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں میری آمدو رفت حضرت صاحب کے پاس ہوئی۔ ان ایام میں حضرت صاحب اپنے موروثیوں وغیرہ کے ساتھ مقدمات کی پَیروی کے لئے جایا کرتے تھے۔ کیونکہ دادا صاحب نے یہ کام آپ کے سپرد کیا ہوا تھا۔ تایا صاحب باہر ملازم تھے۔ جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ جب گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر مجھے سوار کر دیتے تھے۔ خود آگے آگے پیدل چلے جاتے۔ نوکر نے گھوڑا پکڑا ہوا ہوتا تھا۔ کبھی آپ بٹالہ کے راستہ والے موڑ پر سوار ہو جاتے اور کبھی نہر پر۔ مگر اس وقت مجھے اتارتے نہ تھے۔ بلکہ فرماتے تھے کہ تم بیٹھے رہو۔ مَیں آگے سوار ہو جائونگا۔ اس طرح ہم بٹالہ پہنچتے۔ ان ایّام میں بٹالہ میں حضرت صاحب کے خاندان کا ایک بڑا مکان تھا۔ یہ مکان یہاں محلہ اچری دروازے میں تھا۔ اُس میں آپ ٹھہرتے تھے۔ اس مکان میں ایک جولاہا حفاظت کے لئے رکھا ہوا تھا۔ مکان کے چوبارہ میں آپ رہتے تھے۔ شام کو اپنے کھانے کے لئے مجھے دو پیسے دیدیتے تھے۔ ان دنوں میں بھٹیاری جھیوری کی دکان سے دو پیسے میں دو روٹی اور دال مل جاتی تھی۔ وہ روٹیاں مَیں لا کر حضرت صاحب کے آگے رکھ دیتا تھا۔ آپ ایک روٹی کی چوتھائی یا اس سے کم کھاتے ۔باقی مجھے کہتے کہ اس جولاہے کو بلائو۔ اسے دیدیتے اور مجھے میرے کھانے لئے چار آنہ دیتے تھے اور سائیس کو دو آنہ دیتے تھے۔ اس وقت نرخ گندم کا روپیہ سوا روپیہ فی من تھا۔ بعض دفعہ جب تحصیل میں تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ جب تین یا چار بجتے تو تحصیل سے باہر آتے تو مجھے بلا کر ایک روٹی کھانے کے ناشتہ کے لئے دیدیتے اور خود آپ اس وقت کچھ نہ کھاتے۔ تحصیل کے سامنے کنوئیں پر وضو کرکے نماز پڑھتے اور پھر تحصیلدار کے پاس چلے جاتے اور جب کچہری برخاست ہو جاتی تو واپس چلے آتے۔
جب بٹالہ سے روانہ ہوتے تو پھر بھی مجھے سارا رستہ سوار رکھتے۔ خود کبھی سوار ہوتے اور کبھی پیدل چلتے۔ پیشاب کی کثرت تھی۔ اس لئے گاہے بگاہے ٹھہر کر پیشاب کرتے تھے۔
{ 681} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتداء میں مَیں نے حضرت صاحب سے بھی کچھ پڑھا ہے۔ ایک فارسی کی کتاب تھی۔ وہ پڑھی تھی۔ لالہ ملاوامل۔ شرم پت اور کشن سنگھ بھی پڑھتے تھے۔ ملاوامل وشرم پت حکمت پڑھتے تھے اور کشن سنگھ قانون کی کتاب پڑھتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ لالہ ملاوامل اور لالہ شرم پت کا ذکر حضرت صاحب کی اکثر کتابوں میں آچکا ہے اور کشن سنگھ قادیان کا ایک باشندہ تھا جو سکھ مذہب کو بدل کر آریہ ہو گیا تھا۔ مگر کیس رہنے دئیے تھے۔ اس لئے اُسے لوگ کیسوں والا آریہ کہتے تھے۔ اب ان تینوں میں سے صرف لالہ ملاوامل زندہ ہیں۔ محررہ ۳۸؍ ۱۰؍ ۱۰
{ 682} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہو گئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے ’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو۔ اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آ کر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور مَیں سب کو جا کر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں سارا خاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
{ 683} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقع بٹالہ پر تشریف فرما تھے۔ مَیں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا۔ تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں۔ مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ ابتداء میں مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زاہدانہ زندگی کی و جہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے اس قسم کے واقعات دوسرے لوگوں سے بھی سُنے ہیں کہ دعویٰ سے قبل مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور اس طرح پیش آتے تھے جس طرح انہیں آپ کے ساتھ خاص عقیدت ہے۔ مگر جب مخالفت ہوئی تو اُسے بھی انتہا تک پہنچا دیا۔
{ 684} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کرم دین کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو ایک دن جبکہ آپ نے گورداسپور کی کچہری کے پاس جو جامن ہے اس کے نیچے ڈیرا لگایا ہوا تھا۔ خواجہ کمال الدین صاحب جنہوں نے اس وقت اپنے سر کی ٹنڈ کرائی ہوئی تھی۔ اس جامن کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ حضرت صاحب نے جب خواجہ صاحب کا سر منڈا ہوا دیکھا تو اُسے ناپسند فرمایا اور آئندہ کے لئے روکنے کے خیال سے فرمایا کہ یہ علامت منافق یا یہود کی ہے۔ مجھے یاد نہیں رہا۔ کہ ان دونوں لفظوں میں سے حضور نے علامتِ منافق یا علامتِ یہود کونسا لفظ فرمایا۔ مگر آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ضرور نکلے تھے کہ منافق یا یہود۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے حضرت صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ سر منڈانا خوارج کی علامت ہے اور اُسے ناپسند فرماتے تھے۔
{ 685} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت اقدس نے مینار کی بنیاد رکھوائی تو اس کے بعد کچھ عمارت بن کر کچھ عرصہ تک مینار بننا بند ہو گیا تھا۔ اس پر حضور نے ایک اشتہار دیا کہ اگر سو آدمی ایک ایک سو روپیہ دے دیویں تو دس ہزار روپیہ جمع ہو جائے گا اور مینار تیار ہو جائے گا۔ اور ان دوستوں کے نام مینار پر درج کئے جائینگے ہم تینوں بھائیوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ہم مع والد یکصد روپیہ مل کر ادا کر سکتے ہیں۔ اگر حضور منظور فرمائیں۔ تو حضور نے بڑی خوشی سے منظور فرمایا۔ اور ہم نے سو روپیہ ادا کر دیا۔
{ 686} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطرات کے وقت ہمیشہ احتیاط کا پہلو مدّ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ طاعون کے ایام میں دروازہ پر پہرہ رہتا تھا۔ کہ دیہات کی ہرکس و ناکس عورت گندے کپڑوں کے ساتھ اندر نہ آنے پائے (کیونکہ گھی وغیرہ فروخت کرنے کے لئے دیہات کی عورتیں آتی رہتی تھیں) اسی طرح آپ کو شہتیر والا مکان ناپسند تھا اور فرماتے تھے کہ ایسی چھت خطرناک ہوتی ہے۔ خود اپنی رہائش کے دالان کی چھت جس میں چار شہتیر تھے بدلوا کر صرف کڑیوں والی چھت ڈالوائی تھی۔ اسی طرح آپ نے لدھیانہ سے دہلی جاتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں کرنال والی لائن سے سفر کیا۔ کیونکہ دوسری طرف سے راستہ میں دو دفعہ دریا کا پُل آتا تھا۔ اور ان دنوں میں کچھ حادثات بھی ریلوں کے زیادہ ہوئے تھے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے۔ کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بھتیجے نے جو ایک نشہ باز اور خطرناک آدمی تھا۔ حضور کو ایک خط تحریر کیا۔ اور اس میں قتل کی دھمکی دی۔ کچھ دن بعد وہ خود قادیان آ گیا۔ آپ نے جب سُنا تو حضرت خلیفہ اولؓ کو تاکیداً کہلا بھیجا کہ اسے فوراً رخصت کر دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اُس کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لکڑی کے شہتیر ہوتے تھے۔ جن سے یہ خطرہ ہوتا تھا۔ کہ اگر شہتیر ٹوٹے تو ساری چھت گر جائے گی۔ مگر آجکل لوہے کے گاڈر نکل آئے ہیں۔ جو بہت محفوظ ہوتے ہیں۔
{ 687} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب ارکانِ اسلام میں سب سے زیادہ نماز پر زور دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’ نمازیں سنوار کر پڑھا کرو‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سنوار کر پڑھنے سے یہ مراد ہے کہ دل لگا کر پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جائے۔ اور نماز میں خشوع خضوع پیدا کیا جائے۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز میں ایسی کیفیت پیدا کرلے تو وہ گویا ایک مضبوط قلعہ میں آ جاتا ہے۔
{ 688} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری کی ایک بیوی ڈاکٹرنی کے نام سے مشہور تھی وہ مدتوں قادیان آ کر حضور کے مکان میں رہی اور حضور کی خدمت کرتی تھی۔ اس بیچاری کو سل کی بیماری تھی۔ جب وہ فوت ہو گئی تو اس کا ایک دوپٹہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے یاد دہانی کے لئے بیت الدعا کی کھڑکی کی ایک آ ہنی سلاخ سے بندھوا دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ڈاکٹرنی مرحومہ بہت مخلصہ تھی اور اس کی و جہ سے ڈاکٹر صاحب کا اخلاص بھی ترقی کر گیا تھا۔
{ 689} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۹۳ء تک گول کمرہ ہی مہمان خانہ ہوتا تھا۔ پھر اس میں پریس آ گیا۔ جب یہاں مہمان خانہ تھا تو یہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا۔ اور کاتب بھی اسی جگہ مسودات کی کاپیاں لکھا کرتا تھا اور حضرت صاحب کا ملاقات کا کمرہ بھی یہی تھا۔ ان دنوں میں مہمان بھی کم ہوا کرتے تھے۔ ۹۵ء میں حضرت والد صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب پنشن لیکر قادیان آگئے اور چونکہ اس وقت پریس اور مہمانوں کے لئے فصیل قصبہ کے مقام پر مکانات بن چکے تھے۔ اس لئے میر صاحب گول کمرہ میں رہنے لگے اور انہوں نے اس کے آگے دیوار روک کر ایک چھوٹا سا صحن بھی بنا لیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ گول کمرہ اس کمرہ کا نام ہے جو مسجد مبارک کے قریب احمدیہ چوک پر واقع ہے اس کے ماتھے کی دیوار گول ہے۔ ابتداء زمانہ خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے بھی کئی سال تک اس میں اپنا دفتر رکھا تھا۔
{ 690} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب قادیان کی فصیل کی جگہ پر مکانات بنے تو سب سے پہلے دو بڑے کمرے اور دو کوٹھڑیاں شمالی جانب تعمیر ہوئیں۔ وہ بڑا کمرہ جو اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا موٹر خانہ ہے۔ یہ ضیاء الاسلام پریس کے لئے بنا تھا اور اس کے ساتھ کا کمرہ مہمانوں کے لئے تھا۔ جس میں حضرت خلیفہ اولؓ مدت العمر مطب کرتے رہے۔ اس کے ساتھ شمالی جانب دو کوٹھڑیاں بنیں۔ ایک شرقی جانب جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا کتب خانہ رہتا تھا اور دوسری غربی جانب جس میں خاص مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی۔ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور دیگر معزز مہمان ان ایام میں اسی کوٹھڑی میں ٹھہرتے تھے۔
{ 691} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں اپنے خاندانی حالات کا متعدد جگہ ذکر کیا ہے۔ جن میں سے مندرجہ ذیل مقامات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں:۔
(۱) کتاب البریہ ص۱۳۴ تا ۱۶۸ حاشیہ۔
(۲) ازالہ اوہام ـ بار اوّل۔ ص ۱۱۹ تا ۱۳۳ حاشیہ۔
(۳) آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی۔ ص ۴۹۸ و ص ۵۴۱۔
(۴) استفتاء عربی۔ ص ۷۷۔
(۵) لجۃ النور ــ۔ ص۶ تا ۱۱۔
(۶) تریاق القلوب بار اول۔ ص ۳۵ حاشیہ و ص ۶۴ و ضمیمہ نمبر ۳ منسلکہ کتاب مذکور۔
(۷) کشف الغطاء ـص ۲ تا ۷۔
(۸) شہادت القرآن بار دوم۔ ص ۸۴ تا ۸۸۔
(۹)تحفہ قیصریہ۔ ص ۴ و ص ۱۸، ۱۹۔
(۱۰) ستارہ قیصرہ ۔ص ۳۔
(۱۱) اشتہار ۱۰۔ دسمبر ۱۸۹۴ء و اشتہار ۲۴۔ فروری ۱۸۹۸ء وغیرہ
{ 692} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین سو تیرہ اصحاب کی فہرست تیار کی تو بعض دوستوں نے خطوط لکھے کہ حضور ہمارا نام بھی اس فہرست میں درج کیا جائے۔ یہ دیکھ کر ہم کو بھی خیال پیدا ہوا کہ حضور علیہ السلام سے دریافت کریں کہ آیا ہمارا نام درج ہو گیا ہے یا کہ نہیں۔ تب ہم تینوں برادران مع منشی عبدالعزیز صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے نام پہلے ہی درج کئے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے ناموں کے آگے ’’ مع اہل بیت‘‘ کے الفاظ بھی زائد کئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۹۷، ۱۸۹۶ء میں تیار کی تھی۔ اور اسے ضمیمہ انجامِ آتھم میں درج کیا تھا۔ احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بھی ایک دفعہ اسی طرح اپنے اصحاب کی فہرست تیار کروائی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ تین سو تیرہ کا عدد اصحاب بدر کی نسبت سے چنا گیا تھا۔ کیونکہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے کہ مہدی کے ساتھ اصحاب بدر کی تعداد کے مطابق ۳۱۳، اصحاب ہوں گے جن کے اسماء ایک مطبوعہ کتاب میں درج ہوں گے۔
(دیکھو ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۰ تا۴۵)
{ 693} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا کہ طاعون دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گی کہ یا تو یہ گناہ کو کھا جائے گی اور یا آدمیوں کو کھا جائے گی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ معنوی رنگ میں طاعون کے اندر وہ دوسرے عذاب بھی شامل ہیں جو خدا کی طرف سے اپنے مسیح کی تائید کے لئے نازل ہوئے یا آئندہ ہوں گے۔
{ 694} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک د فعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا۔ بسا اوقات اگر کوئی شخص اس گورنمنٹ کے آگے سچ بولے تو وہ پکڑا جاتا ہے لیکن اگر خدا تعالیٰ کے سامنے سچ بولے تو چھوٹ جاتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ واقعی دنیوی اور آسمانی حکومتوں میں یہ ایک بڑا لطیف فرق ہے اور یہ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ دنیوی حکومتیں بسا اوقات جھوٹ کو ترقی دینے والی بن جاتی ہیں حالانکہ آسمانی حکومت جھوٹ کو مٹاتی ہے۔
{ 695} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی کرم دین جہلمی کے مقدمہ کے دَوران میں لالہ آتما رام مجسٹریٹ درجہ اول گورداسپور کی عدالت میں بعض سوالات کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کرم دین نے اپنے اپنے عقائد بیان کئے تھے۔ اس بیان کی مصدّقہ نقل میرے پاس موجود ہے۔ جس میں ایک نقشہ کی صُورت میں جوابات درج ہیں۔ یہ جوابات جو بعض اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ بصورت ذیل ہیں:۔
عقائد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
مستغیث (یعنی مولوی کرم دین) کا جواب
۱۔حضرت عیسٰے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔
۱۔ عیسٰے علیہ السلام زندہ ہیں۔
۲۔ حضرت عیسٰے علیہ السَّلام صلیب پر چڑھائے گئے تھے اور غشی کی حالت میں زندہ ہی اتار لئے گئے تھے۔
۲۔ نہیں
۳۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان پر مع جسمِ عنصری نہیں گئے۔
۳۔ گئے
۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام آسمان سے نہیں اُترینگے اور نہ کسی قوم سے وہ لڑائی کریں گے۔
۴۔ آسمان سے اُتریں گے۔ اگر لڑائی کی ضرورت ہو گی تو لڑائی کریں گے۔ اگر امن کا زمانہ ہو گا تو نہیں کریں گے۔
۵۔ ایسا مہدی کوئی نہیں ہو گا جو دُنیا میں آ کر عیسائیوں اور دُوسرے مذاہب والوں سے جنگ کرے گا۔ اور غیر اسلام اقوام کو قتل کرکے اسلام کو غلبہ دے گا۔
۵۔ مہد ی علیہ السلام آئیں گے اور ایسے زمانہ میں آئیں گے جب بدامنی اور فساد دُنیا میں پھیلا ہو گا۔ فسادیوں کو مٹا کر امن قائم کریں گے۔
۶۔ اس زمانہ میں جہاد کرنا یعنی اسلام پھیلانے کیلئے لڑائی کرنا بالکل حرام ہے۔
۶۔ اس زمانہ میں برٹش انڈیا میں جہاد کرنا حرام ہے۔
۷۔ یہ بالکل غلط ہے کہ مسیح موعود آ کر صلیبوں کو توڑتا اور سؤروں کو مارتا پھرے گا۔
۷۔ یہ مسئلہ بحث طلب ہے۔
۸۔ مَیں مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود اور امام زمان اور مجدّد وقت اور ظلی طور پر رسول اور نبی اللہ ہوں اور مجھ پر خدا کی وحی نازل ہوتی ہے۔
۸۔ میں نہیں مانتا۔
۹۔ مسیح موعود اس امت کے تمام گذشتہ اولیاء سے افضل ہے۔
۹۔ مسیح موعود مرزا صاحب نہیں اور نہ وہ کسی سے افضل ہیں۔
۱۰۔ مسیح موعودمیں خدا نے تمام انبیاء کے صفات اور فضائل جمع کر دئیے ہیں۔
۱۰۔ مرزا صاحب نہ مسیح موعود ہیں۔ اور نہ ان میں اوصافِ نبوّت میں سے کوئی ہیں۔
۱۱۔ کافر ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے۔
۱۱۔ بحث طلب ہے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے نہیں ہونا چاہئے۔
۱۲۔ مہدی موعود قریش کے خاندان سے ہو گا۔
۱۳۔ ا متِ محمدیہ کا مسیح اور اسرائیلی مسیح دو الگ الگ شخص ہیں اور مسیح محمدیؐ اسرائیلی مسیح سے افضل ہے۔
۱۳۔ مسیح ایک ہی ہے اور وہ اسرائیلی ہے۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے کوئی حقیقی مُردہ زندہ نہیں کیا۔
۱۴۔ حضرت عیسٰے علیہ السلام نے مُردے زندہ کئے۔
۱۵۔ آنحضرت ﷺکا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ نہیں ہوا۔
۱۵۔ آنحضرت کا معراج جسمِ عنصری کے ساتھ ہوا۔
۱۶۔ خدا کی وحی آنحضرت ﷺ کے ساتھ منقطع نہیں ہوئی۔
۱۶۔ منقطع نہیں ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ یہ مقدمہ ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور ہوا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ عدالت کے ان سوالوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے جو جوابات دئیے ہیں۔ وہ سب کے سب اہم مسائل پر مشتمل ہیں۔ اور آپ کے جوابات سے نبوّت اور افضلیت بر مسیحِ ناصری وغیرہ کے مسائل بھی خوب واضح ہو جاتے ہیں۔
{ 696} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مَیں نے بارہا دیکھا کہ گھر میں نماز پڑھاتے تو حضرت اُمّ المؤمنین کو اپنے دائیں جانب بطور مقتدی کے کھڑا کر لیتے۔ حالانکہ مشہور فقہی مسئلہ یہ ہے۔ کہ خواہ عورت اکیلی ہی مقتدی ہو تب بھی اُسے مرد کے ساتھ نہیں بلکہ الگ پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اکیلا مرد مقتدی ہو۔ تو اسے امام کے ساتھ دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے۔ مَیں نے حضرت اُمّ المؤمنینؓ سے پوچھا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا۔ کہ مجھے بعض اوقات کھڑے ہو کر چکّر آ جایا کرتا ہے۔ اس لئے تم میرے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیا کرو۔
{ 697} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اور ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے۔ اس وقت غروب آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فوراً روزہ توڑ دیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت ﷺ کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔
{ 698} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ کتابیں جو اکثر حضرت صاحب کی زیر نظر رہتی تھیں۔ نیز تصنیف کے تمام کاغذات بستوں میں بندھے رہتے تھے ایک ایک وقت میں اس قسم کے تین تین بستے جمع ہو جاتے تھے۔ عموماً دو بستے تو ضرور رہتے تھے یہ بستے سلے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ صرف ایک چورس کپڑا ہوتا تھا۔ جس میں کاغذ اور کتابیں رکھ کر دونوں طرف سے گانٹھیں دے لیا کرتے تھے۔ تصنیف کے وقت آپ کا سارا دفتر آپ کا پلنگ ہوتا تھا۔ اسی واسطے ہمیشہ بڑے پلنگ پر سویا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مَیں نے حضرت صاحب کو کبھی میز کرسی لگا کر کام کرتے نہیں دیکھا۔ البتہ بسا اوقت ٹہلتے ہوئے تصنیف کا کام کیا کرتے تھے اور اکثر پلنگ یا فرش پر بیٹھ کر کام کرتے تھے۔
{ 699} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مرزا دین محمد صاحب لنگروال نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائی زمانہ میں حافظ معین عرف مانا حضرت صاحب کے پاس اکثر آیا کرتا تھا۔ مَیں جب حضرت صاحب کا کھانا لاتا۔ تو آپ اُسے رکھ لیتے اور فرماتے کہ حافظ مانا کے لئے بھی کھانا لائو۔ مَیں اس کے لئے عام لنگری کھانا (یعنی زمیندارہ کھانا) لاتا۔ جب وہ آ جاتا۔ تو آپ حافظ مانے کو فرماتے کھانا کھائو اور خود بھی اپنا کھانا شروع کر دیتے۔ آپ بہت آہستہ آہستہ اور بہت تھوڑا کھاتے تھے۔ جب معین الدین اپنا کھانا ختم کر لیتا۔ تو آپ پوچھتے کہ اور لو گے؟ جس پر وُہ کہتا۔ کہ جی، ہے تو دیدیں۔جس پر آپ اپنا کھانا جو قریباً اسی طرح پڑا ہوتا تھا۔ اُسے دیدیتے تھے۔ آپ چوتھائی روٹی سے زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ اور سالن دال بہت کم لگاتے تھے مگر اکثر اوقات سالن دال ملا لیا کرتے تھے۔ اس طرح مانا سب کچھ کھا جاتا تھا۔ ان ایام میں بالعموم سہ پہر کے بعد آپ مجھے ایک پیسہ دیتے کہ اس کے چنے بھُنوا لائو۔ مَیں بھُنوا لاتا۔ پھر تھوڑے سے دانے کھا کر پانی پی لیتے۔ اور ایک پیسہ کے دانے کئی دن تک کام آتے رہتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حافظ معین الدین جو اب کئی سال ہوئے فوت ہو چکا ہے ایک نابینا شخص تھا۔ مگر نہایت مخلص شخص تھا حضرت صاحب کے پائوں دبایا کرتا تھا۔ اور کبھی کبھی حضرت صاحب کو پنجابی شعر بھی سُنایا کرتا تھا۔ اور گو غریب تھا مگر چندہ بہت باقاعدہ دیتا تھا۔
{ 700} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کے ایّام میں آخری مرحلہ پر خوا جہ کمال الدین صاحب نے گورداسپور سے ایک خط حضرت صاحب کے نام دیا اور زبانی بھی کہا کہ یہ عرض کر دینا کہ حکام کی نیّت بد ہے۔ حضور دعا فرمائیں۔ مَیں وہ خط لے کر قادیان آ گیا۔ وہ خط حضور نے پڑھ لیا۔ مَیں نے زبانی بھی عرض کیا مگر حضورنے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر عرض کی۔ پھر جواب نہ ملا۔ پھر تیسری دفعہ عرض کرنے پر مسکرا کر فرمایا۔ کہ مَیں ایسے کاموں کے لئے دعا نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ سب کچھ دیکھتا اور جانتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص حالت اور خاص مقامِ محبت کی بات ہے۔ ورنہ آپ سے بڑھ کر دُعا کس نے کرنی ہے۔ دراصل آپ کا منشاء یہ تھا کہ مَیں خدا کے دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔ اگر اس خدمت میں مجھ پر کوئی ذاتی تکلیف وارد ہوتی ہے تو مَیں اس کے لئے دُعا نہیں کرونگا کیونکہ خدا خود دیکھ رہا ہے۔ وہ میری حفاظت فرمائے گا اور اگر اس کے منشاء کے ماتحت مجھ پر کوئی تکلیف ہی آنی ہے تو بے شک آئے مَیں اس کے برداشت کرنے میں راحت پائوں گا۔
{ 701} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۱ء کا ذکر ہے۔ جبکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر گورداسپور میں فوجداری دعویٰ کیا ہوا تھا اور حضور خانصاحب علی محمد صاحب پنشنر کے مکان متصل مسجد حجاماں میں مقیم تھے۔ خاکسار اور میاں جمال الدین اور امام الدین و خیر الدین صاحبان ساکنان سیکھواں حضور کے ساتھ تھے۔ باقی دوست دوسری جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن حضور کو پیچش کی شکایت ہو گئی۔ بار بار قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ حضور نے ہمیں سوئے رہنے کے لئے فرمایا جب حضور رفع حاجت کے لئے اُٹھتے تو خاکسار اسی وقت اُٹھ کر پانی کا لوٹا لے کر حضور کے ساتھ جاتا۔ تمام رات ایسا ہی ہوتا رہا۔ ہر بار حضور یہی فرماتے کہ تم سوئے رہو۔ صبح کے وقت حضور نے مجلس میں بیٹھ کر ذکر فرمایا کہ مسیح کے حواریوں اور ہمارے دوستوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ ایک موقعہ مسیح پر تکلیف کا آتا ہے تو وہ اپنے حواریوں کو جگاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں جاگتے رہو اور دعائیں مانگو مگر وہ سو جاتے ہیں ۔ اور بار بار جگاتے ہیں مگر وہ پھر سو جاتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے دوستوں کو بار بار تاکید کرتے ہیں کہ سو رہو۔ لیکن وہ پھر بھی جاگتے ہیں۔ چنانچہ خاکسار کا نام لے کر فرمایا۔ کہ مَیں نہیں جانتا کہ میاں عبدالعزیز تمام رات سوئے بھی ہیں کہ نہیں۔ میرے اٹھنے پر فوراً ہوشیاری کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور باوجود میرے بار بار تاکید کرنے کے کہ سوئے رہو اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اگر حضرت مسیح ناصری کا یہ قول سچا ہے اور ضرور سچّا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو ہر غیر متعصب شخص کو ماننا پڑے گا۔ کہ جو شیریں پھل حضرت مسیح موعود کی صحبت نے پیدا کیا ہے وہ حضرت مسیح ناصری کی صحبت ہر گز پیدا نہیں کر سکی۔ حضرت مسیح موعود کے انفاسِ قدسیہ نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ایسی جماعت پیدا کردی جو آپ کے لئے اپنی جان قربان کر دینے کو سب فخروں سے بڑھ کر فخر سمجھتی تھی اور آپ کی ذرا سی تکلیف پر اپنا ہر آرام و راحت قربان کر دینے کو تیار تھی۔مگر حضرت مسیح ناصری بارہ آدمیوں کی قلیل جماعت کو بھی سنبھال نہ سکے۔ اور ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر آپ کو پکڑوا دیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے حفظ امن کا مقدمہ غالباً ۱۸۹۹ء کو ہوا تھا۔ اس لئے سنہ کے متعلق میاں عبدالعزیز صاحب کو غالباً سہو ہوا ہے۔
{ 702} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ گورداسپور میں جناب چوہدری رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر احمدی تھے۔ ایک دن دوپہر کے قریب وہ میرے پاس موضع اوجلہ میں جو کہ میرا اصل گائوں ہے تشریف لائے اور مجھ کو علیحدہ کر کے کہا۔ کہ ابھی ایک تار محکمانہ طور پر امرتسر سے آیا ہے کہ جو وارنٹ مرزا صاحب کی نسبت جاری کیا گیا ہے اس کو فی الحال منسُوخ سمجھا جائے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ وارنٹ تو ہمارے پاس ابھی تک کوئی نہیں پہنچا۔ لیکن ہمارے اس ضلع میں سوائے حضرت صاحب کے مرزا صاحب اور کون ہو سکتا ہے۔ اس لئے آپ فوراً قادیان جا کر اس بات کی اطلاع حضرت صاحب کو دے آئیں۔ چنانچہ مَیں اسی وقت قادیان کی طرف روانہ ہوا۔ قادیان اوجلہ سے کوئی ۱۷ میل کے فاصلہ پر ہے۔ مَیں سیکھواں سے ہوتا ہوا شام کو یا صبح کو قادیان پہنچا اور حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی۔ لیکن حضرت صاحب نے اس وقت کوئی توجہ نہ فرمائی۔ عصر کے بعد حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم امرتسر سے آئے اور انہوں نے بھی حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ کسی پادری نے حضور پر امرت سر میں دعویٰ دائر کیا ہے۔ جس کی خبر کسی طرح سے انہیں مل گئی ہے۔ اس بات کو سُن کر حضرت اقدس نے فوراً مجھے بلوایا اور فرمایا کہ آپ کی بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔ فوراً گورداسپور جا کر چودھری رستم علی صاحب سے مفصل حالات دریافت کرکے لائو۔ میاں خیر الدین سیکھوانی بھی اس وقت قادیان میں تھے۔ مَیں نے ان کو ساتھ لیا۔ اور ہم دونوں اسی روز شام کو گورداسپور پہنچ گئے۔ چودھری رستم علی صاحب نے فرمایا کہ مجھے تو اس وقت تک اس سے زیادہ علم نہیں ہو سکا۔ آپ فوراً امرت سر چلے جائیں اور وہاں کے کورٹ انسپکٹر سے جس کا نام پنڈت ہرچرنداس تھا۔ میرا نام لے کر معاملہ دریافت کریں۔ چودھری صاحب نے مجھے ریلوے پولیس کے ایک کنسٹیبل کے ہمراہ کر دیا۔ جو مجھے رات اپنے پاس رکھ کر اگلے دن صبح پنڈت صاحب کے مکان پر لے گیا۔ پنڈت صاحب نے مجھے کہا کہ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ایک دن ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے مجھے بلوا کر یہ دریافت کیا تھا کہ اگر مستغیث امرت سر کا رہنے والا ہو اور ملزم ہوشیارپور کا تو کیا دعویٰ امرت سر میں کیا جا سکتا ہے۔ اور میں نے جواب دیا تھا۔ کہ اگروقوعہ بھی ہوشیار پور کا ہے تو دعویٰ بھی وہیں کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہر دو صاحب میرے ساتھ اس امر میں بحث بھی کرتے رہے۔ پنڈت صاحب نے نائب کورٹ کو بھی بلا کر دریافت کیا لیکن اس نے بھی کوئی اطلاع نہ دی۔ مَیں اتنی خبر لے کر گورداسپور آیا اور چودھری رستم علی صاحب کو بتایا۔ انہوں نے کہا۔ کہ حضرت اقدس کی خدمت میں اسی طرح جا کر عرض کر دو۔ چنانچہ مَیں اور میاں خیر الدین صاحب اسی وقت قادیان آئے اور حضور کی خدمت میں عرض کیا۔
جب ہم قادیان کے لئے چل پڑے۔ تو اسی روز امرت سر سے حکم آیا کہ مارٹن کلارک نے جو استغاثہ زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری امرت سر میں دائر کیا ہے اور جس کا وارنٹ پہلے بھیجا جا چکا ہے۔ جس وارنٹ کے روکنے کے لئے تار بھی دی گئی تھی۔ وہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ گورداسپور سے اسی روز حضرت صاحب کو نوٹس جاری کر دیا گیا کہ اگلے روز ڈپٹی کمشنر کا مقام بٹالہ میں ہو گا اور وہیں آپ پیش ہوں۔ چودھری رستم علی صاحب نے اس حکم کے جاری ہونے سے پہلے موضع اوجلہ میں آ کر منشی عبدالغنی صاحب نقل نویس گورداسپور کو جو میرے چھوٹے بھائی ہیں اور اُس وقت سکول میں تعلیم پا رہے تھے۔ ایک خط اس مضمون کا لکھوا کر دیا۔ کہ کل بٹالہ میں حضور کی پیشی ہے۔ اس کا انتظام کر لینا چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ مولوی رسول بخش کی طرح موقعہ دیا جائے۔ (ایک شخص مولوی رسول بخش پر ان دنوں میں ایک فوجداری مقدمہ بنایا گیا تھا۔ جس میں اُسے مہلت نہ دی گئی تھی اور فوراً زیر حراست لے لیا گیا تھا) یہ خط چودھری صاحب نے میرے بھائی سے لکھوا کر میرے ایک ملازم مسمی عظیم کے ہاتھ قادیان روانہ کر دیا۔ مَیں اس ملازم کو قادیان میں دیکھ کر سخت حیران ہوا کہ وہ اتنی جلدی کیوں کر پہنچ گیا ہے۔ اس نے مجھے وہ خط دیا۔ مَیں نے اس کی اطلاع اندر حضور کو بھیجی۔ حضور اسی وقت مسجد مبارک میں تشریف لائے اور مجھے خط پڑھ کر سُنانے کا حکم دیا۔ مَیں نے سُنایا۔ حضور نے فرمایا۔ اسی وقت تم گورداسپور چلے جائو اور چودھری صاحب سے مل کر شیخ علی احمد وکیل کو لے کر کل صبح بٹالہ پہنچ جائو۔ اسی وقت حضرت صاحب نے مرزا ایوب بیگ صاحب کو لاہور روانہ فرمایا کہ وہ وہاں سے شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک وکیل کو لے کر کل بٹالہ پہنچ جائیں۔ خاکسار مع میاں خیر الدین صاحب اور اپنے ملازم میاں عظیم کے اسٹیشن چھینا کی طرف گورداسپور والی گاڑی میں سوار ہونے کے لئے روانہ ہوا ۔بارش کی و جہ سے کیچڑ زیادہ تھا اور ہمارے پائوں سخت پھسلتے تھے۔ بار بار گرتے اور پھر اُٹھکر چلتے۔ خشیت کا اس وقت یہ حال تھا۔ کہ زار زار رو رہے تھے اور دعائیں کر رہے تھے۔ سیکھواں راستہ میں آتا تھا۔ وہاں پہنچ کر میر سانون کو جس کا گھر راستہ پر ہے میاں امام الدین و جمال الدین کو السلام علیکم دینے کے لئے بھیج کر خود اسی طرح سے آگے چل پڑے۔ ایک میل کے فاصلہ پر میاں امام الدین و جمال الدین صاحب بھی ہمیں مل گئے۔ باہم مشورہ کرکے میاں امام الدین کو گھر کی حفاظت کے لئے واپس بھیج دیا اور میاں جمال الدین صاحب ہمارے ساتھ ہوئے۔ ہم چاروں بمشکل افتاں و خیزاں گاڑی کے وقت چھینا پہنچے۔ شام کو گورداسپور پہنچ کر چودھری صاحب کو ملے اور حضرت کا پیغام سُنایا۔ شیخ علی احمد صاحب اس روز اپنے گائوں دھرم کوٹ رندھاوا میں گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک شخص کو روانہ کیا گیا۔ کہ شیخ صاحب کو کل لے کر بٹالہ پہنچ جانا۔ خاکسار اور چودھری صاحب رانا جلال الدین صاحب انسپکٹر پولیس گورداسپور کے پاس مشورہ کے لئے گئے۔ انہوں نے ہمیں تسلّی دلائی کہ اتنی زبردستی نہیں ہو گی اور ہمیں ضرور موقعہ دیا جائے گا۔ بہر حال اگلے روز صبح میاں خیر الدین ،جمال الدین اور خاکسار بٹالہ پہنچ گئے۔ شیخ علی احمد صاحب بھی پہنچ گئے۔ سرکاری طور پر حضور کو بٹالہ تشریف لانے کا ڈپٹی کمشنر کا نوٹس پہنچ گیا۔ لاہور سے شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی فضل دین صاحب وکیل آ گئے۔ اور دوسرے دوست بھی پہنچ گئے۔ مگر مقدمہ اس روز پیش ہو کر ملتوی ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مارٹن کلارک کے مقدمہ کے ابتدائی حالات یعنی اس مقدمہ کے مقدمات حضرت صاحب کی کسی کتاب میں درج نہیں تھے۔ سو الحمد للہ کہ اس روایت میں مل گئے ہیں۔ ہاں اصل مقدمہ کا ذکر حضور نے اپنی تصنیف ’’ کتاب البریہ‘‘ میں مفصّل تحریر فرمایا ہے۔ بلکہ مقدمہ کی مسل بھی درج کر دی ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی فضل دین صاحب وکیل جن کا اس روایت میں ذکر ہے وہ لاہور کے ایک غیر احمدی وکیل ہوتے تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ اور چوہدری رستم علی صاحب جن کا اس روایت میں ذکر ہے وہ ایک نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے اور سلسلہ کے لئے مالی قربانی میں نہایت ممتاز تھے۔ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔
{ 703} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب زلزلہ کے بعد باغ میں تشریف رکھتے تھے۔ تو آپ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم کی وہ نظم لکھنی شروع کی۔ جس میں پروردگار۔ ثمار۔ کار۔ سنار وغیرہ قوافی آتے ہیں۔ آپ نے ہمیں فرمایا۔ کہ اس طرح کے قوافی جمع کرکے اور لکھ کر ہم کو دو کہ ہم ایک نظم لکھ رہے ہیں۔ اس پر مَیں نے اور حضرت میاں صاحب نے اور اَور لوگوں نے آپ کو بہت سے قافیے اس وزن کے لکھ کر پیش کئے۔ اور زبانی بھی عرض کئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس وقت میں نے بھی بعض قافیے سوچ کر عرض کئے تھے۔ اور حضرت میاں صاحب سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مراد ہیں۔ اور زلزلہ سے مراد ۱۹۰۵ء کا زلزلہ ہے جس کے بعد آپ کئی ماہ تک اپنے باغ میں جا کر ٹھہرے تھے۔ یہ وہی باغ ہے جس کے قریب بعد میں مقبرہ بہشتی قائم ہوا۔
{ 704} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا۔ کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے دو بیٹوں کے نام طیّب اور طاہر تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تاریخی روایتوں میں اس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ایک لڑکا عبداللہ تھا۔ اور اسی کے یہ دو زائد نام طاہر اور طیّب تھے۔ اور بعض طاہر اور طیب کو دو جُدا جُدا لڑکے قرار دیتے ہیں۔ اور اس روایت سے مؤخر الذکر روایت کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ آنحضرت ﷺ کے دو اور بیٹے قاسم اور ابراہیم بھی تھے۔ مگر سب بچپن میں فوت ہو گئے۔
{ 705} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں اور عورتوں میں نصیحت اور وعظ کے دَوران میں حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کے ابتلائوں کے قصّے اکثر سُنایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ عام طریق تھا کہ نصیحت کے لئے گذشتہ انبیاء اور صلحاء کے حالات سُناتے تھے۔
{ 706} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آقا جو نوکر کو سزا دیتا ہے۔ یا خدا تعالیٰ جو بندہ پر گرفت کرتا ہے وہ بعض اوقات صرف ایک گناہ کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ مگر بہت سی سابقہ باتیں جمع ہو کر یہ نتیجہ پیدا کرتی ہیں اور آپ اس بات کو سمجھانے کے لئے ایک حکایت بھی بیان کیا کرتے تھے۔ کہ ایک دفعہ مہارا جہ شیر سنگھ نے اپنے ایک باورچی کو کھانے میں نمک زیادہ ڈالنے کی سزا میں حکم دیا کہ اس کی سب جائیداد ضبط کرکے اسے قید خانہ میں ڈال دیا جائے۔ اس پر کسی اہلکار نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ مہاراج اتنی سی بات پر یہ سزا بہت سخت ہے۔ را جہ کہنے لگا کہ تم نہیں جانتے۔ یہ صرف نمک کی سزا نہیں۔ اس کم بخت نے میرا سوبکرا ہضم کیا ہے۔
{ 707} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ گرمیوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز پیر سراج الحق صاحب نے پڑھائی۔ حضور علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے۔ تیسری رکعت میں رکوع کے بعد انہوں نے بجائے مشہور دعائوں کے حضور کی ایک فارسی نظم پڑھی۔ جس کا یہ مصرع ہے۔ ؎
’’ اے خدا! اے چارۂ آزارِ ما!‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ فارسی نظم نہایت اعلیٰ درجہ کی مناجات ہے جو رُوحانیت سے پُر ہے۔ مگر معروف مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں صرف مسنون دعائیں بِالْجَہر پڑھنی چاہئیں۔ باقی دل میں پڑھنی چاہئیں پس اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت صاحب نے اس وقت خاص کیفیّت کے رنگ میں اس پر اعتراض نہیں فرمایا ہو گا۔ اور چونکہ ویسے بھی یہ واقعہ صرف ایک منفرد واقعہ ہے اس لئے میری رائے میں حضرت صاحب کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہو گا۔ کہ لوگ اس طرح کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت صاحب نے اس وقت سکوت اختیار کرکے بعد میں پِیر صاحب کو علیٰحدہ طور پر سمجھا دیا ہو۔ کہ یہ مناسب نہیں۔ کیونکہ پِیر صاحب کی طرف سے اس کی تکرار ثابت نہیں۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 708} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبداللہ صاحب مولوی فاضل سابق مدرس ڈیرہ بابا نانک نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مندرجہ ذیل خط شیخ فتح محمد صاحب کے پاس دیکھا تھا۔ یہ خط حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اولؓ کے نام تھا۔ مگر خط کا مضمون شیخ فتح محمد صاحب کے متعلق تھا اور لفافہ پر حضرت خلیفہ اوّلؓ کا جمّوں والا پتہ درج تھا۔
مکرمی اخویم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فتح محمد حصولِ بشارت کے لئے دو رکعت نماز وقت عشاء پڑھ کر اکتالیس دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس کے اوّل اور آخر گیارہ گیارہ دفعہ درود شریف پڑھے اور مقصد کے لئے دُعا کرکے رُو بقبلہ باوضو سورہے۔ جس دن سے شروع کریں۔ اسی دن تک اس کو ختم کریں۔ انشاء اللہ العزیز وہ امر جس میں خیر اور برکت ہے ،حالتِ منام میں ظاہر ہو گا۔ والسَّلام
خاکسار غلام احمد ۹؍ مارچ ۱۸۹۰ء
اس خط کے نیچے یہ نوٹ درج تھا۔ کہ:۔
بباعث ضعف و علالت فتح محمد کی طرف خط نہیں لکھا گیا۔
{ 709} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرئوف صاحب مہاجر متوطن بھیرہ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب صبح کے وقت سیر کو باہر تشریف لے گئے۔ تو اس وقت مسجد اقصٰے کے پاس ہی مَیں نے جنوں کے متعلق عرض کیا۔ کہ ’’ قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌمِّنَ الْجِنِّ ‘‘(الجنّ:۲) میں کیا واقعہ میں جن ہی تھے یا کوئی اور قوم مراد ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ یہ ایک پہاڑی قوم تھی۔ جو عمالقہ نام سے مشہور تھی۔ باقی ہم جنّات کا انکار نہیں کرتے کیونکہ اگر جنّات کا انکار کیا جائے تو پھر روح کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ رُوح بھی نظر نہیں آتی۔ اس طرح فرشتوں اور خدا کا بھی انکار کرنا پڑے گا کیوںکہ یہ بھی نظر نہیں آتے۔ ماسٹر عبدالرئوف صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء کا ہے۔
{ 710} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرئوف صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخری سفر میں لاہور جانے لگے تو اس وقت بھائی شیر محمد صاحب کی دکان (متصل مدرسہ احمدیہ) کے پاس ایک الہام اپنی موت کے متعلق سُنایا۔ جو سارا یاد نہیں۔ مفہوم اس کا یہ تھا۔ ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ ‘‘ گویا کوچ کا وقت ہے۔ مگر مَیں نے یہ سمجھا۔ کہ اس الہام میں حضور کی قرب موت کی طرف تو اشارہ ہے مگر وقت ایسا قریب نہیں اور ابھی کچھ عمر باقی ہے۔ اس وقت اور لوگ بھی ہمراہ تھے۔ آخر کار حضور لاہور جا کر بیمار ہو گئے اور دستوں کی بیماری سے آخر مئی ۱۹۰۸ء میں اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ـ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ماسٹر عبدالرئوف صاحب کو مغالطہ ہوا ہے جو الہام حضرت صاحب کو لاہور جاتے ہوئے ہوا تھا وہ ’’ مباش ایمن از بازیٔ روزگار‘‘۔ تھا۔ ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ‘‘ کا الہام بعد کا ہے۔ جو لاہور میں ہوا تھا۔
{ 711} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک رنگون کا تاجر ابو سعید عربی حضرت صاحب سے ملنے آیا تھا۔ اور اکثر سوالات کیا کرتا تھا۔ اور آنحضرت جوابات دیا کرتے تھے۔ وہ کہتا تھا۔ کہ مَیں دہلی دربار کی غرض سے آیا تھا۔ مگر اب تو وہاں جانے کو دل نہیں کرتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ابو سعید صاحب دراصل عرب نہیں تھے مگر بعض عربی ممالک میں رہ چکنے کی و جہ سے عرب کہلاتے تھے۔
{ 712} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبداللہ صاحب مولوی فاضل سابق مدرس ڈیرہ بابا نانک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ میں نے مندرجہ ذیل خط شیخ فتح محمد صاحب کے پاس دیکھا ہے۔ جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا۔ اور یہ خط خود شیخ فتح محمد صاحب کے نام تھا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مہربانی نامہ پہنچا۔ آپ کے تردّدات بہت طول پذیر ہو گئے ہیں۔ خداتعالیٰ رہائی بخشے شاید ایک ہفتہ ہوا مَیں نے آپ کو خواب میں دیکھا۔ گویا آپ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ کہ مَیں کیا کروں۔ تو مَیں نے آپ کو یہ کہا ہے۔ خدا سے ڈر اور جو چاہے کر۔ سو آپ تقویٰ اختیار کریں۔ اللّٰہ جلّ شانُہٗ آپ کوئی راہ پیدا کر دے گا۔
خاکسار غلام احمد
از لودیانہ محلہ اقبال گنج ۱۸؍مارچ ۹۱ء
خط کے نیچے یہ نوٹ درج تھا:۔
از طرف عاجز حامد علی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ الہامی الفاظ جس روز آپ کا خط آیا۔ اسی روز معلوم ہوئے تھے۔
{ 713} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب کے لئے جب کوئی شخص تحفہ لاتا۔ تو آپ بہت شکر گزار ہوتے تھے۔ اور گھر میں بھی اس کے اخلاص کے متعلق ذکر فرمایا کرتے اور اظہار کیا کرتے تھے۔ کہ فلاں شخص نے یہ چیز بھیجی ہے۔
{ 714} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں بعض لوگوں کا قاعدہ تھا۔ کہ اپنی کسی ضرورت یا مصیبت کے ایام میں ہر روز دُعا کے لئے خط لکھا کرتے تھے۔ جب متواتر بلاناغہ مدّت تک ایسے خطوط کسی شخص کی طرف سے موصول ہوتے رہتے تو حضور فرمایا کرتے تھے۔ کہ اب تو ہم کو بھی اس کے لئے خاص خیال پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ اسی طرح ایک دفعہ منشی محبوب عالم صاحب لاہوری تاجر بائیسکل نے اپنے کسی مطلب کے لئے روزانہ کارڈ لکھنا شروع کر دیا۔ آخر ایک دن پڑھتے پڑھتے حضور فرمانے لگے کہ میاں محبوب عالم تو اب ہمارے پیچھے ہی پڑ گئے۔ اب ہم بھی ان کے لئے خاص طور پر دعا کریں گے۔ چنانچہ دعا کی اور ان کا کام جو اپنے نکاح کے متعلق تھا بخیر و خوبی پورا ہو گیا۔
{ 715} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید جب قادیان سے رخصت ہو کر واپس وطن جانے لگے۔ تو حضرت صاحب بمعہ ایک گروہ کثیر مہمانان کے ان کو الوداع کہنے کے لئے دُور تک بٹالہ کی سڑک پر تشریف لے گئے۔ آخر جب مولوی صاحب شہید رخصت ہونے لگے۔ تو سڑک پر ہی حضرت صاحب کے قدموں پر گِر پڑے۔ اور جدائی کے غم کے مارے ان کی چیخیں نکل گئیں اور زار زار رونے لگے۔ حضرت صاحب نے ان کو بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور تسلّی دی اور رخصت کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ روایت نمبر ۲۶۰ میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہو چکا ہے۔
{ 716} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیردین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرا ایک لڑکا شیر خوارگی میں فوت ہو گیا۔اس کے بعد جب مَیں قادیان آیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ میں شام کے قریب ٹہل رہے تھے۔ میرے السلام علیکم عرض کرنے پر فرمایا کہ تمہارا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ غم نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ درخت کا پھل سب کا سب قائم نہیں رہا کرتا۔ بلکہ کچھ گِر بھی جایا کرتا ہے مگر اس سے بھی اتنا ثابت ہو جاتا ہے کہ درخت بے ثمر نہیں ہے۔ اور آئندہ کے لئے امید پیدا ہوتی ہے۔
{ 717} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں۔ یہ خطوط افسران سرکار انگلشیہ کی طرف سے ہمارے آباو اجداد کے نام ہیں۔ اور اصل کاغذات میرے پاس محفوظ ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خطوط اور سندات ان کے علاوہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتب میں شائع فرما چکے ہیں۔ اور جو خود خاکسار بھی سیرۃ المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۳۳ میں درج کر چکا ہے۔
(۱)
مرزا صاحب مشفقی مہربان دوستان مرزا غلام مرتضیٰ خاں صاحب رئیس قادیان
بصد شوق ملاقات واضح ہو۔ کہ پچاس گھوڑے مع سواران زیر افسری مرزا غلام قادربرائے امداد سرکار و سرکوبی مفسدان مرسلہ آں مشفق ملاحظہ حضور سے گذرے۔ ہم اس ضروری امداد کا شکریہ ادا کرکے وعدہ کرتے ہیں۔ کہ سرکار انگریزی آپ کی اس وفاداری اور جاں نثاری کو ہرگز فراموش نہ کرے گی۔ آں مشفق اس مراسلہ کو بمراد اظہار خدماتِ سرکار اپنے پاس رکھیں۔ تاکہ آئندہ افسران انگریزی کو آپ کے خاندان کی خدمات کا لحاظ رہے۔ فقط
الراقم (مسڑ) جیمس نسبٹ (صاحب بہادر) ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
دستخط بحروف انگریزی۵۷ء مقام گورداسپور
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد ماجد تھے۔ جنہوں نے ۱۸۵۷ء کے غدر کے موقعہ پر اپنی گرہ سے پچاس گھوڑے اور ان کا سارا ساز و سامان مہیّا کر کے اور پچاس سوار اپنے عزیزوں اور دوستوں سے تیار کرکے سرکار کی امداد کے لئے پیش کئے تھے۔
(۲)
از پیش گاہ (مسٹر) جیمس نسبٹ (صاحب بہادر) ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
دستخط بحروف انگریزی مہر دفتر ڈپٹی کمشنر گورداسپور
عزیز القدر مرزا غلام قادر ولد مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان
بمقابلہ باغیان نا عاقبت اندیش ۵۷ء آں عزیز القدر نے بمقام میر تھل اور ترموں گھاٹ جو شجاعت اور وفاداری سرکار انگریزی کی طرف سے ہو کر ظاہر کی ہے۔ اس سے ہم اور افسرانِ ملٹری بدل خوش ہیں۔ ضلع گورداسپور کے رئیسوں میں سے اس موقعہ پر آپ کے خاندان نے سب سے بڑھکر وفاداری ظاہر کی ہے۔ آپ کے خاندان کی وفاداری کا سرکار انگریزی کے افسران کو ہمیشہ مشکوری کے ساتھ خیال رہے گا۔ بہ جلدوئے اس وفاداری کے ہم اپنی طرف سے آں عزیز القدر کو یہ سند بطور خوشنودی عطا فرماتے ہیں۔
المرقوم یکم اگست ۵۷ء
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا غلام قادر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے جو حضرت صاحب سے چند سال بڑے تھے اور ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے۔
(۳)
دستخط بحروف انگریزی جنرل نکلسن بہادر
تہور پناہ شجاعت دستگاہ مرزا غلام قادر خلف مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان۔
چونکہ آپ نے اور آپ کے خاندان نے بمقابلہ باغیانِ بداندیش و مفسدان بدخواہ سرکار انگریزی غدر ۱۸۵۷ء میں بمقام ترموں گھاٹ و میر تھل وغیرہ نہایت دلدہی اور جاں نثاری سے مدد دی ہے۔ اور اپنے آپ کو سرکار انگریزی کا پورا وفادار ثابت کیا ہے۔ اور اپنے طور پر پچاس سوار معہ گھوڑوں کے بھی سرکار کی مدد اور مفسدوں کی سرکوبی کے واسطے امداداً دئیے ہیں۔ اس واسطے حضور ایں جناب کی طرف سے بنظر آپ کی وفاداری اور بہادری کے پروانہ ہذا سنداً آپ کو دے کر لکھا جاتا ہے کہ اس کو اپنے پاس رکھو۔ سرکار انگریزی اور اس کے افسران کو ہمیشہ آپ کی خدمات اور ان حقوق اور جاں نثاری پر جو آپ نے سرکار انگریزی کے واسطے ظاہر کئے ہیں۔ احسن طور پر توجہ اور خیال رہے گا۔ اور ہم بھی بعد سرکوبی و انتشار مفسدان آپ کے خاندان کی بہتری کے واسطے کوشش کریں گے۔ اور ہم نے مسٹر نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کو بھی آپ کی خدمات کی طرف توجہ دلا دی ہے۔ فقط
المرقوم اگست ۱۸۵۷ئ
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس خط کے ایک ماہ بعد یعنی ماہ ستمبر ۱۸۵۷ء میں جنرل نکلسن بہادر دہلی کی فتح میں مارے گئے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خطوط اور سندات مجھے جس صورت میں ملی ہیں۔ میں نے اسی صورت میں درج کر دی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس قسم کے خطوط یا سندات فارسی یا اردو میں لکھے جاتے تھے۔ اور ممکن ہے کہ کوئی انگریزی نقل دفتر میں رہتی ہو۔ اور اصل بھجوا دیا جاتا ہو۔ واللّٰہ اعلم
{ 718} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین بھیں والے کے مقدمہ میں گورداسپور تشریف لے گئے۔ اور مَیں بھی وزیرآباد سے سیدھا گورداسپور پہنچا۔ صبح کی نماز پڑھکر حضرت لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں دبانے لگ گیا۔ میرے دبانے پر حضرت صاحب نے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھایا اور مصافحہ کے لئے میری طرف ہاتھ بڑھایا۔مصافحہ کرکے فرمایا۔ حافظ صاحب آپ اچھے ہیں۔ تو میں نے عرض کیا۔ کہ حضور مجھے پہچانتے ہیں۔ فرمایا۔ ’’ حافظ صاحب کیا مَیں آپ کو بھی نہیں پہچانتا؟‘‘۔ یہ پاک الفاظ آج تک میرے سینے میں محبت کا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ اور جب یاد آتے ہیں تو سینے کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ اتفاقاً اس دن جمعہ تھا۔ چوہدری حاکم علی صاحب نے عرض کیا۔ کہ حضور نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ کہ حافظ صاحب جو ہیں یہ جمعہ پڑھائیں گے۔ یہ فقرہ سُن کر میں اندر ہی اندر گھبرایا کہ مَیں اس مامور الٰہی کے آگے کس طرح کھڑا ہوں گا۔ مَیں تو گنہگار ہوں۔ الغرض جب جمعہ کا وقت آیا تو مَیں جماعت کے ایک طرف آنکھ بچا کر بیٹھ گیا۔ کہ کوئی اور جمعہ پڑھا دے گا۔ مگر جب اذان ہوئی۔ تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کہاں ہیں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کی۔ حضور میری جرأت حضور کے آگے کھڑا ہونے کی نہیں۔ فرمایا نہیں آپ کھڑے ہو جائیں اور خطبہ پڑھیں۔ آپ کے لئے مَیں دعا کرونگا۔ آخر تعمیل حکم کے لئے ڈرتا ڈرتا کھڑا ہو گیا۔ خدا واحد لاشریک جانتا ہے کہ جب مَیں کھڑا ہو گیا تو اللہ نے ایسی جرأت پیدا کر دی اور ایسا شرح صدر ہو گیا کہ مَیں نے بے دھڑک خطبہ پڑھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کے یہ حضور کی دعا کی برکت تھی۔ اس کے بعد آج تک مَیں اپنے اندر اس دُعا کا اثر دیکھتا ہوں۔
{ 719} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد حسین خانصاحب ٹیلر ماسٹر ساکن گوجرانوالہ حال قادیان نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ تقریباً ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے۔ کہ مَیں قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کو ملا اور عرض کی کہ مَیں حضرت صاحب سے ملاقات کے لئے آیا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی حضرت مولوی صاحب کے مطب میں بیٹھے گذری تھی کہ کسی نے اطلاع دی کہ حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور لا کر مسجد مبارک کے محراب میں حضور کے پاس جا کر بٹھا دیا۔ اور حضور سے کہا۔ کہ یہ ڈاکٹر حسن علی صاحب کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ اور حضور سے ملاقات کے لئے آئے ہیں۔ حضور میری طرف متوجہ ہوئے اور بات چیت شروع کر دی۔ مَیں نے اپنے بچپن سے لے کر اس وقت تک تمام حالات سُنا دئیے۔ اثنائے گفتگو میں حضور نے میری طرف نظر اٹھا کر دیکھا۔ اور فرمایا۔ کہ آپ کی آنکھیں خراب ہیں۔ میں نے عرض کیا۔ کہ بچپن سے ہی میری آنکھیں خراب چلی آتی ہیں۔ والد صاحب بچپن میں فوت ہو گئے تھے۔ بہت تکالیف برداشت کرتا رہا۔ استادوں کی بھی خدمت کی۔ ایک مرتبہ مَیں کوہ مری گیا تھا۔ تو کچھ آرام آ گیا تھا۔ پھر اس کے بعد دوبارہ آنکھیں خراب ہو گئیں۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کا کام کوہ مری اچھا چل سکتا ہے۔ آپ وہیں چلے جائیں۔ مَیں نے عرض کی۔ کہ اب مَیں سکھر میں رہتا ہوں۔ سکھر اور کوہ مری میں تقریباً پانچ چھ سو کوس کا فاصلہ ہے۔ ایک کاروباری آدمی کے لئے جگہ تبدیل کرنا سخت مشکل ہے۔ تو حضور نے فرمایا۔ کہ خدا تمہیں شفا دے گا۔ اور اس کے بعد مَیں نے محسوس کیا کہ وہیں مسجد میں بیٹھے بیٹھے ہی میری آنکھیں بالکل صاف ہو کر ٹھیک ہو گئیں۔ اب میری عمر ۵۶ یا ۵۷ سال کی ہے۔ اب تک مجھے عینک کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ پھر مَیں نے عرض کیا۔ کہ میرا چھوٹا بھائی بہت متعصب ہے۔ اور مَیں چاہتا ہوں۔ کہ وہ بھی احمدی ہو جائے۔ حضوردعا فرمائیں۔ حضور نے جواب میں فرمایا۔ کہ آپ کے ارادے بہت نیک ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا کرے گا۔
اس وقت میرے بھائی کی یہ حالت تھی کہ ایک مرتبہ ان کے پاس اخبار بدر گیا تو ان کے دوست مولوی محبوب عالم صاحب ان کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے کہا۔ بابو صاحب ذرا اخبار تو دکھائیں۔ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ اخبار نہیں پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ قادیان کا اخبار ہے اور اس کے دیکھنے سے آدمی پر ایک قسم کا جادو ہو جاتا ہے۔ مولوی محبوب عالم صاحب نے کہا۔ کہ مرزا صاحب تو قادیان میں بیٹھے ہیں۔ کیا ہمیں زبردستی بازو سے پکڑکر لے جائیں گے اور انہوں نے زبردستی اخبار لے لیا۔ جب پڑھا تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر تھا۔ اور ساتھ ہی قرآن مجید کی آیات سے استدلال کیا ہوا تھا۔ تو ان پر فوراً ہی جادو کا سا اثر ہو گیا۔ غیر احمدی علماء کو بلایا اور ان سے گفتگو کی۔ وہ خود بھی عالم تھے۔ مگر کچھ فیـصلہ نہ ہو سکا۔مگر مجھے تار دے کر گوجرانوالہ سے بُلایا۔ جب مَیں وہاں پہنچا۔ تو مَیں نے دیکھا کہ رات کے گیارہ بجے وہ دعا میں مشغول ہیں۔ میرے جاتے ہی انہوں نے توفّی کا مسئلہ پیش کیا اور میں نے اس کا جواب دیا۔ مَیں نے کہا۔ کہ جس لفظ کی علماء کو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ وہ کسی جاہل سے پوچھ لینا چاہئے گائوں کا پٹواری اور چوکیدار اور تھانے کا منشی عموماً جاہل ہوتے ہیں۔ ان سے پوچھنا چاہئے۔ کہ وہ جو روزمرہ متوفّی وغیرہ لکھتے ہیں۔ تو کیا ان کا مطلب مرنے والے کے متعلق یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ آسمان پر چڑھ گیا یا یہ کہ مرکر زمین میں دفن ہوا۔ جب متوفّی سے مراد آپ مرا ہوا شخص سمجھتے ہیں تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے اس سے زمین میں دفن ہونا مراد نہیں۔ تو جواب میں انہوں نے کہا کہ بھائی ہمیں تو مرزا صاحب کے پاس قادیان لے چلو۔ اور بیعت کرا دو۔ اس پر مَیں اپنے بھائی اور مولوی صاحب موصوف اور تین اور دوستوں کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کے پاس حاضر ہوا۔ اور ان سب کی بیعت کرا دی۔ اور دعا کے لئے خدمت اقدس میں عرض کیا۔
پھر بعد میں جب لوگ نماز پڑھ کر چلے گئے تو ایک پٹھان نے حضرت مولوی نور الدینؓ صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ متواتر چھ ماہ میں نے آپ سے نقرس کا علاج کروایا ہے۔ مگر کچھ بھی آرام نہیں آیا۔ مگر آج یہ واقعہ ہوا۔ کہ جب حضور کھڑکی سے باہر نکلے۔ تو سب لوگ استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے مگر مَیں کچھ دیر سے اُٹھا۔ تو اتفاقاً حضور کا پائوں میرے پائوں پر پڑ گیا۔ اس وقت میں نے محسوس کیا۔ کہ میری نقرس کی بیماری اچھی ہو گئی ہے۔ جب نماز کے بعد حضور اندر تشریف لے جانے لگے۔ تو مَیں نے عرض کیا۔ کہ حضور ہے تو بے ادبی کی بات۔ مگر آپ میرے پائوں پر پائوں رکھ کر چلے جائیں۔ حضور نے مری درخواست پر ایسا کر دیا۔ اور اب مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل صحت ہے۔ اس پر مولوی نور الدینؓ صاحب نے جواب میں فرمایا۔ کہ بھائی مَیں تو معمولی حکیم ہی ہوں۔ لیکن وہ تو خدا کے رسول ہیں۔ ان کے ساتھ مَیں کیسے مقابلہ کر سکتا ہوں مَیں نے تو معمولی دوا ہی دینا تھی۔
اس واقعہ کے گواہ مولوی محبوب عالم صاحب اور میرے بھائی بابو محمد رشید صاحب اسٹیشن ماسٹر اور مستری علم دین صاحب ہیں۔
{ 720} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ محمد ابراہیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں قادیان میں طاعون پڑی اور مرزا نظام الدین کے خاندان کے بہت سے افراد اس طاعون میں مبتلاء ہو کر فوت ہو گئے۔ تو مرزا نظام الدین حضرت خلیفہ اولؓ کے مکان پر آئے اور دروازہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر زار زار رونے لگے۔ جب حضرت مولوی صاحب نے ہمدردی کے رنگ میں اس کا سبب دریافت کیا تو مرزا صاحب نے اسی طرح روتے ہوئے کہا۔ مولوی صاحب! کیا ہماری مصیبت کا کوئی علاج نہیں؟ مَیں نے تو اب کوئی مخالفت نہیں کی۔ مولوی صاحب کچھ وقت خاموش رہے اور پھر فرمایا۔ مرزا صاحب مَیں خدائی تقدیر کو کس طرح بدل سکتا ہوں۔ پھر جو افراد بیمار تھے۔ ان کے علاج معالجہ کے لئے ہمدردانہ رنگ میں مشورہ دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے اور وہ اور ان کے بڑے بھائی مرزا امام دین صاحب ساری عمر حضرت صاحب کے سخت مخالف رہے اور ہر طرح کی ایذا پہنچائی اور سلسلہ حقہ کو مٹانے کی ہر رنگ میں کوشش کی۔ جس کا ذکر گذشتہ روایتوں میں گذر چکا ہے۔ لیکن بالآخر جب مرزا نظام الدین صاحب کے بڑے بھائی مرزا امام دین صاحب فوت ہو گئے اور خدا کے فضل سے جماعت نے بھی اتنی ترقی کر لی تو مرزا نظام الدین صاحب نے محسوس کر لیا کہ اب یہ ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ اور بعض دوسرے لحاظ سے بھی مرزا نظام الدین صاحب کمزور ہو گئے تو انہوں نے آخری وقت میں مخالفت کی شدّت کو ترک کر دیا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اس روایت میں جس طاعون کا ذکر ہوا ہے، وہ ۱۹۱۰ء میں پڑی تھی۔ جس میں مرزا نظام الدین صاحب کے بہت سے اقرباء مبتلاء ہو کر فوت ہو گئے تھے۔
{ 721} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ ہمارے خاندان کے متعلق مجھے اخویم مکرم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے پاس سے مندرجہ ذیل خطوط اور سندات ملی تھیں۔ یہ خطوط شہنشاہان دہلی کی طرف سے ہمارے آبائو اجداد کے نام ہیں۔ اور اصل کاغذات میرے پاس محفوظ ہیں۔ ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے اور ان کے نیچے مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم کا ایک عالمانہ نوٹ بھی درج کیا جاتا ہے۔ جو مولوی صاحب مرحوم نے ان خطوط کو دیکھ کر لکھا تھا۔ مولوی صاحب مرحوم علمِ تاریخ اور فارسی زبان کے نہایت ماہر اور عالم تھے۔ ترجمہ بھی مولوی صاحب موصوف کا کیا ہوا ہے۔

زبدۃ الاماثل والاقران میرزا فیض محمد خاں مستمال بودہ بداند۔ کہ چوں دریں وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سُبحانی از وفاکیشی و خیر سگالی و جاں نثاری شما مسرور ومبتہج شدہ است ـ لہذا حکم جہاں مطاع عالم مطیع شرف صدورمی یا بدکہ آں اخلاص نشان را درسلک امرائے ہفت ہزاری منضبط کردہ وجا داداہ از خطاب عضد الدولۃ مفتخر و ممتاز فرمودہ می شود ـ باید کہ در موکب فیروزی کوکب خود را موجود و حاضر ساختہ مدام بوفا کیشی و خیر سگالی بندگان عرش آشیانی ساعی و مصروف می بودہ باشد۔ فقط
تحریر بتاریخ نوز دہم شہر شوال جلوس ۴ ؁
مہر مدوّر

ترجمہ
بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خاں شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظلِ سبحانی آپ کی وفاکیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں۔ اس لئے حکم جہاں مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کرکے اور جگہ دے کر عضد الدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے۔ چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوں کی وفا کیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں۔
۱۹؍ ماہ شوال ۴ ؁ جلوس
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرزا فیض محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کے دادا تھے اور خط کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے۔ کہ یہ خط ۱۷۱۶ء میں لکھا گیا تھا۔ کیونکہ فرخ سیر ۱۷۱۳ء میں تخت پر بیٹھا تھا اور یہ خط سنہ جلوس کے بعد چوتھے سال کا ہے۔
(۲)
منشور عہد محمد شاہ بادشاہ ہندوستان
اخلاص و عقیدت د ستگاہ میرزا گل محمد مستمال بودہ بدانند۔ دریں وقت سلالۃ النجباء فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ مفصّل حقیقت شما حالی گردانید باید کہ درہرباب خاطر جمع نمودہ درامکنہ خودہا آباد و مطمئن باشند و اینجانب را متوجۂ احوال خود انگاشتہ چگونگی را ارسال دارند بکار ہائے خود بکمال خاطر جمعی مشغول و سرگرم باشند وہرگاہ احدے از عازمان متوجۂ آں سر زمین خواہد شد برمضمون تعلیقچہ اطلاع یافتہ در بارہ آں اخلاص نشان غور واقعی بعمل خواہد آورد۔

ترجمہ
اخلاص و عقیدت دستگاہ میرزا گل محمد (شاہی) دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں۔ اس وقت برگزیدہ شرفا و نجبا فضیلت و کمالات پناہ حیات اللہ نے خود آپ کی بیان کردہ حقیقت کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ لازم ہے کہ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنی جگہ میں آباد اور مطمئن رہیں اور ایں جانب کو اپنے حالات کی جانب متوجہ سمجھ کر اپنے حالات کی کیفیت ارسال کرتے رہیں اور اپنے کار متعلقہ میں پوری دلجمعی کے ساتھ مشغول اور سرگرم رہیں۔ جب کوئی کار پرداز اس سر زمین کی طرف متوجہ ہو گا۔ تو تعلیقہ (رپورٹ) کے مضمون پر اطلاع پا کر اس اخلاص نشان کے بارہ میں واقعی غور عمل میں لایا جائے گا۔
محررہ ۲۴؍ رجب ۱۱۶۱ ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ مرزا گل محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کے والد تھے۔ یہ وہی عالی مرتبہ بزرگ ہیں جن کے تقویٰ اور طہارت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف ’’ کتاب البرّیہ‘‘ میں بڑے تعریفی رنگ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ صاحب خوارق و کرامات تھے۔
(۳)
منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان
نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد بتوجہات خاطر عالی مستمال بودہ بداند کہ دریں وقت رایات عالی وزیر آباد را رشک فروردین واردی بہشت فرمودہ فضیلت و کمالات مآب سیادت و نجابت انتساب بطالہ حسن اخلاق اورا بعرض رسانید در ہر باب خاطر خود راجمعداشت نمودہ درجائیگاہ خودہاسکونت داشتہ باشد کہ انشاء اللّٰہ تعالیٰ در حِین ورود مسکن فیروزی مامن غور وپرداخت احوال آنہا۔ بواقعی خواہدشد درکمال اطمینان و دیانتداری وکلا ئے خود را روانہ درگاہ نمایند۔
۱۲۱۱ ہجری مہر کلاں جو دریدہ ہے
ترجمہ
نجابت و معالی پناہ میرزا گل محمد خان خاطر عالی کی توجہات سے دلجوئی یافتہ ہو کر معلوم کریں کہ اس وقت لشکر شاہی نے وزیر آباد کو فرور دین اور اردی بہشت کا رشک بنایا ہے۔ فضیلت و کمالات مآب بٹالہ کے رہنے والے نے آپ کا حسن اخلاص عرض کیا ہے۔ ہر باب میں خاطر جمع ہو کر اپنے گھر بار میں سکونت رکھیں۔ انشاء اللہ جس وقت مسکن فیروزی مامن میں ورود ہو گا۔ اس وقت آپ کے حالات کی واقعی غوروپرداخت کی جائے گی۔ کمال اطمینان کے ساتھ اپنے وکلاء درگاہ میں روانہ کریں۔
۱۲۱۱ ؁ ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط زیادہ دریدہ ہے۔ اور بعض حصوں کا بالکل پتہ نہیں چلتا۔
(۴)
منشور عہد شاہ عالم ثانی بادشاہ ہندوستان
عالیجاہ رفیع جائیگاہ اخلاص و عقیدت د ستگاہ گل محمد خاں بسلامت باشد بعدہٗ آنکہ عریضہ کہ دریں وقت بخصوص چگونگی احوالات و روئیداد و اخلاص و خدمت گذاری خود وغیرہ مواد کہ قلمی وارسال داشتہ بود رسید حقائق آں واضح وحالی گردید۔ عریضہ مرسلہ ترقی خواہ را در نظر بہادراں حضور فیض گنجور خاقانی گذرانیدہ شد و درجواب رقم قدر تو ام مالک مطاع اشرف بسرافرازی آں عالیجاہ شرف اصدار یافتہ کہ بزیارت آں مشرف دار بعمل خواہد آورد در ہر باب خاطر جمعداشتہ و مستعد خواہش دیوانی بودہ نویساں حالات باشد۔
بتاریخ جمادی الثانی ۱۲۱۳ ہجری مہر بیضوی جو بہت مدھم ہے
ترجمہ
عالیجاہ بلند مرتبہ اخلاص اور عقیدت کے دستگاہ رکھنے والے۔ گل محمد خاں سلامت رہو۔ بعدہٗ وہ عریضہ کہ آپ نے اپنی چگونگی حالات اور روئیداد و اخلاص و خدمت گزاری وغیرہ مواد کے خصوص میں لکھا تھا۔ اس کی حقیقت واضح ہوئی۔ اس عالیجاہ کا عریضہ حضور فیض گنجور کے بہادروں کے سامنے پیش ہو گیا۔ اس کے جواب میں اس عالیجاہ کی سرفراز کی نسبت رقم قدر توام مالک و مطاع اشرف کا حکم صادر ہوا ہے۔ مشرف دار یعنی ناظر اعلیٰ اس کو عمل میں لائے گا۔ دیوانی ضرورتوں کے مستعد ہو کر اپنے حالات لکھتے رہیں۔
محررہ ماہ جمادی الثانی ۱۲۱۳ء ہجری مہر
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ خط بھی کچھ دریدہ ہے اور بعض حصے اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے۔
(۵)
منشور عہد عالمگیر ثانی بادشاہ ہندوستان
عمدۃ الاماثل والا قران گل محمد خاں بدانند عریضہ کہ دریں وقت بخصوص احوالات و روئیداد خود قلمی وارسال داشتہ بود رسید چگونگی آں واضح شد۔ باید کہ خاطر خود را بہر باب جمعداشت و مطمئن خاطر بودہ مشغول امورات خود و احوالاتے کہ باشد ہمہ روزہ بعرض رسانند۔
بتاریخ شہر رجب ۱۲۱۶ہجری مہر
ترجمہ
برگزیدہ اکا برو معاصر گل محمد خاں معلوم کریں کہ اس وقت آپ کے عریضہ سے جس میں خصوصیت کے ساتھ آپ نے اپنی روئیداد اور حالات قلمبند کرکے بھیجا ہے، تمام کیفیت واضح ہوئی۔ چاہئے کہ آپ ہر بات میں مطمئن اور خاطر جمع ہو کر اپنے متعلقہ امور میں مشغول رہیں اور اپنے روزمرہ کے حالات لکھتے رہیں۔
محررہ ماہ رجب ۱۲۱۶ ہجری مہر
ان خطوط کے متعلق مولوی عبید اللہ صاحب بسمل نے مندرجہ ذیل نوٹ لکھا ہے۔
بِسمِ اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلّے علیٰ رسُولہ الکریم
شہنشاہ ہند محمد فرخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب نور اللہ مرقدہٗ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے۔ دربار اکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوتی تھی۔ کہ ہشت ہزاری کا منصب و لیعہد اور خاندانِ شاہی کے شہزادوں کے لئے خاص تھا۔ اور اراکین دربار و وزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے۔ شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا۔ جس وقت گل گنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالار نواب غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لئے مامور فرمایا۔ تو اس کوشش ہزاری کا عہدہ دیا۔ چنانچہ اس وقت کا نامہ نگار نعمت خاں متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے۔
’’ دوششے کہ آں شش ہزاری شش ہزار سوار زدہ بود‘‘
اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے۔ کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا۔ جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا۔ ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی۔ ہفت ہزاری شوو ہرچہ خواہی بکن یعنے ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا۔ الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع و رفیع سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔
دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا۔ اور اسلامی دُنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں برپا ہو گئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا۔ جس کے چمکتے ہوئے فرمانروائوں کو استمالتِ قلوب کی و جہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدولہ دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء دربار کو اعتضاد الدولہ۔ احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں۔
ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک۔ عماد الملک۔ خان جہاں۔ خان دَوراں کے خطابات سے اپنے اپنے امراء و رئو ساء کی دلجوئی کرتی رہی ہیں۔
مغل ایمپائر کے زرّین عہد میں فرمانروایانِ اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے۔ شاہ اکبر ثانی نے سرسیّد کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھا۔ جس کو سرسیّد کے ارادت مند آج تک اُن کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں۔
سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیف قلوب باتباع شاہان مغلیہ والیان ٹونک کو امیرالدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا۔
اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب طاب اللہ ثراہ کے نام ہے جس میں انکو عضد الدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیاہے۔ وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیان ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسیّد کے خطاب جواد الدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے۔ کیونکہ فرخ سیر شہنشاہ ہندوستان تھا۔ اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران مآب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے۔علاوہ برایں عضد الدولہ کا وہ معزز خطاب ہے جو بنو عباس کے خلفاء کی جانب سے ایک ذی شوکت سلطان عضد الدولہ دیلمی کو ملا تھا۔ جس کے خاندان کی طرف حدیث کی مشہور کتاب ’’ دیلمی‘‘ منسوب ہے۔ اس نسبت سے بھی حضرت غفران مآب کا خطاب عضد الدولہ بمقابلہ دیگر رئوساء کے خطاباتِ اعتضاد الدولہ و احتشام الدولہ وشجاع الدولہ و آصف الدولہ و سراج الدولہ و وزیر الدولہ سے اشرف و اعلیٰ ہے۔
جہاں تک خاکسار کی نظر سے بعض بعض امراء و رئوساء پنجاب کے پُرانے کاغذات اور سلاطین مغلیہ کے مناشیر گذرے ہیں۔ کوئی منشور ایسا نہیں گذرا۔ جس میں اس درجہ کا خطاب کسی رئیس خاندان کو منجانب شاہانِ مغلیہ عطا ہوا ہو۔
تیسرا لفظ:۔ امور مذکورئہ صدر کے سوا اس منشور میں خصوصیت کے ساتھ ایک حرف صاد کا درج ہے۔ جو جلی قلم سے نہایت نظر فریب خوش خط روشن سیاہی کے ساتھ ثبت ہے یہ حرف شہنشاہ محمد فرخ سیر کے خاص قلم کا ہے۔ جو ان کی خوشنودی مزاج کی دلیل ہے۔ اور منشور کی شان کو دوبالا کر رہا ہے۔ کیونکہ شاہانِ مغلیہ جس منشور کو وقیع کرنا چاہتے تھے تو اس پر اپنے دستِ خاص سے صاد کر دیتے تھے نعمت خاں عالی اپنے وقائع میں اس حرف صاد کی نسبت لکھتا ہے ؎
سماد شش صاداست از کلک فرنگی بے سخن
یعنی چھٹا حرف صاد ہے جو بادشاہ اپنے ہاتھ سے مناشیر پر ثبت کرتا ہے۔
دوسرا منشور شا ہنشاہ ہندوستان محمد شاہ کا ہے جو جلالت مآب میرزا گل محمد صاحب اَنَارَ اللّٰہُ بُرْہَانَہٗ کی طرف ہے۔ اس پر ایک مہر کا نقش ہے۔ جس کے حروف یہ ہیں۔
’’باللہ محمود فی کل فعالہ محمدؐ‘‘
غالباًیہ نقش خاص شاہی ہاتھ کی انگوٹھی کی مُہر کا ہے اور نہایت خوشخط کندہ کیا ہوا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ پھیکا لگا ہے جس کے حروف ماند پڑ گئے ہیں۔ خاکسار نے آئی گلاس منگوا کر نہایت دقت کے بعد پڑھا ہے۔
فرخ سیر ہندوستان کے عہد میں جبکہ دارالسلطنت کے نواح و اطراف کے رئوساء کی خود سری نے سلطنت کی باگ ڈور کو ڈھیلا کر رکھا تھا۔ باوجود یکہ قادیان دہلی سے بعید فاصلہ پر تھا اور آمدورفت کے وسائل بھی کم اور راستہ بھی طویل تھا۔ مگر غفران مآب نے سلطنت کی وفاداری کو اپنے خاندان کو آل تمغا سمجھ کر ارادتمندانہ عرائض سے اپنی نجابت کا ثبوت دیا۔ جن کے جواب میں فرخ سیر نے نہایت محبت آمیز الفاظ کے ساتھ اپنا منشور مع خطاب ارسال کیا۔
اس منشور اور اس کے بعد کے مناشیر میں بلند حوصلگی اور علوہمت ثابت کرنے والی یہ بات ہے۔ کہ غفران مآب نے تقویٰ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے دربار دہلی میں جانا پسند نہ کیا۔ کیونکہ اس وقت کے دربار کا نقشہ متملق اور چاپلوس اور خوشامدی اراکین سے را جہ اندر کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ ملاہی و مناہی اور ارباب نشاط ڈوم ڈھاریوں سے ہر وقت دربار پُر رہتا تھا۔ غفران مآب نے پنجاب میں رہ کر سلطنت کی وفاداری کا اظہار سرمایہ دیانت سمجھا۔ مگر جاہ طلبی کو دُور ہی سے دھکا دیا۔
العظمۃ للہ کیا ہی ہمت عالی تھی کہ شریعت غرّا کو مدّنظر رکھتے ہوئے دنیاوی اعزاز کی طرف قدم نہ اٹھایا۔ ورنہ اس وقت اگر دربار میں پہنچ جاتے تو شاہی عطیّات سے مالا مال ہو جاتے اور گرانمایہ جاگیر پاتے۔
فرخ سیر کے منشور کے بعد جب نہایت غور سے مغفرت انتساب میرزا گل محمد صاحب طاب اللہ ثراہ کے اسمی جس قدر مناشیر ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے۔ تو ایک اور ہی کیفیت نظر آتی ہے۔ کہ شاہانِ دہلی کے دربار سے بار بار دعوتی مناشیر صادر ہوتے ہیں۔ دہلی تو دُور سہی وزیر آباد تو دروازے پر ہے۔ مگر وہ زُہد و ورع کا دلدادہ بادشاہ کو ملنے تک نہیں جاتا۔ اس پر وفاداری کا یہ حال ہے۔ کہ متواتر عرائض بھیجے جاتے ہیں۔ اور بھیجے بھی ایسے شخص کی وساطت سے جو دربار میں بھی نہایت متّقی اور پرہیز گار مانا جاتا تھا۔ جس کو خود محمد شاہ بادشاہ جیسا رنگیلا اور شاہ عالم ثانی فضیلت مآب کمالات دستگاہ سیادت و نجابت پناہ سید حیات اللہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ الغرض جہاں میرزا گل محمد صاحب کی کرامات ،زبان زد خلائق ہیں۔ یہ بات بھی کم نہیں۔ کہ آپ نہایت متقی اور پرہیز گار اور علم دوست انسان تھے۔
ان مناشیر میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے۔ کہ غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب اور مغفرت نصاب میرزا گل محمد صاحب نے اظہار وفا کیشی کے عرائض بھیج کر اس کے معاوضہ میں جاگیر یا منصب یا خطاب کی استدعا نہیں کی۔ کیونکہ ان مناشیر میں شاہانِ دہلی نے نہیں لکھا کہ آپ کے طلب کرنے پر یا آپ کی استدعا پر یہ خطاب یا منصب عطا کیا جاتا ہے۔ بلکہ دربار دہلی نے اپنی خوشی اور خورسندی مزاج سے خطاب اور منصب دئیے ہیں۔ اور ان عرائض کو ایسے وقت میں نعمت غیر مترقبہ سمجھا ہے۔ جس وقت اکثر نمک خوار رئوساء جوانب و اطراف میں اطاعت سے سرکوبی کر رہے تھے۔
بالآخر بآداب عرض ہے۔ کہ اوّل تو ان سب مناشیر کا فوٹو لے لیا جاوے۔ ورنہ فرخ سیر کے منشور کا عکس تو ضرور لے لینا چاہئے۔ اس کے ساتھ انگریزی اور اردو ترجمے بھی ہوں۔ اگر الفضل میں اس کی کاپیاں چھاپ دی جائیں تو جماعت کے افراد اپنے امام علیہ السلام کے اسلاف کرام کے اعزاز اور مناصب اور علو ہمت پر واقفیت حاصل کرکے ایمان کو تازہ کرلیں۔ والسلام
خاکسار عبید اللہ بسمل احمدی قادیان ۲۴؍ جنوری ۱۹۳۵ء
{ 722} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقہ سے بہت کراہت کرتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات اس کے متعلق بعض لوگوں پر ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا۔ مگر سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی جب تشریف لاتے تھے۔ تو ان کے لئے کہدیا تھا کہ وہ بے شک حقہ پی لیا کریں۔ کیونکہ سیٹھ صاحب معمر آدمی تھے اور پُرانی عادت تھی۔ یہ ڈر تھا کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔ نیز سیٹھ صاحب بیمار بھی رہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کو ذیابیطس بھی تھا اور کاربنکل بھی ہوا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے بڑے تاجر تھے اور نہایت مخلص تھے انہوں نے ۱۸۹۳ء کے آخر میں ہندوستان کے مشہور واعظ مولوی حسن علی صاحب مرحوم کے ساتھ حضرت صاحب کی بیعت کی تھی۔ مگر افسوس کہ آخری عمر میں ان کی تجارت بہت کمزور ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا تھا۔ کہ
’’قادر ہے وہ بارگہ جو ٹوٹا کام بناوے
بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے ‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔کہ یہ بنا بنایا کام ٹوٹ گیا اور پھر نہ سنبھلا اور آج تک کوئی شخص یہ بھید نہ پا سکا کہ اس یکرنگ فدائی پر یہ دَور کس طرح آیا۔
{ 723} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عبدالمحی عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی زندگی میں ایک نکاح کیا تھا۔ مگر بعد رخصتانہ انہیں اپنی بیوی پسند نہ آئی۔ جس پر حضور کی خدمت میں عربی میں خط لکھا کہ میری بیوی میں یہ یہ جسمانی نقص ہیں جن کی و جہ سے مجھے اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ حضور نے ان کے رقعہ پر ہی یہ مختصر سا فقرہ لکھ کر واپس کر دیا۔
کہ ’’اِطْفَأِ السِّرَاجَ وَافْعَلْ مَاشِئْتَ‘‘
خاکسار عرض کرتا ہے۔کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ چراغ بجھا لیا کرو اور پھر جو جی میں آئے کیا کرو۔مطلب یہ تھا کہ جب شادی کر لی ہے تو اب بیوی کے بعض جسمانی نقصوںکی و جہ سے اس سے بے اعتنائی برتنا ٹھیک نہیں۔ اگر دیکھنے سے رغبت پیدا نہیں ہوتی۔ تو چراغ بجھا دیا کرو۔ تاکہ نظر کام کرنے سے رک جائے اور نقص اوجھل رہیں۔ اس طرح رغبت ہو جائے گی۔ مگر افسوس ہے کہ عرب صاحب اپنے دل پر غالب نہ آسکے اور بالآخر بیوی کو طلاق دیدی۔
{ 724} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے ایک دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں ایک پیٹنٹ مقوی دوا بھیجی کہ حضور بہت محنت کرتے ہیں اسے استعمال فرمائیں۔ حضرت صاحب نے ایک دن استعمال کی۔ تو اسی دن پیشاب کی تکلیف ہو گئی۔ اس کے بعد حضور نے وہ دوا استعمال نہ کی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حکیم صاحب مرحوم لاہور کے رہنے والے تھے۔ اور بہت مخلص تھے۔ حضرت صاحب اکثر ان کی معرفت لاہور سے سودا منگایا کرتے تھے۔
{ 725} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ اگر کبھی کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسم کی عام کمزوری کے دُور کرنے کا نسخہ پوچھتا۔ تو آپ زیادہ تر یخنی اور شیرہ بادام بتایا کرتے تھے۔ اور دوائوں میں ایسٹن سیرپ یعنی کچلہ کونین اور فولاد کا شربت بتایا کرتے تھے۔
{ 726} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اوائل میں مَیں حقہ بہت پیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ پاخانہ میں بھی حقہ ساتھ لے جایا کرتا تھا۔ تب جا کر پاخانہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت اقدس جالندھر تشریف لائے۔ جماعت کپور تھلہ اور یہ خاکسار بھی حاضر خدمت ہوئے۔ وعظ کے دَوران میں حقہ کی بُرائی آ گئی۔ جس کی حضور نے بہت ہی مذمت کی۔ وعظ کے ختم ہونے کے بعد خاکسار نے عرض کی۔ کہ حضور مَیں تو زیادہ حقہ پینے کا عادی ہوں۔ مجھ سے وہ نہیں چھوٹ سکے گا۔ ہاں اگر حضور دعا فرمائیں۔ تو امید ہے کہ چھوٹ جائے۔ حضور نے فرمایا۔ آئو ابھی دعا کریں سو آپ نے دُعا فرمائی اور اثناء دُعا میں حاضرین آمین آمین کہتے رہے۔ حضور نے دیر تک خاکسار کیلئے دعا کی۔ رات کو مَیں نے خواب میں دیکھا۔ کہ حقہ میرے سامنے لایا گیا ہے۔ مَیں نے چاہا کہ ذرا حقہ پیوں۔ جب مَیں حقہ کو مُنہ سے لگانے لگا۔ تو حقہ کی نلی ایک سیاہ پھنیر سانپ بن گئی۔ اور یہ سانپ میرے سامنے اپنے پھن کو لہرانے لگا۔ میرے دل میں اس کی سخت دہشت طاری ہو گئی۔ مگر اسی حالتِ رئویا میں مَیں نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے بعد میرے دل میں حقہ کی انتہائی نفرت پیدا ہو گئی۔ اور مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے حقہ چھوڑ دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میاں فیاض علی صاحب پُرانے صحابہ میں سے تھے۔ اب چند سال ہوئے فوت ہو چکے ہیں۔
{ 727} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مَیں نے ۱۸۹۰ء میں قادیان مسجد مبارک میں بیعت کی تھی۔ مجھ سے پیشتر چند گنتی کے آدمی بیعت میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت میں سوائے اپنے اور جماعت کپور تھلہ کے کسی مہمان کو مسیح موعود علیہ السلام کے دسترخوان پر نہ دیکھتا تھا۔ حضرت اقدس دستِ مبارک سے زنانہ مکان سے کھانا لے آتے تھے۔ اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر تناول فرماتے تھے اور خاکسار سوائے شاذ و نادر کے ہمیشہ ہر ایک مباحثہ اور سفر میں حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہے۔
{ 728} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ خاکسار نے حضور اقدس علیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے مولویوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ اس لئے حضور کچھ ارشاد فرماویں۔ آپ نے فرمایا۔ کہ جب کہیں گفتگو کا موقعہ ملے۔ تو دُعا کر لیا کرنا۔ اور یہ کہدیا کرنا کہ مَیں نے حق کو پہچانا اور قبول کر لیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے ۔ کہ یہ نصیحت بہت مختصر ہے مگر اس میں تاثیرات کا خزانہ مخفی ہے۔
{ 729} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے خاکسار کا ہاتھ پکڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ حضور یہ مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ کہ مَیں ان کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ یہ تو بہت دفعہ آئے ہیں۔
{ 730} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی۔ فرمایا۔ دُعا کرونگا۔ پھر دوسرے دن اسی طرح عرض کی۔ پھر تیسرے دن بھی عرض کی۔ اس پر فرمایا۔ کہ مولوی صاحب آپ تو اس طرح سے کہتے ہیں جیسے آپ کی عمر اسی سال کی ہو گئی ہے۔ آپ کے ہاں تو بیسیوں لڑکے ہو سکتے ہیں۔ سو الحمدللہ کہ اب مَیں صاحبِ اولاد ہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اکثر فرمایا کرتے تھے۔ کہ مرد کو اولاد سے جلد مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی خاص نقص نہ ہو تو اسی نوے سال تک مرد کے اولاد ہو سکتی ہے۔
{ 731} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد عبدالرحمن صاحب مسکین فرید آبادی (برادر اکبر ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی) نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ۱۹۰۱ء میں ایک مرتبہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس مسجد مبارک میں تھی۔ میں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی فرمائش پر حضرت صاحب کی خدمت میں وہ نظم پڑھی جو کہ مَیں نے صداقت مسیح موعود علیہ السَّلام کے بارہ میں لکھی تھی۔ جس کے دو اشعار نمونۃً درج ہیں۔
مثیلِ مسیح نے جو دعو یٰ پکارا
صلیبِ نصار یٰ کیا پارا پارا
غلامانِ احمد کو آیا فرارا
گروہ پادری بس ہوا ہارا ہارا
ان اشعار کو سُن کر حضرت اقدس بہت محظوظ ہوئے اور حضور علیہ السلام نے منہ پر رومال رکھ کر بمشکل ہنسی کو روکا۔ اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی عبدالکریم صاحب اور نواب محمد علی خانصاحب بھی بہت ہی ہنسے اور خوش ہوئے۔ اسی خوشی میں مجھ کو تین کتابیں (ایام الصلح۔ الوصیت۔ مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کی تصنیف کردہ احادیث مسیح موعود) بطور انعام عنایت فرمائیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتب کے نام کے متعلق میاں عبدالرحمن صاحب کو سہو ہوا ہے۔ کیونکہ الوصیّت تو لکھی ہی ۱۹۰۵ء میں گئی تھی۔ یا ممکن ہے سنہ کے متعلق سہو ہوا ہو۔ نیز روایت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انعام کس نے دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ یا نواب صاحب نے دیا ہو گا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میاں عبدالرحمن بیچارے شعر کے وزن و قوافی سے واقف نہیں تھے۔ اس لئے بعض اوقات ان حدود سے متجاوز ہو جاتے تھے۔ اور الفاظ بھی عجیب عجیب قسم کے لے آتے تھے (اس لئے مجلس میں ہنسی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہو گی۔ مگر بہرحال بہت مخلص تھے۔ اسی غزل کا آخری شعر یہ تھا کہ:۔
نوابَین نے جب کہ مجھ کو پکارا گیا افراتفری میں مضموں ہمارا
اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میاں عبدالرحمن صاحب یہ غزل لکھ رہے تھے تو نواب صاحب کے دو صاحبزادوں نے انہیں کسی کام کے لئے پے در پے آواز دی۔ اور اس گھبراہٹ میں ان کا مضمون اور شعر دماغ میں منتشر ہو کر رہ گئے۔ میاں عبدالرحمن صاحب نواب صاحب کے ہاں نوکر تھے۔
{ 732} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۹۰۱ء یا۱۹۰۰ء کا واقعہ ہے۔ کہ مَیں دارالامان میں موجود تھا۔ ان دنوں میں ایک نواب صاحب حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی خدمت میں علاج کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جن کے لئے ایک الگ مکان تھا۔ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے۔ جن میں سے ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا۔ اور عرض کیا۔ کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لئے نواب صاحب کا منشاء ہے کہ آپ ان کے ہمراہ وہاں تشریف لے چلیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا۔ کہ مَیں اپنی جان کا مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے اگر وہ مجھے بھیج دے تو مجھے کیا انکار ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد مبارک میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا۔ حضور نے فرمایا۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کودنے یا پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہیں تو وہ انکار نہ کریں گے۔ لیکن مولوی صاحب کے وجود سے یہاں ہزاروں لوگوں کو ہر روز فیض پہنچتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کا درس دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں۔ ایک دنیاداری کے کام کے لئے ہم اتنا فیض بند نہیں کر سکتے۔ اس دن جب عصر کے بعد حضرت مولوی صاحب درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی و جہ سے منہ سے الفاظ نہ نکلتے تھے۔ فرمایا مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے۔ وہ یہ کہ میں ہر وقت اسی کوشش میں رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے میرے آقا نے میری نسبت ایسا خیال ظاہر کیا ہے۔ کہ اگر ہم نورالدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبو دیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرے گا۔
{ 733} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب کابل کے مہاجرین پہلے پہل ہجرت کرکے قادیان آئے تو ظہر کی نماز کے وقت کھڑکی کے پاس مَیں نے اور پٹھانوں نے حضرت صاحب کے لئے کپڑا بچھا دیا۔ لیکن حضور دوسری کھڑکی سے تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے۔ مَیں نے عرض کیا۔ کہ حضور ہم نے تو دوسری کھڑکی کے پاس کپڑا بچھایا تھا۔ حضور نے فرمایا۔ کہ چلو وہاں ہی سہی۔ اور اُٹھ کر دوسری کھڑکی کے پاس تشریف فرما ہو گئے۔
{ 734} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کے وقت حضور تشریف رکھتے تھے۔ کپور تھلہ کے ایک دوست مہارا جہ کپور تھلہ کا حال سُنا رہے تھے۔ کہ سرکار آپ سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ حضور ان کو کوئی کتاب بھیجیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ ہم سرکاروں کو نہیں بھیجا کرتے۔ بلکہ غریبوں کو بھیجا کرتے ہیں اگر غریب لوگ اس پر عمل کرینگے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو ہی سرکار بنا دے گا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یوں تو حضرت صاحب نے بادشاہوں اور فرمانروائوں کے نام دعوتی مراسلات بھیجے ہیں۔ کیونکہ آخر اس طبقہ کا بھی حق ہے۔ مگر اس موقعہ پر آپ نے غالباً اس لئے استغناء ظاہر کیا ہو گا کہ تجویز پیش کرنے والے نے را جہ صاحب کی تبلیغ کو ایک بہت بڑی بات سمجھا ہو گا۔ اور خیال کیا ہو گا کہ را جہ صاحب مان لیں تو نہ معلوم پھر کیا ہو جائے گا۔ جس پر حضور نے استغناء کا اظہار کرکے غرباء کے طبقہ کو زیادہ قابل توجہ قرار دیا۔
{ 735} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص عبدالحق صاحب بی۔ اے جو لدھیانہ کے ایک مولوی کا بیٹا تھا اور عیسائی ہو گیا تھا، حضور کے پاس آیا۔ اس نے دل میں کچھ سوال سوچے کہ اگر ان کے جواب میرے پوچھنے کے بغیر دے دئیے گئے تو مَیں مان لونگا۔ سو اس وقت ایسا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجلس میں گفتگو شروع کرکے ان سوالوں کے جواب دے دئیے۔ اور وہ شخص مسلمان ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ حضرت صاحب نے یہ بیان کر کے کہ انہیں یہ سوال درپیش ہیں کوئی تقریر فرمائی۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اس موقعہ پر ایسی تقریر فرمائی جس میں ان سوالوں کا جواب خودبخود آگیا۔ اس قسم کا تصّرف الٰہی اور بھی متعدد روایتوں سے ثابت ہے۔
{ 736} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یا کسی کی درخواست پر دُعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ مُنہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی و چہرہ مُبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتا تھا۔ اور آپ آلتی پالتی مار کر دُعا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ دوزانو ہو کر دُعا فرماتے تھے۔ اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دُعا کے وقت دوزانو ہو جایا کرتے تھے۔ یہ دُعا کے وقت حضور کا ادبِ الٰہی تھا۔
{ 737} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے کئی دفعہ فرمایا کہ بندہ جب تنہائی میں خدا کے آگے عاجزی کرتا ہے اور اس سے دعا کرتا ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے تو اگر اس حالت میں کوئی دوسرا اس پر مطلع ہو جائے تو اس کو اس سے زیادہ شرمندگی ہوتی ہے جتنی کہ اگر کسی بدکار کو کوئی عین حالتِ بدکاری میں دیکھ لے تو اُسے ہوتی ہے۔ اُسے قتل ہو جانا اور مرجانا بہتر معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اس کی اس حالت پر کوئی غیر مطلع ہو جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے یہ بات عام عبادت اور عام دُعا کے لئے نہیں ہے بلکہ تنہائی کی خاص دعا اور خشوع خضوع کی حالت کے متعلق ہے جبکہ بندہ گویا ننگا ہو کر خدا کے سامنے گِر جاتا ہے۔
{ 738} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا۔ کہ ایک دن رسولِ خدا صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ نے پچھلی رات اپنے بستر میں نہ پایا۔ اُٹھ کر دیکھا تو آپ گھر میں موجود نہ تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ شاید کسی اور بیوی کے گھر میں تشریف لے گئے ہونگے چنانچہ وہ دبے پائوں تلاش کرتی ہوئی باہر نکلیں تو دیکھا کہ آپ قبرستان میں زمین پر اس طرح پڑے تھے جس طرح فرش پر کوئی چادر بچھی ہوئی ہو۔ اور خداتعالیٰ کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے۔ ’’ سَجَدَتْ لَکَ رُوْحِیْ وَجَنَانِیْ‘‘ یعنی اے میرے خالق و مالک! میری رُوح اور میرا دِل تیرے حضور سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو بھلا یہ کسی مکار کا کام ہے۔ جب تک سچّا عاشق نہ ہو تب تک ایسا نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے تو کفّار آپ کے حق میں کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبِّہٖ یعنی محمد تو اپنے خدا پر عاشق ہو گیا ہے۔
{ 739} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ رمضان شریف میں تہجد پڑھنے کے متعلق حضور سے کسی نے سوال کیا یا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تہجد کے لئے اول وقت اٹھنا چاہئے نہ کہ عین صبح کی نماز کے ذرا قبل۔ ایسے وقت میں تو کتّے بھی بیدار ہو جاتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اول وقت سے رات کا حصہ مراد نہیں بلکہ تہجد کے وقت کا اول حصہ مراد ہے یعنی نصف شب کے جلد بعد۔ آنحضرت ﷺ کا بھی یہ طریق ہوتا تھا کہ تہجد ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ لمبی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو صبح کی اذان سے قبل کسی قدر استراحت کا موقعہ مل جاتا تھا لیکن نوجوان بچے اگر تہجد کی عادت ڈالنے کے لئے صبح کی اذان سے کچھ وقت پہلے بھی اُٹھ لیا کریں تو ہرج نہیں۔
{ 740} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر اللہ دتا صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور احمدیہ بلڈنگس میں حضور تشریف فرما تھے کہ شرقپور بھینی سے ایک ضعیف العمر ناتواں شخص مستقیم نام حضور کے خدمت میں زیارت کے لئے آیا۔ احباب کے جُھرمٹ میں وہ حضور تک نہ پہنچ سکا اور بلند آواز سے بولا۔ حضور مَیں تو زیارت کے لئے آیا ہوں۔ حضور نے فرمایا۔ بابا جی کو آگے آنے دو۔ لیکن وہ اچھی طرح اُٹھ نہ سکا۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ بابا جی کو تکلیف ہے اور پھر حضور خود اُٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھے۔
{ 741} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بابا کریم بخش صاحب سیالکوٹی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ۶،۱۹۰۵ء کے جلسہ کا واقعہ ہے۔ کہ مَیں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لئے آیا۔ اس وقت مسجد اقصیٰ چھوٹی تھی۔ مَیں نے جوتیوں پر اپنی لوئی بچھا دی۔ اور چودھری غلام محمد صاحب و میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی بھی وہاں نماز پڑھنے لگے۔ اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آ گئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد قریب کے مکان والے آریہ نے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ کیونکہ اس کے مکان کی چھت پر بعض اور دوست نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ گالیاں دے رہا تھا۔ حضور منبر پر تشریف لے گئے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے حالات اور لوگوں کے مظالم بیان کرنے شروع کئے۔ جس پر اکثر دوست رونے لگے۔ اسی اثناء میں مَیں کسی کام کے لئے بازار میں اُترا۔ واپسی پر دیکھا کہ بھیڑ زیادہ ہے۔ اتنے میں حضور کے یہ الفاظ میرے کان میں پڑے کہ ’’ بیٹھ جائو‘‘ جو حضور لوگوں کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے۔ مَیں یہ الفاظ سُنتے ہی وہیں بازار میں بیٹھ گیا۔ اور بیٹھے بیٹھے مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچا۔ اور حضور کی تقریر سُنی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسی قسم کا واقعہ حدیث میں بھی ایک صحابی عبداللہ بن رواحہ کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی اس قسم کی آواز سن کر گلی میں ہی بیٹھ گئے تھے۔ یہ محبت اور کمال اطاعت کی نشانی ہے اور یہ خدا کا فضل ہے کہ احمدیّت میں اخلاص کا نمونہ عین صحابہ کے نقش قدم پر چلتا ہے۔
{ 742} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور اقدس مسیح موعود علیہ السَّلام نے جلاب لیا ہوا تھا کہ دو تین خاص مرید جن میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی تھے عیادت کے لئے اندر ہی گھر میں حاضر ہوئے۔ اس وقت خاکسار کو بھی حاضر ہونے کی اجازت فرمائی۔ خاکسار نیچے فرش پر بیٹھنے لگا۔ اس پر حضور اقدس نے فرمایا۔ کہ آپ میرے پاس چارپائی پر بیٹھ جائیں۔ خاکسار ’’ اَ لْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَبِ‘‘ کو ملحوظ رکھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بوقت رخصت مَیں نے بیعت کے لئے عرض کی۔ فرمایا۔ کل کر لینا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ آج جانے کا ارادہ ہے۔ اس پر حضور نے چارپائی پر ہی میری بیعت لی۔ اور دُعا فرمائی۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے مجھ کو مبارکباد دی کہ یہ خاص طور کی بیعت لی گئی ہے۔
{ 743} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز حضور علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے تو راستہ میں فرمایا۔ آج رات مجھے یہ الہام ہوا ہے۔ رُبَّ اَغْبَرَ اشْعَثَ لَوْاَقْسَمَ بِاللّٰہِ لَاَ بَرَّہٗ۔ اور فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعداللہ لدھیانوی کی موت کے متعلق ہے۔ ز
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سعد اللہ کا ذکر روایت نمبر ۳۹۰ میں بھی گزر چکا ہے۔ اور عربی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بسا اوقات ایک گرد آلود شخص جس کے بال پریشانی کی وجہ سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں خدا کی محبت پر ناز کرکے اس کی قسم کھا کر ایک بات کہتا ہے اور باوجود اس کے کہ اس بات کا پورا ہونا بظاہر مشکل ہوتا ہے خدا اس شخص کی خاطر اسے پورا کر دیتا ہے۔ اور اس کی عزت رکھ لیتا ہے۔
{ 744} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جھنگی والے پِیر اپنے ایک بھائی کا علاج کروانے کے لئے قادیان آئے اور مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں ٹھہرنا چاہا۔ مگر جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو حضور نے ان کے قیام وغیر ہ کا بندوبست اپنے ہاں کروا لیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے انہیں تین دن ٹھہرایا۔ اس و جہ سے ان کو حضور علیہ السلام کے پاس آنا پڑتا تھا۔ ایک دن مسجد مبارک میں ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ سفر کی کتنی حد ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کو سفر کی کیا ضرورت پیش آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مریدوں کے پاس جانے کو دَورہ کرنا پڑتا ہے۔ اس پر فرمایا۔ اگر آپ بیٹھے رہیں تب بھی جو قسمت میں ہے مل جائیگا۔ دیکھو ہم کبھی اس نیت سے باہر نہیں گئے۔ یہاں ہی اللہ تعالیٰ سب کچھ بھیج دیتا ہے۔ اگر آپ بھی سفر نہ کریں تو دونوں کسریں (نماز اور رزق) جاتی رہیں۔
{ 745} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب یا کسی اور شخص نے ملّاں محمد بخش ساکن لاہور عرف جعفرزٹلی کا ایک کارڈ پیش کیا۔ جس میں لکھا تھا کہ آریوں نے مسلمانوں کو بھی اپنے جلسہ میں مدعو کیا ہے۔ آپ حضرت مرزا صاحب کو میرا سلام کہہ دیں اور عرض کر دیویں کہ اسلام کی عزت رکھی جائے اور حضرت صاحب اس موقعہ پر ایک مضمون لکھیں اس پر حضرت صاحب نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ لوگ بڑے بے حیاء ہیں۔ ایک طرف تو ہم کو کافر کہتے ہیں اور دوسری طرف ہم کو سلام کہتے ہیں اور اسلام کی اعانت کے واسطے دعوت دیتے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جعفرزٹلی ایک بڑا ہی بدگو معاند تھا۔ لیکن جب آریوں کے مقابلہ پر اپنی بے بضاعتی دیکھی اور اپنے گروہ میں کسی کو اس کا اہل نہ پایا تو ناچار حضرت صاحب کی طرف رجوع کیا کیونکہ ان لوگوں کا دل محسوس کرتا تھا کہ اگر باطل کا سر کچلنے کی کسی میں طاقت ہے تو وہ صرف حضرت صاحب ہیں۔
{ 746} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ خاکسار کو اکثر موقعہ ملتا رہا ہے کہ آنحضرت کے پائوں یا بدن دبائے یا کھانے کے واسطے ہاتھ دُھلائے ۔ میاں شادی خان صاحب (حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے خسر) آپ کے خادم ہوتے تھے اور وہ آپ کے واسطے کھانا لایا کرتے تھے۔ حضرت صاحب جب روٹی کھاتے تھے تو ساتھ ساتھ روٹی کے ریزے بناتے جاتے تھے اور فراغت پر ایک خاصی مقدار ریزوں کی آپ کے سامنے سے اُٹھا کرتی تھی جو پرندوں وغیرہ کو ڈالدی جاتی۔ آپ کے کھانے میں لنگر کا شوربہ مع ترکاری ہوتا تھا۔ اکثر اوقات دہی اور آم کا اچار بھی ہوتا تھا۔ ان ایام میں آپ زیادہ تر دہی اور اچار کھایا کرتے تھے۔ خاکسار اور مولوی عبداللہ جان صاحب پشاوری اکثر آپ کا پس خوردہ کھا لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عبداللہ جان صاحب جن کا اس جگہ ذکر ہے وہ میرے نسبتی برادر یعنی میری بیوی کے حقیقی بھائی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے بعد غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے۔
{ 747} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے متعدد مرتبہ دیکھا کہ حضرت اقدس جب بیعت لیتے۔ تو حضور جب یہ الفاظ فرماتے، کہ اے میرے رب! مَیں نے اپنی جان پر ظلم کئے اور مَیں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ تو میرے گناہوں کو بخش دے۔ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں، تو تمام آدمی رونے لگ جاتے تھے اور آنسو جاری ہو جاتے تھے کیونکہ حضرت صاحب کی آواز میں اس قدر گداز ہوتا تھا کہ انسان ضرور رونے لگ جاتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ الفاظ یوں یاد ہیں کہ اے میرے رب! مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور مَیں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ تُو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔
{ 748} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب نے چھوٹی مسجد میں جُمعہ پڑھایا۔ حضرت صاحب بھی وہیں جمعہ میں موجود تھے۔ مولوی صاحب نے درود شریف پڑھکر خطبہ پڑھا۔ اور اس میں انہوں نے اس درود سے یہ استدلال کیا کہ حضرت ابراہیم جو ابوالانبیاء ہیں۔ ان پر تمام انبیاء اور ان کی امتیں اسی طرح صلوٰۃ اور برکت کی دعائیں پڑھتی ہیں اور اسی دُعا اور برکت کا یہ اثر ہے کہ آج ہم میں بھی ایک نبی پیدا ہوا جو ہم میں اس وقت موجود ہے۔ وہ خطبہ بہت ہی لطیف تھا۔ مَیں غور سے ٹکٹکی باندھ کر حضرت اقدس کے چہرہ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اس خطبہ کا حضرت صاحب پر کیا اثر ہوتا ہے۔ لیکن حضور علیہ السلام پر اس خطبہ کا کوئی خاص اثر مَیں نے محسوس نہ کیا۔ اس دن نماز مغرب کے بعد بھی حضور کافی عرصہ تک مسجد میں بیٹھے رہے۔ مگر حضرت صاحب نے اس خطبہ کے متعلق کچھ ذکر نہ کیا۔ میر ے دل میں خیال آیا کہ حضرت صاحب کو ایک نیا مضمون ملا ہے۔ اب حضرت صاحب اس پر کوئی الگ مضمون تحریر فرمائیں گے مگر حضرت صاحب نے اپنی کسی کتاب میں اس مضمون کا ذکر تک نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس اِدھر اُدھر کی باتیں اڑا لینے والے نہ تھے بلکہ وہی کہتے تھے جو خدا آپ کو بتلاتا تھا۔
{ 749} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے زمانہ میں نماز جنازہ خود حضور ہی پڑھاتے تھے۔ حالانکہ عام نمازیں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جمعہ کو جنازہ غائب ہونے لگا تو نماز تو مولوی صاحبان میں سے کسی نے پڑھائی اور سلام کے بعد حضرت مسیح موعودؑ آگے بڑھ جاتے تھے اور جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے جتنے بچے فوت ہوئے۔ ان کی نماز جنازہ حضرت مولوی صاحب نے خود ہی پڑھائی۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی شامل نماز ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کی و جہ مَیں اچھی طرح سمجھا نہیں۔ شاید کبھی حضرت صاحب نے خود مولوی صاحب سے ایسا فرمایا ہو یا شاید یہ و جہ ہو کہ چونکہ حضرت صاحب بہت رقیق القلب تھے اور نماز جنازہ میں امام کے دل پر خاص اثر پڑتا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اوّلؓ اپنے بچوں کے تعلق میں حضرت صاحب کو کوئی جذباتی صدمہ پہنچانا پسند نہ فرماتے ہوں خصوصاً جبکہ آپ جانتے تھے کہ مومنوں کے معصوم بچے بہرحال جنتی ہوتے ہیں۔
{ 750} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس کے غنائِ ذاتی کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ اسی ذکر میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ بدر کی جنگ میں جب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا حد درجہ کو پہنچا دی تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح کا وعدہ ہے تو پھر آپ اس قدر مضطرب کیوں ہوتے ہیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت ابوبکر کی معرفت سے بہت زیادہ تھی۔ اور آنحضرت ﷺ خدا کی صفتِ غنائِ ذاتی کے بہت زیادہ عارف تھے۔ مگر ابو بکرؓ کو صرف خدا کے ظاہری وعدہ کا خیال تھا۔ اس لئے جہاں ابوبکر کو خدا ئی وعدہ کی وجہ سے تسلّی تھی آنحضرت ﷺ باوجود تسلّی یافتہ ہونے کے خدا کے غنائِ ذاتی کے خیال سے بھی خائف تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فارسی شعر ہے جس کا ایک مصرع یہ ہے اور کیا خوب مصرع ہے کہ:۔
’’ہر کہ عارف تراَست ترساں تر ‘‘
{ 751} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۹۰۶ء یا ۰۷ء کا واقعہ ہے کہ آریوں کا ایک اخبار ’’شبھ چنتک‘‘ قادیان سے شائع ہوتا تھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کثرت کے ساتھ دل آزار مضامین شائع ہوتے تھے۔ ہمیں اس اخبار کو پڑھ کر از حد غصہ آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس کا جواب نہ دے۔ ہم خود جواب لکھیں گے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے رسالہ ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ تالیف فرمایا۔ اس رسالہ میں اپنے نشانات پیش کرکے لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت کو چیلنج دیا کہ وہ میرے ان نشانات کے گواہ ہیں۔ اگر یہ نشانات برحق نہیں تو حلفیہ انکار کرکے اشتہار شائع کریں۔ پھر دیکھو کہ عذاب الٰہی کس طرح ان پر مُسلط ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ممکن ہے کہ یہ لوگ حق کو ٹالنے کے لئے بغیر الفاظ مبا ہلہ یا قَسَم کے ایسا اشتہار دیدیں۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ مؤکد بعذاب قسم کے ساتھ انکار کرکے کوئی اشتہار شائع کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ نے ان دونوں (یعنی لالہ ملاوامل و لالہ شرمپت کو) اولاد بھی دی ہوئی ہے اس لئے کہ اگر یہ قسم کھا کر اشتہار دیں گے تو ان کی اولاد پر بھی عذاب نازل ہوگا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اخبار شبھ چنتک اپنی گندہ د ہنی میں انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور چند دن کے اندر اندر اس کا سارا عملہ طاعون کا شکار ہو گیا۔ ان لوگوں کے نام اچھرچند اور سومراج وغیرہ تھے۔
{ 752} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء کے قریب شیخ عبدالرشید صاحب سوداگر چرم بٹالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے باپ نے مجھے عاق کر دیا ہے یا کر دینے والا ہے جس سے مَیں محروم الارث ہو جائونگا۔ حضور نے شیخ صاحب موصوف کی دلجوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ گھبرائو مت۔ مجھے دُعا کے لئے یاد دلاتے رہو۔ خدا بہتر سامان کردے گا۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے بعد بٹالہ سے خبر آئی کہ شیخ صاحب کا باپ مر گیا ہے۔
{ 753} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلمی ثم افریقوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری بیعت کا موجب ایک مولوی صاحب ہوئے جو لاہور انجمن اسلامیہ کے سالانہ جلسہ پر پنڈال سے باہر وعظ کر رہے تھے۔ وہ قرآن کریم کو ہاتھ میں لیکر حلفیہ طور پر بیان کر رہے تھے کہ مرزا صاحب (نعوذ باللہ) کوڑھی ہو گئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ (نعوذ باللہ) نبیوں کی ہتک کرتے تھے۔ جس کو شک ہو قادیان جا کر دیکھ لے۔ خدا کی شان ہے کہ یہ سُن کر میرے دل میں قادیان جانے کی تحریک پیدا ہوئی۔ جب مَیں آیا۔ تو حضرت صاحب کو بالکل تندرست پایا۔ تب مَیں نے حضور کو سارا قصہ سُنایا۔ حضور نے ہنس کر فرمایا۔ یہ مولوی ہمارے مقابلہ میں جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہیں۔ تب مَیں نے آپ کی بیعت کر لی کہ مَیں ان جھوٹوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا۔ بیعت کے ایک سال بعد حضور کرم دین کے مقدمہ کے تعلق میں شہر جہلم میں آئے۔ برلبِ دریا جماعت جہلم نے ایک کوٹھی حضور کی رہائش کے لئے مقرر کر رکھی تھی۔ شام کے وقت جب حضور کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ تو حضور نے فرمایا۔ مَیں گوشت ایک سال سے نہیں کھاتا۔ پلائو کا ایک تھال بھرا پڑا تھا۔ مگر حضور نے خمیری روٹی کے چند لقمے شوربہ میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پتلا کرکے کھائے۔ مگر پلائو کھانے سے انکار کیا۔ اس پر ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضور تبرکاً ایک لقمہ ہی اٹھا لیں۔ اس پر آپ نے چند دانے چاولوں کے اٹھا کر منہ میں ڈالے۔ باقی چاول ہم لوگوں نے تبرک کے طور پر تقسیم کر لئے۔ دوسرے دن جب ڈپٹی سنسار چند کے سامنے وکلاء کی تقاریر ہوئیں۔ تو ساڑھے چار بجے واپسی پر غلام حیدر صاحب تحصیلدار نے حضور سے کہا کہ آج خواجہ کمال الدین صاحب نے بہت عمدہ تقریر کی ہے (خواجہ صاحب بھی اس وقت ساتھ ہی تھے) حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ ابھی کیا ہے، آئندہ خواجہ صاحب کی اَور بھی اچھی تقریر ہو گی۔ سو ہم نے دیکھا کہ بعد میں خواجہ صاحب کی تقریر حضور کی دُعا کے مطابق بہت قابل تعریف ہوتی تھی۔مگر افسوس کہ خواجہ صاحب نے اسے اپنی قابلیّت کا نتیجہ سمجھا اور خلیفہ اولؓ کی وفات پر ٹھوکر کھا کر خلافت سے الگ ہو گئے۔ جہلم میں حضور کے ساتھ شہزادہ مولوی عبداللطیف صاحب شہید بھی تھے۔ حضور احاطہ کچہری میں ان کے ساتھ فارسی میں گفتگو فرما رہے تھے اور اردگرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک دوست نے عرض کیا کہ حضور اردو میں تقریر فرمائیں تاکہ عام لوگوں کو بھی کچھ فائدہ ہو۔ اس پر حضور نے اردو میں تقریر شروع کر دی۔ آپ نے فرمایا۔ مسلمانوں کے تمام فرقے مہدی کے منتظر ہیں۔ مگر مہدی نے تو بہرحال ایک شخص ہی ہونا تھا اور وہ مَیں ہوں۔ اگر مَیں شیعوں کو کہوں کہ مَیں تمہارا مہدی ہوں جو کچھ تمہاری روایات میں درج ہے۔ وہ صحیح ہے اور اسی طرح سنیّوں اور وہابیوں کو بھی کہوں تاکہ سب مجھ سے راضی ہو جائیں تو یہ ایک منافقت ہے۔ ان کو اتنا معلوم نہیں کہ مہدی کا نام حَکم عَدل ہے۔ وہ تو سب فرقوں کا صحیح فیصلہ کرے گا۔ جس کی غلطی ہو گی اس کو بتائے گا تب وہ سچا ہو گا۔ بس یہی و جہ ہے کہ سب فرقے ہمارے دشمن ہو گئے ہیں۔ ورنہ ہم نے ان کا اور کیا نقصان کیا ہے اور حضور دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔
اسی روز حضور نے کوٹھی پر عورتوں میں بھی ایک تقریر فرمائی۔ جس میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو میں نے جو تم کو نصیحت کی ہے یہ میری آخری نصیحت ہے جس طرح کوئی مرنیوالا اپنے لواحقین کو آخری وصیت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب میں واپس لوٹ کر نہ آئوں گا۔ اسی طرح مَیں بھی کہتا ہوں کہ تم پھر مجھے اس شہر میں نہ دیکھو گے۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ میری نصیحت کو دل کے کانوں سے سنو۔ اور اس پر عمل کرو۔ چنانچہ ابھی مقدمہ کی پہلی ہی تاریخ تھی اور کسی کو پتہ نہ تھا کہ کتنی اور پیشیاں ہوں گی اور کتنی مرتبہ حضور کو جہلم آنا پڑے گا۔ مگر خدا کی قدرت کہ اس کے بعد مقدمہ ہی گورداسپور میں تبدیل ہو گیا۔ پھر حضور کو جہلم نہ جانا پڑا۔
اس کے بعد جہلم میں میری سخت مخالفت ہوئی۔ مَیں نے قادیان آ کر حضور سے افریقہ جانے کی اجازت طلب کی۔ حضور نے فرمایا۔ کہ جب انسان سچائی قبول کر لیتا ہے تو پہلے ضرور ابتلاء آتے ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کس قدر ابتلائوں میں مبتلا کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے ڈر ہے کہ باہر کہیں اس سے زیادہ ابتلاء نہ آجائے۔ میرے خیال میں آپ صبر سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کوئی سامان پیدا کر دے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ایک دوست نبی بخش افریقہ سے آئے۔ مَیں نے اُن سے حالات کا تذکرہ کیا۔ وہ مجھے افریقہ لے جانے پر رضا مند ہو گئے۔ اس وقت مَیں نے حضور سے پوچھا اور حضور نے اجازت دیدی اور مَیں ان کے ہمراہ چلا گیا اور خدا نے وہاں مجھے بیوی اور بچے بھی دئیے اور ہر طرح سے اپنا فضل کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سفر جہلم ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا۔
{ 754} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ عبدالحق صاحب ولد شیخ عبداللہ صاحب ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً اس جلسہ سالانہ کا ذکر ہے۔ جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ میں اپنی تقریر میں اپنے آپ کو ذوالقرنین ثابت کیا تھا۔ جلسہ کے بعد ایک ایرانی بزرگ مسجد کے صحن میں حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور بزبان فارسی حضور سے سلسلہ کلام شروع تھا۔ اور چند آدمی حلقہ کئے ہوئے وہاں اس بزرگ کی گفتگو سُن رہے تھے۔ خاکسار بھی شامل ہو گیا۔ کافی عرصہ تک یہ سلسلہ کلام جاری رہا۔ چونکہ سامعین میں سے اکثر فارسی نہ سمجھتے تھے۔ اس لئے ایک دوست نے کسی دوست کو کہا کہ آپ تو فارسی کلام اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے ذرا ہمیں بھی مطلب سمجھا دیں۔ چنانچہ اس دوست نے پنجابی میں وہ کلام سُنا دی۔ جس کا ماحصل یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے اس ایرانی بزرگ سے دریافت کیا۔ کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ جواب ملا کہ شیراز کا باشندہ ہوں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا۔ کہ آپ یہاں کیسے تشریف لائے۔ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب آپ کو پہنچی ہیں یا وہاں احمدیہ جماعت کا کوئی فرد پہنچ گیا تھاجس نے آپ کو حضور کے دعویٰ کی تبلیغ کی؟ ایرانی بزرگ نے جواب دیا کہ نہ تو کوئی کتاب پہنچی تھی اور نہ ہی کسی مبلغ نے مجھے تبلیغ کی ہے۔ مَیں تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہاں آیا ہوں۔ اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ بعد نماز تہجد کشف میں نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔ ایسی حالت میں کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب ایک اور بزرگ اسی تختِ نورانی پر جس پر آنحضرت جلوہ افروز تھے ہمنشین ہیں۔ اور اس بزرگ کی شکل و شباہت حضور علیہ السلام سے تقریباً ملتی جلتی ہے۔ مَیں نے آنحضرت سے عرض کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ امام مہدی علیہ السَّلام ہیں۔ جو آج کل قادیان میں نازل ہو چکے ہیں۔ اس ارشاد نبوی کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔ اور مَیں اس تلاش میں لگ گیا۔ کہ قادیان کا پتہ چلے۔ چنانچہ بڑی کوشش کے بعد معلوم ہوا کہ پنجاب میں لاہور کے قریب ایک گائوں قادیان ہے اور وہاں ایک شخص نے دعویٰ مہدویت کیا ہے۔ اس مکاشفہ کی بناء پر مَیں یہاں پہنچ گیا ہوں۔ اور جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا شرف نیاز حاصل کیا تو دیکھتے ہی فوراً پہچان لیا کہ یہ وہی بزرگ ہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔
{ 755} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیح موعود کے جلد بعد بیعت میں داخل ہوئے تھے۔ اور ابتداء میں ہر طرح کا جوش اور اخلاص دکھاتے تھے۔ چنانچہ ازالہ اوہام میں حضرت صاحب نے ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے بہت عزیز دوست تھے۔ ان کو نہ آتھم کے زلزلہ کے وقت ابتلاء آیا اور نہ محمدی بیگم کے نکاح کے فسخ کے وقت ابتلاء آیا۔ بلکہ ابتلاء آیا تو عجیب طرح آیا۔ یعنی حضرت صاحب جب چولہ صاحب دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابانانک تشریف لے گئے اور پھر ست بچن لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو ان صاحب نے یہ خیال ظاہر کیا۔ کہ واہ یہ خوب مسیح اور مہدی ہیں جو ایسی فضول باتوں کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ بابا نانک مسلمان تھے۔ یہ کام ایسے عہدہ کے شایانِ نہیں۔ غرضیکہ وہ پھر ایسے الگ ہوئے کہ مرتے دم تک ادھر رُخ نہ کیا۔
خاکسار عرض کرتاہے کہ فصیح صاحب آتھم والے مناظرہ میں ہماری طرف سے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے تھے۔ اچھے انگریزی خواں تھے مگر افسوس ہے کہ بعد میں ٹھوکر کھا گئے۔ گو مَیں نے سنا ہے کہ ٹھوکر کھانے کے بعد بھی فصیح صاحب نے کبھی عملی مخالفت نہیں کی۔ صرف الگ ہو کر خاموش ہو گئے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ فصیح صاحب کا یہ اعتراض کہ مسیح ہو کر چولہ کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں نہایت بودا اور کم فہمی کا اعتراض ہے کیونکہ چولہ کی تحقیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک نہایت اہم تحقیق ہے جو ایک بڑی قوم کے متعلق نہایت وسیع اثر رکھتی ہے۔ مجھے تو اس نظارہ سے ایک خاص سرور حاصل ہوتا ہے۔ اور حضرت صاحب کی شان کی رفعت کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندوئوں اور بُدھوں اور عیسائیوں وغیرہ کے بانیوں کو حضرت صاحب نے سچّے رسول ثابت کرکے مسلمانوں کی طرف کھینچ لیا۔ اور سکھّوں کے بانی کو مسلمان ثابت کرکے راستہ صاف کر دیا۔ اس کے بعد باقی ہی کیا رہا ۔
{ 756} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب ڈیرہ بابا نانک (تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور) چولہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ تو یہ عاجز بھی ہمراہ تھا۔ مَیں اور شاید حافظ حامد علی مرحوم حضرت صاحب کے یکّے میں بیٹھے تھے۔ اور باقی اصحاب دوسرے یکّوں میں تھے۔ ہم علی الصبح قادیان سے روانہ ہوئے اور بٹالہ پہنچتے ہی دوسرے یکّے کئے اور سیدھے ڈیرہ نانک روانہ ہو کر دوپہر کے وقت پہنچے۔ وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے آرام کیا۔ اور عصر کے بعد حضرت صاحب چولہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔دس پندرہ آدمی آپ کے ہمراہ تھے۔ جن میں شیخ رحمت اللہ صاحب بھی تھے۔ جس کمرہ میں چولہ رکھا ہوا تھا۔ اس میں بمشکل ہم سب سما سکے۔ درمیان میں ایک بڑی ساری گٹھڑی تھی۔ جو قریباً گز بھر اُونچی ہو گی۔ چولہ صاحب اس کے اندر تھا۔ اور اس کے اوپر درجنوں قیمتی کپڑوں کے رومال چڑھے ہوئے تھے۔ جو سکھ امراء اور راجوں نے چڑھائے تھے۔ زیارت کرانے والا بڈھا مہنت وہاں اس روز موجود نہ تھا۔ اس لئے دکھلانے کا کام ایک نوجوان کے سپرد تھاجو اس کا لڑکا یا رشتہ دار تھا۔ جب بہت سے رُومال کھل چکے تو چند سکھ جو اس وقت وہاں موجود تھے وہ تو احترام کے خیال سے سرنگوں ہو گئے۔ آخر جب چولہ صاحب پر نظر پڑی تو وہ سب بالکل ہی سجدہ میں جا پڑے ۔ ہمیں چولہ صاحب کی پہلی تہہ پر صرف چند آیات اور حروف نظر آئے۔وہ لکھ لئے گئے۔ پھر مجاور سے کہا گیا۔ کہ چولہ صاحب کی دوسری طرف بھی دکھاوے۔ اُس نے پس و پیش کیا۔ کہ اتنے میں پانچ سات روپے شیخ رحمت اللہ صاحب نے اسی وقت اس کے ہاتھ میں دیدئے۔ اس پر اس کی آنکھیں کُھل گئیں۔ جس پر اس نے چولہ دوسری طرف جو تہہ شدہ تھی دکھائی۔ پھر اُسے کہا گیا کہ ذرا اس کی تہہ کو کھولو۔ اس نے اسے شاید سوء ادبی خیال کیا اور تأمل کیا۔ اتنے میں شیخ صاحب نے یا کسی اور دوست نے کچھ اور روپے اس کی مٹھی میں رکھدئیے اس پر اس نے طوعاً و کرہاً ایک تہہ کھولدی۔ ہمارے دوست کاغذ پنسل لئے چاروں طرف کھڑے تھے۔ فوراً جو آیت یا حرف نظر آتے لکھ لیتے یا دوسرے کو لکھا دیتے۔ اس کے بعد مزید کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تو وہ مہنت ہاتھ جوڑنے لگا اور بہت ہی ڈر گیا۔ مگر جونہی اس کی مٹھی گرم ہوئی۔ تو ساتھ ہی اس کا دل بھی نرم ہو گیا اور اس نے ایک تہہ اور کھولدی۔ غرضیکہ اسی طرح منت خوشامد ہوتی رہی اور ہر تہہ کھولنے پر روپے بھی برستے رہے اور کئی احباب نے اپنے جوش کی وجہ سے اس نقرہ باری میں کافی حصہ لیا۔ تاکہ کسی طرح سارا چولہ نظر آ جائے۔ کیونکہ یہ شُبہ بھی تھا۔ کہ کہیں چولہ صاحب پر قرآن مجید کے علاوہ کوئی اور ہندی یا گورمکھی عبارت بھی ساتھ درج نہ ہو۔ آخر جب کئی تہیں کھل چکیں ۔ تو آخری حملہ اس مہنت پر یوں ہوا کہ ہر طرف سے روپے برسنے شروع ہو گئے اور جب وہ ان کے چننے میں مشغول ہوا۔ تو کسی دوست نے پھُرتی کے ساتھ جھپٹ کر چولہ صاحب کو خود پکڑ کر سارا کھول کر حاضرین کے سامنے لٹکا دیا۔ اور اس طرح اندر اور باہر ہر طرف سے دیکھ کر معلوم ہو گیا۔ کہ سوائے قرآن مجید کی آیات کے اور کوئی عبارت چولہ صاحب پر نہیں ہے۔ مگر اس حرکت سے وہ بے چارہ سکھ تو بدحواس ہو گیا۔ ادھر اس نے روپے چننے تھے کہ کہیں وہ سینکڑوں رومالوں کے ڈھیر میں گم نہ ہو جائیں۔ ادھر اسے مسلمانوں کے ہاتھ سے چولہ صاحب کا اس طرح نکال کر اور کھول کر رکھ دینا ایسا خطرناک معلوم ہوا کہ اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ آخر ایک طرف تو وہ زبانی منّت خوشامد کرنے لگا اور دوسری طرف جلدی جلدی روپے چننے لگا۔ تاکہ پھر چولہ صاحب کو اپنے قبضہ میں کر لے۔ مگر اتنے میں ہمارا کام بھی ہو چکا تھا۔ اور آیات بھی سب نقل ہو چکی تھیں اور جو باقی سکھ زائرین تھے وہ سب سجدے میں پڑے تھے۔ اس لئے کوئی شور و شر نہ ہوا۔ صرف مجاور کی زبان پر واہ گرو اور بس جی بس کے الفاظ بطور پروٹسٹ جاری تھے۔ مگر روپے کی بارش سے اس کا دل خوش تھا کہ اتنی رقم یکمشت اسے مل گئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ چولہ صاحب کے متعلق یہ ایک نہایت اہم تحقیق تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ منکشف ہوئی اور حضرت صاحب نے اپنی ایک تصنیف ست بچن میں اسے مفصّل لکھا ہے اور دوسرے دلائل کے ساتھ ملا کر ثابت کیا ہے کہ باوا نانک صاحب ایک پاکباز مسلمان ولی تھے جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کے دل سے قائل تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے سکھ بھائیوں کو ہمارے اس عقیدہ سے ناراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے ہمارے دلوں میں باوا صاحب کی عزت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے اور ہم انہیں دلی انشراح کے ساتھ خدا کا ایک عالی مرتبہ ولی سمجھتے ہیں اور ان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈیرہ بابا نانک کا سفر ۱۸۹۵ء میں ہوا تھا۔
{ 757} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ عبدالحق صاحب ولد شیخ عبداللہ قانونگو ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی بزرگ قادیان آئے تھے۔اور کئی ماہ تک قادیان میں رہے۔ میں ان کی آمد سے تین چار ماہ بعد پھر قادیان آیا اور ان کو مسجد مبارک میں دیکھا۔ غالباً جمعہ کا دن تھا۔ بعد نمازِ جمعہ اس بزرگ نے فارسی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میری بیعت قبول فرمائی جاوے ۔حضور نے فرمایا پھر دیکھا جائیگا۔ یا ابھی اور ٹھہریں۔ اس پر اس ایرانی بزرگ نے بڑی بلند آواز سے کہنا شروع کیا۔ جس کا مفہوم یہ تھا کہ یا تو میری بیعت قبول فرمائیں یا مجھے اپنے دروازہ سے چلے جانے کی اجازت بخشیں۔ ان لفظوں کو وہ بار بار دہراتے اور بڑی بلند آواز سے کہتے تھے۔ اس وقت مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے کھڑے ہو کر سورئہ حجرات کی یہ آیت پڑھی کہ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات:۳) اور فرمایا کہ مومنوں کے لئے یہ ہر گز جائز نہیں کہ نبی کی آواز سے اپنی آواز کو اُونچی کریں۔ یہ سخت بے ادبی ہے۔ آپ کو یوں نہیں کرنا چاہئے لیکن وہ ایرانی بزرگ اپنا لہجہ بدلنے میں نہ آیا۔ آخر اُسے چند آدمی سمجھا کر مسجد کے نیچے لے گئے اس کے بعدمعلوم نہیں کہ وہ بزرگ یہاں رہے یا چلے گئے اور اس کی بیعت قبول ہوئی یا نہ ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے یہ وہی ایرانی صاحب معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا ذکر روایت نمبر ۷۵۴ میں ہو چکا ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بیعت لینے میں توقف کیا تو شاید آپ نے اس ایرانی شخص میں کوئی کجی یا خامی دیکھی ہو گی اور آپ چاہتے ہونگے کہ بیعت سے پہلے نیّت صاف ہو جائے اور اس ایرانی نے جو حضرت صاحب کو خواب میں دیکھا تھا تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ کہ ضرور دل بھی صاف ہو چکا ہو گا کیونکہ بسا اوقات ایک انسان ایک خواب دیکھتا ہے مگر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اس خواب کے اثر کو قبول نہیں کرتا اور دل میں کجی رہتی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 758} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان کے جس قبرستان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد دفن ہوتے رہے ہیں۔ وہ مقامی عیدگاہ کے پاس ہے۔ یہ ایک وسیع قبرستان ہے جو قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن افراد کی قبروں کا مجھے علم ہو سکا ہے ان میں سے بعض کا خاکہ درج ذیل ہے اس خاکہ میں شاہ عبداللہ صاحب غازی کی قبر بھی دکھائی گئی ہے جو ایک فقیر منش بزرگ گذرے ہیں۔ مجھے یہ اطلاع اس قبرستان کے فقیر جھنڈو شاہ سے بواسطہ شیخ نور احمد صاحب مختار عام مرحوم ملی تھی۔ اور شاہ عبداللہ غازی کے متعلق مجھے والدہ عزیزم مرزا رشید احمد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ مرزا گل محمد صاحب (پڑدادا حضرت صاحب) کے زمانہ میں ایک فقیر مزاج بزرگ گذرے ہیں۔ جن کے مرنے پر مرزا گل محمد صاحب نے ان کا مزار بنوادیا تھا۔ ہماری ہمشیرہ امۃ النصیر کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہے۔
{ 759} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد فضل الٰہی صاحب ریڈر سب جج درجہ اول سیالکوٹ نے ایک خط حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔ اور اس کے ہمراہ ایک حلفیہ بیان پنڈت دیوی رام صاحب ولد متھرا داس کا بھجوایا تھا۔ پنڈت صاحب دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں اور کسی زمانہ میں نائب مدرس قادیان تھے۔ اور آجکل اُپ پردھان آریہ سماج دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ہیں۔ حضرت امیر المؤمنین ایدہُ اللہ بنصرہ العزیز نے یہ خط اور اسکے ساتھ کا حلفیہ بیان خاکسار کو برائے اندراج سیرۃ المہدی بھجوا دیا تھا۔ میاں محمد فضل الٰہی صاحب کا خط درج ذیل ہے۔ اس کے بعد پنڈت دیوی رام صاحب کا حلفیہ بیان درج کیا جائیگا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
بخدمت حضرت امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ:۔ میرے آقا کچھ عرصہ ہوا ایک شخص دیوی رام سکنہ دو دو چک تحصیل شکر گڑھ نارووال جاتے ہوئے گاڑی میں ملا اور اس نے ذکر کیا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں کچھ عرصہ دعویٰ سے قبل رہا ہوں۔ اس نے کچھ واقعات زبانی سُنائے تھے۔ مَیں نے اس پر اپنی احمدیت کا ذکر نہ کیا اور کہا کہ مَیں تم سے پھر ملوں گا۔ حسرت تھی کہ قبل از موت اس سے اپنے آقا کے حالات سُن کر تحریر کرلوں مگر بہت عرصہ فرصت نہ ملی۔ اس سال میں نے ایک ماہ کی رخصتیں وقف کر دی تھیں۔ چونکہ مرکز سے مجھے کوئی اطلاع نہ ملی۔ اس لئے مَیں نے ان رخصتوں میں یہ کام سر انجام دینا تجویز کیا۔ میں ۱۵۔ستمبر ۱۹۳۵ء کو بمعہ مولوی محمد منیر احمدی اس کے پاس گیا۔ اور بیان لف ہذا اس سے سن کر تحریر کیا۔ مَیں نے اسے اپنا احمدی ہونا نہ بتلایا تھا۔ اور نہ اس نے پوچھا تھا یہ آریہ بہت نیک سیرت ہے اور خوب ہوشیار اور حق گو ہے۔ مَیں نے اپنی عقل کے ماتحت اس پر بہت سوالات کئے اور دعویٰ سے قبل کے حالات سُنے اور قلمبند کئے۔ آخر میں مَیں نے کہا کہ پنڈت جی مَیں نے ساڑھے پانچ گھنٹے بیان میں صرف کئے۔ اور مَیں نے بہت کو شش کی ہے کہ آپ مرزا صاحب کا کوئی عیب مجھے بتاویں۔ مگر مَیں حیران ہوں کہ آپ نے میرا مطلب پورا نہ کیا۔ میرا اس سے مطلب یہ تھا کہ وہ مجھے مرزا صاحب کے خلاف موجودہ فضاء کے ماتحت مجھے مخالف مان کر کچھ بتائے گا۔ اس نے پانچ منٹ سوچ کے بعد پھر کہا کہ مَیں کیا بتائوں اگر کوئی عیب ہو تو مَیں بتائوں، جھوٹ کس طرح بولوں۔ دوران تحریر بیان مَیں نے انتہائی کوشش کی کہ مخالف حضور کے متعلق کچھ کہے۔ مگر قربان جائوں اس پیارے کی پاکیزگی پر کہ مخالف نے ایک حرف بھی نہ کہا اور میرے زور دینے پر کہا تو صرف اس قدر کہ مرزا صاحب نے بعد ازاں جب مذہبی دنیا میں آئے تو مَیں نے سُنا ہے کہ دو آدمیوں کو قتل کروا دیا تھا ایک لیکھرام کو وغیرہ۔ مَیں نے کہا۔ یہ میرے مطلب سے بعید ہے مَیں نے صرف آپ کی زندگی قبل از دعویٰ لینی ہے اور ساتھ ہی مَیں نے آپ کی عینی شہادت لینی ہے۔ ایک محقق کی حیثیّت سے مجھے بعد کے واقعات یا شنید سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر اس نے کچھ نہیں کہا۔ مَیں حضور کو تمام بیان ارسال کرتا ہوں۔ اگر حضور اس کو پڑھ کر پسند کریں تو پھر میری خواہش ہے کہ مَیں اس کو پہلے یہاں چند اخبار مقامی میں چھپوائوں اور پھر الفضل میں اشاعت ہو۔ میرا ارادہ ہے کہ اس کا فوٹو بھی حاصل کروں۔ حضور بعد ملاحظہ اس کو میرے پاس واپس ارسال فرماویں۔ اگر کسی اور محقق نے جانا ہو۔ تو مجھے مطلع کیا جائے تاکہ مَیں بھی اس کے ساتھ پھر جائوں۔ میری بیوی بیمار ہے۔ اور نیز مقروض ہوں۔
حضور دُعا فرمائیں۔ والسلام خاکسار
محمد فضل الٰہی احمدی ریڈر سب جج درجہ اوّل سیالکوٹ ۷؍اکتوبر ۱۹۳۵ئ۔
بیان پنڈت دیوی رام ولد متھرا داس قوم پنڈت سکنہ دو دو چک تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور باقرار صالح عمر ۷۰ ۔۷۵سال
’’میں ۲۱؍ جنوری ۱۸۷۵،ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گیا تھا مَیں وہاں چار سال رہا۔ مَیں مرزا غلام احمد صاحب کے پاس اکثر جایا کرتا تھا اور میزان طب آپ سے پڑھا کرتا تھا۔ آپ کے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب زندہ تھے۔ مرزا غلام احمد صاحب ہندو مذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ آپ پانچ وقت نماز پڑھنے کے لئے مسجد خاص (مسجد اقصیٰ مراد ہے خاکسار مؤلف)میں جایا کرتے تھے۔ جب آپ کے والد ماجد فوت ہوئے۔ تو اسی مسجد کے صحن میں صندوق میں ڈال کر دفن کئے گئے اور وہ قبر پختہ بنا دی گئی۔
مرزا سلطان احمد صاحب پسر مرزا غلام احمد صاحب حکمت کی کتابیں اپنے دادا سے پڑھا کرتے تھے اور مَیں بھی گاہے بگاہے ان کے پاس جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد میر ناصر نواب صاحب جو محکمہ نہرمیں ملازم تھے۔ ان کا ہیڈ کوارٹر بھی خاص قادیان میں تھا اور وہ وہابی مذہب کے تھے۔ مرزا صاحب اہل سنت والجماعت کے تھے۔ کبھی کبھی دونوں کو اکٹھے نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا۔ تو اکثر اپنے اپنے مذہب کے متعلق بحث و مباحثہ کیا کرتے۔ مَیں بھی فارسی کی کوئی کتاب سُنانے یا میزان طب پڑھنے کے لئے پانچ بجے شام کے قریب مسجد میں چلا جایا کرتا تھا۔کچھ عرصہ بعد میر ناصر نواب صاحب نے اپنی لڑکی کا نکاح مرزا غلام احمد صاحب سے کر دیا۔ مرزا صاحب نے سنت سنگھ جٹ جو بوٹرکلاں کا رہنے والا تھا۔ اس کو مسلمان بنا لیا۔ پادری کھڑک سنگھ سے بھی ایک دفعہ مباحثہ ہوا۔ ۷۸ئ۔۷۷ء میں سوامی دیانند کا بھی شہرہ ہو چکا تھا۔ مرزا صاحب کا ایک تحریری مباحثہ بھی ہوا تھا۔ اخبارات میں انادی اور ورنوں کے متعلق بحث ہوتی رہی۔ آپ کی عمر اس وقت پچیس تیس سال کے درمیان تھی۔ مرزا صاحب پانچ وقت نماز کے عادی تھے۔ روزہ رکھنے کے عادی تھے۔ اور خوش اخلاق۔ متقی اور پرہیز گار تھے۔ قانون اور حکمت میں بھی لائق تھے۔ اگرچہ وکالت کے امتحان میں فیل ہو گئے تھے۔ کچھ مدّت اس سے قبل سیالکوٹ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کلرک یا سپرنٹنڈنٹ رہے تھے۔ انہی ایام میں ایک گوپی ناتھ مرہٹہ بھاگ کر ریاست جموں میں ایک باغ میں رہائش رکھتا تھا۔ اس کے متعلق گورنمنٹ کا حکم تھا۔ کہ اگر اسکو تحصیلدار پکڑے تو اس کو اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے گا۔ اور اگر ڈپٹی کمشنر پکڑے تو اسے کمشنر بنا دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ مرہٹہ مرزا صاحب کی ملازمت کے ایام میں ایک ڈپٹی کمشنر کے قابو آیا۔ اس کا بیان مرزا صاحب نے قلمبند کیا۔ کیونکہ اس مرہٹہ کا مطالبہ تھا کہ مَیں اپنا بیان ایک خاندانی معزز شریف افسر یا حاکم کو لکھوائوں گا۔ اور اس نے خاندانی عزت و نجابت کے لحاظ سے مرزا صاحب کو منتخب کیا۔ یہ حالات مرزا صاحب نے خود اپنی زبان سے سُنائے تھے اور یہ بھی سُنایا تھا کہ مَیں نے وکالت کے امتحان کی تیاری کی تھی اور بائیس امیدوار شاملِ امتحان ہوئے تھے۔ نرائن سنگھ امیدوار جو کہ میرا واقف تھا اس نے عین امتحان میں گڑ بڑ کی اور اس کا علم ممتحن کو ہو گیا۔ اور اس نے بائیس کے بائیس امیدوار فیل کر دئیے۔ کیونکہ اس امر کا شور پڑ گیا تھا۔
جب سوامی دیانند سے مباحثہ ہوتا تھا۔ تو اسی نرائن سنگھ نے مرزا صاحب کا ایک خط بند لفافہ میں جس میں دو کاغذ لکھے ہوئے تھے محکمہ ڈاک میں بھیج دئیے تھے کہ مرزا صاحب نے جرم کیا ہے۔ چنانچہ سپرنٹنڈنٹ صاحب محکمہ ڈاکخانہ جات نے مقدمہ فوجداری مرزا صاحب پر چلا کر ضلع گورداسپور اسسٹنٹ صاحب کے پاس بھیج دیا۔ مرزا صاحب ملزم ٹھہرائے گئے۔ ان دنوں مرزا صاحب کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب جو کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہ مقدمہ پر ایک گدھا جس پر اخباروں کا بوجھ لدا ہوا تھا۔ جن کے نام اودھ سے اخبار ’’ رہبر ہند‘‘ آتا تھا ثبوت کے لئے لائے۔ چنانچہ ایک طرف مدعی سپرنٹنڈنٹ محکمہ ڈاک تھے اور دوسری طرف مرزا صاحب اکیلے تھے۔ اور جُرم یہ تھا کہ مرزا صاحب نے دو آرٹیکل ایک لفافہ میں بند کئے۔ اور ان کے بھائی نے چند ایک وکیل مرزا صاحب کی امداد کے واسطے کھڑے کر دئیے۔ مگر مرزا صاحب نے ان کو کہہ دیا کہ مَیں اپنے جُرم کا خود ذمہ دار ہوں اور عدالت کو جواب دُوں گا۔ چنانچہ بحث ہوئی۔ مرزا صاحب نے سپرنٹنڈنٹ سے سوال کیا کہ مجھ کو میرا جرم بتلایا جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مفصل بیان کیا کہ ایک تو آپ نے مطبع میں مضمون دیا۔ دوسرے اس میں ایک رقعہ لکھا ہوا تھا۔ مرزا صاحب نے اس کے جواب میں ایک گدھے کا بوجھ ثبوت میں پیش کیا۔ کہ رقعہ جزو مضمون تھا۔ چنانچہ میرے سابقہ اخبارات کو ملاحظہ فرمایا جائے۔ کہ مَیں یہی خط لکھتا رہا ہوں۔ چنانچہ پہلے ایڈیٹر صاحب میرے مضمون ذیل کو اخبار میں چھپوا دیں اور اس کے آگے یہ مضمون ہے۔ یہ ایک جزو ہے یا کہ دو اور بہت سے اخبارات مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ کو پیش کئے۔ سامعین کثرت سے موجود تھے۔ مرزا صاحب باعزت طور پر بری ہو گئے۔ یہ واقعہ میری موجودگی کا ہے۔ نرائن سنگھ نے یہ اس لئے کیا کہ جب امتحان وکالت میں ممتحن نے تمام لڑکوں کو فیل کر دیا۔ تو تمام لڑکوں نے ممتحن سے کہا کہ یہ سب شرارت ناقل اور پوچھنے والے نرائن سنگھ کی ہے۔ تمام لڑکوں کو کیوں فیل کیا گیا ہے۔ چنانچہ نرائن سنگھ کا نام شرارت کنندہ درج کیا گیا۔ اس لئے نرائن سنگھ کو مرزا صاحب سے پرخاش تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے یہ مقدمہ مرزا صاحب کے خلاف دائر کروایا تھا۔ نرائن سنگھ اس وقت امرتسر میں تھا۔
مرزا صاحب اورنگ زیب شہنشاہ ہند کے خاندان سے تھے۔ ان کے والد صاحب کشمیر کے صوبہ دار بھی رہ چکے تھے۔ مرزا صاحب قابل حکیم تھے اور پنجاب میں گیارھویں درجہ پر کرسی ملتی تھی اور ان کی جاگیر آٹھ میل چوڑی تھی۔ مستورات کا پردہ بالکل ٹھیک رکھا جاتا تھا۔ حکمت دھرم ارتھ کرتے تھے اور کوئی معاوضہ نہ لیتے تھے۔
مرزا غلام مرتضیٰ صاحب والد مرزا غلام احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب مَیں کشمیر سے واپس آیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد نواب یارقند نے اپنے علاج کے واسطے مراسلہ بھیجا تھا اور مَیں چند آدمی ہمراہ لے کر وہاں پہنچا۔ اور میرے استقبال کے لئے شاہی حکیم اور چند معزز عُہدیدار آئے اور مَیں نے اسلامی طریق کے مطابق نواب صاحب کو السَّلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا۔ اور اپنی رہائش کا بندوبست ایک باغ میں کرایا۔ شاہی حکماء نے میرا امتحان کرنے کے لئے ایک سوال مجھ سے کیا کہ ایک بچہ ماں کے شکم میں کس طرح چھانگا ہو جاتا ہے۔ مَیں نے اسی وقت جملہ حکماء کو کہا۔ کہ ایک سوال مجھ سے بھی حل نہیں ہو سکا۔ شاید آپ میں سے کوئی حل کر سکے۔ کہ کیا پہلے مرغی پیدا ہوئی یا پہلے انڈا پیدا ہوا۔ اس پر جملہ حکماء خاموش ہو گئے۔ اگلے دن صبح کو مَیں نے مریض کو دیکھا اور بیماری کی تشخیص کی۔ اور علاج شروع کرنے سے پہلے چند شرائط نواب صاحب سے منظور کروائیں۔ کہ اگر کوئی غلیظ چیز یا پاک چیز جس طریق پر استعمال کرائوں۔ نواب صاحب کو کرنا ہو گا اور کسی حکیم یا متعلقین میں سے کسی کو ناراض ہونے اور اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہو گا۔ نسخہ علاج ذیل میں درج ہے۔
ستر من بھینس کا گوبر اور کچھ لکڑی حرم سرائے کے صحن میں جمع کرائی جائے۔ اور مستورات کو پردہ کا حکم دیا جائے۔ چنانچہ نواب صاحب کو برہنہ کھڑا کیا گیا اور گوبر کا چبوترہ ان کے گردا گرد کیا گیا۔ سر کے اُوپر ایک ڈھکنا رکھا گیا۔ آنکھیں نتھنے اور منہ کھلا رہا۔ گوبر کے ارد گرد باہر کی طرف لکڑی چنائی گئی اور ان کو آگ لگا دی گئی۔ نواب صاحب روتے اور چلاتے رہے۔ جب لکڑیاں جل گئیں مزدوروں نے ان کو دُور پھینکا۔ اور گوبر بھی ہٹا دیا گیا۔ جب چھ چھ انچ تک گوبر ان کے گرد رہا۔ تو مَیں نے حکماء کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا۔ وزراء اور اس کے متعلقین کی موجودگی میں مَیں نے وہ گوبر انکے جسم سے خود اتارا۔ اور ان دوستوں کو دکھلایا مری ہوئی جوئیں اس گوبر کے ساتھ تھیں۔ اور واپسی پر نواب صاحب نے ایک حقہ چاندی کا۔ اور ایک تھال سونے کا اور ایک لوٹا سونے کا اور ایک دُھسہ۔ ایک لنگی۔ ایک یار قندی ٹٹو اور چار بدرے نقد روپیہ بطور تحفہ کے نذر کے دئیے۔ مَیں نے اس وقت نواب سے سوال کیا کہ کیا یہ اشیاء میری حکمت کے عوض ہیں یا کہ بطور تحفہ۔ نواب صاحب نے وزیروں کی طرف اشارہ کیا کہ معقول جواب دیں۔ کچھ مدّت خاموش رہنے کے بعد بطو رتحفہ بتلایا۔ مَیں نے روپے کے بدرے واپس کر دئیے۔ اور باقی اشیاء جو تحفہ کے طور پر تھیں لے لیں۔ اور واپس چلا آیا۔ مرزا صاحب نے سوال حکماء کا یہ جواب دیا کہ جس وقت نطفہ رحم میں داخل ہوتا ہے۔ کل اجزائے بدن اس میں گر جاتے ہیں۔ اور اپنی اپنی مدتوں پر جیسے کہ قدرت ہے بڑھتے رہتے ہیں۔ اور وہ مادہ جو کہ بازوئوں کی طرف آتا ہے چلتے چلتے کسی خاص وجہ سے رک جائے اور وہ منتشر ہو کر دو جگہ پر تقسیم ہو کر پڑ جاتا ہے جیسا کہ پانی آتے آتے کسی تھوڑی سے رکاوٹ یا اونچائی کے سبب دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ویسے ہی اس مادہ کی خاصیّت ہے۔ کبھی نرانگشت کی طرف رکاوٹ ہو گئی۔ تو دو حصے ہو گئے اور کبھی چھنگلی کی طرف رکاوٹ ہوئی تو وہ دو ہو گئیں۔ مگر مرزا صاحب کے سوال کا جواب حکماء نے نہ دیا۔ نواب صاحب کی بیماری جسم میں جوئوں کی تھی اور مرزا صاحب کی شہرت حکمت یار قند سے سُن کر حکماء نے بلوایا تھا۔
مرزا غلام احمد صاحب کی غذا سادہ ہوتی تھی۔ آپ کے نوکر کا نام جان محمد تھا اور آپ کے استاد کا نام گل محمد تھا جو بیس روپیہ ماہوار پر دونوں بھائیوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ مرزا صاحب کے ہندوئوں اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور شریفانہ برتائو تھا۔ خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ متواضع اور مہمان نواز تھے۔ کبھی کبھی دیگ پکوا کر غرباء اور مساکین کو کھلاتے تھے۔ حکمت کی اجرت نہ لیتے تھے اور نسخہ لکھ کر بھاوامل برہمن پنساری کی دکان پر سے دوائی لانے کے لئے کہتے تھے۔ مرزا صاحب کا ہندوئوں کے ساتھ مشفقانہ تعلق تھا۔ مرزا صاحب ہر وقت مذہبی کتب و اخبارات کا مطالعہ کرتے اور انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی۔ مرزا صاحب کی خدمت میں ایک لڑکا عنایت بیگ تھا۔ اس کو میرے پاس پڑھنے کے لئے بھیجا اور ہدایت فرمائی کہ اس کو دوسرے لڑکوں سے علیحٰدہ رکھنا تاکہ اس کے کان میں دوسرے لڑکوں کی بُری باتیں نہ پڑیں۔ اور یہ عادات قبیحہ کو اختیار نہ کر لے۔ مرزا صاحب بازار میں کبھی نہ آتے تھے صرف مسجد تک آتے تھے اور نہ کسی دکان پر بیٹھتے تھے۔ مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے۔ مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ ’’ غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔ اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے‘‘۔
اگر کسی کی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تھا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دیدیا کرتے تھے اور مرزا صاحب بہ تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے۔ مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے۔ مقدمہ پر لاچاری امر میں جاتے تھے۔ اور کسی آدمی کی نظر میں گرے ہوئے نہ تھے۔ اور مذہبی بحث میں ایک شیر ببر کی طرح ہوشیار ہوجاتے تھے۔ شائستگی اور نرمی اور شیریں کلامی سے بات کیا کرتے تھے۔ طبع کے حلیم اور بردبار تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کی طبیعت میں کبھی غصہ نہیں دیکھا۔ مرزا صاحب بے نماز بھائی بندوں اور دیگر لوگوں سے نفرت کیا کرتے تھے۔ مستورات کو ہمیشہ نماز کی تلقین کیا کرتے۔ جھوٹ سے ہمیشہ نفرت کرتے تھے۔ والد صاحب کے ساتھ کبھی کبھی ضرورت کے وقت بات کرتے اور مرزا سلطان احمد کے ساتھ بھی اسی طرح کبھی کبھی ضرورت کے وقت گفتگو کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی نہیں سُنا تھا کہ مرزا صاحب کو دُنیا سے محبت ہے۔ نہ ہی اولاد سے دنیاوی محبت کرتے سُنا ہے۔ مرزا صاحب نے والد ماجد کی وفات پر کسی قسم کے رنج یا افسوس یا غصہ کا اظہار نہ کیا تھا اور نہ ہی کسی جزع فزع کا اظہار کیا تھا۔ مرزا غلام احمد صاحب کی نسبت مَیں نے کبھی نہیں سُنا تھا کہ انہوں نے چھوٹی عمر میں کوئی بُرا کام خلاف شریعت یا مذہب کیا ہو اور نہ ہی دیکھا تھا۔ عام شہرت ان کے متعلق اچھی تھی۔ مرزا صاحب کو سنگترہ اور آم اور بھُونے ہوئے دانے پسند تھے۔ حلوائی کی چیز کو کھاتے ہوئے مَیں نے کبھی نہ دیکھا۔ روٹی کھایا کرتے تھے اور روٹی موٹی ہوتی تھی۔
میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ میرے روبرو رفعِ یدین ـ آمین بالجہر۔ ہاتھ باندھنے کے متعلق ،تکبیر پڑھنے کے متعلق بحث ہوتی کہ آیا یہ امور جائز ہیں یا نا جائز ہیں۔ ان ایام میں آپ کے دوست کشن سنگھ کنگھی گھاڑا۔ شرم پت اور ملاوامل تھے۔ اور یہ لوگ مرزا صاحب کے پاس کبھی کبھی آتے تھے۔
مَیں نے ایک مرتبہ مرزا صاحب سے سوال کیا کہ دنیا واجب الوجود ہے یاممکن الوجود۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ یہ ظہورِ رَبِّی ہے۔ مَیں نے کہا کہ ظہور کتنی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک ذہنی اور ایک خارجی۔ ذہنی کی مثال دی کہ کسی نے نظم بنا دی۔ کسی نے برتن بنا دیا۔ کسی نے نقش بنا دیا۔ خارجی یہ کہ مادہ سے کوئی چیز لے کر دوسری شکل بنا دینا۔
ایک دفعہ مَیں نے سوال کیا تھا کہ ارواح ایک دفعہ ہی پیدا کردی گئی تھیں یا مختلف وقتوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا جواب مجھے یاد نہیں رہا۔ اسی طرح ایک دفعہ مَیں نے سوال کیا کہ اگر تمام ارواح مکتی پائینگی۔ تو خدا کا خزانہ خالی ہو جائے گا۔ تو پھر خدا بے کار بیٹھے گا؟
اسی طرح ایک اور سوال کیا کہ خدا قادر ہے۔ کیا وہ کوئی اور خدا پیدا کر سکتا ہے۔ جواب فرمایا ’’نہیں‘‘ مَیں نے کہا۔ تب خدا کی قادریت ٹوٹ جاتی ہے۔ فرمایا۔ نہیں۔ کیونکہ اس کی صفت وَحْدَہٗ لَاشَرِیک کے خلاف ہے۔ اس لئے یہ نہیں ہو سکتا۔
مرزا صاحب شرکاء کو ذلیل کرنا نہ چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی بُرائی چاہتے تھے۔ شرکاء گھر میں بھی مرزا صاحب کی عزت کرتے تھے۔
بحث کے متعلق جو مَیں آپ سے کبھی کبھی سوالاً جواباً کیا کرتا تھا۔ فرمایا۔ کہ دو خطوط متوازی لیں خواہ ان کو کتنی دور تک بڑھاتے چلے جائو وہ کبھی نہ ملیں گے۔ اسی طرح بحث کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب منطق بھی جانتے تھے اور سکول میں کوئی جماعت نہ پڑھے ہوئے تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو نہ کبھی بد نظری کرتے دیکھا اور نہ سُنا۔ بلکہ وہ بدنظری کو ناپسند فرماتے اور دوسروں کو روکتے تھے۔ ہمیشہ ادب کا لحاظ رکھتے تھے اور زائرین کی عزت و تکریم کرتے تھے۔ جب کبھی کوئی چیز منگواتے ،پیسے پہلے دیا کرتے تھے۔ مرزا صاحب چشم پوش تھے۔ کبھی کسی میلہ یا تماشہ یا کسی اور مجلس میں نہ جایا کرتے۔ بلکہ ان کے بیٹے شرم کی وجہ سے آپ کے پاس نہ آتے تھے۔ نوکروں کے ساتھ مساوات کا سلوک کرتے تھے۔ ان دنوں مرزا صاحب اکیلے صبح سویرے اور شام کو سیر کو جایا کرتے تھے۔ مَیں نے ان کو پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتے دیکھا ہے۔ گھر سے چھوٹی سی گلی مسجد کو جاتی تھی۔ اس راستہ سے گذر کر مسجد میں جاتے تھے۔ صرف اکیلے ہی ہوا کرتے تھے۔ اگر دو تین ہو جاتے تو مرزا صاحب جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور اگر اکیلے ہوتے تو اکیلے ہی پڑھ لیتے ۔ان دنوں قادیان میں مسلمان عموماً بے نماز تھے۔ قمار بازی میں مشغول رہتے تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کم تھی۔ ان دنوں بڈھا فقیر چور مشہور تھا اور نہالہ برہمن اور خوشحال چند۔یہ دونوں مقدمہ باز مشہور تھے۔ نہالہ برہمن نے اپنی دونوں لڑکیاں چوری کے الزام میں قید کروادی تھیں۔ خوشحال چند پٹواری رشوت کے الزام میں قید ہو گیا تھا۔ ان دنوں نیکی۔ تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی مسلمانوں میں مشہورتھے۔ مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے۔ معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے۔ مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنجوقت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا صاحب گوشہ نشین تھے۔ ہمیشہ مطالعہ اور عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ کتب کی تصانیف اور اخبار کے مضامین بھی تحریر فرماتے تھے۔ میرے ساتھ مرزا صاحب کے تعلقات دوستانہ تھے۔ آپ بڑے خندہ پیشانی سے ملنے والے۔ خوش خلق۔ حلیم الطبع۔ منکسرالمزاج تھے۔ تکبّر کرنا نہ آتا تھا۔ طبیعت نرم تھی۔ خاندان کے دوسرے افراد طبیعت کے سخت اور تند تھے۔ مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹھیک نہ تھا۔ نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے۔ تمام خاندان میں سے صرف مرزا غلام احمد صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ مرزا کمال الدین تارک الدنیا تھے۔ مرزا نظام الدین اور امام الدین میں تمام دُنیا کے عیب تھے۔ میری موجودگی میں مرزا غلام احمد صاحب نے کبھی کوئی عیب نہیں کیا اور نہ کبھی مَیں نے اس وقت سُنا تھا۔ صرف ایک سکھ کو مسلمان کر دیا تھا۔ یہ عیب ہے ۔اس کے سوا مَیں نے کوئی عیب نہ دیکھا ہے اور نہ سُنا ہے۔
مرزا صاحب خوش شکل جوان تھے۔ خوبصورت اور میانہ قد کے تھے۔ سر پر پٹے تھے۔ مرزا صاحب بوقت کلام تھوڑا سا رُک جاتے تھے۔ یعنی معمولی سی لکنت تھی۔ مگر کلام کے سلسلہ میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔ اور آپ کا رُکنا غیر موزوں نہ تھا۔ تحریر میں زبردست روانی تھی۔ صاحب قلم اور سلطان القلم تھے۔ کلام پُر تاثیر تھی۔ پیشانی کشادہ تھی۔ داڑھی چار انگشت کے قریب لمبی تھی۔ سر پر کبھی ٹوپی نہ پہنتے تھے۔ ہاں سفید پگڑی یا لنگی پہنتے تھے۔ چوغہ پہنتے تھے۔ اور گرارہ (یعنی غرارہ) بھی پہنتے تھے۔ تہہ بند بہت کم نہانے کے وقت پہنتے تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو کبھی ننگے نہیں دیکھا۔ تین کپڑے ہمیشہ بدن پر رکھتے تھے مسجد میں چوغہ پہن کر آتے تھے۔ گھر کی ضروریات کا انتظام نہ خود کرتے تھے اور نہ دخل دیتے تھے۔ مرزا سلطان احمد یا ان کے بھائی وغیرہ کرتے تھے۔ مَیں نے مرزا صاحب کو کبھی بیوی کا زیور یا کپڑے بنواتے یا منگواتے نہ دیکھا نہ سُنا ہے۔ کپڑا ہمیشہ سادہ موسم کے لحاظ سے ہوا کرتا تھا۔ سردی میں کبھی سیاہ رنگ کا چوغہ استعمال کرتے تھے۔ سردی میں موزے پہنتے تھے۔ انگریزی جوتی نہ پہنتے تھے۔ بلکہ دیسی جوتی ہی استعمال کرتے تھے۔ جس کمرہ میں آپ رہتے تھے۔ اسی میں کھانا کھایا کرتے تھے۔ ایک گھڑا پانی کا پاس ہوتا تھا۔ رہائش کے کمرہ میں ایک دری ہوتی تھی۔ صرف ایک چارپائی باہر ہوتی تھی۔ میں نے مرزا صاحب کو کبھی لیٹے ہوئے نہیں دیکھا‘‘۔
یہاں پنڈت دیوی رام صاحب کا بیان ختم ہوتا ہے۔ اور اس کے نیچے ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ نوٹ درج ہے:۔
’’ سن کر درست تسلیم کیا۔ میں نے مندرجہ بالا بیان خدا کو حاضر و ناظر جان کر درست اور صحیح تحریر کرا دیا ہے۔ اس میں کوئی خلاف واقعہ یا مغالطہ نہیں‘‘۔


خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنڈت دیوی رام صاحب کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ پنڈت صاحب موصوف سمجھدار اور فہیم اور صداقت پسند انسان ہیں۔ کیونکہ باریک باریک باتوں کو دیکھا اور یاد رکھا ہے اور بلا خوف اظہار کر دیا ہے۔ اور فی الجملہ ساری روایت بہت صحیح اور درست ہے۔ مگر کہیں کہیں پنڈت صاحب کو خفیف سی غلطی لگ گئی ہے۔ مثلاً عمر کا اندازہ غلط ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو اتنی لمبی روایت میں جو عرصہ دراز کے واقعات پر مشتمل ہو۔ خفیف غلطی روایت کے وزن کو بڑھانے والی ہوتی ہے نہ کہ کم کرنے والی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بیان ۱۹۳۵ء میں لکھا گیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت جو ۱۹۳۹ء ہے پنڈت صاحب زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں۔ روایت واقعی خوب ہے۔
{ 760} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مائی صاحب جان صاحبہ زوجہ مرزا غلام حیدر صاحب نے دودھ پلایا تھا۔ مرزا غلام حیدر صاحب حضرت صاحب کے حقیقی چچا تھے۔ مگر جب مرزا نظام الدین صاحب اور ان کے بھائی حضرت صاحب کے مخالف ہو گئے تو مائی صاحب جان بھی مخالف ہو گئی تھیں۔ اور والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس زمانہ میں وہ اس قدر مخالف تھیں کہ مجھے دیکھ کر وہ چھپ جایا کرتی تھیں اور سامنے نہیں آتی تھیں۔ نیز مجھ سے والدہ صاحبہ عزیزم مرزا رشید احمد نے بیان کیا کہ حضرت صاحب کو ماں کے سوا دوسرے کا دودھ پلانے کی اس لئے ضرورت پیش آئی تھی کہ آپ جوڑا پیدا ہوئے تھے اور چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ کا دودھ دونوں بچوں کے لئے مکتفی نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے مائی صاحب جان نے دودھ پلانا شروع کر دیا تھا۔
{ 761} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بھائی عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں شروع شروع میں سکھ مذہب کو ترک کرکے مسلمان ہوا۔ اور یہ غالباً ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے۔ تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے سپرد فرمایا تھا۔ اور مولوی صاحب کو ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے دینی تعلیم دیں اور خیال رکھیں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے مجھے پڑھانا شروع کر دیا۔ اور حضرت صاحب کے ارشاد کی وجہ سے مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر گھر میں کھانا کھلایا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد مَیں نے عرض کیا کہ آپ کو میرے آنے کی وجہ سے پردہ کی تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے اجازت دیں کہ مَیں لنگر میں کھانا شروع کردوں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا۔ نہیں ہمیں کوئی تکلیف نہیں۔ پھر جب میں نے اصرار کیا۔ تو فرمایا۔ تمہیں یاد نہیں؟ حضرت صاحب نے مجھے تمہارے متعلق کس طرح تاکید کی تھی۔ اب دیکھنا مجھے گناہ نہ ہو۔ مَیں نے کہا نہیں گناہ نہیں ہوتا۔ مَیں خود خوشی سے لنگر میں کھانا کھانا چاہتا ہوں۔ اس پر آپ نے مجھے اجازت دیدی۔ پھر جب کچھ عرصہ بعد میرا وقت مدرسہ میں لگ گیا۔ اور مجھے کچھ معاوضہ ملنے لگا۔ تو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا۔ کہ آپ مجھے اجازت دیں۔ کہ مَیں اپنے کھانے کا الگ انتظام کرلوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ نہیں آپ لنگر سے کھاتے رہیں اور جو آمد ہوتی ہے۔ اسے اپنی دوسری ضروریات میں خرچ کر لیا کریں۔ مگر میرے اصرار پر فرمایا۔ کہ اچھا آپ کو اصرار ہے تو ایسا کر لیں۔ گو ہماری خوشی تو یہی تھی کہ آپ لنگر سے کھانا کھاتے رہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھائی صاحب موصوف مدرسہ میں ایک لمبی ملازمت کے بعد اب پنشن پر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اور کچھ عرصہ نواب محمد علی خانصاحب کے پاس بھی ملازم رہے ہیں۔ بہت نیک اور صالح بزرگ ہیں۔
{ 762} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔بھائی عبدالرحیم صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں مسلمان ہوا تو اس کے کچھ عرصہ بعد جبکہ مَیں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پائوں دبا رہا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا۔ تم شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ مَیں نے کہا۔ حضرت میری تو کوئی گذارہ کی صورت نہیں ہے۔ مَیں شادی کیسے کروں۔ اور مَیں ابھی پڑھتا بھی ہوں۔ فرمایا نہیں تم شادی کر لو۔ خدا رازق ہے۔ مَیں نے شرماتے ہوئے کہا۔ کہاں کر لوں؟ فرمایا کہ جو مرزا افضل بیگ قصور والے کی بہن بیوہ ہوئی ہے اس سے کر لو۔مَیں نے عرض کیا۔ حضرت وہ تو بیوہ ہے۔ فرمایا۔ تو کیا ہرج ہے۔ ابھی اس کی عمر زیادہ نہیں۔ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے بھی بیوہ عورتوں سے شادی کی ہے۔ مگر مجھے دل میں انقباض تھا۔ آخر حضرت صاحب کا اصرار دیکھ کر میں راضی ہو گیا۔ اور خدا کے فضل سے میں نے اس شادی سے ایسا سُکھ پایا کہ شاید ہی کسی نے پایا ہو گا۔
{ 763} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے مبلغ انگلستان نے مجھے ایک مضمون لکھ کر لندن سے ارسال کیا تھا۔ اس مضمون میں وہ حضرت مسیح موعودؑ کی عمر کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’ الفضل مورخہ ۱۱؍ جون ۱۹۳۳ء میں سید احمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر کے متعلق بہت سے مفید حوالے جمع کئے ہیں اور مکرمی مولوی اللہ دتا صاحب نے اپنی کتاب تفہیماتِ ربّانیہ میں ص۱۰۰ سے ص۱۱۲ تک آپ کی عمر کے متعلق عالمانہ بحث کی ہے۔ لیکن دونوں صاحبوں نے دراصل مخالفین کے اعتراضات کو مدّنظر رکھا ہے۔ سیّد صاحب نے اہلحدیث مجریہ ۲۶؍ مئی ۱۹۳۳ء اور مولوی صاحب نے عشرہ کاملہ کا جواب دیا ہے۔ میرے نزدیک آپ کی عمر کا سوال ایسا ہے کہ اُسے مستقل حیثیت سے فیصلہ کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
عمر کے متعلق الہامات:۔ الہام ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ اَوْنَزِیْدُ عَلَیْہِ سَنِیْنًا وَتَرٰی نَسْلاً بَعِیْدًا (اربعین نمبر ۳ طبع دوم صفحہ ۲۶۔ ضمیمہ تحفہ گولڑویہ طبع دوم صفحہ۲۹) اور الہام وَتَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا وَلَنُحْیِیَنَّکَ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْقَرِیْبًا مِّنْ ذَالِکَ (ازالہ اوہام حصہ دوم طبع اول صفحہ ۶۳۵۔۶۳۴) کا مطلب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مندرجہ ذیل الفاظ میںبیان فرمایا ہے:۔
’’جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو ۷۴ اور ۸۶ کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۹۷) پس اگر آپ کی عمر شمسی یا قمری حساب سے اس کے اندر اندر ثابت ہو جائے تو یہ الہامات پورے ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کی پیدائش ۱۸۳۶ء و ۱۸۲۲ء کے اندر ثابت ہو جائے۔ تو کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ پیدائش کا تعیّن :۔ یقیناً ہماری طرف سے جو کچھ اس بارہ میں لکھا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کے الہامات پورے ہو گئے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کا تعیّن ایک بالکل الگ سوال ہے۔ اس لئے دیکھنا چاہئے کہ ان الہامی حدود کے اندر اندر بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معیّن کی جا سکتی ہے۔
یہ یقینی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہ تھی کیونکہ حضور فرماتے ہیں:۔ ’’عمر کا اصل اندازہ تو خدا تعالیٰ کو معلوم ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۹۳)
اسی طرح غالباً ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے پاس کوئی یاد داشت نہیں کیونکہ اس زمانہ میں بچوں کی عمر کے لکھنے کا کوئی طریق نہ تھا۔ ایسی صورت میں اصل تاریخ پیدائش کا فیصلہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے۔ یا تو کسی کے پاس کوئی ایسی مستند تحریر مل جائے۔ جس میں تاریخ پرانے زمانہ کی لکھی ہوئی ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مخالفین کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ زیادہ میلان کس سن کی طرف ہے۔
پیشتر اس کے کہ مختلف تحریرات پر اس طرح نظر ڈالی جائے۔ دو تین امور قابل غور ہیں اور وہ یہ کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی مندرجہ ذیل تحریر سے ’’مجھے دکھلائو کہ آتھم کہاں ہے اس کی عمر تو میری عمر کے برابر تھی یعنی قریب ۶۴ سال کے۔‘‘ (اعجاز احمدی صفحہ۳) یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ آتھم ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو مرا تھا۔ (انجام آتھم صفحہ ۱) اس لئے آپ کی عمر ۷۶ سال ہوئی۔ درست نہیں معلوم ہوتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس رنگ میں اپنی عمر آتھم کے برابر ظاہر کی ہے وہ ایسا نہیں کہ صرف اسی حوالہ کو لے کر نتیجہ نکالا جائے۔ آتھم کے مقابلہ میں جس امر پر آپ زور دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’ ہم دونوں پر قانونِ قدرت یکساں مؤثر ہے ‘‘۔ (اشتہار انعامی ۲ ہزار روپیہ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ئ)
پھر فرماتے ہیں۔ ’’ ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانونِ قدرت کے نیچے ہیں‘‘۔ (اشتہار انعامی ۴ ہزار روپیہ) عمر کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے۔ وہ اس طرح ہے۔ ’’ اگر آتھم صاحب ۶۴ برس کے ہیں تو یہ عاجز قریباً ۶۰ برس کا ہے‘‘۔ (اشتہار انعامی ۲ ہزار روپیہ مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ئ)
پھر فرماتے ہیں۔ ’’ اور بار بار کہتے ہیں (یعنی آتھم صاحب) کہ میری عمر قریب ۶۴ یا ۶۸ برس کی ہے ۔۔۔ دیکھو میری عمر بھی تو قریب ۶۰ برس کے ہے‘‘۔ (اشتہار انعامی ۴ ہزار روپیہ) پھر فرماتے ہیں۔ ’’ آپ لکھتے ہیں کہ قریب ۷۰ برس کی میری عمر ہے۔ اور پہلے آپ اس سے اسی سال کے کسی پرچہ ’’نور افشاں‘‘ میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر ۶۴ برس کے قریب ہے۔ پس مَیں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ۔ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں۔ کہ شاید مَیں فوت نہ ہو جائوں۔ مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ ۶۴ برس کے ہیں۔ تو میری عمر بھی قریباً ۶۰ برس کے ہو چکی ہے‘‘۔
(اشتہار انعامی ۳ ہزار روپیہ مورخہ ۱۵؍ اکتوبر ۱۸۹۶ئ)
پس ان واضح تحریروں کے ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر آتھم کے بالکل برابر نہیں قرار دی جا سکتی۔ بلکہ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں۔ ’’ بہتیرے سو سو برس زندہ رہتے ہیں مگر عبداللہ آتھم کی جیسا کہ ’’نور افشاں‘‘ میں لکھا گیا ہے صرف اب تک ۶۴ برس کی عمر ہے جو میری عمر سے صرف چھ یا سات برس زیادہ ہے۔ ہاں اگر مسیح کی قدرت پر بھروسہ نہیں رہا۔۔۔۔۔ مرنے کا قانونِ قدرت ہر ایک کے لئے مساوی ہے۔ جیسا آتھم صاحب اس کے نیچے ہیں۔ ہم بھی اس سے باہر نہیں اور جیسا کہ اس عالم کون و فساد کے اسباب ان کی زندگی پر اثر کر رہے ہیں۔ ویسا ہی ہماری زندگی پر بھی مؤثر ہیں‘‘ ۔
(انوارالاسلام حاشیہ صفحہ۳۶۔۳۷)
پس مَیں سمجھتا ہوں۔ کہ آتھم کے مقابلہ میں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔ وہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک موٹا دہاکوں کا اندازہ ہے۔ اصل غرض آپ کی عمر کو معیّن کرنا نہیں۔ بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ زندہ رکھنا اور مارنا خدا کے اختیار میں ہے اور قانونِ قدرت کے اثر کے لحاظ سے دونوں کی عمروں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔
دوسرا امر جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد مقامات پر یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’ جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی۔ تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا ‘‘
(تریاق القلوب صفحہ ۶۸ و براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۰۵ اور آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ۵۴۸)
لیکن جہاں تک مجھے علم ہے آپ نے یہ کہیں نہیں فرمایا‘‘۔ سب سے پہلا الہام قریباً ۳۵ برس سے ہو چکا ہے‘‘۔ یہ اندازہ لگانا کہ چونکہ اربعین ۱۹۰۰ء میں تالیف ہوئی۔ اس لئے آپ کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ثابت ہوئی۔ درست نہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا۔ کہ ثَمَانِیْنَ حَوْلًا والا الہام سب سے پہلا الہام ہے اور نہ یہ کہ سب سے پہلا الہام۔۔۔۔۔ چالیس برس کی عمر میں ہوا۔
تیسرا امر یہ ہے کہ ایک کتاب کی کسی عبارت کو اس کتاب کی تاریخ اشاعت سے ملا کر نتیجہ نکالتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عبارت کے لکھے جانے کی تاریخ اور کتاب کی تاریخ اشاعت میں بہت بڑا فرق ممکن ہے۔ مثلاً نزول المسیح اگست ۱۹۰۹ء میں شائع ہوئی ہے لیکن اس کا صفحہ ۱۱۷۔ اگست ۱۹۰۲ء میں لکھا گیا۔ جیسا کہ اسی صفحہ پر لکھا ہے ’’آج تک جو ۱۰؍اگست ۱۹۰۲ء ہے‘‘۔ البتہ اشتہارات اور ماہواری رسائل کی صورت اور ہے ان کی تاریخ اشاعت پر نتیجہ نکالنے میں غلطی کا کم احتمال ہے۔ حقیقۃ الوحی ایک ضخیم کتاب ہے اس کے صفحہ ۲۰۱ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ میری عمر اس وقت ۶۸ سال کی ہے ‘‘۔ یہاں ظاہر ہے کہ لفظ ’’ اس وقت‘‘ سے کتاب کی تاریخ اشاعت فرض کر لینا نہایت غلط ہو گا۔ کیونکہ اشاعت کی تحریر ۱۵؍ مئی ۱۹۰۷ء کتاب پر لکھی ہوئی ہے۔
چوتھی بات قابلِ غور یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر شمسی حساب مدّنظر رکھتے تھے یا قمری۔ سو اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ عام طور پر آپ کا طریق اپنی تصانیف اشتہارات اور خطوط میں ملک کے رواج کے مطابق شمسی حساب اور تاریخ کا شمار تھا۔ گو قمری سَن بھی کہیں کہیں درج کیا گیا ہے۔ مگر کثرت سے عموماً شمسی طریق کو ہی آپ مدّنظر رکھتے تھے۔ اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عمر کا اندازہ بیان فرمایا ہے۔ وہاں شمسی سال ہی مراد لئے جائینگے قمری نہیں۔ خواہ کہیں کہیں قمری سَن بھی آپ نے بیان فرما دیا ہے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ بحیثیت مجموعی آپ کی تاریخ پیدائش کہاں تک معین کی جا سکتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’جب میری عمر ۴۰ برس تک پہنچی تو خداتعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف فرمایا‘‘۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ ’’ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں خدا تعالیٰ کیطرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پا چکا تھا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) گویا کہ ۱۲۹۰ھ میں آپ کی عمر چالیس برس ہو چکی تھی۔ آپ کی وفات ۱۳۲۶ء میں ہوئی۔ گویا قمری حساب سے پورے ۳۶ برس آپ شرف مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے ممتاز رہے اور شمسی حساب سے ۳۵ سال۔ اس طرح آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۳ء ثابت ہوئی۔
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۹۷ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ میری عمر ۷۰ برس کے قریب ہے ‘‘۔ یہ کتاب اندرونی شہادت سے ثابت ہے۔ کہ ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی۔ (سیّد احمد علی صاحب نے جو حوالہ اس ضمن میں دیا ہے وہ درست نہیں۔ گو دُوسرے مقامات سے یہ ثابت ہے) اس لئے آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء معلوم ہوئی۔
ریویو بابت نومبر، دسمبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۷۹ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ میری عمر ۷۰ سال کے قریب ہے۔ حالانکہ ڈوئی صرف ۵۵ سال کی عمر کا ہے۔‘‘ اسی طرح تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۷۱ پر فرماتے ہیں۔ ’’ میری طرف سے ۲۳؍اگست ۱۹۰۳ء کو ڈوئی کے مقابل پر انگریزی میں یہ اشتہار شائع ہوا تھا۔جس میں یہ فقرہ ہے کہ ’’ مَیں عمر میں ۷۰ برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے‘‘۔
ان دونوں حوالوں سے نتیجہ نکالتے وقت ایک تیسرا حوالہ بھی جو اسی کے متعلق ہے۔ مگر کچھ پہلے کا ہے۔ مدّنظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ ہے ’’ میری عمر غالباً ۶۶ سال سے بھی کچھ زیادہ ہے‘‘۔ (ریویو اردو ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳۴۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ ۷۰ برس کے قریب‘‘ سے مراد آپ کی یہ ہے کہ ’’۶۶ سال سے کچھ زیادہ‘‘ اگر اس وقت آپ کی عمر ۷ ۶سال سمجھی جائے تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۵ء بنی۔
کتاب البریہ سے جو عبارت سیرۃ المہدی حصہ اول میں نقل کی گئی ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری۔ ایک طرف ان کا دُنیا سے اٹھایا جانا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا۔ کہ والد بزرگوار کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چالیس برس کے قریب تھی اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ سلسلہ مکالمات الٰہیہ کے شرف کے وقت آپ نے اپنی عمر متعدد مقامات پر چالیس برس بیان فرمائی ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے والد ماجد کی وفات کب ہوئی؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۷۰میں آپ کے والد بزرگوار کے انتقال کو ۱۸۷۶ء میں قرار دیا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے۔ اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر فیصلہ کن ہے اور وہ یہ ہے۔ کہ نزول المسیح صفحہ ۱۱۷۔ ۱۱۸ پر آپ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ آج تک جو دس اگست ۱۹۰۲ء ہے۔ مرزا صاحب مرحوم کے انتقال کو ۲۸ برس ہو چکے ہیں۔‘‘ گویا یہ واقعہ ۱۸۷۴ء کا ہے۔ اس میں سے ۴۰ نکالیں۔ تو تاریخ پیدائش ۱۸۳۴ء ثابت ہوتی ہے۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر یکجائی نظر ڈالنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ کہ آپ کی پیدائش ۱۸۳۶ء سے پہلے پہلے ہی ہے۔ اس کے بعد یا ۱۸۳۹ء کسی صورت میں بھی صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا۔
کتاب البرّیہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ میری پیدائش کے دنوں میں ان کی تنگی کا زمانہ فراخی کی طرف بدل گیا تھا۔ اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ مَیں نے انکے مصائب کے زمانہ سے کچھ بھی حصہ نہیں لیا‘‘ اسی طرح آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ صفحہ ۵۴۳۔۵۴۴ پر بھی آپ یہی فرماتے ہیں۔ ’’ سو اس کے متعلق تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۱۶ء کے قریب را جہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیوں کو زیر کر کے ان کا تمام علاقہ اپنے قبضہ میں کر لیا تھا۔ یعنی قادیان رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگیا تھا(سیرۃ المہدی حصہ اول روایت نمبر۱۲۹) اور پنجاب چیفس میں لکھا ہے کہ ’’ رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا۔ غلام مرتضیٰ کو واپس بلا لیا۔ اور اس کی جدّی جاگیر کا ایک معقول حصہ اُسے واپس کر دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہارا جہ کی فوج میں شامل ہو گیا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کشمیر کی فتح کے وقت رنجیت سنگھ کی فوج میں شامل تھے۔ کشمیر ۱۸۱۹ء میں فتح ہوا۔ اس لئے معلوم یہ ہوتا ہے۔ کہ گو مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم قادیان میں واپس آ گئے تھے۔ مگر قادیان کے اردگرد کے گائوں ابھی تک نہیں ملے تھے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیان میں واپس آئے۔ اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گائوں واپس ملے۔ کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنا لی تھی۔ سو ہمارے دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا۔‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۷۵،۱۷۶ حاشیہ)
پشاور ۱۸۲۳ء میں رنجیت سنگھ کے ماتحت آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مصائب کا سلسلہ گو ختم ہو گیا تھا مگر ابھی فراخی نہیں شروع ہوئی تھی۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو اکثر فوجی خدمات پر باہر رہنا پڑتا ہو گا اور گھر کا گزارہ تنگی ترشی سے ہوتا ہو گا۔ حتیّٰ کہ غالباً ۱۸۳۳ء کے قریب انہوں نے کشمیر جانے کا ارادہ کر لیا۔ جس کی طرف آئینہ کمالات اسلام حصہ عربی صفحہ۵۴۳ میں اشارہ کیا گیا ہے اور غالباً ۳۴۔۱۸۳۳ء میں رنجیت سنگھ نے اپنے مرنے سے پانچ سال پہلے قادیان کے اردگرد کے پانچ گائوں ان کی جدّی جاگیر کے ان کو واپس کر دئیے۔ اس وقت وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں نمایاں خدمات بھی کر چکے تھے۔ اور ان کا حق بھی ایک طرح دوبارہ قائم ہو گیا تھا۔ پس اس حساب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۳۴۔ ۱۸۳۳ء کے قریب ماننی پڑتی ہے۔
اب دیکھنا چاہئے کہ آپ کے مخالفین آپ کی عمر کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں۔ لیکھرام کا جو حوالہ سیّد احمد علی صاحب نے درج کیا ہے۔ اس کے مطابق آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۳۶ء بنتی ہے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے حوالوں سے ۱۸۲۹ء اور ۱۸۳۳ء پیدائش کے سن نکلتے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک ان سے بڑھ کر جس مخالف کا علم ہونا چاہئے۔ وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ جن کو بچپن سے ہی آپ سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا ہے۔ ان کے اشاعت السنہ ۱۸۹۳ء کے حوالہ سے آپ کی پیدائش ۱۸۳۰ء کے قریب بنتی ہے۔
غرض ۱۸۳۶ء انتہائی حد ہے۔ اس کے بعد کا کوئی سن ولادت تجویز نہیں کیا جا سکتا ۔بحیثیت مجموعی زیادہ تر میلان ۱۸۳۳ء اور ۱۸۳۴ء کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ شرف مکالمہ مخاطبہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ معین ہیں۔ اور یہ واقعی ایک اہم واقعہ ہے۔ جس پر تاریخ پیدائش کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ۱۲۹۰ھ ایک تاریخ ہے اور اس حساب سے ۱۸۳۳ء کی پیدائش ثابت ہوتی ہے۔ دوسرا اہم واقعہ آپ کے والد ماجد کے انتقال کا ہے۔ انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے متعلق جو رائے ہے وہ بھی زیادہ وزن دار سمجھنی چاہئے۔ سو اس کے متعلق آپ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ والد ماجد کی وفات کے وقت آپ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی۔ اور اپنے والد صاحب کی وفات ۱۸۷۴ء میں معین فرما دی۔ خلاصہ میرے نزدیک یہ نکلا کہ ۳۴۔۱۸۳۳ء صحیح ولادت قرار دیا جا سکتا ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالصَّواب‘‘ اس جگہ درد صاحب کا مضمون ختم ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرمی مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے مبلغ لندن نے یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر اور تاریخ پیدائش کی تعیین کے متعلق لند ن سے ارسال کیا تھا اور یہ مضمون اخبار الفضل ۳۔ستمبر ۱۹۳۳ء میں شائع ہو چکا ہے۔ مضمون بہت محنت اور تحقیق کے ساتھ لکھا ہوا ہے مگر جیسا کہ میں روایت نمبر ۶۱۳ میں لکھ چکا ہوں مجھے اس تحقیق سے اختلاف ہے کیونکہ میری تحقیق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش ۱۳؍فروری ۱۸۳۵؁ء بنتی ہے۔ اور درد صاحب نے جو ہمارے دادا صاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴؁ء لکھی ہے۔ یہ بھی میری تحقیق میں درست نہیں۔ بلکہ صحیح تاریخ ۱۸۷۶؁ء ہے جیسا کہ حضرت صاحب نے سرکاری ریکارڈ کے حوالہ سے کشف الغطاء میں لکھی ہے۔ لیکن ایسے تحقیقی مضامین میں رائے کا اختلاف بھی بعض لحاظ سے مفید ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اس مضمون کے نتیجے اور اس کے بعض حصص سے اختلاف رکھنے کے مَیں نے مکرمی درد صاحب کے اس محققانہ مضمون کو بعینہٖ درج کر دیا ہے۔
{ 764} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً رات کو سونے سے پہلے دبوایا کرتے تھے۔ کبھی خود باہر سے خدام میں سے کسی کو بُلا لیتے تھے۔ مگر اکثر حافظ معین الدین عرف مانا آیا کرتے تھے۔ مَیں بھی سوتے وقت کئی دفعہ دبانے بیٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک دن فرمانے لگے۔ میاں تم نے مدّت سے نہیں دبایا۔ آئو آج ثواب حاصل کر لو۔
{ 765} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض اوقات گرمی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُشت پر گرمی دانے نکل آتے تھے تو سہلانے سے اُنکو آرام آتا تھا۔ بعض اوقات فرمایا کرتے۔ کہ میاں ’’جلُون‘‘ کرو۔ جس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ انگلیوں کے پوٹے آہستہ آہستہ اور نرمی سے پشت پر پھیرو۔ یہ آپ کی اصطلاح تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ’’جلون‘‘ ایک پنجابی لفظ ہے جس کے معنی آہستہ آہستہ کھجلانے کے ہیں۔
{ 766} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو دفعہ بیعت کی۔ ایک دفعہ غالباً ۱۸۹۶ء میں مسجد اقصیٰ میں کی تھی۔ اس وقت میرے ساتھ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب مرحوم نے بیعت کی تھی۔ دوسری دفعہ گھر میں جس دن حضرت ام المؤمنین نے ظاہری بیعت کی اسی دن مَیں نے بھی کی تھی۔ حضرت ام المؤمنین کی بیعت آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر لی تھی۔ باقی تمام مستورات کی صرف زبانی بیعت لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر بوڑے خان صاحب مرحوم قصور کے رہنے والے تھے اور بہت مخلص تھے۔ لاہور کے مشہور ایڈووکیٹ خان بہادر مولوی غلام محی الدین صاحب انہی کے لڑکے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ باپ کے بعد وہ جماعت سے قطع تعلق کر چکے ہیں۔
{ 767} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اتنی بلند تھی کہ اگر کبھی مسجد مبارک کی چھت پر جوش کے ساتھ تقریر فرماتے تو آپ کی آواز باغ میں سُنائی دیتی تھی۔ نیز جب آپ تصنیف فرمایا کرتے تو اکثر اوقات ساتھ ساتھ اونچی آواز میں خاص انداز سے اپنا لکھا ہوا پڑھتے بھی جاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ ابتداء میں بہت آہستہ آواز سے تقریر شروع فرماتے تھے۔ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ آپ کی آواز بہت بلند ہو جاتی تھی۔ اور باغ سے وہ باغ مراد ہے جو قادیان سے جنوب کی طرف ہے جس کے ساتھ مقبرہ بہشتی واقع ہے اور آپ کا اپنے لکھے ہوئے کو پڑھناگنگنانے کے رنگ میں ہوتا تھا۔
{ 768} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی غلام احمد صاحب المعروف مجاہد خاکسار مؤلف کو مخاطب کرکے تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
(ا) سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۴۷۰میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات کا نقشہ دیتے ہوئے آپ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت کا زمانہ ۱۸۸۴ء تحریر کیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’حافظ صاحب بلکہ تمام علماء اسلام اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعویٰ ہے اور جس میں بہت سے مکالمات الٰہیہ درج ہیں۔ اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گذر چکے ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً تیس برس سے یہ دعویٰ مکالمات الٰہیہ شائع کیا گیا ہے۔ اور نیز الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جو میرے والد صاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیا تھا اور امرتسر میں ایک مُہر کن سے کھدوایا گیا تھا وہ انگشتری اب تک موجود ہے۔۔۔۔۔۔ اور جیسا کی انگشتری سے ثابت ہوتا ہے یہ بھی چھبیس برس کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔ حافظ صاحب کی یہ مجال تو نہ ہوئی کہ اس امر کا اظہار کریں۔ جو اکیس سال سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے۔‘‘ (دیکھو اربعین طبع اوّل مطبوعہ دسمبر ۱۹۰۰ء نمبر ۳ صفحہ ۷۔۸)
اس تصریح کی رو سے اوّل براہین احمدیہ حصہ چہارم کا زمانہ ۱۸۷۹ء چاہئے۔ دوم الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا زمانہ ۱۸۷۴ء چاہئے۔ چنانچہ اس کی تصدیق نزول المسیح صفحہ ۱۱۶ سے بھی ہوتی ہے۔ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے اپنے والد ماجد کی وفات ۱۸۷۴ء میں قرار دی ہے۔ اور اسی کتاب کے صفحہ۲۰۷ میں ۱۸۷۵ء میں قرار دی ہے۔ اور اسی وقت وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا الہام ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر سیرۃ المہدی میں آپ کی تحقیق سے حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں قرار دی گئی ہے اور براہین احمدیہ حصہ چہارم کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں قرار دی گئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اربعین میں حضرت صاحب نے اشاعت براہین کا زمانہ محض تخمینی طور پر لکھا ہے اور کوئی معیّن سن بیان نہیں کیا یا شاید اس سے براہین کی اشاعت مراد نہ ہو بلکہ محض تصنیف مراد ہو۔ کیونکہ بہرحال یہ یقینی ہے اور خود براہین میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ براہین حصہ چہارم کی اشاعت ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی۔ باقی رہا دادا صاحب کی وفات کی تاریخ اور الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق کا سوال۔ سو بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تحریروں میں ایسا ہی لکھا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دوسری تحریروں سے دادا صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ثابت ہوتی ہے(دیکھو کشف الغطائ) اور چونکہ سرکاری ریکارڈ بھی اسی کا مؤید ہے۔ اس لئے مَیں نے اسے ترجیح دی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی تحریر میں ۱۸۷۴ء حضرت صاحب نے محض یاد کی بناء پر لکھا ہے اس لئے ذہول ہو گیا ہے جیسا کہ تاریخوں کا اختلاف بھی یہی ظا ہر کرتا ہے۔ مگر بہرحال صحیح سن ۱۸۷۶ء ہے۔ اور چونکہ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق کا الہام یقینی طور پر دادا صاحب کی وفات سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اس کے متعلق بھی ۱۸۷۶ء کی تاریخ ہی درست سمجھی جائیگی۔ واللّٰہ اَعلم۔
(ب) حقیقۃ الوحی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ یہ ان الہاموں سے پہلا الہام اور پہلی پیشگوئی تھی جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کی‘‘ (مراد الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق ہے) گویا پہلا الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق قرار دیا ہے۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۰۹، ۲۱۰)
مگر آپ نے ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے‘‘ والے الہام کو اول قرار دیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حقیقۃ الوحی کے حوالہ سے یہ مراد ہے کہ یہ الہام وہ پہلا الہام تھا جو مَیں نے پورا ہوتے دیکھا نہ یہ کہ نزول کی ترتیب کے لحاظ سے یہ پہلا الہام تھا۔ بہرحال جب ایک طرف یہ ثابت ہے کہ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق والا الہام ۱۸۷۶ء کا ہے اور دوسری طرف ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا الہام حضرت صاحب نے براہین احمدیہ میں صراحت کے ساتھ ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں نازل ہونا بیان کیا ہے۔ تو ثابت ہوا کہ یہ الہام پہلے کا ہے اور مَیں اسی کو پہلا الہام سمجھتا رہا ہوں۔ ہاں اب تذکرہ کی اشاعت نے اس معاملہ کو پھر قابلِ تحقیق بنا دیا ہے۔ جہاں نزول المسیح کے حوالہ سے بعض الہاموں کو ۱۸۶۸؁ء سے بھی پہلے کا ظاہر کیا گیا ہے۔ مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ نزول المسیح کے تاریخی اندازے تخمینی ہیں اور یقینی نہیں کہ صحیح ہوں۔ واللّٰہ اَعْلَم۔
(ج) آپ کی تحقیق سے تصنیف و اشاعت استفتاء و سراج منیر ۹۷ء میں وقوع پذیر ہوئی ہے حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اوّل صفحہ۵۵ اس امر کا مثبت ہے کہ سراج منیر کی تصنیف مارچ ۸۶ء سے پہلے شروع ہو گئی تھی اور اس اشتہار مورخہ یکم مارچ میں اس رسالہ (سراج منیر) کو قریب الاختتام قرار دے کر صرف چند ہفتوں کا کام باقی رہنا ظاہر کیا گیا ہے۔ اور اگر اشتہار کی طباعت اول کی تاریخ (آخر اشتہار سے) رکھی جاوے تو ۲۰؍فروری ۸۶ء ظاہر ہوتی ہے اور اُسی جگہ اِسی اشتہار کی تاریخ طباعت بار دوم ۱۸۹۳ء ظاہر کی گئی ہے۔ اور اسی اشتہار کی دوبارہ اشاعت پر نوٹ حاشیہ صفحہ ۵۵ پر اس امر کا اظہار ہے کہ اس رسالہ سراج منیر کی تصنیف واقعی پہلے ہو چکی تھی اور اشاعت بے شک بعد میں ہوئی ہے۔ نیز تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۹۴ کے اشتہار سے بھی سراج منیر کی تصنیف پہلے کی ثابت ہے۔ نیز تبلیغ رسالت صفحہ ۱۲۴ حصہ اوّل میں بھی سراج منیر کی اشاعت کو اس لئے ملتوی رکھنا ظاہر کیا گیا ہے۔ کہ ہنوز بشیر اوّل کے متعلق مفصل علم نہ ہوا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی صاحب کا یہ اعتراض درست نہیں ہے۔ جس سراج منیر کی تصنیف کا ذکر ابتدائی کتابوں اور اشتہاروں میں آتا ہے وہ اور تھی جو طبع نہیں ہوئی۔ اور جو سراج منیر ۱۸۹۷ء میں آکر شائع ہوئی وہ اور ہے چنانچہ خود مؤخرالذکر سراج منیر میں متعدد جگہ اس کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ کتاب ۱۸۹۷ء میں لکھی گئی تھی۔ مثلاً ملاحظہ ہوں صفحہ ۱۷، ۲۱، ۴۸، ۷۴۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب نے اوائل میں ایک کتاب سراج منیر لکھنے کا ارادہ کیا تھا اور غالباً کچھ حصہ لکھا بھی ہو گا۔ مگر وہ طبع نہیں ہوئی۔ اور پھر اس کے بعدآپ نے ۱۸۹۷ء میں ایک اور رسالہ سراج منیر کے نام سے لکھ کر شائع فرما دیا۔ واللّٰہ اعلم۔
(د) آنجناب نے ’’ تصنیف و اشاعت حقیقۃ الوحی‘‘ ۱۹۰۷ء میں قرار دی ہے۔ حالانکہ حقیقۃ الوحی ہی کے صفحات صفحہ۶۷، ۳۹۲ و تتمہ صفحہ ۵، ۶، ۲۳، ۲۶، ۳۲ حاشیہ، ۳۳ شروع و صفحہ۳۹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء تصنیف ۱۹۰۶ء میں ہوئی۔ بلکہ یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو حقیقۃ الوحی کاتب نے بھی لکھ لی تھی اور پھر تتمہ حقیقۃ الوحی البتہ جنوری ، فروری، مارچ و اپریل ۱۹۰۷ء میں لکھا گیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ درست ہے کہ حقیقۃ الوحی کا معتدبہ حصہ واقعی ۱۹۰۶ء میں لکھا گیا تھا مگر تصنیف کی تکمیل ۱۹۰۷ء میںہوئی تھی۔ اور میری یہی مراد تھی مگر غلطی سے صرف ۱۹۰۷ء کی طرف ساری کتاب کو منسوب کر دیا گیا۔
{ 769} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۴۷۰میں سنین کے لحاظ سے جو واقعات درج ہیں۔ ان میں سے بعض میں مجھے اختلاف ہے۔ جو درج ذیل ہے:۔
۱۔ (الف) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے والد مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی وفات کی تاریخ ۲۰۔ اگست ۱۸۷۵ء تحریر فرمائی ہے (دیکھو نزول المسیح صفحہ ۲۰۷) مگر سیرۃ المہدی میں ۱۸۷۶ء درج ہے۔ پھر ایک اور جگہ حضرت صاحب نے اپنے والد کی وفات جون ۱۸۷۴ء لکھی ہے (نزول المسیح صفحہ۱۱۶)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خود حضرت صاحب کی تحریر کا اختلاف ظاہر کر رہا ہے کہ آپ نے یہ تاریخیں زبانی یاد داشت پر قیاساً لکھی ہیں۔ مگر مَیں نے جو تاریخ لکھی ہے وہ سرکاری ریکارڈ سے لکھی ہے۔ اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ ۱۸۷۶ء ہی درست ہے۔ اور خود حضرت صاحب کی کتاب کشف الغطاء میں بھی یہ سرکاری حوالہ درج ہے۔
(ب) پھر میر صاحب فرماتے ہیں کہ اسی ضمن میں یہ بھی عرض ہے کہ حضرت صاحب نے نزول المسیح کے صفحہ ۲۳۲ میں جو تاریخ اس خط کی لکھی ہے جو پٹیالہ سے لکھ کر بھیجا گیا تھا وہ ۱۸۸۷ء ہے مگر یہ درست نہیں بلکہ یہ ۹۲ء کا واقعہ ہے جبکہ ہم پٹیالہ میں تھے اور میاں محمد اسحٰق صاحب دو سال کے تھے ۔ ۸۷ء میں تو وہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اور ہم ۹۱ء میں پٹیالہ تبدیل ہو کر گئے تھے۔ اسی طرح حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۲ میں حضور نے سفر جہلم ۱۹۰۴ء میں لکھا ہے۔ مگر یہ سفر ۱۹۰۳ء میں ہوا تھا۔ سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارے میں ذہول ہوا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ باتیں میر صاحب نے یونہی ضمناً بیان کر دی ہیں ورنہ سیرۃ المہدی کی روایت نمبر ۴۶۷ سے انہیں تعلق نہیں ہے۔
(۲) حضرت صاحب نے اپنے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی وفات ۱۸۸۱ء میں لکھی ہے۔(نزول المسیح صفحہ ۲۲۵) اور آپ نے سیرۃ المہدی میں ۸۳ء لکھی ہے۔ اور اسی طرح ایک اور جگہ حضرت صاحب نے ان کی وفات ۸۷ء میں لکھی ہے۔ (نزول المسیح صفحہ ۲۱۷)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو یاد نہیں رہا۔ جیسا کہ اختلاف سنین سے ظاہر ہے۔ مگر میرا اندراج سرکاری ریکارڈ پرمبنی ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہی درست ہے۔
(۳) آپ نے سُرخی کے چھینٹوں والا واقعہ سیرۃ المہدی حصہ دوم میں ۱۸۸۴ء میں لکھا ہے مگر حضرت صاحب اس کو تقریباً ۱۸۸۷ء میں لکھتے ہیں۔ (نزول المسیح صفحہ ۲۲۶)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ۱۸۸۷ء کا اندازہ تو بہرحال درست معلوم نہیں ہوتا اور حضرت صاحب نے بھی اسے یونہی تخمینی رنگ میں لکھا ہے۔البتہ ممکن ہے کہ تذکرہ کا اندراج درست ہو جو ۱۸۸۵ء ہے (دیکھو تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۱۳۱) مگر مجھے ابھی تک اسی طرف میلان ہے کہ یہ ۱۸۸۴ء کا واقعہ ہے۔
(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا دہلی کا نکاح ۱۸۸۵ء میں بیان کیا ہے (نزول المسیح صفحہ ۲۰۸) مگر سیرۃ المہدی میں ۱۸۸۴ء درج ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے خیال میں ۱۸۸۴ء ہی درست ہے۔ کیونکہ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھے اس کی معین تاریخ بتائی تھی۔ مگر حضرت صاحب نے محض تخمیناً لکھا ہے۔ جیسا کہ نزول المسیح کے اکثر تاریخی اندازے تخمینی ہیں۔
(۵) حضرت صاحب نے مسیح ہونے کا اعلان بجائے ۱۸۹۱ء کے جیسا کہ سیرۃ المہدی میں لکھا گیا ہے ۱۸۹۰ء میں کیا تھا۔ اس کے متعلق میرا ثبوت یہ ہے کہ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۷۹ مکتوب نمبر ۵۷ جو حضرت صاحب نے ۱۵؍ جولائی ۱۸۹۰ء کو تحریر فرمایا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ کئی مولوی مجھے ضال اور جہنّمی کہتے ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہتے ہیں۔ کہ مَیں عقلی طور پر مسیح کا آسمان سے اُترنا ثابت کر دونگا۔ پس صرف تصنیف فتح اسلام و توضیح مرام ہی ۹۰ء میں تصنیف نہیں ہوئی۔ بلکہ اعلان دعویٰ مسیحیّت بھی ۱۸۹۰ء میں ہو گیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری مراد اس اعلان سے اشاعت تھی۔ اور چونکہ اس کی تحریری اشاعت بذریعہ رسالہ فتح اسلام ۱۸۹۱ء میں ہوئی تھی۔ اس لئے مَیں نے اسے ۱۸۹۱ء میں رکھا ہے۔ گو یہ درست ہے کہ ویسے زبانی طور پر اور خطوط کے ذریعہ اعلان ۱۸۹۰ء میں ہو گیا تھا۔
(۶) ۱۸۹۱ء کے واقعات میں آپ نے وفات عصمت کے بعد سفر امرتسر نہیں لکھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔
(۷) ۱۸۹۱ء میں سفر پٹیالہ کو آپ نے وفات عصمت سے پہلے تحریر فرمایا ہے۔ حالانکہ الٹ لکھنا چاہئے تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا صحیح علم نہیں ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔
(۸)آپ نے ۱۸۹۴ء کے واقعات میں حضرت صاحب کا سفر چھائونی فیروز پور نہیں لکھا۔ حضرت صاحب اس سال ہمارے ہاں ایک دو روز کے لئے تشریف لائے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔
(۹) شروع ۱۸۹۵ء میں جب مَیں قادیان مڈل کا امتحان دے کر آیا تھا۔ تو حضرت صاحب نے قریباًتین ماہ مجھے ایک ہزار عربی فقرہ بنا کر یاد کرایا تھا۔ پِیر سراج الحق صاحب میرے ہم سبق تھے۔ مگر حضرت صاحب قریباً بیس فقرے روزانہ مجھے چاشت کے وقت لکھوا دیتے تھے اور دوسرے دن سن لیتے تھے۔ اور پھر لکھوا دیتے تھے۔ آپ نے ان اسباق کا ذکر ۱۸۹۹ء کے واقعات میں کیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کا علم غالباً مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذریعہ ہوا تھا۔ لیکن چونکہ میر صاحب ۱۸۹۵ء کے متعلق یقین ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے غالباً ایسا ہی ہو گا۔ اور منن الرحمن کی تصنیف کا زمانہ بھی جو ۱۸۹۵ء ہے اسی کی تائید کرتا ہے۔
(۱۰) ۱۸۹۵ء میں آپ نے تصنیف و اشاعت ست بچن اور تصنیف و اشاعت آریہ دھرم کو الگ الگ کرکے لکھا ہے۔ حالانکہ پہلے ایڈیشن میں یہ دونوں کتب اکٹھی ایک جلد میں شائع کی گئی تھیں۔ اور ایک ہی دن ان کی اشاعت ہوئی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں تھا۔
(۱۱) آپ نے ۱۸۹۶ء کے واقعات میں لکھا ہے۔ ’’ تصنیف و اشاعت اسلامی اصول کی فلاسفی۔ نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور۔‘‘ میرے نزدیک یوں چاہئے۔ ’’ تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی نشان جلسہ اعظم مذاہب لاہور ‘‘۔ بس اس سال یہی دو باتیں ہوئیں۔ مضمون قلمی تحریر تھا۔ جو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے آخر دسمبر میں سُنایا۔ جلسہ میں سنانے کے لئے یہ مضمون پِیر سراج الحق صاحب نے خوشخط قلمی لکھا تھا۔ پھر ۱۸۹۷ء میں رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب میں وہ پہلی دفعہ شائع ہوا۔ پس اشاعت ۹۷ء میں ہوئی۔ ہاں اگر جلسہ میں پڑھے جانے سے مراد اشاعت ہے۔ تو ٹھیک ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ اشاعت سے میری مراد اس کا پبلک میں پڑھا جانا تھی۔ گو یہ درست ہے کہ اس کی طباعت ۱۸۹۷ء میں ہوئی تھی۔
(۱۲) ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آپ نے جلسہ جوبلی شصت سالہ ملکہ وکٹوریہ کا ذکر نہیں کیا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے یہ ذہول ہوا ہے۔ میر صاحب کا بیان درست ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی پر قادیان میں جلسہ ہوا تھا۔
(۱۳) آپ نے ۱۹۰۱ء میں دو ماہ تک مسلسل نمازیں جمع کرنے کا ذکر نہیں کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی درست ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک نمازیں جمع ہوئی تھیں۔ گو سنہ کے متعلق مجھے کوئی ذاتی علم نہیں تھا۔ مگر اب مَیں نے دیکھ لیا ہے کہ یہی سنہ درست ہے۔
(۱۴) ۱۹۰۶ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہُ اللّٰہ بنصرہ العزیز کے نکاح و شادی کا ذکر ہے۔ مَیں دونوں موقعوں پر شریک تھا۔ نکاح کے لئے ہم رڑکی گئے تھے۔ اور رخصتانہ کے لئے ہم ایک لمبے عرصہ کے بعد آگرہ میں گئے تھے۔ یہ یاد نہیں۔ کہ یہ ایک سال کے ہی دو واقعات ہیں یا کہ سنہ بدل جاتا ہے۔
(۱۵) ۱۹۰۶ء میں وفات نصیر احمد کا ذکر نہیں کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا ذکر سہواً رہ گیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا بچہ نصیر احمد ۱۹۰۶ء میں پیدا ہو کر اسی سال کے دوران میں فوت ہو گیا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میر صاحب نے جو نوٹ سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۴۶۷ کے متعلق لکھا ہے اس کے علاوہ اسی روایت کے متعلق ایک نوٹ مولوی غلام احمد صاحب المعروف مجاہد کا بھی روایت نمبر ۷۶۸ میں گذر چکا ہے۔ نیز خاکسار اپنی طرف سے عرض کرتا ہے کہ ۱۸۸۵ء میں شہب آسمانی کے گرنے کا واقعہ بھی قابل اندراج ہے اور ۱۸۹۴ء میں کسوف خسوف کا واقعہ قابل اندراج ہے اور ۱۸۹۲ء میں نکاح محمدی بیگم ہمراہ مرزا سلطان محمد بیگ اور آغاز میعاد پیشگوئی قابل ذکر ہے اور ۱۹۰۱ء میں تصنیف و اشاعت اشتہار ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ کا اندراج ہونا چاہئے۔
{ 770} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں محمد طفیل صاحب ساکن دھرم سالہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ان سے لالہ ڈھیرو مل صاحب گھڑی ساز نے بذریعہ تحریر بیان کیا تھا۔ کہ:۔
’’مجھے ایک واقعہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی صداقت کا یاد ہے جو کہ میرے دوست پنڈت مُولا رام صاحب ہیڈ کلرک ڈسٹرکٹ بورڈ دھرمسالہ نے جو کہ ہوشیارپور کا رہنے والا تھا، مجھ سے ذکر کیا تھا۔ پنڈت صاحب موصوف کا میرے ساتھ دوستانہ سلوک تھا۔ وہ ہر بات جو قابلِ ذکر ہوتی تھی۔ میرے ساتھ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو زلزلہ آیا۔ جس سے دھرم سالہ وکانگڑہ تباہ ہوا تھا۔ وہ زلزلہ ۶ بجکر ۴ منٹ پر ہوا تھا۔ زلزلہ ہونے سے ۵ منٹ پیشتر پنڈت مولا رام صاحب نے میرے ساتھ ذکر کیا تھا۔ کہ کل شام کا مرزا صاحب موصوف کا خط آیا ہوا ہے۔ رات کو مَیں پڑھ نہ سکا۔ ابھی پڑھ رہا ہوں۔ مرزا صاحب کی تحریر زیادہ دلچسپ ہوتی ہے اور علمی ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے پڑھنے کا بڑا شوق ہے۔ اور توجہ سے پڑھا کرتا ہوں۔ اور جب کبھی کسی امر کے متعلق کوئی سوال مجھے درپیش ہوتا ہے تو مَیں مرزا صاحب کی خدمت میں لکھدیا کرتا ہوں۔ ان کی طرف سے مجھے ایسا جواب آتا ہے کہ اس کے پڑھنے سے میرے تمام شکوک دُور ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آج بھی میرے ایک سوال کا جواب مرزا صاحب موصوف کی طرف سے آیا ہے اور مَیں اس کو پڑھ رہا تھا۔ کہ زلزلہ آ گیا۔ میں خط پڑھتے پڑھتے اپنے مکان سے باہر نکل آیا۔ اور مرزا صاحب کے خط کی بدولت میری جان بچ گئی۔ چنانچہ جس وقت مَیں نے پنڈت صاحب موصوف کو باہر دیکھا۔ مرزا صاحب کا خط ان کے ہاتھ میں تھا۔ یہ ذکر پنڈت صاحب نے مجھ سے کیا جو کہ بالکل صحیح ہے اور ساتھ ہی مَیں بھی اس بات پر اعتقاد رکھتا ہوں۔ کہ جو کلام مرزا غلام احمد صاحب کرتے تھے۔ وہ خدا سے علم پا کر کرتے تھے۔ اور آپ واقعی خدا رسیدہ انسان تھے۔ لہذا یہ سچے کلمات محمد طفیل و محمد حسین ٹیلر ماسٹر جن کا تعلق جماعت احمدیہ قادیان سے ہے۔ ان کی خواہش پر قلمبند کرتا ہوں۔
کاتب محمد طفیل احمدی دھرم سالہ
(دستخط) لالہ ڈھیرو مل گھڑی ساز بقلم خود مورخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۳۲ء
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی واقعہ ہے جس کا ذکر سیرۃ المہدی حصہ دوم کی روایت نمبر ۳۳۵میں ماسٹر نذیر خان صاحب کی زبانی ہو چکا ہے۔ یعنی یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ نے پنڈت مولا رام صاحب کو اپریل ۱۹۰۵ء میں ایک خط لکھا تھا۔ جس میں یہ تحریر فرمایا تھا۔ کہ خدا کا عذاب بالکل سر پر ہے اور گھنٹوں اور منٹوں اور سیکنڈوں میں آنے والا ہے اور لطف یہ ہے کہ پنڈت صاحب اس خط کو پڑھ ہی رہے تھے یا پڑھ کر فارغ ہوئے تھے کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء والا زلزلہ آ گیا جس نے ضلع کانگڑہ میں خطرناک تباہی مچائی اور ہزاروں انسان ہلاک ہو گئے اور لاکھوں کروڑوں روپے کی جائیداد خاک میں مل گئی۔
{ 771} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ عبدالحق صاحب ساکن وڈالہ بانگر تحصیل و ضلع گورداسپور نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ غالباً ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء کا ذکر ہے۔ خاکسار راقم تحصیل دار بندوبست کے سرشتہ میں بطور محرر کام کرتا تھا۔ چونکہ بندوبست کا ابتداء تھا اور عملہ بندوبست ابھی تھوڑا آیا ہوا تھا۔ تحصیلدار بندوبست صرف دو ہی آئے ہوئے تھے۔ اس لئے دو تحصیلوں کا کام تحصیلدار صاحبان کے سپرد تھا۔ جن تحصیلدار صاحب کے ماتحت خاکسار کام کرتا تھا۔ ان کے سپرد تحصیل بٹالہ اور گورداسپور کا کام تھا۔ تحصیل بٹالہ میں موضع رترچھتر المعروف مکان شریف میں ایک بزرگ حضرت امام علی شاہ صاحب گذرے ہیں۔ دُور دُور تک لوگ ان کے معتقد ہیں۔ اور اکثر دیہات میں آپ کے مریدوں نے بہت کثرت کے ساتھ اپنی اراضیات بزرگ موصوف کے نام منتقل کر دی ہوئی ہیں۔ اس وراثت کے متعلق شاہ صاحب مذکور کی اولاد میں باہمی تنازعہ ہو گیا۔ جناب میر بارک اللہ صاحب جو ان دنوں گدی نشین تھے ۔ وہ ایک خاص حصہ رقبہ میں سے بعض وجوہات کے ماتحت اپنے چھوٹے بھائی میر لطف اللہ شاہ صاحب کو حصہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس پر میر لطف اللہ شاہ صاحب نے تقسیم اراضی کا مقدمہ تحصیلدار بندوبست کے محکمہ میں دائر کر دیا۔ اس مقدمہ کی پَیروی کے لئے دونوں بھائی ہمارے محکمہ میں تاریخ مقررہ پر عموماً آیا کرتے تھے۔ اتفاقاً ایک دن جو جمعہ تھا۔ تحصیلدار صاحب کا مقام کوٹ ٹو ڈرمل جو قادیان کے قریب ہے ، ہوا۔ اور اسی دن شاہ صاحبان کی پیشی تھی۔ اس لئے ہر دو صاحبان کوٹ ٹوڈرمل تشریف لائے۔ خاکسار بغرض ادائیگی جمعہ باجازت تحصیلدار صاحب قادیان آیا۔ اور جمعہ مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معیّت میں پڑھا۔ جمعہ سے فارغ ہو کر جب حضور گھر تشریف لیجا رہے تھے تو ابھی اسی دروازہ میں تھے جس میں بالعموم آپ مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ کہ ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میر لطف اللہ شاہ مکان شریف والے حضور کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہیں۔ حضور اجازت فرمائیں تو وہ آئیں ۔ حضور نے اجازت دی۔ اور آپ وہیں مسجد مبارک میں اس دریچہ کے ساتھ جو جانب شمالی گوشہ مغربی سے گلی میں کھلتا ہے۔ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ خاکسار کو بھی حضور کے پاس ہی بیٹھنے کا موقعہ مل گیا۔ میر لطف اللہ شاہ صاحب تشریف لائے اور حضور کے سامنے جنوبی دیوار کے ساتھ بیٹھ گئے۔ اس وقت مسجد مبارک کوچہ کے بالائی حصہ پر ہی واقعہ تھی اور ابھی اس کی توسیع نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس کا عرض بہت تھوڑا تھا۔ حضرت صاحب شمالی دیوار کے ساتھ رونق افروز تھے۔ اور شاہ صاحب سامنے جنوبی دیوار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔
حضور نے شاہ صاحب سے دریافت فرمایا۔ کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے مقدمہ کا سارا ماجرہ بیان کیا۔ اس سارے طویل قصہ کو سُننے کے بعد حضور نے فرمایا۔ شاہ صاحب جب انسان دنیا کو چھوڑتا ہے اور مولا کریم کی طرف اس کی توجہ مبذول ہو جاتی ہے تو وہ آگے آگے دوڑتا ہے اور دُنیا اس کے پیچھے پیچھے دوڑتی ہے۔ لیکن جب انسان خدا سے منہ موڑ لیتا ہے اور دنیا کے پیچھے پڑتا ہے۔ تو اس وقت دنیا آگے آگے دوڑتی ہے اور وہ پیچھے پیچھے جاتا ہے۔ مطلب حضور کا یہ تھا کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ کے بزرگ دنیا سے دل برداشتہ ہو کر خدا کے بن گئے تھے۔ تو دنیا کی جائدادیں خودبخود اُن کی طرف آگئیں۔ اور اب آپ نے خُدا سے وہ تعلق قائم نہ رکھا اور انہیں جائدادوں پر گر گئے۔ تو اب وہی جائدادیں آپ کے لئے نصب العین ہو گئی ہیں۔ اور آپ کی ساری توجہ دُنیا طلبی میں صرف ہو رہی ہے۔ مگر پھر بھی جائدادیں ہاتھ سے نکلی جا رہی ہیں۔ اس وقت شاہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا کی جائے۔ حضور نے دُعا کی اور شاہ صاحب واپس مکان شریف چلے گئے۔ اس وقت مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّل بھی وہاں موجود تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ رتر چھتر یعنی مکان شریف ڈیرہ بابا نانک کے قریب ہے اور اس وقت اِس کے گدّی نشین صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سخت مخالف ہیں۔ مگر ان میں سے خدا نے ایک نیک وجود احمدیت کو بھی دے رکھا ہے۔ میری مراد لیفٹیننٹ ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب ہیں۔ جو اسی خاندان میں سے ہیں اور نہایت مخلص احمدی ہیں۔
{ 772} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی بھی کسی سے معانقہ کرتے نہیں دیکھا۔ مصافحہ کیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے مصافحہ کرنے کا طریقہ ایسا تھا۔ جو عام طور پر رائج ہے۔ اہلحدیث والا مصافحہ نہیں کیا کرتے تھے۔
{ 773} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگرچہ صدقہ اور زکوٰۃ سادات کے لئے منع ہے۔ مگر اس زمانہ میں جب ان کے گذارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ تو اس حالت میں اگر کوئی سیّد بھوکا مرتا ہو اور کوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوٰۃ یا صدقہ میں سے دیدیا جائے۔ ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے۔
{ 774} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ عبداللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کے دَوران میں ایک دفعہ مجھے خواب آیا۔ کہ اس پیشگوئی کی میعاد کے مطابق عبداللہ آتھم کے مرنے کا آخری دن یہ ہے۔ خواب میں وہ دن بھی بتایا گیا۔ اس وقت مَیں خواب میں بہت غور سے سورج کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کہیں عبداللہ آتھم کے مرنے سے پہلے سُورج غروب نہ ہو جائے اور خواب میں مَیں نے دیکھا کہ سورج غروب ہونے کے عین قریب ہو گیا۔ اور عبداللہ آتھم کے مرنے کی کوئی خبر نہ آئی۔ پھر مَیں نے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَنَۃً پڑھنا شروع کیا۔ مگر سورج غروب ہو گیا اور پھر بھی کوئی خبر نہ آئی۔ اس کے بعد مَیں بیدار ہو گیا۔ اور یہ خواب حضرت صاحب کو سُنایا۔ حضور نے حساب لگا کر فرمایا کہ ہاں آخری دن تو وہی بنتا ہے۔ جو آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا۔ کہ مَیں بھی جب اس کے متعلق دعا کرتا ہوں۔ تو دُعا میں پورے طور پر توجہ قائم نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت آتھم پہلی میعاد میں نہ مرا۔ اور اسے خدائی الہام کے مطابق کہ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ مہلت مل گئی۔
{ 775} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ ابھی چھوٹی مسجد وسیع نہ ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظہر یا عصر کی نماز کے لئے باہر تشریف لائے اوربیٹھ گئے۔ اس وقت ایک مَیں تھا اور ایک اور شخص تھا۔ اس وقت حضور نے فرمایا۔ ’’خداتعالیٰ کے حسن و احسان کا مطالعہ کرنے سے خداتعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حسن سے مراد خداتعالیٰ کے صفات حسنہ ہیں۔ اور احسان سے مراد ان صفاتِ حسنہ کا ظہور ہے یعنی خداتعالیٰ کے وہ انعام و افضال جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ خدا کی محبت کے یہی دو بڑے ستون ہیں۔
{ 776} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں تھے کہ مَیں حاضر خدمت ہوا۔ حضور نے فرمایا کہ اس وقت اشتہار طبع کرانے کی ضرورت ہے کیا اس کے لئے آپ کی جماعت ساٹھ روپے کا خرچ برداشت کر لے گی۔ مَیں نے اثبات میں جواب دیا۔ اور فوراً کپور تھلہ واپس آ کر اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی۔ اور احبابِ جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کیا۔ اور ساٹھ روپے لے کر میں اُڑ گیا۔ اور لدھیانہ جا کر حضور کے سامنے یہ رقم پیش کر دی۔ چند روز بعد منشی اروڑا صاحب لدھیانہ آ گئے۔ مَیں وہیں تھا۔ ان سے حضور نے ذکر فرمایا کہ آپ کی جماعت نے بڑے اچھے موقعہ پر امداد کی ہے۔ منشی اروڑا صاحب نے عرض کی کہ حضور نے مجھے یا جماعت کو تو پتہ بھی نہیں۔ حضور کس امداد کا ذکر فرماتے ہیں۔ اس وقت منشی اروڑا صاحب کو اس بات کا علم ہوا کہ مَیں اپنی طرف سے روپیہ دے آیا ہوں۔ اس پر وہ مجھ سے بہت ناراض ہوئے کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتلایا۔ مَیں ثواب سے محروم رہا۔ حضرت صاحب سے بھی عرض کی۔ حضور نے فرمایا۔ منشی صاحب خدمت کرنے کے بہت سے موقعے آئیں گے۔ آپ گھبرائیں نہیں۔ مگر اس بناء پر منشی صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کپور تھلہ کی جماعت ایک خاص جماعت تھی۔ اور نہایت مخلص تھی۔ ان میں سے تین دوست خاص طور پر ممتاز تھے۔ یعنی میاں محمد خان صاحب مرحوم۔ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب۔ اوّل الذکر بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اور ثانی الذکر خلافت ثانیہ میں فوت ہوئے اور مؤخر الذکر ابھی تک زندہ ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں تا دیر سلامت رکھے اور ہر طرح حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم منشی ظفر احمد صاحب کے اس اخلاص کے اظہار میں تین لطافتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو رقم جماعت سے مانگی گئی تھی وہ انہوں نے خود اپنی طرف سے پیش کر دی۔ دوسرے یہ کہ پیش بھی اس طرح کی کہ نقد موجود نہیں تھا تو زیور فروخت کرکے روپیہ حاصل کیا۔ تیسرے یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جتایا تک نہیں کہ مَیں خود اپنی طرف سے زیور بیچ کر لایا ہوں۔ بلکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے رہے کہ جماعت نے چندہ جمع کرکے یہ رقم بھجوائی ہے۔ دوسری طرف منشی اروڑے خاں صاحب کا اخلاص بھی ملاحظہ ہو کہ اس غصہ میں منشی ظفر احمد صاحب سے چھ ماہ ناراض رہے کہ اس خدمت کے موقعہ کی اطلاع مجھے کیوں نہیں دی۔ یہ نظارے کس درجہ روح پرور ،کس درجہ ایمان افروز ہیں۔ اے محمدی سلسلہ کے برگزیدہ مسیح! تجھ پر خدا کا لاکھ لاکھ درود اور لاکھ لاکھ سلام ہو کہ تیرا ثمر کیسا شیریں ہے۔ اور اے محمدی مسیح کے حلقہ بگوشو! تم پر خدا کی لاکھ لاکھ رحمتیں ہوں کہ تم نے اپنے عہد اخلاص و وفا کو کس خوبصورتی اور جاں نثاری کے ساتھ نبھایا ہے۔
{ 777} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں جب مَیں قادیان جاتا تو اس کمرے میں ٹھہرتا تھا۔ جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور جس میں سے ہو کر حضرت صاحب مسجد میں تشریف لے جاتے تھے ایک دفعہ ایک مولوی جو ذی علم شخص تھا۔ قادیان آیا۔ بارہ نمبردار اس کے ساتھ تھے۔ وہ مناظرہ وغیرہ نہیں کرتا تھا بلکہ صرف حالات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ ایک مرتبہ رات کو تنہائی میں وہ میرے پاس اس کمرہ میں آیا۔ اور کہا کہ ایک بات مجھے بتائیں کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا۔ ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہونگے۔ اور وہ وقت رات کا ہی ہو سکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں۔ مَیں نے کہا مولوی محمد چراغ اور مولوی معین الدین ضرور آپ کے پاس رات کو رہتے ہیں۔ یہ علماء رات کو ضرور امداد کرتے ہیں۔ حضرت صاحب کو میری یہ آواز پہنچ گئی۔ اور حضور اندر بہت ہنسے۔ حتی کہ مجھ تک آپ کی ہنسی کی آواز آئی۔ اس کے بعد مولوی مذکور اُٹھ کر چلا گیا۔اگلے روز جب مسجد میں بعد عصر حسب معمول حضور بیٹھے تو وہ مولوی بھی موجود تھا۔ حضور میری طرف دیکھ کر خودبخود ہی مسکرائے اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ ’’ اُن علماء کو اِنہیں دکھلا بھی تو دو‘‘ اور پھر ہنسنے لگے۔ اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ حضور نے سُنایا اور وہ بھی ہنسنے لگے۔ میں نے چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا۔ چراغ ایک بافندہ اَن پڑھ حضرت صاحب کا نوکر تھا۔ اور معین الدین صاحب ان پڑھ نابینا تھے۔ جو حضرت صاحب کے پَیر دبایا کرتے تھے۔ وہ شخص ان دونوں کو دیکھ کر چلا گیا۔ اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر آیا اور حضور سے عرض کیا کہ مجھے بیعت فرما لیں۔ اب کوئی شک و شبہ میرے دل میں نہیں رہا۔ اور اس کے بارہ ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی بیعت ہو گئے۔ حضرت صاحب نے بیعت اور دعا کے بعد ان مولوی صاحب کو مسکراتے ہوئے فرمایا۔ کہ یہ مٹھائی منشی صاحب کے آگے رکھدو کیونکہ وہی آپ کی ہدایت کا باعث ہوئے ہیں۔
{ 778} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ لاہور میں غالباً وفات سے ایک دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج مجھے دست زیادہ آ گئے ہیں۔ چنانچہ مَیں نے تین قطرے کلوروڈین کے پی لئے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو اسہال کی شکایت اکثر رہتی تھی۔ مگر آخری مرض میں جہاں تک مجھے یاد ہے صرف وفات والے دن سے قبل کی رات اسہال لگے تھے۔ مگر ممکن ہے۔ کہ ایک دو روز پہلے بھی معمولی شکایت پیدا ہو کر پھر دب گئی ہو۔
{ 779} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے پِیر منظور محمد صاحب بیان کرتے تھے۔ کہ ایک دن میری مرحومہ اہلیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر سے آئیں اور کہنے لگیں کہ آج حضرت صاحب نے میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) کو بلا کر فرمایا۔ ’’ جو تم میرے بیٹے ہو گے تو ناول نہیں پڑھو گے‘‘۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یہ واقعہ یاد نہیں۔ مگر اس روایت سے مجھے ایک خاص سرور حاصل ہوا ہے کیونکہ مَیں بچپن سے محسوس کرتا آیا ہوں کہ مجھے ناول خوانی کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوئی۔ نہ بچپن میں نہ جوانی میں اور نہ اب۔ بلکہ ہمیشہ اس کی طرف سے بے رغبتی رہی ہے حالانکہ نوجوانوں کو اس میں کافی شغف ہوتا ہے اور خاندان میں بھی بعض افراد کبھی کبھی ناول پڑھتے رہے ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت صاحب نے کسی کو ناول پڑھتے دیکھا ہوگا۔ یا کسی اور وجہ سے اِدھر توجہ ہوئی ہو گی۔ جس پر بطریق انتباہ مجھے یہ نصیحت فرمائی۔ اور الحمدللہ مَیں حضرت صاحب کی توجہ سے خدا کے فضل کے ساتھ اس لغو فعل سے محفوظ رہا۔
{ 780} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین نے ایک دن سُنایا کہ حضرت صاحب کے ہاں ایک بوڑھی ملازمہ مسماۃ بھانو تھی۔ وہ ایک رات جبکہ خوب سردی پڑ رہی تھی۔ حضور کو دبانے بیٹھی۔ چونکہ وہ لحاف کے اوپر سے دباتی تھی۔ اس لئے اُسے یہ پتہ نہ لگا کہ جس چیز کو مَیں دبا رہی ہوں۔ وہ حضور کی ٹانگیں نہیں ہیں بلکہ پلنگ کی پٹی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا۔ بھانو آج بڑی سردی ہے۔ بھانو کہنے لگی۔ ’’ ہاں جی تدّے تے تہاڈی لتّاں لکڑی وانگر ہویاں ہویاں ایں۔‘‘ یعنی جی ہاں جبھی تو آج آپ کی لاتیں لکڑی کی طرح سخت ہو رہی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے جو بھانو کو سردی کی طرف توجہ دلائی تو اس میں بھی غالباً یہ جتانا مقصود تھا کہ آج شاید سردی کی شدت کی وجہ سے تمہاری حس کمزور ہو رہی ہے اور تمہیں پتہ نہیں لگا کہ کس چیز کو دبا رہی ہو۔ مگر اس نے سامنے سے اور ہی لطیفہ کر دیا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ بھانو مذکورہ قادیان کے ایک قریب کے گائوں بسرا کی رہنے والی تھی۔ اور اپنے ماحول کے لحاظ سے اچھی مخلصہ اور دیندار تھی۔
{ 781} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قریباً ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہے کہ کہیں سے ایک بہت بڑا لو ہے چینی کا پیالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا۔ جس کی بڑائی کی وجہ سے معلوم نہیں اہل بیت نے یا خود حضرت صاحب نے اس کا نام کاسۃ المسیح رکھ دیا اور اسی نام سے وہ مدتوں مشہور رہا۔ ان دنوں حضرت صاحب کو کچھ پھنسیوں وغیرہ کی تکلیف جو ہوئی۔ تو آپ نے ایک نسخہ جس میں مُنڈی بُوٹی۔ مہندی۔ عناب۔ شاہترہ۔ چرأتہ اور بہت سی اور مصفّی خون ادویات تھیں اپنے لئے تجویز کیا۔ یہ ادویہ اس ’’کاسۃ المسیح‘‘ میں شام کو بھگوئی جاتیں اور صبح مَل کر اور چھان کر آپ اس کے چند گھونٹ پی لیتے اور دوسروں سے بھی کہتے کہ پیو یہ بہت مفید ہے۔ یہ خاکسار اکثر اس کو اپنی ہاتھ سے تیار کرتا تھا۔ اس لئے تھوڑا سا پی بھی لیتا تھا۔ مگر اس میں بدمزگی۔ ہیک اور تلخی کمال درجہ کی تھی۔ اکثر لوگ تو پینے سے ہی جی چراتے۔ اور جو ایک دفعہ پی لیتے وہ پھر پاس نہ پھٹکتے تھے۔ مگر حضور خود اس کو مدّت تک پیتے رہے۔ بلکہ جسے کوئی تکلیف اس قسم کی سُنتے اسے اس میں سے حصہ دیتے۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے یہ خیال کرکے کہ یہ ایک بہت عمدہ دوا ہو گی۔ اسے پینے کی خواہش ظاہر کی۔ جس پر حضرت صاحب نے ان کو چند گھونٹ بھجوا دئیے۔ مگر اس کو چکھ کر مولوی صاحب مرحوم کی حالت بدل گئی اور انہوں نے اپنی فصیح و بلیغ زبان میں اس کی وہ تعریف کی کہ سُننے والے ہنس ہنس کر لوٹ گئے۔ مگر حضور علیہ السلام کی طبیعت ایسی تھی کہ کیسی ہی بدمزہ ،تلخ اور ناگوار دوا ہو۔ آپ کبھی اس کے استعمال سے ہچکچاتے نہ تھے اور بلا تأمّل پی لیتے تھے۔
{ 782} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ عمامہ کا شملہ لمبا چھوڑتے تھے۔ یعنی اتنا لمبا کہ سُرین کے نیچے تک پہنچتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔ کہ میر صاحب موصوف کی روایت بہت پختہ ہوتی ہے۔ مگر جہاں تک مجھے یاد ہے آ پ کا شملہ بے شک کسی قدر لمبا تو ہوتا تھا مگر اتنا لمبا نہیں ہوتا تھا کہ سُرین سے نیچے تک جا پہنچے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 783} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حسن ظنی کی تاکید میں ایک حکایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر سُنایا کرتے تھے اور وہ حکایت یہ ہے کہ ایک شخص نے ایک دفعہ تکبّر سے توبہ کی اور عہد کیا کہ مَیں آئندہ اپنے تئیں سب سے ادنیٰ سمجھا کرونگا۔ ایک دفعہ وہ سفر پر گیا اور ایک دریا کے کنارے پہنچ کر کشتی کی انتظار کرنے لگا۔ اس وقت اس نے کچھ فاصلہ پر دیکھا کہ ایک آدمی اور ایک عورت بیٹھے ہیں۔ اور غالباً وہ بھی کشتی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک بوتل ہے۔ کبھی اس میں سے ایک گھونٹ وہ مرد پی لیتا ہے اور کبھی عورت پیتی ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے دل میں کہا۔ کہ یہ دونوں کس قدر بے حیاء ہیں کہ دریا کے گھاٹ پر لوگوں کے سامنے بے حجاب بیٹھے شراب پی رہے ہیں۔ ان سے تو مَیں بہرحال اچھا ہوں۔ اتنے میں دریا کے پار کی طرف سے کشتی کنارے کے قریب آئی اور لہر کے صدمہ سے الٹ گئی۔ اس میں چھ آدمی تھے۔ یہ نظارہ دیکھ کر وہ عورت کا ساتھی اُٹھا اور دریا میں کود پڑا۔ اور ایک ایک کرکے پانچ آدمیوں کو نکال لایا۔ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ اب آپ بھی اس چھٹے آدمی کو نکالیں یا دور دور بیٹھے دوسروں پر ہی بدظنی کرنا جانتے ہیں۔ سُنئے یہ عورت میری والدہ ہے اور اس بوتل میں پینے کا پانی ہے جو ہم نے سفر میں محفوظ کر رکھا ہے۔ یہ سُن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور بد ظنی سے توبہ کی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کوئی بزرگ ہو گا جسے کشفی صورت میں اس شخص کے اندرونہ کا علم ہو گیا ہو گا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قصہ محض نصیحت اور عبرت کے لئے وضع کیا گیا ہو۔
{ 784} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ اپنے خدا پر نیک ظن رکھے۔تمام غلط عقائد کی جڑ اللہ تعالیٰ پر بدظنی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدَاکُمْ (حٰمٓ السجدہ:۲۴) یعنی اے کافرو! تم نے جو بد ظنی خدا پر کی اسی نے تم کو ہلاک کیا۔ اسی طرح حدیث شریف میں آیا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ۔ یعنی خدا فرماتا ہے کہ جس طرح میرا بندہ میرے متعلق گمان کرتا ہے مَیں اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتا ہوں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ حدیث نہایت وسیع المعانی اور لطیف المعانی ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔
{ 785} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے فرمایا کہ بعض اوقات ہمارے اپنے دو آدمی ہمارے پاس آتے ہیں اور ان کا آپس میں جھگڑا یا مقدمہ ہوتا ہے۔ اور دونوں نذر دیتے ہیں۔ اور دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ مقدمہ ان کے حق میں فتح ہو۔ ہم دونوں کی نذر قبول کر لیتے ہیں۔ اور خدا سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ان میں سے جو سچا ہو اور جس کا حق ہو اُسے فتح دے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پِیر کا مرید کی نذر ردّ کرنا مرید کے لئے موت سے بڑھ کر ہوتا ہے اس لئے سوائے اس کے کہ کسی پر کوئی خاص ناراضگی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب کی نذر قبول فرما لیتے تھے اور سب کے لئے دعا کرتے تھے اور ہر ایک کو اپنے اپنے رنگ میں دعا فائدہ پہنچاتی تھی۔ کسی کو فتح کے رنگ میں اور کسی کو اور رنگ میں۔
{ 786} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں مَیں اور اہلیہ بابو شاہ دین رات کو پہرہ دیتی تھیں۔ اور حضرت صاحب نے فرمایا ہوا تھا۔ کہ اگر میں سوتے میں کوئی بات کیا کروں تو مجھے جگا دینا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے آپ کی زبان پر کوئی الفاظ جاری ہوتے سُنے اور آپ کو جگا دیا۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ ان ایام میں عام طور پر پہرہ پر مائی فجوّ۔ منشیانی اہلیہ منشی محمد دین گوجرانوالہ اور اہلیہ بابو شاہ دین ہوتی تھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی رسول بی بی صاحبہ میری رضاعی ماں ہیں اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کی بیوہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم تھے۔ مولوی عبدالرحمن صاحب ان کے داماد ہیں۔
{ 787} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب مَیں قادیان میں تھا اور اُوپر سے رمضان شریف آگیا۔ تو مَیں نے گھر آنے کا ارادہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ نہیں سارا رمضان یہیں رہیں۔ مَیں نے عرض کی۔ حضور ایک شرط ہے کہ حضور کے سامنے کا جو کھانا ہو وہ میرے لئے آ جایا کرے۔ آپ نے فرمایا۔ بہت اچھا۔ چنانچہ دونوں وقت حضور برابر اپنے سامنے کا کھانا مجھے بھجواتے رہے۔ دوسرے لوگوں کو بھی یہ خبر ہو گئی اور وہ مجھ سے چھین لیتے تھے۔ یہ کھانا بہت سا ہوتا تھا۔ کیونکہ حضور بہت کم کھاتے تھے۔ اور بیشتر حصہ سامنے سے اسی طرح اٹھ کر آجاتا تھا۔
{ 788} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کبھی کبھی دورانِ سر کی تکلیف ہو جاتی تھی۔ جو بعض اوقات اچانک پیدا ہو جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب گھر میں ایک چارپائی کو کھینچ کر ایک طرف کرنے لگے تو اس وقت آپ کو اچانک چکّر آ گیااور آپ لڑکھڑا کر گرنے کے قریب ہو گئے۔ مگر پھر سنبھل گئے۔ یہ اس صحن کا واقعہ ہے جس میں اب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حرم اوّل رہتے ہیں۔
{ 789} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی ضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر براہین احمدیہ کی طباعت دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ تو کتاب کی طباعت کے دیکھنے کے بعد مجھے فرمایا۔ میاں رحیم بخش چلو سیر کر آئیں۔ جب آپ باغ کی سیر کر رہے تھے تو خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت آپ سیر کرتے ہیں۔ ولی لوگ تو سُنا ہے شب و روز عبادتِ الٰہی کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ولی اللہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک مجاہدہ کش جیسے حضرت باوا فرید شکر گنج۔ اور دوسرے محدّث جیسے ابوالحسن خرقانی ۔محمد اکرم ملتانی۔ مجدّد الف ثانی وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کے ولی بڑے مرتبہ کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بکثرت کلام کرتا ہے۔ مَیں بھی ان میں سے ہوں۔ اور آپ کا اس وقت محدثیّت کا دعویٰ تھا۔ اور فرماتے تھے کہ محدّث بھی ایک طرح نبی ہوتا ہے۔ اس کی وحی بھی مثل وحی نبی کے ہوتی ہے۔ اور آیت وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ اِلَّا اِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطَانُ فِیْ اُمْنِیَّتِہٖ (الحج:۵۳) الخ میں نبی کے ساتھ ایک قرا ء ت میں محدّث کا لفظ بھی آیا ہے۔ اور اس کی وحی محفوظ ہوتی ہے۔ الغرض جب آپ کی یہ کلام خاکسار نے سُنی۔ تو عرض کیا کہ آپ میری بیعت لے لیں۔ آپ اس وقت بیعت نہ لیتے تھے۔ فرمایا کہ بیعت تو دلی اعتقاد کا نام ہے۔ اگر تمہارا دلی اعتقاد اور پورا ایمان ہے تو تم بیعت میں ہو۔ غرض خاکسار تو اس وقت سے ہی آپ کی بیعت میں تھا۔ پھر جب حضور سے اجازت لے کر طالب علمی کے واسطے ہندوستان گیا۔ اور ایک مدت تک وہاں رہا۔ اور جب کانپور سے آ کر دہلی طب پڑھتا تھا۔ تو حضور دہلی تشریف لے گئے۔ اس وقت میرا آپ پر یہی اعتقاد رہا۔ پھر جب مَیں پنجاب میں آیا۔ تو اپنے والد کو جو بوڑھے تھے۔ بیعت میں داخل کروایا۔ اور بیوی و دیگر رشتہ داروں کی بیعت بھی کروائی اور آپ کے ہر الہام و وحی پر میرا ایمان تھا کہ وہ صادق ہے۔ رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے آپ کو مرتبہ نبوت ملا تھا تا کہ خدمت قرآن اور احیاء اسلام آپ کے ہاتھ سے ہو اور مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ جو کچھ آپ کا دعویٰ تھا وہ سچ ہے۔ میری پیدائش سمت بکرمی ۱۹۱۴ کی ہے اور ۱۸۵۷ عیسوی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی رحیم بخش صاحب اب کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکے ہیں۔ ان کا گائوں تلونڈی جھنگلاں قادیان سے چار میل کے فاصلہ پر جانب غرب واقع ہے۔ اور خدا کے فضل سے اس گائوں کا بیشتر حصہ احمدی ہے۔
{ 790} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ ایک عرب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہوا افریقہ کے بندروں کے اور افریقن لوگوں کے لغو قصے سُنانے لگا۔ حضرت صاحب بیٹھے ہوئے ہنستے رہے۔ آپ نہ تو کبیدہ خاطر ہوئے اور نہ ہی اس کو ان لغو قصوں کے بیان کرنے سے روکا کہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ بلکہ اس کی دلجوئی کے لئے اخیر وقت تک خندہ پیشانی سے سنتے رہے۔
{ 791} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ علیل تھی۔ مگر جب آپ نے سیر فرماتے وقت دیکھا کہ بہت سے لوگ آ گئے ہیں اور سننے کی خواہش سے آئے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ چونکہ دوست سُننے کی نیت سے آئے ہیں۔ اس لئے اب اگر کچھ بیان نہ کروں تو گناہ ہو گا۔ لہذا آج کچھ بیان کرونگا۔ اور فرمایا۔ لوگوں میں اطلاع کر دیں۔
{ 792} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کہ ہم اپنے گائوں میں دو شخص احمدی ہیں۔ کیا ہم جمعہ پڑھ لیا کریں۔ حضور نے مولوی محمد احسن صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا۔ کیوں مولوی صاحب؟ اس پر مولوی صاحب نے کہا۔ جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے۔ اور حدیث شریف سے ثابت ہے کہ دو شخص بھی جماعت ہیں۔ لہذا جائز ہے۔ حضور علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا کہ فقہاء نے کم از کم تین آدمی لکھے ہیں۔ آپ جمعہ پڑھ لیا کریں۔ اور تیسرا آدمی اپنے بیوی و بچوں میں سے شامل کر لیا کریں۔
{ 793} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی۔ اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر رونق افروز تھے۔ مَیں نے عرض کی کہ بعض لوگوں نے میرے سامنے اعتراض کیا تھا کہ پنڈت لیکھرام اور عبداللہ آتھم کی پیشگوئیاں خدا کی طرف سے نہیں تھیں بلکہ انسانی دماغ اور منصوبہ کا نتیجہ تھیں۔
میں نے انہیں یہ جواب دیا کہ اگر یہ پیشگوئیاں ظاہری عوارض اور کمزوریوں کی بناء پر ہوتیں۔ تو حضور اس طرح پیشگوئی کرتے۔ کہ لیکھرام جو جوان اور مضبوط اور تندرست انسان ہے۔ اگر یہ رجوع کر لے تو بچایا جائے گا اور یہ کہ عبداللہ آتھم جو بوڑھا اور عمر رسیدہ ہے یہ بہرحال مرے گا۔ مگر حضور نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان عوارض ظاہری اور تقاضائے عمر کے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی کہ لیکھرام اگرچہ نوجوان اور مضبوط ہے مگر وہ مر جائیگا اور عبداللہ آتھم اگرچہ بوڑھا ہے لیکن وہ اگر رجوع کر لے تو بچایا جائے گا۔ اس پر حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ واقعی یہ اچھا استدلال ہے پھر فرمایا کہ دراصل پیشگوئی کے اعلان کے بعد عبداللہ آتھم نے جلسہ گاہ مباحثہ میں ہی رجوع کر لیا تھا اور منہ میں انگلی ڈال کر کہا تھا کہ میں نے تو حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم کو دجّال نہیں کہا۔ حالانکہ وہ ایسا کہہ چکا تھا۔
{ 794} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔شیخ محمد بخش صاحب بھنگالوی مہاجر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ مارچ ۱۹۰۷ء میں مَیں اور مولوی محمد صاحب آف مزنگ لاہور براستہ بٹالہ قادیان پیدل چل کر آئے تھے۔ چونکہ مولوی محمد صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بہنوئی اور کڑم (یعنی سمدھی) تھے۔ اس لئے ہم رات کو بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب کی مسجد میں ٹھہرے۔ مولوی محمد حسین صاحب ہمیں شام کو مسجد میں ملے اور کہا کہ صبح مل کر جانا۔ کیونکہ مَیں نے ایک دو پیغام مرزا صاحب کو بھیجنے ہیں۔ مگر ہم کو نہ تو روٹی کے لئے پوچھا اور نہ ہی رات کو سونے کے لئے کہا۔ چنانچہ ہم شیخ نبی بخش صاحب ٹھیکیدار کے ہاں رات کو ٹھہرے اور صبح بعد نماز فجر جب ہم قادیان کو روانہ ہونے لگے۔ تو اس وقت مولوی محمد حسین صاحب قادیان والے راستہ کے موڑ تک جو بٹالہ کے بوچڑ خانہ کے نزدیک ہے ہمیں آ کر ملے اور ہمیں یہ دو پیغام دئیے۔
۱۔ مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ میرے گھر لڑکا پیدا ہو گا۔
۲۔ ایم عبدالرشید کو مرزا صاحب کہہ دیں کہ ان کے والد صاحب کو جو روپیہ میرے پاس جمع ہے وہ حساب کرکے اپنے حصہ کا روپیہ لے لیویں۔ باقی جب اس کے بھائی بالغ ہوں گے۔ تو وہ اپنے اپنے حصہ کا روپیہ لے لیویں گے۔
ہم بروز جمعہ حضرت صاحب سے بعد نماز جمعہ مسجد مبارک میں ملے اور بعد مصافحہ ہر دو پیغام حضور کی خدمت میں عرض کر دئیے۔ پہلے پیغام کا جواب حضرت صاحب نے یہ دیا۔ کہ امید نہیں کہ اب مولوی محمد حسین صاحب کے گھر لڑکا پیدا ہو۔ اگر ہو بھی جائے تو میری اور ان کی مثال ایسی ہو گی جیسے کہ ایک بادشاہ ہو جس کے پاس بڑا خزانہ ہو اور ایک شخص کے پاس صرف ایک پیسہ ہو۔ چونکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالہ کی اہلیہ ان دنوں اپنی لڑکی کے پاس مولوی محمد صاحب کے گھر مزنگ گئی ہوئی تھی۔ تو تخمیناً عرصہ ایک ماہ کے بعد مولوی محمد صاحب نے مزنگ سے مجھے خط لکھا۔ کہ مولوی محمد حسین صاحب کے گھر لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ یعنی جو پیشگوئی لڑکے کی تھی وہ غلط نکلی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی محمد صاحب اب فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے لڑکے شیخ عبدالعزیز صاحب مشہور شخص ہیں جو حکومت پنجاب کے ماتحت پریس برانچ کے انچارج رہے ہیں۔ مگر احمدی نہیں ہوئے اور شیخ عبدالرشید صاحب والے معاملہ کے متعلق مَیں نے خود شیخ صاحب موصوف سے پوچھا تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے معتقد تھے اور آپس میں بہت تعلقات تھے اور میرے والد نے مولوی صاحب کو کچھ روپیہ دے رکھا تھا مگر پھر مولوی صاحب باوجود مطالبہ کے اس روپے کو واپس کرنے میں نہیں آتے تھے اور والد صاحب کی وفات کے بعد مجھے بھی ٹالتے رہے۔ آخر میں نے تو زور دے کر آہستہ آہستہ وصولی کر لی۔ مگر میرے غیر احمدی بھائیوں سے مولوی صاحب نے کہہ کر روپیہ معاف کرالیا۔
{ 795} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری مسجد (یعنی مسجد مبارک) کو اللہ تعالیٰ نے نوح کی کشتی کا مثیل ٹھہرایا ہے۔ سو یہ شکل میں بھی کشتی کی طرح ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اصلی مسجد مبارک کی بالائی منزل کشتی کی طرح ہی تھی یعنی لمبی زیادہ تھی اور چوڑی بہت کم اور اس کے پہلو میں شہ نشین تھا۔ بعد کی توسیع میں وہ قریباً مربع شکل کی بن گئی ہے۔
{ 796} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پِیر منظور محمد صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ ایک دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام احمدیہ چوک میں کھڑے تھے تو مولوی برہان الدین صاحب جہلمی مرحوم نے عرض کیا کہ حضرت کچھ ایسا ہو کہ اندر کُھل جائے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ تھے۔ بادشاہ نے ان کو بلوا بھیجا کہ مَیں تم کو اپنا وزیر بنانا چاہتا ہوں۔ اس بزرگ نے یہ قطعہ بادشاہ کو لکھ کر بھیج دیا۔ ؎
چوں چتر چنبری رُخِ بختم سیاہ باد
آید اگر بدل ہوسِ تختِ چنبرم
زاں دَم کہ یافتم خبراز ملکِ نیم شب
صد ملکِ نیمروز بیک جو نمی خرم
اس بادشاہ کے چتر کا رنگ سیاہ تھا۔ اور اس کے ملک کا نام ملک نیمروز تھا اور بادشاہ کا لقب چنبر تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ان فارسی اشعار کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر مَیں چنبر بادشاہ کے تخت کی ہوس کروں تو میرے بخت کا منہ بھی چنبر کے چتر کی طرح سیاہ ہو جائے۔ جس وقت سے مجھے ملک نیم شب (یعنی عبادت و تہجدگزاری) پر آگاہی ہوئی ہے۔ اس وقت سے میرا یہ حال ہے کہ مَیں ایک سو ملک نیمروز کو ایک جَو کے دانہ میں بھی خریدنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ آپ ملک نیم شب کی طرف توجہ دیں ۔اس سے آپ کا اندر خود بخود کُھل جائے گا۔
{ 797} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمدؐ صاحب ان سے بیان کرتے تھے کہ جب لیکھرام کے قتل کی خبر قادیان پہنچی تو اسے سُن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے کہ مسلمانوں کے لئے یہ ایک ابتلاء ہے۔
{ 798} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طاعون کے ایام میں ایک دوائی تریاق الٰہی تیار کرائی تھی۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے ایک بڑی تھیلی یاقوتوں کی پیش کی۔ وہ بھی سب پسوا کر اس میں ڈلوا دئیے۔ لوگ کوٹتے پیستے تھے۔ آپ اندر جا کر دوائی لاتے اور اس میں ملواتے جاتے تھے۔ کونین کا ایک بڑا ڈبہ لائے اور وہ بھی سب اسی کے اندر الٹا دیا۔ اسی طرح وائینم اپی کاک کی ایک بوتل لا کر ساری الٹ دی۔ غرض دیسی اور انگریزی اتنی دوائیاں ملا دیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرمانے لگے کہ طبّی طور پر تو اب اس مجموعہ میں کوئی جان اور اثر نہیں رہا۔ بس روحانی اثر ہی ہے۔ ان دنوں میں جو مریض بھی حضور کے پاس آتا۔ خواہ کسی بیماری کا ہو۔ اُسے آپ یہی تریاق الٰہی دیدیتے۔ اور جہاں طاعون ہوتی وہاں کے لوگ حفظ ماتقدم کے لئے مانگ کر لے جاتے تھے۔ ایک شخص کے ہاں اولاد نہ تھی اور بہت کچھ طاقت کی کمزوری بھی تھی۔ اس نے دعا کے لئے عرض کیا۔ آپ نے اُسے تریاق الٰہی بھی دی اور دعا کا وعدہ بھی فرمایا۔ پھر اس کے ہاں اولاد ہوئی۔ اس دوائی کا ایک کنستر بھرا ہوا گھر میں تھا۔ جو سب اسی طرح خرچ ہوا۔ کبھی کسی کو اس کے دینے میں بخل نہ کیا۔ حالانکہ قریباً دو ہزار روپیہ کے تو صرف یاقوت ہی اس میں پڑے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ کنستر مَیں نے بھی دیکھا تھا۔ ایک پورا کنستر تھا جو مُنہ تک بھرا ہوا تھا بلکہ شاید اس سے بھی کچھ دوائی بڑھ رہی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ طریق ہوتا تھا کہ علاج میں کسی ایک دوائی پر حصر نہیں کرتے تھے بلکہ متعدد ادویہ ملا دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ معلوم نہیں خدا نے کس میں شفا رکھی ہے بلکہ بعض اوقات فرماتے تھے کہ ایک دوائی سے بعض کمزور لوگوں میں شرک پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ خدا کا فضل عموماً پردے کے پیچھے سے آتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ ایک خاص مقام کی بات ہے ورنہ طبّی تحقیق کرنے والوں کے لئے علیحدہ علیحدہ چھان بین بھی ضروری ہوتی ہے۔ تاکہ اشیاء کے خواص معیّن ہوسکیں۔
{ 799} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام مدتوں دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے۔ کبھی پلائو اور زردہ پکتا تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ان دونوں چیزوں کو ملا لیا کرتے۔آپ یہ دیکھ کر فرماتے کہ ہم تو ان دونوں کو ملا کر نہیں کھا سکتے۔ کبھی مولوی صاحب مرحوم کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتا ہے اور کسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے تو حضور فوراً دسترخوان پر سے اٹھ کر بیت الفکر کی کھڑکی میں سے اندر چلے جاتے اور اچار لے آتے۔
{ 800} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پیر منظور محمد صاحب نے ایک دن سنایا کہ بشیر اوّل کے عقیقہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر سبز عمامہ تھا۔اور حضرت خلیفہ اوّلؓ کے دوسرے نکاح کے وقت حضور بھی شامل مجلس ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے سر پر زری کا کلاہ تھا۔ اور گورداسپور کے مقدمہ میں زری دار لنگی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ کا دوسرا نکاح خود پِیر صاحب کی ہمشیرہ سے ہوا تھا۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ عام طور پر حضرت صاحب کے سر پر سفید ململ کی پگڑی ہوتی تھی جس کے اندر نرم رومی ٹوپی ہوا کرتی تھی۔
{ 801} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی اللہ تعالیٰ نے صدیقہ کے لفظ سے تعریف فرمائی ہے۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ حضرت عیسیٰ کی الوہیّت توڑنے کے لئے ماں کا ذکر کیا ہے اور صدیقہ کا لفظ اس جگہ اس طرح آیا ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں کہتے ہیں ’’ بھر جائی کانییٔ سلام آکھناں واں‘‘ جس سے مقصود کانا ثابت کرنا ہوتا ہے نہ کہ سلام کہنا۔ اسی طرح اس آیت میں اصل مقصود حضرت مسیح کی والدہ ثابت کرنا ہے جو منافی الوہیّت ہے ،نہ کہ مریم کی صدّیقیت کا اظہار۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پنجابی کا معروف محاورہ ’’ بھابی کانییٔ سلام ‘‘ ہے۔ اس لئے شاید مولوی صاحب کو الفاظ کے متعلق کچھ سہو ہو گیا ہے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ منشا نہیں تھا کہ نعوذ باللہ حضرت مریم صدیقہ نہیں تھیں بلکہ غرض یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی والدہ کے ذکر سے خدا تعالیٰ کی اصل غرض یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کو انسان ثابت کرے۔
{ 802} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ایام جلسہ میں نماز جمعہ کے لئے مسجد اقصیٰ میں تمام لوگ سما نہ سکتے تھے۔ تو کچھ لوگ جن میں خوا جہ کمال الدین صاحب بھی تھے۔ ان کوٹھوں پر (جو اَب مسجد میں شامل ہو گئے ہیں اور پہلے ہندوئوں کے گھر تھے) نماز ادا کرنے کے لئے چڑھ گئے۔ اس پر ایک ہندو مالک مکان نے گالیاں دینا شروع کر دیں کہ تم لوگ یہاں شوربا کھانے کے لئے آ جاتے ہو اور میرا مکان گرانے لگے ہو۔ غرضیکہ کافی عرصہ تک بدزبانی کرتا رہا۔ نماز سے سلام پھیرتے ہی حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ سب دوست مسجد میں آجائیں۔ چنانچہ دوست آ گئے اور بعد جمع صلوٰتین حضور علیہ السلام منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایک مبسوط تقریر فرمائی۔ جس میں قادیان کے آریوں پر تحدّی فرماتے ہوئے فرمایا کہ اور لوگ اگر بچ جائیں تو ممکن ہے۔ مگر قادیان کے آریہ نہیں بچ سکتے۔ اور اس وقت حضور علیہ السلام کی طبیعت میں اس قدر جوش تھا کہ اثنائے تقریر میں آپ بار بار عصائے مبارک زمین پر مارتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصاء کو زمین پر مارنے سے یہ مراد نہیں کہ لٹھ چلانے کے رنگ میں مارتے تھے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو چھڑی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ اُسے آپ کبھی کبھی زمین سے اٹھا کر اس کے سم سے زمین کو ٹھکراتے تھے۔ جیسا کہ عموماً جوش کے وقت ایسا شخص کرتا ہے جس کے ہاتھ میں چھڑی ہو۔
{ 803} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک سالانہ جلسہ پر حضور علیہ السلام کے لئے مسجد اقصیٰ کے صحن میں اندرونی دیوار کے ساتھ ہی منبر بچھایا گیا۔ چونکہ احباب سے مسجد کے باہر کا مشرقی حصہ بھی بھرا ہوا تھا۔ جونہی حضور علیہ السلام نے اپنا ایک قدم مبارک منبر پر رکھا ایک شخص نے جو اب غیر مبائع ہے۔ آواز دی کہ حضور مسجد کے باہر کی طرف زیادہ لوگ ہیں۔ منبر باہر کی طرف درمیان صحن میں رکھا جائے۔ حضور علیہ السلام نے اپنا پائوں مبارک اٹھا لیا۔ اس پر اندر مسجد سے دوسرے شخص نے جو وہ بھی اب غیر مبائع ہے آواز دی کہ حضور مسجد کے اندر بہت سے لوگ ہیں ان کو آواز نہ آئے گی۔ منبر یہیں رہے۔ مگر ایک سیالکوٹ کے چوہدری صاحب نے جو کہ مبایعین میں سے ہیں اس کو منع کیا۔ اور منبر درمیان صحن میں رکھا گیا۔
{ 804} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حکیم محمد حسین صاحب قریشی نے اپنے دادا، بابا چٹو کو قادیان میں لا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ حضور ان کو سمجھائیں۔ فرمایا کہ پیر فرتوت ہے۔ اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ قریشی صاحب کے دادا صاحب سیر میں نہیں گئے تھے۔ بلکہ قریشی صاحب بھی ان کی رہائش کے انتظام میں مشغول تھے اور ساتھ نہیں گئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قریشی صاحب کے دادا بابا چٹو اہل قرآن تھے۔ جنہیں لوگ چکڑالوی کہتے ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے اسی عقیدہ پر ان کی وفات ہوئی تھی۔
{ 805} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بواسطہ مولوی شیر علی صاحب مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میراں بخش سودائی نے بڑی مسجد سے آتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نام لے کر آواز دی کہ ’’ اوئے غلام احمدا ‘‘ آپ اسی وقت کھڑے ہو گئے۔ اور فرمایا ’’جی‘‘ اس نے کہا ’’ او سلام تے آکھیا کر ‘‘ آپ نے فرمایا ’’ السلام علیکم ‘‘ اس نے کہا ’’ معاملہ ادا کر ‘‘ حضور نے جیب میں سے رومال نکال کر جس میں چونی یا اٹھنّی بندھی ہوئی تھی کھول کر اُسے دیدی۔ وہ خوش ہو کر گھوڑیاں گانے لگا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میراں بخش قادیان کا ایک باشندہ تھا اور پاگل ہو گیا تھا۔ بوڑھا آدمی تھا اور قادیان کی گلیوں میں اذانیں دیتا پھرتا تھا۔ مَیں نے اسے بچپن میں دیکھا ہے۔ وہ بعض اوقات خیال کرتا تھا کہ مَیں بادشاہ ہوں اور مجھے لوگوں سے معاملہ کی وصولی کا حق ہے۔
{ 806} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اکثر طور پر امام صلوٰۃ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوتے تھے اور وہ بالجہر نمازوں میں بِسْمِ اللّٰہ بالجہر پڑھتے اور قنوت بھی کرتے تھے۔ اور حضرت احمد علیہ السلام ان کی اقتداء میں ہوتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مسائل میں حضرت صاحب کسی سے تعرض نہیں فرماتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ سب طریق آنحضرت ﷺ سے ثابت ہیں۔ مگر خود آپ کا اپنا طریق وہ تھا جس کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے اسے اکثر اختیار کیا ہے۔
{ 807} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء کی بات ہے کہ ایک سائل نے جو اپنے آپ کو نوشہرہ ضلع پشاور کا بتاتا تھا اور مہمان خانہ قادیان میں مقیم تھا، حضرت صاحب کو خط لکھا کہ میری مدد کی جائے۔ مجھ پر قرضہ ہے۔ آپ نے جواب لکھا کہ قرض کے واسطے ہم دعا کریں گے اور آپ بہت استغفار کریں۔ اور اس وقت ہمارے پاس ایک روپیہ ہے جو ارسال ہے۔
{ 808} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے مختلف حصوں میں رہائش تبدیل فرماتے رہتے تھے۔ سال ڈیڑھ سال ایک حصہ میں رہتے۔ پھر دوسرا کمرہ یا دالان بدل لیتے۔ یہاں تک کہ بیت الفکر کے اُوپر جو کمرہ مسجد مبارک کی چھت پر کھلتا ہے اس میں بھی آپ رہے ہیں۔ اور ان دنوں میں گرمی میں آپ کی اور ا ہل بیت کی چارپائیاں اوپر کی مسجد میں جو صحن کی صورت میں ہے بچھتی تھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جس زمانہ کا ہوش ہے میں نے آپ کو زیادہ تر اس کمرہ میں رہتے دیکھا ہے جس میں اب حضرت اماں جان رہتی ہیں جو بیت الفکر کے ساتھ شمالی جانب واقع ہے۔
{ 809} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میری پہلی شادی کی تیاری ہوئی تو میں دہلی کے شفاخانہ میں ملازم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے متعلق خط و کتابت ہوتی تھی۔ مَیں پہلے اس جگہ راضی نہ تھا۔ آپ نے مجھے ایک خط میں لکھا کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ لڑکی کے اخلاق اچھے نہیں ہیں تو پھر بھی تم اس جگہ کو منظور کر لو۔ اگر اس کے اخلاق پسندیدہ نہ ہوئے۔ تو مَیں انشاء اللہ اس کے لئے دعا کروں گا۔ جس سے اس کے اخلاق درست ہو جائیں گے۔
حضور کے خط کی نقل یہ ہے:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء
عزیزی میر محمدؐ اسمٰعیل سلمہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ:۔ مَیں نے تمہارا خط پڑھا۔ چونکہ ہمدردی کے لحاظ سے یہ بات ضروری ہے کہ جو امر اپنے نزدیک بہتر معلوم ہو اس کو پیش کیا جائے۔ اس لئے مَیں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو طرح طرح کی بدچلنیوں کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نسل خراب ہو گئی ہے۔ لڑکیوں کے بارے میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ بڑی بڑی تلاش کے بعد بھی اجنبی لوگوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے کئی بد نتیجے نکلتے ہیں۔ بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے باپ یا دادوں کو کسی زمانہ میں آتشک تھی اور کئی مدت کے بعد وہ مرض ان میں بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض لڑکیوں کے باپ دادوں کو جذام ہوتا ہے تو کسی زمانہ میں وہی مادہ لڑکیوں میں بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ بعض میں سل کا مادہ ہوتا ہے۔ بعض میں دِق کا مادہ اور بعض کو بانجھ ہونے کی مرض ہوتی ہے اور بعض لڑکیاں اپنے خاندان کی بدچلنی کی وجہ سے پورا حصہ تقویٰ کا اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ ایسا ہی اور بھی عیوب ہوتے ہیں کہ اجنبی لوگوں سے تعلق پکڑنے کے وقت معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن جو اپنی قرابت کے لوگ ہیں۔ ان کا سب حال معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے میری دانست میں آپ کی طرف سے نفرت کی وجہ بجُز اس کے کوئی نہیں ہو سکتی کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ بشیرالدین کی لڑکی دراصل بد شکل ہے یا کانی یعنی یک چشم ہے یا کوئی ایسی اور بدصورتی ہے جس سے وہ نفرت کے لائق ہے لیکن بجُز اس کے کوئی عذر صحیح نہیں ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ لڑکیوں کے اپنے والدین کے گھر میں اور اخلاق ہوتے ہیں اور جب شوہر کے گھر آتی ہیں تو پھر ایک دوسری دُنیا ان کی شروع ہوتی ہے۔ ماسوا اس کے شریعت اسلامی میں حکم ہے کہ عورتوں کی عزت کرو اور ان کی بد اخلاقی پر صبر کرو اور جب تک ایک عورت پاک دامن اور خاوند کی اطاعت کرنے والی ہو۔ تب تک اس کے حالات میں بہت نکتہ چینی نہ کرو۔ کیونکہ عورتیں پیدائش میں مردوں کی نسبت کمزور ہیں۔ یہی طریق ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی بد اخلاقی برداشت کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنی عورت کو تیر کی طرح سیدھی کردے وہ غلطی پر ہے۔ عورتوں کی فطرت میں ایک کجی ہے۔ وہ کسی صورت سے دُور نہیں ہو سکتی۔ رہی یہ بات کہ سیّد بشیر الدین نے بڑی بداخلاقی دکھلائی ہے۔ اس کا یہ جواب ہے کہ جو لوگ لڑکی دیتے ہیں۔ ان کی بد اخلاقی قابلِ افسوس نہیں۔ جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہے کہ لڑکی والوں کی طرف سے اوائل میں کچھ بد اخلاقی اور کشیدگی ہوتی ہے اور وہ اس بات میں سچے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی جگر گوشہ لڑکی کو جو نازونعمت میں پرورش پائی ہوتی ہے۔ ایک ایسے آدمی کو دیتے ہیں۔ جس کے اخلاق معلوم نہیں۔ اور وہ اس بات میں بھی سچے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکی کو بہت سوچ اور سمجھ کے بعد دیں۔ کیونکہ وہ ان کی پیاری اولاد ہے اور اولاد کے بارہ میں ہر ایک کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے اور جب تم نے شادی کی اور کوئی لڑکی پیدا ہوئی۔ تو تم بھی ایسا ہی کرو گے۔ لڑکی والوں کی ایسی باتیں افسوس کے لائق نہیں ہوا کرتیں۔ ہاں جب تمہارا نکاح ہو جائے گا۔ اور لڑکی والے تمہارے نیک اخلاق سے واقف ہو جائیں گے تو وہ تم پر قربان ہو جائیں گے ۔ پہلی باتوں پر افسوس کرنا دانائی نہیں۔ غرض میرے نزدیک اور میری رائے میں یہی بہتر ہے کہ اس رشتہ کو مبارک سمجھو۔ اور اس کو قبول کر لو۔ اور اگر ایسا تم نے کیا تو مَیں بھی تمہارے لئے دُعا کروں گا۔ اپنے کسی مخفی خیال پر بھروسہ مت کرو۔ جوانی اور ناتجربہ کاری کے خیالات قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔ موقعہ کو ہاتھ سے دینا سخت گناہ ہے۔ اگر لڑکی بد اخلاق ہو گی تو مَیں اس کے لئے دعا کر دوں گا کہ اس کے اخلاق تمہاری مرضی کے موافق ہو جائیں گے اور سب کجی دُور ہو جائے گی۔ ہاں اگر لڑکی کو دیکھا نہیں ہے تو یہ ضروری ہے کہ اول اس کی شکل و شباہت سے اطلاع حاصل کی جائے۔ لڑکپن اور طفولیت کے زمانہ کی اگر بدشکلی بھی ہو تو وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔اب شکل و صورت کا زمانہ ہے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ شکل پر تسلّی کر کے قبول کر لینا چاہئے۔ مولود بے شک پڑھے۔ آخر وہ تمہارا ہی مولود پڑھے گی۔ حرج کیا ہے۔ والسلام مرزا غلام احمد
(آخر صفحہ کے بعد) مکرریہ کہ اس خط کے پڑھنے کے بعد صاف لفظوں میں مجھے اس کا جواب ایک ہفتہ کے اندر بھیج دیں۔ والدعا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خط بیاہ شادی سے تعلق رکھنے والے امور کے متعلق ایک نہایت ہی قیمتی فلسفہ پرمبنی ہے اور یہ جو حضرت صاحب نے خط کے آخر میں مولود کے متعلق لکھا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ممانی صاحبہ اپنے والدین کے گھر میں غیر احمدیوں کے رنگ میں مولود پڑھا کرتی تھیں۔ اور غالباً ان کے والد صاحب کو اصرار ہو گا کہ وہ بدستور مولود پڑھا کریں گی۔ جس پر حضرت صاحب نے لکھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ جب لڑکی بیاہی گئی اور خاوند کے ساتھ اس کی محبت ہو گئی تو پھر اس نے ان رسمی مولودوں کو چھوڑکر بالآخر گویا خاوند کا ہی مولود پڑھنا ہے۔ سو ایسا ہی ہوا۔ اور اب تو خدا کے فضل سے ہماری ممانی صاحبہ احمدیؐ ہو چکی ہیں۔
{ 810} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا تھا:۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسُولہ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
عزیز مبارک احمد ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء بقضاء الٰہی فوت ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ہم اپنے ربّ کریم کی قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں۔ تم بھی صبر کرو۔ ہم سب اس کی امانتیں ہیں اور ہر ایک کام اس کا حکمت اور مصلحت پرمبنی ہے۔ والسلام
مرزا غلام احمدؐ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کہنے کو تو اس قسم کے الفاظ ہر مومن کہہ دیتا ہے۔ مگر حضرت صاحب کے مُنہ اور قلم سے یہ الفاظ حقیقی ایمان اور دلی یقین کے ساتھ نکلتے تھے اور آپ واقعی انسانی زندگی کو ایک امانت خیال فرماتے تھے اور اس امانت کی واپسی پر دلی انشراح اور خوشی کے ساتھ تیار رہتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ہمارے حقیقی ماموں ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے چھوٹے عزیزوں کی طرح خط و کتابت فرماتے تھے۔ ان کی پیدائش ۱۸۸۱ء کی ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے ان کا ذکر انجام آتھم کے ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں ۷۰ نمبر پر کیا ہے مگر چونکہ سیّد محمد اسمٰعیل دہلوی طالب علم کے طور پر نام لکھا ہے۔ اس لئے بعض لوگ سمجھتے نہیں۔ ست بچن میں بھی ان کا نام انہی الفاظ میں درج ہے۔
{ 811} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑ میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پہلے کوئی کنوآں نہ تھا۔ نہ مہمان خانہ میں کوئی کنوآں تھا۔ اس وقت پانی دو کنوئوں سے آیا کرتا تھا۔ ایک تو عمالیق کے دیوان خانہ میں تھا اور دوسرا تائی صاحبہ مرحومہ کے گھر کے مردانہ حصہ میں تھا۔ ایک دفعہ ہر دو جگہ سے حضرت صاحب کے سقّہ کو گالیاں دے کر ہٹا دیا گیا۔ اور پانی کی بہت تکلیف ہو گئی۔ گھر میں بھی اور مہمان خانہ میں بھی۔ اس پر حضرت صاحب نے ایک خط لکھا اور عاجز کو فرمایا۔ کہ اس خط کی کئی نقلیں کردو۔ چنانچہ مَیں نے کر دیں۔ وہ خط حضور نے مختلف احباب کو روانہ فرمائے۔ جن میں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کا نام مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اس خط میں مخالفین کے پانی بند کرنے کا ذکر لکھ کر یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمارا اپنا کنوآں ہونا چاہئے تاکہ ہماری جماعت پانی کی تکلیف سے مخلصی پائے اور کنویں کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی۔ اس کے بعد سب سے پہلے حضور کے گھر کے اندر کنوآں بنایا گیا۔ یہ اندازاً ۱۸۹۵ء یا ۱۸۹۶ء کا یا اس کے قریب کا واقعہ ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے بعد وہ دوسرا کنوآں بنا تھا جو مدرسہ احمدیہ کے جانبِ شمال اور احمدیہ چوک کے پاس ہے۔ اس سے پہلے قادیان کی آبادی میں حضرت صاحب کے قبضہ میں صرف مسجد اقصیٰ والا کنوآں تھا۔ مگر وہ کسی قدر دور تھا اور چند سیڑھیاں چڑھ کر اس تک پہنچنا پڑتا تھا۔
{ 812} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کی وجہ سے گورداسپور بمعہ اہل و عیال ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن آپ کی پُشت پر ایک پھنسی نمودار ہوئی۔ جس سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔ خاکسار کو بلایا اور دکھایا اور بار بار پوچھا کہ یہ کاربنکل تو نہیں۔ کیونکہ مجھے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ مَیں نے دیکھ کر عرض کی کہ یہ بال توڑ یا معمولی پھنسی ہے۔ کاربنکل نہیں ہے۔
دراصل حضرت صاحب کو ذیابیطس اس قسم کا تھا جس میں پیشاب بہت آتا ہے مگر پیشاب میں شکر خارج نہیں ہوتی۔ اور یہ دورے ہمیشہ محنت اور زیادہ تکلیف کے دنوں میں ہوتے تھے۔ اور بکثرت اور بار بار پیشاب آتا تھا۔ اور یہ ایک عصبی تکلیف تھی۔ اور بہت پیشاب آ کر سخت ضعف ہو جاتا تھا۔ ایک دفعہ کسی ڈاکٹر نے عرض کیا کہ پیشاب کا ملاحظہ شکر کے لئے کرالینا چاہئے۔ فرمانے لگے نہیں۔ اس سے تشویش زیادہ ہو گی۔ اس خاکسار نے بھی کیمیاوی ملاحظہ نہیں کیا تھا۔ مگر ہمیشہ کے حالات دیکھ کر تشخیص کی تھی کہ مرض نروس پالیوریا ہے۔ مگر حضرت صاحب کی ایک تحریر سے مجھے علم ہوا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے پیشاب میں شکر بھی پائی گئی تھی۔
{ 813} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نومسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی۔ اس کے نکاح کا ذکر ہوا۔ تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی نے عرض کی کہ مجھ سے کر دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دیدی اور نکاح ہو گیا۔ دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکار کر دیا اور خلع کی خواہش مند ہوئی۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں۔ ابھی صبر کرے۔ پھر اگر کسی طرح گذارہ نہ ہو تو خلع ہو سکتا ہے۔ اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کرکے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے۔ (یعنی قوتِ رجولیّت بالکل معدوم ہے) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دیدی۔ مگر احتیاطاًایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی۔ بالآخر خلع ہو گیا۔
{814} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب پشاوری نے مجھ سے ایک روز بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خادم پیرا نامی ہوتا تھا۔ اس سے حضرت اقدس کی موجودگی میں کسی نے دریافت کیا کہ تو حضرت صاحب کو کیا مانتا ہے؟ پیرا کہنے لگا کہ ’’تھوڑے دناں توں کہندے ہن کہ مَیں مسیح آں‘‘ یعنی تھوڑے عرصہ سے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ جواب سن کر مسکرانے لگے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیرا ایک پہاڑی ملازم تھا اور بالکل جاہل اور نیم پاگل تھا۔ مگر بعض اوقات پتہ کی بات بھی کر جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ اس سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بٹالہ کے سٹیشن پر کہا کہ تمہارے مرزا صاحب نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ جو جھوٹا ہے اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ پیرے نے جواب دیا۔ مولوی صاحب مَیں تو کچھ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ مگر مَیں اتنا جانتا ہوں کہ لوگوں کو بہکانے کے لئے آپ کی بٹالہ کے سٹیشن پر آ آ کر جوتیاں بھی گھِس گئی ہیں مگر پھر بھی دنیا مرزا صاحب کی طرف کھچی چلی آتی ہے۔
{ 815} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مستری محمد مکی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے واسطے تشریف لے جاتے اور بازار میں سے گذرتے تو بعض ہندو دکاندار اپنے طریق پر ہاتھ جوڑکر حضور علیہ السلام کو سلام کرتے اور بعض تو اپنی دکان پر اپنے رنگ میں سجدہ کرنے لگتے۔ مگر حضرت صاحب کو خبر نہ ہوتی۔ کیونکہ آپ آنکھیں نیچے ڈالے گذرتے چلے جاتے تھے۔ ایک دن مستری صاحب نے بعض عمر رسیدہ ہندو دکانداروں سے دریافت کیا۔ کہ تم مرزا صاحب کو کیا سمجھتے ہو جو سجدہ کرتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا۔ کہ یہ بھگوان ہیں، بڑے مہاپرش ہیں۔ ہم ان کو بچپن سے جانتے ہیں۔ یہ خدا کے بڑے بھگت ہیں۔ دُنیا بھر کو خدا نے ان کی طرف جھکا دیا ہے۔ جب خدا ان کی اتنی عزّت کرتا ہے تو ہم کیوں نہ ان کی عزّت کریں۔ مستری صاحب نے بیان کیا کہ جب سے قادیان میں آریہ سماج قائم ہوئی ہے۔ تب سے آریوں نے ہندوئوں کو غیرت اور شرم دلا کر اور مجبور کرکے ایسی حرکات تعظیمی سے روک دیا ہے مگر ان کے دل حضرت صاحب پر قُربان تھے۔ اور وہ آپ کی بے حد عزت کرتے تھے۔ مستری صاحب کا بیان ہے کہ مَیں نے متعدد مرتبہ قادیان کے ہندوئوں سے حضرت صاحب کے حالات دریافت کئے مگر کبھی کسی ہندو نے حضرت صاحب کا کوئی عیب بیان نہیں کیا۔ بلکہ ہر شخص آپ کی تعریف ہی کرتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مستری صاحب کو تفصیلی حالات کا علم نہیں ہے اور نہ وہ قادیان کے سب ہندوئوں سے ملے ہیں۔ قادیان کے ہندوئوں کا ایک طبقہ قدیم سے مخالف چلا آیا ہے اور گو یہ درست ہے کہ وہ حضرت صاحب میں کوئی عیب نہیں نکال سکتے مگر مخالفت میں انہوں نے کبھی کمی نہیں کی البتہ بیشتر حصہ پُرانے سناتنی طریق پر ہمیشہ مؤدب رہا ہے۔
{ 816} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لنگر خانہ میں ایک شخص نان پز اور باورچی مقرر تھا۔ اس کے متعلق بہت شکایات حضور کے پاس پہنچیں۔ خصوصاً مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی طرف سے بہت شکایت ہوئی۔ حضور نے فرمایا۔ دیکھو وہ بے چارہ ہر روٹی کے پیچھے دو دفعہ آگ کے جہنم میں داخل ہوتا ہے (یعنی تندور کی روٹی لگاتے وقت) اور اتنی محنت کرتا ہے۔ اگر آپ کوئی واقعی دیانتدار باورچی مجھے لا دیں۔ تو میں آج اسے نکال دوں ۔ اس مطالبہ پر سب خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کوئی شخص واقعی اعلیٰ درجہ کا متقی امین اور دیانت دار ہو تو خدا اسے اس حالت میں رکھتا ہی نہیں کہ اُسے ایسی ادنیٰ نوکری نصیب ہو۔ اُسے تو غیب سے عزت و رزق ملتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد خدا نے اس شخص کو حضرت مسیح موعودؑ کی برکت اور ان کی خدمت کے طفیل عزت کی زندگی عطا کی اور رزق وافر سے حصہ دیا۔
{ 817} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میری آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہے۔ میرے لئے دُعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا۔ مَیں دُعا کروں گا۔ اور فرمایا آپ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّلؓ) سے اطریفل زمانی بھی لے کر کھائیں۔ الحمدللہ کہ اس کے بعد آج تک خاکسار کو پھر کبھی یہ عارضہ نہ ہوا۔
{ 818} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن سیر کے وقت حضور علیہ السَّلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو بعض مخفی باتیں بھی بتلائی تھیں جن کے اظہار کرنے کی اجازت آپ کو صرف بعض خاص لوگوں میں تھی۔ اور عام لوگوں میں وہ ظاہر نہیں کی گئیں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ قرآن مجید میں تو یہ آیا ہے کہ یَا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ۔ الآیۃ (المائدہ:۶۸) یعنی اے رسول جو کچھ خدا نے تجھ پر نازل کیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو کسی ایسی بات کے چھپانے کی ہدایت نہیں ہوئی جو کسی شرعی حکم کی حامل تھی یا اس کو شریعت کی تشریح سے تعلق تھا۔ ورنہ بعض انتظامی امور میں یافتن سے تعلق رکھنے والی باتوں میں ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر اخفاء کا حکم ہوا ہو جیسا کہ بعض احادیث میں بھی اس قسم کا اشارہ ملتا ہے اور حضرت صاحب کے الہاموں میں بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 819} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی گھر میں ننگے پَیر بھی پھر لیتے تھے۔ خصوصاً اگر پختہ فرش ہوتا تھا تو بعض اوقات ننگے پائوں ٹہلتے بھی رہتے تھے اور تصنیف بھی کرتے جاتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا انداز بالکل بے تکلفانہ تھا اور زندگی نہایت سادہ تھی۔
{ 820} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں بغیر منڈیر کے کوٹھے پر سونے کی ممانعت ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب عملاً بھی اس حدیث کے سختی کے ساتھ پابند تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ غالباً سیالکوٹ میں آپ کی چارپائی ایک بے منڈیر کی چھت پر بچھائی گئی تو آپ نے اصرار کے ساتھ اس کی جگہ کو بدلوا دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گورداسپور میں بھی ہوا تھا۔
{ 821} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ تسبیح پڑھنے کے متعلق یہ قصہ سُنایا۔ کہ کوئی عورت کسی پر عاشق تھی۔ وہ ایک ملاّ کے پاس اپنی کامیابی کے لئے تعویذ گنڈا لینے گئی۔ ملاّں اس وقت تسبیح پڑھ رہا تھا۔ عورت نے پوچھا۔ مولوی جی! یہ کیا کر رہے ہو؟ مولوی جی کہنے لگے۔ مائی اپنے پیارے کا نام لے رہا ہوں۔ وہ عورت حیران ہو کر کہنے لگی۔ ملاّں جی! نام پیارے کا اور لینا گِن گِن کر ۔یعنی کیا کوئی شخص معشوق کا نام بھی گن گن کر لیتا ہے؟ وہ تو بے اختیار اور ہر وقت دل اور زبان پر جاری رہتا ہے۔ اس قصہ سے حضرت صاحب کا منشاء یہ تھا کہ ایک سچے مومن کے لئے خدا کا ذکر تسبیح کی قیود سے آزاد ہونا چاہئے۔
{ 822} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اس ملک میں مرنے جینے اور شادی بیاہ وغیرہ کی جو رسوم رائج ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام ان کو اہلحدیث کی طرح کلی طور پر ردّ نہیں کر دیتے تھے بلکہ سوائے ان رسوم کے جو مشرکانہ یا مخالف اسلام ہوں باقی میں کوئی نہ کوئی توجیہہ فوائد کی نکال لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اِس اِس فائدہ یا ضرورت کے لئے یہ رسم ایجاد ہوئی ہے مثلاًنیوتہ (جسے پنجابی میں نیوندرا کہتے ہیں)امداد باہمی کے لئے شروع ہوا۔ لیکن اب وہ ایک تکلیف دہ رسم ہو گئی ہے۔
{ 823} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد صاحب بیان کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی نیت باندھتے تھے تو حضور اپنے ہاتھوں کے انگوٹھوں کو کانوں تک پہنچاتے تھے۔ یعنی یہ دونوں آپس میں چُھو جاتے تھے۔
{ 824} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب اور شیخ غلام رسول صاحب متوطن کشمیر بیان کرتے تھے کہ ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر ایک ہی دستر خوان پر جملہ اصحاب کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے۔ اور اس صورت میں کشمیری اصحاب کو بھی اسی مقدار میں کھانا ملتا تھا جتنا کہ دیگر اصحاب کو۔ اس پر ایک دن مسیح موعود علیہ السلام نے کھانے کے منتظم کو حکم دیا کہ کشمیر کے لوگ زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں۔ ان کو بہت کھانا دیا کرو۔ اس پر ہم کو زیادہ کھانا ملنے لگا۔
{ 825} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب ساکن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی قطب الدین صاحب ساکن شُرط علاقہ کشمیر بیان کرتے تھے کہ جب مَیں احمدی ہوا تو چونکہ ابتدا میں شُرط میں کوئی اور احمدی نہ تھا۔ لہٰذا میری مخالفت شروع ہوئی۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں مخالفت کی نسبت ایک خط ارسال کیا اور دعا کے لئے درخواست کی۔ جس کا جواب حضور علیہ السلام نے یہ رقم فرمایا کہ صبر کرو۔ وہاں بھی بہت لوگ ایمان لائیں گے۔ خوا جہ عبدالرحمن صاحب بیان کرتے ہیں کہ بعد میں اگرچہ شُرط والے لوگ تو ابھی تک ایمان نہیں لائے۔ لیکن اس کے بالکل متصل گائوں موسومہ کنیہ پورہ ۱ ؎سارے کا سارا احمدی ہو گیا۔ اور علاقہ میں کئی اور جگہ احمدیت پھیل گئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ خوا جہ صاحب جلدی کرتے ہیں۔ اگر حضرت صاحب نے ایسا فرمایا ہے تو تسلّی رکھیں شُرط بھی بچ نہیں سکتا۔
{ 826} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسرِ موعود کی پیشگوئی شائع فرمائی تو آپ کی زندگی میں ہی ایک شخص نور محمد نامی جو پٹیالہ کی ریاست میں کہیرو گائوں کا رہنے والا تھا پسرموعود ہونے کا مدعی بن بیٹھا اور بعض جاہل طبقہ کے لوگ اس نے اپنے مرید کر لئے۔ سُنا ہے یہ لوگ قادیان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور ایک دفعہ ان کا ایک وفد قادیان بھی آیا تھا۔ انہوں نے حضرت صاحب کو سجدہ کیا۔ مگر حضرت صاحب نے سختی سے منع فرمایا۔ وہ لوگ چند روز رہ کر واپس چلے گئے۔ اور پھر نہیں دیکھے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسے مجانین اور غالی لوگوں کا وجود ہر قوم میں ملتا ہے۔
{ 827} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کو ایک دفعہ الہام ہوا تھا۔ کہ ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن‘‘۔
اُس سال سے مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ہر بہار کے موسم میں ایک نہ ایک حملہ سخت سردی کا ضرور ہو جاتا ہے۔
{ 828} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ یہ جو حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس بھجواتے ہوئے خدا نے حکم دیا تھا کہ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْیَخْشٰی(طٰہٰ:۴۵) اس میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کا بہت لحاظ کیا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نصیحت کی ہے کہ یہ بادشاہ ہے اس لئے اس کے ساتھ اس کے رتبہ کے موافق نرمی اور ادب سے گفتگو کی جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ بھی یہ نکتہ بیان کیا کرتے تھے اور غالباً انہوں نے حضرت صاحب سے ہی سُنا ہو گا۔ واللہ اعلم۔
{ 829} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ ایک شخص زنبور کو آیت وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْن پڑھ کر ہاتھ سے پکڑ لیا کرتا تھا اور اس کو تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ نیز فرمایا کہ بعض بچے کھیل کے طور پر ایک سُوا پنڈلی کے گوشت میں سے آر پار چھید کر نکال دیا کرتے تھے۔
{ 830} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مکرم مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب سرسید احمد خاں صاحب نے اس عقیدہ کا اظہار کیا کہ دُعا محض ایک عبادت ہے ورنہ اس کی وجہ سے خدا اپنی قضا و قدر کو بدلتا نہیں۔ جو بہرحال اپنے مقررہ رستہ پر چلتی ہے تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام نے ایک رسالہ ’’برکات الدعا‘‘ تصنیف کرکے شائع فرمایا اور اس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ دعا محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں خدا اپنی قضا و قدر کو بدل بھی دیتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اور اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسلامی تعلیم کے ماتحت ثابت کیا کہ اس بارے میں سرسیّد کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ جب یہ کتاب چھپ کر تیار ہو گئی تو آپ نے اس کا ایک نسخہ سرسیّد کو بھی بھجوایا۔ جس پر سرسیّد نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایک خط لکھا۔ اور اس خط میں معذرت کے طریق پر لکھا کہ مَیں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں اس لئے مجھ سے غلطی ہوئی اور یہ کہ جو کچھ آپ نے تحریر کیا ہے وہی درست ہو گا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل روحانی معاملات میں ذاتی تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے سرسیّد نے کئی باتوں میں غلطی کھائی ہے۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ سرسیّد مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور یہ بھی ان کی سعادت تھی کہ متنبہ کئے جانے پر انہوں نے قبولیّت دعا کے مسئلہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ مگر معجزات وغیرہ کے معاملہ میں ان کا عام میلان آخر تک قائم رہا۔ کہ اہل مغرب کے اعتراض سے مرعوب ہو کر فوراً تاویلات کی طرف مائل ہونے لگتے تھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا۔ کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ سرسیّد اور حضرت مسیح موعود کی مثال ایسی ہے کہ جب اسلام پر کوئی اعتراض ہو تو سرسیّد کی حالت تو ایسی نظر آتی ہے کہ گویا ہاتھ جوڑ کر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ نہیں سرکار! اسلام نے تو ایسا نہیں کہا۔ اسلام کا تو یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ایسی ہے کہ اعتراض ہونے پر گویا تلوار لے کر سامنے تن جاتے ہیں کہ جو کچھ اسلام نے کہا ہے وہی ٹھیک ہے اور جو تم کہتے ہو وہ غلط اور جھوٹ ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ بہت ہی لطیف اور درست مثال دی ہے اور یہ مثال سجتی بھی انہی کی زبان سے ہے کیونکہ وہ گھر کے بھیدی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے متعلق فرماتے ہیں:۔
مدّتے در آتشِ نیچر فرو افتادہ بود
ایں کرامت بیں کہ از آتش بروں آمد سلیم
{ 831} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک چچیرا بھائی مرزا کمال الدین تھا۔ یہ شخص جوانی میں فقراء کے پھندے میں پھنس گیا تھا۔ اس لئے دُنیا سے کنارہ کش ہو کر بالکل گوشہ گزین ہوگیا مگر وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح حضرت صاحب سے پرخاش نہ رکھتا تھا۔ علاج معالجہ اور دَم تعویذ بھی کیا کرتا تھا۔ اور بعض عمدہ عمدہ نسخے اس کو یاد تھے۔ چنانچہ ہماری والدہ صاحبہ میاں محمد اسحاق کے علاج کے لئے ان سے ہی گولیاں اور ادویہ وغیرہ منگایا کرتی تھیں اور حضرت صاحب کو بھی اس کا علم تھا۔ آپ بھی فرماتے تھے کہ کما ل الدین کے بعض نسخے اچھے ہیں۔ اب مرزا کمال الدین کو فوت ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں مگر ان کے تکیہ میں اب تک فقیروں کا قبضہ ہے۔ عرس بھی ہوتا ہے مگر کچھ رونق نہیں ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے چچا مرزا غلام محی الدین صاحب کے تین لڑکے تھے۔ سب سے بڑے مرزا امام الدین تھے جو بہت لانبے اور وجیہہ شکل تھے اور مخالفت میں بھی سب سے آگے تھے۔ ان کی لڑکی خورشید بیگم صاحبہ ہمارے بڑے بھائی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے عقد میں آئی تھیں۔ اور عزیزم مرزا رشید احمد انہی کے بطن سے ہیں۔ دوسرے بھائی مرزا نظام الدین تھے جن کی نسل سے مرزا گل محمد صاحب ہیں اور تیسرے بھائی مرزا کمال الدین تھے جن کا اس روایت میں ذکر ہے۔ وہ ہمیشہ مجرد رہے۔ مرزا کمال الدین مخالفت میں حصہ نہیں لیتے تھے۔
{ 832} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں نواب محمد علی خان صاحب نے قادیان میں ایک فونوگراف جس کے ریکارڈ موم کے سیلنڈروں کی طرح گول ہوتے تھے منگایا تھا۔ اس میں حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اپنا لیکچر بھرا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید بھرا۔ اسی طرح دیگر احباب نے نظمیں اور اذان وغیرہ بھریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اُسے سُنا۔ چونکہ اس وقت وہ عجوبہ چیز تھی۔ لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت نے بمعہ دیگر چند اہل ہنود کے اسے دیکھنا اور سُننا چاہا اور چونکہ نواب صاحب سے براہ راست ان کا تعلق نہ تھا اور حضرت صاحب پر ان کو دیرینہ تعلق کا دعویٰ تھا۔ اس لئے انہوں نے حضرت صاحب سے ہی درخواست کی۔ حضور نے ایک اردو نظم تیار کرکے مولوی عبدالکریم صاحب کو دی کہ ریکارڈ میں بھر دیں۔ چنانچہ ان کو وہ نظم اور دیگر ریکارڈ سُنائے گئے۔ یہ تبلیغی نظم درثمین میں درج ہے۔ اس زمانہ کے ریکارڈ چونکہ موم کے ہوتے تھے۔ اس لئے مرور زمانہ سے ان کے نقش خراب ہو گئے اور اب صاف سُنے نہیں جا سکتے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی نظم ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے کہ :۔
آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے

ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے
نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں یہ آلہ گراموفون کہلاتا ہے۔ اور اس کے ریکارڈ توے کی طرح چپٹے ہوتے ہیں اور صرف کارخانوں میں تیار ہو سکتے ہیں۔
{ 833} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت مَیں لاہور میں تھا اور خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا۔ جب آپ فوت ہوئے۔ تو مَیں اور ایک اور احمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتّے لینے گئے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کس بزرگ نے پتّے لانے کے لئے کہا تھا۔ مَیں روتا جا رہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیں وہاں سے پتّے توڑ کر لایا تھا۔ گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب کو غسل ڈاکٹر نور محمد صاحب لاہوری اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے دیا تھا۔
{ 834} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ایک دوست سے یہ واقعہ سُنا ہے کہ جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب۔ جب ای۔ اے۔ سی کا امتحان دینے کے لئے لاہور گئے تو جہاں دوسرے امیدوار مقیم تھے وہاں ہی مرزا صاحب ٹھہر گئے۔ ان امیدواروں میں سے کوئی بی۔اے تھا اور کوئی ایم۔اے تھا اور کوئی ایل ایل بی تھا۔ ان ایام میں ایک رات مرزا سلطان احمد صاحب ذرا جلدی لیٹ گئے۔دوسرے امیدوار ابھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے آپ کو سویا ہوا سمجھ کر آپس میں مذاق شروع کر دیا۔ کہ ان مرزا صاحب کو بھی امتحان کا شوق چرایا ہے۔ ایسے ایسے قابل لوگوں کو تو پاس ہونے کی امید نہیں اور یہ خواہ مخواہ امتحان میں آکودے۔ ان کی یہ گفتگو سن کر مرزا صاحب نے دل میں کہا۔ کہ مَیں حضرت والد صاحب کو دعا کے واسطے کہہ تو آیا ہوں۔ اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ضرور دعا کرینگے۔ خدا کرے کہ مَیں کامیاب ہو جائوں تاکہ ان لوگوں کے مذاق کا جواب مل جائے۔ انہی خیالات میں آپ سو گئے اور قریباً چار بجے صبح کو آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے اور آپ نے مرزا سلطان احمد کو ہاتھ سے پکڑ کرکرسی پر بٹھا دیا ہے۔ یہ خواب دیکھ کر مرزا سلطان احمد صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ اور انہوں نے خود ہی اس خواب کی تعبیر کی کہ مَیں ضرور کامیاب ہو جائونگا۔ اتنے میں دیگر امیدوار بھی بیدار ہو گئے۔ اور مرزا سلطان احمد صاحب نے ان کو کہا کہ دیکھو رات تم لوگ میرا مذاق اُڑا رہے تھے۔ اب تم دیکھنا کہ مَیں ضرور کامیاب ہو کر آئوں گا اور تم دیکھتے رہ جائو گے۔ انہوں نے ازراہِ مذاق کہا۔ کہ کیا آپ کو بھی اپنے والد صاحب کی طرح الہام ہوتا ہے۔ مرزا سلطان احمد صاحب نے کہا۔ بس اب تم دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب اس امتحان میں بفضلہ کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ مرزا صاحب اس وقت حضرت صاحب کی بیعت میں داخل نہ تھے۔ مگر ان کو حضور کی دُعا اور وحی پر یقین اور ایمان تھا۔ چنانچہ اس سے پہلے مرزا صاحب نے تحصیلداری میں کامیابی کے واسطے بھی حضرت صاحب سے دعا کرائی تھی اور پھر تحصیلدار ہو گئے تھے۔ مَیں نے سُنا ہے کہ اس وقت انہوں نے پہلے ماہ کی تنخواہ حضرت صاحب کے پاس بھیجی۔ کہ میری طرف سے لنگر خانہ میں بطور چندہ آپ قبول فرمائیں۔ مگر آپ نے اس روپیہ کے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا یہ نعمت صرف احمدی لوگوں کے لئے ہے۔ ایک غیر احمد ی کا چندہ اس میں نہیں لیا جا سکتا۔ اگر تم دینا چاہتے ہو تو سکول میں دیدو۔ کیونکہ اس میں تمہارا بیٹا بھی پڑھتا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اس واقعہ کے متعلق کوئی ذاتی علم نہیں ہے اور نہ کوئی اور اطلاع ہے اس لئے مَیں اس کی صحت یا عدم صحت کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر اس قدر بات مجھے بھی معلوم ہے جو سیرۃ المہدی حصہ اوّل کی روایت نمبر۲۰۸ میں گذر چکی ہے کہ ایک دفعہ جب تحصیلداری کے امتحان کے لئے مرزا سلطان احمد صاحب نے حضرت صاحب کو دُعا کے لئے لکھا تھا تو حضرت صاحب نے ناراضگی کے ساتھ ان کا رقعہ پھینک دیا تھا کہ بس دُنیا کا خیال ہی غالب رہتا ہے۔ مگر اسی رات حضرت صاحب کو خدا نے الہام کیا کہ ’’ ہم اس کو پاس کردینگے‘‘۔ چنانچہ وہ کامیاب ہو گئے۔
{ 835} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میر شفیع احمد صاحب دہلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ چند لوگوں نے ایک احمدی سے مباحثہ کے دَوران میں کہا کہ مرزا صاحب کا اپنا بیٹا ان کو نبی نہیں مانتا۔ پہلے اس کو منائو پھر ہم سے بات کرنا۔ یہ بات بڑھی اور مرزا سلطان احمد کی شہادت پر فیصلہ قرار پایا۔ چنانچہ وہ احمدی اور ان کے مخالف مرزاسلطان احمد صاحب کے پاس گئے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ مرزا صاحب یعنی اپنے والد صاحب کو نبی مانتے ہیں یا نہیں؟ مرزا سلطان احمد صاحب نے جواب دیا کہ مَیں نے بنی اسرائیل کے انبیاء کا حال پڑھا ہے۔ اگر وہ ان حالات کی بناء پر نبی کہلانے کے مستحق ہیں تو میرے والد صاحب ان سے بہت زیادہ نبی کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس پر کسی نے کہا کہ پھر آپ ان کو مان کیوں نہیں لیتے۔ جواب دیا کہ میں دنیا داری میں گرفتار ہوں اور مَیں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بیعت کر لینے کے بعد بھی میرے اندر دنیا کی نجاست موجود رہے۔ اس سے ایک عقلمند یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ غیر احمدی ہونے کے ایام میں بھی مرزا سلطان احمد صاحب دل میں حضرت اقدس علیہ السلام کی کس قدر عزت کرتے تھے۔ اپنے مقدس باپ کا اثر ان کے اندر اس قدر موجود تھا کہ نائب تحصیلدار کے بعد تحصیلدار۔ پھر ای۔ اے۔ سی پھر افسر مال پھر ڈپٹی کمشنر وغیرہ رہے مگر کسی جگہ آج تک مرزا صاحب سے کسی کو شکایت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، نہ ظلم کیا نہ جھوٹ بولا اور نہ رشوت قبول کی۔ بلکہ ڈالی تک قبول نہ کرتے تھے۔ یہ تمام خوبیوں کا مجموعہ انہیں وراثتاًباپ سے ملا تھا۔ نہ صرف اس قدر بلکہ ان کے بچوں میں بھی فطرتاً یہ باتیں موجود ہیں۔ مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے بھی سرکاری ملازم ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ان کے دفتر والے ماتحت اور افسر بلکہ ہمسایہ تک ان کے چلن اور اخلاق کے مدح خواں ہیں۔
اسی ضمن میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ ایک زمانہ میں حضرت میاں محمود احمد صاحب۔ میاں محمد اسحٰق صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب تالاب کے کنارے بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے۔ گو مَیں بچہ تھا۔ مگر میری فطرت میں تحقیق کا مادہ تھا۔ کھڑے ہو کر گھنٹوں دیکھتا کہ یہ لوگ کھیل میں گالی گلوچ یا جھوٹ یا فحش کلامی بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ مگر مَیں نے ان حَضرات کو دیکھا کہ کبھی کوئی جھگڑا نہ کرتے تھے۔ حالانکہ کھیل میں اکثر جھگڑا ہو جایا کرتا ہے۔
اسی طرح اکثر دفعہ مَیں میاں بشیر احمد صاحب و میاں شریف احمد صاحب کے ساتھ شکار کے لئے جایا کرتا تھا۔ دونوں حضرات کے پاس ایک ایک ہوائی بندوق ہوا کرتی تھی اور پرندوں کا شکار کرتے تھے۔ ہر جگہ میرا یہ مقصد ہوتا تھا کہ مَیں دیکھوں کہ ان لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں۔
پھر حضرت میاں محمود احمد صاحب مغرب کے بعد اکمل صاحب کی کوٹھڑی میں آکر بیٹھا کرتے تھے اور مَیں بھی وہاں بیٹھا رہتا تھا۔ شعر و شاعری اور مختلف باتیں ہوتی تھیں۔ مگر مَیں نے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہ دیکھی۔ بلکہ ان کی ہر بات حیرت انگیز اخلاق والی ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب پیغام پارٹی خصوصاً شیخ رحمت اللہ صاحب نے مجھے کہا۔ کہ میر صاحب! آپ میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) اور اکمل کی پارٹی میں بہت بیٹھا کرتے ہیں۔ ذرا پتہ لگائیں کہ یہ بدر میں آجکل کوئل۔ بلبل اور فاختہ کیسی اُڑتی ہیں۔ اس زمانہ میں قاضی اکمل صاحب کی اس قسم کی اکثر نظمیں شائع ہوتی تھیں۔ چنانچہ میں رات دن اس امر کی تلاش میں رہتا کہ مجھے کوئی بات مل جائے تو مَیں پیغام پارٹی کو اطلاع دوں۔ مگر مَیں جس قدر حضرت میاں صاحب کی صحبت میں رہا کُوْ نُوْا مَعَ الصَّادِقِیْن کا کرشمہ مجھ پر اثر کرتا چلا گیا۔ان لوگوں کا خیال تھا کہ میاں محمود احمد صاحب ،میاں محمد اسحاق صاحب اور قاضی اکمل مل کر کوئی خاص ایجی ٹیشن پھیلا رہے ہیں۔ کیونکہ ان دنوں میں میاں محمد اسحٰق صاحب نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ آیا خلیفہ انجمن کے ماتحت ہے یا خلیفہ کے ماتحت انجمن ہے گو میاں محمد اسحاق صاحب کم عمر کے تھے۔ مگر ان کا دماغ اور ذہن بڑے غضب کا تھا۔ غرضیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مصاحب اور رشتہ دار اور اولاد ہر ایک اس قدر گہرے طور پر حضرت صاحب کے رنگ میں رنگین ہو گئے تھے کہ بے انتہا جستجو کے بعد بھی کوئی آدمی ان میں کوئی عیب نہ نکال سکتا تھا۔ میں خود پیروں کے خاندان میں پیدا ہوا ہوں۔ اور پیروں فقیروں سے بیحد تعلقات اور رشتہ داریاں ہیں۔ مجھے اس کے متعلق ایک حد تک تجربہ ہے۔ وہ لوگ اپنے مریدوں میں بیٹھ کر جس قدر اپنی بزرگی جتاتے ہیں۔ اسی قدر وہ درپردہ بدچلن اور بد اخلاق ہوتے ہیں کہ اپنے نفس، زبان،ہاتھ اور دل و آنکھ پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح ان کی اولاد اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔ اور جو دکھاوا ہوتا ہے وہ سب دکانداری کی باتیں ہوتی ہیں۔
{ 836} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔محمد خاں صاحب ساکن گِل منج نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب کثرت سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنے لگے۔ تو ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مسجد اقصیٰ میں لیکچر دیا۔ تین گھنٹہ تک تقریر فرماتے رہے۔ اس روز لاہور کے کئی آدمی بھی موجود تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب سوداگر بھی یہیں تھے۔ اور قادیان کے ہندو بھی مسجد میں موجود تھے۔ اس تقریر میں حضرت صاحب نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھاکہ مَیں اکیلا ہی بٹالہ جایا کرتا تھا۔ اور کبھی کبھی میرے ساتھ ملاوامل اور شرم پت بھی جایا کرتے تھے۔ انہیں ایام میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو کہا کہ مَیں تیری طرف آنے کے لئے لوگوں کے راستہ کو کثرت استعمال سے ایسا کر دُونگا کہ ان میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ مگر تم نے دل میں گھبرانا نہیں۔ خدا خود تیرا سارا سروسامان تیار کرے گا۔ یہ خیال نہ کرنا کہ مَیں لوگوں کو رہائش کی جگہ اور کھانا کہاں سے مہیّا کرکے دُوں گا۔ آپ نے فرمایا۔ اب دیکھ لو کہ خدا نے کس طرح میرے لئے سازوسامان تیار کر دیا ہے کہ جتنے مہمان بھی آتے ہیں ان کا گذارہ بخیر و خوبی ہوتا ہے۔ مگر قادیان کے لوگوں نے مجھے نہ مانا۔ پھر اسی وقت جبکہ حضور یہ تقریر فرما رہے تھے مَیں کسی ضرورت کے لئے مسجد سے نیچے اُترا تو مجھے دو سکھ ملے۔ ایک اندھا تھا اور دوسرا جوان عمر تھا۔ انہوں نے کچھ سنگترے اور سودا سلف خریدا ہوا تھا۔ اندھے سکھ نے دوسرے کو کہا کہ ادھر سے چلو۔ ذرا شلوگ بانی سن لیں۔ پھر وہ دونوں مسجد کے اُوپر چڑھ گئے اور مَیں بھی ان کے پیچھے مسجد میں واپس آ گیا۔ اور وہ لوگوں میں آ کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں اندھا سکھ بولا۔ ’’ بھائیو۔ پیاریو۔ مترو۔ میری اک عرض وا‘‘ اس کا انداز یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تقریر میں رخنہ ڈال کر اپنے مذہب کے متعلق کچھ پرچار کرنا چاہتا ہے۔ جس پر قریب کے لوگوں نے اسے روک دیا کہ بولو نہیں وعظ ہو رہا ہے۔ دو منٹ کے بعد پھر اس اندھے نے پہلے کی طرح کہا۔ پھر لوگوں نے اُسے روک دیا۔ اس پر نوجوان سکھ نے گالیاں دینی شروع کر دیں۔ اس وقت پولیس کا انتظام تھا اور محمد بخش تھانیدار بھی آیا ہوتا تھا۔ لوگوں نے تھانیدار کو کہا کہ دو سکھ مسجد میں گالیاں نکال رہے ہیں۔ تھانہ دار اس وقت مرزا نظام الدین کے دیوان خانہ میں کھڑا تھا۔ اور دو سپاہی اس کے ساتھ تھے۔ وہ گئے تو اُن سکھوں کو پکڑ کر دیوان خانہ میں لے گئے۔ حضرت صاحب کے تقریر ختم کرنے کے دو گھنٹہ بعد کسی شخص نے آ کر بتایا۔ کہ تھانیدار نے ان سکھوں کو مارا ہے۔ حضرت صاحب نے اسی وقت فرمایا کہ تھانیدار کو کہو کہ ان کو چھوڑ دے۔ اس پر اس تھانیدار نے ان سکھوں کو چھوڑ دیا۔
{ 837} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانگی زندگی بھی اللہ تعالیٰ ہی کے کاموں میں گذرتی تھی۔ ہر وقت یا تحریر کا کام ہوتا تھا یا غور و فکر اور ذکر الٰہی کا۔ کبھی میں نے حضور کو اپنے بچوں سے لاڈ کرتے نہیں دیکھا باوجود یکہ ان سے آپ کو بہت محبت تھی۔ اور کبھی کسی خادمہ کو کوئی حکم دیتے بھی نہیں دیکھا۔ حضور گھر میں بھی زیادہ کلام نہ کرتے تھے۔ سنجیدہ اور متین رہتے تھے۔ آپ بہت کم سوتے تھے۔ اور بہت کم کھانا کھاتے تھے اور بعض اوقات ساری ساری رات لکھتے رہتے تھے۔ اندرون خانہ میں بھی نہایت سادہ رہتے تھے۔ یہ سب خانگی امور ایسے ہیں۔ جو خدا کے فضل سے میرے دل میں کَالنَّقْشِ فِی الْحَجَر ہیں اور بفضلہ تعالیٰ دنیا کی کوئی نعمت اور کوئی بلا آنحضور علیہ السلام پر ایمان لانے سے مجھے نہیں روک سکتی۔ کیونکہ میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔
{ 838} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر گوہر الدین صاحب جب انٹرنس کے امتحان میں پہلی دفعہ ناکام ہوئے۔ تو انہوں نے میرے روبرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ جس میں اپنی ناکامی کا تذکرہ کرتے ہوئے دعا کے لئے التجا کی۔ حضور نے نہایت الفت اور محبت سے دلجوئی کے طور پر مندرجہ ذیل جواب خط کی پُشت پر ارقام فرمایا:۔
’’السلام علیکم ایک روپیہ پہنچا۔ جزاکم اللہ تعالیٰ
خدا تمہیں پھر کامیاب کرے۔ اس میں خداتعالیٰ کی حکمت ہے۔ مَیں تمہارے دین اور دُنیا کے لئے دُعا کروں گا۔ کچھ غم نہ کرو۔ خدا داری چہ غم داری۔ پھر پاس ہو جائو گے۔‘‘
یہ خط برادرم ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس اب تک محفوظ ہے۔ چنانچہ وہ دوسرے سال انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور اب بفضلہ تعالیٰ برہما میں سب اسسٹنٹ سرجن ہیں اور بہت عزت کی زندگی گذار رہے ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب سکول کے بچوں کو بھی کس محبت کے ساتھ یاد فرماتے تھے۔
{ 839} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مارچ ۱۹۰۸ء میں جب ہم طلباء انٹرنس کے امتحان کے لئے امرتسر جانے لگے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت حاصل کرنے کے لئے حضور کے مکان پر حاضر ہوئے۔ جب حضور کو اطلاع کرائی گئی تو دروازہ پر پہنچتے ہی حضور نے فرمایا۔ ’’ خدا تم سب کو پاس کرے‘‘ اس کے بعد ہم نے یکے بعد دیگرے حضور سے مصافحہ کیا۔ ایک لڑکا مسمی عطا محمد بعد میں دوڑتا ہوا آیا۔ اس وقت حضور ہمیں رخصت فرما کر چند قدم اندرون خانہ میں جا چکے تھے۔ تو عطا محمد مذکور نے حضور کا پیچھے سے دامن پکڑ کر زور سے کہا۔ ’’حضور مَیں رہ گیا ہوں‘‘۔ اس پر حضور مڑ کر اسکی طرف متوجہ ہوئے۔ اور مصافحہ کرکے اس کو بھی رخصت کیا۔ یہ دوست اب سب اسسٹنٹ سرجن ہیں۔
خوا جہ عبدالرحمن صاحب نے مزید بیان کیا کہ اس سال سولہ طلباء انٹرنس کے امتحان میں شامل ہوئے تھے۔ جن میں سے کئی ایک تو اسی سال پاس ہو گئے۔ اور باقی کچھ دوسرے سال پاس ہوئے اور بعض جو پھر بھی پاس نہ ہوئے۔ وہ بھی بحمدا للہ مسیح موعود علیہ السَّلام کی دُعا سے اچھی حیثیت میں ہیں۔ اور اپنے اپنے کاروبار اور ملازمتوں میں خوش زندگی گذار رہے ہیں۔
{ 840} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) ابتداء میں مدرسہ ہائی سکول میں لوئر پرائمری میں داخل کرائے گئے۔ تو ایک دن حضرت میر ناصر نواب صاحب ہائی سکول کے بورڈنگ میں تشریف لائے اور حافظ غلام محمد صاحب (سابق مبلغ ماریشس) سے فرمانے لگے۔ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السَّلام نے میاں بشیر احمد کو بورڈنگ میں داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ ان کا خیال رکھا کریں۔ خاکسار بھی اس وقت پاس ہی کھڑا تھا۔ میر صاحب نے میرے متعلق فرمایا کہ یہ میاں صاحب کا بستہ گھر سے لایا اور لے جایا کرے گا۔ صاحبزادہ صاحب اس کے بعد دن کو بورڈنگ میں ہی رہا کرتے تھے۔ اور رات کو گھر چلے آتے تھے۔ اور مَیں بستہ بردار غلام تھا۔ حضرت ام المؤمنین سلمہا اللہ تعالیٰ ماہوار کچھ نقدی بھی عطا فرماتی تھیں۔ مگر میرا اصل معاوضہ حضور کی خوشنودی اور دعا تھی۔
{ 841} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خوا جہ عبدالرحمن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں جب رفع حاجت کے لئے پاخانہ میں جاتے تھے تو پانی کا لوٹا لازماً ساتھ لے جاتے تھے اور اندر طہارت کرنے کے علاوہ پاخانہ سے باہر آ کر بھی ہاتھ صاف کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ طہارت سے فارغ ہو کر ایک دفعہ سادہ پانی سے ہاتھ دھوتے تھے اور پھر مٹی مَل کر دوبارہ صاف کرتے تھے۔
{ 842} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک شخص پچھتر سنگھ ریاست جموں کے تھے۔ وہ قادیان آ کر مسلمان ہو گئے۔ نام ان کا شیخ عبدالعزیز رکھا گیا۔ ان کو لوگ اکثر کہتے تھے کہ ختنہ کرالو۔ وہ بیچارے چونکہ بڑی عمر کے ہو گئے تھے اس لئے ہچکچاتے تھے اور تکلیف سے بھی ڈرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ آیا ختنہ ضروری ہے۔ فرمایا بڑی عمر کے آدمی کے لئے سترِ عورت فرض ہے مگر ختنہ صرف سنت ہے۔ اس لئے ان کے لئے ضروری نہیں کہ ختنہ کروائیں۔
{ 843} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی مرحوم کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوا۔ جب مَیں نے یہ روایت سُنی تو بہت تعجب ہوا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ پھر بعد فکر کرنے کے اور طبّی طور پر اس مسئلہ پر غور کرنے کے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ احتلام تین قسم کا ہوتا ہے ایک فطرتی۔ دوسرا شیطانی خواہشات اور خیالات کا نتیجہ اور تیسرا مرض کی وجہ سے۔ انبیاء کو فطرتی اور بیماری والا احتلام ہو سکتا ہے۔ مگر شیطانی نہیں ہوتا۔ لوگوں نے سب قسم کے احتلام کو شیطانی سمجھ رکھا ہے جو غلط ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب مکرم کا یہ خیال درست ہے کہ انبیاء کو بھی بعض اقسام کا احتلام ہو سکتا ہے اور میرا ہمیشہ سے یہی خیال رہا ہے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے بچپن میں اس حدیث کو پڑھا تھا کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا۔ تو اس وقت بھی میں نے دل میں یہی کہا تھا کہ اس سے شیطانی نظارہ والا احتلام مراد ہے نہ کہ ہر قسم کا احتلام۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب نے جوفطرتی احتلام اور بیماری کے احتلام کی اصطلاح لکھی ہے یہ غالباً ایک ہی قسم ہے۔ جس میں صرف درجہ کا فرق ہے یعنی اصل اقسام دو ہی ہیں۔ ایک فطرتی احتلام جو کسی بھی طبعی تقاضے کا نتیجہ ہوتا ہے اور دوسرے شیطانی احتلام جو گندے خیالات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
{ 844} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیشاب کرکے ہمیشہ پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے۔ مَیں نے کبھی ڈھیلہ کرتے نہیں دیکھا۔
{ 845} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اندھیرے میں نہیں سویا کرتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ رات کو اپنے کمرہ میں لالٹین روشن رکھا کرتے تھے اور تصنیف کے وقت تو دس پندرہ موم بتیاں اکٹھی جلا لیا کرتے تھے۔
{ 846} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کی نظم لکھ رہے تھے۔ جس کے آخر میں دُعا یہی ہے۔ وفا یہی ہے۔ وغیرہ آتا ہے۔ تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی مرحومہ کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں۔ حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ مَیں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ جس میں یہ یہ قافیہ ہے آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں۔ مولویانی مرحومہ نے کہا۔ ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں۔ تو مَیں بتائوں کیا۔ حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے اور پھر بھی آپ شکایت کرتی ہیں کہ کسی نے پڑھایا نہیں۔ مطلب حضرت صاحب کا یہ تھا کہ ’’پڑھایا نہیں‘‘ کے الفاظ میں جو ’’پڑھا‘‘ کا لفظ ہے۔ اسی میں قافیہ آ گیا ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا۔
{ 847} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً گرم پانی سے طہارت فرمایا کرتے تھے اور ٹھنڈے پانی کو استعمال نہ کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے کسی خادمہ سے فرمایا۔ کہ آپ کے لئے پاخانہ میں لوٹا رکھدے۔ اس نے غلطی سے تیز گرم پانی کا لوٹا رکھدیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فارغ ہو کر باہر تشریف لائے۔ تو دریافت فرمایا کہ لوٹا کس نے رکھا تھا۔ جب بتایا گیا کہ فلاں خادمہ نے رکھا تھا۔ تو آپ نے اُسے بلوایا۔ اور اُسے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ اور پھر اس کے ہاتھ پر آپ نے اس لوٹے کا بچا ہوا پانی بہا دیا تاکہ اُسے احساس ہو کہ یہ پانی اتنا گرم ہے کہ طہارت میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ اس کے سوا آپ نے اُسے کچھ نہیں کہا۔
{ 848} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔میرے گھر سے یعنی والدہ عزیز مظفر احمد نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم گھر کی چند لڑکیاں تربوز کھا رہی تھیں۔ اس کا ایک چھلکا مائی تابی کو جا لگا۔ جس پر مائی تابی بہت ناراض ہوئی۔ اور ناراضگی میں بد دُعائیں دینی شروع کر دیں۔ اور پھر خود ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا کر شکایت بھی کردی۔ اس پر حضرت صاحب نے ہمیں بلایا اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے۔ ہم نے سارا واقعہ سُنا دیا۔ جس پر آپ مائی تابی پر ناراض ہوئے کہ تم نے میری اولاد کے متعلق بد دعا کی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی تابی قادیان کے قریب کی ایک بوڑھی عورت تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں رہتی تھی اور اچھا اخلاص رکھتی تھی۔ مگر ناراضگی میں عادتاً بد دعائیں دینے لگتی تھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے گھر سے خان بہادر مولوی غلام حسن صاحب پشاوری کی لڑکی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے صحابی ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب موصوف کو خلافتِ ثانیہ کے موقعہ پر ٹھوکر لگی اور وہ غیر مبایعین کے گروہ میں شامل ہو گئے لیکن الحمدللہ کہ میرے گھر سے بدستور جماعت میں شامل ہیں اور وابستگانِ خلافت میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے والد ماجد کو بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین ۱ ؎
{ 849} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی امیر بی بی عرف مائی کاکو ہمشیرہ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیشتر طور پر عورتوں کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ نماز باقاعدہ پڑھیں۔ قرآن شریف کا ترجمہ سیکھیں اور خاوندوں کے حقوق ادا کریں۔ جب کبھی کوئی عورت بیعت کرتی تو آپ عموماً یہ پوچھا کرتے تھے کہ تم قرآن شریف پڑھی ہوئی ہو یا نہیں۔ اگر وہ نہ پڑھی ہوئی ہوتی تو نصیحت فرماتے کہ قرآن شریف پڑھنا سیکھو۔ اور اگر صرف ناظرہ پڑھی ہوتی۔ تو فرماتے کہ ترجمہ بھی سیکھو۔ تاکہ قرآن شریف کے احکام سے اطلاع ہو اور ان پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔
{ 850} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے میاں عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھواں کی بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ تازہ جلیبیاں لائی۔ حضرت صاحب نے ان میں سے ایک جلیبی اٹھا کر منہ میں ڈالی۔ اس وقت ایک راولپنڈی کی عورت پاس بیٹھی تھی۔ اس نے گھبرا کر حضرت صاحب سے کہا۔ حضرت یہ تو ہندو کی بنی ہوئی ہیں۔ حضرت صاحب نے کہا۔ تو پھر کیا ہے۔ ہم جو سبزی کھاتے ہیں۔ وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے۔ اور اسی طرح بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا۔
{ 851} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے بھائی خیر دین کی بیوی نے مجھ سے کہا کہ شام کا وقت گھر میں بڑے کام کا وقت ہوتا ہے اور مغرب کی نماز عموماً قضا ہو جاتی ہے۔ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرو کہ ہم کیا کیا کریں۔ مَیں نے حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ گھر میں کھانے وغیرہ کے انتظام میں مغرب کی نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ مَیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اور فرمایا کہ صبح اور شام کا وقت خاص طور پر برکات کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ اوراس وقت فرشتوں کا پہرہ بدلتا ہے۔ ایسے وقت کی برکات سے اپنے آپ کو محروم نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں کبھی مجبوری ہو تو عشاء کی نماز سے ملا کر مغرب کی نماز جمع کی جاسکتی ہے۔ مائی کاکو نے بیان کیا کہ اس وقت سے ہمارے گھر میں کسی نے مغرب کی نماز قضا نہیں کی اور ہمارے گھروں میں یہ طریق عام طور پر رائج ہو گیا ہے کہ شام کا کھانا مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے ہیں تاکہ مغرب کی نماز کو صحیح وقت پر ادا کرسکیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مائی کاکو نے جو قضا کا لفظ استعمال کیا ہے یہ عرف عام میں غلط طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ ورنہ اس کے اصلی معنے پُورا کرنے اور ادا کرنے کے ہیں نہ کہ کھونے اور ضائع کرنے کے۔ مجھے اس کا اس لئے خیال آیا کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت صاحب نے بھی ایک جگہ اس لفظ کے غلط استعمال کے متعلق ذکر کیا ہے۔
{ 852} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مائی کاکو نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب نے جماعت میں بکروں کی قربانی کا حکم دیا تھا۔ تو ہم نے بھی اس ارشاد کی تعمیل میں بکرے قربان (صدقہ) کروائے تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب دیکھا۔ کہ ایک بڑا بھاری جلوس آ رہا ہے اور اس جلوس کے آگے کوئی شخص رتھ میں سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ جس کے ارد گرد پردے پڑے ہوئے ہیں او رلوگوں میں شور ہے کہ محمد ﷺ آ گئے۔ محمد ﷺ آ گئے۔ میں نے آگے بڑھکر رتھ کا پردہ اُٹھایا تو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ کیا تم نے صدقہ نہیں کیا؟ مَیں نے کہا۔ حضور ہم نے تو صدقہ کروا دیا ہے۔ آپ نے فرمایا اور کروا دو۔ چنانچہ مَیں نے اور صدقہ کروا دیا۔ اس زمانہ میں دو روپیہ میں بکرا مل جاتا تھا۔ اور ہم نے پانچ پیسے میں سیر گوشت خریدا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً اس زمانہ کی بات ہے جب حضرت صاحب ۱۹۰۵ء والے زلزلہ کے بعد باغ میں جا کر ٹھہرے تھے۔
{ 853} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص بمبئی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی زیارت کو آیا۔ اس کی داڑھی اور مونچھیں سب سفید تھیں۔ حضور نے ملاقات کے بعد ان سے پوچھا۔ آپ کی کیا عمر ہو گی۔ وہ شخص کہنے لگا کہ حضرت میں نے تو اپنا کوئی بال سیاہ دیکھا ہی نہیں نکلتے ہی سفید ہیں۔ یاد نہیں کہ اس نے اپنی عمر کتنی بتائی۔ اس کی بات سے حضرت صاحب نے تعجب کیا۔ اور پھر گھر میں جا کر بھی بیان کیا کہ آج ایک ایسا شخص ملنے آیا تھا۔
{ 854} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دیدی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اور حضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہو جائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
{ 855} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہر الٰہی سلسلہ کا پہلا اور آخری نبی قتل سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مگر درمیانی نبی اگر ان کے ساتھ مخصوص طور پر حفاظت کا وعدہ نہ ہو اور وہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا کر چکے ہوں تو وہ قتل ہو سکتے ہیں چنانچہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور محمدی سلسلے میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو قتل سے محفوظ رکھا۔ اور میرے ساتھ بھی اس کا حفاظت کا وعدہ ہے۔ مگر فرماتے تھے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے۔
{ 856} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح حضرت مسیح ناصری سے پہلے حضرت یحییٰ علیہ السلام بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے تھے اسی طرح مجھ سے پہلے سیّد احمد صاحب بریلوی بطور ارہاص کے مبعوث کئے گئے کیونکہ وہ تیرہویں صدی کے مجدّد تھے اور حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ ایک عجیب مشابہت ہے کہ جس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام قتل ہوئے اسی طرح سید احمد صاحب بریلوی بھی قتل ہوئے۔ اور اس طرح خدا نے دونوں سلسلوں کے مسیحوں میں ایک مزید مشابہت پیدا کردی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قرآن شریف سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے آگے اور پیچھے دونوں طرف کسی نہ کسی رنگ میں اثر پیدا کرتی ہے اور نبوت کا یہ اثر ہے کہ اس سے پہلے ارہاص کا سلسلہ ہوتا ہے اور بعد میں خلافت کا۔ گویا نبوت کا وجود اپنے کمال میں تین درجوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلا درجہ ارہاص کا ہے جسے گویا کہ یوں سمجھنا چاہئے کہ جیسے سورج کے نکلنے سے پہلے شفق میں روشنی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا درجہ نبوت کا ہے جو اصل نور اور ضیاء کا مقام ہے۔ اور اس کے بعد تیسرا درجہ خلافت کا ہے جو نبی کے گذر جانے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
ارہاص کے اظہار کی صورت مختلف رنگوں میں ہو سکتی ہے یعنی بعض اوقات تو کسی بڑے نبی سے پہلے کسی چھوٹے نبی یا ولی یا مجدّد کو نبی کے لئے راستہ صاف کرنے کے واسطے بھیجا جاتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصری اور حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت میں ہوا۔ اور بعض اوقات کوئی خاص فرد مبعوث نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ایسی رَو چلا دیتا ہے جس سے بعض سعید فطرتیں متاثر ہوکر نورِ نبوت کی تیاری میں لگ جاتی ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا۔ یعنی آپؐ کی بعثت سے پہلے عرب میں چند افراد ایسے پیدا ہو گئے۔ جو شرک سے متنفّر ہو کر خدائے واحد کی تلاش میں لگ گئے اور اپنے آپ کو ’’حنیفی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ارہاص ہر دو رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی کسی فرد کی بعثت کی صورت میں بھی۔ اور ایک رَو کی صورت میں بھی۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ارہاص کے لفظی معنے بنیاد رکھنے یا کسی چیز کو مضبوط کرنے کے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ سلسلہ ارہاص کے ذریعہ نورِ نبوت کی ابتدائی داغ بیل قائم کرتا ہے۔ اس لئے اس سلسلہ کو یہ نام دیا گیا۔ اور خلافت کے لفظ کی حقیقت ظاہر ہی ہے کہ نبی کی وفات کے بعد جو سلسلہ خلفاء کا نبی کے کام کو جاری رکھنے اور تکمیل تک پہنچانے کے لئے قائم ہوتا ہے۔ وہ خلافت ہے۔ جس کے لفظی معنے کسی کے پیچھے آنے اور قائم مقام بننے کے ہیں۔ واللہ اعلم۔
{ 857} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی میرے ماموں زاد بھائی تھے اور میرے بہنوئی بھی تھے۔ اور عمر میں مجھ سے قریباً آٹھ سال بڑے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کی بیعت مجھ سے پہلے کی تھی اور اس کے بعد وہ ہمیشہ تحریک کرتے رہتے تھے۔ کہ مَیں بھی بیعت کر لوں۔ غالباً ۱۸۹۳ء میں ایک خواب کی بناء پر مَیں بھی بیعت کے لئے تیار ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کی غرض سے حاضر ہوا۔ اس وقت اتفاق سے میرے سامنے ایک شخص حضرت صاحب کی بیعت کر رہا تھا۔ مَیں نے جب بیعت کے یہ الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سُنے کہ ’’ مَیں دین کو دُنیا پر مقدم رکھوںگا ‘‘ تو میرا دل بہت ڈر گیا کہ یہ بہت بھاری ذمہ واری ہے جسے مَیں نہیں اٹھا سکوں گا۔ اور مَیں بغیر بیعت کئے واپس لوٹ گیا۔ اس کے بعد ایک دفعہ مولوی صاحب مرحوم نے میری ہمشیرہ سے کہا کہ محمد اسمٰعیل لوگوں کو تو تبلیغ کرتا رہتا تھا اور خود بیعت نہیں کرتا۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ میری ہمشیرہ نے مجھے جب یہ بات سُنائی۔ تو مَیں نے خود مولوی صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایسا کہا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا۔ ہاں۔ تو مَیں نے مولوی صاحب کو کہا کہ مَیں علیحٰدگی میں بیعت کرونگا۔ اور میرے دل میں یہ خیال تھا کہ مَیں حضرت صاحب سے عرض کرونگا کہ ہر بات میں دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کا اقرار مجھ سے نہ لیں۔ یعنی اس عہدسے مجھے معاف کر دیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دل میں ارادہ تھا کہ حضرت صاحب پر اپنا خیال ظاہر کر دُوں گا۔ لیکن جب حضرت صاحب مسجد میں تشریف لائے اور مغرب کی نماز کے بعد تشریف فرما ہوئے تو کسی شخص نے عرض کی کہ حضور کچھ آدمی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ’’آجائیں‘‘ اس ’’آ جائیں‘‘ کے الفاظ نے میرے دل پر ایسا گہرا اثر کیا کہ مجھے وہ تمام خیالات بھُول گئے اور مَیں بلا چون و چرا آگے بڑھ گیا اور بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کو میرے ان خیالات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری بیعت کی تو غرض ہی یہی ہے کہ ہم دینداری پیدا کریں۔ اگر ہم دین کو مقدم کرنے کا اقرار نہ لیں تو کیا پھر یہ اقرار لیں کہ مَیں دُنیا کے کاموں کو مقدم کیا کروں گا۔ اس صورت میں بیعت کی غرض و غایت اور حقیقت ہی باطل ہو جاتی ہے۔
{ 858} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال جو سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا۔ جن کو عام لوگ شیخ نتھو کہہ کر پکارتے تھے۔ شیخ نور محمد صاحب نے غالباً ۱۸۹۱ء یا۱۸۹۲ء میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اور سید حامد شاہ صاحب مرحوم کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ ان دنوں سر محمد اقبال سکول میں پڑھتے تھے اور اپنے باپ کی بیعت کے بعد وہ بھی اپنے آپ کو احمدیت میں شمار کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معتقد تھے چونکہ سر اقبال کو بچپن سے ہی شعروشاعری کا شوق تھا۔ اس لئے ان دنوں میں انہوں نے سعد اللہ لدھیانوی کے خلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں ایک نظم بھی لکھی تھی۔ مگر اس کے چند سال بعد جب سر اقبال کالج میں پہنچے۔ تو انکے خیالات میں تبدیلی آ گئی۔ اور انہوں نے اپنے باپ کو بھی سمجھا بجھا کر احمدیت سے منحرف کر دیا۔ چنانچہ شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا۔ جس میں یہ تحریر کیا کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور مَیں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ لہٰذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں۔ اس پر حضرت صاحب کا جواب میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے نام گیا۔ جس میں لکھا تھا۔ کہ شیخ نور محمد کو کہدیویں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہیں۔ اس کے بعد شیخ نور محمد صاحب نے بعض اوقات چندہ وغیرہ دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے قبول نہ کیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھ سے میاں مصباح الدین صاحب نے بیان کیا کہ ان سے کچھ عرصہ ہوا ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے بیان کیا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے اور آپ نے وہاں ایک تقریر فرمائی تھی جس میں کثرت کے ساتھ لوگ شامل ہوئے تھے اور ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی ہجوم ہو گیا تھا۔ تو اس وقت ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی وہاں موجود تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بعد میں سلسلہ سے نہ صرف منحرف ہو گئے تھے بلکہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید طور پر مخالف رہے ہیں اور ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا ہوا ہے اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈا تھا مگر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب درمیان میں کچھ عرصہ علیٰحدہ رہنے کے بعد حال ہی میں پھر سلسلہ میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے صاحبزادے یعنی سر محمداقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمدؐ صاحب سب جج تو سلسلہ کے نہایت مخلص نوجوانوں میں سے ہیں۔
{ 859} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکڑمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں ایک احمدی تھے۔وہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں قادیان آئے۔حضور ایک دن سیر کو نکلے تو احمدیہ چوک میں سَیر میں ہمراہ جانے والوں کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ ان دہلی والے دوست کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا۔فرمایا کہ یہ آ پ کا لڑکا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ۔جی ہاں۔پھر پوچھا اس کا کیا نام ہے انہوں نے کہا ’’خورشید الاسلام ‘‘مسکرا کر فرمانے لگے خورشید تو فارسی لفظ ہے اور ترکیب نام کی عربی ہے۔یہ غلط ہے۔صحیح نام شمس الاسلام ہے۔اس کے بعد ان صاحب نے اس بچہ کا نام بدل کر شمس الاسلام رکھدیا۔
{ 860} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے پنجابی مثل ہے کہ ’’کتا راتوں۔گھوڑاساتوں۔آدمی باتوں‘‘۔یعنی کُتّا تو ایک رات میں چراغوں کا تیل چاٹ کر موٹا ہوجاتا ہے(اگلے زمانہ میں لوگ مٹی کے کھلے چراغ جلایا کرتے تھے۔اور ان میں تل یا سرسوں کا تیل استعمال ہوتا تھا ۔جسے بعض اوقات کتّے چاٹ جایا کرتے تھے)اور گھوڑا سات دن کی خدمت سے بارونق اور فربہ ہو جاتا ہے۔مگر آدمی کا کیا ہے وہ اکثر ایک بات سے ہی اتنا خوش ہو جاتا ہے کہ اس کے سُنتے ہی اس کے چہرہ اور بدن پر رونق اور صحت اور سُرخی آجاتی ہے اور فوراً ذرا سی بات ہی ایک عظیم الشان تغیر اس کی حالت میں پیدا کر دیتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس موقع پر مجھے حضرت مسیح ناصری کا یہ قول یاد آگیا ’’آدمی روٹی سے نہیں جیتا‘‘اس میں شُبہ نہیں کہ انسانی خلقت میں خدانے ایسا مادہ رکھا ہے کہ اس پر جذبات بہت گہرا اثر کرتے ہیں اور کسی کی ذرا سی محبت بھری نظر اس کے اندر زندگی کی لہر پیدا کر دیتی ہے اور ذرا سی چشم نمائی اس کی امنگوں پر اوس ڈال ریتی ہے۔
{ 861} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہو کر بیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْنٌ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ کے الفاظ آئے ہیں۔یہ امہات المو منین سے خاص تھا۔ دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے۔بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے۔
{ 862} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عمدہ کاغذ پر صحیح اور خوشخط کتابیں چھپوانے کا خاص خیال تھا۔سب سے پہلے تو محمد حسین صاحب مراد آبادی کا تب تھے جو نہایت مخلص بزرگ تھے۔انہوں نے کچھ حصّہ ابتدائی کتابوں کا لکھا ۔اس کے بعد امرتسر کے میاں غلام محمد کاتب سالہا سال تک کتابت کرتے رہے چونکہ حضرت صاحب کو ان کی صحیح نویسی اور خط پسند تھا۔اس لئے ہمیشہ ان کو ہی بُلالیا کرتے تھے۔پہلے وہ پندرہ ،بیس روپیہ ماہوار خشک پر آئے تھے۔پھر کہنے لگے۔حضور کھانا پکانے میں بڑا وقت ضائع ہوتا ہے۔اس لئے لنگر سے کھانا لگادیں۔آپ نے منظور کرلیااور تنخواہ بھی جاری رکھی پھر ایک مدّت بعد کہا کہ حضور یہ کھانا میرے مزاج کے موافق نہیں۔مَیں بیمار ہوجائوں گا۔حضور روٹی کی جگہ پانچ روپیہ نقد بڑھا دیں۔اورمَیں خود پکانے کا بندوبست کروں گا۔آپ نے یہ بھی منظور فرمالیا۔اور اس طرح تنخواہ میں پانچ کا اضافہ ہوگیا۔ پھر ایک مدت بعد پہلے کی طرح وقت نہ ملنے کی شکایت کی۔اور کہا مَیں حضور کا کام وقت پر نہیں دے سکتا۔سارا دن روٹی اور چولہے کے جھگڑے میں گذر جاتا ہے۔حضور اپنے ہاں سے روٹی لگا دیں ۔آپ نے لگا دی اور رقم بھی قائم رہی۔پھر ایک عرصہ بعد روٹی کی شکایت کرنے لگے۔اس کی جگہ پانچ روپے مزید بڑھا لئے۔غرض وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے رہے۔یہانتک کہ آخر تنخواہ چالیس روپیہ اور روٹی پر آگئی۔اس کے بعد خدا کا فضل ہوا کہ پیر منظور محمد صاحب نے حضور کو اس فکر سے بالکل مستغنی کردیا۔اور جیسی خوشخط صاف صاف صحیح کتابت آپ چاہتے تھے وہ پیر صاحب کے واسطے سے حاصل ہوگئی۔اور سالہاسال پِیرجی حضور کی کتابیں لکھتے رہے۔آخر پھر آخری ایام میں جب پیر جی اپنی بیماری کی وجہ سے لاچار ہوگئے۔توپھر میاں غلام محمدکو بلوایا گیااور اس نے بعض آخری کتب لکھیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیر منظور صاحب نے صرف خدمت کی خاطر اور حضرت صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کتابت سیکھی تھی اور خط میں ایک نیا طریق ایجاد کیا تھا۔جو بہت صاف اور خوبصورت اور کھلا کھلا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد جوڑوں کی تکلیف کی وجہ سے معذور ہوگئے۔پِیر صاحب حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے صاحبزادے ہیںاور نہایت صوفی مزاج بزرگ ہیں۔قاعدہ یسّرناالقرآن انہی کا ایجاد کردہ ہے۔جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی ایک نظم میں تعریف فرمائی ہے۔
{ 863} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنا باغ ٹھیکہ پر دیتے تھے تو پھل کی کچھ جنس ضرور اپنے لئے مقرر فرمالیتے تھے۔ بیدانہ شہتوت کے موسم میں دو تین دفعہ سب حاضر الوقت احباب کو لے کر ضرور باغ کی طرف سیرکے لئے جاتے تھے اور تازہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ نوش فرمایا کرتے تھے۔وہ چادر جس میں ٹھیکیدار بیدانے گرایا کرتا تھا۔اسی طرح لاکر سب کے سامنے رکھدی جاتی تھی۔اور سب احباب اس چادر کے گرد حلقہ باند ھکر بیٹھ جاتے اور شریک دعوت ہوتے۔اور آپ بھی سب کے ساتھ ملکر بالکل بے تکلّفی کے رنگ میں نوش فرماتے۔
{ 864} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔والدہ صا حبہ عزیز مرزا رشید احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے اپنی پھوپھی صاحبہ سے سُنا ہوا ہے کہ اگر کبھی کوئی عورت بچپن میں حضرت صاحب کے متعلق سندھی کا لفظ استعمال کرتی تھی تو دادا صاحب بہت ناراض ہوتے تھے۔کہ میرے بیٹے کا نام بگاڑدیا ہے۔اس طرح نہ کہا کرو ۔بلکہ اصل نام لے کر پکارا کرو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حصّہ اول طبع دوم کی روایت نمبر51میں لفظ سندھی کے متعلق ایک مفصّل نوٹ گذر چکا ہے جو قابلِ ملاحظہ ہے۔جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندی میں سندھی کے معنے جوڑا پیدا ہونے والے کے ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعودؑ تو ام پیدا ہوئے تھے اس لئے بعض عورتیں آپ کو بچپن میں کبھی کبھی اس نام سے پکارلیتی تھیں ۔مگر چونکہ اس طرح اصل نام کے بگڑنے کا احتمال تھا اس لئے دادا صاحب منع فرماتے تھے نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ مرزا رشید احمد سے ہمارے بھائی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی بیوہ مراد ہیں۔جو حضرت مسیح موعود ؑ کے چچا زاد بھائی مرزا امام دین کی لڑکی ہیں اور ان کی پھوپھی صاحبہ سے ہماری تائی صاحبہ مراد ہیں جو حضرت صاحب کی بھاوجہ تھیں اور مرزا امام الدین کی سگی ہمشیرہ تھیں اور دادا صاحب سے ہمارے اپنے دادا یعنی حضرت مسیح موعود ؑ علیہ السلام کے والد مراد ہیں۔
{ 865} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کئی دفعہ یہ شعر پڑھتے سُنا ہے۔اور فرمایا کرتے تھے کہ زبان کے لحاظ سے یہ بڑا فصیح و بلیغ شعر ہے ؎
یاتو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھنؤ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شعر واقعی بہت لطیف ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت صاحب نے اسے صرف اس کی عام خوبی کی وجہ سے ہی پسند نہیں کیا ہوگا بلکہ غالباً آپ اپنے ذہن میں اس کے معانی کو خود اپنے پیش آمد ہ حالات پر بھی چسپاں فرماتے ہوں گے۔
{ 866} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھے کئی بار حضرت احمد علیہ السلام کی مٹھیاں بھرنے اور پائوں دبانے کا موقعہ ملا ہے آپ کے جسم کا گوشت بہت سخت اور خوب کمایا ہوا تھا۔ایک دفعہ کسی بدبخت نے بجائے پائوں دبانے کے آپ کے پائوں پر چونڈھیاں بھرنی شروع کر دیں۔مگر آپ خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مٹھیاں بھرنا اور چونڈھیاں لینا پنجابی الفاظ ہیں۔ ان سے ہاتھ کی ہتھیلی سے جسم کو دبانا اورچٹکیاں لینا مراد ہے۔
{ 867} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت احمد علیہ السلام جب مقدمہ گورد اسپور کے ایام میں عدالت کے انتظار میں لب سٹرک گورداسپور میں گھنٹوں تشریف فرمارہتے تو بسا اوقات لوگ خیال کرتے کہ آپ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔مگر آپ اکثر کسی اورخیال میں مستغر ق ہوتے تھے۔اور بعض اوقات مجلس میں بیٹھے ہوئے بھی مجلس سے جُدا ہوتے تھے۔
{ 868} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۱ء یا ۱۸۹۲ء کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیااور ازالۂ اوہام وغیرہ تصنیف فرمایا۔تو اس وقت میں نہیں جانتا تھا کہ مرزا صاحب کون ہیں۔ایک دفعہ میں بخار کے عارضہ سے بیمار تھا کہ چوہدری محمد بخش صاحب چچا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم راولپنڈی تشریف لائے اور میرے پاس ذکر کیا کہ تم کو نئی بات سُنائیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ میں مسیح موعود اور مہدی ہوں۔مَیں نے دریافت کیا کہ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کا کیا حال ہے۔انہوں نے جواب دیا ۔ کہ وہ تو دونوں مان گئے ہیں۔مَیں نے کہا کارڈ لائو۔چنانچہ مَیں نے بلا تو قف بیعت کا خط لکھدیا۔ جب بیماری سے اُٹھا اور دارالامان آیا تو یکیّ والے نے ایک مکان پر اتار دیا۔دیکھا تو مرزا امام دین تخت پوش پر بیٹھے ہوئے بوہڑ کے نیچے حقہ پی رہے تھے۔ان سے دریافت کیا کہ مرزا صاحب کہاں ہیں۔تو انہوں نے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔مَیں نے بتایا کہ راولپنڈی سے آیا ہوں۔جس پر انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب اس ساتھ والے مکان میں ہیں ۔مَیں دروازہ پر آیا تو شیخ حامد علی صاحب مرحوم باہرآئے اورمجھے اندربالا خانہ پر لے گئے۔اوپر جاکر دیکھا کہ ایک چارپائی بان سے بُنی ہوئی تھی۔اور ایک پُرانا میز تھا۔جس پر چند ایک پُرانی کتابیں پڑی ہوئی تھیںاور فرش پر ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی۔پاس ہی ایک گھڑا پانی کا تھا۔ایک پرانا صندوق جس کا رنگ غالباً سبز تھا وہ بھی پڑا تھا۔حضرت صاحب کھڑے تھے۔ مَیں نے جاکر السلام علیکم عرض کیا۔حضرت صاحب نے سلام کا جواب دیااور مصافحہ کرکے فرمایا کہ بیٹھ جائو۔مَیں نے ادب کی خاطر عرض کیا کہ حضور آپ تو کھڑے ہیں اور مَیں چارپائی پر بیٹھ جائوں۔ اتنے میں ایک مستری صاحب آگئے انہوں نے کہا کہ حکم مانو اور جس طرح حضرت صاحب فرماتے ہیں اسی طرح کرو۔اس پرمَیں چارپائی پر بیٹھ گیا۔حضرت جی نے صندوق کھولا اور مصری نکال کرگلاس میں ڈالی اور پانی ڈال کر قلم سے ہلاکر آپ نے دست مبارک سے یہ شربت کا گلاس مجھے دیااور فرمایا کہ آپ گرمی میں آئے ہیں یہ شربت پی لیں۔لیکن مَیں حیران تھا کہ یا الٰہی ہم نے تو بہت پیر دیکھے ہیں ۔یہ تو بالکل سادہ انسان ہے۔ کوئی پیروں والا چلن نہیں۔پھرحکم دیا کہ اب گرمی سخت ہے اس لئے آپ آرام کریں ۔حافظ صاحب نے مجھے گول کمرہ میں چارپائی بچھا دی۔وہاں پر مَیں سویا رہا۔پھر ظہرکے وقت مسجد میں حضرت جی کی اقتداء میں نماز پڑھی۔اور اس وقت غالباً ہم تینوں ہی تھے (یعنی مَیں۔حافظ حامد علی اور حضرت جی)مَیں چند یوم یہاں ٹھہرا۔اور پھر حضرت جی سے براہین احمدیہ مانگی۔آپ نے فرمایا کہ ختم ہوچکی ہے۔مگرایک جلد ہے جس پر مَیں تصحیح کرتا ہوں۔اس میں بھی پہلا حصہ نہیں ہے۔مگر پہلا حصہ تو فقط اشتہار ہے آپ یہی تین حصے لے جائیں ۔وہ کتاب لے کر میں واپس آگیا۔ان دنوں دارالامان بالکل اجاڑ تھا۔پھر تھوڑی مدّت کے بعد سُنا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے‘‘ مَیں نے عرض کی کہ حضور وہ بادشاہ تو آئیں گے جب آئیں گے۔آپ مجھ کو تو ایک کپڑا عنایت فرمائیں۔حضرت صاحب نے اپنا کُرتہ مرحمت فرمایا۔جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔ان ایام میں مَیں جب کبھی قادیان آتا تو دیکھتا تھا کہ حضرت صاحب مہمانوں سے مل کر کھانا کھاتے تھے اور روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے منہ میں ڈالتے جاتے تھے اور اچھی چیزیں ہم لوگوں کے لئے پکوا کر لاتے اور چائے وغیرہ جو چیز پکتی ،عنایت فرماتے اور بڑی محبت اور اخلاق سے پیش آتے۔جتنی دفعہ باہر تشریف لاتے۔اس عاجز سے محبت سے گفتگو فرماتے اورفرماتے کہ مَیں نے آپ کے لئے دُعا لازم کر دی ہے۔ایک دفعہ مَیں بمعہ اہل وعیال قادیان آیااورحضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان میں رہتا تھا۔قریباً بارہ بجے رات کا وقت ہوگا کہ کسی نے دستک دی۔میں جب باہر آیا تو دیکھا کہ حضور ایک ہاتھ میں لوٹا اور گلاس اور ایک ہاتھ میں لیمپ لئے کھڑے ہیں۔فرمانے لگے کہ کہیں سے دودھ آگیا تھا۔مَیں نے خیال کیا کہ بھائی صاحب کو بھی دے آئوں۔سبحان اللہ کیا اخلاق تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ’’ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے‘‘ والا الہام بہت پُرانا ہے مگر ممکن ہے کہ اس زمانہ میں پھر دوبارہ ہوا ہو۔یا سیٹھی صاحب نے اسے اس وقت سُنا ہو۔
{ 869} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ دودھ کی برف کی مشین جس میں قُلفا یا صندوقچی کی برف بنائی جاتی ہے ،خرید کر منگائی اور اس میں گاہے بگاہے برف بنائی جاتی تھی۔ایک دن ایک برف بنانے والے کی بے احتیاطی اور زیادہ آگ دینے کی وجہ سے وہ پھٹ گئی اور تمام گھر میں ایمونیا کے بخارات ابر کی طرح پھیل گئے۔اور اس کی تیزی سے لوگوں کی ناکوں اور آنکھوں سے پانی جاری ہوگیامگرکوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ پُرانی طرز کی مشین تھی جسے ایک طرف پانی میں رکھتے تھے اور دوسری طرف سے آگ دیتے تھے اور تقریباً دو تین گھنٹے میں برف جم جاتی تھی۔
{ 870} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے قادیان کی وہ حالت دیکھی ہے جبکہ یہاں کے عام لوگ اردو سمجھ نہیں سکتے تھے۔بڑی بڑی عمر کے مرد لنگوٹی باند ھتے تھے اور قریباً بر ہنہ رہتے تھے ۔ رات کو عورت مرد کپڑے اتار کر سرہانے رکھ دیتے تھے اور ننگے لحاف میں گھس جاتے تھے۔ بچے بڑی عمر تک ننگے پھرتے تھے۔سروں میں بیچ میں سے بال منڈے ہوئے ہوتے تھے۔ خدا رسول کا نام تک نہیں جانتے تھے۔ پڑھا لکھا کوئی کوئی ہوتا تھا۔ دال یا گڑیا لسّی یا آم کا اچار بس یہی نعماء تھیں۔سواری کے لئے بیل گاڑی یا یکّہ ہوتا تھا۔بیمارہوں تو کوئی علاج کا انتظام نہ تھا۔ مکانات تنگ اور کچے اور گندے تھے۔یا اب حضور کی برکت سے یہاں کے ادنیٰ لوگ بھی علم والے۔ اچھی پوشش اور ستردار کپڑا پہننے والے۔متمول۔جائز نعمتیں کھانے والے۔پڑھے لکھے۔دین کا علم رکھنے والے ہوگئے ہیں۔قادیان میں پختہ اور عمدہ مکانات بکثرت بن گئے،مدرسے قائم ہوگئے۔کمیٹی بن گئی۔ہسپتال ہوگیا۔موٹر ہوگئے۔طرح طرح کا تجارتی مال آگیا۔تار آگیااور اب تو ریل۔ٹیلیفون اور بجلی بھی آگئی ہے۔غرض دین کے ساتھ دنیاوی عروج بھی آگیا ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں ان ترقی اورآرام کے سامانوں کو دیکھ کر کبھی کبھی خیال کرتا ہوں کہ خدا کی طرف سے قربانی کا مطالبہ بھی عجیب رنگ رکھتا ہے۔کہ ایک طرف قربانی کا مطالبہ فرماتا ہے اور پھر دوسری طرف قربانی کے خفیف سے اظہار پر خود ہی سب کچھ دینا شروع کر دیتا ہے۔یا شاید ہماری کمزوری کو دیکھ کر ہم سے خاص طور پر نرمی کا سلوک کیا گیا ہے۔مگر میں خیال کرتا ہوں کہ ابھی بعض بڑی قربانیوں کا زمانہ آگے آنے والا ہے۔واللہ اعلم
{ 871} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے دو دفعہ دیکھا کہ مہمان خانہ میں بعض لوگوں نے روزوں پر زور دیا تو ان میں جنون کے آثارپیدا ہوگئے اور بہت دودھ پلا کر اور علاج کرکے ان کی خشکی دور ہوئی۔اور کئی دن میں اچھے ہوئے۔یہ دونوں واقعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے ہیں۔اور دونوں سرحد کی طرف کے لوگوں کے متعلق ہیں۔حضور فرماتے تھے کہ جب تک خداکی طرف سے اشارہ نہ ہو۔اپنی طاقت سے زیادہ روزے رکھنے اورپھر غذا نہ کھانا آخر مصیبت لاتا ہے۔اور فرماتے تھے کہ ہم نے تو ایمائے الہٰی سے روزوں کا مجاہدہ کیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس فلسفہ کو حضرت صاحب نے کتاب البریہ میں بیان کیا ہے۔
{ 872} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس سفر دہلی میں جو آپ نے اوائل دعویٰ میں۱۸۹۱ء میں کیا تھا مَیں اور والدہ صاحبہ حضرت صاحب کے ساتھ تھے۔میر صاحب یعنی والد صاحب کی تبدیلی پٹیالہ ہوئی تھی۔وہ وہاں نئے کام کا چارج لینے گئے تھے۔اس لئے ہم کو حضرت صاحب کے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔حضرت صاحب نواب لوہارو کی کوٹھی کے اُوپر جو مکان تھا اس میں اُتر ے تھے۔یہیں ایک طرف مردانہ اور دوسری طرف زنانہ تھا۔اکثراوقات زنانہ سیڑھی کے دروازوں کو بند رکھا جاتا تھا۔کیونکہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے اُوپر چڑھ آتے تھے اور نیچے ہر وقت شوروغوغا رہتا تھااور گالیاں پڑتی رہتی تھیں۔بدمعاش لوگ اینٹیں اور پتھرپھینکتے تھے۔میری والدہ صاحبہ نے ایک روز مجھے سُنایا کہ جو بُڑھیا روٹی پکانے پر رکھی ہوئی تھی۔وہ ایک دن کہنے لگی کہ’’ بیوی یہاں آجکل دہلی میں کوئی آدمی پنجاب سے آیا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مَیں حضرت عیسٰے ہوں اور امام مہدی ہوں ۔ اس نے شہر میں بڑا فساد مچا رکھا ہے اور کفر کی باتیں کر رہا ہے۔کل میرا بیٹا بھی چھری لیکر اس کو مارنے گیا تھا۔کئی ہلّے کئے۔مگر دروازہ اندر سے بند تھا کھل نہ سکا۔مولویوں نے کہہ رکھا ہے کہ اس کو قتل کر دو۔مگر میرے لڑکے کو موقعہ نہ ملا‘‘۔اس بیچاری کو اتنی خبر نہ تھی کہ جن کے گھر میں بیٹھی وہ یہ باتیں کر رہی ہے یہ انہی کا ذکر ہے اور اسی گھر پر حملہ کرکے اس کا بیٹا آیا تھا۔اور بیٹے صاحب کو بھی پتہ نہیں لگاکہ میری ماں اسی گھر میں کام کرتی ہے۔
{ 873} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی تو ابتداء دعوے مسیحیّت سے ہی بیعت میں داخل ہو گئے تھے۔مگر ان کے والد حکیم حسام الدین صاحب جو بڑے طنطنہ کے آدمی تھے وہ اعتقاد تو عمدہ رکھتے تھے مگر بیعت میں داخل نہیں ہوتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وہ بڑے تھے اور سیالکو ٹ کے زمانہ کے دوست بھی تھے۔میر حامد شاہ صاحب ہمیشہ ان کو بیعت کے لئے کہتے رہتے تھے مگر وہ ٹال دیتے تھے۔ان کو اپنی بڑائی کا بہت خیال تھا۔ایک دفعہ شاہ صاحب ان کو قادیان لے آئے اور سب دوستوںنے ان پر زور دیا کہ جب آپ سب کچھ مانتے ہیں تو پھر بیعت بھی کیجئے۔خیر انہوں نے مان لیا مگر یہ کہا کہ مَیںاپنی وضع کا آدمی ہوں ۔لوگوں کے سامنے بیعت نہ کرونگا ۔مجھ سے خفیہ بیعت لے لیں ۔میر حامد شاہ صاحب نے اسے ہی غنیمت سمجھا۔حضرت صاحب سے ذکر کیا تو آپ نے منظور فرمالیا اور علیحدگی میں حکیم صاحب مرحوم کی بیعت لے لی۔
{ 874} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ پلیگ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوا جس کا نام’’درونجِ عقربی ‘‘ہے اور اس کی شکل بچھوکی طرح ہوتی ہے تاگے میں باندھکر گھر میں کئی جگہ لٹکا دی تھی۔اور فرماتے تھے کہ حکماء نے اس کی بابت لکھا ہے کہ یہ ہوا کو صاف کرتی ہے۔
{ 875} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ بشیر اوّل فوت ہوگیا اور خاکسار بطور تعزیت حضرت صاحب کے پاس گیا اور عرض کی کہ حضور مخالفین اس واقعہ پر بہت تمسخر کرتے ہیں تو آپ نے جوا ب میں یہ آیات پڑھکر سُنادیں۔ مَانَنْسَخْ مِنْ اٰ یَۃٍ اَوْنُنْسِھَا نَأتِ بِخَیْرٍمِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا(البقرۃ:۱۰۷) اور حَتّٰی اِذَا اسْتَایْئَسَ الرُّسُلُ وُظَنُّوْ اَنَّھُمْ قَدْ کُذِّبُوْاجَائَ ھُمْ نَصْرُنَا (یوسف:۱۱۱)
خاکسارعرض کرتا ہے کہ ان آیات قرآنی کے معنے یہ ہیں کہ ہم جب کسی آیت کو منسُوخ کرتے ہیںیا فراموش کرادیتے ہیں تو پھر اس سے بہتر آیت لاتے ہیںیا اسی کی مثل لے آتے ہیںاور جب خدا کے رسول یہ دیکھتے ہیں کہ بظاہر مایوسی کی حالت پیدا ہوگئی ہے اور خیال کرتے ہیں کہ ہم سے جو وعدہ ہوا تھا شاید اس کے کچھ اور معنے تھے تو ایسے وقت میں ہمارے فرشتے ان کی نصرت کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور وہ بات جو بظاہر بگڑ ی ہوئی نظر آتی تھی پھر سنبھل جاتی ہے۔
{ 876} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض ا للہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے دوستوں میں سے ایک شخص چراغ علی نامی تِھہ غلام نبی کے رہنے والے تھے اور وہ حافظ حامد علی صاحب کے چچا تھے،ان کو شادی کی ضرورت تھی۔ہم نے متفق ہو کران کی شادی موضع کھارہ میں کروادی۔مگر وہ اس شادی کے چند روز بعد ہی فوت ہوگئے۔ہم نے شادی کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ نہ کیا تھا۔جب حضور کو معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہوچکی ہے تو آپ نے فرمایا کہ میاں حامد علی تم نے ہم کو کیوں نہ بتایا کہ اس کی شادی کرنے لگے ہیں۔اس کی شادی نہیں کرنی چاہئیے تھی کیونکہ اس کو ضعف جگر کا مرض تھااور موجودہ حالت میں وہ شادی کے قابل نہیں تھا۔چنانچہ وہ شادی کے چند روز بعد فوت ہوگئے۔
{ 877} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے احباب کو جب خط لکھتے تو یا تو ’’حِبّی فی اللہ‘‘ یا مکرمی اخویم‘‘ لکھ کر مخاطب کرتے تھے۔ کئی دفعہ مجھے ڈاک میں ڈالنے کو لفافے دیتے تو میں پتے دیکھتا کہ کس کے نام کے خط ہیں سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اور زین الدین ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی اور میاں غلام نبی صاحب سیٹھی راولپنڈی کے پتے مجھے اب تک یاد ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ تینوں اصحاب اس وقت جو جنوری ۱۹۳۹ء ہے فوت ہوچکے ہیں۔کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام ـ (الرحمن:۲۷،۲۸)
{ 878} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اگر تیمم کرنا ہوتاتو بسا اوقات تکیہ یا لحاف پر ہی ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ تکیہ یا لحاف میں سے جو گرد نکلتی ہے وہ تیمم کی غرض سے کافی ہوتی ہے۔لیکن اگر کوئی تکیہ یا لحاف بالکل نیا ہو اور اس میں کوئی گرد نہ ہو تو پھر اس سے تیمم جائز نہ ہوگا۔
{ 879} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی۔اس کی پیدائش انبالہ چھائونی کی تھی اور فوت لدھیانہ میں ہوئی۔اُسے ہیضہ ہوا تھا۔اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑ گئی تھی۔یعنی وہ شربت کو پسند کرتی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے لئے شربت کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔رات کو وہ اٹھا کرتی تو کہتی ابّا شربت پینا۔آپ فوراً اُٹھکر شربت بنا کر اسے پلادیا کرتے تھے۔ایک روزلدھیانہ میں اس نے اسی طرح رات کو اُٹھکر شربت مانگا۔حضرت صاحب نے اُسے شربت کی جگہ غلطی سے چنبیلی کا تیل پلا دیا۔جس کی بوتل اتفاقاً شربت کی بوتل کے پاس ہی پڑی تھی۔لڑکی بھی وہ’’شربت‘‘پی کر سو رہی ۔صبح جب تیل کم اور گلاس چکنا دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہوگئی ہے مگر خدا کے فضل سے نقصان نہیں ہوا۔نیزمیر صاحب نے بیان کیا کہ لڑکی کے فوت ہونے کے بعد حضرت صاحب بمعہ ام المؤ منین وغیرھا لدھیانہ سے ایک ہفتہ کے لئے امرتسر تشریف لے گئے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت ہماری والدہ کی اولاد میں سب سے بڑی تھی اور وہ ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی تھی اور ۱۸۹۱ء میں فوت ہوئی۔
{ 880} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایکدفعہ اس جگہ جہاں اب نواب صاحب کے شہر والے مکان کا دروازہ ہے اور فخرالدین ملتانی کی دُکان ہوتی تھی۔کچھ زمین خالی پڑی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں ایک کچّا مکان تعمیر کرنا چاہا۔جب راج مزدور لگے تو مرزا امام الدین مع اپنے رفیقوں کے آگیااور گالی گلوچ اور فساد پر آمادہ ہوگیا۔حضرت صاحب کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ تعمیر بند کردو اور فساد نہ کرو۔چنانچہ وہ زمین یونہی پڑی رہی۔کچھ مدّت بعد جب مرزا امام الدین ومرزا نظام الدین ایک مقدمہ پر بٹالہ یا گورداسپور گئے ہوئے تھے تو تمام مہمانوں ، ملازموںاور مدرسہ کے لڑکوںنے مل کر مزدوروں کی طرح سامانِ عمارت لاکراور گارا وغیرہ تیار کر کے اس مکان کو دن بھر میں تیار کردیا۔جب عمالیق واپس آئے۔تو سرپکڑ کر رہ گئے مگر پھر کیا کر سکتے تھے کیونکہ جگہ تو حضرت صاحب کی ہی تھی اور وہ صرف شرارت کر رہے تھے۔یہ وہ مکان تھا جس میں مولوی شیر علی صاحب سالہا سال تک رہتے رہے ہیں اور اب اس میں نواب صاحب کا مکان ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ اسی رنگ میں ایک دفعہ موجودہ مدرسہ احمدیہ کی عمارت کا ایک کمرہ بھی راتوں رات تیار ہوا تھا۔دراصل مرزا امام الدین اور مرزا نظام الدین صاحبان محض سینہ زوری سے حضرت صاحب کے بعض مملکات سے حضور کو محروم کرنا چاہتے تھے اور حضرت صاحب فساد سے بچتے ہوئے رُک جاتے تھے لیکن جب ان لوگوں کی قادیان سے غیر حاضری کی وجہ سے موقعہ ملتا تھا تو جلدی جلدی عمارت کھڑی کر دی جاتی تھی۔
{ 881} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قادیان کے سادات میں ایک صاحب سید محمد علی شاہ صاحب تھے۔وہ مقامی غیر احمدیوں میں اور حکّام میں بھی کچھ اثر ورسوخ رکھتے تھے اور قادیان کے رہنے والے مسلمانوں میں معزز بھی تھے۔ انہوں نے کئی دفعہ بیعت کا ارادہ ظاہر کیامگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت نہ لی۔فرمایا جب آپ نے ہمیں مان لیا اور بیعت کا ارادہ کر لیا تو آپ مریدہی ہیں مگر بیعت ہم اس وجہ سے نہیں لیتے کہ آپ موجودہ حالات میں جماعت سے باہر رہ کر بہتر طور پر خدمت بجا لا سکتے ہیں۔جو جماعت کے آدمی سر انجام نہیں دے سکتے چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ انہوں نے بالآخر بیعت کر لی تھی اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت عباسؓ کو بھی اسی قسم کے حالات میں کچھ عرصہ اپنے اسلام کو مخفی رکھنا پڑا تھا ۔یعنی وہ آپ کے منشاء کے ماتحت ظاہر طور پر ایمان لانے سے رُکے رہے تھے۔
{ 882} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے گھر سے یعنی والدہ ولی اللہ شاہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مرد تو آپ کی تقریر بھی سُنتے ہیںاور درس بھی سنتے ہیں۔لیکن ہم مستورات اس فیض سے محروم ہیں۔ہم پر کچھ مرحمت ہونی چاہئے۔کیونکہ ہم اسی غرض سے آئے ہیں کہ کچھ فیض حاصل کریں۔حضور بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ جو سچے طلب گار ہیں ان کی خدمت کے لئے ہم ہمیشہ ہی تیار ہیں۔ہمارا یہی کام ہے کہ ہم ان کی خدمت کریں ۔اس سے پہلے حضورنے کبھی عورتوں میں تقریر یادرس نہیں فرمایا تھا مگر ان کی التجا اور شوق کو پوراکرنے کے لئے عورتوں کو جمع کرکے روزانہ تقریر شروع فرمادی جو بطور درس تھی ۔پھر چند روز بعد حکم فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی نورالدین صاحب اور دیگر بزرگ بھی عورتوں میں درس دیا کریں۔ چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب درس کے لئے بیٹھے اور سب عورتیںجمع ہوئیں ۔چونکہ ان کی طبیعت بڑی آزاد اور بے دھڑک تھی ۔ تقریر کے شروع میں فرمانے لگے۔کہ اے مستورات! افسوس ہے کہ تم میں سے کوئی ایسی سعیدروح والی عورت نہ تھی جوحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو تقریر یا درس کے لئے توجہ دلاتی اور تحریک کرتی۔تمہیں شرم کرنی چاہئے۔اب شاہ صاحب کی صالحہ بیوی ایسی آئی ہیںجس نے اس کار خیر کے لئے حضور کو توجہ دلائی اور تقریر کرنے پر آمادہ کیا ۔تمہیں ان کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے۔نیز حضرت خلیفہ اولؓ بھی اپنی باری سے تقریر اور درس فرمانے لگے۔اس وقت سے مستورات میں مستقل طور پر تقریر اور درس کا سلسلہ جاری ہوگیا۔
{ 883} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے حرم یعنی اماں جی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود ؑ آخری دفعہ لاہور تشریف لے جانے لگے اور اسی سفر میں آپ کی وفات ہوئی تو مَیں دیکھتی تھی کہ آپ اس موقعہ پر قادیان سے باہر جاتے ہوئے بہت متأمّل تھے اور فرماتے بھی تھے کہ میرا اس سفر پر جاتے ہوئے دل رُکتا ہے۔مگر چونکہ حضرت ام المومنین اور بچوں کی خواہش تھی اس لئے آپ تیار ہوگئے۔پھر جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ نے اپنے کمرہ کو جو حجرہ کہلاتا تھا خود اپنے ہاتھ سے بند کیا اور جب آپ اس کے دروازہ کو قفل لگا رہے تھے۔تو مَیں نے سُنا کہ آپ بغیر کسی کو مخاطب کرنے کے یہ الفاظ فرما رہے تھے کہ اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے۔جس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ اسی سفر کی حالت میں آپ کی وفات ہوجائیگی۔
خاکسارعرض کرتا ہے کہ اور بھی کئی قرائن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب خدائی الہامات کی بنا پر یقین رکھتے تھے کہ آپ کی وفات کا وقت آپہنچا ہے۔اور یہ کہ اسی سفر لاہور میں آپ کو سفر آخرت پیش آجائے گا۔مگر باوجود اس کے جس تسلی اور اطمینان کے ساتھ آپ نے آخروقت تک اپنے کام کو جاری رکھاوہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ اور یقینا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اپنے منجانب اللہ ہونے پر کامل یقین تھا اور آپ کے لئے آخرت کی زندگی ایسی ہی یقینی تھی جیسی کہ یہ زندگی ہے۔ورنہ کوئی دوسرا ہوتا تو اس موقعہ پر ہاتھ پائوں ڈھیلے ہوجاتے۔
{ 884} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے تین مہینے کی رخصت لے کر معہ اہل واطفال قادیان میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔ان دنوں میں ایسا اتفاق ہوا کہ والدہ ولی اللہ شاہ کے دانت میں سخت شدت کا درد ہوگیا۔جس سے اُن کو نہ رات کو نیند آتی تھی اور نہ دن کو۔ڈاکٹری علاج بھی کیامگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی دوا کی مگر آرام نہ آیا۔حضرت ام المومنین نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی کے دانت میں سخت درد ہے اور آرام نہیں آتا۔حضرت نے فرمایاکہ ان کو یہاں بُلائیں کہ وہ مجھے آکر بتائیںکہ انہیں کہاں تکلیف ہے ۔چنانچہ انہوں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ مجھے اس دانت میں سخت تکلیف ہے۔ڈاکٹری اور مولوی صاحب کی بہت دوائیں استعمال کی ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔آپ نے فرمایاکہ آپ ذرا ٹھہریں ۔چنانچہ حضور نے وضو کیا اور فرمانے لگے کہ مَیں آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں۔آپ کو اللہ تعالیٰ آرام دے گا۔گھبرائیں نہیں۔حضور نے دو نفل پڑھے اور وہ خاموش بیٹھی رہیں۔ اتنے میں انہیں محسوس ہوا کہ جس دانت میں درد ہے اس دانت کے نیچے سے ایک شعلہ قدرے دھوئیں والادانت کی جڑھ سے نکل کر آسمان کی طرف جا رہا ہے اور ساتھ ہی درد کم ہوتا جاتا ہے۔چنانچہ جب وہ شعلہ آسمان تک جاکر نظر سے غائب ہوگیا تو تھوڑی دیر بعد حضور نے سلام پھیرا اور وہ درد فوراً رفع ہو گیا۔ حضور نے فرمایا۔کیوں جی !اب آپ کا کیا حال ہے ؟انہوں نے عرض کی۔حضور کی دُعا سے آرام ہوگیا ہے۔اور ان کو بڑی خوشی ہوئی کہ خُدا نے ان کو اس عذاب سے بچالیا۔
{ 885} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹر عبداللہ صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ مَیں نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کبھی حضور نے فرشتے بھی دیکھے ہیں؟ اس وقت حضور بعد نماز مغرب مسجد مبارک کی چھت پر شہ نشین کی بائیں طرف کے مینار کے قریب بیٹھے تھے۔فرمایا کہ اس مینار کے سامنے دو فرشتے میرے سامنے آئے۔جن کے پاس دو شیریں روٹیاں تھیں اور وہ روٹیاں انہوں نے مجھے دیں اور کہا کہ ایک تمہارے لئے ہے اور دوسری تمہارے مریدوں کے لئے ہے۔
خاکسار عر ض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ رئو یا چھپ چکا ہے۔مگر الفاظ میں کچھ اختلاف ہے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب اس وقت جو جنوری ۱۹۳۹ء ہے وفات پاچکے ہیں اور جن ڈاکٹر عبداللہ صاحب کا اس روایت میں ذکر ہے اس سے شیخ محمد عبداللہ نو مسلم مراد ہیں۔جو افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے بیعت خلافت سے منحرف ہیں۔
{ 886} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمداسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عورتوں اور لڑکیوں کے لئے کسی قدر زیور اور رنگین کپڑے اور ہاتھوں میں مہندی پسند فرماتے تھے اور آجکل جو عورتوں کا مردانہ فیشن دنیا میں مروّج ہوتا جا رہا ہے وہ ان دنوں میں بہت کم تھا۔ اور حضور کو پسند نہ تھا۔
{ 887} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی نے ایک پارسل نمک لگی ہوئی یعنی محفوظ کی ہوئی مچھلی کا بھیجا۔وہ مچھلی اس علاقہ میں نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی تھی۔حضرت صاحب نے بہت شوق سے وہ پارسل کھلوایا۔مچھلی کا کھلنا تھاکہ تمام مکان بدبو سے بھر گیا۔(دراصل مچھلی سڑی ہوئی نہ تھی۔بلکہ اس میں ایسی ہی بساندھ ہوتی ہے۔وہاں کے لوگ اُسے بھون کر کھاتے ہیں اور واقعی نہایت لذیذہوتی ہے۔مگر بساندھ اور بدبو برابر رہتی ہے۔)حضرت صاحب نے فرمایا۔کہ اسے لے جائو اور گائوں سے دور لے جا کر ڈھاب کے کنارے دفن کردو۔اس میں سخت بدبو ہے۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت صاحب کو بدبو سے بہت نفرت تھی۔
{ 888} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب لوگ حضور سے ملنے قادیان آتے یا جلسہ اور عیدین وغیرہ کے موقعوں پر آتے تو بہت دیر تک ٹھہرا کرتے تھے۔ آج کل لوگ ان موقعوں پر بہت کم آتے ہیں اور آتے ہیں تو بہت کم ٹھہرتے ہیں۔ ان ایام میں بعض لوگ پیدل بھی اپنے وطن سے آتے تھے۔ ایک شخص وریام نامی تھا جو جہلم سے پیدل آتا تھا۔ اور ایک مولوی جمال الدین صاحب سید والہ ضلع شیخوپورہ کے تھے جو بمعہ ایک قافلہ کے پیدل کوچ کرتے ہوئے قادیان آیا کرتے تھے۔ حضور علیہ السلام کا بھی قاعدہ تھا کہ کثرت سے ملتے رہتے اور قادیان میں بار بار آنے کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔
{ 889} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں الہ دین فلاسفر اور پھر اس کے بعد مولوی یار محمد صاحب کو ایک زمانہ میں قبروں کے کپڑے اتار لینے کی دھت ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ فلاسفر نے ان کو بیچ کر کچھ روپیہ بھی جمع کر لیا۔ ان لوگوں کاخیال تھا کہ اس طرح ہم بدعت اور شرک کو مٹاتے ہیں۔ حضرت صاحب نے جب سنا تو اس کام کو ناجائز فرمایا۔ تب یہ لوگ باز آئے اور وہ روپیہ اشاعت اسلام میں دے دیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف ناجائز کاموں سے روکا ہے بلکہ جائز کاموں کے لئے ناجائز وسائل کے اختیار کرنے سے بھی روکا ہے۔
{ 890} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الٰہ دین عرف فلاسفرکو بعض لوگوں نے کسی بات پر مارا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علم ہواتو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر وہ عدالت میں جائے اور تم وہاں اپنے قصور کا اقرار کرلو تو عدالت تم کو سزا دیگی اور اگر جھوٹ بولو اور انکار کردو۔تو پھر تمہارا میرے پاس ٹھکانا نہیں۔غرض آپ کی ناراضگی سے ڈر کر اُن لوگوں نے اسی وقت فلاسفر سے معافی مانگی اور اس کو دودھ پلایا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۴۳۴ میں بھی ہو چکا ہے اور مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فلاسفر صاحب منہ پھٹ تھے۔اور جو دل میں آتا تھا وہ کہہ دیتے تھے اور مذہبی بزرگوں کے احترام کا خیال نہیں رکھتے تھے۔چنانچہ کسی ایسی ہی حرکت پر بعض لوگ انہیں ماربیٹھے تھے مگر حضرت مسیح موعود نے اسے پسند نہیں فرمایا۔آجکل فلاسفر صاحب اسی قسم کی حرکات کی وجہ سے جماعت سے خارج ہوچکے ہیں۔
{ 891} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے پہلی مرتبہ دسمبر۱۹۰۲ء میں بموقعہ جلسہ سالانہ حضرت احمد علیہ السلام کو دیکھا۔حضرت سیّد عبداللطیف صاحب شہید کابل بھی ان ایام میں قادیان میں مقیم تھے۔حضرت اقدس ان سے فارسی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
{ 892} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی مرتبہ قادیان آیاتوحضرت اقدس ان ایام میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھا کرتے تھے اورمسجد مبارک میں جو گھر کی طرف کو ایک کھڑکی کی طرز کا دروازہ ہے اس کے قریب دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ بحالت نماز ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے اور اکثر اوقات نماز مغرب سے عشاء تک مسجد کے اندر احباب میں جلوہ افروز ہو کر مختلف مسائل پر گفتگو فرماتے تھے۔
{ 893} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک زمانہ میں حضرت اقدس ؑ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ اس کوٹھڑی میں نماز کے لئے کھڑے ہوا کرتے تھے جو مسجد مبارک میں بجانب مغرب تھی۔مگر ۱۹۰۷ء میں جب مسجد مبارک وسیع کی گئی۔تو وہ کوٹھڑی منہدم کردی گئی۔اس کوٹھری کے اندر حضرت صاحب کے کھڑے ہونے کی وجہ اغلباً یہ تھی کہ قاضی یار محمد صاحب حضرت اقدس کو نماز میں تکلیف دیتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قاضی یار محمد صاحب بہت مخلص آدمی تھے۔مگر ان کے دماغ میں کچھ خلل تھا۔جس کی وجہ سے ایک زمانہ میں ان کا یہ طریق ہوگیا تھا کہ حضرت صاحب کے جسم کو ٹٹولنے لگ جاتے تھے اور تکلیف اور پریشانی کا باعث ہوتے تھے۔
{ 894} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام نکاح کے معاملہ میں قوم اور کفو کو ترجیح دیتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے۔کہ لوگوں نے بات کو بڑھالیا ہے مگر اس میں شبہ نہیں کہ عام حالات میں اپنی قوم کے اندر اپنے کفو میں شادی کرنا کئی لحاظ سے اچھا ہوتا ہے۔مگر یہ خیال کرنا کہ کسی حالت میں بھی قوم سے باہر رشتہ نہیں ہونا چاہئے غلطی ہے۔اور کفو سے مراد اپنے تمدّن اور حیثیت کے مناسب حال لوگ ہیں۔خواہ وہ اپنی قوم میں سے ہوں یا غیر قوم سے۔
{ 895} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اول اول جب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو ہمارے پاس بار بار آنا چاہئے تاکہ ہمارا فیضان قلبی اور صحبت کے اثر کا پَر تَو آپ پر پڑ کر آپ کی روحانی ترقیات ہوں ۔مَیں نے عرض کی کہ حضور ملازمت میں رخصت بار بار نہیں ملتی۔ فرمایا۔ایسے حالات میں آپ بذریعہ خطوط بار بار یاددہانی کراتے رہا کریں۔تاکہ دُعائوں کے ذریعہ توجہ جاری رہے۔کیونکہ فیضانِ الٰہی کا اجرا قلب پر صحبت صالحین کے تکرار یا بذریعہ خطوط دُعا کی یاد دہانی پر منحصر ہے۔
{ 896} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیاکہ میری بڑی لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قہوہ پی رہے تھے کہ حضور نے مجھ کو اپنا بچا ہوا قہوہ دیا۔اور فرمایا۔زینب یہ پی لو۔مَیں نے عرض کی۔حضور یہ گرم ہے باور مجھ کو ہمیشہ اس سے تکلیف ہوجاتی ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ ہمارا بچا ہوا قہوہ ہے ،تم پی لو۔کچھ نقصان نہیں ہوگا۔مَیں نے پی لیا۔اور اس کے بعد پھر کبھی مجھے قہوہ سے تکلیف نہیں ہوئی۔
{ 897} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ عربی کی دو لغت کی کتابیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش نظر سب سے زیادہ رہتی تھیں۔ چھوٹی لغتوں میں سے صراح تھی اور بڑی لغات میں سے لسان العرب۔ آپ یہی دو لغتیں زیادہ دیکھتے تھے۔گوکبھی کبھی قاموس بھی دیکھ لیا کرتے تھے۔اور آپ لسان العرب کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے۔
{ 898} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دن حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی مہترانی ایک حصّہ مکان میں صفائی کرکے آئی۔حضرت صاحب اس وقت دوسرے حصّہ میں تھے۔آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے صفائی تو کی مگر اس صحن میں جو نجاست پڑی تھی وہ نہیں اُٹھائی۔اس مہترانی نے کہا کہ جی مَیں تو سب کچھ صاف کر آئی ہوں۔وہاں کوئی نجاست نہیں ہے۔آپ اُٹھکر اس کے ساتھ اس حصّہ مکان میں آئے۔اور دکھا کر کہا کہ یہ کیا پڑا ہے؟اورحضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا تھا کہ اس عورت نے اس مکان میں جھاڑو تو دیامگر نجاست نہیں اُٹھائی اور یونہی چلی آئی ہے۔ورنہ مجھے بھی خبر نہ تھی کہ وہاں نجاست پڑی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں ظاہر فرمادیتا ہے۔جس سے تعلقات کی بے تکلفی اور اپنا ہٹ کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
{ 899} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نمار ظہر یا عصر شروع ہوچکی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درمیان میں سے نمازتوڑ کر کھڑکی کے راستہ گھر میں تشریف لے گئے اور پھر وضو کرکے نماز میں آملے۔اورجو حصہ نماز کا رہ گیا تھاوہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد پورا کیا۔یہ معلوم نہیں ۔کہ حضور بھول کر بے وضوآگئے تھے یا رفع حاجت کے لئے گئے تھے۔
{ 900} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی تدریجی رنگ میں آہستہ آہستہ مقدر ہے جیسا کہ قرآن شریف میں بھی آتا ہے کہ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْأَہٗ (الفتح :۳۰) مگرفرماتے تھے کہ ہماری جماعت کی ترقی دائمی ہوگی ۔اور اس کے بعد قیامت سے قبل والے فساد کے سوا کوئی عالمگیر فساد نہیں ہوگا۔یہ بھی فرماتے تھے کہ خدا ہماری جماعت کو اتنی ترقی دے گاکہ دوسرے لوگ ذلیل اچھوت لوگوں کی طرح رہ جائینگے۔
{ 901} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مَیں اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ایک یکّہ میں بٹالہ سے دارالامان آئے۔راستہ میں مَیں نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب! عام طور پر مشہور ہے کہ جس کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی رویت نصیب ہوجاوے ۔اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے ۔مَیں نہیں جانتا کہ یہ بات کہاںتک درست ہے۔لیکن ہم لوگ جو خدا کے رسول کوہاتھ لگاتے اور بوسہ دیتے اور مٹھیاں بھرتے ہیں حتیّٰ کہ مَیں تو اس قدر بے ادب ہوں کہ جب نماز میں حضرت صاحب کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں تو اس کی پروا نہیں کرتا کہ نماز ٹوٹتی ہے یا نہیں۔مونڈھا کُہنی جو بھی آپ کے ساتھ لگ سکے لگاتاہوں۔کیا دوزخ کی آگ ہم کو بھی چھوئے گی۔ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ بھائی صاحب بات تو ٹھیک ہے لیکن تابعداری شرط ہے۔اللہ! اللہ۔ یہ اس وقت کی حالت ہے۔اور اب ڈاکٹر صاحب کی یہ حالت ہے کہ حضرت صاحب کے جگر گوشہ اور خلیفہ ٔ وقت سے منحرف ہورہے ہیں۔
{ 902} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جولائی ۱۹۰۴ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور کی کچہری سے باہر تشریف لائے اور خاکسار سے کہا کہ انتظام کرو کہ نماز پڑھ لیں ۔خاکسار نے ایک دری نہایت شوق سے اپنی چادر پر بغرض جانماز ڈال دی۔اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ظہر و عصر ادا کی۔اس وقت غالباً ہم بیس احمدی مقتدی تھے۔نماز سے فارغ ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ دری حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تھی۔اور انہوں نے وہ لے لی۔
{ 903} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام نماز جماعت میں ہمیشہ پہلی صف کے دائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آجکل موجودہ مسجد مبارک کی دوسری صف شروع ہوتی ہے۔یعنی بیت الفکر کی کوٹھری کے ساتھ ہی مغربی طرف۔امام اگلے حجرہ میں کھڑا ہوتاتھا۔پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص پر جنون کا غلبہ ہوا۔اور وہ حضرت صاحب کے پاس کھڑا ہونے لگااور نماز میں آپ کو تکلیف دینے لگا۔اور اگر کبھی اس کو پچھلی صف میں جگہ ملتی تو ہر سجدہ میں وہ صفیں پھلانگ کر حضور کے پاس آتا اور تکلیف دیتا اور قبل اس کے کہ امام سجدہ سے سر اٹھائے وہ اپنی جگہ پر واپس چلا جاتا۔اس تکلیف سے تنگ آکر حضور نے امام کے پاس حجرہ میں کھڑا ہونا شروع کر دیامگر وہ بھلا مانس حتی المقدور وہاں بھی پہنچ جایا کرتا اور ستایا کرتا تھا۔مگر پھر بھی وہاں نسبتاً امن تھا۔اس کے بعد آپ وہیں نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ مسجد کی توسیع ہوگئی۔یہاں بھی آپ دوسرے مقتدیوں سے آگے امام کے پاس ہی کھڑے ہوتے رہے۔مسجد اقصیٰ میںجمعہ اور عیدین کے موقعہ پر آپ صف اول میں عین امام کے پیچھے کھڑے ہوا کرتے تھے۔وہ معذور شخص جو ویسے مخلص تھا، اپنے خیال میں اظہار محبت کرتا اور جسم پر نامناسب طور پر ہاتھ پھیرکر تبرک حاصل کرتا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کا ذکر روایت۸۹۳ میں بھی ہوچکا ہے۔
{ 904} بسم اللہ الر حمن الرحیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ قدیم مسجد مبارک کا نقشہ یہ ہے۔


اس کے تین حصّے تھے۔ایک چھوٹا مغربی حجرہ امام کے لئے تھا۔جس میں دو کھٹرکیاں تھیں۔درمیانی حصّہ جس میں دو صفیں اور فی صف چھ آدمی ہوتے تھے۔اسی میں بیت الفکر کی کھڑکیاںکھلتی تھی اور اس کے مقابل پر جنوبی دیوار میں ایک کھڑکی روشنی کے لئے کھلتی تھی۔تیسرا باہر کا مشرقی حصّہ اس میں عموماً دو اور بعض اوقا ت تین صفیں اور فی صف پانچ آدمی ہوا کرتے تھے۔اسی میں نیچے سیڑھیاں آتی ہیں۔اور ایک دروازہ اس کا غسلخانہ میں تھا۔جو اب چھوٹے کمرہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اسی تیسرے حصّہ میں ایک دروازہ شمالی دیوار میں حضرت صاحب کے گھر میں کُھلتا تھا۔غرضیکہ اس زمانہ میں مسجد مبارک میں امام سمیت تئیس آدمیوں کی بافراغت گنجائش تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جو کمرہ بطور غسلخانہ دکھایا گیا ہے اس میں حضرت صاحب کے کُرتہ پر سُرخی کے چھینٹے پڑنے کا نشان ظاہر ہوا تھا۔
{ 905} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ قلمی تحریر دیکھی ہے۔جس میں حضور نے اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ کی بابت لکھا تھا کہ وہ انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے۔اس زمانہ کی جماعت کپورتھلہ میں منشی محمد خاں صاحب مرحوم۔منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب نمایاں خصوصیت رکھتے تھے۔باقیوں کا علم اللہ تعالیٰ کوہے۔
{ 906} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ علاج کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طریق تھا کہ کبھی ایک قسم کا علاج نہ کرتے تھے۔بلکہ ایک ہی بیماری میں انگریزی دوا بھی دیتے رہتے تھے اور ساتھ ساتھ یونانی بھی دیتے جاتے تھے۔پھر جو کوئی شخص مفید بات کہدے اس پر بھی عمل کرتے تھے۔اور اگر کسی کو خواب میں کچھ معلوم ہوا تو اس پر بھی عمل فرماتے تھے۔پھر ساتھ ساتھ دُعا بھی کرتے تھے۔اور ایک ہی وقت میں ڈاکٹروں اور حکیموں سے مشورہ بھی لیتے تھے اور طب کی کتاب دیکھ کر بھی علاج میںمدد لیتے تھے۔غرض علاج کو ایک عجیب رنگ کا مرکب بنا دیتے تھے اور اصل بھروسہ آپ کا خدا پر ہوتا تھا۔
{ 907} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ موسم گرما میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک کے بالائی حصّہ میں بعد نماز مغرب تشریف رکھتے تو عموماً مغربی



شاہ نشین کے نشان (X) پر بیٹھا کرتے تھے۔مولوی عبدالکریم صاحب عام طور پر نشان (ا) پر اور مولوی نورالدین صاحب نشان (ب) کی جگہ پر ہوتے تھے۔اور حضرت مسیح موعود کی بائیں طرف دوسرے خاص احباب بیٹھتے تھے۔ باقی سب نیچے یا جنوبی شہ نشین پر بیٹھتے تھے۔اس نقشہ کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے مناروں کے نشان ہیںجن میں ایک تو توسیع کے وقت اُڑ گیا تھا اور دو ساتھ کی دیوار میں جذب ہوگئے ہیں اور ایک جو جنوب مشرقی کونے میں ہے ابھی تک اسی طرح قائم ہے۔
{ 908} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ حاجی محمد اسمٰعیل صاحب ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر حال محلہ دارالبرکات قادیان نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۵؍ ستمبر۱۹۳۸ء کو شام کے وقت مَیں حضرت میاں محمد یوسف صاحب مردان کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔چونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے ہیں۔مَیں نے دریافت کیا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ کھانا کھانے کا کتنی دفعہ شرف حاصل ہوا۔فرمایا۔دو دفعہ مختلف موقعوں پر موقعہ ملا۔پہلی دفعہ تو گول کمرہ میں اور دوسری بار بٹالہ کے باغ میں جو کچہریوں کے متصل ہے۔جہاں حضرت صاحب کسی گواہی کے لئے تشریف لے گئے تھے۔اس موقعہ پر چالیس پچاس دوست حضور کے ہمرکاب تھے۔کھانا دارالامان سے پک کر آگیا تھا۔فرش بچھا کر دو قطاروں میں دوست بیٹھ گئے۔ مَیں دوسری قطارمیں بالکل حضرت صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔اتنے میں ایک ہندو وکیل صاحب آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کے الہامات میں جو ’’دافع البلائ‘‘ میں شائع ہوئے ہیں ایک الہام میں شرک کا رنگ ہے اور وہ الہام ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ‘‘ ہے ۔ حضرت صاحب نے اس کے جواب میں ابھی کوئی کلمہ اپنی زبان مبارک سے نہ فرمایا تھا کہ مَیں نے فوراً کہا کہ وہاں ایک تشریحی نوٹ بھی تو ہے۔وکیل نے انکار کیا کہ وہاں کوئی نوٹ نہیں۔ مَیں نے کہا کہ کتاب لائو مَیں دکھا دیتا ہوں۔اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب کہاں ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت میرے پاس حضرت صاحب کی سب کتب موجود تھیں۔جن کی مَیں نے خوبصورت جلدیں بندھوائی ہوئی تھیں اور وہ کتب مَیں مشہورمباحثہ مُد کے سلسلہ میں اپنے ہمراہ لے گیا تھا۔کیونکہ مباحثہ ہماری تحریک پر ہی ہوا تھا۔مَیں نے فوراً ہاتھ صاف کرتے ہوئے کتاب دافع البلاء کی جلد نکالی ۔قدرت خداوندی تھی کہ جو نہی میں نے کتاب کھولی تو پہلے وہی صفحہ نکلا جس میں یہ الہام اور تشریحی نوٹ درج تھا۔مَیں نے وہ کتاب وکیل صاحب کو پڑھنے کے لئے دی۔یہ نوٹ پڑھکر وکیل صاحب کو تو بہت ندامت ہوئی۔لیکن مجھے اب تک اپنی اس جسارت پر تعجب آتا ہے کہ مَیںحضور کی موجودگی میں اس طرح بول پڑا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سارے عرصہ میں خاموش رہے۔یہ واقعہ کھانے کے درمیان میںہوا تھا۔اس وقت حضرت صاحب کے چہرہ پر خوشی نمایاں تھی۔حضور نے اپنے سامنے والی قیمہ کی رکا بی مجھے عنایت کرکے فرمایا کہ آپ اس کو کھالیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس الہام میں ’’ بمنزلۃ ولد‘‘کہا گیا ہے نہ کہ’’ ولد‘‘ جس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اسی طرح محبت کرتا ہے اور اسی طرح آپ کی حفاظت فرماتا ہے جس طرح ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ کرتا ہے۔
{ 909} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار لدھیانہ محلہ اقبال گنج میں حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس بیٹھ کر اپنے محلہ صوفیاں میں واپس گھر آیا۔ اور پھر کسی کام کے لئے جو بازار گیاتو حضور علیہ السلام چوڑا بازار میں صرف اکیلے ہی بڑی سادگی سے پھر رہے تھے۔اور اس وقت صرف واسکٹ پہنی ہوئی تھی ۔کوٹ نہ تھا۔ واللہ اعلم کس خیا ل میںپھر رہے تھے۔ورنہ حضور کو اکیلے پھرتے لدھیانہ میں نہ دیکھا تھا۔اور خاکسار بھی اسی خیال سے سامنے نہ ہوا کہ شاید کوئی بھید ہوگا۔پھر اسی لدھیانہ میں خاکسار نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام دہلی سے واپس لدھیانہ تشریف لائے تو حضور کی زیارت کے لئے اس قدر اسٹیشن پر ہجوم ہوگیا تھا کہ بڑے بڑے معزز لوگ آدمیوں کی کثرت اور دھکا پیل سے زمین پر گر گئے تھے اور پولیس والے بھی عاجز آگئے تھے ۔گردوغبار آسمان کو جارہا تھااور حضور اقدس علیہ السلام نے بھی بڑی محبت سے لوگوں کو فرمایا :۔کہ ہم تو یہاں چوبیس گھنٹے ٹھہریں گے، ملنے والے وہاں قیامگاہ پر آجائیں۔ایک وقت اکیلے یہاں پھرتے دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ اس قدر ہجوم آپ کی زیارت کے لئے جمع ہوگیا تھا۔
اس مؤخر الذکر سفر میں حضور علیہ السلام نے لدھیانہ میں ایک لیکچر دیا۔جس میں ہندو،عیسائی، مسلمان اور بڑے بڑے معزز لوگ موجود تھے۔تین گھنٹے حضور اقدس نے تقریر فرمائی۔حالانکہ بوجہ سفر دہلی کچھ طبیعت بھی درست نہ تھی۔رمضان کا مہینہ تھا۔اس لئے حضور اقدس نے بوجہ سفر روزہ نہ رکھا تھا۔اب حضور اقدس نے تین گھنٹہ تقریر جو فرمائی تو طبیعت پر ضعف سا طاری ہوا۔ مولوی محمد احسن صاحب نے اپنے ہاتھ سے دودھ پلایا۔جس پر ناواقف مسلمانوں نے اعتراضاً کہا کہ مرزا رمضان میں دودھ پیتا ہے اور شور کرنا چاہا۔لیکن چونکہ پولیس کا انتظام اچھا تھا۔فوراً یہ شور کرنے والے مسلمان وہاں سے نکال دئیے گئے۔اس موقعہ پر یہاں پر تین تقاریر ہوئیں۔اوّل مولوی سیّدمحمداحسن صاحب کی ۔ دوسرے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی۔تیسرے حضور اقدس علیہ السلام کی۔ پھر یہاں سے حضور امرتسر تشریف لے گئے۔وہاں سُنا ہے کہ مخالفوں کی طرف سے سنگباری بھی ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بازار میں اکیلے پھرنے کی بات تو خیر ہوئی مگر مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ حضور بازار کے اند رصرف صدری میں پھر رہے تھے۔ اور جسم پر کوٹ نہیں تھا کیونکہ حضرت صاحب کا طریق تھا کہ گھر سے باہر ہمیشہ کوٹ پہن کر نکلتے تھے ۔ پس اگر میر صاحب کو کوئی غلطی نہیں لگی تو اس وقت کوئی خاص بات ہوگی یا جلدی میں کسی کام کی وجہ سے نکل آئے ہوں گے یا کوٹ کا خیال نہیں آیا ہوگا۔
{ 910} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبد الستا ر شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی ز ینب بیگم نے بیان کیا۔کہ مَیں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میںرہی ہوں۔گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔بسااوقات ایسا ہوتاکہ نصف رات یا اس سے زیادہ مجھ کو پنکھا ہلاتے گذر جاتی تھی۔مجھ کواس اثنا میں کسی قسم کی تھکان و تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک مجھے ساری رات خدمت کرنے کا موقع ملا۔پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند، نہ غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوئی بلکہ خوشی اور سرورپیدا ہوتا تھا۔اسی طرح جب مبارک احمد صاحب بیمار ہوئے تو مجھ کو ان کی خدمت کے لئے بھی اسی طرح کئی راتیں گذارنی پڑیں۔تو حضور نے فرمایا کہ ز ینب اس قدر خدمت کرتی ہے کہ ہمیں اس سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔اور آپ کئی دفعہ اپنا تبرک مجھے دیا کرتے تھے۔
{ 911} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے درس میں جب آیت وَمَااُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ۔اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ (یوسف:۵۴) آیا کرتی تو آپ کہا کرتے تھے کہ یہ عزیز مصر کی بیوی کا قول ہے ۔ایک دفعہ حضرت صاحب کے سامنے بھی یہ بات کسی دوست نے پیش کر دی۔کہ مولوی صاحب اسے اِمْرَأَۃُ الْعَزِیْز کا قول کہتے ہیں۔حضرت صاحب فرمانے لگے۔کیا کسی کا فریا بد کار عورت کے منہ سے بھی ایسی معرفت کی بات نکل سکتی ہے۔اس فقرہ کا تو لفظ لفظ کمال معرفت پر دلالت کرتا ہے۔یہ توسوائے نبی کے کسی کا کلام نہیں ہوسکتا۔یہ عجز اور اعتراف کمزوری کا اور اللہ تعا لیٰ پر توکل اور اس کی صفات کا ذکریہ انبیاء ہی کی شان ہے۔آیت کا مضمون ہی بتا رہا ہے۔کہ یوسف کے سوا اور کوئی اسے نہیں کہہ سکتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۲۰۴ میں بھی آچکا ہے۔
{ 912} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ کسی تکلیف کے علاج کے لئے اس عاجز کو یہ حکم دیا۔کہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب لاہوری ساکن بھاٹی دروازہ سے (جومدّت ہوئے فوت ہوچکے ہیں)نسخہ لکھوا کر لاؤ۔اور اپناحال بھی لکھدیا۔اور بتابھی دیا۔چنانچہ مَیں ڈاکٹر صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہؤا۔اوران سے نسخہ لاکر حضرت صاحب کو دیا۔ڈاکٹر صاحب سے معلوم ہؤاکہ حضرت صاحب ان سے پہلے بھی علاج کرایا کرتے تھے اور مشورہ بھی لیا کرتے تھے۔
{ 913} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹرمیر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب پنجاب میں طاعون کا دور دورہ ہوا اور معلوم ہوا کہ چوہوں سے یہ بیماری انسانوں میں پہنچتی ہے ۔تو حضرت صاحب نے بلیوں کا خیال رکھنا شروع کر دیا بلکہ بعض اوقات اپنے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ بلیوں کے سامنے رکھدیا کرتے تھے۔تاکہ وہ گھر میں ہل جائیں۔چنانچہ اس زمانہ سے اب تک دارمسیح موعود میں بہت سی بلیاںرہتی ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک زمانہ میں تو ہمارے گھر میں بلیوں کی اس قدر کثرت ہوگئی تھی کہ وہ تکلیف کا باعث ہونے لگی تھیں۔جس پربعض بلوں کو پنجروں میں بند کروا کے دوسری جگہ بھجوانا پڑا تھا۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت سے پتہ لگتا ہے کہ باوجود خدائی وعدہ کے کہ آپ کی چاردیواری میں کوئی شخص طاعون سے نہیں مرے گا۔آپ کو خدا کے پیدا کئے ہوئے اسباب کا کتنا خیال رہتا تھا۔
{ 914} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دفعہ حضور سے عرض کیا کہ مجھے کھانا کھاتے ہی بیت الخلاء جانے کی حاجت ہونے لگتی ہے۔حضورفرمانے لگے۔ ایسے معدہ کو حکیموں نے بخیل معدہ کہا ہے۔یعنی جب تک اس کے اندر کچھ نہ پڑے تب تک وہ پہلی غذا نکالنے کو تیار نہیں ہوتا۔
{ 915} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ہم نے ایک اہم امر کے لئے دیوان حافظ سے بھی فال لی تھی۔لیکن اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ کس امر کے لئے فال لی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ فال بھی ایک قسم کی قرعہ اندازی ہے اور اگر اس کے ساتھ دعا شامل ہو تو وہ ایک رنگ کا استخارہ بھی ہو جاتی ہے۔مگر مَیں نے سُنا ہے کہ حضرت صاحب قرآن شریف سے فال لینے کو ناپسند فرماتے تھے۔
{ 916} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضر ت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں ایک چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔اوردوسری دو چارپائیوں پر مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے ۔اور ایک بوری نیچے پڑی ہوئی تھی۔اس پر مَیں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا۔میرے پاس مولوی عبدالستارخان صاحب بزرگ بھی تھے۔حضرت صاحب کھڑے تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا۔کہ ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں۔مجھے شرم محسوس ہوئی۔کہ مَیں حضور کے ساتھ برابر ہوکر بیٹھوں۔حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آجائیں۔مَیں نے عرض کی کہ حضور مَیں یہیں اچھا ہوں۔تیسری بار حضورنے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چارپارئی پر آکر بیٹھ جائیں۔کیونکہ آپ سیّد ہیں۔اور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے۔حضور کے اس ارشاد سے مجھے بہت فرحت ہوئی۔اور میں اپنے سیّد ہونے کے متعلق حق ا لیقین تک پہنچنے کے لئے جو آسمانی شہادت چاہتا تھاوہ مجھے مل گئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو تو اپنے سیّد ہونے کا ثبوت ملنے پر فرحت ہوئی اور مجھے اس بات سے فرحت ہوئی ہے کہ چودہ سو سال گذر جانے پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ کی اولاد کا کس قدر پاس تھا۔اور یہ پاس عام توہمانہ رنگ میں نہیں تھا۔بلکہ بصیرت اور محبت پر مبنی تھا۔
{ 917} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری لڑکی ز ینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضور علیہ السلام سیالکو ٹ تشریف لے گئے تھے تو مَیں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا۔مَیں شرم کے مارے آپ سے عرض نہ کر سکتی تھی ۔مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میری بیماری سے کسی طرح حضور کو علم ہوجائے تاکہ میرے لئے حضور دُعا فرمائیں۔مَیں حضور کی خدمت کر رہی تھی۔کہ حضور نے اپنے انکشاف اور صفائی قلب سے خود معلوم کرکے فرمایا۔زینب تم کو مراق کی بیماری ہے۔ہم دُعا کرینگے۔تم کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو۔مگر مَیں ایک قدم بھی پیدل نہ چل سکتی تھی ۔اگر دو چار قدم چلتی بھی تو دورہ مراق وخفقان بہت تیز ہوجاتا تھا۔مَیں نے اپنے مکان پر جانے کے لئے جو حضور کے مکان سے قریباً ایک میل دور تھا۔ٹانگے کی تلاش کی مگر نہ ملا۔اس لئے مجبوراًمجھ کو پیدل جانا پڑا۔مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی مگر خدا کی قدرت ،جوں جوں مَیں پیدل چلتی تھی آرام معلوم ہوتا تھا۔حتیّٰ کہ دوسرے روز پھر مَیں پیدل حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق جاتا رہا اور بالکل آرام آگیا۔
{ 918} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ عرصہ کی بات ہے کہ مَیں لاہور میں خوا جہ کمال الدین صاحب کے مکان میں صبح کے وقت بیٹھا قرآن مجید کی تلاوت کر رہا تھا اور ایک چارپائی پر فخر الدین ملتانی بھی بیٹھا ہوا تلاوت کر رہا تھا۔اتنے میں مجھے فخر الدین ملتانی نے کہا کہ دیکھو میر صاحب!مولوی محمد حسین بٹالوی جا رہا ہے۔مَیں نے پوچھا کہاں ؟تب اس نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھو۔مَیں ننگے پائوں اور ننگے سر جس طرح بیٹھا ہوا تھا اسی طرح اُن کے پیچھے بھاگا۔دیکھا تو ایک وزنی بیگ اُٹھائے مولوی صاحب اسٹیشن کی طرف جا رہے ہیں۔مَیں نے جاکر السلام علیکم کہا اور ان کا بیگ لے لیا۔کہ مَیں آپ کے ساتھ لئے چلتا ہوں۔پہلے انہوں نے انکار کیا مگر میرے اس اصرار پر مجھے دیدیا کہ آپ ضعیف ہیں اور اتنا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔اس پر انہوں نے جزاک اللہ کہا اور مَیں ساتھ ہولیا۔راستہ میں کہا کہ مَیں نے ٹمٹم کا انتظار کیامگرنہ ملی۔اگر ٹمٹم کا انتظار کرتا تو شاید گاڑی نکل جاتی۔مجھے ضروری مقدمے میں جانا ہے۔آپ نے بڑی تکلیف کی۔مَیں نے کہا کہ نہیں مجھے بڑی راحت ہے کہ آپ ایک معمولی سے معمولی آدمی کی طرح اتنا بوجھ اٹھائے چلے جارہے ہیںاور اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کی ایک نئے رنگ میں تصدیق کر رہے ہیں۔یہ فقرہ سُن کر مولوی صاحب بہت ناراض ہوئے اور مردود میر زائی کہہ کر وہ بیگ مجھ سے چھین لیا اور پھر چل پڑے مگر میں کچھ دُور اُن کے ساتھ گیا اور منت خوشامد سے بیگ پھر اٹھا لیا۔اس پر کہنے لگے کہ مرزا نے تم لوگوں پر جادو کر دیا ہے۔تم تو دیوانہ ہوگئے ہو۔اس میں کیا دھرا ہوا ہے۔ہم تو انہیں بچپن سے جانتے ہیں۔ان کے کچے چٹھے ہمیں معلوم ہیں۔مَیں نے کہا آج تک تو کسی نے ان کا کچا چٹھا شائع نہیںکیا۔کہنے لگے کوئی سُنتا بھی ہو۔بُری بات لوگ فوراً قبول کر لیتے ہیںاور نیک بات کی طرف کان بھی نہیں دھرتے۔میں نے کہا آپ سچ فرما رہے ہیں۔ہرنبی کے ساتھ اس کی قوم نے ایسا ہی برتائو کیا۔کیونکہ بوجھ بہت تھااس لئے مولوی صاحب نے میرے لئے بھی پلیٹ فارم کا ٹکٹ خرید لیا اور چونکہ ریل بالکل تیار تھی۔سوارہوکر چلے گئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع میں حضرت صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سخت مخالفت کی اور کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اسے اٹھایا تھااور میں ہی اسے گراؤنگا۔اس وقت مولوی صاحب کی ملک میں بہت عزّت تھی۔اور وہ بازار میں سے گزرتے تھے تو لوگ دورسے دیکھ کر ادب کے طور پر کھڑے ہوجاتے تھے۔اور اہل حدیث فرقہ کے تو وہ گویا امام تھے۔اس وقت حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے مولوی صاحب کے متعلق الہاماً بتایا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ۔یعنی جو شخص تجھے گرانے اور ذلیل کرنے کے درپے ہے۔ہم خود اسے ذلیل ورسوا کردینگے۔ چنانچہ اس کے بعد آہستہ آہستہ مولوی محمد حسین صاحب پر وہ وقت آیاجس کا نقشہ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں تھا۔اور بازاروں میں اپنا سامان اٹھائے پھرتے تھے اور اپنے ہم خیال لوگوں کی نظر سے بھی بالکل گر گئے تھے۔
{ 919} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرز تحریر میں ایک یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ حضور جب کسی لفظ یا سطر کو کاٹتے تو اس طرح کاٹتے تھے کہ پھر کوئی اسے پڑھ نہ سکے۔یہ نہیں کہ صرف ایک لکیر پھیر دی۔بلکہ اس قدر لہرداراور پاس پاس کرکے قلم سے لکیریں پھیرتے کہ کٹے ہوئے ایک حرف کا پڑھنا بھی ممکن نہ ہوتا تھا۔
{ 920} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میںبہت چھوٹا تھا یعنی چار پانچ سال کا ہونگا۔تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبالہ چھائونی میں مجھے انگریزی مٹھائی کی گولیاں دیا کرتے تھے اور مَیں ان کو چڑیا کے انڈے کہا کرتا تھا۔یہ حضرت صاحب کی بڑی لڑکی عصمت کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ عصمت ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئی تھی۔اور خود میر صاحب کی پیدائش غالباً۱۸۸۱ء کی ہے۔
{ 921} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوئوں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے۔ اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے۔ایسی اشیاء اکثر نقد کی بجائے ٹونبوؔ کے ذریعہ سے آتی تھیں۔یعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیزکا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے۔مہینہ بعد دُکاندا ر وہ ٹونبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا۔اس کو چیک کرکے آپ حساب ادا کر دیا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ ہندوئوںکے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا۔آجکل جو عموماً پرہیز کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے۔
{ 922} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلا م چند روز کے لئے ہمارے ہاں بمعہ اہل وعیال فیروز پور چھائونی تشریف لائے۔ایک دن وہاں ایک شیخ صاحب کی کوٹھی پر گئے جو انگریزی اشیاء کے تاجر تھے۔شیخ محمد جان صاحب وزیر آبادی چونکہ ان کے واقف تھے اس لئے وہ حضور کو یہ دُکان دکھانے لے گئے۔ وہاں مالک دُکان نے ایک کھلونا دکھایا جس میں ایک بلی اور ایک چوہا تھا۔اس کو کنجی دی جاتی تو چوہا آگے بھاگتا تھا اور بلی اس کے پیچھے دوڑتی تھی۔اسے دیکھ کر کچھ دیر تو مسیح ناصری کے پرندوں کا ذکر ہوتا رہا۔پھر آپ چلے آئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز بھی جن کی عمر اس وقت چار سال کے قریب تھی ہمراہ تھے۔اور کسی دوست یا ملازم کی گود میں تھے۔جب کچھ راستہ چلے آئے تو میاں صاحب نے اس شخص کی گود میں اینٹھنا شروع کیا۔ پھر کچھ بگڑ کر لاتیں مارنے لگے اور آخر رونا شروع کر دیا۔بہت پوچھا مگر کچھ نہ بتایا۔آخر باربار پوچھنے پر ہاتھ سے واپس چلنے کا اشارہ کیا۔اس پر کسی نے کہا شاید اس دوکان پر بلی اور چوہا پھر دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ کہنا تھا کہ میاں صاحب روتے روتے چیخ کر کہنے لگے کہ مَیں نے بلی چوہا لینا ہے۔اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ میاں گھرچل کر منگا دیں گے مگر وہ نہ مانے۔آخر حضرت صاحب سب جماعت کے ہمراہ واپس آئے اور تاجر کی کوٹھی پر پہنچ کر دروازہ پر ٹھہر گئے۔شیخ محمد جان صاحب اندر جاکر وہ کھلونا لے آئے۔حضرت صاحب نے کہا اس کی قیمت کیا ہے ؟مَیں دیتا ہوں مگر شیخ محمد جان صاحب نے کہا کہ اس کوٹھی کے مالک ہمارے دوست اور ملنے والے ہیں اور یہ ایک حقیر چیز ہے۔وہ حضور سے ہر گز قیمت نہیںلیں گے۔اس پر آپ نے وہ کھلونا میاں صاحب کو دیدیا۔اور سب لوگ گھر واپس آئے۔
{ 923} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مختلف زمانوں میں حضور علیہ السلام کے زیر نظر مختلف مضامین رہا کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ آپ بعض دنوں میں کسی خاص مضمون پر ہر مجلس میں ذکر کرتے۔تقریریں کرتے اور مختلف پہلوئوں سے اس پر روشنی ڈالتے یہاں تک کہ کچھ دنوں میں اس مضمون کے سب پہلو واضح اور مدلّل ہو جاتے ۔اس کے بعد مَیں دیکھتا کہ پھر وہی مضمون آپ کی کسی کتاب میں آجاتا اور شائع ہوجاتا۔
{ 924} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصنیف کے بارے میں یہ طریق نہیں تھا کہ جو عبارت ایک دفعہ لکھی گئی اسی کو قائم رکھتے تھے بلکہ بار بار کی نظر ثانی سے اس میں اصلاح فرماتے رہتے تھے اور بسا اوقات پہلی عبارت کو کاٹ کر اس کی جگہ نئی عبارت لکھ دیتے تھے۔اصلاح کا یہ سلسلہ کتابت اور طباعت کے مراحل میں بھی جاری رہتا تھا۔مَیں نے حضرت صاحب کے مسودات اور پر وفوں میں کثرت کے ساتھ ایسی اصلاح دیکھی ہے۔
{ 925} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اوائل زمانہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا ایک رئویا میر عباس علی صاحب سے بیان کیا تھاجو یہ تھا کہ ہم کسی شہر میں گئے ہیںاور وہاں کے لوگ ہم سے برگشتہ ہیں۔اور انہوں نے کچھ اپنے شکوک دریافت کئے۔جن کا جواب دیا گیا۔لیکن وہ ہمارے خلاف ہی رہے۔نماز کے لئے کہاکہ آئو تم کو نماز پڑھائیں تو جواب دیا کہ ہم نے پڑھی ہوئی ہے اور خواب میں یہ واقعہ ایک ایسی جگہ پیش آیا تھا جہاں ہماری دعوت تھی۔اس وقت ہم کو ایک کھلے کمرہ میں بٹھا یا گیا۔لیکن اس میں کھانا نہ کھلایاگیا۔پھر بعد میں ایک تنگ کمرہ میں بٹھلایا گیا۔اور اس میں بڑی دقت سے کھانا کھایا گیا۔آپ نے یہ رئویا بیان کرکے فرمایا کہ شاید وہ تمہارا لدھیانہ ہی نہ ہو۔پھر یہ رؤیا لدھیانہ میں ہی منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر پورا ہوا۔حضرت صاحب لدھیانہ تشریف لے گئے اور منشی رحیم بخش صاحب کے مکان پر دعوت ہوئی۔جہاں پہلے ایک کھلے کمرہ میں بٹھا کر پھر ایک تنگ کمرہ میں کھانا کھلایا گیا۔پھروہاں ایک شخص مولوی عبدالعزیز صاحب کی طرف سے منشی احمد جان صاحب کے پاس آیا اور آکر کہا کہ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ قادیان والے مرزا صاحب ہمارے ساتھ آکر بحث کر لیںیا کوتوالی چلیں۔اس پر منشی صاحب نے کہا کہ ہم نے کونسا قصور کیا ہے کہ کوتوالی چلیں۔اگر کسی نے اپنے شکوک رفع کروانے ہیں تو محلہ صوفیاں میں آجائے۔جہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں۔اس رئویا کے پورا ہونے پر لالہ ملاوامل نے شہادت دی کہ واقعی وہ رویا پورا ہوگیا۔اور خاکسار بھی حضرت صاحب کے ساتھ اس دعوت میں شریک تھا جہاں رئویا پورا ہوا۔
{ 926} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرکے واپس ملازمت پر گیا۔تو کچھ روز اپنی بیعت کو خفیہ رکھا کیونکہ مخالفت کا زور تھا۔اور لوگ میرے معتقد بہت تھے۔اس وجہ سے کچھ کمزوری سی دکھائی یہاں تک کہ مَیں نے اپنے گھر کے لوگوں سے بھی ذکر نہ کیا۔لیکن رفتہ رفتہ یہ بات ظاہر ہوگئی اور بعض آدمی مخالفت کرنے لگے لیکن وہ کچھ نقصان نہ کر سکے۔گھر کے لوگوں نے ذکر کیاکہ بیعت تو آپ نے کر لی ہے لیکن آپ کا پہلا پیر ہے اور وہ زندہ موجود ہے، وہ ناراض ہوکربددعا کرے گا۔ ان کی آمدورفت اکثر ہمارے پاس رہتی تھی۔مَیں نے کہا کہ میں نے اللہ تعا لیٰ کی رضا کے لئے بیعت کی ہے۔اور جن کے ہاتھ پر بیعت کی ہے وہ مسیح اور مہدی کا درجہ رکھتے ہیں۔ باقی کوئی خواہ کیسا ہی نیک یا ولی کیوں نہ ہو۔وہ اس درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔اور ان کی بددعا کوئی بد اثر نہیں کرے گی۔کیونکہ اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔مَیںنے اپنے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا ہے۔اپنی نفسانی غرض کے لئے نہیں کیا۔الغرض وہ میرے مرشد کچھ عرصہ بعد بدستور سابق میر ے پاس آئے اور انہوں نے میری بیعت کا معلوم کرکے مجھ کو کہاکہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔جب مرشد آپ کا موجود ہے تو اس کو چھوڑ کر آپ نے یہ کام کیوں کیا؟آپ نے ان میں کیا کرامت دیکھی؟مَیں نے کہا۔کہ میں نے ان کی یہ کرامت دیکھی ہے کہ ان کی بیعت کے بعد میری رُوحانی بیماریاں بفضلِ خدا دور ہوگئی ہیں اورمیرے دل کو تسلی حاصل ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ مَیں بھی ان کی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں۔کہ اگر تمہارا لڑکا ولی اللہ ان کی دُعا سے اچھا ہوجائے تو میں سمجھ لونگا کہ آپ نے مرشد کامل کی بیعت کی ہے۔اور اس کا دعویٰ سچّاہے۔اس وقت میرے لڑکے ولی اللہ کی ٹانگ بسبب ضرب کے خشک ہوکر چلنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ایک لاٹھی بغل میں رکھتا تھا۔اور اس کے سہارے چلتا تھااور اکثر دفعہ گر پڑتا تھا۔اس بات پر تھوڑا عرصہ گذرا تھا کہ باوجود اسکے کہ پہلے کئی ڈاکٹروں اور سول سرجنوں کے علاج کئے تھے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا تھا۔اتفاقاً ایک نیا سول سرجن سیالکوٹ میں آگیا جس کا نام میجر ہیوگو تھا۔وہ رعیہ میں شفا خانہ کا معائنہ کرنے کے لئے بھی آیا ۔تو مَیں نے اُسے ولی اللہ شاہ کو دکھایا۔اس نے کہا کہ علاج سے اچھا ہوسکتا ہے۔مگرتین دفعہ آپریشن کرنا پڑے گا۔چنانچہ اس نے ایک دفعہ سیالکوٹ میں آپریشن کیا۔اور دو دفعہ شفاخانہ رعیہ میں جہاں میں متعین تھاآپریشن کیا۔ادھر مَیں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے بھی تحریر کیا۔خدا کے فضل سے وہ بالکل صحت یاب ہوگیا اور لاٹھی کی ضرورت نہ رہی۔تب مَیں نے اس بزرگ کو کہا کہ دیکھئے خدا کے فضل سے حضرت صاحب کی دعا کیسی قبول ہوئی۔اس نے کہا کہ یہ تو علاج سے ہوا ہے۔مَیں نے کہا کہ علاج تو پہلے بھی تھا۔لیکن اس علاج میں شفا صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہوئی ہے۔
{ 927} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر سیّد عبدالستارشاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب مَیں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تو ولی اللہ شاہ کی والدہ کو خیال رہتا تھاکہ سابقہ مرشد کی ناراضگی اچھی نہیں۔ان کو بھی کسی قدر خوش کرنا چاہئے تاکہ بددعا نہ کریں۔ان کو ہم لوگ پیشوا کہا کرتے تھے۔ولی اللہ ، شاہ کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اچھا جانتی تھیں اور آپ کی نسبت حسن ظن تھا۔صرف لوگوں کے طعن وتشنیع اور پیشوا کی ناراضگی کا خیال کرتی تھیںاور بیعت سے رُکی ہوئی تھیں۔اس اثناء میں وہ خود بہت بیمار ہوگئیںاور تپ محرقہ سے حالت خراب ہوگئی۔ ان کی صحت یابی کی کچھ امید نہ تھی۔مَیں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے برادر زادہ شیر شاہ کو جو وہاں پڑھتا تھا۔قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے اور مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں کسی نسخہ کے حاصل کرنے کے لئے روانہ کر دو۔امید ہے کہ خدا وندکریم صحت دیگا۔چنانچہ اس کو روانہ کر دیا گیااور وہ دوسرے دن قادیان پہنچ گیا اور حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست دُعا پیش کی۔ حضور نے اسی وقت توجہ سے دُعا کی اور فرمایا کہ مَیں نے بہت دُعا کی اللہ تعالیٰ ان پر فضل کرے گا۔ڈاکٹر صاحب سے آپ جا کر کہیں کہ گھبرائیں نہیں ۔ خداتعالیٰ صحت دے گااور حضرت خلیفہ اوّلؓ کو فرمایا کہ آپ نسخہ تجویز فرمائیں۔انہوں نے نسخہ تجویز کرکے تحریر فرما دیا۔جس روز شام کو حضور نے قادیا ن میں دعا فرمائی۔اس سے دوسرے روز شیر شاہ نے واپس آنا تھا۔وہ رات ولی اللہ شاہ کی والدہ پر اس قدر سخت گذری کہ معلوم ہوتا تھا کہ صبح تک وہ نہ بچیں گی۔اور ان کو بھی یقین ہوگیا کہ مَیں نہیں بچوں گی۔اسی روزانہوں نے خواب میں دیکھا کہ شفا خانہ رعیہ میں جہاں مَیں ملازم تھا اس کے احاطہ کے بیرونی طرف سٹرک کے کنارہ ایک بڑا سا خیمہ لگا ہوا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ خیمہ مرزا صاحب قادیانی کا ہے۔کچھ مرد ایک طرف بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھی ہوئی ہیں۔مرد اندر جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔ پھر عورتوں کی باری آئی وہ بھی ایک ایک کرکے باری باری جاتی ہیں۔جب خود ان کی باری آئی۔تو یہ بہت ہی نحیف اور کمزور شکل میں پردہ کئے ہوئے حضور کی خدمت میں جاکر بیٹھ گئیں۔آپ نے فرمایا۔آپ کو کیا تکلیف ہے۔ انہوں نے انگلی کے اشارہ سے سینہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ مجھ کو بخار ہے۔دل کی کمزوری اور سینہ میں درد ہے۔آپ نے اسی وقت ایک خادمہ کو کہا کہ ایک پیالہ میں پانی لائو۔جب پانی آیا۔توآپ نے اس پر دم کیا اور اپنے ہاتھ سے ان کو وہ دیا اور فرمایا۔اس کو پی لیں۔اللہ تعالیٰ شفا دیگا ۔پھر سب لوگوں نے اور آپ نے دعا کی اور وہ پانی انہوں نے پی لیا۔پھر والدہ ولی اللہ شاہ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں۔اور اسم شریف کیا ہے۔فرمایا کہ مَیں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں اور میرا نام غلام احمد ہے اور قادیان میں میری سکونت ہے۔خدا کے فضل سے پانی پیتے ہی ان کو صحت ہوگئی۔اس وقت انہوں نے نذر مانی کہ حضورکی خدمت میں بیعت کے لئے جلد حاضر ہوںگی۔فرمایا بہت اچھا۔بعد اس کے وہ بیدار ہوگئیں۔جب انہوں نے یہ خواب دیکھی۔تو ابھی شیر شاہ قادیان سے واپس نہ پہنچا تھا۔بلکہ دوسرے دن صبح کو پہنچا۔اس رات کو بہت مایوسی تھی اور میرا خیال تھا کہ صبح جنازہ ہوگا لیکن صبح بیدار ہونے کے بعد انہوں نے آواز دی کہ مجھ کو بھوک لگی ہے۔مجھے کچھ کھانے کو دو اورمجھے بٹھائو۔اسی وقت ان کو اٹھایا اور دودھ پینے کے لئے دیا۔اور سخت حیرت ہوئی کہ یہ مردہ زندہ ہوگئیں۔عجیب بات تھی کہ اس وقت ان میں طاقت بھی اچھی پیدا ہوگئی اور اچھی طرح گفتگو بھی کرنے لگیں۔میرے پوچھنے پر انہوں نے یہ سارا خواب بیان کیا اور کہا کہ یہ سب اس پانی کی برکت ہے جو حضرت صاحب نے دم کرکے دیا تھا اور دعا کی تھی۔صبح کو وہ خودبخودبیٹھ بھی گئیں۔اور کہا کہ مجھ کو فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دو۔کیونکہ مَیں عہد کر چکی ہوں کہ مَیں آپ کی بیعت کے لئے حاضرہونگی۔مَیں نے کہا ابھی آپ کی طبیعت کمزور ہے اور سفر کے قابل نہیں۔جس وقت آپ کی حالت اچھی ہوجائے گی۔آپ کو پہنچا دیا جائے گا۔لیکن وہ برابر اصرار کرتی رہیں کہ مجھ کو بے قراری ہے جب تک بیعت نہ کرلوں مجھے تسلی نہ ہوگی۔اور شیرشاہ بھی اس روز قادیان سے دوائی لے کر آگیا۔اور سب ماجرا بیان کیا کہ حضرت صاحب نے بڑی توجہ اور دردِدل سے دعا کی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اچھے ہوجائیں گے۔جب مَیں نے تاریخ کا مقابلہ کیا تو جس روز حضرت صاحب نے قادیان میں دُعا کی تھی۔اسی روز خواب میں ان کو زیارت ہوئی تھی اور یہ واقعہ پیش آیا تھا۔اس پر ان کا اعتقاد کامل ہوگیااور جانے کے لئے اصرار کرنے لگیں۔چنانچہ ان کو صحت یاب ہونے پر قادیان ان کے بھائی سید حسین شاہ اور شیر شاہ ان کے بھتیجے کے ساتھ روانہ کر دیا۔حضرت صاحب نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور فرمایا کچھ دن اور ٹھہریں۔وہ تو چاہتی تھیں کہ کچھ دن اور ٹھہریں۔ مگر ان کا بھتیجا مدرسہ میں پڑھتا تھا اور بھائی ملازم تھا اس لئے وہ نہ ٹھہر سکیں اور واپس رعیہ آگئیں۔ایک دن کہنے لگیں کہ میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ نے دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا۔مَیں اور مسیح دونوں ایک ہیں۔وہ انگلیاں وُسطیٰ اور سبابہ تھیں۔ چونکہ ولی اللہ شاہ کی والدہ بیعت سے پہلے بھی صاحب حال تھیں۔پیغمبروں اور اولیاء اور فرشتوں کی زیارت کر چکی تھیں۔ان کو خواب کے دیکھنے سے حضرت صاحب پر بہت ایما ن پیدا ہوگیا تھا اور مجھ سے فرمانے لگیں کہ آپ کو تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان جانا چاہئے اور سخت بے قراری ظاہر کی کہ ایسے مقبول کی صحبت سے جلدی فائدہ اٹھا نا چاہئے۔زندگی کا اعتبار نہیں۔ان کے اصرار پر مَیں تین ماہ کی رخصت لے کر قادیان پہنچا۔سب اہل وعیال ساتھ تھے۔حضرت صاحب کو کمال خوشی ہوئی اور اپنے قریب کے مکان میں جگہ دی۔اور بہت ہی عزت کرتے تھے اور خاص محبت وشفقت اور خاطر تواضع سے پیش آتے تھے۔
{ 928} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ لنگر کا انتظام حضور علیہ السلام کے ابتدائی ایام میں گھر میں ہی تھا۔گھر میں دال سالن پکتااور لوہے کے ایک بڑے توے پرجسے’’لوہ‘‘کہتے ہیں روٹی پکائی جاتی۔پھر باہر مہمانوں کو بھیج دی جاتی۔اس لوہ پر ایک وقت میں دو،تین نوکرانیاں بیٹھ کر روٹیاں یکدم پکا لیا کرتی تھیں۔اس کے بعد جب باہر انتظام ہوا تو پہلے اس مکان میں لنگر خانہ منتقل ہواجہاں اب نواب صاحب کا شہر والا مکان کھڑا ہے۔پھر باہر مہما ن خا نہ میں چلا گیا۔
{ 929} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مفصلہ ذیل ادویات حضرت مسیح موعود علیٰہ السلام ہمیشہ اپنے صندوق میں رکھتے تھے۔اور انہی کو زیادہ استعمال کرتے تھے۔انگریزی ادویہ سے کونینؔ،ایسٹنؔسیرپ، فولادؔ، ارگٹؔ،وائینمؔاپی کاک،کولاؔاور کولاؔکے مرکبات،سپرٹ ایمونیاؔ۔بیدؔمشک،سٹرنس وائن ؔآف کاڈلِور آئل۔کلوروڈین کاکل ؔپل،سلفیورکؔایسڈ ایرومیٹک،سکاٹس ایملشن رکھا کرتے تھے۔اور یونانی میں سے ۔مُشکؔ،عنبرؔ،کافورؔ،ہینگؔ،جدوارؔ۔اورایک مرکب جو خودتیار کیاتھایعنی تریاقؔالٰہی رکھا کرتے تھے۔اور فرمایا کرتے تھے کہ ہینگ غرباء کی مُشک ہے۔اور فرماتے تھے کہ افیون میں عجیب وغریب فوائد ہیں۔اسی لئے اسے حکماء نے تریاقؔکا نام دیا ہے۔ان میں سے بعض دوائیں اپنے لئے ہوتی تھیںاور بعض دوسرے لوگوں کے لئے کیونکہ اور لوگ بھی حضور کے پاس دوا لینے آیا کرتے تھے۔
{ 930} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں نماز صبح کے وقت کچھ پہلے تشریف لے آئے۔ ابھی کوئی روشنی نہ ہوئی تھی۔اس وقت آپ مسجدکے اندر اندھیرے میں ہی بیٹھے رہے۔پھر جب ایک شخص نے آکر روشنی کی تو فرمانے لگے کہ دیکھو روشنی کے آگے ظلمت کس طرح بھاگتی ہے۔
{ 931} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز پیر سراج الحق صاحب سر ساوی اپنے علاقہ کے آموں کی تعریف کر رہے تھے کہ ہمارے علاقہ میں آم بہت میٹھے ہوتے ہیں۔جو لوگ ان کو کھاتے ہیں۔تو گٹھلیوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں۔گویا لوگ کثرت سے آم چوستے ہیں۔اس وقت حضرت اقدس بھی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔فرمایا۔پیر صاحب جو آم میٹھے ہوتے ہیں وہ عموماً ثقیل ہوتے ہیں اور جو آم کسی قدرترش ہوتے ہیں وہ سریع الہضم ہوتے ہیں۔پس میٹھے اور ترش دونوں چوسنے چاہئیں۔کیونکہ قدرت نے ان کو ایسا ہی بنایا ہے۔
{ 932} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا۔اور مسیح موعود کا زمانہ تکمیل اشاعت کا زمانہ ہے۔
{ 933} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حافظ معین الدین عرف مانا مؤذن مقرر تھا۔اور کچھ وقت احمد نو ر کابلی بھی مؤذن رہے ہیں ۔اور مَیں بھی کچھ عرصہ اذان دیتا رہا ہوں۔اور دوسرے دوست بھی بعض وقت اذان دیدیتے تھے۔گویا اس وقت مؤذن کافی تھے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ دو مؤذن ایک ہی وقت اذان دینے کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ایک روز ایک شخص نے اذان دینی شروع کی تو حافظ معین الدین نے بھی شروع کردی۔پھر حافظ صاحب ہی اذان دیتے رہے اور دوسرا شخص خاموش ہوگیا۔مَیں نے ایک روز صبح کے وقت اذان دی تو حضرت اقدس اندر سے تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ مَیں نے کھانانہیں کھایا۔کیونکہ رمضان شریف کامہینہ تھا۔اس وقت شوق کی وجہ سے مؤذنوںمیں بھی جھگڑا ہوتا رہتا تھا۔ایک کہتا تھا کہ میں نے اذان دینی ہے اور دوسرا کہتا تھا مَیں نے دینی ہے۔بعض وقت مولوی عبدالکریم صاحب بھی اذان دیدیا کرتے تھے۔
{ 934} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بہت ابتدائی زمانہ کا ذکر ہے کہ مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ضلع گورداسپور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میں آکر ٹھہرے ہوئے تھے۔ان کو شکار دیکھنے کا شوق تھا۔وہ مرزا نظام الدین صاحب کے مکان سے باہر نکلے اور ان کے ساتھ چند کس سانسی بھی جنہوں نے کتّے پکڑ ے ہوئے تھے نکلے۔ مولوی غلام علی صاحب نے شاید حضرت صاحب کو پہلے سے اطلاع دی ہوئی تھی یا حضرت صاحب خودان کی دلداری کے لئے باہر آگئے۔بہر حال اس وقت حضرت صاحب بھی باہر تشریف لے آئے۔اور آپ آگے آگے چل پڑے اور ہم پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔اس وقت حضرت صاحب کے پائوں میں جو جوتا تھا۔وہ شاید ڈھیلا ہونے کی وجہ سے ٹھپک ٹھپک کرتا جاتا تھا۔مگر وہ بھی حضرت صاحب کو اچھا معلوم ہوتا۔چلتے چلتے پہاڑی دروازہ پر چلے گئے۔وہاں ایک مکان سے سانسیوں نے ایک بلّے کو چھیڑکر نکالا۔یہ بلّا شاید جنگلی تھا جووہاں چھپا ہوا تھا۔جب وہ بلّا مکان سے باہر بھاگا تو تمام کتّے اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے۔یہاں تک کہ اس بلّے کو انہوں نے چیر پھاڑ کر رکھدیا۔یہ حالت دیکھ کر حضرت صاحب چپ چاپ واپس اپنے مکان کو چلے آئے اور کسی کو خبر نہ کی ۔معلوم ہوتا ہے کہ یہ صدمہ دیکھ کر آپ نے برداشت نہ کیا اور واپس آگئے۔
{ 935} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۹۸۔۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر قادیان کے نزدیک ایک گائوں کے احمدی جلسہ پر آئے۔یہ گائوں فیض اللہ چک یا تھہ غلام نبی یا سیکھواں تھا۔جو قادیان سے قریب ہی واقع تھا۔وہاں کے لوگوں نے برسبیل تذکرہ ذکر کیا کہ ہمارے گائوں کے اکثر لوگ بہت مخالف ہیں اور حضرت صاحب اور آپ کے مریدوں کوبرا بھلا کہتے ہیں اور اگر ان کو دلائل سُنائیں تو سُنتے نہیں۔اس پر ایک مرحوم دوست حافظ محمد حسین صاحب نابینا جو ڈنگہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے کہنے لگے کہ مَیں تمہارے گائوں میں آئونگا اورغیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرونگا اور غیر احمدی بن کر تم سے مباحثہ کرونگا۔پھر جب شکست کھاجائونگا تو مخالفین پر اچھا اثر پڑے گا۔نیز وہ اس بہانے سے تمہارے دلائل سُن لیں گے۔غرض یہ سمجھوتہ ہوگیا۔جلسہ کے بعد وہ لوگ اپنے گائوں چلے گئے اور حافظ صاحب مر حوم ایک دو روز بعد اس گائوں میں پہنچے اور غیر احمدیوں کی مسجد میں ٹھہرے۔اور وہاں للکار کر کہا کہ یہاں کوئی میرزائی ہے؟ میرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔لائو مَیں ان کو توبہ کرائوں۔غیر احمدیوں نے کہا۔ہاں یہاں فلاںشخص ہیں۔حافظ صاحب نے کہا کہ ان کو بلائو تو مَیں ان کو قائل کروں اور بحث میں شکست دوں ۔وہ لوگ بہت خوش ہوئے اور مجمع ہوگیا۔احمدی بلائے گئے۔سوال وجواب شروع ہوئے اور حیات وفات مسیح پر بحث ہونے لگی۔پہلے تو حافظ صاحب نے مشہور مشہور دلیلیں غیر احمدیوں والی پیش کیں۔پھر ہوتے ہوتے احمدیوں نے ان کو دبانا شروع کیا۔آخر وہ بالکل خاموش ہوگئے اور یہ کہہ دیا کہ مَیں آگے نہیں چل سکتا۔واقعی ان دلائل کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔غیر احمدیوں کو شُبہ پڑگیا کہ یہ شخص سکھایا ہوا آیا ہے۔ورنہ اگر یہ شخص غیر احمدی ہوتا۔تو فوراً اس طرح قائل نہ ہوتا۔اس پر انہوں نے حافظ صاحب کو بُرا بھلا کہا بلکہ غالباً جسمانی تکلیف بھی دی۔اور آخر حافظ صاحب نے احمدیوں کے گھر میں آکر پناہ لی۔حضرت صاحب کو جب یہ قصّہ معلوم ہوا تو آپ کو بہت ناگوار گذرا۔اور آپ نے فرمایا کہ یہ بہت نامناسب حرکت کی گئی ہے۔ہمارے دوستوں کو ایسا طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
{ 936} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م فرمایا کرتے تھے کہ شرعی طور پر زنا کے الزام کا گواہ جب تک سلائی اور سرمہ دانی والی حالت کی چشم دید گواہی نہ دے تب تک اس کی گواہی قبول نہیں ہوتی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے یہ الفاظ ایک حدیث کا ترجمہ ہیں۔جس کے یہ الفاظ ہیںکہ کَالْمِیْلِ فِی الْمِکْحَلَۃِ ـ
{ 937} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِد ہیں۔ اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
{ 938} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ سرکے دَورہ میں پیرَ بہت جھسواتے تھے اور بدن زور سے دبواتے تھے۔اس سے آپ کو آرام محسوس ہوتا تھا۔
{ 939} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے۔اور صبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔قنوت میں پہلے قرآنی دُعائیں پھر بعض حدیث کی دُعائیںمعمول ہوا کرتی تھیں۔آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے۔جودُعائیں اکثر پڑھی جاتیں تھیں۔ان کو بیان کر دیتا ہوں۔
رَبَّنَا اٰ تِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار ـ (البقرۃ:۲۰۲)
رَبَّنَا وَاٰ تِنَا مَاوَعَدْ تَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ…… (ال عمران :۱۹۵)
رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ـ (الاعراف:۲۴)
رَبَّنَا ھَبْ لَنَامِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ـ (الفرقان:۷۵)
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأْ نَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(البقرۃ:۲۸۷)
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا ـ (الفرقان:۶۶)
رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ ـ (الاعراف:۹۰)
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ـ (یونس:۸۶)
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا …… (ال عمران:۹)
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا …(ال عمران:۱۹۴)
اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ بِالْاِمَامِ الْحَکَمِ الْعَادِلِ ـ
اَللّٰھُمَّ انْصُرْمَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاُخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدٍ
وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ـ
خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری سے پہلی دعا میں دراصل مسیح موعود کی بعثت کی دعا ہے مگر بعثت کے بعد اس کے یہ معنے سمجھے جائیں گے ،کہ اب مسلمانوں کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا کر۔
{ 940} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب کبھی کوئی ایسا اعتراض یا مسئلہ حضرت مسیح موعود علیٰہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا یا کسی کی تحریر کے ذریعہ حضور کو پہنچتاکہ جس کا جواب دینا ضروری ہوتا ۔تو عام طور پر حضرت صاحب اس اعتراض یا مسئلہ کے متعلق مجلس میں اپنے دوستوں کے سامنے پیش کر کے فرماتے کہ اس معترض کے اعتراض میں فلاں فلاں پہلوں فروگذاشت کئے گئے ہیں۔ یا اس کی طبیعت کو وہاں تک رسائی نہیں ہوئی ، یا یہ اعتراض کسی سے سُن کر اپنی عادت یا فطرت کے خبث کا ثبوت دیا ہے۔ پھر حضور اس اعتراض کو مکمل کرتے اور فرمایا کرتے کہ اگر اعتراض ناقص ہے ۔تو اس کا جواب بھی ناقص رہتا ہے۔اس لئے ہماری یہی عادت ہے کہ جب کبھی کسی مخالف کی طرف سے کوئی اعتراض اسلام کے کسی مسئلہ پرپیش آتا ہے۔تو ہم پہلے اس اعتراض پر غور کرکے اس کی خامی اور کمی کو خود پورا کر کے اس کو مضبوط کرتے ہیں اور پھر جواب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔اور یہی طریق حق کو غالب کرنے کا ہے۔
{ 941} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں معراج الدین صاحب عمر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیاکہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک مقدمہ فوجداری کی جوابدہی کے لئے جہلم کو جارہے تھے۔یہ مقدمہ کرم دین نے حضور اور حکیم فضل الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب کے خلاف توہین کے متعلق کیا ہوا تھا۔اس سفر کی مکمل کیفیت تو بہت طول چاہتی ہے۔مَیں صرف ایک چھوٹی سی لطیف بات عرض کرتا ہوںجس کو بہت کم دوستوں نے دیکھا ہوگا۔
جب حضور لاہو ر ریلوے سٹیشن پر گاڑی میں پہنچے تو آپ کی زیارت کے لئے اس کثرت سے لوگ جمع تھے جس کا اندازہ محال ہے کیونکہ نہ صر ف پلیٹ فارم بلکہ باہر کامیدان بھی بھرا پڑا تھا اور لوگ نہایت منتوں سے دوسروں کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ ہمیں ذرا چہرہ کی زیارت اور درشن تو کر لینے دو۔اس اثناء میں ایک شخص جن کا نام منشی احمد الدین صاحب ہے(جو گورنمنٹ کے پنشنر ہیں اور اب تک بفضلہ زندہ موجود ہیں اور انکی عمر اس وقت دو تین سال کم ایک سو برس کی ہے لیکن قویٰ اب تک اچھے ہیں اور احمدی ہیں)آگے آئے جس کھڑکی میں حضور بیٹھے ہوئے تھے وہاں گورہ پولیس کا پہرہ تھا اور ایک سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت کا افسر اس کھڑکی کے عین سامنے کھڑا نگرانی کر رہا تھا۔کہ اتنے میں جرأت سے بڑھ کر منشی احمد الدین صاحب نے حضور سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔یہ دیکھ کر فوراً اس پولیس افسر نے اپنی تلوار کو الٹے رُخ پر اس کی کلائی پر رکھ کر کہا کہ پیچھے ہٹ جائو۔اس نے کہا کہ مَیں ان کا مرید ہوںاور مصافحہ کرنا چاہتا ہوں ۔اس افسر نے جواب دیا کہ اس وقت ہم ان کی حفاظت کے ذمہ وار ہیں۔ ہم اس لئے ساتھ ہیں کہ بٹالہ سے جہلم اور جہلم سے بٹالہ تک بحفاظت تمام ان کو واپس پہنچا دیں۔ہمیں کیا معلوم ہے کہ تم دوست ہو یا دشمن۔ممکن ہے کہ تم اس بھیس میں کوئی حملہ کردو۔اور نقصان پہنچائو۔پس یہاں سے فوراً چلے جائو۔یہ واقعہ حضرت صاحب کی نظر سے ذرا ہٹ کر ہوا تھا کیونکہ آپ اور طرف مصروف تھے۔ اس کے بعد راستہ میں آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا۔مَیں بھی سفر میں آنحضو رکے قدموں میں تھا۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتظام ہے جو اپنے وعدوں کوپورا کر رہا ہے۔
{ 942} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت لدھیانہ میں حضرت صاحب کا مباحثہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے ہوا۔تو یہ مباحثہ دیکھ کر میاں نظام الدین لدھیانہ والا احمدی ہوکر قادیان میں آیا۔وہ بیان کیا کرتا تھا کہ مَیں کس طرح احمدی ہوا۔کہتا تھا کہ مولوی محمد حسین نے مجھ کو کہا کہ مرزا صاحب سے دریافت کروکہ کیا حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں ہیں؟ میں نے جاکر حضرت صاحب سے دریافت کیا ۔تو آپؑ نے فرمایا کہ اگر آپ کے پاس حیات مسیح کا کوئی ثبوت ہوتو ایک دو آیات قرآن شریف سے لاکر پیش کریں۔مَیں نے کہا۔ایک دو کیا ہم تو ایک سوآیت قرآن شریف سے پیش کردینگے۔ آپ نے فرمایا جائو جائو لائو۔جب میں مولوی محمد حسین صاحب کے پاس آیاتو میں نے کہا کہ مرزا صاحب سے مَیں یہ اقرار لے کر آیا ہوں کہ ایک دو آیت کیا ہم قرآن شریف سے ایک سو آیت پیش کردیں گے۔جس پر مرزا صاحب مان لیں گے ۔مولوی صاحب نے کہا’’جا۔ وے تیری بیڑی ڈُب جائے یہ اقرار تُوں کیوں کر آیا؟‘‘ مولوی نظام الدین کہتے تھے کہ مَیں نے جب یہ الفاظ مولوی صاحب کے مُنہ سے سُنے تو مَیں سمجھا کہ مولوی صاحب کے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔اس پر مَیں نے آکر بیعت کر لی۔حضرت صاحب اس وقت عموماًمسجد مبارک میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جب کبھی میاں نظام الدین صاحب یہ واقعہ سنایا کرتے تھے تو حضرت صاحب سن کر بہت ہنسا کرتے تھے ۔ میاں نظام الدین صاحب اس واقعہ کو اکثر دوستوں کے پاس بیان کیا کرتے تھے۔کیونکہ وہ پھر قادیان میں ہی رہے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ واقعہ یوں سُنا ہوا ہے کہ جب مولوی نظام الدین صاحب نے یہ اقرار لے لیا کہ اگر حیات مسیح کے متعلق آپ کو ایک آیت بھی دکھادی جائے تو آپ فوراً مان لیں گے تو وہ بہت خوشی خوشی مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ مَیں مرزا صاحب سے یہ اقرا ر لے آیا ہوں اب جلدی سے مجھے چند آیات نکال دیں۔مولوی محمد حسین نے ناراض ہو کر کہا۔اوبے وقوف ! ہم مرزا صاحب کو حدیث کی طرف کھینچ رہے تھے تو انہیں پھر قرآن کی طرف لے گیا۔مولوی نظام الدین نے کہا ۔مولوی صاحب! اگر قرآن آپ کے ساتھ نہیں تو پھر مَیں تو اس کے ساتھ ہوںجس کے ساتھ قرآن ہے ۔مولوی صاحب نے کہا تو بیو قو ف اور جاہل ہے۔ تجھے کچھ پتہ نہیںاور لوگوں سے کہا کہ اس کی روٹی بند کر دو۔
{ 943} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میا ں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ بھائی جمال الدین مرحوم نے ایک دن بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں لاہور اس ارادہ سے گیا کہ کچھ حدیث پڑھ آئوں ۔ان دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب چینیانوالی مسجد میں رہتے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ صبح تہجد کے وقت اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھایا کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاحدیث کے حافظ ہیں اورمجھے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب بڑے عالم ہیں۔جب میں واپس آیا اور حضر ت صاحب کے پاس ایک روز ذکر کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب اپنے شاگردوں کو زبانی حدیث پڑھاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا کہ وہ زبر دست عالم ہیں۔اس پر حضرت صاحب نے فرمایا۔وہ ہمارے مقابل پر جواب لکھے۔خدا اس کا سارا علم سلب کر لے گا۔سو ایسا ہی ظہور میں آیا کہ وہ کوئی جواب نہیں لکھ سکا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس میں شُبہ نہیں کہ ظاہری علم کے لحاظ سے مولوی محمدحسین بٹالوی بہت بڑے عالم تھے اور کسی زمانہ میں ہندوستان کے علم دوست طبقہ میں ان کی بڑی قدر تھی۔مگر خدا کے مسیح کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر انہوں نے سب کچھ کھو دیا۔
{ 944} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مصنّف ’’عصائے موسیٰ ‘‘ کو جب لاہور میں طاعون ہوا۔تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ بات پیش ہوئی کہ حضور نے ’’اعجاز احمدی‘‘ میں لکھا ہے کہ مولوی محمد حسین اور مصنف ’’ عصائے موسیٰ ‘‘رجوع کرلیں گے۔اس پر آپ نے فرمایا کہ ان کو مرنے دو۔خدائی کلام کی تاویل بھی ہوسکتی ہے۔آخر وہ طاعون سے ہی مرگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مصنّف عصائے موسیٰ سے بابو الٰہی بخش اکا ئونٹنٹ مراد ہے جو شروع میں معتقد ہوتا تھا۔مگر آخر سخت مخالف ہوگیا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذباللہ فرعون قرار دیکران کے مقابل پر اپنے آپ کو موسیٰ کے طورپر پیش کیا مگر بالآخر حضرت صاحب کے سامنے طاعون سے ہلاک ہوکر خاک میں مل گیا۔
{ 945} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں ایک روز بٹالہ میں جمعہ پڑھنے کے لئے گیا۔اس وقت مَیں جب بٹالہ جاتا تھا تو مولوی محمد حسین صاحب کے پیچھے جمعہ پڑھا کر تا تھا۔انہوں نے بٹالہ میں خلیفیاں والی مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا۔ جب انہوں نے خطبہ شروع کیا تو کہنے لگے کہ دیکھو مرزا حضرت مسیح ناصری کو ساہنسیوں اور گنڈیلوں سے تشبیہ دیتا ہے اور کیسی ہتک کرتا ہے۔ مجھے یہ الفاظ سُن کر نہایت جوش پیدا ہوا۔اور مَیں نے اسی وقت اُٹھ کر مولوی صاحب کو ٹوکا کہ جو نقشہ مسیح کا آپ پیش کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے اور کس سے تشبیہ دی جائے؟مگر مولوی صاحب نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔اور نہ ہی یہ کہا کہ خطبہ میں بولنا منع ہے۔بلکہ خاموشی سے بات کو پی گئے۔اس وقت ابھی مخالف کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت نہ ہوئی تھی۔
{ 946} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ بقول ہمارے مخالفین کے جب مسیح آئے گا اور لوگ اس کو ملنے کے لئے اس کے گھر پر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ مسیح صاحب باہر جنگل میں سؤر مارنے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔پھر وہ لوگ حیران ہوکر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور باہر سؤروں کا شکا ر کھیلتا پھرتا ہے۔پھر فرماتے تھے کہ ایسے شخص کی آمد سے تو ساہنسیوں اور گنڈیلوں کو خوشی ہوسکتی ہے۔ جو اس قسم کا کام کرتے ہیں۔مسلمانوں کو کیسے خوشی ہوسکتی ہے۔یہ الفاظ بیان کر کے آپ ہنستے تھے۔یہاں تک کہ اکثر اوقات آپ کی آنکھوں میں پانی آجا تا تھا۔
{ 947} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی کے رواج دینے کی طرف توجہ تھی تو ان دنوں میں حضرت صاحب مجھے بھی عربی فقرات لکھواتے تھے اور ان میں نصیحت کے لئے بھی کبھی کبھی مناسب فقرے لکھوا دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ کا سبق شعروں میں بنا کر دیا تھا۔پھر مَیں نے دیکھا کہ دو تین سال بعد تھوڑے تغیر کے ساتھ وہی اشعار آپ نے انجام آتھم میں درج کر دئے اور وہ شعر جو اس وقت یاد کرائے تھے یہ ہیں:۔
۱۔ اَطِع ربّک الجبّار اہل الاوامر
وخف قھرہٗ واترک طریق التجاسر
اپنے جبار اور صاحب حکم رب کی اطاعت کر اور اس کے قہر سے ڈر اور دلیری کا طریقہ چھوڑ دے
۲۔ وکیف علی نار النھابر تصبر
وانت تَأَ ذّٰی عند حر الھواجر
اور تو دوزخ کی آگ پر کس طرح صبر کرے گا حالانکہ تجھے تو دوپہر کی گرمی سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
۳۔ وواللّٰہ ان الفسق صِلّ مد مر
کَمَلْمَسِ اَفْعٰی ناعم فی النواظر
اور خدا کی قسم بدکاری ایک ہلاک کرنیوالا سانپ ہے جو سانپ کی کھال کی طرح دیکھنے میں اچھی معلوم ہوتی ہے۔
۴۔ فلا تختروا الطغوٰی فاِنّ الٰھنا
غیورٌ علیٰ حرما تہٖ غیر قاصر
پس سرکشی نہ اختیار کرو کیونکہ ہمارا خدا بڑا غیر تمند ہے اور اپنی حرام کی ہوئی چیزوں کے کرنے والے کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
۵۔ ولا تقعدن یا بنَ الکِرَام بمفسدٍ
فترجع من حب الشریر کخاسر
اور اے بزرگوں کے بیٹے تو شریروں کے پاس نہ بیٹھا کر کیونکہ تو شریروں سے محبت کرکے نقصان ہی اٹھائے گا۔
۶۔ ولا تحسبن ذنبًا صغیرًا کھیّن
فانّ وداد الذنب احدی الکبائر
اور چھوٹے گناہ کو ہلکا نہ سمجھ کیونکہ چھوٹے گنا ہوںکر پسند رکھنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے۔
۷۔ واٰخرنُصحی توبۃٌ ثمّ توبۃ
وموت الفتٰی خیرٌ لہ من مناکرٖ
اور میری آخری نصیحت یہ ہے کہ توبہ کر پھر توبہ کراور ایک جوان کا مر جانا اس کے گناہ کرنے سے اچھا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شعر نمبر ۳ اور ۶ میں انجام آتھم میں درج کرتے وقت کچھ تبدیلی کی ہے۔ نمبر ۳ کا مصرعہ اس طرح کر دیا ہے۔ ’’وحُبّ الھوٰی وَاللّٰہِ صلّ مدمرٌ‘‘ اور نمبر۶ کے مصرعہ میں۔ الذّنب کی جگہ اللمم کا لفظ رکھ دیا ہے۔
{ 948} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جہاں تک مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طرز عمل سے نتیجہ نکا لا ہے وہ یہی ہے کہ حضور لڑکیوں کے پیدا ہونے کی نسبت لڑکوں کی پیدائش کو زیادہ پسند کرتے تھے اور زیادہ خوش ہوتے تھے اور اس معاملہ میں ان لوگوں کی رائے نہ رکھتے تھے جو کہا کرتے ہیں کہ لڑکی لڑکا چونکہ خدا کی دین ہیں۔اس لئے ہماری نظر میں دونوں برابر ہیں۔
خاکسار عر ض کرتا ہے کہ اس میں کیا شُبہ ہے کہ اگر اور حالات برابر ہوں تو کئی لحاظ سے لڑکا ،لڑکی سے افضل ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور فرق تو ظاہر ہی ہے کہ عام حالات میں لڑکا دین کی زیادہ خدمت کرسکتا ہے۔
{ 949} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک قصّہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ تھا اس کی لڑکی پر کوئی فقیر عاشق ہوگیا اور کوئی صورت وصل کی نہ تھی۔کہاں وہ فقیر اور کہاں وہ بادشاہ زادی ! آخر وہ فقیر اس غم میں مرگیا۔جب غسل دیکر اور کفن پہنا کر اسے دفن کرنے کے لئے تیار کیا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہونٹ ابھی ہل رہے ہیں۔کان لگا کر غور سے سُنا۔تو یہ شعر سُنائی دئیے۔
جانانِ مرا بمن بیارید
وِیں مردہ تنم بدو سپارید
گر بوسہ دہد بریں لبانم
ور زندہ شوم عجب مدارید
بادشاہ نے سُن کر کہا اچھا اس کی آزمائش کر لو۔چنانچہ شہزادی کو کہا کہ اس مُردہ کو بوسہ دو۔اس کے بوسہ دینے کی دیر تھی کہ وہ شخص اُٹھ بیٹھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہے تو یہ ایک قصّہ مگر اس سے حضرت صاحب کا یہ مطلب تھا کہ گوہر مقصود کا مل جانا ایک ایسی چیز ہے کہ گویا مُردہ کوبھی زندہ کر دیتی ہے۔
{ 950} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دن فرمایا کہ ایک شاعر غنیمت نامی تھا اس نے ایک دن یہ مصرعہ کہا:۔
صَبا شرمندہ می گرددبُروئے گُل نگہ کردن
پھر بہت غور اور فکر کیا کہ اس کے ساتھ کا دوسر امصرعہ بنے۔مگر نہ بنا۔اور وہ مدتوں اسی فکر میں غلطاں پیچاں رہا۔اتفاقیہ ایک دن وہ تھوڑا سا کپڑا خر یدنے بزاز کے ہاں گیا۔جہاں بزاز نے بیسیوں تھان اس کے سامنے کھول ڈالے۔مگر اُسے کوئی کپڑا پسند نہ آیا۔جب دُکان سے چلنے لگاتو بزاز کو وہ تمام تھان نئے سرے سے تہہ کرنے پڑے اور اسے بڑی دقت ہوئی ۔اس حالت کو دیکھ کر غنیمت بہت شرمندہ ہوا اور پھر بجلی کی طرح اس کے دل میں دوسرا مصرعہ آگیا اور وہ شعر پورا ہوگیا۔چنانچہ شعر یہ ہے ؎
صَباَ شرمندہ می گرددبُروئے گُل نگہ کردن
کہ رختِ غنچہ را وا کرد و نتوانست تہ کردن
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ نسیمِ صبا شر م کی وجہ سے پھول کی طرف نظر نہیںاُٹھا سکتی کہ اس نے کلی کا منہ کھول تو دیا مگر پھر اس کے بند کرنے کی طاقت نہ پائی۔
{ 951} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں اما م الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے ہم تینوں بھائیوں سے فرمایا کہ بٹالہ میں جائو۔سُنا ہے کہ ایک مولوی آرہ سے آرہا ہے اس نے بڑی مسجد مولوی صوفی شاہ والی میں جمعہ پڑھا نا ہے۔دیکھ سُن آئو کہ ہمارے متعلق کیا بیان کرتا ہے۔ہم تینوں برادربٹالہ میں گئے ۔پہلے ہم مولوی محمد حسین کی مسجد میں گئے۔مولوی صاحب وہاں موجود تھے اور ان کے علاوہ دو تین اور آدمی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم بھی وہاں جاکر بیٹھ گئے۔اس اثناء میں ایک شخص آیا اور اس نے آکر مولوی صاحب سے کہا کہ مجھے کچھ روپیہ زکوٰۃ سے دلوادیں۔وہاں مولوی صاحب کے برادروں میں سے محمد عمر نامی بیٹھا ہوا تھا۔مولوی صاحب نے اس کو کہا کہ اس شخص کو شیخ عبد الکریم کے پاس لے جائو اور زکوٰۃ سے کچھ دلوا دو۔شیخ محمد عمر نے جانے سے انکار کر دیا۔بھائی جمال الدین مرحوم نے کہا۔مولوی صاحب اگر حضرت مرزا صاحب ایک آدمی کو کہیں تو سو آدمی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس پر مولوی صاحب نے جوش میں آکر کہا کہ یہ کوئی حق کی دلیل ہے۔جواب میں کہا گیا کہ پھر حق کس کو کہتے ہیں اس پر مولوی صاحب اُٹھ کر گھر چل پڑے۔بھائی جما ل الدین مرحوم نے اس وقت کہا۔مولوی صاحب آپ کو حضرت مرزا صاحب نے اپنی عربی کتابوں میں جواب کے لئے مخاطب کیا ہے۔ان کا جواب کیوں نہیں دیتے ۔اس پر وہ کہنے لگے۔ ہاں اس کا جواب ایک طالب علم لکھ رہا ہے۔بھائی جمال الدین نے کہا کہ مخاطب تو آپ ہیں۔ طالب علم کو کیا حق ہے کہ وہ اس کا جواب دے۔مگر مولوی صاحب نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور گھر کو چلے گئے۔راستہ میں ایک گدھا ایندھن کا لدا ہوا کھڑا تھا۔اس کے پاس کھڑے ہو کر اس کے مالک سے سودا کرتے رہے۔ہم پھر سب قادیان آگئے۔کیونکہ وہ آرہ والا مولوی بٹالہ میں نہیں آیا تھا۔
{ 952} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آتھم سے مباحثہ مقرر ہوا تو حضور امرتسرجانے کی تیاری کرنے لگے اور ہم تینوں بھائی بھی ساتھ تھے اور دیگر دوست بھی ہمراہ تھے۔جب امرتسر پہنچے تو مباحثہ کی جگہ کے لئے ایک کوٹھی جو عیسائیوں کی تھی مقرر ہوئی۔یہ مباحثہ تحریری تھا۔ہر ایک فریق کے ساتھ دو دو کاتب تھے۔اس طرف حضرت صاحب اپنا مضمون لکھواتے اور دوسری طرف آتھم اپنا مضمون لکھوا رہا تھا۔بعد میں دونوں فریق کے مضمون سنائے جاتے۔وہ کتاب جس میں یہ مباحثہ درج ہے ’’جنگ مقدس ‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔جب حضرت صاحب مباحثہ سے فارغ ہوکر شہر میں آئے اور ہال بازار میں آپ جارہے تھے اور تمام جماعت پیچھے پیچھے جا رہی تھی تو اس وقت حضرت صاحب نے سفید کپڑے کا چوغہ پہنا ہوا تھا۔وہ چوغہ نیچے سے کچھ پھٹا ہوا تھا۔میاں چٹو لا ہوری بھی پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔وہ اس پھٹی ہوئی جگہ کوہر ایک کو دکھاتا تھاکہ آپ کو کوئی خبر نہیں کہ میرا چوغہ پھٹا ہوا ہے۔ اس کی اس سے غرض یہ تھی کہ اگر کوئی دُنیا دار ہوتا توایسے کپڑے پہننے اپنی ہتک سمجھتا۔ہم تین دن ٹھہرکر چلے آئے تھے۔ باقی مباحثہ ہمارے بعد ہوا تھا۔
{ 953} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ابتدا میں قادیان کے سب مقیم احمدی لنگر سے کھانا کھاتے تھے۔حضرت خلیفہ اوّل بھی گول کمرہ میں مہمانوں کے دستر خوان پر کھانا کھانے کے لئے آیا کرتے تھے۔اس دستر خوان پر حضرت صاحب شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان دنوںمیں کھانا کھلانے کا انتظام محمد سعید کے سپرد تھا۔ وہ حضرت مولوی صاحب سے کسی بات پر ناراض ہوا اور ارادتاً ان کے آگے خراب دال اور خراب روٹیاں رکھتا اور دیگر مہمانوں کے آگے سالن یا تازہ کھانااور اچھی روٹی رکھتا تھا مگر حضرت مولوی صاحب بکمال بے نفسی ومسکینی مدتوں اسی کھانے کو کھاتے رہے اور کوئی اشارہ تک اس کی اس حرکت کے متعلق نہ کیا۔پھر اس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ لوگ اپنے گھروں میں انتظام کھانے کا کرنے لگے تو ان دنوں میں چند دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت مولوی صاحب اگر کبھی بیمار ہوتے اور حضرت صاحب کو معلوم ہوتا کہ مولوی صاحب کے کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں ہے آپ اپنے ہاں سے ان کے لئے کھانا بھجوانا شروع کردیتے تھے جو مدّت تک باقاعدہ ان کے لئے جاتا رہتا تھا۔
{ 954} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔اے لاہور کی پہلی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورداسپور میں کرائی تھی۔جب رشتہ ہونے لگاتو لڑکی کو دیکھنے کے لئے حضور نے ایک عورت کو گورداسپور بھیجا تا کہ وہ آکر رپورٹ کرے کہ لڑکی صورت وشکل وغیرہ میں کیسی ہے اور مولوی صاحب کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں۔چنانچہ وہ عورت گئی۔جاتے ہوئے اسے ایک یاداشت لکھ کر دی گئی۔یہ کاغذ مَیں نے لکھا تھا اور حضرت صاحب نے بمشورہ حضرت ام المؤ منین لکھوایا تھا۔اس میں مختلف باتیں نوٹ کرائی تھیں ۔مثلاً یہ کہ لڑکی کا رنگ کیسا ہے۔قد کتنا ہے۔اس کی آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں ،ناک، ہونٹ، گردن، دانت، چال ڈھال وغیرہ کیسے ہیں۔غرض بہت ساری باتیں ظاہری شکل وصورت کے متعلق لکھوادی تھیں کہ ان کی بابت خیال رکھے اور دیکھ کر واپس آکر بیان کرے۔جب وہ عورت واپس آئی اور اس نے ان سب باتوں کی بابت اچھا یقین دلایاتو رشتہ ہوگیا۔اسی طرح جب خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے اپنی بڑی لڑکی حضرت میاں صاحب (یعنی خلیفۃ المسیح الثانی) کے لئے پیش کی۔تو ان دنوں میں یہ خاکسارڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس چکراتہ پہاڑ پر جہاں وہ متعین تھے بطور تبدیل آب وہوا کے گیا ہوا تھا۔واپسی پر مجھ سے لڑکی کا حُلیہ وغیرہ تفصیل سے پوچھا گیا۔پھر حضرت میاں صاحب سے بھی شادی سے پہلے کئی لڑکیوں کا نام لے لے کر حضور نے ان کی والدہ کی معرفت دریافت کیا کہ ان کی کہاں مرضی ہے۔ چنانچہ حضرت میاں صاحب نے بھی والدہ ناصر احمد کو انتخاب فرمایا اور اس کے بعد شادی ہوگئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ شادی سے پہلے لڑ کی کو دیکھ کر تسلی کر لینی چاہئے کہ کوئی نقص نہ ہو۔چنانچہ ایک دفعہ ایک مہا جر صحابی کو جو ایک انصاری لڑکی سے شادی کرنے لگا تھا فرمایا کہ لڑکی کو دیکھ لینا،کیونکہ انصار کی لڑکیوں کی آنکھ میں عموماً نقص ہوتا ہے۔اور حضرت صاحب نے جو مولوی محمد علی صاحب کی شادی کے وقت شکل وصورت کی تفصیل کے متعلق سوالات کئے تو یہ غالباً مولوی صاحب کے منشاء کے تحت کیا ہوگا۔
{ 955} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مولوی کرم الدین جہلمی کا مقدمہ گورداسپور میں تھا۔تو مجسٹریٹ نے پانچ صد روپیہ حضرت صاحب کو اور دو صد حکیم فضل دین صاحب کو اور پچاس روپیہ مولوی کرم الدین کو جرمانہ کیا تھا۔حضرت صاحب کی طرف سے اپیل ہوئی اور کل جرمانہ سات صد روپیہ واپس مل گیامگر مولوی کرم الدین کا جرمانہ قائم رہا۔اس فیصلہ کے بعد موضع اٹھوال ضلع گورداسپور میں جماعت احمدیہ نے جلسہ کیااور بعض علماء قادیان سے بھی وہاں گئے۔کچھ تقاریر ہوئیں۔بعد میں بارش شروع ہو گئی۔اور بہت سے احمدی وغیر احمدی دوست ایک بڑے مکان میں جمع ہوکر بیٹھ گئے۔اس وقت علی محمد درزی ساکن سوہل نے تقریر شروع کر دی کہ مولوی کرم دین کو فتح ہوئی ہے کیونکہ مرزا صاحب پر جرمانہ ہوا ہے۔مَیں نے جب یہ آواز سُنی تو میں نے اُسے کہا میر ے سامنے آکر بیان کرو۔اس نے آکر تقریر شروع کر دی۔میں نے کہا سنو!اِس مقدمے میں حضرت مرزا صاحب کی فتح ہوئی ہے۔اس نے کہا کہ مرزا صاحب نے کہا تھا کہ میری فتح ہوگی مگر گورداسپور میں جرمانہ ہوا۔مَیں نے کہا کہ اگر اپیل سے جرمانہ واپس آجائے تو کیا پھر بھی سزا قائم رہتی ہے؟کہنے لگا ہاں سزا قائم رہتی ہے۔مَیں نے تمام حاضرین کو مخاطب کرکے کہا کہ کیا آپ لوگ شہادت دے سکتے ہیں کہ جو شخص اپیل میں بَری ہو جائے اس پر پہلا جرم قائم رہتا ہے یا کہ وہ بَری ہو جاتا ہے۔تمام دوستوں نے کہا کہ وہ بَری ہوجاتا ہے۔اور کوئی جرم باقی نہیں رہتا۔ پھر بھی وہ انکار ہی کرتا رہا۔ مَیں نے کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جو قید ہوئی تھی کیا وہ مجرم ہیں یا کہ ان کو بَری سمجھا جاتاہے۔جب مَیں نے یہ واقعہ پیش کیا۔تو وہ ایسا خاموش ہوا کہ کوئی جواب اس سے بَن نہ پڑا ۔لوگوں نے بھی اس کا بُرا حال کیا۔اس پر وہ بہت ہی نادم اور شرمندہ ہوا۔پھر مَیں نے اس کو اس طور پر سمجھایا کہ حضرت صاحب نے اس مقدمہ سے پہلے شائع کیا ہوا تھا کہ ایک تو مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔ یعنی خدا تعالیٰ اس فریق کے ساتھ ہے جو متقی ہے اور دوسرا الہام یہ تھا کہ ’’عدالت عالیہ سے بری کیا جائے گا‘‘۔اب دونوں کو ملا کر دیکھو کہ یہ کیسی عظیم الشان صداقت ہے جو پوری ہوئی۔
{ 956} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ایک دفعہ کسی شخص کا ذکر سُنا نے لگے کہ وہ عورت پر سخت عاشق ہوگیا۔اور باوجود ہزار کوشش کے وہ اس عشق کو دل سے نہ نکال سکا۔آخر حضرت صاحب کے پاس آیا۔اور طالبِ دُعا ہوا۔حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ مجھے خدا کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص اس عورت سے ضرور بدکاری کرے گا۔مگر مَیں بھی پورے زور سے اس کے لئے دُعا کرونگا چنانچہ وہ شخص قادیان ٹھہرا رہا۔اور حضور دُعا کرتے رہے۔یہاں تک کہ اس نے ایک روز مولوی صاحب سے کہا کہ آج رات خواب میں مَیں نے اس عورت کو دیکھا اور خواب میں ہی اس سے مباشرت کی اور مَیں نے اس دوران میں اس کی شرمگاہ کو جہنم کے گڑھے کی طرح دیکھا۔جس سے مجھے اس سے اس قدر خوف اور نفرت پیدا ہوئی کہ یکدم وہ آتشِ عشق ٹھنڈی ہوگئی اور وہ محبت کی بے قراری سب دل سے نکل گئی۔بلکہ دل میں دوری پیدا ہوگئی اور خدا کے فضل اور حضور کی دعا کی برکت سے مَیں بدکاری سے بھی محفوظ رہا اور وہ جنون بھی جاتا رہا۔اور حضور نے جوبات میری بابت کہی تھی وہ ظاہر رنگ سے بدل کر خدا نے خواب میں پوری کرا دی۔یعنی مَیں نے اس سے تعلق بھی کر لیا اور ساتھ ہی مجھے گنا ہ سے بھی بچالیا ۔غالباً یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور متمّول آدمی تھا اور اُس نے حضرت صاحب کی بیعت بھی کی تھی۔مگر تعلق کو آخر تک نہیں نبھایا۔
{ 957} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک دفعہ ایک گدّی کُتّا بھی رکھا تھا۔وہ دروازے پر بندھا رہتا تھا اور اس کا نام شیرو تھا۔اس کی نگرانی بچے کرتے تھے۔یا میاں قدرت اللہ خانصاحب مرحوم کرتے تھے جو گھر کے دربان تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کتے کی ضرورت ان دنوں میں پیش آئی تھی جب حضرت صاحب باغ میں جاکر ٹھہرے تھے اور وہاں حفاظت کی صورت نہیں تھی۔مگر اس کے بعد کتّا شہر والے مکان میں بھی آگیا۔
{ 958} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ملتان کے سفر میں جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک رات لاہور ٹھہرے تھے۔وہاں ایک احمدی نے جو بیچارہ علم نہ رکھتا تھا حضرت صاحب سے کہا کہ حضور میرے ہاں دعوت قبول فرمائیے۔ حضور نے کچھ عذر کیا۔وہ کہنے لگا۔اگر حضور قبول نہیں کرینگے تو وعید نازل ہوگی۔حضرت صاحب اس کی اس جہالت کی بات پر ہنس پڑے اور دعوت قبول فرمالی ۔ ان دنوں میں لیکھرام اور آتھم کی پیشگوئیوں کے تذکرہ کی وجہ سے وعدۂ الہٰی اور وعید الہٰی کا لفظ کثرت سے لوگوں کی ز بانوں پر تھا۔اس نے بھی اپنی جہالت میں یہ لفظ حضرت صاحب کی شان میں کہہ دیا۔
{ 959} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ایک مرتبہ میرا ایک لڑکا مسمی عنایت اللہ بیمار ہوگیا۔مَیں اُسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس برائے علاج لے گیا۔آپ نے بعد نماز عشاء فرمایا کہ اس لڑکے کو باہر ہوا میں لے جائیں۔کیونکہ اس کو تپ محرقہ ہے اور ہمارے مکان چونکہ گرم ہیں اس لئے یہاں مناسب نہیں ۔اورایک بادکش بھی ہم کو دی اور آدھ سیر مصری دے کر فرمایا۔کہ گائو زبان کے پتے بھگوکر اسکو دیتے رہو۔
ہم اسے اسی وقت باہر لے گئے۔وہاں دو تین روز رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علاج کرواتے رہے۔مگر وہ زیادہ بیمار ہوگیا۔لہذا ہم اسے موضع کھارہ سے گھر واپس لے گئے۔گھر آکر اس کو آرام ہوگیا۔مگر کلّی صحت نہ ہوئی تھی۔اس لئے دوبارہ پھر حضرت صاحب سے اس کا حال بیان کیا کہ حضور اس کو پیٹ میں درد ہے۔آپ نے حکم دیا کہ اس کے پیٹ میں سُدا ہوگیاہے۔رومی مصطگی اور گلقند کھلائو۔چونکہ ہر روز قادیان جانا پڑتا تھا۔اور اس کو صحت نہ ہوتی تھی۔ تو حضور نے فرمایا کہ اس کو پھر قادیان لے آئو۔پھر یہاں ہی علاج ہوتا رہا۔ اور خدا کے فضل سے ا س کو صحت ہوگئی۔اور جب میں قادیان میں ہی تھا تو مجھے پیغام ملاکہ میرے گھر ایک اور لڑکا پیدا ہوا ہے اور پہلے لڑکے کو بھی اللہ تعالیٰ نے کامل شفا عنایت کر دی ہے۔میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی۔کہ لڑکا خدا کے فضل سے اور حضور کی دعائوں کی برکت سے صحت یاب ہوگیا ہے ۔اور اس کا ایک بھائی بھی پیدا ہوا ہے۔ حضور اس کا نام تجویز فرمادیں آپ نے فرمایا کہ اس کا نام رحمت اللہ رکھو۔کیونکہ یہ نام رسول کریم ﷺ کا ہے جیسے فرمایا: وماارسلنٰک الاّ رحمۃً للعالمین۔
{ 960} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحر یر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ مَیں حسب معمول قادیان گیا۔وہاں دیکھا تو ہمارے ایک دوست برکت علی گول کمرہ میں بیمار پڑے ہیں اور تپ محرقہ سے زبان بند ہو چکی تھی۔حضرت علیہ السلام نے فرمایا کر عرق گائو زبان اورشربت بنفشہ اس کے مُنہ میں ڈالو۔مَیں شام تک اسی طرح کرتا رہا۔اسی روز امرتسر سے ایک کاتب آیا۔جس کو حضور علیہ السلام نے بلایا تھا۔چونکہ ازلہ اوہام کی کاپی شروع ہونی تھی۔آپ نے فرمایا کہ آج تو ہمارے ایک دوست بیمار ہیں۔کل کام شروع کرایا جائیگا۔میاں برکت علی صاحب حافظ حامد علی صاحب کے بہنوئی اور مولوی عبدالرحمٰن صاحب جٹ کے والد ماجد تھے۔صبح ہوتے ہی حضور نے فرمایا کہ میاں حامد علی ان کو گھر لے جائو۔اس پر اُن کو فیض اللہ چک لایا گیااور فیض اللہ چک آتے ہی فوت ہوگئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
{ 961} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت آتھم کے متعلق یہ مشہور ہوا کہ وہ معیاد کے اندر فوت نہیں ہوا۔تو حضور علیہ السلام نے حکم دیا کہ دیہات میں روٹیاں پکوا کر تقسیم کرواور کہو کہ یہ روٹیاںفتح اسلام کی روٹیاں ہیں۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس سے حضرت صاحب کی مراد یہ تھی کہ پیشگوئی اپنی شرائط کے مطابق پوری ہوگئی ہے اور آتھم کا معیاد کے اندر نہ مرنا بھی پیشگوئی کی صداقت کی علامت تھا کیونکہ اس نے خائف ہو کر رجوع کیا تھا۔پس آپ چاہتے تھے کہ اس خوشی کا دیہات میں چرچا کیا جاوے۔
{ 962} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہمارے والد صاحب مرحوم مرض الموت سے بیمار تھے توہم کو بوقت دوپہر الہام ہوا۔ والسماء والطارق۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید والد صاحب کا آج ہی شام کے بعد انتقال ہوگا۔اور ہمارے دل میں فکر پیدا ہوا کہ ہمارے لئے کوئی اور کام یا روزگار کی صورت نہیں۔صرف آپ کی پنشن اور تعلقہ داری پر ہی گذارہ ہوتا تھا۔اوراس پر معاً الہام ہوا۔ ’’الیس اللہ بکافٍ عبدہٗ ‘‘۔ یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ سبحان اللہ! خدا نے اپنی کفالت کا کیا ثبوت دیاکہ ہزارہا مہمان اور ہزاروں کام سلسلہ کے کس طرح اس الہام الہٰی کے تحت انجام پذیر ہو رہے ہیں۔اور آپ نے اس الہام کو اپنی مُہر میں کھدوالیا تھا۔
{ 963} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان بٹالہ کے سفر میں یکّہ ۔پالکی اور بہلی میں سوار ہوتے دیکھا ہے مگر گھوڑے پر نہیں دیکھا۔لیکن سُنا ہے کہ جوانی میں گھوڑے کی سواری بہت فرمائی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پالکی سے مراد وہ سواری ہے جسے کہار لوگ کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور وہ کندھوں کے برابر ہی اونچی رہتی ہے۔
{ 964} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے زیادہ تر بسراواں یا بُٹّر کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔کبھی کبھی ننگل یا بٹالہ کی سڑک پر بھی جاتے تھے۔اور شاذونادر کسی اور طرف بھی۔اورعام طور پر ڈیڑھ سے دو میل تک باہر نکل جاتے تھے۔اور جب حضرت صاحب سیر کو جاتے یا گھر میں ٹہلتے تو تیز قدم چلا کرتے تھے۔آپ کی چال مستعدجوانوں کی سی تھی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ بسراواں قادیان سے مشرق کی طرف ہے اور بُٹّر شمال کی طرف ہے اور ننگل جنوب کی طرف ہے اور بٹالہ مغرب کی طرف ہے۔
{ 965} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں معراج الدین صاحب عمر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق الفضل مورخہ ۳؍اگست ۱۹۳۷ء میں ایک مضمون شائع کرایا تھا۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:۔
’’جن لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ان میں سے ایسے بہت اصحاب موجود ہیں ۔جنہوں نے آپ کی زبان مبارک سے بار ہا سُنا کہ آپ اپنی عمر کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم پیدا ہوئے تو پھاگن کا مہینہ تھا(یادرکھنا چاہئے کہ ہمارے ملک میں ہندی بکرمی سنہ مروج ہے اور اس پھاگن سے مراد وہی مر وجہ بکرمی سن ہے۔)اور جمعہ کا روز تھا۔پچھلی رات کا وقت تھا ۔اورقمری حساب سے چاند کی چودھویں رات تھی۔یہی بات اخی مکرمی حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی کتاب’’ذکرحبیب‘‘کے صفحہ نمبر۲۳۹ پر لکھی تھی۔جس کو ناظرین دیکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات مجھے یاد بھی تھی۔لیکن حال میں ’’ذکرحبیب‘‘ کے مطالعہ سے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ بیان مستحضر ہوگیا ہے۔اور مَیں نے تحقیق کرنا شروع کردی۔کیونکہ میرے دل میں تحقیق کرنے کی زور سے تحریک پیدا ہوئی۔خوش قسمتی سے میری مرتبہ کتاب تقویم عمری جو ایک سو پچیس برس کی جنتری کے نام سے بھی موسوم ہے۔میرے سامنے آگئی اور مَیں نے غور سے اس کا مطالعہ کیا یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ولادت کے سال اور وقت کے متعلق فرمایا ہے۔اس کی تلاش سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ آپ کی ولادت جس جمعہ کو ہوئی تھی وہ ۱۴؍ماہ رمضان المبارک۱۲۴۷ ہجری کا دن تھا۔اور بحساب سمت بکرمی یکم پھاگن سمہ ۱۸۸۸ کے مطابق تاریخ تھی جو عیسوی سن کے حساب سے ۱۷ ؍فروری ۱۸۳۲ء کے مطابق ہوتی ہے۔پس اس طریق سے حضور موصوف کی عمر ہر حساب سے حسب ذیل ثابت ہوتی ہے۔
(الف)بحساب سمت ہندی بکرمی آپ یکم پھاگن سمہ ۱۸۸۸ بکرمی کو پیدا ہوئے اور جیٹھ سمہ ۱۹۶۵ بکرمی کو آپ کا رفع ہوا۔گویا ہندی بکرمی سالوں کی رو سے آپ کی عمر ۷۶ سال چار ماہ ہوئی ۔
(ب)عیسوی سال ۱۷؍ فروری ۱۸۳۲ء کو آپ کی ولادت ہوئی اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ اپنے خالق حقیقی رفیق اعلیٰ سے جاملے۔پس اس حساب سے آپ نے ۷۶ سال دو ماہ اور ۹ دن عمر پائی۔
(ج) سن ہجری مقدس کے مطابق آپ ۱۴؍ رمضان المبارک۱۲۴۷ھ کو پیدا ہوئے۔اور۹؍ربیع الاول۱۳۲۶ھ کو خدا سے جاملے۔اس حساب سے آپ کی عمر ۷۸ سال ۵ ماہ اور ۲۵ دن ہوئی۔یعنی ساڑھے اٹھہتر سال ہوئی۔
اس سے اب صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ آنحضرت کی عمر الٰہی الہام کے مطابق ۸۰ سال کے قریب ہوئی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں اپنی تحقیق روایت نمبر ۶۱۳ میں درج کر چکا ہوں۔میاں معراج الدین صاحب عمر کی تحقیق اس سے مختلف ہے لیکن چونکہ دوستوں کے سامنے ہر قسم کی رائے آجانی چاہئے اس لئے مَیں نے اسے درج کردینا ضروری سمجھا ہے۔ویسے میری رائے میں جس نتیجہ پر مَیں پہنچاہوں وہ زیادہ صحیح اور درست ہے۔ واللّٰہ اعلم۔
{ 966} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھے آجکل غم وہم نے بہت تنگ کر رکھا ہے۔تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے ایک عرق تیار کیا ہے۔وہ روز پی لیا کرو۔شراب تو حرام ہے لیکن ہم نے یہ عرق خود حلال تیار کیا ہے۔سو حضور متواتر ایک ماہ تک مجھے یہ عرق روزانہ ایک چھٹانک صبح ایک چھٹانک شام کو عنایت فرماتے رہے۔پھر مَیں نے نسخہ دریافت کیا تو فرمایاکہ اس میں جدوارؔ۔عرق کیوڑاؔ۔بیدؔمشک اور مشک یعنی کستوری پڑتی ہے۔مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ تم سے تیار نہیںہو سکے گا۔۔یہاں سے ہی لے جائو۔جب ختم ہوجائے تو لکھ دینا۔ہم اور بھیج دینگے ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے سمجھ لیا ہوگا کہ سیٹھی صاحب کا غم وہم کسی جسمانی عارضہ کی وجہ سے ہے۔اس لئے آپ نے طبّی نسخہ تجویز فرمایا۔ویسے بھی بعض ظاہری علاج دل میں فرحت اور امنگ پیدا کر دیتے ہیں۔
{ 967} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت لے کر واپس چلا تو حضور علیہ السلام و داع کرنے کے لئے باہر باغ کی طرف تشریف لے آئے۔جب رخصت ہو کر مَیں یکّہ میں بیٹھنے لگاتو حضور فرمانے لگے کہ واپس چلو۔مَیں نے عرض کی کہ حضور یکّہ والا ناراض ہوگا۔فرمایا کہ چار آنے کے پیسے ہم اس کو دیدینگے۔چنانچہ حضور مجھے واپس لے آئے۔افسوس میری بدبختی تھی کہ مَیں حضور کی منشاء کو نہ سمجھا اور پھر تیسرے چوتھے دن رخصت لے کر واپس چلا گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس وقت حضرت صاحب کو کوئی اشارہ ہوا ہوگا یا کسی وجہ سے حضور نے یہ سمجھا ہوگا کہ اس وقت سیٹھی صاحب کا سفر کرنا مناسب نہیں۔ اس لئے روک لیا ہوگا۔
{ 968} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ایک رجسٹری خط بھیجا۔میں نے کھول کر دیکھا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ مقدمہ سخت ہے اور حاکم اعلیٰ نے بھی ایماء کر دیا ہے کہ سزا ضرور دو۔اس صورت میں مبشر الہامات شاید محکمہ اپیل میں پورے ہوں ۔سو ایسا ہی ہوا کہ حاکم نے پانچ صد روپیہ جرمانہ کیا۔جو اپیل میںواپس آگیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ مولوی کرم دین والے مقدمہ کا واقعہ ہے۔
{ 969} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایاکہ حضور غلام نبی کو مراق ہے۔تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے۔اور مجھ کو بھی ہے۔یہ طبیعتوں کی مناسبت ہے ۔جس قدر ایسے آدمی ہیں کھچے چلے آوینگے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ روایت نمبر ۱۹،۳۶۰،۱/۳۶۹میں تشریح کی جاچکی ہے اس سے طبّی اصطلاح والا مراق مراد نہیں۔بلکہ حس کی غیر معمولی تیزی اور طبیعت کی ذکاوت مراد ہے۔جس کے اندر یہ احساس بھی شامل ہے کہ جب ایک کام کا خیال پیدا ہو تو جب تک وہ کام ہو نہ جاوے۔چین نہ لیا جاوے اور اس کی وجہ سے طبیعت میں گھبراہٹ رہے۔
{ 970} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن بڑی مسجد میں بیٹھے تھے۔مسجد کے ساتھ جو گھر ہندوئوں کے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ جگہ اگر مسجدمیں شامل ہوجائے تو مسجد فراخ ہوجاوے۔ حضور کے چلے جانے کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ آج مرزا نے یہ سارے مکان لے لئے ۔سو اب آکر حضور علیہ السلام کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ یہ مکانات مسجد میں مل گئے۔ہمارا تو اس وقت بھی ایمان تھا کہ حضرت صاحب کی سرسری باتیں بھی پوری ہوکر رہیں گی۔کیونکہ حضور بِن بلائے بولتے نہ تھے۔
{ 971} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی شاذونادر ہی مجلس ایسی ہوتی ہوگی۔جس میں ہِر پھر کر وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ذکر نہ آجاتا ہو۔آ پ کی مجلس کی گفتگو کا خلا صہ میرے نزدیک دو لفظوں میں آجاتا ہے ایک وفات مسیح اور دوسرے تقویٰ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ وفات مسیح عقائد کی اصلاح اور دوسرے مذاہب کو مغلوب کرنیکے کام کا خلاصہ تھااور تقویٰ اصلاح نفس کا خلاصہ ہے ۔مگر آج کل وفات مسیح سے بحث کا میدان بدل کر دوسری طرف منتقل ہوگیا ہے۔
{972} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف) جب چھوٹے تھے تو ان کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی بہت عادت ہوگئی تھی۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے’’ابا چٹی‘‘ حضرت صاحب تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے۔کوٹھڑی میں جاتے۔شکر نکال کر ان کو دیتے۔اور پھر تصنیف میں مصروف ہوجاتے ۔تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے۔اور کہتے’’اباّ چٹی‘‘(چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا۔اور مراد یہ تھی کہ چٹّے رنگ کی شکر لینی ہے)حضرت صاحب پھر اُٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے۔غرض اس طرح ان دنوں میں روازانہ کئی کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ہوتی رہتی تھی۔مگر حضرت صاحب باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے۔بلکہ ہر دفعہ ان کے کام کے لئے اٹھتے تھے۔یہ ۱۸۹۵ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری پیدائش اپریل ۱۸۹۳ء کی ہے۔
{ 973} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اصل میں عربی زبان کی ستائیس لاکھ لُغت ہے جس میں سے قرآن مجید میں صرف چار ہزارکے قریب استعمال ہوئی ہے۔عربی میں ہزار نام تو صرف اُونٹ کا ہے اور چار سو نام شہد کا۔
{ 974} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے۔مرزا کا کلمہ یہ ہے کہ
’’ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘
{ 975} بسم اللہ الر حمن الر حیم۔ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے۔یعنی:۔
آپ نہایت رئوف رحیم تھے۔سخی تھے۔مہمان نواز تھے۔ اشجع الناس تھے۔ ابتلائوں کے وقت جب لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے۔عفو،چشم پوشی،فیاضی، دیانت، خاکساری، صبر،شکر،استغنائ،حیا،غض بصر،عفّت،محنت،قناعت،وفاداری،بے تکلفی،سادگی، شفقت، ادب الہٰی،ادب رسول وبزرگانِ دین، حلم،میانہ روی، ادائیگی حقوق،ایفائے وعدہ۔ چُستی، ہمدردی، اشاعت دین،تربیت ،حسن معاشرت،مال کی نگہداشت،وقار،طہارت،زندہ دلی اور مزاح، رازداری، غیرت، احسان، حفظ مراتب ،حسن ظنّی،ہمت اور اولوالعزمی ،خودداری،خوش روئی اور کشادہ پیشانی کظم غیظ، کف یدوکف لسان،ایثار،معمورالاوقات ہونا،انتظام،اشاعت علم ومعرفت،خدا اور اس کے رسول کا عشق،کامل اتباع رسول،یہ مختصراً آپ کے اخلاق وعادات تھے۔
آپ میں ایک مقناطیسی جذب تھا۔ایک عجیب کشش تھی،رُعب تھا، برکت تھی،موانست تھی،بات میں اثر تھا،دُعامیں قبولیت تھی،خدام پروانہ وار حلقہ باندھ کر آپ کے پاس بیٹھتے تھے۔اور دلوں سے زنگ خود بخود دُھلتا جاتا تھا۔
بے صبری۔ کینہ۔ حسد۔ ظلم۔ عداوت۔ گندگی۔ حرص دنیا۔ بدخواہی۔ پردہ دری۔ غیبت۔ کذب۔ بے حیائی۔ ناشکری۔ تکبّر۔ کم ہمتی۔ بخل۔ تُرش رُوئی و کج خُلقی۔ بُزدلی۔ چالاکی۔ فحشائ۔ بغاوت۔ عجز۔ کسل۔ ناامیدی۔ ریا۔ تفاخر ناجائز۔ دل دکھانا۔ استہزائ۔ تمسخر۔ بدظنی۔ بے غیرتی۔ تہمت لگانا۔ دھوکا۔ اسراف و تبذیر۔ بے احتیاطی۔ چُغلی۔ لگائی بجھائی۔ بے استقلالی۔ لجاجت۔ بے وفائی۔ لغو حرکات یا فضولیات میں انہماک، نا جائز بحث و مباحثہ۔ پُرخوری۔ کن رسی۔ افشائے عیب۔ گالی۔ ایذاء رسانی۔ سفلہ پن۔ ناجائز طرفداری۔ خودبینی۔ کسی کے دُکھ میں خوشی محسوس کرنا۔ وقت کو ضائع کرنا۔ ان باتوں سے آپ کوسوں دُور تھے۔
آپ فصیح وبلیغ تھے۔نہایت عقلمندتھے۔دوراندیش تھے۔سچے تارک الدنیا تھے۔ سلطان القلم تھے اورحسب ذیل باتوں میں آپ کو خاص خصوصیت تھی۔خدا اور اس کے رسول کا عشق،شجاعت ، محنت،توحید و توکل علی اللہ،مہمان نوازی ،خاکساری،اور نمایاں پہلو آپ کے اخلاق کا یہ تھا کہ کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی ناپسند فرماتے تھے۔ اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے۔
آپ نمازباجماعت کی پابندی کرنے والے ،تہجد گزار،دُعاپر بے حد یقین رکھنے والے،سوائے مرض یا سفر کے ہمیشہ روزہ رکھنے والے،سادہ عادات والے،سخت مشقّت برداشت کرنے والے اور ساری عمر جہاد میں گذارنے والے تھے۔
آپ نے انتقام بھی لیا ہے۔آپ نے سزا بھی دی ہے۔آپ نے جائز سختی بھی کی ہے۔ تادیب بھی فرمائی ہے یہاں تک کہ تادیباً بعض دفعہ بچہ کو مارا بھی ہے۔ملازموں کو یا بعض غلط کار لوگوں کو نکال بھی دیا ہے۔ تقریروتحریر میں سختی بھی کی ہے۔عزیزوں سے قطع تعلق بھی کیاہے۔ بعض خاص صورتوں میں توریہ کی اجازت بھی دی ہے۔بعض وقت سلسلہ کے دشمن کی پردہ دری بھی کی ہے۔(مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی کے مہدی کے انکار کا خفیہ پمفلٹ)بددعا بھی کی ہے۔مگر اس قسم کی ہر ایک بات ضرورتاً اور صرف رضائے الہٰی اور دین کے مفاد کے لئے کی ہے نہ کہ ذاتی غرض سے۔ آپ نے جھوٹے کو جھوٹا کہا۔جنہیں لئیم یا زنیم لکھاوہ واقعی لئیم اور زنیم تھے۔جن مسلمانوں کو غیر مسلم لکھا وہ واقعی غیر مسلم بلکہ اسلام کے حق میں غیر مسلموں سے بڑھ کر تھے۔
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کے رحم اور عفو اور نرمی اور حلم والی صفات کا پہلو بہت غالب تھا۔ یہاں تک کہ اس کے غلبہ کی وجہ سے دوسرا پہلو عام حالات میں نظر بھی نہیں آتا تھا۔
آپ کو کسی نشہ کی عادت نہ تھی۔کوئی لغو حرکت نہ کرتے تھے،کوئی لغو بات نہ کیا کرتے تھے،خدا کی عزّت اور دین کی غیرت کے آگے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔آپ نے ایک دفعہ علانیہ ذبّ تہمت بھی کیا۔ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا۔توآپ نے اس کی درخواست پر اُسے معاف کر دیا۔ایک فریق نے آپ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہامگر حاکم پر حق ظاہر ہوگیا۔اور اس نے آپ کو کہا ۔کہ آپ ان پر قانوناً دعویٰ کرکے سزا دلاسکتے ہیںمگر آپ نے درگذر کیا۔آپ کے وکیل نے عدالت میں آپ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی۔مگر آپ نے اُسے روک دیا۔
غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دُنیا کے سامنے پیش کیا۔جو معجزانہ تھا۔سراپا حسن تھے۔سراسر احسان تھے۔اور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسُول اللہ ہے۔صلے اللہ علیہ وسلم اور بس۔
آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق مَیں نے دیکھا کہ مَیں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں۔یہ نہیں کہ مَیں نے یونہی کہدیا ہے۔ مَیں نے آپ کو اس وقت دیکھا۔جب مَیںدو برس کا بچہ تھا۔پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔مگر مَیں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں۔کہ مَیں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک ،آپ سے زیادہ بزرگ ،آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کرگئی ۔اگر حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی۔کہ ’’کان خلقُہُ القرآن‘‘ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ’’ کان خلقُہُ حُبَّ محمدٍ واتباعہ‘ علیہ الصّلٰوۃ والسلام
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مکرم ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے اپنی اس روایت میں ایک وسیع دریاکو کوزے میں بند کرنا چاہا ہے۔ان کا نوٹ بہت خوب ہے اور ایک لمبے اور ذاتی تجربہ پر مبنی ہے اور ہر لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا ہے۔مگر ایک دریا کو کوزے میں بند کرناانسانی طاقت کا کام نہیں ۔ہاں خدا کو یہ طاقت ضرور حاصل ہے اور مَیں اس جگہ اس کوزے کا خاکہ درج کرتا ہوں جس میں خدا نے دریا کو بند کیا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء ‘‘
یعنی خدا کا رسُول جو تمام نبیوں کے لباس میں ظاہر ہوا ہے۔
اس فقرہ سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی جامع تعریف نہیں ہوسکتی۔آپ ہر نبی کے ظل اور بروز تھے اور ہر نبی کی اعلیٰ صفات اور اعلیٰ اخلاقی طاقتیں آپ میں جلوہ فگن تھیں۔کسی نے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے:۔
حسنِ یوسف ،دمِ عیسیٰ ،یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یہی ورثہ آپ کے ظل کامل نے بھی پایا مگر لوگ صرف تین نبیوں کو گن کر رہ گئے۔خدا نے اپنے کوزے میں سب کچھ بھر دیا۔اللھم صل علیہ وعلٰی مطاعہ محمد وبارک وسلّم واحشرنی ربّ تحت قدمیھما ذلک ظنی بک ارجو منک خیرًا ـآمین ثم آمین
اس جگہ سیرۃ المہدی کا حصّہ سوم ختم ہوا۔
(واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 4 ۔ یونی کوڈ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
{976} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ہمارے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ جس روز پنڈت لیکھرام کے قتل کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی ہوئی۔تو اچانک پولیس کپتان بمعہ ایک گروہ سپاہیوں کے قادیان آگیااور آتے ہی سب ناکے روک لئے ۔ باہر کے لوگ اندر اور اندر کے باہر نہ جاسکتے تھے۔ میر صاحب قبلہ یعنی حضرت والد صاحب جو مکان کے اندر تھے فوراً حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ ایک انگریز بمعہ سپاہیوں کے تلاشی لینے آیا ہے ۔ فرمایا بہت اچھا آجائیں ۔ میرصاحب واپس چلے تو آپ نے اُن کو پھر بلایا ۔ اور ایک کتاب یا کاپی میں سے اپنا الہام دکھا یا جو یہ تھا کہ مَاھٰذَا اِلَّا تَہْدِیْدُ الْحُکَّامِ یعنی یہ حکام کی طرف سے صرف ایک ڈراوا ہے ۔ اس کے بعد جب انگریز کپتان بمعہ پولیس کے اندر داخل ہوا تو آپ اُسے ملے ۔ اُ س نے کہا کہ مرز اصاحب! مجھے آپ کی تلاشی کا حکم ہو اہے ۔ حضور نے فرمایا !بیشک تلاشی لیں میں اس میں آپ کو مدد دوں گا۔ یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور صندوق ، بستے اور پھرتمام گھر اور چوبارہ سب کچھ دکھایا۔ انہوں نے تمام خط وکتابت میں سے صرف دو خط لئے جن میں سے ایک ہندی کا پرچہ تھا۔ جو دراصل آٹاوغیرہ خریدنے اور پسوانے کی رسید یعنی ٹومبو تھا۔ دوسرا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام الدین یعنی محمدی بیگم کے ماموں کا تھا ۔ پھر وہ چند گھنٹے بعد چلے گئے ۔ چاشت کے وقت وہ لوگ قادیان آئے تھے ۔ اس کے بعد دوبارہ دوہفتہ کے بعد اس خط کی بابت دریافت کرنے کے لئے ایک انسپکٹر پولیس بھی آیا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے اور اس کے متعلق مزید تفصیل دوسری روایتوں میں مثلاً روایت نمبر۴۶۰میں گذر چکی ہے ۔ یہ روایت ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے خود بیان کی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت حضرت میر صاحب وفات پاچکے ہیں۔
نوٹ:۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جولائی۱۹۴۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے تھے اور میں اس تالیف کی نظر ثانی اکتوبر۱۹۴۹ء میں لاہور میں کررہاہوں ۔
{ 977} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء کے نام چونکہ خدا کی طرف سے رکھے جاتے ہیں اس لئے ہر ایک کے نام میں اس کی کسی بڑی صفت کی پیشگوئی موجود ہوتی ہے ۔ مثلاً آدم ، گندم گوں اقوام کا باپ ۔ ابراہیم ، قوموں کا باپ۔ اسماعیل ، خدا نے دعا کو سن لیا۔ یعنی اولاً اولاد کے متعلق ابراہیم کی دعا کو سن لیا اور پھر مکہ کی وادی غیرذی زرع میں اسماعیل کی پکار سن لی اور پانی مل گیا اور آبادی کی صورت پید اہوگئی۔ اسحق ، اصل میں اضحاک ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰـھَا بِاِسْحٰق(ھود:۷۲)۔ نوح کا اتنی لمبی عمر نوحہ کرنا مشہور ہے ۔مسیح ، سفر کرنے والا ، خدا کاممسوح۔ سلیمان جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے ۔ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن(النحل:۴۵) ۔ ایسا بادشاہ جو نہ صرف خود مسلم تھا بلکہ جس کے طفیل ایک شہزادی بمعہ اپنے اہل ملک کے اسلام لائی۔ مریم بتول یعنی کنواری ۔ چنانچہ فرماتا ہے اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا(اٰل عمران:۳۶)۔یعقوب ۔ پیچھے آنے والا ۔ وَمِنْ وَّرَآئِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ(ھود:۷۲) یوسف۔ یَااَسَفٰی عَلٰی یُوسُفَ (یوسف:۸۵)۔ محمد ﷺ، تمام کمالات کا جامع جس کی ہر جہت سے تعریف کی جائے یعنی کامل محمود ومحبوب اور معشوق ۔ احمد ،نہایت حمد کرنے والا یعنی عاشق صادق وغیرہ وغیرہ ۔
{ 978} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ خواب میں چور کی تعبیر داماد بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا چور ہوتا ہے ۔ اسی طرح جوتی کی تعبیر عورت ہوتی ہے اور عورت کی تعبیر دنیا۔ ہاتھوں کی تعبیر بھائی ہوتی ہے اور دانت ٹوٹ جائے تو تعبیر یہ ہے کہ کوئی عزیز مر جائے گا ۔ اوپر کا دانت ہو تو مرد نیچے کا ہوتو عورت ۔
{ 979} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کپورتھلہ کی جماعت میں ہم پانچ آدمی جماعت کے نام سے نامزد تھے۔ (۱)خاکسار فیاض علی (۲)منشی اروڑا صاحب تحصیل دار مرحوم (۳)منشی محمد خان صاحب مرحوم(۴)منشی عبد الرحمن صاحب (۵)منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس۔ ان سب کو حضرت مسیح موعود نے۳۱۳میں شمار کیاہے اور مجموعی طور پرا ور فرداً فرداً حضرت اقدس نے ان کو جو دعائیں دی ہیں وہ ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں درج ہیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت سے ہماری جماعت کے ہر فرد نے اپنی زندگی میںبہشت کا نمونہ دیکھ لیا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فیاض علی صاحب پرانے صحابی تھے ۔افسوس ہے کہ اس وقت(۱۹۴۹ء )میں وہ اور منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب سب فوت ہوچکے ہیں ۔
{ 980} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کو دعا دی تھی ’’اے خد اتو اس کے اندر ہو کر ظاہر ہو۔‘‘(ملاحظہ ہو ازالہ اوہام) اس سے پیشتر میں قطعی بے اولاد تھا ۔ شادی کو چودہ سال گذر چکے تھے ۔ دوسری شادی کی۔ وہ بیوی بھی بغیر اولاد نرینہ کے فوت ہوگئی۔ تیسری شادی کی ۔ اُس سے پے در پے خدا نے چار لڑکے اور دو لڑکیاں عطا کیں۔ ایک لڑکا چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا۔ تین لڑکے اور لڑکیاں اس وقت زندہ موجود ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک خدا کے فضل سے خوش حال وخوش وخرم ہے ۔ لڑکیاں صاحب اقبال گھر بیاہی گئیں۔ ان میں سے ہر ایک احمدیت کا دلدادہ ہے۔ بڑ ا لڑکا مختار احمد ایم اے ۔بی ۔ٹی سر رشتہ تعلیم دہلی میں سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ دوسرا لڑکا نثاراحمد بی اے ، ایل ایل بی ضلع شاہجہان پور میں وکالت کرتا ہے ۔ تیسرا لڑکا رشید احمد بی۔ ایس۔ سی پاس ہے اور قانون کا پرائیویٹ امتحان پاس کرچکا ہے ۔ اور اس وقت ایم۔ ایس۔ سی کے فائنل کے امتحان میں ہے ۔
{ 981} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے ایک لڑکے کو مرگی کا عارضہ ہوگیا تھا ۔ بہت کچھ علاج کرایا مگر ہر ایک جگہ سے مایوسی ہوئی۔ قادیان میں مولانا حکیم نورا لدین صاحب خلیفہ اولؓ کی خدمت میں بھی مع اس کی والدہ کے لڑکے کو بھیجا گیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ اور اس کی والدہ مایوس ہو کر گھر واپس آنے لگی ۔ اس وقت حضرت ام المومنین کے مکان میں اُن کا قیام تھا ۔ حضرت ام المومنین نے لڑکے کی والدہ سے فرمایا ۔ ٹھہرو ہم دعا کریں گے ۔ چنانچہ حضور دام اقبالھا قریباً دو گھنٹہ بچہ کی صحت کے واسطے سربسجود رہیں ۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ رات کو لڑکے نے خواب میں دیکھا۔ کہ چاندنی رات ہے اور میں دورہ مرگی میں مبتلا ہوں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیت الدعا کی کھڑکی سے تشریف لائے اور مجھ کودیکھ کر دریافت کیا کہ تیرا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور
ملاحظہ فرمالیں۔ مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ گھبراؤنہیں ، آرام ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس کی والدہ لڑکے کو لے کر گھر واپس چلی آئی ۔ پھر میں ہر مشہور ڈاکٹر اور طبیب سے لڑکے کا علاج کرواتا رہا۔ آخر قصبہ ہاپڑ ضلع میرٹھ میں ایک طبیب کے پاس گیا۔ اس نے نسخہ تجویز کیا اور رات کو اپنے سامنے کھلایا ۔ اس وقت لڑکے کو نہایت سختی کے ساتھ دورہ ہوگیا ۔ طبیب اپنے گھر کے اندر جاکر سوگیا۔ اور ہم دونوں باہر مردانہ میں سوگئے۔ صبح ہوئی نماز پڑھی ۔ طبیب بھی گھر سے باہر آیا۔ طبیب نے کہا کہ رات کو میںنے ایک خواب دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب دی گئی۔ جب میں نے اس کو کھولا تو اس کے شروع میں لکھا ہوا تھا۔ اس مرض کا علاج املی ہے ۔ چھ سات سطر کے اندر یہی لکھا ہوا تھا کہ اس مرض کا علاج سوائے املی کے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ طبیب نے کہا کہ نہ تو میں مرض کو سمجھااور نہ علاج کو ۔ میں نے تمہیں اپنا خواب سنا دیا ہے ۔ میں نے طبیب کے اس خواب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت کے مطابق خد اکی طرف سے الہام سمجھااور لڑکے کو لے کر گھر چلا آیا۔ املی کااستعمال شروع کردیا۔ رات کو چار تولہ بھگو دیتا تھا ۔ صبح کو چھان کر دو تو لہ مصری ملا کر لڑکے کو پلا دیتا تھا۔ دو ہفتہ کے اندر اُس مرض سے لڑکے نے نجات پالی۔ اور اس وقت خداکے فضل سے گریجویٹ ہے اور ایک اچھے عہدہ پر ممتاز ہے ۔
{ 982} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ریاست کپور تھلہ میں ڈاکٹر صادق علی صاحب مشہور آدمی تھے اور را جہ صاحب کے مصاحبین میں سے تھے۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو بیعت کی کیا ضرورت ہے ۔ دوبارہ اصرار کیا ۔ فرمایا آپ تو بیعت میں ہی ہیں۔ مگر باوجود اصرار کے بیعت میں داخل نہ فرمایا ۔ نہ معلوم کہ اس میں کیا مصلحت تھی ۔
{ 983} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپور تھلہ تشریف لائے تو ایک شخص مولوی محمد دین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی درخواست کی۔ حضور نے جواب دیا۔ آپ سوچ لیں۔ دوسرے دن اس نے عرض کی تو پھر وہی جواب ملا ۔ تیسرے دن پھر عرض کی ۔ فرمایا آپ استخارہ کرلیں۔ غرض اس طرح ان مولوی صاحب کی بیعت قبول نہ ہوئی ۔
{ 984} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں حکیم جعفر علی ڈاکٹر صادق علی کے بھائی تھے۔ جماعت کپور تھلہ جلسہ پر قادیان جارہی تھی۔ جعفر علی نے کہا کہ لنگر خانہ میں پانچ روپیہ میری طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کئے جائیں۔ وہ روپے منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس نے حضورکی خدمت میںپیش کئے۔ مگر حضور نے قبول نہ فرمائے ۔ دوسرے دن دوبارہ پیش کئے۔ فرمایا۔ یہ روپے لینے مناسب نہیں ہیں۔ تیسرے دن منشی ظفر احمد صاحب نے پھر عرض کی کہ بہت عقیدت سے روپے دئیے گئے ہیں ۔ اس پر فرمایا: تمہارے اصرار کی وجہ سے رکھ لیتے ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص محبّوں میں سے تھے اور مجھے ان کی محبت اور اخلاص کو دیکھ کر ہمیشہ ہی رشک آیا۔
{ 985} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں ایک شخص شرابی ، فاسق وفاجر تھا۔ ایک رات وہ کسی جگہ سے شب باش ہوکر آیا۔ راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان میں وعظ فرما رہے تھے ۔ یہ شخص بھی وعظ کا سن کر وہاں آگیا۔ وعظ میں حضور علیہ السلام افعالِ شنیعہ کی بُرائی بیان فرما رہے تھے۔ اس شخص نے مجھ سے کہا ۔ حضرت صاحب کے وعظ کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ لوگوں کو مخاطب کر کے مجھے سمجھا رہے ہیں ۔ اُس دن سے اُس نے توبہ کی ۔ شراب وغیرہ چھوڑ دی اور پابند صوم وصلوٰۃ ہوگیا۔
{ 986} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد کپورتھلہ حاجی ولی اللہ غیر احمدی لاولد نے بنائی تھی ۔ اس کے دو برادر زادے تھے۔ انہوںنے حبیب الرحمن صاحب کو مسجد کا متولی قرار دیا اور رجسٹری کرادی ۔ متولی مسجد احمدی ہوگیا۔ جب جماعت احمدیہ کو علیحدہ نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ تو احمدیوںاور غیر احمدیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ غیر احمدیوں نے حکام بالا اور رؤسائے شہر کے ایماء سے مسجد پر جبراً قبضہ کر لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ اپنے حقوق کو چھوڑنا گناہ ہے۔ عدالت میں چارہ جوئی کرو۔ اس حکم کے ماتحت ہم نے عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ یہ مقدمہ سات برس تک چلتا رہا۔ ان ایام میںجماعت احمدیہ اپنے گھرو ں میں نماز پڑھ لیا کرتی تھی۔ خاکسار ہمیشہ حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ حضور دہلی سے قادیان واپس آرہے تھے کہ لدھیانہ میں حضور کالیکچر ہوا۔ لیکچر سننے کے لئے خاکساراور منشی عبد الرحمن صاحب مرحوم لدھیانہ گئے ۔ لیکچر ختم ہونے پر خاکسار نے مسجد کپور تھلہ کے واسطے دعا کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر یہ سلسلہ خد اکی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آجائے گی‘‘ اس وقت چہرہ مبارک پر ایک جلال رونما تھا ۔ اس پیشگوئی کو سن کر بہت خوشی ہوئی ۔ جس کا اظہاراخباروں میں بھی ہوگیا۔ میں نے تحریر وتقریر میں ہر ایک مدعا علیہ سے اس پیشگوئی کا اظہار کردیا۔اور میں نے تحدّی کے ساتھ مدعا علیھم پر حجت تمام کر دی کہ اپنی ہر ممکن کوشش کرلو۔ اگرچہ حکام بھی غیر احمدی ہیں جن پر تم سب کو بھروسہ ہے مگر مسجد ضرور ہمارے پاس واپس آئے گی۔ میرے اس اصرار پر ڈاکٹر شفاعت احمدکپور تھلہ نے وعدہ کیا کہ اگر مسجد تمہارے پاس واپس چلی گئی تو میں مسیح موعود ؑ پر ایمان لے آؤں گا۔ میں ایک مرتبہ ضرور تاً لاہور گیا اورجمعہ اد اکرنے کے لئے احمدیہ مسجد میں چلا گیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب سے اس پیشگوئی کا ذکر آگیا۔ انہوںنے کہا کہ منبر پر چڑھ کر سب کو سنا دو۔ میںنے مفصل حال اور یہ پیشگوئی احباب کو سنا دی تاکہ پیشگوئی پورا ہونے پر جماعت کی تقویت ایمان کا باعث ہو۔ پہلی اور دوسری دو عدالتوں میں باوجود مدعا علیھم کی کوشش وسعی کے مقدمہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔ ڈاکٹر صادق علی ان ہر دوحکام کا معالج خاص تھا۔ اور اس نے بڑی کوشش کی ۔ آخر اس کی اپیل آخری عدالت میں دائر ہوئی۔ یہ حاکم غیر احمدی تھا۔ مقدمہ پیش ہونے پر اُس نے حکم دیا ’’ کہ یہ مسجد غیر احمدی کی بنائی ہوئی ہے ۔ اس مسجد میں احمدیوں کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ احمدی جماعت نے جدید نبی کے دعویٰ کو قبول کر لیا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی مسجد علیحدہ بنائیں ۔ پرسوں میں حکم لکھ کر فیصلہ سناؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب نے مجھ سے کہا۔ کہو صاحب! مرزا صاحب کی پیشگوئی کہاں گئی؟ مسجد کا فیصلہ تو تم نے سن لیا ۔ میں نے اس کو جواب دیا ۔ کہ شفاعت احمد! ابھی دو تین روز درمیان میں ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان احکم الحاکمین کی ہستی ہے ۔ اس بات کا انتظار کرو کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ یاد رکھو۔ زمین وآسمان ٹل جائیں گے مگر خدا کی جو باتیں مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے نکل چکی ہیں وہ نہیں ٹلیں گی۔ میری اس تحدّی سے وہ حیرت زدہ ہوگیا۔ رات کو حبیب الرحمن متولی مسجد نے خواب میں دیکھا اور جماعت کو وہ خواب بھی سنا یا کہ یہ حاکم ہماری مسجد کا فیصلہ نہیں کر ے گا۔ اس کا فیصلہ کرنے والا اور حاکم ہے ۔ یہ خواب بھی مدعا علیھم کو سنا دی گئی ۔ مدعا علیھم ہماری ان باتوں سے حیرت زدہ ہوجاتے تھے۔ کیونکہ فیصلہ میں دو روز باقی تھے اور حاکم اپنا فیصلہ ظاہر کر چکا تھا۔ ایک احمدی کہتا ہے ۔ زمین آسمان ٹل جائیں گے مگر مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوکر رہے گی ۔ دوسرا کہتا ہے کہ یہ حاکم فیصلہ نہیں کرے گا وہ اور ہے جو فیصلہ کرے گا۔ مقررہ دن آگیا مگر حاکم فیصلہ نہیں لکھ سکا۔ دوسری تاریخ ڈال دی او ر ہر پیشی پر خدا ایسے اسباب پیدا کرد یتا رہا کہ وہ حاکم فیصلہ نہ لکھ سکا۔ اس سے مخالفوں میں مایوسی پیدا ہونے لگی کہ کہیں پیشگوئی پوری نہ ہوجائے۔ اسی اثناء میں عبد السمیع احمد ی نے ایک رؤیا دیکھا جو اس وقت قادیان میں موجود ہے کہ میں بازار میں جارہا ہوں راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اور اس نے کہا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔ یہ خواب بھی مخالفوں کو سنا دی گئی۔ ایک ہفتہ کے بعد عبد السمیع مذکور بازار میں جارہا تھا کہ اسی موقعہ پر وہ شخص جس نے خواب میں کہا تھا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔اُن کوملا اور اُس نے حاکم کی موت کی خبردی۔ حاکم کی موت کا واقعہ یوں ہوا۔ کہ وہ حاکم کھانا کھا کر کچہری جانے کے واسطے تیاری کررہا تھا، سواری آگئی تھی۔ خدمت گار کسی کام کے لئے باورچی خانہ میں گیا ہی تھا کہ دفعتاً حرکت قلب بند ہوئی اور وہ حاکم وہیں فوت ہوگیا۔ اس کے ماتم پر لوگ عام گفتگو کرتے تھے کہ اب ہمارے پاس مسجد کے رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس کی جگہ ایک آریہ حاکم فیصلہ کرنے کے لئے مقرر ہوا۔ یہ بھی احمدیوں کا سخت دشمن تھا۔ اوروہ بھی مخالفوں کی طرف ہی مائل تھا۔ آخر وکلاء کی بحث کے بعد یہ بات قرار پائی کہ کسی انگریزی علاقہ کے بیرسٹر سے فیصلہ کی رائے لی جائے۔ پچاس روپیہ فریقین سے فیس کے لئے گئے۔ اور اُس حاکم نے اپنے قریبی رشتہ دار آریہ بیرسٹر کے پاس مشورہ کے واسطے وہ مسل بھیج دی ۔ اس جگہ بھی غیر احمدیوں نے بے حدکوششیں کیں۔ اور یہ بات قابل غور ہے کہ مقدمہ میں کس طرح پیچ در پیچ پڑتے چلے جارہے تھے۔ ہاں عدالت ابتدائی کے دوران میں ایک احمدی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان بنایا جارہا ہے ۔ اس کی چاروں طرف کی دیواریں غیر احمدی کے واسطے تعمیر کی گئی ہیں ۔ مگر چھت صرف احمدیوں کے واسطے ڈالی گئی ہے جس کے سایہ میں وہ رہیں گے۔ جس سے یہ مراد تھی کہ گو مسل کا فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں لکھا جارہا ہے لیکن جب حکم سنانے کا موقعہ آئے گا تو مسجد احمدیوں کو دی جائے گی اور جس طرح کوئی بالاطاقت قلم کو روک دیتی ہے اور بے اختیار حاکم کے قلم سے احمدیوں کے حق میں فیصلہ لکھا دیتی ہے اور ہر ایک عدالت میں یہی بات ہوئی۔
میں نے بھی خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ہماری مسل پیش ہوئی اور ہمارے حق میں فیصلہ ہوا۔ میں نے اپنا یہ خواب وکیل کو بتادیا۔ وہ مسل دیکھنے کے لئے عدالت گیا۔ اُس نے آکر کہا کہ تمہارا خواب بڑا عجیب ہے کہ فیصلہ ہوگیا ہے ،حالانکہ بیرسٹر کے پاس ابھی مسل بھیجی بھی نہیں گئی ۔ میں نے اُس سے کہا کہ ایک سب سے بڑا حاکم ہے اس کی عدالت سے فیصلہ آگیا ہے ۔ یہ دنیا کی عدالتیں اس کے خلاف نہیں جاسکیں گی۔ آخر اس آریہ بیرسٹر نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ کی رائے دی اور مسل واپس آگئی اور حکم سنا دیا گیا۔ ہمارے وکیل نے کہا کہ ظاہری صورت میں ہم حیران تھے کہ کس طرح مسجد تم کو مل سکتی ہے ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ خد اکی امدا د ہے تبھی مسجد مل گئی۔
لیکن افسوس ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر بھی شفاعت احمد ایمان نہ لایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کا واقعہ روایت نمبر۷۹میں بھی درج ہوچکا ہے اور شاید کسی اور روایت میں بھی جو مجھے اس وقت یاد نہیں ۔
{ 987} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار پہلی مرتبہ میر عباس علی صاحب کے ہمراہ قادیان آیا تھا ۔ میر صاحب نے آتے ہی گول کمرہ میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بذریعہ حافظ حامد علی صاحب اپنے آنے کی اطلاع دی کہ میرصاحب لدھیانہ سے آئے ہیں۔ ہم اطلاع دیتے ہی بڑی مسجد میں نما زعصر پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ اس وقت اس مسجد میں کوئی نمازی نہ تھا۔ جب ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور واپس گول کمرہ میں آئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ میر صاحب! آپ کو حضرت صاحب اوپر بلاتے ہیں ۔ اس پر میر صاحب پاؤں برہنہ ہی گئے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر میر صاحب سے پوچھا۔ یہی میر عنایت علی ہیں؟انہوںنے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ غرض اس طرح پہلی مرتبہ میری حضور سے ملاقات ہوئی ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت میر عنایت علی صاحب فوت ہوچکے ہیں ۔ بہت سادہ مزاج بزرگ تھے۔ اور میر عباس علی صاحب ان کے چچا تھے یہ میر عبا س علی وہی ہیں جو بعد میں مرتد ہوگئے تھے۔
{ 988} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد خان صاحب ساکن گل منج تحصیل وضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے جوش سے تقریر فرمائی ۔ اُس تقریر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نام پر اپنے لڑکے دیں گے وہ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے۔ اُس زمانہ میں احمدیہ سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ میں نے بھی اس وقت خدا سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تُو ہمیں بھی لڑکے عطا فرما تاکہ ہم حضرت صاحب کی حکم کی تعمیل میں اُن کو احمدیہ سکول میں داخل کراویں ۔ خدا تعالیٰ نے دعا کو سنا۔ اور پانچ بچے دئیے جن میں سے تین فوت ہوگئے اور دو چھوٹے بچے رہ گئے ۔ پھر میں نے بموجب ارشاد حضرت صاحب بڑے لڑکے کو احمدیہ سکول میں اور چھوٹے کو ہائی سکول میں داخل کرادیا۔ اور اپنی وصیت کی بہشتی مقبرہ کی سند بھی حاصل کر لی ۔
{ 989} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب ہنری مارٹن کلارک پادری نے ایک بڑے منصوبے کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر قتل کا مقدمہ دائر کیا تو شفاعت احمد نے جن کا میں ایک روایت میں ذکر کر آیا ہوں ۔ مجھ سے کہا کہ مسجد تو ہمارے حاکم کے فوت ہوجانے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر اس مقدمہ قتل سے اگر مرزا صاحب بچ گئے تو میں ضرور احمدی ہوجاؤں گا۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ مسیح موعود نے فرمادیا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک آگ کاشعلہ آیا اور ہمارے مکان کے دروازہ پر آکر گرا ہے ۔ مگر وہ گرتے ہی ایک خوشنما پھول بن گیا ہے ۔ پس انجام اس مقدمہ کا یہی ہوگا جو میں لکھ رہاہوں ۔ آخر وہ مقدمہ حضرت صاحب کے حق میں فیصلہ ہوا اور پادریوں کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ خاکسار اس فیصلہ کے موقعہ پر عدالت میں حاضر تھا۔ میں نے شفاعت احمد کو یاددلایا کہ پیش گوئی تو پوری ہوگئی ۔ اب تم اپنے احمدی ہونے کا وعدہ پورا کرو۔ شفاعت احمد نے صاف انکار کردیا کہ میں نے تو کوئی وعدہ نہ کیا تھا بلکہ غصہ میں آکر کہنے لگا کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر عذاب آئے اور میرا فرزند مر جائے ۔ میری بیوی مر جائے ۔ میں نے اُس سے کہا کہ شفاعت احمد! اب تُو نے مسیح موعود علیہ السلام سے یکطرفہ مباہلہ کر لیا ہے ۔ اب تُو اس کے نتیجہ کا انتظار کر اور میں بھی کرتا ہوں۔ اس کے بعد شفاعت احمد ایک سال کے عرصہ میں اس قدر بیمار ہوا کہ جان کے لالے پڑ گئے ۔ حتی کہ اس نے گھبرا کر احمدی جماعت سے دعا کی درخواست کی ۔ اس پر وہ مرنے سے تو بچ گیا مگر کانوں کی شنوائی جاتی رہی اور اس وقت وہ امرتسر میں ہے اس کا ایک اکلوتا بیٹا تھا وہ بھی مر گیا۔
{ 990} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مسجد کپور تھلہ کے مقدمہ میں ایک شخص ناظر عبد الاحد بھی مدعا علیہ تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے ۔ ایک سب انسپکٹر تھا اور دوسرا ایف اے پاس تھا۔ دونوں ہی فوت ہوگئے ۔ اس کی بیوی کو بیٹوں کی موت کا بہت صدمہ ہوا اور وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہی کہ دیکھ ۔ تُو نے اپنے دو فرزند مسیح موعود ؑ کی مخالفت میں زمین میں سُلا دئیے ۔ اور اب تو اور کیا کرناچاہتا ہے؟غرض کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کے مقدمہ میں جو بھی مدعا علیہ تھے ۔ اُن سب کا برا انجام ہواور مسجد ہمارے قبضہ میں آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی واضح طور پر پوری ہوئی ۔
{991} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہوشیار پور میں ایک شخص شیح مہر علی رئیس تھے۔ حضرت اقدس اس شخص کے گھر ٹھہرا کرتے تھے ۔ اور اس کو بھی حضور سے عقیدت تھی۔ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے خواب میں دیکھا کہ شیخ مہر علی کے بستر کو آگ لگ گئی ہے ۔ حضور نے اس رؤیاء کے متعلق اس کو خط لکھا اور اس میں ہدایت کی کہ آپ ہوشیار پور کی رہائش چھوڑ دیں ۔ وہ خط اس کے بیٹے کو مل گیا اور اس نے تکیہ کے نیچے رکھ دیا کہ جب بیدار ہوںگے پڑھ لیں گے مگر چونکہ خدائی امر تھا اور بستر کو آگ لگ چکی تھی وہ خط شیخ مہر علی صاحب کو نہ پہنچا اور ان کے بیٹے کو بھی اس کا ذکر کرنا یاد نہ رہا ۔ تھوڑے عرصہ بعد محرم آگیا اور اور ہوشیار پورمیں ہندومسلم فساد ہوگیا۔ شیخ مہر علی صاحب اس کے سرغنہ قرار پائے اور ان کے خلا ف عدالت میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہوگیا۔ عدالت سے ضبطی جائیداد اور پھانسی کا حکم ہوا۔ اس حکم کے خلا ف لاہور میں اپیل ہوا ۔شیخ صاحب نے دعا کے واسطے حضرت صاحب سے استدعا کی ۔ حضور نے دعا فرمائی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ چنانچہ ہائی کورٹ میں اپیل منظور ہوگیا اور شیخ مہر علی بھی باعزت طور پر بری کئے گئے ۔ خواجہ کمال الدین صاحب کا اُن دنوں جالندھر میں لیکچر تھا۔ جماعت کپور تھلہ اور ڈاکٹر صادق بھی لیکچر سننے گئے ۔ اور ڈاکٹر صاحب نے ہم سے کہا کہ شیخ مہر علی کے عزیز واقارب یہ کہتے ہیں کہ یہ جو مشہور کیا جاتا ہے کہ شیخ صاحب مسیح موعود کی قبولیت دعا سے بری ہوئے ہیں ،یہ غلط ہے۔ بہت سے لوگوں نے اُن کی بریت کے لئے دعا کی تھی۔ مرزا صاحب کی دعا میں کیا خصوصیت ہے ۔ خدا جانے کس کی دعا قبول ہوئی۔ یہ واقعہ حضرت صاحب کو جماعت کپور تھلہ نے لکھ بھیجا۔ اس تحریر پر حضرت صاحب نے ایک اشتہاراس مضمون کا شائع کیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ محض میری دعا سے شیخ مہر علی بری ہوئے ہیں ۔ یا تو شیخ صاحب اس کو منظور کر کے اخبار میں شائع کرادیں ورنہ ان کے خلاف آسمان پر مقدمہ دوبارہ دائر ہوجائے گا اور اس مقدمہ میں قید کی سزا ضرور ہوگی۔ ایک اشتہار رجسٹری کراکر کے شیخ مہر علی کے پاس بھیجا گیا۔ وہ بہت خوف زدہ ہوگیا۔ اور قبولیت دعا مسیح موعود علیہ السلام کا اقرار ی ہو۱ اور اخبار میں شائع بھی کرادیا۔ اور یہ بھی لکھا کہ جیل خانہ سے واپس آکر مجھ کو حضور کا خط ملا جس میں مجھ کو ہوشیار پور چھوڑنے کے واسطے ہدایت ہوئی تھی۔ اگر اس وقت مجھ کو خط مل جاتا تو میں ضرور ہوشیار پو ر چھوڑ جاتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۳۴۶میں بھی آچکا ہے۔
{ 992} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں ،جہاں کا میںرہنے والا ہوں ۔ ایک شخص مولوی حمید اللہ اہل حدیث رہتا تھا۔ اُ ن سے میرا مباحثہ ہوتا رہتا تھا۔ وہ بہت سی باتوں میں عاجز آجاتے تھے۔ آخر ایک دفعہ انہوںنے مجھ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کے پاس چلوں گا۔ اس کے بعد میں اپنی نوکری پر کپور تھلہ چلا آیا۔ میں یہ سمجھا کہ مولوی صاحب اب بیعت کر لیں گے۔ کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں قادیان جارہا ہوں ۔ راستہ میں ایک دریا موجزن ہے ۔ مگر اس کے اوپر میں بے تکلف بھاگا جارہا ہوں ۔ میرے ساتھ ایک اور شخص ہے مگر وہ گلے تک پانی میں غرق ہے ۔ مگر ہاتھ پیر مارتا ہوا وہ بھی دریا سے پار ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ حمید اللہ مولوی ہے ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد مولوی صاحب کاقادیان جانے کے لئے ایک خط کپور تھلہ میں میرے پاس آیا ۔ میں بہت خوش ہوا۔ مولوی صاحب کا اصل خط اور ایک عریضہ اپنی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیااور عرض کی کہ غالباً یہ مولوی حضور کی بیعت کرنے کے واسطے آرہا ہے ۔ حضور نے جواب میں خط لکھا کہ اس کے خط میں سے تو نفاق کی بوآتی ہے ۔ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کو تم نے خواب میں دیکھا ہے۔ وہ کوئی اور شخص ہوگا جو تمہاری تبلیغ سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگا ۔ چنانچہ مولوی حمید اللہ سراوہ سے چل کر کپور تھلہ پہنچے اور قادیان چلنے کاارادہ کیا۔ مولوی غلام محمد اہل حدیث جس کو حضور نے اپنی بیعت میں قبول نہ فرمایا تھا۔ انہوںنے مولوی حمید اللہ سے کہا کہ اگر تم قادیان گئے تو تم اپنے عقیدہ پر قائم نہ رہو گے۔ اس کے کہنے پر مولوی حمید اللہ رک گئے اور سراوہ واپس چلے گئے ۔ مولوی غلام محمد نے ہماری بہت مخالفت کی ۔ جماعت کو ہر ممکن تکلیف دی گئی۔ فتویٰ کفر پر دستخط کئے گئے ۔ مخالفت میں حکیم جعفر علی اور مولوی حمید اللہ نے رسالہ شائع کر کے خوب جوش دکھلایا۔ اور مولوی صاحب بیعت سے محروم رہے اور حسب پیشگوئی مسیح موعود میری تبلیغ کے ذریعہ مولوی دین محمد صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور وہ خدا کے فضل سے جوشیلے احمدی ہیں ۔
{ 993} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کو جاتے ہوئے بسراواں کے راستہ میں شعر وشاعری کا تذکرہ شروع ہوا تو میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ قرآن مجید میں جو وارد ہے کہ وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الغَاوٗنَ ـ اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ (الشّعرائ:۲۲۵) اس سے شعرگوئی کی برائی ثابت ہوتی ہے ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ ذرا اس کے آگے بھی تو پڑھیں۔ تو مولوی غلام محمد صاحب نے اگلی آیت فوراً پڑھ دی کہ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا (الشعرائ:۲۲۸) اس پر میرا مطلب حل ہوگیا۔
{ 994} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی رو ز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ہم بھی غیر مقلد تھے ۔ مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور جس قدر نمازیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں ۔ سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدۃ:۳۶) پیش کرتے تھے ۔ میں نے اُن مولوی صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں ؟ انہوںنے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشرکانہ تعلیم نہ دیں ۔ اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا۔ جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے۔ صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے۔ میرے والد صاحب نے قادیان جا کرحضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑکا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں ۔ آپ نے اس وقت ایک سرخ کاغذ پر فتوی لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جو لوگ آمین بالجہر، الحمد للہ ، رفع یَدَین اور فاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے وہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خود کافر ہے ۔ مگر چند روز کے بعد عام لوگ خود بخود ہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے ۔ اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد! تم کو لوگ وہابی کہتے ہیں ۔ تم جواب دیا کروکہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اور ان کی کتاب غنیۃ الطالبین پڑھ کر اُن کو سنایا کرواور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیران پیر ؒاور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے ۔
{ 995} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ خواب میں میری زبان پر لفظ ’’مجدّد‘‘ جاری ہوا۔ مگر اس وقت مجھے اس لفظ کی کوئی تشریح معلوم نہ ہوئی ۔ اور ایک لغت کی کتاب دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ’’نیا کام کرنے والا‘‘۔ اس خواب کے چند روز بعد ایک بڑا لمبا چھوڑا اشتہار دیکھا جو کہ میرعبا س علی صاحب لدھیانوی کی طرف سے شائع ہوا تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب چودھویں صدی کے مجدد ہیں۔ اور جن ایام میں مسجد مبارک تیار ہوتی تھی تو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اس مسجد میں ایک مولوی رکھنا ہے جو عورتوں میں وعظ کیا کرے گا۔ لیکن اب اللہ کے فضل وکرم سے بجائے ایک کے سینکڑوں مولوی مسجد مبارک میں موجو درہتے ہیں ۔ اُس زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتیں اب ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں ۔
{ 996} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا۔ کہ بعض دفعہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھتے تھے کہ جب آدمی ایک دفعہ بیعت کر لے تو کیا یہ جائز ہے کہ اگر پھر کبھی بیعت ہورہی ہو تو وہ اس میں بھی شریک ہوجائے۔ حضور فرماتے تھے کہ کیا حرج ہے؟خاکسار عرض کرتا ہے کہ اکثر دوست دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی بار بیعت میں شریک ہوتے رہتے اور بیعت چونکہ توبہ اور اعمال صالحہ کے عہد کا نام ہے اس لئے بہر حال اس کی تکرار میں فائدہ ہی فائدہ ہے ۔
{ 997} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو ہر امر میں قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے تھے مگر بعض بعض آیات آپ خصوصیت کے ساتھ زیادہ پڑھا کرتے تھے ۔ علاوہ وفات مسیح کی آیات کے حسب ذیل آیات آپ کے منہ سے زیادہ سنی ہیں ۔
سورۃ فاتحہ ۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:۱۰)
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَ تْقٰـکُمْ (الحجر:۱۴)
رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ (الاعراف:۱۵۷)
ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:۳۳)
مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی ( الاسرائ:۷۳)
اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ (النسائ:۵۹)
یَااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۹)
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث (الضحیٰ:۱۲)
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (الزمر:۵۴)
وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْااِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰۃٌ مِّن رَّبِھِمْ وَرَحْمَۃٌ (البقرۃ:۱۵۶)
مَایَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْ تُمْ وَاٰمَنْتُمْ (النسائ:۱۴۸)
وَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنـًا (طٰہٰ:۴۵)
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ (الحجر:۴۳)
وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ:۶۸)
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:۴)
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۷)
لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:۱۹۶)
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳)
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۴)
ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (النجم:۹)
لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ (الاسرائ:۳۷)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران:۳۲)
لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ:۲۵۷)
قُلْ مَایَعْبَأُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَائُ کُمْ (الفرقان:۷۸)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کیا خوب انتخاب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھیوںکی تقسیم بذریعہ قرعہ اندازی


خاکسار مرز ابشیر احمد عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے پیچھے تین انگوٹھیاں چھوڑی تھیں جن کی حضور کی وفات کے بعد بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کی گئی۔ قرعہ کی پرچیوں کا چربہ اوپر درج ہے ۔ ان پرچیوں میں الہام کی عبارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور ہم تین بھائیوں کے نام حضرت اماں جان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ہر دو تحریروں کا چربہ محفوظ ہوجائے ۔
{ 998} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی رحمت اللہ صاحب باغانوالہ بنگہ ضلع جالندھر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ خاکسار چند دن ہوئے لدھیانہ گیا تھا۔ وہاں میاں رکن الدین صاحب احمدی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مندرجہ ذیل ایک حلفیہ تحریری بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دیا ۔
بیان حلفیہ میاں رکن الدین احمدی ولد حسن الدین قوم ارائیں سکنہ لدھیانہ چھاؤنی
’’ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتاہوں کہ جس وقت حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام )لدھیانہ تشریف لائے تھے اُس وقت میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی۔ اور اس وقت قریباً۷۴؍۷۳سال کی عمر ہے ۔ میں اس وقت تانگہ مین، تانگہ ڈرائیور تھا۔ تانگہ میرا ا پنا تھا ۔ ایک روز منشی احمد جان صاحب نے ایک آدمی کو میاں کرم الٰہی صاحب مرحوم ، پیر بخش صاحب ، جناب قاضی خواجہ علی صاحب ، جناب شہزادہ عبد المجید صاحب کے پاس بھیجا کہ فلاں گاڑی پر جناب حضرت مرزا صاحب تشریف لارہے ہیں آپ لوگ بھی اسٹیشن پر پہنچیں۔ تو وہ فورًا اکٹھے ہوکر چل پڑے اور میں بھی اُن کے ساتھ چل پڑا ۔جب اسٹیشن کے قریب سو دوسو کرم کے فاصلہ پر پہنچے تو حضرت صاحب بمعہ چند ایک احباب کے پیدل آرہے تھے ۔ اور ایک آدمی قلی کو بستر وغیرہ اٹھوائے آرہا تھا۔ جناب کو سیدھے فیل گنج کو لے گئے۔ وہ مکان چونکہ اچھا نہ تھا اس لئے حضور کو شہزادہ عبد المجید صاحب اپنے مکان پر لے گئے ۔ میں روزانہ ایک پھیرا تانگہ کا لگا کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سودا سلف بازار سے مجھ سے منگواتے ۔ پھر مجھے فرمایا کہ ’’روٹی یہاں ہی کھایا کرو ‘‘ تو میں وہاں ہی حضور کے حکم سے کھانے لگ پڑا۔ مجھے ایک روز فرمایا کہ ’’لڑکے نماز پڑھا کرو اور ہمارے پاس ہی پڑھا کرو‘‘ میں نے کہا کہ مجھے سوائے بسم اللہ کے اور کچھ نہیں آتا ۔ فرمایا ۔ ’’ وضو کر کے ہمارے ساتھ کھڑے ہوجایا کرو‘‘ ۔ میں اسی طرح کرنے لگااور مجھے نماز آگئی ۔ الحمد للہ ۔ غرض میں حتی المقدور خدمت کرتا رہا۔ ملاں کرم الٰہی مرحوم میرا حقیقی بھائی مجھ سے بڑا تھا۔ وہ پولیس میں لائن آفسر تھے۔ ایک روز فارغ ہوکر میرے ساتھ ہی حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے ۔ تو آپ نے ملاں کرم الٰہی کو فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں کے طعن وغیرہ سے نہ ڈریں ۔ خدا سے ڈریں ۔ اس سے دنیا اور آخرت بہتر ہوگی‘‘ (غالباً مفہوم یہی تھا) منشی احمد جان صاحب نے فرمایا کہ آپ بیعت میرے مکان پر لیںجو دارالبیعت کے نام سے مشہور ہے تو پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ۱؎ ۔ ان میں ایک میاں کریم بخش صاحب بھی تھے۔ باقی دو نے کہا کہ ہم کل کریں گے بس پھر سلسلہ بیعت ہر روز جاری رہا ۔ میں ہر روز عرض کرتا کہ حضور میری بیعت لیں ۔ فرماتے تمہاری بیعت تو ہوگئی۔ جب تم روزانہ ہماری خدمت کرتے ہو۔بس پھر میں حاضر خدمت رہتا۔ بیعت کے لئے کہتا تو فرماتے کہ تمہاری بیعت ہوگئی ہے ۔ پھر حضور قریباً مہینہ بھر کے بعد تشریف لے گئے ۔ میں نے قریباً دو سال بعد قادیان پہنچ کر عرض کیا کہ حضور آپ اور لوگوں کی بیعت لیتے ہیں ، میری بیعت نہیں لیتے۔ فرمایا !میاں تمہاری بیعت ہوچکی ہے ۔اچھا جمعہ کے بعد پھر کر لینا۔ میری عمر قریباً۱۸سال کی شروع ہوگئی تھی۔ تب دستی بیعت کی۔ میرے جیسے جاہل او جڈ پر یہ فضل الٰہی تھا ۔ الحمد للہ ۔ یہ بیان میں نے میاں رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ کے پاس اپنی یادداشت کے طور پر لکھا یا ہے ۔ ذکر لمبا ہے مختصر لکھ دیا ہے ۔
میا ں رحمت اللہ مذکور ہمارے رشتہ دار ہیں۔ میرے بھائی ملاں کرم الٰہی کی نواسی کی شادی ان کے عزیز بیٹے ہدایت اللہ احمدی سے ہوئی ہے ۔ العبد
نشان انگوٹھا میاں رکن الدین
۳۸-۹۰-۲۳ ارائیں لدھیانہ چھاؤنی محلہ
الراقم خاکسار طالب دعا رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ حال لدھیانہ بقلم خود۳۸-۹-۲۳
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ ’’پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ۔ اُن میں سے ایک میاں کریم بخش صاحب تھے ‘‘ میں نے میاں کریم بخش صاحب مذکور کے متعلق تحقیقات کی ہے اس کے متعلق میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کوئی کریم بخش شخص نامی ایسا نہیں جس نے ابتدائی دس بیعت کنندگان میں بیعت کی ہو۔ سوائے سائیں گلاب شاہ مجذوب والے کریم بخش کے ۔ وہ فوت ہوچکے ہیں ،
۱؎ یہاں روایت میں سہو معلوم ہوتا ہے ۔حضرت منشی احمد جان صاحب کی وفات ۱۸۸۳ء میں ہوئی اور پہلی بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی تھی(سیدعبدالحی)
ان کا ذکر ازالہ اوہام میں بھی ہے ۔ یہی ذکر میاں رکن الدین ساکن چھاؤنی لدھیانہ نے میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ کے پاس بیان کیا ہے ۔ لیکن میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالے نے سمجھا نہیں اور کوئی اور کریم بخش سمجھتے ہوئے انہوںنے آپ کو لکھ دیا ہے ۔ جو میاں رحمت اللہ صاحب کی غلط فہمی ہے ۔
{ 999} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا افسر سکھ مذہب کا تھا۔ مسلمانوں سے بہت تعصّب رکھتا تھا اور مجھ کو بھی تکلیف دیتا تھا آخر اس نے رپورٹ کر دی کہ فیاض علی کو موقوف کردیا جائے ۔میں اس کے کام کا ذمہ دار نہیں ہوں۔میں نے دعا کے واسطے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا اور اس کی سختی کا ذکر کیا۔ حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ ’’انسان سے خوف کرنا خد اکے ساتھ شرک ہے اور نماز فرضوں کے بعد۳۳مرتبہ لاحول ولاقوۃ پڑھا کریں اور اگر زیادہ پڑھ لیں تو اور بھی اچھا ہے‘‘ ۔ خط کے آتے ہی میرے دل سے خوف قطعی طور پر جاتا رہا۔ ایک ہفتہ کے اندر خواب کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ افسر علیحدہ کیا جائے گا۔ اور میں اپنی جگہ پر بدستور رہوں گا۔ میں رخصت لے کر علیحد ہ ہوگیا ۔اور راجہ صاحب کے حکم کا منتظر رہا۔ قبل از حکم ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا کہ راجہ صاحب کے سامنے تمہارے افسر کی رپورٹ پیش ہوئی ہے ۔ اس پر را جہ صاحب نے حکم لکھا یا ہے کہ افسر کو کہہ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا۔ اس دوران میں مجھے بھی ایک خواب آئی کہ میں ایک برآمدہ میں ہوں اور مجھ سے کچھ فاصلہ پر ایک اور شخص ہے۔ ایک سیاہ سانپ اس کے بدن سے لپٹ رہا ہے اور اس سے کھیل رہا ہے ۔ میں نے اپنے دل میںکہا کہ اس سانپ میںزہر ہی نہیں ۔ جب اُس سانپ کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ اُس کو چھوڑ کر میری طرف دوڑااور اس نے بہت کوشش کی کہ میرے پاؤں کو کاٹے۔ قدرت خدا سے میں ہوا میں معلق ہوگیا اور جھولے میں جھولنے لگا۔ وہ سانپ برآمدے سے باہر چلا گیا اور میں اُسی جگہ آگیا۔ مالک سانپ آیا اور اس نے دریافت کیا کہ سانپ کہاں گیاوہ تو بہت زہریلا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ وہ باہر چلا گیا ہے ۔
اسی طرح ایک اور خواب مجھے آیا کہ ایک نیم مردہ سانپ سردی کی وجہ سے راستہ میں سویا پڑا ہے اور آسمان سے چیل اور کوے اس پر جھپٹا مار رہے ہیں ۔ ایک چیل آئی تو اس کو اٹھا کر لے گئی۔ اب مجھ کو کامل یقین ہوگیا کہ انشاء اللہ افسر نہیں رہے گا اور یہی وہ سانپ ہے جس کی پہلے وہ حالت تھی کہ دیکھنے سے خوف معلوم ہوتا تھا اور اب اس نوبت کو پہنچ گیا ہے ۔ بالاخر افسر کی درخواست را جہ صاحب کے سامنے پیش ہوئی۔ را جہ صاحب نے وہی حکم لکھایا جو ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا تھا کہ افسر کو لکھ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا ۔ مجھ کو حکماً بلایا گیا اور حاکم کے سپرد کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا کا یہ اثر دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ افسر را جہ صاحب کا ہم نشین تھا۔ اور را جہ صاحب کو یہ بھی علم نہ تھا کہ فیاض علی ہمارا ملازم ہے یا کہ نہیں ۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد افسر اپنے عہدہ سے علیحد ہ کردیا گیا اور میں اسی جگہ قائم رہا۔
{ 1000} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ میں یہ ایک خاص بات تھی کہ معترض اور مخالف کو ایک یا دو جملوں میں بالکل ساکت کر دیتے تھے اور اکثر اوقات الزامی جواب دیتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی اعتراض کرتاتو آپ ہمیشہ تفصیلی اور تحقیقی جواب دیا کرتے تھے اور کئی کئی پہلوؤں سے اس مسئلہ کو صاف کیا کرتے تھے ۔ یہ مطلب نہ ہوتا تھا کہ معترض ساکت ہوجائے بلکہ یہ کہ کسی طرح حق اس کے ذہن نشین ہوجائے ۔
{ 1001} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رام پوری حال قادیان نے مجھ سے بیان کیاکہ۱۸۸۴ء میں جب کہ میں سکول میں پڑھتا تھا ۔ ایک رات کو تاروں کے ٹوٹنے کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے میں آیا، رات کے ایک لمبے حصہ میں تارے ٹوٹتے رہے اور اس کثرت سے ٹوٹے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تیروں کی بارش ہورہی ہے ۔ ایک حصہ تاروں کا ٹوٹ کر ایک طرف جاتا اور دوسر ا دوسری طرف۔ اور ایسا نظر آتا کہ گویا فضا میں تاروں کی ایک جنگ جاری ہے ۔ یہ سلسلہ ۱۰بجے شب سے لے کر۴بجے شب تک جاری رہا۔ مَیں نے اس واقعہ کا ذکر ایک مجلس میں غالباً۱۹۱۰ء میں کیا تھا تو ایک بہت شریف اور عابد وزاہد معمر انسان نے کہا کہ مجھے بھی وہ رات یاد ہے ۔ میرے پیرو مرشد حضرت قبلہ علامہ مولوی ارشاد حسین صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے یہ عالَم دیکھ کرفرمایا تھا کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوگیا ہے ۔ یہ اسی کی علامت ہے ۔ مولوی ارشاد حسین صاحب زبرست علماء میں سے تھے۔ انصار الحق وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہے اور یہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے پیر تھے ۔ لیکن جب میں نے بعد میں اُن مولوی صاحب کے ایک دوست سے جس نے یہ روایت بیان کی تھی یہ کہا کہ شہادت لکھ دو تو اُس نے لکھنے سے انکار کردیا ۔ مگر زبانی مانتا تھا کہ اُن مولوی صاحب نے ایسا کہا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہوچکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے۔ یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گویا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آگیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا۔
{ 1002} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا۔ (اس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خد ابخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدّق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں۔ میرا وجو دسلسلہ حقہ کے لئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگااور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل۱۹۰۹ء میں انہوںنے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کسی لمبے سفر سے واپس آئے ۔ جب مجھے معلوم ہواتو میں اُن سے ملنے کے لئے ان کے پاس گیا۔ انہوںنے مجھے ایک کتاب دی ۔ جسے لے کر میں بہت خوش ہوا۔ اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں ۔ دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے جارہا تھا ۔ اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوںنے لے لی اور دیکھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے ۔ جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہاتھا۔ ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں ۔ میں اس وقت بغرض علاج لاہور (یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کانام لیا تھا) گیا ہوا تھا ۔ وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی ۔ جس پر میں نے ان کی خدمت میں (حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریراً یا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی )اپنی صحت یابی کے لئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی ۔ یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب (مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا۔ اس کے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میری پاس رہی ۔ جب میں بڑ اہوا تو اس کے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی۔ یہ کتاب سرمہ چشم آریہ تھی جو ۱۸۸۶ء کی تصنیف ہے ۔
{ 1003} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے ۔ کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا۔ کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی۔ باورچی نے کارکنوں سے حضور کے لئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا۔ مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے ۔ میں فورًا گیااور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے ۔ چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اورحضور کے جسم مبارک کو دباتا تھا۔ میں۹۴ء سے حضور کا عاشق تھا۔ رات بھر حضور کے بدن کو دباتا۔ جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ’’اللہ‘‘ ۔ حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے ۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی۔ حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجو دتھے۔ آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے۔ میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ ’’ آپ بس کیجئے ‘‘۔ مگر مجھے ان الفا ظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا۔
{ 1004} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی۔ صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کے لئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے۔ رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی۔ اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔ حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ،بلندآواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا ۔ حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنا دیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے ۔ اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی۔ جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہو اہے ۔ اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں ۔ آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہورہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے۔ بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں ۔ تو میں کہہ رہاہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے ۔ اس موقعہ پر قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْم (الانبیائ:۷۰) کی مثال صادق آرہی ہے ۔ جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے۔ تمام دشمنوں نے زور لگایا۔ ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا۔ ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس ،مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے۔ یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعویٰ کیا ہے مگر خدا نے اُن کو ناکام کردیا ۔
{ 1005} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر ۹گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے ۔ وہ چوک میں کھڑے ہوکر بآواز بلند یہ کہتے ہیں ۔ سنو لوگو!یہ جو دو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک سیّد ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے ۔ جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی۔ تو حضور نے ’’ہیں‘‘ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں ۔ تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی ۔ خواب مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحر یر کر کے تعبیر منگواتا رہتا تھا ۔
{ 1006} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمدصاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آخر کھلے میدان میںحضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی ۔چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا ۔ حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آکر ہی وعظ شروع کردیا ہے۔ اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ’’مواہب الرحمن‘‘ نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو۔ ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو۔ اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جاکر کرے ۔سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا۔ جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ۲۵پر نظر پڑی ۔ جہاں لکھا تھا ’’کرم دین کذّاب‘‘ فوراً کرم دین کو جاکر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے ۔اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کردو۔ اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمددین وکیل میاں نظام دین سب جج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے۔ ہم دعویٰ آپ کی عدالت میں کرتے ہیں۔ اُس جج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں ۔ جب جج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ بندہ اچانک اُسی وقت اس جج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ ہاں البتہ اُس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعویٰ ہے۔ ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضرور میں جھوٹااور کمینہ ہوں ۔ کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے ۔ قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں کرم دین کی ولدیت وسکونت کتاب میں درج ہوتی۔ کیادنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تُو ہی کرم دین ہے ؟
{ 1007} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمدحسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہوگیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے ۔ ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمدحسین کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس نے کہا کہ ’’ہے‘‘ پوچھا کہ بالغ ہے یا نابالغ ہے ؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے۔ اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعویٰ کرسکتا ہے ۔ تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا ۔ واپسی پردیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لاکر گاڑی پر سوار کرایا تھا۔ بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں۔ لوگ کھڑے ہوہوکر حضور کو دیکھتے تھے۔ حضور باعزت طورپر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے ۔
{ 1008} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی ۔
{ 1009} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے ۔ یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا۔
{1010} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی۱۹۳۸ء میں میری عمر۷۴سال کے قریب ہے ۔ ہمارا اصل وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ ۱۹۴۱ء بکرمی میں کپور تھلہ میں آیا جب کہ میری عمر۲۱؍۲۰سا ل کی تھی۔ میرے کپور تھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپور تھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ میں گئے ۔ اس وقت میرے والدصاحب اور مَیں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کے لئے گئے ۔ حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے۔ اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمدیہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے ۔ اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت تھی۔ جب میں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے ۔
{ 1011} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے ۔اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے ۔ منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر۱۵؍۱۴سال کی ہوگی۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے ۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔ منشی عبد الواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے ۔ اُن کا بیان تھا کہ میںنے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے ۔
{ 1012} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپو رتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی معجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا ۔ عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت اد اکرنی چاہی ۔ جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی ۔
{ 1013} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ عبدالواحدصاحب احمدی نہیں ہوئے ۔ میں نے اپنی بیعت کے بعداُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوںنے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارومدار ہے ۔ اور گویامیں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں ۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالباً شیطانی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں ۔یہ رحمانی الہام ہے ۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں ۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللّٰہ ہمارے مددگار ہیں ۔ تم انہیں لکھو ۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبد الواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبد الواحد صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
{ 1014} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے۔ جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے۔ اُن سے ملنے میں جالندھرجا یا کرتا تھا۔ جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھرآرہے ہیں ۔ یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے ۔ جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے ۔ وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کے لئے موجو دتھے اور کنور بکرماں سنگھ صاحب نے اپنا وزیر اور سواری حضور کو لانے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب ریل سے اُترے ۔ یہ صحیح یا د نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لارہے تھے۔ لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکرماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کوکہا ۔ اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا ’’کپور تھلہ‘‘ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ۔ چنانچہ بکرماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اورخاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے ۔ جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہوگیا ۔ عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے ۔ اُس وقت اعتقاد کایہ عالم تھا ۔ غرض حضور منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فرو کش ہوئے ۔
{ 1015} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسیّد کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا!میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسیّد تو مسلمان ہے اور انہوںنے تعلیمی کام مسلمانوں کے لئے کیا ہے ۔ اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔سرسیّد کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو ناگوار معلوم ہوا ۔
{ 1016} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی ۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا ۔
منشی عبد اللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے ۔ حضور نے فرمایا ! مجھے بھوک نہیں ہے۔ لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا۔ ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی ۔ آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے ۔ اور بعد نما زظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا۔ ہم سے خط وکتابت رکھا کرو۔ یہ غالباً۱۹۴۲بکرمی کا واقعہ ہے ۔
{ 1017} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپور تھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی ۔ اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد مَیں قادیان گیا۔ حضور بہت محبت سے پیش آئے۔ خود اندر سے کھانا لا کر کھلاتے ۔ میں دس بارہ دن قادیان میں رہا ۔ اُس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا ۔ جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے ۔ اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی ۔
{ 1018} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر مَیں قادیان گیا۔ اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ’’ کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی‘‘ میں رونے لگا ۔ اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا۔
{ 1019} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتااور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے ۔ میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا ۔ کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکونٹنٹ، عبدالحق اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اورسیر تینوں مولوی عبد الحق صاحب غزنوی کے مرید تھے ۔ یہ بہت آیا کرتے تھے ۔ اکثر ایسا موقعہ ہواہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔
{ 1020} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبد اللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ’’قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی۔ وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولاد اُس سے محروم رہے گی‘‘ اور اُن تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو۔
مہدویت کے دعویٰ کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہوگئے ۔ تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کے لئے خط لکھا۔ کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا ۔ میں نے محمدیوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاںمیرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا ۔ جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی ۔ میں محمدیعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کردیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے ۔
محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے ۔ میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے اور محمدیوسف صاحب بڈھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے ۔
{ 1021} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب سرمہ چشم آریہ طبع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار نسخے مجھے اور چار منشی چراغ محمد صاحب کو کپور تھلہ بھیجے ۔ چراغ محمد صاحب دینا نگر گورداسپور کے رہنے والے تھے ۔ محمد خاں صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، منشی عبد الرحمن صاحب اور خاکسار سرمہ چشمہ آریہ مسجد میں پڑھا کرتے تھے ۔ پھر محمد خاں صاحب ، منشی اروڑاصاحب بعد میں قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے ۔ چنانچہ تین چار روپیہ کی مٹھائی ہم نے پیش کی ۔ حضور نے فرمایا۔یہ تکلفّات ہیں ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ ہمیں آپ کی تواضع کرنی چاہئے ۔ ہم تینوں نے بیعت کے لئے کہا کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر ہم تینوں بیعت کا ارادہ کر کے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا۔مجھے بیعت کا حکم نہیں ۔ لیکن ہم سے ملتے رہا کرو۔ پھر ہم تینوں بہت دفعہ قادیان گئے اور لدھیانہ میں بھی کئی دفعہ حضور کے پاس گئے ۔
{ 1022} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جو فقرات عربی کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے لکھوائے تھے ۔ اُن میں بعض اشیاء کے نام جمع کرکے آپ نے اشعار میں منظوم کردیا تھا۔ تاکہ یاد کرنے میں سہولت رہے ۔ چنانچہ سونے ، اونٹ اور نیزوں کے نام حسب ذیل اشعار میں تھے ۔
(سونے کے آٹھ نام )
نُضَارٌ ، عَسْجُدٌ ، عَیْنٌ وََّدَجَّالٌ وَّعِقْیَانٗ
تِبْرٌ ، زُخْرُفٌ ، ذَھَبٌ بِہٖ فِسْقٌ وَّعِصْیَانٗ
(اونٹوں کے۳۷نام)
عَنْس،قَعُوْدٌ،نَاقَۃٌ ۔کَوْمَائُ
وَقَعَیِّدٌ،عُسْبُوْرَۃٌ وَجْنَآئٗ
جَمَلٌ ، قَلُوْصٌ، عَیْدَھُوْدٌ، عَسْبُرَۃٌ
اِبِلٌ وَسِرْدَاحٌ حَکَی الْاِمْلَآئٗ
مَہْرِیٌّ ، عِرْبَاضٌ ، بَعِیْرٌ ،خَتْثَعَۃٌ
ثُمَّ الْھَجَانُ وَذِعْلَبٌ دَفْوَآئٗ
عَرْسٌ مَعَ الْعَزْھُوْلِ ، عَسْبُوْرٌ مَعًا
وَالْعَیْسَجُوْرُ کَمَا رَوَی الْاُدَبَآئٗ
ثُمَّ الْجَزُوْرُ وَلِقْحَۃٌ حِدْبَارٌ
وَکَذَا اللَّبُوْنُ وَمِثْلَہٗ ، عَشْوَآئٗ
ھَبْرٌ ، مَھُوْبرَۃٌ ، لَقُوْحٌ ، شَائِلَۃٌ
بِکْرٌ، ھَبْرَوٌ، عَنْکُوْہٌ عَصْبَآئٌ
(نیزوں کے۱۲ نام)
رُمْحٌ ، قَنَاۃٌ ، سَعَدَۃٌ ، مُرَّانٌ
اَسْلٌ وَعَسَّالٌ حَکَوْا وَاَبَانُوْا
خِطِّیٌّ، رُدَیْنٰی ، سَمْھَرِیٌّ ، سَمْھَرِیَّۃٌ
زَابِلٌ وَاَسْمَرُ اَیُّھَاالْاِخْوَانٗ
{ 1023} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کہ کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھاتوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی
عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ چونکہ بار بار خوف ناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کے لئے خبر دی گئی ہے ۔ اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو۔ اور کسی باغ میں جا رہو۔ اور بہتر ہے کہ تین دن کے لئے قادیان میں آکر مل جاؤ۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۱۔اپریل۱۹۰۵ء

{ 1024} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پیشتر میں نے سر سید احمد صاحب کی کتابیں پڑھی تھیں ۔ اور میں اور محمد خاں صاحب وفات عیسیٰ کے قائل تھے۔ چنانچہ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو خط لکھا کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے ثابت ہے ؟ انہوںنے جواب دیا کہ جس طرح خضر علیہ السلام کی حیات ضعیف احادیث سے ثابت ہے اور ضعیف احادیث کا مجموعہ اقسام حدیث میں سے حدیث حسن کو پہنچتا ہے ۔ میںنے جواب دیاکہ موضوع احادیث کا مجموعہ ضعیف ہوااور ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن ۔ پس کوئی حدیث موضوع نہ رہے گی ۔ انہوںنے جواب دیا کہ ہم اہل ھویٰ کاجواب نہیں دیا کرتے ۔ لیکن چونکہ تمہارا تعلق مرزا صاحب سے ہے ۔ اس لئے جواب لکھتا ہوں اور مرزا صاحب وہ ہیں کہ معقولی باتیں پیش کرتے ہیں اور پھر قرآن سے دکھا دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ مجددیت’’قریب بہ اذعان‘‘ ہے (یہ مولوی رشید احمد صاحب کے الفاظ ہیں) قرآن پر جو کوئی اعتراض کرتا ہے ۔ مرزا صاحب معقولی جواب اس کا دیتے ہیں اور قرآن سے نکال کر وہی دکھا دیتے ہیں ۔
مراد اس ذکر سے یہ ہے کہ رشید احمد صاحب گنگوہی حضرت صاحب کو مجدد ہونے والا اپنے اندازے میں سمجھتے تھے ۔ وہ خطوط رشید احمد صاحب کے مجھ سے مولوی اشرف علی نے، جو رشید احمد صاحب کا مرید تھا اور سلطان پور ریاست کپور تھلہ میں رہتا تھا ،لے کر دبا لئے اور پھر باوجود مطالبہ کے نہ دئیے۔
{ 1025} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے ۔ منشی اروڑا صاحب فوراً لدھیانہ کو روانہ ہوگئے ۔ دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی ۔ منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے ۔ کیونکہ انہوںنے استخارہ کیا اور آوازآئی’’عبد الرحمن آجا‘‘ ہم سے پہلے آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے ۔ بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے۔ اشتہار پہنچنے کے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی ۔ پہلے منشی اروڑاصاحب نے، پھر میں نے ۔ میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا۔تمہارے رفیق کہاں ہیں ؟ میں نے عرض کی ۔ منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب تیار ہی ہیں کہ بیعت کر لیں۔ چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی۔ اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی ۔ منشی عبد الرحمن صاحب ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب تو بیعت کرکے واپس آگئے ۔ کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے ۔ میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے ۔
حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے ۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقّت طاری ہوجاتی تھی۔ اور دعا اور بیعت بہت لمبی فرماتے تھے ۔ اس لئے ایک دن میں بیس پچیس آدمی کے قریب بیعت ہوتے تھے ۔
{ 1026} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ میں ٹھہرا ہو اتھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالا ت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ یا جس پر خد اکا فضل ہوجائے ۔ اسی رات میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔
{ 1027} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ میرے دو تین خواب ازالہ اوہام کی جلد کے ساتھ جو کورے کاغذ تھے ۔اُن پر اپنی قلم سے درج فرمائے ۔ اسی طرح الٰہی بخش اکونٹنٹ نے جب حضرت صاحب کے خلاف کچھ خواب شائع کئے تو حضور نے مجھے لکھا کہ اپنے خواب لکھ کر بھیجو ۔ میںنے بھیج دئیے ۔ حضور نے وہ خواب اشتہار میں چھپوا دئیے ۔ خواب سے پیشتر میں نے یہ شعر بھی لکھا تھا ۔ ؎
الا اے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا د اغے کہ من درسینہ دارم تو کجا داری
عسل مصفّٰی میں وہ اشتہارا ور خواب چھپے ہوئے موجود ہیں ۔
{ 1028} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب مرحوم اور میں نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی حضور کپور تھلہ بھی تشریف لائیں۔ اُن دنوں کپور تھلہ میں ریل نہ آئی تھی۔ حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم ضرور کبھی آئیں گے۔ اس کے بعد جلد ہی حضور بغیر اطلاع دئیے ایک دن کپور تھلہ تشریف لے آئے ۔ اور یکہ خانہ سے اتر کر مسجد فتح والی نزد یکّہ خانہ واقع کپورتھلہ میں تشریف لے گئے ۔حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے۔ مسجد سے حضور نے ملاں کو بھیجا کہ منشی صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کردو ۔ میں اور منشی اروڑا صاحب کچہری میں تھے کہ ملاں نے آکر اطلاع دی کہ مرز اصاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ اور انہوںنے مجھے بھیجا ہے کہ اطلا ع کردو۔ منشی اروڑا صاحب نے بڑی تعجب آمیز ناراضگی کے لہجے میں پنجابی میں کہا ’’دیکھو ناں تیری مسیت وچ آکے مرزاصاحب نے ٹھہرنا سی؟ ‘‘ ۔ میں نے کہا کہ چل کر دیکھنا تو چاہئے ۔ پھر منشی صاحب جلد ی سے صافہ باندھ کر میرے ساتھ چل پڑے ۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے ہوئے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا ہوا تھا۔ جس سے معلوم ہو اکہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی ۔ منشی اروڑا صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے اس طرح تشریف لانی تھی ؟ ہمیں اطلاع فرماتے ۔ہم کرتار پور سٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضور نے جواب دیا۔ اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنا تھا۔ پھر حضور کو ہم اپنے ہمراہ لے آئے ۔ اور محلہ قائم پورہ کپور تھلہ میں جس مکان میں پرانا ڈاکخانہ بعد میں رہا ہے، وہاں حضور کو ٹھہرایا ۔ وہاں بہت سے لوگ حضور کے پاس جمع ہوگئے ۔ کرنیل محمد علی خاں صاحب ، مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ ۔ حضور تقریر فرماتے رہے ۔ کچھ تصوف کے رنگ میں کرنیل صاحب نے سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ تقریر تھی۔ حاضرین بہت متاثر ہوئے ۔ مولوی غلام محمد صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہوگئے اور انہوںنے ہاتھ بڑھائے کہ میری آپ بیعت لے لیں ۔ مگر حضور نے بیعت لینے سے انکار کردیا۔ بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہا۔
{ 1029} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرماکر قادیان کو تشریف لے گئے ۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے ۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں ۔ اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں ۔
کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہر وعصر کی نماز جمع کی ۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیںاور قصر کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا۔انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے ۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی ۔ حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے ۔
{ 1030} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری نظر سے پہلے موٹا اشتہار بابت براہین احمدیہ۱۸۸۵ء میں گزرا۔ مگر کوئی التفات پید انہ ہوا۔ ۸۸۔۱۸۸۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاشہرہ سنتا رہا۔ ۱۸۹۰ء میں آپ نے مولوی عبد اللہ صاحب فخری کی تحریک پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دعاکی استدعا کی ۔ اس طرح خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ غالباًستمبر۱۸۹۰ء میں مَیں بمقام لدھیانہ حضرت صاحب سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں۔ وہاں سے واپسی پر میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میں تفضیلی شیعہ ہوں ۔ یعنی حضرت علی ؓ کودوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں ۔ کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں ۔ باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفائے راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا کیونکہ انہی کے ذریعہ قرآن واسلام ، حدیث واعمال ہم تک پہنچتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے غالباًستمبر یاا کتوبر۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی اور بعد بیعت تین سال تک شیعہ کہلاتا رہا۔
{ 1031} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے خط وکتابت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور شیعوں کے ہاں ولایت ختم ہوگئی ہے ۔ اس لئے جب ہم کسی کو ولی نہیں مانتے تو بیعت کس طرح کر سکتے ہیں ؟ آپ نے لکھا ’’ ہم جو ہر نما زمیں اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم کی دعا مانگتے ہیں ۔ اس کا کیافائدہ ہے ؟ کیونکہ مے تو پی گئے اب تو دُرد رہ گیا۔ پھر کیا ہم مٹی کھانے کے لئے رہ گئے؟ اور جب ہمیں انعام ملنا نہیں تو یہ دعا عبث ہے ۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ انعامات کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔۱۸۹۳ء میں مَیں نے خاص طور پر سے شیعیت کی بابت تحقیقات کی اور شیعیت کو ترک کردیا۔
{ 1032} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں قیام پذیر تھے میں اور محمد خان مرحوم ڈاکٹر صادق علی صاحب کو لے کر لدھیانہ گئے ۔ (ڈاکٹر صاحب کپور تھلہ کے رئیس اور علماء میں سے شمار ہوتے تھے)کچھ عرصہ کے بعد حضور مہندی لگوانے لگے۔ اس وقت ایک آریہ آگیا۔ جوایم ۔ اے تھا۔ اس نے کوئی اعتراض اسلام پر کیا ۔ حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا۔ آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوالوں ۔ ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے۔ مگر اُس آریہ نے جوجوابی تقریر کی تو ڈاکٹرصاحب خاموش ہوگئے ۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر ا س تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا۔ پھروہ دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا۔ پھر شام کے چار پانچ بجے ہوں گے تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تخلیہ چاہتاہوں میں نے حضور سے عرض کی ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کے پاس تنہائی میں چلے گئے اور میں اور مولوی عبد اللہ سنوری اور محمدخان صاحب ایک کوٹھڑی میں چلے گئے ۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے بیعت میں لے لیں مگر آپ نے فرمایا۔ آپ جلدی نہ کریں۔ سوچ سمجھ لیں۔ دو دن رہ کر ہم واپس آگئے ۔
{ 1033} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی شخص نے بیعت کرنی چاہی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بیعت نہ لی اور انکار کردیا۔
{ 1034} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور وہ کتاب پیش کی ۔ حضور نے ہاتھ سے کتاب پرے کر دی ۔ کہ جب مسلمانوں کے سینکڑوں بچے عیسائی ہوگئے ۔ اس وقت یہ کتاب نہ لکھی۔ اب جو مصنف کا اپنا لڑکا عیسائی ہوگیا تو یہ کتاب لکھی ۔ اس میں برکت نہیں ہوسکتی ۔
{ 1035} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شروع ستمبر۱۹۰۴ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہورلے گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے۔۳؍ستمبر کو آپ کا لیکچر میلارام کے منڈوے میں ہوا۔ والد صاحب بھی مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے گئے ۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا۔ گو معلوم ہوتا تھا کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سنا ہوگا یاکم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا ۔ کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں ۔ لیکن میری توجہ زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی ۔ آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرماتھے۔ اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا جو اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا۔
{ 1036} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔آنربیل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی۔ جو اثر بھی میرے دل میں اس وقت ہوا۔ وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے کہ وہ سچ ہے اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہے ۔ میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی۔ بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے ۔ لیکن میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا اور وہی اثر اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء کے دن سے ہی احمدی ہوں۔
{ 1037} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریباً ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے ۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اور میں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا۔ جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے فرمایا۔ اس غرض کے لئے جانا لازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اور گھر خط لکھدیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں ۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اور فرمایا گھر خط لکھ دو۔
{ 1038} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورانِ سر کا عارضہ تھا ۔ ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس میں خاص ملکہ رکھتا ہے اُسے بلوایاگیا، کرایہ بھیج کر اور کہیں دور سے ۔ اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دودن میں آپ کو آرام کردوں گا۔ یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں علاج ہر گز نہیں کرانا چاہتا۔ یہ کیا خدائی دعویٰ کرتا ہے۔ اس کو واپسی کرایہ کے روپیہ اور مزید بیس پچیس روپے بھیج دئیے کہ یہ دے کر اُسے رخصت کردو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔
{ 1039} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سردرد کا دورہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس قدر سخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانندسرد ہوگئے ۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہوگئی تھی ۔ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہوتو اس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمائی آجائے گی اور دورہ موقوف ہوجائے گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیں آتا۔ فرمایا ! کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت میں کچھ اشعار آپ کو یاد ہوں تو پڑھیں ۔میںنے براہین احمدیہ کی نظم ’’اے خدا! اے چارۂ آزارما‘‘ خوش الحانی سے پڑھنی شروع کردی اور آپ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہوگئی۔ پھر آپ لیٹے رہے اور سنتے رہے۔ پھر مجھے ایک اعتراض یاد آگیاکہ آیت واذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرۃ:۳۱)پر یہ اعتراض ہے کہ جو مشورہ کا محتاج ہے ۔ وہ خدائی کے لائق نہیں ۔ قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کا علم بھی کامل نہیں۔کیونکہ اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ آئندہ فساد اور خون ریزی کرے گا ۔ ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک ۔ اُس سے معلوم ہو اکہ وہ پاکوں سے دشمنی اور ناپاکوں سے پیار کرتا ہے ۔کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس خلافت کے لئے پیش کیا تھا۔ قال انی اعلم مالا تعلمون ۔ بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے جس سے عجز ظاہر ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہا کہ علّم اٰدم الاسماء کلھا۔ ایک آدمی کو الگ لے جاکر کچھ باتیں چپکے سے سمجھادیںاور پھر کہا کہ تم بتاؤ اگر سچے ہو۔ اس میں فریب پایا جاتا ہے ۔ جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضور کو جوش آگیا اور فوراً آپ بیٹھ گئے اور بڑے زورکی تقریر جواباً کی اور بہت سے لوگ بھی آگئے ۔ اور دورہ ہٹ گیا۔ بہت لمبی تقریر فرمائی کہ کہیں آدم کا خونریزی وغیرہ کرناثابت نہیں ۔ وغیرہ
{ 1040} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور عبد الحکیم مرتد جس زمانے میں لاہور پڑھتے تھے۔ وہاں پر ایک شخص جو برہموسماج کا سیکرٹری اور ایم اے تھا، آیا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں تھے۔ اُس نے آکر کہا کہ تقدیر کے مسئلہ کو میں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ شاید کسی اور نے نہ سمجھا ہو۔ وہ دلائل میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اس پرحضور نے خود ہی تقدیر پر تقریر شروع فرمادی اور یہ تقریر مسلسل دو گھنٹے جاری رہی ۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالحکیم صاحب بھی اس میں موجود تھے اور نواب فتح علی خان صاحب قزلباش بھی موجود تھے ، تقریر کے ختم ہونے پر جب سب چلے گئے تو نواب صاحب بیٹھے رہے اور نواب صاحب نے کہا کہ آپ تو اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں اور اسلام کی صداقت آفتاب کی طرح سامنے نظر آتی ہے ۔ وہ لوگ بڑے ظالم ہیں جو آپ کے متعلق سخت کلامی کرتے ہیں۔ ظالم کا لفظ سن کر حضور نے شیعہ مذہب کی تردید شروع کردی۔ گویا ثابت کیا کہ شیعہ ظلم کرتے ہیں جو صحابہ کا فیض یافتہ صحبتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا نہیں مانتے۔ اور صحابہ کا تقدس ظاہر کرکے بڑے جوش میں فرمایا کہ کیا کوئی شیعہ اس بات کو گوارا کر سکتا ہے کہ ا س کی ماں کی قبر دو نابکاروں کے درمیان ہو۔ مولوی عبد الکریم صاحب کا چہرہ اُترا ہوا ساتھا ۔ پھر نواب صاحب نہایت ادب سے اجازت لے کر چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا حضور کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ شیعہ مذہب رکھتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا۔ ان کے ہمارے بزرگوں سے تعلقات چلے آتے ہیں ۔ ہم خوب جانتے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ یہ بڑے آدمی کہاں کسی کے پاس چل کر آتے ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ حق اُن کے گوش گزار کردوں۔
{ 1041} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلی دفعہ غالباًفروری۱۸۹۱ء میں مَیں قادیان آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا ۔ دسمبر۱۸۹۲ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا۔ ایک دفعہ میںنے حضرت صاحب سے علیحدہ بات کرنی چاہی گوبہت تنہائی نہ تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پریشان پایا ۔ یعنی آپ کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی۔ آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی۔ اسی جلسہ۱۸۹۲ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے۔ اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی۔ احباب وہاں جمع ہوجاتے تھے۔ اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے۔ نما زعشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔میں علماء اور بزرگان خاندان کے سامنے دو زانوبیٹھنے کاعادی تھا۔ بسااوقات گھٹنے دکھنے لگتے۔ مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی۔ جس کو جس طرح آرام ہوتابیٹھتا۔ بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت وادب اور محبت ہوتی تھی۔ چونکہ کوئی تکلّف نہ ہوتا تھا ۔ اس لئے یہی جی چاہتا تھا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریرفرماتے رہیں اور ہم میں موجود رہیں ۔ مگر عشاء کی اذان سے جلسہ برخاست ہوجاتا۔
{ 1042} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً۱۸۹۴ء تھا ۔ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی۔ اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔ اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہوجاتی ۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے ۔ جہاں تہجد کی نماز ہوتی۔ سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے ۔ سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی ۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایسا ہُو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں ۔ مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوجاتی۔
{ 1043} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ امرتسر میں جب آتھم کے ساتھ مباحثہ قرار پایا تو بیس بیس یا پچیس پچیس آدمی فریقین کے شامل ہوتے تھے۔ ہماری طرف سے علاوہ غیر احمدیوں کے مولوی عبد الکریم صاحب ، سید محمد احسن صاحب بھی شامل ہوتے تھے۔ اور ایک شخص اللہ دیا لدھیانوی جلد ساز تھاجس کو توریت وانجیل خوب یا دتھی اور کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ عیسائیوں کی طرف بیٹھا کرتے تھے ۔ ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایک طرف عبد اللہ آتھم بیٹھتے تھے ۔ دونوں فریق کے درمیان خلیفہ نور الدین صاحب جمونی اور خاکسار مباحثہ لکھنے والے بیٹھا کرتے تھے۔ اور دو کس عیسائیوں میں سے اسی طرح لکھنے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ بحث تقریری ہوتی تھی اور ہم لکھتے جاتے تھے اور عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے۔ اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے۔ حضرت صاحب اختصار کے طور پر غ سے مراد غلام احمد اور ع سے مراد عبداللہ لکھاتے تھے۔ آتھم بہت ادب سے پیش آتا تھا۔ جب عیسائیوں کے لکھنے والے زیادہ نہ لکھ سکتے۔ آتھم خاکسار کو مخاطب کر کے کہا کرتا کہ عیسائی ہمارے لکھنے والے ٹٹو ہیں۔ ان کی کمریں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں بھی ساتھ لینا کیونکہ میں اور خلیفہ نور الدین صاحب بہت زُود نویس تھے۔ آتھم کی طبیعت میں تمسخر تھا۔
ایک دن آتھم مقابلہ پر نہ آیا۔ اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹھا ۔ یہ بہت بے ادب اور گستاخ آدمی تھا ۔ اُس نے ایک دن چند لولے لنگڑے اندھے اکٹھے کر لئے اور لاکر بٹھا دئیے۔ اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ۔ ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کردیں اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم اپنی کچھ اصلاح کرلیں گے۔ اس وقت جماعت میں ایک سناٹا پیدا ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا۔ کہ ہمارے ایمان کی علامت جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے ۔ یعنی استجابت دعا اور تین اور علامتیں حضور نے بیان فرمائیں ۔ یعنی فصاحت وبلاغت اور فہم قرآن اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں ۔ اس میں ہماری تم آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو۔ لیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی علامت یہ قراردی ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گاتو لنگڑوں لُولوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑ وں کو اپنی جگہ سے ہلا سکو گے۔ لیکن میںتم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا۔ میں ایک جوتی الٹی ڈالتا ہوں اگر وہ تمہارے اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے۔ اس وقت جس قدر مسلمان تھے۔ خوش ہو گئے اور فریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے۔
{1044} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مناظرہ میں آخری دن جب آتھم کو پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دے کر گردن ہلا کر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دجّال نہیں کہا۔ حالانکہ اپنی کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ میں اس نے یہ لفظ لکھا تھا۔ پھر آتھم اٹھا اور گر پڑا۔ حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا۔ پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔ ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا۔ وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا۔میں نے اسے کہا کہ یہ کیا ہو گیا؟ وہ کہنے لگا کہ آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے۔ پھر جب ہم اپنی جگہ واپس آئے ۔ غالباً کریم بخش ایک رئیس کی کوٹھی پر ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو کرنیل الطاف علی خاں ہمارے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے اور ڈاڑھی مونچھ منڈائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ باہر سے ہم کسی کو آنے نہ دیں گے۔ چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔ کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پُر آب تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ بوریہ پر صرف آپ کا گھٹنا ہی تھا اور باقی حصہ زمین پر تھا۔ میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں! اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں (کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریے پر بچھا دیا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے۔ اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں Baptize ہو چکا ہوں (یعنی عیسائیت قبول کر چکا ہوں) مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جائوں ۔ حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں ۔ آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں ۔ میں نے صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریہ پر بیٹھ گیا۔ اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا۔ کہ میں شراب بہت پیتا ہوں اور دیگرگناہ بھی کرتا ہوں ، خدا ،رسول کا نام نہیں جانتا ۔ لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کر کے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔استغفار پڑھا کرو۔ اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا۔میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا۔ اور اسی حالت میں اقرار کر کے کہ میں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا،آپ کی اجازت لے کر آگیا۔ وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے ۔
چونکہ کرنیل صاحب بہت آزاد طبع آدمی تھے ۔ اس واقعہ سے دو تین سال بعد ایک دفعہ مجھ سے ملے اور انہوںنے کہا کہ استغفار اور نماز میں نے اب تک نہیں چھوڑی ۔یہ ضرور ہے کہ باہر اگر میں سیر کو چلا گیا اور نماز کا وقت آگیا تو میں چلتے چلتے نماز پڑھ لیتا ہوں۔ ورنہ مقام پر نما زاور قرآن شریف پڑھتا ہوں ۔ ہاں دو وقت کی نمازیں ملا لیتا ہوں۔ اور کرنیل صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک دفعہ پچاس روپے حضور کو بھیجے اور مجھے اس کی خوشی ہوئی کہ حضور نے قبول فرمالئے ۔
{ 1045} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ عبداللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد کے جب دو تین دن رہ گئے تو محمد خان صاحب مرحوم اور منشی اروڑاصاحب مرحوم اور میں قادیان چلے گئے اور بہت سے دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ سب کو حکم تھا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے دعائیں مانگیں۔ مرز ایوب بیگ مرحوم برادر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس قدر گریہ وزاری سے دعا مانگتا تھا کہ بعض دفعہ گر پڑتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ محمد خان اور منشی اروڑا صاحب اور میں مسجد مبارک کی چھت پر سویا کرتے تھے ۔ آخری دن میعاد کا تھا کہ رات کے ایک بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے کہ ابھی الہام ہوا ہے کہ اس نے رجوع الی الحق کر کے اپنے آپ کو بچا لیا ہے ۔ منشی اروڑا صاحب مرحوم نے مجھ سے ، محمد خان صاحب سے اور اپنے پاس سے کچھ روپے لے کر جو تیس پنتیس کے قریب تھے، حضور کی خدمت میں پیش کئے کہ حضور اس کے متعلق جو اشتہار چھپے وہ اس سے صرف ہوں ۔حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم تمہارے روپے سے ہی اشتہارات چھپوائیں گے ۔ ہم نے عرض کی کہ ہم اور بھی روپے بھیجیں گے ۔ ہم نے اسی وقت رات کو اُتر کر بہت سے آدمیوں سے ذکر کیا کہ وہ رجوع بحق ہو کر بچ گیا۔ اور صبح کو پھر یہ بات عام ہوگئی ۔ صبح کو ہندو مسلمانوں کا ایک بہت بڑ امجمع ہوگیا کہ معلوم کریں کہ آتھم مر گیا یا نہیں ۔ پھراُن لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا۔ اس کے بعد ہم اجازت لے کر قادیان سے امرتسر آئے اور امرتسر میں آکر دیکھا کہ عیسائیوںنے آتھم کا جلوس نکالا ہوا ہے ۔ ایک ڈولا سا تھا جس میں آتھم بیٹھا ہوا تھا اور اس ڈولہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور وہ چپ چاپ ایک طرف گردن ڈالے بیٹھا تھا۔ پھر ہم کپور تھلہ چلے آئے ۔ بہت سے آدمیوں نے مجھ سے چھیڑچھاڑ بھی کی ۔ ہم جب امرتسر قادیان سے گئے تھے تو شائع شدہ اشتہار لوگوں کو دئیے کیونکہ ہم تین دن قادیان ٹھہرے تھے اور یہ اشتہار چھپ گئے تھے۔
{ 1046} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں پہلی دفعہ۱۸۹۱ء میں قادیان گیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فینس میرے لئے اور ایک بہلی بھیجی تھی۔ سابقہ اڈا خانہ سے نکل کرجو راستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کو جاتا تھا جو اب بھی ہے جہاں محمد اسماعیل صاحب جلد ساز کا مکان ہے اور پھر مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے پاس احمدیہ چوک کی طرف مڑتا ہے ۔ جس کے شرقی طرف مدرسہ احمدیہ ہے اور غربی طرف دکانیں ہیں اس تمام راستہ میں ایک پہیہ خشکی میں اور دوسرا پانی میں یعنی جوہڑ میں سے گزرتا تھااور یہ حد آبادی تھی۔ اور میرے مکان کے آگے ایک ویرانہ تھا۔ اور گلی چھت کر بنا ہوا کمرہ میری فرووگاہ تھی اور یہ ادھر حد آبادی تھی۔ دسمبر۱۸۹۲ء میں میں قادیان گیا تو مدرسہ احمدیہ ۔ مہمان خانہ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں ۔ اور یہ ایک لمبا سا چبوترا بنا ہو اتھا۔ اسی پر جلسہ ہوا تھا۔ اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا۔ (یہ چبوترہ ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنایا گیا تھا) اور اس کے بعد جتنے مکان بنے ہیں ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں ۔
{ 1047} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً پہلی یادوسری دفعہ میرے قادیان آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو آپ موم بتی لے کر اس کی روشنی میں آئے ۔ میرے ملازم صفدر علی نے چاہا کہ بتی کو بجھا دیا جائے تاکہ بے فائدہ نہ جلتی رہی ۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ جلنے دو روشنی کی کمی ہے ۔ دنیا میں تاریکی تو بہت ہے (قریب قریب الفاظ یہ تھے)
{ 1048} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آتھم کے واقعہ کے چھ ماہ بعد میں قادیان گیا تو وہاں پر شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام بھی ٹھہرے ہوئے تھے ۔وہ احمدی نہ تھے۔ قادیان سے میں اور شمس الدین صاحب امرتسر آئے ۔ میاں قطب الدین صاحب امرتسری جو بہت مخلص آدمی تھے ۔ اُن سے ملنے گئے تو انہوںنے کہا کہ یہاں پرایک عیسائی ہے اس کے پاس عبد اللہ آتھم کی تحریر موجود ہے جس میں آتھم نے اقرار کیا ہے کہ اس نے ضرور رجوع بحق کیا ہے اور وہ خائف رہااور وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہر گز نہیں جو مرزا صاحب کی ہتک کرتے ہیں ۔ آپ کوبزرگ جانتا ہے ۔ یہ سن کر ہم تینوں اس عیسائی کے پاس گئے ۔ اور اُس سے وہ تحریر مانگی۔ اس نے دور سے دکھائی اور پڑھ کر سنائی ۔ اور یہ کہا کہ یہ خاص آتھم کے قلم کی تحریر ہے جو چھپوانے کی غرض سے اس نے بھیجی تھی مگر عیسائیوں نے اجازت نہیں دی کہ اس کو چھاپا جائے ۔ میرے پاس امانتاً رکھی ہوئی ہے ۔ عیسائی مذکور نے چند شرائط پر وہ تحریر دینے کا اقرار کیا کہ اس کی نوکری جاتی رہے گی۔ اس کا انتظام اگر ہم کریں۔ پانچ سو روپیہ دیں اور اس کی دو لڑکیوں کی شادی کا بندوبست کریں ۔ شمس الدین صاحب نے اس کا انتظام کیا۔ اور پھر ہم تینوں اس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ یہ راز افشاء ہوگیا ہے اور اسے عیسائیوں نے کوہاٹ یا کسی اور جگہ تبدیل کردیا ہے ۔
{ 1049} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنے وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر جارہا تھا تو انبالہ سٹیشن پر ایک بڑا پادری فیروز پور سے آرہا تھا۔ جبکہ آتھم فیروز پور میں تھا ۔ پادری مذکور کے استقبال کے لئے بہت سے پادری موجود تھے۔ وہ جب اُترا تو پادریوں نے انگریزی میں اس سے آتھم کا حال پوچھا ۔ اس نے کہا ۔ وہ تو بے ایمان ہوگیا ۔ نمازیں بھی پڑھتا ہے ۔ بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک جو احمدی تھے۔ اور میرے ملنے کے لئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے کیونکہ میں نے اُن کو اطلاع دے دی تھی۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ یہ انہوںنے پوچھا ہے اور یہ اس نے جواب دیا ہے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں واقعہ تحریر آتھم والااور انبالہ سٹیشن والا عرض کیا۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ گواہ تو سب احمدی ہیں۔ حضور کا مطلب یہ تھا کہ غیر کب اس شہادت کو مانیں گے۔
شیخ محمد احمد صاحب وکیل پسر منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ شمس الدین صاحب تو احمدی نہ تھے ۔ جس کا جواب والد صاحب نے یہ دیا کہ دراصل حضور نے اس امر کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور درخور اعتنا خیال نہ فرمایا۔
{ 1050} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ میں۱۹۰۱ء میں معہ اہل وعیال قادیان آگیا اور پھر مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ اُن دنوں میں ایک رسالہ ابتدائی جماعت کے لئے نماز کے متعلق لکھ رہا تھا۔ اُس میں میں نے ارکان نماز کا مختصر ذکر کیا تو میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ پانچ ارکان ایمان یعنی(۱)اللہ تعالیٰ(۲) فرشتے(۳)اللہ کی کتابیں(۴) اللہ کے رسول(۵)آخرت کے ساتھ ’’قدر خیرہ وشر ہ ‘‘کا مفہوم بھی درج کیا جائے یا نہیں ۔ یہ میں نے حضرت مولانا مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاول کے ذریعہ دریافت کیا اور مغرب کے بعد عشاء تک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف رکھا کرتے تھے ۔ اُس وقت دریافت کیا تھا ۔ ا س وقت مسجد مبارک وسیع نہ ہوئی تھی۔ اور اس کی شکل یہ تھی ۔

۱۔ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ۲۔مسجد مبارک ۳۔ یہ کوٹھڑی بھی شامل مسجد ہو گئی تھی۔
۴۔ دفتر ریویو۔ مولوی محمد علی صاحب یہاں بیٹھا کرتے تھے ۔ ابتداء میں یہ غسل خانہ تھااور گہرا تھا ۔ تخت بچھا کر مسجد کے برابر کر لیا تھا۔ زیادہ لوگ ہوتے تو امام کے پاس بھی دو آدمی کھڑے ہوجاتے تھے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کے دفتر میں بھی چند آدمی کھڑے ہوجاتے تھے۔ مگر جس وقت کا میں ذکر کرتا ہوں ۔ اس وقت یہ دفتر نہ بنا تھا۔ اس لئے صرف نمبر ۱،نمبر۲،نمبر ۳ میں ہی نما زہوتی تھی۔
میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس بیٹھا تھا جو امام نما زتھے اور حضرت خلیفہ المسیح اول بھی وہاں بیٹھے ہوتھے ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقام (الف) پر بیٹھا کرتے تھے اور دریچہ (ب) میں سے ہو کر مسجد میں آتے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا کہ میں تقدیر کا قائل نہیں۔ اس پر لمبی تقریر فرمائی جو غالباً الحکم میں درج ہوگی۔ میں نے پھر بذریعہ مولانا صاحب عرض کیا کہ میں تقدیر کا قائل ہوں اور اللہ تعالیٰ پر مع جمیع صفات ایمان رکھتا ہوں ۔ اور اسے قادر وقدیر مانتا ہوں مگر میری عرض یہ ہے کہ باقی ماندہ صفات کو چھوڑ کر قدر خیر وشر کو کیوں الگ طور سے لکھا جائے ۔ یا تو تمام صفات کو لکھا جائے یا یہ بھی نہ ہو۔ توآپ نے فرمایا۔ یہ الگ طور پر نہ لکھی جائے ۔
{ 1051} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا ۔ اس وقت میں ایک کام کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو اتھا ۔ اس وقت صرف میں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی تھے۔ اور یہ اس مکان کا صحن تھا جو حضرت صاحبزادہ مرز ا شریف احمد صاحب کے رہائشی مکان کا صحن تھا۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے جنوبی جانب بڑے کمرے کی چھت پر تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے ۔ اس سے قبل حضرت مولانا نور الدین صاحب ؓ سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔
{ 1052} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں۔ دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کرلیتے تھے ۔ کبھی اُن کے کاتب آجاتے، کبھی میں جاتا۔ ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کے لئے آتھم کے مکان پر گیا۔ جاکر بیٹھا ہی تھا کہ آتھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ۔ میں نے کہا قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر کا۔ اس نے کہا !وہاں کے منشی عبد الواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے ۔ میں نے کہا کہ وہ میرے چچا تھے۔ پھر کسی جگہ کا آتھم نے ذکر کیا کہ میں وہاں کا ڈپٹی تھااور منشی عبدالواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اور میرااُن کا بڑا تعلق تھا۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ملہم سمجھتے تھے۔ تم تو میرے بھتیجے ہوئے ۔ اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں ۔ ان کی خاطر کرنی چاہئے ۔ چنانچہ اُسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی۔ میںنے کہا کہ میں یہ نہیں کھاسکتا۔ کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا اور مولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے میںبھی چائے نہیں پی سکتا۔ وہ کہتا رہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیںبلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اور حضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ نے بہت اچھاکیا۔ اب تمہیں وہاں جاکر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں خواہش ہوتو خود آجایا کریں ۔
{ 1053} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا۔ فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا ۔ ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی۔ ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے ۔ گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آوازسنائی دی جواس تقریب پر ہورہا تھا۔ یہ آواز سنتے ہی حضور لوٹ پڑے ۔ فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوںنے آکر بہت التجاء کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا۔ اور واپس ہی چلے آئے ۔ راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اس کا نام اس وقت یاد نہیں۔ وہاں ایک معزز سکھ سردارنی تھی ۔ اُس نے بمنّت حضور کی دعوت کی ۔ حضور نے فرمایا۔قادیان قریب ہی ہے ۔ مگر اس کے اصرار پر حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی اور اس کے ہاں جاکر سب نے کھانا کھایا۔ اور تھوڑی دیر آرام کر کے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے۔ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں ۔ مرزااسماعیل صاحب شیر فروش، حافظ حامد علی ، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔
{ 1054} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ پٹیالہ کے بعض عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور یہ بات پیش کی کہ ہم ایک لفافے میں مضمون لکھ کر میز پر رکھ دیتے ہیں۔ آپ اسے دیکھے بغیر اس کا مضمون بتادیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا ! ہم بتادیں گے۔ آپ وہ مضمون لکھ کر رکھیں۔ اس پر انہوںنے جرأت نہ کی۔ اس قدر واقعہ میرا چشم دید نہیں ۔ البتہ اس واقعہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو حنائی کاغذ پر تھا ۔وہ اشتہار میں نے پڑھا تھا جس میں یہ واقعہ درج تھا اور حضور نے یہ شرط پیش کی تھی کہ اگر ہم لفافے کا مضمون بتادیں تو مسلمان ہونا ہوگا۔ یہ واقعہ ابتدائی ایام کا اور بیعت اولیٰ سے پہلے کا ہے ۔
{ 1055} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتوسل حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب راولپنڈی کے ایک تاجر صاحب کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا۔ مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے اُن کے اقرباء اچھے معلوم نہ ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رشتہ بہت پسند تھا۔ بلکہ یہاں تک زور دیا ، خو دتو نہیں فرمایا مگر پیغامبر کی معرفت فرمایا کہ اگریہ رشتہ میں منظور نہ کروں گا تو آپ میرے رشتہ کے متعلق کبھی دخل نہ دیں گے۔ مگر اُن تاجر صاحب نے خو دیہ بات اُٹھائی کہ ان کی سالی بہنویوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابندنہ ہوگی(میرے متعلق یہ کہا کہ )سنا جاتا ہے کہ نواب صاحب پردہ میں سختی کرتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایاکہ وہ یہ کہتے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز نہیں چاہتا۔ فرمانے لگے کہ کیا بہنوئی سے بھی پردہ ہے ۔ میںنے عرض کی کہ حضور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ قرآن شریف کی فہرست میں بہنوئی داخل نہیں ۔ آپ خاموش ہوگئے اور پھر اس رشتہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا۔ اور وہ تاجر صاحب بھی چلے گئے ۔
{ 1056} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریباً ایک ماہ قیام پذیر رہے ۔ بیعت اولیٰ سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے ۔ ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتاہوں ۔ آپ نے فوراً دعوت قبول فرمالی۔ اُس نے کھانے کا انتظام بستی بابا خیل میں کیا اور بہت پرتکلف کھانے پکوائے ۔ جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے ۔ اُس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا۔ اور لوٹااور سلاپچی لے کر خود ہاتھ دُھلانے لگا ۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خد اقبول کر لے ۔ غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کوقبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے ۔ تم خدا کو وحدہ لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو۔ اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں۔ پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا۔
{ 1057} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیبذریعہ تحریر بیان کیا کہ جالندھر میں قیام کے ایام میں ایک دن ایک ضعیف العمر مسلمان غالباً وہ بیعت میں داخل تھا اور اس کا بیٹا نائب تحصیلدار تھا ،اس بیٹے کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس نے شکایت کی کہ یہ میرا بیٹا میری یا اپنی ماں کی خبر گیری نہیں کرتا اور ہم تکلیف سے گزارا کرتے ہیں ۔ حضور نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ خد اتعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ویُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِینًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:۹) ۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ ، اولاد اور بیوی کی خبر نہ لے ۔ تو وہ بھی اس حکم کے نیچے مساکین(ماں باپ) یتامیٰ (بچے) اسیر (بیوی) میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ تم خدا تعالیٰ کا یہ حکم مان کر ہی آئندہ خدمت کرو۔ تمہیں ثواب بھی ہوگا اور ان کی خبرگیری بھی ہوجائے گی ۔ اُس نے عہد کیا کہ آج سے میں اپنی کل تنخواہ ان کو بھیج دیا کروں گا۔ یہ خود مجھے میرا خرچ جو چاہیں بھیج دیا کریں پھر معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہا۔
{ 1058} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران قیام جالندھر میں ایک شخص جو مولوی کہلاتا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بحث کرنے کی غرض سے آیا۔ حضور نے فرمایا کہ آپ صبح کے وقت آجائیں ۔ اُس نے کہا کہ صبح کو مجھے فرصت نہیں ہوتی۔ میں بھی اُس شخص کو جانتا تھا۔ میںنے کہا ۔یہ شخص واقعی صبح کو مشغول ہوتا ہے کیونکہ شراب نوشی کا عادی ہے ۔ اس پر حاضرین تو مسکرا پڑے۔ لیکن حضور نے صرف اس قدر فرمایا کہ آپ اپنے شکوک رفع کرنے کے لئے کوئی اور وقت مقرر کر لیں۔
{ 1059} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جالندھر میں زیادہ عرصہ قیام جب رکھا تو دوست احباب ٹھہر کر چلے جاتے تھے ۔ لیکن مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور خاکسار برابر ٹھہرے رہے ۔ ایک دن میں نے اور مولوی صاحب مرحوم نے ارادہ کیا کہ وہ میرے لئے اور میں اُن کے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کریں۔ صبح کو حضور سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا۔ لوجی میاں عبد اللہ صاحب اور منشی صاحب! اب تو ہم اور آپ ہی رہیں گے اور دوست تو چلے گئے ۔ نئے نودن پرانے سو دن۔ بس پھر ہم خاموش ہوگئے اور ٹھہرے رہے ۔
{ 1060} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتداء میں جب میں قادیان مستقل طور پر رہنے لگا تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں باہرسے برات آئی تھی ۔ اس کے ساتھ کنچنی بھی تھی اور ناچ وغیرہ ہوتا تھا ۔ میں ایسی شادی کی رسوم میں نہ خود شریک ہوتا ہوں اور نہ اپنی کوئی چیز دیتا ہوں ۔ مرزا نظام الدین نے مجھ سے غالباً کچھ دریاں اور چکیں مانگی تھیں ۔ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا۔ دے دو کیونکہ اس شادی سے اغلب ہے کہ دولہا کی اصلاح ہوگی۔
{ 1061} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدابخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ انہوںنے لڈومیرے ہاں بھیجے ۔ میں نے واپس کر دئیے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا ۔ تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی ۔ یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں ۔ بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی ۔ میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی ۔ اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں ۔
{ 1062} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ خد اتعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر فرمارہے تھے ۔ اس وقت ایک انگریز جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ،آگیا اور ٹوپی اتار کر سلام کیااور حضور کی تقریر سننے کے لئے کھڑا رہا اور باوجود یکہ اس کے بیٹھنے کے لئے کرسی وغیرہ بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا۔ عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتا ہوا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا تھا ۔ تھوڑا عرصہ تقریر سن کر سلام کر کے وہ چلا گیا۔ اس کے بعد قریباً دوسرے تیسرے دن جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے تو ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ راستہ میں گھوڑے پر سوار مل جاتا اور گھوڑے کو ٹھہرا کر ٹوپی اتار کر سلام کرتا ۔یہ اس کا معمول تھا۔
{ 1063} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا ۔ یا ظفر المظفر (وہ دوستانہ بے تکلفی میں مجھے اس نام سے مخاطب فرمایا کرتے تھے) ذرا جالندھر کی سیر تو کراؤ۔ چنانچہ ہم چل پڑے۔ راستہ میںدیکھا کہ گویا ایک برات آرہی ہے اور اس کے ساتھ دیسی اور انگریزی باجااور طوائف وغیرہ آرہے ہیں۔ اُن کے پیچھے ایک شخص گھوڑے پر سوار بٹیرے کا پنجرہ ہاتھ میں لئے آرہا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ تمام جلوس اسی بٹیرے کے لڑائی جیتنے کی خوشی میں ہے ۔ میںنے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ برات ورات نہیں ۔ یہ تو بٹیرے کی کشتی جیتنے کی خوشی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب یہ دیکھ کر سڑک پر ہی سجدہ میں گر پڑے اور سخت مغموم ہوئے ۔ بوجہ مسلمانوں کی اس ابتر حالت کے۔ اور یہی فرماتے رہے کہ اوہو! مسلمانوں کی حالت اس درجہ پر پہنچ گئی ہے ۔ہم واپس آگئے ۔
{ 1064} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں مقیم تھے تو انہیں دنوں میر عباس علی صاحب بھی اپنے کسی مرید کے ہاں آکر جالندھر میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایاکہ وہ آپ کے پرانے ملنے والے ہیں اُن کو جاکر کچھ سمجھاؤ۔ پیراں دتا جو کہ فاتر العقل سا شخص تھا اور حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا ۔ اس نے کہا ’’ حجور میں وی جاکے سمجھاواں ‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ہاں منشی صاحب کے ساتھ چلے جاؤ۔ میں میر عباس علی کی قیام گاہ پر گیا۔آٹھ دس آدمی فرش پر بیٹھے تھے اور میر صاحب چارپائی پر ۔ ایک تخت بھی وہاں تھا ۔ دَوروں میں پوست بھیگے ہوئے تھے۔ پیراں دتا کو دیکھ کر میر عبا س علی نے اُسے بے تکلفانہ پکارا ۔ اوپیراں دتا ، او پیراں دتا ، اور مجھ سے السلام علیکم کر کے ہنستے ہوئے ،آئیے آئیے کہہ کر بیٹھنے کو کہا ۔ پیراں دتا مجھ سے کہنے لگا ۔ میں پہلے سمجھا لوں ۔ میں نے کہا سمجھا لے ۔ پیراں دتا کہنے لگا ۔میر صاحب! میں تمہیں دونوں وقت کھانا پہنچاتا تھا یا نہیں ؟ اور تمہیں کبھی کبھی میں پیسے بھی دیا کرتا تھا یا نہیں؟ میر صاحب اب بڑے آدمی دور دور سے روٹی کھانے والے آتے ہیں ۔اب جو تم روٹیوں کی خاطر ادھر ادھر پھرتے ہو یہ وقت اچھا ہے یا وہ جب گھر بیٹھے میں تمہیں روٹی دے جایا کرتا تھا ۔ اب تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں روٹی دونوں وقت دے جایا کروں گا۔ میر عباس علی ہنستے رہے ۔ پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کیوں برگشتہ ہوگئے ۔ وہ کہنے لگا کہ مرزاصاحب کہتے ہیں کہ یہ جسم آسمان پر نہیں جاسکتا۔ میں نے اپنے پیر کو خودد یکھا ہے (مولوی غوث علی پانی پتی ان کے پیر تھے) کہ ایک دفعہ انہوں نے الااللہ کا جونعرہ مارا تو زمین شق ہوگئی اور وہ اس میں سما گئے ۔ میںنے کہا کہ اوپر تو پھر بھی نہ گئے ۔ اور وہاں قرآن شریف رکھا تھا ۔ میں نے اُٹھا کر میر صاحب کے سر پر رکھ دیا کہ آپ خدا کو حاضر وناظر جان کربتائیں کہ آ پ نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ ہمارے پیر نے جب یہ بیان کیا کہ انہوںنے ایک دفعہ ایسا کیا۔ اور ہم انہیں سچا سمجھتے ہیں ۔ تو یہ چشم دید ماجرا ہی ہوا ۔ غرضیکہ جہاں تک ہوسکا ۔میں نے اُن کو سمجھایا ۔ مگر اس وقت ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ وہ اقراری نہ ہوئے ۔
{ 1065} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو میرا انتظار فرماتے۔ بعض دفعہ بہت دیر بھی ہوجاتی مگر جب سے مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مجھ سے ہوا تو آ پ نے پھر میرا انتظار نہیں کیا۔ (یا توحیا فرماتے۔ اور اس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا یا مجھے فرزندی میں لینے کے بعد فرزند سمجھ کر انتظار نہیں کیا)
{ 1066} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جس مکان میں رہا کرتے تھے اب اس میں حضرت اماں جان علیہا السلام رہتی ہیں ۔ اس کے صحن اور میرے مکان کے صحن میں صرف ایک دروازہ حائل تھا ۔ گویا اس وقت نقشہ یہ تھا۔

کمرہ نمبر۱، نمبر۲، نمبر۳میں میری رہائش تھی ۔ نمبر۴میں مولوی محمد احسن صاحب رہا کرتے تھے۔ نمبر۵میرا صحن تھا، نمبر۶حضرت صاحب کا صحن تھا۔ اور نمبر۷آپ کا رہائشی کمرہ تھااور نمبر۸بیت الفکر تھا۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی بات کرتے ہمیں سنائی دیتی۔ جب بھی کوئی بات ہو یا عورتوں میں تقریر ہو۔ رات دن میں جب بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر آتا تو آپ کے منہ سے یہی نکلتا تھا’’ہمارے رسول کریم ، ہمارے نبی کریم ‘‘
{ 1067} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پر مع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرماتھے۔ ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے۔ حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے ،آتے گئے اور حضور کے قریب بیٹھتے گئے ۔ جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا ۔ حتّٰی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا۔ اتنے میں کھاناآیا۔ تو حضور نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کر کے فرمایا ۔ آؤ میاں نظام الدین !آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں ۔ اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اور کوئی اندر نہ گیا۔ جو لوگ قریب آکر بیٹھتے گئے تھے ان کے چہروں پر شرمندگی ظاہر تھی۔
{ 1068} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک صاحب مولوی عبد الرحیم ساکن میرٹھ قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعوعلیہ السلام سے تین دن تک اُن کی ملاقات نہ ہوسکی۔ وجہ یہ تھی کہ جب حضور مسجد مبارک میں بیٹھتے تو عبد الرحیم صاحب تکلف اور آداب کے خیال سے لوگوں کو ہٹا کر اور گزر کر قریب جانا ناپسند کرتے تھے۔ میری یہ عادت تھی کہ بہرحال وبہرکیف قریب پہنچ کر حضور کے پاس جابیٹھتا تھا۔ عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے ظاہر کیاکہ تین دن سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بات عرض کی ۔ حضور ہنس کرفرمانے لگے کہ کیا یہ آپ سے سبق نہیں سیکھتے ۔ اور پھر انہیں فرمایا کہ آجائیے ۔ چنانچہ ان کی ملاقات ہوگئی۔
{ 1069} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں اور سامان لایا جائے ۔ چارپائی بچھائی جائے ۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں ۔ چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہوگئے اور فوراً یکّہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہوگئے ۔ میں نے مولوی عبد الکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے ۔ جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا مشکل ہوگیا ۔ حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے ۔ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر اُن کا یکّہ مل گیا۔ اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکّہ سے اُتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایاکہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے ۔ اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے ۔ حضور نے خود اُن کے بستر اُتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایامگر خدام نے اُتار لیا۔ حضور نے اُسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اور اُن پر ان کے بستر کروائے اوراُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے۔ اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں۔ اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا۔ غرضیکہ اُن کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے ۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے ۔ راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا ۔ اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقینا اس کی دل شکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے ۔ حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب اُن کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے۔ جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا ۔ حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا۔یہ پی لیجئے ۔ اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے ۔ راستہ میں گھڑی گھڑی اُن سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں۔ آپ یکے میں سوار ہولیں ۔ مگر وہ سوار نہ ہوئے ۔ نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کرا کے حضور واپس تشریف لائے ۔
{ 1070} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیبذریعہ تحریر بیان کیا ۔ کہ ایک دفعہ منشی اروڑاصاحب، محمد خاں صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو۔ حضور نے فرمایا ۔ خداقادر ہے ۔ میں نے عرض کی کہ حضور یہ دعا انہیں کے لئے فرمانا کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو۔ قادیان سے یکہ میں سوار ہوکر ہم تینوں چلے توخاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہوگئی۔ اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں ۔تھوڑی دور آگے جاکر یکہ الٹ گیا ۔ منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گر گئے اور محمد خاں صاحب اور میں کودپڑے۔ منشی اروڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی ہوگیااور وہ ہنستے جاتے تھے۔
{ 1071} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اُس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی ۔ میںنے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود تشریف لائے ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے ۔ وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے ۔ اور ہم سب نے بہت خوشی سے اُسے کھایا۔ اس شفقت اور محبت کااثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔
{ 1072} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی قادیان ہی میں حاضر تھا اور اُن کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا۔ چنانچہ ان کے جنازہ کو مقبرہ بہشتی میں لے جانے کے لئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑاتھا۔ اس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کا حصہ تھا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا۔ جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے ۔ میں اگرچہ اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن یہ احساس اس وقت تک میرے دل میں قائم ہے کہ حضور باوجود اس قدر سخت صدمہ کے جوآپ کوصاحبزادہ صاحب کی وفات سے لازماًپہنچا ہوگا نہایت بشاشت سے کلام فرماتے رہے ۔
{ 1073} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی سے واپسی پر امرتسر اُترے ۔ حضرت ام المومنین بھی ہمراہ تھیں ۔ حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) تھے گود میں لیا۔ اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا اور مجھے فرمایا آپ پاندان لے لیں ۔ میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں ۔ آپ نے فرمایا۔ نہیں۔ ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا۔ تو میںنے پاندان اٹھا لیا اور ہم چل پڑے ۔ اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہو ذرا کھڑے ہوجائیں ۔ چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں۔ حضور کھڑے ہوگئے اور انہوںنے اُسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا۔
{ 1074} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ مقدمہ کرم دین میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا تار میرے نام آیا۔ کہ آپ شہادت کے لئے گورداسپور پہنچیں۔ میں فوراً گورداسپور روانہ ہوگیا۔ کرم دین نے لمبی چوڑی جرح تیار کی ہوئی تھی۔ ہر ایک گواہ کے لئے ۔ خصوصاً پرانے خدام کے لئے لمبی جرح اُس نے تیار کی تھی ۔ چنانچہ مجھ پر اُس نے حسب ذیل سوالات کئے۔
س : قادیان میں کتنے پریس ہیں ۔
ج : میں کیا جانوں کس قدر پریس ہیں ۔
س : مرز اصاحب کی کس قدر تصانیف ہیں
ج : اسّی کے قریب ہوں گی۔
س : کتابوں کے کیا کیا نام ہیں ۔
ج : مجھے یاد نہیں۔ میں کوئی کتب فروش نہیں ہوں ۔
س : کس قدر سنگ ساز ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج : ایک شخص کرم الٰہی کو میں جانتا ہوں اور پتہ نہیں
س : کاتب کس قدر ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج : مجھے علم نہیں ۔
س : آپ قادیان میں کتنی دفعہ آئے ہیں ۔
ج : سینکڑوں دفعہ
س : تعداد بتائیں
ج : میں نے گنتی نہیں کی
اسی طرح چند اور سوال کئے ۔ جن کے جواب میں میں لاعلمی ظاہر کرتا رہا ۔ آخر مجسٹریٹ نے اسے اس قسم کے سوالات کرنے سے روک دیا۔ اور میں کمرہ عدالت سے باہر چلا آیا۔ جس پراُس نے عدالت سے کہا کہ یہ دیگر گواہوں کو باہر جاکر بتادے گا۔ مگرحاکم نے اس کی بات نہ مانی کہ گواہ معزز آدمی ہے اور میں باہر چلا آیا۔
اسی درمیان میں مجسٹریٹ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ مرزاصاحب کے مرید ہیں۔ میں نے کہا ۔ہاں ۔پھر اس نے پوچھا کہ آپ جان ومال اُن پر فدا کرسکتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ جان ومال کی حفاظت کے لئے ہم نے بیعت کی ہے ۔ وہ مجھے سوال میں پھانسنا چاہتا تھا ۔ مگر یہ جواب سن کر رہ گیا۔
گواہوں کے بیانات نوٹ کرنے کے لئے حضرت صاحب مجھے تقریباً ہر مقدمہ میں اندر بلا لیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے میری اس خوش قسمتی بوجہ زود نویسی پر رشک کا اظہار فرمایا ۔
{1075} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے شرف نیاز کا موقعہ اُس روز ہوا جب کہ حضور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی اس درخواست پر کہ حضور ایک دفعہ ان کے گھر واقعہ قصبہ سنور متصل پٹیالہ میں قدم رنجہ فرمائیں۔ پٹیالہ تشریف لائے ۔ دس بجے صبح کے قریب پہنچنے والی ٹرین سے حضور کے راجپورہ کی جانب سے تشریف لانے کی اطلاع تھی۔ خاکسار پہلی ٹرین سے راجپورہ پہنچ گیا۔ آگے پٹیالہ آنے والی ٹرین تیار تھی۔ حضور گاڑی کے آگے معہ دو ہمراہیاں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مرحوم وحاجی عبد الرحیم صاحب المعروف ’’پیسہ والے سوداگر‘‘ گاڑی کے آگے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے ۔ چونکہ ہم لوگ اس سے قبل کسی کی صورت سے بھی آشنا نہ تھے ۔ اس لئے حاجی عبد الرحیم صاحب کی طرف مصافحہ کے لئے بڑھے۔ کیونکہ حاجی صاحب لحیم وشحیم اور قدآور آدمی تھے۔ اور لباس ظاہری بھی اُن کا شاندار تھا۔ حاجی صاحب نے ہمارا مقصد محسوس کرتے ہوئے حضرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اگر آپ لوگ حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آئے ہیں تو حضرت صاحب یہ ہیں۔ اس پر ہم دو تین آدمیوں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب نے حاجی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا۔کہ حاجی صاحب! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو صرف خد اکے لئے آتے ہیں ۔ دراصل دنیاعجائب پسند ہے ۔اگر یہ شہرت ہوجائے کہ انبالہ میں ایک چار آنکھوں والا آدمی ہے ۔ تو ا س کے دیکھنے کے لئے دنیا ٹوٹ پڑے۔ ایسا ہی لفظ الہام سے دنیا اجنبی ہوچکی تھی۔ اب جو وہ سنتے ہیں کہ ایک شخص کو خد اکی طرف سے الہام ہوتا ہے تو اُسی طرح تعجب سے وہ چاہتے ہیں کہ دیکھیں وہ آدمی جس کو الہام ہوتا ہے وہ کیسا ہے ۔ اس کے بعد گاڑی پٹیالہ کو روانہ ہوئی۔ پٹیالہ اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب جناب وزیر محمد حسین صاحب کی گاڑی میں سوار ہو کر جو اسی غرض سے خود گاڑی لے کر آئے تھے۔ جانب شہر روانہ ہوگئے ۔ اور اُس کوٹھی میں جو اسٹیشن سے دو میل کے فاصلہ پر (جانب شرق پٹیالہ سے )واقع ہے موجود ہیں ۔ جب خاکسار بھی پتہ لگا کر وہاں پہنچ گیاتو حضور کوٹھی کے بڑے کمرے میں تقریر فرمارہے تھے اور بیس تیس مردماں کا مجمع تھا۔ تقریر کا مفہوم ’’ضرورت الہام‘‘ معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ خاکسار کے حاضر ہونے کے بعد جو الفاظ حضرت صاحب سے سنے تھے وہ یہ تھے۔ عقل صرف ہستی باری تعالی کے بارہ میں ’’ہونا چاہئے ‘‘۔ تک جاسکتی ہے ۔ لیکن یہ بات کہ ایسی ہستی ضرور ہے ۔ اس کی دسترس سے باہر ہے ۔ یہ صرف الہام ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسی ہستی ضرور موجود ہے ۔ تقریر والے کمرہ سے ملحقہ کمرہ کی طرف جو بند تھا۔ اشارہ کر کے فرمایا کہ فرض کرو کہ اس کمرہ میں کسی شخص کے بند ہونے کا کوئی دعویٰ کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے شوق زیارت میں ہر روز بڑے الحاح اور عاجزی سے اس کو پکارے ۔ اگر سالہا سال بعد بکثرت لوگ ایسا ہی کریں اور کسی کو اُس شخص کی آواز تک نہ سنائی دے تو وہ سب تھک کر آخر اس کے ہونے سے انکار ی ہوجائیں گے۔ پس دہریہ تو عدم جہد وعدم معرفت کی وجہ سے دہریہ ہیں ۔ لیکن یہ خدا کے پرستار الہام سے تشفی یاب نہ ہونے کی صورت میں ایک تجربہ کار دہریہ ہوتے۔ پس یقینی ایمان الہا م کے بغیر میسر نہیں ہوسکتا۔ یقینی ایمان کے لئے الہام از بس ضروری ہے ۔ اس تقریر کے ختم کرنے کے بعد حضور بسواری گاڑی وزیر صاحب سنور تشریف لے گئے ۔

{1076} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سنور سے شام کو پٹیالہ واپس تشریف لائے تو پھر وزیر محمد حسین صاحب کی کوٹھی پر حضور نے تقریر فرمائی۔ لیکن خاکسار اس کو سن نہ سکا۔ کیونکہ تقریر اوپر کے حصہ مکان میں ہورہی تھی۔ اور مجمع اس قدر کثیر تھا کہ چھتوں کے گرجانے کے خوف سے پہرہ قائم کردیا گیا تاکہ اور آدمی اندر نہ آنے پائیں۔ واپسی پر اسٹیشن پٹیالہ پر بھی ایسی ہی لوگوں کی کثرت تھی ۔
{ 1077} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپسی پر پٹیالہ کے اسٹیشن پر تشریف لائے تو حضور نے نماز مغرب خود پڑھائی۔ اس وقت ایک ناگوار واقعہ یہ ہوا کہ حضور وضو فرمانے لگے تو ہاتھ میں ایک رومال تھا جس میںقریباً یکصد روپیہ تھا تو حضور نے لوٹا ہاتھ میں لیتے وقت بے خیال کسی اجنبی شخص کو وہ رومال پکڑا دیا۔ اور نما زاد اکرنے کے بعد جب حضور نے رومال کے متعلق دریافت کیا تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس امر کا چرچا ہونے لگا تو حضور نے منع فرمایا کہ زیادہ تجسس نہ کرو۔ شاید کسی ضرورت مند کے لئے خدا نے اپنے رحم سے ایسا کیا ہو۔ اس کے بعد گاڑی میںسوار کر راجپورہ پہنچ گئے ۔ خاکسار بھی راجپورہ تک ساتھ گیا۔ اور جب حضور ریل گاڑی میں جو پنجاب کی طرف جانے والی تھی تشریف فرما ہوئے تو خاکسار نے ایک روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا کہ حضور اسے قبول فرمائیں ۔ حضور نے فرمایا کہ آپ تو طالب علم معلوم ہوتے ہیں اس لئے یہ تکلیف نہ کریں ۔ خاکسار نے عرض کی کہ میری آرزو یہ ہے کہ میرا یہ روپیہ اُس کتاب کی اشاعت کے مصارف میں شامل ہوجائے جو حضور نے تصنیف فرمائی ہے (یعنی براہین احمدیہ) اس پر حضور نے وہ روپیہ بخوشی قبول فرما کر جزائے خیر کی دعا کی ۔
{ 1078} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چندولعل مجسٹریٹ آریہ تھا اور اُس زمانہ میں ہی وہ کھدر پوش تھا۔ ایک دن دوران مقدمہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا بیان ہورہا تھا اور اس دن آدمیوں کی بہت کثرت تھی ۔ اس لئے چند ولعل نے باہر میدان میں کچہری لگائی۔ اور بیان کے دوران میں حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نشان نمائی کا بھی دعویٰ ہے ؟ آپ نے فرمایا ۔ہاں ۔ اور تھوڑی دیر میں آپ نے فرمایا۔ جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں اور یہ بڑے جوش میں آپ نے فرمایا۔ اس وقت وہ سناٹے میں آگیا اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا۔
{ 1079} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند ولعل مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہام ’’اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَک ‘‘ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خد انے آپ کو بتایا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے۔ وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل وخوار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا۔ بے شک ۔ اس نے کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ نے فرمایا’’چاہے کوئی کرے‘‘ تو اس نے دو تین دفعہ کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ یہی فرماتے رہے ’’چاہے کوئی کرے‘‘ پھر وہ خامو ش ہو گیا۔
{ 1080} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مقدمہ کے تعلق سے میں گورداسپور میں ہی رہ گیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام پہنچا کہ واپسی پر مل کر جائیں۔ چنانچہ میں اور شیخ نیا ز احمد صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب یکے میں قادیان کو روانہ ہوئے ۔ بارش سخت تھی ۔ اس لئے یکے کو واپس کرنا پڑااور ہم بھیگتے ہوئے رات کے دو بجے کے قریب قادیان پہنچے ۔ حضور اُسی وقت باہر تشریف لے آئے ۔ ہمیں چائے پلوائی اور بیٹھے باتیں پوچھتے رہے ۔ ہمارے سفر کی تمام کوفت جاتی رہی ۔ پھر حضور تشریف لے گئے ۔
{ 1081} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جب ستمبر۱۹۰۷ء میں مَیں والدصاحب کے ساتھ قادیان آیاتو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے ارشا دکی تعمیل میں مَیں نے خود ہی ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یہ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء کا دن تھا۔ اسی سال میں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھااور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوچکا تھا۔ چنانچہ مئی۱۹۰۸ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو میں اُن دنوں لاہور میں ہی تھا۔ اُن ایام میں بھی مجھے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو دوپہر کے وقت میں اپنے کمرہ ہوسٹل میں سویا ہو ا تھا کہ شیخ تیمور صاحب بڑی جلدی اور گھبراہٹ کے ساتھ تشریف لائے اور میرے پاؤں کو ہلا کر کہا کہ جلدی اٹھو اور میرے کمرہ میں آؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ۔ چنانچہ میں فوراً اُٹھ کر اُن کے کمرہ میں گیا اور ہم نے کالج اور ہوسٹل سے چھٹی وغیرہ لینے کا انتظام کیا تاکہ حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان جاسکیں ۔ یہ انتظام کر کے ہم احمدیہ بلڈنگس پہنچ گئے اور پھر حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان آئے ۔ اس موقعہ پر مَیں غالباً دو دن قادیان ٹھہرا اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی بیعت کرنے کے بعد واپس لاہور چلا گیا۔ ان ایام کے احساسات اور قلبی کیفیات کا سپرد قلم کرنا میرے جیسے انسان کے لئے مشکل ہے ۔
{ 1082} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ستمبر۱۹۰۵ء میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہلی دفعہ قادیان آیااور ہم اس کوٹھڑی میں ٹھہرے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب(یعنی خاکسارمؤلف) کے مکان کے جنوب مشرقی کو نہ میں بیت المال کے دفاتر کے بالمقابل ہے ۔ ان ایام میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ظہراور عصر کی نمازوں کے بعد کچھ وقت کے لئے مسجد مبارک کی چھوٹی کوٹھڑی میں جس میں حضور علیہ السلام خود نما زادا فرمایا کرتے تھے تشریف رکھا کرتے تھے اور کچھ عرصہ سلسلہ کلام جاری رہا کرتا تھا۔ میں ان مواقع پر ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضور باہر سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات میںبھی دیگر احباب کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے چلا جایا کرتا تھا۔
{ 1083} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ چھاؤنی میں دفتر سپرنٹنڈنگ انجینئر انہار میں ڈرافٹسمین تھے ۔ ہم کو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج کل انبالہ چھاؤنی میں اسٹیشن کے قریب والے بنگلہ میں تشریف فرماہیں۔ ہم دس اشخاص کی تعداد میں پٹیالہ سے روانہ ہوئے ۔ چھاؤنی پہنچ کر سرائے متصل اسٹیشن کی مسجد میں شب باش ہوئے ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب قیام گاہ حضور پر پہنچے ۔ اطلا ع ہونے پر حضور نے شرف باریابی بخشا۔ ہمارے ہمراہیوں میں سے ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ مجھ کو ایک درویش نے ایک درود شریف بتایا ہو اہے۔ اس کی تاثیر یہ بتائی تھی کہ کیسی ہی کوئی مشکل درپیش ہویا کوئی بیماری ہو یا کوئی ملازمت وغیرہ کی خواہش ہو ۔ عشاء کی نماز کے بعد اس درودشریف کا ورد کرنے سے یہ مشکل اور تکلیف دور اور مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ اس شخص نے یہ بھی بیان کیا کہ چنانچہ اس وقت سے میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں اس درود شریف کا ورد شروع کرتا ہوں ۔ چندروز میں ہی وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ حضور نے سن کر یہ نہیں دریافت فرمایا کہ وہ کون سا درود شریف ہے بلکہ فرمایا۔ کہ ہروہ کلام جس میں سرورکائنات پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا مقصود ہو۔ خواہ کسی زبان میں ہو ۔ درود شریف ہے ۔ لیکن جو درود شریف نما زکے آخر میں متداول ہے وہ زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہے ۔ اور درود شریف کے فضائل اور تاثیرات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں ۔ اس کاعامل نہ صرف ثواب عظیم کا مستحق ہوتا ہے بلکہ دنیا میںبھی معزز اور مؤقر ہوتا ہے ۔ میں خود اس کاصاحب تجربہ ہوں ۔ آپ اس دورد کو پڑھتے جائیں جو درویش صاحب نے بتایا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ میں کسی ایسے درود شریف کا قائل نہیں ہوں کہ جس پر یہ بھروسہ کیا جائے کہ گویا قضا وقدر کی کلید اب ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس درود خواں کے قبضہ میں آگئی ہے ۔ ذات باری کی صفت غنااور قدیر کو سامنے رکھ کر جس قدر درود شریف پڑھو گے بابرکت ہوگا۔ لیکن اس قادر مطلق کی بعض قضایا تو ایسی بھی ہونی تھیں جن کے سامنے ،جس پر تم درود بھیجتے ہو، اس کو تسلیم اور رضا کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد حضور نے یہ معلوم کر کے کہ ہم لوگ رات سے آئے ہوئے ہیں اور بخیال تکلیف و بے وقت ہونے کے حاضر خدمت نہ ہوسکے ۔ حضور نے افسوس کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جب آپ صرف میری ملاقات کے ارادہ سے آئے تھے تو چھاؤنی پہنچ کر آپ ہمارے مہمان تھے۔ آپ کے رات کو مسجد میں سونے سے اور خوردونوش میں بھی جو تکلیف ہوئی ہوگی اس کے خیال سے مجھے تکلیف ہوئی ۔ یہاں چار پائیاں وغیرہ سب سامان موجود رہتا ہے ۔ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ اس کے بعد حضور نے کھانا منگوا کر ہم لوگوں کے ساتھ شامل ہو کر تناول فرمایا۔ بعد فراغت طعام سب اصحاب باہر کوٹھی کے احاطہ میں درختوں کے نیچے آرام کرنے کے لئے آگئے جہاں کہ ضرورت کے موافق چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔
{ 1084} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جاڑے کا موسم تھا اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاؤں داب رہے تھے ۔ حضور کو غنودگی کا عالم طاری ہوگیا۔ اور میں نے دیکھا کہ حضور کو پیشانی پر پسینہ آیا ۔ میں اس وقت آپ سے لپٹ گیا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی تو مسکرانے لگے۔ میںنے کہا ۔ حضور اس موسم میں پیشانی پر پسینہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ اس وقت آپ خد اتعالیٰ سے ہم کلام ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ! مجھے اس وقت ایک ہیبت ناک الہام ہوا۔ اور یہ عادت ہے کہ جب ایسا الہام ہو تو پسینہ آجاتا ہے ۔ وہ الہام بھی حضور نے مجھے بتایا تھا مگر اب مجھے وہ یاد نہیں رہا۔
{ 1085} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جو بظاہر فاتر العقل معلوم ہوتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس خاکی وردی اور بوٹ پہنے ہوئے آیااور سر پر کلاہ اور پگڑی تھی۔ وہ آکر حضرت صاحب کے سامنے جھک گیا ۔ سر زمین سے لگا دیا ۔ حضور نے اس کی کمر پر تین تھاپیاں ماریں اور وہ اٹھ کر ہنستا ہوا چلا گیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے دریافت بھی کیا مگر حضور مسکراتے رہے اور کچھ نہ بتایا۔
{ 1086} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریربیان کیا کہ ایک دن مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریر فرمارہے تھے کہ میرے درد گردہ شروع ہوگیا۔ اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میںبرداشت نہ کرسکا اور چلاآیا۔ میں اس کوٹھے پر جس میں پیر سراج الحق صاحب مرحوم رہتے تھے ، ٹھہرا ہوا تھا ۔ حضرت صاحب نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا ۔ انہوںنے درد گردہ معلوم کر کے دوا بھیجی مگر ا س کا کچھ اثر نہ ہوا۔ تکلیف بڑھتی گئی ۔ پھر حضور جلدی تقریر ختم کر کے میرے پاس آگئے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں، منشی صاحب کے پاس ہرو قت رہیں اور حضور پھر گھر سے دوا لے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے ۔ تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا ۔ زینے پر چڑھنے اُترنے میں دقت ہے ۔ آپ میرے پاس آجائیں ۔ آپ تشریف لے گئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھے سہارا دے کر حضرت صاحب کے پاس لے گئے۔ راستہ میں دو دفعہ میں نے دعا مانگی۔ مولوی صاحب پہچان گئے اور کہنے لگے کہ تم یہ دعا مانگتے ہوگے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہو تاکہ دیر تک حضرت صاحب کے پا س ٹھہرا رہوں ۔ میںنے کہا ہاں یہی بات ہے ۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ دال ، مولیاں سرکہ اس قسم کی چیزیں تھیں۔ جب آپ کھانا کھا چکے تو آپ کا پس خوردہ ہم دونوں نے اٹھا لیا اور باوجود یکہ کے مجھے مسہل آور دوائیں دی ہوئیں تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہ آیا تھا۔ میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضور نے منع نہیں فرمایا۔ چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا۔ کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی۔ ہم دونوں مسجد میں آپ کے ساتھ نما زپڑھنے آگئے ۔ فرضوں کا سلام پھیر کر حضور نے میری نبض دیکھ کر فرمایا۔ آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا۔ میرا بخار بھی اُتر گیا تھا۔ میںنے کہا حضور بخار اندر ہے ۔ اس پرآپ ہنس کر فرمانے لگے ۔ اچھا آپ اندر ہی آجائیں۔ عصر کے وقت تک میں اندر رہا۔ بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرأت نہ کی ۔ میں بالکل تندرست ہوچکا تھا۔
{ 1087} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے توایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا ۔ حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی ۔ احباب نے خاکسار کو اس کام کے لئے انتخاب کیا۔ چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا۔ حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرماتھے۔ خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہوکر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بندیہ خاندان میں بیعت ہوں اور ان کے طریقہ کے مطابق ذکر واذکار بھی کرتاہوں ۔ ایک رات میں ذکر نفی اثبات میں حسب طریقہ نقشبندیہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لاکو وسط سینہ سے اُٹھا کر پیشانی تک لے جاتا تھا ۔ وہاں سے لفظ اِلٰہَ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے لفظ الّااللّٰہ کی ضرب قلب پر لگاتا ۔ کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رَو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہوکر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا۔ آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور ناقابل برداشت معلوم ہونے لگی کہ میںنے خیال کیا ۔ اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہوکر چارپائی سے نیچے گر جاؤں ۔ چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریں۔ میں نے ذکر کو قصداً بند کر دیا ۔ چونکہ رات کافی گذر چکی تھی ا سلئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آگئی ۔ صبح بیدار ہونے پر حالت حسب معمول تھی۔ اس کے بعد میں نے بارہا اس طرح عمل کیا مگر وہ کیفیت پید انہ ہوئی۔ حضور نے سن کر فرمایا۔ کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پید اہو۔ میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں ؟ میںنے عرض کیا کہ اس میں ایک عالَم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی۔ اس جیسی لذت میں نے کسی اور شے میں نہیں دیکھی۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کے لئے نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ حکم کی تعمیل اور اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے ۔ خداچاہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پید اہوسکتی ہے ۔ اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے ۔ اس کے حصول کے لئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے ۔ خد اکی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے ۔ خواہ لذت ہو یا نہ ہو ۔وہ اس کی مرضی پر ہے ۔ پھر فرمایا۔ یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کے لئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طور پر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں۔ اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگاکہ آپ اس کو پھر چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ ہوئی۔ ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جس میں مستقل لذت پید اہوگی جو پھر جد انہیں ہوگی ۔ وہ اتباع سنت اور اسوۂ حسنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے جس کی غرض خداتعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ پھرفرمایا۔ نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے ۔ منہیات سے پرہیز ضروری ہے ۔
{ 1088} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان جوکہ سخت سردیوں کے ایام میں آیا ۔ اس کے گذارنے کے لئے دارالامان آیا۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھے اور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھااور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا۔ خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اُسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ خاکسار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک گوشہ میں بستر لگا لیا۔ اور بہت آرام ولطف سے وقت گزرنے لگا ۔ حضرت صاحب ہر نماز کے لئے اسی کمرہ سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا ۔ خاکسار سامنے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں ۔ تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔ حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں جب آگے بڑھا (تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں ۔ جن میں کھیر تھی۔ حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر اُن کو پہنچادو، میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کئے ۔ انہوںنے مسجد میں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے اُن احباب کو پہنچا دئیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے ۔ وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دئیے گئے ۔ اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم اُن اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے ۔ اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دئیے ۔ اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کانام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا۔ حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من وسلویٰ اُتر آیا۔
{ 1089} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مسجد بھری ہوئی تھی ۔ ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جاکر اور اطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر الااللہ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے ۔ اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اور نہ اسوۂ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے۔ اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوںنے مجددالف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب وتعلیم دینے والے ہوئے۔ حضور نے فرمایا۔ اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خد اکے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کردینامناسب ہے ۔ حضور نے فرمایا! اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جانکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو۔ اور ان میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہوکر جان بلب ہوں ۔ اور ان کے ہمراہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں۔ اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تاکسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہوجائے ۔ یا دامن کوہ میں پتھروں کو توڑ کر اور بڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سو سو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے ۔ لیکن جہاں دریا جاری ہو ۔کیا وہاں بھی ان تکالیف کو اٹھانے کی ضرورت ہے ؟ فرمایا ۔ پس شکرکرنا چاہئے کہ اس وقت خد انے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفّٰی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑنا خد اکی ناشکری اور جہالت ہے ۔
حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پرسرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوہ حسنہ سے ثبوت نہ تھا ۔ حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود اُن متوفّٰی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ رکیک نہ فرمایا۔ بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔
{ 1090} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب (حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کہتے’’ابا کنڈا کھول‘‘ اور حضور اٹھ کر کھول دیتے۔ میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا۔ حضور بوریے پر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر حضور نے پلنگ اٹھایااور اندر لے گئے ۔میں نے کہا۔حضور میں اٹھا لیتا ہوں ۔ آپ فرمانے لگے بھاری زیادہ ہے آپ سے نہیں اٹھے گا۔ اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں ۔ مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے میں نے انکار کیا ۔ لیکن آپ نے فرمایا ۔ نہیں آپ بلاتکلف بیٹھ جائیں ۔ پھر میں بیٹھ گیا۔ مجھے پیاس لگی تھی ۔ میں نے گھڑوں کی طرف نظر اُٹھائی۔ وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا ۔ کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے ۔ میں لاتاہوں ۔ نیچے زنانے سے جاکر آپ گلاس لے آئے ۔ پھر فرمایا ۔ ذرا ٹھہریے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے ۔ جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں۔ بہت لذیذ شربت تھا۔ فرمایا ان بوتلوں کو رکھے ہوئے کئی دن ہوگئے کہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے ۔ آج مجھے یاد آگیا۔ چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا ۔ میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں تو پھر میں پیوں گا ۔ آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا۔ اور میں نے پی لیا۔ میں نے شربت کی تعریف کی ۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلادیں ۔ آپ نے اُن دوبوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا۔ میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا۔
{ 1091} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پاؤں دبا رہے تھے ۔ اور حضرت صاحب کسی قدر سو گئے ۔ فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے ۔ میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے تھے۔ میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دئیے۔ آپ پھینکیں نہیں ۔ میری جیب میں ہی ڈال دیں ۔ کیونکہ انہوںنے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے ۔ وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔ پھروہ جیب میں ہی ڈال لئے ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بھی اس کو حضور کی سوانح میں لکھا ہے ۔
{ 1092} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور محمد خان صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ اور حضرت اُم المومنین بہت سخت بیمار تھیں ۔ مسجد مبارک کے زینے کے قریب والی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس ہم تین چار آدمی بیٹھے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ’’تار برقی کی طرح‘‘ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ‘‘ گھڑی گھڑی الہام ہوتا ہے ۔ اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب کوئی بات جلد وقوع میں آنے والی ہوتی ہے تو اس کا بار بار تکرار ہوتا ہے ۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر جب آپ تشریف لے گئے تو پھر واپس آئے اور فرمایا کہ وہی سلسلہ پھر جاری ہوگیا۔ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ‘‘ ان دنوں میرناصر نواب صاحب کا کنبہ پٹیالہ میں تھا۔ اگلے دن پٹیالہ سے خط آیا۔ کہ اسحاق کا انتقال ہوگیااور دوسرے بیمار پڑے ہیں اور والدہ صاحبہ بھی قریب الموت ہیں ۔ یہ خط حضرت ام المومنین کی خدمت میں لکھا ۔ کہ صورت دیکھنی ہو تو جلد آجاؤ۔ حضور وہ خط لے کر ہمارے پاس آئے۔ مولوی عبد الکریم صاحب ، محمد خان صاحب اور خاکسار ہم تینوں بیٹھے تھے ۔ جب حضور تشریف لائے ۔ فرمانے لگے کہ یہ خط ایسا آیا ہے اور حضرت اُم المومنین کے متعلق فرمایا کہ وہ سخت بیمار ہیں ۔ اگر ان کو دکھایاجائے تو ان کو سخت صدمہ ہوگا اور نہ دکھائیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں۔ ہم نے مشورہ دیا کہ حضور انہیں خط نہ دکھائیں۔ نہ کوئی ذکر اُن سے کریں ۔ کسی کو وہاں بھیجیں ۔ چنانچہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اُسی وقت روانہ کردیا گیا۔ اور انہوںنے جاکرخط لکھا کہ سب سے پہلے مجھے اسحاق ملا اور گھر جاکر معلوم ہوا کہ سب خیریت ہے ۔ حافظ حامد علی صاحب پھر واپس آگئے ۔ اور سارا حال بیان کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ کا یہ مطلب تھا ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے ۔
{ 1093} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص شملے میں رہتا تھا۔ اور اس کی بہن احمدی تھی ۔ وہ شخص بڑ اعیاش تھا۔ اس کی بہن حاملہ تھی اور حالات سے وہ سمجھتی تھی کہ اس دفعہ میں ایام حمل میں بچنے کی نہیں۔ کیونکہ اسے تکلیف زیادہ تھی۔ اس نے اپنے بھائی کو مجبور کیا کہ اسے قادیان پہنچادے۔ چنانچہ وہ اسے قادیان لے آیا ،اور کچھ دنوں کے بعد جب بچہ پیدا ہونے لگا تو پیروں کی طرف سے تھوڑا نکل کر اندر ہی مرگیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت ام المومنین روتی ہوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس آئیں۔ اور فرمایا عورت مرنے والی ہے اور یہ حالت ہے ۔ آپ نے فرمایا ہم ابھی دعا کرتے ہیں۔ اور آپ بیت الدعا میں تشریف لے گئے۔ دو چار ہی منٹ کے بعد وہ بچہ خود بخود اندر کو جاناشروع ہوگیا۔ اور پھر پلٹا کھا کرسر کی طرف سے باہر نکل آیااور مرا ہوا تھا۔ وہ عورت بچ گئی۔ اور اس کا بھائی توبہ کر کے اسی وقت احمدی ہوگیا۔ اور بعد میں صوفی کے نام سے مشہور ہوا۔
{ 1094} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں ایک دفعہ دارالامان گیا ہوا تھا۔ گرمی کا موسم تھا۔ نماز ظہر سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجدمبارک میں تشریف فرما تھے ۔ دس گیارہ اور احباب بھی حاضر تھے ۔اُس وقت ایک زمیندار نے جو کہ قریباًپچاس سالہ عمراور اَپر پنجاب کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا ۔ بڑی عاجزی سے حضور کی طرف مخاطب ہو کر عرض کی کہ حضور میں کسی معاملہ میں ایک شخص کے یکصد روپیہ کا ضامن ہوگیا ۔ وہ بھاگ گیا ہے۔ ہر چند گردونواح میں تلاش کیا مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ مجھ سے اس کی حاضری کا یا زرضمانت کامطالبہ ہے ۔ ہر روز چپراسی آکر تنگ کرتے ہیں ۔ میں تنگ آکر نکل آیا ہوں ۔ وہ میرے گھروالوں کو تنگ کرتے ہوں گے۔ مجھ کو معلوم ہو اتھا کہ حضور کی دعا خد اقبول فرماتا ہے ۔ اس لئے میں اتنی دور سے چل کر آیاہوں کہ حضور دعا فرمائیں کہ خدا جلد سے جلد مجھ کو اس مشکل سے نجات دلائے ۔ حضور نے اس کا یہ دردناک حال سن کر مع حاضرین دعا فرمائی۔ اس کے بعد حضور حسب معمول براستہ دریچہ اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔ وہ شخص بھی نیچے اُتر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دریچہ کھلا۔ دیکھا تو حضرت صاحب کھڑے ہیں۔ خاکسار بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ حضور کے دونوں ہاتھوں میں روپے تھے۔ حضور نے مجھے بلا کر میرے دونوں ہاتھوں میں وہ روپے ڈال دئیے اور فرمایا کہ یہ سب اُس شخص کو دے دو جس نے ابھی دعا کروائی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ وہ تو مسجد سے چلا گیا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ کسی آدمی کو بھیج کر اُسے بلوالو۔ وہ ابھی ایسی جلدی میں کہاںگیاہوگا۔ یہ کہہ کر کھڑکی بند کرلی۔ خاکسار نے وہ سارا روپیہ حکیم فضل الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے آگے ڈھیر ی کردیا۔ یہ دو اصحاب اور دو تین اور دوست بھی اس وقت مسجد میں موجو دتھے ۔ حکیم صاحب نے اُسی وقت چند آدمی اس شخص کی تلاش میں دوڑائے ۔ اور مولوی صاحب روپیہ گن کر بیس بیس کی بیڑیاں لگانے لگے ۔ غالباً اس لئے کہ اُس شخص کو دیتے وقت آسانی ہو۔ جب گن چکے تو ایک قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے فرمایاکہ لودیکھولو کہ اس سائل نے تو سو روپیہ کا ذکر کیا تھا۔ لیکن حضرت صاحب جو روپیہ لائے ہیں وہ تو ایک سو بیس ہے ۔ اور مجھ کو فرمایا کہ کھڑکی کی کنڈی ہلا کر حضرت صاحب سے ذکر کردو کہ ان میں بیس روپیہ زائد آگئے ہیں ۔ لیکن خاکسار سے مولوی صاحب کے اس ارشاد کی تعمیل کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ پھر مولوی صاحب نے حکیم صاحب کو کہا ۔ مگر حکیم صاحب نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ تجویز آپ کی ہے ۔ آپ ہی اب ہمت بھی کریں ۔ آخر مولوی صاحب نے خود اٹھ کر زنجیر ہلائی۔ اندر سے ایک خادمہ کے آنے پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ عبد الکریم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتا ہے ۔ خادمہ کے جانے کے تھوڑی بعد حضور دریچہ پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ مولوی صاحب نے سارا ماجرہ بیان کیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب خدا جانے وہ بیچارہ یہاں کیسے آیا ہے۔ اور اب اس کو جلد پہنچنے کے لئے کرایہ کی بھی ضرورت ہوگی ۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور کرایہ کے لئے چار پانچ روپیہ کافی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس مصیبت میں وہ ہے ایسی حالت میں اس کی مشکل معاش کا بھی کیا حال ہوگا۔ آخر پانچ سات روز کا خرچ تو اس کے پاس ہو۔ اور فرمایا یہ جو کچھ ہم لائے ہیں ٹھیک سوچ کر لائے ہیں۔ یہ سب اُس شخص کو دے دو۔ یہ فرما کر کھڑکی بند کر لی ۔ اتنے میں وہ شخص بھی آگیا ۔ اُس کو روپیہ دیتے ہوئے مولوی صاحب نے فرمایا کہ’’ایڈی چھیتی دعا قبول ہوندی کسے نے گھٹ ہی ڈٹھی ہوگی اور پھر وہ بھی سوائی‘‘یعنی اس قدر جلدی کسی کی دعا قبول ہوتی بہت کم دیکھی ہے اور پھر وہ بھی سوائی۔
{ 1095} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان جاتے ہوئے اخبار چودھویں صدی راولپنڈی کا ایک پرچہ ساتھ لے گیا۔ جو سراج الدین صاحب بیرسٹر کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا تھا اور اس وقت کے اردو اخبارات میں مشہور تھا۔ اس کے ساتھ لے جانے کی غرض یہ تھی کہ ایک شخص جو سید محمو دصاحب خلف سرسید مرحوم کا دوست تھا۔ اس نے ان سے علی گڑھ میں ملاقات کی اور ایک دو روز ان کے ہاں ٹھہرا۔ اور واپسی پر اس نے سید محمود کی قابل عبرت حالت کا نقشہ ایک مضمون میں کھینچ کر اس اخبار میں درج کروایا تھا۔ راقم مضمون نے لکھا تھا کہ مجھے اس دفعہ مسٹر محمود کو دیکھ کر سخت رنج وافسوس ہوا کہ وہ عالی دماغ شخص جس کی قابلیت قابل رشک اور قانون دانی انگریز ججوں تک مسلّمہ تھی ۔ اس کو میںنے ایسی حالت میں پایا کہ ان کی جسمانی صحت ناقابل تلافی درجہ تک پہنچ چکی ہے۔ مگر باوجود اس کے وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ گویا شراب ہی اُن کی روح رواں تھی۔ اور دن بھر جُگت ، پھبتی بازی ، تمسخر اور استہزاء کے سوا ان کا کوئی علمی مشغلہ نہیں رہا۔ اور وہ بھی صحت کے لحاظ سے چراغ سحری ہے۔ مضمون مذکور میں اس لئے ساتھ لے گیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو ایسے حالات سے دلچسپی ہے ۔ چنانچہ میں نے وہ مضمون حضرت مولوی صاحب کے پیش کیا۔ مولوی صاحب نے مضمون پڑھ کر اخبار خاکسار کو واپس دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پرچہ کو بحفاظت جیب میں رکھنا ۔ اگر موقعہ میسر آیاتو حضرت صاحب کے پیش کریں گے۔ حضرت صاحب ایسے حالات بڑی توجہ سے سنتے ہیں ۔ خاکسار نے وہ اخبار کوٹ کی جیب میںرکھ لیا۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما تھے کہ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ یہ ایک اخبار لائے ہیں جس کا ایک مضمون حضور کے سننے کے قابل ہے ۔ حضرت صاحب کے اشارہ پر میں نے وہ مضمون سنانا شروع کردیا ۔ حضور بڑی توجہ سے سنتے رہے ۔ غالباً دو تین صفحات کا وہ مضمون تھا۔جب مضمون ختم ہوچکا تو حضور نے مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب! اگر آج سید صاحب زندہ ہوتے تو میں اُن سے پوچھتا کہ جن دنوں مسٹر محمود ولایت میں تعلیم بیرسٹری پارہے تھے آپ کے دل سے بارہا یہ دعا نکلی ہوگی کہ وہ ایسی قابلیت کا اہل ہو کہ انگریز بھی اس کی قابلیت کا سکہ مانیں۔ اور ایسے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو جس کے ماتحت انگریز ہوں لیکن یہ کبھی آپ کی آرزو دعاؤں کے وقت نہیں ہوگی کہ وہ خد ااور اس کے رسول کا فرمانبردار اور احکام شریعت کا دل سے پابند اور اسلام کا سچا خادم اور نمونہ ہو۔ پس جو کچھ آپ نے مانگا وہ مل گیا۔ اور خدا سے جس چیز کے مانگنے میں بے پرواہی کی جائے وہ نہیں ملتی۔
{ 1096} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قادیان میں آریوں نے ایک اخبار نکالا تھا اور اس میں سلسلہ کے خلاف سخت کلامی اختیار کی ۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ایک کتاب لکھی۔ اور حضور نے فرمایا تھا کہ خدا ایسا نہیں کرسکتا کہ یہ ہمارے ہمسائے میں رہ کربدزبانی کریں اور بچ جائیں۔ پھر آریوں میں طاعون ہوئی ۔ جس کو طاعون ہوتی، میں اور شیخ یعقوب علی صاحب اُسے دیکھنے جاتے اور سب آریہ کارکن اخبار مذکور کے جوتھے مر گئے ۔ صرف مالک اخبار بچ رہا۔ پھر اُسے بھی طاعون ہوئی۔ میں اور شیخ صاحب اسے دیکھنے جاتے۔ پھر اسے پلنگ سے نیچے اتار لیا گیا۔ جیسا کہ ہندو مرتے وقت کرتے ہیں مگر وہ پھر ذرا اچھا ہوگیا اور اسے دوبارہ پلنگ پر لٹادیا گیا اور وہ باتیں کرنے لگ گیا۔ بعض آریہ جو ہمیں جانتے تھے ہم سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ مراد پوری نہیں ہوگی کہ یہ مرے۔ جب میں اور شیخ صاحب اس کے گھر سے واپس آئے تو ہمارے آنے سے پہلے کسی نے حضرت صاحب کی خدمت میں شکایت کردی کہ یہ دونوں اس طرح آریوں کو مرنے دیکھنے جاتے ہیں ۔ حضور بالائی نشست گاہ میں تشریف فرما تھے اور ہمیں وہیں بلوایا۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ کسی نے ہماری شکایت کردی ہے ۔ شیخ صاحب نے مجھے بھیجا ۔ جب میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کیوں وہاں جاتے ہیں ؟ اور اسی وقت حضور نے فرمایا کہ مجھے ابھی الہام ہوا ہے جس کے معنے یہ تھے کہ مر اے خائن! ۱ ؎ اس الہام پر حضور نے فرمایا کہ اب جاکر دیکھو۔ میں اور شیخ صاحب اسی وقت گئے تو چیخ وپکار ہورہی تھی اور وہ مرچکا تھا۔ ہم وہاں بیٹھے اور پھر چلے آئے ۔ رات کو مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیٹھک میں اس کے مرنے پر ہم نے ایک قسم کی خوشی کی۔ حضرت صاحب پر یہ بھی کسی نے ظاہر کردیا۔ صبح کو جب آپ سیر کے لئے تشریف لے گئے تو ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ میرا ایک آدمی مر گیا ہے اور تم خوشی کرتے ہو(مطلب یہ تھا کہ میں تو اس کے اسلام لانے کا خواہاں تھا) اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ ہم میں ایسا واقعہ نہ ہوجائے ۔ ہمیں اس پر بہت شرمندگی ہوئی۔ راستہ میں لاہور سے تار آیا کہ الٰہی بخش اکونٹنٹ پلیگ سے مرگیا۔ جس نے حضور کے خلاف ایک کتاب میں اپنے آپ کو موسیٰ اور حضرت صاحب کو فرعون اپنے الہام کی روسے لکھا تھا۔ میں اس تار کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ حضرت صاحب میری طرف ذرا دیکھنے لگے تو میں نے عرض کی
کہ حضور مجھے ہنسی اس لئے آگئی۔ کہ یہ اپنے آپ کو موسیٰ کہتا تھا اور موسیٰ صاحب پہلے ہی پلیگ سے چل دئے ۔ آپ نے فرمایا ! اس کی کتاب میں سے تمام وہ الہامات جو اس کو ہمارے خلاف ہوئے ہیں مجھے نکال کردو۔ چنانچہ میں نے وہ نوٹ کر کے دے دئیے۔
{ 1097} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب سے الہامات نکال کر دئیے۔ تو اس

۱؎ الہام کے عربی الفاظ ہیں ۔ مُتْ اَیُّھَا الخوّان ۔ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۶۰۱ (ناشر)
دوران میں ایک طالب علم محمد حیات کو پلیگ ہوگیا ۔ اس کو فوراً باغ میں بھیج کر علیحدہ کر دیا گیا۔ اور حضور نے مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا کہ اس کو جاکر دیکھو۔ اس کے چھ گلٹیاں نکلی ہوئی تھیں اور بخار بہت سخت تھا۔ اور پیشاب کے راستہ خون آتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب نے ظاہر کیا کہ رات رات میں اس کا مرجانا اغلب ہے ۔ اس کے بعد ہم چند احباب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ محمد حیات کی تکلیف اور مولوی صاحب کی رائے کا اظہار کر کے دعا کے لئے عرض کی ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ میں دعا کرتاہوں اور ہم سب روتے تھے۔ میں نے روتے روتے عرض کی کہ حضور دعا کا وقت نہیں رہا۔ سفارش فرمائیں۔ میری طرف مڑ کر دیکھ کر فرمایا ۔ بہت اچھا۔ مسجد کی چھت پر میں ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب سوتے تھے۔ دو بجے رات کے حضرت صاحب اوپر تشریف لائے اور فرمایا کہ حیات خاں کا کیا حال ہے ؟ ہم میں سے کسی نے کہا کہ شاید مرگیا ہو۔ فرمایا کہ جاکر دیکھو ۔ اسی وقت ہم تینوں یااور کوئی بھی ساتھ تھا۔ باغ میں گئے ۔ توحیات خاں قرآن شریف پڑھتا اور ٹہلتا پھرتا تھا ۔ اور اُس نے کہا میرے پاس آجاؤ۔ میرے گلٹی اور بخار نہیں رہا۔ میں اچھا ہوں ۔ چنانچہ ہم اس کے پاس گئے توکوئی شکایت اس کو باقی نہ تھی۔ ہم نے عرض کی کہ حضور اسکو تو بالکل آرام ہے ۔ غالباً صبح کو آگیا۔ چونکہ اس کے باپ کو بھی تاردیا گیاتھا۔ اور ہم تینوں یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر اجازت لے کر قادیان سے روانہ ہوگئے۔ نہر پر اس کا باپ ملا جو یکہ دوڑائے آرہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر پوچھا کہ حیات کاکیا حال ہے؟ ہم نے یہ سارا واقعہ سنایا ۔ وہ یہ سن کر گر پڑا ۔ دیر میں اُسے ہوش آیا۔ اور پھر وہ وضو کر کے نوافل پڑھنے لگ گیااورہم چلے آئے ۔
{ 1098} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کلکتہ کا ایک برہمن مجسٹریٹ خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہ تھا۔ وہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں خدا کا قائل نہیں ہوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کیا آپ خدا مجھے دکھا دیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کچھ عرصہ آپ ہمارے پاس ٹھہریں گے تو ہم آپ کو دکھا دیں گے اور یہ دریافت فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر ہوں۔ اور میں یہ سارا عرصہ ٹھہر سکتا ہوں ۔ بشرطیکہ آپ خدا مجھے دکھا دیں۔ حضور نے فرمایا کہ آپ لندن گئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا لندن کوئی شہر ہے ۔ اس نے کہا ہاں ہے ۔ سب جانتے ہیں ۔ فرمایاآپ لاہور تشریف لے گئے ہیں اس نے کہا کہ میں لاہور بھی نہیں گیا۔فرمایا ۔قادیان آپ کبھی پہلے بھی تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا! آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ قادیان کوئی جگہ ہے اور وہاں پر کوئی ایسا شخص ہے جو تسلی کرسکتا ہے ۔ اس نے کہا سنا تھا ۔ آپ نے ہنس کر فرمایا۔ آپ کا تو سارا دارومدار سماعت پر ہی ہے اور اُس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے ہستی باری تعالیٰ پر تقریر فرمائی اور سامعین پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ اور اس شخص کی دماغی حالت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ اقلیدس کی شکلوں کا ذکر کرنے لگا۔ اور حضرت مولوی صاحب نے اسے دوا منگوا کر دی ۔ جب اس کی حالت درست ہوئی تو وہ حضرت صاحب کے پیروں کو ہاتھ لگا کرمسجد سے نیچے اُتر آیا اور حضرت مولوی صاحب اس کے ساتھ ہی اتر آئے۔ اس نے یکہ منگوایا اور سوار ہوگیا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ۔ کہ آپ ایسی جلدی کیوں کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہونے کی تیاری نہیں کر کے آیا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر رات کو میں یہاں رہا تو صبح ہی مجھے مسلمان ہونا پڑے گا۔ مجھے خدا پر ایسا یقین آگیا ہے کہ گویا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔ میرے بیوی اور بچے ہیں اُن سے مشورہ کر لوں ۔ اگر وہ متفق ہوئے تو پھر آؤں گا۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔
{ 1099} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص یہودی تھا۔ اور وہ مسلمان ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوگیا تھا۔ ایک دن میں حضور کی محفل میں بیٹھا تھا۔ کسی دوست نے حضور سے اس کے متعلق پوچھا ۔ آپ کی تعریف! تو حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہیں ۔ بلکہ یہ فرمایا ’’آپ بنی اسرائیل صاحبان میں سے ہیں ۔‘‘
{ 1100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ اخیر سنین بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مَیں قادیان جانے کے لئے تیار ہوا۔ اُس وقت کے امیر جماعت مولوی عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے مجھ سے فرمایا۔ کہ ہمارے ایک پیغام کا یاد سے جواب لانا۔ پیغام دریافت طلب یہ تھا کہ جس طرح حضرت صاحب کی نسبت نبی یارسول کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ کیا دیگر مجددین امت واولیاء کبار مثلاً حضرت مجددالف ثانی ؒکی نسبت ایسے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں؟ اور یہ تاکید فرمائی کہ اس کا جواب اگر ہوسکے تو خود حضرت صاحب سے حاصل کیا جائے ۔ اگر ایسا موقعہ نہ میسر ہو تو پھر حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دریافت کیا جائے ۔ خاکسار کئی روز کوشش میں رہا۔ مگر مناسب موقعہ نہ ملنے کے سبب حضور سے دریافت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ آخر جب میں نے واپس جانے کاارادہ کیا تو میںنے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا اور وہ شرط بھی ظاہر کردی جو سائل صاحب نے لگائی تھی۔ حضرت مولوی صاحب نے ہنس کر فرمایا۔ کہ ابھی رخصت کے دو تین دن ہوں گے۔ ہم موقع نکال دیں گے ۔ چنانچہ اُسی روز یا اگلے روز حضرت صاحب بعد نماز مغرب اوپر تشریف فرما تھے کہ حضرت مولوی صاحب نے میرے حوالہ سے یہ سوال حضور کے گوش گذار کیا۔ حضور نے سن کر جوش بھرے لہجہ میں فرمایا۔ کہ مولوی صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سوال پیدا ہی کیسے ہوتا ہے ۔ جس شخص کو خدا نے اپنی وحی میں نبی کے لفظ سے نامزد نہ کیا ہو اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کے لفظ سے یاد نہ فرمایا ہو۔ اور نہ اس شخص نے خود نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔ پھر سر پھرا ہے کہ اس کو نبی کے لفظ سے پکارا جائے یا اس کو نبی کہا جائے ؟
{ 1101} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار چند روز کے لئے قادیان میں مقیم تھا ۔ ایک دفعہ صبح آٹھ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے ہیں۔ خاکسار بھی ساتھ ہولیا۔ حضور ایسے تیز قدم جارہے تھے کہ کوشش کر کے شامل رہا جاتا تھا۔ پند رہ بیس کے قریب افراد حضور کے ساتھ ہوں گے۔ حضور بوہڑکے درخت کے قریب پہنچ کر واپس ہوئے۔ واپسی پر جو گفتگو ہورہی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے چوک زیریں مسجد مبارک میں اُس مقام پر جہاں نواب صاحب کا مکان ہے ۔ کھڑے ہوکر سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری مرحوم زیادہ بات چیت میں حصہ لیتے تھے اور وہی حضور کے قریب کھڑے تھے۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ کیا سلسلہ کلام تھا۔ کیونکہ پیچھے سے گفتگو ہوتی آرہی تھی اور بہت حصہ خاکسار سن بھی نہ سکا ۔ سلسلہ کلام جب ختم ہوا تو حضور کی نظر فیض اثر خاکسار پر پڑ گئی اور بڑی شفقت سے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کی رخصت کتنے دن کی تھی۔ خاکسار نے عرض کی کہ رخصت تو پندرہ روز کی تھی مگر اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں ۔ کل واپسی کا ارادہ ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ دوروز پیشتر کیوں جاتے ہو۔ میںنے عرض کی کہ ایک روز تو راستہ میں صرف ہوجاتا ہے ۔ اور ایک دن میں امرتسر میں اس لئے ٹھہرا کرتا ہوں کہ گھر کی فرمائشات اور بچوں کے لئے پھل وغیرہ خرید سکوں ۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ کہ وہ دو روز جو رخصت کے باقی ہیں وہ بھی یہیں ٹھہر کر ختم کرو۔ پٹیالہ تک راستہ کے لئے رات کافی ہے ۔ پٹیالہ بڑا شہر ہے وہاں سب اشیاء مل سکتی ہیں۔ وہیں سے خرید کر بچوں کو دے دینے میں کیا حرج ہے ۔ پھر خلیفہ رجب دین صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ میں اس نوجوان (یعنی خاکسار کرم الٰہی) کو دیکھ کر بہت تعجب کرتا ہوں۔ یہ عمر کھیل تماشہ کی ہوتی ہے۔ اس کو جب وقت ملتا ہے یہ لاہور اور امرتسر جیسے شہروں کی تفریحات اور تھیٹروں کو چھوڑتا ہوا یہاں آجاتا ہے ۔ آخر اس نے کچھ تو دیکھا ہے ۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ کبھی تین ماہ کی رخصت لے کر آنا چاہئے ۔ خاکسار نے عرض کی کہ سال میں ایک ماہ کا حق رخصت ہے ۔ تین ماہ کی رخصت تب مل سکتی ہے کہ جب تین سال تک کوئی رخصت نہ لوں ۔ خاکسار اس ایک ماہ کی رخصت کو دو دفعہ کر کے پندرہ پندرہ روز کے لئے اور کرسمس کی تعطیلات میں تین دفعہ حاضر ہوجاتا ہے ۔ حضور نے فرمایا زیادہ دفعہ آؤ۔ اور زیادہ وقت کے لئے آؤ۔ آپ لوگ دفتروں کے ملازم ہیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ احکام ہیڈ کوارٹرز میں آتے ہیں۔ بہت کم اُن میں سے مفصلات تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی دیر کے بعد ۔ یہ خد اکی شان اور اس کی مرضی ہے کہ اس روڑیوں والے گاؤں کو خد انے اپنا ہیڈ کوارٹر چن لیا ہے ۔ (اس وقت وہاں تک روڑیوں یعنی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تھے جہاں آج احمد یہ بازار ہے) پھر خلیفہ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ بعض لوگوں کویہ بھی وسوسہ ہوتا ہے کہ مل لیا ہے۔ اب زیادہ دیر ٹھہر کر لنگر خانہ پر کیوں بار ہوں۔ یہ بھی صحیح نہیں بلکہ اس کے برعکس مہمانوں کے آنے اور قیام سے ہم کو راحت ہوتی ہے ۔ تکلیف کی نوبت تو تب آئے کہ جب لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنے اور ان کی رہائش اور خورونوش کا انتظام دوجداگانہ ہاتھوں میںہو۔ لیکن یہاں تو دونوں امور ایک ہی خد اکے ہاتھ میں ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ خدا آدمیوں کو بھیجے اور اُن کے لئے سامان آسائش مہیا نہ کرے ۔ پس یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے ۔ چنانچہ اس دفعہ دو روز بقیہ رخصت کے دن بھی خاکسار نے دارالامان میں ہی گذارے ۔
{ 1102} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن سیر کو تشریف لے جارہے تھے اور میرے پاس ڈبیا میں پان تھے۔ چلتے چلتے میںنے ایک پان نکال کر کھایا۔ آپ نے فرمایا ۔ ہمیں بھی دو۔ میں نے ایک پان پیش کردیا ۔ بغیر اس خیال کے کہ پان میں زردہ ہے۔ میںنے وہ دے دیا اور آ پ نے کھالیا۔ کھاتے ہی چکر آیا ہوگا۔ کیونکہ حافظ حامد علی صاحب سے حضور نے فرمایا کہ ذرا پانی کا لوٹا لے کر ہمارے ساتھ چلو۔ وہاں قریب کے کنوئیں سے پانی لیا گیا۔ اور آپ دور تشریف لے گئے ۔ حافظ صاحب بھی ساتھ تھے ۔آپ کی عادت شریفہ تھی کہ راستہ میں اگر پیشاب کرنے کی حاجت ہوتی تو اتنی دور چلے جاتے تھے جتنا کہ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ پیشاب کرنے تشریف لے گئے ہیں ۔وہاں جاکر آپ کو استفراغ ہوا۔ اور پانی سے منہ صاف کر کے تشریف لے آئے ۔ مجھے جب خیال آیا کہ پان میں زردہ تھا تو میں سخت نادم تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمایا۔ منشی صاحب آپ کے پان نے تو دوا کاکام کیا ۔ مجھے کچھ گرانی سی تھی بالکل رفع ہوگئی۔
{ 1103} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی ، مولوی عبد الرحیم صاحب میرٹھی ، چند اور احباب اور خا کسار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے۔ حضور نے ایک اردو عبارت سنا کر فرمایا کہ اس مضمون کی مجھے یاد ہے کہ ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے اور ترمذی شریف جو عربی میں تھی منگوا کر مولوی محمد احسن صاحب کودی کہ اس میں سے نکالیں۔ مولوی صاحب موصوف علم حدیث میں بہت کامل سمجھے جاتے تھے۔ انہوںنے بہت دیر تک دیکھ کرفرمایا کہ حضور اس میں تو یہ حدیث نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا۔ مولوی عبدالرحیم صاحب کو کتاب دے دو۔ ان کو بھی وہ حدیث نہ ملی۔ پھر آپ نے فرمایا۔ منشی صاحب یعنی خاکسار کو دے دو۔ میںنے کتاب کھول کر دو تین ورق ہی الٹے تھے کہ وہ حدیث نکل آئی اور میںنے حضور کی خدمت میں پیش کردی کہ حدیث تو یہ موجو دہے آپ اسے پڑھتے رہے اور مولوی محمد احسن صاحب بہت حیران ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بڑے فقیہ ہیں ۔ میں نے کہا کہ میری فقاہت اس میں کیا ہے ۔ یہ حضور کا تصرّف ہے ۔ مجھے تو اچھی طرح عربی بھی نہیں آتی۔
{ 1104} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول کو منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے۔ اور لوگ منتظر رہتے کہ آپ کا چھوڑا ہوا پانی پئیں۔ مگر حضور عموماً وہ ڈول مجھے عطا فرماتے ۔ بعض دفعہ کسی اور کو بھی دے دیتے۔
{ 1105} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے اور وہ ڈاڑھی منڈوایا کرتے تھے۔ جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوںنے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا۔ آخر انہوںنے داڑھی رکھ لی۔ ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے ۔ آپ نے فرمایااچھی ہے اور پہلے کیسی تھی ۔ گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے۔
{ 1106} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن محمد سعید صاحب عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی داڑھی کے متعلق پوچھا ۔ اُس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور داڑھی کتنی لمبی رکھنی چاہئے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں داڑھیوں کی اصلاح کے لئے نہیں آیا۔ اس پر سب چپ ہوگئے ۔
{ 1107} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ غالباً۱۸۸۸ء کے آخر یا۱۸۸۹ء کے شروع میں خاکسار ریاست پٹیالہ کی طرف سے ریلوے میل سروس میں ریکارڈ کلرک ملازم ہو کر راجپورہ میںمقیم تھا کہ ایک روز شام کی گاڑی سے حاجی عبد الرحیم صاحب انبالوی پنجاب کی طرف لے جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے ۔خاکسار پلیٹ فارم پر پھرتا ہوا ان سے ملا تو انہوںنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آج کل لدھیانہ میںتشریف رکھتے ہیں۔ تُو بھی چل ، قریب ہیں، زیارت کا موقعہ ہے ۔ میں نے بلا اجازت ہیڈ کوارٹر چھوڑنے کی معذوری ظاہر کی۔ اور وعدہ کیا کہ اگر اجازت مل گئی تو حاضر ہوجاؤں گا۔ اتفاق سے اُسی روز اجازت مل گئی۔ اور خاکسار اگلے دن صبح ہی لدھیانہ پہنچ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قبلہ میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ سے لدھیانہ تبدیل ہوچکے تھے۔ بمشکل پتہ لے کر قریب نما زعصر یا بعد نماز عصر جائے قیام حضرت صاحب پر پہنچا۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ خاکسار نے جامع مسجد میں پڑھی۔ وہیں سے حضور کے جائے قیام کا پتہ بھی چلا تھا۔ مکان مذکور کا بیرونی دروازہ شرقی رویہ تھا۔ اندرصحن میں چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اسی پر حضرت صاحب مع چند رفقاء کے تشریف فرما تھے اور تقریر فرما رہے تھے۔ جو حصہ میںنے تقریر کا سنا اس سے معلوم ہوا کہ موضوع تقریر یہ ہے کہ مسلمان حضور کے اعلان بیعت کے خلاف کیا کیا عذرات کر رہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا کہ علماء کا گروہ اول تو یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی جید عالم نہیں۔ نیز فرقہ اہل حدیث والے یہ کہتے ہیں کہ یہ آمین اور رفع یدین جیسی سنت کا تارک ہے اور حنفی کہتے ہیں یہ فاتحہ خلف الامام کا عامل ہے ۔ اس لئے مجدد کیسے ہوسکتا ہے ۔ صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کے ۱۴خاندان اور۳۲خانوادہ جو وہ بناتے ہیں۔ اُن میں سے یہ کسی میں داخل نہیں۔ پھر ہم اس کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ کوئی ان سے پوچھے کہ تم نے جو۱۴اور۳۲کی تعداد مقرر کی ہے ۔ کوئی وقت ایسا بھی تھا۔ کہ وہ ایک نمبر سے شروع ہوئے تھے۔ خدا نے اب سب کو مٹا کر اب پھر از سر نو نمبر۱ سے شروع کیا ہے ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ باوجودہمارے ساتھ حسن ظن رکھنے کے بیعت سے رکا ہوا ہے۔ جس طرح چور کسی مکان میں نقب لگانے کے لئے مکان کے کسی کمزور حصہ کو منتخب کرتا ہے ۔ اسی طرح شیطان نے بھی جب دیکھا کہ ایسے لوگ کسر نفسی کے تحت ہی شکار ہوسکتے ہیں ان کے دل میں یہ وسوسہ پید اکیا کہ یہ بات تو بے شک درست ہے مگر شرائط بیعت ایسی نازک اور مشکل ہیں کہ دنیادارانہ زندگی میں اُن کی پابندی ناممکن ہے ۔ جب کلام اس مرحلہ پر پہنچا تو حاجی عبد الرحیم صاحب نے جو اس مجمع میں مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور جو اس سے قبل ہر ملاقات میں مجھے بیعت کے لئے کہتے تھے اور میں ایسا ہی عذر کر کے ٹلا دیتا تھا انہوں نے حضرت صاحب سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا اور کہا حضور جس گروہ کا حضور نے آخر نمبر پر ذکر فرمایا ہے اُن میں سے ایک یہ شخص بھی ہے ۔ حضور نے خاکسار کی طرف نظر کر کے فرمایاکہ ہمارے بہت دیرینہ ملنے والے ہیں ان کو توایسا خیال نہیں ہونا چاہئے ۔ پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کو اس میں کیا مشکل نظر آتی ہے ؟ میں نے عرض کیا ۔ حضور ایک ہی شرط جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے کیا کم ہے ۔ اور دوسری شرائط بھی ایسی ہی ہیں ۔ اس پر حضور نے فرمایا!کہ اچھا اگر یہ شرائط سخت اور ناقابل عمل ہیں تو کیا آپ کا یہ منشا ہے کہ یہ شرط ہوتی کہ بیعت کر کے جو منہیات چاہو کروکوئی روک ٹوک نہیں ۔ تو کیا آپ لوگ نہ کہتے کہ یہ ایک جرائم پیشہ کا گروہ ہے اس میں کسی شریف آدمی کا شمول کیسے ہوسکتا ہے ۔ فرمایا! اس بارہ میں لوگوں کو دھوکا لگا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیعت وہی کرے جو پہلے سے ولی اللہ ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ایسے بننے کا ارادہ اور دلی خواہش ضرور ہونی چاہئے ۔ جس کا ارادہ ہی طلب حق نہ ہواس کو ہم کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ ہر گز ہماری بیعت میں شامل نہ ہو۔ فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ اس شہر میں کالج ہوگا۔ اگر کوئی طالب علم پرنسپل سے جاکر کہے کہ مجھ کو کالج میں تو داخل کر لو مگر میں نے پڑھنا وغیرہ نہیں تو پرنسپل اُس کو یہی جواب دے گا۔ کہ مہربانی رکھو تم ہمارے دوسرے طلباء کو بھی کھلنڈرا بنا کر خراب کر دوگے۔ بات یہ ہے کہ ایک طالب نیک نیتی سے خدا کی رضا جوئی کے لئے بیعت کرتا ہے گویا وہ معاہدہ کرتا ہے ۔ خدانخواستہ اگر اس کو کسی منکر یا برائی کا موقعہ پیش آجائے تو اس کو اپنے عہد کا خیال آکر اس سے روک کا موجب ہوگا۔ علاوہ ازیں خود بیعت لینے والے کی ہمدردانہ دعاؤں کی برکت بھی شامل حال ہوتی ہے ۔ اور اگر نیت نیک اور عزم راسخ ہو توہر شخص اپنے عزم واستقلال اور استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا ہے ۔ خدا رحیم کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اگرایسا ہے تو مجھ کو بیعت کرنے میں کوئی عذر نہیں ۔ لیکن میں اس سے قبل طریقہ نقش بندیہ میں بیعت ہوں ۔ حضور نے فرمایا!کوئی مضائقہ نہیں ۔یہ بھی ایک وسوسہ ہے۔ کیا علم میں ایک سے زیادہ استاد نہیں ہوتے اور بیعت تو بعض اوقات ایک ایک امر کے متعلق بھی ہوسکتی ہے ۔
{1108} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تقریرلدھیانہ میں سنی ۔ جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب اد اکی گئی ۔ امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی۔ اور پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی۔ اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی ۔ اس کے بعد حضور نے بیعت لی۔ اس روز ہم دو آدمیوںنے بیعت کی تھی۔ پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آگئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا۔ حضور نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور بیعت لی ۔ بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی۔ اگر اجازت ہوتو اب بھی منگو الی جائے ۔ فرمایالازمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہئے تو ہم منع نہیں کرتے۔ اور فرمایا۔ایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے ماخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اور غور کرنے سے مل سکتے ہیں۔ مثلاً یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کردے تو خد اتعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا۔ یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے ۔ اگر کوئی اس نیت سے ایسا کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا۔ لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اور دوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ وپند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا۔ جس کے لئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو۔ بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی اس لئے وہاں چلیں گے اور مجلس میں جاکر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے۔ جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے بیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یادوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
{1109} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن مسجد مبارک میں ریاؔپر تقریر فرما رہے تھے۔ کہ ریا شرک ہے ۔ تھوڑی سی دیر میں ایک دوست نے پوچھا کہ حضور کو بھی کبھی ریا کا خیال آیا ہے۔ فرمایاکہ ریا ہم جنس سے ہوا کرتی ہے ۔
{1110} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قادیان میں ہوتا تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ڈاک میرے سپرد ہوتی۔ میں ڈاک سنایا کرتا تھا۔ ایک خط پر لکھا ہو اتھا کہ کوئی دوسرا نہ کھولے۔ باقی خطوط تو میں نے سنائے لیکن وہ خط حضور کے پیش کردیا۔ آپ نے فرمایا۔ کھول کر سنائیں ۔ دوسرے کے لئے ممانعت ہے ۔ ہم اور آپ تو ایک وجود کا حکم رکھتے ہیں۔ میں نے وہ خط پڑھ کر سنا دیا ۔ نویسندہ نے اپنے گناہوںکا ذکر کرکے دعا کی درخواست کی تھی۔ اور بڑی عاجزی اور انکساری سے خط لکھا تھا۔ اس کی تحریر سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ ایک آگ میں پڑا ہوا ہے ۔ اور حضور اُسے جلدی کھینچ کر نکالیں۔ آپ نے فرمایا۔یہ خط مجھے دے دیں۔ میں خود اس کا جواب لکھوں گا۔ جس طرح واشگاف حال اس نے لکھا ہے مجھے اس کی خوشی ہوئی۔ ایسے لوگ کم دیکھے گئے ہیں ۔
{1111} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میرے لئے ایک سبک اور عمدہ دیسی جوتا بنو ا کر لائیں۔ میں پیر کا ماپ بھی لایا۔ اور پھگواڑہ کے ایک معروف موچی سے جوتا بنوایا۔ بنو اکر لے گیا ۔ حضرت ام المومنین کے پیر میں وہ ڈھیلا آیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اندر سے خود پہن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا۔ کہ اُن کے پیر میں تو ڈھیلا ہے مگر ہم پہنا کریں گے میں نے پھر دوبارہ اور جوتابنوا کر بھیجا۔
{1112} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ پیر میں جو جو تا تھا ۔ اُس کو پیوندلگے ہوئے تھے اور بدزیب معلوم ہوتا تھا۔میں آپ کی ہمراہی سے ہٹ کر ایک دوکان پر گیااور آپ کے پیر کا بہت ٹھیک جوتا خرید کر لایا۔ آپ مجھے سیر سے واپسی پر ملے ۔ میں جوتا لئے ساتھ چلا آیااور مکان پر آکر پیش کیا کہ حضور وہ جوتا تو بُرا لگتا ہے۔ آپ نے جزاکم اللہ فرما کر نیا جوتا رکھ لیا۔ اور پہن کر بھی دیکھا تو بہت ٹھیک تھا۔ اگلے دن جب حضور سیر کو تشریف لے گئے تو وہی پرانا جوتا پیوند کیا ہو اپہنے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور نے تو پھر وہی جوتا پہن لیا۔ آپ نے فرمایااس میں مجھے آرام معلوم ہوتا ہے اور اس کو پیر سے موافقت ہوگئی ہے ۔
{1113} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ بوٹ پہنے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سا تھ تھا۔ میرا بوٹ ذرا تنگ تھا۔ اس لئے میں تکلیف سے چلتا تھا کیونکہ حضور بہت تیز چلتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر اپنے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہم تو ایسا جوتا پہنتے ہیں یعنی آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں ۔
{1114} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے دو تین امور کے متعلق استفسار کیا۔ وہ سوالات اور جوابات جو حضور نے ازرہ شفقت فرمائے ،یہ ہیں ۔
سوال نمبر۱: خاکسار نقش بندیہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں ۔ میں بھی شامل رہا ہے ۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے ۔
جواب: حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف وموافق ہر دو فریق نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے ۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں ۔ یہاں تک کے حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں ۔اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں ۔ فرمایا!یہ بہت بُری بات ہے ۔ نما زجیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پر دال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگر اہل حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریں گے ۔ فرمایا۔کہ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طور پر جمع کرنی پڑتی ہے ۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا ۔ جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر ا س کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے ۔
سوال نمبر۲: خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال وقال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدر گریہ وبکا اور چیخ وپکار جو کرتے ہیں مجھ پربھی کوئی حالت کم ازکم رقت وغیرہ ہی طاری ہو مگر مجھے کبھی رقت نہیں ہوئی۔
جواب: حضور نے فرمایا کہ ان مجالس میں جوشور وشغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے ۔ لیکن مومن کے لئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے ۔ اس کے لئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے اد اکرنااور کثرت استغفار ودرود شریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اھدنا الصراط المستقیم کا تکرار بطور علاج فرمایا۔
سوال نمبر۳: خاکسار نے بطور ورد ووظائف کچھ پڑھنے کے واسطے دریافت کیا ۔
توحضور نے فرمایا کہ آپ کی ملازمت بھی نازک اور ذمہ واری کی ہے۔ بس نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کرنااور اتباع سنت اور چلتے پھرتے درود شریف ،استغفار پڑھئے اور وقت فرصت قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کو کافی فرمایا۔ خاکسار کے مکرر اصرار پر نماز فرض کے بعد اُسی نشست میں گیارہ دفعہ لاحول ولاقوۃ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا۔
{1115} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی بشیر احمد بھوپالوی سے مباحثہ فرمایا تھا۔ اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا۔ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہمراہ تھے۔ ان دنوں میری شادی ونکاح کا مرحلہ درپیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیادارانہ وضع کے پابند اور نام ونمود کے خوگر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثرشادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاروں میں مصروف تھے۔ خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنی جائے ملازمت راجپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق وتمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کاپیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر بزرگان کے نام بھجوادیں۔ اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا۔ والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اوراُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا۔ میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے ۔ میں تو اسی طرح کروںگا جیسا میرا دل چاہتا ہے۔ تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس کا جواب خاموش رہنے کے سوااور میرے پاس کیا تھا۔ آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے۔ اپنی یہ مشکل پیش کی ۔ انہوںنے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرأت نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے اد اکرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کردو۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہوکر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ اس لئے ان حالات میں میں سخت پریشانی اور تردّد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے۔ ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ۔ ایک دن موقعہ پاکر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنااور فرمایاکہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرماہیں ۔ اس لئے اس معاملہ کو حضور کے پیش کردو۔ میںنے عرض کیا کہ لوگو ں کی ہر وقت آمدورفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا ۔ موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے۔ خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا۔ حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض واپسی راجپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم راجپورہ پر تشریف لائے تو مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرماکر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کردیا ۔ حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کاپیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں ۔ مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاًاس کے خلاف او ر اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگرتم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کردو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا ۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میر ااُن سے انقطاع انجام ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا۔ آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی ۔ خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایاکہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جوخلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو۔ دل سے ناپسند کرنے کے باوجو دکچھ تعرض نہ کرو ۔اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا ۔ پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دے ۔ سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ خد اتعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کااور اُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ اتنے میں گاڑی آگئی ۔ خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا! کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کردیا ۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے ۔ دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ معاملہ بلامخالفت گزر گیا۔
{1116} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لدھیانہ میں تھے تو وہاں ہیضہ بہت پھیلا ہوا تھا۔ اور منادی ہورہی تھی ۔ تو چراغ خادم نے آکر کہا کہ پوریاں اور حلوا خوب کھایا جائے اس سے ہیضہ نہیں ہوگا۔ اُس نے زنانہ میں آکر یہ ذکر کیا تھا۔ دراصل اُس نے مذاق کیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پانچ چھ روپے لے کر باہر تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو کھلایا جائے کیونکہ چراغ کہتا تھا کہ ایسی منادی ہورہی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ چراغ توشریر ہے ۔ یہ چیز تو ہیضہ کے لئے مضر ہے ۔ چراغ نے تو ویسے ہی کہہ دہا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ۔ شاید کوئی نئی تحقیق ہوئی ہو۔ آپ پھر گھر میں تشریف لے گئے ۔ آپ کے جانے کے بعد میں نے چراغ کو ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا بات کی تھی۔ اُس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ حضرت جی اندر بیٹھے ہیں ۔
{1117} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو خارش ہوگئی۔ اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں۔ دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی ۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔ عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پُر نم ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کاہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلادیا ۔ اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا ۔ خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔ جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں ۔
{1118} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے۔ جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا ۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے بیٹھے تھے۔ اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے پاس لیٹے تھے۔ اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا ۔ میںنے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے ۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔ نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت بر ابھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا۔ اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں ۔ پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یاکسی اور سے ٹھیک یا دنہیں رہا۔ لحاف بچھونا مانگ کراوپر لے گیا۔ آپ نے فرمایاکسی اور مہمان کو دے دو۔ مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔ اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا۔ اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو ۔ پھر میں لے آیا۔
{1119} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے۔ ایک سو پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ بڑے مخلص اور ہماری جماعت میں قابل ذکر آدمی تھے۔ وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا ۔ ان کے محض ایک لڑکا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو وہ اُسے قادیان لے آئے مع اپنی اہلیہ کے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان میں قیام پذیر ہوئے۔ حضرت اقدس نے ایک دن فرمایا کہ رات میں نے رویاء دیکھا۔ کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے ۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ جب آپ نے رویاء کا ذکر فرمایا تو اُس سے اگلے روز چوہدری صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا۔ کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا ۔ اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اس کے منہ سے نکلا۔ ارے ظالم! تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا۔ ایسے الفاظ وہ کہتی رہی۔ جو حضرت صاحب نے سن لئے۔ اُسی وقت آپ باہر تشریف لائے اور آپ کو بڑا رنج معلوم ہوتا تھا۔ اور بڑے جوش سے آپ نے فرمایا۔ کہ اسی وقت وہ مردود عورت میرے گھر سے نکل جائے۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی والدہ جو بڑی دانشمند اور فہمیدہ تھیں۔ انہوںنے چوہدری صاحب کی بیوی کو سمجھایا اور کہا کہ حضرت صاحب سخت ناراض ہیں ۔ اُس نے توبہ کی اور معافی مانگی اور کہا کہ اب میں رونے کی بھی نہیں۔ میر صاحب کی والدہ نے حضرت صاحب سے آکر ذکر کیا۔ کہ اب معافی دیں ۔ وہ توبہ کرتی ہے ۔ اور اُس نے رونا بھی بند کردیا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا اُسے رہنے دو اور تجہیز وتکفین کا انتظام کرو۔
{1120} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا جب انتقال ہوا ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لائے ۔ میںموجو دتھا۔ فرمایا کہ لڑکے کی حالت نازک تھی۔ اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا اس کے پاس بیٹھ جائیں۔ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ میں نما زپڑھ لوں ۔ فرمایا کہ وہ نماز میںمشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ میں ان خیالات میں پڑ گیا کہ جب اس کی والدہ لڑکے کے فوت ہونے کی خبر سنے گی تو بڑا صدمہ ہوگا۔ چنانچہ انہوںنے سلام پھیرتے ہی مجھ سے پوچھا کہ لڑکے کاکیاحال ہے ؟ میں نے کہا کہ لڑکا تو فوت ہوگیا۔ انہوںنے بڑے انشراح صدر سے کہا کہ الحمدللہ! میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ ان کے ایسا کہنے پر میرا غم خوشی سے بدل گیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ تیری اولاد پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔ باہر جب آپ تشریف لائے ہیں تو اس وقت آپ کا چہرہ بشاش تھا۔ کئی دفعہ میںنے حضرت صاحب کودیکھا ہے کہ کسی کی بیماری کی حالت میں بہت گھبراتے تھے اور مریض کوگھڑی گھڑی دیکھتے اور دوائیں بدلتے رہتے تھے۔ مگر جب مریض فوت ہوجاتا تو پھر گویاحضور کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ میاں مبارک احمد صاحب کی بیماری میں بھی بہت گھبراہٹ حضور کو تھی اور گھڑی گھڑی باہر آتے تھے۔ پھر دوا دیتے۔ لیکن اس کی وفات پر حضرت ام المومنین کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے۔ فرمایا کہ جب قرآن شریف میں اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن کہ جب صابر وں کے ساتھ اللہ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ۔ لڑکے کا فوت ہونا اور حضور کا تقریر کرنا ایک عجیب رنگ تھا۔
{1121} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ محکمہ ریلوے سروس میں ریکارڈ کلرک رہنے کے بعد چونکہ اس پوسٹ میں آیندہ ترقی کی کوئی امید نہ تھی۔ اس لئے میرے والد صاحب نے میرا تبادلہ صیغہ پولیس میں کروادیا۔ اور سب انسپکٹری بٹھنڈہ پر میری ماموری ہوگئی ۔ لیکن یہ تبادلہ میری خلاف مرضی ہو اتھا۔ ورنہ میں صیغہ پولیس کو اپنی طبیعت کے خلاف محسوس کرتا تھا۔ ماموری کے بعد بڑے تأمل سے اپنے والد صاحب کے اس وعدہ کرنے پر کہ عنقریب تبادلہ ہو جائے گا۔ بادِلِ ناخواستہ حاضر ہوا۔ اور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں پے درپے تبادلہ کے لئے لکھتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد جب تبادلہ سے ناامیدی سی ہوگئی تو میں نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہو۔ اپنے والد صاحب سے اجازت لئے بغیر استعفیٰ پیش کردوں گا۔ خدا رازق ہے کوئی اور سبیل معاش پیدا کردے گا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طر ف سے مولوی عبد الکریم صاحب کے ہاتھ کاخط لکھا ہوا موصول ہوا ۔ اس میں تحریر تھا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خط میں جو تکالیف آپ نے اپنی ملازمت میں لکھی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا آپ کے طرز عمل سے بہت آسائش اور اطمینان کی حالت میں ہے ۔ اور آپ کو خدا نے خدمت خلق کا بہترین موقعہ عطا فرمایا ہے جس کو باسلوب انجام دیتے ہوئے خدا کا شکر بجالاؤ۔ رہا تکالیف کا معاملہ سو کوئی نیکی نہیں جو بلا تکلیف حاصل ہوسکے۔ دعائیں کرتے رہو۔ خدا اس سے کوئی بہتر صورت پید اکر دے گا۔ اور جب تک کوئی دوسری صورت پیدا نہ ہو۔ استعفیٰ کا خیال تک دل میں نہ لاؤ۔ کیونکہ دنیا دارالابتلاء ہے اور انسان یہاں بطور امتحان بھیجا گیا ہے ۔ جو شخص ملازمت کو چھوڑتا اور اس کے بعد کسی دوسری سبیل کی تلاش میںہوتا ہے ۔ اکثر اوقات ابتلاء میںپڑجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی آزمائش میں پورا اُترنے کی بجائے خدا کو آزمانا چاہتا ہے کہ ہم نے ملازمت چھوڑی ہے ۔ دیکھیں اس کے بعد اب خدا اس سے بہتر صورت ہمارے واسطے کیا کرتا ہے ۔ یہ طریق گستاخانہ ہے ۔ اس لئے بنے ہوئے روزگار کو اس سے قبل چھوڑنا کہ جب خدا اس کے لئے کوئی اُس سے بہتر سامان مہیا فرمائے ۔ ہمارے مسلک کے خلاف ہے ۔ اس جواب کے موصول ہونے پر خاکسار نے وہ ارادہ ترک کردیا۔ اور صیغہ پولیس ہی سے پنشن یاب ہوا۔

{1122} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے گھر میں بوجہ کمزوری قویٰ وغیرہ دیرینہ مرض اٹھرا تھا۔ تقریباً دس بچے صغیر سنی ، شیر خوارگی میں ضائع ہوگئے ہوں گے۔ ہمیشہ حضرت مولوی (نورالدین) صاحب کا معالجہ جاری رہتا مگر کامیابی کی صورت نہ پیدا ہوئی۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حالات سن کر مولوی صاحب نے ازراہ شفقت نکاح ثانی کا اشارہ بھی کیا۔ لیکن میں اپنی مالی حالت اور دیگر مصالح کی بناء پر اس کی جرأ ت نہ کرسکا۔ آخر مولوی صاحب نے معالجہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ ان ادویات کا استعمال صورت حمل کے شروع دو ماہ سے کر کے ساری مدت حمل میںکراتے رہو۔ چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع کردیا گیا۔ جب چھ سات ماہ کا عرصہ گزر گیا اور میری اہلیہ کو مرض بخار اور اسہال وغیرہ نے آگھیرا جو خرابی جگر وغیرہ کا نتیجہ تھا۔ خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں مفصل حال عرض کیا۔ مولوی صاحب نے حالات سن کر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا ایسی صورت میں نہ صرف بچہ کی طرف سے اندیشہ ہے بلکہ ایسی کمزوری اور دیرینہ مرض میں مولود کی ماں کے لئے بھی سخت خطرہ ہے ۔ اورخاکسار سے فرمایا کہ نسخہ تو ہم تجویز کریںگے لیکن میری رائے میں ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے خاص موقعہ لے کر دعا بھی کرائی جائے۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ خاص وقت ملنا بھی تو مشکل ہے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس کے حصول کی تجویز یہ ہے کہ آپ ایک رقعہ اس مضمون کا لکھ کر دیں کہ میں ایک بات عرض کرنے لئے چند منٹ خلوت چاہتا ہوں ۔ حضرت صاحب کے پاس اندر بھیجو۔ حضرت صاحب اندر بلالیں گے۔ اُس وقت یہ استدعا اور ضرورت خاص عرض کردینا تو حضرت فوراً دعا فرمائیںگے۔ چنانچہ خاکسار نے اس مضمون کا رقعہ لکھ کر پیراں دتا جو کہ حضرت صاحب کا خادم تھا، کے ہاتھ بھجوا دیا کہ وہ حضور کے پیش کردے۔ اُس نے تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بتلایا کہ حضرت اقدس نے رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ ہم کوئی ضروری مضمون تحریر کر رہے ہیں۔ درمیان میں مضمون کا چھوڑنامناسب نہیں ۔ اس لئے فرصت نہیں پھر فرصت کے وقت دیکھا جائے گا۔ خاکسار نے مولوی صاحب سے اس کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب تو وقت نہیں ملے گا۔ کیونکہ کل پٹیالہ کو واپس جانا چاہتے ہو۔ پٹیالہ جاکر مفصل خط حضرت صاحب کے نام لکھ دینا۔ حضرت صاحب خطوط پر دعا فرمادیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اس لئے ایک ہی بات ہے ۔ اگلے دن صبح خاکسار کا روانگی کا ارادہ تھا۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب مسجد مبار ک کی چھت پر تشریف فرماتھے اور خاکسار اس انتظار میں تھا کہ موقعہ ملے تو حضرت صاحب سے رخصتی مصافحہ کیا جائے ۔ کہ حضرت صاحب کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو میرے کچھ عرض کرنے کے بغیر حضور نے فرمایا! کل آپ کا رقعہ پیراں دتا لایا تھا ہم اس وقت ایک خاص مضمون کی تحریر میں مصروف تھے۔ اس لئے وقت نہیں مل سکا۔ وہ کیا کام تھا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کچھ ایسی ضروری بات نہ تھی اگر ضرورت ہوئی تو میں پٹیالہ سے بذریعہ خط عرض کردوں گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا اگر کوئی خاص بات ہے تو اب بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت اپنے ہی احبا ب بیٹھے ہیں میں بوجہ حجاب سا محسوس ہونے کے خاموش رہا کہ حضرت مولوی صاحب نے بوجہ اس حال کے واقفیت کے فرمایا وہ رقعہ میرے مشورہ سے ہی تحریر میں آیا تھا۔ مرض کے مفصل حالات بیان کر کے فرمایا کہ چونکہ خطرہ ڈبل ہے اس لئے میں نے ہی ان کو یہ دعا کرانے کا مشورہ دیا تھا۔حضور نے یہ سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ اگر یہی کام ہے تو دعا کے لئے ایسا اچھا وقت اور کون سا ہوگا اور اسی وقت مجمع سمیت دعا فرمائی۔ دعا سے فارغ ہوکر میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ بس اتنی ہی بات تھی یا کچھ اور بھی۔ میںنے عرض کیا کہ بس حضور دعا ہی کے لئے عرض کرناتھا۔اُسی حالت مرض وکمزوری میں بچہ پید اہوا۔ جس کا کمزور ہونا ضرور ی تھا۔ بذریعہ خطوط حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے معالجہ وغیرہ ہوتا رہا۔ رفتہ رفتہ ہر دو (یعنی زچہ وبچہ)کو افاقہ اور صحت حاصل ہوئی۔ میری اولاد میں صرف وہی بچہ زندہ سلامت ہے ۔ بشیر احمد نام ہے ۔ اور ایم اے علیگ ایل ایل بی ہے ۔ دوبچوں کا باپ ہے (جن کے نام سلیم احمد اور جمیل احمد ہیں) دفتر ریونیومنسٹر صاحب پٹیالہ میں آفس سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ اس کی تعلیم بھی بالکل مخالف حالات ماحول میں محض خدا کے فضل سے ہوتی رہی ۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب حضرت اقدس کی اس خاص دعااور اس کی استجابت کا ظہور ہے اورظہور بھی ایک خاص معجزانہ رنگ میں ۔
{1123} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی علی گوہر صاحب کپور تھلہ میں ڈاک خانہ میں ملاز م تھے۔ اڑھائی روپیہ ان کی پنشن ہوئی ۔ گزارہ اُن کا بہت تنگ تھا۔ وہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے ۔انہوںنے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا۔ وہ بڑے مخلص احمدی تھے۔ چنانچہ میں جب قادیان جانے لگاتو اُن کو ساتھ لینے کے لئے جالندھر چلا گیا۔ وہ بہت متواضع آدمی تھی۔ میرے لئے انہوں نے پُر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوںنے کوئی برتن وغیرہ بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے ۔ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ہم حج کو جاتے ہیں اور جہاز راستے سے اُتر گیا ۔ اگلے دن گاڑی میں سوار ہوکر جب ہم دونوں چلے ہیں تو مانانوالہ سٹیشن پر گاڑی کاپہیہ پٹڑی سے اُتر گیا۔ گاڑی اسی وقت کھڑی ہوگئی۔ دیر بعد پہیہ سڑک پر چڑھایاگیا۔ کئی گھنٹے لگے۔ پھر ہم قادیان پہنچ گئے۔ میں نے منشی علی گوہر صاحب کاٹکٹ خود ہی خریدلیا تھا۔ وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے۔ میںنے کہایہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں ۔ چنانچہ دو روپے انہوںنے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آٹھ دس دن رہ کرجب ہم واپسی کے لئے اجازت لینے گئے تو حضور نے اجازت فرمائی۔ اورمنشی صاحب کو کہا ذرا آپ ٹھہرئیے۔پھر آپ نے دس یاپندرہ روپیہ منشی صاحب کو لاکر دئیے۔ منشی صاحب رونے لگے اورعرض کی کہ حضور مجھے خدمت کرنی چاہئے یا میں حضور سے لوں ۔ حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں ۔ آپ انہیں سمجھائیں۔ پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے ۔ انہوںنے لے لئے اور ہم چلے آئے حالانکہ حضرت صاحب کو منشی صاحب کی حالت کا بالکل علم نہ تھا۔
{1124} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہوکر نہیں جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کومہمانوںکے لئے کوئی سامان نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کرسکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یارہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔ دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں ۔ فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کردیا تھا۔ اب ہمیں ضرورت نہیں۔ جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔ اگلے دن آٹھ یا نو بجے صبح جب چٹھی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔ چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوںگے۔ جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے۔ سو سو پچا س پچاس روپیہ کے۔ اور اُن پر لکھا تھا کہ ہم حاضر ی سے معذور ہیں ۔ مہمانوں کے صرف کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں ۔وہ آپ نے وصول فرما کر توکل پرتقریر فرمائی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔ جہاں آپ کی نشست تھی۔ وہاں کا یہ ذکر ہے ۔ فرمایا کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوںپر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہو ں گا نکال لوں گا۔ اس سے زیادہ اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ۔ فوراً خد اتعالیٰ بھیج دیتا ہے ۔
{1125} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عادت تھی۔ کہ مہمانوں کے لئے دوستوں سے پوچھ پوچھ کرعمدہ عمدہ کھانے پکواتے تھے کہ کوئی عمدہ کھانا بتاؤ جو دوستوں کے لیے پکوایا جائے ۔ حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی ، میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے والد تھے۔ ضعیف العمر آدمی تھے ۔اُن کو بلالیا ۔ اور فرمایا کہ میر صاحب کوئی عمدہ کھانا بتلائیے۔ جو مہمانوں کے لئے پکوایا جائے ۔ انہوںنے کہا کہ میں شب دیگ بہت عمدہ پکوانی جانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ اور ایک مٹھی روپوں کی نکال کر ان کے آگے رکھ دی ۔ انہوں نے بقدر ضرورت روپے اُٹھا لئے اور آخر انہوںنے بہت سے شلجم منگوائے ۔ اور چالیس پچاس کے قریب کھونٹیاں لکڑی کی بنوائیں۔ شلجم چھلو اکر کھونٹیوں سے کوچے لگوانے شروع کئے ۔ اور ان میں مصالحہ اور زعفران وغیرہ ایسی چیزیں بھروائیں۔ پھر وہ دیگ پکوائی۔ جو واقعہ میں بہت لذیذ تھی اور حضرت صاحب نے بھی بہت تعریف فرمائی اور مہمانوں کو کھلائی گئی۔
{1126} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک انسپکٹر جنرل پولیس کا ایک باورچی قادیان میں آیا۔ بوڑھا آدمی تھا اور بیعت میں داخل تھا۔ اس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ آپ ایک بڑے آدمی کا کھانا پکاتے رہے ہیں کوئی بہت عمدہ چیز دوستوں کے لئے پکائیں۔ انہوںنے کہا پہلے حضور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ پھر اس نے بکرے کی ران اور گھی منگا کر روسٹ کیا مگر وہ گوشت بالکل نہ گلا ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ میں اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے ہوئے تھے ۔ گوشت چاقو سے بمشکل کٹتا تھا۔ بڑی مشکل سے تھوڑا سا ٹکڑا کاٹ کر اس نے حضرت صاحب کو دیا۔ آپ نے منہ میں ڈال لیا۔ اور چبانے کی کوشش فرماتے رہے ۔ وہ چبایا نہ جاسکا۔ مگر اس باورچی کی تعریف فرمائی کہ آپ نے بہت عمدہ پکایا ۔ میں نے کہا کہ یہ نہ تو کاٹا جاتا ہے اور نہ ہی چبایا جاتا ہے ۔ گھی بھی ضائع کردیا۔ فرمانے لگے منشی صاحب! آپ کو علم نہیں۔ انگریز ایسا ہی کھاتے ہیں اور ان کے نقطہ خیال سے بہت اعلیٰ درجہ کا پکاہوا ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہنسنے لگے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹھیک نہیں پکایا ۔ فرمانے لگے کہ نہیں نہیں آپ نے نہیں جانتے۔ فرمایا کہ آپ کوئی اور چیز مہمانوں کے لئے تیار کریں۔ باورچی موجود ہیں۔ ان کو آپ بتلاتے جائیں۔ اس نے توشرم کے مارے کوئی چیز تیار کروائی نہیں ۔کوئی اور صاحب تھے جن کانام مجھے یاد نہیں رہا۔ انہوںنے بریانی مہمانوں کے لئے پکوائی اور میں نے بہت محظوظ ہو کر کھائی ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں بھی پہنچائی گئی۔ آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو اور مجھے بلوایا۔ اور فرمایا کہ دیکھو کیسی عمدہ پکوائی ہے ۔ وہ انگریزی قسم کا کھانا تھا۔ جس سے آپ واقف نہ تھے۔ یہ دیسی قسم کا کھانا کیسا عمدہ ہے ۔ حضرت صاحب نے یہی سمجھا کہ اُسی باورچی نے پکوائی ہے ۔پھر ہم دونوںنے ظاہر نہیں کیا۔ کہ اس نے نہیں پکوائی۔ غرض کوئی ناقص شے بھی آپ کی خدمت میں کوئی پیش کرتا تو آپ کی اس کی تعریف فرماتے۔
{1127} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد اقصیٰ سے ظہر کی نماز پڑھ کرآرہے تھے تو آپ نے میراں بخش سودائی کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ گول کمرے کے آگے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک ہندو مست بڑا موٹا ڈنڈا لئے آیا۔ میراں بخش اس سے کہنے لگا کہ پڑھ کلمہ اور اس کے ہاتھ سے ڈنڈا لے کر مارا کہ پڑھ کلمہ لاالہ الااللہ ۔ اس نے جس طرح میراں بخش نے کہلوایا تھا۔ کلمہ پڑھ دیا۔ تو اس کو میراں بخش نے ایک دونی دے دی۔ فرمایا کہ میں بہت خوش ہوا کہ ایک مسلمان پاگل نے ایک ہند وپاگل کو مسلما ن کر لیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغی مادہ ضرور ہے ۔
{1128} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میںخاکسار کا تبادلہ صیغہ پولیس میں ہوا اور ماموری تھانہ بٹھنڈہ میں ہوئی ۔ علاقہ بٹھنڈہ ریاست پٹیالہ میں جنگل کاعلاقہ ہے اور ضلع فیروز پور اور ریاست فرید کوٹ سے سرحدات ملتی ہیں۔ ان دنوں ان علاقوں میں ڈکیتیوں کا بڑا زور تھا اور اسی قسم کی وارداتوں کی کثرت تھی۔ دن رات اونٹوں پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ وہ علاقہ تو سخت گرم اور ریگستان ہے اس لئے سفر میں پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا۔ اور بعض اوقات اونٹ کے سفر میں یہ بے احتیاطی بھی ہوجاتی کہ تعجیل کی وجہ سے اگر اونٹ کو بٹھانے میں دیر لگی تو جھٹ اوپر سے ہی چھلانگ دی ۔ اس وقت کی عمر کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ہمچوں قسم کی بے احتیاطی سے خاکسار کو مرض ہر نیا لاحق ہوگیا تھا۔ اور شروع میں تو اسے ریحی تکلیف خیال کیا گیا کیونکہ جب سواری سے اُترتے اور لیٹتے تو افاقہ معلوم ہوتا تھا۔ مگر ایک ڈاکٹر صاحب کو دکھانے کا موقعہ ملا ۔ تو انہوں نے کمپلیٹ ہرنیا تجویز اور تشخیص کیا ۔ اور جلد سے جلدآپریشن بطور علاج تجویز کیا ۔ خاکسار نے حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ بھیج کر استصواب کیا۔مولوی صاحب موصوف نے ایک کارڈ پر یہ جواب تحریر فرمایا کہ اگر مرض ہرنیا تحقیق ہوا ہے تو پھر آپریشن کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ آپریشن سے پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے معائنہ کروالیا جائے ۔ ڈاکٹر صاحب اول تو تم سے واقف ہوں گے اگر تعارفی تحریر کی ضرورت ہو تو یہی ہمارا کارڈ ان کودکھا دیں ۔ چنانچہ حسب رائے حضرت مولوی صاحب میں لاہور میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بڑے اخلاق اور توجہ سے معائنہ فرمایااور مکمل مرض ہرنیا تشخیص کر کے آپریشن کے سوا کوئی اور علاج نہ تجویز فرمایا۔ چونکہ خاکسار اس دوران میں ٹرس پیٹی اس مرض میں احتیاط کے لئے استعمال کرنے لگ گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے تاکید فرمائی ۔کہ رات کے سونے کے وقت کے علاوہ ٹرس کا استعمال ہر وقت چلتے پھرتے ضروری ہے ۔ اور آپریشن جلد کرایا جائے ورنہ بعض الجھنیں پڑ جانے پر آپریشن ناکامیاب ہوگا اور یہ چنداں خطر ناک بھی نہیں ہے ۔ گھوڑے کی سواری ، چھلانگ مارنے اور دوڑکر چلنے ، بلندی سے کودنے کی ممانعت فرمائی ۔ اس سے قبل خاکسار کا تبادلہ سب انسپکٹری بٹھنڈہ سے کورٹ انسپکٹری بسی پر ہوچکا تھا۔ اس لئے کوئی فوری اندیشہ نہ تھا۔ خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے فیس وغیرہ مصارف آپریشن دریافت کر کے بعد انتظام آپریشن کا ارادہ کر کے لاہور سے واپس ہوا۔ واپسی کے موقعہ پر قادیان آیا اور حضرت مولوی صاحب سے کل کیفیت اور ڈاکٹر صاحب کے مشورہ کا ذکر کیا۔ جس کو سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے تو پہلے ہی یہ مشورہ دیا تھا۔ کہ آپریشن کرایاجائے۔پھر خاکسار سے دریافت کیا کہ آپریشن کاارادہ ہے ؟ میںنے عرض کی کہ ایک دو ماہ میں موسم بھی آپریشن کے قابل ہوجائے گا۔ اور سامان سفر بھی ہوسکے گا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ذکر کر کے ضرور دُعا کروائی جائے ۔ اب چونکہ آئے ہوئے ہو کیوں نہ حضرت صاحب سے ذکر کر لیا جائے ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر موقعہ میسر آیا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اُسی روز شام کے وقت بعد نماز مغرب حضرت صاحب بالائی حصہ مسجد پر تشریف فرما تھے۔ پانچ دیگر اصحاب بھی حاضرتھے۔ حضرت مولوی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کو مرض ہر نیا ہوگیاہے ۔ اطمینان کے لئے میں نے اس کو ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس بھیجا تھا ۔ انہوںنے جلد سے جلد آپریشن کیا جانا ضروری تجویز فرمایا ہے ۔ یہ سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! وہ ہرنیا مرض کیا ہوتا ہے ۔ مولوی صاحب کے اس توضیح فرمانے پر کہ یونانی والے اس مرض کو فتق کہتے ہیں۔ حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہم نے کبھی آپ کو اس مرض کی وجہ سے تکلیف کی حالت میںنہیں دیکھا۔ آپ ہمیشہ تندرست آدمی کی طرح چلتے پھرتے ہیں ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل ایک قسم کی پیٹی اس مرض کے لئے خاص طور پر بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ اس کو یہ ہر وقت لگائے رہتے ہیں۔ اس سے مرض کو تو کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ البتہ چلنے پھرنے میں سہولت اور ایک طرح کا سہارا رہتا ہے ۔ حضور نے یہ سن کر فرمایا! کہ جب کام چل رہا ہے اور کوئی تکلیف نہیں۔ پھر آپریشن کی کیا حاجت ہے ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ پیٹی کوئی علاج تو نہیں ایک سہارا ہے ۔ اور بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس پیٹی کے استعمال سے الٹا مرض کو ترقی ہوتی ہے اور پھر کسی خرابی کے رونما ہونے پر آپریشن بھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ اور اخیر عمر میں آپریشن کو بغیر اشد ضرورت کے ممنوع بھی قرار دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر مرز ایعقوب بیگ صاحب بھی وہاں موجو دہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی مناسب وقت ہے ۔ اور ویسے بھی یہ آپریشن زیادہ خطرے والا نہیں ہوتا۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ۔کہ میں تو اندرونی آپریشنوں کے بارہ میں جو خطرے کاپہلو رکھتے ہوں ۔ یہی رائے رکھتا ہوں کہ وہ اشد ضرورت کے وقت کرانے چاہئیں۔ یعنی جب تک بغیر آپریشن کے بھی جان کا خطرہ ہو۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ جن امور سے ڈاکٹر لوگ منع کرتے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اور خد اپر بھروسہ رکھتے ہوئے جب تک بغیر آپریشن کے کام چلتا ہے چلاتے جاؤ۔ بات یہیں ختم ہوگئی۔ حضرت مولوی صاحب نے مسجد سے آنے پر خاکسار سے فرمایا کہ جب حضرت صاحب نے آپریشن کی مخالفت فرمائی ہے اس لئے اب آپریشن کاارادہ ترک کردو۔ اور جیسا حضرت صاحب نے فرمایاہے ۔ اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ اس بات کو۴۵سال سے متجاوز عرصہ ہوتا ہے ۔خاکسار کو خطرہ کی کوئی حالت لاحق نہیں ہوئی۔ اور اب تو عمر کی آخری سٹیج ہے ۔ اس وقت بھی جب تک کسی شخص کو خاص طور پر علم نہ ہو۔ کوئی جانتا بھی نہیں کہ مجھے ایسا دیرینہ مرض لاحق ہے ۔ میرا ایمان ہے کہ بعض اوقات ان مقدس اور مبارک زبانوں سے جو الفاظ شفقت اور ہمدردی کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو وہ بھی ایک دُعائی کیفیت اختیار کر کے مقرون اجابت ہوجاتے ہیں ۔
{1129} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مرزا نظام دین کے متعلق یہ پیشگوئی کی کہ اُن کے گھرفلاں تاریخ کو کوئی ماتم ہوگا۔ لیکن جب تاریخ آئی اور شام کا وقت قریب ہوگیا او ر کچھ بات ظہور میں نہ آئی تو تمام مخالفین حضرت صاحب کے گھر کے ارد گرد ٹھٹھا اور مخول کے لئے جمع ہوگئے۔ سورج غروب ہونے لگا یا ہوگیا تھا۔ کہ اچانک مرز انظام الدین کے گھر سے چیخوں کی آواز شروع ہوگئی۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا۔ کہ الفت بیگم والدہ مرزا ارشد بیگ فوت ہوگئی ہیں۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر اس وقت سے ہوں جب کہ ابھی بشیر اول پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
{1130} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کردیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دے ۔ چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ آخرجب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت جی دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو۔ یہ تھک گیا ہوگا۔ اس کا گلا خشک ہوگیا ہوگا۔ میں حضرت جی کو کہتی کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے ۔ تو آپ فرماتے ۔ ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے ۔
{1131} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک خط بھیجا ۔ لفافہ پر محمدخان صاحب ،منشی اروڑا صاحب اور خاکسار تینوں کا نام تھا۔ خط میں یہ لکھا ہوا تھا ۔ کہ یہاں کے لوگ اینٹ پتھر بہت پھینکتے ہیں۔ اور علانیہ گالیاں دیتے ہیں۔ میں بعض دوستوں کو اس ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ اس لئے تینوں صاحب فوراً آجائیں۔ ہم تینوں کچہری سے اُٹھ کر چلے گئے۔ گھر بھی نہیں آئے۔ کرتار پور جب پہنچے تو محمد خان اور منشی اروڑا صاحب نے مجھے ٹکٹ لانے کے لئے کہا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ اپنے کرایہ کے لئے بھی اُن سے لے لوں انہوںنے اپنے ٹکٹوں کاکرایہ مجھے دے دیا تھا۔ میں نے اُن دونوں کے ٹکٹ لے لئے اور گاڑی آگئی۔ چوہدری رستم علی خان صاحب مرحوم گاڑی میں کھڑے آوازدے رہے تھے کہ ایک ٹکٹ نہ لینا میرے ساتھ سوار ہوجانا۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اور ہم دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں حضرت صاحب نے ایک بڑا دو منزلہ مکان کرایہ پر لیا ہو اتھا۔ اوپر زنانہ تھا اور نیچے مردانہ رہائش تھی۔ واقعہ میں روز صبح وشام لوگ گالی گلوچ کرتے تھے اور ہجوم اینٹ پتھر پھینکتا تھا۔ انسپکٹر پولیس جو احمدی تو نہ تھا ۔ لیکن احمدیوں کی امداد کرتا تھا اورہجوم کو ہٹا دیتا تھا ۔ ایک دن مرزا حیرت آیا۔ میں اس وقت کہیں گیا ہو اتھا۔ اس نے آکر حضرت صاحب کو بلوایا۔ اور کہا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے اور اگر کوئی فساد ہوا تو اس کاذمہ وار کون ہوگا۔ آپ مجھے اپنا بیان لکھا دیں۔ اسی اثناء میں میں آگیا۔ میں ا س کو جانتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان لکھا رہے تھے اور میں یہ دیکھ کر زینے سے نیچے اُتر آیا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور اُتر کر بھاگ گیا۔ میں دراصل پولیس میں اطلاع دینے کے لئے اُتر ا تھا اس کو اُترتے ہوئے دیکھ کر ایک عورت نے جو اوپر تھی اسے برا بھلا کہا۔
{1132} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی دہلی آگئے ۔ جن کو علی جان والوں نے مباحثہ کے لئے بلایا تھا۔ علی جان والے ٹوپیوں کے بڑے سوداگر اور وہابی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آکرانہوںنے عرض کی کہ مولوی صاحب کو بھوپال سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے بلایا ہے ۔ شرائط مناظرہ طے کر لیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ احقاقِ حق کے لئے یہ بحث ہے ۔ وہ آجائیں اور جو دریافت فرمانا چاہیں دریافت فرمالیں ۔ پھر ایک تاریخ مقرر ہوگئی۔ مجھ کو اور پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو حضور نے حکم دیا کہ آپ کچھ کتابیں اپنے واقفوں سے لے آئیں ۔ ہمیں تو ضرورت نہیں مگر انہی کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم دونوں بہت جگہ پھرے لیکن کسی نے کتابیں دینے کا اقرار نہ کیا۔ امام کی گلی میں مولوی محمد حسین صاحب فقیر رہتے تھے ۔ انہوںنے وعدہ کیا کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو کل لے جانا ۔ اگلے روز جب ہم گئے تو وہ نہ ملے اور ان کے بیٹوں نے ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں کہ جو ملحدوں کی مدد کرے وہ بھی ملحد ہے ۔ ہم دونوں ان کے پاس سے اُٹھ کر چلے آئے ۔ پیر سراج الحق تو مجھ سے علیحدہ ہوکر کہیں چلے گئے ۔ میں تھوڑی دور کھڑا ہو کر اُن سے سخت کلامی کرنے لگ گیا ۔وہاں آدمی جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ امام اعظم کو یہ بُرا کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں ۔یہ چھپے ہوئے وہابی ہیں۔ وہابیوں کی مسجد میںنماز پڑھنے جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ میرے ساتھ ہو کر ان کے خلاف ہوگئے ۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ جب امام صاحب کے مکان کے آگے سے گزرا۔ تو انہوںنے مجھے اشارہ کر کے اپنی بیٹھک میں بلا لیا اور کہنے لگے کہ آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتابیں مطلوب ہیں۔ میں دے سکتا ہوں ۔ میںنے کہا آپ اتنا بڑا احسان فرمائیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ جب مرزا صاحب مولوی نذیر حسین سے قسم لینے کے لئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الٰہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور آپ کی پیشانی سے شان نبوت عیاں تھی مگر میں اپنی عقیدت کو ظاہر نہیں کر سکا۔ خیرمیں یہ کتابیں لے کر چلاآیا۔ اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں آپ بہت خوش ہوئے ۔ اس پر دہلی والوںنے کہا تھا (ہولی ہے بھئی ہولی ہے پاس کتابوںکی جھولی ہے) تفسیر مظہری اور صحیح بخاری دستیاب نہ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں مولوی رحیم بخش صاحب فتح پور ی مسجد کے متولی تھے۔ وہ سیدامام علی شاہ رتڑ چھتڑ والوں کے خلیفہ تھے اور ان سے میرے والد صاحب مرحوم کے ،جبکہ والد صاحب گجرات میں بندوبست میں ملازم تھے ، سید امام علی شاہ صاحب سے بہت عمدہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ رحیم بخش صاحب سے جب میں نے اس تعلق کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے اُن سے کتابیں طلب کیں۔ انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ہوکر مرزا صاحب کے ساتھ کس طرح ہیں۔ میںنے کہا کہ ان وہابیوں کی شکست ہماری فتح ہے ۔ کہنے لگے یہ بات تو ٹھیک ہے ۔ چنانچہ انہوںنے کتابیں دے دیں۔ وہ بھی لاکر میںنے حضور کو دے دیں۔ صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی۔ پھر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو اسی اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھے۔تو وہ اور میں مدرسہ شاہ عبد العزیز میں گئے۔ اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانون گودہلی کامکان تھا۔ وہاں جاکر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کے لئے مانگا۔ انہوںنے دے دیااور ہم لے آئے ۔مولوی بشیر احمد صاحب مباحثہ کے لئے آگئے۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا جس میں ایک کوٹھڑی تھی ۔ اس کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب اورعبد القدوس غیر احمدی ایڈیٹر صحیفہ قدسی اور ہم لوگ بیٹھے تھے ۔مولوی بشیر احمد آگئے ۔ ظاہراً بڑے خضرصورت تھے اور حضرت صاحب سے بڑے ادب اور تعظیم سے ملے اور معانقہ کیااور بیٹھ گئے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوئی ہار جیت کا معاملہ نہیں ۔ یہیں بیٹھے ہوئے آپ سوال کریں۔ میں جواب دوں ۔ بات طے ہوجائے۔ مگر اس کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ حضور کے سامنے بیٹھ کر سوال وجواب کرسکتا۔ اُس نے اجازت چاہی کہ دالان میں ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھ لے ۔ دالا ن میں بہت سے آدمی مع علی جان والوں کے بیٹھے تھے ۔ حضور نے فرمایا ۔ بہت اچھا۔ سو وہ سوالات جو اپنے گھر سے لکھ کر لایا تھا ایک شخص سے نقل کرانے لگا۔ وہ بھی میرا واقف تھا ۔ مجدد علی خان اس کا نام تھا۔ میںنے ان سے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جب آپ سوال لکھ کر لائے ہیں تو دے دیں تاکہ حضور جواب لکھیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تونوٹ ہیں۔ حالانکہ وہ حرف بحرف نقل کر ا رہے تھے۔ دہلی والوںنے میرے خلاف شور کیا کہ آپ کیوں اس بارہ میں دخل دیتے ہیں ۔ مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آواز دی کہ آپ یہاں آجائیں ۔ میں چلا گیا۔ لیکن تھوڑی دیر میں اٹھ کر میں مولوی بشیر احمد صاحب کے پاس چلا گیا کہ دیکھوں انہوںنے ختم کیا ہے یا نہیں ۔ میںنے کہا مولوی صاحب پسے ہوئے کو پیسنایہ کوئی دانائی ہے؟ پھر مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آوازیں دیں کہ تم یہاں آجاؤ۔ میں پھرچلا گیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا آپ کیوں جاتے ہیں۔ تیسری دفعہ میں پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ پھر حضرت صاحب اوپراُٹھ کر چلے گئے ۔ اور میرے متعلق کہا کہ یہ بہت جوش میںہیں۔ جب وہ لکھ چکیں تو مجھے بھیج دینا۔ پھر جب وہ اپنا مضمون تیار کر چکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچادیا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو ۔ دو ورقہ جب تیار ہوجائے ۔تو نقل کرنے کے لئے دوستوں کو دے دینا ۔
میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ وار ایک اُچٹتی نظر ڈالی ۔ انگلی پھیرتے رہے اور پھرورق الٹ کر اُس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈال لی ۔ اسے علیحدہ رکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں ۔ محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اور جواب لکھنا شروع کیا۔ جب دو ورقہ تیار ہوگیا۔ تو میں نیچے نقل کرنے کے لئے دے آیا۔ دو ورقہ کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبد الکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیااور ایک عبد القدوس نے ۔ اس طرح میں اوپر سے جب دو ورقہ تیار ہوتا لے آتا اور یہ نقل کرتے رہتے۔ حضرت صاحب اس قدر جلدی لکھ رہے تھے کہ ایک دو ورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا۔ عبد القدوس جو خود بہت زود نویس تھا حیران ہوگیا۔ اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگا کہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو۔
غرض اس طرح جھٹ پٹ آپ نے جواب لکھ دیا اور ساتھ ہی اس کی نقل بھی ہوتی گئی۔ میںنے مولوی بشیر احمد کو وہ جواب دے دیا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ اس نے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ہم نے تو نہیں مگر کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کر دی کہ مولوی بشیر احمد صاحب ملنا چاہتے ہیں ۔ حضور فوراً تشریف لے آئے اور مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل کو جواب لکھ لاؤ ں گا۔ آپ نے خوشی سے اجازت دے دی ۔ حضرت صاحب تو اوپر تشریف لے گئے ۔ مگر ہم ان کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ کوئی بحث ہے ۔ اس طرح تو آپ بھوپال میں بھی کر سکتے تھے۔ جب بہت کش مکش اس بارہ میں ہوئی تو دہلی والوں نے کہا کہ جب مرز اصاحب اجازت دے گئے ہیں تو آپ کو روکنے کاکیا حق ہے ۔ ہم تو خود سمجھ گئے ہیں کہ یہ بالمقابل بیٹھ کر بحث نہیں کر سکتے۔ پھر ہم نے مولوی صاحب کوچھوڑ دیا۔ آخری مباحثہ تک مولوی بشیر احمد صاحب کا یہی رویہ رہا۔کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا۔ اجازت لے کر چلے جاتے۔ ایک مولوی نے مولوی بشیر احمد صاحب کو کہا کہ بڑی بات آپ کی بحث میں نونِ ثقیلہ کی تھی مگر مرز اصاحب نے تو نون ثقیلہ کے پل باندھ دئیے۔
بحث ختم ہونے پر چلتے چلتے مولوی بشیر احمد ملنے آئے اور حضرت صاحب سے کہا میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے ۔ آپ کو جو اس بحث کے لئے تکلیف دی ہے میں معافی چاہتا ہوں ۔ غرض کہ وہ حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے۔
{1133} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپس تشریف لے گئے ۔ میں کتابیں واپس کرنے کے لئے ایک روز ٹھہر گیا۔ جسے کتابیں دینے جاتا وہ گالیاں نکالتا۔ مگر میں ہنس پڑتا۔ اس پر وہ اور کوستے۔ چونکہ ہمیں کامیابی ہوئی تھی اس لئے ان کی گالیوں پر بجائے غصے کے ہنسی آتی تھی اور وہ بھی بے اختیار ۔
{1134} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف فرما تھے۔تو ایک دن حضور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے ۔ فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ یہ اپنے زمانے کے مجدد تھے۔
{1135} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اجازت بھی دے دی ۔ پھر فرمایا کہ ٹھہر جائیں ۔ آپ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا یہ پی لیں ۔ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آگئے۔ پھر اُن کے لئے حضور دودھ کا گلاس لائے اور پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لائے۔ اور بہت دفعہ حضور نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لاتے تھے۔
{1136} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی آدمی آپ سے ملنے آتا اور آواز دیتا تو میں یا کوئی اور دوسرا آپ کو اطلاع دیتا کہ کوئی آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ تو آپ کی یہ حالت ہوتی کہ آپ فوراً باہر تشریف لے آتے۔
{1137} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار نے پٹیالہ میں خواب دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں۔ دن کا وقت ہے۔ حضرت مولوی صاحب والے کمرے سے باہر نکلا ہوں کہ میرے دل میں آیا کہ اب کی دفعہ جو پٹیالہ جاؤں تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کروں۔ جب چوک میں پہنچا تو کسی شخص نے کہاکہ حضرت صاحب مسجد اقصیٰ کی چھت پر تشریف فرماہیں ۔ میری خواہش ہوئی کہ حضرت صاحب سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں تاکہ ویسا ہی تیار کروا کر بھیج دیا جائے ۔ یہ بات دریافت کرنے کے لئے خاکسارمسجد کی چھت پر چڑھ گیا۔ دیکھا حضرت صاحب تشریف فرماہیں۔ اور آپ کے ایک طرف خواجہ کمال الدین صاحب بیٹھے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک اور شخص بیٹھا تھا جس کو میںنہیں جانتا تھا۔ خاکسار سامنے جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں کچھ عرض کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اب کی دفعہ جو تم پٹیالہ جاؤ۔توہمارے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کرنااور جو چوغہ اس وقت حضور نے پہنا ہوا تھا۔ اس کے گریبان کے نیچے سے دونوں اطراف دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور اُن کو ملا کر فرمایا کہ ایسا ہو کہ جو سردی سے محفوظ رکھے۔ خاکسار نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ حضورابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ نیچے چوک میں مجھ کو یہی خیال آیا تھا کہ اس دفعہ پٹیالہ جانے پرایک چوغہ حضورکے لئے بنو اکر روانہ کروں اور حضور کے تشریف فرما ہونے کی اطلاع پر اس ارادہ سے حاضر ہو اتھا کہ حضور سے دریافت کروں کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ابھی میں عرض بھی کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے خود ہی فرمادیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایاکہ یہ درست ہے ۔ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بعض اوقات اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے اشخاص کے قلوب پر القا کرتا ہے ۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں پٹیالہ میں ہی ہوں ۔ چونکہ سرما کا موسم تھا۔ خاکسار نے اسی خیال سے کہ اس خواب کی جوکوئی اور تعبیر خد اکے علم میں ہو وہ ہو۔ لیکن ظاہری الفاظ کے مطابق مجھے ایک چوغہ تیار کروا کر روانہ کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے اندر ایک گرم کشمیر کا چوغہ قطع کرا کر اور اس کے ہر چہار طرف اُسی رنگ کی ریشمی ڈوری کاکام نکلوا کر جسم مبارک کا اندازہ درزی کو بتا کر ایک چوغہ تیار کروا کر بذریعہ پارسل ڈاک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو روانہ کردیا۔ اور خط میں مفصل لکھ دیا کہ ایک خواب کی ظاہری تعبیر پورا کرنے کے خیال سے ایسا کیا گیاہے ۔ آپ پارسل پہنچنے پر یہ چوغہ میری طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے مجھے تحریر فرمایا کہ پارسل پہنچنے پر فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں وہ پارسل خود لے جاکر پیش کیا۔ حضور نے فرمایا اسے کھولو ۔ جب چوغہ نکالا گیا تو حضور نے فوراً کھڑے ہوکر اپنا پہلا چوغہ اُتار کر اس مرسلہ چوغہ کو زیب تن کیا۔ اورمولوی صاحب سے فرمایاکہ خد ا کی کیا شان ہے کہ اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے لوگوں کے قلوب پرالقا فرمادیتا ہے ۔ فی الواقعہ ہمارا یہ چوغہ اس قدر میلا ہوگیا تھا کہ جب کپڑے بدلتے تو چوغہ پہننے کو دل نہ چاہتا۔ اور اردہ کرتے کہ جلدکوئی چوغہ نیا تیار کروائیں گے۔ مگر پھر سلسلہ کی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے سہو ہوجاتا۔ پھر بٹنوں کو دیکھ کرفرمایا۔ کہ مولوی صاحب اس نے یہ کیسی عقل کی بات کی ہے کہ باوجود چوغہ کی طرح لمبا ہونے کے آگے بٹن لگوا دئیے ہیں۔ تاسردی سے بچاؤ ہو۔پرانی قسم کے چوغوں میںمجھے یہ بات نا پسند ہے کہ سب سے اوپر کا کپڑاآگے سے کھلا ہوا ہوتاہے۔ جس سے سردی سے حفاظت نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ مولوی صاحب تعجب تو یہ ہے کہ بدن پر ایسا درست آیا ہے کہ جیسے کسی نے ناپ لے کر بنوایا ہو۔ مولوی صاحب نے آخر میں خاکسار کو یہ بھی لکھا کہ آپ کاخواب صحیح اور تعبیر بھی ٹھیک ثابت ہوئی۔ کیونکہ جو الفاظ اس بارہ میں حضور نے فرمائے تھے۔ بالکل وہی الفاظ چوغہ پیش کرنے پر فرمائے ۔ خد اتعالیٰ نے آپ کی سعی کو مشکور فرمایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو فوٹو ولایت روانہ کرنے کے لئے حکیم محمدکاظم فوٹو گرافر انار کلی لاہور کا تیار کردہ ہے جس میں حضور نے بٹن والا چوغہ نما لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے وہ وہی ہے ۔
{1138} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی کا کچھ نقصان ہوگا۔ تو حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے دعا کرنا۔ چند دن بعد آپ حافظ حامد علی صاحب کو ہمراہ لے کر پیدل ہی گاؤں کے راستہ سے گورداسپور تشریف لے گئے تو راستہ میں کسی بیری کے نیچے سے حافظ صاحب نے کچھ بیر اُٹھا کر کھانے شروع کر دئیے۔ تو حضرت جی نے فرمایا کہ یہ کس کی بیری ہے ۔ حافظ صاحب نے کہا کہ پتہ نہیں۔ جس پر حضرت جی نے فرمایا کہ پھر بغیر اجازت کے کس طرح کھانا شروع کردیا جس پر حافظ صاحب نے وہ سب بیر پھینک دئیے اور آگے چل دئیے ۔ اس سفر میں حضرت صاحب کا روپوں والا رومال اور حافظ صاحب کی چادر گم ہوگئی۔
{1139} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کرنا کھلا ہوا تھا اور بہت مہک رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ! کہ دیکھو کرنا اور کہنا اس میں بڑا فرق ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔پنجاب میں کہنا مکڑی کو کہتے ہیں (یعنی کرنا خوشبودار چیز ہے اور کہنا ایک مکروہ چیز ہے )
{1140} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہوکر تھمی تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر سیر کو جارہے تھے ۔ میاں چراغ جو اس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا۔ چلتے چلتے گر پڑا ۔ میں نے کہا اچھا ہوا۔ یہ بڑا شریر ہے ۔ حضرت صاحب نے چپکے سے فرمایا کہ بڑے بھی گر جاتے ہیں ۔یہ سن کر میرے تو ہوش گم ہوگئے اور بمشکل وہ سیر طے کر کے واپسی پر اُسی وقت اندر گیا جبکہ حضورواپس آکر بیٹھے ہی تھے ۔ میں نے کہاحضور میرا قصور معاف فرمائیں ۔ میرے آنسو جاری تھے ۔ حضور فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے نہیں کہا ۔ آپ تو ہمارے ساتھ ہیں ۔
{1141} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرعباس علی صاحب لدھیانوی بہت پرانے معتقد تھے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اصطلاح صوفیاء میں معنے دریافت کرتے رہتے تھے۔ اور تصوف کے مسائل پوچھتے تھے۔ اس بارہ میں حضرت صاحب نے کئی مبسوط خطوط انہیں لکھے تھے جو ایک کتاب میں انہوںنے نقل کر رکھے تھے۔ اور بہت سی معلومات ان خطوط میں تھی گویا تصوف کا نچوڑ تھا۔ میر عباس علی صاحب کا قول تھا کہ انہوںنے بے وضو کوئی خط نقل نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے براہین احمدیہ کے بہت سے نسخے میر صاحب کو بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ یہ کوئی خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ۔ آپ اپنے دوستوں کو دے سکتے ہیں ۔ چونکہ میرا ا ُن سے پرا نا تعلق تھا۔ میں اُن سے وہ خطوط والی کتاب دیکھنے کو لے آیا۔ ابھی وہ کتاب میرے پاس ہی تھی کہ میر صاحب مرتد ہوگئے۔ اس کے بعد کتاب مذکور کا انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا۔ میں نے نہ بھیجی ۔ پھر انہوںنے حضرت صاحب سے میری شکایت کی کہ کتاب نہیں دیتا۔ حضرت صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ ان کی کتاب ان کو واپس کر دیں ۔ میں خاموش ہوگیا۔ پھر دوبارہ میر صاحب نے شکایت کی۔ اور مجھے دوبارہ حضور نے لکھا۔ اُن دنوں ان کے ارتداد کی وجہ سے الہام ’’ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ ‘‘ پر مخالفین بہت اعتراض کرتے تھے۔ میں قادیان گیا ۔ مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کی موجودگی میں حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ اُن کی کتاب کیوں نہیں دیتے۔ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے عرض کی کہ حضور کی ضمانت پر تو اُس نے کتاب نہیں دی تھی(بعض دفعہ عبد اللہ سنوری صاحب اور میں حضرت صاحب سے اس طرح بے تکلف باتیں کر لیا کرتے تھے ۔ جس طرح دوست دوست سے کر لیتا ہے اور حضور ہنستے رہتے) اور میں نے عرض کی کہ اتنا ذخیرہ عرفان ومعرفت کا اس کتاب کے اندر ہے، میں کس طرح اسے واپس کردوں ۔ حضور نے فرمایا واپس کرنی چاہئے ۔ آپ جانیں وہ جانیں۔ اس کے بعد میں کپور تھلہ آیا ۔ ایک دن وہ کتاب میں دیکھ رہا تھاتو اس میں ایک خط عبا س علی کے نام حضرت صاحب کا ،عباس علی کے قلم سے نقل کردہ موجود تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی وقت مرتد ہوجائیں گے ۔ آپ کثرت سے توبہ واستغفار کریں اور مجھ سے ملاقات کریں۔ جب یہ خط میں نے پڑھاتو میں فوراً قادیان چلاگیا۔ اور حضور کے سامنے وہ عبارت نقل کردہ عباس علی پیش کی ۔ فرمایا !یہی سِرّتھا جو آپ کتاب واپس نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ کتاب شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھ سے لے لی ۔
{1142} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی میں قیام فرماتھے ۔ اور وہاں کے لوگوں نے تجویزکی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت صاحب سے بحث کریں ۔ تو مولوی نذیر حسین نے بحث کرنے سے انکار کردیا۔حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو خط لکھا تھا۔ کہ میں جامع مسجد میں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلائل بیان کروںگا۔ آپ اگر قسم کھا کرکہہ دیں کہ یہ صحیح نہیں ہیں تو پھر ایک سال کے اندر اگر آپ پر عذاب نہ آئے تو میں خد اکی طرف سے نہیں۔ اس کا جواب مولوی نذیر حسین نے کوئی نہ دیا ۔ جواب نہ آنے پر حضور نے ایک دوسرا خط لکھا جو محمد خان صاحب اور خاکسار لے کر مولوی نذیر حسین کے پاس گئے ۔ اس میں حضور نے لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد میں پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نہ آئے تو خدا کی *** ہوگی۔ یہ خط جب ہم لے کر گئے تو مولوی نذیر حسین نے ہمیں کہا کہ تم باہر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس چل کر بیٹھو ۔ خط انہیں دے دو۔ میں آتاہوں۔ مولوی محمد حسین نے وہ خط کھول لیا۔ پھر مولوی نذیر حسین صاحب آگئے۔ اور انہوںنے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے ۔ مولوی محمد حسین نے کہا میں سنا نہیں سکتا۔ آپ کو بہت گالیاں دی ہیں۔ اس وقت ایک دہلی کا رئیس وہاں بیٹھا تھا ۔ اور اس نے بھی مولوی محمد حسین کے پاس بیٹھے وہ خط پڑھ لیا تھا۔ اس نے کہا ۔ خط میں تو کوئی گالی نہیں ۔ مولوی نذیر حسین نے اسے کہا۔ تو بھی مرزائی ہوگیا ہے ۔ وہ پھرچپ ہوگیا۔ پھر ہم نے مولوی نذیر حسین سے کہا۔ آپ نے جو کچھ جواب دینا ہو دے دیں۔ مولوی محمد حسین نے کہا ہم کوئی جواب نہیں دیتے۔ تم چلے جائو۔ تم ایلچی ہو۔ خط تم نے پہنچادیا ہے ۔ ہم نے کہا ہم جواب لے کر جائیں گے۔ پھر لوگوں نے کہا۔ جانے دو۔ غرض انہوںنے جواب نہیں دیا۔ اور ہم نے سارا واقعہ حضرت صاحب کے پاس آکر عرض کردیا۔ اگلے دن ہم سب جامع مسجد میں چلے گئے۔ ہم بارہ آدمی حضرت صاحب کے ساتھ تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ محمد خان صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، حافظ حامد علی صاحب ، مولوی عبد الکریم صاحب ۔ محمد سعید صاحب جو میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے تھے اور خاکسار ۔ باقیوں کے نام یاد نہیں رہے ۔ جامع مسجد کے بیچ کے دروازہ میں ہم جاکر بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب بھی بیٹھ گئے۔ یہ یاد پڑتا ہے کہ سید امیرعلی اور سید فضیلت علی سیالکوٹی بھی تھے۔ دروازے کے دائیں طرف یعنی دریچے کی طرف ہم تھے۔ اور فرش کے ایک طرف مولوی نذیر حسین اور مولوی محمد حسین آٹھ سات آدمی تھے۔ تمام صحن مسجد کا لوگوں سے پُر تھا۔ ہزاروں آدمی تھے۔ انگریز کپتان پولیس آیا۔ کثرت ہجوم کی وجہ سے وہ گھبرایا ہو اتھا۔ اس نے حضرت صاحب سے آکر پوچھا کہ آپ کا یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ شیخ رحمت اللہ صاحب نے انگریزی میں اس سے ذکر کیا کہ یہ غرض ہے کہ حضرت صاحب دلائل وفات عیسیٰ بیان کریں گے اور نذیر حسین قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ صحیح نہیں ۔ وہ پھر نذیر حسین کے پاس گیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ تمہیں ایسی قسم منظور ہے ۔ اس نے کہا کہ میں قسم نہیں کھاتا۔ اس نے آکر حضرت صاحب سے بیان کیاکہ وہ آپ کے دلائل سن کر قسم کھانے پر آمادہ نہیں۔اس لئے آ پ چلے جائیں۔ حضرت صاحب چلنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ میں نے حضور کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی کہ حضور ذرا ابھی ٹھہر جائیںاور میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ آپ کپتان پولیس سے کہیں کہ پہلے فریق ثانی جائے پھر ہم جائیں گے۔ پھر اس نے انہیں کہا۔اس پر وہ مصر ہوئے کہ پہلے ہم جائیں۔ غرض اس بارہ میں کچھ قیل قال ہوتی رہی۔ پھر کپتان پولیس نے قرار دیا کہ دونوں ایک ساتھ اُٹھ جائیں اور ایک دروازے سے وہ اور دوسرے سے ہم چلے جائیں۔ غرض اس طرح ہم اُٹھے ۔ ہم بارہ آدمیوںنے حضرت صاحب کے گردحلقہ باندھ لیا۔ اور ہمارے گرد پولیس نے ۔ اس وقت دہلی والوںنے اینٹ پتھر بہت پھینکے ۔ نذیر حسین پر بھی اور ہم پر بھی۔ ہم دریچے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے ۔ تو ہماری گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹا دی تھی۔ کپتان پولیس نے ایک شکرم میں ہمیں سوار کرادیا۔ کوچ یکس پر انسپکٹر پولیس ، دونوں پائیدانوں پر دو سب انسپکٹر اور پیچھے سپاہی گاڑی پر تھے۔ گاڑی میں حضرت صاحب ، محمد خان صاحب ، منشی اروڑا صاحب ،خاکسار اور حافظ حامدعلی صاحب تھے۔ پھر بھی گاڑی پراینٹ پتھر برستے رہے ۔ جب ہم چلے تو مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے۔ محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد لوگ جمع ہوگئے تھے جو محمد خان صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خان صاحب مولوی صاحب کو لے آئے ۔
{1143} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار دارالامان میں چند روز سے وارد تھا۔ کہ ایک شام کو نما زمغرب کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرماتھے۔ پانچ سات خدام سامنے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ حضرت مولوی صاحب عبد الکریم صاحب مرحوم اس چھت کی شرقی سمت ذرا فاصلہ پر کھڑے ٹہل رہے تھے۔ وہاں سے وہ حضرت صاحب کی طرف آئے ۔ ابھی بیٹھے نہ تھے کہ حضرت صاحب سے مخاطب ہوکر اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ یہ پٹیالہ والاشیخ جو حضور کے سامنے بیٹھا ہے ۔ ’’ایہہ ساتھوں گھٹ نیچری نہیں رہیاجے‘‘ یعنی یہ ہم سے کم نیچری نہیں رہااور اس نے سرسید کی بہت سی کتابیں دیکھی ہیں۔ یہ حضور کی کشش ہے جو اس کو یہاں کھینچ لائی ورنہ یہ لوگ کسی کے قابو نہیں آنے والے تھے۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ مولوی صاحب کو اس وقت حضور سے ایسا کہنے کی کیا سوجھی۔ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کا یہ کلام سن کر معاًخاکسارکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اگر آپ نے سید صاحب کی کتابیں دیکھی ہیں تو بتاؤ آپ کو تصانیف میں سے کون سی کتابیں زیادہ پسند اور مرغوب خاطر ہوئیں۔ خاکسار نے تھوڑے تأمل کے بعد عرض کیا کہ اپنی کم علمی اور استطاعت کے باعث خاکسار سید صاحب کی کل تصانیف تو نہیں دیکھ سکا البتہ کوئی کتاب کسی صاحب سے مل گئی تو دیکھ لی یا ان کے چھوٹے چھوٹے رسالے منگا کر بھی دیکھے ہیں۔ اخبار تہذیب الاخلاق جو ایک ماہواری رسالہ کی صورت میں علی گڑھ سے شائع ہوتا تھا جس میں سید صاحب مرحوم اور مولوی چراغ علی حیدر آباد ی مرحوم اور نواب مہدی علی خان صاحب مرحوم کے مضامین ہوتے تھے۔ اس کا کئی سال خاکسار خریدار بھی رہا ہے اور اس کی پچھلی جلدوں کے فائل منگوا کر بھی دیکھے ہیں۔ سید صاحب کی تصانیف میں خطبات احمدیہ اور تبیین الکلام مجھے زیادہ پسند آئیں ۔ پہلی کتاب میں سید صاحب نے اپنے قیام لندن کے وقت قرآن مجید کی بعض آیات پر جو عیسائیوں نے اعتراض کئے تھے وہاں میوزیم کے پرانے کتبے اور قدیم اسناد سے ان کے جوابات دئیے ہیںجو ایک اہم اسلامی خدمت ہے ۔ ایسا ہی دوسری کتاب میں صفحات کے تین کالم بنا کر ایک میں توریت ۔ دوسرے میں انجیل اور تیسرے میں قرآن مجید کی متحد المضامین آیات درج کی ہیں جس سے اُن کی غرض یہ ثابت کرنا ہے کہ جب وہی مضامین ان کی مسلمہ الہامی کتب میں ہیں تو قرآن مجید کے الہامی ہونے سے اُن کو انکار کا کیا حق حاصل ہے؟ خاکسار کی یہ گفتگو سن کر حضرت صاحب نے فرمایا۔ سید صاحب کی مصنفہ کتب آپ نے کیوں دیکھیں۔ خاکسار نے ذرا تأمل کے بعد عرض کیاکہ ایک پڑھا لکھا گھرانہ ہونے اور اکثر ذی علم اشخاص کی آمد ورفت اور علمی اور اخبار ی تذکروں کے ہمیشہ سنتے رہنے کی وجہ سے طبیعت کی افتاد ہی کچھ ایسی پڑ گئی تھی کہ سکول میں سیروغیرہ میں جو ہم جماعت ، ہم عمر لڑکے ملتے ۔ بعض اوقات ان کے کسی مذہبی عقیدہ پر اعتراض کیا جاتا اور وہ اگر کسی اسلامی عقیدہ پر اعتراض کر دیتے تو ان کو جواب دینے کی کوشش کرتے۔ وہ لوگ چونکہ اپنے بڑوں سے سنے ہوئے فلسفہ یا سائنس کے تحت میں اعتراض کرتے تو بعض اوقات اپنا جواب خود بہت پست اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا۔ اگر پرانی قسم کے مولویوں سے اس کے متعلق استفسار کرتے تو وہ جواب دینے کی بجائے ایسے بحث ومباحثہ سے منع کر دیتے۔ یہ بات بس کی نہ تھی ۔ آخر جب سید صاحب کے اشخاص سے اس کا ذکر آتا تو وہ بحوالہ تصانیف سر سید ایسا جواب دیتے جو بظاہر معقول دکھائی دیتا۔ اس وجہ سے سید صاحب کی کتب کو دیکھنے کا شوق پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تصانیف بھی کبھی آپ نے دیکھی ہیں ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور عربی کتب تو خاکسار نہیں دیکھ سکا البتہ جو کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان کو میں اکثر منگا کر دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تعلیم اور سید صاحب کی تعلیم میں آپ نے کیا فرق اور امتیاز محسوس کیا ۔ حضور کے اس سوال پر ایک تردد سا پیدا ہوا اور دل میں خیال آیا۔ کہ مولوی صاحب نے آج امتحان کا پرچہ ہی دلا دیا۔ اور بعد تأمل کے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ جیسا محدود العلم اس فرق کو کیا بیان کرسکتا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ ہماری غرض کوئی علمی فرق یا عالمانہ رائے دریافت کرنے کی نہیں بلکہ صرف یہ بات معلوم کرنی چاہتے ہیں کہ ہر دو تصانیف کے مطالعہ سے جو کیفیت آپ کے دل نے محسوس کی اس میں آپ کیا تمیز کرتے ہیں۔ کچھ دیر تأمل کرنے کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ فلسفیانہ اعتراضات کے جوابات جو سید صاحب نے دئیے ہیں ۔ ان کا نتیجہ بطور مثال ایسا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کی تلاش میں جنگل میں کہیں تھوڑا ساپانی مل جائے جس کے دو چار گھونٹ پی کر صرف اس کی جان کنی کی مصیبت سے بچ جائے اور بس۔ لیکن حضور کے کلام کا یہ عالم ہے کہ جیسے پیاسے کے لئے دودھ کا گلاس جس میں برف اور کیوڑہ پڑا ہوا ہو۔ وہ مل جائے ۔ اور وہ سیر ہو کر مسرور اور شادماں ہوجائے ۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ اچھا کوئی مسئلہ بطور مثال بیان کرو ۔ اس کے جواب میں خاکسار کو زیادہ متردد اور پریشان دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ جلدی نہیں۔ آپ سوچ کر جواب دیں۔ تھوڑی دیر سکوت کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ مثلاً معراج کا واقعہ ہے جب کوئی اس پر معترض ہوتا اور اس کے خلاف عقل ہونے کا ادعا کرتا تو جواب میں بڑی مشکل پیش آتی تھی کہ اس کو کیا سمجھائیں کہ براق کس اصطبل سے آیا تھا اور پھر وہ اب کہاں ہے اور وہ پرند۔ چرند اور ساتواں آسمان اور عرش معلیٰ کی سیر اور انبیاء سے مکالمات اور عرصہ واپسی اتنا کہ ابھی دروازہ کی زنجیر متحرک تھی۔ اور بستر جسم کی حرارت سے ابھی گرم تھا۔ لیکن سید صاحب کی تصانیف سے معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک خواب تھا ۔ خواب میں خواہ کچھ سے کچھ عجائبات بلکہ ناممکنات بھی دیکھ لے تو ازروئے فلسفہ کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس لئے معترض سے جان تو چھوٹ جاتی مگر اپنے دل میں معراج کی جو وقعت اور منزلت ہوتی وہ بھی ساتھ ساتھ اُٹھ جاتی بلکہ سائل اور مجیب ایک ہی رنگ میں ہوجاتے تھے۔ لیکن حضور کی تفہیم کے مطابق معراج ایک عالم کشف تھا جس کے مظاہر تعبیر طلب اور اعلیٰ پیشگوئیوںاور اخبار غیب کے حامل ہوتے ہیں۔ جس سے معراج کی توقیر اور قدرومنزلت میں بھی فرق نہیں آنے پاتا اور معترض کوعالم کشف اور روحانی تأثرات سے اپنی لاعلمی کا احساس کرنا پڑتا ہے ۔ ایسا جواب وہی دے سکتا ہے جو خود صاحب حال اور اس سے بہروَر ہو۔ اس پر حضور نے ایک بشاش انداز میں حضرت مولوی صاحب کو مخاطب فرمایاکہ مولوی صاحب یہ سب سوالات میں نے آپ کی خاطر کئے ہیں تاآپ کو معلوم ہوجائے کہ چونکہ ان کو ایک بات کی تلاش اور دل میں اس کے لئے تڑپ تھی اس لئے خدا نے آیت وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) ‘‘کے مطابق ان کو اپنے مطلوب تک پہنچادیا۔ بڑی مشکل یہی ہے کہ لوگوں میں حق کی تلاش ہی نہیں رہی ۔ اور جب خواہش اور تلاش ہی کسی شخص کے دل میں نہ ہوتو اچھے اور برے کی تمیز کیسے ہو۔
{1144} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرادیا۔ اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ اس کے بعد آپ ایک جگہ پیشاب کرنے لگے تو مہر علی ساکن کرالیاں کو کہا کہ مجھے کوئی ڈھیلا دو۔ تو اس نے کسی دیوار سے ایک روڑا توڑ کردے دیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ ڈھیلا کہاں سے لیا۔ تو اس نے کہا کہ فلاں دیوار سے ۔ آپ نے فرمایا جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔ بغیر اجازت دوسرے کی چیز نہیں لینی چاہئے ۔
{1145} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ قحط پڑا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین سے روپیہ قرض لیا اور گندم خرید کی اور گھر کا خرچ پورا کیا اس کے بعد آپ نے چوہدری رستم علی صاحب سے حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ سے ۵۰۰ روپیہ منگوایااور کچھ گھی کی چاٹیاں منگوائیں۔ روپیہ آنے پر آپ نے حضرت ام المومنین کا قرض ادا کر دیا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حافظ صاحب تھیلیوں کے تھیلے روپوں کے لایا کرتے تھے ۔ جن کی حفاظت رات کو مجھے کرنی پڑتی تھی۔
{1146} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین بعض دفعہ حافظ صاحب کے متعلق حضرت جی سے شکایت کرتیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں سودے میں حافظ صاحب نے کچھ پیسے رکھ لئے ہیں ۔ جس پر ہمیشہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب ایسے نہیں ۔ ہاں سودا مہنگا لائے ہوں گے ۔
{1147} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے عید الاضحی کے روز مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں الہاماًچند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں صاحب تمام و کمال لکھنے کی کوشش کریں ۔ یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کردیا۔ پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرمارہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہورہا تھا اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثر یہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آرہا تھا۔ ہر ایک اس سے متاثر تھا ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے۔ ایک لفظ خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا ۔ خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پرتشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کو بلایااور فرمایا کہ خطبہ کا جو اثر ہوا ہے اور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے ۔ اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں۔ مولوی عبد اللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دئیے۔ میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ میں دریافت فرماتے رہے ۔ وغیرہ۔ حضور کو میرا یہ مضمون بہت پسند آیا اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکرتھاکہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو ضبط تحریر میں نہیں آسکتا ۔ دوران خطبہ میں کوئی شخص کھانستا تک نہیں تھا۔ غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر سنایااور فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کردو۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے تو ہمیں زندہ ہی دفن کردیا ہے ۔ (مولوی عبد الکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا۔اچھا ہم شائع نہیں کریںگے۔ پھر میں کئی روز قادیان میں رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا۔ مولوی عبد الکریم صاحب عربی زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے۔ اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے اور اس خطبے کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔
{1148} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیالکوٹ میں ایک ماہ تک ٹھہرے رہے ۔ حضور کا وہاں لیکچر تھا ۔ عبدالحمید خاں صاحب ، مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی اور خاکسار لیکچر والے دن پہنچے ۔ تقریر کے ختم ہونے پر میں نے جاکر مصافحہ کیا۔ گاڑی کا وقت قریب تھا۔ اس لئے رخصت چاہی ۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا اب آپ کو ایک ماہ کے قریب یہاں ٹھہرے ہوئے ہوگیا ہوگا۔ اچھا اب آپ گھر جائیں۔ جب میں اجازت لے کر نیچے اُترا تو سید حامد شاہ صاحب نے کہا کہ ایک مہینے کی خدمت کا ثواب آپ نے لے لیا۔ گویا حضور کے نزدیک آپ ایک مہینہ سے آئے ہوئے ہیں۔اور میر حامد شاہ صاحب نے یہ بھی ذکرکیا کہ ایک عورت خادمہ حضور کو کھاناکھلاتی رہتی اور اس کے اولاد نہ تھی۔ اس لئے دعا کے لئے عرض کرتی رہی ۔ ایک دفعہ پھر جو اس نے دعا کے لئے دس پندرہ دن بعد عرض کی ۔ تو حضور نے فرمایا تم کہاں رہی تھیں ۔ اس نے کہا میں تو حضور کو دونوں وقت کھانا کھلاتی ہوں ۔فرمانے لگے اچھاتم کھانا کھلانے آیا کرتی ہو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کو ایسا انہماک کبھی کبھی خاص استغراق کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ ہمیشہ یہ کیفیت نہ ہوتی تھی۔ گو ویسے حضرت صاحب کی یہ عام عادت تھی کہ آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر ادھر ادھر زیادہ نہیں دیکھا کرتے تھے ۔
{1149} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عہد مبارک میںایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیاجواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے) ۔ مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط وکتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا ۔ تو میںنے حضرت صاحب سے جاکر عرض کر دی ۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصرجب حضور معمولاً مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کااظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں ۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔
{1150} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا۔ کہ میں اکثر دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو کھانا پکا کر کھلاتی تھی ۔ جس دن کوئی اچھا کھانا ہوتا تو آپ اس پر بہت خوش ہوتے۔ اور اُس دن مجھے اس میں سے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتے۔ اور میں وہ کھانا بعض دفعہ خود کھا لیتی اور اکثر دفعہ حافظ حامد علی صاحب کو دے دیتی ۔
{1151} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم مختارعام سنور ریاست پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت میری عمر قریباً۵۴سال کی ہے ۔ میں گو بہت چھوٹی عمر کا بچہ تھا اور ابھی بولنے نہیں لگاتھا۔ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گھر سنور تشریف لائے تھے۔ مجھے اس وقت کا نظارہ صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی شخص آیا تھا۔ لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور مجھے گودمیں لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا میں ہزار ہزار شکر اد اکرتاہوں کہ یہ نعمت مجھے ملی ۔ شاذ کے طور پر جماعت میں کوئی اور بھی ہوگا جس کو حضور علیہ السلام کی گود میں کھیلنے کا فخر حاصل ہو۔
والد صاحب مرحوم نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا۔ کہ اپنے مکان میں جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے اس جگہ پر بیٹھ کر دعا کرنے کے لئے احمدیوں کے خطوط آتے رہتے تھے ۔ مگر میںنے کسی کو اجازت نہیں دی کہ کہیں رفتہ رفتہ رسم نہ ہوجائے۔ یا شاید کچھ اور فرمایا تھا مجھے یاد نہیں ۔
پھر جب میں کچھ بڑا ہوگیا اور سکول میں جانا شروع کردیا تو میرے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پھر پٹیالہ تشریف لائے ۔ لوگ زیارت کے لئے جانے شروع ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے تھے کہ چلو پٹیالہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں ۔ اُن کو دیکھنا ہے ۔ میں نے بڑے تعجب کے ساتھ اُن کو کہا کہ وہ مرز اکیسا ہے جن کو دیکھنے پٹیالہ جانا ہے ۔ ہمارے محلہ میں بھی تومرزے رہتے ہیں اُن کو تو دیکھنے کوئی نہیں جاتا( ہمارے محلہ میں چند مغل رہتے ہیں جن کو مرز اکہتے ہیں) لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے بھی شوق پید اہوا۔ میں بھی پٹیالہ پہنچ گیا۔ جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ کی زیارت کی ۔
پھر جب میں کچھ اور بڑا ہوگیا اور پانچویں چھٹی جماعت میں تعلیم حاصل کرنے لگا تو لوگوں میں عام چرچا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا ہونے لگا۔ کوئی اعتراض کرتا ہے،کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ سب کو اپنی اپنی بولیاں بولتے سنا کرتا تھا۔ مجھے اس وقت اتنی بھی خبر نہ تھی کہ حضور کا دعویٰ کیا ہے ۔ اور نہ ہی میں اُن دنوں احمدی ہی ہوا تھا(اُس زمانہ میں ہم حضرت صاحب کے ماننے والوں کو مرزائی کہا کرتے تھے) میری طبیعت بہت ڈگمگاتی رہتی تھی۔ کبھی مخالفین کی باتوں کا دل پر اثر اور کبھی موافقین کی باتوں کا اثر ہوتا تھا۔ غرضیکہ دل ایک طرف قائم نہ رہتا تھا۔ ایک رات کو سوتے سوتے بڑے زور کے ساتھ متواتر دو تین دفعہ یہ آوازآئی۔’’کیا کوئی مرکر بھی زندہ ہوا ہے۔ لامہدی الا عیسٰی یہی ہے۔‘‘ اس آواز کے بند ہونے کے معاً بعد دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آمنے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں۔ اور میرے والد صاحب مرحوم قریب کھڑے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد تینوں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اوپر ہیں اور نیچے نیچے والد صاحب ہیں۔ جب آسمان کے قریب پہنچے تو آسمان پھٹ گیا اورتینوں داخل ہوگئے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ یہ آواز اور نظارہ بچپن سے ہی میرے دل میں میخ کی طرح گڑا ہوا ہے میں اُسی وقت سے آپ پر ایمان لے آیا کہ یہ نبی ہیں۔ اور اس کا اتنا گہرا اثر خد اکے فضل سے آج تک ہے کہ کبھی ظلی بروزی کی بحث میں نہیں پڑا۔
{1152} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر میں نقرس کا درد تھا۔ میں بھی وہیں بیٹھا تھا ۔ فرمانے لگے کہ ایک بزرگ کے پیر میں نقرس کا درد تھا ۔ انہیں الہام ہوا کہ کدو کھاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اس سے معلوم ہوا کہ خد اتعالیٰ سبب کے ذریعہ ہی کام کرتا ہے ۔ فرمایا نہیں۔ بے سبب بھی کرتا ہے ۔
{1153}بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ بمقام سرہند مجدد الف ثانی کے عرس میں ایک مولوی وعظ کررہا تھا کہ ایک عیسائی نے کہا کہ دیکھو ہمارا یسوع آسمان پر ہے اور تمہارا پیغمبر زمین میں ۔ تو اس عیسائی کو جواب دیا گیا کہ۔
ع حُباب برسر آب و گہر تہ دریا است
حضور نے مجھ سے یہ قصہ سن کر فرمایا ’’ طفل تسلیاں ہیں ‘‘
{1154} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ ہم نے ایک باغیچہ لگا یا ہے ۔ آؤ آپ کو دکھاتے ہیں ۔ آپ مجھے اپنے زنانہ مکان میں لے گئے اور وہاں اپنے کتب خانہ میں بٹھا دیا کہ یہ باغیچہ ہے ۔ تمام عربی کتب تھیں ۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ متکلمین کی کتابیں اوپر نیچے رکھی تھیں۔ سب سے اوپر براہین احمدیہ تھی۔ اس کے نیچے حجتہ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ صاحب اور اس کے نیچے اور کتابیں تھیں۔ میں نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا یہ ترتیب اتفاقی ہے یا آپ نے مدارج کے لحاظ سے لگائی ہے ۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے خیال میں درجہ وار لگائی ہے ۔ پھر مجھے الماری کے نیچے مولوی صاحب کے دستخطی کچھ عربی میں لکھے ہوئے کاغذ ملے جو پھٹے ہوئے تھے ، میں وہ نکال کر پڑھنے لگا۔ آپ نے منع فرمایا ۔ میںنے کہا کہ قرآن شریف کی تفسیر معلوم ہوتی ہے ۔ فرمانے لگے۔ کیا پوچھتے ہو۔ میں نے منطق الطیر کی تفسیر کی تھی۔ نہایت ذوق وشوق میں۔ اور میں سمجھتا تھا کہ میں اس مسئلے کو خوب سمجھاہوں ۔ لیکن کل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے منطق الطیر پر تقریر فرمائی ۔ تو میں بہت شرمندہ ہوا اور میں نے آکر یہ مضمون پھاڑ ڈالا اور اپنے آپ کو کہا کہ تُو کیا جانتا ہے ۔
{1155} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے۔ تو میں اوپر کوٹھے پر گیا ۔ حضور تنہائی میں بہت لمبی نما زپڑھتے تھے اور رکوع سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالباً مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی ۔ حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا۔ کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضور نے فرمایا ۔ اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔ میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں ۔وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔
{1156} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی اروڑا صاحب کے پاس کپور تھلہ میں خط آیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ قتل بن گیا ہے ۔ وہ فوراً روانہ بٹالہ ہوگئے اور ہمیں اطلاع تک نہ کی ۔ میں اور محمد خان صاحب تعجب کرتے رہے کہ منشی صاحب کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں۔ ہمیں کچھ گھبراہٹ سی تھی ۔ خیر اگلے دن میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہوگیا۔ بٹالہ جاکر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ اور مارٹن کلارک والا مقدمہ بن گیا ہے ۔ ابھی میں حضور کی قیام گاہ پر جاکر کھڑا ہی ہوا تھا کہ حضور نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا اور نہ میں نے حضور کو دیکھا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ منشی ظفر احمد صاحب کو بلا لو ۔میں حاضر ہوگیا ۔ منشی اروڑا صاحب کی عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دابتے رہتے تھے۔ اُس وقت منشی اروڑا صاحب کسی ضرورت کے لئے اُٹھ کر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ مقدمہ کے متعلق میں کچھ لکھانا چاہتا ہوں آپ لکھتے جائیں اور اس بات کا خیال رکھنا کہ کوئی لفظ خلاف قانون میری زبان سے نہ نکل جائے۔ گو میں نے سینکڑوں فیصلے ہائی کورٹوں کے پڑھے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر تمہارے خیال میں کوئی ایسا لفظ ہو تو روک دینا۔ غرض آپ لکھاتے رہے اور میں لکھتا رہا اور میں نے عرض کی کہ منشی اروڑا صاحب کو قانون کی زیادہ واقفیت ہے ۔ انہیں بھی بلا لیا جائے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ مخلص آدمی ہیں اگر ان کو رخصت ملتی تو بھلا ممکن تھا کہ وہ نہ آتے۔ میںنے ذکر نہ کیا کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ منشی اروڑا صاحب کو جب علم ہوا تو وہ کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہ بتایا کہ وہ تو کل کا آیا ہوا ہے ۔ میں نے کہا ۔ تم ہمیں اطلاع کر کے کیوں نہ آئے تھے۔ اب دیکھ لو۔ ہم حاضر ہیں اور آپ غائب ہیں ۔ غرض ہم اس طرح ہنستے رہتے ۔
{1157} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جماعت علی شاہ صاحب نے منشی فاضل کا امتحان محمد خان صاحب مرحوم کے ساتھ دیا تھا۔ اس تعلق کی وجہ سے وہ کپور تھلہ آگئے ۔ محمد خان صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اُن سے ذکر کیا اور کچھ اشعار کا بھی ذکر ہوگیا۔ جماعت علی شاہ صاحب نے کہا کہ نظامی سے بڑھ کر فارسی میں کوئی اور لکھنے والا نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ کوئی شعر نظامی کا نعت میں سناؤ۔ انہوںنے یہ شعر پڑھا
فرستادہ خاص پروردگار
رسانندۂ حجتِ اُستوار
میں نے حضرت صاحب کا یہ شعر انہیں سنایا
صدر بزم آسمان وحجۃ اللہ بر زمیں
ذات خالق را نشان بس بزرگ اُستوار
وہ کہنے لگا کہ کوئی اردو کا شعر بھی آپ کو یاد ہے میںنے اس کو قرآن شریف کی تعریف میں حضور کے اشعار سنائے ۔
اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہو کہ میرے پاس آئیں
میرے منہ پر وہ بات کر جائیں
مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں
آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یونہی امتحان سہی
وہ کہنے لگا ۔ اہل زبان اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔ جماعت علی شاہ صاحب کے پاس ایک مسمریزم کی کتاب تھی اور وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارے کھانے کمانے کا شغل ہے ۔
{1158} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک دفعہ لاہور میں لیکچر تھا تو اس موقعہ پر مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس مکان کے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے جو مسجد احمدیہ کے سامنے ہے ۔ میں بھی سکول سے رخصت لے کر لاہور پہنچ گیا ۔ لیکچر کے موقعہ پر ایک عجیب نظارہ تھا۔ جگہ بجگہ ملاں لوگ لڑکوں کو ہمراہ لئے شور مچاتے پھرتے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے تھے کہ لیکچر میں کوئی نہ جائے مگر وہاں یہ حالت تھی کہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ حضور کے نورانی چہرہ میں ایک عجیب کشش تھی۔ جب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت شور مچ گیا۔ ہر ایک دوسرے کو منع کرتا ۔ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے تلاوت شروع کی ۔ جھٹ خاموشی ہوگئی پھر حضور نے تقریر فرمائی جو آخر تک توجہ سے سنی گئی۔ لیکچر سننے کے بعد میں بھی اُس بالا خانہ میں چلا گیا۔ جہاں حضور فرش پر ہی بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔ (یہ مجھے یاد نہیں) میں پاؤں دبانے لگ گیا۔ اس وقت ایک شخص نے سوال کیاکہ حضور میں گنڈے تعویذ کرتا ہوں۔ میرے لئے کیا حکم ہے ۔ میرا گذارہ اسی پر ہے مجھے اب یاد نہیں رہا ۔ کہ حضور نے اس کو کیا جواب دیا۔ البتہ ایک مثال حضور علیہ السلام نے جو اس وقت دی تھی وہ مجھے اب تک یاد ہے ۔ حضور نے فرمایا! کہ دیکھو ایک زمیندار اپنی زمین میں خوب ہل چلاتا ہے اور کھاد بھی خوب ڈالتا ہے اور پانی بھی خوب دیتا ہے اور بیج بھی عمدہ ہوتا ہے ۔ یہ سب اس کے اپنے اختیار کی باتیں ہیں۔ بیج کا اگنا، بڑھنا یہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ وہ اُگنے ہی نہ دے ۔
{1159} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ لدھیانہ میں تشریف لائے ۔ رمضان شریف کامہینہ تھا ۔ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب حضور دہلی سے تشریف لائے تھے۔ شاید۱۹۰۵ء کا ذکر ہے یاا س سے پہلے کا۔ میں بھی والد صاحب مرحوم کے ساتھ لدھیانہ پہنچ گیا۔ گاڑی کے آنے پر وہ نظارہ بھی عجیب تھا۔ باوجود مولوی ملانوں کے شور مچانے کے کہ کوئی نہ جائے ۔ وہ خود ہی زیارت کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے تھے ۔ اسٹیشن کے باہر بڑی مشکل سے حضور علیہ السلام کو بگھی میں سوار کرایا گیا۔ کیونکہ آدمیوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا۔ جائے قیام پر حضور علیہ السلام مع خدام ایک کمرہ میں فرش پر ہی تشریف فرما تھے۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کی کہ لوگ زیارت کے لئے بہت کثرت سے آرہے ہیں۔ حضور کرسی پر بیٹھ جائیں تو اچھا ہے ۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ کرسی لائی گئی۔ اور اس پر آپ بیٹھ گئے ۔ دہلی کے علماء کا ذکر فرماتے رہے۔ جو مجھے یاد نہیں۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) غرض خود کو معلوم ہوگیا کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں۔ حضور نے فرمایا میاں عبداللہ! خداکا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے ۔ آپ سب روزے افطار کر دیں ۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے ۔ اگلے روز حضور کا لیکچر ہوا۔ دوران تقریر حضورباربار عصا پر ہاتھ مارتے تھے۔ تقریر کے بعد ایک فقیر نے حضور علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک خواب بیان کی۔ حضور نے قادیان سے حضرت خلیفۃ المسیح اول کو بلانے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ بھی جلدی ہی لدھیانہ پہنچ گئے ۔حکیم صاحب نے فرمایا۔ ہم تو حکم ملتے ہی چلے آئے ،گھر تک بھی نہیں گئے ۔
{1160} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب قبول کیا تھا۔ کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اد اکرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن ا س طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم ومغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کا نتیجہ تھا۔ اس کا مفصل ذکر حضرت خلیفہ اولؓ کے خطبہ نکاح میں درج ہے جو اخبار بدر میں شائع ہوچکا ہے ۔
{1161} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری اہلیہ تو میرٹھ گئی ہوئی تھی۔ گھر خالی تھا ۔ تین دن کی تعطیل ہوگئی۔ دیوانی مقدمات کی مسلیں صندوق میں بند کر کے قادیان چلا گیا۔ وہاں پر جب تیسرا دن ہوا تو میںنے حضور کی خدمت میں عرض کی ۔ کہ حضور تعطیلیں ختم ہوگئی ہیں۔ اجازت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا۔ ابھی ٹھہرو۔ تھوڑے دنوں کے بعد منشی اروڑے صاحب کا خط آیا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے۔ مسلیں ندارد ہیں تم فوراً چلے آؤ۔ مجھے بہت کچھ تاکید کی تھی۔ میںنے وہ خط حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے فرمایا ۔ لکھ دو ۔ابھی ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ میں نے یہی الفاظ لکھ دئیے کہ انہی میں برکت ہے۔ پھر میں ایک مہینہ قادیان رہا۔ اور کپورتھلہ سے جو خط آتا۔ میں بغیر پڑھے پھاڑ دیتا۔ ایک مہینہ کے بعد جب آپ سیر کو تشریف لے جانے لگے تو مجھے فرمانے لگے کہ آپ کو کتنے دن ہوگئے ۔ میںنے کہا حضور ایک ماہ کے قریب ہوگیا ہے ۔ تو آپ اس طرح گننے لگے ۔ ہفتہ ہفتہ آٹھ اور فرمانے لگے ۔ہاں ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا۔ اچھا اب آپ جائیں ۔ میں کپورتھلہ آیااور عملہ والوں نے بتایا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے ۔ میں شام کو مجسٹریٹ کے مکان پر گیا کہ وہاں جو کچھ اس نے کہنا ہوگا وہ کہہ لے گا۔ اس نے کہا آپ نے بڑے دن لگائے اور اس کے سوا کوئی بات نہ کہی ۔ میںنے کہا کہ حضرت صاحب نے آنے نہیں دیا۔ وہ کہنے لگا ان کا حکم تو مقدم ہے ۔ تاریخیں ڈالتا رہاہوں ۔ مسلوں کو اچھی طرح دیکھ لینا اور بس ۔ میں ان دنوں ایک سر رشتہ دار کے عوض کام کرتا تھا۔
{1162} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سررشتہ دار تھے۔ اور میں اپیل نویس تھا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے عرض کی کہ حضور مجھے اپیل نویس ہی رہنے دینا ہے؟ فرمایا کہ اس میں آزادی ہے ۔آپ ایک ایک دو ماہ ٹھہر جاتے ہیں۔ پھر خود بخود ہی فرمایا کہ ایسا ہو کہ منشی اروڑا صاحب کہیں اور چلے جائیں (مطلب یہ کہ کسی اور آسامی پر) اور آپ اُن کی جگہ سر رشتہ دار ہوجائیں ۔ اس سے کچھ مدت بعد جبکہ حضور علیہ السلام کا وصال ہوچکا تھا۔ منشی اروڑا صاحب تو نائب تحصیلدار ہو کر تحصیل بھونگہ میں تعینات ہوگئے اور میں ان کی جگہ سررشتہ دار ہوگیا۔ پھر منشی صاحب مرحوم نائب تحصیلداری سے پنشن پاکر قادیان جا رہے ۔ اور میں سر رشتہ داری سے رجسٹراری ہائی کورٹ تک پہنچا اور اب پنشن پاتاہوں ۔ بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا کے کوئی بات فرمادی ہے اور پھر وہ اُسی طرح وقوع میں آگئی ہے ۔
{1163} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لے آئے ۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟اور اسی وقت منتظم کو بلوایااور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میںنہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیارکیاجائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھاناکھا چکا تھا اور اذان بھی ہوگئی تھی ۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو۔
{1164} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب مرحوم سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ماموں قادر بخش صاحب مرحوم(والد مکرم مولوی عبد الرحیم صاحب درد) نے والد صاحب مرحوم سے بہت خواہش کی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہمارے گھر لائیں۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ حضرت صاحب نے مکان پر جانے سے کئی ایک کو جواب دے دیا ہے۔ ماموں صاحب نے پھر کہا ۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ اچھا ہم لے آتے ہیں۔ مگر۔؍۲۵ روپیہ لوں گا۔ ماموں صاحب نے خوشی سے۔؍۲۵ روپے دینے منظور کر لئے۔ والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اچھا۔ حضور کے بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کرو۔ میں جاتا ہوں۔ چنانچہ میں اور والد صاحب ماموں صاحب کے مکان سے اُٹھ کر شہر کی طرف آئے۔ والد صاحب راستے میں ہی بگھی کا انتظام کر کے اس کو ساتھ لے گئے۔ حضور اس وقت اندر تشریف فرما تھے۔ والد صاحب نے ڈیوڑھی کے دروازے پر دستک دی اور حضور باہر تشریف لے آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے۔ میاں عبد اللہ کیا ہے ۔ والد صاحب نے عرض کی۔ حضور مکان تک تشریف لے چلیں۔ حضور نے فرمایا اچھا سواری کا انتظام کرو۔ والد صاحب نے عرض کی کہ سواری تیار ہے ۔ چنانچہ حضور بگھی میں بیٹھ گئے۔ اور ہم سب ماموں صاحب کے مکان پر پہنچ گئے ۔ ماموں صاحب نے کچھ پھل پیش کئے ۔ والد صاحب نے ماموں صاحب سے وہ۔؍۲۵ روپیہ لے کر پھلوں میں رکھ دئیے۔ اس وقت کئی مستورات نے بیعت کی۔ دعا کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے گئے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب میاں عبد اللہ سنوری کے ساتھ مکان پر گئے تھے۔ اور حضور کے تشریف لے جانے میں تعجب کرتے رہے ۔ کیونکہ تشریف لے جاتے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ زمانہ گذر گیا۔ لیکن جس سادگی کے ساتھ حضور دستک دینے پر تشریف لائے تھے۔ اس کا ایک گہرا اثر اس وقت میرے دل پر ہے ۔
{1165} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولدمیاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ میں ایک دفعہ بہت سخت بیمار ہوگیا۔ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا کہ اب یہ صرف چند دن کا مہمان ہے کسی دوائی کے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ والد صاحب مرحوم نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں اس وقت اپنی حالت کیسی رکھوں حضور کے دست مبارک سے لکھا ہوا جواب پہنچ گیا۔ کہ اگر یہ موت نہ ہوئی تو میری دعا قبولیت کو پہنچ گئی۔ کیونکہ دعا کرنے کے بعد یہ خط لکھا ہے ۔ حضور کا یہ خط ابھی سنور پہنچا نہ تھا کہ رات کو مجھے آرام سے نیند آگئی کہ گویامیں بیمار ہی نہ تھا۔ صبح کو والد صاحب نے میری حالت کی بابت دریافت کیا ۔ میں نے کہا کہ میری حالت بہت اچھی ہے ۔ کوئی تکلیف نہیں ۔ والد صاحب مرحوم نے جوش کے ساتھ فرمایا۔ کہ رحمت اللہ گواہ رہنا ۔ آج کا دن یاد رکھنا۔ حضرت صاحب نے تمہارے لئے دعا کر دی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ ڈاکٹر وحکیم نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ کسی مریض کا نہیں بلکہ یہ تو بالکل تندرست آدمی کا قارورہ ہے اور وہ بہت حیران تھے۔ کہ ایک دن میں ایسی حالت کا تغیر کیسے ہوگیا۔ حضور کا جب خط آیا تو ہفتہ کے روز کی تاریخ کا تھا۔ اور مجھے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو کلی طور پر صحت ہوگئی تھی۔ میں حضور کی دعا کی قبولیت کا زندہ نشان ہوں۔ افسوس حضرت اقدس کا یہ خط اور واسکٹ کا ٹکڑا جو میں نے تبرکًا رکھے ہوئے تھے ،گم ہوگئے ہیں ۔
{1166} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے کئی خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے کئی اوراق پر اپنے قلم سے درج فرمائے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے غالباً مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے کسی نے اشتہار دیا اور اس میں اپنے خواب اور کشوف درج کئے۔ اس پر حضرت صاحب نے مجھے رقم فرمایا کہ آپ نے جو خواب دیکھے ہیں وہ اس کے جواب میں آپ اشتہار کے طور پر شائع کریں۔ چنانچہ آپ کے فرمودہ کے مطابق میںنے اشتہار شائع کردیا جس کی سرخی یہ تھی ۔
؎ الااے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا داغے کہ من درسینہ دارم تُو کجا داری
وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے ۔
(۱) بیعت اولیٰ کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا فضل کرے۔ مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔
(۲) اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی ۔ حسّو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے ۔ اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار) یارسول اللہ !آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں۔ اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں ۔ میری روح تازہ ہوجاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایاکہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنائیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
(۳) ایک دفعہ میں مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہّد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا ۔
(۴) ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے مَیں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کردیا۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں ۔
(۵) ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے ۔ وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پربیٹھا تھا۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں۔ چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا۔ جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنااور تمام بدیوں سے پرہیز کرنا۔ میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کے لئے اس شخص کی طرف گیا جو جرنیلی وردی پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا ۔
(۶) ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطّر ہوگیا ۔ میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوںنے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے ۔ جس کی وجہ سے مکان معطّر ہے۔ میں نے کہا میںنے کوئی خوشبو نہیں لگائی۔
(۷) ایک دفعہ میںنے خواب میں حضرت عمر ؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ۔ آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے ۔ جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ۔ تو آپ نے جواب میں فرمایاکہ فاروق ؓ کی زیارت سے دین میں استقامت اور شجاعت پید اہوتی ہے ۔
{1167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف مانا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر دباتا تھااور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا۔ مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا۔ مجھے روٹی نہیںملی ۔ کتے لپٹ گئے ۔ مجھے سالن کم ملتا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے۔ اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضور سن لیتے۔ ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے کواڑ کھول دئے ۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ میںنے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت سست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے۔ ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں۔ تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہوگئی تھی۔
{1168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردارسفید پوش چک نمبر۹شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء کے قریب یااس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پا س موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دئیے ہیں۔
{1169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلاً کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کردیتا ہے یاکوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خد اتعالیٰ ہمارے گھر میں آگیا ہے ۔
{1170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۸۹۸ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔ میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔ مجھے کمزوری تو بہت تھی ۔ مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا۔ اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کو دوگنا ثواب ملے گا ۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔
{1171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسالہ توفیقات قمریہ میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سن پیدائش سے لے کر چودھویں صدی کے آخر تک شمسی اور قمری تاریخوں کا مقابلہ کیا ہے، موٹے طور پر ان تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔
(۱) قمری مہینہ کی اوسط مقدار ۲۹دن۱۲گھنٹے ۴۴منٹ اور قریباً۷؍۶ء ۲سکینڈ (۲۹۸۶۴۹۷۶سکینڈ) ہوتی ہے اور جو فرق تدریجی طور پر چاند کی رفتار میں نمودار ہورہاہے وہ اس اندازہ پر چنداں اثر انداز نہیں۔
(۲) یکم محرم1ھ کا دن جمعہ تھا ۔ جیسا کہ محمد مختار باشا مصری کی کتاب تو فیقات الہامیہ سے اور مغربی مصنفین کے شائع کردہ دیگر تقویمی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ محمد مختار باشا اپنی کتاب مذکور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اقوال شرعیہ اور حسابی طریق سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یکم محرم 1ھ کو جمعہ کا دن تھا۔
(۳) یہ تقویمی نقشہ مختلف واقعات زمانہ گذشتہ وزمانہ حال کی معین طور پر معلوم تاریخوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔
آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیدائش کے دن پر جو نوٹ لکھ کر الفضل مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں شائع کروایا تھا۔ اپنے سامنے رکھ کر بھی میں نے اس تقویمی نقشہ کو دیکھا ہے اور اس کے مطابق پایا ہے ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ یکم محرم 1ھ بروز جمعہ سے لے کر۱۴شوال ۱۲۵۰ھ تک کے دن مذکور بالا اوسط کی رو سے۴۴۲۸۸۳ہوئے ۔ جو سات پر پورے تقسیم ہوتے ہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۴شوال ۱۲۵۰ھ کو بھی جمعہ ہی کا دن تھا کیونکہ اس عرصہ کے کل قمری مہینے ۱۴۹۹۷ہوتے ہیں۔ اور جب اس عدد کو مذکورہ بالا اوسط ماہانہ سے ضرب دی جائے تو حاصل ضرب۴۴۲۸۷۰ہوتا ہے ۔ اور جب اس میں یکم شوال کے اوپر کے۱۳دن جمع کئے جائیں تو جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے تو۱۴شوال تک کے کل دنوں کی تعداد۴۴۲۸۸۳ہوتی ہے ۔اور یہ عدد سات پر پورا تقسیم ہوتا ہے ۔ پس جو دن یکم محرم ۱ ھ کو تھا وہی دن۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کو تھا۔ سو چونکہ یکم محرم۱؍ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس لئے۱۴؍شوال۱۲۵۰ ہجری کو بھی جمعہ ہی تھا۔ نیز۱۳؍فروری۱۸۳۵ عیسوی بروز جمعہ کو قمری تاریخ۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کا ہونا حسابی طریق سے بھی ثابت ہے ۔ کیونکہ قمری مہینہ کااوسط ۵۳۰۵۸۸۷۱۵ء ۲۹دن یعنی۲۹دن ۱۲گھنٹے ۴۴منٹ ۶۲۵۰۰÷۵۴۰۶۱؍۲ہوتی ہے ۔ اور یہ یکم شوال ۱۲۵۷ہجری سے لے کر یکم شوال ۱۳۵۷ھ تک کا عرصہ ۱۲۸۴ماہ کا ہوتا ہے ۔ جسے مذکورہ بالا اوسط میں ضرب دینے سے حاصل ضرب۲۷۵۹۱۰۰۶ئ۳۷۹۱۷(دن ) ہوتا ہے ۔ جس کی اعشاریہ کی کسر کو( جو اس قابل نہیں کہ اسے ایک دن شمار کیا جائے) چھوڑ کر باقی رقم کو ہفتہ کے دنوں کے عدد یعنی سات پر تقسیم کرنے سے پانچ دن باقی بچتے ہیں۔ یعنی عرصہ۵۴۱۵ہفتہ اور پانچ دن کا ہوتا ہے ۔ اور یہ یقینی بات ہے کہ یکم شوال ۱۳۵۷ھ کا یعنی سال رواں کا عید الفطر کا دن پنج شنبہ تھااور جب ہم پنج شنبہ سے پانچ دن پیچھے جائیں تو شنبہ یعنی ہفتہ کا دن ہوتا ہے۔ پس یکم شوال ۱۲۵۰ھجری کو ہفتہ کا دن تھا۔ اس لئے ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ ہجری کو جمعہ کا دن تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ الفضل مورخہ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں میرا جو مضمون شائع ہوا تھا وہ روایت نمبر۶۱۳میں درج ہے ۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش بروز جمعہ ۱۴؍شوال۱۲۵۰؍ھجری بمطابق۱۳؍فروری۱۸۳۵عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ثابت کی گئی ہے ۔
{1172} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یاکاپی لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس اندر گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے ۔ ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو۔ میںنے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی ۔ تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ ۔ ملنے والوں کو بلا لاؤ ۔میںنے باہر جاکر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ۔
{1173} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ ڈونگے دالان کے صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے ۔ حضور نے اندر بلوالیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا۔ جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں ،جواب نہیں دے سکیں گے ۔ مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑدیا۔ حضور فوراً لحاف اُتار کر اُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھرکبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا۔
{1174} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یاشاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے۔ تو انہوںنے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خداتعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب بھی ہے۔ یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو۔
{1175} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی بات کی بابت عرض کیا کہ اس میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا کہ میاں تم اللہ تعالیٰ کے نام ’’ مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب‘‘ کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔
{1176} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ خاکسار۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا۔ ایک رات میںنے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے۔ جنہوںنے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ۔ منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا۔ خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریباًساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے ۔ اور بعض اور اصحاب بھی تھے ۔ اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ۔ ’’یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ‘‘
{1177} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحا ق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک خط لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں گیا۔ حضور اس وقت اس دالان میں جو بیت الدعا کے متصل ہے، زمین پر بیٹھ کر اپنا ٹرنک کھول رہے تھے۔ اس لئے مجھے فرمایا کہ خط پڑھو، اس میں کیا لکھا ہے میںنے حضور کو وہ خط پڑھ کر سنایا ۔ حضور نے فرمایا کہ کہد دو کہ خضر انسان تھا۔ وہ فوت ہوچکا ہے ۔
{1178} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور میں مستری موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور! غیر احمدی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا اور یہ کہ حضور جب قضائے حاجت کرتے تو زمین اسے نگل جاتی۔ جواب میں حضور نے ان دونوں باتوں کی صحت سے انکار کیا۔
{1179 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بٹالہ ایک گواہی کے لئے گئے۔یہ سفر حضور نے رتھ میں کیا۔ میں بھی علاوہ اور بچوں کے حضور کے ہمراہ رتھ میں گیا۔ راستہ میں جاتے وقت حضور نے اعجاز احمدی کا مشہور عربی قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ رتھ خوب ہلتی تھی۔ اس حالت میں حضور نے دو تین شعربنائے ۔
{1180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد مبارک میں جو ابھی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان مرحوم اور میں ،صرف ہم تینوں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے شاہ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب! حضرت صاحب دے پرانے زمانے دی کوئی گل سناؤ ۔ شاہ صاحب نے ایک منٹ کے وقفہ کے بعد کہا کہ ’’اس پاک زاد دا کی پُچھ دے او‘‘ اس کے بعد ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی آمد تھی۔ اور بڑے مرز اصاحب صفائی اور چھڑکاؤ کرا رہے تھے ۔ تو میرے اس کہنے پر کہ آپ خود تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ۔ بڑے مرزا صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرے کے دروازے پر گئے ۔ اندر حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور تین طرف تین ڈھیر کتابوں کے تھے اور ایک کتاب ہاتھ میں تھی اور پڑھ رہے تھے ۔مرزا صاحب نے کہا ۔ آؤ دیکھ لو ایہہ حال ہے اسدا۔ میں اس نوں کم کہہ سکدا ہاں ؟ میرے اس بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ قادیان کے پرانے لوگ بھی حضرت صاحب کو باخد ا سمجھتے تھے۔
{1181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ڈوئی امریکہ کا رہنے والا مطابق پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فوت ہوا۔ تو میںنے اسی دن ،جب یہ خبر آئی حضور سے عرض کیا کہ حضور ڈوئی مر گیا؟ فرمایا ’’ہاں میںنے دعا کی تھی‘‘ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ پیشگوئی جو دعا کے بعد الہام ہوکر پوری ہو وہ بہ نسبت اس پیشگوئی کے جس میں دعا نہ ہو اور صرف الہام ہو کر پوری ہو، خدا تعالیٰ کی ہستی کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کرنے والی ہے۔ کیونکہ اس میں خد اتعالیٰ کا متکلم ہونے کے علاوہ سمیع اور مجیب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
{1182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دن حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرے ۔ڈریس کے بعد جب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔ تو میں نے نزدیک ہو کر کہا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وہ گھوڑے سے گرنے والی پیشگوئی ظاہری رنگ میں پوری ہوئی۔ میرا مطلب اس بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس پیشگوئی کا علم مجھے بھی تھا۔
{1183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آ ف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الر حمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین سکنہ بھین نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ فوجداری دائر کیا ہو اتھا۔ حضرت صاحب اس کے متعلق اپنا الہام شائع کرچکے تھے کہ ہمارے لئے ان مقدمات میں بریت ہوگی۔ لیکن جب ایک لمبی تحقیقات کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہوا کہ آتمارام مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی ۔ اس سے فوراً ہی بعد ایک اور مقدمہ کی پیشی کے لئے حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے۔ جماعت امرتسر ریلوے سٹیشن پر حاضرہوئی۔ میں بھی موجود تھا۔ اس وقت میاں عزیز اللہ صاحب منٹو وکیل احمدی نے عرض کیا۔ کہ حضور لوگ ہم کو بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہامات غلط ہوگئے۔ بریت نہ ہوئی۔ حضور کا چہرہ جوش ایمان سے اور منور ہوگیا۔ اور نہایت سادگی سے فرمایا ’’یہ شتاب کار لوگ ہیں۔ ان کو انجام دیکھنا چاہئے ۔ ‘‘ چنانچہ بعد میں اپیل میں حضور بری ہوگئے ۔
{1184} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد حسین صاحب پنشنردفتر قانون گو نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا ۔ کہ جنوری۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام احمدیہ چوک سے باہرسیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضور نے فرمایا کہ آج سعد اللہ لدھیانوی کی موت کی اطلاع آئی ہے اور آج عید کادوسرادن ہے ۔ ہمارے لئے خداتعالیٰ نے نشان پورا فرمایا۔ اگر چہ کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن خد اتعالیٰ کے نشان سے خوشی ہوتی ہے اور اس لئے آج ہمارے لئے دوسری عید ہے ۔
{1185} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ۱۹۰۵ء میں مَیں پہلی مرتبہ قادیان آیا اور اکیلے نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضور اس وقت مسجد مبارک میں محراب کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے تھے اور خاکسار حضور کے سامنے بیٹھا تھا۔ حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر رکھ کر میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا تھا۔ حضور کا ہاتھ بھاری اور پُر گوشت تھا۔
{1186} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ غالباً۱۹۰۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے تشریف لائے اور آکر مسجد مبارک میں کھڑے ہوگئے ۔ حضور کے گردا گرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جو سب کے سب حضور کے گرد حلقہ کئے ہوئے کھڑے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ شاید کسی صاحب کو یاد ہوگا کہ ہم نے آگے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھلا یا ہے ۔ اس چھوٹی مسجد(مبارک) سے لے کر بڑی مسجد(اقصیٰ) تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔ اس پر حاضرین میں سے ایک سے زیادہ اصحاب نے تائیداً بتایا کہ ہاں ہمیں یاد ہے ۔ کہ حضور نے یہ بات فرمائی تھی۔ اُن بتانے والوں میں سے جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ ایک تو شیخ یعقوب علی صاحب تھے۔ لیکن دوسرے بتانے والوں کے نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔‘‘
{1187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ پیغمبراسنگھ سب سے پہلے کانگڑہ والے زلزلہ کے دنوں میں جب حضور باغ میں تھے۔ قادیان آیا تھا۔ میں بھی باغ میں تھا ۔ پیغمبراسنگھ میرے پاس آیا ۔ میںنے کہا مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لو گے؟ کہنے لگا! کہ میں تاں مہدی دا پیشاب بھی پین نو تیار ایں ۔ جاؤ لیاؤ میں پیواں ۔ میں خاموش ہورہا ۔ پھر کہنے لگا کہ مجھے ایک جھنڈا بنادو۔ اور اس پر نبیوں کے نام لکھ دو۔میںنے کہا کہ میں پہلے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پوچھوں۔ تب میںنے حضرت صاحب کو عریضہ لکھا کہ پیغمبراسنگھ کہتا ہے کہ مجھے ایسا جھنڈا بنا دو اور کاغذ پر نقشہ بھی کھینچ دیا۔ تب حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا۔ بنادو شاید مسلمان ہو جائے ۔ چنانچہ میں نے لٹھے کے ایک سفید کپڑے پر ایک دائرہ کھینچا۔ اور عین درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کے نیچے حضرت صاحب کانام لکھا۔ یعنی یہ دونوں نام دائرے کے اندر تھے۔ پھر چاروں طرف دائرہ کے خط کے ساتھ ساتھ باقی تمام انبیاء کے نام لکھے اور وہ کپڑا پیغمبراسنگھ کو دے دیا ۔ چنانچہ کچھ مدت بعد پیغمبراسنگھ مسلمان ہوگیا۔ اس کے مسلمان ہونے کے بعد میںنے اسے کہا کہ جب میں نے تمہیں جھنڈا بنا کر دیا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا جھنڈا بناکر دے دو شاید مسلمان ہوجائے ۔ تو یہ سن کر پیغمبراسنگھ بہت خوش ہوا۔ اور دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے ایسا کیا سی ۔ میںنے کہا ۔ہاں کیاسی ۔
{1188} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ آگ کے گولوں والی پیشگوئی جو پچیس دن کے سر پر پوری ہوئی۔ جس دن یہ الہام ہوا۔ تو اندر سے ایک عورت نے مجھے آکر بتلایا کہ آج حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا ہے ۔ اور کہا الہام بیان کرتے وقت ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ’’مائی تابی نہیں فوت ہوگی جب تک اس پیشگوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے۔‘‘ چنانچہ مائی تابی جو اسّی برس کے قریب عمر کی ایک عورت تھی۔ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد فوت ہوئی۔
{1189} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا۔ جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا۔ جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی ۔
{1190} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت پر بہت صدمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدنور صاحب کابلی واپس آگئے تھے اور انہوں نے مفصل حالات عرض کر دئیے تھے۔ شام کی مجلس میں مسجد مبارک کی چھت پر میں بھی حاضر تھا۔ حضور نے فرمایا ہم اس پر ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے حضور کے فارسی اشعار کا شوق تھا۔ میںنے عرض کیا ۔ حضور اس میں کچھ فارسی نظم بھی ہوتو مناسب ہوگا۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں۔ ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا کہ میںنے رنج کے وقت میں شعرگوئی کی فرمائش کیوں کردی ۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی ۔ تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی ۔ جس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضور اپنے ارادے سے شعر گوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ جب خداتعالیٰ چاہتا تھا طبیعت کو اُدھر مائل کردیتا تھا۔
{1191} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم جب بیمارتھے تو ان کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تشویش اور فکر کاعلم ہوتا رہتا تھا۔ جب صاحبزادہ صاحب فوت ہوگئے تو سردار فضل حق صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب مرحوم اور بندہ بخیال تعزیت قادیان آئے۔ لیکن جب حضور مسجد میں تشریف لائے ۔ تو حضور حسب سابق بلکہ زیادہ خوش تھے۔ صاحبزادہ مرحوم کی وفات کا ذکر آیا تو حضور نے فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا۔ میرے مولا کی بات پوری ہوئی ۔ اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ لڑکا یا توجلدی فوت ہوجائے گا یا بہت باخد اہوگا۔ پس اللہ نے اُس کو بلا لیا۔ ایک مبارک احمد کیا۔ اگر ہزار بیٹا ہو اور ہزار ہی فوت ہوجائے ۔ مگر میرامولا خوش ہو۔ اس کی بات پوری ہو۔ میری خوشی اسی میں ہے ۔ یہ حالات دیکھ کر ہم میں سے کسی کو افسوس کے اظہار کی جرأت نہ ہوئی۔
{1192} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب پنشنر کلر ک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کی مجلس میں ایک امرتسری دوست نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مولوی ثناء اللہ بہت تنگ کرتا ہے ۔ اس کے لئے بددعا فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ نہیں ۔وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہمارے دعویٰ کا ذکر اُن لوگوں میں بھی ہوجاتا ہے جو نہ ہماری بات سننے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کھیت کے لئے کھاد کاکام دے رہے ہیں۔ بدبُو سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔
{1193 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کہ ڈونگے دالان میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاپی پڑھ رہے تھے ۔ میں پاس بیٹھا تھا۔ اطلاع آئی کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر پولیس آئے ہیں۔ حضرت صاحب باہر تشریف لے گئے۔ چھوٹی مسجد کی سیڑھیوں کی آخری اوپر کی سیڑھی پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اندر کی طرف کھڑ اتھا۔ حضرت صاحب کودیکھ کر اس نے ٹوپی اتاری اور کہا کہ مجھے لیکھرام کے قتل کے بارہ میں تلاشی کا حکم ہوا ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ بہت اچھا تلاشی میں میں آپ کو مدددوں گا۔ تب حضرت صاحب اور سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر اندر ڈونگے دالان میں گئے۔ میں بھی اندر گیا۔ دالان میں ہم صرف چاروں تھے۔ دالان کے شمال مغربی کونے میں ڈھائی تین گز مربع کے قریب لکڑی کا ایک تخت بچھا تھا ۔ اس پر کاغذات کے پندرہ بیس بستے بندھے پڑے تھے۔ انسپکٹر نے دونوں ہاتھ زور سے بستوں پر مارے، گرد اٹھی۔ انسپکٹر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے انگریزی میں کہا جس کا مطب یہی معلوم ہوتا تھا کہ کسی قدر گرد ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت سے ان کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ انسپکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس دونوں مغرب کی طرف منہ کئے تخت کے پاس کھڑے تھے۔ دونوں کا منہ بستوں کی طرف تھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کئے مغربی دیوار کے ساتھ کھڑا تھا۔ حضرت صاحب مشرقی دیوار کے ساتھ دالان کی لمبائی میں اس طرح ٹہل رہے تھے جیسے کوئی بادشاہ ٹہلتا ہے۔ لکڑی ہاتھ میں تھی اور درمیان سے پکڑی ہوئی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر کی پشت حضرت صاحب کی طرف تھی۔ انسپکٹر سپرنٹنڈنٹ سے باتیں تو کرتا تھا ۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ جو انگریز تھا (شاید لیمار چنڈ اس کانام تھا) اس کا دھیان بالکل حضرت صاحب میں تھا۔ میں دیکھتا تھا جب حضرت صاحب اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ہوکر جنوب کی طرف جاتے تو وہ کنکھیوں سے خفیف سا سر پھیر کر حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ اور جب حضرت صاحب اس کے پیچھے سے ہوکر شمال کی طرف جاتے تو سر پھیر کر پھر کنکھیوں سے حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ وہ بار با ر یہی کچھ کرتا رہا۔ انسپکٹر کی طرف اس کا دھیان نہ تھا۔ پھر تجویز ہوئی کہ باقی مکان کی تلاشی لی جائے ۔
عصر کے بعد گول کمرہ کے باہر کھلے میدان میں کرسیاں بچھائی گئیں۔ ایک پر سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ۔ اس کی دائیں طرف انسپکٹر تھا۔ بائیں طرف حضرت صاحب کرسی پر تھے۔ سامنے اس کے اور سپرنٹنڈنٹ سے پرے محمد بخش تھانیدار بٹالہ تھا۔ حاکم علی سپاہی متعینہ قادیان سپرنٹنڈنٹ کو رومال ہلا رہا تھا۔ درمیان میں زمین پر وہی بستے جو ڈونگے دالان کے تخت پر رکھے ہوئے تھے۔ پڑے تھے ۔ محمد بخش نے ایک کاغذ ایک بستے میں سے نکالا اور مسکراتا ہوا کہنے لگا کہ یہ دیکھئے ثبوت۔ انسپکٹر نے اس کاغذ کو لے کر پڑھا اور کہا یہ تو ایک مرید کی طرف سے پیشگوئی کے پورا ہونے کی مبارکباد ہے اور کچھ نہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کاغذ واپس بستے میں ڈال دیا گیا۔ محمد بخش نے پھر ایک اور کاغذ نکالا وہ بھی اسی قسم کا تھا۔ جو واپس بستہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح کئی کاغذ دیکھے گئے اور واپس کئے گئے ۔ آخر کار دو کاغذ جن میں سے ایک ہندی میں لکھا ہو اتھا۔ اور دوسرا مرزا مام الدین کا خط محمدی بیگم کے متعلق تھا، لے کر عملہ پولیس واپس چلا گیا۔ ایک دو ماہ بعد ایک سکھ انسپکٹر پولیس آیا اور وہی دونوں کاغذ واپس لایا۔ حضرت صاحب نے اس کو ڈونگے دالان میں بلا لیا۔ آداب عرض کرنے کے بعد اس نے ہندی کا خط حضرت کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو جناب کا آٹے وغیرہ کے متعلق دوکاندار کا ٹونبو ہے اور یہ دوسرا کاغذ کس کا ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا ۔مرزا مام الدین کا ہے ۔ انسپکٹر نے کہا کہ اس کے متعلق مرزا ا مام الدین سے پوچھنا ہے کہ کیا یہ تمہارا ہے ۔ اس لئے مرزاامام الدین کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ آدمی بھیج کر مرزا امام الدین کو بلوایا گیا ۔ انسپکٹر نے اس کو خط دکھا کر کہا کہ کیا یہ آپ کا خط ہے ؟ اُس نے صاف انکار کردیا کہ میرا نہیں ۔ تب انسپکٹر نے کاغذ اور قلم دوات منگوا کر مرزا ا مام الدین کو دیا کہ آپ لکھتے جائیں ،میں بولتا جاتا ہوں۔ انسپکٹر نے اس خط کی صرف دو سطریں لکھوائیں۔ پھر امام الدین کے ہاتھ سے لے کر اس کا لکھا ہوا کاغذ لے کر اصل خط کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھنے لگا۔ میں جھٹ انسپکٹر کی کرسی کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور ان دونوں خطوں کو میںنے دیکھ کر انسپکٹر کو کہا کہ یہ دیکھئے قادیان کا نون یا کے اوپر ڈالا گیا ہے اور گول نہیں بلکہ لمبا ہے ۔ اور دوسری تحریر میں بھی بالکل ویسا ہی ہے۔ اور یہ دیکھئے لفظ ’’باریمیں‘‘ کو ’’بارہ میں‘‘ لکھا ہوا ہے اور دوسری تحریر میں بھی ’’بارہ میں‘‘ ہے ۔ مجھے ساتھ لے جائیے۔ میں ثابت کردوں گا کہ یہ دونوں تحریریں ایک شخص کے ہاتھ کی ہی لکھی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر انسپکٹر نے اس خط کو ہاتھ سے پکڑکراوندھا اپنی ران پر مارتے ہوئے کہا کہ ـ’’لجانا کتھے اے پتہ لگ گیا‘‘ جوں ہی انسپکٹر نے یہ کہا تو مرزا امام الدین خود ہی بول پڑا کہ یہ خط میرے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا ہے ۔ سب لوگ جو کھڑے تھے اس کے جھوٹ پر سخت انگشت بدندان ہوئے کہ ابھی اس نے کہا تھا کہ یہ خط میرا نہیں۔ اب کہتا ہے کہ یہ خط میرا ہے ۔ تب انسپکٹر کھڑا ہوگیا اور حضرت صاحب کو وہ خط دے کر جانے کے لئے رخصت طلب کی ۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ میں بطور نج محمدی بیگم کی پیشگوئی کی نسبت جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نواڑی پلنگ کے اوپر کھڑے تھے اور انسپکٹر نیچے زمین پر کھڑا تھا ۔ اسی حالت میں کھڑے کھڑے حضرت صاحب نے تمام قصہ سنایا۔ تب انسپکٹر سلام کر کے رخصت ہوکر واپس چلا گیا۔
{1194} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ ان کے لئے ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ پورٹ وائن ایک چمچہ دی جائے۔ چنانچہ ایک بوتل امرتسر یا لاہور سے منگوائی گئی۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتا تھا جہاں حضور کی دواؤں کی الماری تھی۔ میںنے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تشریف لائے ۔ اُن کے ہاتھ میں بوتل تھی۔ انہوںنے بوتل الماری میں رکھ دی اور مجھ سے فرمایا کہ پیر جی پانی چاہئے ۔ میںنے کہا کیا کروگے؟ کہا کہ ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے۔ پھر ہاتھ دھو لئے ۔
{1195} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں سر کی لیکھ (جو جُوں سے چھوٹی ہوتی ہے) بڑے پاور کی خوردبین میں رکھ کر حضور علیہ السلام کو دکھانے کے لئے لے گیا۔ حضور نے دیکھنے کے بعد فرمایا۔ آؤ میاں بارک اللہ! (مرزا صاحبزاہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم )تمہیںعجائبات قدرت دکھلائیں۔ اس وقت حضور ڈونگے دالان میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔
{1196} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم حجرے میں بیماری کی حالت میں پڑے تھے۔ حجرے کے باہر برآمدہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے۔ اور حضور کے سامنے نصف دائرہ میں چند ڈاکٹر صاحبان اور غالباً حضرت خلیفہ اول بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں پورٹ وائن کی وہی بوتل جو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم کے لئے منگائی گئی تھی پڑی ہوئی تھی۔ میاں مبارک احمد صاحب کے علاج کے لئے دواؤں کی تجویز ہورہی تھی میں بھی ایک طرف کو بیٹھا تھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا! کہ یہ جو حافظ کہتا ہے ۔
آں تلخ وش کہ صوفی ام الخبائث خواند
اشھی لنا واحلی من قبلۃ العذارٰی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعر میں حافظ نے ام الخبائث ترک دنیا کو کہا ہے اور تلخ اس لئے کہا کہ ترک دنیا سے ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی کے جوڑ اور بند اکھاڑ ے جائیں اور ام الخبائث اس لئے کہا کہ جس طرح ماں جننے کے بعد تمام آلائشوں کو باہرنکال دیتی ہے ۔ اسی طرح ترک دنیا بھی انسان کی تمام روحانی آلائشوں کو باہر نکال دیتی ہے ۔ قبلۃ العذارٰی سے مراد ہے دنیا کی عیش وعشرت ۔ پس حافظ صاحب کامطلب یہ ہے کہ دنیا کو حاصل کرنے کی نسبت ہمیں ترک دنیا زیادہ پسندیدہ ہے ۔
{1197} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کانگڑہ والے زلزلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چلے گئے تھے۔ انہی دنوں باغ میں حضرت صاحب کو الہام ہوا۔ ’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت ‘‘عصر کی نماز جب ہوچکی ۔ دوست چلے گئے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مصلّٰی پر بیٹھے رہے۔ میں ان کے پاس مصلے کے کنارہ پرجابیٹھا، اور کہا کہ سنا ہے کہ آج یہ الہام ہوا ہے ۔ مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ لیکن کسی قسم کی بات نہ کی۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔ میرے خیال میں تین بڑے آدمی یہ تھے۔ حضرت خلیفہ اول ، مولوی عبد الکریم صاحب ، مولوی محمد احسن صاحب ، چند روز بعد مولوی عبد الکریم صاحب کی پشت پر ایک پھنسی نکلی جو بڑھتے بڑھتے کاربنکل بن گئی۔ غرض اس الہام کے بعد قریباً ڈیڑھ ماہ میں مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوگئے اور پیشگوئی نہایت صاف طور پر پوری ہوئی۔
{1198} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی۔اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک مرتبہ مدرسہ احمدیہ کے مکان میں جہاں پہلے ہائی سکول ہوا کرتا تھا۔ ایک گھنٹہ کے قریب لیکچر دیا ۔ بعد میں آپ کی تحریک سے حضرت مولوی عبدالکریم اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ہفتہ وار ایک ایک گھنٹہ لیکچر طلباء کے سامنے دیا کرتے تھے۔ اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا۔ ہم جو تصانیف کرتے ہیں۔ یہ علماء زمانہ کے مقابلہ اور مخاطبت میں لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں کو طلباء نہیںسمجھ سکتے۔ ان دنوں ان کے کورس بھی اتنے لمبے ہیں کہ طلباء کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ تالیفات کو پڑھنے کی فرصت پاسکیں۔ اس لئے میں یہی کہتا ہوں اور پھر پھر کہتا ہوں کہ سکولوں کے ماسٹر صاحبان میری کتابوں کے چند صفحات مطالعہ کر لیا کریں اور ان کا خلاصہ سہل اور آسان الفاظ میں طلباء کے روبرو بیان کردیا کریں۔ تاکہ ہماری باتیں طلباء کے دل ودماغ میں نقش ہوجائیں۔ ورنہ جو کتب مولویوں کے مقابلہ میں لکھی گئی ہیں وہ بچوں کے فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔
{1199} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیاکہ دوران قیام مقدمہ کرم دین حضور علیہ السلام کچہری گورداسپور کی عمارت کے متصل پختہ سڑک کے کنارے ٹالیوں کے نیچے دری کے فرش پر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے ۔ حضور لیٹے ہوئے تھے۔ اور سڑک کی طرف پشت تھی۔ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا اور وہ اپنی کوٹھی کو اسی طرف سے جاتاتھا۔ میںنے دیکھا کہ وہ اس گروہ کی طرف دیکھتا ہوا جاتا تھا۔ اور ہماری جماعت سے کوئی تعظیماً کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ میںنے یہ دیکھ کر حضرت سے عرض کی کہ حضور! ڈپٹی کمشنر ادھر سے ہمارے قریب سے گزرتا ہے اور کل بھی اس نے غور سے ہم لوگوں کی طرف دیکھا ۔ آج بھی ہم میں سے کوئی تعظیم کے لئے نہیں اُٹھا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ حاکم وقت ہے ۔ ہمارے دوستوں کو تعظیم کے لئے کھڑا ہونا چاہئے ۔ پھر اس کے بعد ہم برابرتعظیماً کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور اس کے چہرہ پر اس کے احساس کا اثر معلوم ہوتا تھا۔ اسی مقدمہ کے دوران ایک مرتبہ حضور گورداسپور کی کچہری کے سامنے ٹالیوںکے سایہ کے نیچے تشریف فرما تھے۔ عدالت کا اوّل وقت تھا۔ اکثر حکام ابھی نہیں آئے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا ۔چلئے ۔جج خد ابخش صاحب سے مل آئیں۔ میں ان کے ہمراہ جج صاحب کے اجلاس میں چلا گیا۔ وہ خود اوران کے پیشکار (ریڈر) محمد حسین جن کولوگ محمد حسین خشکی کے نام سے ذکر کیا کرتے تھے۔ اجلاس میں تھے۔ غالباً اور کوئی نہ تھا۔ محمد حسین نے خواجہ صاحب سے مقدمہ کرم دین کا ذکر چھیڑا۔ غالباً وہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور کہا کہ مرزا صاحب نے یہ کیا کیا کہ مقدمہ کا سلسلہ شروع کر لیا ہے ۔ صلح ہوجانی چاہئے۔ جج صاحب نے بھی خواجہ صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب کی شان کے خلاف ہے ۔ مقدمہ بازی بند ہوناچاہئے اور باہمی صلح آپ کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت سے اس بارہ میں ضرور کہیں اور میری جانب سے کہیں۔ خواجہ صاحب نے کہاکہ خواہش تو میری بھی یہی ہے اور یہ اچھا ہے ۔میں آپ کی طرف سے حضرت کی خدمت میں عرض کروں گا۔ یہ کہہ کر خواجہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے مجھ سے کہا کہ آپ بھی میری تائید کیجئے گا۔ میں خاموش رہا۔ جب اجلا س سے ہم باہر آگئے۔ تو میںنے کہا کہ اس بارہ میں میں آپ کی تائید نہیں کرسکتا۔ مجھ سے یہ توقع نہ رکھئے۔ خواجہ صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ جج صاحب نے کہاہے کہ مقدمہ کرنا حضرت کی شان کے خلاف ہے اور صلح ہوجاناہی اچھا ہے اور مجھے تاکید کی ہے کہ حضور سے عرض کروں ۔ حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرہ سرخ ہوگیا۔ اورفرمایا آپ نے کیوں نہ کہہ دیا کہ صلح اس معاملہ میں ناممکن ہے ۔ کرم دین کاالزام ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوں۔ پس یہ توخدا کے ساتھ جنگ ہے اور خدا پر الزام ہے ۔ نبی صلح کرنے والا کون ہوتا ہے اور اگر میں صلح کرلوں تو گویا دعویٰ نبوت کوخود جھوٹا ثابت کردوں ۔ دیر تک حضرت اس معاملہ میں کلام فرماتے رہے اور چہرہ پر آثار ناراضگی تھے یہاں تک کہ کھڑے ہوگئے اور ٹہلنے لگے۔
{1200} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک صاحب عبد المحی عرب قادیان میں آئے تھے۔ انہوںنے سنایا کہ میں نے حضرت اقدس کی بعض عربی تصانیف دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ ایسی عربی بجز خداوندی تائید کے کوئی نہیں لکھ سکتا۔ چنانچہ میں قادیان آیا۔ اور حضور سے دریافت کیا کہ کیا یہ عربی حضور کی خود لکھی ہوئی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل وتائید سے ۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ میرے سامنے ایسی عربی لکھ دیں تو میں آپ کے دعاوی کو تسلیم کرلوں گا۔ حضور نے فرمایا یہ تو اقتراحی معجزہ کا مطالبہ ہے ۔ ایسا معجزہ دکھانا انبیاء کی سنت کے خلاف ہے۔ میںتو تب ہی لکھ سکتا ہوں جب میرا خد ا مجھ سے لکھوائے ۔ اس پر میںمہمان خانہ میں چلا گیا اور بعد میں ایک چٹھی عربی میں حضور کو لکھی۔ جس کا حضور نے عربی میں جواب دیا۔ جوویسا ہی تھا ۔ چنانچہ میں داخل بیعت ہوگیا۔
{1201} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولابخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بمعہ اہل بیت وخدام امرتسر تشریف لائے۔ امرتسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کے مرد زیادہ ہوں گے ۔ مکان کا بڑا حصہ مردانہ کے لئے اور چھوٹا حصہ زنانہ کے لئے تجویز کیا۔ حضور نے آتے ہی پہلے مکان کودیکھا اور اس تقسیم کو ناپسند فرمایا اور بڑے حصے کو زنانہ کے لئے مخصوص فرما لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو صنف نازک کے آرام کا بہت خیال رہتا تھا۔
{1202} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر تشریف لائے ۔ اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل( جس کانام اب بندے ماترم ہال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا۔ لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی۔ پھر وہ اورآگے ہوئے۔ پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے ۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی۔ اس پرلوگوںنے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام۔ روزے نہیں رکھتے۔ اور بہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی۔ اور حضور اس میں داخل ہوگئے ۔ لوگوںنے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ مگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا۔ کہ ’’اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادتا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سنا۔ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کومارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے ۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کوکہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا ۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبد الخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا۔ تو حضور نے فرمایا! کہ مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقعہ پید اکردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے ۔
{1203} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مجلس میں دیکھا۔ کہ حضور بمثل دیگر اصحاب کے بے تکلف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور اس میں ایک اجنبی کے واسطے کوئی امتیاز ی رنگ نہ ہوتا تھا۔ ایک دن بعد فراغت نماز ظہر یا عصر حضور مسجد سے نکل کر گھر کے متصلہ کمرہ میں داخل ہوئے جہاں حضور نے جوتا اتارا ہوا تھا۔ میںنے دیکھا کہ حضور کا دھیان جوتا پہنتے ہوئے جوتے کی طرف نہ تھا بلکہ پاؤں سے ٹٹول کر ہی اپنا جوتا پہن رہے تھے۔ اور اس وقت حضرت مولوی نورا لدین صاحب سے مخاطب تھے۔ مولوی صاحب حضور کے سامنے قدرے خمیدہ ہوکر نہایت مودّب کھڑے تھے۔ اور کوئی اپنا خواب حضور کو سنا رہے تھے ۔ وہ خواب نہایت اطمینان سے سن کر حضور نے فرمایا کوئی فکر نہیں ۔ مبشر ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے ۔میںنے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی صاحب نہایت ادب ونیاز سے کھڑے ہوئے تھے اور نگاہیں ان کی زمین کی طرف تھیں۔ بات کرتے ہوئے کسی کسی وقت نظر سامنے اٹھاکر حضور کو دیکھ لیتے اور پھر آنکھیں نیچی کر کے سلسلہ کلام چلاتے جاتے تھے۔
{1204} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ایک دفعہ غالباً۱۹۰۷ء میں امۃ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم ہمشیرہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جو میری ننھیال کی طرف سے رشتہ دار بھی ہے۔ ایک کاغذ کا پُرزہ دیا تھا جو ردی کے طور پر تھا۔ لیکن چونکہ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین ایدھااللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی عبارتیں تھیں ۔ اس لئے میں نے اس کو تبرکاً نہایت شوق سے حاصل کیااور محفوظ رکھا۔ پھر کسی وقت وہ کاغذ مجھ سے پس وپیش ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ کسی کتاب میں پڑا ہوا ہے یا گم ہوگیا ہے ۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہے ۔ لیکن چونکہ اس کے ساتھ ایک واقعہ کا تعلق ہے۔ جو مجھے ا مۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ نے خود سنایا تھا اس بے تکلفانہ لکھی ہوئی عبارت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے تعلق باللہ اور تقویٰ وطہارت وعبادات میں شغف پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس لئے میں اس کا ذکر کرنا اور تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ امۃ الرحمن صاحبہ جن دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر میں رہا کرتی تھیں۔ انہوں نے دیکھا اور خاکسار سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ نے یہ تجربہ کرنا چاہا کہ دیکھیں آنکھیں بند کر کے کاغذ پر لکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ پرزہ کاغذ پکڑ کر اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حسب ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی اور جو مجھے حرف بحرف بخوبی یاد ہے ۔ اور مجھے اس کے متعلق ایسا وثوق ہے کہ اگر وہ پرزہ کاغذ کبھی دستیاب ہوجاوے تو یقینا یہی الفاظ اس پر لکھے ہوئے ہوںگے۔ حضور نے آنکھیں بند کرنے کی حالت میں لکھا تو یہ لکھا کہ
’’انسان کو چاہئے کہ ہر وقت خد اتعالیٰ سے ڈرتا رہے اور پنج وقت اس کے حضور دعا کرتا رہے۔‘‘
دوسری جگہ اسی حالت میں حضرت اماں جان کی تحریر کردہ عبارت حسب ذیل تھی۔
’’محمود میرا پیارا بیٹا ہے کوئی اس کو کچھ نہ کہے۔‘‘ ’’مبارک احمد بسکٹ مانگتا ہے ۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ان سے شکستہ اور پختہ خط میں صاف طور پر پڑھی جاتی تھی اور باوجود آنکھیں بند کر کے لکھنے کے اس میں سطر بندی مثل دوسری تحریرات کے قائم تھی۔ لیکن حضرت اُم المومنین کے حروف اپنی جگہ سے کچھ اوپر نیچے بھی تھے اور سطر بندی ان کی قائم نہ رہی تھی۔ لیکن خاص بات جس کا مجھے ہمیشہ لطف آتا ہے وہ یہ تھی کہ اپنے گھر میں بے تکلفانہ بیٹھے ہوئے بھی اگر اچانک بے سوچے کوئی بات حضور کو لکھنی پڑتی ہے تو وہ نصیحتانہ پاک کلمات کے سوا اور کوئی نہیں سوجھی۔ اور ادھر حضرت اُم المومنین کی عبارت ایسی ہے جوکہ ماحول کے حالات کے مطابق ان کے ذہن میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ماموروں اور دوسروں میں ہوا کرتا ہے ۔
{1205} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مجلس میں مولوی محمد علی صاحب بھی موجو دتھے۔ اس وقت مولوی صاحب مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں زر جرمانہ وصول کر کے آرہے تھے۔ اور مہتمم خزانہ کے ساتھ ان کی جو گفتگو مقدمہ اور واپسی جرمانہ کے متعلق ہوئی تھی۔ وہ حضور کو سنا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جس مجسٹریٹ نے اس مقدمہ میں جرمانہ کیا تھا ۔ اپیل منظور ہونے پر وہی افسر مہتمم خزانہ ہوگیا تھا جس سے زر جرمانہ ہم نے واپس لینا تھا۔ چنانچہ ہم پہلے اس کے مکان پر (کچہری کے وقت سے پہلے)گئے اور اس سے ذکر کیا کہ ہم توجرمانہ واپس لینے کے واسطے آئے ہیں۔ اس پر وہ مجسٹریٹ بہت نادم سا ہوگیا ۔ اور اس نے فوراً کہا کہ آپ کو وہ رقم نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے لئے خود مرزا صاحب کی دستخطی رسید لانا ضروری ہے ۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ وہ رسید تو میں مرزا صاحب سے لکھوا لایا ہوں ۔ پھر اس مجسٹریٹ نے کہا کہ پھر بھی یہ رقم آپ کو نہیں دی جاسکتی۔ جب تک آپ کے پاس مرز اصاحب کی طرف سے اس امر کا مختار نامہ موجود نہ ہو۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ بھی میں لے آیاہوں۔ اسے لاجواب ہوکر کہنا پڑا کہ اچھا کچہری آنا۔ اس موقعہ پر مولوی محمد علی صاحب نے مسیح موعودعلیہ السلام کے حضور ایک یہ فقرہ بھی سیشن جج صاحب منظور کنندہ اپیل کی باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضور اس سیشن جج نے تو اس قدر زور کے ساتھ حضور کی بریت اور تائید میں لکھا ہے کہ اگر ہم میں سے بھی کوئی اس کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا تو شاید اتنی جرأت نہ کرسکتا۔ یہ جملہ حالات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نہایت خوشی کی حالت میں سنتے رہے تھے ۔
{1206} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ)حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف رہتے رہے ہیں اور جس میں آج کل ام طاہر احمد رہتی ہیں تو چونکہ اس کاایک حصہ گلی کی طرف سے نمایاں طور پر نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اس کے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوا دئیے جس سے بعض لوگوںنے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے حالانکہ حضرت صاحب نے اپنے سارے مکان کانام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ علاوہ ازیںحضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا بلکہ دراصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا۔ اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کانام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے، بیت النور رکھا تھا اور تیسری منزل کے اس دالان کانام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت ام وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام رکھا تھا۔ نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہو اہے کہ جس چوبارہ میں اس وقت مائی کاکو رہتی ہے جو مرز اسلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہین احمدیہ تصنیف کی تھی۔
{1207} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا بچہ مبارک احمد فوت ہوا تو اس وقت میں اور مولوی محمد علی صاحب مسجد مبارک کے ساتھ والے کوٹھے پر کھڑے تھے۔ اس وقت اندرون خانہ سے آواز آئی جو دادی کی معلوم ہوتی تھی کہ ’’ہائے او میریا بچیا‘‘ حضرت صاحب نے دادی کو سختی کے ساتھ کہا کہ دیکھو وہ تمہارا بچہ نہیں تھا۔ وہ خدا کا مال تھا جسے وہ لے گیا اور فرمایا یہ نظام الدین کا گھر نہیں ہے ۔ منشی صاحب کہتے ہیں کہ انہی دنوں نظام الدین کا ایک لڑکا فوت ہوا تھا جس پر ان کا گھر میں دنیا داروں کے طریق پر بہت رونا دھونا ہو اتھا۔ سو حضرت صاحب نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ بات نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام بہت خراب ہوگیا ہے کیونکہ اس لڑکے کے متعلق حضرت صاحب کی بہت پیشگوئیاں تھیں اور اب لوگ ہمیں دم نہیں لینے دینگے اور حضرت صاحب کو تو کسی نے پوچھنا نہیں۔ لوگوں کاہمارے ساتھ واسطہ پڑنا ہے ۔ مولوی صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ نیچے مسجد کی طرف سے بلند آواز آئی جو نہ معلوم کس کی تھی کہ تریاق ا لقلوب کا صفحہ چالیس نکال کرد یکھو۔ مولوی صاحب یہ آواز سن کر گئے اور تریاق القلوب کا نسخہ لے آئے۔ دیکھا تو ا س کے چالیسویں صفحہ پر حضرت صاحب نے مبارک احمد کے متعلق لکھا ہو اتھا کہ اس کے متعلق مجھے جوالہام ہوا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ یا تویہ لڑکا بہت نیک اور دین میں ترقی کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہوجائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا خیر اب ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکل آئی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادی سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم کی والدہ ہے جومبارک احمد کی کھلاوی تھی اور مبارک احمد اسے دادی کہا کرتا تھا۔ اس پر اس کانام ہی دادی مشہور ہوگیا۔ بیچاری بہت مخلص اور خدمت گزار تھی۔ نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ مبارک احمد۱۹۰۷ء میں فوت ہوا تھا جب کہ اس کی عمر کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی۔
{1208} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اسی دوران میں لاہور سے خط لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو ایک دن کے لئے لاہور بلایا اور ان کے ساتھ میں بھی لاہور چلا گیا ۔ جب مولوی صاحب حضرت صاحب کو ملنے گئے تو حضور انہیں اس برآمدہ میں ملے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کا برآمدہ جانب سڑک تھا۔ میں یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت صاحب نے کوئی بات علیحدگی میں کرنی ہو ،ایک طرف کو ہٹنے لگا جس پر حضور نے مجھے فرمایا۔ آپ بھی آجائیں ۔ چنانچہ میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا۔ اس وقت حضور نے مولوی صاحب سے لنگرکے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیااور فرمایا کہ میں اس کی وجہ سے بہت فکر مندہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کااندیشہ ہے اور ان حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے ۔ اسی ملاقات میں حضور نے مولوی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میںلاہور میں یہ مہینہ ٹھہروں گا یہاں ان دوستوں نے خرچ اٹھایا ہوا ہے اس کے بعد میں کہیں اور چلاجاؤں گا اور قادیان نہیں جائوں گا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ جو حضور نے قادیان واپس نہ جانے کا ذکر کیا ہے غالباً موجودہ پریشانی کی وجہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ کچھ عرصہ کہیں اور گذار کر پھر قادیان جائوں گا مگر اب میںسمجھتا ہوں کہ اس سے غالباً حضور کی مراد یہ تھی کہ میری وفات کا وقت آگیا ہے اور اب میرا قادیان جانا نہیں ہوگا ۔ واللہ اعلم
{1209} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے مولوی قطب الدین صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت مانگی کہ وہ حضور کے کسی مزارعہ دخیلکار سے کچھ زمین خرید لیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ حقوق کامعاملہ ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر آپ کو اجازت دوں تو پھر دوسروں کو بھی اجازت دینی ہوگی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان میں کچھ رقبہ تو ہمارا مقبوضہ مملوکہ ہے یعنی اس کی ملکیت بھی ہماری ہے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مگر پیشتر رقبہ ایسا ہے کہ وہ ملکیت ہماری ہے لیکن وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے مزارعین کے قبضہ میں ہے جنہیں ہم بلا کسی خاص قانونی وجہ کے بے دخل نہیں کرسکتے اور نسل بعد نسل انہی کا قبضہ چلتا ہے اور ہمیں ان کی آمد میں سے ایک معین حصہ ملتا ہے ۔ یہ لوگ موروثی یادخیلکار کہلاتے اور وہ مالکان کی مرضی کے بغیر اپنے قبضہ کی زمین فروخت نہیں کرسکتے ۔ مولوی قطب الدین صاحب نے انہی میں سے کسی کی زمین خریدنی چاہی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت نہیں دی اور واقعی عام حالات میں ایسی اجازت دینا فتنہ کا موجب ہے۔ کیونکہ اول تو اگر ایک احمدی کو اجازت دی جائے تو دوسروں کوکیوں نہ دی جائے ۔ دوسرے: زمینوں کے معاملات میں بالعموم تنازعات پیش آتے رہتے ہیں اور مالکان اور مزارعان موروثی کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ان حالات میں اگر ہمارے دخیلکاروں سے جو بالعموم غیر مسلم اور غیر احمدی ہیں، احمدی ووست زمینیں خرید لیں تو پھر ہمارے احمدی احباب کے درمیان تنازعات اورمقدمات کاسلسلہ شروع ہوجانے کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم دلوں میں میل آنے کا احتمال ہے۔ ان حالات میں حضرت صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی اور اسی کی اتباع میں آپ کے بعد ہم بھی اجازت نہیں دیتے بلکہ اسی قسم کے وجوہات کی بناء پر ہم عموماً ان دیہات میں بھی اجازت نہیں دیتے جن میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں اور ایسے دیہات تین ہیں یعنی ننگل اور بھینی اور کھارا۔ گویا قادیان میں تو ہمارا خاندان مالک ہے اور دوسرے لوگ موروثی یا دخیلکار ہیں اور ننگل ،بھینی اور کھارا میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں۔
{1210} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور ؑ کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا کہ ’’ قرأت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے ۔‘‘ میںنے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نما زہوجاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز توہوجاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ الحمد خلف امام پڑھا جاوے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بِدوں سورۃ الحمدخلف امام نماز نہ ہوتی ہوتو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لو گ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہوجاتے۔ نمازدونوں طرح سے ہوجاتی ہے ۔ فرق صرف افضلیت کا ہے ۔ ‘‘ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی ۔
{1211} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب ،ساکن چک ایمرچھ کشمیر نے کہ ’’میں نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنا یہ رویاء بیان کیا :
کئی درختوں کی قطار ہے جن پر گھونسلے ہیں اور ان میں خوبصورت پرندے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ مسیح موعودکی جماعت ہے ‘‘
{1212} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام اور توضیح المرام شائع فرمائے تو ان کے سرورق پر مرسل یزدانی کا فقرہ حضور کی طرف منسوب کر کے لکھا ہوا تھا۔ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مرزاصاحب خود کو مرسل یزدانی تحریر کرتے ہیں ۔ میںنے معترض کو کہا کہ ممکن ہے کہ مطبع والوں نے لکھ دیاہو(کیونکہ شیخ نور احمد صاحب کے مطبع ریاض ہندامرتسر میں رسائل موصوفہ طبع ہوئے تھے) جب میں قادیان آیا تویہ ذکر میںنے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ حضور ؑ نے بلا تأمل جواباً فرمایا:’’میری اجازت کے بغیر مطبع والے کس طرح لکھ سکتے تھے۔‘‘
{1213} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم ساکن ایمرچھ نے کہ ایک دن سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جو صبح کے وقت سیر کونکلے تو مولوی عبد اللہ صاحب حال وکیل کشمیر نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنی رویاء بیان کی کہ میںنے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دریا ہے اور میں ا س کے کنارے کھڑاہوں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ ’’اس کا پانی کیسا تھا؟‘‘ مولوی صاحب نے جواب دیا ’’میلا پانی تھا‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ دریاسے مراد دل ہے ۔‘‘ راقم ھٰذا کو یہ یاد نہیں رہا کہ میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے یہ کہا تھا یا نہیں ؟ کہ حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب کو اصلاح نفس کی تلقین فرمائی تھی یا نہ ؟ ۱؎

۱؎ مولوی عبداللہ صاحب وکیل آخر عمر میں بہائی ہو گئے تھے۔ (ناشر)
{1214} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے بار بار بہ تکرار سوال پر استغفار اور لاحول گیارہ گیارہ دفعہ پڑھنے کا بطور وظیفہ فرمایا تھا (سائل کا سوال تعداد معینہ کا تھا)مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا۔ شاید درود شریف بھی گیارہ دفعہ پڑھنے کا ساتھ ہی فرمایا تھا۔
{1215} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میاں فقیر خان صاحب مرحوم ساکن اندور کشمیر (ملازم حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم جاگیرداریاڑی پورہ کشمیر) نے ،راجہ صاحب موصوف کی بینائی بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ جب وہ قادیان گئے تو جب کبھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے باغ میں بیدانہ کے ایام میں جاتے تو حضور علیہ السلام راجہ صاحب موصوف کے آگے خود اچھے اچھے دانے بیدانہ یا شہتوت میں سے چن کر رکھتے۔ راقم عاجز کرتا ہے کہ راجہ صاحب موصوف مہمان خانہ میں رہتے تھے اور حضور علیہ السلام مہمان خانہ آکر راجہ صاحب کو بھی سیر میں شریک فرماتے تھے۔
{1216} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا ’’لڑکے کے عقیقہ کے لئے دوبکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘ میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے ۔ ایک بکرا کے جواز کا فتوی ٰ نہ دیا ۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں۔
{1217} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیمار مہمانوں کی بعض اوقات عیادت فرماتے تھے ۔ راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم کی بھی مہمان خانہ میں آکر عیادت فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میاں ضیاء الدین صاحب مرحوم طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بورڈنگ میں عیادت فرمائی تھی۔
{1218} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ بمعہ اصحاب اس راستہ کی طرف جو یکوں ٹمٹموں کا راستہ متصل محلہ خاکر وبان بٹالہ کو جاتا ہے ۔ سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر راستہ کے ایک طرف درخت کیکر کسی کا گرا ہوا تھا ۔ بعض دوستوں نے اس کی خورد شاخیں کاٹ کر مسواکیں بنالیں۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ اس وقت حضرت خلیفہ ثانی بھی تھے(اس وقت دس بارہ سال عمر تھی) ایک مسواک کسی بھائی نے ان کو دے دی اور انہوںنے بوجہ بچپن کی تکلفی کے ایک دفعہ کہا کہ ابا تسیں مسواک لے لو۔ حضور علیہ السلام نے جواب نہ دیا۔ پھر دوبارہ یہی کہا۔ حضور علیہ السلام نے پھرجواب نہ دیا ۔ سہ بارہ پھر کہا کہ ابا مسواک لے لو ۔ تو حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’پہلے یہ بتاؤ کہ مسواکیں کس کی اجازت سے لی گئی ہیں ؟ اس فرمان کو سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں۔
{1219 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ومغفور ساکن گاگرن کشمیر نے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی نے دریافت کیا ۔ حضور ! درود شریف کس قدر پڑھنا چاہئے ؟ حضور نے فرمایا ۔’’ تب تک پڑھنا چاہئے کہ زبان تر ہوجائے۔‘‘
{1220} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ قیام مقبرہ بہشتی سے پہلے فوت ہوئے اور اس قبرستان میں جو شہیدوں کے تکیہ کے قریب جانب شرق قادیان قدیم واقعہ ہے بطور امانت حسب الارشاد حضرت اقدس مدفون ہوئے تھے۔ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اس طرف سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر مولوی صاحب موصوف کی قبر پرکھڑے ہوکر معہ اصحاب ہمراہیان ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔
{1221} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ میاں عبد الکریم صاحب مرحوم حیدر آبادی کو میرے روبرو دیوانہ کتے نے بورڈنگ ہائی سکول (جو اس وقت اندرون شہر تھا اور جواب مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ ہے ) کے صحن میں بوقت دن کاٹا تھا۔ میرے سامنے ہی اسے کسولی بھیجا گیاتھا۔ وہاں سے علاج کرا کے جب مرحوم واپس قادیان آیا۔ تو چند روز کے بعد اسے ہلکاؤ ہوگیا۔ اس پر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کسولی کے افسران کو تار دیا کہ عبد الکریم کو ہلکاؤ ہوگیا ہے۔ کیا علاج کیا جائے ؟ انہوںنے جواب دیا
‏Sorry`nothing can be done for Abdul Karim
افسوس! عبد الکریم کے لئے اب کچھ نہیںہوسکتا۔ تب عبد الکریم کو سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان کے ایک مکان میں علیحدہ رکھا گیا۔ اور مکرم معظم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور خاکسار ا س کے پاس پہرہ کے لئے اپنی مرضی سے لگائے گئے۔ ہم دونوں بھی اس کے پاس جانے سے ڈرتے تھے ۔ بہر حال سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت الحاح سے عبد الکریم کے لئے دعائیں کیں ۔ ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو ہر گز زہر دے کر نہ مارا جائے ۔ اسے بادام روغن بھی استعمال کراتے رہے ۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی دعاؤں کی برکت سے اسے شفاء دی۔
{1222} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میںنے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بعض اپنی کمزوریوں کا ذکر کیا اور عرض کی کہ بعض وقت طبیعت کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ گویا طبیعت میں نفاق آگیا ہے ۔ حضور ؑ نے زور دار الفاظ کے لہجہ میں فرمایا کہ ’’نہیں نہیں کچھ نہیں۔ چالیس سال تک تو نیکی اور بدی کا اعتبار ہی نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کہ کہ مجھے پے درپے دو خوابیں دہشت ناک آئی ہیں ۔فرمایا۔ سناؤ۔ میںنے عرض کی کہ’’ خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خنزیر پر سوار ہوں اور وہ نیچے سے بہت تیز بھاگتا ہے مگر میں اس کے اوپر سے گرا نہیں ہوں۔ اسی اثناء میں ایک بچہ خنزیر مری گردن سے پیچھے کی طرف سے چمٹتا ہے ۔ میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ اس کو گردن سے نیچے گرادوں مگر وہ جبراً میری گردن سے چمٹتا ہے اسی حالتے میں میری آنکھ کھل گئی۔
دوسری خواب یہ ہے کہ ایک نامعلوم سا آدمی میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ میں اور یہ دونوں نصرانی ہیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں خوابیں اچھی ہیں۔ چنانچہ خواب اول کے متعلق فرمایا کہ تم کسی عیسائی پر فتح یاب ہوگے ۔ مگر بچہ خنزیر کے متعلق کوئی تعبیر نہ فرمائی ۔ اور دوسری خواب کے متعلق فرمایا (اور ایک کتاب علم تعبیر کی بھی سامنے رکھ لی تھی) کہ ایسی خواب کا دیکھنے والا اگر اہلیت رکھتا ہوتو بادشاہ ہوجاوے گا۔ کیونکہ نصرانی نصرت سے نکلا ہے یعنی نصرت یافتہ۔ اور نصاریٰ نصرانی آج دنیا کے بادشاہ ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بادشاہی کی اہلیت نہیں رکھتا تو بڑا متمو ّل ہوجاوے گا۔ اس کے چند روز بعد مجھے بمقام ڈہری والہ داروغہ برائے تصدیق انتقال اراضی زر خرید واقعہ سیکھواں کے لئے جانا پڑا۔ بر مکان چوہدری سلطان ملک صا حب سفید پوش( اب ذیلدار ہیں) ایک عیسائی نبی بخش کے نام کے ساتھ میری مذہبی گفتگو چھڑ گئی ۔ آخر وہ عیسائی مغلوب ہوکر تیزی میں آگیا۔ دفعیہ کے طور پر میں نے بھی اس پر تیزی کی ۔ اس میں بھی وہ مغلوب ہوگیا ا س مجلس میں ایک شخص سوچیت سنگھ نام ساکن چھینا تحصیل گورداسپور جو سکھ مذہب کو ترک کر کے آریہ مذہب اختیار کرچکا تھا ۔ موجو دتھا۔ وہ اس عیسائی کا حامی بن گیااور مجھ پر تیزی کرنے لگا۔ تااس عیسائی کو مشتعل کرے مگر وہ عیسائی بالکل خاموش رہا۔ میںنے اس سکھ آریہ کو کہا کہ میںنے اس کو دفعیہ کے طور پر کہا ہے ۔ ابتداء میںنے نہیں کی مگر وہ سکھ آریہ اشتعال دہی سے باز نہ آیا حتیّٰ کہ اس کو استغاثہ فوجداری عدالت میں دائر کرنے کا اشتعال دلانے سے بھی باز نہ آیا مگر وہ عیسائی باوجود اس سکھ آریہ کے بھڑکانے کے خاموش رہا۔ تب مجھ کو بچہ خنزیر یاد آگیا جو میری گردن سے چمٹتا تھا ۔ احادیث نبویہ میں مسیح موعودعلیہ السلام کے فعل یقتل الخنزیر کی تصدیق بھی ہوگئی ۔
{1223} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پسند نہیں فرماتے تھے کہ احمدی طلباء عیسائی کالجوں میں داخل ہوں ۔ جب خاکسار اور شیح عبد العلی صاحب بھیروی حال ای اے سی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے انٹرنس میں بفضل خدا پاس ہوئے ۔ اس وقت عبد العلی موصوف نے مجھے یہ بات لاہور میں بتائی کہ حضرت صاحب کرسچن کالج لاہور میں احمدی طلباء کا داخلہ پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ عبد العلی صاحب نے کسی کانام بھی بتایاتھا کہ اسے حضور علیہ السلام نے کرسچن کالج لاہور میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ( غالباً فقیر اللہ خان صاحب انسپکٹر کا نام یا اپنا ہی ؟) خاکسار کو بھی حضورنے اسلامیہ کالج لاہور ہی میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوگیا تھا ۔ بعد میں علی گڑھ کالج چلا گیا۔
{1224} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے وقت ایک دفعہ قادیان کا لنگر خانہ گورداسپور منتقل کیا گیا تھا یعنی قادیان میں لنگر خانہ بند کیا گیا اور گورداسپور میں لگایا گیا۔ وہ ایام کرم دین کے مقدمہ کے تھے ۔ جبکہ مجسٹریٹ عمداً نزدیک نزدیک تاریخیں رکھتا تھا تاکہ حضرت صاحب علیہ السلام کو تکلیف ہو ۔ ہم چند طلباء گورداسپور چلے گئے تھے۔
{1225} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ لوگ حضور علیہ السلام کے حج کے متعلق اعتراض کرتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کو خانہ کعبہ طواف کرتے دیکھا ہے۔ ہم تو دجال کے پیچھے پڑے ہیں اس کو ساتھ لے کر حج کریں گے۔
نوٹ: پہلے علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ دجال کا طواف کعبہ ایسا ہے جیسے چور (سارق) کسی مکان میں نقب زنی کے لئے گشت کر لے اور مسیح موعودعلیہ السلام کا طواف جیسے کوتوال چوروں کے تعاقب میں گشت کرتا ہے ۔
{1226} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں شمس الدین صاحب (غیر احمدی) سابق سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے کہ دعویٰ سے پہلے ہم چند شرفاء لاہور سے قادیان اس غرض سے جاتے تھے کہ سیاسی امور میں حضور علیہ السلام ہماری راہنمائی فرماویں۔ لیکن حضور علیہ السلام نے اس وقت کی حکومت کے خلاف ہم کو کبھی بھی کچھ بات نہ کہی ۔ پس ہم نے پھر قادیان جانا ہی چھوڑ دیا۔
{1227} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے اور بھائی فضل محمد صاحب ساکن ہرسیاں (جو مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ کے والد ہیں) نے مشورہ کیا کہ قادیان میں دوکان تجارت کھولیںاور حضور علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے لئے قادیان آئے۔ حضور علیہ السلام غالباً نما زظہر پڑھ کر اندر تشریف لے جارہے تھے کہ ہم نے سوال کردیا اور اپنی تجویز پیش کردی۔ حضور علیہ السلام اس صحن میں کھڑے ہوگئے جو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں سے مسجد کو آویں تو ایک سیڑھی ابھی باقی رہتی تھی کہ ایک دروازہ اندر جانے کو کھلتا تھا اور آگے چھوٹا ساصحن جسے عبور کر کے حضور اندر گھر میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں صحن میں ایک چوبی سیڑھی لگی ہوئی تھی اس کے اوپر کے مکان میں حضرت خلیفہ اولؓ رہا کرتے تھے ۔ اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ بھی اس چوبی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر مکان کو جارہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے ان کو بھی بلالیا اور فرمایا کہ ’’ میاں خیر الدین وغیرہ یہاں دوکان کھولنا چاہتے ہیں۔ کیا اعتبار ہے کہ دوکان میں خسارہ ہو یا نفع ہو؟ اچھا اگر خسارہ پڑے گا تو دوکان چھوڑ دیں گے۔ یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔ بعد ش ہم نے مشورہ کیا کہ ہم کو امید نہیں ہے کہ منافع ہو۔ بہتر ہے کہ دوکان کھولنے کا ارادہ ترک کردیں ۔ چنانچہ ہم واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ۔
{1228} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ساکن گاگرن کشمیر نے کہ جب میں۹۸۔۱۸۹۷ء میں قادیان گیا۔ تو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کشمیر واپس آنے کی اجازت مانگی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’یہاں ہی ٹھہرو اور قرآن شریف پڑھو۔‘‘ پھر میںکچھ عرصہ اور ٹھہرا۔ اس کے بعد پھر میں نے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ کے ذریعہ درخواست کی کہ میرے دو لڑکے سری نگر میں مشرکوں کے پاس ہیں اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کا کچھ بندوبست کروں ۔ چنانچہ مجھے اجازت دی گئی اور پھر تم دونوں بھائیوں کو (عبد القادر وعبد الرحمن) قادیان لے آیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
{1229} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب پہلے حنفی تھے پھر اہل حدیث ہوئے اس وقت وہ اپنے دوست مولوی محمد حسن صاحب مرحوم ساکن آسنور (والد مولوی عبد الواحد صاحب )کو کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ اب بڑے موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کوئی ایسی جماعت اور نکل آئے جو ہم کو بھی مشرک گردانے ۔ والد صاحب فرماتے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ ہم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مُردوں (کو زندہ کرنے والے) اور پرندوں کا خالق مانتے ہیں۔ لیکن جب میرے کانوں نے یہ شعر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا سنا
ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا
مولوی صاحب! یہی توحید ہے
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے ؟
اس وقت مجھے ہوش آیا اور میںنے تم دونوں بھائیوں کو سری نگر اپنے ماموں کے پاس چھوڑا اورقادیان پیدل چلا گیا۔ اور وہاں بیعت سے مشرف ہوا۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ علی ذالک
{1230} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا۔ حضور ؑ گھر میں معہ احباب مہمانان کھانا کھانے کے لئے تیار تھے کہ میں بھی گھر میں داخل ہوا ۔ میرے لئے بھی کھانا آگیا ۔جب کھانا رکھا گیا تو رکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی ۔ تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے ۔ میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہوں سے خدا تعالیٰ کا شکریہ کرتے ہوئے کہتا ہوں ۔ الحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1231} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں پادری مارٹن کلارک امرتسر نے حضور ؑ کے خلاف اقدام قتل کا استغاثہ کیا ۔ اول عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر امرتسر سے حضور ؑ کے خلاف ورانٹ جاری ہوکر گورداسپور پہنچا لیکن جلد ہی واپس ہوگیا ۔ چوہدری رستم علی صاحبؓ ان دنوں گورداسپور میں بعہدہ کورٹ انسپکٹر مقرر تھے ۔ انہوںنے منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی (پٹواری سیکھوانی) کو اطلاع دی۔ وہ فوراً سیکھواں آئے ۔ میں بھی سیکھواں سے شامل ہوا۔ قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں اطلاع کی گئی ۔ حضور علیہ السلام نے اندر ہی بلا لیا۔ حاضر خدمت ہوکر خط چوہدری رستم علی صاحب مرحوم والا پیش کردیا۔ خط پڑھ کر فرمایا (قریب ہی ایک دریچہ تھا جس کے آگے بیٹھ کر حضور علیہ السلام تحریر کاکام کیا کرتے تھے)اس دریچہ کے باہر سے خواب یا کشف میں معلوم ہوا کہ بجلی آئی ہے لیکن واپس ہوگئی(چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وارنٹ امرتسر سے جاری ہوا پھر حکام کو غلطی خود معلوم ہوگئی اور واپس کرایا گیا) پھر دوبارہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل ہوگیا اور خد انے عزت کے ساتھ بری کیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1232} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آپ (حضرت صاحب ) نماز عموماً دوسرے کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔ میںنے اس قدر طویل عرصہ میں دو دفعہ حضور علیہ السلام کی اقتدا میں نما زپڑھی ہے ۔
(۱) قبل دعویٰ مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز۔ ایک رکعت میں سورۃ وَالتِّین پڑھی تھی لیکن بہت دھیمی آواز میں جو مقتدی بہ مشکل سن سکے۔
(۲) دوسری دفعہ مولوی کرم الدین والے مقدمات میں گورداسپور کو جاتے ہوئے بڑی نہر پر ظہر کی نماز حضور علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھی تھی ۔
{1233} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران مقدمات مولوی کرم الدین ،مَیں بعض کاموں کی وجہ سے سولہ سترہ روز کے بعد جب قادیان پہنچا ۔ حضور علیہ السلام دریچہ بیت الفکر سے جو مسجد مبارک میں کھلتا تھا تشریف لائے اور دیکھتے ہی مجھ کو فرمایا کہ ’’بڑی دیر کے بعد آئے۔‘‘ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضورؑ کو اپنے خدام کو جلد یا بدیر آمدورفت کے متعلق خیال رہتا تھا۔
{1234} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ نے ایک جلسہ کیااور اس کانام ’’جلسۃ الدعا‘‘ رکھا (یہ جلسہ عید گاہ قدیمی متصل قبرستان غربی جانب از قادیان کیا تھا) جلسہ مذکورہ میں حضور ؑ نے تقریر فرمائی کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج کی جنگ ہوگی اوریاجوج ماجوج روس اور انگریز (برطانیہ) دونوں قومیں ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ جب یہ جنگ ہوگی اس وقت ہم زندہ ہوں گے یا نہیں ؟ اس لئے میں آج ہی دعا کر چھوڑتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریزقوم کو فتح دے ۔ آمین ۔
{1235} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیاسی شورش کے متعلق فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا۔ سوائے قادیان کے کہیں امن نہ ہوگا۔‘‘
{1236} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلی دفعہ میں (بادل ناخواستہ ) بیعت کرکے واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال آتا تھا کہ قادیان شریف کو لوگ بڑا بُرا کہتے ہیں اور میں نے تو وہاں اس جگہ سوائے قرآن شریف اور دینی باتوں کے اور کچھ نہیں سنا۔ سب لوگ رات دن یاد الٰہی میں مشغول ہیں ۔ بس میں نے اس خیال کو مد نظر رکھ کر نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے پید اکرنے والے رب ! میرے محسن! میں تیر ا بندہ ہوں ،گنہگار ہوں ،بے علم ہوں ۔ میں نہیں جانتا کہ تیری رضا کے مطابق کون چلتا ہے ؟ اس وقت دنیا میں کسی فرقے میں مجھے نہیں معلوم کہ کون فرقہ راستی پر ہے ؟ پس اے میرے پید اکرنے والے ! میں اس وقت اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں کہ تو مجھے اس راہ پر چلا جس پر تو راضی ہو۔ تا کہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔ اے میرے مولا! جب تو مجھے قیامت کو پوچھے گا تو میں اس وقت بھی یہی عرض کروں گا کہ میرے پیارے اللہ ! میں بے علم تھا اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حضور رکھ دیا تھا اور بار بار یہی عرض کرتا تھا کہ اے میرے پیارے ! مجھے صحیح رستہ بتااور اس پر مجھے چلنے کی توفیق بخش۔ کئی دن کے بعد بٹالہ میں سودا بزازی وغیرہ خریدنے کے لئے گیا تو میں پہلے اُس دوست محمد اکبر صاحب کے پاس ملاقات کے لئے چلا گیا تو وہا ں بھی یہی باتیں شروع ہوگئیں ۔ انہوںنے ذکر کیا کہ کل ایک سیٹھ صاحب مدراس سے تشریف لائے ہیں اور قادیان شریف گئے ہیں ۔ چنانچہ ایسی ایسی باتوں پر میرے دل میں ایسا جوش پید اہوا کہ میںنے اس دوست یعنی محمد اکبر صاحب کو کہا کہ اس روز آپ نے میر ا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میںشامل ہونے کے لئے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا اور میرا دل نہیں چاہتا تھا ۔ آج مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں جوش پید اہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان شریف جاتا ہوں اور سچے دل سے توبہ کرکے بیعت میں داخل ہوتا ہوں ۔ اس پر میرے اس دوست نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ہمراہ قادیان پہنچے اور جب میں بیعت کر کے گھر میں پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور اب خالی آرہے ہیں تو میرے دل میں وہی خیال گذرا کہ شاید ناراض نہ ہوجاویں ۔ مگر میںنے اس کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جاکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کر آیا ہوں ۔اس پر انہوںنے کچھ نہ کہا۔
{1237} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد ملک بسو صاحب کے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے رہنے والے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم جولی اور بچپن کے دوست تھے۔ ان کی بھتیجی کا رشتہ ان کے بھانجے شاہ چراغ کے ساتھ ہوا اور اس کی شادی پر میں قادیان گیا تھا ۔ اس وقت میری عمر تقریباً اٹھارہ سال کی تھی ۔ شاہ صاحب نے مجھ کو قریباً ایک ہفتہ وہاں رکھا۔ اُن دنوں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح اولؓ مسجد اقصیٰ میں عصر کے بعد قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ شاہ صاحب کے حسب ہدایت میں درس سننے جایا کرتا تھا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صبح کے وقت سیر کو جایا کرتے تھے ۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ بہت سے آدمیوں کا ایک ہجوم بھی ہو اکرتا تھا ۔ میں بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ سیر کو کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ مسجد مبارک ان دنوں چھوٹی سی ہوا کرتی تھی اور حضور ؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں شہ نشین پر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر مذہبی باتیں اور دینی مسائل کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی۔ سیر میں بھی حضور علیہ السلام چلتے چلتے تقریر فرمایا کرتے تھے۔
{1238} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں صاحبزادہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب امیر حبیب اللہ والی ٔ کابل کے حکم سے شہید کئے گئے ۔ ان کے ذکر پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اگر سلطنت کابل نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس سلطنت کی خیر نہیں ہے ۔ ‘‘
{1239} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاںفضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں دوبارہ بیعت کر کے واپس گھر گیا تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد میری بیوی نے ایک خواب سنایا کہ آج میں خواب میں حج کو جارہی ہوں اور بہت لوگ بھی حج کو جارہے ہیں اور وہ جگہ ہمارے گاؤں سے مشرق کی جانب ہے جس طرف حج کو جارہے ہیں ۔ جب میں حج کی جگہ پر پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں اور سیڑھیوں پر چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جا بیٹھی ۔ دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ چھوٹی عمر کا وہاں بیٹھا ہے اور اس کے ارد گرد بہت مٹھائیاں پڑی ہیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اپنا بچہ جو کچھ عرصہ ہوئے فوت ہوگیا تھا یاد آیا۔ تو اس بچہ نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اور بچہ دے گا جو اچھا ہوگا ، نیک ہوگا اور بہت باتیں کیں۔ جو مجھے یاد نہیں رہیں۔ خیر اس نے یعنی میری بیوی نے کہا کہ میرے خیال میں وہ قادیان شریف ہی ہے ۔ پس مجھے بھی قادیان شریف لے چلو۔ چنانچہ میں نے اس کو قادیان شریف میں لاکر بیعت میں داخل کردیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ۔ بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات کہتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے قادیان شریف جانے سے نہ روکیں اور میں کوئی چیز نہیں چاہتی۔ صرف میری یہی خواہش ہے ۔ چنانچہ اس میری بیوی کو اس قدر محبت قادیان شریف سے ہوئی کہ اس کو وہاں اپنے گاؤں میں رہنا نہایت ناپسند ہوا اور اس وقت تک اپنی آمدورفت نہ چھوڑی جب تک قادیان شریف میں اپنا مکان نہ بنوالیا اور مکان بنا کر قریباً دوسال آباد ہوکر اس دار فانی کو چھوڑ کر مقبرہ بہشتی میں داخل ہوگئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔
{1240} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں سید محمد علی شاہ صاحب سے اس معیار کے پیش نظر کہ انبیاء علیہ السلام کی پہلی زندگی ہرقسم کے عیبوں سے پاک اور معصومانہ ہوتی ہے ۔ عام طور پر حضور ؑ کی نسبت دریافت کرتا تھا ۔ ان کی زبانی جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔ سید محمد علی شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بچپن سے پاک صاف اور نیک ہیں۔ ان کی زندگی کی نسبت کوئی کسی قسم کا شبہ نہیں کرسکتا اور ان کے والد صاحب ان کو اکثر ’’مسیتڑ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگر کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد صاحب کہاںہیں ؟تو وہ کہاکرتے تھے کہ مسجد میں جاکردیکھ ۔اگر وہاں نہ ملے تو ناامید نہ ہوجا نا ۔ ملے گا بہر حال مسجد میں۔
{1241} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی(آمین) بذریعہ الہام تعلیم فرمائی تو حضور علیہ السلام نے ایک روز ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے اور ہر ایک قسم کی مصیبت سے حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ بجائے واحد کے بصورت جمع بھی اس کا استعمال جائز ہے ۔ یہ ان دنوں میں حضرت صاحب پر جناب الٰہی سے نازل ہوئی تھی جن ایام میں مقدمات ہونے والے تھے یا شروع ہوگئے تھے۔
{1242} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے مجھ سے اپنی خواب بیا ن کی جو یہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام ایک میدان میں یاایک مکان میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے سر پر سبز دستار ہے اور ہاتھ میں کتاب ہے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ’’برکت بی بی !فلاں جگہ ایک تھان ریشمی سبز رنگ کا پڑا ہے۔ اٹھا لاؤ۔ اور وہ کتاب جو حضور علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے وہ مولوی نور الدین صاحبؓ کو دے دی اور مولوی صاحب کے سر پر سفید پگڑی ہے اور چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ مولوی صاحب نے وہ کتاب حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ کو دے دی اور میاں صاحب کے سر پر سبز ریشمی پگڑی ہے ۔ وہ کچھ لمبی خواب تھی جو انہوںنے بتلائی۔ یہ خواب انہوں نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو اسی وقت سنائی تھی ۔ جب حضرت خلیفہ صاحب اوّلؓ کا انتقال ہوا تھا ۔ تو اس وقت حضرت ام المومنین نے فرمایا تھا کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو بتاوے ۔ چنانچہ حضرت ام المومنین کو وہ خواب یاد کرائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ وہ خواب تو مجھے یاد ہے ۔
{1243} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ سیدنا مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ’’دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے ‘‘ نیز فرمایا کہ اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلاًرکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلٰی وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے ۔ ‘‘ نیز فرمایا کہ ’’ رکوع وسجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلل کی حالت ہے۔ اس لئے کلام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ ‘‘
{1244} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے گاؤں کا قاضی فوت ہوگیا اور ا س کے دو چھوٹے بچے اور لڑکی اور اس کی بیوی پیچھے رہ گئی۔ میں اس کے لئے قضا کاکام کرتا رہا اور جو آمدنی گاؤں سے ملانوں کو ہوتی ہے اس کو دیتا رہا۔ چنانچہ میںنے اور میری بیوی نے اس کی لڑکی کو قرآن شریف اور کچھ دینی کتابیں بھی پڑھائیں ۔ جب لڑکے بڑے ہوئے تو ایک دفعہ عید کے دن جب ہم عید کے واسطے مسجد میں گئے اور میں نماز پڑھانے کے واسطے کھڑا ہوا تو اس لڑکے نے کہا کہ میں آج عید کی نما زپڑھاؤں گا ۔ میںنے اس کو کہا کہ ہماری نما زتمہارے پیچھے نہیں ہوتی ۔ تُو ہمیشہ پیچھے پڑھتا رہا ہے۔ آج تو کیوں پڑھائے گا ؟ اس کے ساتھیوں نے اس کو کہا کہ تمہاری قضاء لے لے گا۔ اس پر اس ملا نے کے بچے نے زور دیا کہ آج میں ہی نما زپڑھاؤں گا۔ اس بات پر ہماری جماعت کے ایک لڑکے نے جس کا نام شیر محمد تھا اس کو ایک مکا مارا۔ میںنے اس کو منع کیااور سب کو ساتھ لے کر اپنی جگہ حویلی میںنماز اد اکی اور جب میں جمعہ پڑھنے کے لئے اپنی عادت کے مطابق قادیان شریف آیا تو دیکھا کہ میاں عبد الرحیم حجام مسجد میں کھڑا ہے ۔ میںنے پوچھا کہ اس جگہ کیوں کھڑے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کو مہندی لگانی ہے اور اندر اجازت کے لئے کہلا بھیجا ہے ۔ میںنے یہی موقعہ پایااور وہاں کھڑا ہوگیا۔ جب اجازت ہوئی تو میں بھی اندر چلا گیا ۔ حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ مصافحہ کیااور پا س بیٹھ گیا۔ میںنے وہ سارا قصہ عید والا سنایا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صبر کرو۔ یہ سب مسجدیں تمہاری ہی ہوجاوینگی۔‘‘ ا س کے علاوہ اور بہت باتیں ہوتی رہیں جو یا دنہیں رہیں ۔ چنانچہ اب وہ مسجد اللہ کے فضل وکرم سے احمدیوں کے پاس ہے ۔
{1245} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید محمدعلی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں لاہور میں محکمہ جنگلات میں ملازم تھا۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ومرزاغلام احمد صاحب اور ان کے بڑے بھائی میرے پاس آکر ٹھہرے۔ اُن دنوں میں ان کا ایک مقدمہ چیف کورٹ پنجاب میں درپیش ہونا تھا۔ وہ مقدمہ حضرت مسیح موعود ؑ کے والد صاحب اپنی کھوئی ہوئی جائیداد لینے کی اپیل تھی۔ اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوچکا تھا۔ مقدمے کی پیروی کے بعد حضور ؑ کے والد صاحب اور بڑے بھائی واپس تشریف لے گئے اور مرز ا غلام احمد صاحب کو عدالت سے حکم سننے کے لئے چھوڑ گئے ۔ میرے ایک دوست ملک بسو صاحب رئیس لاہور تھے۔ (جو خاکسار ملک غلام محمد کے والد صاحب تھے) ان کی گاڑی آجایا کرتی تھی اور حضرت صاحب کو چیف کورٹ میں لے جاتی تھی اور پھر چار بجے ان کو واپس لے آتی تھی۔ ایک روز ایک یادو بجے کے قریب حضرت صاحب ؑ پیدل تشریف لارہے تھے۔ میںنے دور سے دیکھا تو ان کا چہرہ نہایت بشاش تھااور بڑے خوش خوش آرہے تھے۔ میںنے دریافت کیا کہ آپ جلدی آگئے ہیں اور گاڑی کا انتظار نہیں کیا ۔ بڑی خوشی سے فرمانے لگے ’’آج حکم سنایا گیا ہے اس واسطے جلدی آگیا ہوں ۔ گاڑی کا انتظار نہیں کیا۔ ‘‘ میںنے کہا بہت خوش ہیں مقدمہ جیت لیا ہوگا اور میںنے ان کے چہرہ سے دیکھ کر بھی یہی محسوس کیا کہ مقدمہ جیت لیا ہوگا لیکن حضرت صاحب علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’وہی بات پوری ہوئی جو میرے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پہلے فرمائی ہوئی تھی یعنی ’’مقدمہ ہارا گیا‘‘ اور میرے مولیٰ کی بات پوری ہوئی۔ یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میںنے دل میں کہا کہ باپ کا تو بیڑا غرق ہوگیا ہے اور یہ خوش ہورہے ہیں ۔
{1246} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اس کا نام محمد سعید تھا۔ قادیان میں دیر تک رہا تھا۔ ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز مسجد مبارک میں حاضرین مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک فرمارہے تھے کہ اس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے۔‘‘ پس عرب کا یہ کہنا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام کو اس قدر رنج ہوا کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور محمد سعید عرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہوکر خاموش ہوگیا اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا ۔ فرمایا کہ ’’کیا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی ایلچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کاسارا مال مویشی عطا کردیا تھا وغیرہ ۔ اس کو مال دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی۔ ‘‘
{1247} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورعلیہ السلام سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے اور میں بھی ساتھ تھا۔ جب واپس تشریف لائے اور اندر گھر میں داخل ہونے لگے تو میںنے جھٹ آگے ہوکر عرض کی کہ ’’پہلے بزرگ، اگر کسی کو کچھ تکلیف ہوتی تھی تو ا س پر وہ بزرگ اپنے منہ کی لب لگا دیا کرتے تھے اور اس کو شفا ہوجاتی تھی۔ حضور علیہ السلام میری آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی ہیں۔ اس پر حضور علیہ السلام مسکرا پڑے اور کچھ پڑھ کر میری آنکھوں پر دَم کردیا۔ آج تک قریبا ً پینتیس برس ہوگئے ہیں میری آنکھوں میں کبھی پھنسی نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی دکھنے میں نہیں آئیں ۔ الحمد للّٰہ
{1248} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک بابامیراں بخش ہوتا تھا جو سید محمد علی شاہ صاحب کا نائی تھا اور بوڑھا آدمی تھا۔ اس سے بھی میں حضرت صاحب ؑ کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا۔ اس نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ آپ بچپن سے نیک اور شریف تھے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حضور ؑ بچپن میں اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ریوڑیاں آپ کو مرغوب تھیں جو آپ اپنے ہم جھولیوں میں بانٹ کر کھایا کرتے تھے ۔
{1249} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دعا کے متعلق کچھ سوال ہوا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دعاہی مومن کا ہتھیار ہے ۔ دعا کو ہر گز چھوڑنا نہیں چاہئے ۔بلکہ دعا سے تھکنا نہیں چاہئے۔ لوگوں کی عادت ہے کہ کچھ دن دعا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ دعا کی مثال حضور علیہ السلام نے کوئیں کی دی کہ انسان کنواں کھودتا ہے جب پانی قریب پہنچتا ہے تو تھک کر ناامید ہوکر چھوڑ دیتا ہے ۔ اگر وہ ایک دو بالشت اور کھودتا تو نیچے سے پانی نکل آتا اور اس کا مقصود حاصل ہوجاتا اور کامیاب ہوجاتا۔ اسی طرح دعا کا کام ہے کہ انسان کچھ دن دعا کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے اور ناکام رہتا ہے ۔
{1250} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دکان میں فخر الدین ملتانی بیٹھتا تھااور ا س کے جانب شرق میں مولوی کرم الٰہی بزاز کھاروی بیٹھتا ہے اور درمیان میں دروازہ آمدورفت چھوڑ کر جانب شرق متصل میں وہ دکان جس میں عبد الرحیم فالودہ والا بیٹھتا ہے یہ کل جگہ ویران اور منہدم پڑی تھی۔ مرز انظام الدین وغیرہ ہر موقعہ پر اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے۔ یہاں بھی یہی خیال ان کو تھا ۔ ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ا س جگہ پر ایک دن میں مکان تیار کیا جائے ۔ ‘‘ چنانچہ مرزا خد ابخش صاحب نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں سیکھواں سے کچھ آدمی فوراً لاؤ۔ چنانچہ دس بارہ آدمی سیکھواں سے قادیان پہنچ گئے اور مکان تیار ہونا شروع ہوگیا ۔ چونکہ حضرت صاحب شامل تھے اس لئے تمام لوگ جماعت کے (اس وقت ابھی جماعت برائے نام ہی تھی) کام میں مشغول تھے۔ حتیٰ کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بھی میںنے دیکھا کہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر معمار وں کو دیتے تھے۔ ایک ہی دن میں مکان تیار ہوگیا۔ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ اس نظارہ کو دیکھتے تھے لیکن طاقت نہ تھی کہ کسی کو آکر روک سکیں۔ شام کے بعد مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے حضور مرز ا خد ابخش صاحب نے واقعات پیش کئے اور کامیابی کا اظہار کیا گیا۔ اور سیکھواں سے آدمی پہنچنے کا ذکر کیا گیا۔ الحمد للہ علٰی ذالک
{1251} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں میاں منظور علی شاہ صاحب ولد سید محمد علی شاہ صاحب کی بسم اللہ کی تقریب پر جو مولوی نور الدین صاحبؓ نے کرائی تھی، گیا تھا۔ حسب دستور میں مولوی صاحب کے درس میں جایا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ کبھی کبھی سیر کو بھی جایا کرتا تھا ۔ میں تقریباً پندرہ بیس دن وہاں رہا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جس زمانہ میں ڈاکٹر عبد الحکیم (جو بعد میں مرتد ہو گیا تھا) قرآن شریف کا ترجمہ کر کے لایا ہواتھا۔ حضرت صاحب سیر کوجاتے تھے اور وہ سناتا جاتا تھا۔ حضور علیہ السلام سنتے جاتے تھے اور بعض دفعہ کچھ فرمایا بھی کرتے تھے ۔
{1252} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبد الغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پا کر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور ؑمیں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے ؟ ‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور !یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں ‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دینی نہیں چاہئے ۔
{1253} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مشکلات کیا چیز ہیں؟ دس دن کوئی نما زتہجد پڑھے۔ خوا ہ کیسی ہی مشکل ہو خداتعالیٰ حل کردے گا ۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ)
{1254} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری عمر چونکہ بڑھ رہی تھی ۔ میںنے دعا کرنی شروع کی کہ یا خداوند کریم ! اگر یہ (یعنی حضرت مسیح موعود ) سچا ہے اور میںنے اس کی بیعت نہ کی تو میں جہالت کی موت مروں گا اور اگر یہ سچا نہ ہوا تو میرے اسلام میں فرق آئے گا۔ تُو ہی اپنے فضل سے مجھے صحیح رستہ دکھادے ۔ میںیہ دعا مدت تک کرتا رہا۔ حضور ؑ لاہور تشریف لایا کرتے تھے ایک دفعہ حضور ؑ کا لیکچربریڈلا ہال میں ہو اتھا۔ لوگوںنے حضور ؑ کی گاڑی پر اینٹیں ماریں لیکن پولیس اپنی حفاظت میں حضور ؑ کو خیریت سے لے آئی۔ پھر خد اتعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میںنے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
{1255} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم الدین کے ساتھ مقدمہ تھا ،گورداسپور میں پیشی تھی ۔ جب آواز پڑی تو سب دوست اندر چلے گئے صرف میں یعنی یہ عاجز اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے رہ گئے چنانچہ حضور ؑ لیٹ گئے اور میں حضور ؑ کے پاؤں دبا رہا تھااور بہت سی باتیں حضور ؑ کے ساتھ ہوتی رہیں ۔ چنانچہ ان میں سے صرف دو باتیں یاد رہیں ایک یہ کہ میںنے عرض کیا کہ حضور ! ؑمجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے ۔ حضور ؑ اس کا نام رکھ دیویں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’پہلے کانام کیا ہے ؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور پہلے کا نام عبد الغفور ہے۔ تب حضور نے فرمایا کہ اس کا نام ’’عبد الرحیم ‘‘ رکھ دو۔
{1256} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۹۹۔۱۲۔۷کا واقعہ ہے حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ؓکے سوال کے جواب میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کی کوئی باریک حکمت ہے کہ مجھے دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں اور ایک نیچے کے حصہ میں۔ اوپر کے حصہ میں تو وہ دَوری بیماری ہے جو ہمیشہ کوئی ہفتہ عشرہ خالی نہیں جاتا جو دورہ کرتی رہتی ہے جس سے دل میں ضعف اور دردسر اور نبض بالکل ساکت ہوجاتی ہے وغیرہ اور نیچے کے حصہ میں بیماری ذیابیطس ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میںنے ان کی نسبت توجہ بھی کی تھی تو یہی جواب ملا کہ یہ بیماری لا علاج ہے لیکن فضل خد اشامل حال رہے گا اور فرمایا کہ ’’کیا عجیب پیشگوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ مسیح موعود دو زرد چادریں پہنے ہوئے نازل ہوگا۔وہ یہی اشارہ ہے۔ ورنہ کون سمجھ سکتا ہے کہ آسمان پر کپڑا بنایا جاتا ہے جس سے مسیح کو زرد چادریں دی جاویں گی۔ اور حدیث میں جو دو زرد چادروں کاذکر ہے۔ دراصل انسان کے لئے دو ہی چادریں پردہ پوشی کے لئے کافی ہیں۔ ایک تہ بند اور دوسری اوپر کی چادرکافی ہوسکتی ہے۔‘‘
{1257} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھااور گورداسپور میں اس کی پیشی تھی تو وہاں پر میںنے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضور ؑ عشاء کی نما زکے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے۔ تب حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں ۔‘‘ یعنی نما زعشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں ۔
{1258} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۲۔۷کو ٹیکہ کے متعلق ذکر چل پڑا۔ فرمایا کہ ’’ٹیکہ ضرور کرانا چاہئے۔ یہ بڑا مفید ہے کیونکہ بعض اوقات چیچک سے لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بیماری ہے ۔ تین دفعہ جس کا ٹیکہ کیا جائے وہ چیچک سے محفوظ رہتا ہے (۱) بچپن میں (۲) پھر قریباً آٹھ سال کی عمر میں (۳) پھر سولہ سترہ سال کی عمر میں۔ فرمایا کہ اگرٹیکہ کرنے والے آویں تو مبارک احمد کو ٹیکہ کرایا جائے ۔ پہلے تینوں لڑکوںکا ٹیکا کرایا ہے کسی کو چیچک نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اور فیض احمد صاحب نیٹِو ڈاکٹر نے عرض کیا کہ آج قادیان میں ٹیکا کرنے والے آئے ہوئے ہیں۔ اُن سے دریافت کریں گے۔ اگر جاگ مل گیا تو خود ہی اچھی طرح ٹیکہ کر لیویں گے ۔انشاء اللہ ۔
{1259} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل احمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام مسجد اقصیٰ میںکچھ تقریر فرما رہے تھے۔ دوران تقریر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جس کام کے واسطے مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر چالیس آدمی بھی ہوجاویں تو میں بڑی کامیابی حاصل کرلوں یا اپنے مقصود کو حاصل کرلوں۔‘‘ ایسا ہی کوئی لفظ تھا جو مجھے اس وقت یا دنہیں رہا۔ اس وقت میرے بائیں جانب حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ بیٹھے تھے۔ جب حضور ؑکے مبارک منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضر ت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہائے افسوس! لوگ اس مبارک وجود کو کیا کہتے ہیں ۔یہ جھوٹ بولنے والا منہ ہے ؟
اس کے بعدجب تقریر ختم ہوئی تو سب لوگ اپنے اپنے مکانوں کی طرف جارہے تھے ۔ چنانچہ میں بھی اٹھ کر چلا جب مسجد اقصیٰ سے نیچے اترے تو میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جاملا۔ آپ کے ساتھ اُن کا ایک شاگرد جارہاتھا۔ اس وقت شاگرد نے حضور مولوی صاحب سے سوال کیا کہ حضور ؑ! آج جو حضرت اقدس ؑ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری جماعت سے چالیس آدمی بھی میری مرضی کے مطابق ہو جاویں تو میں کامیاب ہوجاؤں ۔حضور آپ فرماویں کہ ہم کیا گناہ کر رہے ہیں ؟ نما زپڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، کوئی بھی بُراکام نہیں کرتے۔ وہ کیا کام ہے جو حضرت صاحب کرانا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کی مرضی کے مطابق ہوجاویں ۔ اس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہاں! ہے تو، بیشک آپ اچھا کام کرتے ہیں مگر اگر آج ہی آپ کو لنگر سے روٹی نہ ملے تو پھر آپ کو پتہ لگے۔ کیا کیا آپ منصوبہ بازی کرتے ہیں ۔
{1260} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ وفات سے چند یوم قبل حضور علیہ السلام نے لاہور میں امراء کی دعوت کی تھی اور تقریر بھی فرمائی تھی۔ حضور ؑلاہور احمدیہ بلڈنگس میں تشریف لائے ہوئے تھے ۔ جمعہ کی نماز یا ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوکر بیٹھا تھا۔ حضور ؑ سنتیں پڑھ رہے تھے۔ میںنزدیک ہی حضور ؑ کی دائیں طرف بیٹھا ہو ا تھا۔ حضور ؑنے سلام پھیرتے وقت یا سلام کے معاًبعد میری طرف دیکھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو حضور ؑ کی آنکھوں کی روشنی سمجھیں یا جلال سمجھیں یا نور سمجھیں۔ بہر حال کچھ بھی ہو۔ اس نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔
{1261} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک جگہ مکانوں کے درمیان سفید پڑی ہے وہاں حضرت اقدس ؑ مجھ کو بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے۔ پہلے کانام عبد الغنی ، دوسرے کا نام ملک غنی، تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر۴۵سال کی ہوگی یا ہے ۔ اس کے بعد میں بیدار ہوگیا۔ جب میں جمعہ کے دن قادیان شریف میں جمعہ کے واسطے آیا تو رات اسی جگہ یعنی قادیان شریف ہی رہا۔ شام کے بعد جب حضور ؑ مسجد کے اوپر نماز کے بعد گرمیوں میں جیسا کہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے ،بیٹھے تو کچھ صحابی اور بیٹھے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں اور میں بھی حضور ؑ کے قدموں میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ چنانچہ میںنے حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ؑ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضور ؑ مجھے بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف لے جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہونگے ۔ پہلے کانام عبد الغنی دوسرے کانام ملک غنی اور تیسرے کانام پتال غنی رکھنااور آپ کی عمرپنتالیس برس کی ہوگی یا ہے ۔‘‘ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ فضل محمد پھر بتلاؤ کہ پہلے کانام کیااور دوسرے کا نام کیا ہے میںنے جب دوبارہ بتایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ میاں ! پھر بتلاؤ تو میںنے حضور ؑ سے عرض کی کہ حضور! مولوی صاحب تو مذاق کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم ہورہاہے ۔ حضور مسکرا کربولے کہ ’’آپ کو کیا غم ہے؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میری عمر اس وقت ۲۸یا۳۰برس کی ہے اور باقی تھوڑی رہ گئی ہے اور میںنے حضور علیہ السلام کا زمانہ دیکھنا ہے۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ قادرہے وہ دگنی کردیا کرتا ہے ۔‘‘ (اور حقیقت میں ان کی عمر دگنی ہو گئی تھی)
{1262} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ اپنے خادموں کی جدائی(وفات وغیرہ) پر صدمہ محسوس فرماتے تھے۔ چنانچہ جس روز میاں محمداکبر صاحب تاجر چوب بٹالہ فوت ہوئے ۔وہ جمعہ کا دن تھا۔ مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری (جو آج کل کشمیری ہائی کورٹ میں وکیل ہیں) نے مسجد اقصیٰ میں بعد نما زجمعہ حضور ؑ کی خدمت میں ایک نظم خود تیار کردہ سنانے کے لئے عرض کی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آج محمد اکبر فوت ہوگیا ہے۔ اس وقت میری طبیعت سننا نہیں چاہتی۔‘‘
{1263} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی (گجرات) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور میرے والد صاحب جن کا نام محمد حیات تھااور ایک اور دوست جن کا نام غلام محمد صاحب احمدی (جو اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجو دہیں ) اپنے گاؤں چوکنانوالی ضلع گجرات پنجاب سے غالباً۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس ؑ کی زیارت کے لئے دارالامان میں حاضر ہوئے تھے اور مسجد مبارک میں ظہر کی نما زکے لئے گئے تا بیعت بھی ہوجائے اور نماز بھی حضرت اقدس ؑ کے ہمراہ ادا کرلیں اور زیارت بھی نصیب ہو۔ گو اس سے پہلے کئی سال آپ کی تحریر ی بیعت سے بندہ شرف یافتہ تھاجس کا سنہ یاد نہیں۔ لیکن زیارت کاشرف حاصل نہ تھا۔ چنانچہ ایک شخص نے جو کہ ہمارے ہی ضلع کے تھے فرمایا کہ آپ لوگوںنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت کرنی ہو تو مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے وقت سب سے پہلے حاضر ہوجاؤ۔ وہ دوست بھی مہمان خانہ میں موجو دتھے۔ چنانچہ ہم ہر سہ اشخاص وضو کر کے مسجد مبارک میں چلے گئے ۔ ہم سے پہلے چند ایک دوست ہی ابھی حاضر ہوئے تھے جن میں ہم شامل ہوگئے اور سب دوست اس بدر منیر چودھویں کے چاند کی زیارت اور درشن کا عاشقانہ وار انتظار کر رہے تھے جن میں کمترینان بھی شامل تھے۔ بندہ عین اس کھڑکی کے پاس بیٹھ گیاجہاں سے حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے۔ تھوڑی انتظار کے بعد اس آفتاب ہدایت نے اپنے طلوع گاہ سے اپنے منور چہرہ کو دکھا کرہمارے دلوں کی زمین پر سے شکوک وشبہات کی تاریکیوں کو پاش پاش کر کے جملہ نشیب وفراز عملی واخلاقی کو دکھا دیااور اپنے درشنوں سے بہرہ ور فرمایا۔ حضور ؑ کے مسجد میں قدم رکھتے ہی بندہ عاشقانہ وار آپ سے بغل گیر ہوگیااور کئی منٹوں تک حضور ؑکے سینہ مبارک سے اپناسینہ لگا کر بغل گیر رہا۔ جب بہت دیر ہوگئی تو میںنے خود ہی دل میں آپ کو تکلیف ہونے کے احسا س کو پاکر اپنے آپ کو آپ سے الگ کیا(یہ واقعہ بیان کرنے کی غرض محض آپ ؑ کے اسوۂ حسنہ پر تبصرہ ہے ) پھر حضور اپنی نشست گاہ میں جو مسجد مبارک کے شمال مغربی گوشہ میں واقعہ تھی تشریف لے گئے۔ ان دنوں مسجد مبارک ایک ایسے تنگ مگر لمبے کمرہ کی صورت میں تھی جس کا یہ عالم تھا کہ ہرصف میں غالباً چھ یا سات آدمی دوش بدوش کھڑے ہوسکتے ہوں گے۔ اور اپنی نشست گاہ پر فروکش ہوئے۔
{1264} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضور ؑ نما زپڑھ کر گھر کو تشریف لے جارہے تھے جب مسجد سے نکل کر دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میں نے کچھ عرض کرنی ہے ۔ حضور وہاں ہی بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھ گیااور پاؤں دباتا رہا۔ بہت دیرتک باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اس وقت کچھ خوابیں اپنی اور کچھ خوابیں بیوی کی عرض کیں اور کچھ دینی ودنیاوی بھی باتیں ہوتی رہیں اور بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہے ۔ میںنے خیال کیا کہ حضور ؑ نے تو خواہ کتنا ہی وقت گذر جاوے، کچھ نہیں کہنا اور آپ کا میں قیمتی وقت کیوں خرچ کررہاہوں ۔چنانچہ بہت دیر کے بعد میں نے عرض کی کہ حضور مجھ کو اجازت فرماویں۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’بہت اچھا جاؤ۔‘‘
{1265} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس روز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رکھا گیا۔ جس وقت حضور ؑ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے باہر تشریف لائے ۔ میں اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے نیچے جو میدان ہے وہاں کھڑا تھا۔ اس وقت آپ اگر چہ ضبط کو قائم رکھے ہوئے تھے لیکن چہرہ مبارک سے عیاں ہورہا تھا کہ آپ اندر سے روتے ہوئے آرہے ہیں۔
{1266} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا۔ جب میری بیوی اندر گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا۔ ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر گاؤں میں اردگرد طاعون کا حملہ ہورہا تھا اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ؑ باہر سے تشریف لے آئے ۔ا لسلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا ، حضور ؑ نے پوچھا کہ ’’اس جگہ کھڑے کیوں ہو؟‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میاں شادی خان اندر جانے نہیں دیتا۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آؤ میرے ساتھ چلو‘‘ اور وہ اندر چلے گئے ۔
{1267} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے خواب میں دیکھا کہ میں بالکل چھوٹی ہوں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی گود میں بیٹھی ہوں۔ اس وقت میں ایسی محبت سے بیٹھی ہوں جیسے کی ایک چھوٹا بچہ اپنے باپ کی گود میں بیٹھا ہو اہے ۔ اس وقت حضور ؑ نے اپنی زبان مبارک سے بڑی محبت کے ساتھ فرمایا کہ میں برکت بی بی تم کو حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم نماز تیمم سے پڑھ لیا کرو۔ بیماری کی حالت میں غسل جائز نہیں ہے بیمارکو کسی حالت میں بھی غسل جائز نہیں اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتاہوں وہ یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ایک لڑکا دے گا جو صالح ہوگا۔ چنانچہ میںنے یہ خواب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں بمعہ نذرانہ بدست شیخ حامدعلی صاحب اندر گھر میں بھیج دی ۔ جب وہ لڑکا پید اہوا تو حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’صالح محمد ‘‘رکھا۔
{1268} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمدالدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی ضلع گجرات (پنجاب) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مسجد مبارک میں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھتے ہوئے باتوں کے دوران میں (غالباً آپ ہی کے الفاظ ہیں) ایک مخالف کی طرف سے آئی ہوئی مگر گالیوں سے بھری ہوئی چٹھی کے پڑھنے جانے پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ا س کو مطبع میں بھیج کر چھپوادیا جائے یا بھیج کر چھپوادو ۔تاکہ اس کا شاید بھلا ہوجائے ۔ فقط
{1269} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس رو زعبد اللہ آتھم عیسائی والی پیشگوئی کی میعاد ختم ہوگئی اس سے دوسرے دن جب کچھ سورج نکل آیا تو
حضور علیہ السلام باہر تشریف لائے اور جہاں اب مدرسہ احمدیہ کا دروازہ آمدورفت بھائی شیر محمد صاحب کی دوکان کے سامنے ہے اور اس کے جنوب وشمال کے کمرے جن میں طلباء پڑھتے ہیں ۔یہ جگہ سب کی سب سفید پڑی ہوئی تھی ۔ کوئی مکان ابھی وہاں نہیں بنا تھا۔ چارپائیاں یا تخت پوش تھے۔ ان پر حضور علیہ السلام مع خدام بیٹھ گئے اور اسی پیشگوئی کا ذکر شروع کردیا کہ ’’خدا نے مجھے کہا ہے کہ عبد اللہ آتھم نے رجوع کر لیا ہے۔ اس لئے اس کی موت میں تاخیر کی گئی ہے ۔‘‘ اس وقت آپؑ کے کلام میں عجیب قسم کا جوش اور شوکت تھی اور چہرہ مبارک کی رنگت گلاب کے پھول کی طرح خوش نما تھی اور یہ آخری کلام تھاجو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے آپ نے فرمایااور یہ بھی فرمایا کہ ’’حق یہی ہے کہ جو خد انے فرمایا ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی میرے ساتھ رہے یا نہ رہے ۔‘‘
{1270} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۱۸۶۳ء میں سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ کا عہدہ نائب شیرف کا تھا۔ ان کاغذوں میں جن کی تاریخ اگست اور ستمبر۱۸۶۳ء کی ہے ،یہ ذکر ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لئے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے ۔
{1271} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم نواب محمد علی خاںصاحب مرحوم سے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی وصیت ملی ہے جو حضور نے اپنی وفات سے نو دن قبل یعنی۰۴؍مارچ۱۹۱۴ء کو تحریرفرمائی اور اس پر نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے موجودہ امیر غیر مبائعین کی گواہی درج کرا کے اور اس وصیت کو مجلس میں مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوا کر نواب محمد علی خان صاحب کے سپرد فرما دی جو مجھے اب نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اپنی ہمشیرہ سے ملی ہے اور میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے خط کو اور اسی طرح گواہوں کے دستخط کوپہچانتا ہوں۔ وصیت جس کا عکس یعنی چربہ درج ذیل کیا جاتا ہے یہ ہے ۔


{1272} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر۶۳۲بیان کردہ ڈاکٹر غلام احمد صاحب میں غلطی واقع ہوگئی ہے ۔ صحیح روایت خود ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد صاحب شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کی ہے یہ ہے کہ سال۱۹۰۰ء کاواقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہ عاجز(شیخ نیاز محمدصاحب )حضرت سیدہ ام المومنین سلمھا اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کپڑا بطور تحفہ لایا۔ اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں پیش کردیں۔ کیونکہ اس عاجز کو حجاب تھا۔ ان ایام میں مسجد مبارک کی توسیع ہورہی تھی اور اس لئے نماز ایک بڑے کمرے میں جو اَب حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے مکان میں شامل ہے ،ہوتی تھی۔ نماز ظہر کے وقت جب جماعت کھڑی ہوئی تو حضرت خلیفہ اول نے اس عاجز کو آگے بلا کر وہ کپڑ احضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں پیش کیا۔ حضور نے قبول فرما کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ نماز کے بعد حضور وہ کپڑ الے کر اوپر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نانا جان مرحوم ہنستے ہوئے باہر تشریف لائے اور پوچھا کہ میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کہاں ہے ۔ یہ عاجز اس وقت نفلوں میں التحیات پڑھ رہاتھا۔ حکیم مولوی محمدالدین صاحب مرحوم امیر جماعت گوجرانوالہ نے اس عاجز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہے ۔ حضرت نانا جان وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آج حضرت اقدس بہت خوشی سے مسکراتے ہوئے اندر تشریف لائے اور ام المومنین ؓ کو ایک کپڑا دے کر فرمایا کہ محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر ہمارے کپڑوں کی تلاشی کرائی تھی اس کا لڑکا ہمارے واسطے یہ تحفہ لے کر آیاہے ۔ حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس کی اس غیر معمولی خوشی کو دیکھ کر میں اس لڑکے کو ملنے آیاہوں ۔ اتنے میں یہ عاجز نفل پڑھ کر حضرت ناناجان سے ملا تو وہ اس عاجز سے نہایت محبت سے ملے اور پھرآخر عمر تک اس عاجز سے خاص شفقت فرماتے رہے ۔
اس کے کچھ عرصہ بعداس عاجز کی اہلیہ قادیان آئیں تو حضرت سیدہ اُم المومنین سلمہا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک دفعہ تمہارے میاں (خاوند) ایک کپڑا بطور تحفہ میرے لئے لائے تو حضرت صاحب اس دن بہت خوشی سے اندر تشریف لائے اور کپڑا دے کر فرمایا کہ معلوم ہے یہ کپڑ اکون لایا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ یہ اس تھانیدار کے بیٹے نے دیا ہے جس نے ہمارے کپڑوں کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے موقع پر کرائی تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی ایمان افروز نظارہ ہے جو دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا کہ عرب سرداروں نے ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور مخالفت میں گزار دی مگر خدا نے انہی کی اولادوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں ڈال کر ان کے خلاف اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گواہ بنادیا۔
{1273} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر۵۰۸میں جو حافظ نور محمد صاحب کی طرف سے درج ہے میں جس عرب صاحب کے متعلق حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ان کی شادی مالیر کوٹلہ سے ہوئی تھی اس کے متعلق خاکسار نے لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عرب قادیان میں آکر رہے تھے ان کا نام عبدالمحی تھااور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرادی تھی۔ اور میں نے لکھا ہے کہ اگر اس روایت میں انہی عرب صاحب کاذکر ہے تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے ۔ سو اس روایت کے متعلق محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ عبدالمحی عرب نہیںتھے بلکہ محمد سعید عرب شامی تھے جو یہاں آئے اور ایک عربی رسالہ بھی انہوںنے لکھا تھا۔ اور ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں ہوئی تھی اور عبدالمحی صاحب تو بہت عرصہ بعد قادیان آئے تھے ۔

{1274} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اپنے برادرنسبتی عزیز عبد الرحمن خان نیازی سکنہ پشاور سے بعض وہ خطوط حاصل ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میرے خسر یعنی خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاور کے نام لکھے تھے۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خط کو پہچانتا ہوں اور یہ خطوط حضور کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خط جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری شادی کی تجویز کے متعلق میں مولوی صاحب موصوف کو لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ کریم
محبی مکرمی اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھااور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا۔ بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں۔ اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے ۔نمازاور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرمائیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں ۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد
چونکہ دونو کی عمر چھوٹی ہیں اس لئے تین برس تک شادی میں توقف ہوگا۔
(اس خط پر کسی اور کے قلم سے تاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء درج ہے )

{1275} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماںجان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پید اہوئی۔ بشیر اول قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا۔ تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے ۔ شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی۔ تم (یعنی خاکسار مرز ا بشیر احمد) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے ۔ شریف بھی اسی دلان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں۔ مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پید اہواجوغربی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے ۔ امۃ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امۃ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پید اہوئی ۔
{1276} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے سنا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے اس کمرہ میں پیدا ہوئے تھے جو نچلی منزل میں ہمارے کنوئیں والے صحن کے ساتھ شمالی جانب ملحق ہے ۔
{1277} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان ام المومنین نے مجھ سے بیان کیا کہ ہماری بڑی بہن اس وقت انبالہ میں پیدا ہوئی تھی اور لدھیانہ میں فوت ہوئی ۔اس کی قبر لدھیانہ کے قبرستان گورغریباں میں ہے اور ایک احمدی سپاہی (سابقہ خاوند زوجہ بابو علی حسن صاحب سنوری) کے بیٹے کی قبر کے ساتھ ہے ۔ شوکت بھی لدھیانہ میں فوت ہوئی اور قبرستان حرم سرائے شاہ زادگان لدھیانہ میں ہے ۔
{1278} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور حضور نے ذیل کے اصحاب کو ان بارہ حواریوں میں شمار کیا(۱)حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ (۲)مولوی محمد احسن صاحب امروہوی(۳)میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (۴)مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری(۵)ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آف لاہور(۶)ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (۷)شیخ رحمت اللہ صاحب آف لاہور (۸)سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی(۹)ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور (۱۰)مولوی محمد علی صاحب ایم اے (۱۱)سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی (۱۲)مفتی محمد صادق صاحب ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پوچھنے پر کہ کیااس فہرست میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اس وقت فوت ہوچکے تھے بلکہ ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑ ا حادثہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے مخلص آدمی دے رکھے ہیں۔ پھر فرمایا۔ کہ مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں اور اوپر کے نام بیان فرمائے۔ اس موقعہ پر ہم نے بعض اور نام لئے کہ کیا یہ حواریوں میں شامل نہیں ۔ آپ نے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ بھی بہت مخلص ہیں مگر اس گروہ میں شامل نہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات۱۹۰۵ء کے آخر میں ہوئی تھی۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
{976} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ہمارے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھ سے بیان کیا کہ جس روز پنڈت لیکھرام کے قتل کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی ہوئی۔تو اچانک پولیس کپتان بمعہ ایک گروہ سپاہیوں کے قادیان آگیااور آتے ہی سب ناکے روک لئے ۔ باہر کے لوگ اندر اور اندر کے باہر نہ جاسکتے تھے۔ میر صاحب قبلہ یعنی حضرت والد صاحب جو مکان کے اندر تھے فوراً حضور کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ ایک انگریز بمعہ سپاہیوں کے تلاشی لینے آیا ہے ۔ فرمایا بہت اچھا آجائیں ۔ میرصاحب واپس چلے تو آپ نے اُن کو پھر بلایا ۔ اور ایک کتاب یا کاپی میں سے اپنا الہام دکھا یا جو یہ تھا کہ مَاھٰذَا اِلَّا تَہْدِیْدُ الْحُکَّامِ یعنی یہ حکام کی طرف سے صرف ایک ڈراوا ہے ۔ اس کے بعد جب انگریز کپتان بمعہ پولیس کے اندر داخل ہوا تو آپ اُسے ملے ۔ اُ س نے کہا کہ مرز اصاحب! مجھے آپ کی تلاشی کا حکم ہو اہے ۔ حضور نے فرمایا !بیشک تلاشی لیں میں اس میں آپ کو مدد دوں گا۔ یہ کہہ کر اپنا کمرہ اور صندوق ، بستے اور پھرتمام گھر اور چوبارہ سب کچھ دکھایا۔ انہوں نے تمام خط وکتابت میں سے صرف دو خط لئے جن میں سے ایک ہندی کا پرچہ تھا۔ جو دراصل آٹاوغیرہ خریدنے اور پسوانے کی رسید یعنی ٹومبو تھا۔ دوسرا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائی مرزا امام الدین یعنی محمدی بیگم کے ماموں کا تھا ۔ پھر وہ چند گھنٹے بعد چلے گئے ۔ چاشت کے وقت وہ لوگ قادیان آئے تھے ۔ اس کے بعد دوبارہ دوہفتہ کے بعد اس خط کی بابت دریافت کرنے کے لئے ایک انسپکٹر پولیس بھی آیا تھا ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے اور اس کے متعلق مزید تفصیل دوسری روایتوں میں مثلاً روایت نمبر۴۶۰میں گذر چکی ہے ۔ یہ روایت ہمارے ماموں حضرت ڈاکٹر سید میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے خود بیان کی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے وقت حضرت میر صاحب وفات پاچکے ہیں۔
نوٹ:۔ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب جولائی۱۹۴۷ء میں قادیان میں فوت ہوئے تھے اور میں اس تالیف کی نظر ثانی اکتوبر۱۹۴۹ء میں لاہور میں کررہاہوں ۔
{ 977} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ تمام انبیاء کے نام چونکہ خدا کی طرف سے رکھے جاتے ہیں اس لئے ہر ایک کے نام میں اس کی کسی بڑی صفت کی پیشگوئی موجود ہوتی ہے ۔ مثلاً آدم ، گندم گوں اقوام کا باپ ۔ ابراہیم ، قوموں کا باپ۔ اسماعیل ، خدا نے دعا کو سن لیا۔ یعنی اولاً اولاد کے متعلق ابراہیم کی دعا کو سن لیا اور پھر مکہ کی وادی غیرذی زرع میں اسماعیل کی پکار سن لی اور پانی مل گیا اور آبادی کی صورت پید اہوگئی۔ اسحق ، اصل میں اضحاک ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنٰـھَا بِاِسْحٰق(ھود:۷۲)۔ نوح کا اتنی لمبی عمر نوحہ کرنا مشہور ہے ۔مسیح ، سفر کرنے والا ، خدا کاممسوح۔ سلیمان جس کے متعلق قرآن فرماتا ہے ۔ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِرَبِّ الْعَالَمِیْن(النحل:۴۵) ۔ ایسا بادشاہ جو نہ صرف خود مسلم تھا بلکہ جس کے طفیل ایک شہزادی بمعہ اپنے اہل ملک کے اسلام لائی۔ مریم بتول یعنی کنواری ۔ چنانچہ فرماتا ہے اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَافِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا(اٰل عمران:۳۶)۔یعقوب ۔ پیچھے آنے والا ۔ وَمِنْ وَّرَآئِ اِسْحَاقَ یَعْقُوْبَ(ھود:۷۲) یوسف۔ یَااَسَفٰی عَلٰی یُوسُفَ (یوسف:۸۵)۔ محمد ﷺ، تمام کمالات کا جامع جس کی ہر جہت سے تعریف کی جائے یعنی کامل محمود ومحبوب اور معشوق ۔ احمد ،نہایت حمد کرنے والا یعنی عاشق صادق وغیرہ وغیرہ ۔
{ 978} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ خواب میں چور کی تعبیر داماد بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا چور ہوتا ہے ۔ اسی طرح جوتی کی تعبیر عورت ہوتی ہے اور عورت کی تعبیر دنیا۔ ہاتھوں کی تعبیر بھائی ہوتی ہے اور دانت ٹوٹ جائے تو تعبیر یہ ہے کہ کوئی عزیز مر جائے گا ۔ اوپر کا دانت ہو تو مرد نیچے کا ہوتو عورت ۔
{ 979} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کپورتھلہ کی جماعت میں ہم پانچ آدمی جماعت کے نام سے نامزد تھے۔ (۱)خاکسار فیاض علی (۲)منشی اروڑا صاحب تحصیل دار مرحوم (۳)منشی محمد خان صاحب مرحوم(۴)منشی عبد الرحمن صاحب (۵)منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس۔ ان سب کو حضرت مسیح موعود نے۳۱۳میں شمار کیاہے اور مجموعی طور پرا ور فرداً فرداً حضرت اقدس نے ان کو جو دعائیں دی ہیں وہ ازالہ اوہام اور آئینہ کمالات اسلام میں درج ہیں۔ ان دعاؤں کی قبولیت سے ہماری جماعت کے ہر فرد نے اپنی زندگی میںبہشت کا نمونہ دیکھ لیا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں فیاض علی صاحب پرانے صحابی تھے ۔افسوس ہے کہ اس وقت(۱۹۴۹ء )میں وہ اور منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب سب فوت ہوچکے ہیں ۔
{ 980} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاکسار کو دعا دی تھی ’’اے خد اتو اس کے اندر ہو کر ظاہر ہو۔‘‘(ملاحظہ ہو ازالہ اوہام) اس سے پیشتر میں قطعی بے اولاد تھا ۔ شادی کو چودہ سال گذر چکے تھے ۔ دوسری شادی کی۔ وہ بیوی بھی بغیر اولاد نرینہ کے فوت ہوگئی۔ تیسری شادی کی ۔ اُس سے پے در پے خدا نے چار لڑکے اور دو لڑکیاں عطا کیں۔ ایک لڑکا چھوٹی عمر میں فوت ہوگیا۔ تین لڑکے اور لڑکیاں اس وقت زندہ موجود ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک خدا کے فضل سے خوش حال وخوش وخرم ہے ۔ لڑکیاں صاحب اقبال گھر بیاہی گئیں۔ ان میں سے ہر ایک احمدیت کا دلدادہ ہے۔ بڑ ا لڑکا مختار احمد ایم اے ۔بی ۔ٹی سر رشتہ تعلیم دہلی میں سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ دوسرا لڑکا نثاراحمد بی اے ، ایل ایل بی ضلع شاہجہان پور میں وکالت کرتا ہے ۔ تیسرا لڑکا رشید احمد بی۔ ایس۔ سی پاس ہے اور قانون کا پرائیویٹ امتحان پاس کرچکا ہے ۔ اور اس وقت ایم۔ ایس۔ سی کے فائنل کے امتحان میں ہے ۔
{ 981} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے ایک لڑکے کو مرگی کا عارضہ ہوگیا تھا ۔ بہت کچھ علاج کرایا مگر ہر ایک جگہ سے مایوسی ہوئی۔ قادیان میں مولانا حکیم نورا لدین صاحب خلیفہ اولؓ کی خدمت میں بھی مع اس کی والدہ کے لڑکے کو بھیجا گیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ اور اس کی والدہ مایوس ہو کر گھر واپس آنے لگی ۔ اس وقت حضرت ام المومنین کے مکان میں اُن کا قیام تھا ۔ حضرت ام المومنین نے لڑکے کی والدہ سے فرمایا ۔ ٹھہرو ہم دعا کریں گے ۔ چنانچہ حضور دام اقبالھا قریباً دو گھنٹہ بچہ کی صحت کے واسطے سربسجود رہیں ۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ رات کو لڑکے نے خواب میں دیکھا۔ کہ چاندنی رات ہے اور میں دورہ مرگی میں مبتلا ہوں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیت الدعا کی کھڑکی سے تشریف لائے اور مجھ کودیکھ کر دریافت کیا کہ تیرا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور
ملاحظہ فرمالیں۔ مسیح موعود علیہ السلام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ گھبراؤنہیں ، آرام ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس کی والدہ لڑکے کو لے کر گھر واپس چلی آئی ۔ پھر میں ہر مشہور ڈاکٹر اور طبیب سے لڑکے کا علاج کرواتا رہا۔ آخر قصبہ ہاپڑ ضلع میرٹھ میں ایک طبیب کے پاس گیا۔ اس نے نسخہ تجویز کیا اور رات کو اپنے سامنے کھلایا ۔ اس وقت لڑکے کو نہایت سختی کے ساتھ دورہ ہوگیا ۔ طبیب اپنے گھر کے اندر جاکر سوگیا۔ اور ہم دونوں باہر مردانہ میں سوگئے۔ صبح ہوئی نماز پڑھی ۔ طبیب بھی گھر سے باہر آیا۔ طبیب نے کہا کہ رات کو میںنے ایک خواب دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب دی گئی۔ جب میں نے اس کو کھولا تو اس کے شروع میں لکھا ہوا تھا۔ اس مرض کا علاج املی ہے ۔ چھ سات سطر کے اندر یہی لکھا ہوا تھا کہ اس مرض کا علاج سوائے املی کے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ طبیب نے کہا کہ نہ تو میں مرض کو سمجھااور نہ علاج کو ۔ میں نے تمہیں اپنا خواب سنا دیا ہے ۔ میں نے طبیب کے اس خواب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت کے مطابق خد اکی طرف سے الہام سمجھااور لڑکے کو لے کر گھر چلا آیا۔ املی کااستعمال شروع کردیا۔ رات کو چار تولہ بھگو دیتا تھا ۔ صبح کو چھان کر دو تو لہ مصری ملا کر لڑکے کو پلا دیتا تھا۔ دو ہفتہ کے اندر اُس مرض سے لڑکے نے نجات پالی۔ اور اس وقت خداکے فضل سے گریجویٹ ہے اور ایک اچھے عہدہ پر ممتاز ہے ۔
{ 982} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ریاست کپور تھلہ میں ڈاکٹر صادق علی صاحب مشہور آدمی تھے اور را جہ صاحب کے مصاحبین میں سے تھے۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کو بیعت کی کیا ضرورت ہے ۔ دوبارہ اصرار کیا ۔ فرمایا آپ تو بیعت میں ہی ہیں۔ مگر باوجود اصرار کے بیعت میں داخل نہ فرمایا ۔ نہ معلوم کہ اس میں کیا مصلحت تھی ۔
{ 983} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کپور تھلہ تشریف لائے تو ایک شخص مولوی محمد دین آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیعت کی درخواست کی۔ حضور نے جواب دیا۔ آپ سوچ لیں۔ دوسرے دن اس نے عرض کی تو پھر وہی جواب ملا ۔ تیسرے دن پھر عرض کی ۔ فرمایا آپ استخارہ کرلیں۔ غرض اس طرح ان مولوی صاحب کی بیعت قبول نہ ہوئی ۔
{ 984} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں حکیم جعفر علی ڈاکٹر صادق علی کے بھائی تھے۔ جماعت کپور تھلہ جلسہ پر قادیان جارہی تھی۔ جعفر علی نے کہا کہ لنگر خانہ میں پانچ روپیہ میری طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کئے جائیں۔ وہ روپے منشی ظفر احمد صاحب کاتب جنگ مقدس نے حضورکی خدمت میںپیش کئے۔ مگر حضور نے قبول نہ فرمائے ۔ دوسرے دن دوبارہ پیش کئے۔ فرمایا۔ یہ روپے لینے مناسب نہیں ہیں۔ تیسرے دن منشی ظفر احمد صاحب نے پھر عرض کی کہ بہت عقیدت سے روپے دئیے گئے ہیں ۔ اس پر فرمایا: تمہارے اصرار کی وجہ سے رکھ لیتے ہیں ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص محبّوں میں سے تھے اور مجھے ان کی محبت اور اخلاص کو دیکھ کر ہمیشہ ہی رشک آیا۔
{ 985} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کپور تھلہ میں ایک شخص شرابی ، فاسق وفاجر تھا۔ ایک رات وہ کسی جگہ سے شب باش ہوکر آیا۔ راستہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان میں وعظ فرما رہے تھے ۔ یہ شخص بھی وعظ کا سن کر وہاں آگیا۔ وعظ میں حضور علیہ السلام افعالِ شنیعہ کی بُرائی بیان فرما رہے تھے۔ اس شخص نے مجھ سے کہا ۔ حضرت صاحب کے وعظ کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ لوگوں کو مخاطب کر کے مجھے سمجھا رہے ہیں ۔ اُس دن سے اُس نے توبہ کی ۔ شراب وغیرہ چھوڑ دی اور پابند صوم وصلوٰۃ ہوگیا۔
{ 986} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد کپورتھلہ حاجی ولی اللہ غیر احمدی لاولد نے بنائی تھی ۔ اس کے دو برادر زادے تھے۔ انہوںنے حبیب الرحمن صاحب کو مسجد کا متولی قرار دیا اور رجسٹری کرادی ۔ متولی مسجد احمدی ہوگیا۔ جب جماعت احمدیہ کو علیحدہ نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ تو احمدیوںاور غیر احمدیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ غیر احمدیوں نے حکام بالا اور رؤسائے شہر کے ایماء سے مسجد پر جبراً قبضہ کر لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو حکم دیا کہ اپنے حقوق کو چھوڑنا گناہ ہے۔ عدالت میں چارہ جوئی کرو۔ اس حکم کے ماتحت ہم نے عدالت میں دعویٰ دائر کردیا۔ یہ مقدمہ سات برس تک چلتا رہا۔ ان ایام میںجماعت احمدیہ اپنے گھرو ں میں نماز پڑھ لیا کرتی تھی۔ خاکسار ہمیشہ حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ حضور دہلی سے قادیان واپس آرہے تھے کہ لدھیانہ میں حضور کالیکچر ہوا۔ لیکچر سننے کے لئے خاکساراور منشی عبد الرحمن صاحب مرحوم لدھیانہ گئے ۔ لیکچر ختم ہونے پر خاکسار نے مسجد کپور تھلہ کے واسطے دعا کی درخواست کی ۔ حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر یہ سلسلہ خد اکی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آجائے گی‘‘ اس وقت چہرہ مبارک پر ایک جلال رونما تھا ۔ اس پیشگوئی کو سن کر بہت خوشی ہوئی ۔ جس کا اظہاراخباروں میں بھی ہوگیا۔ میں نے تحریر وتقریر میں ہر ایک مدعا علیہ سے اس پیشگوئی کا اظہار کردیا۔اور میں نے تحدّی کے ساتھ مدعا علیھم پر حجت تمام کر دی کہ اپنی ہر ممکن کوشش کرلو۔ اگرچہ حکام بھی غیر احمدی ہیں جن پر تم سب کو بھروسہ ہے مگر مسجد ضرور ہمارے پاس واپس آئے گی۔ میرے اس اصرار پر ڈاکٹر شفاعت احمدکپور تھلہ نے وعدہ کیا کہ اگر مسجد تمہارے پاس واپس چلی گئی تو میں مسیح موعود ؑ پر ایمان لے آؤں گا۔ میں ایک مرتبہ ضرور تاً لاہور گیا اورجمعہ اد اکرنے کے لئے احمدیہ مسجد میں چلا گیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب سے اس پیشگوئی کا ذکر آگیا۔ انہوںنے کہا کہ منبر پر چڑھ کر سب کو سنا دو۔ میںنے مفصل حال اور یہ پیشگوئی احباب کو سنا دی تاکہ پیشگوئی پورا ہونے پر جماعت کی تقویت ایمان کا باعث ہو۔ پہلی اور دوسری دو عدالتوں میں باوجود مدعا علیھم کی کوشش وسعی کے مقدمہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔ ڈاکٹر صادق علی ان ہر دوحکام کا معالج خاص تھا۔ اور اس نے بڑی کوشش کی ۔ آخر اس کی اپیل آخری عدالت میں دائر ہوئی۔ یہ حاکم غیر احمدی تھا۔ مقدمہ پیش ہونے پر اُس نے حکم دیا ’’ کہ یہ مسجد غیر احمدی کی بنائی ہوئی ہے ۔ اس مسجد میں احمدیوں کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ احمدی جماعت نے جدید نبی کے دعویٰ کو قبول کر لیا ہے ۔ اس لئے وہ اپنی مسجد علیحدہ بنائیں ۔ پرسوں میں حکم لکھ کر فیصلہ سناؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر شفاعت احمد صاحب نے مجھ سے کہا۔ کہو صاحب! مرزا صاحب کی پیشگوئی کہاں گئی؟ مسجد کا فیصلہ تو تم نے سن لیا ۔ میں نے اس کو جواب دیا ۔ کہ شفاعت احمد! ابھی دو تین روز درمیان میں ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان احکم الحاکمین کی ہستی ہے ۔ اس بات کا انتظار کرو کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ یاد رکھو۔ زمین وآسمان ٹل جائیں گے مگر خدا کی جو باتیں مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے نکل چکی ہیں وہ نہیں ٹلیں گی۔ میری اس تحدّی سے وہ حیرت زدہ ہوگیا۔ رات کو حبیب الرحمن متولی مسجد نے خواب میں دیکھا اور جماعت کو وہ خواب بھی سنا یا کہ یہ حاکم ہماری مسجد کا فیصلہ نہیں کر ے گا۔ اس کا فیصلہ کرنے والا اور حاکم ہے ۔ یہ خواب بھی مدعا علیھم کو سنا دی گئی ۔ مدعا علیھم ہماری ان باتوں سے حیرت زدہ ہوجاتے تھے۔ کیونکہ فیصلہ میں دو روز باقی تھے اور حاکم اپنا فیصلہ ظاہر کر چکا تھا۔ ایک احمدی کہتا ہے ۔ زمین آسمان ٹل جائیں گے مگر مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوکر رہے گی ۔ دوسرا کہتا ہے کہ یہ حاکم فیصلہ نہیں کرے گا وہ اور ہے جو فیصلہ کرے گا۔ مقررہ دن آگیا مگر حاکم فیصلہ نہیں لکھ سکا۔ دوسری تاریخ ڈال دی او ر ہر پیشی پر خدا ایسے اسباب پیدا کرد یتا رہا کہ وہ حاکم فیصلہ نہ لکھ سکا۔ اس سے مخالفوں میں مایوسی پیدا ہونے لگی کہ کہیں پیشگوئی پوری نہ ہوجائے۔ اسی اثناء میں عبد السمیع احمد ی نے ایک رؤیا دیکھا جو اس وقت قادیان میں موجود ہے کہ میں بازار میں جارہا ہوں راستہ میں ایک شخص مجھے ملا اور اس نے کہا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔ یہ خواب بھی مخالفوں کو سنا دی گئی۔ ایک ہفتہ کے بعد عبد السمیع مذکور بازار میں جارہا تھا کہ اسی موقعہ پر وہ شخص جس نے خواب میں کہا تھا کہ تمہاری مسجد کا فیصلہ کرنے والا حاکم فوت ہوگیا ہے ۔اُن کوملا اور اُس نے حاکم کی موت کی خبردی۔ حاکم کی موت کا واقعہ یوں ہوا۔ کہ وہ حاکم کھانا کھا کر کچہری جانے کے واسطے تیاری کررہا تھا، سواری آگئی تھی۔ خدمت گار کسی کام کے لئے باورچی خانہ میں گیا ہی تھا کہ دفعتاً حرکت قلب بند ہوئی اور وہ حاکم وہیں فوت ہوگیا۔ اس کے ماتم پر لوگ عام گفتگو کرتے تھے کہ اب ہمارے پاس مسجد کے رہنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس کی جگہ ایک آریہ حاکم فیصلہ کرنے کے لئے مقرر ہوا۔ یہ بھی احمدیوں کا سخت دشمن تھا۔ اوروہ بھی مخالفوں کی طرف ہی مائل تھا۔ آخر وکلاء کی بحث کے بعد یہ بات قرار پائی کہ کسی انگریزی علاقہ کے بیرسٹر سے فیصلہ کی رائے لی جائے۔ پچاس روپیہ فریقین سے فیس کے لئے گئے۔ اور اُس حاکم نے اپنے قریبی رشتہ دار آریہ بیرسٹر کے پاس مشورہ کے واسطے وہ مسل بھیج دی ۔ اس جگہ بھی غیر احمدیوں نے بے حدکوششیں کیں۔ اور یہ بات قابل غور ہے کہ مقدمہ میں کس طرح پیچ در پیچ پڑتے چلے جارہے تھے۔ ہاں عدالت ابتدائی کے دوران میں ایک احمدی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان بنایا جارہا ہے ۔ اس کی چاروں طرف کی دیواریں غیر احمدی کے واسطے تعمیر کی گئی ہیں ۔ مگر چھت صرف احمدیوں کے واسطے ڈالی گئی ہے جس کے سایہ میں وہ رہیں گے۔ جس سے یہ مراد تھی کہ گو مسل کا فیصلہ غیر احمدیوں کے حق میں لکھا جارہا ہے لیکن جب حکم سنانے کا موقعہ آئے گا تو مسجد احمدیوں کو دی جائے گی اور جس طرح کوئی بالاطاقت قلم کو روک دیتی ہے اور بے اختیار حاکم کے قلم سے احمدیوں کے حق میں فیصلہ لکھا دیتی ہے اور ہر ایک عدالت میں یہی بات ہوئی۔
میں نے بھی خواب میں دیکھا کہ آسمان پر ہماری مسل پیش ہوئی اور ہمارے حق میں فیصلہ ہوا۔ میں نے اپنا یہ خواب وکیل کو بتادیا۔ وہ مسل دیکھنے کے لئے عدالت گیا۔ اُس نے آکر کہا کہ تمہارا خواب بڑا عجیب ہے کہ فیصلہ ہوگیا ہے ،حالانکہ بیرسٹر کے پاس ابھی مسل بھیجی بھی نہیں گئی ۔ میں نے اُس سے کہا کہ ایک سب سے بڑا حاکم ہے اس کی عدالت سے فیصلہ آگیا ہے ۔ یہ دنیا کی عدالتیں اس کے خلاف نہیں جاسکیں گی۔ آخر اس آریہ بیرسٹر نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ کی رائے دی اور مسل واپس آگئی اور حکم سنا دیا گیا۔ ہمارے وکیل نے کہا کہ ظاہری صورت میں ہم حیران تھے کہ کس طرح مسجد تم کو مل سکتی ہے ۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ خد اکی امدا د ہے تبھی مسجد مل گئی۔
لیکن افسوس ہے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر بھی شفاعت احمد ایمان نہ لایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کا واقعہ روایت نمبر۷۹میں بھی درج ہوچکا ہے اور شاید کسی اور روایت میں بھی جو مجھے اس وقت یاد نہیں ۔
{ 987} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار پہلی مرتبہ میر عباس علی صاحب کے ہمراہ قادیان آیا تھا ۔ میر صاحب نے آتے ہی گول کمرہ میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بذریعہ حافظ حامد علی صاحب اپنے آنے کی اطلاع دی کہ میرصاحب لدھیانہ سے آئے ہیں۔ ہم اطلاع دیتے ہی بڑی مسجد میں نما زعصر پڑھنے کے لئے چلے گئے۔ اس وقت اس مسجد میں کوئی نمازی نہ تھا۔ جب ہم نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور واپس گول کمرہ میں آئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ میر صاحب! آپ کو حضرت صاحب اوپر بلاتے ہیں ۔ اس پر میر صاحب پاؤں برہنہ ہی گئے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھ کر میر صاحب سے پوچھا۔ یہی میر عنایت علی ہیں؟انہوںنے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ غرض اس طرح پہلی مرتبہ میری حضور سے ملاقات ہوئی ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت میر عنایت علی صاحب فوت ہوچکے ہیں ۔ بہت سادہ مزاج بزرگ تھے۔ اور میر عباس علی صاحب ان کے چچا تھے یہ میر عبا س علی وہی ہیں جو بعد میں مرتد ہوگئے تھے۔
{ 988} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد خان صاحب ساکن گل منج تحصیل وضلع گورداسپور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے جوش سے تقریر فرمائی ۔ اُس تقریر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے نام پر اپنے لڑکے دیں گے وہ بہت ہی خوش نصیب ہوں گے۔ اُس زمانہ میں احمدیہ سکول کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ میں نے بھی اس وقت خدا سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تُو ہمیں بھی لڑکے عطا فرما تاکہ ہم حضرت صاحب کی حکم کی تعمیل میں اُن کو احمدیہ سکول میں داخل کراویں ۔ خدا تعالیٰ نے دعا کو سنا۔ اور پانچ بچے دئیے جن میں سے تین فوت ہوگئے اور دو چھوٹے بچے رہ گئے ۔ پھر میں نے بموجب ارشاد حضرت صاحب بڑے لڑکے کو احمدیہ سکول میں اور چھوٹے کو ہائی سکول میں داخل کرادیا۔ اور اپنی وصیت کی بہشتی مقبرہ کی سند بھی حاصل کر لی ۔
{ 989} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب ہنری مارٹن کلارک پادری نے ایک بڑے منصوبے کے بعد حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر قتل کا مقدمہ دائر کیا تو شفاعت احمد نے جن کا میں ایک روایت میں ذکر کر آیا ہوں ۔ مجھ سے کہا کہ مسجد تو ہمارے حاکم کے فوت ہوجانے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ مگر اس مقدمہ قتل سے اگر مرزا صاحب بچ گئے تو میں ضرور احمدی ہوجاؤں گا۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ مسیح موعود نے فرمادیا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک آگ کاشعلہ آیا اور ہمارے مکان کے دروازہ پر آکر گرا ہے ۔ مگر وہ گرتے ہی ایک خوشنما پھول بن گیا ہے ۔ پس انجام اس مقدمہ کا یہی ہوگا جو میں لکھ رہاہوں ۔ آخر وہ مقدمہ حضرت صاحب کے حق میں فیصلہ ہوا اور پادریوں کو شرمندگی اُٹھانا پڑی ۔ خاکسار اس فیصلہ کے موقعہ پر عدالت میں حاضر تھا۔ میں نے شفاعت احمد کو یاددلایا کہ پیش گوئی تو پوری ہوگئی ۔ اب تم اپنے احمدی ہونے کا وعدہ پورا کرو۔ شفاعت احمد نے صاف انکار کردیا کہ میں نے تو کوئی وعدہ نہ کیا تھا بلکہ غصہ میں آکر کہنے لگا کہ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو مجھ پر عذاب آئے اور میرا فرزند مر جائے ۔ میری بیوی مر جائے ۔ میں نے اُس سے کہا کہ شفاعت احمد! اب تُو نے مسیح موعود علیہ السلام سے یکطرفہ مباہلہ کر لیا ہے ۔ اب تُو اس کے نتیجہ کا انتظار کر اور میں بھی کرتا ہوں۔ اس کے بعد شفاعت احمد ایک سال کے عرصہ میں اس قدر بیمار ہوا کہ جان کے لالے پڑ گئے ۔ حتی کہ اس نے گھبرا کر احمدی جماعت سے دعا کی درخواست کی ۔ اس پر وہ مرنے سے تو بچ گیا مگر کانوں کی شنوائی جاتی رہی اور اس وقت وہ امرتسر میں ہے اس کا ایک اکلوتا بیٹا تھا وہ بھی مر گیا۔
{ 990} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مسجد کپور تھلہ کے مقدمہ میں ایک شخص ناظر عبد الاحد بھی مدعا علیہ تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے ۔ ایک سب انسپکٹر تھا اور دوسرا ایف اے پاس تھا۔ دونوں ہی فوت ہوگئے ۔ اس کی بیوی کو بیٹوں کی موت کا بہت صدمہ ہوا اور وہ اپنے خاوند کو سمجھاتی رہی کہ دیکھ ۔ تُو نے اپنے دو فرزند مسیح موعود ؑ کی مخالفت میں زمین میں سُلا دئیے ۔ اور اب تو اور کیا کرناچاہتا ہے؟غرض کہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ کے مقدمہ میں جو بھی مدعا علیہ تھے ۔ اُن سب کا برا انجام ہواور مسجد ہمارے قبضہ میں آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی واضح طور پر پوری ہوئی ۔
{991} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ ہوشیار پور میں ایک شخص شیح مہر علی رئیس تھے۔ حضرت اقدس اس شخص کے گھر ٹھہرا کرتے تھے ۔ اور اس کو بھی حضور سے عقیدت تھی۔ ایک مرتبہ حضرت اقدس نے خواب میں دیکھا کہ شیخ مہر علی کے بستر کو آگ لگ گئی ہے ۔ حضور نے اس رؤیاء کے متعلق اس کو خط لکھا اور اس میں ہدایت کی کہ آپ ہوشیار پور کی رہائش چھوڑ دیں ۔ وہ خط اس کے بیٹے کو مل گیا اور اس نے تکیہ کے نیچے رکھ دیا کہ جب بیدار ہوںگے پڑھ لیں گے مگر چونکہ خدائی امر تھا اور بستر کو آگ لگ چکی تھی وہ خط شیخ مہر علی صاحب کو نہ پہنچا اور ان کے بیٹے کو بھی اس کا ذکر کرنا یاد نہ رہا ۔ تھوڑے عرصہ بعد محرم آگیا اور اور ہوشیار پورمیں ہندومسلم فساد ہوگیا۔ شیخ مہر علی صاحب اس کے سرغنہ قرار پائے اور ان کے خلا ف عدالت میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہوگیا۔ عدالت سے ضبطی جائیداد اور پھانسی کا حکم ہوا۔ اس حکم کے خلا ف لاہور میں اپیل ہوا ۔شیخ صاحب نے دعا کے واسطے حضرت صاحب سے استدعا کی ۔ حضور نے دعا فرمائی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا۔ چنانچہ ہائی کورٹ میں اپیل منظور ہوگیا اور شیخ مہر علی بھی باعزت طور پر بری کئے گئے ۔ خواجہ کمال الدین صاحب کا اُن دنوں جالندھر میں لیکچر تھا۔ جماعت کپور تھلہ اور ڈاکٹر صادق بھی لیکچر سننے گئے ۔ اور ڈاکٹر صاحب نے ہم سے کہا کہ شیخ مہر علی کے عزیز واقارب یہ کہتے ہیں کہ یہ جو مشہور کیا جاتا ہے کہ شیخ صاحب مسیح موعود کی قبولیت دعا سے بری ہوئے ہیں ،یہ غلط ہے۔ بہت سے لوگوں نے اُن کی بریت کے لئے دعا کی تھی۔ مرزا صاحب کی دعا میں کیا خصوصیت ہے ۔ خدا جانے کس کی دعا قبول ہوئی۔ یہ واقعہ حضرت صاحب کو جماعت کپور تھلہ نے لکھ بھیجا۔ اس تحریر پر حضرت صاحب نے ایک اشتہاراس مضمون کا شائع کیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ محض میری دعا سے شیخ مہر علی بری ہوئے ہیں ۔ یا تو شیخ صاحب اس کو منظور کر کے اخبار میں شائع کرادیں ورنہ ان کے خلاف آسمان پر مقدمہ دوبارہ دائر ہوجائے گا اور اس مقدمہ میں قید کی سزا ضرور ہوگی۔ ایک اشتہار رجسٹری کراکر کے شیخ مہر علی کے پاس بھیجا گیا۔ وہ بہت خوف زدہ ہوگیا۔ اور قبولیت دعا مسیح موعود علیہ السلام کا اقرار ی ہو۱ اور اخبار میں شائع بھی کرادیا۔ اور یہ بھی لکھا کہ جیل خانہ سے واپس آکر مجھ کو حضور کا خط ملا جس میں مجھ کو ہوشیار پور چھوڑنے کے واسطے ہدایت ہوئی تھی۔ اگر اس وقت مجھ کو خط مل جاتا تو میں ضرور ہوشیار پو ر چھوڑ جاتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس واقعہ کا ذکر روایت نمبر۳۴۶میں بھی آچکا ہے۔
{ 992} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قصبہ سراوہ ضلع میرٹھ میں ،جہاں کا میںرہنے والا ہوں ۔ ایک شخص مولوی حمید اللہ اہل حدیث رہتا تھا۔ اُ ن سے میرا مباحثہ ہوتا رہتا تھا۔ وہ بہت سی باتوں میں عاجز آجاتے تھے۔ آخر ایک دفعہ انہوںنے مجھ سے کہا کہ میں مرزا صاحب کے پاس چلوں گا۔ اس کے بعد میں اپنی نوکری پر کپور تھلہ چلا آیا۔ میں یہ سمجھا کہ مولوی صاحب اب بیعت کر لیں گے۔ کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں قادیان جارہا ہوں ۔ راستہ میں ایک دریا موجزن ہے ۔ مگر اس کے اوپر میں بے تکلف بھاگا جارہا ہوں ۔ میرے ساتھ ایک اور شخص ہے مگر وہ گلے تک پانی میں غرق ہے ۔ مگر ہاتھ پیر مارتا ہوا وہ بھی دریا سے پار ہوگیا۔ میں نے سمجھا کہ یہ حمید اللہ مولوی ہے ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد مولوی صاحب کاقادیان جانے کے لئے ایک خط کپور تھلہ میں میرے پاس آیا ۔ میں بہت خوش ہوا۔ مولوی صاحب کا اصل خط اور ایک عریضہ اپنی طرف سے حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیااور عرض کی کہ غالباً یہ مولوی حضور کی بیعت کرنے کے واسطے آرہا ہے ۔ حضور نے جواب میں خط لکھا کہ اس کے خط میں سے تو نفاق کی بوآتی ہے ۔ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کو تم نے خواب میں دیکھا ہے۔ وہ کوئی اور شخص ہوگا جو تمہاری تبلیغ سے سلسلہ بیعت میں داخل ہوگا ۔ چنانچہ مولوی حمید اللہ سراوہ سے چل کر کپور تھلہ پہنچے اور قادیان چلنے کاارادہ کیا۔ مولوی غلام محمد اہل حدیث جس کو حضور نے اپنی بیعت میں قبول نہ فرمایا تھا۔ انہوںنے مولوی حمید اللہ سے کہا کہ اگر تم قادیان گئے تو تم اپنے عقیدہ پر قائم نہ رہو گے۔ اس کے کہنے پر مولوی حمید اللہ رک گئے اور سراوہ واپس چلے گئے ۔ مولوی غلام محمد نے ہماری بہت مخالفت کی ۔ جماعت کو ہر ممکن تکلیف دی گئی۔ فتویٰ کفر پر دستخط کئے گئے ۔ مخالفت میں حکیم جعفر علی اور مولوی حمید اللہ نے رسالہ شائع کر کے خوب جوش دکھلایا۔ اور مولوی صاحب بیعت سے محروم رہے اور حسب پیشگوئی مسیح موعود میری تبلیغ کے ذریعہ مولوی دین محمد صاحب بیعت میں داخل ہوئے اور وہ خدا کے فضل سے جوشیلے احمدی ہیں ۔
{ 993} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ سیر کو جاتے ہوئے بسراواں کے راستہ میں شعر وشاعری کا تذکرہ شروع ہوا تو میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ قرآن مجید میں جو وارد ہے کہ وَالشُّعَرَآئُ یَتَّبِعُھُمُ الغَاوٗنَ ـ اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّھِیْمُوْنَ وَاَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَا یَفْعَلُوْنَ (الشّعرائ:۲۲۵) اس سے شعرگوئی کی برائی ثابت ہوتی ہے ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ ذرا اس کے آگے بھی تو پڑھیں۔ تو مولوی غلام محمد صاحب نے اگلی آیت فوراً پڑھ دی کہ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا (الشعرائ:۲۲۸) اس پر میرا مطلب حل ہوگیا۔
{ 994} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں ایک کشمیری مولوی جو حافظ قرآن بھی تھے تشریف لائے اور کئی رو ز تک وہ اپنے وعظ میں غیر مقلدین یعنی اہل حدیث کے خلاف تقریریں کرتے رہے۔ ہم بھی غیر مقلد تھے ۔ مولوی صاحب اعلانیہ کہا کرتے کہ اپنے فوت شدہ بزرگوں سے مدد طلب کرنا جائز ہے اور جس قدر نمازیں تم نے غیر مقلدوں کے پیچھے پڑھی ہیں ۔ سب کی سب دوبارہ پڑھنی چاہئیں اور ثبوت میں قرآنی آیات یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُواللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (المائدۃ:۳۶) پیش کرتے تھے ۔ میں نے اُن مولوی صاحب سے پوچھا کہ اس وسیلہ سے آپ کون سا وسیلہ مراد لیتے ہیں ؟ انہوںنے جواب دیا کہ نیک عملوں اور فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ ۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو مشرکانہ تعلیم نہ دیں ۔ اس بات پر اس نے میرے ساتھ سخت کلامی کی اور گاؤں کے لوگوں کو برانگیختہ کیا۔ جس پر گاؤں کے لوگ ہم سے الگ نماز پڑھنے لگے۔ صرف میں اور میرے والد ہی اکٹھی نماز پڑھتے تھے۔ میرے والد صاحب نے قادیان جا کرحضرت صاحب سے کہا کہ جناب میں نے تو اپنا لڑکا مسلمان بنانے کے لئے آپ کی خدمت میں چھوڑا تھا لیکن اب تو لوگ اس کو کافر کہتے ہیں ۔ آپ نے اس وقت ایک سرخ کاغذ پر فتوی لکھوا کر میرے والد صاحب کو دیا کہ جو لوگ آمین بالجہر، الحمد للہ ، رفع یَدَین اور فاتحہ خلف الامام کے پڑھنے پر کسی کو کافر کہے وہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک خود کافر ہے ۔ مگر چند روز کے بعد عام لوگ خود بخود ہی میرے پیچھے نماز پڑھنے لگ گئے ۔ اس کے بعد جب میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میاں نور محمد! تم کو لوگ وہابی کہتے ہیں ۔ تم جواب دیا کروکہ میں حضرت پیرانِ پیر کا مرید ہوں اور ان کی کتاب غنیۃ الطالبین پڑھ کر اُن کو سنایا کرواور حضرت صاحب ہمیشہ جناب پیران پیر ؒاور امام غزالی کی تعریف فرمایا کرتے تھے ۔
{ 995} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ خواب میں میری زبان پر لفظ ’’مجدّد‘‘ جاری ہوا۔ مگر اس وقت مجھے اس لفظ کی کوئی تشریح معلوم نہ ہوئی ۔ اور ایک لغت کی کتاب دیکھنے سے معلوم ہوا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ’’نیا کام کرنے والا‘‘۔ اس خواب کے چند روز بعد ایک بڑا لمبا چھوڑا اشتہار دیکھا جو کہ میرعبا س علی صاحب لدھیانوی کی طرف سے شائع ہوا تھا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب چودھویں صدی کے مجدد ہیں۔ اور جن ایام میں مسجد مبارک تیار ہوتی تھی تو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اس مسجد میں ایک مولوی رکھنا ہے جو عورتوں میں وعظ کیا کرے گا۔ لیکن اب اللہ کے فضل وکرم سے بجائے ایک کے سینکڑوں مولوی مسجد مبارک میں موجو درہتے ہیں ۔ اُس زبان مبارک سے نکلی ہوئی باتیں اب ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں ۔
{ 996} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا۔ کہ بعض دفعہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھتے تھے کہ جب آدمی ایک دفعہ بیعت کر لے تو کیا یہ جائز ہے کہ اگر پھر کبھی بیعت ہورہی ہو تو وہ اس میں بھی شریک ہوجائے۔ حضور فرماتے تھے کہ کیا حرج ہے؟خاکسار عرض کرتا ہے کہ اکثر دوست دوبارہ سہ بارہ بلکہ کئی بار بیعت میں شریک ہوتے رہتے اور بیعت چونکہ توبہ اور اعمال صالحہ کے عہد کا نام ہے اس لئے بہر حال اس کی تکرار میں فائدہ ہی فائدہ ہے ۔
{ 997} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو ہر امر میں قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے تھے مگر بعض بعض آیات آپ خصوصیت کے ساتھ زیادہ پڑھا کرتے تھے ۔ علاوہ وفات مسیح کی آیات کے حسب ذیل آیات آپ کے منہ سے زیادہ سنی ہیں ۔
سورۃ فاتحہ ۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا(الشمس:۱۰)
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَ تْقٰـکُمْ (الحجر:۱۴)
رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ (الاعراف:۱۵۷)
ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:۳۳)
مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی ( الاسرائ:۷۳)
اِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌ بِالسُّوْئِ (النسائ:۵۹)
یَااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۹)
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث (الضحیٰ:۱۲)
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (الزمر:۵۴)
وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْااِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰۃٌ مِّن رَّبِھِمْ وَرَحْمَۃٌ (البقرۃ:۱۵۶)
مَایَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْ تُمْ وَاٰمَنْتُمْ (النسائ:۱۴۸)
وَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنـًا (طٰہٰ:۴۵)
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ (الحجر:۴۳)
وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ:۶۸)
وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:۴)
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۷)
لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ:۱۹۶)
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:۳)
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۴)
ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی (النجم:۹)
لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ (الاسرائ:۳۷)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران:۳۲)
لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرۃ:۲۵۷)
قُلْ مَایَعْبَأُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَائُ کُمْ (الفرقان:۷۸)
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کیا خوب انتخاب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھیوںکی تقسیم بذریعہ قرعہ اندازی


خاکسار مرز ابشیر احمد عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے پیچھے تین انگوٹھیاں چھوڑی تھیں جن کی حضور کی وفات کے بعد بذریعہ قرعہ اندازی تقسیم کی گئی۔ قرعہ کی پرچیوں کا چربہ اوپر درج ہے ۔ ان پرچیوں میں الہام کی عبارت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور ہم تین بھائیوں کے نام حضرت اماں جان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ہر دو تحریروں کا چربہ محفوظ ہوجائے ۔
{ 998} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی رحمت اللہ صاحب باغانوالہ بنگہ ضلع جالندھر نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ خاکسار چند دن ہوئے لدھیانہ گیا تھا۔ وہاں میاں رکن الدین صاحب احمدی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مندرجہ ذیل ایک حلفیہ تحریری بیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق دیا ۔
بیان حلفیہ میاں رکن الدین احمدی ولد حسن الدین قوم ارائیں سکنہ لدھیانہ چھاؤنی
’’ میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتاہوں کہ جس وقت حضرت مرزا صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام )لدھیانہ تشریف لائے تھے اُس وقت میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی۔ اور اس وقت قریباً۷۴؍۷۳سال کی عمر ہے ۔ میں اس وقت تانگہ مین، تانگہ ڈرائیور تھا۔ تانگہ میرا ا پنا تھا ۔ ایک روز منشی احمد جان صاحب نے ایک آدمی کو میاں کرم الٰہی صاحب مرحوم ، پیر بخش صاحب ، جناب قاضی خواجہ علی صاحب ، جناب شہزادہ عبد المجید صاحب کے پاس بھیجا کہ فلاں گاڑی پر جناب حضرت مرزا صاحب تشریف لارہے ہیں آپ لوگ بھی اسٹیشن پر پہنچیں۔ تو وہ فورًا اکٹھے ہوکر چل پڑے اور میں بھی اُن کے ساتھ چل پڑا ۔جب اسٹیشن کے قریب سو دوسو کرم کے فاصلہ پر پہنچے تو حضرت صاحب بمعہ چند ایک احباب کے پیدل آرہے تھے ۔ اور ایک آدمی قلی کو بستر وغیرہ اٹھوائے آرہا تھا۔ جناب کو سیدھے فیل گنج کو لے گئے۔ وہ مکان چونکہ اچھا نہ تھا اس لئے حضور کو شہزادہ عبد المجید صاحب اپنے مکان پر لے گئے ۔ میں روزانہ ایک پھیرا تانگہ کا لگا کر اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا اور سودا سلف بازار سے مجھ سے منگواتے ۔ پھر مجھے فرمایا کہ ’’روٹی یہاں ہی کھایا کرو ‘‘ تو میں وہاں ہی حضور کے حکم سے کھانے لگ پڑا۔ مجھے ایک روز فرمایا کہ ’’لڑکے نماز پڑھا کرو اور ہمارے پاس ہی پڑھا کرو‘‘ میں نے کہا کہ مجھے سوائے بسم اللہ کے اور کچھ نہیں آتا ۔ فرمایا ۔ ’’ وضو کر کے ہمارے ساتھ کھڑے ہوجایا کرو‘‘ ۔ میں اسی طرح کرنے لگااور مجھے نماز آگئی ۔ الحمد للہ ۔ غرض میں حتی المقدور خدمت کرتا رہا۔ ملاں کرم الٰہی مرحوم میرا حقیقی بھائی مجھ سے بڑا تھا۔ وہ پولیس میں لائن آفسر تھے۔ ایک روز فارغ ہوکر میرے ساتھ ہی حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے ۔ تو آپ نے ملاں کرم الٰہی کو فرمایا کہ ’’ آپ لوگوں کے طعن وغیرہ سے نہ ڈریں ۔ خدا سے ڈریں ۔ اس سے دنیا اور آخرت بہتر ہوگی‘‘ (غالباً مفہوم یہی تھا) منشی احمد جان صاحب نے فرمایا کہ آپ بیعت میرے مکان پر لیںجو دارالبیعت کے نام سے مشہور ہے تو پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ۱؎ ۔ ان میں ایک میاں کریم بخش صاحب بھی تھے۔ باقی دو نے کہا کہ ہم کل کریں گے بس پھر سلسلہ بیعت ہر روز جاری رہا ۔ میں ہر روز عرض کرتا کہ حضور میری بیعت لیں ۔ فرماتے تمہاری بیعت تو ہوگئی۔ جب تم روزانہ ہماری خدمت کرتے ہو۔بس پھر میں حاضر خدمت رہتا۔ بیعت کے لئے کہتا تو فرماتے کہ تمہاری بیعت ہوگئی ہے ۔ پھر حضور قریباً مہینہ بھر کے بعد تشریف لے گئے ۔ میں نے قریباً دو سال بعد قادیان پہنچ کر عرض کیا کہ حضور آپ اور لوگوں کی بیعت لیتے ہیں ، میری بیعت نہیں لیتے۔ فرمایا !میاں تمہاری بیعت ہوچکی ہے ۔اچھا جمعہ کے بعد پھر کر لینا۔ میری عمر قریباً۱۸سال کی شروع ہوگئی تھی۔ تب دستی بیعت کی۔ میرے جیسے جاہل او جڈ پر یہ فضل الٰہی تھا ۔ الحمد للہ ۔ یہ بیان میں نے میاں رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ کے پاس اپنی یادداشت کے طور پر لکھا یا ہے ۔ ذکر لمبا ہے مختصر لکھ دیا ہے ۔
میا ں رحمت اللہ مذکور ہمارے رشتہ دار ہیں۔ میرے بھائی ملاں کرم الٰہی کی نواسی کی شادی ان کے عزیز بیٹے ہدایت اللہ احمدی سے ہوئی ہے ۔ العبد
نشان انگوٹھا میاں رکن الدین
۳۸-۹۰-۲۳ ارائیں لدھیانہ چھاؤنی محلہ
الراقم خاکسار طالب دعا رحمت اللہ باغانوالہ احمدی بنگہ حال لدھیانہ بقلم خود۳۸-۹-۲۳
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ ’’پہلے روز قریباً شام کے قریب سات آدمی بیعت کے لئے تیار ہوئے جن میں سے پانچ نے بیعت کر لی ۔ اُن میں سے ایک میاں کریم بخش صاحب تھے ‘‘ میں نے میاں کریم بخش صاحب مذکور کے متعلق تحقیقات کی ہے اس کے متعلق میر عنایت علی صاحب لدھیانوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کوئی کریم بخش شخص نامی ایسا نہیں جس نے ابتدائی دس بیعت کنندگان میں بیعت کی ہو۔ سوائے سائیں گلاب شاہ مجذوب والے کریم بخش کے ۔ وہ فوت ہوچکے ہیں ،
۱؎ یہاں روایت میں سہو معلوم ہوتا ہے ۔حضرت منشی احمد جان صاحب کی وفات ۱۸۸۳ء میں ہوئی اور پہلی بیعت ۱۸۸۹ء میں ہوئی تھی(سیدعبدالحی)
ان کا ذکر ازالہ اوہام میں بھی ہے ۔ یہی ذکر میاں رکن الدین ساکن چھاؤنی لدھیانہ نے میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالہ کے پاس بیان کیا ہے ۔ لیکن میاں رحمت اللہ صاحب باغانوالے نے سمجھا نہیں اور کوئی اور کریم بخش سمجھتے ہوئے انہوںنے آپ کو لکھ دیا ہے ۔ جو میاں رحمت اللہ صاحب کی غلط فہمی ہے ۔
{ 999} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا افسر سکھ مذہب کا تھا۔ مسلمانوں سے بہت تعصّب رکھتا تھا اور مجھ کو بھی تکلیف دیتا تھا آخر اس نے رپورٹ کر دی کہ فیاض علی کو موقوف کردیا جائے ۔میں اس کے کام کا ذمہ دار نہیں ہوں۔میں نے دعا کے واسطے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عریضہ بھیجا اور اس کی سختی کا ذکر کیا۔ حضور نے جواب تحریر فرمایا کہ ’’انسان سے خوف کرنا خد اکے ساتھ شرک ہے اور نماز فرضوں کے بعد۳۳مرتبہ لاحول ولاقوۃ پڑھا کریں اور اگر زیادہ پڑھ لیں تو اور بھی اچھا ہے‘‘ ۔ خط کے آتے ہی میرے دل سے خوف قطعی طور پر جاتا رہا۔ ایک ہفتہ کے اندر خواب کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ افسر علیحدہ کیا جائے گا۔ اور میں اپنی جگہ پر بدستور رہوں گا۔ میں رخصت لے کر علیحد ہ ہوگیا ۔اور راجہ صاحب کے حکم کا منتظر رہا۔ قبل از حکم ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا کہ راجہ صاحب کے سامنے تمہارے افسر کی رپورٹ پیش ہوئی ہے ۔ اس پر را جہ صاحب نے حکم لکھا یا ہے کہ افسر کو کہہ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا۔ اس دوران میں مجھے بھی ایک خواب آئی کہ میں ایک برآمدہ میں ہوں اور مجھ سے کچھ فاصلہ پر ایک اور شخص ہے۔ ایک سیاہ سانپ اس کے بدن سے لپٹ رہا ہے اور اس سے کھیل رہا ہے ۔ میں نے اپنے دل میںکہا کہ اس سانپ میںزہر ہی نہیں ۔ جب اُس سانپ کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ اُس کو چھوڑ کر میری طرف دوڑااور اس نے بہت کوشش کی کہ میرے پاؤں کو کاٹے۔ قدرت خدا سے میں ہوا میں معلق ہوگیا اور جھولے میں جھولنے لگا۔ وہ سانپ برآمدے سے باہر چلا گیا اور میں اُسی جگہ آگیا۔ مالک سانپ آیا اور اس نے دریافت کیا کہ سانپ کہاں گیاوہ تو بہت زہریلا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ وہ باہر چلا گیا ہے ۔
اسی طرح ایک اور خواب مجھے آیا کہ ایک نیم مردہ سانپ سردی کی وجہ سے راستہ میں سویا پڑا ہے اور آسمان سے چیل اور کوے اس پر جھپٹا مار رہے ہیں ۔ ایک چیل آئی تو اس کو اٹھا کر لے گئی۔ اب مجھ کو کامل یقین ہوگیا کہ انشاء اللہ افسر نہیں رہے گا اور یہی وہ سانپ ہے جس کی پہلے وہ حالت تھی کہ دیکھنے سے خوف معلوم ہوتا تھا اور اب اس نوبت کو پہنچ گیا ہے ۔ بالاخر افسر کی درخواست را جہ صاحب کے سامنے پیش ہوئی۔ را جہ صاحب نے وہی حکم لکھایا جو ایک احمدی بھائی نے خواب میں دیکھا تھا کہ افسر کو لکھ دو کہ فیاض علی کو حکماً رکھنا ہوگا ۔ مجھ کو حکماً بلایا گیا اور حاکم کے سپرد کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا کا یہ اثر دیکھنے کے قابل ہے کہ وہ افسر را جہ صاحب کا ہم نشین تھا۔ اور را جہ صاحب کو یہ بھی علم نہ تھا کہ فیاض علی ہمارا ملازم ہے یا کہ نہیں ۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد افسر اپنے عہدہ سے علیحد ہ کردیا گیا اور میں اسی جگہ قائم رہا۔
{ 1000} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ میں یہ ایک خاص بات تھی کہ معترض اور مخالف کو ایک یا دو جملوں میں بالکل ساکت کر دیتے تھے اور اکثر اوقات الزامی جواب دیتے تھے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب کوئی اعتراض کرتاتو آپ ہمیشہ تفصیلی اور تحقیقی جواب دیا کرتے تھے اور کئی کئی پہلوؤں سے اس مسئلہ کو صاف کیا کرتے تھے ۔ یہ مطلب نہ ہوتا تھا کہ معترض ساکت ہوجائے بلکہ یہ کہ کسی طرح حق اس کے ذہن نشین ہوجائے ۔
{ 1001} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب رام پوری حال قادیان نے مجھ سے بیان کیاکہ۱۸۸۴ء میں جب کہ میں سکول میں پڑھتا تھا ۔ ایک رات کو تاروں کے ٹوٹنے کا غیر معمولی نظارہ دیکھنے میں آیا، رات کے ایک لمبے حصہ میں تارے ٹوٹتے رہے اور اس کثرت سے ٹوٹے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تیروں کی بارش ہورہی ہے ۔ ایک حصہ تاروں کا ٹوٹ کر ایک طرف جاتا اور دوسر ا دوسری طرف۔ اور ایسا نظر آتا کہ گویا فضا میں تاروں کی ایک جنگ جاری ہے ۔ یہ سلسلہ ۱۰بجے شب سے لے کر۴بجے شب تک جاری رہا۔ مَیں نے اس واقعہ کا ذکر ایک مجلس میں غالباً۱۹۱۰ء میں کیا تھا تو ایک بہت شریف اور عابد وزاہد معمر انسان نے کہا کہ مجھے بھی وہ رات یاد ہے ۔ میرے پیرو مرشد حضرت قبلہ علامہ مولوی ارشاد حسین صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے یہ عالَم دیکھ کرفرمایا تھا کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام ہوگیا ہے ۔ یہ اسی کی علامت ہے ۔ مولوی ارشاد حسین صاحب زبرست علماء میں سے تھے۔ انصار الحق وغیرہ آپ کی مشہور تصانیف ہے اور یہ مولوی احمد رضا خاں بریلوی کے پیر تھے ۔ لیکن جب میں نے بعد میں اُن مولوی صاحب کے ایک دوست سے جس نے یہ روایت بیان کی تھی یہ کہا کہ شہادت لکھ دو تو اُس نے لکھنے سے انکار کردیا ۔ مگر زبانی مانتا تھا کہ اُن مولوی صاحب نے ایسا کہا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ستاروں کا گرنا بہت سے نبیوں کے لئے بطور علامت واقع ہوچکا ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ جو حضور کی بعثت کے وقت غیر معمولی طور پر ستارے گرتے نظر آئے۔ یہ حضور کے لئے بطور علامت تھا اور اس سے مراد یہ تھی کہ اب گویا کواکب یعنی علماء کے گرنے کا وقت آگیا ہے جس کے بعد سورج کا طلوع ہوگا۔
{ 1002} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قریباً آٹھ دس سال کی عمر کا تھا۔ (اس وقت میری عمر پچپن سال کی ہے ) ایک دفعہ میرے حقیقی چچا مرحوم حافظ حکیم خد ابخش صاحب احمدی جو اوائل سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مصدّق تھے اور بیعت میں صرف اس خیال سے دیر کرتے چلے گئے کہ میں بہت ہی گنہگار اور آلودہ دامن ہوں۔ میرا وجو دسلسلہ حقہ کے لئے ایک بدنما داغ ہوگا اور اس کی بدنامی کا باعث ہوگااور آخر حضور کی رحلت کے بعد اوائل۱۹۰۹ء میں انہوںنے تحریری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ کسی لمبے سفر سے واپس آئے ۔ جب مجھے معلوم ہواتو میں اُن سے ملنے کے لئے ان کے پاس گیا۔ انہوںنے مجھے ایک کتاب دی ۔ جسے لے کر میں بہت خوش ہوا۔ اس کتاب کے مجھے دینے سے اُن کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد صاحب اسے دیکھ لیں ۔ دوسرے روز میں شوق سے وہ کتاب ہاتھ میں لئے مسجد کی طرف قرآن کریم کا سبق پڑھنے کے لئے جارہا تھا ۔ اتفاق سے میرے والد صاحب راستہ میں ہی ایک چھوٹی سی مجلس میں بیٹھے تھے۔ میرے ہاتھ میں وہ کتاب دیکھ کر انہوںنے لے لی اور دیکھنے لگے ۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کتاب ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ ایک بزرگ ولی اللہ کی کتاب ہے ۔ جن کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں اور ساتھ ہی بیان کیا کہ میں ایک دفعہ فساد خون کے عارضہ سے دیر تک بیمار رہاتھا۔ ان ایام میں مجھے ان بزرگ ولی اللہ کے متعلق اطلاع ملی اور یہ بھی کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں ۔ میں اس وقت بغرض علاج لاہور (یا امرتسر اس وقت خاکسار کو صحیح یاد نہیں رہا کہ کس شہر کانام لیا تھا) گیا ہوا تھا ۔ وہیں یہ بات مجھے معلوم ہوئی تھی ۔ جس پر میں نے ان کی خدمت میں (حاضر ہو کر نہیں بلکہ تحریراً یا کسی صاحب کی زبانی جس کی تفصیل اب خاکسار کو یاد نہیں رہی )اپنی صحت یابی کے لئے دعا کے واسطے عرض کیا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت بخشی ۔ یہ واقعہ بچپن میں میں نے غالباً متعدد دفعہ اپنے والد صاحب (مولوی محمد بخش صاحب) سے سنا تھا۔ اس کے بعد وہ کتاب میرے والد صاحب نے مجھے واپس دے دی اور وہ مدت تک میری پاس رہی ۔ جب میں بڑ اہوا تو اس کے نام وغیرہ کی شناخت ہوئی۔ یہ کتاب سرمہ چشم آریہ تھی جو ۱۸۸۶ء کی تصنیف ہے ۔
{ 1003} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرم دین کے مقدمہ میں جہلم تشریف لائے تو سردار ہری سنگھ کی درخواست پر آپ اُن کی کوٹھی میں مقیم ہوئے ۔ کھانا وغیرہ کا انتظام جماعت کے ذمہ تھا۔ کوٹھی نہایت خوبصورت اور سجائی گئی تھی۔ باورچی نے کارکنوں سے حضور کے لئے ایک چوزہ مرغ طلب کیا تو وہ لوگ حیران ہوئے کہ اب کہاں سے ملے گا۔ مجھے علم تھا کہ حضور کچھ عرصہ سے چوزہ مرغ بطور دوائی استعمال فرماتے ہیں اس لئے میں نے چار چوزے اپنے پاس اسی غرض سے رکھے ہوئے تھے ۔ میں فورًا گیااور چاروں لے آیا اور وہ چوزے تین دن تک کام آگئے ۔ چونکہ میں نے تین دن کی رخصت لی ہوئی تھی اس لئے میں دن رات حضور کے پاس رہتا اورحضور کے جسم مبارک کو دباتا تھا۔ میں۹۴ء سے حضور کا عاشق تھا۔ رات بھر حضور کے بدن کو دباتا۔ جب حضور کروٹ بدلتے تو کھانسی کی تکلیف کے وقت منہ مبارک سے معصوم بچوں کی سی آواز نکلتی ’’اللہ‘‘ ۔ حضور فرماتے تھے کہ خشک کھانسی بھی ایک وبا کی طرح ہے ۔ پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی۔ حمام میں گرم اور سرد دونوں پانی موجو دتھے۔ آپ لوٹے میں دونوں کو ملا کر استعمال فرماتے۔ میرے دباتے ہوئے جب حضور انور کروٹ لیتے تو فرماتے کہ ’’ آپ بس کیجئے ‘‘۔ مگر مجھے ان الفا ظ کے سننے سے از حد خوشی ہوتی اور میں حضور کو دباتا چلا جاتا تھا۔
{ 1004} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جس دن عدالت میں مقدمہ کی پیشی تھی۔ صبح نو بجے تک بیعت ختم نہ ہوئی تھی پھر کچہری کے لئے تیاری شروع ہوئی ورنہ لوگ تو بس نہ کرتے تھے۔ رات کو عورتوں کی بیعت کی باری آیا کرتی تھی۔ اُن کے خاوند دروازوں پر کھڑے ہوتے تھے ۔ حضور اقدس کرسی پر اونچی جگہ تشریف رکھے ہوتے ،بلندآواز سے اپنی جگہ پر ہی اللہ اور اس کے رسول کے احکام حسب ضرورت عورتوں کو سناتے تھے اور حضرت صاحب نے میاں بیوی کے حقوق اور تعلقات کو خوب واضح طور پر بیان کیا تھا ۔ حضور عورتوں کی بیعت لیتے وقت ہاتھ یا کپڑا وغیرہ نہ پکڑتے تھے بلکہ آپ اونچی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تعلیم سنا دیتے تھے اور پھر لمبی دعا فرما کے اپنے کمرہ میں چلے جاتے تھے ۔ اُن دنوں سخت سردی پڑتی تھی۔ جس دن پیشی تھی اُسی رات مجھ کو خواب آیا اور وہ میں نے حضرت کو سنا دیا تھا کہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ایک چولہا بھرا ہو اہے ۔ اُس پر حضور کی آرام کرسی رکھی گئی ہے، اُس پر آپ بیٹھے ہیں ۔ آگ کی بھاپ شعلے مار مار کر تمام بدن سے نکلتی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑوں اور بالوں سے اور ہم لوگ خوش ہورہے ہیں کہ دھواں تو نہیں ہے بلکہ بھاپ ہے۔ بالوں میں سے پانی کے قطرے نیچے گر رہے ہیں ۔ تو میں کہہ رہاہوں کہ سبحان اللہ! ابراہیم علیہ السلام والی پوری مثال ہے ۔ اس موقعہ پر قُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًاوَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْم (الانبیائ:۷۰) کی مثال صادق آرہی ہے ۔ جب میں نے یہ خواب حضور کو سنائی تو حضور اقدس علیہ السلام نے ہنس کو فرمایا کہ دشمن نے آگ بھڑکائی مگر اللہ نے ٹھنڈی کر دی ہے۔ تمام دشمنوں نے زور لگایا۔ ایک طرف تمام مخالف تھے اور ایک طرف خدا کا مرسل تھا۔ ایک طرف حکومت کے لوگ اور بڑے بڑے رئیس ،مجسٹریٹ اور وکیل اور چھوٹے چھوٹے ملازم تھے۔ یہ سب لوگ کرم دین پر خوش تھے کہ اُس نے دعویٰ کیا ہے مگر خدا نے اُن کو ناکام کردیا ۔
{ 1005} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مقدمہ کی تاریخ سے ایک ماہ قبل میری بیوی کو خواب آئی تھی کہ حضرت سلمان فارسی جن کی قبر ۹گز لمبی دریائے جہلم کے کنارے پر ہے ۔ وہ چوک میں کھڑے ہوکر بآواز بلند یہ کہتے ہیں ۔ سنو لوگو!یہ جو دو فریق آپس میں جھگڑا کر رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک سیّد ہے جو مرزا صاحب ہیں اور دوسرا مولوی جو ہے وہ ڈوم ہے ۔ جب حضور کو یہ خواب سنائی گئی۔ تو حضور نے ’’ہیں‘‘ کہہ کر فرمایا کہ ڈوم کیسے ہوتے ہیں۔ اس پر دوستوں نے بتایا کہ ڈوم میراثی ہوتے ہیں ۔ تحصیل دار نواب خان نے بھی کہا کہ حضور میراثی لوگ ڈوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح ایک روز مفتی محمد صادق صاحب نے بھی اپنی خواب سنائی ۔ خواب مجھے یاد نہیں رہی۔ میں اپنی بیوی کے اکثر خواب حضور علیہ السلام کی خدمت میں تحر یر کر کے تعبیر منگواتا رہتا تھا ۔
{ 1006} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں حیات محمدصاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عدالت میں گئے تو بہت ہجوم حضور کے ساتھ اندر چلا گیا۔ آخر کھلے میدان میںحضور کی کرسی سرکاری جمعدار نے رکھی ۔چار پانچ کرم کے فاصلہ پر مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اپنا وعظ شروع کیا تو محمد دین کمپونڈر نے کہا ۔ حضور! مولوی ابراہیم نے یہاں آکر ہی وعظ شروع کردیا ہے۔ اس وقت میں بھی حضور کے پاس تھا تو حضور نے اپنے ہاتھ سے اپنی جیب سے ایک رسالہ ’’مواہب الرحمن‘‘ نکال کر دیا کہ میری یہ کتاب اُسے دے دو۔ ابھی اُس نے وعظ شروع ہی کیا تھا کہ ڈپٹی صاحب نے حکم دیا کہ اس کو یہاں سے نکال دو۔ اگر وعظ کرنا ہے تو شہر میں جاکر کرے ۔سپاہیوں نے اسی وقت اسے کچہری سے باہر نکال دیا۔ جب اُس نے جلدی سے کتاب پر نظر ماری تو صفحہ۲۵پر نظر پڑی ۔ جہاں لکھا تھا ’’کرم دین کذّاب‘‘ فوراً کرم دین کو جاکر دیا کہ دیکھو تم کو یہ لکھا گیا ہے ۔اُس نے اپنے وکیل شیخ محمد دین کو دکھایا ۔ وکیل نے کہا کہ اس کا بھی دعویٰ کردو۔ اُسی وقت مولوی ابراہیم اور کرم دین اور شیخ محمددین وکیل میاں نظام دین سب جج کی کچہری میں چلے گئے اور اُس کو دکھا کر کہا کہ یہ وہ کتاب ہے اور اب موقعہ ہے۔ ہم دعویٰ آپ کی عدالت میں کرتے ہیں۔ اُس جج نے جواب دیا کہ میرے پاس دعویٰ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ کرم دین بھی سنی مسلمان ہے اور میں بھی سنی مسلمان ہوں ۔ جب جج مذکور نے یہ جواب دیا وہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے ۔ بندہ اچانک اُسی وقت اس جج کی کچہری میں ان تینوں کے پیچھے کھڑا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا ۔ ہاں البتہ اُس نے ان کو یہ کہا کہ یہ دعویٰ بھی اُسی ڈپٹی کمشنر کے پاس کرو جس کے پاس پہلا دعویٰ ہے۔ ڈپٹی نے خوب دونوں دعووں کو اڑایا اور کرم دین کو کہا کہ تم نے خود اپنے لئے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضرور میں جھوٹااور کمینہ ہوں ۔ کیونکہ تعزیرات ہند میں یا سرکاری قانون میں تو یہ جرم نہیں ہے کیونکہ مرزا صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا نے الہام سے مجھے یہ کہا ہے ۔ قانون سے جرم تب ہوتا اگر یہاں کرم دین کی ولدیت وسکونت کتاب میں درج ہوتی۔ کیادنیا میں اور کوئی کرم دین نہیں ہے صرف تُو ہی کرم دین ہے ؟
{ 1007} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں حیات محمد صاحب پنشنر ہیڈ کانسٹیبل پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین نے ڈپٹی کی عدالت میں یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے بھائی محمدحسین کے متعلق کہا ہے کہ مرتے وقت اس کا منہ سیاہ ہوگیا ہے اس طرح اس کی ہتک کی ہے ۔ ڈپٹی نے پوچھا کہ کیا تمہارے بھائی محمدحسین کا کوئی لڑکا ہے ۔ اس نے کہا کہ ’’ہے‘‘ پوچھا کہ بالغ ہے یا نابالغ ہے ؟ کرم دین نے جواب دیا کہ بالغ ہے۔ اس پر ڈپٹی صاحب نے کہا کہ وہ دعویٰ کرسکتا ہے ۔ تمہارا دعویٰ نہیں چل سکتا ۔ واپسی پردیوی دیال صاحب سب انسپکٹر نے حضور کو بڑی محبت اور احترام سے بڑے بازار شہر سے گزار کر اسٹیشن پر لاکر گاڑی پر سوار کرایا تھا۔ بازار میں سے لانے کی غرض یہ تھی کہ تمام لوگ حضور کی زیارت کر لیں۔ لوگ کھڑے ہوہوکر حضور کو دیکھتے تھے۔ حضور باعزت طورپر گاڑی میں سوار ہوئے اور واپس قادیان روانہ ہوئے ۔
{ 1008} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور شیرینی کا ایک خوان اُسی وقت پیش کیا اور شام کی دعوت کی ۔
{ 1009} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ شہتیر والا مکان خطرناک ہوتا ہے۔ بعض دفعہ شہتیر ٹوٹ جاتا ہے تو ساری چھت یکدم آپڑتی ہے ۔ یعنی صرف کڑیاں یعنی بالے پڑے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ایسے حادثہ سے بچایا تھا۔
{1010} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت یعنی۱۹۳۸ء میں میری عمر۷۴سال کے قریب ہے ۔ ہمارا اصل وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے گو میری زیادہ سکونت باغپت ضلع میرٹھ میں رہی ہے یعنی میں نے اپنی اوائل عمر زیادہ تر اپنے وطن باغپت ضلع میرٹھ میں گزاری تھی اور سنہ ۱۹۴۱ء بکرمی میں کپور تھلہ میں آیا جب کہ میری عمر۲۱؍۲۰سا ل کی تھی۔ میرے کپور تھلہ آنے سے قبل کی بات ہے کہ حاجی ولی اللہ صاحب جو کپور تھلہ میں سیشن جج تھے وہ رخصت پر اپنے وطن سراوہ ضلع میرٹھ میں گئے ۔ اس وقت میرے والدصاحب اور مَیں بوجہ تعلق رشتہ داری اُن سے ملنے کے لئے گئے ۔ حاجی ولی اللہ صاحب کے پاس براہین احمدیہ کے چاروں حصے تھے۔ اور حاجی صاحب موصوف مجھ سے براہین احمدیہ سنا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ کتاب حضرت مرزا صاحب نے بھیجی ہے ۔ اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط وکتابت تھی۔ جب میں حاجی صاحب کو براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو اس دوران میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت ہوگئی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت جب کہ میں براہین احمدیہ سنایا کرتا تھا تو سامعین کہا کرتے تھے کہ اس کتاب کا مصنف ایک بے بدل انشاء پرداز ہے ۔
{ 1011} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حاجی ولی اللہ جوہمارے قریبی رشتہ دار تھے اور کپور تھلہ میں سیشن جج تھے ۔اُن کے ایک ماموں منشی عبدالواحد صاحب ایک زمانہ میں بٹالہ میں تحصیلدار ہوتے تھے ۔ منشی عبد الواحد صاحب بٹالہ سے اکثر اوقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والدحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو ملنے کے لئے جایا کرتے تھے اور وہ بیان کرتے تھے کہ اس وقت حضرت صاحب کی عمر۱۵؍۱۴سال کی ہوگی۔ اور بیان کرتے تھے کہ اس عمر میں حضرت صاحب سارا دن قرآن شریف پڑھتے رہتے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے ۔ اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے متعلق اکثر فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا کسی سے غرض نہیں رکھتا۔ سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے ۔ منشی عبد الواحد صاحب قادیان بہت دفعہ آتے جاتے تھے ۔ اُن کا بیان تھا کہ میںنے حضرت صاحب کو ہمیشہ قرآن شریف پڑھتے دیکھا ہے ۔
{ 1012} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپو رتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے ایک دفعہ ایک مرض کے متعلق عبد الواحد صاحب کو اپنے صرف سے دوسو روپیہ کی معجون تیار کر کے دی جس سے مرض جاتا رہا ۔ عبد الواحد صاحب نے بعدش قیمت اد اکرنی چاہی ۔ جو مرزا صاحب نے قبول نہ فرمائی ۔
{ 1013} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ عبدالواحدصاحب احمدی نہیں ہوئے ۔ میں نے اپنی بیعت کے بعداُن سے پوچھا کہ آپ تو سب حالات جانتے ہیں بیعت کیوں نہیں کر لیتے۔ انہوںنے کہا مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب کے پاس دو جن سکھ دیو اور ہر دیو ہیں اور اُن پر اُن کا دارومدار ہے ۔ اور گویامیں اس الہام کے ذریعہ سے بیعت سے روکا گیا ہوں ۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر کیا کہ یہ اُن کا الہام غالباً شیطانی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں ۔یہ رحمانی الہام ہے ۔ جس زبان میں الہام ہو اس کے مطابق معنے کرنے چاہئیں۔ دیو سنسکرت میں فرشتے کو کہتے ہیں ۔ گویا راحت کے فرشتے اور ملائکۃ اللّٰہ ہمارے مددگار ہیں ۔ تم انہیں لکھو ۔ چنانچہ میں نے انہیں گڑگانواں میں جہاں وہ منصف تھے خط لکھا۔ جواب نہ آیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد عبد الواحد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ عبد الواحد صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے۔
{ 1014} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب جالندھر میں صدر واصل باقی نویس تھے۔ جو حاجی صاحب کے بہنوئی تھے۔ اُن سے ملنے میں جالندھرجا یا کرتا تھا۔ جالندھر میں اسی طرح ایک مرتبہ گیا ہوا تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک بزرگ کہیں سے جالندھرآرہے ہیں ۔ یہ سرمہ چشمہ آریہ کی طباعت سے پیشتر کا واقعہ ہے ۔ جالندھر سٹیشن پر میں اور میرا ایک رشتہ دار گئے ۔ وہاں دو تین سو آدمی حضور کی پیشوائی کے لئے موجو دتھے اور کنور بکرماں سنگھ صاحب نے اپنا وزیر اور سواری حضور کو لانے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب ریل سے اُترے ۔ یہ صحیح یا د نہیں کہ حضور کہاں سے تشریف لارہے تھے۔ لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کیا اور وزیر مذکور نے حضور کو بکرماں سنگھ صاحب کے ہاں لے جانے کوکہا ۔ اس دوران میں میں نے بھی مصافحہ کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ کہاں رہتے ہیں ۔ میں نے کہا ’’کپور تھلہ‘‘ لیکن یہاں میرے ایک رشتہ دار منشی عبد اللہ صاحب بوچڑ خانہ کے قریب رہتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا ہم آپ کے ساتھ چلیں گے ۔ چنانچہ بکرماں سنگھ کی گاڑی میں حضور ، مولوی عبد اللہ صاحب سنوری ، حافظ حامد علی صاحب اورخاکسار سوار ہو کر منشی عبد اللہ صاحب کے مکان پر آگئے ۔ جب حضور گاڑی سے اُترنے لگے تو بہت ہجوم لوگوں کا ہوگیا ۔ عورتیں اپنے بچے حضرت صاحب کی طرف کرتی تھیں کہ حضور کے کپڑوں کی ہوا لگ جائے ۔ اُس وقت اعتقاد کایہ عالم تھا ۔ غرض حضور منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فرو کش ہوئے ۔
{ 1015} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں منشی عبد اللہ صاحب کی بیٹھک میں فروکش تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ سرسیّد کو کیا سمجھتے ہیں؟ فرمایا!میں تو ایک طرح دیا نند کی بھی اس لحاظ سے قدر کرتا ہوں کہ بت پرستی کے خلاف ہے اور سرسیّد تو مسلمان ہے اور انہوںنے تعلیمی کام مسلمانوں کے لئے کیا ہے ۔ اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔سرسیّد کو مسلمان کہنا بہت سے لوگوں کو ناگوار معلوم ہوا ۔
{ 1016} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر میں ہی تھے تو اُس زمانہ کے اعتقاد کے بموجب کہ دل کی بات اہل اللہ بتا دیا کرتے ہیں ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ نماز میں وساوس کس طرح دور ہوسکتے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے حضور نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا !’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے تکرار سے ‘‘ اور پھر تقریر جاری رکھی ۔میرا اس وقت آپ پر ایمان ہوگیا ۔
منشی عبد اللہ صاحب کچھ انڈوں کا حلوا بنوا کر لائے ۔ حضور نے فرمایا ! مجھے بھوک نہیں ہے۔ لیکن منشی صاحب کے اصرار پر تھوڑا سا کھا لیا۔ ظہر کی نماز حضور نے قریب کی مسجد میں پڑھی ۔ آٹھ نو بجے صبح آپ سٹیشن پر اُترے تھے ۔ اور بعد نما زظہر آپ واپس سٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ آپ گاڑی میں بیٹھ گئے اور میرے مصافحہ کرنے پر فرمایا۔ ہم سے خط وکتابت رکھا کرو۔ یہ غالباً۱۹۴۲بکرمی کا واقعہ ہے ۔
{ 1017} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کپور تھلہ آکر اپنے دوستوں منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں سے اِیَّاکَ نَعْبُدُ والی بات سنائی اور حضور کی تعریف کی ۔ اس ملاقات سے دو ڈیڑھ ماہ بعد مَیں قادیان گیا۔ حضور بہت محبت سے پیش آئے۔ خود اندر سے کھانا لا کر کھلاتے ۔ میں دس بارہ دن قادیان میں رہا ۔ اُس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی نہ تھا ۔ جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی محمد صادق صاحب کا مکان ہے ۔ اس کے پاس بڑی چوڑی کچی فصیل ہوتی تھی ۔
{ 1018} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کی جالندھر کی ملاقات اول کے بعد دو ماہ کے قریب گزرنے پر مَیں قادیان گیا۔ اس کے بعد مہینے ڈیڑھ مہینے بعد اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا ’’ کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی‘‘ میں رونے لگا ۔ اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا۔
{ 1019} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتااور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے ۔ میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا۔ حضور نے فرمایا ۔ کوئی رکوع پڑھ کر اور بیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکونٹنٹ، عبدالحق اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف سب اورسیر تینوں مولوی عبد الحق صاحب غزنوی کے مرید تھے ۔ یہ بہت آیا کرتے تھے ۔ اکثر ایسا موقعہ ہواہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔
{ 1020} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حافظ محمد یوسف اور محمد یعقوب برادرش نے عبد اللہ صاحب غزنوی کا ایک کشف بیان کیا تھا کہ ’’قادیان سے ایک روشنی نمودار ہوگی۔ وہ ساری جہاں میں پھیلے گی مگر میری اولاد اُس سے محروم رہے گی‘‘ اور اُن تینوں میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ مرزا غلام احمد صاحب سے ممکن ہے یہ مراد ہو۔
مہدویت کے دعویٰ کے بعد اس واقعہ سے محمد یوسف صاحب انکاری ہوگئے ۔ تو حضرت صاحب نے مجھے حلفیہ شہادت کے لئے خط لکھا۔ کہ تمہارے سامنے محمد یوسف نے یہ واقعہ بیان کیا تھا ۔ میں نے محمدیوسف اور محمد یعقوب کو خط لکھا کہ یہاںمیرا اور محمد خاں صاحب کا جھگڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا اور میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔محمد یعقوب کا جواب امرتسر سے آیا ۔ جس میں میرے بیان کردہ الفاظ کی اُس نے تائید کی ۔ میں محمدیعقوب کا خط لے کر قادیان پہنچا۔ حضور بہت خوش ہوئے اور وہ خط شائع کردیا جس سے یہ لوگ بہت شرمندہ ہوئے ۔
محمد یوسف صاحب میرے ہم وطن تھے ۔ میرا اصل وطن قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر۔ یوپی ہے اور محمدیوسف صاحب بڈھانہ سے اڑھائی میل پر حسین پور کے رہنے والے تھے ۔
{ 1021} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب سرمہ چشم آریہ طبع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چار نسخے مجھے اور چار منشی چراغ محمد صاحب کو کپور تھلہ بھیجے ۔ چراغ محمد صاحب دینا نگر گورداسپور کے رہنے والے تھے ۔ محمد خاں صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، منشی عبد الرحمن صاحب اور خاکسار سرمہ چشمہ آریہ مسجد میں پڑھا کرتے تھے ۔ پھر محمد خاں صاحب ، منشی اروڑاصاحب بعد میں قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے ۔ چنانچہ تین چار روپیہ کی مٹھائی ہم نے پیش کی ۔ حضور نے فرمایا۔یہ تکلفّات ہیں ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں ۔ ہمیں آپ کی تواضع کرنی چاہئے ۔ ہم تینوں نے بیعت کے لئے کہا کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر ہم تینوں بیعت کا ارادہ کر کے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا۔مجھے بیعت کا حکم نہیں ۔ لیکن ہم سے ملتے رہا کرو۔ پھر ہم تینوں بہت دفعہ قادیان گئے اور لدھیانہ میں بھی کئی دفعہ حضور کے پاس گئے ۔
{ 1022} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جو فقرات عربی کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے لکھوائے تھے ۔ اُن میں بعض اشیاء کے نام جمع کرکے آپ نے اشعار میں منظوم کردیا تھا۔ تاکہ یاد کرنے میں سہولت رہے ۔ چنانچہ سونے ، اونٹ اور نیزوں کے نام حسب ذیل اشعار میں تھے ۔
(سونے کے آٹھ نام )
نُضَارٌ ، عَسْجُدٌ ، عَیْنٌ وََّدَجَّالٌ وَّعِقْیَانٗ
تِبْرٌ ، زُخْرُفٌ ، ذَھَبٌ بِہٖ فِسْقٌ وَّعِصْیَانٗ
(اونٹوں کے۳۷نام)
عَنْس،قَعُوْدٌ،نَاقَۃٌ ۔کَوْمَائُ
وَقَعَیِّدٌ،عُسْبُوْرَۃٌ وَجْنَآئٗ
جَمَلٌ ، قَلُوْصٌ، عَیْدَھُوْدٌ، عَسْبُرَۃٌ
اِبِلٌ وَسِرْدَاحٌ حَکَی الْاِمْلَآئٗ
مَہْرِیٌّ ، عِرْبَاضٌ ، بَعِیْرٌ ،خَتْثَعَۃٌ
ثُمَّ الْھَجَانُ وَذِعْلَبٌ دَفْوَآئٗ
عَرْسٌ مَعَ الْعَزْھُوْلِ ، عَسْبُوْرٌ مَعًا
وَالْعَیْسَجُوْرُ کَمَا رَوَی الْاُدَبَآئٗ
ثُمَّ الْجَزُوْرُ وَلِقْحَۃٌ حِدْبَارٌ
وَکَذَا اللَّبُوْنُ وَمِثْلَہٗ ، عَشْوَآئٗ
ھَبْرٌ ، مَھُوْبرَۃٌ ، لَقُوْحٌ ، شَائِلَۃٌ
بِکْرٌ، ھَبْرَوٌ، عَنْکُوْہٌ عَصْبَآئٌ
(نیزوں کے۱۲ نام)
رُمْحٌ ، قَنَاۃٌ ، سَعَدَۃٌ ، مُرَّانٌ
اَسْلٌ وَعَسَّالٌ حَکَوْا وَاَبَانُوْا
خِطِّیٌّ، رُدَیْنٰی ، سَمْھَرِیٌّ ، سَمْھَرِیَّۃٌ
زَابِلٌ وَاَسْمَرُ اَیُّھَاالْاِخْوَانٗ
{ 1023} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیا ن کہ کہ جب میں لاہور میڈیکل کالج میں ففتھ ائیر کا سٹوڈنٹ تھاتوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی
عزیزی اخویم میر محمد اسماعیل صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ چونکہ بار بار خوف ناک الہام ہوتا ہے اور کسی دوسرے سخت زلزلہ ہونے کی اور آفت کے لئے خبر دی گئی ہے ۔ اس لئے مناسب ہے کہ فی الفور بلا توقف وہ مکان چھوڑ دو۔ اور کسی باغ میں جا رہو۔ اور بہتر ہے کہ تین دن کے لئے قادیان میں آکر مل جاؤ۔ والسلام
خاکسار
مرزا غلام احمد
۱۱۔اپریل۱۹۰۵ء

{ 1024} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پیشتر میں نے سر سید احمد صاحب کی کتابیں پڑھی تھیں ۔ اور میں اور محمد خاں صاحب وفات عیسیٰ کے قائل تھے۔ چنانچہ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو خط لکھا کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کہاں سے ثابت ہے ؟ انہوںنے جواب دیا کہ جس طرح خضر علیہ السلام کی حیات ضعیف احادیث سے ثابت ہے اور ضعیف احادیث کا مجموعہ اقسام حدیث میں سے حدیث حسن کو پہنچتا ہے ۔ میںنے جواب دیاکہ موضوع احادیث کا مجموعہ ضعیف ہوااور ضعیف احادیث کا مجموعہ حسن ۔ پس کوئی حدیث موضوع نہ رہے گی ۔ انہوںنے جواب دیا کہ ہم اہل ھویٰ کاجواب نہیں دیا کرتے ۔ لیکن چونکہ تمہارا تعلق مرزا صاحب سے ہے ۔ اس لئے جواب لکھتا ہوں اور مرزا صاحب وہ ہیں کہ معقولی باتیں پیش کرتے ہیں اور پھر قرآن سے دکھا دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ مجددیت’’قریب بہ اذعان‘‘ ہے (یہ مولوی رشید احمد صاحب کے الفاظ ہیں) قرآن پر جو کوئی اعتراض کرتا ہے ۔ مرزا صاحب معقولی جواب اس کا دیتے ہیں اور قرآن سے نکال کر وہی دکھا دیتے ہیں ۔
مراد اس ذکر سے یہ ہے کہ رشید احمد صاحب گنگوہی حضرت صاحب کو مجدد ہونے والا اپنے اندازے میں سمجھتے تھے ۔ وہ خطوط رشید احمد صاحب کے مجھ سے مولوی اشرف علی نے، جو رشید احمد صاحب کا مرید تھا اور سلطان پور ریاست کپور تھلہ میں رہتا تھا ،لے کر دبا لئے اور پھر باوجود مطالبہ کے نہ دئیے۔
{ 1025} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے ۔ منشی اروڑا صاحب فوراً لدھیانہ کو روانہ ہوگئے ۔ دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی ۔ منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے ۔ کیونکہ انہوںنے استخارہ کیا اور آوازآئی’’عبد الرحمن آجا‘‘ ہم سے پہلے آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے ۔ بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے۔ اشتہار پہنچنے کے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی ۔ پہلے منشی اروڑاصاحب نے، پھر میں نے ۔ میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا۔تمہارے رفیق کہاں ہیں ؟ میں نے عرض کی ۔ منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب تیار ہی ہیں کہ بیعت کر لیں۔ چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی۔ اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحب نے بیعت کی ۔ منشی عبد الرحمن صاحب ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب تو بیعت کرکے واپس آگئے ۔ کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے ۔ میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے ۔
حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے ۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقّت طاری ہوجاتی تھی۔ اور دعا اور بیعت بہت لمبی فرماتے تھے ۔ اس لئے ایک دن میں بیس پچیس آدمی کے قریب بیعت ہوتے تھے ۔
{ 1026} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ میں ٹھہرا ہو اتھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالا ت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا کہ یا جس پر خد اکا فضل ہوجائے ۔ اسی رات میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔
{ 1027} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک دفعہ میرے دو تین خواب ازالہ اوہام کی جلد کے ساتھ جو کورے کاغذ تھے ۔اُن پر اپنی قلم سے درج فرمائے ۔ اسی طرح الٰہی بخش اکونٹنٹ نے جب حضرت صاحب کے خلاف کچھ خواب شائع کئے تو حضور نے مجھے لکھا کہ اپنے خواب لکھ کر بھیجو ۔ میںنے بھیج دئیے ۔ حضور نے وہ خواب اشتہار میں چھپوا دئیے ۔ خواب سے پیشتر میں نے یہ شعر بھی لکھا تھا ۔ ؎
الا اے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا د اغے کہ من درسینہ دارم تو کجا داری
عسل مصفّٰی میں وہ اشتہارا ور خواب چھپے ہوئے موجود ہیں ۔
{ 1028} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ منشی اروڑا صاحب مرحوم اور میں نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ کبھی حضور کپور تھلہ بھی تشریف لائیں۔ اُن دنوں کپور تھلہ میں ریل نہ آئی تھی۔ حضور نے وعدہ فرمایا کہ ہم ضرور کبھی آئیں گے۔ اس کے بعد جلد ہی حضور بغیر اطلاع دئیے ایک دن کپور تھلہ تشریف لے آئے ۔ اور یکہ خانہ سے اتر کر مسجد فتح والی نزد یکّہ خانہ واقع کپورتھلہ میں تشریف لے گئے ۔حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے۔ مسجد سے حضور نے ملاں کو بھیجا کہ منشی صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کردو ۔ میں اور منشی اروڑا صاحب کچہری میں تھے کہ ملاں نے آکر اطلاع دی کہ مرز اصاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ اور انہوںنے مجھے بھیجا ہے کہ اطلا ع کردو۔ منشی اروڑا صاحب نے بڑی تعجب آمیز ناراضگی کے لہجے میں پنجابی میں کہا ’’دیکھو ناں تیری مسیت وچ آکے مرزاصاحب نے ٹھہرنا سی؟ ‘‘ ۔ میں نے کہا کہ چل کر دیکھنا تو چاہئے ۔ پھر منشی صاحب جلد ی سے صافہ باندھ کر میرے ساتھ چل پڑے ۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے ہوئے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پاؤں دبا رہے تھے اور پاس ایک پیالہ اور چمچہ رکھا ہوا تھا۔ جس سے معلوم ہو اکہ شاید آپ نے دودھ ڈبل روٹی کھائی تھی ۔ منشی اروڑا صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے اس طرح تشریف لانی تھی ؟ ہمیں اطلاع فرماتے ۔ہم کرتار پور سٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضور نے جواب دیا۔ اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا وہ پورا کرنا تھا۔ پھر حضور کو ہم اپنے ہمراہ لے آئے ۔ اور محلہ قائم پورہ کپور تھلہ میں جس مکان میں پرانا ڈاکخانہ بعد میں رہا ہے، وہاں حضور کو ٹھہرایا ۔ وہاں بہت سے لوگ حضور کے پاس جمع ہوگئے ۔ کرنیل محمد علی خاں صاحب ، مولوی غلام محمد صاحب وغیرہ ۔ حضور تقریر فرماتے رہے ۔ کچھ تصوف کے رنگ میں کرنیل صاحب نے سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ تقریر تھی۔ حاضرین بہت متاثر ہوئے ۔ مولوی غلام محمد صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہوگئے اور انہوںنے ہاتھ بڑھائے کہ میری آپ بیعت لے لیں ۔ مگر حضور نے بیعت لینے سے انکار کردیا۔ بعد میں مولوی مذکور سخت مخالف رہا۔
{ 1029} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرماکر قادیان کو تشریف لے گئے ۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے ۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں ۔ اگر کوئی اور بھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں ۔
کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہر وعصر کی نماز جمع کی ۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیںاور قصر کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا۔انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے ۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصر کی ۔ حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے ۔
{ 1030} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری نظر سے پہلے موٹا اشتہار بابت براہین احمدیہ۱۸۸۵ء میں گزرا۔ مگر کوئی التفات پید انہ ہوا۔ ۸۸۔۱۸۸۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاشہرہ سنتا رہا۔ ۱۸۹۰ء میں آپ نے مولوی عبد اللہ صاحب فخری کی تحریک پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دعاکی استدعا کی ۔ اس طرح خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ غالباًستمبر۱۸۹۰ء میں مَیں بمقام لدھیانہ حضرت صاحب سے ملا اور چند معمولی باتیں ہوئیں۔ وہاں سے واپسی پر میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میں تفضیلی شیعہ ہوں ۔ یعنی حضرت علی ؓ کودوسرے خلفاء پر فضیلت دیتا ہوں ۔ کیا آپ ایسی حالت میں میری بیعت لے سکتے ہیں یا نہیں ؟ آپ نے لکھا کہ ہاں ایسی حالت میں آپ بیعت کر سکتے ہیں ۔ باقی اگر ہم ان خدمات کی قدر نہ کریں جو خلفائے راشدین نے کیں تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ قرآن وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوا کیونکہ انہی کے ذریعہ قرآن واسلام ، حدیث واعمال ہم تک پہنچتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے غالباًستمبر یاا کتوبر۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی اور بعد بیعت تین سال تک شیعہ کہلاتا رہا۔
{ 1031} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے خط وکتابت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ میں شیعہ ہوں اور شیعوں کے ہاں ولایت ختم ہوگئی ہے ۔ اس لئے جب ہم کسی کو ولی نہیں مانتے تو بیعت کس طرح کر سکتے ہیں ؟ آپ نے لکھا ’’ ہم جو ہر نما زمیں اھدنا الصراط المستقیم ، صراط الذین انعمت علیھم کی دعا مانگتے ہیں ۔ اس کا کیافائدہ ہے ؟ کیونکہ مے تو پی گئے اب تو دُرد رہ گیا۔ پھر کیا ہم مٹی کھانے کے لئے رہ گئے؟ اور جب ہمیں انعام ملنا نہیں تو یہ دعا عبث ہے ۔ مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ انعامات کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔۱۸۹۳ء میں مَیں نے خاص طور پر سے شیعیت کی بابت تحقیقات کی اور شیعیت کو ترک کردیا۔
{ 1032} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں قیام پذیر تھے میں اور محمد خان مرحوم ڈاکٹر صادق علی صاحب کو لے کر لدھیانہ گئے ۔ (ڈاکٹر صاحب کپور تھلہ کے رئیس اور علماء میں سے شمار ہوتے تھے)کچھ عرصہ کے بعد حضور مہندی لگوانے لگے۔ اس وقت ایک آریہ آگیا۔ جوایم ۔ اے تھا۔ اس نے کوئی اعتراض اسلام پر کیا ۔ حضرت صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا۔ آپ ان سے ذرا گفتگو کریں تو میں مہندی لگوالوں ۔ ڈاکٹر صاحب جواب دینے لگے۔ مگر اُس آریہ نے جوجوابی تقریر کی تو ڈاکٹرصاحب خاموش ہوگئے ۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر فوراً مہندی لگوانی چھوڑ دی اور اسے جواب دینا شروع کیا اور وہی تقریر کی جو ڈاکٹر صاحب نے کی تھی مگر ا س تقریر کو ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ وہ آریہ حضور کے آگے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نے ہاتھ سے اُسے اٹھایا۔ پھروہ دونوں ہاتھوں سے سلام کر کے پچھلے پیروں ہٹتا ہوا واپس چلا گیا۔ پھر شام کے چار پانچ بجے ہوں گے تو ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تخلیہ چاہتاہوں میں نے حضور سے عرض کی ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کے پاس تنہائی میں چلے گئے اور میں اور مولوی عبد اللہ سنوری اور محمدخان صاحب ایک کوٹھڑی میں چلے گئے ۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ میں نے بہت اصرار کیا کہ مجھے بیعت میں لے لیں مگر آپ نے فرمایا۔ آپ جلدی نہ کریں۔ سوچ سمجھ لیں۔ دو دن رہ کر ہم واپس آگئے ۔
{ 1033} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی شخص نے بیعت کرنی چاہی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی بیعت نہ لی اور انکار کردیا۔
{ 1034} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک شخص نے ایک کتاب لکھی۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور وہ کتاب پیش کی ۔ حضور نے ہاتھ سے کتاب پرے کر دی ۔ کہ جب مسلمانوں کے سینکڑوں بچے عیسائی ہوگئے ۔ اس وقت یہ کتاب نہ لکھی۔ اب جو مصنف کا اپنا لڑکا عیسائی ہوگیا تو یہ کتاب لکھی ۔ اس میں برکت نہیں ہوسکتی ۔
{ 1035} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ آنریبل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شروع ستمبر۱۹۰۴ء میں میرے والد صاحب مجھے اپنے ہمراہ لاہورلے گئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن دنوں لاہور ہی میں تشریف رکھتے تھے۔۳؍ستمبر کو آپ کا لیکچر میلارام کے منڈوے میں ہوا۔ والد صاحب بھی مجھے اپنے ہمراہ وہاں لے گئے ۔ میری عمر اس وقت ساڑھے گیارہ سال کی تھی لیکن وہ منظر مجھے خوب یاد ہے کہ مجھے سٹیج پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرسی کے قریب ہی جگہ مل گئی اور میں قریباً تمام وقت آپ ہی کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھتا رہا۔ گو معلوم ہوتا تھا کہ میں نے لیکچر بھی توجہ سے سنا ہوگا یاکم سے کم بعد میں توجہ سے پڑھا ہوگا ۔ کیونکہ اس لیکچر کے بعض حصے اس وقت سے مجھے اب تک یاد ہیں ۔ لیکن میری توجہ زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی طرف رہی ۔ آپ ایک آرام کرسی پر تشریف فرماتھے۔ اور ایک سفید رومال آپ کے ہاتھ میں تھا جو اکثر وقت آپ کے چہرہ مبارک کے نچلے حصہ پر رکھا رہا۔
{ 1036} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔آنربیل چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں زیارت کی تو میرے دل میں اس وقت کسی قسم کے عقائد کی تنقید نہیں تھی۔ جو اثر بھی میرے دل میں اس وقت ہوا۔ وہ یہی تھا کہ یہ شخص صادق ہے اور جو کچھ کہتا ہے کہ وہ سچ ہے اور ایک ایسی محبت میرے دل میں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈال دی گئی کہ وہی میرے لئے حضور علیہ السلام کی صداقت کی اصل دلیل ہے ۔ میں گو اس وقت بچہ ہی تھا لیکن اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کسی وقت بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں پڑی۔ بعد میں متواتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جو میرے ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوئے ۔ لیکن میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر ہی مانا تھا اور وہی اثر اب تک میرے لئے حضور کے دعاوی کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ میں۳؍ستمبر ۱۹۰۴ء کے دن سے ہی احمدی ہوں۔
{ 1037} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریباً ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے ۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اور میں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا۔ جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے فرمایا۔ اس غرض کے لئے جانا لازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اور گھر خط لکھدیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں ۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اور فرمایا گھر خط لکھ دو۔
{ 1038} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دورانِ سر کا عارضہ تھا ۔ ایک طبیب کے متعلق سنا گیا کہ وہ اس میں خاص ملکہ رکھتا ہے اُسے بلوایاگیا، کرایہ بھیج کر اور کہیں دور سے ۔ اس نے حضور کو دیکھا اور کہا کہ دودن میں آپ کو آرام کردوں گا۔ یہ سن کر حضرت صاحب اندر چلے گئے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو رقعہ لکھا کہ اس شخص سے میں علاج ہر گز نہیں کرانا چاہتا۔ یہ کیا خدائی دعویٰ کرتا ہے۔ اس کو واپسی کرایہ کے روپیہ اور مزید بیس پچیس روپے بھیج دئیے کہ یہ دے کر اُسے رخصت کردو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔
{ 1039} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سردرد کا دورہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس قدر سخت ہوا کہ ہاتھ پیر برف کی مانندسرد ہوگئے ۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو نبض بہت کمزور ہوگئی تھی ۔ آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اسلام پر کوئی اعتراض یاد ہوتو اس کا جواب دینے سے میرے بدن میں گرمائی آجائے گی اور دورہ موقوف ہوجائے گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور اس وقت تو مجھے کوئی اعتراض یاد نہیں آتا۔ فرمایا ! کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نعت میں کچھ اشعار آپ کو یاد ہوں تو پڑھیں ۔میںنے براہین احمدیہ کی نظم ’’اے خدا! اے چارۂ آزارما‘‘ خوش الحانی سے پڑھنی شروع کردی اور آپ کے بدن میں گرمائی آنی شروع ہوگئی۔ پھر آپ لیٹے رہے اور سنتے رہے۔ پھر مجھے ایک اعتراض یاد آگیاکہ آیت واذقال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرۃ:۳۱)پر یہ اعتراض ہے کہ جو مشورہ کا محتاج ہے ۔ وہ خدائی کے لائق نہیں ۔ قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کا علم بھی کامل نہیں۔کیونکہ اُسے معلوم نہ تھا کہ یہ آئندہ فساد اور خون ریزی کرے گا ۔ ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک ۔ اُس سے معلوم ہو اکہ وہ پاکوں سے دشمنی اور ناپاکوں سے پیار کرتا ہے ۔کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو اس خلافت کے لئے پیش کیا تھا۔ قال انی اعلم مالا تعلمون ۔ بھلا یہ بھی کوئی جواب ہے جس سے عجز ظاہر ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہا کہ علّم اٰدم الاسماء کلھا۔ ایک آدمی کو الگ لے جاکر کچھ باتیں چپکے سے سمجھادیںاور پھر کہا کہ تم بتاؤ اگر سچے ہو۔ اس میں فریب پایا جاتا ہے ۔ جب میں نے یہ اعتراضات سنائے تو حضور کو جوش آگیا اور فوراً آپ بیٹھ گئے اور بڑے زورکی تقریر جواباً کی اور بہت سے لوگ بھی آگئے ۔ اور دورہ ہٹ گیا۔ بہت لمبی تقریر فرمائی کہ کہیں آدم کا خونریزی وغیرہ کرناثابت نہیں ۔ وغیرہ
{ 1040} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور عبد الحکیم مرتد جس زمانے میں لاہور پڑھتے تھے۔ وہاں پر ایک شخص جو برہموسماج کا سیکرٹری اور ایم اے تھا، آیا ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں تھے۔ اُس نے آکر کہا کہ تقدیر کے مسئلہ کو میں نے ایسا سمجھا ہوا ہے کہ شاید کسی اور نے نہ سمجھا ہو۔ وہ دلائل میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اس پرحضور نے خود ہی تقدیر پر تقریر شروع فرمادی اور یہ تقریر مسلسل دو گھنٹے جاری رہی ۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالحکیم صاحب بھی اس میں موجود تھے اور نواب فتح علی خان صاحب قزلباش بھی موجود تھے ، تقریر کے ختم ہونے پر جب سب چلے گئے تو نواب صاحب بیٹھے رہے اور نواب صاحب نے کہا کہ آپ تو اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں اور اسلام کی صداقت آفتاب کی طرح سامنے نظر آتی ہے ۔ وہ لوگ بڑے ظالم ہیں جو آپ کے متعلق سخت کلامی کرتے ہیں۔ ظالم کا لفظ سن کر حضور نے شیعہ مذہب کی تردید شروع کردی۔ گویا ثابت کیا کہ شیعہ ظلم کرتے ہیں جو صحابہ کا فیض یافتہ صحبتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا نہیں مانتے۔ اور صحابہ کا تقدس ظاہر کرکے بڑے جوش میں فرمایا کہ کیا کوئی شیعہ اس بات کو گوارا کر سکتا ہے کہ ا س کی ماں کی قبر دو نابکاروں کے درمیان ہو۔ مولوی عبد الکریم صاحب کا چہرہ اُترا ہوا ساتھا ۔ پھر نواب صاحب نہایت ادب سے اجازت لے کر چلے گئے ۔ ان کے جانے کے بعد مولوی عبد الکریم صاحب نے حضور سے دریافت کیا کہ کیا حضور کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ شیعہ مذہب رکھتے ہیں ۔ حضور نے فرمایا۔ ان کے ہمارے بزرگوں سے تعلقات چلے آتے ہیں ۔ ہم خوب جانتے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ یہ بڑے آدمی کہاں کسی کے پاس چل کر آتے ہیں اس لئے میں نے چاہا کہ حق اُن کے گوش گزار کردوں۔
{ 1041} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلی دفعہ غالباًفروری۱۸۹۱ء میں مَیں قادیان آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سادگی نے مجھ پر خاص اثر کیا ۔ دسمبر۱۸۹۲ء میں پہلے جلسہ میں شریک ہوا۔ ایک دفعہ میںنے حضرت صاحب سے علیحدہ بات کرنی چاہی گوبہت تنہائی نہ تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پریشان پایا ۔ یعنی آپ کو علیحدگی میں اور خفیہ طور سے بات کرنی پسند نہ تھی۔ آپ کی خلوت اور جلوت میں ایک ہی بات ہوتی تھی۔ اسی جلسہ۱۸۹۲ء میں حضرت بعد نماز مغرب میرے مکان پر ہی تشریف لے آتے تھے۔ اور مختلف امور پر تقریر ہوتی رہتی تھی۔ احباب وہاں جمع ہوجاتے تھے۔ اور کھانا بھی وہاں ہی کھاتے تھے۔ نما زعشاء تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔میں علماء اور بزرگان خاندان کے سامنے دو زانوبیٹھنے کاعادی تھا۔ بسااوقات گھٹنے دکھنے لگتے۔ مگر یہاں مجلس کی حالت نہایت بے تکلفانہ ہوتی۔ جس کو جس طرح آرام ہوتابیٹھتا۔ بعض پچھلی طرف لیٹ بھی جاتے مگر سب کے دل میں عظمت وادب اور محبت ہوتی تھی۔ چونکہ کوئی تکلّف نہ ہوتا تھا ۔ اس لئے یہی جی چاہتا تھا۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تقریرفرماتے رہیں اور ہم میں موجود رہیں ۔ مگر عشاء کی اذان سے جلسہ برخاست ہوجاتا۔
{ 1042} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب سورج گرہن اور چاند گرہن رمضان میں واقع ہوئے تو غالباً۱۸۹۴ء تھا ۔ میں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے نماز پڑھائی تھی۔ اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے۔ اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہوجاتی ۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آموجود ہوتے ۔ جہاں تہجد کی نماز ہوتی۔ سحری کھائی جاتی اور اول وقت صبح کی نماز ہوتی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے ۔ سب خدام ساتھ ہوتے۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نماز عصر بھی اپنے اول وقت میں پڑھی جاتی ۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کا وقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایسا ہُو کا عالم ہوتا کہ گویا کوئی آباد نہیں ۔ مگر دو بجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوجاتی۔
{ 1043} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ امرتسر میں جب آتھم کے ساتھ مباحثہ قرار پایا تو بیس بیس یا پچیس پچیس آدمی فریقین کے شامل ہوتے تھے۔ ہماری طرف سے علاوہ غیر احمدیوں کے مولوی عبد الکریم صاحب ، سید محمد احسن صاحب بھی شامل ہوتے تھے۔ اور ایک شخص اللہ دیا لدھیانوی جلد ساز تھاجس کو توریت وانجیل خوب یا دتھی اور کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپور تھلہ عیسائیوں کی طرف بیٹھا کرتے تھے ۔ ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ایک طرف عبد اللہ آتھم بیٹھتے تھے ۔ دونوں فریق کے درمیان خلیفہ نور الدین صاحب جمونی اور خاکسار مباحثہ لکھنے والے بیٹھا کرتے تھے۔ اور دو کس عیسائیوں میں سے اسی طرح لکھنے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ بحث تقریری ہوتی تھی اور ہم لکھتے جاتے تھے اور عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے۔ اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے۔ حضرت صاحب اختصار کے طور پر غ سے مراد غلام احمد اور ع سے مراد عبداللہ لکھاتے تھے۔ آتھم بہت ادب سے پیش آتا تھا۔ جب عیسائیوں کے لکھنے والے زیادہ نہ لکھ سکتے۔ آتھم خاکسار کو مخاطب کر کے کہا کرتا کہ عیسائی ہمارے لکھنے والے ٹٹو ہیں۔ ان کی کمریں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں بھی ساتھ لینا کیونکہ میں اور خلیفہ نور الدین صاحب بہت زُود نویس تھے۔ آتھم کی طبیعت میں تمسخر تھا۔
ایک دن آتھم مقابلہ پر نہ آیا۔ اس کی جگہ مارٹن کلارک بیٹھا ۔ یہ بہت بے ادب اور گستاخ آدمی تھا ۔ اُس نے ایک دن چند لولے لنگڑے اندھے اکٹھے کر لئے اور لاکر بٹھا دئیے۔ اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ۔ ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کردیں اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم اپنی کچھ اصلاح کرلیں گے۔ اس وقت جماعت میں ایک سناٹا پیدا ہوگیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواباً ارشاد فرمایا۔ کہ ہمارے ایمان کی علامت جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے ۔ یعنی استجابت دعا اور تین اور علامتیں حضور نے بیان فرمائیں ۔ یعنی فصاحت وبلاغت اور فہم قرآن اور امور غیبیہ کی پیشگوئیاں ۔ اس میں ہماری تم آزمائش کر سکتے ہو اور اس جلسہ میں کر سکتے ہو۔ لیکن مسیح نے تمہارے ایمان کی علامت یہ قراردی ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گاتو لنگڑوں لُولوں کو چنگا کر دو گے اور پہاڑ وں کو اپنی جگہ سے ہلا سکو گے۔ لیکن میںتم سے اتنے بڑے نشان تو نہیں مانگتا۔ میں ایک جوتی الٹی ڈالتا ہوں اگر وہ تمہارے اشارے سے سیدھی ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے۔ اس وقت جس قدر مسلمان تھے۔ خوش ہو گئے اور فریق ثانی مارٹن کلارک کے ہوش گم ہو گئے۔
{1044} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آتھم کے مناظرہ میں آخری دن جب آتھم کو پیشگوئی سنائی گئی تو اس کا رنگ بالکل زرد ہو گیا اور دانتوں میں زبان دے کر گردن ہلا کر کہنے لگا کہ میں نے حضرت محمد صاحب کو دجّال نہیں کہا۔ حالانکہ اپنی کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ میں اس نے یہ لفظ لکھا تھا۔ پھر آتھم اٹھا اور گر پڑا۔ حالانکہ وہ بہت قوی آدمی تھا۔ پھر دو عیسائیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔ ایک شخص جگن ناتھ عیسائی تھا۔ وہ مجھ سے اکثر باتیں کیا کرتا تھا۔میں نے اسے کہا کہ یہ کیا ہو گیا؟ وہ کہنے لگا کہ آتھم بے ایمان ہو گیا ہے اور ڈر گیا ہے۔ پھر جب ہم اپنی جگہ واپس آئے ۔ غالباً کریم بخش ایک رئیس کی کوٹھی پر ہم ٹھہرے ہوئے تھے تو کرنیل الطاف علی خاں ہمارے ساتھ ہو لئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں حضرت صاحب سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ کرنیل صاحب کوٹ پتلون پہنے اور ڈاڑھی مونچھ منڈائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ باہر سے ہم کسی کو آنے نہ دیں گے۔ چنانچہ کرنیل صاحب اندر چلے گئے اور آدھ گھنٹہ کے قریب حضرت صاحب کے پاس تخلیہ میں رہے۔ کرنیل صاحب جب باہر آئے تو چشم پُر آب تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا باتیں کیں جو ایسی حالت ہے۔ وہ کہنے لگے کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں بوریے پر بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ بوریہ پر صرف آپ کا گھٹنا ہی تھا اور باقی حصہ زمین پر تھا۔ میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں! اور حضور نے یہ سمجھا کہ غالباً میں (کرنیل صاحب) بوریے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریے پر بچھا دیا کہ آپ یہاں بیٹھیں۔ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل پڑے۔ اور میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں Baptize ہو چکا ہوں (یعنی عیسائیت قبول کر چکا ہوں) مگر اتنا بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافے پر بیٹھ جائوں ۔ حضور فرمانے لگے کہ کچھ مضائقہ نہیں ۔ آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں ۔ میں نے صافے کو ہاتھ سے ہٹا کر بوریہ پر بیٹھ گیا۔ اور میں نے اپنا حال سنانا شروع کیا۔ کہ میں شراب بہت پیتا ہوں اور دیگرگناہ بھی کرتا ہوں ، خدا ،رسول کا نام نہیں جانتا ۔ لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کر کے مسلمان ہوتا ہوں۔ مگر جو عیوب مجھے لگ گئے ہیں ان کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔استغفار پڑھا کرو۔ اور پنجگانہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب تک میں حضور کے پاس بیٹھا رہا۔میری حالت دگرگوں ہوتی رہی اور میں روتا رہا۔ اور اسی حالت میں اقرار کر کے کہ میں استغفار اور نماز ضرور پڑھا کروں گا،آپ کی اجازت لے کر آگیا۔ وہ اثر میرے دل پر اب تک ہے ۔
چونکہ کرنیل صاحب بہت آزاد طبع آدمی تھے ۔ اس واقعہ سے دو تین سال بعد ایک دفعہ مجھ سے ملے اور انہوںنے کہا کہ استغفار اور نماز میں نے اب تک نہیں چھوڑی ۔یہ ضرور ہے کہ باہر اگر میں سیر کو چلا گیا اور نماز کا وقت آگیا تو میں چلتے چلتے نماز پڑھ لیتا ہوں۔ ورنہ مقام پر نما زاور قرآن شریف پڑھتا ہوں ۔ ہاں دو وقت کی نمازیں ملا لیتا ہوں۔ اور کرنیل صاحب نے یہ بھی کہا کہ میں نے ایک دفعہ پچاس روپے حضور کو بھیجے اور مجھے اس کی خوشی ہوئی کہ حضور نے قبول فرمالئے ۔
{ 1045} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ عبداللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد کے جب دو تین دن رہ گئے تو محمد خان صاحب مرحوم اور منشی اروڑاصاحب مرحوم اور میں قادیان چلے گئے اور بہت سے دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ سب کو حکم تھا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے دعائیں مانگیں۔ مرز ایوب بیگ مرحوم برادر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس قدر گریہ وزاری سے دعا مانگتا تھا کہ بعض دفعہ گر پڑتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ محمد خان اور منشی اروڑا صاحب اور میں مسجد مبارک کی چھت پر سویا کرتے تھے ۔ آخری دن میعاد کا تھا کہ رات کے ایک بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس تشریف لائے کہ ابھی الہام ہوا ہے کہ اس نے رجوع الی الحق کر کے اپنے آپ کو بچا لیا ہے ۔ منشی اروڑا صاحب مرحوم نے مجھ سے ، محمد خان صاحب سے اور اپنے پاس سے کچھ روپے لے کر جو تیس پنتیس کے قریب تھے، حضور کی خدمت میں پیش کئے کہ حضور اس کے متعلق جو اشتہار چھپے وہ اس سے صرف ہوں ۔حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم تمہارے روپے سے ہی اشتہارات چھپوائیں گے ۔ ہم نے عرض کی کہ ہم اور بھی روپے بھیجیں گے ۔ ہم نے اسی وقت رات کو اُتر کر بہت سے آدمیوں سے ذکر کیا کہ وہ رجوع بحق ہو کر بچ گیا۔ اور صبح کو پھر یہ بات عام ہوگئی ۔ صبح کو ہندو مسلمانوں کا ایک بہت بڑ امجمع ہوگیا کہ معلوم کریں کہ آتھم مر گیا یا نہیں ۔ پھراُن لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا۔ اس کے بعد ہم اجازت لے کر قادیان سے امرتسر آئے اور امرتسر میں آکر دیکھا کہ عیسائیوںنے آتھم کا جلوس نکالا ہوا ہے ۔ ایک ڈولا سا تھا جس میں آتھم بیٹھا ہوا تھا اور اس ڈولہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور وہ چپ چاپ ایک طرف گردن ڈالے بیٹھا تھا۔ پھر ہم کپور تھلہ چلے آئے ۔ بہت سے آدمیوں نے مجھ سے چھیڑچھاڑ بھی کی ۔ ہم جب امرتسر قادیان سے گئے تھے تو شائع شدہ اشتہار لوگوں کو دئیے کیونکہ ہم تین دن قادیان ٹھہرے تھے اور یہ اشتہار چھپ گئے تھے۔
{ 1046} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں پہلی دفعہ۱۸۹۱ء میں قادیان گیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک فینس میرے لئے اور ایک بہلی بھیجی تھی۔ سابقہ اڈا خانہ سے نکل کرجو راستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کو جاتا تھا جو اب بھی ہے جہاں محمد اسماعیل صاحب جلد ساز کا مکان ہے اور پھر مفتی محمد صادق صاحب کے مکان کے پاس احمدیہ چوک کی طرف مڑتا ہے ۔ جس کے شرقی طرف مدرسہ احمدیہ ہے اور غربی طرف دکانیں ہیں اس تمام راستہ میں ایک پہیہ خشکی میں اور دوسرا پانی میں یعنی جوہڑ میں سے گزرتا تھااور یہ حد آبادی تھی۔ اور میرے مکان کے آگے ایک ویرانہ تھا۔ اور گلی چھت کر بنا ہوا کمرہ میری فرووگاہ تھی اور یہ ادھر حد آبادی تھی۔ دسمبر۱۸۹۲ء میں میں قادیان گیا تو مدرسہ احمدیہ ۔ مہمان خانہ اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان کی بنیادیں رکھی ہوئی تھیں ۔ اور یہ ایک لمبا سا چبوترا بنا ہو اتھا۔ اسی پر جلسہ ہوا تھا۔ اور کسی وقت گول کمرہ کے سامنے جلسہ ہوتا تھا۔ (یہ چبوترہ ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنایا گیا تھا) اور اس کے بعد جتنے مکان بنے ہیں ڈھاب میں بھرتی ڈال کر بنائے گئے ہیں ۔
{ 1047} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ غالباً پہلی یادوسری دفعہ میرے قادیان آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو آپ موم بتی لے کر اس کی روشنی میں آئے ۔ میرے ملازم صفدر علی نے چاہا کہ بتی کو بجھا دیا جائے تاکہ بے فائدہ نہ جلتی رہی ۔ اس پر آپ نے فرمایا۔ جلنے دو روشنی کی کمی ہے ۔ دنیا میں تاریکی تو بہت ہے (قریب قریب الفاظ یہ تھے)
{ 1048} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آتھم کے واقعہ کے چھ ماہ بعد میں قادیان گیا تو وہاں پر شمس الدین صاحب سیکرٹری انجمن حمایت اسلام بھی ٹھہرے ہوئے تھے ۔وہ احمدی نہ تھے۔ قادیان سے میں اور شمس الدین صاحب امرتسر آئے ۔ میاں قطب الدین صاحب امرتسری جو بہت مخلص آدمی تھے ۔ اُن سے ملنے گئے تو انہوںنے کہا کہ یہاں پرایک عیسائی ہے اس کے پاس عبد اللہ آتھم کی تحریر موجود ہے جس میں آتھم نے اقرار کیا ہے کہ اس نے ضرور رجوع بحق کیا ہے اور وہ خائف رہااور وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہر گز نہیں جو مرزا صاحب کی ہتک کرتے ہیں ۔ آپ کوبزرگ جانتا ہے ۔ یہ سن کر ہم تینوں اس عیسائی کے پاس گئے ۔ اور اُس سے وہ تحریر مانگی۔ اس نے دور سے دکھائی اور پڑھ کر سنائی ۔ اور یہ کہا کہ یہ خاص آتھم کے قلم کی تحریر ہے جو چھپوانے کی غرض سے اس نے بھیجی تھی مگر عیسائیوں نے اجازت نہیں دی کہ اس کو چھاپا جائے ۔ میرے پاس امانتاً رکھی ہوئی ہے ۔ عیسائی مذکور نے چند شرائط پر وہ تحریر دینے کا اقرار کیا کہ اس کی نوکری جاتی رہے گی۔ اس کا انتظام اگر ہم کریں۔ پانچ سو روپیہ دیں اور اس کی دو لڑکیوں کی شادی کا بندوبست کریں ۔ شمس الدین صاحب نے اس کا انتظام کیا۔ اور پھر ہم تینوں اس کے پاس گئے تو معلوم ہوا کہ یہ راز افشاء ہوگیا ہے اور اسے عیسائیوں نے کوہاٹ یا کسی اور جگہ تبدیل کردیا ہے ۔
{ 1049} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنے وطن بڈھانہ ضلع مظفر نگر جارہا تھا تو انبالہ سٹیشن پر ایک بڑا پادری فیروز پور سے آرہا تھا۔ جبکہ آتھم فیروز پور میں تھا ۔ پادری مذکور کے استقبال کے لئے بہت سے پادری موجود تھے۔ وہ جب اُترا تو پادریوں نے انگریزی میں اس سے آتھم کا حال پوچھا ۔ اس نے کہا ۔ وہ تو بے ایمان ہوگیا ۔ نمازیں بھی پڑھتا ہے ۔ بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک جو احمدی تھے۔ اور میرے ملنے کے لئے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے کیونکہ میں نے اُن کو اطلاع دے دی تھی۔ انہوںنے مجھے بتایا کہ یہ انہوںنے پوچھا ہے اور یہ اس نے جواب دیا ہے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں واقعہ تحریر آتھم والااور انبالہ سٹیشن والا عرض کیا۔ آپ نے ہنس کر فرمایا کہ گواہ تو سب احمدی ہیں۔ حضور کا مطلب یہ تھا کہ غیر کب اس شہادت کو مانیں گے۔
شیخ محمد احمد صاحب وکیل پسر منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ شمس الدین صاحب تو احمدی نہ تھے ۔ جس کا جواب والد صاحب نے یہ دیا کہ دراصل حضور نے اس امر کو قابل توجہ نہیں سمجھا اور درخور اعتنا خیال نہ فرمایا۔
{ 1050} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا۔ میں۱۹۰۱ء میں معہ اہل وعیال قادیان آگیا اور پھر مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ اُن دنوں میں ایک رسالہ ابتدائی جماعت کے لئے نماز کے متعلق لکھ رہا تھا۔ اُس میں میں نے ارکان نماز کا مختصر ذکر کیا تو میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا کہ پانچ ارکان ایمان یعنی(۱)اللہ تعالیٰ(۲) فرشتے(۳)اللہ کی کتابیں(۴) اللہ کے رسول(۵)آخرت کے ساتھ ’’قدر خیرہ وشر ہ ‘‘کا مفہوم بھی درج کیا جائے یا نہیں ۔ یہ میں نے حضرت مولانا مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاول کے ذریعہ دریافت کیا اور مغرب کے بعد عشاء تک جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف رکھا کرتے تھے ۔ اُس وقت دریافت کیا تھا ۔ ا س وقت مسجد مبارک وسیع نہ ہوئی تھی۔ اور اس کی شکل یہ تھی ۔

۱۔ امام کے کھڑے ہونے کی جگہ ۲۔مسجد مبارک ۳۔ یہ کوٹھڑی بھی شامل مسجد ہو گئی تھی۔
۴۔ دفتر ریویو۔ مولوی محمد علی صاحب یہاں بیٹھا کرتے تھے ۔ ابتداء میں یہ غسل خانہ تھااور گہرا تھا ۔ تخت بچھا کر مسجد کے برابر کر لیا تھا۔ زیادہ لوگ ہوتے تو امام کے پاس بھی دو آدمی کھڑے ہوجاتے تھے۔ اور مولوی محمد علی صاحب کے دفتر میں بھی چند آدمی کھڑے ہوجاتے تھے۔ مگر جس وقت کا میں ذکر کرتا ہوں ۔ اس وقت یہ دفتر نہ بنا تھا۔ اس لئے صرف نمبر ۱،نمبر۲،نمبر ۳ میں ہی نما زہوتی تھی۔
میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس بیٹھا تھا جو امام نما زتھے اور حضرت خلیفہ المسیح اول بھی وہاں بیٹھے ہوتھے ۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقام (الف) پر بیٹھا کرتے تھے اور دریچہ (ب) میں سے ہو کر مسجد میں آتے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سمجھا کہ میں تقدیر کا قائل نہیں۔ اس پر لمبی تقریر فرمائی جو غالباً الحکم میں درج ہوگی۔ میں نے پھر بذریعہ مولانا صاحب عرض کیا کہ میں تقدیر کا قائل ہوں اور اللہ تعالیٰ پر مع جمیع صفات ایمان رکھتا ہوں ۔ اور اسے قادر وقدیر مانتا ہوں مگر میری عرض یہ ہے کہ باقی ماندہ صفات کو چھوڑ کر قدر خیر وشر کو کیوں الگ طور سے لکھا جائے ۔ یا تو تمام صفات کو لکھا جائے یا یہ بھی نہ ہو۔ توآپ نے فرمایا۔ یہ الگ طور پر نہ لکھی جائے ۔
{ 1051} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا ۔ اس وقت میں ایک کام کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو اتھا ۔ اس وقت صرف میں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہی تھے۔ اور یہ اس مکان کا صحن تھا جو حضرت صاحبزادہ مرز ا شریف احمد صاحب کے رہائشی مکان کا صحن تھا۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے جنوبی جانب بڑے کمرے کی چھت پر تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس وقت وہاں تشریف رکھتے تھے۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصہ اور منہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے ۔ اس سے قبل حضرت مولانا نور الدین صاحب ؓ سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔
{ 1052} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مباحثہ آتھم میں فریقین کی تقاریر جو قلمبند ہوتی تھیں۔ دونوں فریق کے کاتبان تحریر آپس میں اُن کا مقابلہ کرلیتے تھے ۔ کبھی اُن کے کاتب آجاتے، کبھی میں جاتا۔ ایک دفعہ میں مضمون کا مقابلہ کرانے کے لئے آتھم کے مکان پر گیا۔ جاکر بیٹھا ہی تھا کہ آتھم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ۔ میں نے کہا قصبہ بڈھانہ ضلع مظفر نگر کا۔ اس نے کہا !وہاں کے منشی عبد الواحد صاحب منصف ایک میرے دوست تھے ۔ میں نے کہا کہ وہ میرے چچا تھے۔ پھر کسی جگہ کا آتھم نے ذکر کیا کہ میں وہاں کا ڈپٹی تھااور منشی عبدالواحد صاحب بھی وہاں منصف یا تحصیلدار تھے اور میرااُن کا بڑا تعلق تھا۔ اور وہ بھی اپنے آپ کو ملہم سمجھتے تھے۔ تم تو میرے بھتیجے ہوئے ۔ اور وہ اپنی مستورات کو لے آیا اور اُن سے ذکر کیا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں ۔ ان کی خاطر کرنی چاہئے ۔ چنانچہ اُسی وقت مٹھائی وغیرہ لائی گئی۔ میںنے کہا کہ میں یہ نہیں کھاسکتا۔ کیونکہ ہمارے حضرت صاحب نے بعض عیسائیوں کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم ہمارے آقا اور مولا کی ہتک کرتے ہو تو ہم تمہاری دعوت کیسے قبول کر سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے میںبھی چائے نہیں پی سکتا۔ وہ کہتا رہا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے نہیںبلکہ بھتیجا ہونے کی وجہ سے دعوت کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں مضمون کا مقابلہ کرائے بغیر وہاں سے چلا آیا اور حضور کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا ۔ حضور نے فرمایا! کہ آپ نے بہت اچھاکیا۔ اب تمہیں وہاں جاکر مقابلہ کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہیں خواہش ہوتو خود آجایا کریں ۔
{ 1053} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیعت اولیٰ سے پہلے کا ذکر ہے کہ میں قادیان میں تھا۔ فیض اللہ چک میں کوئی تقریب شادی یا ختنہ تھی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مع چند خدام کے مدعو کیا گیا ۔ ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے دعوت قبول فرمائی۔ ہم دس بارہ آدمی حضور کے ہمراہ فیض اللہ چک گئے ۔ گاؤں کے قریب ہی پہنچے تھے کہ گانے بجانے کی آوازسنائی دی جواس تقریب پر ہورہا تھا۔ یہ آواز سنتے ہی حضور لوٹ پڑے ۔ فیض اللہ چک والوں کو معلوم ہوا تو انہوںنے آکر بہت التجاء کی مگر حضور نے منظور نہ فرمایا۔ اور واپس ہی چلے آئے ۔ راستہ میں ایک گاؤں تھا مجھے اس کا نام اس وقت یاد نہیں۔ وہاں ایک معزز سکھ سردارنی تھی ۔ اُس نے بمنّت حضور کی دعوت کی ۔ حضور نے فرمایا۔قادیان قریب ہی ہے ۔ مگر اس کے اصرار پر حضور نے اس کی دعوت قبول فرمالی اور اس کے ہاں جاکر سب نے کھانا کھایا۔ اور تھوڑی دیر آرام کر کے حضور قادیان واپس تشریف لے آئے۔ہمراہیان کے نام جہاں تک یاد ہے یہ ہیں ۔ مرزااسماعیل صاحب شیر فروش، حافظ حامد علی ، علی بخش حجام جس نے عطاری کی دکان کی ہوئی تھی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔
{ 1054} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ پٹیالہ کے بعض عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور یہ بات پیش کی کہ ہم ایک لفافے میں مضمون لکھ کر میز پر رکھ دیتے ہیں۔ آپ اسے دیکھے بغیر اس کا مضمون بتادیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا ! ہم بتادیں گے۔ آپ وہ مضمون لکھ کر رکھیں۔ اس پر انہوںنے جرأت نہ کی۔ اس قدر واقعہ میرا چشم دید نہیں ۔ البتہ اس واقعہ کے بعد حضرت صاحب نے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو حنائی کاغذ پر تھا ۔وہ اشتہار میں نے پڑھا تھا جس میں یہ واقعہ درج تھا اور حضور نے یہ شرط پیش کی تھی کہ اگر ہم لفافے کا مضمون بتادیں تو مسلمان ہونا ہوگا۔ یہ واقعہ ابتدائی ایام کا اور بیعت اولیٰ سے پہلے کا ہے ۔
{ 1055} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری دوسری بیوی کے انتقال پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتوسل حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب راولپنڈی کے ایک تاجر صاحب کی سالی سے میرا رشتہ کرنا چاہا۔ مجھے یہ رشتہ پسند نہ تھا کیونکہ مجھے اُن کے اقرباء اچھے معلوم نہ ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ رشتہ بہت پسند تھا۔ بلکہ یہاں تک زور دیا ، خو دتو نہیں فرمایا مگر پیغامبر کی معرفت فرمایا کہ اگریہ رشتہ میں منظور نہ کروں گا تو آپ میرے رشتہ کے متعلق کبھی دخل نہ دیں گے۔ مگر اُن تاجر صاحب نے خو دیہ بات اُٹھائی کہ ان کی سالی بہنویوں سے پردہ نہ کرے گی اور سخت پردہ کی پابندنہ ہوگی(میرے متعلق یہ کہا کہ )سنا جاتا ہے کہ نواب صاحب پردہ میں سختی کرتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میرے پاس میرے مکان پر خود تشریف لائے اور فرمایاکہ وہ یہ کہتے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ قرآن شریف میں جو فہرست دی گئی ہے میں اس سے تجاوز نہیں چاہتا۔ فرمانے لگے کہ کیا بہنوئی سے بھی پردہ ہے ۔ میںنے عرض کی کہ حضور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۔ قرآن شریف کی فہرست میں بہنوئی داخل نہیں ۔ آپ خاموش ہوگئے اور پھر اس رشتہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا۔ اور وہ تاجر صاحب بھی چلے گئے ۔
{ 1056} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریباً ایک ماہ قیام پذیر رہے ۔ بیعت اولیٰ سے تھوڑے عرصہ بعد کا یہ ذکر ہے ۔ ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہوکار تھا وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتاہوں ۔ آپ نے فوراً دعوت قبول فرمالی۔ اُس نے کھانے کا انتظام بستی بابا خیل میں کیا اور بہت پرتکلف کھانے پکوائے ۔ جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے ۔ اُس ساہوکار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا۔ اور لوٹااور سلاپچی لے کر خود ہاتھ دُھلانے لگا ۔ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خد اقبول کر لے ۔ غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کوقبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے ۔ تم خدا کو وحدہ لاشریک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو۔ اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا۔ حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں۔ پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہوکار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا۔
{ 1057} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیبذریعہ تحریر بیان کیا کہ جالندھر میں قیام کے ایام میں ایک دن ایک ضعیف العمر مسلمان غالباً وہ بیعت میں داخل تھا اور اس کا بیٹا نائب تحصیلدار تھا ،اس بیٹے کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس نے شکایت کی کہ یہ میرا بیٹا میری یا اپنی ماں کی خبر گیری نہیں کرتا اور ہم تکلیف سے گزارا کرتے ہیں ۔ حضور نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ خد اتعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ویُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِینًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:۹) ۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ماں باپ ، اولاد اور بیوی کی خبر نہ لے ۔ تو وہ بھی اس حکم کے نیچے مساکین(ماں باپ) یتامیٰ (بچے) اسیر (بیوی) میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ تم خدا تعالیٰ کا یہ حکم مان کر ہی آئندہ خدمت کرو۔ تمہیں ثواب بھی ہوگا اور ان کی خبرگیری بھی ہوجائے گی ۔ اُس نے عہد کیا کہ آج سے میں اپنی کل تنخواہ ان کو بھیج دیا کروں گا۔ یہ خود مجھے میرا خرچ جو چاہیں بھیج دیا کریں پھر معلوم ہوا کہ وہ ایسا ہی کرتا رہا۔
{ 1058} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران قیام جالندھر میں ایک شخص جو مولوی کہلاتا تھا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بحث کرنے کی غرض سے آیا۔ حضور نے فرمایا کہ آپ صبح کے وقت آجائیں ۔ اُس نے کہا کہ صبح کو مجھے فرصت نہیں ہوتی۔ میں بھی اُس شخص کو جانتا تھا۔ میںنے کہا ۔یہ شخص واقعی صبح کو مشغول ہوتا ہے کیونکہ شراب نوشی کا عادی ہے ۔ اس پر حاضرین تو مسکرا پڑے۔ لیکن حضور نے صرف اس قدر فرمایا کہ آپ اپنے شکوک رفع کرنے کے لئے کوئی اور وقت مقرر کر لیں۔
{ 1059} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جالندھر میں زیادہ عرصہ قیام جب رکھا تو دوست احباب ٹھہر کر چلے جاتے تھے ۔ لیکن مولوی عبداللہ صاحب سنوری اور خاکسار برابر ٹھہرے رہے ۔ ایک دن میں نے اور مولوی صاحب مرحوم نے ارادہ کیا کہ وہ میرے لئے اور میں اُن کے رخصت ہونے کی اجازت حاصل کریں۔ صبح کو حضور سیر کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا۔ لوجی میاں عبد اللہ صاحب اور منشی صاحب! اب تو ہم اور آپ ہی رہیں گے اور دوست تو چلے گئے ۔ نئے نودن پرانے سو دن۔ بس پھر ہم خاموش ہوگئے اور ٹھہرے رہے ۔
{ 1060} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتداء میں جب میں قادیان مستقل طور پر رہنے لگا تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں باہرسے برات آئی تھی ۔ اس کے ساتھ کنچنی بھی تھی اور ناچ وغیرہ ہوتا تھا ۔ میں ایسی شادی کی رسوم میں نہ خود شریک ہوتا ہوں اور نہ اپنی کوئی چیز دیتا ہوں ۔ مرزا نظام الدین نے مجھ سے غالباً کچھ دریاں اور چکیں مانگی تھیں ۔ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا۔ دے دو کیونکہ اس شادی سے اغلب ہے کہ دولہا کی اصلاح ہوگی۔
{ 1061} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مرزا خدابخش صاحب کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ انہوںنے لڈومیرے ہاں بھیجے ۔ میں نے واپس کر دئیے کہ عقیقہ کا کھانا تو میں لے لوں گا مگر یہ میں نہیں لیتا ۔ تھوڑے عرصہ بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام وہ رکابی خود لئے تشریف لائے اور فرمایا کہ بات ٹھیک ہے جو تم نے کہی ۔ یہ بچہ کی پیدائش کے لڈو نہیں ۔ بلکہ اس شکریہ کے ہیں کہ ماں کی جان بچ گئی ۔ میں نے نہایت تکریم سے وہ رکابی لے لی ۔ اُس وقت میرے مکان زنانہ کے صحن میں ایک دروازہ تھا اس پر کھڑے کھڑے یہ باتیں ہوئیں ۔
{ 1062} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ خد اتعالیٰ کی وحدانیت پر تقریر فرمارہے تھے ۔ اس وقت ایک انگریز جو بعد میں معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ،آگیا اور ٹوپی اتار کر سلام کیااور حضور کی تقریر سننے کے لئے کھڑا رہا اور باوجود یکہ اس کے بیٹھنے کے لئے کرسی وغیرہ بھی منگوائی گئی مگر وہ نہ بیٹھا۔ عجیب بات تھی کہ وہ تقریر سنتا ہوا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ کہتا تھا ۔ تھوڑا عرصہ تقریر سن کر سلام کر کے وہ چلا گیا۔ اس کے بعد قریباً دوسرے تیسرے دن جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے تو ایسا اتفاق ہوتا کہ وہ راستہ میں گھوڑے پر سوار مل جاتا اور گھوڑے کو ٹھہرا کر ٹوپی اتار کر سلام کرتا ۔یہ اس کا معمول تھا۔
{ 1063} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جالندھر میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا ۔ یا ظفر المظفر (وہ دوستانہ بے تکلفی میں مجھے اس نام سے مخاطب فرمایا کرتے تھے) ذرا جالندھر کی سیر تو کراؤ۔ چنانچہ ہم چل پڑے۔ راستہ میںدیکھا کہ گویا ایک برات آرہی ہے اور اس کے ساتھ دیسی اور انگریزی باجااور طوائف وغیرہ آرہے ہیں۔ اُن کے پیچھے ایک شخص گھوڑے پر سوار بٹیرے کا پنجرہ ہاتھ میں لئے آرہا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ تمام جلوس اسی بٹیرے کے لڑائی جیتنے کی خوشی میں ہے ۔ میںنے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ برات ورات نہیں ۔ یہ تو بٹیرے کی کشتی جیتنے کی خوشی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب یہ دیکھ کر سڑک پر ہی سجدہ میں گر پڑے اور سخت مغموم ہوئے ۔ بوجہ مسلمانوں کی اس ابتر حالت کے۔ اور یہی فرماتے رہے کہ اوہو! مسلمانوں کی حالت اس درجہ پر پہنچ گئی ہے ۔ہم واپس آگئے ۔
{ 1064} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں مقیم تھے تو انہیں دنوں میر عباس علی صاحب بھی اپنے کسی مرید کے ہاں آکر جالندھر میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایاکہ وہ آپ کے پرانے ملنے والے ہیں اُن کو جاکر کچھ سمجھاؤ۔ پیراں دتا جو کہ فاتر العقل سا شخص تھا اور حضرت صاحب کے پاس رہتا تھا ۔ اس نے کہا ’’ حجور میں وی جاکے سمجھاواں ‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ہاں منشی صاحب کے ساتھ چلے جاؤ۔ میں میر عباس علی کی قیام گاہ پر گیا۔آٹھ دس آدمی فرش پر بیٹھے تھے اور میر صاحب چارپائی پر ۔ ایک تخت بھی وہاں تھا ۔ دَوروں میں پوست بھیگے ہوئے تھے۔ پیراں دتا کو دیکھ کر میر عبا س علی نے اُسے بے تکلفانہ پکارا ۔ اوپیراں دتا ، او پیراں دتا ، اور مجھ سے السلام علیکم کر کے ہنستے ہوئے ،آئیے آئیے کہہ کر بیٹھنے کو کہا ۔ پیراں دتا مجھ سے کہنے لگا ۔ میں پہلے سمجھا لوں ۔ میں نے کہا سمجھا لے ۔ پیراں دتا کہنے لگا ۔میر صاحب! میں تمہیں دونوں وقت کھانا پہنچاتا تھا یا نہیں ؟ اور تمہیں کبھی کبھی میں پیسے بھی دیا کرتا تھا یا نہیں؟ میر صاحب اب بڑے آدمی دور دور سے روٹی کھانے والے آتے ہیں ۔اب جو تم روٹیوں کی خاطر ادھر ادھر پھرتے ہو یہ وقت اچھا ہے یا وہ جب گھر بیٹھے میں تمہیں روٹی دے جایا کرتا تھا ۔ اب تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہیں روٹی دونوں وقت دے جایا کروں گا۔ میر عباس علی ہنستے رہے ۔ پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کیوں برگشتہ ہوگئے ۔ وہ کہنے لگا کہ مرزاصاحب کہتے ہیں کہ یہ جسم آسمان پر نہیں جاسکتا۔ میں نے اپنے پیر کو خودد یکھا ہے (مولوی غوث علی پانی پتی ان کے پیر تھے) کہ ایک دفعہ انہوں نے الااللہ کا جونعرہ مارا تو زمین شق ہوگئی اور وہ اس میں سما گئے ۔ میںنے کہا کہ اوپر تو پھر بھی نہ گئے ۔ اور وہاں قرآن شریف رکھا تھا ۔ میں نے اُٹھا کر میر صاحب کے سر پر رکھ دیا کہ آپ خدا کو حاضر وناظر جان کربتائیں کہ آ پ نے یہ واقعہ خود دیکھا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ ہمارے پیر نے جب یہ بیان کیا کہ انہوںنے ایک دفعہ ایسا کیا۔ اور ہم انہیں سچا سمجھتے ہیں ۔ تو یہ چشم دید ماجرا ہی ہوا ۔ غرضیکہ جہاں تک ہوسکا ۔میں نے اُن کو سمجھایا ۔ مگر اس وقت ان کی حالت بہت بگڑ چکی تھی۔ وہ اقراری نہ ہوئے ۔
{ 1065} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو میرا انتظار فرماتے۔ بعض دفعہ بہت دیر بھی ہوجاتی مگر جب سے مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح مجھ سے ہوا تو آ پ نے پھر میرا انتظار نہیں کیا۔ (یا توحیا فرماتے۔ اور اس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا یا مجھے فرزندی میں لینے کے بعد فرزند سمجھ کر انتظار نہیں کیا)
{ 1066} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جس مکان میں رہا کرتے تھے اب اس میں حضرت اماں جان علیہا السلام رہتی ہیں ۔ اس کے صحن اور میرے مکان کے صحن میں صرف ایک دروازہ حائل تھا ۔ گویا اس وقت نقشہ یہ تھا۔

کمرہ نمبر۱، نمبر۲، نمبر۳میں میری رہائش تھی ۔ نمبر۴میں مولوی محمد احسن صاحب رہا کرتے تھے۔ نمبر۵میرا صحن تھا، نمبر۶حضرت صاحب کا صحن تھا۔ اور نمبر۷آپ کا رہائشی کمرہ تھااور نمبر۸بیت الفکر تھا۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کوئی بات کرتے ہمیں سنائی دیتی۔ جب بھی کوئی بات ہو یا عورتوں میں تقریر ہو۔ رات دن میں جب بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر آتا تو آپ کے منہ سے یہی نکلتا تھا’’ہمارے رسول کریم ، ہمارے نبی کریم ‘‘
{ 1067} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پر مع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرماتھے۔ ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے۔ حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے ،آتے گئے اور حضور کے قریب بیٹھتے گئے ۔ جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا ۔ حتّٰی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گیا۔ اتنے میں کھاناآیا۔ تو حضور نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کر کے فرمایا ۔ آؤ میاں نظام الدین !آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں ۔ اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام الدین نے کوٹھڑی کے اندر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔ اور کوئی اندر نہ گیا۔ جو لوگ قریب آکر بیٹھتے گئے تھے ان کے چہروں پر شرمندگی ظاہر تھی۔
{ 1068} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک صاحب مولوی عبد الرحیم ساکن میرٹھ قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعوعلیہ السلام سے تین دن تک اُن کی ملاقات نہ ہوسکی۔ وجہ یہ تھی کہ جب حضور مسجد مبارک میں بیٹھتے تو عبد الرحیم صاحب تکلف اور آداب کے خیال سے لوگوں کو ہٹا کر اور گزر کر قریب جانا ناپسند کرتے تھے۔ میری یہ عادت تھی کہ بہرحال وبہرکیف قریب پہنچ کر حضور کے پاس جابیٹھتا تھا۔ عبد الرحیم صاحب نے مجھ سے ظاہر کیاکہ تین دن سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔ چنانچہ میں نے حضرت صاحب سے یہ بات عرض کی ۔ حضور ہنس کرفرمانے لگے کہ کیا یہ آپ سے سبق نہیں سیکھتے ۔ اور پھر انہیں فرمایا کہ آجائیے ۔ چنانچہ ان کی ملاقات ہوگئی۔
{ 1069} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آکر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اُتارے جائیں اور سامان لایا جائے ۔ چارپائی بچھائی جائے ۔ خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں ۔ چارپائیاں بھی مل جائیں گی۔ دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہوگئے اور فوراً یکّہ میں سوار ہوکر واپس روانہ ہوگئے ۔ میں نے مولوی عبد الکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے ۔ جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا مشکل ہوگیا ۔ حضور ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے ۔ چند خدام بھی ہمراہ تھے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ نہر کے قریب پہنچ کر اُن کا یکّہ مل گیا۔ اور حضور کو آتا دیکھ کر وہ یکّہ سے اُتر پڑے اور حضور نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایاکہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا۔ چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضور نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے ۔ اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے ۔ حضور نے خود اُن کے بستر اُتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایامگر خدام نے اُتار لیا۔ حضور نے اُسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اور اُن پر ان کے بستر کروائے اوراُن سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے۔ اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں۔ اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا۔ غرضیکہ اُن کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے ۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے ۔ راستہ کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا ۔ اگر یہاں آکر بھی اس کو وہی تکلیف ہو تو یقینا اس کی دل شکنی ہوگی۔ ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے ۔ اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے ۔ حضور کا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ کے قریب اُن کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریر وغیرہ فرماتے۔ جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا ۔ حضور نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا۔یہ پی لیجئے ۔ اور نہر تک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے ۔ راستہ میں گھڑی گھڑی اُن سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں۔ آپ یکے میں سوار ہولیں ۔ مگر وہ سوار نہ ہوئے ۔ نہر پر پہنچ کر انہیں سوار کرا کے حضور واپس تشریف لائے ۔
{ 1070} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سیبذریعہ تحریر بیان کیا ۔ کہ ایک دفعہ منشی اروڑاصاحب، محمد خاں صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت ہونے لگے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے اوپر اور نیچے ہو۔ حضور نے فرمایا ۔ خداقادر ہے ۔ میں نے عرض کی کہ حضور یہ دعا انہیں کے لئے فرمانا کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو۔ قادیان سے یکہ میں سوار ہوکر ہم تینوں چلے توخاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع ہوگئی۔ اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں ۔تھوڑی دور آگے جاکر یکہ الٹ گیا ۔ منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گر گئے اور محمد خاں صاحب اور میں کودپڑے۔ منشی اروڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی ہوگیااور وہ ہنستے جاتے تھے۔
{ 1071} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن دوپہر کے وقت ہم مسجد مبارک میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ کسی نے اُس کھڑکی کو کھٹکھٹایا جو کوٹھڑی سے مسجد مبارک میں کھلتی تھی ۔ میںنے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود تشریف لائے ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک طشتری ہے جس میں ایک ران بھنے ہوئے گوشت کی ہے ۔ وہ حضور نے مجھے دے دی اور حضور خود واپس اندر تشریف لے گئے ۔ اور ہم سب نے بہت خوشی سے اُسے کھایا۔ اس شفقت اور محبت کااثر اب تک میرے دل میں ہے اور جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتاہوں تو میرا دل خوشی اور فخر کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔
{ 1072} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی بیماری کے دوران میں بھی قادیان ہی میں حاضر تھا اور اُن کی وفات کے وقت بھی یہیں موجود تھا۔ چنانچہ ان کے جنازہ کو مقبرہ بہشتی میں لے جانے کے لئے ڈھاب کے ایک حصہ پر عارضی پل بنانا پڑاتھا۔ اس پل کے بنانے میں زیادہ تر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کا حصہ تھا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں بھی اُن کے ساتھ شامل ہوا تھا اور بعد میں صاحبزادہ صاحب کے جنازہ میں بھی شامل ہوا۔ جنازہ کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قبر سے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ گئے اور صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرماتے رہے ۔ میں اگرچہ اُس وقت بچہ ہی تھا لیکن یہ احساس اس وقت تک میرے دل میں قائم ہے کہ حضور باوجود اس قدر سخت صدمہ کے جوآپ کوصاحبزادہ صاحب کی وفات سے لازماًپہنچا ہوگا نہایت بشاشت سے کلام فرماتے رہے ۔
{ 1073} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی سے واپسی پر امرتسر اُترے ۔ حضرت ام المومنین بھی ہمراہ تھیں ۔ حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) تھے گود میں لیا۔ اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا اور مجھے فرمایا آپ پاندان لے لیں ۔ میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں ۔ آپ نے فرمایا۔ نہیں۔ ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا۔ تو میںنے پاندان اٹھا لیا اور ہم چل پڑے ۔ اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہو ذرا کھڑے ہوجائیں ۔ چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں۔ حضور کھڑے ہوگئے اور انہوںنے اُسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا۔
{ 1074} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ مقدمہ کرم دین میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا تار میرے نام آیا۔ کہ آپ شہادت کے لئے گورداسپور پہنچیں۔ میں فوراً گورداسپور روانہ ہوگیا۔ کرم دین نے لمبی چوڑی جرح تیار کی ہوئی تھی۔ ہر ایک گواہ کے لئے ۔ خصوصاً پرانے خدام کے لئے لمبی جرح اُس نے تیار کی تھی ۔ چنانچہ مجھ پر اُس نے حسب ذیل سوالات کئے۔
س : قادیان میں کتنے پریس ہیں ۔
ج : میں کیا جانوں کس قدر پریس ہیں ۔
س : مرز اصاحب کی کس قدر تصانیف ہیں
ج : اسّی کے قریب ہوں گی۔
س : کتابوں کے کیا کیا نام ہیں ۔
ج : مجھے یاد نہیں۔ میں کوئی کتب فروش نہیں ہوں ۔
س : کس قدر سنگ ساز ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج : ایک شخص کرم الٰہی کو میں جانتا ہوں اور پتہ نہیں
س : کاتب کس قدر ہیں اور ان کے کیا کیا نام ہیں
ج : مجھے علم نہیں ۔
س : آپ قادیان میں کتنی دفعہ آئے ہیں ۔
ج : سینکڑوں دفعہ
س : تعداد بتائیں
ج : میں نے گنتی نہیں کی
اسی طرح چند اور سوال کئے ۔ جن کے جواب میں میں لاعلمی ظاہر کرتا رہا ۔ آخر مجسٹریٹ نے اسے اس قسم کے سوالات کرنے سے روک دیا۔ اور میں کمرہ عدالت سے باہر چلا آیا۔ جس پراُس نے عدالت سے کہا کہ یہ دیگر گواہوں کو باہر جاکر بتادے گا۔ مگرحاکم نے اس کی بات نہ مانی کہ گواہ معزز آدمی ہے اور میں باہر چلا آیا۔
اسی درمیان میں مجسٹریٹ نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ مرزاصاحب کے مرید ہیں۔ میں نے کہا ۔ہاں ۔پھر اس نے پوچھا کہ آپ جان ومال اُن پر فدا کرسکتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ جان ومال کی حفاظت کے لئے ہم نے بیعت کی ہے ۔ وہ مجھے سوال میں پھانسنا چاہتا تھا ۔ مگر یہ جواب سن کر رہ گیا۔
گواہوں کے بیانات نوٹ کرنے کے لئے حضرت صاحب مجھے تقریباً ہر مقدمہ میں اندر بلا لیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے میری اس خوش قسمتی بوجہ زود نویسی پر رشک کا اظہار فرمایا ۔
{1075} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے شرف نیاز کا موقعہ اُس روز ہوا جب کہ حضور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی اس درخواست پر کہ حضور ایک دفعہ ان کے گھر واقعہ قصبہ سنور متصل پٹیالہ میں قدم رنجہ فرمائیں۔ پٹیالہ تشریف لائے ۔ دس بجے صبح کے قریب پہنچنے والی ٹرین سے حضور کے راجپورہ کی جانب سے تشریف لانے کی اطلاع تھی۔ خاکسار پہلی ٹرین سے راجپورہ پہنچ گیا۔ آگے پٹیالہ آنے والی ٹرین تیار تھی۔ حضور گاڑی کے آگے معہ دو ہمراہیاں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مرحوم وحاجی عبد الرحیم صاحب المعروف ’’پیسہ والے سوداگر‘‘ گاڑی کے آگے پلیٹ فارم پر کھڑے تھے ۔ چونکہ ہم لوگ اس سے قبل کسی کی صورت سے بھی آشنا نہ تھے ۔ اس لئے حاجی عبد الرحیم صاحب کی طرف مصافحہ کے لئے بڑھے۔ کیونکہ حاجی صاحب لحیم وشحیم اور قدآور آدمی تھے۔ اور لباس ظاہری بھی اُن کا شاندار تھا۔ حاجی صاحب نے ہمارا مقصد محسوس کرتے ہوئے حضرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اگر آپ لوگ حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آئے ہیں تو حضرت صاحب یہ ہیں۔ اس پر ہم دو تین آدمیوں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا۔ حضرت صاحب نے حاجی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا۔کہ حاجی صاحب! بہت تھوڑے لوگ ہیں جو صرف خد اکے لئے آتے ہیں ۔ دراصل دنیاعجائب پسند ہے ۔اگر یہ شہرت ہوجائے کہ انبالہ میں ایک چار آنکھوں والا آدمی ہے ۔ تو ا س کے دیکھنے کے لئے دنیا ٹوٹ پڑے۔ ایسا ہی لفظ الہام سے دنیا اجنبی ہوچکی تھی۔ اب جو وہ سنتے ہیں کہ ایک شخص کو خد اکی طرف سے الہام ہوتا ہے تو اُسی طرح تعجب سے وہ چاہتے ہیں کہ دیکھیں وہ آدمی جس کو الہام ہوتا ہے وہ کیسا ہے ۔ اس کے بعد گاڑی پٹیالہ کو روانہ ہوئی۔ پٹیالہ اسٹیشن پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب جناب وزیر محمد حسین صاحب کی گاڑی میں سوار ہو کر جو اسی غرض سے خود گاڑی لے کر آئے تھے۔ جانب شہر روانہ ہوگئے ۔ اور اُس کوٹھی میں جو اسٹیشن سے دو میل کے فاصلہ پر (جانب شرق پٹیالہ سے )واقع ہے موجود ہیں ۔ جب خاکسار بھی پتہ لگا کر وہاں پہنچ گیاتو حضور کوٹھی کے بڑے کمرے میں تقریر فرمارہے تھے اور بیس تیس مردماں کا مجمع تھا۔ تقریر کا مفہوم ’’ضرورت الہام‘‘ معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ خاکسار کے حاضر ہونے کے بعد جو الفاظ حضرت صاحب سے سنے تھے وہ یہ تھے۔ عقل صرف ہستی باری تعالی کے بارہ میں ’’ہونا چاہئے ‘‘۔ تک جاسکتی ہے ۔ لیکن یہ بات کہ ایسی ہستی ضرور ہے ۔ اس کی دسترس سے باہر ہے ۔ یہ صرف الہام ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ایسی ہستی ضرور موجود ہے ۔ تقریر والے کمرہ سے ملحقہ کمرہ کی طرف جو بند تھا۔ اشارہ کر کے فرمایا کہ فرض کرو کہ اس کمرہ میں کسی شخص کے بند ہونے کا کوئی دعویٰ کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے شوق زیارت میں ہر روز بڑے الحاح اور عاجزی سے اس کو پکارے ۔ اگر سالہا سال بعد بکثرت لوگ ایسا ہی کریں اور کسی کو اُس شخص کی آواز تک نہ سنائی دے تو وہ سب تھک کر آخر اس کے ہونے سے انکار ی ہوجائیں گے۔ پس دہریہ تو عدم جہد وعدم معرفت کی وجہ سے دہریہ ہیں ۔ لیکن یہ خدا کے پرستار الہام سے تشفی یاب نہ ہونے کی صورت میں ایک تجربہ کار دہریہ ہوتے۔ پس یقینی ایمان الہا م کے بغیر میسر نہیں ہوسکتا۔ یقینی ایمان کے لئے الہام از بس ضروری ہے ۔ اس تقریر کے ختم کرنے کے بعد حضور بسواری گاڑی وزیر صاحب سنور تشریف لے گئے ۔

{1076} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سنور سے شام کو پٹیالہ واپس تشریف لائے تو پھر وزیر محمد حسین صاحب کی کوٹھی پر حضور نے تقریر فرمائی۔ لیکن خاکسار اس کو سن نہ سکا۔ کیونکہ تقریر اوپر کے حصہ مکان میں ہورہی تھی۔ اور مجمع اس قدر کثیر تھا کہ چھتوں کے گرجانے کے خوف سے پہرہ قائم کردیا گیا تاکہ اور آدمی اندر نہ آنے پائیں۔ واپسی پر اسٹیشن پٹیالہ پر بھی ایسی ہی لوگوں کی کثرت تھی ۔
{ 1077} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپسی پر پٹیالہ کے اسٹیشن پر تشریف لائے تو حضور نے نماز مغرب خود پڑھائی۔ اس وقت ایک ناگوار واقعہ یہ ہوا کہ حضور وضو فرمانے لگے تو ہاتھ میں ایک رومال تھا جس میںقریباً یکصد روپیہ تھا تو حضور نے لوٹا ہاتھ میں لیتے وقت بے خیال کسی اجنبی شخص کو وہ رومال پکڑا دیا۔ اور نما زاد اکرنے کے بعد جب حضور نے رومال کے متعلق دریافت کیا تو کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس امر کا چرچا ہونے لگا تو حضور نے منع فرمایا کہ زیادہ تجسس نہ کرو۔ شاید کسی ضرورت مند کے لئے خدا نے اپنے رحم سے ایسا کیا ہو۔ اس کے بعد گاڑی میںسوار کر راجپورہ پہنچ گئے ۔ خاکسار بھی راجپورہ تک ساتھ گیا۔ اور جب حضور ریل گاڑی میں جو پنجاب کی طرف جانے والی تھی تشریف فرما ہوئے تو خاکسار نے ایک روپیہ بطور نذرانہ پیش کیا کہ حضور اسے قبول فرمائیں ۔ حضور نے فرمایا کہ آپ تو طالب علم معلوم ہوتے ہیں اس لئے یہ تکلیف نہ کریں ۔ خاکسار نے عرض کی کہ میری آرزو یہ ہے کہ میرا یہ روپیہ اُس کتاب کی اشاعت کے مصارف میں شامل ہوجائے جو حضور نے تصنیف فرمائی ہے (یعنی براہین احمدیہ) اس پر حضور نے وہ روپیہ بخوشی قبول فرما کر جزائے خیر کی دعا کی ۔
{ 1078} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چندولعل مجسٹریٹ آریہ تھا اور اُس زمانہ میں ہی وہ کھدر پوش تھا۔ ایک دن دوران مقدمہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا بیان ہورہا تھا اور اس دن آدمیوں کی بہت کثرت تھی ۔ اس لئے چند ولعل نے باہر میدان میں کچہری لگائی۔ اور بیان کے دوران میں حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو نشان نمائی کا بھی دعویٰ ہے ؟ آپ نے فرمایا ۔ہاں ۔ اور تھوڑی دیر میں آپ نے فرمایا۔ جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں اور یہ بڑے جوش میں آپ نے فرمایا۔ اس وقت وہ سناٹے میں آگیا اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوا۔
{ 1079} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ چند ولعل مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے الہام ’’اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَک ‘‘ کے متعلق سوال کیا کہ یہ خد انے آپ کو بتایا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس کا مجھ سے وعدہ ہے۔ وہ کہنے لگا جو آپ کی ہتک کرے وہ ذلیل وخوار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا۔ بے شک ۔ اس نے کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ نے فرمایا’’چاہے کوئی کرے‘‘ تو اس نے دو تین دفعہ کہا ’’اگر میں کروں؟‘‘ آپ یہی فرماتے رہے ’’چاہے کوئی کرے‘‘ پھر وہ خامو ش ہو گیا۔
{ 1080} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک مقدمہ کے تعلق سے میں گورداسپور میں ہی رہ گیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام پہنچا کہ واپسی پر مل کر جائیں۔ چنانچہ میں اور شیخ نیا ز احمد صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب یکے میں قادیان کو روانہ ہوئے ۔ بارش سخت تھی ۔ اس لئے یکے کو واپس کرنا پڑااور ہم بھیگتے ہوئے رات کے دو بجے کے قریب قادیان پہنچے ۔ حضور اُسی وقت باہر تشریف لے آئے ۔ ہمیں چائے پلوائی اور بیٹھے باتیں پوچھتے رہے ۔ ہمارے سفر کی تمام کوفت جاتی رہی ۔ پھر حضور تشریف لے گئے ۔
{ 1081} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیا ن کیا کہ جب ستمبر۱۹۰۷ء میں مَیں والدصاحب کے ساتھ قادیان آیاتو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے ارشا دکی تعمیل میں مَیں نے خود ہی ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور یہ۱۶؍ستمبر۱۹۰۷ء کا دن تھا۔ اسی سال میں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا تھااور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوچکا تھا۔ چنانچہ مئی۱۹۰۸ء میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو میں اُن دنوں لاہور میں ہی تھا۔ اُن ایام میں بھی مجھے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوتا تھا۔۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو دوپہر کے وقت میں اپنے کمرہ ہوسٹل میں سویا ہو ا تھا کہ شیخ تیمور صاحب بڑی جلدی اور گھبراہٹ کے ساتھ تشریف لائے اور میرے پاؤں کو ہلا کر کہا کہ جلدی اٹھو اور میرے کمرہ میں آؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ۔ چنانچہ میں فوراً اُٹھ کر اُن کے کمرہ میں گیا اور ہم نے کالج اور ہوسٹل سے چھٹی وغیرہ لینے کا انتظام کیا تاکہ حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان جاسکیں ۔ یہ انتظام کر کے ہم احمدیہ بلڈنگس پہنچ گئے اور پھر حضور کے جنازہ کے ساتھ قادیان آئے ۔ اس موقعہ پر مَیں غالباً دو دن قادیان ٹھہرا اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی بیعت کرنے کے بعد واپس لاہور چلا گیا۔ ان ایام کے احساسات اور قلبی کیفیات کا سپرد قلم کرنا میرے جیسے انسان کے لئے مشکل ہے ۔
{ 1082} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ ستمبر۱۹۰۵ء میں میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہلی دفعہ قادیان آیااور ہم اس کوٹھڑی میں ٹھہرے جو صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب(یعنی خاکسارمؤلف) کے مکان کے جنوب مشرقی کو نہ میں بیت المال کے دفاتر کے بالمقابل ہے ۔ ان ایام میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ظہراور عصر کی نمازوں کے بعد کچھ وقت کے لئے مسجد مبارک کی چھوٹی کوٹھڑی میں جس میں حضور علیہ السلام خود نما زادا فرمایا کرتے تھے تشریف رکھا کرتے تھے اور کچھ عرصہ سلسلہ کلام جاری رہا کرتا تھا۔ میں ان مواقع پر ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ صبح آٹھ نو بجے کے قریب حضور باہر سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اوقات میںبھی دیگر احباب کے ساتھ حضور کے پیچھے پیچھے چلا جایا کرتا تھا۔
{ 1083} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ چھاؤنی میں دفتر سپرنٹنڈنگ انجینئر انہار میں ڈرافٹسمین تھے ۔ ہم کو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج کل انبالہ چھاؤنی میں اسٹیشن کے قریب والے بنگلہ میں تشریف فرماہیں۔ ہم دس اشخاص کی تعداد میں پٹیالہ سے روانہ ہوئے ۔ چھاؤنی پہنچ کر سرائے متصل اسٹیشن کی مسجد میں شب باش ہوئے ۔ صبح آٹھ بجے کے قریب قیام گاہ حضور پر پہنچے ۔ اطلا ع ہونے پر حضور نے شرف باریابی بخشا۔ ہمارے ہمراہیوں میں سے ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ مجھ کو ایک درویش نے ایک درود شریف بتایا ہو اہے۔ اس کی تاثیر یہ بتائی تھی کہ کیسی ہی کوئی مشکل درپیش ہویا کوئی بیماری ہو یا کوئی ملازمت وغیرہ کی خواہش ہو ۔ عشاء کی نماز کے بعد اس درودشریف کا ورد کرنے سے یہ مشکل اور تکلیف دور اور مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ اس شخص نے یہ بھی بیان کیا کہ چنانچہ اس وقت سے میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں اس درود شریف کا ورد شروع کرتا ہوں ۔ چندروز میں ہی وہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے ۔ حضور نے سن کر یہ نہیں دریافت فرمایا کہ وہ کون سا درود شریف ہے بلکہ فرمایا۔ کہ ہروہ کلام جس میں سرورکائنات پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا مقصود ہو۔ خواہ کسی زبان میں ہو ۔ درود شریف ہے ۔ لیکن جو درود شریف نما زکے آخر میں متداول ہے وہ زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہے ۔ اور درود شریف کے فضائل اور تاثیرات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں ۔ اس کاعامل نہ صرف ثواب عظیم کا مستحق ہوتا ہے بلکہ دنیا میںبھی معزز اور مؤقر ہوتا ہے ۔ میں خود اس کاصاحب تجربہ ہوں ۔ آپ اس دورد کو پڑھتے جائیں جو درویش صاحب نے بتایا ہے لیکن میں یہ بتا دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ میں کسی ایسے درود شریف کا قائل نہیں ہوں کہ جس پر یہ بھروسہ کیا جائے کہ گویا قضا وقدر کی کلید اب ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس درود خواں کے قبضہ میں آگئی ہے ۔ ذات باری کی صفت غنااور قدیر کو سامنے رکھ کر جس قدر درود شریف پڑھو گے بابرکت ہوگا۔ لیکن اس قادر مطلق کی بعض قضایا تو ایسی بھی ہونی تھیں جن کے سامنے ،جس پر تم درود بھیجتے ہو، اس کو تسلیم اور رضا کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد حضور نے یہ معلوم کر کے کہ ہم لوگ رات سے آئے ہوئے ہیں اور بخیال تکلیف و بے وقت ہونے کے حاضر خدمت نہ ہوسکے ۔ حضور نے افسوس کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے کہ جب آپ صرف میری ملاقات کے ارادہ سے آئے تھے تو چھاؤنی پہنچ کر آپ ہمارے مہمان تھے۔ آپ کے رات کو مسجد میں سونے سے اور خوردونوش میں بھی جو تکلیف ہوئی ہوگی اس کے خیال سے مجھے تکلیف ہوئی ۔ یہاں چار پائیاں وغیرہ سب سامان موجود رہتا ہے ۔ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوتی۔ اس کے بعد حضور نے کھانا منگوا کر ہم لوگوں کے ساتھ شامل ہو کر تناول فرمایا۔ بعد فراغت طعام سب اصحاب باہر کوٹھی کے احاطہ میں درختوں کے نیچے آرام کرنے کے لئے آگئے جہاں کہ ضرورت کے موافق چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔
{ 1084} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جاڑے کا موسم تھا اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاؤں داب رہے تھے ۔ حضور کو غنودگی کا عالم طاری ہوگیا۔ اور میں نے دیکھا کہ حضور کو پیشانی پر پسینہ آیا ۔ میں اس وقت آپ سے لپٹ گیا۔ آپ کی آنکھ کھل گئی تو مسکرانے لگے۔ میںنے کہا ۔ حضور اس موسم میں پیشانی پر پسینہ دیکھ کر میں نے خیال کیا کہ اس وقت آپ خد اتعالیٰ سے ہم کلام ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایا ! مجھے اس وقت ایک ہیبت ناک الہام ہوا۔ اور یہ عادت ہے کہ جب ایسا الہام ہو تو پسینہ آجاتا ہے ۔ وہ الہام بھی حضور نے مجھے بتایا تھا مگر اب مجھے وہ یاد نہیں رہا۔
{ 1085} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص جو بظاہر فاتر العقل معلوم ہوتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس خاکی وردی اور بوٹ پہنے ہوئے آیااور سر پر کلاہ اور پگڑی تھی۔ وہ آکر حضرت صاحب کے سامنے جھک گیا ۔ سر زمین سے لگا دیا ۔ حضور نے اس کی کمر پر تین تھاپیاں ماریں اور وہ اٹھ کر ہنستا ہوا چلا گیا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے دریافت بھی کیا مگر حضور مسکراتے رہے اور کچھ نہ بتایا۔
{ 1086} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریربیان کیا کہ ایک دن مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تقریر فرمارہے تھے کہ میرے درد گردہ شروع ہوگیا۔ اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میںبرداشت نہ کرسکا اور چلاآیا۔ میں اس کوٹھے پر جس میں پیر سراج الحق صاحب مرحوم رہتے تھے ، ٹھہرا ہوا تھا ۔ حضرت صاحب نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا ۔ انہوںنے درد گردہ معلوم کر کے دوا بھیجی مگر ا س کا کچھ اثر نہ ہوا۔ تکلیف بڑھتی گئی ۔ پھر حضور جلدی تقریر ختم کر کے میرے پاس آگئے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری سے جو آپ کے ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں، منشی صاحب کے پاس ہرو قت رہیں اور حضور پھر گھر سے دوا لے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے ۔ تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا ۔ زینے پر چڑھنے اُترنے میں دقت ہے ۔ آپ میرے پاس آجائیں ۔ آپ تشریف لے گئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوری مجھے سہارا دے کر حضرت صاحب کے پاس لے گئے۔ راستہ میں دو دفعہ میں نے دعا مانگی۔ مولوی صاحب پہچان گئے اور کہنے لگے کہ تم یہ دعا مانگتے ہوگے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہو تاکہ دیر تک حضرت صاحب کے پا س ٹھہرا رہوں ۔ میںنے کہا ہاں یہی بات ہے ۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ دال ، مولیاں سرکہ اس قسم کی چیزیں تھیں۔ جب آپ کھانا کھا چکے تو آپ کا پس خوردہ ہم دونوں نے اٹھا لیا اور باوجود یکہ کے مجھے مسہل آور دوائیں دی ہوئیں تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہ آیا تھا۔ میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضور نے منع نہیں فرمایا۔ چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا۔ کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی۔ ہم دونوں مسجد میں آپ کے ساتھ نما زپڑھنے آگئے ۔ فرضوں کا سلام پھیر کر حضور نے میری نبض دیکھ کر فرمایا۔ آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا۔ میرا بخار بھی اُتر گیا تھا۔ میںنے کہا حضور بخار اندر ہے ۔ اس پرآپ ہنس کر فرمانے لگے ۔ اچھا آپ اندر ہی آجائیں۔ عصر کے وقت تک میں اندر رہا۔ بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرأت نہ کی ۔ میں بالکل تندرست ہوچکا تھا۔
{ 1087} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم انبالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کوٹھی میں مقیم تھے توایک امر کے متعلق جو کہ دینی معاملہ نہ تھا بلکہ ایک دوائی کے متعلق تھا ۔ حضور سے استفسار کی ضرورت پیش آئی ۔ احباب نے خاکسار کو اس کام کے لئے انتخاب کیا۔ چنانچہ میں اجازت لے کر اندر حاضر ہوا۔ حضور اپنے کمرہ میں صرف تنہا تشریف فرماتھے۔ خاکسار نے اس امر کے جواب سے فارغ ہوکر موقعہ کو غنیمت خیال کرتے ہوئے اپنے متعلق ایک واقعہ عرض کرنے کی اجازت چاہی ۔ حضور نے بڑی خندہ پیشانی سے اجازت دی ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس سے قبل نقش بندیہ خاندان میں بیعت ہوں اور ان کے طریقہ کے مطابق ذکر واذکار بھی کرتاہوں ۔ ایک رات میں ذکر نفی اثبات میں حسب طریقہ نقشبندیہ اس طرح مشغول تھا کہ لفظ لاکو وسط سینہ سے اُٹھا کر پیشانی تک لے جاتا تھا ۔ وہاں سے لفظ اِلٰہَ کو دائیں شانہ پر سے گزار کر دیگر اطراف سے گذارتے ہوئے لفظ الّااللّٰہ کی ضرب قلب پر لگاتا ۔ کافی وقت اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد قلب سے بجلی کی رَو کی طرح ایک لذت افزا کیفیت شروع ہوکر سر سے پاؤں تک اس طرح معلوم ہوئی کہ جسم کا ذرہ ذرہ اس کے زیر اثر تھا۔ آخر وہ کیفیت اس قدر بڑھی اور ناقابل برداشت معلوم ہونے لگی کہ میںنے خیال کیا ۔ اگر یہ کیفیت اس سے زیادہ رہی تو اغلب ہے کہ میں بے ہوش ہوکر چارپائی سے نیچے گر جاؤں ۔ چونکہ تنہا تھا اس لئے خیال ہوا کہ صبح اگر گھر کے لوگوں نے اس طرح گرا ہوا دیکھا تو شاید وہ کسی نشہ وغیرہ کا نتیجہ خیال کریں۔ میں نے ذکر کو قصداً بند کر دیا ۔ چونکہ رات کافی گذر چکی تھی ا سلئے تھوڑی دیر میں ہی نیند آگئی ۔ صبح بیدار ہونے پر حالت حسب معمول تھی۔ اس کے بعد میں نے بارہا اس طرح عمل کیا مگر وہ کیفیت پید انہ ہوئی۔ حضور نے سن کر فرمایا۔ کہ اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ کیفیت پھر پید اہو۔ میں نے عرض کیا کہ میری خواہش تو یہی ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ کس غرض سے آپ ایسا چاہتے ہیں ؟ میںنے عرض کیا کہ اس میں ایک عالَم سرور اور ایک قسم کی لذت تھی۔ اس جیسی لذت میں نے کسی اور شے میں نہیں دیکھی۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ خدا کی عبادت لذت کے لئے نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ حکم کی تعمیل اور اپنا فرض سمجھ کر کرنی چاہئے ۔ خداچاہے تو اس میں بھی اس سے بہتر لذت پید اہوسکتی ہے ۔ اگر لذت کو مدنظر رکھ کر عبادت کی جائے تو لذت نفس کی ایک کیفیت ہے ۔ اس کے حصول کے لئے عبادت نفس کے زیر اتباع ہے ۔ خد اکی عبادت ہر حال میں کرنی چاہئے ۔ خواہ لذت ہو یا نہ ہو ۔وہ اس کی مرضی پر ہے ۔ پھر فرمایا۔ یہ حالت جو آپ نے دیکھی یہ ایک سالک کے لئے راستہ کے عجائبات اور غول راہ کے طور پر ہوتے ہیں اور عارضی ہوتے ہیں۔ اس کے عارضی ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگاکہ آپ اس کو پھر چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ذکر کرنے پر بھی وہ لذت حاصل نہ ہوئی۔ ہم آپ کو ایسی بات بتاتے ہیں جس میں مستقل لذت پید اہوگی جو پھر جد انہیں ہوگی ۔ وہ اتباع سنت اور اسوۂ حسنہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے جس کی غرض خداتعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ ان فانی لذتوں کے پیچھے نہ پڑو۔ پھرفرمایا۔ نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے ۔ منہیات سے پرہیز ضروری ہے ۔
{ 1088} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان جوکہ سخت سردیوں کے ایام میں آیا ۔ اس کے گذارنے کے لئے دارالامان آیا۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کتب خانہ کے انچارج اور مہتمم تھے اور کمرہ متصل مسجد مبارک میں کتب خانہ تھااور وہیں حکیم صاحب کا قیام تھا۔ خاکسار کے پہنچنے پر حکیم صاحب نے مجھے بھی اُسی کمرہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ خاکسار نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک گوشہ میں بستر لگا لیا۔ اور بہت آرام ولطف سے وقت گزرنے لگا ۔ حضرت صاحب ہر نماز کے لئے اسی کمرہ سے گزر کر مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا ۔ خاکسار سامنے بیٹھا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحب دروازہ میں کھڑے ہیں ۔ تعظیماً کھڑا ہوگیا ۔ حضور نے اشارہ سے اپنی طرف بلایا۔ میں جب آگے بڑھا (تو دیکھا) کہ حضور کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں ۔ جن میں کھیر تھی۔ حضور نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر اُن کو پہنچادو، میں نے وہ حکیم صاحب کے پیش کئے ۔ انہوںنے مسجد میں سے کسی کو طلب کر کے وہ پیالے اُن احباب کو پہنچا دئیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ پھر حضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے ۔ وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دئیے گئے ۔ اس طرح حضرت صاحب خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم اُن اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے ۔ اخیر دفعہ میں جو دو پیالے حضور نے دئیے ۔ اُن میں سے ایک پر حکیم صاحب کانام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا۔ حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من وسلویٰ اُتر آیا۔
{ 1089} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار کے قیام قادیان کے دنوں میں عشاء کی نماز کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مسجد بھری ہوئی تھی ۔ ایک پنجابی مولوی صاحب نے کھڑے ہوکر حضور سے عرض کیا کہ صوفیوں کے فرقہ نقش بندیہ وغیرہ میں جو کلمہ نفی اثبات کو پیشانی تک لے جاکر اور اطراف پر گذارتے ہوئے قلب پر الااللہ کی ضرب مارنے کا طریق مروج ہے ۔ اس کے متعلق حضور کا کیا حکم ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ چونکہ شریعت سے اس کی کوئی سند نہیں اور نہ اسوۂ حسنہ سے اس کا کچھ پتہ چلتا ہے اس لئے ہم ایسے طریقوں کی ضرورت نہیں خیال کرتے۔ اس مولوی نے پھر کہا کہ اگر یہ امور خلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلمہ اور مشاہیر جن میں حضرت احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوںنے مجددالف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اس کی ترغیب وتعلیم دینے والے ہوئے۔ حضور نے فرمایا۔ اسلام پر ایک زمانہ ایسا بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اور سامان تعیش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خد اکے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ ان کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالہ کردینامناسب ہے ۔ حضور نے فرمایا! اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی قافلہ راستہ بھول کر ایسے جنگل میں جانکلے جہاں پانی کا نشان نہ ہو۔ اور ان میں سے بعض پیاس کی شدت سے زبان خشک ہوکر جان بلب ہوں ۔ اور ان کے ہمراہی درختوں کے پتے پتھروں سے کوٹ کر ان کا پانی نکالیں۔ اور تشنہ دہانوں کے حلق میں ڈالیں تاکسی طرح پانی ملنے تک ان کا حلق بالکل خشک ہو کر ہلاکت کا موجب نہ ہوجائے ۔ یا دامن کوہ میں پتھروں کو توڑ کر اور بڑی مشکلوں سے کاٹ کاٹ کر کنواں کھودا جاتا ہے یا ریگستان میں بڑی مصیبت سے اگر سو سو ہاتھ کھودا جائے تو کنواں برآمد ہوتا ہے ۔ لیکن جہاں دریا جاری ہو ۔کیا وہاں بھی ان تکالیف کو اٹھانے کی ضرورت ہے ؟ فرمایا ۔ پس شکرکرنا چاہئے کہ اس وقت خد انے پہاڑ کی چوٹی پر سے مصفّٰی اور شیریں پانی کا چشمہ جاری فرمایا ہے جس کے ہوتے ہوئے ان تکالیف میں پڑنا خد اکی ناشکری اور جہالت ہے ۔
حضور کے اس ارشاد کے بعد جو ایک پرسرور کیفیت خاکسار نے محسوس کی وہ یہ تھی اُن امور سے جن کا اسوہ حسنہ سے ثبوت نہ تھا ۔ حضور نے اتفاق نہ فرمانے کے باوجود اُن متوفّٰی بزرگوں کے متعلق کوئی کلمہ رکیک نہ فرمایا۔ بلکہ ایک وقتی ضرورت کے ماتحت اُن کی نیک نیتی پر محمول فرما کر اُن کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔
{ 1090} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے تھے۔ حضرت صاحبزادہ محمود احمد صاحب (حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کہتے’’ابا کنڈا کھول‘‘ اور حضور اٹھ کر کھول دیتے۔ میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا۔ حضور بوریے پر بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر حضور نے پلنگ اٹھایااور اندر لے گئے ۔میں نے کہا۔حضور میں اٹھا لیتا ہوں ۔ آپ فرمانے لگے بھاری زیادہ ہے آپ سے نہیں اٹھے گا۔ اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں ۔ مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے ۔ پہلے میں نے انکار کیا ۔ لیکن آپ نے فرمایا ۔ نہیں آپ بلاتکلف بیٹھ جائیں ۔ پھر میں بیٹھ گیا۔ مجھے پیاس لگی تھی ۔ میں نے گھڑوں کی طرف نظر اُٹھائی۔ وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا ۔ کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے ۔ میں لاتاہوں ۔ نیچے زنانے سے جاکر آپ گلاس لے آئے ۔ پھر فرمایا ۔ ذرا ٹھہریے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے ۔ جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں۔ بہت لذیذ شربت تھا۔ فرمایا ان بوتلوں کو رکھے ہوئے کئی دن ہوگئے کہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے ۔ آج مجھے یاد آگیا۔ چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا ۔ میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں تو پھر میں پیوں گا ۔ آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا۔ اور میں نے پی لیا۔ میں نے شربت کی تعریف کی ۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلادیں ۔ آپ نے اُن دوبوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا۔ میں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا۔
{ 1091} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم حضور کے پاؤں دبا رہے تھے ۔ اور حضرت صاحب کسی قدر سو گئے ۔ فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے ۔ میں نے ہاتھ ڈال کر نکال لی تو حضور کی آنکھ کھل گئی۔ آدھی ٹوٹی ہوئی گھڑے کی چپنی اور ایک دو ٹھیکرے تھے۔ میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ یہ میاں محمود نے کھیلتے کھیلتے میری جیب میں ڈال دئیے۔ آپ پھینکیں نہیں ۔ میری جیب میں ہی ڈال دیں ۔ کیونکہ انہوںنے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے ۔ وہ مانگیں گے تو ہم کہاں سے دیں گے۔ پھروہ جیب میں ہی ڈال لئے ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے بھی اس کو حضور کی سوانح میں لکھا ہے ۔
{ 1092} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور محمد خان صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ اور حضرت اُم المومنین بہت سخت بیمار تھیں ۔ مسجد مبارک کے زینے کے قریب والی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب کے پاس ہم تین چار آدمی بیٹھے تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ’’تار برقی کی طرح‘‘ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ‘‘ گھڑی گھڑی الہام ہوتا ہے ۔ اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ جب کوئی بات جلد وقوع میں آنے والی ہوتی ہے تو اس کا بار بار تکرار ہوتا ہے ۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر جب آپ تشریف لے گئے تو پھر واپس آئے اور فرمایا کہ وہی سلسلہ پھر جاری ہوگیا۔ ’’ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ۔ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ ‘‘ ان دنوں میرناصر نواب صاحب کا کنبہ پٹیالہ میں تھا۔ اگلے دن پٹیالہ سے خط آیا۔ کہ اسحاق کا انتقال ہوگیااور دوسرے بیمار پڑے ہیں اور والدہ صاحبہ بھی قریب الموت ہیں ۔ یہ خط حضرت ام المومنین کی خدمت میں لکھا ۔ کہ صورت دیکھنی ہو تو جلد آجاؤ۔ حضور وہ خط لے کر ہمارے پاس آئے۔ مولوی عبد الکریم صاحب ، محمد خان صاحب اور خاکسار ہم تینوں بیٹھے تھے ۔ جب حضور تشریف لائے ۔ فرمانے لگے کہ یہ خط ایسا آیا ہے اور حضرت اُم المومنین کے متعلق فرمایا کہ وہ سخت بیمار ہیں ۔ اگر ان کو دکھایاجائے تو ان کو سخت صدمہ ہوگا اور نہ دکھائیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں۔ ہم نے مشورہ دیا کہ حضور انہیں خط نہ دکھائیں۔ نہ کوئی ذکر اُن سے کریں ۔ کسی کو وہاں بھیجیں ۔ چنانچہ حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اُسی وقت روانہ کردیا گیا۔ اور انہوںنے جاکرخط لکھا کہ سب سے پہلے مجھے اسحاق ملا اور گھر جاکر معلوم ہوا کہ سب خیریت ہے ۔ حافظ حامد علی صاحب پھر واپس آگئے ۔ اور سارا حال بیان کیا۔ اس وقت معلوم ہوا کہ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ کا یہ مطلب تھا ۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے ۔
{ 1093} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص شملے میں رہتا تھا۔ اور اس کی بہن احمدی تھی ۔ وہ شخص بڑ اعیاش تھا۔ اس کی بہن حاملہ تھی اور حالات سے وہ سمجھتی تھی کہ اس دفعہ میں ایام حمل میں بچنے کی نہیں۔ کیونکہ اسے تکلیف زیادہ تھی۔ اس نے اپنے بھائی کو مجبور کیا کہ اسے قادیان پہنچادے۔ چنانچہ وہ اسے قادیان لے آیا ،اور کچھ دنوں کے بعد جب بچہ پیدا ہونے لگا تو پیروں کی طرف سے تھوڑا نکل کر اندر ہی مرگیا۔ یہ حالت دیکھ کر حضرت ام المومنین روتی ہوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس آئیں۔ اور فرمایا عورت مرنے والی ہے اور یہ حالت ہے ۔ آپ نے فرمایا ہم ابھی دعا کرتے ہیں۔ اور آپ بیت الدعا میں تشریف لے گئے۔ دو چار ہی منٹ کے بعد وہ بچہ خود بخود اندر کو جاناشروع ہوگیا۔ اور پھر پلٹا کھا کرسر کی طرف سے باہر نکل آیااور مرا ہوا تھا۔ وہ عورت بچ گئی۔ اور اس کا بھائی توبہ کر کے اسی وقت احمدی ہوگیا۔ اور بعد میں صوفی کے نام سے مشہور ہوا۔
{ 1094} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں ایک دفعہ دارالامان گیا ہوا تھا۔ گرمی کا موسم تھا۔ نماز ظہر سے فارغ ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجدمبارک میں تشریف فرما تھے ۔ دس گیارہ اور احباب بھی حاضر تھے ۔اُس وقت ایک زمیندار نے جو کہ قریباًپچاس سالہ عمراور اَپر پنجاب کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا ۔ بڑی عاجزی سے حضور کی طرف مخاطب ہو کر عرض کی کہ حضور میں کسی معاملہ میں ایک شخص کے یکصد روپیہ کا ضامن ہوگیا ۔ وہ بھاگ گیا ہے۔ ہر چند گردونواح میں تلاش کیا مگر ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔ مجھ سے اس کی حاضری کا یا زرضمانت کامطالبہ ہے ۔ ہر روز چپراسی آکر تنگ کرتے ہیں ۔ میں تنگ آکر نکل آیا ہوں ۔ وہ میرے گھروالوں کو تنگ کرتے ہوں گے۔ مجھ کو معلوم ہو اتھا کہ حضور کی دعا خد اقبول فرماتا ہے ۔ اس لئے میں اتنی دور سے چل کر آیاہوں کہ حضور دعا فرمائیں کہ خدا جلد سے جلد مجھ کو اس مشکل سے نجات دلائے ۔ حضور نے اس کا یہ دردناک حال سن کر مع حاضرین دعا فرمائی۔ اس کے بعد حضور حسب معمول براستہ دریچہ اندرون خانہ تشریف لے گئے ۔ وہ شخص بھی نیچے اُتر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دریچہ کھلا۔ دیکھا تو حضرت صاحب کھڑے ہیں۔ خاکسار بھی قریب ہی کھڑا تھا۔ حضور کے دونوں ہاتھوں میں روپے تھے۔ حضور نے مجھے بلا کر میرے دونوں ہاتھوں میں وہ روپے ڈال دئیے اور فرمایا کہ یہ سب اُس شخص کو دے دو جس نے ابھی دعا کروائی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ وہ تو مسجد سے چلا گیا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ کسی آدمی کو بھیج کر اُسے بلوالو۔ وہ ابھی ایسی جلدی میں کہاںگیاہوگا۔ یہ کہہ کر کھڑکی بند کرلی۔ خاکسار نے وہ سارا روپیہ حکیم فضل الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے آگے ڈھیر ی کردیا۔ یہ دو اصحاب اور دو تین اور دوست بھی اس وقت مسجد میں موجو دتھے ۔ حکیم صاحب نے اُسی وقت چند آدمی اس شخص کی تلاش میں دوڑائے ۔ اور مولوی صاحب روپیہ گن کر بیس بیس کی بیڑیاں لگانے لگے ۔ غالباً اس لئے کہ اُس شخص کو دیتے وقت آسانی ہو۔ جب گن چکے تو ایک قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے فرمایاکہ لودیکھولو کہ اس سائل نے تو سو روپیہ کا ذکر کیا تھا۔ لیکن حضرت صاحب جو روپیہ لائے ہیں وہ تو ایک سو بیس ہے ۔ اور مجھ کو فرمایا کہ کھڑکی کی کنڈی ہلا کر حضرت صاحب سے ذکر کردو کہ ان میں بیس روپیہ زائد آگئے ہیں ۔ لیکن خاکسار سے مولوی صاحب کے اس ارشاد کی تعمیل کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ پھر مولوی صاحب نے حکیم صاحب کو کہا ۔ مگر حکیم صاحب نے جواب دیا کہ مولوی صاحب یہ تجویز آپ کی ہے ۔ آپ ہی اب ہمت بھی کریں ۔ آخر مولوی صاحب نے خود اٹھ کر زنجیر ہلائی۔ اندر سے ایک خادمہ کے آنے پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کرو کہ عبد الکریم ایک ضروری بات عرض کرنا چاہتا ہے ۔ خادمہ کے جانے کے تھوڑی بعد حضور دریچہ پر آکر کھڑے ہوگئے ۔ مولوی صاحب نے سارا ماجرہ بیان کیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب خدا جانے وہ بیچارہ یہاں کیسے آیا ہے۔ اور اب اس کو جلد پہنچنے کے لئے کرایہ کی بھی ضرورت ہوگی ۔ مولوی صاحب نے عرض کی کہ حضور کرایہ کے لئے چار پانچ روپیہ کافی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس مصیبت میں وہ ہے ایسی حالت میں اس کی مشکل معاش کا بھی کیا حال ہوگا۔ آخر پانچ سات روز کا خرچ تو اس کے پاس ہو۔ اور فرمایا یہ جو کچھ ہم لائے ہیں ٹھیک سوچ کر لائے ہیں۔ یہ سب اُس شخص کو دے دو۔ یہ فرما کر کھڑکی بند کر لی ۔ اتنے میں وہ شخص بھی آگیا ۔ اُس کو روپیہ دیتے ہوئے مولوی صاحب نے فرمایا کہ’’ایڈی چھیتی دعا قبول ہوندی کسے نے گھٹ ہی ڈٹھی ہوگی اور پھر وہ بھی سوائی‘‘یعنی اس قدر جلدی کسی کی دعا قبول ہوتی بہت کم دیکھی ہے اور پھر وہ بھی سوائی۔
{ 1095} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان جاتے ہوئے اخبار چودھویں صدی راولپنڈی کا ایک پرچہ ساتھ لے گیا۔ جو سراج الدین صاحب بیرسٹر کی ایڈیٹری میں شائع ہوتا تھا اور اس وقت کے اردو اخبارات میں مشہور تھا۔ اس کے ساتھ لے جانے کی غرض یہ تھی کہ ایک شخص جو سید محمو دصاحب خلف سرسید مرحوم کا دوست تھا۔ اس نے ان سے علی گڑھ میں ملاقات کی اور ایک دو روز ان کے ہاں ٹھہرا۔ اور واپسی پر اس نے سید محمود کی قابل عبرت حالت کا نقشہ ایک مضمون میں کھینچ کر اس اخبار میں درج کروایا تھا۔ راقم مضمون نے لکھا تھا کہ مجھے اس دفعہ مسٹر محمود کو دیکھ کر سخت رنج وافسوس ہوا کہ وہ عالی دماغ شخص جس کی قابلیت قابل رشک اور قانون دانی انگریز ججوں تک مسلّمہ تھی ۔ اس کو میںنے ایسی حالت میں پایا کہ ان کی جسمانی صحت ناقابل تلافی درجہ تک پہنچ چکی ہے۔ مگر باوجود اس کے وہ شراب کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے تھے۔ گویا شراب ہی اُن کی روح رواں تھی۔ اور دن بھر جُگت ، پھبتی بازی ، تمسخر اور استہزاء کے سوا ان کا کوئی علمی مشغلہ نہیں رہا۔ اور وہ بھی صحت کے لحاظ سے چراغ سحری ہے۔ مضمون مذکور میں اس لئے ساتھ لے گیا تھا کہ حضرت مولوی صاحب کو ایسے حالات سے دلچسپی ہے ۔ چنانچہ میں نے وہ مضمون حضرت مولوی صاحب کے پیش کیا۔ مولوی صاحب نے مضمون پڑھ کر اخبار خاکسار کو واپس دیتے ہوئے فرمایا کہ اس پرچہ کو بحفاظت جیب میں رکھنا ۔ اگر موقعہ میسر آیاتو حضرت صاحب کے پیش کریں گے۔ حضرت صاحب ایسے حالات بڑی توجہ سے سنتے ہیں ۔ خاکسار نے وہ اخبار کوٹ کی جیب میںرکھ لیا۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما تھے کہ مولوی صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ یہ ایک اخبار لائے ہیں جس کا ایک مضمون حضور کے سننے کے قابل ہے ۔ حضرت صاحب کے اشارہ پر میں نے وہ مضمون سنانا شروع کردیا ۔ حضور بڑی توجہ سے سنتے رہے ۔ غالباً دو تین صفحات کا وہ مضمون تھا۔جب مضمون ختم ہوچکا تو حضور نے مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مولوی صاحب! اگر آج سید صاحب زندہ ہوتے تو میں اُن سے پوچھتا کہ جن دنوں مسٹر محمود ولایت میں تعلیم بیرسٹری پارہے تھے آپ کے دل سے بارہا یہ دعا نکلی ہوگی کہ وہ ایسی قابلیت کا اہل ہو کہ انگریز بھی اس کی قابلیت کا سکہ مانیں۔ اور ایسے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہو جس کے ماتحت انگریز ہوں لیکن یہ کبھی آپ کی آرزو دعاؤں کے وقت نہیں ہوگی کہ وہ خد ااور اس کے رسول کا فرمانبردار اور احکام شریعت کا دل سے پابند اور اسلام کا سچا خادم اور نمونہ ہو۔ پس جو کچھ آپ نے مانگا وہ مل گیا۔ اور خدا سے جس چیز کے مانگنے میں بے پرواہی کی جائے وہ نہیں ملتی۔
{ 1096} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قادیان میں آریوں نے ایک اخبار نکالا تھا اور اس میں سلسلہ کے خلاف سخت کلامی اختیار کی ۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ایک کتاب لکھی۔ اور حضور نے فرمایا تھا کہ خدا ایسا نہیں کرسکتا کہ یہ ہمارے ہمسائے میں رہ کربدزبانی کریں اور بچ جائیں۔ پھر آریوں میں طاعون ہوئی ۔ جس کو طاعون ہوتی، میں اور شیخ یعقوب علی صاحب اُسے دیکھنے جاتے اور سب آریہ کارکن اخبار مذکور کے جوتھے مر گئے ۔ صرف مالک اخبار بچ رہا۔ پھر اُسے بھی طاعون ہوئی۔ میں اور شیخ صاحب اسے دیکھنے جاتے۔ پھر اسے پلنگ سے نیچے اتار لیا گیا۔ جیسا کہ ہندو مرتے وقت کرتے ہیں مگر وہ پھر ذرا اچھا ہوگیا اور اسے دوبارہ پلنگ پر لٹادیا گیا اور وہ باتیں کرنے لگ گیا۔ بعض آریہ جو ہمیں جانتے تھے ہم سے کہنے لگے کہ تمہاری یہ مراد پوری نہیں ہوگی کہ یہ مرے۔ جب میں اور شیخ صاحب اس کے گھر سے واپس آئے تو ہمارے آنے سے پہلے کسی نے حضرت صاحب کی خدمت میں شکایت کردی کہ یہ دونوں اس طرح آریوں کو مرنے دیکھنے جاتے ہیں ۔ حضور بالائی نشست گاہ میں تشریف فرما تھے اور ہمیں وہیں بلوایا۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہوگیا تھا کہ کسی نے ہماری شکایت کردی ہے ۔ شیخ صاحب نے مجھے بھیجا ۔ جب میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کیوں وہاں جاتے ہیں ؟ اور اسی وقت حضور نے فرمایا کہ مجھے ابھی الہام ہوا ہے جس کے معنے یہ تھے کہ مر اے خائن! ۱ ؎ اس الہام پر حضور نے فرمایا کہ اب جاکر دیکھو۔ میں اور شیخ صاحب اسی وقت گئے تو چیخ وپکار ہورہی تھی اور وہ مرچکا تھا۔ ہم وہاں بیٹھے اور پھر چلے آئے ۔ رات کو مفتی فضل الرحمن صاحب کی بیٹھک میں اس کے مرنے پر ہم نے ایک قسم کی خوشی کی۔ حضرت صاحب پر یہ بھی کسی نے ظاہر کردیا۔ صبح کو جب آپ سیر کے لئے تشریف لے گئے تو ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ میرا ایک آدمی مر گیا ہے اور تم خوشی کرتے ہو(مطلب یہ تھا کہ میں تو اس کے اسلام لانے کا خواہاں تھا) اور فرمایا مجھے خوف ہے کہ ہم میں ایسا واقعہ نہ ہوجائے ۔ ہمیں اس پر بہت شرمندگی ہوئی۔ راستہ میں لاہور سے تار آیا کہ الٰہی بخش اکونٹنٹ پلیگ سے مرگیا۔ جس نے حضور کے خلاف ایک کتاب میں اپنے آپ کو موسیٰ اور حضرت صاحب کو فرعون اپنے الہام کی روسے لکھا تھا۔ میں اس تار کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ حضرت صاحب میری طرف ذرا دیکھنے لگے تو میں نے عرض کی
کہ حضور مجھے ہنسی اس لئے آگئی۔ کہ یہ اپنے آپ کو موسیٰ کہتا تھا اور موسیٰ صاحب پہلے ہی پلیگ سے چل دئے ۔ آپ نے فرمایا ! اس کی کتاب میں سے تمام وہ الہامات جو اس کو ہمارے خلاف ہوئے ہیں مجھے نکال کردو۔ چنانچہ میں نے وہ نوٹ کر کے دے دئیے۔
{ 1097} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب سے الہامات نکال کر دئیے۔ تو اس

۱؎ الہام کے عربی الفاظ ہیں ۔ مُتْ اَیُّھَا الخوّان ۔ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۶۰۱ (ناشر)
دوران میں ایک طالب علم محمد حیات کو پلیگ ہوگیا ۔ اس کو فوراً باغ میں بھیج کر علیحدہ کر دیا گیا۔ اور حضور نے مولوی نور الدین صاحب کو بھیجا کہ اس کو جاکر دیکھو۔ اس کے چھ گلٹیاں نکلی ہوئی تھیں اور بخار بہت سخت تھا۔ اور پیشاب کے راستہ خون آتا تھا۔ حضرت مولوی صاحب نے ظاہر کیا کہ رات رات میں اس کا مرجانا اغلب ہے ۔ اس کے بعد ہم چند احباب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ محمد حیات کی تکلیف اور مولوی صاحب کی رائے کا اظہار کر کے دعا کے لئے عرض کی ۔ حضرت صاحب نے فرمایا ۔ میں دعا کرتاہوں اور ہم سب روتے تھے۔ میں نے روتے روتے عرض کی کہ حضور دعا کا وقت نہیں رہا۔ سفارش فرمائیں۔ میری طرف مڑ کر دیکھ کر فرمایا ۔ بہت اچھا۔ مسجد کی چھت پر میں ، منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں صاحب سوتے تھے۔ دو بجے رات کے حضرت صاحب اوپر تشریف لائے اور فرمایا کہ حیات خاں کا کیا حال ہے ؟ ہم میں سے کسی نے کہا کہ شاید مرگیا ہو۔ فرمایا کہ جاکر دیکھو ۔ اسی وقت ہم تینوں یااور کوئی بھی ساتھ تھا۔ باغ میں گئے ۔ توحیات خاں قرآن شریف پڑھتا اور ٹہلتا پھرتا تھا ۔ اور اُس نے کہا میرے پاس آجاؤ۔ میرے گلٹی اور بخار نہیں رہا۔ میں اچھا ہوں ۔ چنانچہ ہم اس کے پاس گئے توکوئی شکایت اس کو باقی نہ تھی۔ ہم نے عرض کی کہ حضور اسکو تو بالکل آرام ہے ۔ غالباً صبح کو آگیا۔ چونکہ اس کے باپ کو بھی تاردیا گیاتھا۔ اور ہم تینوں یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر اجازت لے کر قادیان سے روانہ ہوگئے۔ نہر پر اس کا باپ ملا جو یکہ دوڑائے آرہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر پوچھا کہ حیات کاکیا حال ہے؟ ہم نے یہ سارا واقعہ سنایا ۔ وہ یہ سن کر گر پڑا ۔ دیر میں اُسے ہوش آیا۔ اور پھر وہ وضو کر کے نوافل پڑھنے لگ گیااورہم چلے آئے ۔
{ 1098} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کلکتہ کا ایک برہمن مجسٹریٹ خدا تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہ تھا۔ وہ قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میں خدا کا قائل نہیں ہوں اور سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ کیا آپ خدا مجھے دکھا دیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کچھ عرصہ آپ ہمارے پاس ٹھہریں گے تو ہم آپ کو دکھا دیں گے اور یہ دریافت فرمایا کہ آپ کچھ عرصہ ٹھہر سکتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر ہوں۔ اور میں یہ سارا عرصہ ٹھہر سکتا ہوں ۔ بشرطیکہ آپ خدا مجھے دکھا دیں۔ حضور نے فرمایا کہ آپ لندن گئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا لندن کوئی شہر ہے ۔ اس نے کہا ہاں ہے ۔ سب جانتے ہیں ۔ فرمایاآپ لاہور تشریف لے گئے ہیں اس نے کہا کہ میں لاہور بھی نہیں گیا۔فرمایا ۔قادیان آپ کبھی پہلے بھی تشریف لائے تھے۔ اس نے کہا نہیں ۔ فرمایا! آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ قادیان کوئی جگہ ہے اور وہاں پر کوئی ایسا شخص ہے جو تسلی کرسکتا ہے ۔ اس نے کہا سنا تھا ۔ آپ نے ہنس کر فرمایا۔ آپ کا تو سارا دارومدار سماعت پر ہی ہے اور اُس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے ہستی باری تعالیٰ پر تقریر فرمائی اور سامعین پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ اور اس شخص کی دماغی حالت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ اقلیدس کی شکلوں کا ذکر کرنے لگا۔ اور حضرت مولوی صاحب نے اسے دوا منگوا کر دی ۔ جب اس کی حالت درست ہوئی تو وہ حضرت صاحب کے پیروں کو ہاتھ لگا کرمسجد سے نیچے اُتر آیا اور حضرت مولوی صاحب اس کے ساتھ ہی اتر آئے۔ اس نے یکہ منگوایا اور سوار ہوگیا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ۔ کہ آپ ایسی جلدی کیوں کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں مسلمان ہونے کی تیاری نہیں کر کے آیا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر رات کو میں یہاں رہا تو صبح ہی مجھے مسلمان ہونا پڑے گا۔ مجھے خدا پر ایسا یقین آگیا ہے کہ گویا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ۔ میرے بیوی اور بچے ہیں اُن سے مشورہ کر لوں ۔ اگر وہ متفق ہوئے تو پھر آؤں گا۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔
{ 1099} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص یہودی تھا۔ اور وہ مسلمان ہوکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوگیا تھا۔ ایک دن میں حضور کی محفل میں بیٹھا تھا۔ کسی دوست نے حضور سے اس کے متعلق پوچھا ۔ آپ کی تعریف! تو حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ یہودی ہیں ۔ بلکہ یہ فرمایا ’’آپ بنی اسرائیل صاحبان میں سے ہیں ۔‘‘
{ 1100} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ اخیر سنین بعثت حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مَیں قادیان جانے کے لئے تیار ہوا۔ اُس وقت کے امیر جماعت مولوی عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے مجھ سے فرمایا۔ کہ ہمارے ایک پیغام کا یاد سے جواب لانا۔ پیغام دریافت طلب یہ تھا کہ جس طرح حضرت صاحب کی نسبت نبی یارسول کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ کیا دیگر مجددین امت واولیاء کبار مثلاً حضرت مجددالف ثانی ؒکی نسبت ایسے الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں؟ اور یہ تاکید فرمائی کہ اس کا جواب اگر ہوسکے تو خود حضرت صاحب سے حاصل کیا جائے ۔ اگر ایسا موقعہ نہ میسر ہو تو پھر حضرت مولوی نور الدین صاحب سے دریافت کیا جائے ۔ خاکسار کئی روز کوشش میں رہا۔ مگر مناسب موقعہ نہ ملنے کے سبب حضور سے دریافت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ آخر جب میں نے واپس جانے کاارادہ کیا تو میںنے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیا اور وہ شرط بھی ظاہر کردی جو سائل صاحب نے لگائی تھی۔ حضرت مولوی صاحب نے ہنس کر فرمایا۔ کہ ابھی رخصت کے دو تین دن ہوں گے۔ ہم موقع نکال دیں گے ۔ چنانچہ اُسی روز یا اگلے روز حضرت صاحب بعد نماز مغرب اوپر تشریف فرما تھے کہ حضرت مولوی صاحب نے میرے حوالہ سے یہ سوال حضور کے گوش گذار کیا۔ حضور نے سن کر جوش بھرے لہجہ میں فرمایا۔ کہ مولوی صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سوال پیدا ہی کیسے ہوتا ہے ۔ جس شخص کو خدا نے اپنی وحی میں نبی کے لفظ سے نامزد نہ کیا ہو اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کے لفظ سے یاد نہ فرمایا ہو۔ اور نہ اس شخص نے خود نبوت کا دعویٰ کیا ہو۔ پھر سر پھرا ہے کہ اس کو نبی کے لفظ سے پکارا جائے یا اس کو نبی کہا جائے ؟
{ 1101} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار چند روز کے لئے قادیان میں مقیم تھا ۔ ایک دفعہ صبح آٹھ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے ہیں۔ خاکسار بھی ساتھ ہولیا۔ حضور ایسے تیز قدم جارہے تھے کہ کوشش کر کے شامل رہا جاتا تھا۔ پند رہ بیس کے قریب افراد حضور کے ساتھ ہوں گے۔ حضور بوہڑکے درخت کے قریب پہنچ کر واپس ہوئے۔ واپسی پر جو گفتگو ہورہی تھی اس کو ختم کرنے کے لئے چوک زیریں مسجد مبارک میں اُس مقام پر جہاں نواب صاحب کا مکان ہے ۔ کھڑے ہوکر سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری مرحوم زیادہ بات چیت میں حصہ لیتے تھے اور وہی حضور کے قریب کھڑے تھے۔ یہ مجھے یاد نہیں کہ کیا سلسلہ کلام تھا۔ کیونکہ پیچھے سے گفتگو ہوتی آرہی تھی اور بہت حصہ خاکسار سن بھی نہ سکا ۔ سلسلہ کلام جب ختم ہوا تو حضور کی نظر فیض اثر خاکسار پر پڑ گئی اور بڑی شفقت سے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کی رخصت کتنے دن کی تھی۔ خاکسار نے عرض کی کہ رخصت تو پندرہ روز کی تھی مگر اب صرف دو روز باقی رہ گئے ہیں ۔ کل واپسی کا ارادہ ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ دوروز پیشتر کیوں جاتے ہو۔ میںنے عرض کی کہ ایک روز تو راستہ میں صرف ہوجاتا ہے ۔ اور ایک دن میں امرتسر میں اس لئے ٹھہرا کرتا ہوں کہ گھر کی فرمائشات اور بچوں کے لئے پھل وغیرہ خرید سکوں ۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ کہ وہ دو روز جو رخصت کے باقی ہیں وہ بھی یہیں ٹھہر کر ختم کرو۔ پٹیالہ تک راستہ کے لئے رات کافی ہے ۔ پٹیالہ بڑا شہر ہے وہاں سب اشیاء مل سکتی ہیں۔ وہیں سے خرید کر بچوں کو دے دینے میں کیا حرج ہے ۔ پھر خلیفہ رجب دین صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ میں اس نوجوان (یعنی خاکسار کرم الٰہی) کو دیکھ کر بہت تعجب کرتا ہوں۔ یہ عمر کھیل تماشہ کی ہوتی ہے۔ اس کو جب وقت ملتا ہے یہ لاہور اور امرتسر جیسے شہروں کی تفریحات اور تھیٹروں کو چھوڑتا ہوا یہاں آجاتا ہے ۔ آخر اس نے کچھ تو دیکھا ہے ۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ کبھی تین ماہ کی رخصت لے کر آنا چاہئے ۔ خاکسار نے عرض کی کہ سال میں ایک ماہ کا حق رخصت ہے ۔ تین ماہ کی رخصت تب مل سکتی ہے کہ جب تین سال تک کوئی رخصت نہ لوں ۔ خاکسار اس ایک ماہ کی رخصت کو دو دفعہ کر کے پندرہ پندرہ روز کے لئے اور کرسمس کی تعطیلات میں تین دفعہ حاضر ہوجاتا ہے ۔ حضور نے فرمایا زیادہ دفعہ آؤ۔ اور زیادہ وقت کے لئے آؤ۔ آپ لوگ دفتروں کے ملازم ہیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ احکام ہیڈ کوارٹرز میں آتے ہیں۔ بہت کم اُن میں سے مفصلات تک پہنچتے ہیں اور وہ بھی دیر کے بعد ۔ یہ خد اکی شان اور اس کی مرضی ہے کہ اس روڑیوں والے گاؤں کو خد انے اپنا ہیڈ کوارٹر چن لیا ہے ۔ (اس وقت وہاں تک روڑیوں یعنی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر تھے جہاں آج احمد یہ بازار ہے) پھر خلیفہ صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ کہ بعض لوگوں کویہ بھی وسوسہ ہوتا ہے کہ مل لیا ہے۔ اب زیادہ دیر ٹھہر کر لنگر خانہ پر کیوں بار ہوں۔ یہ بھی صحیح نہیں بلکہ اس کے برعکس مہمانوں کے آنے اور قیام سے ہم کو راحت ہوتی ہے ۔ تکلیف کی نوبت تو تب آئے کہ جب لوگوں کے دلوں میں تحریک کرنے اور ان کی رہائش اور خورونوش کا انتظام دوجداگانہ ہاتھوں میںہو۔ لیکن یہاں تو دونوں امور ایک ہی خد اکے ہاتھ میں ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ خدا آدمیوں کو بھیجے اور اُن کے لئے سامان آسائش مہیا نہ کرے ۔ پس یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئے ۔ چنانچہ اس دفعہ دو روز بقیہ رخصت کے دن بھی خاکسار نے دارالامان میں ہی گذارے ۔
{ 1102} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن سیر کو تشریف لے جارہے تھے اور میرے پاس ڈبیا میں پان تھے۔ چلتے چلتے میںنے ایک پان نکال کر کھایا۔ آپ نے فرمایا ۔ ہمیں بھی دو۔ میں نے ایک پان پیش کردیا ۔ بغیر اس خیال کے کہ پان میں زردہ ہے۔ میںنے وہ دے دیا اور آ پ نے کھالیا۔ کھاتے ہی چکر آیا ہوگا۔ کیونکہ حافظ حامد علی صاحب سے حضور نے فرمایا کہ ذرا پانی کا لوٹا لے کر ہمارے ساتھ چلو۔ وہاں قریب کے کنوئیں سے پانی لیا گیا۔ اور آپ دور تشریف لے گئے ۔ حافظ صاحب بھی ساتھ تھے ۔آپ کی عادت شریفہ تھی کہ راستہ میں اگر پیشاب کرنے کی حاجت ہوتی تو اتنی دور چلے جاتے تھے جتنا کہ قضائے حاجت کے لئے جاتے ہیں۔ اس لئے میں نے سمجھا کہ پیشاب کرنے تشریف لے گئے ہیں ۔وہاں جاکر آپ کو استفراغ ہوا۔ اور پانی سے منہ صاف کر کے تشریف لے آئے ۔ مجھے جب خیال آیا کہ پان میں زردہ تھا تو میں سخت نادم تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمایا۔ منشی صاحب آپ کے پان نے تو دوا کاکام کیا ۔ مجھے کچھ گرانی سی تھی بالکل رفع ہوگئی۔
{ 1103} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی ، مولوی عبد الرحیم صاحب میرٹھی ، چند اور احباب اور خا کسار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے۔ حضور نے ایک اردو عبارت سنا کر فرمایا کہ اس مضمون کی مجھے یاد ہے کہ ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے اور ترمذی شریف جو عربی میں تھی منگوا کر مولوی محمد احسن صاحب کودی کہ اس میں سے نکالیں۔ مولوی صاحب موصوف علم حدیث میں بہت کامل سمجھے جاتے تھے۔ انہوںنے بہت دیر تک دیکھ کرفرمایا کہ حضور اس میں تو یہ حدیث نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا۔ مولوی عبدالرحیم صاحب کو کتاب دے دو۔ ان کو بھی وہ حدیث نہ ملی۔ پھر آپ نے فرمایا۔ منشی صاحب یعنی خاکسار کو دے دو۔ میںنے کتاب کھول کر دو تین ورق ہی الٹے تھے کہ وہ حدیث نکل آئی اور میںنے حضور کی خدمت میں پیش کردی کہ حدیث تو یہ موجو دہے آپ اسے پڑھتے رہے اور مولوی محمد احسن صاحب بہت حیران ہوکر مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بڑے فقیہ ہیں ۔ میں نے کہا کہ میری فقاہت اس میں کیا ہے ۔ یہ حضور کا تصرّف ہے ۔ مجھے تو اچھی طرح عربی بھی نہیں آتی۔
{ 1104} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جاتے تو کنوئیں سے پانی نکلوا کر ڈول کو منہ لگا کر ہی پانی پی لیتے۔ اور لوگ منتظر رہتے کہ آپ کا چھوڑا ہوا پانی پئیں۔ مگر حضور عموماً وہ ڈول مجھے عطا فرماتے ۔ بعض دفعہ کسی اور کو بھی دے دیتے۔
{ 1105} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک شخص محمد سعید صاحب عرب تھے اور وہ ڈاڑھی منڈوایا کرتے تھے۔ جب وہ قادیان میں زیادہ عرصہ رہے تو لوگوںنے انہیں داڑھی رکھنے کے لئے مجبور کیا۔ آخر انہوںنے داڑھی رکھ لی۔ ایک دفعہ میرے سامنے عرب صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ حضور میری داڑھی دیکھیں ٹھیک ہے ۔ آپ نے فرمایااچھی ہے اور پہلے کیسی تھی ۔ گویا آپ کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ پہلے یہ داڑھی منڈایا کرتے تھے۔
{ 1106} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن محمد سعید صاحب عرب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی داڑھی کے متعلق پوچھا ۔ اُس وقت ایک شخص نے عرض کی کہ حضور داڑھی کتنی لمبی رکھنی چاہئے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں داڑھیوں کی اصلاح کے لئے نہیں آیا۔ اس پر سب چپ ہوگئے ۔
{ 1107} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ۔ غالباً۱۸۸۸ء کے آخر یا۱۸۸۹ء کے شروع میں خاکسار ریاست پٹیالہ کی طرف سے ریلوے میل سروس میں ریکارڈ کلرک ملازم ہو کر راجپورہ میںمقیم تھا کہ ایک روز شام کی گاڑی سے حاجی عبد الرحیم صاحب انبالوی پنجاب کی طرف لے جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے ۔خاکسار پلیٹ فارم پر پھرتا ہوا ان سے ملا تو انہوںنے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آج کل لدھیانہ میںتشریف رکھتے ہیں۔ تُو بھی چل ، قریب ہیں، زیارت کا موقعہ ہے ۔ میں نے بلا اجازت ہیڈ کوارٹر چھوڑنے کی معذوری ظاہر کی۔ اور وعدہ کیا کہ اگر اجازت مل گئی تو حاضر ہوجاؤں گا۔ اتفاق سے اُسی روز اجازت مل گئی۔ اور خاکسار اگلے دن صبح ہی لدھیانہ پہنچ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب قبلہ میر ناصر نواب صاحب مرحوم انبالہ سے لدھیانہ تبدیل ہوچکے تھے۔ بمشکل پتہ لے کر قریب نما زعصر یا بعد نماز عصر جائے قیام حضرت صاحب پر پہنچا۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز جمعہ خاکسار نے جامع مسجد میں پڑھی۔ وہیں سے حضور کے جائے قیام کا پتہ بھی چلا تھا۔ مکان مذکور کا بیرونی دروازہ شرقی رویہ تھا۔ اندرصحن میں چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اسی پر حضرت صاحب مع چند رفقاء کے تشریف فرما تھے اور تقریر فرما رہے تھے۔ جو حصہ میںنے تقریر کا سنا اس سے معلوم ہوا کہ موضوع تقریر یہ ہے کہ مسلمان حضور کے اعلان بیعت کے خلاف کیا کیا عذرات کر رہے ہیں ۔ حضور نے فرمایا کہ علماء کا گروہ اول تو یہ کہتا ہے کہ یہ کوئی جید عالم نہیں۔ نیز فرقہ اہل حدیث والے یہ کہتے ہیں کہ یہ آمین اور رفع یدین جیسی سنت کا تارک ہے اور حنفی کہتے ہیں یہ فاتحہ خلف الامام کا عامل ہے ۔ اس لئے مجدد کیسے ہوسکتا ہے ۔ صوفی کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کے ۱۴خاندان اور۳۲خانوادہ جو وہ بناتے ہیں۔ اُن میں سے یہ کسی میں داخل نہیں۔ پھر ہم اس کی بیعت کیسے کر سکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ کوئی ان سے پوچھے کہ تم نے جو۱۴اور۳۲کی تعداد مقرر کی ہے ۔ کوئی وقت ایسا بھی تھا۔ کہ وہ ایک نمبر سے شروع ہوئے تھے۔ خدا نے اب سب کو مٹا کر اب پھر از سر نو نمبر۱ سے شروع کیا ہے ۔ اسی سلسلہ میں فرمایا کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے کہ باوجودہمارے ساتھ حسن ظن رکھنے کے بیعت سے رکا ہوا ہے۔ جس طرح چور کسی مکان میں نقب لگانے کے لئے مکان کے کسی کمزور حصہ کو منتخب کرتا ہے ۔ اسی طرح شیطان نے بھی جب دیکھا کہ ایسے لوگ کسر نفسی کے تحت ہی شکار ہوسکتے ہیں ان کے دل میں یہ وسوسہ پید اکیا کہ یہ بات تو بے شک درست ہے مگر شرائط بیعت ایسی نازک اور مشکل ہیں کہ دنیادارانہ زندگی میں اُن کی پابندی ناممکن ہے ۔ جب کلام اس مرحلہ پر پہنچا تو حاجی عبد الرحیم صاحب نے جو اس مجمع میں مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے تھے اور جو اس سے قبل ہر ملاقات میں مجھے بیعت کے لئے کہتے تھے اور میں ایسا ہی عذر کر کے ٹلا دیتا تھا انہوں نے حضرت صاحب سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کی۔ اجازت ملنے پر میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت صاحب کے سامنے کر دیا اور کہا حضور جس گروہ کا حضور نے آخر نمبر پر ذکر فرمایا ہے اُن میں سے ایک یہ شخص بھی ہے ۔ حضور نے خاکسار کی طرف نظر کر کے فرمایاکہ ہمارے بہت دیرینہ ملنے والے ہیں ان کو توایسا خیال نہیں ہونا چاہئے ۔ پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کو اس میں کیا مشکل نظر آتی ہے ؟ میں نے عرض کیا ۔ حضور ایک ہی شرط جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے کیا کم ہے ۔ اور دوسری شرائط بھی ایسی ہی ہیں ۔ اس پر حضور نے فرمایا!کہ اچھا اگر یہ شرائط سخت اور ناقابل عمل ہیں تو کیا آپ کا یہ منشا ہے کہ یہ شرط ہوتی کہ بیعت کر کے جو منہیات چاہو کروکوئی روک ٹوک نہیں ۔ تو کیا آپ لوگ نہ کہتے کہ یہ ایک جرائم پیشہ کا گروہ ہے اس میں کسی شریف آدمی کا شمول کیسے ہوسکتا ہے ۔ فرمایا! اس بارہ میں لوگوں کو دھوکا لگا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بیعت وہی کرے جو پہلے سے ولی اللہ ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ ایسے بننے کا ارادہ اور دلی خواہش ضرور ہونی چاہئے ۔ جس کا ارادہ ہی طلب حق نہ ہواس کو ہم کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ ہر گز ہماری بیعت میں شامل نہ ہو۔ فرمایا اس کی مثال یہ ہے کہ اس شہر میں کالج ہوگا۔ اگر کوئی طالب علم پرنسپل سے جاکر کہے کہ مجھ کو کالج میں تو داخل کر لو مگر میں نے پڑھنا وغیرہ نہیں تو پرنسپل اُس کو یہی جواب دے گا۔ کہ مہربانی رکھو تم ہمارے دوسرے طلباء کو بھی کھلنڈرا بنا کر خراب کر دوگے۔ بات یہ ہے کہ ایک طالب نیک نیتی سے خدا کی رضا جوئی کے لئے بیعت کرتا ہے گویا وہ معاہدہ کرتا ہے ۔ خدانخواستہ اگر اس کو کسی منکر یا برائی کا موقعہ پیش آجائے تو اس کو اپنے عہد کا خیال آکر اس سے روک کا موجب ہوگا۔ علاوہ ازیں خود بیعت لینے والے کی ہمدردانہ دعاؤں کی برکت بھی شامل حال ہوتی ہے ۔ اور اگر نیت نیک اور عزم راسخ ہو توہر شخص اپنے عزم واستقلال اور استعداد کے مطابق فیض یاب ہوتا ہے ۔ خدا رحیم کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اگرایسا ہے تو مجھ کو بیعت کرنے میں کوئی عذر نہیں ۔ لیکن میں اس سے قبل طریقہ نقش بندیہ میں بیعت ہوں ۔ حضور نے فرمایا!کوئی مضائقہ نہیں ۔یہ بھی ایک وسوسہ ہے۔ کیا علم میں ایک سے زیادہ استاد نہیں ہوتے اور بیعت تو بعض اوقات ایک ایک امر کے متعلق بھی ہوسکتی ہے ۔
{1108} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اپنی بیعت سے قبل میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تقریرلدھیانہ میں سنی ۔ جب وہ تقریر ختم ہوئی تو نماز مغرب اد اکی گئی ۔ امامت حضرت صاحب نے خود فرمائی۔ اور پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور فلق تلاوت فرمائی۔ اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی ۔ اس کے بعد حضور نے بیعت لی۔ اس روز ہم دو آدمیوںنے بیعت کی تھی۔ پہلے جب وہ صاحب بیعت کر کے کمرے سے باہر آگئے تو حضور کے طلب فرمانے پر عاجز داخل ہوا۔ حضور نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگادی اور بیعت لی ۔ بیعت سے قبل خاکسار نے عرض کیا کہ جب میں نے اس سے قبل نقشبندی میں بیعت کی تھی تو کچھ شیرینی تقسیم کی تھی۔ اگر اجازت ہوتو اب بھی منگو الی جائے ۔ فرمایالازمی تو نہیں اگر آپ کا دل چاہئے تو ہم منع نہیں کرتے۔ اور فرمایا۔ایسی باتیں جو آج کل لوگ بطور رسم اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے ماخذ بھی سنت نبوی سے تلاش اور غور کرنے سے مل سکتے ہیں۔ مثلاً یہی شیرینی وغیرہ تقسیم کرنے کا معاملہ ہے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر پر کچھ آدمیوں کا مجمع ہو اور وہ تمام کی دعوت کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر حاضرین کو ایک ایک کھجور بھی تقسیم کردے تو خد اتعالیٰ اس کو دعوت کا ثواب عطا فرمائے گا۔ یہاں سے مجالس میں تبرک وغیرہ کی بنیاد پڑی ہے ۔ اگر کوئی اس نیت سے ایسا کرے تو وہ علاوہ ثواب دعوت کے عامل سنت ہونے کا اجر بھی پائے گا۔ لیکن اب اس کے برعکس تبرک تقسیم کرنے والوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ صرف نام نمود کے لئے ایسا کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی مجلس میں دال داکھ وغیرہ تقسیم کی ہے ہم جلیبی یا قلاقند تقسیم کریں گے اور دوسری طرف تبرک لینے والوں کا یہ حال ہے کہ اُن کو اس وعظ وپند سے فائدہ اُٹھانے کا مطلب ہی نہیں ہوتا۔ جس کے لئے مجلس کا انعقاد ہوا ہو۔ بلکہ ان کی ٹولیوں میں دن سے ہی مشورہ ہوتے ہیں کہ فلاں مجلس میں زردہ پلاؤ یا کوئی عمدہ مٹھائی تقسیم ہوگی اس لئے وہاں چلیں گے اور مجلس میں جاکر باہر بیٹھے اونگھتے یا سوتے رہیں گے۔ جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سب سے پیش اور سب سے بیش لینے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اگر موقعہ ملے تو ایک سے زیادہ دفعہ بدل کر یادوسری طرف کی صفوں میں بیٹھ کر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
{1109} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دن مسجد مبارک میں ریاؔپر تقریر فرما رہے تھے۔ کہ ریا شرک ہے ۔ تھوڑی سی دیر میں ایک دوست نے پوچھا کہ حضور کو بھی کبھی ریا کا خیال آیا ہے۔ فرمایاکہ ریا ہم جنس سے ہوا کرتی ہے ۔
{1110} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں قادیان میں ہوتا تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ڈاک میرے سپرد ہوتی۔ میں ڈاک سنایا کرتا تھا۔ ایک خط پر لکھا ہو اتھا کہ کوئی دوسرا نہ کھولے۔ باقی خطوط تو میں نے سنائے لیکن وہ خط حضور کے پیش کردیا۔ آپ نے فرمایا۔ کھول کر سنائیں ۔ دوسرے کے لئے ممانعت ہے ۔ ہم اور آپ تو ایک وجود کا حکم رکھتے ہیں۔ میں نے وہ خط پڑھ کر سنا دیا ۔ نویسندہ نے اپنے گناہوںکا ذکر کرکے دعا کی درخواست کی تھی۔ اور بڑی عاجزی اور انکساری سے خط لکھا تھا۔ اس کی تحریر سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ ایک آگ میں پڑا ہوا ہے ۔ اور حضور اُسے جلدی کھینچ کر نکالیں۔ آپ نے فرمایا۔یہ خط مجھے دے دیں۔ میں خود اس کا جواب لکھوں گا۔ جس طرح واشگاف حال اس نے لکھا ہے مجھے اس کی خوشی ہوئی۔ ایسے لوگ کم دیکھے گئے ہیں ۔
{1111} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت اُم المومنین نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میرے لئے ایک سبک اور عمدہ دیسی جوتا بنو ا کر لائیں۔ میں پیر کا ماپ بھی لایا۔ اور پھگواڑہ کے ایک معروف موچی سے جوتا بنوایا۔ بنو اکر لے گیا ۔ حضرت ام المومنین کے پیر میں وہ ڈھیلا آیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اندر سے خود پہن کر باہر تشریف لائے اور فرمایا۔ کہ اُن کے پیر میں تو ڈھیلا ہے مگر ہم پہنا کریں گے میں نے پھر دوبارہ اور جوتابنوا کر بھیجا۔
{1112} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ پیر میں جو جو تا تھا ۔ اُس کو پیوندلگے ہوئے تھے اور بدزیب معلوم ہوتا تھا۔میں آپ کی ہمراہی سے ہٹ کر ایک دوکان پر گیااور آپ کے پیر کا بہت ٹھیک جوتا خرید کر لایا۔ آپ مجھے سیر سے واپسی پر ملے ۔ میں جوتا لئے ساتھ چلا آیااور مکان پر آکر پیش کیا کہ حضور وہ جوتا تو بُرا لگتا ہے۔ آپ نے جزاکم اللہ فرما کر نیا جوتا رکھ لیا۔ اور پہن کر بھی دیکھا تو بہت ٹھیک تھا۔ اگلے دن جب حضور سیر کو تشریف لے گئے تو وہی پرانا جوتا پیوند کیا ہو اپہنے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور نے تو پھر وہی جوتا پہن لیا۔ آپ نے فرمایااس میں مجھے آرام معلوم ہوتا ہے اور اس کو پیر سے موافقت ہوگئی ہے ۔
{1113} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ بوٹ پہنے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سا تھ تھا۔ میرا بوٹ ذرا تنگ تھا۔ اس لئے میں تکلیف سے چلتا تھا کیونکہ حضور بہت تیز چلتے تھے۔ آپ نے مجھے دیکھ کر اپنے پرانے جوتے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہم تو ایسا جوتا پہنتے ہیں یعنی آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں ۔
{1114} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے دو تین امور کے متعلق استفسار کیا۔ وہ سوالات اور جوابات جو حضور نے ازرہ شفقت فرمائے ،یہ ہیں ۔
سوال نمبر۱: خاکسار نقش بندیہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں ۔ میں بھی شامل رہا ہے ۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے ۔
جواب: حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف وموافق ہر دو فریق نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے ۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں ۔ یہاں تک کے حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں ۔اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں، چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں ۔ فرمایا!یہ بہت بُری بات ہے ۔ نما زجیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پر دال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگر اہل حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریں گے ۔ فرمایا۔کہ کوئی ان لوگوں سے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طور پر جمع کرنی پڑتی ہے ۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا ۔ جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر ا س کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے ۔
سوال نمبر۲: خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے بار ہا صوفیاء کی مجلس حال وقال میں اور شیعہ وغیرہ کی مجالس محرم وغیرہ میں قصداً اس غرض سے شامل ہو کر دیکھا ہے کہ یہ اس قدر گریہ وبکا اور چیخ وپکار جو کرتے ہیں مجھ پربھی کوئی حالت کم ازکم رقت وغیرہ ہی طاری ہو مگر مجھے کبھی رقت نہیں ہوئی۔
جواب: حضور نے فرمایا کہ ان مجالس میں جوشور وشغب ہوتا ہے اس کا بہت حصہ تو محض دکھاوے یا بانی مجلس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے اور باقی رسم اور عادت کے طور پر بھی وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ اُن کا خیال ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ایسا کرنا موجب ثواب ہے ۔ لیکن مومن کے لئے رقیق القلب ہونا ضروری ہے ۔ اس کے لئے نمازیں وقت پر اور خشوع خضوع سے اد اکرنااور کثرت استغفار ودرود شریف اور نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کے وقت اھدنا الصراط المستقیم کا تکرار بطور علاج فرمایا۔
سوال نمبر۳: خاکسار نے بطور ورد ووظائف کچھ پڑھنے کے واسطے دریافت کیا ۔
توحضور نے فرمایا کہ آپ کی ملازمت بھی نازک اور ذمہ واری کی ہے۔ بس نمازوں کو سنوار کر وقت پر ادا کرنااور اتباع سنت اور چلتے پھرتے درود شریف ،استغفار پڑھئے اور وقت فرصت قرآن مجید کی سمجھ کر تلاوت کو کافی فرمایا۔ خاکسار کے مکرر اصرار پر نماز فرض کے بعد اُسی نشست میں گیارہ دفعہ لاحول ولاقوۃ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا۔
{1115} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب دہلی پہنچ کر مولوی نذیر حسین صاحب اور مولوی بشیر احمد بھوپالوی سے مباحثہ فرمایا تھا۔ اُس سفر سے واپسی پر جماعت پٹیالہ کی درخواست پر ایک دو روز کے لئے حضور نے پٹیالہ میں قیام فرمایا۔ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ہمراہ تھے۔ ان دنوں میری شادی ونکاح کا مرحلہ درپیش تھا اور میرے والد مرحوم اپنی دنیادارانہ وضع کے پابند اور نام ونمود کے خوگر تھے اور اپنے احباب اور مشیروں کے زیر اثرشادی کے اہتمام میں باوجود مالی حالت اچھی نہ ہونے کے قرض لے کر بھی جلوس اور خلاف شرع رسوم کی تیاروں میں مصروف تھے۔ خاکسار نے اُن سے ان رسوم کی مخالفت اور اپنی بیزاری کا اظہار کیا مگر اُن پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اپنی جائے ملازمت راجپورہ سے ان رسومات کے خلاف شرع اور خلاف اخلاق وتمدن ہونے کے متعلق تین چار صفحات کا ایک مضمون لکھ کر دہلی کے ایک ہفتہ وار اخبار میں شائع کرایا اور چند کاپیاں منگوا کر اپنے والد صاحب کی خدمت میں اور دیگر بزرگان کے نام بھجوادیں۔ اس کے بعد میں پٹیالہ آکر اپنے والد صاحب سے ملا۔ والد صاحب نے مضمون کی تعریف کی اوراُن خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مضمون کے مطابق تم اپنے وقت پر عمل کر لینا۔ میں نے تو صرف یہی ایک شادی کرنی ہے ۔ میں تو اسی طرح کروںگا جیسا میرا دل چاہتا ہے۔ تم کو وہ باتیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس کا جواب خاموش رہنے کے سوااور میرے پاس کیا تھا۔ آخر میں نے ایک اہل حدیث مولوی سے جن کے ہمارے خاندان سے بہت تعلقات تھے اور خاکسار پر وہ بہت شفقت فرماتے تھے۔ اپنی یہ مشکل پیش کی ۔ انہوںنے سن کر میرے والد صاحب کی طبیعت سے واقف ہونے کی وجہ سے اُن کو تو کچھ کہنے کی جرأت نہ کی بلکہ مجھے بڑی سختی سے تلقین کی کہ اگر تمہارے والد صاحب ان خلاف شرع رسومات کے اد اکرنے سے نہ رکیں تو تم شادی کرانے سے انکار کردو۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب کی طبیعت سے واقف تھا اور میرا کوئی دوسرا بہن بھائی بھی نہ تھا۔ اس لئے میں نے خیال کیا کہ ایسا جواب اُن کو سخت ناگوار معلوم ہوگا اور میرے اُن کے تعلقات ہمیشہ کے لئے خراب ہوکر خانگی زندگی کے لئے تباہ کن ہوں گے۔ اس لئے ان حالات میں میں سخت پریشانی اور تردّد میں تھا کہ انہی دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پٹیالہ تشریف لے آئے۔ ایام قیام پٹیالہ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب نماز عشاء کے بعد شب باش ہونے کے لئے ہمارے مکان پر تشریف لاتے اور صبح کی نماز کے بعد پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ۔ ایک دن موقعہ پاکر میں نے اپنی مشکل کو حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اس داستان کو بڑے غور سے سنااور فرمایاکہ چونکہ حضرت صاحب تشریف فرماہیں ۔ اس لئے اس معاملہ کو حضور کے پیش کردو۔ میںنے عرض کیا کہ لوگو ں کی ہر وقت آمدورفت اور حضرت صاحب کی مصروفیت کے سبب شاید حضرت صاحب سے عرض کرنے کا موقعہ نہ ملے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا ۔ موقعہ نکالنے کی ہم کوشش کریں گے۔ خاکسار تو رخصت نہ ہونے کے سبب ایک روز قبل ہی راجپورہ اپنی جائے ملازمت پر چلا گیا۔ حضرت صاحب اُس سے ایک روز بعد یا دوسرے روز بغرض واپسی راجپورہ صبح آٹھ بجے والی گاڑی سے پہنچے اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جب ٹرین پر سوار ہونے کے لئے پلیٹ فارم راجپورہ پر تشریف لائے تو مولوی صاحب نے خاکسار کو قریب طلب فرماکر یہ سارا واقعہ حضور کے گوش گزار کردیا ۔ حضور نے تمام حالات سن کر خاکسار سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے والد صاحب کو یہ علم ہے کہ آپ کو ایسی رسوم جو کہ خلاف شرع ہیں دل سے پسند نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے اُن سے زبانی عرض کرنے کے علاوہ ایک مدلل مضمون ان رسومات کے خلاف لکھ کر ایک اخبار میں اپنے نام سے شائع کرا کر اس کی کاپیاں اپنے والد صاحب کے پاس پہنچائیں ۔ مگر وہ مضمون کو پسند کرنے اور اس سے متفق ہونے کے باوجود عملاًاس کے خلاف او ر اپنی مرضی کے موافق کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ اگرتم اُن اہل حدیث مولوی صاحب کے کہنے کے موافق شادی سے انکار کردو تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا ۔ میں نے عرض کیا کہ ہمیشہ کے لئے میر ااُن سے انقطاع انجام ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا۔ آخر نکاح وغیرہ کی رسم تو اسلامی شریعت کے مطابق ہی ہوگی ۔ خاکسار کے اثبات پر جواب عرض کرتے ہوئے فرمایاکہ جو رسوم شرع اور سنت کے موافق ہیں اُن کو تم اپنی طرف سے سمجھو اور جوخلاف شرع امور ہیں اُن کو اُن کی مرضی پر چھوڑ دو۔ دل سے ناپسند کرنے کے باوجو دکچھ تعرض نہ کرو ۔اس طرح یہ مرحلہ بغیر فساد اور نزاع کے گزر جائے گا ۔ پھر مولوی صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔میرے نزدیک کسی لڑکے کو کسی خلاف شرع امر میں باپ کو منع کرنے کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ وہ اس امر کا خلاف شرع ہونا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دے ۔ سختی سے روکنے یا جبر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیونکہ خد اتعالیٰ نے والدین کے سامنے ادب کے ساتھ اپنا شانہ جھکانے کااور اُن کے آگے اُف تک نہ کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ اتنے میں گاڑی آگئی ۔ خاکسار نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور نیچے اُتر کر حضرت مولوی صاحب سے جب مصافحہ کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا! کہ حضرت صاحب کے فتویٰ نے آپ کی مشکل کا حل کردیا ۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ حضرت صاحب سے عرض کرنا چاہئے ۔ دراصل ہم مولوی صاحبان کی نظریں اُن گہرائیوں تک نہیں جاتیں جہاں حضرت صاحب کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ معاملہ بلامخالفت گزر گیا۔
{1116} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام لدھیانہ میں تھے تو وہاں ہیضہ بہت پھیلا ہوا تھا۔ اور منادی ہورہی تھی ۔ تو چراغ خادم نے آکر کہا کہ پوریاں اور حلوا خوب کھایا جائے اس سے ہیضہ نہیں ہوگا۔ اُس نے زنانہ میں آکر یہ ذکر کیا تھا۔ دراصل اُس نے مذاق کیا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پانچ چھ روپے لے کر باہر تشریف لائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ دوستوں کو کھلایا جائے کیونکہ چراغ کہتا تھا کہ ایسی منادی ہورہی ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے عرض کیا کہ چراغ توشریر ہے ۔ یہ چیز تو ہیضہ کے لئے مضر ہے ۔ چراغ نے تو ویسے ہی کہہ دہا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ اسے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ۔ شاید کوئی نئی تحقیق ہوئی ہو۔ آپ پھر گھر میں تشریف لے گئے ۔ آپ کے جانے کے بعد میں نے چراغ کو ڈانٹا کہ تم نے یہ کیا بات کی تھی۔ اُس نے کہا کہ مجھے کیا معلوم تھا کہ حضرت جی اندر بیٹھے ہیں ۔
{1117} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو خارش ہوگئی۔ اور انگلیوں کی گھائیوں میں پھنسیاں تھیں اور تر تھیں۔ دس بجے دن کے میں نے دیکھا تو آپ کو بہت تکلیف تھی ۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا آیا۔ عصر کے بعد جب میں پھر گیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ خلاف معمول آج حضور کیوں چشم پُر نم ہیں ؟آپ نے فرمایا کہ میرے دل میں ایک خیال آیا کہ اے اللہ! اس قدر عظیم الشان کام میرے سپرد ہے اور صحت کا میری یہ حال ہے کہ اس پر مجھے پُر ہیبت الہام ہوا کہ تیری صحت کاہم نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ؟ فرمایا کہ اس الہام نے میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہلادیا ۔ اور میں نہایت گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ میں گر گیا ۔ خدا جانے کس قدر عرصہ مجھے سجدہ میں لگا۔ جب میں نے سر اُٹھایا تو خارش بالکل نہ تھی اور مجھے اپنے دونوں ہاتھ حضور نے دکھائے کہ دیکھو کہیں پھنسی ہے ؟ میں نے دیکھا تو ہاتھ بالکل صاف تھے۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پھنسی بالکل نکلی ہی نہیں ۔
{1118} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے۔ جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا ۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے بیٹھے تھے۔ اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تھے پاس لیٹے تھے۔ اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا ۔ میںنے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے ۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔ نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت بر ابھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا۔ اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں ۔ پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یاکسی اور سے ٹھیک یا دنہیں رہا۔ لحاف بچھونا مانگ کراوپر لے گیا۔ آپ نے فرمایاکسی اور مہمان کو دے دو۔ مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔ اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا۔ اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو ۔ پھر میں لے آیا۔
{1119} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ چوہدری رستم علی خاں صاحب مرحوم انسپکٹر ریلوے تھے۔ ایک سو پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ بڑے مخلص اور ہماری جماعت میں قابل ذکر آدمی تھے۔ وہ بیس روپیہ ماہوار اپنے پاس رکھ کر باقی کل تنخواہ حضرت صاحب کو بھیج دیتے تھے۔ ہمیشہ اُن کا یہ قاعدہ تھا ۔ ان کے محض ایک لڑکا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو وہ اُسے قادیان لے آئے مع اپنی اہلیہ کے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان میں قیام پذیر ہوئے۔ حضرت اقدس نے ایک دن فرمایا کہ رات میں نے رویاء دیکھا۔ کہ میرے خدا کو کوئی گالیاں دیتا ہے ۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ جب آپ نے رویاء کا ذکر فرمایا تو اُس سے اگلے روز چوہدری صاحب کا لڑکا فوت ہوگیا۔ کیونکہ ایک ہی لڑکا تھا ۔ اس کی والدہ نے بہت جزع فزع کی اور اس حالت میں اس کے منہ سے نکلا۔ ارے ظالم! تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا۔ ایسے الفاظ وہ کہتی رہی۔ جو حضرت صاحب نے سن لئے۔ اُسی وقت آپ باہر تشریف لائے اور آپ کو بڑا رنج معلوم ہوتا تھا۔ اور بڑے جوش سے آپ نے فرمایا۔ کہ اسی وقت وہ مردود عورت میرے گھر سے نکل جائے۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی والدہ جو بڑی دانشمند اور فہمیدہ تھیں۔ انہوںنے چوہدری صاحب کی بیوی کو سمجھایا اور کہا کہ حضرت صاحب سخت ناراض ہیں ۔ اُس نے توبہ کی اور معافی مانگی اور کہا کہ اب میں رونے کی بھی نہیں۔ میر صاحب کی والدہ نے حضرت صاحب سے آکر ذکر کیا۔ کہ اب معافی دیں ۔ وہ توبہ کرتی ہے ۔ اور اُس نے رونا بھی بند کردیا ہے ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا اُسے رہنے دو اور تجہیز وتکفین کا انتظام کرو۔
{1120} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا جب انتقال ہوا ہے تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لائے ۔ میںموجو دتھا۔ فرمایا کہ لڑکے کی حالت نازک تھی۔ اس کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا اس کے پاس بیٹھ جائیں۔ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ میں نما زپڑھ لوں ۔ فرمایا کہ وہ نماز میںمشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ میں ان خیالات میں پڑ گیا کہ جب اس کی والدہ لڑکے کے فوت ہونے کی خبر سنے گی تو بڑا صدمہ ہوگا۔ چنانچہ انہوںنے سلام پھیرتے ہی مجھ سے پوچھا کہ لڑکے کاکیاحال ہے ؟ میں نے کہا کہ لڑکا تو فوت ہوگیا۔ انہوںنے بڑے انشراح صدر سے کہا کہ الحمدللہ! میں تیری رضا پر راضی ہوں۔ ان کے ایسا کہنے پر میرا غم خوشی سے بدل گیا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ تیری اولاد پر بڑے بڑے فضل کرے گا۔ باہر جب آپ تشریف لائے ہیں تو اس وقت آپ کا چہرہ بشاش تھا۔ کئی دفعہ میںنے حضرت صاحب کودیکھا ہے کہ کسی کی بیماری کی حالت میں بہت گھبراتے تھے اور مریض کوگھڑی گھڑی دیکھتے اور دوائیں بدلتے رہتے تھے۔ مگر جب مریض فوت ہوجاتا تو پھر گویاحضور کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ میاں مبارک احمد صاحب کی بیماری میں بھی بہت گھبراہٹ حضور کو تھی اور گھڑی گھڑی باہر آتے تھے۔ پھر دوا دیتے۔ لیکن اس کی وفات پر حضرت ام المومنین کے حد درجہ صبر کا ذکر کر کے حضور بڑی دیر تک تقریر فرماتے رہے۔ فرمایا کہ جب قرآن شریف میں اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْن کہ جب صابر وں کے ساتھ اللہ کی معیت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ۔ لڑکے کا فوت ہونا اور حضور کا تقریر کرنا ایک عجیب رنگ تھا۔
{1121} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ محکمہ ریلوے سروس میں ریکارڈ کلرک رہنے کے بعد چونکہ اس پوسٹ میں آیندہ ترقی کی کوئی امید نہ تھی۔ اس لئے میرے والد صاحب نے میرا تبادلہ صیغہ پولیس میں کروادیا۔ اور سب انسپکٹری بٹھنڈہ پر میری ماموری ہوگئی ۔ لیکن یہ تبادلہ میری خلاف مرضی ہو اتھا۔ ورنہ میں صیغہ پولیس کو اپنی طبیعت کے خلاف محسوس کرتا تھا۔ ماموری کے بعد بڑے تأمل سے اپنے والد صاحب کے اس وعدہ کرنے پر کہ عنقریب تبادلہ ہو جائے گا۔ بادِلِ ناخواستہ حاضر ہوا۔ اور میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں پے درپے تبادلہ کے لئے لکھتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد جب تبادلہ سے ناامیدی سی ہوگئی تو میں نے ارادہ کیا کہ خواہ کچھ ہو۔ اپنے والد صاحب سے اجازت لئے بغیر استعفیٰ پیش کردوں گا۔ خدا رازق ہے کوئی اور سبیل معاش پیدا کردے گا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طر ف سے مولوی عبد الکریم صاحب کے ہاتھ کاخط لکھا ہوا موصول ہوا ۔ اس میں تحریر تھا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خط میں جو تکالیف آپ نے اپنی ملازمت میں لکھی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوق خدا آپ کے طرز عمل سے بہت آسائش اور اطمینان کی حالت میں ہے ۔ اور آپ کو خدا نے خدمت خلق کا بہترین موقعہ عطا فرمایا ہے جس کو باسلوب انجام دیتے ہوئے خدا کا شکر بجالاؤ۔ رہا تکالیف کا معاملہ سو کوئی نیکی نہیں جو بلا تکلیف حاصل ہوسکے۔ دعائیں کرتے رہو۔ خدا اس سے کوئی بہتر صورت پید اکر دے گا۔ اور جب تک کوئی دوسری صورت پیدا نہ ہو۔ استعفیٰ کا خیال تک دل میں نہ لاؤ۔ کیونکہ دنیا دارالابتلاء ہے اور انسان یہاں بطور امتحان بھیجا گیا ہے ۔ جو شخص ملازمت کو چھوڑتا اور اس کے بعد کسی دوسری سبیل کی تلاش میںہوتا ہے ۔ اکثر اوقات ابتلاء میںپڑجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی آزمائش میں پورا اُترنے کی بجائے خدا کو آزمانا چاہتا ہے کہ ہم نے ملازمت چھوڑی ہے ۔ دیکھیں اس کے بعد اب خدا اس سے بہتر صورت ہمارے واسطے کیا کرتا ہے ۔ یہ طریق گستاخانہ ہے ۔ اس لئے بنے ہوئے روزگار کو اس سے قبل چھوڑنا کہ جب خدا اس کے لئے کوئی اُس سے بہتر سامان مہیا فرمائے ۔ ہمارے مسلک کے خلاف ہے ۔ اس جواب کے موصول ہونے پر خاکسار نے وہ ارادہ ترک کردیا۔ اور صیغہ پولیس ہی سے پنشن یاب ہوا۔

{1122} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے گھر میں بوجہ کمزوری قویٰ وغیرہ دیرینہ مرض اٹھرا تھا۔ تقریباً دس بچے صغیر سنی ، شیر خوارگی میں ضائع ہوگئے ہوں گے۔ ہمیشہ حضرت مولوی (نورالدین) صاحب کا معالجہ جاری رہتا مگر کامیابی کی صورت نہ پیدا ہوئی۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حالات سن کر مولوی صاحب نے ازراہ شفقت نکاح ثانی کا اشارہ بھی کیا۔ لیکن میں اپنی مالی حالت اور دیگر مصالح کی بناء پر اس کی جرأ ت نہ کرسکا۔ آخر مولوی صاحب نے معالجہ تجویز کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ ان ادویات کا استعمال صورت حمل کے شروع دو ماہ سے کر کے ساری مدت حمل میںکراتے رہو۔ چنانچہ اس کے مطابق عمل شروع کردیا گیا۔ جب چھ سات ماہ کا عرصہ گزر گیا اور میری اہلیہ کو مرض بخار اور اسہال وغیرہ نے آگھیرا جو خرابی جگر وغیرہ کا نتیجہ تھا۔ خاکسار نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں مفصل حال عرض کیا۔ مولوی صاحب نے حالات سن کر بڑی تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا ایسی صورت میں نہ صرف بچہ کی طرف سے اندیشہ ہے بلکہ ایسی کمزوری اور دیرینہ مرض میں مولود کی ماں کے لئے بھی سخت خطرہ ہے ۔ اورخاکسار سے فرمایا کہ نسخہ تو ہم تجویز کریںگے لیکن میری رائے میں ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے خاص موقعہ لے کر دعا بھی کرائی جائے۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ خاص وقت ملنا بھی تو مشکل ہے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ اس کے حصول کی تجویز یہ ہے کہ آپ ایک رقعہ اس مضمون کا لکھ کر دیں کہ میں ایک بات عرض کرنے لئے چند منٹ خلوت چاہتا ہوں ۔ حضرت صاحب کے پاس اندر بھیجو۔ حضرت صاحب اندر بلالیں گے۔ اُس وقت یہ استدعا اور ضرورت خاص عرض کردینا تو حضرت فوراً دعا فرمائیںگے۔ چنانچہ خاکسار نے اس مضمون کا رقعہ لکھ کر پیراں دتا جو کہ حضرت صاحب کا خادم تھا، کے ہاتھ بھجوا دیا کہ وہ حضور کے پیش کردے۔ اُس نے تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بتلایا کہ حضرت اقدس نے رقعہ پڑھ کر فرمایا کہ ہم کوئی ضروری مضمون تحریر کر رہے ہیں۔ درمیان میں مضمون کا چھوڑنامناسب نہیں ۔ اس لئے فرصت نہیں پھر فرصت کے وقت دیکھا جائے گا۔ خاکسار نے مولوی صاحب سے اس کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے فرمایا کہ اب تو وقت نہیں ملے گا۔ کیونکہ کل پٹیالہ کو واپس جانا چاہتے ہو۔ پٹیالہ جاکر مفصل خط حضرت صاحب کے نام لکھ دینا۔ حضرت صاحب خطوط پر دعا فرمادیتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ اس لئے ایک ہی بات ہے ۔ اگلے دن صبح خاکسار کا روانگی کا ارادہ تھا۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر حضرت صاحب مسجد مبار ک کی چھت پر تشریف فرماتھے اور خاکسار اس انتظار میں تھا کہ موقعہ ملے تو حضرت صاحب سے رخصتی مصافحہ کیا جائے ۔ کہ حضرت صاحب کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو میرے کچھ عرض کرنے کے بغیر حضور نے فرمایا! کل آپ کا رقعہ پیراں دتا لایا تھا ہم اس وقت ایک خاص مضمون کی تحریر میں مصروف تھے۔ اس لئے وقت نہیں مل سکا۔ وہ کیا کام تھا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کچھ ایسی ضروری بات نہ تھی اگر ضرورت ہوئی تو میں پٹیالہ سے بذریعہ خط عرض کردوں گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا اگر کوئی خاص بات ہے تو اب بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس وقت اپنے ہی احبا ب بیٹھے ہیں میں بوجہ حجاب سا محسوس ہونے کے خاموش رہا کہ حضرت مولوی صاحب نے بوجہ اس حال کے واقفیت کے فرمایا وہ رقعہ میرے مشورہ سے ہی تحریر میں آیا تھا۔ مرض کے مفصل حالات بیان کر کے فرمایا کہ چونکہ خطرہ ڈبل ہے اس لئے میں نے ہی ان کو یہ دعا کرانے کا مشورہ دیا تھا۔حضور نے یہ سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ اگر یہی کام ہے تو دعا کے لئے ایسا اچھا وقت اور کون سا ہوگا اور اسی وقت مجمع سمیت دعا فرمائی۔ دعا سے فارغ ہوکر میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ بس اتنی ہی بات تھی یا کچھ اور بھی۔ میںنے عرض کیا کہ بس حضور دعا ہی کے لئے عرض کرناتھا۔اُسی حالت مرض وکمزوری میں بچہ پید اہوا۔ جس کا کمزور ہونا ضرور ی تھا۔ بذریعہ خطوط حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے معالجہ وغیرہ ہوتا رہا۔ رفتہ رفتہ ہر دو (یعنی زچہ وبچہ)کو افاقہ اور صحت حاصل ہوئی۔ میری اولاد میں صرف وہی بچہ زندہ سلامت ہے ۔ بشیر احمد نام ہے ۔ اور ایم اے علیگ ایل ایل بی ہے ۔ دوبچوں کا باپ ہے (جن کے نام سلیم احمد اور جمیل احمد ہیں) دفتر ریونیومنسٹر صاحب پٹیالہ میں آفس سپرنٹنڈنٹ ہے ۔ اس کی تعلیم بھی بالکل مخالف حالات ماحول میں محض خدا کے فضل سے ہوتی رہی ۔ میرا ایمان ہے کہ یہ سب حضرت اقدس کی اس خاص دعااور اس کی استجابت کا ظہور ہے اورظہور بھی ایک خاص معجزانہ رنگ میں ۔
{1123} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی علی گوہر صاحب کپور تھلہ میں ڈاک خانہ میں ملاز م تھے۔ اڑھائی روپیہ ان کی پنشن ہوئی ۔ گزارہ اُن کا بہت تنگ تھا۔ وہ جالندھر اپنے مسکن پر چلے گئے ۔انہوںنے مجھے خط لکھا کہ جب تم قادیان جاؤ تو مجھے ساتھ لے جانا۔ وہ بڑے مخلص احمدی تھے۔ چنانچہ میں جب قادیان جانے لگاتو اُن کو ساتھ لینے کے لئے جالندھر چلا گیا۔ وہ بہت متواضع آدمی تھی۔ میرے لئے انہوں نے پُر تکلف کھانا پکوایا اور مجھے یہ پتہ لگا کہ انہوںنے کوئی برتن وغیرہ بیچ کر دعوت کا سامان کیا ہے ۔ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ہم حج کو جاتے ہیں اور جہاز راستے سے اُتر گیا ۔ اگلے دن گاڑی میں سوار ہوکر جب ہم دونوں چلے ہیں تو مانانوالہ سٹیشن پر گاڑی کاپہیہ پٹڑی سے اُتر گیا۔ گاڑی اسی وقت کھڑی ہوگئی۔ دیر بعد پہیہ سڑک پر چڑھایاگیا۔ کئی گھنٹے لگے۔ پھر ہم قادیان پہنچ گئے۔ میں نے منشی علی گوہر صاحب کاٹکٹ خود ہی خریدلیا تھا۔ وہ اپنا کرایہ دینے پر اصرار کرنے لگے۔ میںنے کہایہ آپ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں ۔ چنانچہ دو روپے انہوںنے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ آٹھ دس دن رہ کرجب ہم واپسی کے لئے اجازت لینے گئے تو حضور نے اجازت فرمائی۔ اورمنشی صاحب کو کہا ذرا آپ ٹھہرئیے۔پھر آپ نے دس یاپندرہ روپیہ منشی صاحب کو لاکر دئیے۔ منشی صاحب رونے لگے اورعرض کی کہ حضور مجھے خدمت کرنی چاہئے یا میں حضور سے لوں ۔ حضرت صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ یہ آپ کے دوست ہیں ۔ آپ انہیں سمجھائیں۔ پھر میرے سمجھانے پر کہ ان میں برکت ہے ۔ انہوںنے لے لئے اور ہم چلے آئے حالانکہ حضرت صاحب کو منشی صاحب کی حالت کا بالکل علم نہ تھا۔
{1124} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہوکر نہیں جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کومہمانوںکے لئے کوئی سامان نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کرسکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یارہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔ دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں ۔ فرمایا کہ ہم نے برعایت ظاہری اسباب کے انتظام کردیا تھا۔ اب ہمیں ضرورت نہیں۔ جس کے مہمان ہیں وہ خود کرے گا۔ اگلے دن آٹھ یا نو بجے صبح جب چٹھی رسان آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا۔ چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوںگے۔ جو مختلف جگہوں سے آئے ہوئے تھے۔ سو سو پچا س پچاس روپیہ کے۔ اور اُن پر لکھا تھا کہ ہم حاضر ی سے معذور ہیں ۔ مہمانوں کے صرف کے لئے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں ۔وہ آپ نے وصول فرما کر توکل پرتقریر فرمائی۔ اور بھی چند آدمی تھے۔ جہاں آپ کی نشست تھی۔ وہاں کا یہ ذکر ہے ۔ فرمایا کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوںپر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہو ں گا نکال لوں گا۔ اس سے زیادہ اُن لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ۔ فوراً خد اتعالیٰ بھیج دیتا ہے ۔
{1125} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی عادت تھی۔ کہ مہمانوں کے لئے دوستوں سے پوچھ پوچھ کرعمدہ عمدہ کھانے پکواتے تھے کہ کوئی عمدہ کھانا بتاؤ جو دوستوں کے لیے پکوایا جائے ۔ حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی ، میر حامد شاہ صاحب مرحوم کے والد تھے۔ ضعیف العمر آدمی تھے ۔اُن کو بلالیا ۔ اور فرمایا کہ میر صاحب کوئی عمدہ کھانا بتلائیے۔ جو مہمانوں کے لئے پکوایا جائے ۔ انہوںنے کہا کہ میں شب دیگ بہت عمدہ پکوانی جانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ اور ایک مٹھی روپوں کی نکال کر ان کے آگے رکھ دی ۔ انہوں نے بقدر ضرورت روپے اُٹھا لئے اور آخر انہوںنے بہت سے شلجم منگوائے ۔ اور چالیس پچاس کے قریب کھونٹیاں لکڑی کی بنوائیں۔ شلجم چھلو اکر کھونٹیوں سے کوچے لگوانے شروع کئے ۔ اور ان میں مصالحہ اور زعفران وغیرہ ایسی چیزیں بھروائیں۔ پھر وہ دیگ پکوائی۔ جو واقعہ میں بہت لذیذ تھی اور حضرت صاحب نے بھی بہت تعریف فرمائی اور مہمانوں کو کھلائی گئی۔
{1126} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک انسپکٹر جنرل پولیس کا ایک باورچی قادیان میں آیا۔ بوڑھا آدمی تھا اور بیعت میں داخل تھا۔ اس سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ آپ ایک بڑے آدمی کا کھانا پکاتے رہے ہیں کوئی بہت عمدہ چیز دوستوں کے لئے پکائیں۔ انہوںنے کہا پہلے حضور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ پھر اس نے بکرے کی ران اور گھی منگا کر روسٹ کیا مگر وہ گوشت بالکل نہ گلا ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ میں اور مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بیٹھے ہوئے تھے ۔ گوشت چاقو سے بمشکل کٹتا تھا۔ بڑی مشکل سے تھوڑا سا ٹکڑا کاٹ کر اس نے حضرت صاحب کو دیا۔ آپ نے منہ میں ڈال لیا۔ اور چبانے کی کوشش فرماتے رہے ۔ وہ چبایا نہ جاسکا۔ مگر اس باورچی کی تعریف فرمائی کہ آپ نے بہت عمدہ پکایا ۔ میں نے کہا کہ یہ نہ تو کاٹا جاتا ہے اور نہ ہی چبایا جاتا ہے ۔ گھی بھی ضائع کردیا۔ فرمانے لگے منشی صاحب! آپ کو علم نہیں۔ انگریز ایسا ہی کھاتے ہیں اور ان کے نقطہ خیال سے بہت اعلیٰ درجہ کا پکاہوا ہے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہنسنے لگے۔ اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹھیک نہیں پکایا ۔ فرمانے لگے کہ نہیں نہیں آپ نے نہیں جانتے۔ فرمایا کہ آپ کوئی اور چیز مہمانوں کے لئے تیار کریں۔ باورچی موجود ہیں۔ ان کو آپ بتلاتے جائیں۔ اس نے توشرم کے مارے کوئی چیز تیار کروائی نہیں ۔کوئی اور صاحب تھے جن کانام مجھے یاد نہیں رہا۔ انہوںنے بریانی مہمانوں کے لئے پکوائی اور میں نے بہت محظوظ ہو کر کھائی ۔ حضرت صاحب کی خدمت میں بھی پہنچائی گئی۔ آپ نے مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو اور مجھے بلوایا۔ اور فرمایا کہ دیکھو کیسی عمدہ پکوائی ہے ۔ وہ انگریزی قسم کا کھانا تھا۔ جس سے آپ واقف نہ تھے۔ یہ دیسی قسم کا کھانا کیسا عمدہ ہے ۔ حضرت صاحب نے یہی سمجھا کہ اُسی باورچی نے پکوائی ہے ۔پھر ہم دونوںنے ظاہر نہیں کیا۔ کہ اس نے نہیں پکوائی۔ غرض کوئی ناقص شے بھی آپ کی خدمت میں کوئی پیش کرتا تو آپ کی اس کی تعریف فرماتے۔
{1127} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد اقصیٰ سے ظہر کی نماز پڑھ کرآرہے تھے تو آپ نے میراں بخش سودائی کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ گول کمرے کے آگے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک ہندو مست بڑا موٹا ڈنڈا لئے آیا۔ میراں بخش اس سے کہنے لگا کہ پڑھ کلمہ اور اس کے ہاتھ سے ڈنڈا لے کر مارا کہ پڑھ کلمہ لاالہ الااللہ ۔ اس نے جس طرح میراں بخش نے کہلوایا تھا۔ کلمہ پڑھ دیا۔ تو اس کو میراں بخش نے ایک دونی دے دی۔ فرمایا کہ میں بہت خوش ہوا کہ ایک مسلمان پاگل نے ایک ہند وپاگل کو مسلما ن کر لیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں تبلیغی مادہ ضرور ہے ۔
{1128} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میںخاکسار کا تبادلہ صیغہ پولیس میں ہوا اور ماموری تھانہ بٹھنڈہ میں ہوئی ۔ علاقہ بٹھنڈہ ریاست پٹیالہ میں جنگل کاعلاقہ ہے اور ضلع فیروز پور اور ریاست فرید کوٹ سے سرحدات ملتی ہیں۔ ان دنوں ان علاقوں میں ڈکیتیوں کا بڑا زور تھا اور اسی قسم کی وارداتوں کی کثرت تھی۔ دن رات اونٹوں پر سفر کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ وہ علاقہ تو سخت گرم اور ریگستان ہے اس لئے سفر میں پانی بھی زیادہ پیا جاتا تھا۔ اور بعض اوقات اونٹ کے سفر میں یہ بے احتیاطی بھی ہوجاتی کہ تعجیل کی وجہ سے اگر اونٹ کو بٹھانے میں دیر لگی تو جھٹ اوپر سے ہی چھلانگ دی ۔ اس وقت کی عمر کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ہمچوں قسم کی بے احتیاطی سے خاکسار کو مرض ہر نیا لاحق ہوگیا تھا۔ اور شروع میں تو اسے ریحی تکلیف خیال کیا گیا کیونکہ جب سواری سے اُترتے اور لیٹتے تو افاقہ معلوم ہوتا تھا۔ مگر ایک ڈاکٹر صاحب کو دکھانے کا موقعہ ملا ۔ تو انہوں نے کمپلیٹ ہرنیا تجویز اور تشخیص کیا ۔ اور جلد سے جلدآپریشن بطور علاج تجویز کیا ۔ خاکسار نے حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ بھیج کر استصواب کیا۔مولوی صاحب موصوف نے ایک کارڈ پر یہ جواب تحریر فرمایا کہ اگر مرض ہرنیا تحقیق ہوا ہے تو پھر آپریشن کے سوا اس کا کوئی علاج نہیں۔ لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ آپریشن سے پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے معائنہ کروالیا جائے ۔ ڈاکٹر صاحب اول تو تم سے واقف ہوں گے اگر تعارفی تحریر کی ضرورت ہو تو یہی ہمارا کارڈ ان کودکھا دیں ۔ چنانچہ حسب رائے حضرت مولوی صاحب میں لاہور میں ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس حاضر ہوا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بڑے اخلاق اور توجہ سے معائنہ فرمایااور مکمل مرض ہرنیا تشخیص کر کے آپریشن کے سوا کوئی اور علاج نہ تجویز فرمایا۔ چونکہ خاکسار اس دوران میں ٹرس پیٹی اس مرض میں احتیاط کے لئے استعمال کرنے لگ گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے تاکید فرمائی ۔کہ رات کے سونے کے وقت کے علاوہ ٹرس کا استعمال ہر وقت چلتے پھرتے ضروری ہے ۔ اور آپریشن جلد کرایا جائے ورنہ بعض الجھنیں پڑ جانے پر آپریشن ناکامیاب ہوگا اور یہ چنداں خطر ناک بھی نہیں ہے ۔ گھوڑے کی سواری ، چھلانگ مارنے اور دوڑکر چلنے ، بلندی سے کودنے کی ممانعت فرمائی ۔ اس سے قبل خاکسار کا تبادلہ سب انسپکٹری بٹھنڈہ سے کورٹ انسپکٹری بسی پر ہوچکا تھا۔ اس لئے کوئی فوری اندیشہ نہ تھا۔ خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے فیس وغیرہ مصارف آپریشن دریافت کر کے بعد انتظام آپریشن کا ارادہ کر کے لاہور سے واپس ہوا۔ واپسی کے موقعہ پر قادیان آیا اور حضرت مولوی صاحب سے کل کیفیت اور ڈاکٹر صاحب کے مشورہ کا ذکر کیا۔ جس کو سن کر مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے تو پہلے ہی یہ مشورہ دیا تھا۔ کہ آپریشن کرایاجائے۔پھر خاکسار سے دریافت کیا کہ آپریشن کاارادہ ہے ؟ میںنے عرض کی کہ ایک دو ماہ میں موسم بھی آپریشن کے قابل ہوجائے گا۔ اور سامان سفر بھی ہوسکے گا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ذکر کر کے ضرور دُعا کروائی جائے ۔ اب چونکہ آئے ہوئے ہو کیوں نہ حضرت صاحب سے ذکر کر لیا جائے ۔ میں نے عرض کیا کہ اگر موقعہ میسر آیا تو عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اُسی روز شام کے وقت بعد نماز مغرب حضرت صاحب بالائی حصہ مسجد پر تشریف فرما تھے۔ پانچ دیگر اصحاب بھی حاضرتھے۔ حضرت مولوی صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کو مرض ہر نیا ہوگیاہے ۔ اطمینان کے لئے میں نے اس کو ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے پاس بھیجا تھا ۔ انہوںنے جلد سے جلد آپریشن کیا جانا ضروری تجویز فرمایا ہے ۔ یہ سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! وہ ہرنیا مرض کیا ہوتا ہے ۔ مولوی صاحب کے اس توضیح فرمانے پر کہ یونانی والے اس مرض کو فتق کہتے ہیں۔ حضور نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہم نے کبھی آپ کو اس مرض کی وجہ سے تکلیف کی حالت میںنہیں دیکھا۔ آپ ہمیشہ تندرست آدمی کی طرح چلتے پھرتے ہیں ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ آپریشن سے قبل ایک قسم کی پیٹی اس مرض کے لئے خاص طور پر بنی ہوئی ہوتی ہے ۔ اس کو یہ ہر وقت لگائے رہتے ہیں۔ اس سے مرض کو تو کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔ البتہ چلنے پھرنے میں سہولت اور ایک طرح کا سہارا رہتا ہے ۔ حضور نے یہ سن کر فرمایا! کہ جب کام چل رہا ہے اور کوئی تکلیف نہیں۔ پھر آپریشن کی کیا حاجت ہے ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ پیٹی کوئی علاج تو نہیں ایک سہارا ہے ۔ اور بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اس پیٹی کے استعمال سے الٹا مرض کو ترقی ہوتی ہے اور پھر کسی خرابی کے رونما ہونے پر آپریشن بھی کامیاب نہیں ہوتا ۔ اور اخیر عمر میں آپریشن کو بغیر اشد ضرورت کے ممنوع بھی قرار دیتے ہیں۔ اس موقعہ پر مرز ایعقوب بیگ صاحب بھی وہاں موجو دہیں اور عمر کے لحاظ سے بھی مناسب وقت ہے ۔ اور ویسے بھی یہ آپریشن زیادہ خطرے والا نہیں ہوتا۔ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ۔کہ میں تو اندرونی آپریشنوں کے بارہ میں جو خطرے کاپہلو رکھتے ہوں ۔ یہی رائے رکھتا ہوں کہ وہ اشد ضرورت کے وقت کرانے چاہئیں۔ یعنی جب تک بغیر آپریشن کے بھی جان کا خطرہ ہو۔ پھر خاکسار کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ جن امور سے ڈاکٹر لوگ منع کرتے ہیں ان کی پابندی کرو۔ اور خد اپر بھروسہ رکھتے ہوئے جب تک بغیر آپریشن کے کام چلتا ہے چلاتے جاؤ۔ بات یہیں ختم ہوگئی۔ حضرت مولوی صاحب نے مسجد سے آنے پر خاکسار سے فرمایا کہ جب حضرت صاحب نے آپریشن کی مخالفت فرمائی ہے اس لئے اب آپریشن کاارادہ ترک کردو۔ اور جیسا حضرت صاحب نے فرمایاہے ۔ اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ اس بات کو۴۵سال سے متجاوز عرصہ ہوتا ہے ۔خاکسار کو خطرہ کی کوئی حالت لاحق نہیں ہوئی۔ اور اب تو عمر کی آخری سٹیج ہے ۔ اس وقت بھی جب تک کسی شخص کو خاص طور پر علم نہ ہو۔ کوئی جانتا بھی نہیں کہ مجھے ایسا دیرینہ مرض لاحق ہے ۔ میرا ایمان ہے کہ بعض اوقات ان مقدس اور مبارک زبانوں سے جو الفاظ شفقت اور ہمدردی کا رنگ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو وہ بھی ایک دُعائی کیفیت اختیار کر کے مقرون اجابت ہوجاتے ہیں ۔
{1129} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مرزا نظام دین کے متعلق یہ پیشگوئی کی کہ اُن کے گھرفلاں تاریخ کو کوئی ماتم ہوگا۔ لیکن جب تاریخ آئی اور شام کا وقت قریب ہوگیا او ر کچھ بات ظہور میں نہ آئی تو تمام مخالفین حضرت صاحب کے گھر کے ارد گرد ٹھٹھا اور مخول کے لئے جمع ہوگئے۔ سورج غروب ہونے لگا یا ہوگیا تھا۔ کہ اچانک مرز انظام الدین کے گھر سے چیخوں کی آواز شروع ہوگئی۔ معلوم کرنے پر پتہ لگا۔ کہ الفت بیگم والدہ مرزا ارشد بیگ فوت ہوگئی ہیں۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر اس وقت سے ہوں جب کہ ابھی بشیر اول پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
{1130} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کردیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو گالیاں دے ۔ چنانچہ بعض دفعہ ایسا آدمی ساری رات گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ آخرجب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت جی دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو۔ یہ تھک گیا ہوگا۔ اس کا گلا خشک ہوگیا ہوگا۔ میں حضرت جی کو کہتی کہ ایسے کم بخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے ۔ تو آپ فرماتے ۔ ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے۔ ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے ۔
{1131} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک خط بھیجا ۔ لفافہ پر محمدخان صاحب ،منشی اروڑا صاحب اور خاکسار تینوں کا نام تھا۔ خط میں یہ لکھا ہوا تھا ۔ کہ یہاں کے لوگ اینٹ پتھر بہت پھینکتے ہیں۔ اور علانیہ گالیاں دیتے ہیں۔ میں بعض دوستوں کو اس ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ اس لئے تینوں صاحب فوراً آجائیں۔ ہم تینوں کچہری سے اُٹھ کر چلے گئے۔ گھر بھی نہیں آئے۔ کرتار پور جب پہنچے تو محمد خان اور منشی اروڑا صاحب نے مجھے ٹکٹ لانے کے لئے کہا۔ میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ اپنے کرایہ کے لئے بھی اُن سے لے لوں انہوںنے اپنے ٹکٹوں کاکرایہ مجھے دے دیا تھا۔ میں نے اُن دونوں کے ٹکٹ لے لئے اور گاڑی آگئی۔ چوہدری رستم علی خان صاحب مرحوم گاڑی میں کھڑے آوازدے رہے تھے کہ ایک ٹکٹ نہ لینا میرے ساتھ سوار ہوجانا۔ میں چوہدری صاحب مرحوم کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اور ہم دہلی پہنچ گئے۔ دہلی میں حضرت صاحب نے ایک بڑا دو منزلہ مکان کرایہ پر لیا ہو اتھا۔ اوپر زنانہ تھا اور نیچے مردانہ رہائش تھی۔ واقعہ میں روز صبح وشام لوگ گالی گلوچ کرتے تھے اور ہجوم اینٹ پتھر پھینکتا تھا۔ انسپکٹر پولیس جو احمدی تو نہ تھا ۔ لیکن احمدیوں کی امداد کرتا تھا اورہجوم کو ہٹا دیتا تھا ۔ ایک دن مرزا حیرت آیا۔ میں اس وقت کہیں گیا ہو اتھا۔ اس نے آکر حضرت صاحب کو بلوایا۔ اور کہا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے اور اگر کوئی فساد ہوا تو اس کاذمہ وار کون ہوگا۔ آپ مجھے اپنا بیان لکھا دیں۔ اسی اثناء میں میں آگیا۔ میں ا س کو جانتا تھا ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیان لکھا رہے تھے اور میں یہ دیکھ کر زینے سے نیچے اُتر آیا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا اور اُتر کر بھاگ گیا۔ میں دراصل پولیس میں اطلاع دینے کے لئے اُتر ا تھا اس کو اُترتے ہوئے دیکھ کر ایک عورت نے جو اوپر تھی اسے برا بھلا کہا۔
{1132} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مولوی بشیر احمد صاحب بھوپالوی دہلی آگئے ۔ جن کو علی جان والوں نے مباحثہ کے لئے بلایا تھا۔ علی جان والے ٹوپیوں کے بڑے سوداگر اور وہابی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آکرانہوںنے عرض کی کہ مولوی صاحب کو بھوپال سے آپ کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے بلایا ہے ۔ شرائط مناظرہ طے کر لیجئے۔ حضور نے فرمایا کہ کسی شرط کی ضرورت نہیں۔ احقاقِ حق کے لئے یہ بحث ہے ۔ وہ آجائیں اور جو دریافت فرمانا چاہیں دریافت فرمالیں ۔ پھر ایک تاریخ مقرر ہوگئی۔ مجھ کو اور پیر سراج الحق صاحب مرحوم کو حضور نے حکم دیا کہ آپ کچھ کتابیں اپنے واقفوں سے لے آئیں ۔ ہمیں تو ضرورت نہیں مگر انہی کے مسلمات سے ان کو ساکت کیا جاسکتا ہے ۔ ہم دونوں بہت جگہ پھرے لیکن کسی نے کتابیں دینے کا اقرار نہ کیا۔ امام کی گلی میں مولوی محمد حسین صاحب فقیر رہتے تھے ۔ انہوںنے وعدہ کیا کہ جس قدر کتابوں کی ضرورت ہو کل لے جانا ۔ اگلے روز جب ہم گئے تو وہ نہ ملے اور ان کے بیٹوں نے ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں کہ جو ملحدوں کی مدد کرے وہ بھی ملحد ہے ۔ ہم دونوں ان کے پاس سے اُٹھ کر چلے آئے ۔ پیر سراج الحق تو مجھ سے علیحدہ ہوکر کہیں چلے گئے ۔ میں تھوڑی دور کھڑا ہو کر اُن سے سخت کلامی کرنے لگ گیا ۔وہاں آدمی جمع ہوگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ امام اعظم کو یہ بُرا کہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے ہمیں معلوم ہے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں ۔یہ چھپے ہوئے وہابی ہیں۔ وہابیوں کی مسجد میںنماز پڑھنے جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ میرے ساتھ ہو کر ان کے خلاف ہوگئے ۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ جب امام صاحب کے مکان کے آگے سے گزرا۔ تو انہوںنے مجھے اشارہ کر کے اپنی بیٹھک میں بلا لیا اور کہنے لگے کہ آپ کسی سے ذکر نہ کریں تو جس قدر کتابیں مطلوب ہیں۔ میں دے سکتا ہوں ۔ میںنے کہا آپ اتنا بڑا احسان فرمائیں تو میں کیوں ذکر کرنے لگا۔ کہنے لگا کہ جب مرزا صاحب مولوی نذیر حسین سے قسم لینے کے لئے جامع مسجد میں بیچ کے دروازے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت میں دیکھتا تھا کہ انوار الٰہی آپ پر نازل ہوتے ہیں اور آپ کی پیشانی سے شان نبوت عیاں تھی مگر میں اپنی عقیدت کو ظاہر نہیں کر سکا۔ خیرمیں یہ کتابیں لے کر چلاآیا۔ اور حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں آپ بہت خوش ہوئے ۔ اس پر دہلی والوںنے کہا تھا (ہولی ہے بھئی ہولی ہے پاس کتابوںکی جھولی ہے) تفسیر مظہری اور صحیح بخاری دستیاب نہ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں مولوی رحیم بخش صاحب فتح پور ی مسجد کے متولی تھے۔ وہ سیدامام علی شاہ رتڑ چھتڑ والوں کے خلیفہ تھے اور ان سے میرے والد صاحب مرحوم کے ،جبکہ والد صاحب گجرات میں بندوبست میں ملازم تھے ، سید امام علی شاہ صاحب سے بہت عمدہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ رحیم بخش صاحب سے جب میں نے اس تعلق کا اظہار کیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے اُن سے کتابیں طلب کیں۔ انہوںنے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمارے ہوکر مرزا صاحب کے ساتھ کس طرح ہیں۔ میںنے کہا کہ ان وہابیوں کی شکست ہماری فتح ہے ۔ کہنے لگے یہ بات تو ٹھیک ہے ۔ چنانچہ انہوںنے کتابیں دے دیں۔ وہ بھی لاکر میںنے حضور کو دے دیں۔ صحیح بخاری ابھی تک نہ ملی تھی۔ پھر حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو اسی اثناء میں حاجی پور سے دہلی آگئے تھے۔تو وہ اور میں مدرسہ شاہ عبد العزیز میں گئے۔ اور اس مدرسہ کے پاس میرے ماموں حافظ محمد صالح صاحب صدر قانون گودہلی کامکان تھا۔ وہاں جاکر ہم نے بخاری شریف کا آخری حصہ دیکھنے کے لئے مانگا۔ انہوںنے دے دیااور ہم لے آئے ۔مولوی بشیر احمد صاحب مباحثہ کے لئے آگئے۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا جس میں ایک کوٹھڑی تھی ۔ اس کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب اورعبد القدوس غیر احمدی ایڈیٹر صحیفہ قدسی اور ہم لوگ بیٹھے تھے ۔مولوی بشیر احمد آگئے ۔ ظاہراً بڑے خضرصورت تھے اور حضرت صاحب سے بڑے ادب اور تعظیم سے ملے اور معانقہ کیااور بیٹھ گئے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ یہ کوئی ہار جیت کا معاملہ نہیں ۔ یہیں بیٹھے ہوئے آپ سوال کریں۔ میں جواب دوں ۔ بات طے ہوجائے۔ مگر اس کو یہ حوصلہ نہ ہوا کہ حضور کے سامنے بیٹھ کر سوال وجواب کرسکتا۔ اُس نے اجازت چاہی کہ دالان میں ایک گوشہ میں بیٹھ کر لکھ لے ۔ دالا ن میں بہت سے آدمی مع علی جان والوں کے بیٹھے تھے ۔ حضور نے فرمایا ۔ بہت اچھا۔ سو وہ سوالات جو اپنے گھر سے لکھ کر لایا تھا ایک شخص سے نقل کرانے لگا۔ وہ بھی میرا واقف تھا ۔ مجدد علی خان اس کا نام تھا۔ میںنے ان سے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جب آپ سوال لکھ کر لائے ہیں تو دے دیں تاکہ حضور جواب لکھیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تونوٹ ہیں۔ حالانکہ وہ حرف بحرف نقل کر ا رہے تھے۔ دہلی والوںنے میرے خلاف شور کیا کہ آپ کیوں اس بارہ میں دخل دیتے ہیں ۔ مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آواز دی کہ آپ یہاں آجائیں ۔ میں چلا گیا۔ لیکن تھوڑی دیر میں اٹھ کر میں مولوی بشیر احمد صاحب کے پاس چلا گیا کہ دیکھوں انہوںنے ختم کیا ہے یا نہیں ۔ میںنے کہا مولوی صاحب پسے ہوئے کو پیسنایہ کوئی دانائی ہے؟ پھر مجھے مولوی عبد الکریم صاحب نے آوازیں دیں کہ تم یہاں آجاؤ۔ میں پھرچلا گیا۔ حضرت صاحب نے فرمایا آپ کیوں جاتے ہیں۔ تیسری دفعہ میں پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ پھر حضرت صاحب اوپراُٹھ کر چلے گئے ۔ اور میرے متعلق کہا کہ یہ بہت جوش میںہیں۔ جب وہ لکھ چکیں تو مجھے بھیج دینا۔ پھر جب وہ اپنا مضمون تیار کر چکے تو ہم نے حضرت صاحب کے پاس پہنچادیا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ تم یہیں کھڑے رہو ۔ دو ورقہ جب تیار ہوجائے ۔تو نقل کرنے کے لئے دوستوں کو دے دینا ۔
میں نے دیکھا کہ حضور نے اس مضمون پر صفحہ وار ایک اُچٹتی نظر ڈالی ۔ انگلی پھیرتے رہے اور پھرورق الٹ کر اُس پر بھی انگلی پھیرتے ہوئے نظر ڈال لی ۔ اسے علیحدہ رکھ دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پڑھا نہیں ۔ محض ایک سرسری نگاہ سے دیکھا ہے اور جواب لکھنا شروع کیا۔ جب دو ورقہ تیار ہوگیا۔ تو میں نیچے نقل کرنے کے لئے دے آیا۔ دو ورقہ کو ایک ایک ورق کر کے ایک مولوی عبد الکریم صاحب نے نقل کرنا شروع کیااور ایک عبد القدوس نے ۔ اس طرح میں اوپر سے جب دو ورقہ تیار ہوتا لے آتا اور یہ نقل کرتے رہتے۔ حضرت صاحب اس قدر جلدی لکھ رہے تھے کہ ایک دو ورقہ نقل کرنے والوں کے ذمہ فاضل رہتا تھا۔ عبد القدوس جو خود بہت زود نویس تھا حیران ہوگیا۔ اور ہاتھ لگا کر سیاہی کو دیکھنے لگا کہ پہلے کا تو لکھا ہوا نہیں۔ میں نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ جواب پہلے سے لکھا ہو۔
غرض اس طرح جھٹ پٹ آپ نے جواب لکھ دیا اور ساتھ ہی اس کی نقل بھی ہوتی گئی۔ میںنے مولوی بشیر احمد کو وہ جواب دے دیا کہ آپ اس کا جواب لکھیں۔ اس نے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ملنا چاہتا ہوں ۔ ہم نے تو نہیں مگر کسی نے حضرت صاحب کو اطلاع کر دی کہ مولوی بشیر احمد صاحب ملنا چاہتے ہیں ۔ حضور فوراً تشریف لے آئے اور مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں کل کو جواب لکھ لاؤ ں گا۔ آپ نے خوشی سے اجازت دے دی ۔ حضرت صاحب تو اوپر تشریف لے گئے ۔ مگر ہم ان کے پیچھے پڑ گئے کہ یہ کوئی بحث ہے ۔ اس طرح تو آپ بھوپال میں بھی کر سکتے تھے۔ جب بہت کش مکش اس بارہ میں ہوئی تو دہلی والوں نے کہا کہ جب مرز اصاحب اجازت دے گئے ہیں تو آپ کو روکنے کاکیا حق ہے ۔ ہم تو خود سمجھ گئے ہیں کہ یہ بالمقابل بیٹھ کر بحث نہیں کر سکتے۔ پھر ہم نے مولوی صاحب کوچھوڑ دیا۔ آخری مباحثہ تک مولوی بشیر احمد صاحب کا یہی رویہ رہا۔کبھی انہوں نے سامنے بیٹھ کر نہیں لکھا۔ اجازت لے کر چلے جاتے۔ ایک مولوی نے مولوی بشیر احمد صاحب کو کہا کہ بڑی بات آپ کی بحث میں نونِ ثقیلہ کی تھی مگر مرز اصاحب نے تو نون ثقیلہ کے پل باندھ دئیے۔
بحث ختم ہونے پر چلتے چلتے مولوی بشیر احمد ملنے آئے اور حضرت صاحب سے کہا میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے ۔ آپ کو جو اس بحث کے لئے تکلیف دی ہے میں معافی چاہتا ہوں ۔ غرض کہ وہ حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے۔
{1133} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام واپس تشریف لے گئے ۔ میں کتابیں واپس کرنے کے لئے ایک روز ٹھہر گیا۔ جسے کتابیں دینے جاتا وہ گالیاں نکالتا۔ مگر میں ہنس پڑتا۔ اس پر وہ اور کوستے۔ چونکہ ہمیں کامیابی ہوئی تھی اس لئے ان کی گالیوں پر بجائے غصے کے ہنسی آتی تھی اور وہ بھی بے اختیار ۔
{1134} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دہلی میں جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف فرما تھے۔تو ایک دن حضور شاہ ولی اللہ صاحب کے مزار پر تشریف لے گئے ۔ فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ یہ اپنے زمانے کے مجدد تھے۔
{1135} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اجازت بھی دے دی ۔ پھر فرمایا کہ ٹھہر جائیں ۔ آپ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا یہ پی لیں ۔ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آگئے۔ پھر اُن کے لئے حضور دودھ کا گلاس لائے اور پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لائے۔ اور بہت دفعہ حضور نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لاتے تھے۔
{1136} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی آدمی آپ سے ملنے آتا اور آواز دیتا تو میں یا کوئی اور دوسرا آپ کو اطلاع دیتا کہ کوئی آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ تو آپ کی یہ حالت ہوتی کہ آپ فوراً باہر تشریف لے آتے۔
{1137} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار نے پٹیالہ میں خواب دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں۔ دن کا وقت ہے۔ حضرت مولوی صاحب والے کمرے سے باہر نکلا ہوں کہ میرے دل میں آیا کہ اب کی دفعہ جو پٹیالہ جاؤں تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کروں۔ جب چوک میں پہنچا تو کسی شخص نے کہاکہ حضرت صاحب مسجد اقصیٰ کی چھت پر تشریف فرماہیں ۔ میری خواہش ہوئی کہ حضرت صاحب سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں تاکہ ویسا ہی تیار کروا کر بھیج دیا جائے ۔ یہ بات دریافت کرنے کے لئے خاکسارمسجد کی چھت پر چڑھ گیا۔ دیکھا حضرت صاحب تشریف فرماہیں۔ اور آپ کے ایک طرف خواجہ کمال الدین صاحب بیٹھے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک اور شخص بیٹھا تھا جس کو میںنہیں جانتا تھا۔ خاکسار سامنے جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں کچھ عرض کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اب کی دفعہ جو تم پٹیالہ جاؤ۔توہمارے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کرنااور جو چوغہ اس وقت حضور نے پہنا ہوا تھا۔ اس کے گریبان کے نیچے سے دونوں اطراف دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور اُن کو ملا کر فرمایا کہ ایسا ہو کہ جو سردی سے محفوظ رکھے۔ خاکسار نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ حضورابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ نیچے چوک میں مجھ کو یہی خیال آیا تھا کہ اس دفعہ پٹیالہ جانے پرایک چوغہ حضورکے لئے بنو اکر روانہ کروں اور حضور کے تشریف فرما ہونے کی اطلاع پر اس ارادہ سے حاضر ہو اتھا کہ حضور سے دریافت کروں کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ابھی میں عرض بھی کرنے نہ پایا تھا کہ حضور نے خود ہی فرمادیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایاکہ یہ درست ہے ۔ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بعض اوقات اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے اشخاص کے قلوب پر القا کرتا ہے ۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں پٹیالہ میں ہی ہوں ۔ چونکہ سرما کا موسم تھا۔ خاکسار نے اسی خیال سے کہ اس خواب کی جوکوئی اور تعبیر خد اکے علم میں ہو وہ ہو۔ لیکن ظاہری الفاظ کے مطابق مجھے ایک چوغہ تیار کروا کر روانہ کرنا چاہئے ۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے اندر ایک گرم کشمیر کا چوغہ قطع کرا کر اور اس کے ہر چہار طرف اُسی رنگ کی ریشمی ڈوری کاکام نکلوا کر جسم مبارک کا اندازہ درزی کو بتا کر ایک چوغہ تیار کروا کر بذریعہ پارسل ڈاک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کو روانہ کردیا۔ اور خط میں مفصل لکھ دیا کہ ایک خواب کی ظاہری تعبیر پورا کرنے کے خیال سے ایسا کیا گیاہے ۔ آپ پارسل پہنچنے پر یہ چوغہ میری طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے مجھے تحریر فرمایا کہ پارسل پہنچنے پر فوراً حضرت صاحب کی خدمت میں وہ پارسل خود لے جاکر پیش کیا۔ حضور نے فرمایا اسے کھولو ۔ جب چوغہ نکالا گیا تو حضور نے فوراً کھڑے ہوکر اپنا پہلا چوغہ اُتار کر اس مرسلہ چوغہ کو زیب تن کیا۔ اورمولوی صاحب سے فرمایاکہ خد ا کی کیا شان ہے کہ اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے لوگوں کے قلوب پرالقا فرمادیتا ہے ۔ فی الواقعہ ہمارا یہ چوغہ اس قدر میلا ہوگیا تھا کہ جب کپڑے بدلتے تو چوغہ پہننے کو دل نہ چاہتا۔ اور اردہ کرتے کہ جلدکوئی چوغہ نیا تیار کروائیں گے۔ مگر پھر سلسلہ کی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے سہو ہوجاتا۔ پھر بٹنوں کو دیکھ کرفرمایا۔ کہ مولوی صاحب اس نے یہ کیسی عقل کی بات کی ہے کہ باوجود چوغہ کی طرح لمبا ہونے کے آگے بٹن لگوا دئیے ہیں۔ تاسردی سے بچاؤ ہو۔پرانی قسم کے چوغوں میںمجھے یہ بات نا پسند ہے کہ سب سے اوپر کا کپڑاآگے سے کھلا ہوا ہوتاہے۔ جس سے سردی سے حفاظت نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ مولوی صاحب تعجب تو یہ ہے کہ بدن پر ایسا درست آیا ہے کہ جیسے کسی نے ناپ لے کر بنوایا ہو۔ مولوی صاحب نے آخر میں خاکسار کو یہ بھی لکھا کہ آپ کاخواب صحیح اور تعبیر بھی ٹھیک ثابت ہوئی۔ کیونکہ جو الفاظ اس بارہ میں حضور نے فرمائے تھے۔ بالکل وہی الفاظ چوغہ پیش کرنے پر فرمائے ۔ خد اتعالیٰ نے آپ کی سعی کو مشکور فرمایا ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ کرم الٰہی صاحب نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو فوٹو ولایت روانہ کرنے کے لئے حکیم محمدکاظم فوٹو گرافر انار کلی لاہور کا تیار کردہ ہے جس میں حضور نے بٹن والا چوغہ نما لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے وہ وہی ہے ۔
{1138} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک دفعہ الہام ہوا کہ تمہارا اور تمہارے ساتھی کا کچھ نقصان ہوگا۔ تو حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا کہ مجھے اس طرح الہام ہوا ہے دعا کرنا۔ چند دن بعد آپ حافظ حامد علی صاحب کو ہمراہ لے کر پیدل ہی گاؤں کے راستہ سے گورداسپور تشریف لے گئے تو راستہ میں کسی بیری کے نیچے سے حافظ صاحب نے کچھ بیر اُٹھا کر کھانے شروع کر دئیے۔ تو حضرت جی نے فرمایا کہ یہ کس کی بیری ہے ۔ حافظ صاحب نے کہا کہ پتہ نہیں۔ جس پر حضرت جی نے فرمایا کہ پھر بغیر اجازت کے کس طرح کھانا شروع کردیا جس پر حافظ صاحب نے وہ سب بیر پھینک دئیے اور آگے چل دئیے ۔ اس سفر میں حضرت صاحب کا روپوں والا رومال اور حافظ صاحب کی چادر گم ہوگئی۔
{1139} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر تشریف لے جارہے تھے ۔ کرنا کھلا ہوا تھا اور بہت مہک رہا تھا ۔ آپ نے فرمایا ! کہ دیکھو کرنا اور کہنا اس میں بڑا فرق ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔پنجاب میں کہنا مکڑی کو کہتے ہیں (یعنی کرنا خوشبودار چیز ہے اور کہنا ایک مکروہ چیز ہے )
{1140} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ بارش ہوکر تھمی تھی ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام باہر سیر کو جارہے تھے ۔ میاں چراغ جو اس وقت لڑکا تھا اور بہت شوخ تھا۔ چلتے چلتے گر پڑا ۔ میں نے کہا اچھا ہوا۔ یہ بڑا شریر ہے ۔ حضرت صاحب نے چپکے سے فرمایا کہ بڑے بھی گر جاتے ہیں ۔یہ سن کر میرے تو ہوش گم ہوگئے اور بمشکل وہ سیر طے کر کے واپسی پر اُسی وقت اندر گیا جبکہ حضورواپس آکر بیٹھے ہی تھے ۔ میں نے کہاحضور میرا قصور معاف فرمائیں ۔ میرے آنسو جاری تھے ۔ حضور فرمانے لگے کہ آپ کو تو ہم نے نہیں کہا ۔ آپ تو ہمارے ساتھ ہیں ۔
{1141} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرعباس علی صاحب لدھیانوی بہت پرانے معتقد تھے ۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اصطلاح صوفیاء میں معنے دریافت کرتے رہتے تھے۔ اور تصوف کے مسائل پوچھتے تھے۔ اس بارہ میں حضرت صاحب نے کئی مبسوط خطوط انہیں لکھے تھے جو ایک کتاب میں انہوںنے نقل کر رکھے تھے۔ اور بہت سی معلومات ان خطوط میں تھی گویا تصوف کا نچوڑ تھا۔ میر عباس علی صاحب کا قول تھا کہ انہوںنے بے وضو کوئی خط نقل نہیں کیا۔ حضرت صاحب نے براہین احمدیہ کے بہت سے نسخے میر صاحب کو بھیجے تھے اور لکھا تھا کہ یہ کوئی خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ۔ آپ اپنے دوستوں کو دے سکتے ہیں ۔ چونکہ میرا ا ُن سے پرا نا تعلق تھا۔ میں اُن سے وہ خطوط والی کتاب دیکھنے کو لے آیا۔ ابھی وہ کتاب میرے پاس ہی تھی کہ میر صاحب مرتد ہوگئے۔ اس کے بعد کتاب مذکور کا انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا۔ میں نے نہ بھیجی ۔ پھر انہوںنے حضرت صاحب سے میری شکایت کی کہ کتاب نہیں دیتا۔ حضرت صاحب نے مجھے لکھا کہ آپ ان کی کتاب ان کو واپس کر دیں ۔ میں خاموش ہوگیا۔ پھر دوبارہ میر صاحب نے شکایت کی۔ اور مجھے دوبارہ حضور نے لکھا۔ اُن دنوں ان کے ارتداد کی وجہ سے الہام ’’ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ ‘‘ پر مخالفین بہت اعتراض کرتے تھے۔ میں قادیان گیا ۔ مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کی موجودگی میں حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ اُن کی کتاب کیوں نہیں دیتے۔ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے عرض کی کہ حضور کی ضمانت پر تو اُس نے کتاب نہیں دی تھی(بعض دفعہ عبد اللہ سنوری صاحب اور میں حضرت صاحب سے اس طرح بے تکلف باتیں کر لیا کرتے تھے ۔ جس طرح دوست دوست سے کر لیتا ہے اور حضور ہنستے رہتے) اور میں نے عرض کی کہ اتنا ذخیرہ عرفان ومعرفت کا اس کتاب کے اندر ہے، میں کس طرح اسے واپس کردوں ۔ حضور نے فرمایا واپس کرنی چاہئے ۔ آپ جانیں وہ جانیں۔ اس کے بعد میں کپور تھلہ آیا ۔ ایک دن وہ کتاب میں دیکھ رہا تھاتو اس میں ایک خط عبا س علی کے نام حضرت صاحب کا ،عباس علی کے قلم سے نقل کردہ موجود تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کسی وقت مرتد ہوجائیں گے ۔ آپ کثرت سے توبہ واستغفار کریں اور مجھ سے ملاقات کریں۔ جب یہ خط میں نے پڑھاتو میں فوراً قادیان چلاگیا۔ اور حضور کے سامنے وہ عبارت نقل کردہ عباس علی پیش کی ۔ فرمایا !یہی سِرّتھا جو آپ کتاب واپس نہیں کرتے تھے۔ پھر وہ کتاب شیخ یعقوب علی صاحب نے مجھ سے لے لی ۔
{1142} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی میں قیام فرماتھے ۔ اور وہاں کے لوگوں نے تجویزکی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت صاحب سے بحث کریں ۔ تو مولوی نذیر حسین نے بحث کرنے سے انکار کردیا۔حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو خط لکھا تھا۔ کہ میں جامع مسجد میں عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر دلائل بیان کروںگا۔ آپ اگر قسم کھا کرکہہ دیں کہ یہ صحیح نہیں ہیں تو پھر ایک سال کے اندر اگر آپ پر عذاب نہ آئے تو میں خد اکی طرف سے نہیں۔ اس کا جواب مولوی نذیر حسین نے کوئی نہ دیا ۔ جواب نہ آنے پر حضور نے ایک دوسرا خط لکھا جو محمد خان صاحب اور خاکسار لے کر مولوی نذیر حسین کے پاس گئے ۔ اس میں حضور نے لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد میں پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نہ آئے تو خدا کی *** ہوگی۔ یہ خط جب ہم لے کر گئے تو مولوی نذیر حسین نے ہمیں کہا کہ تم باہر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس چل کر بیٹھو ۔ خط انہیں دے دو۔ میں آتاہوں۔ مولوی محمد حسین نے وہ خط کھول لیا۔ پھر مولوی نذیر حسین صاحب آگئے۔ اور انہوںنے مولوی محمد حسین سے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے ۔ مولوی محمد حسین نے کہا میں سنا نہیں سکتا۔ آپ کو بہت گالیاں دی ہیں۔ اس وقت ایک دہلی کا رئیس وہاں بیٹھا تھا ۔ اور اس نے بھی مولوی محمد حسین کے پاس بیٹھے وہ خط پڑھ لیا تھا۔ اس نے کہا ۔ خط میں تو کوئی گالی نہیں ۔ مولوی نذیر حسین نے اسے کہا۔ تو بھی مرزائی ہوگیا ہے ۔ وہ پھرچپ ہوگیا۔ پھر ہم نے مولوی نذیر حسین سے کہا۔ آپ نے جو کچھ جواب دینا ہو دے دیں۔ مولوی محمد حسین نے کہا ہم کوئی جواب نہیں دیتے۔ تم چلے جائو۔ تم ایلچی ہو۔ خط تم نے پہنچادیا ہے ۔ ہم نے کہا ہم جواب لے کر جائیں گے۔ پھر لوگوں نے کہا۔ جانے دو۔ غرض انہوںنے جواب نہیں دیا۔ اور ہم نے سارا واقعہ حضرت صاحب کے پاس آکر عرض کردیا۔ اگلے دن ہم سب جامع مسجد میں چلے گئے۔ ہم بارہ آدمی حضرت صاحب کے ساتھ تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ محمد خان صاحب ، شیخ رحمت اللہ صاحب ، منشی اروڑا صاحب ، حافظ حامد علی صاحب ، مولوی عبد الکریم صاحب ۔ محمد سعید صاحب جو میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے تھے اور خاکسار ۔ باقیوں کے نام یاد نہیں رہے ۔ جامع مسجد کے بیچ کے دروازہ میں ہم جاکر بیٹھ گئے۔ حضرت صاحب بھی بیٹھ گئے۔ یہ یاد پڑتا ہے کہ سید امیرعلی اور سید فضیلت علی سیالکوٹی بھی تھے۔ دروازے کے دائیں طرف یعنی دریچے کی طرف ہم تھے۔ اور فرش کے ایک طرف مولوی نذیر حسین اور مولوی محمد حسین آٹھ سات آدمی تھے۔ تمام صحن مسجد کا لوگوں سے پُر تھا۔ ہزاروں آدمی تھے۔ انگریز کپتان پولیس آیا۔ کثرت ہجوم کی وجہ سے وہ گھبرایا ہو اتھا۔ اس نے حضرت صاحب سے آکر پوچھا کہ آپ کا یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟ شیخ رحمت اللہ صاحب نے انگریزی میں اس سے ذکر کیا کہ یہ غرض ہے کہ حضرت صاحب دلائل وفات عیسیٰ بیان کریں گے اور نذیر حسین قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ صحیح نہیں ۔ وہ پھر نذیر حسین کے پاس گیا۔ اور اُن سے پوچھا کہ تمہیں ایسی قسم منظور ہے ۔ اس نے کہا کہ میں قسم نہیں کھاتا۔ اس نے آکر حضرت صاحب سے بیان کیاکہ وہ آپ کے دلائل سن کر قسم کھانے پر آمادہ نہیں۔اس لئے آ پ چلے جائیں۔ حضرت صاحب چلنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ میں نے حضور کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی کہ حضور ذرا ابھی ٹھہر جائیںاور میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے کہا کہ آپ کپتان پولیس سے کہیں کہ پہلے فریق ثانی جائے پھر ہم جائیں گے۔ پھر اس نے انہیں کہا۔اس پر وہ مصر ہوئے کہ پہلے ہم جائیں۔ غرض اس بارہ میں کچھ قیل قال ہوتی رہی۔ پھر کپتان پولیس نے قرار دیا کہ دونوں ایک ساتھ اُٹھ جائیں اور ایک دروازے سے وہ اور دوسرے سے ہم چلے جائیں۔ غرض اس طرح ہم اُٹھے ۔ ہم بارہ آدمیوںنے حضرت صاحب کے گردحلقہ باندھ لیا۔ اور ہمارے گرد پولیس نے ۔ اس وقت دہلی والوںنے اینٹ پتھر بہت پھینکے ۔ نذیر حسین پر بھی اور ہم پر بھی۔ ہم دریچے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے ۔ تو ہماری گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹا دی تھی۔ کپتان پولیس نے ایک شکرم میں ہمیں سوار کرادیا۔ کوچ یکس پر انسپکٹر پولیس ، دونوں پائیدانوں پر دو سب انسپکٹر اور پیچھے سپاہی گاڑی پر تھے۔ گاڑی میں حضرت صاحب ، محمد خان صاحب ، منشی اروڑا صاحب ،خاکسار اور حافظ حامدعلی صاحب تھے۔ پھر بھی گاڑی پراینٹ پتھر برستے رہے ۔ جب ہم چلے تو مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے۔ محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد لوگ جمع ہوگئے تھے جو محمد خان صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خان صاحب مولوی صاحب کو لے آئے ۔
{1143} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار دارالامان میں چند روز سے وارد تھا۔ کہ ایک شام کو نما زمغرب کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرماتھے۔ پانچ سات خدام سامنے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔ حضرت مولوی صاحب عبد الکریم صاحب مرحوم اس چھت کی شرقی سمت ذرا فاصلہ پر کھڑے ٹہل رہے تھے۔ وہاں سے وہ حضرت صاحب کی طرف آئے ۔ ابھی بیٹھے نہ تھے کہ حضرت صاحب سے مخاطب ہوکر اور خاکسار کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ یہ پٹیالہ والاشیخ جو حضور کے سامنے بیٹھا ہے ۔ ’’ایہہ ساتھوں گھٹ نیچری نہیں رہیاجے‘‘ یعنی یہ ہم سے کم نیچری نہیں رہااور اس نے سرسید کی بہت سی کتابیں دیکھی ہیں۔ یہ حضور کی کشش ہے جو اس کو یہاں کھینچ لائی ورنہ یہ لوگ کسی کے قابو نہیں آنے والے تھے۔ یہ سن کر میں حیران رہ گیا کہ مولوی صاحب کو اس وقت حضور سے ایسا کہنے کی کیا سوجھی۔ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کا یہ کلام سن کر معاًخاکسارکی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اگر آپ نے سید صاحب کی کتابیں دیکھی ہیں تو بتاؤ آپ کو تصانیف میں سے کون سی کتابیں زیادہ پسند اور مرغوب خاطر ہوئیں۔ خاکسار نے تھوڑے تأمل کے بعد عرض کیا کہ اپنی کم علمی اور استطاعت کے باعث خاکسار سید صاحب کی کل تصانیف تو نہیں دیکھ سکا البتہ کوئی کتاب کسی صاحب سے مل گئی تو دیکھ لی یا ان کے چھوٹے چھوٹے رسالے منگا کر بھی دیکھے ہیں۔ اخبار تہذیب الاخلاق جو ایک ماہواری رسالہ کی صورت میں علی گڑھ سے شائع ہوتا تھا جس میں سید صاحب مرحوم اور مولوی چراغ علی حیدر آباد ی مرحوم اور نواب مہدی علی خان صاحب مرحوم کے مضامین ہوتے تھے۔ اس کا کئی سال خاکسار خریدار بھی رہا ہے اور اس کی پچھلی جلدوں کے فائل منگوا کر بھی دیکھے ہیں۔ سید صاحب کی تصانیف میں خطبات احمدیہ اور تبیین الکلام مجھے زیادہ پسند آئیں ۔ پہلی کتاب میں سید صاحب نے اپنے قیام لندن کے وقت قرآن مجید کی بعض آیات پر جو عیسائیوں نے اعتراض کئے تھے وہاں میوزیم کے پرانے کتبے اور قدیم اسناد سے ان کے جوابات دئیے ہیںجو ایک اہم اسلامی خدمت ہے ۔ ایسا ہی دوسری کتاب میں صفحات کے تین کالم بنا کر ایک میں توریت ۔ دوسرے میں انجیل اور تیسرے میں قرآن مجید کی متحد المضامین آیات درج کی ہیں جس سے اُن کی غرض یہ ثابت کرنا ہے کہ جب وہی مضامین ان کی مسلمہ الہامی کتب میں ہیں تو قرآن مجید کے الہامی ہونے سے اُن کو انکار کا کیا حق حاصل ہے؟ خاکسار کی یہ گفتگو سن کر حضرت صاحب نے فرمایا۔ سید صاحب کی مصنفہ کتب آپ نے کیوں دیکھیں۔ خاکسار نے ذرا تأمل کے بعد عرض کیاکہ ایک پڑھا لکھا گھرانہ ہونے اور اکثر ذی علم اشخاص کی آمد ورفت اور علمی اور اخبار ی تذکروں کے ہمیشہ سنتے رہنے کی وجہ سے طبیعت کی افتاد ہی کچھ ایسی پڑ گئی تھی کہ سکول میں سیروغیرہ میں جو ہم جماعت ، ہم عمر لڑکے ملتے ۔ بعض اوقات ان کے کسی مذہبی عقیدہ پر اعتراض کیا جاتا اور وہ اگر کسی اسلامی عقیدہ پر اعتراض کر دیتے تو ان کو جواب دینے کی کوشش کرتے۔ وہ لوگ چونکہ اپنے بڑوں سے سنے ہوئے فلسفہ یا سائنس کے تحت میں اعتراض کرتے تو بعض اوقات اپنا جواب خود بہت پست اور عقل کے خلاف معلوم ہوتا۔ اگر پرانی قسم کے مولویوں سے اس کے متعلق استفسار کرتے تو وہ جواب دینے کی بجائے ایسے بحث ومباحثہ سے منع کر دیتے۔ یہ بات بس کی نہ تھی ۔ آخر جب سید صاحب کے اشخاص سے اس کا ذکر آتا تو وہ بحوالہ تصانیف سر سید ایسا جواب دیتے جو بظاہر معقول دکھائی دیتا۔ اس وجہ سے سید صاحب کی کتب کو دیکھنے کا شوق پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تصانیف بھی کبھی آپ نے دیکھی ہیں ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ حضور عربی کتب تو خاکسار نہیں دیکھ سکا البتہ جو کتابیں اردو میں شائع ہوتی ہیں ان کو میں اکثر منگا کر دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ اچھا یہ بتاؤ کہ ہماری تعلیم اور سید صاحب کی تعلیم میں آپ نے کیا فرق اور امتیاز محسوس کیا ۔ حضور کے اس سوال پر ایک تردد سا پیدا ہوا اور دل میں خیال آیا۔ کہ مولوی صاحب نے آج امتحان کا پرچہ ہی دلا دیا۔ اور بعد تأمل کے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ جیسا محدود العلم اس فرق کو کیا بیان کرسکتا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ ہماری غرض کوئی علمی فرق یا عالمانہ رائے دریافت کرنے کی نہیں بلکہ صرف یہ بات معلوم کرنی چاہتے ہیں کہ ہر دو تصانیف کے مطالعہ سے جو کیفیت آپ کے دل نے محسوس کی اس میں آپ کیا تمیز کرتے ہیں۔ کچھ دیر تأمل کرنے کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ فلسفیانہ اعتراضات کے جوابات جو سید صاحب نے دئیے ہیں ۔ ان کا نتیجہ بطور مثال ایسا ہے جیسے ایک پیاسے کو پانی کی تلاش میں جنگل میں کہیں تھوڑا ساپانی مل جائے جس کے دو چار گھونٹ پی کر صرف اس کی جان کنی کی مصیبت سے بچ جائے اور بس۔ لیکن حضور کے کلام کا یہ عالم ہے کہ جیسے پیاسے کے لئے دودھ کا گلاس جس میں برف اور کیوڑہ پڑا ہوا ہو۔ وہ مل جائے ۔ اور وہ سیر ہو کر مسرور اور شادماں ہوجائے ۔ یہ سن کر حضور نے فرمایا کہ اچھا کوئی مسئلہ بطور مثال بیان کرو ۔ اس کے جواب میں خاکسار کو زیادہ متردد اور پریشان دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ جلدی نہیں۔ آپ سوچ کر جواب دیں۔ تھوڑی دیر سکوت کے بعد خاکسار نے عرض کیا کہ مثلاً معراج کا واقعہ ہے جب کوئی اس پر معترض ہوتا اور اس کے خلاف عقل ہونے کا ادعا کرتا تو جواب میں بڑی مشکل پیش آتی تھی کہ اس کو کیا سمجھائیں کہ براق کس اصطبل سے آیا تھا اور پھر وہ اب کہاں ہے اور وہ پرند۔ چرند اور ساتواں آسمان اور عرش معلیٰ کی سیر اور انبیاء سے مکالمات اور عرصہ واپسی اتنا کہ ابھی دروازہ کی زنجیر متحرک تھی۔ اور بستر جسم کی حرارت سے ابھی گرم تھا۔ لیکن سید صاحب کی تصانیف سے معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک خواب تھا ۔ خواب میں خواہ کچھ سے کچھ عجائبات بلکہ ناممکنات بھی دیکھ لے تو ازروئے فلسفہ کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس لئے معترض سے جان تو چھوٹ جاتی مگر اپنے دل میں معراج کی جو وقعت اور منزلت ہوتی وہ بھی ساتھ ساتھ اُٹھ جاتی بلکہ سائل اور مجیب ایک ہی رنگ میں ہوجاتے تھے۔ لیکن حضور کی تفہیم کے مطابق معراج ایک عالم کشف تھا جس کے مظاہر تعبیر طلب اور اعلیٰ پیشگوئیوںاور اخبار غیب کے حامل ہوتے ہیں۔ جس سے معراج کی توقیر اور قدرومنزلت میں بھی فرق نہیں آنے پاتا اور معترض کوعالم کشف اور روحانی تأثرات سے اپنی لاعلمی کا احساس کرنا پڑتا ہے ۔ ایسا جواب وہی دے سکتا ہے جو خود صاحب حال اور اس سے بہروَر ہو۔ اس پر حضور نے ایک بشاش انداز میں حضرت مولوی صاحب کو مخاطب فرمایاکہ مولوی صاحب یہ سب سوالات میں نے آپ کی خاطر کئے ہیں تاآپ کو معلوم ہوجائے کہ چونکہ ان کو ایک بات کی تلاش اور دل میں اس کے لئے تڑپ تھی اس لئے خدا نے آیت وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) ‘‘کے مطابق ان کو اپنے مطلوب تک پہنچادیا۔ بڑی مشکل یہی ہے کہ لوگوں میں حق کی تلاش ہی نہیں رہی ۔ اور جب خواہش اور تلاش ہی کسی شخص کے دل میں نہ ہوتو اچھے اور برے کی تمیز کیسے ہو۔
{1144} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اور دوبارہ نکاح کرادیا۔ اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ اس کے بعد آپ ایک جگہ پیشاب کرنے لگے تو مہر علی ساکن کرالیاں کو کہا کہ مجھے کوئی ڈھیلا دو۔ تو اس نے کسی دیوار سے ایک روڑا توڑ کردے دیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ یہ ڈھیلا کہاں سے لیا۔ تو اس نے کہا کہ فلاں دیوار سے ۔ آپ نے فرمایا جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو۔ بغیر اجازت دوسرے کی چیز نہیں لینی چاہئے ۔
{1145} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا ایک دفعہ قحط پڑا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین سے روپیہ قرض لیا اور گندم خرید کی اور گھر کا خرچ پورا کیا اس کے بعد آپ نے چوہدری رستم علی صاحب سے حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ سے ۵۰۰ روپیہ منگوایااور کچھ گھی کی چاٹیاں منگوائیں۔ روپیہ آنے پر آپ نے حضرت ام المومنین کا قرض ادا کر دیا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حافظ صاحب تھیلیوں کے تھیلے روپوں کے لایا کرتے تھے ۔ جن کی حفاظت رات کو مجھے کرنی پڑتی تھی۔
{1146} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ حضرت ام المومنین بعض دفعہ حافظ صاحب کے متعلق حضرت جی سے شکایت کرتیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں سودے میں حافظ صاحب نے کچھ پیسے رکھ لئے ہیں ۔ جس پر ہمیشہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب ایسے نہیں ۔ ہاں سودا مہنگا لائے ہوں گے ۔
{1147} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے عید الاضحی کے روز مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں الہاماًچند الفاظ بطور خطبہ عربی میں سنانا چاہتا ہوں ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب دونوں صاحب تمام و کمال لکھنے کی کوشش کریں ۔ یہ فرما کر آپ نے خطبہ الہامیہ عربی میں فرمانا شروع کردیا۔ پھر آپ اس قدر جلدی بیان فرمارہے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہورہا تھا اور ہم نے اس خطبہ کا خاص اثر یہ دیکھا کہ سب سامعین محویت کے عالم میں تھے اور خطبہ سمجھ میں آرہا تھا۔ ہر ایک اس سے متاثر تھا ۔ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض دفعہ الفاظ کے متعلق پوچھ کر لکھتے تھے۔ ایک لفظ خناطیل مجھے یاد ہے کہ اس کے متعلق بھی پوچھا ۔ خطبہ ختم ہونے پر جب حضور مکان پرتشریف لائے تو مجھے اور مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور میر حامد شاہ صاحب ہم تینوں کو بلایااور فرمایا کہ خطبہ کا جو اثر ہوا ہے اور جو کیفیت لوگوں کی ہوئی ہے ۔ اپنے اپنے رنگ میں آپ لکھ کر مجھے دیں۔ مولوی عبد اللہ صاحب اور میر صاحب نے تو مہلت چاہی لیکن خاکسار نے اپنے تاثرات جو کچھ میرے خیال میں تھے اسی وقت لکھ کر پیش کر دئیے۔ میں نے اس میں یہ بھی لکھا کہ مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب بعض الفاظ دوران خطبہ میں دریافت فرماتے رہے ۔ وغیرہ۔ حضور کو میرا یہ مضمون بہت پسند آیا اس میں لوگوں کی محویت کا عالم اور کیفیت کا ذکرتھاکہ باوجود بعض لوگوں کے عربی نہ جاننے کے وہ سمجھ میں آرہا تھا۔ حق بات یہ ہے کہ اس کا عجیب ہی اثر تھا جو ضبط تحریر میں نہیں آسکتا ۔ دوران خطبہ میں کوئی شخص کھانستا تک نہیں تھا۔ غرض حضرت صاحب کو وہ مضمون پسند آیا اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بلا کر خود حضور نے وہ مضمون پڑھ کر سنایااور فرمایا کہ میں چاہتاہوں کہ خطبہ کے ساتھ اس مضمون کو شائع کردو۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ حضور اس نے تو ہمیں زندہ ہی دفن کردیا ہے ۔ (مولوی عبد الکریم صاحب کی خاکسار سے حد درجہ دوستی اور بے تکلفی تھی) حضرت صاحب نے ہنس کر فرمایا۔اچھا ہم شائع نہیں کریںگے۔ پھر میں کئی روز قادیان میں رہا اور خطبہ الہامیہ کا ذکر اذکار ہوتا رہا۔ مولوی عبد الکریم صاحب عربی زبان سے بہت مذاق رکھتے تھے۔ اس لئے خطبہ کی بعض عبارتوں پر جھومتے اور وجد میں آجاتے تھے اور سناتے رہتے تھے اور اس خطبے کے بعض حصے لکھ کر دوستوں کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔
{1148} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیالکوٹ میں ایک ماہ تک ٹھہرے رہے ۔ حضور کا وہاں لیکچر تھا ۔ عبدالحمید خاں صاحب ، مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی اور خاکسار لیکچر والے دن پہنچے ۔ تقریر کے ختم ہونے پر میں نے جاکر مصافحہ کیا۔ گاڑی کا وقت قریب تھا۔ اس لئے رخصت چاہی ۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا اب آپ کو ایک ماہ کے قریب یہاں ٹھہرے ہوئے ہوگیا ہوگا۔ اچھا اب آپ گھر جائیں۔ جب میں اجازت لے کر نیچے اُترا تو سید حامد شاہ صاحب نے کہا کہ ایک مہینے کی خدمت کا ثواب آپ نے لے لیا۔ گویا حضور کے نزدیک آپ ایک مہینہ سے آئے ہوئے ہیں۔اور میر حامد شاہ صاحب نے یہ بھی ذکرکیا کہ ایک عورت خادمہ حضور کو کھاناکھلاتی رہتی اور اس کے اولاد نہ تھی۔ اس لئے دعا کے لئے عرض کرتی رہی ۔ ایک دفعہ پھر جو اس نے دعا کے لئے دس پندرہ دن بعد عرض کی ۔ تو حضور نے فرمایا تم کہاں رہی تھیں ۔ اس نے کہا میں تو حضور کو دونوں وقت کھانا کھلاتی ہوں ۔فرمانے لگے اچھاتم کھانا کھلانے آیا کرتی ہو۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کو ایسا انہماک کبھی کبھی خاص استغراق کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ ہمیشہ یہ کیفیت نہ ہوتی تھی۔ گو ویسے حضرت صاحب کی یہ عام عادت تھی کہ آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر ادھر ادھر زیادہ نہیں دیکھا کرتے تھے ۔
{1149} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عہد مبارک میںایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیاجواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے) ۔ مولوی انوار حسین صاحب شاہ آبادی اس خط وکتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا ۔ تو میںنے حضرت صاحب سے جاکر عرض کر دی ۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصرجب حضور معمولاً مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کااظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں ۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔
{1150} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا۔ کہ میں اکثر دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو کھانا پکا کر کھلاتی تھی ۔ جس دن کوئی اچھا کھانا ہوتا تو آپ اس پر بہت خوش ہوتے۔ اور اُس دن مجھے اس میں سے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتے۔ اور میں وہ کھانا بعض دفعہ خود کھا لیتی اور اکثر دفعہ حافظ حامد علی صاحب کو دے دیتی ۔
{1151} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم مختارعام سنور ریاست پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اس وقت میری عمر قریباً۵۴سال کی ہے ۔ میں گو بہت چھوٹی عمر کا بچہ تھا اور ابھی بولنے نہیں لگاتھا۔ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ہمارے گھر سنور تشریف لائے تھے۔ مجھے اس وقت کا نظارہ صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی شخص آیا تھا۔ لوگوں کا بہت ہجوم تھا اور مجھے گودمیں لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا میں ہزار ہزار شکر اد اکرتاہوں کہ یہ نعمت مجھے ملی ۔ شاذ کے طور پر جماعت میں کوئی اور بھی ہوگا جس کو حضور علیہ السلام کی گود میں کھیلنے کا فخر حاصل ہو۔
والد صاحب مرحوم نے کئی بار مجھ سے ذکر کیا۔ کہ اپنے مکان میں جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے اس جگہ پر بیٹھ کر دعا کرنے کے لئے احمدیوں کے خطوط آتے رہتے تھے ۔ مگر میںنے کسی کو اجازت نہیں دی کہ کہیں رفتہ رفتہ رسم نہ ہوجائے۔ یا شاید کچھ اور فرمایا تھا مجھے یاد نہیں ۔
پھر جب میں کچھ بڑا ہوگیا اور سکول میں جانا شروع کردیا تو میرے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پھر پٹیالہ تشریف لائے ۔ لوگ زیارت کے لئے جانے شروع ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے تھے کہ چلو پٹیالہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں ۔ اُن کو دیکھنا ہے ۔ میں نے بڑے تعجب کے ساتھ اُن کو کہا کہ وہ مرز اکیسا ہے جن کو دیکھنے پٹیالہ جانا ہے ۔ ہمارے محلہ میں بھی تومرزے رہتے ہیں اُن کو تو دیکھنے کوئی نہیں جاتا( ہمارے محلہ میں چند مغل رہتے ہیں جن کو مرز اکہتے ہیں) لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے بھی شوق پید اہوا۔ میں بھی پٹیالہ پہنچ گیا۔ جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ کی زیارت کی ۔
پھر جب میں کچھ اور بڑا ہوگیا اور پانچویں چھٹی جماعت میں تعلیم حاصل کرنے لگا تو لوگوں میں عام چرچا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا ہونے لگا۔ کوئی اعتراض کرتا ہے،کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ سب کو اپنی اپنی بولیاں بولتے سنا کرتا تھا۔ مجھے اس وقت اتنی بھی خبر نہ تھی کہ حضور کا دعویٰ کیا ہے ۔ اور نہ ہی میں اُن دنوں احمدی ہی ہوا تھا(اُس زمانہ میں ہم حضرت صاحب کے ماننے والوں کو مرزائی کہا کرتے تھے) میری طبیعت بہت ڈگمگاتی رہتی تھی۔ کبھی مخالفین کی باتوں کا دل پر اثر اور کبھی موافقین کی باتوں کا اثر ہوتا تھا۔ غرضیکہ دل ایک طرف قائم نہ رہتا تھا۔ ایک رات کو سوتے سوتے بڑے زور کے ساتھ متواتر دو تین دفعہ یہ آوازآئی۔’’کیا کوئی مرکر بھی زندہ ہوا ہے۔ لامہدی الا عیسٰی یہی ہے۔‘‘ اس آواز کے بند ہونے کے معاً بعد دیکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آمنے سامنے دوزانو بیٹھے ہیں۔ اور میرے والد صاحب مرحوم قریب کھڑے ہیں۔تھوڑی دیر کے بعد تینوں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگ گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اوپر ہیں اور نیچے نیچے والد صاحب ہیں۔ جب آسمان کے قریب پہنچے تو آسمان پھٹ گیا اورتینوں داخل ہوگئے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ یہ آواز اور نظارہ بچپن سے ہی میرے دل میں میخ کی طرح گڑا ہوا ہے میں اُسی وقت سے آپ پر ایمان لے آیا کہ یہ نبی ہیں۔ اور اس کا اتنا گہرا اثر خد اکے فضل سے آج تک ہے کہ کبھی ظلی بروزی کی بحث میں نہیں پڑا۔
{1152} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر میں نقرس کا درد تھا۔ میں بھی وہیں بیٹھا تھا ۔ فرمانے لگے کہ ایک بزرگ کے پیر میں نقرس کا درد تھا ۔ انہیں الہام ہوا کہ کدو کھاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اس سے معلوم ہوا کہ خد اتعالیٰ سبب کے ذریعہ ہی کام کرتا ہے ۔ فرمایا نہیں۔ بے سبب بھی کرتا ہے ۔
{1153}بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک روز میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ بمقام سرہند مجدد الف ثانی کے عرس میں ایک مولوی وعظ کررہا تھا کہ ایک عیسائی نے کہا کہ دیکھو ہمارا یسوع آسمان پر ہے اور تمہارا پیغمبر زمین میں ۔ تو اس عیسائی کو جواب دیا گیا کہ۔
ع حُباب برسر آب و گہر تہ دریا است
حضور نے مجھ سے یہ قصہ سن کر فرمایا ’’ طفل تسلیاں ہیں ‘‘
{1154} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ ہم نے ایک باغیچہ لگا یا ہے ۔ آؤ آپ کو دکھاتے ہیں ۔ آپ مجھے اپنے زنانہ مکان میں لے گئے اور وہاں اپنے کتب خانہ میں بٹھا دیا کہ یہ باغیچہ ہے ۔ تمام عربی کتب تھیں ۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ متکلمین کی کتابیں اوپر نیچے رکھی تھیں۔ سب سے اوپر براہین احمدیہ تھی۔ اس کے نیچے حجتہ اللہ البالغہ شاہ ولی اللہ صاحب اور اس کے نیچے اور کتابیں تھیں۔ میں نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا یہ ترتیب اتفاقی ہے یا آپ نے مدارج کے لحاظ سے لگائی ہے ۔ آپ نے فرمایا میں نے اپنے خیال میں درجہ وار لگائی ہے ۔ پھر مجھے الماری کے نیچے مولوی صاحب کے دستخطی کچھ عربی میں لکھے ہوئے کاغذ ملے جو پھٹے ہوئے تھے ، میں وہ نکال کر پڑھنے لگا۔ آپ نے منع فرمایا ۔ میںنے کہا کہ قرآن شریف کی تفسیر معلوم ہوتی ہے ۔ فرمانے لگے۔ کیا پوچھتے ہو۔ میں نے منطق الطیر کی تفسیر کی تھی۔ نہایت ذوق وشوق میں۔ اور میں سمجھتا تھا کہ میں اس مسئلے کو خوب سمجھاہوں ۔ لیکن کل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے منطق الطیر پر تقریر فرمائی ۔ تو میں بہت شرمندہ ہوا اور میں نے آکر یہ مضمون پھاڑ ڈالا اور اپنے آپ کو کہا کہ تُو کیا جانتا ہے ۔
{1155} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام جالندھر میں قیام پذیر تھے۔ تو میں اوپر کوٹھے پر گیا ۔ حضور تنہائی میں بہت لمبی نما زپڑھتے تھے اور رکوع سجود لمبے کرتے تھے۔ ایک خادمہ غالباً مائی تابی اس کا نام تھا جو بہت بڑھیا تھی ۔ حضور کے برابر مصلیٰ پر کھڑے ہوکر نماز پڑھ کر چلی گئی۔ میں دیر تک بیٹھا رہا۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے یہ مسئلہ پوچھا۔ کہ عورت مرد کے ساتھ کھڑی ہوکر نماز پڑھ سکتی ہے یا پیچھے۔ حضور نے فرمایا ۔ اُسے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے ۔ میں نے کہا حضور تابی تو ابھی حضور کے برابر نماز پڑھ کر چلی گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو خبر نہیں ۔وہ کب کھڑی ہوئی اور کب چلی گئی۔
{1156} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ منشی اروڑا صاحب کے پاس کپور تھلہ میں خط آیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ قتل بن گیا ہے ۔ وہ فوراً روانہ بٹالہ ہوگئے اور ہمیں اطلاع تک نہ کی ۔ میں اور محمد خان صاحب تعجب کرتے رہے کہ منشی صاحب کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں۔ ہمیں کچھ گھبراہٹ سی تھی ۔ خیر اگلے دن میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہوگیا۔ بٹالہ جاکر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ اور مارٹن کلارک والا مقدمہ بن گیا ہے ۔ ابھی میں حضور کی قیام گاہ پر جاکر کھڑا ہی ہوا تھا کہ حضور نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا اور نہ میں نے حضور کو دیکھا تھا کہ آپ نے فرمایا۔ منشی ظفر احمد صاحب کو بلا لو ۔میں حاضر ہوگیا ۔ منشی اروڑا صاحب کی عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دابتے رہتے تھے۔ اُس وقت منشی اروڑا صاحب کسی ضرورت کے لئے اُٹھ کر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ مقدمہ کے متعلق میں کچھ لکھانا چاہتا ہوں آپ لکھتے جائیں اور اس بات کا خیال رکھنا کہ کوئی لفظ خلاف قانون میری زبان سے نہ نکل جائے۔ گو میں نے سینکڑوں فیصلے ہائی کورٹوں کے پڑھے ہیں۔ لیکن پھر بھی اگر تمہارے خیال میں کوئی ایسا لفظ ہو تو روک دینا۔ غرض آپ لکھاتے رہے اور میں لکھتا رہا اور میں نے عرض کی کہ منشی اروڑا صاحب کو قانون کی زیادہ واقفیت ہے ۔ انہیں بھی بلا لیا جائے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ مخلص آدمی ہیں اگر ان کو رخصت ملتی تو بھلا ممکن تھا کہ وہ نہ آتے۔ میںنے ذکر نہ کیا کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ منشی اروڑا صاحب کو جب علم ہوا تو وہ کہنے لگے کہ تم نے کیوں نہ بتایا کہ وہ تو کل کا آیا ہوا ہے ۔ میں نے کہا ۔ تم ہمیں اطلاع کر کے کیوں نہ آئے تھے۔ اب دیکھ لو۔ ہم حاضر ہیں اور آپ غائب ہیں ۔ غرض ہم اس طرح ہنستے رہتے ۔
{1157} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جماعت علی شاہ صاحب نے منشی فاضل کا امتحان محمد خان صاحب مرحوم کے ساتھ دیا تھا۔ اس تعلق کی وجہ سے وہ کپور تھلہ آگئے ۔ محمد خان صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اُن سے ذکر کیا اور کچھ اشعار کا بھی ذکر ہوگیا۔ جماعت علی شاہ صاحب نے کہا کہ نظامی سے بڑھ کر فارسی میں کوئی اور لکھنے والا نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ کوئی شعر نظامی کا نعت میں سناؤ۔ انہوںنے یہ شعر پڑھا
فرستادہ خاص پروردگار
رسانندۂ حجتِ اُستوار
میں نے حضرت صاحب کا یہ شعر انہیں سنایا
صدر بزم آسمان وحجۃ اللہ بر زمیں
ذات خالق را نشان بس بزرگ اُستوار
وہ کہنے لگا کہ کوئی اردو کا شعر بھی آپ کو یاد ہے میںنے اس کو قرآن شریف کی تعریف میں حضور کے اشعار سنائے ۔
اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہو کہ میرے پاس آئیں
میرے منہ پر وہ بات کر جائیں
مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں
آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یونہی امتحان سہی
وہ کہنے لگا ۔ اہل زبان اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔ جماعت علی شاہ صاحب کے پاس ایک مسمریزم کی کتاب تھی اور وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارے کھانے کمانے کا شغل ہے ۔
{1158} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا ایک دفعہ لاہور میں لیکچر تھا تو اس موقعہ پر مولوی عبدالکریم صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اس مکان کے بالا خانہ میں تشریف فرما تھے جو مسجد احمدیہ کے سامنے ہے ۔ میں بھی سکول سے رخصت لے کر لاہور پہنچ گیا ۔ لیکچر کے موقعہ پر ایک عجیب نظارہ تھا۔ جگہ بجگہ ملاں لوگ لڑکوں کو ہمراہ لئے شور مچاتے پھرتے تھے اور گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتے تھے کہ لیکچر میں کوئی نہ جائے مگر وہاں یہ حالت تھی کہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ حضور کے نورانی چہرہ میں ایک عجیب کشش تھی۔ جب حضور تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو بہت شور مچ گیا۔ ہر ایک دوسرے کو منع کرتا ۔ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب نے تلاوت شروع کی ۔ جھٹ خاموشی ہوگئی پھر حضور نے تقریر فرمائی جو آخر تک توجہ سے سنی گئی۔ لیکچر سننے کے بعد میں بھی اُس بالا خانہ میں چلا گیا۔ جہاں حضور فرش پر ہی بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔ (یہ مجھے یاد نہیں) میں پاؤں دبانے لگ گیا۔ اس وقت ایک شخص نے سوال کیاکہ حضور میں گنڈے تعویذ کرتا ہوں۔ میرے لئے کیا حکم ہے ۔ میرا گذارہ اسی پر ہے مجھے اب یاد نہیں رہا ۔ کہ حضور نے اس کو کیا جواب دیا۔ البتہ ایک مثال حضور علیہ السلام نے جو اس وقت دی تھی وہ مجھے اب تک یاد ہے ۔ حضور نے فرمایا! کہ دیکھو ایک زمیندار اپنی زمین میں خوب ہل چلاتا ہے اور کھاد بھی خوب ڈالتا ہے اور پانی بھی خوب دیتا ہے اور بیج بھی عمدہ ہوتا ہے ۔ یہ سب اس کے اپنے اختیار کی باتیں ہیں۔ بیج کا اگنا، بڑھنا یہ اس کے اپنے اختیار میں نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے خواہ وہ اُگنے ہی نہ دے ۔
{1159} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ لدھیانہ میں تشریف لائے ۔ رمضان شریف کامہینہ تھا ۔ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب حضور دہلی سے تشریف لائے تھے۔ شاید۱۹۰۵ء کا ذکر ہے یاا س سے پہلے کا۔ میں بھی والد صاحب مرحوم کے ساتھ لدھیانہ پہنچ گیا۔ گاڑی کے آنے پر وہ نظارہ بھی عجیب تھا۔ باوجود مولوی ملانوں کے شور مچانے کے کہ کوئی نہ جائے ۔ وہ خود ہی زیارت کے لئے دوڑے بھاگے پھرتے تھے ۔ اسٹیشن کے باہر بڑی مشکل سے حضور علیہ السلام کو بگھی میں سوار کرایا گیا۔ کیونکہ آدمیوں کا ہجوم بہت زیادہ تھا۔ جائے قیام پر حضور علیہ السلام مع خدام ایک کمرہ میں فرش پر ہی تشریف فرما تھے۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کی کہ لوگ زیارت کے لئے بہت کثرت سے آرہے ہیں۔ حضور کرسی پر بیٹھ جائیں تو اچھا ہے ۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ کرسی لائی گئی۔ اور اس پر آپ بیٹھ گئے ۔ دہلی کے علماء کا ذکر فرماتے رہے۔ جو مجھے یاد نہیں۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) غرض خود کو معلوم ہوگیا کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں۔ حضور نے فرمایا میاں عبداللہ! خداکا حکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے ۔ آپ سب روزے افطار کر دیں ۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے ۔ اگلے روز حضور کا لیکچر ہوا۔ دوران تقریر حضورباربار عصا پر ہاتھ مارتے تھے۔ تقریر کے بعد ایک فقیر نے حضور علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک خواب بیان کی۔ حضور نے قادیان سے حضرت خلیفۃ المسیح اول کو بلانے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ بھی جلدی ہی لدھیانہ پہنچ گئے ۔حکیم صاحب نے فرمایا۔ ہم تو حکم ملتے ہی چلے آئے ،گھر تک بھی نہیں گئے ۔
{1160} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا۔ لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب قبول کیا تھا۔ کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر یہ اد اکرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن ا س طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم ومغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کا نتیجہ تھا۔ اس کا مفصل ذکر حضرت خلیفہ اولؓ کے خطبہ نکاح میں درج ہے جو اخبار بدر میں شائع ہوچکا ہے ۔
{1161} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری اہلیہ تو میرٹھ گئی ہوئی تھی۔ گھر خالی تھا ۔ تین دن کی تعطیل ہوگئی۔ دیوانی مقدمات کی مسلیں صندوق میں بند کر کے قادیان چلا گیا۔ وہاں پر جب تیسرا دن ہوا تو میںنے حضور کی خدمت میں عرض کی ۔ کہ حضور تعطیلیں ختم ہوگئی ہیں۔ اجازت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا۔ ابھی ٹھہرو۔ تھوڑے دنوں کے بعد منشی اروڑے صاحب کا خط آیا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے۔ مسلیں ندارد ہیں تم فوراً چلے آؤ۔ مجھے بہت کچھ تاکید کی تھی۔ میںنے وہ خط حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیا ۔ آپ نے فرمایا ۔ لکھ دو ۔ابھی ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ میں نے یہی الفاظ لکھ دئیے کہ انہی میں برکت ہے۔ پھر میں ایک مہینہ قادیان رہا۔ اور کپورتھلہ سے جو خط آتا۔ میں بغیر پڑھے پھاڑ دیتا۔ ایک مہینہ کے بعد جب آپ سیر کو تشریف لے جانے لگے تو مجھے فرمانے لگے کہ آپ کو کتنے دن ہوگئے ۔ میںنے کہا حضور ایک ماہ کے قریب ہوگیا ہے ۔ تو آپ اس طرح گننے لگے ۔ ہفتہ ہفتہ آٹھ اور فرمانے لگے ۔ہاں ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا۔ اچھا اب آپ جائیں ۔ میں کپورتھلہ آیااور عملہ والوں نے بتایا کہ مجسٹریٹ بہت ناراض ہے ۔ میں شام کو مجسٹریٹ کے مکان پر گیا کہ وہاں جو کچھ اس نے کہنا ہوگا وہ کہہ لے گا۔ اس نے کہا آپ نے بڑے دن لگائے اور اس کے سوا کوئی بات نہ کہی ۔ میںنے کہا کہ حضرت صاحب نے آنے نہیں دیا۔ وہ کہنے لگا ان کا حکم تو مقدم ہے ۔ تاریخیں ڈالتا رہاہوں ۔ مسلوں کو اچھی طرح دیکھ لینا اور بس ۔ میں ان دنوں ایک سر رشتہ دار کے عوض کام کرتا تھا۔
{1162} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اور منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان گئے ۔ منشی اروڑا صاحب اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سررشتہ دار تھے۔ اور میں اپیل نویس تھا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے عرض کی کہ حضور مجھے اپیل نویس ہی رہنے دینا ہے؟ فرمایا کہ اس میں آزادی ہے ۔آپ ایک ایک دو ماہ ٹھہر جاتے ہیں۔ پھر خود بخود ہی فرمایا کہ ایسا ہو کہ منشی اروڑا صاحب کہیں اور چلے جائیں (مطلب یہ کہ کسی اور آسامی پر) اور آپ اُن کی جگہ سر رشتہ دار ہوجائیں ۔ اس سے کچھ مدت بعد جبکہ حضور علیہ السلام کا وصال ہوچکا تھا۔ منشی اروڑا صاحب تو نائب تحصیلدار ہو کر تحصیل بھونگہ میں تعینات ہوگئے اور میں ان کی جگہ سررشتہ دار ہوگیا۔ پھر منشی صاحب مرحوم نائب تحصیلداری سے پنشن پاکر قادیان جا رہے ۔ اور میں سر رشتہ داری سے رجسٹراری ہائی کورٹ تک پہنچا اور اب پنشن پاتاہوں ۔ بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا کے کوئی بات فرمادی ہے اور پھر وہ اُسی طرح وقوع میں آگئی ہے ۔
{1163} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تشریف لے آئے ۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟اور اسی وقت منتظم کو بلوایااور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میںنہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیارکیاجائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھاناکھا چکا تھا اور اذان بھی ہوگئی تھی ۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو۔
{1164} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبد اللہ صاحب مرحوم سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ماموں قادر بخش صاحب مرحوم(والد مکرم مولوی عبد الرحیم صاحب درد) نے والد صاحب مرحوم سے بہت خواہش کی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ہمارے گھر لائیں۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ حضرت صاحب نے مکان پر جانے سے کئی ایک کو جواب دے دیا ہے۔ ماموں صاحب نے پھر کہا ۔ والد صاحب نے جواب دیا کہ اچھا ہم لے آتے ہیں۔ مگر۔؍۲۵ روپیہ لوں گا۔ ماموں صاحب نے خوشی سے۔؍۲۵ روپے دینے منظور کر لئے۔ والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اچھا۔ حضور کے بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کرو۔ میں جاتا ہوں۔ چنانچہ میں اور والد صاحب ماموں صاحب کے مکان سے اُٹھ کر شہر کی طرف آئے۔ والد صاحب راستے میں ہی بگھی کا انتظام کر کے اس کو ساتھ لے گئے۔ حضور اس وقت اندر تشریف فرما تھے۔ والد صاحب نے ڈیوڑھی کے دروازے پر دستک دی اور حضور باہر تشریف لے آئے اور مسکرا کر فرمانے لگے۔ میاں عبد اللہ کیا ہے ۔ والد صاحب نے عرض کی۔ حضور مکان تک تشریف لے چلیں۔ حضور نے فرمایا اچھا سواری کا انتظام کرو۔ والد صاحب نے عرض کی کہ سواری تیار ہے ۔ چنانچہ حضور بگھی میں بیٹھ گئے۔ اور ہم سب ماموں صاحب کے مکان پر پہنچ گئے ۔ ماموں صاحب نے کچھ پھل پیش کئے ۔ والد صاحب نے ماموں صاحب سے وہ۔؍۲۵ روپیہ لے کر پھلوں میں رکھ دئیے۔ اس وقت کئی مستورات نے بیعت کی۔ دعا کے بعد حضور اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے گئے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب میاں عبد اللہ سنوری کے ساتھ مکان پر گئے تھے۔ اور حضور کے تشریف لے جانے میں تعجب کرتے رہے ۔ کیونکہ تشریف لے جاتے وقت کسی کو بھی خبر نہ تھی۔ زمانہ گذر گیا۔ لیکن جس سادگی کے ساتھ حضور دستک دینے پر تشریف لائے تھے۔ اس کا ایک گہرا اثر اس وقت میرے دل پر ہے ۔
{1165} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں رحمت اللہ صاحب ولدمیاں عبد اللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ میں ایک دفعہ بہت سخت بیمار ہوگیا۔ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا کہ اب یہ صرف چند دن کا مہمان ہے کسی دوائی کے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ والد صاحب مرحوم نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو مجھے نصیحت فرمائیں کہ میں اس وقت اپنی حالت کیسی رکھوں حضور کے دست مبارک سے لکھا ہوا جواب پہنچ گیا۔ کہ اگر یہ موت نہ ہوئی تو میری دعا قبولیت کو پہنچ گئی۔ کیونکہ دعا کرنے کے بعد یہ خط لکھا ہے ۔ حضور کا یہ خط ابھی سنور پہنچا نہ تھا کہ رات کو مجھے آرام سے نیند آگئی کہ گویامیں بیمار ہی نہ تھا۔ صبح کو والد صاحب نے میری حالت کی بابت دریافت کیا ۔ میں نے کہا کہ میری حالت بہت اچھی ہے ۔ کوئی تکلیف نہیں ۔ والد صاحب مرحوم نے جوش کے ساتھ فرمایا۔ کہ رحمت اللہ گواہ رہنا ۔ آج کا دن یاد رکھنا۔ حضرت صاحب نے تمہارے لئے دعا کر دی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ ڈاکٹر وحکیم نے قارورہ دیکھ کر کہا کہ یہ کسی مریض کا نہیں بلکہ یہ تو بالکل تندرست آدمی کا قارورہ ہے اور وہ بہت حیران تھے۔ کہ ایک دن میں ایسی حالت کا تغیر کیسے ہوگیا۔ حضور کا جب خط آیا تو ہفتہ کے روز کی تاریخ کا تھا۔ اور مجھے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کو کلی طور پر صحت ہوگئی تھی۔ میں حضور کی دعا کی قبولیت کا زندہ نشان ہوں۔ افسوس حضرت اقدس کا یہ خط اور واسکٹ کا ٹکڑا جو میں نے تبرکًا رکھے ہوئے تھے ،گم ہوگئے ہیں ۔
{1166} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے کئی خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام کے کئی اوراق پر اپنے قلم سے درج فرمائے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے غالباً مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے کسی نے اشتہار دیا اور اس میں اپنے خواب اور کشوف درج کئے۔ اس پر حضرت صاحب نے مجھے رقم فرمایا کہ آپ نے جو خواب دیکھے ہیں وہ اس کے جواب میں آپ اشتہار کے طور پر شائع کریں۔ چنانچہ آپ کے فرمودہ کے مطابق میںنے اشتہار شائع کردیا جس کی سرخی یہ تھی ۔
؎ الااے بلبل نالاں چہ چندیں ماجرا داری
بیا داغے کہ من درسینہ دارم تُو کجا داری
وہ خواب جہاں تک مجھے یاد ہیں حسب ذیل تھے ۔
(۱) بیعت اولیٰ کے موقعہ پر جب میں لدھیانہ میں تھا تو ایک صوفی نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کراسکتے ہیں ؟ اور آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا فضل کرے۔ مجھے اُسی رات خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔
(۲) اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہوگیا ۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی ۔ حسّو خاں احمدی جو پہلے وہابی تھا اس کو دیکھا کہ وہ بھی کھڑا ہے ۔ اور اس نے شکایتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یہ (یعنی خاکسار) یارسول اللہ !آپ کی حدیثوں کو نہیں مانتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرزا صاحب میرے فرزند ہیں۔ اور جب وہ قرآن پڑھتے ہیں ۔ میری روح تازہ ہوجاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے فرمایاکہ مرزا صاحب سے کہیں کہ وہ کچھ قرآن شریف سنائیں ۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
(۳) ایک دفعہ میں مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا جس میں تشہّد میں بیٹھا تو میں نے محراب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سامنے دیکھا ۔
(۴) ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب مجھے مدینہ منورہ لے گئے اور جالیوں میں سے مَیں زیارت قبر کرنا چاہتا ہوں مگر وہ جالی میرے قد سے اونچی ہے ۔ تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری دونوں بغلوں میں ہاتھ دے کر اونچا کردیا۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ سامنے کی عمارت کوئی نہیں رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی ہوئی ہے اور آپ بیٹھے ہیں ۔
(۵) ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مزار پر ساتھ لے گئے ۔ وہاں پر ایک چبوترہ سا تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز تھے اور وہاں کسی قدر فاصلہ پر ایک شخص جرنیلی وردی پہنے ہوئے ایک چبوترے پربیٹھا تھا۔ مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا کہ آپ اسے بیعت فرمالیں۔ چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عربی میں ایک فقرہ فرمایا۔ جو مجھے اب یاد نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرنااور تمام بدیوں سے پرہیز کرنا۔ میں بیعت کرنے کے بعد مصافحہ کرنے کے لئے اس شخص کی طرف گیا جو جرنیلی وردی پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاتے ہوئے روک دیا ۔
(۶) ایک دفعہ تہجد پڑھ رہا تھا کہ ایک دم مجھے اس قدر خوشبو آئی کہ تمام مکان معطّر ہوگیا ۔ میری بیوی سورہی تھی اسے چھینکیں آنے لگی اور انہوںنے کہا کہ تم نے بہت سا عطر ملا ہے ۔ جس کی وجہ سے مکان معطّر ہے۔ میں نے کہا میںنے کوئی خوشبو نہیں لگائی۔
(۷) ایک دفعہ میںنے خواب میں حضرت عمر ؓ کو دیکھا کہ آپ کی بڑی بڑی آنکھیں ہیں ۔ آپ کے پاس تلوار رکھی ہوئی ہے ۔ جس سے موتی اوپر نیچے جھڑ رہے ہیں۔ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں لکھ کر بھیجا ۔ تو آپ نے جواب میں فرمایاکہ فاروق ؓ کی زیارت سے دین میں استقامت اور شجاعت پید اہوتی ہے ۔
{1167} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حافظ معین الدین عرف مانا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پیر دباتا تھااور ساتھ ساتھ اپنے پیش آمدہ واقعات سناتا رہتا تھا۔ مثلاً حضور میں فلاں جگہ گیا۔ مجھے روٹی نہیںملی ۔ کتے لپٹ گئے ۔ مجھے سالن کم ملتا ہے ۔ وغیرہ ۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتا اور حضور اس کی باتیں سنتے۔ اور وہ روز اس قسم کی باتیں کرتا اور حضور سن لیتے۔ ایک دن میں نے دستک دی کہ حضور میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے کواڑ کھول دئے ۔ میں اندر جاکر بیٹھ گیا۔ میںنے حافظ معین الدین کو بہت ڈانٹا اور سخت سست کہا کہ تم یہ کیا واہیات باتیں کیا کرتے ہو کہ فلاں جگہ روٹی نہیں ملی اور فلاں جگہ سالن کم ملتا ہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ توجہ الی اللہ میں مجھے اس قدر استغراق ہے کہ اگر میں دنیوی باتیں نہ سنوں تو میرا دماغ پھٹ جائے۔ ایسی باتیں ایک طرح سے مجھے طاقت دیتی ہیں۔ تھوڑی دیر آپ نے ایسی باتیں کیں اور پھر میں چلا آیا کہ رات زیادہ ہوگئی تھی۔
{1168} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردارسفید پوش چک نمبر۹شمالی ضلع شاہ پور نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۱۹۰۰ء کے قریب یااس سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مسجد مبارک میں صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت جو لوگ یہاں تیرے پا س موجود ہیں اور تیرے پاس رہتے ہیں ان سب کے گناہ میں نے بخش دئیے ہیں۔
{1169} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار نے بواسطہ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے مثلاً کوئی دشمن کبھی مقدمہ کھڑا کردیتا ہے یاکوئی اور ایسی ہی بات پیش آجاتی ہے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خد اتعالیٰ ہمارے گھر میں آگیا ہے ۔
{1170} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔چوہدری حاکم علی صاحب نمبردار سفید پوش نے بواسطہ مولوی محمداسماعیل صاحب فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۸۹۸ء کے قریب ایک دفعہ میں قادیان میں رمضان شریف کے مہینہ میں بیمار ہوگیااور روزے نہ رکھ سکا۔ میرا مکان اس وقت ڈھاب کے کنارے پر تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سیر کے طور پر وہاں ڈھاب کے کنارہ پر تشریف فرماہیں ۔ مجھے کمزوری تو بہت تھی ۔ مگر میں افتاں وخیزاں حضور تک پہنچا۔ اور افسوس کے ساتھ عرض کیا کہ میں بیماری کی وجہ سے اس دفعہ روزے نہیں رکھ سکا۔ حضور نے فرمایا۔ آپ کو دوگنا ثواب ملے گا ۔میں نے عرض کیا کہ وہ کیسے ۔حضور نے فرمایا کہ ایک تو اس بات کا ثواب کہ آپ بیماری کی حالت میں دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرے جب دوسرے دنوں میں آپ روزے رکھیں گے تو اس کا ثواب ہوگا۔
{1171} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مولوی محمد اسماعیل فاضل پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسالہ توفیقات قمریہ میں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سن پیدائش سے لے کر چودھویں صدی کے آخر تک شمسی اور قمری تاریخوں کا مقابلہ کیا ہے، موٹے طور پر ان تین باتوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔
(۱) قمری مہینہ کی اوسط مقدار ۲۹دن۱۲گھنٹے ۴۴منٹ اور قریباً۷؍۶ء ۲سکینڈ (۲۹۸۶۴۹۷۶سکینڈ) ہوتی ہے اور جو فرق تدریجی طور پر چاند کی رفتار میں نمودار ہورہاہے وہ اس اندازہ پر چنداں اثر انداز نہیں۔
(۲) یکم محرم1ھ کا دن جمعہ تھا ۔ جیسا کہ محمد مختار باشا مصری کی کتاب تو فیقات الہامیہ سے اور مغربی مصنفین کے شائع کردہ دیگر تقویمی نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ محمد مختار باشا اپنی کتاب مذکور کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اقوال شرعیہ اور حسابی طریق سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یکم محرم 1ھ کو جمعہ کا دن تھا۔
(۳) یہ تقویمی نقشہ مختلف واقعات زمانہ گذشتہ وزمانہ حال کی معین طور پر معلوم تاریخوں کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے ۔
آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیدائش کے دن پر جو نوٹ لکھ کر الفضل مورخہ ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں شائع کروایا تھا۔ اپنے سامنے رکھ کر بھی میں نے اس تقویمی نقشہ کو دیکھا ہے اور اس کے مطابق پایا ہے ۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ یکم محرم 1ھ بروز جمعہ سے لے کر۱۴شوال ۱۲۵۰ھ تک کے دن مذکور بالا اوسط کی رو سے۴۴۲۸۸۳ہوئے ۔ جو سات پر پورے تقسیم ہوتے ہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۴شوال ۱۲۵۰ھ کو بھی جمعہ ہی کا دن تھا کیونکہ اس عرصہ کے کل قمری مہینے ۱۴۹۹۷ہوتے ہیں۔ اور جب اس عدد کو مذکورہ بالا اوسط ماہانہ سے ضرب دی جائے تو حاصل ضرب۴۴۲۸۷۰ہوتا ہے ۔ اور جب اس میں یکم شوال کے اوپر کے۱۳دن جمع کئے جائیں تو جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے تو۱۴شوال تک کے کل دنوں کی تعداد۴۴۲۸۸۳ہوتی ہے ۔اور یہ عدد سات پر پورا تقسیم ہوتا ہے ۔ پس جو دن یکم محرم ۱ ھ کو تھا وہی دن۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کو تھا۔ سو چونکہ یکم محرم۱؍ہجری کو جمعہ کا دن تھا اس لئے۱۴؍شوال۱۲۵۰ ہجری کو بھی جمعہ ہی تھا۔ نیز۱۳؍فروری۱۸۳۵ عیسوی بروز جمعہ کو قمری تاریخ۱۴؍شوال۱۲۵۰ہجری کا ہونا حسابی طریق سے بھی ثابت ہے ۔ کیونکہ قمری مہینہ کااوسط ۵۳۰۵۸۸۷۱۵ء ۲۹دن یعنی۲۹دن ۱۲گھنٹے ۴۴منٹ ۶۲۵۰۰÷۵۴۰۶۱؍۲ہوتی ہے ۔ اور یہ یکم شوال ۱۲۵۷ہجری سے لے کر یکم شوال ۱۳۵۷ھ تک کا عرصہ ۱۲۸۴ماہ کا ہوتا ہے ۔ جسے مذکورہ بالا اوسط میں ضرب دینے سے حاصل ضرب۲۷۵۹۱۰۰۶ئ۳۷۹۱۷(دن ) ہوتا ہے ۔ جس کی اعشاریہ کی کسر کو( جو اس قابل نہیں کہ اسے ایک دن شمار کیا جائے) چھوڑ کر باقی رقم کو ہفتہ کے دنوں کے عدد یعنی سات پر تقسیم کرنے سے پانچ دن باقی بچتے ہیں۔ یعنی عرصہ۵۴۱۵ہفتہ اور پانچ دن کا ہوتا ہے ۔ اور یہ یقینی بات ہے کہ یکم شوال ۱۳۵۷ھ کا یعنی سال رواں کا عید الفطر کا دن پنج شنبہ تھااور جب ہم پنج شنبہ سے پانچ دن پیچھے جائیں تو شنبہ یعنی ہفتہ کا دن ہوتا ہے۔ پس یکم شوال ۱۲۵۰ھجری کو ہفتہ کا دن تھا۔ اس لئے ۱۴؍ شوال ۱۲۵۰ ہجری کو جمعہ کا دن تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ الفضل مورخہ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء میں میرا جو مضمون شائع ہوا تھا وہ روایت نمبر۶۱۳میں درج ہے ۔ جس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تاریخ پیدائش بروز جمعہ ۱۴؍شوال۱۲۵۰؍ھجری بمطابق۱۳؍فروری۱۸۳۵عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ثابت کی گئی ہے ۔
{1172} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن عصر کے وقت میں پروف یاکاپی لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس اندر گیا۔ اتنے میں کسی نے کہا کہ چند آدمی حضور سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔ تب صحن سے حضور ڈونگے دالان میں آگئے ۔ ایک بڑی چادر سفید لٹھے کی لائے اور مجھے فرمایا کہ میاں منظور محمد ایک طرف سے پکڑو۔ میںنے ایک طرف سے چادر کو پکڑا اور دوسری طرف سے حضور نے خود پکڑا اور ہم دونوں نے مل کر چادر بچھائی ۔ تب حضور اس چادر پر بیٹھ گئے اور فرمایا جاؤ ۔ ملنے والوں کو بلا لاؤ ۔میںنے باہر جاکر ان کو اطلاع دی کہ اندر آجاؤ۔
{1173} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ ڈونگے دالان کے صحن میں چارپائی پر لیٹے تھے اور لحاف اوپر لیا ہوا تھا۔ کسی نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر حضور سے ملنے آیا ہے ۔ حضور نے اندر بلوالیا۔ وہ آکر چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کا رنگ نہایت سفید اور سرخ تھا۔ جنٹلمینی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ طبیعت پوچھنے کے بعد شاید اس خیال سے کہ حضور بیمار ہیں ،جواب نہیں دے سکیں گے ۔ مذہب کے بارہ میں اس وقت جو چاہوں کہہ لوں اس نے مذہبی ذکر چھیڑدیا۔ حضور فوراً لحاف اُتار کر اُٹھ بیٹھے اور جواب دینا شروع کیا ۔یہ دیکھ کر اس نے کہا کہ میں پھرکبھی حاضر ہوں گا اور چلا گیا۔
{1174} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جب ایف اے کے طالب علم یاشاید ڈاکٹری کے طالب علم تھے۔ تو انہوںنے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے ایک دن کہا کہ خداتعالیٰ کا ایک نام مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب بھی ہے۔ یہ نام لے کر بھی دعا مانگا کرو۔
{1175} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی بات کی بابت عرض کیا کہ اس میں میرے کامیاب ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا کہ میاں تم اللہ تعالیٰ کے نام ’’ مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب‘‘ کو لے کر اس سے دعا کیا کرو۔
{1176} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ خاکسار۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان حاضر ہوا۔ ایک رات میںنے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے۔ جنہوںنے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ۔ منتظمین نے حضور کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لئے جگایا۔ خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت قریباًساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دن کے قریب دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نور الدین خلیفہ اول کھڑے ہوئے تھے ۔ اور بعض اور اصحاب بھی تھے ۔ اس وقت حضور کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا ۔ ’’یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر ‘‘
{1177} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحا ق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں ایک خط لے کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں گیا۔ حضور اس وقت اس دالان میں جو بیت الدعا کے متصل ہے، زمین پر بیٹھ کر اپنا ٹرنک کھول رہے تھے۔ اس لئے مجھے فرمایا کہ خط پڑھو، اس میں کیا لکھا ہے میںنے حضور کو وہ خط پڑھ کر سنایا ۔ حضور نے فرمایا کہ کہد دو کہ خضر انسان تھا۔ وہ فوت ہوچکا ہے ۔
{1178} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب فاضل نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور میں مستری موسیٰ صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور! غیر احمدی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا اور یہ کہ حضور جب قضائے حاجت کرتے تو زمین اسے نگل جاتی۔ جواب میں حضور نے ان دونوں باتوں کی صحت سے انکار کیا۔
{1179 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر محمد اسحاق صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بٹالہ ایک گواہی کے لئے گئے۔یہ سفر حضور نے رتھ میں کیا۔ میں بھی علاوہ اور بچوں کے حضور کے ہمراہ رتھ میں گیا۔ راستہ میں جاتے وقت حضور نے اعجاز احمدی کا مشہور عربی قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ رتھ خوب ہلتی تھی۔ اس حالت میں حضور نے دو تین شعربنائے ۔
{1180} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسجد مبارک میں جو ابھی وسیع نہیں ہوئی تھی۔ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان مرحوم اور میں ،صرف ہم تینوں بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے شاہ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے کہا کہ شاہ صاحب! حضرت صاحب دے پرانے زمانے دی کوئی گل سناؤ ۔ شاہ صاحب نے ایک منٹ کے وقفہ کے بعد کہا کہ ’’اس پاک زاد دا کی پُچھ دے او‘‘ اس کے بعد ایک قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ڈپٹی کمشنر کی آمد تھی۔ اور بڑے مرز اصاحب صفائی اور چھڑکاؤ کرا رہے تھے ۔ تو میرے اس کہنے پر کہ آپ خود تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ۔ بڑے مرزا صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک حجرے کے دروازے پر گئے ۔ اندر حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور تین طرف تین ڈھیر کتابوں کے تھے اور ایک کتاب ہاتھ میں تھی اور پڑھ رہے تھے ۔مرزا صاحب نے کہا ۔ آؤ دیکھ لو ایہہ حال ہے اسدا۔ میں اس نوں کم کہہ سکدا ہاں ؟ میرے اس بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ قادیان کے پرانے لوگ بھی حضرت صاحب کو باخد ا سمجھتے تھے۔
{1181} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب ڈوئی امریکہ کا رہنے والا مطابق پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فوت ہوا۔ تو میںنے اسی دن ،جب یہ خبر آئی حضور سے عرض کیا کہ حضور ڈوئی مر گیا؟ فرمایا ’’ہاں میںنے دعا کی تھی‘‘ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ وہ پیشگوئی جو دعا کے بعد الہام ہوکر پوری ہو وہ بہ نسبت اس پیشگوئی کے جس میں دعا نہ ہو اور صرف الہام ہو کر پوری ہو، خدا تعالیٰ کی ہستی کو زیادہ بہتر طور پر ثابت کرنے والی ہے۔ کیونکہ اس میں خد اتعالیٰ کا متکلم ہونے کے علاوہ سمیع اور مجیب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے ۔
{1182} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دن حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرے ۔ڈریس کے بعد جب چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے ۔ تو میں نے نزدیک ہو کر کہا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی وہ گھوڑے سے گرنے والی پیشگوئی ظاہری رنگ میں پوری ہوئی۔ میرا مطلب اس بیان کرنے سے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اس پیشگوئی کا علم مجھے بھی تھا۔
{1183} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آ ف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبد الر حمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین سکنہ بھین نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر مقدمہ فوجداری دائر کیا ہو اتھا۔ حضرت صاحب اس کے متعلق اپنا الہام شائع کرچکے تھے کہ ہمارے لئے ان مقدمات میں بریت ہوگی۔ لیکن جب ایک لمبی تحقیقات کے بعد مقدمہ کا فیصلہ ہوا کہ آتمارام مجسٹریٹ نے حضور کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی ۔ اس سے فوراً ہی بعد ایک اور مقدمہ کی پیشی کے لئے حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے۔ جماعت امرتسر ریلوے سٹیشن پر حاضرہوئی۔ میں بھی موجود تھا۔ اس وقت میاں عزیز اللہ صاحب منٹو وکیل احمدی نے عرض کیا۔ کہ حضور لوگ ہم کو بہت تنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ الہامات غلط ہوگئے۔ بریت نہ ہوئی۔ حضور کا چہرہ جوش ایمان سے اور منور ہوگیا۔ اور نہایت سادگی سے فرمایا ’’یہ شتاب کار لوگ ہیں۔ ان کو انجام دیکھنا چاہئے ۔ ‘‘ چنانچہ بعد میں اپیل میں حضور بری ہوگئے ۔
{1184} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد حسین صاحب پنشنردفتر قانون گو نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا ۔ کہ جنوری۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام احمدیہ چوک سے باہرسیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ اور میں بھی ساتھ تھا۔ حضور نے فرمایا کہ آج سعد اللہ لدھیانوی کی موت کی اطلاع آئی ہے اور آج عید کادوسرادن ہے ۔ ہمارے لئے خداتعالیٰ نے نشان پورا فرمایا۔ اگر چہ کسی کی موت کی خوشی نہیں ہوتی۔ لیکن خد اتعالیٰ کے نشان سے خوشی ہوتی ہے اور اس لئے آج ہمارے لئے دوسری عید ہے ۔
{1185} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ۱۹۰۵ء میں مَیں پہلی مرتبہ قادیان آیا اور اکیلے نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ حضور اس وقت مسجد مبارک میں محراب کی جانب پشت کئے ہوئے بیٹھے تھے اور خاکسار حضور کے سامنے بیٹھا تھا۔ حضور نے اپنا دایاں ہاتھ اوپر رکھ کر میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا تھا۔ حضور کا ہاتھ بھاری اور پُر گوشت تھا۔
{1186} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ غالباً۱۹۰۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر سے تشریف لائے اور آکر مسجد مبارک میں کھڑے ہوگئے ۔ حضور کے گردا گرد لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ جو سب کے سب حضور کے گرد حلقہ کئے ہوئے کھڑے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ شاید کسی صاحب کو یاد ہوگا کہ ہم نے آگے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دکھلا یا ہے ۔ اس چھوٹی مسجد(مبارک) سے لے کر بڑی مسجد(اقصیٰ) تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔ اس پر حاضرین میں سے ایک سے زیادہ اصحاب نے تائیداً بتایا کہ ہاں ہمیں یاد ہے ۔ کہ حضور نے یہ بات فرمائی تھی۔ اُن بتانے والوں میں سے جہاں تک مجھے یاد ہے ۔ ایک تو شیخ یعقوب علی صاحب تھے۔ لیکن دوسرے بتانے والوں کے نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اب پھر مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک سب مسجد ہی مسجد ہے ۔‘‘
{1187} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ پیغمبراسنگھ سب سے پہلے کانگڑہ والے زلزلہ کے دنوں میں جب حضور باغ میں تھے۔ قادیان آیا تھا۔ میں بھی باغ میں تھا ۔ پیغمبراسنگھ میرے پاس آیا ۔ میںنے کہا مسلمانوں کے ہاں کا کھانا کھا لو گے؟ کہنے لگا! کہ میں تاں مہدی دا پیشاب بھی پین نو تیار ایں ۔ جاؤ لیاؤ میں پیواں ۔ میں خاموش ہورہا ۔ پھر کہنے لگا کہ مجھے ایک جھنڈا بنادو۔ اور اس پر نبیوں کے نام لکھ دو۔میںنے کہا کہ میں پہلے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے پوچھوں۔ تب میںنے حضرت صاحب کو عریضہ لکھا کہ پیغمبراسنگھ کہتا ہے کہ مجھے ایسا جھنڈا بنا دو اور کاغذ پر نقشہ بھی کھینچ دیا۔ تب حضرت صاحب نے جواب میں فرمایا۔ بنادو شاید مسلمان ہو جائے ۔ چنانچہ میں نے لٹھے کے ایک سفید کپڑے پر ایک دائرہ کھینچا۔ اور عین درمیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام کے نیچے حضرت صاحب کانام لکھا۔ یعنی یہ دونوں نام دائرے کے اندر تھے۔ پھر چاروں طرف دائرہ کے خط کے ساتھ ساتھ باقی تمام انبیاء کے نام لکھے اور وہ کپڑا پیغمبراسنگھ کو دے دیا ۔ چنانچہ کچھ مدت بعد پیغمبراسنگھ مسلمان ہوگیا۔ اس کے مسلمان ہونے کے بعد میںنے اسے کہا کہ جب میں نے تمہیں جھنڈا بنا کر دیا تھا تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ ایسا جھنڈا بناکر دے دو شاید مسلمان ہوجائے ۔ تو یہ سن کر پیغمبراسنگھ بہت خوش ہوا۔ اور دوبارہ مجھ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے ایسا کیا سی ۔ میںنے کہا ۔ہاں کیاسی ۔
{1188} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ آگ کے گولوں والی پیشگوئی جو پچیس دن کے سر پر پوری ہوئی۔ جس دن یہ الہام ہوا۔ تو اندر سے ایک عورت نے مجھے آکر بتلایا کہ آج حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا ہے ۔ اور کہا الہام بیان کرتے وقت ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ ’’مائی تابی نہیں فوت ہوگی جب تک اس پیشگوئی کو پورا ہوتے نہ دیکھ لے۔‘‘ چنانچہ مائی تابی جو اسّی برس کے قریب عمر کی ایک عورت تھی۔ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے بعد فوت ہوئی۔
{1189} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے جسم پر عنابی رنگ کی بانات کا نہایت نرم چغہ دیکھا تھا۔ جس کو ہاتھوں سے مس کر کے خاکسار نے بھی اپنے چہرے پر پھیرا۔ جیسا کہ اور لوگ بھی اسی طرح سے برکت حاصل کرتے تھے ۔ نیز مجھے حضور کے پاس سے خوشبو بھی بہت آتی تھی جو شاید مشک کی ہوگی ۔
{1190} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر کلرک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ جب حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی شہادت کی خبر قادیان پہنچی تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی طبیعت پر بہت صدمہ تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب احمدنور صاحب کابلی واپس آگئے تھے اور انہوں نے مفصل حالات عرض کر دئیے تھے۔ شام کی مجلس میں مسجد مبارک کی چھت پر میں بھی حاضر تھا۔ حضور نے فرمایا ہم اس پر ایک کتاب لکھیں گے۔ مجھے حضور کے فارسی اشعار کا شوق تھا۔ میںنے عرض کیا ۔ حضور اس میں کچھ فارسی نظم بھی ہوتو مناسب ہوگا۔ حضور نے فرمایا ۔ نہیں۔ ہمارا مضمون سادہ ہوگا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا کہ میںنے رنج کے وقت میں شعرگوئی کی فرمائش کیوں کردی ۔ لیکن جب کتاب تذکرۃ الشہادتین شائع ہوئی ۔ تو اس میں ایک لمبی پردرد فارسی نظم تھی ۔ جس سے مجھے معلوم ہوا کہ حضور اپنے ارادے سے شعر گوئی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ جب خداتعالیٰ چاہتا تھا طبیعت کو اُدھر مائل کردیتا تھا۔
{1191} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم جب بیمارتھے تو ان کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تشویش اور فکر کاعلم ہوتا رہتا تھا۔ جب صاحبزادہ صاحب فوت ہوگئے تو سردار فضل حق صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب مرحوم اور بندہ بخیال تعزیت قادیان آئے۔ لیکن جب حضور مسجد میں تشریف لائے ۔ تو حضور حسب سابق بلکہ زیادہ خوش تھے۔ صاحبزادہ مرحوم کی وفات کا ذکر آیا تو حضور نے فرمایا کہ مبارک احمد فوت ہوگیا۔ میرے مولا کی بات پوری ہوئی ۔ اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ یہ لڑکا یا توجلدی فوت ہوجائے گا یا بہت باخد اہوگا۔ پس اللہ نے اُس کو بلا لیا۔ ایک مبارک احمد کیا۔ اگر ہزار بیٹا ہو اور ہزار ہی فوت ہوجائے ۔ مگر میرامولا خوش ہو۔ اس کی بات پوری ہو۔ میری خوشی اسی میں ہے ۔ یہ حالات دیکھ کر ہم میں سے کسی کو افسوس کے اظہار کی جرأت نہ ہوئی۔
{1192} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولابخش صاحب پنشنر کلر ک آف کورٹ نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بیان کیا کہ مسجد مبارک کی چھت پر شام کی مجلس میں ایک امرتسری دوست نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور مولوی ثناء اللہ بہت تنگ کرتا ہے ۔ اس کے لئے بددعا فرمائیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ نہیں ۔وہ ہماری بہت خدمت کرتے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے ہمارے دعویٰ کا ذکر اُن لوگوں میں بھی ہوجاتا ہے جو نہ ہماری بات سننے کو تیار ہیں اور نہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ وہ تو ہمارے کھیت کے لئے کھاد کاکام دے رہے ہیں۔ بدبُو سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔
{1193 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کہ ڈونگے دالان میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاپی پڑھ رہے تھے ۔ میں پاس بیٹھا تھا۔ اطلاع آئی کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر پولیس آئے ہیں۔ حضرت صاحب باہر تشریف لے گئے۔ چھوٹی مسجد کی سیڑھیوں کی آخری اوپر کی سیڑھی پر سپرنٹنڈنٹ پولیس اندر کی طرف کھڑ اتھا۔ حضرت صاحب کودیکھ کر اس نے ٹوپی اتاری اور کہا کہ مجھے لیکھرام کے قتل کے بارہ میں تلاشی کا حکم ہوا ہے ۔ حضور نے فرمایا۔ بہت اچھا تلاشی میں میں آپ کو مدددوں گا۔ تب حضرت صاحب اور سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر اندر ڈونگے دالان میں گئے۔ میں بھی اندر گیا۔ دالان میں ہم صرف چاروں تھے۔ دالان کے شمال مغربی کونے میں ڈھائی تین گز مربع کے قریب لکڑی کا ایک تخت بچھا تھا ۔ اس پر کاغذات کے پندرہ بیس بستے بندھے پڑے تھے۔ انسپکٹر نے دونوں ہاتھ زور سے بستوں پر مارے، گرد اٹھی۔ انسپکٹر نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو مخاطب کر کے انگریزی میں کہا جس کا مطب یہی معلوم ہوتا تھا کہ کسی قدر گرد ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت سے ان کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ انسپکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس دونوں مغرب کی طرف منہ کئے تخت کے پاس کھڑے تھے۔ دونوں کا منہ بستوں کی طرف تھا۔ میں مشرق کی طرف منہ کئے مغربی دیوار کے ساتھ کھڑا تھا۔ حضرت صاحب مشرقی دیوار کے ساتھ دالان کی لمبائی میں اس طرح ٹہل رہے تھے جیسے کوئی بادشاہ ٹہلتا ہے۔ لکڑی ہاتھ میں تھی اور درمیان سے پکڑی ہوئی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر کی پشت حضرت صاحب کی طرف تھی۔ انسپکٹر سپرنٹنڈنٹ سے باتیں تو کرتا تھا ۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ جو انگریز تھا (شاید لیمار چنڈ اس کانام تھا) اس کا دھیان بالکل حضرت صاحب میں تھا۔ میں دیکھتا تھا جب حضرت صاحب اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ہوکر جنوب کی طرف جاتے تو وہ کنکھیوں سے خفیف سا سر پھیر کر حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ اور جب حضرت صاحب اس کے پیچھے سے ہوکر شمال کی طرف جاتے تو سر پھیر کر پھر کنکھیوں سے حضرت صاحب کو دیکھتا تھا۔ وہ بار با ر یہی کچھ کرتا رہا۔ انسپکٹر کی طرف اس کا دھیان نہ تھا۔ پھر تجویز ہوئی کہ باقی مکان کی تلاشی لی جائے ۔
عصر کے بعد گول کمرہ کے باہر کھلے میدان میں کرسیاں بچھائی گئیں۔ ایک پر سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ۔ اس کی دائیں طرف انسپکٹر تھا۔ بائیں طرف حضرت صاحب کرسی پر تھے۔ سامنے اس کے اور سپرنٹنڈنٹ سے پرے محمد بخش تھانیدار بٹالہ تھا۔ حاکم علی سپاہی متعینہ قادیان سپرنٹنڈنٹ کو رومال ہلا رہا تھا۔ درمیان میں زمین پر وہی بستے جو ڈونگے دالان کے تخت پر رکھے ہوئے تھے۔ پڑے تھے ۔ محمد بخش نے ایک کاغذ ایک بستے میں سے نکالا اور مسکراتا ہوا کہنے لگا کہ یہ دیکھئے ثبوت۔ انسپکٹر نے اس کاغذ کو لے کر پڑھا اور کہا یہ تو ایک مرید کی طرف سے پیشگوئی کے پورا ہونے کی مبارکباد ہے اور کچھ نہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کاغذ واپس بستے میں ڈال دیا گیا۔ محمد بخش نے پھر ایک اور کاغذ نکالا وہ بھی اسی قسم کا تھا۔ جو واپس بستہ میں ڈال دیا گیا۔ اسی طرح کئی کاغذ دیکھے گئے اور واپس کئے گئے ۔ آخر کار دو کاغذ جن میں سے ایک ہندی میں لکھا ہو اتھا۔ اور دوسرا مرزا مام الدین کا خط محمدی بیگم کے متعلق تھا، لے کر عملہ پولیس واپس چلا گیا۔ ایک دو ماہ بعد ایک سکھ انسپکٹر پولیس آیا اور وہی دونوں کاغذ واپس لایا۔ حضرت صاحب نے اس کو ڈونگے دالان میں بلا لیا۔ آداب عرض کرنے کے بعد اس نے ہندی کا خط حضرت کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو جناب کا آٹے وغیرہ کے متعلق دوکاندار کا ٹونبو ہے اور یہ دوسرا کاغذ کس کا ہے؟ حضرت صاحب نے فرمایا ۔مرزا مام الدین کا ہے ۔ انسپکٹر نے کہا کہ اس کے متعلق مرزا ا مام الدین سے پوچھنا ہے کہ کیا یہ تمہارا ہے ۔ اس لئے مرزاامام الدین کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ آدمی بھیج کر مرزا امام الدین کو بلوایا گیا ۔ انسپکٹر نے اس کو خط دکھا کر کہا کہ کیا یہ آپ کا خط ہے ؟ اُس نے صاف انکار کردیا کہ میرا نہیں ۔ تب انسپکٹر نے کاغذ اور قلم دوات منگوا کر مرزا ا مام الدین کو دیا کہ آپ لکھتے جائیں ،میں بولتا جاتا ہوں۔ انسپکٹر نے اس خط کی صرف دو سطریں لکھوائیں۔ پھر امام الدین کے ہاتھ سے لے کر اس کا لکھا ہوا کاغذ لے کر اصل خط کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھنے لگا۔ میں جھٹ انسپکٹر کی کرسی کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور ان دونوں خطوں کو میںنے دیکھ کر انسپکٹر کو کہا کہ یہ دیکھئے قادیان کا نون یا کے اوپر ڈالا گیا ہے اور گول نہیں بلکہ لمبا ہے ۔ اور دوسری تحریر میں بھی بالکل ویسا ہی ہے۔ اور یہ دیکھئے لفظ ’’باریمیں‘‘ کو ’’بارہ میں‘‘ لکھا ہوا ہے اور دوسری تحریر میں بھی ’’بارہ میں‘‘ ہے ۔ مجھے ساتھ لے جائیے۔ میں ثابت کردوں گا کہ یہ دونوں تحریریں ایک شخص کے ہاتھ کی ہی لکھی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر انسپکٹر نے اس خط کو ہاتھ سے پکڑکراوندھا اپنی ران پر مارتے ہوئے کہا کہ ـ’’لجانا کتھے اے پتہ لگ گیا‘‘ جوں ہی انسپکٹر نے یہ کہا تو مرزا امام الدین خود ہی بول پڑا کہ یہ خط میرے ہاتھ کا ہی لکھا ہوا ہے ۔ سب لوگ جو کھڑے تھے اس کے جھوٹ پر سخت انگشت بدندان ہوئے کہ ابھی اس نے کہا تھا کہ یہ خط میرا نہیں۔ اب کہتا ہے کہ یہ خط میرا ہے ۔ تب انسپکٹر کھڑا ہوگیا اور حضرت صاحب کو وہ خط دے کر جانے کے لئے رخصت طلب کی ۔ لیکن ساتھ ہی کہا کہ میں بطور نج محمدی بیگم کی پیشگوئی کی نسبت جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نواڑی پلنگ کے اوپر کھڑے تھے اور انسپکٹر نیچے زمین پر کھڑا تھا ۔ اسی حالت میں کھڑے کھڑے حضرت صاحب نے تمام قصہ سنایا۔ تب انسپکٹر سلام کر کے رخصت ہوکر واپس چلا گیا۔
{1194} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب بیمار تھے۔ ان کے لئے ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ پورٹ وائن ایک چمچہ دی جائے۔ چنانچہ ایک بوتل امرتسر یا لاہور سے منگوائی گئی۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان کے اس حصہ میں رہتا تھا جہاں حضور کی دواؤں کی الماری تھی۔ میںنے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تشریف لائے ۔ اُن کے ہاتھ میں بوتل تھی۔ انہوںنے بوتل الماری میں رکھ دی اور مجھ سے فرمایا کہ پیر جی پانی چاہئے ۔ میںنے کہا کیا کروگے؟ کہا کہ ابا نے فرمایا ہے کہ ہاتھ دھو لینا کیونکہ شراب کی بوتل پکڑی ہے۔ پھر ہاتھ دھو لئے ۔
{1195} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں سر کی لیکھ (جو جُوں سے چھوٹی ہوتی ہے) بڑے پاور کی خوردبین میں رکھ کر حضور علیہ السلام کو دکھانے کے لئے لے گیا۔ حضور نے دیکھنے کے بعد فرمایا۔ آؤ میاں بارک اللہ! (مرزا صاحبزاہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم )تمہیںعجائبات قدرت دکھلائیں۔ اس وقت حضور ڈونگے دالان میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔
{1196} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم حجرے میں بیماری کی حالت میں پڑے تھے۔ حجرے کے باہر برآمدہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے۔ اور حضور کے سامنے نصف دائرہ میں چند ڈاکٹر صاحبان اور غالباً حضرت خلیفہ اول بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درمیان میں پورٹ وائن کی وہی بوتل جو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم کے لئے منگائی گئی تھی پڑی ہوئی تھی۔ میاں مبارک احمد صاحب کے علاج کے لئے دواؤں کی تجویز ہورہی تھی میں بھی ایک طرف کو بیٹھا تھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا! کہ یہ جو حافظ کہتا ہے ۔
آں تلخ وش کہ صوفی ام الخبائث خواند
اشھی لنا واحلی من قبلۃ العذارٰی
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعر میں حافظ نے ام الخبائث ترک دنیا کو کہا ہے اور تلخ اس لئے کہا کہ ترک دنیا سے ایسی تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی کے جوڑ اور بند اکھاڑ ے جائیں اور ام الخبائث اس لئے کہا کہ جس طرح ماں جننے کے بعد تمام آلائشوں کو باہرنکال دیتی ہے ۔ اسی طرح ترک دنیا بھی انسان کی تمام روحانی آلائشوں کو باہر نکال دیتی ہے ۔ قبلۃ العذارٰی سے مراد ہے دنیا کی عیش وعشرت ۔ پس حافظ صاحب کامطلب یہ ہے کہ دنیا کو حاصل کرنے کی نسبت ہمیں ترک دنیا زیادہ پسندیدہ ہے ۔
{1197} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ کانگڑہ والے زلزلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں چلے گئے تھے۔ انہی دنوں باغ میں حضرت صاحب کو الہام ہوا۔ ’’تین بڑے آدمیوں میں سے ایک کی موت ‘‘عصر کی نماز جب ہوچکی ۔ دوست چلے گئے ۔ مولوی عبد الکریم صاحب مصلّٰی پر بیٹھے رہے۔ میں ان کے پاس مصلے کے کنارہ پرجابیٹھا، اور کہا کہ سنا ہے کہ آج یہ الہام ہوا ہے ۔ مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ لیکن کسی قسم کی بات نہ کی۔ میں تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔ میرے خیال میں تین بڑے آدمی یہ تھے۔ حضرت خلیفہ اول ، مولوی عبد الکریم صاحب ، مولوی محمد احسن صاحب ، چند روز بعد مولوی عبد الکریم صاحب کی پشت پر ایک پھنسی نکلی جو بڑھتے بڑھتے کاربنکل بن گئی۔ غرض اس الہام کے بعد قریباً ڈیڑھ ماہ میں مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوگئے اور پیشگوئی نہایت صاف طور پر پوری ہوئی۔
{1198} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر عبد الرحمن صاحب بی۔اے نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک مرتبہ مدرسہ احمدیہ کے مکان میں جہاں پہلے ہائی سکول ہوا کرتا تھا۔ ایک گھنٹہ کے قریب لیکچر دیا ۔ بعد میں آپ کی تحریک سے حضرت مولوی عبدالکریم اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ہفتہ وار ایک ایک گھنٹہ لیکچر طلباء کے سامنے دیا کرتے تھے۔ اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا۔ ہم جو تصانیف کرتے ہیں۔ یہ علماء زمانہ کے مقابلہ اور مخاطبت میں لکھی گئی ہیں۔ ان کتابوں کو طلباء نہیںسمجھ سکتے۔ ان دنوں ان کے کورس بھی اتنے لمبے ہیں کہ طلباء کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ تالیفات کو پڑھنے کی فرصت پاسکیں۔ اس لئے میں یہی کہتا ہوں اور پھر پھر کہتا ہوں کہ سکولوں کے ماسٹر صاحبان میری کتابوں کے چند صفحات مطالعہ کر لیا کریں اور ان کا خلاصہ سہل اور آسان الفاظ میں طلباء کے روبرو بیان کردیا کریں۔ تاکہ ہماری باتیں طلباء کے دل ودماغ میں نقش ہوجائیں۔ ورنہ جو کتب مولویوں کے مقابلہ میں لکھی گئی ہیں وہ بچوں کے فہم سے بالا تر ہوتی ہیں۔
{1199} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی ذوالفقار علی خان صاحب نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیاکہ دوران قیام مقدمہ کرم دین حضور علیہ السلام کچہری گورداسپور کی عمارت کے متصل پختہ سڑک کے کنارے ٹالیوں کے نیچے دری کے فرش پر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ جس روز کا یہ واقعہ ہے ۔ حضور لیٹے ہوئے تھے۔ اور سڑک کی طرف پشت تھی۔ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا اور وہ اپنی کوٹھی کو اسی طرف سے جاتاتھا۔ میںنے دیکھا کہ وہ اس گروہ کی طرف دیکھتا ہوا جاتا تھا۔ اور ہماری جماعت سے کوئی تعظیماً کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ میںنے یہ دیکھ کر حضرت سے عرض کی کہ حضور! ڈپٹی کمشنر ادھر سے ہمارے قریب سے گزرتا ہے اور کل بھی اس نے غور سے ہم لوگوں کی طرف دیکھا ۔ آج بھی ہم میں سے کوئی تعظیم کے لئے نہیں اُٹھا ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ وہ حاکم وقت ہے ۔ ہمارے دوستوں کو تعظیم کے لئے کھڑا ہونا چاہئے ۔ پھر اس کے بعد ہم برابرتعظیماً کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور اس کے چہرہ پر اس کے احساس کا اثر معلوم ہوتا تھا۔ اسی مقدمہ کے دوران ایک مرتبہ حضور گورداسپور کی کچہری کے سامنے ٹالیوںکے سایہ کے نیچے تشریف فرما تھے۔ عدالت کا اوّل وقت تھا۔ اکثر حکام ابھی نہیں آئے تھے۔ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا ۔چلئے ۔جج خد ابخش صاحب سے مل آئیں۔ میں ان کے ہمراہ جج صاحب کے اجلاس میں چلا گیا۔ وہ خود اوران کے پیشکار (ریڈر) محمد حسین جن کولوگ محمد حسین خشکی کے نام سے ذکر کیا کرتے تھے۔ اجلاس میں تھے۔ غالباً اور کوئی نہ تھا۔ محمد حسین نے خواجہ صاحب سے مقدمہ کرم دین کا ذکر چھیڑا۔ غالباً وہ اہلحدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور کہا کہ مرزا صاحب نے یہ کیا کیا کہ مقدمہ کا سلسلہ شروع کر لیا ہے ۔ صلح ہوجانی چاہئے۔ جج صاحب نے بھی خواجہ صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب کی شان کے خلاف ہے ۔ مقدمہ بازی بند ہوناچاہئے اور باہمی صلح آپ کرانے کی کوشش کریں۔ حضرت سے اس بارہ میں ضرور کہیں اور میری جانب سے کہیں۔ خواجہ صاحب نے کہاکہ خواہش تو میری بھی یہی ہے اور یہ اچھا ہے ۔میں آپ کی طرف سے حضرت کی خدمت میں عرض کروں گا۔ یہ کہہ کر خواجہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے مجھ سے کہا کہ آپ بھی میری تائید کیجئے گا۔ میں خاموش رہا۔ جب اجلا س سے ہم باہر آگئے۔ تو میںنے کہا کہ اس بارہ میں میں آپ کی تائید نہیں کرسکتا۔ مجھ سے یہ توقع نہ رکھئے۔ خواجہ صاحب نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ جج صاحب نے کہاہے کہ مقدمہ کرنا حضرت کی شان کے خلاف ہے اور صلح ہوجاناہی اچھا ہے اور مجھے تاکید کی ہے کہ حضور سے عرض کروں ۔ حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرہ سرخ ہوگیا۔ اورفرمایا آپ نے کیوں نہ کہہ دیا کہ صلح اس معاملہ میں ناممکن ہے ۔ کرم دین کاالزام ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوں۔ پس یہ توخدا کے ساتھ جنگ ہے اور خدا پر الزام ہے ۔ نبی صلح کرنے والا کون ہوتا ہے اور اگر میں صلح کرلوں تو گویا دعویٰ نبوت کوخود جھوٹا ثابت کردوں ۔ دیر تک حضرت اس معاملہ میں کلام فرماتے رہے اور چہرہ پر آثار ناراضگی تھے یہاں تک کہ کھڑے ہوگئے اور ٹہلنے لگے۔
{1200} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا۔ کہ ایک صاحب عبد المحی عرب قادیان میں آئے تھے۔ انہوںنے سنایا کہ میں نے حضرت اقدس کی بعض عربی تصانیف دیکھ کر یقین کر لیا تھا کہ ایسی عربی بجز خداوندی تائید کے کوئی نہیں لکھ سکتا۔ چنانچہ میں قادیان آیا۔ اور حضور سے دریافت کیا کہ کیا یہ عربی حضور کی خود لکھی ہوئی ہے ۔ حضور نے فرمایا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل وتائید سے ۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ میرے سامنے ایسی عربی لکھ دیں تو میں آپ کے دعاوی کو تسلیم کرلوں گا۔ حضور نے فرمایا یہ تو اقتراحی معجزہ کا مطالبہ ہے ۔ ایسا معجزہ دکھانا انبیاء کی سنت کے خلاف ہے۔ میںتو تب ہی لکھ سکتا ہوں جب میرا خد ا مجھ سے لکھوائے ۔ اس پر میںمہمان خانہ میں چلا گیا اور بعد میں ایک چٹھی عربی میں حضور کو لکھی۔ جس کا حضور نے عربی میں جواب دیا۔ جوویسا ہی تھا ۔ چنانچہ میں داخل بیعت ہوگیا۔
{1201} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک مولابخش صاحب پنشنر نے بذریعہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بمعہ اہل بیت وخدام امرتسر تشریف لائے۔ امرتسر کی جماعت نے ایک بڑے مکان کا انتظام کیا مگر اس خیال سے کے مرد زیادہ ہوں گے ۔ مکان کا بڑا حصہ مردانہ کے لئے اور چھوٹا حصہ زنانہ کے لئے تجویز کیا۔ حضور نے آتے ہی پہلے مکان کودیکھا اور اس تقسیم کو ناپسند فرمایا اور بڑے حصے کو زنانہ کے لئے مخصوص فرما لیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور کو صنف نازک کے آرام کا بہت خیال رہتا تھا۔
{1202} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر تشریف لائے ۔ اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل( جس کانام اب بندے ماترم ہال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا۔ لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی۔ پھر وہ اورآگے ہوئے۔ پھر بھی حضور مصروف لیکچر رہے ۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کر دی تو حضور نے لے کر چائے پی لی۔ اس پرلوگوںنے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام۔ روزے نہیں رکھتے۔ اور بہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی۔ اور حضور اس میں داخل ہوگئے ۔ لوگوںنے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اور بہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ مگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اور بعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا۔ کہ ’’اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادتا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سنا۔ حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اور ان کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کومارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے ۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑ بڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کوکہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا ۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبد الخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا۔ تو حضور نے فرمایا! کہ مفتی صاحب نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقعہ پید اکردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے ۔
{1203} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی مجلس میں دیکھا۔ کہ حضور بمثل دیگر اصحاب کے بے تکلف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے اور اس میں ایک اجنبی کے واسطے کوئی امتیاز ی رنگ نہ ہوتا تھا۔ ایک دن بعد فراغت نماز ظہر یا عصر حضور مسجد سے نکل کر گھر کے متصلہ کمرہ میں داخل ہوئے جہاں حضور نے جوتا اتارا ہوا تھا۔ میںنے دیکھا کہ حضور کا دھیان جوتا پہنتے ہوئے جوتے کی طرف نہ تھا بلکہ پاؤں سے ٹٹول کر ہی اپنا جوتا پہن رہے تھے۔ اور اس وقت حضرت مولوی نورا لدین صاحب سے مخاطب تھے۔ مولوی صاحب حضور کے سامنے قدرے خمیدہ ہوکر نہایت مودّب کھڑے تھے۔ اور کوئی اپنا خواب حضور کو سنا رہے تھے ۔ وہ خواب نہایت اطمینان سے سن کر حضور نے فرمایا کوئی فکر نہیں ۔ مبشر ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے ۔میںنے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی صاحب نہایت ادب ونیاز سے کھڑے ہوئے تھے اور نگاہیں ان کی زمین کی طرف تھیں۔ بات کرتے ہوئے کسی کسی وقت نظر سامنے اٹھاکر حضور کو دیکھ لیتے اور پھر آنکھیں نیچی کر کے سلسلہ کلام چلاتے جاتے تھے۔
{1204} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ایک دفعہ غالباً۱۹۰۷ء میں امۃ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم ہمشیرہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جو میری ننھیال کی طرف سے رشتہ دار بھی ہے۔ ایک کاغذ کا پُرزہ دیا تھا جو ردی کے طور پر تھا۔ لیکن چونکہ اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین ایدھااللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی عبارتیں تھیں ۔ اس لئے میں نے اس کو تبرکاً نہایت شوق سے حاصل کیااور محفوظ رکھا۔ پھر کسی وقت وہ کاغذ مجھ سے پس وپیش ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ کسی کتاب میں پڑا ہوا ہے یا گم ہوگیا ہے ۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہے ۔ لیکن چونکہ اس کے ساتھ ایک واقعہ کا تعلق ہے۔ جو مجھے ا مۃ الرحمن صاحبہ مرحومہ نے خود سنایا تھا اس بے تکلفانہ لکھی ہوئی عبارت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے تعلق باللہ اور تقویٰ وطہارت وعبادات میں شغف پر روشنی پڑتی ہے ۔ اس لئے میں اس کا ذکر کرنا اور تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ امۃ الرحمن صاحبہ جن دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے گھر میں رہا کرتی تھیں۔ انہوں نے دیکھا اور خاکسار سے بیان کیا کہ ایک دن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ نے یہ تجربہ کرنا چاہا کہ دیکھیں آنکھیں بند کر کے کاغذ پر لکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ پرزہ کاغذ پکڑ کر اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حسب ذیل عبارت لکھی ہوئی تھی اور جو مجھے حرف بحرف بخوبی یاد ہے ۔ اور مجھے اس کے متعلق ایسا وثوق ہے کہ اگر وہ پرزہ کاغذ کبھی دستیاب ہوجاوے تو یقینا یہی الفاظ اس پر لکھے ہوئے ہوںگے۔ حضور نے آنکھیں بند کرنے کی حالت میں لکھا تو یہ لکھا کہ
’’انسان کو چاہئے کہ ہر وقت خد اتعالیٰ سے ڈرتا رہے اور پنج وقت اس کے حضور دعا کرتا رہے۔‘‘
دوسری جگہ اسی حالت میں حضرت اماں جان کی تحریر کردہ عبارت حسب ذیل تھی۔
’’محمود میرا پیارا بیٹا ہے کوئی اس کو کچھ نہ کہے۔‘‘ ’’مبارک احمد بسکٹ مانگتا ہے ۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت ان سے شکستہ اور پختہ خط میں صاف طور پر پڑھی جاتی تھی اور باوجود آنکھیں بند کر کے لکھنے کے اس میں سطر بندی مثل دوسری تحریرات کے قائم تھی۔ لیکن حضرت اُم المومنین کے حروف اپنی جگہ سے کچھ اوپر نیچے بھی تھے اور سطر بندی ان کی قائم نہ رہی تھی۔ لیکن خاص بات جس کا مجھے ہمیشہ لطف آتا ہے وہ یہ تھی کہ اپنے گھر میں بے تکلفانہ بیٹھے ہوئے بھی اگر اچانک بے سوچے کوئی بات حضور کو لکھنی پڑتی ہے تو وہ نصیحتانہ پاک کلمات کے سوا اور کوئی نہیں سوجھی۔ اور ادھر حضرت اُم المومنین کی عبارت ایسی ہے جوکہ ماحول کے حالات کے مطابق ان کے ذہن میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ماموروں اور دوسروں میں ہوا کرتا ہے ۔
{1205} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی نے بواسطہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف فرما تھے۔ مجلس میں مولوی محمد علی صاحب بھی موجو دتھے۔ اس وقت مولوی صاحب مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں زر جرمانہ وصول کر کے آرہے تھے۔ اور مہتمم خزانہ کے ساتھ ان کی جو گفتگو مقدمہ اور واپسی جرمانہ کے متعلق ہوئی تھی۔ وہ حضور کو سنا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ جس مجسٹریٹ نے اس مقدمہ میں جرمانہ کیا تھا ۔ اپیل منظور ہونے پر وہی افسر مہتمم خزانہ ہوگیا تھا جس سے زر جرمانہ ہم نے واپس لینا تھا۔ چنانچہ ہم پہلے اس کے مکان پر (کچہری کے وقت سے پہلے)گئے اور اس سے ذکر کیا کہ ہم توجرمانہ واپس لینے کے واسطے آئے ہیں۔ اس پر وہ مجسٹریٹ بہت نادم سا ہوگیا ۔ اور اس نے فوراً کہا کہ آپ کو وہ رقم نہیں مل سکتی کیونکہ اس کے لئے خود مرزا صاحب کی دستخطی رسید لانا ضروری ہے ۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ وہ رسید تو میں مرزا صاحب سے لکھوا لایا ہوں ۔ پھر اس مجسٹریٹ نے کہا کہ پھر بھی یہ رقم آپ کو نہیں دی جاسکتی۔ جب تک آپ کے پاس مرز اصاحب کی طرف سے اس امر کا مختار نامہ موجود نہ ہو۔ مولوی صاحب نے کہا کہ وہ بھی میں لے آیاہوں۔ اسے لاجواب ہوکر کہنا پڑا کہ اچھا کچہری آنا۔ اس موقعہ پر مولوی محمد علی صاحب نے مسیح موعودعلیہ السلام کے حضور ایک یہ فقرہ بھی سیشن جج صاحب منظور کنندہ اپیل کی باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضور اس سیشن جج نے تو اس قدر زور کے ساتھ حضور کی بریت اور تائید میں لکھا ہے کہ اگر ہم میں سے بھی کوئی اس کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا تو شاید اتنی جرأت نہ کرسکتا۔ یہ جملہ حالات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نہایت خوشی کی حالت میں سنتے رہے تھے ۔
{1206} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔(خاکسار عرض کرتا ہے کہ)حضرت والدہ صاحبہ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے سارے مکان کا نام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ پھر جب وہ مکان بنا جس میں بعد میں میاں شریف رہتے رہے ہیں اور جس میں آج کل ام طاہر احمد رہتی ہیں تو چونکہ اس کاایک حصہ گلی کی طرف سے نمایاں طور پر نظر آتا تھا اس لئے آپ نے اس کے اس حصہ پر بیت البرکات کے الفاظ لکھوا دئیے جس سے بعض لوگوںنے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ شاید یہ نام اسی حصہ کا ہے حالانکہ حضرت صاحب نے اپنے سارے مکان کانام بیت البرکات رکھا ہو اتھا۔ علاوہ ازیںحضرت صاحب نے اپنے مکان کے بعض حصوں کے مخصوص نام بھی رکھے ہوئے تھے مثلاً مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ کا نام بیت الفکر رکھا تھا بلکہ دراصل اس نام میں اس کے ساتھ والا دالان بھی شامل تھا۔ اسی طرح نچلی منزل کے ایک کمرہ کانام جو اس وقت ڈیوڑھی کے ساتھ ہے، بیت النور رکھا تھا اور تیسری منزل کے اس دالان کانام جس میں ایک زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب رہتے رہے ہیں اور اس وقت ام وسیم احمد رہتی ہیں بیت السلام رکھا تھا۔ نیز حضرت والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں نے سنا ہو اہے کہ جس چوبارہ میں اس وقت مائی کاکو رہتی ہے جو مرز اسلطان احمد صاحب والے مکان کے متصل ہے اور میرے موجودہ باورچی خانہ کے ساتھ ہے اس میں حضرت صاحب نے وہ لمبے روزے رکھے تھے جن کا حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے اور یہی وہ کمرہ ہے جس میں حضرت صاحب نے براہین احمدیہ تصنیف کی تھی۔
{1207} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کا بچہ مبارک احمد فوت ہوا تو اس وقت میں اور مولوی محمد علی صاحب مسجد مبارک کے ساتھ والے کوٹھے پر کھڑے تھے۔ اس وقت اندرون خانہ سے آواز آئی جو دادی کی معلوم ہوتی تھی کہ ’’ہائے او میریا بچیا‘‘ حضرت صاحب نے دادی کو سختی کے ساتھ کہا کہ دیکھو وہ تمہارا بچہ نہیں تھا۔ وہ خدا کا مال تھا جسے وہ لے گیا اور فرمایا یہ نظام الدین کا گھر نہیں ہے ۔ منشی صاحب کہتے ہیں کہ انہی دنوں نظام الدین کا ایک لڑکا فوت ہوا تھا جس پر ان کا گھر میں دنیا داروں کے طریق پر بہت رونا دھونا ہو اتھا۔ سو حضرت صاحب نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ میرے گھر میں یہ بات نہیں ہونی چاہئے۔ اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ کام بہت خراب ہوگیا ہے کیونکہ اس لڑکے کے متعلق حضرت صاحب کی بہت پیشگوئیاں تھیں اور اب لوگ ہمیں دم نہیں لینے دینگے اور حضرت صاحب کو تو کسی نے پوچھنا نہیں۔ لوگوں کاہمارے ساتھ واسطہ پڑنا ہے ۔ مولوی صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ نیچے مسجد کی طرف سے بلند آواز آئی جو نہ معلوم کس کی تھی کہ تریاق ا لقلوب کا صفحہ چالیس نکال کرد یکھو۔ مولوی صاحب یہ آواز سن کر گئے اور تریاق القلوب کا نسخہ لے آئے۔ دیکھا تو ا س کے چالیسویں صفحہ پر حضرت صاحب نے مبارک احمد کے متعلق لکھا ہو اتھا کہ اس کے متعلق مجھے جوالہام ہوا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ یا تویہ لڑکا بہت نیک اور دین میں ترقی کرنے والا ہوگا اور یا بچپن میں فوت ہوجائے گا۔ مولوی صاحب نے کہا خیر اب ہاتھ ڈالنے کی گنجائش نکل آئی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادی سے مراد میاں شادی خاں صاحب مرحوم کی والدہ ہے جومبارک احمد کی کھلاوی تھی اور مبارک احمد اسے دادی کہا کرتا تھا۔ اس پر اس کانام ہی دادی مشہور ہوگیا۔ بیچاری بہت مخلص اور خدمت گزار تھی۔ نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ مبارک احمد۱۹۰۷ء میں فوت ہوا تھا جب کہ اس کی عمر کچھ اوپر آٹھ سال کی تھی۔
{1208} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آخری دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو آپ نے اسی دوران میں لاہور سے خط لکھ کر مولوی محمد علی صاحب کو ایک دن کے لئے لاہور بلایا اور ان کے ساتھ میں بھی لاہور چلا گیا ۔ جب مولوی صاحب حضرت صاحب کو ملنے گئے تو حضور انہیں اس برآمدہ میں ملے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کا برآمدہ جانب سڑک تھا۔ میں یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت صاحب نے کوئی بات علیحدگی میں کرنی ہو ،ایک طرف کو ہٹنے لگا جس پر حضور نے مجھے فرمایا۔ آپ بھی آجائیں ۔ چنانچہ میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا۔ اس وقت حضور نے مولوی صاحب سے لنگرکے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیااور فرمایا کہ میں اس کی وجہ سے بہت فکر مندہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کااندیشہ ہے اور ان حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے ۔ اسی ملاقات میں حضور نے مولوی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ میںلاہور میں یہ مہینہ ٹھہروں گا یہاں ان دوستوں نے خرچ اٹھایا ہوا ہے اس کے بعد میں کہیں اور چلاجاؤں گا اور قادیان نہیں جائوں گا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت میں یہ سمجھا کہ یہ جو حضور نے قادیان واپس نہ جانے کا ذکر کیا ہے غالباً موجودہ پریشانی کی وجہ سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ کچھ عرصہ کہیں اور گذار کر پھر قادیان جائوں گا مگر اب میںسمجھتا ہوں کہ اس سے غالباً حضور کی مراد یہ تھی کہ میری وفات کا وقت آگیا ہے اور اب میرا قادیان جانا نہیں ہوگا ۔ واللہ اعلم
{1209} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے سامنے مولوی قطب الدین صاحب نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے اجازت مانگی کہ وہ حضور کے کسی مزارعہ دخیلکار سے کچھ زمین خرید لیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا یہ حقوق کامعاملہ ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر آپ کو اجازت دوں تو پھر دوسروں کو بھی اجازت دینی ہوگی۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان میں کچھ رقبہ تو ہمارا مقبوضہ مملوکہ ہے یعنی اس کی ملکیت بھی ہماری ہے اور قبضہ بھی ہمارا ہے مگر پیشتر رقبہ ایسا ہے کہ وہ ملکیت ہماری ہے لیکن وہ ہمارے قبضہ میں نہیں ہے بلکہ ایسے مزارعین کے قبضہ میں ہے جنہیں ہم بلا کسی خاص قانونی وجہ کے بے دخل نہیں کرسکتے اور نسل بعد نسل انہی کا قبضہ چلتا ہے اور ہمیں ان کی آمد میں سے ایک معین حصہ ملتا ہے ۔ یہ لوگ موروثی یادخیلکار کہلاتے اور وہ مالکان کی مرضی کے بغیر اپنے قبضہ کی زمین فروخت نہیں کرسکتے ۔ مولوی قطب الدین صاحب نے انہی میں سے کسی کی زمین خریدنی چاہی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت نہیں دی اور واقعی عام حالات میں ایسی اجازت دینا فتنہ کا موجب ہے۔ کیونکہ اول تو اگر ایک احمدی کو اجازت دی جائے تو دوسروں کوکیوں نہ دی جائے ۔ دوسرے: زمینوں کے معاملات میں بالعموم تنازعات پیش آتے رہتے ہیں اور مالکان اور مزارعان موروثی کے درمیان کئی باتوں میں اختلاف کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ان حالات میں اگر ہمارے دخیلکاروں سے جو بالعموم غیر مسلم اور غیر احمدی ہیں، احمدی ووست زمینیں خرید لیں تو پھر ہمارے احمدی احباب کے درمیان تنازعات اورمقدمات کاسلسلہ شروع ہوجانے کا اندیشہ ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم دلوں میں میل آنے کا احتمال ہے۔ ان حالات میں حضرت صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی اور اسی کی اتباع میں آپ کے بعد ہم بھی اجازت نہیں دیتے بلکہ اسی قسم کے وجوہات کی بناء پر ہم عموماً ان دیہات میں بھی اجازت نہیں دیتے جن میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں اور ایسے دیہات تین ہیں یعنی ننگل اور بھینی اور کھارا۔ گویا قادیان میں تو ہمارا خاندان مالک ہے اور دوسرے لوگ موروثی یا دخیلکار ہیں اور ننگل ،بھینی اور کھارا میں ہم مالکان اعلیٰ ہیں اور دوسرے لوگ مالکان ادنیٰ ہیں۔
{1210} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور ؑ کی خدمت میں سورۃ الحمد خلف امام پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا کہ ’’ قرأت سورۃ الحمد خلف امام بہتر ہے ۔‘‘ میںنے عرض کی کہ اگر نہ پڑھا جائے تو نما زہوجاتی ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ نماز توہوجاتی ہے مگر افضل تو یہی ہے کہ الحمد خلف امام پڑھا جاوے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بِدوں سورۃ الحمدخلف امام نماز نہ ہوتی ہوتو حنفی مذہب میں بڑے بڑے صالح لو گ گزرے ہیں وہ کس طرح صالح ہوجاتے۔ نمازدونوں طرح سے ہوجاتی ہے ۔ فرق صرف افضلیت کا ہے ۔ ‘‘ ایسا ہی آمین بالسرّ پر آمین بالجہر کو ترجیح دی جاتی تھی ۔
{1211} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب ،ساکن چک ایمرچھ کشمیر نے کہ ’’میں نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنا یہ رویاء بیان کیا :
کئی درختوں کی قطار ہے جن پر گھونسلے ہیں اور ان میں خوبصورت پرندے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ مسیح موعودکی جماعت ہے ‘‘
{1212} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے رسالہ فتح اسلام اور توضیح المرام شائع فرمائے تو ان کے سرورق پر مرسل یزدانی کا فقرہ حضور کی طرف منسوب کر کے لکھا ہوا تھا۔ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مرزاصاحب خود کو مرسل یزدانی تحریر کرتے ہیں ۔ میںنے معترض کو کہا کہ ممکن ہے کہ مطبع والوں نے لکھ دیاہو(کیونکہ شیخ نور احمد صاحب کے مطبع ریاض ہندامرتسر میں رسائل موصوفہ طبع ہوئے تھے) جب میں قادیان آیا تویہ ذکر میںنے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں کیا۔ حضور ؑ نے بلا تأمل جواباً فرمایا:’’میری اجازت کے بغیر مطبع والے کس طرح لکھ سکتے تھے۔‘‘
{1213} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم ساکن ایمرچھ نے کہ ایک دن سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام جو صبح کے وقت سیر کونکلے تو مولوی عبد اللہ صاحب حال وکیل کشمیر نے حضور علیہ السلام کے پاس اپنی رویاء بیان کی کہ میںنے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دریا ہے اور میں ا س کے کنارے کھڑاہوں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ ’’اس کا پانی کیسا تھا؟‘‘ مولوی صاحب نے جواب دیا ’’میلا پانی تھا‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ دریاسے مراد دل ہے ۔‘‘ راقم ھٰذا کو یہ یاد نہیں رہا کہ میاں عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے یہ کہا تھا یا نہیں ؟ کہ حضور علیہ السلام نے مولوی صاحب کو اصلاح نفس کی تلقین فرمائی تھی یا نہ ؟ ۱؎

۱؎ مولوی عبداللہ صاحب وکیل آخر عمر میں بہائی ہو گئے تھے۔ (ناشر)
{1214} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے ایک شخص کے بار بار بہ تکرار سوال پر استغفار اور لاحول گیارہ گیارہ دفعہ پڑھنے کا بطور وظیفہ فرمایا تھا (سائل کا سوال تعداد معینہ کا تھا)مجھے ٹھیک یاد نہیں رہا۔ شاید درود شریف بھی گیارہ دفعہ پڑھنے کا ساتھ ہی فرمایا تھا۔
{1215} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میاں فقیر خان صاحب مرحوم ساکن اندور کشمیر (ملازم حضرت راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم جاگیرداریاڑی پورہ کشمیر) نے ،راجہ صاحب موصوف کی بینائی بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ جب وہ قادیان گئے تو جب کبھی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے باغ میں بیدانہ کے ایام میں جاتے تو حضور علیہ السلام راجہ صاحب موصوف کے آگے خود اچھے اچھے دانے بیدانہ یا شہتوت میں سے چن کر رکھتے۔ راقم عاجز کرتا ہے کہ راجہ صاحب موصوف مہمان خانہ میں رہتے تھے اور حضور علیہ السلام مہمان خانہ آکر راجہ صاحب کو بھی سیر میں شریک فرماتے تھے۔
{1216} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا ’’لڑکے کے عقیقہ کے لئے دوبکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘ میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے ۔ ایک بکرا کے جواز کا فتوی ٰ نہ دیا ۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کر کے بھی عقیقہ کر سکیں۔
{1217} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بیمار مہمانوں کی بعض اوقات عیادت فرماتے تھے ۔ راجہ عطا محمد خان صاحب مرحوم کی بھی مہمان خانہ میں آکر عیادت فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میاں ضیاء الدین صاحب مرحوم طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول کی بورڈنگ میں عیادت فرمائی تھی۔
{1218} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ بمعہ اصحاب اس راستہ کی طرف جو یکوں ٹمٹموں کا راستہ متصل محلہ خاکر وبان بٹالہ کو جاتا ہے ۔ سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر راستہ کے ایک طرف درخت کیکر کسی کا گرا ہوا تھا ۔ بعض دوستوں نے اس کی خورد شاخیں کاٹ کر مسواکیں بنالیں۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ اس وقت حضرت خلیفہ ثانی بھی تھے(اس وقت دس بارہ سال عمر تھی) ایک مسواک کسی بھائی نے ان کو دے دی اور انہوںنے بوجہ بچپن کی تکلفی کے ایک دفعہ کہا کہ ابا تسیں مسواک لے لو۔ حضور علیہ السلام نے جواب نہ دیا۔ پھر دوبارہ یہی کہا۔ حضور علیہ السلام نے پھرجواب نہ دیا ۔ سہ بارہ پھر کہا کہ ابا مسواک لے لو ۔ تو حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’پہلے یہ بتاؤ کہ مسواکیں کس کی اجازت سے لی گئی ہیں ؟ اس فرمان کو سنتے ہی سب نے مسواکیں زمین پر پھینک دیں۔
{1219 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ومغفور ساکن گاگرن کشمیر نے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے کسی نے دریافت کیا ۔ حضور ! درود شریف کس قدر پڑھنا چاہئے ؟ حضور نے فرمایا ۔’’ تب تک پڑھنا چاہئے کہ زبان تر ہوجائے۔‘‘
{1220} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ قیام مقبرہ بہشتی سے پہلے فوت ہوئے اور اس قبرستان میں جو شہیدوں کے تکیہ کے قریب جانب شرق قادیان قدیم واقعہ ہے بطور امانت حسب الارشاد حضرت اقدس مدفون ہوئے تھے۔ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اس طرف سیر کو تشریف لے گئے ۔ واپسی پر مولوی صاحب موصوف کی قبر پرکھڑے ہوکر معہ اصحاب ہمراہیان ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ۔
{1221} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ خاکسار راقم عرض کرتا ہے کہ میاں عبد الکریم صاحب مرحوم حیدر آبادی کو میرے روبرو دیوانہ کتے نے بورڈنگ ہائی سکول (جو اس وقت اندرون شہر تھا اور جواب مدرسہ احمدیہ کا بورڈنگ ہے ) کے صحن میں بوقت دن کاٹا تھا۔ میرے سامنے ہی اسے کسولی بھیجا گیاتھا۔ وہاں سے علاج کرا کے جب مرحوم واپس قادیان آیا۔ تو چند روز کے بعد اسے ہلکاؤ ہوگیا۔ اس پر حضرت مولوی شیر علی صاحب نے کسولی کے افسران کو تار دیا کہ عبد الکریم کو ہلکاؤ ہوگیا ہے۔ کیا علاج کیا جائے ؟ انہوںنے جواب دیا
‏Sorry`nothing can be done for Abdul Karim
افسوس! عبد الکریم کے لئے اب کچھ نہیںہوسکتا۔ تب عبد الکریم کو سید محمد علی شاہ صاحب رئیس قادیان کے ایک مکان میں علیحدہ رکھا گیا۔ اور مکرم معظم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور خاکسار ا س کے پاس پہرہ کے لئے اپنی مرضی سے لگائے گئے۔ ہم دونوں بھی اس کے پاس جانے سے ڈرتے تھے ۔ بہر حال سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے نہایت الحاح سے عبد الکریم کے لئے دعائیں کیں ۔ ڈاکٹروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو ہر گز زہر دے کر نہ مارا جائے ۔ اسے بادام روغن بھی استعمال کراتے رہے ۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی دعاؤں کی برکت سے اسے شفاء دی۔
{1222} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میںنے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بعض اپنی کمزوریوں کا ذکر کیا اور عرض کی کہ بعض وقت طبیعت کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ گویا طبیعت میں نفاق آگیا ہے ۔ حضور ؑ نے زور دار الفاظ کے لہجہ میں فرمایا کہ ’’نہیں نہیں کچھ نہیں۔ چالیس سال تک تو نیکی اور بدی کا اعتبار ہی نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کہ کہ مجھے پے درپے دو خوابیں دہشت ناک آئی ہیں ۔فرمایا۔ سناؤ۔ میںنے عرض کی کہ’’ خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک خنزیر پر سوار ہوں اور وہ نیچے سے بہت تیز بھاگتا ہے مگر میں اس کے اوپر سے گرا نہیں ہوں۔ اسی اثناء میں ایک بچہ خنزیر مری گردن سے پیچھے کی طرف سے چمٹتا ہے ۔ میں ہر چند کوشش کرتا ہوں کہ اس کو گردن سے نیچے گرادوں مگر وہ جبراً میری گردن سے چمٹتا ہے اسی حالتے میں میری آنکھ کھل گئی۔
دوسری خواب یہ ہے کہ ایک نامعلوم سا آدمی میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ میں اور یہ دونوں نصرانی ہیں۔ حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ دونوں خوابیں اچھی ہیں۔ چنانچہ خواب اول کے متعلق فرمایا کہ تم کسی عیسائی پر فتح یاب ہوگے ۔ مگر بچہ خنزیر کے متعلق کوئی تعبیر نہ فرمائی ۔ اور دوسری خواب کے متعلق فرمایا (اور ایک کتاب علم تعبیر کی بھی سامنے رکھ لی تھی) کہ ایسی خواب کا دیکھنے والا اگر اہلیت رکھتا ہوتو بادشاہ ہوجاوے گا۔ کیونکہ نصرانی نصرت سے نکلا ہے یعنی نصرت یافتہ۔ اور نصاریٰ نصرانی آج دنیا کے بادشاہ ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر بادشاہی کی اہلیت نہیں رکھتا تو بڑا متمو ّل ہوجاوے گا۔ اس کے چند روز بعد مجھے بمقام ڈہری والہ داروغہ برائے تصدیق انتقال اراضی زر خرید واقعہ سیکھواں کے لئے جانا پڑا۔ بر مکان چوہدری سلطان ملک صا حب سفید پوش( اب ذیلدار ہیں) ایک عیسائی نبی بخش کے نام کے ساتھ میری مذہبی گفتگو چھڑ گئی ۔ آخر وہ عیسائی مغلوب ہوکر تیزی میں آگیا۔ دفعیہ کے طور پر میں نے بھی اس پر تیزی کی ۔ اس میں بھی وہ مغلوب ہوگیا ا س مجلس میں ایک شخص سوچیت سنگھ نام ساکن چھینا تحصیل گورداسپور جو سکھ مذہب کو ترک کر کے آریہ مذہب اختیار کرچکا تھا ۔ موجو دتھا۔ وہ اس عیسائی کا حامی بن گیااور مجھ پر تیزی کرنے لگا۔ تااس عیسائی کو مشتعل کرے مگر وہ عیسائی بالکل خاموش رہا۔ میںنے اس سکھ آریہ کو کہا کہ میںنے اس کو دفعیہ کے طور پر کہا ہے ۔ ابتداء میںنے نہیں کی مگر وہ سکھ آریہ اشتعال دہی سے باز نہ آیا حتیّٰ کہ اس کو استغاثہ فوجداری عدالت میں دائر کرنے کا اشتعال دلانے سے بھی باز نہ آیا مگر وہ عیسائی باوجود اس سکھ آریہ کے بھڑکانے کے خاموش رہا۔ تب مجھ کو بچہ خنزیر یاد آگیا جو میری گردن سے چمٹتا تھا ۔ احادیث نبویہ میں مسیح موعودعلیہ السلام کے فعل یقتل الخنزیر کی تصدیق بھی ہوگئی ۔
{1223} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پسند نہیں فرماتے تھے کہ احمدی طلباء عیسائی کالجوں میں داخل ہوں ۔ جب خاکسار اور شیح عبد العلی صاحب بھیروی حال ای اے سی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے انٹرنس میں بفضل خدا پاس ہوئے ۔ اس وقت عبد العلی موصوف نے مجھے یہ بات لاہور میں بتائی کہ حضرت صاحب کرسچن کالج لاہور میں احمدی طلباء کا داخلہ پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ عبد العلی صاحب نے کسی کانام بھی بتایاتھا کہ اسے حضور علیہ السلام نے کرسچن کالج لاہور میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ( غالباً فقیر اللہ خان صاحب انسپکٹر کا نام یا اپنا ہی ؟) خاکسار کو بھی حضورنے اسلامیہ کالج لاہور ہی میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوگیا تھا ۔ بعد میں علی گڑھ کالج چلا گیا۔
{1224} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے وقت ایک دفعہ قادیان کا لنگر خانہ گورداسپور منتقل کیا گیا تھا یعنی قادیان میں لنگر خانہ بند کیا گیا اور گورداسپور میں لگایا گیا۔ وہ ایام کرم دین کے مقدمہ کے تھے ۔ جبکہ مجسٹریٹ عمداً نزدیک نزدیک تاریخیں رکھتا تھا تاکہ حضرت صاحب علیہ السلام کو تکلیف ہو ۔ ہم چند طلباء گورداسپور چلے گئے تھے۔
{1225} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا کہ لوگ حضور علیہ السلام کے حج کے متعلق اعتراض کرتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کو خانہ کعبہ طواف کرتے دیکھا ہے۔ ہم تو دجال کے پیچھے پڑے ہیں اس کو ساتھ لے کر حج کریں گے۔
نوٹ: پہلے علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ دجال کا طواف کعبہ ایسا ہے جیسے چور (سارق) کسی مکان میں نقب زنی کے لئے گشت کر لے اور مسیح موعودعلیہ السلام کا طواف جیسے کوتوال چوروں کے تعاقب میں گشت کرتا ہے ۔
{1226} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میاں شمس الدین صاحب (غیر احمدی) سابق سیکرٹری انجمن حمایت اسلام لاہور نے کہ دعویٰ سے پہلے ہم چند شرفاء لاہور سے قادیان اس غرض سے جاتے تھے کہ سیاسی امور میں حضور علیہ السلام ہماری راہنمائی فرماویں۔ لیکن حضور علیہ السلام نے اس وقت کی حکومت کے خلاف ہم کو کبھی بھی کچھ بات نہ کہی ۔ پس ہم نے پھر قادیان جانا ہی چھوڑ دیا۔
{1227} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے اور بھائی فضل محمد صاحب ساکن ہرسیاں (جو مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ کے والد ہیں) نے مشورہ کیا کہ قادیان میں دوکان تجارت کھولیںاور حضور علیہ السلام سے مشورہ کرنے کے لئے قادیان آئے۔ حضور علیہ السلام غالباً نما زظہر پڑھ کر اندر تشریف لے جارہے تھے کہ ہم نے سوال کردیا اور اپنی تجویز پیش کردی۔ حضور علیہ السلام اس صحن میں کھڑے ہوگئے جو مسجد مبارک کی اندرونی سیڑھیوں سے مسجد کو آویں تو ایک سیڑھی ابھی باقی رہتی تھی کہ ایک دروازہ اندر جانے کو کھلتا تھا اور آگے چھوٹا ساصحن جسے عبور کر کے حضور اندر گھر میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں صحن میں ایک چوبی سیڑھی لگی ہوئی تھی اس کے اوپر کے مکان میں حضرت خلیفہ اولؓ رہا کرتے تھے ۔ اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ بھی اس چوبی سیڑھی پر چڑھ کر اوپر مکان کو جارہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے ان کو بھی بلالیا اور فرمایا کہ ’’ میاں خیر الدین وغیرہ یہاں دوکان کھولنا چاہتے ہیں۔ کیا اعتبار ہے کہ دوکان میں خسارہ ہو یا نفع ہو؟ اچھا اگر خسارہ پڑے گا تو دوکان چھوڑ دیں گے۔ یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔ بعد ش ہم نے مشورہ کیا کہ ہم کو امید نہیں ہے کہ منافع ہو۔ بہتر ہے کہ دوکان کھولنے کا ارادہ ترک کردیں ۔ چنانچہ ہم واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ۔
{1228} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بیان کیا مجھ سے میرے والد خواجہ حبیب اللہ صاحب مرحوم ساکن گاگرن کشمیر نے کہ جب میں۹۸۔۱۸۹۷ء میں قادیان گیا۔ تو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے کشمیر واپس آنے کی اجازت مانگی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’یہاں ہی ٹھہرو اور قرآن شریف پڑھو۔‘‘ پھر میںکچھ عرصہ اور ٹھہرا۔ اس کے بعد پھر میں نے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ کے ذریعہ درخواست کی کہ میرے دو لڑکے سری نگر میں مشرکوں کے پاس ہیں اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کا کچھ بندوبست کروں ۔ چنانچہ مجھے اجازت دی گئی اور پھر تم دونوں بھائیوں کو (عبد القادر وعبد الرحمن) قادیان لے آیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک
{1229} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میر عبد الرحمن صاحب رینج افسر بارہ مولا کشمیر نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد صاحب پہلے حنفی تھے پھر اہل حدیث ہوئے اس وقت وہ اپنے دوست مولوی محمد حسن صاحب مرحوم ساکن آسنور (والد مولوی عبد الواحد صاحب )کو کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ اب بڑے موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کوئی ایسی جماعت اور نکل آئے جو ہم کو بھی مشرک گردانے ۔ والد صاحب فرماتے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ ہم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مُردوں (کو زندہ کرنے والے) اور پرندوں کا خالق مانتے ہیں۔ لیکن جب میرے کانوں نے یہ شعر حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا سنا
ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدا دانی پہ تیرے مرحبا
مولوی صاحب! یہی توحید ہے
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے ؟
اس وقت مجھے ہوش آیا اور میںنے تم دونوں بھائیوں کو سری نگر اپنے ماموں کے پاس چھوڑا اورقادیان پیدل چلا گیا۔ اور وہاں بیعت سے مشرف ہوا۔ فالحمد للہ ثم الحمد للہ علی ذالک
{1230} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا۔ حضور ؑ گھر میں معہ احباب مہمانان کھانا کھانے کے لئے تیار تھے کہ میں بھی گھر میں داخل ہوا ۔ میرے لئے بھی کھانا آگیا ۔جب کھانا رکھا گیا تو رکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی ۔ تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے ۔ میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہوں سے خدا تعالیٰ کا شکریہ کرتے ہوئے کہتا ہوں ۔ الحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1231} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں پادری مارٹن کلارک امرتسر نے حضور ؑ کے خلاف اقدام قتل کا استغاثہ کیا ۔ اول عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر امرتسر سے حضور ؑ کے خلاف ورانٹ جاری ہوکر گورداسپور پہنچا لیکن جلد ہی واپس ہوگیا ۔ چوہدری رستم علی صاحبؓ ان دنوں گورداسپور میں بعہدہ کورٹ انسپکٹر مقرر تھے ۔ انہوںنے منشی عبد العزیز صاحب اوجلوی (پٹواری سیکھوانی) کو اطلاع دی۔ وہ فوراً سیکھواں آئے ۔ میں بھی سیکھواں سے شامل ہوا۔ قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں اطلاع کی گئی ۔ حضور علیہ السلام نے اندر ہی بلا لیا۔ حاضر خدمت ہوکر خط چوہدری رستم علی صاحب مرحوم والا پیش کردیا۔ خط پڑھ کر فرمایا (قریب ہی ایک دریچہ تھا جس کے آگے بیٹھ کر حضور علیہ السلام تحریر کاکام کیا کرتے تھے)اس دریچہ کے باہر سے خواب یا کشف میں معلوم ہوا کہ بجلی آئی ہے لیکن واپس ہوگئی(چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وارنٹ امرتسر سے جاری ہوا پھر حکام کو غلطی خود معلوم ہوگئی اور واپس کرایا گیا) پھر دوبارہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل ہوگیا اور خد انے عزت کے ساتھ بری کیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1232} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آپ (حضرت صاحب ) نماز عموماً دوسرے کی اقتدا میں پڑھتے تھے۔ میںنے اس قدر طویل عرصہ میں دو دفعہ حضور علیہ السلام کی اقتدا میں نما زپڑھی ہے ۔
(۱) قبل دعویٰ مسجد اقصیٰ میں شام کی نماز۔ ایک رکعت میں سورۃ وَالتِّین پڑھی تھی لیکن بہت دھیمی آواز میں جو مقتدی بہ مشکل سن سکے۔
(۲) دوسری دفعہ مولوی کرم الدین والے مقدمات میں گورداسپور کو جاتے ہوئے بڑی نہر پر ظہر کی نماز حضور علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھی تھی ۔
{1233} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ دوران مقدمات مولوی کرم الدین ،مَیں بعض کاموں کی وجہ سے سولہ سترہ روز کے بعد جب قادیان پہنچا ۔ حضور علیہ السلام دریچہ بیت الفکر سے جو مسجد مبارک میں کھلتا تھا تشریف لائے اور دیکھتے ہی مجھ کو فرمایا کہ ’’بڑی دیر کے بعد آئے۔‘‘ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضورؑ کو اپنے خدام کو جلد یا بدیر آمدورفت کے متعلق خیال رہتا تھا۔
{1234} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ نے ایک جلسہ کیااور اس کانام ’’جلسۃ الدعا‘‘ رکھا (یہ جلسہ عید گاہ قدیمی متصل قبرستان غربی جانب از قادیان کیا تھا) جلسہ مذکورہ میں حضور ؑ نے تقریر فرمائی کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج کی جنگ ہوگی اوریاجوج ماجوج روس اور انگریز (برطانیہ) دونوں قومیں ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ جب یہ جنگ ہوگی اس وقت ہم زندہ ہوں گے یا نہیں ؟ اس لئے میں آج ہی دعا کر چھوڑتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس وقت انگریزقوم کو فتح دے ۔ آمین ۔
{1235} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیاسی شورش کے متعلق فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا۔ سوائے قادیان کے کہیں امن نہ ہوگا۔‘‘
{1236} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب پہلی دفعہ میں (بادل ناخواستہ ) بیعت کرکے واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال آتا تھا کہ قادیان شریف کو لوگ بڑا بُرا کہتے ہیں اور میں نے تو وہاں اس جگہ سوائے قرآن شریف اور دینی باتوں کے اور کچھ نہیں سنا۔ سب لوگ رات دن یاد الٰہی میں مشغول ہیں ۔ بس میں نے اس خیال کو مد نظر رکھ کر نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے پید اکرنے والے رب ! میرے محسن! میں تیر ا بندہ ہوں ،گنہگار ہوں ،بے علم ہوں ۔ میں نہیں جانتا کہ تیری رضا کے مطابق کون چلتا ہے ؟ اس وقت دنیا میں کسی فرقے میں مجھے نہیں معلوم کہ کون فرقہ راستی پر ہے ؟ پس اے میرے پید اکرنے والے ! میں اس وقت اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں کہ تو مجھے اس راہ پر چلا جس پر تو راضی ہو۔ تا کہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ۔ اے میرے مولا! جب تو مجھے قیامت کو پوچھے گا تو میں اس وقت بھی یہی عرض کروں گا کہ میرے پیارے اللہ ! میں بے علم تھا اور میں نے اپنے آپ کو تیرے حضور رکھ دیا تھا اور بار بار یہی عرض کرتا تھا کہ اے میرے پیارے ! مجھے صحیح رستہ بتااور اس پر مجھے چلنے کی توفیق بخش۔ کئی دن کے بعد بٹالہ میں سودا بزازی وغیرہ خریدنے کے لئے گیا تو میں پہلے اُس دوست محمد اکبر صاحب کے پاس ملاقات کے لئے چلا گیا تو وہا ں بھی یہی باتیں شروع ہوگئیں ۔ انہوںنے ذکر کیا کہ کل ایک سیٹھ صاحب مدراس سے تشریف لائے ہیں اور قادیان شریف گئے ہیں ۔ چنانچہ ایسی ایسی باتوں پر میرے دل میں ایسا جوش پید اہوا کہ میںنے اس دوست یعنی محمد اکبر صاحب کو کہا کہ اس روز آپ نے میر ا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میںشامل ہونے کے لئے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا اور میرا دل نہیں چاہتا تھا ۔ آج مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں جوش پید اہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان شریف جاتا ہوں اور سچے دل سے توبہ کرکے بیعت میں داخل ہوتا ہوں ۔ اس پر میرے اس دوست نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ہمراہ قادیان پہنچے اور جب میں بیعت کر کے گھر میں پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور اب خالی آرہے ہیں تو میرے دل میں وہی خیال گذرا کہ شاید ناراض نہ ہوجاویں ۔ مگر میںنے اس کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جاکر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کر آیا ہوں ۔اس پر انہوںنے کچھ نہ کہا۔
{1237} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرے والد ملک بسو صاحب کے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے رہنے والے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہم جولی اور بچپن کے دوست تھے۔ ان کی بھتیجی کا رشتہ ان کے بھانجے شاہ چراغ کے ساتھ ہوا اور اس کی شادی پر میں قادیان گیا تھا ۔ اس وقت میری عمر تقریباً اٹھارہ سال کی تھی ۔ شاہ صاحب نے مجھ کو قریباً ایک ہفتہ وہاں رکھا۔ اُن دنوں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح اولؓ مسجد اقصیٰ میں عصر کے بعد قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ شاہ صاحب کے حسب ہدایت میں درس سننے جایا کرتا تھا۔ ان دنوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صبح کے وقت سیر کو جایا کرتے تھے ۔ حضور علیہ السلام کے ساتھ بہت سے آدمیوں کا ایک ہجوم بھی ہو اکرتا تھا ۔ میں بھی حضور علیہ السلام کے ساتھ سیر کو کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ مسجد مبارک ان دنوں چھوٹی سی ہوا کرتی تھی اور حضور ؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں شہ نشین پر بیٹھا کرتے تھے اور اکثر مذہبی باتیں اور دینی مسائل کے متعلق گفتگو ہوا کرتی تھی۔ سیر میں بھی حضور علیہ السلام چلتے چلتے تقریر فرمایا کرتے تھے۔
{1238} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں صاحبزادہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب امیر حبیب اللہ والی ٔ کابل کے حکم سے شہید کئے گئے ۔ ان کے ذکر پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اگر سلطنت کابل نے اپنی اصلاح نہ کی تو اس سلطنت کی خیر نہیں ہے ۔ ‘‘
{1239} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاںفضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں دوبارہ بیعت کر کے واپس گھر گیا تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد میری بیوی نے ایک خواب سنایا کہ آج میں خواب میں حج کو جارہی ہوں اور بہت لوگ بھی حج کو جارہے ہیں اور وہ جگہ ہمارے گاؤں سے مشرق کی جانب ہے جس طرف حج کو جارہے ہیں ۔ جب میں حج کی جگہ پر پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں اور سیڑھیوں پر چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جا بیٹھی ۔ دیکھتی ہوں کہ ایک بچہ چھوٹی عمر کا وہاں بیٹھا ہے اور اس کے ارد گرد بہت مٹھائیاں پڑی ہیں۔ مجھے اس کو دیکھ کر اپنا بچہ جو کچھ عرصہ ہوئے فوت ہوگیا تھا یاد آیا۔ تو اس بچہ نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا کہ فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اور بچہ دے گا جو اچھا ہوگا ، نیک ہوگا اور بہت باتیں کیں۔ جو مجھے یاد نہیں رہیں۔ خیر اس نے یعنی میری بیوی نے کہا کہ میرے خیال میں وہ قادیان شریف ہی ہے ۔ پس مجھے بھی قادیان شریف لے چلو۔ چنانچہ میں نے اس کو قادیان شریف میں لاکر بیعت میں داخل کردیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ۔ بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات کہتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے قادیان شریف جانے سے نہ روکیں اور میں کوئی چیز نہیں چاہتی۔ صرف میری یہی خواہش ہے ۔ چنانچہ اس میری بیوی کو اس قدر محبت قادیان شریف سے ہوئی کہ اس کو وہاں اپنے گاؤں میں رہنا نہایت ناپسند ہوا اور اس وقت تک اپنی آمدورفت نہ چھوڑی جب تک قادیان شریف میں اپنا مکان نہ بنوالیا اور مکان بنا کر قریباً دوسال آباد ہوکر اس دار فانی کو چھوڑ کر مقبرہ بہشتی میں داخل ہوگئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔
{1240} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں سید محمد علی شاہ صاحب سے اس معیار کے پیش نظر کہ انبیاء علیہ السلام کی پہلی زندگی ہرقسم کے عیبوں سے پاک اور معصومانہ ہوتی ہے ۔ عام طور پر حضور ؑ کی نسبت دریافت کرتا تھا ۔ ان کی زبانی جو باتیں مجھے معلوم ہیں وہ حسب ذیل ہیں ۔ سید محمد علی شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ مرزا صاحب بچپن سے پاک صاف اور نیک ہیں۔ ان کی زندگی کی نسبت کوئی کسی قسم کا شبہ نہیں کرسکتا اور ان کے والد صاحب ان کو اکثر ’’مسیتڑ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگر کوئی دریافت کرتا کہ مرزا غلام احمد صاحب کہاںہیں ؟تو وہ کہاکرتے تھے کہ مسجد میں جاکردیکھ ۔اگر وہاں نہ ملے تو ناامید نہ ہوجا نا ۔ ملے گا بہر حال مسجد میں۔
{1241} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیْ ئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی(آمین) بذریعہ الہام تعلیم فرمائی تو حضور علیہ السلام نے ایک روز ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسم اعظم ہے اور ہر ایک قسم کی مصیبت سے حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ بجائے واحد کے بصورت جمع بھی اس کا استعمال جائز ہے ۔ یہ ان دنوں میں حضرت صاحب پر جناب الٰہی سے نازل ہوئی تھی جن ایام میں مقدمات ہونے والے تھے یا شروع ہوگئے تھے۔
{1242} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے مجھ سے اپنی خواب بیا ن کی جو یہ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام ایک میدان میں یاایک مکان میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے سر پر سبز دستار ہے اور ہاتھ میں کتاب ہے۔ حضور علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ’’برکت بی بی !فلاں جگہ ایک تھان ریشمی سبز رنگ کا پڑا ہے۔ اٹھا لاؤ۔ اور وہ کتاب جو حضور علیہ السلام کے ہاتھ میں ہے وہ مولوی نور الدین صاحبؓ کو دے دی اور مولوی صاحب کے سر پر سفید پگڑی ہے اور چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ مولوی صاحب نے وہ کتاب حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ کو دے دی اور میاں صاحب کے سر پر سبز ریشمی پگڑی ہے ۔ وہ کچھ لمبی خواب تھی جو انہوںنے بتلائی۔ یہ خواب انہوں نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو اسی وقت سنائی تھی ۔ جب حضرت خلیفہ صاحب اوّلؓ کا انتقال ہوا تھا ۔ تو اس وقت حضرت ام المومنین نے فرمایا تھا کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو بتاوے ۔ چنانچہ حضرت ام المومنین کو وہ خواب یاد کرائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ وہ خواب تو مجھے یاد ہے ۔
{1243} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑ سیدنا مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ’’دعا نماز میں بہت کرنی چاہئے ‘‘ نیز فرمایا کہ اپنی زبان میں دعا کرنی چاہئے لیکن جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت ہے اس کو انہیں الفاظ میں پڑھنا چاہئے مثلاًرکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلٰی وغیرہ پڑھ کر اور اس کے بعد بیشک اپنی زبان میں دعا کی جائے ۔ ‘‘ نیز فرمایا کہ ’’ رکوع وسجدہ کی حالت میں قرآنی دعا نہ کی جائے کیونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اور رکوع اور سجدہ تذلل کی حالت ہے۔ اس لئے کلام الٰہی کا احترام کرنا چاہئے۔ ‘‘
{1244} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے گاؤں کا قاضی فوت ہوگیا اور ا س کے دو چھوٹے بچے اور لڑکی اور اس کی بیوی پیچھے رہ گئی۔ میں اس کے لئے قضا کاکام کرتا رہا اور جو آمدنی گاؤں سے ملانوں کو ہوتی ہے اس کو دیتا رہا۔ چنانچہ میںنے اور میری بیوی نے اس کی لڑکی کو قرآن شریف اور کچھ دینی کتابیں بھی پڑھائیں ۔ جب لڑکے بڑے ہوئے تو ایک دفعہ عید کے دن جب ہم عید کے واسطے مسجد میں گئے اور میں نماز پڑھانے کے واسطے کھڑا ہوا تو اس لڑکے نے کہا کہ میں آج عید کی نما زپڑھاؤں گا ۔ میںنے اس کو کہا کہ ہماری نما زتمہارے پیچھے نہیں ہوتی ۔ تُو ہمیشہ پیچھے پڑھتا رہا ہے۔ آج تو کیوں پڑھائے گا ؟ اس کے ساتھیوں نے اس کو کہا کہ تمہاری قضاء لے لے گا۔ اس پر اس ملا نے کے بچے نے زور دیا کہ آج میں ہی نما زپڑھاؤں گا۔ اس بات پر ہماری جماعت کے ایک لڑکے نے جس کا نام شیر محمد تھا اس کو ایک مکا مارا۔ میںنے اس کو منع کیااور سب کو ساتھ لے کر اپنی جگہ حویلی میںنماز اد اکی اور جب میں جمعہ پڑھنے کے لئے اپنی عادت کے مطابق قادیان شریف آیا تو دیکھا کہ میاں عبد الرحیم حجام مسجد میں کھڑا ہے ۔ میںنے پوچھا کہ اس جگہ کیوں کھڑے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کو مہندی لگانی ہے اور اندر اجازت کے لئے کہلا بھیجا ہے ۔ میںنے یہی موقعہ پایااور وہاں کھڑا ہوگیا۔ جب اجازت ہوئی تو میں بھی اندر چلا گیا ۔ حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔ مصافحہ کیااور پا س بیٹھ گیا۔ میںنے وہ سارا قصہ عید والا سنایا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صبر کرو۔ یہ سب مسجدیں تمہاری ہی ہوجاوینگی۔‘‘ ا س کے علاوہ اور بہت باتیں ہوتی رہیں جو یا دنہیں رہیں ۔ چنانچہ اب وہ مسجد اللہ کے فضل وکرم سے احمدیوں کے پاس ہے ۔
{1245} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سید محمدعلی شاہ صاحب نے فرمایا کہ میں لاہور میں محکمہ جنگلات میں ملازم تھا۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ومرزاغلام احمد صاحب اور ان کے بڑے بھائی میرے پاس آکر ٹھہرے۔ اُن دنوں میں ان کا ایک مقدمہ چیف کورٹ پنجاب میں درپیش ہونا تھا۔ وہ مقدمہ حضرت مسیح موعود ؑ کے والد صاحب اپنی کھوئی ہوئی جائیداد لینے کی اپیل تھی۔ اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوچکا تھا۔ مقدمے کی پیروی کے بعد حضور ؑ کے والد صاحب اور بڑے بھائی واپس تشریف لے گئے اور مرز ا غلام احمد صاحب کو عدالت سے حکم سننے کے لئے چھوڑ گئے ۔ میرے ایک دوست ملک بسو صاحب رئیس لاہور تھے۔ (جو خاکسار ملک غلام محمد کے والد صاحب تھے) ان کی گاڑی آجایا کرتی تھی اور حضرت صاحب کو چیف کورٹ میں لے جاتی تھی اور پھر چار بجے ان کو واپس لے آتی تھی۔ ایک روز ایک یادو بجے کے قریب حضرت صاحب ؑ پیدل تشریف لارہے تھے۔ میںنے دور سے دیکھا تو ان کا چہرہ نہایت بشاش تھااور بڑے خوش خوش آرہے تھے۔ میںنے دریافت کیا کہ آپ جلدی آگئے ہیں اور گاڑی کا انتظار نہیں کیا ۔ بڑی خوشی سے فرمانے لگے ’’آج حکم سنایا گیا ہے اس واسطے جلدی آگیا ہوں ۔ گاڑی کا انتظار نہیں کیا۔ ‘‘ میںنے کہا بہت خوش ہیں مقدمہ جیت لیا ہوگا اور میںنے ان کے چہرہ سے دیکھ کر بھی یہی محسوس کیا کہ مقدمہ جیت لیا ہوگا لیکن حضرت صاحب علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’وہی بات پوری ہوئی جو میرے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پہلے فرمائی ہوئی تھی یعنی ’’مقدمہ ہارا گیا‘‘ اور میرے مولیٰ کی بات پوری ہوئی۔ یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور میںنے دل میں کہا کہ باپ کا تو بیڑا غرق ہوگیا ہے اور یہ خوش ہورہے ہیں ۔
{1246} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیاکہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عرب غالباً اس کا نام محمد سعید تھا۔ قادیان میں دیر تک رہا تھا۔ ایک روز حضور علیہ السلام بعد نماز مسجد مبارک میں حاضرین مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر مبارک فرمارہے تھے کہ اس عرب کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غریب تھے۔‘‘ پس عرب کا یہ کہنا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام کو اس قدر رنج ہوا کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور محمد سعید عرب پر وہ جھاڑ ڈالی کہ وہ متحیر اور مبہوت ہوکر خاموش ہوگیا اور اس کے چہرہ کا رنگ فق ہوگیا ۔ فرمایا کہ ’’کیا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھا جس نے ایک رومی شاہی ایلچی کو اُحد پہاڑ پر سارا کاسارا مال مویشی عطا کردیا تھا وغیرہ ۔ اس کو مال دنیا سے لگاؤ اور محبت نہ تھی۔ ‘‘
{1247} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورعلیہ السلام سیر کے واسطے باہر تشریف لے گئے اور میں بھی ساتھ تھا۔ جب واپس تشریف لائے اور اندر گھر میں داخل ہونے لگے تو میںنے جھٹ آگے ہوکر عرض کی کہ ’’پہلے بزرگ، اگر کسی کو کچھ تکلیف ہوتی تھی تو ا س پر وہ بزرگ اپنے منہ کی لب لگا دیا کرتے تھے اور اس کو شفا ہوجاتی تھی۔ حضور علیہ السلام میری آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی ہیں۔ اس پر حضور علیہ السلام مسکرا پڑے اور کچھ پڑھ کر میری آنکھوں پر دَم کردیا۔ آج تک قریبا ً پینتیس برس ہوگئے ہیں میری آنکھوں میں کبھی پھنسی نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی دکھنے میں نہیں آئیں ۔ الحمد للّٰہ
{1248} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک بابامیراں بخش ہوتا تھا جو سید محمد علی شاہ صاحب کا نائی تھا اور بوڑھا آدمی تھا۔ اس سے بھی میں حضرت صاحب ؑ کی نسبت دریافت کیا کرتا تھا۔ اس نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ آپ بچپن سے نیک اور شریف تھے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حضور ؑ بچپن میں اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ریوڑیاں آپ کو مرغوب تھیں جو آپ اپنے ہم جھولیوں میں بانٹ کر کھایا کرتے تھے ۔
{1249} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دعا کے متعلق کچھ سوال ہوا ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دعاہی مومن کا ہتھیار ہے ۔ دعا کو ہر گز چھوڑنا نہیں چاہئے ۔بلکہ دعا سے تھکنا نہیں چاہئے۔ لوگوں کی عادت ہے کہ کچھ دن دعا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔ دعا کی مثال حضور علیہ السلام نے کوئیں کی دی کہ انسان کنواں کھودتا ہے جب پانی قریب پہنچتا ہے تو تھک کر ناامید ہوکر چھوڑ دیتا ہے ۔ اگر وہ ایک دو بالشت اور کھودتا تو نیچے سے پانی نکل آتا اور اس کا مقصود حاصل ہوجاتا اور کامیاب ہوجاتا۔ اسی طرح دعا کا کام ہے کہ انسان کچھ دن دعا کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے اور ناکام رہتا ہے ۔
{1250} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس دکان میں فخر الدین ملتانی بیٹھتا تھااور ا س کے جانب شرق میں مولوی کرم الٰہی بزاز کھاروی بیٹھتا ہے اور درمیان میں دروازہ آمدورفت چھوڑ کر جانب شرق متصل میں وہ دکان جس میں عبد الرحیم فالودہ والا بیٹھتا ہے یہ کل جگہ ویران اور منہدم پڑی تھی۔ مرز انظام الدین وغیرہ ہر موقعہ پر اپنا تسلط جمانا چاہتے تھے۔ یہاں بھی یہی خیال ان کو تھا ۔ ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ا س جگہ پر ایک دن میں مکان تیار کیا جائے ۔ ‘‘ چنانچہ مرزا خد ابخش صاحب نے مجھے کہا کہ اپنے گاؤں سیکھواں سے کچھ آدمی فوراً لاؤ۔ چنانچہ دس بارہ آدمی سیکھواں سے قادیان پہنچ گئے اور مکان تیار ہونا شروع ہوگیا ۔ چونکہ حضرت صاحب شامل تھے اس لئے تمام لوگ جماعت کے (اس وقت ابھی جماعت برائے نام ہی تھی) کام میں مشغول تھے۔ حتیٰ کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کو بھی میںنے دیکھا کہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر معمار وں کو دیتے تھے۔ ایک ہی دن میں مکان تیار ہوگیا۔ مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ اس نظارہ کو دیکھتے تھے لیکن طاقت نہ تھی کہ کسی کو آکر روک سکیں۔ شام کے بعد مسجد مبارک میں حضرت صاحب کے حضور مرز ا خد ابخش صاحب نے واقعات پیش کئے اور کامیابی کا اظہار کیا گیا۔ اور سیکھواں سے آدمی پہنچنے کا ذکر کیا گیا۔ الحمد للہ علٰی ذالک
{1251} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں میاں منظور علی شاہ صاحب ولد سید محمد علی شاہ صاحب کی بسم اللہ کی تقریب پر جو مولوی نور الدین صاحبؓ نے کرائی تھی، گیا تھا۔ حسب دستور میں مولوی صاحب کے درس میں جایا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ کبھی کبھی سیر کو بھی جایا کرتا تھا ۔ میں تقریباً پندرہ بیس دن وہاں رہا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جس زمانہ میں ڈاکٹر عبد الحکیم (جو بعد میں مرتد ہو گیا تھا) قرآن شریف کا ترجمہ کر کے لایا ہواتھا۔ حضرت صاحب سیر کوجاتے تھے اور وہ سناتا جاتا تھا۔ حضور علیہ السلام سنتے جاتے تھے اور بعض دفعہ کچھ فرمایا بھی کرتے تھے ۔
{1252} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبد الغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پا کر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور ؑمیں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے ؟ ‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور !یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں ‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دینی نہیں چاہئے ۔
{1253} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مشکلات کیا چیز ہیں؟ دس دن کوئی نما زتہجد پڑھے۔ خوا ہ کیسی ہی مشکل ہو خداتعالیٰ حل کردے گا ۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ)
{1254} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری عمر چونکہ بڑھ رہی تھی ۔ میںنے دعا کرنی شروع کی کہ یا خداوند کریم ! اگر یہ (یعنی حضرت مسیح موعود ) سچا ہے اور میںنے اس کی بیعت نہ کی تو میں جہالت کی موت مروں گا اور اگر یہ سچا نہ ہوا تو میرے اسلام میں فرق آئے گا۔ تُو ہی اپنے فضل سے مجھے صحیح رستہ دکھادے ۔ میںیہ دعا مدت تک کرتا رہا۔ حضور ؑ لاہور تشریف لایا کرتے تھے ایک دفعہ حضور ؑ کا لیکچربریڈلا ہال میں ہو اتھا۔ لوگوںنے حضور ؑ کی گاڑی پر اینٹیں ماریں لیکن پولیس اپنی حفاظت میں حضور ؑ کو خیریت سے لے آئی۔ پھر خد اتعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میںنے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔
{1255} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم الدین کے ساتھ مقدمہ تھا ،گورداسپور میں پیشی تھی ۔ جب آواز پڑی تو سب دوست اندر چلے گئے صرف میں یعنی یہ عاجز اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے رہ گئے چنانچہ حضور ؑ لیٹ گئے اور میں حضور ؑ کے پاؤں دبا رہا تھااور بہت سی باتیں حضور ؑ کے ساتھ ہوتی رہیں ۔ چنانچہ ان میں سے صرف دو باتیں یاد رہیں ایک یہ کہ میںنے عرض کیا کہ حضور ! ؑمجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے ۔ حضور ؑ اس کا نام رکھ دیویں ۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’پہلے کانام کیا ہے ؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور پہلے کا نام عبد الغفور ہے۔ تب حضور نے فرمایا کہ اس کا نام ’’عبد الرحیم ‘‘ رکھ دو۔
{1256} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۹۹۔۱۲۔۷کا واقعہ ہے حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ؓکے سوال کے جواب میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ کی کوئی باریک حکمت ہے کہ مجھے دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں اور ایک نیچے کے حصہ میں۔ اوپر کے حصہ میں تو وہ دَوری بیماری ہے جو ہمیشہ کوئی ہفتہ عشرہ خالی نہیں جاتا جو دورہ کرتی رہتی ہے جس سے دل میں ضعف اور دردسر اور نبض بالکل ساکت ہوجاتی ہے وغیرہ اور نیچے کے حصہ میں بیماری ذیابیطس ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میںنے ان کی نسبت توجہ بھی کی تھی تو یہی جواب ملا کہ یہ بیماری لا علاج ہے لیکن فضل خد اشامل حال رہے گا اور فرمایا کہ ’’کیا عجیب پیشگوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ مسیح موعود دو زرد چادریں پہنے ہوئے نازل ہوگا۔وہ یہی اشارہ ہے۔ ورنہ کون سمجھ سکتا ہے کہ آسمان پر کپڑا بنایا جاتا ہے جس سے مسیح کو زرد چادریں دی جاویں گی۔ اور حدیث میں جو دو زرد چادروں کاذکر ہے۔ دراصل انسان کے لئے دو ہی چادریں پردہ پوشی کے لئے کافی ہیں۔ ایک تہ بند اور دوسری اوپر کی چادرکافی ہوسکتی ہے۔‘‘
{1257} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جبکہ مولوی کرم دین والا مقدمہ تھااور گورداسپور میں اس کی پیشی تھی تو وہاں پر میںنے ایک شیشم کے درخت کے نیچے حضرت صاحب کے حضور عرض کی کہ حضور ؑ عشاء کی نما زکے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے وقت بھی رہ جاویں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جاوے۔ تب حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’بہتر یہی ہے کہ پہلے وقت ہی پڑھ لئے جاویں ۔‘‘ یعنی نما زعشاء کے بعد ہی پڑھ لینے چاہئیں ۔
{1258} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ۹۹۔۱۲۔۷کو ٹیکہ کے متعلق ذکر چل پڑا۔ فرمایا کہ ’’ٹیکہ ضرور کرانا چاہئے۔ یہ بڑا مفید ہے کیونکہ بعض اوقات چیچک سے لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بیماری ہے ۔ تین دفعہ جس کا ٹیکہ کیا جائے وہ چیچک سے محفوظ رہتا ہے (۱) بچپن میں (۲) پھر قریباً آٹھ سال کی عمر میں (۳) پھر سولہ سترہ سال کی عمر میں۔ فرمایا کہ اگرٹیکہ کرنے والے آویں تو مبارک احمد کو ٹیکہ کرایا جائے ۔ پہلے تینوں لڑکوںکا ٹیکا کرایا ہے کسی کو چیچک نہیں ہوئی۔‘‘ ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب اور فیض احمد صاحب نیٹِو ڈاکٹر نے عرض کیا کہ آج قادیان میں ٹیکا کرنے والے آئے ہوئے ہیں۔ اُن سے دریافت کریں گے۔ اگر جاگ مل گیا تو خود ہی اچھی طرح ٹیکہ کر لیویں گے ۔انشاء اللہ ۔
{1259} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل احمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام مسجد اقصیٰ میںکچھ تقریر فرما رہے تھے۔ دوران تقریر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جس کام کے واسطے مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر چالیس آدمی بھی ہوجاویں تو میں بڑی کامیابی حاصل کرلوں یا اپنے مقصود کو حاصل کرلوں۔‘‘ ایسا ہی کوئی لفظ تھا جو مجھے اس وقت یا دنہیں رہا۔ اس وقت میرے بائیں جانب حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ بیٹھے تھے۔ جب حضور ؑکے مبارک منہ سے یہ الفاظ نکلے تو حضر ت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہائے افسوس! لوگ اس مبارک وجود کو کیا کہتے ہیں ۔یہ جھوٹ بولنے والا منہ ہے ؟
اس کے بعدجب تقریر ختم ہوئی تو سب لوگ اپنے اپنے مکانوں کی طرف جارہے تھے ۔ چنانچہ میں بھی اٹھ کر چلا جب مسجد اقصیٰ سے نیچے اترے تو میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جاملا۔ آپ کے ساتھ اُن کا ایک شاگرد جارہاتھا۔ اس وقت شاگرد نے حضور مولوی صاحب سے سوال کیا کہ حضور ؑ! آج جو حضرت اقدس ؑ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میری جماعت سے چالیس آدمی بھی میری مرضی کے مطابق ہو جاویں تو میں کامیاب ہوجاؤں ۔حضور آپ فرماویں کہ ہم کیا گناہ کر رہے ہیں ؟ نما زپڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں ، کوئی بھی بُراکام نہیں کرتے۔ وہ کیا کام ہے جو حضرت صاحب کرانا چاہتے ہیں تاکہ ہم ان کی مرضی کے مطابق ہوجاویں ۔ اس کے جواب میں حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ہاں! ہے تو، بیشک آپ اچھا کام کرتے ہیں مگر اگر آج ہی آپ کو لنگر سے روٹی نہ ملے تو پھر آپ کو پتہ لگے۔ کیا کیا آپ منصوبہ بازی کرتے ہیں ۔
{1260} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ ملک غلام محمد صاحب لاہور نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ وفات سے چند یوم قبل حضور علیہ السلام نے لاہور میں امراء کی دعوت کی تھی اور تقریر بھی فرمائی تھی۔ حضور ؑلاہور احمدیہ بلڈنگس میں تشریف لائے ہوئے تھے ۔ جمعہ کی نماز یا ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ میں نماز پڑھ کر فارغ ہوکر بیٹھا تھا۔ حضور ؑ سنتیں پڑھ رہے تھے۔ میںنزدیک ہی حضور ؑ کی دائیں طرف بیٹھا ہو ا تھا۔ حضور ؑنے سلام پھیرتے وقت یا سلام کے معاًبعد میری طرف دیکھا اور جب آنکھیں چار ہوئیں تو حضور ؑ کی آنکھوں کی روشنی سمجھیں یا جلال سمجھیں یا نور سمجھیں۔ بہر حال کچھ بھی ہو۔ اس نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں پسینہ پسینہ ہوگیا۔
{1261} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک جگہ مکانوں کے درمیان سفید پڑی ہے وہاں حضرت اقدس ؑ مجھ کو بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے۔ پہلے کانام عبد الغنی ، دوسرے کا نام ملک غنی، تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر۴۵سال کی ہوگی یا ہے ۔ اس کے بعد میں بیدار ہوگیا۔ جب میں جمعہ کے دن قادیان شریف میں جمعہ کے واسطے آیا تو رات اسی جگہ یعنی قادیان شریف ہی رہا۔ شام کے بعد جب حضور ؑ مسجد کے اوپر نماز کے بعد گرمیوں میں جیسا کہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے ،بیٹھے تو کچھ صحابی اور بیٹھے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں اور میں بھی حضور ؑ کے قدموں میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔ چنانچہ میںنے حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ؑ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضور ؑ مجھے بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف لے جارہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہونگے ۔ پہلے کانام عبد الغنی دوسرے کانام ملک غنی اور تیسرے کانام پتال غنی رکھنااور آپ کی عمرپنتالیس برس کی ہوگی یا ہے ۔‘‘ اس پر مولوی عبد الکریم صاحب ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ فضل محمد پھر بتلاؤ کہ پہلے کانام کیااور دوسرے کا نام کیا ہے میںنے جب دوبارہ بتایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ میاں ! پھر بتلاؤ تو میںنے حضور ؑ سے عرض کی کہ حضور! مولوی صاحب تو مذاق کرتے ہیں اور مجھے بڑا غم ہورہاہے ۔ حضور مسکرا کربولے کہ ’’آپ کو کیا غم ہے؟‘‘ تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میری عمر اس وقت ۲۸یا۳۰برس کی ہے اور باقی تھوڑی رہ گئی ہے اور میںنے حضور علیہ السلام کا زمانہ دیکھنا ہے۔ اس پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ قادرہے وہ دگنی کردیا کرتا ہے ۔‘‘ (اور حقیقت میں ان کی عمر دگنی ہو گئی تھی)
{1262} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ؑ اپنے خادموں کی جدائی(وفات وغیرہ) پر صدمہ محسوس فرماتے تھے۔ چنانچہ جس روز میاں محمداکبر صاحب تاجر چوب بٹالہ فوت ہوئے ۔وہ جمعہ کا دن تھا۔ مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری (جو آج کل کشمیری ہائی کورٹ میں وکیل ہیں) نے مسجد اقصیٰ میں بعد نما زجمعہ حضور ؑ کی خدمت میں ایک نظم خود تیار کردہ سنانے کے لئے عرض کی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آج محمد اکبر فوت ہوگیا ہے۔ اس وقت میری طبیعت سننا نہیں چاہتی۔‘‘
{1263} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمد الدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی (گجرات) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اور میرے والد صاحب جن کا نام محمد حیات تھااور ایک اور دوست جن کا نام غلام محمد صاحب احمدی (جو اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجو دہیں ) اپنے گاؤں چوکنانوالی ضلع گجرات پنجاب سے غالباً۱۹۰۵ء میں حضرت اقدس ؑ کی زیارت کے لئے دارالامان میں حاضر ہوئے تھے اور مسجد مبارک میں ظہر کی نما زکے لئے گئے تا بیعت بھی ہوجائے اور نماز بھی حضرت اقدس ؑ کے ہمراہ ادا کرلیں اور زیارت بھی نصیب ہو۔ گو اس سے پہلے کئی سال آپ کی تحریر ی بیعت سے بندہ شرف یافتہ تھاجس کا سنہ یاد نہیں۔ لیکن زیارت کاشرف حاصل نہ تھا۔ چنانچہ ایک شخص نے جو کہ ہمارے ہی ضلع کے تھے فرمایا کہ آپ لوگوںنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زیارت کرنی ہو تو مسجد مبارک میں ظہر کی نماز کے وقت سب سے پہلے حاضر ہوجاؤ۔ وہ دوست بھی مہمان خانہ میں موجو دتھے۔ چنانچہ ہم ہر سہ اشخاص وضو کر کے مسجد مبارک میں چلے گئے ۔ ہم سے پہلے چند ایک دوست ہی ابھی حاضر ہوئے تھے جن میں ہم شامل ہوگئے اور سب دوست اس بدر منیر چودھویں کے چاند کی زیارت اور درشن کا عاشقانہ وار انتظار کر رہے تھے جن میں کمترینان بھی شامل تھے۔ بندہ عین اس کھڑکی کے پاس بیٹھ گیاجہاں سے حضرت اقدس علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے۔ تھوڑی انتظار کے بعد اس آفتاب ہدایت نے اپنے طلوع گاہ سے اپنے منور چہرہ کو دکھا کرہمارے دلوں کی زمین پر سے شکوک وشبہات کی تاریکیوں کو پاش پاش کر کے جملہ نشیب وفراز عملی واخلاقی کو دکھا دیااور اپنے درشنوں سے بہرہ ور فرمایا۔ حضور ؑ کے مسجد میں قدم رکھتے ہی بندہ عاشقانہ وار آپ سے بغل گیر ہوگیااور کئی منٹوں تک حضور ؑکے سینہ مبارک سے اپناسینہ لگا کر بغل گیر رہا۔ جب بہت دیر ہوگئی تو میںنے خود ہی دل میں آپ کو تکلیف ہونے کے احسا س کو پاکر اپنے آپ کو آپ سے الگ کیا(یہ واقعہ بیان کرنے کی غرض محض آپ ؑ کے اسوۂ حسنہ پر تبصرہ ہے ) پھر حضور اپنی نشست گاہ میں جو مسجد مبارک کے شمال مغربی گوشہ میں واقعہ تھی تشریف لے گئے۔ ان دنوں مسجد مبارک ایک ایسے تنگ مگر لمبے کمرہ کی صورت میں تھی جس کا یہ عالم تھا کہ ہرصف میں غالباً چھ یا سات آدمی دوش بدوش کھڑے ہوسکتے ہوں گے۔ اور اپنی نشست گاہ پر فروکش ہوئے۔
{1264} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن حضور ؑ نما زپڑھ کر گھر کو تشریف لے جارہے تھے جب مسجد سے نکل کر دوسرے کمرہ میں تشریف لے گئے تو میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میں نے کچھ عرض کرنی ہے ۔ حضور وہاں ہی بیٹھ گئے اور میں بھی بیٹھ گیااور پاؤں دباتا رہا۔ بہت دیرتک باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے اس وقت کچھ خوابیں اپنی اور کچھ خوابیں بیوی کی عرض کیں اور کچھ دینی ودنیاوی بھی باتیں ہوتی رہیں اور بہت دیر تک وہاں بیٹھے رہے ۔ میںنے خیال کیا کہ حضور ؑ نے تو خواہ کتنا ہی وقت گذر جاوے، کچھ نہیں کہنا اور آپ کا میں قیمتی وقت کیوں خرچ کررہاہوں ۔چنانچہ بہت دیر کے بعد میں نے عرض کی کہ حضور مجھ کو اجازت فرماویں۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’بہت اچھا جاؤ۔‘‘
{1265} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس روز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں رکھا گیا۔ جس وقت حضور ؑ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے باہر تشریف لائے ۔ میں اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے نیچے جو میدان ہے وہاں کھڑا تھا۔ اس وقت آپ اگر چہ ضبط کو قائم رکھے ہوئے تھے لیکن چہرہ مبارک سے عیاں ہورہا تھا کہ آپ اندر سے روتے ہوئے آرہے ہیں۔
{1266} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا۔ جب میری بیوی اندر گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا۔ ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر گاؤں میں اردگرد طاعون کا حملہ ہورہا تھا اور اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ؑ باہر سے تشریف لے آئے ۔ا لسلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا ، حضور ؑ نے پوچھا کہ ’’اس جگہ کھڑے کیوں ہو؟‘‘ میںنے عرض کی کہ حضور ؑ میاں شادی خان اندر جانے نہیں دیتا۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آؤ میرے ساتھ چلو‘‘ اور وہ اندر چلے گئے ۔
{1267} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بیوی نے خواب میں دیکھا کہ میں بالکل چھوٹی ہوں اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی گود میں بیٹھی ہوں۔ اس وقت میں ایسی محبت سے بیٹھی ہوں جیسے کی ایک چھوٹا بچہ اپنے باپ کی گود میں بیٹھا ہو اہے ۔ اس وقت حضور ؑ نے اپنی زبان مبارک سے بڑی محبت کے ساتھ فرمایا کہ میں برکت بی بی تم کو حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم نماز تیمم سے پڑھ لیا کرو۔ بیماری کی حالت میں غسل جائز نہیں ہے بیمارکو کسی حالت میں بھی غسل جائز نہیں اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتاہوں وہ یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ایک لڑکا دے گا جو صالح ہوگا۔ چنانچہ میںنے یہ خواب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں بمعہ نذرانہ بدست شیخ حامدعلی صاحب اندر گھر میں بھیج دی ۔ جب وہ لڑکا پید اہوا تو حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’صالح محمد ‘‘رکھا۔
{1268} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں احمدالدین صاحب ولد محمد حیات صاحب سابق ساکن چوکنانوالی ضلع گجرات (پنجاب) نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے مسجد مبارک میں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھتے ہوئے باتوں کے دوران میں (غالباً آپ ہی کے الفاظ ہیں) ایک مخالف کی طرف سے آئی ہوئی مگر گالیوں سے بھری ہوئی چٹھی کے پڑھنے جانے پر حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ا س کو مطبع میں بھیج کر چھپوادیا جائے یا بھیج کر چھپوادو ۔تاکہ اس کا شاید بھلا ہوجائے ۔ فقط
{1269} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس رو زعبد اللہ آتھم عیسائی والی پیشگوئی کی میعاد ختم ہوگئی اس سے دوسرے دن جب کچھ سورج نکل آیا تو
حضور علیہ السلام باہر تشریف لائے اور جہاں اب مدرسہ احمدیہ کا دروازہ آمدورفت بھائی شیر محمد صاحب کی دوکان کے سامنے ہے اور اس کے جنوب وشمال کے کمرے جن میں طلباء پڑھتے ہیں ۔یہ جگہ سب کی سب سفید پڑی ہوئی تھی ۔ کوئی مکان ابھی وہاں نہیں بنا تھا۔ چارپائیاں یا تخت پوش تھے۔ ان پر حضور علیہ السلام مع خدام بیٹھ گئے اور اسی پیشگوئی کا ذکر شروع کردیا کہ ’’خدا نے مجھے کہا ہے کہ عبد اللہ آتھم نے رجوع کر لیا ہے۔ اس لئے اس کی موت میں تاخیر کی گئی ہے ۔‘‘ اس وقت آپؑ کے کلام میں عجیب قسم کا جوش اور شوکت تھی اور چہرہ مبارک کی رنگت گلاب کے پھول کی طرح خوش نما تھی اور یہ آخری کلام تھاجو اس مجلس سے اٹھتے ہوئے آپ نے فرمایااور یہ بھی فرمایا کہ ’’حق یہی ہے کہ جو خد انے فرمایا ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی میرے ساتھ رہے یا نہ رہے ۔‘‘
{1270} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ضلع سیالکوٹ کے بعض سرکاری کاغذات ملے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۱۸۶۳ء میں سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ کا عہدہ نائب شیرف کا تھا۔ ان کاغذوں میں جن کی تاریخ اگست اور ستمبر۱۸۶۳ء کی ہے ،یہ ذکر ہے کہ چونکہ مرزا غلام احمد نائب شیرف رخصت پر گئے ہیں اس لئے ان کی جگہ فلاں شخص کو قائمقام مقرر کیا جاتا ہے ۔
{1271} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم نواب محمد علی خاںصاحب مرحوم سے حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی وصیت ملی ہے جو حضور نے اپنی وفات سے نو دن قبل یعنی۰۴؍مارچ۱۹۱۴ء کو تحریرفرمائی اور اس پر نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے موجودہ امیر غیر مبائعین کی گواہی درج کرا کے اور اس وصیت کو مجلس میں مولوی محمد علی صاحب سے پڑھوا کر نواب محمد علی خان صاحب کے سپرد فرما دی جو مجھے اب نواب صاحب مرحوم کی وفات کے بعد اپنی ہمشیرہ سے ملی ہے اور میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓکے خط کو اور اسی طرح گواہوں کے دستخط کوپہچانتا ہوں۔ وصیت جس کا عکس یعنی چربہ درج ذیل کیا جاتا ہے یہ ہے ۔


{1272} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر۶۳۲بیان کردہ ڈاکٹر غلام احمد صاحب میں غلطی واقع ہوگئی ہے ۔ صحیح روایت خود ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد صاحب شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کی ہے یہ ہے کہ سال۱۹۰۰ء کاواقعہ ہے کہ ایک دفعہ یہ عاجز(شیخ نیاز محمدصاحب )حضرت سیدہ ام المومنین سلمھا اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کپڑا بطور تحفہ لایا۔ اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میں پیش کردیں۔ کیونکہ اس عاجز کو حجاب تھا۔ ان ایام میں مسجد مبارک کی توسیع ہورہی تھی اور اس لئے نماز ایک بڑے کمرے میں جو اَب حضرت میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) کے مکان میں شامل ہے ،ہوتی تھی۔ نماز ظہر کے وقت جب جماعت کھڑی ہوئی تو حضرت خلیفہ اول نے اس عاجز کو آگے بلا کر وہ کپڑ احضرت اقدس کی خدمت بابرکت میں پیش کیا۔ حضور نے قبول فرما کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ نماز کے بعد حضور وہ کپڑ الے کر اوپر تشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت نانا جان مرحوم ہنستے ہوئے باہر تشریف لائے اور پوچھا کہ میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کہاں ہے ۔ یہ عاجز اس وقت نفلوں میں التحیات پڑھ رہاتھا۔ حکیم مولوی محمدالدین صاحب مرحوم امیر جماعت گوجرانوالہ نے اس عاجز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہے ۔ حضرت نانا جان وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آج حضرت اقدس بہت خوشی سے مسکراتے ہوئے اندر تشریف لائے اور ام المومنین ؓ کو ایک کپڑا دے کر فرمایا کہ محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقعہ پر ہمارے کپڑوں کی تلاشی کرائی تھی اس کا لڑکا ہمارے واسطے یہ تحفہ لے کر آیاہے ۔ حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس کی اس غیر معمولی خوشی کو دیکھ کر میں اس لڑکے کو ملنے آیاہوں ۔ اتنے میں یہ عاجز نفل پڑھ کر حضرت ناناجان سے ملا تو وہ اس عاجز سے نہایت محبت سے ملے اور پھرآخر عمر تک اس عاجز سے خاص شفقت فرماتے رہے ۔
اس کے کچھ عرصہ بعداس عاجز کی اہلیہ قادیان آئیں تو حضرت سیدہ اُم المومنین سلمہا اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک دفعہ تمہارے میاں (خاوند) ایک کپڑا بطور تحفہ میرے لئے لائے تو حضرت صاحب اس دن بہت خوشی سے اندر تشریف لائے اور کپڑا دے کر فرمایا کہ معلوم ہے یہ کپڑ اکون لایا ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ یہ اس تھانیدار کے بیٹے نے دیا ہے جس نے ہمارے کپڑوں کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے موقع پر کرائی تھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی ایمان افروز نظارہ ہے جو دنیا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا کہ عرب سرداروں نے ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت اور مخالفت میں گزار دی مگر خدا نے انہی کی اولادوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں ڈال کر ان کے خلاف اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گواہ بنادیا۔
{1273} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر۵۰۸میں جو حافظ نور محمد صاحب کی طرف سے درج ہے میں جس عرب صاحب کے متعلق حافظ صاحب نے بیان کیا ہے کہ ان کی شادی مالیر کوٹلہ سے ہوئی تھی اس کے متعلق خاکسار نے لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک عرب قادیان میں آکر رہے تھے ان کا نام عبدالمحی تھااور حضرت صاحب نے ان کی شادی ریاست پٹیالہ میں کرادی تھی۔ اور میں نے لکھا ہے کہ اگر اس روایت میں انہی عرب صاحب کاذکر ہے تو مالیر کوٹلہ کے متعلق حافظ نور محمد صاحب کو سہو ہوا ہے ۔ سو اس روایت کے متعلق محترمی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا ہے کہ وہ عبدالمحی عرب نہیںتھے بلکہ محمد سعید عرب شامی تھے جو یہاں آئے اور ایک عربی رسالہ بھی انہوںنے لکھا تھا۔ اور ان کی شادی مالیر کوٹلہ میں ہوئی تھی اور عبدالمحی صاحب تو بہت عرصہ بعد قادیان آئے تھے ۔

{1274} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے اپنے برادرنسبتی عزیز عبد الرحمن خان نیازی سکنہ پشاور سے بعض وہ خطوط حاصل ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میرے خسر یعنی خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب پشاور کے نام لکھے تھے۔ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خط کو پہچانتا ہوں اور یہ خطوط حضور کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خط جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے میری شادی کی تجویز کے متعلق میں مولوی صاحب موصوف کو لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ کریم
محبی مکرمی اخویم مولوی غلام حسن صاحب سلمہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
اس سے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے برخوردار محمود احمد کے رشتہ ناطہ کے لئے عام دوستوں میں تحریک کی تھی اور آپ کے خط کے پہنچنے سے پہلے ایک دوست نے اپنی لڑکی کے لئے لکھااور محمود نے اس تعلق کو قبول کر لیا۔ بعد اس کے آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لئے تحریک کروں جس کی عمر دس برس کی ہے اور صحت اور متانت مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں۔ اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اور اس قدر علم ہو کہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے ۔نمازاور روزہ اور زکوٰۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرمائیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں ۔ زیادہ خیریت ہے ۔
والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد
چونکہ دونو کی عمر چھوٹی ہیں اس لئے تین برس تک شادی میں توقف ہوگا۔
(اس خط پر کسی اور کے قلم سے تاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۲ء درج ہے )

{1275} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماںجان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھے فرمایا کہ میرے بچوں کی پیدائش اس طرح ہوئی ہے کہ عصمت انبالہ میں پید اہوئی۔ بشیر اول قادیان میں بیت الفکر کے ساتھ والے دالان میں پیدا ہوا۔ تمہارے بھائی محمود نیچے کے دالان میں پیدا ہوئے جو گول کمرہ کے ساتھ ہے ۔ شوکت لدھیانہ میں پیدا ہوئی۔ تم (یعنی خاکسار مرز ا بشیر احمد) نیچے کے دالان متصل گول کمرہ میں پیدا ہوئے ۔ شریف بھی اسی دلان میں پیدا ہوئے اور مبارکہ بھی اسی میں پیدا ہوئیں۔ مبارک نیچے کی منزل کے اس دالان میں پید اہواجوغربی گلی کے ساتھ ہے اور کنوئیں سے جانب غرب ہے ۔ امۃ النصیر بھی مبارک والے دالان میں پیدا ہوئی اور امۃ الحفیظ اوپر والے کمرہ میں جو بیت الفکر کے ساتھ ہے پید اہوئی ۔
{1276} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان اُم المومنین اطال اللہ ظلہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے سنا ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے اس کمرہ میں پیدا ہوئے تھے جو نچلی منزل میں ہمارے کنوئیں والے صحن کے ساتھ شمالی جانب ملحق ہے ۔
{1277} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اماں جان ام المومنین نے مجھ سے بیان کیا کہ ہماری بڑی بہن عصمت انبالہ میں پیدا ہوئی تھی اور لدھیانہ میں فوت ہوئی ۔اس کی قبر لدھیانہ کے قبرستان گورغریباں میں ہے اور ایک احمدی سپاہی (سابقہ خاوند زوجہ بابو علی حسن صاحب سنوری) کے بیٹے کی قبر کے ساتھ ہے ۔ شوکت بھی لدھیانہ میں فوت ہوئی اور قبرستان حرم سرائے شاہ زادگان لدھیانہ میں ہے ۔
{1278} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے تھے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح ہمارے بھی بارہ حواری ہیں اور حضور نے ذیل کے اصحاب کو ان بارہ حواریوں میں شمار کیا (۱)حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ (۲)مولوی محمد احسن صاحب امروہوی(۳)میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (۴)مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری(۵)ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب آف لاہور(۶)ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (۷)شیخ رحمت اللہ صاحب آف لاہور (۸)سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی(۹)ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور (۱۰)مولوی محمد علی صاحب ایم اے (۱۱)سید امیر علی شاہ صاحب سیالکوٹی (۱۲)مفتی محمد صادق صاحب ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے پوچھنے پر کہ کیااس فہرست میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا نام نہیں تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ مولوی عبد الکریم صاحب اس وقت فوت ہوچکے تھے بلکہ ان کی وفات پر ہی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ بات کہی تھی کہ مولوی صاحب کی وفات بڑ ا حادثہ ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سے مخلص آدمی دے رکھے ہیں۔ پھر فرمایا۔ کہ مسیح ناصری کی طرح ہمارے بھی حواری ہیں اور اوپر کے نام بیان فرمائے۔ اس موقعہ پر ہم نے بعض اور نام لئے کہ کیا یہ حواریوں میں شامل نہیں ۔ آپ نے ان کی نسبت فرمایا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ بھی بہت مخلص ہیں مگر اس گروہ میں شامل نہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات۱۹۰۵ء کے آخر میں ہوئی تھی۔
٭٭٭
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت المہدی ۔ سیرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 5 ۔ یونی کوڈ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
{1279 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔آمنہ بیگم والدہ محمود احمد نے بذریعہ تحریر بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب مجھ سے بیان کیا کہ میرے والدین نے۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط میری بیعت کرائی تھی۔بعد میں جب میں قادیان آئی توحضور کے ہاتھ پر بیعت کی چونکہ حضورؑ نے ہی میری شادی کروائی تھی۔شادی کے بعد زیورات وغیرہ کا کچھ جھگڑا ہو گیا مقدمہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ہوا اس لئے ہمیں حضور علیہ السلام نے قادیان ہی بلوالیا۔ میں قادیان آئی اور دو دن حضور ؑ نے اپنے ہی گھر میں رکھا دونوں وقت لنگر خانہ سے کھانا آتا تھالیکن پھر کبھی حضور ؑ اپنے پاس سے بخوشی تبرک کے طور پر بھی بچا ہوا کھانا بھیج دیتے تھے ۔ہم جس دن آئے اسی دن ہی واپس جانے لگے تھے لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ’’ جب تک تمہارے مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہوتا ،یہیں پر رہو۔‘‘ چنانچہ ہم دودن رہے ۔جب فیصلہ ہمارے حق میں ہوگیا تو حضور علیہ السلام نے میرا زیور مجھے واپس دے دیا اور نہایت ہی محبت سے فرمانے لگے کہ’’ بی بی تمہیں دو دن اس لئے رکھا گیا تھا کہ لڑکیوں کو زیور سے بہت محبت ہوتی ہے اور تمہارا زیور اس لئے لے لیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ تم چلی جاتی اور زیور تمہار ا فیصلہ ہونے تک یہیں رہتا اور تمہیں رنج ہوتا ۔اب تمہارا زیور دے کر تمہیں جانے کی اجازت دیتے ہیں ۔‘‘
{1280} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب بشیر اوّل یا غالباً بشیر ثانی (یعنی سیدنا حضرت خلیفہ ثانی) کا عقیقہ ہوا تو گول کمرے میں احباب کو کھانا کھلایا گیا تھا اس روز مَیں اور میرے بھائی صاحب میاںامام الدین جو مولوی جلال الدین صاحب شمس کے والد ہیں قادیان میں تھے اور دعوت میں شامل نہیں ہوئے تھے چونکہ ہماری قریبی رشتہ داری قادیان میں تھی اس لئے جب ہم قادیان آتے تھے تووہاں سے ہی کھانا وغیرہ کھایا کرتے تھے اور وہ ہمارے بڑے خاطر گزار تھے ۔ حسب معمول عقیقہ کے روز ہم نے وہاں سے ہی کھانا کھایا تو ان کی ہمسایہ عورت نے کہا کہ آتے تو اُدھر ہیں اور کھانا یہاں سے کھاتے ہیں حالانکہ اُ س عورت پر ہمارے کھانے کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔خواہ مخواہ اُ س نے بات منہ سے نکالی اس کی بات کا اثر ضرور ہم پر ہوا اور کوئی جواب اس کو نہ دیا گیا اور اپنے گاؤں چلے گئے۔جب دوسری دفعہ قادیان آئے اور حضرت صاحبؑ کی خدمت میں پیش ہوئے تو حضور علیہ السلام نے بہت التفات اور محبت سے زور دار الفاظ میں فرمایا۔کہ’’دیکھو تم ہمارے مہمان ہو جب قادیان آیا کرو تو کھانا ہمارے ہاں کھایا کرو۔اور کسی جگہ سے مت کھانا کھاؤ۔‘‘ ہم حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے ۔الحمد للّٰہ علٰی ذالک ـ
{1281 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔بی بی رانی موصیہ والدہ عزیزہ بیگم موصیہ زوجہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان نے بواسطہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بیان کیا کہ میں نے۱۹۰۱ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی۔چونکہ میری لڑکی عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب قادیان میں تھیں ۔اس واسطے مجھ کو بھی۱۹۰۲ء میں قادیان آنے کی رغبت ہوئی میرے ساتھ میری چھوٹی لڑکی تھی۔جب حضرت صاحب صبح کوکسی وقت سیر کو باہر باغ کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو میں بھی اکثر اوقات ساتھ جاتی تھی۔بوجہ معمر ہونے کے اور دیر ہو جانے کے باتیں یاد نہیں رہیں ۔ہاں البتہ یہ یاد ہے کہ ایک دفعہ صبح کے وقت جب حضرت صاحب کھانا کھا رہے تھے میں بھی آگئی ،میری چھوٹی لڑکی نے رونا شروع کیا ۔ حضرت صاحب ؑ نے دریافت کیا تو عرض کی ،روٹی مانگتی ہے ۔آپؑ نے روٹی منگوا کر دی مگر لڑکی چپ نہ ہوئی ۔حضور علیہ السلام کے دوبارہ دریافت کرنے پر عرض کیا کہ یہ وہ روٹی مانگتی ہے جو حضور ؑ کھا رہے ہیں تب حضور ؑ نے وہ روٹی دی جو حضورؑکھا رہے تھے ۔سو لڑکی نے وہ روٹی جو تھوڑی تھی لے لی اور چپ کر کے کھانے لگ گئی ۔حضورؑ کا یہ کریمانہ وفیاضانہ کام مجھ کو یاد ہے کہ حقیقۃ الوحی میں جو واقعہ غلام محی الدین لکھو کے کا درج ہے وہ یوں ہے کہ حضورؑ نے چوہدری فتح محمدصاحب سیال کو فیروزپور ہمارے گھر بھیجا تھا کہ موضع لکھو کے جاکر ان کے گھر کے حالات دریافت کر کے آویں ۔چنانچہ عزیزہ بیگم اہلیہ حکیم محمد عمر صاحب اور میں بمعیت میرے لڑکے ،مسمی نور محمد مرحوم کے موضع لکھو کے جا کر تحقیق کر کے آئے تھے وہ واقعہ ہماری زبانی ہے ۔ میری لڑکی عزیزہ بیگم کو بہت حالات یاد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔میرا لڑکا نور محمد بہشتی مقبرہ میں کتبہ نمبر۱۰۰کے مطابق فوت ہوچکا ہے ۔
{1282} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ عبد العزیز سابق پٹواری سیکھواں نے بواسط لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرا لڑکا محمد شفیع تھا وہ بیمار ہو گیا میں نے حضورؑ کی خدمت میں جاکر عرض کی اور حضرت ام المومنین نے بھی سفارش کی کہ ان کا ایک ہی لڑکا ہے آپ دعا کریں ۔حضورؑ نے فرمایا۔’’انشاء اللہ دعا کرونگا۔‘‘ اور پھر مجھے دوائی بھی دی ۔دوائی منگنیشیا تھا۔ فرمایا۔ ’’ابھی گھول کر پلا دو اور پھر مجھے بھی اطلاع دے دینا۔‘‘ چنانچہ وہ میں نے لا کر پلایا جس سے جلد ہی آرام آگیا میں نے جا کر اطلاع دی کہ حضور اب آرام آگیا ہے۔اس وقت یہی طریق تھا کہ جب کوئی تکلیف ہو تو فوراً حضورؑ کی خدمت میں عرض کر دیتے ۔ حضور علیہ السلا م فوراً تکلیف کے رفع کا انتظام کر دیتے۔
{1283} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ جب میں پہلے پہل اپنے والد خلیفہ نور الدین صاحب کے ساتھ قادیان آئی تو جس طرف اب سردارالنساء رہتی ہے حضرت صاحب ؑ کا کچھ مکان ہوتا تھا اور میاں بشیر احمدؐ صاحب والے مکان میں لنگر خانہ ہوتا تھا جس میں میاں غلام حسین روٹیاں پکایا کرتا تھا ۔سالن گھر میں پکا کرتا تھا اور آٹا بھی گھر میں گندھتا تھا۔ جب روٹی پک کر آتی تو سالن برتنوں میں ڈال کر باہر بھیجا جاتا ۔ برتن ٹین کے کٹورے اور لوہے کے خوانچے ہوتے تھے۔ کھانا مسجد مبارک میں بھیجا جاتا اور حضور علیہ السلام سب مہمانوں کے ساتھ مل کرکھاتے ۔
{1284} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سیٹھ صاحب کہیں سے آئے تھے ان کے لئے پلاؤ پکتا تھا اور اسی طرح ایک کشمیری ہوتا تھا اس کے لئے حضورعلیہ السلام کچھ سادہ چاول پکواتے ۔ پلاؤ عائشہ بنت شادی خان صاحب پکاتی اور خشکہ میری والدہ پکاتی تھیں ۔پُھلکے بھی وہی پکایا کرتی تھیں ۔
{1285} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام نے چندہ کی تحریک فرمائی تو میں قادیان میں آیا اور آپؑ اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے نیچے اُتر کر جو میدان ہے اس میں ٹہل رہے تھے ۔میں نے کچھ چندہ پیش کیا اور آئندہ کے لئے عرض کی کہ میں موازی چار آنے ماہوار دیتا رہونگا انشاء اللہ ۔ حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’یہ چندہ دائمی ہے‘‘ ۔میں نے عرض کی کہ میں سمجھتا ہوں کہ چندہ دائمی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ ہمیشہ اد اکرتا رہونگا ۔سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزا ر شکر ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ چندہ کو باقاعدہ ادا کرتاچلا آیا ہوں بلکہ زیادتی چندہ کی بھی توفیق دی (صَدَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔ وَیُربِی الصَّدَقَات)
{1286} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ساتھ میری ایک چھوٹی لڑکی تھی جس کا نام صغریٰ تھا۔ مکی کی چھلیاں حضرت اُم المومنین (امان جان) کے پاس دیکھ کر لڑکی نے خواہش کی ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’جلد دو۔ زمینداروں کی لڑکیاں ایسی چیزوں سے خوش ہوتی ہیں‘‘ تو آپ نے لڑکی کو چھلی دے دی ۔
{1287} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’جب منشی صاحب نے بیعت کی توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام نبی بخش سے عبد العزیز رکھ دیا اور فرمایا۔’’نبی کسی کو نہیں بخش سکتا‘‘۔
{1288} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ۱۹۰۳ء میں قادیان سالانہ جلسہ پر آئی ۔شام کا وقت تھا ۔ڈاکٹر صاحب اور میرے بھائی اقبال علی صاحب میرے ساتھ تھے ۔حضور علیہ السلام اس وقت اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے ۔مجھ سے پوچھا۔’’راستہ میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی تھی‘‘ ۔ میں نے کہا نہیں ۔فرمایا’’کتنے دن کی چھٹی ملی ہے‘‘۔ میں نے کہا دس دن کی ۔پھر فرمایا ۔’’راستہ میں سردی لگتی ہو گی‘‘۔ میری گود میں عزیزہ رضیہ بیگم چند ماہ کی تھی۔ آپ نے فرمایا چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر کرنابڑی ہمت کاکام ہے‘‘ حضورؑ مجھ سے باتیں کرتے تھے کہ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب (اس وقت وہ لنگر خانہ کے افسر اعلیٰ تھے)آئے اور فرمایا ۔حضرت مہمان توکثرت سے آگئے ہیں ،معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا۔حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور لیٹے لیٹے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’میرصاحب! آپ نے یہ کیا کہا؟آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے، جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے۔ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا ،پھر ایسی بات نہ کریں‘‘ ۔ میر صاحب سبحان اللہ،سبحان اللہ کہتے ہوئے واپس چلے گئے ۔
{1289} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کرم دین والے مقدمات چل رہے تھے ۔تین اشخاص گورداسپور میں آئے انہوںنے بیعت کی اور بتایا کہ وہ بنارس کے رہنے والے ہیں ۔بعد ش بتکرار انہوں نے کہا کہ حضور ؑ ہمارے جانے کی دیر ہے، بنارس سے بہت لوگ حضور ؑ کی جماعت میں داخل ہونگے۔پہلی دفعہ تو حضورؑ خاموش رہے۔ جب تیسری دفعہ انہوں نے کہا کہ ہمارے جانے کی دیر ہے بہت لوگ بیعت کرینگے توحضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم اپنی خیر مانگو خدا جانے لوگ تمہارے ساتھ کیسے پیش آئیں گے۔‘‘(ان تینوں میں ایک معمر اور وجیہہ بھی تھا) خد اجانے پھر کبھی ان کومیں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ساتھ کیا گزری ؟ واللّٰہُ اَعْلَمُ
{1289} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگر خانہ میں بھیجا جاوے۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ غرباء کا حق ہے۔ غرباء کو تقسیم کیا جاوے۔‘‘ چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا ۔
{1290} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرز امحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب میں پہلی بار قادیان آئی تو حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے مکان پر ٹھہری ۔ تیسرے دن حضرت بیوی جی صاحبہ مجھے حضرت صاحب ؑ کے پاس لے گئیں۔ حضرت صاحب ؑ نے فرمایا۔’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت اماں جان نے کہا کہ مرزا فتح محمد صاحب کی بہو اور مرزا محمود بیگ صاحب کی بیوی ہیں اور پٹی سے آئی ہیں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ہم جانتے ہیں مرزا صاحب سے ہماری خط وکتابت ہے‘‘۔ پھر میں چلی آئی دوسرے دن میری بیعت ہوئی ۔حضور ؑ جو لفظ فرماتے وہ اماں جان دہراتی جاتی تھیں اور میں بھی ان کے ساتھ کہتی جاتی۔اس وقت نیچے جو بڑا دالان ہے اس میں بیٹھے تھے حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ ’’ آپ کی نندوں کا رشتہ ہوگیا ‘‘ ؟میں نے کہا ’’جی نہیں ‘‘ میرا بھائی دیر سے بیمار تھا میرے خاوند نے کہا کہ حضور ؑ سے اجازت لے کر چلو تمہارا بھائی بیمار ہے ۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ ’’کوئی خطرہ کی بات نہیں ‘‘ ۔پھر ہم دو ماہ بعد پٹی چلے گئے ۔
{1291} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مولوی عبد الکریم صاحب ؓ نے یہ آیت لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ (المائدۃ:۷۹) پڑھ کر تقریر کی تو بعد نماز جمعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’دوران خطبہ میں الہام ہوا ہے کہ ’’ وزیر آباد پر بھی *** پڑ گئی‘‘۔٭( اَللّٰہُمَّ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔آمین)
{1292} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ضرورت امام پر مضمون لکھو(جماعت ابھی تھوڑی تھی) اکثر احباب نے جو کچھ خواندہ تھے مضامین لکھے۔میں نے بھی لکھا جب مضامین جمع ہو گئے تو بعد ش حضور علیہ السلام شام وعشاء کے درمیان سنا کرتے تھے۔جس روز میرا مضمون پڑھا گیا تو میں موجود نہ تھا۔ مولوی قطب الدین صاحب طبیب قادیان نے مجھے کہا کہ تمہارے مضمون کو سن کر حضرت صاحب ؑ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ’’ ہے تو وہ جاٹ جیسا لیکن مضمون بہت اچھا لکھا ہے ۔‘‘ مجھے یاد ہے کہ تحریر مضمون کے وقت مجھے دعا کی توفیق مل گئی تھی ورنہ علمی خوبی مجھ میں کوئی نہ تھی نہ اب ہے ۔الحمد للہ ـ
{1293} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہمارا زمینداری کاکام تھا ایک دفعہ بارش بہت کم ہوئی ،فصل خراب ہوگئی، دانے کھانے کے واسطے بھی بہت کم تھے ۔
ادھر حضرت صاحب کے مختار ،حامد علی صاحب معاملہ لینے کے لئے آگئے ۔سب آدمیوں نے مل کر عرض کی کہ دانے بہت کم ہیں ۔ معاملے کے واسطے اگر بیچ دئیے جائیں تو ہمارا کیا حال ہوگا ؟حامد علی صاحب نے

٭ تذکرہ میں اس الہام کے الفاظ یوں مندرج ہیں ’’ یہ *** ابھی وزیر آباد میں برسی ہے‘‘ (تذکرہ صفحہ 268ایڈیشن چہارم مطبوعہ 2004ئ)
جاکر حضرت صاحبؑ کی خدمت میں اسی طرح کہہ دیا۔آپؑ نے فرمایا ۔ ’’اچھا! اگلے سال معاملہ لے لینا۔اس وقت رحم کرو‘‘۔ چنانچہ اگلے سال اس قدر فصل ہوئی کہ دونوں معاملے ادا ہوگئے ۔آپؑ غرباء پر بہت رحم فرمایا کرتے تھے ۔
{1294} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنے قدیمی مکان کے دروازہ کے آگے کوچہ میں جو جناب مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے گھر کو نکل جاتا ہے بیٹھے ہوئے تھے اور شیخ غلام مصطفیٰ وشیخ غلام محمد( یہ نوجوان تھے) جو بٹالہ کے رہنے والے تھے موجود تھے ۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ رسول کریم ﷺ کے وقت تو قرآن کریم کے متن یعنی مفصل حصہ کی توضیح ہوئی ہے اور دوسرے حصہ مجمل یعنی مقطعات کی توضیح ہمارے زمانہ میں ہوگی(یعنی حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں )
{1295} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں مولوی کر م دین والے مقدمات چل رہے تھے ایک روز حضورؑ یکہ پر گورداسپور سے قادیان روانہ ہوئے۔ہم تینوں بھائی یعنی میاں جمال الدین ومیاں امام الدین صاحب اور خاکسار راقم یکہ کے ساتھ کبھی بھاگ کر اور کبھی تیز قدمی سے چل کر قادیان پہنچ گئے۔اس روز کھانا ہم نے مسجد مبارک میں ہی کھایا اور حضورؑ نے براہِ شفقت بعض اشیاء خوردنی خاص طور پر اندر سے ہمارے لئے خادمہ کے ہاتھ ارسال فرمائیں ۔الحمد للّٰہ علی ذالک
{1296} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔میں اپنے گاؤں اوجلہ میں تھی اور وہ دن طاعون کے تھے ۔ مجھ کو بخار ہو گیا اور کچھ آثار گلٹی کے بھی نمودار ہو گئے ۔وہاں سے حضورؑ کی خدمت میں عریضہ تحریر کر کے مفصل حال کی اطلاع دی ۔ حضورعلیہ السلام نے جواب تحریر فرمایا کہ ’’میں انشاء اللہ دعا کرونگا۔مکان کو بدل دینا چاہئے۔‘‘ چنانچہ مکان بدلا گیا۔ خدا وند کریم نے ہر ایک طرح سے محفوظ رکھا۔
{1297} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈاکٹر صاحب تین ماہ کی رخصت لے کر آگرہ سے قادیان آئے۔آگرہ میں خورمے بہت عمدہ اور بڑے بڑے بنتے تھے۔حضورؑ کو بہت پسند تھے ڈاکٹر صاحب جب آتے تو حضرت صاحبؑ کے لئے خورمے ضرور لاتے تھے ۔حضور علیہ السلام نے صبح سے کھانا نہیں کھایا ہو ا تھا۔ عصر کے وقت میں آئی۔ آپ بہت خوش ہوئے۔مجھ سے سفر کا حال پوچھتے رہے ۔ اماں جان نے کہا کہ کھانا تیار ہے آپ نے فرمایا ۔’’ طبیعت نہیں چاہتی‘‘ پھر حضرت اماں جان نے کہا کہ ’’مراد خاتون تو آپ کے لئے آگرہ سے خورمے لائی ہیں ‘‘۔پہلے تو آپ بہت خوش ہوئے پھر فرمایا۔’’ یہ مجھے بہت پسند ہیں لاؤ میں کھاؤں‘‘۔ جب سامنے لائے گئے تو فرمایا۔ ’’ اُف اتنے بہت سے ‘‘۔ حضور ؑ نے کھائے اور کہا ۔’’ یہ میرے لئے رکھو میں پھر کھاؤں گا‘‘۔ میرا اتنا دل خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔پھر میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا وہ بھی بہت خوش ہوئے ۔کتنی دیر تک آسمان کی طرف منہ کر کے سبحان اللّٰہ ، سبحان اللّٰہ پڑھتے رہے۔
{1298} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک عورت جو سامانہ کی رہنے والی تھی حج کر کے حضور ؑ کے گھر آئی۔وہ اس وقت پہنچی جبکہ حضورؑ کا تمام کنبہ کھانا کھا چکا تھا۔حضورؑ تھوڑی دیر بعد حجرے سے باہر نکلے اور کہا کہ تم نے کھانا کھا لیا ہے کہ نہیں؟ اس نے کہا ’’ نہیں‘‘ حضور علیہ السلام گھر والوں کو خفا ہوکر کہنے لگے کہ’’ تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا ۔ یہی تو میرے بال بچے ہیں ‘‘۔ حضورؑ نے خود کھانا منگوا کر اُسے کھلایا۔
{1299} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام کے حضور ذکر ہو اکہ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد زمین پڑی ہوئی ہے اور لوگوں نے قبضہ کیا ہو اہے ۔اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ مسجداپنی زمین لے لی گی۔‘‘
{1300} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میاں جان محمد صاحب(جو میرے ماموں تھے اور مخلص تھے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے جب اپنے۳۱۳ ،صحابہ کی فہرست تیار فرمائی اس وقت میاں جان محمد صاحب فوت ہوچکے تھے۔حضور علیہ السلام نے ان کا نام فہرست مذکور میں درج فرما کر ان کے اخلاص کا اظہار فرما دیا) ۔نے ذکر کیا کہ جہاں مسجد اقصیٰ بنائی گئی ہے ۔سکھ حکومت میں یہ جیل خانہ تھا اور ایک کاردار حکومت کرتا تھا ۔ جب انگریزی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت یہ زمین نیلام کی گئی۔ہندوؤں کا ارادہ تھا کہ یہ زمین خرید کر اس پر گوردوارہ بنایا جائے ۔لیکن حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو یہ خیال تھا کہ یہاں مسجد بنائی جائے ۔چونکہ دو قوموں میں مقابلہ ہونا تھا، معلوم نہیں کہ بولی کہاں تک بڑھ جائے ،اس لئے ان کی خدمت میں عرض کی گئی کہ کہاں تک بولی دی جائے تو حضرت مرزا صاحب موصوف نے فرمایا کہ ’’بس میری طرف سے یہ جواب ہے کہ آخری بولی میرے نام پر ختم ہو۔خواہ کہاں تک بولی جائے ‘‘ ہندو سات سو روپیہ بولی دے کر ٹھہر گئے۔آخری بولی حضرت موصوف مرحوم کے نام پر ختم ہوگئی۔
نوٹ:- خد اجانے حضرت موصوف مرحوم نے کس جوش وغیرت ملّی سے اس زمین کو خرید کر مسجد کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ قبولیت مسجد شہادت دیتی ہے کہ کس پاک نیت سے یہ کام کیا گیا ہے کہ خدا کا پاک نبی مسیح موعودؑ اس میں نماز پڑھتا رہا۔اب آپ ؑ کی جماعت مستفید ہورہی ہے وغیرہ۔یا اللہ بانی مسجد پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور فضل نازل فرما۔آمین
{1301} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔راجو زوجہ فقیر محمد قادر آباد نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان مجھ سے بیان کیا کہ میری ساس جس کو حضرت صاحبؑ ’’ ہَسّو ‘ ‘ کہا کرتے تھے۔پہلی دفعہ مجھے حضور علیہ السلام کے سلام کے لئے لے گئی۔حضورؑ نے پوچھا کہ ہسّو! یہ تیری درانی ہے یا بہو ہے ؟ حضورؑ نے بالآخر مبارک باد دی اور دعا دی اور فرمایا۔ ’’ یہ رشتہ کہاں سے لیا ہے ؟‘‘۔۔۔۔حضور علیہ السلام ہمارے برتنوں میں ہمارے ہاتھوں سے لے کر کھا لیا کرتے تھے۔ حضور ؑکا لباس بہت سادہ ہوتا تھا اور بال سرخ چمکیلے تھے ۔سر پر پگڑی باندھتے۔کُرتے کے اوپر چوغہ پہنتے یا کوٹ۔ اور شرعی پائجامہ پہنتے۔جوتا سادہ ہوتا۔ہاتھ میں سوٹی رکھتے۔
{1302} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھاگو اور مائی بھانو صاحبہ قادر آبا دنے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مائی بھاگو اور بھانو ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنکھا ہلا رہی تھیں کہ مائی بھانو نے دریافت کیا کہ حضورؑ نمازپڑھنے کا ثواب ہوگا؟ تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ نہ ثواب ہوگا نہ عذاب ہوگا۔پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہئے ۔‘‘ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی ۔ایک دفعہ ایک مباحثہ میں جمع کی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ’’ مکان تیار کرو۔آپ کی سیدوں میں شادی ہوگی‘‘۔ اس پر لوگوں نے بہت ٹھٹھا اڑایا مگر ہمارے سامنے ایسا ہی واقعہ ہوا ۔پھر حضرت ؑ کو الہام ہوا کہ ’’آپ کے گھر ایک لڑکا ہوگا جو اسلام میں بہت ہوشیار ہوگا‘‘ پھر ہمارے گاؤں کی مسجد میں گئے اور دریافت فرمایا کہ ’’کون کون نماز پڑھتا ہے؟ اور کون کون نہیں پڑھتا؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ بہت کم لوگ پڑھتے ہیں ۔ اس پر حضور علیہ السلام نے جیب سے ایک کاپی نکالی اور فرمایاکہ’’ ان کے نام لکھاؤ ۔اس پر حضرت ام المومنین سلمھا اللّٰہ نے فرمایا کہ ’’آپ نام کیوں لکھتے ہیں ؟ تو حضور علیہ السلام نے کاپی جیب میں ڈال لی اور نام نہ لکھے ۔اب خدا کے فضل سے سب (نماز) پڑھتے ہیں ۔
{1303} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحبؑ ہمیشہ جماعت کے ساتھ باہر کھانا کھایا کرتے تھے اور آپ ؑ وہی کھانا کھایا کرتے تھے جو سب کے لئے پکتا تھا۔بچوں سے بہت محبت واخلاق سے پیش آیا کرتے تھے ۔ عورتوں کو ہمیشہ نماز کی ادائیگی کے متعلق تاکید بہت کرتے تھے۔
{1304} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ صاحبہ بھی قادیان میں ہی رہا کرتی تھیں ۔ جب میں قادیان آتی تو حضورؑ مجھ کو کہتے تھے کہ’’ تم ہمارے مہمان ہو ۔ہمارے مکان پر رہو‘‘۔ میں تو شرم کے مارے چپ رہتی اور ڈاکٹر صاحب سے کہلاتی ۔حضور ؑ دس روز کی رخصت ہے ،یہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں۔حضور فرماتے۔’’ کوئی حرج نہیں ان کی والدہ بھی یہیں رہیںگی‘‘۔ فوراً آدمی میری اماں کی طرف بھیج دیتے ۔کہ جب تک ڈاکٹر صاحب یہاں رہیں آپ بھی یہاں رہیں۔چنانچہ کئی بار ایسا ہوا کہ میری والدہ صاحبہ اور میری بھاوجہ فاطمہ جو ڈاکٹر فیض علی صاحب کی بیوی ہیں یہاں رہتیں۔میرے بھائی باہر نوکری پر ہوتے تو میری والدہ کہتیں۔بہو گھر میں اکیلی ہے میں نہیں آسکتی۔ لیکن حضرت صاحب فرماتے’’ نہیں ڈاکٹر صاحب ہمارے مہمان ہیں ان کو بھی کہو کہ یہاں پر آجائیں۔‘‘ کھانا لنگر خانہ سے آتا۔حضورؑ کی سخت تاکید ہوتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے لئے کھانا عمدہ ہو۔کریم بخش باورچی کھانا پکایا کرتا تھا جو کہ روز آکر پوچھا کرتا۔لنگر والے روزانہ آکر پوچھتے آپ کے لئے کیا پکایا جائے ؟ پھر آپ علیہ السلام خود پوچھتے’’ کھانا خراب تو نہیں تھا ۔کوئی تکلیف تو نہیں ہے ‘‘ ؟ کہنا نہیں حضورؑ کوئی تکلیف نہیں ۔پھر بھی حضورؑ کی تسلی نہ ہوتی ۔گھر سے کبھی کبھی کوئی چیز ضرور بھیج دیتے۔تین ماہ کی رخصت لے کر ڈاکٹر صاحب آئے حضور ؑ کبھی بھی مہمان نوازی سے نہ گھبراتے تھے اور اپنی ملازمہ سے کہتے تھے۔’’دیکھو ڈاکٹر صاحب تنور کی روٹی کھانے کے عادی نہیں ان کو پُھلکے پکا کر بھیجا کرو‘‘۔ روز کھانے کے وقت حضور ؑ آواز دے کر پوچھتے۔’’ صفیہ کی اماں ! ڈاکٹر صاحب کے لئے پُھلکے بھیج دئیے؟‘‘ تو وہ کہتی ۔بھیجتی ہوں ۔تو فرماتے ’’جلدی کرو ،وہ کھانا کھا چکے ہونگے‘‘۔ حضور علیہ السلام مہمانوں کا یوں خیال رکھتے جیسے ماں بچے کاخیال رکھتی ہے۔
{1305} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ کے ہاں چار لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں ۔ جن میں سے صرف میں زندہ رہی اور باقی تمام فوت ہوگئے۔لیکن۱۵سال کی عمر میں مجھے دق کا مرض شروع ہو گیا ۔ حتیّٰ کہ ڈاکٹروں اور حکیموں نے جواب دے دیا ۔اس مایوسی کی حالت میں میر ے والد مجھے قادیان شریف لائے اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا اور دعا کے لئے عرض کی ۔ حضور ؑ نے ایک خط لکھ کر میرے والد کو دیا اور فرمایا کہ’’ میں دعا کرتا ہوں اور تم یہ خط مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ) کو دو ۔وہ اس لڑکی کا علاج کرینگے۔‘‘چنانچہ اس کے بعد مجھے صحت ہوگئی۔میری شادی ہوئی اور حضورؑ کے فرمانے کے بموجب بچے پیدا ہوئے۔
{1306} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں اس زمانہ میں قادیان آئی جب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین ہوئی تھی۔ میں حضرت کے مکان کے نچلے حصہ میں رہتی تھی ۔آپ ؑ کے کمرے کے درمیان میز رکھی ہوئی تھی ۔آپؑ ٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے۔دوات میز پر رکھی ہوتی۔ جب میز کے پاس سے گزرتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے ۔دو عورتیں میرے ساتھ تھیں ۔نیز ہمارے ساتھ ایک مرد بھی تھا۔اُ س نے ہمارے متعلق حضرت صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر ہمارے ہاتھ بھیجا کہ یہ مستورات جو آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہیں ان میں سے ایک اہلیہ مولوی جلال الدین صاحب ضلع گجرات کی ہیں اور دوسری اہلیہ محمدالدین صاحب ۔ دونوں عورتوں کا نام تو حضورؑ نے پڑھ لیا جب تیسری کی باری آئی تو حضور ؑ کمرے سے باہر نکل آئے اور دروازے کی چوکھٹ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور فرمایا۔’’ وہ مولوی فضل الدین صاحب کی بیوی ہیں‘‘۔ تین بار حضور ؑ نے یہی الفاظ دہرائے ۔انگنائی میں حضرت اُم المومنین صاحبہ تشریف رکھتی تھیں۔بیوی صاحبہ ہنس پڑیں ۔فرمایا’’لوگوں کو کیا پتہ بیوی صاحبہ کہاں ہیں‘‘ ؟ جب اذان ہوئی تو آپؑ نے فرمایا ۔’’لڑکیو! اذان ہوگئی ہے نماز پڑھو‘‘ ۔چونکہ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھی تھی۔حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ’’ بیوی صاحبہ نے نماز نہیں پڑھنی کچھ دن عورتوں کے لئے ہوتے ہیں کہ جن میں وہ نماز نہیں پڑھتیں۔‘‘
{1307} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ایام مقدمات مولوی کرم الدین میں ایک روز نصف شب گورداسپور پہنچے۔چونکہ حضور علیہ السلام بڑے محتاط تھے۔ فرمایا کہ’’شاید عدالت ضمانت طلب کرے۔میاں فضل الٰہی نمبردار فیض اللہ چک کو بلایا جائے ‘‘ چنانچہ اُسی وقت میں اور میر ابھائی میاں امام الدین صاحب لالٹین ہاتھ میں لے کر فیض اللہ چک کو چل پڑے اور قبل از نماز صبح پہنچ گئے اور میاں فضل الٰہی صاحب کو ساتھ لے کر قبل از کچہری گورداسپور پہنچ گئے لیکن اس روز عدالت نے ضمانت طلب نہ کی ۔
{1308} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ مباحثہ شروع ہوگیا تھا موسم گرما تھا۔پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ(کنوئیں) کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے۔لہٰذا ان کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔
{1309} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے سودی قرضہ کے متعلق سوال کیا۔فرمایاکہ ’’ یہ جائز نہیں ہے‘‘۔میں نے عرض کی کہ بعض اوقات مجبوری ہوتی ہے مثلاً ایک کاشتکار ہے۔ اس کے پاس کچھ نہیں ہے ۔سرکاری معاملہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ سپاہی سر پر کھڑا ہے۔بجز سود خور ،کوئی قرض نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟فرمایا’’مجبوری تو ہوتی ہے لیکن استغفار ہی کرے اور سودی قرضہ نہ لیوے۔‘‘
{1310} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد بڑھئی نے بذریعہ تحریر بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بیان کیا کہ ’’میرا باپ مجھے سنایا کرتا تھا کہ ایک دفعہ مرزا صاحب ایک کوٹھے پر سے گر پڑے ہم آپ کی خبر گیری کو گئے ۔آپ کو جب کچھ ہوش آئی تو فرمایاکہ ’’دیکھو کہ نماز کا وقت ہوگیاہے‘‘ ؟۔
{1311} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ کنیزفاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بیان کیا کہ حضرت اقدس ؑ ۱۹۰۵ء میں دہلی تشریف لے گئے ۔حضورؑ ہمارے مکان میں تشریف رکھتے تھے۔اس وقت میں نے حضور کی بیعت کی ۔میرے ساتھ عبد الرشید صاحب کے سب خاندان نے بھی بیعت کی ۔آپ نے فرمایا ’’ تم سوچ سمجھ لو ۔تمہارے سب رشتہ دار وہابی ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’حضور میں نے خوب سوچ لیا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ کل جمعہ کے روز بیعت لوں گا، آج رات اور سوچ لو‘‘۔ جمعہ کے دن آپ نے مولوی محمد احسن صاحب کو فرمایا کہ ‘‘ میرصاحب کی بیوی کو بلا لاؤ‘‘ میں گئی تو حضور نے بڑی محبت سے میری بیعت لی۔میرے ساتھ میرا ایک رشتہ دار محمد احمد بھی تھا ۔اس نے بھی بیعت کی ۔ بیعت کرنے کے وقت دل بہت خوش ہوا۔بعد میں حضورؑ نے بہت لمبی دعا فرمائی۔
{1312} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ۱۹۰۵ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی۔اور دعا فرمائی۔ باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا ۔میں بار بار آپؑ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اور حضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں ۔ آپؑ نے فرمایا۔’’شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔گاڑی لائیں‘‘۔ میر صاحب نے کہا ۔حضور! گاڑی کیا کرنی ہے ؟ آپ نے فرمایا’’قطب صاحب جانا ہے‘‘ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے۔ آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپؑ نے فرمایا’’دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا‘‘۔ میر صاحب کی اپنی فٹن بھی تھی ،دو گاڑیاں اور آگئیں۔ہم سب حضرت صاحبؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھر کر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اور بہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے۔آپؑ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑسے پوچھا، آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں ؟ آپؑ نے فرمایا ’’ ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں ‘‘۔پھرآپؑ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی پھر آپؑ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔ وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اور مقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں توعورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ان لوگوں نے حضور ؑ کو کھانے کے لئے کہا۔حضورؑ نے فرمایا ’’ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں آپ کی مہربانی ہے‘‘۔ وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا پھر حضورعلیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔
{1313} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۲ء میں بابو صاحب کو تین ماہ کی رخصت ملی تو ہم ڈیڑھ ماہ قادیان میں رہے۔میں صبح ہی حضرت صاحب کو ملنے آئی تو دادی سے پوچھا۔حضرت صاحب کہاں ہیں؟ دادی نے کہا اس وقت حضور ؑ سوگئے ہیں ۔تمام رات جاگتے رہے۔رات بارش کا طوفان تھا۔حضورؑ نے فرمایا۔’’ خدا جانے کوئی عذاب نہ آجائے۔‘‘ تمام رات جاگتے رہے اور دعا کرتے رہے۔اب نماز کے بعد سوگئے ہیں ۔ اس لئے میں واپس آگئی۔پھر ایک بجے گئی تو حضورؑ اس وقت ڈاک دیکھ رہے تھے ۔آپؑ نے حضرت ام المومنین صاحبہ کو فرمایا۔’’دیکھو ! ہم نے ڈاک کھولی تو نوٹ یہاں پر ہی گرپڑے اب مل گئے ہیں کسی نے دیکھے نہیں‘‘ ۔ میں ہر روز جاتی اور پنکھا جھل کر چلی آتی۔ شرم کی وجہ سے کبھی حضور ؑ سے بات نہ کی۔
{1314} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب مہر سنگھ بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی حضورؑ کے حکم سے ہوئی تھی۔میں رخصت ہو کر قادیان ہی آئی تھی اور میری والدہ ساتھ تھیں۔حضرت صاحب کے گھر میں ایک سرد خانہ ہوتا تھا اس میں ہم سب رہا کرتے تھے۔جب میں حضور ؑ کو وضو کراتی تو حضور علیہ السلام ’’جزاکم اللہ‘‘ کہا کرتے ۔حضورؑ لکھا بہت کرتے تھے۔جب بیٹھ کر لکھتے تو ہم حضورؑ کے کندھے دبایا کرتے تھے۔حضورؑ اکثرٹہل کر لکھا کرتے تھے درمیان میں ایک میز رکھی ہوتی اور اس پر ایک دوات پڑی رہتی تھی۔حضورؑ لکھتے لکھتے ادھر سے آتے تو قلم کو سیاہی لگا لیتے ۔پھر ادھر جاتے تو قلم سیاہی میں ڈبو لیتے او ر جب پڑھتے تو اونچی آواز سے پڑھا کرتے تھے اور جو کچھ لکھتے اس کو دہراتے جاتے۔
{1315} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبد العزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ جو۱۹۰۵ء میں آیا تھا۔ اس وقت ہم موضع سیکھواں جو ہماراحلقہ تھا میں سکونت رکھتے تھے۔زلزلہ آنے کے بعد میںکچھ گھی لے کر قادیان میں آئی اس وقت حضورؑ باغ میں معہ خدام سکونت رکھتے تھے۔حضورؑ نے پوچھا کہ’’ میاں عبد العزیز نہیں آئے؟۔‘‘ میں نے عرض کی کہ حضورؑ ان کا کوئی افسر آیا ہوا تھا اس واسطے نہیں آسکے۔
{1316} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جس وقت میاں مبارک احمد فوت ہوئے تو دادی آئی(میاں شادی خان کی بیوی) اور اماں جی کے گلے مل کر رونے لگی۔تو حضورؑ حجرے سے گھبرا کر باہر نکلے اور کہنے لگے۔’’ یہ مکان رونے کا نہیں ہے بلکہ ہنسنے کا ہے۔‘‘
{1317} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادر آباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ پہلے جب میاں جان محمد کشمیری نے بیعت کی تھی۔پھر مولوی صاحب نے ۔ مَیں اس وقت لڑکی تھی۔میری عمر اب اسی(۸۰) سال کی ہے۔جب حضرت صاحبؑ ڈھاب بھروانا چاہتے تو ہندو سکھ آتے، کہیاں اور ٹوکریاں چھین لیتے۔آپؑ کے مکان کے پیچھے لابھا کھڑا ہو کر گالیاں دیتا رہا۔آپ نے اپنی جماعت کو فرمایاکہ’’چپ رہو‘‘ چھ ماہ کے بعد وہ لابھا ہندو گُڑ کے کڑاہ میں گر کر مر گیا۔اس کے بعد لیکھرام ،آریوں کے ساتھ آپؑ کا مباحثہ ہوتا رہا۔
{1318} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھولی ۔مائی جیواں عرف ملا قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام سیر کو آئے تو دیکھا راستہ جو پہلے خراب تھا۔نیا بنا ہوا ہے ۔آپؑ نے فرمایا ۔ ’’ یہ کس نے بنایا ہے ؟‘‘ ہم نے کہا حضورؑ آپ کی اسامیوں نے۔آپ بہت خوش ہوئے اور ہنسے ۔
ایک بار حضورؑتشریف لائے تو میں نئی کنک(گندم) بھنا کر لے گئی۔آپ نے اپنے ساتھ جو تھے ان کو بانٹ دی ۔ خود بھی چکھی اور خوش ہوئے ۔جب حضورؑ سیر کو آیا کرتے تو ہماری کچی مسجد میں آکر نماز اشراق پڑھتے۔ ہم لوگ ساگ روٹی پیش کرتے تو حضور علیہ السلام کبھی بُرا نہ مناتے اور نہ ہی کراہت کرتے۔
{1319} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ہم نے قادیان میں مکان بنانا شروع کیا۔ دیواریں وغیرہ بنوائیں تو مرزا نظام الدین نے آ کے گرا دیا۔ اس پر حضور ؑ پُر نور نے فرمایا کہ ’’ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا مکان پھر اور کہیں بن جائے گا‘‘ ۔ جب نواب مبارکہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۔ مَیں قادیان میں ہی تھی۔ حضرت اُم المومنین کو کچھ تکلیف تھی ، حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی۔ خدا نے شفا بخشی۔ آپ ؑ نے ان کی پیدائش پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
{1320} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔چار دن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا۔’’ سفر میں روزہ تو نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں ۔حضور ؑنے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ہم روزہ رکھیں گے۔آپ ؑنے فرمایا ’’ بہت اچھا! آپ سفر میں ہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔ حضورؑ! چند روز قیام کرنا ہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔آپؑ نے فرمایا۔’’اچھا ! ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیںگے۔‘‘ ہم نے خیال کیاکشمیری پراٹھے خد اجانے کیسے ہونگے؟ جب سحری کا وقت ہوا اور ہم تہجد ونوافل سے فارغ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے (جوکہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے کشمیری تھیں اور پراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں ۔ حضورؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اور حضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اور فرماتے تھے۔’’ اچھی طرح کھاؤ‘‘۔مجھے تو شرم آتی تھی اور ڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضورؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں ،روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہو رہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی توحضور ؑ نے فرمایا کہ’’ اور کھاؤ ابھی بہت وقت ہے۔ فرمایاقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)۔اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیںابھی وقت بہت ہے۔مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضورؑ کھڑے رہے اور ٹہلتے رہے۔ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں۔میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑ لونگا یا میری بیوی لے لیں گی۔مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔
{1321} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ صاحبہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ روزانہ صبح سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم کی عمر اس وقت اندازاً تین سال کی تھی۔میں اور حافظ حامد علی صاحب کی لڑکی آمنہ مرحومہ امۃ الحفیظ بیگم کو باری باری اٹھا کر ساتھ لے جاتی تھیں۔ چونکہ حضورؑ بہت تیز رفتار تھے۔اس لئے ہم پیچھے رہ جاتے تھے۔ تو امۃ الحفیظ بیگم ہم سے کہتیں کہ ’’ ابا کے ساتھ ساتھ چلو‘‘۔اس پرمیں نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں تم حضرت صاحب سے دعا کے لئے کہنا۔ اس پر صاحبزادی نے حضرت صاحب سے کہا ۔آپ نے فرمایا ۔’’ اچھا! ہم دعاکریں گے کہ یہ تم کو ہمارے ساتھ رکھے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور آمنہ کو اتنی طاقت دی کہ ہم صاحبزادی کو اٹھا کر ساتھ ساتھ لے جاتیں اور لے آتیںمگر تھکا ن محسوس نہ ہوتی۔
{1322} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی۔اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی۔اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا میرے ساتھ جو دو عورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکر مائی تابی ایسا کہتی ہے۔ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے ۔ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کر دیں ۔جلال الدین نے وہ رقعہ حضورؑ کے سامنے پیش کردیا ۔رقعہ پڑھتے ہی حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ نے فوراً مائی تابی کو بلایا اور فرمایا۔ تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہو۔تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف کہ اگر خدانخوستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے‘‘۔ مائی تابی نے ہم سے اور حضرت صاحبؑ سے معافی مانگی۔اس کے بعد مائی تابی اور ہم بہت اچھی طرح رہتے رہے۔
{1323} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کا ذکر ہے کہ چار پائیوں کی ضرورت تھی تو جلسہ والے ہم سب گھر والوں کی چارپائیاں لے گئے۔آپ ؑکو معلوم ہو اتو آپؑ نے میاں نجم الدین صاحب مرحوم مغفور کو بلا کر فرمایا۔’’ فضل بیگم کی چارپائی کیوں لے گئے ہو؟ کیا وہ مہمان نہیں؟ بس ان کی چارپائی جہاں سے لائے ہو وہیں پہنچا دو‘‘۔ وہ بیچارے لا کر بچھا گئے۔
{1324} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضرت صاحب ؑ باغ میںتشریف لے گئے تھے ۔میں نواب صاحب کے کام کرتا تھا ۔جب اذان ہوگئی تو ہم سب نماز کے لئے گئے ۔حضرت صاحب بھی تشریف لائے ۔آپؑ کچھ باتیں کررہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا۔حضور! شرمپت آپ کا دوست ہے اور وہ مسلمان نہیں ہوا؟ حضرت صاحبؑ نے فرمایا۔’’ وہ مسلمان نہیں ہو گا مگر مصدق ہو جائے گا‘‘۔ مولوی عبد الکریم صاحب نے پوچھا کہ حضورؑ مصدق کا کیا مطلب ہے ۔آپؑ نے فرمایا’’ کہ میری سب باتوں کا یقین کر لے گا‘‘۔
{1325} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ عبدالعزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت ام المومنین مجھ سے دریافت کرتی تھیں کہ تمہارا گاؤں تو اوجلہ ہے تم سیکھواں کیوں رہتے ہو؟حضورؑ نے فرمایا ۔’’ میں آپ کو بتلاتا ہوں کہ چونکہ میاں عبدالعزیز کی ملازمت پٹوار سیکھواں میں ہے اور پٹواری کو مع عیال حلقہ میں رہنے کا حکم ہے اس واسطے ان کو سیکھواں میں رہنا پڑتا ہے ۔‘‘
{1326} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لڑکا پید اہوا اور فاطمہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب پوچھتی ہیں ’’بشریٰ کی اماں ! لڑکے کا نام کیا رکھا ہے! ‘‘اتنے میں دائیں طرف سے آواز آتی ہے کہ ’’نذیر احمد‘‘۔میرے خاوند نے یہ خواب حضرت اقدس ؑ کو سنادیا۔ جب میرے ہاں لڑکا پید اہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ’’ وہی نام رکھو جوخدا نے دکھایا ہے۔‘‘ جب میں چلّہ نہا کر گئی تو حضورؑ کو سلام کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔آپ نے فرمایا۔’’انشاء اللہ‘‘ پھر حضورعلیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا۔’’ ایک نذیر دنیا میں آنے سے تو دنیا میں آگ برس رہی ہے اور اب ایک اور آگیا ہے‘‘۔
{1327} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر عبد الرحمن صاحب (مہر سنگھ) بی اے نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب اکثر گھر میں ٹہلا کرتے تھے۔جب تھک کر لیٹ جاتے تو ہم لوگ حضورؑ کو دبانے لگ جاتے ۔آپ کو اکثر ضعف ہوجاتا تھا ۔اس وقت حضورؑ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے اور جس قدر عورتیں وہاں ہوتیں ان سب کو بھی دعا کے لئے فرماتے تو ہم سب دعا کرتے۔حضورؑ بہت ہی خوش اخلاق تھے اور بڑی محبت سے بات کیا کرتے تھے۔جوکوئی حضورؑ سے اپنی تکلیف بیان کرتی حضورؑ بڑی ہمدردی کا اظہار کرتے اور دعا فرماتے۔
{1328} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میرے باپ کا خط آیا میری دو چھوٹی بہنیں تھیں جن کی منگنی پیدا ہوتے ہی میری ماں نے اپنے بھائی کے گھر کر دی تھی۔ جب وہ جوان ہوئیں تو میرے چچا نے نالش کر دی کہ لڑکیوں کا نکاح تو میرے لڑکوں سے ہوچکا ہے۔میرے باپ نے خط میں تمام حال لکھا تھااور دعا کے لئے عرض کی تھی۔میں خط لے کر حضورؑ کے پاس آئی ۔حضورؑ سب بال بچوں کو لے کر باغ میں سیر کو گئے ہوئے تھے۔میں بیٹھی رہی ۔جب حضورؑ تشریف لائے تو جس حجرے میں حضورؑ بیٹھا کرتے تھے چلے گئے۔میں نے دروازہ میں سے عرض کیا کہ حضورؑ! یہ خط میرے باوا جی کا آیا ہے اور سب معاملہ عرض کیا۔حضورؑ نے خط لے کر پڑھا اور سب حال بھی سنا کہ چچوں نے جھوٹا مقدمہ کر دیا ہے ۔فرمایا’’ اچھا ہم دعا کریں گے۔‘‘ دس بارہ دن کے بعد پھر خط آیا کہ چچوں نے مقدمہ کیا تھا واپس لے لیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے کہ ہماری غلطی تھی ۔حضورؑ سن کر بہت خوش ہوئے اور کئی بار زبان مبارک سے ’’الحمد للّٰہ‘‘ فرمایا ۔اس کے بعد ہم رخصت لے کر چلے گئے۔
{1329} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمدؐ صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ نے کچھ دوائیاں ایک لڑکی کے سپرد کی ہوئی تھیں کہ مجھے کھانے کے بعد دے دیا کرو۔ چونکہ آپ مہندی بھی لگاتے تھے اس لئے گرم پانی کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ دونوں کام اس لڑکی کے سپرد تھے۔وہ اکثر بھول جاتی تھی اس لئے یہ کام آپ نے میرے سپرد کر دئے تھے۔میں نے اچھی طرح سرانجام دیا۔ایک دفعہ جب میں بیمار ہوئی تو حضورؑ نے آکر فرمایا۔’’صفیہ! کیا حال ہے؟‘‘ چونکہ حضور علیہ السلام کھانا کھا چکے تھے اس لئے میں نے عرض کی ۔حضورؑ ! اب تو بہت اچھا ہے مگر حضورؑ دوائی کھا لیویں۔حضورؑ نے فرمایاکہ’’ صفیہ کو بات خوب یاد رہتی ہے۔‘‘
{1330} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی بھاگو ومائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک میراسی کہا کرتا تھا کہ حضرت صاحبؑ بچپن میں پڑھنے کی طرف بہت متوجہ رہتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے۔کبھی گھر سے جا کر کھانا اٹھا لاتے۔گھر والوں کو معلوم ہوتا کہ آپؑ تمام کھانا لے گئے ہیں۔ اس پر آپؑ کے والد صاحب فرماتے کہ ان کو کچھ نہ کہا کرو۔
{1331} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان میں بواسطہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے مائی فجو کے ہاتھ بلایا۔ حضور علیہ السلام اس وقت بیت الفکر میں بیٹھے تھے۔ میں دروازہ میں آکر بیٹھ گئی۔ میں نے عرض کی کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہم جائیں کیونکہ ہم ہجرت کر کے آئے ہیں۔ حضورؑ نے فرمایاکہ ’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خداتعالیٰ پھر لے آئے گا۔ فی امان اللہ ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘
{1332} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔عنایت بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں کئی بار بیعت کرنے کو گئی۔ہم چار عورتیں تھیں ۔جب حضرت صاحب عصر کے بعد باہر سے تشریف لائے تو فرمایاکہ ’’ تُم یُوں بیٹھی ہو جس طرح بٹالہ میں مجرم بیٹھے ہوتے ہیں‘‘۔ ہم سب کی بیعت لی۔ میں نے اپنے لڑکے اسکول میں داخل کرائے ہوئے تھے ۔استادنے مارا۔میں نے جاکر حضورؑ کے پاس شکایت کی ۔آپ ؑنے فرمایا ’’اب نہیں مارینگے۔تم کوئی فکر نہ کرو۔‘‘ میں نے کہا حضور یتیم لڑکا ہے ۔اسکول والوں نے فیس لگا دی ہے۔ فرمایا’’ فیس معاف ہوجائے گی۔ علاوہ اس کے ایک روپیہ ماہوار جیب خاص سے مقرر فرمایا۔میں نے عرض کی کہ حضور یہ بورڈنگ میں نہیں جاتا،روتا ہے ۔آپؑ نے فرمایا ’’کچھ حرج نہیں گھر میں ہی رہے‘‘۔
{1333} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہا کہ میری پھوپھی صاحبہ(حضرت مصلح موعود کی تائی)نے ہمیں بتایا کہ ایک بار حضرت صاحب ؑ چالیس دن تک ایک کمرہ میں رہے۔گھر والے کچھ کھانا بھیج دیتے کبھی آپؑ کھا لیتے کبھی نہ کھاتے۔جب چالیس دن کے بعد باہر تشریف لائے تو آپؑ نے فرمایا۔ خد اتعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ ’’جو بھی دنیا کی نعمتیں ہیں وہ میں سب تم کو دوں گا۔ دو ردراز ملکوں سے لوگ تیرے پاس آویں گے‘‘۔ تو ہم سب ہنستے تھے۔ اب دیکھو وہ سب باتیں پوری ہوگئیں۔
{1334} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا۔’’ عرق مکو کی بوتل لاؤ‘‘ ۔ میں لے گئی۔ آپ اکثر ٹہلا کرتے تھے۔آپ کی چابیوں کا گُچھا ازار بند میں بندھا ہوا ہوتا تھاجو کہ لاتوں سے لگتا رہتا تھا۔میری لڑکیاںزندہ نہیں رہتی تھیں ۔ جب یہ چھٹی پیدا ہوئی جس کا نام عائشہ ہے تو میں اس کو لے کر حضور کی خدمت میں گئی۔حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’حضرت جی! اس کی لڑکیاں زندہ نہیں رہتیں۔مر جاتی ہیں ۔آپؑ دعا کریں کہ یہ زندہ رہے اور اس کانام بھی رکھ دیں‘‘۔ حضور علیہ السلام نے لڑکی کو گود میں لے کر دعا کی اور فرمایا۔’’ اس کا نام جیونی ہے۔‘‘ چونکہ جیونی اس نائن کا نام بھی تھا جو خادمہ تھی ۔ میں نے کہا کہ حضورؑ جیونی تو نائن کا نام بھی ہے ۔حضورؑ نے فرمایا۔’’جیونی کے معنی ہیں زندہ رہے۔اس کا اصل نام عائشہ ہے‘‘۔ اب یہ میری چھٹی لڑکی خد اتعالیٰ کے فضل وکرم سے اب تک زندہ ہے اور صاحب اولاد ہے۔
{1335} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اللہ جوائی صاحبہ اہلیہ مستری قطب الدین صاحب وطن گجرات گولیکی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرا سب خاندان احمد ی تھاصرف میں ہی غیراحمدی تھی۔میری دیورانی نے ایک روز کہا کہ امام مہدی آیا ہو اہے اسے مان لو۔میں نے جواب دیا کہ میرا امام مہدی آسمان سے اترے گا۔میں اسے مانوں گی تمہارا آگیا ہے تم اس کو مان لو،میں نہیں مانتی۔میں نے ان دنوں میں نماز بھی چھوڑ دی تھی محض اس لئے کہ احمدیوں کے گھر میں نماز پڑھنے سے میری نماز ضائع ہو جاوے گی۔اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ’ایک سڑک بہت لمبی چوڑی ہے اس پر بہت سے آدمی پھاوڑے لئے کھڑے ہیں اور سب سے آگے میں ہوں ۔ایک شخص سفید کپڑے اور سفید داڑھی والا خوبصورت درمیانہ قدہے۔وہ شخص یہ آواز دے رہاہے کہ احمدیوں کا ٹولہ آرہاہے۔ دوزخ کی نالیں بند کردو ۔ یہ آواز اس شخص نے دو دفعہ دی ۔ایک اور شخص دراز قد سیاہ فام جس کے سر پر سرخ ٹوپی تھی۔اٹھا اس نے بڑے بڑے ڈھکنے ہاتھ میں پکڑ کر دروازوں کو بند کر دیا۔آگے ایک دروازہ ہے میں اس میں سے گزری۔تو دیکھا کہ اس میں اندر سبز رنگ کے نہایت خوبصورت درخت ہیں اور گھاس کا بھی بہت ہی سبزہ ہے ۔اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔میں نے صبح اٹھ کر نماز شروع کر دی ۔میری دیورانی نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج تونے نماز کس لئے پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ میں آج امام مہدی پر ایمان لے آئی ہوں ۔
{1336} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی عبدالغنی صاحب نومسلم تھے۔میں تین سال کی تھی کہ ابا فوت ہوگئے تھے۔میرے چھ بھائی تھے اور میں اکیلی ان کی بہن تھی کہ ہم یتیم ہو گئے تھے۔میں اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں ڈاکٹر اقبال علی غنی اور منظور علی صاحب مرحوم سے بڑی تھی۔ہم امرتسر میں رہتے تھے۔میرے دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظفر صاحب اور فیض علی صابر جب جوان ہوئے تو مشرقی افریقہ چلے گئے تھے اور وہیں احمدی ہوگئے تھے۔
میں کوئی بارہ سال کے قریب عمر کی ہوںگی کہ بھائی فیض علی صابر صاحب کو دو تین دن کے واسطے گھر امرتسر آنے کا موقع ملا ۔وہ اتفاق اس طرح ہوا کہ ان کی اور ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم مغفور کی نوکری یوگنڈا ریلوے کے مریض قلیوں اور ملازموں کو جو بیمار ہو کر کام کے لائق نہیں رہے تھے واپس بمبئی تک پہنچانے کی لگی۔ان کے جہاز نے ایک ہفتہ قیام کے بعد بمبئی سے واپس ممباسہ کو جانا تھا اس موقعہ کو غنیمت سمجھ کر یہ دونوں حضرت مسیح موعودؑ سے دستی بیعت کرنے کے واسطے روانہ ہو پڑے۔رات کو بارہ بجے امرتسر گھر پہنچے صبح کو قادیان چلے گئے ۔دوسرے دن بیعت کرکے آئے اور واپس بمبئی چلے گئے ۔
{1337} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری والدہ مکرمہ مرحومہ مدفونہ بہشتی مقبرہ نمبر۱۳۰بہت نیک پاک اور عبادت گزار تھیں،جب ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے احمدی ہوگئے ہیں تو اس لحاظ سے کہ وہ نیک ہوگئے ہیں اور نماز روزہ کے پابند بھی ہوگئے ہیں وہ خوش تھیں۔لیکن ہمارے ہمسایہ اور رشتہ دار ان کو ڈراتے تھے کہ تیرے بیٹے کافر ہوگئے ہیں۔مرزا صاحب کی نسبت طرح طرح کے اتہام لگاتے اور بکواس کرتے تو وہ رویا کرتی تھیں اور دعا مانگتی تھیں۔ کہ اللہ کریم! ان کی اولاد کو سیدھے رستہ پر رکھے۔ میرے دل میں اس وقت سے کچھ اثر یا ولولہ احمدیت کا ہوگیا تھا جسے میں ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ رشتہ دار مخالف تھے۔ان کے بہکانے سے والدہ بھی مخالف ہی معلوم ہوتی تھیں۔اتفاق یہ ہوا کہ بھائی فیض علی صاحب صابر قریباً ایک سال کے بعد بیمار ہوجانے کے وجہ سے ملازمت چھوڑ کر واپس آگئے۔گھر میں کوئی نگران بھی نہ تھااس لئے بھی دوسرے بھائیوںنے ان کو بھیج دیا۔ان دنوں میرے دوسرے دو بھائی مظہر علی طالب اور منظر علی وصال بھی افریقہ چلے گئے ہوئے تھے۔بھائی فیض علی صاحب صابرجب واپس آئے تو قادیان آتے جاتے رہتے تھے اور گھر میں وہاں کے حالات سنایا کرتے تھے جس سے مجھے تو گو نہ تسلی ہوتی لیکن والدہ ماجدہ مرحومہ کو مخالفوں نے بہت ڈرایا ہو اتھا ۔
{1338} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مرادخاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے گھر میں پرانے رسم ورواج اور پردہ کی بڑی پابندی تھی۔ کنواریوں کو سخت پابندی سے رکھا جاتا تھا۔اچھی وضع کے کپڑے، مہندی ،سرمہ اور پھول وغیرہ کا استعمال ان کے لئے ناجائز تھا۔ ایک مرتبہ بھائی صاحب چھوٹے بھائیوں کے واسطے کوٹوں کا کپڑا لائے۔میرے دل میں خیال پیدا ہو کہ میں بھی اس کی صدری بنا سکتی بچپن کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی بچوں سے اسی طرح کا علیٰ قدر مراتب ہوتا ہے۔میںنے خیال کیا کہ اگر حضرت صاحب ؑ سچے ہیں تو خدا کرے اس کپڑے میں سے کوٹوں کی وضع کے بعد میری صدری کے قابل کپڑا بچ جاوے۔ چنانچہ جب کپڑا بچ گیا تو میں حیران تھی۔میرا دل صدری پہننے کو چاہتا تھا مگر زبان نہیں کھول سکتی تھی۔ پھر میںنے دعا کی اگر حضرت مرزا صاحب سچے ہیں تومیری صدری بن جائے۔ اور ڈرتے ڈرتے اماں جی سے کہا کہ میں اس کی صدری بنالوں ؟ یہ سن کر وہ سخت خفا ہونے لگیں کہ لڑکیاں بھی کبھی صدری پہنا کرتی ہیں؟ اس وقت بھائی صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ بول پڑے کہ کونسی شریعت میں لڑکیوں کو صدری پہننا منع ہے؟ اس پر والدہ صاحبہ نے وہ کپڑا میری طرف پھینک دیا ۔میں نے کاٹ کر کے شام تک اس کی صدری سی لی۔ جس میں دو جیب بنالئے تھے۔ جب اس کو پہنا تو خیا ل ہوا کہ جیب خالی نہ ہوناچاہئے اس پر پھر خیال آیا کہ اگر حضرت مرزاصاحب ؑ سچے ہیں تو مجھے کہیں سے ایک روپیہ بھی مل جاوے۔اللہ کریم نے اس کوبھی پورا کردیا۔مجھے ایک روپیہ بھائی نے خود ہی دے دیا۔
{1339} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ منشی نبی بخش صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’ ہمارے ہاں سوہانجنے کا اچار بیٹھ جایا کرتا ہے ‘‘۔ منشی نبی بخش صاحب نے کہا ۔’’میری بیوی سوہانجنے کا اچار بہت اچھا ڈالتی ہے‘‘ اس پر حضرت صاحب نے حضرت ام المومنین سے کہہ کر مجھ سے تین چار چاٹیاں اچار کی ڈالوئیں اور وہ بہت اچھا رہا۔
{1340} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب ہم آگرہ میں تھے وہاں ڈاکٹر صاحب مرحوم صبح کو اٹھے تو بہت گھبرائے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔اسی حالت میں ہسپتال اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے جب دو بجے واپس آئے تو ویسے ہی پریشان سے تھے۔پوچھا کہ کوئی خط حضورؑ کا قادیان سے آیا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ فرمایا کہ حضرت اقدس کا خط کئی دن سے نہیں آیا۔خدا کرے خیریت ہو۔طبیعت بہت پریشان ہے۔میںکھانا لائی تو آپ ٹہل رہے تھے کہا،دل نہیں چاہتا ۔جب حضرت صاحب کے خط کو دیر ہوجاتی تو ڈاکٹر صاحب بہت فکر کرتے اور گھبراہٹ میں ٹہلا کرتے اور کہتے خد اکرے حضور ؑ کی صحت اچھی ہو۔ابھی ٹہل رہے تھے کہ قادیان سے حضور ؑ کا تار آیا۔ جس میں لکھا تھاکہ حضرت اُم المومنین کی طبیعت خراب ہے ۔آپ ایک ہفتہ کی رخصت لے کر چلے آئیں ۔ مجھے کہا ،دیکھا میری پریشانی کا یہی سبب تھا۔مجھے کہا کہ مجھے بھوک نہیںہے ۔میرے واسطے سفر کا سامان درست کرو۔میں صاحب سے رخصت لے آئوں ۔ دعا کرنا کہ رخصت مل جاوے۔ ایک گھنٹہ کے بعد دس یوم کی رخصت لے کر قادیان چلے گئے ۔ ان دنوں میں صاحبزادی امۃ الحفیظ سلمہا پید اہونے والی تھیں۔ اس لئے حضرت اُم المومنین کی طبیعت ناساز تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب واپس آئے تو حبشی حلوہ جو حضرت اُم المومنین نے خود بنایا تھا ۔آپ کو راستہ میں ناشتہ کے واسطے دیا تھا ،ساتھ لائے اور مجھے بطور تبرک کے دیا ۔
{1341} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رحیمن اہلیہ صاحبہمنشی قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری شادی کے چھ ماہ بعدمجھے میرا خاوند قادیان میں لایا اور ایک خط لکھ کر دیا کہ یہ حضرت صاحب کے پاس لے جاؤ۔میں خط لے کر گئی۔ حضورؑ نے وہ خط پڑھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ’’تمہارے میاں ڈاکٹر ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں حضورؑ ! آپ نے فرمایا ’’کیا حکیم ہیں ‘‘ میں نے عرض کیا نہیں حضورؑ ۔آپ ؑ نے فرمایا ۔’’پھروہ کس طرح کہتے ہیں کہ تمہارے ہاں اولادنہیں ہوگی۔ تمہارے ہاں اتنی اولاد ہو گی کہ تم سنبھال نہ سکو گی‘‘اس واقعہ کے نو یا دس ماہ بعد مجھے ایک لڑکا پیدا ہوا ا وراس وقت میں سولہ بچوں کی ماں ہوں ۔ جن میں سے آٹھ بفضلہ تعالیٰ زندہ ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک ۔
{1342} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز صاحب زوجہ چوہدری مولابخش صاحب چونڈے والے سر رشتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے ۶؍مئی۱۹۰۱ء میں بیعت کی تھی۔میں بڑے دلان میں آکر اتری تھی۔ میں پہلے آٹھ یوم رہی تھی ۔میری گود میں لڑکا تھا ۔حضرت اماں جان نے پوچھا ۔اس کا کیانا م ہے؟ میں نے عرض کیا ۔’’مبارک احمد‘‘ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے مبارک کانام رکھ لیا ہے۔حضورؑ نے مسکرا کر فرمایا کہ’’جیتا رہے۔‘‘
مجھے بچپن سے ہی نماز روزہ کا شوق تھا۔ جب میں بیعت کر کے چلی گئی تو مجھے اچھی اچھی خوابیں آنے لگیں۔ میرے خواب میرے خاوند مرحوم کاپی میں لکھتے جاتے ۔جب ایک کاپی لکھی گئی تو حضور ؑ کی خدمت میں اس کو بھیجا اور پوچھا کہ حضورؑ! یہ خوابیں کیسی ہیں ؟ رحمانی ہیں یا شیطانی ؟ حضور علیہ السلام نے لکھ بھیجا تھا کہ ’’یہ سب رحمانی ہیں ۔‘‘
{1343} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی تھی ۔پہلے جب میں اپنے خاوند مرحوم مغفور کے ساتھ قادیان میں آئی تھی تومیں آنگن میں بیٹھی تھی۔ جمعہ کا دن تھا ،حضور علیہ السلام نے مہندی لگائی ہوئی تھی اور کمرے میں سے تشریف لائے تھے ۔مجھے فرمایا کہ’’ تم رحیم بخش کی بیوی ہو ؟ میرے ساتھ چھوٹی بچی تھی۔ حضور ؑ نے فرمایا ’’ یہ تمہاری لڑکی ہے ؟‘‘ فرمایا ’’تمہارا کوئی لڑکا بھی ہے ‘‘ میں نے عرض کیا کہ نہیں ،صرف یہی لڑکی ہے۔ ’’اچھا‘‘ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔
{1344} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی خادمہ ککے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بھائی حامد علی صاحب کے پیٹ میں تلی تھی۔ وہ حضور علیہ السلام سے علاج کرانے آتے تھے۔جب اچھے ہوگئے تو حضور ؑ کے خادم بن کر یہاں ہی رہ گئے اور اپنی بیوی کو بھی بلا لیا۔ حافظ نور محمد صاحب والد رحمت اللہ شاکر بھی قادیان آگئے ۔حضورؑ نے حافظ نور محمد صاحب کے والدصاحب سے کہا کہ ’’اپنا بیٹا ہمیں دے دو۔‘‘ مگر اس نے کہا کہ میر اایک ہی بیٹا ہے، آپ کو کس طرح دے دوں ۔ یہ آٹھویں دن حاضر ہو جایا کرے گا۔ حافظ حامد علی صاحب پانچ بھائی تھے ۔یہ دونوں حافظ تھے ۔ (حضور ؑ نے) قرآن مجید سننے کے واسطے ان کو اپنی خدمت میں رکھ لیاتھا۔
{1345} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب فنانشل کمشنر صاحب دورہ کی تقریب پر قادیان تشریف لائے تھے تو حضرت اقدسؑ نے جماعت کے معززین کو طلب فرمایا تھا تو ڈاکٹر صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی بذریعہ تار طلب کیا تھا ۔ وہ تین یوم کی رخصت لے کر آئے تھے ۔میں قادیان میں ہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے حضورؑ کے قدموں سے جد ا رہنا مصیبت معلوم ہوتا ہے، میرا دل ملازمت میں نہیں لگتا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’سر دست ملازمت چھوڑنے کی ضرورت نہیں ۔تم ایک سال کے واسطے آجاؤ ۔اکٹھے رہیں گے ۔ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔‘‘ چنانچہ وہ حضور ؑسے اجازت لے کر ایک سال کی رخصت حاصل کر کے قادیان آگئے ۔
{1346 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ خربوزے رکھے تھے تو میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ سرور سلطان صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا بشیر احمد صاحب کہنے لگیں ۔’’نظر نہیں آتا ۔کیا ہے ؟‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا کہ’’نرمی سے بولا کرو اگر تم پٹھانی ہو تو وہ مغلانی ہے اس لئے محبت سے پیش آیا کرو۔‘‘
{1347} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمیں پانی کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف تھی ۔ہم سب گاؤ ں کے آدمیوں نے مل کر مشورہ کیا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کریں کہ وہ کنواں لگوادیں ۔حضرت صاحب ؑ، اور بہت سے آدمی آپ کے ہمراہ تھے۔ اس وقت کوٹھیوں کے آگے جو رستہ ہے اس رستے سیر کو جارہے تھے ۔جب واپس ہمارے گاؤں کے قریب آئے تو لوگوں نے عرض کی کہ حضور ؑ پانی کی تکلیف ہے۔آپ ؑنے فرمایا ’’انشاء اللہ بہت پانی ہوجائے گا۔‘‘ اس وقت گاؤں کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے ۔
{1348} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ بابو فخر الدین صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنے وطن میانی میں تھی کہ میرے لڑکے اسحق کو جس کی عمر اس وقت دو سال کی تھی۔ طاعون کی دو گلٹیاں نکل آئیں ۔ان دنوں یہ بیماری بہت پھیلی ہوئی تھی ۔ہم بہت گھبرائے اور حضرت ؑ کے حضور دعا کے لئے خط لکھا۔لڑکا اچھا ہو گیا تو ایک ماہ کے بعد میں اس کو لے کر قادیان آئی اور اس کو حضورؑ کے سامنے پیش کیا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کو طاعون نکلی تھی۔ حضورؑ اس وقت لیٹے ہوئے تھے ۔سنتے ہی اٹھ بیٹھے اور فرمایا ۔’’اس چھوٹے سے بچہ کو دو گلٹیاںنکلی تھیں ؟ ‘‘ اب خدا کے فضل سے وہ بچہ جوان اور تندرست ہے۔
{1349} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہانپوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’صفیہ ! گرم پانی کا لوٹا پائخانہ میں رکھو۔‘‘ مجھ سے کچھ تیز پانی زیادہ پڑگیا ۔جب حضورؑ باہر آئے تو مجھے کہا ۔ ’’ ہاتھ کی پشت کرو‘‘ اور پانی ڈالنا شروع کیا اور ہنستے بھی جاتے تھے ۔پھر فرمایا ۔’’ پانی تیز لگتا ہے‘‘ ؟ میں نے کہا لگتا تو ہے ۔آپ ؑ نے فرمایا ’’اتنا تیز پانی نہیں رکھنا چاہئے ۔‘‘
{1350} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن آپؑ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی ۔کئی طرح کے پھل لیچیاں ،کیلے ،انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دئے۔ میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں ۔ان کو میں گھر لے جاؤں گی تاکہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں۔ جب میں جانے لگی تو حضورؑ نے اماں جان کو فرمایا کہ برکت کو وائی برنم دے دو۔ اس کے رحم میں درد ہے (ایکسٹریکٹ وائی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے ۔) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوا لا کر دی ۔حضورؑ نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روز صبح کو پیا کرو۔ میں گھر جا کر پیتی رہی۔
{1351 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میں تیسری بار قادیان میں آئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی۔آپؑ نے فرمایا کہ ’’برکت بی بی ! لو یہ درثمین پڑھا کرو۔‘‘
دوا پینے کے بعد مجھے حمل ہوگیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو اَور عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آگیا ہے۔میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا۔ اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ ’’جو عورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے ۔‘‘ مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا۔ میںنفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی ۔یا اللہ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی ۔ حضور ؑ کے پاؤں دبا رہی تھی کہ میں نے عرض کی ۔’حضورؑ مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضورؑ کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسو س کرتی ہوں، حالانکہ نہیں آنی چاہئے کیونکہ حضورؑ تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں ۔آپؑ سے نہ عرض کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی۔ پھر میں نے حضورؑ کی خدمت میں وہ خواب بیان کی ۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’وہ کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ‘‘۔ میں لے آئی آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ’’ جو عورت ایسا خواب دیکھے ۔تو اگر وہ حاملہ ہے تولڑکا پید اہوگا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا۔‘‘ میںنے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دوااور دعا سے حمل ہے۔آپؑ نے فرمایا ۔’’اب انشاء اللہ لڑکا پید اہوگا۔‘‘
{1352} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ صاحبہ فاطمہ بیگم بیوہ میاں کریم بخش صاحب باورچی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص جس کے سپرد گائے بھینس وغیرہ کا انتظام تھا وہ چوری سے چیزیں بھی نکال کر گھر کو لے جایا کرتا تھا۔ میاں کریم بخش صاحب نے اس کو منع کیاکہ بھئی تو اس طرح چیزیں نہ نکالا کرمگر وہ لڑ پڑا۔ میں نے جاکر حضور علیہ السلام کو بتایا کہ وہ اس طرح سے کرتا ہے میاں کریم بخش نے اس سے کہا تو وہ لڑپڑا۔ حضور علیہ السلام نے اس کوکہا ۔’’ہم ایسے آدمی کو نہیں چاہتے۔‘‘
{1353} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ساتھ باغ میں سیر کو گئیں ۔ ( یہ باغ حضرت کی ملکیت تھا جو ڈھاب کے پار ہے ) اس میں صرف آم ،جامن اور شہتوت وغیرہ کے درخت تھے ۔کوئی پھول پھلواری اور ان کی کیاریاں وغیرہ زیبائش کا سامان نہیں تھا۔بالکل تنہا وہ باغ تھا،توحضور علیہ السلام نے سب کو جامن کھلائے ۔ایک بار حضور ؑ نے چڑوے ریوڑیاں کھلائیں ،حضرت اُم المومنین بھی ساتھ ہوتی تھیں ،چھابڑی والے بعض اوقات وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔
{1354} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب کی بیوی نے حضرت اُم المومنین صاحبہ سے پوچھا کہ نورجان نے ایسا ارائیوں والا لباس پہناہوا ہے۔ آپ اس کو اپنی نند کیوں کہتی ہیں ۔آپ نے کہا کہ اس کے بھائی سے پوچھو ۔ پھر آپؑ سے پوچھا۔آپؑ نے فرمایا۔ کہ ’’صرف لباس کی وجہ سے ہم بہن کو چھوڑ دیں ؟ یہ خود سادگی پسند کرتی ہیں ۔ پہلے ایسا ہی لباس ہوتا تھا‘‘۔
{1355} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے بھائی صاحب فیض علی صاحب صابر کا خیال تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اقبال علی غنی اور منظور علی کو قادیان میں تعلیم دلائیں جس کے متعلق انہوںنے بصد مشکل والدہ ماجدہ مرحومہ کو راضی کیا اور جب اس طرح یہ دونوں چھوٹے بھائی قادیان چلے گئے تو کچھ اس خیال سے کہ والدہ کو ان کی جدائی شاق ہوگی اور کچھ بھائی صاحب کی بار بار تحریک سے کہا کہ میںنے بھی قادیان رہنا ہے اور قرآن مجید پڑھنا ہے ،آپ بھی چلیں اور وہاں حالات دیکھیں ۔والدہ مرحومہ اس وعدہ پرراضی ہوئیں کہ وہ صرف چند یوم کے واسطے جائیں گی اور الگ مکان میں رہیں گی اور کہ ان کو حضرت صاحبؑ کے گھر جانے وغیرہ کے واسطے ان کی خلاف مرضی ہر گز مجبور نہ کیا جاوے۔ چنانچہ بھائی صاحب نے ایک مکان خوجہ کے محلہ میں مراد و ملانی کا جو شیخ یعقوب علی تراب کے مکان کے ساتھ گلی کے کونے پر تھا، کرایہ پر لے لیا۔ اور مجھے اور حضرت بوبو جی(اماں جی ) کولے آئے ۔ میں نے کبھی ریل نہ دیکھی تھی ۔بوبوجی کو راستہ میں یکہ اور کچی سڑک کے باعث بہت تکلیف ہوئی ۔چکر آئے اور قے بھی ہوگئی ۔اس مکان پر پہنچ کر وہ تو مصلّے پر لیٹ گئیں ،میں نماز سے فارغ ہو کر کھانا پکانے میں لگ گئی۔ بھائی صاحب نماز پڑھنے چلے گئے ۔بوبوجی نے اس گھبراہٹ میں ہی نما زپڑھی۔ قبلہ کی جانچ بھی نہ کی ۔ نماز کے بعد وہیں غنودگی میں لیٹے تھے کہ بھائی صاحب آگئے۔ والدہ بوبوجی نے اچانک بیدار ہو کر کہا کہ میں نے ابھی ایک بزرگ سفید ریش کو دیکھا ۔جن کے ہاتھ میں عصا تھا۔ انہوںنے تین دفعہ فرمایا ،’’یا حضرت عیسیٰ ؑ‘‘ اس پر بھائی صاحب نے کہا کہ بوبو جی آپ کو تو آتے ہی بشارت ہو گئی ہے اب آپ کو زیادہ تأمل بیعت میں نہیں کرنا چاہئے ‘‘۔
{1356} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم کو مراد وملانی کے مکان میں رہتے ہوئے چند دن گزر گئے تو ہمسائیوں کی عورتیں گھر میں آنے جانے لگیں اور ان کو معلوم ہو اکہ بوبو جی کو لوگوںنے ڈرایا ہو اہے تو باوجود یکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھیں مگر انہوں نے بتایا کہ مرزا صاحب میں کوئی بات خوف کرنے کی نہیں ہے۔ وہ تو بچپن سے ہی ہم جانتی ہیں بہت نیک پاک ہے نمازی پرہیز گار ہے۔
بوبوجی کو مخالفوں نے یہاں تک ڈرایا ہوا تھا کہ اگر تو جاتی ہے تو اپنی لڑکی کو ساتھ نہ لے جا۔ مرزا جادو گر ہے وہ اپنے مریدوں کو ایسا قابو کر لیتا ہے کہ وہ اس کی خاطر اپنی عزتوں کی بھی پروا نہیں کرتے ۔لیکن جب بوبوجی کا ڈر ہمسائیوں کے ملنے اور قادیان میں دو تین ہفتہ تک رہنے سے کچھ کم ہو ا۔تو ان کو حضرت صاحب کے گھر جانے کی جرأت ہوگئی ۔ایک دن وہ چند ہمسائییوں کو لے کر دل کڑا کر کے حضرت اقدسؑ کے گھر گئیں ۔حضرت اقدسؑ کو دیکھ کر انہوں نے پہچان لیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہے جس کو انہوں نے پہلے دن کشف میں دیکھا تھا۔
{1357} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’دوسرے دن بوبو جی مجھے ساتھ لے کر گئیں ۔تو پہلے قدرت اللہ خان کی بیوی سے ملے۔ اونچے دالان کے سامنے تخت پوش پر جہاں ڈاکٹرنی اور اُمّ حبیبہ بیٹھی ہوئی تھیں ہمیں بٹھا دیا اور ہم سے پتہ معلوم کر کے حضرت اقدسؑ کو اطلاع دی کہ مہمان عورتیں آئی ہیں ۔ حضرت اقدس ؑ اور اُم المومنین تشریف لے آئے ۔بوبوجی نے پردہ کیا ۔ ڈاکٹر نی نے کہا کہ اللہ کے نبی سے پردہ نہیں کرنا چاہئے ۔مگر انہوں نے کہا کہ مجھے شرم بھی آتی ہے اور پردہ کا رواج بھی ہمارے گھر میں زیادہ ہے ۔حضرت کے دریافت کرنے پر جب حضور ؑ کو معلوم ہو اکہ یہ ڈاکٹر فیض علی صاحب کی والدہ ہیں تو آپ ؑنے فرمایا کہ کہاں ٹھہرے ہواور کب سے آئے ہو؟ والدہ نے عرض کیا کہ پندرہ دن ہوئے ہیں ۔ہم مراد وملانی کے مکان میں رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ۔’’ کھانے کا کیا انتظام ہے؟‘‘ بوبو جی نے کہا کہ خود پکالیتے ہیں ۔فرمایا کہ’’ا فسوس کی بات ہے کہ ہمارے مہمان ہو کر خود کھانا پکائیں۔ آپ کو معلوم نہیں کہ قادیان میں جو مہمان آتا ہے وہ ہمارا ہی مہمان ہو تا ہے ۔ آپ کو ڈاکٹر فیض علی نے نہیں بتایا ؟‘‘ بوبوجی نے کہا ہم پانچ چھ آدمی ہیں ۔حضور علیہ السلام کو تکلیف دینا منا سب نہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ ہمارے مہمان ہمارے گھر سے ہی کھانا کھائیں ۔فرمایا کہ’’دادی کہاں ہیں ؟‘‘ دادی نے کہا ۔’’حضور جی! میںکولے کھڑی آں‘‘۔ فرمایا ’’ان کے ساتھ جاکر گھر دیکھ لو اور دونوں وقت کھانا پہنچا آیا کرو اور پوچھ لیا کرو کہ کوئی تکلیف تو نہیںہے ۔‘‘ میرے متعلق پوچھا کہ ’’ کیا یہ فیض علی کی لڑکی ہے ؟‘‘ بوبوجی نے بتایا کہ یہ میری لڑکی ہے ۔ فیض علی کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ۔پوچھا ’’عمر کیا ہے ؟‘‘ بوبوجی نے بتایاچودہ سال۔اس وقت دادی اور فجو ہمیں گھر چھوڑنے آئیں ۔کھانا لنگر سے آنے لگا۔لنگر ابھی گھر میں ہی تھا۔وہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے۔ مہمانوں کا کھانا زردہ ،پلاؤ وغیرہ بھی گھر ہی پکتا تھا۔حضرت اُم المومنین صاحبہ کھانا خود تقسیم فرماتی تھیں ۔ چند یوم کے بعد بوبوجی اور میں نے بیعت کر لی ۔ بیعت مغرب کے بعد اونچے دالان کے ساتھ والے چھوٹے کمرے میں کی تھی۔ اس میں کھوری بچھا کر اوپر ٹاٹ کے ٹکڑے بچھائے ہوئے تھے اوردونوں طرف لکڑی کے دو صندوق تھے ایک پر موم بتی جل رہی تھی اور حضور علیہ السلام کچھ تحریر فرما رہے تھے ۔جگہ تنگ تھی ۔ہم ددنوں دروازہ میں بیٹھ گئیں حضور علیہ السلام نے بیعت لی اور دعا فرمائی ۔
{1358} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم بیعت کر کے امرتسر واپس چلے گئے ۔ میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی۔ ایک سال کے بعد میرے بڑے بھائی علی اظفر صاحب مرحوم نے افریقہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ ’’میری بہن کے رشتہ کا حضور ؑ کو اختیار ہے ، حضورؑ اس کے ولی ہیں ،جہاں حضورؑ کی منشاء ہو ،رشتہ کر دیں ‘‘۔ اور اسی مفہوم کا ایک خط بھائی فیض علی صاحب صابر کو بھی لکھ دیا۔پھر حضور علیہ السلام نے بھائی صاحب کو تحریر فرمایا کہ ’’آپ کے بڑے بھائی نے ہمیں ہی لڑکی کا سربراہ بنادیا ہے ،ان کاخط آیا ہے۔ ہم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کو پسند کرتے ہیں ۔ ان کو دیکھ لو اور چاہو تو ان سے اپنی ہمشیرہ کا نکاح کر دو۔ مگر بہتر ہو کہ پہلے ان کو اپنی ہمشیرہ دکھا بھی دو‘‘ ۔
{1359} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر خلیفہ صاحب مرحوم ومغفور فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈاکٹر فیض علی صاحب کی طرف ایک تحریر دی جس میں رشتہ کا لکھا تھا۔آپ رقعہ لے کرامرتسر گئے۔امرتسر میں آپ کو حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ مل گئے ۔آپؓ نے دریافت فرمایاکہ’’ کیسے آئے ہو؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بتایا تو حضرت نانا جانؓ نے کہا کہ ’’لاؤ رقعہ مجھے دو تم تو بڑے بھولے ہو۔کوئی اپنے رشتہ کا پیغام خود بھی لے جاتا ہے ؟ ہم خود پیغام لے کر جائیں گے ۔‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم وہ رقعہ حضرت میرصاحبؓ کے سپرد کر کے خود لاہور چلے گئے ۔
{1360} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ڈاکٹر فیض علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری ہمشیرہ کے رشتہ کا رقعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے خود خلیفہ صاحب کو دیا تھا ۔چونکہ پہلے مجھ سے ان کا تعارف نہ تھا۔ یوں بھی شرمندگی سے وہ خود میرے پاس نہیں آئے اور حضرت میر صاحب نانا جانؓ کو بھیج کر خود لاہور چلے گئے تھے ۔ میں دوسرے دن یہ ہدایت نامہ لے کر پہلے ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ کے پاس چھاؤنی میاں میر (لاہور) میں گیا۔ڈاکٹر صاحب رقعہ دیکھ کر بہت خوش بھی ہوئے ہونگے۔ فرمایا۔حضرت اقدس ؑ کاحکم سر آنکھوں پر ہے ۔ پھر میں آگے لاہور حویلی پتھراں والی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے پا س چلا گیا ۔میں نے ان سے کہا کہ ’’دیکھنا ہے تو چل کر دیکھ لو۔مگر سیرت جو نہایت ضروری ہے اسے کس طرح دیکھ کر معلوم کروگے(میں نے کچھ ایسا ہی کہا تھا) مگر شاید وہ خود جا کر دیکھنے میں بھی شرمساری محسوس کرتے ہونگے۔ واللّٰہ اعلم
انہوں نے کہا کہ میں نے صورت وسیرت کے متعلق سن لیا ہے اور تمہارے چھوٹے بھائیو ں کو بھی جو قادیان میں پڑھتے ہیں دیکھا ہے اور مجھے ہر طرح سے تشفی ہے ۔اس وقت تجویز یہ ہوئی کہ غالباً کل یا پرسوں قادیان پہنچ جاویں اور نکاح ہوجاوے۔چنانچہ میں اور ڈاکٹر صاحب وقت پر قادیان میں پہنچ گئے ۔ جب نکاح پڑھا جارہاتھا تو یہ دریافت کرنے پر کہ مہر کیا مقرر ہو اہے میں نے کہہ دیا۔جس نے یہ نکاح پڑھوایا ہے مہر کا بھی اس کو علم ہو گا اس پر حضرت اقدس فِدَاہُ اُمِّیْ وَاَبِیْ نے مبلغ ۔؍۲۰۰ روپے حق مہر مقرر فرمادیا۔یہ نکاح بفضلہ تعالیٰ بہت مبارک ہو ا۔خد ا کی باتیں خدا ہی جانے ۔شاید یہ میری اس نیک نیتی کا ثمر تھا کہ میں اپنی بہن کو محض نیک ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ عنہ کے خواہ مخواہ گلے مڑھنا چاہتا تھا جس نے اس کے ایک دوسال بعد ہی لڑائی میں شہید ہوجانا تھا۔اللہ کریم نے مجھے ایک اور نیک نفس اور ایسا متقی انسان دے دیا جو بہر صورت نعم البدل تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ حضرت صاحب نے اس وقت مجھے کہا تھا جبکہ حضورؑ کو مولوی محمد علی صاحب اور ڈاکٹر محمداسماعیل صاحب کے لئے رشتوں کی ضرورت تھی۔اس وقت فرمایا تھا کہ ’’ تم اپنے بھائیوں سے بھی مشورہ کرلو۔‘‘ بھائی میرے افریقہ میں تھے ۔ان سے مشورہ کرتے ہوئے ایک دو مہینے ڈاک کے لگ جاتے مگر اس مرتبہ ویسا نہیں فرمایا ۔گویا یہ ایک تقدیر مبرم تھی ۔اَلْحَمْدُ للّٰہِ عَلٰی ذٰلِک
{ 1361 } بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ (صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کی وفات کے بعد ) حضور مسیح موعود علیہ السلام فِدَاہُ اُمِّی وَاَبِیْ اس جگہ جہاں ام ناصراحمد سلمہا کا آنگن ہے چارپائی پر بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے ۔حضرت ام المومنین پاس ہوتی تھیں ۔حضرت ؑ اس طرح خوشی ہنسی باتیں کرتے تھے گویا کوئی واقعہ رنج اور افسوس کا ہوا ہی نہیں ۔عورتیں تعزیت کے واسطے آتیں تو حضور علیہ السلام کو اس حال میں راضی دیکھ کر کسی کو رونے کی جرأت نہ ہوتی اور حیران رہ جاتیں ۔
{1362} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضور علیہ السلام کو وضو کرانے لگی ۔عصر یا ظہر کا وقت تھا ۔میری لڑکی نے مجھے کہا کہ اماں ! یہ امام مہدی ہیں ؟میںنے کہا ہاں اس پر حضور ؑنے دریافت فرمایا کہ ’’یہ لڑکی کیا کہتی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضورؑ ! یہ لڑکی پوچھتی ہے کہ امام مہدی یہی ہیں ؟ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ’’ہاں ! میں امام مہدی ہوں ۔‘‘
حضور ؑ نے حکم دیا کہ انکے واسطے گوشت منگواؤ۔حضرت خلیفہ اول ؓ کی بیوی صاحبہ نے مجھے کہا کہ تم بہت خوش قسمت ہو۔حضورؑ کی خاص توجہ تمہارے حال پر ہے۔
{1363} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میرے خاوند رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری بیوی بیمار ہے اس کے رحم میں درد رہتا ہے ۔حضرت اقدسؑ نے دریافت فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ ’’ہاں‘‘ حضورؑ نے فرمایا ’’اچھا میں علاج کروں گا۔‘‘ اس کے بعد ہم واپس چلے گئے ۔جب آٹھ دن کے بعد میں پھر آئی تو گلابی کمرہ کے آگے کھڑی ہوئی تھی کہ حضور علیہ السلام تشریف لائے ۔میں نے السلام علیکم کہا حضور ؑ نے فرمایا ’’وعلیکم السلام ‘‘ اور نہایت محبت اور شفقت سے فرمایا:۔ ’’ برکت آگئی ہے ‘‘؟ اماں جان نے فرمایا :اپنے علاج کے واسطے آئی ہے ۔حضورؑ نے فرمایا ’’نہیں وہ دین کی محبت رکھتی ہے ۔‘‘
{1364} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی ککے زئی فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضورؑ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ’’ تم اپنے ہمسائیوں کو جانتی ہو؟‘‘ میں نے کہا ’ خوب واقف ہوں۔ مغل مرزا محمد علی مرحوم تھے ۔ہمارا بہت آنا جانا تھا۔فرمایا کہ محمد علی بیمار ہے میں دوا بنا دیتا ہوں اس کو پہنچا دو۔رستہ میں گرا تو نہیں دو گی؟ میں نے کہا ’جی میں سیانی بیانی رستہ میں بھلا گرا دو ں گی؟‘‘ پھر دوا شیشی میں ڈال دی اور نشان لگا دئیے اور فرمایا کہ ’’ جا کرکیا کہو گی ؟‘‘ میں نے کہا کہ میں کہوں گی کہ مسیح موعود ؑ نے بھیجی ہے۔ پھر پوچھا ’’ مائی تابی تیری کیا لگتی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ میری خالہ لگتی ہے ۔دریافت فرمایا کہ ’’ سگی خالہ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ میری ماں کی خالہ زاد بہن۔ پھر میں دوا دینے چلی گئی ۔پھر ایک دن آئی تو پوچھا کہ ’’ گابو تیری کیا لگتی ہے ؟‘‘ میں نے کہا کہ بھاوج ہے۔ آپؑ ہی نے توشادی کروائی تھی۔ اس کی ماںرشتہ دینے سے انکار کرتی تھی حضور ؑ نے پھر رشتہ کروادیا تھا۔
مائی تابی کی نواسی (برکت) کو حضور ؑ نے مودی خانہ کی چابی دی اور اس کی ذمہ داری لگا دی کہ وہی چیزیں نکال کر دیا کرے ۔
{1365} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میرے خاوند مرحوم ومغفور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کے گھٹنوں میں درد تھا وہ چھ ماہ کی رخصت لے کر قادیان آئے تھے ۔درد بھی تھا لیکن یوں بھی ان کو کمال رغبت اس بات کی تھی کہ جہاں تک ہوسکے حضورؑ کے قدموں سے لگے رہیں ۔جب ہم آئے تو میری والدہ قادیان کے پرلے سرے پر ریتی چھلہ کی طرف ملاوامل کے مکان میں رہتی تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے حضورؑ سے اجازت طلب کی کہ چھوٹے بچوں کا ساتھ بھی ہے ۔اس وقت عزیزہ رضیہ بیگم سلمہا ۳سال کی تھیں اور سیدہ رشیدہ مرحومہ ایک سال دو ماہ کی ہوگئی تھی۔ان کی والدہ اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہیں ۔ہمیں اجازت عطا فرمائی جاوے حضور ؑ نے فرمایا ۔ ’’نہیں تم میرے پاس ہی رہو تمہاری خوشدامن بھی تمہارے پاس آجاویںگی ‘‘۔چنانچہ اسی وقت مائی فجو کو بھیج کر انہیں بلا دیا۔
{1366} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو جب گھٹنوں میں درد تھا او ر وہ چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے تو حضور ؑ نے ہمیں گول کمرہ رہنے کو دیا۔دوسرے دن جب حضورؑ صبح کو سیر کے واسطے حسب معمول تشریف لے جارہے تھے تو ڈاکٹر صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’ یہ مکان آپ کے لئے ہے اور آپ کا ہی ہے‘‘ جب ڈاکٹر صاحب سیر سے واپس آئے تو اس قدر خوش تھے کہ میں بیان نہیں کرسکتی ۔آپ خوشی سے جھومتے تھے اور حضرت اقدسؑ کی خوشنودی مزاج کے حصول پر تسبیح وتحمید کرتے تھے۔ جب رخصت ختم ہونے لگی اور صلاح الدین کی ولادت قریب تھی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کتنے دن آپ کی رخصت میں باقی ہیں ؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ ’’ صرف بیس دن ‘‘۔پھر دریافت فرمایا کہ ’’ تمہارے علم ڈاکٹری کی روسے بچہ پیدا ہونے میں کتنے دن ہیں ‘‘ ؟تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ۹؍دن معلوم ہوتے ہیں ۔حضورؑ نے فرمایا’’ اچھا ! ہم آپ کا اندازہ بھی دیکھ لیں گے اور دعا بھی کریں گے کہ آپ کی موجودگی میں ہی لڑکا پیدا ہوجائے‘‘ ۔
{1367} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ صلاح الدین کی ولادت سے ایک دو دن قبل میری والدہ نے سموسے پکائے اور کچھ ان میں سے تھالی میں لگا کر رومال سے ڈھانپ کر حضور ؑ کی خدمت میں لے گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ کیا لائی ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی کہ سموسے ہیں ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ میں نے خیال کیا تھا کہ لڑکا پیدا ہونے پر پتاشے لائی ہو‘‘ حضور علیہ السلام جب ایسا ذکر ہو تا تھا لڑکا ہی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جب ٹھیک نودن گزرنے پر لڑکا پیدا ہوا تو حضورؑ بہت خوش ہوئے نام ’’ صلاح الدین ‘ ‘ رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ ’’ ڈاکٹر صاحب آپ کا حساب بھی ٹھیک نکلا ‘‘ ۔
{1368} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’صلاح الدین ‘‘ کے عقیقہ کے وقت ڈاکٹر صاحب نے دو بکرے منگوائے ۔میں نے کہا کہ کچھ مٹھائی بھی منگوا لو۔میں نے منت مانی ہے کہ لڑکا ہو گا تو مٹھائی تقسیم کروں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ عقیقہ کرنا تو سنت ہے۔ لڈو بانٹنے بدعت نہ ہوں ؟ حضورؑ سے پوچھ لیا جاوے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ خوشی کے موقعہ پر شیرینی بانٹنی جائز ہے ‘‘۔پہلے دو بکرے کئے گئے تھے پھر ایک اور کیا گیا تھا ۔دوسرے دن کچھ گوشت بازار سے بھی منگایا گیا تھا تاکہ تقسیم پوری ہوجاوے۔ اس وقت مٹھائی چار سیر روپیہ کی تھی جو کہ اٹھارہ روپیہ کی منگوا کر تمام گھروں میں اور دفاتر ومہمانخانہ وغیرہ سب جگہ تقسیم کی گئی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ اگرایک سو روپیہ کی مٹھائی بھی ہوتو پوری نہیں ہوگی ۔صلاح الدین سلمہ نود ن کا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو فرخ آباد ملازمت پر حاضر ہونے کا حکم آگیا ۔ آپؓ کا دل حضور کے قدموں سے جد اہونے کو نہیں چاہتا تھا مگر مجبوری تھی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’جاؤ‘‘۔
{1369} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں دوبارہ۱۹۰۳ء میں قادیان آئی اور وہ اگست کا مہینہ تھا۔ پشاور سے انگور کے ٹوکرے آئے ہوئے تھے ۔آپ نے امۃ الرحمن قاضی عبد الرحیم صاحب کی ہمشیرہ کو فرمایا ۔ ’’پارسل کھولو۔‘‘ انگور کچھ خراب تھے ۔ آپ بھی پاس بیٹھ ہوئے تھے ۔امۃ الرحمن سب کو دیتی رہی ،جب مجھے دینے لگی تو آپ نے فرمایا کہ ’’ برکت کو میں خود دوں گا۔‘‘ پھر آپ نے چینی کی رکابی میں ڈال کر مجھے دئیے ۔میں وہ انگور شام کو تلونڈی لے کر چلی گئی ‘‘۔
{1370} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام کو اس طرف توجہ تھی کہ جماعت میں عربی بول چال کا رواج ہو۔چنانچہ ابتدا میں ہم لوگوں کو عربی فقرات لکھ کر دئیے گئے تھے جو خاص حدتک یاد کئے گئے تھے بلکہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی یاد کراتے تھے ۔میرا لڑکا( مولوی قمر الدین فاضل ) اس وقت چار پانچ سال کاتھا جب میں اسے کہتا۔’’ اِبْرِیْق‘‘ تو فوراً لوٹا پکڑ لاتا ۔( قمر الدین کی پیدائش بفضل خدا مئی۱۹۰۰ء کی ہے ) مگر کچھ عرصہ یہ تحریک جاری رہی بعد میں حالات بدل گئے اور تحریک معرض التوا میں آگئی ۔
{1371} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی صاحب نے سوال کیا کہ حضور ؑ نماز تو پڑھی جاتی ہے لیکن کچھ لذت نہیں آتی اور نہ خوشی سے نماز کو دل چاہتا ہے ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ ۔تم دیکھتے نہیں کہ بیمار کا دل غذ ا کو نہیں چاہتا لیکن اس کو اگل نگل کر کے کھلاتے ہیں اسی طرح نماز کو دل چاہے یا نہ چاہے نماز پڑھتے جاؤ۔‘‘
ایسا ہی حضورؑ کے سامنے سوال ہوا کہ نماز میں حضور قلب پید انہیں ہوتا۔ فرمایا کہ ’’ جب اذان ہو مسجد میں جاؤ یہی حضورِ قلب ہے ۔بندہ کاکام ہے کہ کوشش کرے۔ آگے خدا کاکام ہے ۔‘‘
{1372} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر لوگوں نے ماتم کرنا شروع کیا ۔ حضورؑ نے کہلا بھیجا ’’ ان کو کہو کہ پیٹنا بند کرو۔‘‘ مگر کسی نے نہ سنا۔پھر حضورؑ خود تشریف لے آئے اور سب کو خود منع فرمایا اس پر بھی وہ نہ مانیں ۔پھر آپ نے فرمایا ۔’’اچھا جاؤ قیامت کے دن اس وقت کو یاد کروگی ‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’جاؤ پیٹو سکھنیو۔‘‘
{1373} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی ککے زئی خادمہ ۔فیض اللہ چک والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی تابی میری خالہ کا ایک ہی بیٹا تھا جو فوت ہو گیا ۔وہ غم سے پاگل ہو گئی اور سارا دن بیٹے کی قبر پر پڑی رہتی تھی۔ لوگوںنے کہا کہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھیج دو۔ لوگ اس کو یہاں لے آئے ۔وہ نیچے رہا کرتی تھی ۔نیچے دالان میں گھڑے پڑے رہتے تھے وہ ان میں اپنا کرتہ ڈبو دیتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ گھڑے اس کے واسطے ہی رہنے دو اور گھر کی ضرورت کے واسطے اور رکھ لو۔ ‘‘ جب وہ رونا شروع کرتی تو حضور ؑ خود اس سے پوچھتے کہ ’’ کیوں روتی ہے ؟‘‘ وہ کہتی کہ مجھے میر ا بیٹا یاد آتا ہے ۔تو حضور فرماتے کہ ’’ میں بھی تیرا بیٹا ہوں ‘‘ آخر وہ اچھی ہوگئی تو اس نے حضورؑ سے کہا ۔میں اپنی روٹی آپ پکایا کروں گی ۔ جو عورتیں روٹی پکاتی ہیں ان کے ہاتھ صاف نہیں ہوتے ۔ اس پر حضور ؑ نے اس کوآٹے کے پیسے الگ دے دئیے ۔ وہ اپنی روٹی خود پکایا کرتی تھی‘‘ ۔
{1374} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ ’’ جب صلاح الدین کوئی تین مہینے کا تھا۔ میں حضرت اقدس ؑ کی خدمت عالی میں سلام اور دعا کے واسطے روزانہ جاتی تھی۔ ایک دن جب میں آنے لگی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔ ’’ٹھہر جاؤ آج ہم نے مِسّی روٹی پکوائی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی حضورؑ میرا بچہ ابھی چھوٹا ہے ۔میں سخت غذا سے بہت ڈرتی ہوں ۔میری والدہ سخت پر ہیز کراتی ہیں ۔اگر ذرا سی بھی ثقیل غذا کھائی جائے تو بچہ کو فوراً تکلیف ہوتی ہے ۔ مِسّی روٹی مَیں نہیں کھا سکتی۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کھا لو کچھ تکلیف نہ ہوگی ۔‘‘ آپؑ اس وقت دیہات سے آئی ہوئی عورتوں کو کھانا کھلوا رہے تھے۔جب روٹیاں پک کر آئیں تو آپ نے گھی منگوا کر ان کو لگوایا اور مجھے مِسّی روٹی اور لسّی دی ۔میں نے بخوشی کھالی ۔ کوئی تکلیف اس سے مجھ کو یا بچہ کو نہیں ہوئی ۔
{1375} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’حضرت ام المومنین کی پہلی صاحبزادی عصمت بیگم کا ناک چھدوایا تو حضورؑ کی پہلی بیوی نے بھی خوشی کی ‘‘۔
جب نور جان اتفاق سے مرزا نظام الدین کے گھر گئی تو مرز انظام الدین نے کہا کہ حضرت صاحب کی وجہ سے ہم پربڑا فضل ہو ا ہے ۔آبادی ہوگئی ہے ۔ہم امیر بن گئے ہیں ۔تو میں نے کہا کہ ’’ اب امیر ہو کر ان پر آوازیں کستے ہو‘‘ ۔
{1376} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک بار نواں پنڈ کی دو عورتیں آئیں جن کے پاس کچھ گیہوں تھا ۔ انہوں نے کہا ۔ ’حضور! اب کے فصل بہت کم ہوئی ہے ۔‘ میں پندرہ یا سولہ سیر لائی ہوں ۔ فرمایا ’’ لے جاؤ‘‘ کہا حضور! اب کے ٹڈی(ملخ) پڑگئی ہے ۔فصل نہیں ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’لے جاؤ ہم کو معلوم ہے۔‘‘ انہوں نے کہا حضور! اب ہم لے آئی ہیں آپ لے لیں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ نہیں لے جاؤ‘‘ دوسری عورت سے فرمایا کہ ’’ تم بھی نہ لانا۔‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’ سب کو منع کر دو کوئی حق فصلانہ نہ لاوے‘‘ ۔
{1377} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ’’ چند ہندو عورتیں گلگلے لے کر آئیں ۔کوئی شادی تھی۔ ان عورتوں نے ماتھا ٹیکا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’انسان کو سجدہ کرنا منع ہے۔‘‘ گھر میں جو عورتیں تھیں ان کو کہا کہ ’’ ان کو سمجھا دواور خوب ذہن نشین کرادو کہ سجدہ صرف خد اکے لئے ہے کسی انسان کو نہیں کرنا چاہئے ‘‘ ۔
{1378} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔خدیجہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ خان بہادرغلام محمد صاحب گلگتی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں پہلے پہل گلگت سے اپنے خاوند کے ہمراہ بیعت کے واسطے آئی ہوں ۔میرے خاوند نے مجھے حضور کے مکان کے اندر بھیج دیا۔ کوئیں کے پاس حضرت اماں جان پیڑھی پر بیٹھے ہوئی کچھ دھو رہی تھیں ۔انہوں نے میرے آنے کی اطلاع حضورؑ کو بھیج دی ۔اس وقت حضورؑ اوپر کی منزل پر تھے ۔مجھے بلا بھیجا ۔میں ایک عورت کے ساتھ اوپر گئی۔تو حضورؑ نے ایک موٹا سا کپڑا میری طرف پھینکا کہ’’ اس کو پکڑ لو ۔اور جو میں کہتا جاؤں تم بھی کہتی جاؤ۔‘‘پھر حضور ؑ جو کچھ بیعت لینے کے وقت فرمایا کرتے تھے فرماتے گئے ۔میں بھی کہتی گئی۔ بیعت کے بعد دعا فرمائی ۔
{1379} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فقیر محمد صاحب بڑھئی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سیر کوآئے تو کچھ عورتیں بھی ساتھ تھیں۔واپسی پر سستانے کے لئے ہماری کچی مسجد میں بیٹھ گئے اور عورتیں بھی بیٹھ گئیں ۔ہماری عورتیں بھی وہاں چلی گئیں ۔سلام علیکم کہا اور پوچھا کہ حضورؑ کے واسطے کچھ پانی وغیرہ لائیں ؟ آپ نے فرمایا۔’’بیٹھ جائو‘‘ بتاؤ،تمہارے آدمی نمازیں پڑھتے ہیں ؟ اگر نہیں پڑھتے تو ان کے نام لکھواؤ‘‘ ۔
{1380} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں اکثر یہاں رہاکرتی تھی اور میرے خاوند قصور رہا کرتے تھے ۔ وہ قصور سے آئے تو کچھ قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضورؑ کی خدمت میں پیش کئے اور ایک خط بھی بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضورؑ مجھے کوئی کام نہیں آتا حضورؑ مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لئے دے دیا کریں ۔میں وہاں پرہی بیٹھی تھی ۔ حضورؑ نے فرمایا ۔’’ فضل! مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں ؟‘‘ میں نے کہا کہ حضورؑ وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے ۔ حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا ۔کہ’’ ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں‘‘ ۔
{1381} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔والدہ محترمہ ڈاکٹر چوہدری شاہ نواز خان صاحب زوجہ چوہدری مولا بخش صاحب چونڈے والے ۔سر شتہ دار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ’ جب دوسری دفعہ میں قادیان میں آئی تو حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کی بیوی مرحومہ کرسی پربیٹھی تھیں ۔میں نے عرض کی کہ حضورعلیہ السلام مجھے کچھ علم نہیں ہے میں سیدھی سادی ہوں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ خدا تعالیٰ سیدھے سادوں کو قبول کر لیتا ہے ‘‘ ۔
{1382} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جناب حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے پہلے پہل فونو گراف منگوایا تو ان دنوں بڑے شوق اور تعجب سے دیکھا جاتا اور سنا جاتا تھا ۔ایک روز حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ لالہ شرمپت وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی سنواؤ تو ہم نے اس میں تبلیغی فائدہ کو مدنظر رکھ کر ایک نظم بھروا دی ہے ۔ (وہ نظم مذکور حسب ذیل ہے )
آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف وگزاف سے
جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے
کمتر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے
باہر نہیں اگر دل مردہ غلاف سے
حاصل ہی کیا ہے جنگ وجدال و خلاف سے
وہ دیں ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو
تائید حق نہ ہو مدد آسماں نہ ہو
مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں
جو نور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں
دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے
جو اس سے دور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے
دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما
کس کام کا وہ دیں جو نہ ہو وے گرہ کُشا
جن کا یہ دیں نہیں ہے نہیں ان میں کچھ بھی دم
دنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم
وہ لوگ جوکہ معرفتِ حق میں خام ہیں
بت ترک کر کے پھر بھی بتوں کے غلام ہیں

یہ نظم لالہ شرمپت وغیرہ کی موجودگی میں سنائی گئی پھر اُسی وقت حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے سورۃ مریم کے ایک یا دو رکوع فونو گراف کے سامنے پڑھے ۔وہ بھی فونو گراف میں بھرے گئے ۔حضور علیہ السلام نے بھی یوں فونو گراف سنا‘‘۔
{1383} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ محترمہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب آپؑ دہلی تشریف لے گئے تو وہاں ایک شخص ہر روز آکر آپ کوگالیاں دیا کرتا تھا۔ حضورؑ نے حضرت ام المومنین سے فرمایا کہ ’’ اسے ایک گلاس شربت کا بنا کر بھیج دو ۔اس کا گلا گالیاں دیتے سوکھ گیا ہوگا۔‘‘ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ ’’ میں بھیج تو دو ں مگر وہ کہے گا کہ مجھے زہر ملا کردیا ہے ‘‘۔واپسی پر آپ نے لدھیانہ میں قیام کیا وہاں بھی کئی مخالفوں نے آکر گالیاں دیں ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے انہیں روکا۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میر صاحب !مت روکو۔ ان کو دل خوش کرلینے دو‘‘ ۔
{1384} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میں چارپائی پر لیٹا ہو ا تھا میں نے دیکھا کہ میرے سر کی طرف ایک فرشتہ ہے اور میرے پاؤں کی طرف ایک فرشتہ ہے وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں ۔ایک نے دوسرے کو میاں شریف احمد(صاحب) کی نسبت کہا کہ وہ بادشاہ ہے۔ دوسرے نے کہا نہیں پہلے توا س نے قاضی بننا ہے ‘‘ ۔ ۱؎
{1385} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو۔ مُلانوں کو نہ دو ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کوڈالتے ہیں کتے اور کوّے کھاتے ہیںاور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں ۔‘‘
{1386} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیا ن کیا کہ ایک بار حضورؑ کے ساتھ مولوی شیر علی صاحب کے گھر کے قریب آئے۔ ہندو بازار سے ہوتے ہوئے رات کے وقت گزرے ۔فرمایا ۔’’ یہ سب ہمارے ہی بازار ہیں ۔ سب احمد ی ہو جاویں گے ۔سب بازار ہمارا ہی ہے ۔‘‘ پھر بڑی مسجد میں آکر اپنے والد صاحب کی قبر پر دعا کی اور ہم سب نے بھی دعا کی ۔فرمایا ۔’’ پانی لاؤ اس کوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ پانی منگوا کر پہلے حضور علیہ السلام نے پیا پھر ہم سب نے پیا۔ فرمایا ’’ اس کا پانی بہت ٹھنڈا ہے ۔‘‘ حضرت اماں جان نے فرمایا کہ اس کا بھی ٹھنڈا ہے جو درزی خانہ کے پاس ہے ۔آپ نے فرمایا ’’ نہیں یہ بہت ٹھنڈا ہے اور لذیذہے اور بہت بہتر ہے ۔‘‘
{1387} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کاذکر ہے حضرت اماں جان لاہور تشریف لے گئیں توہم نے

۱؎ بدر جلد ۶ نمبر ۱۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ۔ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱ ۔ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱ پراس رؤیا کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔ ’’ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ’’ وہ بادشاہ آیا‘‘ دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ ‘‘
بازار سے تربوز منگوائے ۔ان کو کاٹ کراور مصری ڈال کر رکھ چھوڑا۔ میں ،سرور سلطان صاحبہ،زینب استانی صاحبہ اُم ناصر احمد صاحب فاطمہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سب مل کر کھانے لگیں ۔ایک مائی تابی ہوا کرتی تھی۔ہم نے ایک ٹکڑا اس کو بھی کھانے کو دیا ۔ اس نے کھا کر درمیان میں جو برتن تھا اس میں چھلکا پھینک دیا۔تربوز کے پانی کی چھینٹیں اڑ کر ہم سب پر پڑیں ۔ہم کو بھی شرارت سوجھی۔ ہم نے اپنے اپنے چھلکے مائی تابی کو مارے۔وہ بیچاری غصہ ہوگئی اور حضرت صاحبؑ سے جاکر شکایت کی ۔حضورؑ نے گواہیاں لیں تو معلوم ہو اکہ پہل مائی نے کی تھی۔ پھر سب کو باری باری بلا کر پوچھا۔آپؑ ہنس پڑے اور فرمایا ۔’’ مائی پہل تم نے کی تھی‘‘ ۔
{1388} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ دن بھر یا تو عبادت کرتے رہتے تھے یالکھتے رہتے تھے اور جب بہت تھک جاتے تھے تو رات کے وقت حافظ معین الدین صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ’’کچھ سناؤ تاکہ مجھے نیند آجائے۔‘‘ حافظ صاحب آپ کو دبایا بھی کرتے تھے ۔ایک دن حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’حافظ صاحب کچھ سنائیے۔‘‘ حافظ صاحب سنانے لگے ۔سناتے سناتے حافظ صاحب نے سمجھا کہ حضورؑ سو گئے ہیں ۔وہ چپ ہو گئے حضرت صاحب ؑ نے فرمایا کہ ’’سنائیے میں سویا نہیں ۔میرے سر میں درد ہے ۔‘‘ اسی طرح حضرت صاحب نے صبح تک تین چار دفعہ کہا۔ صبح کے وقت آپؑ مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتے تھے اور جب آتے تو حضرت ام المومنین کو جو بات وہاں ہوتی سنا دیا کرتے ۔آپؑ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے آپؑ ان سب کو دے دیا کرتے ۔
{1389} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ جب میں پہلی بار آئی تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے گھرجانا منع کیا ہوا تھا۔میں بھی ڈر کے مارے نہیں جایا کرتی تھی۔آپ کومعلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ’’فضل سے کہوکہ تم کو منع نہیں کیا ۔تم جایا کرو تمہاری رشتہ داری ہے ۔‘‘
{1390} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم صاحبہ شاہجہاں پوری اہلیہ شیخ غلام احمد صاحب نومسلم واعظ مجاہد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضورؑ باہر سیر کو تشریف لے گئے تو مستورات بھی ساتھ تھیں۔ آپؑ آدھے راستہ سے ہی واپس آگئے ۔راستہ میں تھے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ تیرے نام منی آرڈر آیا ہے ۔تو مسیح موعود علیہ السلام ڈاک خانہ سے پچاس روپے وصول کرتے ہوئے اپنے گھر واپس تشریف لے آئے ۔
{1391} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ضلع گورداسپور کی عورتیں آئیں ۔ حضرت اماں جان کچھ گھبرا گئیں ۔ گاؤں کی عورتیں جن کے سر میں گھی لگاہوتا ہے ۔حضورؑ نے فرمایا۔’’ گھبرانے کی بات نہیں ۔مجھے تو حکم ہے کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ یَأْتونَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق ( یہ الہام ہیں ) آپ کو معلوم نہیں یہ میرے مہمان ہیں ۔‘‘
{ 1392} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اما ء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں دو ان میں سے بیوہ ،جوان اور مال دار تھیں ۔ مَیںان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ جوان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہئے ‘‘ ۔ میں نے کہا جن کا دل نہ چاہئے وہ کیا کریں ؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کاکون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا ’’اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گذار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کر لے ۔‘‘
{1393} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سات دسمبر اٹھارہ سو ننانوے کا واقعہ ہے ۔فرمایا کہ ’’ ہم نے گھر میں کہا ہو اہے کہ جب کوئی بھاجی کے طور پر کوئی چیز بھیجے تو نہ لیا کرو۔‘‘ پھرفرمایا کہ ’’ایک روز ایک عورت سکھ مذہب کی ہمارے گھر میں بعض چیزیں لے کر آئی ۔حسب دستور ہمارے گھر سے واپس کر دی گئیں ۔اس عورت نے کہا کہ واپس نہ کرو ۔ مجھے کوئی غرض نہیں ہے ۔مجھ پر آپ نے بڑا احسان کیا ہے ۔فرمایا کہ ہم نے اس عورت کو شناخت کیا۔اصل بات یہ تھی کہ اس عورت کے لڑکے کو ام الصبیان کی بیماری تھی اور لڑکا قریب المرگ تھا وہ ہمارے پاس لڑکے کولے آئی اس کا علاج کیا گیا ،لڑکا اچھا ہوگیا۔ اس کے شکرانہ میں وہ کچھ چیزیں لائی تھی پھر ہم نے گھر میں کہا کہ لے لو یہ شکرگزاری کے طور پر ہے ‘‘۔( بھاجی وہ ہے جو بدلہ کے طور پر دی جائے ) ۔
{1394} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میں نے درخواست کی کہ حضرت ! مرد آپ کی تقرریں سنتے رہتے ہیں۔ ہم میں بھی کوئی وعظ ونصیحت کریں ۔آپؑ نے فرمایا ۔’’ اچھا ہم تقریر کریں گے ۔‘‘ پھر رات کو سب مستورات کو حضورؑ نے بلا بھیجا ۔کئی بہنوں کواس وقت بچے پیدا ہوئے ہوئے تھے اور چلوں میں تھیں۔ جب ان کو معلوم ہو اتو وہ ڈولیوں میں بیٹھ کر آگئیں ۔ساری تقریر تو مجھے یاد نہیں رہی یہ یاد ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ عورتوں میں یہ مرض حد سے بڑھا ہو اہے کہ شرک کرتی ہیں اور پیردستگیرؒ کی منتیں مانتی ہیں اور ایک دوسری کی شکایت کرنا ان کا رات دن کاکام ہے ۔ اور عورتیں یہ دیکھنے آتی ہیں کہ یہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں ؟ روزے رکھتے ہیں یا نہیں ؟ ان کو یہ چاہئے کہ یہ خیال کر کے آئیں کہ ہم مسلمان بننے آئے ہیں ۔اور نماز کے متعلق یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ عورتوں پر کچھ دن ایسے بھی آتے ہیں کہ ان میں وہ نماز اور روزے نہیں اداکر سکتیں ‘‘۔
{1395} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرز امحمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میری لڑکی صادقہ پید اہوئی جو اب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیوی ہے تو میںمیاں احمد نور کے مکان میں تھی۔ حضورؑ مولوی عبد الکریم صاحب کی بیوی کو روز بھیج دیتے کہ ’’جاکر کھانا وغیرہ پکا کردو‘‘ جب ذرا دیر ہو جاتی تو آپؑ فوراً بلا کر بھیج دیتے اور کہتے ’’مولویانی ! تم گئی کیوںنہیں ؟ جلدی جاؤ‘‘ ۔
{1396} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ دونوں وقت دال پک کر آئی ۔حضورؑ کو علم ہو اتو آپ نے فرمایا ۔ ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے مہمانوں کودونو ں وقت دال دی جائے ۔میں تو بدل بدل کر کھانا کھلاؤں گا ۔یہ میرے مہمان ہیں ‘‘ ۔
{1397} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ جبکہ مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کے ساتھ مقدمات چل رہے تھے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی کئی کئی روز تک گورداسپور میں رہا کرتے تھے ۔ کچھ مدت اندرون شہر مولوی علی محمد صاحب جو محکمہ نہر میں ایک معزز عہدہ دار تھے ان کے مکان میں رہائش کا موقعہ ملا اور ان کے بھائی نبی بخش صاحب جو ان دنوں غالباً پنشنر تھے ان کے ہاں لڑکی تھی۔مولوی محمدعلی صاحب (حال امیر پیغام بلڈنگ لاہور) کے لئے اس کے رشتہ کی تحریک ہوئی جس کو حضور علیہ السلام نے منظور فرمالیا اور اس لڑکی کے والد صاحب نے بھی منظور کر لیا لیکن نکاح کرنے میں وہ غالباً ایک سال کی التوا چاہتے تھے۔ اس طرف مولوی محمدعلی صاحب کے لئے اور رشتہ بھی تیار تھا لیکن حضور علیہ السلام اس رشتہ کی منظوری دے چکے تھے اس لئے کسی کو یہ طاقت نہ تھی کہ کسی اور رشتہ کے لئے منظوری دے سکے ۔اس لئے ایک روز مولوی عبد الکریم صاحبؓ نے مسجد مبارک میں بڑے زورکے ساتھ تجویز کی کہ آج ظہر کے وقت حضرت صاحبؑ کے سامنے زور سے عرض کی جائے کہ اور کئی رشتے آرہے ہیں اور کہ گورداسپور والا رشتہ ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ لڑکی والے ایک سال تک التوا چاہتے ہیں ۔اس لئے حضورؑ ایک دفعہ ان سے دریافت کر لیں اگر وہ نکاح کر دیں تو بہترورنہ کسی دوسری جگہ نکاح ہوجائے ۔جب حضور علیہ السلام نماز کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو سوال کر دیا گیا اور زور دار الفاظ میں سوال کیا گیا ۔حضور علیہ السلام نے بھی درخواست منظور فرما کر خط بنام منشی نبی بخش صاحب تحریر فرما کر منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی(پٹواری سیکھواں ) کے حوالہ میری معیّت میں کردیا اور فرمایا کہ ’’ جس وقت گورداسپور پہنچو فوراً ان کے مکان پر جا کر ان سے دو حرفی جواب لو کہ یا وہ نکاح کردیں یا جواب دیں تاہم کوئی اور انتظام کر لیں ۔ ان دنوں رات کے ایک دو بجے کے قریب ریل گاڑی گورداسپور پہنچا کرتی تھی ہم نے گاڑی سے اترتے ہی اس کا دروازہ جا کھٹکھٹایا اور سوتے سے جگایا ۔ خط اس کو دے دیا اورزبانی بھی حقیقت سنا دی اور جواب د وحرفی کا مطالبہ کیا اس نے نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ جواب دیا کہ حضرت صاحب ؑ بادشاہ ہیں وہ مولوی صاحب کا کسی دوسری جگہ بھی نکاح کردیں۔ میں ایک سال تک ضرور نکاح کردوں گا۔ ہم نے کئی بار مطالبہ کیا کہ آپؑ یا نکاح کردیں یا انکار کردیں ۔منشی صاحب نے ہر بار نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ یہی جواب دیا جو اوپر لکھا گیا ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر میں نکاح کر بھی دوں تو رخصتانہ ایک سال کو ہی ہوگا۔ آخر ہم اسی وقت اُس سے واپس ہوئے اور جواب آکر سنا دیا گیا۔حضورؑ خاموش رہے اور مولوی عبدالکریم صاحب ؓ بھی منہ تکتے رہ گئے ۔حضور علیہ السلام نے اس وقت فرمایا کہ’’ لڑکی والوں میں ایک حد تک استغناء ہوتا ہے اس کا قدر کرنا چاہئے ۔‘‘ آخر وہ نکاح ہوا اور وہ دلہن ہاںمبارک دلہن قادیان میں آباد ہوئی ۔کچھ مدت کے بعد بیمار ہو کر قادیان میں فوت ہوئی اور مقبرہ بہشتی میں مدفون ہوئی ۔ اللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَھَا وَارْحَمْھَا وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن -
نوٹ: اس سے حضورؑ کی صداقت اور مقبرہ بہشتی کی عظمت کا پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نیک فطرتوں کو روکیں توڑ کر یہاں لاتا ہے جن کی فطرت نیک ہے آئیں گے وہ انجام کار
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب لاہور چلے گئے۔ اب تو مقبرہ بہشتی کو کانی آنکھ دیکھتے ہیں ۔یہ زمین کسی کو بہشتی نہیں بناتی بلکہ جو بہشتی ہوتا ہے وہ یہاں مدفون ہوتا ہے۔
{1398} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ بچوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے ہر وقت اپنے پاس کوئی چیز رکھتے تھے ۔میری بڑ ی لڑکی چار سال کی تھی اوراس کو کالی کھانسی تھی ۔وہ کہتی تھی کہ اگرحضرت صاحب مجھے کچھ دیں گے تومجھے آرام ہوجائے گا ۔حضور کچھ لکھ رہے تھے۔ حضورؑ نے بکس کھولا اور دونوں ہاتھ بھر کے منقہ دیا اور ایک سفید رومال میںباندھ دیا اور فرمایا کہ سارا نہ کھا جائے ۔ تھوڑا تھوڑا کھائے گرم ہوتا ہے ۔وہ کھانے لگی اس کے کھاتے ہی اس کوکھانسی سے آرام ہوگیا۔ ورنہ ہم تو بہت علاج کر چکے تھے ۔حضور علیہ السلام کے ہاتھ کی برکت تھی۔
{1399} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ بندوبست ۹۱؍۱۸۹۰ء کے وقت قادیا ن میں ایک افسر بندوبست مرزا نظام الدین صاحب کے مکان میںرہتے تھے اور وہ حضورؑ کو بھی ملا کرتے تھے ۔نمازی تھے اور ان کا نام مولوی غلام علی صاحب تھا آخر میں وہ احمدی ہو گئے تھے ۔ان کو شکار کھیلنے کا شوق تھا ۔ ایک روز ان کو معلوم ہوا کہ ہندو محلہ میں کسی مکان میں بِلّا چھپا ہو اہے ۔مولوی صاحب موصوف معہ شکاری کتوں کے ہندو محلہ کی طرف چل پڑے ۔اس وقت میں اور میر ے بڑے بھائی صاحب میاں جمال الدین صاحب مرحوم موجو دتھے۔ ہم بھی ساتھ چل پڑے۔وہاں چل کر ایک بند مکان میں شکاری کتے گھس گئے اور بِلّا مکان سے نکلا۔کتوںنے اس کا تعاقب کر کے پکڑ لیا اور بہت شور پڑا۔ جبکہ بلّے کو کتے اِدھر اُدھر گھسیٹنے لگ پڑے ۔حضور علیہ السلام اس نظارہ کو دیکھ نہ سکے اور فوراً وہاں سے چپکے سے واپس ہوئے اور حضورؑ کی خاموش واپسی کو دیکھ کر ہم بھی واپس آگئے ( کسی کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے )۔
{1400} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمود بیگ صاحب پٹی نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میری لڑکی آمنہ جب حضرت صاحب ؑ کے پاس آتی تو حضورؑ مٹھائی دیتے ۔جب نماز کا وقت ہوتا تو آمنہ کہتی کہ حضرت صاحب نماز اندر ہی پڑھیں ۔اماں جان فرماتیں کہ اس کی مرضی ہے کہ اندر نماز پڑھی جائے اور مجھ کو مٹھائی جلدی ملے تو حضورؑ مٹھائی دے کر جاتے ۔
{1401} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضورؑ کے بڑے باغ میں علاوہ درخت ہائے آم کے کچھ درختان بیدانہ بھی تھے لیکن ثمر بیدانہ مارچ اپریل میں تیار ہوجاتا ہے اور آم کا ثمر جولائی اگست میں تیا ر ہوتا ہے لیکن تاجر لوگ مارچ اپریل میں ہی سارے باغ کا سودا کر لیتے تھے۔ ایک دفعہ تجویز ہوئی کہ جو ثمر پختہ ہو وہی بیع ہوناچاہئے اس لئے سردست بیدانہ بیع ہونا چاہئے اور تاجر بھی موجود تھے۔مگر حضورؑ نے ہمیں ترجیح دی اور ہمارے چودہ روپے نقد وصول کر لئے اور فرمایا کہ ’’ ان سے ہمیں کمی وبیشی قیمت کا سوال نہیں ۔‘‘
{1402} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم آگرہ سے تین ماہ کی رخصت لے کر آئے ۔حضور ؑ نے اونچا دالان رہنے کو دیا۔ میرا معمول تھا کہ روزانہ نماز عصر کے بعد حضورؑ کی خدمت میں سلام کو جاتی ۔حضرت اقدس ؑ و اُمّ المومنین صاحبہ ام ناصر والے صحن میں پلنگ پر بیٹھے تھے ۔میں سلام کر کے ایک چھوٹی چار پائی پر جوسامنے پڑی تھی بیٹھ گئی ۔میں اس وقت زیادہ تر سفید کپڑے ہی پہنتی تھے ۔حضورؑ نے حضرت اُمّ المومنین سے دریافت کیا کہ ’’ کیا یہ ہمیشہ سفید کپڑے ہی پہنتی ہیں ؟‘‘ اماں جان نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ کیا تم کو رنگین کپڑے پسند نہیں ہیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’ حضور پسند تو ہیں لیکن کپڑے رنگنے سے ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں ۔‘‘ حضورؑ نے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ’’مراد خاتون کیا تم مہندی نہیں لگایا کرتیں ؟‘‘ میں نے عرض کی کہ نہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا ’’کیوں‘‘ ؟ میں نے پھر کہا کہ حضورؑ ! ہاتھ خراب ہوجاتے ہیں ۔فرمایا کہ ’’ مہندی لگانا سنت ہے ۔ عورتوں کوہاتھ سفید نہیں رکھنے چاہئیں ۔‘‘ اتنے میں میر ناصر نواب صاحب مرحوم جو لاہور کچھ سامان لینے گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ اس سامان میں کچھ کپڑا اور بڑا پُڑا مہندی کابھی تھا۔آپؑ نے حضرت اماں جان سے پوچھا کہ ’’گھر میں مہندی ہے ؟‘‘ انہوںنے بتایا کہ ’’مہندی گھر میں ہے ‘‘ آپؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ مہندی اور ایک قمیض کا کپڑا مراد خاتون کو دے دو اور اس کو کہہ دو کہ مہندی لگایا کرے۔‘‘ وہ کپڑا ریشمی موتیا رنگ کا تھا۔اس دن سے میں عموماً مہندی لگاتی ہوںاور رنگین کپڑا بھی پہنتی ہوں ۔
{1403} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میری شادی ہونے کے بعد جو رُڑ کی میں ہوئی تھی جب میں پہلی بار قادیان میں آئی تھی میری عمر۱۱سال کی تھی ۔ جب مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور لایا گیا تو حضورؑ نے کمال شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور ایک سرخ رومال میں بندھے ہوئے کچھ پونڈ دئے تھے ۔یہ یاد نہیں کہ کتنے تھے؟ میرے ساتھ میری چھوٹی والدہ اورایک ملازمہ بھی تھی ۔چندیوم کے بعد میرے والد رضی اللہ عنہ آکر مجھے لے گئے ۔پھر جب ماہ اکتوبر۱۹۰۳ء میں ڈاکٹر صاحب کی تبدیلی آگرہ ہوگئی تھی ۔حضورؑ نے حضرت نانا جان اور نانی اماں کو اور میر اسحق صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ساتھ مجھے لینے کے واسطے بھیجا تھا۔
{1404} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اہلیہ حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو فرمایا تھا کہ یہ نظم
’’ عجب نوریست درجانِ محمد عجب لعلیست درکانِ محمد ‘‘
والی پڑھ کر سناؤ ۔جب اس نے خوش الحانی سے سنائی تواس وقت حضورؑ گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے سنتے رہے۔
{1405} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ ؑ کا صاحبزادہ ،مبارک احمد تین سال کاتھا جب عصر کے وقت حضورؑ کو گھبراہٹ ہوتی تو پوچھتے کہ مبارک احمد کہاں ہے؟ اسے اندر لے آؤ ،دادی مرحومہ مغفور ہ ان کو اندر لے آیا کرتی تھیں ۔
{1406} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’آپ ؑ کے کھانے کے وقت بہت سے لوگ تبرک کے لئے عرض کرتے تو آپؑ ان سب کو دے دیا کرتے تھے ۔‘‘
{1407} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’لوگ ماسٹر صاحب کو طنزاً کہا کرتے تھے کہ آپ کے مسیح کو تب جانیں گے جب آپ کے والد صاحب گالیاں دینے سے ہٹ جائیں گے ۔ماسٹر صاحب نے حضرت صاحب کو خط لکھا اور دعا کی درخواست کی۔ حضور کا جواب آیا کہ ہم نے دعا کی ہے اب گالیاں نہ دیں گے۔ اس پر ماسٹر صاحب نے ان لوگوں سے کہا کہ حضرت صاحب کا خط آگیا ہے۔ اب والد صاحب گالیاں نہیں نکالیں گے۔ اور وہ خط بھی ان کو دکھا یا۔ اس کے بعد پھر حضرت صاحب کی دعا سے انہوں نے کبھی گالیاں نہیں دیں۔
نشان انگوٹھا اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم
دستخط مریم ۔ دستخط نور احمد سنوری۔۴۵۔۱۔۲۶
دستخط سارہ ۔ ۴۵۔۱۔۲۶

{1408} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم ومغفور نے تحریراً بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضرت صاحب لدھیانہ تشریف رکھتے تھے تو ماسٹر صاحب نے گھر میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری سے کہا کہ وہ حضرت صاحب سے درخواست کریں کہ حضور ہمارے گھر تشریف لائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حضور تشریف لے آئے تو آپ مجھے کیا دیں گے۔ ماسٹر صاحب نے فرمایا کہ مٹھائی کھلائوں گا۔ اس پر مولوی عبداللہ صاحب سنوری نے کہا کہ وہ مٹھائی بھی آپ حضور کی خدمتِ اقدس میں ہی پیش کر دیں۔ چنانچہ وہ گئے اور حضرت صاحب سے عرض کی۔ جس پر حضور ہمارے گھر تشریف لے آئے ماسٹر صاحب کے والد چونکہ احمدی نہ تھے اور کسی زمانہ میں شدید مخالفت بھی کرتے رہے تھے۔ اس ڈر سے گھر میں ان کو کسی نے اطلاع نہ دی کہ حضور تشریف لائے ہیں۔ جس وقت حضور واپس جا رہے تھے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیچھے سے دیکھ لیا۔ مگر جب بعد میں ان کو پتہ چلاتو انہوں نے بہت افسوس کا اظہار کیا۔ اور فرمایا مجھے کیوں نہ اطلاع دی، میں نے تو حضور کو پیچھے سے ہی دیکھا ہے ۔ وہ تو واقعی شیرِ خدا معلوم ہوتا ہے۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے میری بچی صغریٰ گود میں پیش کی گئی۔ جو اس زمانہ میں حضور کی دعا سے پیدا ہوئی تھی۔ حضور نے اس کے لئے دعا فرمائی اور اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا۔ تین بچے پیدا ہونے کے بعد میں بیمار ہو گئی تھی۔ جس سے بہت سے بچے ضائع ہو گئے۔ میرا خیال تھا کہ مجھے آتشک ہو گئی ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کی اور حضور اقدس نے دعا فرمائی چنانچہ حضور کی دعا سے میری وہ بیماری دور ہو گئی اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے چار بچے دئیے۔ صغریٰ ۔ برکت اللہ ۔ مصلح الدین اور کلثوم اور وہ چاروں خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ سلامت ہیں اور خود بھی بچوں والے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عِلٰی ذٰلک
نشان انگوٹھا اہلیہ صاحبہ ماسٹر قادر بخش صاحب مرحوم
دستخط نوراحمد سنوری ۴۵-۱-۲۵

{1409} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں آگرہ سے آئی تھی۔ میرے ساتھ ایک ملازمہ تھی ۔ میری لڑکی عزیزہ رضیہ بیگم جو کہ ابھی چار سال کی تھی وہ اس کی کھلاوی تھی۔ کچھ باتیں مزاح کی بھی اس کو سکھایا کرتی تھی ۔ ایک دن حضور علیہ السلام آنگن میں ٹہل رہے تھے ۔عزیزہ سلمہا نے چھوٹا سے برقعہ پہنا ہوا تھا ۔وہ حضورؑ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ حضورؑ ٹھہر گئے ۔عزیزہ نے رونی صورت بنا کر کہا ۔اُوں اُوں مجھے جلدی بلا لینا۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’تم کہاں چلی ہو؟‘‘ وہ نوکر کی سکھائی ہوئی کہنے لگی کہ میں سسرال چلی ہوں ۔اس پر حضور خوب ہنسے ۔فرمایا ’’سسرال جاکر کیا کروگی؟‘‘ کہنے لگی۔’’ حلوہ پوری کھاؤں گی ۔‘‘ پھر آنگن میں ایک چکر لگایا پھر آکر حضورؑ کے قدموں سے چمٹ گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’سسرال سے آگئی ہو؟‘‘ تمہاری ساس کیا کرتی تھیں ؟‘‘ عزیز ہ سلمہا نے کہا کہ روٹی پکاتی تھی۔تمہارے میاں کیا کرتے تھے ؟ کہا کہ روٹی کھاتے تھے۔ پھر پوچھا ’’ تم کیا کھاکر آئی ہو؟‘‘ کہنے لگی حلوہ پوری ۔حضورؑ نے فرمایا ’’اس کی ساس اچھی ہے ۔بیٹے کو تو روٹی دیتی ہے مگر بہو کو حلوہ پوری‘‘ ۔
{1410} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’جب حضرت خلیفہ ثانی میاں محمود کی شادی ہوئی ۔تو تائی صاحبہ یعنی حضرت اقدس ؑ کی بھاوجہ صاحبہنے مرا ثن کوکہا کہ ’’دہلی والی یعنی حضرت اُمّ المومنین اپنے بیٹے کا بیاہ کرنے لگی ہے ۔مریدوں کی بیٹیاں لے لے کر۔ اپنے خاندان کی لڑکیاں تو وہ لیں گے نہیں ۔تو پرانی خاندانی حقدار مرا ثنہے تو بھی ڈھولکی لے کر جا‘‘۔جب وہ آئی اور ڈھول بجانا شروع کیا تو حضورؑ اندر کمرے میں تھے ۔ ڈھول کی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا ’’ اس کو کہدو کہ یہ نہ بجائے ۔‘‘ اس طرح چند مرتبہ کہا تھا کہ’’ اس کو کہدو یہ نہ بجائے اور اس کو کچھ دے دو۔‘‘ چنانچہ اس کو پانچ روپے دئے تھے ۔مگر اس نے کہا کہ حضورؑ میں یہ نہیں لیتی ۔مجھے سردی لگتی ہے حضورعلیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا اس کو ایک لحاف بھی دے دو۔وہ اس وقت پانچ روپے اور لحاف لے گئی تھی‘‘۔
{1411} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ قبل از دعویٰ کا واقعہ ہے کہ حضورؑ مسجد مبارک کے شاہ نشین پر بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی قریب ہی بیٹھا ہوا تھا کہ نماز شام کے بعد میر عباس علی لدھیانوی آگئے ۔حضرت صاحب اٹھ کر ان کو ملے۔ وہ بھی شاہ نشین پر بیٹھ گئے اور بہت خوش خوش باتیں ہوتی رہیں اور وہاں ہی کھانا آگیا جو روٹی اور سبزی کریلے تھے جو گھی میں ہار بنا کر تلے ہوئے تھے۔ میں نے بھی کھائے اس وقت حضرت صاحب ؑ ،میں اور میر عباس علی ہی تھے۔ میرعباس علی بڑا ہی مؤدب تھا۔ افسوس! کہ بعد میں حالت بدل گئی۔
{1412} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح ہوا تھا اسی دن صلاح الدین کو سردی لگ جانے سے سخت بخار اور نمونیا ہوگیا تھا۔ڈاکٹر صاحب فرخ آباد ملازمت پر تھے ۔حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح اول ؓ کو علاج کے واسطے مقرر کردیا تھا۔ مولوی صاحبؓ دونوں وقت تشریف لا کر مریض کو دیکھتے اور علاج تجویز فرماتے تھے ۔جب آتے تھے تو باہر سے گول کمرہ کے دروازہ کا جو مسجد کے زینہ میں تھا کنڈا کھٹکھٹاتے ۔میں کہتی ’’ کون ہیں ‘‘ تو فرماتے کہ ’’نورالدین‘‘ حضرت اقدسؑ خود بھی آتے جاتے کمال مہربانی اور شفقت سے بیمار بچہ کا حال پوچھتے تھے اوراس کو پیار کرتے تھے‘‘۔
{1413} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ان دنوں میں جب کہ سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے واسطے کچھ کپڑے سیے جاتے تھے تو میں بھی روزانہ سینے کو چلی آتی تھی۔ اس وقت سعیدہ رشیدہ بیگم مرحومہ میری چھوٹی لڑکی کوئی سال سوا سال کی تھی اور اس کی کھلادی اس کو اٹھائے ہوئے میرے ساتھ ہوتی تھی۔ حضرت اقدسؑ اس کو روز بلایا کرتے تھے اور پیارسے لکڑی کے ساتھ چھیڑا بھی کرتے تھے ۔چونکہ موسم تبدیل ہو گیا تھا ۔ایک دن میں نے اس کو سفید کپڑے پہنا دئے ۔حضورؑ نے دریافت کیا کہ ’’ اس کا زیور کیوں اتار دیا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ زیور اس کو کبھی نہیں پہنایا گیا۔اصل بات یہ تھی کہ پہلے اس لڑکی کے عموماً ریشمی رنگین اور گوٹے والے کپڑے ہوتے تھے ۔حضور علیہ السلام ان کو زیور خیال فرماتے رہے ۔ اس لئے آج سادہ لباس میں دیکھ کر تعجب فرمایا تھا۔
{1414} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ابتدائے دعویٰ میں مولوی محمد حسین نے مخالفت دعویٰ کے متعلق کوئی مضمون شائع کیا اور وہ شائع شدہ مضمون حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا وہ بلا جلد ہی تھا اور حضور علیہ السلام کھڑے تھے اور ہم سہ برادران (خاکسار راقم ،میاں جمال الدین ؓ صاحب ومیاں اما م الدین صاحب) بھی کھڑے تھے ۔ہم سب کو فرمایا کہ ’’بٹالہ جاکر مولوی محمد حسین صاحب سے مل کر باتیں سنو۔‘‘ چنانچہ ہم بٹالہ چلے گئے اور وہ جمعہ کادن تھا ۔خلیفیانوالی مسجد میں نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے ۔نما زجمعہ کے بعد ایک چوبی منبر پر بیٹھ کرتقریرشروع کردی اور ازالہ اوہام ہاتھ میں تھا۔ ہماری طرف سے جواب شروع ہو گیا۔ لوگ سنتے رہے۔ اس وقت تک غیر احمدی کے پیچھے ترک نماز کا حکم نہ ہوا تھا ۔ اس کے بعد کبھی جمعہ اس کے پیچھے نہیں پڑھا۔

{1415} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں قادیان میں آئی ہوئی تھی اور میرا بچہ عبد القدیر جس کی عمر آٹھ سال کی تھی میرے ساتھ تھا اور اس چھت کے نیچے ہم رہے جس کے اوپر حضرت صاحب رہا کرتے تھے۔ایک دن عبد القدیر بہت رویا۔ وہ ضد کر رہا تھا کہ میں نے حضرت صاحب ابھی دیکھنے ہیں۔حضرت صاحب نے آواز سن کر صفیہ کی اماں کو بھیجا کہ ’’دیکھو کس کا بچہ روتا ہے ؟‘‘ مگر صفیہ کی اماں نے رونے کی آواز ہی نہ سنی کیونکہ مولوی صاحب عبد القدیر کو چپ کراچکے تھے۔
رات بھر عبد القدیر کو بخاررہا۔ہمیں ڈر تھا کہ اسے طاعون نہ ہوجائے کیونکہ قادیان میں طاعون کی وبا ہورہی تھی۔ خیر ہم نے رقعہ لکھ کر حضرت صاحب کو دیا ۔آپ نے مولوی صاحب کو اندر بلایا اور فرمایا کہ ’’کیا آپ کو ڈر ہے کہ طاعون ہوجائے گی ۔آپ خیال نہ کریں ۔عبد القدیر کو قبض کا بخار ہے ۔‘‘ پھر حضورؑ نے تین پڑیاں دیں اور کہا ’’جاؤ ایک پڑیا پانی سے کھلا دیں‘‘ ۔جب ایک پڑیا کھلائی تو وہ قے ہو کر نکل گئی ۔ حضور علیہ السلام کو بتایا تو فرمایا کہ’’ اور دے دو۔‘‘ دوسری اور تیسری بھی الٹی ہو کر نکل گئی ۔پھر حضورؑ نے دادی یعنی والدہ حضرت شادی خان صاحب جو صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کو رکھا کرتی تھیں کو بھیج کر مجھ کو بلایا اور پوچھا کہ ’’ عبد القدیر کی عمر کتنی ہے ؟‘‘ میں نے بتلایا کہ آٹھ سال ۔فرمانے لگے ۔’’مبارک احمد کی عمر ہے ۔‘‘ اس کے بعد کسٹر آئیل دیا جس سے آٹھ گھنٹہ بعد ایک قے آئی ،دست آیا اور بخار ہلکا ہو گیا ۔ پھر چار بجے عبد القدیر نے کہا کہ میں نے حضرت صاحب دیکھنے ہیں ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ بغیر اجازت نہیں لے جانا۔اجازت لے لیں پھر دیکھ لینا ۔ میں نے جاکر اصغری کی ماں سے کہا کہ حضرت صاحب سے کہو عبد القدیر روتا ہے۔ اگر حضورؑ اجازت دیں تو میں لے آؤں ۔ آپ نے فرمایا۔’’جلدی لے آؤ‘‘ حضور علیہ السلام پگڑی سنبھالتے ہوئے اُٹھے اور مجھے فرمانے لگے ’’یہیں ٹھہر جاؤ‘‘ پھر حضورؑ نے عبد القدیر کی نبض دیکھی۔ اور منہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی کہ ’’صحت ہو اور عمردراز ہو۔‘‘ بس اسی وقت بخار کافور ہوگیا۔
{1416} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی عبد اللہ صاحب سنوری مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے پاس میری بھابی اور بھتیجا درد صاحب رہتے تھے ان کو طاعون کی وجہ سے مولوی صاحب ان کے والد صاحب کے پاس چھوڑآئے تھے ۔میں پریشان تھی ،میری پریشانی کا ذکر اصغری کی اماں نے جاکر حضور علیہ السلام سے کیا۔ حضور علیہ السلام نے مجھ کو اپنے پاس بلا کر پوچھا کہ ’’تم پریشان ہو۔اچھا ہوا کہ مولوی صاحب چھوڑنے چلے گئے کیونکہ بچے اپنے باپ کے پاس اچھے ہوتے ہیں۔ یہاں بیماری ہے اس لئے اچھا ہوا ۔
{1417} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ احمد نور کی بیوی کو غشی آگئی ۔حضور علیہ السلام نے خود آکر دیکھا۔ دوائی دی ۔فرمایا۔ ’’ایک وقت گوشت اور چاول بھی دئے جائیں ۔ٹھنڈے ملک کے ہیں مرچ نہیں کھاسکتے ۔‘‘
{1418} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب لیکھرام آریہ حسب پیشگوئی سیدنا مسیح موعود علیہ السلام ہلاک ہوا تو وہ دن عید الفطر کے بعد کادن تھا ۔اس سے قریباً چار پانچ روز قبل۲۶اور۲۷رمضان کی درمیانی رات جو ستائیسویں ماہ رمضان کی عموماً مسلمانوں میں مشہور رات ہے ۔ہم سب بھائی اور منشی عبد العزیزصاحب پٹواری اس رات مسجد مبارک میں ہی سوئے تھے ۔صبح کی نماز کے وقت حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آج رات گھر میں دردزہ کی وجہ سے تکلیف تھی اور میں دعا کر رہا تھاکہ یکایک دعا کرتے کرتے لیکھرام کی شکل سامنے آگئی ۔ اس کے متعلق بھی دعا کر دی گئی اور فرمایا کہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو دعا کرتے کرتے وہ معاملہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ایسا ہی آج ہو اہے کہ لیکھرام سامنے آگیا۔ پس چار پانچ روز بعد لیکھرام کی ہلاکت کی خبر آگئی اور اسی ستائیسویں رات میں لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ’’مبارکہ‘‘ رکھا گیا۔ یہ وہی بابرکت ومبارک دختر ہے جن کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ سے ہوا ۔حضور علیہ السلام کو مدت پہلے الہام میں خبر دی گئی تھی کہ ’’نواب مبارکہ بیگم‘‘ ۔
{1419} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ میں اور سرورسلطان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا بشیر احمد صاحب واہلیہ مولوی محمد علی صاحب اور اہلیہ پیر منظور محمد صاحب ،حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول ؓ سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے جایا کرتی تھیں اس وقت مولوی صاحب اس مکان میں رہتے تھے جہاں اب اُمّ وسیم سلمھا اللہ رہتی ہیں ۔پیر جی کی اہلیہ صاحبہ کو ماہواری تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ اور اماں جان کے سامنے سے جب ہم قرآن مجید لے کر گزریں تو حضرت اماں جان نے دریافت کیا کہ ’’اس حالت میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’جب خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں چھٹی دے دی تو ہم کیوں نہ دیں ۔ان سے کہدو کہ ان دنوں میں قرآن مجید نہ پڑھیں ۔‘‘
{1420} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اصغری کی والدہ کھانا پکایا کرتی تھی۔ ایک دن کریلے گوشت کا سالن پکایا ۔حضور کو یہ سالن پھیکا معلوم ہوا تو کھانا لانے والی خادمہ کو فرمایا کہ اصغری کی اماں سے پوچھو کہ ’’کیانمک ڈالنا بھول گئی ہو؟‘‘ اس نے جا کر پوچھا تو اس کو اصغری کی اماں نے کہا کہ میں نے تو کئی مرتبہ نمک ڈالا تھا مگر میں نے خیال کیا کہ شاید میرے منہ کا مزہ اس وقت درست نہیں ہے اس لئے میں نے اور ڈالنا بند کر دیا تھا۔ پھر حضورؑ نے اس کو خود طلب کر کے پوچھا تو اس نے یہی کہا کہ میں نے تو نمک کئی بار ڈالا ہے ۔میں چکھتی رہی ہوں مگر سالن پھیکا ہی معلوم ہوتا رہا۔ حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا کہ اصغری کی اماں ! باورچی خانہ کے طاق میں جو پھٹکری پڑی تھی کہیں وہی تو نہیں ڈال دی؟ مگر ا س نے انکار کیا بعدہٗ جب ایک عورت کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کہ طاق میں پھٹکری ہے یا نہیں ؟ اور اس نے جاکر دیکھا تو معلوم ہو اکہ پھٹکری وہاں نہیں ہے اس طرح یقین ہوگیا کہ سالن میں غلطی سے نمک کی بجائے پھٹکری پڑ گئی ہے ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’نماز کا وقت ہوچلا ہے کوئی اور چیز روٹی کے ساتھ کھانے کو منگا لو‘‘۔ اس وقت اور کچھ انتظام جلدی سے کر لیا گیا تھا۔
دوسرے دن جب کھانا آیا تو میں بھی وہاں موجود تھی ۔حضورؑ نے اصغری کی اماں سے دریافت کیا کہ ’’سچ سچ بتاؤ کہ سالن میں کل نمک ڈالا تھا یا پھٹکری ؟ تو اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ حضور غلطی سے پھٹکری پڑ گئی تھی۔ حضورؑ نے ہنس کر فرمایا کہ ’’کل تم نے کیوں نہیں مانا تھا کہ پھٹکری ڈالی ہے ۔‘‘ اس نے کہا کہ حضورؑ میں ڈرتی تھی کہ شاید حضور خفا ہوں گے ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’کیاآج ہم خفا نہیں ہوسکتے ہمیں تو کل ہی پتہ لگ گیا تھا۔‘‘
{1421} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپ علیہ السلام کی طبیعت میں کسی قدر مذاق بھی تھا۔ ایک دفعہ آپؑ نے ایک لڑکی کو اخروٹ توڑنے کے لئے دئیے اور فرمایا کہ جتنے اخروٹ ہیں اتنی ہی گریاں لیں گے۔ ایک عورت نے کہا کہ حضورؑ اخروٹوں میں سے گریاں بہت نکلتی ہیں تو حضورؑ مسکرائے ۔
{1422} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب طاعون پڑی تھی۔ لوگوں کو حکم تھا کہ ’’باہر چلے جاؤ‘‘ ۔ میرے خسر صاحب قاضی ضیاء الدین صاحب کو حکم ہو اتھا کہ تم اسکول چلے جاؤ۔ ایک کمرے میں ہم اور ایک میں مولوی شیر علی صاحب ٹھہرے تھے۔ قاضی صاحب بیمار تھے ۔ان کی خواہش تھی کہ حضور علیہ السلام کی زیارت کریں ۔کہتے تھے کہ جب حضورؑ اس طرف سے گزریں گے تو مجھے بتانا ،میں زیارت کروں گا۔
انہیں ایام میں جب حضرت صاحبؑ گورداسپور تشریف لے گئے تھے وہ فوت ہوگئے ۔جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہو اکہ قاضی ضیاء الدین صاحب کی یہ خواہش تھی کہ مجھے دیکھیں تو افسوس کیا کہ ’’اگر خبر ہوتی تو مَیں خود جا کر ان کو مل آتا۔‘‘
{1423} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحب مرحوم ومغفور (حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگرہ سے آئی ہوئی تھی۔ مغرب کے بعد نکاح ہوا۔مَیں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھا کر حضورؑ کے پاس لائی ۔ حضور علیہ السلام اس وقت ام ناصر احمد صاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرماتھے ۔حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرائے ۔
{1424} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اصغری بیگم صاحبہ بنت اکبر خان صاحب مرحوم دربان زوجہ مددخان صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرا نکاح کردیا تھا ایک مرتبہ جب میں واپس آئی تو اس وقت میرے دو بہت صغر سن بچے تھے ۔ ایک لڑکی۔ ایک لڑکا۔ حضور کی کمال مہربانی میرے حال پر تھی ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اصغری کمزور معلوم ہو تی ہے اسکے بچے چھوٹے ہیں ۔اسے ان کو سنبھالنا مشکل ہے اِسے بچوں کی خدمت کے واسطے ملازمہ رکھ دو۔‘‘ چنانچہ پہلے ایک عورت مائی کرموں رنگریزنی رکھی گئی ۔چند یوم کے بعد حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’چھوٹے بچے کے واسطے بھی ملازمہ کھلانے کے واسطے رکھ دو۔‘‘ چنانچہ پہلی خادمہ کرموں کی نواسی بھی مقرر کی گئی۔ ان کو ایک روپیہ مہینہ اور کھانا دیا جاتا تھا۔
{1425} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میاں فضل الٰہی صاحب نمبر دار فیض اللہ چک کی ہمشیرہ قابل شادی تھی۔ حضرت خلیفہ اول ؓ کے لئے حضور علیہ السلام نے تحریک فرمائی ۔یہ عاجز اور بڑا بھائی میاں جمال الدین صاحب ؓ یہ تحریک لے کر فیض اللہ چک گئے اور تحریک سنا دی گئی ۔میاں فضل الٰہی مرحوم نے تو تسلیم کیا لیکن لڑکی کی والدہ نے انکار کیا ۔بعدش اس کی شادی ایک معمر عمر حیات نامی فیض اللہ چک کے ساتھ کی گئی ۔سنا گیا کہ اس لڑکی کی زندگی ہی برباد ہوگئی۔
{1426} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ بھابی ز ینب صاحبہ اہلیہ پیر مظہر قیوم صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے۱۹۰۷ء میں بیعت کی تھی۔ ایک دن میں حضورؑ کی خدمت میں بیعت کرنے کو آئی ۔ رحیم بی بی نائن نے جا کر عرض کی ایک نابینا لڑکی بیعت کرنے کو آئی ہے ۔ حضور اندر سے تشریف لائے اور فرمایا کہ نماز ظہر کے بعد بیعت لیں گے ۔میں گھر چلی گئی جب ظہر کے بعد آئی تو حضورؑ نے فرمایا کہ عصر کے بعد۔میں وہیں بیٹھی رہی ۔عصر کے بعد جب میں نے عرض کی تو حضورؑ نے فرمایا کہ شام کو۔شام کو حضور ؑ نے ام ناصر احمد سلمھا اللہ کے مکان کے آنگن میں نماز مغرب وعشاء جمع کراکر پڑھائیں ۔حضور ؑ اور حضرت اماں جان نے پلنگ پر بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم سب عورتوں نے پیچھے شاہ نشین پر۔ مائی سلطانوں نے کہا کہ حضورؑ وہ لڑکی بیعت کرنے کو کھڑی ہے۔حضورؑ نے فرمایا کہ صبح کو۔صبح جب آئی تو حضورؑ سیر کو تشریف لے گئے تھے ۔حضورؑ واپس آئے تو پھر منشیانی نے کہا کہ حضورؑ وہ لڑکی پھر بیعت کرنے آئی ہوئی ہے ۔آپ نے فرمایا کہ ’’اس کو کھانا کھلا دیا ہے یا نہیں ؟‘‘ آپ نے سلطانوں کو بلا کر فرمایا کہ ’’ اس کوکھانا کھلادو۔‘‘ اس نے مجھے کھانا کھلادیا ۔کھانے کے بعد جب پوچھا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ظہر کے بعد ،ظہر کے بعد فرمایا کہ ’’عصر کے بعد‘‘عصر کے بعد پوچھا تو فرمایا کہ صبح کو ۔میں گھر چلی گئی ۔
صبح دس بجے جب آئی تو حضورؑ دروازے میں کھڑے حافظ احمد اللہ صاحب کی لڑکی کلثوم کو بلا رہے تھے ’’کلثوم! کلثوم!!‘‘ جب وہ آئی تو اس کو انگور دئے پھر اس کو کہا کہ ’’ز ینب (یعنی اس کی بڑی بہن) کہاں ہے ؟‘‘ اس کو بلا کر بھی انگور دئے پھر مجھے بھی انگور دئے ۔کلثوم نے کہا کہ یہ بیعت کرنے کوآئی ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’ظہر کے بعد ۔‘‘ میں وہیں بیٹھی رہی ۔ظہر کے بعد فرمایا کہ ’’لڑکی تیری بیعت ہوچکی ‘‘ اس طرح تیسرے دن میری بیعت قبول ہوئی تھی۔
{1427} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کشمیر سے بہت سے سیب آئے ۔حضورؑ نے فرمایا کہ سب گھروں میں تقسیم کردو۔ آٹھ آٹھ نو نو سیب گھروںمیں بانٹے گئے تھے۔ سیب بڑے بڑے اور بہت اچھے تھے۔ گھر میں سیبوں کا مربہ تھا وہ کچھ خراب ہو گیا تھا۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اس کو پھینک دو‘‘ بعض عورتوں نے عرض کی کہ یہ مربہ ان کو دے دیا جائے مگر آپ نے فرمایا کہ ’’ نہیں لوگ کھا کر بیمار ہوجائیں گے ۔‘‘ عورتوں نے کہا کہ اوپر سے پھینک دیتے ہیں ۔ نیچے والا اچھا ہوگا اس کو پھر پکا لیں گے ۔چنانچہ نیچے والا جو اچھا نکلا تھا اس کو پکا کر کچھ رکھ لیا تھا کچھ بانٹ دیاتھا۔‘‘
{1428} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں قادیان میں تھی اور حضرت ڈاکٹر صاحب لاہور گئے ہوئے تھے۔ ان دنوں میرے بھائی مظہر علی صاحب طالب جو ایسٹ افریقہ میں پوسٹ ماسٹر تھے انہوںنے واپس آنے کے واسطے رخصت لی تھی ۔ہم ان کے انتظار میں رہا کرتے تھے ان کی ڈاک بھی آنے لگ گئی تھی۔ابھی ہمیں معلوم نہ تھا کہ ان کا ارادہ وطن آنے کا سردست ملتوی ہو گیا ہے اب وہ اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر علی اظہر صاحب کے ساتھ ہی کچھ عرصہ تک آئیں گے کہ اچانک اطلاع ملی کہ وہ وہیں فوت ہوگئے ہیں اس پر ہمیں بہت صدمہ ہوا اور خصوصاً میری والدہ مکرمہ بوبوجی نے بہت غم کیا ۔ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور بہت تسلی دی اور سمجھایا کہ ’’جو اولاد پہلے فوت ہوجاتی ہے اپنے والدین کی بخشش کا موجب ہوتی ہے ۔اللہ کریم اس کی محبت بھری سفارش کو جو والدین کے لئے ہوتی ہے قبول فرما کر ان کو بھی بخش دیتا ہے ۔‘‘
{1429} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی رکھی صاحبہ ککے زئی فیض اللہ چک خادمہ والدہ نذیر نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مائی راجی جو لاہی جو پہلے زمانہ میں روٹیاں پکایا کرتی تھی ۔ اس نے ہم کو سنایا تھا کہ اکثر جب میں روٹیاں پکایا کرتی(تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی چھوٹے ہی تھے) آپؑ کھدر کے دوپٹہ میں روٹیاں رکھ کر گٹھڑی کندھے پر اٹھا کر باہر بھاگ جاتے جب میںمنع کرتی اور پوچھتی کہ ’’میاں ! کیا کررہے ہو؟‘‘توفرماتے کہ’’میں کوئی برا کام کررہاہوں؟ ‘‘ جب میں آپؑ کی والدہ کو پکارتی کہ دیکھو آپ کا بیٹا کیا کررہاہے ؟ اور وہ آکر پوچھیں تو کہتے کہ ’’باہر میرے ہم جولی ہیں ان کو روٹیاں نہ کھلاؤں ؟‘‘
{1430} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی کاکو صاحبہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہم آٹھ عورتیں بیعت کرنے کو آئیں ۔میری ممانیاں اور میری بھاوجیں۔ باہر سے ایک لڑکا آیا کہ ایک آدمی کا کھانا دے دو ۔حضور علیہ السلام واماں جان سامنے بیٹھے تھے وہ لڑکاکھڑا رہ کر چلا گیا ۔کھانا پکانے والی نے کچھ پرواہ نہ کی ۔ حضرت اماں جان نے کھانا پکانے والی کو کہا ’’تم نے کیوں اس کوکھانا نہیںدیا؟‘‘ اور کہا کہ ’’ جب کوئی سفید کپڑے والا آتا ہے تو تم اس کوکھانا کھلاتی ہو مگر میلے کپڑے والے کی پرواہ نہیں کرتی ۔‘‘ اماں جان نے اس کو نکال دیا۔
{1431} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی صاحبہ والدہ خواجہ علی صاحب نسبتی بہن حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں قادیان میں آئی تھی میرا بیٹا خواجہ علی اس وقت چھ یا سات سال کا تھا ۔اس کا باپ جو غیر احمدی تھا اس نے اور شادی کر لی تھی ۔جب میں حضرت صاحب کے گھر جاتی تو اُمّ المومنین فرماتیں کہ ’’یہ لڑکا باپ کے جیتے ہی یتیم ہے اس کو کچھ دو۔‘‘ اُمّ المومنین اس کو عموماً مٹھائی وغیرہ دیا کرتی تھیں۔
{1432} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔رسول بی بی صاحبہ والدہ خواجہ علی صاحب نسبتی بہن حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے۔ میں بھی معہ اس بچہ (یعنی خوا جہ علی صاحب) کے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور ان کے اہل وعیال کے ساتھ ہم رکاب تھی۔حضور علیہ السلام کی گاڑی پر لوگوں نے اینٹیں پھینکی تھیں ۔میرا خاوند پنواٹا میں ملازم تھا۔حضورؑ نے مجھے میرے خاوند کے پاس بھیج دیا ،فرمایا کہ’’ تم لڑکا لے کر اپنے خاوند کے پاس چلی جاؤ۔ ہم ابھی سیالکوٹ میں بیس دن ٹھہر یں گے ۔‘‘ فرمایا تھا کہ اگر تمہارا خاوند تم کو دِق کرے تو چلی آنا۔ ایک عورت جو کشمیری تھی میرے ساتھ بھیجی تھی۔ شام کو جب میں گھر پہنچی تو میرے خاوند نے کہا کہ مرزا کی بیعت چھوڑدے اور بدکلامی بھی کی ۔ میں نے کہا کہ ’’مجھے جوکچھ کہنا ہے بیشک کہو مگر ہمارے حضرت ؑ کو گالیاں نہ دو۔میں نہیں سن سکتی ۔اس پر اس نے مجھے مارا اور کہا کہ ’’مرزے کے اوپر کیوں چڑتی ہے۔ اگر بیعت نہیں چھوڑے گی تو میرے گھر سے نکل جا۔ میں نے کہا ’’بیعت نہیں چھوڑوں گی ۔‘‘ رات بھر لڑتے ہوئے گزری ۔ صبح کوبھوکی پیاسی لڑکے اور اس عورت کو ساتھ لے کر واپس سیالکوٹ آگئی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ایسا ظالم ہے اس کو بچے پر بھی ترس نہ آیا ۔اچھااس نے اپنے بچہ کو دھکے دئے ہیں۔ اب وہ کسی اور بچے کا منہ نہیں دیکھے گا۔‘‘انجام اس کا یہ ہوا کہ جو عورت اُس نے کی ہوئی تھی اس کی اولاد پچھلے خاوند سے ایک لڑکا ۲۵سال کااور ایک لڑکی تھی ۔لڑکے کا بیٹا بھی ایک تھا جو کہ پندرہ یوم کے اندر ہی سب مر گئے اور وہ خود بھی لاولد ہی مر گیاہے۔ میرا بیٹا خوا جہ علی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہربانی تھی بفضل خدا صاحب اولاد ہے ۔
{1433} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے اپنے خاوند رضی اللہ عنہ سے خفا ہو کر حضورؑکی خدمت میں ان کی شکایات کیں اور کہا کہ میں اب گھر میں نہیں جاؤں گی۔ وہ ایک دن شاید نہیں گئی تھی۔حضورؑ نے حافظ صاحب کو جو حضورؑ کے قدیمی خادم تھے طلب فرما کر سمجھایا تھا کہ ’’عورتیں کمزور ہوتی ہیں ۔مردوں کو چاہئے کہ نرمی اختیار کریں ۔میں ایسی سختی پسند نہیںکرتا۔‘‘ ان کو سمجھا کر ان کی بیوی کو گھر بھیج دیا تھا ۔ حافظ صاحب نے معافی بھی مانگی تھی۔
{1434} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضور علیہ السلام جہلم کے مقدمہ سے واپس آئے تو چارپائی پر بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کپڑے سے صاف کئے ۔فرمایا ’’تم کو معلوم ہے سلطان احمدڈپٹی ہوگیا ہے ہم کو خط لکھا تھا دعا کرو۔ ہم نے دعاکی وہ ڈپٹی ہوگیا ہے ‘‘
{1435} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ہم سب بھائی (یعنی خاکسار وبرادران میاں جمال الدین مرحوم و میاںامام الدین صاحب ) مسائل فقہی کی بنا پر گاہے بگاہے بدیں طریق تجارت کرتے تھے کہ غَلّہ خرید کر ضرورت کے موقع پر غرباء کو کسی قدر گراں نرخ پر بطور قرض دے دیتے اور فصل آئندہ پر وصولی قرضہ کر لیتے تھے۔جب حضورعلیہ السلام کا دعویٰ ظاہر ہوگیا تواس وقت بھی ایک دفعہ غَلّہ خرید کیاگیا کہ غرباء کو دستورِ سابق دیا جائے ۔جب میں قادیان گیا تو مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کرلوں ۔چنانچہ حضور ؑ کی خدمت میں سوال مفصل طور پر پیش کردیا۔ حضور علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ ’’ تمہیں ایسے کاموں کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ جس لہجہ سے حضورؑ نے جواب دیا وہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ جس سے ثابت ہو ا کہ حضور علیہ السلام کو ایسے کام بہت ناپسند ہیں ۔ پس واپس آکر ہم نے ارادہ ترک کردیااور بعد ازاں پھر کبھی یہ کام نہ کیا۔
{1436} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک بار صاحبزادہ مبارک احمد کچھ بیمار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مکڑی کا گھر ہوناچاہئے ۔‘‘ میں نے کہا حضورؑ! میں لاتی ہوں۔میں اپنے گھر سے چار پانچ مکڑی کے گھرصاف کر کے لائی ۔حضورؑ نے لے کر دوائی بنائی ۔‘‘
{1437} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی کاکو صاحبہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کہ ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ہمارے گاؤں سیکھواں سے کچھ عورتیںآئیں جن میںمنشی عبد العزیز پٹواری کی بیوی بھی تھی جو ایک ٹوکری میں تازہ جلیبیاں لائی ۔حضور علیہ السلام پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے ۔ایک خادمہ پاؤں دبارہی تھی۔ جلیبیوں کا رنگ بہت خوش نما تھا ۔ٹوکری لا کر اس نے حضورؑ کے سرہانے کی طرف پلنگ پر رکھ دی ۔حضورؑ نے ایک جلیبی اٹھا کر کھائی ۔ پیر دبانے والی خادمہ نے کہا کہ حضورؑ یہ جلیبیاں ہندوؤں کے ہاتھ کی بنی ہوتی ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ ’’ترکاریاں جو ہم روز کھاتے ہیں یہ گوبر کی کھاد کی بنی ہوئی ہیں ۔ دھودھا کر ہمارے آگے رکھ دیتے ہیں ہم کھالیتے ہیں‘‘ ۔
{1438} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مسماۃ غفور بیگم صاحبہ بنت حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی ہمشیرہ پیر منظور محمد صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میںقادیا ن میں اپنے بھائی کے ہاں آئی ہوئی تھی۔ ہم سب رات کو حضرت اماں جان کے پاس آئیں ۔ایک بڑے دالان میںہم سب بیٹھی ہوئی تھیں ،اماں جان بھی تھیں۔ حضورؑ کا چھوٹابچہ( مجھے یاد نہیں کہ کون سا صاحبزادہ تھا؟) رونے لگا ۔حضور علیہ السلام جو اُم ناصرکے آنگن میں دروازہ تھا اس میں سے باہرتشریف لے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضورؑ نے کھڑکی میں سر اندر کر کے دریافت کیا کہ ’’ کیا بچہ چپ ہو گیا ہے ؟‘‘ تومعلوم ہوا کہ چپ کر گیا ہے توحضور علیہ السلام اندر تشریف لائے۔
{1439} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مائی کاکو صاحبہ نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارے زمانہ میں جو بھی کوئی عورت آتی حضورؑ کو سلام کرتی ۔حضور علیہ السلام وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کے بعد فرماتے کیا خد اکو جانتی ہو؟ رسول کو جانتی ہو؟ نماز پڑھتی ہو؟قرآن پڑھتی ہو؟ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھا کرو تاکہ تم کو سمجھ آجائے اس میں کیا حکم ہے؟
{1440} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ آپؑ کو سردی بہت لگا کرتی تھی۔ آپؑ اپنی پگڑی کوکمر سے باندھ لیا کرتے تھے۔ جب آپؑ اندر نہ بیٹھ سکتے تھے تو حضرت اُمّ المومنین کو فرماتے کہ’’ میں اندرنہیں بیٹھ سکتا باہر چلو۔‘‘ آپؑ اُمّ المومنین سے الگ نہیں بیٹھا کرتے تھے۔اکثر ایسا ہوتا کہ آپؑ کو الہام ہورہاہوتا اور حضرت بیوی صاحبہ آپ کے پاس ہوتیں۔ آپ کو ان سے بہت انس ومحبت تھی۔ایک دن حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا کہ ’’دنیا میں رشتے تو بہت ہوتے ہیں مگر میاں بیوی کا رشتہ سب سے بڑا ہے ۔ میرادل چاہتا ہے ۔ میں آپ کے ساتھ مروں۔
{1441} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایام مقدمات کرم دین میں حضور علیہ السلام کئی کئی روز تک گورداسپور میں ہی رہتے تھے کیونکہ روزانہ پیشی ہوتی تھی۔ایک مکان تحصیل کے سامنے جو تالاب ہے ۔اس کے جنوب میں کرایہ پر لیا گیا تھا۔ ایک روز حضورؑ مکان کے اوپر کے حصہ میں تھے۔ نیچے والے حصہ میں ایک شخص قرآن کریم تکلف کے لہجہ میں پڑھ رہا تھا، سن کر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ آواز کو ہی سنوارتا رہتا ہے ۔‘‘ گویا تکلف سے قرآن کریم پڑھنے کو ناپسندفرمایا۔
{1442} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس سال عید قربان پر عربی زبان میں خطبہ مسجد اقصیٰ میں پڑھا ۔حضورؑ نے قبل از قرا ء ت خطبہ حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ ( خلیفہ اوّل) اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ کو تاکیداً فرمایا۔ ’’خطبہ کو ساتھ ساتھ لکھتے جانا کیونکہ جو کچھ اس وقت میں کہوں گا اس کے لکھنے میں غلطی رہ گئی تو بعدمیں مَیں بتا نہ سکوں گا۔چنانچہ جس وقت حضورؑ نے خطبہ شروع کیا تو ہر دو مولوی صاحبان لکھتے جاتے تھے پہلے حضورؑ نے کچھ حصہ خطبہ کا کھڑے کھڑے پڑھا اور بعد میں کرسی لائی گئی جس پر بیٹھ کر خطبہ کو ختم کیا۔دوران خطبہ میں الفاظ کی روانی کا یہ حال تھا کہ ہردومولوی صاحبان موصوف باوجود تحریری وعلمی قابلیت کے پیچھے رہے جاتے تھے حتیّٰ کہ بعض دفعہ فرمایا کہ’’جلدی کرو۔جلدی کرو‘‘ اور اس وقت حضور علیہ السلام پر ایک عجیب محویت کا عالم تھا کہ آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور چہرہ مبارک پُرنُور برستا ہوا معلوم ہوتا تھا اور بلا کسی قسم کی روک ٹوک کے عربی عبارت مسلسل اورمقفّیٰ پڑھتے جارہے تھے گویایوں معلوم ہوتا تھا کہ آگے کتاب رکھی ہوئی ہے یاجیسے کوئی حافظ قرآن پڑھتا جارہاہے۔ غالباً دو تین گھنٹہ تک مضمون خطبہ جاری رہا ہوگا۔ بعد میں مَیں نے سنا تھا کہ کسی صاحب کے سوال پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’میری آنکھوں کے سامنے سلسلہ وار مضمون لکھا ہوا گزرتا جاتاتھا اور میں پڑھتا جاتا تھا۔‘‘
{1443} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بی بی زینب نے عرض کی کہ میرے ماموں فوت ہوگئے ہیں اور وہ احمدی نہ تھے ۔ان کا ایک لڑکا ہے دعا کریں کہ احمدی ہوجائے ۔ آپ نے پوچھا کہ ’’اس کا نام کیا ہے ؟‘‘میںنے بتایا کہ ’’اس کا نام غلام محمد ہے۔‘‘ حضورؑ نے لکھ لیا۔ آپ نے دعا فرمائی اور وہ احمدی ہوگیا ۔ الحمد للّٰہ علی ذالک ـ
{1444} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ جب بڑی سخت طاعون پڑی تھی تو حضورؑ نے حکم دیا تھا کہ لوگ صدقہ کریں ۔ چنانچہ لوگوں نے صدقے کئے اور حضورعلیہ السلام نے بھی کئی جانور صدقہ کئے تھے۔ گوشت اس قدر ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے والا نہیں ملتا تھا۔
انہی دنوں میں ماسٹر محمد دین صاحب جو آج کل ہیڈ ماسٹر ہیں ان کو طاعون ہو گئی تھی۔ ان کے واسطے حضور علیہ السلام نے کیمپ لگوادیا تھا۔ تیمارداری کے واسطے ڈاکٹر گوہر دین صاحب کو مقرر فرمایا تھا اور گھر میں ہم سب کو حکم دیا تھا کہ’’دعا کرو،خدا ان کو صحت دیوے۔ چنانچہ ان کو صحت ہوگئی تھی۔‘‘
{1445} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اصغری بیگم صاحبہ بنت اکبر خان صاحب مرحوم دربان زوجہ مدد خان صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دن میں اکیلی بیٹھی تھی۔ بادل گھرا ہو اتھا اور ترشح ہورہاتھا۔حضورؑ نے پوچھا کہ ’’تمہارا بچہ کہاں ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور خادمہ اپنے گھر لے گئی ہے ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اور تونے اس کو گھر لے جانے کی اجازت کیوں دی ؟ یہ لوگ گھر جا کر خود اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور بچوں کو زمین پر چھوڑ دیتے ہیں وہ بارش میں بھیگ رہاہوگا۔‘‘ حضور علیہ السلام نے ایک اور خادمہ سے فرمایا کہ ’’ جلدی جاکر اس کے بچہ کو لے آ۔‘‘ چنانچہ جب وہ عورت گئی تو دیکھا کہ وہ خود چکی پیس رہی تھی اور بچہ کو باہر زمین پر بارش میں بٹھایا ہوا تھا۔وہ خادمہ بھیگتے ہوئے بچہ کو اٹھا لائی تو ہم لوگ حیران ہوئے کہ جس طرح حضورؑ نے فرمایا تھا کہ بچہ بارش میں بھیگ رہاہوگا۔ ویسا ہی ظہور میں آیا۔
{1446} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اُم ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضورؑ سے عرض کرتی حضورؑ اس کو مہیا کردیتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔
میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن مَیں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضورؑ کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضورؑ بھوک لگی ہے ۔حضورؑ کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے۔ حضورؑ چابی دے دیتے ۔مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتے ،ہم کھانے والی دونوں ہوتیں تھیں مگر ہم تین یاچار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضورؑ کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کروگی۔
{1447} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جو الہام ہے کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ اس کی ایک قرأت یہ بھی ہے کہ ’’دنیا میں ایک نبی آیا‘‘ (یعنی بجائے ’’نذیر ‘‘ نبی کا لفظ الہام میں ہے )۔
{1448} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص نے سوال کیا کہ جبکہ اعمال محدود ہیں تو نجات ابدی کیونکر ہے؟ فرمایا کہ موت بندہ کے اپنے اختیار کی چیز نہیں ہے اگر وہ ہمیشہ زندہ رہتا تو اعمال کرتا رہتا لیکن خدا نے اس کو موت دے دی ۔ یہ اختیار سے باہر ہے لہذا نجات ابدی ہے ۔‘‘
{1449} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’نبی جب مجلس میں بیٹھتا ہے توگویا دکانِ عَطاّری کھولتا ہے ہر ایک کو (یعنی روحانی مریضوں کو) مناسب حال نسخہ جات بتاتا ہے۔‘‘
{1450} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ ’’طاعون کم سردی میں شروع ہوتی ہے اور جب طاعون کے آثار دیکھنا تو باہر چلی جانا۔‘‘ میں نے عرض کی کہ حضورعلیہ السلام میرے پاس باہر رہنے کاسامان نہیں ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’موٹے موٹے گدیلے بنا کر چلی جانا ۔‘‘ جب طاعون شروع ہوگئی تو میں ڈرتی تھی کہ حضورؑ نے فرمایا تھا کہ ’’باہر چلے جائیں ‘‘ لیکن میرے خاوند نے کہا کہ چونکہ ہمارے باہر جانے سے مسجد ویران ہو جائے گی اس لئے ہم نہیںجاتے ۔ تو خداتعالیٰ نے حضرت صاحب کی معرفت میرے خاوند کو کچھ بتلادیا اس لئے ہم باہر نہ گئے ۔
{1451} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب زمیندار کھاریاں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت نانی جان صاحبہؓ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے اور حضرت ناناجان صاحبؓ کے لئے حضور علیہ السلام سے دعا کرایا کرتی تھیں نیز مولوی محمد علی صاحب جواَب پیغامی ہیں ان کی بیوی جن کا نام ’’فاطمہ‘‘ تھا اپنے اور اپنی بیٹی رقیہ کے لئے دعا کرایا کرتی تھی۔ مولوی فضل الدین صاحب بھی دعا کرایا کرتے تھے جو میرے شوہر ہیں ۔ جب وہ حضرت صاحب سے خاص محبت میں رخصت مانگا کرتے تھے تو حضورؑ اجازت نہ دیا کرتے تھے ایک بار جس دن ہم نے جانا تھا تو حضور علیہ السلام کو ایک الہام ہوا کہ جو کہ خطرناک تھا۔ حضورؑ نے مجھے رقعہ لکھ کر دیا کہ مولوی صاحب کو دے آؤ۔ میں نے رقعہ پہنچا دیا اور مولوی صاحب سے کہا کہ مجھے بھی ایک رقعہ لکھ دو میںنے حضورؑ کو دعا کے لئے دینا ہے ۔ انہوں نے لکھ دیا۔میں لے کر چلی گئی اور پوچھا۔حضور اس رقعہ کو الماری میں لگا دوں ؟ حضورؑ نے فرمایا ۔ ’’ہاں ! وہاں پر میرا بہت کام رہتا ہے ۔‘‘ اور میں حکم کی تعمیل کر کے چلی گئی۔
{1452} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت ام ناصر صاحبہ حرم اول حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے جب پہلا بچہ نصیر احمد پیدا ہونے والا تھا میری طبیعت خراب تھی۔ مجھے دورہ ہوگیا ۔ میں اس وقت بیت الدعا میں تھی۔خادمہ مجھے دبا رہی تھی ۔حضور علیہ السلام بار بار دریافت فرماتے تھے کہ ’’ کیا حال ہے ؟‘‘ حضورؑ نے مجھے دوا بھی بھیجی تھی۔ حضرت خلیفہ ثانی اس وقت گھر میں نہیں تھے ۔جب آئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ محمود تم کو معلوم نہیںکہ محمودہ بیمار ہے؟ جاؤ دیکھو اور مولوی صاحب ( حکیم الامت ) کو بلا کر علاج کراؤ‘‘ حضرت میاں صاحب پہلے میرے پاس آئے ،حال پوچھا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا کر علاج کرایا۔‘‘
{1453} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔حضرت اُم ناصر صاحبہ حرم اوّل حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز وبنت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ جب بڑا زلزلہ آیا صبح کا وقت تھا ۔یکایک شور وغل کی آوازیں آئیں اور جھٹکے شروع ہوگئے ۔ہم اس وقت گھر میں وہ کمرہ جو کوئیںکے اوپر تھا اور اب گرا دیا گیا ہو اہے ،اس میں تھے ۔نو کریں باہر سے دروازہ کھٹکھٹا تیں کہ دروازہ کھول کر باہر نکلو۔ حضرت خلیفہ الثانی رضی اللہ تعالیٰ چارپائی پر چڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش فرماتے مگر جھٹکوں کے باعث کھول نہیں سکتے تھے ۔کنڈی کُنڈے سے کچھ ہی پیچھے ہٹاتے تھے کہ زلزلہ کے جھٹکے سے ہاتھ چھوٹ جاتا اور حلقہ پیچھے ہٹ جاتا ۔کئی بار ایسا ہوا ۔بمشکل کنڈی کھولی ۔ سردی بھی لگ رہی تھی۔ میںنے پردہ کے واسطے چادر اٹھانی چاہی مگر میاں صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے جلدی سے باہر کھینچ لیا ۔وہاں آنگن کی کنڈی بند تھی اسے بمشکل کھولا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور سب خدا کے حضور سجدہ میں گرے پڑے تھے ۔میں نے چونکہ نماز نہیں پڑھنی تھی میں کھڑی رہی ۔ حضرت میاں صاحب نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر سجدہ میں گرادیا۔
{1454} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال لاہور میںہو اہے توڈاکٹر صاحب خلیفہ رشید الدین صاحب ایک سال کی رخصت پر قادیان آئے ہوئے تھے۔ آپ نے بہت خواہش کی کہ حضورؑ ان کو بھی اپنے ہمرکاب لاہور جانے کی اجازت مرحمت فرمائی جاوے۔ مگر حضورؑ نے فرمایا کہ ’’تم یہاں گھر کی حفاظت کرو۔بابو شاہ دین صاحب بیمار تھے ان کاعلاج معالجہ بھی کرتے رہو۔اور کہ اپنے آدمی کا پیچھے گھر میں ہونا ضروری ہے ۔ روزانہ خبر بھیجتے رہا کرو۔‘‘ اور اپنے حجرہ میں ڈاکٹر صاحب کو اور مجھے رہنے کا حکم فرمایا ۔ میری والدہ اور بھاوجہ اس جگہ تھے جہاں اب ام ناصر احمد سلمہ ہیں ۔جب حضورؑ کو لاہور میں تکلیف تھی اور جب تک حضورؑ کے وصال کی خبر وصال کے دن عصر کے وقت تک نہ آئی تھی۔ مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو ایسی پریشانی تھی کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ دل بیٹھا جاتا تھااور دماغ چکر اتا تھا۔کسی پہلو قرار نہ تھا ۔جب خبر پہنچی تو حالت دگرگوں ہو گئی اور معلوم ہو اکہ پہلا قلق اس ناشدنی خبر کا پیش خیمہ تھا۔
{1455} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام مسجد مبارک میں سورۃ الحمد شریف کے مضامین کے متعلق ذکر فرما رہے تھے اسی ضمن میں فرمایا کہ ’’ایمان بین الخوف والرجا ہے اور سورۃ الحمد شریف میں الرَّحْمٰان اور الرَّحِیْم فرما کر ساتھ ہی مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن فرمایا۔ اس سے ثابت ہے کہ اگر ایک طرف رَحْمٰن ورَحِیْم ہے تو دوسری طرف مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن بھی ہے ۔ کیسا دونو ں فقروں میں خوف ورجا کو نبھایا ہے ۔‘‘
{1456} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے کنجری کے مال کے متعلق فرمایا کہ’’دینی جہاد میں خرچ کر لیا جائے۔ کیونکہ جب دشمن اسلام پر حملے کررہاہواور اہل اسلام کے پاس گولہ بارود (کے لئے)کنجری کے مال کے سوا نہ ہو ۔ تو کیا دیکھتے رہنا چاہئے کہ یہ کنجری کا مال ہے، ہم استعمال نہیں کرتے۔ ہر چیز خد ا کی مملوک ہے ،خد امالک ہے ۔اس کی طرف جا کر پاک ہوجاتی ہے ۔‘‘
{1457} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاںخیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سُندر سنگھ صاحب ساکن دھر مکوٹ بگہ تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہوگئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا ۔ ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی ۔سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوجائے ۔ ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے ،اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں آباد رہے ،اسلام میں جائز ہے ۔‘‘ کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی۔ آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہوگئی جس سے اولاد ہوئی۔
{1458} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ٹوپی سلمہ ستارہ کی بڑی خوبصورت بنی ہوئی تھی۔ میاں شریف احمد صاحب اس وقت چھوٹے بچہ تھے وہ اس ٹوپی کو ٹھوکریں مارتے اور پاؤں میں دباکر دوسرے ہاتھ سے کھینچتے تھے ۔ہم عورتوںنے منع کیا مگر نہ مانے ۔حضرت اماں جان کے منع کرنے پر بھی نہ رُکے ۔حضرت اماں جان نے حضورؑ سے عرض کی کہ ’’شریف ٹوپی خراب کررہاہے ۔‘‘ حضور ؑنے باہر آکر دیکھا اور فرمایا کہ ’’ کیا ہو ا بچہ تو ہے میں نے بھی جب میں چھوٹا تھا ایک خوبصورت کرتہ جو نینوں کا تھا پھاڑ دیاتھا ۔‘‘ ’’ بچہ جو ہوا‘‘ چند مرتبہ فرمایا تھا ۔اس پر میاں شریف احمد صاحب ٹوپی چھوڑ کر چلے گئے ۔
{1459} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ کسی نے تین ترکی ٹوپیاں بھیجیں ۔حضور علیہ السلام نے تینوں بچوں کو بلوا کر تینوں ٹوپیاں حضرت میاں محمود احمدصاحب ،میاں بشیر احمد صاحب ومیاں شریف احمد صاحب سلّمھم کے سروں پر رکھ دیں اور اپنے کام میں مشغول ہو گئے ۔آپؑ نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ آیا ٹوپیاں ٹھیک ہیں یا کیسی ہیں ؟
{1460} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے قبول ہونے والی دعا کے متعلق فرمایا کہ دعا کیا ہے کہ جیسے مرگی کی حالت یکایک وارد ہوتی ہے اسی طرح دعا کی حالت انسان پر وارد ہوتی ہے‘‘ ۔
{1461} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے رو زمسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہو ئے بار ہا دیکھا ہے ۔ عام طور پر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے ۔
{1462} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی مجلس میں ’’ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ‘‘ پر ذکر ہوا ۔فرمایا کہ ’’حضور قلب یہی ہے کہ جب اذان ہو مسجد میں چلا جاوے ۔آگے نمازمیں توجہ قائم ہو یا نہ ہو ۔یہ اللہ تعالیٰ کے اختیار کی بات ہے ۔بندہ کا کام ہے کہ وقت پر حاضر ہو جائے ۔‘‘
{1463} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بڑے زلزلہ کے بعد جب میں آگرہ سے آئی تھی تو خادمہ اصغری کی والدہ اور دوسری عورتوں نے مجھے بتایا تھا کہ حضور مسیح موعود علیہ السلام میاں محمود یعنی خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تعریف فرماتے تھے کہ ’’اس نے ایسے گھبراہٹ اور خطرناک وقت پر جوزلزلہ کے خوف سے پیدا ہو گیا تھا اپنی بیوی کو سنبھالے رکھا اور اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا ۔ایسے نازک وقت پر عورتیں بسا اوقات اپنے بچوں کو بھی بھول جاتی ہیں ۔‘‘
{1464} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب قادیا ن میں پہلی مرتبہ اینٹوں کا بھٹہ جاری ہوا تھا تو حضرت اقدس اُمّ المومنین اور دوسری بعض عورتوں کو اپنے ہمراہ سیر پر لے گئے تھے اور بھٹہ جس میں اینٹیں پک رہی تھیں دکھایا تھا۔ حضور ؑ نے بتایا اور سمجھایا تھاکہ کس طرح اس میں کہاں اینٹیں رکھی جاتی ہیں ۔ کیونکر آگ دی جاتی ہے ؟ اور کس طرح پختہ کر کے پکائی جاتی ہیں ؟ تمام باتیں بتائیں اور سمجھائی تھیں ۔
{1465} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب اخبار میں یہ چھپا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کشف میں دیکھا کہ فرشتے کالے کالے درخت لگا رہے ہیں تو حضورؑ نے اس سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت لگا رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں ۔طاعون بہت پڑے گی ۔قادیان کو اور شہروں کی نسبت محفوظ رکھا جاوے گا۔ میرے والد صاحب نے میری والدہ صاحبہ کو کہا کہ تم قادیان چلی جاؤ ۔میرا بھائی قادیان میں پڑھتا تھا اور رشتہ دار بھی قادیان میں تھے۔ ہم قادیان چلے آئے ۔ جب میری ماں اور دوسری بہنیں بھی آنے لگیں تو میں بھی تیار ہوئی مگر میری بڑی بہن نے کہا کہ یہ کنواری لڑکی ہے یہ نہ جاوے کیونکہ ہمارے ہاں دستور تھا کہ کنواری لڑکی باہر نہیں بھیجتے تھے ۔میں بہت روئی اور ضد کی آخر وہ راضی ہو گئے اور ہم سب روانہ ہو پڑے۔ میری ماں گھوڑی پر سوار تھی اور ہم پیدل تھے۔ میرے پاؤں سوج گئے ۔ جب ہم سرکاری سکول کے پاس ریتی چھلہ پہنچے تو سانس لینے کے واسطے تھک کر بیٹھ گئے ۔حضور اس وقت سیر کو تشریف لے جارہے تھے۔ وہاں سے گزرے ۔جب ہم حضورؑ کے دَرِ دَولت پر پہنچے تو اماں جان نے فرمایا کہ حضورؑ سیر کو تشریف لے گئے ہیں ۔مجھے حضورؑ کی زیارت کا سخت اشتیاق تھا۔ حضور علیہ السلام تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ چہرہ مبارک بہت نورانی تھا ۔حضورؑ نے دریافت کیا کہ’’ تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ عرض کیا کہ حضور ! مکیریاں سے آئے ہیں ۔سبحان پور تیرا ضلع کانگڑہ کے وزیر الدین ہیڈ ماسٹر صاحب کی ہم بیٹیاں ہیں اور یہ ہماری والدہ صاحبہ ہیں ۔ حضور ؑ نے دریافت فرمایا کہ ’’کھانا کھا لیا ہے ؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’ حضورکھا لیا ہے ۔‘‘ آپؑ اندر تشریف لے گئے ۔ ہم نے ڈاکٹرنی صاحبہ سے پوچھا کہ بیعت کیسے لیتے ہیں ؟ ڈاکٹرنی صاحبہ نے کہا کہ جس طرح حضورؑ فرماتے جاویں گے تم بھی کہتی جانا کوئی محنت نہیں کرنی پڑے گی ۔ اماں جان نے حضورؑ کو کہا کہ ’’ یہ بیعت کرنے آئی ہیں ۔‘‘ حضورعلیہ السلام دالان میں کرسی پر بیٹھ گئے ۔حضورؑ نے ہم سے بیعت لینی شروع کی ۔ہم شرم کے مارے آواز نہیں نکال سکتی تھیں ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اتنی آواز نکالو کہ میں سن سکوں۔‘‘ پھر ہم نے کچھ اونچی آواز کی۔جب ہم واپس جانے لگے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ تمہارے پیر سوجے ہوئے ہیں تم آج نہ جاؤ،آرام ہو گا تو چلی جانا ۔‘‘
{1466} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے والد صاحب رخصت لے کر آئے تھے تو حضورؑ نے فرمایا تھا کہ ’’ اور زلزلہ آئے گا۔‘‘ یعنی ایک بڑ ازلزلہ جو کہ آچکا تھا اس کے بعد اور آنے والا ہے ۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ حضور فرماویں تو رخصت لے کر یا ملازمت چھوڑ کر چلا آؤں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ لگا ہوا روزگار نہیں چھوڑنا چاہئے ۔دعا کے واسطے بار بار یاد دلایا کرو ‘‘ آخر دسمبر تک میں ایک دفعہ حضورؑ کے دَرِ دَولت پر گئی تو اماں جان نے اصغری کی اماں سے چاول پکوائے ۔چاول خراب ہوگئے ۔ حضرت اماں جان اس پر خفا ہوئیں ۔ حضور علیہ السلام آواز سن کر باہر آگئے اور فرمایا کہ ’’ اس کو کچھ نہ کہو۔‘‘ اماں جان نے فرمایا کہ ’’ اس نے چاول خراب کر دئے ہیں ۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ چاول ہی خراب ہوں گے۔‘‘
{1467} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ حضور علیہ السلام کو زلزلہ ضلع کانگڑہ وغیرہ( جو۱۹۰۴ء میں غالباً آیا) کے متعلق جب یہ الہام ہوا کہ نَھْدِمُ مَایَعْمَرُوْنَ۔‘‘ اس پر حضور علیہ السلام نے ایک دن فرمایا کہ ’’ دھرم سالہ ضلع کانگڑہ میں اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر زلزلہ آئے گا اور جو عمارات بنا رہے ہیں گرادی جائیں گی ( رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا)
{1468} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہم اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک ہی مکان میں رہتے تھے ۔ ورانڈہ میں ہم نے دیوار کر لی تھی۔ میرے لڑکا پید اہو ا۔ حضور علیہ السلام نے اس کا نام ’’ عبد السلام ‘‘ رکھا تھا۔ میری نند امۃ الرحمن صاحبہ نے حضور اقدسؑ سے کہا کہ ’’ ہم اور مفتی صاحب ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ ان کے بچے کا نام بھی’’ عبد السلام ‘‘ ہے اور ہمارے کا نام بھی ’’عبد السلام ‘‘ ہے۔ حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ’’ پھر کیا ہوا وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے یہ اپنے باپ کا ہے۔‘‘
{1469} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ مجھے ماہواری تکلیف سے ہوا کرتی تھی۔ میں نے اس کا ذکر اپنی اماں سے نہ کیا بلکہ حضور علیہ السلام سے عرض کردیا کہ مجھ کو یہ تکلیف ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ ایسی باتیں اپنی والدہ سے کہو۔ مردوں سے نہ بیان کیا کرو۔‘‘ اس پر مجھے بعد میں شرمساری ہوئی ۔
{1470} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنین اور سب نے مل کر آم کھائے صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاں آگئیں ۔اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی۔ کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدس نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔
{1471} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ (حضرت مسیح موعود ؑ نے۔ ناقل)ایک دفعہ فرمایا کہ ’’ دعا نماز میں کرنی چاہئے رکوع میں ،سجدہ میں ، بعد تسبیحات مسنونہ اپنی زبان میں دعا مانگے۔ بعض لوگ نماز تو جلد ی جلدی پڑھ لیتے ہیں اور بعد نماز ہاتھ اٹھا کر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جب سامنے کھڑا ہو اس وقت مانگتا نہیں ۔جب باہر آجائے تو پھر دروازہ جا کھڑکانے لگے۔ نمازی نماز کے وقت خد اتعالیٰ کے حضور سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت تو جلدی جلدی نماز پڑھ لیتا ہے اور کوئی حاجت یا ضرورت خد اتعالیٰ کے حضور پیش نہیں کرتا لیکن جب نماز سے فارغ ہو کر حضوری سے باہر آجاتا ہے پھر مانگنا شروع کرے( یہ ایک قسم کی سوء ادبی ہوگی) اس کے یہ معنے نہیں کہ بغیر نماز دعا جائز نہیں صرف یہ مطلب ہے کہ نماز کے وقت خاص حضوری ہوتی ہے اس وقت ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ بہتر ہے کہ نماز کے اندر دعا کرے وہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے ۔
{1472} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ ’’ میں نے حضرت اماں جان صاحبہ سے سنا کہ ایک دفعہ شام کے وقت حضرت اُمّ المومنین صاحبہ اور مولویانی نے صلاح کی کہ حسن بی بی اہلیہ ملک غلام حسین صاحب کو ڈرائیں ۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام عشاء کی نماز کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے تو حضرت اُمّ المومنین نے حسن بی بی سے کہا کہ پانی پلاؤ جب وہ پانی لینے گئی تو مولویانی صاحبہ چارپائی کے نیچے چھپ گئی۔ وہ پانی لے کر آئی اور چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر پانی دینے لگی تو مولویانی صاحبہ نے نیچے سے اس کے پاؤں کی زور سے چٹکی لی ۔اس نے دو تین چیخیں ماریں اور زمین پر گر پڑی ۔ حضور علیہ السلام مسجد سے گھبرائے ہو ئے تشریف لائے اور استفسار فرمایا تو حضرت اماں جان اور سب چپ ہوگئیں ۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ ’’ میں نے کئی بار کہاہے کہ نماز کے وقت ایسی باتیں نہ کیا کرو۔‘‘ آپ علیہ السلام ہنستے بھی جاتے کیونکہ حضورؑ کو معلوم ہو گیا تھا کہ مذاق کیا گیا ہے ۔
{1473} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ اللہ دتہ و علی محمد چھینبے وغیرہ سکنائے سوہل تحصیل وضلع گورداسپور ابتدائے دعویٰ سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کے وقت اکثر معترض رہتے تھے اور ہر حرکت وسکون پر اعتراض کرتے رہتے تھے ۔ مینار( جو نزول گاہ مسیح موعودؑ ہے) پر بھی معترض تھے کہ’’ مینارکہاں ہے؟‘‘ جس پر حضرت مسیح کا نزول احادیث میں آیا ہے ایک روز حضرت صاحب ؑ کے حضور عرض کیا گیا کہ مولوی اللہ دتہ وغیرہ سوہلوی (چھینبے )مینار کے متعلق اعتراض کرتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جس وقت مینار بنے گا اس وقت یہ چھینبے کہاں ہوں گے ؟ ( یعنی ہلاک ہو چکے ہوں گے) چنانچہ ایسا ہی ہوا ایک طاعون سے ہلاک ہوا اور دوسرا علی محمد زندہ درگور کی حالت میں ہے ،کبھی کلام کرتا نہیں سنا گیا ۔
{1474} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیاکہ جب حضور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دائی فوت ہوئی تھیں تو حضورؑ نے افسوس کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ’’ آج ہماری دائی صاحبہ فوت ہوگئی ہیں ۔‘‘
{1475} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضورؑ نے ایک بزرگ کا ذکر کیا کہ وہ دعا کرتے اور جواب جناب الٰہی سے آتا کہ تمہاری دعا مردود ہے ،قابل قبول نہیں ۔ اتفاق سے ان کا ایک مرید ملنے کے لئے آگیا۔ جب حسب دستور انہوںنے دعا شروع کی تو جناب الٰہی سے وہی جواب ملا جو روز ملا کرتا تھا۔ آخر مرید نے بھی وہ جواب سن لیا تو اس نے اپنے پیر کی خدمت میں عرض کی کہ جبکہ یہی جواب آتا ہے کہ تمہاری دعا مردود ہے قابل قبول نہیں تو آپ دعا ترک کیوں نہیں کر دیتے؟ تو پیر نے جواباً فرمایا کہ تم دو تین رات میں ہی سن کر گھبرا گئے ۔میں تو قریباً۳۰سال سے یہی جواب سن رہا ہوں کہ’’ تمہاری دعا مردود ہے قابل قبول نہیں ہے۔‘‘ وہ بے نیاز ہے جوچاہے کرے اور میں بندہ ہوں ،اس کے سوا میرے لئے کوئی پناہ نہیں ہے۔ وہ اپنی بے نیازی کی وجہ سے میری دعا کو رد کرتا جائے ۔میں اپنی بندگی اور عبودیت کو اس کے حضور پیش کر کے مانگتا جاؤں گا جب تک کہ دم میں دم ہے ۔جب اس کا استقلال اس حد تک پہنچ گیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو بذریعہ الہام بتایا گیا کہ ’’تمہاری سب دعائیں مقبول ہیں ۔‘‘
{1476} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔اہلیہ محترمہ قاضی عبد الرحیم صاحب بھٹی قادیان نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت (قوم خانہ بدوش) آلے بھولے یعنی مٹی کے کھلونے بیچنے والی آئی اس نے آواز دی ۔’’ لَو نی آلے بھولے۔‘‘ گرمی کا موسم تھا ۔حضور علیہ السلام اور اماں جان ان دنوں دن کو مکان کے نیچے کے حصہ میں رہتے تھے ۔حضور ؑ کھانا کھا کر ٹہل رہے تھے کہ اس عورت نے آواز دی ۔ ’’لونی آلے بھولے۔‘‘ ابھی میں نے جواب نہیں دیا تھا کہ وہ پھر بولی کہ میں سخت بھوکی ہوں مجھے روٹی دو۔ صفیہ کی اماں جو حضور کی خادمہ تھی اس وقت کھانا کھلایا کرتی تھی۔ انہوں نے دو روٹیاں سلطانو کو دیں کہ ان پر دال ڈال کر اس کو دے دو۔ سلطانی مغلانی بھی حضور علیہ السلام کے گھر میں آنکھوں سے معذور اور غریب ہونے کی وجہ سے رہتی تھی ۔اس نے جب دال ڈال کر اس سائلہ کو دی تو اس عورت نے جلدی سے ٹوکرا زمین پر رکھ کر روٹی ہاتھ میں لی اور جلدی سے ہی ایک بڑا سا لقمہ توڑ کر اپنے منہ میں ڈالنے کے لئے منہ اوپر کیا اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اونچا کیا۔مکان کی پکی عمارت اس کو نظر آئی تو لقمہ اس کے ہاتھ میں تھا اور سخت بھوکی منہ اوپر کو کئے ہوئے اس نے پوچھا کہ ’’یہ کس کا گھر ہے کہیں عیسائیوں کا تو نہیں ۔‘‘ سلطانو نے کہا کہ ’’ تو کون ہے ؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ میں مسلمان امت رسول دی ۔‘‘ حضورؑ ٹہلتے ہوئے یہ بات سن کر کھڑے ہوگئے فرمایا’’ اس کو کہہ دو ۔یہی مسلمانوں کا گھر ہے۔‘ ‘ پھر تین بار فرمایا کہ ’’ اس کو کہدو کہ یہ خاص مسلمانوں کا گھر ہے ۔‘‘ پھر ایک روپیہ اپنی جیب سے نکال کر اس کو دیا اور اس کے اس فعل سے کہ باوجود سخت بھوک ہونے کے اس نے جب تک تحقیق نہیں کر لی کہ یہ خیرات مسلمانوں کی ہے اس کو نہیں کھایا ۔ آپ بہت خوش ہوئے ۔
{1477} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جلسہ (دھرم) مہوتسو لاہور کے موقعہ پر جب حضور علیہ السلام کا مضمون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ جو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ نے بمقام لاہور پڑھ کر سنایا تھا جس کی نسبت خد اتعالیٰ نے پہلے ہی خبر دے دی تھی کہ ’’ مضمون بالا رہا‘‘ اس وقت محویت سامعین کا یہ حال تھا کہ کوئی اگر کھانستا بھی تو سامعین گوارا نہ کرتے تھے ۔مضمون کیا تھا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ایک چمکتا ہو انشان تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مکذب کا مضمون اس مضمون سے ایک روز پہلے ہوچکا تھا جو اس نے خود پڑھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ لوگ ہم سے نشان مانگتے ہیں ہم کہاں سے نشان دکھلائیں ؟ ہم میں کوئی اب نشان دکھلانے والا نہیں ہے ۔ اس کے بعد دوسرے دن حضور علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں بڑے زور سے کہا گیا کہ ’’ اندھا ہے وہ جو کہتا ہے کہ کہاں سے نشان لائیں ؟ آؤ میں نشان دکھلاتا ہوں اور میں اندھوں کو آنکھیں بخشنے کے لئے آیا ہوں ( یہ فقرات بذات خود نشان تھے کیونکہ مولوی محمد حسین کا مضمون پہلے پڑھا گیا تھا اور حضور علیہ السلام کا بعد میں پڑھا گیا اور اگر حضور علیہ السلام کا مضمون پہلے پڑھا جاتا اور مولوی محمد حسین کا بعد میں پڑھا جاتا تو بے مزگی پیدا ہو جاتی لیکن قدرت کا منشا تھا کہ اسلام کی عظمت ظاہر ہو اس لئے مولوی محمد حسین نے جو کمزوری(اسلام کی طرف) اپنے مضمون میں دکھلائی تھی خدا کے مامورومرسل نے اس کو ردّ کر کے اسلامی شوکت کو بلند کر دیا۔ الحمد للّٰہ علی ذالک
{1478} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم پر بہت قرضہ ہوگیا تھا ۔میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ لکڑی کا کاروبار کرو۔‘‘ چنانچہ لکڑی کے کاروبار سے ہم کو بہت فائدہ ہوا۔
{1479} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں اور میری بہن مکیریاں سے آئے ۔ طاعون کے دن تھے ۔ حضور علیہ السلام کے دروازہ پر پہرہ تھا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تم کو کسی نے نہیں روکا؟‘‘ عرض کیا کہ نہیں ۔ حضورؑ ہم کو کسی نے نہیں روکا۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’ جہاں سے تم آئی ہو وہاں تو طاعون نہیں تھا؟ہم نے کہا کہ نہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کوئی جگہ خالی نہیں رہے گی سب جگہ طاعون پڑ جائے گی ‘‘ ۔
{1480} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیا اور اسی دن (ہم)قادیان قریباً ظہر کے وقت پہنچے اور یہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہو اہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے ۔ اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غور ہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہو اتھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہو اکہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیر احمدیوں نے دیکھا تھا ‘‘۔ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ’’ چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا ‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھاتھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔ اس کے بعد دیر تک ہنستے رہے۔‘‘
{1481} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے والد ماسٹر ظہیر الدین صاحب بیمار ہو گئے تو میرے خاوند ان کو قادیان میں لے آئے ۔ حضور علیہ السلام ان دنوں دہلی تشریف لے گئے ہوئے تھے ۔جب میرے والد صاحب کی بیماری زیادہ بڑھ گئی تو ان کے رشتہ دار ان کو لے گئے ۔کہتے تھے کہ کہیں اپنی لڑکی کے گھر میں ہی فوت نہ ہوجائیں۔ وہ اسی بیماری سے فوت ہوگئے تھے ۔جب حضور علیہ السلام دہلی سے واپس آئے تو میں سلام کے واسطے گئی ۔حضورؑ میری آواز سن کر کمرے سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ’’ برکت! تیرے والد کے فوت ہونے کا افسو س ہے ۔‘‘ میں روپڑی ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ رو نہیں ۔ہر ایک نے فوت ہو نا ہے ۔ تسلی رکھنی چاہئے۔‘‘ جب سے حضور علیہ السلام نے ایسا فرمایا تھا میرا رونا اور غم کرنا بند ہو گیا تھا۔
{1482} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن ایام میں مقدمات شروع ہو ئے تھے اور عیسائی کلارک والے مقدمہ کا فیصلہ ہو اتھا اور پیلا طوس بہادر صاحب ڈپٹی کمشنر ڈگلس گورداسپور نے فیصلہ کرتے وقت حضور علیہ السلام کو مبارک باد کہہ کر بری کیا تھا اور یہ بھی دریافت کیا تھا کہ ’’ کیا آپؑ کلارک وغیرہ پر ازالہ حیثیت کا استغاثہ کریں گے ؟ ‘‘حضورؑ نے کہا تھا کہ ’’ میں دنیاوی حکومتوں کے آگے استغاثہ کرنا نہیں چاہتا ۔میری فریاد اپنے اللہ تعالیٰ کے آگے ہے ۔‘‘ اس فقرہ کا اس پر اچھا تاثر ہو اتھا۔ احمدیوں کو ا س مقدمہ میں عزت کے ساتھ بریت کی بڑی خوشی تھی ۔ مولوی محمدحسین بٹالوی نے (بطالوی) عیسائیوں کی تائید میں شہادت دی تھی۔ بریت پر اس کو بھاری ذلت پہنچ چکی تھی۔ عبد اللہ آتھم عیسائی بھی میعاد پیشگوئی میں مرعوب ہو کر بڑبڑاتا رہا تھا کہ’’ مجھ پر سانپ چھوڑے گئے ہیں اور تلواروں والے حملہ آور ہو ئے وغیرہ ۔ مولوی محمد حسین نے بھی آٹھ کروڑ مسلمانان ہندوستان کا باوجود نمائندہ ہونے کے ایک چھری خرید لی جس کو جیب میں رکھتا تھا۔
ایک روز شیخ محمد بخش سب انسپکٹر تھانہ بٹالہ کے پاس یہ ذکر کردیا اور ان کو چھری دکھلائی۔ سب انسپکٹر نے نقضِ امن کی رپورٹ کر دی اور ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے فریقین کو طلب کر لیا۔ ادھر سب انسپکٹر نے جوشِ سب انسپکٹری میں کہدیا کہ ’’ آگے ہی مرزا کلارک والے مقدمہ سے بچ گیا تھا۔ اب بچا تو جانیں گے ۔‘‘ اس طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح موعود ؑ کو بریت کی خبر دے دی کہ’’ یَعُضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثِقُ ‘‘ کہ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور روکا جائے گا۔ غرض اس مقدمہ میں صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر دورہ پر تھے ، بمقام کارخانہ دھاریوال پیشی تھی اور رمضان کا مہینہ تھا۔ تاریخ سے پہلے خیال تھا کہ کارخانہ دھاریوال کے قریب کسی جگہ ڈیرہ لگایا جائے تاکہ پیشی کے وقت تکلیف نہ ہو۔(قادیان سے آٹھ میل سفر تھا) پہلے موضع لیل میں کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ مسلمانانِ لیل نے انکار کردیا۔ بعدش موضع کھونڈا تجویز ہو گئی اور رانی ایشر کور صاحبہ جوموضع کھونڈا کی رئیسہ تھی اس نے حضرت اقدس کی تشریف آوری پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے مصاحبوں کو حضور علیہ السلام کے استقبال کے لئے آگے بھیجا اور اپنا عالی شان مکان صاف کرا کر رہائش کے لئے دے دیا اور اپنے مصاحبوں کے ذریعہ نذرانہ پیش کیا اور کہلا بھیجا کہ مجھے حضور کی آنے کی اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ میں سمجھتی ہوں کہ سردار جیمل سنگھ صاحب سرگباش آگئے ہیں (سردار جیمل سنگھ صاحب رانی موصوفہ کے خسر تھے) اس رات کو رانی صاحبہ موصوفہ نے حضور علیہ السلام کو مع خدام پُر تکلف دعوت دی حضور علیہ السلام نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ۔
اس سفر میں سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی بھی ساتھ تھے۔ حضورؑ پالکی میں تھے۔(پالکی قدیم پنجاب کی سواری تھی قریباً چار آدمی اٹھاتے تھے) اور سیٹھ صاحب یکّہ پر تھے ۔ ہم سب بھائی پالکی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے اور ہم نے روزے رکھے ہوئے تھے ۔جب روزے کا ذکر ہوا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ سفر میں روزہ نہیں ہے ۔‘‘ ہم نے اسی وقت افطار کر دئے ۔
دوسرے روز بمقام کارخانہ دھاریوال میں پیش ہوئے (کھونڈا سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا) آئندہ تاریخ گورداسپور کی ہوگئی۔ زائرین کا ہجوم اس قدر تھا کہ آخر حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی گئی کہ زائرین مضطرب زیارت ہیں لیکن کثرت کی وجہ سے اطمینان سے زیارت نہیں کر سکتے ۔ حضور علیہ السلام درخواست کو منظور فرما کر نہر کے پل پر کھڑے ہو گئے اور لوگوں کو زیارت کا موقع دیا گیا۔
نوٹ: مولوی محمد حسین اس نظارہ کودیکھتا تھا لیکن حسرت کی نگاہ سے ( افسوس) آخر مجسٹریٹ ضلع نے مولوی محمدحسین سے لکھوا لیا کہ ’’ میں آئندہ مرزا صاحب کو کا فر نہیں کہوں گا۔‘‘ اور سب انسپکٹر کے ہاتھوں پر مہری(چندرا ) کے زخم ہو گئے جس سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔
صدق اللّٰہ تعالٰی ۔ ’’ یَعُضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ وَیُوْثِق‘‘۔حضور علیہ السلام سے اسی مجسٹریٹ ضلع نے پوچھا کہ آپ اس کو کافر کہتے ہیں ۔حضور ؑ نے جواب دیا کہ ’’ میں نے اس کو نہیں کہا بلکہ اس نے مجھ پر کفر کا فتوی لگایا اس لئے وہ خود کافر ہوا۔‘‘ اور اس پر آپ نے دستخط کر دئے ۔‘‘
{1483} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔برکت بی بی صاحبہ اہلیہ اللہ یار صاحب ٹھیکیدار نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں اکثر اپنی بہن کے لڑکے کو جو چھ یا آٹھ سال کا تھا حضرت اقدس ؑ کے گھر میں لے جاتی تھی۔ ایک دن اس کو جبکہ نماز پڑھ رہی تھی کھانسی ہوئی۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اس بچہ کو کالی کھانسی ہے جب تک آرام نہ ہو یہاں ساتھ نہ لایا کرو۔‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور دعا فرماویں کہ آرام ہو جائے ۔ چنانچہ بچہ کو جلد آرام ہو گیا تھا۔
{1484} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ابتدائے دعویٰ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وقت مولوی اللہ دتہ ،محمد علی وغیرہ سوہلوی کے ساتھ مقابلہ ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ موضع اٹھوال ضلع گورداسپور میں (اٹھوال میں اب بفضل خدا کافی جماعت قائم ہے ) مقابلہ ہو ا۔چونکہ اس سے پہلے کئی مقابلے ہو چکے تھے اس لئے اس روز مباہلہ پر زور دیا گیا کہ مباہلہ کیا جاوے تافیصلہ ہو جاوے ۔ صدہا آدمی موجود تھے۔ قریباً کئی گھنٹہ تک بالمقابل مباہلہ پر گفتگو ہوتی رہی ۔ احمدیت کی طرف سے خاکسار بولتا تھا اور مخالفین کی طرف سے مولوی اللہ دتہ تھا۔ وہ تمسخر واستہزاء میں وقت ضائع کر رہا تھا۔ ہر چند امن کے ساتھ تصفیہ کی طرف متوجہ کیا گیا لیکن وہ تمسخر واستہزاء سے باز نہ آیا۔ آخر مجلس بلا تصفیہ برخواست ہو گئی ۔
مجھے یاد ہے کہ شیخ غلام مرتضیٰ صاحب والد شیخ یوسف علی صاحب (سابق پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) وہاں مع دیگران موجو دتھے۔احمدیوں کے کلام اور رویہ سے نہایت متاثر تھے۔خیر مباہلہ تو نہ ہوا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت نے اسی سال کے اندر ہی مولوی اللہ دتہ کو طاعون میں گرفتار کر کے ہلاک کر دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک ـ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن
{1485} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں سوال کیا کہ شادیوں کے موقعہ پر اکثر لوگ باجا، آتش بازی وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اس کے متعلق شرعی فیصلہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ ’’ آتش بازی تو جائز نہیں ۔ یہ ایک نقصان رساں فعل ہے اور باجا کا بغرض تشہیر نکاح جواز ہے‘‘ ۔
{1486} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ عید کا دن تھا اور اسی عید گاہ میں عید پڑھی گئی تھی جس کا آج کل غیر احمدی تنازعہ کرتے ہیں کہ احمدی جبراً قبضہ کر رہے ہیں ۔حضور علیہ السلام بھی عید گاہ میں پہنچ گئے تھے اور ٹہل رہے تھے کہ پہلے مجھے حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھیروی نے کہا کہ سب مسلمان یہاں آگئے ہیں تم شہر چلے جاؤ تا مستورات کی حفاظت ہو جائے ۔ابھی میں تأمل میں تھا کہ حضور علیہ السلام ٹہلتے ہوئے اسی موقعہ پر آگئے ۔یہاں حکیم صاحب سے باتیں ہورہی تھیں ۔ حکیم صاحب نے حضورؑ کے پیش کر دیا کہ میاں خیر الدین کو کہا ہے کہ شہر میں جا کر حفاظت مستورات کرے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کسی اور کو حفاظت کے لئے بھیج دو‘‘ حکیم صاحب نے دوبارہ میرا نام پیش کردیا ۔حضورؑ نے انکار کیا ۔حکیم صاحب نے دوبارہ میرا نام ہی پیش کردیا تو حضور علیہ السلام نے کسی قدر جھڑکی کے ساتھ روک دیاتوحکیم صاحب خامو ش ہو گئے۔
{1487} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے مباحثات ومناظرات کو حکماً بند کردیا ۔ انہیں ایام میں مولوی اللہ دتہ ، علی محمد سوہلوی ومولوی عبد السبحان ساکن مسانیاں وغیرہ یکایک موضع ہرسیاں میں آگئے ۔ اس وقت بھائی فضل محمد صاحب (والد مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ) ومنشی نور محمد صاحب وغیرہ تھے ۔ ہر سیاں والے احمدی برادران نے مولوی فتح الدین صاحب کو دھر مکوٹ بگہ سے بلا لیا اور سیکھواں میں ہماری طرف بھی بلانے کے لئے آدمی آگیا ۔چونکہ حضور علیہ السلام کا حکم نسبت بند کرنے مباحثات ومناظرات کے ہم کو علم تھا۔ اس لئے میں اور میرے بڑے بھائی میاں امام الدین صاحب ( والد مولوی جلال الدین صاحب شمس مبلغ) روانہ ہر سیاں ہو گئے اور ہمارے سب سے بڑے بھائی میاں جمال الدین صاحب مرحوم برائے حصول اجازت قادیان روانہ ہوگئے اور وہاں فیصلہ یہ ہو اکہ تاوقتیکہ قادیان سے اجازت نہ آوے مباحثہ نہیں ہوگا۔ ہم نے ہر سیاں جا کر یہ خبر سنا دی اور مباحثہ رو ک دیا گیا ۔ اب مخالفین کی طرف سے پیغام پر پیغام آتے ہیں کہ میدان میں نکلو اور ہم خاموش تھے لیکن زبانی طور پر ان کو جواب دیا گیا کہ ہم ایک امر کے منتظر ہیں جب حکم پہنچے گا تب مناظرہ کریں گے ورنہ نہیں۔ اس پر مخالفین نے خوشی کے ترانے گانے شروع کر دئے ۔ وہاں کا نمبردار چوہدری فتح سنگھ صاحب ان کی طرف سے آیا اور مجھے الگ کر کے کہا کہ اگر آپ میں طاقت مباحثہ نہیں ہے تو آپ مجھے کہہ دیں تو میں ان کو کسی وجہ سے یہاں سے روانہ کر دیتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ ہم میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مباحثہ کرنے کی طاقت ہے اور فریق مخالف ہماری طاقت کو جانتا ہے لیکن ہم اپنے پیشوا کے تابع ہیں ۔ قادیان ہمارا آدمی برائے حصول اجازت گیا ہو اہے اس کے آنے کے ہم منتظر ہیں۔ اگر قادیان سے اجازت حاصل ہو گئی تو ہم مباحثہ کریں گے اور ہماری طاقت کا علم آپ کو ہو جائے گا ۔ اگر اجازت نہ ملی تو ہم مباحثہ نہیں کریں گے پھر جو دل چاہے قیاس کر لینا ۔ تھوڑی دیر کے بعد بھائی صاحب مرحوم ہر سیاں پہنچ گئے اور کہا کہ حضور علیہ السلام نے اجازت نہیں دی۔ جب مخالفین کو علم ہو گیا کہ مباحثہ احمدیوںکی طرف سے نہیں ہوگاتب ان میں طوفان بدتمیزی بلند ہوا اور جو کچھ ان سے ہو سکتا تھا بکواس کیا ۔ تمسخر واستہزاء کی کوئی حد نہ رہی ۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی خوشی سے شادیانے گاتے تھے اور ہم خاموش تھے ۔ فریق مخالف بظاہر فتح وکامیابی کی حالت میں اور ہم ناکامی اور شکست کی حالت میں موضع ہرسیاں سے نکلے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھا کہ جمعہ کے روز ہرسیاں مذکور تحصیل بٹالہ سے ایک جماعت قادیان پہنچ گئی کہ ہم بیعت کرنے کے لئے آئے ہیں ۔ ہم حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو بظاہر ہماری شکست میں کون سی دلیل مل گئی؟ تو انہوں نے جوابًا کہا کہ آپ لوگوں کے چہروں سے ہمیں صداقت نظر آئی اور ان کے چہروں سے کذب اور بیہودہ پن کے نشان نظر آئے یہی بات ہم کو قادیان کھینچ لائی ۔ الحمد للّٰہ علی ذالک۔
{1488} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں حضور علیہ السلام نے رسالہ آریہ دھرم ( جس میں آریوں کے مسئلہ نیوگ کا ذکر ہے) لکھنے کا ارادہ فرمایا تو اس سے پہلے ایک روز فرمایا کہ ’’ آریہ ہمارے ہمسائے ہیں ۔اگر ہم جیسا کہ دیا نند نے نیوگ کی تشریح ستیارتھ پرکاش میں لکھی ہے نقل کردیں تو شاید آریہ کہیں کہ ہم تو مانتے ہی نہیں ،خواہ مخواہ ہماری دل آزاری کی گئی ہے ۔بہتر ہے کہ آریان قادیان سے دریافت کر لیا جائے چنانچہ منتخب آریہ ملاوا مل اور شرمپت ۔ سومراج کشن سنگھ کیسونوالہ آریہ وغیرہ کو مسجد مبارک میں بلایا گیا اور ان سے دریافت کیا گیا کہ’’ کیا جس طرح پنڈت دیا نند نے نیوگ کا مسئلہ بیان کیا ہے درست ہے‘‘ ؟ انہوں نے کہا کہ نیوگ کا مسئلہ ایسا ہی ہے جیسا کہ طلاق اور نکاح ثانی جب ان کو سمجھایا گیا کہ طلاق کے بعد عورت کے ساتھ مرد کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اس لئے اس کو حق ہوتا ہے کہ نکاح ثانی کر لے وے مگر نیوگ میں تو عورت اپنے خاوند کے گھر رہتی ہوئی اس کی کہلاتی ہوئی دوسرے کے ساتھ ہم بستر ہوتی ہے اور اولاد حاصل کر کے خاوند کو دیتی ہے ۔ نیزنیوگ بحالت نہ اولاد ہونے کے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اولاد تو ہوتی ہے مگر لڑکیاں ہوتی ہیں لڑکا نہیں ہو تا اس لئے نیوگ کی اجازت ہے تاکہ لڑکا پیدا ہو جائے اس صورت میں طلاق اور نیوگ میں کیا نسبت ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب صرف لڑکیاں ہوتی ہوں ،جیسا کہ دیا نند نے لکھا ہے ،لڑکا نہ ہو نیوگ چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہاں جو کچھ دیا نند نے لکھا ہے اس کو ہم مانتے ہیں ۔تو اس وقت میں مولوی عبد الکریم صاحبؓ کے پاس کھڑا تھا۔ مجھے مولوی صاحبؓ نے کہا کہ کہہ دو کہ یہ تو بڑی بے حیائی ہے ۔ چنانچہ میں نے بآواز بلند کہہ دیا کہ یہ تو بڑی بے حیائی ہے ۔ تو حضور علیہ السلام نے سنتے ہی فرمایا کہ ’’ چپ‘‘ یعنی خاموش ۔ ’’یہ نہیں کہنا چاہئے۔‘‘ اس کے بعد آریہ چلے گئے تو آریہ دھرم رسالہ شائع ہوا ۔اللّٰھم صلّ علٰی محمّدٍ وآل محمدٍونائب محمّدٍ وبارک وسلم انّک حمید مجید۔‘‘
{1489} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھے یاد ہے کہ ماہ رمضان مبارک تھا اور گرمی کا موسم تھا ۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سردخانہ میں تھے جو قدیمی مکان کے شرقی دروازہ سے ڈیوڑھی کو عبور کرتے ہوئے بجانب شمال تھا۔ آپ صائم تھے اور میںنے روزہ نہیں رکھا تھا کیونکہ میری عمر ابھی سن بلوغ کو نہیں پہنچی تھی۔ اور ایک اور شخص جمال نامی جو میاں جان محمد صاحب مرحوم کا بھائی تھا وہاں تھا۔ ہم دونوں حضر ت اقدس علیہ السلام کودبا رہے تھے ۔ جب سورج مغرب کی طرف مائل ہو گیا ہو ا تھا اس وقت چنے سفید رنگ کے جو سرد خانہ کے ایک کونے میں ایک گھڑے میں تھے نکلوائے اور بھنوا کر حضر ت اقدسؑ نے اپنے دست مبارک سے ہم دونوں کو تقسیم کر دئیے ۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک نظم جو مولوی غلام رسول صاحب مرحوم قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ کی بعض فقہی کتابوں مثلاً پکی روٹی وغیرہ کے آخر میں درج ہوتی تھی جس کے شعروں کی تعداد بارہ تھی وہ حضرت اقدس ؑ کے فرمانے پر سنائی تھی۔ اس وقت وہ بارہ شعر تو مجھے یاد نہیں ۔صرف چار یاد ہیں :
دلا غافل نہ ہو اک دم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
بغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
نہ بیلی ہو گا نہ بھائی نہ بیٹا باپ اور مائی
تو کیا پھرتا ہے سودائی عمل نے کام آنا ہے
تیرا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر
ہووے گا ایک دن مردار یہ کِرموں نے کھانا ہے
غلام اک دن نہ کر غفلت حیاتی پر نہ ہو غرہ
خدا کی یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے
{1490} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔امۃ الرحمن صاحبہ بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ہم سب باغ میں گئے ۔ یہ خادمہ بھی ہر وقت ابوہریرہؓ کی طرح حضورعلیہ السلام کے اردگرد پروانہ کی طرح تھی۔کئی عورتیں ساتھ تھیں ۔اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت اُم المومنین صاحبہ اور حضرت مبارک احمد تینوں جارہے تھے ۔صاحبزادہ مبارک احمد نے بے قراری سے کہا ۔ ابا! سنگترہ لینا ۔ سنگترہ لینا۔ اور خادمہ ان کے پیچھے پیچھے تھی۔حضور علیہ السلام ایک درخت کے پاس گئے اور ہاتھ اوپر کیااور ایک سنگترہ مبارک احمد کے ہاتھ میں دے دیا۔ بیوی صاحبہ ہنستی ہوئیں آگے چلی گئیں ۔ میرے ساتھ ایک لڑکی جو بابا حسن محمد کی رشتہ دار تھی اور اس کا نام جیون تھا درخت پر چڑھ گئی ۔ اس نے خیال کیا کہ شاید اوپر سنگترے ہیں ۔ ہم سب نے اس کا پتا پتا دیکھا لیکن کوئی سنگترہ نہ ملا ۔ وہ سنگترے کا درخت بہشتی مقبرہ کی طرف تھا۔ جب یہ عاجز باغ میں جایا کرتی تو وہ بات یاد آجاتی تھی ۔ایک دفعہ دیکھا کہ وہاں وہ درخت نہ تھا مجھ کو بڑا افسوس ہوا اور رونا بھی آیا۔ دل میں کہا ہائے! اگر میں پاس ہوتی تو جن لوگوں نے وہ درخت کاٹا ہے ہر گز کاٹنے نہ دیتی۔ یہ نشان میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
{1491} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ مخلصین میں سے تھے۔ جس زمانہ میں براہین احمدیہ جلد دوئم نور احمد پریس امرتسر میں زیر طباعت تھی۔ شیخ صاحب موصوف مطبع مذکور میں کاپی نویسی کرتے تھے اور اچھے خوش قلم کاتبوں میں سے تھے ۔ چنانچہ براہین احمدیہ جلد دوئم تما م وکمال ان کی کتابت کردہ ہے ۔ بعد ازاں شیخ صاحب بوجہ انحطاط قویٰ کاپی نویسی کی مشقت سے سبکدوش ہو کر یہاں پٹیالہ میں آکر اپنی خوشخطی کی وجہ سے فارن آفس ریاست پٹیالہ میں مراسلہ نگاری کی پوسٹ پر بمشاہرہ ۳۰روپے ماہوار پر ملازم ہو گئے ۔اور دس بارہ برس ملازمت میں رہ کر جماعت احمدیہ پٹیالہ میں باقاعدہ چندہ وغیرہ دیتے رہے اور اسی جگہ ایک رات نماز پڑھ کر مسجد سے گھر کو جاتے ہوئے سانپ کاٹنے سے ان کا انتقال ہوا ۔
{1492} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ یہاں کے قیام کے دنوں میں حضرت صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے ایک واقعہ اپنا چشم دید بیان کیا جو درج ذیل ہے ۔
شیخ صاحب نے فرمایا کہ جن دنوں میں مطبع مذکور میں براہین احمدیہ جلد دوئم کی کتابت کرتا تھا۔ ایک درویش نما مسن شخص جو ہندوستان کی طرف کا رہنے والا معلوم ہوتا تھا کسی کی وساطت سے مطبع کے احاطہ میں آکر بطور ایک مسافر کے مقیم ہوا۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ پہلی دفعہ ا س کو دیکھنے سے مجھ کو یہ خیال ہوا کہ یہ کوئی مسجد یا یتیم خانہ وغیرہ کے نام سے چندہ کرنے والا ہو گالیکن چند روز اس کے قیام کرنے سے روزانہ اس کا یہ وطیرہ دیکھا کہ صبح کو اٹھ کر کہیں باہر چلا جاتااور شام کو آکر بلا کسی سے بات چیت کرنے کے اپنی مقررہ جگہ پر آکر پڑ جاتا۔ مجھے خیال ہو اکہ اگر یہ شخص چندہ وغیرہ کا خواہاں ہوتا تو مطبع میں بھی اس کا کچھ تذکرہ کرتا یا امداد کا خواہاں ہوتا۔ اتفاقاً ایک دن وہ صحن احاطہ میں کھڑے ہوئے مجھ کو مل گیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں آپ سے دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ یہاں کیسے آئے ہوئے ہیں ؟اس درویش نے جواب دیا کہ میں ویسے ہی بطور سیاحت پھرتا رہتاہوں ۔ پھرتا پھراتا اس طرف بھی آنکلا۔ منشی صاحب نے کہا کہ آپ کی غرض سیاحت کیا ہے ؟ اس پر اس شخص نے کہا کہ اس غرض کے معلوم کرنے سے آپ کو کچھ فائدہ نہ ہوگا بلکہ آپ مجھ کو ایک خبطی یا سودائی خیال کریں گے ۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ اس کے اس جواب پر مجھ کو زیادہ خیال ہوا اور ان سے بااصرار کہا کہ اگر آپ کا حرج نہ ہو تو بیان کر دیجئے اس پر اس درویش نے اپنا قصہ یوں سنایا کہ میر ا جس خاندان سے تعلق تھا وہ ایسے لوگ تھے کہ جن کے ہاں بچپن سے ہی نماز روزہ کی تلقین اور دین سے رغبت پیدا کر دی جاتی ہے۔ مجھ کو سن شعور سے ہی خدا سے ملنے کی آرزو اور اس رسم کے طور پر عبادات بجا لانے کے علاوہ اطمینان قلب حاصل ہونے کی تمنا تھی۔ میں اپنے اس شوق میں ہر عالم اور بزرگ سے جس سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے یالوگوں کی زبانی تعریف سن کر پتہ لگتا۔ میں اس سے ملتا اور اپنی آرزو کا اس سے اظہار کر کے بمنت راہ نمائی کی خواہش کرتا اور جو درویش یا بزرگ کوئی وظیفہ یا چلہ مجھے بتاتا ۔ میں اس کے موافق عمل کرتا لیکن میرا مطلب حل نہ ہوتا تو پھر تلاش میں لگ جاتا ،اس سلسلہ میں تلاش میں ایک درویش نے مجھ کو ایک مقام پر ایک خانقاہ کا پتہ بتا کر کہا کہ ایسے مطالب اس بزرگ کی خانقاہ پر چلہ کرنے سے اکثر لوگوں کو حاصل ہو ئے ہیں ۔ درویش صاحب نے کہا کہ میں تو اپنی دھن کا پکا تھا ہی اس سے اچھی طرح پتا پختہ طور پر لے کر سامان سفر کر اس خانقاہ پر جا پہنچا اور حسب ہدایت اس درویش کے وہاں چلہ شروع کردیا ابھی اس چلہ کو نصف تک نہیں کیا تھا کہ ایک رات رویاء میں ایک بزرگ نظر آئے ایک صاحب اور ان کے برابر کھڑے ہوئے تھے اور وہ اول الذکر بزرگ اس وقت میرے خیال میں وہ صاحب خانقاہ بزرگ تھے جس پر میں چلہ میں مصروف تھا ۔بزرگ موصوف نے میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ ’’یہاں ناحق اپنا وقت ضائع نہ کرو‘‘ اور اپنے برابر کھڑے دوسرے صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت اگر تمہاری مرا دپوری ہوسکتی ہے تو ان سے فیض حاصل کرو۔‘‘ میں نے ان دوسرے صاحب کی طرف بغور دیکھا اور ہنوز یہ دریافت کرنے نہ پایا تھا کہ یہ کو ن بزرگ ہیں ؟ کیا نام ہے ؟ اور کہاں رہتے ہیں ؟ کہ کسی نے مجھ کو جگا دیا یا خود آنکھ کھل گئی۔
{1493} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے بیان کیا کہ درویش مذکور نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کے بعد میں ایام چلہ پورا کرنے تک وہاں ٹھہرا اور چلہ پورا ہو نے پر بھی جب کوئی انکشاف مزید نہ ہوا تو واپس ہو کر اس روز سے اپنا یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ گھر بار سے قطع تعلق کر کے ہر قصبہ وشہر ودیار میں پڑ اپھرتا ہوں اور جس جگہ کسی بزرگ کا پتہ لگتا ہے اس کو جا کر دیکھ لیتا ہوں اور جب وہ میرے مطلوبہ حلیہ سے مطابقت نہیں رکھتا تو واپس ہو کر کسی اور طرف کو چلا جاتا ہوں ۔ دس بارہ برس سے نہ مجھ کو گھر والوں کی خبر ہے نہ ان کو میری۔ سارا ہندوستان چھان کر اب پنجاب میں آیا ہوں ۔یہاں امرتسر میں پانچ سات اشخاص کا لوگوں نے مجھ کو پتہ دیا لیکن اس حلیہ سے جس کا نقشہ فوٹو کی طرح میرے دل پر ہے کسی کو مطابق نہیں پایا ۔ اب مین ایک آدھ روز میں یہاں سے کسی اور طرف کو چلا جاؤں گا۔ یہی میری سیاحی کا مدعا اور غرض ہے ۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ اس کی سرگذشت سن کر مجھ کو حیرت بھی ہوئی اور اس کے حال پر رحم بھی آیا ۔ حیرت تو اس لئے کہ کس عزم واستقلال کا یہ شخص ہے کہ ایک امید موہوم کے پیچھے اور محض ایک خواب کی بات پر اپنا گھر بار اور سب کچھ حتی کہ اپنی زندگی بھی اسی بازی پر لگائے پھر رہا ہے اور رحم اس لئے کہ اگر ایسا شخص اس کو نہ ملا تو بیچارہ کی ساری زندگی کس مصیبت میں گزر ے گی؟اور اس نے ایسی منزل اختیار کی ہے جس کاانجام لاپتہ ہے۔ اگر وہ شخص آپ کو نہ ملا تو پھر آپ کیا کریں گے ۔ اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اپنے اخیر دم تک اسطرح مصروف رہوں گا اور جہاں موت آجاوے مر رہوں گا۔ تامجھے بارگاہ ایزدی میں یہ کہنے کا حق ہو کہ میری طاقت اور بساط میں جو تھا اس میں میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اب اگر میری قسمت میں نہ تھا تو میرے اختیار کی بات نہ تھی۔ شیخ صاحب نے اس پر کہا کہ ایک بزرگ کا پتہ میں بھی آپ کو بتا دوں؟ اس نے کہا کہ مجھے اور کیا چاہئے ؟شیخ صاحب نے حضرت صاحب کا پتہ ان کو بتایا کہ یہاں سے چار پانچ اسٹیشن ایک مقام بٹالہ شہر ہے۔اس سے دس گیار ہ میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹا قصبہ قادیان نامی ہے وہاں ایک بزرگ مرزا غلام احمد نام ہیں ۔ صاحب الہام ہونے کا ان کا دعویٰ ہے۔ اسلام اور قرآن مجید کی حمایت میں انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جو اسی مطبع میں چھپ رہی ہے اگر آپ چاہیں تو اس کی کاپیاں میں آپ کو دکھا سکتا ہوں ۔اس میں انہوں نے اپنے الہام اور پیشگوئیاں بھی درج کی ہیں اور عیسائیوں ،آریوں اور برہموسماجیوں کے اعتراضات کے جو انہوںنے اسلام اور قرآن مجید کے متعلق کئے بڑے پر زور جواب دئے ہیں اور لوگوں کو مقابلہ کے لئے بلایا ہے اور ان کی مسلمہ کتب پر ایسے اعتراضات کئے ہیں کہ تمام ملک میں اس کا چرچا ہے اور ہندوستان وپنجاب کے بڑے بڑے علماء اور اخبارات نے اس کی بڑی تعریف کی ہے کہ ایسی کتاب آج تک اسلام کی تائید میں نہیں لکھی گئی۔ آپ نے جہاں اور بزرگوں کو دیکھا ہے یہاں سے کچھ دور نہیں ہے ان کو بھی دیکھ لو اس پر وہ درویش صاحب بولے کہ نہیں منشی صاحب ایسے اصحاب جو بحث ومباحثہ اور جھگڑے کرنے والے ہوں۔ میری گوں کے نہیں ہیں۔ میرا کام تو اگر خدا کو منظور ہے تو کسی تارک الدنیا بزرگ سے بنے تو بنے۔ نہیں تو جو خد اکی مرضی۔ شیخ صاحب یہ سن کر خاموش ہو کر اپنے کام میںمصروف ہو گئے ۔شیخ صاحب فرماتے تھے کہ ان ایام میں میرا معمول تھا کہ ہفتہ بھر جس قدر براہین احمدیہ کی کاپی کرتا ہفتہ کے روز خود قادیان لے جا کر اس کے پروف حضرت صاحب کے پیش کرتا بعد ملاحظہ اتوار کو پروف لے کر بغرض طباعت امرتسر واپس آجاتا۔
{1494} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی فرماتے ہیں کہ درویش سے اس گفتگو کے بعد چونکہ ان کی بات کا میرے دل پر ایک اثر تھا، جس ہفتہ کے دن میں نے قادیان کو پروف لے کر جانا تھا میں درویش مذکور کوپھر ملا اور اس سے کہا کہ میں بھی پروف لے کر جانے والا ہو ں اگر آپ چلے چلیں تو کیا حرج ہے ؟ سیر ہی ہو جائے گی ۔ میرے ساتھ ہونے کے سبب آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی ۔میرے ساتھ واپس آکر پھر جدھر آپ کا جی چاہئے روانہ ہو جانا۔ اگر آپ کو کرایہ کا خیال ہے تو امرتسر سے واپسی تک کا کرایہ میں دینے کو بخوشی آمادہ ہوں ۔اس پر اس درویش نے کہا کہ نہیں کرایہ وغیرہ کا کچھ خیال نہیں۔ میں پہلے بھی پھرتا ہی رہتا ہوں۔ آپ کہتے ہیں تو میں چلا چلوں گا۔ شیخ صاحب فرماتے تھے کہ کچھ بادل ناخواستہ سا میرے کہنے پر وہ چلنے کو تیار ہو گیا اور دونوں امرتسر سے بسواری ریل روانہ ہوئے اور بارہ بجے دن کے گاڑی اسٹیشن بٹالہ پر پہنچی وہاں سے بسواری یکّہ قادیان کو چل پڑے ۔جب نہر کا پل عبور کر کے اس مقام پر پہنچے جہاں سے قادیان کی عمارات نظر آنے لگتی ہیں ۔تو شیخ صاحب نے ان عمارات کی طرف اشارہ کر کے درویش صاحب سے کہا کہ ’’ یہ عمارات اسی قصبہ کی ہیں جہاں ہم نے جانا ہے ۔ اس پر اس درویش نے ایک آہ سی کھینچ کر کہا کہ منشی صاحب ! خد اکی رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ بزرگ یہی ہوں جن کے پاس آپ مجھے لے جارہے ہیں جن کا حلیہ میرے دل کی لوح پر نقش ہے ۔ اس پر شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس روز تو آپ نے فرمایا تھا کہ ایسے لوگوں سے میری مراد پوری ہونے کی امید نہیں پڑتی۔ پھر کس بات نے آپ کی رائے میں تبدیلی پید اکر دی ؟ اس کے جواب میں درویش مذکور نے کہا کہ اس کی کوئی مدلل وجہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر ایک کیفیت ہے جس کی مثال ایسی ہے کہ جنگل میں کوئی پیاسا پانی کی تلاش میں سرگردان ہو اس کو پانی تو ابھی نہ ملے لیکن دریا پر سے گزر کر آنے والی ٹھنڈی ہو اکے جھونکے پانی کے قریب ہونے کا یقین دلا کر اس کے قلب کی تسکین کا موجب اور پانی تک پہنچنے کی امید دلائیں۔ ایسا ہی جوں جوں یہ مقام نزدیک آرہاہے میری روح پر ایک پرسرور کیفیت طاری معلوم ہو تی ہے جواس سے قبل کسی اور جگہ نہیں دیکھی گئی۔ شیخ صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ جو کچھ بھی خدا کو منظور ہے ہوگا اب تو صرف آدھ گھنٹہ کاو قفہ ہے آپ چل کر دیکھ لیں گے ۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ دو بجے کے بعد ہم دونوں قادیان پہنچ گئے ۔مہمان خانہ میں سامان سفر رکھ کر وضو کیا جب باہر نکلے تو مسجد مبارک کی جانب سے آنے والے ایک شخص کی زبانی دریافت پر معلوم ہو اکہ نماز ظہر ہوچکی ہے مگر حضرت صاحب ابھی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ ہم دونوں ذرا قدم اٹھا کر اوپر گئے ۔ حضرت صاحب دروازہ کی طرف رخ کئے ہوئے سامنے تشریف فرما تھے۔ چند خدام کا حلقہ تھا۔دروازہ مسجد میں جاکر جب ہم دونوں کھڑے ہو ئے تو اس درویش نے شیخ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دعائیں دیتے ہوئے کہا ۔ خداآپ کا بھلا کرے آپ نے تو میری کٹھن منزل کا خاتمہ کردیا ۔میں نے انہی صاحب کو جو سامنے تشریف فرما ہیں۔ رویاء میں دیکھا تھا اور میں ہر گز اس شناخت میں غلطی نہیں کرتا۔ شیخ صاحب نے اس کو مبارکباد کہا اور مسجد میں داخل ہو کرحضرت صاحب سے مصافحہ کیا ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب براستہ دریچہ اندرون تشریف لے گئے اور ہم نے نماز ظہر ادا کی ۔
{1495} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے مجھ سے بیان کیا کہ نماز ظہر کے بعد میں نے پروف پیش کرنے کی اطلاع کرائی ۔ حضرت نے متصلہ کمرہ میں تشریف فرما ہو کر مجھے اندر بلالیا ۔میں نے اول پروف پیش کئے اور پروف کے متعلق ضروری بات چیت کے بعد اس درویش کا قصہ مفصل عرض کیا اور کہا کہ میں امرتسر سے اس کو آج اپنے ہمراہ لایا ہوں اور کہ اس نے حضورؑ کو دروازہ سے دیکھتے ہی شناخت کر کے بتایا ہے کہ میں نے آپ کو ہی رویاء میں دیکھا تھا۔ پھر حضرت صاحب سے اجازت لے کر اس کو اندربلا لیا ۔ اس کے بیٹھتے ہی پہلا سوال اس سے حضرت صاحب نے یہ فرمایا کہ آپ کو اپنی شناخت میں تو شک وشبہ نہیں ہے؟اس نے جواب دیاحضور! ہر گز نہیں۔ میں نے اسی شکل وشباہت اور ٹھیک اسی لباس میں جوا س وقت حضور نے پہنا ہوا ہے حضور کو دیکھا ہے ۔یہی لنگی اسی بندش کے ساتھ زیب سر تھی۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے شیخ صاحب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر خدا سے ملنے کی کسی دل میں طلب صادق ہو تو کچھ مدت بطور ابتلا اور آزمائش اس کو تعویق میں رکھ کر اس کو عزم اور استقلال کی منازل سے گذار کر آخر خود اس کی ہدایت کا سامان مہیا کر دیتا ہے اس کے بعد ہم باہر آگئے ۔
{1496} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محمد کرم الٰہی صاحب پٹیالہ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ شیخ محمد حسین صاحب مرحوم مراد آبادی نے بیا ن کیا کہ اگلے روز جب میں چلنے لگا تو درویش صاحب سے ان کا ارادہ پوچھا ۔اس نے کہا کہ بس میں اب کہا ں جاؤں گا ؟ آپ جائیں ۔میں تو،حضرت صاحب جو حکم دیں گے اس کے موافق کار بند رہوں گا۔ شیخ صاحب اس کو وہیں مہمانخانہ میں چھوڑ کر تنہا امرتسر واپس آگئے ۔ اگلے ہفتہ پھر گئے ۔ درویش صاحب سے دریافت پر اس نے یہ کہا کہ نمازیں مسجد میں جا کر پڑھ لیتا ہوں اور جس وقت تک حضرت صاحب تشریف رکھتے ہیں حاضر رہتا ہوں اس کے بعد مہمانخانہ آکر پڑ رھتا ہوں اور اللہ اللہ کئے جاتا ہوں ۔ حضرت صاحب نے کچھ خاص طور پر فرمایا نہیں اور مجھ کو کچھ کہنے کی یادریافت کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ شیخ صاحب نے فرمایا کہ اسی طرح جب حسب معمول تین چار دفعہ ہر ہفتہ پروف لے کر قادیان جاتا اور آتا رہا۔ اس شخص نے ہر دفعہ وہی جواب دیا جو اول دفعہ دیا تھا۔ آخر ایک دفعہ جو میں گیا تو اس نے حضرت صاحب کے بارہ میں تو وہی کیفیت ظاہر کی لیکن مجھ سے خواہش کی کہ چونکہ اب مجھے اپنی تلاش میں تو خد اتعالیٰ نے کامیابی عطا فرما دی ہے، دو تین دن سے مجھے خیال آرہاہے کہ اگر حضرت صاحب اجازت فرماویں تو میں اپنے متعلقین کی وطن جا کر خبر لے آؤں ۔ کیونکہ مجھے ان کے مرنے جینے کا اور ان کو میرا اس لمبے عرصہ تک کچھ پتہ نہیں ملا اور چونکہ میں خود حضرت صاحب سے دریافت کرنے کی جرأت نہیں رکھتا آپ اگر حضرت صاحب سے اس بارہ میں تذکرہ فرمادیں تو جیسا پھر حضرت صاحب کی طرف سے اشارہ ہوگا۔ میں اسی کے موافق عمل کروں گا ۔ منشی صاحب نے فرمایا کہ جب میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے درویش صاحب کی اس خواہش کا ذکر کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں! وہ بڑی خوشی سے جا سکتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ ضرور جا کر اپنے بال بچہ کی خبر گیری کرنی چاہئے ۔جب اس کا جی چاہے وہ پھر آسکتا ہے ۔ میں نے حضرت صاحب سے اجازت لے کر اس کو اندر بلا لیا تاکہ وہ حضرت صاحب کا ارشاد خود حضور کی زبان سے سن لے ۔اس کی حاضری پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ جاسکتے ہیں اور پھرجب چاہے آسکتے ہیں ۔ اسپر اس نے بطور وِرد و وظائف کچھ پڑھنے کے لئے دریافت کیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ اتباع سنت اور نمازیں سنوار کر پڑھنا سب سے اعلیٰ وظیفہ ہے اس کے علاوہ چلتے پھرتے درود شریف ،استغفار اور جس قدر وقت فراغت میسر ہو قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا کافی ہے ۔ہمارے ہاں الٹے لٹک کر یا سردی میں پانی میں کھڑے ہو کر چلہ کرنے کا خلاف سنت کوئی طریق نہیں ہے۔‘‘ اس پر اس درویش نے باصرار کہا کہ میں چونکہ سن شعور سے ہی مجاہدات کا عادی ہوں ۔اس لئے بطریق مجاہدہ اگر کچھ فرما دیا جاوے تو میں اب اس کے موافق کا ر بند رہوں گا۔ اس کی یہ بات سن کر حضرت صاحب اٹھے اور اندر جا کر ایک پلندہ براہین احمدیہ کے اس حصہ کا جو اس وقت تک شائع ہو ا تھا اٹھا لائے اور اس کو دے کر فرمایا کہ ’’ لو جہاں جاؤ اس کو خود بھی پڑھو اور دوسرے لوگوں کو بھی سناؤ۔خدا نے اس وقت کا یہی مجاہدہ قرار دیا ہے۔‘‘ منشی صاحب نے فرمایا کہ اس کے بعد ہم باہر آگئے۔ اگلے روز وہ شخص میری معیت میں امرتسر آگیا ۔ وہاں سے اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گیا پھر اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی۔
{1497} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کتب فقہ پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔‘‘
{1498} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تو بخشنے کے لئے بہانے لبھدا ہے ‘‘ (یعنی تلاش کرتا ہے )۔
{1499} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں شیخ صاحب بھائی عبد الرحیم صاحب (سابق نام جگت سنگھ) نے اسلام قبول کیا ۔ چند روز بعد موضع سرسنگھ جہبال سے جو شیخ صاحب موصوف کا اصلی گاؤں ضلع امرتسر یا ضلع لاہور میں ہے ان کے رشتہ دار جوخوب قدآور اور جوان تھے پانچ چھ کس قادیان میں شیخ صاحب کو واپس لے جانے کی نیت سے آئے ۔ میں اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ کے مطب میں بیٹھا ہو ا تھا اور شیخ عبد الرحیم صاحب بھی وہاں ہی بیٹھے ہو ئے تھے ۔حضرت مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ ’’ اس کو اپنے گاؤں سیکھواں میں ہمراہ خود لے جاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے فوراً تعمیل کی اور ہم دونوں سیکھواں پہنچ گئے چونکہ سیکھواں میں کثرت سکھ قوم کی تھی انہوںنے سکھ برادری سے میل جو ل کیا۔ بعدمیں ہمارے مکان پر پہنچ گئے اور شیخ صاحب سے بخوشی مل ملا کر آخر مطالبہ کیا کہ ’’ ہم گاؤں سے باہر لے جا کر کچھ باتیں کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘ اگر چہ شیخ صاحب اور ہم ان کے اس مطالبہ کو پسند نہ کرتے تھے ۔ لیکن ان کے جذبہ مطالبہ کو بوجہ رشتہ داری نظر انداز کرنا مناسب نہ خیال کر کے رضا مندی دے دی گئی جب گھر سے باہر نکلے تو تھوڑے فاصلہ پر جا کر ایک میدان ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں اور سکھ وغیرہ جمع تھے یہی گفتگو چھڑ گئی ۔شیخ صاحب نے رشتہ داران خود کو کہا کہ’’ اگر تم زبردستی مجھ کو ساتھ لے جاؤ گے تو میں پھر آجاؤں گا اور مسلمان ہوجاؤں گا۔‘‘ اس پر ایک سکھ جو سیکھواں کا باشندہ اور روڑ سنگھ نام تھا، بڑے جو ش سے بولا کہ ’’ خواہ مخواہ نرم نرم باتیں کرتے ہو۔ ڈانگ پکڑ کر آگے لگاؤ۔‘‘ہم بھی وہاں کھڑے تھے۔ اس سکھ کے جواب میں ہماری طرف سے ہمارے بڑے بھائی میاں جمال الدین صاحب مرحوم نے کہا کہ ’’ دیکھو! اگر شیخ صاحب عبد الرحیم جو ہمارا بھائی ہے اپنی خوشی سے تمہارے ساتھ چلا جاوے تو ہم روک نہیں سکتے اور اگر زبردستی لے جانا چاہو تو پہلے ہم کو مار لو گے تو اس کو لے جاؤ گے ورنہ ہر گز نہیں لے جاسکتے ۔‘‘ پس اس پر سلسلہ گفتگو ختم ہوا۔ آخر انہوں نے التجا کی کہ ہم اس کو الگ لے جا کر ایک بات کرنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ گاؤں سے کچھ فاصلہ پر چھپڑ(جوہڑ) تھا وہاں چلے گئے اور ہم بھی اپنے پہرے پر کھڑے رہے کہ آخر شیخ صاحب نے ان کی کوئی نہ مانی ۔ وہ وہاں سے ہی واپس چلے گئے اور شیخ صاحب ہماری طرف آگئے۔‘‘اس وقت ہم مع شیخ صاحب قادیان پہنچ گئے ۔شام کی نماز کے بعد حضرت اقدس کے حضور تمام حالات بیان کئے گئے ۔حضور علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ’’ مولوی صاحب نے بہت غلطی کی کہ قادیان سے باہر ان کو بھیج دیا۔قادیان سے زیادہ امن کی جگہ کون سی ہے؟‘‘
{1500} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت احمد جان صاحب خیاط پشاوری وزوجہ چوہدری حاکم علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۴ء میں جب بڑا زلزلہ آیا تو ہم سب حضور علیہ السلا م کے ساتھ باغ میں چلے گئے تھے۔ میں قریباًآٹھ سال کی تھی۔ حضرت اماں جان نے باغ میں جھولا ڈالا ہو اتھا۔ میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ میر محمد اسحق صاحب بنت پیر منظور محمد صاحب ،میری بہن فاطمہ بیگم وفہمیدہ وسعیدہ بنت پیر افتخار احمد صاحب ہم سب جھولا جھول رہی تھیں ۔جب میری باری آئی تو حضورؑ وہاں سے گزرے ۔ حضور علیہ السلام ہمیں دیکھ کر ہنسے ۔
{1501} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب ؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل نے بواسطہ محترمہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میںاور رسول بی بی صاحبہ اہلیہ خورد بابو شاہ دین ہم دونوں رات کو حضور علیہ السلام کے پیر دبایا کرتے تھے ۔ایک دن حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ جب مجھے الہام ہونے لگے تو مجھے جگا دیا کرو۔‘‘ حضورؑ کوالہام ہو نا شروع ہوا تو وہ کہتی تھی کہ تو جگا اور میں کہتی تھی تم جگاؤآخر میں نے کہا کہ حضور ؑکا حکم ہے اگر نہ جگایاتو گناہ ہوگا۔ہم نے جگا دیا ۔حضورؑ نے دریافت کیا کہ تم نے کچھ سنا ہے یا تم کو کچھ معلوم ہوا ہے؟ میں نے کہا ’’ نہیں ‘‘ قلم دوات حضورؑ کے سرہانے تھی حضورؑ نے لکھ لیا۔ فرمایا کہ ’’ اب میں پہلے وقت تم کو ہی پہرہ پر رکھا کروں گا۔ بارہ ایک بجے الہام ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔‘‘ ہمیں معلوم تھا کہ جب حضور ؑ کو الہام ہونے لگتا تھا تو حضورؑ کو عموماً سردی محسوس ہوتی تھی جس سے کچھ کپکپی ہو جاتی تھی اور حضورؑ کچھ گنگنایا بھی کرتے تھے ۔
{1502} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔لال پری صاحبہ پٹھانی دختر احمد نور صاحب کابلی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب ہم اپنے وطن سے آئے تھے تو میری آنکھیں بہت درد کرتی تھیں اور ہر موسم میں آجاتی تھیں۔ وطن میں بھی علاج کیا ۔ قادیان میں بھی بہت علاج کیا۔ کوئی آرام نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے اپنی والدہ مرحومہ سے کہا میرا دل چاہتا ہے کہ میں حضرت اقدس کی خدمت میں جاؤں اور آنکھوں کو دم کراؤں ۔ شاید میں اچھی ہوجاؤں؟‘‘ والدہ صاحبہ مرحومہ نے کہا کہ ہاں فوراً جاؤ۔ کوئی پیالی بھی دی تھی کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھوک بھی لے آنا۔ میں جب گئی تو حضرت چارپائی پر بیٹھے تھے۔ رخ مغرب کی طرف تھا۔حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔’’ کیوں لال پری ! کس طرح آئی ہے ۔‘‘ میں نے ہاتھ آنکھوں پر رکھا ہوا تھا ۔میں نے کہا کہ حضورآنکھیں دکھتی ہیں ،بہت علاج کیا اچھی نہیں ہوتیں ۔آپ نے اپنی انگلی پر تھوک لگا کر میری آنکھوںکے ارد گرد لگا دیا ۔ فرمایا ’’ بس! پھر کبھی ایسی درد نہ کریں گی اور ہنس کر کہا ۔’’اچھی ہو گئی؟‘‘ گھر آئی! میںنے آنکھیں کھول لیں ۔ پھر مجھے وہ تکلیف کبھی نہیں ہوئی۔
{1503} بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ مائی امیری نائین والدہ عبدالرحیم صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور علیہ السلام بہت نیک تھے اور بہت عبادت گذار تھے۔ اِدھر اُدھر گلیوں میں کبھی نہیں پھرتے تھے۔ عموماً گھر پر ہی رہتے تھے یا مسجد میں جاتے تھے۔ جانو کشمیری عموماً خدمت میں ہوتا تھا۔ حافظ مانا بسا اوقات رات دیر تک پیر دبایا کرتا تھا۔ حضور علیہ السلام کا لباس سادہ ہوتا تھا۔ جب دہلی اپنے نکاح کے لئے گئے تھے۔ تو یونہی سادگی سے چلے گئے تھے ۔
{1504} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سعیدہ بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد علی صاحب مرحوم بدوملہوی مہاجر واہلیہ وزیر محمد صاحب مرحوم پنشنر مہاجر نے بواسطہ مکرم محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز میری والدہ مرحومہ نے ،جب حضور علیہ السلام صحن ہی میں پلنگ پر تشریف فرما تھے، آپ کی خدمت میں کہا کہ میری یہ لڑکی درثمین میں سے یہ شعر پڑھا کرتی ہے اس پر سراج منیر سے حضرت اقدس نے خاکسارہ کو فرمایا کہ ’’ پڑھو ، سناؤ‘‘ خاکسارہ نے فداہ نفسی وہ تمام شعر سنادئیے جن کا پہلا شعر یہ ہے ۔
زندگی بخش جام احمد ؐ ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمدؐ ہے ۔
حضورؑ نے سر پر پیار کیا اور دونوں دست مبارک سے باداموں کی مٹھی بھر کر خاکسارہ کی جھولی میں ڈال دی۔
{1505} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب وبنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ بارش سخت ہورہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکوایا کرتے تھے۔ انہوںنے کھانا حضورؑ اور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سو نہ جائیں ،باقی کھانا بعد میں بھجوا دیں گے ۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’ شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں ؟‘‘ جواب ملا کہ نہیں ۔ ان دنوں دادی مرحومہ ؓ وہاں رہا کرتی تھیں۔ حضورؑ نے کھانا اٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایا اور فرمایا کہ ’’ پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھالیں گے ۔‘‘
{1506} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔استانی رحمت النساء بیگم صاحبہ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میرے والد مولوی محمد یوسف صاحب سعدی نے لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی ۔آپ۳۱۳میں سے تھے اور سنور کے رہنے والے تھے۔ میں۱۹۰۷ء میں حضور ؑ کے قدموں میں آئی۔ میں اور میرا خاوند ہم دونوںموسمی تعطیلات میں قادیان آئے اور میں حضورؑ کے گھر کے نچلے حصہ میں ٹھہری ۔ سخت گرمی تھی اور میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے جو نیچے کھیلتے رہتے تھے۔ آپ کی دو نوکرانیاں تھیں جو بچوں سے اُکتا کر ان کو اور مجھ کو برا بھلا کہتی تھیں ۔ ایک عرصہ تک میں ان کی باتوں کو سنتی رہی ۔آخر ایک دن میرا خاوند آیا تو میں نے اس سے شکایت کی ۔میرے خاوند نے ایک رقعہ لکھ کر مجھ کو دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو دے دینا ۔ جب میں وہ رقعہ لے کر اوپر گئی تو آپ اور اماں جان چوبارہ پر ٹہل رہے تھے ۔ جب میں نے سلام کہا تو آپ ٹھہر گئے اور رقعہ لے لیا۔ میں نیچے اتر آئی۔ ابھی نیچے اتری ہی تھی کہ آپ نے ایک عورت کو جس کا نام فجو تھا مجھے بلانے کے واسطے بھیجا ۔جب میں حضور میں پہنچی تو آپ نے محبت آمیز لہجہ میںجو باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ محبت کے ساتھ فرمایا ’’ تم ان کی باتوں سے غم نہ کرو۔ انہوںنے جو تم کو برا بھلا کہا ہے وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے ۔‘‘ پھر آپ نے ان عورتوں کو خوب ڈانٹا اور ان میں سے ایک کو تو فوراً نکل جانے کا حکم دیا اور دوسری کو خوب ڈانٹا اور فرمایا ’’ کیا میرے مہمان جو اتنی گرمی میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر ،اپنے آراموں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں تم ان کو برا بھلا کہتی ہو۔ کیا وہ صرف لنگر کی روٹیاں کھانے آتے ہیں ؟ اور میرے متعلق کہا کہ اس لڑکی کو آئندہ کچھ تکلیف نہ ہو۔‘‘
تھوڑے عرصہ بعد میاں مبارک احمد صاحب بیمار ہو گئے تو ہم اکثر اوپر رہتی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر کسی قسم کے غم کے آثار نہیں تھے ۔ جب میاں مبارک احمد صاحب نے وفات پائی تو آپ دیکھ کر اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھ کر چوبارہ پر تشریف لے گئے اور اس وقت تک نہ اترے جب تک جنازہ تیار نہ ہوا۔آپ کو فطرتی غم تھا اور ایک طرف خوشی بھی تھی۔ کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی ۔ آپ فرماتے تھے کہ ’’ اللہ کی امانت تھی جو کہ خدا کے پاس چلی گئی۔‘‘ لیکن جب بھی میں آپ کو دیکھتی آپ کو خوش ہی دیکھتی۔
آپ اپنے مہمانوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے۔ جب ہماری چھٹیاں ختم ہونے کو آئیں تو میں نے حضور علیہ السلام سے گھر جانے کی اجازت مانگی جو کہ حضور علیہ السلام نے بخوشی منظور کر لی۔
{1507} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صبح کے وقت آفتاب نکلنے کے بعد بسراواں کی طرف سیر کرنے کے واسطے تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ حضرت اُم المومنین کے علاوہ چند اور عورتیں بھی تھیں ۔ جن میں سے میرے علاوہ مرزا خدا بخش صاحب جھنگ والے کی بیوی ام حبیبہ ،محمد افضل صاحب کی بیوی سردار ، حافظ احمد اللہ صاحب کی بیوی اور اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ وغیرہ بھی تھیں۔ ان دنوں حضور علیہ السلام کے ہمراہ صبح کو پانچ چھ عورتیں اور حضرت اُم المومنین سیر کو جایا کرتی تھیں اور عصر کے بعد مرد جایا کرتے تھے ۔بعض اوقات صبح کو بجائے عورتوں کے مرد ہی صبح کو جایا کرتے تھے۔ حضور علیہ السلام اکثر محلہ دارالانوار کی طرف والے رستہ پر سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ حضورؑ جب سیر کے واسطے نکلتے تو سکھ لوگ بے ادبی کے کلمات زبان سے نکالتے جو حضور ؑ اور حضور کے ہمراہ عورتوں کو سنائی دیتے تھے مثلاً’’ مرزا بھیڑ بکریاں لے کر باہر نکلتا ہے ۔‘‘ جب سکھ لوگ اس طرح کے فقرے لگاتے تو بعض اوقات مرزا خدا بخش اور محمد افضل صاحب کی بیوی حضورؑ کو توجہ دلاتیں تو حضورؑ فرماتے ۔’’ ان کو بولنے دو ۔ تم خاموش رہو اور ادھر توجہ ہی نہ کرو۔‘‘
{1508} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عصمت بیگم صاحبہ عرف زمانی اہلیہ حکیم محمد زمان صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک روز حضور علیہ السلام سوئے ہوئے تھے اور میں پیر کی طرف فرش پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ پیر دبا رہی تھی ۔حضورؑ کے پیر مبارک کا انگوٹھا ہل رہا تھا۔ اتنے میں اماں جان آئیں اور حضور کو آواز دی کہ سنتے ہو ،سنتے ہو۔حضورؑ کی آنکھ کھل گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تم نے مجھ کو جگا دیا الہام ہو رہا تھا۔ کیا پتہ کہ زمانی کے لئے ہورہا تھا اس کا بھلا ہو جاتا۔‘‘
مَیں روز حضورؑ کے پاس دعا کے لئے جاتی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا سے اب میری چار لڑکیاں اور ایک لڑکا سلامت ہیں ۔‘‘
{1509} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت احمد جان صاحب خیاط پشاوری زوجہ چوہدری حاکم علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۶ء میں جب میری والدہ مرحومہ فوت ہوگئی تھیں تو مجھے اماں جی اہلیہ خلیفہ اولؓ اپنے گھر لے گئیں ۔ناشتہ وغیرہ کرایا۔ پھر چار پانچ یوم کے بعد حضرت اُم المومنین مجھے اپنے گھر لے آئیں ۔ جہاں اب اماں جان کا باورچی خانہ ہے وہاں میرا سر دھلو ا رہی تھیں ۔ ایک عورت میرے سر میں پانی ڈالتی جاتی تھی۔ حضرت اُم المومنین میرے سر کو صابن ملتیں اوردھوتی تھیں۔ وہ عورت پانی زیادہ ڈال دیتی تھی۔ حضورعلیہ السلام وہاں ٹہل رہے تھے۔ حضور علیہ السلام نے لوٹا اس کے ہاتھ سے لے کر میرے سر پر پانی ڈالا۔ پھر حضور علیہ السلام آہستہ آہستہ پانی ڈالتے جاتے تھے اور اُم المومنین کنگھی کرتی جاتی تھیں ۔ حضور ؑ فرماتے کہ ’’اس طرح جوئیں نکل جائیں گی ۔‘‘
{1510} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحومؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب(جٹ) فاضل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب ؓبذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضورؑ کو گڑ کے میٹھے چاول بہت پسند تھے ۔حضورؑ مسجد میں کھانا کھا رہے تھے کہ میں نے میٹھے چاول بھیج دئے ۔حضورؑ نے حضرت مولوی نور الدین صاحب ؓ کو پوچھا کہ ’’یہ چاول کس نے پکائے ہیں ؟‘‘ انہوںنے عرض کی کہ حضورؑ! مجھے معلوم نہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ حافظ حامد علی صاحب کی بیوی نے پکا کر بھیجے ہیں ۔ بہت اچھے پکائے ہیں ان کے واسطے دعا کرو۔‘‘
{1511} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ لال پری صاحبہ پٹھانی دختر احمد نور صاحب کابلی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میری والدہ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دبا رہی تھیں ۔آپ کے پا س کوئی جامن لایا۔ آپ نے جامن کھا کر گٹھلی پھینک دی میں نے والدہ سے کہا کہ اس کو میں اپنے منہ میں ڈال لوں۔ اس پر تھوک لگا ہے۔ جب میں نے منہ میں ڈالی تو آپؑ نے میری طرف نظر کر کے جامن دئے ۔میری والدہ نے عرض کیا کہ نہیں حضورؑ! وہ تبرک چاہتی تھی۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’آپ کی بات سمجھ گیا ہوں یہ بھی تبرک ہے۔‘‘ حالانکہ میں نے پشتو زبان بولی تھی۔
{1512} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن فجر کے وقت حضور علیہ السلام شہ نشین پر ٹہل رہے تھے ۔میں اور ہمشیرہ زینب اور والدہ صاحبہ نما زپڑھنے کے لئے گئیں تو آپ نے فرمایا ۔’’آؤ تمہیں ایک چیز دکھائیں ۔یہ دیکھو یہ دمدار تارا ہماری صداقت کا نشان ہے ۔ اس کے بعد بہت سی بیماریاں آئیں گی ۔‘‘ چنانچہ طاعون اس قدر پھیلاکہ کوئی حد نہیں رہی ۔
{1513} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ محترمہ اہلیہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ صبح کے وقت حضورؑ بسراواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے ۔جس وقت چھوٹی بھینی جو بڑی بھینی کے مشرق کی طرف ہے کے پاس سے گزر کر ذرا آگے بڑھے تو ام حبیبہ زوجہ مرزا خد ابخش صاحب نے کہا کہ حضور! اب آگے نہ بڑھیں میں تھک گئی ہوں ۔اب واپس چلیں ۔ تو حضور علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ ’’ تم ابھی تھک گئی ہو یہ بھینی تو قادیان کے اندر آجائے گی۔اس وقت تم کو یہاں کسی کے گھر آنا پڑا تو اس وقت کیا کروگی؟‘‘
{1514} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صوبا ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ مکرمہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ ایک دفعہ ننگل کی طرف سیر کو تشریف لائے ۔ میں نے جو آتے دیکھا تو ایک کٹورے میں گرم دودھ اور ایک گڑ کی روڑی لے کر آئی۔ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’ اس لڑ کی نے بڑی مشقت کی ہے کہ ایک ہاتھ میں گرم دودھ اور دوسرے میں گڑ لائی ہے ۔‘‘ حضورؑ میرے گھر کے دروازے پر جو لبِ سڑک ہے، کھڑے ہو گئے اور جو اصحاب ساتھ تھے وہ بھی ٹھہر گئے ۔ پھر اس دودھ میں سے خود بھی ایک دو گھونٹ نوش فرمائے اور باقی تمام ہمراہیوں نے تھوڑا تھوڑا پیا۔ حکیم مولوی غلام محمد صاحب بھی تھے اسے کہا ’’گڑ کی ڈھیلی توڑو ‘‘ تو وہ توڑ نہ سکے ۔ تو حضورؑ نے خود ہتھیلیوں سے دبا کر توڑی اور ا ن کو کہا ’’ سب کو تھوڑا تھوڑا گڑ بانٹ دو ۔‘‘ خود بھی چکھا تھا۔
{1515} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔مراد بی بی صاحبہ بنت حاجی عبد اللہ صاحب ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں تیرہ یا چودہ سال کی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں آیا کرتی تھی۔ ایک بار میں اور میرا باپ گنے کا رس لے کر آئے تھے۔ میرا باپ ڈیوڑھی میں اس کا گھڑا لے کر کھڑا رہا اور میں اپنا رس کا برتن لے کر اندر گئی۔ اماں جان بیٹھی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے تھے ۔حضرت اماں جان نے حضور سے دریافت کیا کہ آپ رس پیئں گے ؟ دودھ ملا کردیں ؟ حضورؑ نے فرمایا کہ ہاں ۔حضرت اماں جان نے رس چھان کر اس میں دودھ ملایا ۔پھر حضرت مسیح موعودؑ نے گلاس لے کر پیا۔ میں کھڑی رہی کہ میں آپ کو دیکھوں ۔ حضورؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ آج صبح سے رس پینے کو دل چاہتا تھا۔‘‘ دوسرا برتن رس کا بھی میں اپنے باپ سے لے آئی۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لائے تو میرا باپ پیچھے مڑنے لگا تو گر گیا اور چوٹ آئی ۔ حضرت نے دیکھا اور فرمایا کہ ’’ بچ گیا ۔‘‘ میرے باپ نے بتایاکہ جیسے ہی حضرت نے فرمایا کہ ’’ بچ گیا‘‘ تو مجھے ایسا معلوم ہو اکہ چوٹ ہی نہیں لگی۔
{1516} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ والدہ صاحبہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن حضور علیہ السلام نے وضو کرنے کے بعد مجھے فرمایا کہ ’’ جاؤ اندر سے میری ٹوپی لے آؤ۔‘‘ جب میں گئی تو دیکھتی کیا ہوں کہ ایک معمولی سی ٹوپی پڑی ہوئی ہے جس کو دیکھ کر میں واپس آگئی اور عرض کی کہ حضور! وہاں نہیں ہے ۔ اس طرح تین مرتبہ اندر جا کر آتی رہی مگر مجھے گمان نہ ہوا کہ یہ پرانی ٹوپی حضورؑ کی ہوگی۔ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب جو وہاں تھے انہوںنے فرمایا کہ ’’میں لاتا ہوں ۔‘‘ جب وہ وہی ٹوپی اٹھا کر لائے جو میںنے دیکھی تھی تو میں حیران رہ گئی کہ اللہ اللہ کیسی سادگی ہے‘‘
{1517} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب مرحومؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ہمارا تمام خرچ روٹی کپڑے کا حضورؑ ہی دیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضورؑ نے ایک کپڑے کی واسکٹ اپنے اور ایک حافظ حامدعلی صاحب ؓ کے واسطے بنوائی تھی۔ سرد ی کاموسم تھا ۔میں نے حافظ صاحب کو کہا کہ میں صبح جب نماز تہجد کے لئے اٹھتی ہوں اور سحری پکاتی ہوں تو مجھے سردی لگتی ہے ۔ حافظ صاحب نے گرم صدری جو حضورؑ نے ان کو بنا دی تھی مجھے دے دی۔ جب میں اس کو پہن کر گئی اور انگیٹھی میں آگ جلا رہی تھی تو حضورؑ نے پوچھا کہ ’’رسول بی بی ! کیا یہ میری واسکٹ چرا لی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضور سب کچھ آپ کا ہی ہے۔آپ کا ہی کھاتے ہیں ،آپ کا ہی پہنتے ہیں ۔ حضورؑ اس پر خوب ہنسے اور فرمایا کہ ’’ خوب کھاؤپیو۔‘‘
{1518} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیمی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا تو حضورؑ اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر دروازہ میں کھڑے تھے ۔ اوپر سے ایک اینٹ گری۔ میں نے حضورؑ سے کہا کہ حضور! باہر آجائیں ۔آپ نے فرمایا کہ ’’ سب لڑکیاں کھڑی ہیں کسی کو یہ خیال نہیں آیا ۔یہ بہت ہشیار ہے ۔‘‘ اماں جان نے زینب سے جو اب مصری کی بیوی ہے کہا کہ ’’ مبارکہ بیگم اندر سوئی ہوئی ہیں ان کو اٹھا لاؤ۔‘‘ زینب نے کہا کہ کہیں میرے اوپر چھت نہ گر جائے ۔ لیکن میں جلدی سے اندر گئی اور بی بی کو اٹھا لائی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ لڑکی بڑی ہشیار ہے ۔ یہ جو بھاری کام کیا کرے گی اس میں برکت ہوگی اور اس کو تھکن نہیں ہوگی۔‘‘ حضور علیہ السلام کی برکت سے میں بھاری بھاری کام کرتی ہوں مگر تھکتی نہیں ۔
{1519} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ لال پری صاحبہ پٹھانی بنت احمد نورصاحب کابلی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ (حضور) ایک دن سیر کو گئے جو تیوں پر بہت گردا گرا۔ میری والدہ مرحومہ اپنے دوپٹہ سے پوچھنے لگی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’نعمت! چھوڑد وکیا کرنا ہے ؟ آخرت کا گردا اس سے زیادہ ہے۔‘‘
{1520} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میری والدہ صاحبہ نماز فجر باجماعت پڑھنے کے لئے گئیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ آج رات کو کوئی خاص چیز دیکھی ہے؟‘‘ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ’’ آدھی رات کا وقت ہوگا کہ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے دن چڑھ رہاہے ،روشنی تیز ہورہی ہے۔ تو میں جلدی سے اٹھی اور نفل پڑھنے شروع کر دئے۔ معلوم تو ہوتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے لیکن میں کافی دیر تک نفل پڑھتی رہی اور اس کے بڑی دیر بعد صبح ہوئی۔ ‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’ میں نے یہی پوچھنا تھا۔‘‘
{1521} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ جب میں شروع شروع قادیان میں آئی تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ اب نواب صاحب کا شہر والا مکان ہے وہاں لنگر ہوا کرتا تھا اور روٹی یہاں تیار ہوتی تھی مگر سالن اندر عورتیں پکایا کرتی تھیں ۔جب کھانا تیار ہوجاتا تو مسجد مبارک کے قدیم حصہ کی بالائی چھت پر لے جایا جاتا اور حضور علیہ السلام مہمانوں کے ساتھ اکثر وہیں کھاناکھاتے تھے۔ یہ مغرب کے بعد ہوتا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ کس طرح اور کہاں کھایا جاتا تھا۔
{1522} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صوبا ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب میں نے بیعت کی تھی اس وقت بٹالہ والے منشی عبد العزیز صاحب قادیان آئے ہوئے تھے۔ ہم چار پانچ عورتیں ،میری ساس ، راجن اور میری نندتھیں ۔جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضورؑ نے دریافت کیا کہ ’’ تم کیوں آئی ہو؟‘‘ میری ساس راجن نے کہا کہ ہم منشی صاحب کو جو میرا بھتیجا ہے ملنے آئی ہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ نہیں جس بات کے واسطے تم آئی ہو وہ کیوں نہیں بتاتیں ؟‘‘ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم ہوگیا تھا کہ ہم بیعت کرنے آئی ہیں ۔پس ہم سب نے بیعت کرلی۔ بیعت لینے سے پہلے فرمایا تھاکہ’’مائی راجن! یہ کام بہت مشکل ہے تم سوچ لو ۔ کہیں گھبرا نہ جاؤ۔‘‘ چونکہ ابھی ہمارے مردوں نے بیعت نہیں کی تھی ا سلئے حضورؑ نے فرمایاتھا کہ ’’ ایسا نہ ہو کہ تم مستقل مزاج نہ رہ سکواور بیعت سے پھر جاؤ۔‘‘ ہم نے کہا کہ حضور! خواہ کچھ ہو ہم نہیں گھبرائیں گی اور بیعت پر قائم رہیں گی۔ تو حضورعلیہ السلام نے دعا فرمائی۔
{1523} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مائی جانو صاحبہ زوجہ صوبا ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ منشی عبد العزیز صاحب بٹالہ والے جن کی بیوی کا نام برکت ہے، جو اب شاید پھر گئے ہیں ۔اس زمانہ میں قادیان گول کمرہ میں ہوتے تھے۔ وہ میری ساس راجن کے بھتیجے تھے۔ منشی صاحب کی پھوپھی جس کا نام’’نانکی ‘‘ تھا وہ ہمارے ننگل میں رہتی تھی جو کہ احمدیت کی سخت مخالف تھی۔ کہتی تھی کہ ’’ مرز اصاحب کی بیعت کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ اور مردوں میں بھی مخالفت عام تھی اس لئے ہم نے بیعت تو کر لی تھی مگر ہم کسی سے اس کا ذکر ڈر کی وجہ سے نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے کوشش کی کہ ’’نانکی‘‘ اگر بیعت کر لے تواچھا ہو گا۔ ہم نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ ’’ تو پہلے کہا کرتی تھی کہ جب مہدی آوے گا تو میں اس کو مان لوں گی مگر تم نہیں مانوگی ۔ اب یہ جو مہدی آگیا ہے تو اس کو کیوں نہیں مانتی؟‘‘ مگر وہ مخالفت کرتی رہتی اور کہتی تھی کہ ’’یہ مہدی نہیں ہے ۔‘‘ ایک دن وہ قادیان میں منشی صاحب کے پاس آئی تو اس کو سمجھایا کہ ’’ اس طرح نکاح نہیں ٹوٹتے تو آہستہ آہستہ اس کو سمجھ آگئی اور اس نے بیعت کر لی ۔ ہمارے گھر میں خدا کے فضل سے مخالفت کا جوش کم ہوگیا اور ان کو معلوم ہو گیا کہ ہم نے عرصہ کی بیعت کی ہوئی ہے ۔ جب مخالفت کا جوش کچھ کم ہوا تھا تو میرے خسر مسمی’’کوڈا‘‘ نے کہا تھا کہ ’’ نکاح تو نہیں ٹوٹتے مگر مجھے تو یہ فکر ہے کہ ہم میں سے جو بیعت کرے گا وہ اس طرح الگ ہو جائے گا کہ برادری میں اپنی لڑکیاں نہیں دے گا۔‘‘
جب ہمارے مرد بھی چند ایک احمدی ہو گئے تھے تو ہم نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ’’ حضور ؑہم گھبرائے تو نہیں تھے مگر یہ قصور ہم سے ضرور ہوا ہے کہ ہم نے ایک عرصہ تک یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہم نے حضور کی بیعت کر لی ہے۔‘‘ حضورؑ نے ہمیں تسلی دی اور فرمایا کہ ’’ یہ قصور نہیں ہے یہ مصلحتاً ایسا کیا گیا ہے جس کا نتیجہ بہت اچھا ہوا ہے ۔‘‘
{1524} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب ؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت سونے کا زیور پہن کر آئی تو جس پلنگ پر حضرت اُم المومنین اور حضورؑ بیٹھے تھے آکر بیٹھ گئی۔ ہم لڑکیاں دیکھ کر ہنسنے لگیں ۔ہم نے کہا کہ اگر ہمیں بھی سونے کی بالیاں اور کڑے وغیرہ ملتے تو ہم بھی حضورؑ کے پلنگ پر بیٹھتیں۔ حضرت اُم المومنین نے حضور کو بتا دیا کہ یہ لڑکیاں ایسا کہہ رہی ہیں۔ حضورؑ ہنس پڑے اور فرمایا کہ ’’ آجاؤ لڑکیو! تم بھی بیٹھ جاؤ‘‘ ۔
{1525} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ مجھے نیند بہت آیا کرتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے صفیہ بنت قدرت اللہ خان صاحب ؓ سے فرمایا تھا کہ حسّو کو صبح جگا دیا کرو۔ایک دن زینب مجھے جگا رہی تھی اور حضورؑ دیکھتے تھے۔اس نے پہلے میرا لحاف اتارا پھر میرے منہ پر تھپڑ مارا ۔حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ ایسے نہیں جگاتے۔ بچے کو تکلیف ہوتی ہے ۔تم اسے نہ جگایا کرو میں خود جگادیا کروں گا۔‘‘ اس دن سے جب حضورؑ صبح اٹھ کر رفع حاجت کو جاتے تو پانی کا ذرا سا چھینٹا میرے منہ پر مار دیتے۔ میں فوراً اُٹھ کھڑی ہوتی۔ حضور علیہ السلام مجھے نماز کے واسطے اٹھایا کرتے تھے۔‘‘
{1526} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نماز پڑھانے کے واسطے تشریف لے جارہے تھے تو خاکسارہ سے فرمایا کہ میری ٹوپی اندر سے لے آؤ۔ میں دو دفعہ گئی لیکن پھر واپس آگئی۔ تیسری دفعہ گئی تو میاں شریف احمد صاحب نے کہا کہ ’’ تمہیں ٹوپی نہیں ملتی آؤ۔ میں تمہیں بتا دوں۔‘‘ یہ کہہ کر میاں صاحب نے ’’ تاکی‘‘ میں سے ٹوپی اٹھا لی۔ میں نے کہا ’’ یہ تو میں نے دیکھ کر رکھ چھوڑی تھی۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ آپ سمجھتی ہوں گی کہ کوئی بڑی اعلیٰ ٹوپی ہوگی ۔ہم ایسی ہی ٹوپیاں پہنا کرتے ہیں ۔‘‘
{1527} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتا سی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میرا چوتھا لڑکا کوئی چار پانچ سال کا تھا کہ اس کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ اس نے سانپ کو دیکھا نہ تھا اور یہ سمجھا تھا کہ اس کو کانٹا لگا ہے۔ میں نے بھی سوئی سے جگہ پھول کر دیکھی۔ کچھ معلوم نہ ہوا لیکن جب بچہ کو چھالا ہو گیا اور سوج پڑ گئی تو معلوم ہو اکہ وہ کانٹا نہیں تھا بلکہ سانپ نے کاٹا تھا جس کا زہر چڑھ گیا ہے ۔بچہ چھٹے دن فوت ہوگیا تھا ۔جب حضور علیہ السلام کو علم ہوا تو حضور نے افسوس کیا اور فرمایا کہ ’’ مجھے کیوں پہلے نہیں بتایا ؟ میرے پاس تو سانپ کے کاٹے کا علاج تھا۔‘‘ مجھے بچے کے فوت ہونے کا بہت غم ہو اتھا اور میں نے رو رو کر اور پیٹ پیٹ کر اپنا بُرا حال کر لیا تھا۔ جب حضورؑ کو حضرت ام المومنین نے یہ بات بتائی تو حضورؑ نے مجھے طلب فرماکر نصیحت کی اور بڑی شفقت سے فرمایا کہ’’ دیکھو حسن بی بی! یہ تو خد اکی امانت تھی اللہ تعالیٰ نے لے لی ۔ تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ ‘‘ اور فرمایا کہ ’’ ایک بڑی نیک عورت تھی اس کا خاوند باہر گیا ہو اتھا جس دن اس نے واپس آنا تھا۔اتفاقاً اس دن اس کا جوان بچہ جو ایک ہی تھا فوت ہوگیا تھا ۔اس عورت نے اپنے لڑکے کو غسل اور کفن دے کر ایک کمرے میں رکھ دیا اور خود خاوند کے آنے کی تیاری کی۔کھانے پکائے، کپڑے بدلے، زیور پہنا اور جب خاوند آیا تو اس کی خاطر داری میں مشغول ہو گئی۔ جب وہ کھانا کھا چکا تو اس نے کہا کہ ’’میں آپ سے ایک بات دریافت کرتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی کی امانت کسی کے پاس ہو اور وہ اس کو واپس مانگے تو کیا کرنا چاہئے ؟ اس نے کہا کہ فوراً امانت کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دینا چاہئے ۔‘‘ توا س نیک بی بی نے کہا کہ اس امانت میں آپ کا بھی حصہ ہے پس وہ اپنے خاوند کو اس کمرے میں لے گئی جہاں بچہ کی نعش پڑی تھی اور کہا کہ ’’ اب اس کو آپ بھی خد اکے سپرد کر دیں یہ اس کی امانت تھی جو اس کو دے دی گئی ہے؟‘‘ یہ سن کر میرا دل ٹھنڈا ہو گیا اور میں نے اُسی وقت جزع فزع چھوڑ دی اور مجھے اطمینان کلی حاصل ہو گیا ۔ اسکے بعد میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ ’’ مجھے اپنے وطن جہلم لے چلو۔‘‘ اس نے حضورؑ سے اجازت طلب کی ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ تمہاری بیوی کو نیا نیا صدمہ پہنچا ہے۔ یہ وہاں جا کر پھر غم کرے گی اس لئے میں ابھی اجازت نہیں دیتا۔ پھر عرصہ تین سال کے بعد جب اجازت ملی تو میں اپنے وطن گئی۔‘‘
{1528} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ بابو محمد ایوب صاحب بدو ملہوی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ۱۹۰۸ء میں جبکہ حضور علیہ السلام لاہور اپنے وصال کے دنوں میں تشریف فرما تھے۔ عاجزہ نے حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔ غالباً ۱۲یا۱۳مئی ۱۹۰۸ء کو بیعت کی ۔خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں میرے خاوند بابو محمد ایوب صاحب نے پہنچایا اور تھوڑا سا پھل عاجزہ کو ایک رومال میں ساتھ دیا۔خواجہ صاحب موصوف کی اہلیہ کو عاجزہ نے کہا کہ ’’ میں نے حضرت صاحب کی بیعت کرنی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا کہ ’’ ابھی عورتیں بیعت کر کے اتری ہیں اگر آپ ذرا پہلے آجا تیں تو ساتھ ہی چلی جاتیں ۔اب دریافت کر لیتی ہوں بیٹھ جائیں ۔‘‘ تھوڑی دیر بعد مجھے ایک لڑکی لے گئی۔ آپ اوپر بالا خانہ میں ایک کمرے میں تشریف فرما تھے۔ایک طرف حضرت ام المؤمنین ایک پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں ’’السلام علیکم ‘‘ عرض کر کے حضرت اماں جان کے پلنگ کے پاس بیٹھ گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ’’ یہ کون لڑکی ہے؟ ‘‘ اماں جان نے جواباً فرمایا کہ ’’ پچھلے سال حسن بی بی بدوملہوی بہو بیاہ کر لائی تھی یہ وہی لڑکی ہے ۔وہ پھل والا رومال میں نے حضرت اماں جان کے پلنگ پر رکھ دیا تھا پھر میں نے عرض کی کہ ’’ میں نے بیعت کرنی ہے ۔‘‘ اماں جان نے حضرت صاحب سے فرمایا کہ ’’ یہ بیعت کرنا چاہتی ہے ۔‘‘ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہاں آجائے۔‘‘ وہ رومال جو میں نے حضرت اماں جان کے پاس رکھا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب جاتے ہوئے اپنی کم عمری کی وجہ سے ساتھ ہی لے گئی اور حضورؑ کے پاس رکھ دیا۔ بیعت کے بعد حضورؑ نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور ایک سیب کاٹا اور ایک قاش مجھے عطا فرمائی اور ایک حضورعلیہ السلام نے خود رکھ لی اور باقی رومال حضورؑ نے اٹھایا اور فرمایا کہ ’’ بیوی جی کے پاس لے جاؤ‘‘ اگر چہ آج بھی اس بات کو یاد کر کے اپنی حرکت پرہنسی آتی ہے کہ پہلے پھل حضرت اماں جان کے پاس رکھا اور پھر اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس لے گئی۔ مگر اس بات کو یاد کر کے شکریہ سے دل بھر جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے دست مبارک سے ایک قاش لینی نصیب ہوئی ۔فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک
{1529} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحب ؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مرزا ارشد بیگ کی والدہ الفت بیگم کے متعلق الہام ہوا کہ وہ فوت ہو جائے گی۔ جو وقت فوت ہونے کا بتایا تھا اس دن کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی ہے۔ اور ڈھول بجا کر بھی شور مچایا مگر جب اذان شروع ہوئی تو ساتھ ہی گھر میں سے چیخوں کی آواز آنے لگ گئی ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ الفت بیگم ہی فوت ہوئی ہیں اس پر مخالفین بہت نادم ہوئے ۔‘‘
{1530} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ سلطان بی بی صاحبہ اہلیہ مستری خیر دین صاحب قادر آباد نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ایک دن حضور سیر کو تشریف لے جارہے تھے ۔میری ساس ساتھ چلی گئی پھر واپس گھر تک چھوڑنے گئی وہ ہمیشہ ان کے ساتھ جایا کرتی تھی۔
ایک دن ہم بیعت کرنے کے لئے گئے۔ ہم تین عورتیں تھیں ۔ہماری ساس ہم کو ساتھ لے کر گئی۔ میری ساس کچھ بتاشے لے کر گئی تھی۔ حضورؑ پوچھنے لگے کہ ’’ تمہاری بہو کون سی ہے ؟ اور کس کی بیٹی ہے ؟ میری ساس نے بتایا کہ میری بہو یہ ہے اور یہ میری بہن کی بیٹی ہے ۔اس کے بعد بیعت ہوئی اور دعا کی گئی۔ وہ بتاشے جو ہم لے گئے تھے (ان میں سے حضور ؑ نے)کچھ رکھ لئے اور کچھ مجھے دیئے۔
{1531} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ حضور علیہ السلام جب کام کرتے کرتے تھک جاتے تو اٹھ کر ٹہل ٹہل کر کام کیا کرتے تھے اور جب ٹہلتے ہوئے بھی تھک جاتے تو پھر لیٹ جاتے تھے اور حافظ حامد علی صاحب کو بلا کر اپنے جسم مبارک کودبواتے تھے اور بعض دفعہ حافظ معین الدین صاحب کو بلواتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب نے نظمیں خود بنائی ہوئی تھیں حضورؑ ان کو فرماتے کہ’’ اپنی نظمیں سناؤ‘‘ حافظ صاحب دباتے ہوئے نظمیں بھی سنایا کرتے تھے۔جب حافظ صاحب اس خیال سے کہ حضورؑ سوگئے ہوں گے خاموش ہو جاتے تو حضورؑ فرماتے کہ ’’ حافظ صاحب آپ خاموش کیوں ہو گئے ؟آپ شعر سناویں ۔‘‘ تو حافظ صاحب پھر سنانے لگ جاتے تھے‘‘ ۔
{1532} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنر نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میرے والد اکثر نئی لکڑی( عصا) بنا کر حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور حضورؑ کی مستعملہ لکڑی اس سے تبرکاً بدلوا لیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نئی لکڑی دے کر مجھے بدلوانے کے واسطے بھیجا۔ حضورؑ اس وقت اُمّ ناصر کے آنگن میں ٹہل رہے تھے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’اندر سے میراسوٹا اٹھالا۔‘‘ میں اندر گئی اور ایک سوٹا اٹھا لائی ۔حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ تو حافظ مانا کا ہے ۔‘‘ تب میں پھر جا کر دورسرا اٹھا لائی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ یہ ہمارا ہے اسے لے جاؤ اور اپنے ابّا سے کہہ دینا کہ جس گھر میں یہ ہو گا اس گھر میں سانپ کبھی نہیں آویگا۔ چنانچہ وہ سوٹا اب تک موجود ہے اور سانپ گھر میں کبھی نہیں دیکھا گیا ۔‘‘
{1533} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ از لنگر وال نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ’’ ایک بار میں نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ لوگ تسبیح پر وظیفہ پڑھتے ہیں ۔مجھے بھی کوئی وظیفہ بتائیں تاکہ میں بھی تسبیح پر پڑھا کروں ۔ آپؑ کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا کہ ’’ آپ کو اگر تسبیح کا شوق ہے تو یہ وظیفہ پڑھا کرو۔‘‘
’’ یَا حَفِیْظُ ،یَا عَزِیْزُ ،یَا رَفِیْقُ ،یَا وَلِیُّ اشْفِنِیْ ‘‘
{1534} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحبؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ میرے خاوند کے چچا کا نکاح ہونے والا تھا حضور نے بھی برات کے ساتھ جانا تھا۔ میرے خاوند حافظ حامد علی صاحبؓ کو حضور ؑ نے پہلے بھیج دیا تھا کہ وہ حضورؑ کا کھانا تیار کر کے لائیں ۔ میری ساس سے چالیس پچاس پراٹھے اور دس باری سادہ روٹیاں ۔آم کا اچار اور بارہ سیر شکر لے کر حافظ صاحب کتھو ننگل پہنچ گئے وہاں حضورؑ نے کھانا کھایا۔ پھر حضور ؑ نے حافظ صاحب کو گھر بھیجا کہ ’’ جا کر صلح کراؤ ہم آکر نکاح کردیں گے۔‘‘ شام کو حضورؑ پہنچ گئے اور نکاح کرادیا۔ دولہا کو کہا کہ’’ اپنے گھر جاؤ‘‘ اور حافظ صاحب کو کہا ’’ اپنے گھر جاؤ‘‘ آپ حضور علیہ السلام وہیں دالان میںسو گئے ۔۔۔۔۔
صبح اٹھ کر حضورؑ پیشاب کرنے گئے تو مٹی کا ڈھیلا (وٹوانی کے لئے)مانگا۔ ایک شخص نے جس کا نام مہر دین تھا ایک دیوارسے مٹی اکھیڑ کر دے دی۔ حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ’’ مٹی کہاں سے لائے ہو؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ ارائیں کی دیوار سے لایاہوں ۔‘‘ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ کیا اس کو پوچھ لیا تھا؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’ وہ تو ہمارا موروث ہے۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ وہیں رکھ دو ۔میں نہیں لیتا۔‘‘
{1535} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ بنت پیر افتخار احمد صاحب زوجہ میر احمد صاحب قریشی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضور ؑ قضائے حاجت کو جاتے تو میں عموماً لوٹے میں گرم پانی وضو کے واسطے باہر رکھ آتی۔ ایک دن غلطی سے زیادہ گرم پانی رکھا گیا تو حضورؑ وہ لوٹا اٹھا لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کراس پر گرم پانی ڈال دیا۔ میں ایسی شرمندہ ہو ئی کہ کئی دن حضورؑ کے سامنے نہ ہو سکی ۔
حضور ان دنوں نما زمغرب وعشاء جمع کرایا کرتے تھے ۔ایک دن میں نے کہا کہ حضورؑ ساریاں کے واسطے (یعنی سب کے لئے) دعا کریں ۔‘‘ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ کیا کہا؟ صالحہ کے واسطے( جو حضرت میر محمد اسحق صاحب کی بیوی ہیں )دعا کروں ؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’ حضورؑ! ساریاں کے واسطے۔‘‘
{1536} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ زینب صاحبہ اہلیہ مستری چراغ دین صاحب قادر آباد نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دن میں اپنی سوتیلی والدہ کے ساتھ درس سننے گئی۔ میں اپنے چھوٹے بھائی کو جہاں جو تیاں تھیں کھلانے لگی جب حضور درس ختم کر کے اٹھے تو مجھے فرمانے لگے کہ’’ بچہ کو اٹھا لو ۔بچے کا جوتیوں سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔‘‘
{1537} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ دو عورتیں حضور ؑکو دبا رہی تھیں ،خاکسارہ دبانے کے لئے گئی تو وہ کہنے لگیں کہ ’’ اب حضورؑ کی طبیعت خراب ہے ۔بس دو ہی آدمی دبائیں گے زیادہ نہیں دبا سکتے ۔‘‘ میں واپس چلی گئی ۔آپ آنکھیں بند کر کے لیٹے ہوئے تھے ۔یوں معلوم ہوتے تھے جیسے سوئے ہوئے ہیں ۔خاکسارہ چلی گئی تو آپؑ نے دریافت فرمایا ’’ کون آیا تھا؟‘‘ ایک عورت نے کہا کہ خیر النساء آئی تھی چلی گئی(میں اس وقت ان عورتوں کا نام نہیں لینا چاہتی) آپ نے فرمایا کہ ’’ جاؤ ان کو بلا کے لاؤ۔‘‘ وہی عورت جس نے مجھے کہا تھا، مجھے بلانے کے لئے گئی۔ جب میں حاضر ہوئی تو فرمایا ’’آپ چلی کیوں گئی تھیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’ انہوں نے دبانے نہیں دیا تھا اس لئے چلی گئی تھی ‘‘۔ تو فرمایا کہ ’’ آپ کو ثواب ہو گیا ہے ،آپ بیٹھ جائیں ‘‘ اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ ’’ ان کے لئے چائے لاؤ‘‘ غرضیکہ حضور علیہ السلام اس قدر شفقت اور محبت سے پیش آیا کرتے تھے کہ میری ناچیز زبان بیان کرنے سے قاصر ہے ۔
آپ ہمیشہ مہمانوں کے لئے بادام روغن نکلو ا کر رکھا کرتے تھے ۔ میری آپا زینب زیادہ آپ کی خدمت مبارک میں رہا کرتی تھیں۔‘‘
{1538} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ والدہ عبد الحق صاحب واہلیہ شیخ عطامحمدصاحب پٹواری حال وارد قادیان نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’اب میری عمر۷۰سال کی ہوگی۔ میری شادی پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔بارہ سال تک میرے گھر کوئی بچہ پیدا نہ ہوا۔جس پر میرے خاوند صاحب نے دواور بیویاں اولاد نرینہ کی غرض سے کیں مگر اولاد ان کے ہاں بھی کوئی نہ ہوئی۔ اس اثناء میں حضرت مرزا جی نے دعویٰ مہدویت کا کیا جس کا شور ملک میں پیدا ہو گیا ۔اس زمانہ میں میرے خاوند نے حضرت مرزا صاحب سے عرض کی کہ ’’ ولی کی دعا ہمیشہ خدا کی جناب میں منظور ہو تی ہے۔ اگر آپ مہدی اور ولی ہو تو خدا کی بارگاہ میں دعا مانگو کہ میری ہر سہ بیویوں سے جس سے میں چاہوں اس کے گھر فرزند ارجمند، نیک بخت ،مومن صاحب اقبال پید اہو۔ چنانچہ میرے خاوند کو حضور علیہ السلام نے جو اب دیا اور کارڈ تحریر کیا کہ ’’ مولیٰ کے حضور دعا کی گئی ۔ تمہارے گھر میں فرزند ارجمند ،مومن صاحب اقبال اس بیوی کو ہو گا جس کو تم چاہتے ہوبشرطیکہ تم زکریا علیہ السلام کی طرح توبہ کرو۔ چنانچہ میرے خاوند نے پوری پوری توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے فرزند ارجمند ۱۹۰۰ء میں عطا فرمایا ۔ اُس وقت میرا خاوند موضع ونجواں تحصیل بٹالہ کا پٹواری مال تھا۔ چنانچہ اِس وقت لخت جگر عہدہ اوورسیٔر پر ملازم ہے ۔ تب سے ہمارا سب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پکا ایمان رکھتا ہے ۔ اس کے بعد میرے خاوند شیخ عطا محمد صاحب کو خواب آیا کہ ’’ میں ایک میٹھا خربوزہ کھا رہاہوں۔ جب میں نے اس کی ایک قاش اپنے لڑکے عبد الحق کو دی تو خشک ہوگئی ہے۔‘‘ تعبیر خواب پر حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ’’ تمہارے گھر میں اسی بیوی کو ایک اور لڑکا ہو گا مگر وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ چنانچہ حسب فرمودہ حضرت صاحب لڑکا پیدا ہوا اور گیارہ ماہ کا ہو کر فوت ہو گیا اس کے بعد میرے ہاں کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘
{1539} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسن بی بی صاحبہ اہلیہ ملک غلام حسین صاحب رہتاسی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضورؑ کچھ لکھ رہے تھے ۔ میں کھانا لے کر گئی اور حضور ؑ کے پاس رکھ کرلوٹ آئی۔کافی دیر کے بعد جب حضور کی نظر کہیں برتنوں پر پڑی اور ان کو خالی پایا تو مجھے آواز دی کہ ’’ آکر برتن لے جاؤ‘‘ اور پوچھا کہ ’’ کیا میں نے کھانا کھا لیا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو کھانا چھوڑگئی تھی مجھے معلوم نہیں کہ حضور نے کھایا ہے یا نہیں ؟‘‘ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ شاید کھا لیا ہوگا؟‘‘ لیکن معلوم یہ ہوتا تھا کہ حضور علیہ السلام لکھنے میں ایسی محویّت کے عالم میں رہے کہ حضورؑ کو یہ بھی معلوم نہ ہو ا کہ میں کھانا رکھ گئی ہوں اور نہ ہی بھوک محسوس ہوئی کہ اگر نہ کھایا ہوتا تو فرماتے کہ ’’ نہیں کھایا ۔‘‘
{1540} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدا لستار شاہ صاحب مرحومؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ میری موجودگی میں ایک دن کا ذکر ہے کہ باہر گاؤں کی عورتیں جمعہ پڑھنے آئی تھیں تو کسی عورت نے کہہ دیا کہ ’’ان میں سے پسینہ کی بو آتی ہے ۔چونکہ گرمی کا موسم تھا۔ جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ تواس عورت پر ناراض ہوئے کہ ’’ تم نے ان کی دل شکنی کیوں کی ؟‘‘ ان کو شربت وغیرہ پلایا اور ان کی بڑی دل جوئی کی۔حضورؑ مہمان نوازی کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے۔
{1541} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ خیر النساء صاحبہ والدہ سید بشیر شاہ صاحب بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحومؓ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ پہلی دفعہ جب ہم قادیان آئے ہیں تو عزیز م ولی اللہ شاہ صاحب کی ٹانگ میں گھوڑے پر سے گر جانے کی وجہ سے سخت تکلیف تھی اور ٹانگ سیدھی نہیں ہوتی تھی۔ سول سرجن نے کہدیا تھا کہ ٹانگ ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ والدہ صاحبہ قادیان آنے لگیں تو انہوں نے دعا کے لئے رقعہ لکھ دیا ۔آپؑ نے دریافت فرمایا کہ ’’ولی اللہ شاہ کون ہے؟‘‘ والدہ صاحبہ نے بتایا کہ ’’میرا لڑکا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا ۔’’دعا کریں گے ،انشاء اللہ صحت ہوجائے گی۔‘‘ چنانچہ آپ نے دعا فرمائی اور اسی سول سرجن نے جس نے کہا تھا کہ’’ اب آرام نہیں آسکتا۔‘‘ علاج کیا ۔خد اتعالیٰ کے فضل سے ٹانگ بالکل ٹھیک ہوگئی۔ یہ بھی آپ ؑ کا معجزہ ہے۔‘‘
{1542} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنر نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جس مکان میں اب ام طاہر صاحبہ رہتی ہیں یہ مکان بن رہا تھا ۔ میرے ابا برآمدہ کو روغن کر رہے تھے ۔ جب شام کو گھر گئے تو چونکہ وہ اپنا قرآن مجید بھول گئے تھے مجھے کہا کہ ’’ جا کر میرا قرآ ن مجید لے آ۔‘‘ جب میں گئی تو اس وقت بڑی سخت آندھی آگئی۔ اس آندھی میں ایک لفافہ اڑ کر آیا اور جہاں حضور علیہ السلام بیٹھے تھے وہاںآکر گرا۔ جب آندھی ذرا تھمی تو حضورؑ نے لالٹین منگوائی اور وہ لفافہ کھول کر پڑھا اس میں جو لکھا تھا حضور علیہ السلام نے سنایا کہ ’’ چند مہمان آرہے ہیں ان کے واسطے علیحدہ مکان رکھا جاوے اور ان کے کھانے کا انتظام بھی الگ ہی کیا جاوے ۔ چنانچہ جب وہ مہمان آئے تو ان کو اس گھر میں جہاں اب میاں بشیر احمدؐ صاحب رہتے ہیں ٹھہرایا گیا تھا ۔وہ مہمان پٹھانوں کی طرح کے معلوم ہوتے تھے ۔ چند دن رہے اور بیعت کر کے چلے گئے ۔بعض کہتے تھے کہ یہ جن ہیں ۔
{1543} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ مراد بی بی صاحبہ بنت حاجی عبد اللہ صاحب ارائیں ننگل نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ جب میں جوان ہوئی تو ہمارے گاؤں میں کھجلی کی بیماری پھیل گئی تو مجھے بھی کھجلی پڑگئی۔ میںنومہینے بیمار رہی ،میرے والد صاحب نے کہا کہ ’’ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس علاج کے واسطے لے جاؤ۔‘‘ میری والدہ مجھے لے کر آئی۔ اس وقت نیچے کے دالان میں حضورؑ ٹہل رہے تھے۔ ہم کھرلی کے پاس بیٹھ گئے ۔ میری ماں نے عرض کی کہ ’’ میں اپنی لڑکی کو علاج کے واسطے لائی ہوں ۔حضور دیکھ لیں ۔‘‘ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ا س وقت فرصت نہیں ہے ۔‘‘ میں ا س کُھرلی میں لیٹ گئی اور میں نے کہا کہ ’’میر ا علاج کریں نہیں تو میں یہیں مر جاؤں گی (حضرت ام المؤمنین اب تک میرا کُھرلی میں لیٹنا یا دکرتی ہیں ) تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’اچھا لڑکی کو لے آؤ۔‘‘ آپ نے میری حالت دیکھ کر دوا لکھی۔
آنولے ،بہٹیرے ،مہندی اور نیم یہ دوا لکھی ۔میری ماںنے کہا کہ ’’ یہ لڑکی بڑی لاڈلی ہے اس نے کڑوی دوا نہیں پینی۔‘‘ حضور علیہ السلام نے دروازہ میں کھڑے ہو کر میرے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ ’’بی بی تو دوا پی لے گی تو اچھی ہوجاوے گی۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ فرمایا تھا اور فرمایا کہ علی نائی کی دوکان سے یہ دوائیں لا کر مجھے دکھاؤ۔‘‘ میری ماں دوا لائی تو حضور نے دیکھی اور فرمایا کہ’’ اس کا عرق نکال کے اسے پلاؤ۔‘‘ میری والدہ نے تین بوتلیں عرق کی بنائیں ۔میں پیتی رہی اور بالکل اچھی ہو گئی۔‘‘
{1544} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی ارجمند خان صاحب بنت حکیم محمد زمان صاحب مرحوم نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ میں نے حضرت ام المؤمنین صاحبہ سے سنا ہے کہ جبکہ ابھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ چھوٹے بچے تھے تو باہر سے کسی سے یہ گالی سن آئے تھے کہ ’’ سؤر کا بچہ گو کھانا ۔‘‘ جب آپ نے گھر میں اس کو ایک دو مرتبہ بولا تو حضور مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا کہ ’’محمود ! محمود !ادھر آؤ۔میں تمہیں بتاؤں ۔ اس طرح کہا کرو کہ ’’ باپ کا بچہ گڑ کھانا۔‘‘ پھر میاں صاحب اسی طرح کہتے تھے ۔
{1545} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ ایک دفعہ جب میرا بڑا لڑکا عبد الرحمن دو ماہ کا تھا ۔میں اس کو اٹھا کر حضور ؑ کے پاس لے گئی۔ آپ اس وقت اس صحن میں جو اب اُم طاہر صاحبہ کا ہے ،ٹہل رہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور لڑکے کے واسطے دعا کے لئے عرض کیا اور بتایا کہ’’ یہ جو دودھ پیتا ہے اس کو پھر منہ سے باہر نکال دیتا ہے۔‘‘ حضورؑ نے بچہ کے منہ پر اور جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرااور فرمایا کہ ’’ اس کو ریوند خطائی، بڑی ہرڑ اور سہاگہ تینوں کو لے لو ۔سہاگہ کو پھُل کرواور جس وقت بچہ کو دودھ پلاؤ تو پھُل کیا ہوا سہاگہ تھوڑا سا منہ میں ڈال دیا کرو اور ریوند خطائی وہرڑ کو خالص شہد میں ملا کر کھلایا کرو۔‘‘
{1546} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا صاحب معمار خادم قدیمی نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’ جب گورداسپور میں کرم دین کا مقدمہ تھا تو حضور علیہ السلام کو وہاں تقریباً سات ماہ رہنا پڑ اتھا ۔بہت سے لوگ جماعت کے ساتھ ہوتے تھے ۔ وہاں گائے کا گوشت دیگوں میں پکا کرتا تھا۔ میں یہ گوشت نہیں کھایا کرتی تھی بلکہ روکھی روٹی کھا لیتی تھی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ روکھی روٹی کھانے سے کہیں بیمار نہ ہوجائے ۔ صفیہ کی اماں سے کہدوکہ ایک چھوٹی پتیلی میں چند بوٹیاں اچھی طرح سے پکا کر اس کو کھلایا کر و تاکہ اس کو گائے کا گوشت کھانے کی عادت ہو جائے ۔‘‘ چنانچہ ایک دن حضرت ام المومنینصاحبہ بڑا عمدہ بھنا ہو اگوشت اور دو روٹیاں لے کر آئیں اور ایک روٹی اور کچھ سالن اس میں سے آپ نے کھایا اور دوسری روٹی اور چند بوٹیاں مجھے دے کے کہا کہ ’’ کھاؤ‘‘ میں نے کھانا شروع کیا تو کھاتی گئی ،مزیدار تھا ۔ اس دن سے مجھے گائے کے گوشت سے جو نفرت تھی وہ جاتی رہی۔ اب کھاتی رہتی ہوں ۔‘‘
{1547} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ حافظ حامد علی صاحبؓ وخوشدامن مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل جٹ نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ’’میرا خاوند میرے ساتھ سختی سے پیش آتا اور خرچ دینے میں تنگی کرتا۔ ا س پر میں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں ان کی شکایت کی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ جو عورت اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرتی ہے وہ سیدھی جنت میں جائے گی اور جو خاوند کی سختیوں کو صبر سے برداشت کرتی ہے وہ ایک ہزار سال پہلے جنت میں جائے گی۔‘‘
{1548} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام اپنی عادت کے مطابق گھر سے سیر کے واسطے باہر تشریف لائے اور اس روز باغ کی طرف تشریف لے گئے جب باغ میں پہنچے تو وہاں شہتوت کے درختوں کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے ۔تب اس وقت مالی باغبان نے ایک بہت بڑا کپڑا زمین پر بچھا دیااور حضور بھی بمعہ خدام سب اس کپڑے پر بیٹھ گئے ۔تھوڑی دیر کے بعد مالی تین چار ٹوکریوں میں شہتوت بیدانہ ڈال کر لایا۔ ان میں سے ایک حضور کے آگے رکھ دی اور دوسرے دوستوں کے آگے تین ٹوکریاں رکھ دیں ۔ چنانچہ وہ شہتوت بیدانہ سب دوست کھانے لگ گئے ۔جو ٹوکری حضور کے آگے رکھی تھی اس پر میں اور ایک دو دوست اور بھی تھے میں بالکل حضور کے قریب دائیں جانب بیٹھا تھا ۔ اور کچھ حجاب کے باعث خاموش بیٹھا رہا اور اس میں سے نہ کھاتا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مجھے دیکھا کہ کھاتا نہیں تو حضور مجھے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ میاں فضل محمد تم کھاتے کیوں نہیں ۔تو اس وقت مجھے اور کوئی بات نہ سوجھی جلدی سے منہ سے نکل گیا کہ حضور یہ گرم ہیں ۔ میرے موافق نہیں ۔حضور علیہ السلام نے فرمایا۔ نہیں میاں یہ گرم نہیں ہیں ۔یہ تو قبض کشا ہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ حضور میرے ساتھ بات چیت کرنے میں مشغول ہیں تو میں نے موقعہ دیکھ کر عرض کیا کہ حضور میرے کھبے پٹ پر یعنی ران پر بہت مدت سے ایک گلٹی ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی وقت کچھ تکلیف نہ دے۔ اس وقت حضور کی زبان مبارک سے نکلا کہ ’’تکلیف نہیں دیتی آرام ہو جاوے گا‘‘ اور اس وقت ایک دوائی کانام بھی لیا جو مجھے بھول گئی ہے۔ فرمایا لگا دیویں آرام ہوجاوے گا اس کے بعد کچھ دنوں کے بعد اس گلٹی پر درد شروع ہو گئی ۔مجھے خیال آیا کہ حضور علیہ السلام نے جودوائی فرمائی تھی وہ تو مجھے بھول گئی اور میں حیران تھا کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں دو تین روز کے بعد وہ گلٹی پھٹ گئی اور وہ اندر سے باہر جا پڑی اور دو تین روز تک وہ زخم بالکل صاف ہوگیا‘‘۔
{ 1549} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں۔ تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیسے پودے ہیں ؟تو انہوںنے جواب دیا یہ طاعون کے پودے ہیں ۔ تو پھر میں نے پوچھا کہ کب ؟تو انہوںنے بتایاکہ جاڑے کے موسم میں ۔تب حضور نے تمام جماعت کو بلا کر ایک بڑھ کے نیچے جس جگہ قادیان کی مشرق کی جانب اب نئی آبادی ہوئی ہے جو بڑھ اب تک کھڑا ہے جمع کیا اور فرمایا کہ میں نے یہ دیکھا ہے۔ اب دنیا میں طاعون کا عذاب آنے والا ہے۔ بہت بہت تو بہ کرو ، صدقہ کرو اور اپنی اصلاح کرو ہر طرح نصیحت فرمائی اور بہت ڈرایا اوربہت دیر تک نصیحت فرماتے رہے ۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ کے بعد طاعون شروع ہوئی۔
{1550} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھار یوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینہ تھا ۔بہت دوست ارد گرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہورسرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی ۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں ۔چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑ دئے اور جب حضور دھاریوال کے پل پر تشریف لے گئے تو بہت لوگوں نے جو حضور کی زیارت کے لئے اردگرد سے آئے ہوئے تھے زیارت کی درخواست کی اس وقت حضور ایک پُلی پر کھڑے ہوگئے اور سب لوگوں نے حضور کی زیارت کی‘‘۔
{1551} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بھائی خیر الدین موضع سیکھواں نے اور میں نے مل کر ارادہ کیا کہ قادیان شریف میں دکان کھولیں۔ چنانچہ اس کے متعلق یہ صلاح ہوئی کہ پہلے حضور سے صلاح لے لی جاوے۔ چنانچہ جب حضور علیہ السلام نماز سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے چلے تو ہم نے عرض کی کہ حضور ہم نے ایک عرض کرنی ہے اور وہ عرض یہ ہے کہ ہم دونوں نے ارادہ کیا ہے کہ قادیان میں دونوں مل کر دکان کھولیں۔ حضور علیہ السلام وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ پہلے استخارہ کرو۔ تو میں نے عرض کی کہ حضور استخارہ تو ایک ہفتہ تک کرنا پڑے گا۔
تب حضور نے فرمایا کہ استخارہ دعا ہی ہوتی ہے ۔ہر نماز میں دعا کرو ایک دن میں بھی استخارہ ہوسکتا ہے ۔اس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی گھر تشریف لے جارہے تھے ۔حضور نے مولوی نور الدین صاحب کو بھی بلا لیا ۔اور فرمایا کہ مولوی صاحب یہ دونوں مل کر قادیان میں دکان کرنا چاہتے ہیں ۔ بھائی خیر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ حضور نے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ ا گردکان میں گھاٹاپڑے تو چھوڑ دیں ۔ اس کے بعد ہمارا خیال دکان کرنے کا بالکل نہ رہا۔ اور اپنے اپنے گاؤں کو چلے گئے ۔
{1552} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن کا ذکر ہے حضور اپنی عادت کے طور پر سیر کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے۔ بہت دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے ۔اس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے چلے ۔ جب ایک چھپڑ پر جو قصبہ قادیان کے متصل برلب راہ موضع بھینی کی جانب ہے اس کے کنارے پر ایک بڑا بڑھ کا درخت تھاحضور اس کے نیچے کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ اس چھپڑ کا پانی اچھا نہیں ہے اس سے وضو کر کے نماز نہیں پڑھنی چاہئے ۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ دوستوں کو وہاں سے وضو کرنے سے روکا تھا۔اور وہ دوست مجھے مخول کرتے تھے۔ اس روز وہ دوست بھی وہاں ہی تھے انہوں نے اپنے کانوں سے سنا کہ حضور نے اس چھپڑ کے پانی سے وضو کرنا اور اس کو استعمال کرنا منع فرمایا ۔
{1553} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے ایک رجسٹر بنایا ور اپنی جماعت کو حکم دیا کہ اپنی اولاد یعنی بچو ں، بچیوں کے نام مجھے لکھا دو تاکہ ہم اپنے طور پر جہاں چاہیں گے رشتہ کریں گے چنانچہ میں نے اپنے تین بچوں کے نام حضور اقدس کی خدمت میں لکھ کر پیش کئے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر اسماعیل صاحب کی اہلیہ صاحبہ فوت ہوگئیں ۔حضور نے ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کے والد سے کہا کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ ڈاکٹر اسماعیل صاحب کو دے دو اس نے صاف انکار کردیا کہ حضور یہ بڑی عمر کے ہیں اور صاحب اولاد ہیں اس واسطے میں یہ رشتہ کرنا منظور نہیں کرتا۔
چنانچہ اس کے بعد میں نے سنا کہ حضور نے اس رجسٹر کو پھاڑ دیا اور اس خیال کو چھوڑدیا میں نے سنا کہ اس لڑکی کارشتہ کسی اور جگہ اس کے والد نے کردیا اور اس لڑکی زندگی بڑی دکھی رہی اور دکھ میں مبتلا رہی۔
{1554} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب کہ پہلی ہی دفعہ ہمارے گاؤں میں طاعون پڑی تو ہمارے گاؤں میں سے بھی چوہے مرنے شروع ہو گئے ۔میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جمعہ کو قادیان میں ہی جمعہ پڑھا کرتا تھا اور اکثر حضور سے مل کر واپس گھر کو جاتا تھا۔ اس روز میں نے حضور سے ملنے کے وقت عرض کی ۔حضور !ہمارے گاؤں میں چوہے مرنے شروع ہو گئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ جھٹ باہر کھلی ہوا میں چلے جاؤ ایسے خطرہ کے وقت جگہ کو چھوڑ دینا ہی سنت ہے ۔ضرور گھر چھوڑ کر باہر چلے جاؤ ۔چنانچہ میں حضور کے حکم کے ماتحت گھر چھوڑ کر باہر چلا گیا ۔ اور بہت سے لوگ گاؤں کے گھر چھوڑ کر میرے ساتھ باہر چلے گئے۔ میرا ایک چچا زاد بھائی نہ گیا ۔ چند دن کے بعد وہ طاعون میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گیا۔
{1555} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ شیخ حامد علی صاحب جو ابتدا ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی خدمت اقدس میں رہے تھے میری ان سے بڑی محبت تھی ،بعض بعض وقت وہ میرے پاس حضور کی ابتدائی باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شیخ صاحب فرمانے لگے کہ ایک دفعہ حضور نے ایک ضروری کام کے لئے مجھے افریقہ یا امریکہ٭ ان دونوں میں سے شیخ صاحب نے کسی کانام لیا جو مجھے اس وقت یا دنہیں ہے بھیجا۔ جب میں

٭ حضرت حافظ حامد علی صاحب ؓ اپنے بھائی کے ساتھ مشرقی افریقہ گئے تھے۔
جہاز میں سوا ر ہوا تو وہ جہاز آگے چل کرخطرہ میں ہوگیا۔ یہاں تک کے لوگ چیخ وپکار کرنے لگ گئے ۔حتی کہ میرا دل بھی فکر مند ہوگیا۔ تب فوراً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کا بھیجا ہوں اور اس کے کام کے واسطے جارہاہوں ۔پس یہ جہاز کس طرح ڈوب سکتا ہے ۔چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا۔ کہ اے لوگو! گھبراؤ مت۔ یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا کیونکہ میں ایک نبی کا فرستادہ ہوں اور میں اس جہاز میں سوار ہوں اس واسطے یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا ۔چنانچہ میں نے اُن کو بہت تسلی دی اور یہ آگے چلے گئے چنانچہ جہاز اس جگہ پہنچ گیا ۔جس جگہ مَیںنے اترنا تھا۔ اس پر میں اس جگہ اتر گیا اور جس طرف جانا تھا چلا گیا اور وہ جہاز اس جگہ سے آگے نکل گیا اور آگے جا کر غرق ہوگیا۔ جب اس جہاز کے ڈوبنے کی خبر آئی تو میرے گھر والوں نے بھی سنا کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو غرق ہوگیا تو میرے گھر کے لوگ روتے پیٹتے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے اور رو رو کر کہنے لگے کہ فلاں جہاز جس پر حافظ حامد علی صاحب سوار تھے ڈوب گیا ہے۔ حضرت صاحب نے اس کے حال پکار کو سن کر فرمایا ۔ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو ڈوب گیا ہے اور اس میں حافظ صاحب بھی تھے۔ اور پھر خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا ۔چند منٹ کے بعد بلند آواز سے فرمایا ’’صبر کرو حافظ حامد علی صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں جس کام کے واسطے بھیجے گئے تھے کر رہے ہیں‘‘۔ اور سب کو تسلی دی اور گھر کو روانہ کر دیا ۔
{1556} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں عید کی نماز پڑھنے کے لئے قادیان شریف آیا۔ جب نماز ادا کر چکے تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ،اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو حضو ر کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور ! جناب نے فرمایا تھا کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کوئی اپنا نشان دکھاوے گا ۔ اور آج عید کادن ہے ۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ۔ اور قلم دوات وکاغذ اپنے پاس لے لو ۔یہ حکم سن کر سب دوست بیٹھ گئے اور حضور نے کرسی پر تشریف رکھ کر عربی زبان میں خطبہ شروع کردیا جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا۔ کچھ دوستوں نے وہ خطبہ لکھنا شروع کردیا اور جو کچھ حضور فرماتے ،لکھنے والے لکھتے جاتے۔جب کوئی لفظ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تو حضور پوچھنے والوں کو بمعہ جوڑ وغیرہ بتلا دیتے۔اس وقت حضور کے مبارک منہ سے اس طرح الفاظ جاری تھے ۔ کہ گویا کتاب آگے رکھی ہوئی ہے جس پر سے دیکھ کر پڑھ رہے ہیں۔ کتاب پر سے پڑھنے والے بھی کبھی رک ہی جاتے ہیں مگر حضور بالکل نہیں رکتے تھے۔ حضور کے پاس مَیں بیٹھا ہوا تھا اور حضور کی طرف میری آنکھیں لگی ہوئی تھیں۔ حضور کا رنگ اس وقت سرسوں کے پھول کی مانند تھا۔ آنکھیں بند رکھتے تھے اور کبھی کبھی کھول کر دیکھ لیا کرتے تھے۔
{1557} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ رشوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ رشوت یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے کا حق غصب کرنے کے لئے کسی کوکچھ دے۔ لیکن اگر کسی بدنیت افسر کو اپنے حقوق محفوظ کرانے کے لئے کچھ دے دے تو یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کتے کو جو کاٹتا ہو۔کوئی روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا جائے۔
{1558} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بواسطہ محمد احمد صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ کرم دین سکنہ بِھیں والے کے مقدمہ کی پیروی کے لئے حضرت صاحب گورداسپور یکّوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور میں حضور کے ساتھ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ جب ہم گورداسپور سے روانہ ہونے لگے تو قریباً گیارہ بجے دن کے تھے ۔ اور سخت گرمیوں کا مہینہ تھا۔ میں حضور کے ساتھ یکے کے اندر بیٹھا ۔میں پہلے اس بات کا خیال کر لیا کرتا تھا کہ جس وقت ہم روانہ ہوں گے دھوپ کا رخ کسی طرف ہوگا اور یکہ میں سایہ کس طرف۔ پھر سائے میں حضور کو بٹھاتا ۔میں ثواب کی خاطر ایسا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ حضور کو اس بات کا علم نہیں کہ میں عمداً ایسا کرتا ہوں ۔ جب ہم روانہ ہوئے تو سخت گرمی اور دھوپ تھی اور یکّہ سیدھا گورداسپور سے قادیان آتا تھا۔ بٹالہ کے راستہ سے نہیں آتا تھا۔ جونہی ہم روانہ ہوئے تو بادل کا ایک ٹکڑا سورج کے سامنے آگیا اور قادیان تک ہم پر سایہ کیا اور ٹھنڈ بھی ہوگئی ۔ہم یکّے پر سے قادیان آ کر اترے۔ تو حضور نے فرمایا ۔مفتی صاحب ! اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا جو بادل کا سایہ ہم پر کردیا اور بدلی ساتھ ساتھ قادیان تک ہی آگئی ۔پھر حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب! اسی قسم کاایک واقعہ پہلے بھی ہمارے ساتھ پیش آچکا ہے جب میں والد صاحب کے ساتھ زمین کے بارہ میں مقدمہ کی پیروی کے لئے امرتسر جایا کرتا تھا۔ جب ہم( بٹالہ یا امرتسر خاکسار کوبھول گیا ہے ،محمد احمد) سے روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ ایک ہندو بھی یکہ پر سوار ہونے والا تھا۔ تو جس طرح مفتی صاحب آپ تاڑ کر مجھے سایہ کی طرف بٹھاتے ہیں وہ بھی اسی طرح تاڑ کر جلدی سے اچھل کر خود سایے کی طرف بیٹھ گیا ۔ہم دھوپ میں ہی بیٹھ گئے اور اسے کچھ نہ کہا۔پھر جونہی ہم روانہ ہوئے تو اسی طرح بدلی کا ٹکڑا سورج کے سامنے آگیا اور سارے راستے میں ہم پر سایہ کیا پھر جب اترنے لگے تو ہندو نے اپنے فعل پر شرمندہ ہو کر کہا ۔ آپ دھوپ میں بیٹھے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ پر سایہ کردیا ۔آپ کے طفیل ہم بھی آرام سے پہنچ گئے ۔ خاکسار محمد احمد عرض کرتا ہے کہ جب پہلے مفتی صاحب سے یہ روایت سنی تھی اس وقت مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اس ہندو کے منہ سے بے اختیار رام رام کے الفاظ نکل پڑے تھے۔
{1559} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کہ غالباً جناب والد صاحب مرحوم ۱۸۹۸ء میں یہاں قادیان شریف بالکل ہی آگئے تھے ۔ ان کی موجودگی میں ہی جناب میاں مبارک احمد صاحب مرحوم تولد ہوئے تھے ۔ان کی پیدائش کا سن ہی ہماری بیعت کا سن تھا۔ والد صاحب کی بیعت تو بہت پہلے کی ہوگی ۔ہمیں پتہ نہیں ۔ ہم سب حضرت اقدس کے اسی مکان میں اترے کچھ عرصہ یہاں ہی ٹھہرے ۔جناب حضرت مسیح موعود نہایت سادہ پوشاک رکھتے تھے ۔ بعض دفعہ تو ازار بند کے ساتھ چابیوں کا گچھا بھی لٹکتا ہوتا تھا ۔ہمیشہ نیم وا آنکھیں رکھتے تھے ۔ کبھی سر مبارک پررومی ٹوپی ہوتی تھی اور بعض دفعہ لکھنے میں بہت مصروفیت ہوتی تھی ۔ننگے سر بھی ہوتے تھے ۔ہرو قت اوپر ، جہاں آج کل حضرت ام المومنین مدظلھا تشریف رکھتی ہیں ، رہتے تھے ۔ اور اکثر وقت لکھتے ہی رہتے تھے ۔بہت دفعہ دیکھا ہے کہ کمرے کے اندر ٹہلتے ٹہلتے بھی لکھتے رہتے تھے۔ تخت پر لکھے ہو ئے اور سفید کاغذ رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ ایک دفعہ میں حیرانی سے بڑی دیر کھڑی دیکھتی رہی بوجہ مصروفیت آپ کو کچھ خبر نہ تھی۔ چونکہ میں اپنے والد صاحب مرحوم کا کچھ پیغام لے کر آئی تھی اس لئے میں نے حضرت جی کہہ کر آواز دی ۔جو عرض کرنا تھا کیا۔ نہایت نرمی سے حضور اقدس نے فرمایا کہ ’’حرج ہوتا ہے ‘‘اس لئے میں جلدی چلی گئی اور اکثر شام کو حضرت صاحب صحن میں بالا خانے پر چارپائی پر بیٹھے ہوتے تھے۔ مولوی محمد احسن صاحب مرحوم ان کے پاؤں دبایا کرتے تھے۔
{1560} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میرے والدصاحب نے مجھے بھیجا کہ جا کر حضرت صاحب سے عرض کرو کہ اب میں کیا کروں۔ میں گئی ۔حضور اقدس صحن میں کھٹولی پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے ۔مولوی محمد احسن صاحب مرحوم پاؤں دبا رہے تھے ۔میں نے جا کر والد صاحب کی طرف سے کہا ۔آپ نے فرمایا ’’حضرت مولوی صاحب سے کہو کہ باہر جاویں تبلیغ کے لئے ‘‘۔میں نے آکر والد صاحب کو کہہ دیا ۔والد صاحب ہنسے اور بہت خوش ہوئے ۔فرماتے تھے۔ اللہ اللہ حضرت صاحب کو تبلیغ سب کاموں سے پیاری ہے اور میرے دل میں بھی تبلیغ کا بہت شوق ہے ۔یہ اس لئے کہا کہ والدہ صاحبہ چاہتی تھیں کہ احمدیہ سکول میں منطق عربی پڑھانے پر ملازم ہوجاویں شاید سکول میں عرضی بھی دی ہوئی تھی۔
{1561} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان صاحبہ بھی اوپر بالا خانہ میں بیٹھی تھیں ۔میں بھی گئی بیٹھ گئی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ حضرت مولوی صاحب پٹیالے سے رسد کے کتنے روپے لائے ہیں؟ میںنے کہا کہ میری بہن کی شادی پر والدہ صاحبہ نے قرض لے کر خرچ کیا تھا۔ کچھ تو وہ ادا کردیا باقی ہمارے سب کے کپڑے بنا دئے ۔فرمانے لگے ۔کیا خرچ کیا تھا۔ میں نے کہا کہ کپڑے زیور برتن وغیرہ جو کچھ کیا تھا بتادیا ۔ فرمانے لگے کہ ’’ قرض لے کر خرچ کرنا گناہ ہے ‘‘ ۔اماں جان نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے کیوں بی بی فاطمہ ؓ کو چکی دی تھی؟ حضور مسیح موعود علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔وہ قرض لے کر نہیں دی بلکہ گھر میں موجود تھی۔
{1562} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ پہلے ہم پیر سراج الحق( لمبے پیر) کے ساتھ چوبارے میں رہتے تھے ۔ اور ہمارے ساتھ محمد اسماعیل یا کچھ اور نام تھا ،ان کی بیوی رہتی تھی ۔ایک دوماہ کے بعد پھر حضرت صاحب کے قریب ایک کچا مکان خالی تھا وہ آپ نے ہمیں کرائے پر لے دیا۔ وہاں مغلانیاں آپ کی غیر احمدی رشتہ دار آتیں ۔ہمیں خفا ہوتیں سخت سست کہتیں۔ ایک دن میں نے حضرت صاحب سے کہا کہ ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ اس مکان کا ہم نے مقدمہ کیا ہو اہے ۔ دعا کرو کہ ہمیں مل جاوے کیونکہ یہ ہمارا ہی حق ہے۔ پھر تمہیں بھی اس میں سے مکان بنادیں گے ۔میں بہت دن دعا کرتی رہی پھر جب کپور تھلہ میں جناب والد صاحب مرحوم محمد خاں صاحب افسر بگھی خانہ کو پڑھانے کے لئے گئے ہوئے تھے معہ ہم سب۔ وہاں جا کر معلوم ہو اکہ حضرت صاحب کو وہ مکان مل گیا تھا۔
{1563} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جناب والد صاحب کہیں باہر دورہ تبلیغ کے لئے گئے ہو ئے تھے ۔ پیچھے سے مصلحت کی وجہ سے منتظموں نے لنگر خانہ کا یہ انتظام کیا کہ جو مہمان آویں صرف ان کو تین دن تک کا کھانا ملا کرے ۔ باقی گھروں کا بند کردیا۔ ہمیں بھی لنگر خانہ سے دونوں وقت روٹی آتی تھی ۔جب بند ہو گئی تو نہ آئی۔ ہم سب بہن بھائی ایک دن رات بھوکے رہے کسی کو نہ بتایا ۔ دوسرے دن سب کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی کہ مائی تابی ایک مجمع اٹھائے ہوئے آئی۔ والدہ صاحبہ نے کہا ۔کہاں سے لائی ہے؟ کس نے بھیجا ہے ؟حضرت جی نے دو رکابیاں کھیر کی اور دو پیالے گوشت عمدہ پکا ہوا بھجوایا۔والدہ صاحبہ کہتی ہیں مرغ کا گوشت تھا۔ اور روٹیاں توے کی پکی ہوئیں ہم سب حیران ہوئے کہ حضرت صاحب کو کس نے بتایا پھر میں شام کو برتن لے کر گئی ۔برتن نیچے رکھ کر اوپر گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ صفیہ کل کیوں نہیں آئی ۔میں نے کہا کل ہم کو لنگر سے کھانا نہیں آیا تھا۔ اس لئے ہم سب گھر ہی رہے ۔ آپ نے افسوس والی صورت سے فرمایا کہ کل تم سب بھوکے رہے ۔کیا تمہیں لنگرخانہ سے روٹی آتی تھی؟ بہت افسوس فرمایا اور کہا کہ آج جو مجھے کھانا آیا تھا میں نے تمہارے گھر بھیج دیا ۔مجھے یہ علم نہ تھا کہ تم کو کل سے کھانا نہیں ملا ۔پھر مجھے دس روپے دئے اور فرمایا کہ نیچے کوٹھی میں جتنے دانے گندم کے ہیں گھر لے جاؤ۔ اور خرچ کرو ۔جب تک حضرت مولوی صاحب نہیں آتے مجھے خرچ کے لئے بتایا کرو ۔پھر ایک ماہ میں کئی بار مجھ سے دریافت فرمایا کہ تمہارا خرچ ختم ہوگیا ۔میں کہدیتی نہیں ۔اسی ماہ کے اخیر میں ہی جناب والدصاحب مرحوم گھر آگئے ۔
{1564} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب جناب والد صاحب باہر جاتے تو حضرت صاحب ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ والد صاحب باہر گئے ہوئے تھے ۔وہ مکان (جو) مرزا امام الدین کے پاس پہلے تھااس میں ہم رہتے تھے ۔ بہت ردّی حالت اس کی تھی ۔ایک چھتڑا بالکل گرنے والا تھا ۔اس میں ہم دو بہنیں اور ایک بھائی بیٹھے تھے ۔تھوڑی تھوڑی بارش ہورہی تھی ۔حضور نے طاقی کھڑکائی اور اماں جان صاحبہ نے ناشپاتیاں دریچہ سے ہمارے صحن میں پھینکی شروع کیں ۔ہم بھاگ کر باہر آگئے ۔ناشپاتیاں چگنے لگ گئے اور پیچھے وہ چھتڑا دھڑام سے گر گیا۔و الدہ صاحبہ دریچہ کے قریب اونچی اونچی شکریہ ادا کر رہی تھیں کہ آپ نے میرے بچوں کی جان بچائی ورنہ نیچے دب کر مر جاتے ۔ حضرت صاحب مجھے اب اسی طرح مسکراتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
{1565} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک سوالی دریچے کے نیچے کرتا مانگتا تھا۔ حضرت صاحب نے اپنا کرتا اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا ۔والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اللہ اللہ کیسی فیاضی فرما رہے ہیں۔
{1566} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ننگل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورحضرت اماں جان صاحبہ معہ سب بچوں کے اور عاجزہ بھی ساتھ ہی مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کو اٹھائے ہوئے اور بھی کئی عورتیں ہمراہ تھیں ،گئے ۔ زمینداروں کے ایک گھر گئے ۔ انہوںنے چار پائی بچھا دی اس پر حضرت صاحب بیٹھ گئے ۔اور دوسری چار پائی پر حضرت ام المؤمنین صاحبہ اور ہم سب ادھر ادھر، گھر والی ایک چنگیر میں تازہ گڑ لائی۔ وہ اماں جان صاحبہ کے پاس رکھ دیا اور چھنے میں رس یا رَوْہ ہم سب کو آپ نے دیا اور گڑ بھی بانٹ دیا۔ یاد نہیں کہ آپ نے کھایا یانہ کچھ دیر کے بعد واپس آئے ۔ حضور عصا لے کرآگے آگے اور ہم سب پیچھے آپ بہت آگے رہتے تھے ۔گھر والی اور گاؤں کی عورتیں بھی آگئی تھیں ۔معلوم نہیں،یا د نہیں انہوںنے کیا باتیں کی تھیں مگر بڑے اخلاص سے باتیں کرتی تھیں ۔
{1567} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میری بڑی بہن حلیمہ بی بی اپنے سسرال سے بیمار آئی۔ میں نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ میری بہن کو تپ دق ہوگئی ہے ۔آپ نے فرمایا کل صبح قارورہ لے آنا میں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ چھنے میں پیشاب ڈال کر ضرور لانا۔ علاج کریں گے۔ گھر جا کر میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا۔ انہوںنے مجھے قا رورہ دے کر بھیجا۔ جب میں نے چھنا لا کر برانڈے میں رکھا ۔ آپ نے فرمایا ڈھکنا اتار ،ڈھکنا اتارا تو حضرت صاحب پچھلے پاؤں جلد ی پیچھے ہٹ گئے اور فرمایادھیلے کا شاہترا لے کر مٹی کے برتن میں رات کو بھگو دو،صبح پُن کر مصری ڈال کر پلا دو پھر والدہ پلاتی رہیں ۔ اسی سے اللہ پاک نے آرام دے دیا ایک ہفتہ میں بالکل اچھی ہوگئی۔
{1568} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ حضور اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نیچے برانڈے کے اندرجہاں ایک کمرے میں آج کل باورچی کھانا پکاتا ہے پلنگ پر لیٹے ہو ئے تھے۔ مجھے فرمایا سر دبائو۔ آپ دبواتے نہیں تھے بلکہ ایک طرف انگوٹھے دوسری طرف انگلیوں سے ستواتے تھے۔ میں بہت دیر تک اسی طرح سردباتی رہی ۔مجھے سردباتی کوفرمانے لگے ’’کسی دن تم کو بہت فخر ہوگا کہ میں نے مسیح موعود کا سر دبایا تھا‘‘ یہ کلمے حضرت علیہ السلام کے مجھے ایسے یاد ہیں جیسے اب فرماتے ہیں ۔افسوس اس وقت کچھ قدر نہ کی ۔اب پچھتانے سے کیا ہوسکتا ہے۔
{1569} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے ساتھ حضرت اماں جان صاحبہ بھی علی الصبح سیر کو جایا کرتی تھیں ۔ ایک دوعورتیں لڑکیاں بھی اماں جان کے ہمراہ ہوتی تھیں ۔ میں اماں جان صاحبہ سے کہتی کہ مجھے بھی بلا لینا ۔ جب میں آتی تو وہ واپس آ رہے ہوتے مجھے دیکھ کر اماں جان فرماتیں ۔اچھا کل بلاؤں گی ۔پھر بھول جاتیں مجھے دیکھ کر کہتیں ہائے مجھے یاد نہیں رہا ۔میں نے کہاآپ روز بھول جاتی ہیں ۔حضرت صاحب نے فرمایا کہ کل میں بلاؤں گا۔ دوسرے دن جانے سے پہلے ہی آپ نے دریچہ کھول کر مجھے آواز دی جب میں سامنے آئی تو فرمایا ’’آؤ بیوی صاحبہ سیر کو جارہی ہیں‘‘۔
{1570} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ۱۹۰۵ء ماہ اکتوبر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ مع حضرت اماں جان صاحبہ اور سب بچوں کے تشریف لے گئے ۔چھاؤنی میں فرید کے مکان میں اترے۔ والد صاحب لدھیانہ کے ارد گرد کے گاؤں سے لوگوں کو ،عورتوں کو پہلے ہی خبر کر آئے تھے کہ فلاں دن امام مہدی تشریف لائیں گے ۔ لدھیانہ آکر زیارت کرنا۔ رمضان شریف کامہینہ تھا۔والدہ صاحبہ اور میں بھی حضور کی زیارت کو پہنچیں ۔گاؤں کی عورتیں کھدر کے گھگرے اور سب کپڑے کھدر کے پہنے ہوئے ۔روزے سے آآکر مجھے کہتیں ۔بی بی امام مہدی کی زیارت کرا ۔میں اندر لے لے جاتی تھی ۔وہ سب جا کر ایک ایک روپیہ دیتیں اور بڑے اخلاص سے دیکھتیں ۔حضور نے اماں جان صاحبہ کی طرف رخ کر کے اسی طرف ام ناصر اور میں بیٹھی تھیں۔ فرمایا کہ ایسی عورتیں ہی بہشت میں جاویں گی اور ان عورتوں کو بھی کچھ نصیحتیں کیں کہ جو مجھے بالکل یاد نہیں۔
{1571} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ آخر۱۸۹۹ء یا شاید۱۹۰۰ء ہوگا کہ میرے والد صاحب مرحوم کے چچا زاد بھائی بابومحمد اسماعیل ہیڈ کلرک دفتر رولی برادرس امرتسر سے آئے اور کہنے لگے کہ میرے پر فلاں صاحب نے مقدمہ کیا ہو اہے ۔ جس کی وجہ سے میں سخت حیران ہوں ۔اس جینے سے موت بہتر سمجھتا ہوں۔ قریباً دو سال مقدمے کو ہو چلے ہیں۔ اب کوئی صورت رہائی کی نظر نہیں آتی ۔وکیلوں نے کہہ دیا ہے کہ قید اور جرمانہ ضرور ہوگا ۔رات میرے دل میں خیال آیا کہ بھائی صاحب سے جا کر کہوں یعنی والد صاحب سے کہ آپ حضرت مرزا صاحب سے میرے مقدمے کے لئے دعا کرائیں شاید اللہ تعالیٰ ان کی دعا کی برکت سے مجھے رہائی بخشے وہ روتے تھے والد صاحب نے فرمایا ۔بیلیا !اگر ہمارے حضرت صاحب نے تیرے لئے ہاتھ اٹھا دئیے تو واقعی تو ہر طرح کی سزا سے بچ جائے گا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ دعا کراؤ ۔والد صاحب نے کہا کہ کھانا کھا لو۔ ظہر کی نماز کے وقت مسجد چلیں گے پھر دعا کے لئے عرض کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ میں روٹی نہیں کھاتا مجھے روٹی اچھی نہیں لگتی پہلے دعا کراؤ۔ اور جب سے مقدمہ ہوا ہے میں نے کبھی بھی خوشی سے روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی ۔ ہر وقت متفکر ،جان سے بیزار روتا رہتا ہوں ۔بہت گھبراتے تھے ۔آخر والد صاحب مجھے ہمراہ لے کر حضرت صاحب کے مکان پر آئے ۔مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے راستے میں اوپر حضور والا کے پاس پہنچی۔ میرے والد صاحب مسجد میں ٹھہرے اور بابو صاحب سیڑھیوں میں بیٹھ گئے میں نے جا کر کہا کہ میرے والد صاحب اور چچا زاد بھائی بابو محمد اسماعیل آئے ہوئے ہیں ۔ ان پر کوئی بڑاسخت مقدمہ ہے آپ کو دعا کے کئے عرض کرتے ہیں ۔ آپ اس وقت چھوٹے تخت پوش پر بیٹھے لکھ رہے تھے ۔پاس لکھے ہوئے کاغذ پڑے تھے۔ فرمایا کہ ان سے پوچھ آئوکہ کچھ تمہاراجرم بھی ہے؟ ۔ میں نے اسی طرح جا کر کہا۔ انہوںنے کہا کہ ہاں میں بڑا مجرم ہوں ۔میں نے خیانت کی پرائیویٹ دکان سرکاری ملازم ہو کر کھولی وغیرہ وغیرہ ۔خود زبانی عرض کروں گا۔ حضور اقدس نے فرمایا کہ دعا کریں گے ۔میںنے جا کر کہہ دیا کہ وعدہ کیا ہے دعا فرماویں گے۔لیکن ان کو تسلی ہی نہ ہووے ۔ بہتیرا والد صاحب نے سمجھایا ۔تسلی دی وہ بار بار یہی کہیں کہ تم حضرت صاحب کے دعا کے لئے ہاتھ اٹھوا آؤمیری منتیں کریں میں پھر حضرت صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ حضرت جی وہ سیڑھیوں میں بیٹھے ہیں جاتے نہیں مجھے کہتے ہیں کہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھوا کرآ ۔حضور اقدس نے سنتے ہی دعا کے لئے دست مبارک اٹھائے اور میں بھاگی سیڑھیوں کی طرف گئی۔ کہ حضرت صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے ہیں ۔دعا ہورہی ہے ۔پھر والد صاحب نے مجھے کہا کہ اب تم گھر کو جاؤ ۔میں گھر چلی گئی ۔بعد میں پتہ نہیں نماز کے وقت حضرت سے ملے یا نہ ملے۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ کے بعد شاید ماہ ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی وہ اپنی خوشی سے تحفے تحائف لے کر آئے اور میرے لئے بھی کپڑے ،چاننی ،جوتی ، پھل وغیرہ لائے ۔ اور حضرت اُم المومنین کے لئے بھی چوڑیاں، خوبصورت کنگھیاں بہت سے فروٹ میرے ہاتھ بھیجے اور حضور اقدس کو ملے۔ بہت شکریہ کرتے تھے ۔ نقدی بھی دی ۔ پتہ نہیں ا س مقدمے میں دو اور بھی گرفتار تھے۔ ایک کا نام بابو عبد العزیز اور دوسرے کانام بابو علی بخش تھا۔ ان کا خفیف سا جرم تھا ۔ تاہم ان دونوں کو سزا قید ہوئی۔ جس وقت ان دونوں کے ہتھکڑیاں پڑیں ۔پیچھے ان کے بیوی بچے روتے جاتے تھے۔ بہت رحم آتا تھا ۔بابو محمد اسماعیل صاحب کہتے تھے کہ اصل مجرم تو میں تھا۔ حضرت صاحب کی دعا سے خدا نے مجھے بچایا۔ ورنہ میری رہائی کی کوئی صورت نہ تھی۔ اب کی چھٹیوں پر مجھے چچامحمد اسماعیل صاحب لاہور ملے تھے۔ میں نے وہ مقدمہ والا حال یاددلایا اور کہا کہ آپ نے وہ زمانہ دیکھاتھا۔ جب یکے پر قادیان دعا کے لئے گئے تھے۔ اب یہاں آ کر ترقی کا زمانہ دیکھو اور آپ کوو الد صاحب نے نعمت اللہ ولی کے شعر سنائے تھے۔ آپ نے لکھ لئے تھے۔ اب ذرا ’’ پسرش یادگار‘‘ کی زیارت خود کیجئے ۔ کہنے لگے جلسے پر ضرور آؤں گا۔ حضرت محمودا حمد صاحب کی زیارت کروں گا۔ انہوںنے دو دفعہ حج کیا تھا بہت بوڑھے ہو گئے تھے اِسی ماہ اکتوبر میں فوت ہوگئے ۔ ان کے بیٹے مقدمے وغیرہ کے گواہ ہیں اور میری والدہ صاحبہ بھی گواہ ہیں ۔ بلکہ ان کا اور میرا مضمون واحد ہے ۔
{1572} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔صفیہ بیگم بنت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم لدھیانوی حال معلمہ نصرت گرلز ہائی سکول قادیان نے بذریعہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کے چوٹ لگی جس سے خون نکلتا تھا۔ اور حضرت فرما رہے تھے کہ خدا کی بات کبھی نہیں ٹلتی اور خوشی کا اظہار فرما رہے تھے ۔ گھر گئی تو والد صاحب نے بتایا کہ آپ کو الہام ہوا تھا کہ ’’میاں مبارک احمد صاحب کو چوٹ لگے گی‘‘۔
{1573} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جس وقت میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میری عمر۱۳برس کی تھی۔ جب میری شادی احمد حسین مرحوم سے ہوئی تو میری عمر گیارہ یا بارہ برس کی تھی۔ نادانی کی عمر تھی۔ ماسٹر صاحب مجھے بہت سمجھایا کرتے ، مگرمیری سمجھ میں کچھ نہ آتا جب وہ مجھے بیعت کو کہتے تو میں انکار کر دیتی ۔ کہ میں کیوں غیر مردوں کی بیعت کروں ۔ ماسٹر صاحب بہت سمجھاتے مگر کچھ سمجھ میں ہی نہ آتی کیونکہ ہندوستان سے گئی تھی جہاں پر جہالت ہی جہالت تھی ۔ اور ان دنوں ماسٹر صاحب اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔حضرت مسیح موعود نے دہلی سے بلوایا تھا۔ وہاں پر وہ حسن نظامی کے پاس ملازم تھے ۔وہاں پرسے آکر وہ اخبار کی ایڈیٹری پر ملازم ہوئے تھے۔ وہ بہت پرانے احمدی تھے ۔وہ دو دفعہ مجھے قادیان لائے بیعت کے لئے مگر میں نے نہیں کی ۔ آہستہ آہستہ مجھے جب سمجھ آگئی تو پھر ماسٹر صاحب مجھے بیعت کے لئے لائے اور میں نے بیعت کی۔ میرے ہمراہ شیخ یعقوب علی صاحب کی اہلیہ تھیں ۔ انہوںنے میری بیعت کروائی تھی۔ ان دنوں حضرت صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی) میاں بشیر احمد صاحب ،مبارکہ بیگم صاحبہ یہ سب چھوٹے بچے تھے ۔اور یہ کھیلتے کھیلتے کمرے میں داخل ہو گئے ۔ اور دروازہ بند کر لیا۔ دروازہ ایسا بند ہوا کہ کھلے نہ اور بچے اندر روئیں ۔ ان کے رونے سے حضرت اماں جان بے ہوش ہو گئیں ۔ہم سب نے ہر چند دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر نہ کھلے پھر کسی نوکر نے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی تو حضرت علیہ السلام نے بڑھئی کو بلا کر دروزہ کھلوایا تو پھر بچے اندر سے نکلے ۔اُسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر کی تھی۔ یہ امرتسر کا ذکر ہے کہ جب شام ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر شروع ہوئی ۔ تو دشمنوں نے پتھر برسانے شروع کر دئے۔ شیشے دروازوں کے توڑ دئے ۔ اور اماں جان دوبارہ بے ہوش ہو گئیں ۔ہم سب عورتیں چھپ گئیں ۔ کوئی پاخانے میں کوئی چار پائی کے نیچے ،کوئی کہیں ،کوئی کہیں ۔پھر خدا جانے کسی طرح پتھر برسنے بند ہو گئے۔ حضرت علیہ السلام سے بیعت کرنے والے آپ کے چاروں طرف بیٹھ جاتے اور حضرت ان سے بیعت لیتے۔ یہ حضرت صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سے ہے کہ آپ عورتوں کو کبھی بھی کھلی لمبی آنکھوں سے نہ دیکھتے تھے ۔ جب کمرے سے باہر نکلتے تو کوٹ ،واسکٹ صافہ ہمیشہ پہن کر نکلتے ۔میں نے کئی بار آپ کو صحن میں ٹہلتے ٹہلتے لکھتے دیکھا۔ دو دواتیں ہوتی تھیں ۔اِدھر گئے تو اِدھر سے دوات سے قلم بھر لیتے تھے اور لکھتے ،اُدھر گئے تو اُدھر سے قلم بھر لیتے اور لکھتے اور اگر کسی نے مسجد سے آواز دینی تو آپ تشریف لے جاتے ۔ اور لوگوں نے دوڑ کر آگے پہنچے ہونا۔ گرد سخت اڑتی تھی۔ اور حضرت صاحب صافہ کا پلّو منہ اور ناک کے آگے لے لیتے اور ہر ایک کے ساتھ محبت اور اخلاص کے ساتھ پیش آتے۔ ان دنوں راستے بہت خراب تھے ۔جنگل ہی جنگل تھا ۔ گنتی کے آٹھ دس مکان تھے جب ہم نے امرتسر سے قادیان ٹانگا پرآنا تو کتنی کتنی اونچی جگہ ٹانگے نے چڑھ جانا اور پھر نیچے اترنا۔ ہچکولے بہت لگتے تھے مگر ہمارے دلوں میں تڑپ تھی۔ اس لئے ہمیں پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ خوشی محسوس ہوتی تھی۔
{1574} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ نے عورتوں میںچندے کی تحریک کی ،سب عورتیں چندہ دینے لگ گئیں ۔جن کے پاس پیسے نہ تھے وہ زیور دیتی تھیں ۔تو مجھے اس بات کاعلم نہ تھا کہ یا تو زیور عورتیں دیتی ہیں یا پیسے ، پہلے میں سوچتی کہ سارا زیور دے دو ں۔پھر سوچا کہ اپنے میکے جاؤں گی تو سب پہنیںگے تو میرے پاس نہیں ہوگا یہ سوچ کراٹھی اور ناک سے نتھ اتاری اور میرے پاس سات روپے تین پیسے تھے وہ بھی رکھ لئے۔ اور جا کر حضرت صاحب کے ہاتھ میں دے دئے تو حضور نے میری طرف دیکھااور پھر مولوی محمددین کو کچھ کہا۔ جو مجھے یاد نہیں انہوں نے روپے بھی لئے اور نتھ بھی اور ماسٹر صاحب کے پاس لے گئے ماسٹر صاحب نے نتھ تو لے لی اور روپے رہنے دئیے مگر مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔ جب سمجھ دار ہوئی تو پھر ماسٹر صاحب نے بتایا تھا۔ جس وقت حضرت مولوی صاحب واپس آگئے ۔ماسٹر صاحب کے پاس سے تو پھر مجھے بلایا ۔ماسٹر صاحب نے اور پوچھا کہ تم نے چندہ دیا تو میںنے کہا کہ ہاں ۔ پوچھا ، کیا میں نے کہا جو جیب میں روپے تھے۔ اور ناک کی نتھ۔ پہلے میں سارا زیور دینے لگی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ اپنے میکے جاؤں گی توسب پہنیں گے تو میرے پاس نہیں ہوں گے ۔ ماسٹر صاحب نے مجھے شاباش دی اور کہا کہ دیکھو کہ تم نے چندے میں نتھ دی تھی۔ اور ہم تمہیں دیتے ہیں ۔میں بہت خوش ہوئی اور کہا کہ اب کے میں ساراہی دے دوں گی۔ مجھے اللہ میاں اور دے دے گا ۔یہ کہہ کر بھاگی ہوئی اندر گئی اور پھر نتھ پہن لی تو میری ناک میں نتھ دیکھ کر مولوی محمد دین کی بیوی نے اور حضرت صاحب کی بڑی بیوی یعنی اُم ناصراحمد صاحب کہنے لگیں ۔ابھی تو تم نے چندے میں دی تھی۔ اور اب تمہاری ناک میں ہے۔ تو میں نے خوش ہو کر کہا کہ اللہ میاں نے اور دے دی ہے۔اور جب بھی ہم قادیان آتے تو حضرت صاحب کے گھر میں اترتے اور حضور بڑی محبت سے پیش آتے۔ اگر کھانے کے وقت نظر پڑ جاتی تو پھر پوچھتے ۔ ’’نتھ والی ، کھانا کھا لیا‘‘۔تو میں کہتی ،جی۔
{1575} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ اماں جان کو ساتھ لے کر حضور سیر کو جاتے تو ہم عورتیں بھی ساتھ ہولیتیں ،تو حضور راستے میں اماں جان سے باتیں کرتے ۔مگر اتنی عقل نہیں تھی کہ سنتی حضرت صاحب کیا باتیں کرتے ہیں ۔ سارے راستے میں میں شرارتیں کرتی جاتی مگر حضور نے کبھی منع نہ کرنا ۔کئی بار ساتھ سیر کو میں گئی۔ اور جب حضور اپنے سسرال میں جاتے یعنی دہلی تو وہاں بھی کئی بار میں نے ان کو دیکھا کیونکہ وہاں پر میرے میکے تھے۔ اور مرزا محمد شفیع کے گھر بہت آناجانا تھا۔تو حضور بھی وہاں تشریف فرما ہوتے۔ غرض میں جہاں بھی حضور کو دیکھتی وہیں کھڑی ہو جاتی اور بڑے غور سے آپ کو دیکھتی اور اپنے دل میں خوش ہوتی۔ اور اگر باہر سے آتے ہوئے دیکھنا آپ کو ،تو ادھر انہوںنے اندر قدم رکھا اور سب کوسلام کرنا جس کاانہوںنے جواب دینا پھر میں نے جلدی سے سلام کرنا جس کا انہوں نے جواب دینا۔
{1576} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ’’ماسٹر صاحب بھی مجھے کبھی کبھی حضور کی باتیں سناتے ۔ایک واقعہ سنایا کہ چٹھی رساں آیا اور خط لایا۔ تو حضور کے پاس چائے رکھی تھی اور کسی آدمی نے مانگی ۔حضور نے اس کو آنجلا ٭بھر کے دی تو ڈاکیے نے کہا کہ حضور چائے کی تو مجھے بھی عادت ہے۔ حضور نے اس کو بھی دی پھر لے کر کہنے لگا۔ حضور دودھ اور میٹھا کہاں سے لوں گا تو آپ نے اس کو ایک روپیہ بھی دیا‘‘۔
{1577} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر ماسٹر صاحب سے مجھ سے بیان کیا کہ ’’حضرت صاحب مردوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ کہ مرد اپنی بیویوں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کریں ثواب کا کام ہے۔ رسول کریم ﷺ بھی گھر کے کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ لفظ کہتے ،ہمیں تو لکھنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔
{1578} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فریدآبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مجھے ماسٹر صاحب نے سنایا کہ سردی کا موسم تھا ڈاکیہ خط لایا اور کہنے لگا حضور مجھے سردی لگتی ہے آپ مجھے اپنا کوٹ دیں تو حضور اسی وقت اندر گئے اور دو گرم کوٹ

٭ چُلّو (ہندی لفظ ہے)
لے آئے اور کہنے لگے جو پسند ہو لے لو۔ اس نے کہا مجھے دونوں پسند ہیں تو حضور نے دونوں دے دئے۔
{1579} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور اپنی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں ۔ اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بنا کر رکھنا چاہئے اور مردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہئے اور میںجب کبھی حضرت صاحب کے گھر آتی تو میں دیکھا کرتی کہ حضور ہمیشہ ام المومنین کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے ۔محمود کی والدہ یا کبھی محمود کی اماں !یہ بات اس طرح سے ہے اور اپنے نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ حضور کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے ،ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔
{1580} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ عورتوں میں یہ بری عادت ہے کہ ذرا سی بات میں گالیاں اور کوسنوں پر اتر آتی ہیں بجائے اس کے اگر وہ اپنے بچوں کو نرمی سے پیش آئیں اور بجائے گالی کے ’’نیک ہو ‘‘ کہہ دیا کریں تو کیا حر ج ہے۔ عورتیں ہی اپنے بچوں کو گالیاں سکھاتی ہیں اور بُرے اخلاق پیدا کرتی ہیں ۔اگر یہ چُھٹے تو بچوں کی بہت اچھی تربیت ہو سکتی ہے ۔اگر میاں بیوی میں ناراضگی ہو جاوے تو چاہئے کہ دونوں میں سے ایک خاموش ہو جائے تو لڑائی نہ بڑھے اور نہ بچے ماں باپ کو تُو تُو مَیں مَیں کرتے سنیں بچہ تو وہی کا م کرے گا جو اس کے ماں باپ کرتے ہیں اور پھر یہ عادت اس کی چھوٹے گی نہیں۔ بڑا ہوگا ماں باپ کے آگے جواب دے گا پھر رفتہ رفتہ باہر بھی اسی طرح کرے گا اس لئے عورتو ں کو اپنی زبان قابو میں رکھنی چاہئے۔ آپ بیعت کرنے والوں کو ضرور کچھ روز اپنے گھر ٹھہراتے تھے۔
{1581} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آباد ی مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت میاں صاحب باہر سے کھیلتے کھیلتے آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جیب میں دو یا ایک چھوٹے چھوٹے پتھر ڈال دئے ۔پھر حضور جب اندر تشریف لائے تو اماں جان سے کہا کہ میرے کوٹ سے قلم نکال لاؤ یا کسی کا خط منگایا ۔یاد نہیں ۔تو اماں جان نے جیب میں کنکر دیکھ کر پوچھا تو آپ نے کہا کہ ان کو جیب میں ہی رہنے دو یہ میاں محمود کی امانت ہے اور اماں جان نے جیب میں ہی رہنے دئے۔
{1582} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ماسٹر مولا بخش صاحب ریٹائرڈ مدرسہ احمدیہ قادیان نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ موسمی تعطیلات میں میں یہاں آیا ہو اتھا۔ ستمبر کا مہینہ تھا ،سن اور تاریخ یاد نہیں ۔مسجد مبارک کی توسیع ہوچکی تھی۔ میں صبح آٹھ بجے مسجد مبارک میں اکیلا ہی ٹہل رہا تھا کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کھڑکی سے جو مسجد مبارک میں کھلتی ہے تشریف لائے ۔ذرا سی دیر بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول ؓ اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب مرحوم یا خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اندرونی سیڑھیوں کی راہ سے مسجد میں آگئے۔ حضرت اقدس مسجد کے پرانے حصہ میں کھڑکی سے مشرقی جانب فرش پر تشریف فرما ہوئے اور ان سے باتیں کرنے لگ گئے اور خاکسار آہستہ آہستہ حضرت اقدس کے دست مبارک دبانے لگا۔باتیں کرتے کرتے آپ کے جسم مبارک میں جھٹکا سا لگا اور سارا بدن کانپ گیا اور میرے ہاتھوں سے آپ کی کلائی چھوٹ گئی ۔آپ فوراً اندر تشریف لے گئے حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ یہ نزول وحی کا وقت ہے۔
{1583} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں مبارک احمد صاحب کی وفات پر جب جنازہ لے کر قبر پر گئے تو قبر تیار نہ تھی۔ اس وسطے وہیں ٹھہرنا پڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م مقبرے کے شمال کی طرف درختوں کی قطار کے نیچے بیٹھ گئے ۔باقی احباب آپ کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس وقت آپ نے جو تقریر کی وہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا اثر یہ تھا کہ اس وقت ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے ان لوگوں کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے اور حضور ماتم پرسی کے لئے آئے ہیں اور ان کو تسلی دے رہے ہیں ۔
منشی محمد اسماعیل صاحب نے بیان فرمایا کہ بالکل یہی الفاظ میں نے سید حامد شاہ صاحب کو لکھے تھے۔
{1584} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے محمد بخش نام کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اگر محمد بخش سے یہ مراد لی جائے کہ محمد کے طفیل بخشا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
{1585} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی نے مجھ سے بیان کیا کہ مرزا حاکم بیگ کی شادی پر اس کے سسرال نے آتش بازی ،تماشے اور باجے کا تقاضا کیا۔ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میرے سسرال والے یہ چاہتے ہیں ۔حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ سب ناجائز ہیں مگر مومن بعض وقت ناجائز سے بھی فائدہ اٹھا لیتا ہے مثلاً شہر میں وبائی مرض پھیلی ہوئی ہے ۔ایک شخص اس خیال سے آتش بازی چھوڑتا ہے کہ اس سے ہوا صاف ہو جائے گی اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا تووہ اس سے بھی گویا ثواب حاصل کرتا ہے ۔ اور اسی طرح باجے کے متعلق اگر اس شخص کی یہ نیت ہو کہ چونکہ ہم نے دور تک جانا ہے اور باجے کے ذریعے سے لوگوں کو علم ہو جائے گا۔ کہ فلاں شخص کی لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے ہوا ہے اگر اس نے اس نیت سے باجا بجوایا تو یہ ایک اعلان کی صورت ہو جائے گی ۔ اس میں بھی ناجائز کا سوال اٹھ گیا۔
{1586} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرے والد منشی احمد جان صاحب مرحوم حج کوجانے لگے تو حضرت صاحب نے ایک خط ان کو لکھ کر دیا کہ یہ خط وہاں جا کر پڑھنا۔ چنانچہ میرے والد صاحب نے عرفات کے میدان میں وہ خط پڑھا۔ اور ہم نے وہ خط سنا ۔ اس کے الفاظ خاکسارکویاد نہیں ۔ ہم بیس آدمی اس خط کو سُن کر آمین کہنے والے تھے۔
{1587} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ پیر افتخار احمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ بشیر اول کے عقیقہ کے وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا والد رحیم بخش قادیان میں تھا۔ اس نے بچے کو بال مونڈنے کے وقت گودی میں لیا ہوا تھا۔ اور بیت الفکر میں ہم پندرہ کے قریب آدمی حضور کے ساتھ تھے اور اتنے ہی آدمی بمشکل اس کمرہ میں آسکتے تھے۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے والد جو اس تقریب میں تشریف لا رہے تھے بوجہ بارش بٹالہ میں ہی رکے رہے۔ گویا اس دن بارش خوب ہورہی تھی۔
{1588} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک شخص فجا تھا۔ اس کی بیوی ابھی آٹھ دس سال کی بچی تھی اور وہ کالی سی تھی۔ اور حضرت صاحبزادہ مبارک احمد کے ساتھ ساتھ رہتی ۔گویا یہ نوکرانی تھی۔ حضور اس کو فرماتے کہ ادھر آؤ اور مبارک احمد کو اچھی طرح سے رکھا کرو۔ ہم اس وقت تین لڑکیاں تھیں ،صفیہ ،صغریٰ ،امۃ الرحمان تو ہم نے حیران ہوجانا کہ ہم اس کو ذلیل سمجھتی ہیں اور حضرت صاحب اس کو بھی ادب سے بلاتے ہیں ۔
{1589} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور ایک دالان میں ہوتے اور عورتیں بھی وہاں ہوتیں اور ہر وقت اپنے کام تحریر میںلگے رہتے ان کو کوئی خبر نہ ہوتی تھی کہ کون آیا اور کون گیا۔ ایک لڑکی ہم تینوں میں سے بغیر اجازت کوئی چیز کھالیتی۔ ایک دن وہ صحن میں بیٹھے آم کھا رہے تھے۔ ہم دو لڑکیاں اوپر سے گئیں اور آم لے لئے۔ ایک عورت آگئی اور کہنے لگی تم نے آم کہاں سے لئے۔ ہم نے کہا حضرت صاحب نے دئے ہیں۔ اس نے کہا نہیں تم نے خود ہی لئے ہیں ۔ حضور نے تجھ کو نہیں دئے ان کوکہاں نظر آتا ہے۔ان کو تو کوئی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ کوئی آئے کوئی جائے ۔حضور بیٹھے تھے میں آئی اورحضور کو خبر تک نہیں۔
{1590} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان فرمایا کہ حضور ہمیشہ وضو سے رہتے تھے اور غسل بھی روز فرماتے ۔ حضور نہایت رحیم کریم تھے۔ اگر حضور کوئی خاص دوائی یا غذا بنواتے تو کسی خاص اعتبار والے سے بنواتے ۔یہ خادمہ جب تک نوکر رہی ،چیزیں حضور کی بنایا کرتی۔
{1591} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضور ’’ سناتن دھرم کتاب تصنیف فرما رہے تھے۔ تو ان دنوں میں مجھ کو بلانے آئے تو حضور کی زبان مبارک سے امۃ الرحمان کی جگہ سناتن دھرم کے لفظ نکل گئے۔ تو ایک دن میں نے حضور سے عرض کی حضور مجھ کو فکر ہوگیا۔ حضور کی زبان مبارک سے میری بابت یہ کیوں ہندو لفظ آجاتا ہے تو حضور نے فرمایا امۃ الرحمان یہ کوئی برا لفظ نہیںہے ۔اس کے معنے ہیں پرانا ایمان ۔ پھر جب بھی یہ لفظ کہتے حضور ہنس پڑتے اور چہرہ چمک جاتا۔
{1592} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُم المومنین علیہا السلام کو فرمارہے تھے کہ جو کام خدا تعالیٰ خود بخود کرے اس کا ذمے وار بھی خدا تعالیٰ خود بخود ہوجاتا ہے ۔ انسان کی خواہش اس کے مطابق چاہئے اور دعائیں بھی کرے۔ جب انسان کی کوشش اور خواہش کے مطابق وہ ہو بھی جائے توا س کی ذمہ واری وہ انسان پر ڈال دیتا ہے۔ اس واسطے سب کام خدا کے اُسی کے ذمے ڈال دینے چاہئیں ۔
{1593} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو چاہئے کہ کسی کی نسبت کینہ اپنے دل میں نہ رکھے اور مواد نہ جمائے رکھے کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے نقصان اور مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے جب ایک دوسرے کی بابت کوئی دل میں رنج ہوتوفوراً مل کر دلوںکو صاف کر لینا چاہئے اور مثال بیان فرمائی جب انسان کوزخم ہو اس میں مواد پیپ بھر ا پڑا ہواور نکالانہ جائے تو وہ گندہ مواد انسان کے بہت سے حصۂ بدن کو خراب کر دیتا ہے ۔ اسی طرح دل کے مواد کی بات ہے ۔ اگر ایک دوسرے کے رنج کو دل میں رکھا جائے تو زخم کے موا دکی طرح بُری حالت پیدا ہوتی ہے جس کی تلافی مشکل ہوتی ہے۔
{1595} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جو سچے دل سے اخلاص رکھتا ہوتا تھا اور حضور کو معصوم جانتا ہوتا تھا۔ حضور بھی اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیا کرتے تھے۔ اگرچہ وہ کوئی ناپسندیدہ کام کرتا لیکن حضور اس کے اخلاص کی وجہ سے باز پرس نہیں کیا کرتے تھے۔
{1596} بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔امۃ الرحمان بنت قاضی ضیاء الدین صاحب مرحوم نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مرزا فضل احمد صاحب مرحوم کی وفات کی خبر آئی تو مغرب کا وقت تھا اور حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت سے لے کر قریباً عشاء کی نماز تک ٹہلتے رہے ۔ حضور علیہ السلام جب ٹہلتے تو چہرہ مبارک حضور کا اس طرح ہوتا کہ گویا بشرہ مبارک سے چمک ظاہر ہوتی ہے۔
٭٭٭

تتمہ سیرت المہدی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے بعض خطوط اور مضامین سیرت المہدی کے غیر مطبوعہ مسودہ میں ہی رکھے تھے تا کہ انہیں بھی شامل اشاعت کیا جائے کیونکہ ان کا تعلق سلسلہ کی تاریخ سے ہے ۔
خطوط میں محمد نصیب صاحب، عبدالرحمن صاحب خلف میاں حبیب الرحمن صاحب مرحوم ، ملک حسن محمد صاحب ، شیخ محمد احمد مظہر صاحب اور جناب کنورسین صاحب ایم اے بار ایٹ لاء ڈیرہ دون کے خطوط ہیں۔ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی تحریک پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ کے مندرجہ ذیل تین مضامین شامل ہیں جو آپ نے ۳۹۔۱۹۳۸ء اور ۱۹۴۶ء میں تحریر کر کے حضرت میاں صاحب کو دیئے تھے اور آپ نے انہیں سیرت المہدی کے غیرمطبوعہ مواد کے ساتھ رکھا تھا۔
۱۔ جلسہ اعظم مذاہب لاہور ۱۸۹۶ء کی روئیداد
۲۔ عید قربان ۱۹۰۰ء اور خطبہ الہامیہ
۳۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری سفر لاہور اور حضور پُر نور کا وصال
ناشر۔سید عبدالحی

مکتوب مکرم محمد نصیب صاحب
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں اخبار بدر دیکھ رہا تھا اس میں۲۷؍فروری۱۹۰۸ء کے اخبار میں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تقریر جو آپ نے۱۷؍فروری۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی موجودگی میں آپ کے سامنے فرمائی ،حسب ذیل پائی گئی۔ اس کی نقل پیش خدمت ہے ۔
’’ گزشتہ ہفتہ میں مختصراً نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا نکاح صاحبزادی مبارکہ بیگم کے ساتھ ۱۷؍ فروری کو ہونا ذکر کیا گیا تھا۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے خطبہ نکاح میں کیا خوب فرمایا تھا ۔ کہ ایک وقت تھا جبکہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدر جہان کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خان صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے ۔
نواب صاحب موصوف کے خاندان میں حق مہر کے متعلق دستور ہوتا ہے کہ کئی کئی لاکھ مقرر کیا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی قومی رسم کے مطابق اب بھی یہی کہا تھا مگر حضر ت اقدس علیہ السلام نے پسند نہ فرمایا۔ تاہم نواب صاحب کی وجاہت اور ریاست کے لحاظ سے چھپن ہزار روپے حق مہر مؤجل مقرر ہوا۔ ‘‘
اس عبارت کی نقل کرنے اور خدمت والا میں عرض کرنے کی غرض یہ ظاہر کرنا ہے کہ حضرت مولوی صاحب کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت کے متعلق کیا خیال تھا؟
خادم
محمد نصیب
۴۱۔۱۔۱۶
مکتوب مکرم عبدالرحمن خان خلف میاں حبیب الرحمن خان
‏P.O.Tandlianwala
‏Distt. Lyall Pur
‏Date. 21.10.49
ھوالناصر
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
بحضور حضرت صاحبزادہ صاحب ۔ مکرم و معظم واجب التعظیم والتکریم سلّمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بہت ہی ادب و احترام سے یہ خاکسار حضور میں عرض پرداز تھے کہ اخبار الفضل مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۴۹ء نمبری ۲۴۰موصولہ امروزہ میں حضور نے حضرت صاحبزادہ رزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت حسب تحریر برادر مکرم شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق کپورتھلہ حال لائل پور طبع فرمائی ہے جو کہ بزبانی حضرت ماموں صاحب منشی ظفر احمد صاحب ؓ سے سنی ہوئی ہے اور کئی مرتبہ دوسرے احباب کو بھی سناتے ہوئے خود سنا ہے۔ اس لحاظ سے خاکسار شاہد ہے۔ اور چونکہ یہ سلسلہ کی تاریخی روایت ہے۔ اس لئے میں روایت کے متعلق جس قدر میرے ساتھ ماموں ظفر احمد صاحب مرحوم ؓ نے تذکرہ فرمایا وہ مجھے بخوبی یاد ہے۔ چنانچہ خاکسار بھی حضور میں عرض پرداز ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ روایت صحیح عرض کر رہا ہوں تا کہ محفوظ رہے۔
’’ حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود مجھ سے بھی تذکرہ فرمایا اور میری موجودگی میں بھی کئی مرتبہ مسجد احمدیہ کپورتھلہ میں اس روایت کا اس طرح تذکرہ فرمایا تھا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا ہے۔ جالندھر میں بعہدہ افسر مال تعینات تھے۔ حضور کی وفات سے پیشتر علاقہ میں دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ جس روز علاقہ کے دورہ سے واپس گھوڑے پر سوار جالندھر کی جانب تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں یکلخت آپ کو الہام ہوا ’’ ماتم پرسی‘‘ آپ اس الہام پر پہلی مرتبہ تو کچھ نہ سمجھے اور گہری سوچ میں پڑ گئے اور گھوڑے پر سوار بدستور چلتے چلے گئے کہ راستہ میں دوبارہ پھر یہی الہام ہوا اور ساتھ ہی طبیعت پر آپ کو کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا ۔ پھر آپ کو خیال ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور خیالات بہت پراگندہ ہوئے۔ آپ نے بوقت تذکرہ بتلایا کہ آپ نے قیاس کیا کہ شائد تائی صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہو ۔ مگر آپ اسی طرح گہرے خیالات کی سوچ بچار میں بدستور گھوڑے پر سوار چلتے گئے کہ پھر تیسری مرتبہ یہی الہام ہوا اور ساتھ ہی آپ کے دل پر بھی اس کا بہت گہرا اثر ہوا۔ کچھ بوجھ سا دل پر اور بھی زیادہ محسوس ہوا۔ جس سے آپ کی طبیعت بہت ہی خائف ہو گئی اور آپ ڈر گئے تو آپ راستہ میں ہی فوراً گھوڑے سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے اور دل میں انہی خیالات میں پریشان اور ملول و محزون ہو گئے اور پریشان تھے کہ اس ’’ماتم پرسی‘‘ کے الہام کا حل کیا ہے۔ کبھی آپ کو تائی صاحبہ کا خیال آتا اور کبھی حضرت والد صاحب کی وفات (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا خیال آتا۔ کہ شائد آپ کا وصال ہو گیا ہے۔ پھر بہت ہی گہری سوچ کے بعد یہ سوال آپ کے دل میں آیا کہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ’’ماتم پرسی‘‘ ہو تو لازمی ہے کہ یہ کسی اعلیٰ اور ارفع ہستی کی موت اور وصال سے وابستہ ہے۔ یہ خیال دل پر مسلط ہو گیا اور دل میں آپ کے یہ پورا یقین ہو گیا کہ بس یہ حضرت والد صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا ہی وصال ہے۔ یہ خیال راسخ ہوتے ہی آپ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے اور اسی غم و حزن کی حالت میں بجائے اپنے بنگلہ پر جانے کے آپ سیدھے ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھر کے بنگلہ کو تشریف لے گئے۔ اس وقت جالندھر میں کوئی انگریز ڈپٹی کمشنر تعینات تھے۔ آپ نے سیدھے DCکے بنگلہ پر پہنچ کر صاحب سے ملاقات کی اور حصول رخصت کے لئے صاحب کو یہ اطلاع دی کہ میرے والد صاحب کا وصال ہوگیا ہے اس لئے فوراً رخصت دے دی جائے، میں جارہاہوں۔ اور یہ بھی بتلایا کہ میں اسی غرض سے دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آیا ہوں ۔ صاحب موصوف نے دریافت کیا کہ کیا والد صاحب کی وفات کی خبر آ پ کو راستہ میں ملی ہے یا کوئی اور ذریعہ سے موصول ہوئی ہے ۔ یاکوئی آدمی آیا ہے ۔ آخر کیا معاملہ ہوا ہے مگر آپ نے صاحب سے عرض کیا کہ نہ کوئی تار آیا ہے نہ کوئی آدمی آیا ہے اور نہ کوئی اور ہی اطلاع موصول ہوئی ہے صرف خدائی تار آیا ہے ۔ صاحب موصوف نے اس کا سلسلہ دریافت کیا تو حضرت مرز اصاحبؓ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ومغفور نے اپنے راستہ کا تمام ماجرہ الہامی سنایا تو صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اس پر اتنا یقین کرلینا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے ۔ یونہی آپ کو وہم ہوگیا ہے ۔ آپ اطمینان رکھیں ایسا کوئی حادثہ نہیں ہوا ہے ۔ اس لئے آپ رخصت کے لئے جلدی نہ کریں۔ اور گھبرائیں نہیں اطمینان کر لیجئے۔ لیکن حضرت مرز اصاحب بدستور اپنے یقین کامل پر رخصت کے لئے مصر رہے اور پورے وثوق سے اس خدائی اطلاع پر ملول تھے۔ مگر پھر آپ صاحب کے بہت اصرار پر اپنے بنگلہ پر تشریف لے آئے۔ پہنچے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اطلاعی تار وفات حسرت آیات حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کو موصول ہوا۔ چنانچہ آپ اسی ہم وغم میں اسی تار کو لے کر دوبارہ صاحب کے بنگلہ پر پہنچے اور بتلایا کہ اس وقت میں دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پرآگیا تھا وہ خدائی اطلاع کی بناء پر تھا ۔ اب یہ تار بھی موصول ہوگیا ہے ۔ صاحب بہادر اس تمام کیفیت کو دیکھ کر بہت ہی حیران اور ششد رہ گئے کہ آپ لوگوں کو خدا پر کیسا یقین اور وثوق اورایمان ہے ۔ اور وہ من وعن پورا بھی ہورہا ہے ۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب رخصت پر فوراً روانہ ہوگئے ۔
’’اور ماموں صاحب فرماتے تھے کہ جب حضرت مرز اصاحب جالندھر سے امرتسر پہنچے تو اسٹیشن پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا جنازہ بھی امرتسر پہنچ چکا تھا ۔ حضرت مرز اصاحب بھی شامل ہوگئے اور ساتھ ہی رہے ۔ ماموں صاحب منشی ظفر احمد صاحب بھی امرتسر میں تھے چنانچہ حضرت مرزاصاحبؓ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے یہ تمام ماجرا امرتسر میں ہی حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ سے خود بیان فرمایا تھا۔ ‘‘
ایک مرتبہ عاجز اور حضرت ماموں ظفر احمد صاحب قبلہ مسجد احمدیہ کپور تھلہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور ایک دو دوست اور بھی موجود تھے یا کالج کے طالب علم جو حصول تعلیم کے لئے کپور تھلہ مقیم تھے وہ بیٹھے تھے یہ مکمل یاد نہیں ہے ۔ میںنے ماموں صاحب کی خدمت میں اس روایت کے متعلق عرض کیا کہ میںنے یہ کئی بار آپ سے سنی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ روایت سلسلہ میں محفوظ نہیں ہے ۔ اس لئے ایسی روایت کا محفوظ ہونا بہت ضروری ہے ۔ اس لئے میرا دل چاہتا ہے کہ اس روایت (مندرجہ صدر) کو جس طرح میں نے آپ سے سنا ہے میں لکھ کر پیش کردیتا ہوں آپ اس پر دستخط کر دیں تاکہ میں اس روایت کو اخبار الفضل میں طبع کرادوں ۔میری اس گزارش پر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ نے فرمایا کہ خیال تو ٹھیک ہے مگر یہ واقعہ مجھے مکمل یاد نہیںہے ۔ مثلاً دوبارہ تار لے کر حضرت مرزا صاحب خود گئے تھے یا بھیجا تھا وغیرہ مجھے یاد نہیں رہا اس لئے طبع کرانی مناسب نہیں ہے ۔ چنانچہ پھر میں خاموش ہوگیا ۔ اطلاعاً عرض ہے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ جو میرے کانوںنے خود سنا وہ امانت تھی اور میںنے عرض کردی ہے اور جوکچھ میرے عرض کرنے پر ماموں صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا وہ بھی میںنے من وعن عرض خدمت والا کردیا ہے ۔ میرا خود دل چاہتا تھا میں اس روایت کو طبع کراؤں مگر ماموں صاحب کے ارشاد بالا کے مطابق میںنے چپ اختیار کر لی تھی جو اطلاعاً عرض خدمت ہے ۔ فقط والسلام
دعاؤں کا طالب
خادم المسیح غلام زادہ خاکسار عبد الرحمن خلف میاں حبیب الرحمن صاحب مرحوم
حال نائب تحصیلدار تحصیل سمندری ڈاکخانہ تاندلیانوالہ منڈی (ہیڈ کوارٹر )ضلع لائل پور
۱۹۴۹۔۱۰۔۲۱ مطابق ماہ اخائ





مکتوب مکرم ملک حسن محمد احمدی قادیانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
بخدمت جناب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
ایک روایت الفضل مجریہ ۲۰؍اخاء ۱۳۲۸ھش میں شائع ہوئی ہے جس کے راوی مولوی محمد احمد صاحب وکیل کپور تھلوی ہیں اور انہوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت منشی ظفر احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے ۔ جوخاکسار کی نظر سے بھی گذری۔ اس میں ایک فقرہ ایسا ہے جس نے مجھے بھی ایک شہادت کے بیان کرنے پر مجبور کیا۔ وہ فقرہ یہ ہے کہ
’’مرزا سلطان احمد صاحب نے ہماری تائی مرحومہ (تائی آئی الہام سیدنا مسیح موعود ؑ)کے پیچھے لگ کر ساری عمر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے علیحدگی اور ایک گونہ مخالفت میں گذاری ۔
میری شہادت : خاکسار سیدنا خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مبارک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب سیدنا مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام حیات تھے اور حضرت خلیفہ اوّل حکیم الامت کے مبارک لقب سے یاد ہوتے تھے ۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا ’’حضرت مرزا سلطان احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوںنے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑ سے میری صلح کروادیں اور مجھے حضرت کی خدمت میں اپنے ہمراہ لے چلیں تا میں حضرت سے معافی مانگ لوں ۔‘‘
مولوی صاحبؓ نے فرمایا !’’میںنے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر اس معاملہ کو پیش کیا کہ مرزا سلطان احمد صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگنا چاہتے ہیں ۔ حضور کا کیاارشاد ہے۔ میں ان کو اپنے ہمراہ لے آؤں اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ’’جب تک سلطان احمد اپنے چال چلن درست نہیں کرتا اس وقت تک میرے پاس نہ آوے۔‘‘
یہ شہادت حضرت حکیم الامت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی ہے جس کو مولوی صاحبؓ نے اپنی مجلس میں بیان فرمایا جس کا میں شاہد ہوں ۔
دوسری شہادت خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی بیگم صاحبہ کی ہے جو میری بیوی کے روبرو موصوفہ نے بیان فرمائی اس کے ذریعہ مجھ تک پہنچی ۔ میری بیوی کے روبرو محترمہ خورشید بیگم صاحبہ حرم مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ مرزا صاحب یعنے مرزا سلطان احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کا مخالف نہیں ہوں میں مسیح موعود کو مانتا ہوں لیکن میرے اندر کچھ خامیاں کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے میں بیعت نہیں کرتا۔ ‘‘
تیسری شہادت :۔ محترمہ مکرمہ اُم ناصر احمد صاحب حرم اوّل سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ہے یہ شہادت بھی میری بیوی محترمہ کے ذریعہ سے مجھ تک پہنچی ہے۔ محترمہ اُم ناصر احمد صاحب نے بیان کیا کہ ’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحن میں شہ نشین پر تشریف فرما وضو کر رہے تھے کہ خادمہ نے ایک کاغذ آپ کے حضور پیش کیا۔ حضور نے اسی وقت وہ کاغذ کھول کر پڑھنا شروع کیا اور اسی وقت پڑھ کر اس کو چاک کر دیا اور فرمایا ’’ جب بھی سلطان احمد دعا کے لئے لکھتا ہے دنیاوی ترقی کے لئے ہی لکھتا ہے دین کے لئے کبھی نہیں لکھتا۔ ‘‘ کچھ دنوں کے بعد مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا عریضہ پھر حضور کی خدمت میں پیش ہوا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضور کی دعائوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے ترقی عطا فرمائی ہے ‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
’’ میں نے تو دعا کی ہی نہیں ‘‘
ان شہادات کو بنظر غور دیکھا جاوے تو معمولی سے تدبر کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ سیدنا مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر خان بہادر مرزا سلطان احمد مرحوم کو کامل ایمان و یقین تھا۔ لیکن بعض اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بیعت عمداً نہیں کرتے تھے کہ اس بیعت پر میں عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔ جھوٹا اقرار کیوں کروں۔
لما تقولون مالا تفعلون
حضور کا خادم خاکسار ملک حسن محمد احمدی قادیانی۔ سمبڑیالوی حال عارضی مقام الہ آباد۔ ریاست بہاولپور۔
ضلع رحیم یار خان ۔ ۱۴؍نومبر ۱۹۴۹ء
مکتوب مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائل پور
شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائل پور فرزند اکبر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کے نام اپنے مکتوب ۴۹۔۱۰۔۱۴ میں تحریر فرماتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مخدوم و محترم ۔ السلام علیکم ۔ گرامی نامہ ملا۔امور ذیل عرض ہیں۔
(۱) وطن مالوف والد صاحب کا بڈھانہ ضلع مظفر نگر تھا۔ لیکن والد صاحب کی زیادہ سکونت اور تعلیم کا زمانہ قصبہ باغبت ضلع میرٹھ میں گزرا۔ یہ وجہ ہے کہ دونوں جگہ وطن کا ذکر روایات میں ہوا ۔ باغپت میں ہمارے بعض بزرگ ملازم تھے۔ اور والد صاحب وہاں رہتے تھے۔ براہین احمدیہ بھی والد صاحب نے باغپت میں پڑھی۔
(۲) روایات مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں بعض کتابت کی غلطیاں تھیں۔ رسالہ مذکور اس وقت میرے سامنے نہیں۔ لیکن
(الف) شروع میں جو روایت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرحوم نے عبدالواحد صاحب کو ایک دوا تیار کر کے دی عبدالواحد صاحب ان دنوں بٹالہ میں منصف تھے۔ لیکن کاتب نے پٹیالہ لکھ دیا ہے اور یہ بڑا مغالطہ ہے صحت فرمالی جائے۔
(ب) ایک جگہ آتھم کے مباحثہ کے متعلق روایت میں ہے کہ نبی بخش کی کوٹھی میں ہم ٹھہرے تھے۔ کاتب نے ٹھہرے کی بجائے کھڑے تھے لکھ دیا۔ایسا ہی بعض اور کتابت کی غلطیاں تھیں۔ جو میں نے نوٹ کی تھیں اگر رسالہ مذکورہ مجھے ملا تو عرض کروں گا۔ اس وقت آپ کے جواب کی تعمیل میں جلدی ہے۔
(۳) رفع اشتباہ کے لئے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ والد صاحب مرحوم شروع میں اپیل نویس تھے۔ لیکن صورت یہ تھی کہ آپ کی بجائے حکام نے ایک اور شخص کو اپیل نویس عوضی مقرر کیا ہوا تھا۔ والد صاحب اس سے آمدنی لے لیتے تھے اور خود بطور سر رشتہ دار عدالت کام کرتے تھے ۔ مدتوں یہ عمل رہا تاکہ کے مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد والد صاحب مستقل سر رشتہ دار ہو گئے۔ اور پھر ترقی پا کر ہائی کورٹ کی رجسٹراری سے پنشنر یاب ہوئے۔
یہ وضاحت اس لئے ہے کہ اشتباہ ہوتا ہے کہ شروع میں والد صاحب ملازم تھے یا نہیں۔ اور یہ طریق اس لئے والد صاحب نے قائم رکھا تھا کہ ملازمت سے بے نیاز تھے جب چاہتے قادیان چلے جاتے کوئی روک نہ تھی اور یہ وجہ تھی کہ اکثر سفر و حضر میں حضرت کے ساتھ رہتے تھے۔
آپ نے اخبار میں چند سوال شائع فرمائے تھے ان کے تعلق سے عرض ہے کہ :۔
(۴۔الف) بروایت والد صاحب مرحوم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے کسی احمدی کا جنازہ پڑھایا اور اس کے بعد حضور نے فرمایا ! کہ جو مقتدی ہیں ان کا بھی میں نے جنازہ پڑھا دیا ہے ۔ والد صاحب فرماتے کہ میرا جنازہ تو حضور خود پڑھا چکے ہیں ۔ چنانچہ بوقت جنازہ والد صاحب جو حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پڑھایا۔ میںنے اس امر کا ذکر ان سے کیا تھا۔
(۴۔ ب) ایک مرتبہ والد صاحب کپور تھلہ سے لدھیانہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ماہ رمضان تھا اور والد صاحب روزے سے تھے ۔ حضرت صاحب کو جب معلوم ہوا، تو آپ نے روزہ افطار کرادیا۔ اس وقت سوج غروب ہونے میں آدھ گھنٹہ کے قریب باقی تھا۔ اور فرمایا! کہ سفرمیں روزہ جائز نہیں۔
(۵) والد صاحب کی ایک روایت ذیل غیر مطبوعہ ہے ۔
جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا وصال ہوا تو حضرت مرز اسلطان احمد صاحب مرحوم جالندھر میں ملازم تھے غالباً افسر مال تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا والد صاحب سے بڑا تعلق تھا ۔ چنانچہ مرزا صاحب موصوف نے والد صاحب سے فرمایا کہ بروز وصال حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مَیںجالندھر میں گھوڑ ے پر سوار جارہا تھا۔ کہ یکدم بڑے زور سے مجھے الہام ہوا’’ماتم پرسی‘‘ میں اسی وقت گھوڑے سے اُتر آیااور مجھے بہت غم تھا ۔ خیال کیا کہ شاید تائی صاحبہ کا انتقال ہوگیاہو۔ پھر خیال کیا کہ نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماتم پرسی تو والد صاحب کے متعلق ہی ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ میں ڈپٹی کمشنر کے پاس گیا کہ مجھے رخصت چند دن کی دی جائے ۔ غالباً والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے ۔ اس نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا نہ کوئی خبر آئی ہے نہ شائع ہوئی ہے ۔ اسی درمیان میں تار آگیا۔ جس میں والد صاحب کے انتقال کی خبر دی تھی۔ اور ڈپٹی کمشنر کو حیرت ہوئی ۔ میں نے قلم برداشتہ یہ چند باتیں عرض کر دی ہیں جو مناسب ہو اختیار فرمائیں۔
والسلام
خاکسار محمد احمد ایڈووکیٹ لائل پور ۱۹۴۹۔۱۰۔۱۴
ایک امر میں آپ کا مشورہ مجھے مطلوب ہے
میں سالہاسال سے انگریزی فارسی اور اردو الفاظ کے عربی ماخذ تحقیق کرنے میں لگا ہوا ہوں اس میں مجھے حیرت انگیز کامیابی ہوئی ہے۔ نصف سے زیادہ انگریزی لغت کو میں حل کر کے معہ دلائل وجہ تسمیہ وغیرہ عربی میں لوٹا چکا ہوں اور ایسے فارمولے مجھے معلوم ہو چکے ہیں کہ باقی ماندہ لغت کا حل کرنا میرے نزدیک بالکل سہل ہے۔ صرف وقت کی ضرورت ہے ۔ اس بارے میں جامعہ احمدیہ احمد نگر میں میرا ایک حالیہ لیکچر بھی پسند کیا گیا تھا۔
اس طرح اردو ۔ پنجابی ۔ اور فارسی کے کثیر لغت جو روزمرہ بولے جاتے ہیں اور ٹھیٹھہ الفاظ ہیں مَیں حل کر چکا ہوں۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا میں اس کام کو جاری رکھوں اور یہ مفید ہو گا ۔ میرا ارادہ ساری لغت انگریزی کو حل کر ڈالنے کا ہے۔ انشاء اللہ
اس میں علمائے لغت انگریزی کی فاش اور مُضحک بہت سی غلطیاں دریافت ماخذ کے بارے میں ثابت ہو چکی ہیں اور اس قابل ہیں کہ انہیں شائع کر کے OXFORD تک پہنچایا جائے۔ اس بارے میں آپ کوئی مفید مزید مشورہ بھی عنایت فرمائیں۔ میری تحقیق بعض اصولی فارمولوں کی بنا پر ہے۔ جو کم و بیش سب زبانوں پر یکساں عائد ہوتے ہیں۔ وباللہ التوفیق
خاکسار
محمد احمد مظہر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رائے کنورسین کے خط کا تعارف
ایک شریف النفس ہندو لالہ بھیم سین بٹالہ میں مولوی گل علی شاہ کے مدرسہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم مکتب تھے اور اس زمانہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک قلبی تعلق اور بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ لالہ بھیم سین بعد میں سیالکوٹ میں وکالت کرتے تھے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶۴ ء سے ۱۸۶۸ ء تک سیالکوٹ میں ملازم تھے تو وہاں جن افراد کے ساتھ آپ کا تعلق تھا ان میں لالہ بھیم سین بھی تھے۔ حضور دفتری اوقات کے بعد اکثر لالہ صاحب کی قیام گاہ پر جاتے تھے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لالہ بھیم سین کو ایک طویل خط بھی لکھا تھاجس میں بت پرستی کے رد میں قرآن کریم کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ یہ خط لالہ صاحب کے کاغذات سے ان کے بیٹے نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو دے دیا تھا۔ یہ خط مکتوبات احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے۔
جب ان کے بیٹے کنورسین انگلستان سے بار ایٹ لاء کر کے پنجاب کی عدالتوں میں پریکٹس کرتے تھے تو لالہ بھیم سین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیشکش کی تھی کہ ان کا بیٹا حضور کے مقدمات میں بلامعاوضہ پیش ہوا کرے ۔ لیکن حضور نے اس پیشکش کو منظور نہیں فرمایا۔ بعد میں جناب کنورسین صاحب پرنسپل لاء کالج لاہور بنے اور پھر ریاست ہائے کشمیر جودھ پور الور وغیرہ میں چیف جسٹس و جوڈیشل منسٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔
اپنے والد کی طرح بیرسٹر کنورسین کو بھی حضور سے انتہا درجہ کی عقیدت تھی۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ڈیرہ دون میں رہائش پذیر ہو گئے تھے۔
بیرسٹر کنورسین کے ایک صاحبزادے مسٹر گوپال چندر سین جب جودھ پور میں ملازم تھے تو وہاں ایک احمدی علی محمد صاحب نے سیرت المہدی کی جلدیں ان کو دیں کہ ان میں ان کے خاندان کا ذکر ہے۔ غالباً ان کے لڑکے گوپال سین یہ کتب اپنے ساتھ ڈیرہ دون لے گئے تھے اور انہوں نے اپنے والد کو متعلقہ حصے پڑھ کر سنائے تھے۔ جس پر رائے کنورسین نے ڈیرہ دون سے علی محمد صاحب کو کتابوں کے بھیجنے پر شکریہ کا خط لکھا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں لکھا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مرزا صاحب ان کے گھر آیا کرتے تھے کیونکہ ان کے والد ان کے گہرے دوست تھے۔ اور ساتھ کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر ہمارے لٹریچر میں نہیں ہے۔
علی محمد صاحب نے ۱۹۴۵ء کی ابتداء میں بیرسٹر کنور سین صاحب کا انگریزی میں ٹائپ شدہ جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کو بھجوا دیا تھا جسے آپ نے سلسلہ کی تاریخ سے متعلق دستاویزات میں محفوظ کر دیا تھا۔
اگلے صفحات میںان دونوں خطوط کا عکس دیا جا رہا ہے۔ سیدعبدالحی
عکس خط مکرم علی محمدصاحب بنام حضرت مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ عنہ
عکس خط جناب رائے کنورسین صاحب بنام مکرم علی محمدصاحب


رائے کنورسین کے خط کا اُردو ترجمہ

رائے کنورسین۔ ایم اے بار ایٹ لائ کنور کنج
ریٹائرڈ وزیر انصاف و چیف جسٹس کشمیر ، جودھ پور ، الور، پنا وغیرہ لکشمی ایونیو۔ ڈیرہ دون
۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۴ ؁ء
مکرم خان صاحب
میرے بیٹے گوپال چندر سین کو کتاب سیرت المہدی جو آپ نے ازراہ مہربانی مطالعہ کے لئے دی ہے، اس کے چند صفحات انہوں نے مجھے سنائے ہیں۔ مجھے اس بات سے بہت دلچسپی محسوس ہوئی کہ اس کتاب میں میرے معزز والد جو حضرت مرزا صاحب مرحوم کے دوست اور ساتھی تھے کا اتنی بار ذکر کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ جب میں ابھی لڑکا ہی تھا مجھے حضرت مرزا صاحب کو اپنے گھر پر دیکھنے کی عزت اور سعادت نصیب ہوئی تھی۔میرے والد صاحب آپ کے ساتھ خط و کتابت کرتے رہتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط بھی دیکھے تھے۔
میرے والد صاحب ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کا ذکر اس کتاب میں کیا گیا ہے۔ ایک بات کو جو میرے والد کی وکالت (مختار کاری) کے امتحان میں کامیابی سے تعلق رکھتی ہے میں یہاں دوبارہ بیان کرنا چاہوں گا۔ مرزا صاحب نے میرے والد کو لکھا تھا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق کریں۔ مرزا صاحب اسے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کرنا چاہتے تھے ۔ میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی تھی ۔ لیکن میرے والد نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی رائے میں مرزا صاحب سے زیادہ ان کے یعنی مرزا صاحب کے معززوالد صاحب صحیح پیش خبریاں کرنے والے تھے کیونکہ مرزا صاحب کے والد صاحب نے مرزا صاحب کی پیدائش پر اور ابھی جب آپ بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ نومولود (یعنی مرزا صاحب) ایک ولی ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا ’’ ہمارے گھر میں ولی پیدا ہوا ہے‘‘ میرے والد صاحب کے نزدیک یہ ایک بہت مثبت اور تحدّی سے کی جانے والی بات تھی جو کہ ایک پیشگوئی کے طور پر لی جانی چاہئے جبکہ مرزا صاحب کی میرے والد کی امتحان میں کامیابی کے بارہ میں پیشگوئی کی حیثیت دراصل استدلال کی ہے۔ کیونکہ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی اس پیشگوئی کی بنیاد کیا ہے تو مرزا صاحب نے بیان کیا کہ انہوں نے رؤیا میں دیکھا ہے کہ میرے والد صاحب کے جوابی پرچوں کا رنگ زرد سے سرخ ہو گیا جس سے مراد مرزا صاحب نے کامیابی لی۔
آخر میں مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے لئے جنہوں نے مرزا صاحب کے میرے والد صاحب سے تعلقات کی بنیاد پر میرے بیٹے گوپال کے ساتھ مہربانی کا سلوک کیا محبت اور احترام کے جذبات کا اظہار کروں۔
میں ہوں آپ کا مخلص
دستخط کنورسین








جلسہ اعظم مذاہب
لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی
۱۸۹۶ء
از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ
















نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
جلسہ اعظم مذاہب لاہور
’’ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘
’’ اللّٰہ اکبر خربت خیبر‘‘
۱۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جوش تبلیغ اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے لگن اور دھن کی کیفیت کا بیان انسانی طاقت سے باہر ہے۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ۔ حضورکا منصب وکام ہی خداوند عالَم نے اسلام کو تمام دوسرے مذاہب پر غالب کر دکھانا مقرر فرمایا ہے اور جن خواص کو یہ خدمات تفویض ہوا کرتی ہیں ان کے بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ کا حکم الٰہی ہمیشہ قائم ہوتا ہے۔
حضور پُر نور نے حق تبلیغ کی ادائیگی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور نہ ہی کوئی فروگذاشت کی۔کیا دن، کیا رات حضور کو یہی فکر رہتی اور حضور کوئی موقعہ تبلیغ کا ہاتھ سے جانے نہ دیا کرتے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے اور پھرتے خلوت میں اور جلوت میں الغرض ہر حال میں اسی فکر اور اسی دھن میں رہتے چنانچہ حضور پُرنور کی سوانح کا ہر ورق اور حیات طیبہ کا ہر لمحہ بزبان حال اس بیان کا گواہ اور شاہد عادل ہے۔ لمبے مطالعہ اور حضور کی تصانیف کی گہرائیوں کو الگ رکھ کر اگر حضور کے صرف ایک دو ورقہ اشتہار پر ہی بہ نیت انصاف۔ تعصب سے الگ ہو کر نظر ڈالی جائے جو حضور نے ۹ ؍دسمبر ۱۸۹۰ء کو شائع فرمایا تو یقینا میرے اس بیان کی تصدیق کرنا پڑے گی اور حضور کی اس سچی تڑپ اور خلوص نیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی ہر رنگ میں آپ کی غیرمعمولی تائید و نصرت فرماتا اور غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا اور حضور خدا کے اس فضل و احسان کا اکثر تحدیث نعمت کے طور پر یوں ذکر فرمایا کرتے کہ
’’ خدا کا کتنا فضل و احسان ہے کہ ادھر ہمارے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے یا کوئی ضرورت پیش آتی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ اس کے پورا کرنے کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ ‘‘
۲۔ ۱۸۹۲ء کے نصف دوم کا زمانہ تھا کہ اچانک ایک اجنبی انسان ، سادھو منش، بھگوے کپڑوں میں ملبوس شوگن چندر نام وارد قادیان ہوا اور جلد ہی ہماری مجالس کا ایک بے تکلف رکن نظر آنے لگا۔ ایک آدھ دن سیدنا حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں شریک ہوا تو دوسرے ہی روز وہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار شام اور اور صبح کی سیر میں شامل ہو کر حضور کی خاص توجہات کا مورد بن گیا۔کیونکہ وہ شخص اپنے آپ کو حق کا متلاشی اور صداقت کا طالب ظاہر کرتا ہوا اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے آسمانی پانی کی تلاش میں دور و نزدیک ،قریہ بقریہ بلکہ کوبکو سر گردان پھرتا ہوا قادیان کی مقدس بستی میں اپنے مدعا و مقصود کے حصول کی امید لے کر آیا اور کچھ لے کر ہی لوٹنے کی نیت سے پہنچا تھا اور اس کی نیک نیتی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ باوجود بالکل غیر ہونے کے بہت جلد اپنا لیا گیا۔ وہ نہ صرف سادھو تھا جو بھگوے کپڑوں میں اپنا فقر و حاجات چھپائے تھا اور نہ ہی کوئی ایسا سوالی جس کو دام و درہم کی ضرورت اور روپیہ پیسہ کا لالچ قادیان میں تقسیم ہوتے خزائن کی خبریں یہاں کھینچ لائی ہوں بلکہ واقعہ میں متلاشی حق اور طالب صداقت تھا ورنہ خدا کا برگزیدہ مسیح الزمان جس کی فراست کامل جو ہر شناس تھی اور جو خدا کے عطاء فرمودہ نور سے دیکھا کرتا تھا یوں اس کی طرف ملتفت نہ ہو جاتا۔
۳۔ شوگن چندر ایک تعلیم یافتہ اور معقول انسان تھا جو گورنمنٹ میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھا۔ بعض حوادث نے دنیا کی بے ثباتی کا ایک نہ مٹنے والا خیال اس کے دل و دماغ پر مستولی کردیا۔ اس کی بیوی اور بچے بلکہ خویش واقارب تک اس سے جدا ہو گئے اور وہ یک و تنہا رہ گیا۔ دل و دماغ میں پیدا شدہ تحریک نے اندر ہی اندر پرورش پائی۔ فانی چیزوں کے اثرات نے اس کے خیالات کی رَو کا رخ کسی غیر فانی اور قائم بالذات ہستی کی تلاش کی طرف پھیر دیا جس سے متاثر ہو کر اس نے ملازمت چھوڑ کر ترک دنیا اور تلاش حق کا عزم کر لیا اور سادھو بن کر جابجا گھومنے اور ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا۔ نہ معلوم کتنا عرصہ پھرا اور کہاں کہاں گیا۔ اس نے کیا کچھ دیکھا اور سنا جس کے بعد کسی نے اس کو ہمارے آقا و مولا، ہادی و راہ نمائے زمان کا پتہ دیا اور قادیان کی نشان دہی کی جس پر وہ صدق دلانہ اخلاص و عقیدت سے پہنچ کر حصول مقصد و مدعا کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ حضور کی صحبت میں رہ کر فیض پانے لگا اور ہوتے ہوتے ایسا گرویدہ ہوا کہ اس کی ساری خوشی، تسلی و اطمینان حضور کی صحبت اور کلمات طیبات سے وابستہ ہو گئے جس کی وجہ سے وہ یہیں ٹِک جانے پر آمادہ ہو گیا مگر اللہ تعالیٰ کو اس کے ذریعہ اپنا ایک نشان ظاہر کرنا منظور اور کرشمہ قدرت دکھانا مطلوب تھا جس کے لئے اسی ذات بابرکات نے اتنے تغیرات کئے اور ذرات عالم پر خاص تصرفات فرمائے اور ایک شخص کو قادیان پہنچایا جو کبھی لالہ پھر مسٹر اورباوا اور آخری سوامی شوگن چندر کے نام سے موسوم ہوا۔
۴۔ مہمان نوازی کا خلق شیوۂ انبیاء ہے اور حضور پُر نُور کو اس خلق میں کمال حاصل تھا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ حسن سلوک اور احسان و مروت میں حضور اپنی مثال صرف آپ ہی تھے۔ تالیف قلوب کے وصف عظیم کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی خلق کا جذبہ حضور میں بے نظیر و عدیم المثال تھا اور ان تمام خصائل حسنہ اور فضائل کے علاوہ حق و صداقت اور علم و حکمت کے خزائن حضور کے ساتھ تھے جو حضور کے تعلق باللہ اور مقبول بارگاہ ہونے کی دلیل تھے اور ان حقائق کے ساتھ ہی ساتھ خدا سے ہمکلامی کا شرف اور قبولیت دعا کے نمونے ایسی نعماء تھیں جن سے کوئی بھی نیک فطرت اور پاک طینت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا اور درحقیقت یہی وہ چیزیں ہیں جن کو ناواقف دنیا نے جادو اور سحر کا نام دے کر حضور پرنور سے دنیا جہاں کو دور رکھنے کی ناکام سعی کی ہے۔ سوامی شوگن چندر بھی ان کرامات کا شکار ہوئے اور جس چیز کی ان کو تلاش تھی اور دنیا میں وہ چیز ان کو کہیں بھی نہ ملی تھی آخر خدا کی خاص حکمت کے ماتحت ان کو قادیان میں وہ کچھ مل گیا جس کی انہیں جستجو تھی۔ اور وہ کچھ انہوں نے یہاں دیکھا جو دنیا جہاں میں انہوں نے دیکھا نہ سنا تھا۔ وہ خوش تھے اپنی خوش بختی پر کہ ان کو جس چیز کی خواہش اور تلاش تھی آخر خدا تعالیٰ نے عطا کر دی مگر ہمارے آقائے نامدار اس سے بھی کہیں زیادہ خوش تھے خدا کے اس فضل پر کہ اس نے حضور کی ایک دلی خواہش کے پورا کرنے کے لئے شوگن چندر صاحب کا وجود پیدا فرما دیا ہے۔
۵۔ حضور کی دیرینہ خواہش تھی کہ مذاہب عالم کی ایک کانفرنس ہو جس میں حضور کو قرآن کریم کے فضائل و کمالات اور معجزات ومحاسن اسلام بیان کرنے کا موقعہ ملے۔ ہر ایک مذہب کا نمائندہ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے تا اس میدان مقابلہ میں اعلائے کلمۃ اللہ ہو۔ اسلام کی برتری اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اظہار ہو۔ سو حضور کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اللہ کریم نے سوامی صاحب کو قادیان پہنچایا جنہوں نے حضور کی اس تجویز کو حق و باطل میں امتیاز کا حقیقی ذریعہ اور سچی کسوٹی یقین کر کے اس کے انعقاد کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور پھر ہمہ تن سعی بن کر اس کام میں لگ گئے۔ ہندو اور پھر گیروے لباس کی وجہ سے بھی اور علم و تجربہ کے باعث بھی ان کو ہندوئوں کے ہر خیال اور طبقہ میں رسوخ میسر آتا گیا اور ان کی تجویز پر غور کیا جانے لگا اور اس کام کے لئے ایک حرکت پیدا ہو گئی۔ مرکزی ہدایات۔ صلاح اور مشورے ان کے لئے پیش آمدہ مشکلات کا حل بنتے اور اس بیل کے منڈھے چڑھ جانے کی خاطر ان کی ہر رنگ میں مدد اور حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ کبھی وہ خود بطریق احتیاط قادیان آتے تو کبھی خاص پیامبروں کے ذریعہ ان کی ضروریات کاانتظام کیا جاتا رہا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے مطلوبہ کانفرنس کے قیام کی جھلک نظر آنے لگ گئی۔ حضور پُرنور کی راہ نمائی میں ایک ڈھانچہ تیار کیا گیا اور کام کرنے والے آدمیوں اور اخراجات کے کثیر حصہ کا انتظام سیدنا حضرت اقدس کی طرف سے دیکھ کر اس ڈھانچہ میں زندگی کے آثار بھی نمودار ہو گئے۔اور اس طرح سوامی شوگن چندر صاحب نے گویا حضور کی اس دینی خواہش کے پورا کرنے میں ایک غیبی فرشتہ کا کام کیا۔
۶۔ آخر خدا خدا کر کے بڑی مشکل گھاٹیوں کو عبور کرنے اور بے آب و گیاہ جنگلوں کو طے کرنے کے بعد اس جلسہ یعنی ’’جلسہ اعظم مذاہب‘‘کے انعقاد کی تاریخوں کا بھی اعلان ہو گیا جو ۲۶ لغایت ۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہوئیں۔ اور ٹائون ہال لاہور میں اس کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ ایک کمیٹی معززین و رئوساء کی جس میں علم دوست اصحاب شامل تھے، ترتیب پا چکی تو اس اطلاع پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اتنی خوشی ہوئی جیسے دنیا جہان کی بادشاہت کسی کو مل جائے۔
تب حضور نے اس جلسہ کے واسطے مضمون لکھنے کا ارادہ فرمایا مگر مصلحت الٰہی سے حضور کی طبیعت ناساز ہو گئی اور یہ سلسلہ کچھ لمبا بھی ہو گیا مگر چونکہ جلسہ کی تاریخیں قریب تھیں اور اندیشہ تھا کہ مضمون رہ ہی نہ جائے حضور نے بحالت بیماری و تکلیف ہی مضمون لکھنا شروع فرما دیا۔ اور چونکہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم و مغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ایام میں کسی ضرورت کے ماتحت سیالکوٹ جا کر بیمار ہو گئے اور ان کی بیماری کی اطلاعات سے اندیشہ تھا کہ وہ جلسہ پرنہ پہنچ سکیں گے اس پر لمبی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا کہ حضور کا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب پڑھیں چنانچہ اس فیصلہ کے ماتحت یہ تجویز کی گئی کہ
(الف) حضور کا مضمون جسے محترم حضرت منشی جلال الدین صاحب متوطن بلانی ضلع گجرات نقل کرتے تھے کہ حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد یہ کام کیا گیا کتابت کے طریق پر لکھا جائے تا کہ خواجہ صاحب کو پڑھنے میں دقت نہ ہو مگر حضور پرنور کے پھر بیمار ہو جانے کی وجہ سے جب مضمون کی تیاری میں وقفہ پڑ گیاتو ہر دو اصحاب نے مل کر اس کو مکمل کیا۔
(ب) اس مضمون میں جس قدر آیات قرآنی۔ احادیث یا عربی عبارات آئیں وہ علیحدہ خوش خط لکھا کر خواجہ صاحب کو اچھی طرح سے رٹا دی جائیں تا کہ جلسہ میں پڑھتے وقت کسی قسم کی غلطی یا رکاوٹ مضمون کو بے لطف و بے اثر ہی نہ بنا دے۔
۷۔ حضور پُرنُور کا یہ مضمون خوشخط لکھا ہوا صبح کی سیر میں لفظاً لفظاً سنایا جایا کرتا تھا اور حضور کی عام عادت بھی یہی تھی کہ جو بھی کتاب تصنیف فرمایا کرتے یا اشتہار و رسائل لکھا کرتے ان کے مضامین کو مجلس میں بار بار دہرایا کرتے تھے۔اتنا کہ باقاعدہ حاضر رہنے والے خدام کو وہ مضامین ازبر ہو جایا کرتے تھے۔ ان ایام کی سیر صبح عموماً قادیان کے شمال کی جانب موضع بٹر کی طرف ہوا کرتی تھی اور اسی مضمون کے سننے کی غرض سے قادیان میں موجود احباب اور مہمان قریباً تمام ہی شوق اور خوشی سے شریک سیر ہوا کرتے جن کی تعداد تخمیناً پندرہ بیس یا پچیس تک ہوا کرتی تھی۔ مضمون کے بعض حصوں کی تشریح بھی حضور چلتے چلتے فرماتے جایا کرتے تھے۔ یہ تحریر و تقریر نئے نئے نکات ۔ عجیب در عجیب معارف اور ایمان افروز حقائق و دلائل کی حامل ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں کی سیر صبح میں جس کے لئے حضور باوجود بیماری اور ضعف کے نکلا کرتے تھے بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کے بعض جاسوس بھی حضور کے اس مضمون کو سن کر ان کو رپورٹ پہنچایا کرتے تھے چنانچہ حضور کے مضمون کی اکثر آیات جن کو حضور نے موقعہ و محل پر موتیوں کی لڑی کی طرح سجا کر ان سے استنباط فرمائے ہیں مولوی صاحب نے اپنے مضمون میں یکجا جمع کر دی ہیں جن کا وہاں ربط ہے نہ موقعہ و محل اور جوڑ ۔
۸۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب مضمون کو پڑھا کرتے۔ پڑھنے کے طریقوں کی مشق کیا کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوا کرتی تھی کہ پڑھنے کے طریق و بیان میں کوئی جدّت پیدا کریں جس سے سامعین زیادہ سے زیادہ متاثر ہو سکیں۔ آیات قرآنی۔ احادیث یا عربی الفاظ و فقرات کو ازبر کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ قدرت نے خواجہ صاحب کو جہاں اردو خوانی میں خاص ملکہ دیا تھا وہاں آیات قرآنی کی تلاوت میں باوجود کوشش کے بہت کچھ خامی پائی جاتی تھی جسے خواجہ صاحب محنت اور شوق کے باوجود پورا کرنے سے قاصر تھے۔ مزید برآں انہی ایام میں بعض ان کے ہمراز دوستوں کی زبانی معلوم ہوا کہ دراصل خواجہ صاحب کو مضمون کی بلند پائیگی، کمال و نفاست اور عمدگی کے متعلق بھی شکوک تھے جس کا اثر ان کے طرز ادا و بیان پر پڑنا لازمی تھا اور عجب نہیں کہ یہ بات سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک بھی جا پہنچی ہو۔
۹۔ جلسہ سے چند ہی روز قبل اللہ تعالیٰ نے حضور کو الہاماً اس مضمون کے متعلق بشارت دی کہ ’’ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا‘‘۔ اور اس کی مقبولیت دلوں میں گھر کر جائے گی اور کہ یہ امر بطور ایک ’’نشان صداقت‘‘ ہو گا۔ چنانچہ حضور پرنور نے ۲۱ ؍دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار بعنوان
’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری‘‘
لکھ کر کاتب کے حوالے کیا اور مجھ ناچیز غلام کو یاد فرما کر یہ اعزاز بخشا اور فرمایا کہ
’’ میاں عبدالرحمن! اس اشتہار کو چھپوا کر خود لاہور لے جائو اور خواجہ صاحب کو (جو کہ ایک ہی روز پہلے انتظامات جلسہ کے لئے لاہور بھیجے گئے تھے) کو پہنچا کر ہماری طرف سے تاکید کر دینا کہ’’ اس کی خوب اشاعت کریں ۔ ضرورت ہو تو وہیں اور چھپوا لیں۔ ہماری طرف سے ان کو اچھی طرح تاکید کرنا کیونکہ وہ بعض اوقات ڈر جایا کرتے ہیں، بار بار اور زور سے یہ پیغام پہنچا دینا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لوگوں کی مخالفت کا خیال اس کام میں ہرگز روک نہ بنے۔ یہ انسانی کام نہیں کہ کسی کے روکے رک جائے بلکہ خدا کا کام ے جو بہر حال پورا ہو کر رہے گا۔ ‘‘
۱۰۔ اشتہار قریبًاآدھی رات کو تیار ہوا اور میں اسی وقت لے کرپیدل بٹالہ کو روانہ ہو گیا۔ ۲۲؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کی دوپہر کے قریب لاہور پہنچا۔ جناب خواجہ صاحب اس زمانہ میں لاہور کی مشہور مسجد مسجد وزیر خان کے عقب کی ایک تنگ سی گلی میں رہا کرتے تھے جہاں میں انکو تلاش کر کے جا ملا اور اشتہارات کا بنڈل اور حضور کا حکم کھول کھول کر سنا دیا بلکہ باربار دہرا بھی دیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھ اس وقت دو اور دوست بھی وہاں موجود تھے جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے۔ خواجہ صاحب نے بنڈل اشتہارات کا کھولا اور مضمون اشتہار پڑھا اور میں نے دیکھا کہ چہرہ اُن کا بجائے بشاش اور خوش ہونے کے افسردہ و اداس سا ہو گیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے۔
’’ میاں! حضرت کو کیا علم کہ ہمیں یہاں کن مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ اور مخالفت کا کتنا زور ہے۔ ان حالات میں اگر یہ اشتہار شائع کیا گیا تو یہ ایک تودۂ بارود میں چنگاری کا کام دے گا اور عجب نہیں کہ نفس جلسہ کا انعقاد ہی ناممکن ہو جائے۔ موقعہ پر موجودگی اور حالات کی پیچیدگی سے آخر ہم پر بھی کوئی ذمہ واری آتی ہے۔ اچھا جو خدا کرائے ،انشاء اللہ کریں گے۔ ‘‘
آخر سوچ بچار۔ صلاح مشوروں اور اونچ نیچ ۔ اتار چڑھائو کی دیکھ بھال کے بعد دوسری یا تیسری رات کے اندھیروں میں بعض غیر معروف مقامات پر چند اشتہارات چسپاں کرائے جن کا عدم و وجود یکساں تھا کیونکہ غیر معروف مقامات کے علاوہ وہ اشتہار اتنے اونچے لگائے گئے تھے کہ اوّل تو کوئی دیکھے ہی نہیں اور اگر دیکھ پائے تو پڑھ ہی نہ سکے۔
۱۱۔ میں نے دیکھا اور سنابھی کہ سیدنا حضرت اقدس کے اصل مضمون کا حصہ خواجہ صاحب قادیان سے اپنے ساتھ لاہور لائے تھے اس کا مطالعہ اور آیات قرآنی کی تلاوت کی مشق کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ خواجہ صاحب کے لاہور چلے آنے کے بعد جو جو حصہ مضمون تیار ہوتا جاتا اس کی نقل ان کو لاہور پہنچائی جاتی رہتی اور یہ سلسلہ ۲۵؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کی شام تک جاری رہاتھا یا شاید ۲۶؍ دسمبر کی رات تک بھی۔
۱۲۔ جلسہ خدا کے فضل سے ہوا۔ بہتر جگہ اور بہتر انتظام کے ماتحت ہوا اور واقعی سخت مخالفتوں کے طوفان اور مشکلات کی کٹھن اور خطرناک گھاٹیوں کو عبور کرنے کے بعد ہوا۔ بڑی بڑی روکیں کھڑی کی گئیں۔ طرح طرح کے حیلے اور باریک در باریک چالیں چلی گئیں مگر بالآخر ہندو و یہود اور ان کے معاون و مددگاروں کا خیبری قلعہ ٹوٹا اور بعینہٖ وہی ہوا جس کا نقشہ الہام الٰہی
’’اللّٰہ اکبر خربت خیبر ‘‘
میں بیان ہوا تھا۔ دشمنوں نے ٹاؤن ہال نہ لینے دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی بہتر سامان کر دیا اور اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ کی وسیع اور دو منزلہ عمارت ،لمبے چوڑے صحن، بڑے بڑے کمروں ،ہال کمرہ اور گیلریوں کو ملا کر ایک بڑی عظم الشان عمارت جو ا یک بڑے اجتماع کے لئے کافی اور موزوں تھی خدا نے دلا دی۔ ۲۶؍ دسمبر کا روز جلسہ کا پہلا دن تھا۔ حاضری حوصلہ افزا نہ تھی۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ اَلَفْ اَلَفْ صلوٰۃٍ وَالسَّلام کے مضمون کے لئے ۲۷؍ دسمبر کا دن اور ڈیڑھ بجے دوپہر کا وقت مقرر تھا۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ اور اس کے خاص فضل کا نتیجہ تھا کہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب وفور عشق و محبت سے بیتاب ہو کر والہانہ رنگ میں وقت سے پہلے لاہور پہنچ گئے جن کی تشریف آوری سے ہم لوگوں کے لئے خاص تسکین اور خوشی کے سامان اللہ تعالیٰ نے بہم پہنچا دئیے۔
۱۳۔ حالات کی ناموافقت۔ جوش مخالفت اور قسما قسم کی مشکلات نیز وقت کی ناموزونیت کے باعث خطرہ تھا اور فکر دامنگیر کہ جلسہ شاید حسب دل خواہ بارونق نہ ہو سکے گا مگر شان ایزدی کہ خلق خدا یوں کھچی چلی آرہی تھی۔ جیسے فرشتوں کی فوج اسے دھکیلے لا رہی ہو اور ان کی تحریک کا اتنا گہر اثر ہوا کہ مخلوق کے دل بدل گئے اور ان کے قلوب میں بجائے عداوت و نفرت کے عشق و محبت بھر گئی۔ مخالفوں کی مخالفت نے کھاد کا کام دیا اور روکنے و شرارت کرنے والوں کے غوغا نے لوگوں کی توجہ کو جلسہ کی طرف پھیر دیا جس سے لوگ کشاں کشاں تیز قدم ہو ہو کر جلسہ گاہ کی طرف بڑھے اور ہوتے ہوتے آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ صحن اور اس کے تمام بغلی کمرے اور ہال بھر گیا۔ اوپر کی گیلریوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہ رہی اور ہجوم اس قدر بڑھا کہ گنجائش نکالنے کو سمٹنا اور سکڑنا پڑا۔ دسمبر کی تعطیلات کی وجہ سے جا بجا جلسے ۔ کانفرنسیں اور میٹنگیں ہو رہی تھیں۔ لوگوں کی مصروفیات ان کے دنیوی کاموں میںانہماک اور مادی فوائد کے حصول کی مساعی کی موجودگی میں ایک خالص مذہبی جلسہ و کانفرنس میں اس کثرت ہجوم کو دیکھنے والا ہرکس وناکس اس منظر سے متاثر ہو کر اس حاضر ی کی کامیابی کو غیر معمولی، خاص اور خدائی تحریک و تصرّف کا نتیجہ کہنے پر مجبور تھا اور ایک ہندو کو اس سے انکار تھا نہ ہی سکھ اور آریہ سماجی کو۔ مسلمان کو اس سے اختلاف تھا نہ عیسائی یہودی یا دیو سماجی کو بلکہ ہر فرقہ و طبقہ کے لوگ آج کے اس خارق عادت جذب اور بے نظیر کشش سے متاثر اور دل ان کے سچ مچ مرعوب ہو کر نرم تھے۔ دیکھنے اور سننے میں فرق ہوتا ہے اس تقریب کی تصویر الفاظ میں ممکن نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اجتماع اپنے ماحول کے باعث یقینا عظیم الشان ،بے نظیر اور لاریب غیر معمولی تھا۔
۱۴۔ مضمون کا شروع ہونا تھا کہ لوگ بے اختیار جھومنے لگے اور ان کی زبانوں پر بے ساختہ سبحان اللہ! اور سبحان اللہ! کے کلمات جاری ہو گئے۔ سنا ہوا تھا کہ علم توجہ اور مسمریزم سے ایک معمول سے تو یہ کچھ ممکن ہو جاتا ہے مگر ہزاروں کے ایک ایسے مجمع پر جس میں مختلف قویٰ۔ عقاید اور خیال کے لوگ جمع تھے اس کیفیت کا مسلط ہو جانا یقینا خارق عادت اور معجزانہ تاثیر کا نتیجہ تھا۔ یہ درست ہے کہ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کو قرآن کریم سے ایک عشق تھا اور اللہ تعالیٰ نے آواز میں بھی ان کی لحن دائودی کی جھلک پیدا کر رکھی تھی نیز وہ ان آیات و مضامین کے ربط اور حقائق سے متاثر ہو کر جس رقت ،سوز اور جوش سے تلاوت فرماتے آپ کا وہ پڑھنا آپ کی قلبی کیفیات اور لذت و سرور کے ساتھ مل کر سامعین کو متاثر کئے بغیر نہ رہتا تھا مگراس مجلس کی کیفیت بالکل ہی نرالی تھی اور کچھ ایسا سماں بندھا کہ اول تا آخر آیات قرآنی کیا اور ان کی تشریح و تفسیر کیا، سارا ہی مضمون کچھ ایسا فصیح،بلیغ، مؤثر اور دلچسپ تھا کہ نہ مولانا موصوف کے لہجہ میں فرق آیا اور نہ جوش لذت ہی پھیکے پڑے۔ معارف کی فرا وانی کے ساتھ عبارت کی سلاست وروانی اور مضمون کی خوبی و ثقاہت نے حاضرین کو کچھ ایسا از خود رفتہ بنا دیا جیسے کوئی مسحور ہوں۔ میں نے کانوں سنا کہ ہندو اور سکھ بلکہ کٹڑ آریہ سماجی اور عیسائی تک بے ساختہ سبحان اللہ! سبحان اللہ ! پکار رہے تھے۔
ہزاروں انسانوں کا یہ مجمع اس طرح بے حس و حرکت بیٹھا تھا جیسے کوئی بت بے جان ہوں۔ اور ان کے سروں پر اگر پرندے بھی آن بیٹھتے تو تعجب کی بات نہ تھی۔ مضمون کی روحانی کیفیت دلوںپر حاوی اور اس کے پڑھے جانے کی گونج کے سوا سانس تک لینے کی آواز نہ آتی تھی حتیّٰ کہ قدرت خداوندی سے اس وقت جانور تک خاموش تھے اور مضمون کے مقناطیسی اثر میں کوئی خارجی آواز رخنہ انداز نہیں ہو رہی تھی۔ کم و بیش متواتر دو گھنٹے یہی کیفیت رہی۔
افسوس کہ میں اس کیفیت کے اظہار کے قابل نہیں۔ کاش میں اس لائق ہوتا کہ جو کچھ میں نے وہاں دیکھا اور سنا اس کے عکس کا عشر عشیر ہی بیان کر سکتا جس سے اس علمی معجزہ و نشان کی عظمت دنیا پر واضح ہو کر خلق خدا کے کان حق کے سننے کو اور دل اس کے قبول کرنے کو آمادہ وتیار ہوتے جس سے دنیا جہان کے گناہ، معاصی اور غفلتیں دور ہو کر ہزاروں انسان قبول حق کی توفیق پا جاتے۔
۱۵۔ ساڑھے تین بج گئے۔ وقت ختم ہو گیا جس کی وجہ سے چند منٹ کے لئے اس پُر لذت و سرور کیفیت میں وقفہ ہوا۔ اگلا نصف گھنٹہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی کے مضمون کے لئے تھا۔ انہوں نے جلدی سے کھڑے ہو کر پبلک کے اس تقاضاء کو کہ ’’ یہی مضمون جاری رکھا جائے نیز کسی اور کی بجائے اسی مضمون کو وقت دیا جائے اسی مضمون کو مکمل و پورا کیا جائے ‘‘اپنا وقت دے کر پورا کر دیا بلکہ اعلان کیا کہ میں اپنا وقت اور اپنی خواہش اس قیمتی مضمون پر قربان کرتا ہوں۔ چنانچہ پھر وہی پیاری ۔ مرغوب اور دلکش و دلنشیں داستان شروع ہوئی اور پھر وہی سماں بندھ گیا۔ چار بج گئے مگر مضمون ابھی باقی تھا اور پیاس لوگوں کی بجائے کم ہونے کے بڑھی جا رہی تھی۔ سامعین کے اصرار اور خود منتظمین کی دلچسپی کی وجہ سے مضمون پڑھا جاتا رہا حتیّٰ کہ ساڑھے پانچ بج گئے۔ رات کے اندھیرے نے اپنی سیاہ چادر پھیلانی شروع کر دی۔ مجبوراً یہ نہایت ہی میٹھی اور پُر معرفت اور مسرت بخش مجلس اختتام کو پہنچی اور بقیہ مضمون ۲۹ دسمبر کے لئے ملتوی کیا گیا۔
کوئی دل نہ تھا جو اس لذت و سرور کو محسوس نہ کرتا ہو۔ کوئی زبان نہ تھی جو اس کی خوبی و برتری کا اقرارواعتراف نہ کرتی اور اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نہ تھی۔ ہر کوئی اپنے حال اور قال سے اقرار و اعتراف کر رہا تھا کہ واقعی یہ مضمون سب پر غالب رہا اور اپنی بلندی ۔ لطافت اور خوبی کے باعث اس جلسہ کی زینت ۔ روح رواں اور کامیابی کا ضامن ہے۔ نہ صرف یہی بلکہ ہم نے اپنے کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا کہ کئی ہندو اور سکھ صاحبان مسلمانوں کو گلے لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ
’’ اگر یہی قرآن کی تعلیم اور یہی اسلام ہے جو آج مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے تو ہم لوگ آج نہیں تو کل اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوں گے اور اگر مرزا صاحب کے اسی قسم کے ایک دو مضمون اور سنائے گئے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ہی ہمارا بھی مذہب ہو گا۔ ‘‘
۱۶۔ آج کا جلسہ ۲۷؍ دسمبر برخاست ہو گیا۔ لوگ گھروں کو جا رہے تھے جلسہ گاہ کے دروازہ پر میں نے دیکھاکہ اس کے دونو طرف دو آدمی کھڑے سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہی اشتہار تقسیم کر رہے تھے جو حضور پُر نور نے میرے ہاتھ خاص تاکیدی احکام کے ساتھ بھجوایا تھا تا کہ معروف مقامات پر چسپاں کیا جائے اور جلسہ سے پہلے ہی پہلے کثرت سے شائع کیا جاوے بلکہ یہ بھی تاکید تھی کہ یہ تھوڑا ہے ضرورت کے مطابق لاہور ہی میں اور طبع کرا لیا جائے تا کہ قبل از وقت اشاعت سے اس خدائی نشان کی عظمت کا اظہار ہو جس سے سعید روحیں قبول حق کے لئے تیار ہوں مگر ہوا یہ کہ خواجہ کمال الدین صاحب کے خوف کھانے کی وجہ سے پہلے دنیا جہان نے خدائی نشان کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اس کے غلبہ کا اقرارواعتراف اور بعد میں ان کو وہ اشتہار پہنچایا گیا جو کئی روز قبل چھاپا اور اچھی طرح شائع کرنے کو بھیجا گیا تھا چنانچہ جب سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواجہ صاحب کی اس کمزوری و کوتاہی کا علم ہوا تو حضور پُرنور بہت خفا ہوئے اور کئی دن تک جب جب بھی اس نشان الٰہی کا ذکر ہوا کرتا یا بیرونجات سے اس کامیابی کے متعلق رپورٹیں ملتیں ساتھ ہی خواجہ صاحب کی اس کمزوری پر اظہار افسوس بھی سننے میں آیا کرتا تھا۔
مضمون کی مقبولیت اور پبلک کے اصرار و تقاضا سے متأثر ہو کر مینجنگ کمیٹی کا اجلاس خاص منعقد ہوا اور اس میں یہ قرار داد پاس کی گئی کہ
حضرت مرزا صاحب کے مضمون کی تکمیل کیلئے مجلس اپنے پروگرام میں ایک دن بڑھا کر ۲۹ دسمبر کا چوتھا دن شامل کرتی ہے۔
حضور کے مضمون کی غیر معمولی مقبولیت غیروں کو کب بھاتی تھی۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب نے ایزادی ٔ وقت کی اس خصوصیت اور اہمیت کو کم کرنے کے لئے کوشش کر کے اپنے لئے بھی وقت بڑھائے جانے کی خواہش کی چنانچہ نصف گھنٹہ ان کے لئے بھی بڑھا دیا گیا مگر دوسرے روز خود تشریف ہی نہ لائے اور اپنا وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے لئے وقف کردیا جس کی وجہ ظاہر ہے عیاں راچہ بیاں۔ مگر خدا کی شان! حاضری اتنی حوصلہ شکن تھی کہ جلسہ گاہ کے بھر جانے کی انتظار ہی انتظار میں وقت گزرنے لگا نہ مجلس کل کی طرح پُررونق ہو اور نہ مولوی محمد حسین صاحب کھڑے ہوں ۔آخر بہت انتظار کے باوجود جب وہ خواہش پوری ہوتی نظر نہ آئی تو بادل ناخواستہ مجبوراً کھڑے ہوئے اور جو کچھ لکھا تھا پڑھ دیا او رزیادہ وقت لینے کے باوجود نہ خود خوش ہوئے نہ پبلک نے کوئی داد دی۔
۱۷۔ ۲۹ دسمبر کی صبح ساڑھے نو بجے کارروائی جلسہ شروع ہونے والی تھی ۔دسمبر کا اخیر۔ سردی کی شدت اور وقت اتنا سویرے کا تھا کہ لوگ ضروریات سے فراغت پا سکیں تو درکنار اتنی سویرے تو عام طور سے شہروں کے لوگ جاگنے کے بھی عادی نہیں ہوتے۔ فکر تھی،اندیشہ تھاکہ شاید حاضری بہت ہی کم رہے گی اور اس طرح آج وہ لطف شاید نصیب نہ ہو گا مگر خدا کے کام اپنے اندر ایک غیر معمولی جذب اور مقناطیسی کشش رکھتے ہیں جسے کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی۔ انسان اگر غفلت و سستی دکھائیں تو وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے۔ چنانچہ سویرے ہی سویرے ٹھٹھرتے ہوئے اور سردی سے سمٹتے اور سکڑتے ہوئے خلق خدا جھنڈ کے جھنڈ اور جوق در جوق اس کثرت اور تیزی سے آئی کہ ۲۷ کی دوپہر بعد کا نظارہ بھی مات پڑ گیا اور جلسہ نہایت شوکت و عظمت اور خیر و خوبی سے جاری وساری اور پھر نہایت کامیابی و کامرانی سے اختتام پذیر ہوا اور اس طرح حضور پرنور کا مضمون دنیا جہان پر عَلٰی رَغْمِ اُنُوْفِ الْاَعْدَاء اپنے غلبہ،خوبی، کامیابی اور عظمت و حقانیت کا سکہ بٹھا کر علمی دنیا کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا نشان بن کر آسمان دنیا پر سورج اور چاند کی طرح چمکنے لگا۔ اور دوست تو درکنار دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اپنے اور بیگانے، پبلک اور منتظمین غرض ہر شعبہ میں اسی مضمون کا چرچا اور زبانوں پر حق جاری تھا۔ اخبارات نے مقالے لکھے اور اس صداقت کا اقرار و اعتراف کیا۔ منتظمہ کمیٹی نے اپنی طرف سے اس اقرار کو رپورٹ متعلقہ میں درج کر کے اظہار حقیقت کیا۔ سچ ہے
چڑھے چاند چھپے نہیں رہ سکتے
اور اس کا انکار بیوقوفی کی دلیل ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اپنے مقدس و مقبول بندے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جو کچھ فرمایا تھا وہ ہو کر رہا۔ خدا کی بات پوری ہوئی اور دنیا کی کوئی طاقت ،کوئی تدبیر ،کوئی مکر اور حیلہ خدائی کلام کے پورا ہونے میں روک نہ بن سکا۔
۱۸۔ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب شائع ہوئی اور منتظمہ کمیٹی جس کے اراکین ہر مذہب و ملت کے ممبر اور اعلیٰ طبقہ کے ذمہ وار لوگ تھے، کی طرف سے اس کے خرچ و صرف سے شائع ہوئی۔ تمام وہ مضامین جو اس جلسہ میں پڑھے گئے یا اس کے واسطے لکھے گئے اس میں من و عن درج کئے گئے کہ دنیا اس مذہبی دنگل اور میدان مقابلہ میں آنے والے سبھی کویکجا دیکھ کر غور اور فیصلہ اور حق و باطل میں تمیز کر سکے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ قرآن کریم کی عظمت ، اسلام کی حقانیت ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خدا کے مقرب اور مقبول بندے، اسی کے بلائے بولنے والے۔ اس کے سچے نبی و رسول ہونے کے لئے بطور شاہد اور دلیل و برھان یہ امور قائم دائم رہیں۔ حضور پرنور کا یہی وہ مضمون ہے جو اردو میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے اور انگریزی میں ’’ ٹیچنگز آف اسلام‘‘ کے سرنامہ و عنوان کے ماتحت بارہا ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر دنیا جہان کی روحانی لذت و سرور کے سامان اور ہدایت کے راستے آسان کرتا اور نہ صرف یہی بلکہ دنیا کی اور کئی زبانوں میں بھی چھپ کر شائع ہوتا چلا آرہا ہے۔
۱۹۔ یہ رپورٹ شائع ہوئی اور خدا کی خدائی گواہ ہے کہ ہزارہا انسانوں نے جو کچھ جلسہ میں دیکھااور سنا تھا وہی کچھ رپورٹ میں درج ہوا۔ وہی مضامین جو نمائندگان مذاہب نے لکھے اور سنائے اور پھر انہوں نے منتظمہ کمیٹی کے حوالے کئے۔ ٹھیک ٹھیک اور بالکل وہی اور بعینہٖ طبع ہوئے تھے۔ مگر کیا کہا جائے مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کو اور ان کی عقل و دانش کو کہ انہوں نے رپورٹ کی اشاعت پر یہ واویلا شروع کر دیا کہ ان کے نام سے جو مضمون اس میں طبع کرایا گیا ہے، وہ درحقیقت ان کا ہے ہی نہیں۔
مولوی صاحب کی غرض و غایت اس الزام تراشی سے ظاہر ہے کہ مقابلہ میں شکست کی ذلت کو چھپانا تھی۔ حالانکہ ان کی یہ حرکت عذر گناہ بدتر از گناہ اور اپنے ہاتھوں اپنی خاک اڑانے کے مترادف تھی اور یہ امر منتظمین سے پوشیدہ نہ تھا۔ چنانچہ منتظمین نے مولوی صاحب کے اس واویلا اور غوغا کو درخود امتناء ہی نہ سمجھا اور اس طرح مولوی صاحب کی پردہ داری کی بجائے اور بھی زیادہ پردہ دری ہوئی جس سے ’’مولانا صاحب‘‘ جل بھن کر راکھ ہو گئے اور اس گہرے زخم سے تلملانے لگے جس کا اندمال ان سے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ انسانی ہاتھوں سے نہ تھا کہ بشری تدابیر اس کو اچھا کر سکتیں۔ ورنہ اگر حقیقت یہی تھی جس کا ان کو گلہ تھا تو کیوں نہ اپنا اصل مضمون شائع کر کے منتظمین کے اس دھوکہ کو الم نشرح کر دکھایا۔
بریں عقل و دانش بباید گریست
۲۰۔ سوامی شوگن چندر صاحب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان ’’ نشان صداقت‘‘ کے اظہار کے سامان پیدا کئے، جلسہ کی تمام تر کارروائی کے دوران میں اور پھر رپورٹ کی اشاعت تک تو ملتے ملاتے اور آتے جاتے رہے پھر نہ معلوم وہ کیا ہوئے اور کہاں چلے گئے۔ گویا خدائی قدرت کا ہاتھ انہیں اسی خدمت کی غرض سے قادیان لایا تھا اور پھر پہلے کی طرح غائب کر دیا۔
نوٹ :۔ حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی اور حضرت پیر جی سراج الحق صاحب نعمانی رضوان اللہ علیہم دونوں بزرگوں کے ہاتھ کا نقل کردہ حضرت اقدس کا وہ مضمون جس پر سے حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے اس جلسہ میں پڑھ کر سنایا تھا آج تک میرے پاس محفوظ ہے مگر چونکہ اس مقدس اور قیمتی امانت کی حفاظت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوں لہٰذا اسے قومی امانت سمجھ کر اس کو سیدنا قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ عالی مقام مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ کے سپرد کرتا ہوں جو ایسے کاموں کے احق اور اہل ہیں تا کہ قائم ہونے والے قومی میوزیم میں رکھ کر اس کو آنے والی نسلوں کے ایمان و ایقان کی مضبوطی و زیادتی اور عرفان میں ترقی کا ذریعہ بنا سکیں۔
فقط
عبدالرحمن قادیانی
۲۰ جولائی ۱۹۴۶ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
وعلیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
مکرم ومحترم مہتہ شیخ عبد الرحمن صاحب قادیانی سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بہ تعمیل ارشاد وروایات متعلقہ جلسہ مہوتسو رجسٹر نمبر۱۴صفحہ نمبر۱۷۸کتب خانہ صدر انجمن احمدیہ نقل کر کے حاضر خدمت ہیں ۔ اصل کاغذات متعلقہ جلسہ مہوتسو جو بمقام لاہور منعقد ہوا تھا سوامی شوگن چندر کے اشتہار متعلقہ مورخہ۲؍ جنوری ۱۹۴۶ء ریل گاڑی میں گم ہوگئے ۔ محمد الدین ۱۹۴۶؍۶؍۲۳
(۱۵) سوامی شوگن چندرر سالہ فوج میں ہیڈ کلرک تھا اور منشی (مرزا) جلال الدین صاحب کا ہمنشین اور صحبت یافتہ تھا۔ منشی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے اہل وعیال واطفال فوت ہوگئے اس لئے نوکری چھوڑ کر فقیر بن گیا۔
(۱۶) جلسہ کا مضمون (اسلامی اصول کی فلاسفی) پڑھے جانے سے پہلے مخفی رکھا گیا تھا۔ حضرت صاحب نے منشی جلال الدین صاحب کو اس کی کاپی لکھنے پر مامور فرمایا۔ اور فرمایا کہ منشی صاحب کا خط مایُقرء ہوتا ہے۔ اس لئے آپ ہی اس کو لکھیں ، چنانچہ منشی صاحب نے وہ مضمون اپنی قلم سے لکھا۔
(۱۷) منشی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ میں نے اس مضمون کی سطر سطر پر دعا کی ہے ۔
(۱۸) مضمون کے لکھنے جانے اور پڑھے جانے کے وقت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ بیمار تھے۔ اس لئے مضمون پڑھنے کے لئے خواجہ کمال الدین صاحب کو تیار کیا جار ہا تھا لیکن خواجہ صاحب انگریزی خوان تھے ،قرآن شریف عربی لہجہ میں پڑھ نہ سکتے تھے۔ آخر وقت پر مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر جلسہ پر لاہور میں سنایا۔
(۱۹) میں محمد دین جلسہ پر حاضر نہیں ہوسکا تھا۔ میرے حلقہ پٹوار میں جوتین چار حصہ میں تقسیم تھی چھ سات امسلہ تقسیم زیر کار تھیں جن کی وجہ سے مجھے رخصت نہ مل سکی ۔ اس لئے منشی جلال الدین صاحب حاضر ہوئے تھے۔ انہوںنے سنایا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید معجزانہ رنگ میں ہوئی۔ سردی کے موسم کے باوجو دکسی شخص کوکھانسی یا چھینک نہ آئی۔ ہمہ گوش ہو کر لوگوں نے سنا۔ آخر سکھوں نے مسلمانوں کو جپھا مار کر اُٹھایا اور مبارکبادیں دیں۔ اور کہا کہ جے کدی مرز ا ایہو جیا اک مضمون ہور دَؤ ۔ تاں مسلمان ہی ہونا پئو(یعنی اگر مرزا ایسا ہی مضمون اور دیوے گا تو ہم کو مسلمان ہی ہونا پڑے گا) نیز منشی صاحب نے فرمایا کہ جانوروں یعنی پرندوں پر بھی الٰہی تصرف تھا کہ چڑیا تک کی بھی کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔
(۲۰) حضرت صاحب نے اس مضمون کے متعلق ماہ اگست ۱۸۹۶ء یعنی جلسہ سے چار ماہ قبل اشتہار دیا۔’’ خربت خیبر۔ بالا رہے ۔ سب پر غالب آئے گا۔‘‘ الہامات شائع کئے۔ لاہور میں خواجہ کمال الدین صاحب نے تشہیر بعد میں کی جس پر حضرت صاحب ناراض ہوئے ۔
(۲۱) اشتہار مذکور منشی جلال الدین صاحب نے اپنے ایک دوست اور ہم عصر سردار بہادر مردان علی خاں رسالدار میجر پنشنر رسالہ نمبر۱۲ساکن بیسہ کو دیا اور تبلیغ بھی کی۔ جب پیشگوئیوں کے وقوع اور مضمون کی کامیابی سردار مردان علی خاں نے پڑھی تو کہا ’’ھن مرزے دی چڑھ پَھبّی‘‘ کہ اب مرزا لوگوں پر اپنا غلبہ بڑھ چڑھ کر پیش کرے گا اور لوگ حجت ملزمہ (کے) آگے سرنگوں ہوجائیںگے۔
نقل مطابق اصل ہے
۴۶۔۲۵۔۶۔۲۳
محمد الدین بقلم خود (دستخط)
اشتہار تبلیغ رسالت حصہ پنجم صفحہ ۷۷-۷۹ کے حاشیہ میں سوامی شوگن چندر کے اشتہار کا ذکر ہے جو غالباً اگست۱۸۹۶ء میں سوامی صاحب نے مشتہر کیا تھا۔
۲۵۔۴۶۔۶۔۲۳
محمد الدین (دستخط)
نوٹ :۔ بغرض تکمیل روایت یہ تحریر بھی سیدنا حضرت صاحبزادہ عالی مقام ،قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
عبدالرحمن قادیانی



عید قربان ۱۹۰۰ء
خطبہ الہامیہ
از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی صاحب رضی اللہ عنہ













بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
عید قربان ۱۹۰۰ء اور خطبہ الہامیہ
الحمد للّٰہ۔ الحمد للّٰہ۔ ثم الحمد للّٰہ الذی ھدانا لھذا وماکنا
لنھتدی لولا ان ھدانا اللّٰہ۔ لقد جاء ت رسل ربنا بالحق
(۱) اللہ تعالیٰ کا خاص بلکہ خاص الخاص فضل ہے کہ مجھ ناکارہ ونالائق کو لطف کرم سے نوازا اور سراسر احسان سے اُٹھا کر اپنے برگزیدہ وحبیب جری اللہ فی حلل الانبیاء کے قدموں میں لا ڈالا ۔ ۱۹۰۰عیسوی کے مندرجہ نشان کے ظہور کے وقت بھی مجھ غلام کو حضوری کا شرف میسر تھا۔ اس طرح اس روز کے علمی معجزہ کو آنکھوںدیکھنے اور کانوں سننے کی سعادت نصیب ہوئی وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلٰـکِنْ اَکْثَرُ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ ـ
(۲) عید سے پہلے دن یعنی حج کے روز سیدنا حضرت اقدس کی طرف سے چاشت کے وقت یہ اعلان کرایا گیا کہ قادیان میں موجود تمام دوستوں کے نام لکھ کرحضرت کے حضور پیش کئے جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محض (فضل) اور رحم سے یہ دن حضور انور کے لئے دعاؤں کی قبولیت کے واسطے خاص فرما کر حضور کو اذنِ دعا دیا تھا اور حضور خد اکے ا س انعام میں اپنے خدام کو بھی شریک فرما نا چاہتے تھے ۔ ورنہ پانچ چھ سالہ فیض صحبت (یعنی۱۸۹۵ء تا۱۹۰۰ء )کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس دن کے سواحضور کی طرف سے اس قسم کا اعلان پہلے کبھی ہوتا میںنے دیکھا ،نہ سنا تھا۔ یوں تودعاؤں کے لئے ہم لوگ اکثر لکھتے اور عرض کرتے رہا کرتے تھے اور بعض اصحاب ضرورت وحاجت اکثر روازنہ اور متواتر ہفتوں بھی حضرت کے حضور دعاؤں کی درخواستیں بھیجا کرتے تھے۔ حضور کی مجلس کے دوران بھی کبھی کبھی احباب التجاء دعا کیا کرتے جس کے جواب میں عموماً حضور فرمایا کرتے :۔
’’انشاء اللہ دعا کروں گا ۔ یاد دلاتے رہیں۔ ‘‘
اور کئی بار ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ ادھر کسی نے دعا کے لئے عرض کیا ادھر حضور نے دست دعا اللہ تعالیٰ کے حضور بڑھا کر اس کے لئے دعا کردی جس میں حاضرین مجلس بھی شریک ہوجایا کرتے۔ تحریری درخواست ہائے دعا کے جواب میں بعض دوستوں کو حضور خود دست مبارک سے جواب تحریراً بھی دیا کرتے تھے مگر اس یوم الحج کے روز رتو ضرور کوئی خاص ہی فضل الٰہی تھا جس میں حضور نے ازراہ شفقت تمام خدام ، احباب اور مہمانوں کو شامل کرنے کے لئے خاص طور سے اعلان کرایا تھا۔
(۳) اس اعلان کا ہونا تھا کہ جہاں یکجائی فہرست میں ہر کسی نے دوسرے سے پہلے اپنا نام لکھانے کی کوشش کی وہاں فرداً فرداً بھی رقعات اور عرائض بھیجنے کی سعی کی ۔ ایک فہرست حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب کی زیر قیادت تیار ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ اسی طرح بعض دوستوں نے اور بھی دو ایک فہرستیں تیار کر کے اندر بھجوائی تھیں ۔ کتنے رقعات اور عرائض فردً افردًاحضرت کے حضور پہنچائے گئے ان کا حساب اللہ تعالیٰ کو ہے کیونکہ ہر شخص کی خواہش تھی کہ میرا عریضہ پہلے روز حضرت کے اپنے ہاتھ میں پہنچے ۔ چنانچہ اس کوشش میں اس روز حضور کی ڈیوڑھی کیااور مسجد مبارک کی طرف سیڑھیاں کیا خدام سے اَٹی رہیں اور بچوں وخادمات نے بھی دوستوں کے عریضے اور خطوط پہنچانے میں جو احسان کیا وہ اپنی جگہ قابل رشک کام تھا۔
اُس زمانہ میں عیدین کے موقعہ پر دارالامان میں بیرونجات سے آنے والے احباب کی وجہ سے خاصی چہل پہل ہوجایا کرتی تھی اور جلسہ کا سا رنگ معلوم دیا کرتا تھا۔ رقعات اور عرائض کا سلسلہ کچھ زیادہ لمبا ہوگیا اور بچوں وخادمات کے بار بار کے جانے کی وجہ سے حضور کی توجہ الی اللہ میں خلل اورروک محسوس ہوئی تو کہدیا گیا کہ اب کوئی رقعہ حضرت کے حضور نہ بھیجا جاوے ۔ الغرض دن اونچا ہونے سے لے کر ظہر تک اور ظہر کے بعد سے عصر اور شام بلکہ عشاء کی نماز تک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام دروازے بندکئے دعاؤں میں مشغول اپنی جماعت کے لئے اللہ کے حضور التجائیں کرتے رہے ۔ اسلام کی فتح اور خداکے نام کے جلال وجمال کے ظہور ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت اور احیاء وغلبہ اسلام کے لئے نہ جانیں کس کس رنگ میں تنہا سوزوگداز سے دعائیں کرتے رہے اور یہ امر دعائیں کرنے والے جانتے ہیںیا جس ذات سے التجائیں کی گئیں وہ جانتا ہے ۔ لوگوں نے جو کچھ سنا وہ آگے سنا دیا یا قیاس کر لیا ورنہ حقیقت یہی تھی کہ خد اکا برگزیدہ جانتا تھا یا پھر خدا جس سے وہ مقدس کچھ مانگ رہا تھا۔
(۴) دوسرا دن عید کا تھااللہ تعالیٰ نے کل کی دعاؤں کو سنا اور نوازا۔ اس روز کے تنہائی کے راز ونیاز کو قبول فرمایا اور حضور کو بشارتیں دیں جن کے نتیجہ میں حضور کی طرف سے حضرت مولانا عبد الکریم صاحب ، حضرت مولانا نور الدین صاحب اور بعض اور احبابِ خاص کو یہ ارشاد پہنچا کہ آج ہم کچھ بولیں گے اور عربی زبان میں تقریر کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عربی میں نطق کی خا ص قوت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ لہٰذا آپ لکھنے کا سامان لے کر مسجد چلیں۔ اس خبر سے قادیان بھر میں مسرت وانبساط کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہماری عید کو چار چاند لگ گئے۔
عید کے موقع پر اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم حضرت کے حضور نیا لباس پیش کیا کرتے تھے اور مدت سے اُن کا یہ طریق چلا آرہا تھا ۔ اس روز اس لباس کے پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی یا سیدنا حضرت اقدس ہی خد اکے موعود فضل کے حصول کی سعی و کوشش میں ذرا جلد تشریف لے آئے وہ لباس پہنچا نہ تھا اور حضور تیار ہو کر مسجد کی سیڑھیوں کے رستے اتر کر مسجد اقصیٰ کو روانہ ہوگئے تھے۔ مسجد مبارک کی کوچہ بندی سے ایک یا دوقدم ہی حضور آگے بڑھے ہوں گے کہ وہ لباس حضرت کے حضور پیش ہوگیااور حضور پر نور خلافِ عادت شیخ صاحب کی دلجوئی کے لئے واپس الدار کو لوٹے۔ اندرون بیت تشریف لے جا کر یہ لباس زیب تن فرمایا اور پھر جلد ہی واپس مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسب معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحبؓ کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس نے دیا۔
(۵) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ اردو میں پڑھا جس کے آخری حصہ میں خصوصیت سے جماعت کو باہم اتفاق واتحاد اور محبت ومودت پیدا کرنے کی نصائح فرمائیں اور پھر اس کے بعد حضورنے حضرت مولوی صاحبان کو خاص طور سے قریب بیٹھ کر لکھنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ
اب جوکچھ میں بولوں گا وہ چونکہ ایک خاص خدائی عطا ہے لہٰذا اس کو توجہ سے لکھتے جائیں تاکہ محفوظ ہوجائے ورنہ بعد میں میں بھی نہ بتاسکوں گا کہ میں نے کیا بولا (ماحصل بالفاظ قادیانی)
چنانچہ حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ جو دور بیٹھے تھے اپنی جگہ سے اُٹھے اور قریب آکر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت مولانا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔حضور اقدس اس وقت اصل ابتدائی مسجد اقصیٰ کے درمیانی دروازہ کے شمالی کونہ میں ایک کرسی پر مشرق رو تشریف فرماتھے اور حاضرین کا اکثر حصہ صحن مسجد میں۔ مکرمی محترم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب حال عرفانی کبیر اور یہ عاجز راقم بھی پنسل کاغذ لے کر لکھنے کو بیٹھے کیونکہ مجھے خدا کے فضل سے حضور کی ڈائری نویسی کا ازحد شوق تھا اور حضرت شیخ صاحب اپنے اخبار کے لئے لکھنے کے عادی ومشاق تھے۔ پہلی تقریر یعنی خطبہ عید حضور نے کھڑے ہوکر فرمائی تھی جس کے بعد حضور کے لئے خاص طور سے ایک کرسی بچھائی گئی جس پر حضور تشریف فرماہوئے اور جب عرض کیا گیا کہ لکھنے والے حاضر وتیار ہیں تو
(۶) حضور پُرنور اسی کرسی پر بیٹھے گویا کسی دوسری دنیا میں چلے گئے معلوم دینے لگے۔ حضور کی نیم واچشمانِ مبارک بند تھیں اور چہرہ مبارک کچھ اس طرح منور معلوم دیتا تھا کہ انوار الہٰیہ نے ڈھانپ کر اتنا روشن اور نورانی کردیا تھا جس پر نگہ ٹک بھی نہ سکتی تھی اور پیشانی مبارک سے اتنی تیز شعاعیں نکل رہی تھیں کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ ہوجاتیں ۔حضور نے گونہ دھیمی مگر دلکش اور سریلی آواز میں جو کچھ بدلی ہوئی معلوم ہوتی تھی فرمایا ۔
یَاعِبَادَ اللّٰہِ فَکِّرُ وْا فِی یَوْمِکُمْ ھٰذَا یَوْمَ الْاَضْحٰی
فَاِنَّہٗ اَوْدَعَ اَسْرَارًا لِاُولِی النُّھٰی۔۔
لکھنے والے لکھنے لگے جن میں خود میں بھی ایک تھا مگر چند ہی فقرے اور شاید وہ بھی درست نہ لکھے گئے تھے، لکھنے کے بعد چھوڑ کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھا اس تبتل وانقطاع کے نظارہ اور سریلی ودلوں کے اندر گھس کر کایا پلٹ دینے والی پُر کیف آواز کالطف اٹھانے لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت شیخ صاحب بھی لکھنا چھوڑ کر اس خدائی نشان اور کرشمہ قدرت کالطف اٹھانے میں مصروف ہوگئے۔ لکھتے رہے تو اب صرف حضرت مولوی صاحبان دونوں جن کو خاص حکم تھا کہ وہ لکھیں۔ لکھنے میں پنسلیں استعمال کی جارہی تھیں جو جلد جلد گھس جاتی تھیں مجھے یاد ہے کہ پنسل تراشنے اور بنا بنا کر دینے کاکام بعض دوست بڑے شوق ومحبت سے کر رہے تھے مگر نام ان میں سے مجھے کسی بھی دوست کا یاد نہ رہا تھا۔ ایک روز اس مقدس خطبہ الہامیہ کے ذکر کے دوران میں مکرم محترم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد ایم اے نے بتایا کہ وہ بھی اس عید اور خطبہ الہامیہ کے نزول کے وقت موجو دتھے اور کہ لکھنے والوں کو پنسلیں بنا بنا کر دیتے رہے تھے۔
(۷) بعض اوقات حضرت مولوی صاحب کو لکھنے میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے یاکسی لفظ کے سمجھ نہ آنے کے باعث یا الفاظ کے حروف مثلا الف اور عین ۔ صاد وسین یا ثا اور ط وت وغیرہ وغیرہ کے متعلق دریافت کی ضرورت ہوتی تو دریافت کرنے پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی عجب کیفیت ہوتی تھی اور حضور یوںبتاتے تھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوکر یا کسی دوسرے عالم سے واپس آکر بتائے اور وہ دریافت کردہ لفظ یا حرف بتانے کے بعد پھر وہی حالت طاری ہوجاتی تھی اور انقطاع کا یہ عالم تھا کہ ہم لوگ یہ محسو س کرتے کہ حضور کا جسد اطہر صرف یہاں ہے، روح حضور پر نور کی عالم بالا میں پہنچ کر وہاں سے پڑھ کر یا سن کر بول رہی تھی۔ زبان مبارک چلتی تو حضور ہی کی معلوم دیتی تھی۔ مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ بے اختیار ہوکر کسی کے چلائے چلتی ہو۔ یہ سماں اور حالت بیان کرنا مشکل ہے ۔ انقطاع ، تبتل ، ربودگی یاحالت مجذوبیت وبے خودی ووارفتگی اور محویت تامہ وغیرہ الفاظ میں سے شاید کوئی لفظ حضور کی اس حالت کے اظہار کے لئے موزوں ہوسکے ورنہ اصل کیفیت ایک ایسا روحانی تغیر تھا جو کم ازکم میری قوت بیان سے تو باہر ہے کیونکہ سارا ہی جسم مبارک حضور کا غیر معمولی حالت میں یوں معلوم دیتا تھا جیسے ذرہ ذرہ پر اس کے کوئی نہاں در نہاں اور غیر مرئی طاقت متصرف وقابویافتہ ہو ۔
لکھنے والوں کی سہولت کے لئے حضور پُر نور فقرات آہستہ آہستہ بولتے اور دہرادہرا کر بتاتے رہے ۔ خطبہ الہامیہ کے نام سے جو کتاب حضور نے شائع فرمائی وہ بہت بڑی ہے۔۱۹۰۰ء کی عید قربان کا وہ خاص خطبہ مطبوعہ کتاب کے اڑتیس صفحات تک ہے۔ باقی حصہ حضور نے بعد میں شامل فرمایا۔
(۸) یہ جلسہ اور مجلس ذکر لمبی ہوگئی اور نماز کاوقت آگیا ۔چونکہ حضور پرنور نے جب یہ خطبہ عربی ختم فرمایا تو دوستوں میں اس کے مضمون سے واقف ہونے کا اشتیاق اتنا بڑھا کہ حضور نے بھی آخر پسند فرمایا کہ حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب اس کا ترجمہ دوستوں کا سنا دیں ۔چنانچہ مولانا موصوف نے خوب مزے لے لے کر اس تمام خطبہ کا ترجمہ اردو میں اپنے خاص انداز اور لب ولہجہ میں سنا کر دوستوں کو محظوظ اور خوش وقت فرمایا اور یہ کیفیت بھی اپنے اندر ایک خاص لطف وسرور اور لذت روحانی رکھتی تھی۔ ترجمہ ابھی غالباً پورا بھی نہ ہواتھا کہ اچانک کسی خاص فقرے سے متاثر ہوکر یا اللہ تعالیٰ کے خاص القاء کے ماتحت سیدنا حضرت اقدس کرسی سے اٹھ کر سجدہ میں گر گئے اور اس طرح مجمع تھوڑی دیر کے لئے حضور کے ساتھ خدائے بزرگ وبرتر کے اس عظیم الشان نشان کے عطیہ کے لئے آستانہ الوہیت پر گر کر جبین نیاز ٹکائے اظہار تشکر وامتنان کرتا رہا۔ فالحمد للّٰہ ۔ الحمد للّٰہ ۔ ثم الحمد للّٰہ علٰی ذالک
(۹) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواہش فرمائی کہ اس خدائی نشان کو لوگ یاد کرنے کی کوشش کریں چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں خطبہ الہامیہ کی اشاعت کے بعد بہت سے دوستوں نے اس کو یاد کرنا شروع کیابعض نے پورا یاد کرلیا تو بعض نے تھوڑا مگر ان دنوں اکثر یہی شغل تھا اور ہر جگہ ،ہر مجلس میں اسی خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھنے اور سننے سنانے کی مشق ہو اکرتی تھی۔ بعض روز شام کے دربار میں کوئی نہ کوئی دوست بھری مجلس میں حضرت اقدس کے سامنے یاد کیا ہوا سنایا بھی کرتے تھے اور اسی طرح خد اکی اس نعمت کا چرچا رہتا تھا۔ میںنے بھی تین چار صفحات یاد کئے تھے۔
(۱۰) سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود باجود دنیا جہان بلکہ ہفت اقالیم سے بھی کہیں بڑی نعمت ۔ خدا کاخاص انعام اور فضل واحسان تھا کیونکہ وہ خدا نما تھا جس کو دیکھتے ہی خدا کے عظمت وجلال کا کبھی نہ مٹنے والا اثر دل ودماغ پر ہوتا اور خدا کی خدائی پر یقین پیدا ہوا کرتا تھا۔ جس کی مجلس خدا کے تازہ بتازہ کلام سننے کامقام اور اسی کلام کو پورا ہوتے دیکھنے سے خدا کے کامل علم اور اس کی کامل قدرت پر یقین پید اہونے کی جگہ اور دلوں میں نور علم وعرفان بھرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ روح کی تازگی ، ایمان کی مضبوطی ، قلوب کی صفائی اور اذہان کی جلاکے سامان اس مجلس میں جمع ہوا کرتے تھے۔ تزکیہ نفس کے سامان اس میں ملتے اور محبت الٰہی کی آگ پیدا ہوکر دنیا کی محبت کو سردکردیا کرتی تھی ۔ چنانچہ اس تازہ نشان نے بھی جماعت میں ایک روحانی تغیر پیدا کردیااور سالکین کے لئے منازل ایقان وعرفان کو آسان بنا دیا تھا اور ایک خاص روحانی انقلاب کا یہ نشان الٰہی پیش خیمہ تھا جس کی اہمیت گہرے غور وتدبر سے ہمیشہ نمایاں ہوتی رہے گی۔
عید کے روز حضور کے اس خطبہ یعنی خطبہ الہامیہ کے پڑھے جانے اور حضور پر نور کو نطق کی خاص طاقت وقوت عطا کئے جانے سے یوم الحج کے روز کی دعاؤں کی قبولیت کا یقین گویا مشاہدہ میں بدل گیا تھا کیونکہ یہ دونوں چیزیں باہم بطور لازم ملزوم کے تھیں۔ یہ عید اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے تاریخ سلسلہ کا ایک اہم ترین واقعہ اور ایک خاص باب ہے جس کی گہرائیوں میں جتنے بھی غوطے لگائے جائیں گے اتنے ہی زیادہ سے زیادہ قیمتی اور انمول اور بے مثال موتی ملیں گے۔ مبارک وہ جن کو ان کے حصول کی توفیق رفیق ہواور سلامتی ہو اُن پر جو اُن کو حاصل کر کے خدمت سلسلہ اور خدمت خلق میں صرف کریں ۔
اللہم صلّ علٰی محمد وعلٰی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید
آمین ۔ آمین ۔ثم آمین
عبد الرحمن قادیانی بقلم خود
تحریر۲۵؍جولائی۱۹۴۶ء













سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
کا
آخری سفر لاہور اور حضور پُر نُور کا وصال

از قلم
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ











بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود
استغفراللّٰہ ـ استغفراللّٰہ ـ استغفراللّٰہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ
لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سفر لاہور
اور
حضور پُر نور کا وصال
ماہ اپریل ۱۹۰۸ء کے دوران میں اللہ تعالیٰ کی باریک در باریک مصلحتوں ، گوناگوں مشیتوں اور نہاں در نہاں مقادیر کے ماتحت سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خرابی ٔ طبیعت اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے جن کے باعث حضور پرنور کو سفر لاہور اختیار کرنا پڑا۔ مگر حضور کے اس سفر کے مطابق جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ کئی مرتبہ تیاری کی خبریں سنی گئیں جو منشاء ایزدی کے ماتحت ملتوی ہو جاتی رہیں اور کہ سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس سفر کے لئے انشراح نہ تھا۔ کیونکہ ایک عرصہ سے اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی اور الہامات سے حضور کو قربِ وصال کے الہامات ہو رہے تھے۔ جن کا سلسلہ رسالہ الوصیت کی تحریر سے بھی پہلے کا شروع تھا اور قریب ایام میں بھی بعض ایسے الہامات ہوئے تھے۔ چنانچہ ۷مارچ ۔ ۱۹۰۸ء کا الہام ہے۔
’’ماتم کدہ‘‘
اور پھر غنودگی میں دیکھا کہ ایک جنازہ آتا ہے ۔
۱۴؍ اپریل ۱۹۰۸ء کو پھر ایک الہام ہوا۔ ماتم کدہ
اور پھر اس سفر کی تیاری و کشمکش میں ۲۶؍ اپریل ۱۹۰۸ء کو الہام ہوا ۔
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
اس الہام اور پہلی تیاری و التوا کی خبروں سے ہم لوگوں پر غالب اثر یہ تھا کہ حضور پر نور کا یہ سفر اب پختہ طور پر معرض التوا ہی میں رہے گا ۔ مگر دوسرے ہی روز یعنی ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۸ء کی صبح کو حضور کی روانگی کا فیصلہ ہو گیا چنانچہ صبح کی نماز کے بعد خدام کو تیاری کا حکم ہوا اور رخت سفر باندھا جانے لگا۔ قریباً سات یا آٹھ بجے حضور معہ اہل بیت و تمام خاندان روانہ ہوئے ۔چند یکّے اور ایک رتھ حضور اور خاندان کی سواری کے لئے ساتھ تھے۔
حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب معہ اہل بیت و بچگان وغیرہ ۔ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نیز بعض اور اصحاب اور خدام و خادمات حضور کے ہمرکاب تھے۔ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ کی گھوڑی مکرمی مفتی فضل الرحمن کے سپرد تھی۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بعد میں حضور نے لاہور بلوا لیا تھا۔
جہاں اور دوست مشایعت کیلئے گائوں سے باہر محلہ دارالصحت تک گئے میں بھی جس حال میں گھر سے صبح نکلا ہوا تھا اسی حال میں محلہ دارالصحت تک اپنے آقائے نامدار کو الوداع کہنے کی غرض سے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ دل میں کچھ تھا مگر حیاء و شرم اور کم مائیگی اظہار سے مانع تھی۔ سب بڑے چھوٹوں کو حضور نے ازراہ کرم و ذرّہ نوازی مصافحہ کا شرف بخشا۔ میں بھی اپنی باری سے دست بوسی کے لئے بڑھا۔ میرے ہاتھ میرے امام و مقتداء سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ میں تھے۔ قبلہ حضرت نانا جان مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کے پہلو میں کھڑے تھے ۔ مجھے اب یاد نہیں اور اس وقت بھی میں اس بات کا امتیاز نہ کر سکا تھا کہ حضرت نانا جان نے پہلے سفارش کی تھی یا خود ہی سیدنا حضرت اقدس نے اس غلام کو ہمرکابی کی عزت عطا فرمانے کا اظہار فرمایا تھا ۔ ایک لمحہ تھا پُرسرور، دقیقہ تھا عزت افزاء اور ثانیہ تھا پُر کیف جو مجھے آج بھی کسی طرح لذت و سرور اور عزت و نشاط کے عالم میں لئے جا رہا ہے ۔ قبلہ حضرت نانا جان مغفور رحمۃ اللہ علیہ کی سفارش کو بھی میرے کان سن رہے ہیں اور
’’ میاں عبدالرحمن آپ بھی ہمارے ساتھ ہی لاہور چلو‘‘
کی دلکش اور سریلی اور پیاری آواز بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔مگر باوجود اس کے میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ حضور پرنور نے میری دلی کیفیت اور قلبی آرزو کا علم پا کر خود ہی مجھے ہمرکابی کے لئے نوازا تھا یا کہ یہ رحمت الٰہی مجھ پر حضرت نانا جان کی سفارش کے نتیجہ میں نازل ہوئی تھی۔ بہرکیف میں قبول کر لیا گیا اور بجائے اور دوستوں کی طرح واپس گھر کو لوٹنے کے اپنے آقا فداہ روحی کے ہمرکاب بٹالہ کے لئے ایک یکہ میں سوار ہو گیا۔ حال میرا یہ تھا کہ تن کے تین پھٹے ٹوٹے کپڑے صرف میرے بدن پر تھے اور بس۔ گھر والوں کو کسی دوست کے ذریعے اطلاع بھیج دی اور اپنی سعادت ،خوش نصیبی اور بیدار بختی پر دل ہی دل میں ناز کرتا اور سجدات شکر بجا لاتا ہوا چلا گیا ۔ بٹالہ پہنچ کر حضور نے قیام کا ارشاد فرمایا اور سٹیشن کے قریب ہی ایک لب سڑک سرائے میں قیام ہوا ،جس کے دروازہ پر ’’ سرائے مائی اچھرا دیوی منقوش‘‘ ہے۔
سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کے اراکین علیوال کی نہر پر سیر کے واسطے تشریف لے گئے ۔ جہاں سے شام کے قریب واپسی ہوئی ۔ بٹالہ یا علیوال کے سرسبز درختوں کا گھنا سایہ دیکھ کر واہ واہ کہتے ہوئے کسی خادمہ کی زبان سے نکلا۔ ’’ کیسا پیارا منظر اور ٹھنڈی چھائوں ہے ‘‘ حضور نے یہ الفاظ سن کر فرمایا :
’’ہمیں تو قادیان کی دھوپ بھی اچھی لگتی ہے ‘‘
بٹالہ پہنچ کر بھی ہم لوگوں کا خیال غالب یہی تھا کہ شاید حضور بٹالہ ہی میں چند روز ٹھہر کر قادیان واپس تشریف لے چلیں گے۔ کیونکہ آج شام کی گاڑی سے بھی لاہور جانے کا کوئی انتظام نظر نہ آتا تھا۔ ایک روک یہ پیدا ہوئی کہ گاڑی کے ریزرو ہونے میں بعض مشکلات پیش تھیں۔ چنانچہ یہ دن رات بلکہ دوسرا دن رات بھی بٹالہ کی اسی سرائے میں قیام رہا ۔ سیر کے واسطے حضور معہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم تشریف لے جاتے رہے اور رات اسی سرائے میں قیام ہوتا رہا ۔ آخر گاڑی کے ریزرو کا فیصلہ ہو گیا اور تیسرے روز صبح کی گاڑی سے حضور نے لاہور کا عزم فرما لیا۔ جہاں دوپہر کے وقت خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان واقع کیلیانوالی سڑک متصل موجودہ اسلامیہ کالج لاہور میں پہنچ کر قیام ہوا۔
ان ایام میں یہ علاقہ قریباً ایک جنگل کی حیثیت میں تھا ۔کچھ باغات تھے ۔اسلامیہ کالج کی موجودہ عمارت بھی ابھی تعمیر نہ ہوئی تھی اور اگرچہ خواجہ صاحب وغیرہ احمدی لوگوں نے ایک وسیع قطعہ اراضی ایک لمبے عرصہ سے ٹھیکہ یا کرایہ پر لے رکھا تھا مگر ابھی تک مکان وہاں صرف دو تین ہی بنے تھے جن میں سے خواجہ صاحب کا مکان اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کا مکان لب سڑک واقع تھے۔ جن کے درمیان ایک چھوٹی سی گلی تھی اور یہ دونوں مکان دو منزلہ تھے۔
ابتداء ً سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے خاندان کے لئے قیام کا انتظام خواجہ صاحب ہی کے مکان میں کیا گیا ۔ حضور مکان کے نچلے حصہ میں جو شمالی جانب واقع تھا بودوباش رکھتے رہے اور حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ اہل بیت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں۔ باقی ہمرکاب بزرگوں اور خدام کے لئے بھی اِدھر اُدھر انہی مکانات میں انتظام کر دیا گیا ۔ نماز کے لئے خواجہ کے مکان کی بالائی منزل کا بڑا دالان مخصوص کر دیا گیا جو حضرت کے دربار اور میل ملاقات کی تقریبوں میں بھی کام آتا تھا ۔ درس قرآن کریم کھلے میدان میں ہونے لگا۔ حضرت کی زیارت اور فیض صحبت پانے کی غرض سے آنے والے مہمانوں کی رہائش و آسائش کا انتظام بھی ایک حد تک یہی دونوں اصحاب سمٹ سمٹا کر کر دیا کرتے تھے ۔ کم و بیش آخری نصف عرصہ قیام لاہور کے زمانہ کا حضور پُرنور نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے بالا خانہ میں گزارا اور حضرت مولوی صاحب حضور کی جگہ خواجہ صاحب کے مکان میں جا رہے۔ نمازوں وغیرہ کے انتظامات بدستور اسی حالت میں رہے ۔ البتہ حضور کے نمازوں میں آنے اور جانے کے واسطے درمیانی گلی پر ایک لکڑی کا عارضی پل بنا کر دونوں مکانوں کو ملا دیا گیا۔ اس زمانہ کی ڈائریاں اور تقاریر الحکم اور بدر میں چھپتے رہے ہیں ان کے دہرانے کی گنجائش نہیں۔
قیام لاہور کے زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قریباً روزانہ سیر کے واسطے خاندان کی بیگمات اور بچوں سمیت تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ بلکہ بعض روز تو صبح و شام دو وقتہ سیر فرمایا کرتے تھے ۔ ابتداء میں حضور بھی رتھ میں بیٹھ کر بیگمات کے ساتھ سیر کو تشریف لے جاتے تھے ۔ کھلی سڑکوں پر بھی اور شہر کے بازاروں مثلاً مال روڈ اور انار کلی میں بھی حضور سیر کے واسطے چلے جاتے تھے ۔ بازار میں سے گزرتے ہوئے کبھی سواری ٹھہرا کر ہندو حلوائیوں کے ہاں سے کھانے کی چیزیں بھی خرید فرما لیا کرتے تھے اور بیگمات اور بچوں کے علاوہ ہمرکاب خدام کو بھی شریک فرماتے تھے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور انار کلی میں سے گزرتے ہوئے کیسری کی دکان پر اکثر ٹھہرا کرتے اور سب کو سوڈا پلوایا کرتے تھے ۔ عام اجازت ہوا کرتی تھی جو جس کا جی چاہتا پیتا یعنی لیمن ، روزاور آئس کریم یا مائینیل وغیرہ وغیرہ۔ مگر سیدنا حضرت اقدس خود کھاری بوتل بتاشہ ڈال کر پیا کرتے تھے اور یہ عمل کھلے بازار میں کیسری کی دکان کے سامنے سواریاں کھڑی کر کے ہوا کرتا تھا۔ بیگمات بھی رتھ یا فٹن میں تشریف فرما ہوا کرتی تھیں۔
حضور کی غریب نوازی ،کرم گستری اور غلام پروری کے چند ایک ادنیٰ سے کرشمے اور بالکل چھوٹی چھوٹی مثالیں بھی اس موقعہ پر لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
۱۔ میں چونکہ ایک لمبے عرصے کی جدائی کے بعد قریب ہی کے زمانہ میں راجپوتانہ سے قادیان واپس آیا تھا ۔ جہاں مجھے میرے آقا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک نہایت عزیز کی خدمت اور ان کے زمینداری کاروبار میں مدد کے لئے ان کی درخواست پر جانے کا حکم نومبر ۱۹۰۳ء کے اواخر میں دے کر بھیجا تھا ۔ اور جہاں سے میں سوائے دو تین مرتبہ قادیان آنے اور چند روز ٹھہر کر پھر واپس چلے جانے کے دسمبر ۱۹۰۷ء میں بصد مشکل وہ بھی ایک چیتے کے حملہ سے سخت زخمی ہو کر واپس پہنچا تھا ۔لہٰذا
اس لمبی جدائی اور دوری کی تلافی کا خیال میرے دل میں اس زور سے موجزن تھا کہ جی قربان ہو جانے اور حضرت کے قدموں میں جان نثار کر دینے کو چاہتا تھا ۔ حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے مقدس انسان کی وفات میری عدم موجودگی میں واقع ہوئی تھی اور رسالہ الوصیت مجھے راجپوتانہ ہی میں ملا تھا۔ حضرت مولانا کی وفات اور اس کے بعد رسالہ الوصیت کے مضمون نے میری زندگی کی بنیاد کو ہلا دیا اور دنیا مجھ پر سرد کر دی تھی ۔ ایسی کہ مجھے کسی حال میں چین نہ پڑا کرتا اور دل بے قرار رہتا تھا کہ وہ دن کب آئے کہ میں پھر قادیان کے گلی کوچوں میں پہنچ کر دیار حبیب میں داخل ہو کر اپنے آقا اور حضور کے خاندان کے قدموں میں رہوں۔ وہیں میرا جینا ہو اور وہیںخدا کرے کہ میرا ایمان و وفا پر مرنا ہو ۔ یہ میری دعائیں تھیں اور یہی آرزوئیں او رتمنائیں ہوا ،کرتی تھیں۔
آخر اللہ کریم نے میرے لئے غیر معمولی سامان بہم پہنچائے اور میں چنگا بھلا رہ کر تو شاید عمر بھر بھی وہاں سے نہ نکل سکتا۔ لہٰذا مجھے ایک خونخوار زخمی چیتے سے زخمی کرا کے اللہ کریم نے وہاں سے نجات دی اور میں مدتوں ہجرو فراق کے درد سہنے کے بعد خدا کے فضل سے پھر دارالامان پہنچا۔
حضور کا یہ سفر میرے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی اورمیرے جو کچھ دل میں بھرا تھا اس کے پورا کرنے کے خدا نے سامان کرائے تھے ۔ میں ان ایام کو غنیمت سمجھ کر ہروقت کمر بستہ رہتا اور حضور یا حضور کے خاندان کے احکام و اشارات کی تعمیل اور خدمت میں ایسی لذت اور سرور محسوس کیا کرتا تھا کہ ۔
’’تخت شاہی پر بھی بیٹھ کر شاید ہی کسی کو وہ لذت خوشی اور سرور میسر ہوا ہو۔ ‘‘
مَیں سیر میں ہر وقت ہمرکاب رہتا ۔ قیام میں دربانی کرتا اور خدمت کے موقع کی تاک و جستجو میں لگا رہتا ۔ ہر کام کو پوری تندہی ،محبت اور چستی سے سر انجام پہنچاتا۔ کسی کام سے عار نہ کرتا تھا ۔ خدا کا فضل تھا کہ میری دلی مرادیں بھر آئیں اور خدا نے بھی مجھے قبول فرما لیا اس طرح کہ میرے آقا ،میرے ہادی و رہنما ،میرے امام ہمام اور پیشوا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی مجھ سے خوش تھے۔ غیر معمولی رنگ میں نوازتے تھے ۔ ایسا کہ کوئی شفیق سے شفیق یا مہربان سے مہربان ماں باپ بھی اپنی عزیز ترین اولاد کو بھی کم ہی نوازتے ہوں گے۔ میں چونکہ اپنے محسن و مولا اور رحیم وکریم آقا کے حسن و احسان کے تذکروں سے ایمان میں تازگی ، محبت و وفا میں اضافہ اور عقیدت و نیاز مندی کے جذبات میں نمایاں ترقی کے آثار پاتا ہوں اور چونکہ اس رنگ میں یاد حبیب کا عمل میرے دل میں حضور پر نور پر سلام و درود بھیجنے اور حضور کے مقاصد کی تکمیل کے لئے دردمندانہ دعائوں کا ایک بے پناہ جوش پیدا کرتا ہے۔ اس لئے میں اس ذکر میں بے انداز لذت محسوس کرتا اور بار بار ان کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ
کوئی راہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار
محبت کے پیدا کرنے اور بڑھانے کا واحد و مجرب طریق حسن و احسان کی یاد آور تکرار ہے۔ کسی خوبی کو ہلکا کر کے اس کی تحقیر کرنا یا کسی نیکی کو بے قدری کی نگاہ سے دیکھنا موجب کفران و خسران اور لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ فَاِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ کے وعدو وعید کے نیچے آتا ہے۔ فَاعْتَبِرُوْا ۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی سواری کے مقدس رتھ کے پیچھے ایک لکڑی کی سیٹ حکماً لگوا دی تا کہ حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام پیدل چلنے کی بجائے رتھ کے پچھلی طرف حضور کے ساتھ بیٹھ کر کوفت اور تکان سے بچ جایا کرے۔
سبحان اللہ !!! خدا کے برگزیدہ انبیاء و مقدسین کس درجہ رحیم و کریم اور الٰہی اخلاق و صفات کے سچے مظاہر اور کامل نمونے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَـاقِ اللّٰہِ کی کیسی صحیح تصویر ہوتے ہیں کہ گویا وہی مثل صادق آتی ہے۔
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ـ
لوہا جس طرح آگ میں پڑ کر نہ صرف اپنا رنگ ہی کھو دیتا ہے بلکہ اپنے خواص میں بھی ایسی تبدیلی کر لیتا ہے کہ آگ ہی کا رنگ اور آگ ہی کے صفات اس میں پیدا ہو جاتے ہیں ۔ بالکل یہی رنگ ان خدانما انسانوں کا اور بعینہٖ یہی حال ان کاملین کا ہوتا ہے ۔
مَیں اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھلا چنگا تندرست و توانا تھااور میرے جسمانی قویٰ ایسے صحیح اور قوی تھے کہ رتھ یا بیل گاڑی تو درکنار اچھے اچھے گھوڑے بھی مجھ سے بازی نہ لے جا سکتے تھے ۔ اور کئی کئی دن رات متواتر کی دوڑ دھوپ اور محنت کا اثر مجھ پر نمایاں نہ ہوا کرتا تھا ۔ اور یہ صبح و شام کی سیر یا دن بھر کے کاروبار مجھے محسوس بھی نہ ہوا کرتے تھے ۔ مگر حضور کو میرے حال پر توجہ ہوئی اور اس خیال سے کہ میاں عبدالرحمن ساتھ چلتے چلتے تھک جاتے ہوں گے لہٰذا ان کے لئے رتھ کے پیچھے الگ جگہ بیٹھنے کی بنا دی جائے۔ اللہ اللہ کتنی ذرہ نوازی ۔ کتنا رحم اور کیسا مروت اور حسن سلوک کا عدیم المثال نمونہ ہے ۔
ایک روز نامعلوم میرے دل میں کیا آئی شام کی نماز کے بعد جب کہ مجھے خیال تھا کہ سیدنا حضرت اقدس کھانا تناول فرما چکے ہوں گے ۔ میں اوپر سے نیچے اتر اس دروازہ پر پہنچا جو خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے نچلے شمالی حصہ سے غربی جانب کوچہ میں کھلتا تھا جہاں حضور معہ اہل بیت رہتے تھے اور دستک دی۔ میرے کھٹکھٹانے پر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بلند آواز سے دریافت فرمایا ۔کون ہے ؟
حضور کا غلام عبدالرحمن قادیانی ۔ میں نے بالکل دھیمی سی آواز میں عرض کیا اور مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا۔ کیونکہ ساتھ ہی میرے کان میں سیدنا حضرت اقدس کی آواز پڑ گئی ۔ میں دروازہ پر اس خیال سے گیا تھا کہ دستک دوں گا تو کوئی خادمہ یا بچہ آوے گا۔ میں آہستگی سے اپنا مقصد کہہ دوں گا ۔ مگر یہاں معاملہ ہی کچھ اور بن گیا ۔ نہ صرف حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک بھی تشریف فرما ہیں۔ اب ہو گا کیا؟
نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
’’ کیا کہتے ہو بھائی جی؟ ‘‘ سیدۃ النساء کا فرمان تھا اور اب چپ رہنا یا لوٹ جانا بھی سوء ادبی میں داخل تھا۔ جواب عرض کئے بغیر چارہ نہ تھا۔ نہایت درجہ شرم سے اور بالکل دھیمی سی آواز میں عرض کیا۔ حضور کچھ تبرک چاہتا ہوں۔
’’تمہیں تبرک کی کیا ضرورت۔ تم توخود ہی تبرک بن گئے۔ ‘‘
میری درخواست کا جواب دیا سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ،نہ تنہائی میں بلکہ نبی اللہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں۔ حضور ابھی کھانا تناول فرما رہے تھے اور میں حضور کے بولنے کی آواز اپنے کانوں سے سن رہا تھا۔ساتھ ہی ارشاد ہوا ’’ ذرا ٹھہرو ‘‘
میری اس وقت جو حالت تھی اس کا اندازہ میرے خدا اور خود میری اپنی ذات کے سوا کوئی کر ہی کیوں کر سکتا ہے۔ اگرچہ ہم لوگ اس زمانہ میں کوشش کر کے بھی خدا کے برگزیدہ جَرِیُّ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَائِ کے تبرکات حاصل کیا کرتے تھے۔ اور اس کے لئے ہماری جدوجہد اس درجہ بڑھی ہوئی ہوا کرتی تھی کہ ایک دوسرے پر رشک بھی کیا کرتے تھے۔ اور بارہا خدا کے نبی و رسول کے پس خوردہ کو ذرہ ذرہ اور ریزہ ریزہ کر کے بھی بانٹ کھایاکرتے تھے اور گاہے حضور پرنور خود بھی لطف فرماتے۔ اپنے دست مبارک سے اپنے کھانے میں سے کبھی کسی کو کبھی کسی کو کچھ عطا فرما دیا کرتے تھے ۔ اور ایک زمانہ میں جبکہ رات کے وقت ہم لوگ حضرت کے مکانات کا پہرہ دیا کرتے تھے ۔ حضور اکثر ہماری خبر گیری فرماتے اور کبھی کبھی کچھ نہ کچھ کھانے کو عطا فرما دیا کرتے تھے ۔ جسے ہم لوگ شوق سے لیتے ، محبت سے کھاتے اور اپنی خوش بختی پر شکرانے بجا لایا کرتے تھے۔ مگر آج جو کچھ مجھ پر گزرا میرے لئے بہت ہی گراں اور بھاری تھا۔ اور اگر مجھے حضور کی موجودگی کا علم نہ ہو جاتا تو شائد میں حضرت اماں جان سے تو چپ سادھ کر یا کھسک کر شرمسار ہونے سے بچ ہی جاتا۔ چند منٹ بعد حضور کے سامنے کا بچا سارا کھاناایک پتنوس میں لگا لگایا میرے لئے آگیا۔یہ وہ سعادت اور شرف ہے کہ جس کے لئے ہر موئے بدن اگر ایک نہیں ہزار زبان بھی بن کر شکر نعمت میں قرنوں قرن لگی رہے تو حق یہ ہے کہ حق نعمت ادا نہ ہو۔ مادہ پرست دنیا کا بندہ اگر ان باتوں پر مضحکہ اڑائے تو اس کی تیرہ بختی ہے کیونکہ اس کو وہ آنکھ نہین ملی جو ان روحانی برکات کو دیکھ سکے۔ اس کو وہ حواس نصیب نہیں کہ ان حقائق سے آشنا ہو۔ ورنہ جاننے والے جانتے اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی سعادت و عزت اور فضل و کرم ہیں کہ وقت آتا ہے جب ہفت اقلیم کی شاہی پر بھی ان کو ترجیح دی جائے گی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
کیا چیز تھا ہر یش چندر ؟ ایک اکھڑ اور متعصب بت پرست ،ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والا کروڑوں بتوں او ردیوی دیوتائوں کے پجاری ماں باپ کی اولاد اور کہاں خداوند خدا کا یہ پیارا نبی و رسول وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِہٖ کے معزز خطاب سے ممتاز! یہ فضل یہ کرم یہ عطاء و سخا خدائے واحد و یگانہ کی خاص الخاص رحمتوں کا نتیجہ اور فضل و احسان کی دین ہے۔ لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ـ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ـ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ ـ
جن ایام میں سیدنا حضرت اقدس ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں سکونت پذیر تھے ایک خادمہ نے مجھے نہایت ہی خوشی و محبت اور اخلاص سے یہ مژدہ سنایا کہ آج حضرت صاحب تمہارا ذکر گھر میں اماں جان سے کر رہے تھے۔اور فرماتے تھے کہ
یہ لڑکا اخلاص و محبت میں کتنی ترقی کر رہا ہے۔ ہمارے تنخواہ دار ملازم بھی اتنی خدمت نہیں کر سکتے جتنی یہ جوش عقیدت و محبت میں کرتا ہے اور اس نے تو رات دن ایک کر کے دکھا دیا وغیرہ۔ وہ الفاظ تو پنجابی میں تھے جن کا مفہوم میں نے اپنے لفظوں میں لکھا ہے۔
اس خادمہ کا نام مجھے اب یاد نہیں کہ کون صاحبہ تھیں۔ مگر یہ ایک واقعہ ہے جس کو میں نے اظہارتشکر و امتنان کے طور پر حضرت کی ذرہ نوازی۔ مروت و احسان کے بیان کی غرض سے لکھا ہے ورنہ یہ اور ایسے ہی دوسرے واقعات کے ذکر سے میں بے انتہا شرم محسوس کرتا اور لکھتے وقت پسینہ پسینہ ہو ہو جاتا ہوں کیونکہ
کیا پدّی اور کیا پدّی کا شوربا
میں کیا اور میری بساط خدمات کیا۔ ذرہ نوازی اور لطف تھا۔
’’ ورنہ درگہ میں اس کی کچھ کم نہ تھے خدمت گذار‘‘
(۴) میرے آقا کی غریب نوازی اور غلام پروری کا ایک اور بھی تذکرہ اس جگہ اسی سفر کا قابل بیان ہے وہ یہ کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھ غلام کو یاد فرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ،تشریف لاتے تھے۔ یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہد سے ان اوقات کا انتظام اور انتظار کیا کرتا تھا۔ رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوا دی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میرا مخصوص مقام تھا جہاں ابتداء ً مَیں پیچھے کو منہ کر کے الٹا کھڑا ہوا کرتا تھا۔ ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اور بیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی۔ اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ عموماً سیدۃ النساء اور کوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کوچوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرماہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا۔ مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلف کر کے الٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت۔ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ۔اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غض بصر کر کے پردہ کی تاکید ہے آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں۔
چنانچہ اس کے بعد پھر میں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ۔ بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے۔ گاڑی سے اترتے وقت ان کے اٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضور نے روک دیا اور میں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا۔
ایک روز کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ادھر حضور کے سیر کو تشریف لے جانے کا وقت تھا ،گاڑی آچکی تھی اور میں اطلاع کر چکا تھا۔ ادھر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف سے ایک خادمہ نے پیغام دیا کہ بھائی جی سے کہو ہمیں دیسی پان لا دیں۔ میں نے حضرت کی تشریف آوری کے خیال سے عذر کیا تو دوبارہ پھر سہ بارہ تاکیدی حکم پہنچا کہ نہیں آپ ہی لائو اور جلدی آئو۔ مجبور ہو کر سر توڑ بھاگا۔ لوہاری دروازہ کے باہر انارکلی میں ایک دکان پر اچھے دیسی پان ملا کرتے تھے، وہاں سے پان لے کر واپس پہنچا تو موجود دوستوں نے بتایا کہ ’’ حضرت اقدس تشریف لائے ،تمہارے متعلق معلوم کیا، غیر حاضر پا کر واپس اندر تشریف لے گئے۔ ‘‘ میں پہلے ہی دوڑ بھاگ کی وجہ سے پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ یہ واقعہ سن کر کانپ اٹھا اور ڈرتے ڈرتے دستک دے کر جہاں خادمہ کو پان دئیے وہاں حضرت کے حضور اپنی حاضری کی اطلاع بھی بھیج دی ۔ حضور پرنور فوراً تشریف لے آئے اور فرمایا ’’ میاں عبدالرحمن آپ کہاں چلے گئے تھے۔ ہم نے جو کہہ رکھا ہے کہ سیر کے وقت موجود رہا کرو اور کہیں نہ جایا کرو۔ ‘‘
حضور ! اماں جان نے حکم بھیجا تھا۔ میں نے عذر بھی کیا مگر اماں جان نے قبول نہ فرمایا اور تاکیدی حکم دے کر کہلا بھیجا کہ تم ہی ہمارا یہ کام کرو۔ حضور! میں اماں جان کا حکم ٹال نہ سکا اور چلا گیا۔ بس حضور پُر نور فٹن میں سوار ہوئے اور سیر کے واسطے تشریف لے گئے اور حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام بھی حسب معمول حضور کے ہمرکاب آخری دن کی سیر تک ہمرکابی کی عزت پاتا رہا ۔ فٹن یعنی گھوڑا گاڑی جو حضور کی سیر کے واسطے منگوائی جاتی تھی۔ اس کے متعلق حضور کی تاکیدی ہدایت ہوا کرتی تھی کہ کوچوان حتی الوسع بھلا مانس تلاش کیا جاوے جو جھگڑالو اور بدزبان نہ ہو ۔ گھوڑے شوخ نہ ہوں بلکہ اچھے سدھے ہوئے اور گاڑی صاف ستھری ہو ،شکستہ نہ ہو۔ تیز چلانے کو حضور کبھی پسند نہ فرماتے تھے ۔ کرایہ فٹن کا روزانہ واپسی پر ادا فرما دیا کرتے تھے۔ کوئی بقایا نہ رہنے دیتے تھے۔ گھوڑا گاڑی عموماً بدلتی رہتی تھی۔ کسی خاص گاڑی یا گاڑی بان سے کوئی معاہدہ یا ٹھیکہ نہ تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی گاڑی بان دو تین روز متواتر آجاتا۔
سیر کے واسطے حضورعموماً مکان سے سٹیشن کی طرف ہوتے سے ہوئے ایمپرس روڈ ، شملہ پہاڑی اور وہاں سے جانب شرق لاٹ صاحب کی کوٹھی کے مشرقی جانب سے ہوتے ہوئے لارنس گارڈن مال روڈ کو تشریف لے جاتے۔ گاہے انار کلی میں سے ہوتے ہوئے سرکلر روڈ پر لوہاری ، شاہ عالمی ،موچی دروازہ کے باہر باہر مکان پر تشریف لاتے ۔ کبھی مال روڈ ہی سے واپسی کا حکم ہو جاتا۔ تنگ بازاروں میں حضور جانا پسند نہ فرماتے تھے۔ زیادہ تر کھلی اور آبادی سے باہر کی سڑکوں کی طرف حضور کو رغبت تھی۔ انارکلی وغیرہ کی طرف کبھی ضرورتاً تشریف لے جاتے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حضور کوئی حکم نہ دیتے اور میں اپنی مرضی ہی سے حضور کے حسب پسند راہوں سے ہو کر واپس لے آتا۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی کبھی بعض اوقات براہ راست ہمیں حکم دیتیں کہ فلاں جگہ کو لے چلو ۔ حضور پُرنور خاموش رہتے، انکارفرماتے نہ نا پسند فرماتے۔ سیر کے اوقات میں گفتگو عموماً مسائل دینیہ کے بارہ میںیا نظام سلسلہ سے متعلق رہتی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور پرنور بالکل خاموش ہی نظر آتے مگر حضور کے لبوں کی حرکت سے ذکر الٰہی اور تسبیحات میں مصروفیت کا یقین ہوتا تھا۔
قیام لاہور کے زمانہ میں حضور پُر نور لاہور کے مضافات کی مشہور سیرگاہوں میں بھی تشریف لے جاتے رہے۔ مثلاً شالا مار باغ متصل باغبانپورہ۔ شالا مار باغ نیا جو کسی ہندو ساہوکار نے لاہور شہر کے جنوب کی طرف چند میل کے فاصلہ پر بنوایا۔ مقبرہ جہانگیر وغیرہ مگر ان مقامات میں سے شالامار باغ متصل باغبانپورہ حضرت کو زیادہ پسند تھا۔ اور حضور وہاں ایک سے زیادہ مرتبہ تشریف لے گئے۔ زیادہ دیر تک وہاں قیام فرمایا اور زیادہ ہی دیر تک علیحدگی میں ٹہلتے اور دعائیں کرتے رہے۔ مقبرہ جہانگیر کے غربی جانب علیحدہ ایک مزار ہے اس طرف حضور تشریف نہ لے گئے۔ مگر بھول بھلیاںیا جو کچھ بھی اس جگہ کا نام ہے ریلوے لائن کے غربی جانب ایک عمارت ہے جس میں بہت سے دروازے ہی دروازے ڈاٹ دار ہیں وہاں حضور بیگمات اور بچوں کے ساتھ تشریف لے گئے۔
شالامار باغ سے ایک مرتبہ واپسی پر بڑے زور کی آندھی آگئی جو بہت سخت تھی۔ احباب جو مکان پر تھے ان کو بہت فکر ہوئی ۔ چنانچہ کئی دوست شالامار باغ کی طرف چل نکلے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان کہ آندھی کی شدت سے پہلے ہی پہلے حضور معہ تمام قافلہ مکان پر بخیریت پہنچ گئے۔ حضور کا معمول تھا کہ سیر و تفریح کو جانے سے قبل حاجات سے فراغت پا کر تشریف لایا کرتے تھے۔ مگر پیشاب کی حاجت حضور کو اس لمبی سیر کے دوران میں بھی ہو جایا کرتی تھی۔ جس کے لئے حضور کسی قدر فاصلہ پر حتی الوسع نظروں سے اوجھل بیٹھ کر قضائے حاجت فرمایا کرتے تھے۔ لوٹا پانی کا کبھی حضور خود ہی اٹھا کر لے جایا کرتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور جا کر قضائے حاجت کے لئے بیٹھ بھی جاتے اور میں احتیاط سے پیچھے کی طرف سے ہو کر لوٹا حضرت کے دائیں جانب رکھ دیا کرتا اور حضور فارغ ہو جاتے تو لوٹا اٹھا کر لے آتا۔ ڈھیلا لیتے میں نے حضور کو دیکھا نہ سنا۔ اسی طرح اکثر حضور کو وضو کرانے کے مواقع بھی میسر آتے رہے۔ وضو حضور بہت سنوار کر فرمایا کرتے۔ ہر عضو کو تین تین دفعہ دھوتے ،سر کے صرف اگلے حصہ کا مسح فرمایا کرتے۔ ریش مبارک میں خلال فرماتے اور جرابوں پر مسح۔ کبھی جرابیں اتار کر بھی پائوں دھوتے تو انگلیوں میں خلال فرماتے۔ دانتوں کو انگلی سے اچھی طرح ملتے اور مسوڑھوں کو بھی صاف فرماتے تھے۔
لاہور کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ حاجی محمد موسیٰ صاحب نے ایک دن ایک موٹر کار حضور کی سواری کے واسطے کہیں سے مہیا کی اور حضرت سے اس میں سوار ہونے کی درخواست کی نیز سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی سوار ہونے کی خواہش کی ۔ چنانچہ حضور پر نور معہ سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا موٹر میں سوار ہونے کی غرض سے مکان سے اتر کر سڑک پر تشریف لائے مگر موقعہ پر پہنچ کر سیدہ نے سوار ہونے سے انکار کر دیااور فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے مگر حضرت اقدس بعض بچوں سمیت سوار ہوئے اور ایک قریبی سڑک کا چکر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے۔ موٹر اس زمانہ میں ابھی نئی نئی لاہور میں آئی تھی۔
اسی سفر کے دوران میں شاہزادگان والاتبار میں سے کسی صاحبزادہ نے حضرت سے بائیسکل خرید دینے کی خواہش کی۔ حضرت شاہزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلّمہ ربّہ اس وقت اپنی گھوڑی پر سوار ہمرکاب تھے ،پاس سے کوئی سائیکل سوار نکلتے دیکھ کر حضور نے فرمایا کہ ’’ سائیکل کی سواری گھوڑے کے مقابل میں تو ایک کتے کی سواری نظر آتی ہے۔‘‘ اس واقعہ کے وقت حضور کی گاڑی اسلامیہ کالج (موجودہ) کے جنوبی جانب کی سڑک پر سے ہو کر سیر کو جا رہی تھی جس پر آجکل مغرب کو جا کر کچھ دور امرت دھارا بلڈنگ اور سبزی منڈی واقع ہیں۔
ایام قیام لاہور میں حضور کو بہت ہی مصروفیت رہا کرتی تھی۔ کیونکہ حضور کے لاہور پہنچتے ہی سارے شہر میں ہلچل مچ گئی اور ایک شور بپا ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اس کثرت سے آتے رہتے تھے کہ خلق خدا کا تانتا بندھا رہتا اور رجوع کا یہ عالم تھا کہ باوجود مخالفانہ کوششوںاور سخت روکوںکے لوگ جوق در جوق لوہے کی طرح اِس مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ مولویوں کے فتووں کی پرواہ کرتے نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے۔ اپنے بھی آتے اور بیگانے بھی ۔ دوست بھی اور دشمن بھی۔ موافق بھی اور مخالف بھی۔ محبت سے بھی اور عداوت سے بھی۔ علماء بھی آتے اور امراء بھی۔ الغرض عوام اور خواص ، عالم اور فاضل ،گریجوایٹ اور فلاسفر ،ہر طبقہ اور ہر رتبہ کے لوگ جمع ہوتے اپنے علم و مذاق کے مطابق سوالات کرتے اور جواب پاتے تھے۔
اس اقبال اور رجوع خلق کو دیکھ کر مولوی لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ وہ اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے بالمقابل ایک اڈا قائم کیا جہاں ہر روز مخالفانہ تقریریں کرتے۔ گالی گلوچ اور سب و شتم کا بازار گرم رکھتے۔ افتراء پردازی اور بہتان طرازی کے ایسے شرمناک مظاہرے کرتے کہ انسانیت ان کی ایسی کرتوتوں پر سر پیٹتی اور اخلاق و شرافت کا جنازہ اٹھ جاتا۔ توہین و دل آزاری اتنی کرتے کہ قوت برداشت اس کی متحمل نہ ہو سکتی۔ مجبور ہو کر، تنگ آکر بعض دوستوں نے حضرت کے حضور اپنے درد کا اظہار کیا تو حضور نے یہی نصیحت فرمائی کہ
’’گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو ‘‘
صبر کرو اور ان کی گالیوں کی پرواہ نہ کیا کرو۔ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی نکلتا ہے۔ دراصل ان کو سمجھ نہیں کیونکہ اس طرح تو وہ آپ ہماری فتح اور اپنی شکست کا ثبوت بہم پہنچاتے ہماری صداقت اور اپنے بطلان پر مہر تصدیق لگاتے ہیں۔ منہ پھیر کر، کان لپیٹ کر نکل آیا کرو۔
کہتے ہیں ’’ صبر گرچہ تلخ است لٰکن بَرِشیریں دارد ‘‘
صبر کا اجر ہے حضور پرنور کی یہ نصیحت کارگر ہوئی۔ غلاموں نے کانوں میں روئی ڈال کر ، کلیجوں پر پتھر باندھ کر یہ سب و شتم سنا اور برداشت کیا ۔اُف تک نہ کی اور اپنے آقا نامدار کی تعلیم پر ایسی طرح عمل کر کے دکھایا کہ جس کی مثال قرونِ اولیٰ کے سوا بہت ہی کم دنیا میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کے خوش کن نتائج اور ثمرات شیریں بھی ملنے شروع ہو گئے اور باوجود مخالفوں کی مخالفت کے علیٰ رغم انف ، سلیم الطبع اور شریف المزاج انسانوں نے اس زمانہ میں اس کثرت سے بیعت کی کہ ہمارے اخبارات ان اسماء کی اشاعت کی گنجائش نہ پا سکے اور اعلان کیا کہ ’’ بقدر گنجائش انشاء اللہ بتدریج اسماء بیعت کندگان شائع کئے جاتے رہیں گے۔‘‘
قصہ کوتاہ۔ حضور کا یہ سفر جہاں گونا گوں مصروفیتوں کے باعث حضرت اقدس کے لئے شبانہ روز بے انداز محنت و انہماک اور توجہ و استغراق کے سامان بہم پہنچاتا وہاں اپنے اور بیگانے ہر رتبہ و مرتبہ کے لوگوں کے واسطے رحمت و ہدایت اور علم و معرفت کے حصول کا ذریعہ تھا ۔طالبان حق اور تشنگان ہدایت آتے نور و ہدایت اور ایمان و عرفان کے چشمہ سے سیری پاتے تھے۔ مقامی شرفاء اور معززین کے علاوہ بعض مخالف مولوی بھی آتے رہتے۔ بیرونی جماعتوں کے دوست بھی اکثر حضور کی زیارت کرنے اور فیض صحبت پانے کی غرض سے جمع رہتے تھے۔ اور چونکہ قادیان کی نسبت لاہور پہنچنا کئی لحاظ سے آسان تر اور مفید تر تھا۔ دوست اس سہولت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی غرض سے اکثر آتے تھے اور اس طرح اچھا خاصہ ایک جلسہ کا رنگ دیکھائی دیا کرتا تھا۔ چنانچہ اسی ضرورت کے ماتحت حضرت اقدس کو لنگر کا انتظام بھی لاہور ہی میں کرنا پڑا۔ نمازوں کے بعد عموماً حضور کا دربار لگا کرتا اور مختلف علمی و اختلافی مسائل کا چرچا رہتا تھا ۔ ایک انگریز سیاح ماہر علوم ہیئت و فلسفہ ان ایام میں جا بجا لیکچر دیتا پھرتا تھا۔ ہمارے محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جن کو تبلیغ کا قابل رشک شوق و جوش رہتا ہے اور وہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہا کرتے ہیں انہوں نے اس سے ملاقات کر کے اس کو حضرت اقدس کے حالات سے آگاہ کیا اور حضرت سے ملاقات کرنے کی تحریص دلائی۔ چنانچہ اس کی خواہش پر حضرت سے اجازت لے کر اس کو حضور کی ملاقات کے واسطے لے آئے۔ اس کی بیوی اور ایک بچہ چھوٹا سا بھی اس کے ہمراہ تھے۔ ملاقات کیا تھی ہم لوگوں کے لئے بحر علم و عرفان کے چشمے رواں ہو گئے اور اس ملاقات کے نتیجہ میں وہ علوم ہم لوگوں کو حاصل ہوئے جو اس سے پہلے نصیب نہ تھے۔ وہ انگریز بھی بہت متاثر اور خوش تھا اور اس پر ایسا گہرا اثر حضور کی اس ملاقات ، توجہ اور علوم لدنی میں کمال کا ہوا کہ اس نے ایک بار پھر اس قسم کی ملاقات کی خواہش کی ۔چنانچہ وہ پھر ایک مرتبہ حضرت کے حضور حاضر ہوا اور ایسے علوم لے کر واپس گیا جس کے بعد اس کے لیکچروں اور تقاریر کا رنگ ہی پلٹ گیا ۔
شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب جو کابل کے شاہی خاندان کے ممبر اور رئوساء عظام میں سے تھے ان کو حضرت سے عقیدت و نیازمندی اور محبت تھی ،حضرت کی ملاقات کو تشریف لائے۔ ۲ ؍مئی کا دن تھا حضرت نے اس صحبت میں ایک معرکۃ الآرا تقریر فرمائی اور کھول کر تبلیغ فرمائی۔ اتنا اثر اور اتنا جذب تھا کہ حاضرین ہمہ تن گوش بن کر بے حس و حرکت بیٹھے سنتے اور زار و قطار روتے رہے۔ اسی تقریر کے نتیجہ میں شاہزادہ صاحب نے ہمارے ارباب حل و عقد کو تحریک کی کہ حضور کی ایک تقریر خاص اہتمام و انتظام سے کرائی جائے جس میں لاہور اور مضافات کے اکابر و شرفاء کو شمولیت کی دعوت دی جاوے۔ چنانچہ شاہزادہ صاحب کی تجویز مؤثر ثابت ہوئی اور اس طرح ایک اہم ترین اور کامل و اکمل تقریر حضور پُرنور نے لاہور اور مضافات کے صنادید، بڑے بڑے امرا اور شرفاء کے مجمع میں قریباً اڑھائی گھنٹہ تک کھڑے ہو کر فرمائی۔ تقریر کیا تھی ؟
تکمیل تبلیغ اور اتمام الحجۃ
تھی جس میں حضور نے کھول کھول کر حق تبلیغ ادا فرمایا اور سلسلہ کے سارے ہی خصوصی مسائل پر روشنی ڈالی وہاں اپنے منصب عالی اور مقام محمود کے متعلق بھی کھول کر اعلان فرمایا:
جماعت لاہور کے سرکردہ دوستوں کی خواہش تھی کہ حضور کی تشریف آوری سے فائدہ اٹھا کر بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ کی جائے مگر چونکہ وہ لوگ اپنے آپ کو اتنا بڑا خیال کرتے تھے کہ مقامی دوستوں سے بعض حالات میں سلسلہ کے متعلق بات کرنابھی نہ صرف پسند نہ کرتے تھے بلکہ اس میں اپنی ہتک سمجھتے ہوئے تبلیغ کا موقعہ ہی نہ دیا کرتے تھے۔ شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب کی شرکت سے دوستوں کی اس خواہش کے پورا ہونے کا ایک موقعہ پیدا ہو گیا اور احباب کئی دن کی سوچ بچار اور مشورہ کے بعد اس فیصلہ پر پہنچے کہ ان لوگوں کو ان کی شان کے مناسب حال ایک دعوت میں جمع کیا جائے کیونکہ اس کے بغیر ان کا جمع ہونا بھی محال تھا۔ چنانچہ ایک فہرست مرتب کر کے دعوت نامے بھیجے گئے اور دعوت کے انتظامات مکمل ہو چکے تھے کہ اچانک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مقررہ دن سے ایک روز پہلے وہی اسہال کی بیماری کا حملہ ہو گیا جس سے حضور بہت کمزور ہوگئے اور اندیشہ پیدا ہو گیا کہ دعوت شاید بغیر تبلیغ ہی کے گزر جائے گی۔ دوستوں کو بہت گھبراہٹ تھی کہ اب ہو گا کیا، مگر قربان جائیں اللہ کریم کے جس نے نا امیدی کو امید سے بدل کر ایک تاز ہ نشان سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی جس سے ایمانوں میں تازگی و بشاشت اور عرفان میں نمایاں زیادتی ہوئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا گویا خدا کا کلام کہ
’’ڈرو مت مومنو‘‘
اسی موقعہ کی گھبراہٹ اور خوف سے تسلی دلانے کو نازل ہوا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مقررہ دن سے پہلی رات کے آخری حصہ میں ہمارے آقا و مولا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ کریم نے اپنی تازہ وحی سے یوں سرفراز فرمایا ۔
’’ اِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ ‘‘
میں خود اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہو کر تبلیغ کرائوں گا۔ ضعف و کمزوری اور تکلیف و بیماری سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ میرا اپنا کام ہے اور میں اسے سرانجام دوں گا۔
چنانچہ دن چڑھا منتظمین نے دعوت کے انتظامات شروع کئے اور ہوتے ہوتے معزز مہمان اور شرفاء کی سواریاں آنے لگیں۔ مگر حضرت کی طبیعت بدستور نڈھال و کمزور تھی اور ضعف و نقاہت کا یہ حال تھا کہ اس کی موجودگی میں حضور کو تقریر کر سکنے کی قطعاً کوئی امید نہ تھی اور اسی خیال سے حضور نے حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ آپ ہی آنے والے مہمانوں کی روحانی دعوت کا کچھ سامان کریں۔ چنانچہ وقت پر حضرت مولوی صاحب نے تقریر شروع فرمادی مگرتھوڑی ہی دیر بعد وہ ماہ منور اور خورشید انور بنفس نفیس ہم پر طلوع فرما ہوا۔ حضرت مولوی صاحب نے تقریر بند کی اور حضور پُر نور نے کھڑے ہو کر حاضرین کو خطاب فرماتے ہوئے کم و بیش تین گھنٹہ تک ایسی پُرزور ، پُرمعارف اور علم و معرفت سے لبریز تقریر فرمائی کہ اپنے تو درکنار ،غیر بھی عش عش کر اٹھے اور ایسے ہمہ تن گوش ہو کر سنتے رہے کہ گویا مسحور تھے۔ اور اس روحانی مائدہ کی ایسی لذت ان کو محسوس ہوئی کہ جس نے جسمانی غذا سے بھی ان کو مستغنی کر رکھا تھا۔
جلسہ اعظم مذاہب ۹۶ء میں بھی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضر وموجود تھا۔ وہ نظارہ جو حضرت کی تحریر کے پڑھے جانے کے وقت آنکھوں نے دیکھا ۔ لَارَیب کم ہی پہلے کبھی دنیا نے دیکھا ہو گا۔ مگر اس جلسہ میں ہماری آنکھوں نے خدا کی جس قدرت اور عظمت وسطوت کا مشاہدہ کیا وہ بلحاظ اپنی کیفیت و کمیّت کے جلسہ مہوتسوسے بھی کہیں بڑھی ہوئی تھی۔ اِس میں اور اُس میں زمین و آسمان کا فرق تھا کیونکہ یہاں خدا کا برگزیدہ نبی اور رسول خود اپنے خدا کی معیت میں کھڑا بول رہا تھا۔ جلسہ اعظم مذاہب میں مضامین علمی تھے مگر یہاں ایسے اختلافی کہ سامعین کا ان کو سن لینا بجائے خود ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ حضور کی تقریر میں ایسی روانی تھی کہ نوٹ کرنا مشکل ہو رہا تھا اور بیان میں اتنی قوت و شوکت تھی کہ بھرے مجمع میں کسی کے سانس کی حرکت بھی محسوس نہ ہوتی تھی اور حضور اس جوش سے تقریر فرما رہے تھے کہ زور تقریر کے ساتھ ساتھ حضور پُر نور خود بھی سامعین کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں دیکھا اور اس بات کو اچھی طرح نوٹ کیا کہ حضور میز سے کئی مرتبہ چند چند قدم آگے بڑھ جاتے رہے تھے۔ حضور میز کو آگے لے کر نہ کھڑے تھے بلکہ میز حضور کی پشت پر تھی۔
حضور کی یہ تقریرڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے صحن میں زیادہ سے زیادہ حضور کے وصال سے ایک عشرہ پہلے ہوئی تھی جس کو تکمیل تبلیغ اور اتمام حجت کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور ماہر علوم ہیئت انگریز سے مکالمہ خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے اوپر کے حصہ میں اس سے قبل ہو چکا تھا۔ ان تقریروں کے علاوہ کئی چھوٹی بڑی تقاریر حضور نے فرمائیں جن کی تفاصیل میں جانے کا یہ موقعہ نہیں۔ کچھ ہندو مستورات پیغام صلح کی تصنیف کے دوران میں حضرت کے درشن کرنے کی غرض سے ایک وفد کی صورت میں حاضر ہوئیں جبکہ حضور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان میں تشریف فرما تھے۔ حضور چونکہ بہت مصروف تھے ان کو جلدی رخصت فرمانا چاہا مگر انہوں نے عذر کیا اور کوئی نصیحت فرمانے کی درخواست کچھ ایسے رنگ میں کی کہ حضور نے باوجود انتہائی مصروفیت کے ان کی درخواست کو قبول فرما کر توحید کی تلقین فرمائی اور بت پرستی سے منع فرمایا ۔خدا سے دعا و پرارتھنا کی تاکید فرمائی۔ یہ واقعہ بالکل آخری ایک دو روز کا ہے۔ دراصل وہ مستورات بہت دیر ٹھہرنا اور بہت کچھ حضور کی زبان مبارک سے سننا چاہتی تھیں مگر حضور کی انتہائی مصروفیت کی وجہ سے مجبورًا بادل ناخواستہ جلد چلی گئیں۔ اسی طرح حضور کی ایک اورتقریر اپنے بعض فقرات کی وجہ سے نیز آخری ہونے کی وجہ سے خاص طور پر مشہور اور زبان زد خدام ہے جس میں حضور نے فرمایا تھا۔
عیسیٰ مسیح کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی زندگی ہے
مسیح محمدی کو آنے دو کہ اسی میں اسلام کی بزرگی ہے
الغرض حضور کا قیام لاہور ایسے ہی حالات کا مجموعہ اور اسی قسم کی مصروفیتوں کا مرکز تھا۔ حق و حکمت کے خزائن لٹا کرتے اور علم و معرفت کے موتی بٹا کرتے تھے۔ اور اگرچہ اس سفر کا عرصہ بالکل محدود ،زیادہ سے زیادہ صرف ایک ماہ تھا مگر اس سفر کے نقشہ پر بحیثیت مجموعی غور کرنے سے ایک ایسی پر کیف کیفیت نمایاں طور سے نظر آنے لگتی ہے جیسے کوئی یکہ و تنہا مسافر کسی لمبے بے آب و گیاہ اور سنسان ویرانے کے سفر کو جلد جلد طے کر کے منزل مقصود پر پہنچنے کی انتھک اور سرگرم کوشش میں لگ رہاہو یا کوئی جری و بہادر جانباز جرنیل چاروں طرف سے خونخوار دشمنوں کے گھیرے میں پھنسا ہوا دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے واروں کو بچاتا، ان کا حلقہ توڑ کر شیر نر کی طرح حملے کرتا اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد میں مصروف ہو۔ بعینہٖ یہی حال حضور کی تبلیغی کوششوں ،سرگرمیوں اور مساعی جمیلہ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ گویا حضور کی ساری زندگی کا نچوڑ اور سارے مقاصد اور سلسلہ کے اہم مسائل اور خصوصی عقائد کی تکمیل کا یہ سفر ایک مجموعہ اور خلاصہ تھا۔ اور کہ حضور ان ایام کو غنیمت جان کر ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ انہماک و مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی لمحہ فارغ نہ جاتا تھا اور حضور کی پوری توجہ اور ساری کوشش وسعی تبلیغ و اشاعت ہی پر مرکوز تھی اور کم از کم پچیس مختلف صحبتوں اور تقاریر کا ذکر تو اخبارات میں موجود ہے۔ کتنی تقاریر اور ڈائریاں میری کوتاہ قلمی یا غیر حاضری کی نذر ہوئیں یا کتنی صحبتوں میں شرکت سے دوسرے ڈائری نویس محروم رہے اس بات کا علم اللہ کو ہے۔ اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ بہت کچھ لکھنے سے رہ جایا کرتا تھا۔مجھے خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ بہت سے وہ معارف اور حقائق جو حضور سیر کے وقت بیان فرمایا کرتے ، میں اپنی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے صفحہ قرطاس پر نہ لا سکا۔ حضور کی آخری تصنیف یعنی پیغام صلح اور اخبار عام والے خط کو اگر شامل کر لیا جائے جو حضور نے اپنے دعوئے نبوت کی تشریح فرماتے ہوئے اخبار عام کو لکھا تھاتو حضور کی معلومہ۔ مطبوعہ و مشتہر ہ تقاریر کی تعداد ستائیس ہو جاتی ہے ۔ کتنے خطوط اس عرصہ میں حضور نے دوستوں کو ہمارے مکرم ومحترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے لکھوائے اور کتنے خطوط حضور نے بعض خوش نصیب خدام کو خود ازراہ شفقت وذرہ نوازی دست مبارک سے لکھے۔ ان کا اندازہ بھی میری طاقت و بساط سے باہر ہے۔ خلاصہ یہ کہ حضور کی ساری ہی حیات طیبہ ،انفاس قدسیہ اور توجہات عالیہ جہاں خدا کے نام کے جلال کے اظہار ،اس کے رسول ﷺ کی صداقت و عظمت کے اثبات اور اس کی مخلوق کی بہتری وبہبودی کے لئے وقف تھیں وہاں خصوصیت سے حضور کی پاکیزہ زندگی کے یہ آخری ایام
اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِی لَا یُضَاعُ وَقْتُہٗ
کی سچی تفسیر اور مصدّقہ نقشہ تھا۔
خدا کا برگزیدہ مسیح ہم میںموجود تھا جو ہماری آنکھوں کا سرور، دلوں کا نور بنا رہتا تھا جس کے در کی گدائی دنیا وما فیھا سے بہتر معلوم دیتی تھی اور اس سے ایک پَل کی جدائی موت سے زیادہ دوبھر ہوا کرتی تھی۔ اس کی صحبت آبِ حیات اور کلام حوض کوثر ہوا کرتا تھا۔ اس کی خلوت ذکر الٰہی اور خدا سے ہم کلامی میں اور جلوت تبلیغ اسلام اور تزکیہ نفوس میں گزرا کرتی تھی۔ دل میں ہزار غم ہوتا طبیعت کیسی ہی افسردہ ہوتی اس نورانی چہرہ پر نظر پڑتے ہی تمام غم اور ساری افسردگی کا فور ہو جایا کرتی تھی۔ انسان کتنے ہی خطرناک مصائب و آلام کا شکار بنا ہوتا، کتنی ہی مشکلات میں مبتلا ہوتا اس محبوب الٰہی کی ایک نظر شفقت اور دعائِ مستجاب ان کاحل بن جایا کرتی تھی۔ اس کی مجلس خدا نما مجلس اور اخلاق محمدی اخلاق تھے اور حلقہ بگوش خدام گویا نبوت کی اس شمع ہدایت کے گرد پروانے تھے ،اس کی صحبت میں مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک اور غلاموں میں صحابیت کا رنگ نظر آتا تھا، اور سب سے بڑی نعمت اس کے وجود باجود سے ہمیں یہ میسر تھی کہ خدا اس سے ہم کلام ہوتا تھا اور وہ مقدس وجود خدا سے وحی پا کر اس کا تازہ بتازہ کلام ہمیں سنایا کرتا تھا جس کا بعض حصہ اسی دن اور بعض اوقات قریب ایام میں پورا ہو جایا کرتا تھا۔ جس سے اطمینان اور ثلج قلب ملتا اور زندہ خدا ، زندہ رسول ، زندہ مذہب کی زندگی کا یقینی ثبوت ملتا اور اس طرح زندہ ہی ہمارے ایمان بھی ہو جایا کرتے تھے ۔ اللھم صل علیہ وعلی مطاعہ واٰلھما وبارک وسلم انک حمید مجید ـ
ایک قابل ذکر واقعہ مجھ سے بیان کرنا رہ گیا اور وہ یہ ہے کہ ایک روز بعد عصر کی سیر کے دوران میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد علی صاحب ایم اے کے ایک خط آمدہ از قادیان کا ذکر فرماتے ہوئے بہت ہی رنج اور ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قادیان سے انہوں نے ایک خط خواجہ کمال الدین صاحب بی اے ایل ایل بی کو لکھا جس میں علاوہ اور امور کے لنگر خانہ کے خرچ کا ذکر کچھ ایسے رنگ میں تھا جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مولوی صاحب بدظنی کی مرض میں مبتلا ہیں اور ان کے دل میں حضرت اقدس کی امانت و دیانت کے متعلق شبہات ہیں اور ان کو خیال ہے کہ لنگرخانہ کے اخراجات تو بہت قلیل ہیں اور آمد اس کے مقابل میں کہیں زیادہ ہوتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا اور یہ امر انہوں نے سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قادیان سے لاہور تشریف لے آنے کے بعد ایک ماہی اخراجات کے اعدادو شمار درج کر کے زیادہ واضح بھی کر دکھایا تھا ۔ حضرت نے فٹن میں سوار ہو کر بہت پُردرد لہجہ میں اسکا ذکر حضرت نانا جان قبلہ مرحوم ومغفور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا جو کہ سیر میں حضور کے ساتھ اور پہلو بہ پہلو تشریف فرما تھے ۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خاندان کی بیگمات اور بعض بچے بھی موجود تھے اور حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام حسب معمول پچھلے پائیدان پر کھڑا اپنے ان دو کانوں سے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے عطا فرما رکھے ہیں ،حضور کی آواز کو سن رہا تھااور خدا کی دی ہوئی ان دونوں آنکھوں سے حضور کے لبان مبارک کی جنبش کو دیکھ رہا تھا ۔ میرا خالق و مالک جس نے مجھے پیدا کیا اور جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس بات پر گواہ ہے کہ میں نے جو کچھ سنا اور دیکھا تھا وہی لکھ رہا ہوں۔
حضور پُر نور نے فرمایا کہ خواجہ صاحب آج مولوی محمد علی صاحب کا ایک خط لائے جس میں لکھا تھا کہ لنگرخانہ کا خرچ تو بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے مگر آمد بہت زیادہ ہوتی ہے، نہ معلوم وہ روپیہ کہاں جاتا ہے وغیرہ۔ ’’خدا جانے ان لوگوں کے ایمان کیسے کچے ہیں اور بدظنی کا مادہ ان میں کیوں اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہماری بیعت کرنے اور مرید کہلانے کے باوجود بلا تحقیق ایسی باتیں بناتے ہیں جن سے ہمیں تو نفاق کی بو آتی ہے اور ایسے لوگوں کے انجام کے متعلق خطرہ ہی رہتا ہے ۔لنگر خانہ کا انتظام تو ہم نے منشاء الٰہی کے ماتحت اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ورنہ ہمیں تو اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ امر اصل کام میں بھی مالی مشکلات اور ان کے حل کے افکار کی وجہ سے حارج ہوتا اور روک بن جایا کرتا ہے اور ہمیں تو اکثر اس کے چلانے کے واسطے قرض وام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کو شوق تو ہے کہ لنگر کا انتظام ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے مگر ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لنگرخانہ کا انتظام ان لوگوں کے سپرد کر دیا جائے تو یہ کام کہیں بند ہی نہ ہو جائے۔ یا مہمانوں کی خدمت کا حق ہی پوری طرح ادا نہ ہو۔ اس صورت میں اس کی جواب دہی خدا کے سامنے کون کرے گا؟ ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں کہ لنگر کے اخراجات تو ہمارے آنے کے ساتھ ہی یہاں آگئے تھے۔ اب قادیان میں ہے کون؟ مہمان تو ہمارے پاس آتے ہیں۔ پس جب قادیان میں لنگر ہی بند ہے تو خرچ کیسا؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہمارے متعلق بددیانتی اور خیانت کا شبہ ہے اور ہمیں حرام خور سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے یہ لوگ اس بات کے درپے ہیں کہ لنگر کا انتظام ان کو دے دیا جائے ۔ہمیں ان کے حال پر رہ رہ کر افسوس آتا ہے۔‘‘ وغیرہ۔
قبلہ حضرت نانا جان مرحوم مغفور رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان لوگوں کے ایسے خیالات سے متعلق ایسی باتیں حضرت کے حضور اسی مجلس میں عرض کیں اور بتایا کہ ان کا یہ مرض آج کا نہیں بلکہ پرانا ہے۔ یہ کھچڑی مدت سے پک رہی ہے اور طرح طرح کے اعتراض سننے میں آتے رہتے ہیں۔ کئی بار سنا ہے کہ
قوم کے روپیہ سے بیوی جی کے زیور بنتے ہیں
قوم کا روپیہ جو لنگرخانہ کے نام سے حضرت صاحب کے نام براہ راست آتا ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ مکان قوم کے روپیہ سے بنتے مگر ان پر نانا جان قبضہ کرتے جاتے ہیں وغیرہ۔
الغرض اس دن کی سیر کا اکثر حصہ ایسی ہی رنج دِہ گفتگو میں گزرگیا اور میں محسوس کرتا تھا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے حد تکلیف اور ملال تھا اور سارا خاندان بھی ان حالات کے علم سے رنجیدہ تھا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
یہ واقعہ حضور کے وصال کے بالکل قریب اور غالباً زیادہ سے زیادہ دو روز قبل یعنی ۰۸-۰۵-۲۴ کا ہے اور اسی روز یا اس سے ایک روز بعد یعنی آخری دن حضور نے سیر کے لئے تشریف لے جاتے ہوئے مجھ سے فرمایا ۔
’’ گاڑی بان سے کہہ دو کہ اتنی دور لے جائے کہ جانے آنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگے۔کیونکہ آج ہمارے پاس اتنے ہی پیسے ہیں۔‘‘
آہ ، آہ ،آہ شہنشاہوں کا شہنشاہ جس کا یہ حال ۔ جس کی تصدیق حضور کے وصال کے بعد کے واقعات نے کر دی جبکہ واقعی حضور پرنور نے بجائے مال و منال کے قرض کی بھاری رقم ترکہ میں چھوڑی مگر مہمان نوازی میں سرِمو فرق نہ آنے دیا اور نہ ہی کسی کو جتایا ۔ جاننے والے جانتے اور دیکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ حضور کو مہمان نوازی میں کتنا کمال اور شغف تھا۔ حضور اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو بھی پسند نہ فرماتے ۔ قرض تک لے کر مہمانوں کی خدمت کرتے ،خود اپنے ہاتھوں کھلاتے اور مہمانوں کی ضروریات کا پورے اہتمام سے ان کے حالات و عادات کے لحاظ سے انصرام کرتے۔ چارپائی۔ بستر۔ حتیّٰ کہ حقہ تک بھی جس سے حضور کو طبعی نفرت تھی ،مہمان کی خاطر مہیا فرماتے۔ حضور کی مہمان نوازی اور کرم فرمائی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں بلکہ میرا یقین ہے کہ ابھی تو ایسے خوش نصیب وجود موجود بھی ہیں جو حضور کی ایسی عنایات کا خود مورد بن چکے یا اپنی آنکھوں ایسے واقعات دیکھ چکے ہیں کہ حضور نے کھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دو گھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی۔ کسی مہمان کو چارپائی نہ ملی تو اپنی چارپائی بھیج دی یا فوراً تیار کرا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا ۔ زبان طعن دراز کرنا آسان ہے مگر کچھ کر کے دکھانا مشکل۔ مدتوں ہم اور ایسے معترض اکٹھے رہے جس کی وجہ سے ان کے سلوک و اخلاق اور حسن و احسان کی داستانیں معلوم ۔ دور کیا جانا ۔ لاہور ہی کی بات کبھی بھولنے میں نہیں آتی جب مہمانوں کو دستر خوان پر بٹھا کر اور کھانا سامنے رکھ کر ساتھ ہی یہ پیغام بار بار دہرایا جاتا تھا کہ پیٹ کے چار حصے کرو۔ کھانے کا، پانی کا، ہوا کا، اور ذکر الٰہی کا ۔ کاش ان بدقسمتوں کو مائیں نہ جنتیں۔ تنگ ہو کر مجبوراً آخر بعض خدام ہمرکاب نے پہلے اس قسم کی باتیں حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کیں چنانچہ آپ نے فوراً اپنے شاگردوں کے لئے تو کھانے کا الگ انتظام کر دیا۔ مکرمی حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ خدا کے فضل سے زندہ سلامت ہیں وہ اس بات کے شاہد ہیں کہ دو یا چار بوری آٹا فوراً خریدنے کا حضرت مولوی صاحب نے حکم دیا ۔یا خریدوا کر ان کے سپرد کر دیں اور اس طرح پہلے صاحب ممدوح کے شاگردوں کے کھانے کا بوجھ جماعت لاہور کے کندھوں سے اتر گیا اور پھر جلد ہی یہ بات سیدنا حضرت اقدس تک پہنچ گئی تو حضور پرنور نے تمام مہمانوں کے کھانے کے لئے اپنے خرچ سے انتظام کئے جانے کا ارشاد فرما دیا جو آخری دن تک جاری رہا۔
افترا کرنا اور جھوٹ بولنا لعنتیوں کا کام ہے میں اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم سے لکھتا ہوں کہ اوپر کا واقعہ میں نے جیسے سنا اور جس طرح دیکھا بعینہٖ اسی طرح لکھا ہے۔ الفاظ ممکن ہے وہ نہ ہوں یا آگے پیچھے ہو گئے ہوں مگر کوشش میں نے حتی الوسع یہی کی ہے کہ وہی لکھوں۔ مفہوم یقینا یقینا وہی ہے اور یہ واقعہ ایک گھنٹہ سیر کے وقت کی تعیین کا بھی بالکل صحیح او ریقینی ہے اور میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے پوری بصیرت اور یقین سے لکھا ہے جس پر میں غلیظ سے غلیظ قسم کے لئے بھی تیار ہوں۔ مجھے کسی سے ذاتی طور پر رنج ، بغض یا عناد نہیں۔ سلسلہ کی ایک امانت جو اکتیس سال سے میرے دل و دماغ میں محفوظ تھی ،ادا کی ہے اس کے سوا اور کوئی غرض نہیں۔
اسی سلسلہ میں اس امر کا لکھ دینا بھی بے محل نہ ہو گا کہ جس زمانہ کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے اس سے تین چار ماہ قبل ہی یعنی جنوری ۱۹۰۸ء کے اواخر میں مَیں ان زخموں سے اچھا ہو کر جو راجپوتانہ سے میری رہائی کا باعث بنے ،قادیان پہنچا تھا۔ میں چونکہ ایک لمبے عرصہ کی غیبوبت کے بعد دارالامان آیا تھا لہٰذا دل میں خواہش تھی کہ دوستوں سے ملوں ،ان کی مجالس میں بیٹھوں اور حالات سنوں۔ چنانچہ اسی ذیل میں میرے کانوں میں ان اعتراضات کی بِھنک پڑی جو بعض بڑے کہلانے والوں کی طرف سے سیدنا حضرت اقدس کی امانت و دیانت پر مالی معاملات سے متعلق کئے جاتے تھے۔ اور مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایسے اعتراضات سن کر ہم لوگ معترضین کے اس فعل کو جہاں حقارت اور نفرت سے دیکھا کرتے وہاں حضور کو سلیمان نام دئے جانے کی ایک یہ حکمت بھی ہماری سمجھ میں آگئی جو اس غیب دان ہستی نے پہلے ہی سے اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کو بطور جواب اور حضور کی تسلی کے لئے الہاماً کہہ رکھی تھی اور اس بات کا عام ذکر رہتا تھا کہ چونکہ حضرت کا ایک نام سلیمان رکھ کر اللہ کریم نے
فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ
کی شان و مقام بھی حضور کو عطاء فرما رکھا ہے تو پھر کس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس برگزیدۂ خدا اور مقبول الٰہی کی شان میں کوئی کلمہ گستاخی زبان پر لاوے یا حضور سے کسی حساب کتاب کا مطالبہ کرے۔
حضور کے طریق عمل اور اخلاق کریمانہ میں سے بیسیوں واقعات اور سینکڑوں مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ حضور عطاء و سخا میں فَامْنُنْ بِغَیْرِ حِسَاب کے عامل بھی تھے۔ بارہا خدام اور غلاموں نے مفوضہ خدمات اور کاموں سے واپسی پر حضور کی خدمت میں حسابات کی فہرستیں پیش کیں تو حضور نے یہ فرماتے ہوئے کہ ’’ہمارا آپ کا معاملہ حسابی گنتیوں سے بالا تر ہے ۔دوستوں کے ساتھ ہم حساب نہیں رکھا کرتے۔ ‘‘ واپس کر دیا۔ یا کبھی کسی غلام کو قرض کی ضرورت ہوئی تو حضور نے دے کر نہ صرف بھلا ہی دیا بلکہ اگر اس غلام نے کبھی پیش کیا تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کیا آپ نے ہمارے اور اپنے مال میں کوئی مابہ الاامتیاز بنا رکھا ہے؟ ہمارے آپ کے تعلقات معمولی دنیوی تعلقات سے آگے نکل کر روحانی باپ اور بیٹوںکے سے ہیں۔ اور کئی دوستوں کو یاد ہو گا کہ جب کسی خدمت کے لئے حکم دیتے تو زادِ راہ کے لئے گن کر رقم نہ دیا کرتے بلکہ اکثر ایسا ہوتا کہ مٹھی بھر کریا رومال میں گٹھڑی باندھ کر بے حساب ہی دے دیا کرتے تھے۔ اور کئی بار میں خود بھی چونکہ ایسے حالات سے دو چار ہوا ہوں اس وجہ سے ایسی شہادت میرے ذمہ تھی جس کی ادائیگی کے لئے یہ چند سطور نوٹ کی ہیں۔ زندگی کا اعتبار نہیں ،موت کا وقت مقرر نہیں، خصوصاً جب کہ میں ایک لمبے عرصہ کی بیماری کے باعث اپنی ہڈیوں میں کھوکھلا پن ،پٹھوں میں سستی اور جسم میں اضمحلال پاتا ہوں اس موقعہ کو غنیمت جان کر یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کی۔
بارہا کا واقعہ یاد ہے کہ ایسے مواقع پر حضور نے نہایت محبت و مہربانی سے بطور نصیحت فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ بھی ہمیں بھیجتا ہے اس سے ذاتی طور پر ہمارا صرف اسی قدر تعلق ہوتا ہے کہ ہم اُس کے خرچ کرنے میں بطور ایک واسطہ کے ہیں۔ ورنہ خدا کے یہ اموال خدا کے دین اور اس کی مخلوق ہی کے لئے آتے اور خرچ ہوتے ہیں۔ ہم جب کسی کے سپرد کوئی کام کرتے ہیں تو اس کو امین و دیانتدار ہی سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں تو کبھی ایسا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ شخص اس میں خیانت کرے گا۔ دراصل یہ تمام باتیں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں اور حقیقت میں بدظنی کرنے والا اپنے ہی ایمان کی جڑ پر تبر رکھتا ،اپنے اندرونہ کے گناہ کو ظاہر کرتا اور اپنے خبث باطن پر مہر لگاتا ہے۔
اَلْمَرْئُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ
الغرض اس قسم کا مرض نفاق تو بعض لوگوں کے دلوں میں حضرت اقدس کی حیات ہی میں پیدا ہو چکا تھا اور خدا جانے کس بدقسمت انسان کی مجلس و صحبت کا اثر تھا جس کو ان لوگوں نے بجائے دور کرنے اور نکال باہر پھینکنے کے قبول کیا اور دلوں میں سنبھالے رکھا ،اس کی آبیاری کی اور آخر کار زہریلا پھل کھا کر روحانی موت کاشکار ہو گئے۔ اللہ رحم کرے۔ علو، خود ستائی و کبر کا بھی مادہ الگ ان میں موجود تھا۔معتمد تھے اور سلسلہ کے کاروبار کے گویا وہی اپنے آپ کو کرتا دھرتا سمجھتے تھے مگر زبان کا ان کی یہ حال تھا کہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا جن کی بلند شان اور اس عزت و اقبال کے مدنظر جس کا ذکر اللہ تعالیٰ کی وحی میں بار بار آتا ہے، ہم خدام ان کا ذکر حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ سے کیا کرتے مگر یہ لوگ سیدہ طاہرہ کو ’’ مائی جی ‘‘ ’’ بیوی جی ‘‘ اور زیادہ سے زیادہ ’’ بیوی صاحبہ‘‘ کے بالکل معمولی الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ جن سے ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں ’’ خواتین مبارکہ‘‘ کی حقیقی عزت موجود نہ تھی اور اس کے نتائج بھی ظاہر و باہر ہیں۔ موقعہ کی مناسبت کے مدنظر خواجہ کمال الدین صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ کے اعلان میں سے جو ’’ اطلاع از جانب صدر انجمن‘‘ کے زیرعنوان سیدنا حضرت اقدس کے وصال اور انتخاب خلافت کے متعلق قادیان سے جماعتوں کی اطلاع کے لئے شائع کرایا گیا تھا، ایک فقرہ درج کر کے اس کے علل و نتائج کا استنباط اصحاب دانش کے ذہن رسا پر چھوڑتا ہوں ۔ لکھا ہے
’’ چندوں کے متعلق سردست یہ لکھا جاتا ہے کہ ہر قسم کے چندے جس میں چندہ لنگرخانہ بھی شامل ہے محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام حسب معمول بھیجے جاویں۔‘‘ فاعتبروا یا اولی الالباب ـ
مارچ ۱۹۰۸ء کے مہینے میں موقر اخبار الحکم کا متعدد مرتبہ بحروف جلی بعنوان
لنگرخانہ کی طرف توجہ چاہئے
جماعت کو توجہ دلانا۔ قحط سالی کے باعث اخراجات کے بڑھ جانے کا ذکر کرنا وغیرہ بھی اس مسئلہ کے حل میں موید ہو گا۔
ایک واقعہ حضور کی سیر شام سے متعلق یہ بھی قابل ذکر ہے کہ آخری دن یعنی ۰۸۔۰۵۔۲۵ کو جب حضور سیر کے واسطے تشریف لائے تو خلاف معمول حضور خاموش اور اداس تھے۔ نیز کوفت اور تکان کے علامات حضور کے چہرہ پر نمایاں نظر آتے تھے اور ساری ہی سیر میں حضور ایسی حالت میںتشریف فرما رہے۔
گویا کسی دوسرے عالم میں ہیں
اور ربودگی و انقطاع کا یہ حال تھا کہ سارے ہی راستہ جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی حضور اسی حالت میں رہے۔ حضور کی اس حالت کے مدنظر سارے ہی قافلہ پر عالم سکوت اور بیم و رجا طاری تھا۔ ایسا معلوم دیتا تھا کہ حضور دنیا وما فیہا سے کٹ کر رفیق اعلیٰ کے وصال کا جام شیریں نوش فرما رہے ہیں اور اسی کی یاد میں یہ عالم محویت حضور پر طاری ہے۔
جن دوستوں نے خطبہ الہامیہ کے نزول کا منظر دیکھا ہوا ہے وہ آج کی ربودگی و تبتّلکو بھی سمجھ سکتے ہیں جو حالت حضور کی اس وقت میں ہوتی تھی اس سے بھی بڑھ کر آج حضور اپنے خدا میں جذب و گم ہو رہے تھے کیونکہ خطبہ الہامیہ کے نزول کے دوران میں تو مشکل لفظ جب سمجھ میں نہ آتا۔ ہم لوگ لکھنے میں پیچھے رہ جاتے یا بعض جگہ الف یا ع ۔ ق یا ک ۔ ز یا ذ یا ض ۔ ظ اور ث ۔ س اور ص وغیرہ کا امتیاز نہ کر سکتے تو حضور سے دریافت کرنا پڑتا تھا جس کے بتانے کے لئے حضور گویا نیند سے بیدار ہو کر یا کسی روحانی عالم سے واپس آکر بتاتے تھے اور دوران نزول میں کئی مرتبہ ایسا ہوا تھا۔ مگر آج کی محویت اور ربودگی متواتر کم و بیش ایک گھنٹہ جاری رہی اور واپس مکان پر آکر ہی حضور نے آنکھ کھولی تھی۔ یہ واقعہ نہ صرف میرا ہی چشم دید ہے بلکہ خاندان کی بیگمات اور ہمرکاب مردوں کے علاوہ مجھے اچھی طرح سے ایک اور ایک دو کی طرح یاد ہے کہ جب حضور کی گاڑی لارنس گارڈنز اور لاٹ صاحب کی کوٹھی سے کچھ آگے جانب غرب بڑھی تھی تو اس موقعہ پر دو یاتین احمدی دوست لاہور کے سیر کرتے ہوئے وہاں ملے۔ جنہوں نے السلام علیکم کہی اور حضور کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور اشاروں سے دریافت حال کیا تھا۔ گویا ان دوستوں نے بھی حضور کی اس حالت تبتل و انقطاع کو خلاف معمول سمجھا تھا۔ اور پھر مجھے یہ بھی خوب یاد ہے کہ دوسرے دن وصال کے بعد انہوں نے یا ان میں سے بعض نے آج کے چشم دید واقعہ کا ذکر کر کے بیان کیا تھا کہ ’’ ہم نے توکل ہی حضور کی حالت سے اندازہ کر لیا تھا کہ حضور اس عالم میں موجود نہیں ہیں۔ ‘‘ مگر افسوس کہ میں ان دوستوں کے نام یاد نہیں رکھ سکا۔ یہ یقین ہے کہ تھے وہ مقامی دوست ہی۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ابتداء ً حضور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور کم و بیش قیام لاہور کا نصف عرصہ حضور وہیں مقیم رہے۔ اس کے بعد اس مکان کو چھوڑ کر ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان کے بالائی حصہ میں تشریف لے گئے اور آخری دن تک وہیں رہے۔
اس ہجرت کی بڑی وجہ
علاوہ بعض اور وجوہات کے یہ تھی کہ لاہور پہنچنے کے بعد حضور کو الہام ہوا ’’ اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْل‘‘ حضور پُرنور کی عادت وسنت تھی کہ خواب اورالہامات کو حتی الوسع ظاہری رنگ میں پورا کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضور اکثر صدقات ، خیرات اور قربانیاں ادا کرتے رہتے تھے بلکہ بعض اوقات تو بعض خدام اور بچوں تک کی خوابوں کو پورا کرتے اور قربانیاں کروایا کرتے ۔ اسی طرح اس الہام کو ظاہر طور پر پورا کرنے کی غرض سے حضور نے یہ نقل مکانی اختیار فرمائی تھی۔ الغرض حضور کا یہ سفر قضاء وقدر اور مشیّت ایزدی کا نمونہ ،خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں کی ایک مثال اور وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ کی عملی تفسیر تھی۔ خدا کا برگزیدہ رسول، نبی آخرالزمان خدا کے دئیے ہوئے علم کے ماتحت آنے والے واقعہ ’’ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی‘‘ سے نہ صرف آگاہ تھا بلکہ واقعات اور حالات پر یکجائی نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو گا کہ یقین پر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور نے حتیّٰ الوسع مناسب حد تک اس سفر کو ٹالنے اور التوا میں ڈالنے کی کوشش کی اور امر واقعہ یہی ہے کہ حضور کو انشراح نہ تھا ۔ چنانچہ جہاں حضور خود دعا و استخارہ میں مصروف تھے وہاں خاندان اور خدام کو بھی اس سفر کے متعلق دعا اور استخارہ کی تاکید کی جاتی رہی۔ کئی مرتبہ تیاری کا سامان ہوا اور ملتوی ہو جاتا رہا۔ خدا کی وحی واضح اور کھلی تھی اور اس کے سمجھنے میں کسی قسم کا اشتباہ نہ تھا۔ دعائیں اور استخارے اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ کر ’’ مباش ایمن ازبازیٔ روزگار ‘‘ کا غیر مشتبہ جواب پا چکے تھے مگر الٰہی نوشتوں اور مقادیر کو کون ٹال سکتا ہے وہ بہر صورت پورے ہو کر رہتے ہیں اور خدا کے یہ مقدسین انبیاء و راستباز جو کہ ’’ انا اوّل المسلمین ‘‘ کا عہد اپنے خدا سے باندھتے ہیں عملاً اپنے عہد کے باریک در باریک شرائط اور سارے ہی پہلوئوں کی پوری طرح نگہداشت کرتے اور ان کو بطریق احسن نباہتے، اپنی مرضی کو پوری طرح سے اپنے خدا کی مرضی کے ماتحت کر دیا کرتے، اس کی قضاء و قدر کے سامنے گردن ڈال دیتے اور سر تسلیم جھکا دیا کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک مناسب اور جائز حد تک اس سفر کو روک دینے کی کوشش کی مگر بالکل اسی طرح جس طرح منذر رؤیا و کشوف کے وقت حضور دعا، صدقہ اور خیرات کیا کرتے تھے تا کہ تقدیر معلق ہو تو ٹل جائے مگر جب خداتعالیٰ کی بار بار کی وحی کے ماتحت حضور کو یہ یقین ہو گیا کہ یہ قضاء مبرم ہے، ٹل نہیں سکے گی تو حضور نے ’’ مرضی مولا ازہمہ اولیٰ ‘‘ کی تعمیل کا مصمم ارادہ فرما لیا۔ جب دیکھا کہ قضاوقدر اور منشاء ایزدی یہی ہے کہ یہ سفر اختیار کیا جائے تو حضور نے توکلاً علی اللہ تیاری کا فیصلہ فرما کر یہ سفر اختیار کر لیا۔ سفر کی تیاری اور قافلہ کی ہیئت ترکیبی ، سفر کی تیاری خود اس امر پر شاہد ہے کہ حضرت کو آنے والے واقعہ کا پوری طرح سے علم تھا ۔چنانچہ جہاں حضور نے اپنے سارے خاندان کو ساتھ لیا۔ ضروریات فراہم کیں۔ سواریاں لیں۔ (گھوڑی اور رتھ ) ۔وہاں حتی الوسع ایسے تمام بزرگوں اور خدام کو بھی ہمرکابی کا شرف بخشا جو حضور کی مجلس کا جزوِ ضروری تھے یا جن کی موجودگی کو حضور پسند فرماتے تھے۔ حضرت مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ معہ خاندان کو درس قرآن کریم کے لئے تو محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو کاروبار ڈاک کے واسطے ہمرکابی کا حکم دیا۔ اسی طرح حضرت فاضل امروہی اور بعض دوسرے ضروری ارکان کو بھی شرف ہمرکابی بخشا۔ وحی الٰہی
داغ ہجرت
اور ’’ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) واللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ‘‘ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص مشیّت اور قضاء کی مظہر تھیں۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علالت اور اس کے نتیجہ میں سفر لاہور پر اصرار کے واقعات بھی اس کی تائید میں تھے۔ مہبط انوار الہٰیہ سب سے زیادہ اس کلام کے منشاء و مقصد کو سمجھتے ہیں جو ان پر خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ باوجود صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی اچانک بیماری اور باوجود ۲۶ ؍ اپریل ۱۹۰۸ء کے الہام
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
کے نزول کے جس سے ہم لوگوں کے علم کے مطابق یقینی طور پر سفر کے التوا و روک کا حکم نکلتا تھا حضور نے ۲۷؍ اپریل ۱۹۰۸ء کی صبح کو سفر کا فیصلہ فرمایا اور اس طرح کلام الٰہی ’’ ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) واللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی‘‘ کی صداقت آج اور دوسری مرتبہ ایک ماہ بعد یعنی ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جب حضور پُرنور کا جسد مبارک کفن میں لپیٹ کر لایا گیا ،ظاہر ہو گئی اور ساتھ ہی یہ امر بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ مشیت ایزدی اور قضا و قدر کے اسی منشاء کے ماتحت سیدنا حضرت اقدس نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس سفر کو اختیار فرمایا تھا تا رضاء وتسلیم کا وہ مقام جو حضور پُرنور کو حاصل تھا، دنیا عملاً دیکھ کر ایک سبق حاصل کرے۔ چنانچہ اس امر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب قیام لاہور کے بالکل آخری ایام یعنی صرف ایک عشرہ قبل وصال
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
اور پھر صرف پانچ چھ روز قبل وصال
الرحیل ثم الرحیل والموت قریب
کی وحی حضور پر نازل ہوئی تو سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے متاثر ہو کر گھبرا کر حضرت کے حضور عرض کی کہ چلو واپس قادیان چلیں۔
مگر حضور نے یہی جواب دیاکہ
اب تو جب خدا لے جائے گا چلیں گے ہمارا اپنا اختیار کچھ نہیں ہے
ورنہ اگر صرف حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مرضی و خواہش ہی اس سفر کا موجب ہوتی تو یہ ایسا موقعہ تھا کہ حضو ر فوراً واپسی کا حکم دے دیتے مگر حضور پر نور کا یہ جواب بڑی صفائی سے میرے خیال کی تصدیق کرتا ہے۔ اس امر کی مزید ایک دلیل کہ حضور کو آنے والے واقعہ کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا، کئی رنگ میں ملتی ہے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حضور کو مہمان نوازی کا کمال اشتیاق تھا اور مہمانوں کو حضور حتی الوسع جلدی سے رخصت و اجازت نہ دینا چاہتے تھے بلکہ حضور کی دلی خواہش ہوا کرتی تھی کہ مہمان زیادہ سے زیادہ حضور کی صحبت میں رہیں تا ان کے ایمان تازہ و مضبوط ہوں اور زندہ خدا کے تازہ نشان ان کے عرفان میں زیادتی کریں مگر اس سفر میں حضور کی یہ خواہش خصوصیت سے اپنے کمال پر تھی اور مہمانوں سے بڑھ کر اپنے خدام اور غلاموں تک کو جداہی نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ ضرورت کو بھی کسی دوسرے رنگ میں پورا کر لینے کی ہدایت فرماتے تا خدام حضور سے تھوڑے وقت کے لئے بھی جدا نہ ہوں۔ چنانچہ مکرمی مفتی فضل الرحمن صاحب کو ان کے گھر والوں کی تکلیف وغیرہ کی اطلاع پر فرمایا کہ ؛
’’ میاں فضل الرحمن کیا اچھا ہو کہ آپ کو جانا بھی نہ پڑے اور آپ کے گھر والے آ بھی جائیں ۔‘‘
اور خدا کی شان کہ حضور کی یہ خواہش اسی رنگ میںپوری ہو گئی اور مکرمی مفتی صاحب کے گھر والے ان کی شدید بیماری کی غلط خبر پا کر از خود ہی لاہور سٹیشن پر پہنچ گئے۔ جن کی آمد کی اطلاع حضور تک کسی خادم کے ذریعہ پہنچی اور حضور نے اپنی سواری بھیج کر ان کو سٹیشن سے مکان پر منگا لیا۔ اسی طرح خود مَیں نے ایک عریضہ ضرورتاً حضرت کے حضور لکھ کر خواہش کی تھی کہ مجھے قادیان آکر گھر والوں کو کسی محفوظ جگہ رکھنے کی اجازت دی جاوے۔ جس پر زیادہ سے زیادہ ایک دن خرچ ہوتا مگر حضور نے اتنا بھی گوارا نہ فرمایا۔میرا عریضہ اور حضور کا جواب اصحاب بصیرت کے لئے موجب تسکین و عرفان ہو گا ،جو درج ذیل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
آقائی و مولائی فداک روحی ایدکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضور قادیان سے حضور کی خادمہ کا آج ہی خط آیا ہے کہ رات کے وقت ہمیں تنہائی کی وجہ سے خوف آتا ہے۔ کیونکہ جس مکان میں میں رہتا ہوں وہ بالکل باہر ہے۔ لہٰذا اگر حکم ہو اور حضور اجازت دیں تو میں جا کر ان کو کسی دوسرے مکان میں تبدیل کر آئوں یا اگر حضور کے دولت سرائے میں کوئی کوٹھڑی خالی ہو تو وہاں چھوڑ آئوں۔ جیسا حکم ہو تعمیل کی جاوے۔ حضور کی دعائوں کا محتاج۔ خادم در
عبدالرحمن قادیانی احمدی
۸؍۵؍۱۴
جواب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ابھی جانا مناسب نہیں ہے۔ لکھ دیں کہ کسی شخص کو یعنی کسی عورت کو رات کو سلا لیا کریں یا مولوی شیر علی صاحب بندوبست کر دیں کہ کوئی لڑکا ان کے پاس سویا کرے۔ مرزا غلام احمد
ان سب سے بڑھ کر وہ واقعہ اس بات پر شاہد ہے جو ۲۵؍ مئی ۱۹۰۸ء کی رات کو گیارہ اور دو بجے کے درمیان مرض الموت کی ابتداء میں حضور نے خود سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک استفسار پر فرمایا جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور کی بیماری کی تکلیف اور کمزوری بڑھتے دیکھ کر سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضور سے عرض کی۔
یا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے ؟
اس پر حضور نے فرمایا :۔
’’ وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا ‘‘
اور اس کا اشارہ صاف ظاہر ہے کہ واقعۂ وصال ہی کی طرف تھا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضور نے سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک جائز خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کے اصرار کو بھی آخر کار شرف قبولیت بخش کر یہ سفر اختیار کیا تھا کیونکہ حضور کے اخلاق حمیدہ میں اپنے اہل بیت کی مرضی و خواہش کو پورا کرنے اور ان کی بات مان لینے کا پہلو اتنا نمایاں و واضح اور زبان زد خاص و عام تھا کہ جاہل واکھڑ خادمات کے دل و دماغ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتیں کہ ’’مِرجا بیوی دی بڑی مَن دا اے ‘‘
یہ امر ثبوت ہے اس بات کا کہ حضور کو اخلاق فاضلہ میں انتہائی کمال ا ور بالکل امتیازی شرف حاصل تھا۔ اور اس میں بھی دنیا کے لئے عورتوں سے حسن سلوک، حسن معاشرت، ان کی عزت و احترام اور محبت و اکرام کے عملی سبق کے علاوہ ان کے جائز حقوق اور آزادیٔ مناسب کا عملی سبق دے کر ایک اسوہ حسنہ قائم کرنا مقصود تھا کیونکہ حضور پرنور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمال اخلاق کا اس لحاظ سے بھی کامل اور اکمل واَتم نمونہ واُسوہ تھے۔ مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ حضور نے رضاء بالقضاء اور
مَاتَشَاؤُنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ
کا بھی اعلیٰ ترین اُسوہ و نمونہ پیش کر کے دنیا جہاں پر اپنے آخری عمل سے بھی ثابت کر دیا کہ واقعی حضور اپنے خدا میں فنا اور اسی کی رضاء کے طالب تھے۔ خدا کے برگزیدہ نبی و رسول سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی کے آخری دو تین روز ایک ایسی اہم اور مہتمم بالشان تصنیف میں مصروف رہے جس میں نسل انسانی کے لئے بے نظیر اور فقیدالمثال خدمت کا مواد اور امن عالم کے قیام کی تجاویز درج ہیں۔ جس کا نام اس شہزادہ صلح و آشتی اور امن و سلامتی نے مضمون کی مناسبت اور وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ’’پیغام صلح ‘‘ تجویز فرمایا۔کتابت و طباعت کی خدمات کا اعزاز ہمارے محترم بزرگ میر مہدی حسین صاحب کے حصہ آیا اور حضور نے بھری مجلس میں میر صاحب موصوف کی خدمات متعلقہ ، طباعت چشمۂ معرفت کا ذکر خیر فرماتے ہوئے فرمایا کہ
’’ یہ کام بھی ہم میر مہدی حسین کے سپرد کرتے ہیں ‘‘
چنانچہ ایک کاپی ۲۴ ؍ مئی ۱۹۰۸ء ؁کو تیار کرا کر میر صاحب موصوف برفاقت مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب و حکیم محمدحسین صاحب قریشی کارکنان نولکشور پریس کو دے کر پروف کے واسطے تاکید کر آئے۔ دوسرے دن پروف لینے گئے مگر منتظمین نے کسی خوردسال بچہ کی موت کا عذر کر کے اگلے دن کا وعدہ کیا۔ ادھر دوسری کاپی تیار تھی مگر وہ پریس کو نہ دی گئی اس خیال سے کہ پہلا پروف آجائے تو دوسری کاپی دی جائے گی۔ ۲۵؍ مئی ۸ء ؁ و عصر کے وقت اندر سے دادی آئیں اور میر مہدی حسین صاحب کو مخاطب کر کے بآواز بلند کہا حضرت صاحب فرماتے ہیں ’’ آج ہم تو اپنا کام ختم کر چکے۔ ‘‘مکرمہ دادی صاحبہ والدہ مکرمی میاں شادی خان صاحب مرحوم نے جس خوشی اوربشاشت سے یہ خبر آکے سنائی وہ تو اس تصنیف کے اتمام سے متعلق تھی اور بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی اہم کام کے سر انجام پہنچنے پر ہوا کرتی ہے مگر یہ الفاظ سننے والوں میں سے بعض کا ماتھا ٹھنکا اور ان کے ذہن کسی دوسری طرف منتقل ہو گئے خصوصاً مکرمی میر مہدی حسین صاحب نے تو اس کو بے حد محسوس کیا۔ چنانچہ حضور پرنور کے وصال کے بعد ہمیشہ وہ اس فقرہ کو دہرایا کرتے اور اپنے تاثر کا ذکر کیا کرتے ہیں۔
اس موقعہ پر میں حضور کے بعض وہ فقرات جو حضور نے اس سفر کی تقریروں میں اپنے کام کے پورا کر چکنے اور تکمیل تبلیغ سے متعلق فرمائے۔مختصراً درج کر دیتا ہوں تا دنیا کو معلوم ہو کہ خدا کا یہ برگزیدہ نبی اپنا کام پورا کرچکنے کے بعد ہی واپس بلایا گیا تھا۔
(۱) چنانچہ مورخہ ۳۰؍ اپریل ۸ ء ؁کی تقریر میں فرماتے ہیں ’’جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو فیصلہ کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ ہمیں چھبیس سال ہوئے تبلیغ کرتے۔ جہاں تک ممکن تھا ہم ساری تبلیغ کر چکے ہیں۔ اب وہ خود ہی کوئی ہاتھ دکھائے اور فیصلہ کرے گا۔‘‘ (الحکم ۲۶،۳۰؍ اگست ۱۹۰۸ئ)
(۲) پھر ۲؍ مئی ۸ ء ؁ مسٹر محمد علی جعفری ایم ۔ اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو مخاطب کر کے ایک لمبی تقریر فرمائی جو اخبار الحکم ۰۸۔۰۶۔۱۸ کے بڑے سائزکے نو کالموں میں درج ہے۔
فرمایا: ’’ہمارا کام صرف بات کا پہنچا دینا ہے۔ ماعلی الرسول الا البلاغ ۔ تصرف خدا کا کام ہے۔ ہم اپنی طرف سے بات کو پہنچا دینا چاہتے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم پوچھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح نہیں بتایا۔ اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے ۔ تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی کم ہی ہو گا جو اب بھی یہ کہہ دے کہ اُس کو ہماری تبلیغ نہیں پہنچی یا ہمارا دعویٰ اس تک نہیں پہنچا۔‘‘ (الحکم ۰۸۔۰۶۔۱۸)
(۳) پھر اسی روز یعنی مورخہ ۲؍ مئی ۸ ء ؁کو بعد نماز عصر شہزادہ محمد ابراہیم خان صاحب کی ملاقات کے وقت تقریر فرمائی جو الحکم ۱۴ ۔ مئی ۸ء ؁کے قریباً چودہ کالموں میں شائع ہوئی تھی۔
فرمایا: ’’ہم نے اپنی زندگی میں کوئی کام دنیوی نہیں رکھا۔ہم قادیان میں ہوں یا لاہور میں۔ جہاں ہوں ہمارے انفاس اللہ ہی کی راہ میں ہیں۔ معقولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب ہم اپنے کام کو ختم کر چکے ہیں۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔ البتہ اب تو ہماری طرف سے دعائیں باقی ہیں۔
(۴) مورخہ ۱۷؍ مئی ۸ ء ؁کو گیارہ بجے قبل دوپہر سے ایک ڈیڑھ بجے بعد دوپہر تک حضور نے ایک تقریر رئوسا و عمائد لاہور و مضافات کے سامنے فرمائی جو بڑے سائز کے ۳۶ کالموں میں چھپی ۔ اور یہ وہ تقریر ہے جس کا نام ہی تکمیل التبلیغ و اتمام الحجّۃ اور نام ہی سے تقریر کا خلاصہ مطلب عیاں ہے۔ (الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ نمبر ۱ کالم نمبر ۲)
(۵) پھر ۱۹؍ مئی ۸ء ؁کو عبدالحکیم کی کتاب کا ذکر تھا کہ اس نے بہت سے اعتراض کئے ہیں ۔
فرمایا: ’’ہم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ۔ بحثیں ہو چکیں۔ کتابیں مفصل لکھی جا چکی ہیں۔ اب بحث میں پڑنا فضولیوں میں داخل ہے۔ ‘‘ (بدر ۲۴؍ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ کالم نمبر ۲)
ان کے علاوہ اور بھی بعض تقاریر میں زبانی طور سے یاد پڑتا ہے کہ حضور نے بڑے زور دار الفاظ میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ’’ ہم تو اپنا کام کر چکے۔ اب خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔ ‘‘
ممکن ہے کہ تفصیلی محنت سے ایسے اور حوالے بھی مل جائیں یا بعض احباب کی یاد داشت میری تصدیق کر دے ۔ میں اس وقت زیادہ محنت کے قابل نہیں۔
نماز عصر ہوئی اور حضور پُرنور سیر کے واسطے تشریف لے آئے۔ یہ سیر وہی سیر تھی جس کا میں اوپر ذکر کر آیا ہوں۔ آخری دن کی خاموش اور پُر معنی سیر ۔ جس کی وجہ سے طرح طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہے۔ مگر باقی معاملات بالکل نارمل اور اپنے معمول پر تھے۔مکان پر رات کو باقاعدہ پہرہ ہوا کرتا اور ہم لوگ باری سے اس خدمت کو بجا لاتے تھے۔ ڈیوٹی والے پہرہ پر اور باقی اپنی جگہ آرام اور سیر وتفریح میں تھے۔ کوئی غیر معمولی امر درپیش نہ تھا۔اچانک گیارہ بجے مکرم حافظ حامد علی مرحوم نے مجھے جگایا۔ میں سمجھا میرے پہرے کا وقت آگیا۔ پوچھا ۔کیا ایک بج گیا ہے؟ حافظ صاحب مرحوم نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا ۔ایک تو نہیں ِبجا۔ حضرت صاحب بیمار ہیں، تمہیں یاد فرمایا ہے۔ حضور کی بیماری کی خبر سے میں چونکا ،ہوشیار ہوا۔ نیند کے غلبہ کی غفلت اڑ گئی۔ سیڑھی ، ورانڈہ اور دالان کے چار ہی قدم کر کے فوراً حضرت کے حضور حاضر ہوا ۔سلام عرض کیا ،جواب پایا اور حضور کے پائوں کی طرف فرش پر بیٹھ کر دبانے لگا۔ کیونکہ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت کے سرہانے چارپائی کے کونے پر بیٹھی تھیں۔ حضور نے چارپائی پر بیٹھ کر زور سے دبانے کا ارشاد فرمایا جس کی تعمیل میں پائنتی کی طرف چارپائی کے اوپر بیٹھ کر اپنی پوری طاقت اور سارے زور کے ساتھ پائوں ، پنڈلیاں، ران ، کمر اور پسلیوں کو دباتا رہا۔
حضور پُر نور اس وقت ایک چار پائی پر مکان کے بالائی حصہ کے صحن میں شرقاً غرباً لیٹے ہوئے تھے۔ سیدۃالنساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور کے سرہانے اسی چارپائی کے شمال غربی کونہ پر تشریف فرما تھیں اور حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چار پائی کے شمالی جانب ایک کرسی پر حسب عادت خاموش سر ڈالے بیٹھے تھے۔ حضور کا جسد اطہر ٹھنڈا ،کمزور اور آواز بالکل دھیمی تھی۔ کیونکہ حضور پُر نور کو میرے پہنچنے سے پیشتر ایک بڑا اسہال ہو چکا تھا ۔ مجھ پر اس وقت یہی اثر تھا کہ حضرت اقدس کو اُسی پرانی بیماری اسہال اور بردِ ا طراف کا دورہ لاحق ہے جو اکثر دماغی کام میں انہماک اور شبانہ روز کی محنت کے نتیجہ میں ہو جایا کرتا تھا اور چونکہ ایسی تکلیف میں اکثر مجھے خدمت کی عزت نصیب ہوتی رہتی تھی جس کے بارہا میسر آنے کی وجہ سے مجھے حضرت کے جسم مبارک کی حالت کا اندازہ اور خدمت کے متعلق مزاج شناسی اور تجربہ حاصل تھا۔ چنانچہ اسی مشاہدہ ،تجربہ اور احساس کی بنا پر میں اس یقین اور بصیرت پر ہوں کہ حضور پر متواتر و مسلسل سخت دماغی محنت اور دن رات کی مصروفیت کے باعث اسی پرانی بیماری و عارضہ کا حملہ ہوا تھاجواس سے قبل بارہا حضور کی زندگی میں ہوا کرتا تھا اور یہی علامات ان تکالیف میں بھی نمایاں ہوا کرتی تھیں جو بعض اوقات کئی کئی مضبوط اور قوی غلاموں کی گھنٹوں کی محنت ، کوشش اور خدمت سے ،جو دبانے اور مالش چاپی وغیرہ کے ذریعہ کی جایا کرتی تھی، بصد مشکل زائل ہوا کرتی تھیں۔ حضور کا جسم مبارک برف کی طرح ٹھنڈا ہو جانے کے بعد گرم ہوا کرتا تھا۔ نبض کی حرکت بحال ہوا کرتی تھی۔
بعینہٖ وہی علامات آج میں نے محسوس کیں اور اسی رنگ میں حضور کے برف کی مانند ٹھنڈے جسم کو گرمانے کی ان تھک کوشش جاری رکھی۔ محترم بزرگ حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور میاں عبدالغفار خانصاحب کابلی بھی کچھ دیر بعد میرے ساتھ شریک عمل ہوئے اور اپنی طاقت سے بڑھ کر ہر کسی نے مالش و چاپی کے ذریعہ حضور کے جسم مبارک کو گرمانے کی کوشش کی مگر لَا حَاصل ۔ جسدِ اطہر میںگرمی پیدا ہوئی نہ نبض ہی سنبھلی بلکہ جسم زیادہ ٹھنڈا اور نبض زیادہ کمزور ہوتی چلی گئی اور حضور کو پھر ایک دست ہوا جس کی وجہ سے ہم لوگ اوٹ میں ہو گئے واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضور کو ایک قے بھی ہوئی اور ضعف اتنا بڑھا کہ حضور چارپائی پر گر گئے۔
سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حالت کو دیکھ کر سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی قدر جھک کر حضرت کے حضور عرض کیا
’’یا اللہ یہ کیا ہونے لگا ہے؟ ‘‘
جس کے جواب میں حضور نے فرمایا:
’’ وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا ‘‘
میرے حضرت کے حضور پہنچنے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد حضرت مولوی صاحب کو حضور نے گھر جاکر آرام کرنے کا حکم دیا اورحضرت مولوی صاحب تعمیل ارشاد میں تشریف لے گئے مگر جب حالت زیادہ نازک اور کمزور ہوتی گئی، جسم بجائے گرم ہونے کے اور زیادہ سرد ہوتا گیا تو حضرت مولوی صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو دوبارہ بلوایا گیا۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب چونکہ شہر میں دور رہتے تھے ان کو بھی آدمی بھیج کر بلوایا گیا اور جب انہوں نے پہنچ کر سلام عرض کیا تو حضور نے جواب کے بعد فرمایا۔
’’ ڈاکٹر صاحب علاج تو اب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ مگر چونکہ رعایت اسباب ضروری ہے وہ بھی کریں ۔ مگر ساتھ ہی دعائیں بھی کریں۔‘‘ چنانچہ ڈاکٹروں نے بعض انگریز ماہرین اور سول سرجن کے مشورہ سے انجیکشن کرنے کا فیصلہ کیا جو حضور کے بائیںپہلو کی پسلیوں میں دل کے اوپر کیا گیا۔ باوجود اس کے حضور کو کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ تین بجے رات کے قریب ایک اور دست حضور کو آگیا جس سے کمزوری اتنی بڑھی کہ ڈاکٹر اور طبیب خود بھی گھبرا گئے۔ دوبارہ ایک پچکاری٭ حضور کے اسی پہلو میں اور کی گئی۔ ان پچکاریوںسے حضور کو درد محسوس ہوا جس کی وجہ سے حضرت نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش بھی فرمائی ۔ باوجود اس کے اس مرتبہ بھی پچکاری کرہی دی گئی ۔مجھے حضرت کی تکلیف سے سخت تکلیف ہوئی اور ڈاکٹر صاحب کی جرأت پر تعجب کہ کس دل سے انہوں نے حضرت کے جسم مبارک میں اتنا لمبا سوا لگایا ،خطرہ بجائے کم ہونے کے بڑھتا گیا جس کی وجہ سے حضور کی چارپائی صحن میں سے اٹھوا کر دالان میں شرقاً غرباً چھت کے نیچے بچھائی گئی اور خاندان کے اراکین کو بلوایا گیا۔ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ ،ہمارے موجودہ خلیفۃ المسیح الثانی کے اہل بیت حرم اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس شب اپنے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آبائی مکان واقعہ پتھراں والی حویلی میں تشریف فرما، ان کو وہاں سے خود حضرت صاحبزادہ صاحب والاتبار جا کر لے آئے اور حضرت نواب صاحب قبلہ کو ان کی کوٹھی سے راتوں رات بلوا لیا گیا۔
نیند رات بھر حضرت کو بالکل نہ آئی البتہ انتہائی ضعف اور کمزوری کے باعث کبھی کبھی خاموش اور بالکل بے حس و حرکت پڑے رہتے تھے۔ نبض ڈھونڈے سے نہ ملتی تھی حتیّٰ کہ ایک مرتبہ تو یہی سمجھا گیا کہ حضور کا وصال ہو گیا جس کی وجہ سے سب پر سکتہ چھا گیامگر وقفہ سے پھر کسی قدر حرکت اور اضطراب و گھبراہٹ ہونے لگی۔ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نہ صرف یہ کہ رات بھر آنکھوں میں کاٹی بلکہ حضرت کی خدمت اور دوائی درمن کے علاوہ بار بار نہایت ہی اضطراب اور بیقراری میں خدا کے حضور گر گر کر عاجزی و تضرّع سجدات میں بھی اور بیٹھے ،کھڑے یا چلتے پھرتے بھی دعائوں اور التجائوں ہی میں گزاری۔ جزع فزع یا شکوہ شکایت کی بجائے ہمت و استقلال اور تحمل و وقار ہمرکاب اورشامل حال نظر آتا تھا۔ اور نہ صرف خود سنبھلتے بلکہ اوروں کو بھی سنبھالتے تھے اور خاندان کی بیگمات، معصوم شہزادیوں اور بچوں کو پیار کرتے اور تسلیاں دیتے تھے۔ خاندان کے تمام اراکین حضور کی چارپائی کے سرہانے کی طرف کھڑے دعائوں میں لگے ہوئے تھے۔ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ
٭ انجیکشن
موجودہ خلیفۃ المسیح الثانی، قبلہ حضرت نانا جان، قبلہ حضرت نواب صاحب اور شہزادے سبھی حضور کے گرد مختلف رنگ میں خدمات بجا لاتے ،خدا سے دعائیں کرتے اور گڑگڑاتے ہی نظر آتے تھے۔ سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد حضور پُر نُور کے دہن مبارک میں گلاب کیوڑہ یا شہد وغیرہ ڈالتے اور کہتے
’’ اے خدا میری عمر بھی ان کو دے دے ، ان کو مدتوں تک زندہ سلامت رکھ تا تیرے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں‘‘۔ یہ اور اسی قسم کی مختلف دعائیں سیدۃ طاہرہ یَاحَیُّ یَا قَیُّوم کے نام کے واسطہ سے ایسے دردناک اور پُرسوز لہجہ میں کرتی تھیں جن کے اثر سے کلیجہ پھٹا جاتا تھا۔ اور بات برداشت سے باہر ہوئی جا رہی تھی۔ حضرات صاحبزادگان والاتبار بھی اپنی جگہ اپنے رنج و غم اور درد و الم پر قابو پائے، ضبط کئے ،بحالت کظم یاد الٰہی اور دعائوں میں مصروف تھے اور ایسا معلوم دیتا تھا کہ ان کی نظریں اس دنیا سے نکل کر کسی دوسرے عالم کی طرف اٹھ رہی ہیں اور ان کے عزائم کسی پروگرام کی تیاری میں مصروف اور وہ اپنے خدا سے کوئی نئے عہد و پیماں باندھ رہے ہیں۔
دور کہیں صبح کی اذان ہوئی جس کی بالکل دھیمی سی آواز ہمارے کانوں نے محسوس کی اور ساتھ ہی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باوجود انتہائی کمزوری و ضعف اور باوجود شدت کرب خود دریافت فرمایا:
’’کیا صبح ہو گئی یا اذان ہو گئی ؟‘‘
میں نے عرض کیا۔ حضور اذان ہو گئی۔ جس پر حضور پُرنور نے تیمم کی غرض سے ہاتھ بڑھائے۔ کوئی صاحب مٹی کی تلاش میں نکلے مگر حضور نے بستر کے کپڑے ہی پر ہاتھ مار کر تیمم کیا اور پھر کافی دیر تک نماز ہی میں مصروف رہے۔
اگرچہ جس وقت سے حضور بیمار ہوئے اور میں حاضر خدمت ہوا۔ میرے کان آشنا ہیں ۔میرا دماغ محفوظ رکھتا ہے اور دل اس بات کے اظہار میں بے حد لذت محسوس کرتا ہے کہ بیماری کی تکلیف اور سختی کے اوقات میں بھی حضور کی زبان مبارک سے میں نے ’’ ہائے ۔ وائے۔ میں مر گیا۔ یہ ہو گیا وہ ہو گیا ‘‘ کے نازیبا اور بے صبری کے الفاظ میں سے قطعاً قطعاً نہ صرف یہ کہ کوئی ایک لفظ بھی نہ سنا بلکہ کوئی ایسی خفیف سی حرکت بھی میں نے دیکھی ،نہ محسوس کی۔ اور جو کچھ دیکھا ، سنا ، یا محسوس کیاوہ سرتاپا نور اور کلیۃً نورٌ علیٰ نور، روح پرور ، ایمان افزا اور سبق آموزہی تھا۔ شدت کرب اور انتہائی تکلیف کے اوقات میں بھی حضور متواتر ،مسلسل اور بلا وقفہ ذکر الٰہی اور یاد خدا میں رطب اللسان تھے اور نہایت ہی صبر کے ساتھ تسبیحی کلمات شکر بجا لاتے ہوئے ان تکالیف کو برداشت کرتے رہے ۔جزع فزع یا بے حوصلگی و گھبراہٹ کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی میں نے نہ دیکھی بلکہ پورے وقار اور رضا کا مقام حضور کو میسر تھا۔ وہ نور نبوت اور روحانی چمک جو شدت امراض یا مشکلات کے گھٹا ٹوپ اوقات میں بھی حضور کے چہرۂ انور پر موجود رہا کرتی تھی اور جس کو میں نے حضور کی جبینِ مبارک سے کبھی جدا ہوتے نہ دیکھا تھا۔ آج بھی برابر حضور کے رخسار اور جبین مبارک پر قائم و سلامت نظرآرہی تھی اور حضور کی روشن و درخشاں پیشانی پر کسی بل یا شِکن کا کوئی اثر بھی نہ تھا۔حضور کو علم تھا کہ خدائی وعدوں اور الٰہی وحیوں کے پورا ہونے کے سامان ہو رہے ہیں مگر باوجود اس کے نہ صرف یہ کہ حضور کو بے چینی و بیقراری یا اضطراب نہ تھا بلکہ حضور کو ایک اطمینان و سکون حاصل تھا۔ حضور کادل وصال کی لذت میں اور زبان ذکر کے ترانوں میں مشغول یہی کہہ رہی تھی۔
’’اے میرے خدا ! اے میرے پیارے اللہ اور اے میرے پیارے اور پیارے کے پیارے خدا ! سبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ ، یا حیّ یا قیّوم‘‘یہی ذکر تھا اور یہی ورد جس کی لذت و سرور میں حضور پر بیماری کی تکالیف اور اضطراب و کرب ہیچ اور بے اثر تھے اور اگرچہ بتقاضائے بشریت حضور کے اعضاء طبعی اور اضطراری حرکات کر رہے تھے مگر حضور کا دل اپنے آقا کی یاد میں محو و مطمئن اور روح اس کے وصال کے لئے پرواز شوق میں مصروف تھی۔ حضور کے چہرۂ مبارک پر اطمینان اور سکون کے ساتھ اَنوارِ الٰہیہ کے آثار نمایاں تھے۔ خاندان نبوت کے علاوہ اور بھی بہت سے دوست حضور کی علالت کی خبر پا کر جمع ہو رہے تھے۔ چارپائی کے گرد ایک ہجوم حلقہ باندھے کھڑا دعائوں میں مصروف قدرت الٰہی اور بے نیازی کا رنگ دیکھ رہا تھا۔ اس بڑھتے ہوئے ہجوم کو انتظام و ترتیب میں لا کر سبھی خدام کو خدمت و قربت کا موقعہ بہم پہنچانے کی غرض سے پہرہ کا انتظام کیا گیا۔ اور باری باری چند چند دوستوں کو موقعہ زیارت اور شرف خدمت دیاجاتا تھا ۔ سورج نکل کر بلند ہو چکا تھا ۔ دھوپ میں شدت اور تیزی پیدا ہو چکی تھی۔ قریباً ۹ بجے کاوقت ہو گا کہ حضور کی بڑھتی ہوئی کمزوری اور حالت کی نزاکت کے مدنظر پوچھا گیا ۔ جس پر ہمارے آقاء نامدار فداہ روحی نے کچھ اشارہ کیا جسے سمجھ کر قلم دوات اور کاغذ حضرت کے حضور پیش ہوا اور حضور نے کچھ لکھنے کی کوشش کی مگر ضعف و نقاہت کا یہ عالم تھا کہ بہت تھوڑا لکھا جا سکا۔ اور قلم حضور کا پھسل گیا۔ حضور نے قلم اور کاغذ چھوڑ دیا۔ جس کے پڑھنے کی کوشش کی گئی مگر ناکام۔آخر مکرمی میر مہدی حسین صاحب کو دیا گیا کیونکہ ان کو حضرت کے دست مبارک کی تحریر کے پڑھنے کی زیادہ اور تازہ مشق تھی ۔چنانچہ میر صاحب محترم نے جو کچھ پڑھا وہ یہ تھا۔
’’ تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی ۔دوائی پلائی جائے ۔‘‘
اور وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات پر اس طرح یقین ہے جس طرح آیات قرآنی پر۔ کہ بالکل یہی الفاظ حضور نے تحریر فرمائے تھے مگر انجام کار چونکہ میری یاد میں اس کاغذ کا محترم حضرت پیر جی منظور محمد صاحب کے پاس پہنچنا تھا لہذا میں اس مرحلہ پر صاحب ممدوح کی خدمت میں حاضر ہوا تا اس مقدس دستاویز کے متعلق معلوم کروں۔ تو حضرت پیر صاحب نے جو کچھ فرمایا وہ یہ تھا کہ
تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیںنکلتی…… حلق…… علاج کیا جائے…… پہلا حصہ جس پر دونوں بزرگوں کا اتفاق ہے
’’تکلیف یہ ہے کہ آواز نہیں نکلتی‘‘۔ بہر حال مسلّم ہے اور مجھے بھی پوری طرح سے یہی یاد ہے۔ اگلے حصہ کے متعلق میری یاد یہی تھی کہ وہ قیاسی تھا۔
ایک حنائی رنگ کے کاغذ پر حضور نے حسب عادت اسے تہ کر کے صرف دو چھوٹی چھوٹی سطریں لکھیں۔ یہ کاغذ حضرت کے ہاتھ سے ڈاکٹر نور محمد صاحب نے لیا اور وہی اس حالت میں سب سے پیش پیش تھے اور انہی کے بار بارکے تقاضا و اصرار پر حضرت نے کاغذ پر کچھ لکھا تھا۔ پہلے خود ڈاکٹر صاحب نے پڑھنے کی کوشش کی۔ ان سے اور وں نے لیا اور پڑھنے کی کوشش کی مگر جب دیکھا کہ کسی سے بھی پوری تحریر حضور کی پڑھی نہیں گئی تو مکرمی میر مہدی حسین صاحب کو دے کر پڑھوانے کی کوشش کی کیونکہ وہ حضرت کی طرزِ تحریر سے زیادہ واقف سمجھے گئے کچھ انہوں نے پڑھا اور آخر کار وہ دستاویز جو حضورپُرنور کی آخری دستی تحریر تھی۔ قبلہ حضرت پیر جی منظور محمد صاحب مصنف و موجد قاعدہ یسرناالقرآن کے ہاتھ آئی اور چونکہ وہ بھی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر کے پڑھنے کا خاص ملکہ و مہارت رکھتے تھے ،انہوں نے پڑھااور جو کچھ انہوں نے پڑھا وہ بھی اوپر درج کیا گیا ہے۔ مجھے یاد تھا کہ وہ کاغذ مبارک حضرت پیر صاحب موصوف ہی کے پاس ہے چنانچہ میں اسی خیال سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ کاغذ حاصل کر کے اس کا عکس اتروا لوں مگر صاحب ممدوح نے بتایا کہ وہ کاغذ مبارک پانچ ماہ تک میرے پاس رہا اس کے بعد سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے منگا لیا تھا۔ اب انہی کے پاس ہو گا۔
ڈاکٹر صاحبان نے اس مرحلہ پر ایک اور انجکشن کرنے کا فیصلہ کیا جو اسی طرح چھاتی کے بائیں جانب دل کی حرکت ظاہر کرنے والے مقام کے اوپر ہوا جس کے ساتھ گرم پانی میں ملا ہوا نمک بھی استعمال کیا گیا حضور نے بالکل اطمینان سے یہ انجکشن کرا لیا ۔کوئی گھبراہٹ ،درد یا اضطراب ظاہر نہیں ہوا۔ اس وقت بھی حاضرین نے ڈاکٹروں کے اس عمل کو ناپسند کیا کہ کیوں حضور کو اس حال میں تکلیف دیتے ہیں مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اور بجائے فائدہ و آرام ہونے یاطاقت و قوت آنے کے حضور کی کمزوری بڑھتی گئی اور نقاہت غلبہ ہی پاتی گئی۔ سیدنا حضرت نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حسب عادت سر ڈالے ایک طرف بیٹھے دعائیں کر رہے تھے اس موقعہ پر اٹھ کر خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کی ایک تنہا کوٹھڑی میں کھٹولے پر جا بیٹھے ۔ حضرت پیر جی منظور محمد صاحب بھی حضرت کے پیچھے ہی پیچھے گئے اور حضرت کی طبیعت کے متعلق سوال کیا جس پر حضرت نورالدین نے جو فرمایا وہ یہ تھا کہ
’’ایسی بیماری کے مریض کو میں نے تو بچتے کبھی نہیں دیکھا‘‘
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حالت لحظہ بلحظہ زیادہ کمزور ،زیادہ نازک اور نڈھال ہوتی جا رہی تھی۔ خاندان نبوت کے مردو زن چھوٹے بڑے سبھی جمع تھے اور اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ کے واسطے دے دے کر دعا ،تضرّع اور ابتہال میں مشغول تھے۔ سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے قرار ہو ہو کر پکار رہی تھیں۔’’اے میرے خدا! اے ہمارے پیارے اللہ! یہ تو ہمیں چھوڑے جاتے ہیں پر تُو ہمیں نہ چھوڑیو ‘‘
سیدنا صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد سلمہ ربہ ،ہمارے موجودہ امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی آنکھیں بند کئے ایک عزم مقبلانہ لئے
یَا حَیُّ یَا قَیُّوم ۔ یَا حَیُّ یَا قَیُّوم
کہہ کہہ کر ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی ذات والاصفات سے دعاء والتجاء اور رازو نیاز میں مصروف تھے۔ اور یہ تو وہ بعض الفاظ ہیں جو ہمارے کانوں میں پڑ گئے اور یاد بھی رہ گئے ورنہ خاندان کے سارے ہی اراکین بڑے بوڑھے ،بیگمات اور شہزادے شہزادیاں اپنی اپنی جگہ بڑے ہی الحاح اور عجز و انکسار سے ذکر الٰہی، یاد خدا اور دعا و التجاء میں مصروف تھے ۔ تسبیح وتہلیل اور ذکر واذکار کی ایک گونج تھی جس سے جَو بھرا معلوم دیتا اور فضا گونج رہی تھی۔ ان مقدسین کے دل و دماغ میں کیا عزائم ،کیا ارادے یا کیا کیا پاک خیالات تھے اور ان میں سے ہر ایک اپنے خدا سے کس کس رنگ میں راز و نیاز اور قول و قرار باندھنے میں مصروف تھا۔
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا
وہ خود ہی بیان کریں تو علم ہو یا پھر ان کا خدا اظہار کرے تو پتہ چلے ورنہ ہم لوگ تو ان عزائم و خیالات کی گرد کو بھی پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ لاَ رَیب ان کے چہرے ان کے عزائم اور ارادوں کے آئینہ دار تھے مگر ان کا پڑھنا یا سمجھنا ہر کسی کا کام نہ تھا۔
خدام بھی پروانوں کی طرح اس نور الٰہی اور شمع ہدایت کے گرد جمع تھے اور ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں مصروف دعا الٰہی جبروت اور شان بے نیازی کو دیکھ رہا تھا۔ حالت حضور کی اس مرحلہ پر پہنچ چکی تھی کہ خواتین مبارکہ اور صاحبزادگان والاتبار کے علاوہ خدام و غلاموں کی نظریں حضور کے چہر ۂ مبارک پر ہی گڑ رہی تھیں۔ محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حافظ فضل احمد صاحب حالت کی نزاکت محسوس کر کے خودبخود حضرت اقدس کی چارپائی کے پاس بیٹھے سورہ یٰسٓ پڑھتے رہے۔ حضور کے قلب مبارک کی حرکت جو کرب کی وجہ سے پہلے تیز تھی ہلکی پڑنے لگی مگر تنفس میں سُرعت اور بے قاعدگی شروع ہو گئی اور ساتھ ہی لب ہائے مبارک کی جنبش جس سے ہم اندازہ کرتے تھے کہ حضور پُرنور اس حال میں بھی ذکر الٰہی میں مصروف ہیں، میں بھی وقفے ہونے لگے۔ اور ہوتے ہوتے بالکل بے ساختہ اور نہایت ہی بے بسی کے عالم میں میرے مونہہ سے کسی قدر اونچے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ نکل گیا کیونکہ میں نے حضور کے آخری سانس کی حرکت کو بند ہوتے محسوس کر لیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ہر طرف سے اس مصیبت عظیمہ پر رضاء و تسلیم کے اظہار کے طور پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کی درد بھری ندا بلند ہو گئی۔ اس وقت کم و بیش پچاس ساٹھ خدام اور خاندان نبوت کے اراکین و خواتین مبارکہ حضور پُرنور کے پلنگ کے گرد جمع ہوں گے۔ حضور کی روح اطہر تو اس قفس عنصری سے پرواز کر کے واصل بحق ہو کر اپنے محبوب حقیقی سے جا ملی اور اس طرح
جلد آ پیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے
اپنے مقصد اصلی کو پا کر ابدی حیات، سچی راحت اور مقام رضاء و محمود پر سب سے اونچے بچھائے گئے تخت پر جا متمکن ہوئی مگر حضور کے غلام بحالت یُتم بالکل اس شیر خوار بچے کی مانند بلبلاتے اور سسکیاں لیتے نہایت ہی قابل رحم حالت میں رہ گئے جو بالکل چھوٹی عمر میں مہر مادری سے محروم کر دیا گیا ہو اور نقشہ اس وقت کا اس کی سچی کیفیت کے ساتھ الٰہی کلام ’’ اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی‘‘ کے بالکل مطابق تھا۔
منگل کا دن ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء مطابق ۲۴ربیع الثانی۱۳۲۶ہجری المقدس دس اور ساڑھے دس بجے دن کے درمیان کا وقت اس سانحہ ارتحال اور محبوب الٰہی کے وصال کی اطلاع آن واحد میں جہاں شہر بھر میں پھیل گئی وہاں خبر رساں ایجنسیوں ، پرائیویٹ خطوط ،اخباروں اور تاروں بلکہ ریل گاڑی کے مسافروں کے ذریعہ ہندوستان کے کونہ کونہ بلکہ اکناف عالم میں بجلی کی کوند کی طرح پھیل گئی اور اس اچانک حادثہ کی وجہ سے بعض ایسے مقامات کے احمدیوں نے تو اس اطلاع کو معاندانہ پراپیگنڈا یا جھوٹ و افتراء کے خیال سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو دور دراز اور علیحدہ تھے۔ حضور پُرنور کا وصال کوئی معمولی حادثہ نہ تھا بلکہ موت عالم کا ایک نقشہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض برگزیدہ بندے دنیا وما فیھا کو اپنے اندر لئے ہوتے ہیں اور ان کا وجود حقیقۃً سارے عالم کا مجموعہ ہوتا ہے۔
مَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَ نَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا
قول خداوندی بھی اسی حقیقت کی تفسیر ہے۔ دنیا ہماری آنکھوں میں اندھیر تھی اور زمین باوجود اپنی فراخی و کشائش کے ہم پر تنگ تھی اور گویا رنج و غم کے پہاڑ تلے دب جانے کے باعث ہم لوگ پاگل اور مجنون ہو رہے تھے اور کچھ سوجھتا تھا نہ حواس ٹھکانے تھے کیونکہ آج وہ مقدس وجود جس نے آکر خدا دکھایا، رسول منوائے اور نور ایمان دلوایا اچانک یوں ہم میں سے اٹھا لیا گیا کہ خدا کے بعض وعدوں کے باقی ہونے کے خیال سے بے وقت اٹھایا جانا سمجھا گیا۔ اور وہ وجود مقدس جس کا نام خود خدا نے
جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء
یعنی
پہلوانِ حضرت رب جلیل برمیاں بستہ زشوکت خنجرے
جامع کمالات انبیاء سابقین رکھ کر نہ صرف اسے ایک عالم کا مجموعہ قرار دیاتھا بلکہ اسے مظہر صفات کل انبیاء ہونے کی وجہ سے عالمین کے فضائل و برکات اور خصائص و حسنات کا حامل و عامل ہونے کی عزت و شرف سے سرفراز فرمایا تھا۔
وہ ہم سے جدا ہو گیا
وائے بر مصیبت ما۔ فانا للّٰہ وانا الیہ راجعون
سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس صبر اور رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا اور جس طرح خاندان بھر کی دردمند اور رنجور و غمزدہ بیگمات کو سنبھال کر انہیں ڈھارس دی۔ سیدہ طاہرہ کا وہ نمونہ مردوں کے لئے بھی مشعل راہ بنا۔ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے جس عزم و استقلال سے اس مصیبت کے پہاڑ کو برداشت کیا اور مقام شکر پر نہ صرف خود قائم رہے بلکہ جماعت کے قیام کا بھی موجب بنے وہ آپ کی اولوالعزمی اور کوہ وقاری کی ایک زندہ اور بے نظیر مثال تھی اور نہ صرف یہی بلکہ خاندان نبوت کے ہر رکن کا نمونہ خدا کے برگزیدہ نبی کی صداقت کا ایک معیار نظر آرہا تھا۔ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے نظیر قوت قدسی۔ اعلیٰ روحانی تربیت اور کامل تعلق باللہ کا ہر فرد خاندان ایسا شاہد ناطق اور گواہ عادل ثابت ہو رہا تھا کہ بجز کاملین اور خدا کے خاص برگزیدہ بندوں کے اس کی مثال محال ہے۔ میں حضرت مولوی صاحب مولانا نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دینے کی غرض سے خواجہ صاحب کے مکان کی اس کوٹھڑی میں پہنچا جہاں ابھی ابھی حضرت ممدوح سیدنا حضرت اقدس کی حالت نزع کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلے گئے تھے اور تنہائی میں سر نیچے ڈالے دعائوں میں مصروف تھے۔ میں نے روتے ہوئے سانحہ ارتحال کی اطلاع دی تو فرمایا :
’’تمہیں اب معلوم ہوا ؟مگر میں تو رات ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کیونکہ اس مرتبہ جتنا سخت حملہ حضور کو اس مرض کا ہوا اس سے قبل میں نے اتنا سخت حملہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ ‘‘
اور فوراً اٹھ کر تشریف لے آئے۔ جبین مبارک پر بوسہ دیا۔ لوگوں کو روتے دھوتے اور غم میں نڈھال دیکھ کر نصیحت فرمائی ۔صبر کی تلقین کی۔ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی اور دوستوں کی طرح مضطرب و بیقرار زارو نزار تھے۔ حضرت مولوی صاحب کی نصیحت سے سنبھلے اور بے ساختہ جوش میں بول اٹھے۔
انت الصدیق۔ انت الصدیق ۔ انت الصدیق
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ ہی اہل اور احق ہیں کہ جس طرح آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی خدمت کا مقام اور مسلمانوں کی سیادت عطا فرمائی تھی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رفع الی اللہ کے بعد آپ صدیق اکبر ہو کر جماعت کو سنبھالیں اور حضرت اقدس کے کام کی باگ ڈور تھامیں۔ وغیرہ۔ گو حضرت مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اس قسم کی باتوں سے روک دیا۔ مگر باوجود اس کے اس وقت سے ہر کام میں آپ کی اجازت اور مرضی لی جانے لگی اور آپ ہی کے زیر ہدایت ضروری امور انجام پذیر ہونے لگے۔
سیدنا حضرت اقدس کی بیماری کی خبر جہاں احمدی احباب کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے ملتی گئی اور جہاں حضور کے غلام اور فرشتہ سیرت لوگ تکلیف کی اطلاع پا پاکر عیادت اور خدمت کو جمع ہو رہے تھے اور دوائی درمن کے علاوہ دعائوں میں لگے ہوئے تھے وہاں شیاطین اور ان کے چیلے چانٹوں کے کان میں بھی حضورپُرنور کی علالت کی اطلاعات پہنچ گئی تھیں اور حضرت کے خدام اور غلاموں کی دوڑ دھوپ کے باعث وہ لوگ حالت کی نزاکت کو بھانپ کر کثیرتعداد میں جمع ہو کر ہا۔ہو کے شورو شر۔ گالی گلوچ اور گندی بکواس میں مصروف تھے۔ وصال کی خبر پاتے ہی ان بدبخت۔ ننگ انسانیت غنڈوں نے جس غنڈہ پن کا مظاہرہ کیا اور جس طرح مکان پر حملہ آور ہوئے وہ خونخوار درندوں اور جنگلی بھیڑیوں کے حملہ سے کم نہ تھا۔ کمینگی۔ بزدلی۔ اور پست فطرتی کا جو مظاہرہ لاہور کی اس سیاہ دل ٹولی نے کیا اس کی نظیر شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھی سنی ہو گی۔ ایسے ایسے سوانگ بھرے کہ ان کے ذکر سے کلیجہ مونہہ کو آتا ہے ۔ ایسے ایسے آوازے کسے کہ ان کے خیال سے بھی دل خون ہوتا ہے۔ جنازہ نکالا۔ سیاپا کیا اور اپنے جنازے کا اپنے ہاتھوں مونہہ کالا کر کے ایسی حرکات کیں اور وہ اودھم مچایا کہ الامان والحفیظ!قصہ کوتاہ وہ دن ہم پر یوم احزاب سے کم نہ تھاخطرہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ حملہ آوروں سے مکان کے اندر داخل ہو کر بے حرمتی کرنے کا خوف پیدا ہو گیا۔ چنانچہ دوستوں نے مشورہ کے بعد حضرت مولوی صاحب کی اجازت سے پولیس کی امداد طلب کی جس نے موقعہ پر پہنچ کر ڈنڈے سے ان غنڈوں کو منتشر کیا۔ جب جا کر یہ غول بیابانی کچھ گھٹا اور کم ہوا ورنہ وہ ہر لحظہ بڑھتا ہی جا رہا تھا مگر باوجود پولیس کے انتظام کے ایک حصہ دشمنوں کا لب سڑک کھڑا گالیاں دیتا، بکواس کرتا ہی رہا۔
اصحاب حل عقد نے حضرت مولوی صاحب کے مشورہ سے تقسیم عمل کر کے دوستوں کی ڈیوٹیاں لگا دیں تا کہ ضروری کام خوش اسلوبی اور تیزی سے انجام پذیر ہو سکیں اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ شام کی گاڑی سے جنازہ قادیان کے لئے روانہ ہو گا۔ چنانچہ جماعتوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کی اطلاعات کے خطوط اور تاروں کی ترسیل کا کام محترم حضرت مفتی محمد صادق صاحب انچارج ڈاک سیدنا حضرت اقدس کے سپرد ہوا۔ نعش مبارک کو ریل گاڑی کے ذریعہ بٹالہ لانے کے لئے حسب قاعدہ ریلوے طبی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت تھی کیونکہ بعض امراض سے فوت ہونے والوں کے متعلق ریلوے کا قانون ان کی لاش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی اجازت نہیں دیتا اور چونکہ ڈاکٹر صاحبان رات ہی سے حضور کے علاج کے متعلق سول سرجن اور بعض دوسرے بڑے بڑے انگریز ڈاکٹروں سے مشورے کرتے چلے آرہے تھے لہٰذا مطلوبہ سرٹیفیکیٹ کے حصول میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ گو سننے میں آیا تھا کہ دشمنوں نے اس مرحلہ پر بھی بڑی شرارت کی تھی تا کہ جنازہ قادیان نہ جا سکے اور لاش کی بے حرمتی ہوتی دیکھ کر وہ خوش ہوں۔ یہ خدمت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ و ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحبان کے ذمے لگائی گئی۔ غسل اور تجہیز و تکفین کی ڈیوٹی ڈاکٹر نور محمد صاحب اور محترم حکیم محمد حسین صاحب قریشی کو ملی۔ خاندان نبوت کے اراکین اور قافلہ کے سفر کی تیاری اور رخت سفر کا انتظام مجھ غلام اور حضرت میاں شادی خان صاحب مرحوم کے حصے آیا۔ علیٰ ہذا مال گاڑی کا ڈبہ اور سٹیشن پر کے انتظامات ریلوے کے بعض ان دوستوں کے سپرد ہوئے جن کا تعلق ریلوے سے تھا۔ اس طرح تقسیم عمل سے کام جہاں بطریق احسن انجام پذیر ہوئے وہاں جلدی بھی ہو گئے۔
سیدنا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نعش مبارک کے غسل میں حسب ذیل دوست شریک تھے۔ ڈاکٹر نور محمد صاحب۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی۔ میاں شادی خان صاحب مرحوم۔ میر مہدی حسین صاحب اور خاکسار راقم الحروف عبدالرحمن قادیانی۔ غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر جنازہ اندرونی سیڑھیوں کے راستہ اس مکان کے نچلے حصہ میں لے جایا گیا جہاں حاجی الحرمین حضرت مولوی نورالدین صاحب نے موجود الوقت دوستوں سمیت نماز جنازہ ادا کی۔ اس وقت بھی اس قدر ہجوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے مکان کا نچلا حصہ اندر باہر بالکل بھر گیا تھا بلکہ ایک حصہ دوستوں کا کوچہ میں کھڑا تھا۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بعض شریف غیر احمدی لوگ بھی نماز جنازہ میں شریک تھے۔ چنانچہ خلیفہ رجب دین صاحب کا یہ اعلان کہ
’’ آئو لوگو! حضرت کا چہرہ مبارک دیکھ کر تسلی کر لو۔ کیسا نورانی۔ کتنا روشن اور کس قدر پاک صورت ہے۔ جن کو شبہ ہو وہ اپنا شک ابھی نکال لیں ۔ پیچھے باتیں بنانا فضول ہو گا۔‘‘ وغیرہ۔
اور درحقیقت اس اعلان کی ضرورت اشرار کی بدزبانی ۔ الزام تراشی اور بعض بیہودہ بکواس کی وجہ سے پیش آئی۔ چنانچہ اس طرح دیر تک اپنے بھی اور پرائے بھی حضور کے چہرہ انور کی زیارت کرتے رہے۔ اپنے تو خیر پرائے بھی چہرہ اقدس کی زیارت کر کے بے ساختہ سبحان اللہ ۔ ماشاء اللہ پکار اٹھتے تھے۔ نماز جنازہ حضرت پر کئی بار لاہور میں پڑھی گئی۔ جوں جوں لوگ آتے رہے چند چند مل کر نماز جنازہ پڑھتے اور زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ بعض ہندو شرفاء بھی حضرت کے آخری درشن کو آئے اور مہاپرش۔ دیوتا۔ مہاتما اور اوتار وغیرہ کے الفاظ بآواز بلند کہتے ہوئے نذر اخلاص و عقیدت کے پھول چڑھا گئے۔ مکرم میاں مدد خان صاحب اور ایک دو اور دوستوں کی ڈیوٹی وہاں لگائی گئی تھی۔ جب سب انتظام درست ہو گئے تو حضور کی نعش مبارک کو سٹیشن پر لے جانے کی تیاری ہوئی۔ نماز ظہر و عصر دونوں جمع کی جا چکی تھیں۔ اس موقعہ پر پھر مخالف لوگ کثرت سے جمع ہو گئے اور سبّ و شتم کرنے لگے جس کی وجہ سے جنازہ لے کر نکلنا سخت مشکل تھا۔ کیونکہ مشتعل و مفسد ہجوم سے یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھاکہ مبادا جنازہ پر حملہ کر کے بے حرمتی کا ارتکاب کریں اور یہ خطرہ اتنا بڑھا ہوا تھا کہ مجبوراً پولیس کی مدد حاصل کرنا پڑی جس کے نتیجہ میں آخر ایک انگریز پولیس افسر معہ خاصی تعداد کنسٹیبلان نے آ کر پھر ان لوگوں کو منتشر کیا اور ساتھ ہو کر جنازہ سٹیشن پر پہنچایا جہاں ایک متعصب ہندو بابو گیٹ کیپر کی شرارت کی وجہ سے جنازہ تھوڑی دیر رکا رہا مگر ایک کالے عیسائی نے آکر اس بابو کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور جنازہ کو احترام کے ساتھ اندر لے جانے میں مدد کی۔
اس طرح سٹیشن پر تھوڑی دیر جنازہ اقدس کے رکے رہنے کی وجہ سے بھی بہتوں کا بھلا ہو گیا اور کئی لوگ زیارت سے مشرف ہوئے جن میں احمدیوں کے علاوہ ہندو شرفاء بھی تھے اور غیر احمدی بھی۔ جنازہ تابوت میں رکھ کر مخصوص گاڑی میں رکھا گیا جس کے ساتھ چند دوست سوار تھے مگر افسوس کہ ان کے نام نامی مجھے یاد نہیں۔ باقی خاندان نبوت کے اراکین اور خدام و مہمان مختلف گاڑیوں میں سوار تھے۔ گاڑی لاہور سے چھ بجے شام کے قریب چلی امرتسر کے بعض احمدی دوست بھی امرتسر سے ہمرکاب ہو گئے اور امرتسر سے چل کر دس بجے کے قریب گاڑی بٹالہ سٹیشن پر پہنچی جہاں گاڑی کے پہنچنے سے قبل بہت سے دوست بٹالہ ،قادیان اور مضافات کے موجود تھے۔ لاہور سے بٹالہ تک احمدی احباب میں پیش آمدہ حالات ہی کا تذکرہ ہوتا چلا آیا الگ الگ بھی اور مل مل کر بھی۔ دوستوں نے جماعت کے مستقبل کے متعلق ذکر اذکار جاری رکھے حتیّٰ کہ خلافت کے انتخاب کا معاملہ بھی ایک طرح سے گاڑی ہی میں حل ہو گیا تھا اور جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے مجھے یاد نہیں کہ اس بارہ میں موجود احباب میں کوئی اختلاف ہوا ہو۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسد اطہر ایک لکڑی کے تابوت میں تھا جس کے اندر کافی تعداد برف کی بھری تھی اور وہ پگھل پگھل کر پانی کے قطروں کی شکل میں تابوت میں سے گرتی تھی سید احمد نور صاحب کابلی جو قادیان سے بٹالہ پہنچے تھے، وفور محبت میں بے تاب گاڑی کے اندر ہی تابوت سے جا لپٹے اور یہاں تک بڑھے کہ تابوت سے گرنے والے قطرات ہاتھ میں لے لے کر پیتے رہے۔ تابوت کچھ دیر بعد گاڑی سے اتار کر پلیٹ فارم پر رکھ لیا گیاجس کے گرد حلقہ بگوش خدام نے محبت و عقیدت کا حلقہ بنایا اور پہرہ دیتے رہے۔
خاندان نبوت کی ’’خواتین مبارکہ‘‘ معصوم بچیاں اور بچے ،شہزادے اور شہزادیاں بھی سب کے سب مردوں سے ذرا ہٹ کر اسی پلیٹ فارم کے ناہموار فرش پر جس کے کنکر پتھر کسی پہلو بھی چین نہ لینے دیتے تھے ۔ کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے اور ہم غلاموں نے جہاں پہرہ اور نگرانی کی خدمات ادا کیں وہاں سامان کی درستی اور یکے گاڑیوں پر بار کرنے کا کام بھی ساتھ ہی ساتھ کر لیا اور اس طرح قریباً تین بجے ستائیس مئی کی صبح کو یہ غمزدہ قافلہ کچھ آگے پیچھے ہو کر خدا کے برگزیدہ نبی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تابوت کے ہمرکاب پورے ایک ماہ کی جدائی اور ’’داغ ہجرت ‘‘ کے صدمات لئے قادیان کو روانہ ہوا۔ ستائیس اپریل ۱۹۰۸ء کو قادیان سے رخصت ہو کر پھر ستائیس مئی ۱۹۰۸ء کی صبح ہی کو قادیان پہنچا اور اس طرح خدا کے مونہہ کی وہ بات کہ ’’ ستائیس کو (ہمارے متعلق) ایک واقعہ۔ اَللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی ‘‘ پوری ہو کر رہی ۔
جسد مبارک کو تابوت سے نکال کر چارپائی پر رکھا گیا اور اس کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ کر اٹھانے والوں کے لئے زیادہ گنجائش نکال لی گئی اور اس طرح حضور کا جنازہ اپنے غلاموں کے کندھوں ہی کندھوں پر بآسانی و جلد تر دارالامان پہنچ گیا۔ بٹالہ سے روانگی کے وقت بھی تقسیم عمل کر کے احباب کی ڈیوٹیاں مختلف شعبہ جات میں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ قادیان اور مضافات سے آنے والے خدام اور بعض لاہور، امرتسر و بٹالہ کے دوست اور مہمان حضرت اقدس کے جنازہ کے ہمرکاب تھے۔ پیدل بھی اور سوار بھی۔ قادیان کے بعض دوست بٹالہ اور دیوانی وال کے تکیہ کے درمیان آن ملے اور پھر یہ سلسلہ برابر قادیان تک جاری رہا۔ پیشوائی کو آنے والے آ آ کر شامل ہوتے گئے اور اس طرح جہاں ہجوم بڑھتا گیا، رفتار ہلکی پڑتی گئی۔ مولوی محمد علی صاحب ایم اے بھی معہ چند اور دوستوں کے سنا تھا کہ نہر او ر سوئے کے درمیان بے اختیار دھاڑیںمار مار کر روتے ہوئے ملے تھے۔ بعض دوستوں کی ڈیوٹی سامان کے گڈوں کے ساتھ لگائی گئی جو سامان کو لے کر قادیان کو روانہ ہوئے ۔میری ڈیوٹی سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمرکاب تھی جو اپنی رتھ میں معہ بیگمات سوار تھیں اور چونکہ ابھی اندھیرا تھا ۔لہٰذا چند اور مخلصین بھی ہمرکاب تھے۔ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد سلمہ ربہ ہمارے موجودہ خلیفۃ المسیح بھی معہ دوسرے عزیزوں کے اجالا ہو جانے تک سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سواری کے ہمرکاب رہے۔ اس قافلہ نے نماز صبح پو پھٹتے ہی اول وقت میں اس جگہ لب سڑک اداکی جہاں اے ایل او ای ہائی سکول کی ایک گرائونڈ واقع ہے اور بیرنگ ہائی سکول اس جگہ سے قریباً ایک فرلانگ جانب شرق آتا ہے۔ امام الصلوٰۃ اس مختصر سے قافلہ کے سیدنا حضرت صاحبزادہ والاتبار مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سلمہ ربہ تھے۔ سورۃ قٓ حضرت ممدوح نے اس نماز میں پڑھی۔ یہ نماز اپنی بعض کیفیات کے لحاظ سے ان چند خاص نمازوں کے شمار میں آتی ہے جو اس سے قبل مجھے اس بارہ تیرہ سالہ قیام دارالامان میں کبھی کبھار اللہ تعالیٰ کے خاص ہی فضل کے ماتحت خدا کے نبی و رسول سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اقتداء میں نصیب ہوئیں یا پھر کسی خاص ہی موقعہ پر اللہ کریم نے حضور و سرور عطا فرما کر نوازا۔ سچ مچ ہماری یہ نماز صحیح معنوں میں ایک معراج تھا۔جس میں شرف حضوری بخشا گیا۔ رقت و سوز کا یہ عالم تھا کہ روح پگھل کر آستانہ الوہیت پہ بہنے لگی اور دل نرم ہو کر پارہ بنا جا رہا تھا۔ آتش محبت میں ایسی تیزی اور حدت پیدا ہوئی کہ ماسوا اللہ کے خیالات جل کر راکھ ہو گئے اور وحدت ذاتی نے یوں اپنی چادر توحید میں لپیٹ لیا کہ ہمارا کچھ بھی باقی نہ رہا اور ہم اپنے خدا میں فنا ہو گئے۔ یہ سب کچھ اس مقدس ہستی کی تقدیس اور پاک خیالات سے لبریز روحانی لہروں کا اثر تھا جو اس پاک نفس ہستی کے قلب صافی سے نکل کر اثر انداز ہو رہی تھیں اور جن سے سارے ہی مقتدین علیٰ قدر مراتب متاثر ہورہے تھے ۔جس کو خدائے علیم و خبیر نے ایک عرصہ پہلے ’’نورآتا ہے نور‘‘کا مصداق قرار دے کر غفلت و گناہ کے اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا کر نوازا۔ قرا ء ت میں آپ کا درد بھرا لہجہ لحن دائودی بن کر پتھر کو موم اور نار کو گلزار بنا رہا تھا۔ جس کی نہ مٹنے والی لذت و سرور آج اکتیس بتیس برس بعد بھی میں ویسے ہی محسوس کر رہاہوں جیسے اس روز۔ مجھے اس بات کا تو اندیشہ نہیں کہ نعوذ باللہ میں کسی غلویا مبالغہ آمیزی سے کام لے کر بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں بلکہ اندیشہ ہے تو یہ کہ مبادا اپنی کمزوریٔ بیان و تحریر کی وجہ سے اصل حقیقت کے اظہار سے قاصر رہ جانے کے باعث حق پوشی کا مجرم نہ بن جائوں۔ اور حق بھی یہی ہے کہ مجھے یہی خطرہ بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ میں اس روحانی لذت و سرور کی صحیح تصویر دکھانے سے عاجز اور ان تاثرات کے اظہارسے عاری ہوں جو مجھے اس نماز میں نصیب ہوئے اور آج تک میں برابر ان اثرات کو محسوس کرتا۔ ان کی مہک اور خوشبو سونگھتا اور لذت اٹھاتا چلا آرہا ہوں۔
میں حضرت ممدوح کو بچپنے سے جبکہ آپ کی عمر چھ سات برس کی تھی دیکھتا چلا آیا تھا بلکہ مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے اس مَظْہَرُ الْحَقِّ وَالعُلٰیاور ظلِ خدا ہستی کو گودیوں کھلانے کی عزت سے ممتاز اور سعادت سے سرفراز فرمایا اور اس طرح میں نے جہاں آپ کا بچپنا دیکھا۔ بچپنے کے کھیل و اشغال اور عادات و اطوار دیکھے وہاں الحمد للہ کہ میں نے حضور کی جوانی بھی دیکھی۔ سفر میں بھی اور حضر میں بھی۔ خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی اور ساتھ ہی ساتھ اس کے آپ کے اخلاق فاضلہ پاک ارادے اور عزائم استوار، آپ کے اذکار و افکار، لیل و نہار اور حال و قال بھی دیکھنے کا مجھے موقعہ ملا تھا اور ان مشاہدات کے نتیجہ میں میں اس یقین پر تھا کہ واقعی یہ انسان اپنے کاموں میں اولوالعزم اور راہ ہدایت کا شہسوار ہے مگر کل اور پھر آج جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا اس سے میں نے اندازہ کیا کہ اس شخصیت کے متعلق میرا علم و عرفان بالکل ابتدائی بلکہ ناقص تھا ،ایسا کہ میں نے اس عظیم الشان ہستی کے مقام عالی کو شناخت ہی نہ کیا تھا۔ میرے علم میں ترقی ہوئی، ایمان بڑھا اور عرفان میرا بلند سے بلند ہوتا چلا گیا حتیّٰ کہ میں نے اپنی باطنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا کہ اس صاحب شکوہ اور عظمت و دولت ہستی کو ایسی طاقتیں اور قویٰ و دیعت کئے گئے ہیں کہ اگر ساری دنیا اپنے پورے سامانوں کے ساتھ بھی کبھی اس کے مقابل میں کھڑی ہو کر اس کے عزائم میں حائل اور ترقی میں روک بننا چاہے گی تو مخذول و مردود ہی رہے گی اور یہ جلد جلد بڑھتا جائے گا کیونکہ خدا نے خود اس کو اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ اس میں اپنی روح ڈالی اور اس کے سر پر اپنا سایہ کیا ہے ۔ لہٰذا دنیا کے بلند و بالا پہاڑ اپنی بلند ترین اور ناقابل عبور چوٹیوں اور اتھاہ گہری غاروں کے باوجود اس کے عزائم میں حائل ہونے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ ہی خشک و تر موّاج سمندر اپنی بھیانک اور ڈرائونی طوفانی لہروں اور ریت کے خشک بے آب و گیاہ ویرانے اور سنسان ناقابل گزر ٹیلوں کے باوجود اس کی مقدر ترقیات کو روک سکتے ہیں کیونکہ یہ ازل سے مقدر تھا کہ اس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا ۔وہ کلمۃ اللہ ہے ۔ وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ
میں اپنے ذوق اورقلبی کیفیات کے جوش میں اصل مضمون سے دور نکل گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ایک ایسی شہادت تھی جو موقعہ و محل کے لحاظ سے اسی جگہ ادا کرنی میرے ذمہ تھی۔ زندگی کا اعتبار نہیں۔ موت کا پتہ نہیں۔ حسن اتفاق اور اک فرشتہ رحمت و برکت سیدنا قمر الانبیاء کی تحریک سے یہ موقعہ میسر آگیا کہ سلسلہ کی وہ بعض امانتیں جو قضاء قدر نے میرے دل و دماغ کے سپرد کر رکھی تھیں ان کی ادائیگی کی توفیق رفیق ہو گئی ورنہ ایک طویل بیماری اور لمبی علالت نے میرے جسم کے رگ و پے کو اس طرح مضمحل، کمزور اور سست کر دیا ہے کہ میں ایک تودۂ خاک بن کر رہ گیا ہوں جس کی وجہ سے میں کچھ لکھنے کے قابل نہ تھا۔ پس میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر اس جگہ صرف ایک اور کلمہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ
خدا کے نبی اور رسول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری ہی اولاد موعود و محمود۔ بشیر و شریف اور خدا کی بشارتوں کے ماتحت یقینا یقینا ذریت طیبہ ۔ مظاہر الٰہی اور شعائر اللہ ہیں۔ ایک کو موعود بنا کر مظہر الحق والعُلٰی کا خطاب دیا تو دوسرے کو قمر الانبیاء بنا کر دنیا جہاں کی راہ نمائی کا موجب بنایا اور تیسرے کو بادشاہ کے لقب سے ملقب فرما کر عزت و عظمت اور جاہ و حشمت کے وعدے دئیے۔اََلآ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ـ پس
مقام او مبیں از راہِ تحقیر
بدورانش رسولاں ناز کردند
اگر شومئی قسمت اور شامت اعمال کسی کو ان کاملین کی غلامی کی سعادت سے محروم رکھتی ہے۔ اگر نہاں در نہاں بداعمالیاں اور معاصی کسی کو ان مقدسین پر عقیدت و نیاز مندی کے پھول نذر و نچھاور کرنے سے روکتے ہیں اور ان سے محبت و اخلاص کے لئے انشراح نہیں ہونے دیتے تو بے ادبی و گستاخی کی *** میں مبتلا ہونے سے تو پرہیز کرو اور بدگمانی و بدظنی اور اعتراض وطعن کی عادت سے تو بچو ،ورنہ یاد رکھو کہ اگر اس قسم کی آگ اپنے اندر جمع کرو گے، زبان پر لائو گے تو آخر ’’آگ کھائے انگار لگے‘‘ کے مصداق بننا پڑے گا۔ خدا کے غضب کی آگ اور اس کی غیرت کی نار بھڑکے گی جس سے بچ جانا پھر آسان نہ ہو گا۔
الغرض یہ سارا قافلہ آگے پیچھے حالات کے ماتحت مختلف حصوں میں تقسیم ،سات۔ آٹھ اور نو بجے قبل دوپہر تک دارالامان پہنچ کر سیدنا حضرت اقدس مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باغ میں خیمہ زن ہوتا گیا جہاں قادیان کی مقدس بستی اور مضافات کے رہنے والے۔ مرد۔ عورت۔ بچے۔ بوڑھے سبھی اس غم سے فگار اور درد سے بیقرار ہو ہو کر گھروں سے نکل کر شریک حال ہو رہے تھے۔
میں سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے رتھ کے دائیں۔ بائیں اور آگے پیچھے اس مصیبت کی تکلیف اور درد و رنج کو ہلکا کرنے اور بٹانے کی نیت و کوشش اور اظہار ہمدردی۔ نیازمندی وعقیدت کے جذبات سے لبریز دل کے ساتھ پیدل چلا آرہا تھا اور سیدہ طاہرہ بھی میری دلی کیفیات سے متاثر ہو کر گاہ گاہ دنیا کی ناپائیداری و بے ثباتی اور خدائے بزرگ و برتر کی بے نیازی کے تذکرے فرماتیں۔ دعا میں مشغول ۔ خدا کی یاد اور اس کے ذکر میں مصروف چلی آرہی تھیں۔ آپ کے صبر و شکر اور ضبط و کظم کا یہ عالم تھا کہ غمزدہ خادموں اور درد مند غلاموں کو بار بار محبت بھرے لہجہ میں نصیحت فرماتیں اور تسلی دیتی تھیں۔ سیدہ مقدسہ کا ایک فقرہ اور درد بھرا لہجہ اپنی بعض تاثیرات کے باعث کچھ ایسا میرے دل و دماغ میں سمایا کہ وہ کبھی بھولتا ہی نہیں اور ہمیشہ دل میں چٹکیاں لیتا رہتا ہے۔ جو آپ نے اسی سفر میں نہر کے پل سے آگے نکل کر جب آپ کی نظر قادیان کی عمارتوں پر پڑی اس سوز اور رقت سے فرمایاکہ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے اور سسکیاں لینے لگا۔ آہ وہ فقرہ میرے اپنے لفظوں میں یہ تھا کہ
’’بھائی جی چوبیس برس ہوئے جب میری سواری ایک خوش نصیب دلہن اور سہاگن کی حیثیت میں اس سڑک سے گزر کر قادیان گئی تھی اور آج یہ دن ہے کہ میں افسردہ و غمزدہ بحالت بیوگی انہی راہوں سے قادیان جا رہی ہوں۔ ‘‘
قادیان قریب اور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ بعض مخلص مرد اور عورتیں اخلاص و عقیدت کے پھول بطور نذرانہ لے لے کر سیدہ محترمہ کے استقبال و پیشوائی کو آتے۔ اظہار ہمدردی اور تعزیت کر کے رتھ کے ساتھ ہو لیتے۔ چنانچہ اس طرح آپ کی رتھ کے ساتھ مرد اور عورتوں کا ایک خاصہ ہجوم وارد قادیان ہوا۔ آپ کی سواری شہر میں مغربی جانب سے داخل ہو کر ننگلی دروازہ کی راہ سے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باغ والے مکان پر پہنچی جہاں حضرت اقدس کا جسد مبارک رکھا تھا اور کثرت سے مستورات اس کے گرد سیدۃ النساء کی انتظار میں بیٹھی تھیں۔ مرد باہر باغ میں ڈیرے ڈالے پڑے تھے اور صلاح مشورے ہو رہے تھے۔منصب خلافت کی ردا کس بزرگ ہستی کے کندھوں کی زینت بنے، زیر غور اور اہم مسئلہ تھا جو اگرچہ علماء سلسلہ،اکابر صحابہ اور مجلس معتمدین کے ارکان بمشورہ اراکین خاندان نبوت اور باجازت سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا حل کر چکے تھے اور قرعہ فال حضرت حاجی الحرمین مولانا مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام نکل چکا تھا اور جماعت کا اس امر پر اجماع تھا۔ بغیر کسی اختلاف کے سبھی کے دل مائل اور جھکے ہوئے تھے اور اس اجماع۔ اتفاق اور رجوع کو رضا و نصرت الٰہی کی دلیل یقین کیا جاتا تھا کیونکہ سیدنا حضرت اقدس کے وصال سے لے کر اس وقت تک برابر جماعت دعائوں میں مصروف خدا کی راہ نمائی و دستگیری کی طالب بنی چلی آرہی تھی اور اس انتخاب پر انشراح کو یقینا خدا کی تائید سمجھتی تھی۔ نہ ہی کسی کو نفس منصب خلافت سے انکار تھا اور نہ ہی کوئی دوسرا نام خلافت کے لئے تجویز ہوا۔ چنانچہ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک مختصر سا مضمون لکھا گیا جس پر جماعت کے افراد کے دستخط بطور اظہار رضامندی و اتفاق حاصل کر کے حضرت ممدوح کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ بیعت لے کر جماعت کی باگ ڈور تھامیں اور راہ نمائی فرمائیں۔
یہ تحریر مخدومی حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر بھاری مجمع کی موجودگی میں حضرت مولوی صاحب کے سامنے بطور درخواست پڑھی مگر حضرت مولوی صاحب اس بارگراں کے اٹھانے سے گھبراتے رکتے اور ہچکچاتے اور فرماتے تھے کہ میرے دل کے کسی گوشہ میں بھی خلافت اور نمبرداری کی خواہش نہیں اور نہ ہی میں کوئی بڑائی اپنے واسطے چاہتا ہوں کیونکہ میں اس بوجھ کے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا
آنانکہ عارف تر اند ترساں تر
آپ بار بار سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نام لے کر جماعت کو یہ کہتے ہوئے کہ ’’ میں چاہتا تھا کہ حضرت کا صاحبزادہ میاں محمود احمد جانشین بنتا اور اسی واسطے میں ان کی تعلیم میں سعی کرتا رہا‘‘ ان کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو فرماتے اور اسی پر زور دیتے رہے مگر جماعت کی طرف سے اصرار والحاح دیکھ کر آپ نے کھڑے ہوکر ایک خطبہ پڑھا جس میں پھر انہی باتوں کو دہراتے ہوئے فرمایا کہ
’’ میں نے اس فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہو گی؟ اسی لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے۔ حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں اول میاں محمود احمد وہ میرا بھائی بھی ہے میرا بیٹا بھی اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں۔
۲:۔ قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں
۳:۔ تیسرے قریبی نواب محمد علی خان صاحب ہیں ۔…… اس وقت مردوں۔ بچوں اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وحدت کے نیچے ہوں ۔اس وحدت کے لئے ان بزرگوں میں سے کسی کی بیعت کر لو ، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں خود ضعیف ہوں۔ بیمار رہتا ہوں پھر طبیعت مناسب نہیں ۔اتنا بڑا کام آسان نہیں۔ ……… پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن عمائد کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کر لو میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں ……… لیکن جبکہ بلا میری خواہش کے یہ بار میرے گلے میں ڈالا جاتا ہے اور دوست مجھے مجبور کرتے ہیں تو اس کو خدا کی طرف سے سمجھ کر قبول کرتا ہوں ……
اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو
سن لو کہ بیعت بِک جانے کا نام ہے۔ ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارہ فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا ۔سو اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے۔
الغرض حضرت مولانانورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نہایت ہی پُردرد۔ پُر معرفت اور رقت آمیز خطبہ کے بعد جماعت سے سیدنا حضرت احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام پر بیعت اطاعت لی اور اس طرح گویا خدا کے نبی و رسول سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی ہی میں جماعت سلک وحدت میںپروئی گئی۔ بعض دوست آج بھی اپنے شہروں سے آئے اور شام تک بلکہ متواتر کئی روز تک آتے ہی رہے۔ جوں جوں ان کو اطلاع ملتی گئی دیوانہ وار مرکز کی طرف دوڑتے بھاگتے جمع ہوتے رہے۔ اور یہ سلسلہ کئی روز تک بہت سرگرمی سے جاری رہا۔ حضرت مولوی صاحب کے خطبہ کے بعد بیعت خلافت پہلے مردوں میں ہوئی پھر مستورات میں۔ بیعت کے بعد کچھ انتظار کیا گیا تا کہ بیرون جات سے آنے والے دوست بھی نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں۔ چنانچہ نماز جنازہ قریباً عصر کے وقت پڑھی گئی جس میں کثرت سے لوگ شریک ہوئے ۔ نماز جنازہ کے بعد حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر ایک تقریر فرمائی اور جماعت کو نصائح فرمائیں۔ اس تقریر کے بعد نمازیں ادا کی گئیں۔ نماز جنازہ کے بعد سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسداطہر پھر باغ والے مکان میں پہنچا دیا گیا جہاں حضور کی آخری زیارت کا موقعہ حضور کے غلاموں کو دیا گیا۔ زیارت کے لئے ایسا انتظام کیا گیا کہ ایک طرف سے لوگ آتے اور دوسری طرف کو نکلتے جاتے رہے۔ زیارت کا سلسلہ بہت لمبا ہو گیا اور وقت تنگ ہوتا دیکھ کر کچھ جلدی کی گئی اور اس طرح شام سے پہلے پہلے حضرت کا جسم مبارک خدا کے مقرر کردہ قطعہ زمین میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا گیا۔ پہلے خیال تھا کہ حضور پُرنور کا جسد اطہر اسی تابوت میں رکھ کر قبر میں رکھا جائے جس میں لاہور سے لایا گیا تھا مگر بعد میں یہی فیصلہ ہوا کہ بغیر تابوت ہی الٰہی حفاظت میں دیا جاوے۔ چونکہ پہلے خیال کی وجہ سے قبر میں لحد تیار نہ کرائی گئی تھی لہٰذا حضور پُرنور کا جسم مبارک قبر کے درمیان رکھ کر اوپر سے اینٹوں کی ڈاٹ لگا کر پھر مٹی ڈال دی گئی۔ قبر کی درستی کے بعد ایک لمبی دعا حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع سمیت کی اور شام کے وقت اس فرض اور خدمت سے فارغ ہو کر دعائیں کرتے شہر کو آئے۔
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
نوٹ: ۔تحریر ہذا ۳۹ئ؍۳۸ء کی ہے جو صاحبزادہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب سلمہ ربہ قمرالانبیاء کی تحریک پر خاکسار عبدالرحمن قادیانی نے لکھی۔
٭٭٭
 
Top